Language: UR
حیات احمد جلد دوم (ہر سہ حصص) مرتبه یعقوب علی عرفانی
شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان.ربوہ سیٹنگ.عدیل خرم صاحب مربی سلسله طالع.اہ مہدی امتیاز احمد وڑائچ.ضیاء الاسلام پریس ربوہ.چناب نگر
حیات احمد نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت و سوانح پر حیات احمد کو مآخذ کا درجہ حاصل ہے.جو محترم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ” کی تالیف و تصنیف ہے.حضرت عرفانی صاحب کا ابتدائی صحابہ میں شمار ہوتا ہے.آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہنے کی سعادت و عزت حاصل رہی اور اکثر و بیشتر اہم مواقع پر حاضر رہے اور حالات کے چشم دید شاہد ہیں.اس لئے ان کے ذکر و بیان میں واقعاتی جزئیات کے علاوہ کیفیات و جذبات کی بھی بھر پور عکاسی ہے.ان کی یہ محنت و کاوش آئندہ نسلوں پر ایک احسان ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزائے خیر دے اور ان کے درجات بلند فرماتا رہے.آمین مدت مدید سے نایاب ہونے کی وجہ سے اس کتاب کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی تھی.چنانچہ دوبارہ اشاعت کا اہتمام کیا گیا.جس کی پہلی جلد قارئین کے ملاحظہ میں آچکی ہے.اب دوسری جلد بھی پیش خدمت ہے.طباعت بار دوم میں بھی جلدوں کے حصوں کی تقسیم کو اپنی اصل حالت میں قائم رکھا گیا ہے البتہ انہیں مربوط کرنے کے لئے صفحات کو مسلسل کر دیا گیا ہے.اس جلد کی تیاری میں حوالہ جات اور دیگر ضروریات کو باہم کرنے کے سلسلہ میں محترم محمد یوسف شاہد مربی سلسلہ نظارت اشاعت نے بڑے شوق اور توجہ سے محنت کی ہے.کتاب کی طباعت و اشاعت کے کئی مراحل ہوتے ہیں.ہر مرحلہ پر اشاعت کے کارکنان نے اپنے اپنے حصہ کا مقررہ کام بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا.اس کی سیٹنگ وغیرہ میں محترم عدیل خرم صاحب مربی سلسلہ نظارت اشاعت نے بڑے ذوق سے اپنا حصہ ڈالا.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنُ الْجَزَاء یکم دسمبر ۲۰۱۳ء خالد مسعود ناظر اشاعت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فہرست مضامین ( حیات احمد جلد دوم ) مضامین صفحہ حصہ اول عرض حال مضامین صفحہ براہین احمدیہ کی تصنیف کے متعلق ایک معترض کا اعتراف ۳۵ مکتوب مولوی عبدالحق صاحب علیگ براہین احمدیہ کی تصنیف کے وقت آپ کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی براہین احمدیہ کی طباعت بھی نشان ہے براہین احمدیہ سے لے کر اعلان بیعت تک از ۱۸۷۹ ءلغایت ۱۸۸۹ء.تمہیدی نوٹ براہین احمدیہ کی تصنیف کی تحریک براہین احمدیہ کی تصنیف کے اولین باعث اشتہار به طلب معاونت جمله اکا بر وعمائد اسلام ۶ ۹ براہین احمدیہ کا وجود ایک پیشگوئی کا پورا ہونا تھا 11 براہین کی تصنیف میں حضرت کا طریق عمل براہین کی طبع کا انتظام مہتمم سفیر ہندا ور حضرت مسیح موعود براہین احمدیہ کا پرنٹر سفیر ہند سے ریاض ہند ۴۵ ۴۶ ۴۸ ۴۹ ۵۲ ۵۳ حضرت مسیح موعود کو رؤیا کے ذریعہ براہین پادری رجب علی صاحب پر حضرت اقدس کا اثر ۵۷ احمدیہ کی بشارت // ہندوستان کی مذہبی دنیا میں سب سے پہلا انعامی چیلنج ۱۵ محرر اور پیکر (Packer) خود ہی تھے طریق عمل ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ براہین احمدیہ کی طبع کے وقت آپ کا طریق عمل اشتہار.تصنیف کتاب براہین احمدیہ بہت اطلاع ۱۷ امرتسر میں قیام جميع عاشقان صدق و انتظام سرمایه طبع کتاب براہین کی اشاعت تجارتی اصولوں پر نہ تھی براہین احمدیہ کی تصنیف اور اشاعت کا زمانہ اشتہار ۲۱ ۲۲ امرائے عالی ہمت کی سرد مہری ۶۱ ۶۲ آپ کے مدنظر تجارتی مقاصد نہ تھے اعلان کتاب براہین احمدیہ کی قیمت و تاریخ طبع عذر و اطلاع براہین احمدیہ کیونکر تصنیف ہوئی ۲۵ ۲۷ ۲۹ مفت دینے میں تامل نہ تھا مالی اغراض مدنظر نہ تھے ۶۴
مضامین صفحہ مضامین صفحہ خدا تعالیٰ پر توکل اور کتاب کی اشاعت کا یقین ۶۵ ۱۸۸۰ء لغایت ۱۸۸۲ء تک کے واقعات براہین احمدیہ اور روسائے ہند نواب صدیق حسن خان صاحب کا واقعہ امرائے معاونین ریاست جونا گڑھ کے مدارالمہام کی امداد عوام میں سے معاونین براہین احمدیہ کے مخالفین اور معاندین اندرونی مخالفین اندرونی مخالفین کے مرکز مولوی غلام علی صاحب قصوری کی مخالفت ۶۷ ۷۲ งง 22 ZA 29 // ۸۰ ۸۱ ۸۲ براہین کی پہلی اور دوسری جلد کی اشاعت ۹۸ ۹۹ مکالمات و مخاطبات الہیہ کے سلسلہ کی وسعت ۱۰۱ امرتسر کے ایک مقدمہ میں شہادت بعض خاص نشانات حافظ حامد علی صاحب کی آمد دوسری شادی کے متعلق بشارات ایک پادری کا سوال اور حضرت کا جواب ۱۰۲ ۱۰۴ ♡+1 // ۱۰۸ خطرناک بیماری کا حملہ اور اس سے اعجازی شفا ۱۰۹ غیر مذاہب کو نشان نمائی کی دعوت کی ابتدا پیر سراج الحق صاحب کی آمد ۱۱۳ حضرت اقدس کی آنکھوں کی صفائی کا معجزہ امرتسری مخالفت عداوت کا نتیجہ نہ تھی لود ہانہ کے مخالفین کی وجہ مخالفت لود ہانوی حاسدین کی نکتہ چینی بیرونی مخالفین الہامات کے لئے روز نامچہ نولیس کا تقرر ۸۳ AL شہادت کو تلف کرنے کے لئے مخالفین کے منصوبے ۸۹ سوانح حیات بقید سنین ۱۸۷۹ء کے واقعات اور حالات (۱) آریہ سماج پر زبر دست فتح (۲) اگنی ہوتری سے مباحث تحریری اور کامیابی (۳) مقدمات میں مصروفیت (۴) براہین احمدیہ کے لئے اعلان نشانات ایک خاص اہلی واقعہ ۹۰ "/ "/ ۹۳ "/ ۹۶ // ۱۱۴ ۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۸۲ء تک کے نشانات | ۱۱۷ حضرت مولوی عبد اللہ رضی اللہ کا شرف باریابی // لاہور کے پرچہ رفاہ میں براہین کی مخالفت اور حضرت اقدس کا ان کی ناکامی کی پیشگوئی کرنا ۱۸۸۳ء کے حالات اور واقعات جنوری ۱۸۸۳ء.اگنی ہوتری اور قرآن شریف کی مثل اگنی ہوتری جی کے خط کی قبل از وقت اطلاع الہام الہی سے رجوع خلائق.اہالیان او د ہا نہ کی دعوت.خواہش بیعت اور حضور کا انکار ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۶ ۱۲۷
صفحه ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۶۵ ۱۶۸ ۱۶۹ ۱۷۳ 122 ۱۸۰ ۱۸۵ ۱۸۶ ۱۸۷ 190 ۱۹۴ ۲۰۸ ۲۱۵ ۲۲۶ ۲۲۸ مضامین صفحہ حصہ دوم عرض حال ۱۳۳ تمہیدی نوٹ ایک ضروری حاشیہ یا تکملہ ۱۳۷ ۱۳۸ ایک تاریخی غلطی کی اصلاح ایک ضروری نوٹ ایک اور ضروری آمر سفر لودہانہ لود ہانہ کی اہمیت تاریخ سلسلہ میں سفر امرتسر کا باعث مکتوب بنام میر عباس علی میر عباس علی صاحب کی درخواست مسجد کی صورت مسجد کی تاریخ مضامین ۱۳۵ فِيْهِ بَرَكَاتٌ لِّلنَّاسِ مسجد مبارک پر محمود کا نام // ۱۳۹ ۱۴۰ "/ ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۹ حضرت مولوی عبد القادر صاحب کی درخواست در بیعت کے لیے مخلصین کا اصرار لود ہانہ تشریف لے گئے مخالفت کی ابتدا ۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۴ پنڈت دیانند بانی آریہ سماج پر اتمام حجت اور اسلامی دعوت پندت دیانند پر آخری حجت ااور ان کی موت کی پیشگوئی پنڈت لیکھرام میدان تکذیب میں پنڈت لیکھرام خود سامنے آگیا قادیان آنے کے محرکات مرزا امام الدین کی کارستانیاں پنڈت موہن لال کا بیان قادیان میں خط و کتابت کا انجام نواب صدیق حسن خان صاحب اور واپسی براہین ۱۸۸۳ء کے بعض واقعات کی ڈائری اور ہانہ کی مخالفت کے اسباب پر ایک مخالف اور نشانات کی رائے علمائے دیو بند و گنگوہ کی اُس وقت حالت بہ میں تفاوت ره از کجاست تا یکجا ۱۵۵ مرز اغلام قادر صاحب کی وفات ۱۵۸ مرزا غلام قادر صاحب کی موت کی خبر بذریعہ کی // لودہانہ کا دوسراسفر میر عباس علی کی عیادت کے لیے " وحی اور حضرت کی دعا سے اس میں تاخیر ہونا ۱۸۸۳ء کے الہامات و کشوف ۱۸۸۴ء کے واقعات دعوی مجدد کا عام اعلان 17.۱۶۲ مسجد مبارک کی تعمیر تعمیر مسجد کی زمین اور سامان
صفحہ ۲۹۷ ۲۹۸ ۳۰۹ ۳۱۲ ۳۱۴ ۳۲۰ ۳۲۲ مضامین جنوری و فروری ۱۸۸۴ء مالی مشکلات اور قبول دعا الہام الہی صفحہ ۲۳۶ ۲۳۷ // حضرت کا مشرب سلوک اور اس کی تائید میں کشف ۲۳۸ میر عباس علی صاحب کے ارتداد کی پیشگوئی ۲۴۳ ایک کشف اور رویا مخالفت اور علمائے دہلی خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں // ۲۴۷ "/ ۲۴۸ مضامین مخالفت کی طوفان میں چٹان خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں وحدت وجودیوں سے قلمی جنگ سفر مالیر کوٹلہ عظیم الشان نشان تاریخی اصلاح سفر سو جان پور ملتوی براہین احمدیہ کے متعلق اعلان ۳۲۳ التوائے براہین احمدیہ کا اثر اشتہار براہین احمدیہ اور اس کے خریدار ۳۲۶ ۳۲۷ اقتباس از براہین احمدیہ جلد پنجم الہامی شادی ٣٣٦ ۳۴۲ شادی سے قبل کی وحی // شادی کے متعلق ابتدائی تحریک اور ضمنی امور ۳۴۹ تحریک رشته حضرت میر ناصر نواب کا بیان ۳۵۴ ۳۵۵ ۲۴۹ ۲۵۰ ۲۵۷ ۲۵۹ ۲۶۱ ایک اور بشارت حضرت چودھری رستم علی صاحب کی آمد وحدت وجودیوں سے مباحثہ حصہ سوم عرض حال اعتذار تمہیدی نوٹ ۱۸۸۴ء کے واقعات دعوی مجدد کا عام اعلان جنوری و فروری ۱۸۸۴ء مالی مشکلات اور قبول دعا الہام الہی ۲۶۶ ۲۶۸ تحریک شادی کے متعلق ایک روایت کی تصحیح ۲۷۷ نانی اماں کا بیان ۲۷۷ اس شادی کے برکات وثمرات حضرت کا مشرب سلوک اور اس کی تائید میں کشف ۲۷۸ میر عباس علی صاحب کے ارتداد کی پیشگوئی ایک کشف اور رویا ۲۸۲ ۲۸۷ ۳۵۸ ۳۶۶ حضرت میر ناصر نواب صاحب کا بقیہ بیان ۳۷۲ رسم و رسوم تقریب نکاح اور اس کی کیفیت حضرت کے براتی ۱۸۸۴ء کی ایک اور خصوصیت ۳۷۵ ۳۷۷
