Hayat-e-Ahmad Volume 3

Hayat-e-Ahmad Volume 3

حیاتِ احمد (حیاتِ احمد۔ جلد سوم)

حالات زندگی 1889ء تا 1892ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

Book Content

Page 1

حیات احمد جلد سوم مرتبه یعقوب علی عرفانی

Page 2

شائع کرد.......نظارت اشاعت صدر انجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ سیٹنگ.طابع عدیل خرم صاحب مربی سلسلہ طاہر مہدی امتیاز احمد وڑا کی.ضیاء الاسلام پریس ربوہ.چناب نگر

Page 3

نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت اور سوانح مرتب کرنے کی محترم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی " کو توفیق و سعادت میسر آئی فَجَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء.یہ تصنیف منیف ایک قیمتی خزانہ ہے اور مشعل راہ کی حقیقت رکھتی ہے.جس کے مطالعہ سے قلب و روح پر ایک عجیب پر تاثیر کیفیت و حالت طاری ہوتی ہے.یہ تالیف چھ جلدوں میں شائع ہوئی تھی.اس کی پہلی دوجلدیں اشاعت پذیر ہوکر ہدیہ عقار مکین ہو چکی ہیں.یہ تیسری جلد ہے.اس کی طباعت کے لئے تیاری میں محترم محمد یوسف شاہد صاحب مربی سلسلہ نے بڑی محنت اور لگن سے حصہ لیا اور کمپوزنگ کے مرحلہ میں محترم عدیل خرم صاحب مربی سلسلہ نے ہاتھ بٹایا.اسی طرح کئی کارکنان کسی نہ کسی جہت سے شریک کار رہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.آمین خالد مسعو ناظر اشاعت

Page 4

وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ( الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) علیہ الصلوۃ السلام حیات احمد جلد سوم یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے سوانح حیات عہد جدید جلد اوّل) به سلسله قدیم جلد سوم حالات زندگی ۱۸۸۹ لغایت ۱۸۹۲ء مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچ مرد خادم خاکسار یعقوب علی تراب احمدی عرفانی الکبیر ایڈیٹر ومؤسس الحکم و مرتب تفسیر القرآن وغیرہ نے مرتب کیا اور اسلامی پریس حیدر آباد دکن میں چھپوا کر اگست ۱۹۵۲ء کو شائع کیا

Page 5

حیات احمد جلد سوم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم عرض حال الحمد لله ثم الحمد للہ کہ حیات احمد کی تعمیل کا کام جو ۱۸ سال تک بند رہنے کے بعد دسمبر ۱۹۵۱ء میں شروع کیا تھا اس سلسلہ میں سال رواں کی پہلی ہی ششماہی میں حیات احمد کے عہد جدید کی پہلی اور سلسلہ میں تیسری جلد شائع کرنے کی توفیق ملی.اس جلد میں ۱۸۸۹ء (سال بیعت) سے ۱۸۹۲ء تک کے حالات درج ہیں جیسا کہ میں نے گزشتہ اشاعت میں ذکر کیا تھا کہ اس سے پہلے کے دو نمبر حضرت نواب محمد دین اور حضرت سیٹھ حسن کے دست اعانت کا نتیجہ تھا.اور اس جلد کی اشاعت میں ۱۴ جزو کے کاغذ کیلئے عزیزم مکرم مولوی محمد معین الدین احمد چنتہ کنٹہ نے ہاتھ بڑھایا.اور سچ تو یہ ہے کہ اگر وہ اس معاملہ میں میری کسی تحریک کے بغیر آگے نہ آتے تو شاید یہ جلد اس قدر جلد شائع نہ کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر کو بلند کرنا ایک عبادت ہے یہ حقیقت عارف سمجھ سکتا ہے.اس اعانت اور اخلاص کا مقام اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ جب بغیر کسی تحریک کے ہو.اللہ تعالیٰ انہیں بیش از پیش خدمت دین کی توفیق روزی کرے.اگر یہ کتاب جلد سے جلد نکل گئی تو دسمبر تک انشاء اللہ العزیز اس عہد جدید کی دوسری جلد جو۱۸۹۳ء سے ۱۹۰۰ء تک کے واقعات پر مشتمل ہوگی شائع کرنے کی امید رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے کسی اہلِ دل کو توفیق دے کہ وہ میرا ہاتھ بٹاوے.میں اپنی حقیر کوشش کو اپنے محسن مولیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے جاری رکھوں گا جس نے اس پیران سالی میں توفیق دی اور سامان پیدا کر دیا.اس کے فضل سے کیا بعید کہ اس کی تکمیل کی توفیق پاؤں وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ الْمُسْتَعَانُ الْكَرِيْمُ خاکسار عرفانی الکبیر ۵/اگست ۱۹۵۲ء

Page 6

حیات احمد فہرست مضامین حیات احمد جلد سوم مضمون سلسلہ احمدیہ کا بنیادی سال رڈیا کے ذریعہ براہین احمدیہ کی بشارت ایک حقیقت کا اظہار بیعت کے لئے اعلان صفحه 1.۱۲ ۱۳ مضمون جلد سوم صفح پہلے دن کے مبائعین کی ترتیب میں اختلاف ۴۷ پہلا احمدی جس کو اجازت بیعت ملی سابقون الاولون ایک ہند و نومسلم ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ 11 ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ " ۶۸ تبلیغ و تکمیل تبلیغ گزارش ضروری اعلان بیعت کا اثر شرائط بیعت کی پابندی کی حد ۱۴،۱۳ سفر علی گڑھ ۱۹ حضرت مسیح موعود کا اپنا بیان ۲۴ // سفر علی گڑھ کے نتائج سفر سے واپسی حضرت حکیم الامت کی دوسری شادی ۲۵ لودہانہ کا ایک عجیب واقعہ حضرت منشی احمد جان صاحب کے متعلق ۲۸ حضرت مولوی صادق حسین صاحب سب سے پہلی خاتون مبائع ایام بیعت کے بعض واقعات // با بو محکم دین مختار امرتسر حضرت میاں نجم الدین صاحب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا وعظ پھر لودہانہ کا سفر پیش آگیا ور ودلو د ہانہ اور سفر ہوشیار پور دارالبیعت اور یوم البیعت دار البیعت کی تاریخی حیثیت بیعت کا پہلا دن رجسٹر بیعت سب سے پہلا بیعت کرنے والا ۲ دسمبر ۱۸۸۹ء کے واقعات ۳۶ دعوی مثیل مسیح کا اعلان ۷ رویا میں مسیح ابن مریم سے ملاقات ام الہامات میں مسیحیت کا ذکر // ۴۲ اعلان دعوی مسیحیت فتح اسلام کی اشاعت ۶۹ ง ۷۵ ۷۹ ง ง ΔΙ ۸۲ ۸۵

Page 7

حیات احمد مضمون فتح اسلام کی تالیف کی تاریخ ۱۸۹۰ء کے برکات وثمرات طالب دعا ٹھا کر رام ایک مقدمہ میں شہادت حضرت کی علالت سفر لاہور ۱۸۹۱ء کے واقعات صفحہ ۸۹ مضمون حضرت حکیم الامت سے تبادلہ خیالات مولوی محمد حسن صاحب مولوی محمد حسین کے لبادہ میں ۹۰ مباحثہ کا سلسلہ جدید ۹۲ بقیه شرائط مباحثه // سفر امرتسر ۹۴ مباحثه لودہانہ مولوی محمد حسین صاحب کا تعارف ۹۵ بیان صاحبزادہ سراج الحق صاحب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا بیان میں اور مولوی محمد حسین مولوی محمد حسین کی مخالفت کا آغاز ۹۹ مولوی محمد حسین کے مباحثہ کا انجام اوراق ازالہ اوہام کا مطالبہ ۱۰۵ مباحثہ کا اختتام جلد سوم صفح ۱۴۷ ۱۵۷ 17.// ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۷۲ مولوی محمد حسین اور میر عباس علی ۱۰۸ ڈپٹی کمشنر کا اقدام مخالفت میں ترقی // مباحثہ سے قبل اور بعد کے کچھ واقعات.مولوی محمد حسین نے مباحثہ کی طرح ڈالی ۱۰۹ ایک مجذوب کی شہادت 1+9 122 12A // لود ہانہ اور لاہور کے علمائے اسلام کو دعوت مقابلہ ۱۸۷ امرتسر میں ایک جلسہ کی تجویز لاہور میں تبادلہ خیالات کا جلسہ ۱۲۰ اہل اسلام لو دہانہ کا خط // مولوی محمد حسن کے ذریعہ تحریک مباحثہ چومکھی جنگ ۱۳۹ اہل اسلام لاہور کا خط ایک ضمنی واقعہ علماء پر اتمام حجت ضروری اشتہار ۱۳۶ حضرت مرزا صاحب کا اقرار نامہ قبول ۱۳۷ | دعوت ۱۳۹ ۱۸۹۱ء کے کچھ اور واقعات ۱۴۰ مباہلہ کے اشتہار کا جواب تتمہ واقعات قبل مباحثہ اور ہانہ ۱۴۷ غزنوی جرگہ پر اتمام حجت ۱۹۳ ۱۹۶ ۱۹۷ ۱۹۸

Page 8

جلد سوم صفحہ " ۲۹۷ " 3 حیات احمد مضمون صفحہ مکتوب بنام مولوی عبدالجبار غزنوی ۲۰۴ پٹیالہ کی جماعت مضمون ایک غلطی کی اصلاح عیسائیوں پر اتمام حجت ۲۰۹ پٹیالہ میں مخالفت کا جوش ۲۱۲ پٹیالہ میں اتمام حجت علماء اسلام پر ایک دائمی اتمام حجت ۲۱۶ مولوی محمد اسحاق صاحب کو حیات و وفات توئی اور الدجال کے متعلق انعامی اشتہار ۲۱۷ مسیح ابن مریم کے بارے میں بحث کی دعوت ۲۹۸ اس مباحثہ کے ثمرات ۲۲۰ آسمانی فیصلہ کے ذریعہ اتمام حجت حضرت میر ناصر نواب صاحب کا اعلان ۲۲۱ آسمانی فیصلہ مولوی غلام نبی صاحب خوشابی کی بیعت ۲۲۲ سلسلہ حقہ احمدیہ کی تعمیری بنیاد اور سالانہ ۳۰۰ ۳۰۸ ۳۱۱ "1 ۳۱۳ ۳۱۴ ۳۲۴ ۳۲۵ " ملا نظام الدین کی بیعت توضیح مرام اور ازالہ اوہام کی تصنیف ۲۳۰ جلسہ کا قیام ۲۳۵ پہلا جلسہ دعوی مهدویت سفر دہلی ایک عاجز مسافر کا اشتہار اشتہار بمقابل مولوی سید نذیر حسین ۲۳۶ رونداد جلسه ۲۳۷ میر عباس علی کا ارتداد ۲۳۹ میر عباس علی صاحب او د بانوی ۲۴۶ ڈاکٹر جگن ناتھ جمونی کا مطالبہ نشانِ آسمانی سید نذیر حسین کی خدمت میں مباحثہ کی حکیم الامت کی قوت ایمانی درخواست ۲۵۰ الكرامات ثمرة المجاہدات حالات و واقعات جلسه بحث ۱۲۰ اکتوبر ۱۸۹۱ء ۲۶۰ ڈاکٹر جگن ناتھ جمونی سے مقابلہ قیام دہلی کی کچھ اور واقعات ۲۷۴ ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست مولوی بشیر بھوپالی سے مباحثہ ۲۸۷ جمون کو آسمانی نشان کی طرف دعوت پہلا دن مباحثہ کا ۲۹۳ ۱۸۹۲ء کے واقعات اور حالات ۲۹۶ | میری ملاقات دہلی سے براہ پٹیالہ واپسی پٹیالہ کی اہمیت ۲۹۶ بھائی دروازہ کی مسجد میں جلسہ ۳۲۸ ۳۳۱ ۳۳۳ ۳۳۵

Page 9

حیات احمد مضمون صفحه مضمون میراں بخش کی کوٹھی میں لیکچر ۳۳۶ مخالفین کی شرارت حضرت حکیم الامت کی تقریر تبدیل مکان ایک واقعہ ۳۳۸ کپورتھلہ کی اہمیت تاریخ سلسلہ میں جلد سوم صفحہ ۳۵۸ ۳۵۹ ۳۶۳ لا ہور کی اکثر مبایعین مہدی لاہور کا حملہ ۳۳۹ "/ ۳۴۰ // حضرت سید محمد احسن صاحب امروہی کی آمد ۳۴۱ مولوی عبدالحکیم کلانوری سے مباحثہ بحث کا موضوع ایک اعجاز عام اطلاع سفر لاہور کے ثمرات کپورتھلہ سے جالند ہر قیام لودہانہ اور آسمانی فیصلہ قیام لودہا نہ اور میر عباس علی صاحب خط و کتابت متعلق آسمانی فیصلہ شیخ بٹالوی کے فتویٰ تکفیر کی کیفیت ۳۶۷ ۳۶۸ ۳۴۲ آسمانی فیصلہ پر بٹالوی کی جرح اور اس کا جواب ۳۷۹ " ۳۴۴ ۳۵۰ ۳۵۱ اپنی صداقت پر ربانی شہادت تبلیغ روحانی اشاعت دین کیلئے ابتدائی انتظام سالانہ جلسہ کی مخالفت قیامت کی نشانی سالانہ جلسہ کی رپورٹ ایک عجیب اعجاز مولوی محمد حسین اور آسمانی فیصلہ سفر سیالکوٹ // // ۳۵۳ توضیحی نوٹ سیالکوٹ کی جماعت کی خصوصیات ۳۵۵ بعض ضروری تصریحات اور متروکہ مولوی محمد حسین سیالکوٹ میں ۳۵۶ واقعات سیالکوٹ سے کپورتھلہ ۳۵۶ | بعض احباب کی ہجرت ۳۸۰ ۳۸۱ ۳۸۳ // ۳۸۴ ۳۹۳ ۴۰۰ ۴۰۱ ۴۰۴

Page 10

حیات احمد جلد سوم حیات احمد علیہ الصلوۃ والسلام جلد سوم ۱۸۸۹ء سے۱۸۹۴ کے تک کے حالات

Page 11

Page 12

حیات احمد جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ والنـ هوا نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ۱۸۸۹ء کے واقعات سلسلہ احمدیہ کا بنیادی سال یوں تو حضرت احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) کی زندگی کا ہر دن اللہ تعالیٰ کے تفضلات اور برکات کو لے کر آتا تھا بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ آپ کا ہر سانس نئی برکات کا ذریعہ ہوتا تھا لیکن ۱۸۸۹ ء وہ سال ہے کہ جب سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھی گئی.سلسلہ احمدیہ اور حضرت احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) کی تاریخ حیات میں بعض سال بعض دن اور بعض واقعات ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں اور بعض مقامات کو بھی تاریخی حیثیت حاصل ہے اور ان مقامات اور ایام وسنین کی خصوصیات حیات احمد کے پڑھنے والوں سے مخفی نہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ واقعات کی بنا پر ان ایام و منین کو خصوصیات حاصل ہوئیں.ان کے محرکات انسانی منصوبوں سے وابستہ نہیں بلکہ ان کے محرکات میں ایک ہی چیز تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا.اس حکم کی نوعیت کسی رنگ میں ہومگر جو کچھ ہوا وہ اسی حکم کے ماتحت ہوا اور یہ امر حضرت احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ہے اور ایک سلیم الفطرت انسان کو یہ نظر آئے گا کہ آپ کی زندگی کا نصب العین یہی تھا.

Page 13

حیات احمد جلد سوم قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : ۱۶۳) کبد و میری نماز میری قربانی میری زندگی اور راحت اللہ رب العالمین کے لئے ہے.ان مخصوص واقعات میں سے مثلاً ہوشیار پور اور لودہانہ کے سفر اللہ تعالیٰ ہی کے اشارہ پر کئے گئے اور بشارت ملی کی تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لو ہانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا اور ان برکات کا اظہار ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء کے اعلان سے ہوتا ہے وہ اشتہا ر سلسلہ کے لئے بطور بنیادی چیز کے ہے.اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سلسلہ کی بنیاد اس اشتہار سے شروع ہوتی ہے.سلسلہ کی بنیاد گوحقیقتا اس وقت پڑی جب کہ ۶۵-۱۸۶۴ء میں آپ نے ایک رؤیا دیکھی جو یہ ہے.حضرت مسیح موعود کو رڈیا کے ذریعہ براہین احمدیہ کی بشارت وو اس احقر نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ ء میں یعنی اس زمانہ کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصے میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا.جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلّم کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے ؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے جس نام کی تعبیر اب اس اشتہار کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے.غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ حضرت مقدس نبوی نوٹ.حضرت اقدس نے یہ زمانہ تخمینا لکھا ہے دراصل یہ اس سے پہلے کی رؤیا ہے اس لئے کہ ایام طالب علمی کا ذکر ہے اور ۱۸۶۵،۶۴ء میں تو آپ سیالکوٹ چلے گئے تھے.عرفانی الکبیر

Page 14

حیات احمد 11 جلد سوم کے ہاتھ میں آئی تو آنحضرت کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا.آنحضرت نے جب اس میوہ کو قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اُس میں سے شہر نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا تب ایک مردہ جو دروازے سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آ کھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ وجلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبر دست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دیدی اور اس نے وہیں کھالی پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی کرسی مبارک متواتر چپکنے لگی کہ جو دینِ اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف بشارت تھی تب اس نور کو مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ “ براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه در حاشیہ صفحہ ۲۴۸، ۲۴۹ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ رویا آپ نے ایام طالب علمی میں دیکھی اس وقت کسی کتاب کی تصنیف اور تالیف کا آپ کو خیال تک بھی نہ تھا اور بعد کے واقعات نے بتایا کہ آپ مختصر ملازمت اور اپنی جائداد کے مقدمات میں مصروف ہو گئے چودہ پندرہ برس کے بعد ایک جدید سلسلہ پیدا ہوتا ہے اور آپ کو آریوں اور دوسرے مذاہب باطلہ کے لیڈروں سے مباحثات تحریری کا واقعہ پیش آ جاتا ہے اور آپ گوشہ گزینی سے نکل کر اس طرح پر پبلک میں آ جاتے ہیں اور آریوں کی طرف سے قرآن مجید کی حقانیت اور

Page 15

حیات احمد ۱۲ جلد سوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات کا مطالبہ ہوتا ہے اور اسی سلسلہ میں متعدد تحریر میں آپ کی طرف سے شائع ہوتی ہیں.بالآ خر آپ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ ایک مستقل کتاب اس مضمون پر لکھیں اور اس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کے انعام کا چیلنج دیں.اس لحاظ سے سلسلہ کی بنیاد تو اسی رویا سے شروع ہو جاتی ہے لیکن عملی طور پر جب کہ باضابطہ ایک نظام کے ماتحت جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا وہ ۱۸۸۹ ء ہی ہے دسمبر ۱۸۸۸ء میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعلانِ بیعت کیا جو اگر چہ میں پہلی جلد میں شائع کر چکا ہوں لیکن سلسلہ تألیف کو مرتب رکھنے کے لئے میں اسی سے آغاز کروں گا.یہ امر بھی قابلِ اظہار ہے کہ براہین احمدیہ کی اشاعت کے ساتھ ہی بعض مخلصین نے بیعت کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا جیسا کہ حیات احمد کے سابق نمبروں میں دستاویزی شہادت سے میں لکھ آیا ہوں مگر آپ نے ہمیشہ یہ کہہ کر انکار کیا کہ میں بیعت لینے کے لئے مامور نہیں ہوا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا تو آپ نے اس کے لئے اعلان کر دیا.اس اعلان کی بنا پر میں کہتا ہوں کہ سلسلہ کی بنیا د رکھی گئی یہ اعلان تھا اس امر کا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک جماعت مخلصین کی تاسیس کا وقت آ گیا ہے.ایک حقیقت کا اظہار یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس سلسلہ کی بنیاد دراصل ایک مبشر مولود کی ولادت سے وابستہ تھی اور وہ مبشر مولود وہ تھا جس کیلئے خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی جو حضرت مسیح موعود کی علامات خاصہ میں سے تھی کہ يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُلَهُ یعنی وہ شادی کرے گا اور اس سے مبشر اور موعود اولاد ہو گی.اس طرح پر وہ عملی سنگ بنیاد تنظیم و تاسیس جماعت کا اس وقت تک معرض التوا میں رہا جب تک کہ وہ مبشر مولود پیدا نہ ہو گیا.اس کی پیدائش ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی اور اسی روز آپ نے اعلان بیعت کی (جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو شائع کیا گیا تھا) تکمیل کا اعلان شائع کیا.یہ واقعات کا سلسلہ کسی خود ساختہ تجویز یا منصوبہ کا نتیجہ نہیں

Page 16

حیات احمد جلد سوم ہو سکتے بلکہ مشیت ایزدی کا اظہار ہیں.اس قدر بیان میں نے بطور تمہید لکھا ہے تاکہ سلسلہ کی بنیادی تاریخ سمجھ میں آجاوے.بیعت کے لئے اعلان ۱۸۸۸ء ابتلاؤں اور مخالفت عامہ کا سال تھا اور جیسے ابر رحمت کے برسنے سے پہلے بڑی گرج ہوتی ہے اس طرح پر الہی سلسلہ میں بڑے ابتلاؤں اور شورشوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے انعام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے عشق اول سرکش و خونی بود تا گریزد هر که بیرونی بود ہر موعود مبشر کی پیدائش سے پہلے ایسے ہی طوفان برپا ہوئے اور بالآخر جب وہ مولود موعود رحم مادر میں آچکا اور اس کے ظہور کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیعت کا حکم دیا.یہ نہایت عجیب مطالعہ ہے اور اگر اس سلسلہ پر سلیم القلب لوگ غور کریں تو انہیں صاف معلوم ہو گا کہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے.چنانچہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو بشیر اول کی وفات پر معترضین کے جواب میں ایک اعلان شائع کیا اور عین اس وقت جب کہ اعتراضات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی آپ نے اسی تاریخ کو تبلیغ کے عنوان سے اعلان بیعت فرمایا جو یہ ہے.تبلیغ ” میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور کچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولی کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ ترجمہ.شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے، تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے.

Page 17

حیات احمد ۱۴ جلد سوم اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کر یں.پس جولوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں اُنہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں اُن کا غمخوار ہوں گا اور اُن کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں اُن کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے.یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے.اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے.إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا.الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيْهِمْ - وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعِ الْهُدَى - والسلام المبلغ خاکسار غلام احمد عفی عنہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء مطبوعہ ریاض ہند امرتسر ( یہ اشتہار ۲۶۲۴ کے ۲۴ صفحوں پر ہے) A (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۷۰ و مجموعه اشتہارات جلد اصفحہ ۱۵۸.بار دوم ) تکمیل تبلیغ مضمون تبلیغ جو اس عاجز نے اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں شائع کیا ہے جس میں بیعت کے لئے حق کے طالبوں کو بلایا ہے.اس کی مجمل شرائط کی تشریح یہ ہے:.اول بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا

Page 18

حیات احمد ۱۵ مغلوب نہیں ہو گا.اگر چہ کیسا ہی جذ بہ پیش آوے.سوم یہ کہ بلاناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا.اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنالے گا.چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے، نہ کسی اور طرح سے.پنجم یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور سر اور ٹیسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا.اور بہر حالت راضی بقضا ہوگا.اور ہر ایک ذلّت اور دُکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآنِ شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرلے گا اور قَالَ اللہ اور قَالَ الرَّسُوْل کو اپنے ہر ایک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا.اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس جلد سوم

Page 19

حیات احمد ۱۶ جلد سوم چل سکتا ہے اپنی خداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض لله با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا.اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقات اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.یہ وہ شرائط ہیں کہ جو بیعت کرنے والوں کیلئے ضروری ہیں جن کی تفصیل یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں نہیں لکھی گئی.اور واضح رہے کہ اس دعوت بیعت کا حکم تخمینا مدت دس سال سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو چکا ہے.لیکن اس کی تاخیر اشاعت کی یہ وجہ ہوئی ہے کہ اس عاجز کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی رہی کہ ہر قسم کے رطب و یا بس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں.اور دل یہ چاہتا رہا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے.اور جو کچے اور سریع التغیر اور مغلوب شک نہیں ہیں.اس وجہ سے ایک ایسی تقریب کی انتظار رہی کہ جو بچوں اور کچوں اور مخلصوں اور منافقوں میں فرق کر کے دکھلا دے.سو اللہ جل شانہ نے اپنی کمال حکمت اور رحمت سے وہ تقریب بشیر احمد کی موت کو قرار دے دیا.اور خام خیالوں اور کچوں اور بدظنوں کو الگ کر کے دکھلا دیا.اور وہی ہمارے ساتھ خدائے عز وجل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء واشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے.اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہوگا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوا العزم ہوگا.اور حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.سو آ ج ۱۲ / جنوری ۱۸۸۹ء میں مطابق ۹ر جمادی الاول ۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے جس کا نام محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے.اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہ لڑ کا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا.اور اگر ابھی اس موعود دلڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہو گا.اور اگر مدت مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدائے عز وجل اُس دن کو ختم نہیں

Page 20

حیات احمد ۱۷ جلد سوم رہ گئے جن کی فطرتیں ہمارے ساتھ رہنے کے لائق تھیں.اور جو فطرتا قوی الایمان نہیں تھے اور تھکے اور ماندے تھے وہ سب الگ ہو گئے اور شکوک وشبہات میں پڑ گئے.پس اسی وجہ سے ایسے موقع پر دعوت بیعت کا مضمون شائع کرنا نہایت چسپاں معلوم ہوا.تا خس کم جہاں پاک کا فائدہ ہم کو حاصل ہو اور مغشوشین کے بدانجام کی تلخی اٹھائی نہ پڑے اور تا جولوگ اس ابتلاء کی حالت میں اس دعوت بیعت کو قبول کر کے اس سلسلہ مبارکہ میں داخل ہو جا ئیں وہی ہماری جماعت سمجھے جائیں اور وہی ہمارے خالص دوست متصور ہوں اور وہی ہیں جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں انہیں ان کے غیروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا اور برکت اور رحمت بقیہ حاشیہ.کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کر لے.مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا اے فخر رسل قرب تو معلوم شد دیر آمده ز ره دور آمده پس اگر حضرت باری جل شانہ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعو دلڑکا ہو.ورنہ وہ ا بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آوے گا اور ہمارے بعض حاسدین کو یا درکھنا چاہئے کہ ہماری کوئی ذاتی غرض اولاد کے متعلق نہیں اور نہ کوئی نفسانی راحت ان کی زندگی سے وابستہ ہے.پس یہ ان کی بڑی غلطی ہے کہ جو انہوں نے بشیر احمد کی وفات پر خوشی ظاہر کی اور بغلیں بجائیں انہیں یقیناً یا د رکھنا چاہئے کہ اگر ہماری اتنی اولاد ہو جس قدر درختوں کے تمام دنیا میں پتے ہیں اور وہ سب فوت ہو جائیں تو ان کا مرنا ہماری سچی اور حقیقی لذت اور راحت میں کچھ خلل انداز نہیں ہو سکتا مُمیت کی محبت میت کی محبت سے اس قدر ہمارے دل پر زیادہ تر غالب ہے کہ اگر وہ محبوب حقیقی خوش ہو تو ہم خلیل اللہ کی طرح اپنے کسی پیارے بیٹے کو بدست خود ذبح کرنے کو تیار ہیں کیونکہ واقعی طور پر بجز اس ایک کے ہمارا کوئی پیارا نہیں.جَلَّ شَانُهُ وَعَزَّ اسْمُهُ فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى إِحْسَانِهِ - منه ترجمہ.اے فخر رسل مجھے تیرے قرب الہی کا ( بلند مرتبہ ) معلوم ہو گیا ہے، تو اس لئے دیر سے پہنچا ہے کہ بہت دور سے آیا ہے.

Page 21

حیات احمد ۱۸ جلد سوم ان کے شامل حال رہے گی اور مجھے فرمایا کہ تو میری اجازت سے اور میری آنکھوں کے روبرو یہ کشتی تیار کر جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے.وہ خدا سے بیعت کریں گے.خدا کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہو گا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ حاضر ہو جاؤ.اور اپنے رب کریم کو اکیلا مت چھوڑو.جو شخص اسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑا جاوے گا.سوحسب فرموده ایزدی دعوت بیعت کا عام اشتہار دیا جاتا ہے اور تحملین شرائط متذکرہ بالا کو عام اجازت ہے کہ بعد ادائے استخارہ مسنونہ اس عاجز کے پاس بیعت کرنے کے لئے آویں.خدا تعالیٰ ان کا مددگار ہوگا اور ان کی زندگی میں پاک تبدیلی کرے اور اُن کو سچائی اور پاکیزگی اور محبت اور روشن ضمیری کی روح بخشے.آمین ثم آمین.وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنِ المبلغ خاکسار احقر عباداللہ غلام احمد.از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ۱۹ جمادی الاول ۱۳۰۶ھ مطابق ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء ( مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر ) ( مجموعہ اشتہار جلد اصفحه ۱۵۹ تا ۱۶۱.بار دوم )

Page 22

حیات احمد ۱۹ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي جلد سوم گزارش ضروری بخدمت ان تمام صاحبوں کے جو بیعت کرنے کیلئے مستعد ہیں اے اخوان مومنین أَيَّدَ كُمُ اللهُ بِرُوحِ مِّنْهُ ) آپ سب صاحبوں پر جو اس عاجز سے خالصاً لطلب اللہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کے واضح ہو کہ بالقائے ربّ کریم و جلیل جس کا ارداہ ہے کہ مسلمانوں کو انواع و اقسام کے اختلافات اور غِل اور حقد اور نزاع اور فساد اور کینہ اور بغض سے جس نے ان کو بے برکت ونكما وکمزور کر دیا ہے نجات دے کر فَأَصْبَحْتُمُ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا کا مصداق بنا دے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد ومنافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدر ہیں اس انتظام پر موقوف ہیں کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی اور کسی قدر کیفیت کے (اگر ممکن ہو ) اندراج پاویں اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزوں تک پہنچ جائیں تو ان سب ناموں لے تاریخ ہذا سے جو مارچ ۱۸۸۹ء ہے ۲۵ مارچ تک یہ عاجز لودیانہ محلہ جدید میں مقیم ہے اس عرصہ میں اگر کوئی صاحب آنا چاہیں تو لودیا نہ میں ۲۰ تاریخ کے بعد آجاویں.اور اگر اس جگہ آنا موجب حرج و دقت ہو تو ۲۵ مارچ کے بعد جس وقت کوئی چاہے قادیان میں بعد اطلاع دہی بیعت کرنے کیلئے حاضر ہو جاوے مگر جس مدعا کے لئے بیعت ہے یعنی حقیقی تقوی اختیار کرنا اور سچا مسلمان بننے کے لئے کوشش کرنا اس مد عا کوخوب یادر کھے اور اس وہم میں نہیں پڑنا چاہئے کہ اگر تقویٰ اور سچا مسلمان بنا پہلے ہی سے شرط ہے تو پھر بعد اس کے بیعت کی کیا حاجت ہے.بلکہ یاد رکھنا چاہئے کہ بیعت اس غرض سے ہے کہ تا وہ تقویٰ کہ جو اؤل حالت میں تکلیف اور تصنع سے اختیار کی جاتی ہے دوسرا رنگ پکڑے اور ببرکت توجہ صادقین و جذ بہ کاملین طبیعت میں داخل ہو جائے اور اُس کا جز بن جائے.اور وہ مشکوتی نور دل میں پیدا ہو جائے کہ جو عبودیت اور ربوبیت کے باہم تعلق شدید سے پیدا ہوتا ہے جس کو متصو فین دوسرے لفظوں میں رُوح قدس بھی کہتے ہیں جس کے پیدا ہونے کے بعد خدائے تعالیٰ کی نافرمانی ایسی ال عمران: ۱۰۴

Page 23

حیات احمد جلد سوم کی ایک فہرست تیار کر کے اور چھپوا کر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعت کرنے والوں کی خدمت میں بھیجی جائے اور پھر جب دوسرے وقت میں نئی بیعت کر نیوالوں کا ایک معتد بہ گروہ ہو جاوے تو ایسا ہی ان کے اسماء کی بھی فہرست تیار کر کے تمام مبائعین یعنی داخلین بیعت میں شائع کی جائے اور ایسا ہی ہوتا رہے جب تک ارادہ الہی اپنے اندازہ مقدرہ تک پہنچ جائے یہ انتظام جس کے ذریعہ سے راستبازوں کا گروہ کثیر ایک ہی سلک میں منسلک ہو کر وحدت مجموعی کے پیرائے میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہو گا اور اپنی سچائی کی مُختلف المخرج شعاؤں کو ایک ہی خط ممتد میں ظاہر کرے گا خداوند عز و جل کو بہت پسند آیا ہے.مگر چونکہ یہ کارروائی بجز اس کے بآسانی وصحت انجام پذیر نہیں ہو سکتی کہ خود مبائعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا نام پتہ ونشان به تفصیل مندرجہ بالا بھیج دیں اس لئے ہر ایک صاحب کو جو صدق دل اور خلوص تام سے بیعت کرنے کیلئے مستعد ہیں تکلیف دی جاتی ہے کہ وہ بحر یر خاص اپنی پورے پورے نام وولد بیت وسکونت مستقل و عارضی وغیرہ سے اطلاع بخشیں یا اپنے حاضر ہونے کے وقت یہ تمام امور درج کرا دیں.اور بقیہ حاشیہ.بالطبع بری معلوم ہوتی ہے جیسے وہ خود خدائے تعالیٰ کی نظر میں بری ومکروہ ہے اور نہ صرف خلق اللہ سے انقطاع میسر آتا ہے بلکہ بجز خالق و مالک حقیقی ہر ایک موجود کو کالعدم سمجھ کر فنا نظری کا درجہ حاصل ہوتا ہے.سواس نور کے پیدا ہونے کے لئے ابتدائی اِتقا جس کو طالب صادق اپنے ساتھ لاتا ہے شرط ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی علت غائی بیان کرنے میں فرمایا ہے هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ.یہ نہیں فرمایا هُدًى للْفَاسِقِيْنَ يَاهُدًى لِّلْكَفِرِينَ ابتدائی تقویٰ جس کے حصول سے متقی کا لفظ انسان پر صادق آ سکتا ہے وہ ایک فطرتی حصہ ہے کہ جو سعیدوں کی خلقت میں رکھا گیا ہے اور ربوبیت اولی اس کی مربی اور وجود بخش ہے جس سے متقی کا پہلا تو لد ہے.مگر وہ اندرونی نور جو روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے.وہ عبودیت خالصہ نامہ اور ربوبیت کاملہ مُسْتَجْمَعَہ کے پورے جوڑ واتصال سے بطرز ثُمَّ اَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا اخَرَ کے پیدا ہوتا ہے اور یہ ربوبیت ثانیہ ہے جس سے متقی تولد ثانی پاتا ہے اور ملکوتی مقام پر پہنچتا ہے اور اس کے بعد ربوبیت ثالثہ کا درجہ ہے جو خلق جدید سے موسوم ہے جس سے متقی لا ہوتی مقام پر پہنچتا ہے اور تولد ثالث پاتا ہے.فَتَدَبّر منه

Page 24

حیات احمد ۲۱ جلد سوم ظاہر ہے کہ ایسی کتاب کا مرتب و شائع ہونا جس میں تمام بیعت کر نیوالوں کے نام و دیگر پتہ ونشان درج ہوں انشاء اللہ القدیر بہت سی خیر و برکت کا موجب ہو گا.ازانجملہ ایک بڑی عظیم الشان بات یہ ہے کہ اس ذریعہ سے بیعت کرنے والوں کا بہت جلد باہم تعارف ہو جائے گا اور با ہم خط وکتابت کرنے اور افادہ و استفادہ کے وسائل نکل آئیں گے اور غائبانہ ایک دوسرے کو دعائے خیر سے یاد کریں گے اور نیز اس باہمی شناسائی کی رو سے ہر ایک موقعہ محل پر ایک دوسرے کی ہمدردی کر سکیں گے اور ایک دوسرے کی غمخواری میں یاران موافق و دوستان صادق کی طرح مشغول ہو جائیں گے اور ہر ایک کو ان میں سے اپنے ہم ارادت لوگوں کے ناموں پر اطلاع پانے سے معلوم ہو جائے گا کہ اس کے روحانی بھائی دنیا میں کس قدر پھیلے ہوئے ہیں اور کن کن خدا داد فضائل سے متصف ہیں.سو یہ علم ان پر ظاہر کرے گا کہ خدا تعالیٰ نے کس خارق عادت طور پر اس جماعت کو تیار کیا ہے اور کس سُرعت اور جلدی سے دنیا میں پھیلایا ہے.اور اس جگہ اس وصیت کا لکھنا بھی موزوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک شخص اپنے بھائی سے بکمال ہمدردی و محبت پیش آوے اور حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر ان کا قدر کرے.ان سے جلد صلح کر لیوے اور دلی غبار کو دور کر دیوے اور صاف باطن ہو جاوے.اور ہرگز ایک ذرہ کینہ اور بغض ان سے نہ رکھے لیکن اگر کوئی عمداً ان شرائط کی خلاف ورزی کرے جو اشتہا ر ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں مندرج ہیں.اور اپنی بیبا کا نہ حرکات سے باز نہ آوے تو وہ اس سلسلہ سے خارج کیا جاوے گا.یہ سلسلہ بیعت محض بمرادفراہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کیلئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کیلئے برکت و عظمت و نتائج اس جماعت کے نیک اثر سے جیسے عامہ خلائق منتفع ہوں گی.ایسا ہی اس پاک باطن جماعت کے وجود مبارک سے گورنمنٹ برطانیہ کے لئے انواع و اقسام کے فوائد متصور ہیں جن سے اس گورنمنٹ کو خداوند عزوجل کا شکر گزار ہونا چاہئے.از انجملہ ایک یہ کہ یہ لوگ بچے جوش و دلی خلوص سے اس گورنمنٹ کے خیر خواہ اور دعا گو ہوں گے کیونکہ بموجب تعلیم الاسلام ( جس کی پیروی اس گروہ کا عین مدعا ہے ) حقوق عباد کے متعلق اس سے بڑھ کر کوئی گناہ کی بات اور محبت اور ظلم اور پلید راہ نہیں کہ انسان جس سلطنت کے زیر سایہ بامن و عافیت

Page 25

حیات احمد ۲۲ جلد سوم خیر کا موجب ہواور وہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کامل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں ، یتیموں کیلئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں.اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے.خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہر اوے.اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگیوں کے ازالہ کیلئے دن رات کوشش کرتا رہوں اور ان کیلئے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدا تعالیٰ کے راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان کے لئے وہ روح قدس طلب کروں جو ربوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کے کامل جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور اس رُوح خبیث کی تسخیر سے ان کی نجات چاہوں کہ جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے.سو میں بتوفیقہ تعالیٰ کا ہل اور سست نہیں رہوں گا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کر لیا ہے غافل نہیں ہوں گا بلکہ ان بقیہ حاشیہ.زندگی بسر کرے اور اس کی حمایت سے اپنے دینی و دنیوی مقاصد میں آزادی سے کوشش کر سکے اسی کا بدخواہ و بداندیش ہو بلکہ جب تک ایسی گورنمنٹ کا شکر گزار نہ ہو تب تک خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں.پھر دوسرا فائدہ اس با برکت گروہ کی ترقی سے گورنمنٹ کو یہ ہے کہ ان کا عملی طریق موجب انسداد جرائم ہے.فَتَفَكَّرُوْا وَتَأَمَّلُوْا - من منه

Page 26

حیات احمد ۲۳ جلد سوم کی زندگی کیلئے موت تک دریغ نہیں کروں گا.اور ان کیلئے خدا تعالیٰ سے وہ روحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح ان کے تمام وجود میں دوڑ جائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لئے کہ جو داخل سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا.اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشن گویوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشو ونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر ایک قسم کی برکت سے دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک اُن میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی.اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.ہر یک طاقت اور قدرت اسی کو ہے.فَالْحَمْدُ لَهُ اَوَّلًا وَاحِرًا ظَاهِرًا وَّ بَاطِئًا - أَسْلَمْنَالَهُ هُوَ مَوْلَانَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ - نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - خاک غلام احمد سار لود یا نہ محلہ جدید متصل مکان اخی مکرمی منشی حاجی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور ۴ / مارچ ۱۸۸۹ء ۲۶۳۰ ( مطبوعہ ریاض ہند امرتسر ) یہ اشتہار کے چار صفحوں پر ہے ) ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۶۲ تا ۶۶ ۱ بار دوم )

Page 27

حیات احمد ۲۴ جلد سوم اعلانِ بیعت کا اثر بیعت کیلئے اعلان تو سبز اشتہار ہی کے ذریعہ ہو گیا تھا اور مستعد اور مخلص احباب نے آپ کی خدمت میں اپنے ارادہ بیعت سے بھی اطلاع دے دی تھی اور اس سلسلہ میں خط وکتابت بھی کی مگر وہ خط و کتابت رسمی تھی.حضرت چودہری رستم علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ نے شرائط بیعت طلب کیں چنانچہ ے جنوری ۱۸۸۹ء کے مکتوب میں آپ نے چود ہری صاحب کو لکھا کہ شرائط بیعت پھر کسی وقت روانہ کرونگا حضرت خلیفتہ اسیج اول رضی اللہ عنہ نے (جو اس وقت صرف مولوی حکیم نور الدین تھے ) تاریخ مقررہ پر بیعت کیلئے حاضر ہونے سے اولاً اظہار معذوری کیا اور شرائط کی پابندی کے متعلق بھی استفسار فرمایا اس کے جواب میں آپ نے ۲۰ فروری ۱۸۸۹ء کو جو خط لکھا اس میں ان استفسار کا مندرجہ ذیل جواب دیا.شرائط بیعت کی پابندی کی حد مخدومی مکر می اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب سلّمۂ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کل کی ڈاک میں عنایت نامہ پہنچا جو کچھ پر چہ تکمیل تبلیغ میں تاریخ لکھی گئی ہے وہ فقط انتظامی امر ہے تا ایسی تقریب میں اگر ممکن ہو تو بعض اخوان مومنین کا بعض سے تعارف ہو جاوے کوئی ضروری امر نہیں ہے آپ کے لئے اجازت ہے کہ جب فرصت ہو اور کسی طرح کا ہرج نہ ہو تو اس رسم کے پورا کرنے کے لئے تشریف لے آویں بلکہ تقریب شادی پر جو آپ تشریف لاویں وہ نہایت عمدہ موقع ہے اور شرائط پر پابند ہونا باعتبار استطاعت ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا الَّا وُسْعَهَا.دوسرے خط کے جواب سے جلد مطلع فرماویں تالدھیانہ میں اطلاع دی جاوے.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ بماہ مارچ کشمیر کی طرف روانہ ہوں.پس البقرة: ۲۸۷

Page 28

حیات احمد ۲۵ اگر یہی صورت ہو تو بماہ فروری کار و بار شادی بخیر و عافیت اہتمام پذیر ہونا چاہئے.“ جلد سوم مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۸۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) لیکن بعد میں حضرت حکیم الامت کو وہ معذوری نہ رہی اور آپ بیعت کے موقعہ پر لود یا نہ پہنچ گئے جیسا کہ آگے ذکر آتا ہے.حضرت حکیم الامت کی شادی حضرت حکیم الامت کی دوسری شادی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریک کر رہے تھے اور اس کیلئے مختلف دوستوں کو آپ نے خطوط لکھے تھے ان میں سے میر عباس علی صاحب نے جو تحریک کی حضرت نے اُسے پسند فرمایا یہ تحریک حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی صغری بیگم صاحبہ ( مَتَّعَنَا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهَا ) کے رشتہ کی تھی حضرت نے اسے پسند فرمایا اور بالآخر یہ رشتہ مستحکم ہو گیا.تحریک دوسری شادی کی تو اواخر ۷ ۱۸۸ء سے ہی ہو رہی تھی مگر مناسب رشتہ کا فیصلہ اوائل ۱۸۸۹ء میں جا کر ہوا.ابتدائی تحریک کے متعلق آپ کے مکتوبات ۲۹ فروری ۱۸۸۸ء سے پتہ لگتا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مخدومی مکر می اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ عین انتظار میں پہنچا.ابھی وہ خط میں نے نہیں کھولا تھا کہ بابو الہی بخش صاحب کے کارڈ کے پڑھنے سے کہ جو ساتھ ہی اسی ڈاک میں آیا تھا نہایت تشویش ہوئی کیونکہ اس میں لکھا تھا کہ آپ لاہور میں علاج کروانے کیلئے تشریف لے گئے تھے اور ڈاکٹروں نے کہا کہ کم از کم پندرہ دن تک سب ڈاکٹر مل کر معائنہ کریں تو حقیقت مرض معلوم ہو.مگر آپ کے خط کے کھولنے سے کسی قدر رفع اضطراب ہوا.مگر تا ہم تر ڈر باقی ہے کہ مرض تو بکلی رفع ہو گئی تھی صرف ضعف باقی تھا

Page 29

حیات احمد ۲۶ پھر کس لئے ڈاکٹروں کی طرف التجا کی گئی شاید بعض ضعف وغیرہ کے لحاظ سے بطور دوراندیشی مناسب سمجھا گیا ہو میری دانست میں جہاں تک ممکن ہے آپ زیادہ ہم وغم سے پر ہیز کریں کہ اس سے ضعف بڑھتا ہے اور نہایت سرور بخشنے والی یہ آیت مبارکہ ہے اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ * میرے نزدیک یہ امر نہایت ضروری ہے کہ آپ نکاح ثانی کے امر کو سرسری نگاہ سے نہ دیکھیں بلکہ اس کو کسل وحزن کے دور کرنے کے لئے ضروری خیال کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے امید ہے کہ آپ کو نکاح ثانی سے اولاد صالح بخشے.میرا اس طرف زیادہ خیال نہیں ہے کہ تعلیم یافتہ بیوی یا عقیلہ کوئی اہلیہ پڑھی ہوئی ملے.میں یقین کرتا ہوں کہ اگر مرد ہو یا عورت مگر پاکیزہ ذہن اور فطرت سے عمدہ استعداد رکھتا ہو تو امنیت اس کیلئے کوئی بڑا سد راہ نہیں ہے.جلدی صحت سے ضرویات دین ودنیا سے خبر دار ہو سکتا ہے.ضروری یہ امر ہے کہ عقیلہ ہو اور حسن ظاہری بھی رکھتی ہو.تا اس سے موافقت و محبت پیدا ہو جاوے.آپ اس محل زیر نظر میں اس شرط کی اچھی طرح تفتیش کر لیں اگر حسب دلخواہ نکل آوے تو الحمد للہ ورنہ دوسرے مواضع میں تمام تر جد و جہد سے تلاش کرنا شروع کیا جائے.بندہ کی طرف سے صرف کوشش ہے اور مطلوب کو میسر کر دینا قادر مطلق کا کام ہے.بہر حال اس عالم اسباب میں جد و جہد پر نیک ثمرات مل جاتے ہیں.میں نے اب تک کسی دوست کی طرف سے اس تلاش کے لئے نہیں لکھا کیونکہ ابھی تک آپ کی طرف سے قطعی اور یک طرفہ رائے مجھ کو نہیں ملی اس لئے مکلف ہوں که درمیانی خیالات کا جلد تصفیہ کر کے اگر جدید تلاش کی ضرورت پیش آوے تو مجھے اطلاع بخشیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا.آپ اپنے مصارف کی نسبت البقرة: ١٠٧ جلد سوم

Page 30

حیات احمد ۲۷ جلد سوم ہوشیار ہو جائیں کہ انہیں اموال سے قوام معیشت ہے اور دینی ضروریات کے وقت بھی موجب ثواب عظیم ہو جاتے ہیں سوجیسا کہ آپ نے عہد کر لیا ہے کسی حالت میں ٹکٹ سے زیادہ خرچ نہ کریں.“ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۵۷،۵۶ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۶۱ ۶۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس سلسلہ میں خط و کتابت ہوتی رہی بالآخر جنوری ۱۸۸۹ء میں اس کی تحریک حضرت صوفی منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیدہ صغری بیگم صاحبہ کیلئے کی گئی جیسا کہ ذیل کے مکتوب سے ظاہر ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.ہر دو عنایت نامے پہنچ گئے.خدائے قادر ذوالجلال آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے ارادات خیر میں مدد دیوے.اس عاجز نے آں مخدوم کے نکاح ثانی کی تجویز کیلئے کئی جگہ خط روانہ کئے تھے ایک جگہ سے جو جواب آیا ہے وہ کسی قدرحسب مراد معلوم ہوتا ہے یعنی میر عباس علی شاہ صاحب کا خط جو روانہ خدمت کرتا ہوں.اس خط میں ایک شرط عجیب ہے کہ حنفی ہوں.غیر مقلد نہ ہوں چونکہ میر صاحب بھی حنفی اور میرے مخلص دوست منشی احمد جان صاحب ( خدا تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے) جن کی بابرکت لڑکی سے یہ تجویز در پیش ہے.پکے حنفی تھے اور اُن کے مرید بھی جو اس علاقہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں حنفی ہیں اس لئے حنفیت کی قید بھی لگا دی گئی یوں تو حَنِيفًا مُسْلِمًا میں سب مسلمان داخل ہیں لیکن اس قید کا جواب بھی معقولیت سے دیا جائے تو بہتر ہے.

Page 31

حیات احمد ۲۸ جلد سوم منشی احمد جان مرحوم کے متعلق اب میں تھوڑا سا حال منشی احمد جان صاحب کا سناتا ہوں منشی صاحب مرحوم اصل میں متوطن ނ دہلی کے تھے.شائد ایام مفسدہ ۱۸۵۷ء میں لو دیا نہ آ کر آباد ہوئے.کئی دفعہ میری ان.ملاقات ہوئی نہایت بزرگوار ، خوبصورت، خوب سیرت، صاف باطن، متقی با خدا اور متوکل آدمی ۲۵ تھے مجھ سے اس قدر دوستی اور محبت کرتے تھے کہ اکثر ان کے مریدوں نے اشارتاً اور صراحتاً بھی سمجھایا کہ آپ کی اس میں کسر شان ہے مگر انہوں نے ان کو صاف جواب دیا کہ مجھے کسی شان سے غرض نہیں اور نہ مجھے مریدوں سے کچھ غرض ہے.اس پر بعض نالائق خلیفے ان سے منحرف بھی ہو گئے مگر انہوں نے جس اخلاص اور محبت پر قدم مارا تھا اخیر تک نبھایا.اور اپنی اولا دکو بھی یہی نصیحت کی.جب تک زندہ رہے خدمت کرتے رہے اور دوسرے تیسرے مہینے کسی قدر روپے اپنے رزق خداداد سے مجھے بھیجتے رہے اور میرے نام کی اشاعت کے لئے بدل وجان ساعی رہے.اور پھر حج کی تیاری کی اور جیسا کہ انہوں نے اپنے ذمہ مقلد رکر رکھا تھا، جاتے وقت بھی پچیس روپے بھیجے.اور ایک بڑا لمبا دردناک خط لکھا جس کے پڑھنے سے رونا آتا تھا.اور حج سے آتے وقت راہ میں ہی بیمار ہو گئے اور گھر آتے ہی فوت ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اس میں کچھ شک نہیں کہ منشی صاحب علاوہ اپنی ظاہری علمیت وخوش تقریری دوجاہت کے جو خدا داد انہیں حاصل تھیں.مومن صادق اور صالح آدمی تھے جو دنیا میں کم پائے جاتے ہیں.چونکہ وہ عالی خیال اور صوفی تھے اس لیے ان میں تعصب نہیں تھا.میری نسبت وہ خوب جانتے تھے کہ یہ حفی تقلید پر قائم نہیں ہیں اور نہ اسے پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ خیال انہیں محبت و اخلاص سے نہیں روکتا تھا غرض کچھ مختصر حال منشی احمد جان صاحب مرحوم کا یہ ہے.اور لڑکی کا بھائی صاحبزادہ افتخار احمد صاحب بھی نوجوان صالح ہے جو اپنے والد مرحوم کے ساتھ حج بھی کر ، آئے ہیں اب دو باتیں تدبیر طلب ہیں.

Page 32

حیات احمد ۲۹ جلد سوم اوّل یہ کہ ان کی حنفیت کے سوال کا کیا جواب دیا جائے.دوسرے اگر اسی ربط پر رضامندی فریقین کی ہو جاوے تو لڑکی کے ظاہری حلیہ سے بھی کسی طور سے اطلاع ہو جانی چاہئے.بہتر تو بچشم خود دیکھ لینا ہوتا ہے.مگر آج کل کی پردہ داری میں یہ بڑی قباحت ہے کہ وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتے.مجھ سے میر عباس علی صاحب نے اپنے سوالات مستنفسرہ خط کا بہت جلد جواب طلب کیا ہے.اس لئے مکلف ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو جلد تر جواب ارسال فرماویں.ابھی میں نے تصریح سے آپ کا نام ان پر ظاہر نہیں کیا جواب آنے پر ظاہر کروں گا.ہندو پسر کے بارے میں مجھے خیال ہے ابھی میں نے توجہ نہیں کی کیونکہ جس روز سے میں آیا ہوں میری طبیعت درست نہیں ہے علالت طبع کچھ نہ کچھ ساتھ چلی آتی ہے اور کثرت مشغولی علاوہ.لیکن اگر میں نے کسی وقت توجہ کی اور آپ کی رائے کے موافق یا مخالف کچھ ظاہر ہوا جس کی مجھے ہنوز کچھ خبر نہیں تو بہر حال آپ پر اس کے موافق عمل کرنا واجب ہوگا.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۵۶٬۵۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) نوٹ.مکتوبات میں ۲۳ / جنوری ۱۸۸۸ء غلط چھپا ہے یہ ۱۸۸۹ء کا خط ہے اور فروری ۱۸۸۹ء میں نکاح ہو گیا اور سیدہ صغری بیگم صاحبہ بفضلہ تعالیٰ اس وقت تک زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو بابرکت فرمایا.یہ ذکر ضمناً اس لئے آگیا کہ آپ نے حضرت حکیم الامت کو بیعت کے لئے تاریخ مقررہ پر نہ آسکنے کی وجہ سے تقریب شادی پر بیعت کرنے کیلئے لکھا تھا لیکن یہ شادی مارچ کے اوائل میں ہوگئی.حضرت اقدس خود شادی میں آئے اور تشریف لے گئے جیسا کہ حضرت صاحبزادہ افتخار احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں.”یہی زمانہ (بیعت کا زمانہ مراد ہے ) میری ہمشیرہ صغری بیگم کی شادی کا ہے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت خلیفتہ امسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے رشتہ

Page 33

حیات احمد کے متعلق خط بھیجا.بفضلہ تعالیٰ بات قرار پا گئی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام معہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور دیگر احباب شادی کے لئے لودھیانہ تشریف لائے اور بعد نکاح معہ دلہن واپس تشریف لے گئے.جلد سوم (ذکر حبیب از صاحبزادہ صاحب) اس کے بعد پھر حضور لودہانہ اسی اعلان بیعت کے سلسلہ میں آئے اور خلاف معمول آپ نے محلہ جدید میں حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ کے مکان کے قریب ایک مکان کرایہ پر لیا.اسی کو چہ میں خاکسار عرفانی رہتا تھا اور حضرت منشی احمد جان کے خاندان سے اس کو ارادت تھی.میں اس کا ذکر اپنے بعض مضامین میں کر چکا ہوں خصوصیت سے حضرت صاحبزادہ افتخار احمد صاحب سے.حضرت حکیم الامت سے انہیں ایام شادی میں ملاقات ہوئی اور وہ اس وقت اسی مکان میں قیام فرما تھے جو اب دار البیعت کہلاتا ہے.شادی کے بعد حضرت حکیم الامت دوبارہ بیعت کرنے کیلئے آئے اور سیدہ صغریٰ بیگم صاحبہ سَلَّمَهَا الله تعالیٰ نے بھی بیعت کر لی.سلسلہ کی خواتین میں حضرت ام الْمُؤْمِنِين ( مَتَّعَنَا اللَّهُ بِطُوْلِ حَيَاتِهَا ) کے سوا وہ سب سے پہلی خاتون ہیں جن کو شرف بیعت حاصل ہوا.حضرت کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے رجسٹر میں ان کی تاریخ بیعت ۲۵ / مارچ ۱۸۸۹ء نمبر ۲۹ پر درج ہے.ایام بیعت کے بعض واقعات خاکسار عرفانی اپنے تعلیمی مشاغل کے بعد اکثر وقت حضرت کی خدمت میں گزارتا تھا اس لئے کہ وہاں عموماً مختلف الخیال لوگ آتے تھے.حضرت مولوی عبد القادر صاحب رضی اللہ عنہ ایک روز مولوی مشتاق احمد صاحب انبیٹھوی کو لے آئے.مولوی عبدالقادر صاحب کو ان سے تعلقات اخوت اسلامی تھے.مولوی مشتاق احمد صاحب خاکسار عرفانی کے استاد تھے اور مولوی عبدالقادر صاحب کا مدرسہ ( جو سرائے میں تھا) قریب ہی تھا مولوی مشتاق احمد صاحب بورڈ سکول میں

Page 34

حیات احمد جلد سوم مدرس عربی تھے.صوفی مزاج اور ذی علم تھے.دبلے پتلے منحنی سے آدمی تھے.شیعہ فرقہ کے ایک مشہو ر عالم سید فرزند حسین صاحب اور منشی سعد اللہ صاحب نومسلم جو اہلحدیث تھے سب اسی مدرسہ میں ملازم تھے اور خوب مذہبی چرچے رہتے تھے مجھے سب جانتے تھے کہ میں مذہبی دلچسپی رکھتا اور عیسائیوں سے مباحثات کرتا رہتا ہوں اس لئے باوجود یکہ مولوی مشاق احمد صاحب اور منشی سعد اللہ صاحب میرے استاد تھے ان سے ایک قسم کی بے تکلفی بھی تھی اور حضرت مولوی محمد ابراہیم بقا پوری اور ان کے برادر مکرم محمد اسماعیل ان ایام کے واقف تھے اور یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ ہم جو کچھ عرصہ کے بعد ایک ہی باپ کے روحانی فرزند ہونے والے تھے اسی زمانہ میں ایک رشتہ موڈت رکھتے تھے.غرض مولوی عبدالقادر صاحب ان کو حضرت کے پاس لے آئے اور مولوی مشتاق احمد صاحب سے کہا کہ آپ کو جو دریافت کرنا ہو کر یں.انہوں نے مسئلہ الہام کے متعلق سوال کیا مجھے خوب یاد ہے حضرت اقدس نے سورۃ الشمس پڑھ کر اس تفسیر کو حضرت نے توضیح المرام میں بھی لکھا ہے) مجلس پر ایک سکوت طاری تھا، اس کی تفسیر کی جب آپ نے تقریر ختم کی تو مولوی عبد القادر صاحب نے کہا کہ کچھ اور پوچھئے موقع ہے.مگر مولوی مشتاق احمد صاحب خاموش رہے اور چلے گئے چونکہ وہ خود اپنا ایک صوفی مشرب رکھتے تھے اور بعض لوگ ان سے بیعت بھی کرتے تھے وہ حضرت کو قبول نہ کر سکے.مگر خدا کا فضل ہے کہ آج انبیٹھہ میں جماعت احمدیہ قائم ہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا وعظ ☆ اسی محلہ کی مسجد میں جہاں حضرت نمازیں پڑھتے تھے ایک روز بعد عصر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ پر تقریر فرمائی.جو نہایت مؤثر اور معرفت کے نکات سے لبریز تھی جب وہ تقریر کر چکے تو مولوی شاہ دین صاحب جو چک مغلائی ضلع جالندھر کے باشندے اور اسی محلہ میں رہتے تھے اور بڑے منطقی مشہور تھے وہ اس تقریر میں موجود ل النحل : ٢٩

Page 35

حیات احمد ۳۲ جلد سوم تھے.تقریر کے بعد حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مسجد کی دیوار کے پاس جا کر ذرا استراحت کے طور پر کھڑے ہوئے تھے مولوی شاہ دین صاحب بڑے جوش سے آگے بڑھے اور کہا تم نے ائمہ سلف کے خلاف تفسیر کی ہے یہ تفسیر بالرائے ہے.یہ ان کے کلام کا مفہوم اور قریباً لفظ بھی یہی تھے.حضرت مولوی صاحب کی عمر ۳۰.۳۱ برس کی تھی انہوں نے نہایت جوش کے ساتھ مولوی شاہ دین صاحب کو جواب دیا کہ تم قرآن کریم کی تفسیر کو کیا جانتے ہو؟ ساری عمر منطق وفلسفہ کی بے معنی بحثوں میں الجھنے والے قرآنِ کریم سے قطعاً ناواقف ہو.جاؤ.مجھ پر تمہاری بحثوں کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا.اگر تم کو قرآن آتا ہے تو اس کی تفسیر بیان کرو.مولوی شاہ دین پر اس قدر رعب پڑا کہ ایک لفظ وہ زبان سے نہ نکال سکے اور نہایت تیز رفتاری سے بھاگ گئے.یہ با تیں ضمناً آ گئی ہیں.ورود لودہانہ اور سفر ہوشیار پور حضرت اقدس مارچ کے اوائل میں یعنی دوسرے ہفتے کے شروع میں لو ہا نہ پہنچ گئے تھے اور بیعت کے لئے تاریخ کا اعلان پہلے ہو چکا تھا مگر اس اثنا میں شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے ہاں ایک شادی کی تقریب پر حضرت کو دعوت دی گئی تھی.اس خاندان سے پرانے تعلقات تھے اور ۱۸۸۶ء کے سفر ہوشیار پور میں ان کے ہی طویلہ میں آپ نے قیام فرمایا تھا.ان مراسم قدیم کی وجہ سے آپ نے ہوشیا پور کے سفر کا ارادہ فرمایا اس سفر کے متعلق خود حضرت نے حضرت حکیم الامت کو ایک خط لکھا جو حسب ذیل ہے.مخدومی اخویم ، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته عنایت نامہ پہنچ کر بہت خوشی ہوئی.خدا تعالیٰ آپ میں اور آپ کی نئی بیوی میں اتحاد اور محبت زیادہ سے زیادہ کرے.اور اولا دصالح بخشے.آمین ثم آمین اگر پرانے گھر والوں نے کچھ نا مناسب الفاظ منہ سے نکالے ہیں تو آپ صبر کریں.پہلی

Page 36

حیات احمد ۳۳ جلد سوم بیویاں ایسے معاملات میں بباعث ضعف فطرت بدظنی کو انتہا تک پہنچا کر اپنی زندگی اور راحت کا خاتمہ کر لیتی ہیں.وَحْدَهُ لا شَرِيك ہونا خدا کی تعریف ہے.مگر عورتیں بھی شریک ہرگز پسند نہیں کرتی ہیں.ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میرے ہمسایہ میں ایک شخص اپنی بیوی سے بہت کچھ سختی کیا کرتا تھا اور ایک مرتبہ اس نے دوسری بیوی کرنے کا ارادہ کیا تب اس بیوی کو نہایت رنج پہنچا اور اس نے اپنے شوہر کو کہا کہ میں نے تیرے سارے دکھ ہے.مگر یہ دکھ نہیں دیکھا جاتا کہ تو میرا خاوند ہو کر اب دوسری کو میرے ساتھ شریک کرے وہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس کلمہ نے میرے دل پر نہایت دردناک اثر پہنچایا میں نے چاہا کہ اس کلمہ کے مشابہ قرآن شریف میں پاؤں.سو یہ آیت مجھے ملی يَغْفِرُ مَا دُونَ ذلِك الآية یہ مسئلہ بظاہر بڑا نازک ہے دیکھا جاتا ہے کہ جس طرح مرد کی غیرت نہیں چاہتی کہ اس کی عورت اس میں اور اس کے غیر میں شریک ہو.اسی طرح عورت کی غیرت بھی نہیں چاہتی کہ اُس کا مرد اُس میں اور اُس کے غیر میں بٹ جاوے.مگر میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم میں نقص نہیں ہے اور نہ وہ خواص فطرت کے برخلاف ہے اس میں پوری تحقیق و کامل غیرت ہے جس کا انفکاک واقعی لا علاج ہے.مگر عورت کی غیرت کامل نہیں مشتبہ اور زوال پذیر ہے.اس میں نکتہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا کو فرمایا تھا نہایت معرفت بخش نکتہ ہے.کیونکہ جب حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنھا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست نکاح پر عذر کیا کہ آپ کی بہت بیویاں ہیں اور آئندہ بھی خیال ہے اور میں ایک عورت غیرت مند ہوں جو دوسری بیوی کو دیکھ نہیں سکتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تیرے لئے دعا کروں گا تا خدا تعالیٰ تیری یہ غیرت دور کر دے اور صبر بخشے.سو آپ بھی دعا میں مشغول رہیں.نئی بیوی کی دلجوئی نہایت ضروری ہے کہ وہ مہمان کی طرح ہے مناسب ہے کہ آپ کے اخلاق اس سے اوّل النساء: ۱۷

Page 37

حیات احمد ۳۴ جلد سوم درجہ کے ہوں اور ان سے بے تکلف مخالطت اور محبت کریں.اور اللہ جل شانہ سے چاہیں کہ اپنے فضل و کرم سے ان سے آپ کی صافی محبت و تعشق پیدا کر دے کہ یہ سب امور الله جَلَّ شَانُهُ کے اختیار میں ہیں.اب اس نکاح سے گویا آپ کی نئی زندگی شروع ہوئی ہے اور چونکہ انسان ہمیشہ کے لئے دنیا میں نہیں آیا اس لئے نسلی برکتوں کے ظہور کیلئے اب اسی پیوند پر امیدیں ہیں.خدا تعالیٰ آپ کے لئے یہ بہت مبارک کرے.میں نے اس محلہ میں خاص صاحب اسرار و واقف لوگوں سے اس لڑکی کی بہت تعریف سنی ہے کہ بالطبع صالحہ عفیفہ وجامع فضائل محمودہ ہے.اس کی تربیت و تعلیم کے لئے بھی توجہ رکھیں.اور اب پڑھایا کریں کہ اس کی استعداد میں نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ جل شانہ کا نہایت فضل اور احسان ہے کہ جو یہ جوڑ بہم پہنچایا ورنہ اس قحط الرجال میں ایسا اتفاق محالات کی طرح ہے.خط سے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ ۲۰ مارچ ۱۸۸۹ء تک رخصت ملے گی یا نہیں.اگر بجائے ہیں کے بائیں کو آپ تشریف لاویں یعنی یکشنبہ میں اس جگہ ٹھہریں تو با بومحمد صاحب بھی آپ سے ملاقات کریں گے.یہ عاجز ارادہ رکھتا ہے کہ ۱۵ / مارچ ۱۸۸۹ء کو دو تین روز کے لئے ہوشیار پور جاوے.اور ۱۹؍ مارچ یا ۲۰ / مارچ کو بہر حال انشاء اللہ واپس آ جاؤں گا.والسلام.صاحبزادہ افتخار احمد اور ان کے سب متعلقین بخیر و عافیت ہیں.کل سات روپیہ اور کچھ پارچہ میرے لئے دیئے تھے جو ان کے اصرار سے لئے گئے.خاکسار غلام احمد نوٹ.اس خط پر کوئی تاریخ نہیں.مگر مضمون خط سے مارچ ۱۸۸۹ء کے پہلے ہفتہ کا معلوم ہوتا ہے.(عرفانی) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۶۶ تا ۶۸.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۸۲ ۸۳ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اگر چہ یہ خود حضرت اقدس کی تحریر ہے تا ہم تاریخ سلسلہ کے لئے میں حضرت مولوی عبداللہ سنوری رضی اللہ عنہ کا بیان بھی درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب

Page 38

حیات احمد ۳۵ جلد سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت کا اعلان کیا تو بیعت لینے سے پہلے آپ شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کے بلانے پر اس کے لڑکے کی شادی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے.میں اور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے.راستہ میں یکہ پر حضور نے ہم کو اپنے اُس چلہ کا حال سنایا جس میں آپ نے برابر چھ ماہ تک روزے رکھے تھے.حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ایک چھینکا رکھا ہوا تھا اسے میں اپنے چوبارے سے نیچے لٹکا دیتا تھا تو اس میں میری روٹی رکھ دی جاتی تھی پھر اسے میں اوپر کھینچ لیتا تھا.میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ شیخ مہر علی نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤسا کے واسطے الگ کمرہ تھا.اور ان کے ساتھیوں اور خدام کے واسطے الگ تھا مگر حضرت صاحب کا یہ قاعدہ تھا کہ اپنے ساتھ والوں کو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھایا کرتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر بھی آپ ہم تینوں کو اپنے داخل ہونے سے پہلے کمرہ میں داخل کرتے تھے اور پھر خود داخل ہوتے تھے.اور اپنے دائیں بائیں ہم کو بٹھاتے تھے.انہی دنوں ہوشیار پور میں مولوی محمود شاہ چھچھ ہزاروی کا وعظ تھا.جو نہایت مشہور اور نامور اور مقبول واعظ تھا.حضرت صاحب نے میرے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی مناسب موقعہ پر میرا یہ اشتہار بیعت پڑھ کر سنا دیں اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آؤں گا.اس نے وعدہ کر لیا.چنانچہ حضرت صاحب اس کے وعظ میں تشریف لے گئے لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اور حضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہونے لگے.اس وقت سنایا مگر اکثر لوگ منتشر ہو گئے تھے.حضرت صاحب کو اس پر بہت رنج ہوا فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہو گی ورنہ ہمیں کیا ضرورت تھی.اس نے وعدہ خلافی کی ہے میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ پھر تھوڑے عرصہ کے اندر ہی وہ مولوی چوری کے الزام کے نیچے آ کر سخت ذلیل ہوا.یہاں تک میں نے بیعت کے اعلان سے لے کر یوم البیعت سے پہلے تک حالات بیان کئے ہیں اس کے بعد میں دارالبیعت اور یوم البیعت کے حالات بیان کرتا ہوں.

Page 39

حیات احمد ۳۶ { جلد سوم دارالبیعت اور یوم البیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب لودھانہ جایا کرتے تو علی العموم آپ محلہ اقبال گنج میں ٹھہرا کرتے تھے اور سب سے پہلی مرتبہ جب گئے تھے تو ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان واقع محلہ صوفیاں میں ٹھہرا کرتے تھے مگر بیعت کے لئے آپ نے حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کے مکان کو پسند کیا اور اسی محلہ میں قیام فرمایا.بیعت کی تاریخ آپ نے مقرر کر دی تھی اور اس تاریخ سے پہلے آپ نے ایک مختصر سفر ہوشیار پور کا کیا.ان اعلانات سے جو آپ نے بیعت کے لئے دیئے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس نظام بیعت کو قائم کیا.اور اس سے مقصد ایک ایسی جماعت کا قیام تھا جو متقین مخلصین کی عملی جماعت ہو اور جو احیائے اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کر سکے.بیعت کی شرائط کے علاوہ بیعت کرنے والوں پر لازم کیا کہ وہ استخارہ کریں جو ایک مسنون امر ہے.وہ حجرہ جس میں آپ نے بیعت لی بعد میں دار البیعت کے نام سے موسوم ہوا اور اولاد حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ نے وہ مکان سلسلہ کو دیدیا.جماعت احمدیہ کے تبلیغی کاموں کا اور نظام جماعت کا مرکز اسے بنا دیا گیا.اور ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی.انجمن احمدیہ کا دفتر بھی وہی تھا.۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد سر دست وہ جماعت کے قبضہ میں نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم کو امید ہے کہ وہ واپس مل جائے گا وَلَوْ كَانَ بَعْدَ حِيْنِ.دار البیعت کی تعمیر کی تحریک اوّلاً حضرت سید حافظ عبدالعزیز صاحب منصوری والے کے حصہ میں آئی.ان کے لودھیانہ سے تعلقات بھی تھے وہ بڑے مخلص اور عملی انسان تھے منصوری میں ان کی بہت بڑی فرم تھی ان کا خاندان ایک دیندار خاندان تھا.منصوری میں ان کی فرم احمدیت کے لئے ایک دار التبلیغ تھی.آنے والے احمدیوں کے لئے وہ منزل گاہ یا مہمان خانہ بھی تھی.مسجد بھی تھی.

Page 40

حیات احمد ۳۷ جلد سوم حضرت سید عزیز الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ جو ہز ہائی نس مہاراجہ کپورتھلہ کے معتمدین میں سے تھے وہ حکومت میں حصہ نہ رکھتے تھے بلکہ ان کے پرسنل سٹاف میں تھے لیکن ان کی نیکی و ایمانداری کا ہر چھوٹا بڑا قائل تھا.مہاراجہ کے محلات میں تو ایک عفیف انسان تھے اور ان کو بعض اوقات بڑے بڑے امتحانات پیش آئے مگر یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ حضرت یوسف کی طرح عفیف رہے.یہ ذکر ضمنا آ گیا اور میں نے چاہا کہ پڑھنے والے اس عہد قدیم کے صحابہ کے رنگ کو اختیار کریں.غرض منصوری کی جماعت کے ایک فرد نے اس کی تحریک کی اور پھر یہ تحریک اپنی ابتدائی منزلوں سے نکل کر ایک مستقل عمارت کی صورت میں قائم ہوگئی.دار البیعت کی تاریخی حیثیت میں اگر چہ خود اس مقام اور کوچہ سے واقف ہی نہیں بلکہ ایک عارف کی حیثیت رکھتا ہوں اس لئے کہ اسی محلہ میں زندگی کے کئی سال گزارے اور اس مکان اور اس کے رہنے والوں سے ایسے تعلقات رہے کہ گویا ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں حضرت حکیم الامت ہمیشہ جب میری رفیق حیات ان کے گھر میں جاتی تو حضرت اماں جی (سیدہ صغری بیگم) کو فرماتے.صغریٰ یہ تو تمہارے ہمسائے ہیں ان کا خاص لحاظ رکھا کرو.اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیدہ صغریٰ بیگم صاحبہ نے ہمیشہ خاص التفات رکھیں.میں جب کبھی باہر سے قادیان گیا وہ ضرور تشریف لا کر احوال پرسی ہی نہ فرماتیں بلکہ کچھ تحائف از قسم ،بادام ، مصری، یا ثمرات لے کر آتیں (اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے ).یہ بھی ایک ضمنی بات آ گئی اور میں نے نہ چاہا کہ اپنے محسنوں کا ذکر نہ کروں حضرت پیر افتخار احمد صاحب اور حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہما بھی خاص شفقت کا اظہار فرماتے اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے.

Page 41

حیات احمد ۳۸ جلد سوم تو میں خود اس کے متعلق تفصیل سے لکھ سکتا تھا مگر میں نے پسند کیا کہ حضرت منشی برکت علی صاحب لائق ( جو ایک عرصہ دراز تک لودھیانہ کی جماعت کے سیکرٹری رہے ہیں ) نے دارالبیعت کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت پر ایک آرٹیکل ریویو میں لکھا تھا اس کا اقتباس دوں تا کہ وہ بھی شریک ثواب ہوں.ہاں تو میں اپنے سلسلہ کلام میں دار البیعت کی جغرافیائی اور تاریخی حیثیت کے متعلق کچھ بیان کرنے والا تھا.سو جاننا چاہئے کہ یہ جگہ لدھیانہ محلہ جدید کو چہ ڈاکٹر احمد جان (احمدی) میں واقع ہے.اور اس کوچہ کی شمالی حد کو قائم کرتی ہے، جو اپنی موجودہ شکل میں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد ایک چھوٹا سا حجرہ، دو کمروں اور ایک چھوٹے سے صحن پر مشتمل ہے.جس میں ہینڈ پمپ غسل خانہ، جائے ضرورت وغیرہ ضروری چیزیں مہیا ہیں.مسجد اور کمروں کے اند ربجلی کا ایک قمقمہ آویزاں ہے.جنوبی حصہ میں کچھ زمین صاف پڑی ہے.جو ایک فیملی کوارٹر کی تعمیری صورت میں آنے کے لئے کسی چابک دست معمار کے انتظار میں چشم براہ ہے.کمروں کے دروازے باہر کوچہ میں بھی کھلتے ہیں ، اور دوسری طرف مسجد اور صحن مسجد میں بھی.شرقی کمرہ میں لائبریری ہے اور اسی کمرہ کی مشرقی دیوار کے جنوبی کونے کے پہلو میں وہ مقدس جگہ ہے جہاں احمد قادیانی علیہ السلام نے بیٹھ کر پہلی بیعت لی تھی.لدھیانہ میں منشی احمد جان مرحوم ایک صوفی منش اور صاحب حال بزرگ ہو گزرے ہیں.یہ جگہ جو دارالبیعت کو آغوش میں لئے ہوئے ہے اور جانب جنوب اس کے ساتھ کا ملحقہ مکان دونوں صوفی صاحب مرحوم کی ملکیت میں تھے.رہائشی مکان میں وہ خود اپنے اہل و عیال کے ساتھ اقامت پذیر تھے.اور دار البیعت والی جگہ میں ان کا قائم کیا ہوالنگر خانہ جاری تھا جو بھو کے لوگوں کی شکم سیری کی خدمت ادا کرتا تھا.منشی احمد جان صاحب مرحوم کے ہاں رُشد وارشاد کا سلسلہ بھی جاری تھا.خوش اعتقاد مریدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جو عقیدت کے پھول چڑھاتے تھے.خدا نے جہاں ارادتمندوں کی

Page 42

حیات احمد ۳۹ جلد سوم ایک کثیر التعداد جماعت عطا فرمائی تھی وہاں چشم حقیقت شناس اور عرفان کی آنکھ بھی آپ کو بخشی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آپ کے دعوی سے پیشتر ہی ارادات کی لڑی میں پروئے جا چکے تھے اور آپ پر پروانوں کی طرح قربان ہونے والے لوگوں میں سے صوفی صاحب بھی آپ کے فدائی تھے.آپ ہی وہ بزرگ تھے جن کی معرفت آموز اور حقیقت شناس آنکھ نے حضرت مسیح موعود کی جھکی ہوئی پلکوں کے نیم باز آنکھوں میں اللہ تعالیٰ کی تجلی کا ایک خاص نور مسیحیت ،مہدویت اور نبوت کے دعوی سے پیشتر ہی دیکھ لیا تھا.جو زہرہ کی تابانی بن کر چمک رہا تھا.جس پر آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا تھا.ہم مریضوں کی ہے تمہیں نگاه تم مسیحا بنو خدا کے لئے حج کو جاتے وقت آپ نے حضرت اقدس کے متعلق اپنے اہل وعیال کو وصیت کی کہ اس مرد خدا کے روم روم میں خدا بول رہا ہے.یہ شخص جب بھی کوئی دعوی کرے فوراً قبول کر لو بلکہ حق تو یہ ہے کہ لدھیانہ سے جو خوش نصیب لوگ حضور کے دامن سے وابستہ ہوئے ان میں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو منشی احمد جان صاحب مغفور کے مریدان با اخلاص تھے.بہر کیف منشی صاحب مبرور تو آغاز بیعت سے پہلے ہی اپنے معبود حقیقی کی بارگاہِ عالی میں حاضر ہو کر واصلِ حق ہو چکے تھے ، مگر آپ کے پسماندگان کو اللہ تعالیٰ نے مرسل یزدانی سے تعلق بیعت جوڑنے کی توفیق عطا فرما کر اس سعادت سے بہرہ ور کیا.آخر پیر افتخار احمد اور پیر منظور محمد (مصنف قاعده يسرنا القرآن ) آپ کے صاحبزادے لدھیانہ سے ہجرت کر کے دیار محبوب میں چلے گئے.جو دورِ حاضر کے رسول کا تخت گاہ ہے.کچھ عرصہ بعد ہر دو صاحبزادگان نے منشی صاحب مرحوم و مغفور کے ورثاء کی حیثیت سے رہائشی مکان فروخت کر دیا، اور لنگر خانہ والا حصہ صدر انجمن احمد یہ قادیان کو وصیت میں دے دیا.اس وقت یہ مکان کچا تھا، اور اینٹ چونے اور سیمنٹ کے اتحاد سے بیگانہ تھا.بعد میں صدر انجمن احمد یہ قادیان نے یہ جگہ لدھیانہ کی مقامی

Page 43

حیات احمد ۴۰ جلد سوم جماعت کے سپرد کر دی، جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا کہ اس نے ۱۹۱۶ء میں اس کی ہیئت کذائی میں تبدیلی کر کے جانب شمال ایک لمبا اور ہوا دار پختہ کمرہ تعمیر کرا دیا.جس کی شمالی دیوار کی بیرونی سطح پر دار البیعت کے نام اور تاریخ بیعت ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء کا کتبہ ثبت کیا گیا.اور صحن میں پختہ اینٹوں کا کوئی بالشت بھر اونچا ایک چبوترہ اور ایک محراب بنوا کر نماز کیلئے مخصوص کر لیا.مگر جنوبی طرف کی دو پکی کوٹھڑیاں بدستور اپنی مفلسی کی داستان کو دہرا رہی تھیں.آخر ساون بھادون میں ہر سال حملہ کرنے والے بادوباراں کا مقابلہ کرتے کرتے تھک کر بیٹھ گئیں اور موج نسیم کے جھونکوں کے کھیلنے کے لئے جگہ کھلی چھوڑ دی.ایک دفعہ میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی ہیں، بیعت اولیٰ کی معینہ جگہ کے متعلق اختلاف رائے کا اظہار کیا کہ پہلی بیعت معینہ جگہ کے بالمقابل جنوبی کوٹھری میں بروئے کار آئی تھی.لیکن دیگر بیعت کنندگان کی رائے میں معینہ جگہ ہی اصلی جگہ تھی.اس اختلاف کو دور کرنے کیلئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مئی ۱۹۳۱ء میں مالیر کوٹلہ سے واپسی پر یہاں ٹھہرے اور منشی ظفر احمد صاحب مرحوم و مغفور کو کپورتھلہ سے بلایا جو پہلے روز بیعت کر نیوالوں میں شامل تھے اور جنہیں مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ منشی صاحب ہم اور آپ کوئی دو ہیں، منشی ظفر احمد صاحب نے بھی مہینہ جگہ کی تصدیق کی اور حضرت امیر المومنین اید اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے اس اختلاف کا فیصلہ فرما دیا.چند سال سے دار البیعت کا مسئلہ ایک قومی ، جماعتی اور مرکزی صورت اختیار کر گیا ہے مرکز نے جماعت میں دار البیعت کی تعمیر کیلئے چندہ کی اپیل کی مگر یہ ایک کمزور اور دھیمی آواز تھی اس پر بھی مخلصین جماعت نے تھوڑا بہت چندہ دیا اور ایک ہزار روپیہ کے قریب چندہ جمع ہو گیا.۱۹۳۹ء میں دارالخلافت کی طرف سے حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب سلمہ نے ایک چھوٹی سی مسجد کا نقشہ تیار کرایا، اور رمضان شریف میں مسجد کی بنیاد رکھدی گئی.آغاز دسمبر ۱۹۳۹ء

Page 44

حیات احمد ام جلد سوم میں ۸۰۰ روپے صرفہ سے ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی اور یہ فخر لودھیانہ کی جملہ مساجد میں سے صرف دارلبیعت کی مسجد کو حاصل ہے جو صحیح قبلہ رخ واقع ہے.بیعت کا پہلا دن جیسا کہ اوپر بیان ہوا بیعت کے لئے اور ہانہ کا مقام تجویز کیا گیا تھا اور کچھ روز پہلے آپ لود ہانہ تشریف لے آئے مگر ہوشیار پور سے شیخ مہر علی صاحب نے آپ کو ایک شادی میں شمولیت کی دعوت دی ان کے خاندان سے آپ کے خاندانی تعلقات کے علاوہ ذاتی تعلق بھی تھا جو ایک مجاہدہ کے لئے آپ نے ان کے مکان کو پسند کیا اور وہاں قیام کیا تھا اس لئے عملاً قبول دعوت کی سنت پر عمل فرمایا اور ان کی خوشی میں شریک ہو کر ان کو خوش کرنا بھی پسند کیا.چنانچہ آپ ہوشیار پور جا کر تاریخ اور یوم مقررہ بیعت سے پہلے لودہا نہ پہنچ گئے اور آخر وہ وقت آ گیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلسلہ احمدیہ کی بنیاد کے لئے مقرر ہوا تھا.اس موقعہ پر جموں ،سیالکوٹ جالندھر اور لودہانہ کے قریب وجوار اور ریاست پٹیالہ و کپورتھلہ سے اکثر احباب آچکے تھے.رجسٹر بیعت بیعت کنندگان کے اسماء کے اندراج کیلئے ایک رجسٹر تیار کیا گیا.اس پہلے دن یہ رجسٹر تیار نہیں تھا بلکہ آپ نے حکم دیا تھا کہ ہر شخص اپنا نام پتہ وغیرہ لکھ کر دیدے اور چھوٹے چھوٹے پرزوں پر ہر شخص لکھ کر دے دیتا تھا اور انہیں ایام میں کچھ دنوں کے اندر وہ رجسٹر تیار کیا گیا جس پر لکھا گیا.بیعت تو بہ برائے حصول تقویٰ وطہارتے اس رجسٹر کی تحریر مختلف ہاتھوں ا یہ رجسٹر جیسا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے حضرت میر محمد اسحاق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کاغذات میں ملا اور خود مجھے بھی حضرت میر محمد اسحاق صاحب

Page 45

حیات احمد ۴۲ جلد سوم میں رہی حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض نام لکھے اور پھر اوقات مختلفہ میں بعض لوگوں نے ان پر چوں پر سے ابتدائی بیعت کنندگان کے نام درج کئے.سب سے پہلا بیعت کرنے والا بیعت کا سلسلہ ۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۲ / مارچ ۱۸۸۹ء کو شروع ہوا جیسا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرت المہدی حصہ سوم کے صفحہ 9 پر اصل رجسٹر کے حوالے سے لکھتے ہیں مگر اصل رجسٹر کی جو نقل میرے پاس ہے اس میں ٢٣ / مارچ درج ہے اور بقیہ حاشیہ نے بتایا کہ تمہارا نام اس رجسٹر میں درج ہے.میں نے اس رجسٹر کی نقل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں سے حاصل کی اور وہ میرے پاس ہے اس رجسٹر کے متعلق میں یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جیسا کہ خود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا اور جیسا کہ خود رجسٹر سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے سوا بعض دوسرے آدمیوں کے ہاتھوں کے اندراج بھی ہیں اور یہ امر واقعہ ہے اور جو ترتیب اس رجسٹر میں موجود الوقت ہے وہ ترتیب صحیح نہیں.بعض اولاً بیعت کرنے والوں کے نام بہت پیچھے لکھے گئے ہیں جیسا کہ حضرت منشی اروڑے خاں صاحب کی بیعت تو نمبر ۲۶ پر ہوئی اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور حضرت منشی محمد خان صاحب اور حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہم نمبر ۵۷ - ۵۸ - ۵۹ پر دوسرے دن چلے گئے.حالانکہ یہ سب قافلہ وقت واحد میں موجود تھا.جہاں تک مجھے یاد ہے سب سے اوّل جماعت کپورتھلہ میں سے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی بیعت ہوئی لیکن اگر حضرت منشی اروڑے خاں صاحب کی بھی ہوئی تو بھی ان لوگوں کی بیعت اسی دن ہوئی اس کی وجہ یہی ہے کہ دستخطی پر چیاں کسی ترتیب سے نہ رکھی جاتی تھیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی بیعت کے متعلق حضرت پیر سراج الحق صاحب اسی دن کی بیعت کا انکار کرتے ہیں گوان کی بیعت اسی دن کی ہے.میرا یہ بھی خیال ہے کہ اس میں بعض نام رہ گئے ہیں اور اس کی وجہ وہی پرچیوں کے ادھر ادھر ہونے کی ہو سکتی ہے ترتیب سے رکھی نہ گئی تھیں چنانچہ میں نے انہیں ایام میں بیعت کی تھی گو پہلے دن نہیں کی تھی مگر میرا نام اس بیعت میں نہیں میری دوسری بیعت میں ہے جو میں نے لاہور میں کی تھی اس لئے کہ اس اثناء میں مسیح موعود (اس وقت مثیل مسیح) کے متعلق شرح صدر نہ ہوا تھا

Page 46

حیات احمد ۴۳ جلد سوم حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی روایت نمبر ۹۶ کے موافق بھی ۲۰/ رجب مطابق ۲۳ مارچ تاریخ بیعت کا آغاز ہوتا ہے اور ۲۳ / مارچ کو شنبہ کا دن تھا ۱۹ ؍ر جب صحیح تاریخ نہیں.بہر حال سب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں حضرت مولا نا مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ تھے جو اسی مقصد کے لئے جموں سے (جہاں وہ شاہی طبیب تھے ) تشریف لائے تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب باوجود یکہ اہل حدیث تھے مگر انہوں نے اپنے سفر حجاز بقیہ حاشیہ.جس کا میں نے بارہا ذکر کیا ہے مگر انکار نہیں کیا تھا اس لیے دوبارہ فتح اسلام پڑھ کر بیعت کی اور آپ کے لاہور آنے سے پیشتر میں انارکلی میں مباحثات کیا کرتا تھا اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اس وقت مدرسہ نعمانیہ میں پڑھتے تھے اور لودہانہ کے قیام کے زمانہ کے احباب حضرت بقا پوری زندہ ہیں (اللہ ان کی عمر میں برکت دے) لودہانہ کی جماعت کے اکابر جانتے تھے جو یکے بعد دیگرے رخصت ہو گئے.میں یہ واقعہ اس لئے نہیں لکھا کہ کوئی خاص مقصد ہے.اسی طرح پر ترتیب کے متعلق یہ قیاس نہیں ہوسکتا کہ وہ صحیح ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ المہدی جلد دوم میں روایت شائع کی ہے کہ انہوں نے اس وقت بیعت نہ کی تھی.یہ صحیح نہیں خود اسی رجسٹر میں نمبر 43 پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا نام یوم اوّل میں درج ہے اور میاں الہ دین اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اسماء ترتیب کے لحاظ سے نمبر 12 کے بعد آتے ہیں.خود حضرت میر عنایت علی صاحب رضی اللہ عنہ کی بیعت نمبر 9 پر ہوئی لیکن رجسٹر میں 12 پر درج ہے میں اس غلط فہمی کو رفع کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس دستاویز کو تاریخی اہمیت دیتا ہوں لیکن اس کی ترتیب کو اس حد تک جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اندراج ہے صحیح یقین کرتا ہوں باقی ترتیب اسماء قابل توجہ ہے خود حضرت منشی عبداللہ صاحب کا بیان ہے کہ میری بیعت نمبر 2 پر تھی مگر رجسٹر میں نمبر 11 پر ہے یہ سب امور میرے نظریہ کے مؤید ہیں.میں دوسروں کا ذکر نہیں کرتا لیکن اس وقت تک میں جماعت کپورتھلہ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور چوہدری رستم علی صاحب اور بعض دوسرے احباب سے بخوبی واقف ہو چکا تھا اور لودھیانہ کے احباب تو پہلے ہی سے واقف تھے خود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی ترتیب کے متعلق مطمئن نہیں جیسا کہ روایت 35 کے آخر میں انہوں نے لکھا ہے.(عرفانی الكبير )

Page 47

حیات احمد ۴۴ جلد سوم میں حضرت شاہ عبدالغنی صاحب سے بیع کی ہوئی تھی.اس بیعت کے متعلق حضرت مولوی عبداللہ سنوری رضی اللہ عنہ کی روایت جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ المہدی جلد اوّل نمبر ۹۸ پر لکھی ہے.ہے اس بیعت کا حال خود آپ کی زبان اور الفاظ میں سنو.مدینہ طیبہ جانے میں چونکہ میں نے حضرت شاہ عبدالغنی صاحب سے ہی پہلے مشورہ لیا تھا.اس لئے میں انہیں کی خدمت میں سب سے پہلے حاضر ہوا.انہوں نے ایک علیحدہ حجرہ رہنے کے لئے واسطے مجھے عطا کیا.میں وہاں صرف رہتا تھا.سبق کسی سے نہیں پڑھا کرتا تھا نہ شاہ صاحب سے.پھر میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرلوں.مکان پر تو میرا ایسا خیال ہوتا تھا لیکن جب ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو خیال کرتا تھا کہ کیا فائدہ ان کے پاس جا کر عجیب عجیب خیال اٹھتے تھے، کبھی یہ سوچتا تھا کہ حلال وحرام اور امر و نواہی قرآن کریم میں موجود ہی ہیں.ان لوگوں سے کیا سیکھنا.اگر حُسنِ اعتقاد سے نفع ہے تو مجھ کو ان سے ویسے ہی بہت عقیدت ہے پھر اپنی جگہ جا کر یہ بھی خیال کرتا تھا کہ ہزار ہا لوگ جو بیعت اختیار کرتے ہیں اگر اس میں نفع نہیں تو اس قدر مخلوق کیوں مبتلا ہے.غرض کہ میں اسی سوچ و بچار میں بہت دنوں پڑا رہا.فرصت کے وقت ایک کتب خانہ مسجد نبوی کے جنوب مشرق میں تھا وہاں جا کر ا کثر بیٹھتا اور کتابیں دیکھا کرتا تھا بہت دنوں کے بعد آخر میں نے پختہ ارادہ کیا کہ کم سے کم بیعت کر کے تو دیکھیں اس میں فائدہ کیا ہے؟ اگر کچھ فائدہ نہ ہوا تو پھر چھوڑنے کا اختیار ہے.لیکن جب میں خدمت میں حاضر ہوا اور خیال آیا کہ ایک شریف آدمی ایک معاہدہ کر کے چھوڑ دے تو یہ بھی ایک حماقت ہی ہے.پہلے ہی سے اس بات کو سوچ لینا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ پھر چھوڑ دے.آخر ایک دن میں خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کیا کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کہ استخارہ کرو.میں نے عرض کیا کہ میں نے تو بہت کچھ استخارہ اور فکر کیا ہے لیکن شاہ صاحب نے جونہی اپنا ہاتھ بیعت لینے کیلئے بڑھایا.میرے دل میں بڑی مضبوطی سے یہ بات آئی کہ معاہدہ قبل از تحقیقات؟ یہ کیا بات ہے؟ اس لئے باوجود یکہ حضرت شاہ صاحب نے ہاتھ بڑھایا تھا میں نے اپنے دونوں ہاتھ کھینچ لئے مربع بیٹھ گیا اور عرض کیا بیعت سے کیا فائدہ؟ آپ نے فرمایا سمعی کشفی گردد و دید بشنید مبدل گردد

Page 48

حیات احمد ۴۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت صاحب نے پہلے دن لدھیانہ میں بیعت لی تو اس وقت آپ ایک کمرہ میں بیٹھ گئے تھے اور دروازہ پر شیخ حامد علی صاحب کو مقرر کر دیا تھا.اور شیخ حامد علی کو کہہ دیا تھا کہ جسے میں کہتا جاؤں اسے کمرہ میں اندر بلاتے جاؤ.چنانچہ آپ نے پہلے حضرت خلیفہ اول کو بلوایا، اُن کے بعد میر عباس علی کو پھر میاں محمد حسین مراد آبادی بقیہ حاشیہ.اور یہ وہ جواب ہے جو نجم الدین کبرکی نے دیا ہے پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھا دئے.لیکن اس وقت آپ نے اپنے ہاتھ کو ذرا پیچھے ہٹالیا اور فرمایا تمہیں وہ حدیث یاد ہے جس میں ایک صحابی نے درخواست کی تھی کہ اَسْئَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ میں نے عرض کیا خوب یاد ہے آپ نے فرمایا اس امر کے لئے تم کو اگر اصول اسلام سیکھنے ہوں تو کم سے کم چھ مہینے میرے پاس رہنا ہوگا اور اگر فروع اسلام سیکھنے ہیں تو ایک برس رہنا ہو گا.تب میں نے پھر اور بھی جب ہاتھ بڑھایا تو آپ نے میری بیعت لی اور فرمایا کہ کوئی مجاہدہ سوائے اس کے کہ آپ کو نہیں بتاتے کہ ہر وقت آپ آیت وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ پر توجہ رکھیں.پھر وَاللَّهُ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی نسبت ایسا ہی فرمایا.اس توجہ میں میں نے بار ہا حضرت نبی کریم کو دیکھا اور اپنی بعض غفلتوں اور سستیوں کے نتائج کا مشاہدہ کیا چھ مہینہ کے اندر اندر آپ کا وہ وعدہ میرے حق میں بہر حال پورا ہو گیا.جَزَاهُ اللَّهُ عَنِّى أَحْسَنَ الْجَزَاء آپ بڑے محتاط تھے اور آپ کی نظر دینی علوم میں بڑی وسیع تھی.بہت قلیل الکلام تھے.مثنوی ، ترمذی، بخاری، رسالہ قشیریہ، یہ چار چیزیں آپ کے درس میں ہوتی تھیں.آپ کے کھانے پینے کے عجائبات میں سے ایک یہ بات ہے کہ ہمارے یہاں قادیان میں جوا کبر خاں سنوری حضرت مسیح موعود کے مرید اور خاص خادم رہتے ہیں ان کے ایک حقیقی بھائی ولیداد خاں صاحب تھے جو مدینہ منورہ میں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں اسی طرح رہتے تھے.اُن کو ایک دفعہ گیہوں خریدنے کے لئے بھیجا.وہ نہایت عمدہ گیہوں جس میں جو کا ایک دانہ بھی نہ تھا لائے.ولیداد خاں کو تو کچھ نہ فرمایا لیکن آئندہ بازار کا سودا ان کی معرفت منگوانا بند کر دیا.ولی داد خان چونکہ منجملہ بڑے احباب کے تھے بہت گھبرائے آخر ایک شخص کو پھر گیہوں خریدنے کے لئے بھیجا.اُس شخص نے وہ روپیہ جو گیہوں خریدنے کا تھا.ولید داد کو دیا اور کہا کہ مسلم کتاب الصلاة، باب فضل السجود والحث عليه ۲ : ۱۷

Page 49

حیات احمد ۴۶ جلد سوم خوشنویس کو اور چوتھے نمبر پر مجھ کو.اور پھر ایک یا دو اور لوگوں کے نام لے کر اندر بلایا.پھر اس کے بعد شیخ حامد علی کو کہہ دیا کہ خود ایک ایک آدمی کو اندرداخل کرتے جاؤ.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں حضور ایک ایک کی الگ الگ بیعت لیتے تھے لیکن پھر بعد میں اکٹھی لینے لگ گئے.اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ پہلے دن جب آپ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰ ؍رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء تھی.اور اس وقت بیعت کے الفاظ یہ تھے.”آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے ان تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے تو بہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور بقیہ حاشیہ.اب کی دفعہ جو گیہوں حضرت صاحب کے واسطے لاؤ تو اُس میں بہت سے جو ملے ہوئے ہوں.چنانچہ وہ گیہوں لائے جس میں بہت ہی جو ملے ہوئے تھے.خوش ہو کر فرمانے لگے کہ یہ گیہوں کون لایا ہے اس شخص نے سفارش کے طور پر کہا کہ ولیداد خان لائے ہیں فرمانے لگے کہ اب اُن کو عقل آ گئی ہے.لہذا آئندہ وہی لایا کریں.ایک دفعہ مذاہب کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا: - اَشْهَرُ الْمَذْهَبِ أَبِي حَنِيْفَةَ وَأَوْسَعُ الْمَذَاهِبِ مَذْهَبُ مَالِكٍ وَاقْوَلُ الْمَذَاهِبِ مَذْهَبُ الشَّافِعِيْ وَأَحْوَطُ الْمَذَاهِبِ مَذْهَبُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَل.آپ کو میں نے نہایت ہی وسیع الخلق پایا.اور کم کلامی میں تو مجھ کو تجب ہی آتا تھا.وہاں آپ کے مکان میں ہر روز ختم ہوتا تھا.اور بعض مریدین انیس ہزار دفعہ لا الہ الا اللہ ہر روز پڑھتے تھے.ایک شخص نے شکایت کی کہ نورالدین اتنی محنت نہیں کرتا.نیز امام کے پیچھے الحمد پڑھتا ہے اور رفع یدین کا قائل ہے آپ نے فرمایا کہ آپ ایک ایسی چُھری لائیں جو رفع یدین اور فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ کو بخاری میں سے کاٹ سکے اور انیس ہزار بار لا اله الا اللہ پڑنے کی کوئی سند ہے تو وہ نورالدین کو دکھلائی جاوے.اگر وہ صحیح ہوگی تو وہ مان لے گا.اس پر ہمارے سب پیر بھائی بالکل خاموش ہو گئے ،، مرقات الیقین فی حیاة نورالدین میں یہ واقعہ زیر عنوان مدینہ طیبہ دیا گیا.

Page 50

حیات احمد ۴۷ جلد سوم نفس کی لذات پر مقدم رکھوں گا.اور ۱۲ / جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کار بند رہوں گا.اور اب بھی اپنے گزشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں.اسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاتُوْبُ إِلَيْهِ أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ.رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِيْ ذَنْبِيْ فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ “.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مصافحہ کے طریق پر بیعت کنندگان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے تھے لیکن بعض لوگوں سے آپ نے پنجہ کے اوپر کلائی پر سے بھی ہاتھ پکڑ کر بیعت لی ہے چنانچہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میری بیعت آپ نے اسی طرح لی تھی.سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۷۰، اے مطبوعہ ۲۰۰۸ء) پہلے دن کے مبایعین کی ترتیب میں اختلاف پہلے دن کی بیعت کے متعلق مبایعین کی ترتیب کے بارے میں کچھ اختلاف ہے اور یہ اختلاف اس رجسٹر کے پہلے آٹھ ناموں کی فہرست کے ضائع ہو جانے کی وجہ سے ہوا.پہلے اور دوسرے نام کے متعلق تو کوئی اختلاف نہیں پہلے بیعت حضرت مولوی نورالدین صاحب نے کی اور دوسرے نمبر پر میر عباس علی صاحب نے ( جو دعویٰ مسیح موعود کے وقت مرتد ہو گئے ) اس کے بعد کی ترتیب میں اختلاف ہوا ہے.حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری نے اپنی روایت میں جو اوپر درج ہوئی ہے نمبر ۳ پر میاں محمد حسین مراد آبادی کا نام لیا ہے اور چوتھے نمبر پر اپنے نام کا اظہار کرتے ہیں اور حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب روایت نمبر ۳۰۹ میں تیسرے نمبر پر حضرت قاضی خواجہ علی رضی اللہ عنہ کا نام لیتے ہیں.حضرت میر عنایت علی صاحب جو میر عباس علی صاحب کے بھتیجے اور داماد تھے اور آخر وقت تک نہایت مخلص متقی احمدی رہے ا

Page 51

حیات احمد ۴۸ جلد سوم ان کا بیان جو روایت نمبر ۳۱۵ میں درج ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے میر عباس علی صاحب نے حضرت قاضی خواجہ علی صاحب کو بلالا نے بھیج دیا ورنہ تیسرے نمبر پر میں ہی جاتا ان کی واپسی تک ے آدمی بیعت کر چکے تھے اور آٹھویں نمبر پر حضرت قاضی خواجہ علی صاحب اور نویں نمبر پر حضرت میر عنایت علی صاحب.اس امر کے ذرا بھی احتمال کے بغیر کہ نعوذ باللہ اس نے یا اُس نے غلط کہا میں اسے صرف حافظہ میں ترتیب کو محوظ نہ رکھنے کا نتیجہ قرار دیتا ہوں میرے اپنے علم کے موافق کہ میں خود موجود تھا حضرت میر عنایت علی صاحب کا بیان صحیح ہے روایت نمبر ۳۱۵ حسب ذیل ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت صاحب کو بیعت لینے کا حکم آیا تو سب سے پہلی دفعہ لدھیانہ میں بیعت ہوئی.ایک رجسٹر بیعت کنندگان تیار کیا گیا جس کی پیشانی پر لکھا گیا بیعت تو بہ برائے حصول تقوی وطہارت اور نام معه ولدیت وسکونت لکھے جاتے تھے اوّل نمبر پر حضرت مولوی نور الدین صاحب بیعت میں داخل ہوئے.دوئم میر عباس علی صاحب ان کے بعد شائد خاکسار ہی سوئم نمبر پر جاتا لیکن میر عباس علی صاحب نے مجھے کو قاضی خواجہ علی صاحب کو بلانے کے لئے بھیج دیا کہ ان کو بلا لاؤ.غرض ہمارے دونوں کے آتے آتے سات آدمی بیعت میں داخل ہو گئے ان کے بعد نمبر آٹھ پر قاضی صاحب بیعت میں داخل ہوئے اور نمبر نو میں خاکسار داخل ہوا.پھر حضرت نے فرمایا کہ شاہ صاحب اور کسی بیعت کرنے والے کو اندر بھیج دیں.چنانچہ میں نے چودہری رستم علی صاحب کو اند رداخل کر دیا.اور دسویں نمبر پر وہ بیعت ہو گئے.اس طرح ایک ایک آدمی باری باری اندر جاتا تھا اور دروازہ بند کر دیا جاتا تھا خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیعت اولی میں بیعت کرنے والوں کی ترتیب کے متعلق روایات میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے جو یا تو کسی راوی

Page 52

حیات احمد ۴۹ جلد سوم کے نسیان کی وجہ سے ہے اور یا یہ بات ہے کہ جس نے جو حصہ دیکھا اس کے مطابق بیان کر دی ہے.( سیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۹۳ روایت نمبر ۳۱۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء) آٹھویں اور نویں نمبر میں تو اختلاف ہی نہیں.تیسرے نمبر پر میاں محمد حسین صاحب مراد آبادی کا ہی نام تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کو ایک عاشقانہ اخلاص تھا اور براہین احمدیہ کی طباعت کے وقت سے ان کو ارادت تھی.چوتھی جلد اُن کے اہتمام سے طبع ہوئی.وہ اعلیٰ درجہ کے خوشنویس تھے اور ریاست پٹیالہ میں آخر میں ملازم تھے اور چوتھے نمبر پر حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری پانچویں نمبر پر مولوی عبداللہ صاحب ساکن تنگی علاقہ چارسدہ تھے یہ بڑے مرتاض اور عابد، زاہد انسان تھے ان کے چہرے سے سعادت اور نور ولایت نمایاں تھا.ہے.پہلا احمدی جس کو حضرت نے بیعت لینے کی اجازت دی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں یہ پہلا شخص تھا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ وَالسَّلام نے دوسروں سے بیعت لینے کی اجازت دی اور اس طرح پر عملاً ان کے ہاتھ کو گویا اپنا ہاتھ قرار دیا.اس خصوص میں حضرت مولوی عبداللہ صاحب رضی اللہ عنہ کو ایک گونہ فضیلت حاصل انہوں نے ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت کی اور ۲۹ / اپریل ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس نے ان کو اجازت بیعت دی.میں نے اس مکتوب کو اَلْحَمْدُ لِلہ الحکم کے خاص نمبر میں جو ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا درج کر دیا تھا.اب اس تاریخی دستاویز کو یہاں درج کر کے محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک زمانہ دراز تک لوگوں کی بیعت نہیں لی اور جب کبھی کوئی شخص بیعت کیلئے عرض کرتا تو آپ یہی فرماتے تھے کہ مجھے حکم نہیں یا میں مامور نہیں لیکن جب خدا تعالیٰ نے آپ کو بیعت لینے پر مامور فرمایا تو آپ نے ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء مطابق

Page 53

حیات احمد جلد سوم ۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ کو لودہانہ میں بیعت لی.یہ بیعت حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے ایک مکان میں ہوئی جو اس وقت دار البیعت کے نام سے جماعت اور ہانہ کے قبضہ میں ہے.اس بیعت کے بعد سب سے پہلا آدمی جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کی اجازت دی وہ مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب ولد ابوعبداللہ احمد قوم افغان سکنہ تنگی تحصیل چارسدہ ضلع پشاور ہیں.افسوس ہے کہ آج ان کے تفصیلی حالات سے واقف نہیں تا ہم میں اس کوشش اور فکر میں ہوں کہ ان کے حالات معلوم ہوسکیں مکرم صاحبزادہ سراج الحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مولوی ابوالخیر صاحب کو دیکھا تھا تمیں پینش سال کے خوشرو نوجوان تھے.میانہ قد تھا ذی علم اور متقی انسان تھے.ان کے چہرے سے رشد اور سعادت کے آثار نمایاں تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جوا جازت نامہ مولانا ابولخیر عبداللہ صاحب کو لکھ کر دیا تھا.وہ تاریخ بیعت سے پورے ایک ماہ چھ دن بعد لکھا یعنی ۲۹ را پریل ۱۸۸۹ء مطابق ۲۸/شعبان ۱۳۰۶ھ.اجازت نامہ مذکور یہ ہے عرفانی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى.اما بعد از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مولوی ابوالخیر عبدالله پشاوری بعد از السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ واضح باد چونکہ اکثر حق کے طالب کہ جو اس عاجز سے بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بوجہ ناداری وسفر دور دراز یا بوجه کم فرصتی و مزاحمت تعلقات قادیان میں بیعت کے لئے پہنچ نہیں سکتے اس لئے با تباع سنت حضرت مولانا وسید نا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ایسے معذور و مجبور لوگوں کی بیعت ان سعید لوگوں کے ذریعہ سے لیجائے کہ جو اس عاجز کے ہاتھ پر

Page 54

حیات احمد ۵۱ جلد سوم بیعت کر چکے ہیں سو چونکہ آپ بھی شرف اس بیعت سے مشرف ہیں اور جہاں تک فراست حکم دیتی ہے رشد اور دیانت رکھتے ہیں اس لئے وکالتاً اخذ بیعت کے لئے آپ کو یہ اجازت نامہ دیا جاتا ہے کہ آپ میری طرف سے وکیل ہو کر اپنے ہاتھ سے بندگانِ خدا سے جو طالب حق ہوں بیعت لیں مگر انہیں کو اس سلسلہ بیعت میں داخل کریں جو سچے دل سے اپنے معاصی سے توبہ کرنے والے اور اتباع طریقہ نبویہ کے لئے مستعد ہوں اور ان کے لئے دلی تضرع سے دعا کریں اور پھر نام ان کے بقید ولدیت و سکونت و پیشہ وغیرہ اس تصریح سے کہ اصل سکونت کہاں ہے اور کس محلہ میں اور عارضی طور پر کہاں ہیں بھیج دیں تا یہ عاجز اُن کے لئے دعا کرنے کا موقعہ پاتا رہے اور پورے تعارف سے وہ یا در ہیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى راقم احقر عباداللہ الصمد غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب.اٹھائیس شعبان ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۹ را پریل ۱۸۸۹ ء روز دوشنبه نشان مهر أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ مکرمی اخویم ڈاکٹر فیض محمد خاں صاحب کو السلام علیکم پہنچا دیں.اور ہر ایک صاحب جو بیعت کریں مناسب ہے کہ وہ براہ راست بھی اپنا اطلاعی خط بھیج دیں.سَابِقُونَ الْأَوَّلُون اس وقت بیعت کرنے والے بلحاظ بیعت زبانی حیثیت سے تو سب سابقون الا ولون ہیں اور پھر اپنے نمبر بیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے پر سابق ہے لیکن میں اپنے نقطہ خیال سے ان صحابہ کا مقام بہت اعلیٰ یقین کرتا ہوں جو اس مقصد کے لئے سفر کی تکالیف برداشت کر کے لودہانہ آئے اس وقت ریل کے سفر میں بھی ایسی سہولتیں نہ تھیں جو آج میسر ہیں اور بعض ایسے لوگ تھے کہ جو اپنی معاشی حالت کے لحاظ سے غریب کہے جا سکتے ہیں مگر ان کی اس غریبی پر ہزاروں دولتیں شار ہیں اس لئے کہ وہ ان غربا میں داخل ہیں جن کے لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.

Page 55

حیات احمد فَطُوبَى لِلْغُرْبَاءِ ۵۲ جلد سوم لودہانہ کے دوستوں کے لئے تو گھر کا ہی معاملہ تھا پھر پٹیالہ کے احباب بھی بہت دور نہ تھے مگر جموں ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ، جالندھر اور پشاور سے آنے والے احباب صد ہزار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس نعمت سے نوازا.کپورتھلہ کی جماعت کے چار بزرگ تھے اور یہ سب کے سب اہلِ قلم تھے مگر جز معاش.اس زمانہ میں تنخواہیں بہت ہی کم تھیں.ضلع گوجرانوالہ سے آنے والے حضرت قاضی ضیاءالدین صاحب رضی اللہ عنہ جو کوٹ قاضی کے رہنے والے تھے یہ وہ بزرگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے عشق و محبت میں ایک گداز روح رکھتے تھے اور انہوں نے ۱۸۸۳ء میں قادیان آ کر ملاقات کی تھی اور وہ مئے محبت میں ایسے سرشار ہوئے کہ انہوں نے اپنے اس جذ بہ محبت کا اظہار مسجد اقصیٰ کی ایک دیوار پر یہ شعر کہہ کر کیا.- حسن و خلق و دلبری بر تو تمام صحبت بعد از لقائے تو حرام عرصہ دراز تک یہ شعر پہلے محراب کے جنوبی پہلو پر لکھا ہوا تھا.غرض زیادہ تعداد تو ریاست پٹیالہ اور لودہانہ ہی کے علاقہ کے تھی.ایک ہندو نومسلم بیعت کرنے والوں میں ایک شخص رام سنگھ نامی تھے وہ نومسلم تھے اور ان کا نام شیخ عبدالعزیز رکھا گیا تھا لیکن حضرت اقدس نے بیعت کے بعد اس کا نام رام سنگھ قائم ނ رہنے دیا.ایک مرتبہ ایک بنگالی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین رضی اللہ عنہ کی تحریک احمدی ہوا اس کا نام چڑ جی تھا.وہ قادیان آیا اور اسلام قبول کر کے بیعت کی حضرت نے اس کے نام چڑ جی کو قائم رکھا.ہلی تر جمہ.آپ کمال درجہ کے حسین، خلیق اور دلبر ہیں آپ کی ملاقات کے بعد کسی اور کی صحبت میں جانا حرام ہے.

Page 56

حیات احمد سفر علی گڑھ ۵۳ جلد سوم آخر مارچ ۱۸۸۹ء تک آپ لو ر ہا نہ میں قیام پذیر رہے اپریل کے شروع میں آپ نے ایک مختصر سا سفر علی گڑھ کا کیا.اس سفر کی تقریب یہ تھی کہ مولوی سید تفضل حسین صاحب جو خاص اٹاوہ کے باشندے تھے.زمانہ براہین احمدیہ سے حضرت اقدس کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے.چنانچہ اٹاوہ کی جماعت کے آدم وہی ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں حضرت شیخ مولوی حکیم صادق حسین سلسلہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے شاندار کام کیا.ان ایام میں وہ علی گڑھ میں کلکٹری کے سرشتہ دار تھے.انہوں نے کئی مرتبہ حضرت کی خدمت میں تشریف لانے کے لئے لکھا تھا اس موقعہ پر حضرت نے ان کی دعوت قبول کر لی اور علی گڑھ کا سفر اختیار کیا اس سفر میں آپ کے ہمراہ صرف میر عباس علی صاحب حضرت حافظ حامد علی صاحب اور حضرت مولوی عبد اللہ صاحب سنوری تھے.اس سفر کے متعلق میں حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحب کی روایت درج کر چکا ہوں.حضرت مسیح علیہ السلام کا اپنا بیان اس وقت تک اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہی مل کر نمازیں پڑھی جاتی تھیں بے دین پیشہ ور مولویوں کو آپ سے ایک کد شروع ہو چکی تھی اس کی ابتداء تو لودہانہ کے برادران ثلاثہ سے ہوئی تھی لیکن جوں جوں سلسلہ ترقی کر رہا تھا مخالفت اپنا رنگ بدلتی جا رہی تھی اور وسعت اختیار کر رہی تھی.علی گڑھ کے مولوی اسماعیل صاحب اس موقعہ کی تلاش میں تھے کہ مخالفت کے لئے کوئی حیلہ ہاتھ آئے چنانچہ ان کی شامت اعمال نے سامان پیدا کر دیا.جمعہ کی نماز کے بعد حضرت اقدس کی تقریر کے لئے قبل از وقت تجویز ہوئی اور حضرت نے منظور کر لیا لیکن تقریر سے پیشتر حضرت اقدس نے با علام الہی تقریر کرنے سے انکار کر دیا اس پر مولوی اسمعیل صاحب کو ایک بہانہ ہاتھ آیا اور انہوں نے بعد جمعہ مخالفت میں ایک تقریر کر ڈالی

Page 57

حیات احمد ۵۴ جلد سوم اور اسے چھاپ کر شائع کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اس کے واقعات اور اعتراضات کا جواب فتح اسلام میں دیا ہے جو حقائق کا مظہر ہے اسے میں یہاں پورا درج کرتا ہوں اس لئے کہ اس میں حضرت نے دعوت مباہلہ دی ہے اور اس کے بعد مولوی اسماعیل اس مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہوکر سلسلہ کی صداقت کا ایک نشان ٹھہرا.آپ فرماتے ہیں کہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا بیان ایک دفعہ مجھے علی گڑھ میں جانے کا اتفاق ہوا اور مرض ضعف دماغ کی وجہ سے جس کا قادیان میں بھی کچھ مدت پہلے دورہ ہو چکا تھا میں اس لائق نہیں تھا کہ زیادہ گفتگو یا اور کوئی دماغی محنت کا کام کر سکتا اور ابھی میری یہی حالت ہے کہ میں زیادہ بات کرنے یا حد سے زیادہ فکر اور خوض کی طاقت نہیں رکھتا اس حالت میں علی گڑھ کے ایک مولوی صاحب محمد اسماعیل نام مجھ سے ملے اور انہوں نے نہایت انکساری سے وعظ کے لئے درخواست کی اور کہا کہ لوگ مدت سے آپ کے شایق ہیں بہتر ہے کہ سب لوگ ایک مکان میں جمع ہوں اور آپ کچھ وعظ فرما دیں چونکہ مجھے ہمیشہ سے یہی عشق اور یہی دلی خواہش ہے کہ حق باتوں کو لوگوں پر ظاہر کروں اس لئے میں نے اس درخواست کو بشوق دل قبول کیا اور چاہا کہ لوگوں کے عام مجمع میں اسلام کی حقیقت بیان کروں کہ اسلام کیا چیز ہے اور اب لوگ اُس کو کیا سمجھ رہے ہیں اور مولوی صاحب کو کہا بھی گیا کہ انشاء اللہ اسلام کی حقیقت بیان کی جائے گی لیکن بعد اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روکا گیا مجھے یقین ہے کہ چونکہ میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ زیادہ مغز خواری کر کے کسی جسمانی بلا میں پڑوں اس لئے اس نے وعظ کرنے سے مجھے روک دیا.ایک دفعہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی اتفاق ہوا تھا کہ میری ضعف کی حالت میں ایک نبی

Page 58

حیات احمد ۵۵ جلد سوم گزشتہ نبیوں میں سے کشفی طور پر مجھ کو ملے اور مجھے بطور ہمدردی اور نصیحت کے کہا کہ اس قدر دماغی محنت کیوں کرتے ہو اس سے تو تم بیمار ہو جاؤ گے.بہر حال خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک روک تھی جس کا مولوی صاحب کی خدمت میں عذر کر دیا گیا اور یہ غذ ر واقعی سچا تھا جن لوگوں نے میری اس بیماری کے سخت سخت دورے دیکھے ہیں اور کثرت گفتگو یا خوض و فکر کے بعد بہت جلد اس بیماری کا برانگیختہ ہونا بچشم خود مشاہدہ کیا ہے وہ اگر چہ باعث نا واقفیت میرے الہامات پر یقین نہ رکھتے ہوں لیکن اُن کو اس بات پر بکلی یقین ہو گا کہ مجھے فی الواقعہ یہی مرض لاحق حال ہے ڈاکٹر محمد حسین خاں صاحب کے جو لاہور کے آنریری مجسٹریٹ بھی ہیں اور اب تک میرا علاج کرتے ہیں ان کی طرف سے ہمیشہ یہی تاکید ہے کہ دماغی محنتوں سے تا قیام مرض بچنا چاہئے اور ڈاکٹر صاحب موصوف میری اس حالت کے شاہد اوّل ہیں اور میرے اکثر دوست جیسے اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کے طبیب ریاست جموں جو ہمیشہ میری ہمدردی میں بدل و جان و مال مشغول ہیں اور منشی عبدالحق صاحب سے اکو نٹنٹ جو خاص لاہور میں سکونت اور تعلق ملازمت رکھتے ہیں جنہوں نے میری اس بیماری کی دنوں میں خدمت کا وہ حق ادا کیا جس کا بیان میری طاقت سے باہر ہے یہ سب میرے مخلص میری اس حالت کے گواہ ہیں مگر افسوس کہ باوجود یکہ ہر ایک مومن حسن ظن کے لئے مامور ہے مولوی صاحب نے میرے اس غذر کو نیک ظنی سے دل میں جگہ نہیں دی بلکہ غایت درجہ کی بدگمانی کر کے دروغ گوئی پر حمل کیا.چنانچہ ان کی ساری وہ تقریر جس کو ایک ڈاکٹر جمال الدین نام اُن کے دوست نے ان کی اجازت سے تحریر کر کے لوگوں میں پھیلا یا ذیل میں معہ اُس کے جواب کے لکھتا ہوں.قولہ میں نے ان سے ( یعنی اس عاجز سے بمقام علی گڑھ ) کہا کہ کل جمعہ ہے ، نوٹ.جن حضرات کا ذکر اے سے ہے میں ہے وہ اب فوت ہو چکے ہیں.عرفانی الکبیر

Page 59

حیات احمد ۵۶ وعظ فرمائیے.اس کا اُنہوں نے وعدہ بھی کیا.مگر صبح کو رقعہ آیا کہ میں بذریعہ الہام وعظ کہنے سے منع کیا گیا.میرا خیال ہے کہ بہ سبب عجز بیانی وخوف امتحانی انکار کر دیا.اقول مولوی صاحب کا یہ خیال بجز بدگمانی کے جو سخت ممنوعات شرعیہ میں سے ہے اور نیک سرشت آدمیوں کا کام نہیں اور کوئی اصلیت اور حقیقت نہیں رکھتا اگر میں صرف علی گڑھ میں آکر خاص اسی موقعہ پر الہام کا مدعی بنتا تو بیشک بدظنی کرنے کیلئے ایک وجہ ہو سکتی تھی اور بیشک خیال کیا جا سکتا تھا کہ میں مولوی صاحب کے علمی مرتبہ کی علوشان دیکھ کر اور اُن کے کمالات کی عظمت اور ہیبت سے متاثر ہو کر گبھرا گیا اور عذر پیش کرنے اور ایک حیلہ تراشنے سے اپنا پیچھا چھوڑا یا.لیکن میں تو اس دعویٰ الہام کو علی گڑھ کے سفر سے چھ سات سال پہلے تمام ملک میں شائع کر چکا ہوں.اور براہین احمدیہ کے اکثر مقامات اُس سے پُر ہیں.اگر میں تقریر کرنے سے عاجز ہوتا تو وہ کتابیں جو میری طرف سے تقریری طور پر عین مجلس میں اور ہزار ہا موافقین اور مخالفین کے جلسہ میں قلمبند ہو کر شائع ہوئی ہیں جیسے سرمہ چشم آریہ وہ کیونکر میری ایسی ضیعف قوت ناطقہ سے نکل سکتی تھیں.اور کیونکر یہ میرا عالیشان سلسلہ زبانی تقریروں کا جس میں ہزاروں مختلف طبع اور استعداد آدمیوں کے ساتھ ہمیشہ مغز خوری کرنی پڑتی ہے آج تک چل سکتا.افسوس ہزار افسوس اس زمانہ کے اکثر مولویوں پر کہ آتشِ حسد اندر ہی اندر ان کو کھا گئی ہے لوگوں کو تو ایمانی خصائل اور برادرانہ برتاؤ اور باہم نیک ظنی کا ہمیشہ سبق دیتے ہیں اور منبروں پر چڑھ کر اس بارے میں کلامِ الہی کی آیات سناتے ہیں مگر آپ ان حکموں کو چھوتے بھی نہیں.اے حضرت ! خدا تعالیٰ آپ کی آنکھیں کھولے.کیا یہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے کسی ملہم بندہ کو کسی مصلحت کی وجہ سے ایک کام کرنے سے روک دیوے اور شائد اس روک کا دوسرا سبب یہ بھی ہوگا کہ تا آپ کی اندرونی خاصیتوں کا امتحان ہو جاوے.اور جولوگ آپ کے ہمرنگ اور آپ جلد سوم

Page 60

حیات احمد ۵۷ کے ہم ظرف ہیں ان کے مواد خبیثہ بھی اس تقریب سے باہر نکل آویں.رہی یہ بات کہ آپ کی عالمانہ عظمت اور ہیبت سے میں ڈر گیا تو اس کے جواب میں آپ یقیناً سمجھیں کہ جو لوگ تاریکی اور نفسانی ظلمتوں میں مبتلا ہیں اگر وہ دنیا کے تمام فلسفہ اور طبعی کے جامع بھی ہوں تب بھی میری نگاہ میں ایک مرے ہوئے کیڑے سے ان کی زیادہ وقعت نہیں مگر آپ اُس مرتبہ علم کے آدمی بھی نہیں.صرف پورا نے خیالات کے ایک خشک ملا ہیں اور وہی کمینگی جو تاریک خیال ملاؤں میں ہوا کرتی ہے آپ کے اندر موجود ہے اور آپ کو یاد ہے کہ اکثر میرے پاس ایسے محقق اور جامع فنون اور معلومات وسیع رکھنے والے آتے اور اسرار معارف سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں کہ اگر میں ان کے مقابل پر آپ کو طفلِ مکتب بھی کہوں تو اس قدر کلمہ سے بھی آپ کو وہ عزت دوں گا جس کے آپ مستحق نہیں.اب بھی اگر آپ کی قوت واہمہ فرو ہونے میں نہ آوے اور بدظنی کے جذبات کم نہ ہوں تو پھر میں خدا تعالیٰ کی مدد اور رحمت سے آپ کے مقابل پر تقریر کرنے کو بھی حاضر ہوں.میں باعث بیماری اب کوئی سفر دور دراز تو نہیں کر سکتا لیکن اگر آپ راضی ہوں تو اپنے کرایہ سے لاہور جیسے پنجاب کے صدر مقام میں آپ کو اس کام اور اس امتحان کے لئے تکلیف دے سکتا ہوں اور یہ عہد عزم پختہ سے کرتا ہوں اور آ کے جواب کا منتظر ہوں.قوله شخص محض نالائق ہے علمی لیاقت نہیں رکھتا.اقول اے حضرت ! مجھے دنیا کی کسی حکمت اور دانائی کا دعویٰ نہیں.اس جہاں کی دانائیوں اور چالاکیوں کو میں کیا کروں کہ وہ روح کو منور نہیں کرسکتیں.اندرونی غلاظتوں کو وہ دھو نہیں سکتیں.عجز اور خاکساری کو پیدا نہیں کرسکتیں بلکہ زنگ پر زنگ چڑھاتی اور کفر پر کفر بڑھاتی ہیں.میرے لئے یہ بس ہے کہ عنایت الہی نے میری جلد سوم

Page 61

حیات احمد ۵۸ دستگیری کی اور وہ علم بخشا کہ مدارس سے نہیں بلکہ آسمانی معلّم سے ملتا ہے.اگر مجھے اُمّی کہا جائے تو اس میں میری کیا کسر شان ہے بلکہ جائے فخر کیونکہ میرا اور تمام خلق اللہ کا مقتدا جو عامہ خلائق کی اصلاح کیلئے بھیجا گیا وہ بھی اُمّتی ہی تھا.میں اُس کھوپڑی کو ہرگز قدر کے لائق نہیں سمجھوں گا جس میں علم کا گھمنڈ ہے مگر اس کا ظاہر و باطن تاریکی سے بھرا ہوا ہے.قرآن شریف کو کھول کر گدھے کی مثال پر غور کرو کیا یہ کافی نہیں؟ قولہ میں نے الہام کے بارے میں اس سے چند سوال کئے کسی قدر بے معنی جواب دے کر سکوت اختیار کیا.اقول مجھے یاد ہے کہ بہت پُر معنی جواب دیا گیا تھا اور ایسے شخص کے لئے کہ جو کسی قدر انصاف رکھتا ہو کافی تھا مگر آپ نے نہ سمجھا اس میں کس کی پردہ دری ہے آپ کی یا کسی اور کی.وہی سوال کسی اخبار میں شائع کیجئے اور دوبارہ اپنی خوش فہمی کی آزمائش کرائیے.قولہ ہرگز یقین نہیں ہو سکتا کہ ایسی عمدہ تصانیف کے یہی حضرت مصنف ہیں.اقول کیا آپ یقین کریں گے، یہ یقین تو ان کفار کو بھی میسر نہ آیا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بچشم خود دیکھا تھا اور باعث سخت محجوب ہونے کے کمالات نبوی ان پر کھل نہ سکے اور یہی کہتے رہے کہ یہ بلیغ کلمات جو اس کے منہ سے نکلتے ہیں اور یہ قرآن جو خلق اللہ کو سنایا جاتا ہے یہ تمام عبارتیں درحقیقت بعض اور لوگوں کی تالیف ہیں جو پوشیدہ طور پر صبح اور شام اس کو سکھلائے جاتے ہیں اور ایک طور سے اُن کفار نے بھی سچ کہا اور مولوی صاحب کے منہ سے بھی سچ ہی نکلا کیونکہ بلا شبه قرآن شریف کا کلام بلاغت اور حکمت میں آنحضرت کی طاقت ذہنی سے بہت بلند بلکہ تمام مخلوقات کی طاقت سے برتر و اعلیٰ ہے.اور بحجر علیم مطلق اور قادر کامل کے جلد سوم

Page 62

حیات احمد ۵۹ اور کسی سے وہ کلام بن نہیں سکتا.ایسا ہی وہ کتابیں ہیں جو اس عاجز نے تالیف کر کے شائع کی ہیں در حقیقت یہ تمام غیبی مدد کا نتیجہ ہے اور اس عاجز کی استعداد اور لیاقت سے برتر اور شکر کا مقام ہے کہ مولوی صاحب کی اس نکتہ چینی سے ایک پیشگوئی بھی جو براہین میں درج ہے پوری ہوئی، کہ بعض لوگ اس تالیف کو پڑھ کر کہیں گے کہ کتاب اس شخص کی تالیف نہیں بَلْ أَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ أَخَرُوْنَ (دیکھو براہین احمدیہ کا صفحہ ۲۳۹) قولہ سید احمد عرب جن کو میں ثقہ جانتا ہوں وہ مجھ سے بلاواسطہ بیان کرتے تھے کہ میں دو ماہ تک ان کے پاس ان کے معتقدین خاص کے زمرہ میں رہا اور وقتافوقتاً بنظر تجسس و امتحان ہر ایک وقت خاص پر حاضر رہ کر جانچا تو معلوم ہوا کہ در حقیقت ان کے پاس آلات نجوم موجود ہیں وہ اُن سے کام لیتے ہیں.اقول تَعَالَوْانَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ.میری طرف سے در حقیقت یہی جواب ہے جو میں نے آیات ربانی کے ذریعہ سے لکھ دیا اور مجھے ہرگز یاد نہیں کہ وہ سید احمد صاحب کون بزرگ تھے کہ جو دو ماہ تک میرے پاس رہے.اس بات کا بار ثبوت مولوی صاحب کے ذمہ ہے کہ ان کو میرے رو برو پیش کریں تا پوچھا جائے کہ انہوں نے کن آلات کو مشاہدہ کیا تھا اور جب میں ابھی تک زندہ موجود ہوں اس حالت میں مولوی صاحب دو ماہ تک آپ ہی دیکھ لیں کسی دوسرے عربی یا عجمی کے توسط کی کیا ضرورت ہے.قولہ مجھے فقرات الہام پر غور کرنے سے ہرگز یقین نہیں آتا کہ وہ الہام ہیں.اقول ان لوگوں کو بھی یقین نہیں آیا تھا جن کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَذَّبُوا بِالتِنَا كِذَّابًا فرعون کو یقین نہ آیا.یہودیوں کے فقیہوں فریسیوں کو یقین ال عمران: ۶۲ النبا: ٢٩ جلد سوم

Page 63

حیات احمد ۶۰ نہ آیا.ابو جہل ، ابولہب کو یقین نہ آیا مگر ان کو آیا جو دل کے غریب اور نفس کے پاک تھے سے ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده قولہ مدعی ہونا کرامات کے خلاف ہے اور یہ کہنا کہ جس کو انکار ہو وہ آ کر دیکھے یہ دعاوی باطلہ ہیں.اقول یہ باتیں انسان کی طرف سے نہیں بلکہ اُس کی طرف سے ہیں جس کو ہر ایک دعویٰ پہنچتا ہے پھر کون حق پرست ان کو باطل کہہ سکتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ ادعا کسی فوق القدرت بات کا کوئی نبی بھی نہیں کر سکتا.مگر کیا ایسا ادعا بتوسط کسی نبی یا رسول یا محدث کے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی جائز نہیں؟ قولہ میں ملاقات کرنے سے بالکل بے عقیدہ ہو گیا ہوں میری رائے میں جو موحد اُن سے ملاقات کرے گا ان کا معتقد نہ رہے گا.نماز ان کی اخیر وقت ہوتی ہے جماعت کے پابند نہیں.اقول مولوی صاحب کی بے عقیدگی کی تو مجھے پروانہیں مگر ان کے جھوٹھ اور افترا اور غایت درجہ کی بدظنیوں پر سخت تعجب ہے.اے خداوند کریم! اس اُمت پر رحم کر جس کے رہنما اور ہادی اور سر پرست ایسے ایسے مولوی سمجھے گئے ہیں.اب ناظرین اس اعتراض پر بھی غور کریں جو بخل اور حسد کے جوش سے مولوی صاحب کے منہ سے نکلا.ظاہر ہے کہ یہ عاجز صرف چند روز تک مسافرانہ طور پر علی گڑھ میں ٹھہرا تھا اور جو کچھ مسافروں کے لئے شریعت اسلام نے رخصتیں عطا کی ہیں اور ان سے دائمی طور پر انحراف کرنا ایک الحاد کا طریق قرار دیا ہے.اُن سب امور کی ترجمہ - یہ سعادت خدا تعالیٰ کے عطا کئے بغیر زور بازو سے نہیں حاصل ہو سکتی.جلد سوم

Page 64

حیات احمد ۶۱ رعایت میرے لئے ایک ضروری امر تھا سو میں نے وہی کیا جو کرنا چاہئے تھا اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اس چند روزہ اقامت کی حالت میں بعض دفعہ مسنون طور پر دو نمازوں کو جمع کر لیا ہے اور کبھی ظہر کے اخیر وقت پر ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو اکٹھی کر کے پڑھا ہے مگر حضرات موحدین تو کبھی کبھی گھر میں بھی نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لیتے ہیں اور بِلا سَفَرٍ وَمَطَرٍ پر عمل درآمد رہتا ہے.میں اس سے بھی انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے ان چند دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے کا بکلی التزام نہیں کیا.مگر باوجود اپنی علالت طبع اور سفر کی حالت کے بکلی ترک بھی نہیں کیا چنانچہ مولوی صاحب کو معلوم ہوگا کہ اُن کے پیچھے بھی جمعہ کی نماز پڑھی تھی جس کے ادا ہو جانے میں اب مجھے شک پڑ گیا.یہ بیج اور بالکل سچ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے سفر کے دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے سے کراہت ہی کرتا ہوں.مگر معاذ اللہ اس کی وجہ کسل یا استخفاف احکام الہی نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے ملک کی اکثر مساجد کا حال نہایت ابتر اور قابل افسوس ہو رہا ہے اگر ان مسجدوں میں جا کر آپ امامت کا ارادہ کیا جائے تو وہ جو امامت کا منصب رکھتے ہیں از بس ناراض اور نیلے پیلے ہو جاتے ہیں.اور اگر ان کا اقتدا کیا جائے تو نماز کے ادا ہو جانے میں مجھے شبہ ہے.کیونکہ علانیہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے امامت کا ایک پیشہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ پانچ وقت جا کر نماز نہیں پڑھتے بلکہ ایک دوکان ہے کہ ان وقتوں میں جا کر کھولتے ہیں.اور اسی دوکان پر ان کا اور ان کے عیال کا گزارہ ہے چنانچہ اس پیشہ کے عزل ونصب کی حالت میں مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے اور مولوی صاحبان امامت کی ڈگری کرانے کیلئے اپیل در اپیل کرتے پھرتے ہیں.پس یہ امامت نہیں یہ تو حرام خوری کا ایک مکر وہ طریقہ ہے کیا آپ بھی ایسے نفسانی بیچ میں پھنسے ہوئے نہیں پھر کیونکر کوئی شخص دیکھ بھال کر اپنا ایمان ضائع کرے مساجد جلد سوم

Page 65

حیات احمد ۶۲ جلد سوم میں منافقین کا جمع ہونا جو احادیث نبویہ میں آخری زمانہ کے حالات میں بیان کیا گیا وہ پیشگوئی ملا صاحبوں سے متعلق ہے جو محراب میں کھڑے ہو کر زبان سے قرآنِ شریف پڑھتے اور دل میں روٹیاں گنتے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ ظہر اور عصر یا مغرب اور عشا کو سفر کی حالت میں جمع کرنا کب سے منع ہو گیا اور کس نے تاخیر کی حرمت کا فتویٰ دیا یہ عجیب بات ہے کہ آپ کے نزدیک اپنے بھائی مردہ کا گوشت کھانا تو حلال ہے مگر سفر کی حالت میں ظہر اور عصر کو ایک جگہ پڑھنا قطعاً حرام اتَّقُوا اللَّـهَ أَيُّهَا الْمُوَحْدُوْنَ فَإِنَّ الْمَوْتَ قَرِيْبٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَكْتُمُوْنَ - منه ( فتح اسلام صفحہ ۲۷ تا ۴۳ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷ تا ۲۶ حاشیه ) علی گڑھ کا سفر دراصل قبول دعوت اور ایفاء وعدہ کا نتیجہ تھا جو حضرت میر تفضل حسین صاحب رضی اللہ عنہ سے اُن کے اخلاق کی بنا پر کیا گیا تھا والا حضرت اقدس زیادہ سفروں کو پسند نہ فرماتے تھے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص اشارہ یا ارشاد نہ ہو ہمیشہ پر ہیز کرتے اور سفر سے پہلے استخارہ ضرور کرتے اور اپنے خدام کو بھی اس کی طرف توجہ دلاتے اور تاکید کرتے.سفر علی گڑھ کے نتائج علی گڑھ کا یہ سفر حقیقت میں کئی نشانات کا موجب ہے اور بعض امور دینیہ کے اظہار کا ذریعہ اور خود حضور کی اپنی سیرت کے ایک خاص پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے منشاء ہی کو مقدم کرتے تھے اس کے لئے خواہ آپ کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچتی.اس سفر نے ظاہر کر دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں اگر منصوبہ یا ریا کاری ہوتی تو آپ تقریر کرتے اور جیسا کہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ آپ نے گھنٹوں اور ہزاروں کے مجمع میں تقریریں کی ہیں اور آپ نے اس موقعہ پر تقریر کرنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے روک دیا تو آپ نے اس چیز کو تو گوارا کر لیا کہ لوگ استہزا کریں مگر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو قبول نہ کیا اپنے اس عمل

Page 66

حیات احمد اطاعت کے متعلق ایک موقعہ پر لکھا ہے ے ۶۳ ہمہ خلق و جہاں خواہد برائے نفس خود عز خلاف من کہ مے خواهم براہِ یار ذلت را جلد سوم دوسرے دعوت کے موقعہ پر آپ کے عملی اخلاق کو دوسروں نے مشاہدہ کیا کہ اپنے خدام کو اپنے ساتھ شریک کیا اور کسی قسم کا امتیاز باقی نہ رکھا یہ اخوت و مساوات کا عملی سبق تھا.تیسرے آپ نے اپنے عمل سے بتایا کہ اسلام تکلیف مالا يطاق کا مذہب نہیں وہ دین الیسر ہے.میز پر کھانا کھانا منوع نہیں ہے اور خصوصاً ایسی صورت میں کہ زمین ہی پر سب بیٹھے تھے صرف دستر خوان کو چھوٹی میزوں کی صورت میں آسانی کے لئے اونچا کر دیا گیا تھا.اور ایک صحیح مسئلہ کے بیان کرنے میں آپ نے میر عباس علی صاحب ایسے مخلص کی (جو وہ اس وقت تھا ) بات کو ماننے سے انکار کر دیا.اور اس سفر کا ایک عظیم الشان نتیجہ یہ ہوا کہ یہ سفر ایک نشان بن گیا.حاشیہ میں اس سفر کے حالات درج ہیں.مولوی اسماعیل نے بعد میں ایک کتاب لکھی اور حضرت اقدس نے خود ان کے اشتہار کی تردید کے سلسلہ میں ( جو حاشیہ میں درج ہے ) آیت مباہلہ کو پیش کر دیا کہ یا تو وہ ان الزامات کا جو عرب نے لگائے ہیں ثبوت پیش کریں ورنہ پھر میدان مباہلہ میں آئیں اور آپ کی طرف سے تو اعلان ہو ہی گیا خودمولوی اسماعیل نے ایک کتاب لکھی اور اس میں مباہلہ کر لیا.ابھی وہ کتاب ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ اس مباہلہ کی سزا میں فوت ہو گیا اور حضرت اقدس کے نشانات صداقت میں ہمیشہ کیلئے یادگار چھوڑا گیا اس طرح پر علی گڑھ کا سفر بہت مفید ہوا.سفر سے واپسی آپ قریباً ایک ہفتہ قیام کر کے واپس آ گئے اور واپسی پر لودہا نہ زیادہ قیام نہیں ہوا چی تر جمہ.سب لوگ اور سارا جہاں اپنے لیے عزت چاہتا ہے ، برخلاف اس کے میں یار کی راہ میں ذلّت مانگتا ہوں.