مضامین حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی سے عالم رؤیا میں ملاقات ایک خاص سفر کا ارادہ اور بعدہ تنسیخ صفحہ ٣٨٣ ۳۸۵ صفحہ مضامین منشی اندرمن کار و عمل اندرمن کے اشتہار کے جواب میں حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کا اعلان ۱۸۸۴ء کی متفرق واقعات.حضرت اقدس اندرمن کے بعد پنڈت لیکھرام میدان مقابلہ میں ۴۱۵ "/ ۴۲۱ کا سفر امرتسر ۱۸۸۴ء کی اہمیت علماء دہلی کو جواب براہین کی تیاری مخالفت کے سلسلہ میں علماء کی چالیں پہلا علمی اعتراض اور اس کا جواب ۳۸۷ ۳۸۸ ۳۸۹ ۳۹۰ // اندرمن کے وفد کے متعلق کچھ اور قادیان کے ساہوکاروں اور ہندوؤں کا مطالبہ ۴۲۲ اعلان.منجانب لالہ شرمپت رائے صاحب ۴۲۳ ساہوکاران و دیگر ہند و صاحبان قادیان کا ۳۹۱ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا کا ایک عملی نظاره ۳۹۲ ان ایام کے مشاغل خط بنام مرزا صاحب دعوت یکسالہ اور عیسائی ۳۹۳ پادری سوفٹ کون تھا مرزا سلطان احمد صاحب کی درخواست دعا ۳۹۶ حضرت اقدس کا جواب اور سوفٹ کی خاموشی ۱۸۸۵ء کے حالات دعوت نشان نمائی ڈاکٹر عبدالغنی کا بیان ضروری خطوط اعلان دعوت اشتہار ماموریت ۴۲۴ ۴۲۷ // // ۳۹۹ حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین کی آمد ۴۳۶ // // ۴۰۰ ۴۰۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ماموریت ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا ایک بیان ۱۸۸۵ء کے الہامات ۱۸۸۶ء کے حالات ۴۰۵ سفر ہوشیار پور ۴۰۸ہوشیار پور کا قیام // ۴۳۸ ۴۴۱ ۴۴۷ اس اعلان کا اثر منشی اندرمن کا مقابلہ میں آنا خط بنام اندر من مراد آبادی نقل اشتہار ۴۰۹ ۴۱۱ // شیخ مہر علی اور حضرت اقدس کے تعلقات مجاہدہ چہل روزہ کے ثمرات // ۴۴۹ ۴۵۱ ۴۵۳ رساله سراج منیر مشتمل بر نشان ہائے رب قدیر ۴۵۴ لا ہوری وفد جو روپیہ لے کر گیا تھا ۴۱۴ اس اشتہار کا اثر ۴۵۹
مضامین آریہ سماج سے پہلا مباحثہ روئداد مباحثہ ہوشیار پور........صفحہ ۴۶۱ مضامین صفحه تکذیب براہین کا جواب ۵۲۴ ۴۶۳ اسلام پر مخالفوں کا حملہ اور حضرت کو اس کا احساس ۵۲۶ یہ مباحثہ آریہ سماج پر غیر فانی حجت ثابت ہوا ۴۶۷ اس مباحثہ کے علمی اثرات پسر موعود کے اشتہار پر رد و قدح اندر من مراد آبادی پھر سامنے آیا ۴۷۱ // بشیر اول کی پیدائش بشیر احمد کی علالت بشیر اول.اس کی شان ۴۷۳ بشیر اول کا عقیقہ میاں نبی بخش کی مخالفت نیک نیتی پر تھی صاحبزادی عصمت کی پیدائش اور طوفان بے تمیزی را ۱۸۸۸ء کے حالات پادری فتح مسیح سے مقابلہ ۵۲۷ ۵۳۱ ۵۳۷ // ۵۳۸ ۵۳۹ ۵۴۵ ۵۴۸ ۵۴۹ ۵۵۰ ۵۵۳ ۵۵۵ ۵۶۱ ۵۶۴ // ۵۸۶ ۵۸۷ منکرین اسلام پر اتمام حجت........علمی اور عقلی دلائل کے ذریعہ اتمام حجت سرمه چشم آریہ“ کی اشاعت ۱۸۸۶ء کے رویا و کشوف والہامات ۱۸۸۷ء کے واقعات و حالات ۴۸۲ ۴۸۶ ۴۸۹ ۴۹۱ ۴۹۷ حضرت اقدس مسیح موعود کا اعلان متعلق جلسه ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء اعلان.پادری وائٹ بریخٹ صاحب پر اتمام حجت اور میاں فتح مسیح کی دروغ گوئی کی کیفیت مخالفت کا سلسلہ آریہ سماج کی طرف سے اقارب کو تبلیغ کا سامان اور اس کا علاج کتاب شحنہ حق کی تالیف کے اسباب ہجرت کا عزم مسٹر الیگزینڈرویب کا قبول اسلام ۵۰۰ ۵۰۲ // مرزا احمد بیگ کے تعلقات جدی بھائی اس خاندان کی عملی حالت ۵۰۴ پیشنگوئی ( محمدی بیگم ) کے محرکات خط و کتابت ( مابین حضرت اقدس مسیح موعود و ایک پیشنگوئی پیش از وقوع کا اشتہار ویب صاحب) پیر جھنڈے صاحب کا سفیر قادیان میں مسٹر الیگزینڈ رویب کے متعلق کچھ اور خط آمده از ویب صاحب قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ ۵۰۹ تتمہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء ۵۱۹ ۵۲۲ // ۵۲۳ وفات بشیر اول اور سلسلہ احمدیہ کی بنیاد تبلیغ حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر عہد جدید کے آغاز کی اطلاع
حیات احمد جلد دوم ( حصّہ اوّل) مرتبه یعقوب علی عرفانی
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ عرض حال اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات کی دوسری جلد کا پہلا نمبر شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں.یہ کام جس سُست رفتاری سے ہو رہا ہے اس کا اندازہ میں ہی کر سکتا ہوں.میں نہیں کہ سکتا کہ کس قد رندامت اور تاسف کے جذبات میرے دل و دماغ پر مستولی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر ۲۳ سال کے قریب عرصہ گزر رہا ہے اور ہم آپ کے سوانح حیات اور سیرت کو مکمل طور پر پبلک میں پیش نہ کر سکیں وہ کامل انسان جو دنیا میں سلطان القلم کے نام سے آیا ہم اس کے دامن سے وابستہ ہو کر اس کے کارناموں کو کتابی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرنے سے ۲۳ سال تک قاصر ر ہیں.اللہ تعالیٰ اس قصور وخطا کو معاف فرمادے.تعویق اور توقف کے اسباب اور اس کے لئے ذمہ داریوں اور جواب دہیوں کی تفاصیل اور داستان دردناک اور طویل ہے.میں ہر احمدی سے درخواست کروں گا کہ وہ سوچے کہ اس نے اس سلسلہ میں اپنے فرض کو کہاں تک ادا کیا ہے.میں اپنی بریت کے لئے کوئی عذر پیش نہیں کرنا چاہتا.اللہ تعالیٰ سے اپنے قصور کی معافی چاہتا ہوں اس کا احسان اس کا رحم اور ستاری میری پردہ پوشی فرمائے.میں ہر احمدی کو انفرادی طور پر اور تمام جماعت کو مجموعی حیثیت سے اس کا جواب دہ یقین کرتا ہوں اس لئے کہ ایسے عظیم الشان کام قومی سر پرستی اور حوصلہ افزائی کے بغیر بمشکل پورے ہو سکتے ہیں اب تک جو کچھ ہوا یہ محض خدا کا فضل اور حضرت خلیفہ اسیح کی توجہ کا نتیجہ ہے.میں نے پہلا نمبر شائع کرتے ہوئے بھی کہہ دیا تھا کہ اس کی جلد اشاعت اور تکمیل کا کام جہاں تک اسباب سے تعلق ہے احمدی قوم کی حوصلہ افزائی اور اعانت
حیات احمد جلد دوم حصہ اول پر موقوف ہے اور اس کا جو عملی ثبوت ہے وہ ظاہر ہے.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اب تک زندہ رکھا اور میں پھر اسی سلسلہ میں کچھ شائع کر رہا ہوں.۱۹۲۷ء کے سالانہ جلسہ پر حضرت نے اس کی اہمیت کو جن الفاظ میں ظاہر فرمایا میں اس سے زیادہ نہ کہہ سکتا ہوں اور نہ کہنا چاہتا ہوں.اس لئے کہ اُس میں جو قوت اور اثر ہو سکتا ہے وہ دوسرے کے الفاظ اور بیان میں نہیں.آپ نے فرمایا یہ کتاب ہر احمدی کے گھر میں خواندہ ہو یا نا خواندہ ہونی چاہئے.اب ہر احمدی سوچ لے کہ اس نے اس پر عمل کیا ہے.میں اس کی تفصیل میں جا کر دوسروں کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتا.اس لئے کہ بے آزرده دل آزرده کند انجمنی را میں چاہتا ہوں کہ احباب تلافی کریں اور اس خطرہ سے ڈریں جس کی طرف حضرت نے اشارہ کیا تھا کہ احباب اس کتاب کی تکمیل کے لئے توجہ کریں اور خاکسار عرفانی کی زندگی سے فائدہ اٹھائیں ورنہ یہ بہت مہنگی پڑے گی.میں ایک ہزار ایسے دوستوں کو اس کی اشاعت کے لئے پکارتا ہوں جو اس کی اشاعت کے لئے مستقل طور پر اپنے نام درج کرا دیں اور اس مقصد کے لئے تمام جماعتوں کے سیکرٹری صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دیکھیں کہ ہر خواندہ یا ناخواندہ احمدی کے گھر تک یہ کتاب پہنچ گئی ہے یا نہیں.میں ناسپاسی کے جرم کا ارتکاب کروں گا اگر یہ ظاہر نہ کروں کہ یہ نمبر بھی ہرگز شائع نہ ہوتا اگر حضرت خلیفہ امسیح کی توجہ عالی مساعدت نہ فرماتی.بالآخر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کے پورا کرنے کی توفیق دے جیسا کہ میرا آقا چاہتا ہے میں اُسے مکمل کر سکوں اور احباب کے دلوں میں القا کرے کہ وہ اس کام کی اہمیت اور ضرورت کا عملی احساس کریں.آمین ثم آمین.خاکسار عرفانی سمیتی ( یکم اگست ۱۹۳۱ء) یہ ترجمہ غمگیں شخص محل کو بھی غمگین کر دیتا ہے.