Page 67

حیات احمد ۶۴ جلد سوم اپریل ۱۸۸۹ء کے دوسرے ہفتہ کے شروع ہی میں آپ قادیان واپس آ گئے جیسا کہ حضرت چودھری رستم علی صاحب کے نام ایک مکتو بہت سے معلوم ہوتا ہے.( جو حاشیہ میں درج ہے) قادیان واپس آجانے کے بعد اسی سال کی آخری سہ ماہی تک کوئی سفر نہیں کیا اور اس مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مخدومی مکرمی منشی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا عنایت نامہ پہنچا.خوشی ہوئی.میں لڑکے کے واسطے دعا کروں گا اور ۱۸ را پریل ۱۸۸۹ء کو قادیان روانہ ہوں گا انشاء اللہ.۱۵ را پریل ۱۸۸۹ء والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ از لودھیانہ از عبداللہ سنوری سلام علیکم پذیر.حافظ حامد علی صاحب کی طرف سے سلام علیک.اس اطلاع کے بعد آپ قادیان تشریف لے گئے.ماہ جون ۱۸۸۹ ء کے اواخر میں حضرت چودہری صاحب نے آپ کو اپنے ایک عزیز کی شادی کی تقریب پر مدعو کیا مگر آپ نے بعض مجبوریوں کی وجہ سے عدم شرکت کی اطلاع دی.ان ہی ایام میں حضرت حکیم الامت لود ہا نہ جانیوالے تھے.اور ۲۷ /جون سے پہلے چلے جانیوالے تھے.لودھیانہ سے حضرت حکیم الامت کو واپسی پر آپ نے قادیان آنے کی تحریک فرمائی حضرت حکیم الامت کا یہ سفر لودہا نہ اپنی اہلیہ ثانی حضرت سیدہ صغری بیگم صاحبہ کو لانے کے لئے تھا.مگر یہ سفر بالآ خراگست ۱۸۸۹ء تک ملتوی ہوتا گیا چنانچہ ۲۵ / اگست ۱۸۸۹ء کو آپ نے چودہری صاحب کو لکھا کہ مولوی نورالدین صاحب بصحت تمام جموں پہنچ گئے ہیں.لودہانہ کا ایک عجیب واقعہ آپ ۱۸۸۹ء میں جو بیعت کا سال ہے اور ہا نہ میں موجود تھے.ایک موقعہ پر آپ کے پاس ایک سائل آیا اور اس نے ذکر کیا کہ میرا ایک عزیز فوت ہو گیا ہے.میرے پاس کفن دفن کے لئے کچھ انتظام

Page 68

حیات احمد جلد سوم عرصہ میں بعض قرب وجوار کے لوگوں نے بیعت بھی کی اور یہ لوگ غرباء یا زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے جیسا کہ ہمیشہ سے سنت اللہ جاری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مامورین کو ابتداء غرباء کی جماعت قبول کرتی ہے اور آخری زمانہ کے متعلق تو خود حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ جس طرح پر اسلام کا آغاز غرباء میں ہوا آخری زمانہ میں بھی غریبوں ہی میں اس کا احیاء ہو گا اور ایسے غرباء کے متعلق آپ نے فرمایا فطوبى لِلْغُرْبَآءِ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان بقیہ حاشیہ نہیں ہے اور اس نے کچھ سکے چاندی اور تابنے کے رکھے ہوئے تھے.یہ دکھانے کے لئے کہ کسی قدر چندہ ہوا ہے اور ابھی اور ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مکرمی حضرت قاضی خواجہ علی صاحب رضی اللہ عنہ کو ( جو بڑے ہی مخلص اور حضرت کی راہ میں فدا شدہ بزرگ تھے ) فرمایا کہ قاضی صاحب ان کے ساتھ جا کر کفن کا سامان کر دو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس قسم کی عادت نہ تھی بلکہ عام طور پر جو مناسب سمجھتے دیدیتے.اس ارشاد پر خدام کو تعجب ہوا.قاضی صاحب نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ کیا دیدوں بلکہ وہ ساتھ ہی ہو گئے اور اسے کہا چلو بھائی میں چل کر تمام انتظام کرتا ہوں.وہ سائل قاضی صاحب کو لے کر رخصت ہوا.تھوڑی دیر کے بعد قاضی صاحب ہنستے ہوئے واپس آئے اور کہا کہ : حضرت وہ تو بڑا دھوکہ باز تھا.راستہ میں جا کر اس نے میری منت خوشامد شروع کی کہ خدا کے واسطے آپ نہ جاویں جو کچھ دینا ہو دے دو میں نے کہا کہ مجھے تو خود جانے کا حکم ہے جو کچھ تمہارے پاس ہے یہ مجھے دو جو کچھ خرچ آئے گا میں کروں گا.آخر اس نے جب دیکھا کہ میں نہیں ملتا تو اس نے ہاتھ جوڑ کر ندامت کے ساتھ کہا کہ نہ کوئی مرا ہے نہ کفن دفن کی ضرورت ہے.یہ میرا پیشہ ہے اب میری پردہ دری نہ کرو تم واپس جاؤ اور مجھے چھوڑ دو میں اب یہ کام نہیں کروں گا“ جب قاضی صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو طبعی طور پر اس کے سننے سے ہنسی بھی آئی مگر آپ کی فراست مومنانہ اور اخلاق کا بھی عجیب اثر ہوا.آپ نے حسن ظن کر کے اس کو جواب تو نہ دیا مگر ایسا طریق اختیار کیا جس سے اس کی اصلاح ہوگئی اور غیر محل پر آپ کو خرچ کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑی.

Page 69

حیات احمد ۶۶ جلد سوم میں سے بعض کا مختصر ذکر کر جاؤں جن سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں اپریل ۱۸۸۹ ء تک آپ قادیان واپس ہو چکے تھے اس لئے اس کے بعد جن سعادت مندوں کو یہ شرف حاصل ہوا ان میں سے بعض یہ ہیں.حضرت مولوی صادق حسین صاحب حضرت مولوی صادق حسین صاحب حکیم بھی تھے اور مختار عدالت بھی اور ایک صاحب علم اخبار نویس بھی جوانی کی حالت میں میں نے ان کو دیکھا تھا نہایت وجیہ اور طرحدار تھے.سلسلہ کے ساتھ ان کے تعلقات تو مولوی تفضل حسین صاحب ہی کے ذریعہ ہوئے مگر آخر میں وہ سلسلہ کے تبلیغی مشاغل میں پورے منہمک ہو گئے اور اپنے پیشہ میں کوئی نمایاں ترقی نہ کر سکے اور سراسر سلسلہ کی تبلیغ کے لئے وقف تھے اور اٹاوہ کی جماعت ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے سلسلہ کی تائید کے لئے انہوں نے اخبار بھی جاری کیا تھا.با بو محکم دین صاحب مختار امرتسر اس عہد کے مخلصین میں حضرت بابو محکم دین مختار عدالت بھی ہیں یہ بڑے ظریف طبع اور صوفی منش تھے انہوں نے ۲۶ اپریل ۱۸۸۹ء کو بیعت کی تھی اور خاکسار عرفانی کے ساتھ ان کے تعلقات اخوت کا سلسلہ ۱۸۹۳ ء میں قائم ہوا اور آخر وقت تک قائم رہا.حضرت مولوی حسن علی صاحب رضی اللہ عنہ بھاگلپوری جب امرتسر آئے تو با بومحکم الدین صاحب نے ان سے حضرت اقدس کا ذکر کیا اور آپ کو قادیان آنے کی تحریک کی اور وہ خود بھی آپ کے ساتھ قادیان آئے اگر چہ حضرت مولوی صاحب نے اپنی کتاب تائید حق میں اتنا ہی لکھا کہ دو ایک دوست ساتھ ہوئے گو انہوں نے نام نہیں لکھا مگر میں جانتا ہوں ان میں سے ایک شیخ عبدالعزیز نومسلم تھے جو اہلحدیث تھے.اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے شاگرد کہلاتے تھے اور انجمن حمایت اسلام کے جنرل سکرٹری تھے اور حضرت مولوی حسن علی صاحب کی سعی سے

Page 70

حیات احمد ۶۷ جلد سوم ایک یتیم خانہ کھولا گیا تھا اُس کا انتظام بھی ان کے ہاتھ میں تھاوہ شیخ بٹالوی کے اختلاف کے ساتھ مخالف ہو گئے.دوسرے دوست یہی بابو محکم الدین صاحب تھے وہ بڑے ہنس مکھ اور وجیہ شخص تھے پٹی ضلع لاہور کے رہنے والے تھے ان کی زندگی عجائبات کا مجموعہ ہے.عبدالعزیز صاحب تو صرف اس وجہ سے کہ وہ جنرل سیکرٹری تھے گڑھا آئے مگر اُن کے لانے کا اصل موجب بابو محکم الدین تھے.حضرت حکیم الامت نے ایک مرتبہ اُن کو فرمایا تھا کہ میں اشراقین کے طریق پر امرتسر ہی میں تمہیں تعلیم دے سکتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی مجلس میں ایک مرتبہ ظہر کی نماز کے بعد جب کہ حضرت تشریف فرما تھے آپ نے بابو محکم دین صاحب سے پوچھا آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں.کوئی ضرورت ہے تو مجھے کہنا تکلف سے کام نہ لینا، کھانے وغیرہ کے متعلق جو خواہش ہو مجھے کہنا.اس پر بابو محکم الدین صاحب نے عرض کیا حضور لنگر خانہ میں ہر قسم کا آرام ہے کوئی تکلیف نہیں.البتہ ایک عرض ہے کہ کچھ سینہ کا گوشت ملنا چاہئے.“ بعض لوگ کچھ حیران سے ہوئے اور حضرت اس کے استعارہ کو سمجھ گئے میں جو ان کے حالات سے واقف تھا میں بھی سمجھا.حضرت اقدس نے مسکرا کر فرمایا ہاں وہ تو ملتا ہی رہتا ہے.بعد میں بعض لوگوں نے کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا تو انہوں نے کہا میں نے جن سے مانگا تھا وہ سمجھ گئے اور مجھے مل گیا.اس نے ان دوستوں سے کہا یہ استعاروں میں باتیں کرتے ہیں مطلب یہ تھا کہ وہ علم جوسینہ کو قوت دے اور معرفت کا ذریعہ ہو ملنا چاہئے.ان کے اس قسم کے بہت سے لطائف ہیں میں نے ۱۸۹۶ء میں اُن کے ساتھ سرکاری قانون کے ماتحت ایک سپیشل افسر کا کام بھی کیا تھا انتظام محرم کے سلسلہ میں.اب صرف ایک واقعہ ان کی معرفت کا لکھتا ہوں خلافت ثانیہ کے پہلے دن کی صبح کو وہ تہجد کی نماز میں اٹھے اور ایک دوتارہ لے کر قریباً ہر جگہ جہاں جماعت کے لوگ آئے ہوئے تھے گئے دوتارہ بجاتے تھے اور کہتے جاتے تھے.نطفہ ہے علقہ ہے.

Page 71

حیات احمد ۶۸ جلد سوم ان الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ وصیت کی طرف اشارہ کر رہے تھے:.”خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی قبول کریں گے.سو ان دنوں کے منتظر رہو.اور تمہیں یاد رہے کہ ہر ایک کی شناخت اس کے وقت میں ہوتی ہے اور قبل از وقت ممکن ہے کہ وہ معمولی انسان دکھائی دے یا بعض دھوکا دینے والے خیالات کی وجہ سے قابلِ اعتراض ٹھہرے جیسا کہ قبل از وقت ایک کامل انسان بننے والا بھی پیٹ میں صرف ایک نطفہ یا علقہ ہوتا ہے.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ حاشیه ) غرض انہوں نے جماعت کو اس طرح پر اپنے عقیدہ اور معرفت کا پیغام پہنچایا اور بیعت خلافت کر لی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی کی تھی.رض حضرت میاں نجم الدین حضرت میاں نجم الدین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے اور حضرت خلیفہ امسیح کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے اپنی عمر کا آخری حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر خانہ کی خدمت میں نہایت دیانت اور امانت سے گزارا.خدمت خلق کا خاص جذ بہ ان میں تھا.شحنہ حق کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا تو دوبارہ اپنے صرفہ سے طبع کروا کر حضرت کی خدمت میں پیش کر دیا.نہایت محنتی اور جفاکش تھے مہمانوں کو کھانا کھلا چکنے کے بعد بھی دیر تک لنگر خانہ میں رہتے کہ کوئی سائل آ جاوے یا مسافر ہو اور پھر کچھ ٹکڑے لے کر شکستہ مکانوں اور گلیوں میں جاتے تا کہ بعض کتوں وغیرہ کو بھی جو کسی وجہ سے حرکت نہ کر سکتے ہوں دیدیں.قادیان میں جب طاعون کا اثر ہوا اور بعض اموات ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بعض

Page 72

حیات احمد ۶۹ جلد سوم جنازوں کوصرف میں نے اور حضرت میاں نجم الدین صاحب نے اٹھایا اور جا کر دفن کیا.ان میں حضرت میاں کرم داد صاحب رضی اللہ عنہ کا جنازہ بھی تھا جو بڑے ہی مخلص اور عالم آدمی تھے لیکن حضرت اقدس کی خدمت پر انہیں نا تھا.جَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء ایسے ہی اور بھی بعض احباب ہیں مگر اس کتاب کا موضوع نہیں ان مخلص احباب میں حضرات سیکھوانی برادر زرضی اللہ عنہم اور حضرت حافظ معین الدین صاحب وغیر ہم بھی ہیں.پھر لودہانہ کا سفر پیش آ گیا اکتوبر ۱۸۸۹ء کے آخر میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے آپ کو لودہانہ کا سفر کرنا پڑا چنانچہ ۲۷ اکتو بر ۱۸۸۹ء کو لودہانہ سے آپ نے حضرت چود ہری رستم علی خاں صاحب کو ایک خط میں لکھا.وو یہ خط آپ کو میں لودھیانہ سے لکھتا ہوں.میری روانگی کے وقت آپ کا خط معه مبلغ دس روپیہ قادیان میں مجھ کو ملا تھا مگر افسوس کہ میں اس دن ایک تشویش کی حالت میں لودھیانہ کی طرف طیار تھا اس لئے آپ کی فرمائش پر عمل کرنے سے مجبور رہا.اسی دن لو دھیانہ سے خط پہنچا تھا کہ میر ناصر نواب صاحب کے گھر کے لوگ سخت بیمار ہیں اور انہوں نے میرے گھر کے لوگوں کو بلایا تھا کہ خط دیکھتے ہی چلے آؤ وقت بہت تنگ تھا اس وجہ سے بندو بست جلد بھیجنے کا نہ کر سکا.اور افسوس رہا اب شائد ایک ہفتہ تک لودھیا نہ میں ہوں.“ (مکتوبات احمد جلد پنجم نمبر سوم صفحہ ۹۹.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۵۶۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (نوٹ) شاید یہ خیال بعض دلوں میں پیدا ہو کہ وہ فرمالیش جس کے لئے چودہری صاحب نے لکھا تھا کیا تھی اسی سلسلہ خط و کتابت سے معلوم ہوتا ہے کہ چود ہری صاحب نے آپ کو انڈوں یا انڈوں کے حلوے کے لئے لکھا تھا آپ کو ایک مخلص خادم کی ایک معمولی فرمائیش کے بر وقت پورا

Page 73

حیات احمد جلد سوم نہ کر سکنے کی وجہ سے بہت افسوس ہوا.اور متواتر آپ نے مختلف خطوط میں اس کے لئے اظہار افسوس فرمایا یہ امر آپ کی سیرت کے ایک نمایاں پہلو کو لئے ہوئے ہے کہ اپنے خدام کی دلداری کا کس قدر خیال تھا.لودہانہ میں آپ کا قیام اس مرتبہ ۵/ نومبر ۱۸۸۹ء تک رہا چنانچہ آپ نے یکم نومبر ۱۸۸۹ء کے مکتوب میں چودھری صاحب کو لکھا کہ اب میں ۵/ نومبر ۱۸۸۹ء کو قادیان کی طرف تیار ہوں آئندہ جو خط آپ لکھیں قادیان کے پتہ پر لکھیں.مگر بعض غیر متوقع اسباب کی وجہ سے آپ یہ سفر ۱۰/ نومبر ۱۸۸۹ء سے پہلے نہ کر سکے چنانچہ ۹ نومبر ۱۸۸۹ء کومکت راطلاع دی اور پھر ۱۳ نومبر کے مکتوب میں اطلاع دی کہ میں ۱۲؍ نومبر کو قادیان پہنچ گیا ہوں.“ دسمبر ۱۸۸۹ء کے واقعات 66 على العموم دسمبر کی تعطیلات میں حضرت اقدس سے تعلقات ارادت رکہنے والے ملا زمت پیشہ لوگ قادیان آیا کرتے تھے اس سال چونکہ بیعت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اس لئے اور بھی توجہ لوگوں کی ہوئی.چنانچہ بعض احباب ضلع سیالکوٹ ، کپورتھلہ وغیرہ سے آئے ہوئے تھے اور حضرت حکیم الامت تو ۱۳/۱۲ دسمبر کو ہی آگئے تھے اور قریباً آخر دسمبر تک مقیم رہے.جیسا کہ مکتوب اسمی چود ہری رستم علی خاں صاحب مورخه ۲۹ دسمبر ۱۸۸۹ء سے ظاہر ہوتا ہے.”آپ کی انتظار تھی.خدا جانے کیا سبب ہوا کہ آپ تشریف نہیں لائے.چھ سات روز سے اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب تشریف رکھتے ہیں.شاید چھ سات روز تک اور بھی رہیں.اگر آپ ان دنوں میں آ جائیں تو مولوی صاحب کی ملاقات بھی ہو جاوے.(مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم صفحہ ۱۰۶.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۷۴ ۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

Page 74

حیات احمد اے جلد سوم صاحبزادہ سراج الحق نعمانی کی بیعت حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی جمالی جو حضرت چہار قطب ہانسی کی نسل سے تھے اور سر ساوہ کے رہنے والے تھے انہوں نے بھی انہیں ایام یعنی ۲۳ دسمبر ۱۸۸۹ء کو بیعت کی صاحبزادہ صاحب کا اپنا بیان ہے کہ لود بہانہ میں انہوں نے بیعت نہیں کی تھی کیونکہ مسجد مبارک میں بیعت کرنا چاہتے تھے.علالت ۱۸۸۹ء کی دوسری ششماہی سے وقتاً فوقتاً آپ کی علالت کا سلسلہ شروع رہا جو ضعف دماغ اور عام ضعف کا رنگ رکھتا تھا مگر اس اثنا میں بھی تبلیغ واشاعت کا کام برابر جاری رہا احباب کے خطوط کے جواب اور آنے والے دوستوں سے ملاقاتیں اور نصائح تو ہوتی ہی تھیں.انجمن حمایت اسلام اور ایک عیسائی کے تین سوال اسی اثناء میں کسی عیسائی نے مئی کے اواخر یا جون ۱۸۸۹ء کے ابتدائی دنوں میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے پاس تین سوال بغرض جواب بھیجے تھے انجمن نے ان سوالات کو بغرض جواب حضرت اقدس کی پاس روانہ کیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی بھیجے.اس وقت انجمن کی آپ ہی پر نظر پڑی یا آپ کے ایک مخلص خادم پر جو باوجود ایک ممتاز اور جید عالم ہونے کے آپ کی غلامی پر ناز کرتا تھا چنانچہ حضرت حکیم الامت نے اپنے ایک مکتوب میں حضرت کو اطلاع دی کہ انجمن نے وہ سوالات بغرض جواب میرے پاس بھیجے ہیں.اس کے جواب میں آپ نے حضرت حکیم الامت کو جو مکتوب لکھا ہے اسے میں یہاں اس لئے درج کرتا ہوں کہ اس سے پایا جاتا ہے کہ آپ نے ان سوالات کا جواب انجمن کے لئے

Page 75

حیات احمد ۷۲ جلد سوم نہیں بلکہ اپنے محسن و آقا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے کمال کے اظہار کے لئے لکھا چنا نچہ فرماتے ہیں.مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.موجب تسلی ہوا.چند روز سے آں مکرم کی بہت انتظار تھی اور تشویش تھی کہ کیا باعث ہوا.اب معلوم نہیں کہ آپ کو کب فراغت ہوگی.آپ کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے.خدا تعالی بخیر و عافیت آپ کو جلد ملا وے.انجمن حمایت اسلام کی طرف سے تین سوال جو کسی عیسائی نے کئے تھے.اس عاجز کے پاس بھی آئے اس غرض سے تا ان کا جواب لکھا جاوے.شاید جو آپ کی خدمت میں بھیجے تھے وہی سوال ہیں یا اور ہیں.ہر چند مجھے فرصت نہ تھی اور طبیعت بھی اچھی ی تھی مگر پھر بھی کسی قدر فرصت نکال کر دو سوال کا جواب میں نے لکھ دیا تھا.اور زیادہ تر رجوع طبیعت کا اس وجہ سے بھی نہیں ہوتا.کہ یہ انجمن مرضی پر چلتی ہے.جو اپنے پسند ہو.وہ کام کر لیتے ہیں.نہیں تو نہیں.پہلے اشتہار بیعت شائع کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا.انہوں نے چھاپا نہیں.اب میرا ارادہ نہیں تھا کہ ان سوالات کا جواب لکھ کر انجمن کو بھیجوں.یہ نامہ نگاروں کا کام ہے کہ اپنا وقت ضائع کر کے پھر چھپنا نہ چھپنا مضمون کا دوسرے کی مرضی پر چھوڑ دیں.جب مضمون رڈی کی طرح پھینکا گیا تو اپنا وقت گو ایک گھنٹہ ہی ہوضائع گیا.میں نے محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوش سے دوسوالوں کا جواب لکھ دیا.تیسرے کے لئے ابھی فرصت نہیں مگر مجھے امید نہیں کہ وہ چھا ہیں کیونکہ خود پسندی اس انجمن کی عادت ہے.مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انہیں سوالات شک وغیرہ کا

Page 76

حیات احمد ۷۳ جلد سوم جواب لکھا ہے یا وہ اور سوال تھے.“ والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۲۹ جون ۱۸۸۹ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۸۵، ۸۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء) انجمن نے ان سوالات کو معہ حضرت کے جوابات کے شائع کیا جس کا عنوان تھا ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب یہ سوال عبداللہ جیمز نامی ایک مرتد اسلام عیسائی نے کئے تھے.خاکسار عرفانی نے اس عبداللہ کو سب سے پہلے امرتسر کے مباحثہ (جنگِ مقدس) میں دیکھا تھا اسی جلسہ میں مرتدین اسلام کے ایک گروہ کو عیسائیوں نے جمع کیا تھا پادری عمادالدین.عبداللہ آتھم.احسان اللہ.وارث الدین.نور الدین.عبداللہ یہ مجھے اچھی طرح یاد ہیں.اسی عبداللہ کو میرے استاد ( رڈ نصاری) شیخ الہ دیا صاحب (فرعون کی گائے ) کہا کرتے تھے.وہ بڑا دبلا پتلا منحنی سا آدمی تھا مگر اسلام پر اعتراض کرنے میں عمادالدین کا نیا تھا.غرض اُس نے یہ سوالات کئے اور حضرت اقدس کے جواب کو انجمن نے شائع کیا اور عام طور پر مسلمانوں نے اسے لا جواب قرار دیا.اس طرح پر یہ سال سلسلہ کی علمی بنیادوں کا سال قرار پایا لیکن جیسا کہ الہی سلسلوں کے متعلق سنّتِ الہی ہے کہ وہ مشکلات اور مخالفتوں کے طوفان میں بڑھتا ہے اس سال کے ختم ہوتے ہوئے جہاں برکاتِ الہیہ کا دوسرا رنگ شروع ہوا.مخالفت کے لئے اب ایک نئے باب کا آغاز ہو گیا اور وہ اس طرح پر کہ اللہ تعالیٰ کے الہام اور وحی سے آپ نے مثیل مسیح " ہونے کا اعلان کر دیا.

Page 77

حیات احمد ۷۴ سلسلہ احمدیہ کا دوسرا سال ۱۸۹۰ء دعوی مثیل مسیح کا اعلان جلد سوم

Page 78

حیات احمد ۷۵ دعویٰ مثیل مسیح کا اعلان جلد سوم ۱۸۹۰ء کے اواخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس امر کا انکشاف فرمایا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسیح ابن مریم کے آنے کی بشارت دی ہوئی ہے اس وعدہ کا ایفاء آپ کے وجود میں ہو رہا ہے.اس پیشگوئی سے مسیح ابن مریم نبی ناصری کی آمد مراد نہ تھی بلکہ اس سے مراد اسی امت سے آنے والے ایک مرد خدا کا وعدہ تھا.براہین میں اس دعوی کے آثار حقیقت یہ ہے کہ براہین احمدیہ کی چوتھی جلد ۱۸۸۴ء میں شائع ہوئی.اسی براہین احمدیہ میں آپ کی مشابہت مسیح ابن مریم علیہ السلام کا ذکر موجود ہے اور براہین احمدیہ کی تالیف کے متعلق جو اشتہار آپ نے شائع کیا تھا اس میں بصراحت اس کا ذکر ہے کہ اس کی تالیف آپ نے ملہم اور ی حاشیہ.اگر چہ میں نے حیات احمد کے دوسرے نمبر میں تالیف براہین احمدیہ کے ضمن میں اس اشتہار کو شائع کیا تھا اور جن لوگوں نے اسے نہیں پڑھا وہ اس سے واقف نہیں علاوہ بریں یہ اشتہار اور براہین بنیادی طور پر آپ کے اس دعویٰ کے منجانب اللہ ہونے کے شاہد ہیں میں اسے یہاں درج کرتا ہوں.یہ اشتہار آپ نے اوائل ۱۸۸۵ء میں شائع کیا تھا عجیب بات ہے کہ اس کی طباعت کا انتظام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے سپر د ہوا تھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحمّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ أَفْضَلُ الرُّسُلِ خَاتَمَ النَّبِيِّيْنِ اشتہار کتاب براہین احمدیہ جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہوکر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں منجانب اللہ اور سچا مذہب جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ کو ہر ایک عیب اور نقص سے بری سمجھ کر اس کی

Page 79

حیات احمد جلد سوم مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین شروع کی تھی چوتھی جلد کے آخر میں آپ نے ” ہم اور ہماری کتاب“ کے عنوان سے ایک اعلان شائع کیا جس میں آپ نے اس ناگہانی ربانی بجلی کا ذکر کیا جو آپ پر ہوئی چنانچہ فرماتے ہیں:- ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اس کے قدرت الہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی بقیہ حاشیہ.تمام پاک اور کامل صفتوں پر دلی یقین سے ایمان لاتا ہے وہ فقط اسلام ہے جس میں سچائی کی برکتیں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور صداقت کی روشنی دن کی طرح ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے تمام مذاہب ایسے بدیہی البطلان ہیں کہ نہ عقلی تحقیقات سے اُن کے اصول صحیح اور درست ثابت ہوتے ہیں اور نہ ان پر چلنے سے ایک ذرہ روحانی برکت و قبولیت الہی مل سکتی ہے بلکہ ان کی پابندی سے انسان نہایت درجہ کا کور باطن اور سیاہ دل ہو جاتا ہے جس کی شقاوت پر اسی جہاں میں نشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اس کتاب میں دین اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیا گیا ہے (۱) اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت وقد رو منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپیہ دینے کے لئے اشتہار دیا ہوا ہے.اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلی کے لئے عدالت میں رجسٹری بھی کرا لے (۲) دوم ان آسمانی نشانوں سے کہ جو بچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لئے از بس ضروری ہیں اس امر دوئم میں مؤلف نے اس غرض سے کہ سچائی دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں کہ (۱) اول جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دعا اور توجہ سے اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جن کو مؤلف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے دوم.وہ نشان جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں دائگی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائے جاتے ہیں.جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر ایک خاص و عام پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذر کسی کے لئے باقی نہیں رکھا سوم.وہ نشان جو کہ کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت رسول برحق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتے ہیں جن کے اثبات میں اس

Page 80

حیات احمد جلد سوم طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے إِنِّي أَنَا رَبُّكَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متوتی اور مہتمم ظاہراً اور باطناً حضرت رَبُّ الْعَالَمِيْن ہے اور بقیہ حاشیہ.بندہ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادر مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے بچے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیہ و اسرار لدنیہ و کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ جو خود اس خادم دین سے صادر ہوئے ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب ( آریوں وغیرہ سے ) بشہادت و رؤیت گواہ ہیں.کتاب موصوف میں درج کئے ہیں.اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجد د وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء ورسل کے نمونہ پر محض بہ برکت متابعت حضرت خیر البشر وافضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات وسعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد وحرمان ہے.یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے کہ جو منجملہ تین سو جزو کے قریب ۳۷ جز و چھپ چکی ہے.ظاہر ہوتے ہیں اور طالب حق کے لئے خود مصنف پوری تسلی و تشفی کرنے کو ہر وقت مستعد اور حاضر ہے.وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَلَا فَخْرَ - وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدی اور اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے اس کا خدا تعالیٰ کے روبرو اس کو جواب دینا پڑے گا.بالآخر اس اشتہار کو اس دعا پر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خداوند کریم ! تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور تیرے کامل و مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں تا ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو سچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں.اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو نہ صرف عقبی میں حاصل ہوسکتی ہے بلکہ بچے راستباز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں.بالخصوص قوم انگریز جنہوں نے ابھی تک اس آفتاب صداقت سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی اور جن کی شائستہ اور مہذب اور بارحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاملت سے ممنون کر کے اس بات کے لئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم ان کے دنیا و دین کے لئے دلی جوش سے بہبودی اور سلامتی چاہیں تا ان

Page 81

حیات احمد ۷۸ کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے.جلد سوم (روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۷۳) یہ اعلانات اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ آپ محض اللہ تعالیٰ کے حکم و منشاء کے ماتحت کام کر رہے تھے.ان تجلیات الہیہ کو جو وقتاً فوقتاً ہو رہی تھیں ظاہر کرتے رہے اور براہین احمدیہ میں ایسے الہامات اور کشوف موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مسیح موعود اور مثیل ابن مریم" ہیں لیکن آپ نے کبھی اس وقت تک ان الہامات اور کشوف کی بناء پر کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ عام مسلمانوں کی طرح یہی خیال کرتے تھے کہ مسیح ابن مریم کا نزول ہوگا.اور یہی آپ کے اپنے دعوی میں صادق ہونے کی ایک دلیل ہے جس طرح لوگ آپ سے بیعت کرنے کے لئے بیتاب تھے مگر آپ نے ہمیشہ ایسی درخواستوں کو رڈ کر دیا اور صاف فرمایا کہ میں بیعت لینے کے لئے مامور نہیں ہوں لیکن جب آپ کو حکم ربانی پہنچا تو آپ نے اعلان کر دیا جیسا کہ پچھلی جلد میں آپ پڑھ آئے ہیں اسی طرح پر دعویٰ مسیحیت کے لئے باوجود الہامات اور کشوف کے جب تک آپ پر ظاہر نہیں کیا گیا کہ وہ موعود تو ہی ہے آپ نے جرات نہیں کی اور جب اللہ تعالیٰ نے اظہار و اعلان کا حکم دیا تو پھر آپ نے دنیا کی مخالفت کو بیچ سمجھا اور ایک اولو العزم مامور کی طرح میدان میں کھڑے ہو گئے.بقیہ حاشیہ.کے گورے و سپید منہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں نورانی و منور ہوں.فَتَسْئَلُ اللهَ تَعَالَى خَيْرَ هُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اللَّهُمَّ اهْدِهِمْ بِرُوْحٍ مِّنْكَ وَاجْعَلْ لَّهُمْ حَظًّا كَثِيرًا فِيْ دِيْنِكَ وَاجْذِبْهُمْ بِحَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ لِيُؤْمِنُوْا بِكِتَابِكَ وَرَسُوْلِكَ وَيَدْخُلُوْا فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا - امِيْن ثُمَّ آمِيْنِ.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ مطبوعہ.ریاض ہند پریس امرتسر المشتهر خاکسار.مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب ہیں ہزار اشتہار چھپا گئے تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۱۴ تا ۱۶.مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۲۷، ۲۸ مطبوعه بار دوم )

Page 82

حیات احمد مسیح ابن مریم کے قدم پر ۷۹ جلد سوم صوفیوں میں ایک اصطلاح ہے کہ بعض لوگ انبیاء و اولیاء کے قدم پر ہوتے ہیں یعنی ان کے خواص اور کمالات کا رنگ ان میں موجود ہوتا ہے حضرت مسیح موعود نے جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا براہین احمدیہ میں ایسے الہامات اور مکاشفات درج فرمائے ہیں جو آپ کو مسیح ابن مریم کے ساتھ بشدت مناسبت رکھنے والا ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے الہام پا کر آپ نے اس اشتہار میں جو میں نے ابھی درج کیا ہے ظاہر کیا کہ آپ کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور پھر ۸/ مارچ ۱۸۸۵ء کو جو خط آپ نے مختلف مذاہب کے لیڈروں کو بھیجا اور میں نے حیات احمد کی تازہ شائع شدہ جلد میں چھاپ دیا ہے اس کے آغاز ہی میں لکھا کہ ’ عاجز (مؤلف براہین احمدیہ ) حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راه راست سے بے خبر ہیں صراط مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں ) دکھا دے“.) مکتوبات احمدیہ جلد ۲ صفحہ ۳.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ان تحریروں سے یہ تو ظاہر ہے کہ آپ پر اس وقت تک یہ ظاہر کر دیا گیا تھا کہ مسیحی کمالات لے کر آئے ہیں اور آپ اسی طریق پر صراط مستقیم کی رہنمائی کریں گے.رویا میں مسیح ابن مریم سے ملاقات ۱۸۷۲ء میں آپ نے حضرت مسیح ابن مریم کو ایک رؤیا میں دیکھا اس وقت تو آپ کو یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ کسی آنے والے زمانہ میں آپ کو مسیح ابن مریم سے کوئی مماثلت ہوگی یا

Page 83

حیات احمد ۸۰ جلد سوم اللہ تعالیٰ آپ کو مسیح موعود بنا دے گا.میں ان واقعات کو اس غرض سے لکھ رہا ہوں کہ ایک زمانہ پیشتر سے آپ کو اس قسم کے مکاشفات یا الہامات ہو رہے تھے جن میں آپ کی مماثلت مسیح ابن مریم سے ہوتی تھی بہر حال ۱۸۷۲ء کی یہ رویا آپ نے براہین احمدیہ جلد سوم کے صفحہ ۲۵۳ کے حاشیہ نمبر ایک میں درج کی ہے جو اس طرح پر ہے تخمینا دس برس کا عرصہ ہوا ہے جو میں نے خواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا اور مسیح نے اور میں نے ایک ہی جگہ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا اور کھانے میں ہم دونوں ایسے بے تکلف اور بامحبت تھے کہ جیسے دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں.اور جیسے قدیم سے دور فیق اور دلی دوست ہوتے ہیں اور بعد اس کے اسی مکان میں جہاں اب یہ عاجز اس حاشیہ کولکھ رہا ہے میں اور مسیح اور ایک اور کامل اور کمل سید آل رسول دالان میں خوش دلی سے ایک عرصہ تک کھڑے رہے اور سید صاحب کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا اس میں بعض افراد خاصہ امت محمدیہ کے نام لکھے ہوئے تھے اور حضرت خداوند تعالیٰ کی طرف سے ان کی کچھ تعریفیں لکھی ہوئی تھیں چنانچہ سید صاحب نے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسیح کو امت محمدیہ کے ان مراتب سے اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ جو عند اللہ ان کے لئے مقرر ہیں.اور اس کا غذ میں عبارت تعریفی تمام ایسی تھی کہ جو خالص خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی سو جب پڑھتے پڑھتے وہ کاغذ اخیر تک پہنچ گیا اور کچھ تھوڑا ہی باقی رہا تب اس عاجز کا نام آیا جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عبارت تعریفی لکھی ہوئی تھی هُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيْدِى وَ تَفْرِيْدِى فَكَادَ أَنْ يُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ یعنی وہ مجھ سے ایسا ہے جیسے میری تو حید اور تفرید سو عنقریب لوگوں میں مشہور کیا جائے گا.یہ اخیر فقرہ فَكَادَاَنْ يُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ اسی وقت بطور الہام بھی القا ہوا چونکہ مجھ کو اس روحانی علم کی اشاعت کا ابتدا سے شوق ہے اس لئے یہ خواب اور یہ القا بھی کئی مسلمانوں اور کئی ہندوں کو جواب تک قادیان میں موجود ہیں اسی وقت بتلایا گیا اب دیکھئے کہ یہ خواب اور یہ الہام بھی کس قدر عظیم الشان اور انسانی طاقتوں سے باہر ہے اور گو ابھی تک یہ پیشگوئی کامل طور پر پوری نہیں ہوئی مگر اس کا اپنے وقت پر پورا ہونا

Page 84

حیات احمد ΔΙ جلد سوم بھی انتظار کرنا چاہئے کیونکہ خدا کے وعدوں میں ممکن نہیں کہ تخلف ہو.اور آپ نے بارہا یہ بھی فرمایا کہ متعدد مرتبہ ان سے بحالت کشف بھی ملاقات ہوئی اور اس رویا میں جس الہام کا ذکر کیا ہے یہ الہام در اصل مسیح ابن مریم کو جو ان کے پیرووں نے بعد میں خدا یا خدا کا بیٹا بنا لیا اس کا رد ہے اور آپ کے مقام کی وضاحت ہے.الہامات میں مسیحیت کا ذکر ۱۸۹۰ء یعنی دعوئی میسحیت سے پیشتر جیسے مختلف رنگوں میں آپ کے وجود میں مسیح ابن مریم کے صفات کا پایا جانا ظاہر ہوا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی وحی میں باوقات مختلف آپ کو مریم اور پھر ابن مریم قرار دیا ( یعنی عیسی ) چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۶ میں یہ الہام درج ہے.يَا مَرْيَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ اس میں آپ کا نام مریم رکھا گیا اسی طرح پر جیسے سورۃ تحریم میں مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دی ہے.اور پھر صاف الفاظ میں آپ کو عیسی کے نام سے خطاب فرمایا چنانچہ یہ الہام ہوا يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْآخَرِيْنَ اے عیسی میں تجھے کامل اجر بخشوں گا یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا یا دنیا سے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اور ہم مشربوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر غلبہ دوں گا اور فائق رکھوں گا.پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے.اس جگہ عیسی کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے اور پھر بعد اس کے اردو میں الہام فرمایا.”میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے

Page 85

حیات احمد ۸۲ جلد سوم اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ الهام جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ کے متعلق فرمایا کہ اس قدر تواتر سے ہوا ہے کہ اس کا شمار اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے چنانچہ میر عباس علی صاحب کو ۱۲ جون ۱۸۸۳ء کو جو مکتوب لکھا اس میں آپ نے اس حقیقت کو اس طرح پر ظاہر فرمایا.اور یہ آیت که وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ بار بارالہام ہوئی اور اس قدم متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے.اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہو گئی.اس سے یقیناً معلوم ہوا کہ خداوند کریم ان سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا.اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو مخالف قدم مارے گا اس کو خدا تباہ کرے گا.اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی.یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلف نہیں کرے گا.اور کفر کے لفظ سے اس جگہ شرعی کفر مراد نہیں.بلکہ صرف انکار سے مراد ہے.“ مکتوبات احمد یہ جلد ا صفحه ۲۴.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اعلان دعوی مسیحیت غرض ایک نیا سلسلہ اس قسم کے الہامات اور مکاشفات کا جاری تھا جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ آنے والے مسیح موعود ہیں مگر آپ نے کبھی اس کا خیال بھی نہیں کیا اور خلاف ادب سمجھا کہ اپنی طرف سے کوئی توجیہ اپنے حق میں پیدا کی جاوے.کہ آپ اسی عقیدہ پر قائم تھے کہ مسیح ابن مریم کا نزول حسب بشارات ہوگا جس طرح پر آپ مجد داور مامور ہو کر براہین لکھ رہے تھے اور صداقت اسلام کے لئے اسلام کے دشمنوں اور مختلف مذاہب کے لیڈروں کو دعوت مقابلہ دے رہے تھے لیکن لوگ جب آپ سے بیعت پر اصرار کرتے تو آپ انکار کرتے اس طرح پر

Page 86

حیات احمد ۸۳ جلد سوم آپ نے باوجود ان الہامات اور کشوف کے جن کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں کبھی یہ پسند نہ کیا کہ مسیح موعود ہونے کا دعوی کریں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آپ پر انکشاف فرمایا کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے تو آپ نے اس کے اعلان میں پس و پیش نہیں کیا اور نہ اس قسم کا خوف آپ پر طاری ہوا کہ اس دعویٰ کی بنا پر مخالفت کا ایک دوسرا طوفان بے تمیزی کھڑا ہو گا.اسی دعویٰ کا اعلان ایک اشتہار کے ذریعہ بھی کیا گیا اس اعلان کا عنوان تھا.آنے والا مسیح آ گیا جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہوں دیکھے اور جس کے کان سننے کے ہوں سنے.یہ اشتہار پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور ریاض ہند امرتسر میں بطور ضمیمہ شائع ہوا تھا.اور اسی اشتہار میں آپ نے اپنا الہام بھی درج فرمایا تھا جس کے الفاظ جہاں تک مجھے یاد ہیں یہ تھے.مسیح ابن مریم نبی ناصری فوت ہو چکا ہے اور وعدہ کے موافق اس کے رنگ میں رنگین ہوکر تو آیا ہے وہ اشتہار اس وقت میرے سامنے نہیں میری لائبریری میں پنجاب گزٹ سیالکوٹ کا فائل موجود تھا جس میں نہ صرف یہ اشتہار بلکہ مباحثہ لودہانہ اور دہلی کی روئداد بھی طبع ہوئی تھیں اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت دے جس کے قبضہ میں یہ مال مسروقہ ہے.میں کوشش میں ہوں کہ وہ مل جاوے تو اسے شائع کر دوں.مجھے یہ اشتہار اس لئے یاد ہے کہ اس اشتہار کے ساتھ میرا ذاتی تعلق ہے.غلطی سے اس اشتہار کے متعلق واقعات مکتوبات احمد یہ جلد ششم حصہ اول کے صفحہ ۱۰۲ پر کاتب کی مہربانی اور میری غفلت سے اشتہار مباہلہ کے متعلق ہو گئے.اس کے ذریعہ سے اس کی اصلاح بھی مقصود ہے.میرے تعلق کی داستان یہ ہے.*...مکرم عرفانی صاحب نے الہام کے الفاظ اپنی یادداشت کے مطابق لکھے ہیں.اصل الفاظ یہ ہیں مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۲.تذکره صفحه ۱۴۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء)

Page 87

حیات احمد ۸۴ جلد سوم حضرت اقدس کا یہ اشتہار ریاض ہند امرتسر اور پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں شائع ہوا.میں اس وقت لاہور کے موڈل سکول میں فورتھ ہائی کا طالب علم تھا.حضرت صاحب کی بیعت تو میں ۱۸۸۹ء میں کر چکا تھا مگر وہ ایک رسمی اور تقلیدی بیعت تھی گوحسن عقیدت سے ہی تھی مگر اس کے بعد لا ہور آ جانے کی وجہ سے میرا چنداں تعلق نہ رہا ہاں بدستور حسن ظن اور اعتقاد حضرت کی نسبت قائم تھا اور میں پیسہ اخبار لاہور کے لئے (جس کا میں ۱۸۸۷ء سے خریدار تھا) خبروں اور بعض کہانیوں کا ترجمہ فارغ وقت میں کیا کرتا تھا اور پیسہ اخبار کے دفتر میں ایک مولوی سید احمد صاحب لکھنوی اور منشی الہ دتا صاحب سیالکوئی بھی کام کرتے تھے.مارچ ۱۸۹۱ء کے پہلے یا دوسرے ہفتہ کا واقعہ ہے کہ پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں یہ خط اس عنوان سے شائع ہوا.آنے والا مسیح آ گیا ہے جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہوں دیکھے اور جس کے کان سننے کے ہوں سنے“.منشی محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار جانتے تھے کہ میں مذہبی آدمی ہوں اور بار ہا انہوں نے انارکلی میں عیسائیوں اور آریوں کے خلاف لیکچر دیتے اور مباحثے کرتے ہوئے دیکھا.انہوں نے مجھے اور مولوی سید احمد اور منشی الہ دتا کو بلایا اور کہا کہ ایک نئی خبر سناتا ہوں.اس پر انہوں نے یہ مضمون سنایا.میرا علم معرفت نہایت ہی کمزور تھی میں نے مضمون سن کر اظہار افسوس کیا اور جو نادان صوفیوں سے سنا ہوا تھا کہ سلوک کے راستہ میں بعض وقت کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے اور ایسے بزرگ کچھ دعوی کر دیتے ہیں میں نے بھی یہی کہا کہ حضرت کو نعوذ باللہ ٹھوکر لگی ہے اس سے زیادہ میں نے کچھ نہ کہا اور نہ حضرت کے متعلق کوئی شبہ پیدا ہوا.بات آئی گئی.کچھ دنوں کے بعد مجھے رسالہ فتح اسلام مل گیا میں نے اسے تین چار مرتبہ پڑھا اور مجھے شرح صدر ہو گیا.میں نے رسالہ جیب میں رکھا اور دفتر جا کر ان ہرسہ کی موجودگی میں آنے والا سیح آگیا.(عرفانی) ۱ ۲۶ / مارچ ۱۸۹۱ء

Page 88

حیات احمد ۸۵ جلد سوم ان کو گواہ کر کے کہا کہ میرا خیال غلط تھا حضرت مرزا صاحب واقعی مسیح موعود ہیں اور حضرت مسیح ابن مریم فوت ہو گئے اور رسالہ فتح اسلام سے بعض پیرا گراف سنائے اس پر منشی محبوب عالم صاحب نے کہا تم بڑے متلون مزاج ہو چند روز پیشتر وہ خیال ظاہر کیا اور آج ان کے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہو.میں نے کہا آپ نے تکون کی حقیقت نہیں کبھی اپنی غلطی سے رجوع کر کے صداقت کو قبول کرنا تو اعلیٰ درجہ کی خوبی ہے.اس پر وہ بحث ختم ہوگئی اور میں نے حضرت کو اپنا یہ سارا قصہ لکھ دیا.اللہ تعالیٰ نے منشی الہ دتا صاحب کو تو سلسلہ میں داخل کر دیا.سید احمد ناول نویس تھے ان کو کچھ توجہ ہی نہ ہوئی ، اور منشی محبوب عالم صاحب مخالفت بھی کرتے رہے اور اس کے بعد خاکسار عرفانی کبیر کو تو علی الاعلان اس پیغام کو لا ہور کے بازاروں میں پہنچانے کی سعادت نصیب ہوئی.اور حضرت اقدس کے سفر لا ہور کے ایام میں مخالفین سے ماریں بھی کھا ئیں.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب ان ایام میں مدرسہ نعمانیہ لاہور کے ایک اعلیٰ کلاس کے طالب علم تھے اور میرے لیکچروں میں جو اس موضوع پر انارکلی لا ہور میں ہوتے کبھی کبھی آتے بھی تھے ان حالات کے جاننے والوں میں سے مکرم حکیم مرہم عیسی موجود ہیں (اللہ تعالیٰ ان کو اور بھی عمر دے.میں نے ایک رؤیا میں بھی ایسا دیکھا تھا.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب) فتح اسلام کی اشاعت اس دعوئی کے اعلان کے ساتھ آپ نے اپنے دعوی مسیحیت کے متعلق ایک مختصر رسالہ فتح اسلام کے نام سے لکھا اور اس کے ٹائیٹل پیچ پر یہ الہامی رباعی درج کی.

Page 89

حیات احمد ۸۶ دعوت حق الہامی کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا فتح اسلام در اصل ایک دعوت حق تھی چنانچہ آپ نے یہی لکھا کہ فتح اسلام اور خدا تعالیٰ کی تجلی ، خاص کی بشارت اور اس کی پیروی کی راہوں اور اس کی تائید کے طریقوں کے طرف دعوت رَبِّ انْفُخُ رُوحَ بَرَكَةٍ فِي كَلامِي هَذَا وَاجْعَلُ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِ اے ناظرین! عَافَاكُمُ الله فِي الدُّنْيَا وَالدِّيْنِ - آج یہ عاجز ایک مدت مدید کے بعد اس الہی کارخانہ کے بارے میں جو خدا تعالیٰ نے دین اسلام کی حمایت کے لئے میرے سپرد کیا ہے ایک ضروری مضمون کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں اور میں اس مضمون میں جہاں تک خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے مجھے تقریر کرنے کا مادہ بخشتا ہے اس سلسلہ کی عظمت اور اس کا رخانہ کی نصرت کی ضرورت آپ صاحبوں پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں تا وہ حق تبلیغ جو مجھ پر واجب ہے اس سے سبکدوش ہو جاؤں.پس اس مضمون کے بیان کرنے میں مجھے اس سے کچھ غرض نہیں کہ اس تحریر کا دلوں پر کیا اثر پڑے گا.صرف غرض یہ ہے کہ جو بات مجھ پر فرض ہے اور جو پیغام پہنچانا میرے پر قرضہ لازمہ کی طرح ہے وہ جیسا کہ چاہئے مجھ سے ادا ہو جائے خواہ لوگ اس کو بسمع رضا سنیں اور خواہ کراہت اور جلد سوم

Page 90

حیات احمد AL جلد سوم قبض کی نظر سے دیکھیں.اور خواہ میری نسبت نیک گمان رکھیں اور یا بدظنی کو اپنے دلوں میں جگہ دیں وَ أُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ.فتح اسلام کی تالیف کی تاریخ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳ ) اس رسالہ کی تصنیف ۱۸۹۰ء کے آخر میں شروع ہوئی.اگر چہ اس کی تحریک تو آپ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوئی مگر یہ عجیب بات ہے کہ اس اشتہار کے لکھنے کی تحریک حضرت حکیم فضل الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے کی چنانچہ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں.از الجملہ اخویم حکیم فضل دین بھیروی ہیں.حکیم صاحب ممدوح جس قدر مجھے سے محبت اور اخلاص اور حسن ارادت اور اندرونی تعلق رکھتے ہیں میں اس کے بیان کرنے سے قاصر ہوں.وہ میرے بچے خیر خواہ اور دلی ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں.بعد اس کے جو خدا تعالیٰ نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجھے توجہ دی اور اپنے الہامات خاصہ سے امیدیں دلائیں میں نے کئی لوگوں سے اس اشتہار کے لکھنے کا تذکرہ کیا کوئی مجھ سے متفق الرائے نہیں ہوا.لیکن میرے یہ عزیز بھائی بغیر اس کے کہ میں ان سے ذکر کرتا خود مجھے اس اشتہار کو لکھنے کے لئے محرک ہوئے اور اس کے اخراجات کے واسطے اپنی طرف سے مار سوروپیہ دیا.میں ان کی فراست ایمانی سے متعجب ہوں کہ اُن کے ارادہ کو خدا تعالیٰ کے ارادہ سے توارد ہو گیا.وہ ہمیشہ در پردہ خدمت کرتے رہتے ہیں.اور کئی سو روپیہ پوشیدہ طور پر محض ابْتِغَاء لِمَرْضَاتِ اللہ اس راہ میں دے چکے ہیں.خدا تعالیٰ جزاء خیر بخشے.“ فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۹،۳۸) غرض فتح اسلام ۱۸۹۰ء کے آخر میں لکھا جانے لگا.مگر ۱۸۹۱ء کے آغاز سے پہلے شائع نہ

Page 91

حیات احمد ۸۸ جلد سوم ہو سکا چنا نچہ حضرت حکیم الامت نے اوّل سے جس قدر حصہ طبع ہو چکا تھا حضرت سے طلب فرمایا مگر آپ نے قانون مطابع کی رعایت رکھتے ہوئے ۲۰ دسمبر ۱۸۹۰ء کو حضرت حکیم الامت کے خط کے جواب میں لکھا کہ چونکہ کتاب فتح اسلام کسی قدر بڑھ گئی ہے اور مطبع امرتسر میں چھپ رہی ہے اس لئے جب تک کل چھپ نہ جائے.روانہ نہیں ہو سکتی.امید کہ میں روز تک چھپ کر آ جائے گی“.غرض یہ کتاب ۱۸۹۱ء کی پہلی سہ ماہی میں شائع ہوگئی.۱۸۹۰ء کے برکات وثمرات مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۰ء کے برکات وثمرات میں ایک عظیم الشان برکت حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کا سلسلہ بیعت میں شریک ہونا ہے.حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کو سلسلہ میں ایک خاص امتیاز اور مقام حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو اس عزت و شرف سے نوازا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ آپ کے نکاح میں آئیں نواب مبار کہ بیگم اللہ تعالیٰ کی وحی میں آپ کا نام ہے اور بھی الہام آپ کے متعلق ہیں اس شرف وسعادت کے صرف حضرت نواب صاحب مورد ٹھہرے اور نہ صرف یہ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری صاحبزادی جن کے متعلق دُخت کرام کا الہام ہوا حضرت نواب صاحب کی مرحومہ اہلیہ کے صاحبزادہ میاں عبداللہ خاں صاحب کے حبالہء نکاح میں آئیں.چونکہ حضرت نواب صاحب کے سوانح حیات ایک عزیز مکرم صلاح الدین صاحب ایم.اے.نے شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے میں اس موقع پر کچھ زیادہ لکھنا ضروری نہیں سمجھتا حضرت نواب صاحب نے ۱۹ نومبر ۱۸۹۰ء کو بیعت کر لی.

Page 92

حیات احمد ۸۹ جلد سوم ۱۸۹۰ کے کچھ اور واقعات دعویٰ مسیحیت کا اعلان ۱۸۹۰ء کے اواخر اور ۱۸۹۱ء کے اوائل میں کیا گیا درمیانی زمانہ میں آپ اپنے خدام کی تربیت بذریعہ مکتوبات کرتے رہے اور جن کو قادیان آنے یا آپ کے سفروں میں منزل مقصود پر پہنچنے کا موقع ملتا وہ صحبتِ اقدس سے فیض پاتے رہتے.۱۸۸۹ء کے اواخر اور ۱۸۹۰ء کے آغاز میں میر عباس علی صاحب نفث الدم کے عارضہ سے بیمار تھے اور ان کو سخت تکلیف تھی حضرت کو باوجود اپنی علالت کے آپ کی صحت اور شفایابی کے لئے خاص توجہ تھی چنانچہ آپ نے حضرت حکیم الامت کو ان کے علاج کے لئے ادویات بھیجنے کی ہدایت کی اور میر صاحب کو قادیان بلا بھیجا.مکتوب بنام حضرت حکیم الامت مورخہ یکم جنوری ۱۸۹۰ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۹۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) چنانچہ میر صاحب قادیان آگئے.اور حضرت خودان کے علاج کی طرف متوجہ ہوئے اور دعاؤں کا سلسلہ تو جاری ہی تھا چنانچہ ۲۵ /جنوری ۱۸۹۰ کے مکتوب میں میر صاحب کے منتظر رہنے کا ذکر فرمایا اور ارسال ادویہ کے لئے تاکید کی.طالب دعا مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۹۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) انہیں ایام میں حضرت حکیم الامت کے توسط سے ایک شخص ٹھا کر رام نے درخواست دعا کی تھی حضرت نے یکم جنوری ۱۸۹۰ء کے مکتوب میں لکھا کہ.” میری طبیعت آپ کے بعد پھر بیمار ہوگئی ابھی ریزش کا نہایت زور ہے دماغ بہت ضعیف ہو گیا ہے.آپ کے دوست ٹھا کر رام کے لئے ایک دن بھی توجہ کرنے کا موقع مجھے نہیں ملا.صحت کا منتظر ہوں اگر وہ اخلاص مند ہے تو اُس کے اخلاص کی برکت سے وقت صفا مل جائے گا اور صحت بھی مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۹۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

Page 93

حیات احمد ۹۰ جلد سوم اس کے بعد بعض احباب کی آمد اور مصروفیت کی وجہ سے توجہ نہ کر سکے انہیں ایام میں حضرت أُمُّ المُؤْمِنین اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی طبیعت بھی ناساز رہی.اُن آنے والے دوستوں میں ایک قاضی غلام مرتضی صاحب بھی تھے جو قصبہ احمد پور ضلع جھنگ کے رہنے والے تھے اور ان ایام میں بعہدہ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مظفر گڑھ میں مامور تھے انہوں نے بیعت تو ستمبر ۱۸۸۹ء میں بذریعہ تحریر کی تھی جنوری کے غالبا دوسرے ہفتہ میں وہ دس دن کے لئے قادیان آئے.سرکاری عہدہ داروں میں بڑے پہلے عہدہ دار یہی صاحب تھے اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے غرض اس قسم کی مصروفیتوں کی وجہ سے ٹھا کر رام کے لئے آپ دعا اور توجہ کے لئے جو موقعہ نہ پاسکے اس کے حقیقی واقعات حضرت حکیم الامت کو لکھ دیئے.حقیقت میں جیسا کہ میں نے لے آپ کے ایک مکتوب کے اقتباس میں بتایا ہے اخلاص مند ہونا لازمی تھا.با ایں اپنے عذرات کو لکھ دیا اور یہ بھی فرمایا.آپ کے دوست نے اگر بے صبری نہ کی جیسا کہ آج کل لوگوں کی عادت ہے تو محض اللہ ان کے لئے توجہ کروں گا مشکل یہ ہے کہ انسان دنیا میں منعم ہو کر بہت نازک مزاج ہو جاتا ہے پھر ادنی ادنیٰ انتظار میں نازک مزاجی دکھاتا ہے اور خدا تعالیٰ پر احسان رکھنے لگتا ہے اور حسن ظن سے انتظار کر نے والے نیک حالت میں ہیں........‘ (۲۵ جنوری ۱۸۹۰ء) مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۹۲ مطبوعه ۲۰۰۸ء) ایک مقدمہ میں شہادت انہیں ایام میں ایک شخص نے ایک خون کے مقدمہ میں آپ کی شہادت لکھا دی جس کے لئے آپ کو لودہا نہ جانا ضروری تھا چنا نچہ اس کے متعلق بھی آپ نے تحریر فرمایا کہ.”شہادت کمیشن کے سامنے ادا کی جائے گی شائد دو چار دن اس میں بھی گزریں“.

Page 94

حیات احمد ۹۱ جلد سوم میں اس جگہ یہ بھی لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ چونکہ لوگوں کو عام طور پر یقین تھا کہ آپ راستباز ہیں اور سچی شہادت کو چھپا نہیں سکتے نہ کسی ترغیب یا ترہیب سے بدل سکتے ہیں اس لئے جہاں واقعات کا کچھ بھی تعلق ہوتا وہ ایسا کرتے.جہاں تک میری تحقیقات ہے آپ کو تین مرتبہ شہادت کے لئے طلب کیا گیا سب سے پہلے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے جو مقدمہ ڈپٹی شنکر داس وغیرہ پر اس اراضی کے متعلق کیا ہوا تھا جہاں صدر انجمن کے دفاتر ہیں تو فریق مخالف نے محض قبضہ کی تنقیح کے سلسلہ میں آپ کو طلب کیا.قبضہ انہیں کا تھا ( قانونی قبضہ یا مخالفانہ قبضہ ) زمین ان کی مملوکہ نہ تھی وہ قانون کے اس نکتہ سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے باو جود دشمن ہونے کے انہیں یقین تھا کہ آپ سچی شہادت دیں گے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مقدمہ واپس لے لیا اور زمین فریق ثانی کو مل گئی اس پر عمارت تعمیر ہو گئی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور آپ کے سچ کی برکت کا ظہور یوں ہوا کہ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے عہد خلافت میں وہ مکان اور اس کے ملحقہ مکانات سلسلہ کے قبضہ میں بذریعہ خرید آگئے.دوسرا یہ مقدمہ ہے جس کا ذکر آپ نے اپنے مکتوب میں کیا ہے.تیسرا وہ مشہور مقدمہ ہے جو مولوی رحیم بخش صاحب پریذیڈنٹ کونسل بہاولپور نے اخبار ناظم الہند لا ہور کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا کیا ہوا تھا اور ملتان میں چل رہا تھا.اس مقدمہ میں ناظم صاحب ایڈیٹر ناظم الہند نے آپ کو اپنی صفائی کے گواہوں میں طلب کر ایا اور آپ نے اس مقدمہ میں شہادت حقہ کا اظہار کیا.ناظم صاحب، سلسلہ کے سخت دشمن شیعہ تھے اور ناظم الہند میں شیخ نجفی کے سلسلہ میں بڑی مخالفت کی تھی مگر وہ جانتے تھے کہ آپ شہادت کے معاملہ میں دوستی دشمنی کے خیال سے بالاتر رہ کر حق بات کہیں گے.

Page 95

حیات احمد حضرت کی علالت ۹۲ جلد سوم یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت اقدس عمر بھر مختلف بیماریوں کا ہدف رہے اور یہ ضروری تھا که حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نزول دو زرد چادروں میں بیان فرمایا تھا اور یہ دو بیماریاں تھیں کثرت پیشاب اور دورانِ سر.مگر جس قدر عظیم الشان تصانیف اور آیات اللہ کا ظہور ہوا وہ انہیں بیماریوں میں ہوا حضرت مخدوم الملة مولانا عبدالکریم رضی اللہ عنہ تو جب آپ پر کسی بیماری کا دورہ ہوتا تو فرمایا کرتے کوئی بڑا نشان ظاہر ہوگا.بہر حال اپریل ۱۸۹۰ء سے آپ پر بیماری کا حملہ ہوا.چنانچہ ۷/ اپریل ۱۸۹۰ء کو آپ نے مکرم حضرت چودھری رستم علی صاحب رضی اللہ کو لکھا.یہ عاجز عرصہ دس روز سے سخت بیمار رہا.بظا ہر امید زندگی منقطع تھی.اب بھی کسی قدر بیماری باقی ہے نہایت درجہ کا ضعف ہے.طاقت تحریر نہیں.صرف اطلاع کے لئے لکھتا ہوں“.سفر لاہور مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۵۷۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اپریل ۱۸۹۰ء کے آخر میں آپ بغرض علاج لاہور تشریف لے گئے.ان ایام میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب لاہور میں نائب تحصیلدار تھے اور آپ جب لاہور تشریف لے جاتے تو عموماً انکے پاس ہی ٹھہرتے.آپ ڈاکٹری علاج کے لئے طبی مشورہ ڈاکٹر محمد حسین صاحب سے لیتے اور وہی آپ کے معالج تھے وہ بھائی دروازہ کے اندر اس کو چہ میں جو اونچی مسجد کے پاس سے محلہ مستان کو جاتا ہے رہتے تھے میں نے ان کو دیکھا ہے.متدین اور حضرت اقدس سے ارادت بھی رکھتے تھے کچھ طبیعت میں مزاح بھی تھا ایک مرتبہ حضرت اقدس سے کہا کہ الہام آپ کو ہوتا ہے کوئی ترکیب بھی مجھے بتا دیں کہ الہام ہونے لگے آپ نے فرمایا پہلے آپ مجھے کو

Page 96

حیات احمد ۹۳ جلد سوم ڈاکٹری سکھا دیں.اس نے کہا یہ تو بہت مشکل ہے سالہا سال کی محنت اور تجربہ کے بعد میں اس قابل ہوا ہوں آپ نے فرمایا کہ اس چیر پھاڑ کے لئے تو بڑی محنت اور سالہا سال کی محنت درکار ہے مگر اللہ تعالیٰ کے کلام سے مشرف ہونے کے لئے آپ چاہتے ہیں کہ بغیر کسی محنت اور مجاہدہ کے حاصل ہو جاوے یہ تو آپ کی ڈاکٹری سے بھی زیادہ محنت طلب ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا * جو لوگ ہم میں رہ کر مجاہدہ کرتے ہیں اُن پر ہم اپنے راستوں کو کھول دیتے ہیں ( میں نے اس گفتگو کا مفہوم لکھا ہے جو مجھے سنائی گئی تھی ) غرض حضرت کو ڈا کٹر محمد حسین صاحب کی تشخیص اور تجربہ پرحسن ظن تھا اور ان کو آپ سے محبت تھی.اس سفر لاہور کے متعلق بھی ۳ رمئی ۱۸۹۰ء کو حضرت نے چودہری صاحب کو لکھا کہ میں بمقام لاہور بغرض علاج کرانے کے لئے آیا ہوں علاج ڈاکٹری شروع ہے، لیکن ابھی پوری پوری صحت نہیں ہوئی.انشاء اللہ کامل صحت ہو جائے گی میں دو تین روز تک واپس قادیان چلا جاؤں گا“ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۵۷۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یہ دوری مرض تھی اس کا سلسلہ کچھ کچھ وقفہ کے بعد جاری رہا.قدرتی بات ہے کہ آپ کے خدام کو اپنے درجہ محبت و اخلاص کے لحاظ سے تشویش رہتی تھی اور آپ سب کو مناسب موقعہ تسلی دیتے چنانچہ حضرت چودھری صاحب کو ۲۵ / جون ۱۸۹۰ء کولکھا کہ ” میری طبیعت بباعث ایک مرض دوری کے اکثر بیمار رہتی ہے اور ضعف بہت ہو گیا ہے.امید کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور آپ اندیشہ مند نہ ہوں اور تو بہ واستغفار میرا میں مصروف رہیں.زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا جب تک آسمان پر نہ ہو.ارادہ ہے کہ تبدیل آب و ہوا کے لئے ۳ / جولائی ۱۸۹۰ ء تک لودھیانہ میں جاؤں.“ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۵۷۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) العنكبوت : ٧٠

Page 97

حیات احمد ۹۴ جلد سوم مگر آپ جولائی سے پہلے روانہ نہ ہو سکے اس وقت حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ اور ہانہ ہی میں تھے اور محلہ اقبال گنج میں مقیم تھے.آپ وہاں جا کر ان کے مکان کے متصل شہزادہ حیدر کا مکان جو بڑا مکان تھا زنانہ کے لئے لیتے اور حضرت میر صاحب کا مکان مردانہ ہو جاتا تھا.اس عرصہ میں آپ نے حضرت منشی عبد اللہ سنوری اور حضرت حکیم الامت کو بھی اپنی علالت اور قیام لودہانہ کی اطلاع دی اور اس سفر لود بانہ کے دوران ہی میں مخالفت کی دبی ہوئی چنگاری سلگ گئی.مخالفت کی دبی ہوئی چنگاری سلگتی رہی.آپ کی اس علالت اور قیام لود بہانہ کے ایام میں خاکسار کو اکثر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ مل جاتا.اس وقت تک اعلان مثیل مسیح نہیں ہوا تھا.دسمبر ۱۸۹۰ء کے آخری ایام میں فتح اسلام کی تالیف اور اشاعت کا اہتمام ہوا.اور آپ اس وقت قادیان آچکے تھے اور اوائل ۱۸۹۱ء میں اس دعوی کا چرچہ شروع ہوا.میں تو اس وقت لاہور آ چکا تھا.۱۸۹۱ء کے واقعات لودہانہ کے مولوی صاحبان تو پہلے سے ہی مخالف تھے اب اس دعوی کے اظہار پر مخالفت اس کیمپ میں بھی شروع ہونے لگی جو ہمیشہ مخالف الرائے مولویوں کو جواب دیتا تھا اور اس میں جناب مولوی محمدحسین بٹالوی غفر اللہ لہ پیش پیش تھے.اور ان کا رسالہ اشاعۃ السنہ مخالفین کے دفاع کے لئے قلمی جنگ میں مصروف تھا.اگر چہ علماء کی ایک جماعت شروع ہی سے مخالف تھی اور یہ بدقسمتی لودہانہ کے مولوی عبدالعزیز اینڈ برادرس کے حصہ میں آئی اس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی نے ان کو اشاعۃ السنہ میں لکھا کہ لَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرِبہ اور ان کے ہر قسم کے اعتراضات وہ مذہبی تھے یا سیاسی ان کا جواب بڑی شرح وبسط سے اپنے رسالہ میں دیا اور بظاہر اُن کا منہ کچھ عرصہ کے

Page 98

حیات احمد ۹۵ جلد سوم لئے بند کر دیا اس لئے کہ مولوی محمد حسین صاحب کے ہاتھ میں ایک ماہوار رسالہ تھا اور ان مولوی صاحبان کے پاس صرف زبان تھی.وہ اپنی تقریروں اور وعظوں میں اظہار مخالفت کرتے اور موعود لڑکے کی پیشگوئی پر ایک عام طوفان بے تمیزی پیدا ہو کر کچھ عرصہ کے لئے دب گیا.سلسلہء بیعت کے بعد جب مثیل مسیح اور وفات مسیح ابن مریم کا اعلان ہوا تو سویا ہوا فتنہ جاگ اٹھا اور نہ صرف مولوی صاحبان بلکہ بعض وہ لوگ بھی جو الہام اور مکاشفات کے مدعی تھے اور لوگوں کا اُن کی طرف رجوع بھی تھا اپنی سرد بازاری کے خطرہ سے ( میں یہی کہوں گا ) مخالفت پر آمادہ ہوئے.مگر سب سے بڑی حیران کن بات یہ ہے خود مولوی محمد حسین صاحب جو اس سے پہلے آپ کی کفش برداری کو باعث عزت سمجھتا تھا مخالفت پر آمادہ ہو گیا اور حقیقت یہ ہے کہ اس عہد میں سب سے بڑا مخالف وہی تھا.مولوی محمد حسین صاحب کا تعارف قبل اس کے کہ میں مولوی محمد حسین صاحب کی مخالفت کی ابتدا اور انتہا کا ذکر کروں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے متعلق ایک تعارفی نوٹ لکھ دوں اس لئے کہ عصر حاضرہ میں بہت ہی کم لوگ ہیں جو اُن کے متعلق کچھ جانتے ہوں.مولوی صاحب بٹالہ ضلع گورداسپور کے ایک ہندو خاندان پوری سے تعلق رکھتے تھے ان کے اجداد میں ایک شخص نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اس طرح پر وہ نو مسلم تھے مولوی صاحب کے والد ماجد شیخ رحیم بخش صاحب کو حضرت کے خاندان سے تعلقات نیاز مندی حاصل تھے اور وہ اس خاندان کی عملی فیاضیوں سے استفادہ بھی کرتے تھے.ان کے جاگیر کے مقدمات میں بطور مختار بھی کام کر لیا کرتے تھے.اور حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام سے بھی اخلاص و عقیدت رکھتے تھے چنانچہ بشیر اول کی پیدائش پر اُس کے عقیقہ کی تقریب پر انہوں نے خواہش کی تھی کہ اس مولود کی مو تراشی میری گود میں ہو اور حضرت نے نہایت کشادہ دلی سے اسے قبول کر لیا تھا اور بیت الفکر میں اس سنت کو پورا کیا گیا.

Page 99

حیات احمد ۹۶ جلد سوم مولوی محمد حسین صاحب نے اُس زمانہ کے مشہور اور ممتاز علماء سے علوم عربیہ کی تحصیل کی اور حدیث کی سند شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی سے لی اور کچھ شک نہ تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب اُن کے ممتاز شاگردوں میں سے ایک تھے.ابتدائی زمانہ تعلیم میں جب حضرت اقدس تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اُسی مکتب میں مولوی محمد حسین صاحب بھی شریک درس تھے اور اس لئے وہ حضرت صاحب سے خوب واقف تھے.جب وہ فارغ التحصیل ہو کر آئے تو انہوں نے اہلحدیث کے عقائد کا اعلان شروع کیا جہاں تک عقائد اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا تو عمل ہی یہی تھا چنانچہ وہ فرماتے ہیں ؎ دگر استاد را نامے ندانم که خواندم دبستان محمد در پنجاب میں اس وقت حنفی عقیدہ کے لوگوں کی ہی کثرت تھی اور مولوی محمد حسین صاحب نے جب ان لوگوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو بٹالہ کے لوگوں کو بڑی تشویش ہوئی انہوں نے اس کو مذہب حقہ پر بڑا حملہ سمجھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُن سے بحث کرنے کے لئے بلایا.اس واقعہ کو خود حضرت کی زبان سے سنو ۱۸۶۸ ء یا ۱۸۶۹ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میں ہوا تھا جس کو اسی جگہ لکھنا مناسب ہے اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے ، جب نئے نئے مولوی ہو کر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو ان کے خیالات گراں گزرے تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ پر بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو مع ان کے والد صاحب کے مسجد میں پایا.پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت

Page 100

حیات احمد ۹۷ جلد سوم کی تقریر کو سن کر معلوم کر لیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابلِ اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا.رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے.چونکہ خالصاً خدا اور اُس کے رسول کے لئے انکسار اور تذلل اختیار کیا گیا.اس لئے اُس محسنِ مطلق نے نہ چاہا کہ اس کو بغیر اجر کے چھوڑے.فَتَدَبَّرُوْا وَتَفَكَّرُوْا) ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۲،۶۲۱) یہ واقعہ خود حضرت کی حق پسندی اور تقویٰ پر بھی روشنی ڈالتا ہے مگر میں اس وقت صرف مولوی محمد حسین صاحب کا تعارف قارئین کرام سے کرا رہا ہوں یہ ۶۹.۱۸۶۸ء کا واقعہ ہے اس کے بعد حضرت اقدس سے مولوی محمد حسین صاحب کے تعلقات بڑھتے گئے اور وہ آپ کے نقدس و تقویٰ کو ایام طالب علمی سے جانتا تھا اور اس کے دل میں آپ کے لئے بڑی عظمت تھی.جب آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا تو مولوی محمد حسین صاحب کی عقیدت اور بھی بڑھ گئی.وہ خود عالم تھا اور براہین احمدیہ کے علمی مقام کا اس پر ایسا اثر تھا کہ اس نے اس کتاب پر ایک زبر دست ریو یولکھا.اور اس ریویو کو لکھتے وقت مولوی صاحب نے پہلے اس امر کا اظہار کیا کہ آپ ذاتی طور پر مؤلف براہین احمدیہ سے واقف ہیں چنانچہ لکھا.مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے ( جب ہم قطبی اور شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب.اس زمانہ سے آج تک ہم میں اُن میں خط و کتابت و ملاقات ومراسلت برابر جاری رہی ہے

Page 101

حیات احمد ۹۸ جلد سوم اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دئے جانے کے لائق ہے.(اشاعۃ السنۃ جلدے نمبر ۶ صفحہ ۱۷۶) اور پھر اسی سلسلہ میں حضرت کے متعلق نکتہ چینی کرنے والوں کو وہ پولٹیکل نکتہ چیں ہوں یا مذہبی نکتہ چیں کفران نعمت کرنے والا ٹھہراتے ہیں اور وہ بھی سرسری طور پر نہیں بلکہ لکھا کہ.ہماری تحقیق و تجربه و یقین و مشاہدہ کی رو سے یہ سب نکتہ چینیاں ( مذہبی ,, ہیں خواہ پولٹیکل ) از سرتا پا سوء منہمی یا دیدہ دانستہ دھوکہ دہی پر مبنی ہیں.(اشاعۃ السنۃ جلدے نمبر ۶ صفحه ۱۷۵) یتھی وہ ابتدا کی حالت مولوی محمد حسین صاحب کی.حضرت اقدس کو وضو کر وانے اور آپ کی جو نتیوں کو اٹھا کر سامنے رکھنے میں وہ سعادت سمجھتے تھے مگر پھر جب مخالفت کا آغاز ہوا تو وہ انتہا تک پہنچ گیا.کفر کے فتوے تیار کرائے اور مقدمات کئے.دوسروں کے مقدمات میں مخالف شہادت دی اور تمام تعلقات اخلاص دشمنی اور عداوت سے تبدیل ہو گئے اور کوئی دقیقہ مخالفت اور عداوت کا باقی نہ رہنے دیا مگر اس حالت میں حضرت نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ یہ شخص مرنے سے پہلے تو بہ کرے گا اور آخر ایسا ہی ہوا.جس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا.یہ ہے مختصر تعارف مولوی محمد حسین صاحب کا.میں اور مولوی محمد حسین صاحب خاکسار عرفانی کو مولوی محمد حسین صاحب سے ۱۸۹۱ء سے تعلق ہوا.اس وقت وہ لاہور میں لسوڑے والی مسجد میں رہتے تھے اور چینیاں والی مسجد سے نکل چکے تھے ان کے دو بڑے زبر دست لفٹینٹ مکرم خلیفہ رجب الدین صاحب غفرلہ اور بابا محمد چٹو مرحوم ان سے فرنٹ ہو چکے تھے.میری فطرت ہمیشہ غیر مرعوب رہی.مولوی صاحب سے تعلق احمدیت کے ہی سلسلہ میں ہوا.میں

Page 102

حیات احمد ۹۹ جلد سوم باوجود اپنی کم علمی اور بے مائیگی کے ان سے مباحثات کرتا اور وہ مجھے یعقوب حواری کہتے اشاعۃ السنہ میں بھی میرے متعلق لکھا.میرے تعلقات با وجود مخالفت کے برابر بڑھتے رہے میں ان کو ترکی بہ ترکی جواب دیتا اور میری کوشش تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ جائے اور تو بہ کرے یہ کہانی لمبی ہے اور اس عہد کے لوگ جانتے ہیں اور خود اشاعۃ السنہ اہلحدیث اور پیسہ اخبار وغیرہ میں تذکرے آچکے ہیں اور مجھے اس وقت خوشی ہے کہ وہ آخر تو بہ کر کے فوت ہوئے جیسا کہ حضرت کی یہ پیشگوئی تھی.اس تعارفی نوٹ کے بعد اب میں ان کی مخالفت کے آغا ز کا ذکر کرتا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب کی مخالفت کا آغاز مولوی محمد حسین صاحب کو اس نئے دعوی کی خبر یوں تو لوگوں کی زبان سے ہو چکی تھی اتفاق سے ان کا رسالہ اشاعۃ السنہ بھی ریاض ہند پریس امرتسر میں چھپتا تھا جہاں فتح اسلام چھپ رہا تھا اور وہ اس رسالہ کی طباعت وکتابت کے لئے امرتسر گئے ہوئے تھے وہاں انہوں نے فتح اسلام کے پروف دیکھے اور ان کو ایک جلن سی پیدا ہوئی (یہ جلن الْعِلْمُ حِجَابُ الْأَكْبَرُ کے ماتحت تھی) اور اس نے غصہ سے بیتاب ہو کر حضرت کو ایک خط لکھا یہ ۳۱ / جنوری ۱۸۹۱ ء ہی کا واقعہ - خط و کتابت کا آغاز ہے.یہ خط اس نے اشاعۃ السنہ جلد ۱۲ نمبر ۱۲ صفحه ۳۵۴ پر لکھا جس کا ایک حصہ جو آغاز مخالفت پر روشنی ڈالتا ہے حسب ذیل ہے.آپ کا رسالہ فتح اسلام امرتسر میں چھپ ہی رہا تھا کہ میں اتفاقاً امرتسر پہنچا اور میں نے اس رسالہ کا پروف مطبع ریاض ہند سے منگا کر دیکھا اور پڑھوا کر سنا اس کے دیکھنے اور سننے سے میری سمجھ میں آیا کہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اب میں آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ اس دعوی سے کیا آپ کی یہ مراد ہے

Page 103

حیات احمد که موعود مسیح وہ ابن مریم نہیں جس کے قیامت سے پہلے آنے کا قرآن و حدیث میں وعدہ ہے اور وہ آپ ہی ہیں اس کا جواب صرف ہاں یا نعم فرما دیں زیادہ توضیح کی ضرورت نہیں.جلد سوم (اشاعۃ السنہ جلد ۱۲ نمبر ۱۲ صفحه ۳۵۴) اس مطالبہ کے جواب میں ۵ فروری ۱۸۹۱ء کو حضرت نے مندرجہ ذیل خط لکھا بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مخدومی اخویم.السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.عاجز کی طبیعت علیل ہے اخویم منشی عبدالحق صاحب کو تاکید فرما دیں کہ جہاں تک جلد ممکن ہو معمولی گولیاں ارسال فرما ئیں.توجہ سے کہہ دیں.افسوس کہ میری علالت طبع کے وقت آپ عیادت کے لئے بھی نہیں آئے.اور آپ کے استفسار کے جواب میں صرف ”ہاں“ کافی سمجھتا ہوں.والسلام ۵ فروری ۱۸۹۱ء خاکسار غلام احمد مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۳۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس خط کے جواب میں بٹالوی صاحب نے اار فروری ۱۸۹۱ء کو لکھا کہ مجھے کمال افسوس ہے کہ مجھے آپ کے اس دعوی کا کہ میں مسیح موعود ہوں خلاف مشتہر کرنا پڑا.آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس خلاف سے رو کے.....آپ کے رسائل توضیح مرام اور ازالہ اوہام میرے خلاف کو نہیں روکیں گے.مجھے یقین ہے کہ آپ اور آپ کے حواری ☆ عقلی یا نقلی دلائل سے آپ کا مسیح موعود ہونا ثابت نہ کر سکیں گئے، صفحہ ۳۵۶، ۵۷ اس کے جواب میں پھر حضرت اقدس نے ان کو ذیل کا خط لکھا.تلخیص مکتوب مولوی محمد حسین صاحب شائع شدہ اشاعۃ السنتہ نمبر یکم لغایت پنجم جلد دواز دہم بابت ۱۳۰۶ و ۱۳۰۷ھ مطابق ۱۸۸۹ء

Page 104

حیات احمد 1+1 بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي مخدومی مکرم اخویم مولوی صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ جلد سوم عنابیت نامہ پہنچا.اگر چہ خدا وند کریم خوب جانتا ہے کہ یہ عاجز اُس کی طرف سے مامور ہے اور ایسے امور میں جہاں عوام کے فتنے کا اندیشہ ہے جب تک کامل اور قطعی اور یقینی طور پر اس عاجز پر ظاہر نہیں کیا جاتا ہر گز زبان پر نہیں لاتا لیکن اس میں کچھ حکمت خداوند کریم کی ہوگی کہ اس نزول مسیح کے مسئلہ پر جس کو اصل اور کپ اسلام سے کچھ تعلق نہیں اور ایک مسلمان پر اس کی اصل حقیقت کھولی گئی ہے جس پر بوجہ اخوت حسن ظن بھی کرنا چاہئے.آں مکرم کو مخالفانہ تحریر کے لئے جوش دیا گیا ہے.اور میں جانتا ہوں کہ آپ کی اس میں نیت بخیر ہوگی اور اگر چہ مجھے آپ کے استعمال کی نسبت شکایت ہو اور اس کو رو برو یا غائبانہ بیان بھی کروں مگر آپ کی نیت کی نسبت مجھے حسن ظن ہے اور آپ کو زمانہ حال کے اکثر علماء بلکہ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو بعض لتہی جد و جہد کے کاموں کے لحاظ سے مولوی نذیر حسین صاحب سے بھی بہتر سمجھتا ہوں.اور اگر چہ میں آپ سے ان باتوں کی شکایت کروں تاہم مجھے بوجہ آپ کی صفائی باطن کے آپ سے محبت ہے.اگر میں شناخت نہ کیا جاؤں تو میں سمجھوں گا کہ میرے لئے یہی مقدر تھا.مجھے فتح اور شکست سے بھی کچھ تعلق نہیں بلکہ عبودیت و اطاعت حکم سے غرض ہے.میں جانتا ہوں کہ اس کے خلاف میں آپ کی نیت بخیر ہو گی.لیکن میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ اوّل مجھ سے بات چیت کر کے اور میری کتابوں کو یعنی رسالہ ثلاثہ کو دیکھ کر کچھ تحریر کریں.مجھے اس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں.کیونکہ یہ مخالفتِ رائے بھی حق کے لئے ہوگی.گل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے“.اور اس کے ساتھ مجھے الہام ہوا اِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِيْنِ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف

Page 105

حیات احمد ۱۰۲ جلد سوم سے کوئی حجت ظاہر کر دے گا.میں آپ کے لئے دعا کروں گا مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہو جائے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جو آپ نے مثل لکھی ہے.اشارۃ القص میں پایا جاتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ موسیٰ“ نے کیا.اس قصے کو قرآن شریف میں بیان کرنے سے غرض بھی یہی ہے کہ تا آئندہ حق کے طالب معارف روحانیہ اور عجائبات مخفیہ کے کھلنے کے شائق رہیں.حضرت موسیٰ کی طرح جلدی نہ کریں.حدیث صحیح بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے.اب مجھے آپ کی ملاقات کے لئے صحت حاصل ہے.آپ اگر بٹالے میں آ جائیں تو اگر چہ میں بیمار ہوں دوران سر اس قدر ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی تاہم افتاں و خیزاں آپ کے پاس پہنچ سکتا ہوں.بقول رنگین وہ نہ آوے تو تو ہی چل رنگین اس میں کیا تیری شان جاتی ہے از الہ الا و ہام ابھی چھپ کر نہیں آیا.فتح اسلام اور توضیح المرام ارسال خدمت ہیں.الراقم غلام احمد از قادیان مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۱۲،۳۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) میں نے ان خطوط کو اس لئے درج کر دیا ہے کہ قارئین کرام خود صحیح نتیجہ اخذ کر لیں کہ مولوی محمد حسین صاحب کے کلام میں تبختر اور استکبار ہے اور بالمتقابل حضرت مسیح موعود چاہتے ہیں کہ اسے حق کے سمجھنے اور اول المنکرین ہونے سے بچانے میں مدد دیں.اس کے بعد مولوی محمد حسین صاحب نے صاف صاف لکھ دیا کہ میں مخالف محاذ قائم کرنے سے رک نہیں سکتا ( مفہوم ) اور اب تک خطوط میں جو کسی حد تک ادب یا رسمی اخلاق کا پہلو کمزور نہ ہوا کرتا تھا وہ بالکل بدل گیا اور ایسا رنگ آنے لگا جو ہر واقف شخص کو حیرت میں ڈال رہا تھا کہ کیا یہ وہی مولوی محمد حسین صاحب

Page 106

حیات احمد ۱۰۳ جلد سوم ہیں جنہوں نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھتے وقت انتہائی ادب اور عقیدت کا اظہار کیا تھا اور وہ میدان مخالفت میں ہر قسم کے ہتھیاروں کو لے کر نکل آیا.اس کی جڑ وہی آدم و ابلیس کے رنگ میں بآسانی معلوم ہو سکتی ہے.غرض مولوی صاحب نے اس خط و کتابت کے ذریعہ مخالفت کے لئے آمادگی کا اظہار کیا حضرت چاہتے تھے ان قدیم تعلقات کی بناء پر اور اس شفقت و ہمدردی کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مامورین کی فطرت میں ہوتی ہے کہ وہ اس میدان اختلاف سے پرچم سعادت کے نیچے آ کھڑا ہو مگر اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت نمائی اور زور آور حملوں سے آپ کی صداقت کا اظہار مقصود تھا اس لئے مخالفت میں شدت ہوتی گئی اور حضرت کو انہوں نے لکھا کہ میں اختلاف مشتہر کرنے کا عزم کر چکا ہوں اس پر حضرت نے ان کو ایک خط اپنے پرانے خواب کی بنا پر لکھا جو ۱۸۸۸ء میں آپ نے دیکھا تھا.مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ریویو کچھ اقتباس یہاں دیدوں اگر چہ میں براہین احمدیہ پر مختلف لوگوں کی آراء کو علیحدہ شائع کرنے کا شروع سے ارادہ رکھتا ہوں لیکن موافق سے مخالف بن جانے کے سلسلہ میں چند اقتباس دیتا ہوں.آپ کی واقفیت کا اظہار میں اوپر کر آیا ہوں سلسلہ ریویو میں کہتے ہیں.”ہماری رائے میں یہ کتاب (براہین احمدیہ - عرفانی) اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر اب تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے.اس طرح پر حضرت کی خدمات اسلام اور آپ کی عدیم النظیر تالیف اور حالی واقعات کی تصدیق کرنے کے بعد اس کتاب کو وسیلہ قرار دے کر دعا کرتا ہے اے خدا! اپنے طالبوں کے رہنما! ان پر زیادہ رحم فرما تو اس کتاب (براہین احمدیہ ) کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے اور اس کی برکات سے ان کو مالا مال کر دے اور کسی اپنے صالح بندہ کے طفیل اس خاکسار شرمسار گنہ گار ( یعنی محمد حسین.عرفانی) کو بھی اپنے فیوض و انعامات اور اس کتاب کی اخص برکات سے فیض یاب کر ( ریویو براہین )

Page 107

حیات احمد ۱۰۴ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته محبت نامہ پہنچا.چونکہ آں مکرم عزم پختہ کر چکے ہیں تو پھر میں کیا عرض کر سکتا ہوں.اس عاجز کی طبیعت بیمار ہے.دورانِ سر اور ضعف بہت ہے.ایسی طاقت نہیں کہ کثرت سے بات کروں جس حالت میں آں مکرم کسی طور سے اپنی ارادہ سے باز نہیں رہ سکتے اور ایسا ہی یہ عاجز اس بصیرت اور علم سے اپنے تئیں نابینا نہیں کر سکتا جو حضرت احدیت جَلَّ شانہ نے بخشا ہے.اس صورت میں گفتگو عبث ہے.رسالہ ابھی کسی قدر باقی ہے.ناقص کو میں بھیج نہیں سکتا.اس جگہ آنے کے لئے آں مکرم کو یہ عاجز تکلیف دینا نہیں چاہتا مگر ۲۶ فروری ۱۸۹۱ء کو یہ عاجز انشاء اللہ القدير لو دیانہ کے ارادہ سے بٹالہ میں پہنچے گا.وہاں صرف آپ کی ملاقات کرنے کا شوق ہے.گفتگو کی ضرورت نہیں اور یہ عاجز للہ آپ کے ان الفاظ کے استعمال سے جو مخالفانہ تحریر کی حالت میں کبھی حد سے بڑھ جاتے ہیں یا اپنے بھائی کی تذلیل اور بدگمانی تک نوبت پہنچاتے ہیں معاف کرتا ہے.وَاللَّهُ عَلَى مَا قُلْتُ شَهِيدٌ.چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا.جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا.اس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ ۵/جنوری ۱۸۸۸ء کولکھا گیا ہے.مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کر کے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اس کی سرخی میری نسبت ” کمینہ “ رکھی ہے.معلوم نہیں اس کے کیا معنی ہیں.اور وہ تحریر پڑھ کر کہا ہے.کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا.پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا.هَذَا مَا رَأَيْتُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِتَأْوِيْلِهِ چونکہ حتی الوسع خواب کی تصدیق کے لئے کوشش مسنون ہے اس لئے میں آں مکرم کو منع کرتا ہوں کہ آپ اس ارادہ سے دست کش رہیں.خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعوی میں

Page 108

حیات احمد ۱۰۵ جلد سوم صادق ہوں.اور اگر صادق نہیں تو پھر ان يُكُ كَاذِبًا کی تہدید پیش آنے والی ہے.لَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ وَلَا تَدْخُلْ نَفْسَكَ فِيْمَالَا تَعْلَمْ حَقِيْقَتَهُ يَا أَخِيْ ۖ وَأُفَوِّضُ أَمْرِكْ إِلَى اللهِ يُؤْتِكَ أَجْرَ صَبْرِكَ يَا أَخِي وَأَنَا انْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ وَاَرْجُوْ تَائِيْدَ اللَّهِ وَ أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ - وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى حضرت اخویم حتی فی سبیل اللہ مولوی حکیم نورالدین اور آں مکرم کی تحریرات میں یہ عاجز دخل نہیں دینا چاہتا.خاکسار غلام احمد مکتوبات احمد یہ جلد چہارم صفحه ۳ تا ۵.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۳۱۴٬۳۱۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اوراق ازالہ اوہام کا مطالبہ اس سلسلہ میں مولوی محمد حسین صاحب نے نا تمام ازالہ اوہام کا مطالبہ کیا وہ چاہتا تھا کہ اپنی مخالفت کا پورا زور لگائے اور ازالہ اوہام پر بھی حضرت کو اس کا اندیشہ تھا مگر آپ اشاعت سے پہلے کتاب کے اوراق کبھی دینا پسند نہ کرتے تھے چنانچہ قارئین کرام پڑھ آئے ہیں کہ حضرت نے حضرت حکیم الامت کو بھی نا تمام فتح اسلام دینے سے انکار کر دیا تھا.ہاں آپ یہ چاہتے تھے کہ مولوی محمد حسین صاحب ازالہ اوہام پڑھ لیں تا کہ ان کو صحیح علم آپ کے دعوئی اور دلائل کا ہو جاوے.اس لئے اس مطالبہ پر آپ نے لکھا.بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى - از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد عَافَاهُ اللهُ وَ أَيَّدَهُ - بخدمت مجبی اخویم مکرم ابوسعید محمد حسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا.چونکہ یہ عاجز اپنی دانست میں نا تمام مضمون ازالتہ الا وہام کا آں مکرم کو

Page 109

حیات احمد 1.4 دکھلا نا مناسب نہیں سمجھتا اس لئے اجازت نہیں دے سکتا.مگر اس عاجز کی رائے میں صرف ہیں پچیس روز تک رسالہ ازالتہ الا و ہام چھپ جائے گا.کچھ بہت دیر نہیں ہے.پھر انشاء اللہ القدیر سب سے پہلے یہ عاجز آں مکرم کی خدمت میں بھیج دے گا.آں مکرم کو معلوم ہو گا کہ در حقیقت ان رسالوں میں کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا بلکہ کم و بیش یہ وہی دعوئی ہے جس کا براہین احمدیہ میں بھی ذکر ہو چکا ہے جس کی آں مکرم اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں امکانی طور پر تصدیق کر چکے ہیں.پھر متعجب ہوں کہ اب پھر دوسری مرتبہ آں مکرم کو دیکھنے کی حاجت ہی کیا ہے.کیا وہی کافی نہیں جو پہلے آں مکرم اشاعۃ السنہ نمبر ۶ جلدے میں تحریر فرما چکے ہیں.جب کہ اوّل سے آخر تک وہی دعویٰ وہی مضمون وہی بات ہے تو پھر آپ جیسے محقق کی نگاہ میں نہ معلوم ہو کس قدر تعجب ہے.یہ عاجز اس رسالہ ازالتہ الا وہام میں آں مکرم کے ریویو کی بعض باتیں درج بھی کر چکا ہے اس عاجز نے جو ۵/ جنوری ۱۸۸۸ء کو خواب دیکھی تھی.اُس کی سرخی کمینہ تھا.جس کی حقیقت مجھے معلوم نہیں ہوئی.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب.پھر بھی میں آں مکرم کو اللہ نصیحت کرتا ہوں کہ اس سماوی امر میں آپ کا دخل دینا مناسب نہیں مثیل مسیح موعود کا دعوی کوئی امر عند الشرع مستبعد نہیں.اگر آپ ناراض نہ ہوں تو اس عاجز کی دانست میں اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے مقابل آپ کی تحریر میں کسی قدر سختی تھی.خدا تعالیٰ انکسار اور تذلل کو پسند کرتا ہے اور علماء کے اخلاق اپنے بھائیوں کے ساتھ سب سے اعلیٰ درجے کے چاہئیں.جس دین کی حمایت اور ہمدردی کے لئے دن رات کوششیں ہو رہی ہے.وہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ اللہ اور رسول کی منشاء کے موافق ہمارے جمیع احوال و افعال و حرکات وسکنات ہو جائیں.میرے خیال میں اخلاق کے تمام حصوں میں سے جس قدر خدا تعالیٰ تواضع اور جلد سوم

Page 110

حیات احمد 1+2 جلد سوم فروتنی اور انکسار اور ہر ایک ایسے تذلل کو جو منافی نخوت ہے پسند کرتا ہے.ایسا کوئی شعبہ خلق کا اس کو پسند نہیں (جو اس کے مغائر ہوں.) مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دینِ متین کے الفاظ استعمال کئے.غیرت دینی کی وجہ سے کسی قدر اس عاجز نے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ پر عمل کیا مگر چونکہ وہ ایک شخص کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ تیرے بیان میں سختی بہت ہے رفق چاہیئے رفق“.اور اگر ہم انصاف سے دیکھیں تو ہم کیا چیز اور ہمارا علم کیا چیز.اگر سمندر میں ایک چڑیا منقار مارے تو اس سے کیا کم کرے گی.ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ جیسے ہم درحقیقت خاکسار ہیں.خاک ہی بنے رہیں.جب کہ ہمارا مولیٰ ہم سے تکبر اور نخوت پسند نہیں کرتا تو کیوں کریں ہمارے لئے ایسی عزت سے بے عزتی اچھی ہے جس سے ہم مور دعتاب ہو جائیں.آپ کی تحریر اگر اس طرح پر ہوتی کہ جس قدر خداوند تعالیٰ نے میرے پر کھولا ہے اگر آپ مہربانی فرما کر ملیں یا میں ملوں تو بیان کروں گا تو کیا اچھا ہوتا.یہ قاعد ہے کہ جس حالت اندرونی سے الفاظ نکلتے ہیں وہی رنگ الفاظ میں بھی آجاتا ہے.عده میں نے اس فیصلہ میں مولوی نورالدین صاحب کا کچھ لحاظ نہیں کیا اور محض للہ آں مکرم کی خدمت میں عرض کی گئی ہے.اس عاجز کو پختہ طور پر معلوم نہیں کہ کس تاریخ اس جگہ سے یہ عاجز روانہ ہو.بعض موانع پیش آگئے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ شائد ایک ہفتہ کے اندر اندر روانہ ہو جاؤں اس صورت میں بالفعل ملاقات مشکل معلوم ہوتی ہے لہذا اطلاعاً آپ کی خدمت میں لکھتا ہوں کہ اس عاجز کے لئے بٹالہ ا نوٹ.بریکٹ والا حصہ.مکتوبات احمد یہ جلد چہارم صفحہ ۶ پر یہ حصہ مندرج نہیں مگر مکرم عرفانی صاحب نے حیات احمد جلد سوم صفحہ ۶۶ میں اسے درج فرمایا ہے.(ناشر)

Page 111

حیات احمد 1+1 جلد سوم میں تشریف نہ لاویں.کیونکہ کوئی پختہ معلوم نہیں.جس وقت خدا تعالیٰ چاہے گا ملاقات ہو جائے گی.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۳ فروری ۱۸۹۱ء مکتوبات احمد یہ جلد ۴ صفحه ۵ ، ۶.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۱۵، ۳۱۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) مولوی محمد حسین صاحب اور میر عباس علی صاحب مولوی محمد حسین صاحب اور میر عباس علی صاحب دونوں ایک ہی ترازو کے دو پلڑے ہیں میر صاحب نے براہین کی تالیف کے زمانہ میں جب کہ حضرت صاحب بالکل مستور تھے براہین کی اشاعت کے لئے بے انتہا کوشش کی اور حضرت صاحب سے اس قدرا خلاص بڑھا کہ آپ کے خطوط کو بغیر وضو پڑھتا نہ تھا اور وضو کر کے ایک رجسٹر میں ان کو نقل کرتا تھا.مثیل مسیح کے دعوی کے ساتھ اُس کے دل میں قبض شروع ہوئی اور آخر وہ بڑے بڑے دعوی کر کے مخالفت کے لئے اٹھا اور بالآخر مولوی محمد حسین صاحب کے ساتھ مل گیا اور نا کام مر گیا.مولوی محمد حسین صاحب کی حالت بھی اوپر بیان ہو چکی ہے مثیل مسیح کے دعوئی کے ساتھ اس نے مخالفت کے لئے قدم اٹھایا اور بڑے بڑے دعوی کئے لیکن آخر نا کام ہو کر تو بہ کر کے فوت ہو گیا.میر عباس علی صاحب کا حشر بھی وہی ہوا کہ جو پہلے سے حضرت اقدس نے اس کو بذریعہ خطوط بتا دیا تھا.مخالفت میں ترقی مندرجہ بالا خط و کتابت سے ظاہر ہے کہ جس قدر حضرت اقدس کوشش کرتے اور نرمی اور انکسار سے کام لیتے.شیخ بٹالوی مخالفت میں شدت اختیار کرتے جاتے دراصل وہ حضرت کے انکسار سے یہ سمجھتا تھا کہ میرا پلہ بھاری ہے لیکن مقابلہ نے حقیقت کو کھول دیا جس کی تفصیل آگے آتی ہے.

Page 112

حیات احمد 1+9 جلد سوم اس عرصہ میں مولوی محمد حسین صاحب نے حضرت مولوی نورالدین صاحب سے بھی خط و کتابت شروع کر دی اور اپنی مخالفت اور اپنے اسباب اشاعت سے مرعوب کرنا چاہا.مولوی محمد حسین صاحب حضرت حکیم الامت کے علم و فضل سے ناواقف نہ تھا اور وہ مسئلہ ناسخ منسوخ پر آپ سے گفتگو کر کے مِنْ وَجْہ شکست کھا چکا تھا تا ہم اسے گھمنڈ تھا.اور اس میں کلام نہیں وہ اپنے معاصرین میں ایک ممتاز عالم تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ اس کے مامورین کے مقابلہ میں جب کوئی شخص مخالفت کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اُس کا علم اُس کا زُہد سلب ہو جاتا ہے حضرت حکیم الامت نے ان کے خطوط کا جواب دیا اور مولوی محمد حسین صاحب نے بزعم خود اپنی خود نمائی کے لئے حضرت کو بھی اس خط و کتابت سے مطلع کیا.حضرت نے اس جھگڑے میں دخل دینا پسند نہ کیا مولوی صاحب کے اصرار پر آپ نے حضرت حکیم الامت کے حق میں فیصلہ دیا تو یہ بھی اسے ناگوار گزرا اور حضرت سے شکوہ کیا.جیسا کہ ص ۵ کے مکتوب سے معلوم ہو گا حضرت نے شروع ہی میں اس کو ملاقات کی دعوت دی تھی لیکن جب مخالفت میں ترقی کرتا گیا اور حضرت کو لود ہا نہ جانا تھا تو اس نے لکھا کہ لاہور سے میں بٹالہ آ کر ملاقات کر سکتا ہوں اس وقت کوئی موقعہ نہ تھا اس لئے حضرت نے وہ خط لکھا جو صفحہ ۵ پر درج ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے مباحثہ کی طرح ڈالی اس سلسلہ خط و کتابت میں مولوی محمد حسین صاحب نے مباحثہ کی طرح ڈالنی چاہی حضرت اس کو پسند نہ کرتے تھے اس لئے کہ مباحثات میں بہت ہی کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے خوف سے قبول حق کے لئے آمادہ ہوں ورنہ ان کا مقصد ہار جیت ہوتا ہے اس سلسلہ میں حضرت مولوی صاحب کو حسب ذیل جواب دیا.حمدیہ مکتوب جلد ھذا کے صفحہ ۱۰۶،۱۰۵ پر ہے.(ناشر)

Page 113

حیات احمد 11+ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى - مخدومی اخویم مولوی صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آج لدھیانہ میں آپ کا محبت نامہ مجھ کو ملا.بظاہر مجھے گفتگو میں کچھ فائدہ معلوم نہیں دیتا مجھے خدا تعالیٰ نے ایک علم بخشا ہے جس کو میں چھوڑ نہیں سکتا.ایسا ہی آپ بھی اپنی رائے کو چھوڑنے والے نہیں.مجھے ایک ایسا سبیل بخشا گیا ہے جو معرض بحث میں نہیں آ سکتا.وَلَيْسَ الْخَبْرُ كَالْمُعَايَنَةِ ہاں اس نیت سے میں مجلس علماء میں حاضر ہو سکتا ہوں کہ شائد خدا تعالیٰ حاضرین میں سے کسی کے دل کو اس سچائی کی طرف کھینچے جو اس نے عاجز پر ظاہر کی ہے سواگر شرائط مندرجہ ذیل آپ قبول فرما دیں تو میں حاضر ہو سکتا ہوں.(۱) اس مجمع میں حاضر ہونے والے صرف چند ایسے مولوی صاحب نہ ہوں جو مدعی کا حکم رکھتے ہیں کیونکہ وہ مجھ سے بجز اس صورت کے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے کہ میں ان کے خیالات و اجتہادات کا اتباع کروں اور میری طرف سے بار بار ان کو یہی جواب ہے کہ اِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدَی اگر یہ مجمع کسی قدر عام مجمع ہو گا اور ہر ایک مذاق اور طبیعت کے آدمی اس میں ہوں گے تو شاید کوئی دل حق کی طرف توجہ کرے اور مجھے اس کا ثواب ملے.سو میں چاہتا ہوں کہ یہ مجلس صرف چند مولوی صاحبوں میں محدود نہ ہو.(۲) دوسری شرط یہ ہے کہ یہ بحث جو محض إِظْهَارًا لِلْحَق ہو گی تحریری ہو کیونکہ بار ہا تجربہ ہو چکا ہے کہ صرف زبانی باتیں کرنا آخر منجر بفتنہ ہوتی ہیں.اور بجز حاضرین کے دوسروں کو ان کی نسبت رائے لگانے کا موقع نہیں دیا جاتا اور کیسی ہی عمدہ اور محققانہ باتیں ہوں جلدی بھول جاتی ہیں اور جن لوگوں کو غلو یا دروغ بیانی کی عادت ہے خواہ وہ کسی گروہ کے ہیں اُن کو جھوٹ بولنے کے لئے بہت سی گنجائش نکل آتی ہے کوئی شخص محنت اٹھا کر اور ہر ایک قسم کے اخراجات سفر کا متحمل ہو کر اور بہت سی مغز خواری کرنے کے بعد کب روا رکھ سکتا ہے کہ غیر منتظم فریق کی جلد سوم

Page 114

حیات احمد ااا وجہ سے تمام محنت اس کی ضائع جائے.اور طالب حق کو اس کی تقریر سے فائدہ نہ پہنچ سکے.سو تحریری بحث کا ہونا ایک شرط ہے.(۳) اس مجمع بحث میں وہ الہامی گروہ بھی ضرور شامل ہونا چاہئے جنہوں نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس عاجز کو جہنمی ٹھہرایا ہے.اور ایسا کافر جو ہدایت پذیر نہیں ہو سکتا.اور مباہلہ کی درخواست کی ہے.الہام کی رو سے کافر اور ملحد ٹھہرانے والے تو میاں مولوی عبد الرحمن لکھو کے والے ہیں اور جہنمی ٹھہرانے والے میاں عبدالحق غزنوی ہیں جن کے الہامات کے مصدق و پیرو میاں مولوی عبدالجبار ہیں.سوان تینوں کا جلسہ بحث میں حاضر ہونا ضروری ہے تا کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی قضیہ طے ہو جائے اور اگر مولوی صاحب با ہم مسلمانوں کے مباہلہ کو صورت پیش آمدہ میں ناجائز قرار نہ دیں تو مباہلہ بھی اسی مجلس میں ہو جائے.کیونکہ یہ عاجز اکثر بیمار رہتا ہے.بار بارسفر کی طاقت نہیں.(۴) یہ کہ تحریری بحث کے لئے تمام مخالف الرائے مولوی صاحبوں کی طرف سے آپ منتخب ہوں کیونکہ یہ عاجز نہیں چاہتا کہ خواہ نخواہ لعن طعن اور تو تو میں میں متفرق لوگوں کا سنے ایک مہذب اور شائستہ آدمی تحریری طور پر سوالات پیش کرے کہ اس عاجز کے اس دعوی میں یہ جس کی الہام الہی پر بنا ہے.کیا خرابیاں ہیں.اور کیا وجہ ہے کہ اس کو قبول نہ کیا جاوے سو اس عاجز کی دانست میں اس کام کے لئے آپ سے بہتر اور کوئی نہیں.(۵) یہ آپ کا اختیار ہے کہ جس تاریخ میں آپ گنجائش سمجھیں مجھے اور اخویم مولوی نورالدین صاحب کو اطلاع دیں چونکہ یہ عاجز بیمار ہے اور مرض سدر و دَوَّار سے لا چار اور ضعیف بہت ہے اس لئے اخویم مولوی نورالدین صاحب کا شامل آنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ اس عاجز کی طبیعت زیادہ علیل ہو جائے تو جیسا اکثر دورہ مرض کا ہوتا رہتا ہے اور زیادہ بات کرنے سے سخت دورہ مرض کا ہوتا ہے.اس صورت میں مولوی صاحب حسب منشاء اس عاجز کے مناسب وقت کارروائی کر سکتے ہیں.جلد سوم

Page 115

حیات احمد (1) اگر آپ ہندوستان کی طرف سفر کرنا چاہتے تو لدھیانہ راہ میں ہے.کیا بہتر نہیں کہ لدھیانہ میں ہی یہ مجلس قرار پائے.یہ عاجز بیمار ہے حاضری سے عذر کچھ نہیں.مگر ایسی صورت میں مجھے بیماری کی حالت میں شدائد سفر اٹھانے سے امن رہے گا.ور نہ جس جگہ غزنوی صاحبان اور مولوی عبدالرحمن (اس عاجز کو ملحد اور کا فرقرار دینے والے) یہ جلسہ منعقد ہونا مناسب سمجھیں تو اسی جگہ یہ عاجز حاضر ہو سکتا ہے.والسلام مکرر یہ کہ ۲۳ / مارچ ۹۱ ، تاریخ جلسہ مقرر ہو گئی ہے اور یہ قرار پایا ہے کہ بمقام امرتسر یہ جلسہ ہو.اشتہارات عام طور پر اپنے واقف کاروں میں یہ عاجز شائع کر دے گا.ایسا ہی آپ کو بھی اختیار ہے آپ بواپسی ڈاک جواب سے مطلع فرما دیں کہ جواب کا انتظار ہے.خاکسار غلام احمد از لد ہیا نہ محلہ اقبال گنج مکان شہزادہ غلام حیدر جلد سوم مکتوبات احمد یہ جلد چہارم صفحہ ۷ تا ۹.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۳۱۷ تا ۳۱۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) خط و کتابت کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا.اور مولوی محمد حسین صاحب اپنی مخالفت میں سختی کا رنگ اختیار کرتے گئے.اس وقت سہ رخی لڑائی لڑنا چاہتے تھے حضرت حکیم الامت کو الگ خطوط لکھتے تھے اور حضرت مولوی محمد احسن صاحب کو الگ جبکہ وہ بھوپال میں موجود تھے چونکہ ایک زمانہ میں مولوی محمد احسن صاحب فرقہ اہلحدیث میں ایک سر بر آوردہ بزرگ تھے اور انہوں نے مِصْبَاحُ الْآدِگہ نام ایک کتاب لکھ کر اپنے فرقہ میں خاصی شہرت حاصل کی تھی اور خود مولوی محمد حسین صاحب نے اس پر بڑار یو یولکھا تھا اس نے اپنی جگہ خیال کیا تھا کہ شاید میرے خطوط ان پر ایسا اثر کریں کہ وہ اس کی تائید کریں لیکن یہ تو امر محال تھا.حضرت کا یہ طریق تھا کہ حضرت حکیم الامت کو واقعات سے برابر آگاہ رکھتے تھے.

Page 116

حیات احمد ۱۱۳ جلد سوم امرتسر میں ایک جلسہ کی تجویز جب غزنوی گروہ اور لکھو کے والے مولویوں نے اپنے الہامات مشتہر کر کے آپ کے خلاف ایک نیا محاذ امرتسر میں قائم کرنا چاہا تو آپ نے بمشورہ احباب پسند کیا کہ امرتسر میں ایک ނ جلسہ کیا جاوے اور احقاق حق کیلئے کھلے میدان میں ان لوگوں پر اتمام حجت دلائل اور مباہلہ - کی جائے غزنویوں نے پیچھے رہ کر مولوی عبدالحق غزنوی کو آگے کیا (جو حضرت مولوی عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے تو نہ تھا مگر اسی جرگہ میں بہ حیثیت ایک شاگرد کے شریک تھا اور انہیں میں سے سمجھا جاتا تھا اسے الہام کا بھی دعوی تھا اور لکھو کے والے بھی الہام کے مدعی تھے اور انہوں نے اپنے الہامات جو اشتہارات میں شائع کئے جن میں حضرت کی تحقیر منظور تھی اس لئے حضرت نے پسند کیا کہ امرتسر میں ایک جلسہ ہو جائے اس جلسہ کے محرک دراصل خان بہادر سید فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹر نہر تھے اور وہ چاہتے تھے کہ امرتسر میں ایک جلسہ ہو جائے جیسا کہ حضرت کے ایک مکتو مجھ سے جو حکیم الامت کے نام ہے ظاہر ہوتا ہے.حضرت کا خیال تھا کہ مخدومی مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچ کر موجب مسرت و فرحت ہوا.اگر چہ اس عاجز کی طبیعت صحت پر نہیں.اور اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہو جاؤں لیکن اگر آں مکرم مصلحت دیکھتے ہوں تو میں لاہور میں حاضر ہو سکتا ہوں.میرے خیال میں کوئی نتیجہ ایسے مجمع کا نظر نہیں آتا.آنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَهُمْ عَلَى رَأْيِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ.ہاں ی ممکن ہے کہ ان کے خیالات پیش کردہ معلوم کر کے ان کے رفع دفع کے لئے کچھ اور بھی ازالہ اوہام میں لکھا جائے.مگر یہ بھی غیر ضروری معلوم ہوتا ہے.یہ عاجز ازالہ اوہام میں بہت کچھ لکھ چکا ہے بہر حال اگر آں مخدوم مصلحت وقت سمجھیں تو میں حاضر ہوسکتا ہوں.بشرطیکہ طبیعت اس دن علیل نہ ہو.میاں عبدالحق صاحب نے جو اشتہارات پنجاب اور ہندوستان میں بسعی مولوی عبدالجبار صاحب شائع کئے ہیں جن میں مباہلہ کی درخواست ہے.ان اشتہارات سے لوگوں پر بہت برا اثر پڑا ہے.سو میں چاہتا ہوں کہ مباہلہ کا بھی ساتھ ہی فیصلہ ہو جائے اور ان کے الہامات کا فیصلہ خدا تعالیٰ آپ کر دے گا.اس جلسہ کی بناء

Page 117

حیات احمد ۱۱۴ جلد سوم آپ ۲۱ / مارچ ۱۸۹۱ء تک امرتسر پہنچ جاویں گے اور ۲۳ / مارچ کو جلسہ ہو سکے گا مگر یہ جلسہ اس وقت نہ ہو سکا اس لئے کہ ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب حج کو چلے گئے.میں پھر اصل موضوع کی طرف آتا ہوں خط و کتابت کے اس سلسلہ میں مولوی محمد حسین صاحب کو مندرجہ ذیل دو خط ان کے جواب میں لکھے.بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ مند و می مکر می اخویم مولوی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى - السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.عنایت نامہ پہنچا اس عاجز کے لئے بڑی مشکل کی بات یہ ہے کہ طبیعت اکثر دفعہ نا گہانی طور پر ایسی علیل ہو جاتی ہے کہ موت سامنے نظر آتی ہے اور کچھ کچھ علالت تو دن رات شامل حال ہے اگر زیادہ گفتگو کروں تو دورہ مرض کا شروع ہو جاتا ہے اگر بقیہ حاشیہ.سید فتح علی شاہ صاحب کی طرف سے ہے.اور وہ بہر حال ۱۲ مارچ ۱۸۹۱ء کو حج کے لئے روانہ ہو جائیں گے.اور گیارہ مارچ تک ہم کسی صورت میں پہنچ نہیں سکتے.اگر یہ فتح علی شاہ صاحب دس دن اور ٹھہر جائیں تو اکیس مارچ ۱۸۹۱ء تک یہ عاجز بآسانی امرتسر میں آ سکتا ہے.آئندہ جیسی مرضی ہو.آں مخدوم کی ملاقات کا بہت شوق ہے.اگر فرصت ہو اور ملاقات اسی جگہ ہو جائے تو نہایت ہی خوشی کا موجب ہو گا.فضل الرحمن کی نسبت اس عاجز کو پہلے سے ظن نیک ہے.ایک دفعہ اس کی نسبت سیھدی کا الہام ہو چکا ہے.بعد استخاره مسنونه اگر اسی تجویز کو پختہ کر دیں تو میں بالطبع پسند کرتا ہوں.قرابت اور خویش بھی ہے.جوان ہے.مولوی عبد الرحمن صاحب اور میاں عبدالحق صاحب کے معاملہ میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا.یہ عاجز ایک بندہ ہے.فیصلہ الہی کی انتظار کر رہا ہوں.خدا تعالیٰ کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں.بڑی خوشی ہوگی.اگر آں مخدوم لودہانہ میں تشریف لاویں پھر ضروری امور میں مشورہ کیا جائے گا.۱۹ مارچ ۱۸۹۱ء.نوٹ.اس مکتوب میں جن سید فتح علی شاہ صاحب کا ذکر ہے وہ لاہور کے باشندے اور محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے.خان بہادر بھی تھے.خاکسار عرفانی ذاتی طور پر انہیں جانتا ہے.اس لئے کہ جب وہ محکمہ نہر میں داخل ہوا ہے

Page 118

حیات احمد ۱۱۵ جلد سوم زیادہ فکر کروں تو وہی دورہ شامل حال ہے چونکہ آپ کا آخری خط آیا معلوم ہوتا تھا که گویا بشمولیت مولوی عبدالجبار صاحب لکھا گیا ہے اس لئے جواب اس طرز سے لکھا گیا تھا یہ عاجز غلبہ مرض سے بالکل نکما ہو رہا ہے یہ طاقت کہاں ہے کہ مباحث تقریری یا تحریری شروع کروں.محض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تینوں رسالے لکھے گئے اور وہ بھی اس طرح سے کہ اکثر دوسرا شخص اس عاجز کی تقریر کولکھتا گیا اور نہایت کم اتفاق ہوا کہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھا ہو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ عبارت کو عمدگی سے درست کر دیا جائے آپ کے معلومات حدیث میں بہت وسیع ہیں.یہ عاجز ایک اُقی اور جاہل بقیہ حاشیہ تو شاہ صاحب اس کے افسر تھے مگر مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہیں بہت حسن ظن تھا اور محبت رکھتے تھے.یہ دراصل ایک مجمع احباب تھا.مرزا امان اللہ صاحب.منشی امیر الدین.منشی عبد الحق.بابو الہی بخش.حافظ محمد یوسف صاحب منشی محمد یعقوب صاحب وغیرھم.یہ سب کے سب اہلحدیث تھے.اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ انہیں قبل از دعوی مسیحیت ارادت تھی.آپ کی خدمات دین کے بدل معترف اور ان میں مالی نصرت اور اشاعت میں حصہ لیتے تھے.دعویٰ مسیحت پر بھی ان کے حسن ظن میں فرق نہیں آیا.لاہور میں مخالفت کا زور تھا.اور مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی اس با اثر جماعت کے جاتے رہنے کا صدمہ تھا.اس لئے ان لوگوں نے چاہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے حضرت حکیم الامت کی گفتگو ہو جائے.مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۰۹ تا ۱۱۱ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حمد ان ایام میں حضرت اکثر علیل تھے اور ضعف اور دوران سر کے علاوہ آپ کے ہاتھوں پر خارش تھی اس کی وجہ سے بھی لکھ نہ سکتے تھے اس غرض کے لئے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی آپ نے بلا لیا تھا تا کہ خطوط کے جواب اور ازالہ اوہام کی تسطیر میں ہاتھ بٹائیں جیسا کہ حضرت نے لکھا ہے.آپ املا کراتے جاتے تھے اور کتاب لکھی جاتی تھی.حضرت خود اپنے ہاتھ سے لکھنے اور املا کرا کر لکھوانے میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے چنانچہ آتھم کے مباحثہ میں اوّل سے آخر تک املا کرایا اور با ایں کہیں ربط و ترتیب میں فرق نہیں آیا اور میں نے ( جو جلسہ میں موجود تھا) اور دوسرے احباب نے دیکھا کہ آپ بے تکلف لکھاتے جا رہے تھے.آیات کے متعلق البتہ فرماتے کہ حوالہ لکھوا دیا جاوے.ازالہ اوہام اس طرح پر تحریر پایا تھا.(عرفانی)

Page 119

حیات احمد 117 آدمی ہے نہ عبادت ہے نہ ریاضت نہ علم نہ لیاقت غرض کچھ بھی چیز نہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک امر تھا اور وہ قطعی اور یقینی تھا اس عاجز نے پہنچا دیا.مانا نہ مانا اپنی رائے اور سمجھ پر موقوف ہے درحقیقت میرے لئے یہ کافی تھا کہ میں صرف الہام الہی کو ظاہر کرتا لیکن میں نے اپنے رسالوں میں قَالَ الله اور قَالَ الرَّسُول کا بیان اس لئے کچھ مختصر سا کر دیا ہے کہ شاید لوگ اس سے نفع اٹھاویں مجھے اس سے کچھ بھی انکار نہیں کہ خدا تعالیٰ آئندہ کسی کو اُس کی روحانی حالت کے لحاظ سے درحقیقت مسیح بنا کر دمشق کی مشرقی طرف اُسی طور سے اتار دے جیسے مسافر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا اترتے ہیں.کچھ تعجب نہیں کہ اُس زمانے میں دجال بھی ہو.حضرت مہدی بھی ہوں اور پھر اسلام میں سیفی طاقت پیدا ہو جائے اور تمام لوگ مسلمان ہو جاویں.مگر جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر کھولا ہے صرف اتنا ہے کہ یہ عاجز روحانی طور پر مثیل مسیح ہے اور روحانی طور پر موعود بھی ہے اور نیز یہ کہ کوئی مسیح آسمان سے خا کی وجود کے ساتھ اتر نے والا نہیں ظلی اور مثالی طور پر مسیح کے آنے سے مجھے انکار نہیں بلکہ ایک ہزار مسیح بھی کہا جاوے تو میرے نزدیک ممکن ہے.میرے نز دیک احادیث صحیحہ بھی حقیقی طور پر مسیح کے اترنے کے بارے میں وہ زور نہیں دیتیں جو آج کل کے علماء خیال کر رہے ہیں.مسیح کا اتر ناسیچ مگر خلی اور مثالی طور پر.مولوی عبد الرحمان صاحب اپنے الہامات کے حوالے سے اس عا جز کو ضال و مضل قرار دے چکے ہیں.اور ایسا کافر کہ جس کو کبھی ہدایت نہیں ہوگی اور میاں عبد الحق غزنوی بھی اپنے الہامات کے حوالے سے اس عاجز کو جہنمی قرار دے چکے ہیں اور مولوی عبدالجبار صاحب فرماتے ہیں کہ جو کچھ میاں عبد الحق صاحب کے الہام ہیں میں ان پر ایمان لاتا ہوں کہ وہ صحیح اور درست ہیں اب آپ کے کہنے سے وہ کیا سمجھیں گے اور آپ انہیں کیا سمجھائیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جس طرح جلد سوم

Page 120

حیات احمد 112 جلد سوم چاہے گا اس کی راہ پیدا کر دے گا.اگر آپ کی ملاقات ہو تو میں خوشی سے چاہتا ہوں مگر آپ کے آنے کا کرایہ میرے ذمے رہے.میں آپ کو مالی تکلیف دینا نہیں چاہتا.یہ بہتر ہے کہ آپ اس جگہ آجائیں.بہر حال ملاقات کی خوشی تو اس بیماری کی حالت میں ہو گی ازالتہ الا وہام عنقریب تیار ہوتا ہے بھیج دوں گا ابھی کچھ باقی ہے.والسلام غلام احمد مکتوبات احمد یہ جلد چہارم صفحہ ۱۰،۹.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۳۱۹، ۳۲۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) مخدومی مکرمی بِسْمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط آج کی ڈاک میں مجھ کو ملا اور اس کے پڑھنے سے مجھ کو بہت ہی افسوس ہوا کہ آپ مکالمات الہیہ کے امر کو لہو ولعب میں داخل کرنا چاہتے ہیں.یہ بیچ ہے کہ اس عاجز نے براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۸ و ۴۹۹ میں اس ظاہری عقیدے کی پابندی سے جو مسلمانوں میں مشہور ہے یہ عبارت لکھی ہے کہ یہ آیت حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خدا وند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو شریک رکھا ہے.فقط لیکن ان عبارتوں کو اس امر کے لئے دستاویز ٹھہرانا کہ براہین میں اوّل یہ اقرار ہے اور پھر اُس کے مخالف یہ دعویٰ اور ایسا خیال سراسر غلط اور دور از حقیقت ہے.اے میرے عزیز دوست اس عاجز کے اس دعوی کی جو فتح اسلام میں شائع کیا

Page 121

حیات احمد ۱۱۸ گیا ہے اپنے علم اور عقل پر بنا نہیں تا ان دونوں بیانات میں بوجہ اتحاد بناء صورت تناقض پیدا ہو بلکہ براہین کی مذکورہ بالا عبارتیں تو صرف اس ظاہری عقیدے کی رو سے ہیں جو سرسری طور پر عام طور پر اس زمانے کے مسلمان مانتے ہیں اور اس دعویٰ کی بنا ء الہام الہی اور وحی ربانی پر ہے پھر تناقض کے کیا معنی ہیں.میں خود یہ مانتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی امر پر بذریعہ اپنے خاص الہام کے مجھے آگاہ نہ کرے میں خود بخود آگاہ نہیں ہوسکتا اور یہ امر میرے لئے کچھ خاص نہیں اس کی نظیر میں انبیاء کی سوانح میں بہت ہیں ہم لوگ بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے لَا عِلْمَ لِي إِلَّا مَا عَلَّمَنِي رَبِّي - بلکہ خدا تعالیٰ کا سمجھانا بھی جب تک صاف طور پر نہ ہو انسان ضَعِيفُ الْبُنْيَان اس میں بھی دھوکا کھا سکتا ہے.فَذَهَبَ وَهْلِی کی حدیث آپ کو یاد ہی ہوگی.اب خدا تعالیٰ نے فتح اسلام کی تالیف کے وقت مجھے سمجھایا تب میں سمجھا اس سے پہلے کوئی اس بارے میں الہام نہیں ہوا کہ درحقیقت وہی مسیح آسمان سے اتر آئے گا اگر ہے تو آپ کو پیش کرنا چاہئے.ہاں یہ عاجز روحانی طور پر مثیل موعود ہونے کا براہین میں دعویٰ کر چکا ہے جیسا کہ اسی صفحہ ۴۹۸ میں موعود ہونے کی نسبت یہ اشارہ ہے.صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ چونکہ آپ نے اپنے ریویو میں اس دعوئی کا رڈ نہیں کیا اس لئے اپنے اس معرض بیان میں سکوت اختیار کر کے اگر چہ ایمانی طور پر نہیں مگر امکانی طور پر مان لیا.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر براہین احمدیہ میں ابن مریم کے موعود یا غیر موعود ہونے کے بارے میں کچھ بھی ذکر نہیں کیا صرف ایک مشہور عقیدہ کے طور سے ذکر کر دیا تھا آپ کو اس جگہ اسے پیش کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم بھی بعض اعمال میں جب وحی نازل نہیں ہوتی جلد سوم

Page 122

حیات احمد ۱۱۹ تھی انبیائے بنی اسرائیل کی سنن مشہورہ کا اقتداء کیا کرتے تھے اور وحی کے بعد جب کچھ ممانعت پاتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے اس کو تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے آپ جیسے فاضل کیوں نہیں سمجھیں گے.مجھے نہایت تعجب ہے کہ آپ یہی طریق انصاف پسندی کا قرار دیتے ہیں.کیا اس عاجز نے کسی جگہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا ہر ایک نطق وحی اور الہام میں داخل ہے اگر آپ طریق فیصلہ اسی کو ٹھہراتے ہیں تو بسم اللہ میرے رسالے کا جواب لکھنا شروع کیجیئے آخر حق کو فتح ہوگی.میں نے آپ کو ایک صلاح دی تھی کہ عام جلسہ علماء کا مقام امرتسر منعقد ہوا اور ہم دونوں حسبةً لله و اظهار اللحق اس جلسہ میں تحریری طور پر اپنی اپنی وجوہات بیان کریں اور پھر وہی وجوہات حاضرین کو پڑھ کر سنا دیں اور وہی آپ کے رسالہ میں چھپ جائیں دور نزدیک کے لوگ خود دیکھ لیں گے.جس حالت میں آپ اس کام کے لئے ایسے سرگرم ہیں کہ کسی طرح رکتے نہیں اور جب تک اشاعۃ السنہ میں عام طور پر اپنے مخالفانہ خیال کو شائع نہ کر دیں صبر نہیں کر سکتے تو کیا اس تحریری مباحثہ میں کسی فریق کی کسر شان ہے.میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس جلسہ میں خاک کی طرح متواضع ہو کر حاضر ہو جاؤں گا اور اگر کوئی ایسی سخت دشنامی بھی کرے جو انتہا تک پہنچ گئی ہو تو میں اس پر بھی صبر کروں گا اور سراسر تہذیب اور نرمی سے تحریر کروں گا خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے جو اس نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.اگر آپ مجھے اب بھی اجازت دیں تو میں اشتہارات سے اس جلسہ کے لئے عام طور پر خبر کر دوں اب میری دانست میں خفیہ طور پر آپ کا مجھ سے ذکر کرنا مناسب نہیں جب آپ بہر حال اشاعت پر مستعد ہیں تو محض للہ اس طریق کو منظور کریں.جلد سوم

Page 123

حیات احمد ۱۲۰ وَمَا أَقُولُ إِلَّا لِلَّهِ - وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار غلام احمد از لدھیانہ محلہ اقبال گنج ۱۴ مارچ ۹۱ء جلد سوم مکتوبات احمد یہ جلد ۴ صفحہ ۱۱ تا ۱۳.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۲۱ تا ۳۲۳ مطبوعہ ۶۲۰۰۸) لاہور میں تبادلہ خیالات کا جلسہ جیسا کہ میں حاشیہ میں ذکر کر آیا ہوں لاہور کے مخلصین کی ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ حضرت حکیم الامت کو بلا کر مولوی عبد الرحمن لکھو کے سے گفتگو کرائیں گے جو اس وقت لاہور میں موجود تھے اور مولوی محمد حسین کو بھی بلا لیں گے عبد الرحمن صاحب تو چلے گئے اور طے پایا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے بالمشافہ تبادلہ خیالات کیا جائے چنانچہ ان بزرگوں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو بلایا اور کوچہ کوٹھی داران میں منشی امیرالدین صاحب مرحوم کے مکان پر ایک جلسہ منعقد کیا گیا.یہ دراصل ایک اہل علم اور سنجیدہ مزاج طالبانِ حق کا جلسہ تھا.مولوی محمد حسین صاحب بڑے طمطراق سے اپنے جگہ کو سنبھالتے ہوئے آئے.وہ ہمیشہ بڑا دامن دراز جُبہ پہنا کرتے تھے اور پیچھے سے اٹھا کر کے ایک ہاتھ میں سنبھالے رکھتے تھے.راقم الحروف تو مولوی صاحب سے بے تکلف واقف تھا اس جلسہ میں موجود تھا حضرت حکیم الامت اپنی سادہ وضع سے آئے اور ایک طرف بیٹھ گئے.اس جلسہ کی مطبوعہ روئداد میرے دفتر میں تھی افسوس ہے وہ انقلاب ۱۹۴۷ء میں غائب ہو گئی اور میں اپنے حافظہ کی بنا پر لکھ رہا ہوں مولوی محمد حسین صاحب نے اشاعۃ السنہ میں اسے چھاپ دیا تھا.قصہ مختصر اس مناظرہ یا تبادلہ خیال کا آغا ز مولوی محمد حسین صاحب کے تمہیدی سوالات سے ہوا.وہ ان سوالات سے حدیث کے متعلق بحث کرنا چاہتے تھے کہ مقام حدیث

Page 124

حیات احمد ۱۲۱ جلد سوم حضرت حکیم الامت کے اعتقاد میں کیا ہے حضرت حکیم الامت نے صاف صاف جواب مولوی صاحب کو دیا کہ وہ قرآن کریم کو مقدم سمجھتے ہیں اور بخاری کو اَصَحُ الْكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللہ یقین کرتے ہیں مگر مولوی صاحب کے سوالات کا غیر ضروری سلسلہ دراز ہوتا گیا جن مخلصین نے آپ کو جس غرض کے لئے بلایا تھا انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب کے طریق بیان کو نا پسند کیا اور انہیں توجہ دلائی کہ اصل مسئلہ حیات و وفات مسیح پر گفتگو ہو.مگر مولوی صاحب نے اس طرف آنے کی کوشش نہ کی اور یہ پہلو بچانا چاہا.آخر ان دوستوں نے کہا کہ ہم نے جو کچھ سمجھنا تھا سمجھ لیا.اس غیر ضروری مکالمہ کو طول دینے کی ضرورت نہیں اور حضرت حکیم الامت کولو دھانہ جانے کی اجازت دے دی اور حضرت حکیم الامت رات کی گاڑی سے لودہانہ (جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان ایام میں قیام فرما تھے ) تشریف لے گئے.مولوی محمد حسین صاحب نے جھٹ حضرت کو تار دیا کہ آپ کا حواری بھاگ گیا ہے اسے واپس کر دیا آپ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے.حضرت نے اس کے جواب میں ایک من خط لکھا جس سے اس تبادلہ خیال کی پوری حقیقت معلوم ہوتی ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي از عایذ باللہ الصمد غلام احمد عافاه الله وایده بخدمت اخویم مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مفصل آپ کا تارجس میں یہ لکھا تھا کہ تمہارے وکیل بھاگ گئے ان کو لوٹا دیا آپ آؤ ور نه شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے، پہنچا.اے عزیز! شکست اور فتح خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے فتح مند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے شکست دیتا ہے کون جانتا ہے کہ واقعی طور پر فتح مند کون ہونے والا ہے اور شکست کھانے والا کون ہے جو آسمان پر

Page 125

حیات احمد ۱۲۲ قرار پا گیا ہے وہی زمین پر ہو گا گودیر سے ہی سہی لیکن اس عاجز کو تعجب ہے کہ آپ نے کیونکر یہ گمان کر لیا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب آپ سے بھاگ کر چلے آئے آپ نے ان کو کب بلایا تھا کہ تا وہ آپ سے اجازت مانگ کر آتے؟ اصل بات تو اس قدر تھی کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے مولوی صاحب ممدوح کی خدمت میں خط لکھا تھا کہ مولوی عبد الرحمن اس جگہ آئے ہوئے ہیں.ہم نے ان کو دو تین روز کے لئے ٹھہرا لیا ہے تاکہ ان کے رو برو ہم بعض شبہات اپنے آپ سے دور کرا لیں اور یہ بھی لکھا کہ ہم اس مجلس میں مولوی محمد حسین صاحب کو بھی بلا لیں گے چنانچہ مولوی صاحب موصوف حافظ صاحب کے اصرار کی وجہ سے لاہور پہنچے ار منشی امیر الدین صاحب کے مکان پر اترے اور اس تقریب پر حافظ صاحب نے اپنی طرف سے آپ کو بھی بلا لیا تب مولوی عبد الرحمن صاحب تو عین تذکرہ میں اٹھ کر چلے گئے اور جن صاحبوں نے آپ کو بلایا تھا انہوں نے مولوی صاحب کے آگے بیان کیا کہ ہمیں مولوی محمد حسین صاحب کا طریق بحث پسند نہیں آیا یہ سلسلہ تو دو برس تک بھی ختم نہیں ہوگا.آپ خود ہمارے سوالات کا جواب دیجئے ہم مولوی محمد حسین صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے.تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا مولوی صاحب موصوف نے بخوبی ان کی تسلی کر دی یہاں تک کہ تقریرختم ہونے کے بعد حافظ محمد یوسف صاحب نے بانشراح صدر آواز سے کہا کہ اے حاضرین میری تو مِنْ كُلِّ الْوُجُوه تسلی ہو گئی اور میرے دل میں نہ کوئی شبہ نہ کوئی اعتراض باقی ہے پھر بعد اس کے یہی تقریر منشی عبد الحق صاحب و منشی امیر الدین صاحب اور مرزا امان اللہ صاحب نے کی اور بہت خوش ہو کر ان سب نے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور تہ دل سے قائل ہو گئے کہ اب کوئی شک باقی نہیں اور مولوی صاحب کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ہم نے محض اپنی تسلی کرنے کے لئے آپ کو تکلیف دی تھی سو ہماری بھی تسلی ہو گئی آپ بلا حرج تشریف لے جائیے.سو انہوں نے ہی بلایا اور جلد سوم

Page 126

حیات احمد ۱۲۳ انہوں نے ہی رخصت کیا آپ کا تو درمیان قدم ہی نہ تھا پھر آپکا یہ جوش جو تار کے فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کس قدر بے محل ہے.آپ خود انصاف فرما دیں جب کہ اُن سب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اب ہم مولوی محمد حسین صاحب کو بلا نا نہیں چاہتے ہماری تسلی ہوگئی اور وہی تو تھے جنہوں نے مولوی صاحب کو لدھیانہ سے بلایا تھا تو پھر مولوی صاحب آپ سے کیوں اجازت مانگتے ؟ کیا آپ نہیں سمجھ سکتے اور اگر آپ کی.خواہش ہے کہ بحث ہونی چاہئے جیسا کہ آپ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں تو یہ عاجز بسر و چشم حاضر ہے مگر تقریری بحثوں میں صد با طرح کا فتنہ ہوتا ہے صرف تحریری بحث چاہئے اور وہ یوں ہو کہ مساوی طور پر چار ورق کاغذ پر آپ جو چاہیں لکھ کر پیش کریں اور لوگوں کو با آواز بلند سنا دیں اور ایک نقل اس کی اپنے دستخط سے مجھے دے دیں پھر اس کے بعد میں بھی چار ورق پر اس کا جواب لکھوں اور لوگوں کو سنادوں ان دونوں پر چوں پر بحث ختم ہو جائے اور فریقین میں سے کوئی ایک کلمہ تک تقریری طور پر اس بحث کے بارے میں نہ کہے جو کچھ ہو تحریر میں ہوا اور پرچے صرف دو ہوں اوّل آپ کی طرف سے ایک چو ورقہ پرچہ جس میں آپ میرے مشہور کردہ دعویٰ کا قرآن کریم اور حدیث کی رو سے رڈ لکھیں اور پھر دوسرا پر چہ چو ورقہ اسی تقطیع کا میری طرف سے ہو جس میں اللہ جل شانہ کے فضل و توفیق سے رڈالر ڈلکھوں اور انہیں دونوں پر چوں پر بحث ختم ہو جائے اگر آپ کو ایسا منظور ہو تو میں لاہور میں آسکتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ امن قائم رکھنے کے لئے انتظام کرادوں گا یہی آپ کے رسالہ کا بھی جواب ہے اب اگر آپ نہ مانیں تو پھر آپ کی طرف سے گریز تصور ہوگی.مکرر یہ کہ جس قدر ورق آپ لکھنے کے لئے پسند کر لیں اسی قدر اوراق پر لکھنے کی مجھے اجازت دی جائے لیکن یہ پہلے سے جلسہ میں تصفیہ پا جانا چاہئے کہ آپ اس قدر اوراق لکھنے کیلئے کافی سمجھتے ہیں اور آئمکرم اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ پرچے صرف دو ہوں گے اوّل آپ کی طرف سے ان دونوں بیانات کا رڈ ہوگا جو میں نے جلد سوم

Page 127

حیات احمد ۱۲۴ جلد سوم لکھا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں اور نیز یہ کہ حضرت مسیح ابن مریم در حقیقت وفات پاگئے ہیں.پھر اس رڈ کے رڈالرڈ کے لئے میری طرف سے تحریر ہو گی.غرض پہلے آپ کا یہ حق ہوگا کہ جو کچھ ان دعاوی کے بطلان کے لئے آپ کے پاس ذخیرہ نصوص قرآنیہ و حدیثیہ موجود ہے وہ آپ پیش کریں پھر جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یہ عاجز اس کا جواب دے گا اور بغیر اس طریق کے جس کی انصاف پر بنا اور نیز امن رہنے کیلئے احسن انتظام ہے اور کوئی طریق اس عاجز کو منظور نہیں اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے یہ آخری تحریر تصور فرما دیں اور خود بھی خط لکھنے کی تکلیف روا نہ رکھیں اور بحالت انکار ہر گز کوئی تحریر یا کوئی خط میری طرف نہ لکھیں اگر پوری اور کامل طور پر بلا کم و بیش میری رائے ہی منظور ہو تو صرف اس حالت میں جواب تحریر فرماویں ور نہ نہیں.صاحب آج بھوپال سے ایک کارڈ مرقومہ ۹/ اپریل ۱۸۹۱ء اخویم مولوی محمد احسن ب مہتم مصارف ریاست پڑھ کر آپ کے اخلاق کریمانہ اور مہذبانہ تحریر کا نمونہ معلوم ہو گیا.آپ اپنے کارڈ میں فرماتے ہیں کہ میں نے مرزا غلام احمد کے دعویٰ جدید کی اپنے ریویو میں تصدیق نہیں کی بلکہ اس کی تکذیب خود براہین میں موجود ہے.آپ بلا رؤیت مرزا پر ایمان لے آئے آپ ذرا ایک دفعہ آکر اس کو دیکھ تو لیں تَسْمَعْ بِالْمُعَيْدِى خَيْرٌ مِّنْ اَنْ تَرَاهُ اشاعۃ السنہ میں اب ثابت ہوتا رہے گا کہ یہ شخص ملہم نہیں ہے فقط.حضرت مولوی صاحب من آنم کہ من دانم آپ جہاں تک ممکن ہے ایسے الفاظ استعمال کیجیئے میں کیا ہوں اور میری شان کیا.بیشک آپ جو چاہیں لکھیں اور اس وعدہ تہذیب کی پرواہ نہ رکھیں جس کو آپ چھاپ چکے ہیں.ربّى يَسْمَعُ وَ يَرَى وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار غلام احمد

Page 128

حیات احمد ۱۲۵ جلد سوم آج ۱۶ / اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ کی خدمت میں خط بھیجا گیا ہے اور ۲۰ / اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کا جواب نہ پہنچا تو یہی خط آپ کے رسالے کے جواب میں کسی اخبار میں شائع کر دیا جاوے گا.مرزا غلام احمد بقلم خود ۶ اراپریل ۱۸۹۱ء مکتوبات احمد یہ جلد ۲ صفحہ ۱۳ تا ۱۶.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۳۲۳ تا ۳۲۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اسی سلسلہ میں دوسرا خط مولوی محمد حسین صاحب کے جواب میں لکھنا پڑا.بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي از عائد بِاللهِ الصَّمَد غلام احمد عَا فَاهُ اللَّهُ وَأَيَّدَهُ بخدمت اخویم مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ عنایت نامہ پہنچا باعث تعجب ہوا آپ نہ تو اظہارِ حق کی غرض سے بحث کرنا چاہتے ہیں اور نہ اس جوش بے اصل سے باز رہ سکتے ہیں.عزیز من رَحِمَكُمُ الله! یہ عاجز آپ کو کوئی الزام نہیں دینا چاہتا مگر آپ ہی کا قول و فعل آپ کو الزام دے رہا ہے آپ کا آدھی رات کو تار پہنچا کہ ابھی آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے کس قدر آپ کی اس تارو پود سے مخالف ہے جو آپ اب پھیلا رہے ہیں.افسوس کہ آپ نے بحث کرنے کے لئے بذریعہ تار بلایا پھر آپ گریز کر گئے اور اب آپ کا خط، مشت بعد از جنگ کا نمونہ ہے فضول باتوں کو پیش کر کے اور بھی تعجب میں ڈالتا ہے چنانچہ ذیل میں آپ کے اقوال کا جواب دیتا ہوں.قولہ.دو باتیں جن سے آپ کو ڈھیل دیتا ہوں لکھتا ہوں.اقول.حضرت یہ تو آپ حیلہ سے اپنے تئیں ڈھیل دے رہے ہیں میں نے

Page 129

حیات احمد کب کہا تھا کہ مجھے ڈھیل دیں آپ کی آدھی رات کو تار آئی میں تیار ہو گیا.آپ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کے لئے خرچ دے کر بلا توقف اپنا آدمی روانہ کیا.بحث منظور کر لی.سب انتظام مجلس اپنے ذمہ لے لیا مگر آپ ہماری تیاری کا نام سنتے ہی کنارہ کش ہو گئے.اب سوچیں کہ کیا میں نے بحث کو ڈھیل میں ڈال دیا یا آپ نے.اگر میں آپ ہی لاہور پہنچتا تو کس قدر تکلیف ہوتی آپ کی اس حرکت نے نہ صرف آپ کو شرمندہ کیا بلکہ آپ کی تمام عظمند پارٹی کو خجالت کا حصہ دیا.اس کنارہ کشی کا آپ پر بڑا بار ہے کہ جو بودے عذروں سے دور نہیں ہوسکتا آپ نے ناگوار طریقہ سے مقابل پر آنے کی دھمکی تو دی مگر آکر آپ ہی نہ ٹھہر سکے.کیا اس دعوئی کے ساتھ جو آپ کو ہے علمی وجاہت پر دھبہ نہیں لگاتے.قولہ.اگر آپ عین مباحثہ کے جلسہ میں اصول کی تمہید و تسلیم سے ڈریں تو میں ان اصول کو آپ کے پاس وہاں بھیج دیتا ہوں تا آپ کو آپ کے سمجھنے کے لئے کافی مہلت مل جائے.ناگہانی ابتلا سے بچ جائیں اور وہ حال نہ ہو جو آپ کے حواری کا ہوا.اقول.حضرت آپ کو خود مناسب ہے کہ آپ ان اصولوں سے ڈریں کوئی عقلمندان بیہودہ باتوں سے ڈر نہیں سکتا.اور میں آپ کے ان اصولوں کو محض لغو سمجھتا ہوں اور ایسے لغویات کی طرف سے مجھے یہ آیت روکتی ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے.☆ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ اور نیز یہ حدیث نبوی که من حُسنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيْهِ - یہ بات ظاہر ہے کہ جو بات ضرورت سے خارج ہے وہ لغو ہے اب دیکھنا چاہئے کہ اس بحث کے لئے شرعی طور پر آپ کو کس بات کی ضرورت ہے سواد نی تامل سے المؤمنون: ۴ جلد سوم

Page 130

حیات احمد ۱۲۷ جلد سوم ظاہر ہو گا کہ آپ صرف اس بات کے مستحق ہیں کہ مجھ سے تشخیص دعوی کرا دیں سو میں نے بذریعہ فتح اسلام و توضیح مرام اور نیز بذریعہ اُس حصہ ازالہ اوہام کے جو قول فصیح میں شائع ہو چکا ہے اچھی طرح اپنا دعوی بیان کیا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور کوئی میرا دعوی نہیں کہ جو آپ پر مخفی ہو اور وہ دعوی یہی ہے کہ میں الہام کی بنا پر مثیل مسیح ہونے کا مدعی ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت مسیح ابن مریم در حقیقت فوت ہو گئے ہیں سو اس عاجز کا مثیل مسیح ہونا تو آپ اشاعۃ السنہ میں امکانی طور پر مان چکے ہیں اور میں اس سے زیادہ آپ سے تسلیم بھی نہیں کرا تا اگر میں حق پر ہوں تو خود اللہ جل شانہ میری مدد کرے گا اور اپنے زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کر دے گا.رہا ابن مریم کا فوت ہونا سوفوت ہونے کے دلائل لکھنا میرے پر کچھ فرض نہیں کیونکہ میں نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مخالف ہو بلکہ مسلسل طور پر ابتدائے حضرت آدم سے یہی طریق جاری ہے.جو پیدا ہو وہ آخر ایک دن جوانی کی حالت میں یا بڑھا ہو کر مرے گا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں وَمِنْكُمْ مَّنْ تُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمْرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ” بس جب کہ میرے پر یہ فرض ہی نہیں کہ میں مسیح کے فوت ہو نے کے دلائل لکھوں اور ان کا فوت ہونا تو میں بیان ہی کر چکا.تو اب اگر میں آپ سے پہلے لکھوں تو فرمایئے کیا لکھوں یہ تو آپ کا حق ہے کہ میرے بیان کے ابطال کے لئے پہلے آپ قلم اٹھائیں اور آیات اور احادیث سے ثابت کر دکھا ئیں کہ سارا جہاں تو اس دنیا سے رخصت ہوتا گیا اور ہمارے نبی کریم بھی وفات پاگئے مگر مسیح اب تک وفات پانے سے باقی رہا ہوا ہے.کسی مناظر کو پوچھ کر دیکھ لیں کہ داب مناظرہ کیا ہے.الحج : 4

Page 131

حیات احمد ۱۲۸ اب یہ بھی یادر ہے کہ آپ کی دوسری سب بحثیں مسیح کے زندہ مع الجسد اٹھائے جانے کی فرع ہیں.اگر آپ یہ ثابت کر دیں گے کہ مسیح زندہ بجسده العنصری آسمان کی طرف اٹھایا گیا تو پھر آپ نے سب کچھ ثابت کر دیا.غرض پہلے تحریر کرنا آپ کا حق ہے اگر اب بھی آپ مانتے نہیں تو چند غیر قوموں کے آدمیوں کو منصف مقرر کر کے دیکھ لو.اور اخویم حکیم مولوی نورالدین صاحب کب آپ کے بلائے لاہور میں گئے تھے جنہوں نے بلایا انہوں نے مولوی صاحب موصوف سے اپنی پوری تسلی کرالی.اور آپ کے ان لغو اصولوں سے بیزاری ظاہر کی تو پھر اگر مولوی صاحب آپ سے اعراض نہ کرتے تو اور کیا کرتے.اعراض کا نام آپ نے فرار رکھا.اس لئے خدائے تعالیٰ نے دست بدست آپ کو دکھا دیا کہ فرار کس سے ظہور میں آیا یہ مولوی صاحب کی راست بازی کی کرامت ہے جس نے آپ پر یہ مصرعہ سچا کر دیا.ع مرا خواندی و خود بدام آمدی قولۀ.اگر آپ میری اس شرط کو قبول نہ کریں اور مباحثہ سے پہلے ازالہ اوہام بھیج نہ سکیں تو میں اس شرط کی تسلیم سے آپ کو بری کرتا ہوں.بشرطیکہ پہلے تحریرات آپ کی ہوں اور بعد میں میری.اقول.حضرت آپ ازالہ اوہام کے اکثر اوراق دیکھ چکے اب مجھے کس شرط سے بری کرتے ہو.اور میں ابھی ثابت کر چکا ہوں کہ پہلے تحریر کرنا آپ کا ذمہ ہے.اب دیکھئے یہ آپ کا آخری ہتھیار بھی خطا گیا.عنقریب یہ آپ کا خط بھی بذریعہ اخبارات پبلک کے سامنے پیش کیا جاوے گا تا لوگ دیکھ لیں کہ آپ کی تحریرات میں کہاں تک راستی اور حق پسندی اور حق طلبی ہے.جلد سوم

Page 132

حیات احمد ۱۲۹ جلد سوم بالآخر ایک مثال بھی سنئے زید ایک مفقود الخبر ہے جس کے گم ہونے پر مثلاً دوسو برس گزر گیا.خالد اور ولید کا اس کی حیات اور موت کی نسبت تنازع ہے.اور خالد کو ایک خبر دینے والے نے خبر دی کہ در حقیقت زید فوت ہو گیا لیکن ولید اس خبر کا منکر ہے اب آپ کی کیا رائے ہے.بار ثبوت کس کے ذمہ ہے کیا خالد کو موافق اپنے دعوی کے زید کا مرجانا ثابت کرنا چاہئے.یا ولید زید کا اس مدت تک زندہ رہنا ثابت کرے کیا فتویٰ ہے؟ راقم خاکسار غلام احمد از لود بانه اقبال گنج ۲۰ / اپریل ۱۸۹۱ء نوٹ.اس مثال سے یہ غرض ہے کہ جس پر بار ثبوت ہے اس کی طرف سے ثبوت دینے کے لئے پہلے تحریر چاہئے.مکتوبات احمد یہ جلد ۴ صفحه ۱۶ تا ۱۹.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۳۲۶ تا ۳۲۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء) مولوی محمد حسن کے ذریعہ تحریک مباحثہ مولوی محمد حسن صاحب رئیس لودہانہ فرقہ اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک شریف الطبع اور منکسر المزاج رئیس تھے مولوی محمد حسین صاحب ان ایام میں اہل حدیث کے ایڈوکیٹ کہلاتے تھے اور مولوی محمد حسن صاحب بھی اُن کا احترام کرتے تھے اور لودھانہ میں مولوی محمد حسین صاحب کا قیام اُن ہی کے مکان پر ہوتا تھا جہاں تک میرا علم ہے وہ حضرت اقدس کا بھی ادب کرتے تھے.حضرت اقدس نے جب دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بجز غیر ضروری خط و کتابت اور لاف و گزاف کے اصل مطلب کی طرف نہیں آتے تو بالآ خر ان کو لکھا.

Page 133

حیات احمد ۱۳۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصِلَّى محتی اخویم مولوی صاحب سَلَّمه السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاته عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کو کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوئی جس کا جواب لکھا جائے اس عاجز کے دعوی کی بناء الہام پر تھی اگر آپ ثابت کرتے کہ قرآن اور حدیث اس دعوئی کے مخالف ہے اور پھر یہ عاجز آپ کے ان دلائل کو اپنی تحریر سے توڑ نہ سکتا تو آپ تمام حاضرین کے نزدیک سچے ہو جاتے اور بقول آپ کے میں اس الہام سے تو بہ کرتا لیکن خدا جانے آپ کو کیا فکر تھی جو آپ نے اس راہ راست کو منظور نہ کیا خیر اب ازالہ اوہام کا رڈلکھنا شروع کیجئے لوگ خود دیکھ لیں گے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ جلد سوم مکتوبات احمد یہ جلد۴ صفحہ ۱۹.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۳۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اگر چہ اس خط پر تاریخ سہوا لکھی نہیں گئی مگر یہ آخر اپریل ۱۸۹۱ء کا خط ہے اور اس کے ذریعہ مزید خط و کتابت کو بند کر دیا.مگر مولوی محمد حسین صاحب نے اب دوسرا طریق اختیار کیا.مولوی محمد حسن صاحب کے نام سے خطوط لکھنے سے شروع کئے اگر چہ وہ خطوط مولوی محمد حسین صاحب ہی کے تھے مگر ان پر مولوی محمد حسن صاحب کے دستخط ہوتے تھے آپ نے پسند نہ فرمایا کہ ان کا جواب دیا جاوے اس خط و کتابت کو بھی میں اس سلسلہ میں درج کرتا ہوں تاکہ واقعات کا سلسلہ قائم رہے اور اس خط و کتابت کا نتیجہ ہی آخر وہ مباحثہ ہوا.جو مباحثہ لودھانہ کے نام سے موسوم ہے اور الحق سیالکوٹ میں شائع ہو گیا تھا.ایک طرف مولوی محمد حسین صاحب نے اعلان جنگ کر دیا تھا.دوسری طرف لکھو کے والے اور لودھانہ کے علماء نے ہنگامہ برپا کیا ہوا تھا.غزنوی جرگہ نے مولوی عبدالحق کو قربانی کا بکرا بنا کر اشتہار

Page 134

حیات احمد ۱۳۱ جلد سوم مباہلہ دے رکھا تھا چاروں طرف سے ہنگامہ برپا تھا اور حضرت اقدس سب کو اپنے دعوی کی صداقت کی خاطر ہر مقابلہ اور امتحان کے لئے ان دعوتوں کو قبول کر رہے تھے.مولوی محمد حسین صاحب کے مباحثہ تک واقعات کے بیان کے بعد ان کا ذکر ہوگا.غرض جب مولوی محمد حسین صاحب کی چادر میں محمد حسن صاحب نمودار ہوئے تو حضرت نے مولوی محمد حسن صاحب کے خطوط کا جواب دیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصِلَّى مخدومی و مکر می حضرت مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته یہ عاجز بسر و چشم تحریری گفتگو کے لئے موجود ہے.اصول پیش کرنے کو بھی میں مانتا ہوں چند سوال آپ کی طرف سے چند سوال میری طرف سے ہوں اور امر مَبْحُوْث عَنْهُ وفات یا حیات مسیح ہو گا.کیونکہ اس عاجز کا دعوی اسی بناء پر ہے.جب بنا ٹوٹ جاوے گی تو یہ دعویٰ خود بخو دٹوٹ جاوے گا اصل امر وہی ہے.اس وقت بارہ بجے تک مجھے باعث بعض نج کے کاموں کے بالکل فرصت نہیں بہتر ہے کہ آں مکرم عید کے بعد یعنی شنبہ کے دن کو بحث کے لئے مقرر کریں تا فرصت اور فراغت سے ہر ایک شخص حاضر ہو سکے.خاکسار غلام احمد ورمئی ۱۸۹۱ء مکتوبات احمد یہ جلد ۲ صفحہ ۲۰ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۳۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

Page 135

حیات احمد ۱۳۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصِلَّيْ مکرمی حضرت مولوی صاحب سَلَّمه السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته جناب آپ خوب جانتے ہیں کہ اصلی امر اس بحث میں جناب مسیح ابن مریم کی وفات یا حیات ہے.اور میرے الہام میں بھی یہی اصل قرار دیا گیا ہے.کیونکہ الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.سو پہلا اور اصل امر الہام میں بھی یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے.اب ظاہر ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کا زندہ ہونا ثابت کر دیں گے تو جیسا کہ پہلا فقرہ الہام کا اس سے باطل ہو گا ایسا ہی دوسرا فقرہ بھی باطل ہو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دعوی کی شرط صحت مسیح کا فوت ہونا بیان فرمایا ہے اور یہ حکم إِذَا فَاتَ الشَرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ مسیح کی زندگی کے ثبوت سے دوسرا دعوی میرا خود ہی ٹوٹ ہو جائے گا اور اس سے میرے دعوی مثیل مسیح میں کسی پر جبر و اکراہ تو نہیں کہ خوامخواہ اس کو قبول کر وصرف یہ کہا جاتا ہے کہ جس پر مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا ثابت ہو جائے پھر وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر میری صحبت میں رہ کر میرے دعوی کی آزمائش کرے.اب ظاہر ہے کہ پھر وفات وحیات پر قرعہ پڑا.بہر حال یہی امر حقیقی اور طبعی طور پر مبحوث عَنْهُ اور متنازعہ فیہ ٹھہرتا ہے.ماسوا اس کے آپ کی غرض دوسری بحث سے جو آپ کے دل میں ہے وہ اس بحث میں بھی بخوبی حاصل ہو جاتی ہے.کیونکہ میں اقرار کرتا ہوں اور حلفاً کہتا ہوں کہ اگر آپ مسیح کا زندہ ہونا کلام الہی سے ثابت کریں گے تو میں اپنے دعویٰ سے دست بردار ہو جاؤں گا اور الہام کو شیطانی القاسمجھ لوں گا.اور تو بہ کروں گا.اب حضرت اس سے جلد سوم

Page 136

حیات احمد ۱۳۳ جلد سوم زیادہ کیا کہوں خدا تعالیٰ آپ کے دل کو آپ سمجھا دے.مکرر یہ کہ اول قرآنِ کریم کی رو سے دیکھا جائے گا کہ کس کس آیت کو آپ حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ ہونے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں.اور اگر بغیر کسی جرح قدح کے وہ ثبوت آپ کا مسلم ٹھہرے گا تو بھلا پھر کس کی مجال ہے کہ اس سے انکار کر جائے لیکن اگر قرآن شریف سے آپ ثابت نہ کریں گے تو پھر آپ کو اختیار ہو گا کہ بعد تحریری اقرار اس بات کے که قرآنی ثبوت پیش کرنے سے ہم عاجز ہیں اور احادیث صحیحہ غیر متعارضہ کو اس ثبوت کے لئے آپ پیش کریں اور جب آپ ایسا ثبوت دے چکیں گے تو منصفین ترازوئے انصاف لے کر خود جانچ کر لیں گے کہ کس طرف پلّہ ثبوت بھاری ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي راقم مرزا غلام احمد و رمئی ۱۸۹۱ء مکتوبات احمد یہ جلد ۴ صفحه ۲۲ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۳۳٬۳۳۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مخدومی مکر می اخویم حضرت مولوی صاحب سَلَّمه اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اس عاجز کی گزارش ہے کہ اب فتنہ مخالفت ہر جگہ بڑھتا جاتا ہے.اور مولوی محمد حسین صاحب جس جگہ پہنچتے ہیں یہی وعظ شروع ہے کہ یہ شخص ملحد اور دین سے خارج اور کذاب اور دقبال ہے.میں نے اول نرمی سے یہ عرض کیا تھا کہ میرا مسیح ہونے کا دعوی مبنی بر الہام ہے اور جو امور محض الہام پر مبنی ہوں وہ زیر بحث نہیں آ سکتے بلکہ خدا تعالیٰ رفتہ رفتہ ان کی سچائی آپ ظاہر کرتا ہے ہاں مسیح کی وفات یا حیات کا مسئلہ گو

Page 137

حیات احمد ۱۳۴ جلد سوم الہام کا اصل الاصول ہے مگر بباعث ایک شرعی امر ہونے کے زیر بحث آ سکتا ہے اور اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے تو میرا دعویٰ مؤخر الذکر خود ہی ٹوٹ جاتا ہے.لیکن یہ عرض میری منظور نہیں کی گئی اور اصل حقیقت کو متحرف کر کے منشی سعد اللہ صاحب نے جو چاہا چھپوا دیا اور لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے کی کوشش کی اور میرے پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ لَيْلَةُ الْقَدر سے منکر ہیں.اور اس کے خلاف اجماع معنے کرتے ہیں اور یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ملائکہ کے وجود سے منکر ہیں اور ملائکہ کو صرف قو تیں سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سارے الزام محض بہتان ہیں یہ عاجز اسی طرح ان سب باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو قال اللہ وقال الرسول سے ثابت ہیں اور سلف صالحین کا گروہ ان کو مانتا ہے.سو اس وقت مجھے خیال ہے کہ میرا ہر حال میں خدا نا صر ہے.مجھے ہر طرح سے اتمام حجت کرنا چاہئے لہذا مکلف ہوں کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب کی یہ درخواست بھی منظور کی کہ مسیح موعود میں بحث کی جائے مگر بحث تحریری ہوگی اور تحریر میں کسی دوسرے کا ہرگز دخل نہیں ہو گا.کیونکہ اب میں ایک مہجور کی طرح آدمی ہوں میرے ہاتھوں کی طرح کسی دوسرے کے ہاتھ یہ کام نہیں کریں گے.مولوی محمدحسین صاحب بھی اپنے ہاتھ سے لکھیں اور میں اپنے ہاتھ سے لکھوں گا درمیانی شرائط کا تصفیہ بحث سے ایک دن پہلے ہو جائے.لیکن دس روز پہلے مجھے خبر ملنی چاہئے تا کہ لوگ جو شکوک و شبہات میں غرق ہو گئے ہیں ان کو بذریعہ خطوط و اشتہارات میں بلالوں اور اس بحث سے ایک عام نفع مترتب ہو.اور ہر روز کا جھگڑا طے ہو جائے.اور آپ پر یہ فرض ہے کہ آپ براہ مہربانی آج محمد حسین صاحب کو اطلاع دے دیں اور بحث سے دس دن پہلے مجھے بھی مطلع فرماویں.والسلام خاکسار غلام احمد ۲۷ مئی ۱۸۹۱ء ( مکتوبات احمد یہ جلد ۴ صفحه ۲۲ ،۲۳.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۳۴٬۳۳۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

Page 138

حیات احمد ۱۳۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّيْ مند و می مکر می حضرت مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته عنایت نامہ پہنچا شرائط مندرجہ ذیل ہونی چاہئیں.(۱) جلسہء بحث آپ کے مکان پر ہو اور امن قائم رکھنے کے لئے تمام انتظام آپ کے ذمہ ہوگا.یہ بات قریب یقین کے ہے کہ چھ ساتھ ہزار آدمی تک اس جلسہ میں جمع ہو جاویں گے ایسا مکان تجویز کرنا آپ کے ہی ذمہ ہوگا.میرے نزدیک یہ بات نہایت ضروری ہوگی کہ کوئی یورپین افسر اس جلسہ میں ضرور تشریف رکھتے ہوں کیونکہ اس طرف چند آدمی اور دوسری طرف صدہا آدمی ہوں گے اور اکثر بد زبان اور مکفر ہوں گے بغیر حاضری کسی یورپین کے ہرگز انتظام نہیں ہو سکتا لیکن اگر آپ کے نزدیک یورپین افسر کی ضرورت نہیں تو اوّل مجھے اپنی دستخطی تحریر سے مطلع فرما دیجئے کہ میں کامل انتظام گروہ مفسد خیال لوگوں کا کرلوں گا اور ان کا منہ بند رہے گا اور کسی یورپین افسر کی کچھ ضرورت نہیں ہوگی.اس صورت میں میں یہ شرط بھی چھوڑ دوں گا.پھر اس تحریر کے بعد ہر ایک نتیجہ کے آپ ہی ذمہ وار ہوں گے.(۲) بحث تحریری ہر ایک فریق اپنے ہاتھ سے لکھے اور جو لکھنے سے عاجز ہو وہ اوّل یہ عذر ظاہر کر کے کہ میں لکھنے سے عاجز ہوں دوسرے سے لکھا دیوے کیونکہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا اول درجے پرسند کے لائق ہوتا ہے اور دوسروں کی تحریریں اگر چہ تصدیق کی جائے گی مگر پھر بھی اس درجے پر نہیں پہنچتیں کیونکہ ان میں تحریف کا تب کا عذر ہوسکتا ہے.(۳) پر چے پانچ ہونے چاہئیں جو صاحب اول لکھے ایک پر چہ زائد ان کا حق

Page 139

حیات احمد ۱۳۶ جلد سوم ہے.اور مولوی محمد حسین صاحب کو اختیار ہو گا چاہیں وہ پہلا پر چہ منظور کر لیں یا اس عاجز کا لکھنا منظور رکھیں.جس طرح پسند کریں مجھے منظور ہے.(۴) ہر ایک پرچہ فریقین کی ایک ایک نقل بعد دستخط صاحب راقم فریق ثانی کو اُسی وقت بلا توقف دی جائے اور پھر جلسہ عام میں وہ پرچہ بآواز بلند سنا دیا جاوے.(۵) اس بحث میں تقریر یا تحریراً کسی تیسرے آدمی کا ہرگز دخل نہ ہو تصریحا نہ اشارتا نہ کنایہ اور جلسہ بحث میں کسی کتاب سے مدد نہ لی جائے بلکہ جو کچھ فریقین کو زبانی یاد ہے وہی لکھا جاوے تا تکلف اور تصنع کو اس میں دخل نہ ہو.لیکن اگر کوئی فریق یہ ظاہر کرے کہ میں بغیر کتابوں کے کچھ نہیں لکھ سکتا تو پہلے یہ تحریری اقرار اپنی عجز بیانی کا دے کر پھر اس کتاب سے مدد لینے کا اختیار ہوگا.(1) اگر کوئی فریق بعض امور تمہیدی قبل از اصل بحث پیش کرنا چاہے تو فریق ثانی کو بھی اختیار ہوگا کہ ایسے ہی امور تمہیدی وہ بھی پیش کرے مگر دونوں کی طرف سے یہ تمہیدی امور ایک ایک پر چہ تحریری طور پر پیش ہوں گے ایسے پرچہ کی نسبت فریقین کو اختیار ہوگا.چوکھی جنگ مکتوبات احمد یہ جلد ۴ صفحه ۲۳ ۲۴.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۳۳۵، ۳۳۶ مطبوعہ ۲۰۰۸) ایک طرف تو مولوی محمد حسین صاحب سے یہ سلسلہ خط و کتابت کا جاری تھا اور دوسری طرف جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ آیا ہوں لکھو کے کے علماء جو اپنے آپ کو صاحب الہام بھی سمجھتے تھے اور ایک طبقہ میں ان کا اثر اور رسوخ بھی تھا.ان کے ہاں سلسلہ بیعت اور ارشاد بھی ایک حد تک تھا وہ عالمانہ حیثیت سے نہیں بلکہ اپنی روحانی حیثیت کے رنگ میں مخالفت کا بازار گرم کئے ہوئے تھے اور لودھانہ کے علماء تو روز اول ہی سے دشمن تھے.اور چوتھی طرف غزنوی جرگہ میں بھی مخالفت کی نوٹ.مکتوب ہذا مکرم عرفانی صاحب کے جمع کردہ مکتوبات میں شرط نمبر ۶ تک ہی چھپا ہے جبکہ مکمل مکتوب گیارہ شرائط پر مشتمل ہے.نظارت اشاعت نے ایڈیشن ۲۰۰۸ء میں مکمل مکتوب اشاعۃ السنہ جلد ۱۳ نمبر ۳ صفحہ ۹۶ کے حوالہ سے شائع کیا ہے.( ناشر )

Page 140

حیات احمد ۱۳۷ جلد سوم آگ سلگ رہی تھی غزنوی جرگہ کے رئیس ان ایام میں مولوی عبدالجبار صاحب تھے جو حضرت مولوی عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ علیہ کے صاحبزادے تھے.مولوی عبدالجبار صاحب میں ایک حد تک شرافت اور خدا ترسی تھی مگر وہ اپنی جماعت کے مقابلہ میں کھڑے نہ رہ سکتے تھے ان کے جرگہ نے اس خصوص میں عبد الحق غزنوی کو قربانی کا بکرا بنایا.ایک ضمنی واقعہ اور مولوی عبدالرحیم غزنوی بھی متشدد تھا.چنانچہ اس نے خاکسار عرفانی کو ایک مرتبہ سر بازار پیٹا تھا.اسے یہ شبہ تھا کہ مولوی سید احمد صاحب غزنوی کا ایک بیٹا عبدالمالک احمدیت کی تائید کرتا تھا اور میرے پاس اُس کی آمد و رفت تھی اس لئے کہ میں اسی محلہ میں منشی محمد یعقوب مرحوم برا در حافظ محمد یوسف صاحب کے مکان پر مقیم تھا اور وہ وہاں آتا جاتا تھا اور مجھ سے گفتگو کرتا رہتا تھا اور احمدیت کے پیش کردہ مسئلہ وفات مسیح پر اسے یقین ہو چکا تھا.مسیح موعود کے مسئلہ میں اسے صرف یہ اشتباہ تھا کہ احادیث میں ابنِ مریم ہے مثیلِ ابنِ مریم نہیں.چونکہ غزنوی جرگہ میں احمدیت کے نفوذ کا خطرہ ہو گیا اور اس کے انسداد کے لئے عبدالرحیم نے مجھ پر اپنی مسجد کے پاس ہی درس قرآن سے اٹھ کر مولوی عبد الجبار صاحب کی موجودگی میں وحشیانہ حملہ کر دیا تھا.میں نے عدالت میں اُن پر نالش کر دی مکرم خواجہ یوسف شاہ صاحب (جو امرتسر کے ممتاز شہری اور مسلمانوں کے لیڈر اور حکومت کے معتمد علیہ تھے ) کی عدالت میں مقدمہ دائر ہو گیا مگر منشی جیون علی صاحب سپرنٹنڈنٹ ڈپٹی کمشنر امرتسر کی تحریک پر بابو محکم دین صاحب مختار رضی اللہ عنہ نے مجھ کو معاف کرنے کی تحریک کی اور مقدمہ واپس لے لیا گیا.شاید میں اس واقعہ کو تفصیل سے کبھی اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں لکھوں یہاں ضمناً ذکر اس سلسلہ میں آ گیا کہ غزنوی جرگہ پیچھے رہ کر عبدالحق کی گردن پر بندوق رکھ کر حملے کر رہا تھا.چنانچہ عبدالحق نے ایک مباہلہ کا اشتہار بھی دیا.اور اس سلسلہ میں حضرت اقدس نے مولوی عبدالجبار صاحب کو بھی مخاطب کیا.حاشیہ.مولوی عبدالجبار صاحب کے خط پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بھی ایک مختصر سا ریمارک لکھا تھا اس خط پر تفصیلی تذکرہ میں نے مکتوبات جلد ششم میں بھی کیا ہے مگر یہاں میں اس سلسلہ سوانح حیات میں اس لئے درج کر رہا ہوں کہ اس کتاب کے پڑھنے والے اور آنے والا مؤرخ بیک وقت ان صحیح واقعات سے استفادہ

Page 141

حیات احمد ۱۳۸ جلد سوم مولوی عبدالجبار صاحب نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا اور اپنی خاموشی سے ثابت کر دیا کہ وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے.یہ واقعات فروری ۱۸۹۱ء کے ہیں.بقیہ حاشیہ.کرسکیں جو بجائے خود حضرت کی صداقت اور بلند ہمتی کے مظہر ہیں اس لئے اس مکتوب کو یہاں درج کرتا ہوں.اس خط کی ایک نقل حضرت نے حضرت حکیم الامت کو بھی بھیجی تھی وہ بھی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ریمارک کے ساتھ اسی ذیل میں درج کر رہا ہوں.۹ ر فروری ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس نے جو مکتوب لکھا تھا اس میں عبدالحق غزنوی کے اشتہار کا ذکر ہے اور آپ نے یہ خیال بھی ظاہر فرمایا که در حقیقت یہ اشتہار مولوی عبدالمجید صاحب کی طرف سے معلوم ہوتے ہیں.“ اور اس مکتوب میں بھی حضرت نے اشارہ کیا ہے.مولوی عبدالجبار صاحب نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا.چونکہ حضرت حکیم الامت کے نام کا مکتوب رہ گیا ہے اس لئے اسے بھی یہاں درج کر دیتا ہوں.اس خط پر جو نوٹ لکھا گیا ہے وہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب صافی رضی اللہ عنہ کا لکھا ہوا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں.اب ہم ایک خط چھاپتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب نے مولانا مولوی نورالدین صاحب کے نام لکھا ہے.اس خط کو پڑھتے وقت ہمیں قرآن حمید کی وہ آیت یاد آئی اور جناب ہادی کامل علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کے اثبات میں ایک بڑی زبر دست خطابی دلیل پیش کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے.قل هذِهِ سَبِيلِ ادْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ے ان کو کہہ دو کہ میں تمہیں اللہ کی طرف جو بلاتا ہوں تو میں اپنے مشن کی طرف صداقت کی نسبت مذبذب و متردد نہیں ہوں.بخلاف اس کے مجھ کو کامل وثوق ہے پوری بصیرت ہے کہ میں راست باز ہوں اور اس لئے بالیقین کامیاب ہونے والا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ اہل سکینہ صادق ہیں اور مذبذب ولی مضطرب معتمد کاذب کے لہجے اور کلام کی تکونیات میں فرق عظیم ہوتا ہے.حضرت مرزا صاحب کا یہ خط بڑی بھاری دلی طمانیت اپنے مولائے کریم پر قوی اعتماد و وثوق کی خبر دیتا ہے.فقرہ فقرہ سے اس کے بامذاق عارفین سمجھ سکتے ہیں کہ پس پردہ کوئی حمایت و نصرت کی بشارت و تسلی دینے والا ضرور ہے اور اُس وادی ایمن کے منتخب اولو العزم کی طرح جو ابتدا میں ضعف بشریت کی تحریک سے يوسف : ١٠٩

Page 142

حیات احمد علماء پر اتمام حجت ۱۳۹ جلد سوم مارچ ۱۸۹۱ء میں آپ نے پسند کیا کہ تمام اُن علماء پر جو اس مخالفت میں پیش پیش ہیں اتمام حجت کیا جائے اور مقصد یہ تھا کہ اتمام حجت اُن سب پر ہو جائے گا جو ان کے زیر اثر ہیں وہ عوام ہوں یا علماء.اس مقصد کے لئے آپ نے ۲۶ / مارچ ۱۸۹۱ء کو جبکہ آپ لودھانہ ہی میں مقیم تھے ذیل کا اعلان جاری کیا.بقیہ حاشیہ اَخَافُ اَنْ يُقْتَلُوْن کا عذر پیش کرتا تھا مگر بالآخر اِنَّنِي مَعَكُمْ أَسْمَعُ وَاری کی بشارت آمیز آواز پر سرکش ناخدا ترس قوم کی طرف بے خوف چل دیا جہاں بھی عادت اللہ اس مسجد کو تقویت دے رہی ہے.عجب ہیں وہ دل جو اس پر بھی رقیق ہونے میں نہ آئیں.انہیں ہر وقت یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہئے.مَـنْ عَـادی لِيْ وِلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ.خداوند فرماتا ہے میرے دوست سے جو بیر کرے میں اسے اپنے ساتھ لڑنے کا نوٹس دیتا ہوں.وہ خوف کریں کہ ایسا نہ ہو کہ وہ خدا سے لڑنے والے ٹھہریں.خط حضرت مرزا صاحب بنام مولانا مولوی نورالدین صاحب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مند و می مکر می اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کل آپ کی خدمت میں مولوی عبدالجبار صاحب اور میاں عبدالحق صاحب کے خط روانہ کر چکا ہوں.اور مجھے اس بات سے بہت خوشی ہے جس کا میں شکر ادا نہیں کر سکتا کہ مولیٰ کریم اور میرا آقا محسن عَزَّ اسْمُهُ جَلَّ شَانُهُ مجھے فتح و نصرت کی بشارت دیتا ہے اور ان لوگوں کے فیصلہ کے لئے مجھے ایک راہ بتا تا ہے جنہوں نے الہامات کا ادعا کر کے اس عاجز کو ضال ملحد اور جہنمی قرار دیا ہے اور جرات کر کے اس مضمون کو شائع بھی کر دیا اور جوان باتوں سے اپنے بھائی مسلمان کو آزار پہنچتا ہے اور اس کی تذلیل ہوتی ہے اس کی کچھ بھی پروا نہیں کی اور طریق تقوی کی رعایت

Page 143

حیات احمد ۱۴۰ جلد سوم ضروری اشتہار لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةِ وَيَحْلِي مَنْ حَيَّ عَنْ بَيْنَةٍ ناظرین پر واضح ہو کہ مسیح ابن مریم کے نزول کی حقیقت جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر کھولی ہے جس کے بارے میں کچھ تھوڑا سا رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام میں ذکر ہے اور رسالہ بقیہ حاشیہ نہیں رکھی.اس لئے یہ امر خدا تعالیٰ کی جناب میں کچھ سہل و آسان نہیں بلکہ ایسا ہی ہے جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا گیا تھا سو مجھے خدا تعالیٰ کی نصرت کی خوشبو آ رہی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ مجھے ایک ایسی راہ کی رہبری کرتا ہے جس سے جھوٹوں کا جھوٹ کھل جائے اگر یہ الزام صرف میری ذات تک محدود ہوتا تو دوسرا امر تھا لیکن اس کا بداثر ہزاروں لوگوں پر ہوتا ہے.جہنمی اور ضال کے لفظ میں سب قسم کے عیب بھرے ہوئے ہیں سو میں انشاء اللہ القدیر ان امور کے پورے طور پر کھلنے کے بعد جن کی مجھے بشارت دی گئی ہے اور پھر ان کے چھپوانے کے بعد ان لوگوں سے رجسٹر شدہ خطوط کے ذریعہ سے درخواست کروں گا اور انشاء اللہ القدیر وہ ایسا امر ہو گا جو کا ذب کی پردہ دری کر دے گا.وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۱۶ / فروری ۱۸۹۱ء مکتوبات احمد یہ جلد ۲ صفحہ ۱۱۰، ۱۱۱.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۱۰۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) مکتوب بنام مولوی عبدالجبار غزنوی السلام علیکم.ایک اشتہار جو عبدالحق کے نام سے جاری کیا گیا ہے.جس میں مباہلہ کی درخواست کی ہے کل کی ڈاک میں مجھے ملا.چونکہ میں نہیں جانتا کہ عبدالحق کون ہے.آیا کسی گروہ کا مقتدی یا مقتدا ہے.اس واسطے آپ ہی کی طرف خط ہذا لکھتا ہوں.اس خیال سے کہ میری رائے میں وہ آپ ہی کی جماعت میں سے ہے.اور اشتہار بھی دراصل آپ ہی کی تحریک سے لکھا گیا ہو گا.پس واضح ہو کہ مباہلہ سے مجھے کسی طرح سے اعتراض نہیں جس حالت میں میں نے اس مدعا کی غرض سے قریب بارہ ہزار کے خطوط واشتہارات مختلف ملکوں میں الانفال : ۴۳

Page 144

حیات احمد ۱۴۱ جلد سوم ازالہ اوہام میں مبسوط اور مفصل طور پر اس کا بیان ہے.ایسا ہی ملائک اور لیلۃ القدر اور معجزات مسیح کے بارے میں جو کچھ ان رسالوں میں لکھا گیا ہے قبل اس کے جو علمائے اسلام غور سے ان مباحث کو پڑھیں اور تدبر سے ان کے مطلب کو سوچیں یوں بقیہ حاشیہ.بڑے بڑے مخالفوں کے نام روانہ کئے ہیں تو پھر آپ سے مباہلہ کرنے میں کونسی تامل کی جگہ ہے.یہ بات سچ ہے کہ اللہ جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارے میں پہلے قرآن شریف میں اور احادیث نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے.سو میں اسی الہام کی بناء پر اپنے تئیں وہ موعود مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط نہی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں.مجھے اس بات سے انکار بھی نہیں کہ میرے سوا کوئی اور مثیل مسیح بھی آنے والا ہو.بلکہ ایک آنے والا تو خود میرے پر بھی ظاہر کیا گیا ہے جو میری ہی ذریت میں سے ہو گا لیکن اس جگہ میرا دعوئی جو بذریعہ الہام مجھے یقینی طور پر سمجھایا گیا ہے صرف اتنا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث میں میرے آنے کی خبر دی گئی ہے.میں اس سے ہرگز انکار نہیں کر سکتا اور نہ کروں گا کہ شائد مسیح موعود کوئی اور بھی ہو.اور شائد یہ پیشگوئیاں جو میرے حق میں روحانی طور پر ہیں ظاہری طور پر اس پر جمتی ہوں.اور شائد سچ مچ دمشق میں کوئی مثیل مسیح نازل ہو لیکن یہ میرے پر کھول دیا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم جس پر انجیل نازل ہوئی تھی فوت ہو چکا ہے اور بیٹی کی روح کے ساتھ اس کی روح دوسرے آسمان میں اور اپنے سماوی مرتبہ کے موافق بہشت بریں کی سیر کر رہی ہے.اب وہ روح بہشت سے بموجب وعدہ الہی کے جو بہشتیوں کے لئے قرآن شریف میں موجود ہے نکل نہیں سکتی اور نہ دو موتیں ان پر وارد ہو سکتی ہے.ایک موت جو اُن پر وارد ہوئی وہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے اور ہمارے اکثر مفسر بھی اس کے قائل ہیں.اور ابن عباس کی حدیث سے بھی اس کا ثبوت ظاہر ہے اور انجیل میں بھی لکھا ہے اور نیز توریت میں بھی.اور دوسری موت ان کے لئے تجویز کرنا خلاف نص وحدیث ہے.وجہ یہ کہ کسی جگہ ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دو مرتبہ مریں گے.یہ تو میرے الہامات اور مکاشفات کا خلاصہ ہے جو میرے رگ وریشہ میں رچا ہوا ہے اور ایسا ہی اس پر ایمان رکھتا ہوں.جیسا کتاب اللہ پر اور اسی اقرار اور انہیں لفظوں کے ساتھ میں مباہلہ بھی کروں گا اور جو لوگ اپنے شیطانی اوہام کو ربانی الہام قرار دے کر مجھے جہنمی اور ضال قرار دیتے ہیں ایسا ہی ان سے بھی ان کے الہامات کے بارے میں اللہ جل شانہ کی حلف لوں گا.کہاں تک انہیں اپنے الہامات کی یقینی معرفت حاصل ہے.مگر بہر حال مباہلہ کے لئے میں مستعد کھڑا ہوں لیکن امور مفصلہ ذیل کا تصفیہ پہلے مقدم ہے.

Page 145

حیات احمد ۱۴۲ جلد سوم ہی مخالفانہ خیالات خلق اللہ میں پھیلا رہے ہیں اور عوام الناس کو اپنے بے اصل وساوس سے ہلاک کرتے جاتے ہیں.حالانکہ رسالہ توضیح مرام کے آخر میں نَصِيحَتا لکھا گیا تھا کہ جب تک تینوں رسالوں کو دیکھ نہ لیس کوئی رائے ظاہر نہ کریں بقیہ حاشیہ.اوّل یہ کہ چند مولوی صاحبان نامی جیسے مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسر بالا تفاق یہ فتویٰ لکھ دیں کہ ایسی جزئیات خفیفہ میں اگر الہامی یا اجتہادی طور پر اختلاف واقع ہو تو اس کا فیصلہ بذریعہ لعن طعن کرنے اور ایک دوسرے کو بددعا دینے کے جس کا دوسرے لفظوں میں مباہلہ نام ہے کرنا جائز ہے کیونکہ میرے خیال میں جزئی اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو لعنتوں کا نشانہ بنانا ہرگز جائز نہیں کیونکہ ایسے اختلافات اصحابوں میں ہی شروع ہو گئے تھے.مثلاً حضرت ابن عباس محدث کی وحی کو نبی کی وحی کی طرح قطعی سمجھتے تھے اور دوسرے ان کے مخالف بھی تھے.ایسا ہی صاحب صحیح بخاری کا یہ عقیدہ تھا کہ کتب سابقہ یعنی توریت و انجیل وغیرہ محترف نہیں ہیں اور ان میں کچھ لفظی تحریف نہیں ہوئی.حالانکہ یہ عقیدہ اجماع مسلمین کے مخالف ہے.اور بائیں ہمہ سخت مضر بھی ہے اور نیز بہ ہداہت باطل.ایسا ہی محی الدین ابن عربی رئیس المتصوّفین کا یہ عقیدہ ہے کہ فرعون دوزخی نہیں ہوگا اور نبوت کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا.اور کفار کے لئے عذاب جاودانی نہیں اور مذہب وحدت الوجود کے بھی گویا وہی موجد ہیں.پہلے ان سے کسی نے ایسی واشگاف کلام نہیں کی.سو یہ چاروں عقیدے ان کے ایسا ہی اور بعض عقائد بھی اجماع کے برخلاف ہیں.اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اسمعیل ذبیح نہیں ہیں بلکہ اسحاق ذبیح ہے.حالانکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ ذبیح اسمعیل ہے اور عید الضحیٰ کے خطبہ میں اکثر ملا صاحبان رورو کر انہیں کا حال سنایا کرتے ہیں.اسی طرح صد با اختلافات گزشتہ علماء و فضلاء کے اقوال میں پائے جاتے ہیں.اسی زمانہ میں بعض علماء مہدی موعود کے بارے میں دوسرے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں کہ وہ سب حدیثیں ضعیف ہیں.غرض جزئیات کے جھگڑے ہمیشہ سے چلے آتے ہیں.مثلاً یزید پلید کی بیعت پر اکثر لوگوں کا اجماع ہو گیا تھا مگر امام حسین رضی اللہ عنہ نے اور اُن کی جماعت نے اس اجماع کو قبول نہیں کیا اور اس سے باہر رہے.اور بقول میاں عبدالحق اکیلے رہے حالانکہ حدیث صحیح میں گو خلیفہء وقت فاسق ہی ہو بیعت کر لینی چاہئے اور تخلف معصیت ہے.پھر انہیں حدیثوں پر نظر ڈال کر دیکھو.جو مسیح کی پیشگوئی کے بارے میں ہیں کہ کس قدر اختلافات سے بھری ہوئی ہیں.مثلاً صاحب بخاری نے دمشق کی حدیث کو نہیں لیا اور اپنے سکوت سے ظاہر کر دیا کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں ہے.اور ابن ماجہ نے بجائے دمشق کے بیت المقدس لکھا ہے اب حاصل

Page 146

حیات احمد ۱۴۳ جلد سوم مگر وہ آخر تک صبر نہیں کر سکے.کسی نے کہا کہ یہ شخص کافر ہے.اور کسی نے کہا کہ اس کو مالیخولیا ہے.اور چونکہ اکثر ان میں موٹی عقل کے آدمی اور کجی سے بہ نسبت راستی کے زیادہ پیار کرنے والے ہیں.اس لئے ان مولوی صاحبوں کے بیانات کا ان کے بقیہ حاشیہ کلام یہ ہے کہ ان بزرگوں نے باوجود ان اختلافات کثیرہ کے ایک دوسرے کے مباہلہ کی درخواست ہرگز نہیں کی.اور ہرگز روا نہیں رکھا کہ ایک دوسرے پر لعنت کریں بلکہ بجائے لعنت کے حدیث سناتے رہے کہ پرلو اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ - اب یہ نئی بات نکلی ہے کہ ایسے اختلافات کے وقت میں ایک دوسرے پر لعنت کریں.اور بددعا اور گالی اور دشنام کر کے فیصلہ کرنا چاہیں.ہاں اگر کسی ایک شخص پر سراسر تہمت کی راہ سے کسی فسق اور معصیت کا الزام لگایا جاوے.جیسا کہ مولوی اسمعیل صاحب ساکن علی گڑھ نے اس عاجز پر لگایا تھا کہ نجوم سے کام لیتے ہیں اور اس کا نام الہام رکھتے ہیں تو مظلوم کو حق پہنچتا ہے کہ مباہلہ کی درخواست کرے.مگر جزئی اختلافات میں جو ہمیشہ سے علماء و فقراء میں واقع ہوتے رہتے ہیں مباہلہ کی درخواست کرنا یہ غزنوی بزرگوں کا ہی ایجاد ہے لیکن اگر علماء ایسے مباہلہ کا فتویٰ دیں تو ہمیں عذر بھی کچھ نہیں کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اس ملاعنہ کی طریق سے جس کا نام مباہلہ ہے اجتناب کریں تو یہ ہی اجتناب ہمارے گریز کی وجہ سمجھی جائے اور حضرات غزنوی خوش ہو کر کوئی دوسرا اشتہار عبدالحق کے نام سے چھپوا دیں اور لکھ دیں کہ مباہلہ قبول نہیں کیا اور بھاگ گئے لیکن دوسری طرف ہمیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر ہم مسلمانوں پر خلاف حکم شرع اور طریق فقر کے لعنت کرنے کے لئے امرتسر پہنچیں تو مولوی صاحبان ہم پر یہ اعتراض کر دیں کہ مسلمانوں پر کیوں لعنتیں کیں اور ان حدیثوں سے کیوں تجاوز کیا جو مومن لعان نہیں ہوتا اور اس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہتے ہیں.سو پہلے یہ ضروری ہے کہ فتویٰ لکھا جاوے اور اس فتویٰ پر ان تینوں مولوی صاحبان کے دستخط ہوں جن کا ذکر میں لکھ چکا ہوں جس وقت وہ استفسار مصدقہ ہمواہیر علماء میرے پاس پہنچے تو پھر حضرت غزنوی مجھے امرتسر پہنچا سمجھ لیں.ماسوا اس کے یہ بھی دریافت طلب ہے کہ مباہلہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں منجانب اللہ تجویز کیا گیا تھا وہ کفار، نصاری کی ایک جماعت کے ساتھ تھا جو نجران کے معزز اور مشہور نصرانی تھے.اس سے معلوم ہوا کہ مباہلہ جو ایک مسنون امر ہے کہ اس میں ایک فریق کا فریا ظالم کس کو خیال کیا گیا ہے اور نیز یہ بھی دریافت طلب ہے کہ جیسا کہ نجران کے نصاری کی ایک جماعت تھی آپ کی کوئی جماعت ہے یا صرف اکیلے میاں عبدالحق صاحب قلم چلا رہے ہیں.تیسرا یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اس اشتہار کے لکھنے والے درحقیقت کوئی صاحب آپ کی جماعت میں سے ہیں جن کا نام عبد الحق ہے یا یہ فرضی نام ہے اور یہ بھی دریافت طلب ہے کہ آپ بھی

Page 147

حیات احمد ۱۴۴ جلد سوم دلوں پر سخت اثر پڑا.اور عوام الناس کی تو یہ پہلے ہی سے عادت ہے کہ وہ اصل حقیقت پر غور کم کرتے ہیں اور ایک خود غرض یا کوتاہ فہم مولوی کے بیان کو فیصلہ ناطق سمجھ لیتے ہیں.اسی ضرر رساں سیرت نے انہیں طرح طرح کے گڑھوں اور غاروں میں ڈال دیا ہے.لہذا قرین مصلحت سمجھ کر کل مخالف الرائے علماء کے مقابل محض لِله اشتہار جاری کیا جاتا ہے کہ اگر ان کو اس عاجز کے ان دعاوی مذکورہ کے قبول کرنے میں کوئی عذر شرعی ہو یا وہ یہ خیال کرتے ہوں کہ اس عاجز کے یہ دعاوی قَالَ اللہ اور قَالَ الرَّسُول کے برخلاف ہیں تو وہ ایک عام مجلس کر کے تحریری طور پر اس عاجز سے مقاصد مذکورہ بالا میں مباحثہ کر لیں تاکہ جلسہ عام میں حق ظاہر ہو جائے اور کوئی فتنہ بھی پیدا نہ ہو کیونکہ مجرد زبانی بیانات میں انواع و اقسام کی خرابیوں کا احتمال ہے.سو مناسب ہے کہ ان سب میں سے وہ مولوی صاحب جو کمالات علمی میں اول درجہ کے خیال کئے جائیں وہی فریق ثانی کی طرف سے اس مباحثہ کے لئے مختار مقرر ہوں اور فریق ثانی کے لوگ اپنے اپنے معلومات سے ان کو مدد دیویں اور وہ (وکیل صاحب) بذریعہ تحریر ان سب دلائل کو اس عاجز کے سامنے پیش کریں.مگر مناسب ہے کہ بقیہ حاشیہ.مباہلین کے گروہ میں داخل نہیں تو کیا وجہ؟ اور پھر وہ کونسی جماعت ہے جیسا کہ منشاء آیت کا ہے.ان تمام امور کا جواب ہواپسی ڈاک ارسال فرما دیں.اور میاں عبد الحق نے اپنے الہام میں جو مجھے جہنمی اور ناری لکھا ہے اس کے جواب میں مجھے کچھ ضرورت لکھنے کی نہیں ہے.کیونکہ مباہلہ کے بعد خود ثابت ہو جائے گا کہ اس خطاب کا مصداق کون ہے.لیکن جہاں تک ہو سکے.آپ مباہلہ کے لئے کاغذ استفسار تیار کر کے مولوی صاحبين موصوفین کی مواہیر ثبت ہونے کے بعد وہ کاغذ میرے پاس بھیج دیں.اگر اس میں کچھ توقف کریں گے یا میاں عبدالحق چپ کر کے بیٹھ جائیں گے تو گریز پر حمل کیا جائے گا اور واضح رہے اس خط کی چار نقلیں چار اخبار میں اور نیز رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دی جائیں گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور یکم رجب ۱۳۰۷ ھ م ۱۱ فروری ۱۸۹۱ء مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۴۲۴ تا ۴۲۸ مطبوعه ۶۲۰۰۸)

Page 148

حیات احمد ۱۴۵ اختصار اور حفظ اوقات کی غرض سے اپنے کل دلائل اول پر چہ میں ہی پیش کر دیں اور اس عاجز کی طرف سے بھی صرف ایک پرچہ ان کے جواب میں ہوگا.وہی دونوں پرچے سوالات و جوابات کے حاضرین کو سنائے جائیں اور اخباروں میں چھپوا دیئے جائیں.اس سے حق اور باطل خود روشن ہو جائے گا.اور تحریرات ہر دو فریق سے ہر یک حاضر اور غائب کو خوب سوچ کے ساتھ حق کے سمجھنے اور رائے لگانے کا موقع مل جاوے گا.اگر چہ کتاب ازالہ اوہام چھپ رہی ہے.جو چھپیں جزو کے قریب ہوگی اور یہ تمام مباحث معہ دیگر معارف و حقائق کے اس میں کامل طور پر درج ہیں.مگر یہ مولوی صاحبان اس کو ہرگز نہیں دیکھیں گے تا ایسا نہ ہو کہ آنکھیں کھل جائیں اور حق کو قبول کرنا پڑے.بلکہ میں نے سنا ہے کہ ان حضرات میں سے اکثر مولوی صاحبان یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی مسلمان ان کتابوں کو نہ دیکھے يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ.لیکن یہ اشتہار بہر حال دیکھنا پڑے گا.اور عوام الناس اگر چہ بڑی بڑی کتابوں کو نہیں پڑھتے مگر اس مختصر اشتہار کے مضمون سے بے خبر نہیں رہ سکتے.لہذا میں نے اتمام حجت کی نیت سے اس کو لکھا ہے.اور میں بآواز بلند کہتا ہوں کہ میرے پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور القا سے حق کھول دیا ہے.اور وہ حق جو میرے پر کھولا گیا ہے وہ یہ ہے کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کی روح اپنے خالہ زاد بھائی بیٹی کی روح کے ساتھ دوسرے آسمان پر ہے.اس زمانہ کے لئے جو روحانی طور پر مسیح آنے والا تھا جس کی خبر احادیث صحیحہ میں موجود ہے وہ میں ہوں.یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو لوگوں کی نظروں میں عجیب اور تحقیر سے دیکھا جاتا ہے.اور میں کھول کر لکھتا ہوں کہ میرا دعویٰ صرف مبنی بر الہام نہیں.بلکہ سارا قرآن شریف اس کا مصدق ہے.تمام احادیث صحیحہ اس کی صحت کی شاہد ہیں.عقل خدا داد بھی اسی کی مؤید ہے.اگر مولوی صاحبوں کے پاس مخالفانہ طور الصف : ٩ جلد سوم

Page 149

حیات احمد ۱۴۶ جلد سوم پر شرعی دلائل موجود ہیں تو وہ عام جلسہ کر کے بطریق مذکورہ بالا مجھ سے فیصلہ کریں.بے شک حق کو غلبہ ہو گا.میں بار بار کہتا ہوں کہ میں بیچ پر ہوں.مولوی صاحبان سراسر اپنے علم کی پردہ دری کراتے ہیں جبکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے.اے حضرات ! اللہ جَلَّ شَـانـہ آپ لوگوں کے دلوں کو نور ہدایت سے منور کرے.یہ دعویٰ ہر گز قَالَ اللہ اور قَالَ الرَّسُول کے برخلاف نہیں بلکہ آپ لوگوں کو سمجھ کا پھیر لگا ہوا ہے.اگر آپ لوگ جلسہ کے لئے مقام و تاریخ مقرر کر کے ایک عام جلسہ میں مجھ سے بحث تحریری نہیں کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ کے نزدیک اور نیز راستبازوں کی نظر میں بھی مخالف ٹھہریں گے اور مناسب ہے کہ جب تک میرے ساتھ بالمواجہ تحریری طور پر بحث نہ کر لیں اس وقت تک عوام الناس کو بہکانے اور مخالفانہ رائے ظاہر کرنے سے اپنے منہ بند رکھیں.اور یہی آیت کریمہ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ " سے ڈریں.ورنہ یہ حرکت حیا اور ایمان اور خدا ترسی اور منصفانہ طریق سے بر خلاف سمجھی جائے گی.اور واضح رہے کہ اس اشتہار کے عام طور پر وہ تمام مولوی صاحبان مخاطب ہیں جو مخالفانہ رائے ظاہر کر رہے ہیں اور خاص طور پر ان سب کے سرگر وہ یعنی مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی.مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی.مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے والے.مولوی شیخ عبید اللہ صاحب بنتی.مولوی ☆ عبدالعزیز صاحب لدھانوی معہ برادران.اور مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری.المشتهر ۲۶ / مارچ ۱۸۹۱ء میرزا غلام احمد قادیانی ( مطبع دبد به اقبال رتی لدھیانہ) ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۷۲ تا ۱۷۴ بار دوم ) بنی اسرائیل : ۳۷

Page 150

حیات احمد ۱۴۷ تتمہ واقعات قبل مباحثہ لودہانہ جلد سوم میں نے واقعات قبل مباحثہ کو اپنی یادداشت کی بناء پر پچھلے صفحات میں درج کیا ہے میں نے ربوہ اور احمد نگر بعض احباب کو تحریری مواد کے متعلق لکھا تھا مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے جواب نہیں دیا شاید وہ اس کی ضرورت نہ سمجھتے ہوں بعض لوگوں میں یہ مرض ہوتا ہے کہ وہ خطوط کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے میں اسے ایک قسم کی بداخلاقی سمجھتا ہوں.عزیز مکرم ملک صلاح الدین صاحب کو بھی میں نے اشاعۃ السنہ کے ایک فائل کے متعلق لکھا تھا انہوں نے بواپسی ڈاک بذریعہ رجسٹر ڈ پیکٹ بھیج دیا جَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء یہ ہے تعاون عَلَى الْبِر.یہ میرا ذاتی کام تو ہے نہیں یہ سلسلہ کا کام ہے اور اس میں تعاون ہر احمدی کا فرض ہے.اشاعۃ السنہ کے اس فائل کے آجانے سے اگر چہ جن واقعات کو یادداشت کی بنا پر اوپر لکھ آیا ہوں کوئی مزید اصلاح و ترمیم کی حاجت نہیں تاہم میں نے مناسب سمجھا کہ واقعات کو خود دشمن کی زبان قلم سے ہی بیان کر دوں اس کی زبان قلم میں حرارت ہو سکتی ہے.اپنے مفید مطلب پیرا یہ بیان بھی ہو سکتا ہے.مگر سلیم الفطرت انسان اس میں حقیقت کو دیکھتا ہے اس کے متعلق میں مختلف عنوان کے تحت ان واقعات کو بطور تتمہ یا تائید مزید بیان کرتا ہوں.حضرت حکیم الامت سے تبادلہ خیالات میں نے صفحہ (۱۲۰) پر لاہور میں حضرت حکیم الامت سے تبادلہ خیالات یا با صطلاح مولوی محمد حسین صاحب ( گفتگو) کو بیان کر دیا ہے اس سلسلہ میں مولوی محمد حسین حسب ذیل بیان کرتے ہیں.فرضی حواری سے گفتگو فرضی حواری سے ہمارے پرانے دوست مولوی حکیم نورالدین صاحب ساکن بھیرہ ضلع

Page 151

حیات احمد ۱۴۸ جلد سوم شاہپور مقیم و ملازم ریاست جموں مراد ہیں.وہ اپنے احباب کے سامنے اپنے حواری ہونے کا دعوی کر چکے ہیں اُن کے اس ادعا پر ہم نے ان کو فرضی حواری کہا ہے.واقع میں وہ مرزا صاحب کے حواری ( بمعنی ناصر ) نہیں بلکہ بجائے نصرت ان کو ضرر پہنچا رہے ہیں.آپ کے نام ہم نے ایک خط لکھا تھا جس کی نقل ذیل میں معروض ہے.لا ہور.۱۰ فروری ۱۸۹۱ء محبّی مولوی نورالدین صاحب.السلام علیکم اس کا رسپانڈنس کی نقل اس غرض سے آپ کے پاس بھیجی گئی ہے کہ آپ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہیں میں مستعد ہوں کہ مرزا صاحب کے اس دعویٰ کی تغلیط کروں.آپ ہمیشہ اور لوگوں سے گفتگو کرتے ہیں مگر میں نے ایک دفعہ مرزا صاحب کی بابت آپ کو کچھ کہا تو آپ نا خوش ہو گئے اب بھی وہی حال ہے تو خیر اور اگر ان کی بابت کچھ کہنے اور سننے کا حوصلہ ہے تو بہتر ہے لاہور میں تشریف لاویں اور ان کے معاملے میں گفتگو کریں.توضيح المرام اور ازالة الاوهام سے اس دعوی کی تصحيح نہ ہو گی آپ سے کچھ ہو سکتا ہے تو کریں.ابھی وقت ہے.اب کی دفعہ لاہور میں میں آپ سے ملا تو جو کچھ آپ نے مجھ سے اور میں نے آپ سے اُن کے باب میں کہا اس کو بعینہ یا اس کا مضمون نقل کریں.مجھے اُس سے ایک مطلب نکالنا ہے.ابوسعید محمدحسین اس خط کا جواب جو حکیم صاحب نے دیا وہ ذیل میں منقول ہے.رَبِّ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيْهِ مِنَ الْخَلْقِ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْم - مولا نا السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ جناب والا کو خاکسار بہت مدت سے مرزا جی کے خلاف پر مستعد یقین کرتا ہے.جناب سورج کے سامنے نجوم کی شعاع کو کون دیکھتا ہے ابھی مرزا زندہ ہیں.میں آپ کے دعاوی اور

Page 152

حیات احمد ۱۴۹ جلد سوم علم سے ناواقف نہیں اور یہ امراب پبلک کے سامنے آ گیا ہے.اب پرائیویٹ خط و کتابت کو بند کیجئے.میں لوگوں سے مباحثہ کروں مجھے اختیار ہے.مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عقائد کی اصلاح کروں.اس سے زیادہ میں اس لئے نہیں لکھتا کہ میں آپ سے مایوس ہوں.نورالدین.۳؎ پھاگن اس خط کی تحریر سے حکیم صاحب نے تو مباحثہ کو ختم کیا.اور یہ جان لیا تھا کہ چلو چھٹی ہوئی اس بلا سے جان بچی.مگر خدا نے نہ چاہا کہ اس سے ان کو بچاوے اور ان کے انکار کا بجز پر مبنی ہونا چھپا رہنے دے لہذا حق تعالیٰ نے حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار انہار کے دل میں اس خیال کا القا کیا کہ جس طرح ہو سکے جانِبین کو ایک جگہ جمع کریں اور ان کی باہم گفتگو کرا دیں.پس پہلے تو حافظ صاحب ہمر ا ہی منشی عبدالحق صاحب حکیم صاحب کے پاس جموں پہنچے مگر وہاں سے واپس آئے تو مایوسی کے مظہر ہوئے.پھر جب حکیم صاحب بہ شمولیت راجگان جموں سے لاہور میں آئے تو اس وقت حافظ صاحب لاہور میں نہ تھے.اس وجہ سے حکیم صاحب ہمارے قابو میں نہ آئے ( ہر چند اور لوگوں کے ذریعہ ہم طالب مباحثہ ہوئے ) اور حکیم صاحب اپنے مسیح کے پاس لدھیانہ جا پہنچے.۱۲ / اپریل کو مولوی فضل الدین صاحب ساکن گجرات لدہانہ سے آکر خاکسار کو لاہور میں ملے تو مظہر ہوئے کہ آپ کے مقابلہ اور مباحثہ کے لئے مرزا صاحب تیاری کر رہے ہیں.کل مولوی نورالدین اور ان کے ایک شاگرد کو (جس کی بدگوئی اور پھکڑ بازی کے سبب اس کا نام بھی ہم زبان پر لانا نہیں چاہتے ) روانہ کریں گے.۱۳ / تاریخ اپریل کو حافظ محمد یوسف صاحب بھی لاہور پہنچ گئے.اور ادھر سے حکیم صاحب رونق افروز لا ہور ہو کر منشی امیرالدین صاحب کے مکان پر فروکش ہوئے.رات کے دس بجے منشی امیر الدین کے بھائی حاجی محمد دین صاحب حافظ جی کا یہ پیام لائے کہ حکیم صاحب تشریف لے آئے ہیں.آپ صبح آویں اور حکیم صاحب سے گفتگو کریں.میں نے اس پیام کا جواب یہ دیا کہ میں گفتگو کے لئے تب آؤں گا جب حکیم صاحب کا دستخطی رقعہ متضمن درخواست مباحثہ پاؤں گا.کیونکہ حکیم صاحب

Page 153

حیات احمد ۱۵۰ جلد سوم اپنے خط میں گفتگو سے انکار کر چکے ہیں.لہذا اگر میں بلا درخواست اُن کے پاس پہنچا تو وہ کہیں گے ہم تو مباحثہ سے انکار کر چکے ہیں پھر آپ کیوں آئے.حاجی صاحب میرے جواب سے آشفتہ خاطر ہوئے اور یہ مضمون زبان پر لائے کہ آپ نہ آئیں گے تو وہ لوگ (مسیحائی پارٹی) ہم لوگوں کو ( جو آپ کے ہم خیال ہیں ) گریز کی طرف منسوب کریں گے.اور اس بات کے مظہر ہوئے کہ حکیم صاحب اس مضمون کا رقعہ نہ لکھیں گے.اس پر میں نے کہا حکیم صاحب نہ لکھیں تو یہ بات حافظ صاحب تحریر کر کے میرے پاس بھیج دیں کہ حکیم صاحب آپ کے نام رقعہ لکھنے سے انکار کرتے ہیں.مگر ہم لوگ آپ کو ان سے گفتگو کے لئے بلاتے ہیں.یہ جواب لے کر حاجی صاحب خفگی کے ساتھ واپس ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد میاں رجب دین صاحب کو ( جو ایسے مشکلات کے وقت وکیل بنائے جایا کرتے ہیں ) لے کر میرے پاس آئے اور حافظ جی کا وہی پیام لائے.میں نے اس کے جواب میں پھر وہی بات کہی.مگرمیاں رجب دین صاحب نے میرے اس جواب کی مخالفت میں بہت زور دیا اور یہی کہا کہ اگر آپ نہ آئے تو ہم لوگوں پر گریز کا الزام قائم ہو جائے گا.اور جب خط کا ذکر آیا تو انہوں نے ایک خط بھی حافظ صاحب کا جیب سے نکال کر پیش کیا.( جس کا مضمون غالبا وہی تھا جو مرزا صاحب کے وکیل اڈیٹر پنجاب گزٹ نے اپنے پرچہ ۲۵ را پریل میں مشتہر کیا ہے ) مگر چونکہ اس خط کا مضمون وہ نہ تھا جو میرا مطلوب تھا بلکہ وہ مضمونِ مطلوب اور قاصدوں کی زبانی پیام کے مخالف تھا.لہذا میں نے اس خط کو پڑھ کر واپس کیا.اور اس کے ساتھ خوش طبعی سے یہ بھی کہا کہ اس خط کو آپ یا حافظ صاحب شہد لگا کر چاٹ لیں.اس پر بھی میاں رجب دین صاحب نے اپنی بات پر اصرار نہ چھوڑا.آخر میں نے ان کے اصرار پر صبح کو حاضر مجلس ہونا قبول کیا.صبح کو پھر میاں رجب دین صاحب اور ان کے بعد محمد چٹو صاحب میرے بلانے کو آئے.میں ان کے ہمراہ صبح کے ساڑھے چھ بجے منشی امیر دین صاحب کے مکان پر پہنچا تو وہاں پر بڑا مجمع پایا جو میرے پہنچنے کے بعد اور زیادہ ہو گیا تھا اس مجمع کے ارکان ( سابق اور لاحق ) سے خصوصیت کے ساتھ لائق ذکر یہ اصحاب و احباب ہیں جناب عبدالرحمن

Page 154

حیات احمد ۱۵۱ جلد سوم صاحب خلف الرشید مولوی محمد بن بارک اللہ ساکن لکھو کے ( جن کا ذکر مرزا صاحب کے خط نمبر ۵ میں ہے ) جناب مولوی محمد عبد اللہ صاحب پروفیسر عربی کالج لاہور.جناب سید فقیر جمال الدین ریکس و آنریری اسسٹنٹ کمشنر لاہور.جناب شیخ خدا بخش صاحب حج عدالت خفیفہ لاہور.مولوی عبدالعزیز صاحب رکن انجمن حمایت اسلام و ملازم سر رشتہ تعلیم پنجاب.ایسے ہی بعض اصحاب لائق ذکر اور تھے مگر ان میں اسلامی اور حقانی جوش ایسا نہیں ہے کہ وہ مسیحائی پارٹی کا لحاظ نہ کریں.اور شہادتیں دیں.خاکسار مجلس میں پہنچا تو بعد سلام و مزاج پرسی حضار سب سے پہلے جو کلمہ زبان پر لایا وہ یہ تھا کہ حافظ صاحب آپ نے جو مجھے بلایا ہے تو کس غرض سے بلایا ہے؟ حافظ صاحب نے فرمایا کہ اس غرض سے بلایا ہے کہ آپ مرزا صاحب کے متعلق حکیم صاحب سے گفتگو کریں.اس کلمہ کے (یا جو اس کے معنی میں ہو ) سو حافظ صاحب نے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا.نہ مجھے کچھ کہا نہ حکیم صاحب سے.پھر خاکسار نے حکیم صاحب سے مخاطب ہو کر کہا میں نے مولوی فضل الدین صاحب کی زبانی سنا ہے کہ آپ لودھا نہ سے مجھ سے مباحثہ کرنے کو تشریف لائے ہیں.حکیم صاحب نے کہا کہ یہ غلط بات ہے مگر میں حافظ محمد یوسف کے حکم میں ہوں.حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ اب میں گفتگو کو حاضر ہوں پھر خاکسار نے کہا کہ میں قبل از بحث مقصود چند اصول آپ سے تسلیم کرانا چاہتا ہوں.کیونکہ بحث سے پہلے اصول طے ہو جائیں گے تو اثناء بحث میں دلائل سے رڈو قبول میں اختلاف نہ ہوگا انہی اصول موضوعہ و مسلمہ کو دلائل میں پیش کیا جائے گا.حکیم صاحب نے اس امر کو منظور کیا.اور حسب تفصیل ذیل سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا.خاکسار نے کہا (۱) کتاب اللہ وسنت اتفاقی حجج شرعیہ ہیں.حکیم صاحب نے فرمایا مسلّم ہے.خاکسار (۲) سنت سے وہ اقوال و افعال ( لائق اقتدا) و تقریرات نبویہ مراد ہیں.جو کتب حدیث میں مروی ہیں.

Page 155

حیات احمد حکیم صاحب.مسلّم ہے.۱۵۲ جلد سوم خاکسار (۳) کتب حدیث سے صحیحین بلا وقفہ و نظر سنت نبویہ کی مثبت و شاہد ہیں.حکیم صاحب.صحیحین کو میں بہت معتبر سمجھتا ہوں.بخاری کو اقدم جانتا ہوں.خاکسار (۴) اس تفاوت اور تقدیم مرتبہ بخاری کا اثر یہی ہوگا کہ عند التعارض بخاری کی حدیث مقدم ہو گی اور جو حدیث مسلم کی بخاری کے معارض نہ ہو وہ بھی بخاری کی طرح بلا وقفہ تسلیم کی جاوے گی.حکیم صاحب.مسلم ہے.خاکسار (۵) ان دو کتابوں میں جِرْحِ مَدفوع ہے.اور ان کتابوں کی کسی کتاب کی حدیث کی تو ہین یا ر ڈ اہل بدعت کی شان ہے.حکیم صاحب.مسلّم ہے.خاکسار (۶) آپ اپنی رائے سے جرح و تعدیل احادیث غیر صحیحین کا منصب رکھتے ہیں.حکیم صاحب.نہیں.خاکسار (۷) حدیث کی روایت اور راوی کی رائے میں فرق ظاہر ہے.حکیم صاحب.مسلم.خاکسار.(۸) الفاظ کتاب اللہ اور حدیث کو ظا ہر معنی پر حمل کرنا واجب ہے ، اور ان کے تأویل بلا مانع وقوی اور حجت قطعی جائز نہیں.کیونکہ یہ تاویل لغت اور شرع سے امان کی رافع ہے.حکیم صاحب.رسول اللہ کے اقوال اور قرآن شریف کے کلمات طیبات ایسے معاملات میں جو عملی طور پر رسول اللہ نے ان کو کر کے دکھا دیا ہے.یا صحابہ کے زمانہ میں بلا انکار انہوں نے عمل میں لا کر دکھا دیا ہے اُن کے وہی معنی ہیں.جو تعامل سے ثابت ہوئے.باقی پیشگوئیوں یا اخبار میں ایسا کوئی مجازی استعارہ لینا قوی دلیل سے ممکن ہے.

Page 156

حیات احمد ۱۵۳ جلد سوم خاکسار.آپ کی تقریر سے یہ سمجھ میں آیا ہے کہ جن الفاظ نبوی یا کلمات قرآنی کے معنی عمل نبوی سے مفہوم نہ ہوئے ہوں.ان الفاظ کے معنی لغوی میں تاویل جائز ہے.اگر دلیل قوی ہو.اس کا لازمہ یہ ہے کہ اگر اس تأویل پر کوئی دلیل نہ ہو تو وہ تاویل بھی ویسی ہی ناجائز ہے جیسے کہ عملی معنوں میں تاویل ناجائز ہے.حکیم صاحب.بہر حال یہ میرا مسلّم ہے.خاکسار.(۹) حقیقت مجاز سے مقدم ہے.اور حقیقت کے علامات یہ ہیں (۱) معنی کا متبادر ہونا (۲) ایک امر جائز پر اس لفظ کا اطلاق (۳) اس کے نفی کی عدم صحت علامات مجاز اس کے مخالف یہ ہیں (۱) قرینہ کا وجود (۲) امر محال پر لفظ کا اطلاق (۳) نفی کی صحت.حکیم صاحب.مجھے کچھ معلوم نہیں کہ مولوی صاحب نے یہ اصطلاح سلف صالحین سے کہاں سے لی ہے.خاکسار.میں لفظی بحث کو ترک کر کے صرف اس کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ آپ نے پچھلے جواب میں تسلیم کیا ہے کہ لفظ کے ایسے معنی جس کو استعارہ کہا جاتا ہے قوی دلیل سے لئے جائیں گے بلا دلیل ایسے معنی نہ لئے جائیں گے.پس میں انہیں معنی کو مجاز کہتا ہوں.جن کو آپ نے استعارہ کہا ہے.اور آپ کے جواب سابق سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کوئی استعارہ بلا دلیل قوی کسی لفظ سے مراد نہ ٹھہرائیں گے.میرے لئے یہی تسلیم آپ کی کافی ہے اس معنی کو آپ مجاز کہیں یا نہ کہیں.حکیم صاحب نے.اس کے جواب میں کوئی عذر وانکار پیش نہیں کیا.اور سکوت سے اس کو تسلیم فرمایا.خاکسار (۱۰) محال اور مَجْهُولُ الكُنه میں فرق ہے.اوّل کی تسلیم جائز نہیں.دوسرے کی جائز ہے.حکیم صاحب مسلّم ہے.

Page 157

حیات احمد ۱۵۴ جلد سوم خاکسار (۱۱) عادت کا خلاف جائز ہے.بناء علیہ معجزات انبیاء و کرامات اولیاء جو عام عادت کے برخلاف معلوم ہوتے ہیں واجب التسلیم ہیں اگر ان کا ثبوت ہو.حکیم صاحب.یہ بھی خاص عادت اللہ ہے.خاکسار (۱۲) قانون قدرت جس کو بعض لوگ خدا کا قانون بنائے بیٹھے ہیں واقع میں خدا کی قدرت کا قانون و معیار نہیں ہے.حکیم صاحب.ہاں انسان کے محدود تجربے اور مشاہدے قانون قدرت پر حاوی نہیں ہو سکتے.خاکسار (۱۳) آپ آنحضرت صلعم کے معراج جسمانی کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ حکیم صاحب.میں نے اس مسئلہ میں غور نہیں کیا کہ جسدی ہے یا روحانی نفس معراج کا اقرار ہے.خاکسار (۱۴) غیر نبی کا الہام دوسرے شخص پر حجت شرعی ہے یا نہیں.حکیم صاحب.غیر نبی کا الہام نبی کے صریح حکم کے خلاف ہو تو حجت نہیں اور اگر کسی ایسے معاملہ میں ہو کہ اس میں صریح حکم نبی کا خلاف نہیں ہے تو ممکن ہے کہ کسی کے لئے حجت ہو مگر حجت شرعی نہیں.خاکسار (۱۵) صحابی کی ایسی تفسیر آیات قرآن جس کے معنی سمجھنے میں محض رائے کا دخل نہ ہو.حکماً مرفوع ہے یا نہیں؟ حکیم صاحب.صحابی کی ایسی تفسیر کوئی حکماً حجت نہیں.خاکسار (۱۶) درصورت عدم حجت وہ دوسروں کی تفسیر بالرائے سے مقدم ہے یا نہیں.حکیم صاحب.صحابی کی تفسیر کو مقدم کرنا کوئی ضرورت نہیں.خاکسار (۱۷) نبوت ختم ہو چکی ہے یا نہیں.حکیم صاحب.نبوت تشریعی ختم ہو چکی ہے.کوئی شخص شریع جدید نہیں لا سکتا.خاکسار (۱۸) کوئی جدید نبی ہو سکتا ہے جو تشریع جدید نہ کرے.شرع محمدی کے تابع ہو.اور نبی کہلائے.جیسے انبیاء بنی اسرائیل توریت کا اتباع کرتے تھے اور نبی کہلاتے تھے.

Page 158

حیات احمد جلد سوم حکیم صاحب.کوئی بعید نہیں ہو.خاکسار (۱۹) آیت خاتم النبیین نبوت کو ختم کرتی ہے.آپ نبی جدید کی تجویز پر کیا دلیل رکھتے ہیں.؟ حکیم صاحب.خاتم النبیین کی آیت تشریعی انبیاء کے ختم کی دلیل ہے.نبی بلا تشریع کے وجود کے مانع نہیں ہے.ایسے نبی کے دلائل میں اس وقت پیش نہیں کرتا.خاکسار (۲۰) لفظ عیسی ابن مریم اور دجال کے اصلی معنی (جس کی تأویل محتاج دلیل ہو ) آنحضرت صلعم اور صحابہ و تابعین کے زمانہ میں اس وقت تک کیا سمجھے گئے.حکیم صاحب.مجھے تمام لوگوں کے گل اقوال کی خبر نہیں.خاکسار (۲۱) میں نے نہ تمام لوگوں کے اقوال پوچھے ہیں.نہ گل اقوال.جن لوگوں کے اقوال پر آپ کو اطلاع ہے.ان کا کیا خیال تھا.حکیم صاحب.ابن مریم سے قرآن میں عیسیٰ نبی اللہ اسرائیل مراد ہے.اور دجال کی نسبت مختلف خیال ہیں.ابن صیاد کو حضرت عمر دجال سمجھتے اور اس پر قسم کھاتے تھے.خاکسار (۲۲) احادیث نبویہ میں جو ابن مریم کا لفظ وارد ہے اس کے معنی صحابہ و تابعین وغیرہ مسلمین نے جہاں تک آپ کو علم ہے کیا سمجھے ہیں.اور دقبال کی نسبت جو آپ نے اختلاف بیان کیا ہے.اس کی ایک شق آپ نے بیان کی ہے دوسری نہیں کی ، اب بیان فرماویں کہ سوائے ابن صیاد کے بھی صحابہ و تابعین نے کسی کو دجال سمجھا ہے.حکیم صاحب.مجھے یاد نہیں کہ سوائے ابن صیاد کے کسی کو دقبال کہا گیا ہو اور ابن مریم کے ساتھ کسی نے جہاں تک مجھے یاد ہے اسرائیل کی قید نہیں لگائی.خاکسار (۲۳) آنحضرت صلعم کے وقت میں ابن مریم کا لفظ قرآن میں اور پھر آنحضرت کے کلام میں اور عام لوگوں کے کلام میں جب کبھی بولا جا تا تھا تو اس لفظ کے اصل معنی کیا سمجھے جاتے تھے آیا وہی حضرت عیسی ابن مریم اسرائیلی یا کوئی اور معنی بھی کسی کے خیال میں آئے تھے.

Page 159

حیات احمد ۱۵۶ جلد سوم حکیم صاحب.قرآنِ شریف میں جہاں ابن مریم آیا ہے وہاں تو وہی عیسی ابن مریم سمجھے جاتے تھے.اور احادیث میں جو ابن مریم بولا گیا تھا اس کی تصریح صحابہ کی جانب سے میں نے نہیں دیکھی کہ آیا وہ اس کو مثیل ابن مریم سمجھتے تھے یا واقعی نبی اللہ بنی اسرائیلی مراد لیتے تھے.خاکسار (۲۴) آٹھویں اصول میں آپ تسلیم کر چکے ہیں کہ احادیث اور قرآن کے اصلی معنی.جواب نمبری ۲۴.اس حد تک پہنچا تھا کہ حکیم صاحب مجلس سے رخصت کے خواستگار ہوئے.اس وقت جناب مولوی محمد عبد اللہ صاحب پروفیسر عربی کالج لاہور نے فرمایا کہ ان اصول وسوالات و جوابات پر فریقین کے دستخط ثبت ہونے چاہئیں.وَبَنَاءً عَلَيْهِ وہ اصول وسوالات و جوابات اس مجلس میں اوّل سے آخر تک لفظ بلفظ پڑھے گئے.پھر حکیم صاحب نے اس کو اپنے ہاتھ میں لے کر ملاحظہ فرما کر تسلیم کیا.اور پہلے ان پر اپنا دستخط ثبت کرنا چاہا مگر پھر فرمایا کہ یہ دوسرے کاغذ پر صاف ہو جائیں گے تو ان پر دستخط کروں گا اور یہ کہہ کر آپ مجلس سے کھڑے ہو گئے اور دوسری جگہ کھانا کھا کر اپنے آقا راجہ صاحب کے پاس چلے گئے.اُن کے بعد ا کثر ارکان مجلس اپنے اپنے مکانات کو تشریف لے گئے صرف خاکسار اور جناب مولوی محمد عبد اللہ صاحب اور چند دیگر احباب تقریباً ایک گھنٹہ تک وہاں ٹھہرے.اور ان اصول وسوالات و جوابات کی دو نقلیں کرا کے اصل سے ان کا مقابلہ کرتے رہے.اس کے بعد ہم بھی وہاں سے مرخص ہو گئے.اور ان دو نفلوں میں سے ایک نقل پر خاکسار نے اپنے دستخط ثبت کر کے حکیم صاحب کا دستخط ثبت کرانے کی غرض سے اس کو حافظ جی کے سپرد کیا اور یہ کہہ دیا کہ جس وقت حکیم صاحب واپس آئیں اور مباحثہ پورا کرنا چاہیں.اس وقت آپ ہم لوگوں کو بھی طلب کریں.“ مجھے اس پر کسی ریمارک کی ضرورت نہیں.خود مولوی محمد حسین صاحب کے اس سلسلے کے بیان سے ظاہر ہے کہ چونکہ جموں میں آپ کا ایک ایسے ضروری کام کے لئے جانا ضروری ہے اور توقف سے احتمال نقصان ہے اور ایک شب کے لئے لودہا نہ جانا اور اپنے اہلِ بیت کو لانا ضروری

Page 160

حیات احمد ۱۵۷ جلد سوم ہے آپ لودہا نہ چلے گئے.اس کے بعد کے واقعات کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب نے تار دیا اور ایک سلسلہ خط و کتابت کا شروع ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خطوط سے ان خطوط کا مضمون واضح ہے جو مولوی محمد حسین صاحب نے لکھے تھے.مولوی محمد حسن صاحب مولوی محمد حسین کے لبادہ میں میں نے مولوی محمد حسن صاحب کے خطوط کے جوابات کو جو حضرت اقدس نے دیئے اوپر درج کر دیا ہے اور میں نے بتایا ہے کہ یہ خطوط در اصل مولوی محمد حسین ہی کے لکھے ہوئے تھے اشاعة السنہ سے اس کی شہادت مل گئی ہے اس لئے اس حصہ کو بھی درج کرتا ہوں مگر اس سے قبل اس گفتگو (جس کو بعد میں مناظرہ کہا گیا ) کے دوران میں حضرت حکیم الامت کا چلے جانا کوئی گریز نہ تھی بلکہ ایک نہایت ضروری کام تھا اس کے متعلق مولوی محمد حسین صاحب کے دوست اور شاہد عدل جناب شیخ خدا بخش صاحب حج عدالت خفیفہ لاہور کا بیان درج کر دینا ضروری ہے جو خود مولوی محمد حسین نے شائع کیا ہے.جناب اخی مکرمی شیخ خدا بخش صاحب حج عدالت خفیفہ لاہور کی شہادت ۱۴ را پریل ۱۸۹۱ء کو مولوی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی اور فقیر، جمال الدین صاحب کے بعد اس مجلس میں گیا تھا، نہ اس خیال سے کہ میں مناظرہ میں شامل ہوں بلکہ مناظرہ کا مجھ کو علم بھی نہ تھا.میں وہاں مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ کسی جگہ جانے کے لئے کسی اور معاملہ دنیاوی کی خاطر گیا تھا کہ وہ وقت مولوی نورالدین صاحب نے میرے ساتھ کہیں جانے کے لئے مقرر کیا ہوا تھا.بہر حال میں نے گفتگو مابین مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی نورالدین صاحب ہوتی سنی آخر کا رنگی وقت کے سبب مولوی نورالدین صاحب کو بعض ان کے احباب نے اٹھایا اور گفتگو مذہبی کے واسطے آئندہ کے لئے التوا کرنا پڑا.پھر ۷ ارا کتوبر ۱۸۹۱ء کولو دھانہ سے میرے نام خط مولوی نورالدین صاحب کا آیا جس کا مضمون یہ تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب کی خبر تار برقی لودہا نہ میں

Page 161

حیات احمد ۱۵۸ جلد سوم بنام غلام احمد پہنچی ہے کہ مولوی نورالدین صاحب جو بحث شروع کر کے بھاگ گیا ہے اُس کو واپس کر و ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے.مولوی نور الدین نے مجھ کو لکھا کہ عام جلسہ کا انتظام ہوتو مع مرزا صاحب کے لاہور وہ پہنچیں اور مجھ کو نیز ایماء تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب کی خدمت میں عرض کی جاوے کہ ۱۴ / اپریل کو قریب ۹ بجے دن کے جو اُن کو یکانت کام پر جانا پڑا کیسا ضروری امر تھا.میری رائے میں 9 بجے جو مولوی نورالدین نے گفتگوختم کی اس میں ضرورت واقعی تھی.بعد وصول رقعہ مولوی نور الدین کے منشی عبد الحق صاحب کے ساتھ بخدمت مولوی محمد حسین صاحب چپراسی روانہ کیا اور عبدالحق صاحب نے بخدمت مولوی محمد حسین صاحب خط مرزا غلام احمد صاحب کا پیش کیا.آخر ۷ ار اپریل ۱۸۹۱ء کو منشی عبدالحق صاحب نے مجھ کولکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے بجواب خط مرزا صاحب لکھ دیا ہے کہ بعد مطالعہ کتاب ازالہ اوہام بحث کے واسطے تاریخ مقرر کریں گے.الغرض ۹ بجے تک ۱۴ر اپریل کو گفتگو ہر دو صاحبان کی ہوتی ہوئی میں نے سنی.آخر کار سوالات و جوابات میرے سامنے ہمواجہ ہر دوفریق پڑھے گئے اور ان کو صحیح مانا گیا.پھر مولوی نورالدین صاحب نے کہا کہ بعد صفائی کے دستخط کریں گے.یکم مئی.احقر خدا بخش اس بیان سے اصل حقیقت کا اظہار مولوی صاحب کے گروہ سے ہوتا ہے اس کے بعد میں اس تحریری شہادت کو درج کرتا ہوں جس کا حوالہ اس عنوان کے شروع میں کیا ہے کہ مولوی محمد حسن صاحب کے پس پردہ خود شیخ بٹالوی تھے ان کے خطوط کو اسی سلسلہ میں درج کر دیتا ہوں اب بٹالوی صاحب کا بیان پڑھیں.لدھیانہ کے علما سے آپ نے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ شروع کیا اور اس کو چند روز کا مشغلہ سمجھ کر اشتہار ۳ رمئی میں ان کو مدعو مباحثہ کیا.اس میں میرے دوست مولوی محمد حسن صاحب رئیس لودھانہ کو بھی مخاطب کیا.ان کے خطاب میں بدقسمتی سے آپ کے قلم سے یہ فقرہ بھی نکل گیا کہ ان کو اختیار ہوگا کہ چاہیں تو بذات خود بحث کریں اور چاہیں تو اپنی طرف سے مولوی ابوسعید محمد حسین

Page 162

حیات احمد ۱۵۹ جلد سوم صاحب کو بحث کے لئے وکیل مقرر کر دیں.اس اشتہار نے اس شعر کے مطابق خاکسار کے نائرہ اشتیاق مباحثہ کو جو مرزا جی کے خط نمبری (۱۰) سے وہ دب گیا تھا مشتعل کر دیا.اور اس وقت مجھے وہ سفر ہندوستان جس کا ذکر بارہا ہو چکا ہے نیز در پیش تھا بِنَاءً عَلَیہ خاکسار نے مولوی محمد حسن صاحب کے نام رقعہ مندرجہ ذیل تحریر کیا.لا ہور.۸ رمئی ۱۸۹۱ء.محبتی مولوی محمد حسن صاحب نمبر ۳۲۳.السلام علیکم.آج میں نے مرزا کا آخری اشتہار دیکھا اس میں آپ کو لکھا ہے کہ چا ہو تو مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو وکیل بنا کر پیش کرو.اور اس کے ساتھ ایسی شرطیں بھی لگا دی ہیں جو جلد وقوع میں نہ آئیں.میری یہ رائے ہے کہ آپ ان کو ( مرزا جی ) اس مضمون کا رقعہ لکھیں کہ 9 مئی کی صباح کو ابوسعید محمدحسین بارادہ پٹیالہ لودھا نہ پہنچیں گے.آپ ان سے بات چیت کر سکیں تو آپ میرے مکان پر تشریف لے آویں آپ نہ آسکیں تو ہم اُن کو آپ کے مکان پر لے آویں گے اور اس مجلس میں جس کو آپ چاہیں شامل کر لیں اور اور شروط کو جن کا تحقق سر دست دشوار ہے پیش نہ کریں.وہ اس امر کو منظور کریں تو بندہ گفتگو کے لئے حاضر ہے.ابوسعید محمد حسین اس خط کے لودھانہ میں پہنچ جانے کے بعد خاکسار بھی 9 مئی کی صبح کولو دھانہ پہنچ گیا.اور جاتے ہی مولوی محمد حسن کو مرزا جی کے پاس بطور سفارت بھجوایا.اور انہی کی طرف سے رقعہ مندرجہ ذیل لکھوا کر اُن کے ہاتھ میں دیا اور یہ کہہ دیا کہ آپ کی سفارت کے جواب میں جو کچھ مرزا صاحب کہیں وہ تحریر میں لاویں زبانی کوئی پیام و کلام مسموع نہ ہو گا.وہ رقعہ چونکہ خاکسار ہی نے لکھوایا تھا.لہذا اپنے رجسٹر خطوط کا نمبر اُس پر لگایا جاتا ہے اور جو خط اس کے جواب میں مرزا صاحب کا آیا اس پر بھی ان کے سلسلہء خطوط کا نمبر لگایا گیا ہے.وہ خط یہ ہے لودہا نہ ۹ رمئی ۱۸۹۱ء نمبر ۳۶۹ بخدمت شریف مرزا صاحب.بعد سلام مسنون کے گزارش ہے کہ آپ نے اشتہار مطبوعہ

Page 163

حیات احمد 17.جلد سوم ۳ مئی ۱۸۹۱ء میں مجھے مخاطب فرمایا ہے کہ آپ چاہیں تو بذات خود بحث کریں اور چاہیں تو اپنی طرف سے جناب مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو بحث کے لئے وکیل کریں.بناءً علیہ میں مکلف ہوں کہ جناب مولوی ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب حسب اتفاق وارد لودہانہ ہیں جو آج ہی ا 1 بجے دن کی ٹرین میں پٹیالہ تشریف لے جائیں گے.آپ اس وقت میں اُن سے مباحثہ کرنا چاہیں تو میرے مکان پر تشریف لاویں اور اُن سے گفتگو کریں اور باقی شروط کو جو متعلق انتظام ہیں آپ جانے دیں کیونکہ اپنے مکان پر انتظام کا ذمہ وار میں خود ہوں مگر یہ واضح رہے کہ جناب مولوی صاحب گفتگو سے پہلے چند اصول آپ سے تسلیم کرائیں گے جناب کو بھی اختیار ہے جو اصول چاہیں ان سے تسلیم کرالیں.اور متنازعہ فیہ آپ کا یہ دعویٰ ہوگا کہ مسیح جس کے آنے کی حدیث میں خبر ہے آپ ہیں.خاکسار محمد حسن مباحثہ کا سلسلہ جدید مکرم منشی امیر الدین صاحب کے مکان پر جو حضرت حکیم الامت سے گفتگو ہوئی تھی اس سلسلہ میں مولوی محمد حسین صاحب اور حضرت اقدس کی خط و کتابت ہوتی رہی اور بالآخر وہ بند ہوگئی پھر مولوی محمد حسین صاحب نے مولوی محمد حسن کو واسطہ بنا کر سلسلہ شروع کیا.جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے.اس اثناء میں شرائط مباحثہ پر تحریرا گفتگو ہوئی.۶ / جون ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس نے شرائط لکھ کر مولوی محمد حسین صاحب کو بھیج دیں یہ شرائط بھی پہلے درج ہو چکی ہیں (صفحہ ۱۱۰ تا۱۱۲) مگر کسی وجہ سے ۶ شرائط درج ہو کر باقی ۵ شرائط نہ لکھی گئیں.اس لئے میں انہیں یہاں درج کرتا ہوں.بقیہ شرائط مباحثه به سلسله صفحه ۱۱۰ تا ۱۱۲ (۷) بحث صبح کے چھ بجے سے دن کے گیارہ بجے تک ہوگی.اور اگر ایک جلسہ کافی نہ ہوگا تو پھر دوسرے جلسے میں، اگر دوسرا بھی کافی نہ ہو تو تیسرے دن تک ہوسکتی ہے.

Page 164

حیات احمد 171 جلد سوم (۸) پر چوں کی تحریر کا وقت مساوی ہونا چاہئے.(۹) بحث کے دن سے دس روز پہلے ہمیں اطلاع ہونی چاہئے.کیونکہ اس بحث کے دیکھنے کے لئے دور دور سے لوگ آنے والے ہیں.(۱۰) بحث جلسہ عام میں ہوگی اور یہ عاجز اپنے دوستوں کو اطلاع دینے کے لئے ایک اشتہار چھاپ کر شائع کرے گا.اور فریق ثانی کو اختیار ہوگا.چاہے وہ بھی اشتہار شائع کرے یا نہ کرے.(۱۱) حاضرین کی منصفی کی کچھ ضرورت نہیں اور نہ ہوسکتی ہے بلکہ دونوں فریق کی تحریر میں اخبارات اور اشتہارات کے ذریعہ سے پبلک کے سامنے رکھی جائیں گی.تب لوگ عام طور پر خود انصاف کر لیں گے.راقم مرزا غلام احمد عفی عنہ ۶ جون ۱۸۹۱ء از لودهانه محله اقبال گنج مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۳۳۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ان شرائط کو مولوی محمد حسین صاحب نے تسلیم نہیں کیا اور عذرات رکیکہ پیش کر کے اس پیالہ کو ٹلا دینا چاہا اور مولوی محمد حسن صاحب کے ذریعہ ۱۳ / جون ۱۸۹۱ء کو حسب ذیل خط لکھوا دیا.ان شرائط فاسدہ کو جناب واپس لیں اور بجائے ان کے شرائط صحیحہ کو تسلیم کر لیں تو اس امر کو بذریعہ خط اسمی جناب مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب ظاہر کریں اور وہ خط خاکسار کے پاس بھیج دیں.جس پر جناب مولوی صاحب تاریخ مناسب مقرر فرما کر میری معرفت جناب کو اطلاع دیں.۱۳ / جون ۱۸۹۱ء محمد حسن عفی اللہ عنہ حضرت اقدس نے اس کے جواب میں لکھا.شرائط جس قدر اس عاجز نے کی ہیں وہ آنمکرم سے نہیں.بلکہ مولوی محمد حسین صاحب سے ہیں اگر انہیں منظور ہوں یا نا منظور ہوں وہ اپنی قلم سے اطلاع دیں.اور جب تک وہ

Page 165

حیات احمد ۱۶۲ جلد سوم اطلاع نہ دیں تب تک یہ عاجز کچھ نہیں کہہ سکتا.اس طرح پر یہ خط و کتابت کا سلسلہ ۱۳/ جون ۱۸۹۱ء کو ختم ہو گیا.لیکن حضرت اقدس یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح پر وفات مسیح اور مسیح موعود کے مسئلہ پر گفتگو ہو جاوے.اُس وقت بظاہر یہ تلخ پیالہ مولوی صاحب سے ٹل گیا.مگر لوگ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح مباحثہ ہو، اظہار حقیقت ہو جاوے.یہ ان لوگوں کی خواہش تھی جو سلیم الفطرت تھے ایسے بھی لوگ تھے جو اس قسم کے مباحثات کو ایک مشغلہ سمجھتے تھے.سفر امرتسر بہر حال جلد ہی حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ مولوی محمد حسین صاحب مباحثہ پر مجبور ہو گئے اور انہیں یہ تلخ پیالہ پینا پڑا.اس کی ابتدا اس طرح پر ہوئی کہ جب لودھانہ میں مولوی محمد حسین صاحب سے ۱۳ جون ۱۸۹۱ء کو مراسلات کا سلسلہ ختم ہوا تو حضرت اقدس اوائل جولائی ۱۸۹۱ء میں بعض دوستوں اور امرتسر کے بعض رؤسا کی خواہش پر امرتسر تشریف لے گئے.وہاں اہلحدیث کے دو فریق ہو چکے تھے ایک فریق مولوی احمد اللہ صاحب کا تھا.اور دوسرا غز نویوں کا.مولوی احمد اللہ صاحب سادہ مزاج اور برخلاف بعض علماء کے شرافت اور تہذیب سے بات کرتے تھے اور حضرت اقدس کی دعاوی کے متعلق وہ متشدد نہ تھے بلکہ اوّلاً خاموش تھے.اس لئے غزنوی جرگہ ان کی سخت مخالفت کرتا تھا.بالآخر انہوں نے مولوی احمد اللہ صاحب کو اُن کی مسجد سے نکال دیا جہاں وہ خطیب اور امام تھے.امرتسر کی تیلی قوم کے افراد ان کے معتقد تھے انہوں نے اپنی مسجد میں انتظام کر لیا.اس سفر میں حضرت نے مولوی احمد اللہ صاحب کو اپنے دعاوی کے متعلق ۷ جولائی ۱۸۹۱ء کو تحریری مباحثہ کی بشرط قیام امن دعوت دی.مگر یہ مباحثہ نہ ہو سکا.مولوی احمد اللہ صاحب نے آمادگی ظاہر نہ کی.یہ مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری مولوی ثناء اللہ صاحب کے استاد بھی تھے.خاکسار عرفانی کو بھی ان سے متعدد مرتبہ ملاقات کی مسرت حاصل ہوئی.وہ بدگو نہ تھے اور نہ

Page 166

حیات احمد ۱۶۳ جلد سوم حضرت کی دعاوی میں متشدد تھے اس لئے مولوی محمد حسین صاحب کے گروہ کے لوگ بعض وقت اپنی مجلسوں میں ان کے احمدی ہونے کا ذکر بھی کرتے مگر بظاہر انہوں نے تصدیق نہیں کی.یہ سفر امرتسر نتیجہ کے لحاظ سے کامیاب رہا.اس لئے کہ خود مولوی احمد اللہ صاحب کی جماعت کے بعض مخلص احباب کو سلسلہ کی طرف توجہ ہوئی اور بالآخر وہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو گئے ان میں حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب، حضرت میاں نبی بخش صاحب، حضرت مولوی عنایت اللہ صاحب، میاں چراغ دین صاحب تیلی وغیرھم داخل تھے.مباحثہ لدھیانہ حضرت اقدس امرتسر سے واپس لودھانہ آ گئے.اور بالآخر ۳۰ / جولائی ۱۸۹۱ء کو حضرت اقدس کے مکان ہی پر مباحثہ کا آغاز ہوا اس مباحثہ کی تحریر میں احق سیالکوٹ میں شائع ہو گئی ہیں.جو الحق لو دھیانہ کے نام سے مشہور ہے.اس مباحثہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح کے علاوہ کپورتھلہ کی جماعت کے احباب اور ضلع لودھانہ کے احمدی شریک تھے.اور حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت اقدس کے تحریری مضمون کی نقل ساتھ ساتھ کرتے تھے.منشی غلام قادر صاحب فصیح نے ضمیمہ پنجاب گزٹ میں تفصیلی چشم دید حالات شائع کئے تھے افسوس ہے وہ فائل میری لائبریری سے انقلاب ۱۹۴۷ء میں سرقہ ہوا.حضرت صاحب زادہ سراج الحق صاحب نے جو چشم دید حالات بیان کئے ہیں انہیں میں تذکرۃ المہدی سے لے کر درج کر دیتا ہوں.یہ مباحثہ ۲۰ جولائی ۱۸۹۱ء کو شروع ہوا اور ۳۱ / جولائی ۱۸۹۱ء کوختم ہو گیا.یہ ۱ طریق مباحثہ یہ تھا کہ سوال و جواب اسی مجلس میں لکھا جاتا تھا اور سنا دیا جاتا تھا.اور ساتھ ساتھ اس کی نقل دستخط کر کے فریق ثانی کو دے دی جاتی تھی.