حیات احمد جلد دوم حصہ اول بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَـ لى رَسُولِهِ الكَرِيمِ علیہ السلام حیات احمد (جس کا پہلا نام حیات النبی تھا) جلد دوم السلام.حضرت مسیح موعود کے حالات زندگی وو ” براہین احمدیہ سے لے کر اعلان بیعت تک از ۱۸۷۹ ء لغایت ۱۸۸۹ء تمہیدی نوٹ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم اور اسی کی توفیق سے حیات احمد کی پہلی جلد تین نمبروں میں مکمل ہو چکی اور اب رب کریم کے فضل اور رحم سے دوسری جلد کو شروع کرنے کی توفیق پا تا ہوں اور جناب الہی سے ہی دعا کرتا ہوں آغاز کرده ام تو رسانی به انتها اس جلد میں آپ کے دس سالہ سوانح حیات ہونگے.اور یہ زمانہ براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ سے لے کر اعلان بیعت تک کے حالات پر مشتمل ہوگی.اس حصہ کی تالیف و ترتیب میں زبانی روایات کا بہت ہی کم دخل ہے.اکثر و بیشتر حصہ مستند تحریروں کی بناء پر ترتیب دیا گیا ہے.اس جلد کی ترتیب کے لئے مجھے اخبار منشور محمدی بنگلور.برادر ہندو اشاعة السنه لا ہور، نورافشاں سفیر ہند وغیرہ کے فائل ۱۸۷۹ء سے لے کر ۱۸۸۴ ء تک پڑھنے پڑے ہیں.براہین احمدیہ کی تألیف کا سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جبکہ حیات احمد کا مرتب (خاکسار عرفانی) تین چار
حیات احمد ۶ جلد دوم حصہ اول سال سے زیادہ عمر کا نہ تھا اور آج سے پچاس برس پیشتر کے اخبارات اور شائع شدہ تحریرات کو حاصل کرنا بھی آسان نہ تھا مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اپنی اس سعی میں نا کام نہیں رہا اور میں اسے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اعجاز سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے حالات زندگی کی تدوین و ترتیب کے لئے جس سامان کی ضرورت تھی اسے بہت بڑی حد تک محفوظ رکھا ہے.ایک طرف مسیح ناصری ہیں کہ ان کی حیات کے اوراق منتشر بلکہ کہنا چاہئے گم ہیں.اور دوسری طرف مسیح محمدی ہے کہ اس کی زندگی کے واقعات اور حالات کی حفاظت کا خدا تعالیٰ نے خارق عادت سامان مہیا کر دیا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے.اس لحاظ سے صحیح موعود علیہ السلام کو مسیح ناصری علیہ السلام پر تاریخی شخصیت کے لحاظ سے بھی فضیلت حاصل ہے.براہین احمدیہ کی تصنیف کی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی چہل سالہ حالات زندگی میں یہ امر نمایاں ہے کہ آپ ایک غیور فطرت لے کر آئے تھے اسلام کی حقانیت کے اثبات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی حفاظت اور قرآن مجید کی اعجازی قوتوں کے اظہار کے لئے آپ ایک خارق عادت علمی اور عملی جوش رکھتے تھے.کوئی موقعہ اور مرحلہ آپ کی زندگی میں ایسا نہیں نظر آتا کہ آپ صف اول میں نہ کھڑے ہوں باوجود اس کے کہ آپ ایک ایسے گاؤں میں رہتے تھے جہاں عام واقفیت اور علمی معلومات کے بڑھانے کا کوئی موقعہ نہیں تھا آپ ان تمام حالات سے واقفیت رکھتے تھے جو مذہبی دنیا میں پیدا ہورہے تھے اور ہر مذہبی تحریک کا اس نظر سے مطالعہ کرتے تھے کہ وہ کس حد تک اسلام سے تصادم کرنے والی ہے.اور جہاں آپ کو معلوم ہوتا کہ کوئی تحریک اسلامی عقیدہ یا تعلیم سے ٹکر کھاتی ہے آپ فوراً اصول اسلام کی صیانت کے لئے شمشیر قلم لے کر میدان میں نکل آتے اور اس طرح پر اخبارات کے ذریعہ ان اعتراضات اور ان کے جوابات دینے میں مصروف نظر آتے ہیں.نوبت یہاں تک
حیات احمد L جلد دوم حصہ اوّل پہنچ گئی تھی کہ اسلام پر چاروں طرف سے حملے شروع ہو گئے تھے.عیسائی اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ حملے کر رہے تھے.اب آریوں کے جدید فرقہ نے ان کو مدد دی اور وہ ایک دوسری طرف سے حملہ آور ہوئے.برہمنوں نے مسئلہ وحی اور نبوت کا انکار کیا.ان حملوں کی ذرہ بھی پرواہ نہ ہوتی اگر مسلمانوں کی اندرونی حالت درست ہوتی مگر وہ دن بدن قابل افسوس ہو رہی تھی.سرسید کی تحریک مذہبی نکتہ خیال سے مضر اثر پیدا کر رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے (جن کو اس وقت کسی قسم کا دعوئی نہ تھا بلکہ وہ ایک عام مسلمان کی زندگی بسر کرتے تھے )ان حالات کو دیکھ کر ایک دردمند اور غیور مسلمان کی طرح حمایت اسلام پر کمر باندھی.وہ اس بات سے قطعاً ناواقف تھے کہ یہ تمام تحریکات آسمانی اور ربانی تحریک کا نتیجہ ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں کسی امر عظیم کے لئے مامور کرنا چاہتا ہے.آپ نے ان حالات کا مطالعہ کر کے ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کر لیا اور تمام مذاہب باطلہ کی تردید اور اسلام پر ہر قسم کے اعتراضات کے جوابات کو نہایت معقول اور مدلل طور پر دینے کے لئے بلکہ تائیدات سماوی اور شواہد آسمانی کے ذریعہ صداقت اسلام ظاہر کرنے کے لئے یہ عزم فرمایا کہ ایک مبسوط کتاب لکھی جاوے.یہی براہین احمدیہ کی تالیف کی ابتدائی تحریک تھی.کچھ شک نہیں براہین احمدیہ کی تصنیف کے محرکات خارجی یہی مباحثات تھے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ مباحثات بھی ربانی تحریک کا نتیجہ تھے.اس سلسلہ نے آپ کو گوشئہ خلوت سے باہر نکالا اور اس عظیم الشان کام کے لئے تیاری اور تربیت شروع ہوئی جو آپ کے سپرد ہونے والا تھا.ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت قادیان کوئی ایسی مُشَار الیہ بستی نہ تھی کہ لوگ مباحثہ کرنے کے لئے یہاں آتے یا قادیان سے نکلتے ہوئے مضامین پر توجہ کر سکتے.اس وقت کے اسلامی مذہبی لیڈروں میں حضرت مرزا صاحب کا نام تک بھی نہ آتا تھا کہ یکا یک ایسی ہوا چلی کہ ان مضامین نے مذہبی میدانِ جنگ میں ایک نئی حرکت پیدا کر دی اور تمام لوگوں کی توجہ کو بدل دیا اور جب پنڈت دیانند جی اور دوسرے آریہ مناظر اس میدان میں نہ ٹھہر سکے تو
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل حضرت مرزا صاحب کی شخصیت غیر معمولی نظر آنے لگی اور ادھر حضرت نے اسلام پر حملوں کی کثرت دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ اسلام کی صداقت کے اظہار و اعلان کو زندگی اور موت کا سوال بنا دیا جاوے چنانچہ آپ نے براہین احمدیہ کی اشاعت کا ارادہ اس نہج پر کیا کہ اس کے ساتھ دس ہزار روپیہ انعام کا اعلان کیا جاوے جو اس شخص کا حق ہو گا جو دلائل مندرجہ براہین کے پانچویں حصہ تک تو ڑ کر دکھاوے.یا پانچویں حصہ کے برابر اسی قسم کے دلائل اپنی کتاب سے پیش کرے.اس سے دلائل کی قوت اور اتمام حجت کی نوعیت کا اندازہ آسانی سے ہوسکتا ہے.دشمن سے دشمن انسان کو بھی ماننا پڑے گا کہ آپ کو براہین احمدیہ کے دلائل اور ان کی قوت و استحکام پر ایسا بھروسہ تھا کہ اپنی ساری جائداد منقولہ اور غیر منقولہ کو اس کے دلائل کو غلط ثابت کرنے والے کو دیں.براہین احمدیہ کی تصنیف کے اولین باعث براہین احمدیہ کی تصنیف کا باعث اگر چہ وہ قدرتی اور طبعی حالات تھے اور مذہبی دنیا میں اسلام کے خلاف مشترک جنگ تھی لیکن سب سے زیادہ جس چیز نے آپ کو متوجہ کیا وہ آریہ سماج کے حملے اور اس کی سرگرمیاں تھیں.یہ میرا ذاتی خیال یا اجتہاد نہیں بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی ظاہر فرمایا.چنانچہ آپ نے ۱۶ رمئی ۱۸۷۹ء مطابق ۵/ جمادی الاوّل ۱۲۹۶ھ کے منشور محمدی میں ہمارے معزز دوست باوا نرائن سنگھ کے لئے خوشخبری کے عنوان سے جو مضمون شائع کرایا ہے اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ :- لہذا ہم نے حسب درخواست با وا صاحب ایک کتاب مستمی به براهین احمدیه عَلَى حَقَّيَّةِ كِتَابِ اللهِ الْقُرْآنِ وَالنَّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِيَّه ادلہ کا ملہ قطعیہ سے مرتب کر 66 کے تیار کی ہے.“ اس طرح آپ نے اسی اخبار کے صفحہ ۵ پر ایک اعلان بعنوان ”اشتہار بطلب معاونت نقل کرده از منشور محمدی ۵ جمادی الاول ۱۲۹۶ صفحه ۵،۹،۸) چونکہ یہ مضمون نادر و نایاب ہے