Page 167

حیات احمد ۱۶۴ بیان صاحبزادہ سراج الحق صاحب جلد سوم پھر مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ قرار پا گیا اور دن مباحثہ کا مقرر ہو کر مباحثہ کے لئے مولوی محمد حسن صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر آئے.اور ساتھ مولوی محمد حسن صاحب اور سعد اللہ نومسلم اور پانچ سات اور شخص بھی آئے.اور ایک سوال لکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کے آگے رکھ دیا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کا جواب لکھ دیا اور مجھ سے فرمایا کہ کئی قلم بنا کر میرے پاس رکھ دو.اور جو ہم کہتے جائیں اس کی نقل کرتے جاؤ.چنانچہ میں نقل کرنے لگا.اور آپ لکھنے لگے.جب سوال و جواب اس دن کے لکھ لئے گئے تو مولوی محمدحسن صاحب نے خلاف عہد زبانی وعظ شروع کر دیا اور بیان کیا کہ مرزا صاحب کا جو عقیدہ ہے کہ قرآن کریم حدیث پر مقدم ہے.یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے بلکہ عقیدہ چاہئے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے.اور قرآن شریف کے متعلق مسائل کو حدیث کھولتی ہے اور یہی فیصلہ کن ہے.خلاصہ مولوی صاحب کی تقریر کا یہی تھا.پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے چونکہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ زبانی تقریر کوئی نہ کرے مولوی صاحب نے اس معاہدے کے خلاف تقریر کی ہے سو میرا بھی حق ہے کہ میں بھی کچھ تقریر زبانی کروں.پھر اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے.ناظرین ! سننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے.اور تمام کلام مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہو چکا تھا.اور یہ کلام الہی تھا.اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں.اور وہ مرتبہ اور درجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے.وہ حدیث کو نہیں ہے.کیونکہ یہ روایت در روایت پہنچی ہیں.اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآنِ شریف کا حرف حرف کلام الہی ہے اور جو یہ کلام الہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے.شرعاً اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہو سکتا اور جو حدیث کی نسبت قسم کھا لے.اور

Page 168

حیات احمد جلد سوم کہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے.اگر نہیں ہے تو میری جو رو پر طلاق ہے.تو بے شک و شبہ اس کی بیوی پر طلاق پڑ جاوے گا.یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے.اس بیان اور تقریر پر اور نیز اس پر چہ تحریری پر جو حضرت اقدس علیہ السلام سناتے تھے.چاروں طرف سے واہ واہ کے اور سبحان اللہ سبحان اللہ کے نعرے بلند ہوتے تھے.اور یہاں تک ہوتا تھا کہ سوائے سعد اللہ اور مولوی صاحب کے ان کی طرف کے لوگ بھی سبحان اللہ بے اختیار بول اٹھتے تھے.دو تین شخصوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ مرزا صاحب جو زبانی بحث نہیں کرتے اور تحریری کرتے ہیں.وہ تقریر نہیں کر سکتے مگر آج معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو زبانی تقریر بھی اعلیٰ درجہ کی آتی ہے اور ملکہ تقریر کرنے کا بھی اوّل درجہ کا ہے.اور آپ جو تحریر کو پسند کرتے ہیں اس لئے نہیں کہ آپ تقریر کرنے میں عاجز ہیں بلکہ اس واسطے کہ تحریر سے حق و باطل کا خوب فیصلہ ہو جاوے اور ہر ایک پوری طرح احقاق حق اور ابطال باطل میں تمیز کرلے اور حاضر و غائب پر پورا پورا سچ اور جھوٹ کھل جاوے.مولوی صاحب اس پر خفا ہوتے اور کہتے کہ لوگو! تم سننے کو آئے ہو یا واہ واہ اور سبحان اللہ کہنے کو آئے ہو.اور جو دونوں طرف کی تحریریں ہیں وہ طبع ہو چکی ہیں ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے.اس مباحثہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حدیث اور قرآن شریف پر سیر کن بحث کی ہے.اور آئندہ کے لئے تمام بحثوں کا خاتمہ کر دیا ہے.چھ سات روز تک یہ مباحثہ حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر ہوا.اب مولوی صاحب نے پیر پھیلائے اور چاہا کہ کسی طرح سے پیچھا چھوٹے.بہانہ یہ بنایا کہ اتنے روز تو آپ کے مکان پر مباحثہ رہا اب میری جائے فردوگاہ یعنی مولوی محمد حسن صاحب غیر مقلد کے مکان پر مباحثہ ہونا چاہئے حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ بھی منظور فرمالیا اور باقی دنوں تک مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر مباحثہ رہا جب حضرت اقدس علیہ السلام وہاں تشریف لے جاتے تو میں حاضر ہو جاتا ورنہ مجھے بلوا لیتے اور جب تک میں حاضر نہ ہو لیتا تو آپ تشریف نہ لے جاتے آخر کار یہ ہوا کہ چالاکیاں تو مولوی محمدحسین صاحب نے بہت کیں مگر کوئی

Page 169

حیات احمد ۱۶۶ جلد سوم چالا کی نہ چلی.لیکن ایک پرچہ پھر بھی چرا لیا.جس کا مباحثہ میں حوالہ دیا گیا.مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر دو چار ہی لوگ ہوتے تھے.تیرہ روز تک یہ مباحثہ رہا.اور لوگ بہت سے تنگ آگئے اور چاروں طرف سے خطوط آنے لگے اور خاص کر لودھانہ کے لوگوں نے غل مچایا کہ کہاں تک اصول موضوعہ میں مباحثہ رہے گا.اصل مطلب جو وفات اور حیات مسیح کا قرار پایا ہے وہ ہونا چاہئے.خدا کرے ان اصول موضوعہ مولوی صاحب کا ستیا ناس ہو دے.اور حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی بار ہا فرمایا مباحثہ تو وفات وحیات مسیح میں ہونا ضروری ہے تا کہ سب مسائل کا یکدم فیصلہ ہو جاوے مگر مولوی صاحب اس اصل مسئلہ کی طرف نہ آئے پر نہ آئے.مولوی صاحب کے پاس چونکہ دلائل حیات مسیح کے نہ تھے اس واسطے اس بحث کو ٹالتے رہے.شہر میں یہ چرچا ہوا کہ دو شخص بحث کر رہے ہیں.ایک خود مذہب ایک لا مذ ہب.خود مذہب حضرت اقدس علیہ السلام کو کہتے تھے اور لامذہب مولوی محمد حسین صاحب کو کہتے تھے.غرض جب تیرہواں روز مباحثہ کا ہوا تو عیسائی.مسلمان.ہندو وغیرہ کا بہت ہجوم ہو گیا.میں نواب صاحب مرحوم موصوف کی کوٹھی پر تھا اور روانگی کا ارادہ کر رہا تھا.حضرت اقدس مع مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور منشی غلام قادر صاحب فصیح اور قاضی خواجہ علی صاحب اور الہ دین صاحب واعظ و غیر هم مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے اور میرے پاس مولوی نظام الدین مرحوم اور مولوی عبداللہ مجتہد مرحوم کو بھیجا کہ جلد صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو لے آؤ.پس میں چلا اور مکان کا دروازہ مولوی محمد حسن نے باشارہ مولوی محمد حسین صاحب بند کرا دیا تھا کہ کوئی آدمی مرزا صاحب وغیرہ کا مضمون سننے کے لئے نہ آوے چونکہ مضمون میرے پاس تھا.اور رات بھر میں نے اصل سے نقل دینے کے واسطے کر لی تھی اس واسطے اور بھی حضرت اقدس کو میرا انتظار ہوا.جب میں آیا تو دروازہ بند پایا.اور دروازہ پر اور سینکڑوں آدمی تھے.بمشکل تمام دروازه مولوی نظام الدین صاحب مرحوم نے کھلوایا.میرے ساتھ سب آدمی اندر گھس گئے مولوی محمد حسن صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب کا چہرہ زرد ہو گیا.مجھ سے

Page 170

حیات احمد ۱۶۷ جلد سوم مولوی محمد حسن صاحب نے کہا کہ تم کیوں آگئے میں نے کہا ہم کیسے نہ آویں مباحثہ تو گویا ہمارے ساتھ ہے.اور کاتب مباحثہ میں ہوں حضرت اقدس علیہ السلام نے مضمون سنانے سے پہلے فرمایا که مولوی صاحب یہ مباحثہ طول پکڑ گیا ہے اس کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے.اصل مطلب وفات و حیات مسیح علیہ السلام میں بحث ہونی مناسب ہے.مگر مولوی صاحب کب ماننے والے تھے.ان کے ہاتھ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات میں کیا دھرا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے پر چہ سنانا شروع کیا تو مولوی صاحب کا چہرہ سیاہ پڑ گیا اور ایسی گھبراہٹ ہوئی اور اس قدر ہوش و حواس باختہ ہوئے کہ نوٹ کرنے کے لئے جب قلم اٹھایا تو زمین پر قلم مارنے لگے دوات جوں کی توں رکھی رہ گئی اور قلم چند بار زمین پر مارنے سے ٹوٹ گیا اور جب یہ حدیث آئی کہ بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو حدیث میری معارض قرآن ہو وہ چھوڑ دی جائے.اور قرآن کو لے لیا جائے اس پر مولوی محمد حسین صاحب کو نہایت غصہ آیا اور کہا کہ یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے.اور جو یہ حدیث بخاری میں ہو تو میری دونوں بیویوں پر طلاق ہے.اس طلاق کے لفظ سے تمام لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب کو مارے شرم کے کچھ نہ بن پڑا اور بعد میں کئی روز تک لوگوں سے مولوی صاحب کہتے رہے کہ نہیں نہیں میری دونوں بیویوں پر طلاق نہیں ہوا.اور نہ میں نے طلاق کا نام لیا ہے.اب جو دس ہیں سو دو سو کو خبر تھی تو مولوی صاحب نے ہزاروں کو خبر دے دی.مولوی صاحب پر غضب اور مغلوب الغضب تو تھے ہی غصے میں خدا جانے کیا کیا زبان سے نکلا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا بیان حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب کے بیان کے بعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان بھی درج کر دوں.جو آپ نے بطور ریمارک الحق میں شائع کیا ہے.

Page 171

حیات احمد ۱۶۸ لدھیانہ والے مباحثہ پر چند ریمارکس جلد سوم ہمارے مقصد میں داخل نہیں کہ ہم اس وقت یہاں مباحثہ کے جزوی وکلی حالات اور دیگر متعلقات سے تعرض کریں.اس مضمون پر ہمارے معزز و مکرم دوست منشی غلام قادر صاحب فصیح اپنے گرامی پرچہ پنجاب گزٹ کے ضمیمہ مورخہ ۱۲ار اگست میں پوری روشنی ڈال چکے ہیں.بحث کی اصلی غرض اور علت غائی ، اور آخر کار اس کے نتیجہ واقع شدہ سے تعلق ہے.الحاصل مولوی ابوسعید صاحب لو د یا نہ لائے گئے.اسلامی جماعتوں میں ایک دفعہ پھر حرکت پیدا ہوئی اور ہر ایک نے اپنے اپنے مشتاق خیال کے بلند ٹیلے پر چڑھ کر اور تصور کی دور بین لگا کر اس مقدس جنگ کے نتیجے کا انتظار کرنا شروع کیا.آخر مباحثہ شروع ہوا.۱۲ روز تک اس کا رروائی نے طول پکڑا.مگر افسوس نتیجہ پر لودیا نہ کے لوگ بھی پورے معنوں میں اپنے بھائیوں اہل لاہور کی قسمت کے شریک رہے.مولوی صاحب نے اب بھی وہی اصول موضوعہ پیش کر دیئے.حالانکہ نہایت ضروری تھا کہ وہ بہت جلد اس فتنہ کا دروازہ بند کرتے.جو اُن کے زعم کے موافق اسلام و مسلمانان کے حق میں شدید مضر ثابت ہو رہا تھا.لیکن اگر راستی و حقانیت پر اپنی ، انہیں پوری بصیرت اور وثوق کامل تھا تو وہی سب سے پہلے ہر طرف سے ہٹ کر اور لایعنی امور سے منہ موڑ کر حضرت مرزا صاحب کے اصل بنائے دعوی یعنی وفات مسیح کی نسبت گفتگو شروع کرتے.یہ تو کمزور اور بے سامان کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لئے ادھر اُدھر پنجے مارتا اور ہاتھ اڑاتا ہے.اُن پر واجب تھا کہ فوراً قرآنِ کریم سے کوئی ایسی آیت پیش کرتے جو حضرت مسیح کی حیات پر دلیل ہوتی یا ان آیات کے معانی پر جرح کرتے اور ان دلائل کو قرآن سے یا حدیث صریح صحیح سے توڑ کر دکھلاتے جو حضرت مرزا صاحب نے مسیح کی موت پر لکھی ہیں مگر اس دلی شعور نے کہ وہ واقعی بے سلاح ہیں، انہیں اس طرف مائل کیا کہ وہ جوں توں کر کے اپنے منہ کے آگے سے اُس موت کے پیالہ کو ٹال دیں.وہ

Page 172

حیات احمد ۱۶۹ جلد سوم نہ ٹلا اور آخر مولوی صاحب پر ذلت کی موت وارد ہوئی.فَاعْتَبِرُوا يَأُولِي الْأَبْصَارِ اب امید ہے کہ وہ حسب قاعدہ کلیہ اس دنیا میں پھر نہ اٹھیں گے.چنانچہ لا ہوری برگزیدہ جماعت نے بھی انہیں مردہ یقین کر کے اس درخواست میں بظاہر زندہ مولویوں کو مخاطب کیا ہے.اور ان پر فاتحہ پڑھ دی ہے.ہم بھی انہیں روح میں مردہ سمجھتے ہیں.اور ان کی موت پر تأسف کرتے ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اسلامی پیلک حیران ہے کہ کیوں مولوی ابوسعید صاحب نے اس بحث اور گزشتہ بحث میں قرآن کریم کی طرف آنے سے گریز کرنا پسند کیا اور کیوں وہ صاف صاف قرآن کریم اور فرقان مجید کی رو سے وفات وحیات مسیح کے مسئلہ کی نسبت گفتگو کرنے کی جرأت نہ کرتے یا عمداً کرنا نہ چاہتے تھے.اصل حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اپنی نصوص قطعیہ ہینہ کا جرار و کرارلشکر اور ان گنت لشکر لے کر حضرت مرزا صاحب کی تائید پر آمادہ ہے.دو سو آیت کے قریب حضرت مسیح کی وفات پر بالصراحت دلالت کر رہی ہے.مولوی ابو سعید صاحب نے نہ چاہا (اگر وہ چاہتے تو جلد فیصلہ ہو جاتا ) کہ قرآن مجید کو اس نزاع میں جلد اور بلا واسطہ حکم اور فاصل بنا دیں اس لئے کہ وہ خوب سمجھتے تھے کہ سارا قرآن حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ہے.اور اس خواہ نہ خواہ معاندانہ کا روائی سے زک اٹھا ئیں گے لیکن پیش بندی یہ مشہور کرنا اور بات بات میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب حدیث کو نہیں مانتے.نعوذ باللہ.ہم اس امر کا فیصلہ اہل تحقیق ناظرین پر چھوڑتے ہیں وہ دیکھ لیں گے اور مرزا صاحب کے جابجا اقراروں سے بخوبی سمجھ لیں گے کہ حدیث کی سچی اور واقعی عزت حضرت مرزا صاحب ہی نے کی ہے.ان کا مدعا و منشا یہ ہے کہ حدیث کے ایسے معنے کئے جائیں جو کسی صورت میں کتاب اللہ الشریف کے مخالف نہ پڑیں بلکہ حدیث کی عزت قائم رکھنے کے لئے اگر اس میں کوئی ایسا پہلو ہو جو بظاہر نظر کتاب اللہ کی مخالفت کا احتمال رکھتا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسے قرآن کے ساتھ تو فیق و تطبیق دینے کی سعی بلیغ کرتے ہیں اگر ناچار حملة الحشر : ٣

Page 173

حیات احمد ۱۷۰ جلد سوم کوئی ایسی حدیث ( متعلق قصص ایام و اخبار) ہو کہ قرآن کریم کے سخت مخالف ہی پڑتی ہو تو وہ کتاب اللہ کو ہمہ وجوہ واجب الادب واجب التعظیم اور واجب التعمیل سمجھ کر اس حدیث کی صحت سے انکار کرتے ہیں.اور ٹھیک حضرت صدیقہ کی طرح جیسا کہ انہوں نے اس روایت کو إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذِّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ ۖ قرآن کی آیت وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى کے مقابلہ میں رڈ کر دیا تھا حضرت اقدس مرزا صاحب (جن کا اصلی مشن اور منصبی فرض قرآن مجید کی عظمت کا دنیا میں قائم کرنا اور اسی کی تعلیم کا پھیلانا ہے ) بھی ایسی مخالف ومعارض قرآن حدیثوں کو (اگر ہوں اور پھر جس کتاب میں ہوں ) قرآن کے مقابلہ میں بلا خوف لَوْمَةَ لائِم کے رڈ کر دیتے ہیں.اے ناظرین! اے ناظرین! اے عاشقان کتاب رب العالمین اللہ سوچو اس اعتقاد میں کیا قباحت ہے؟ اس پر یہ کیسا ناشدنی ہنگامہ ہے جو ابنائے روز گار نے مچا رکھا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ فیصلہ نہیں ہوا گو با لصراحت چونکہ اس اصل متنازع فیہ مسائل میں گفتگو نہیں ہوئی نہ کہا جاسکے کہ تین فیصلہ ہوا.مگر مرزا صاحب کے جوابات کے پڑھنے والوں پر پوری وضاحت سے کھل جائے گا کہ احادیث کی دو قسمیں کر کے دوسری قسم کی حدیثوں کو جو تعامل کی قوت سے تقویت یافتہ نہ ہوں اور پھر قرآن کریم سے معارضہ کرتی ہوں حضرت مرزا صاحب نے تردید کر کے درحقیقت امر متنازع فیہ کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے گویا صاف سمجھا دیا ہے کہ قرآن مجید صریح منطوق سے حضرت مسیح کی موت کی خبر دیتا ہے.اور یہ ایک واقعہ ہے.اب اگر کوئی حدیث نزول ابن مریم کی خبر دیتی ہو.تو لا محالہ یہی سمجھا جائے گا کہ وہ کسی مثیل مسیح کی خبر دیتی ہے اور اگر اس میں کوئی ایسا پہلو ہو گا جو بوجہ من الوجود قرآن سے تطبیق نہ دیا جا سکے تو وہ ضرورضرور رڈ کی جائے گی.پس بہر حال قرآن کریم اکیلا بلا کسی منازع و حریف کے میدان اثبات دعوی میں کھڑا رہا اور حق بھی بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم يُعَذِّبُ الْمَيِّتُ بِبَعْضٍ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ - الانعام: ۱۶۵

Page 174

حیات احمد 121 جلد سوم یہی ہے کہ وہ تنہا بلا کسی مد مقابل کے اپنی نصوص کی صداقت ثابت کرنے والا اور کسی کتاب اور کسی نوشتہ کسی مجموعہ کی طاقت کیا مجال ہے کہ اس کے دعاوی کو توڑنے کا دم مار سکے اور یہی مرزا صاحب کا مدعا ہے.سو دراصل وہ فیصلے دے چکے اور کر چکے ہیں.ہمارا ارادہ تھا کہ مولوی ابوسعید صاحب کے اشتہار لودیا نہ مورخہ یکم اگست کی ان باتوں پر توجہ کرتے جن کے جواب کی تحریر کا ایما معزز ایڈیٹر پنجاب گزٹ نے اپنے ضمیمہ میں ہماری طرف کیا تھا مگر ہم نے اس اثنا میں اپنے وسیع تجربہ سے دیکھ لیا ہے کہ معزز اور ذی فہم مسلمان اس بے بنیاد اشتہار کو بتمامہ سخت حقارت سے دیکھنے لگ گئے ہیں ہمارا اس کی طرف اب متوجہ نہ ہونا ہی اسے گمنامی کے اتھاہ کنوئیں میں پھینک دینا ہے.66 آخر میں ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ اگر مولوی ابو سعید صاحب معنا بھی سعید ہوتے تو یاد کرتے اپنے اس فقرہ کو جو وہ ریویو براہین احمدیہ میں لکھ چکے ہوئے ہیں.اور وہ یہ ہے.مؤلف براہین الوہیت غیبی سے تربیت پا کر مورد الہامات غیبیہ و علوم لدنیہ ہوئے ہیں.“ پھر لکھتے ہیں " کیا کسی مسلمان متبع قرآن کے نزدیک شیطان کو بھی قوت قدسی ہے کہ وہ انبیاء و ملائکہ کی طرح خدا کی طرف سے مُغیبات پر اطلاع پائے اس کی کوئی بات غیب وصدق سے خالی نہ جائے؟ یعنی مرزا صاحب، صاحب قوت قدسیہ ہیں.اور اللہ تعالیٰ انہیں مُغِيبات پر اطلاع دیتا ہے.باوجود اس تصدیق اور ایسے اقرار سابق کے مناسب نہ تھا کہ اسی قلم سے کاذب.مفتری.نیچری.اور مغالطہ دہندہ وغیرہ الفاظ نکلتے.رَبَّنَا إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ - عبدالکریم چونکہ پورا مباحثہ الحق لدھیانہ میں چھپ چکا ہے اُس کے پڑھنے سے ہر سلیم الفطرت اور ، خالی الذہن انسان کو معلوم ہو جائے گا کہ حق کس کے ساتھ ہے.مباحثہ کے اختتام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ اشتہار شائع کیا.

Page 175

حیات احمد ۱۷۲ اشتہار واجب الاظهار جلد سوم مولوی محمد حسین صاحب کے مباحثہ کا کیا انجام ہوا؟ عهد را بشکست و پیمان نیز هم مولوی محمد حسین صاحب کے سوالات کے جواب میں ۳۱ / جولائی ۱۸۹۱ء کو بروز جمعہ اس عاجز نے ایک قطعی فیصلہ کرنے والا مضمون سنایا جس کو سنتے ہی مولوی صاحب کے چھکے چھوٹ گئے اور تمام سمجھ دار اور منصف مزاج لوگوں نے معلوم کر لیا کہ مولوی صاحب کا سارا تانا بانا بیک دفعہ ٹوٹ گیا اس لئے مولوی صاحب کو مضمون سننے کی حالت میں یہی دھڑ کا دل میں ہوا کہ اب تو ہمارے اعتراضات کی ساری قلعی کھل گئی.ناچار خلاف ورزی شرائط کر کے ان چھوٹے ہتھیاروں پر آگئے جن کو آج کل کے مولوی ملاں لا جواب ہونے کی حالت میں استعمال کیا کرتے ہیں.ناظرین کو واضح ہو کہ مولوی صاحب کے ساتھ تحریری طور پر یہ شرطیں ٹھہر چکی تھیں.(۱) اوّل یہ کہ فریقین صرف تحریری طور پر اپنا سوال یا جواب لکھیں (۲) دوم یہ کہ جب کوئی فریق اپنی تحریر کو سنانے لگے تو فریق ثانی اس کے سنانے کے وقت دخل نہ دیوے اور کوئی بات منہ سے نہ نکالے.(۳) تیسرے یہ کہ بیان سننے کے بعد کوئی فریق زبانی جواب دینا شروع نہ کرے لیکن افسوس کہ مولوی صاحب نے مضمون سنتے ہی ان تینوں شرطوں کو توڑ دیا.اور عہد شکنی کے بعد ایک جوش کی حالت میں کھڑے ہو کر بیجا اور غیر مہذب الفاظ کے مرتکب ہوئے جس سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب اپنے نفسانی جذبات کے ضبط کرنے پر ہر گز قادر نہیں.ناچار ان کی یہ خطر ناک حالت دیکھ کر جلسہ برخاست کیا گیا.اور اس قدر لمبی بحث کے بعد جو مولوی صاحب نے

Page 176

حیات احمد ۱۷۳ اپنے خانہ زاد اصول موضوعہ کی نسبت سراسر لغو اور بے مصرف جاری کر رکھی تھی جو باراں دن تک ہوتی رہی اور اصل بحث سے کچھ بھی علاقہ نہیں رکھتی تھی اور فریقین کے بیانات دس جزو تک پہنچ گئے تھے اور لوگ سخت معترض تھے کہ اصل بحث کیوں شروع نہیں کی جاتی.مولوی صاحب کو اس وقت آخری مضمون میں یہ بھی سنادیا گیا کہ اب ہم تمہیدی بحث کو ختم کرتے ہیں آپ نے بھی بہت کچھ لکھ لیا اور ہم نے بھی.اب اس بے سود بحث کو بند کرنا چاہئے اور اصل بحث کو شروع کرنا چاہئے.مولوی صاحب کسی طرح نہیں چاہتے تھے کہ اصل بحث کی طرف آویں اس لئے انہوں نے ان شرطوں کو توڑ کر یہ چاہا.کہ پھر کسی طرح سخت زبانی کر کے اپنی فضول اور بالائی باتوں کو جن کی طوالت کو اصل بحث سے کچھ بھی تعلق نہیں تھا شروع رکھیں مگر ہم نے صاف جواب لکھ دیا تھا کہ بے فائدہ باتوں میں ہم اپنے اوقات کو ضائع کرنا نہیں چاہتے.کیونکہ تمہیدی گفتگو بہت ہو چکی ہے.اور عنقریب رسالہ الحق سیالکوٹ میں فریقین کے بیانات چھپ جائیں گے.تب لوگ خود معلوم کر لیں گے کہ بیچ پر کون ہے.اب یہ اشتہار صرف اس غرض سے دیا جاتا ہے کہ اگر مولوی صاحب کی نیت بخیر ہے تو اب بھی اس مسئلہ میں بحث تحریری کر لیں.میرے نزدیک مولوی صاحب کا یہ دعوی بھی بالکل فضول ہے کہ وہ اکابر محدثین کی طرح فن حدیث میں مہارت تمام رکھتے ہیں بلکہ بات بات میں اُن کی نا سمجھی اور غباوت مترشح ہو رہی ہے اگر وہ مجھے اجازت دیں تو میں ان کی حدیث دانی بھی لوگوں پر ظاہر کروں.مولوی صاحب سے انصاف کی کیا توقع ہو سکتی ہے اور کیا امید کی جاسکتی ہے کہ بڑی بُردباری اور غور سے کسی مضمون کو وہ سن سکیں جس صورت میں آپ نے اپنی تہذیب اور معاملہ شناسی کا علی رؤس الا شہاد یہ نمونہ دیا کہ عام لوگوں کی طرح اپنی بیویوں کو طلاق دینے پر آمادہ ہو گئے اور یہ صرف اس وجہ سے کہ ان کے نزدیک ہم جلد سوم

Page 177

حیات احمد ۱۷۴ جلد سوم نے کوئی حوالہ غلط دیا ہے.افسوس مولوی صاحب آغاز مضمون سے ہی تر دیدی نوٹوں کی تحریر میں مصروف ہو گئے اور مضمون کی خوبیوں پر تدبر سے غور کرنے کا انہیں بے قرار اور پُر جوش طبیعت نے ذرا بھی موقعہ نہ دیا.ور نہ بے سوچے سمجھے انہیں طلاقوں کی ضرورت نہ پڑتی.اور یوں عوام میں اپنی مستورہ بیویوں کی ہتک حرمت کے الفاظ منہ سے نکال کر سکی نہ اٹھاتے.اب پبلک کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ اب اس کارروائی کی نسبت جو کچھ وہ مشتہر کریں گے محض اپنی بدنامی اور فضیحت کا داغ دھونے کے لئے ایک واویلا اور نوحہ ہو گا.یہ اُن کی ساری بیہودہ باتیں ہیں تا عوام پر جو ان کی حقیقت کھل گئی ہے اس پر کسی طرح پردہ پڑ جائے وہ اصل مطلب (حیات و مَمات مسیح) پر میرے ساتھ کیوں بحث نہیں کرتے؟ وہ یقینا ڈرتے ہیں کہ اگر اصل مسئلہ میں بحث شروع ہوگی تو بڑی رسوائی کے ساتھ انہیں مغلوب ہونا پڑے گا.ہاں ناظرین پر واضح رہے کہ ہم نے اپنے آخری مضمون کی جو ا۳/ جولائی ۱۸۹۱ء کو بروز جمعہ پڑھا گیا تھا مولوی صاحب کو نقل نہیں دی کیونکہ مولوی صاحب بباعث ارتکاب جریمه عہد شکنی و ترک تہذیب اور توڑ دینے تمام شرطوں کے اپنے تمام حقوق کو اپنی ہی کرتوت کی وجہ سے کھو بیٹھے.حاضرین جو قریباً تین سو کے موجود ہو گئے تھے جن میں بعض معزز ریکس شہر کے اور صاحبان ایڈیٹر اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور نورافشاں لودیا نہ بھی تھے.اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مولوی صاحب بے صبر ہوکر برخلاف شرط قرار یافتہ اس عاجز مباحثہ سے پیشتر مولوی صاحب کے بعض خیر خواہوں خصوصاً حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار نہر نے یہ خواب دیکھا تھا کہ مولوی صاحب کی ٹانگ خشک ہوگئی اور مولوی صاحب حقہ پیتے تھے.اور میاں عبدالحکیم خاں صاحب نے بروایت منشی عبدالغنی صاحب برادر منشی نجف علی صاحب ہمارے پاس بیان کیا تھا کہ خود مولوی صاحب نے اپنی ٹانگ کو خواب میں خشک ہوتے دیکھا ان خوابوں کی تعبیر یہی تھی کہ مولوی صاحب حق کی مخالفت کریں گے مگر خفت ، نا کامی اور زک اٹھا ئیں گے.ب ضلع دار ضلع لاہور ہیں جو مرد صالح اور مولوی محمد حسین صاحب کے دوست ہیں.

Page 178

حیات احمد ۱۷۵ کے مضمون پڑھتے وقت چپ رہ کر سن نہیں سکتے اور مضمون سننے کے بعد بھی ان کی زبان ان سے رک نہیں سکی اور جوش میں ان تمام شرطوں کو ایسے بھول گئے کہ گویا ان سب باتوں کے کرنے کے لئے ان کو بالکل آزادی تھی اس بے حواسی کے بے طرح جوش کا یہی سبب تھا کہ مولوی صاحب اپنا ہے صفحہ کا مضمون سنا کر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ لا جواب مضمون ہے بلکہ مغروری کی راہ سے بعض جگہ اپنی فتح کے خط بھی بھیج دیئے تھے.اب جو عصائے موسیٰ کی طرح اس عاجز کے مضمون نے مولوی صاحب کی تمام ساحرانہ کارروائی کو باطل کر دیا تو یکدفعہ ان کے دل پر وہ زلزلہ آیا جس کی کیفیت خدا تعالیٰ کے بعد وہی جانتے ہوں گے.سو یہ تمام حرکات جوان سے سرزد ہوئیں ایک قسم کی بیہوشی کی وجہ سے تھیں جو اس وقت ان پر طاری ہو گئی تھی بہر حال وہ شرائط شکنی کے بعد اس بات کے مستحق نہ رہے کہ انہیں مضمون ۱۳۱ جولائی ۱۸۹۱ء کی نقل دی جاتی.اور یادر ہے کہ ان کے ۷۶ صفحے کے مضمون میں بجز بے تعلق ہاتوں اور بد زبانی اور افترا کے اور خاک بھی نہیں تھا.اور بد زبانی سے ، یہاں تک انہوں نے کام لیا کہ ناحق بے وجہ امام بزرگ حضرت فخر الائمہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی شان بلند میں سخت تحقیر کے الفاظ استعمال کئے.بالآخر میں ایک دفعہ پھر حجت پوری کرنے کے لئے بآواز بلند مولوی صاحب کو دعوت کرتا ہوں کہ وہ اصل مسئلہ کے متعلق ضرور بصد ضرور میرے ساتھ بحث کریں.مگر یہ بحث لاہور جیسے صدر مقام میں منعقد کی جائے.جہاں اعلیٰ درجہ کے فہیم، ذکی، تعلیم یافتہ اور متین اشخاص اور رؤساء شامل ہو سکتے ہیں.اور مولوی صاحب کو غیر متعلق گفتگو چھیڑ نے اور غلط بحث کرنے اور انہیں بد زبانی اور خلاف تہذیب کلمات منہ سے نکالنے اور کسی شرط مقررہ کو توڑنے سے روکنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں.نیز ان میں سے بعض نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ امن وغیرہ کا انتظام بھی ہمارے سپرد ہوگا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى جلد سوم

Page 179

حیات احمد ضروری نوٹ.اب مولوی صاحب اپنے کارخانہ کی ترقی کے لئے بہتانوں پر آگئے ہیں.منجملہ ان کے ایک بڑا بہتان یہ لگایا ہے کہ گویا ” میں صحیح بخاری اور مسلم کا منکر ہوں اس کے جواب میں بجز لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْن اور کیا کہا جا سکتا ہے ہر ایک مسلمان پر واضح رہے کہ میں بسر و چشم صحیحین کو مانتا ہوں.ہاں کتاب اللہ قرآنِ کریم کو نمبر اول اور ان سے مقدم سمجھتا ہوں.مگر بخاری کو اَصَحُ الْكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللهِ یقین رکھتا ہوں اور واجب العمل مانتا ہوں.ہاں صرف اتنا کہتا ہوں کہ قرآن کریم کے اخبار اور نقص اور واقعات ماضیہ پر نسخ و زیادت ہرگز جائز نہیں.مباحثہ کا انتقام الـ grins خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی یکم اگست ۱۸۹۱ء جلد سوم ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۹۴ تا ۱۹۷ بار دوم ) ۱۳۱ جولائی ۱۸۹۱ء کو مباحثہ کا آخری دن تھا اور اس روز حضرت مسیح موعود کو اپنا آخری پرچہ سنانا تھا اور آپ نے جب مضمون شروع کیا تو مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت جوش اور غصہ سے خلاف شرائط دخل دینا شروع کیا، شرائط میں دوسرے فریق کے جواب کے وقت کے فریق مخالف کو کچھ کہنے کی اجازت نہ تھی.مگر مولوی محمد حسین صاحب کا جوش بڑھتا گیا.بالآخر حاشیہ: اے ناظرین ! ذرا توجہ کرو.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مولوی محمد حسین صاحب چالیس دن تک میرے مقابل پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر کے آسمانی نشان یا اسرار غیب دکھلا سکیں جو میں دکھلا سکوں تو میں قبول کرتا ہوں کہ جس ہتھیار سے چاہیں مجھے ذبح کر دیں اور جو تاوان چاہیں میرے پر لگائیں.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“

Page 180

حیات احمد 122 جلد سوم مضمون ختم ہو گیا اور حضرت نے تمہیدی امور کی بحث کو ختم کر کے مولوی صاحب کو وفات مسیح پر بحث کی دعوت کی مگر انہیں اس طرف نہ آنا تھا نہ آئے.اور یکم اگست ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ اپنی فتح کا ڈھنڈورہ پیٹا.حضرت نے اس کے جواب میں ایک مبسوط اور مفصل اعلان ۳۱ جولائی ۱۸۹۱ء کے مباحثہ اور اس کے متعلق مولوی محمد حسین صاحب کی عہد شکنی اور شرائط سے خروج کا تفصیلی ذکر ہے اور اسے ازالہ اوہام کے آخر میں بھی شائع کر دیا ہے.ڈپٹی کمشنر لودھانہ کا اقدام مولوی محمد حسین صاحب کے جوش و غضب آلودہ پرو پیگنڈہ سے متاثر ہو کر ڈپٹی کمشنر لو دھانہ نے مولوی محمد حسین صاحب کو فور آلود ہانہ سے چلے جانے کے احکام دیئے.اور وہ چلے گئے.بعض دوستوں کو خیال گزرا اور باہر سے بھی استفسارات ہوئے کہ کیا حضرت اقدس کے لئے بھی ایسے احکام دیئے گئے ہیں اس لئے حضرت اقدس نے ۵/ اگست ۱۸۹۱ء کو ڈپٹی کمشنر لودھانہ کو ایک چٹھی لکھی تا کہ پبلک اور احباب کی تسلی کے لئے ایک سرکاری دستاویز مل جاوے صاحب ڈپٹی کمشنر نے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل خط لکھا:.اطلاع بعض دوستوں کے خط پہنچے کہ جیسے کہ ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی بعد مباحثہ شہر لو دھانہ حکماً نکالے گئے ہیں.یہی حکم اس عاجز کی نسبت ہوا ہے.واضح رہے کہ یہ افواہ سراسر غلط ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنی وحشیانہ طرز بحث کی شامت سے لودھانہ سے شہر بدر کئے گئے لیکن اس عاجز کی نسبت کوئی حکم اخراج صادر نہیں ہوا چنا نچہ ذیل میں نقل مراسلہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لو دھانہ لکھی جاتی ہے از پیش گاہ مسٹر ڈبلیو چٹوس صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر لودہانہ.

Page 181

حیات احمد KZA جلد سوم میرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سلامت.چٹھی آپ کی مورخہ دیروزہ موصول ملاحظه و سماعت ہو کر بجوابش تحریر ہے کہ آپ کو بمتابعت وملحوظیت قانون سرکاری لو دھانہ میں ٹھہرنے کے لئے وہی حقوق حاصل ہیں جیسے دیگر رعا یا تابع قانون سرکار انگریزی کو حاصل ہیں.المرقوم ۶ راگست ۱۸۹۱ء دستخط صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت اقدس بھی امرتسر چلے گئے تھے.یہ صحیح نہیں خود ڈپٹی کمشنر کے جواب سے جو راگست کا ہے کہ ۵/اگست تک آپ لودہانہ ہی میں موجود تھے اگر مناسب ہوا تو اس کی مزید صراحت کسی دوسرے موقع پر کر دی جائے گی.مگر یہ بالکل واضح امر ہے.اس مباحثہ کی وجہ سے آپ کی دعوت کا عام چرچا ہو گیا اور لوگ مختلف اوقات میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے بعض سوالات کرتے اور جواب پاتے اور اس عرصہ میں بعض غیر معمولی شہادات آپ کی تائید میں پیش ہوئیں.مباحثہ سے قبل اور بعد کے کچھ اور واقعات لودھانہ کا یہ سفر آپ کی بے انتہا مصروفیت.مخالفت اور با ایں قبولیت کا سفر تھا.میں ان واقعات کو کسی ترتیب کا خیال رکھے بغیر یہاں درج کرتا ہوں.ایک مجذوب کی شہادت سب سے پہلے میں ایک مجذوب کی پیش گوئی کا ذکر کرتا ہوں جس نے ۱۸۶۱ء کے قریب حضرت مسیح موعود کے متعلق ایک پیش گوئی کی تھی.وہ حسب ذیل ہے.ایک کشف ایک مجذوب کا ہے جو اس زمانہ سے تمہیں یا اکتیس برس پہلے اس عالم بے بقا سے گزر چکا ہے.جس شخص کی زبان سے میں نے یہ کشف سنا ہے.وہ ایک معمر سفید ریش آدمی ہے جس کے چہرہ پر آثار صلاحیت و تقویٰ ظاہر ہیں.جس کی نسبت اس کے جاننے والے بیان کرتے

Page 182

حیات احمد 129 جلد سوم ہیں کہ درحقیقت یہ راست گو اور نیک بخت اور صالح آدمی ہے یہاں تک کہ مولوی عبدالقادر مدرس جمال پور ضلع لدھیانہ نے جو ایک صالح آدمی ہے اس پیر سفید ریش کی بہت تعریف کی در حقیقت یه شخص متقی اور متبع سنت اور راست گو ہے.اور نہ صرف انہوں نے آپ ہی تعریف کی بلکہ اپنی ایک تحریر میں یہ بھی لکھا کہ مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کہ جو گروہ موحدین میں سے ایک منتخب اور شریف اور غایت درجہ کے خلیق اور بُردبار اور ثقہ ہیں.جن کے والد صاحب مرحوم کا جو ایک با کمال بزرگ تھے یہ سفید ریش بڑھا قدیمی دوست اور ہم قوم اور پرانے زمانہ سے تعارف رکھنے والا اور اُن کی پر فیض صحبتوں کے رنگ سے رنگین ہے.بیان فرماتے تھے کہ حقیقت میں میاں کریم بخش یعنی یہ بزرگ سفید ریش بہت اچھا آدمی ہے اور اعتبار کے لائق ہے.مجھ کو اس پر کسی طور پر سے شک نہیں ہے.اب وہ کشف جس طور سے میاں کریم بخش صاحب نے اپنے تحریری اظہار میں بیان کیا ہے.اُس اظہار کی نقل مع اُن تمام شہادتوں کے جو اس کا غذ پر ثبت ہیں ذیل میں ہم لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے.میرا نام کریم بخش والد کا نام غلام رسول قوم اعوان ساکن جمال پور تحصیل لدھیانہ پیشہ زمینداری عمر تخمیناً چونسٹھ مذہب موحد اہل حدیث حلفاً بیان کرتا ہوں کہ عرصہ تخمینا تھیں یا اکتیس سال کا گزرا ہو گا یعنی سمکا- 19 میں جبکہ سن سترہ کا ایک قحط پڑا تھا ایک بزرگ گلاب شاہ نام جس نے مجھے تو حید کا راہ سکھلایا اور جو باعث اپنے کمالات فقر کے بہت مشہور ہو گیا تھا اور اصل باشندہ ضلع لاہور کا تھا ہمارے گاؤں جمال پور میں آرہا تھا اور ابتدا میں ایک فقیر سالک اور زاہد اور عابد تھا اور اسرار توحید اُس کے منہ سے نکلتے تھے لیکن آخر اس پر ایک ربودگی اور بے ہوشی طاری ہو کر مجذوب ہو گیا اور بعض اوقات قبل از ظہور بعض غیب کی باتیں اُس کی زبان پر جاری ہوتیں اور جس طرح وہ بیان کرتا آخر اسی طرح پوری ہو جاتیں چنانچہ ایک دفعہ اس نے سمت سترہ کے قحط سے پہلے ایک قحط شدید کے آنے کی پیشگوئی کی تھی.اور پیش از وقوع مجھے بھی خبر دی تھی سو تھوڑے دنوں کے بعد

Page 183

حیات احمد ۱۸۰ جلد سوم.سترہ کا قحط پڑ گیا تھا اور ایک دفعہ اس نے بتلایا تھا کہ موضع را مپور ریاست پٹیالہ تحصیل پائیلی کے قریب جہاں اب نہر چلتی ہے ہم نے وہاں نشان لگایا ہے کہ یہاں دریا چلے گا پھر ایک مدت کے وہاں اُسی نشان کی جگہ پر نہر جاری ہو گئی.جو در حقیقت دریا ہی کی ایک شاخ ہے یہ پیشگوئی اُن کی سارے جمال پور میں مشہور ہے.ایسا ہی ایک دفعہ انہوں نے سمت سترہ کے قحط سے پہلے کہا تھا کہ اب بیوپاریوں کو بہت فائدہ ہوگا.چنانچہ تھوڑے دنوں کے بعد قحط پڑا اور بیوپاری لوگوں کو اس قحط میں بہت فائدہ ہوا.ایسی ہی ان کی اور بھی کئی پیشگوئیاں تھیں جو پوری ہوتی رہیں.اس بزرگ نے ایک دفعہ جس بات کو عرصہ میں سال کا گزرا ہوگا مجھ کو کہا کہ عیسی اب جوان ہو گیا ہے اور لدھیانہ میں آکر قرآن کی غلطیاں نکالے گا.اور قرآن کی رو سے فیصلہ کرے گا اور کہا مولوی اس سے انکار کریں گے.پھر کہا کہ مولوی انکار کر جائیں گے.تب میں نے تعجب کی راہ سے پوچھا کہ کیا قرآن میں بھی غلطیاں ہیں قرآن تو اللہ کا کلام ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ تفسیروں پر تفسیریں ہو گئیں اور شاعری زبان پھیل گئی (یعنی مبالغہ پر مبالغہ کر کے حقیقوں کو چھپایا گیا جیسے شاعر مبالغات پر زور دے کر اصل حقیقت کو چھپا دیتا ہے ) پھر کہا کہ جب وہ عیسی آئے گا تو فیصلہ قرآن سے کرے گا پھر اس مجذوب نے بات کو دہرا کر یہ بھی کہا تھا کہ فیصلہ قرآن پر کرے گا اور مولوی انکار کر جائیں گے اور پھر یہ بھی کہا کہ انکار کریں گے اور جب وہ میسی لدھیانہ میں آئے گا تو بہت قحط پڑے گا.پھر میں نے پوچھا کہ عیسی اب کہاں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ بیچ قادیان کے یعنی قادیان میں قادیان میں تب میں نے کہا کہ قادیان تو لدھیانہ سے تین کوس ہے وہاں عیسی کہاں ہے لدھیانہ کے قریب ایک گاؤں ہے جس کا نام قادیان ہے ) اس کا انہوں نے کچھ جواب نہ دیا اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ ضلع گورداسپور میں بھی کوئی گاؤں ہے جس کا نام قادیان ہے.پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ عیسی علیہ اسلام نبی اللہ آسمان پر اٹھائے گئے اور کعبہ پر اُتریں گے.تب انہوں نے جواب دیا کہ عیسی ابن مریم نبی اللہ تو مر گیا ہے اب وہ نہیں آئے گا ہم نے اچھی طرح تحقیق کیا ہے کہ مر گیا ہے ہم بادشاہ ہیں جھوٹ نہیں بولیں گے.اور کہا کہ جو

Page 184

حیات احمد ۱۸۱ جلد سوم آسمانوں والے صاحب ہیں وہ کسی کے پاس چل کر نہیں آیا کرتے.میاں کریم بخش بمقام لدھیانہ محلہ اقبال گنج ۱۴ جون ۱۸۹۱ء روز شنبه نام ان صاحبوں کے جنہوں نے اپنے کانوں سے اس بیان کو سن کر میاں کریم بخش کے اظہار تحریری پر اُسی وقت اُن کے روبرو اپنی اپنی گواہیاں لکھیں.میرے سامنے میاں کریم بخش نے میرے روبرو میاں کریم بخش اس عاجز کے روبرو میاں کریم مضمون مذکورہ صدر حرف بحرف صاحب نے یہ بیان تحریر کرایا جو اوپر بخش صاحب نے یہ بیان تحریر کرایا اور یہ مضمون بلا کمی بیشی لکھوایا.لکھا گیا ہے.میر عباس علی بقلم خود عاجز رستم علی ڈپٹی انسپکٹر ریلوے حرف بہ حرف لکھا گیا.پولیس ۱۴ جون ۹۱ عبداللہ پٹواری غوث گڑھ میرے سامنے میاں کریم بخش نے میرے سامنے میاں کریم بخش نے میرے روبرو بیان مذکورہ بالا یہ بیان حرف بہ حرف تحریر کرایا.مضمون مذکور الصدر حرف بحرف لکھوایا.میاں کریم بخش نے حرف بہ حرف لکھوایا.اللہ بخش بقلم خود سکنہ اودیانہ غلام محمد از کچھووال بقلم خود عطاء الرحمن ساکن دہلی میرے روبرو میاں کریم بخش نے یہ بیان میاں کریم بخش نے حلفاً اس عاجز کے روبرو میاں کریم حرف بحرف حلفاً بیان مذکورہ بالا میرے روبرو لکھوایا ہے.بخش نے اظہار مذکور بالا حلفاً تحریر کرایا.لکھوایا.عبدالحق ولد عبدالسمیع ساکن لدھیانہ عبد القادر مدرس جمالپورہ بقلم خود سید فضل شاہ ساکن ریاست جموں

Page 185

حیات احمد ۱۸۲ جلد سوم بیان بالا میری موجودگی میں حلفاً میاں کریم میرے روبرو بیان مذکوره بالا حرف به حرف بخش سکنہ جمال پور نے لکھوایا ہے.گھیا لال سیکنڈ ماسٹر راج سکول سنگرور.میاں کریم بخش نے حلفاً لکھوایا ہے.سید عنایت علی سکنہ لدھیانہ محلہ صوفیاں ریاست جدید سکنہ لودیا نہ.میرے روبرو بیان مذکورہ بالا کی میاں کریم میرے روبرو میاں کریم بخش نے بیان مذکورہ بخش صاحب نے تصدیق کی.میر ناصر نواب بالا کی تصدیق کی.قاضی خواجه علی بقلم خود میاں کریم بخش نے حلفاً بیان مذکورہ بالا میرے روبرو یہ مضمون مسمی کریم بخش کو سنایا گیا اور اس نے تصدیق کیا.لکھوایا ہے.مولوی تاج محمد مراری لال کلرک نہر سر ہند ڈویژن لودھیانہ میاں کریم بخش نے وہ تمام بیان جو اس کی زبان بیان مذکورہ بالا کو میاں کریم بخش نے میرے روبرو سے لکھا گیا.حلفاً تصدیق کیا.تصدیق کیا.مولوی نصیر الدین واعظ ساکن بہوالر محمد نجیب خاں دفتر نہر سر ہند ڈویژن.لدھیانہ ریاست بہاولپور حال وارد لدھیانہ اس بیان کے بعد پھر میاں کریم بخش نے بیان کیا کہ ایک بات میں بیان کرنے سے رہ گیا وہ یہ ہے کہ اس مجذوب نے مجھے صاف صاف یہ بھی بتلا دیا تھا کہ اس عیسی کا نام غلام احمد ہے.اب وہ گواہیاں ذیل میں لکھی جاتی ہیں.جنہوں نے قسم کھا کر بیان کیا کہ درحقیقت میاں کریم بخش ایک مرد صالح اور نیک چلن آدمی ہے.جس کا کبھی جھوٹ ثابت نہیں ہوا.یہ گواہ اسی گاؤں کے یا اس کے قریب کے رہنے والے ہیں.ہم حلفاً بیان کرتے ہیں کہ میاں کریم بخش ایک راست باز آدمی ہے اور صوم وصلوٰۃ کا اعلیٰ درجہ کا پابند ہے اور ہم نے اپنی تمام عمر میں اس کی نسبت کوئی جھوٹ بات بولنے اور خلاف واقعہ

Page 186

حیات احمد ۱۸۳ جلد سوم بیان کرنے میں اتہام نہیں سنا بلکہ آج تک ایک گنا یا چھاتی تک کسی شخص کی نہیں تو ڑی اور میاں گلاب شاہ بھی اس دہر میں ایک مشہور مجذوب گزرا اور اس مجذوب کے انتقال کو عرصہ تخمیناً پچپیس سال کا ہوا ہے.اس مجذوب کی اکثر پیش از وقوع باتیں بتلائی ہوئی ہمارے رو برو پوری ہوئی ہیں.العبد العبد نورالدین ولد دتا ساکن جمال پور خیر ایتی نمبر دار جمال پور ۳۰/ جون ۱۸۸۳ء سے میں اس جگہ ملازم ہوں میں میاں کریم بخش صاحب نیک آدمی ہے اور پکا نمازی نے میاں کریم بخش کا کوئی جھوٹ آج تک نہیں معلوم میں نے تمام عمر اس کا کوئی جھوٹ نہیں سنا.حلفاً بیان کیا اور یہ اول درجہ کا پابند صوم و صلوۃ اور راستباز کیا ہے اور میاں گلاب شاہ بہت اچھا فقیر تھا.اس گلاب شاہ کو تمام زن و مرد اس دہر کے جانتے ہیں.آدمی ہے اور موحد ہے.العبد العبد عبدالقادر مدرس جمال پور بقلم خود نبی بخش ارا تین سکنہ جمالپور میاں کریم بخش سچا آدمی ہے اور پختہ نمازی ہے اور نماز اوپر کا لکھا ہوا نہایت صحیح ہے اور کریم بخش نہایت سچا جمعہ کا پابند اور کم گو ہے.العبد پیر دار بقلم خودسکنہ جمال پور آدمی ہے اور نماز روزہ اور جمعہ کبھی قضا نہیں کیا اور کوئی جھوٹ اور افترا کی بات اس کی نسبت ثابت نہیں ہوئی اور بہت کم گو آدمی ہے.العبد نور محمد ولد ما دا سکنہ جمالیور کریم بخش سچا آدمی ہے اور نیک بخت ہے اور نمازی میاں کریم بخش بہت سچا اور بہت نیک اور نمازی ہے ہے فقط.اور میاں گلاب شاہ بہت اچھا مجذوب تھا.اور میں نے اپنی ہوش میں اس کا کوئی جھوٹ نہیں سنا.العبد بوٹا ولد احمد بقلم پیر محمد نمبر دار العبد گلزار شاه بقلم خود

Page 187

حیات احمد ۱۸۴ جلد سوم میاں کریم بخش بہت سچا آدمی ہے اور کبھی اس شخص کریم بخش نمازی ہے اور بہت اچھا آدمی ہے.نے جھوٹی گواہی نہیں دی اور نہ جھوٹ کی تہمت اس کو کسی نے میری ہوش میں لگا دی.العبد خیالی ولد گورمکھ ترکھان جمال پور العبد اللہ دتہ سکنہ جمال پور کریم بخش نہایت سچا اور نیک بخت اور کم گو اور میاں کریم بخش کو میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ شخص پر ہیز گار اور نمازی آدمی ہے اور سب عادتیں اس کی نیک بخت ہے اور بہت سچا ہے.۱۸۶۲ء سے میں بہت اچھی ہیں اس کا واقف ہوں اور اس شخص کا جھوٹ کوئی میں نے نہیں سنا اور نہ کوئی بد چلنی اس کی سنی گئی ہے اور یہ شخص نمازی ہے اور جمعہ پڑھنے بھی العبد لدھیا نہ آیا کرتا تھا.العبد روشن لال ولد قا سا نمبر دار جمالپور عمر ۵۰ سال امیر علی ولد نبی بخش آوان ساکن لدھیانه برا در مولوی | محمد حسن صاحب رئیس اعظم بقلم خود کریم بخش غلام رسول کا بیٹا بہت نیک آدمی ہے اور سچا میاں کریم بخش بہت سچا اور نیک چلن آدمی ہے اور ہمیشہ جمعہ پڑھتا ہے اور کبھی اس نے جھوٹ ہے اور اس شخص نے کبھی جھوٹی شہادت نہیں دی اور نہ سنی.نہیں بولا.العبد العبد کا کا ولد چوہڑ سکنہ جمال پور ہیرالال ولد دو سند ہی سکنہ جمالپور بقلم خود

Page 188

حیات احمد ۱۸۵ کریم بخش پکا نمازی ہے اور سچا اور نیک بخت اور کبھی جھوٹی شہادت اس نے نہیں دی.العبد بقلم خودامان علی ولد چانن شاہ ٹھیکیدار جلد سوم مسمی کریم بخش بہت سچا اور پکا نمازی اور نیک چلن مسمی کریم بخش بڑا سچا آدمی اور پکا نمازی ہے آدمی ہے اور کبھی اس کا کوئی جھوٹ بولنا ثابت رمضان کے روزے ہمیشہ رکھتا ہے اور کبھی جمعہ قضا نہیں ہوا.اور گلاب شاہ بہت اچھا فقیر تھا اور اس نہیں کرتا.اور کبھی اس کا جھوٹ ثابت نہیں ہوا.اور ہمارے دیہ میں بہت مدت تک رہے ہیں.نہایت نیک چلن ہے.العبد العبد اکبر ولد محمد پناہ سکنہ جمالپور بقلم غلام محمد پسر روشن ذات آوان ساکن جمال پور میں مسمی کریم بخش کو بہت نیک بخت جانتا ہوں اور سچا میاں کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن نمازی ہے اور یہ شخص پکا نمازی ہے.ہے.العبد ہے اور جمعہ پڑھنے والا اور سچا آدمی ہے.العبد غلام محمد نائب مدرس جمال پور سکنہ پکھو وال بقلم خود نظام الدین سکنہ جمالپور بقلم خود میاں کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن اور نمازی میاں کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن آدمی ہے اور جمعہ پڑھنے والا اور سچا آدمی ہے.العبد شیر اولد روشن گوجر از جمال پور اور اس شخص نے کبھی جھوٹی شہادت نہ دی اور نہ سنی.العبد گوکل ولد متاہا سودا ز جمالپور میاں کریم بخش آدمی نمازی ہے.اور بہت سچا ہے.کریم بخش بہت اچھا نیک آدمی ہے اور سچا اور العبد کریم بخش ولد غلام غوث آوان از جمالپور نمازی اور پرہیز گار ہے.العبد لکھا ولد سوندا ارائیں جمالپور

Page 189

حیات احمد ۱۸۶ جلد سوم کریم بخش بہت نیک بخت ہے اور سچا ہے اور اس کریم بخش پکا نمازی ہے اور بہت سچا آدمی ہے اور میں جھوٹ بولنے کی عادت نہیں.العبد کنیشامل سود جمال پور بقلم لنڈے العبد العبد اس نے جھوٹی گواہی نہیں دی.العبد گاندھی ولد عالم گوجر چوکیدار جمالپور العبد پیر بخش تیلی سکنہ جمال پور کریم بخش ساکن جمالپور پیرمحمد سکنہ جمال پور اعوان العبد روشن سقه جمال پور العبد العبد بوٹا جھیو رسکنہ جمال پور غوث ولد نبی بخش سکنہ جمال پور آوان العبد العبد العبد کا کا ولد علی بخش سکنہ جمالپور آوان علی بخش ولد لہنا سکنہ جمال پورمحمد بخش ولد روشن سکنه جمالپور آوان العبد العبد العبد شمس الدین گوجر سکنہ جمال پور خدا بخش سکنہ جمال پور اعوان کا سوولدا کو گوجر جمال پور العبد العبد العبد ٹھا کر داس پٹواری جمال پور شاہ محمد سکنہ جمال پور آوان فیضا ولد ماوا سکنہ جمال پور آوان العبد العبد العبد جمال شاہ فقیر سکنہ جمال پور کریم بخش ولد شمس الدین جمالپور مالی سکنہ جمال پور العبد العبد العبد نور محمد ولد عمرا اعوان سکنہ جمالپور نہال ترکھان سکنہ جمال پورکریم بخش ولد جیو موچی سکنہ جمالپور العبد العبد العبد سو بھا بھگت سکنہ جمال پور عبد الحق ولد عمر ا ذات آوان جمالپور یہ غوثو ولد بہالی آوان سکنہ جمالپور

Page 190

حیات احمد العبد IAZ جلد سوم علی بخش ولد غلام رسول آوان کریم بخش اچھا نیک بخت اور با شرع آدمی نہایت سچا پر ہیز گار ہے.العبد نہال نمبردار مهر لودھانہ اور لاہور کے اہلِ اسلام کی علماء اسلام کو دعوت مقابلہ اس عرصہ میں اور ہانہ اور لاہور کے بعض سر بر آوردہ اور حق پسند مسلمانوں نے بذریعہ خطوط علماء اسلام کو اور حضرت اقدس کو ایک عام مناظرہ کی دعوت دی.حضرت اقدس نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا اور ایک اقرار نامہ لکھ دیا.اہل اسلام مذکور کے خطوط اور حضرت اقدس کے اقرار نامہ کو ذیل میں درج کرتا ہوں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ خط از طرف اہل اسلام لدھیانہ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى خط بنام D مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی P و مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی (۳) خواجہ نظام الدین صاحب بریلوی و خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑانوالہ ه و خواجہ اللہ بخش صاحب تو نسوی سنگھڑی.از طرف جماعت مسلمانان لدھیانہ وغیرہ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.ہم سب لوگ جن کے نام اس خط کے نیچے درج ہیں.آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب مصنف کتاب براہین احمدیہ آج کل لودھیانہ آئے ہوئے ہیں اور بڑے زور شور سے اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ

Page 191

حیات احمد ۱۸۸ ۱۴ حضرت عیسی مسیح ابن مریم عَلى نَبِيِّنَا وَعَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلام در حقیقت فوت ہوگئے ہیں.اور دوسرے مردوں کی طرح جنودار واح گزشتہ میں داخل ہیں پھر اس عالم میں کسی طرح سے نہ آئیں گے اور اس زمانہ کے لئے جس مسیح کی روحانی طور پر آنے کی خبر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ میں دی گئی ہے وہ مسیح موعود میں ہوں.مرزا صاحب اور ان کی جماعت قرآن شریف کی آیتیں بکثرت پیش کرتے ہیں.اور اقوال صحابہ اپنی تائید دعوی میں لاتے ہیں اور اس دعوی کے ثبوت میں تین کتابیں ایک فتح اسلام، دوسری توضیح مرام، تیسری ازالہ اوہام بڑی شد و مد سے شرح وبسط سے تصنیف کی ہیں.اور روز بروز ان کے سلسلہ کو ترقی ہے اور معتبر طور سے معلوم ہے کہ چوداں عالم فاضل متبحر آج تک ان کی جماعت میں داخل ہو گئے ہیں.یہ عجیب انقلاب دیکھ کر حق کی طالب نہایت حیرت میں ہیں کہ ایک طرف تو ان کی جماعت ترقی پر ہے اور دوسری طرف مشاہیر علماء اور اکا بر صوفیہ کنارہ کش ہیں.اگر کوئی مولویوں میں سے بحث کرنے کے لئے آتا بھی ہے تو مغلوب ہو کر ایک طور سے اور بھی زیادہ ان کے سلسلہ کو تائید پہنچاتا ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو پنجاب میں مشہور عالم ہیں بحث کرنے کے لئے آئے جس کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی کمزوری اور گریز کو دیکھ کر اور بھی کئی شخص ان کی جماعت میں داخل ہو گئے اور ایک بڑی خجالت کی یہ بات ہوئی کہ مرزا صاحب نے روحانی طور پر بھی ایک تصفیہ کی درخواست کی کہ تم بھی دعا کرو اور ہم بھی دعا کریں تا مقبول اور اہل حق کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر ہو، لیکن مولوی محمد حسین صاحب نے اس طرف رُخ بھی نہ کیا.اب التماس یہ ہے کہ آپ اکا بر جلیل القدرصوفیاء اور صاحب عرفان اور صاحب سلسلہ اور فاضل اور مشاہیر علماء سے ہیں.آپ سے بڑھ کر اور کس کا حق ہے کہ دونوں طریق سے یعنی ظاہری اور باطنی طور پر آپ مرزا غلام احمد صاحب سے مقابلہ اور جلد سوم

Page 192

حیات احمد ۱۸۹ موازنہ کریں اور دونوں طور سے بحث کرنے کے لئے تشریف لاویں.ہم نے مرزا صاحب سے منظور کرا لیا ہے کہ ہم (جن کے نام خط ہے ) بلواتے ہیں.وہ آپ سے دونوں طور ظاہری اور باطنی مقابلہ کریں گے.اور وہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کے زندہ بجسم عنصری آسمان پر اٹھائے جانے اور اب تک زندہ ہونے اور آخری زمانہ میں نزول از آسمان کرنے پر دلائل قاطعہ اور نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ پیش کریں گے.اور نیز باطنی طور پر اپنی کچھ کرامات بھی دکھائیں گے.پھر اگر آپ نے (جن کے نام خط ہے ).ان سے دونوں طور ظاہری اور باطنی میں مقابلہ نہ کیا اور بھاگ گئے تو ہم سخت مخالف بن کر آپ کی اس ہزیمت کو شہرت دیں گے بلکہ ہم نے مرزا صاحب سے لکھوالیا ہے.جس کی نقل آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے.اور ہم نے حلف کے طور پر وعدہ کر لیا ہے.ضرور وہ صاحب (جن کے نام خط ہے ) ان دونوں طور کی بحثوں کے لئے لودھیانہ میں تشریف لے آئیں گے کیونکہ نازک وقت پہنچ گیا تھا.اور لوگ جوق در جوق ان کی پیروی کرتے جاتے ہیں.ایسے وقت میں اگر بزرگان دین اور علماء اہلِ یقین جس میں ہزار ہا مسلمان کا ایمان تلف ہو کام نہ آئے تو کب آئیں گے.ہاں ہم نے مرزا غلام احمد صاحب سے قسم کھا کر یہ بھی وعدہ کر لیا ہے کہ اگر (جن کے نام خط ہے ) اس بحث کے لئے تشریف نہ لائے تو پھر یہ بات پنجاب اور ہندوستان کے اخباروں میں چھپوا دیں گے کہ وہ گریز کر گئے.اور وہ حق پر نہیں ہیں.لہذا ہم سب لوگ ادب سے اور عاجزی سے آپ کی خدمت میں خواستگار ہیں کہ آپ حَسْبَةً لِلہ اس کام کے لئے ضرور تشریف لاویں اور مسلمانوں کو فتنہ سے بچاویں ورنہ اگر آپ تشریف نہ لائے تو ناچار ایفاء عہد کے لئے آپ کا گریز کر نا حتی الوسع تمام اخباروں میں شائع کر دیا جائے گا.اسی طرح اگر مرزا غلام احمد صاحب نے گریز کی تو اس سے دس حصہ زیادہ اخباروں کے ذریعہ سے ان کی قلعی جلد سوم

Page 193

حیات احمد ۱۹۰ کھولی جائے گی.اور ہمیں یقینی طور پر امید ہے کہ آپ دونوں طور کی بحث کے لئے ضرور تشریف لے آئیں گے اور قیامت کی باز پرس سے اپنے آپ کو بچائیں گے.الہذا ہم نے ایک ایک نقل اسی درخواست کی چند اخباروں میں بھی بھیج دی ہے اور آخری نتیجہ کا مضمون جو کچھ اس کے بعد ہو گا چھپنے کے لئے بھیجا جائے گا.آپ جلد ریف لاویں سب مخلصین منتظر ہیں ہم آپ کے جواب کے آج کی تاریخ سے جو ۱۸/ محرم الحرام ۱۳۰۹ھ مطابق ۲۴ اگست ۱۸۹۱ء ہے ایک ماہ تک انتظار کریں گے.اگر اس عرصہ تک خدا نخواستہ آپ تشریف نہ لائیں تو ناچار عہد کے موافق کلمات حقہ آپ کی نسبت شائع کر دیئے جائیں گے.اور واضح رہے کہ ہم تین فریق کے آدمی ہیں.بعض ہم میں سے مرزا صاحب کے مرید ہیں.اور بعض حسن ظن رکھنے والے اور بعض نہ حسن ظن رکھنے والے اور نہ مرید ہیں.لیکن ہم سب حق کے طالب ہیں.اَلْحَقُّ حَقٌّ.وَالسَّلام (۱) ابواللسان محمد سراج الحق جمالی نعمانی سرساوى سَرَّجَ اللهُ وَجْهَهُ (۲) شیخ نور محمد بانوی (۳) شیخ عبد الحق لودیا نوی (۴) قاضی خواجہ علی ٹھیکیدار شکرم (۵) محمد خاں ساکن کپورتھلہ (1) حافظ حامد علی لودھیانوی (۷) سید عباس علی صوفی (۸) مولوی محمود حسن مدرس (۹) منشی محمد اروڑا نقشہ نویس ساکن کپور تھلہ (۱۰) منشی فیاض علی (۱۱) منشی ظفر احمد اپیل نویس ساکن کپورتھلہ (۱۲) منشی عبدالرحمن اہلمد جرنیلی کپورتھلہ (۱۳) منشی حبیب الرحمن برادر زاده حاجی ولی محمد صاحب حج مرحوم ساکن کره ساکن کپورتھلہ (۱۴) مستری جان محمد (۱۵) سردار خاں کوٹ دفعدار ساکن کپورتھلہ (۱۶) شیخ سدوری ضلع ہوشیار پور (۱۷) منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے (۱۸) خیر الدین خاں سوار رجمنٹ نمبر۱۷ (۱۹) حکیم عطاء الرحمن دہلوی جلد سوم

Page 194

حیات احمد ۱۹۱ (۲۰) مولوی افتخار احمد ابن سجادہ نشین حضرت منشی احمد جان صاحب نقش بندی لدھیانوی (۲۱) حافظ نور احمد تاجر پشمینہ لودھیانوی (۲۲) سائیں بہادر شاہ لودھیانوی (۲۳) عبدالرحیم شاہ (۲۴) جیوا تاجر پشمینہ لودھیانوی (۲۵) حافظ محمد بخش تاجر لودھیانہ (۲۶) مولوی محمد حسین ساکن کپورتھلہ (۲۷) قاضی شیخ احمد اللہ ملازم کپورتھلہ (۲۸) منشی اللہ بخش محرر دفتر لودھیانہ (۲۹) مولوی چراغ الدین مدرس مشن سکول لودہیانہ (۳۰) قاضی عبدالمجید خاں شاہزادہ لودھیانہ (۳۱) مولوی عبدالقادر مدرس جمال پور (۳۲) ماسٹر محمد بخش لودھیانہ (۳۳) مولوی تاج محمد ساکن بھوکڑی علاقہ لودھیانہ (۳۴) مولوی نور محمد ساکن مالگوٹ علاقہ لودھیانہ (۳۵) مولوی عبداللہ مجتہد لودھیانه (۳۶) مولوی نظام الدین لودہیانہ (۳۷) مولوی اللہ دتا واعظ ردّ نصاری لدھیانوی (۳۸) عبداللہ سنوری پٹواری علاقہ پٹیالہ (۳۹) ماسٹر قادر بخش لدھیانوی (۴۰) مولوی محمد یوسف سنوری علاقہ پٹیالہ (۴۱) منشی ہاشم علی پٹواری ریاست پٹیالہ (۴۲) مولوی حشمت علی مدرس پٹیالہ (۴۳) عبدالرحمن سنوری علاقہ پٹیالہ (۴۴) روشن دین ٹھیکیدار کپورتھلہ (۴۵) شیر محمد خاں لدھیانوی (۴۶) مولوی عبدالکریم سیالکوٹی (۴۷) مولوی غلام قادر صاحب فصیح ایڈیٹر و پروپرائٹر پنجاب گزٹ سیالکوٹ (۴۸) سید احمد شاہ سیالکوٹی (۴۹) سید رخصت علی ڈپٹی انسپکٹر ضلع سیالکوٹ (۵۰) مولوی غلام انجینئر ریاست کشمیر (۵۱) مولوی عبدالغنی عرف غلام نبی خوشابی (۵۲) حکیم فضل الدین بھیروی (۵۳) مولوی مبارک علی سیالکوٹی (۵۴) مفتی محمد صادق مدرس جموں کا شمیر (۵۵) میر عنایت علی لودھیانوی (۵۶) شیخ چراغ علی ساکن گورداسپور (۵۷) شیخ شہاب الدین ساکن تصہ غلام نبی (۵۸) شیخ حافظ حامد علی ساکن تھہ غلام نبی جلد سوم

Page 195

حیات احمد ۱۹۲ (۵۹) مولوی غلام حسن پشاوری (۶۰) خواجہ عبدالقادر شاہ لدھیانوی چشتی (۶۱) سید فضل شاہ لاہوری (۶۲) نواب اشرف علی خاں لدھیانوی (۶۳) محمد عبدالحکیم خاں طالب علم میڈیکل کالج لاہور (۶۴) منشی کرم الہی لاہوری (۶۵) مولوی خدا بخش اتالیق (۶۶) اله بندہ ہانسوی (۶۷) شیخ فتح محمد ساکن جموں نائب شرف محکمہ جنرل ڈیپارٹمنٹ سری نگر کشمیر (۶۸ ) مولوی محمد حسن خاں لودھیانوی (۶۹) مولوی خدا بخش بستی شیخ (۷۰) سید عبدالہادی سب اور سیر بلیلی ملک بلوچستان (۷۱) مرز ایوسف بیگ ساکن سامانه (۷۲) عبدالکریم خاں ناظر ریاست پٹیالہ (۷۳) نواب عشرت علی خاں ناظر لودھیانوی ناظر عدالت سمرالہ (۷۴) نواب محمد حسین خاں خلف نواب محفوظ علی خاں جھجری حال لدھیانہ (۷۵) گلاب خاں دفعدار لدھیانوی (۷۶) عبد الکریم خاں کلرک نہر لدھیانوی (۷۷) مولا بخش ماسٹر لدھیانہ (۷۸) عمر بخش چننا نوالہ (۷۹) شہاب الدین لدھیانوی (۸۰) امیر خاں سمرالہ (۸۱) مولوی غلام محمد نقل نویس تحصیل سمرالہ (۸۲) شیخ نور احمد مالک و مهتم ریاض ہند امرتسر (۸۳) اله بخش پارسل کلرک پھلور (۸۴) حاجی عبدالرحمن لدھیانوی (۸۵) منشی خادم حسین خلف رشید داروغه (۸۶) محمد قاسم خوشنویس لدھیانوی (۸۷) محمد اسمعیل (۸۸) عبدالکریم سیالکوٹی (۸۹) غلام محمد سیالکوٹی (۹۰) مولوی محمد الدین سیالکوٹی (۹۱) مولوی نورالدین ساکن بھوکری ضلع لدھیانہ (۹۲) سید امیر علی شاہ سیالکوٹی سارجنٹ پولیس (۹۳) منشی رحمت اللہ نمبر میونسپل کمیٹی گجرات و تاجر پارچہ جات (۹۴) رحمت سکنہ غوث گڑھ علاقہ پٹیالہ (۹۵) مولوی حکیم سید محی الدین ساکن تنکور علاقہ ریاست میسور (۹۶) الہی بخش ساکن غوث گڑھ علاقہ ریاست پٹیالہ (۹۷) علی بخش ساکن چک علاقہ پٹیالہ (۹۸) میر محمود شاہ ساکن جلد سوم

Page 196

حیات احمد ۱۹۳ جلد سوم سیالکوٹ (۹۹) محبوب عالم درویش ساکن کپورتھلہ (۱۰۰) مہر علی ساکن تھہ غلام نبی (۱۰۱) نور محمد نمبر دار غوث گڑھ ریاست پٹیالہ (۱۰۲) عطار الہی ساکن غوث گڑھ (۱۰۳) عمر الدین لدھیانوی (۱۰۴) امام بخش از خاندان میاں دسوندی شاه صاحب مرحوم (۱۰۵) منصب علی محرر (۱۰۶) غلام رتی لودھیانوی.اس کے ساتھ ایک دوسرا خط مسلمانانِ لاہور نے علماء کے نام مباحثہ کے لئے شائع کیا تھا.جو اسی ضمیمہ ریاض ہند کے صفحہ اول پر ہے.اس کو بھی ناظرین کی واقفیت کے لئے اسی جگہ نقل کر دیا جاتا ہے.(المرتب) دوسرا خط از طرف اہل اسلام لاہور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ خط بنام (۱) مولوی محمد صاحب لکھو کے (۲) مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے (۳) مولوی عبداللہ صاحب بنتی (۴) مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی (۵) مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری (۶) مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی (۷) مولوی سید نذیر حسین صاحب !! دہلوی (۸) مولوی عبد العزیز صاحب لود یا نوی (۹) مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری (۱۰) مولوی محمد سعید صاحب بنارسی (۱۱) مولوی محمد احسن صاحب امروہی حال وارد بھوپال (۱۲) مولوی نورالدین صاحب حکیم (۱۳) مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی.از طرف اہل اسلام لاہور بالخصوص حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار و خواجه امیرالدین صاحب و منشی عبدالحق صاحب و منشی شمس الدین صاحب سیکرٹری حمایت اسلام و مرزا صاحب ہمسایہ خواجہ امیر الدین صاحب و نشی کرم الہی صاحب وغیرہ وغیرہ.

Page 197

حیات احمد ۱۹۴ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مرزا غلام احمد قادیانی نے جو دعاوی حضرت مسیح عَلَى نَبِيِّنَا وَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَام کی موت اور خود مسیح موعود ہونے کی نسبت کئے ہیں آپ سے مخفی نہیں.ان کے دعاوی کی اشاعت اور ہمارے ائمہ دین کی خاموشی نے مسلمانوں کو جس تر ڈ داور اضطراب میں ڈال دیا ہے وہ بھی محتاج بیان نہیں اگر چہ جمہور علماء موجودہ کی بے سود مخالفت اور خود مسلمانوں کے پرانے عقیدہ نے مرزا صاحب کے دعاوی کا اثر عام طور پر نہیں پھیلنے دیا مگر تا ہم اس امر کے بیان کرنے کی بلا خوف تردید جرات کی جاتی ہے کہ اہل اسلام کے قدیمی اعتقاد نسبت حیات و نزول عیسی ابن مریم میں بڑا تزلزل واقع ہو گیا ہے اگر ہمارے پیشوایان دین کا سکوت یا ان کی خارج از بحث تقریر اور تحریر نے کچھ اور طول پکڑا تو احتمال کیا بلکہ یقین کامل ہے کہ اہلِ اسلام علی العموم اپنے پرانے اور مشہور عقیدہ کو خیر باد کہہ دیں گے.اور پھر اس صورت اور حالت میں حامیان دینِ متین کو سخت مشکل کا سامنا پڑے گا.ہم لوگوں نے جن کی طرف سے یہ درخواست ہے اپنی تسلی کے لئے خصوصاً اور عامہ اہلِ اسلام کے فائدہ کے لئے عموماً کمال نیک نیتی سے جدو جہد کے بعد ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ( جو مرزا صاحب کے مخلص معتقدین میں سے ہے ) مرزا صاحب کے دعاوی پر گفتگو کرنے کے لئے مجبور کیا تھا مگر نہایت ہی حیرت ہے کہ ہماری بدقسمتی سے ہماری منشاء اور مدعا کے خلاف مولوی ابوسعید صاحب نے مرزا صاحب کے دعووں سے جو اصل مضمون بحث تھا قطع نظر کر کے غیر مفید امور میں بحث شروع کر دی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مترددین کے شبہات کو اور تقویت ہوگئی اور زیادہ تر حیرت میں مبتلا ہو گئے.اس کے بعد لودھیانہ میں مولوی ابوسعید صاحب کو خود مرزا صاحب سے بحث کرنے کا اتفاق ہوا.تیرآن روز گفتگو رہی.اس کا نتیجہ بھی ہمارے خیال میں وہی ہوا جو لا ہور کی بحث سے ہوا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ تر مضر.کیونکہ جلد سوم

Page 198

حیات احمد ۱۹۵ جلد سوم مولوی صاحب اس دفعہ بھی مرزا صاحب کے اصل دعاوی کی طرف ہرگز نہ گئے.اگر چہ جیسا کہ سنا گیا ہے اور پایہ ء اثبات کو بھی پہنچ گیا ہے.مرزا صاحب نے اثناء بحث میں بارہا اپنے دعووں کی طرف مولوی صاحب کو متوجہ کرنے کی سعی کی چونکہ علماء وقت کے سکوت اور بعض بے سود تقریر وتحریر نے مسلمانوں کو علی العموم بڑی حیرت اور اضطراب میں ڈال رکھا ہے اور اس کے سوا ان کو اور کوئی چارہ نہیں کہ اپنے امامان دین کی طرف رجوع کریں.لہذا ہم سب لوگ آپ کی خدمت میں نہایت مؤدبانہ اور محض بنظر خیر خواہی برادرانِ اسلام درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس فتنہ وفساد کے وقت میں میدان میں نکلیں اور اپنی خداداد نعمت علم اور فضل سے کام لیں اور خدا کے واسطے مرزا صاحب کے ساتھ اُن کے دعاوی پر بحث کر کے مسلمانوں کو ورطه ۶ تذبذب سے نکالنے کی سعی فرما کر عند الناس وعنداللہ ماجور ہوں.ہم چاہتے ہیں کہ آپ جن کی ذات پر مسلمانوں کو بھروسہ ہے خاص لا ہور میں مرزا صاحب سے اُن کے دعویٰ میں بالمشافہ تحریری بحث کریں.مرزا صاحب سے ان کے دعویٰ کا ثبوت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے لیا جاوے یا ان کو اس قسم کے دلائلِ بینہ سے توڑا جاوے ہماری رائے میں مسلمانوں کی تسلی اور رفع تردد کے واسطے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں اگر آپ اس طریق بحث کو منظور فرما دیں اور امید واثق ہے کہ آپ اپنا ایک اہم منصبی فرض یقین کر کے محض ابتغاء لِوَجْهِ الله و برائے خلق اللہ ضرور قبول فرمائیں گے ) تو اطلاع بخشیں تا کہ مرزا صاحب سے بھی اس بارے میں تصفیہ کر کے تاریخ مقرر ہو جاوے.اور آپ کو لاہور لانے کی تکلیف دی جاوے تمام انتظام متعلقہ قیام امن وغیرہ ہمارے ذمہ ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے گی.جواب سے جلد سرفراز فرماویں.والسلام ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۹۸ تا ۲۰۳ حاشیه طبع بار دوم )

Page 199

حیات احمد ۱۹۶ نقل عبارت اقرار نامه حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي یہ خط جو جماعت مسلمانان لدھیانہ وغیرہ نے لکھا ہے.میں نے اوّل سے آخر تک پڑھا.مجھے ہر طرح منظور و مقبول ہے کہ الہ بخش صاحب تونسوی سنگھی یا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی یا نظام الدین صاحب بریلوی یا مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی یا غلام فرید صاحب چاچڑان والا ظاہری و باطنی طور پر بحث کرنے کے لئے تشریف لا دیں.اور مجھے تحریری اور زبانی طور پر بحث منظور ہے.کچھ عذر نہیں اور باطنی طور پر مقابلہ کرنا خود میرا منشاء ہے.کیونکہ میں یقینی جانتا ہوں کہ خداوند قدیر میرے ساتھ ہے وہ ہر یک راہ میں میری مدد کرے گا.غرض میں بلا عذر ہر طرح حاضر ہوں اور مباحثہ لاہور میں ہو کہ وہ مقام صدر ہے اور رئیس لاہور امن وغیرہ کے ذمہ دار ہو گئے ہیں.میرزا غلام احمد قادیانی بقلم خود جلد سوم ۲۳ اگست ۱۸۹۱ء مطابق ۱۷ار محرم الحرام ۱۳۰۹ھ محلہ اقبال گنج لودھیانہ ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۹۸ تا ۲۰۳ حاشیه طبع بار دوم )

Page 200

حیات احمد ۱۹۷ ۱۸۹۱ء کے کچھ اور واقعات جلد سوم مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ کی ابتدائی تحریک تو جیسا کہ بیان ہو چکا حضرت حکیم الامت کے ساتھ اس تبادلہ خیالات سے ہوئی جو مکرم منشی امیر الدین صاحب مرحوم کے مکان پر شروع ہوا تھا.اس لئے واقعات کی ترتیب کا خیال نہ رکھتے ہوئے مباحثہ لدھیانہ کے انجام تک میں واقعات لکھتا آیا اور اس طرح پر قبل از مباحثہ کے بعض واقعات کو میں اب لکھتا ہوں.عبد الحق غزنوی اور مباہلہ من جملہ ان واقعات کے ایک اہم ترین واقعہ مولوی عبدالحق غزنوی کے مباہلہ کے اشتہار کا ہے.جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ علماء کے گروہ میں لودھانوی علماء کے سوا مولوی محمد حسین صاحب نے عکم مخالفت بلند کر رکھا تھا.اور نام نہاد مشایخ علماء میں لکھو کے ضلع فیروز پور کے گروہ میں بعض الہام کے مدعی بھی تھے اور غزنویوں کے گروہ میں عبد الحق بھی مدعی الہام تھا.پنجاب کے علماء پر خصوصاً اتمام حجت ہو چکا تھا عبدالحق غزنوی کے اشتہار مباہلہ کے متعلق ابتداء حضرت نے لکھا تھا کہ جزوی اختلاف پر مباہلہ شرعا نہیں ہوسکتا.اس پر عبدالحق غزنوی نے پھر اشتہار شائع کیا اس کے جواب میں ۱۰ / اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ نے حسب ذیل اعلان شائع کیا.

Page 201

حیات احمد ۱۹۸ ربَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ * مباہلہ کے اشتہار کا جواب ناظرین کو معلوم ہوگا کہ میاں عبدالحق صاحب غزنوی کے پہلے اشتہار کے جواب میں جو مباہلہ کے لئے انہوں نے شائع کیا تھا.اس عاجز نے یہ جواب لکھا تھا کہ مسلمانوں کے جزئی اختلافات کی وجہ سے با ہم مباہلہ کرنا عِندَ الشَّرع ہرگز جائز نہیں.مذہب اسلام ایسے اختلافات سے بھرا پڑا ہے.حضرت مسیح ابن مریم کا جسم خاکی کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھایا جانا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے جسمانی طور پر اٹھائے جانے کی نسبت جو معراج کی رات میں بیان کیا جاتا ہے، کچھ زیادہ عزت کے لائق نہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی صعود کی نسبت مسیح کے جسمانی صعود کا کچھ زیادہ ثبوت پایا جاتا ہے.اور ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بر خلاف ایک اجماع کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے جسمانی معراج کا بکلی انکار کر دیا ہے.مگر کسی صحابی نے اُن سے مباہلہ کی درخواست نہیں کی ، ماسوا اس کے اور بہت سے اختلافات صحابہ میں واقع ہوئے.یہاں تک کہ بعض نے بعض قرآن شریف کی سورتوں کو قرآن شریف میں داخل نہیں سمجھا اور پھر ہر ایک زمانہ میں جزئی اختلافات کا سلسلہ بڑھتا گیا.اور اس سلسلہ کو کچھ تو ائمہ اربعہ اور محدثین اور مفسرین نے وسعت دی اور ہزار ہا جزئیات مختلفہ آگے رکھ دیئے اور کچھ اہل کشف نے ان اختلافات کو بڑھایا.چنانچہ ارباب کشف میں سے سب سے قدم بڑھا ہوا حضرت ابن عربی قَدَّسَ سِرُّہ کا ہے.اور بعض مکاشفات سید عبدالقادر جیلانی قَدَّسَ سِرُّہ بھی ایسے ہیں جو احادیث صحیحہ سے منافی و مغائر ہیں چنانچہ ابن تیمیہ کا قول ہے کہ احادیث صحیحہ کی رو سے اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ الاعراف : ٩٠ جلد سوم

Page 202

حیات احمد ۱۹۹ جلد سوم ذبیح اسماعیل ہیں مگر سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اسحاق کو ذبیح ٹھہراتے ہیں.ایسا ہی قریب اجماع کے یہ عقیدہ بھی ہے جو کتب سابقہ تو ریت وغیرہ میں تحریف لفظی ہو گئی ہے.مگر حضرت محمد اسماعیل رئیس المحد ثین اس اجماع کے مخالف ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر ان تمام جزئیات میں بطریق مباہلہ فیصلہ کرنا جائز ہوتا تو خدا تعالیٰ ہرگز اس اُمت کو مہلت نہ دیتا کہ اب تک وہ دنیا میں قائم رہ سکتی ، ذرا سوچ کر دیکھنا چاہئے کہ چونکہ در حقیقت حالت اسلام کی خیرُ الْقُرُون سے ہی ایسی واقعہ ہوگئی ہے که حنفی مذہب، شافعی مذہب سے صدہا جزئیات میں اختلافات رکھتا ہے.ایسا ہی شافعی مالکی سے، اور مالکی حنبلی سے سینکڑوں جزئی مسائل میں مختلف ہے.اور محد ثین کو بھی کسی ایک مذہب سے بکلی مطابقت نہیں ہے اور پھر وہ بھی باہم جزئیات کثیرہ میں اختلاف رکھتے ہیں.اور ہر اہلِ کشف کے اختلافات کا بھی ایک دفتر ہے.یہاں تک کہ بعض نے نبوت تامہ کے سلسلہ کو منقطع نہیں سمجھا.جاودانی عذاب کے قائل نہیں ہوئے.اور ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ایسا مذہب نہیں کہ جو جزئیات کے اختلاف میں غلطی اور خطا کے احتمال سے خالی ہو.اب اگر فرض کریں کہ ان سب میں اختلافات جزئیہ کی وجہ سے مباہلہ واقع ہو اور خداوند تعالیٰ مُخطی پر عذاب نازل کرے تو بلاشبہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام متفرق فرقے اسلام کے صفحہ زمین سے یک لخت نابود ہوں.پس ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز منشاء نہیں کہ اہل اسلام ان تمام اختلافات جزئیہ کی وجہ سے ہلاک کئے جائیں سوایسے مباہلات سے کچھ اسلام کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا.اور اگر یہ عنداللہ جائز ہوتا تو اسلام کا کب سے خاتمہ ہو جاتا.( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۸۱.مطبوعہ بار دوم ) اس کے جواب میں میاں عبدالحق صاحب اپنے دوسرے اشتہار میں اس عاجز کو لکھتے ہیں کہ اگر مباہلہ مسلمانوں سے بوجہ اختلافات جزئیہ جائز نہیں تو پھر تم نے مولوی محمد اسماعیل سے رسالہ فتح اسلام میں کیوں مباہلہ کی درخواست کی.سو انہیں

Page 203

حیات احمد ۲۰۰ سمجھنا چاہئے کہ وہ درخواست کسی جزئی اختلاف کی بناء پر نہیں بلکہ اس افترا کا جواب ہے جو انہوں نے عمداً کیا اور یہ کہا کہ میرا ایک دوست جس کی بات پر مجھے بکلی اعتماد ہے دو مہینے تک قادیان میں میرزا غلام احمد کے مکان پر رہ کر بچشم خود دیکھ آیا ہے کہ اُن کے پاس آلات نجوم ہیں اور انہیں کے ذریعہ سے وہ آئندہ کی خبریں بتلاتے ہیں اور اُن کا نام الہام رکھ لیتے ہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ اس صورت کو جز ئی اختلاف سے کیا تعلق ہے، بلکہ یہ تو اس قسم کی بات ہے جیسے کوئی کسی کی نسبت یہ کہے کہ میں نے اس کو بچشم خود زنا کرتے دیکھا.یا بچشم خود شراب پیتے دیکھا اگر میں اس بے بنیا داخترا کے لئے مباہلہ کی درخواست نہ کرتا تو اور کیا کرتا ! بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ ہمیں مباہلہ مسنونہ سے انکار نہیں.اگر انکار ہے تو ایسے مباہلہ سے جس کا قرآن اور حدیث سے نشان نہیں ملتا.اگر اس طور پر مباہلہ کرنا چاہو کہ جس طور سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست کی تھی تو ہم بدل و جان مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.یقیناً تمہیں معلوم ہو گا کہ وہ مباہلہ جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ سے درخواست کی تھی.وہ یہ تھا کہ آنجناب کو وحی الہی سے یقینی طور پر معلوم ہوا کہ عیسائی لوگ اس بات میں جھوٹے ہیں جو انہوں نے مسیح ابن مریم کو خدا کا بیٹا بلکہ خدا بنا رکھا ہے.سچ صرف اس قدر ہے کہ مسیح نبی تھا.اور خدا تعالیٰ کا بندہ تھا اور اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ عیسائیوں کا افترا ہے.ادھر عیسائی بھی کلام اللہ کے اس بیان کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں سمجھتے تھے بلکہ خیال کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا نعوذ باللہ اپنا افترا ہے، چنانچہ اوّل اُن کے اسکات و الزام کے لئے ہر ایک قسم کے دلائل و نشان قرآن شریف نے پیش کئے، مگر انہوں نے اپنے تعصب کی وجہ سے ان دلائل کو قبول نہ کیا آخر جب انہوں نے کسی دلیل کو قبول نہ کیا.اور کسی نشان پر ایمان نہ لائے تو اتمام حجت کی غرض سے مباہلہ جلد سوم

Page 204

حیات احمد ۲۰۱ جلد سوم کے لئے ان سے درخواست کی گئی.اور یہ درخواست صرف اس بنا پر تھی کہ ہم پر خدا تعالیٰ نے یہ بات یقینی طور پر کھولدی ہے کہ تم اس اعتقاد میں کہ مسیح ابن مریم سچ سچ خدا کا بیٹا اور خدا ہے مفتری ہو خدا تعالیٰ نے انجیل میں ہرگز ایسی تعلیم نہیں دی کہ اس کا کوئی دوسرا شریک بھی ہے اور در حقیقت اس کا کوئی بیٹا بھی ہے جو بیٹا ہونے کی وجہ سے خدا بھی ہے.اگر تمہیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے تو بقول تمہارے ہم مفتری ٹھہرے تو آؤ باہم مباہلہ کریں تا اس شخص پر جو کاذب اور مفتری ہے خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو اور فرمایا کہ مباہلہ کے لئے ایک نہیں بلکہ دونوں طرف سے جماعتیں آنی چاہئیں.تب مباہلہ ہو گا.جیسا کہ فرماتا ہے.اَلْحَقُّ مِنْ رَبَّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِينَ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ كُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَذِبِينَ ال یعنی مسیح کا بندہ ہونا بالکل سچ اور شک سے منزہ ہے اور اگر اب بھی عیسائی لوگ مسیح ابن مریم کی الوہیت پر تجھ سے جھگڑا کریں اور خدا تعالیٰ کے اس بیان کو جو مسیح در حقیقت آدم کی طرح ایک بندہ ہے گو بغیر باپ کے پیدا ہوا، دروغ سمجھیں اور انسان کا افترا خیال کریں تو اُن کو کہہ دے کہ اپنے عزیزوں کی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لئے آویں اور ادھر ہم بھی اپنی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لئے آویں گے.پھر جھوٹوں پر لعنت کریں گے.لى ال عمران: ۶۱ ۶۲ سے اس آیت میں لفظ الْكَاذِبِينَ صاف ہمارے مدعا اور بیان کا شاہد ناطق ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ فرما کر ظاہر کرتا ہے کہ مباہلہ اسی صورت میں جائز ہے کہ جب فریقین ایک دوسرے کو عمد ادروغ بازیقین کرتے ہوں نہ یہ کہ صرف مُخطِی خیال کرتے ہوں.

Page 205

حیات احمد ۲۰۲ اب اس تمام بیان سے بوضاحت کھل گیا ہے کہ مسنون طریق مباہلہ کا یہ ہے کہ جو شخص مباہلہ کی درخواست کرے.اس کے دعوی کی بنا ایسے یقین پر ہو جس یقین کی وجہ سے وہ اپنے فریق مقابل کو قطعی طور پر مفتری اور کا ذب خیال کرے اور اس یقین کا اُس کی طرف سے بصراحت اظہار چاہئے کہ میں اس مفتر ی شخص کو جانتا ہوں.نہ صرف ظن اور شک کے طور سے بلکہ کامل یقین سے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں ظاہر فرمایا ہے.پھر ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ پہلے خدا تعالیٰ نے دلائلِ بینہ سے بخوبی عیسائیوں کو سمجھا دیا کہ عیسی بن مریم میں کوئی خدائی کا نشان نہیں.اور جب باز نہ آئے تو پھر مباہلہ کے لئے درخواست کی.اور نیز آیات موصوفہ بالا سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسنون طریقہ مباہلہ کا یہی ہے کہ دونوں طرف سے جماعتیں حاضر ہوں.اگر جماعت سے کسی کو بے نیازی حاصل ہوتی تو اس کے اوّل مستحق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے.یہ کیا انصاف کی بات ہے جو ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم مباہلہ کے لئے جماعت کے محتاج ٹھہرائے جائیں اور میاں عبدالحق اکیلے کافی ہوں عجب بات ہے کہ مباہلہ کے لئے تو دوڑتے ہیں اور پہلے ہی قدم میں فرمودہ خدا اور رسول کو چھوڑتے ہیں.اور اگر کوئی جماعت ساتھ ہے تو بذریعہ اشتہار اس کا نام لینا چاہئے.اگر اصل حقیقت پر غور کیا جاوے تو مباہلہ کی درخواست کرنا ہمارا حق تھا اور وہ بھی اس وقت جب ہم اپنے دعوئی کو دلائل و بینات مفصلہ ومسکنہ سے مؤید ومستند کر چکتے.مگر اب بھی تَنَؤُلَا تَرَحُمًا لِله مباہلہ کے لئے تیار ہیں مگر انہیں شرائط کے ساتھ جو مذکور ہو چکیں.اب ناظرین یا د رکھیں کہ جب تک یہ تمام شرائط نہ پائے جائیں تو عند الشرع مباہلہ ہرگز درست نہیں.مباہلہ میں دونوں فریق ایسے چاہئیں کہ در حقیقت یقینی طور پر جلد سوم

Page 206

حیات احمد ۲۰۳ جلد سوم ایک دوسرے کو مفتری سمجھیں اور وہ حسنِ ظن جو مومن پر ہوتا ہے ایک ذرہ ان کے در میان موجود نہ ہو.ورنہ اجتہادی اختلاف میں ہرگز مباہلہ جائز نہیں.اور اگر مباہلہ ہوگا تو ہرگز کوئی ثمرہ مترتب نہیں ہو گا.ناحق غیر مذہب والے ہنسی ٹھٹھا کریں گے.خدا تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کو ان کے اجتہادی اختلافات کی وجہ سے تہ تیغ کر دیوے اور دشمنوں کو ہنسا دے.پس میاں عبد الحق اور ان کے پوشیدہ انصار کو مناسب ہے کہ اگر مباہلہ کا شوق ہے تو سنت نبوی اور کلام رپ عزیز کا اقتدا کریں.قرآن کریم کے منشاء کے خلاف اگر مباہلہ ہو تو وہ ایمانی مباہلہ ہرگز نہیں.افغانی مباہلہ ہو تو ہو.اب میں ایک دفعہ پھر ان تمام مولوی صاحبان کو جنہیں پہلے اشتہار میں مخاطب کیا گیا تھا.إِثْمَامًا لِلْحُجَّة دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ اگر میرے دعاوی اور بیانات کی نسبت انہیں تر ڈر ہو تو حسب شرائط اشتہار سابقہ مجلس مباحثہ کی منعقد کر کے ان اوہام کا ازالہ کرالیں.ور نہ یاد رکھیں کہ یہ امر کمال معصیت کا موجب ہے کہ خود اپنے اوہام کے ازالہ کی فکر نہ کریں اور دوسروں کو ورطہ ہواوہام میں ڈالیں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى غزنوی جرگہ پر اتمام حجت المــشـــــــتــهر میرزا غلام احمد قادیانی ۱۲ / اپریل ۱۸۹۱ء مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۸۰ تا ۱۸۳ طبع بار دوم ) عبدالحق غزنوی کے مباہلہ کے اشتہار ہی کے سلسلہ میں آپ نے مناسب سمجھا کہ غزنوی جرگہ پر بھی اتمام حجت کر دیا جاوے اس وقت اس جرگہ کے رئیس مولوی عبدالجبار صاحب خلف اکبر حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی تھے.مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کو تو آپ کے متعلق الہامات ہوئے تھے اور آپ نے آپ کے مبعوث ہونے کی اور اپنی اولاد کے محروم رہ جانے کی

Page 207

حیات احمد ۲۰۴ جلد سوم پیشگوئی بھی کی تھی.بہر حال آپ نے مولوی عبد الجبار صاحب کو عبد الحق غزنوی کی دعوت مباہلہ کے سلسلہ میں حسب ذیل خط بطور اتمام حجت لکھا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ مقابلہ میں آیا.خط مرزا صاحب بنام مولوی عبد الجبار صاحب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مشفقی واخی مولوی عبدالجبار صاحب! السلام علیکم.ایک اشتہار جو عبدالحق کے نام سے جاری کیا گیا ہے جس میں مباہلہ کی درخواست کی ہے کل کی ڈاک میں مجھے ملا.چونکہ میں نہیں جانتا کہ عبدالحق کون ہے آیا کسی گروہ کا مقتدی یا مقتدا ہے.اس وجہ سے آپ ہی کی طرف خط ہذا لکھتا ہوں.اس خیال سے کہ میری رائے میں وہ آپ ہی کی جماعت میں سے ہے اور اشتہار بھی دراصل آپ ہی کی تحریک سے لکھا گیا ہوگا.پس واضح ہو کہ مباہلہ پر مجھے کسی طرح سے اعتراض نہیں.جس حالت میں میں نے اس مدعا کی غرض سے قریب بارہ ہزار کے خطوط و اشتہارات مختلف ملکوں میں بڑے بڑے مخالفوں کے نام روانہ کئے ہیں تو پھر آپ سے مباہلہ کرنے میں ، کون سی تأمل کی جگہ ہے.یہ بات سچ ہے کہ اللہ جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے.سو میں اسی الہام کی بناء پر اپنے تئیں وہ موعود مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں.مجھے اس بات سے انکار بھی نہیں کہ میرے سوا کوئی اور مثیل مسیح بھی آنے والا ہو.بلکہ ایک آنے والا تو خود میرے پر بھی ظاہر کیا گیا ہے.جو میری ہی ذریت میں سے ہو گا.لیکن اس جگہ میرا دعویٰ جو

Page 208

حیات احمد ۲۰۵ بذریعہ الہام مجھے یقینی طور پر سمجھایا گیا ہے صرف اتنا ہے کہ قرآن شریف اور حدیث میں میرے آنے کی خبر دی گئی ہے.میں اس سے ہرگز انکار نہیں کرسکتا اور نہ کروں گا که شاید مسیح موعود کوئی اور بھی ہوا اور شاید یہ پیشنگوئیاں جو میرے حق میں روحانی طور پر ہیں ظاہری طور پر اُس پر جمتی ہوں.اور شاید سچ مچ دمشق میں کوئی مثیل مسیح نازل ہو.لیکن یہ میرے پر کھول دیا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم جن پر انجیل نازل ہوئی تھی فوت ہو چکا ہے.اور بیٹی کی روح کے ساتھ اس کی روح دوسرے آسمان میں اور اپنے سماوی مرتبہ کے موافق بہشت بریں کی سیر کر رہی ہے.اب وہ روح بہشت سے بموجب وعدہ الہی کے جو بہشتیوں کے لئے قرآن شریف میں موجود ہے نکل نہیں سکتی.اور نہ دو موتیں اُن پر وارد ہو سکتی ہیں.ایک موت جو اُن پر وارد ہوئی وہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے.اور ہمارے اکثر مفسر بھی اس کے قائل ہیں.اور ابن عباس کی حدیث سے بھی اس کا ثبوت ظاہر ہے اور انجیل میں بھی لکھا ہے اور نیز توریت میں بھی.اب دوسری موت ان کے لئے تجویز کرنا خلاف نص وحدیث ہے.وجہ یہ کہ کسی جگہ ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دو مرتبہ مریں گے.یہ تو میرے الہامات اور مکاشفات کا خلاصہ ہے جو میرے رگ وریشہ میں رچا ہوا ہے اور ایسا ہی اس پر ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ کتاب اللہ پر اور اسی اقرار اور انہی لفظوں کے ساتھ میں مباہلہ بھی کروں گا.اور جو لوگ اپنے شیطانی اوہام کو ربانی الہام قرار دے کر مجھے جہنمی اور ضال قرار دیتے ہیں ایسا ہی اُن سے بھی اُن کے الہامات کے بارہ میں اللہ جل شانہ کی حلف لوں گا.کہاں تک انہیں اپنے الہامات کی یقینی معرفت حاصل ہے.مگر بہر حال مباہلہ کے لئے میں مستعد کھڑا ہوں.لیکن امور مفصلہ ذیل کا تصفیہ ہونا پہلے مقدم ہے.اول یہ کہ چند مولوی صاحبان نامی جیسے مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری بالا تفاق یہ فتویٰ جلد سوم

Page 209

حیات احمد ۲۰۶ لکھدیں کہ ایسی جزئیات خفیفہ میں اگر الہامی یا اجتہادی طور پر اختلاف واقع ہو تو اس کا فیصلہ بذریعہ لعن طعن کرنے اور ایک دوسرے کو بد دعا دینے کے،جس کا دوسرے لفظوں میں مباہلہ نام ہے کرنا جائز ہے.کیونکہ میرے خیال میں جزئی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کو لعنتوں کا نشانہ بنانا ہرگز جائز نہیں.کیونکہ ایسے اختلافات اصحابوں میں ہی شروع ہو گئے تھے.مثلاً حضرت ابن عباس محدث کی وحی کو نبی کی وحی کی طرح قطعی سمجھتے تھے اور دوسرے اُن کے مخالف تھے.ایسا ہی صاحب صحیح بخاری کا یہ عقیدہ تھا کہ کتب سابقہ یعنی توریت و انجیل وغیرہ محرف نہیں ہیں اور ان میں کچھ لفظی تحریف نہیں ہوئی.حالانکہ یہ عقیدہ اجماع مسلمین کے مخالف ہے اور با ایں ہمہ سخت مضر بھی ہے اور نیز بہ بداہت باطل.ایسا ہی محی الدین ابن عربی رئیس المتصوفین کا یہ عقیدہ ہے کہ فرعون دوزخی نہیں ہے نبوت کا سلسلہ بھی منقطع نہیں ہوگا اور کفار کے لئے عذاب جاودانی نہیں اور مذہب وحدت الوجود کے بھی گویا وہی موجد ہیں.پہلے ان سے کسی نے ایسی واشگاف کلام نہیں کی سو یہ چاروں عقیدے اُن کے، ایسا ہی اور بعض عقائد بھی اجماع کے برخلاف ہیں.اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی قَدَّسَ سِرُّہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اسماعیل ذبیح نہیں ہیں بلکہ اسحق ذبیح ہے.حالانکہ تمام مسلمانوں کا اسی پر اتفاق ہے کہ ذبیح اسماعیل ہے.اور عید الضحیٰ کے خطبہ میں اکثر ملا صاحبان رو رو کر انہیں کا حال سنایا کرتے ہیں.اسی طرح صد ہا اختلافات گزشتہ علماء و فضلاء کے اقوال میں پائے جاتے ہیں.اسی زمانہ میں بعض علماء مہدی موعود کے بارہ میں دوسرے علماء سے اختلاف رکھتے ہیں کہ وہ سب حدیثیں ضعیف ہیں غرض جزئیات کے جھگڑے ہمیشہ سے چلے آتے ہیں.مثلاً یزید پلید کی بیعت پر اکثر لوگوں کا اجماع ہو گیا تھا.مگر امام حسین رضی اللہ عنہ نے اور ان کی جماعت نے اس اجماع کو قبول نہیں کیا اور اس سے باہر رہے اور بقول میاں عبدالحق اکیلے رہے.حالانکہ جلد سوم

Page 210

حیات احمد ۲۰۷ حدیث صحیح میں گوخلیفہ وقت فاسق ہی ہو بیعت کر لینی چاہئے اور تخلف معصیت ہے پھر انہیں حدیثوں پر نظر ڈال کر دیکھو جو مسیح کی پیشگوئی کے بارہ میں ہیں کہ کس قدر اختلافات سے بھری ہوئی ہیں.مثلاً صاحب بخاری نے دمشق کی حدیث کو نہیں لیا اور اپنے سکوت سے ظاہر کر دیا کہ اس کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں ہے.اور ابن ماجہ نے بجائے دمشق کے بیت المقدس لکھا ہے اور اب حاصل کلام یہ ہے کہ ان بزرگوں نے باوجود ان اختلافات کثیرہ کے ایک دوسرے سے مباہلہ کی درخواست ہر گز نہیں کی اور ہرگز روا نہیں رکھا کہ ایک دوسرے پر لعنت کریں بلکہ بجائے لعنت کے یہ حدیث سناتے رہے کہ اِخْتِلَافُ أُمَّتِی رَحْمَةٌ.اب یہ نئی بات نکلی ہے کہ ایسے اختلافات کے وقت میں ایک دوسرے پر لعنت کریں اور بددعا اور گالی اور دُشنام کر کے فیصلہ کرنا چاہیں.ہاں اگر کسی ایک شخص پر سراسر تہمت کی راہ سے کسی فسق اور معصیت کا الزام لگایا جاوے.جیسا کہ مولوی اسماعیل صاحب سا کن علی گڑھ نے اس عاجز پر لگایا تھا کہ نجوم سے کام لیتے ہیں اور اس کا نام الہام رکھتے ہیں تو مظلوم کو حق پہنچتا ہے کہ مباہلہ کی درخواست کرے.مگر جزئی اختلافات میں جو ہمیشہ سے علماء وفقراء میں واقع ہوتے رہتے ہیں مباہلہ کی درخواست کرنا یہ غزنوی بزرگوں کا ہی ایجاد ہے.لیکن اگر علماء ایسے مباہلہ کا فتویٰ دیں تو ہمیں عذر بھی کچھ نہیں کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اس مُلاعنہ کے طریق سے جس کا نام مباہلہ ہے اجتناب کریں تو یہی اجتناب ہمارے گریز کی وجہ سمجھی جائے اور حضرات غزنوی خوش ہو کر کوئی دوسرا اشتہار عبدالحق کے نام سے چھپوا دیں اور لکھ دیں کہ مباہلہ قبول نہیں کیا اور بھاگ گئے.لیکن دوسری طرف ہمیں یہ بھی خوف ہے کہ اگر ہم مسلمانوں پر خلاف حکم شرع اور طریق فقر کے لعنت کرنے کے لئے امرتسر پہنچیں تو مولوی صاحبان ہم پر یہ اعتراض کر دیں کہ مسلمانوں پر کیوں لعنتیں کیں اور ان حدیثوں سے کیوں تجاوز کیا جو مومن لعان نہیں جلد سوم

Page 211

حیات احمد ۲۰۸ ہوتا اور اس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہتے ہیں.سو پہلے یہ ضروری ہے کہ فتویٰ لکھا جاوے اور اس فتوے پر ان تینوں مولوی صاحبان کے دستخط ہوں جن کا ذکر میں لکھ چکا ہوں.جس وقت وہ استفتاء مصدقہ بمواہیر علماء میرے پاس پہنچے تو پھر حضرات غزنوی مجھے امرتسر پہنچا سمجھ لیں.ماسوا اس کے یہ بھی دریافت طلب ہے کہ مباہلہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں منجانب اللہ تجویز کیا گیا تھا وہ کفار نصاری کی ایک جماعت کے ساتھ تھا جو نجران کے معزز اور مشہور نصرانی تھے.اس سے معلوم ہوا کہ مباہلہ جو ایک مسنون امر ہے اس میں ایک فریق کا کا فریا ظالم کس کو خیال کیا گیا ہے اور نیز یہ بھی دریافت طلب ہے کہ جیسا کہ نجران کے نصارے کی ایک جماعت تھی.آپ کی کوئی جماعت ہے یا صرف اکیلے میاں عبدالحق صاحب قلم چلا رہے ہیں؟ تیسرا یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اس اشتہار کے لکھنے والے در حقیقت کوئی صاحب آپ کی جماعت میں سے ہیں جن کا نام عبدالحق ہے یا یہ فرضی نام ہے.اور یہ بھی دریافت طلب ہے کہ آپ بھی مباہلین کے گروہ میں داخل ہیں یا کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں.اگر داخل نہیں تو کیا وجہ؟ اور پھر وہ کونسی جماعت ہے جن کے ساتھ نِسَاء و ابْنَاء وَ اِخْوَان بھی ہوں گے.جیسا کہ منشاء آیت کا ہے.ان تمام امور کا جواب بوالپسی ڈاک ارسال فرما دیں اور نیز یہ سارا خط میاں عبدالحق کو بھی حرف بحرف سُنا دیں.اور میاں عبدالحق نے اپنے الہام میں جو مجھے جہنمی اور ناری لکھا ہے اس کے جواب میں مجھے کچھ ضرورت لکھنے کی نہیں ہے کیونکہ مباہلہ کے بعد خود ثابت ہو جائے گا کہ اس خطاب کا مصداق کون ہے.لیکن جہاں تک ہو سکے آپ مباہلہ کے لئے کاغذ استفتاء تیار کر کے مولوی صاحبین موصوفین کی مواہیر ثبت ہونے کے بعد وہ کاغذ میرے پاس بھیج دیں اگر اس میں کچھ توقف کریں گے یا میاں عبد الحق چپ کر کے بیٹھ جائیں گے تو گریز پر حمل کیا جائے گا.اور واضح رہے کہ اس خط کی جلد سوم

Page 212

حیات احمد ۲۰۹ جلد سوم چار نکلیں چار اخبار میں اور نیز رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دی جائیں گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى الراق خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور.یکم رجب ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۱ار فروری ۱۸۹۱ء مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۴۲۴ تا ۴۲۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء - بحوالہ الفضل ۹ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳ تا ۵ ) ایک غلطی کی اصطلاح مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے مجد داعظم کی پہلی جلد کے ص ۲۶۸ پر لکھا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب کے لودھانہ سے اخراج کے سلسلہ میں حضرت اقدس بھی امرتسر چلے گئے تھے جہاں تک میری تحقیقات مدد دیتی ہے حضرت اقدس نے لودھانہ کو چھوڑ نہیں تھا جیسا کہ اُس خط سے بھی معلوم ہوتا ہے جو اوپر میں ڈپٹی کمشنر لو دھانہ کا درج کر آیا ہوں.جو حضرت کے مکتوب مورخہ ۵/ اگست کا جواب ہے.گویا ۵/ اگست تک تو حضرت اقدس لودھانہ میں ہی مقیم تھے.۳۱ جولائی ۱۸۹۱ء کو تو مباحثہ ہی ختم ہوا تھا.اس امر کی تائید مزید اس بیان سے بھی ہوتی ہے.جو حضرت میر عنایت علی صاحب نے دیا ہے اور جو سیرت المہدی جلد دوم کے ص ۱۴۵ روایت نمبر ۴۵۸ میں چھپا ہے.میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس معہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور غلام قادر صاحب فصیح لدھیانہ محلہ اقبال گنج میں تشریف رکھتے تھے.دعویٰ مسیحیت ہوچکا تھا اور مخالفت کا زور تھا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضور کے مقابلہ میں آ کر شکست کھا چکا تھا.غرض لدھیانہ میں ایک شورش ہو رہی تھی اور محرم بھی غالباً قریب تھا.اس پر لدھیانہ کے ڈپٹی

Page 213

حیات احمد ۲۱۰ کمشنر کو اندیشہ ہوا کہ کہیں لدھیانہ میں مولویوں کی وجہ سے فساد نہ ہو جاوے.ان کو لدھیانہ سے رخصت کر دینے کا حکم دیا اور اس کام کے لئے ڈپٹی کمشنر نے ڈپٹی دلاور علی صاحب اور کریم بخش صاحب تھانہ دار کو مقرر کیا.ان لوگوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سنا کر لدھیانہ سے رخصت کر دیا.اور پھر وہ حضرت صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور سڑک پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی حضرت صاحب نے ان کو فوراً مکان میں بلا لیا اور ہم لوگوں کو حضرت صاحب نے فرما دیا کہ آپ ذرا باہر چلے جائیں.چنانچہ ڈپٹی صاحب وغیرہ نے حضرت صاحب کے ساتھ کوئی آدھ گھنٹہ ملاقات کی اور پھر واپس چلے گئے.ہم نے اندر جا کر حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ یہ لوگ کیوں آئے تھے؟ جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کا ایک پیغام لائے تھے کہ لدھیانہ میں فساد کا اندیشہ ہے بہتر ہے کہ آپ کچھ عرصہ کے لئے یہاں سے تشریف لے جائیں.حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا کہ اب یہاں ہمارا کوئی کام نہیں ہے اور ہم جانے کو تیار ہیں لیکن سردست ہم سفر نہیں کر سکتے کیونکہ بچوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے.انہوں نے کہا کہ خیر کوئی بات نہیں ہم ڈپٹی کمشنر سے کہہ دیں گے اور ہمیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق تھا سوشکر ہے کہ اس بہانہ سے زیارت ہو گئی.اس کے بعد حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے اور ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھ کر لائے جس میں اپنے خاندانی حالات اور اپنی تعلیم وغیرہ کا ذکر فرمایا اور بعض خاندانی چٹھیات کی نقل بھی ساتھ لگا دی.اس چٹھی کا غلام قادر صاحب فصیح نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور پھر اُسے ڈپٹی کمشنر صاحب کے نام ارسال کر دیا گیا.وہاں سے جواب آیا کہ آپ کے لئے کوئی ایسا حکم نہیں ہے.آپ بے شک لدھیانہ میں ٹھہر سکتے ہیں جس پر مولوی محمد حسین صاحب نے لاہور جا کر بڑا شور برپا کیا کہ مجھے تو نکال دیا گیا ہے اور مرزا صاحب جلد سوم

Page 214

حیات احمد ۲۱۱ جلد سوم کو اجازت دی گئی ہے.مگر کسی حاکم کے پاس اس کی شنوائی نہیں ہوئی.اس کے بعد دیر تک حضرت صاحب لدھیانہ میں رہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے سنا ہوا ہے کہ اس موقعہ پر حضرت صاحب احتیاطاً امرتسر چلے آئے تھے اور امرتسر میں آپ کو ڈپٹی کمشنر کی چٹھی ملی تھی جس پر آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ.ان دونوں روایتوں میں سے کون سی درست ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ٹھیک ہوں.یعنی حضرت صاحب ڈپٹی دلاور علی صاحب وغیرہ کی ملاقات کے بعد احتیاطاً امرتسر چلے آئے ہوں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈپٹی دلاور علی صاحب وغیرہ کو ڈپٹی کمشنر کے حکم سے متعلق غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی اور ڈپٹی کمشنر کا منشاء صرف مولوی محمد حسین صاحب کے رخصت کئے جانے کے متعلق تھا چنانچہ ڈپٹی کمشنر کے جواب سے جو دوسری جگہ نقل کیا جا چکا ہے.پتہ لگتا ہے کہ اس نے کبھی بھی حضرت صاحب کے متعلق ایسے خیال کا اظہار نہیں کیا.وَاللَّهُ أَعْلَمُ.“ (سیرت المہدی جلد ا روایت نمبر ۴۶۱ صفحه ۴۳۷ تا ۴۳۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء) توضیحی نوٹ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے (جیسا کہ ان کے نوٹ سے معلوم ہوتا ہے ) دونوں روایتوں کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا.مگر حقیقت یہ ہے کہ حضرت میر عنایت علی صاحب کا بیان صحیح ہے اس وقت حضرت اقدس امرتسر نہیں آئے.حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بیان امرتسر آنا اور لدھیانہ جانا ) اپنے مفہوم اور واقعہ کے لحاظ سے صحیح ہے.مگر یہ اس مباحثہ لودھانہ کے ضمن میں صحیح نہیں معلوم ہوتا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عمر اس وقت اڑھائی سال کے قریب تھی.اس لئے آپ نے امرتسر سے لدھیانہ جانا تو خوب یاد رکھا.اور یہ واقعہ اوائل جولائی ۱۸۹۱ء کا ہے جس کے متعلق مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ اشاعة السنه جلد ۴ نمبر۲ کے صفحہ ۵۴ پر ذکر کیا ہے.

Page 215

حیات احمد ۲۱۲ جلد سوم وو ” جب آپ اوائل ماہ جولائی ۱۸۹۱ء میں امرتسر پہنچے اور وہاں کے بعض معزز رؤسا نے آپ کو خاکسار سے مباحثہ کرنے پر مجبور کیا تو آپ نے اپنے خط اسمی مولوی احمد اللہ صاحب و خاکسار مورخہ ۷ار جولائی ۱۸۹۱ء میں یہ شرطیں پیش کیں.“ یہ ایک واضح ثبوت اس امر کا ہے کہ آپ کا یہ سفر امرتسر لودھانہ جانے کے سفر کا آغاز اور پہلی منزل تھا پس حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا بیان اپنی جگہ صحیح ہے وہ اس واقعہ سے متعلق ہے اور حضرت میر عنایت علی صاحب کا بیان اپنی جگہ درست ہے اور وہ دوسرے واقعہ مباحثہ سے متعلق ہے.عیسائیوں پر اتمام حجت آپ کی بعثت کا بڑا مقصد تو يَكْسِرُ الصَّلِيْب تھا اور لودھانہ پنجاب میں عیسائیت کا بہت بڑا گڑھ تھا.نور افشاں اخبار وقتاً فوقتاً اسلام پر حملے کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا تھا اور حضرت اقدس ہمیشہ نور افشانی کے ایسے مضامین کا جواب دینا ضروری سمجھتے تھے.جیسا کہ آپ کی تحریروں سے ظاہر ہے کہ اس وقت لودھانہ میں آپ کے طویل قیام میں عیسائی اس بات سے خوش تھے کہ حاشیہ.موقع کی مناسبت کے لحاظ سے میں اپنے ایک ذوقی واقعہ کو بھی درج کر دینا ضروری سمجھتا ہوں مجھے عیسائیوں سے مباحثات کرنے کا شوق تھا.اور میری فرصت کا وقت اس شغل میں گزرتا تھا.مرحوم شیخ الہ دتا صاحب جلد ساز جورڈ نصاری میں ید طولیٰ رکھتے تھے.اس فن میں میرے استاد تھے.میں نور افشاں با قاعدہ پڑھتا اور عیسائی واعظین سے چوڑا بازار کے چیپل میں روزانہ مباحثات کرتا.حضرت مولوی ابو البقاء اور آپ کے بردار مکرم حضرت مولوی محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ سے انہی ایام میں شناسائی ہوئی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعد میں اخوت صحیحہ کے رنگ میں تبدیل ہو گئی.نور افشاں اور عیسائیت کے خلاف میں منشور محمدی اور ریاض ہند امرتسر میں مضمون بھی لکھتا تھا پادری سی پی نیوٹن جو نور افشاں کے ڈائریکٹر اور لودھانہ مشن کے انچارج تھے انہوں نے میرے خلاف ، کو توالی میں نقص امن کی رپورٹ کی کہ یہ ہمارے وعظ میں آ کر ہنگامہ کرتا ہے.مجھے بلایا گیا اور دریافت کیا گیا تو میں نے کہا یہ باجا بجا کر گیت گا کر لوگوں کو جمع کرتے ہیں.جلسہ عام ہوتا ہے لوگ سوال

Page 216

حیات احمد ۲۱۳ جلد سوم حضرت کو مخالف الرائے علماء نے اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے اور آئے دن مخالفانہ تقریریں اور اشتہار نکلتے ہیں.مگر حضرت اقدس تو من آن نیم کہ تغافل ز کار خود بکنم “ کے صحیح مصداق تھے.آپ نے عیسائیوں پر اتمام حجت کرنے کے لئے ایک اعلان شائع کیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَامِدًا وَمُصَلِّيًا اشتہار بمقابل پادری صاحبان ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَإِنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَالَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا さ هُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ خدا تعالیٰ ان آیات مندرجہ عنوان میں حضرت مسیح ابن مریم اور ان تمام انسانوں کو جو محض باطل اور ناحق کے طور پر معبود قرار دیئے گئے تھے مار چکا.در حقیقت بقیہ حاشیہ.جواب کرتے ہیں اور میں بھی ان کے مذہب کے متعلق سوال کرتا ہوں یہ اس کو بند کر دیں آپ ہی لوگ رک جاویں گے افسر متعینہ میرے اس جواب پر بے اختیار ہنس پڑا.اور پادری صاحب سے کہا جب آپ لوگوں کو بلاتے ہیں تو ہر شخص جا سکتا ہے ہم کسی کو روک نہیں سکتے.بہر حال نور افشاں کا ایک ایڈیٹرحسن علی سفیر نامی آیا.وہ ایک ، ساٹھ سال کے قریب کا خوش بیان شاعر اور محرر تھا.اس کے متعلق ایک مضمون منشور محمدی میں شائع ہوا.میں وہ پرچہ لے کر اُن کے پاس گیا اور پوچھا جس سفیر صاحب کا ذکر اس میں ہے وہ آپ ہیں یا کوئی دوسرا ہے وہ بہت محجوب ہوئے اور کہا.” صاحبزادہ آپ کو اخبار پڑھنے کا شوق ہے.یہاں میرے پاس بہت اخبار آتے ہیں لے جایا کریں.اس طرح پر ان سے بے تکلفی ہو گئی اور میں نے ایک سوال ان کو شائع کرنے کے لئے دیا کہ کیا تو حید ماننے والوں کی نجات ہوگی یا نہیں؟ اگر نہیں تو پہلی امتوں کا کیا حال جو تو حید کے قائل تھے اور اگر ہو لى المائدة : ۸۳ - الصفت : ۳۶ ۳ سورة النحل: ۲۲،۲۱

Page 217

حیات احمد ۲۱۴ جلد سوم یہ ایک ہی دلیل مخلوق پرستوں کے ابطال کے لئے کروڑ دلیل سے بڑھ کر ہے کہ جن بزرگوں اور لوگوں کو وہ خدا بنائے بیٹھے ہیں وہ فوت ہو چکے ہیں اور اب وہ فوت شدہ ہیں زندہ نہیں ہیں.اگر وہ خدا ہوتے تو ان پر موت وارد نہ ہوتی یقینا سمجھنا چاہئے کہ وہ لوگ جو ایک عاجز انسان کو الہ العالمین قرار دیتے ہیں وہ صرف ایک ہی ثبوت ہم سے مانگتے ہیں کہ ہم ان کے اس معبود کا مردہ ہونا اور اموات میں داخل ہونا ثابت کر دیں.کیونکہ کوئی دانا مردہ کو خدا بنا نہیں سکتا.اور تمام عیسائی بالا تفاق اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص حضرت مسیح ابن مریم کا مرکز پھر مردہ رہنا ثابت کر دے تو ہم یکلخت عیسائی مذہب کو چھوڑ دیں گے، لیکن افسوس کہ ہمارے گزشتہ علماء نے عیسائیوں کے مقابل پر کبھی اس طرف توجہ نہ کی حالانکہ اس ایک ہی بحث میں تمام بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے.دنیا میں ایسا نادان کون ہے کہ کسی مردہ کا نام اله الْعَالَمِيْن رکھے.اور جو مر چکا ہے اس میں حَيٌّ لَا يَمُوت کی صفات قائم کرے.عیسائی مذہب کا ستون جس کی پناہ میں انگلستان اور جرمن اور فرانس اور امریکہ اور روس وغیرہ کے عیسائی رَبُّنَا الْمَسِیح کہہ رہے ہیں.صرف ایک ہی بات ہے اور وہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے مسلمانوں اور عیسائیوں نے برخلاف کتاب الہی یہ خیال کر لیا ہے که صیح آسمان پر مدت دراز سے بقید حیات چلا آتا ہے.اور کچھ شک نہیں کہ اگر یہ بقیہ حاشیہ.گی تو تثلیت کا ماننا غیر ضروری ٹھہرا.یہ سوال تو شائع ہو گیا.مگر اس پر ایک بحث سلسلہ اخبار میں شروع ہو گیا.رحمت مسیح واعظ فارو والی نے ایک رسالہ مبشر نکالا تھا.اس میں الحق کندی کے مضامین شروع کئے تھے.اور ان میں توحید پر بحث تھی.پس انہوں نے سوال پر سوال کیا کہ توحید کس قسم کی آپ مانتے ہیں.میرا جواب شائع ہوا.پھر پادری جوالا سنگھ کو دیئے.آخر پادری نیوٹن نے منشی حسن علی سفیر پر زور ڈال کر اس سلسلہ کو بند کرا دیا.پادری طالب اور پادری غلام مسیح انہیں ایام میں عیسائی ہوئے تھے اور میں اُن سے بھی گفتگو کرتا تھا.غرض یہ ایک لمبا سلسلہ ہے پھر کبھی بیان کروں گا.یہاں ذکر نورافشاں کی وجہ سے کر دیا.

Page 218

حیات احمد ۲۱۵ ستون ٹوٹ جائے تو اس خیال باطل کے دور ہو جانے سے صفحہ ء دنیا یکلخت مخلوق پرستی سے پاک ہو جائے.اور تمام یورپ اور ایشیا اور امریکہ ایک ہی مذہب توحید میں داخل ہو کر بھائیوں کی طرح زندگی بسر کریں لیکن میں نے حال کے مسلمان مولویوں کو خوب آزما لیا وہ اس ستون کے ٹوٹ جانے سے سخت ناراض ہیں اور در پردہ مخلوق پرستی کے مؤید ہیں.میں نے ان کو خدا تعالیٰ کا حکم سنا دیا لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا.اب میں اس دعوت کو لے کر اس ہد یہ طیبہ کے پیش کرنے کی غرض سے عیسائی صاحبوں کی طرف رُخ کرتا ہوں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جس سختی سے مسلمانوں نے میرے ساتھ برتاؤ کیا وہ نہیں کریں گے.کیونکہ ان میں وہ تہذیب ہے جو عدل گستر گورنمنٹ برطانیہ نے اپنے قوانین کے ذریعہ سے مہذب لوگوں کو سکھلائی ہے.اور ان میں وہ ادب ہے جو ایک باوقار سوسائٹی نے نمایاں آثار کے ساتھ دلوں میں قائم کیا ہے.سو مجھے اللہ جل شانہ کا شکر کرنا چاہئے اور بعد اس کے اس مصدر فیض گورنمنٹ کا بھی جس کے ظل حمایت میں ہم خوشی اور آزادی کے ساتھ گورنمنٹ کی ایسی رعیت کے ساتھ بھی مذہبی بحث کر سکتے ہیں اور خود پادری صاحبان خلق اور بردباری اور رفق اور نرمی میں ہمارے ان مولوی صاحبوں سے ایسی سبقت لے گئے ہیں کہ ہمیں موازنہ کرتے وقت شرمندہ ہونا پڑتا ہے.اور ہمیشہ اپنے ان مولویوں سے بحث کے وقت یہی خطرہ اور دھڑ کا رہتا ہے کہ بات کرتے وقت کہیں لاٹھی بھی نہ چلا دیں.مگر میرے اس قول سے وہ شریف لوگ مستثنی ہیں جن کے سینوں میں خدا تعالیٰ نے صفائی بخشی ہے، لیکن اکثر تو ایسے ہی ہیں جن پر صِفَاتِ سَبْعِيَّه غالب ہیں.میں اس شہر میں قریباً ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب کوئی مسلمان مخالف ملنے کے لئے آتا ہے تو اس کے چہرہ پر ایک درندگی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں.گو یا خون ٹپکتا ہے.ہر دم غصہ سے نیلا پیلا ہوتا جاتا ہے.سخت اشتعال جلد سوم

Page 219

حیات احمد ۲۱۶ جلد سوم کی وجہ سے زبان میں لکنت بھی ہوتی ہے لیکن جب کوئی عیسائی ملتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا غضبی قوت بالکل اس سے مسلوب ہے نرمی سے کلام کرتا ہے اور بردباری سے بولتا ہے.لہذا مجھے ان لوگوں پر نہایت ہی رحم آیا.ہمارا ان لوگوں سے جھگڑا ہی کیا ہے فقط ایک مسیح کے زندہ نہ ہونے کا.ایک ذرہ سی بات ہے جس کے طے ہونے سے یہ لوگ بھائیوں کی طرح ہم سے آ ملیں گے اور یورپ اور ایشیا میں اسلام ہی اسلام ہو جائے گا.لہذا میں نہایت ادب اور عاجزی سے پادری صاحبوں کی خدمت میں یہ ہد یہ اشتہار روانہ کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکے ہیں.اور اس قدر ثبوت میرے پاس ہیں کہ کسی منصف کو بجز ماننے کے چارہ نہیں.سو میں امید کرتا ہوں کہ پادری صاحبان اس بارہ میں مجھ سے گفتگو کر کے میرے نافہم بھائیوں کو اس سے فائدہ پہنچاویں.میں یقین رکھتا ہوں کہ پادری صاحبان کی گفتگو اظہار حق کے لئے نہایت مفید ہوگی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ــهر مرزا غلام احمد قادیانی.لودیانہ ۲۰ مئی ۱۸۹۱ء دبد به اقبال ربّی پریس لود یا نه علمائے اسلام پر ایک دائمی اتمام حجت ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۸۸ تا ۲۰۰ طبع بار دوم ) حضرت مسیح موعود کی بعثت میں پہلا کام گسر صلیب کا تھا.اور اس سے پہلے یہ مراد نہ تھی کہ وہ لکڑی کی بنائی ہوئی صلیبوں کو پاش پاش کرتا پھرے گا بلکہ اس کے پیچھے یہ حقیقت تھی کہ عیسائی مذہب کی بنیاد جو صلیب پر قائم ہے اُسے پاش پاش کرے گا.صلیب پر عیسائی مذہب کی بنیاد کا یہ راز ہے کہ حضرت مسیح کی صلیبی موت کو وہ اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں.اور قرآنِ مجید نے اس

Page 220

حیات احمد ۲۱۷ جلد سوم حقیقت کو بیان کر دیا تھا کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا لیکن یہ راز مخفی رہا جب تک وہ وجود ظاہر نہ ہوا جس کے لئے مقد رتھا کہ وہ صلیب کو پاش پاش کرے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) کو جس الہام کی بناء پر مثیل مسیح فرمایا گیا اسی میں مسیح ابن مریم کی وفات کا بھی ذکر آیا جیسا کہ قارئین کرام پڑھ چکے ہیں.اور اسی لئے حضرت مسیح موعود اپنے دعوئی میسحیت کی بنیاد وفات مسیح کے مسئلہ پر رکھتے تھے اور اس مسئلہ پر مباحثہ کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی تھی.لودھانہ کے مباحثہ میں بھی مولوی محمد حسین اس طرف نہ آئے اور آپ نے ازالہ اوہام میں قرآن کریم کی تنیس آیات سے وفات مسیح کو ثابت کیا مگر اسی پر اکتفا نہ کر کے آپ نے ایک علمی چیلنج مخالف الرائے علمائے اسلام کے سامنے پیش کیا اور اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی پیش کیا.یہ چیلنج لفظ توفی کے متعلق ہے.توقی کے متعلق چیلنج اس چیلنج پر ساٹھ سال سے زیادہ گزرتے ہیں اور تمام عالم اسلامی میں کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اس کو قبول کرتا اور جواب دیتا.اور وہ چیلنج یہ ہے.توفی کے لفظ کی نسبت اور نیز الہ قال کے بارے میں ہزار روپے کا اشتہار تمام مسلمانوں پر واضح ہو کہ کمال صفات سے قرآن کریم اور حدیث رسول اللہ السلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو گیا ہے کہ در حقیقت حضرت مسیح ابن مریم علیہا برطبق آیت قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ * زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسر کر کے فوت ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی سولہ آیتوں اور بہت سی حدیثوں بخاری اور مسلم اور دیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر آباد ہونے اور بسنے کے لئے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اور نہ حقیقی اور واقعی طور الاعراف : ٢٦

Page 221

حیات احمد ۲۱۸ پر دو موتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اور نہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لئے کوئی قانونِ وراثت موجود ہے.بایں ہمہ بعض علماء وقت کو اس بات پر سخت غلو ہے که مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور حیات جسمانی دنیوی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے.اور نہایت بیبا کی اور شوخی کی راہ سے کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے وفات دینا نہیں ہے بلکہ پورا لینا ہے یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا.مگر ایسے معنے کرنا اُن کا سراسر افترا ہے.قرآن کریم کا عموماً التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارے میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دے دینے کے معنوں پر ہر یک جگہ اس کو استعمال کرتا ہے.یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا ہے.جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو بلکہ جہاں کہیں تو قی کے لفظ کو خدائے تعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں، کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں.کوئی مثل اور قول اہلِ زبان کا اس کے مغائر نہیں.غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کی گنجائش نہیں.اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے یا اشعار و قصائد و نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جَلَّ شَانُہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ جلد سوم

Page 222

حیات احمد ۲۱۹ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کے کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کر لوں گا.ایسا ہی اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا اُن کا کوئی ہم خیال یہ ثابت کر دیوے کہ الدَّجال کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں آیا ہے.بجز دجال معہود کے کسی اور دقبال کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے تو مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں ایسے شخص کو بھی جس طرح ممکن ہو ہزار روپیہ نقد بطور تاوان کے دوں گا.چاہیں تو مجھ سے رجسٹری کرا لیں یا تمسک لکھا لیں.اس اشتہار کے مخاطب خاص طور پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں جنہوں نے غرور اور تکبر کی راہ سے یہ دعوی کیا ہے کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنی پورا لینے کے ہیں یعنی جسم اور روح کو بہ ہیئت کذائی زندہ ہی اٹھا لینا اور وجود مرکب جسم اور روح میں سے کوئی حصہ متروک نہ چھوڑ نا بلکہ سب کو بہ حیثیت کذائی اپنے قبضہ میں زندہ اور صحیح سلامت لے لینا.سو اس معنے سے انکار کر کے یہ شرطی اشتہار ہے.ایسا ہی محض نفسانیت اور علوم واقفیت کی راہ سے مولوی محمد حسین صاحب ن الدجال کے لفظ کی نسبت جو بخاری اور مسلم میں جابجا دجال معہود کا ایک نام ٹھہرایا گیا ہے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ الدَّجال ، دجال معہود کا خاص طور پر نام نہیں بلکہ ان کتابوں میں یہ لفظ دوسرے دجالوں کے لئے بھی مستعمل ہے اور اس دعوی کے وقت اپنی حدیث دانی کا بھی ایک لمبا چوڑا دعویٰ کیا ہے.سو اس وسیع معنى الدجال سے انکار کر کے اور یہ دعویٰ کر کے کہ یہ لفظ الدجال کا صرف دجال معہود کے لئے آیا ہے اور بطور علم کے اس کے لئے مقرر ہو گیا ہے یہ شرطی اشتہار جاری کیا گیا ہے.مولوی محمد حسین صاحب اور اُن کے ہم خیال علماء نے لفظ تــو فــی اور الدجال کی نسبت اپنے دعوی متذکرہ بالا کو بپایہ ثبوت پہنچا دیا تو وہ ہزار روپیہ لینے کے مستحق ٹھہریں گے اور نیز عام طور پر یہ عاجز یہ اقرار بھی چند اخباروں میں شائع کر دے گا کہ جلد سوم

Page 223

حیات احمد جلد سوم در حقیقت مولوی محمد حسین صاحب اور اُن کے ہم خیال فاضل اور واقعی طور پر محدث اور مفسر اور رموز اور دقائق قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ کے سمجھنے والے ہیں.اگر ثابت نہ کر سکے تو پھر یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ لوگ دقائق و حقائق بلکہ سطحی معنوں قرآن اور حدیث کے سمجھنے سے بھی قاصر اور سراسر غبی اور بلید ہیں.اور ور پر وہ اللہ اور رسول کے دشمن ہیں کہ محض الحاد کی راہ سے واقعی اور حقیقی معنوں کو ترک کر کے اپنے گھر کے ایک نئے معنے گھڑتے ہیں.ایسا ہی اگر کوئی یہ ثابت کر دکھاوے که قرآن کریم کی وہ آیتیں اور احادیث جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کوئی مردہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا.قطعی الدلالت نہیں اور نیز بجائے لفظ موت اور امانت کے جو متعدد المعنیٰ ہے اور نیند اور بے ہوشی اور کفر اور ضلالت اور قریب الموت ہونے کے معنوں میں بھی آیا ہے توفی کا لفظ کہیں دکھاوے مثلاً یہ کہ تَوَفَّاهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ تو ایسے شخص کو بھی بلا توقف ہزار روپیہ نقد دیا جاوے گا.اس مباحثہ کے ثمرات تهر خاکسار غلام احمد از لودھیانہ محلہ اقبال گنج ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۲۰۵ تا ۵۰۷ - طبع بار دوم ) مباحثہ کی کامیابی یا ناکامی کا ایک بین ثبوت اُس کے ثمرات بھی ہوتے ہیں اس مباحثہ کے بعد لوگوں کا رجوع حضرت کی طرف ہونے لگا.اور ان میں وہ لوگ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جو مولوی محمد حسین صاحب کے ہم مذہب تھے یعنی اہلحدیث اور ان کے یا مولوی محمد حسن صاحب رئیس لودھانہ کے زیر اثر تھے.ان میں سب سے نمایاں شخصیت حضرت میر ناصر نواب صاحب کی تھی جن کے ساتھ حضرت اقدس کے میری تعلقات تھے اور جس خاندان کی عظمت خدا تعالیٰ کی

Page 224

حیات احمد ۲۲۱ جلد سوم وحی سے ظاہر ہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب نہ صرف یہ کہ اہل حدیث تھے بلکہ مولوی محمدحسین صاحب کے بھائی شیخ محمد علی صاحب (المعروف علی بخش ) کے شاگرد بھی تھے چونکہ نہایت صاف باطن اور حنیف مسلم تھے جب تک حضرت صاحب کے دعاوی کی سمجھ نہ آئی اور مولوی محمد حسین صاحب کے زیر اثر تھے.مخالفت بھی کرتے رہے.اور مولوی محمد حسین صاحب بڑے فخر سے ان کے مخالفانہ کلام کو شائع کرتے رہے اس مباحثہ کے بعد ان پر حقیقت کھل گئی اور وہ سلسلہ میں تو بہ کر کے داخل ہو گئے خود ان کا اپنا بیان سن لیجئے.اع إنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ـلان جو کہ یہ عاجز عرصہ تین سال سے عزیزم میرزا غلام احمد صاحب پر بدگمان تھا.لہذا وقتاً فوقتاً نفس و شیطان نے خدا جانے کیا کیا اُن کے حق میں مجھ سے کہلوایا.جس پر آج مجھ کو افسوس ہے اگر چہ اس عرصہ میں کئی بار میرے دل نے مجھے شرمندہ بھی کیا لیکن اس کے اظہار کا یہ وقت مقدر تھا.باعث اس تحریر کا یہ ہے کہ ایک شخص نے مرزا صاحب کو خط لکھا کہ میں تم سے موافقت کیونکر کروں تمہارے رشتہ دار ( یعنی یہ عاجز ) تم سے برگشتہ و بدگمان ہیں اس کو سن کر مجھے سخت ندامت ہوئی اور ڈرا کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں اپنے گناہوں کے علاوہ دوسروں کے نہ ماننے کے وبال میں پکڑا جاؤں لہذا یہ اشتہار دے کر میں بری الذمہ ہوتا ہوں.میں نے جو کچھ مرزا صاحب کو فقط اپنی غلط فہمیوں کے سبب سے کہا نہایت بُرا کیا.اب میں تو بہ کرتا ہوں اور اس تو بہ کا اعلان اس لئے دیتا ہوں کہ میری پیروی کے سبب سے کوئی وبال میں نہ پڑے اب سب لوگ جان لیں کہ مجھے کسی طرح کی بدگمانی میرزا صاحب پر نہیں.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ.اس سے بعد اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر کو چھپوا دے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو میں عند اللہ بری ہوں.اور اگر کبھی البقرة: ٢٢٣

Page 225

حیات احمد ۲۲۲ جلد سوم میں نے میرزا صاحب کی شکایت کی یا کسی دوست سے آپ کی نسبت کچھ کہا ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں معافی مانگتا ہوں.المعلـ میر ناصر نواب نقشه نو لیس دہلوی حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی کی بیعت حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی ایک مسلم فاضل علوم عقلیہ و نقلیہ تھے خوشاب ضلع جہلم کے باشندے تھے.باوجود اپنے علم و فضل کے اللہ تعالیٰ نے انہیں قلب سلیم عطا فرمایا تھا.انہیں ایام میں وہ لو دھانہ آئے ہوئے تھے جبکہ مخالفت خوب زوروں پر تھی اور وہ علماء لودھانہ کے جوش مخالفت کو دیکھ کر خود بھی اس میدان میں اترے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی اور انہوں نے حق کو پا لیا اس کی تفصیل حضرت صاحب زادہ سراج الحق صاحب اس طرح پر بیان کرتے ہیں.الغرض لودھیا نہ شہر میں مولوی غلام نبی صاحب خوشابی کی دھوم مچ گئی اور جا بجا ان کے علم و فضل کا چرچا ہونے لگا.اور مولوی غلام نبی صاحب نے بھی حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت میں کوئی بات اٹھا نہیں رکھی.اور آیتوں پر آیتیں اور حدیثوں پر حدیثیں ہر وعظ میں مسیح علیہ السلام کی حیات کی نسبت پڑھنے لگے.خدا کی قدرت کے قربان حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے چلے آپ ہی قتل ہو گئے.اور پھر آپ کا وجود باجود آیت اللہ ٹھہرا اور فاروق اعظم کہلائے.اور اَلشَّيْطَانُ يَفِرُّ مِنْ ظِلِّ الْعُمَر اللہ کے پیارے نے فرمایا اور خود اللہ ن رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ فرمایا، ایک روز اتفاق سے اسی محلہ میں کہ جس محلہ میں حضرت اقدس علیہ السلام تشریف فرما تھے مولوی صاحب کا وعظ تھا ہزاروں آدمی جمع تھے.اور اس وعظ میں جتنا علم تھا وہ سب ختم کر دیا اور لوگوں کے تحسین و آفرین کے نعرے لگنے لگے.اور

Page 226

حیات احمد ۲۲۳ جلد سوم مَرْحَبًا صَلِّ عَلَى چاروں طرف سے شور اٹھا.اس وعظ میں لودھیانہ کے تمام مولوی موجود تھے اور ان کے حسن بیان اور علم کی بار بار داد دیتے تھے اور مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی شاہدین اور مولوی عبدالعزیز اور مولوی محمد اور مولوی عبد اللہ اور دو چار اور مولوی جو بیرون جات سے مولوی غلام نبی صاحب کے علم کی شہرت اور علمی لیاقت اور خدا داد قابلیت کے شوق میں آئے ہوئے تھے حاضر تھے.کیوں کہ یہ خاص وعظ تھا.یہ سب نعرے اور شورِ مَرْحَبًا ہمارے کانوں تک پہنچ رہا تھا.اور ہم پانچ چار آدمی چپکے چپکے بیٹھے تھے اور دل اندر سے کڑھتا تھا اور کچھ ہمارا بس نہ چلتا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ میں تھے اور کتاب ازالہ اوہام کا مسودہ تیار کر رہے تھے.مولوی صاحب وعظ کہہ کر اور پوری مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ساتھ ساتھ ایک جم غفیر اور اور مولوی صاحبان تھے.اور ادھر سے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام زنانہ مکان سے باہر مردانہ مکان میں جانے کے لئے نکلے تو مولوی صاحب سے مٹھ بھیڑ ہو گئی.اور خود حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مولوی صاحب نے وعلیکم السلام جواب میں کہہ کر مصافحہ کیا.خدا جانے اس مصافحہ میں کیا برقی قوت تھی اور کیسی مقناطیسی طاقت ، کیا روحانی کشش تھی کہ یہ اللہ سے ہاتھ ملاتے ہی مولوی صاحب ایسے از خود رفتہ ہوئے کہ کچھ چون و چرا نہ کر سکے.اور سیدھے ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مردانہ مکان میں چلے آئے.اور حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے دوزانو بیٹھ گئے.اور باہر مولوی اور تمام حاضرین وعظ حیرت میں کھڑے رہ گئے اور آپس میں یہ گفتگو ہونے لگی.ایک ارے میاں یہ کیا ہوا.اور مولوی صاحب نے یہ کیا حماقت کی کہ مرزا صاحب کے ساتھ ساتھ چلے گئے.دوسرا.مرزا جادو گر ہے.خبر نہیں کیا جادو کر دیا ہو گا ساتھ جانا مناسب نہیں تھا.تیسرا مولوی صاحب دب گئے.مرزا کا رعب بڑا ہے رعب میں آ گیا.چوتھا اجی مرزا صاحب نے جو اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے.مرزا خالی نہیں ہے.کیا یہ دعوی ایسے ویسے کا ہے.پانچواں

Page 227

حیات احمد ۲۲۴ جلد سوم بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ مرزا رو پیر والا ہے.اور مولوی لالچی طامع ہوتے ہیں.مرزا نے کچھ لالچ دے دیا ہو گا.بعض مولوی صاحب عالم فاضل ہیں مرزا کو سمجھانے اور نصیحت کرنے گئے ہیں.مرزا کو سمجھا کے اور تو بہ کرا کے آویں گے.اور دوسرے یہ بات ٹھیک ہے ایسا موقعہ ملاقات اور نصیحت کا بار بار نہیں ملتا.اب یہ موقعہ مل گیا مرزا صاحب کو تو یہ کرا کے ہی چھوڑیں گے.اور عام لوگ.مولوی پھنس گیا اور پھنس گیا خواہ طمع میں خواہ علم میں خواہ اور کسی صورت سے مرزا بڑا چالاک اور علم والا ہے وہ مولویوں کے گنڈوں پر نہیں ہے.مولوی ایک زبان ہو کر مولوی صاحب مرزا کی خبر لینے کو گئے ہیں.دیکھنا تو سہی مرزا کی کیسی گت بنتی ہے.مولوی مرزا سے علم میں کم نہیں ہے.طامع نہیں ہے.صاحب روزگار ہے.خدا اور رسول کو پہچانتا ہے، فاضل ہے.مرزا کو نیچا دکھا کے آئے گا.اور سوائے ان کے جو کچھ کسی کے منہ میں آتا تھا وہ کہتا تھا.اور ادھر خدا کی قدرت کا تماشہ اور ارادہ الہی میں کیا تھا.جب مولوی غلام نبی صاحب اندر مکان کے گئے تو چپ چاپ بیٹھے تھے.مولوی ! حضرت آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے؟ حضرت اقدس قرآن شریف سے اور حدیث شریف سے اور علماء ربانیین کے اقوال سے.مولوی صاحب.کوئی آیت قرآن مجید میں وفات مسیح کے بارے میں ہو تو بتلائیے.حضرت اقدس لو یہ قرآن شریف رکھا ہے.آپ نے قرآن شریف دو جگہ سے کھول کر اور نشان کاغذ رکھ کر مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا.ایک مقام تو سورہ آل عمران یعنی تیسرے پارہ کا تیسرا پاؤ اور دوسرا مقام سورہ مائدہ کا آخری رکوع جو ساتویں پارہ میں ہے.اوّل میں آیت يُعِيْنَى إِلى مُتَوَفِّيكَ اور دوسرے میں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ تھا.مولوی صاحب دونوں مقاموں کی دونوں آیتیں دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گئے اور کہنے لگے فَيُوَفِّيْهِمْ أَجُورَهُمْ کے بھی تو قرآن شریف میں ہے اس کے کیا معنے ہوں گے؟ ال عمران: ۵۶ ل المآئدة: ۱۱۸ ۳ ال عمران: ۵۸ و النساء:۱۷۴

Page 228

حیات احمد ۲۲۵ جلد سوم حضرت اقدس ان آیتوں کو جو ہم نے پیش کی ہیں ان کے اور معنے ہیں.اور جو آیتیں تم نے پیش کی ہیں ان کے اور معنے ہیں.بات یہ ہے کہ یہ اور باب ہے اور وہ اور باب ہے.ذراغور کریں اور سوچیں.مولوی صاحب دو چار منٹ سوچ کر کہنے لگے معاف فرمائیے.میری غلطی تھی.جو آپ نے فرمایا وہ صحیح ہے.قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں.مولوی صاحب رو پڑے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ہچکی بندھ گئی اور عرض کیا کہ یہ خطا کار اور گنہگار بھی حضور کے ساتھ ہے.اس کے بعد مولوی صاحب روتے رہے اور سامنے مؤدب بیٹھے رہے.بیرون در اور باہر مکان کے جو کئی ہزار آدمی کھڑے تھے اور اپنی اپنی رائے ظاہر کر رہے تھے اور اس انتظار میں خوش ہو رہے تھے اور تالیاں بجا کر کہتے تھے کہ آج مرزا قابو میں آیا.آج مرزا تو بہ کر کے رہے گا.مولوی صاحب مرزا کو تو بہ کرا کے چھوڑیں گے ان کو کیا خبر تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا معاملہ ہوگا.مولوی صاحب خود ہی تو بہ کریں گے.بعض کی رائے تھی کہ خاموش رہو خدا ہی جانے کیا پیش آوے.جب بہت دیر ہوگئی تو لوگوں نے فریاد کرنی شروع کی اور لگے آواز پر آواز دینے کی جناب مولوی صاحب باہر تشریف لائیے.مولوی صاحب نے ان کی بات کا جواب نہ دیا.جب زیادہ دیر ہوئی وہ بہت چلائے مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ تم جاؤ میں نے حق دیکھ لیا اور حق پا لیا.اب میرا تم سے کچھ کام نہیں ہے.تم اگر چاہو.اور اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو آ جاؤ اور تائب ہو کر اللہ تعالیٰ سے سرخرو ہو جاؤ.اور اس امام کو مان لو.اس امام صادق سے کس طرح الگ ہوسکتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کا موعود اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا موعود ہے جس کو

Page 229

حیات احمد ۲۲۶ جلد سوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا چنانچہ وہ حدیث شریف یہ ہے کہ مَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقُلْهُ مِنِّي السَّلامَ مولوی صاحب یہ حدیث پڑھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو گئے.اور آپ کے سامنے یہ حدیث شریف دوبارہ بڑے زور سے پڑھی اور عرض کیا کہ میں اس وقت بموجب حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلام کا سلام کہتا ہوں.اور میں بھی اپنی طرف سے اسی حیثیت کا جو سلام کہنے والے نے سلام کہا اور جس کو جس حیثیت سے کہا گیا سلام کہتا ہوں حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وقت ایک عجیب لہجہ اور عجیب آواز سے وعلیکم السلام فرمایا کہ دل سننے کی تاب نہ لائے اور مولوی صاحب مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے.اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کے چہرہ مبارک کا بھی اور ہی نقشہ تھا.جس کو میں پورے طور سے تحریر میں نہیں بیان کر سکتا.حاضرین و سامعین کا بھی ایک عجیب سرور سے پُر حال تھا.پھر مولوی صاحب نے کہا کہ اولیاء، علماء امت نے سلام کہلا بھیجا اور اس کے انتظار میں چل جیسے آج اللہ تعالیٰ کا نوشتہ اور وعدہ پورا ہوا.یہ غلام نبی اس کو کیسے چھوڑے یہ مسیح موعود ہیں اور یہی امام مہدی موعود ہیں ، یہی ہیں وہ یہی ہیں وہ اور مسیح ابن مریم موسوی مر گئے ، مر گئے ، مر گئے، بلا شک مر گئے.وہ نہیں آئیں گے.آنے والے آگئے ، آگئے ، آگئے ، بے شک وشبہ آ گئے.تم جاؤ یا میری طرح سے آپ کے مبارک قدموں میں گرو تا کہ نجات پاؤ اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور رسول تم سے خوش ہو.منتظرین بیرون در کو جب یہ پیغام مولوی صاحب کا پہنچا.کیا مولوی ملا اور کیا خاص اور عام سب کی زبان سے کافر کافر کافر کا شور بلند ہوا.اور گالیوں کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور سب لوگ تتر بتر منتشر ہو گئے اور بُرا کہتے ہوئے ادھر اُدھر گلیوں میں بھاگ گئے جو کہتے کہ مرزا صاحب جادوگر ہے ان کی چڑھ بنی.مولوی صاحبان شرم کے مارے گردن نیچی کئے ہوئے کہتے چلے جاتے تھے کہ غلام نبی ایک

Page 230

حیات احمد ۲۲۷ جلد سوم طالب علم تھا اور تھا کیا ہم سے مقابل ہو تو پھر دیکھنا.مرزا کو جواب نہ بن پڑے.اتفاقاً ہمارے بھائی ماسٹر صاحب احمدی اُدھر سے آتے تھے.جب یہ بات انہوں نے مولویوں سے سنی تو کہنے لگے کہ چلو مرزا صاحب تو موجود ہیں کیوں نہیں مقابلہ کرتے تو مولویوں نے کھسیانے ہو کر کہا کہ مرزا کا مقابل ہونا اس کو عزت دینا ہے کہنے کو تو یہ بات کہہ دی لیکن شرم کے مارے کچھ بن نہ سکتا تھا.آسمان دور اور زمین سخت.کریں تو کیا کریں.اس کے بعد مولویوں کی طرف سے مولوی غلام نبی صاحب کے پاس مباحثہ کے پیغام آنے لگے.اور بعض کی طرف سے پھسلانے کے لئے کہ ہماری ایک دو بات سن جاؤ اس کے جواب میں مولوی صاحب نے یہ شعر پڑھا حضرت ناصح جو آئیں دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھ کو یہ تو سمجھائے کہ سمجھائیں گے کیا بعد از سلام و پیام و مباحثہ مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ کرنا منظور کر لیا.لیکن باتیں ہی باتیں تھیں مباحثہ کے لئے کوئی نہ آیا.مولوی غلام نبی صاحب نے بھی اشتہار مباحثہ کے لئے شائع کیا کہ میں مباحثہ کے لئے تیار ہوں.جس کو علم کا دعوی ہو وہ مجھ سے مباحثہ کر لے.اسی عرصہ میں امرتسر سے یا لاہور سے خط آیا وہ خط مولوی صاحب کے نام تھا لکھا تھا کہ خواہ تم یا مرزا یا اور کوئی ہو ایک آیت عیسی علیہ السلام کی وفات میں پیش کرے تو میں پچاس روپے انعام دوں گا.بلکہ جتنی آیتیں ہوں گی فی آیت پچاس روپے انعام دیئے جاویں گے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں مولوی غلام نبی صاحب نے یہ خط پیش کیا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس خط کو پڑھ کر فرمایا کہ اس شخص کو لکھ دو کہ ہم تمیں آیتیں قرآن شریف کی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات میں دیں گے.تم کو مناسب ہے کہ اپنے اقرار کے بموجب پچاس روپے فی آیت کے حساب سے پندرہ سو روپیہ لاہور کے بنک میں جمع کرا کر سرکاری رسید بھیج دو.اب جھوٹے کی کہاں طاقت تھی.جواب ندارد.پھر مولوی غلام نبی صاحب نے ایک

Page 231

حیات احمد ۲۲۸ جلد سوم اشتہار شائع کیا کہ جو شخص حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات میں قرآن شریف کی آیت صریح اور حدیث صحیح پیش کرے تو فی آیت اور فی حدیث دس روپے انعام دیئے جاویں گے.اور روپے پہلے بنک میں جمع کر دیئے جائیں گے.اس اشتہار کو بھی سن کر خاموش ہو رہے.اور کوئی نہ اٹھا.خدا جانے مولویوں کو زمین نگل گئی.یا سانپ سونگھ گیا.صدائے برنخاست.مولوی غلام نبی صاحب تو بس حضرت اقدس علیہ السلام کے ہور ہے اور ان کا ایسا ہر دہ اور بحر کھلا کہ جو کوئی مولوی یا اور شخص آتا اس سے بات کرتے اور مباحثہ کے لئے آمادہ ہو جاتے.اور حضرت اقدس کا چہرہ ہی دیکھتے رہتے اور خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے اور حضور کا کلام سننے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا.ایک روز زمین و آسمان کی گردش کے متعلق ذکر آیا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ زمین کی گردش بھی قرآن شریف سے ثابت ہے اور پھر یہ آیت پڑھی إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا یہ آیت سن کر مولوی صاحب وجد میں آگئے اور کہنے لگے کہ یہ ہے قرآن کی سمجھ.ہم نے قرآن مجید پڑھا لیکن اس طرف نظر نہ کی اور نہ اس طرف غور کیا.قرآن شریف سمجھنے کا حق حضرت اقدس علیہ السلام کا ہی ہے.جو خدا کی طرف سے آتا ہے.وہی قرآنی نکات اور اسرار و معارف سے واقف ہوتا ہے.کیا خوب فرمایا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے.خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خود آورد او نجس و مردار آورید اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ سے اب تو مولوی صاحب کو حضرت اقدس سے عشقیہ حالت میں ترقی ہونے لگی.جب حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ مکان میں تشریف لے جاتے تو مولوی صاحب بے قرار دیوانہ وار ہو جاتے تھے.اور کبھی ٹہلتے اور کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے رویا لى الزلزال : ٢ کے ترجمہ.آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے.جو شخص اپنے پاس سے اس کا مطلب بیان کرتا ہے وہ گندگی اور مردار پیش کرتا ہے.سے الواقعة :۸۰

Page 232

حیات احمد ۲۲۹ جلد سوم کرتے تھے اور کسی پہلو چین نہ پڑتا اور بار بار کہتے کہ اتنے روز جو میری طرف سے مخالفت ہوئی یا میری زبان سے الفاظ گستاخانہ نکلے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا.پھر استغفار کرتے اور سخت بے قراری اور ندامت سے روتے جب حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لاتے تو تب مولوی صاحب کو چین ہوتا اور دل کو تسلی ہوتی.مولوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں ملازم تھے وہاں سے خط آیا کہ جلد آؤ ورنہ نام کٹ جائے گا اور ملازمت جاتی رہے گی.مولوی صاحب نے ملازمت کی کچھ بھی پرواہ نہ کی.اور کہا کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی بیعت میں شرط لی ہے.مجھے نوکری کی کوئی پرواہ نہیں ہے.حضرت اقدس علیہ السلام کی صحبت کو غنیمت سمجھا اور ایک روز یہ ذکر آ گیا.حضرت اقدس علیہ السلام نے کہا خود ملازمت کو چھوڑنا نہیں چاہئے اس میں اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے.ہاں خود بخود ہی اللہ تعالیٰ اپنی کسی خاص مصلحت سے علیحدہ کر دے تو بات دوسری ہے.ضرو ر ملازمت پر چلے جانا چاہئے.پھر رخصت لے کر آ جانا.کوئی اور راہ اللہ تعالیٰ نکال دے گا.حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ ارشادسن کر مولوی صاحب بِإِكْرَاهِ وَ جَبَر چلنے کے لئے تیار ہو گئے.اور دوبارہ بیعت تجدید کی کیونکہ ایک دو روز پیشتر ایک شخص نے سوال کیا تھا کہ حضور ایک بار تو ہم نے بیعت کر لی.کیا دوبارہ سہ بارہ بھی بیعت کر سکتے ہیں.فرمایا ہاں سنت ہے.جب وہ رخصت ہو کر چلنے لگے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا دل جانے کو نہیں چاہتا دیکھو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے یہ معنے ہیں.پس مولوی صاحب چل دیئے اور کچھ دیر کے بعد دیکھیں تو مولوی صاحب مسکراتے ہوئے خوش خوش بغل میں گٹھڑی دبائے ہوئے چلے آتے ہیں.ہم سب حیران ہوئے اور حضرت اقدس بھی دیکھ کر ہنسنے لگے.مولوی صاحب نے کہا میرے جاتے جاتے ریل چل دی بعض لوگوں نے کہا بھی کہ اسٹیشن پر ٹھہرو دوسرے وقت چلے جانا.میں نے کہا جتنی دیر اسٹیشن پر لگے اتنی دیر حضرت کی صحبت میں رہوں تو بہتر ہے.اسٹیشن پر شہر نے سے کیا فائدہ.اور جب اللہ تعالیٰ نے ہی جانا پسند نہ فرمایا تو میں کیسے

Page 233

حیات احمد ۲۳۰ جلد سوم خلاف مرضي خدا پسند کروں.حضرت اقدس کی صحبت کہاں میسر.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا جَزَاكَ الله یہ خیال بہت اچھا ہے.اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب واقف ہے.اس میں کچھ حکمت الہی ہے.یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دوسرا خط آیا کہ تم اپنی ملازمت پر حاضر ہو جاؤ.اور جو کسی وجہ سے نہ آیا جائے تو ایک درخواست بھیج دو رخصت کی تاکہ رخصت مل جاوے.اور میں کوشش کر کے رخصت دلوا دوں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ریل کے نہ ملنے میں یہ حکمت الہی تھی.اب رخصت کی درخواست بھیج دو.مولوی صاحب نے حسب الارشاد ایک درخواست رخصت کی بھیج دی اور وہ منظور ہو کر آ گئی.مولوی صاحب کو بہت روز حضرت کی خدمت میں رہنے اور فیض صحبت حاصل کرنے کا موقع مل گیا.میں نے بھی مولوی صاحب سے بہت سی حدیثیں پڑھیں جو مخالف آتا پہلے مولوی صاحب گفتگو کرتے.ملا نظام الدین کی بیعت حضرت ملا نظام الدین صاحب رضی اللہ عنہ ایک بے ریا اور نافع الناس انسان تھا.وہ بڑے جسیم اور محنتی آدمی تھے ابتدائی کتابیں صرف نحو اور دینیات کی بھی پڑھی تھیں.اور احادیث کا شغف بھی تھا.اور وہ عرف عام میں مولوی سمجھے جاتے تھے بلکہ ملا جو مولوی سے بھی زیادہ با وقعت ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھی اُن کو مولوی صاحب لکھا ہے اور خود حضرت صاحب بھی اپنے خطاب میں ان کو ”مولوی صاحب ہی کہہ کر پکارتے ہیں.مگر شکل صورت سے وہ جاہل معلوم ہوتے تھے زندہ دلی ان کی فطرت میں تھی.مخالف کے ساتھ گفتگو ایسے انداز میں کرتے کہ وہ سمجھتا کہ اس کو لاجواب کر دینا کیا مشکل ہے.وہ فرقہ اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے اور لودھانہ میں چونکہ مولوی محمد حسن صاحب کا مکان اہلِ حدیث کا مرکز تھا.اس لئے وہاں رہتے تھے

Page 234

حیات احمد ۲۳۱ جلد سوم اور خود پھر کر کتب فروشی اور تبلیغ اہل حدیث کا کام کرتے تھے وہ کسی کے محتاج نہ تھے بلکہ انہوں نے حج بھی کیا تھا.اور سفر حج میں ایک آدمی کو غرق ہونے سے بھی بچایا تھا.اس لئے کہ وہ بڑے تیراک تھے اور سمندر میں تیرنے کے شائق تھے.بڑے طویل القامت اور شاہ زور انسان تھے.موضع جمال پور جولو دھیانہ کے قریب ہے اور جس جگہ کے میاں کریم بخش کا ذکر سائیں گلاب شاہ کی شہادت کے متعلق آچکا ہے.وہاں اکثر جاتے اس لئے کہ وہ سارا گاؤں اہلحدیث کا تھا اور مولوی محمد حسن صاحب کے ہم قوم اعوان ہی وہاں رہتے تھے.خاکسار عرفانی کو بھی ایک مرتبہ حضرت شہزادہ حاجی عبدالمجید صاحب کے ساتھ وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا اس لئے کہ لودھانہ میں حضرت منشی احمد جان رضی اللہ کے متوسلین نے ایک انجمن انوار احمد یہ قائم کی تھی.اور ایک ماہوار رسالہ اسی نام سے جاری کرنے کا اہتمام کیا تھا.اور خاکسار عرفانی اس کا ایڈیٹر نامزد ہو چکا تھا.اس انجمن کی امداد کے لئے ہم کو وہاں جانے کی ضرورت پیش آئی اور حضرت مولوی عبد القادر مدرس کے ہاں ہی قیام کر لیا تھا.غرض ملا نظام الدین صاحب مولوی محمد حسن صاحب کے پاس رہتے تھے.مرد مجاہد اور صاف گو تھا اور حق پرست تھا.اسی مباحثہ کے اثر سے اور وقتاً فوقتاً حضرت اقدس کی مجالس میں آنے کا نتیجہ اس کا بھی بیعت کر لینے کا واقعہ ہوا.وہ گویا لودھانہ کی اہل حدیث جماعت کے ایک نڈر رضا کار تھے اور محنت اور جسمانی کاموں کے لئے پیش پیش رہتے ان کی بیعت کا واقعہ دلچسپ ہے جس کو صاحبزادہ سراج الحق صاحب کے مؤكد بقسم بیان کی صورت میں لکھتا ہوں.یہ واقعات جو میں نے حاجی ملا نظام الدین صاحب کے متعلق لکھے ہیں اپنی ذاتی واقفیت اور علم کی بناء پر لکھے ہیں.مجھے اُن سے اور اُن کو مجھ سے محبت تھی انہوں نے لودھانہ کے مولوی صاحبان کے متعلق بہت سا تحریری مواد مجھے دیا تھا.جو اب میں ۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد نہیں کہہ سکتا کہاں ہے یہ مواد عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِین ( جو میں لکھنا چاہتا تھا) کے لئے تھا.میں نے اس تمہیدی بیان کو اس لئے لکھا ہے کہ ان کی بیعت کے سلسلہ میں مولوی محمد حسین

Page 235

حیات احمد ۲۳۲ جلد سوم صاحب کا ان کی روٹی بند کرنے کا ذکر آتا ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے ان کی حقارت کے لئے یہ جملہ اختیار کیا ہے.اور اپنی لاعلمی کے طور پر.اور حضرت نظام الدین صاحب نے اپنی طبعی ظرافت کا اظہار کیا.والا وہ کسب حلال سے کماتے اور کھاتے تھے.اور مولوی محمد حسن صاحب کے ایک دیانت دار کارندوں میں تھے میں نے گوارا نہ کیا کہ ایک مخلص مجاہد اور مبلغ اور حقیقی مومن جو گسپ حلال کا خوگر ہو اس کی نسبت کسی قسم کی غلط نہی رہے.وہ احمدی ہوکر برابر سلسلہ کی خدمت میں نمایاں حصہ لیتے رہے اور باقاعدہ سالانہ جلسوں میں شرکت کرتے تھے مجھے یاد پڑتا ہے کہ احمدی ہونے کے بعد بھی غالباً ایک حج انہوں نے کیا تھا.آئینہ کمالات اسلام میں ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں شرکاء جلسہ کی جو فہرست آخر میں درج ہے اس کے نمبر ۶ پر یہ اندراج ہے.میاں نظام الدین صاحب صحاف اس قدر توضیحی بیان کے بعد میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا بیان درج کرتا ہوں.مولوی نظام الدین کا بحث کو آنا اور بیعت کر کے جانا دوسرے روز صبح کو آٹھ نو بجے مولوی نظام الدین اور مولوی محمدحسین صاحب اور دو تین اور شخص تھے.مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر آپس میں گفتگو ہوئی.مولوی نظام الدین نے کہا کہ حضرت مسیح کی زندگی پر بھی قرآن شریف میں کوئی آیت ہے.مرزا تو آیت پر اڑ رہا ہے تو مولوی محمد حسین صاحب نے کہا میں آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں.مولوی نظام الدین مرحوم و مغفور نے کہا تو میں اب مرزا صاحب کے پاس جاؤں اور گفتگو کروں انہوں نے کہا ہاں جاؤ.پس مولوی نظام الدین مرحوم جلدی جلدی حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت مولوی عبدالکریم اور منشی غلام قادر صاحب فصیح اور فضل شاہ صاحب اور شاہزادہ عبدالمجید صاحب اور مولوی تاج محمد صاحب.اور مولوی عبد القادر صاحب جمال پوری اور قاضی خواجہ علی صاحب مرحوم و مغفور اور عباس علی مرتد اور نور محمد ہانسوی مرحوم اور اللہ بندہ ہانسوی اور منشی ظفر احمد

Page 236

حیات احمد ۲۳۳ جلد سوم صاحب اور دیگر اور صحاب اور خاکسار حاضر تھے.آتے ہی کہا کہ مرزا جی تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ عیسی علیہ السلام مر گئے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ قرآن شریف ہے.مولوی نظام الدین مرحوم نے کہا کہ اگر قرآن شریف میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کی آیت موجود ہو تو آپ مان لیں گے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں ہم مان لیں گے.مولوی نظام الدین نے کہا کہ میں ایک دو نہیں ہیں آیتیں قرآن شریف کی حضرت عیسی کی زندگی پر لا دوں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہمیں آیت کیا اگر تم ایک ہی آیت لا دو گے تو میں قبول اور تسلیم کر لوں گا.اور اپنا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا چھوڑ دوں گا اور توبہ کرلوں گا.فرمایا.مولوی صاحب یادر ہے تم کو یا کسی کو ایک آیت بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں نہیں ملے گی.مولوی نظام الدین نے کہا پگے رہنا، تم ایک ہی کہتے ہو میں ہیں آیتیں ابھی لا کے دیتا ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا اگر تم نے ایک آیت بھی لا دی تو میں ہار گیا اور تم جیت گئے اب عباس علی کو کھٹکا ہوا اور مجھ سے چپکے سے کہنے لگا کہ مرزا صاحب کیوں اڑتے ہیں.اُدھر بھی تو مولوی ہیں.وہ کیا جھوٹ بولتے ہیں اگر آیت مسیح کی زندگی میں نکل آئے تو ہمیں منہ دکھانے کی جگہ نہ ہو گی.میں نے کہا عباس علی صاحب ہر گز بھی حضرت مسیح کی زندگی کی کوئی آیت نہیں ہے.کیا یہ تحدی حضرت اقدس کی یونہی ہے اگر حضرت مسیح کی زندگی کی کوئی آیت قرآن شریف میں ہوتی تو اتنے مولوی دنیا میں موجود ہیں اور خاص کر لدھیانہ میں مولوی ہیں وہ کبھی کے پیش کر دیتے.اُن کا پیش نہ کرنا اور زبانی باتیں کرنا اور دعویٰ کرنا ہی بتلاتا ہے کہ کوئی آیت حیات مسیح کے بارے میں نہیں ہے.بس مولوی نظام الدین چادرہ اور جو تہ اور دو پٹہ وہیں چھوڑ کر برہنہ پا دوڑتے ہوئے.اُن مولویوں کے پاس گئے اور کہا کہ میں مرزا صاحب کو ہرا آیا ہوں اور تو بہ کرا آیا ہوں.مولوی صاحبان اس بات کو سن کر خوش ہوئے اور کہا کس طرح سے مولوی صاحب مرزا کو ہرا آئے.شاباش شاباش تم نے اس وقت بڑا کام کیا ہے.مولوی نظام الدین نے کہا کہ میں نہیں آیتوں کا وعدہ کر آیا ہوں کہ قرآن شریف کی حضرت عیسی کی زندگی

Page 237

حیات احمد ۲۳۴ جلد سوم میں لا دوں گا اب مجھے میں آیتیں قرآن شریف سے نکال کر دو.مولوی محمد حسین بولے کہ حدیثیں نہیں پیش کیں.کہا کہ حدیثوں کا تو ذکر ہی نہیں.مقدم قرآن شریف ہے.مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر اور گھبرا کر دو پٹہ یعنی عمامہ سر سے پھینک دیا اور کہا کہ تو مرزا کو ہرا کے نہیں آیا.ہمیں ہرایا اور ہمیں شرمندہ کیا میں مدت سے مرزا کو حدیث کی طرف لا رہا ہوں.اور وہ قرآن شریف کی طرف مجھے کھینچتا ہے.قرآن شریف میں اگر کوئی آیت مسیح کی زندگی میں ہوتی تو ہم کبھی کی پیش کر دیتے ہم تو حدیثوں پر زور دے رہے ہیں.قرآن شریف سے ہم سرسبز نہیں ہو سکتے اور قرآن شریف مرزا کے دعوئی کو سرسبز کرتا ہے تیجے تو مولوی نظام الدین کی آنکھیں کھل گئیں اور کہا کہ جب قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں ہے تو اتنا دعویٰ تم نے کیوں کیا تھا اور کیوں ہیں آیتوں کے دینے کا مجھ سے وعدہ کیا تھا اب میں کیا منہ لے کے مرزا کے پاس جاؤں گا.اگر قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں ہے.تمہارا ساتھ نہیں دیتا اور مرزا کے ساتھ ہے اور مرزا کا ساتھ دیتا ہے تو میں بھی مرزا کے ساتھ ہوں.تمہارے ساتھ نہیں.یہ دنیا کا معاملہ نہیں ہے جو شرم کرنی چاہئے.یہ دین کا معاملہ ہے.چدھر قرآن شریف اُدھر میں.اس پر مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب یہ مولوی نظام الدین تو کم عقل آدمی ہے.اس کو ابوہرھرۃ " والی آیت نکال کر دکھا دو.مولوی نظام الدین نے کہا کہ میں تو سکھنی (یعنی خالص ) اللہ تعالیٰ کی آیت لوں گا ابو ہریرہ کی آیت نہیں لینے کا.دونوں مولوی بولے ارے بیوقوف! آیت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے.لیکن ابو ہریرہ نے نقل کی ہے.اب مولوی نظام الدین وہاں سے چلنے لگے.مولوی محمد حسین صاحب نے جب دیکھا کہ مولوی نظام الدین ہاتھ سے گیا اور تو کوئی بات نہ سوجھی کہنے لگا کہ مولوی محمد حسن صاحب تم اس کی روٹی بند کر دو.آئندہ کو اس کے روٹی مت دینا.بات یہ ہے کہ مولوی نظام الدین ہمیشہ کھانا مولوی محمد حسن صاحب کے ہاں کھایا کرتے میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مولوی محمد حسین صاحب نے یہ باتیں کیں اس میں جھوٹ نہیں ہے.(سراج الحق )

Page 238

حیات احمد ۲۳۵ جلد سوم تھے.اس وقت اس روٹی کا حوالہ دیا مگر مولوی نظام الدین خدا کے فضل سے ایسا بودا اور ضعیف الایمان تھوڑا ہی تھا کہ روٹی کے احسان میں دب جاتا.ہاتھ جوڑ کر ظرافت سے مولوی نظام الدین کہنے لگے کہ مولوی صاحب میں نے قرآن شریف چھوڑا، روٹی مت چھوڑا ؤ.اس بات کے کہنے سے محمد حسین شرمندہ ہوا.اور کہا جا بیٹھ جا، مرزا کے پاس مت جانا.حضرت اقدس علیہ السلام مولوی نظام الدین مرحوم کی اس ظرافت اور لطیفہ کو اکثر بیان کرتے تھے.اور حضرت اقدس کا ہاتھ جوڑ کر مولوی نظام الدین کی نقل بیان کرنا ایسا پیارا معلوم ہوتا تھا کہ دل کو لبھا لیتا تھا اور جب مولوی نظام الدین حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ضرور اُن سے یہ بیان کرواتے کہ مولوی صاحب ! کیوں کر یہ معاملہ گزرا.مولوی نظام الدین اسی طرح سے ہاتھ جوڑ کر بیان کرتے اور ہنستے اور حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہنستے.بالآخر مولوی نظام الدین وہاں سے چلے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں آ کر اور شرمندہ سے ہو کر بیٹھ گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا مولوی صاحب ہیں آیت انیس آیت دس پانچ دو چار ایک آیت لائے.مولوی نظام الدین صاحب مرحوم خاموش.دو چار بار کے دریافت کرنے سے رو کر عرض کیا کہ حضرت وہاں تو یہ معاملہ گزرا.میری روٹی ہی بند کر دی.اب تو جد ہر قرآن شریف اُدھر میں.پھر مولوی صاحب نے بیعت کر لی.ان کا بیعت کرنا تھا اور مولویوں میں ایک شور مچنا تھا.توضیح مرام اور ازالہ اوہام کی تصنیف اسی سال میں فتح اسلام کے سلسلہ میں تو ضیح مرام اور از الته الا وہام دو عظیم الشان تصنیفات شائع ہوئیں اور ان میں قرآن کریم کے حقائق و معارف کا ایک سمندر موجیں مارتا نظر آتا ہے.ازالۃ الا وہام میں ان تمام شکوک اور شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جو دعویٰ مسیحیت یا وفات مسیح کے مسئلہ پر پیش کئے جاتے تھے اور یہ کتاب آج تک لا جواب چلی جاتی ہے.غرض یہ ہے کہ اس

Page 239

حیات احمد ۲۳۶ جلد سوم دعوی کے بعد جہاں مخالفت کا ایک طوفان اٹھا وہاں سعادت مند روحوں میں قبولیت کے لئے ایک رو چل پڑی.دعوی مهدویت ازالہ اوہام کی تصنیف کے دوران میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس حقیقت کو بھی منکشف فرمایا کہ مہدی معہود کا جو عقیدہ مسلمانوں میں چلا آتا ہے.دراصل مسیح موعود اور مہدی معہود ایک ہی ہے.جو اپنے فرائض کے لئے عیسی اور مہدی کہلائے گا.چنانچہ آپ نے ازالہ اوہام میں تحریر فرمایا.ایسا ہی مہدی کے بارہ میں جو بیان کیا جاتا ہے ضرور ہے کہ پہلے امام محمد مہدی آویں اور اس کے بعد ظہور مسیح ابن مریم کا ہو.یہ خیال قلت تذبر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.اگر مہدی کا آنا مسیح ابن مریم کے زمانہ کے لئے ایک لازم غَيْر مُنفک ہوتا اور مسیح کے سلسلہ ظہور میں داخل ہوتا تو دو بزرگ شیخ اور امام حدیث کے یعنی حضرت محمد اسماعیل صاحب صحیح بخاری اور حضرت امام مسلم صاحب صحیح مسلم اپنی صحیحوں سے اس واقعہ کو خارج نہ رکھتے لیکن جس حالت میں انہوں نے اس زمانہ کا تمام نقشہ ھینچ کر آگے رکھ دیا اور حصر کے طور پر دعوی کر کے بتلا دیا کہ فلاں فلاں امر کا اس وقت ظہور ہوگا.لیکن امام محمد مہدی کا نام تک بھی تو نہیں لیا.پس اس سے سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح اور کامل تحقیقات کی رو سے ان حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھا جو مسیح کے آنے کے ساتھ مہدی کا آنا لازم غَیر مُنفَك ٹھہرا رہی ہیں اور دراصل یہ خیال بالکل فضول اور مہمل معلوم ہوتا ہے کہ باوجود یکہ ایک ایسی شان کا آدمی ہو کہ جس کو باعتبار باطنی رنگ اور خاصیت اس کی کے مسیح ابن مریم کہنا چاہئے.دنیا میں ظہور

Page 240

حیات احمد ۲۳۷ کرے اور پھر اس کے ساتھ کسی دوسرے مہدی کا آنا بھی ضرور ہو.کیا وہ خود مہدی نہیں ہے؟ کیا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا کر نہیں آیا.کیا اس کے پاس اس قدر جواہرات و خزائن و اموال و معارف و دقائق نہیں ہیں کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں.اور اس قدر ان کا دامن بھر جائے جو قبول کرنے کی جگہ نہ رہے.پس اگر یہ سچ ہے تو اُس وقت دوسرے مہدی کی ضرورت ہی کیا ہے اور یہ صرف امامین موصوفین کا ہی مذہب نہیں بلکہ ابن ماجہ اور حاکم نے بھی اپنی صحیح میں لکھا ہے کہ لَا مَهْدِى إِلَّا عيسى یعنی بجر عیسی کے اس وقت کوئی مہدی نہ ہو گا.اور یوں تو ہمیں اس بات کا اقرار ہے کہ پہلے بھی کئی مہدی آئے ہوں اور ممکن ہے کہ آئندہ بھی آویں اور ممکن ہے کہ امام محمد کے نام پر بھی کوئی مہدی ظاہر ہو.لیکن جس طرز سے عوام کے خیال میں ہے اس کا ثبوت پایا نہیں جاتا.چنانچہ یہ صرف ہماری ہی رائے نہیں اکثر محقق یہی رائے ظاہر کرتے آئے ہیں.سفر دہلی جلد سوم (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۹،۳۷۸) اگست اور ستمبر ۱۸۹۱ ء میں لودھانہ کے قیام کے دوران میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے آپ از بس مصروف رہے اور مختلف اشتہارات اور خطوط اتمام حجت کے لئے لکھے گئے.اور آخر ستمبر میں آپ نے مناسب سمجھا کہ دہلی جو ہندوستان کے علماء کا مرکز ہے.وہاں ہی شیخ الکل مولوی نذیرحسین صاحب تھے ( جن کے شاگرد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر پھیلے ہوئے تھے مولوی محمد حسین صاحب بھی اُن کے ہی مایہ ناز شاگرد تھے ) چل کر اتمام حجت کیا جاوے اور شیخ الکل ہی کو مخاطب کرنا مناسب ہو گا.اس مقصد اور ارادے سے آپ نے دہلی کا

Page 241

حیات احمد سفر اختیار کیا.۲۳۸ جلد سوم چنانچہ آپ ۲۹ / ستمبر ۱۸۹۱ء کو دہلی پہنچے جیسا کہ آپ کے ذیل کے مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے.جو حضرت چودھری رستم علی خاں صاحب کے نام آپ نے لکھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ دہلی بازار یکی ماراں کوٹھی نواب لو ہارو ۲۹ ستمبر ۱۸۹۱ء مکرمی اخویم.السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ.آج یہ عاجز بخیر و عافیت دہلی میں پہنچ گیا ہے.ظاہر ا معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ القدیر ایک ماہ تک اس جگہ رہوں گا.کوٹھی نواب لوہارو جو بیماراں والے بازار میں ہے رہنے کے لئے لے لی ہے.آپ ضرور آتی دفعہ میں اور میں نہایت تاکید سے آپ کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ شیخ عبدالحق کرانچی والے کی نوکری کی نسبت ضرور کوشش فرما ئیں وہ میرے بہت مخلص ہیں زیادہ خیریت ہے والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ.نوٹ.حضرت مخدوم الملت مولوی عبدالکریم صاحب نے الحق میں لکھا ہے.کہ ۲۸ ستمبر کو دہلی پہنچے.حضرت اقدس کے مکتوب میں ۲۹ ستمبر تاریخ تحریر مکتوب ہے.(عرفانی) دہلی پہنچتے ہی آپ نے اتمام حجت کے لئے ۴ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو مندرجہ ذیل اشتہار جاری کیا.

Page 242

حیات احمد ۲۳۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ ) ایک عاجز مسافر کا اشتہار قابل توجہ جمیع مسلمانان انصاف شعار و حضرات علمائے نامدار اے اخوان مومنین اے برادران سکنائے دہلی و متوطنان این سرزمین !!! بعد سلام مسنون و دعائے درویشانہ.آپ سب صاحبوں پر واضح ہو کہ اس وقت یہ حقیر غریب الوطن چند ہفتہ کے لئے آپ کے اس شہر میں مقیم ہے اور اس عاجز نے سنا ہے کہ اس شہر کے بعض اکابر علماء میری نسبت یہ الزام مشہور کرتے ہیں کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ، ملائک کا منکر ، بہشت و دوزخ کا انکاری اور ایسا ہی وجود جبرائیل اور لیلۃ القدر اور معجزات اور معراج نبوی سے بکلی منکر ہے.لہذا میں اظہار اللحق عام و خاص اور تمام بزرگوں کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ الزام سراسر افتراء ہے.میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر.بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں.اور جیسا کہ اہلِ سنت جماعت کا عقیدہ ہے.ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں.اور سید نا ومولانا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں.میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اللہ محمد مصطفیٰ الاعراف: ۹۰ جلد سوم

Page 243

حیات احمد ۲۴۰ جلد سوم صلی اللہ علیہ وسلّم پر ختم ہوگئی.آمَنْتُ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَآمَنْتُ بِكِتَابِ اللهِ الْعَظِيْمِ الْقُرْآنِ الْكَرِيمَ - وَاتَّبَعْتُ أَفْضَلَ رُسُلِ اللهِ وَخَاتَمَ أَنْبِيَاءِ اللهِ مُحَمَّدُ المُصْطَفَى وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ - وَاَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ - رَبِّ أَحْيِنِي مُسْلِمًا وَ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَاحْشُرْنِي فِي عِبَادِكَ الْمُسْلِمِيْنَ وَاَنْتَ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا يَعْلَمُ غَيْرُكَ وَأَنْتَ خَيْرُ الشَّاهِدِینَ.اس میری تحریر پر ہر ایک شخص گواہ رہے اور خدا وند علیم و سمیع اول الشاہدین ہے کہ میں ان تمام عقائد کو مانتا ہوں.جن کے ماننے کے بعد ایک کافر بھی مسلمان تسلیم کیا جاتا ہے.جن پر ایمان لانے سے ایک غیر مذہب کا آدمی بھی معاً مسلمان کہلانے لگتا ہے.میں ان تمام امور پر ایمان رکھتا ہوں جو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں درج ہیں اور مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں.اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعوی ہے جس طرح محدثیت نبوت سے مشابہ ہے.ایسا ہی میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے اشد درجہ کی مناسبت رکھتی ہے.غرض میں ایک مسلمان ہوں.أَيُّهَا الْمُسْلِمُوْنَ أَنَا مِنْكُمْ وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ بِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالی.خلاصہ کلام یہ کہ میں محدث اللہ ہوں لا ترجمہ از ناشر.میں اللہ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور موت کے بعد زندہ کئے جانے پر ایمان لاتا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب قرآنِ کریم پر ایمان رکھتا ہوں.اور میں اللہ کے افضل ترین رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں.اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں.اے میرے رب ! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ رکھ اور مسلمان ہونے کی حالت میں ہی مجھے وفات دینا اور مجھے مسلمان بندوں میں سے ہی اٹھانا ، تو جانتا ہے کہ جو کچھ میرے دل میں ہے اور تیرے سوا کوئی اور نہیں جانتا اور تو بہترین شاہد ہے.

Page 244

حیات احمد ۲۴۱ اور مامور من اللہ ہوں اور با ایں ہمہ مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں جو صدی چہار دہم کے لئے مسیح ابن مریم کی خصلت اور رنگ میں مجد ددین ہو کر رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ کی طرف سے آیا ہوں.میں مفتری نہیں ہوں.وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى خدا تعالیٰ نے دنیا پر نظر کی اور اس کو ظلمت میں پایا اور مصلحت عباد کے لئے ایک عاجز بندہ کو خاص کر دیا.کیا تمہیں اس سے کچھ تعجب ہے کہ وعدہ کے موافق صدی کے سر پر ایک مجددبھیجا گیا اور جس نبی کے رنگ میں چاہا خدا تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا.کیا ضرور نہ تھا کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی.بھائیو! میں مصلح ہوں بدعتی نہیں.اور معاذ اللہ میں کسی بدعت کے پھیلانے کے لئے نہیں آیا.حق کے اظہار کے لئے آیا ہوں اور ہر ایک بات جس کا اثر اور نشان قرآن اور حدیث میں پایا نہ جائے اور اس کے برخلاف ہو وہ میرے نزدیک الحاد اور بے ایمانی ہے.مگر ایسے لوگ تھوڑے ہیں جو کلام الہی کی تہ تک پہنچتے اور ربانی پیش گوئیوں کے باریک بھیدوں کو سمجھتے ہیں.میں نے دین میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کی.بھائیو ! میرا دین وہی ہے جو تمہارا دین ہے اور وہی رسول کریم میرا مقتدا ہے جو تمہارا مقتدا ہے.اور وہی قرآن شریف میرا ہادی اور میرا پیارا اور میری دستاویز ہے جس کا ماننا تم پر بھی فرض ہے.ہاں یہ بیچ اور بالکل سچ ہے کہ میں حضرت مسیح ابن مریم کو فوت شدہ اور داخل موتی یقین رکھتا ہوں اور جو آنے والے مسیح کے بارے میں پیشگوئی ہے وہ اپنے حق میں یقینی اور قطعی طور پر اعتقاد رکھتا ہوں لیکن اے بھائیو! یہ اعتقاد میں اپنی طرف سے اور اپنے خیال سے نہیں رکھتا.بلکہ خداوند کریم جَلَّ شَانُهُ نے اپنے الہام و کلام کے ذریعہ سے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ مسیح ابن مریم کے نام پر آنے والا تو ہی ہے.اور مجھ پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے وہ دلائل یقینیہ کھول دیئے ہیں جن سے یہ تمام یقین و قطع حضرت عیسی ابن مریم رسول اللہ کا فوت ہو جانا ثابت ہوتا ہے.اور مجھے اُس قادر مطلق نے بار بار اپنے کلام خاص سے مشرف و مخاطب جلد سوم

Page 245

حیات احمد ۲۴۲ کر کے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ کی یہودیت دور کرنے کے لئے تجھے عیسی ابن مریم کے رنگ اور کمال میں بھیجا گیا ہے.سو میں استعارہ کے طور پر ابن مریم موعود ہوں جس کا یہودیت کے زمانہ اور تنصر کے غلبہ میں آنے کا وعدہ تھا جو غربت اور روحانی قوت ، روحانی اسلحہ کے ساتھ ظاہر ہوا.برخلاف اس غلط خیال اور ظاہری جنگ اور جدل کے جو مسیح ابن مریم کی نسبت مسلمانوں میں پھیل گیا تھا.سو میرا جنگ روحانی ہے اور میری بادشاہت اس عالم کی نہیں.دنیا کی حرب و ضرب سے مجھے کچھ کام اور غرض واسطہ نہیں.میری زندگی ایسی فروتنی اور مسکینی کے ساتھ ہے جو مسیح ابن مریم کو ملی تھی.میں اس لئے آیا ہوں کہ تا ایمانی فروتنی اور مسکینی اور تقویٰ اور تہذیب اور طہارت کو دوبارہ مسلمانوں میں قائم کروں اور اخلاق فاضلہ کا طریق سکھلاؤں.اگر مسلمانوں نے مجھے قبول نہ کیا تو مجھے کچھ رنج نہیں کیونکہ مجھ سے پہلے بنی اسرائیل نے بھی مسیح ابن مریم کو قبول نہ کیا تھا لیکن جنہوں نے مجھے قبول نہیں کیا ان کے پاس کوئی عذر نہیں کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میرے دعوی کی شرط صحت کو جو وفات مسیح ابن مریم ہے، کامل طور پر تصدیق کرتے ہیں.قرآن کریم کی تمیں آیتیں حضرت عیسی بن مریم کا فوت ہو جانا بیان کر رہی ہیں.جیسا کہ کتاب ازالہ اوہام میں مفصل ذکر ہے.لیکن قرآن کریم میں ایک بھی ایسی آیت نہیں جو عیسی ابن مریم کی زندگی صَرِيْحَةُ الدَّلالت ہو.اور خدا تعالیٰ نے مجھے وہ آسمانی نشان بخشے ہیں جو اس زمانہ میں کسی دوسرے کو نہیں بخشے گئے.چنانچہ ان دونوں طور کے دلائل کے بارے میں میں نے ایک مبسوط کتاب ازالہ اوہام نام لکھی ہے جو چھپ کر تیار ہو چکی ہے اور وہ ساٹھ جزو کی کتاب ہے اور بڑے اہتمام سے تیار ہوئی ہے.اور مع بلز افقط تین روپیہ اس کی قیمت رکھی ہے.اس کتاب میں بہت سے دلائل کے ساتھ حضرت عیسی ابن مریم کی وفات ثابت کی گئی ہے.اور اپنے مسیح موعود ہونے کی نسبت بہت سے دلائل بیان کئے گئے ہیں اس کتاب میں بہت سی پیشگوئیاں بھی لکھی ہیں اور بعض دوسرے جلد سوم

Page 246

حیات احمد ۲۴۳ نشان بھی بیان کئے ہیں.اور قرآن کریم کے حقائق و معارف اس میں بکثرت درج ہیں.اور وہ باتیں اس میں ہیں جو انسانوں کی علم اور طاقت سے بڑھ کر ہوتی ہیں جو شخص اس کو اوّل سے آخر تک بغور و انصاف پڑھے گا اُس کا نور قلب بلاشبہ شہادت دے گا کہ اس کتاب کے بہت سے مرقومات صرف الہی طاقت سے لکھے گئے ہیں.اور یہ وہی کتاب ہے جس کی نسبت رسالہ توضیح مرام میں نصیحتاً لکھا گیا تھا کہ اس کے دیکھنے سے پہلے کوئی صاحب مخالفانہ تحریر شائع نہ کریں.سواب وہ بھی بفضلہ تعالیٰ طیار ہوگئی ہے.اور خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سچائی کی حجت اپنی اس مخلوق پر پوری کرے جو سچائی سے روگردان ہے.مع ہذا چونکہ میں اس وقت اس شہر دہلی میں وارد ہوں اور افواہ سنتا ہوں کہ اس شہر کے بعض علماء جیسے حضرت سید مولوی نذیرحسین صاحب اور جناب مولوی ابو محمد عبد الحق صاحب اس عاجز کی تکذیب و تکفیر کے درپے ہیں اور الحاد اور ارتداد کی طرف منسوب کرتے ہیں.اگر چہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ روایتیں کہاں تک صحیح ہیں.صرف لوگوں کی زبان سے سنا ہے وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب لیکن إِثْمَامًا لِلْحُجَّة حضرات موصوفہ کی خدمت میں میں گزارش کرتا ہوں کہ معجزات و لیلة القدر و وجود ملائکه و وجود جبرائیل و معراج نبوی وغیرہ تعلیمات قرآن کریم و احادیث صحیحہ پر تو ایمان ہے اور مجھے محدثیت کا دعوی ہے نہ نبوت تامہ کا.اور ان سب باتوں میں اپنے بھائی مسلمانوں کے ساتھ مجھے کچھ اختلاف نہیں.ہاں اصل عقائد مذکورہ بالا و مسلم رکھ کر جو اور اور باتیں از قبیل اسرار وحقائق و معارف وعلوم حکمیہ و دقایق بطونِ قرآن کریم ہیں وہ مجھ پر جیسے جیسے الہام کے ذریعہ سے کھلتے ہیں ان کو بیان کر دیتا ہوں جن کا اصل عقائد سے کچھ بھی تعارض نہیں.ہاں حیات مسیح ابن مریم کی نسبت مجھے انکار ہے.سو یہ انکار صرف الہام الہی پر مبنی ہے بلکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویہ میرے اس الہام کی شاہد کامل ہیں.اگر حضرت سید مولوی محمد نذیر حسین صاحب یا جناب مولوی ابومحمد عبد الحق صاحب مسئلہ وفات مسیح میں مجھے مُخطی جلد سوم

Page 247

حیات احمد ۲۴۴ خیال کرتے ہیں یا ملحد اور ماؤل تصور فرماتے ہیں اور میرے قول کو خلاف قال اللہ قال الرسول گمان کرتے ہیں تو حضرات موصوفہ پر فرض ہے کہ عامہ خلایق کو فتنہ سے بچانے کے لئے اس مسئلہ میں اسی شہر دہلی میں میرے ساتھ بحث کر لیں.بحث میں صرف تین شرطیں ہوں گی.(۱) اوّل یہ کہ امن قائم رہنے کے لئے وہ خود سرکاری انتظام کراویں.یعنی ایک افسر انگریز مجلس بحث میں موجود ہو کیونکہ میں مسافر ہوں اور اپنی عزیز قوم کا مورد عتاب اور ہر طرف سے اپنے بھائیوں مسلمانوں کی زبان سے سبّ اور لعن و طعن اپنی نسبت سنتا ہوں.اور جو شخص مجھ پر لعنت بھیجتا ہے اور مجھے دجال کہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ آج میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے.لہذا میں بجز سرکاری افسر کے درمیان ہونے کے اپنے بھائیوں کی اخلاقی حالت پر مطمئن نہیں ہوں.کیوں کہ کئی مرتبہ تجربہ کر چکا ہوں وَلَا يُلْدَعُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ - (۲) دوسرے یہ کہ فریقین کی بحث تحریری ہو ہر ایک فریق مجلس بحث میں اپنے ہاتھ سے سوال لکھ کر اور اس پر اپنے دستخط کر کے پیش کرے.اور ایسا ہی فریق ثانی لکھ کر جواب دیوے.کیونکہ زبانی بیانات محفوظ نہیں رہ سکتے.اور نقل مجلس کرنے والے اپنی اغراض کی حمایت میں اس قدر حاشیے چڑھا دیتے ہیں کہ تحریف کلام میں یہودیوں کے بھی کان کاٹتے ہیں.اس صورت میں تمام بحث ضائع ہو جاتی ہے اور جو لوگ مجلس بحث میں حاضر نہیں ہو سکے ان کو رائے لگانے کے لئے کوئی صحیح بات ہاتھ نہیں آتی ، ماسوا اس کے صرف زبانی بیان میں اکثر مخاصم بے اصل اور کچی با تیں منہ پر لاتے ہیں لیکن تحریر کے وقت وہ ایسی باتوں کے لکھنے سے ڈرتے ہیں تا وہ اپنی خلاف واقعہ تحریر سے پکڑے نہ جائیں اور ان کی علمیت پر کوئی دھبہ نہ لگے.(۳) تیسری شرط یہ کہ بحث وفات ، حیات مسیح میں ہو.اور کوئی شخص قرآن کریم اور کتب حدیث سے باہر نہ جائے ، مگر صحیحین کو تمام کتب حدیث پر مقدم رکھا جائے اور بخاری کو مسلم پر کیونکہ وہ اَصَحُ الْكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللہ ہے.اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ جلد سوم

Page 248

حیات احمد ۲۴۵ جلد سوم اگر مسیح ابن مریم کی حیات طریقہ، مذکورہ بالا سے جو واقعات صحیحہ کو معلوم کرنے کے لئے خیر الطرق ہے، ثابت ہو جائے تو میں اپنے الہام سے دست بردار ہو جاؤں گا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہر سکتا.پس کچھ ضرور نہیں کہ میرے مسیح موعود ہونے میں الگ بحث کی جائے.بلکہ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ اگر میں ایسی بحث وفات عیسی میں غلطی پر نکلا تو دوسرا دعویٰ خود چھوڑ دوں گا.اور ان تمام نشانوں کی پروا نہیں کروں گا جو میرے اس دعویٰ کے مصدق ہیں کیونکہ قرآن کریم سے کوئی حجت بڑھ کر نہیں.وَمَا عِنْدَنا شَيْءٌ الَّا كِتَابَ اللَّهِ - فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَآلِتِهِ يُؤْمِنُونَ.میں ایک ہفتہ تک اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد حضرات موصوفہ کے جواب باصواب کا انتظار کروں گا.اور اگر وہ شرائط مذکورہ بالا کو منظور کر کے مجھے طلب کریں تو جس جگہ چاہیں میں حاضر ہو جاؤں گا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعُ الْهُدَى اور کتاب ازالہ اوہام کے خریداروں پر واضح ہو کہ میں لکی ماروں کے بازار میں کوٹھی لوہارو والی میں فروکش ہوں اور ازالہ اوہام کی جلدیں میرے پاس موجود ہیں.جو صاحب تین روپیہ قیمت داخل کریں.وہ خرید سکتے ہیں.والسلام المشتهـ خاکسار غلام احمد قادیانی حال وارد دہلی ، بازار یکی ماراں کوٹھی نواب لوہارو ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ء مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۲۱۴ تا ۲۱۸ طبع بار دوم ) النساء : ٢٠ الجاثية

Page 249

حیات احمد ۲۴۶ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ اشتہار بمقابل مولوی سید نذیر حسین صاحب سرگروہ اہلِ حدیث چونکہ مولوی سید نذیرحسین صاحب نے جو کہ موحدین کے سرگروہ ہیں.اس عاجز کو بوجہ اعتقاد وفات مسیح ابن مریم ملحد قرار دیا ہے اور عوام کو سخت شکوک وشبہات میں ڈالنا چاہا ہے اور حق یہ ہے کہ وہ آپ ہی اعتقاد حیات مسیح میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں.اوّل اہلِ حدیث ہونے کا دعویٰ کر کے اپنے بھائیوں حنفیوں کو بدعتی قرار دیا.اور امام بزرگ حضرت ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پر یہ الزام لگایا کہ ان کو حدیثیں نہیں ملی تھیں اور وہ اکثر احادیث نبویہ سے بے خبر ہی رہے تھے.اور اب باوجود دعوی اتباع قرآن اور حدیث کے حضرت مسیح ابن مریم کی حیات کے قائل ہیں.وہذا اعجب العجائب.اگر کوئی عوام میں سے ایسا کچا اور خلاف قال اللہ قال الرسول دعوی کرتا تو کچھ افسوس کی جگہ نہیں تھی لیکن یہی لوگ جو دن رات درس قرآن اور حدیث جاری رکھتے ہیں اگر ایسا بے اصل دعوی کریں تو اُن کی علمیت اور قرآن دانی اور حدیث دانی پر سخت افسوس آتا ہے.یہ بات کسی متنفس پر پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ فی الواقعہ حضرت مسیح علیہ السّلام وفات پاچکے ہیں ، مگر جن لوگوں کو عاقبت کا اندیشہ نہیں ، خدا تعالیٰ کا کچھ خوف نہیں ، وہ تعصب کو مضبوط پکڑ کر قرآن اور احادیث پس پشت ڈالتے ہیں.خدا تعالیٰ اس امت پر رحم کرے لوگوں نے کیسے قرآن اور حدیث کو چھوڑ دیا ہے.اور اس عاجز نے اشتہار ۲ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں حضرت مولوی ابو محمد عبدالحق صاحب کا نام جلد سوم

Page 250

حیات احمد ۲۴۷ بھی درج کیا تھا مگر عند الملاقات اور باہم گفتگو کرنے سے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب موصوف ایک گوشہ گزین آدمی ہیں اور ایسے جلسوں سے جن میں عوام کے نفاق شقاق کا اندیشہ ہے طبعا گارہ ہیں اور اپنے کام تفسیر قرآن کریم میں مشغول ہیں اور شرائط اشتہار کے پورا کرنے سے مجبور ہیں کیونکہ گوشتہ گزین ہیں.حکام سے میل ملاقات نہیں رکھتے اور بباعث درویشانہ صفت کے ایسی ملاقاتوں سے کراہت بھی رکھتے ہیں لیکن مولوی نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگر د بٹالوی صاحب جو اب دہلی میں موجود ہیں ان کاموں میں اول درجہ کا جوش رکھتے ہیں.لہذا اشتہار دیا جاتا ہے کہ اگر ہر دو مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح ابن مریم کو زندہ سمجھنے میں حق پر ہیں اور قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے اُس کی زندگی ثابت کر سکتے ہیں تو میرے ساتھ بپابندی شرائط مندرجہ اشتہار ۲ /۱ کتوبر ۱۸۹۱ء بالاتفاق بحث کر لیں.اور اگر انہوں نے بقبول شرائط اشتہار ۲ / اکتوبر ۱۸۹۱ء بحث کے لئے مستعدی ظاہر نہ کی اور پوچ اور بے اصل بہانوں سے ٹال دیا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کی وفات کو قبول کر لیا.بحث میں امرتنقیح طلب یہ ہوگا کہ آیا قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہی مسیح ابن مریم جس کو انجیل ملی تھی اب تک آسمان پر زندہ ہے اور آخری زمانے میں آئے گا.یا یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت فوت ہو چکا ہے اور اس کے نام پر کوئی دوسرا اسی امت میں سے آئے گا.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہی مسیح ابن مریم زنده بجسده العنصری آسمان پر موجود ہے تو یہ عاجز دوسرے دعوی سے خود دست بردار ہو جائے گا.ورنہ بحالت ثانی بعد اس اقرار کے لکھانے کے کہ در حقیقت اسی امت میں سے مسیح ابن مریم کے نام پر کوئی آنے والا ہے.یہ عاجز اپنے مسیح موعود ہونے کا ثبوت دے گا.اور اگر اس اشتہار کا جواب ایک ہفتہ تک مولوی صاحب کی طرف سے شائع نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ انہوں نے گریز کی اور حق کے طالبوں کو محض نصیحتاً کہا جاتا ہے کہ میری کتاب ازالہ اوہام کو خود جلد سوم

Page 251

حیات احمد ۲۴۸ غور سے دیکھیں اور ان مولوی صاحبوں کی باتوں پر نہ جائیں.ساٹھ جزو کی کتاب ہے.اور یقیناً سمجھو کہ معارف اور دلائل یقینیہ کا اس میں ایک دریا بہتا ہے.صرف سے (تین روپے) قیمت ہے.اور واضح ہو کہ یہ درخواست مولوی سید نذیر حسین صاحب کی کہ مسیح موعود ہونے کا ثبوت دینا چاہئے.اور اس میں بحث ہونی چاہئے بالکل تحكّم اور خلاف طریق انصاف اور حق جوئی ہے.کیونکہ ظاہر ہے کہ مسیح موعود ہونے کا اثبات آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ہو گا.اور آسمانی نشانوں کو بجز اس کے کون مان سکتا ہے کہ اوّل اس شخص کی نسبت جو کوئی آسمانی نشان دکھاوے یہ اطمینان ہو جاوے کہ وہ خلاف قَالَ الله وَقَالَ الرَّسُول کوئی اعتقاد نہیں رکھتا ، ورنہ ایسے شخص کی نسبت جو مخالف قرآن اور حدیث کوئی اعتقاد رکھتا ہے ولایت کا گمان ہرگز نہیں کر سکتے بلکہ وہ دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے.اور اگر وہ کوئی نشان بھی دکھاوے تو وہ نشان کرامت متصور نہیں ہوتا بلکہ اس کو استدراج کہا جاتا ہے چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بھی اپنے لمبے اشتہار میں جولدھیانہ میں چھپوایا تھا اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں.اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ سب سے پہلے بحث کے لائق وہی امر ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن اور حدیث اس دعوے کے مخالف ہیں اور وہ امر مسیح ابن مریم کی وفات کا مسئلہ ہے کیونکہ ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر در حقیقت قرآنِ کریم اور احادیث صحیحہ کی رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے تو اس صورت میں پھر اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعویٰ پر ایک نشان کیا بلکہ لاکھ نشان بھی دکھاوے تب بھی وہ نشان قبول کرنے کے لائق نہیں ہوں گے کیونکہ قرآن ان کے مخالف شہادت دیتا ہے غایت کار وہ استدراج سمجھے جائیں گے.لہذا سب سے اول بحث جو ضروری ہے مسیح ابن مریم کی وفات یا حیات کی بحث ہے جس کا طے ہو جانا ضروری ہے کیونکہ مخالف قرآن و حدیث کے نشانوں کا ماننا مومن کا کام نہیں.ہاں ان نادانوں کا کام ہے جو قرآن اور حدیث سے کچھ غرض نہیں جلد سوم

Page 252

حیات احمد ۲۴۹ جلد سوم رکھتے.فَاتَّقُو اللَّهَ أَيُّهَا الْعُلَمَاء وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.مرزا غلام احمد از دیلی بازار یکی ماراں کوٹھی نواب لوہارو ۶ اکتوبر ۱۸۹۱ء حاشیہ کی عبارت.بالاخر تمام عذرات نا معقول کے توڑنے اور اتمام حجت کی غرض سے یہ بھی ہم بطریق تنزل لکھتے ہیں کہ اگر مولوی سید نذیر حسین صاحب کسی افسر انگریز کے جلسہ بحث مامور کرانے سے ناکام رہیں تو اس صورت میں ایک اشتہار شائع کر دیں.جس میں حلفاً اقرار ہو کہ ہم خود قائمی امن کے ذمہ وار ہیں.کوئی شخص حاضرین جلسہ میں سے کوئی کلمہ خلاف تہذیب اور شرارت کا منہ پر نہیں لائے گا اور نہ آپ تو ہین استخفاف اور استکبار کے کلمات منہ پر لائیں گے.بلکہ سراسر عاجزی اور انکسار اور تواضع سے تحریری بحث کریں گے.اور کوئی عوام وخواص میں سے کوئی خلاف تہذیب و ادب کوئی کلمہ منہ پر لاوے تو فی الفور اُسے مجلس سے نکال دیں گے.اس صورت میں یہ عاجز مولوی صاحب کی مسجد میں بحث کے لئے حاضر ہو سکتا ہے.مگر دوسری تمام شرطیں اشتہا ر ۲ اکتوبر کی قائم رہیں گے.مطبوعہ مطبع اخبار خیر خواه هند دہلی ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۱۹ تا ۲۲۱ طبع بار دوم )

Page 253

حیات احمد ۲۵۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّيْ اللہ جل شانہ کی قسم دے کر مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب کی خدمت میں بحث حیات و ممات مسیح ابن مریم کے لئے درخواست انعام انعام فی حدیث وفی آیت دس روپے بحالت پوری کرنے شرط کے مولوی سید نذیر حسین صاحب کو دیا جائے گا.فقط جلد سوم اطلاع اطلاع دیں اور اگر خاموش رہے تو گریز تصور کی جائے گی.آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ.۱/۸اکتوبر ۱۸۹ء بحث کے لئے مقرر کر لیں یا ۱۹ یا ۲۰ اور کل تک تاریخ منظور کردہ کی اشاعت کے لئے ندارد کسے با تو نا گفتہ کار و لیکن چو گفتی دلیلش بیار اے مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب.آپ نے اور آپ کے شاگردوں نے دنیا میں شور ڈال دیا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز دعویٰ مسیح موعود ہونے میں مخالف قرآن و حدیث بیان کر رہا ہے.اور ایک نیا مذہب و نیا عقیدہ نکالا ہے جو سراسر مغائر تعلیم اللہ و ترجمہ.اگر تو نے کوئی بات نہیں کی تو کسی کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں لیکن اگر کہی ہے تو اس کی دلیل لانی پڑے گی.

Page 254

حیات احمد ۲۵۱ رسول اور یہ بداہت باطل ہے.کیونکہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ بجسده العنصری آسمان پر اٹھائے گئے اور پھر کسی وقت آسمان پر سے زمین پر تشریف لا ئیں گے.اور ان کا فوت ہو جانا مخالف نصوص قرآنیہ و احادیث صحیحہ ہے.سو چونکہ آپ نے مجھے اس دعوی میں مخالف قرآن و حدیث قرار دے دیا ہے جس کی وجہ سے ہزار ہا مسلمانوں میں بدظنی کا فتنہ برپا ہو گیا ہے.لہذا آپ پر فرض ہے کہ مجھ سے اس بات کا تصفیہ کر لیں کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے میں میں نے قرآن اور حدیث کو چھوڑ دیا ہے یا آپ ہی چھوڑ بیٹھے ہیں اور اس قدر تو خود میں مانتا ہوں کہ اگر میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کا مخالف نصوص بینہ قرآن و حدیث ہے اور دراصل حضرت عیسی ابن مریم آسمان پر زندہ بجسده العنصری موجود ہیں جو پھر کسی وقت زمین پر اُتریں گے تو گو یہ میرا دعویٰ ہزار الہام سے مؤید اور تائید یافتہ ہو اور گو نہ صرف ایک نشان بلکہ لاکھ آسمانی نشان اس کی تائید میں دکھاؤں تا ہم وہ سب بیچ ہیں کیونکہ کوئی امر اور کوئی دعوئی اور کوئی نشان مخالف قرآن اور احادیث صحیحہ مرفوعہ ہونے کی حالت میں قابل قبول نہیں.اور صرف اس قدر مانتا ہوں بلکہ اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر آپ یا حضرت !! ایک جلسہ بحث مقرر کر کے میرے دلائل پیش کردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رو سے بیان کروں گا توڑ دیں اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پر پیش کریں اور آیات صریحہ بینہ قطعية الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابن مریم کا بجسده العنصری زندہ ہونا ثابت کر دیں تو میں آپ کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا اور تمام کتابیں جو اس مسئلہ کے متعلق تالیف کی ہیں جس قدر میرے گھر میں موجود ہیں سب جلا دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی تو بہ اور رجوع کے بارے میں عام اطلاع دوں گا.وَلَعْنَتُ اللَّهِ عَلى كَاذِبِ يَخْفَى فِي قَلْبِهِ مَايُخَالِفُ بَيَانَ لِسَانِهِ.مگر یہ بھی یادر کھیئے کہ اگر آپ ہی مغلوب ہو گئے اور کوئی صَرِيحَةُ الدَّلالت آیت اور حدیث صحیح مرفوع جلد سوم

Page 255

حیات احمد ۲۵۲ جلد سوم متصل پیش نہ کر سکے تو آپ کو بھی اپنے اس انکار شدید سے تو بہ کرنی پڑے گی.وَاللَّهُ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ.اب میں یا حضرت ! ! آپ کو اُس رب جلیل تعالی و تقدس کی قسم دیتا ہوں جس نے آپ کو پیدا کر کے اپنی بے شمار نعمتوں سے ممنون فرمایا کہ اگر آپ کا یہی مذہب ہے کہ قرآن کریم میں مسیح ابن مریم کی زندگی کے بارے میں آیات صریحہ بینه قطعية الدلالت موجود ہیں اور ان کی تائید میں احادیث صحیحه مرفوعہ متصلہ اپنے منطوق سے شہادت دیتی ہیں جن کی وجہ سے آپ کو میرے الہامی دعوی کی نسبت مومنانہ حسن ظن کو الوداع کہہ کر سخت انکار کرنا پڑا تو اس خداوند کریم سے ڈر کر جس کی میں نے ابھی آپ کو قسم دی ہے میرے ساتھ إِظْهَارًا لِلْحَقِّ بحث کیجئے.آپ کو اس بحث میں کچھ بھی تکلیف نہیں ہوگی.اگر کوئی عدالت گورنمنٹ برطانیہ کی کسی دنیوی مقدمہ میں آپ سے کسی امر میں اظہار لینا چاہے تو آپ جس قدر عدالت چاہے ایک مبسوط بیان لکھوا سکتے ہیں بلکہ بلا توقف تاریخ مقررہ پر حاضر ہو جائیں گے.اور بڑی شد ومد سے اظہار دیں گے.ماشاء اللہ درسِ قرآن و حدیث روز جاری ہے.آواز بلند ہے.طاقتیں قائم ہیں.اور آپ کو بوجہ تو غل زمانہ دراز کے احادیث نبویہ و قرآن کریم حفظ کی طرح یاد ہیں.کوئی محنت اور فکر سوچ کا کام نہیں.تو پھر خدا تعالیٰ کی عدالت سے کیوں نہیں ڈرتے اور سچی شہادت کو کیوں پیٹ میں دبائے بیٹھے ہیں اور کیوں کچے عذر اور حیلے بہانے کر رہے ہیں کہ بحث کرنے سے مجبور ہوں.شیخ محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالمجید میری طرف سے بحث کریں گے.حضرت مجھے آپ کا وہ خط دیکھ کر کہ میں بحث کرنا نہیں چاہتا، دوسروں ☆ مخط.بمطالعہ گرامی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی.بعد سلام مسنون.آپ کے خط دیروزہ کا جواب میری طرف سے میرے تلامذہ مولوی عبدالمجید صاحب اور مولوی ابو سعید محمد حسین دیں گے.آئندہ آپ مجھے اپنے جواب سے معاف رکھیں جو کچھ کہنا ہو انہیں سے کہیں اور ان ہی سے جواب لیں.م سید محمد نذیر حسین.۱۳ / اکتوبر ۹۱ء.

Page 256

حیات احمد ۲۵۳ سے کرو، رونا آیا ، کیسا زمانہ آ گیا کہ آج کل کے اکثر علماء فتنہ ڈالنے کے لئے تو آگے اور اصلاح کے کاموں میں پیچھے ہٹتے ہیں.اگر ایسے نازک وقت میں آپ اپنی وسیع معلومات سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچائیں گے تو کیا وہ معلومات آپ قبر میں لے جائیں گے؟ آپ بقول بٹالوی صاحب شیخ الکل ہیں.شیخ الکل ہونے کا دعوی کچھ چھوٹا دعویٰ نہیں.گویا آپ سارے جہان کے مقتداء ہیں اور بٹالوی اور عبدالمجید جیسے آپ کے ہزاروں شاگرد ہوں گے.اگر بٹالوی صاحب کو ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ ساکت کر دیا جائے تو اس کا کیا اثر ہو گا.وہ شیخ الکل تو نہیں.غرض دنیا کی آپ پر نظر ہے یقیناً سمجھو کہ اگر آپ نے اس بارے میں بذات خود بحث نہ کی تو خدا تعالیٰ سے ضرور پوچھے جاؤ گے.لب بام کی حالت ہے، خدا تعالیٰ سے ڈرو.سفر آخرت بہت نزدیک ہے.اگر حق کو چھپاؤ گے تو رب منتقم کے اخذ شدید سے ہرگز نہیں بچو گے.آپ کو بٹالوی شیخ کے منصوبوں سے پر ہیز کرنا چاہئے.وہ حضرت اس فطرت کے ہی آدمی نہیں کہ جو آپ کو محض اللہ بحث کرنے کے لئے صلاح دیویں.ہاں ایسے کام ان کو بخوبی آتے ہیں کہ فرضی طور پر ادھر اُدھر مشہور کر دیا اور اپنے دوستوں کو بھی خبریں پہنچا دیں کہ ہم نے فتح پائی.ہم سے گریز کی.تاریخ مقررہ پر نہ آئے.حیا شعبہ ایمان ہے.اگر بٹالوی صاحب کو دیانت اور راست بازی کا کچھ خیال ہوتا تو ایسی دروغ بے فروغ باتیں مشہور نہ کرتے.یہ کس قدر مکر و فریب اور چالا کی ہے کہ سراسر بدنیتی سے ایک یکطرفہ اشتہار جاری کر دیا اور محض فرضی طور پر مشتہر کر دیا کہ فلاں تاریخ میں بحث ہوگی.اگر نیت نیک ہوتی تو چاہئے تھا کہ مجھ سے اتفاق کر کے یعنی میری اتفاق رائے سے تاریخ بحث مقرر کی جاتی تاکہ میں اپنے خانگی حفظ امن کے لئے انتظام کر لیتا اور جس تاریخ میں حاضر ہو سکتا اُسی تاریخ کو منظور کرتا اور نیز چاہئے تھا کہ پہلے امر قابل بحث صفائی سے طے ہو لیتا غرض ضروری تھا کہ جیسا کہ مناظرات کے لئے دستور ہے فریقین کی اتفاق رائے اور دونوں فریق کے دستخط ہونے کے بعد اشتہار جلد سوم

Page 257

حیات احمد ۲۵۴ جاری کیا جاتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور یونہی اڑا دیا گیا کہ جلسہ بحث میں حاضر نہیں ہوئے اور گریز کر گئے اور شیخ الکل صاحب سے ڈر گئے.ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ یہ عاجز اسی غرض سے تو اپنا وطن چھوڑ کر دہلی میں غربت اور مسافرت کی حالت میں آ بیٹھا ہے تا شیخ الکل صاحب سے بحث کر کے ان کی دیانت وامانت اور ان کی حدیث دانی اور ان کی واقفیت قرآنی لوگوں پر ظاہر کر دیوے تو پھر اُن سے ڈرنے کے کیا معنے ؟ غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر یہ عاجز شیخ الکل سے ڈر کر ان کے یک طرفہ تجویز کردہ جلسہ بحث میں حاضر نہیں ہوا تو اب شیخ الکل صاحب کیوں بحث سے کنارہ کش ہیں اور کیوں اپنے اس علم اور معرفت پر مطمئن نہیں رہے جس کے جوش سے یکطرفہ جلسہ تجویز کیا گیا تھا.ہر ایک منصف ان کے پہلے یکطرفہ جلسہ کی اصل حقیقت اسی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ جلسہ صحت نیت پر مبنی تھا اور مکاری اور دھوکہ دہی کا کام نہیں تھا تو ان کا وہ پہلا جوش اب کیوں ٹھنڈا ہو گیا.اصل بات یہ ہے کہ وہ یکطرفہ جلسہ محض شیخ بٹالوی کا ایک فریب حق پوشی کی غرض سے تھا.جس کی واقعی حقیقت کھولنے کے لئے اب شیخ الکل صاحب کو بحث کے لئے بلایا جاتا ہے.یکطرفہ جلسہ میں حاضر ہونا اگر چہ میرے پر فرض نہ تھا کیونکہ میری اتفاق رائے سے وہ جلسہ قرار نہ پایا تھا.اور میری طرف سے ایک خاص تاریخ میں حاضر ہونے کا وعدہ بھی نہ تھا مگر پھر بھی میں نے حاضر ہونے کے لئے طیاری کر لی تھی، لیکن عوام کے مفسدانہ حملوں نے جو ایک نا گہانی طور پر کئے گئے ، اُس دن حاضر ہونے سے مجھے روک دیا.صد ہا لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اس جلسہ کے عین وقت میں مفسد لوگوں کا اس قدر ہجوم میرے مکان پر ہو گیا کہ میں ان کی وحشیانہ حالت دیکھ کر اوپر کے زنانے مکان میں چلا گیا.آخر وہ اسی طرف آئے اور گھر کے کواڑ توڑنے لگے اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ بعض آدمی زنانہ مکان میں گھس آئے اور ایک جماعت کثیر نیچے اور گلی میں کھڑی تھی جو گالیاں دیتے تھے اور بڑے جوش سے بد زبانی کا بخار نکالتے تھے.جلد سوم

Page 258

حیات احمد ۲۵۵ بڑی مشکل سے خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُن سے رہائی پائی اور سخت مدافعت کے بعد یہ بلا دفع ہوئی.اب ہر ایک منصف مزاج سمجھ سکتا ہے کہ اس بلوہ عوام کی حالت میں کیونکر میں گھر کو اکیلا چھوڑ کر جلسہ بحث میں حاضر ہو سکتا تھا.اب انصاف اور غور کا مقام ہے کہ میرے جیسے مسافر کی دہلی والوں کو ایسی حالت میں ہمدردی کرنی چاہئے تھی نہ یہ کہ ایک طرف عوام کو ورغلا کر اور اُن کو جوش دہ تقریریں سنا کر میرے گھر کے ارد گرد کھڑا کر دیا اور دوسری طرف مجھے بحث کے لئے بلایا اور پھر نہ آنے پر جو موانع مذکورہ کی وجہ سے تھا شور مچا دیا کہ وہ گریز کر گئے.اور ہم نے فتح پائی.کیا یہ مرغوں اور بٹیروں کی لڑائی تھی یا اظہار حق کے لئے بحث تھی.اگر ایمانداری پر اس جلسہ کی بناء ہوتی تو عذر معقول سن کر خود دوسری تاریخ بحث مقرر کرنے کے لئے راضی ہو جاتے.اور میں نے اُسی روز یہ بھی سنا کہ راہ میں بھی امن نہ تھا اور مقام تجویز کردہ بحث میں عوام کی حالت قابل اطمینان نہ تھی اور عین جلسہ میں مخالفانہ باتیں تہمت اور بہتان کے طور پر عوام کو سنا کر اُن کو بھڑکا یا جا رہا تھا، لیکن سب سے بڑھ کر جو بچشم خود صورت فساد دیکھی گئی وہ یہی تھی جو ابھی میں نے بیان کی ہے.اگر مولوی نذیرحسین صاحب کو یہ بلا پیش آتی تو کیا ان کی نسبت یہ کہنا جائز ہوتا کہ وہ بحث سے کنارہ کر گئے.جس حالت میں یہ واقعات ایسے ہیں تو پھر کیسی بے شرمی کی بات ہے کہ اس غیر حاضری کو گریز پر حمل کیا جائے.اے حضرت ! خدا تعالیٰ سے ڈریں اور خلاف واقعہ منصوبوں کو فتح یابی کے پیرایہ میں مشہور نہ کریں.اب میں بفضلہ تعالیٰ اپنی حفاظت کا انتظام کر چکا ہوں اور بحث کے لئے طیار بیٹھا ہوں مصائب سفر اٹھا کر اور دہلی والوں سے ہر روز گالیوں اور لعن طعن کی برداشت کر کے محض آپ سے بحث کرنے کے لئے اے شیخ الکل صاحب! بیٹھا ہوں.یہ عذر کوئی عقلمند قبول نہیں کرے گا کہ آپ کے یکطرفہ جلد سوم

Page 259

حیات احمد ۲۵۶ جلسہ میں عاجز حاضر نہ ہو سکا اگر آپ حق پر ہیں اور آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ در حقیقت قرآن کریم کی آیت صریحہ قطعیة الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابن مریم کا زندہ بجسده العنصری آسمان پر اٹھائے جانا متحقق اور ثابت شدہ امر ہے تو ایسی رکیک باتوں کا فتح نام رکھنا سخت نا مردی ہے.بسم اللہ آئیے اور اپنا وہ عجیب ثبوت دکھلائیے.اگر آپ ایسی دقتیں جو تمام ملک ہند میں میری طرف سے بدلائل شافیہ یہ اشاعت ہو گئی ہے کہ در حقیقت مسیح ابن مریم کا زندہ بِجَسدِهِ العنصری اٹھائے جانا قرآن وحدیث سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ وہ فوت ہو چکا ہے.اور جو شخص اُن کی جسمانی دنیوی زندگی کا مدعی ہے وہ جھوٹا و کذاب ہے، میدان میں آکر حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی دنیوی زندگی کا ثبوت نہیں دیں گے تو پھر آپ کس مرض کی دوا ہیں اور شیخ الکل کیوں اپنے شاگردوں سے کہلاتے ہیں حضرت! بحث کرنے کیلئے باہر تشریف لائیے کہ میں بحث کے لئے تیار ہوں.آپ کیوں مقتداء اور شیخ الکل ہونے کی حالت میں بحث کرنے سے کنارہ کرتے اور حق الا مر کو چھپاتے ہیں اور حق کو اس کے ظہور سے روکتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ حق کھل جائے.آپ کو ڈرنا چاہئے يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ کا مصداق نہ ہو جائیں کیونکہ جس حالت میں آپ کے مقابل آنے سے حق کھلتا ہے اور آپ کو ٹھری میں چھپے بیٹھے ہیں تو پھر آپ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللہ کے مصداق ہوئے یا کچھ اور ہوئے.پس آپ خدا تعالیٰ سے ڈریں اور بحث کے میدان میں آکر یہ کوشش کریں کہ حق گھل جائے اور گریز اور فرار اختیار نہ کریں یا يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ الله کا مصداق نہ بن جائیں اور میں تو یا حضرت !! اس عظیم الشان بحث کے لئے حاضر ہوں.اور ہر گز تخلف نہ کروں گا.لَعْنَةُ اللهِ عَلَى مَنْ تَخَلَّفَ وَصَدَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہ.اب میں یا حضرت !! پھر اللہ جَلَّ شَانُہ کی آپ کو قسم دے کر اس بحث کے جلد سوم

Page 260

حیات احمد ۲۵۷ لئے بلاتا ہوں.جس جگہ چاہیں حاضر ہو جاؤں مگر تحریری بحث ہو گی تاکسی محترف کو تحریف کی گنجائش نہ ہو.اور ملک ہند کے تمام اہلِ نظر کو رائے کرنے کے لئے وہی تحریرات یقینی ذریعہ مل جائے.آپ یقینا یا درکھیں کہ یہ آپ کی جھوٹی خوشی ہے اور یہ آپ کا غلط خیال ہے کہ یقینی اور قطعی طور پر مسیح ابن مریم زنده بجسده العنصری آسمان کی طرف اٹھایا گیا ہے.جس دن بحث کے لئے آپ میرے سامنے آئیں گے اس دن تمام یہ خوشی ، رنج کے ساتھ مبدل ہو جائے گی.اور سخت رسوائی سے آپ کو اس قول سے رجوع کرنا پڑے گا کہ در حقیقت آیات بینه صریحہ وقطعیة الدلالت اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ سے حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی زندگی ثابت ہے.اگر چہ آپ درس قرآن و حدیث میں ریش و بروت سفید کر بیٹھے ہیں مگر حقیقت تک آپ کو کسی استاد نے نہیں پہنچایا اور مغز قال اللہ اور قال الرسول سے دور مہجور و بے نصیب محض ہیں.آپ کو شرم کرنی چاہئے کہ شیخ الکل ہونے کا دعویٰ اور پھر اس فضیحت کی غلطی کہ آپ یقین رکھتے ہیں کہ ایسی آیات اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ موجود ہیں جن سے مسیح ابن مریم کا زندہ بجسده العنصری آسمان پر جانا ثابت ہوتا ہے.شاید ایسی حدیثیں آپ کی کوٹھری میں بند ہوں گی جواب تک کسی پر ظاہر نہیں ہوئیں.اگر آپ کو کچھ شرم ہے تو اب بلا توقف بحث کے لئے میدان میں آجائیں.تا سیہ روشود ہر کہ در وغش باشد.اگر آپ اس مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے نہ آئے اور مفسد طبع ملانوں پر بھروسہ رکھ کر کوٹھری میں چھپ گئے تو یاد رکھو کہ تمام ہندوستان و پنجاب میں ذلت اور بدنامی کے ساتھ آپ مشہور ہو جائیں گے اور شیخ الکل ہونے کی تمام رونق جاتی رہے گی.میں متعجب ہوں کہ آپ کس بات کے شیخ الکل ہیں.قرائن سے اس بات کا یقین آتا ہے کہ آپ نے ہی ایک بد زبان بٹالوی فطرت کے بگڑے ہوئے شیخ کو در پردہ سمجھا رکھا ہے کہ مساجد اور مجالس میں اور نیز تا ہر جھوٹا روسیاہ ہو جائے.جلد سوم

Page 261

حیات احمد ۲۵۸ جلد سوم آپ کے مکان پر علانیہ اس عاجز کو گالیاں دیا کرے چنانچہ اس نیک بخت کا یہی کام ہے کہ آپ کو تو ہر جگہ شیخ الکل کہہ کر دوسروں کی ہجو ملیح کرتا ہے اور اس عاجز کو جابجا شیطان، دقبال، بے ایمان، کافر کے نام سے یاد کرتا ہے مگر آپ کی درحقیقت یہ گالیاں اُس کی طرف سے نہیں آپ کی طرف سے ہیں.کیونکہ اگر ذرہ سی بھی دھمکی آپ کی طرف سے ملتی تو وہ دم بخودرہ جا تا بلکہ میں نے سنا ہے کہ آپ اُس شخص کے مخالف نہیں بلکہ ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور آپ پر واضح رہے کہ کس قدر درشتی جو اس تحریر میں استعمال کی گئی ہے وہ درحقیقت آپ ہی کے اس شاگر درشید کی مہربانی ہے اور پھر بھی میں نے كَمَا تُدِيْنُ تُدَانُ پر عمل نہیں کیا.کیونکہ سفہاء کی طرح سب وشتم میری فطرت کے مخالف ہے یہ شیوہ آپ اور آپ کے شاگردوں کے لئے ہی موزوں ہے.میں بفضلہ تعالیٰ جوش نفس سے محفوظ ہوں.میرے ہر ایک لفظ کی صحت نیت پر بناء ہے.آپ کے جگانے کے لئے کسی قدر بلند آواز کی ضرورت پڑی.ورنہ مجھے آپ لوگوں کی گالیوں پر نظر نہیں.كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ - وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى بالآخر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی طرح بحث کر نا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل وفات مسیح سن کر اللہ جل شانہ کی تین مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دیجئے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ بجسده العنصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور آیات قرآنی اپنی صریح دلالت سے اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ اپنے کھلے کھلے منطوق سے اسی پر شہادت دیتی ہیں.اور میرا عقیدہ یہی ہے تب میں آپ کی اس گستاخی اور حق پوشی اور بد دیانتی اور جھوٹی گواہی کے فیصلہ کے لئے جناب الہی میں تضرع اور ابتہال کروں گا اور چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہو چکا ہے کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ کے اور مجھے لے جیسا کروگے ویسا بھرو گے.سے ہر کوئی اپنے انداز میں کام کرتا ہے (بنی اسرائیل: ۸۵) سے المؤمن: ۶۱

Page 262

حیات احمد ۲۵۹ جلد سوم یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ تقویٰ کا طریق چھوڑ کر ایسی گستاخی کریں گے اور آیت لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم لے کو نظر انداز کر دیں گے تو ایک سال تک گستاخی کا آپ پر ایسا کھلا کھلا اثر پڑے گا جو دوسروں کے لئے بطور نشان کے ہو جائے گا.لہذا مظہر ہوں کہ اگر بحث سے کنارہ ہے تو اسی طور سے فیصلہ کر لیجیے تا وہ لوگ جو نشان نشان کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھا دیوے.وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ - وَ آخِرُ دَعْوَانَا عَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ حلفی اقرار دربارہ ادائے پچیس روپیہ فی حدیث اور فی آیت بالآخر مولوی سید نذیر حسین صاحب کو یہ بھی واضح رہے کہ اگر وہ اپنے اس عقیدہ کی تائید میں جو حضرت ا مسیح ابن مریم بِجَسَدِهِ الْعَنصُرِی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے آیات صریحہ بینہ قطعية الدلالت و احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعه مجلس مباحثہ میں پیش کر دیں اور جیسا کہ ایک امر کو عقیدہ قرار دینے کے لئے ضروری ہے یقینی اور قطعی ثبوت صعود جسمانی مسیح ابن مریم کا جلسہ عام میں اپنی زبان مبارک سے بیان فرما دیں تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ فی آیت وفی حدیث پیچیش رو پید ان کی نذر کروں گا.الناصح المشفق المشتهر المعلن مرزا غلام احمد قادیانی ( مطبوعہ مطبع جو ہر ہند دہلی ) ۷ ارا کتوبر ۱۸۹۱ء یہ اشتہار ۲۲۴۸ کے دو صفحوں پر ہے ) مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۲۲۲ تا ۲۲۸ طبع بار دوم ) بنی اسرائیل : ۳۷

Page 263

حیات احمد ۲۶۰ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ جلد سوم تقریر واجب الاعلان متعلق أن حالات و واقعات کے جو مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب ملقب به شیخ الکل سے جلسہ ءِ بحث ۲۰/اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ظہور میں آئی حضرت شیخ الکل صاحب جلسہء بحث ۲۰ /اکتوبر ۱۸۹۱ء میں حاضر تو ہوئے مگر اپنی خوشی سے نہیں بلکہ اس غیرت دلانے والے اشتہار کی وجہ سے جو میری طرف سے ۱۷ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو شائع کیا گیا تھا.جس میں بالفاظ دیگر یہ بھی بیان تھا کہ اگر یہ عاجز یا شیخ الکل صاحب یعنی کوئی ہم دونوں میں سے جلسہ بحث میں حاضر ہونے سے تخلف کرے تو اس پر بوجہ حق پوشی وَصَدَّ عَنْ سَبِيْلِ الله واخفائے شہادت خدائے تعالیٰ کی لعنت ہو، سو اس مجبوری سے ان کو بہر حال حاضر ہونا پڑا تا وہ اپنے تیں اس داغ ملامت سے بچالیں جو درصورت غیر حاضری ان کے چہرہ مشیخت پر لگتا تھا.مگر جلسہ بحث کے منصف اور معزز حاضرین خوب سمجھ گئے ہوں گے کہ شیخ الکل صاحب اس داغ سے بچ نہیں سکے.کیوں کہ ان کا فقط حاضر ہونا اس داغ سے محفوظ رہنے کے لئے کافی نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی تو ضرور تھا کہ وہ اصل مقصد حاضری کو جو مباحثہ تھا نیک نیتی کے ساتھ مد نظر رکھ کر بلا توقف اظهارا للحق مسئلہ وفات وحیات مسیح میں اس عاجز سے بحث کرتے اور حاضرین کو جو شوق سے آئے تھے دکھلاتے کہ حیات مسیح ابن مریم پر کون سے قطعی اور یقینی دلائل اُن کے پاس موجود ہیں اور نیز براہین وفات مسیح کے بارے میں کیا کیا تسلی بخش جوابات ان کے پاس ہیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا.کیوں نہیں کیا ؟ اس کا یہی باعث تھا کہ وہ

Page 264

حیات احمد ۲۶۱ تہی دست محض تھا.جس حال میں قرآن کریم اور احا دیث صحیحہ نبویہ میں حیات جسمانی مسیح ابن مریم کے بارے میں ایک ذرہ یقینی اور قطعی ثبوت نہیں ملتا اور وفات مسیح پر اس قدر ثبوت قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں موجود ہیں جو چمکتے ہوئے نور کی طرح دل کو تسلی اور اطمینان کی روشنی بخشتے ہیں.پھر حضرت شیخ الکل صاحب حیات مسیح ابن مریم پر کون سی دلیل لاتے اور کہاں سے لاتے؟ پس یہی وجہ تھی کہ وہ ایسے چپ ہوئے کہ گویا قالب میں جان نہیں یا جسم میں دم نہیں.اس نازک وقت میں جب اُن سے دم بدم یہ مطالبہ ہو رہا تھا کہ اگر آپ یہ عقیدہ مسیح کی حیات جسمانی کا در حقیقت صحیح اور یقینی اور آیات قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے ثابت کر دیں تو ہم اس ایک ہی ثبوت سے تمام دعوئی چھوڑ دیتے ہیں.آئیے وہ ثبوت پیش کیجئے.شیخ الکل کی وہ حالت محسوس ہوتی تھی کہ گویا اُس وقت جان کندن کی حالت اُن پر طاری تھی.اس جلسہ میں تخمیناً پانچ ہزار سے کچھ زیادہ آدمی ہوں گے اور شہر کے معزز اور رئیس بھی موجود تھے اور سر کا رانگریزی کی طرف سے امن قائم رکھنے کے لئے ایسا احسن انتظام ہو گیا تھا کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں.صاحب سٹی سپر نٹنڈنٹ پولیس یورپین مع انسپکٹر صاحب اور ایک کافی جماعت پولیس کی موقعہ جلسہ پر جو جامع مسجد دہلی تھی، تشریف لے آئے تھے.اور ہر ایک طور اور پہلو سے حفظ امن کے مراتب اپنے ہاتھ میں لے کر اس بات کے منتظر تھے کہ اب فریقین تہذیب اور شائستگی.بحث شروع کریں.اسوقت تاکید أو اتـمـامـا للحجة حضرت شیخ الکل صاحب کی خدمت میں جو ایک گوشہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے.میں نے یہ رقعہ بھیجا کہ میں موجود ہوں.اب آپ جیسا کہ اشتہار۱۷ / اکتوبر ۱۸۹۱ء میں میری طرف سے شائع ہو چکا ہے، حیات و وفات مسیح کے بارے میں مجھ سے بحث کریں اور اگر بحث سے عاجز ہیں تو حسب منشاء اشتہار مذکورہ بدیں مضمون قسم کھا لیں کہ میرے نزدیک مسیح ابن مریم کا زنده بجسده العنصری آسمان پر اٹھایا جانا قرآن اور حدیث کے نصوص صریحہ قطعیہ بینہ سے ثابت ہے تو پھر آپ بعد اس قسم کے اگر ایک سال تک اس حلف دروغی کے اثر بد سے محفوظ رہے تو میں آپ کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا، بلکہ اس مضمون کی تمام جلد سوم

Page 265

حیات احمد ۲۶۲ کتا ہمیں جلا دوں گا، لیکن شیخ الکل صاحب نے ان دونوں طریقوں میں سے کسی طریق کو منظور نہ کیا.ہر چند اس طرف سے بار بار یہی درخواست تھی کہ آپ بحث کیجئے یا حسب شرائط اشتہار قسم ہی کھائیے تا اہل حق کے لئے خدائے تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کرے.مگر شیخ الکل صاحب کی طرف سے گریز تھی اور آخر انہوں نے اُس غرق ہونے والے آدمی کی طرح جو بچنے کی شمع خام سے گھاس پات کو ہاتھ مارتا ہے یہ حیلہ و بہانہ بوساطت اپنے بعض وکلاء کے صاحب سٹی سپر نٹنڈنٹ پولیس کی خدمت میں جو اسی کام کے لئے فریقین کے درمیان کھڑے تھے پیش کیا کہ یہ شخص عقائد اسلام سے منحرف ہے.معجزات کو نہیں مانتا، لیلة القدر کو تسلیم نہیں کرتا.اور معراج اور وجود ملائکہ سے منکر ہے.اور پھر نبوت کا بھی مدعی اور ختم نبوت سے انکاری ہے.پس جب تک یہ شخص اپنے عقائد کا ہم سے تصفیہ نہ کرے ہم وفات وحیات مسیح کے بارے میں ہرگز بحث نہ کریں گے، یہ تو کافر ہے.کیا کافروں سے بحث کریں؟ اس وقت میری طرف سے رو برو صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ان کو یہ جواب ملا کہ یہ سب باتیں سراسر افتراء ہیں.مجھے ان تمام عقائد میں سے کسی کا بھی انکار نہیں.ہاں اصل عقائد کو مسلم رکھ کر بعض نکات و معارف ارباب کشوف کے طور پر کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں لکھے ہیں جو اصل عقائد سے معارض نہیں ہیں.اگر فریق مخالف اپنی کو تہ فہمی اور بدنیتی سے انہیں متصوفانہ اسرار اور الہامی نکات و معارف کو خلاف عقائد اہل سنت خیال کرتے ہیں تو یہ خود اُن کا قصور فہم ہے.میری طرف سے کوئی اختلاف نہیں.اور میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ ایک رسالہ مستقلہ ان کی تفہیم و تلقین کی غرض سے اس بارہ میں شائع کروں گا تا پبلک خود فیصلہ کر لے کہ کیا ان عقائد میں اہلِ سنت والجماعت کے عقائد سے میں نے علیحدگی اختیار کی ہے یا در حقیقت بہت سے لطائف اسرار کے ساتھ وہی عقائد اہل سنت ہیں کوئی دوسرا امر نہیں.صرف معترضین کی آنکھوں پر غبار ہے جو خویش کو اجنبی کی صورت میں دیکھتے ہیں اور موافق کلی کو مغائر کلی خیال کرتے ہیں.اور بار بار یہ بھی کہا گیا کہ جس حالت میں میں نے اشتہار بھی شائع کر دیا ہے کہ ان عقائد سے انکار کرنا میرا مذ ہب نہیں ہے جلد سوم

Page 266

حیات احمد ۲۶۳ بلکہ منکر کو میں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں تو پھر میں ان عقائد مسلمہ میں بحث کیا کروں.بحث تو اختلاف کی حالت میں ہوتی ہے نہ اتفاق کی حالت میں.سو تم مسلّمات فریقین میں خواہ مخواہ کی گفتگو نہ کرو.اُس بات میں بحث کرو جس میں مجھے تمہارے عقیدہ موجودہ سے مخالفت ہے یعنی صعود ونزول مسیح ابن مریم بجسده العنصری میں.لیکن حضرت شیخ الکل صاحب اپنی اس ضد سے باز نہ آئے اور بحث حیات و وفات مسیح سے صاف صاف انکار کرتے رہے.آخر اُن کی اس ضد اور اصرار سے فہیم لوگوں نے سمجھ لیا کہ حضرت کے پاس حیات جسمانی مسیح ابن مریم پر کوئی دلیل نہیں اور نہ وہ دلائل وفات ابن مریم کو رڈ کر سکتے ہیں.اور رُعب حق کی وجہ سے حسب شرائط اشتہار قسم کھانے کے لئے بھی جرات نہیں.تب صاحب سٹی سپر نٹنڈنٹ پولیس نے اس کشمکش سے تنگ آکر اور لوگوں کی ایک وحشیانہ حالت اور نیز کثرت عوام دیکھ کر خیال کیا کہ اب بہت دیر تک انتظار کرنا اچھا نہیں.لہذا عوام کی جماعت کو متفرق کرنے کے لئے حکم سنا دیا گیا کہ چلے جاؤ.بحث نہیں ہوگی.یہ وہ ا واقعات ہیں جو صاحب سٹی سپر نٹنڈنٹ پولیس اور نیز اُن کے معزز ماتحت انسپکٹر صاحب خود درمیان میں کھڑے ہو کر سن چکے ہیں.اس جلسہء بحث میں خواجہ محمد یوسف صاحب رئیس و وکیل و آنریری مجسٹریٹ علی گڑھ بھی موجود تھے.اور یہ ایک حسن اتفاق تھا کہ ایسا ثقہ آدمی اس جلسہ میں شامل ہو گیا.غرض خواجہ صاحب نے فریق ثانی کے بیہودہ عذرات سن کر میری طرف توجہ کی اور کہا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ بر خلاف عقیدہ اہلِ سنت والجماعت لیلۃ القدر اور معجزات اور ملائک اور معراج وغیرہ سے منکر اور نبوت کے مدعی ہیں.میں نے کہا کہ یہ سراسر میرے پر افتراء ہے.میں ان سب باتوں کا قائل ہوں اور ان لوگوں نے میری کتابوں کا منشاء نہیں سمجھا.اور غلط فہمی سے مجھ کو منکر عقائد اہل سنت کا قرار دے دیا.تب انہوں نے کہا کہ بہت اچھا اگر فی الحقیقت یہی بات ہے تو مجھے ایک پرچہ پر یہ سب باتیں لکھ دیں.میں ابھی صاحب سٹی سپر نٹنڈنٹ پولیس کو اور نیز پبلک کو سنا دوں گا.اور ایک نقل اس کی علی گڑھ میں بھی لے جاؤں گا.تب میں نے مفصل طور پر اس بارے میں ایک پر چہ جلد سوم

Page 267

حیات احمد ۲۶۴ جلد سوم لکھ دیا جو بطور نوٹ درج ذیل ہے.اور خواجہ صاحب نے وہ تمام مضمون صاحب سٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بلند آواز سے سنایا.اور تمام معزز حاضرین نے جو نز دیک تھے سن لیا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي واضح ہو کہ اختلافی مسئلہ جس پر میں بحث کرنا چاہتا ہوں.صرف یہی ہے کہ یہ دعوی که مسیح ابن مریم علیہ السلام زنده بجسده العنصری آسمان پر اٹھائے گئے ہیں میرے نزدیک ثابت نہیں ہے اور نصوص قرآنیہ و حدیثیہ سے ایک بھی آیت صريحة الدلالت اور قطعیۃ الدلالت یا ایک بھی حدیث صحیح مرفوع متصل نہیں مل سکتی جس سے حیات مسیح علیہ السلام ثابت ہو سکے بلکہ جابجا قرآن کریم کی آیات صریحہ اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے وفات ہی ثابت ہوتی ہے.اور میں اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر حضرت مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب حیات مسیح علیہ السلام کی آیات صَرِيْحَةُ الدَّلالت اور قطعية الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے ثابت کر دیں تو میں دوسرے دعوی مسیح موعود ہونے سے خود دست بردار ہو جاؤں گا اور مولوی صاحب کے سامنے تو بہ کروں گا.بلکہ اس مضمون کی کتابیں جلا دوں گا اور دوسرے الزامات جو میرے پر لگائے جاتے ہیں کہ یہ شخص لیلتہ القدر کا منکر ہے اور معجزات کا انکاری اور معراج کا منکر اور نیز نبوت کا مدعی اور ختم نبوت سے انکاری ہے یہ سارے الزامات باطل اور دروغ محض ہیں.ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے جو دیگر اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے.اور میری کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام سے جو اعتراض نکالے گئے ہیں یہ نکتہ چینوں کی سراسر غلطی ہے.اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہء خدا مسجد میں کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں.اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.