حیات احمد ۹ جلد دوم حصہ اول جملہ اکابر وعمائد الاسلام شائع کیا.اس میں باعث تصنیف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ : اور اس کتاب کے تصنیف ہونے کا اصل باعث پنڈت دیانند صاحب اور ان کے توابع ہیں جو اپنی امت کو آریہ سماج کے نام سے مشہور کر رہے ہیں اور بجز اپنے وید کے حضرت موسیٰ ، حضرت مسیح اور حضرت محمد مصطفی علیہم السلام کی تکذیب کرتے ہیں...چنانچہ ایک صاحب نے ان میں سے سفیر ہند میں بطلب ثبوت حقانیت فرقان مجید کئی مرتبہ ہمارے نام اشتہار بھی دیا ہے.غرض اب ہم نے ان کا اور ان کے اشتہار کا کام تمام کر دیا.“ الآخرہ قریباً اسی مضمون کا اعلان آپ نے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد دوم نمبر چہارم بابت اپریل ۱۸۷۹ء کے صفحہ ۴۱۳ پر بھی شائع کرایا تھا اور اخبار سفیر ہند میں بھی اعلان ہوا.غرض ابتداء اس کتاب کی تالیف و تصنیف کا سلسلہ آریہ سماج سے مباحثات کی بنا پر شروع ہوا اور وید و فرقان کا مقابلہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی.مگر بعد میں براہین احمدیہ تمام مذاہب باطلہ کی تردید اور حقانیت اسلام کے بقیہ حاشیہ: اور صحیح ہے ۱۲ برس پیشتر شائع ہوا تھا اس کے تحفظ کے خیال سے میں اسے یہاں درج کر دیتا ہوں.(عرفانی) اشتہار به طلب معاونت جملہ اکابر و عمائد اسلام سب بھائیوں دیندار اور مومنین غیرت شعار اور حامیان دین اسلام اور متبعین سنت خیر الا نام پر روشن اور ہویدا ہو کہ ان دنوں میں خاکسار نے ایک کتاب اثبات حقانیت قرآن شریف اور سچا ہونے دین اسلام میں کمال محنت اور کوشش اور جانفشانی سے تصنیف کی ہے.اور خدا کے فضل اور کرم سے اور اسی کی تائید اور توفیق سے اس قدر ثبوت صدق نبوت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کتاب میں بھرا ہوا ہے کہ اگر کوئی طالب الحق ہے تو اس کو بجز اسلام قبول کرنے کے اور کچھ بن نہیں پڑے گا.ورنہ وہ جانے اور اس کا کام اور اس کتاب کے ساتھ ایک اشتہار تعدادی ہیں ہزار یہ چھاپے کی غلطی ہے در اصل دس ہزار ہے.عرفانی ) بوعدہ انعام دینے اس شخص کو جو
حیات احمد جلد دوم حصہ اول اثبات کا ایک کارگر تر یہ ہو گئی.یہی نہیں بلکہ کتاب کی تدوین و ترتیب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے خیال اور ارادے سے بالا ہو گئی.چنانچہ چوتھی جلد کی اشاعت تک حالات میں ایسی تبدیلی ہوئی کہ حضرت ممدوح کو ایک اعلان ” ہم اور ہماری کتاب“ کے عنوان سے شائع کرنا پڑا جس میں آپ نے ظاہر فرمایا کہ: ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد میں اس کے قدرت اللہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی.یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پر دہ غیب سے إِنِّي أَنَا رَبُّكَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتم ظاہراً اور باطناً حضرت رب العالمین بقیہ حاشیہ: اس کتاب کے دلائل کو توڑے یا اپنی کتاب میں جس کو الہامی خیال کرتا ہے اسی قدر دلائل حقانیت یا اس سے نصف یا اس سے ثلث یا اس سے رُبع یا اس سے خمس ثابت کر کے دکھلا دے گا یا دیا گیا ہے.بدین مضمون کہ اگر کسی کو دین اسلام کی حقانیت میں شک ہو یا اپنے دین کو اس سے بہتر جانتا ہو یا بہتر ہونے کا احتمال رکھتا ہو یا لامذہب بن کر یہ کہتا ہو کہ کوئی دین سچا نہیں تو اگر وہ بحسب شرائط متذکرہ بالا کے پورا پورا جواب دے دے جس کو تین منصف جو فریقین کے مذہب سے بے تعلق ہوں تسلیم کر لیں جو فی الحقیقت پورا پورا جواب ہے تو خواہ وہ شخص مجھ سے تمسک لکھا لے یا رجسٹری کرا لے یا جس طرح چاہے اطمینان کر کے اور خود آ کر املاک منقولہ اور غیر منقولہ میری دیکھے اگر جواب اس کا پورا ہوگا تو میں بقدر قیمت دس ہزار روپیہ کے جو میرے تصرف اور قبضہ میں جائیداد ہے اسے حوالہ کر دوں گا اور آپ الگ ہو بیٹھوں گا.بخدا میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ اسی عہد پر اس کتاب کو شائع کیا جاوے گا کوئی منکر کیا جانتا ہے جو اس کتاب میں کیا کیا دلائل ہیں جب وہ دیکھے گا جانے گا.اور اس کتاب کے تصنیف ہونے کا اصل باعث پنڈت صاحب
حیات احمد 11 66 ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے.“ براہین احمدیہ کا وجود ایک پیشگوئی کا پورا ہونا تھا جلد دوم حصہ اوّل غرض براہین احمدیہ کی تصنیف کی تحریک بظاہر تو آریہ سماج کے ساتھ قلمی جنگ سے ہوئی اور پھر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مامور فرما کر اس کام کو آپ کے خیال اور ارادہ سے بالا کر دیا اور اس طرح پر ایک پیشگوئی پوری ہو گئی جس کا اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی خیال بھی نہ آیا تھا.واقعات اور حالات کے اس طرح پر جمع ہو جانے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خدائی کا روبار تھا جس میں انسانی عقل اور ہاتھ کا کوئی دخل نہ تھا.اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے میں واقعات کا سلسلہ پیش کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود کو رویا کے ذریعہ براہین احمدیہ کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۶۴ء میں ایک رؤیا دیکھی جس کو آپ نے اس طرح پر بقیہ حاشیہ: اور ان کے توابع ہیں جو اپنے کو آریہ سماج کے نام سے مشہور کر رہے ہیں اور بجز اپنے دید کے حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح اور حضرت محمد مصطفییٰ علیہم السلام کی تکذیب کرتے ہیں اور نعوذ باللہ توریت اور زبور اور انجیل اور فرقان مجید کو محض افترا انسان کا سمجھتے ہیں اور ان مقدس نبیوں کو توہین کے کلمات سے یاد کرتے ہیں اور ایسے الفاظ بولتے ہیں جو سنے نہیں جاتے.چنانچہ ایک صاحب نے جو ان میں سے سفیر ہند میں بہ طلب ثبوت حقانیت فرقانِ مجید کئی مرتبہ بنام ہمارے اشتہار بھی دیا ہے.غرض اب ہم نے ان کا اور ان کے اشتہاروں کا کام تمام کر دیا ہے اور دین اسلام کی صداقت اور فرقان مجید کی سچائی اور اس کی تعلیم کا علو شان ایسا ثابت کر دیا ہے کہ ہر ایک منصف کے دل سے قرآن کے دلائل اور اس کی عالی تعلیم اور اس کی خوبیوں کو دیکھ کر إِنَّكَ أَنتَ الأعلى کی آواز آئے گی اور اس کتاب کا نام براہین احمدیہ عَلَى حَقِّيَّةِ كِتَابِ اللَّهِ الْقُرْآنِ وَالنُّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِ یہ رکھا گیا ہے.خدا اس کو مبارک کرے اور بہتوں کو اس کے ذریعہ سے اپنی
حیات احمد بیان کیا ہے :- ۱۲ جلد دوم حصہ اول اس احقر نے ۱۸۶۴ ء یا ۱۸۶۵ء میں یعنی اُسی زمانے کے قریب جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصے میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا.جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلّم کو خواب میں دیکھا اور اُس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ کتاب بقیہ حاشیہ:.طرف کھینچے.آمین اب عرض ضروری اپنے بھائیوں کی خدمت میں یہ ہے کہ اول حالت میں تو یہ کتاب صرف پندرہ جزو میں تمام ہوئی تھی لیکن ہم نے بغرض تکمیل تمام ضروری مراتب کے اسی قدر نو حصے اور بھی زیادہ کر دیئے یعنی کل ڈیڑھ سو جزو ہوگئی ہے.اور اگر چہ اس کتاب کی ضخامت تو پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے لیکن اس سے روز کے جھگڑے کا فیصلہ تو ہو گیا.اب یہ کتاب دس حصہ کلاں پر مشتمل ہے جو ہر ایک حصہ اگر ہزار نسخہ چھاپا جاوے تو چورانویں روپے کی لاگت سے چھپتا ہے اس صورت میں تمام کتاب کی لاگت نوسو چالیس روپے ہوتے ہیں لیکن چھپنا ایسی بڑی کتاب کا بجز معاونت مسلمان بھائیوں کے مشکل ہے اور ایسے اہم کام میں بدل و جان مدد گار رہنا اور آپ دستگیری کر کے انجام دے دینا جس قدر ثواب ہے کسی امتی پر پوشیدہ نہیں.جن لوگوں کا قرآن مجید میں صالحین اور صدیقین اور شہداء نام لکھا گیا ہے وہ وہی لوگ ہیں جو دین کے کام میں بدل و جان مجاہدہ کرتے تھے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سارا مال اپنا دین کی تائید میں دے کر عاقبت خرید لی تھی.اگر آپ
حیات احمد ۱۳ جلد دوم حصہ اول حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آں جناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا.مگر بقدر تر بوز تھا.آنحضرت نے جب اُس میوہ کو قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اُس میں سے شہر نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا.تب ایک مُردہ کہ جو دروازے سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزے سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آ کھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا.جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبر دست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اُس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اُس نئے ان بقیہ حاشیہ:.لوگ اس کتاب کی مدد میں اپنی آمد کا ایک دن کا خرچ بھی عنایت فرماویں تو یہ کتاب بسہولت چھپ جائے گی ورنہ یہ مہر درخشاں چُھپ رہے گا.اور یا یوں کریں کہ ہر ایک صاحب توفیق به نیت خریداری کتاب سے پانچ پانچ روپیہ مع اپنی درخواست کے راقم کے پاس بھیج دیں اور جیسے جیسے کتاب چھپتی جائے گی آپ کی خدمت مبارک میں ارسال ہوتی رہے گی.غرض انصار اللہ بن کر اس کام کو جلد تر انجام دے دیں جو زندگی کا ایک دم بھی اعتبار نہیں والسلام.فقط الراقم میرزا غلام احمد رئیس قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب“ اس اعلان میں فقرہ نمبر ا جو میں نے جلی کر دیا ہے میں آپ نے اشارہ کیا ہے کہ سفیر ہند میں قرآن مجید کی حقانیت کے ثبوت کے لئے کسی آریہ نے اشتہار دیا ہے اس سے مراد باوانرائن سنگھ صاحب وکیل امرتسر ہیں جو رسالہ وڈ یا پر کا شک کے ایڈیٹر تھے اور جن کے ساتھ قلمی مباحثات کے سلسلہ کا ذکر میں پہلی جلد میں کر آیا ہوں.تکمیل تاریخ کے لئے باوا صاحب کو جو جواب اس وقت آپ نے دیا میں اُسے یہاں درج کرتا ہوں کہ وہ اسی سلسلہ تالیف براہین سے تعلق رکھتا ہے.