Page 268

حیات احمد ۲۶۵ ایسا ہی میں ملائکہ اور معجزات اور لیلۃ القدر وغیرہ کا قائل ہوں اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ جو کچھ بد نہی سے بعض کو یہ فہم لوگوں نے سمجھ لیا ہے ان اوہام کے ازالہ کے لئے عنقریب ایک مستقل رسالہ تالیف کر کے شائع کروں گا.غرض میری نسبت جو بجز میرے دعوی وفات مسیح اور مثیل مسیح ہونے کے اور اعتراض تراشے گئے ہیں وہ سب غلط اور پیچ اور صرف غلط فہمی کی وجہ سے کئے گئے ہیں.پھر بعد اس کے خواجہ صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ جبکہ ان عقائد میں در حقیقت کوئی نزاع نہیں.فریقین بالا تفاق مانتے ہیں تو پھر ان میں بحث کیونکر ہو سکتی ہے.بحث کے لائق وہ مسئلہ ہے جس میں فریقین اختلاف رکھتے ہیں.یعنی وفات وحیات مسیح کا مسئلہ جس کے مطے ہونے سے سارا فیصلہ ہو جاتا ہے بلکہ بصورت ثبوت حیات مسیح، مسیح موعود ہونے کا دعوئی سب ساتھ ہی باطل ہوتا ہے.اور یہ بھی بار باراس عاجز کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے خود وعدہ کر لیا ہے کہ اگر نصوص ہینہ قطعیہ قرآن وحدیث سے حیات مسیح ثابت ہو گئی تو میں مسیح موعود کا دعوی خود چھوڑ دوں گا لیکن باوجود اس کے کہ خواجہ صاحب نے اس بات کے لئے زور لگایا کہ فریق مخالف ضد اور تعصب کو چھوڑ کر مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث شروع کر دیں مگر وہ تمام مغز خراشی بے فائدہ تھی.شیخ الکل صاحب کی اس بحث کی طرف آنے سے جان جاتی.لہذا انہوں نے صاف انکار کر دیا اور حاضرین کے دل ٹوٹ گئے.میں نے سنا ہے کہ ایک شخص بڑے درد سے کہہ رہا تھا کہ آج شیخ الکل نے دہلی کی عزت کو خاک میں ملا دیا اور ہمیں خجالت کے دریا میں ڈبو دیا.بعض کہہ رہے تھے کہ اگر ہمارا یہ مولوی سچ پر ہوتا تو اس شخص سے ضرور بحث کرتا، لیکن جاہل اور نادان لوگ جو دور کھڑے تھے وہ کچھ نہیں سمجھتے تھے کہ کیا ہورہا ہے بلکہ تعصب کی آگ میں جلے جاتے تھے.شیخ الکل صاحب کے ان معتقدین کو جو دُور رہنے والے اور خاص کر جو پنجابی ہیں بڑا جلد سوم

Page 269

حیات احمد ۲۶۶ تعجب ہو گیا کہ یہ کیا ہوا.اور کیوں شیخ الکل نے ایسے ضروری وقت میں بحث سے انکار کر دیا اور بزدلی اختیار کی.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حق پر نہیں تھے.اور قرآن کریم اُن کو اپنے پاس آنے سے دھکے دیتا تھا اور احادیث صحیحہ دور سے کہتی تھیں کہ اس طرف مت دیکھ.ہمارے خوان نعمت میں تیرے لئے کچھ نہیں.سو بوجہ اس کے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی دلیل نہیں تھی اور نہ اس طرف کے دلائل کا اُن کے پاس کوئی جواب تھا اس لئے وہ عاجز ہو کر گالیت ہو گئے.اور ان پر یہ خوف غالب آگیا کہ اگر میں بحث کروں گا تو سخت رسوائی میری ہوگی اور تمام رونق شیخ الکل ہونے کی ایک ہی دفعہ جاتی رہے گی.اور زندگی مرنے سے بدتر ہو جائے گی.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر فی الحقیقت ایسی ہی حالت تھی تو پھر شیخ الکل نے جلسہ بحث میں صاف صاف کیوں نہ کہہ دیا کہ میں غلطی پر تھا.اب میں نے اپنے قول سے رجوع کیا.تو اس کا جواب یہی ہے کہ اگر حقیقی تقوی شامل حال ہوتا اور خدا تعالیٰ کا کچھ خوف ہوتا تو بے شک وہ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ اپنی غلطی کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کو خوش کرتے.لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب انسان کا دل سخت ہو جاتا ہے اور نگ و ناموس اور پندار اور عجب اور تکبر کا زنگ اس کے رگ وریشہ میں رچ جاتا ہے تو یہ ذلت قبول کر کے اپنی مشہور کردہ رائے سے رجوع کرنا بہت مشکل اُس کے لئے ہو جاتا ہے.تو پھر صرف حق پوشی کیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر افعال ناشائستہ اُس سے صادر ہوتے ہیں.غرض علماء کے لئے مشہور کردہ رائے سے رجوع کرنا اَشَدُّ مِنَ الْمَوْتِ ہے اور اس وجہ سے شیخ الکل صاحب شہادتِ حقہ کے ادا کرنے کے لئے توفیق نہ پاسکے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ مجھے اس بات کا سخت رنج ہے کہ شیخ الکل صاحب نے اپنی اس پیرانہ سالی کی عمر میں شہادتِ حقہ کا اخفا کر کے اپنے سوء خاتمہ کی ذرہ پر واہ نہ کی.ان کا یہ فرض تھا کہ خدا تعالیٰ سے جلد سوم

Page 270

حیات احمد ۲۶۷ ڈر کر اس شہادت کو ادا کر دیتے کہ کیا قرآن اور حدیث کے نصوص بینہ سے قطعی اور یقینی طور پر مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی ثابت ہوتی ہے یا اس کے مخالف ثابت ہوتا ہے.انہوں نے اپنی اس شہادت کو جو ان سے محض اللہ طلب کی گئی تھی کیوں چھپایا.کیا انہیں معلوم نہ تھا کہ اللہ جَلَّ شَانُہ اپنی کتاب عزیز میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّتُهُ لِنَّاسِ فِي الْكِتُبِ أوليْكَ يَلْعَنُهُمُ اللهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللعنونَ الآية- یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ کی ان کھلی کھلی تعلیمات اور ہدایتوں کو لوگوں پر پوشیدہ رکھتے ہیں جن کو ہم نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا ہے اُن پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے اور نیز اس کے بندوں کی بھی لعنت.اب اے ناظرین میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی کا قرآن اور حدیث میں ایک ذرہ نشان نہیں ملتا، لیکن ان کی وفات پر کھلے کھلے نشان اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ موجود ہیں.اور اگر ان کی وفات کی نسبت قرآن اور حدیث میں کچھ ذکر بھی نہ ہوتا تب بھی اس وجہ سے کہ حیات ثابت نہیں کی گئی ان کی وفات ہی ثابت ہوتی.قرآن کریم میں بہتیرے ایسے نبیوں کا ذکر ہے جن کی وفات کا کچھ حال بیان نہیں کیا گیا کہ آخر وہ مرے یا کیا ہوئے ،لیکن محض اس خیال سے کہ اُن کی وفات کا قرآن کریم میں ذکر نہیں ہے یہ ثابت نہیں ہو گا کہ وہ زندہ ہیں.وفات انسان اور ہر ایک حیوان کے لئے ایک اصلی اور طبعی امر ہے جس کے ثبوت دینے کے لئے درحقیقت کچھ بھی ضرورت نہیں.جو شخص کئی سو برس سے مَفْقُوْدُ الْخَبر ہو وہ قوانینِ عدالت کی رو سے مردوں میں شمار کیا جائے گا گو اُس کو مرتے ہوئے کسی نے بھی نہ دیکھا ہو لیکن حیات خارق عادت ایک استدلالی امر ہے لى البقرة : ١٢٠ جلد سوم

Page 271

حیات احمد ۲۶۸ جو اپنے ثبوت کے لئے دلیل کا محتاج ہے.یعنی جب تک کسی مفقود الخبر غائب از نظر کی ایسی لمبی عمر جو طبعی عمر سے صدہا گو نہ زیادہ ہے.دلائل یقینیہ سے ثابت نہ کی جائے تب تک کوئی عدالت اس بیان کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ وہ زندہ ہے.اس تقریر سے اس جگہ میری غرض صرف اس قدر ہے کہ جو شخص حضرت مسیح ابن مریم کی حیاتِ جسمانی خارق عادت کا دعویٰ کرتا ہے بار ثبوت اُس پر ہے اور اُسی کا یہ فرض ہے کہ آیات قطعیہ اور احادیث صحیحہ کے منطوق سے اس دعوئی کو ثابت کرے.اور اگر یہ دعوی ثابت نہ ہو.تو اس کا عدم ثبوت ہی وفات کے لئے کافی دلیل ہے.کیونکہ وفات ایک طبعی امر ہے جو عمر طبعی کے بعد ہر ایک متنفس کے لئے ضروری ہے.لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان وہموں کی بیخ کنی کرنے کے لئے مسیح ابن مریم کی وفات کو شافی بیان کے ساتھ ظاہر فرما دیا ہے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آخری زمانہ کے فتنوں میں سے ایک یہ بھی فتنہ ہوگا کہ ایک عاجز بندہ وہ مسیح ابن مریم اخیر زمانہ تک زندہ رہنے والا قرار دیا جاوے گا.سو اُس نے مسیح کی وفات کو ایسے صاف طور سے بیان کیا ہے کہ ہر ایک وہم کی جڑ کات دی.ہماری کتاب ازالہ اوہام کو دیکھو اور ان ا تمام دلائل کو غور سے پڑھو جو مسیح ابن مریم کی وفات کے بارے میں ہیں.ان تمام واقعات سے جو ہم نے اس اشتہار میں ظاہر کئے ہیں، منصف مزاج لوگ بخوبی مطمئن ہو سکتے ہیں کہ شیخ الکل صاحب نے اس عاجز کے مقابلہ پر وہ طریق اختیار نہیں کیا جو ایسے موقع پر ایک متقی پارسا طبع کو کرنا پڑتا ہے بلکہ اپنے زعم میں گل اکابر اور ائمہ کے مقتداء بن کر اور شیخ العرب والعجم کہلا کر پھر اظہار حق سے ایسا منہ چھپایا کہ ایک ادنیٰ درجہ کا مومن بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا.اور ہرگز نہ چاہا کہ سیدھے ہو کر بحث کریں.میں نے اپنے ہر ایک اشتہار میں شیخ الکل صاحب کو مخاطب کیا اور انہیں کی مشیخیت آزمانے کے لئے دہلی تک پہنچا اور اپنے وطن کو چھوڑ کر اور تکالیف و مصائب جلد سوم

Page 272

حیات احمد ۲۶۹ غربت اٹھا کر اس شہر میں آ ٹھہرا.کوئی منصف مجھے سمجھا دے کہ میرے مقابلہ پر شیخ الکل صاحب نے کیا کیا.ہاں ایک یکطرفہ جلسہ مقرر کر کے یہ چال تو ضرور چلی کہ ایک طرف نا گہانی طور پر مجھے بلایا اور دوسری طرف دہلی کے سفہاء اور اوباشوں کو بے اصل بہتانوں سے ورغلا کر اُسی دن میرے گھر کے گردا گرد جمع کر دیا.اور صد ہا بد سرشت لوگوں کے دلوں میں جوش ڈال دیا.جس سے وہ دلیری سے کوہستانی غازیوں کی طرح مارنے کے لئے مستعد ہو گئے اور مجھے باہر قدم رکھنے کی بھی گنجائش باقی نہ رہنے دی بلکہ زنانہ مکان کے کواڑ توڑنے لگے اور بعض وحشی خونخوار زنانہ مکان میں گھس آئے اور پھر اس مجبوری کی وجہ سے جو میں پہلے اس جلسہ یکطرفہ میں حاضر نہ ہو سکا تو عام طور پر شائع کر دیا کہ ہم نے فتح پائی.ناظرین خود سوچ لیں کہ یہ کیسا کام تھا اور کن لوگوں سے ایسے کام ہوا کرتے ہیں.پھر دوسری چال یہ چلے کہ جب انہیں خوب معلوم ہو گیا کہ وہ حضرت مسیح ابن مریم کی حیاتِ جسمانی کا ثبوت ہر گز دے نہیں سکتے اور اگر اس بحث کے لئے مقابلہ پر آتے ہیں تو سخت رسوائی ہوتی ہے تو انہوں نے بعض زبان دراز شاگردوں کو جن میں صرف نقالوں کی طرح تمسخر کا مادہ ہے بیہودہ اشتہارات کے جاری کرنے اور وقت ٹالنے کے لئے کھڑا کر دیا.گویا حضرت نے اس تدبیر سے اُن تلامیذ کو اپنا فدیہ دے کر اپنی جان چھڑانے کا ارادہ کیا، لیکن منصفین سوچ سکتے ہیں کہ اُن دھوکہ دہ اشتہاروں میں مطلب کی بات کو نسی لکھی گئی یا اس بات کا کیا جواب دیا گیا کہ کیوں شیخ الکل صاحب اتنا بڑا موٹا نام رکھوا کر اس ضروری بحث سے گریز کرتے ہیں، اور کون سی ایسی آفت اُن پر نازل ہے کہ جو اُن کو بحث کرنے سے روکتی ہے.شیخ الکل صاحب کی ان کارروائیوں سے ہر ایک عقلمند اُن کی دیانت و امانت و حق پرستی و دینداری و ہمدردی ء اسلام کا اندازہ کر سکتا ہے.اگر وہ مثلاً اس بیان کے ادا کرنے جلد سوم

Page 273

حیات احمد ۲۷۰ کے لئے عدالت میں بلائے جاتے اور حکماً پوچھا جاتا کہ سچ کہو تمہارے پاس حضرت مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات اور جسمانی صعود و نُزُول پر کیا کیا قطعی دلائل قرآن اور حدیث کی رو سے موجود ہیں جو عقیدہ قرار دینے کے لئے کافی ہوں ، تو کیا شیخ الکل صاحب عدالت میں حاضر نہ ہوتے اور اپنا بیان نہ لکھواتے؟ پھر خدا تعالیٰ کی عدالت سے کیوں نہ ڈرے.ایک دن مرنا ہے یا نہیں؟ غضب کی بات ہے کہ نام شیخ الکل اور کرتوت یہ ، اے شیخ الکل ! بھلا آپ انصاف فرما دین کہ آپ اس جرم کے مرتکب ہوئے یا نہیں کہ آپ نے کتاب اللہ کے اس حکم کو چھپایا جس کے ظاہر کرنے کے لئے تاکید کی گئی تھی.اگر مثلاً عدالت برطانیہ سے اسی امر کے دریافت کے لئے آپ کے نام سمن جاری ہوتا اور در حالت اخفائے شہادت قانونی سزا کی دھمکی بھی دی جاتی تو کیا آپ اپنا بیان لکھوانے سے انکار کرتے یا یہ کہتے کہ میں نہیں جاؤں گا.بٹالوی شیخ کو لے جاؤ یا مولوی عبدالمجید کی شہادت قلمبند کر لو آپ کو عدالتِ ربانی سے کیوں اس قدر استغناء ہے.ہم تو آپ کے منہ کو دیکھتے دیکھتے تھک بھی گئے.آپ ۲۰/ اکتوبر کے جلسہ میں بھی آئے تو کیا خاک آئے.آتے ہی بحث سے انکار کر دیا اور حسب منشاء اشتہار قسم کھانے سے گریز کی اور اخفاء شہادت کا کبیرہ گناہ ناحق اپنے ذمہ لے لیا.اشتہار ۱۳ / ربیع الاول میں جو آپ کی طرف سے جاری ہوا ہے.جو اس کی خوب تعریف لکھی ہے کہ بدیں پیرانہ سالی تمام قولی نہایت عمدہ ہیں اور ہاتھ پیروں کی قوت اور آنکھوں کی بینائی قابلِ تعریف ہے.ہر ایک مرض سے بفضلہ تعالی امن ہے.پھر جس حالت میں ایسی عمدہ صحت ہے اور تمام قوی تعریف کے لائق ہیں تو پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ بحث سے گریز کیوں ہے، کیا ناظرین آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں؟ اے شیخ الکل! اس خدائے عَزَّوَجَلَّ سے ڈر جو تیرے دل کو دیکھ رہا ہے.جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.مَاحَاكَ فِي صَدْرِكَ فَهُوَ ذَنْبُكَ جلد سوم

Page 274

حیات احمد ۲۷۱ یعنی جو کام تیرے دل پر قبض وارد کرے اور تیرا دل اس کے کرنے سے رُکتا ہو اور وہی کام تو کر بیٹھے تو وہی تیرا گناہ ہے اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انکار وفات مسیح کے بارے میں اگر آپ کے دل میں ایک قبض نہ ہوتی تو آپ ضرور علانیہ بحث کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ، لیکن یوں تو آپ نے گھر میں لاف و گزاف کے طور پر بارہا کہا کہ مسیح ابن مریم بجسده العنصری زندہ ہے.یہی قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہے.چنانچہ میرے بعض مخلص جو آپ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی آپ کی ان بے اصل لافوں کا ذکر کیا، لیکن چونکہ یہ صرف زبان کی فضول باتیں تھیں اور محض دروغ بے فروغ تھا اور دل پر قبض اور نومیدی تھی اس لئے آپ بحث کرنے کے لئے پیش قدمی نہ کر سکے.اگر آپ کے ہاتھ میں ثبوت ہوتا تو آپ مجھے کب چھوڑتے.میں نے غیرت دلانے والے لفظ بھی سراسر نیک نیتی سے استعمال کئے اور اب بھی کر رہا ہوں مگر آپ کو کچھ شرم نہ آئی.میں نے یہ بھی لکھ بھیجا کہ حضرت مجھے اجازت دیجئے اور اپنی خاص تحریر سے مجھے اشارہ فرمائیے.تو میں آپ ہی کے مکان پر حاضر ہو جاؤں گا اور مسئلہ حیات و وفات مسیح میں تحریری طور پر آپ سے بحث کروں گا اور میں نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر میں اپنے اس الہام میں غلطی پر نکلا اور آپ نے نصوص صریحہ بینہ قطعیہ سے مسیح ابن مریم کی جسمانی حیات کو ثابت کر دکھایا تو تمام عالم گواہ رہے کہ میں اپنے اس دعوئی سے دست بردار ہو جاؤں گا.اپنے قول سے رجوع کروں گا.اپنے الہام کو أَضْغَاتُ اخلام قرار دے دوں گا اور اپنے اس مضمون کی کتابوں کو جلا دوں گا.اور میں نے اللہ جَلَّ شَانُہ کی قسم بھی کھائی کہ در حالت ثبوت مل جانے کے میں ایسا ہی کروں گا لیکن اے حضرت شیخ الکل! آپ نے میری طرف تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا.میں مسافر تھا.آپ نے میری تکالیف پر بھی خیال نہ فرمایا.میں آپ ہی جلد سوم

Page 275

حیات احمد ۲۷۲ کے لئے دہلی میں اس مدت تک ٹھہرا رہا.آپ نے میری طرف ذرا رُخ نہ کیا.عوام کو میری تکفیر کا فتویٰ سنا کر فتنہ انگیز ملاؤں کی طرح بھڑ کا دیا.مگر اپنے اسلام اور تقویٰ کا تو کوئی نشان نہ دکھلایا.آپ خوب یاد رکھیں کہ ایک دن عدالت کا دن بھی ہے.ان تمام حرکات کا اس دن آپ سے مؤاخذاہ ہو گا.اگر میں دہلی میں نہ آیا ہوتا اور اس قدر قسمیں دے کر اور عہد پر عہد کر کے آپ سے بحث کا مطالبہ نہ کرتا تو شاید آپ کا اس انکار میں ایسا بڑا گناہ نہ ہوتا، لیکن اب تو آپ کے پاس کوئی عذر نہیں.اور تمام دیلی کا گناہ آپ ہی کی گردن پر ہے.اگر شیخ بٹالوی اور مولوی عبد المجید نہ ہوتے تو شاید آپ راہ پر آسکتے ، لیکن آپ کی بدقسمتی سے ہر وقت ان دونوں کی آپ پر نگرانی رہی.میں تو مسافر ہوں.اب انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وطن کی طرف جاؤں گا.آپ کی برانگیخت سے بہت سے لعن طعن اور گندی گالیاں دہلی والوں سے سن چکا.اور آپ کے اُن دونوں رشید شاگردوں نے کوئی دقیقہ لعن طعن کا اٹھا نہ رکھا.مگر آپ کو یاد رہے کہ آپ نے اپنے خدا دا د علم پر عمل نہیں کیا، اور حق کو چھپایا اور تقویٰ کے طریق کو بالکل چھوڑ دیا.انسان اگر تقویٰ کی راہوں کو چھوڑ دے تو وہ چیز ہی کیا ہے.مومن کی ساری عظمت اور بزرگی تقویٰ سے ہے.شریر آدمی چالاکی سے جو کچھ چاہتا ہے، بغیر کسی قطعی ثبوت کے منہ پر لاتا ہے.مگر عادل حقیقی کہتا ہے اے عمداً کجی کے اختیار کرنے والے! آخر مرنے کے بعد تو میری ہی طرف آئے گا اور میں تیرے ساتھ کوئی دوسرا حمایتی نہیں دیکھتا تیری باتوں کا ثبوت تجھ سے پوچھا جائے گا.سواے شیخ الکل ! اُس دن سے ڈر جس دن ہاتھ اور پیر گواہی دیں گے.اور دل کے خیال مخفی نہیں رہیں گے.اے غافل مغرور! تو کیوں اپنے ربّ کریم سے نہیں ڈرتا.تیرے پاس صحیح ابن مریم کے بجسده العنصری اٹھائے جانے کا کونسا ثبوت ہے تو کیوں اسے پیش نہیں کرتا؟ ہائے! تو اپنے دل کی حالت کو کیوں چھپاتا ہے.اے شیخ! سفر جلد سوم

Page 276

حیات احمد ۲۷۳ نزدیک ہے.میں محض نیک نیتی سے اور اخلاص سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ کہتا ہوں میرا خدا اس وقت دیکھ رہا ہے اور سن رہا ہے اور میرے دل پر نظر ڈال رہا ہے.بخدا میرے پر ثابت ہو چکا ہے کہ آپ نے محض مولویا نہ نگ و ناموس کی وجہ سے سچی گواہی نہیں دی اور باطل سے دوستی کی اور حق سے دشمنی.اور آپ نے دہلی والوں کو حق پوشی کی وجہ سے سخت بے باک کر دیا.یہاں تک کہ بعض نے تمسخر اور ٹھٹھے کی راہ سے میرے مقابلہ پر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور چند اشتہار شائع کر دیئے.جن میں بعض کے اندر حد سے زیادہ آپ کی تعریف تھی جس پر نظر ڈالنے سے قوی شک گزرتا ہے کہ وہ اشتہارات آپ ہی کے اشارہ سے لکھے گئے ہیں.ان اشتہاروں میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ اوباشانہ باتوں سے نور اللہ کو منفی کر دیا جائے ، مگر یہ کوشش کچھ نئی نہیں قدیم سے یہ دستور ہے کہ جو لوگ حق کے دشمن ہیں وہ سچائی کے نوروں کو بجھانے کے لئے ہر ایک قسم کے مکر کیا کرتے ہیں.آخر حق ظاہر ہو جاتا ہے.اور وہ کراہت ہی کرتے رہ جاتے ہیں.انسان کا اپنا تراشا ہوا کام نہیں چل سکتا بلکہ ایسی جماعت جلد متفرق ہو جاتی ہے لیکن جو سلسلہ آسمان اور زمین کے بنانے والے کی طرف سے ہوتا ہے کوئی ہے جو اس کو نابود کر سکے؟ سوائے شیخ الکل ! تو کیوں تیز تلوار پر ہاتھ مار رہا ہے کیا تجھے اپنے ہاتھ کا اندیشہ نہیں.خدا تجھے دیکھ رہا ہے.اگر چہ تو اسے نہیں دیکھتا.اپنے علم سے بڑھ کر کیوں زیادہ دلیری کرتا ہے کچھ خوف کر.لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ.اے ٹھٹھا کرنے والو ! اور تمسخر سے افترا کرنے والو ! اور بیبا کی سے کہنے والو! کہ مسیح موعود تو ہم ہیں کہ ابھی آسمان سے فتح گڑھ کی چھت پر اترے ہیں.اگر چہ تم اپنے اس امن اور صحت اور جوانی اور غفلت کی حالت میں کب ڈرو گے مگر پھر بھی کہتا ہوں کہ اُس خدا سے ڈرو جو ایک دم میں خوشی کرنے والوں کو غمگین بنا سکتا ہے.اور ترجمہ.اللہ کی ناراضگی تمہاری ناراضگیوں کے مقابل پر زیادہ بڑی ہے.(المؤمن : ۱۱) جلد سوم

Page 277

حیات احمد ۲۷۴ جلد سوم راحتوں کو رنجوں کے ساتھ بدل سکتا ہے.کیا انسان اس کے ہاتھ میں نہیں اے دہلی ! تجھ پر افسوس تو نے اپنا اچھا نمونہ نہیں دکھلایا.اے مسلمانوں کی ذریت! یاد کرو کہ اسلام کیا شے ہے.ڈرو کہ اللہ جل شانہ بے نیاز ہے.یقیناً یا درکھو کہ جو اس کی طرف سے ٹھہر چکا ہے وہ انسان کے منصوبوں سے باطل نہیں ہوسکتا.اے دہلی والو ! تم اس زمین میں رہتے ہو جس میں بہت سے راست باز سوئے ہیں.شرم کرو کہ تمہارے اوپر خدا ہے اور تمہارے نیچے راست باز ہیں جو خاک میں ملے پڑے ہیں.وَأفَوِّضُ أَمْرِى إِلَى اللهِ وَاللهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ.وَالسَّلَامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصطفی.النَّاصِحِ عَبْدِ اللَّهِ الصَّمَدُ غلام احمد قادیانی ۲۳ اکتوبر ۱۸۹۱ء ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۲۹ تا ۲۳۸ طبع بار دوم ) قیام دہلی کے کچھ اور واقعات دہلی اُن ایام میں ایک میدان جنگ بنا ہوا تھا.مخالف الرائے مولویوں نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا.ہر روز مختلف قسم کے سب وشتم سے لبریز اشتہارات شائع ہوتے اور بازاروں اور مسجدوں میں مخالفت میں وعظ ہوتے ان میں مولوی عبدالمجید صاحب واعظ بہت پیش پیش تھے مولوی عبدالحق حقانی کی حالت اور ہی تھی.اندرونی طور پر اپنی سرگرمیوں اور سرگوشیوں میں حصہ لیتے اور یوں حضرت اقدس کے پاس آ کر معذرت بھی کر لی تھی.جیسا کہ پہلے ۶ /اکتوبر ۱۸۹۱ء کے اشتہار میں گزر چکا ہے.میرزا حیرت جن کا اصل نام امراؤ مرز ایڈیٹر کرزن گزٹ بھی کسی سے پیچھے نہ تھا.مرزا حیرت حضرت اقدس کے مہری تعلقات میں دور کے رشتہ دار بھی تھے انہوں نے بھی اس موقعہ کو اپنی سستی شہرت کا ذریعہ قرار دیا.ان کی کارستانی کو حضرت صاحبزادہ سراج الحق نعمانی کی زبانی سنو.

Page 278

حیات احمد ۲۷۵ جلد سوم ” میرزا حیرت صاحب بھی تشریف لائے تو انگریزی لباس پہنے اور الٹی مانگ بائیں آنکھ کی طرف انگریزی فیشن کی نکالے ہوئے سر برہنہ تھے یہ بھی خاموش بیٹھ نہ سکے.آدھ گھنٹے سے پہلے ہی اُٹھ کر چل دیئے ایک روز یا دو روز پیشتر مرزا حیرت صاحب نے یہ کام کیا تھا کہ ایک اشتہار چھپوایا جس کے ایک کالم میں عربی عبارت تھی اور اردو عبارت تھی یعنی عربی کا ترجمہ اور آپ ان اشتہاروں کو لے کر فتح گڑھ کے منارہ پر چڑھ بیٹھے اور وہاں سے وہ اشتہار پھینکنے لگے.اس اشتہار کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ میں اصل مسیح آسمان سے اترا ہوں.اور دہلی میں دنبال آیا ہوا ہے نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْهَا ) اُس کے قتل کے لئے آیا ہوں.مرزا حیرت صاحب نے بھی دہلی کو دمشق بنا دیا کہ آپ اصل مسیح بنے اور معاذ اللہ حضرت اقدس کو دجال بنایا.دہلی دمشق آپ ہی ہوئی نہ اصل مسیح نه اصل دمشق چونکہ یہ مضمون اشتہار سب مولویوں وغیرہ کے مشورہ سے تھا تو کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ مرزا حیرت کفر کہتا ہے اور کسی نے کفر کا فتویٰ تو کیا فسق کا فتویٰ بھی نہ دیا.الكُفْرُ مِلة وَاحِدَةً مرزا حیرت مذکور ایک روز مصنوعی انسپکٹر بنے اور حضرت علیہ السلام سے کہا کہ میں انسپکٹر ہوں سرکار سے حکم ہوا ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہو گا حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کے کہنے پر بالکل خیال تک بھی نہ کیا اور بات تک بھی نہ کی.صرف سیدامیر علی شاہ صاحب نے جو کہ اہلکار پولیس تھے ایک بات کی تو مرزا حیرت صاحب حیرت میں ہو گئے اور چل دیئے ایک دم ٹھہر نہ سکے.سچ ہے چور کے پاؤں نہیں ہوتے.دہلی میں لوگوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ وہ حرکتیں کیں کہ اگر میں تمام و کمال مفصل لکھوں تو سفر نامہ رہ جاوے اور یہ بیان مشکل سے ختم ہو دے.ایک اشتہار مولویوں کی طرف سے نکلا اس میں منجملہ اور مضامین کے ایک بات یہ بھی تھی کہ دہلی کا بچہ بچہ مسیح ہے.اللہ اکبر کیسا بڑا بول ہے.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا لے.بچہ بچہ خود بخود مسیح ہو جاوے مگر خدا تعالی کا بنایا ہوا مسیح نہ بنے اللہ اکبر! حضرت اقدس علیہ السلام کا حوصلہ دیکھو کہ ان باتوں پر کوئی لے ترجمہ.بہت بڑی بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے.وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے (الکھف: 1)

Page 279

حیات احمد جلد سوم فکر نہیں.کوئی غم نہیں.کوئی صدمہ نہیں.لوگ ٹھٹھا کرتے ہیں، تمسخر اڑاتے ہیں.اس مامور کی ہر ایک بات کو ذلت سے دیکھتے ہیں ذلت کے درپے ہیں.مگر اس مامور و مرسل کو ان کی ذرا بھی پرواہ نہیں خیال تک نہیں کہ یہ کیا بلا ہیں.اور کیا سکتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں.مرزا حیرت کی یہ شرارت اُسے ہدف ملامت بناتی ہے مگر حضرت اقدس کی وفات پر اُس نے کرزن گزٹ میں جو مضمون شائع کیا میں سمجھتا ہوں کہ اُس کی اس قسم کی شوخیوں کے لئے کفارہ ہو جائے گا.دوسرے لوگوں کی سفیہا نہ حرکات ا یک روز مولوی محمد احمد وغیرہ کئی مولویوں کو ساتھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ آپ کا دعوی اگر ولی اللہ ہونے کا ہوتا تو میں اوّل آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہتا لیکن مسیح موعود کا دعوی کھٹکتا ہے.یہ آپ چھوڑ دیں تو بس ساری دہلی آپ کے تابع ہے.میں نے ایک کتاب ایک یورپین کی دیکھی اس میں لکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے مستقل دعوی رسالت کا کیا اس واسطے عیسائی آپ پر ایمان لانے سے رک گئے.اگر بالواسطہ رسول بنتے اور مسیح کے تابعداروں میں سے ہوتے تو میں کیا گل عیسائی آپ پر ایمان لاتے.بس اسی کے مطابق قول محمد احمد کا تھا.اس محمد احمد نے جو شرارتیں اور جو جو فساد کئے وہ محمد حسین بٹالوی کے شر و فساد سے کم نہ تھے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسّلام کے ساتھ والوں کو یہاں تک بھی مشکل تھی کہ بازار سے کوئی چیز خرید کر لانا دشوار تھا.ہر وقت آپ کے مکان کے سامنے بہت سے آدمیوں کا مجمع رہتا تھا اور ان کو ہنسی اور ٹھٹھے کے سوا کچھ کام نہ تھا.ایک روز ایک سفید ریش حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر آئے چونکہ آپ اوپر کے کمرہ میں تھے اور میں نیچے درمیانے کمرہ میں تھا اول مجھ سے ملاقات ہوئی کہنے لگے کہ کیا آپ لوگ قیامت کے منکر ہیں؟ میں نے کہا نہیں، کون کہتا ہے؟ ہمارے میں سے کس سے سنا ہے؟ وہ

Page 280

حیات احمد ۲۷۷ جلد سوم بزرگ فرمانے لگے یہ اشتہار کہتا ہے جو موجود ہے.اس میں کتاب کا نام صفحہ وسطر کا پتہ لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ قیامت کوئی چیز نہیں.میں نے کہا یہ اشتہار مخالفوں کا ہے ان کو سوائے ایسے بہتانوں کے کچھ اور کام ہی نہیں.یہ اشتہار جھوٹا ہے اور سراسر افترا ہے وہ بزرگ بولے کہ اس اشتہار میں ازالہ اوہام کا نام لکھا ہے وہ منگواؤ دیکھیں تو سہی بھلا یہ مولوی ہیں ایسا صریح اور کھلم کھلا جھوٹ کیوں بولنے لگے؟ میرے پاس ازالہ اوہام کتاب تھی اٹھا کر دے دی کہ اس اشتہار کے پتہ ونشان کے موافق آپ دیکھ لیں جہاں قیامت کا انکارلکھا ہے.اُن بزرگ نے وہ کتاب دیکھی اس پتہ و نشان پر جو اشتہار میں درج تھا دیکھا تو کہیں وہاں قیامت کا ذکر بھی نہیں تھا.پھر وہ بزرگ کہنے لگے کہ شاید صفحہ وسطر میں کاتب کی غلطی ہو ، میں نے کہا اگر اس پر آپ کو شبہ ہے تو ساری کتاب کو دیکھ جائیے ، سو انہوں نے نصف کتاب تو اسی وقت دیکھ لی اور پھر کہا کہ مجھ کو یہ کتاب دے دیں میں گھر پر دیکھوں گا مجھے تو یہ خواہش تھی کہ کسی طرح یہ تمام کتاب پڑھ لے.بس وہ کتاب لے گئے دوسرے دن مشتہر کو گالیاں دیتے ہوئے آئے اور کہا کہ اب مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ مولوی جھوٹے ہیں.ایک روز دہلی والے شرارت کی راہ سے حضرت اقدس علیہ السلام پر یورش کر کے کئی سو آدمی آگئے چونکہ دروازہ زینہ کا تنگ تھا اس لئے ایک ایک کر کے چڑھنے لگے اتنے میں سید امیر علی شاہ صاحب آگئے انہوں نے نہ آنے دیا.وہ لوگ زور سے گھنے لگے مگر شاہ صاحب ایک قوی الجثہ تھے ان کے زور کو ان دہلی والوں کا زور کب پہنچ سکتا ہے ایک ہی دھکے میں سب ایک دوسرے پر گر پڑے اور فرار ہو گئے اور سوائے گالیاں، اور ٹھٹھا بازی کرنے کے اور کچھ نہ کر سکے.ایک روز ایک نامراد بد بخت ہیرہ شاہ مرحوم کا بیٹا رحیم بخش فقیر آ گیا.چونکہ میں ہیرہ شاہ کو جانتا تھا کہ وہ نہایت نیک بخت اور صالح آدمی تھا.مگر وہ حضرت اقدس علیہ السلام کے دعوئی سے پیشتر گزر چکا تھا اور یہ رحیم بخش مجھ کو جانتا تھا میرے پاس آ گیا اور کہنے لگا اجی حضرت آپ کہاں؟ میں نے کہا میں یہیں ہوں.تم بزرگ بزرگوں کی اولاد مرزا جی سے کیسے معتقد ہو گئے

Page 281

حیات احمد ۲۷۸ جلد سوم 66 ہیں؟ میں نے کہا ” بزرگ را بزرگ وولی را ولی می شناسد “.کہنے لگا کہ آپ نے مرزا جی کو کیسے بزرگ جانا؟ میں نے کہا اسی طرح جانا کہ جس طرح تم نے مجھے بزرگ اور میرے آباؤ اجداد کو بزرگ مانا.کہنے لگا آپ کے بزرگوں نے تو کرامتیں دکھائی ہیں.میں نے کہا حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی کرامتیں دکھائی ہیں کہنے لگا ایسی کرامتیں تو میں بھی دکھا سکتا ہوں.میں نے کہا دکھاؤ.یہ کہہ کر میں نے ایک زور سے اُس کہ منہ پر طمانچہ مارا کہ اس کا منہ پھر گیا.میں نے کہا اب کرامت دکھاؤ.پھر میں نے دوسرا تھپڑ اٹھایا.بس پناہ مانگنے لگا اور تو بہ کرنے لگا بعض طبائع ایسی ہی ہوتی ہیں کہ وہ بغیر زدو کوب مانتی نہیں.یہی فلاسفی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کی تھی.فَافْهَمْ.دہلی والوں کی ایک نہایت ذلیل حرکت اس قسم کی حرکات کے علاوہ ایک یہ فیصلہ علماء سوء نے کیا کہ حضرت اقدس کو اگر کسی کتاب کی ضرورت پیش آئے تو کوئی کتاب فروش کسی قیمت پر نہ دے اور نہ کوئی کتب خانہ والا ان کو کتاب دے.تحقیق حق کا مطالبہ تو یہ ہے کہ فریق مخالف کو ہر قسم کی آسانی اپنے خیالات کے اظہار کے لئے دی جائے اور یہ گویا علماء دہلی کی اپنی شکست پر آخری مہر تھی مگر اللہ تعالیٰ حق کا حامی ہوتا ہے.باوجود ان منصوبوں کے اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان پیدا کر دیا کہ تمام مطلوبہ کتابیں مل گئیں جیسا کہ صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے بیان کیا ہے.جب مولوی بشیر سے اگلے روز مباحثہ ٹھہرا تو کتابوں کی سخت ضرورت ہوئی پر نہ ملیں.حضرت اقدس علیہ السلام نے خاکسار کو زنانہ مکان میں بلوایا اور فرمایا.صاحبزادہ صاحب تمہارے والد اور تمہارے بھائی اور خود تمہارے مرید دہلی میں ہیں.کسی سے یا کسی کی معرفت کتابیں تو لاؤ.میں نے عرض کیا کہ میں حضور کے ساتھ ہوں کتابوں کا ملنا محال ہے.یہ عصر کا وقت تھا.فرمایا اللہ کے نام پر جاؤ تو سہی بیش ازیں نیست لوگ گالیاں دیں گے ماریں گے.حمد ترجمہ.بزرگ کو بزرگ اور ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے.

Page 282

حیات احمد ۲۷۹ جلد سوم سو دین کے کام میں مارکھانا گالیاں سننا تو سنت انبیاء و اولیاء ہے.اور جو مار بھی ڈالیں گے تو شہادت پاؤ گے.آخر کتنے روز جینا ہے ایک روز مرنا ہے.فرمایا صحابہ رضی اللہ عنہم کی حالت کو نہیں دیکھتے نہ انہوں نے جان کو عزیز رکھا اور نہ مال و دولت سے پیار کیا.نہ عزیز و اقارب سے رشتہ رکھا اور نہ گھر بار کی طرف رخ کیا صرف خدا تعالیٰ سے رشتہ تعلق رکھا اور نہ اولاد پیاری ہوئی اپنے نبی اپنے پیشوا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کا وہ ساتھ دیا اور وہ حق اطاعت و فرمان برداری بجا لائے کہ جو حق تھا.اور آج کل تو گورنمنٹ برطانیہ کی وہ پُر شوکت وسطوت سلطنت ہے کہ کسی چیز کا خطرہ نہیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے یہ زندگی کیا چیز ہے کچھ بھی چیز نہیں.اکمل صاحب نے خوب فرمایا خدا ان کو جزائے خیر دے سے ایک وہ دن تھے کہ جان قربان کرنی پڑتی تھی اب تو دین حق میں ایسا امتحان کچھ بھی نہیں زندگی وہ زندگی ہے جو ہمیشہ اور ابدی زندگی ہے.اس کا فکر کرنا چاہئے.یہ زندگی خواب کی مثال ہے اور وہ دوسری زندگی واقعی اور حقیقی زندگی ہے جو ابدی ہے.اس زندگی کی مثال بیداری کی مثال ہے.بس یہ ہے کہ آنکھ کھل گئی دیکھو ایک شخص سوتا ہے اور خواب میں اپنے محبوب یا دینار و درہم کو دیکھ رہا ہے یہ دیکھنا کچھ حقیقت نہیں رکھتا حقیقت وہ ہے کہ آنکھ کھل گئی اور واقعی دینار و درہم کو پالیا اور معشوق سے بغل گیر ہو گیا.اس حالت میں انسان خواب کی سی حقیقت رکھتا ہے اور وہ عالم عالم بیداری ہے کہ جو کچھ غیب میں بتلایا گیا تھا اور غیب پر ایمان لایا تھا.وہ اب مشاہدہ میں آگیا.ان دونوں زندگیوں کا ایک درمیانی مقام ہے اور ہر ایک دو چیزوں میں ایک برزخ ہوتا ہے.جیسا کہ انسان و حیوان میں بندر برزخ ہے کہ کچھ حصہ انسانیت کا رکھتا ہے اور کچھ حیوانیت کا سووہ مرسلوں کی صحبت و بیعت سے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اُس عالم ہی میں اس عالم کو لیتا م مشاہدہ کر لیتا ہے اور اس عالم کے حالات اس پر منکشف ہو جاتے ہیں.پھر فرمایا، یاد رکھو ایک حالت ایمانی ہے اور دوسری عرفانی حالت ہے.مردان خدا اور مقبولانِ خدا کی بیعت سے یہی

Page 283

حیات احمد ۲۸۰ جلد سوم فائدہ حاصل و مترتب ہوتا ہے کہ بیعت کنندہ ایمانی حالت سے عرفانی حالت میں پہنچ جاتا ہے.پھر ہاتھ اٹھا کر میرے لئے دعا کی اور فرمایا جاؤ.میں نے عرض کیا کہ کسی کو میرے ساتھ کر دیجئے سو حضرت اقدس علیہ السلام نے برادرم جناب منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کو میرے ساتھ کر دیا اتنے میں مغرب کی نماز کا وقت آ گیا اور حضرت اقدس کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی.بعد نماز مغرب میں اور منشی صاحب چلے راستہ میں ہم دونوں نے مشورہ کیا کہ کہاں چلیں اور کس سے کتا بیں طلب کریں.منشی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے دوست مولوی محمد حسین فقیر کے بیٹے ہیں ان کے پاس چلیں وہ ضرور کتا بیں دے دیں گے.نعمانی.منشی صاحب آج کل مولویوں کی إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ عجیب حالت ہے ہے كَمَلْمَسِ افْعِی نَاعِمٌ فِی النَّوَاظِرِ یہ ہمارے سخت دشمن ہیں ان کی دوستی کا کچھ اعتبار نہیں ہے.میرا دل گواہی نہیں دیتا.منشی صاحب ، چلو جی وہ ہمارے دوست جان پہچان مدت کے ہیں.وہ ضرور کتا بیں دے دیں گے.نعمانی اچھا چلو میں بھی ان کو خوب جانتا ہوں اور وہ مجھ سے پورے واقف ہیں لیکن بے فَسَتَرْجِعُ حُبَّ الشَّرِيْرِ كَخَاسِرِ آزموده را آزمودن جہل است.ان کو بھی دیکھ بھال لو.منشی صاحب، ایک بات خوب یاد آئی.آؤ پہلے امام جامع مسجد کے پاس چلیں.انہوں نے مجھ سے چند روز ہوئے کہا تھا کہ اگر کسی کتاب کی ضرورت ہو تو میں دے دوں گا.مجھ سے لے لینا.اور کسی کو خبر نہ کرنا.نعمانی.اچھا صاحب چلو ان کا وعدہ بھی دیکھ لو.ہم دونوں امام صاحب کے پاس گئے.چونکہ مجھ سے واقف تھے اور میرے بڑے بھائی خلیل الرحمن صاحب جب دہلی میں آتے تو باپ بیٹے بڑے ادب سے ارادتمندانہ آیا کرتے تھے اس سبب سے میرا بھی ان سے تعارف تھا.لیکن دل میں کھٹکا تھا کہ ان کی ارادت اور واقفیت کوئی چیز نہیں اس میں للہیت نہیں ہے.حضرت اقدس علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اور بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ

Page 284

حیات احمد ۲۸۱ جلد سوم اپنے دل سے فتویٰ پوچھے کیونکہ دل بھی خدا نے ایک عجیب چیز بنایا ہے اور اس میں اپنی تجلی کی شعائیں رکھی ہیں.خیر منشی صاحب کے فرمانے سے ہم امام صاحب کے گھر پر گئے آواز دی تو باہر آئے اور ہماری شکل دیکھ کر سہم گئے.کانپ گئے.اور چہرہ پھیکا ہو گیا.اور منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور بولے.فرمائیے اس وقت رات کو کیا کام ہے؟ منشی صاحب.کتابوں کی ضرورت ہے آپ نے وعدہ فرمایا تھا الْكَرِيْمُ إِذَا وَعَدَ وَفَا.اب دے دیجئے.دو تین روز میں انشاء اللہ آپ کی کتابیں آپ کے پاس آ جائیں گی.امام صاحب! بھائی اب کیا کروں اب تو کل علماء اور عوام کا یہ مشورہ اور پختہ عہد ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کو کتابیں نہ دی جاویں اور ان کا کوئی اشتہار نہ چھاپا جاوے.مجھے معاف فرمائیے میں ان سے الگ نہیں ہوسکتا اور کتا بیں بھی نہیں دے سکتا ہوں.مجبور ہوں.معذور ہوں.آپ اس وقت چلے جائیں یہاں ٹھہر نا مناسب نہیں.بات کرنی تو کیسی.نعمانی.بندہ خدا اس وقت ایمان کون دیکھ رہا ہے.پوشیدہ دے دو.اور پوشیدہ ہی تمہاری کتابیں تمہارے پاس پہنچ جائیں گی.امام صاحب نے لرزتے ہانپتے کانپتے کہا کہ پوشیدہ اور چوری سے کام کرنا جائز ہے.نعمانی.اس میں چوری اور سرقہ کا کیا کام ہے.یہ مسئلہ تو آپ منبر پر رونق افروز ہو کر بیان کریں.کتابیں دینی ہوں تو دے دیجئے کتابوں کا بگڑتا کیا ہے.امام صاحب تو بھر گئے اور بیہودہ باتوں پر آگئے پھر ہم دونوں وہاں سے چل دیئے.نعمانی منشی صاحب دیکھا.منشی صاحب.ہاں دیکھ لیا یہ تو امام ہیں اور ڈرپوک ہیں.ان کو اپنی امامت کا خطرہ ہے اس واسطے انہوں نے یہ روکھا پن کیا اور بد عہدی کی.چلو مولوی محمد حسین کے بیٹے ایسا نہیں کریں گے.وہ میرے دوست ہیں ان سے پوری امید ہے.نعمانی.اچھا صاحب چلئے.پھر ہم دونوں مولوی صاحب مذکور کے مکان پر گئے.منشی صاحب نے آواز دی اور وہ باہر لے ترجمہ.جب کوئی معزز شخص وعدہ کرتا ہے تو اسے وفا بھی کرتا ہے.

Page 285

حیات احمد ۲۸۲ جلد سوم آئے اور آتے ہی کہا کہ منشی صاحب اس وقت رات کو کیسے آئے ہم تو تمہاری صورت سے بھی نفرت کرتے ہیں.منشی صاحب، کچھ کتابوں کی ضرورت ہے آپ دے دیں تو بڑی مہربانی ہوگی.مولوی صاحب.کل کو مرزا کا جناب مولوی محمد بشیر صاحب سے مباحثہ ہے ہم کتاب نہیں دے سکتے.کل شہر میں اتفاق ہو کر عہد ہو گیا ہے کہ مرزا کو کوئی کتاب مستعار یا قیمت سے نہ دینی چاہئے اور مرزا کو کتابوں کی ضرورت کیا ہے؟ وہ الہام سے کتابوں کی عبارت معلوم کر سکتا ہے.نعمانی.سب کام الہام پر نہیں رکھے گئے.دیکھو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہودیوں کا اونٹ کی حلت وحرمت میں مباحثہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے کوئی عبارت ان کی کتاب کی الہاما نہیں بتلائی بلکہ ان سے یہ فرمایا کہ ان سے کہو قُل فَأْتُوا بِالتَّوَريةِ فَاتْلُوْهَا إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ - توریت لاؤ اور پڑھ کر سناؤ کہاں اونٹ حرام لکھا ہے.الہام بجائے خود ہے.اور کتابیں بجائے خود ہیں.الہام الہی نے تو ظاہر کر دیا، بتلا دیا کہ تم لوگ خائن ہو، کا ذب ہو، محترف ہو، یہود خصلت ہو، مسیح زندہ نہیں، مر چکا.اب تمہاری اڑ پر تمہاری کتابیں تمہارے سامنے رکھی جاتی ہیں اور تمہاری خیانت دکھائی جاتی ہے.وہاں کتاب توربیت منگائی گئی اور پڑھنے کا حکم دیا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) وحی سے خبر دے دو.اور وحی سے ان کی کتاب کی عبارت پڑھ دو.مسلمات خصم سے خصم ساکت ہوسکتا ہے.چونکہ جو کتا ہیں تمہارے مسلمات سے ہیں انہیں مسلمات سے بحث کی جاوے گی.اور سند میں پیش کر کے تمہارے افترا اور کذب اور خیانت سے تم کو مطلع کیا جاوے گا.مولوی صاحب کو سخت غصہ آیا اور گالیاں دینے لگے اور بڑا شور و غل مچایا اور کہا ارے کوئی محلہ میں ہے جو ان دو شخص مرتد اور ملحد مرزائیوں کی خبر لے ہیں تو وہاں سے چل دیا.اور منشی صاحب تو بحث کے لئے وہیں ڈٹ گئے.نعمانی منشی صاحب آؤ چلو ان لوگوں کے تیور بدلے ہوئے ہیں.یہ وقت تو گفتگو کا نہیں ہے.جانے دو مگر جب دو چار آدمی گالیاں دیتے ہوئے آئے تب منشی صاحب وہاں سے چلے.ال عمران : ۹۴

Page 286

حیات احمد ۲۸۳ جلد سوم جامع مسجد (منارۃ دمشقی شرقی) کے نیچے کھڑے ہو کر ہم نے مشورہ کیا کہ اب کہاں جائیں.پھر میں اور منشی ظفر احمد صاحب ان مولویوں کی یہودیانہ حرکات پر افسوس کرتے ہوئے ایک منشی احمد حسین صاحب بنتی جامع مسجد کے قریب رہتے تھے.ان کے پاس گئے یہ صاحب میرے والد کے مرید اور وظیفہ خوان تھے.میں نے کہا منشی صاحب تم میرے والد کے مرید ہو اور ہمیشہ ان کی محبت اور اپنی ارادت کا خلوص ظاہر کیا کرتے تھے ہمیں کتابوں کی ضرورت ہے تم کسی سے اپنی معرفت کے دو.منشی صاحب نے کہا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ مرزا صاحب کے ارادت مند ہیں.مرزا صاحب کے واسطے کتابوں کی ضرورت ہوگی.کتابوں کا ملنا محال ہے.اس شہر میں یہ عہد ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کو کوئی کتاب نہ دی جاوے.میں اس میں مجبور ہوں بس اتنا ہی اس وقت ادب کافی ہے کہ آپ تشریف لے جاویں اور زیادہ نہ ٹھہریں.پھر ہم دونوں حیران و پریشان شرقی منارہ کے نیچے کھڑے ہو گئے اور ہم آپس میں کہنے لگے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے اور لوگوں کا یہ حال ہے.اب کریں تو کیا.جو کام اللہ تعالیٰ کو کرنا ہے اس کے اسباب و سامان بھی وہ اپنی قدرت سے بہم پہنچا دیتا ہے.خود کنی و خود کنانی کار را خود دہی رونق تو آں بازار را یکا یک اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالا کہ بہرام خاں کے ترا ہے کہ قریب کو چہ سعد اللہ خاں میں ایک صاحب نقش بندی حاجی علیم اللہ صاحب رہتے ہیں.اور وہ میرے والد سے اور نیز مجھ سے بھی بڑے عقیدت مند اور بوڑھے جہاندیدہ ہیں.آؤ اُن کے پاس چلیں ان سے یا ان کی معرفت کسی اور سے کتابیں مل جائیں مگر دل میں دھڑ کا اور خوف کہ مبادا وہاں بھی ایسے ہی یا اس سے زیادہ کوئی واقعہ پیش نہ آ جائے.خیر تن بہ تقدیر ان کے مکان پر پہنچے اور ڈرتے ڈرتے دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک مارتا ہے.ایک آواز دی.دو آواز دی.تیسری آواز پر ترجمہ.تو آپ ہی کام کرتا ہے اور آپ ہی کرواتا ہے.اور آپ ہی اس بازار کو رونق دیتا ہے.

Page 287

حیات احمد ۲۸۴ جلد سوم حاجی صاحب تشریف لائے.اور فرمایا میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا اس واسطے دیر لگی.بڑے شریفانہ طور سے خاطر تواضع کی.حسب دستور سابق پیش آئے.پان منگوایا.حاجی صاحب کیسے تشریف لائے اور پھر رات کے وقت.بہت روز میں ملاقات ہوئی آپ تشریف رکھیں.چار پائی منگا تا ہوں.نعمانی ( چونکہ ان سے بے تکلفی تھی عرض کیا کہ ) بیٹھنے کا تو یہ موقعہ نہیں ہے اس وقت کتابوں کی ضرورت ہے کوئی تفسیر یا حدیث کی آپ کے پاس ہو تو دے دیجئے تیسرے روز آپ کے پاس آپ کی کتابیں واپس آ جائیں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.حاجی صاحب، کتاب تو کوئی میرے پاس نہیں ہے.لیکن میں آپ کو ایک راہ بتلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مولوی سلیم الدین خاں صاحب کو چہ یکی ماراں کے قریب رہتے ہیں اور وہ آپ کے والد حضرت شاہ حبیب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے دادا حضرت مخدوم احمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے واقف ہیں اور ان سے اعتقاد رکھتے ہیں ان کے پاس ہر قسم کی کتابیں ہزاروں کتا ہیں مطبوعہ اور قلمی قدیم وجدید موجود ہیں اور وہ فروخت بھی کرتے ہیں آپ ان کے پاس چلے جاویں میں ان کو رقعہ لکھ دیتا ہوں.وہ کتابیں ضرور دے دیں گے.لیکن اتنا کام کریں کہ حضرت مرزا صاحب کا وہاں کوئی ذکر نہ آوے.آج کل طوفان بے تمیزی اور شور و نشر بر پا ہے.حضرت مرزا صاحب کے ذکر خیر آنے پر کتابیں نہ دیں گے.حاجی صاحب نے فوراً مجھے ایک یہ رقعہ لکھ کر دیا.” مخدوم و مکرم جناب مولا نا مولوی سلیم الدین صاحب دَامَ عِنَايَتُكُمْ.آپ کے پاس صاحبزادہ سراج الحق صاحب ابن حضرت شاہ حبیب الرحمن صاحب رحمتہ اللہ علیہ نعمانی و جمالی وسرساوی تشریف لاتے ہیں.آپ کو اس وقت کچھ کتابوں کی ضرورت ہے جو کتاب طلب کریں مہربانی فرما کر دے دیں ، واپسی کا میں ذمہ دار ہوں آپ مطمئن رہیں.والسلام - الراقم.حاجی علیم اللہ عرف حاجی احمد جان نقشبندی ترابا بہرام خان.کو چہ سعد اللہ خاں ہم دونوں اس رقعہ کو خوش خوش لے کر چلے اور مولوی صاحب کے مکان پر پہنچے دیکھا تو

Page 288

حیات احمد ۲۸۵ جلد سوم ایک عظیم الشان کتب خانہ ہے.الماریاں.صندوق.طاق.فرش زمین سے چھت تک مکان بھرا پڑا ہے.اور کچھ لوگ اور بھی کتابیں لے رہے ہیں اور مولوی صاحب عشاء کی نماز ادا کر کے وظیفہ پڑھ رہے ہیں.نعمانی.السلام علیکم.مولوی صاحب نے وعلیکم السلام کہ کر اشارہ سے کہا کہ بیٹھ جائے.نعمانی.ہم دونوں بیٹھ گئے مولوی صاحب اشارہ سے تھوڑا وظیفہ ہے ختم کرلوں.نعمانی دل میں خوف کا دھڑ کا پیدا تھا کہ مبادا ایسے آدمی بھی آجاویں جو ہم کو پہچان لیں اور غل مچادیں کہ یہ تو مرزائی ہے اور اس پر کتابیں نہ ملیں.مولوی صاحب کا خدا خدا کر کے وظیفہ ختم ہوا نعمانی نے جھٹ پٹ وہ رقعہ حاجی صاحب کا دیا.مولوی صاحب حاجی صاحب کا رقعہ پڑھ کر.آپ کب سے صاحبزادہ صاحب دہلی تشریف لائے آپ کے والد اور دادا رحمتہ اللہ علیہ تو اکثر دہلی میں تشریف رکھا کرتے تھے آپ تو دہلی میں کم آتے ہیں نعمانی دو چار روز سے دہلی میں آیا ہوں.مولوی صاحب کیا آپ کو بھی بحث مباحثہ کا شوق ہے نعمانی ہاں خوب شوق ہے مولوی صاحب مرزا صاحب بھی تو قادیان سے آئے ہوئے ہیں کل کو مرزا صاحب اور مولوی بشیر میں مباحثہ ہے شاید مولوی سلیم الدین خاں اس وقت یہ سمجھے کہ یہ (یعنی راقم ) بھی مرزا صاحب کے خلاف بحث کرے گا وَ اللهُ أَعْلَمُ.نعمانی.ہاں کل دونوں صاحبوں کا مباحثہ ہے.مولوی صاحب کچی بات تو یہ ہے کہ مولوی محمد بشیر مولوی ہیں مگر جناب مرزا صاحب کے مقابلہ کے نہیں ہیں.زمین و آسمان کا فرق ہے.مرزا صاحب کی تحریریں میں نے دیکھی ہیں بڑی زبر دست تحریر ہے.صاحبزادہ صاحب تم ابھی صاحبزادہ ہو.مرزا صاحب سے ہرگز ہرگز مباحثہ نہ کر بیٹھناتم کیا ، مولوی بشیر کیا، کوئی عالم آج میرے ذہن میں اُن کا مقابل نہیں.نعمانی دل میں کہا کہ واقعی بات تو سچ کہتے ہیں ایک زمینی اور کہاں آسمانی کیسے چوں مہربانی می کند ☆ از زمینی آسمانی می کند ترجمہ.جب وہ (اللہ تعالیٰ ) کسی پر مہربان ہوتا ہے، اسے اہل زمین سے اٹھا کر اہل آسمان میں سے بنا دیتا ہے.

Page 289

حیات احمد ۲۸۶ جلد سوم بہت اچھا مجھے کتا بیں عنایت کیجئے.مولوی صاحب کون کونسی کتاب چاہئے.نعمانی.جن کتابوں کے نام حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھے لکھ کر دیئے تھے وہ میں نے مولوی صاحب کو بتلا دیئے.مولوی صاحب نے ایک شخص سے کہا کہ یہ کتابیں سب دے دو.پھر مجھے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں میں اپنے آدمی کے ہاتھ آپ کے مکان پر پہنچا دیتا ہوں.نعمانی.مولوی صاحب کی یہ بات سن کر گھبرایا کہ ان کا آدمی کتابیں لے کر جائے گا تو حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر جائے گا.تو یہ بھید کھل جائے گا.میں نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں ہم دو آدمی ہیں کتابیں لے جائیں گے.اور راستہ میں سے ایک مزدور کر لیں گے.مولوی صاحب اچھا آپ کو اختیار ہے.پس ہم دونوں بمشکل تمام کتابیں لے کر چلے.راہ میں قلی چار پیسے دے کر لے لیا جب وہ کتا بیں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیں تو حضرت اقدس ہنسے اور فرمایا کتا بیں کیونکر ہاتھ آئیں.ہم دونوں نے سارا واقعہ سنایا.آپ نے تعجب فرمایا اور خاموش ہو گئے.

Page 290

حیات احمد ۲۸۷ مولوی بشیر بھوپالی سے مباحثہ جلد سوم حضرت اقدس نے اشتہار مورخہ ۲۳ / اکتوبر ۱۸۹۱ء کے ذریعہ اتمام حجت کر دی.ا مباحثہ کے تفصیلی حالات تو پنجاب گزٹ سیالکوٹ مورخہ ۱۴/ نومبر ۱۸۹۱ء میں مکرم فصیح صاحب مرحوم نے شائع کر دیئے تھے.اور تحریر میں الحق میں شائع ہو چکی ہیں.شیخ الکل مولوی نذیرحسین صاحب کا مباحثہ اور مباہلہ سے گریز عام طور پر محسوس کیا گیا اور اہلحدیث حضرات نے خصوصاً اس لئے کوشش کی کہ مسئلہ حیات و وفات مسیح پر ضرور مباحثہ ہونا چاہئے.اس مقصد کے لئے مولانا محمد بشیر صاحب بھوپالی کو منتخب کیا گیا اور انہیں بلایا گیا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولوی بشیر صاحب کے متعلق ایک تعارفی نوٹ دیا جائے.مولوی محمد بشیر صاحب خاکسار عرفانی الکبیر کو مولوی محمد بشیر صاحب سے ذاتی نیاز کی عزت بھی حاصل ہے جیسا کہ اس تعارفی نوٹ سے معلوم ہو گا.مولوی محمد بشیر صاحب سے مباحثہ کی تحریک خود مولوی صاحب کی طرف سے ہوئی.ان کے رفقائے کار میں ایک مولوی محمد احمد صاحب تھے جیسے مولوی سید نذیرحسین صاحب کو مولوی عبدالمجید اور مولوی محمد حسین بٹالوی ملے ہوئے تھے مولوی بشیر صاحب میں یہ عجیب و غریب خصوصیت تھی کہ سستی شہرت حاصل کرنے کے طریقوں سے واقف تھے اس کا ذکر شاید بعد میں آئے.مولوی بشیر صاحب سے مباحثہ کی تحریک انہی صاحب نے کی تھی جیسا کہ آگے آئے گا.مولوی بشیر صاحب کے تعارف کے لئے مختصراً لکھتا ہوں.مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی دراصل سہوان کے باشندے تھے اور بہ سلسلہ ملازمت بھوپال میں نواب صدیق حسن خاں صاحب کے علماء کے زمرہ میں ملازم تھے چونکہ نواب صاحب

Page 291

حیات احمد ۲۸۸ جلد سوم خود اہلِ حدیث تھے اس لئے انہوں نے مشہور علماء اہل حدیث کو اپنے سلسلہ تالیف کے لئے جمع کر لیا تھا چنانچہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی بھی اسی ذیل میں تھے اور مولوی بشیر صاحب سے ان کے گہرے تعلقات تھے.مولوی بشیر صاحب ایک پستہ قد گندم گوں تھے اس میں کچھ شبہ نہیں علوم عربیہ درسیہ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے جب اپنے دعویٰ مسیحیت کا اعلان فرمایا تو مولوی بشیر اور مولانا سید محمد احسن صاحب میں خلوت میں تبادلہ خیالات ہوتا رہا.مولوی سید محمد احسن صاحب اثبات دعوی کا پہلو لیتے تھے اور مولوی بشیر صاحب اس پر اعتراض کرتے تھے مگر یہ مناظرہ مخالفت کے لئے نہ تھا بلکہ احقاق حق کے لئے.آخر یہ تسلیم کر لیا گیا کہ حضرت اپنے دعوی میں صادق ہیں.مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب نے اخلاقی جرات سے کام لے کر بیعت کر لی مگر مولوی بشیر صاحب متامل رہے.جب بھوپال کا سلسلہ ملازمت ختم ہو گیا تو مولوی صاحب بھوپال سے دہلی آ کر جماعت اہل حدیث کے امام ہو گئے اور یہ چیز اُن کی راہ میں روک ہو گئی.۱۸۹۱ء کی آخری سہ ماہی میں حضرت اقدس لودھانہ سے دہلی تشریف لے گئے.جب مولوی سید نذیر حسین صاحب جو شیخ الکل کہلاتے تھے مقابلہ اور مباحثہ کے لئے نہ آئے.حیلہ سے اس پیالہ کو ٹلا دیا تو لوگوں نے مولوی بشیر صاحب کو بحث پر آمادہ کیا جہاں تک حقیقت ہے کہ وہ گڑھا آمادہ ہوئے.ان کے مباحثہ کے حالات رسالہ الحق دہلی (سیالکوٹ ) میں شائع ہو گئے.مولوی صاحب آنے کو تو میدان میں آئے مگر نون ثقیلہ کی بحث میں الجھ کر رہ گئے.جہاں تک میرا ذاتی علم ہے مولوی بشیر صاحب ایسے مخالف نہ تھے جیسے محمد حسین بٹالوی وغیرہ بلکہ وہ کسی قدر ادب حضرت کا ملحوظ رکھتے تھے اُن پر صداقت کھل چکی تھی.مگر بعض دوسرے معاشی اسباب اُن کی راہ میں روک تھے.چنانچہ جب مباحثہ کے لئے حضرت اقدس کی قیام گاہ پر آئے.اپنے آنے کی اطلاع کی تو حضرت اقدس بالا خانہ سے نیچے آئے اور مولوی صاحب نے آگے بڑھ کر مودبانہ السّلام علیکم کہا اور بے اختیار

Page 292

حیات احمد ۲۸۹ جلد سوم آپ سے معانقہ کے لئے لپٹ گئے.حضرت تو اس کے عادی نہ تھے صاحبزادہ سراج الحق صاحب بیان کرتے تھے کہ حضرت کھڑے رہے اور مولوی صاحب لیٹے رہے اور مولوی صاحب آخر بیٹھ گئے اور حضرت اقدس بھی تشریف فرما ہوئے.میں نے اس واقعہ کو اس لئے نقل کیا ہے کہ مجھ پر ان کے متعلق بھی اثر تھا کہ وہ اندر سے مخالفت کا جذ بہ نہیں رکھتے وہ اب مر چکے.وَاللهُ 690 حَسِيْبة پھر جب ۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس دہلی تشریف لے گئے میں بھی ساتھ تھا مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی نے مولوی بشیر صاحب کو ملاقات کے لئے ایک خط لکھا اور میں خود وہ خط لے کر گیا.مولوی صاحب نے حکوت ہی میں مجھے کہا کہ اس وقت ملاقات مصلحت کے خلاف ہے.میری طرف سے بہت بہت سلام دیا جائے اور میری معذوری پر معافی طلب کی جائے.میں نے ان میں شوخی اور گستاخی نہ پائی تھی.انہیں ایام میں کچھ خطوط اور رقعہ جات ان کو لکھے گئے تھے.میں عزیز مکرم مہاشہ فضل حسین صاحب کے لئے بہت دعا کرتا ہوں کہ انہوں نے ان رقعہ جات کو مخالفین کے لٹریچر میں سے لے کر محفوظ کر دیا.جَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء ( عرفانی الكبير ) مباحثہ کی تحریک جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے مباحثہ کی تحریک خود مولوی بشیر صاحب کی طرف سے ہوئی تھی جسے حضرت اقدس نے بخوشی منظور کر لیا تھا.حاشیہ.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر اس خط و کتابت کو بھی درج کر دیا جائے جو اس مباحثہ کے متعلق ہوئی اور اگر چہ یہ خط و کتابت رسالہ الحق الصریح میں شائع ہوئی تھی مگر سلسلہ کے لٹریچر میں نہ آئی تھی اور یہ مکرم مہاشہ فضل حسین صاحب کی تحقیق و تلاش سے محفوظ ہوئی.جَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ.نمبرا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مکر می اخویم مولوی احمد صاحب سَلَّمَة السلام علیکم و رحمۃ اللہ.حسب استفسار آپ کے عرض کیا جاتا ہے کہ مجھے حضرت محمد بشیر صاحب سے مسئلہ حیات و وفات مسیح ابن مریم میں بحث کرنا بدل و جان منظور ہے.پہلے بہر حال

Page 293

حیات احمد ۲۹۰ جلد سوم یه مباحثه ۲۳ / اکتوبر ۱۸۹۱ ء مطابق ۱۹ ؍ ربیع الاول ۱۳۰۹ھ شروع ہوا اور تین پرچے مولوی محمد بشیر صاحب کے ہوئے اور تین ہی پرچے حضرت اقدس نے لکھے اور آخری پر چہ میں تحریری بحث جاری رکھنے کا بھی اظہار فرمایا مگر یہ کہ جب تحریری بحث ہے تو میرا یا آپ کا دہلی میں مقیم رہنا ضروری نہیں جبکہ تحریری بحث ہے تو دور رہ کر بھی ہو سکتی ہے.میں مسافر ہوں اب مجھے زیادہ اقامت کی گنجائش نہیں اس طرح یہ مباحثہ ختم ہو گیا.اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپال چلے گئے.اور انہوں نے اپنے رفیق قدیم حضرت مولوی محمد احسن صاحب سے مراسلت شروع کی.اور وہ مراسلت بھی الحق دہلی کا ایک حصہ ہے.مولوی محمد بشیر صاحب کا یہ اقدام حقیقت میں قابل احترام ہے کہ جس پیالہ کو علماء ٹال رہے بقیہ حاشیہ.یہی ہوگی.بعد اس کے حضرت مولوی صاحب اُن کے نزول کے بارے میں بھی بحث کر لیں.بحث تحریری ہوگی.ہر ایک فریق سوال یا جواب لکھ کر حاضرین کو سنا دے گا.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ.۱۵ راکتو بر ۱۸۹۱ء نمبر ۲.مجھے یہ منظور ہے کہ اول حضرت مسیح ابن مریم کی وفات و حیات کے بارے میں بحث ہو اس بحث کے تصفیہ کے بعد پھر ان کے نزول اور اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کے بارے میں مباحثہ کیا جائے.اور جو شخص طرفین میں سے ترک بحث کرے گا.اس کا گریز سمجھا جائے گا.(الحق الصریح صفحه ۲۵) نوٹ.مولوی محمد بشیر کے ایک اعلان کے جواب میں رقم فرمایا تھا جو ان کے شائع کردہ مباحثہ دہلی بنام الحق الصریح فی اثبات حیات اسیح صفحہ ۲۵ پر درج ہے مگر اس کے نیچے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دستخط یا نام نہیں لکھا گیا.نمبر ۳.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ حضرت مولوی محمد بشیر صاحب سَلَّمَهُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَة الله وَبَرَكَاتُهُ - مجھے آپ کی تشریف آوری سے بہت خوشی ہوئی اور خط آمدہ اخویم مولوی سید محمد احسن صاحب سے آپ کے اخلاق اور متانت اور تہذیب کا حال معلوم ہو کر دل پہلے ہی مشتاق ہو رہا تھا کہ مسئلہ میں آپ سے اظہارًا لِلْحَق بحث ہو سو الحمد للہ آپ تشریف لے آئے مجھے آج بوجہ ضروریات فرصت نہیں.کل انشاء القدیر کوئی تاریخ مقرر کر کے اطلاع دوں گا.لیکن بحث تحریری ہوگی تاہر ایک فریق کا بیان محفوظ رہے اور دور دست لوگوں کو بھی رائے لگانے کا موقعہ مل سکے.سب سے پہلے مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث ہو گی.حیات مسیح علیہ السلام کا آپ کو ثبوت دینا ہو گا.

Page 294

حیات احمد ۲۹۱ جلد سوم تھے انہوں نے اس کے پینے پر نہ صرف آمادگی بلکہ کڑوا گھونٹ سمجھ کر بھی پینے کی کوشش کی.حضرت مولانا عبدالکریم رضی اللہ عنہ جو اس مباحثہ کی اشاعت کے ایڈیٹر ہیں.انہوں نے جن خیالات کا اظہار فرمایا.وہ قابل غور ہیں.مولوی محمد بشیر صاحب نے کسی نیت پر اس میدان میں قدم رکھا ہو مگر ہم انہیں مبارک دیتے ہیں کہ انہوں نے ہند و پنجاب کے علماء کی طرف سے اپنے تئیں فدیہ دیا ہے.واقعی وہ ایک زبر دست کفارہ اپنے ہم پیشہ لوگوں کی طرف سے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لق ودق بیاباں میں جہاں کہ جادہ نہیں ملتا تھا اور نہ جہاں کوئی نقش پائے راہ رواں ہی نظر آتا تھا اس نشان کی طرح کھڑا کیا جس سے مسافر سمت کا پتہ لگاتے ہیں.اگر چہ اس میل ( نشان ) کو شعور نہ ہو کہ بقیہ حاشیہ.اس ثبوت کے بعد آپ دوسری بحث کر سکتے ہیں آپ کی خدمت میں ایک اشتہار بھی بھیجا جاتا ہے جس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ حیات و وفات مسیح میں کن شرائط کی پابندی سے آپ کو بحث کرنا ہوگا.والسلام خاکسار عبداللہ الصمد غلام احمد عفی عنہ.۲۱ / اکتوبر ۱۸۹۱ء نمبر ۴.مکرم اخویم مولوی صاحب - السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - کل دس بجے کے بعد بحث ہویا اگر ایک ضروری کام سے فرصت ہوئی تو پہلے ہی اطلاع دے دوں گا ورنہ انشاء اللہ القدیر دس بجے کے بعد تو ضرور بحث شروع ہو گی.صرف اس بات کا التزام ضروری ہوگا کہ بحث اس عاجز کے مکان پر ہو اس کی ضرورت خاص وجہ سے ہے جو زبانی بیان کر سکتا ہوں.جلسہ عام نہیں ہو گا.صرف دس آدمی جو معزز خاص ہوں آپ ساتھ لا سکتے ہیں مگر شیخ بٹالوی اور مولوی عبدالمجید ساتھ نہ ہوں.اور نہ آپ کو ان بزرگوں کی کچھ ضرورت ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ.۲۲ /اکتوبر ۱۸۹۱ء نمبر ۵ جناب مولوی صاحب مکرم بندۂ السلام علیکم.میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان تمام شرطوں کو جو میں اپنے کل کے پرچہ میں لکھ چکا ہوں قبول کرنے سے کسی کا انحراف یا میلان انحراف ظاہر نہ کریں یعنی جن لوگوں کو آنے سے روکا ہے تجربہ اور مصلحتاً روکا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ خیر و برکت اسی میں ہے بہت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعد از فراغ نماز جمعہ بحث شروع ہو اور شام تک یا جس وقت تک ممکن ہو سکے سلسلہ بحث جاری ہو اور دس آدمیوں سے زیادہ ہرگز کسی حال میں آپ کے ساتھ نہ ہوں اور اس لحاظ سے کہ بحث بے فائدہ طول نہ ہو.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرچوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ ہو اور پہلا پرچہ آپ کا ہو.مرزا غلام احمد بقلم خود - ۲۳ /اکتوبر ۱۸۹۱ء

Page 295

حیات احمد ۲۹۲ جلد سوم اس کا وجود اتنے بڑے فائدہ کا موجب ہے مگر ہم امید رکھتے ہیں کہ شاید شا کر علیم خدا ان کو بوجہ دَالٌ عَلَى الْخَيْر ہونے کے واقعی فہم بھی عطا کر دے تا کہ وہ اس فرستادہ خدا وند کوطوعاً قبول کریں.میرا پکا ارادہ تھا کہ میں معمولاً ان پر کچھ نوٹ لکھتا یا ایک مختصر سا ریویو کرتا مگر میرے دلی دوست مخدوم معظم مولوی سید محمد احسن صاحب نے مجھے اس غرض سے سبکدوش کر دیا.انہوں نے جیسا کہ اس خدمت کو ادا کیا ہے درحقیقت انہی جیسے فاضل اجل کا حصہ تھا جَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ.میرا یقین ہے کہ یہ ایسا نیک کام ان کے ہاتھ سے پورا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے رفع الدرجات کے لئے ایک یہ ہی بس ہے مگر قوی امید ہے کہ ہمارے حضرت سید صاحب موصوف روح قدس سے مؤید ہو کر اور بھی بڑے مفید اور منتج ثواب کام کریں گے.الغرض مولوی محمد بشیر صاحب کے وجود کو ہم مغتنم سمجھتے ہیں جنہوں نے غیر ضروری مباحثہ اور بخلاف ایک پنجابی ملا کے لا طائل اصول موضوعہ کو چھوڑ کر اصل امر کو بحث کا تختہ مشق بنایا اور یوں خلق کثیر کے ہر روز انتظار جان کاہ کو رفع کر دیا گویا اس پر بھی اس بات کے کہنے سے چارہ نہیں کہ ہدایت ایک منجانب اللہ امر ہے اور وہ سچا ہادی لا معلوم اسباب کے وسایط سے سعیدانِ ازلی کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے مگر کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ راہ خوب صاف ہوگئی اور اس مضمون حیات و وفات مسیح کی بحث کی حجت قطعا و حکماً تمام ہوگئی.ہم کمال ہمدردی اور اسلامی اخوت کی راہ سے اہلِ دہلی کو اتنا کمزور ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ناحق کی ضد کو چھوڑ کر اس مامور من اللہ کو قبول کریں ورنہ ان کا انجام خطر ناک معلوم ہوتا ہے.میں کانپتے ہوئے دل سے انہیں اتنا کہنے سے رک نہیں سکتا کہ ان کا جامع مسجد دہلی میں حضرت مسیح موعود کے برخلاف چھ ساتھ ہزار آدمی کا جمع کر کے طرح طرح کی ناسزا حرکات کا مرتکب ہونا دیکھ کر مجھے یاد آ گیا حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا وہ واقعہ جو کمالات عزیزی مطبوعہ دہلی میں لکھا ہے.” جناب مولانا شاہ عبد العزیز جو واسطے نماز جمعہ کے جامع مسجد میں تشریف لے

Page 296

حیات احمد ۲۹۳ جلد سوم جاتے تو عمامہ آنکھوں پر رکھتے ایک شخص فصیح الدین نام جو اکثر حضور میں حاضر رہتے تھے انہوں نے عرض کیا کہ حضرت اس کی کیا وجہ ہے جو آپ اس طرح رہتے ہیں؟ آپ نے گلاہ اُتار کر اُن کے سر پر رکھ دی ایک دفعہ ہی بے ہوش ہو گئے.جب دیر میں افاقہ ہوا عرض کیا سوسوا سو کی شکل آدمی کی تھی اور کوئی ریچھ اور کوئی بندر اور کوئی خنزیر کی شکل اور اس وقت مسجد میں پانچ چھ ہزار آدمی تھے.حضرت نے فرمایا کہ میں کس کی طرف دیکھوں اس لئے میں نہیں دیکھتا.“ اس مباحثہ کے بعد حضرت اقدس نے واپسی کا عزم فرمایا اور چونکہ ان ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب پٹیالہ میں تھے آپ دہلی سے پٹیالہ تشریف لے گئے.مولوی محمد بشیر کے مباحثہ کا پہلا دن بروز جمعہ بعد نماز مباحثہ کا پہلا دن مقرر ہوا تھا.جناب مولوی صاحب حسب وعدہ تشریف لائے ان کی پہلی ملاقات اس طرح پر ہوئی.مولوی بشیر معہ چند آدمیوں کے آ گئے پہلے مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی سے ย سلام مسنون کے بعد مصافحہ کیا.اور پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں.عبدالکریم سیالکوٹی، حضرت اقدس علیہ السلام اوپر بالا خانہ پر رونق افروز ہیں.بشیر آپ کو اطلاع کر دیجئے.امیر سیالکوٹ نے حضرت اقدس علیہ السلام کو اوپر بالا خانہ پر جا کر اطلاع دی کہ حضرت (صلى الله عَلَيْكَ وَعَلَى مُحَمَّدٍ ) مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی آئے ہیں.حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لائے.مولوی محمد بشیر صاحب نے السلام علیکم کہہ کر حضرت سے مصافحہ کیا اور حضرت اقدس نے السلام کا جواب وعلیکم السلام دیا.بشیر نے مصافحہ کے بعد معانقہ کیا.چونکہ حضرت اقدس علیہ السلام کو معانقہ کی عادت نہیں

Page 297

حیات احمد ۲۹۴ جلد سوم تھی اور نہ میں نے پچیس برس کے عرصہ کی صحبت میں کسی کے ساتھ معانقہ کرتے دیکھا.مولوی صاحب خود حضرت اقدس سے لپٹ گئے چونکہ بشیر صاحب کا بہت ہی چھوٹا قد تھا.کمر تک رہے اور آپ ہی علیحدہ ہو گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے معانقہ نہیں کیا سیدھے کھڑے رہے اور دونوں ہاتھ بھی سید ھے لٹکائے رکھے پھر حضرت اقدس علیہ السلام اور مولوی محمد بشیر صاحب دونوں بیٹھ گئے اور ہم سب اور مولوی صاحب کے ہمراہی بھی بیٹھ گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے مولوی محمد بشیر اور ان کے ہمرائیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا :- ”مولوی صاحب مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سچا ہے جیسا کہ اور انبیاء کا دعویٰ نبوت ورسالت سچا ہوتا تھا.اس دعویٰ کی بناء یہ ہے کہ کئی ماہ تک مجھے متواتر الہام ہوتے رہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو گئے اور جس مسیح موعود کا آنا مقدر تھا وہ تو ہے.مجھ کو کشف، الہام سے رویا سے متواتر بتلایا گیا.سمجھایا گیا.جب بھی میں اس کو یقینی نہیں سمجھا.لیکن کئی ماہ کے بعد جب یہ امر تو اتر اور پورے یقین اور حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچ گیا تو میں نے قرآن شریف کھولا اور خیال کیا کہ اس اپنے الہام وغیرہ کو کتاب اللہ پر عرض کرنا چاہئے.قرآن شریف کھولتے ہی سورہ مائدہ کی آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی نکل آئی میں نے اس پر غورو فکر کیا تو اپنے الہامات اور کشوف ورد یا کو سیج پایا.اور مجھ پر کھل گیا اور ثابت ہو گیا کہ بے شک مسیح ابن مریم علیہ السلام فوت ہو گئے.پھر میں نے اوّل سے آخر تک قرآن شریف کو خوب تدبر اور غور سے پڑھا تو سوائے وفات مسیح کے حیات کا پتہ مسیح علیہ السلام کی نسبت کچھ نہ نکلا.پھر میں نے صحیح بخاری کھولی.خدا کی قدرت کھولتے ہی کتاب التفسیر میں دو آیتیں ایک انِي مُتَوَفِّيكَ اور دوسری فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى آئیں.ایک کا ترجمہ مُمِيْتُكَ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور حمد سید امیر علی شاہ ۳۱ المائدة: ۱۱۸ ال عمران: ۵۶

Page 298

حیات احمد ۲۹۵ جلد سوم دوسری کا ترجمہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود تھا.گویا بخاری نے دونوں آیتوں کو جو دو مختلف مقام پر ہیں ایک جگہ جمع کر کے اپنا مذہب ظاہر کر دیا کہ ان دونوں آیتوں سے مسیح کی موت ثابت ہے اور کچھ نہیں.پھر تمام صحیح بخاری کو اوّل سے آخر تک ایک ایک لفظ کر کے پڑھا اس میں بھی سوائے موت کے حیات کا کوئی لفظ اشارتاً یا کنایہ نہ نکلا پھر میں نے صحیح مسلم وغیرہ کل کتب احادیث لفظاً دیکھیں اور خوب غور سے ایک ایک سطر اور ایک ایک حرف پڑھا لیکن کہیں بھی مسیح کی حیات نہ نکلی سوائے موت کے، رہی نزول کی حدیثیں.ان میں کہیں نزول مِنَ السَّمَاء نہیں ہے.نزول سے حیات کو کیا تعلق جب حیات و رَفَعَ إِلَى السَّمَاء ہی ثابت نہیں تو پھر نزول کیسا ہے.نزیل مسافر کو بھی کہتے ہیں جیسا کہ میں نے اب دہلی میں نزول کیا.ابھی آپ کی تقریر ختم نہ ہوئی تھی کہ مولوی محمد بشیر گھبرا کر بول اٹھے کہ آپ اجازت دیں تو میں اس دالان کے پر لے کو نہ میں جا بیٹھوں.اور وہاں کچھ لکھوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ بہت اچھا آپ جہاں چاہیں بیٹھیں.پس مولوی صاحب پر لے کو نہ میں جا بیٹھے.اور مجد دعلی خاں سے مضمون لکھوانے لگے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ شرط اس بات پر ٹھہری تھی کہ قریب بیٹھ کر خود اپنے اپنے قلم سے اسی وقت سوال و جواب کے طور پر لکھیں گے.لیکن مولوی صاحب دور جا کر کسی اور سے لکھوانے لگے.میں نے عرض کیا کہ میں مولوی صاحب سے کہہ دوں آپ نے فرمایا.خیر جانے دو.اور لکھنے دو یا لکھوانے دو.مولوی بشیر صاحب نے بھوپال جا کر حضرت مولوی محمد احسن صاحب سے سلسلہ مراسلات شروع کیا.اور انہوں نے مولوی صاحب کے مباحثہ پر زبردست تنقید کی جو الحق دہلی میں شائع ہو چکی.

Page 299

حیات احمد ۲۹۶ دہلی سے براہ پٹیالہ واپسی جلد سوم مولوی محمد بشیر صاحب کے مباحثہ کے بعد آپ نے واپسی کا عزم فر مایا دہلی پر اتمام حجت ہو چکا اور کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ مقابلہ میں آتا.اس میں کچھ شک نہیں لاف گذاف کا سلسلہ خوب جاری رہا.مگر نہ تو مباحثہ کی ہمت ہوئی اور نہ بالمقابل قسم کھانے کی جرات اتمام حجـــت کے بعد آپ نے واپسی کا عزم فرمایا اور چونکہ حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ ان ایام میں پٹیالہ تبدیل ہو چکے تھے.آپ نے چند روز کے لئے پٹیالہ قیام فرمانے کا عزم فرمایا.پٹیالہ کی اہمیت پٹیالہ کو سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت ہے اس لئے کہ جب براہین احمدیہ کی اشاعت ہو رہی تھی اس وقت ہندوستان کے جن رؤسا کو اس نیک کام میں حصہ لینے کی توفیق ملی ان میں سے ریاست پٹیالہ کے وزیر اعظم خلیفہ سید محمد حسن خاں صاحب مرحوم بھی پیش پیش تھے اور اس کتاب کی اشاعت پر اُن کے دل میں حضرت کے لئے ادب اور احترام کے جذبات تھے ایک مرتبہ جب آپ کو اس سے پہلے وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے اہتمام اور احترام کے ساتھ آپ کا استقبال کیا تھا.جَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء پٹیالہ کی جماعت اس وقت پٹیالہ میں کوئی بڑی جماعت تو تھی نہیں ہاں بعض سلیم الفطرت قریب آ رہے تھے اور بعض داخل سلسلہ بھی ہو چکے تھے مگر یہ سَابِقُونَ الأَوَّلُون کی جماعت کے افراد زیادہ تر سنور کی جماعت کے لوگ تھے اور سامانہ کے، ریاست پٹیالہ کے بعض دوسرے مواضعات کے احباب بھی تھے خاص پٹیالہ میں چند بزرگ تھے.چونکہ سنور کی جماعت کے افراد پٹیالہ ہی میں ملازم تھے اس لئے یہ سب جماعت پٹیالہ کے ہی رکن تھے.

Page 300

حیات احمد ۲۹۷ جلد سوم پٹیالہ میں مخالفت کا جوش حضرت کے ورود کے ساتھ ہی مخالفت کا ایک طوفان اٹھا اس کے لیڈر مولوی محمد اسحاق صاحب تھے جنہوں نے بعد میں کفر کے فتوے پر بھی دستخط کئے.چونکہ وہاں صاحب اثر تھے اور بعض علماء ان کے ماتحت ملازم تھے اس لئے حق گوئی کی توفیق ان کو نہ ملی.البتہ ان میں ایک سعادت مند روح بھی تھی یہ حضرت مولوی محمد عبد اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ پروفیسر پٹیالہ کالج تھے وہ اس وقت سلسلہ میں داخل نہ تھے مگر حق گوئی کی ایک جرات مومنانہ اُن میں تھی.قیام پٹیالہ میں ایک دن مولوی محمد اسحاق صاحب اور مولوی حافظ غلام مرتضی خاں صاحب حضرت کی خدمت میں آئے اور آداب مجلس و شرافت کو بالائے طاق رکھ کر گفتگو کرتے تھے اس اثناء میں مولوی غلام مرتضی خاں نے استہزائیہ کلام کیا تو اس سعید روح نے مومنانہ غیرت کا نمونہ دکھایا ور نہایت دلیری سے کہا کہ مولوی صاحب آپ نے تہذیب سے کام نہیں لیا آپ کی مولویانہ شان سے بعید ہے کہ ایسی سوقیانہ باتیں کریں.“ اس پر وہ لوگ چلے گئے بعد میں حضرت نے ، حضرت منشی عبداللہ سنوری سے دریافت کیا یہ کون صاحب تھے جنہوں نے مولوی غلام مرتضیٰ خاں کو ڈانٹا ان میں سے ایمان کی خوشبو آتی ہے.بالآ خر اللہ تعالیٰ نے اس سعید روح کو معہ خاندان داخل سلسلہ کیا اور وہ جماعت کی تعلیم وتربیت اور اس کے نظام میں نہایت دلچسپی لیتے رہے.اور جماعت ترقی کرتی رہی.افسوس ہے کہ خلافت ثانیہ کے قیام کے وقت انہیں ٹھوکر لگی اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص اور خدمات سابقہ کے مدنظر ان پر اپنی رحمت کے دروازوں کو کھلا رکھے.پٹیالہ میں اتمام حجت اس موقعہ پر آپ نے اتمام حجت کے لئے ۳۱ / اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ذیل کے اشتہار کے ذریعہ اتمام حجت کر دیا مگر کسی کو میدان میں آنے کی ہمت نہ ہوئی.

Page 301

حیات احمد ۲۹۸ جلد سوم اشتہار واجب الاظہار جس میں مولوی محمد اسحق صاحب کو حضرت مسیح ابن مریم کی حیات و وفات کے بارے میں بحث کے لئے دعوت کی گئی ہے واضح ہو کہ کل ۳۰ / اکتوبر ۱۸۹۱ء کو مولوی محمد اسحق صاحب اس عاجز کے مکان (فرودگاه ) میں تشریف لائے اور ایک جلسہ عام میں حضرت مسیح ابن مریم کی وفات کے بارہ میں مولوی صاحب موصوف نے گفتگو کی اور یہ بھی فرمایا کہ اس قدر تو ہم بھی مانتے ہیں کہ بعض احادیث میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم چند گھنٹے کے لئے ضرور فوت ہو گئے تھے مگر ہمیشہ کے لئے نہیں.بلکہ وہ پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے.اور پھر کسی وقت زمین پر اتریں گے اور پینتالیس برس زمین پر بسر کر کے پھر دوبارہ مریں گے یعنی دو موتیں ان پر ضرور وارد ہوں گی.اس پر مولوی صاحب کو ایک مبسوط تقریر میں سمجھایا گیا کہ حضرت مسیح کی دو موتیں قرآن کریم اور حدیث سے ثابت نہیں ہوتیں بلکہ وہ ایک ہی دفعہ مرکز خدا تعالیٰ کی طرف انتقال کر گئے اور فوت شدہ انبیاء میں جا ملے اور دوبارہ دنیا میں وہ آ نہیں سکتے ، کیونکہ اگر دوبارہ دنیا میں آویں تو پھر یہ دعویٰ قرآن کریم کے مخالف ہو گا.اور کئی دلائل سے اُن کو سمجھا دیا گیا کہ حضرت عیسی حقیقت میں فوت ہو چکے ہیں اب دوبارہ دنیا میں ان کا آنا تجویز کرنا گویا قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو چھوڑ دینا ہے.لیکن مولوی صاحب یا تو ان دلائل کو سمجھ نہیں سکے یا عمداً حق پوشی کی راہ سے اس کے مخالف اشاعت کرنا انہوں نے اپنے لئے دنیوی مصلحت قرار دے دیا ہو گا.چنانچہ سنا گیا ہے کہ ان کے بعض

Page 302

حیات احمد ۲۹۹ دوستوں نے عام طور پر شہر پٹیالہ میں شائع کر دیا کہ گویا مولوی صاحب اپنی اس تقریر میں جو اس عاجز سے کی تھی فتح یاب ہوئے.چونکہ معلوم ہوتا ہے کہ اس خلاف واقعہ تقریر کا پٹیالہ کے عوام پر بد اثر پڑے گا.اور شاید وہ اس مفتر یا نہ تقریر کو سن کر یہ سمجھ بیٹھے ہوں گے کہ در حقیقت مولوی صاحب نے فتح پالی ہے لہذا مولوی محمد الحق صاحب کو مخاطب کر کے اشتہار ہذا شائع کیا جاتا ہے کہ ہر ایک خاص و عام کو اطلاع رہے کہ جو بیان مولوی صاحب کی طرف سے شائع ہوا ہے وہ محض غلط ہے.حق بات یہ ہے که ۳۰ اکتوبر کی تقریر میں مولوی صاحب ہی مغلوب تھے اور ہمارے شافی و کافی دلائل کا ایک ذرہ جواب نہیں دے سکے.اگر ہمارا یہ بیان مولوی صاحب کے نزدیک خلاف واقعہ ہے تو مولوی صاحب پر فرض ہے کہ اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد ایک جلسہ بحث مقرر کر کے اس مسئلہ حیات و وفات مسیح میں اس عاجز سے بحث کر لیں اور اگر بحث نہ کریں تو پھر ہر ایک منصف کو سمجھنا چاہیے کہ وہ گریز کر گئے.شرائط بحث بہ تفصیل ذیل ہوں گے.(۱) حیات و وفات مسیح ابن مریم کے بارہ میں بحث ہوگی (۲) بحث تحریری ہوگی یعنی دو کا تب ہماری اور دو کا تب مولوی صاحب کی طرف سے اپنی اپنی نوبت پر بیانات قلمبند کرتے جائیں گے.اور ہر یک فریق ایک ایک نقل د تخطی اپنے فریق ثانی کو دے دے گا.پرچے بحث کے تین ہوں گے.مولوی صاحب کی طرف سے بوجہ مدعی حیات ہونے کے پہلا پرچہ ہو گا.پھر ہماری طرف سے اس کا جواب ہو گا.تحریری بحث سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ فریقین کے بیانات محفوظ رہتے ہیں.اور دور دست کے غائبین کو بھی ان پر رائے لگانے کا موقعہ مل سکتا ہے اور کسی کو یہ یارا نہیں ہوتا کہ خارج از بحث یا رطب و یابس کو زبان پر لا سکے.پبلک اس بات کو سن رکھے کہ ہم اس اشتہار کے بعد ۲ نومبر ۱۸۹۱ء کے ۱۲ بجے دن تک مولوی صاحب جلد سوم

Page 303

حیات احمد کے جواب اور شروع بحث کا انتظار کریں گے.جس طرح دہلی میں مولوی سید نذیر حسین کو اشتہار کے ار اکتوبر ۱۸۹۱ء میں قسم دی گئی تھی وہی قسم آپ کو بھی دی جاتی ہے.امید ہے کہ آپ بحث سے ہرگز احتراز نہ کریں گے.خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی.وارد حال شہر پٹیالہ جلد سوم به مکان شیخ فضل کریم صاحب سررشتہ محکمہ اڈیشنل جج.المرقوم ۳۱ اکتوبر ۱۸۹۱ء واضح ہو کہ میری کتاب ازالہ اوہام یہاں پٹیالہ میں میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس محکمہ نہر سر ہند سے مل سکتی ہے.آسمانی فیصلہ کے ذریعہ اتمام حجت مباحثات میں عاجز آ کر اور قسم سے گریز کر کے جب علماء سوء نے دیکھا کہ سلسلہ حقہ کی قبولیت بڑھ رہی ہے تو انہوں نے حربہ ء کفر کے ذریعہ اس کو روکنا چاہا اور اپنے مکاید کے آخری منصوبہ سے کام لیا اور اعلان کیا کہ یہ شخص اپنے ان دعاوی کی وجہ سے (نعوذ باللہ ) مسلمان نہیں.علماء سوء سمجھتے تھے کہ یہ حربہ کارگر ہو گا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسا حربہ دیا کہ جس نے اس باطل کو کچل ڈالا.اور وہ یہ کہ آپ نے (تحریر فرمایا کہ ) مومن اور کافر کے مابین جو امتیاز قرآنِ کریم نے پیش کیا ہے اس معیار پر مقابلہ کر لیا جاوے.اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ مومن کون ہے؟ اس مقصد کے لئے آپ نے ایک رسالہ آسمانی فیصلہ لکھا ہے اور اس کے ذریعہ ان مكفر مولویوں کو دعوت مقابلہ دی کہ قرآن کریم نے مومن اور کافر میں جو امتیازات رکھے ہیں اس کو معیار ٹھہرا کر ایک فیصلہ کر لیں اس کے ذریعہ ثابت ہو جائے گا.کیست مومن کیست کافر خود بگردد آشکار لے یہ اشتہار کتاب ہذا کے صفحہ ۲۵۰ تا ۲۵۹ پر ہے ( ناشر ) ۲ ترجمہ.کون مومن ہے اور کون کافر ہے خود ہی ظاہر ہو جائے گا.

Page 304

حیات احمد ۳۰۱ جلد سوم آسمانی فیصلہ آپ نے ایک الہام کی بناء پر لکھا اور قبل از وقت یہ ظاہر کر دیا تھا کہ اس فیصلہ سے گریز ان کی مزید ذلت کا موجب ہو گا وہ آسمانی فیصلہ یہ ہے.الہام اللہ تعالٰی اے خدا اے مالک ارض و سما اے پناہ حزب خود در هر بلا اے رحیم و دستگیر و رہنما! ایکه در دست تو فصل است و قضا سخت شورے اوفتاد اندر زمین رحم کن برخلق اے جاں آفریں یہ وہ کتا.آسمانی فیصلہ فیصل از جنابخود نما تا شود قطع نزاع و فتنه ها اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے اے رَبُّ الوریٰ حق پرستی کا مٹا جاتا ہے نام اک نشاں دکھلا کہ ہو حجت تمام قبل اس کے جو میں آسمانی فیصلہ کا ذکر کروں صفائی بیان کے لئے اس قد رلکھنا ضرور ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور جن کو خدا تعالیٰ نے خاص اپنے لئے چن لیا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہے اور اپنے برگزیدہ گروہ میں جگہ دے دی ہے اور جن کے حق میں فرمایا ہے.سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ان میں آثار سجود اور عبودیت کے ہلا ترجمه اشعار از در نشین مترجم ترجمه فرموده حضرت میر محمد اسماعیل صاحب صفحہ ۱۷۰،۱۲۹ اے خدا! اے زمین و آسمان کے مالک ! اے ہر مصیبت میں اپنی جماعت کی پشت و پناہ.اے رحیم و دستگیر اور رہنما ! اے وہ کہ تیرے ہاتھ میں فیصلہ اور حکم ہے.زمین میں سخت شور برپا ہے اے جان آفرین ! اپنی مخلوقات پر رحم کر.اپنی درگاہ سے کوئی فیصلہ کرنے والی بات ظاہر کرتا کہ جھگڑے اور فساد بند ہو جا ئیں.الفتح: ٣٠

Page 305

حیات احمد ٣٠٢ ضرور پائے جانے چاہئیں کیوں کہ خدا تعالیٰ کے وعدوں میں خطا اور تخلف نہیں.سو اُن تمام علامات کا مومن میں پائے جانا جن کا قرآن کریم میں مومنوں کی تعریف میں ذکر فرمایا گیا ہے ضروریات ایمان میں سے ہے اور مومنوں اور ایسے شخص میں فیصلہ کرنے کے لئے جن کا نام اس کی قوم کے علماء نے کا فر رکھا اور مفتری اور دجال اور ملحد قرار دیا یہی علامات کامل محک اور معیار ہیں پس اگر کوئی شخص اپنے بھائی مسلمان کا نام کا فر رکھے اور اس سے مطمئن نہ ہو کہ وہ شخص اپنے ایماندار ہونے کا اقرار کرتا ہے کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهِ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا قائل ہے اور اسلام کے تمام عقیدوں کا مانے والا ہے اور خدائے تعالیٰ کے تمام فرائض اور حدود اور احکام کو فرائض اور حدود اور احکام سمجھتا ہے اور حتی الوسع اُن پر عمل کرتا ہے تو پھر بالآ خر طریق فیصلہ یہ ہے کہ فریقین کو ان علامات پر آزمایا جاوے جو خدواند تعالیٰ نے مومن اور کافر میں فرق ظاہر کرنے کے لئے قرآن کریم میں ظاہر فرمائی ہیں تا جو شخص حقیقت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن ہے اس کو خدائے تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق تہمت کفر سے بری کرے اور اُس میں اور اُس کے غیر میں فرق کر کے دکھا دیوے اور روز کا قصہ کوتاہ ہو جاوے.یہ بات ہر ایک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ اگر یہ عاجز جیسا کہ میاں نذیرحسین اور اس کے شاگرد بٹالوی کا خیال ہے درحقیقت کا فر اور دجال اور مفتری اور مورو دلعن اور دائرہ اسلام سے خارج ہے تو خدائے تعالیٰ عند المقابلہ کوئی نشان ایمانداران کا اس عاجز کی تصدیق کے لئے ظاہر نہیں کرے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ کافروں اور اپنے دین کے مخالفوں کے بارے میں جو بے ایمان اور مردود ہیں ایمانی علامات کے دکھلانے سے ہرگز اپنی تائید ظاہر نہیں کرتا اور کیونکر کرے جبکہ وہ اُن کو جانتا ہے کہ وہ دشمن دین اور نعمت ایمان سے بے بہرہ ہیں سوجیسا کہ میاں نذیر حسین صاحب اور بٹالوی نے میری نسبت کفر اور بے دینی کا فتویٰ لکھا اگر میں در حقیقت جلد سوم

Page 306

حیات احمد ایسا ہی کافر اور دجال اور دشمن دین ہوں تو خدائے تعالیٰ اس مقابلہ میں ہرگز میری تائید نہیں کرے گا بلکہ اپنی تائیدوں سے مجھے بے بہرہ رکھ کر ایسا رسوا کرے گا کہ جیسا اتنے بڑے کذاب کی سزا ہونی چاہئے اور اس صورت میں اہلِ اسلام میرے شر سے بچ جائیں گے اور تمام مسلمان میرے فتنہ سے امن میں آ جائیں گے لیکن اگر کرشمہ قدرت یہ پیدا ہوا کہ خود میاں نذیر حسین اور ان کی جماعت کے لوگ بٹالوی وغیرہ تائید کے نشانوں میں مخذول و مہجور رہے اور تائید الہی میرے شامل حال ہوگئی تو اِس صورت میں بھی لوگوں پر حق کھل جائے گا اور روز کے جھگڑوں کا خاتمہ ہو جائے گا.اب جاننا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں چار عظیم الشان آسمانی تائیدوں کا کامل متقیوں اور کامل مومنوں کے لئے وعدہ دیا ہے اور وہی کامل مومن کی شناخت کے لئے کامل علامتیں ہیں اور وہ یہ ہیں اول یہ کہ مومن کامل کو خدا تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں یعنی پیش از وقوع خوشخبریاں جو اُس کی مرادات یا اُس کے دوستوں کے مطلوبات ہیں اس کو بتلائی جاتی ہیں.دوئم یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اُس کی ذات یا اس کے واسطے داروں سے متعلق ہوں بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا و قدر نازل ہونے والی ہے یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر کچھ تغیرات آنے والے ہیں اُن سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے.سیوم یہ کہ مومن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اکثر اُن دعاؤں کی قبولیت کی پیش از وقت اطلاع بھی دی جاتی ہے.چہارم یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیده و لطائف و خواص عجیبه سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں.ان چاروں علامتوں سے مومن کامل نسبتی طور پر دوسروں پر غالب رہتا ہے اور اگر چہ دائمی طور پر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہمیشہ مومن کامل کو منجانب اللہ بشارتیں ہی ملتی رہیں یا ہمیشہ بلا تخلف ہر ایک دعا اس کی منظور ہی ہو جایا کرے اور نہ یہ کہ ہمیشہ ہر جلد سوم

Page 307

حیات احمد ۳۰۴ ایک حادثہ زمانہ سے اُس کو اطلاع دی جائے اور نہ یہ کہ ہر وقت معارف قرآنی اُس پر کھلتے رہیں لیکن غیر کے مقابلہ کے وقت ان چاروں علامتوں میں کثرت مومن ہی کی طرف رہتی ہے اگر چہ ممکن ہے کہ غیر کو بھی مثلاً جو مومن ناقص ہے شاذ و نادر کے طور پر ان نعمتوں سے کچھ حصہ دیا جاوے مگر اصلی وارث ان نعمتوں کا مومن کامل ہی ہوتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ یہ مرتبہ کاملہ مومن کا بغیر مقابلہ کے ہر ایک بلید ونجمی اور کوتاہ نظر پر کھل نہیں سکتا.لہذا نہایت صاف اور سہل طریق حقیقی اور کامل مومن کی شناخت کے لئے مقابلہ ہی ہے کیونکہ اگر چہ یہ تمام علامات بطور خود بھی مومن کامل سے صادر ہوتی رہتی ہیں لیکن یکطرفہ طور پر بعض وقتیں بھی ہیں مثلاً بسا اوقات مومن کامل کی خدمت میں دعا کرانے کے لئے ایسے لوگ بھی آ جاتے ہیں جن کی تقدیر میں قطعاً کا میابی نہیں ہوتی اور قلم ازل مبرم طور پر اُن کے مخالف چلی ہوئی ہوتی ہے سو وہ لوگ اپنی ناکامی کی وجہ سے مومن کامل کی اس علامت قبولیت کو شناخت نہیں کر سکتے بلکہ اور بھی شک میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے محروم رہنے کی وجہ سے مومن کامل کے کمالاتِ قبولیت پر مطلع نہیں ہو سکتے اور اگر چہ مومن کامل کا خدائے تعالیٰ کے نزدیک بڑا درجہ اور مرتبہ ہوتا ہے اور اُس کی خاطر سے اور اس کی تضرع اور دعا سے بڑے بڑے پیچیدہ کام درست کئے جاتے ہیں اور بعض ایسی تقدیریں جو تقدیر مبرم کے مشابہ ہوں بدلا ئی بھی جاتی ہیں مگر جو تقدیر حقیقی اور واقعی طور پر مبرم ہے وہ مومن کامل کی دعاؤں سے ہرگز بدلا ئی نہیں جاتی.اگر چہ وہ مومن کامل نبی یا رسول کا ہی درجہ رکھتا ہو.غرض نسبتی طور پر مومن کامل ان چاروں علامتوں میں اپنے غیر سے بہ بداہت ممیز ہوتا ہے اگر چہ دائمی طور پر قادر اور کامیاب نہیں ہوسکتا.پس جب کہ یہ امر ثابت ہو چکا کہ نسبتی طور پر حقیقی اور کامل مومن کو کثرت بشارات اور کثرتِ استجابت دعا اور کثرتِ انکشاف مغیبات اور کثرت انکشاف معارف قرآنی سے وافر حصہ ہے تو مومن کامل جلد سوم

Page 308

حیات احمد ۳۰۵ اور اُس کے غیر کے آزمانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہ ہوگا کہ بذریعہ مقابلہ ان دونوں کو جانچا اور پر کھا جاوے یعنی اگر یہ امر لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہو کہ دو شخصوں میں سے کون عند اللہ مومن کامل اور کون اس درجہ سے گرا ہوا ہے تو انہیں چاروں علامتوں کے ساتھ مقابلہ ہونا چاہئے.یعنی ان چاروں علامتوں کو محک اور معیار ٹھہرا کر مقابلہ کے وقت دیکھا جاوے کہ اس معیار اور ترازو کی رو سے کون شخص پورا اترا ہے اور کس کی حالت میں کمی اور نقصان ہے.اب خلق اللہ گواہ رہے کہ میں خالصاً للہ اور اظہاراً للحق اس مقابلہ کو بدل و جان منظور کرتا ہوں اور مقابلہ کے لئے جو صاحب میرے سامنے آنا چاہئیں اُن میں سے سب سے اول نمبر میاں نذیر حسین دہلوی کا ہے جنہوں نے پچاس سال سے زیادہ قرآن اور حدیث پڑھا کر پھر اپنے علم اور عمل کا یہ نمونہ دکھایا کہ بلاتفتیش و تحقیق اس عاجز کے کفر پر فتویٰ لکھ دیا اور ہزار ر ہا ؤحشی طبع لوگوں کو بدظن کر کے اُن سے گندی گالیاں دلائیں اور بٹالوی کو ایک مجنوں درندہ کی طرح تکفیر اور لعنت کی جھاگ منہ سے نکالنے کے لئے چھوڑ دیا اور آپ مومن کامل اور شیخ الکل اور شیخ العرب والعجم بن بیٹھے لہذا مقابلہ کے لئے سب سے اول انہیں کو دعوت کی جاتی ہے.ہاں ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے ساتھ بٹالوی کو بھی کہ اب تو خواب بینی کا بھی دعویٰ رکھتا ہے ملا لیں بلکہ ان کو میری طرف سے اختیار ہے کہ وہ مولوی عبدالجبار صاحب خلف عبد صالح مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم اور نیز مولوی عبد الرحمن لکھو والے کو جو میری نسبت ابدی گمراہ ہونے کا الہام مشتہر کر چکے ہیں اور کفر کا فتویٰ دے چکے ہیں اور نیز مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی کو جو ان کے متبعین میں سے ہیں اس مقابلہ میں اپنے ساتھ ملا لیں اور اگر میاں صاحب موصوف اپنے عادت کے موافق گریز کر جائیں تو یہی حضرات مذکورہ بالا میرے سامنے آویں اور اگر یہ سب گریز اختیار کریں تو پھر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اس کام کے لئے ہمت کریں کیونکہ مقلدوں کی پارٹی جلد سوم

Page 309

حیات احمد ۳۰۶ کے تو وہی رُکن اول ہیں اور ان کے ساتھ ہر ایک ایسا شخص بھی شامل ہوسکتا ہے جو نامی اور مشاہیر صوفیوں اور پیرزادوں اور سجادہ نشینوں میں سے ہو اور انہیں حضرات علماء کی طرح اس عاجز کو کافر اور مفتری اور کذاب اور مکار سمجھتا ہو اور اگر یہ سب کے سب مقابلہ سے منہ پھیر لیں اور کچے عذروں اور نامعقول بہانوں سے میری اس دعوت کے قبول کرنے سے منحرف ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کی حجت اُن پر تمام ہے.میں مامور ہوں اور فتح کی مجھے بشارت دی گئی ہے لہذا میں حضرات مذکورہ بالا کو مقابلہ کے لئے بلاتا ہوں کوئی ہے جو میرے سامنے آوے؟ اور مقابلہ کے لئے احسن انتظام یہ ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے اس امتحان کی غرض سے ایک انجمن مقرر کی جائے.اگر فریق مخالف اس تجویز کو پسند کرے تو انجمن کے ممبر بتراضی ، فریقین مقرر کئے جائیں گے اور اختلاف کے وقت کثرت رائے کا لحاظ رہے گا.اور مناسب ہوگا کہ چاروں علامتوں کی پورے طور پر آزمائش کے لئے فریقین ایک سال تک انجمن میں بقید تاریخ اپنی تحریرات بھیجتے رہیں اور انجمن کی طرف سے بقید تاریخ و به تفصیل مضمون تحریرات موصول شدہ کی رسیدیں فریقین کو بھیجی جائیں گی.علامت اول یعنی بشارتوں کی آزمائش کا طریق یہ ہوگا کہ فریقین پر جو کچھ منجانب اللہ بطریق الہام و کشف وغیرہ ظاہر ہو وہ امر بقید تاریخ و به ثبت شهادت چارکس از مسلمانان پیش از وقوع انجمن کی خدمت میں پہنچا دیا جائے اور انجمن اپنے رجسٹر میں بقید تاریخ اس کو درج کرے اور اس پر تمام ارکان انجمن یا کم سے کم پانچ ممبروں کے دستخط ہوکر پھر ایک رسید اس کی فریسندہ کو حسب تصریح مذکور بھیجی جائے اور اس بشارت کے صدق یا کذب کا انتظار کیا جائے اور کسی نتیجہ کے ظہور کے وقت اس کی یادداشت معہ اس کے ثبوت کے رجسٹر میں لکھی جاوے اور بدستور ممبروں کی گواہیاں اس پر ثبت ہوں اور دوسری علامت کی نسبت بھی جو حوادث و نوازل دنیا کے متعلق ہے یہی انتظام مرعی رہے گا.اور یادر ہے کہ انجمن کے پاس یہ سب اسرار بطور امانت محفوظ رہیں گے.اور جلد سوم

Page 310

حیات احمد ۳۰۷ انجمن اس بات کا حلفاً اقرار کر لے گی کہ اس وقت سے پہلے کہ فریقین کے موازنہ کے لئے ان امور کا جلسہ عام میں افشا ہو ہرگز کوئی امرکسی اجنبی کے کانوں تک نہیں پہنچایا جائے گا.بجز اس صورت کے کہ کسی راز کا فاش ہونا انجمن کے حد اختیار سے باہر ہو اور علامت سوم یعنی قبولیت دعا کی آزمائش کا طریق یہ ہوگا کہ وہی انجمن مختلف قسم کے مصیبت رسیدوں کو بہم پہنچانے کے لئے جس میں ہر ایک مذہب کا آدمی شامل ہو سکتا ہے ایک عام اشتہار دے دی گی اور ہر ایک مذہب کا آدمی خواہ وہ مسلمان ہو خواہ عیسائی یا ہندو ہو یا یہودی ہو غرض کسی مذہب یا کسی رائے کا پابند ہو اگر وہ کسی عظیم الشان مصیبت میں مبتلا ہو اور اپنے نفس کو مصیبت زدوں کے گروہ میں پیش کرے تو بلا تمیز و تفرقہ قبول کیا جائے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے جسمانی دنیوی فوائد کے پہنچانے میں اپنے اپنے مختلف المذاہب بندوں میں کوئی تمیز اور تفرقہ قائم نہیں رکھا اور مصیبت زدوں کی فراہمی کے لئے ایک ماہ تک یا جیسے انجمن مناسب سمجھے یہ انتظام رہے گا کہ اُن کے نام کے پرچے معہ ولدیت و سکونت وغیرہ کے ایک صندوق میں جمع ہوتے رہیں بعد اس کے ان کے اسم وار دو فردین برعایت اعتدال اور بقید ولدیت و قومیت و سکونت و مذهب و پیشه و تصریح بلاء پیش آمدہ مرتب کر کے فریقین کے سامنے معہ ان مصیبت رسیدوں کے پیش کریں گے اور فریقین ان مصیبت رسیدوں کا ملاحظہ کر کے ان دونوں فردوں کو بذریعہ قرعہ اندازی کے باہم تقسیم کر لیں گے اور اگر کوئی مصیبت زدہ کسی دور دراز ملک میں ہو اور بوجہ بُعدِ مسافت و عدم مقدرت حاضر نہ ہو سکے تو ایک شاخ انجمن اُس شہر میں مقرر ہو کر جہاں وہ مصیبت زدہ رہتا ہے اُس کے پرچہ مصیبت کو صدرانجمن میں پہنچا دیں گی اور بعد قرعہ اندازی کے ہر ایک فریق کے حصہ میں جو فرد آئے گی اس فرد میں جو مصیبت رسیدہ مُندرج ہوں گے وہ اُسی فریق کے حصہ کے سمجھے جائیں گے جس کو خدائے تعالیٰ نے قرعہ اندازی کے ذریعہ سے یہ فرد دے دی اور واجب ہوگا کہ انجمن مصیبت رسید وں کی جلد سوم

Page 311

حیات احمد ۳۰۸ جلد سوم فراہمی کے لئے اور اُن کی تاریخ مقررہ پر حاضر ہو جانے کی غرض سے چند ہفتے پہلے اشتہارات شائع کر دیوے اُن اشتہارات کا تمام خرچ میرے ذمہ ہوگا اور وہ دو فرد میں مصیبت رسیدوں کی جو تیار ہوں گی ایک ایک نقل اُن کی انجمن بھی اپنے دفتر میں رکھے گی اور یہی دن سال مقررہ میں سے پہلا دن شمار کیا جائے گا ہر ایک فریق اپنے حصہ کے مصیبت رسیدوں کے لئے دعا کرتا رہے گا اور بدستور مذکور وہ تمام کارروائی انجمن کے رجسٹر میں درج ہوتی رہے گی.اور اگر ایک سال کے عرصہ میں اور اُس وقت سے پہلے جو کثرت قبولیت اور غلبہ صریحہ کا اندازہ پیدا ہو کوئی فریق وفات پا جائے اور اپنے مقابلہ کے تمام امر کو نا تمام چھوڑ جائے تب بھی وہ مغلوب سمجھا جائے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے خاص ارادہ سے اس کے کام کو نا تمام رکھا تا اس کا باطل پر ہونا ظاہر کرے.“ ( آسمانی فیصلہ صفحہ ۸ تا ۱۱.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۱ تا ۳۲۷) یہ اعلان مکفرین اور مکذبین علماء اور الہام و کشوف کے مدعیوں پر شہاب ثاقب کی طرح گرا اور ان میں سے جن کو اس میں سے بالخصوص مخاطب کیا گیا تھا.جرات نہ ہوئی کہ مقابلہ میں آتا.اور اپنے مومن اور مقرب باللہ ہونے کا ثبوت دیتا.سلسلہ حقہ احمدیہ کی تعمیری بنیاد اور سالانہ جلسہ کا قیام جیسا کہ قارئین کرام پڑھ چکے ہیں آغاز دعوی مسیح موعود سے آپ کو ایک چو مگھی جنگ علماء سوء سے لڑنی پڑی اور دفاعی رنگ میں ان کو ہر طرح شکست دے دی.اب آپ نے توجہ کی کہ جس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اُس کے پورا کرنے کے لئے جماعت کی روحانی تربیت کا انتظام ہونا چاہئے اس کے لئے آپ نے سالانہ جلسہ کی بنیاد رکھی.اس جلسہ کے مقاصد و اغراض کے متعلق آپ نے حسب ذیل اعلان رسالہ آسمانی فیصلہ کے ساتھ شائع کیا.نوٹ.جلسہ عام میں اس تحریر کے پڑھے جانے پر اخویم مولوی غلام قادر صاحب فصیح مالک و مہتم اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ نے بذریعہ تحریر ظاہر کیا کہ ان اشتہارات کے طبع اور شائع ہونے کا کل خرچ میرے ذمہ رہے گا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرًا - منه

Page 312

جلد سوم حیات احمد دو ۳۰۹ تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلّی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہولیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے.سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر ایک کے لئے باعث ضعف فطرت یا کمی ء مقدرت یا بعد مسافت یہ میسر نہیں آ سکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ / دسمبر سے ۲۹/ دسمبر تک قرار پائے یعنی آج کے دن کے بعد جو میں دسمبر ۱۸۹۱ ء ہے.آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ / دسمبر کی تاریخ آ جاوے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض اللہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آ جانا چاہئے اور اس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور

Page 313

حیات احمد ۳۱۰ معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں اور نیز اُن دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہو گی اور حتی الوسع بدرگاہِ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف اُن کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی اُن میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اُس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے اور اُن کی خشکی اور اجنبیت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہ حضرت عزت جل شانہ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاءَ اللهُ الْقَدِير وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے.اور کم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سرمایہ خرچ سفر کے لئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلا دقت سرمایہ سفر میسر آ جاوے گا گویا یہ سفر مفت میسر ہو جائے گا اور بہتر ہوگا کہ جو صاحب احباب میں سے اس تجویز کو منظور کریں وہ مجھ کو ابھی بذریعہ اپنی تحریر خاص کے اطلاع دیں تا کہ ایک علیحدہ فہرست میں اُن تمام احباب کے نام محفوظ رہیں کہ جو حتی الوسع والطاقت تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے کے لئے اپنی آئندہ زندگی کے لئے عہد کر لیں اور بدل و جان پختہ عزم سے حاضر ہو جایا کریں بجز ایسی صورت کے کہ ایسے موانع پیش آجائیں جن میں سفر کرنا اپنی حد اختیار سے باہر ہو جائے.اور جو ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا.اس جلسہ پر جس قد ر ا حباب محض للہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر جلد سوم

Page 314

حیات احمد ۳۱۱ جلد سوم ہوئے خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہر یک قدم کا ثواب اُن کو عطا فرمادے.پہلا جلسہ آمين ثُمَّ آمين آسمانی فیصلہ ٹائیٹل صفحہ آخر زیر عنوان اطلاع - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۱ تا ۳۵۳) اس اعلان کے مطابق تاریخ ہائے مقررہ پر قادیان میں پہلا جلسہ منعقد ہوا اس جلسہ میں انٹی کے قریب احباب شریک ہوئے جن میں بعض ایسے بزرگ بھی تھے جو محض احقاق حق کی غرض سے شریک ہوئے اور جو اپنی قوم میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے ان میں منشی شمس الدین صاحب جنرل سیکرٹری انجمن حمایت اسلام بھی تھے.رویداد جلسه جلسہ کی مختصر رویداد کے متعلق مندرجہ ذیل نوٹ اسی رسالہ آسمانی فیصلہ میں درج ہے.مندرجہ بالا رسالہ ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۱ء کو بعد نماز ظہر مسجد کلاں واقعہ قادیان میں ایک جم غفیر کے روبرو مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا.اور بعد اختتام یہ تجویز حاضرین کے روبرو پیش کی گئی کہ انجمن کے ممبر کون کون صاحبان قرار دیئے جائیں اور کس طرح اس کی کارروائی شروع ہو.حاضرین نے جن کے نام نامی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں اور جو محض تجویز مذکورہ بالا پر غور کرنے اور مشورہ کرنے کے لئے تشریف لائے تھے بالا تفاق یہ قرار دیا کہ سر دست رسالہ مذکورہ کو شائع کر دیا جائے.مخالفین کا عندیہ معلوم کر کے بعد ازاں بتراضی فریقین انجمن کے ممبر مقرر کئے جائیں اور کارروائی شروع کی جائے.جو اصحاب اس جلسہ میں موجود ☆ 6❝ ہوئے ان کے نام نامی یہ ہیں..( آسمانی فیصلہ صفحہ ۱۶ نوٹ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۳۶) یہ فہرست آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۳۶ ، ۳۳۷ میں درج ہے.(ناشر)

Page 315

حیات احمد جلد سوم چونکہ یہ پہلا جلسہ تھا اس لئے آپ نے متعدد مخلص احباب کو خود خطوط لکھ کر دعوت دی.اس جلسہ کا مقصد علماء مکذبین کے ساتھ فیصلہ کہ تجویز تھی اور یہ آسمانی فیصلہ کی صورت میں شائع ہوا چنانچہ آپ نے ۲۳ / دسمبر ۱۸۹۱ء کو مکرم حضرت چود ہری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کولکھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مشفقی مکرمی.اخویم منشی رستم علی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ بَرَكَاتُهُ چونکہ ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں علماء مکد بین کے فیصلہ کے لئے ایک جلسہ ہو گا.انشاء اللہ القدیر.کثیر احباب اس جلسہ میں حاضر ہوں گے لہذا مکلف ہوں کہ آپ بھی براہ عنایت ضرور تشریف لاویں آتے ہوئے چار آنے کے پان ضرور لیتے آویں.زیادہ خیر ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۵۸۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حضرت چودہری رستم علی صاحب ان خوش قسمت بزرگوں میں سے ہیں جن کو بعض خاص خدمات کا موقعہ ملا.اس جلسہ کے لئے فرش وغیرہ کا انتظام انہوں نے ہی کیا.اور بشیر اول کے عقیقہ کے جلسہ کا انتظام بھی ان کے ہی حصہ میں آیا.چنانچہ اس خصوص میں حضرت نے ان کو ۲۳؍ دسمبر ۱۸۹۱ء کولکھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مکرمی اخویم منشی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ضرور دو بڑی شطرنجی اور ایک قالین ساتھ لاویں.۲۵/ دسمبر ۱۸۹۱ء تک ضرور آجاویں.

Page 316

حیات احمد ۳۱۳ والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۳ / دسمبر ۱۸۹۱ء جلد سوم مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۵۸۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) غرض یہ جلسہ نہایت اخلاص اور صحیح جذبات حق کے رنگ میں مقررہ تاریخوں پر ہوا.اور جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے یہ بنیادی جلسہ ایک دائمی جلسہ کا آغاز بنا جواب تک ان تاریخوں پر ہوتا ہے اور جہاں اس جلسہ میں انٹی کے قریب شریک ہوئے آج سینکڑوں آدمیوں قریب.کی ضرورت جلسہ میں ہزاروں شریک ہونے والوں کی خدمت کے لئے ہوتی ہے اور متعدد محکمے انتظام کے لئے ہوتے ہیں.شریک ہونے والوں کی تعداد نصف لاکھ تک جا پہنچی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ میر عباس علی کا ارتداد یہ سال نہایت مصروفیت اور معرکہ کا سال تھا آپ کو عام مجلس میں معترضین کے سوالات کا جواب دینے کے علاوہ مباحثات بھی کرنے پڑے اور جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے ہر میدان میں نصرت الہی کا کھلا کھلا ظہور ہوا.سال کے آخر میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا.جو سابقہ تعلقات کی بناء پر رنجدہ تھا.اور وہ میر عباس علی صاحب کا ارتداد تھا.الہی سلسلوں کے ساتھ اس قسم کے واقعات کا لزوم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی کو ٹھوکر لگی.میر عباس علی صاحب سابقون الاولون میں سے تھے اور انہوں نے اس ابتدائی عہد میں اپنے اخلاص اور خدمات کا جو نمونہ دکھایا وہ قابلِ رشک ہے.لیکن افسوس ان کا انجام اچھا نہ ہوا.حضرت اقدس کی زندگی عجائبات الہیہ کا ایک نمونہ ہے.ابتدا میں بعض لوگ جو بڑے معاونین میں سے تھے آخر میں ٹھوکر کھا گئے اور یہ اس لئے ہوا تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ ہے.کسی انسان کی عقل و دانش یا مالی امداد و مساعی پر موقوف نہیں.غرض میر عباس علی صاحب مرتد ہو گئے.اور انہوں نے بڑے بڑے دعوے کئے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی ایک حربہ ہاتھ آیا.مگر جب اللہ کے شیر نے

Page 317

حیات احمد ۳۱۴ جلد سوم یکا را تو کسی کو کبھی جرأت مقابلہ نہ ہوئی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی بڑے طمطراق سے ان کا ذکر کیا تو حضرت نے لکھا یا صوفی خویش را برون آر یا تو بہ کن ز بدگمانی * میر عباس علی صاحب کے متعلق حضرت نے ۲۷ / دسمبر ۱۸۹۱ء کو یعنی ایام جلسہ میں ذیل کا اعلان شائع کیا.میر عباس علی صاحب لدھانوی چوبشنوی سخن اهل دل مگو که خطا است سخن شناس نہء دلبرا خطا اینجا اس سے یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر میں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے افسوس کہ وہ بعض موسوسین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آ گئے بلکہ جماعت اعدا میں داخل ہو گئے.بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اُن کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ اس کا یہ جواب ہے کہ الہام کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ اصل اُس کا ثابت ہے اور آسمان میں اس کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں بلا شبہ یہ بات ماننے کے لایق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے کفر کی طرف انتقال کرے تو اُس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیر نہیں افراد نوع انسان مختلف طور کی کانوں کی طرح ہیں.کوئی سونے کی کان کوئی چاندی کی کان، کوئی پیتل کی کان.پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں اور ا ترجمہ.یا تو اپنے صوفی کو باہر نکال یا پھر بد گمانی سے تو بہ کر.ے ترجمہ.جب تو دل والوں کی کوئی بات سنے تو مت کہ اٹھ کہ غلط ہے، اے عزیز ! تو بات نہیں سمجھ سکتا غلطی تو یہی ہے.

Page 318

حیات احمد ۳۱۵ نہ کچھ اعتراض کی بات ہے.بلاشبہ یہ مسلم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق فطرتاً ان کو حاصل ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سراسر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے موجب نجات اخروی نہیں ہو سکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں بیچ ہیں.علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کا ہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی زبر دست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی.اور اپنے دل میں وہ بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا.سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ کی خبر دے دی.یہ بات خدا تعالیٰ کی تعلیمات وحی میں شایع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبر دیتا ہے.کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اُس کا نام کافر ہی رکھتا ہے اور اُس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اُس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے خدا تعالیٰ کے کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میر صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجز کے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کرنے کے وقت نہ صرف آپ انہوں نے بیعت کی.بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر انہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے اُن کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کر سکتا لیکن دوستو کے قریب اب بھی ایسے خطوط ان کے موجود ہوں گے جن میں انہوں نے انتہائی درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خواہیں جلد سوم

Page 319

حیات احمد لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر ان کو تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز منجانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بناء پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اِس جہان اور اُس جہان میں ہمارے ساتھ ہیں ایسا ہی لوگوں میں بکثرت انہوں نے یہ خواہیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کو جتلائیں اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگر خدائے تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت ثابت قدم ہے.متزلزل نہیں تو کیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا.بہت سے الہامات صرف موجودہ حالات کے آئینہ ہوتے ہیں عواقب امور سے ان کو کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اس کے سوء خاتمہ پر حکم نہیں کر سکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جل شانہ کے قبضہ میں ہے.میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے.غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے مال پر ضروری طور پر اس کی دلالت نہیں ہے اور مال ابھی ظاہر بھی نہیں ہے.بہتوں نے راست بازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہء قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زار زار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے.انسان کا دل خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں.سو میر صاحب اپنی کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمالیش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیت اور اجنبیت سے ترک ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق و تو ہین پیدا ہو گیا.عبرت کی جگہ ا یہ لفظ شاید استخفاف ہے.جو اصل اشتہار میں استحقاق لکھا گیا.(المرتب) جلد سوم

Page 320

حیات احمد ۳۱۷ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے.کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا.مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے.میرے دوستوں کو چاہئے کہ ان کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فروماندہ اور درگزشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ الکریم دعا کروں گا.میں چاہتا تھا کہ ان کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میر عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خواہیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کن انکساری الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجایش نہیں.انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسب ضرورت ظاہر کیا جائے گا.یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت اور کچی ارادت طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خَلِيْفَةُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ لکھا کرتا تھا آج اُس کی کیا حالت ہے؟ پس خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے.اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کرو کیا استقامت میں فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بڑھ کر ہوگا جن کو ایک ساعت کے لئے ابتلا پیش آ گیا تھا اور اگر خدائے تعالیٰ کا ہاتھ اُن کو نہ تھا متا تو خدا جانے کیا حالت ہو جاتی.مجھے اگر چہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جبکہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا.یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے.جن کی تعریف میں وحی الہی بھی نازل ہو گئی تھی آخر حضرت مسیح سے منحرف ہو گئے تھے.یہودا اسکر یوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کا تھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھا تا اور بڑے پیار کا دم مارتا تھا جس کو جلد سوم

Page 321

حیات احمد ۳۱۸ بہشت کے بارہویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی.اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ آسمان کی کنجیاں اُن کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریں لیکن آخر میاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھلائی وہ انجیل پڑہنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر اور اُن کی طرف اشارہ کر کے نَعُوذُ بِالله بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر لعنت بھیجتا ہوں.میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں.کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو.میر صاحب کی قسمت میں اگر چہ لغزش مقدر تھی اور أَصْلُهَا ثَابِتٌ کی ضمیر تانیث بھی اس کی طرف ایک اشارہ کر رہی تھی لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا.میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ یہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے میں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ اور اس قدر غلو ہے کہ شیخ نجدی کا استثنا بھی ان کی کلام میں نہیں پایا جاتا تا صالحین کو باہر رکھ لیتے اگر چہ وہ بعض روگردان ارادتمندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر انہیں یا د رکھنا چاہئے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہونے سے سارا باغ برباد نہیں ہو سکتا.جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے اور کاٹ دیتا ہے اور اُس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کر دیتا ہے.بٹالوی صاحب یا د رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدائے تعالیٰ اس کی جگہ ہیں لائے گا اور اس آیت پر غور کریں فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ ل المائدة: ۵۵ جلد سوم

Page 322

حیات احمد ۳۱۹ بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میر عباس علی صاحب نے ۱۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے.سو اُن الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے لیکن اس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے.اول یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے سو اس وسوسہ کے دور کرنے کے لئے میرا یہی اشتہار کافی ہے بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں.دوم یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا میں ایک نیچری آدمی ہوں.معجزات کا منکر اور لیلۃ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیاء علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقائد اسلام سے منہ پھیر نے والا.سو ان اوہام کو دور کرنے کے لئے میں وعدہ کر چکا ہوں کہ عنقریب میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شائع ہو گا اگر میر صاحب توجہ سے اُس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق از لی اپنی بے بنیاد اور بے اصل بدظنیوں سے سخت ندامت اٹھا ئیں گے.سوئم یہ کہ میر صاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرما کر تحریر فرمایا ہے کہ گویا ان کو رسول نمائی کی طاقت ہے چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا، میں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسول کریم کی زیارت کرا کر اپنے دعاوی کی تصدیق کرا دی جائے یا میں زیارت کرا کر اس بارہ میں فیصلہ کرا دوں گا.میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقف حال سخت متعجب ہو رہا ہے کہ اگر میر صاحب میں یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلا دیں تو پھر جلد سوم

Page 323

حیات احمد ۳۲۰ انہوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس سال تک برابر خلوص نماؤں کے گروہ میں رہے تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریم ان کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذاب اور مکار اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے.کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری میں چلا جاوے اور اُن کے فرمودہ کے مطابق کار بند ہو اور اُن سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس تک برابر ایک کذاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مرید ہو جاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرت کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثریٰ میں گرنے والا ہو، زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض خوا میں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت نے اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفہ اللہ اور مجدد دین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعوی کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے.اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ صلم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے پہلے دیکھا وہ بہر حال اعتبار کے لایق ہو گا اور اگر وہ خوابیں ان کی اعتبار کے لائق نہیں اور أَضْغَاثُ احلام میں داخل ہیں تو ایسی خواہیں آئندہ بھی قابل اعتبار نہیں ہوسکتیں.ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعوی کس قد رفضول بات ہے.حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی مبرا ہو سکتی ہے جس میں آنحضرت صلعم کو اُن کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو ورنہ شیطان کا تمثل انبیا کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے ہے اور شیطان لعین تو خدا تعالیٰ کا تمثل اور جلد سوم

Page 324

حیات احمد ۳۲۱ اس کے عرش کی تجلی دکھا دیتا ہے.پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے.اب جبکہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلعم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر مطمئن کیونکر ہوں کہ وہ زیارت در حقیقت آنحضرت صلعم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے پس اس زمانہ کے لوگوں کے لئے زیارت حقہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بعض ایسے خوارق اور علامات خاصہ بھی ہوں جن کی وجہ سے اُس رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے.مثلاً رسول اللہ صلعم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلا دیں یا بعض قضا و قدر کے نزول کی باتیں پیش از وقوع مطلع کر دیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلا دیں جو پہلے قلمبنداور شایع نہیں ہو چکے تو بلاشبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی ورنہ اگر ایک شخص دعوی کرے جو رسول اللہ صلعم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بے شک کا فر اور دجال ہے اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلعم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اس خواب بین نے چالا کی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنالی ہے.سو اگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلعم اُن کی خواب میں آ جاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھاویں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کر دیں اور علامات اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ سے اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچا دیں کہ در حقیقت انہوں نے آنحضرت صلعم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کر لیں گے.اور اگر انہیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اس سید ھے طور سے مقابلہ کریں.جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے ہمیں بِالْفِعْل اُن کی رسول بینی میں ہی کلام ہے چہ جائیکہ کہ اُن کی رسول نمائی کے دعوی کو قبول کیا جائے.پہلا مرتبہ جلد سوم

Page 325

حیات احمد ۳۲۲ آزمائیش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعوی میں صادق ہیں یا کا ذب.اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شایع کریں جس میں یہ بیان ہو کہ رسول اللہ صلعم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا پھر بعد اس کے رسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کے لئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا عجوبہ بھی دکھلا دیں.قادیان میں آجائیں.مسجد موجود ہے اُن کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اِس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف و گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے.اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے.عقلمند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفہ اللہ اور امام اور مجدد کہتا رہا وہ اپنی خواہیں بتلاتا رہا.کیا وہ اس دعوی میں صادق ہے میر صاحب کی حالت نہایت قابلِ افسوس ہے خدا ان پر رحم کرے.پیشگویوں کے منتظر رہیں جو ظاہر ہوں گی.ازالہ اوہام کے صفحہ ۸۵۵ کو دیکھیں ازالہ اوہام کے صفحہ ۶۳۵ اور ۳۹۶ کو بغور مطالعہ کریں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں.جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے.وَيَسْتَلُوْنَكَ أَحَقُّ هُوَقُلْ إِلَى وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ وَمَا أَنتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ.زَوَّجْنَاكَهَا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِی وَ اِنْ يَّرَوْا آيَةً يُعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِر.اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے.ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا.اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے.اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے.جلد سوم

Page 326

جلد سوم ۳۲۳ − 1) −12-PP-1-YA-\-[1-T-TZ-T-IM-FZ-YA IH-15-17-11-11-32-pe-pa-1-1-- 11-(2-T-| - 15-04-1-----17--11--15 - - حیات احمد وَالسَّلَامُ عَلَى مَنْ فَهِمَ أَسْرَارَ نَا وَاتَّبَعَ الْهُدَى - النَّاصِحُ الْمُشْفِق خاکسار غلام احمد قادیانی ۲۷/ دسمبر ۱۸۹۱ء آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۴۳ تا ۳۵۰) اس طرح پر یہ سال ۱۸۹۱ء بے حد مصروفیت اور مختلف قسم کے مناظرات و مباحثات کے ساتھ ختم ہوا.لیکن ہر میدان میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت نمایاں رہی اور باوجود مخالفت شدید کے سعید روحیں سلسلہ میں داخل ہوتی رہیں يَوْمًا فَيَوْمًا ترقی کے آثار ہر شخص کو نظر آنے لگے.وَلِلَّهِ الْحَمْد ڈاکٹر جگن ناتھ جمونی کا مطالبہ نشانِ آسمانی ۱۸۹۱ء کے اوائل کا ایک مشہور واقعہ لکھ کر ۱۸۹۱ء کے حالات کو ختم کر دیتا ہوں.اگر چہ ترتیب کے لحاظ سے یہ پہلی سہ ماہی میں آنا چاہئے تھا مگر دوسرے اہم حالات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اس لئے اسے متاخر کر دیا گیا.ڈاکٹر جگن ناتھ جموں کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے اور حضرت حکیم الامت سے تعلقات اور بے تکلفی تھی اور صداقت اسلام پر دلائل کے علاوہ زندہ نشانات کا اظہار بھی حضرت حکیم الامت کرتے تھے اور اس خصوص میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود کو پیش کیا.اس پر ڈاکٹر جگن ناتھ آمادہ ہو گیا کہ مجھے کوئی نشان دکھایا جاوے حضرت حکیم الامت نے حضرت کے حضور عرض کیا.

Page 327

حیات احمد ۳۲۴ جلد سوم آپ نے اس دعوت کو صحیح طریق پر قبول کر لیا مگر بالآخر ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب اس میدان میں کھڑے نہ رہ سکے.اس خصوص میں جو خط و کتابت ہوئی اُسے میں یہاں درج کر دیتا ہوں.ڈاکٹر جگن ناتھ بالر است حضرت اقدس سے خط و کتابت نہ کرتے تھے بلکہ حضرت حکیم الامت کے ذریعہ ہی خط و کتابت ہو رہی تھی افسوس ہے حضرت حکیم الامت کا پہلا خط نہیں ملا لیکن حضرت اقدس کے جواب سے اس پر روشنی پڑتی ہے.حکیم الامت کی قوت ایمانی خط و کتابت مخدومی و مکرمی اخویم مولوی صاحب سَلَّمَهُ تَعَالی.محبت نامہ جو آنمخدوم کے مرتبہ یقین اور اخلاص اور شجاعت اور یہی زندگی پر ایک محکم دلیل اور حجت قو یہ تھا پہنچ کر باعث انشراح خاطر و سرور و ذوق ہوا.بلا شبہ اس درجہ کی قوت و استقامت و جوش و ایثار جان و مال اللہ اس چشمہ صافیه کمال ایمانی سے نکلتا ہے.جس میں چمکتا ہوا یقین اس امر کا پورے زور کے ساتھ موجود ہوتا ہے کہ خدا ہے اور وہ صادقوں کے ساتھ ہے.اس عاجز نے ارادہ کیا تھا کہ بلا توقف جناب الہی میں اس بارہ میں توجہ کروں لیکن دورہ مرض اور ضعف دماغ اور ایک امر پیش آمدہ کی وجہ سے اس میں تاخیر ہے اور امید رکھتا ہوں کہ جس وقت خدا تعالیٰ چاہے مجھے اس توجہ کے لئے توفیق بخشی جائے گی.اوّل حضرت احدیت جَلَّ شَانُہ سے اجازت لینے کے لئے ، توجہ کی جائے گی پھر بعد اس کے بعد تعیین شرائط فریقین امر خارق عادت کے لئے توجہ ہو گی.یہ بات مسلم اور واضح رہے کہ راستباز انسان کے لئے ایسے امور کی غرض سے کسی قدر مجاہدہ ضروری ہے.

Page 328

حیات احمد ۳۲۵ جلد سوم الْكَرَامَاتُ ثَمْرَةُ الْمُجَاهِدَاتِ علالت طبع بہت حرج انداز ہے.اگر یہ مقابلہ صحت اور طاقت دماغی کے ایام میں ہوتا تو یقین تھا کہ تھوڑے دن کافی ہوتے.مگر اب طبیعت متحمل شدائد مجاہدات نہیں رکھتی اور ادنیٰ درجہ کی محنت اور خوض اور توجہ سے جلد بگڑ جاتی ہے.اگر ڈاکٹر صاحب کو طلب حق ہوگی تو وہ تین باتیں بآسانی قبول کریں گے.ڈاکٹر جگن ناتھ جموں سے مقابلہ (۱) اوّل یہ کہ میعاد توجہ یعنی وہ میعاد جس کے اندر کوئی امر خارق عادت پیش ہونے والا پیش از وقوع بتلایا جاوے اس کے موافق ہو.جو خدا تعالیٰ ظاہر کرے (۲) دوم جو امر ظاہر کیا جائے یعنی منجانب اللہ بتلایا جاوے اس کی اس میعاد کی انتظار کریں.جو من جانب اللہ مقرر ہو.ہاں میعاد ایسی چاہئے جو معاشرت کے عام معاملات میں قبول کے لائق سمجھی گئی ہو اور عام طور پر لوگ اپنے کاموں میں ایسی میعادوں کے انتظار کے عادی ہوں اور اپنے مالی معاملات کو ان میعادوں پر چھوڑتے ہیں یا اپنے دوسرے کا روبار ان میعادوں کے لحاظ سے کرتے ہوں.اس سے زیادہ نہ ہو.(۳) امر خارق عادت پر کوئی ناجائز اور بے سود شرطیں نہ لگائیں جائیں بلکہ خارق عادت اسی طور سے سمجھا جائے جو انسانی طاقتیں اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہوں مگر یہ سب اس وقت سے ہو گا کہ جب پہلے اجازتِ الہی اس بارے میں ہو جاوے.آپ کی ملاقات کے لئے دل بہت جوش رکھتا ہے اور آپ نے فرمایا تھا کہ ہم آنے کے لئے تیار ہیں مگر آپ تشریف لاویں تو یہ سب باتیں زبانی مفصل طور پر بیان کی جائیں گی.عبد الرحمن لڑکا بھی آپ کے انتظار میں مدت سے بیٹھا ہے.مولوی عبدالکریم صاحب منتظر ہیں.آپ ضرور مطلع فرما دیں کہ آپ کب تشریف لاویں گے.والسلام خاکسار غلام احمد ۳۱ مارچ ۱۸۹۱ء ) مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۱۶، ۱۱۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)

Page 329

حیات احمد ۳۲۶ ڈاکٹر صاحب کا خط پہنچا.ڈاکٹر صاحب ایسے امور کے دکھلانے کے لئے مجھے مجبور کرتے ہیں جو میرا نور قلب شہادت نہیں دیتا کہ میں اُن کے لئے جناب الہی میں دعا کروں.گو یہ عاجز خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو غیر محدود جانتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ ہر ایک قدرتی کام وابستہ باوقات ہے اور جب کسی امر کے ہو جانے کا وقت آتا ہے تو اس امر کے لئے دل میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور امید بڑھ جاتی ہے اور اب ایسی باتوں کی طرف جو ڈاکٹر صاحب کا منشاء ہے کہ کوئی مردہ زندہ ہو جائے اور یا کوئی مادر زاد اندھا اچھا ہو جائے پیدا نہیں ہوتا.ہاں اس بات کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے کہ کوئی امر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو.خواہ مردہ زندہ ہو اور خواہ زندہ مرجائے.یہی بات پہلے بھی میں نے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں لکھی تھی کہ آپ صرف یہی شرط رکھیں کہ ایسا امر ظاہر ہو کہ جو انسانی طاقتوں سے برتر ہو.اور کچھ شک نہیں کہ جو امر انسانی طاقتوں سے برتر ہو وہی خارق عادت ہے مگر ڈاکٹر صاحب نے خواہ نخواہ مردہ وغیرہ کی شرطیں لگا دی ہیں.اعجازی امور اگر ایسے ایسے کھلے کھلے اور اپنے اختیار میں ہوتے تو ہم ایک دن میں گویا تمام دنیا سے منوا سکتے ہیں لیکن اعجاز میں ایک ایسا امر مخفی ہوتا ہے کہ سچا طالب حق سمجھ جاتا ہے کہ یہ امر منجانب اللہ ہے اور منکر کو عذرات رکیکہ کرنے کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دنیا میں خدا تعالیٰ ایمان بالغیب کی حد کو توڑنا نہیں چاہتا.جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسی نے مردے زندہ کئے اور وہ مردے دوزخ یا بہشت سے نکل کر گل اپنا حال سناتے ہیں اور اپنے بیٹوں اور پوتوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم تو عذاب وثواب کا کچھ دیکھ آئے ہیں ہماری گواہی مان لو کہ یہ خیالات لغو ہیں بے شک خوارق ظہور میں آتے ہوں گے مگر اس طرح نہیں کہ دنیا قیامت کا نمونہ بن جائے.یہی وجہ ہے کہ بعض حضرت عیسی سے منکر رہے اور معجزات مانگتے رہے.حضرت عیسی نے کبھی ان کا جواب نہ دیا کہ جلد سوم

Page 330

حیات احمد ۳۲۷ جلد سوم ابھی تو گل میں نے تمہارا باپ زندہ کر کے دکھلایا تھا اور وہ گواہی دے چکا ہے کہ میں بباعث نہ ماننے حضرت عیسی علیہ السلام کے دوزخ میں پڑا.اگر یہ طریق معجز نمائی کا ہوتا تو پھر دنیا، دنیا نہ رہتی اور ایمان، ایمان نہ رہتا اور ماننے اور ایمان لانے سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوتا.پس جب تک ڈاکٹر صاحب اصولِ ایمان کے مطابق درخواست نہ کریں.میری نظر میں ایک قسم سے وہ دفع وقت کرتے ہیں.والسلام خاکسار غلام احمد از لودھیانه محله اقبال گنج ۱۲ / اپریل ۱۸۹۱ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۱۸، ۱۱۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) بالآخر ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب کے نام ایک دعوت خاص کا مکتوب بذریعہ رجسٹری بھیج دیا گیا اور اار جنوری ۱۸۹۳ء کو آپ نے ذیل کا اعلان شائع کر دیا.مگر ڈاکٹر صاحب ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے اور اس طرح پر صداقت اسلام کا اظہار ہوا.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ

Page 331

حیات احمد ۳۲۸ جلد سوم ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت میرے مخلص دوست اور للہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نوردین صاحب فانی فی ابتغاء مرضات ربانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایہ نامہ مورخہ ۷/جنوری ۱۸۹۲ ء اس عاجز کی طرف بھیجا ہے جس کی عبارت کسی قدر نیچے لکھی جاتی ہے اور وہ یہ ہے.خاکسار نابکار نورالدین بحضور خدام والا مقام حضرت مسیح الزمان سَلَّمَهُ الرَّحْمَن السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد بکمال ادب عرض پرواز ہے.غریب نواز.پریروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفان بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں.ازالہ اوہام میں حمد نوٹ.حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرہ لکھتا ہوں غور سے پڑھنا چاہئے تا کہ معلوم ہو کہ کہاں تک رحمانی فضل سے اُن کو انشراح صدر وصدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں.عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو.اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہو سکے طیار ہوں.اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار ( مگر محب انسان ) چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے.“ تَمَّ كَلَامُهُ جَزَاهُ الله - حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ا تیار مال و عزت اور جانفشانی میں فانی ہیں.وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے.در حقیقت ہم اسی وقت کچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں.ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے ان تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا - سرکہ نہ پائے عزیزش رود لے بار گران ست کشیدن بدوش کے ا النساء: ۵۹ سے وہ سر جو خدا کی راہ میں قربان نہ ہو وہ کندھوں پر بھاری بوجھ ہوتا ہے.

Page 332

حیات احمد ۳۲۹ جلد سوم حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے کہا ہے.سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے سرخی سے اس پر قلم پھیر دو میں نے ہرگز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہونا یعنی بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہوئے.اب ناظرین پر واضح ہو کہ پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کو تخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مُردہ زندہ کرنا وغیرہ اِس پر اُن کی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص نا جائز ہے.خدائے تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جبکہ کرتا نشان کہتے ہی اس کو ہیں کہ جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو تو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے.کسی نشان کے آزمانے کے لئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اس کی نظیر پیدا نہ کر سکیں.اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا.اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرما کر اپنی اس پہلی قید کو اٹھا لیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو لہذا آج ہی کی تاریخ یعنی ۱۱ار جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز، دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرراً دعوت حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ اگر آ.بلا تخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں تو اخبارات ہے مندرجہ حاشیہ میں حلفاً اقرار اپنی طرف سے شائع کر دیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جموں میں بر عہدہ ڈاکٹری متعین ہوں اس وقت حلفاً اقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائید ،.پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور اور ناظم الہند لا ہور اور اخبار عام لا ہور اور نورافشاں لدھیانہ.

Page 333

حیات احمد ۳۳۰ جلد سوم میں کوئی نشان دیکھوں جس کی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آ جاؤں اور انسانی طاقتوں میں اس کا کوئی نمونہ انہیں تمام لوازم کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہو جاؤں گا.اس اشاعت اور اس اقرار کی اس لئے ضرورت ہے کہ خدائے قیوم و قدوس بازی اور کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلا نا نہیں چاہتا.جب تک کوئی انسان پورے انکسار اور ہدایت یابی کی غرض سے اس کی طرف رجوع نہ کرے تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے.اور چونکہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کے وعدے پر اشتہار دیا ہے.سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کے لئے قائم رہے گی.طالب حق کے لئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میری مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں.ہماں بہ کہ جان در جہاں را ره فشانم او فشائم چه نقصاں اگر من نمانم وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المعلن المشـ خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی عَلَی الله عنه یاز دہم.جنوری ۱۸۹۲ء آسمانی فیصلہ صفحہ ۱۸،۱۷.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۳۸ تا ۳۴۰.نیز مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۲۵۰ تا ۲۵۳ طبع بار دوم ) ترجمہ.یہی بہتر ہے کہ میں اس کی راہ میں جان قربان کر دوں اگر میں نہ رہوں تو دنیا کا کیا نقصان ہے.

Page 334

حیات احمد ۳۳۱ جلد سوم ۱۸۹۲ء کے واقعات اور حالات ۱۸۹۲ء کا آغاز جو بطور تفاول کہا جاسکتا ہے ایک انگریز کے اسلام لانے پر ہوا.یہ صاحب کرنول احاطہ مدراس میں سویلین تھے حضرت اقدس کے متعلق انہیں جب معلوم ہوا تو وہ خود قادیان میں آئے اور یہاں آ کر اظہار اسلام کیا اور سلسلہ حقہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.حضرت اقدس نے ان کی اطلاع حضرت حکیم الامت کو بذریعہ خط دی جسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے.مجھے یاد ہے کہ اس کے متعلق حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک تفصیلی مضمون اخبار منشور محمدی میں بھیجا تھا وہ فائل میری لائبریری میں موجود تھا.حضرت اقدس کا مکتوب بنام حضرت حکیم الامت مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب سَلَّمَهُ الله تعالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک انگریز نومسلم میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ سردار ویٹ خال خلف الرشید مسٹر جان ویٹ کہ ایک جوان تربیت یافته قوم انگریز دانشمند مد بر آدمی انگریزی میں صاحب علم آدمی ہیں.اور کرنول احاطہ مدراس میں یہ عہدہ منصفی مقرر ہیں.آج بڑی خوشی اور ارادت اور صدق دل سے سلسلہ بیعت میں داخل ہو گئے.ایک باہمت آدمی اور پرہیز گار طبع اور محب اسلام ہیں.انگریزی میں حدیث اور قرآن شریف کو دیکھا ہوا ہے.چونکہ رخصت کم تھی اس لئے آج واپس چلے گئے.پھر ارادہ رکھتے ہیں کہ تین ماہ کی رخصت لے کر اسی جگہ رہیں اور اپنی بیوی کو ساتھ لے آویں.وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہر ایک

Page 335

حیات احمد ۳۳۲ جلد سوم ملک میں واعظ بھیجنے چاہیئیں.اور کہتے ہیں کہ مدراس میں واعظ بھیجا جاوے اس کی تنخواہ کے لئے میں ثواب حاصل کروں گا.غرض زندہ دل آدمی معلوم ہوتا ہے تمام اعتقاد سن کر آمَنَّا آمَنَّا کہا.کوئی روک پیدا نہیں ہوئی اور کہا کہ جو لوگ مسلمان اور مولوی کہلا کر آپ کے مخالف ہیں وہ آپ کے مخالف نہیں بلکہ اسلام کے مخالف ہیں اسلام کی سچائی کی خوشبو اس راہ میں آتی ہے.الغرض وہ محققانہ طبیعت رکھتے ہیں اور علوم جدیدہ میں مہارت رکھتے ہیں.زیادہ تر خوشی یہ ہے کہ پابند نماز خوب ہے.بڑے التزام سے نماز پڑھتا ہے.جاتے وقت امام مسجد حافظ کو دو روپیہ نا دیئے اور اس عاجز کے ملازموں کو پوشیدہ طور پر چند روپیہ دینے چاہے.مگر میرے اشارہ سے انہوں نے انکار کیا.ایک مضبوط جوان دوہرا بدن کا مشابہ بدن قاضی خواجہ علی کے اور اس سے کچھ زیادہ.خدا تعالیٰ اس کو استقامت بخشے.کرنول احاطہ مدراس میں منصف ہے.آنمکرم بھی اس سے خط و کتابت کریں.ان کے پستہ کا ٹکٹ بھیجتا ہوں.مگر ٹکٹ میں بلو رلکھا ہے وہاں سے بدلی ہوگئی ہوگی.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۳ / جنوری ۱۸۹۲ء یہ وعدہ کر کے گئے ہیں کہ ازالہ اوہام کے بعض مقامات انگریزی میں ترجمہ کر کے بھیج دوں گا.ان کو چھپوا کر شائع کر دینا اور ازالہ اوہام کے دو جلد لے گئے ہیں.قیمت دینے پر اصرار کرتے تھے مگر نہیں لی گئی.مکتوبات احمد جلد پنجم صفحہ ۱۱۷ ۱۱۸.مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۳۱ ۱۳۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) نوٹ.۱۸۹۲ء کے بعد آپ کے وصال تک کوئی ایسا واقعہ نہیں گزرا جو خاکسار کا چشم دید نہ ہو.بجز ڈیرہ بابا نانک کے سفر کے اور ۱۸۹۷ء کے اواخر سے قادیان ہی کی سکونت نصیب ہوئی.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ

Page 336

حیات احمد سفر لاہور ۳۳۳ جلد سوم جیسا کہ آسمانی فیصلہ میں آپ نے اعلان کیا تھا کہ لاہور میں اس کا انتظام کیا جاوے اس مقصد کے پیش نظر آپ نے لاہور کا سفر اختیار کیا چنانچہ آپ نے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کو ۹ جنوری ۱۸۹۲ء کو اس کی اطلاع اس طرح پر دی.وو یہ عاجز انشاء اللہ العزیز ۲۰ / جنوری ۱۸۹۲ء کو لاہور جائے گا اور ارادہ ہے کہ تین چار ہفتہ تک لاہور رہے.اگر کوئی تقریب لاہور میں آپ کے آنے کے وقت پیدا ہو تو یقیناً لا ہور میں ملاقات ہو جائے گی.“ والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۹ جنوری ۱۸۹۲ء مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۶۷، ۱۶۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) چنانچہ آپ جنوری کے تیسرے ہفتہ لاہور پہنچ گئے اور آپ کا قیام منشی میراں بخش مرحوم کی کوٹھی واقعہ چونے منڈی میں ہوا.میری ملاقات مجھے جب آپ کے ورود کی خبر ملی میں اس وقت مدرسہ میں اپنے استاد مکرم مولوی خلیفہ حمید الدین صاحب مرحوم کے کمرہ میں تھا.متواتر دو پیریڈ اُن کے تھے میں اپنی جماعت میں فارسی اور عربی کے مضمون میں سب سے بہتر تھا میں نے مولانا سے رخصت مانگی تو انہوں نے فرمایا.مرزا آ گیا ہے وہاں جانا ہوگا.میں نے کہا جانا تو وہاں ہی ہے اور آپ کے خلف الرشید بھی تو وہاں جائیں گے.اس پر انہوں نے ہنستے ہوئے اجازت دے دی.میں وہاں پہنچا تو مکان کے باہر بہت بڑا ہجوم تھا.مدرسہ نعمانیہ وغیرہ کے طالب علم اور بعض مولوی جمع تھے اور لوگوں کو اندر

Page 337

حیات احمد ۳۳۴ جلد سوم جانے سے روکتے تھے.میں بلاخوف اندر چلا گیا.حضرت صاحب اٹھ کر اندر جا چکے تھے.مرحوم مرزا اسماعیل بیٹھے تھے انہوں نے مجھے بھی کسی مدرسہ کا نیم ملا سمجھ کر ڈانٹ کر کہا جاؤ مرزا صاحب اندر چلے گئے.اب اس وقت نہیں آئیں گے میں نے دریافت کیا کب آئیں گے تو جواب ملا معلوم نہیں.ابھی ہم میں تبادلہ کلام ہورہا تھا کہ حضرت اقدس تشریف لے آئے.میں نے آگے بڑھ کر سلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا.آپ تشریف فرما ہوئے تو باہر شور مچ گیا اور ایک ہجوم اندر آیا ان کے لیڈر ایک حافظ محمد یسین صاحب تھے ان کے ایک بھائی اور مینٹل کالج میں مدرس تھے غالبا ان کا نام مومن علی تھا.حافظ صاحب سے روزانہ، انار کلی میں مباحثہ ہوتا تھا.ان واقعات کے جاننے والوں میں حضرت مرہم عیسی صاحب الْحَمْدُ لِلهِ زندہ ہیں.اس نے اپنے ہاتھ میں تو ضیح مرام لیا ہوا تھا.اور اس نے سوال کیا کہ آپ نے لکھا ہے کہ محدث ایک معنے سے نبی ہوتا ہے.آپ کے محدث ہونے کا کیا ثبوت ہے.حضرت اقدس.میں نے ایک رسالہ آسمانی فیصلہ لکھا ہے وہ دو چار دن میں آ جاوے گا.آپ کو اس کے پڑھنے سے سب معلوم ہو جائے گا.حافظ.ہم کو اس کے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں آپ خود موجود ہیں آپ ثبوت پیش کریں.وہ اس پر اصرار کرتا تھا میں نے جرات کر کے عرض کیا کہ مجھے اجازت ہو تو میں اس کا جواب دوں آپ نے بلا تکلف فرمایا آپ کو اجازت ہے.اس پر میں نے حافظ صاحب کو خطاب کیا اور کہ ہر روز انار کلی میں آپ گفتگو کرتے ہیں اور آپ سے جواب بن نہیں آتا آج یہاں شور مچانے آ گئے ہو.محدث کی تعریف کرو پھر میں ثبوت دوں گا کہ مرزا صاحب محدث ہیں.میں جانتا تھا کہ اس قسم کے سوالات سے یہ لوگ گھبرایا کرتے ہیں.چنانچہ حافظ نے کہا کہ آپ ہی کر دیں.میں نے کہا جو تعریف کروں گا وہ تم کو ماننی پڑے گی ورنہ تم خود کرو.اس کے موافق وہ صفات میں مرزا صاحب ثابت کر دوں گا.حضرت صاحب نے ایک دو مرتبہ میری طرف دیکھا اور پھر مباحثہ

Page 338

حیات احمد ۳۳۵ جلد سوم سنتے رہے آخر اس نے کہا کہ میں آپ کی تعریف کو تسلیم کروں گا.اس پر میں نے کہا کہ پھر فیصلہ آسان ہے میں جو تعریف کروں گا اس کا مصداق مرزا صاحب کو ثابت کروں گا پس میں مختصراً کہتا ہوں کہ مرزا صاحب محدث ہیں اس پر حافظ پریشان ہو گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا چلو بھائی مرزا صاحب تو جواب نہیں دیتے اور ان سے انارکلی میں نپٹ لیں گے.وہ ہجوم منتشر ہو گیا.اب حضرت اقدس نے مجھ سے خطاب فرمایا اور میں نے اپنے تعارف کی تجدید کی اور آپ بہت خوش ہوئے.میں نے کہا کہ اس سے روزانہ انار کلی میں مباحثات ہوتے رہتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد حضرت اقدس تشریف لے گئے اور میں گھر کو چلا آیا.میں اس وقت بھائی دروازہ میں رہتا تھا وہاں قریب ہی مولوی عبداللہ صاحب ٹوٹکی رہتے تھے میں ان کے تلامذہ سے اُن کے گھر پر اُلجھ جایا کرتا تھا.اور مولوی عبداللہ صاحب زیر لب مسکراتے رہتے کوئی فیصلہ کن بات نہ کرتے.بھائی دروازہ کی مسجد میں جلسہ بھائی دروازے کے اندر ایک اونچی مسجد ہے جب میں وہاں پہنچا تو ایک بڑا ہجوم دیکھا میں اندر گیا تو ایک بڑا جلسہ ہو رہا تھا مولوی عبداللہ ٹونکی صدر تھے.اور حافظ محمد یسین توضیح مرام کی عبارتیں پڑھ پڑھ کر اعتراض نما تقریر کر رہے تھے.میں نے جاتے ہی للکار کر کہا کہ اسی مسئلہ پر تو جھاڑ کھا چکا ہے اب یہاں آ کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے.میں نے مولوی عبداللہ صاحب سے کہا کہ مجھے اجازت دو کہ میں جواب دوں.ابھی مولوی صاحب جواب نہ دینے پائے تھے کہ ایک شخص عبدالکریم نام جو مختار عدالت تھا اور ایک لفنگا ٹائپ کا آدمی تھا اور عام طور پر کریم بکرا کے نام سے مشہور تھا.اُس نے آگے بڑھ کر مجھے ایک تھپڑ مارا اور میری پگڑی کہیں دور جا پڑی اور نہایت غلیظ گالی مجھ کو دی مجھے بھی جوش آ گیا اور میں نے تقریر شروع کی کہ یہ ہیں اخلاق تمہارے

Page 339

حیات احمد ۳۳۶ جلد سوم رہنماؤں کے نہ اسے مسجد میں گند بولتے ہوئے شرم آئی اور نہ اپنے صدر جلسہ کا احترام کیا اس موضوع پر میں بولتا گیا مولوی عبداللہ صاحب نے اعلان کر دیا کہ جلسہ برخاست.مجھے کسی اور نے کچھ نہیں کہا میں آرام سے نکلا تو ایک صاحب میرے ساتھ تھے میں ان کو نہ تب جانتا تھا نہ آج وہ گویا میرے ساتھ بطور ایک محافظ کے تھے اور آہستہ سے کہا کہ پگڑی میرے پاس ہے ہم ہجوم سے نکل آئے تو کہا چلو میں آپ کو دودھ پلاؤں میں نے انکار کیا وہ میرے ساتھ ساتھ گھر کے قریب تک آیا اور باصرار دودھ کے لئے ایک روپیہ میری جیب میں ڈال کر چلتا ہوا.اس واقعہ کی اطلاع حضرت کو بھی ملی دوسرے دن جو میں حاضر ہوا تو آپ نے بڑی دلجوئی فرمائی اور فرمایا انبیاء کی جماعتوں کو بڑے ابتلاؤں سے گزرنا ضروری ہوتا ہے اور وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جو ان ابتلاؤں میں ایمان سلامت رکھتے ہیں.“ لاہور کی اس وقت کی جماعت کے لوگ تو میری سرگرمیوں سے واقف تھے.میراں بخش کی کوٹھی میں لیکچر ۳۱ / جنوری ۱۸۹۲ء کو آپ نے عام لیکچر منشی میراں بخش کی کوٹھی کے احاطے ہی میں دیا.بلا مبالغہ ہزاروں آدمی وہاں جمع تھے ہر طبقہ کے لوگ تھے.تعلیم یافتہ.شرفاء شہر اور عہدہ داران.انتظام پولیس نے کیا ہوا تھا.حضرت اقدس نے اپنی دعاوی کومبر ہن کیا اور ان کے متعلق ضروری دلائل پیش کئے اور بالآخر آپ نے اس الزام کے جواب میں کہ علماء میرے مقابلہ میں دلائل قرآنیہ سے عاجز آ کر میرے خلاف کفر کا فتویٰ دیتے ہیں.ایک مومن کو کافر کہہ دینا آسان ہے مگر اپنا ایمان ثابت کرنا آسان نہیں قرآن کریم نے مومن اور غیر مومن کے لئے کچھ نشان مقرر کر دیئے ہیں.میں ان کا فر کہنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اسی لاہور میں میرے اور اپنے ایمان

Page 340

حیات احمد ۳۳۷ جلد سوم کا قرآن مجید کے فیصلہ کے موافق فیصلہ کر لیں اس سلسلہ میں آپ نے آسمانی فیصلہ کا حوالہ دیا اور اپنی تقریر کو اس پر ختم فرمایا.اب بھی یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضر نہیں پہنچ سکتا.کیڑوں کی طرح خود مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا.خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلا دے.اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بک بک سے رُک نہیں سکتیں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے.اَنَا الْفَتَّاحُ اَفْتَحُ لَكَ.تَرَى نَصْرًا عَجِيْبًا وَيَخِرُّوْنَ عَلَى الْمَسَاجِدِ.رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ جَلَابِيْبُ الصِّدْقِ.فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ اَلْخَوَارِقُ تَحْتَ مُنْتَهَى صِدْقِ الْأَقْدَامِ كُنْ لِلَّهِ جَمِيْعًا وَمَعَ اللَّهِ جَمِيْعًا.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا یعنی میں فَتَّاح ہوں تجھے فتح دوں گا ایک عجیب مدد تو دیکھے گا اور منکر یعنی بعض اُن کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدر ہے اپنی سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے.یہ صدق کے جلا بیب ہیں جو ظاہر ہوں گے.سوجیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے استقامت اختیار کر خوارق یعنی کرامات اس محل پر ظاہر ہوتی ہیں جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے.تو سارا خدا کے لئے ساتھ ہو جا تو سارا خدا کے ساتھ ہو جا.خدا تجھے اُس مقام پر اٹھائے گا جس میں تو تعریف کیا جائے گا.اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اب اے مولویو! اے بخل کی سرشت والو! اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلا ؤ.ہر یک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ

Page 341

حیات احمد غالب رہتا ہے یا تمہارا.۳۳۸ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعُ الْهُدَى الْمُنَبِّهُ النَّاصِحُ مرزا غلام احمد قادیانی جلد سوم آسمانی فیصلہ صفحہ ۱۹.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۴۲) حضرت حکیم الامت کی تقریر حضرت اقدس نے حضرت حکیم الامت کو جو اس جلسہ میں موجود تھے فرمایا تھا کہ آپ بھی کچھ تقریر کریں چنانچہ حضرت حکیم الامت اس میز پر کھڑے ہوئے جو سامنے رکھا تھا آپ نے جو تقریر کی اس کا مفہوم مجھے یاد ہے.فرمایا ”آپ نے مرزا صاحب کا دعویٰ اور اس کے دلائل آپ کی زبان سے سنے اور اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں اور بشارتوں کو بھی سنا جو ان مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں.تمہارے اس شہر والے لوگ مجھے اور میرے خاندان کو جانتے ہیں علماء بھی مجھ سے ناواقف نہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کا فہم دیا ہے.میں نے بہت غور مرزا صاحب کے دعاوی پر کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں ان کی خدمات اسلامی کو دیکھا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے حالات پر غور کیا تو قرآن مجید نے میری رہنمائی فرمائی میں نے دیکھا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے حالات پر غور کیا تو قرآن مجید نے میری رہنمائی فرمائی میں نے دیکھا کہ اس سے پہلے آنے والوں کا مقابلہ جس طرح پر کیا گیا وہی اب ہو رہا ہے گویا اس پرانی تاریخ کو دوہرایا جا رہا ہے میں کلمہ شہادت پڑھ کر کہتا ہوں کہ مرزا حق پر ہے اور اس حق سے ٹکرانے والا باطل پاش پاش ہو جائے گا مومن حق کو قبول کرتا ہے.میں نے حق سمجھ کر اسے قبول کیا ہے اور حضرت نبی کریم کے ارشاد کے موافق کہ مومن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اپنے

Page 342

حیات احمد ۳۳۹ جلد سوم بھائی کے لئے پسند کرتا ہے آپ کو بھی اس حق کی دعوت دیتا ہوں.وَمَا عَلَيْنَا 66 إِلَّا الْبَلَاغ _ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ “ یہ کہہ کر میز پر سے اتر آئے اور جلسہ برخاست ہو گیا.تبدیل مکان اب تک حضرت کا قیام چونے منڈی میں منشی میراں بخش مرحوم کی کوٹھی میں تھا.لیکن وہ جگہ کافی نہ رہی تو آپ محبوب رائیوں کی ایک وسیع اور فراخ کوٹھی میں منتقل ہو گئے.اس جگہ لوگوں کا دن بھر مختلف اوقات میں ہجوم رہتا تھا.اگر چہ ایسے لوگ بھی آتے تھے جو مخالفانہ رنگ رکھتے تھے.مگر اس قسم کے حرکات جو دہلی میں ہوئے نہیں ہوتے تھے البتہ ایک دن ایسا واقعہ ہوا جس کی تفصیل میں سیرت میں لکھ چکا ہوں.ایک واقعہ حضرت مجلس میں تشریف فرما تھا اور منشی شمس الدین صاحب مرحوم جنرل سیکرٹری کو آپ نے آسمانی فیصلہ دیا کہ اسے پڑھ کر حاضرین کو سنائیں اس وقت کا پورا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے ہے اس مجلس میں بابو موز مدار جو برہم سماج کے ان دنوں منسٹر تھے اور ایگزامنر آفس میں بڑے آفیسر تھے اور اپنی نیکی اور خوش اخلاقی کے لئے معروف تھے.سوشیل کا موں میں آگے آگے رہتے وہ اس جلسہ میں موجود تھے ایک شخص جو مسلمان کہلاتا تھا آیا اور اس نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار نہایت ناسزا وار الفاظ اور گالیوں کی صورت میں کیا.حضرت اپنی پگڑی کا شملہ منہ پر رکھے سنتے رہے اور بالکل خاموش تھے.آپ کے چہرہ پر کسی قسم کی کوئی علامت نفرت یا غصہ کی ظاہر نہیں ہوئی یوں معلوم ہوتا تھا گویا آپ کچھ سنتے ہی نہیں آخر وہ تھک کر آپ ہی خاموش ہو گیا اور چلتا بنا.حاضرین میں سے اکثر کو غصہ آتا تھا مگر کسی کو یہ جرات حضرت کے ادب کی وجہ سے تو نہ تھی کہ اسے روکتا.جب وہ چلا گیا تو با بوموز مدار نے کہا.

Page 343

حیات احمد ۳۴۰ جلد سوم ”ہم نے مسیح کی بردباری کی بابت بہت کچھ پڑھا ہے اور سنا ہے مگر یہ کمال تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے.“ انہوں نے اس سلسلہ میں بہت کچھ کہا اور چونکہ ان کے دفتر میں ہماری جماعت کے اکثر احباب تھے اور وہ ان سب کا احترام کرتے تھے اور حضرت منشی نبی بخش صاحب پر تو ان کی خاص نظر عنایت تھی وہ اکثر اس واقعہ کو بیان کرتے اور حضرت کے کمال ضبط کی تعریف کرتے.لاہور کےاکثر مبایعین اسی مکان میں لاہور کے اکثر دوستوں نے بیعت کی اور میں نے بھی تجدید بیعت کی حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ.حضرت مرزا ایوب بیگ.حضرت عبدالعزیز مغل اور ان کے خاندان کے اکثر افراد نے اسی موقعہ پر بیعت کی تھی جن کے نام اُس رجسٹر میں موجود ہیں جو حضرت کے اپنے قلم کا زیادہ تر لکھا ہوا ہے.جس کی ایک نقل میرے پاس بھی ہے.مہدی لاہور کا حملہ ان ایام میں آپ نماز میں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی مسجد میں (جو منگے منڈی میں حضرت منشی چراغ دین کے مکانات کے سامنے تھی ) پڑھا کرتے تھے ایک روز آپ ظہر یا عصر مجھے محفوظ نہیں مگر ان نمازوں میں سے ایک نماز تھی ) کی نماز پڑھ کر نکلے مسجد سے باہر نکل کر مکان کو جا رہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص نے (جو اپنے آپ کو مہدی کہتا تھا اور لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ مَهْدِيٌّ رَسُوْلُ اللہ کا کلمہ پڑھتا تھا ) آپ کی کمر میں ہاتھ ڈالا مگر وہ نہ تو آپ کو اٹھا سکا اور نہ گرا سکا حضرت سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی نے اُس کو پکڑ کر الگ کر دیا اور وہ اُس کو مارنا چاہتے تھے حضرت نے مسکرا کر کہہ دیا کہ اسے کچھ مت کہو وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عہدہ میں نے سنبھال لیا ہے اور برابر مکان تک تھوڑی دیر کے بعد مڑ کر دیکھتے کہ کوئی اُسے دکھ نہ دے.وہ ساتھ ساتھ ہی

Page 344

حیات احمد ۳۴۱ جلد سوم آ رہا تھا اور مکان کے باہر اس نے اپنی تقریر شروع کر دی یہ شخص ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا اور اس کا بھائی جو پیغمبر اسنگھ کے نام سے ہماری جماعت میں مشہور مخلص تھا آخر احمدی ہو گیا تھا.اُس نے لاہور ہی کی ایک مجلس میں حضرت اقدس پر پھول برسائے اور اپنے اس بھائی کے لئے معافی مانگی پیغمبر اسنگھ کو بھی ایک زمانہ میں یہ دعویٰ تھا کہ وہ لوگوں کے گرو رام سنگھ کا اوتار ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اُس پر حقیقت اسلام واضح کر دی اور وہ ایک متقی اور مخلص احمدی بنا.اور خاکسار عرفانی سے وہ محبت رکھتا تھا.حضرت سید محمد احسن صاحب امروہی کی آمد لا ہورہی میں اوائل فروری ۱۸۹۲ء میں حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امرو ہی تشریف لائے اس وقت اگر چہ وہ پیرانہ سالی میں داخل تھے مگر تنومند اور نہایت چست اور محنت کے عادی تھے.ان کے رسائل اغلامُ النَّاس وغیرہ کی وجہ سے جماعت میں ان کے لئے جذبات احترام تھے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی اُن کے عہدِ اہلِ حدیث کی تالیفات کے مداح تھے مگر اب انہیں مولوی کی بجائے منشی کہتے ہیں.م حاشیہ.حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی ایک فاضل عالم دین تھے اور اس عہد کے علمائے اہلِ حدیث میں ایک ممتاز شخصیت کے تھے نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالی کے مقرب علماء کی صف میں ان کا مقام تھا.انہوں نے بڑی قربانی کر کے سلسلہ کو قبول کیا.ملازمت گئی اور ان کی اہلیہ بھی اُن سے الگ ہو گئی.حضرت ان کو محبت اور عزت کی نظر سے دیکھتے تھے.آخر عمر میں افسوس ہے ان سے خلافت ثانیہ کی بیعت کے با وجود ایک لغزش ہو گئی.جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اپنے اہل وعیال کے فتنہ سے مجبور ہوئے.بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے تو بہ کر لی تھی.وَاللهُ حَسِيْبُۂ بہر حال ان ابتدائی ایام میں وہ ایک سر بر آوردہ اور ممتاز عالم تھے حضرت کی تائید میں اغلامُ النَّاسِ تَحْذِيرُ الْمُؤْمِنِيْنَ اور عصائے موسیٰ کے جواب میں ایک مبسوط کتاب لکھی.اللہ تعالیٰ ان کے ستاری فرمائے (عرفانی الکبیر )

Page 345

حیات احمد ۳۴۲ جلد سوم مولوی عبد الحکیم کلانوری سے مباحثہ لاہور میں کسی عالم کو آپ کے مقابلہ کی ہمت نہ ہوئی مولوی محمد حسین صاحب کے حالات سے تو لوگ واقف تھے اور ان کے ابتدائی زمانہ اہل حدیث کے اکا بر اُن سے الگ ہو چکے تھے اور چینیا نوالی مسجد سے ان کو الگ کر دیا تھا.اب وہ لسوڑھے والی ایک مسجد میں رہتے تھے ان دنوں انہوں نے مسجد وزیر خاں میں ایک جلسہ کیا میں اس جلسہ میں موجود تھا.حنفی تو ان سے متنفر ہی تھے اور اہل حدیث کو بھی ان سے دلچسپی نہ تھی اس مسجد کی تولیت سرمرزا ظفر علی صاحب کے خاندان میں تھی.مرزا ظفر علی اور ان کے محترم بھائی حضرت مرزا ناصر علی میرے کلاس فیلو تھے جنہوں نے آخر احمدیت کو قبول کیا اور فیروز پور کی جماعت کے امیر رہے.نہایت متقی اور بے ریا خلوص رکھنے والے بزرگ تھے غرض مولوی صاحب کے اس جلسہ میں کچھ لوگ کشمیری بازار اور چوک وزیر خاں کے جمع تھے مولوی صاحب ممبر کے پاس کھڑے ہو کر توضیح مرام وغیرہ پر اعتراض کرنے لگے.لوگوں نے کچھ توجہ نہ کی اور عام طور پر کہتے تھے کہ لودھانہ میں مباحثہ میں ہار کر آیا ہے اور اب کفر کا فتویٰ دیتا ہے بہ مشکل آدھ گھنٹہ مجمع رہا اور منتشر ہو گیا.مگر جیسے دہلی میں کسی کو مباحثہ کی ہمت نہ ہوئی.یہاں مولوی عبداللہ صاحب ٹو کی.مولوی غلام محمد بگوئی اور مولاوی غلام احمد علی بھیروی (جو ! حضرت خلیفہ ایسی اول کے عزیزوں میں سے تھے ) موجود تھے مگر آگے نہ تو مباحثہ کے لئے آئے اور نہ آسمانی فیصلہ کے ذریعہ فیصلہ چاہا.بحث کا موضوع اس موقعہ کو عبدالحکیم صاحب کلانوری نے غنیمت سمجھا اور وہ غیر مشروط طور پر حضرت کے مکان پر مباحثہ کے لئے تشریف لے آئے یہ دراصل باشندے تو کلانور کے تھے مگر الور (راجستھان) میں رہتے تھے.بحث کا موضوع وہی توضیح المرام کا مقام (محدث ایک معنے سے نبی ہوتا ہے ) تھا.یاد رہے کہ میں یہ واقعات اپنے حافظہ کی بناء پر کہہ رہا ہوں اس لئے کہ اس

Page 346

حیات احمد ۳۴۳ جلد سوم مباحثہ کے متعلق جو پرچے لکھے گئے تھے وہ مولوی عبد الحکیم صاحب لے گئے تھے اور انہوں نے واپس نہیں کئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے دعوی کی بنیاد اس امر پر ہے کہ مسیح ابن مریم ناصری فوت ہو چکا ہے اور جس مسیح کے آنے کا وعدہ ہے وہ میں ہوں.اگر مسیح کا زندہ آسمان پر جانا ثابت ہو جائے تو میرا دعویٰ خود غلط ہو جائے گا.مگر مولوی عبدالحکیم صاحب نے کہا کہ میں اس بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا.پہلے آپ کا مسلمان ہونا تو ثابت ہو آپ نے نبوت کا دعویٰ کر کے اسلام سے خروج کیا ہے.اور مسیح ابن مریم کا نزول تو خروج از اسلام نہیں بلکہ وہ اسی امت میں ہوگا.حضرت اقدس نے فرمایا مجھ پر ادعائے نبوت کا ملہ کا الزام، برملا افترا ہے.میں نے اپنی کتاب توضیح المرام ہی میں صاف لکھا ہے.میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کا امام ہوں.ماسوا اس کے اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہو کر آیا ہے اور محدث بھی ایک معنے سے نبی ہی ہوتا ہے گو اس کے لئے نبوت تامہ نہیں مگر تا ہم جزوی طور پر وہ ایک نبی ہی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا ایک شرف رکھتا ہے.اور امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں........الآخره " توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰) اور آپ نے یہ بھی فرمایا میرے مسلمان اور مومن ہونے کا ثبوت اس معیار پر کیا جا سکتا ہے جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں اور میں نے رسالہ آسمانی فیصلہ میں لکھے ہیں مگر ان کو اس پر اصرار رہا آخر تحریری مباحثہ شروع ہوا.مولوی عبدالحکیم صاحب نے اپنا پر چہ اعتراض کی صورت میں لکھوایا ان کا کا تب ایک نو جوان سند یافتہ مولوی احمد علی تھا.حضرت اقدس نے اپنے جواب میں زیادہ زور اسی امر پر دیا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمات و مخاطبات کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوا.اور نبوت کے مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض اولیائے امت کے ایسے الہامات کی بناء پر نہ صرف ان کا انکار کیا بلکہ ان کی

Page 347

حیات احمد ۳۴۴ جلد سوم تکفیر کی آپ نے فرمایا بکیس ابلیس اس کا بہت بڑا ثبوت ہے آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوضات کے سلسلہ میں مکالمہ مخاطبہ کو بہت بڑا درجہ بیان کیا اور اسے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی زندہ نبوت کا ثبوت قرار دیا کہ ہر زمانہ میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں اور موجود رہیں گے.اور یہ امر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ ایسے لوگ پہلی امتوں میں بھی ہوئے ہیں اور میری امت میں بھی.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک ہیں.ایک اعجاز یہ بیان جاری تھا کہ مولوی احمد علی صاحب نے شور مچانا شروع کیا کہ بخاری میں سے وہ حدیث نکال کر پیش کرو.حضرت صاحب نے فرمایا مضمون ختم ہونے دو.میں حدیث نکال کر پیش کر دوں گا.مگر اُسے اپنے علم ( جو بے علمی کی بدترین مثال تھی ) پر گھمنڈ تھا وہ بار بار بخاری حضرت کی طرف پیش کرتا کہ لیجئے نکالئے اور یہ مطالبہ اس قدر تیز ہوا کہ گویا فیصلہ کا مدار اسی پر آ گیا.جب حضرت مولوی محمد احسن صاحب تلاش میں سرگردان تھے اور فریقین مخالف کو یقین ہو گیا کہ حوالہ نہ ملے گا تو اس نے اور اصرار کیا تب حضر کیے نے خود بخاری لے کر چند ورق الٹے اور آخر حوالہ مَناقِبُ الْعُمَر میں مل گیا.اور اسی پر مباحثہ ختم ہو گیا.مولوی عبد الحکیم صاحب نے مزید گفتگو کو ضروری نہ سمجھا اور ازالہ وہم کے لئے قرار پایا کہ حضرت مسئلہ نبوت کے متعلق ایک اعلان کر دیں چنانچہ مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا گیا.یا اس واقعہ کے متعلق حضرت حکیم الامت کی ایک روایت کے مطابق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت المہدی جلد دوم نمبر ۳۰۶ میں اس طرح پر شائع فرمائی ہے.(۳۰۶) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ کسی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود سے کسی مخالف نے کوئی حوالہ طلب کیا اس وقت وہ حوالہ حضرت کو یاد نہیں تھا اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا لہذا شماتت کا اندیشہ پیدا ہوا مگر حضرت صاحب نے بخاری کا ایک نسخہ منگایا اور یونہی اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور جلد جلد ایک ایک ورق اس کا

Page 348

حیات احمد ۳۴۵ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جو مباحثہ لاہور میں مولوی عبدالحکیم صاحب اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے درمیان چند روز سے بابت مسئلہ دعوی نبوت مندرجہ کتب مرزا صاحب کے ہو رہا تھا آج مولوی صاحب کی طرف سے تیسرا پر چہ جواب الجواب کے جواب میں لکھا جارہا تھا اثنائے تحریر میں مرزا صاحب کی عبارت مندرجہ ذیل کے بیان کرنے پر جلسہ عام میں فیصلہ ہو گیا جو عبارت درج ذیل ہے.العبد المرقوم ۳ / فروری ۱۸۹۲ء مطابق ۳ / رجب ۱۳۰۹ء العبد العبد برکت علی وکیل چیف کورٹ پنجاب محی الدین المعروف صوفی خاکسار رحیم بخش بقیہ حاشیہ.الٹانے لگ گئے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور کہا کہ لو یہ لکھ لو.دیکھنے والے سب حیران تھے یہ کیا ماجرا ہے.اور کسی نے حضرت صاحب سے دریافت بھی کیا.جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے ہیں کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پر کچھ نہیں لکھا ہوا اسی لئے میں ان کو جلد جلد الٹا تا گیا آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ سوائے اس جگہ کے کہ جس پر حوالہ درج تھا باقی تمام جگہ آپ کو خالی نظر آئی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول سے اس روایت کے سننے کے بعد ایک دفعہ خاکسار نے ایک مجمع میں یہ روایت زیادہ تفصیلی طور پر مفتی محمد صادق صاحب سے بھی سنی تھی.مفتی صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا ہے اور اس وقت حضرت صاحب کو غالباً نون ثقلیہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی.سواؤل تو بخاری ہی نہیں ملتی تھی اور جب ملی تو حوالہ کی تلاش مشکل تھی اور اعتراض کرنے والے مولوی کے سامنے حوالہ کا جلد رکھا جانا از بس ضروری تھا.اس پر آپ نے بخاری اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور چند چند صفحات کے بعد فرماتے تھے کہ یہ لکھ لو.اس جلدی کو دیکھ کر کسی خادم نے عرض کیا کہ حضور ذرا اطمینان سے دیکھا جاوے تو شاید زیادہ حوالے مل جاویں.آپ نے فرمایا کہ نہیں بس یہی حوالے ہیں جو میں بتا رہا ہوں.ان کے علاوہ اس کتاب میں کوئی حوالہ نہیں کیونکہ سوائے حوالہ کی جگہ کے مجھے سب جگہ خالی نظر آتی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آدمی اللہ کا

Page 349

۳۴۶ جلد سوم حیات احمد العبد العبد العبد العبد العبد فضل دین 8204 18548209 رحیم اللہ ابویوسف محمد مبارک علی حبیب اللہ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلَنَا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ أَمَّا بعد تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام و توضیح المرام و ازالة الاوهام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت نا قصہ ہے یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں.بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی بقیہ حاشیہ.ہو کر رہے پھر وہ خود حقیقی ضرورت کے وقت اس کے لئے غیب سے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اگر اس وقت تقدیر عام کے ماتحت اسباب میسر نہ آ سکتے ہوں اور ضرورت حقیقی ہو تو تقدیر خاص کے ماتحت بغیر مادی اسباب کے اُس کی دستگیری فرمائی جاتی ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو.مگر وہ شخص جس کی نظر عالم مادی سے آگے نہیں جاتی اس حقیقت سے نآشنا رہتا ہے.مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے.فلسفی کو منکر حنانه است ☆ از حواس انبیاء بیگانه است (سیرت المہدی جلد ۱ صفحه ۲۸۲ ،۲۸۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس روایت کی اشاعت پر میں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو ایک خط بغرض تصحیح لکھا جسے انہوں نے سیرت المهدی جلد سوم کے صفحہ ۴ پر اس طرح پر درج کیا.(۸) روایت نمبر ۳۰۶ میں خارق عادت طور پر بخاری کا حوالہ مل جانے کا واقعہ مذکور ہے اور اس کے متعلق یہ الفاظ درج ہیں کہ." مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا ہے اور اس وقت حضرت صاحب کو غالبا نون ثقلیہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی.سواؤل تو بخاری ہی نہ ملتی تھی.اور جب ملی تو حوالہ کی تلاش مشکل تھی الخ.“ اس واقعہ کے متعلق پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا کہ یہ واقعہ میرے سامنے پیش ترجمہ.وہ فلسفی جو رونے والے ستون کا منکر ہے.وہ انبیاء کی باطنی حسوں سے بے خبر ہے.

Page 350

حیات احمد ۳۴۷ جلد سوم معنوں کے رو سے بیان کئے گئے ہیں ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں کتاب ازالة الاوھام کے صفحہ ۱۳۷ میں لکھ چکا ہوں.میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم خاتم الانبیاء ہیں.سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں میں یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں کیونکہ کسی طرح مجھ کو مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق ڈالنا منظور نہیں ہے جس حالت میں ابتدا سے میری نیت میں جس کو اللہ تعالیٰ جَلَّ شَانُه خوب جانتا ہے.اس لفظ نبی سے مراد نبوت حقیقی نہیں ہے بلکہ صرف محدث مراد ہے.جس کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ بقیہ حاشیہ.آیا تھا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ تھا اور میں اُس میں کا تب تھا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر چوں کی نقل کرتا تھا مفتی محمد صادق صاحب نے جو یہ بیان کیا ہے کہ غالباًا حضرت صاحب کونون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی اس میں جناب مفتی صاحب کو غلطی لگی ہے.کیونکہ مفتی صاحب وہاں نہیں تھے.نون خفیفہ و ثقیلہ کی بحث تو دہلی میں مولوی محمد بشیر سہسوانی قسم بھوپالی کے ساتھ تھی اور تلاش حوالہ بخاری کا واقعہ لدھیانہ کا ہے.بات یہ تھی کہ لدھیانہ کے مباحثہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا تھا.بخاری موجود تھی لیکن اس وقت اس میں یہ حوالہ نہیں ملتا تھا.آخر کہیں سے توضیح تلویح منگا کر حوالہ نکال کر دیا گیا صاحب توضیح نے لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری میں ہے.“ اور اسی واقعہ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا کہ روایت نمبر ۳۰۶ میں حضرت حکیم الامت خلیفہ امسیح اول کی روایت سے ایک واقعہ بیان کیا گیا اور حضرت مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کی روایت سے اس کی مزید تصریح کے گئی ہے.مگر مفتی صاحب نے اُسے لدھیانہ کے متعلق بیان کیا ہے اور نونِ ثقیلہ والی بحث کے تعلق میں ذکر کیا ہے جو درست نہیں ہے.مفتی صاحب کو اس میں غلطی لگی ہے لدھیانہ میں نہ تو نونِ ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث ہوئی اور نہ اس قسم کے حوالہ جات پیش کرنے پڑے.نونِ ثقیلہ کی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر بھوپالی والے مباحثہ کے دوران میں پیش آئی تھی.اور وہ نونِ ثقیلہ کی بحث میں الجھ کر رہ گئے تھے.اور جہاں تک میری یاد مساعدت کرتی ہے اس مقصد کے لئے بخاری کا کوئی حوالہ پیش نہیں ہوا.الحق دہلی

Page 351

حیات احمد ۳۴۸ جلد سوم وآلہ وسلّم نے مُكَلَّم مراد لئے ہیں.یعنی محدثوں کی نسبت فرمایا ہے.عن ابی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ مِّنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُوْنَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُوْنُوْا أَنْبِيَاءَ فَاِنْ يَّكُ فِي أُمَّتِي مِنْهُمْ اَحَدٌ فَعُمَرُ صحیح بخاری جلد اول صفحه ۵۲۱ پاره ۱۴ باب مَنَاقِبُ عُمَر تو پھر مجھے اپنے مسلمانوں کی دلجوئی کے لئے اس لفظ کو دوسرے پیرا یہ میں بیان کرنے سے کیا عذر ہو سکتا ہے.سو دوسرا پیرا یہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر جگہ سمجھ لیں اور اس کو ( یعنی لفظ نبی کو ) کاٹا ہوا خیال فرما لیں اور نیز عنقریب یہ عاجز ایک رسالہ مستقلہ نکالنے والا ہے.جس میں ان شبہات کی تفصیل بقیہ حاشیہ سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے.دراصل یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محدثیت اور نبوت پر بحث ہوئی تھی.یہ مباحثہ محبوب رائیوں کے مکان متصل لنگے منڈی میں ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محدثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا جس میں حضرت عمرؓ کی محدثیت پر استدلال تھا.مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا.اور بخاری خود بھیج دی.مولوی محمد احسن صاحب نے حوالہ خود نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود نکال کر پیش کیا.اور یہ حدیث صحیح بخاری پارہ ۱۴ حصہ اوّل بَابُ مَنَاقِب عمر میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ فِيْمَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُوْنَ مِنْ غَيْرِانْ يَكُوْنُوْا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَّكُ مِنْ أُمَّتِى مِنْهُمْ اَحَدٌ فَعُمَرُ *.جب حضرت صاحب نے یہ حدیث نکال کر دکھا دی تو فریق مخالف پر گویا ایک موت وارد ہو گئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اسی پر مباحثہ ختم کر دیا.“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا روایتوں میں جو اختلاف ہے اس کے متعلق خاکسار ذاتی طور پر کچھ عرض نہیں کرتا کہ اصل حقیقت کیا ہے ہاں اس قدر درست ہے کہ نونِ ثقیلہ والی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر والے مباحثہ میں پیش آئی تھی اور بظاہر اس سے بخاری والے حوالہ کا جوڑ نہیں ہے.پس اس حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دہلی والے مباحثہ کا نہیں ہے.آگے رہا لا ہور اور لدھیانہ کا اختلاف سو اس کے متعلق میں کچھ عرض بخاری، کتاب فضائل أَصْحَابُ النَّبِيِّ صِلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَابُ مَنَاقِبِ عُمَرَ

Page 352

حیات احمد ۳۴۹ جلد سوم اور بسط سے تشریح کی جائے گی جو میری کتابوں کے پڑھنے والوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں اور میری بعض تحریرات کو خلاف عقیدہ اہل سنت و الجماعت خیال کرتے ہیں.سو میں انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب ان اوہام کے ازالہ کے لئے پوری تشریح کے ساتھ اِس رسالہ میں لکھ دوں گا.اور مطابق اہل سنت والجماعت کے بیان کر دوں گا.راق خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی مؤلف رساله توضیح مرام وازالة الاوهام ۳ رفروری ۱۸۹۲ء تبلیغ رسالت جلد ۲ صفحه ۹۴ تا ۹۶ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۲۵۷، ۲۵۸ طبع بار دوم ) بقیہ حاشیہ نہیں کرتا نیز خاکسار افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ سیرت المہدی کا حصہ سوم زیر تصنیف ہے پیر سراج الحق صاحب نعمانی فوت ہو چکے ہیں.پیر صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روایات کا ایک عمدہ خزانہ تھے.اصل بحث روایت کا مضمون ہے اور اس کے متعلق کوئی تنازعہ نہیں ہے صرف سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا حضرت مفتی صادق صاحب کا بیان تو خود نونِ ثقیلہ کے سلسلہ میں حضرت صاحب زادہ صاحب نے صاف کر دیا.لاہور اور لودھانہ کے واقعہ کے متعلق وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکے اس لئے کہ صاحب زادہ صاحب اس تحریر کے وقت فوت ہو چکے تھے.مگر لو دھانہ کا مباحثہ طبع شدہ موجود ہے اس مباحثہ کا موضوع تو احادیث کے مقام اور ان کی صحت کا معیار رہا.اس میں نہ کسی حدیث صحیح بخاری کے پیش کرنے کا مطالبہ ہوا اور نہ یہ واقعہ پیش آیا.میں ایک قطعی یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ لاہور ہی کا واقعہ ہے.اور میرا چشم دید واقعہ ہے.مباحثہ کے ختم کے بعد یہ سوال حضرت مخدوم الملة مولانا عبد الکریم رضی اللہ عنہ نے بطور اظہار تعجب کیا کہ جب آپ مختلف ورق الٹ رہے تھے.تو مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ بغیر کسی خاص باب یا مقام کی تلاش کے ورق الٹتے جارہے ہیں.اس پر حضرت نے فرمایا کہ مجھے تمام اور اق سفید دکھائے گئے جن پر کچھ لکھ نہ تھا اور جہاں یہ حوالہ جلی قلم سے لکھا ہوا تھا وہ مقام میں نے پیش کر دیا.غرض یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو حضرت کی صداقت اور نصرت الہی کے ظہور کا اعجاز ہے.(عرفانی الکبیر ) ا سیرت المہدی جلد اوّل صفحه ۴۹۵ تا ۷ ۴۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء.

Page 353

حیات احمد ۳۵۰ جلد سوم میں منشی میراں بخش کی کوٹھی کے جلسہ کا ذکر کر آیا ہوں.اس سلسلہ میں حضرت نے ایک اشتہار بھی شائع کیا تھا جو یہ ہے عام اطلاع اِس عاجز نے عوام کے اوہام اور وساوس دور کرنے کے لئے یہ بات قرین مصلحت سمجھی کہ ایک جلسہ عام میں ان الزامات کا شافی جواب سنایا جاوے جو علماء اس عاجز پر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنی کتابوں میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے گوار کب کو ملائک قرار دیا ہے معجزات اور لیلۃ القدر سے انکار ہے.وغیرہ وغیرہ.سوان بیجا الزامات کے رفع دفع کے لئے یہ تقریر سنائی جاوے گی اور تمام صاحبوں پر واضح رہے کہ اس جلسہ میں کوئی بحث نہیں ہو گی.بحث اور سوالات کے جواب دوسرے وقتوں میں ہو سکتے ہیں.اس جلسہ میں صرف اپنی تقریر سنائی جائے گی.لہذا عام اطلاع دی جاتی ہے کہ جو صاحب اس شرط سے تشریف لانا چاہیں کہ صرف اس عاجز کی تقریر کوسنیں اور اپنی طرف سے کوئی کلمہ منہ سے نہ نکالیں وہ اس تقریر کے سننے کے لئے چوٹی منڈی کوٹھی منشی میراں بخش صاحب میونسپل کمشنر میں بتاریخ ۳۱ / جنوری ۱۸۹۲ء بروز یکشنبہ وقت ڈیڑھ بجے دن کے تشریف لاویں.اور واضح رہے کہ اس جلسہ میں کسی قدر اس طریق فیصلہ کے بارے میں تقریر ہو گی جو انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سچوں کی تائید میں خود آسمان سے اس فیصلہ کو ظاہر کرتا ہے تا جھوٹے، چالاک، زبان دراز کو ملزم اور ساکت اور ذلیل کرے.فقط.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المطلـ میرزا غلام احمد عفی عنہ قادیانی مقام لاہور تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۹۴٬۹۳.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۶ ۲۵ طبع بار دوم )

Page 354

حیات احمد ۳۵۱ جلد سوم سفر لاہور کے ثمرات اس سفر لاہور کے ثمرات بہت خوشگوار نکلے تعلیم یافتہ نو جوانوں اور ملازمت پیشہ سلیم الفطرت مسلمانوں نے آپ کے دعوی کو قبول کیا.اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور مخالف الرائے علماء میں سے کسی کو یہ جرات نہ ہوئی کہ آسمانی فیصلہ کے موافق میدان میں آتا اور آپ کے مقابلہ میں اپنا مومن ہونا ان شرائط کے موافق ثابت کرتا جو قرآن کریم سے آپ نے پیش کی تھیں اور آج تک بھی کسی کو یہ حوصلہ نہیں ہوا.مشایخ اور سجادہ نشین بھی موجود تھے.اور الہام وکشوف کے مدعی بھی موجود تھے اور علماء ظاہر کا تو کیا کہنا لیکن جو لوگ اپنے مقرب باللہ ہونے کے دعاوی کرتے تھے ان کو بھی ہمت نہ ہوئی کہ مقابلہ میں آتے.ایک عجیب اعجاز یہ ایک نمایاں اعجاز ہے کہ جب بھی آپ نے غیر مذاہب کے لیڈروں کو جو مخالف الرائے مسلمانوں کو علمی یا روحانی مقابلہ کے لئے بلایا کرتے تھے بلا یا کسی نے کبھی جرات نہ کی بلکہ اس سے بچنے کے لئے اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیا.اپنے اپنے موقعہ پر میں بیان کروں گا کہ کس طرح اس میدان میں آپ مظفر و منصور ثابت ہوئے اور آپ نے جو فرمایا تھا کہ چہ ہیبت ہا بداند این جوان را که ناید کس بمیدان محمد ہمیشہ کے لئے ایک تاریخی حجت ثابت ہوا.مولوی محمد حسین اور آسمانی فیصلہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا کہ کسی عالم یا سجادہ نشین اور مدعی کشف و الہام کو اس مقابلہ میں آنے کا حوصلہ نہ ہوا.مولوی محمد حسین صاحب کا تو فرض اولین تھا کہ وہ اس مقابلہ میں آتا.ترجمہ.اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ مد صلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی ( مقابلہ پر ) نہیں آتا.

Page 355

حیات احمد ۳۵۲ جلد سوم مگر وہ علمی میدان میں بمقام لودھا نہ شکست کھا چکا تھا.اور آسمانی فیصلہ پر اس نے اشاعة السنه میں ترمیم کے عنوان سے ایک مضمون لکھا.اور اس طرح پر عوام کو اس روحانی مقابلہ میں بھی شکست کو مشکوک کرنا چاہا اور غیر متعلق باتیں لکھ کر مغالطہ دینے کی کوشش کی اور پھر عقاید کی بحث لے بیٹھا.اصل دعوی سے گریز کیا باوجود اس کے کہ اسے یہ اعتراف تھا کہ حضرت لاہور میں اسی مقصد سے آئے ہیں چنانچہ اشاعۃ السنہ میں لکھا ہے.اس فیصلہ کے دنبالہ میں کادیانی نے علمی مباحثہ کی طرف بھی اپنے مخالفوں کو بلایا اور یہ کہا ہے کہ میرے مخالف میرے دعویٰ وفات مسیح میں مجھ سے بحث نہ کر سکے اور اس بحث کو ناجائز شروط پیش کر کے ٹلا چکے تو میں نے یہ آسمانی گولا چلایا ہے وہ اب بھی لاہور میں مجھ سے بحث کریں تو میں مباحثہ کے لئے بھی حاضر ہوں.اور اس کے حواری اس پر یہ حاشیہ چڑھاتے ہیں کہ حضرت کا دیانی صرف اسی وجہ سے لاہور میں آئے ہیں کہ وہ مولوی ابو سعید محمد حسین سے ان کے بٹالہ چلے جانے سے پہلے بحث کریں.حضرت کا دیانی کو ان کے بٹالہ چلے جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ ابھی لاہور میں نہ آتے کئی ضروریات ان کو اس سفر میں مانع تھیں ان کو ملتوی کر کے وہ لاہور میں اس غرض مباحثہ سے آئے ہیں.اس دنبالہ کے آخر میں آپ نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ دعویٰ وفات مسیح میں قرآن اور حدیث آپ کے ساتھ ہے.قرآن میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ آنے والا مسیح حقیقی طور پر صلیب توڑے گا اور قتل خنازیر کا حکم دے گا اور اسلامی حکم جزیہ کو منسوخ کرے گا اور کتاب صحیح بخاری میں یہ نہیں لکھا کہ آنے والا مسیح ناصری بنی اسرائیلی ہوگا اس میں یہ لکھا ہے کہ وہ تم میں سے اور تمہارا ایک امام ہوگا اور لکھا ہے کہ مسیح وفات پاچکے ہیں یہ آپ کے فیصلہ اور حواشی اور دنبالہ کا خلاصہ ہے.“ مگر یہ ہمت نہ ہوئی کہ وفات مسیح پر مباحثہ کر لیتے.البتہ غیر معقول امورا اپنی تقریروں میں

Page 356

حیات احمد ۳۵۳ جلد سوم بیان کرتے رہے.اور جب یہ معلوم ہو گیا کہ آپ سیالکوٹ جا رہے ہیں مولوی محمد حسین صاحب نے ایک نوٹس مباحثہ کے لئے شائع کیا اور یہ اس دن میں شائع کیا گیا جس رات کو آپ کو سیالکوٹ روانہ ہونا تھا.سفر سیالکوٹ حضرت اقدس ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۸ء تک سیالکوٹ میں رہ چکے تھے اور قادیان کے بعد آپ سیالکوٹ کو بھی اپنا وطن سمجھتے تھے وہاں کے لوگوں نے چونکہ آپ کی عملی زندگی کو دیکھا ہوا تھا اس لئے وہاں جو جماعت قائم ہوئی.وہ نہایت مشہور اور معزز طبقہ کے اہل علم لوگوں کی جماعت تھی اور جماعت نے متعدد مرتبہ سیالکوٹ آنے کی دعوت دی.قیام لاہور میں حضرت مولوی عبدالکریم اسی مقصد سے آئے تھے کہ آپ جماعت کی طرف سے استدعا کریں حضرت نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا اور آپ فروری ۱۸۹۲ء کے دوسرے ہفتہ سیالکوٹ تشریف لے گئے اور حضرت حکیم سید حسام الدین صاحب کے مکان میں قیام فرمایا.حضرت حسام الدین صاحب کے ساتھ آپ کے تعلقات اس زمانہ میں قائم ہوئے جبکہ آپ سیالکوٹ میں مقیم تھے اور حضرت حسام الدین صاحب کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ انہوں نے حضرت سے طب پڑھی ان کا سارا خاندان سلسلہ میں داخل ہو گیا انہیں ہر قسم کی خدمات کا شاندار موقعہ نصیب ہوا.چونکہ سیالکوٹ کے لوگوں نے آپ کے قیام سیالکوٹ کے زمانہ میں آپ کے کردار و سیرت کو دیکھا ہوا تھا اور ان کے دلوں میں آپ کی پاکیزہ زندگی اور غیرت اسلامی کے مظاہروں کا اثر خاص تھا.اس لئے انہیں عام طور پر آپ کے دعاوی پر تعجب تو ہوا مگر انہوں نے آپ کی مخالفت میں کوئی ایسا قدم اٹھانے کی جرات نہ کی جو شرافت اور اخلاق سے گرا ہوا ہوتا.بعض مخالف الرائے علماء بھی موجود تھے مگر ان میں سے جو ممتاز تھے جیسے مکرم مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب مرحوم امام جامع مسجد چھاؤنی انہوں نے بیعت کر لی اور حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب

Page 357

حیات احمد ۳۵۴ جلد سوم کے لئے تو عوام کے قلوب میں ایک خاص کشش تھی.حقیقت اسلام اور معارف قرآن کریم پران کی تقریروں اور درس میں کثرت سے لوگ شریک ہوتے تھے ان کی بیعت سے بھی متاثر تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی قسم کی ذلیل حرکات آپ کے مقابلہ میں نہیں ہوئیں لوگ آتے اور سوالات بھی کرتے اور حضرت جواب دیتے.بعض اوقات اس سلسلہ میں تقریر بھی فرماتے.چونکہ سیالکوٹ کے لوگ آپ کے اعلیٰ کردار سے واقف تھے اور ان کے دلوں میں آپ کے لئے خاص عزت تھی اس لئے یہاں اس قسم کی بیہودگی نہیں ہوئی جو دہلی میں ہوئی اور لاہور سے بھی بہت زیادہ ( با وجود اختلاف عقیدہ) احترام آپ کا ہوا.اور آپ کے سلسلہء بیعت میں ممتاز شرفائے سیالکوٹ اور مشہور علمائے دین داخل ہو گئے اگر چہ یہ کوئی بڑی جماعت نہ تھی مگر ان میں کا ہر ایک فرد اپنی جگہ پر ایک امت اور جماعت تھا.حضرت مولوی عبدالکریم کا سکہ اُن کی قرآن دانی اور خطابت اور غیرتِ اسلام کی وجہ سے تعلیم یافتہ اور دوسرے لوگوں پر تھا.ایسا ہی صدر بازار کی جامع مسجد کے امام حضرت مولوی ابو یوسفی مبارک علی صاحب بھی سلسلہ بیعت میں داخل ہو گئے اور معزز خواتین بھی داخل سلسلہ ہوئیں.چنانچہ انہی دنوں میں مکرم سر ظفر اللہ خاں صاحب کی والدہ ماجدہ جو صاحب کشف و الہام تھیں داخل سلسلہ ہوئیں اس وقت تک چودھری نصر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی مگر وہ مخالف بھی نہ تھے وہ اپنے معاصرین میں ایک ممتاز اور مشہور قانون دان ہونے کے علاوہ اپنی عملی اسلامی زندگی میں بھی مُشَارٌ إِلَيه تھے.کا حاشیہ.حضرت مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک استاد مولوی فضل احمد صاحب مرحوم کے صاحبزادہ تھے اور حضرت اقدس ان کی بڑی رعایت رکھتے تھے اور ہمیشہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے مگر افسوس ہے کہ خلافت ثانیہ کے زمانہ میں انہوں نے انکار خلافت کیا.حالانکہ انہوں نے ایک زمانہ میں حضرت خلیفتہ اسی ثانی کی مدح میں ایک قصیدہ بھی لکھا تھا.بہر حال اب وہ فوت ہو چکے ہیں.ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے اور ان پر وہ حقیقت جو اس فانی دنیا میں کسی وجہ سے مشتبہ ہوئی کھل چکی ہوگی.میں تو اپنے مولیٰ کریم سے ان کی ستاری اور مغفرت ہی کی دعا کرتا ہوں.عرفانی الکبیر

Page 358

حیات احمد ۳۵۵ جلد سوم غرض ان ایام میں سیالکوٹ میں ایک عجیب رونق تھی حضرت حکیم حسام الدین صاحب کی گلی میں ہر وقت ایک اثر دہام زیارت کرنے والوں کا ہوتا تھا ان میں سے بعض وہ لوگ بھی ہوتے جو حضرت کے پہلے قیام سیالکوٹ کے زمانہ میں آپ کے اخلاقی اور عملی کمالات کی وجہ سے محبت کرتے تھے.اس سفر کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بیعت کرنے والی خواتین میں وہ بزرگ بی بی مسماة حیات بی بی بنت میاں فضل الدین رضی اللہ عنہا بھی تھی جن کے مکان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عبد ملازمت سیالکوٹ میں مقیم تھے اور وہ آپ کے حسنات اور اخلاق فاضلہ کی چشم دید گواہ تھی.اس نے حضرت اقدس کی اس زمانہ کی زندگی کے حالات بھی بیان کئے ہیں جو سیرت المہدی میں شائع ہوئے تھے.حضرت نے اپنے اس قیام سیالکوٹ میں خود موصوفہ حیات بی بی کو بلایا اور بڑے تلطف سے اُن سے باتیں کیں یہ بزرگ بی بی ایک سو آٹھ سال کی عمر میں فوت ہوئی ہیں.سیالکوٹ کی جماعت کی خصوصیات سیالکوٹ کی جماعت کو یہ امتیاز اور خصوصیت حاصل ہے کہ یہ سلسلہ میں سب سے پہلی جماعت ہے جس نے حضرت اقدس کے دعاوی کے متعلق قلم سے کام لے کر سلطان القلم کے انصار میں سابق ٹھہرے.حضرت مولوی عبد الکریم نے رسالہ قـول الـفـصيـح لکھا حضرت مولوی مبارک علی صاحب نے قول الجمیل لکھا اور حضرت میر حامد شاہ صاحب نے پہلے دعوت دہلی پھر الْقَوْلُ الْفَضْلُ مَاهُوَ بِالْهَذْلِ اور پھر ایک رسالہ الجواب کے نام سے مولوی سراج الدین صاحب انسپکٹر ڈاک خانہ جات جموں وکشمیر کے ایک مضمون کے جواب میں لکھا.جو انہوں نے ریاست مولور سے نکلنے والے ایک اخبار میں جس کے ایڈیٹر سراج الدین ایڈیٹر چودہویں صدی تھے شائع کیا جو بہت مقبول ہوا.یہ میں نے ان کی ان تصانیف کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حضرت اقدس کے دعاوی کی تائید و تصدیق یا معترضین کے جواب میں لکھی تھیں.

Page 359

حیات احمد ۳۵۶ جلد سوم مولوی محمد حسین صاحب سیالکوٹ میں مولوی محمد حسین صاحب سیالکوٹ پہنچے اور انہوں نے مباحثہ کے لئے بعض لوگوں کو واسطہ بنا کر بخیال خویش ایک ذلیل شکست کی تلافی چاہی اور یہ اس وقت پہنچے کہ آپ جلد واپس ہو رہے تھے آپ نے ان لوگوں کو جو پیغام لے کر آئے تھے گزشتہ مباحثہ لودھانہ اور دہلی کے واقعات کا مختصر ذکر کیا کہ اب مباحثہ کی ایسے شخص کے ساتھ کیا صورت ہوسکتی ہے جو کفر کا فتویٰ دے چکا.اب قرآن کریم کے معیار پر وہ اپنے علماء اور مشایخ کو میدان میں لائیں یہ آسمانی فیصلہ ہوگا.اور اب آسمانی فیصلہ اسی طرح پر ہو گا جس طرح ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی سنت جاری ہے.میں اگر اُس کی طرف سے نہیں ہوں جیسا کہ لوگ کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو کسی مفتری کو مہلت نہیں دیتا لیکن اگر اس نے میری نصرت کی جیسا کہ اس نے مجھے اپنے الہامات میں بشارات دی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وعدے پورے ہو کر رہیں گے زمین و آسمان ٹل جاویں مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے نہیں مل سکتے تو میری تائیدات آسمانی اور میرے مخالفوں کی ناکامی خود ایک کھلا ہوا نشان اور فیصلہ ہو گا.پس آپ لوگ خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کریں ان پیغام لانے والوں میں مکرم شیخ غلام حیدر صاحب تحصیلدار بھی تھے.جو بعد میں جہلم میں کرم دین کے مقدمہ کے وقت تحصیلدار تھے اور ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے وقت گورداسپور میں تھے اور حضرت اقدس سے ایک مخلصانہ محبت رکھتے تھے اگر چہ بظاہر انہوں نے بیعت نہیں کی مگر وہ حضرت اقدس کی راستبازی.تقویٰ و طہارت نفس کے ایسے قائل تھے کہ اپنے احباب کی مجلسوں میں یہ ذکر کرتے رہتے اور حضرت کے لئے بڑا جذ بہ ادب و احترام رکھتے تھے.سیالکوٹ سے کپورتھلہ سیالکوٹ کچھ روز قیام کر کے آپ کپورتھلہ تشریف لے گئے.وہاں کی جماعت نے پہلے بھی آپ سے وعدہ لیا تھا اور اس سفر میں بھی انہوں نے لاہور آ کر وعدہ کیا اور آپ نے سیالکوٹ

Page 360

حیات احمد ۳۵۷ جلد سوم سے واپسی پر کپورتھلہ جانے کا وعدہ کرلیا.سب سے پہلی مرتبہ بیعت کے قریب زمانہ میں بھی آپ نے وعدہ کیا تھا اور یکا یک بغیر اطلاع کپورتھلہ پہنچ گئے چنانچہ حضرت منشی ظفر احمد رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق فرمایا.ایک دفعہ منشی روڑ ا صاحب مرحوم اور میں نے لدھیانہ میں حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ کبھی حضور کپورتھلہ میں تشریف لائیں ان دنوں کپورتھلہ میں ریل نہ آئی تھی.حضور نے وعدہ فرمایا کہ ہم ضرور کبھی آئیں گے.اس کے بعد جلد ہی حضور بغیر اطلاع دیئے ایک روز کپورتھلہ تشریف لے آئے اور یکہ خانہ سے اتر کر مسجد فتح والی نزدیگه خانه واقع کپورتھلہ تشریف لے گئے.حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے.مسجد سے حضور نے ملا کو بھیجا کہ منشی روڑا صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دو.میں اور منشی روڑا صاحب کچہری میں تھے کہ ملا نے آکر اطلاع دی کہ مرزا صاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں اور انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ اطلاع کر دو منشی روڑ ا صاحب نے بڑی تعجب آمیز نا راضگی کے لہجہ میں پنجابی میں کہا.”دیکھو تاں تیری مسیت وچ آ کے مرزا صاحب نے ٹھہر نا سی.میں نے کہا.چل کر دیکھنا تو چاہئے.پھر منشی صاحب جلدی سے صافہ ( پگڑی باندھ کر میرے ساتھ چل پڑے.مسجد میں جا کر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے ہوئے تھے.اور حافظ حامد علی صاحب پاؤں دبا رہے تھے اور پاس ایک پیالہ اور چمچہ رکھا تھا.جس سے معلوم ہوا کہ شاید آپ نے دودھ ڈبل روٹی کھائی تھی.منشی روڑا صاحب نے عرض کی کہ حضور نے اس طرح تشریف لانی تھی؟ ہمیں اطلاع فرماتے.ہم کرتا رپور اسٹیشن پر حاضر ہوتے.حضور نے جواب دیا.اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی ہم نے وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنا تھا.- پھر حضور کو ہم اپنے ہمراہ لے آئے اور محلہ قائم پورہ کپورتھلہ میں جس مکان میں پرانا ڈاکخانہ بعد میں رہا ہے وہاں حضور کو ٹھہرایا.وہاں حضور کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو گئے.کرنیل محمد علی خاں صاحب اور مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ.حضور تقریر فرماتے رہے.کچھ

Page 361

حیات احمد ۳۵۸ جلد سوم تصوف کے رنگ میں.کرنیل صاحب نے اعلان کیا تھا جس کے جواب میں یہ تقریر تھی.حاضرین بہت متاثر ہوئے.مولوی غلام محمد صاحب جو کپورتھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ مجھے آپ بیعت کر لیں.مگر حضور نے بیعت کرنے سے انکار کیا.بعد میں مولوی مذکور سخت مخالف رہے.غرض ایک دن قیام فرما کر حضور قادیان تشریف لے گئے.اور لدھیانہ سے آئے تھے ہم کرتار پور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے یعنی منشی روڑا صاحب.محمد خاں صاحب اور میں.اگر کوئی اور بھی ساتھ کرتار پور گیا ہو تو مجھے یاد نہیں.کرتار پور کے اسٹیشن پر ہم نے ظہر عصر کی نماز جمع کی حضرت صاحب کے ساتھ.نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نما ز جمع کر سکتے ہیں اور قصر کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے.ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کر سکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے مزدلفہ میں نماز قصر کی.حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے.مخالفین کی شرارت کپورتھلہ کی جماعت ریاست میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی تھی اور اس کے مقابلہ کی کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی اس لئے کہ سب کے سب صاحب اثر لوگ تھے مولوی محمد حسین بٹالوی نے یہاں کے بعض اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے ملاؤں کے پاس ایک اشتہار بہ عنوان بددعانامہ بھیجا جس میں کپورتھلہ پہنچ کر مباحثہ کرنے کا ادعا تھا وہ جانتا تھا کہ مباحثہ ہوگا تو نہیں.حضرت اقدس کے پاس وہ اشتہار پہنچا تو آپ نے اسی قسم کا جواب دیا جو سیالکوٹ میں دیا تھا.اور مزید فرمایا کہ یہ شخص لودھانہ کی ندامت کو مٹانے کے لئے ایسی حرکات کر رہا ہے اللہ تعالیٰ کے آسمانی فیصلہ کی طرف یہ لوگ کیوں نہیں آتے.

Page 362

حیات احمد ۳۵۹ جلد سوم کپورتھلہ کی اہمیت تاریخ سلسلہ میں تاریخ سلسلہ میں جیسے لدھیانہ کو ایک اہمیت حاصل ہے جماعت کپورتھلہ کو اپنے اخلاص اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق و محبت میں ایک خاص امتیاز حاصل ہے اور اس جماعت کی قربانیاں ایک غیر معمولی رنگ رکھتی ہیں میں یہاں ان کی تفصیل نہیں کر سکتا کہ اس جماعت کے افراد میں قربانیوں کے لئے باہم رشک تھا اور ان میں سے ہر ایک کے اندر یہ جذ بہ موجود تھا کہ وہ دوسروں سے آگے رہے پیچھے نہ رہے ان کے اس قسم کے رشک کے بعض واقعات ایک لذیذ ایمان پیدا کرتے ہیں وہ آپس میں ایک بُنْيَانِ مَرْصُوص اور ایک دوسرے کے لئے بھی اخوت اور محبت کا بے نظیر جذبہ رکھتے تھے لیکن کبھی ان میں اگر ایک کو دوسرے سے شکایت ہوتی تو وہ کسی دنیوی امر میں نہیں بلکہ اسی سلسلہ قربانی میں ہوتی.میں اس جگہ ایک واقعہ بیان کرنے سے نہیں رک سکتا.جو حضرت ظفر المظفر رضی اللہ عنہ کی ایک قربانی کا ہے.ان کے ہی الفاظ میں سنو.ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے.کہ میں حاضر خدمت ہوا.حضور نے فرمایا.کہ آپ کی جماعت ساٹھ روپے ایک اشتہار کے صرف کے لئے جس کی اشاعت ضرورت تھی برداشت کر لے گی.میں نے اثبات میں جواب دیا اور کپورتھلہ واپس آ کر اپنی اہلیہ کی سونے کی تلڑی فروخت کر دی اور احباب جماعت میں سے کسی سے ذکر نہ کیا.اور ساٹھ روپے لے کر میں اڑ گیا ( والد صاحب کے یہی لفظ ہیں.محمد احمد ) اور لدھیانہ جا کر پیش خدمت کئے.چند روز بعد منشی روڑ ا صاحب بھی لدھیانہ آگئے.میں وہیں تھا.ان سے حضور نے ذکر فرمایا.کہ آپ کی جماعت نے بڑے اچھے موقعہ پر امداد کی.منشی روڑا صاحب نے عرض کی جماعت کو یا مجھے تو پتہ بھی نہیں.اس وقت منشی صاحب مرحوم کو معلوم ہوا کہ میں اپنی طرف سے آپ ہی روپیہ دے آیا ہوں.وہ مجھ پر بہت ناراض ہوئے اور حضور سے عرض کیا.اس نے ہمارے ساتھ بہت دشمنی کی جو ہم کو نہ بتایا.حضور نے منشی روڑ ا صاحب سے فرمایا.منشی صاحب خدمت کرنے کے بہت سے موقعہ آئیں

Page 363

حیات احمد ۳۶۰ گے آپ گھبرائیں نہیں.منشی صاحب اس کے بعد عرصہ تک مجھ سے ناراض رہے.“ جلد سوم ނ اس روایت کے متعلق ہر چند کسی تصریح کی ضرورت نہیں مگر میں نے حضرت ظفر.( جن کو میرے ساتھ لڑہی محبت کے تعلقات اور بے تکلفی تھی ) دریافت کیا تھا کہ آپ نے کپورتھلہ کی جماعت کو کیوں آگاہ نہ کیا.حضرت نے آپ کی جماعت فرمایا تھا.ان کی طبیعت میں بذلہ اور ظرافت بھی تھی کہنے لگے کہ قرآن شریف میں حضرت ابراہیم ایک شخص کو امت کہا گیا تو کیا میں اکیلا جماعت کپور تھلہ نہیں ہو سکتا اور حضرت نے تو مجھے فرمایا تھا.میں نے عزم کر لیا کہ میں ہی اس سعادت کو حاصل کروں.حضرت منشی اروڑے خاں صاحب کو جب معلوم ہوا تو با وجود کمال اتحاد اور محبت کے وہ منشی صاحب سے کچھ دنوں کشیدہ رہے.کیوں؟ محض اس لئے کہ اس قربانی میں ان کو حصہ نہ ملا.ی تھی روح عمل جماعت کپورتھلہ کی قربانیوں میں اور حضرت منشی اروڑے خان کا وہ واقعہ تو جماعت نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی تقریر میں بارہا سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد وہ کچھ اشرفیاں لے کر حاضر ہوئے اور بے تاب ہو گئے.وہ نہایت سادہ طبع بزرگ تھے ان کی زندگی کے حالات کسی دوسرے موقعہ پر مجھے یا کسی اور کوتو فیق ملی تو پیش کئے جاویں گے.پھر جماعت کپورتھلہ کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ کپورتھلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ ☆ الصلوۃ والسلام کے کئی نشانات ظاہر ہوئے سب سے بڑا نشان وہاں کی مسجد کے متعلق ہے.حمید حاشیہ.دہلی سے واپسی پر حضور نے لدھیانہ میں قیام فرمایا.وہاں جلسہ تھا اور سیالکوٹ وغیرہ شہروں سے بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے.حضور جلسہ گاہ میں بیٹھے تھے کہ منشی فیاض علی صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ حضور ہماری مسجد کا مقدمہ دائر ہے شہر کے تمام رئیس اور تمام حاکم کپورتھلہ کے غیر احمدیوں کی امداد کر رہے ہیں اور ہم چند غریب احمدیوں کی بات بھی کوئی نہیں سنتا.حضور دعا فرما ئیں.اس پر حضور نے فرمایا.اگر ہمارا سلسلہ سچا ہے تو یہ مسجد تم لوگوں کومل جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.حاکم اول نے فیصلہ غیر احمدیوں کے حق میں دیا.اور چار ورق پر لکھا اور کہا کہ ہم فیصلہ کل سنا دیں گے.وہاں

Page 364

حیات احمد ۳۶۱ جلد سوم اور حضرت منشی محمد خاں رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت کو ان کی اولاد کے متعلق الہام ہوا کہ اولاد کے ساتھ نیک سلوک کیا جاوے گا.( مجھے اس وقت یہی الفاظ یاد ہیں ) اور معجزانہ رنگ میں اس کی تجلی ہوئی.ریاستیں سازشوں کا اڈا ہوتی ہیں.اکثر لوگ کوشش کر رہے تھے کہ وہ بگھی خانہ کی افسری جو خاں صاحب کی وفات پر خالی ہو گئی تھی ان کو ملے.مہاراجہ ولایت گئے ہوئے تھے جوڑ توڑ ہوتے رہے.لیکن جب مہاراجہ نے سرزمین ہندوستان پر قدم رکھا تو حضرت منشی محمد خاں صاحب کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے خان صاحب عبدالمجید خاں صاحب کے تقرر کے احکام دیئے یہ تھا پہلا ظہور اس نشان کا.اور بھی متعد دنشانات کپورتھلہ میں سلسلہ کے دشمنوں پر قہری تجلی کے رنگ میں ہوئے اور ایک احمدی مہتاب نامی کے ذریعہ حضرت اقدس کی صداقت کا نشان ظاہر ہوا.حضرت منشی عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.ریاست کپورتھلہ میں ایک گاؤں شیرانوالی ہے جہاں مسمی مہتاب احمدی رہتا تھا.ایک بقیہ حاشیہ.دستور تھا کہ حاکم اپنا بستہ گھر لے جایا کرتے تھے.چنانچہ اس کا بستہ بھی اس کے گھر پہنچا.اس کے ایک آدمی کی زبانی ہمیں معلوم ہوا جو کہ جمعدار تھا کہ رات کے دو بجے وہ حاکم اٹھا.خدا جانے اس کے خواب میں کیا نظر آیا.اس نے اپنا بستہ طلب کیا.اور اس فیصلہ کے دو ورق آخر کے پھاڑ دیئے اور مقدمہ کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں کر دیا.جس میں لکھا کہ غیر احمد یوں کو اس مسجد میں نہ اذان دینے کا حق ہے نہ جماعت کرنے کا.اگر ان کو نماز پڑھنا ہے تو احمدی امام کے پیچھے پڑھیں.اگر اس فیصلہ کو کوئی دیکھے تو اسے بڑا تعجب ہو.اور دو ورق کا ایسا مضمون ہے کہ گویا غیر احمدیوں کو مسجد دینے والا ہے.لیکن آخر دو ورق میں احمدیوں کے حق میں فیصلہ کیا گیا ہے.غیر احمدیوں نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل جج صاحب کے پاس کی جو کہ ہندو تھا.اس نے ماتحت عدالت کا فیصلہ بحال رکھا.پھر اس کی اپیل عدالت بالا میں ہوئی.وہاں ایک آریہ افسر تھا.ہمارے وکیل نے کہا کہ اب تم لوگوں کو یہ مسجد نہیں ملنے کی.کیونکہ آریہ احمدیوں کے سخت دشمن ہیں اس حاکم نے دونوں فریق سے پچیس پچیس روپیہ لے کر مثل ایک بڑے وکیل کے پاس بھیج دی کہ اس میں تمہاری کیا رائے ہے.کسی زمانہ میں وہ وکیل اور میاں حبیب الرحمن صاحب احمدی کپورتھلہ میں ہم مکتب تھے.وہ ان کے پاس گئے.اور مقدمہ کا حال بیان کیا.اور

Page 365

حیات احمد ۳۶۲ جلد سوم سال اس گاؤں میں سخت طاعون پڑی اس نے اپنے کوٹھے پر کھڑے ہو کر آواز دی کہ اے لوگو! جس نے طاعون سے بچنا ہے.وہ میرے گھر میں داخل ہو جائے.اس کی آواز پر بہت سے غیر احمدی اس کے گھر میں آگئے.اس نے دعا کی کہ اے اللہ اگر تیرا مسیح سچا ہے تو ان کو طاعون سے بچالے خدا کی قدرت جو لوگ اس کے گھر میں آئے ان میں سے کوئی بھی طاعون سے نہ مرا.نہ بیمار ہوا.گاؤں کے اور بہت سے لوگ مر گئے.“ بشارت 66 کپورتھلہ کی جماعت دنیا میں ہمارے ساتھ ہے اور قیامت ( یا جنت ) میں بھی ہمارے ساتھ رہے گی.“ کپورتھلہ میں آپ تین مرتبہ تشریف لے گئے تھے پہلی مرتبہ آمد کے متعلق او پر لکھا گیا ہے بقیہ حاشیہ.امداد چاہی.اس نے جواب دیا کہ منشی صاحب حکیم جعفر علی میرے استاد بھی آئے تھے انہوں نے بھی اس مقدمہ کا حال بیان کر کے امداد چاہی تھی.میں نہ آپ کا کہنا مانوں گا نہ حکیم صاحب کا.جو رائے لکھوں گا از روئے انصاف لکھوں گا.چنانچہ اس نے ہمارے حق میں رائے ظاہر کی اس کے بعد غیر احمدیوں کی اپیل کونسل میں ہوئی.کونسل کے تین ججوں میں سے ایک غیر احمدی تھا.جب غیر احمدی اس کے پاس جاتے تو وہ ان کو تسلی دیتا اور کہتا کہ آخر کار یہ اپیل ہمارے پاس ہی آئے گی.ہم تم لوگوں کو یہ مسجد دلا دیں گے.تم کچھ فکر نہ کرو.اس نے احمدیوں سے کہہ بھی دیا کہ یہ مسجد پرانے مسلمانوں کو دی جائے گی.تم نے نیا مذہب اختیار کیا ہے.تم نئی مسجد بناؤ اور یہ بھی کہا کہ انگلی پیشی میں فیصلہ سنا دیا جائے گا لیکن اگلی پیشی سے پہلے ہی وہ مر گیا.اس کی موت اس طرح واقع ہوئی کہ ایک دن کچہری جانے سے پہلے وہ حقہ پی رہا تھا کہ خون کی قے آئی.اس نے مقدمہ کی مثل منگوائی تا فیصلہ غیر احمدیوں کے حق میں لکھ دے.لیکن مثل آنے سے پہلے ہی اسے دوسرے قے آئی.الغرض وہ مر گیا.غیر احمدیوں کی انتہائی مخالفت اور کوشش پر بھی مسجد احمدیوں کے قبضہ میں رہی.یہ مجسٹریٹ جو اس نشان کا موضوع ٹھہرا میاں عزیز بخش تھا.جو ریاست میں بہت بڑا اعزاز رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کو توفیق اور مہلت نہ دی کہ وہ خلاف فیصلہ لکھے وَلِلَّهِ الْحَمْد ( عرفانی الكبير )

Page 366

حیات احمد ۳۶۳ جلد سوم اور دوسری مرتبہ کے متعلق حضرت عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں.وو دوسری دفعہ تین دن رہے اور علی گوہر صاحب افسر ڈاک خانہ کے مکان پر ٹھہرے اس وقت بیعت شروع ہو چکی تھی اور تیسری دفعہ جب تشریف لے گئے تو مسیحیت کا دعویٰ فرما چکے تھے اس دفعہ پندرہ روز ٹھہرے.میاں سردار خاں صاحب نے اپنا مکان خالی کر دیا تھا.جس میں حضور ٹھہرے تھے.ایک روز کا ذکر ہے.جبکہ حضور تیسری بار تشریف لائے تھے کہ میرا نواسہ حافظ محمود الحق مکان کی بالائی سیڑھی سے گر کر لڑکھتا ہوا نیچے تک آیا.حضور سے کسی نے عرض کیا کہ ان کا نواسہ اوپر کے مکان سے نیچے آپڑا ہے.حضور نے فرمایا اُس کو چوٹ نہیں لگی اُسے لے آؤ دیکھا تو واقعی اُسے کوئی چوٹ نہیں لگی.“ حضرت منشی علی گوہر صاحب رضی اللہ عنہ سَابِقُونَ الاَوَّلُون میں سے تھے اور جالندھر کے رہنے والے تھے جیسا کہ ذکر ہوا آپ محکمہ ڈاک خانہ میں ملازم تھے براہین کی تالیف کے زمانہ سے تعلق تھا اور یہ تعلق حضرت چودہری رستم علی صاحب کے ذریعہ ہوا تھا.جب کہ وہ جالندھر میں متعین تھے.66 کپورتھلہ سے جالندھر کپورتھلہ میں دو ہفتہ کے قریب قیام فرما کر آپ جالندھر تشریف لے گئے.اس وقت تک کپورتھلہ میں ریل نہ آئی تھی.حضور نے کرتا پور تک بگھیوں میں سفر کیا.ریاست کا بگھی خانہ حضرت منشی محمد خاں صاحب کے زیر اقتدار تھا.کرتا ر پور سے بعض احباب حضرت منشی ظفر احمد اور حضرت منشی عبد الرحمن صاحب وغیرھم جالندھر چلے گئے اور دوسرے احباب بھی برابر آتے جاتے رہے.سید ھے کپورتھلہ سے جالندھر آتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب لکھتے ہیں کہ " آپ نے معمولی راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ جالندھر کا قصد کیا“ ان کا مطلب یہ ہے کہ قادیان کو آنے کی بجائے جالندھر چلے گئے.یہ غلط اور بے معنی بات

Page 367

حیات احمد ۳۶۴ جلد سوم ہے حضرت سیالکوٹ سے کپورتھلہ ایفائے عہد کے لئے آئے تھے.ورنہ اس سفر میں آپ کا منزل مقصودلودھانہ تھا.چنانچہ جالندھر میں بھی قریباً دو ہفتہ قیام کر کے آپ لودہا نہ تشریف لے گئے اور لودھانہ سے قادیان آئے جیسا کہ حضرت اقدس کے ایک مکتوب بنام حضرت چودھری رستم علی صاحب سے ظاہر ہے آپ لکھتے ہیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مکرمی و محی اخویم سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ یہ عاجز قادیان میں آ گیا ہے.اور ایک رسالہ دافع الشبهات تالیف کرنے کی فکر میں ہے براہ مہربانی وہ کتاب جو آپ نے مولوی غلام حسین صاحب سے لی ہے یعنی تَأْوِيلُ الْأَحَادِیث شاہ ولی اللہ صاحب ضرور مجھ کو بھیج دیں.ہرگز تو قف نہ فرما دیں کہ اس کا دیکھنا ضروری ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۹ رمئی ۱۸۹۲ء مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۷ ۵۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) نوٹ.دافع الشبهات کتاب بعد میں آئینہ کمالات اسلام (دافع الوساوس ) کے نام سے شائع ہوئی گویا اس وقت آپ نے اس کتاب کی تالیف کا ارادہ فرمایا ( عرفانی الکبیر ) مولوی محمد حسین صاحب کا منشاء یہ تھا کہ گویا حضرت اس سے مباحثہ کرنے میں گریز کرتے ہیں وہ مباحثہ تو ۱۸۹۱ ء میں کر چکا تھا اور اُس نے اُس وقت اور بعد کے واقعات سے ثابت کر دیا کہ وہ اس قابل نہیں کہ اُس سے مباحثہ کر کے وقت ضائع کیا جاوے اور اب آپ نے آسمانی فیصلہ ہی کو معیار صداقت قائم کر دیا تھا.چونکہ مولوی محمد حسین صاحب شکست کھا کر اس کی ندامت دور کرنا چاہتے تھے اس لئے ایسی غلط باتیں کرتے رہتے.بہر حال حضرت اقدس جالندھر میں قیام فرما ہوئے.جالندھر میں بھی آپ دو تین مرتبہ تشریف لے گئے.اور جالندھر کا یہ سفر آخری تھا

Page 368

حیات احمد جیسے کپورتھلہ کا.۳۶۵ جلد سوم قیام جالندھر کے ایام کے واقعات میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے (الحکم میں جو روایات اپنی زندگی میں شائع کردیں) دو عجیب واقعات بیان کئے ہیں ان کو یہاں الحکم مورخہ ۲۱ اپریل ۱۹۳۲ء سے درج کرتا ہوں..جالندھر کے مقام پر ایک باپ اور بیٹا جو دونوں بیعت کئے ہوئے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے باپ نے اپنے بیٹے کے متعلق شکایت کی کہ یہ میری خبر نہیں لیتا.حضرت نے باپ کی اس شکایت کو ایسا محسوس کیا کہ فوراً بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حَبِّهِ مِسْكِيْنًا وَ يَتِيمَا وَ آسِيرًا.اور فرمایا کہ یہی سمجھ کر خدمت کر دیا کرو.حضرت نے کچھ ایسے رنگ میں فرمایا کہ اس کی چیخ نکل گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا اور عرض کی کہ آئندہ پوری تنخواہ خدمت میں پیش کر دیا کروں گا.پھر اس میں سے جو چاہیں مجھے دے دیں.نوٹ.یہ تھا حضور کی تربیت واصلاح کا طریق جو کچھ فرماتے تھے وہ دل سے نکلتا تھا اور مؤثر ہوتا تھا سوائے ان ظالم طبع انسانوں کے جن کے قلوب پر مہر ہو.والدین کی اطاعت اور خدمت کے لئے بار بار آپ نصیحت فرمایا کرتے تھے اور اکثر اس حدیث کی طرف بھی اشارہ فرماتے کہ وہ شخص بڑا ہی بد قسمت ہے جس کے ماں باپ زندہ ہوں.اور اس کے گناہ معاف نہ ہوں.“.جالندھر کے مقام پر حضرت اقدس کی خدمت میں نواح جالندھر کا ایک ساہوکار آیا اور اس نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ آپ کو دیکھ کر میرے دل سے بُت پرستی کا خیال جاتا رہا.میری درخواست ہے کہ میری نجات کا کچھ سامان ہو جائے.اور عرض کیا کہ میری دعوت قبول فرمائی جائے اور حضور نے اس کی دعوت قبول کی اور اس نے بستی بابا خیل میں ایک معزز مسلمان کے گھر میں دعوت کا انتظام کیا حضور پیدل چل کر وہاں تشریف لے گئے.آپ کے خدام بھی آپ لى الدهر : 9

Page 369

حیات احمد ۳۶۶ جلد سوم کے ساتھ تھے اس نے نہایت اخلاص سے ہر قسم کے مکلف کھانے تیار کرائے اور خود ہاتھ دھلانے پر آمادہ ہوا بعض دوستوں نے کہا بھی کہ ہم ہاتھ دھلا دیتے ہیں مگر اس نے کہا کہ میری نجات کا سامان ہونے دو.چنانچہ خود ہاتھ دھلائے کھانا کھا چکنے کے بعد پھر ہاتھ دھلائے.حضرت نے اس کی درخواست پر دعا کی.جالندھر کے قیام کے سلسلہ میں حضرت منشی عبدالرحمن صاحب نے ایک عجیب واقعہ تحریر کیا جو الحکم ۷ نومبر ۱۹۳۴ء کے صفحہ ۴ پر درج کیا تھا تکمیل حالات کے لئے یہاں درج کرتا ہوں.حضور کپورتھلہ سے جالندھر تشریف لے گئے اور بارہ تیرہ روز وہاں مقیم رہے جالندھر میں مخالفت کا بڑا زور تھا بعض لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ پولیس سے جو انگریز تھا شکایت کی کہ ایک شخص قادیان سے آیا ہوا ہے وہ کہتا ہے میں مسیح موعود ہوں.اس کے قیام سے یہاں فساد کا اندیشہ ہے.آپ اسے حکم دیں وہ یہاں سے چلا جائے.اس شکایت کی بناء پر وہ انگریز آفیسر علی الصباح حضور کی قیام گاہ پر آیا.بہت سے مخلص جمع تھے.حضور نے اس کے واسطے کرسی منگائی اور دوسری کرسی پر خود تشریف فرما ہوئے.انگریز افسر نے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے آئے ہیں حضور علیہ السلام نے ایک لمبی تقریر فرمائی وہ خاموش سنتا رہا اور اس قدر متاثر ہوا کہ بار ہار اس کے منہ سے سبحان اللہ ، سبحان اللہ نکلتا تھا.حضور کی تقریر کے بعد اس نے کہا کہ ” جب تک آپ کی مرضی ہو قیام فرما ئیں کوئی شخص آپ سے فساد کرنے نہ پائے گا یہ کہہ کر اور سلام کر کے واپس چلا گیا.“ جالندھر جود و آبہ لسبت جالندھر کا مرکزی شہر ہے اور آج کل تو وہ مشرقی پنجاب کا ایک بہت بڑا شہر ہے اس وقت مذہبی جماعتوں کا بھی مرکز تھا.دوآبہ لسبت جالندھر میں وحدت وجود کے مسئلہ کا بڑا زور تھا.اور پرانے زمانے کے پیر اور مشایخ اسی قسم کی تعلیم دیتے تھے.آریہ سماج کے بڑے مشہور و معروف لیڈرمنشی رام صاحب جو بعد میں سوامی شرد ہانند کے نام سے موسوم ہوئے اور گورو کل کانگڑی کے بانی اور جالندھر بار کے ممتاز وکیل تھے.ان کا ہیڈ کوارٹر بھی یہی تھا اور دراصل آریہ سماج میں اس عہد کے لیڈروں میں دوآبہ ہی کا بڑا دخل تھا.مگر

Page 370

حیات احمد ۳۶۷ جلد سوم جالندھر میں آریہ سماج کی طرف سے کسی قسم کی تحریک مقابلہ یا مباحثہ نہیں ہوئی البتہ بعض وجودی طبع لوگ آ کر کبھی سوال کرتے مگر وہ حضرت کے دعاوی پر نہیں اس لئے کہ وہ تو سب کو خدا ہی سمجھتے تھے وقتاً فوقتاً مختلف مجلسی تقریریں بھی ہو جاتی تھیں.قیام اودھانہ اور آسمانی فیصلہ لاہور.سیالکوٹ.کپورتھلہ.جالندھر اور لودھانہ کے سفر میں قریباً پانچ مہینے گزر گئے.لودھانہ کے قیام میں آپ نے نشانِ آسمانی تالیف فرمایا.آسمانی فیصلہ میں تو آپ نے اُن علامات اور نشانات کا ذکر فرمایا جو قرآن کریم نے بطور معیار بَيْنَ الْمُؤمنين والكافر مقرر فرمائے ہیں.اور نشان آسمانی میں آپ نے اس امر کی طرف توجہ کی کہ شَهَادَتُ الْمُلْهِمِيْن آپ کے متعلق کیا ہے؟ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جو بشارات آپ کے متعلق دی تھیں اور جو علامات آپ کے ظہور کے لئے مقرر فرمائی تھیں ان کا ظہور ہو گیا.لیکن اولیاء امت نے اپنے کشوف اور الہامات میں بھی آپ کے دعوی کی صداقت کے متعلق کچھ بیان کیا ہے؟ اس مقصد کے آپ نے یہ رسالہ قیام لودھانہ میں تصنیف فرمایا اس میں سائیں گلاب شاہ کی پیشگوئی کے علاوہ شاہ نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کے مشہور عام قصیدہ کو بطور پیشگوئی آپ کی صداقت میں پیش کیا ہے.اور آپ نے واقعات کی روشنی میں نشان آسمانی میں اس کی شرح فرمائی اس قصیدہ کے متعلق خود حضرت نعمت اللہ صاحب نے اس کو الہامی قصیدہ قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا قدرت کردگار می بینم حالت روزگار می بینم از نجوم این سخن نے گوئم بلکه از کردگار می بینم اس سے صاف ظاہر ہے کہ واقعات عالم ان کو کشفی رنگ میں دکھائے گئے اور انہوں اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ان واقعات کا انکشاف کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کا

Page 371

حیات احمد ۳۶۸ جلد سوم اظہا ر فر مایا اور نہ صرف یہ بلکہ آپ کے بعد سلسلہ کی ترقیات جس ہاتھ پر ہونے والی تھیں اس کا بھی ذکر کیا ، فرماتے ہیں.ا ح م و دال مے خوانم نام آن نام دار می بینم صورت و سیرتش چو پیغمبر علم و حلمش شعار می بینم مهدی وقت و عیسی دوران هر دو را شہسوار می بینم اور پھر اس سلسلہ میں فرمایا :.دور او چول شود تمام به کام پسرش یادگار می بینم یہ ایک لمبا قصیدہ ہے اس کی اشاعت پر مخالف طبقہ میں پھر ایک جوش پیدا کیا بعض نے کہا یہ جعلی ہے اور کسی نے اس کا مصداق کسی اور کو بنانے کی کوشش کی مگر خاک ڈالنے سے چاند چھپ نہیں سکتا جس قدر اعتراض ہوتے گئے اسی قدر اس کی صداقت نمایاں ہوتی گئی.نشان آسمانی میں اس کی تفصیل موجود ہے یہ کتاب آپ نے لودھانہ میں تصنیف کی تھی.اور قادیان آنے کے بعد ایک ہفتہ کے اندر اس کی اشاعت وقوع میں آئی چنانچہ اس کی تاریخ اشاعت ۲۶ رمئی ۱۸۹۲ ء ہے.قیام لودھانہ اور میر عباس علی صاحب میر عباس علی صاحب کا ذکر متعدد مرتبہ آ رہا ہے اس کا ذکر ایک مخلص فی الدین اور براہین احمدیہ کے آغاز میں اول المعاونین کے طور پر آیا.جیسے اس زمانہ میں مولوی محمد حسین ایک صادق خادم کی حیثیت میں نظر آتے ہیں اور بالآخر مولوی محمد حسین صاحب پہلے اول الکافرین ہوئے اور انہوں نے اپنا یہ اثر عباس علی پر ڈالا اور وہ اپنے مقام سے گر گیا.آسمانی فیصلہ کی اشاعت پر محمد حسین نے اس کو اکسایا کہ وہ مقابلہ پر آئے اور رسول نمائی کے ادعا سے اور ایک صوفی وصافی کے طور پر پیش کیا حضرت اقدس نے جواباً لکھا کہ.یا صوفی خویش را بروں آر ترجمہ.یا تو اپنے صوفی کو باہر نکال.یا پھر بد گمانی سے تو بہ کر.یا توبه کن ز بدگمانی *

Page 372

حیات احمد خط و کتابت متعلق آسمانی فیصلہ ۳۶۹ جلد سوم لودھانہ کے اس قیام میں صوفی عباس علی نے حضرت سے خط و کتابت کی اور یہ خط و کتابت آسمانی فیصلہ کے سلسلہ میں تھی.حضرت اقدس اپریل کے آغاز یا مارچ کے اواخر میں لودھانہ تشریف لے آئے تھے مئی کے آغاز میں میر عباس علی صاحب نے آپ کی خدمت میں خط لکھا آپ نے اس کا جواب دیا اور پھر جیسا کہ خط و کتابت کے پڑھنے سے معلوم ہوگا.حضرت نے آخری خط ۹ رمئی ۱۸۹۲ء کو لکھا اور اس کے بعد صوفی صاحب اور شیخ بٹالوی کو جرات نہ ہوئی کہ وہ میدان میں آتے یہ خط و کتابت بطور ضمیمہ اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ مورخہ ۱۲ رمئی ۱۸۹۲ء میں شائع ہو گئی اس وقت تک بٹالوی صاحب کا فتویٰ کفر شائع ہو گیا تھا.اور مکفرین کو بڑا ناز تھا کہ ہمارے اس آخری حربہ سے سلسلہ عالیہ کی ترقی کو روک دیں گے بلکہ وہ اپنی مجلسوں میں یہ کہتے تھے کہ اب سلسلہ کو مٹا دیا جائے گا.ا حاشیہ.یہ خط و کتابت اگر چہ نشان آسمانی میں شائع ہو چکی ہے مگر قریب الفہم کرنے کے لئے یہاں بھی درج کرتا ہوں.از جانب عباس علی.بخدمت مرزا غلام احمد قادیانی عرض ہے کہ جواب فیصلہ آسمانی مندرجہ الشـاعة السـنــه صفحه ۵۱ جو ایک صوفی صاحب بالمقابل آپ سے بموجب آپ کے وعدے کے کرامت دیکھنے یا دکھلانے کی درخواست کرتے ہیں.بھیج کر التماس ہے کہ آپ کو اس میں جو کچھ منظور ہو تحریر فرما دیں کہ اس کے موافق عمل درآمد کیا جاوے اور مضمون صفحہ ۵۱ بغور ملاحظہ ہو کہ فریق ثانی آپ کے عاجز ہونے پر کام شروع کرے گا.الراقم عباس علی از لودها نه ۶ رمئی ۱۸۹۲ء الــجـــــــواب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَالسَّلَامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى ائما بعد بخدمت میر عباس علی صاحب واضح ہو کہ آپ کا رقعہ پہنچا.آپ لکھتے ہیں کہ جو ایک صوفی صاحب بالمقابل آپ سے بموجب آپ کے دعوئی کے اشاعۃ السنہ میں کرامت دیکھنے یا دکھلانے کی درخواست

Page 373

حیات احمد جلد سوم شیخ بٹالوی کے فتویٰ تکفیر کی کیفیت اور شیخ بٹالوی نے تو اپنے رسالہ میں یہ بڑا بول بولا تھا کہ ” میں نے ہی اس کو اونچا کیا اور میں ہی گراؤں گا اور واقعات نے بتا دیا کہ وہ نہ صرف خود مٹ گیا بلکہ نہایت ناکام و نامرادی کی حالت میں اس دنیا سے گزر گیا اس کی حقیقت انجام المکذبین کے سلسلہ میں مستقل رسالہ کے طور پر شائع ہو چکا ہے بہر حال حضرت اقدس نے اس فتویٰ کفر کی حقیقت کے اظہار کے لئے ذیل کا اعلان شائع کیا.اس فتوے کو میں نے اوّل سے آخر تک دیکھا.جن الزامات کی بناء پر یہ فتویٰ لکھا ہے انشاء اللہ بہت جلد ان الزامات کے غلط اور خلاف واقعہ ہونے کے بارے میں ایک رسالہ اس عاجز کی طرف سے شائع ہونے والا ہے.جس کا نام دافع الوساوس ہوگا بائیں ہمہ مجھ کو ان لوگوں کے لعن وطعن پر کچھ افسوس نہیں اور نہ بقیہ حاشیہ.کرتے ہیں.آپ کو اس میں جو کچھ منظور ہوتحریر فرماویں.فقط.اس کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر در حقیقت کوئی صوفی صاحب اس عاجز کے مقابلہ پر اٹھے ہیں اور جو کچھ فیصلہ آسمانی میں اس عاجز نے لکھا ہے اس کو قبول کر کے تصفیہ حق اور باطل کا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ لازم ہے کہ وہ چوروں کی طرح کارروائی نہ کریں.پردہ سے اپنا منہ باہر نکالیں.اور مرد میدان بن کر ایک اشتہار دیں اسی اشتہار میں بتفریح اپنا نام لکھیں.اور اپنا دعویٰ بالمقابل ظاہر فرما ئیں اور پھر اس طرز پر چلیں.جس طرز پر اس عاجز نے فیصلہ آسمانی میں تصفیہ چاہا ہے.اگر وہ طرز منظور نہ ہو تو فریقین میں ثالث مقرر ہو جائیں.جو کچھ وہ ثالث حسب ہدایت اللہ اور رسول کے روحانی آزمائش کا طریق پیش کریں وہی منظور کیا جائے.چوروں اور نامردوں اور مختوں کی طرح کا رروائی کرنا کسی صوفی صافی کا کام نہیں ہے.جبکہ اس عاجز نے علانیہ اپنی طرف سے دو ہزار جلد فیصلہ آسمانی کی چھپوا کر اس غرض سے تقسیم کی ہے تا اگر اس فرقہ مکفرہ میں کوئی صوفی اور اہل صلاح موجود ہے تو میدان میں باہر آ جائے.تو پھر بُرقع کے اندر بولنا کس بات پر دلالت کر رہا ہے.کیا یہ شخص مرد ہے یا عورت جو اپنے تئیں صوفی کے نام سے ظاہر کرتا ہے.کیا اس عاجز نے بھی اپنا نام لکھنے سے کنارہ کیا ہے.پھر جس حالت میں میری طرف سے مردانہ کارروائی ہے اور کھلے کھلے طور سے اپنا نام لکھا ہے

Page 374

حیات احمد ۳۷۱ جلد سوم کچھ اندیشہ بلکہ میں خوش ہوں کہ میاں نذیر حسین اور شیخ بٹالوی اور ان کے اتباع نے مجھ کو کا فر اور مردود اور ملعون اور دجال اور ضال اور بے ایمان اور جہنمی اور اکفر کہہ کر اپنے دل کے وہ بخارات نکال لئے جو دیانت اور امانت اور تقویٰ کے التزام سے ہرگز نہیں نکل سکتے تھے اور جس قدر میری اتمام حجت اور میری سچائی کی تلخی سے ان حضرات کو زخم پر زخم پہنچا اس صدمہ عظیمہ کا غم غلط کرنے کے لئے کوئی اور طریق بھی تو نہیں تھا بجز اس کے کہ لعنتوں پر آ جاتے مجھے اس بات کو سوچ کر بھی خوشی ہے کہ جو کچھ یہودیوں کے فقیہوں اور مولویوں نے آخر کار حضرت مسیح علیہ السلام کو تحفہ دیا تھا وہ بھی تو یہی لعنتیں اور تکفیر تھی جیسا کہ اہل کتاب کی تاریخ اور ہر چہار انجیل سے ظاہر ہے تو پھر مجھے مثیل مسیح ہونے کی حالت میں ان لعنتوں کی آوازیں سن کر بہت ہی خوش ہونا چاہئے کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کو حقیقت دجّالیہ کے ہلاک اور فانی کرنے کے لئے حقیقت عیسویہ سے متصف کیا.ایسا ہی اس نے اس حقیقت کے بقیہ حاشیہ.تو یہ صوفی کیوں چھپتا پھرتا ہے.مناسب ہے کہ اسی طرح مقابل پر اپنا نام لکھیں کہ میں ہوں فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں اور اگر ایسا نہ کریں گے تو منصف لوگ سمجھ لیں گے کہ یہ کارروائی ان لوگوں کی دیانت اور انصاف اور حق طلبی سے بعید ہے.اب بالفعل اس سے زیادہ لکھنا ضروری نہیں.جس وقت اس صوفی محجوب پردہ نشین کا چھپا ہوا اشتہار میری نظر سے گزرے گا.اس وقت اس کی درخواست کا مفصل جواب دوں گا.ابھی تک میرے خیال میں ایسے صوفی اور عنقا میں کچھ فرق معلوم نہیں ہوتا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى الراقم خاکسار غلام احمد.۷ رمئی ۱۸۹۲ء مکرر یہ کہ ایک نقل اس کے چھپنے کے لئے اخبار پنجاب گزٹ سیالکوٹ میں بھیجی گئی تا کہ یہ کارروائی مخفی نہ رہے.بالآخر یا در ہے کہ اگر اس دفعہ کے چھپنے اور شائع ہونے کے بعد کوئی صوفی صاحب میدان میں نہ آئے اور بالمقابل کھڑے نہ ہوئے اور مرد میدان بن کر بتفریح اپنے نام کے اشتہار شائع نہ کئے تو سمجھا جائے گا کہ دراصل کوئی صوفی نہیں.صرف شیخ بٹالوی کی ایک مفتر یانہ کارروائی ہے.فقط مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۶۴۰،۶۳۹ مطبوعه ۶۲۰۰۸)

Page 375

حیات احمد ۳۷۲ جلد سوم متعلق جو جو نوازل و آفات تھے ان سے بھی خالی نہ رکھا.لیکن اگر کچھ افسوس ہے تو صرف یہ کہ بٹالوی صاحب کو اس فتوے کے طیار کرنے میں یہودیوں کے فقیہوں سے بھی زیادہ خیانت کرنی پڑی.اور وہ خیانت تین قسم کی ہے:.اوّل یہ کہ بعض لوگ جو مولویت اور فتویٰ دینے کا منصب نہیں رکھتے وہ صرف مکفرین کی تعداد بڑھانے کے لئے مفتی قرار دیئے گئے.دوسری یہ کہ بعض ایسے لوگ جو علم سے خالی اور علانیہ فسق و فجور بلکہ نہایت بدکاریوں میں مبتلا تھے وہ بہت بڑے عالم متشرح متصور ہو کر ان کی مہریں لگائی گئیں.تیسرے ایسے لوگ جو علم و دیانت رکھتے تھے مگر واقعی طور پر اس فتوے پر انہوں نے مہر نہیں لگائی بلکہ بٹالوی صاحب نے سراسر چالا کی اور افترا سے خود بخودان کا نام اس میں جڑ دیا.ان تینوں قسم کے لوگوں کے بارے میں ہمارے پاس تحریری ثبوت ہیں اگر بٹالوی صاحب یا کسی اور صاحب کو بقیہ حاشیہ.جواب الجواب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بَعْدَ الْحَمْدِ وَ الصَّلوة ـ بخدمت میرزا غلام احمد صاحب.سلام مسنون آپ کا عنایت نامہ مورخہ ۷ ارمئی میرے نیاز نامہ کے جواب میں وارد ہوا.اسے اوّل سے آخر تک پڑھ کر سخت افسوس ہوا.کہ آپ نے دانستہ ٹلانے کے واسطے سوال از آسمان جواب از ریسمان کے موافق عمل کر کے بیچنا چاہا ہے اصل مطلب تو آپ نے چھوڑ دیا یعنی آزمائش کے واسطے وقت اور مقام مقرر نہیں کیا بلکہ پھر آپ نے اپنی عادت قدیمی کے مطابق کاغذی گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے.جناب من ! جس طرح آپ نے فیصلہ آسمانی میں چھاپا تھا.اسی طرح اشاعۃ السنہ میں ان صوفی صاحب نے جواب ترکی بہ ترکی شائع کر دیا ہے آپ کو تو غیرت کر کے بلا تحریک دیگر خود ہی طیار ہو جانا چاہئے تھا.برعکس اس کے تحریک کرنے پر بھی بہانہ کرتے ہیں اور ٹلاتے ہیں صوفی صاحب نے خود قصداً اپنا نام پوشیدہ نہیں رکھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی مصلحت سے ظاہر نہیں

Page 376

حیات احمد ۳۷۳ جلد سوم اس میں شک ہے تو وہ لاہور میں ایک جلسہ منعقد کر کے ہم سے ثبوت مانگیں.تاسیہ روئے شود ہر کہ در دغش باشد.یوں تکفیر کوئی نئی بات نہیں.ان مولویوں کا آبائی طریق یہی چلا آتا ہے کہ یہ لوگ ایک بار یک بات سُن کر فی الفور اپنے کپڑوں سے باہر ہو جاتے ہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ عقل تو ان کو دی ہی نہیں کہ بات کی تہہ تک پہنچیں اور اسرار غامضہ کی گہری حقیقت کو دریافت کر سکیں اس لئے اپنی نافہمی کی حالت میں تکفیر کی طرف دوڑتے ہیں.اور اولیاء کرام میں سے ایک بھی ایسا نہیں کہ ان کی تکفیر سے باہر رہا ہو.یہاں تک کہ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ جب مہدی موعود آئے گا تو اس کی بھی مولوی لوگ تکفیر کریں گے.اور ایسا ہی حضرت عیسی جب اتریں گے تو ان کی بھی تکفیر ہو گی ان باتوں کا جواب یہی ہے کہ اے حضرات آپ لوگوں سے خدا کی پناہ اور سُبحَانَہ خود اپنے برگزیدہ بندوں کو آپ لوگوں کے شر سے بچاتا بقیہ حاشیہ.کیا نا حق آپ نے کلمات گستاخانہ صوفی صاحب کی نسبت لکھ کر ارتکاب عصیاں کیا سو آپ کو اس سے کیا بحث ہے.آپ کو اپنے دعوئی کے موافق طیار ہونا چاہئے.مولوی محمد حسین صاحب خود ذمہ وار ہیں.فوراً مقابلہ پر موجود کر دیں گے.لہذا اب آپ ٹلا ئیں نہیں مرد میدان نہیں اور صاف لکھیں کہ فلاں وقت اور فلاں جگہ پر موجود ہو کر سلسلہ آزمائش و اظہار کرامت متد عویہ شروع کیا جائے گا.یہ عاجز بصد بجز و نیاز عرض کرتا ہے کہ آپ اپنے دعوی میں اگر سچے ہیں تو حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو.میدان میں آؤ.دیکھو یا دکھاؤ.صاف باطن لوگ دغا باز نہیں ہوتے حیلہ بہانہ نہیں کرتے.برکات آسمانی والے کمیٹیاں مقرر کیا کرتے ہیں.رجسٹر کھلوایا کرتے ہیں اس قسم کی کارروائی صرف دھوکہ دینا اور دفع الوقتی پر مبنی ہے.افسوس صد افسوس، اللہ سے ڈرو اور قیامت پر نظر رکھو.ایسی مریدی پیری پر خاک ڈالو.جس مطبع میں آپ اپنا مضمون چھاپنے کے لئے بھیجیں اس عاجز کے مضمون کو بھی زیر قدم چھاپ دیں.عریضہ نیاز.میر عباس علی از لدھیانہ.روز دوشنبه - ۹ رمئی ۱۸۹۲ء مکتوبات احمد جلد اصفحه ۶۴۱،۶۴۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء)

Page 377

حیات احمد ۳۷۴ جلد سوم آیا ہے ورنہ آپ لوگوں نے تو ڈائن کی طرح اُمت محمدیہ کے تمام اولیاء کرام کو کھا جانا چاہا تھا اور اپنی بدزبانی سے نہ پہلوں کو چھوڑا نہ پچھلوں کو اور اپنے ہاتھ سے ان نشانیوں کو پوری کر رہے ہیں جو آپ ہی بتلا رہے ہیں.تعجب کہ یہ لوگ آپس میں بھی تو نیک ظن نہیں رکھتے.تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ موحدین کی بے دینی پر مدار الحق میں شاید تین سو کے قریب مہر لگی تھی.پھر جبکہ تکفیر ایسی سستی ہے تو پھر ان کی تکفیروں سے کوئی کیوں ڈرے.مگر افسوس تو یہ ہے کہ میاں نذیر حسین اور شیخ بٹالوی نے اس تکفیر میں جعل سازی سے بہت کام لیا ہے.اور طرح طرح کے افترا کر کے اپنی عاقبت درست کر لی ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۲۷۲،۲۷۱ طبع بار دوم ) (نوٹ) اس فتویٰ تکفیر کے متعلق جو کچھ مندرجہ بالا اعلان میں شائع کیا گیا ہے.اس کے جواب جواب الجواب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى بعد ہذا بخدمت میر عباس علی صاحب واضح ہو کہ آپ کا جواب الجواب مجھ کو ملا جس کے پڑھنے سے بہت ہی افسوس ہوا.آپ مجھ کو لکھتے ہیں کہ صوفی صاحب کے مقابلہ پر مردِ میدان بنیں اگر سجے ہو تو حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو.آپ کی اس تحریر پر مجھ کو رونا آتا ہے.صاحب میں نے کب اور کس وقت حیلہ بہانہ کیا.کیا آپ کے نزدیک وہ صوفی صاحب جن کے نام کا بھی اب تک کچھ پتہ و نشان نہیں.میدان میں کھڑے ہیں.میں نے آپ کو ایک صاف اور سیدھی بات لکھی تھی کہ جب تک کوئی مقابل پر نہ آوے اپنا نام نہ بتاوے.اپنا اشتہار شائع نہ کرے کس سے مقابلہ کیا جائے.میں کیوں کر اور کن وجوہ سے اس بات پر تسلی پذیر ہو جاؤں کہ آپ یا شیخ بٹالوی اس صوفی گمنام کی طرف سے وکیل بن گئے ہیں.کوئی وکالت نامہ نہ آپ نے پیش کیا اور نہ بٹالوی نے.