حیات احمد ۱۴ جلد دوم حصہ اوّل زندہ کو دے دی اور اُس نے وہیں کھالی.پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تھا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی گرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی تب اسی نور کو مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِك (براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه در حاشیه صفحه ۲۴۸، ۲۴۹.روحانی خزائن جلد اصفحه ۴ ۲۷ تا ۲۷۶) صاف ظاہر ہے کہ یہ رویا آپ نے ایام طالب علمی میں دیکھی اس وقت کسی کتاب کی تصنیف اور تالیف کا آپ کو خیال تک بھی نہ تھا اور بعد کے واقعات نے بتایا کہ آپ مختصر ملا زمت اور اپنی جائیداد کے مقدمات میں مصروف ہو گئے چودہ پندرہ برس کے بعد ایک جدید سلسلہ پیدا ہوتا ہے اور آپ کو آریوں اور دوسرے مذاہب باطلہ کے لیڈروں سے مباحثات تحریری کا واقعہ پیش قیہ حاشیہ: - چنانچہ آپ نے اسی منشور محمدی میں صفحہ ۸ زیر عنوان ہمارے معزز دوست با وانرائن سنگھ صاحب کے لئے خوشخبری ایک مضمون شائع کرایا اور وہ یہ ہے:.باوا صاحب نے پر چہ سفیر ہند یکم فروری ۱۸۷۹ء میں بمقابلہ ہمارے سوالات کے جو ہم نے تعلیم پنڈت دیانند صاحب پر کر کے خدا کا خالق ہونا اور نجات کا ابدی ہونا اور تناسخ کا باطل ہونا ثابت کیا تھا قبل اس کے جو ہمارے کسی سوال کا جواب عنایت فرماتے بمقابلہ ثبوت کلامِ الہی ہونے فرقان مجید کے سوال پیش کر دیا ہے افسوس ہے کہ اگر باوا صاحب اس مضمون پر جو سفیر ہند میں ہماری طرف سے چھپ رہا ہے کچھ بھی غور فرماتے تو ایسا سوال کرنا محض تحصیل حاصل جانتے کیونکہ ناظرین کو خوب معلوم ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی اپنے مضمون کو ایسے ڈھنگ پر پیش کیا ہے جس سے قرآن اور وید کا مقابلہ اور موازنہ ہو کر ہر ایک کو معلوم ہو جائے کس کتاب کے اصول بچے اور کس کے کچے ہیں.باوا صاحب کو اگر تحقیق منظور تھی تو ہمارے سوالات کا بحوالہ دید جواب دیا ہوتا تا کہ منصفین کو دونوں کتابوں کے مقابلہ پر نظر کر کے رائے دینے کا موقعہ کامل مل سکتا پر
حیات احمد ۱۵ جلد دوم حصہ اوّل آ جاتا ہے اور آپ گوشہ گزینی سے نکل کر اس طرح پر پبلک میں آ جاتے ہیں اور آریوں کی طرف سے قرآن مجید کی حقانیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات کا مطالبہ ہوتا ہے اور اسی سلسلہ میں متعدد تحریریں آپ کی طرف سے شائع ہوتی ہیں بالآ خر آپ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ ایک مستقل کتاب اس مضمون پر لکھیں اور اس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا انعام مشتہر کریں.ہندوستان کی مذہبی دنیا میں سب سے پہلا انعامی چیلنج ہندوستان کی مذہبی دنیا میں یہ سب سے پہلا انعامی چیلنج تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا اس سے پیشتر بھی آپ نے آریوں کے لئے بعض انعامات مشتہر کئے تھے اور جیسا کہ میں پہلی جلد میں لکھ چکا ہوں کسی کو مقابلہ میں آنے کی سکت نہیں ہوئی.آپ کو اپنے دلائل کی حجیت اور قطعیت پر اس قدر یقین تھا کہ آپ نے اتنا بڑا انعام اس کتاب کے لئے مشتہر کیا مگر کسی شخص کو بقیہ حاشیہ: - باوا صاحب نے تو آج تک ان سوالات کا کچھ بھی جواب نہ دیا اور نہ آگے ہم کو امید نظر آتی ہے کہ کوئی صاحب آریہ سماج والوں سے اس بارہ میں دم بھی مارسکیں پس اس صورت میں یہ حق ہم کو پہنچتا ہے ، کہ ہم باوا صاحب سے وید کے بارے میں کہ جس کے اصول ثابت نہ ہو سکے ثبوت مانگیں.باوا صاحب کا ہرگز استحقاق نہ تھا جو وہ قرآن کے بارے میں کہ جس کے صدق کا نمونہ ظاہر ہو چکا کچھ کلام کرتے.علاوہ اس کے سب ذی علم جانتے ہیں کہ یہ دستور مناظرہ نہیں ہے کہ سائل کے سوال کا کچھ جواب نہ دیں اور اس پر اُلٹے سوالات کرنے لگیں.پس بوجوہات بالا ہم پر ہرگز لازم نہ تھا کہ باوا صاحب کے اس سوال پر سوال کرنے کو کچھ قابلِ التفات سمجھتے ہوں.لیکن چونکہ یہ بھی گمان ہو سکتا ہے کہ شاید باوا صاحب کا ہمارے سوالات کے جواب دینے سے خاموش رہنا اس وجہ سے ہے کہ صاحب موصوف ہمارے سوالات کو لاجواب پا کر اپنے دل میں ہی قبول کر گئے ہیں اور اب حق کے متلاشی ہیں اور بغرض مزید تحقیقات کے کچھ زیادہ ثبوت قرآن مجید کا مانگنے اور وید کے بارے میں باعث ناامید ہو جانے کے کچھ بحث کرنا نہیں چاہتے لہذا ہم نے
حیات احمد ۱۶ جلد دوم حصہ اوّل شرائط مقررہ کے موافق مقابلہ کی قدرت نہ ہوئی اور اس طرح پر یہ کتاب آج تک لا جواب ہے اور یہ بالکل صحیح ثابت ہوا.چہ ہیبت ها بدادند این جوان را که ناید کس بمیدان محمد واقعات کا یہ سلسلہ بڑی وضاحت سے بتاتا ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف خدا تعالیٰ کی ایک پیشگوئی کے موافق ہوئی اور یہ خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی کا ایک کرشمہ تھا.حضرت مسیح موعود کا اس جواب کے بعد باوجود مختلف اوقات میں بیماری کے بعض خطرناک حملوں کے زندہ رہنا اور باوجود زندگی کے مختلف مشاغل میں داخل ہو کر انہیں چھوڑ دینا اور باوجود گوشہ نشینی کو ترجیح دینے کے ایسے حالات کا پیدا ہو جانا کہ آپ پبلک میں آئیں یہ انسانی تدابیر اور تجویز کا نتیجہ نہیں ہوسکتا.بقیہ حاشیہ: - حسب درخواست با وا صاحب ایک کتاب مسمی براہین احمدیہ عَلى حَقَّيَّةِ كِتَابِ اللهِ الْقُرْآنِ وَالنَّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِيَّه اللہ کا ملہ قطعیہ سے مرتب تیار کی گئی ہے.امید ہے کہ عنقریب چھپ کر شائع ہو جائیں گے.اب ہم باوا صاحب کو مبارک باد دیتے ہیں کہ اگر ہمارا یہ خیال صحیح ہے کہ باوا صاحب نے ہمارے اعتراض کو منصف مزاجی سے تسلیم کر کے حق کا تلاش کرنا شروع کر دیا ہے تو بقول شخصے کہ ہر جو بندہ یا بندہ بمجرد مطالعه کتاب موصوف کے دلی تمنا کو پہنچیں گے اور تسلی کامل پائیں گے اور اگر خدا نخواستہ باوا صاحب کا یہ سوال پر سوال کرنا دلی صدق سے نہیں بلکہ سوالات سے گھبرا کر اور تنگ آ کر بطور ٹالنے کے ایک بات لکھ دی ہے کہ تا آریہ سماج والے یوں نہ سمجھیں کہ باوا صاحب نے تو کچھ بھی جواب نہ دیا.اس صورت میں ہم باوا صاحب کے شکر گزار ہیں کہ گوان کا کچھ ہی خیال تھا لیکن ان کے تقاضا سے ایک کتاب لا جواب تو تیار ہوگئی کہ جس سے بہت سے ہم وطن بھائیوں آریہ سماج والوں کو پورا پورا فائدہ ہوگا اور باوا صاحب کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ ثبوت اسے کہتے ہیں.الراقم المشتہر مرزا غلام احمد رئیس قادیان ( ضلع گورداسپور ملک پنجاب ) ہتر جمہ :.اس جواں کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی ( مقابلہ پر ) نہیں آتا.
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل براہین احمدیہ کی تالیف کے متعلق جو رویا آپ نے دیکھی تھی اور تصنیف سے پہلے کبھی آپ نے اس کے متعلق خیال بھی نہیں کیا تھا.تصنیف کے بعد کے واقعات نے اسے لفظاً ومعناً پورا کیا ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- یہ وہ خواب ہے جو تقریباً دوسو آدمیوں کو انہیں دنوں سنائی گئی تھی جن میں سے پچاس یا کم و بیش ہندو بھی ہیں کہ جو اکثر ان میں سے ابھی تک صحیح وسلامت موجود ہیں یہ تالیف براہین کے وقت کی بات ہے.عرفانی ) اور وہ تمام لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں براہین احمدیہ کی تالیف کا ابھی نام ونشان نہ تھا اور نہ یہ مرکوز خاطر تھا کہ کوئی دینی کتاب بنا کر اس کے استحکام اور سچائی ظاہر کرنے کے لئے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جاوے لیکن ظاہر ہے کہ اب وہ باتیں جن پر خواب دلالت کرتی ہے کس قدر پوری ہوگئیں اور جس قطبیت کے اسم سے اس وقت کی خواب میں کتاب کو موسوم کیا گیا اشتہار تصنیف کتاب براہین احمدیہ بہت اطلاع جمیع عاشقانِ صدق وانتظام سرمایه طبع کتاب ایک کتاب جامع دلائل معقوله درباره اثبات حقانیت قرآن شریف وصدق نبوت حضرت محمد مصطفی علی ہے جس میں ثبوت کامل منجانب کلام اللہ ہو نے قرآن شریف اور سچا ہونے حضرت خاتم الانبیاء کا اس قطعی فیصلہ سے دیا گیا ہے کہ ساتھ اس کتاب کے ایک اشتہار بھی بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ کے اس مراد سے منسلک ہے کہ اگر کوئی صاحب جو حقانیت اور افضلیت فرقانِ شریف سے منکر ہے براہین مندرجہ اس کتاب کو توڑ دے یا اپنی الہامی کتاب میں اسی قدر دلائل یا نصف اس سے یا ثلث اس سے یا ربع اس سے یا شمس اس سے ثابت کر کے دکھلا دے.جس کو تین منصف مقبولہ فریقین تسلیم کر لیں تو مشتہر اس کو بلا عذرا اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل
حیات احمد ۱۸ جلد دوم حصہ اوّل تھا اس قطبیت کو اب مخالفوں کے مقابلہ پر بوعدہ انعام کثیر پیش کر کے حجت الاسلام ان پر پوری کی گئی ہے.اور جس قد ر ا جزا اس خواب کے ابھی تک ظہور میں نہیں آئے ان کے ظہور کا سب کو منتظر رہنا چاہیئے کہ آسمانی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں صفحہ ۲۵۰“ مجھ کو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی تصریحات اس مقام پر مقصود نہیں ہیں اس کے لئے ایک جدا مقام اس کتاب میں ہو سکتا ہے مگر اصولی طور پر کتاب براہین احمدیہ اس پیشگوئی کا ظہور ہے اور اس وقت اس کا الہامی نام قطبی قرار دیا گیا تھا جو اس کے لاجواب ہونے پر دلالت کرتا ہے اور باوجود یکہ آج اس کی پہلی اشاعت پر پچاس برس یعنی نصف صدی گزری ہے مگر کسی شخص کو یہ ہمت اور حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ شرائط مشتہرہ کے موافق اس کے جواب کے لئے میدان میں آیا ہو اور پھر اس کتاب کو پھل کی صورت میں متمثل دکھایا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قاشیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن میں ڈال دیں اور ایک قاش کے ذریعہ ایک مردہ کے احیاء و بقاء کا معجزہ ظہور میں آیا یہ امر آپ کی مجددیت اور منصب ماموری پر صراحتاً دلالت کرتا ہے اور احیاء اسلام کی بشارت اس میں موجود تھی اور متعدد قاشیں انٹی کے قریب مختلف تصانیف کی صورت بقیہ حاشیہ:.دے دے گا.بوجہ منکر انہ اصرار پنڈت دیانند صاحب اور ان کے بعض سیکرٹریوں کے تصنیف ہوئی ہے.اور نام اس کتاب کا بَرَاهِيْنُ الْأَحْمَدِيَّهِ عَلَى حَقِّيَّةِ كِتَابِ اللَّهِ الْقُرْآنِ وَالنَّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِيَّهِ رکھا گیا ہے لیکن بوجہ ضخامت چھپنا اس کتاب کا خریداروں کی مدد پر موقوف ہے.لہذا یہ اشتہار بہت اطلاع جمله اخوان مومنین و برادران موحدین و طالبانِ راہِ حق و یقین شائع کیا جاتا ہے کہ یہ بہ نیت معاونت اور نصرت دین متین کے اس کتاب کے چندہ میں بحسب توفیق شریک ہوں یا یوں مدد کریں کہ بہ نیت خریداری اس کتاب کے مبلغ پانچ روپیہ جو اصل قیمت اس کتاب کی قرار پائی ہے بطور پیشگی بھیج دیں تا سرمایۂ طبع اس کتاب کا اکٹھا ہو کر بہت جلد چھپنی شروع ہو جائے اور جیسے جیسے چھپتی جائے گی بخدمت جملہ صاحبین جو بہ نیت خریداری چندہ عنایت فرمائیں گے مرسل ہوتی رہے گی.لیکن واضح رہے کہ جو صاحب بہ نیت خریداری چندہ عنایت فرماویں وہ اپنی درخواست
حیات احمد ۱۹ جلد دوم حصہ اوّل میں پوری ہوئیں اور یہ سب تصانیف در اصل اسی مرکز براہین پر متفرع ہیں.اس طرح پر ایک ایسا واضح اور بین نشان ہے کہ کوئی سلیم الفطرت اور شریف الطبع انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا.اس پیشگوئی کی تصریحات نہایت لذیذ اور فی الحقیقت شہد سے بھی زیادہ شیریں ہیں.میں اس کتاب کے پڑھنے والوں کو ایک اشارہ بتا دیتا ہوں کہ وہ اس نکتہ کو مدنظر رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیفات اور آپ کے کارناموں کا مطالعہ کریں تو ایک ایک لفظ کی تصدیق واضح الفاظ میں نظر آئے گی مثلاً آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رؤیا میں ایک زبر دست پہلوان دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت و مناقب میں لکھا گیا ہے ہم اس حقیقت کو نمایاں دیکھیں گے ایک مقام پر فرماتے ہیں.پہلوان حضرت رب جلیل بر میان بسته ز شوکت خنجر لے یک طرف حیراں ازُ و شاہان وقت یک طرف مبہوت ہر دانشورے بقیہ حاشیہ:.خریداری میں بقلم خوش خط اسم مبارک و مفصل پسته و نشان مسکن وضلع وغیرہ کا کہ جس سے بلا ہر ج اجزاء کتاب کے وقتاً فوقتاً ان کی خدمت گرامی میں پہنچتے رہیں ارقام فرما دیں.مرزا غلام احمد رئیس قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب شهر مکرر بڑی شکر گزاری سے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مولوی چراغ علی صاحب نائب معتمد مدار المهام دولت آصفیہ حیدر آباد دکن نے بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخود اپنی کرم ذاتی اور ہمت اور حمایت اور حمیت اسلامیہ سے بوجہ چندہ اس کتاب کے اک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا ہے.حضرت فخر الدولہ جناب نواب مرزا محمد علاء الدین احمد خان صاحب بہادر والی ریاست لوہارو چالیس روپے حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیر اعظم دستور ریاست پٹیالہ پنجاب ۵۰۰ روپے ( منشور محمدی ۲۵ / رجب ۱۳۹۶ھ ) ۲ ابتر جمہ.وہ خدائے جلیل کی درگاہ کا پہلوان ہے اور اس نے بڑی شان سے کمر میں خنجر باندھ رکھا ہے.ایک طرف شاہان وقت اُس سے حیران تھے.دوسری طرف ہر عظمند ششد رتھا.۲ نوٹ.یہ اشتہار مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۲۳ ۲۴ طبع دوم پر سفیر ہند کے حوالہ سے باختلاف الفاظ مندرج ہے.
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل یہ ایک نمونہ ہے اس اصول کو مدنظر رکھ کر آپ کی تصنیفات کو پڑھنے والا ایک خاص لطف اٹھا سکتا ہے یوں براہین احمدیہ کی تصنیف جو اللہ تعالیٰ کے خاص منشاء اور خاص بشارت کے ماتحت ہوئی یہ بشارت ان ایام اور ان حالات میں دی گئی جب کہ کسی کتاب کی تالیف و تصنیف کا وہم بھی نہیں کر سکتا تھا اور اس پر ایک زمانہ گزر گیا اس عرصہ میں بھی کسی کتاب کی تالیف کا خیال نہیں آیا پھر جن حالات میں براہین تصنیف ہوئی وہ اور بھی اس سلسلہ کے محض ربانی سلسلہ ہونے کے مؤید ہیں.اور صاف طور پر خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا ہاتھ کام کرتا دکھائی دیتا ہے.جہاں تک انسانی اسباب اور تدابیر کا تعلق ہے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا کہ براہین جیسی کتاب تصنیف ہو اور طبع ہو کر شائع بھی ہو جائے مگر خدا تعالیٰ نے آپ ہی مسیح موعود کو کھڑا کیا اور آپ ہی اسے اٹھایا اور برومند فرمایا ہے خود کنی و خود کنانی کار را خود دہی رونق تو ہیں بازار را بقیہ حاشیہ:.جس اشتہار میں آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے ترتیب واقعات کے لحاظ سے وہ ۱۸۸۵ء کے واقعات میں آنا چاہیئے لیکن اس امر واقعہ کی تائید و تصدیق کے لئے اسے یہاں ہی دے دینا مناسب ہے کہ حضرت نے براہین احمدیہ مامور و لہم ہو کر لکھی اگر چہ اس اشتہار پر کوئی تاریخ اشاعت درج نہیں مگر دوسرے ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشتہار ۱۸۸۵ء کے شروع میں لکھا گیا اور فروری ۱۸۸۵ء میں طبع کرانے کے لئے لاہور بھیجا گیا.اشتہار انگریزی اور اردو میں ۲۰ ہزار چھپایا گیا تھا اس اشتہار کے انگریزی ترجمہ کے لئے منشی الہی بخش اکو نٹنٹ اور پارٹی کے علاوہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی کہا گیا تھا کہ انتظام کیا جائے.مولوی نجف علی صاحب چیف کورٹ ( موجودہ ہائی کورٹ ) میں مترجم تھے اس لئے انہوں نے بھی اس ترجمہ میں جُزْءٌ وَكُلا مدد دی.اور اس کی طباعت کے لئے مولوی محمد حسین صاحب نے انتظامی حصہ لیا.قادیان سے اس کے چھپوانے کے لئے حضرت مولوی عبد اللہ سنوری رضی اللہ عنہ گئے ہوئے تھے.وہ اشتہار یہ ہے.انگریزی ترجمہ جو اس اشتہار کی پشت پر تھا چھوڑ دیا گیا ہے (عرفانی) ہتر جمہ:.تو آپ ہی سارے کام بتاتا ہے اور آپ ہی کرواتا ہے اور آپ ہی اس بازار کور ونفق دیتا ہے.
حیات احمد ۲۱ براہین احمدیہ کی تصنیف اور اشاعت کا زمانہ جلد دوم حصہ اول براہین احمدیہ کی تصنیف کے عملی اور مستقل کام کا آغاز ۱۸۷۸ء کے آخر ۱۸۷۹ء کے اوائل میں ہوا.گو اس کے اشتہارات ۱۸۷۷ء کے آخر میں شائع ہونے لگے تھے جیسا کہ اس اشتہار سے ( جو میں نے حاشیہ میں اخبار منشور محمدی مورخہ ۵ جمادی الاول ۱۲۹۶ھ سے لے کر درج کیا ہے ظاہر ہوتا ہے لیکن با قاعدہ کام ۱۸۷۹ ء میں ہونے لگا چنانچہ خود حضرت نے براہین احمدیہ کی جو تاریخ لکھی ہے.وہ بھی ۱۸۷۹ ء ہی ہوتی ہے.تاریخ گو آپ نے سنہ ھجری میں لکھی ہے اور وہ یہ ہے کیا خوب ہے یہ کتاب سبحان اللہ اک دم میں کرے ہے دین حق سے آگاہ از بس کہ یہ مغفرت کی بتاتی ہے راہ تاریخ بھی یا غفور، نکلی واہ واہ ۱۲۹۷ھ بظاہر جن محرکات اور اسباب کے ماتحت اس کتاب کی تصنیف ہوئی ۱۲۹۷ ھ میں مختصر آمیں لکھ چکا ہوں لیکن دراصل یہ خارجی اور ظاہری تحریکات تھیں حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو امر عظیم کے لئے مامور کیا تھا اور اس کی ابتدا براہین سے ہی ہوئی اور آپ نے براہین کی تصنیف کے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ سے ملہم اور مامور ہو کر اسے لکھا ہے.براہین احمدیہ کی پہلی جلد اور دوسری جلد ۱۸۸۰ء میں مطبع سفیر ہند امرتسر سے چھپ کر نکلی اور تیسری جلد ۱۸۸۲ء میں اور چوتھی جلد ۱۸۸۴ء میں مطبع ریاض ہند امرتسر سے چھپ کر شائع ہوئی اس وقت شیخ نور احمد صاحب جو براہین احمدیہ کے پرنٹر تھے بخارا جا چکے تھے دوسری اور تیسری جلد کے درمیان جو زیادہ عرصہ گزرا ہے اس کی بڑی وجہ مطبع کے انتظام میں نقص تھا.
حیات احمد ۲۲ جلد دوم حصہ اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَفْضَلَ الرُّسُلِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّين اشتہار کتاب براہین احمدیہ جس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں منجانب اللہ اور سچا مذہب جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ کو ہر یک عیب اور نقص سے بری سمجھ کر اس کی تمام پاک اور کامل صفتوں پر دلی یقین سے ایمان لاتا ہے وہ فقط اسلام ہے جس میں سچائی کی برکتیں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور صداقت کی روشنی دن کی طرح ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے تمام مذہب ایسے بدیہی البطلان ہیں کہ نہ عقلی تحقیقات سے ان کے اصول صحیح اور درست ثابت ہوتے ہیں اور نہ ان پر چلنے سے ایک ذرہ روحانی برکت و قبولیت الہی مل سکتی ہے بلکہ اُن کی پابندی سے انسان نہایت درجہ کا کور باطن اور سیاہ دل ہو جاتا ہے جس کی شقاوت پر اسی جہان میں نشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اس کتاب میں دینِ اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیا گیا ہے (۱) اول تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس طرح سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپیہ دینے کے لئے اشتہار دیا ہوا ہے.اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلی کے لئے عدالت میں رجسٹری بھی کرا لے.(۲) دوم اُن آسمانی نشانوں سے کہ جو بچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لئے از بس ضروری ہیں اس امر دوم میں مؤلف نے اس غرض سے کہ سچائی دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں.