Page 378

حیات احمد ۳۷۵ جلد سوم دستاویزی ثبوت میں متعدد خطوط حضرت کی خدمت میں آئے اور بعض خطوط کو میں نے الحکم میں شائع کر دیا تھا تاہم بطور نمونہ یہاں دوخطوں کو درج کیا جاتا ہے.پہلا خط حضرت حافظ محمد عظیم صاحب رضی اللہ عنہ کا ہے یہ پٹیالہ میں تعلیم پا کر وہیں مقیم ہو گئے تھے.دراصل ضلع ہوشیار پور کے موضع بنگہ تھا نہ بلا چور کے باشندے تھے.نہایت ذی علم اور فارسی عربی کی کافی دستگاہ رکھتے تھے.اگر میں غلطی نہیں کرتا تو انہوں نے حضرت مولوی عبداللہ خاں صاحب سے استفادہ کیا تھا.چونکہ عرصہ سے پٹیالہ ہی میں رہتے تھے اور اپنے علم وفضل کی بناء پر زمرہ علمائے بیٹیالہ میں سمجھے جاتے تھے.انہوں نے قادیان آ کر شادی بھی کی تھی مگر رشتہ نکاح بوجوہات قائم نہ رہا ضلع ہو گیا.ضلع ہوشیار پور سے.دو مکشوف البصر بزرگ سلسلہ میں داخل ہوئے ایک یہ اور دوسرے حافظ ابراہیم صاحب یہ دونوں بزرگ اپنی نیکی اور تقویٰ کے لحاظ واجب الاحترام تھے بہر حال مولوی محمد حسین صاحب کے فتویٰ کفر کی حقیقت اس سے بقیہ حاشیہ.اور اب تک مجھے معلوم نہیں ہوا کہ اُس صوفی پردہ نشین کو وکیلوں کی کیوں ضرورت پڑی.کیا وہ خودستر میں ہے یا دیوانہ یا نابالغ بجز اس کے کیا سمجھنا چاہئے کہ اگر فرض کے طور پر کوئی صوفی ہی ہے تو کوئی فضول اور مفتری آدمی ہے جو بوجہ اپنی مفلسی اور بے سرمائینگی کے اپنی شکل دکھانی نہیں چاہتا.میں متعجب ہوں، یہ سیدھی بات آپ کو سمجھ نہیں آتی.یہ کس قسم کی بات ہے کہ صوفی تو عورتوں کی طرح چھپتا پھرے اور مرد میدان بن کر میرے مقابلہ پر نہ آوے اور الزام اس عاجز پر ہو کہ کیوں صوفی کے مقابل پر کھڑے نہیں ہوتے.صاحب من ! میں تو اللہ جل شانہ کے فضل سے کھڑا ہوں.اور خدا تعالیٰ کے یقین دلانے سے قطعی طور پر جانتا ہوں کہ اگر کوئی صوفی وغیرہ میرے مقابل پر آئے گا تو خدا تعالیٰ اس کو سخت ذلیل کرے گا.یہ میں نہیں کہتا بلکہ اُس واحد لا شریک عزاسمہ نے مجھ کو خبر دی ہے جس پر مجھ کو بھروسہ ہے.ایسے صوفیوں کی میں کس سے مثال دوں وہ ان عورتوں کی مانند ہیں جو گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھیں اور پھر کہیں کہ ہم نے مردوں پر فتح پائی.ہمارے مقابل پر کوئی نہیں آیا.میں پھر مکر رکہتا ہوں کہ بٹالوی کی تحریر سے مجھ کو سخت شبہ ہے اور اس کے ہر روزہ افتراء پر خیال کر کے میرے دل میں یہی جما ہوا ہے کہ یہ صوفی کا تذکرہ محض فرضی طور پر اُس نے اپنی اشاعۃ السنه میں لکھ دیا ہے ور نہ مقابل کا دم مارنا اور پردہ میں رہنا کیا راستباز آدمیوں کا کام ہے.اس صوفی کو چاہئے کہ

Page 379

حیات احمد جلد سوم ظاہر ہوتی ہے ایسا ہی مولوی عبداللہ خاں صاحب نے اپنے اعلان کے ذریعہ ایک غلط فہمی کو دور کیا جو اشاعۃ السنہ میں ان کے نام سے پیدا ہوتی تھی چنانچہ انہوں نے اشتہار دیا.اگر کوئی جگہ حضور کے رسالہ میں خالی ہو دے تو یہ اشتہار مندرجہ ذیل میرے مکرم وشفیق استاد کا طبع فرما کر ممنون فرمائیں اشتہار جو فتوی بحق امامنا.مخدومنا.مسیحنا و مسیح الدنیا مرزا غلام احمد صاحب قادیانی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں شائع کیا ہے اس کے علماء پٹیالہ کی فہرست میں میرے بعض احباب نے میرے ہمنام مولوی عبداللہ بٹالوی کے نام کو میرا نام خیال کیا ہے اور بعض نے دریافت کے لئے میرے نام عنایت نامجات بھی ارسال فرمائے ایڈیٹر اشاعۃ السنه بقیہ حاشیہ.میری طرح کھلے اشتہار دے کہ میں حسب دعوت فیصلہ آسمانی تمہارے مقابل پر آیا ہوں.اور میں فلاں ابن فلاں ہوں.اگر اس اشتہار کے شائع ہونے اور میرے پاس پہنچائے جانے کے بعد میں خاموش رہا تو جس قدر الفاظ آپ نے اپنے اس خط میں لکھے ہیں کہ ” حیلہ بہانہ کیوں کرتے ہو صاف باطن دغل باز نہیں ہوتے.یہ سارے الفاظ آپ کے میری نسبت صحیح ٹھہریں گے ورنہ دشنام دہی سے زیادہ نہیں.جب انسان کی آنکھ بند ہو جاتی ہے تو اس کو روزِ روشن بھی رات ہی معلوم ہوتی ہے.اگر آپ کی آنکھ میں ایک ذرہ بھی نور باقی ہوتا تو آپ سمجھ لیتے کہ حیلہ بہانہ کون کرتا ہے.کیا وہ شخص جس نے صاف طور پر دو ہزار اشتہار تقسیم کر کے ایک دنیا پر ظاہر کر دیا کہ میں میدان میں کھڑا ہوں کوئی میرے مقابل پر آوے یا وہ شخص کہ چوروں کی طرح غار کے اندر بول رہا ہے.جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں خدا تعالیٰ کی اُن پر لعنت ہے.پس یہ صوفی اگر در حقیقت کوئی انسان ہے تو محمد حسین کی ناجائز وکالتوں کے بُرقع میں مخفی نہ رہے اور خدا تعالیٰ کی لعنت سے ڈرے.اگر اس کے پاس حق ہے تو حق کو لے کر میدان میں آ جائے.جبکہ مجھے کو کوئی معین شخص سامنے نظر نہیں آتا تو میں کس سے مقابلہ کروں.کیا مردہ سے یا ایک فرضی نام سے.اور آپ کو یادر ہے کہ میری نظر میں یہ صوفی ایک خارجی وجود رکھتا تو میں جیسا کہ میرے پر ظاہر ہوتا اس کے مرتبہ کے لحاظ سے باخلاق اس سے کلام کرتا مگر جبکہ میری نظر

Page 380

حیات احمد ۳۷۷ جلد سوم نے ناظرین کو اور بھی شبہ میں ڈالا کہ اس نام پر یہ نوٹ ایزاد کیا کہ ” یہ مولوی صاحب بھی مرزا صاحب کے پہلے معتقد تھے.لہذا میں جمیع احباب کو اطلاع دیتا ہوں کہ مولوی عبداللہ پٹیالوی اور شخص ہیں اور وہ کبھی پہلے بھی مرزا صاحب کے معتقد نہ تھے اور نہ ہیں باقی رہا نیاز مندسو میں اسی طرح اس فدائے قوم و کشتہ اسلام کا معتقد و نیاز مند ہوں.المشتهر خاکسار محمد عبداللہ خاں دوم مدرس عربی مہندر کالج پٹیالہ ۴ / ذیعقد ۱۳۰۹۰ھ موجب کفر است تکفیر تو اے کانِ کرم و این مواہیر و فتاویٰ رہزنِ راہِ کرم آرزو دارم که جان و مال قربانت کنم این تمنایم برآرد کار ساز قادرم چوں بتابم روز تو حاشا و کلا ایس گجا من فدائے روئے تو اے رہبر دیں پرورم دین مرده را بقالب جان در آمد از دست چوں ازیں انفاس اعراضی کنم اے مہترم بقیہ حاشیہ.میں صرف یہ ایک فرضی نام ہے جس کا میرے خیال میں خارج میں وجود ہی نہیں تو اس کے حق میں سخت گوئی محض ایک فرضی نام کے حق میں سخت گوئی ہے.ہاں سخت گوئی آپ نے کی ہے سو میں آپ کے اس ترک ادب اور لعن طعن اور سب وشتم کو خدا تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں.فقط راق مرزا غلام احمد مکرر واضح رہے کہ اب اتمام حجت کر دیا گیا.آئندہ ہماری طرف ایسی پر تعجب تحریر میں ہرگز ارسال نہ کریں.جب یہ تحریر یں چھپ جائیں گی منصف لوگ خود معلوم کر لیں گے کہ کس کی بات انصاف پر مبنی ہے اور کس کی سراسر ظلم اور تعصب سے بھری ہوئی ہے.میرزا غلام احمد ور مئی ۱۱۰۱۸۹۲ر عید الفطر ۱۳۰۹ھ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۶۴۱ تا ۶۴۳ مطبوعه ۶۲۰۰۸)

Page 381

حیات احمد جلد سوم من کجا و ایں طور بد عہدی و بے راہی کجا خادم تا زنده هستم و از دل و جاں چاکرم حمله با کردند این غولان راه حق به من ره زدند ے گر نبودے لطف یزداں رہبرم ایس یہودی سیرتاں قدر ترانه شناختند چوں نبی ناصری نفریں شنیدی لاجرم ہر کہ تکفیرت کند کا فرہماں ساعت شود حق نگهدارد مرا ازین زمره نامحترم بر من اعمی به بخش اے حضرت مہر منیر گر خطا دیدی ازاں بگذر که من مستغفرم تا روانم هست در تن از دل و جانم غلام لطف فرما کز تذلل بر در تو حاضرم نور ماه دین احمد بر وجودت شد تمام آمدی در چار دہ اے بدر تام و انورم حسب تبشیر نبی بر وقت خود کر دی ظهور السّلام اے رحمتِ ذات جلیل و اکبرم مشکلات دینِ حق بر دست تو آسماں شدند مے کنی تجدید دیں از فضلِ ربّ ذوالکرم از ره منت درونم را مُسلمان کرده گر نباشم جاں نثار آستانت کا فرم راقم خاکسار مولوی حافظ عظیم بخش پٹیالوی - ۲۴ مئی ۱۸۹۲ء ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۲۷۳ طبع بار دوم )

Page 382

حیات احمد ۳۷۹ جلد سوم آسمانی فیصلہ پر بٹالوی کی جرح اور اس کا جواب آسمانی فیصلہ کے اعلان پر جیسا کہ لکھا جا چکا ہے بٹالوی نے یا اس کے رفقائے کفر نے مقابل میں آنے کی ہمت تو نہ کی اس پر غیر معقول سوالات کر کے اس موت کے پیالہ کوٹلانا چاہا.حضرت نے اس نشان آسمانی میں ان کے غیر معقول سوالات کا بھی جواب دیا.آپ نے فرمایا.غرض میں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ قرآن اور حدیث کو چھوڑتے ہیں اور کلام الہی کے الٹے معنے کرتے ہیں تب میں نے ان سے بکلی نومید ہو کر خدا تعالیٰ سے آسمانی فیصلہ کی درخواست کی اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل پر القا کیا وہ صورت فیصلہ کے لئے میں نے پیش کر دی.اگر ان لوگوں کے دل میں انصاف اور حق طلبی ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں توقف نہ کرتے یہ درخواست کس قدر فضول ہے کہ ایک سال کے عرصہ کو جو ایک الہامی امر خود بخود بدلا دیا جائے اور ایک یا دو ہفتہ بجائے اس کے مقرر کئے جائیں یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ میعاد منجانب اللہ ہے اور انسان تو اپنے اختیار سے کبھی جرات ہی نہیں کر سکتا کہ خوارق کے دکھلانے کے لئے کوئی میعاد فیصلہ مقرر کر سکے.بہر حال چونکہ میری طرف سے آسمانی فیصلہ میں ایمانی مقابلہ کے لئے درخواست ہے تو پھر مقابلہ سے دستکش ہو کر خاص مجھ سے نشانوں کے لئے استدعا کرنا اس صورت میں میاں نذیر حسین اور بٹالوی صاحب کو حق پہنچتا ہے کہ جب حب تحریر میری اوّل اس بات کا اقرار شائع کریں کہ ہم لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں اور دراصل ایمانی انوار و علامات ہم میں موجود نہیں کیونکہ یکطرفہ نشانوں کے دکھلانے کے لئے بغرض کبر شکنی ان کی کے میں نے یہی شرط آسمانی فیصلہ میں قرار دی

Page 383

حیات احمد ۳۸۰ جلد سوم ہے اور نیز ظاہر بھی ہے کہ ان لوگوں کو بجائے خود مومن کامل اور شیخ الکل اور ملہم ہونے کا دعویٰ ہے اور مجھ کو ایمان سے خالی اور بے نصیب سمجھتے ہیں.تو پھر بجز مقابلہ کے اور کونسی صورت فیصلہ کی ہے ؟ ہاں اگر اپنے ایمانی کمالات کے دعویٰ سے دست بردار ہو جائیں تو پھر یکطرفہ ثبوت ہمارے ذمہ ہے اس بات کا جواب میاں نذیر حسین اور بٹالوی صاحب کے ذمہ ہے کہ وہ باوجود دعوی مومن کامل بلکہ شیخ الکل ہونے کے کیوں ایسے شخص کے مقابلہ سے بھاگتے ہیں بلکہ ان کی نظر میں کا فر بلکہ سب کافروں سے بدتر ہے اور کس بنا پر یکطرفہ نشان مانگتے ہیں.اگر فیصلہ آسمانی کے جواب میں یہ درخواست ہے تو حسب منشاء اس رسالہ کے درخواست ہونی چاہئے یعنی اگر اپنی ایمانداری کا کچھ دعوی ہے تو مقابلہ کرنا چاہئے جیسا کہ آسمانی فیصلہ میں بھی شرط درج ہے ورنہ صاف اس بات کا اقرار کر کے کہ جو حقیقی ایمان سے خالی ہیں یکطرفہ نشان کی درخواست کریں.“ اپنی صداقت پر ربانی شہادت نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۱ و ۳۹۵) آسمانی فیصلہ کے ذریعہ آپ نے علماء مکفرین کو مقابلہ میں بلایا کہ وہ اپنے اور آپ کے مومن ہونے کا قرآن کریم کے معیار پر فیصلہ کریں اور نشان آسمانی کے ذریعہ سلیم الفطرت لوگ اولیاء اللہ اور ملهمین کی شہادت پیش کر کے توجہ دلائی کہ وہ حق کی مخالفت نہ کریں اسی سلسلہ میں آپ نے ایک عام طریق پر فیصلہ پیش کیا جو کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں اور شریف النفس لوگوں کو متوجہ کیا کہ میرے پیش کردہ مسنون طریق پر براہ راست اللہ تعالیٰ سے میری صداقت کو معلوم کریں یہ ایسا طریق تھا اور ہے کہ اس میں کسی منصوبہ اور دلیل اور مباحثہ مقابلہ کی حاجت نہیں اس

Page 384

حیات احمد ۳۸۱ جلد سوم طریق کو پڑھ کر ہر سعید الفطرت یقین کرے گا اور ہزاروں لاکھوں نے کیا کہ آپ اپنے دعوئی میں صادق ہیں اور وہ طریق گونہ استخارہ کا رنگ رکھتا ہے.تبلیغ روحانی چنانچہ آپ نے تبلیغ روحانی کے عنوان سے ایک اعلان نشانِ آسمانی میں شائع کیا.اور اس کے ضمن میں آپ نے فرمایا.اس جگہ یہ بھی بطور تبلیغ کے لکھتا ہوں کہ حق کے طالب جو مواخذہ الہی سے ڈرتے ہیں وہ بلا تحقیق اس زمانہ کے مولویوں کے پیچھے نہ چلیں اور آخری زمانہ کے مولویوں سے جیسا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلّم نے ڈرایا ہے ویسا ہی ڈرتے رہیں اور اُن کے فتووں کو دیکھ کر حیران نہ ہو جاویں کیونکہ یہ فتوے کوئی نئی بات نہیں.اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیا اس کی صحت کی نسبت دل میں شبہ ہو تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہو سکتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اوّل تو بہ نصوح کر کے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں.جس کی پہلی رکعت میں سورۃ یسین اور دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورہ اخلاص ہو اور پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے قادر کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا.پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک که جو مسیح موعود اور مہدی اور مجد دالوقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا حال ہے.کیا صادق ہے یا کاذب اور مقبول ہے یا مردود اپنے فضل سے یہ حال رویا یا کشف یا

Page 385

حیات احمد ۳۸۲ جلد سوم الہام سے ہم پر ظاہر فرما.تا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں.اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہو جائیں.ہمیں ہر قسم کے فتنہ سے بچا کہ ہر ایک قوت تجھ کو ہی ہے.آمین.یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتے کریں، لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر کیونکہ جو شخص بغض سے بھرا ہوا ہے اور بدظنی اس پر غالب آ گئی ہے اگر وہ خواب میں اس شخص کا حال دریافت کرنا چاہے جس کو وہ بہت ہی بُرا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور پُر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے پس اس کا حال پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے سواگر تو خدا تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہے.تو اپنے سینہ کو بکلی بغض وعناد سے دھو ڈال اور اپنے تیں بکلی خالی النفس کر کے اور دونوں پہلوؤں بغض اور محبت سے الگ ہو کر اس ہدایت کی روشنی مانگ کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا.جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دُخان نہیں ہوگا.سواے حق کے طالبو، ان مولویوں کی باتوں سے فتنہ میں مت پڑو.اٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اس قومی اور قدیر اور علیم اور ہادی مطلق سے مدد چاہو اور دیکھو کہ اب میں نے یہ روحانی تبلیغ بھی کر دی ہے.آئندہ تمہیں اختیار ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المبلغ غلام احمد عفی عنہ ( منقول از نشان آسمانی ایڈیشن اول مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر صفحہ ۳۶ ، ۳۷.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه۴۰۱،۴۰۰)

Page 386

حیات احمد ۳۸۳ جلد سوم اشاعت دین کے لئے ابتدائی انتظام آپ کی بعثت کی غرض ہی اشاعت اسلام تھی اور اس غرض کے لئے اشتہارات کے ذریعہ مختلف مذاہب کے لیڈروں پر اتمام حجت کیا اب آپ نے ایک مستقل انتظام کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے ۲۶ رمئی ۱۸۹۲ء کو ایک اعلان کیا.جس میں آپ نے فرمایا.وو اس عاجز کا ارادہ ہے کہ اشاعت دین اسلام کے لئے ایسا احسن انتظام کیا جائے کہ ممالک ہند میں ہر جگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر ہوں اور بندگانِ خدا کو دعوتِ حق کریں تا حجت اسلام روئے زمین پر پوری ہو.لیکن اس ضعف اور قلت جماعت کی حالت میں یہ ارادہ پورا نہیں ہو سکتا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۲۶۵ طبع بار دوم ) اس اعلان کے ذریعہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی کو آپ نے واعظ مقرر فرمایا اور جماعت میں تحریک چندہ کی.یہ اعلان آپ کے جذبہ اشاعت اسلام کا مظہر ہے اللہ تعالیٰ نے آج ۱۹۵۲ء میں اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے روئے زمین پر جیسا کہ آپ کا منشا تھا واعظین اور مبشرین کی ایک تبلیغی فوج کام پر لگا دی ہے اور مختلف ممالک میں جماعت کے اپنے دارالتبلیغ بنے ہوئے ہیں.سالانہ جلسہ کی مخالفت میں نے ۱۸۹۱ء کے واقعات میں بیان کیا ہے کہ آپ نے آئندہ کے لئے دسمبر کے مہینے میں ۲۷ تا ۲۹ کی تاریخیں مقرر کیں بعد میں عملاً ۲۶ ۲۷ ۲۸ مقرر ہوئیں اور اب تک ان تاریخوں میں سالانہ جلسہ منعقد ہوتا ہے.۱۸۹۲ء کے جلسہ کے متعلق حضرت اقدس نے احباب کی اطلاع کے لئے ایک اعلان نے شائع کیا اس پر لاہور کی مسجد چینیاں کے امام مولوی رحیم بخش نے ایک فتویٰ حاشیہ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بعد ہذا بخدمت جمیع احباب مخلصین التماس ہے کہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو مقام قادیان میں اس عاجز کے محبوں اور / مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہو گا.اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ

Page 387

حیات احمد ۳۸۴ جلد سوم دیا کہ اس قسم کے جلسوں کا انعقاد بدعت ہے جب پہلا اشتہار آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے قیامت کی نشانی کے عنوان سے ایک مفصل اعلان شائع کیا جس میں مولوی رحیم بخش صاحب کے فتوی کی دھجیاں اڑا دی گئیں.یہ مفصل اشتہار آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع ہو گیا تھا مگر میں کچھ حصہ یہاں درج کر دیتا ہوں کہ مولوی رحیم بخش صاحب کے فتوے کی حقیقت اور اس جلسہ کی اہمیت واضح ہو جاوے.قیامت کی نشانی قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ایک بڑی نشانی ہے جو اس حدیث سے معلوم ہوتی جو امام بخاری اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے لائے ہیں.اور وہ یہ ہے.يُقْبَضُ الْعِلْمُ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ إِتَّخَذَ النَّاسُ رُءُ وَسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوْا فَافْتُوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا.یعنی بباعث فوت ہو جانے علماء کے علم فوت ہو جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں ملے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا اور سردار قرار دے دیں گے اور مسائل دینی کے دریافت کے لئے اُن کی طرف رجوع کریں گے تب وہ لوگ باعث جہالت اور عدم ملکہ استنباط مسائل خلاف طریق صدق و ثواب فتویٰ دیں گے پس آپ بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے.اور پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ اس زمانہ کے فتویٰ دینے بقیہ حاشیہ.دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو.پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گا.ماسوا اس کے اس جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں.کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں.اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں.چنانچہ انہیں دنوں میں ایک انگریز کی چٹھی میرے نام آئی.جس میں لکھا تھا کہ آپ تمام جانداروں پر رحم رکھتے ہیں اور ہم بھی انسان ہیں اور مستحق رحم کیونکہ دین اسلام ہم قبول کر

Page 388

حیات احمد ۳۸۵ جلد سوم والے یعنی مولوی اور محدث اور فقیہ ان تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے جو روئے زمین پر رہتے ہوں گے.پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن ان کے حنجروں کے نیچے نہیں اترے گا.یعنی اُس پر عمل نہیں کریں گے.ایسا ہی اس زمانہ کے مولویوں کے حق میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں مگر اس وقت ہم بطور نمونہ اس حدیث کا ثبوت دیتے ہیں جو غلط فتووں کے بارے میں ہم اوپر لکھ چکے ہیں تا ہر ایک کو معلوم ہو کہ آج کل اگر مولویوں کے وجود سے کچھ فائدہ ہے تو صرف اس قدر کہ ان کے یہ لچھن دیکھ کر قیامت یاد آتی ہے.اور قرب قیامت کا پتہ لگتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی پوری پوری تصدیق ہم بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ سال گزشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں جو بہ نیت بقیہ حاشیہ.چکے اور اسلام کی کچی اور صحیح تعلیم سے اب تک بے خبر ہیں.سو بھائیو! یقیناً سمجھو کہ یہ ہمارے لئے جماعت تیار ہونے والی ہے.خدا تعالیٰ کسی صادق کو بے جماعت نہیں چھوڑتا انشاء اللہ القدر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی.خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے.اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے.سولا زم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرور تشریف لائیں جو زادِ راہ کی استطاعت رکھتے ہوں.اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر ضرورت ساتھ لاویں.اور اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنی ادنیٰ درجوں کی پرواہ نہ کریں.خدا تعالیٰ مخلصوں کو ہر یک قدم پر ثواب دیتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی اور مکر رکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قو میں تیار کی ہیں.جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے.جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کی تفریط پسند اوہام پرست مخالفوں کا نہ خوارق کے انکار والے باقی رہیں گے.اور نہ ان میں بے ہودہ اور بے اصل اور مخالف قرآن روایتوں کو ملانے والے.

Page 389

حیات احمد ۳۸۶ جلد سوم استفاده ضروریات دین و مشوره اعلاء کلمه اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ / دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولی ہے کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملا زمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں اور بباعث ایام سرما یہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے.اب ۱۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا.جو ریاض ہند پر لیس قادیان میں چھپا تھا جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر یک مخلص کو بالمواجہ دینی فایدہ اٹھانے کا موقعہ ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو اب سنا گیا ہے کہ اس کارروائی کو بدعت بلکہ معصیت ثابت کرنے کے لئے ایک بزرگ نے ہمت کر کے بقیہ حاشیہ.اور خدا تعالیٰ اس امت وسطہ کے لئے بین بین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا.وہی راہ جس کو قرآن لایا تھا وہی راہ جو رسول کریم صلی اللہ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحا پاتے رہے.یہی ہو گا اور یہی ہوگا.جن کے کان سننے کے ہوں سنے.مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے.بالآخر میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر یک صاحب جو اس لیہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کی حالت ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرما دے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے.اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر ان کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو.اے خدا اے ذوالحجد والعطا اور رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر ایک طاقت اور قوت تجھی کو ہے.آمین ثم آمین وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور علی اللہ عنہ.(۷/ دسمبر ۱۸۹۳ء) مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۸۲،۲۸۱ طبع بار دوم )

Page 390

حیات احمد ۳۸۷ ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیں اور لاہور میں چینیاں والی مسجد کے امام ہیں ایک استفتا پیش کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معین پر دور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے.اور ایسے جلسہ کے لئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے.استفتا میں یہ خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سنا ہوگا جو جبى فى الله اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب نے اس مجمع مسلمانوں کے لئے اپنے صرف سے جو غالباً سات سو روپیہ یا کچھ اس سے زیادہ ہو گا.قادیان میں ایک مکان بنوایا جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے.اس استفتا کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شَدِ رحال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لئے کتاب اور سنت میں سے کوئی شہادت نہیں اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے.اب منصف مزاج لوگ ایمانا کہیں کہ ایسے مولویوں اور مفتیوں کا اسلام میں موجود ہونا قیامت کی نشانی ہے یا نہیں.اے بھلے مانس کیا تجھے خبر نہیں کہ علم دین کیلئے سفر کرنے کے بارے میں صرف اجازت ہی نہیں بلکہ قرآن اور شارع علیہ السلام نے اُس کو فرض ٹھہرا دیا ہے جس کا عمداً تارک مرتکب کبیرہ اور عمداً انکار پر اصرار بعض صورتوں میں کفر ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ نہایت تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ طلب الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ اور فرمایا گیا ہے کہ اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ كَانَ فِي الصَّيْنِ یعنی علم طلب کرنا ہر یک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے.اور علم کو طلب کرو اگر چہ چین میں جانا پڑے.اب سوچو کہ جس حالت میں یہ عاجز اپنے جلد سوم

Page 391

حیات احمد ۳۸۸ صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفاظ سے اشتہار میں لکھ چکا کہ یہ سفر ہر یک مخلص کا طلب علم کی نیت سے ہوگا پھر یہ فتوی دینا کہ جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے.کس قدر دیانت اور امانت اور انصاف اور تقویٰ اور طہارت سے دور ہے.رہی یہ بات کہ ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو یہ صرف انتظام ہے اور انتظام سے کوئی کام کرنا اسلام میں کوئی مذموم امر اور بدعت نہیں إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنیات.بطنی کے مادہ فاسدہ کو ذرا دور کر کے دیکھو کہ ایک تاریخ پر آنے میں کونسی بدعت ہے جبکہ ۲۷ / دسمبر کو ہر یک مخلص بآسانی ہمیں مل سکتا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی باہم ملاقات بھی ہو جاتی ہے تو اس سہل طریق سے فائدہ اٹھانا کیوں حرام ہے.تعجب کہ مولوی صاحب نے اس عاجز کا نام مردود تو رکھ دیا مگر آپ کو حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں طالب علم کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نسبت ترغیب دی ہے اور جن میں ایک بھائی مسلمان کی ملاقات کے لئے جانا موجب خوشنودی خدائے عز و جل قرار دیا ہے اور جن میں سفر کر کے زیارت صالحین کرنا موجب مغفرت اور کفارہ گناہان لکھا ہے.اور یاد رہے کہ یہ سراسر جہالت ہے کہ شَدِ رِحَال کی حدیث کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ بجز، قصد خانہ کعبہ یا مسجد نبوی یا بیت المقدس اور تمام سفر قطعی حرام ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مسلمانوں کو مختلف اغراض کے لئے سفر کرنے پڑتے ہیں کبھی سفر طلب علم ہی کے لئے ہوتا ہے اور کبھی سفر ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کے لئے یا مثلاً عورتوں کا سفر اپنے والدین کے ملنے کے لئے یا والدین کا اپنی لڑکیوں کی ملاقات کے لئے اور کبھی مرد اپنی شادی کے لئے اور کبھی تلاش معاش کے لئے اور کبھی پیغام رسانی کے طور پر اور کبھی زیارت صالحین کے لئے سفر کرتے ہیں.جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت اویس قرنی کے ملنے کے لئے سفر کیا تھا اور کبھی سفر جہاد کے لئے بھی ہوتا ہے جلد سوم

Page 392

حیات احمد ۳۸۹ خواہ وہ جہاد تلوار سے ہو اور خوہ بطور مباحثہ کے اور کبھی سفر بہ نیت مباہلہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کبھی سفر اپنے مرشد کے ملنے کے لئے جیسا کہ ہمیشہ اولیاء کبار جن میں سے حضرت شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ اور حضرت بایزید بسطامی اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجد دالف ثانی بھی ہیں اکثر اس غرض سے بھی سفر کرتے رہے جن کے سفر نامے اکثر اُن کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اب تک پائے جاتے ہیں.اور کبھی سفر فتویٰ پوچھنے کے لئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے اُس کا جواز بلکہ بعض صورتوں میں وجوب ثابت ہوتا ہے اور امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کے لئے مشہور ہیں شاید میاں رحیم بخش کو خبر نہیں ہوگی اور کبھی سفر عجائبات دنیا کے دیکھنے کے لئے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ اشارت فرما رہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ "ہدایت فرماتی ہے اور کبھی سفر عیادت کے لئے بلکہ انتباع خیار کے لئے بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا بیمار دار علاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے اور کبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کے لئے بھی سفر کیا جاتا ہے اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی رو سے جائز ہیں بلکہ زیارت صالحین اور ملاقات اخوان اور طلب علم کے سفر کی نسبت احادیث صحیحہ میں بہت کچھ کت و ترغیب پائی جاتی ہے اگر اس وقت وہ تمام حدیثیں لکھی جائیں تو ایک کتاب بنتی ہے ایسا فتویٰ لکھانے والے اور لکھنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کو بھی تو اکثر اس قسم کے سفر پیش آ جاتے ہیں.پس اگر بجز تین مسجدوں کے اور تمام سفر کر نے حرام ہیں تو چاہئے کہ یہ لوگ اپنے تمام رشتے ناطے اور عزیز اقارب چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کبھی اُن کی الانعام :١٢ التوبة: ١١٩ جلد سوم

Page 393

حیات احمد ۳۹۰ ملاقات یا اُن کی غم خواری یا اُن کی بیمار پرسی کے لئے بھی سفر نہ کریں.میں خیال نہیں کرتا بجز ایسے آدمی کے جس کو تعصب اور جہالت نے اندھا کر دیا ہو وہ ان تمام سفروں کے جواز میں متأمل ہو سکے.صحیح بخاری کا صفحہ ۱۶ کھول کر دیکھو کہ سفر طلب علم کے لئے کس قدر بشارت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ طَرِيقَ الْجَنَّةِ یعنی جو شخص طلب علم کے لئے سفر کرے اور کسی راہ پر چلے تو خدا تعالیٰ بہشت کی راہ اس پر آسان کر دیتا ہے.اب اے ظالم مولوی ! ذرا انصاف کر تو نے اپنے بھائی کا نام جو تیری طرح کلمہ گو اہل قبلہ اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے مردود رکھا اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بکلی محروم قرار دیا اور اس صحیح حدیث بخاری کی بھی کچھ پرواہ نہ کی کہ اَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِيْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قلبِه اَوْ نَفْسِہ اور مردود ٹھہرانے کی اپنے فتویٰ میں وجہ یہ ٹھہرائی کہ ایسا اشتہار کیوں شائع کیا اور لوگوں کو جلسہ پر بلانے کے لئے کیوں دعوت کی.اے ناخدا ترس! ذرہ آنکھ کھول کر پڑھ کہ اُس اشتہارے دسمبر ۱۸۹۲ء کا کیا مضمون ہے کیا اپنی جماعت کو طلب علم اور حلت مشکلات دین اور ہمددری اسلام اور برادرانہ ملاقات کے لئے بلایا ہے یا اُس میں کسی اور میلہ تماشا اور راگ وسرود کا ذکر ہے.اے اس زمانہ کے ننگ اسلام مولویو! تم اللہ جل شانہ سے کیوں نہیں ڈرتے.کیا ایک دن مرنا نہیں یا ہر یک مؤاخذہ تم کو معاف ہے.حق بات کو سن کر اور اللہ اور رسول کے فرمودہ کو دیکھ کر تمہیں یہ خیال تو نہیں آتا کہ اب اپنی ضد سے باز آجائیں.بلکہ مقدمہ باز لوگوں کی طرح یہ خیال آتا ہے کہ آؤ کسی طرح باتوں کو بنا کر اس کا رڈ چھا ہیں تا لوگ نہ کہیں کہ ہمارے مولوی صاحب کو کچھ جواب نہ آیا.اس قدر دلیری اور بد دیانتی اور یہ بجل اور بغض کس عمر کے لئے.آپ کو فتویٰ لکھنے کے وقت وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں جلد سوم

Page 394

حیات احمد ۳۹۱ علم دین کے لئے اور اپنے شبہات دور کرنے کے لئے اور اپنے دینی بھائیوں اور عزیزوں کو ملنے کے لئے سفر کرنے کو موجب ثواب کثیر و اجر عظیم قرار دیا ہے بلکہ زیارت صالحین کے لئے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آئی ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بداعمالی کی وجہ سے سخت مؤاخذہ میں ہو گا تو اللہ جل شانہ اس سے پوچھے گا کہ فلاں صالح آدمی کی ملاقات کے لئے کبھی تو گیا تھا.تو وہ کہے گا بالا رادہ تو کبھی نہیں گیا مگر ایک دفعہ ایک راہ میں اُس کی ملاقات ہو گئی تھی تب خدا تعالیٰ کہے گا کہ جا بہشت میں داخل ہو میں نے اُسی ملاقات کی وجہ سے تجھے بخش دیا.اب اے کو نہ نظر مولوی ! ذرہ نظر کر کہ یہ حدیث کس بات کی ترغیب دیتی ہے.اور اگر کسی کے دل میں یہ دھوکہ ہو کہ اس دینی جلسہ کے لئے ایک خاص تاریخ کیوں مقرر کی.ایسا فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے کب ثابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری اور مسلم کو دیکھو کہ اہل بادیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسائل کے دریافت کرنے کے لئے اپنی فرصت کے وقتوں میں آیا کرتے تھے اور بعض خاص خاص مہینوں میں ان کے گروه فرصت پا کر حاضر خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوا کرتے تھے اور صحیح بخاری میں اَبِی جَمْرَہ سے روایت ہے.قَالَ إِنَّ وَفْدَ عَبْدَ الْقَيْسِ آتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوْا إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شِقَّةٍ بَعِيْدَةٍ وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَّأْتِيْكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَام - یعنی ایک گروہ قبیلہ عبدالقیس کے پیغام لانے والوں کا جو اپنی قوم کی طرف سے آئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہم لوگ دور سے سفر کر کے آتے ہیں.اور بجز حرام مہینوں کے ہم حاضر خدمت ہو نہیں سکتے اور ان کے قول کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے رڈ نہیں کیا اور قبول کیا.پس اس حدیث سے بھی یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جو لوگ طلب علم یا جلد سوم

Page 395

حیات احمد ۳۹۲ جلد سوم دینی ملاقات کے لئے کسی اپنے مقتدا کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیں وہ اپنی گنجائش فرصت کے لحاظ سے ایک تاریخ مقرر کر سکتے ہیں.جس تاریخ میں وہ بآسانی اور بلا حرج حاضر ہو سکیں.اور یہی صورت ۲۷ / دسمبر کی تاریخ میں ملحوظ ہے کیونکہ وہ دن 66 تعطیلوں کے ہوتے ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ بسہولت ان دنوں میں آ سکتے ہیں.“ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰۵ تا ۶۰۸ ) اور بالآ خر آپ نے مولوی رحیم بخش صاحب پر اتمام حجت کے لئے ان کو قادیان آنے کی اس طرح پر دعوت دی.بالآخر میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ اگر مولوی رحیم بخش صاحب اب بھی اس فتویٰ سے رجوع نہ کریں تو میں اُن کو اللہ جل شانہ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر وہ طالب حق ہیں تو اس بات کے تصفیہ کے لئے میرے پاس قادیان میں آجائیں میں اُن کی آمد و رفت کا خرچ دے دوں گا اور ان پر کتابیں کھول کر اور قرآن اور حدیث دکھلا کر ثابت کر دوں گا کہ فتویٰ اُن کا سراسر باطل اور شیطانی اغوا سے ہے.“ (۱۷/ دسمبر ۱۸۹۲ء) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ( آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۱۲ ) مگر مولوی رحیم بخش صاحب کو حوصلہ نہ ہوا کہ وہ اس مقابلہ میں آتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جلسه ۱۸۹۲ء نہایت شان سے ہوا.اور پہلے جلسہ کی نسبت سے 4 گنا لوگ حاضر ہوئے جیسا کہ جلسہ کے کوائف سے معلوم ہوگا.سالانہ جلسه ۱۸۹۲ء غرض باوجود اس شدید مخالفت کے جلسہ اپنی مقررہ تاریخوں پر ہوا.اور اس جلسہ پر قریباً پانچ سو لوگ جمع ہوئے لیکن وہ احباب اور مخلص جو محض اللہ شریک جلسہ ہونے کے لئے دور دور

Page 396

حیات احمد ۳۹۳ جلد سوم سے تشریف لائے ان کی تعداد قریباً ۳۲۵ تھی.میں اس جلسہ میں شریک نہ تھا اس لئے کہ سالانہ امتحان قریب تھا.دوسرے میں نے اور حضرت عم مکرم صوفی مولا بخش صاحب رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ایک جلسہ پر وہ جائیں اور دوسرے پر میں اور واپس آ کر جلسہ کے کوائف کا خلاصہ سنا دیا کریں چنانچہ اس جلسہ پر وہ شریک تھے اور نمبر ۵۵ پر ان کا اسم گرامی درج ہے.چونکہ میری طبیعت واقعات کے محفوظ کرنے اور تحقیق کا جوش رکھتی تھی میں نے حالات جلسہ کو بعض احباب سے بھی دریافت کیا.اس کی روئداد آئینہ کمالات اسلام میں بھی شائع ہو گئی.اس جلسہ پر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ مالیر کوٹلہ سے آئے اور حضرت بابا زین الدین ابراہیم انجینئر رضی اللہ عنہ بمبئی سے اور حضرت حکیم الامت جموں سے آئے ان تمام احباب کے اسماء اس رپورٹ میں درج ہیں.میں نے پسند کیا کہ سنے ہوئے واقعات کی بنا پر حالات بیان کرنے کی بجائے اس رپورٹ کو جو آئینہ کمالات اسلام میں شائع ہوئی ہے درج کر دیا جاوے.اس جلسہ میں اشاعت اسلام کے مستقل انتظام کے لئے ایک مطبع کا قیام اور ایک اخبار کے اجراء کا بھی فیصلہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے مطبع کے قیام کا بھی انتظام کر دیا.اور کچھ عرصہ کے بعد ضیاء الاسلام پر لیس کے نام سے مطبع قائم ہو گیا.اجرائی اخبار کی تجویز مشیت ایزدی کے ماتحت ایک عرصہ تک ملتوی رہی.اور ۱۸۹۷ء میں اللہ تعالیٰ نے خاکسار عرفانی کو تو فیق دی کہ وہ الحکم کے نام سے ایک اخبار جاری کر سکا اور ۱۸۹۸ء کے شروع میں قادیان آ گیا اور الحمدللہ آج تک جاری ہے اور میری دوسری نسل ( عزیز خالد عرفانی) اس کے زندہ رکھنے میں ایک کشمکش سے گزر رہا ہے.سالانہ جلسہ کی رپورٹ اس جلسہ کے موقعہ پر اگر چہ پانچ سو کے قریب لوگ جمع تھے.لیکن وہ احباب اور مخلص جو محض للہ شریک جلسہ ہونے کے لئے دور دور سے تشریف لائے ان کی تعداد قریب تین سو پچپیں ۳۲ کے پہنچ گئی تھی.

Page 397

حیات احمد ۳۹۴ وو اب جلسہ کے ایام میں جو کارروائیاں ہوئیں ان کا ہم ذکر کرتے ہیں.پہلے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب نے قرآنِ شریف کی ان آیات کریم کی تفسیر بیان کی جس میں یہ ذکر ہے کہ مریم صدیقہ کیسی صالحہ اور عفیفہ تھیں اور اُن کے برگزیدہ فرزند حضرت عیسی علیہ السلام پر کیا کیا خدا تعالیٰ نے احسان کیا اور کیونکر وہ اس فانی دنیا سے انتقال کر کے اور سنت اللہ کے موافق موت کا پیالہ پی کر خدا تعالیٰ کے اُس دار النعیم میں پہنچ گئے جس میں ان سے پہلے حضرت یحیی حصور اور دوسرے مقدس نبی پہنچ چکے تھے اس تقریر کے ضمن میں مولوی صاحب موصوف نے بہت سے حقائق و معارف قرآن کریم بیان فرمائے جن سے حاضرین پر بڑا اثر پڑا اور مولوی صاحب نے بڑی صفائی سے اس بات کا ثبوت دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام در حقیقت اس عالم سے رحلت فرما ہو گئے ہیں.اور اُن کے زندہ ہونے کا خیال عبث اور باطل اور سراسر مخالف نصوص بینہ قرآنِ کریم و احادیث صحیحہ ہے اور اُن کے نزول کی امید رکھنا طمع خام ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اگر چہ بہت سی حدیثوں میں نزول کی خبر دی گئی ہے مگر وہ نزول اور رنگ میں ہے.یعنی تجوز اور استعارہ کے طور پر نزول ہے نہ حقیقی نزول کیونکہ حقیقی نزول تو نصوص صریحہ ہینہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے مخالف پڑا ہوا ہے جس کی طرف قدم اٹھانا گویا خدا تعالیٰ کی خبر میں شک کرنا ہے مولوی صاحب کے وعظ کے بعد سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک قصیدہ مدحیہ سنایا.اس تقریر کے بعد حضرت اقدس مرزا صاحب کی مختصر تقریر تھی جس میں علماء حال کی چند اُن باتوں کا جواب دیا گیا جو اُن کے نزدیک بنیاد تکفیر ہیں اور اسی کے ساتھ اپنے مسیح موعود ہونے کا آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ثبوت دیا گیا اور حاضرین کو اُس پیشگوئی کے پورا ہو جانے سے اطلاع دی گئی جو پر چہ نور افشاں دہم مئی ۱۸۸۸ء میں شائع ہوئی تھی اور مختلف وقتوں میں حجت پوری کرنے کے لئے سمجھا دیا گیا کہ اس جلد سوم

Page 398

حیات احمد ۳۹۵ پیشگوئی کا پورا ہونا در حقیقت صداقت دعوئی پر ایک نشان ہے کیونکہ یہ پیشگوئی محض اس لئے ظاہر کی گئی ہے کہ جن صاحبوں کو شک ہے کہ حضرت مرزا صاحب منجاب اللہ نہیں ان کے لئے اس دعوئی پر یہ ایک دلیل ہو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن پر قائم ہوئی اور یہ دلیل قطعی ہے کیونکہ جو شخص اپنے دعوی منجاب اللہ ہونے میں کا ذب ہو اُس کی پیشگوئی بموجب تعلیم قرآن کریم اور توریت کے سچی نہیں ٹھہر سکتی وجہ یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا ذب کے دعوی دروغ پر کوئی پیشگوئی اس کی سچی کر دیوے تو پھر دعوی کا سچا ہونا لازم آتا ہے اور اس سے خلق اللہ دھوکہ میں پڑتی ہے.پھر اس کے بعد حضرت اقدس مرزا صاحب نے اپنی جماعت کے احباب کی باہمی محبت اور تقویٰ اور طہارت کے بارے میں مناسب وقت چند نصیحتیں کیں.پھر اس کے بعد ۲۸ / دسمبر ۱۸۹۲ء کو یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے معزز حاضرین نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور یہ قرار پایا کہ ایک رسالہ جو اہم ضروریات اسلام کا جامع اور عقائد اسلام کا خوبصورت چہرہ معقولی طور پر دکھاتا ہو تالیف ہو کر اور پھر چھاپ کر یورپ اور امریکہ میں بہت سی کا پیاں اس کی بھیج دی جائیں.بعد اس کے قادیان میں اپنا مطبع قائم کرنے کے لئے تجاویز پیش ہوئیں اور ایک فہرست اُن صاحبوں کے چندہ کی مرتب کی گئی جو اعانت مطبع کے لئے بھیجتے رہیں گے، یہ بھی قرار پایا کہ ایک اخبار اشاعت اور ہمدردی اسلام کے لئے جاری کیا جائے اور یہ بھی تجویز ہوا کہ حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی اس سلسلہ کے واعظ مقرر ہوں اور وہ پنجاب اور ہندوستان میں دورہ کریں.بعد اس کے دعائے خیر کی گئی آیندہ بھی ہمیشہ اس سالانہ جلسہ کے یہی مقاصد رہیں گے کہ اشاعت اسلام اور ہمدردی نو مسلمین امریکہ اور یورپ کے لئے احسن تجاویز سوچی جائیں اور دنیا میں نیک چلنی اور نیک نیتی اور تقویٰ طہارت اور اخلاقی حالات کے ترقی دینے اور اخلاق جلد سوم

Page 399

حیات احمد ۳۹۶ جلد سوم اور عادات دنیہ اور رسوم قبیحہ کو قوم میں سے دور کرنے اور اس میں گورنمنٹ برطانیہ کا سچا شکر گزار اور قدردان بنے کی کوششیں اور تدبیریں کی جائیں.ان اغراض کے پورا کرنے اور دیگر انتظامات کی غرض سے ایک کمیٹی بھی تجویز کی گئی ہے جس کے صدر پریذیڈنٹ حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی اور سیکرٹری صاحب اتالیق جناب خان صاحب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اور شیخ رحمت اللہ صاحب میونسپل کمشنر گجرات منشی غلام قادر صاحب فصیح وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمشنر سیالکوٹ اور مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی قرار دیئے گئے.“ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۱۳ تا ۶۱۶ ) حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ نے بھی اس جلسہ کی کیفیت بطور اشاعتی بیان کے شائع کی.ان ایام میں وہ سلسلہ کے مخالف تھے مگر اس جلسہ میں شمولیت کے بعد ان کے شکوک رفع ہو گئے.اور انہوں نے صدق دل سے بیعت کر لی اور اس کا عملی ثبوت ان قربانیوں اور خدمات سے دیا جو انہوں نے مرتے دم تک سلسلہ کی کیں ان کی زندگی اور جذبات کے مختصر حالات میں حیات ناصر میں شائع کر چکا ہوں.ان کا یہ مفصل بیان آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع ہو چکا ہے بعض حصص یہاں بھی درج کرتا ہوں.”مرزا صاحب نے مجھے بھی باوجود یکہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں ان کا مخالف ہوں نہ صرف مخالف بلکہ بد گو بھی اور یہ مکر رسہ کر ر مجھ سے وقوع میں آچکا ہے جلسہ پر بلایا اور چند خطوط جن میں ایک رجسٹری بھی تھا بھیجے.اگر چہ پیشتر بہ سبب جہالت اور مخالفت کے میرا ارادہ جانے کا نہ تھا لیکن مرزا صاحب کے بار بار کہنے سے میرے دل میں ایک تحریک پیدا ہوئی.اگر مرزا صاحب اس قدر شفقت سے نہ لکھتے تو میں ہرگز نہ جاتا اور محروم رہتا.مگر یہ انہیں کا حوصلہ تھا.آج کل کے مولوی تو اپنے سگے باپ سے بھی اس شفقت اور عزت سے پیش نہیں آتے.میں ۲۷ / تاریخ کو دو پہر

Page 400

حیات احمد ۳۹۷ سے پہلے قادیاں میں پہنچا اس وقت مولوی حکیم نورالدین صاحب مرزا صاحب کی تائید میں بیان کر رہے تھے اور قریب ختم تھا.افسوس کہ میں نے پورا نہ سنا.لوگوں سے سنا کہ بہت عمدہ بیان تھا.پھر حامد شاہ صاحب نے اپنے اشعار مرزا صاحب کی صداقت اور تعریف میں پڑھے لیکن چونکہ مجھے ہنوز رغبت نہیں تھی اور میرا دل غبار آلودہ تھا کچھ شوق اور محبت سے نہیں سنا.لیکن اشعار عمدہ تھے.اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عطا فرمادے.جب میں مرزا صاحب سے ملا اور وہ اخلاق سے پیش آئے تو میرا دل نرم ہوا گویا مرزا صاحب کی نظر سرمہ کی سلائی تھی جس سے غبار کدورت میرے دل کی آنکھوں سے دور ہو گیا.اور غیظ و غضب کے نزلہ کا پانی خشک ہونے لگا اور کچھ کچھ دھندلا سا مجھے حق نظر آنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ باطنی بینائی درست ہوئی.مرزا صاحب کے سوا اور کئی بھائی اس جلسہ میں ایسے تھے کہ جن کو میں حقارت اور عداوت سے دیکھتا تھا.اب ان کو محبت اور الفت سے دیکھنے لگا اور یہ حال ہوا کہ گل اہلِ جلسہ میں جو مرزا صاحب کے زیادہ محبت تھے وہ مجھے بھی زیادہ عزیز معلوم ہونے لگے.بعد عصر مرزا صاحب نے کچھ بیان فرمایا جس کے سننے سے میرے تمام شبہات رفع ہو گئے اور آنکھیں کھل گئیں.دوسرے روز صبح ایک امرتسری وکیل صاحب نے اپنا عجیب قصہ سنایا.جس سے مرزا صاحب کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ثابت ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وکیل صاحب پہلے سنت جماعت مسلمان تھے.جب جوان ہوئے رسمی علم پڑھا تو دل میں بہ سبب مذہبی علم سے ناواقفیت اور علمائے وقت و پیران زمانہ کے باعمل نہ ہونے کے شبہات پیدا ہوئے اور تسلی بخش جواب کہیں سے نہ ملنے کے باعث سے چند بار مذہب تبدیل کیا.سنی سے شیعہ بنے.وہاں بجز تبرا بازی ، اور تعزیہ سازی کچھ نظر نہ آیا.آریہ ہوئے چند روز وہاں کا بھی مزا چکھا.مگر لطف نہ آیا.جلد سوم

Page 401

حیات احمد ۳۹۸ برہمو میں شامل ہوئے ان کا طریق اختیار کیا.لیکن وہاں بھی مزا نہ پایا.نیچری بنے لیکن اندرونی صفائی یا خدا کی محبت.کچھ نورانیت کہیں بھی نظر نہ آئی.آخر مرزا صاحب سے ملے اور بہت بیبا کا نہ پیش آئے.مگر مرزا صاحب نے لطف سے مہربانی سے کلام کیا.اور ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ آخر کا ر اسلام پر پورے پورے جم گئے اور نمازی بھی ہو گئے اللہ اور رسول کے تابعدار بن گئے آپ مرزا صاحب کے بڑے معتقد ہیں.رات کو مرزا صاحب نے نواب صاحب کے مقام پر بہت عمدہ تقریر کی اور چند اپنے خواب اور الہام بیان فرمائے چند لوگوں نے صداقت الہام کی گواہیاں دیں جن کے روبرو وہ الہام پورے ہوئے.ایک صاحب نے صبح کو بعد نماز صبح عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سنایا.جبکہ عبداللہ صاحب خیر دی گاؤں میں تشریف رکھتے تھے.عبداللہ صاحب نے فرمایا.ہم نے محمد حسین بٹالوی کو ایک لمبا کرتا پہنے دیکھا.اور وہ کر تہ پارہ پارہ ہو گیا.یہ بھی عبداللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ کرتے سے مراد علم ہے آگے پارہ پارہ ہونے سے عقلمند خود سمجھ سکتا ہے کہ گویا علم کی پردہ دری مراد ہے جو آج کل ہو رہی ہے اور معلوم نہیں کہ کہاں تک ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے ولی کوستا تا ہے گویا اللہ تعالیٰ سے لڑتا ہے.آخر چھپڑے گا.اب مجھے بخوبی ثابت ہوا کہ وہ لوگ بڑے بے انصاف ہیں.جو بغیر ملاقات اور گفتگو کے مرزا صاحب کو دور سے بیٹھے دجال، کذاب بنا رہے ہیں اور ان کے کلام کے غلط معنی گھڑ رہے ہیں یا کسی دوسرے کی تعلیم کو بغیر تفتیش مان لیتے ہیں اور مرزا صاحب سے اس کی بابت تحقیق نہیں کرتے.مرزا صاحب جو آسمانی شہد اگل رہے ہیں اس کو وہ شیطانی زہر بتاتے ہیں اور بسبب سخت قلبی اور حجاب عداوت کے دور ہی سے گلاب کو پیشاب کہتے ہیں.اور عوام اپنے خواص کے تابع ہو کر اس کے کھانے پینے سے باز رہتے ہیں.اور اپنا نواب صاحب ملیر کوٹلہ جو اس وقت مع چند اپنے ہمراہیوں کے شریک جلسہ تھے.جلد سوم

Page 402

حیات احمد ۳۹۹ سراسر نقصان کرتے ہیں.سب سے بڑھ کر اس عاجز کے قدیمی دوست یا پرانے مقتدا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو مرزا صاحب سے ہٹانے اور نفرت دلانے میں مصروف ہیں.جن کو پہلے پہل مرزا صاحب سے بندہ نے بدظن کیا تھا جس کے عوض میں اس دفعہ انہوں نے مجھے بہکایا اور صراط مستقیم سے جُدا کر دیا.چلو برابر ہو گئے.مگر مولوی صاحب ہنوز در پئے ہیں.اب جو جلسہ پر مرزا صاحب نے مجھے طلب کیا تو مولوی صاحب کو بھی ایک مخبر نے خبر کر دی.انہوں نے اپنے وکیل کی معرفت مجھے ایک خط لکھا جس میں ناصح مشفق نے مرزا صاحب کو اس قدر بُرا بھلا لکھا اور ایسے ناشائستہ الفاظ قلم سے نکالے کہ جن کا اعادہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے.مولوی صاحب نے یہ بھی لحاظ نہ کیا کہ علاوہ بزرگ ہونے کے میرزا صاحب میرے کس قدر قریبی رشتہ دار ہیں.پھر دعویٰ محبت ہے.افسوس اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے جن کے چہروں سے مسلمانی نور ٹپک رہا تھا.امیر.غریب.نواب.انجینئر.تھانہ دار.تحصیلدار.زمیندار.سوداگر.حکیم.غرض ہر قسم کے لوگ تھے.ہاں چند مولوی بھی تھے.مگر مسکین مولوی.مولوی کے ساتھ مسکین اور منکسر کا لفظ یہ مرزا صاحب کی کرامت ہے کہ مرزا صاحب سے مل کر مولوی بھی مسکین بن جاتے ہیں ورنہ آج کل مسکین مولوی اور بدعات سے بچنے والا صوفی كِبْرِيْتِ أَحْمَر اور کیمیائے سعادت کا حکم رکھتا ہے.مولوی محمد حسین صاحب اپنے دل میں غور فرما کر دیکھیں کہ وہ کہاں تک مسکینی سے تعلق رکھتے ہیں.ان میں اگر مسکینی ہوتی تو اس قد رفساد ہی کیوں ہوتا ؟ یہ نوبت بھی کیوں گزرتی اس قدر ان کے متبعین کو اُن سے عداوت اور نفرت کیوں ہوتی ؟ اہل حدیث اکثر اُن سے بیزار کیوں ہو جاتے؟ اگر مولوی صاحب اس میرے بیان کو غلط خیال فرماویں تو میں انہیں پر حوالہ کرتا ہوں.انصافاً و ایمانا اپنے احباب کی ایک جلد سوم

Page 403

حیات احمد ۴۰۰ جلد سوم فہرست تو لکھ کر چھپوا دیں کہ جو اُن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسا کہ مرزا صاحب کے مرید مرزا صاحب سے محبت رکھتے ہیں.مجھے قیافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت عنقریب ہے کہ مرزا صاحب کی خاک پا کو اہل بصیرت آنکھوں میں جگہ دیں اور اکسیر سے بہتر سمجھیں.اور تبرک خیال کریں.مرزا صاحب کے سینکڑوں ایسے صادق دوست ہیں جو مرزا صاحب پر دل و جان سے قربان ہیں.اختلاف کا تو کیا ذکر ہے رو برو اُف تک نہیں کرتے سے سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے مولوی محمد حسین صاحب زیادہ نہیں چار پانچ آدمی تو ایسے اپنے شاگر دیا دوست بتا دیں جو پوری پوری ( خدا کے واسطے ) مولوی صاحب سے محبت رکھتے ہوں اور دل و جان سے فدا ہوں.اور اپنے مال کو مولوی صاحب پر قربان کر دیں.اور اپنی عزت کو مولوی صاحب کی عزت پر شمار کرنے کے لئے مستعد ہوں.“ ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳۷ تا ۶۴۰ ) توضیحی نوٹ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ایک وکیل صاحب کا ذکر کیا ہے کہ وہ گویا اسلام سے برگشتہ ہو چکے تھے اور حضرت اقدس کے نفوس قدسیہ نے اُن کو ایک مخلص مسلمان بنا دیا.یہ وکیل صاحب حضرت بابو محکم الدین صاحب امرتسر میں پریکٹس کرتے تھے اور پٹی ضلع لاہور کے باشندے تھے خاکسار عرفانی کے مخلص دوستوں میں سے تھے.دوسرے ایک بزرگ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس جلسہ پر حضرت مولوی سید عبداللہ صاحب غزنوی کا ایک رؤیا مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق بیان کیا تھا یہ بزرگ حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ کے ایک نہایت ہی مخلص اور حضرت اقدس کے

Page 404

حیات احمد ۴۰۱ جلد سوم فدائی تھے.مولوی عبداللہ غزنوی سے بھی انہوں نے بیعت کی ہوئی تھی.اور مولوی محمد حسین صاحب سے بھی تعلقات رکھتے تھے اس لئے کہ خود مولوی محمد حسین صاحب بھی غزنوی صاحب کے خاص معتقدین میں سے تھے.اس جلسہ کے برکات جیسا کہ پہلے میں نے بیان کیا ہے کہ باوجود علماء کی مخالفت کے اور عین جلسہ کے قریب جلسہ میں شمولیت کو روکنے کے لئے ایک فتویٰ شائع کیا گیا مگر تائید ربانی نے اپنا کرشمہ دکھایا.کہ اس جلسہ میں ایسے لوگ شریک ہوئے جو اپنے علم وفضل اور دنیوی وجاہت وعزت کے عملی رنگ کے مخلص مسلمان تھے اور ایک کثیر جماعت سلسلہ میں داخل ہوئی اور اشاعت اسلام کے لئے ایک مستقل نظام کی بنیاد رکھی گئی اور حضرت اقدس نے باوجود مختلف قسم کی مصروفیتوں اور سفروں کے آسمانی فیصلہ اور نشان آسمانی دو رسالے شائع کئے.اور ایک ضخیم کتاب حقیقت اسلام کے اظہار کے لئے لکھنی شروع کی جس کا نام آئینہ کمالات اسلام رکھا اور یہ کتاب فروری ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی جس کا کسی قدر تفصیلی ذکر ۱۸۹۳ء کے واقعات میں انشاء اللہ العزیز ہوگا.بعض ضروری تصریحات اور متروکہ واقعات گالیاں دینے والا کون تھا (1) قیام لاہور کے ایام میں محبوب رایوں کے مکان میں ایک ایسے شخص کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس نے ایک بھری مجلس میں حضرت اقدس کو گالیاں دیں اور آپ کامل صبر اور ضبط نفس کی وجہ سے خاموش رہے.اس گندہ دہن کے متعلق حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر رضی اللہ عنہ کی ایک شائع شدہ روایت مل گئی ہے جس میں اس شخص کا نام دیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے.

Page 405

حیات احمد ۴۰۲ جلد سوم محبوب رایوں کے مکان واقع منگے منڈی لاہور کا واقعہ ہے.(مرتب) کہ ایک سائیں سراج الدین جو پیر گولڑوی کا مرید تھا.اور لاہور میں گولڑوی کے مرید اس کی عزت کیا کرتے تھے نورالدین نان بائی کے مکان میں رہا کرتا تھا.ایک روز وہ حضرت اقدس سے ملنے کے بہانہ سے آیا.اور آ کر سامنے بیٹھ گیا.جب موقعہ پایا تو اجازت چاہی کہ میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.حضور علیہ السلام نے اجازت دے دی اس پر اُس نے گالیاں نکالنی شروع کر دیں.اور اس قدر گالیاں دیں کہ گالیوں کی لغات میں کوئی لفظ اُس نے باقی نہ چھوڑا.جب ذرا ٹھہر جاتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے کہ سائیں صاحب کچھ اور ! وہ پھر بھڑک اٹھتا.گالیاں شروع کر دیتا.حضرت اقدس تھوڑی پر ہاتھ رکھے اُسے دیکھتے رہے.اور سنتے رہے اس پر ہمیں بھی جوش پیدا ہوا.ہم نے اسے سرزنش کرنے کی کوشش کی مگر حضور علیہ السلام نے منع فرمایا.نوٹ.اس واقعہ کے متعلق ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ اپنی بکواس کرتے کرتے خود ہی خاموش ہو گیا ، اُس کے خاموش ہو جانے پر حضرت نے اُسے مخاطب کر کے فرمایا ”بھائی کچھ اور بھی کہہ لے اس پر وہ گڑ گڑا کر حضور کے پاؤں پر گر پڑا اور معافی کا خواستگار ہوا اور کہنے لگا کہ مجھ سے سخت نادانی ہوئی میں حضور کے مرتبہ کو نہیں پہچانتا میری تو بہ“ جہاں تک میرا علم اور چشم دید واقعہ ہے مجھے یہ بیان معلوم نہیں اور جیسا کہ حضرت میاں معراج الدین صاحب کی روایت سے ظاہر ہے کہ وہ گولڑوی کا ایک کٹر مرید تھا.اس کا پورا پتہ حضرت میاں صاحب نے بیان کر دیا ہے اس کی روایت میں بھی اس کے اس طرز عمل کی تائید نہیں.ایک غالی دشمن اس قسم کی شرافت کا اظہار کرے کچھ مستبعد معلوم ہوتا ہے.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصّواب (r) حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ نے منشی میراں بخش صاحب مرحوم کی کوٹھی میں جو تقریر کی تھی اس کے ابتدائی حصہ کے متعلق ( جو آپ نے ایک درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں کلمہ شہادت

Page 406

حیات احمد ۴۰۳ جلد سوم پڑھا ) حضرت معراج الدین عمرؓ نے اکثر سامعین کے تاثرات کا اظہار فرمایا ہے.میں اسے بھی یہاں درج کر دیتا ہوں.فرماتے ہیں.۱۸۹۲ء میں میراں بخش کی کوٹھی واقع لاہور میں بہت بڑے مجمع کے سامنے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقریر فرمائی تھی اور بعد میں حضرت خلیفہ اول نے تقریر کی.حاضری تقریباً دس ہزار تھی کیونکہ لوگ کوٹھی کے صحن اور آس پاس کے مکان کی چھتوں پر اور کوچوں میں اس طرح باہم پیوستگی کی حالت میں کھڑے تھے کہ ہل چل بھی نہیں کر سکتے تھے تقریر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب تھک گئے تو اندر کمرے میں تشریف لے گئے.ہم نے دبانا شروع کیا.حضور علیہ السلام کے معاً بعد حضرت خلیفہ اول میز کے اوپر کھڑے ہو گئے پہلے کلمہ شہادت بلند آواز اور بڑے موثر جذبہ کے ساتھ پڑھا اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گرد ونواح کی اینٹوں میں سے بھی کلمہ کی آواز گونج رہی ہے.آپ کے لیکچر کا حاضرین پر اثر تھا کہ رونے چینے اور چلانے کی چاروں طرف سے آوازیں آ رہی تھیں.تقریر کے بعد چند معززین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مبارک باد دے کر کہا کہ اگر آپ ایک دفعہ اور کلمہ اس طرح پڑھتے تو ہم پورے مسلمان ہو جاتے لیکن آدھے مسلمان تو ہو گئے ہیں.(۳) ۱۸۹۲ء کے سالانہ جلسہ کے متعلق حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان بھی جو مکرم ملک صلاح الدین صاحب فاضل مؤلف اصحاب احمد نے دوسری جلد مشتمل بر حالات حضرت صاحب میں لکھا ہے ) یہاں درج کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں.دسمبر۱۸۹۲ء میں قادیان گیا تو مدرسہ احمد یہ مہمان خانہ اور حضرت خلیفہ المسیح اول کے مکان کی بنیادیں رکھی ہوئی تھیں اور یہ ایک چبوترہ سالمبا بنا ہوا تھا.اسی پر جلسہ ہوا تھا اور کسی وقت گول کمرہ کے سامنے جلسہ ہوتا تھا.یہ چبوترہ بھرتی ڈھاب میں سے ڈال کر بنایا گیا تھا.اور اس کے

Page 407

حیات احمد ۴۰۴ جلد سوم بعد جتنے مکان بنے ہیں بھرتی ڈال کر بنائے گئے ہیں.“ نیز فرماتے ہیں:.دسمبر ۱۸۹۲ء میں پہلے جلسہ میں شریک ہوا.ایک روز میں نے حضرت سے علیحدہ (بات) کرنی چاہی گو یہ بہت تنہائی نہ تھی.مگر حضور کو بہت پریشان پایا.یعنی حضرت کو علیحدگی میں اور خفیہ طور سے بات کرنی پسند نہ تھی.آپ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی بات ہوتی تھی.اسی جلسہ ۱۸۹۲ء میں حضرت بعد نماز مغرب میرے مکان پر ہی تشریف لے آتے تھے.اور مختلف امور پر تقریر ہوتی رہتی تھی.احباب وہاں جمع ہو جاتے تھے.اور کھانا بھی وہاں ہی کھاتے تھے نماز عشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا.میں علماء اور بزرگانِ خاندان کے سامنے دو زانو بیٹھنے کا عادی تھا.بسا اوقات گھٹنے دُکھنے لگتے.مگر یہاں مجلس کی حالت نہایت بے تکلفانہ ہوتی تھی.جس کو جس طرح آرام ہوتا تھا بیٹھتا تھا.بعض پچھلی طرف لیٹ جاتے مگر سب کی دل میں عظمت ادب اور محبت ہوتی تھی.چونکہ کوئی تکلف نہ ہوتا تھا اور کوئی تکلیف نہ ہوتی تھی.اس لئے یہی جی چاہتا تھا کہ حضرت تقریر فرماتے رہیں.اور ہم میں موجود رہیں.مگر اذان عشاء سے جلسہ برخاست ہوتا تھا.“ بعض احباب کی ہجرت (۱) مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم نے اپنی تالیف میں ۱۸۹۲ء کے واقعات کے سلسلہ میں بعض بزرگوں کی ہجرت کا ذکر کیا ہے.۱۸۹۲ء میں کوئی صاحب ہجرت کر کے قادیان میں نہیں آئے ڈاکٹر صاحب نے ان مہاجرین میں سب سے پہلا نام مکرم مولوی محمد احسن صاحب امروہی کا لیا ہے.انہوں نے کبھی ہجرت نہیں کی وہ ایک عرصہ تک بھوپال میں رہے اگر چہ ملازمت سے الگ ہو گئے تھے اور پھر وہاں سے امروہہ چلے گئے وہ اوقات متفرقہ میں قادیان آتے رہے لیکن بہ حیثیت مہاجر کبھی نہیں آئے.البتہ ۱۸۹۲ء میں حضرت اقدس نے

Page 408

حیات احمد ۴۰۵ جلد سوم ان کے ملازمت سے علیحدہ ہو جانے پر اُن کی اعانت کے لئے احباب کو توجہ دلائی اور خصوصاً نواب محمد علی خان صاحب ان کی فراخ دلی سے اعانت فرماتے تھے.حضرت اقدس کو ان کے متعلق یہ الہام ضرور ہوا از پئے آں محمد احسن رہے تارک روزگار می بینم " (۲) حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کی ہجرت کا واقعہ صحیح ہے.حضرت مرحوم یوں تو وقتاً فوقتاً حضرت اقدس ہی کے حضور آتے رہتے اور مہینوں قیام فرماتے اور آپ کے تحریری کام میں ہاتھ بٹاتے ، کاپیاں پروف پڑھتے ، خطوط کے جواب دیتے لیکن والدین کی خدمت اور کشش سیالکوٹ بھی لے جاتی مگر وہاں خاموش نہ رہتے با قاعدہ درس دیتے.تقریریں کرتے.چنانچہ خلافتِ شیخین اور حضرت اقدس کے تجدیدی کارناموں پر لیکچر دیئے جو بعد میں طبع ہوئے مگر ۱۸۹۲ء کے اواخر میں مستقل طور پر قادیان آگئے اور آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ کے ترجمہ فارسی کی سعادت کا شرف اُن کو ہی حاصل ہوا.اور آئینہ کمالات اسلام کے قصائد نونیہ اور لامیہ بھی ان کی تحریک کا نتیجہ ہے ان ایام میں اپنی حالت کا ذکر فرماتے ہیں.۱۸۹۲ء کے آخر میں آئینہ کمالات اسلام زیر تصنیف تھی اور میں حضرت صاحب کے مکان کے نیچے گول کمرہ میں رہتا تھا اور آئینہ کمالات کے عربی حصہ کا فارسی میں ترجمہ کرتا تھا.“ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو حضرت اقدس سے عشق تھا اور حضرت اقدس کو بھی آپ کے ساتھ لہی محبت تھی اور تمام جماعت ان سے ایک والہانہ محبت رکھتی تھی اللہ تعالیٰ کی لے یہ شعر دو طرح جماعتی لٹریچر میں ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس طرح تحریر فرمایا ہے وہ ہم نے لیا ہے.دوسری تحریر پر چہ القادیان یکم ستمبر سن 19ء میں پہلے مصرعہ کے اختلاف سے درج ہے وہاں ”از برائش محمد احسن را‘ مندرج ہے.ملاحظہ ہو تذکره صفحه ۱۴۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء (ناشر) کے ترجمہ.میں دیکھتا ہوں کہ مولوی سید محمد احسن امروہوی اسی غرض کے لئے اپنی نوکری سے جو ریاست بھوپال میں تھی علیحد ہو گئے تا خدا کے مسیح کے پاس حاضر ہوں.

Page 409

حیات احمد ۴۰۶ جلد سوم وحی میں ان کو مسلمانوں کے لیڈر کا خطاب عطا ہوا.وہ ساری عمر جماعت کے امام الصلوۃ اور خطیہ رہے.اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ وَ نَوْرُ مَرْقَدَہ.میرے محسن اور محبت صمیم تھے.(۳) حضرت حکیم الامت خلیفہ اسیح اول نے ۱۸۹۲ء میں ہجرت نہیں کی ۱۸۹۳ء تک تو مہاراجہ جموں و کشمیر کے شاہی طبیب تھے موقعہ ملنے پر قادیان آ جاتے تھے اور حضرت اقدس ان کی عیادت کے لئے ایک مرتبہ جموں بھی تشریف لے گئے تھے.(۴) حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ سے مولوی محمد حسین صاحب نے فتویٰ کفر پر دستخط لئے مگر انہوں نے نہایت احتیاط اور خَشْيَةُ الله سے اپنا بیان لکھا.جو درج ذیل ہے اور آخر وہ بیعت میں داخل ہوئے.اشاعۃ السنہ بٹالوی صاحب کے سوال میں بحوالہ تحریرات مذکور درج ہیں اور وہ تحریرات آج تک مجھ کو باد جو دسعی و جستجو کے نہیں میسر ہوئیں تاکہ میں اُن کے مطالعہ سے حسب استعداد اپنی کے دجالیت اور کذابیت کے اسلام کے دائرہ سے خارج ہونے یا حقانیت دربانیت و صداقت و اشاعت اسلام مرزا کی ایسی یقینی اور قطعی سند حاصل کرتا اور پھر استفتا پرلکھتا کہ اس کو عَالِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَتِ کی حضور میں پیش کرتا اور فرمانِ این دستجان کا بھی بے تحقیق لکھنے اور کہنے اور کرنے سے شدت سے منع کرتا ہے کہ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ - إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَيْكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا - اور ايضًا الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى....الخ اور نبی الرحمت نے فرمایا ہے کہ اَلشَّاهِدُ يَرَى مَالَا يَرَاهُ الْغَائِبُ اور غائب پر حکم لگانے سے روکا ہے اور سوال میں بھی بحوالہ تحریرات میرزائی مسطور ہے کہ وہ ایسی باتوں کا معتقد و مدعی ہے لہذا نہ مطلقاً بلکہ مقیداً لکھا جاتا ہے کہ اگر مرزا ایسے اعتقادات کا معتقد و مدعی ہے جو علماءِ رَبَّانِيِّين نے اُس کے حق میں لگائے ہیں.اور عیاذ باللہ کہ کسی کے حق میں تَقْلِيْدًا اور سَمْعًا کوئی فتویٰ دوں اور لکھوں اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُوْرِ نَفْسِى وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِي اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا فَإِنّكَ خَيْرُ مَنْ زَكَّهَا مَنْ زَكَّهَا امِيْنِ يَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنِ العبد برهان الدین جہلمی بنی اسرائیل : ۳۷ یس : ۶۶

Page 410

حیات احمد ۴۰۷ جلد سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ ایک بشارت اے بے خبر بخدمت قرآن کمر بہ بند زاں پیشتر که بانگ برآید فلاں نماند میری زندگی میں ۱۳۱۸ھ کا رمضان ایک خاص نعمت اور برکت کا مہینہ تھا کہ میں نے تفسیر القرآن شائع کرنے کا ارادہ کیا اور شوال ۱۳۱۸ھ میں اللہ تعالیٰ کے محض فضل و کرم سے تفسیر القرآن کا پہلا پارہ شائع کر سکا یہ فروری ۱۹۰۱ء کی بات ہے پھر اس سلسلہ میں سورۃ بقرہ ختم ہوگئی اور سورۃ آل عمران کی تفسیر لکھ رہا تھا اور وہ چھپ بھی رہی تھی کہ التوا ہو گیا.اور وہ مطبوعہ حصہ انقلاب ۱۹۴۷ء کی نذر ہوا یا کیا مجھے علم نہیں.پھر میں نے ۱۹۰۹ء میں اس سلسلہ کو شروع کیا اور تاریخی حیثیت سے ترجمۃ القرآن کے نام سے پارہ ۲۳ سے آخر تک اور ۱۵.۱۶.۱۷ پارے شائع کئے اور زمانہ دراز گزر جانے کے بعد میں نے جب قرآن کریم کے متعلق ایک سلسلہ تالیفات شروع کیا جس میں اب تک قریباً دس رسالے شائع ہو چکے ہیں.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ تو میرے دل میں پھر یہ جوش پیدا ہوا کہ پارہ ۱۸ سے ۲۳ تک جو باقی رہ گئے ہیں ان کو پورا کر دیا جاوے تا کہ اس سلسلہ میں آخری ۱۶ پارے پورے ہو جاویں اور پھر اگر توفیق ربانی رفیق راہ ہوئی تو آل عمران سے سورۃ انحل تک بھی مرتب ہو جاوے.مگر اپنی عمر کے لحاظ سے ( جو ۸ واں سال ہے جس میں سے آٹھ ماہ گزر چکے ہیں) میں طبعی طور پر کوئی توقع نہیں کر سکتا لیکن مولیٰ کریم کے فضل و کرم کی تو کوئی حد بست نہیں اُس کا فضل شامل حال ہوتو وہ چیز جو دنیا کے دانشمندوں اور حکیموں کی نظر میں ناممکن ہو ممکن ہو جاتی ہے.میرے خود وہم میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ جس کام کو میں نے ۱۹۰۱ء میں شروع کیا تھا عہد التواء کے بعد پوری نصف صدی گزر جانے پر میں اُسے پھر آغاز کر سکوں گا.مگر اسی کریم کی ذرہ نوازی ہے کہ میں پھر توفیق پا رہا ہوں.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ

Page 411

حیات احمد ۴۰۸ جلد سوم میں یہاں تک لکھنے پایا تھا کہ یکا یک مجھے خیال آیا کہ میں نے جب تفسیر القرآن کا پہلا پارہ شائع کیا تو میرے ایک نہایت ہی واجب الاحترام اور ذی علم بھائی حضرت قاضی اکمل نے ایک ریویو لکھا وہ تو اس وقت میرے سامنے نہیں مگر میرے حافظہ میں اس کا مفہوم ہے کہ انہوں نے بعض لغزشوں کا ( بخیال خویش ) اظہار کرتے ہوئے عیب کے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو پر عمل کر کے میری ہمت و محبت و جسارت کی داد دی اور اس کی ضرورت پر توجہ دلائی اس طرح پر عملی صورت میں یہ پہلی تفسیر تھی جو اس سلسلہ میں شائع ہوئی.میں اس امر کا تـحـديـث بالنعمة کے طور پر ذکر کرتا ہوں کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے سب سے پہلے جماعت میں قرآن کریم سے محبت اور اس پر غور و فکر کے لئے اخبار الحکم میں قرآنِ کریم پر نوٹ لکھ کر توجہ دلائی.پس یہ وہی جذ بہ ہے جو کسی زمانہ میں سرد نہیں ہوا.اور اس پیرانہ سالی میں جب کہ تمام قو تیں سرد ہو جاتی ہیں وہ اب بھی پوری حرارت کے ساتھ موجود ہے اور یہ اسی کا تقاضا ہے کہ میں پھر اس راستہ پر چل رہا ہوں اور جس منزل پر رکا تھا وہاں ہی پورے ۵۱ سال بعد قدم بڑھا رہا ہوں.ہر قدم اور ہر سانس پر اللہ کریم کے فضل و کرم کا امیدوار ہوں وہ جب تک چاہے گا توفیق دے گا اور میرا اپنا تو یہ ماٹو ہے گر نباشد به دوست ره بردن شرط عشق است در طلب مردن اُسی کے فضل و رحم کے ساتھ شروع کرتا ہوں اور اسی کے فضل و رحم پر تحمیل کی تمنا کرتا ہوں میرے مولی آغاز کرده ام تو رسانی به انتہا.رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْم - آمين اس سلسلہ کے خریداروں کا بہت بڑا حصہ وفات پاچکا ( رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ اَجْمَعِيْنَ) اور اگر کچھ باقی ہیں تو میں ان کے موجودہ قیام سے واقف نہیں اگر چہ مجھے یقین ہے کہ وہ اب بھی اس سلسلہ میں نہ میرے لئے بلکہ اپنے ذوق علم اور عشقِ قرآن کریم کی بناء پر آگے بڑھیں گے.میں احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ پاکستان کے رہنے والے دفتر الحکم کراچی عید گاہ روڈ نمبر (۱) کے پتہ

Page 412

حیات احمد ۴۰۹ جلد سوم پر اور ہندوستان کے رہنے والے عرفانی الکبیر الہ دین بلڈنگ سکندر آباد کے پتہ پر درخواست کریں تا کہ شائع ہوتے ہی یہ پارہ بذریعہ وی.پی بھیج دیا جاوے سر دست میں نہیں کہ سکتا کہ اس کا ہد یہ کیا ہو گا مگر کسی صورت میں دو اور تین روپیہ سے کم نہ ہو سکے گا.خاکسار عرفانی الکبیر نزیل سکندر آباد یکم اگست ۱۹۵۲ء

Page 413

17 ۱۹ آیات قرآنیده انڈیکس حیات احمد جلد سوم مرتبہ:مقصوداحمد قمر صاحب احادیث نبویه الہامات حضرت مسیح موعود اسماء مقامات کتابیات

Page 414

۳۸۹ ۱۷۰ ۲۱۷ آیات قرآنیہ الانعام قل سيروا في الارض (١٢) ۲۰ البقرة هدى للمتقين (۳) الم تعلم ان الله على كل شيء قدير (۱۰۷) ۲۶ قل ان صلاتی و نسکی (۱۶۳) ولا تزر وازرة وزر اخرى (۱۶۵) الاعراف فيها تحيون و فيها تموتون (٢٦) ربنا افتح بيننا و بین قومنا (۹۰) ۲۳۹،۱۹۸ الانفال ليهلك من هلك عن بينة (۴۳) ۱۴۰ ۲۲۲ التوبة الله عنهم و رضوا عنه (۱۰۰) رضی يأيها الذين أمنوا اتقوا الله و كونوا مع ۳۸۹ ۱۳۸ ۲۱۳ ۲۶۷ ۲۲۱ ۲۴ ۱۹ ۵۹ ۲۰۱ ۲۸۲ ان الذين يكتمون ما انزلنا (۱۲۰) ان الله يحب التوابين(۲۲۳) لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (۲۸۷) آل عمران فاصبحتم بنعمته اخوانا (۱۰۴) الحق من ربك (٦١) تعالوا ندع ابناء نا و ابناء كم (۶۲) ثم نبتهل فنجعل لعنت الله (۶۲) قل فاتوا بالتورة فاتلوها (۹۴) النساء فان تنازعتم في شيء (۶۰) يغفر ما دون ذلك (۱۱۷) المائدة ۲۴۵ ۳۳ ذلك بان منهم قسسین و رهبانًا (۸۳) ۲۱۳ فلما توفّيتني (۱۱۸) ۲۹۴ الصادقين (۱۱۹) يوسف قل هذه سبيلي ادعوا الى الله (۱۰۹) النحل والذين يدعون من دون الله (۲۲،۲۱)

Page 415

و اوحى ربّك الى النحل (۶۹) بنی اسراءیل ۳۱ المؤمن ادعوني استجب لكم (۶۱) ولا تقف ما ليس لك به علم (۳۷) ۲۵۹، ۴۰۶ لمقت الله اكبر من مقتكم (۱۱) الكهف ق ۲۵۸ ۲۷۳ كبرت كلمة تخرج من افواههم (۲) ۲۷۵ و نحن اقرب اليه من حبل الوريد (۱۷) ۴۵ طه ۲۲۸ ۱۶۹ الواقعة لا يمسه الا المطهرون (۸۰) الحشر فاعتبروا يأولى الابصار (۳) الصف يريدون ليطفئوا نور الله بافواههم (۹) ۱۴۵ الدهر و يطعمون الطعام على حبه (۹) النيا كذبوا بايتنا كذابًا (۲۹) ۳۶۵ ۵۹ ۲۲۸ الزلزال اذا زلزلت الارض زلزالها (۲) ۲۴۱ ۱۲۷ ۱۲۶ ۲۰ ۹۳ ۴۰۶ ۲۱۳ قد خاب من افترای (۲۲) الحج ومنكم من يرد الى ارذل العمر (1) المؤمنون والذين هم عن اللغو معرضون (۴) ثم انشأناه خلقا آخر (۱۵) العنكبوت والذين جاهدوا فينا (۷۰) يس اليوم نختم على.....الخ (٦٦) لا اله الا الله (۳۶) الصفت

Page 416

اختلاف امتی رحمة الف احادیث نبویہ ۲۰۷ ،۱۴۳ ق - ك - ل قال النبي قد كان فيمن قبلكم من بنی اسرائیل رجال يكلمون اسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة من قال لا ۳۴۸ لا مهدى الا عيسى ۲۳۷ ليس الخبر كالمعاينة 11+ م ما حاك في صدرك فهو ذنبك من ادرك منكم عيسى ابن مريم فل يقله منى السلام ۲۲۶ من حسن اسلام المرء تركه ما لا يعنيه ١٢٦ من سلك طريقًا يطلب به علمًا سهل الله له طريق الجنة ۳۹۰ من عادى لي وليا فقد اذنته بالحرب ١٣٩ ولا يلدغ المؤمن من جُحْرٍ واحد مرتين ۲۴۴ يقبض العلم بقبض العلماء ۳۸۴ ۳۹۰ ۴۵ ۲۲۲ ۳۸۷ ۲۷۵ ۱۷۰ ۳۸۸ اله الا الله اسئلك مرافقتك في الجنة الشيطان يفر من ظل العمر اطلبوا العلم ولو كان في الصين الكفر ملة واحدة ان الميت ليعذب ببكاء اهله انما الاعمال بالنيات ان وفد عبدالقيس في شهر حرام ۳۹۱ ۱۱۸ G ع - ف فذهب وهلى فطوبى للغرباء

Page 417

ا ۴۷ ۱۱۴ ۱۳ ۳۶۷ ۸۶ ۴۰۶ 1+1 ۳۳۷ ۳۲۲ ۳۹ ۹۸ ۸۲،۸۱ > الہامات حضرت مسیح موعود اذا عزمت فتوكل على الله از پی آن محمد احسن را استغفر الله ربي من كل ذنب اليس الله بکاف عبده ان معی ربی سیهدین انى انا ربك اولاد کے ساتھ نیک سلوک کیا جاوے گا ۱۴ ۴۰۵ ۴۷ ۵۱ 1+1 22 ۳۶۱ انا الفتاح افتح لك ترى نصرا عجيبا ۳۳۷ اے فخر رسل قرب تو معلومم شد بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۹۷ تیرے بیان میں سختی بہت ہے رفق چاہیے رفق ثلة من الأولين وثلة من الاخرين حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب دخت کرام دنیا میں ایک نذیر آیا ۱۰۷ ۸۶ ۸۸ ۱۷۶ رب انی ظلمت نفسی سیهدی عشق اول سرکش و خونی بود قدرت کردگار می بینم کیا شک ہے مانے میں تمہیں اس مسیح کے مسلمانوں کا لیڈر میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے میں تجھے عزت دوں گا ولقد لبثت فيكم عمرًا من قبله ويسئلونك احق هو ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ یہ شخص مرنے سے پہلے تو بہ کرے گا يا عيسى اني متوفيك یا مریم اسکن

Page 418

۵۹ ۳۴۸ ۳۴۲ تا ۳۴۴ ۱۳۷ احمد عرب، سید احمد علی ( مددگار عبد الحکیم کلانوری ) ، مولوی احمد علی کاتب، مولوی احمد غزنوی، سید احمد اللہ امرتسری، مولوی ۲۱۲،۲۰۵،۱۶۳،۱۶۲،۱۴۲ ۴۲ ١٩٩، ٢٠٦ ۲۱۴ اروڑے خاں منشی اسحاق علیہ السلام الحق کندی اسماعیل علیہ السلام ( ذیح) ۲۰۶،۱۹۹،۱۴۲ اسماعیل (علی گڑھی ) مولوی ۱۶۳،۶۳،۵۴،۵۳، ۲۰۷ ۳۹،۳۷،۳۴،۳۰،۲۸ ۱۸۵ ۴۵ ۱۹۶،۱۸۷ ۱۸۱ ۲۳۲ ۸۵ ۲۱۲ ۷۳ ۴۳ افتخار احمد صاحبزاده اکبر ولد محمد پناہ اکبر خاں سنوری اللہ بخش تونسوی ، خواجہ اللہ بخش (لدھیانوی) اللہ بندہ ہانسوی اللہ دتا الہ دتا الہ دتا جلد ساز، شیخ الہ دیا، شیخ ( مصنف رد نصاری) الہ دین ، میاں اسماء ۲۳۹ ٣٦٠ ۳۷۵ ۱۹۸ ا.ب.پ.ت.ٹ آدم صفی اللہ علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام، حضرت ۲۹۴،۲۰۶،۲۰۵،۱۴۲ ۱۹۸ ۲۱۲ ۲۳۶،۱۷۵ ۶۰ ۶۰ ۲۳۴ ۳۵۵،۳۵۴،۳۵۳،۳۴۶ ۷۳ ابراہیم، حافظ ابن تیمیه ابن عباس ، حضرت ابن عربی ، محي الدين ابوالبقاء ، مولوی ابوحنیفہ، امام اعظم ابو جہل ابولہب ابو ہر میگا ، حضرت ابویوسف مبارک علی احسان اللہ احمد جان حاجی منشی صوفی ۲۳۱،۵۰،۳۸،۳۶،۳۰،۲۹ ،۲۸ ،۲۷ ، ۲۵ ،۲۳ ۲۸۳ ۸۵ ۲۸۴ احمد حسین بنتی منشی احمد سید ( ناول نویس) احمد شاہ ، مخدوم

Page 419

الہی بخش اہلحدیث ، بابو امام مسلم ۱۱۵،۲۵ ۲۳۶ امان علی ولد چانن شاه امان اللہ، مرزا امراؤ مرزا ایڈیٹر کرزن گزٹ ام سلمہ ، حضرت ام المؤمنین ) امیر الدین منشی اہلحدیث ۱۸۵ ۱۲۲۱۱۵ ۲۷۴ ٣٣ ۱۹۷ ،۱۶۰،۱۵۰،۱۴۹ ، ۱۲۲ ۱۲۰ ، ۱۱۵ امیر علی شاہ اہلکار پولیس ،سید ابن صیاد اویس قرنی ، حضرت ۳۴۰،۲۹۴،۲۷۷ ،۲۷۵،۳۶ ۱۵۵ ۳۸۸ ایوب بیگ ،حضرت مرزا بایزید بسطامی، حضرت برکت علی ، لائق منشی برکت علی وکیل چیف کورٹ پنجاب برہان الدین جہلمی مولوی بشارت احمد ، ڈاکٹر بشیر اوّل ( پسر مسیح موعود ) ۳۴۰ ۳۸۹ ۳۸ ۳۴۵ ۴۰۶ ۴۰۴،۲۰۹ ۹۵،۱۷ ،۱۳ پیغمر ا سنگھ تاج محمد ، مولوی تفضل حسین ،سید میر ٹھا کر رام جان محمد ، مستری ج - چ - ح - خ ۳۴۱ ۲۳۲،۱۸۲ ۶۶،۶۲،۵۳ ۹۰،۸۹ 190 جان ویٹ ، مسٹر ۳۳۱ جبرائیل علیہ السلام ۲۴۳،۲۳۹ جعفر علی حکیم ہنشی جگن ناتھ جمونی، ڈاکٹر ۳۶۲ ۳۲۵،۳۲۴،۳۲۳، ۳۲۷ تا ۳۲۹ جمال الدین ، ڈاکٹر جمال الدین رئیس فقیر ، سید جوالا سنگھ ، پادری ۱۵۷ ،۱۵۱ ۲۱۴ جیون علی منشی ۱۳۷ چراغ دین ، حضرت منشی ۳۴۰ چراغ دین ،میاں حامد شاہ سیالکوٹی ،سید ۵۲ ۳۹۷،۳۹۴،۳۵۵ حامد علی، شیخ حافظ ۳۵۷ ،۱۹۰۰۶۴،۵۳،۴۶،۴۵،۳۵ حبیب الرحمن شاہ ، حضرت ۳۶۱،۲۸۴ بشیر احمد ایم.اے مرزا ۳۴۶،۳۴۴،۲۱۱،۴۳،۴۱ چڑ جی بنگالی بهرام خان دہلوی بوٹا ولد احمد جمالپور پیردار جمالپور پیر محمد نمبر دار ۲۸۴،۲۸۳ ۱۸۳ ۱۸۳ ۱۸۳

Page 420

S ۹۸ ۳۹۶ ۲۱۴ ۳۸۷ ،۳۴۵ ۹۵ رجب الدین ، خلیفہ رجب دین، میاں رحمت اللہ شیخ ( کمشنر گجرات) رحمت مسیح واعظ فارو والی رحیم بخش، حضرت رحیم بخش، شیخ ( والد محمد حسین بٹالوی) رحیم بخش فقیر ( بد بخت ہیرہ شاہ کا بیٹا ) ۲۷۷ رحیم بخش، مولوی ۳۹۲،۳۸۴،۳۸۳۹۱ رحیم اللہ، حضرت مولوی ۳۴۶،۳۴۰ رستم علی خان ، چودھری ۳۶۳،۳۱۲،۲۳۸ ،۹۲،۷۰ ،۶۴ ،۴۸ ، ۴۳ ،۲۴ 190 رستم علی ڈپٹی انسپکٹر ریلوے ۱۹۰،۴۲ ۳۴۶ ۳۵۵،۳۵۳ ۶۶ ۲۱۳ ۲۰۶،۱۴۲ ۳۳۳ ۳۵۵ ۹۴ ۲۷۴ تا ۲۷۶ ۱۵۸ حبیب الرحمن منشی حبیب اللہ حسام الدین، حکیم سید حسن علی بھاگلپوری ،مولوی حسن علی سفیر منشی حسین ، حضرت امام حمید الدین خلیفه ، مولوی حیات بی بی (المعروف بزرگ بی بی ) حیدر، شہزادہ حیرت دہلوی (ایڈیٹر کرزن گزٹ)، مرزا خدا بخش، احقر خدا بخش حج ، شیخ خلیل الرحمن ( برادر سراج الحق نعمانی ) خواجہ علی ، قاضی خیالی ولد گورمکھ خیراتی نمبر دار جمالپور ۱۵۱ تا ۱۵۷ رشید احمد گنگوہی ، مولوی ۲۸۰ ۳۳۲،۲۳۲،۱۹۰،۱۸۲،۱۶۶ د.ڈ.رز خیر الدین خاں سوار دلاور علی لدھیانوی تھانیدار، ڈپٹی ڈبلیو چٹوس بہادر ڈپٹی کمشنر مسٹر رام سنگھ ( عبدالعزیز شیخ ) رام ( آریہ وکیل ) منشی ۱۸۴ ۱۸۳ 190 ۲۱۱،۲۱۰ 122 ۵۲ ۳۶۶ رشیدالدین ، ڈاکٹر خلیفہ روڑا خان ،منشی روشن لال ولد قا سا نمبر دار جمالپوری زین الدین ابراہیم انجینئر ، بابا ۳۰۵،۱۹۶،۱۸۷ ۵۲ ۳۵۷ تا ۳۶۰ س ش ص ض - ط - ظ سراج الحق نعمانی، صاحبزادہ پیر ۱۸۴ ۳۹۳ ۵۰،۴۷ ،۴۲ ۲۷۴،۲۳۴،۲۳۱ ،۲۲۲،۱۹۰ ،۱۶۷ ،۱۶ ،۱۶۳۷۱ ۲۸۰۰۲۷ تا ۳۴۹،۳۴۶،۲۸۹،۲۸۶،۲۸۴ سراج الدین (ایڈیٹر چودھویں صدی) سراج الدین ( انسپکٹر ڈاک ، مولوی ۳۵۵ ۳۵۵

Page 421

۳۴۲ ۲۷۹ ۱۹۸،۱۷۰،۱۴۰ ظفر علی سر ، مرزا ظہور الدین اکمل شاعر ع.غ عائشہ صدیقہ، حضرت عباس علی، میرسید ۱۹۰،۱۸۱،۸۹٬۸۲،۶۳،۵۳،۴۷ ، ۴۵ ،۳۴،۲۸ ،۲۵ عباس علی لدھیانوی، میر ۳۱۵،۳۱۴،۲۳۳، ۳۱۷ ۳۷۴،۳۷۳،۳۶۹ ،۳۶۸ ،۳۲۲،۳۱۹ ۱۴۰،۱۳۸ ،۱۱۶،۱۱۳،۱۱۱ ۲۰۵،۲۰۴،۲۰۳ عبدالجبار غزه نوی ، مولوی ۲۴۶،۲۴۳ ۲۷۴ ۲۳۸ IMI ۱۹۷،۱۱۶،۱۱۳،۱۱۱ ۲۰۸،۲۰۷ ،۲۰۴،۱۹۸ 190 ۱۳۷ ،۱۲۲،۱۱۵ ،۱۰۰،۵۵ عبد الحق ابو محمد ، مولوی مکذب عبد الحق حقانی ، مولوی عبد الحق کرانچی والے، شیخ عبد الحق ولد عبدالسمیع لدھیانہ عبد الحق غزنوی ، مولوی عبد الحق لود بانوی ، شیخ عبد الحق منشی ۱۵۸ ،۱۴۹ ، ۱۴۴ ،۱۴۲،۱۳۹ عبدالحکیم کلانوری ،مولوی ۳۴۸ ،۳۴۵،۳۴۴،۳۴۲۱۷۴ ۳۶۶،۳۶۳،۳۶۱،۱۹۰ عبدالرحمن منشی عبدالرحمن لکھو کے والے، مولوی ۱۱ تا ۱۱۶۰۱۱۴ ۳۶۳،۱۹۰ ۴۳ ۲۸۳ ۱۳۴،۳۱ ۳۳۱،۹۲،۹۱ ٣٦٦ ۲۸۵،۲۸۴ ۲۱۴،۲۱۳ ۲۱۲ ۳۲،۳۱ ۳۳۹،۳۱۱ ۹۱ ۱۸۵ ۶۶۰۵۳ ۳۴۱،۲۸۷ سردار خان کپورتھلہ سرور شاہ ، مولوی سید سعد اللہ ( نومسلم) سعد اللہ خاں دہلوی سعداللہ لدھیانوی ،منشی ( اہلحدیث ) سلطان احمد ، مرزا سوامی شرد ہانند ( آریہ لیڈ روکیل ) منشی سلیم الدین خاں دہلوی ، مولوی سی.پی نیوٹن، پادری شاہ دین ، مولوی چک مغلاں شریف احمد ، صاحبزادہ میاں شمس الدین ، مولوی منشی شنکر داس ، ڈپٹی شیر اولد روشن گجر صادق حسین ، شیخ مولوی حکیم صدیق حسن خاں بھوپالی، نواب صغری بیگم، صاحبزادی سیده صلاح الدین ایم اے ملک ضیاء الدین ، قاضی طالب، پادری ظفر احمد کپور تھلوی ، شیخ ۶۴،۳۷،۳۰،۲۹ ،۲۷ ،۲۵ ۱۴۷ ،۸۸ ۴۰۰،۵۲ ۲۱۴ ۲۳۲،۱۹۰،۴۲،۴۰ ۳۶۵،۳۶۳،۳۵۹ ،۳۵۷ ،۲۸۶،۲۸۲۲۸۰

Page 422

۲۹۷،۱۸۱،۹۴،۵۳،۴۸ ، ۴۶ ،۴۵ ، ۴۳،۳۵ ۳۸۴ ۵۰،۴۹ عبد اللہ بن عمر و بن العاص عبداللہ سا کن تنگی چارسدہ،مولوی عبداللہ غزنوی، مولوی ۴۰۱،۴۰۰،۳۹۸،۲۰۳،۱۳۷ ،۱۱۳ عبداللہ لدھیانوی، مولوی عبداللہ مجہتد شیعہ مولوی عبدالمالک غزنوی عبدالمجید خاں، خان صاحب عبدالمجید دہلوی ، مولوی عبدالمجید شہزادہ، حاجی ۳۰۵،۲۲۳ ۱۶۶ عبدالمجید ، مولوی ( شاگردنذیر حسین دہلوی) ۱۳۷ ۳۶۱ ۲۸۷ ۲۳۲،۲۳۱ ۲۹۱،۲۸۷ ، ۲۷۴ ،۲۷۰ ،۲۵۲،۱۳۹،۱۳۸ عزیز بخش مجسٹریٹ ، میاں عزیز الرحمن ،سید عطاءالرحمن دہلوی، حکیم علی ، قاضی خواجہ ۳۶۲ ۳۷ 1908171 ۶۵،۴۸ ،۴۷ ۳۶۳ ۲۸۴،۲۸۳ ۷۳ علی گوہر افسر ڈاک منشی علیم اللہ نقشبندی ، حاجی عمادالدین، پادری عمر فاروق محدث امت ، حضرت ۳۸۸،۳۴۸ ،۳۴۴،۳۱۷ ،۲۲۵ ،۲۲۲،۱۵۵ عنایت علی لدھیانوی، میرسید ۲۱۲،۲۱۱،۲۰۹،۱۸۲،۴۸ ، ۴۷ ، ۴۳ ۴۰ عنایت اللہ ، مولوی ۳۰۵،۱۵۰،۱۳۰،۱۲۲،۱۲۰ ۲۹۲ ۶۷،۶۶،۵۲ ۲۲۲،۱۵۱،۹۴ ۳۴۰ ۱۳۷ ۱۸۱ ۴۵ ،۴۴ ۱۷۴ عبدالعزیز حافظ سید منصوری عبدالعزیز شاہ، حضرت عبدالعزیز شیخ ، ( سابق رام سنگھ ) عبدالعزیز لدھیانوی ،مولوی عبدالعزیز مغل، حضرت عبدالرحیم غزنوی عبدالسمیع لدھیانوی عبد الغنی شاہ (استاد حضرت خلیفہ اوّل) ۳۸۹،۲۰۶،۱۹۹،۱۹۸ ،۱۴۲ ،۱۷۹،۳۱،۳۰ ۲۳۲،۲۳۱،۱۸۳،۱۸۱ ۱۱۵،۹۲،۴۲،۳۲،۳۱ عبد الغنی منشی عبدالقادر جیلانی ، شیخ عبدالقادر لدھیانوی، مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ، مولوی ۳۱۱،۲۹۳،۲۹۱،۲۳۸،۲۳۲،۲۰۹،۱۶۷ ،۱۶۳،۱۳۷ ۴۰۵،۳۹۶،۳۵۳،۳۴۹،۳۲۵ عبدالکریم مختار عدالت لاہور ( عرف کریم بکرا) ۳۳۵ عبد اللہ آتتم ۱۱۵،۷۳ عبد اللہ پٹیالوی ، مولوی عبداللہ ٹونکی ، مولوی عبد اللہ جیمز ۳۴۲،۳۳۶،۳۳۵ ۷۳ عبداللہ خان پر و فیسر پٹیالہ کالج ،مولوی ۳۷۶،۳۷۵،۲۹۷،۸۸ عبد اللہ سنوری منشی حضرت

Page 423

۱۸۱ ۱۸۵ ۳۵۸،۳۵۷ ۲۹۷ غلام محمد بچھو والی غلام محمد مدرس جمالپور غلام محمد ، مولوی ( کپورتھلوی ) غلام مرتضی خاں ، مولوی حافظ ۸۵،۸۳،۷۹،۷۸ ،۷۷،۷۵ عیسی علیہ السلام ۲۰۰،۱۹۸ ،۱۸۸،۱۸۰، ۱۶۷ ،۱۵۵،۱۴۵ ،۱۴۱،۱۱۸ ۲۴۸،۲۴۶،۲۴۰،۲۳۷ ،۲۳۳،۲۲۸ ،۲۱۷ ،۲۱۴،۲۰۱ ۳۹۴،۳۲۷،۳۲۶،۳۱۷ ،۲۹۴،۲۶۸،۲۵۸،۲۵۱ غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود ، مرزا غلام مرتضی ، قاضی ۵۲،۵۰،۴۷ ،۴۲،۳۹ ،۳۷ ،۳۴،۳۰،۲۵،۱۷ ، ۱۳۹،۱ ۱۱۷ ، ۱۱۲،۱۰۰،۹۵،۸۸،۸۵،۷۸،۷۳۶۷ ،۶۴ ۱۶۴،۱۶۱،۱۵۷ ،۱۴۲،۱۴۰ ،۱۳۸ ،۱۳۳،۱۲۹ ، ۱۲۴ ،۱۲۰ ۲۰۹،۲۰۳،۲۰۰،۱۹۶،۱۸۸،۱۸۲،۱۷۸ ،۱۷۶۱۷۱ ۲۴۵،۲۳۵،۲۳۳،۲۲۸،۲۲۷ ،۲۲۳۲۲۰،۲۱۳ ۲۸۶،۲۸۰،۲۷۶،۲۷۵ ،۲۷۴ ، ۲۵۹ ، ۲۴۹ ، ۲۴۸ ۳۲۵،۳۲۳،۳۱۲،۳۰۰،۲۹۵ ،۲۹۴ ،۲۹۲،۲۹۱،۲۹۰ ۳۴۶،۳۴۵،۳۴۴،۳۴۳،۳۳۸ ،۳۳۳،۳۳۲ ۳۶۴،۳۶۰،۳۵۹،۳۵۸ ،۳۴۹ ،۳۴۸ ،۳۴۷ ،۳۸۱،۳۷۷ ،۳۷۶،۳۷۲،۳۷۱،۳۶۹ ،۳۶۷ غلام مسیح ، پادری ۹۰ ۲۱۴ غلام نبی خوشابی ۲۲۲ ۲۲۶،۲۲۳ تا ۲۲۹ فیک مرگ فتح علی شاه ، خان بہادر سید فرزند حسین ، سید ( مشہور شیعہ عالم ) فرعون فصیح الدین (شاہ عبدالعزیز کا مرید ) فضل احمد ،مولوی فضل حسین ،مہاشہ ۴۰۶،۴۰۵،۴۰۳،۴۰۰،۳۹۵،۳۹۴ فضل دین بھیروی ، حکیم الله الله ۳۱ ۱۴۲ ۲۹۳ ۳۵۴ ۲۸۹ ۳۸۷ ،۳۴۶،۸۷ ۱۵۱،۱۴۹ ۳۵۵ ۱۱۴ ۲۳۲ ۱۸۱ ٣٦٠،١٩٠ ۵۱ ۱۸۴ ۶۹ فضل الدین ، مولوی فضل الدین ، میاں فضل الرحمن فضل شاہ، سید فضل کریم سر رشته محکمه حج ، شیخ فیاض علی کپور تھلوی منشی فیض محمد خاں، ڈاکٹر کا کا ولد چوہر جمالپوری کرم داد، میاں ۳۴۲ ۳۶۴ ۱۱۲ ۳۵۶ ۱۸۴،۱۷۹ ۱۹۶،۱۸۷ ۱۶۸،۱۶۶،۱۶۳ غلام احمد حنفی بھیروی غلام حسین ،مولوی غلام حیدر،شہزادہ غلام حیدر تحصیلدار، شیخ غلام رسول اعوان لدھیانہ غلام فرید چاچڑاں ، خواجہ غلام قا در فصیح منشی غلام محمد بگوی ۳۹۹،۳۰۸،۲۸۷ ،۲۳۲،۲۱۰،۲۰۹ ۳۴۲

Page 424

۴۰۵،۴۰۴،۳۹۵،۳۸۳،۳۴۴ ، ۳۴۱،۲۹۵ ۱۲۴،۱۱۲ محمد احسن ، مولوی اہلحدیث محمد احمد دہلوی، مولوی محمد احمد ، مولوی ( رفقائے محمد بشیر بھوپالی) ۲۸۷ محمد اروڑا کپور تھلوی منشی ۱۹۰ محمد اسحاق پٹیالوی ، مولوی ۲۹۷ تا ۲۹۹ محمد اسحاق ، میر 3 محمد اسماعیل، سید میر محمد اسماعیل ( برادر اصغر محمد ابراہیم بقا پوری) محمد اسماعیل، مولوی محمد اسماعیل (امام بخاری) محمد بابو محمد بشیر بھوپالی، مولوی ۲۱۲،۱۹۹،۱۶۳ ۲۳۶،۲۰۷ ،۱۹۹ ۳۴ ۲۸۵ ،۲۸۲،۲۷۸ ۳۰۵،۲۹۶،۲۹۴،۲۹۳ ،۲۹۱،۲۹۰،۲۸۸،۲۸۷ محمد بن بارک اللہ لکھو کے والے، مولوی محمد چٹو ، بابا میاں محمد حسن خان ، وزیر اعظم پٹیالہ ،سید ۱۵۱ ۱۵۰،۹۸ ۲۹۶ محمد حسن، مولوی (سفیر محمد حسین بٹالوی) ۱۶۴ تا ۱۶۶ محمد حسن رئیس لدھیانہ، مولوی ۱۵۷ ،۱۳۰،۱۲۹ ۲۳۴،۲۳۲،۲۳۱،۲۳۰،۲۲۰،۱۸۴،۱۷۹،۱۶۰،۱۵۹ محمد حسین بٹالوی ، مولوی ۹۶،۹۴،۷۵،۶۷،۶۶، ۹۹ ۳۵۶ ۲۳۱،۱۸۵،۱۸۲،۱۸۱،۱۷۹ ۲۱۰ ۳۴۱ کرم دین جہلمی کریم بخش جمالپوری ،میاں کریم بخش تھانیدار گرو رام سنگھ گلاب شاہ مجذوب باشندہ لاہور ۳۶۷،۲۳۱،۱۸۵،۱۸۳،۱۷۹ ۱۸۳ ۱۸۲ ۱۸۵ گلزار شاه گھنیا لال سیکنڈ ماسٹر سنگر ور ریاست جنید ۲۴۹،۲۴۵،۲۳۸ ۸۷ ۲۹۵ لحم گوکل ولد متا ہا لوہارو،نواب مبارکه بیگم، نواب مجد د علی خاں محبوب رائیں ( لاہور والے) ۳۳۹، ۳۴۸، ۴۰۱ ۸۵ محبوب عالم منشی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۷۵،۷۲،۵۰،۴۵،۳۳،۱۵،۱۰ ۲۰۰،۱۹۸،۱۶۷ ،۱۶۴،۱۵۵ ،۱۴۳ ،۱۲۷ ،۱۱۸ ،۹۲ ۲۸۲،۲۷۸،۲۷۶،۲۶۴،۲۳۹ ،۲۲۵ ،۲۱۸،۲۰۲ ۳۵۸،۳۵۱،۳۴۷ ، ۳۴۴ ،۳۳۸ ،۳۲۱،۳۱۹،۲۹۵ ۳۸۹،۳۸۶،۳۸۱،۳۶۷ ۱۳۴،۱۲۴،۱۳۱،۱۲۹ ، ۱۲۵ ،۱۲۲،۱۲۰ ،۱۱۵ ، ۱۰۸ ، ۱۰۴ ۱۰۲ ،۱۸۸،۱۷۷ ،۱۶ ،۱۷۴ ۱۷ ۲۰۱۶۶،۱۶۲،۱۵۹،۱۵۶،۱۴۷ ۲۳۴،۲۳۳،۲۳۱ ،۲۲۲،۲۲۰،۲۱۷، ۲۱۱ ، ۲۰۹ ، ۲۰۵ ،۱۹۷ ۳۱ ۲۹۲،۲۹۰،۲۸۸ محمد ابراہیم بقاپوری محمد احسن امروہی ، سید مولوی

Page 425

۱۴ ۲۹۱،۲۸۸ ،۲۸۱،۲۷۶،۲۷۰، ۲۵۲،۲۴۸ ،۲۳۷ ،۲۳۵ ۳۶۳۳۵۸،۳۵۶،۳۵۳،۳۵۲،۳۵۱،۳۴۷ ،۳۴۱،۳۰۳ ۴۰۶،۴۰۰،۳۹۸،۳۷۵،۳۶۸،۳۶۴ محمدحسین خاں، ڈاکٹر محمد حسین فقیر، مولوی محمد حسین مراد آبادی محمد خان منشی محمد دین حاجی محمد سرور شاہ ، مولوی محمد صادق منشی محمد ظفر اللہ خان ، سر محمد عبد اللہ ٹونکی ،مولوی ۹۳٬۹۲،۵۵ ۲۸۰ ۴۸ ، ۴۷ ، ۴۵ ۱۴۹ ۸۵ محمد یوسف اہلحدیث ،حافظ ۱۷۴،۱۵۱،۱۴۹، ۱۳۷ ،۱۲۲،۱۱۵ محمد یوسف رئیس علی گڑھ، خواجہ محمود احمد بشیر الدین ، مرزا محمود الحق ، حافظ ۲۶۳ ۳۶۰،۳۵۴،۲۱۲،۲۱۱،۹۱،۹۰،۴۰،۱۷ محمود حسن مدرس ، مولوی محمود شاہ چھچھہ ہزاروی ، مولوی محکم دین امرتسری ، بابو ۳۴۵ تا ۳۴۷ محي الدين (المعروف صوفی) ۳۵۴ محي الدين ابن عربي رئيس المتصوفين مراری لال کلرک نہر (سرہند ) محمد عبد اللہ پروفیسر عربی کالج لاہور، مولوی ۱۵۶،۱۵۱ مرہم عیسی ، حکیم محمد عظیم، حافظ محمد علی خاں ، کرنیل محمد علی ، بھائی محمد حسین بٹالوی ، مولوی شیخ محمد علی خان مالیر کوٹلہ ، نواب محمد لدھیانوی ، مولوی ۳۷۵ ۳۵۷ ۲۲۱ ۳۳۳٬۸۸ ۴۰۵ ،۴۰۳،۴۰۰،۳۹۸ ،۳۹۶ ۲۲۳ مریم علیہا السلام مشتاق احمد ، مولوی معراج دین عمر ، میاں معین الدین ، حافظ منظور محمد، حضرت پیر موز مدار ( منسٹر برہمو سماج ) بابو ۳۶۳ 190 ۳۵ ۳۴۵ ۲۰۶،۱۴۲ ۱۹۲ ۸۵ ۳۹۴ ۳۱،۳۰ ۴۰۲،۴۰۱ ۶۹ ۳۹،۳۷ ۳۳۹ ۳۹۲ ۳۴۶ ۳۷ ۳۶۱ موسیٰ علیہ السلام مولا بخش ، صوفی مولانا روم مہاراجہ کپورتھلہ مہتاب احمدی ( کپورتھلوی ) ۱۸۲ ۱۹۶،۱۸۷ ۳۳۵ ۱۳۷ ،۱۱۵ محمد نجیب خاں سر ہند محمد نذیر حسین دہلوی ، مولوی سید محمد یسین ، حافظ محمد یعقوب ، مولوی منشی

Page 426

۱۸۳ ۱۵ مہر علی شاہ ( رئیس ہوشیار پوری ) ۴۱،۳۵،۳۲ نور محمد ولد ما دا جمالپور میراں بخش منشی ۴۰۳،۳۵۰،۳۳۹،۳۳۶،۳۳۳ نورالدین خلیفتہ امسیح الاوّل ، حضرت ۷۲،۷۰،۶۸،۶۴،۵۵ ،۴۷ ، ۴۶،۳۰،۲۷ ، ۲۵ ،۲۴ ۱۳۸ ،۱۲۸،۱۲۲،۱۲۰،۱۱۱،۱۰۹ ، ۱۰۵،۹۴،۸۸،۷۳ ۳۸۷ ،۳۴۵،۳۴۲،۳۳۸،۳۳۱،۳۲۳،۱۵۸ ،۱۴۷ ۴۰۶،۴۰۳،۳۹۷،۳۹۶،۳۹۳ ۷۳ ۳۶۴ وارث الدین ولی اللہ محدث دہلوی ، شاہ ن.و.ہ.ی ناصر نواب دہلوی ، میر ۱۸۲،۹۴،۶۹ ۴۰۰،۳۹۶،۳۰۰، ۲۹۶،۲۹۳،۲۲۱،۲۲۰ ناصر علی ، مرزا ۳۴۲ ۹۱ ۳۴۰،۱۸۳،۱۶۳ ۹۱ ناظم الہند شیعہ عالم ایڈیٹر نبی بخش، میاں نجفی، شیخ نجف علی منشی نجم الدین ( بھیروی ) ، میاں ۱۷۴ ۶۹،۶۸ ولی دادخان ویٹ خاں، انگریز نومسلم سردار ہنری مارٹن کلارک نذیرحسین محدث دہلوی، شیخ مولوی ۱۴۲،۱۰۱،۹۶، ۲۰۵ ہیرہ شاہ ( نا مراد بد بخت) ۲۶۴،۲۵۹،۲۵۵ ،۲۵۲،۲۵۰، ۲۴۷ ،۲۴۳،۲۳۷ ۳۸۱،۳۷۹،۳۷۴،۳۷۱،۳۰۲،۳۰۰،۲۸۷ ،۲۶۹ نصیر الدین ( واعظ ) نصرت جہاں بیگم ، ام المؤمنین نصر اللہ خان، چوہدری نظام الدین بریلوی، خواجه نظام الدین ، مولوی ۱۸۲ ۳۵۴ ۱۹۶،۱۸۷ ہیر الال ولد دوسندہی تحي علیه السلام یعقوب بیگ،حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب علی عرفانی، شیخ ۴۵ ۳۳۲،۳۳۱ ۳۵۶ ۲۷۷ ۱۸۴ ۳۹۴،۲۰۵،۱۴۵ ،۱۴۱ ۲۰۶،۱۴۲ ۳۴۰ ۸۳،۷۳،۶۶،۵۵،۱ ۲۸۹،۲۸۷ ،۲۳۱،۱۳۷ ،۱۱۴،۱۰۷ ،۱۰۳٬۹۹،۸۵ ۴۰۹،۴۰۰،۳۹۳،۳۶۴،۳۶۲،۳۴۹،۳۴۷ ،۳۴۱ ۳۱۷ ۱۳۷ N ۳۷ یہودا اسکر یوطی یوسف شاہ امرتسری، خواجه یوسف علیہ السلام، حضرت ۲۳۵،۲۳۳،۲۳۲،۲۳۰،۱۶ ،۱۶۶ ۱۸۳ ۲۳۲،۱۹۰ نعمت اللہ ولی ، شاہ نورالدین ولد دتا جمالپور نور محمد بانسوی ، شیخ

Page 427

۱۶ ا.ب.پت اٹا وہ (ہندوستان) احمد پور (جھنگ) اقبال گنج لدھیانہ الور ( راجستھان) امرتسر مقامات ۶۶،۵۳ ۱۴۷ ،۹۰ ۱۲۹ ،۱۲۰ ، ۱۱۲،۹۴،۳۸،۳۶ ۳۲۷ ،۲۲۰،۲۰۹ ،۱۹۶،۱۸۱،۱۶۱ ۳۴۲ ۱۱۹،۱۱۴ ۱۱۲،۹۹۰۸۸،۷۳،۶۶،۱۷ بھوپال ۱۲۴،۱۱۲، ۲۸۷، ۴۰۴،۲۹۵،۲۸۸، ۴۰۵ بھیرہ بیت المقدس پائیلی تحصیل ( پٹیالہ ریاست) پٹی ( ضلع لاہور ) پٹیالہ ۱۴۷ ،۶۸ ۲۰۷ ،۱۴۲ ۶۷ ۱۵۹،۵۲،۴۹،۴۱ ۳۷۶،۳۷۵،۳۰۰،۲۹۹ ،۲۹۶،۲۹۳، ۱۸۰،۱۶۳ ۵۲۵۰ ۳۹۵،۲۹۱،۲۱۲،۱۹۷ ، ۱۸۹ ،۱۸۷ ،۹۶،۵۷ ۴۹ پیشاور پنجار تنگی چارسده ج - چ - ح - خ د ڈر جالندھر ۳۱، ۳۶۷،۳۶۶،۳۶۵،۳۶۳۵۲،۴۱ ۲۹۲،۲۸۳،۲۸۰،۲۶۱ ۲۱۴ ۲۳۱،۱۸۰،۱۷۹ ۶۴،۵۵،۴۳،۴۱ جامع مسجد (دہلی) جرمن جمال پور (لدھیانہ ) جموں ۴۰۶،۳۹۳،۳۵۵،۱۵۶،۱۴۹ ،۱۴۷ ۳۵۶،۲۲۲ جہلم جھنگ ۴۰۰،۲۲۷ ،۲۱۱،۲۰۹ ، ۲۰۷ ، ۱۷۸ ، ۱۶۲ ،۱۴۳، ۱۳۷ ۴۰۴ ۳۹۵،۳۸۴،۳۱۶،۲۱۵ ،۲۱۴ ۳۳۳٬۸۵،۴۳ ۳۱ ۲۱۴ ۲۱۶،۲۱۵ ۳۵۲،۱۰۹،۱۰۴۹۶۰۹۵ ۲۱۵ ۲۴۹،۲۴۵،۲۳۸ ۳۹۳ ۳۳۵،۹۲ ۹۱ امروہہ امریکہ انار کلی (لاہور) انبیٹھے انگلستان ایشیا بٹالہ ضلع گورداسپور برطانیہ یلی ماراں دہلی بمبئی بھائی دروازہ (لاہور) بہاولپور

Page 428

۲۸۷ سہوان ۱۷ ۳۱ ۱۷۳،۱۶۳،۱۳۰،۸۳،۷۰،۵۲،۴۱،۱۰ سیالکوٹ ۳۶۷،۳۶۰،۳۵۶،۳۵۳،۳۰۸،۲۹۳،۲۸۷ ،۱۷۴ ۳۳۳ ۳۸۷ ۱۴۷ ،۶۸ ۳۶۱ ۲۱۸ ع ف ق ک گ ۶۲۶۰،۵۴،۵۳ ۲۷۵ ،۲۷۳ ۲۱۴ ۳۴۲،۱۹۷ شاہ پور شیرانوالی عرب علی گڑھ فتح گڑھ فرانس فیروز پور قادیان ۶۶،۶۴،۵۴،۵۲،۵۰،۴۵ ،۳۷،۱۸ ۱۸۷،۱۸۰،۱۷۸،۱۴۴ ،۹۵،۹۳ ،۹۰ ، ۷۸ ،۷۰،۶۸ 1 ۳۸۷،۳۸۳،۳۴۲،۹۸ ۴۳ چک مغلانی جالندھر چونا منڈی (لاہور) چین چینیا نوالی مسجد (لاہور) حجاز حیدرآباد (دکن) خوشاب دیلی ۲۲۲ ۲۴۳،۲۳۹،۲۳۷ ،۸۳۲۸ ۲۸۸،۲۷۵،۲۷۳۲۶۸،۲۶۵،۲۶۱،۲۵۴ ،۲۴۹ ۳۴۷ ،۳۴۲،۳۳۹،۳۱۹ ،۲۹۶،۲۹۵،۲۹۲،۲۹۰ ۳۵۶،۳۵۴،۳۴۸ ۲۷۵،۲۰۷ ،۱۴۲ ۳۳۲ ۱۸۰ ۲۱۲،۹۹،۸۳،۱۸ ،۱۴ ۱۴۷ ۳۶۴،۳۶۳،۳۵۸،۳۵۳،۳۳۱ ،۳۱۱،۲۰۹ ،۲۰۰ ۲۱۴ ۴۰۶،۴۰۵،۴۰۳،۳۹۵،۳۹۲،۳۸۳،۳۶۸ ۴۰۰ ۳۵۷ ۱۶۳۷۰،۵۲،۴۳،۴۱ قاضی کوٹ گوجرانوالہ قائم پورہ ( کپورتھلہ ) کپورتھلہ اے ۲۹۶ ۳۶۷،۳۶۵،۳۶۳،۳۶۰،۳۵۸ ،۳۵۶ ۳۵۸،۳۵۷ ۳۳۱ ۳۴۲ کرتار پور کرنول (مدراس) کشمیر بازار (لاہور) ۳۰۰ ۴۰۹ ۲۹۶ دمشق ڈیرہ بابا نا تک رامپور موضع ( پٹیالہ) ربوه روس ریاض ہند پریس امرتسر س ش ص ض سامانه (ریاست پٹیالہ) سرساوه سر ہند سکندر آباد سنور

Page 429

۳۴۹،۳۴۷ ،۳۴۶،۳۴۵،۳۴۲،۲۸۸،۲۳۱،۲۲۲ ۳۵۶،۳۵۱ تا ۳۷۳،۳۶۹،۳۶۷،۳۶۴،۳۶۰ لکھو کے (ضلع فیروز پور ) 192 ۳۹۶،۳۹۳،۴۰ ۳۳۲،۳۳۱ ۳۳۳٬۸۵ ۳۸۸،۴۶،۴۵ ،۴۴ ۳۵۸ مالیر کوٹلہ مدراس مدرسہ نعمانیہ (لاہور) مدینہ منورہ مزدلفه مسجد اقصیٰ ( قادیان) ۵۲ مسجد مبارک ( قادیان) اے مسجد وزیر خاں ( لاہور) ۳۴۲ مظفر گڑھ مکہ شریف ۹۰ ۳۵۸ ۹۱ ۲۰۸،۱۴۳ ۳۷۵،۴۵،۴۱،۳۶،۳۵،۳۲،۱۰ ملتان نجران ہوشیار پور ہندوستان ۴۰۹،۲۹۶،۲۹۱،۲۵۶،۲۳۷ ، ۱۸۹ ، ۱۵۹ ،۱۱۲ ۳۹۵،۳۷۴،۲۱۶،۲۱۵ ۱۸ ۲۴ ۳۸۸،۱۸۰ ۳۴۲ ۵۲ ۱۴۹ کعبہ شریف کلانور کوٹ قاضی گوجرانوالہ گجرات گوجرانوالہ گورداسپور گورنمنٹ برطانیہ ۴۰۰،۳۴۱،۵۲ ۱۴۴ ،۹۵،۷۸،۵۱،۱۸ ۳۹۲،۳۸۶،۳۵۶،۲۰۹،۱۸۷ ، ۱۸۰ ۲۷۹ ل.م.ن.و.ہی ۱۱۴،۱۰۹ ،۹۲،۵۷ ، ۵۵ ،۲۵ لاہور ۲۲۷،۲۱۰،۱۹۵،۱۷۹ ، ۱۷۴ ، ۱۴۹ ، ۱۲۸ ، ۱۲۳،۱۲۰ ۳۵۱،۳۵۰،۳۴۹، ۳۴۸ ،۳۴۰ ،۳۳۶،۳۳۳ ۴۰۱،۳۸۳،۳۵۶،۳۵۲ ۳۴۲،۹۸ ۳۴۸ ۳۵،۳۲،۳۰،۲۸،۲۵ ، ۱۹ ،۱۰ لسوڑے والی مسجد (لاہور) لنگے منڈی لاہور لدھیانہ ۸۳،۷۱،۶۹،۶۳،۵۲،۵۰ ، ۴۸ ، ۴۵ ، ۴۳،۴۱،۳۸ ۱۷۱ ،۱۶۶،۱۶۱،۱۵۱،۱۴۷ ، ۱۳۹،۱۲۱،۱۱۲،۱۰۹ ، ۱۰۴ ۲۱۶،۲۱۱،۲۰۹،۱۹۶،۱۸۹ ، ۱۸۷ ، ۱۸۰ ،۱۷۷ ، ۱۷۴

Page 430

۱۹ آ.ا.ب.پ.ت.ٹ کتابیات انجام المكذ بین انجمن حمایت اسلام ۳۲۹ ایک عیسائی کے تین سوالوں کا جواب ۷۳ بخاری شریف ۳۴۸،۳۴۷ ،۳۴۵ ، ۳۴۴ ، ۱۷۶،۱۴۲ ۴۵ براہین احمدیہ پنجاب گزٹ (سیالکوٹ) ۷۷،۷۵،۵۹،۵۳،۱۰ ۲۹۶،۱۸۷ ، ۱۲۴ ،۱۱۷ ، ۱۰۳ ،۹۷ ،۸۲،۸۱ ۲۸۷ ،۱۷۴،۱۵۰ ۳۲۹،۳۰۸ ،۳۷۱۳۶۹ ۹۹ ۳۶۴ ۳۴۱ ۸۳ ۱۶۳ ۴۵ ۱۴۸ ،۱۴۰،۱۰۲،۳۱ پیسہ اخبار تأويل الاحادیث (شاہ ولی اللہ ) تعذیر المؤمنين تذکره تذکرۃ المہدی ( سراج الحق نعمانی ) ترمذی شریف توضیح مرام ۳۴۶،۳۴۳،۳۴۲،۲۶۴،۲۶۲،۲۴۳، ۲۲۵ ۱۶۸،۷۳ ۳۵۵ ج - ح - وذر جنگ مقدس الجواب (میر حامد شاہ) ۳۱۱،۳۰۸،۳۰۰ ۴۰۱،۳۴۲،۳۳۸ ،۳۳۷ ،۳۳۰،۳۲۳ ۳۶۴،۲۳۲ آسمانی فیصلہ آئنہ کمالات اسلام ۴۰۵،۴۰۱،۴۰۰،۳۹۶،۳۹۲،۳۸۴ ۱۴۲ ۳۲۹ ۱۰۶،۱۰۵،۱۰۲،۸۳ ابن ماجه اخبار عام لاہور ازالہ اوہام ۱۵۸،۱۴۸ ،۱۴۵،۱۴۴ ، ۱۴۱ ،۱۲۸ ،۱۲۷ ، ۱۱۷ ۱۱۵،۱۱۳ ۲۴۷ ،۲۴۵،۲۴۲،۲۳۷ ،۲۳۶،۲۳۵،۲۱۷،۱۸۸ ۳۴۴،۳۳۲،۳۲۲،۳۱۴،۳۰۰،۲۶۸،۲۶۴،۲۶۲ ۳۴۷ ،۳۴۶ ۱۰۰،۹۹ ،۹۸،۹۴ اشاعة السنه ۳۷۶،۳۷۵،۳۵۲،۲۱۱ ،۱۴۷ ، ۱۲۷ ، ۱۲۴ ،۱۱۹ ۴۰۶،۳۷۶،۳۷۵ ،۳۷۲،۳۶۹ ۴۰۳ ۳۴۱ ۲۸۸ ۲۹۰ ۶۸ اصحاب احمد جلد دوم اعلام الناس الحق دہلی الحق الصريح الوصیت

Page 431

۳۵۵ ۲۷۶،۲۷۴ ۴۵ ۲۰۹ 190.127.2A قول الفصيح (عبدالکریم سیالکوٹی) من کرن گزٹ دہلی مثنوی مولانا روم مسجد داعظم ( ڈاکٹر بشارت احمد ) مجموعہ اشتہارات جلد اوّل ۳۵۰،۳۳۰،۲۷۴ ، ۲۵۹ ، ۲۴۹ ، ۲۴۵ ،۲۲۰،۲۰۳ ۳۸۶،۳۸۳،۳۷۷ ،۳۷۴،۳۷۱ ۴۶ KY ۱۱۲ مرقاة اليقين في حياة نورالدین مسلم شریف مصباح الادله ( محمد احسن مولوی ) مکتوبات احمد جلد اوّل ۱۰۰،۸۲،۷۹،۷۳ ۱۴۴ ،۱۴۲،۱۲۹ ، ۱۲۵ ، ۱۲۰ ، ۱۱۷ ، ۱۱۲،۱۰۸،۱۰۵،۱۰۲ ۷۰ ،۶۹ ،۲۹ ،۲۷ ،۲۵ مکتوبات احمد جلد دوم ۳۶۴،۳۳۲،۳۲۵،۳۱۳،۱۴۰،۱۱۵،۹۳٬۹۰،۸۸ ۳۳۱،۲۱۳،۲۱۲ ۳۲۹ ،۹۱ ۴۵ منشور محمدی ناظم الہند لا ہور نجم الدین کبری نشان آسمانی نورافشاں ( لودہانہ ) ۴۰۱،۳۸۲،۳۸۰،۳۶۹ ،۳۶۸،۳۶۶ ۳۹۴،۳۲۹،۲۱۲،۱۷۴ الحلم حیات احمد علیہ السلام حیات ناصر (سوانح میر ناصر نواب صاحب) دافع الوساوس ۳۹۳،۳۷۵،۳۶۵ ۱۰۷،۷۵،۱ ۳۹۶ ۳۶۴ ذکر حبیب رسالہ مبشر ( عیسائی رحمت مسیح) رسالہ قشریه ۲۱۴ ۴۵ سش_ع_ف_ق سیرت المہدی جلد اول ۴۸ ، ۴۷ سیرت المہدی جلد دوم ۳۵۵،۳۴۹،۳۴۶،۲۱۱ ۳۴۴ ،۲۰۹،۴۳ سیرت المہدی حصہ سوم ۴۲ سبز اشتہار ۱۴ شحن حق عصائے موسیٰ ۶۸ ۳۴۱ ۲۳۱ عاقبة المكذبين ( يعقوب على عرفانی) ۹۴،۸۷،۸۵،۶۲،۵۴ ۳۴۶،۱۹۹،۱۸۸ ،۱۴۰ ، ۱۱۷ ، ۱۰۵ ،۱۰۲ ۱۶۴ ۳۵۵ ۳۵۵ فتح اسلام قرآن شریف قول الجميل ( ابویوسف مبارک علی) القول الفصل ما هو بالهذل

Page 431