حیات احمد ۲۳ جلد دوم حصہ اوّل اوّل وہ نشان کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دعا اور توجہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے.جن کو مؤلّف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے دوم وہ نشان جو خود قرآن شریف کی ذات با برکات میں دائمی اور ابدی اور بیشل طور پر پائے جاتے ہیں جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر ایک خاص و عام پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذر کسی کے لئے باقی نہیں رکھا.سوم وہ نشان کہ جو کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت رسول برحق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتے ہیں جن کے اثبات میں اس بندہ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادر مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے سچے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیہ اور اسرار لدنیہ و کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کو جو خود اس خادمِ دین سے صادر ہوئی ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریوں وغیرہ سے ) بشہادت و رؤیت گواہ ہیں کتاب موصوف میں درج کئے ہیں اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجد دوقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک دوسرے سے بشدت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء ورسل کے نمونہ پر محض به برکت متابعت حضرت خیر البشر وافضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم أن بہتوں پرا کا بر اولیا سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات وسعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد و حرمان ہے.یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے کہ جو منجملہ تین سو جزو کے قریب ۳۷ جز و چھپ چکی ہے ظاہر ہوتے ہیں اور طالب حق کے لئے خود مصنف پوری تسلی و تشفی کرنے کو ہر وقت مستعد اور حاضر ہے.وَذَالِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَ لَا فَخُرَ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَی اور اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی
حیات احمد ۲۴ جلد دوم حصہ اوّل عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے جس کا خدا تعالیٰ کے رو برو اس کو جواب دینا پڑے گا.بالآ خر اس اشتہار کو اس دعا پر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خداوند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش که تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور تیری کامل مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں تا ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو بچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں.اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو نہ صرف عقبی میں حاصل ہوسکتی ہے بلکہ بچے راستباز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں بالخصوص قوم انگریز جنہوں نے ابھی تک اس آفتاب صداقت سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی اور جن کی شائستہ اور مہذب اور بارحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاونت سے ممنون کر کے اس بات کے لئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم ان کی دنیا و دین کے لئے دلی جوش سے بہبودی اور سلامتی چاہیں تا ان کے گورے و سپید منہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں نورانی و منو رہوں.فَتَسْأَلُ الله تَعَالَى خَيْرَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، اللَّهُمَّ اهْدِهِمْ وَ اَيْدُهُمْ بِرُوْحِ مِّنْكَ وَاجْعَلْ لَّهُمْ حَظًّا كَثِيرًا فِي دِينِكَ وَ اجْذِبْهُمْ بِحَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ لِيُؤْمِنُوْا بِكِتَابِكَ وَرَسُولِكَ وَيَدْخُلُوْا فِي دِيْنِ اللَّهِ أَفْوَاجًا آمِين ثُمَّ آمِين وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِين ـشهر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب مطبوعہ ریاض ہند امرتسر ( میں ہزار اشتہار چھاپے گئے ) تبلیغ رسالت جلد ا صفحه ۱۴ تا ۱۶ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۲۷، ۲۸ بار دوم )
حیات احمد ۲۵ جلد دوم حصہ اوّل میں نے بیان کیا ہے کہ براہین کی تالیف ۱۸۷۹ء میں ہوئی لیکن پہلی جلد ۱۸۸۰ء کی تیسری سہ ماہی میں شائع ہوئی.آپ کا ارادہ یہ تھا کہ جنوری ۱۸۸۰ء میں طبع ہوکر شائع ہو جاوے یا غایت کار فروری ۱۸۸۰ء میں مگر بعض حالات اس قسم کے پیش آئے کہ کتاب اگست ۱۸۸۰ء تک شائع نہ ہو سکی چنانچہ جلد اول کے ٹائیٹل پیج کے صفحہ ۳ پر آپ نے عذر کے عنوان سے حسب ذیل اعلان کیا.’یہ کتاب اب تک قریب نصف کے چھپ چکتی مگر بباعث علالت طبع مہتمم صاحب سفیر ہندا مرتسر پنجاب کہ جن کے مطبع میں یہ کتاب چھپ رہی ہے اور نیز کئی اور طرح کی مجبوریوں سے جو اتفاقاً اُن کو پیش آ گئیں سات آٹھ مہینے کی دیر ہو گئی اب انشاء اللہ آئندہ کبھی ایسی توقف نہ ہوگی.غلام احمد ( براہین احمدیہ حصہ اول ٹائکیل صفحه ۳.روحانی خزائن جلد اصفحه ۴ ) پہلی جلد کی اشاعت کے متعلق جو اعلان آپ نے اخبار سفیر ہند امرت سر نمبر ۵۱ مورخہ ۳۰ دسمبر ۱۸۷۹ء صفحہ ۸۲۴ پر شائع کیا اس سے یہ بات بخوبی ثابت ہے.اس لئے میں بطور شہادت و حفاظت اشتہار مذکور یہاں درج کر دیتا ہوں.اعلان کتاب براہین احمدیہ کی قیمت و تاریخ طبع واضح ہو کہ جو اصل قیمت اس کتاب کی بلحاظ ضخامت اور حسن اور لطافت ذاتی اس کے اور نیز بنظر (1) جناب نواب شاہجہان بیگم صاحبہ بالقا بہ والیہ بھو پال.اس پاکیزگی خط اور تحریر (2) جناب مولوی محمد چراغ علیخان صاحب معتمد مدار المهام دولت آصفیه حیدر آباد دکن اور عمدگی کاغذ وغیرہ (3) جناب غلام قادر خان صاحب وزیر ریاست نالہ گڑہ پنجاب.(4) جناب نواب مکرم الدولہ بہا در حیدرآباد.(5) جناب نواب نظیر الدولہ بہادر بھوپال.( 6 ) جناب نواب سلطان الدولہ بہادر.لوازم اور مراتب کے کہ جن کے التزام سے یہ کتاب چھائی جائے گی.
حیات احمد ۲۶ جلد دوم حصہ اوّل ( 7 ) جناب نواب علی محمد خان صاحب بہادر لودھیانہ پنجاب.ہیں روپیہ سے کم نہ تھی.( 8 ) جناب نواب غلام محبوب سبحانی خانصاحب بہادر رئیس اعظم لاہور.مگر ہم نے محض اس امید (9) جناب نواب محمد فیروز الدین خان صاحب بہادر وزیر اعظم ریاست بہاولپور.اور نظر سے جو بعض امراء ( 10 ) جناب سردار غلام محمد خان صاحب رئیس واہ.اسلام جو ذی ہمت اور (11) جناب مرزا سعید الدین احمد خانصاحب بہادر اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر فیروز پور اولوالعزم ہیں.اس کتاب کی اعانت میں توجہ کامل فرما دیں گے.اور اس طور سے جبر اُس نقصان کا ہو جاوے گا جو کمی قیمت کے باعث سے عائد حال ہو گا.صرف پانچ روپیہ قیمت مقرر کی تھی.مگر اب تک ایسا ظہور میں نہ آیا.اور ہم انتظار کرتے کرتے تھک بھی گئے.البتہ کئی ایک صاحبان عالی ہمت یعنی جناب نواب صاحب بہادر فرمانروائے ریاست لوہارو اور علاوہ ان کے جناب خلیفہ سید محمد حسن خان بہادر وزیر اعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ نے جو ہمیشہ اشاعت علمی اور ہمدردی قومی اور دینی خیر خواہی بندگانِ الہی میں بدل و جان مصروف ہو رہے ہیں.اس کام میں بھی جس کی علت غائی اشاعت دلائل حقیت دینی اور اظہارشان اور شوکت اور راستی اور صداقت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہے خریداری کتب اور فراہمی خریداروں میں کماحقہ مدد فرمائی کہ جس کی تفصیل انشاء اللہ عنوان کتاب براہین احمدیہ پر درج کی جائے گی.اور جناب نواب صاحب بہادر ممدوح نے علاوہ خریداری کتب کے کسی قدر روپیہ بطور اعانت کتاب کے عطا فرمانا بھی وعدہ فرمایا.لیکن باعث اس کے جو قیمت کتاب کی نہایت ہی کم تھی.اور جبر نقصان اُس کے کا بہت سی اعانتوں پر موقوف تھا.جو محض فی سبیل اللہ ہر طرف سے کی جاتیں.طبع کتاب میں بڑی توقف ظہور میں آئی.مگر اب کہاں تک توقف کی جائے.ناچار بصد اضطرار یہ تجویز سوچی گئی جو قیمت کتاب کی جو بنظر حیثیت کتاب کے بغایت درجہ قلیل اور نا چیز ہے دو چند کی جائے.لہذا بذریعہ اعلان ہذا کے ظاہر کیا جاتا ہے.جو من بعد جملہ صاحبین باستثناء اُن صاحبوں کے جو قیمت ادا کر چکے ہیں یا ادا کرنے کا وعدہ ہو چکا ہے.قیمت اس کتاب کی بجائے پانچ روپیہ کے دس روپیہ تصور فرما دیں.مگر
حیات احمد ۲۷ جلد دوم حصہ اول واضح رہے کہ اگر بعد معلوم کرنے قدر و منزلت کتاب کے کوئی امیر عالی ہمت محض فی سبیل اللہ اس قدر اعانت فرما دیں گے کہ جو کسر کی قیمت کی ہے اس سے پوری ہو جائے گی تو پھر بہ تجدید اعلان وہی پہلی قیمت کہ جس میں عام مسلمانوں کا فائدہ ہے قرار پا جائے گی.اور ثواب اس کا اُس محسن کو ملتا رہے گا.اور یہ وہ خیال ہے کہ جس سے ابھی میں نا امید نہیں اور اغلب ہے کہ بعد شائع ہونے کتاب اور معلوم ہونے فوائد اس کے ایسا ہی ہو.اور انشاء اللہ یہ کتاب جنوری ۱۸۸۰ء میں زیر طبع ہوکر اس کی اجرا اسی مہینہ یا فروری میں شائع اور تقسیم ہونی شروع ہو جائے گی.مکرر یہ کہ میں اس اعلان میں مندرجہ حاشیہ صاحبان کا بدل مشکور ہوں کہ جنہوں نے سب سے پہلے اس کتاب کی اعانت کے لئے بنیاد ڈالی اور خریداری کتب کا وعدہ فرمایا.مورخہ ۳ دسمبر ۱۸۷۹ء المعلن مرزا غلام احمد.رئیس قادیان ضلع گورداسپور.پنجاب.منقول از اخبار سفیر ہند نمبر ۵۱ مطبوعه ۲۰ دسمبر ۱۸۷۹ء صفحه ۸۲۴ تبلیغ رسالت جلد اول صفحه دتا.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۸، ۱۹.بار دوم ) حصہ دوم کی اشاعت میں زیادہ وقفہ نہیں ہوا لیکن حصہ سوم کی اشاعت میں جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ دو سال کا وقفہ ہو گیا اور باوجود پوری کوشش کے کتاب متواتر نہ طبع ہوسکی اور نہ شائع ہوسکی اس عرصہ میں بعض لوگوں کو مختلف قسم کے شکوک کتاب کی نسبت پیدا ہونے شروع ہوئے.مگر حقیقت یہ ہے کہ حصہ سوم کی اشاعت میں تو قف اور تعویق کی ذمہ داری حضرت کی ذات پر نہیں بلکہ یہ بھی مطبع ہی کے نقص کے باعث ہوئی چنانچہ براہین احمدیہ حصہ سوم کے ٹائیٹل پیج صفحہ الف مطبوعہ ۱۸۸۲ ء پر آپ نے حسب ذیل عذر و اطلاع شائع کی.عذر و اطلاع اب کی دفعہ جو حصہ سوم کے نکلنے میں حد سے زیادہ تو قف ہوگئی.غالبا اس توقف سے اکثر خریدار اور ناظرین بہت حیران ہوں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ بعض لوگ طرح طرح کے شکوک و شبہات بھی کرتے ہوں.مگر واضح رہے کہ یہ تو قف ہماری طرف سے ظہور میں نہیں آئی بلکہ اتفاق
حیات احمد ۲۸ جلد دوم حصہ اول یہ ہو گیا کہ جب مئی ۱۸۸۱ء کے مہینہ میں کچھ سرمایہ جمع ہونے کے بعد سفیر ہند امرتسر میں اجزاء کتاب کے چھپنے کے لئے دئے گئے.اور اُمید تھی کہ غائت کا ردوماہ میں حصہ سوم چھپ کر شائع ہو جائے گا لیکن تقدیری اتفاقوں سے جن میں انسان ضعیف البنیان کی کچھ پیش نہیں جا سکتی.مہتمم صاحب مطبع سفیر ہند طرح طرح کی ناگہانی آفات اور مجبور یوں میں مبتلا ہو گئے.جن مجبور یوں کی وجہ سے ایک مدت دراز تک مطبع بند رہا.چونکہ یہ تو قف اُن کے اختیار سے باہر تھی اس لئے اُن کی قائمی جمعیت تک برداشت سے انتظار کرنا مقتضاء انسانیت تھا.سوالحمد للہ کہ بعد ایک مدت کے اُن کے موانع کچھ رو بصحت ہو گئے اور اب کچھ تھوڑے عرصہ سے حصہ سوم کا چھپنا شروع ہو گیا لیکن چونکہ اس حصہ کے چھپنے میں بوجہ موانع مذکورہ بالا ایک زمانہ دراز گزر گیا.اس لئے ہم نے بڑے افسوس کے ساتھ اس بات کو قرین مصلحت سمجھا کہ اس حصہ کے مکمل طور پر چھپنے کا انتظار نہ کیا جائے.اور جس قدر اب تک چھپ چکا ہے وہی خریداروں کی خدمت میں بھیجا جاوے.تا اُن کی تسلی و تشقی کا موجب ہو اور جو کچھ اس حصہ میں سے باقی رہ گیا ہے وہ انشاء اللہ القدیر چہارم حصہ کے ساتھ جو ایک بڑا حصہ ہے چھپوا دیا جائے گا.شاید ہم بعض دوستوں کی نظر میں اس وجہ سے قابل اعتراض ٹھہریں کہ ایسے مطبع میں جس میں ہر دفعہ لمبی لمبی توقف پڑتی ہے کیوں کتاب کا چھپوانا تجویز کیا گیا سو اس اعتراض کا جواب ابھی عرض کیا گیا ہے کہ یہ مہتم مطبع کی طرف سے لاچاری تو قف ہے نہ اختیاری اور وہ ہمارے نزدیک ان مجبوریوں کی حالت میں قابلِ رحم ہیں نہ قابل الزام.ماسوائے اس کے مطبع سفیر ہند کے مہتمم صاحب میں ایک عمدہ خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت صحت اور صفائی اور محنت اور کوشش سے کام کرتے ہیں اور اپنی خدمت کو عرق ریزی اور جانفشانی سے انجام دیتے ہیں.یہ پادری صاحب ہیں مگر باوجود اختلاف مذہب کے خدا نے ان کی فطرت میں یہ ڈالا ہوا ہے کہ اپنے کام منصبی میں اخلاص اور دیانت کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑتے.ان کو اس بات کا ایک سودا ہے کہ کام کی عمدگی اور خوبی اور صحت میں کوئی کسر نہ رہ جائے انہیں وجوہ کی نظر سے باوجود اس بات کے کہ دوسرے
حیات احمد ۲۹ جلد دوم حصہ اول مطابع کی نسبت ہم کو اس مطبع میں بہت زیادہ حق الطبع دینا پڑتا ہے تب بھی انہیں کا مطبع پسند کیا گیا اور آئندہ اُمید قوی ہے کہ ان کی طرف سے حصہ چہارم کے چھپنے میں کوئی توقف نہ ہو.صرف اُس قدر توقف ہو گی کہ جب تک کافی سرمایہ اس حصہ کے لئے جمع ہو جائے سو مناسب ہے کہ ہمارے مہربان خریدار اب کی طرح اُس حصہ کے انتظار میں مضطرب اور متر ڈد نہ ہوں جبہی وہ چھپے گا خواہ جلدی اور خواہ کچھ دیر سے جیسا خدا چاہے گا فی الفور تمام خریداروں کی خدمت میں بھیجا جائے گا.اور اس جگہ ان تمام صاحبوں کی توجہ اور اعانت کا شکر کرتا ہوں جنہوں نے خالصا للہ حصہ سوم کے چھپنے کے لئے مدد دی.اور یہ عاجز خاکساراب کی دفعہ ان عالی ہمت صاحبوں کے اسماء مبارک لکھنے سے اور نیز دوسرے خریداروں کے اندراج نام سے بوجہ عدم گنجائش اور باعث بعض مجبوریوں کے مقصر ہے.لیکن بعد اس کے اگر خدا چاہے گا اور نیت درست ہوگی تو کسی آئندہ حصہ میں یہ تفصیل تمام درج کئے جائیں گے.(روحانی خزائن جلد اصفحہ ۳۱۲،۱۳۱) اس کے بعد جلد چہارم کی اشاعت میں برابر تین سال کا وقفہ ہو گیا اور وہ۱۸۸۴ء سے پیشتر شائع نہ ہو سکی.اس کے وجوہات و اسباب میں سے بڑی وجہ جو عام اسباب کے ماتحت بیان کی جاسکتی ہے اس کتاب کے لئے مستقل سرمایہ کا نہ ہونا تھا جیسا کہ تیسری جلد کی اشاعت میں توقف کے عذر میں حضرت نے صاف طور پر لکھ بھی دیا کہ :- آئندہ امید قوی ہے کہ ان کی طرف سے حصہ چہارم کے چھپنے میں کوئی توقف نہ ہو صرف اس قدر تو قف ہو گی کہ جب تک کافی سرمایہ اس حصہ کے لئے 66 جمع ہو جائے.“ آپ نے اس اعلان میں خریداروں کو توقف کے ایام میں تردد نہ کرنے کی بھی ہدایت کر دی تھی مگر یہ قدرتی بات ہے کہ تمام لوگ اس روح اور فطرت کے نہیں ہوتے.اس توقف نے بعض جلد بازوں میں ایک شور بھی پیدا کر دیا لیکن حضرت اس شور وشغب سے گھبرائے نہیں.
حیات احمد براہین احمدیہ کیونکر تصنیف ہوئی جلد دوم حصہ اوّل یہ امر بھی قابل بیان ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف کیونکر ہوئی ہے ساری کتاب کا مسودہ ایک مرتبہ لکھا گیا اور پھر کتاب پریس میں دی گئی یا آپ ساتھ ساتھ لکھتے تھے اور کا تب بھی کتابت کرتا جاتا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایدہ اللہ الاحد نے اپنی تحقیقات سیرت المہدی صفحه ۹۳ پر جو روایت لکھی ہے اس میں تحریر فرمایا ہے کہ : " جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۷۹ء میں براہین کے متعلق اعلان فرمایا تو اس وقت براہین احمدیہ تصنیف فرما چکے تھے اور کتاب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا اور اس میں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبردست دلائل تحریر کئے تھے کہ جن کے متعلق آپ کا دعویٰ تھا کہ ان سے صداقت اسلام آفتاب کی طرح ظاہر ہو جائے گی اور آپ کا پکا ارادہ تھا کہ جب اس کے شائع ہونے کا انتظام ہو تو کتاب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہیدی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی بھی زائد کرتے جاویں چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دورانِ اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیان ہوئی ہے اور وہ بھی نامکمل طور پر.ان چار حصوں کے طبع ہونے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدا کے تصرف کے ماتحت رک گئی اور سنا جاتا ہے کہ بعد میں اس ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہو گئے.“ سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۱۲۳ صفحه ۱۰۰٬۹۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۳۱ جلد دوم حصہ اول یہ حضرت صاحب زادہ صاحب کی تحقیقات ہے میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تحقیقات کے متعلق کچھ نہیں لکھنا چاہتا اسے من و عن درج کر دیا ہے.ہاں میری تحقیقات کا نتیجہ دوسرا ہے.بظاہر اس میں اختلاف نظر آتا ہے مگر بالاخر میں نے بتا دیا ہے کہ میری اور صاحبزادہ صاحب کی تحقیقات ایک نقطہ پر آ ٹھہرتی ہے.میرا نظریہ یہ ہے کہ حضرت اقدس ساتھ ساتھ تصنیف فرماتے تھے.جیسا کہ میں نے کسی دوسری جگہ آپ کے طریق عمل کے متعلق لکھا ہے اس کے علاوہ میرے پاس بعض تائیدی شواہد ہیں اول یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عام طریق تصنیف یہ تھا کہ کا تب کو ساتھ ساتھ مسودہ لکھ کر دیتے تھے چند تصانیف میری قادیان میں موجودگی میں طبع ہوئی ہیں ان کے متعلق میں نے اسی معمول کو دیکھا.اس کے علاوہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے جب الحکم میں آپ کی سیرۃ پر ایک سلسلہ خطوط شائع کیا جس کو بعد میں سیرۃ مسیح موعود کے نام سے میں نے علیحدہ بھی شائع کیا اس میں آپ نے تبلیغ کی تصنیف کے ایام کا ایک واقعہ لکھا ہے جس کو میں سیرۃ مسیح موعود حصہ اول کے صفحہ ١٠٠ میں درج کر چکا ہوں اس میں حضرت مولوی صاحب تبلیغ کے ایک دو ورقہ کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت حکیم الامت کو دیا گیا اور ان سے وہ گم ہو گیا اس پر وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت نے مضمون نہیں بھیجا اور کا تب سر پر کھڑا ہے.یہ واقعہ حضرت کے طریق عمل کی مزید تائید ہے لیکن میں ایک اور عجیب تائید پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں بعض کتب زیر تصنیف تھیں اور وہ حضور کی وفات کے بعد شائع ہوئی تھیں.وہ بدستور نامکمل شائع کی گئی ہیں.اگر آپ کا طریق عمل کل مسودہ کتاب کو پہلے سے تیار کر لینا ہوتا تو کچھ شک نہیں یہ کتا بیں نامکمل شائع نہ کی جاتیں.منجملہ ان کتابوں کے خود براہین احمدیہ حصہ پنجم ہے اس کا نام ابتداء میں نصرۃ الحق تھا چنانچہ حضرت نے دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں تحریر فرمایا کہ : اس حصہ پنجم کے وقت جو نصرت حق ظہور میں آئی ضرور تھا کہ بطور شکر گزاری
حیات احمد ۳۲ جلد دوم حصہ اوّل اس کا ذکر کیا جاتا سو اس امر کے اظہار کے لئے میں براہین احمدیہ حصہ پنجم کے لکھنے کے وقت جس کو در حقیقت اس کتاب کا نیا جنم کہنا چاہئے اس حصہ کا نام نصرة الحق بھی رکھ دیا تھا تا وہ نام ہمیشہ کے لئے اس بات کا نشان ہو کہ باوجود صد ہا عوالق اور ذرائع کے محض خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد نے اس حصہ کو خلعت وجود بخشا.چنانچہ اس حصہ کے ٹائیٹل ورق کے ہر صفحہ کے سر پر نصرۃ الحق لکھا گیا.مگر پھر اس خیال سے کہ تا یاد دلایا جائے کہ وہی براہین احمدیہ ہے جس کے پہلے چار حصہ طبع ہو چکے ہیں بعد اس کے ہر صفحہ پر براہین احمدیہ کا حصہ پنجم لکھا گیا“ پہلے پچاس حصہ لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا“ (دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۹،۸) اس صفحہ میں وجہ التوا بھی بیان کی ہے کہ التوا اس لئے رہا کہ براہین کی مندرجہ پیشگوئیاں پوری ہو جاویں بہر حال یہ کتابیں ظاہر کرتی ہیں کہ آپ ایک بار مسودہ لکھ کر رکھ نہیں لیتے تھے ہاں یہ طریق تھا کہ بعض اوقات کوئی مضمون قلب پر گزرا اس کو نوٹ کر کے رکھ لیا.براہین احمدیہ پنجم کا متن صرف ۵۶ صفحات تک لکھا گیا.لیکن اس کے ضمیمے ۲۲۵ صفحہ تک چلے گئے.اور خاتمہ میں صرف مقاصد اور خاتمہ کی ترتیب کی تفصیل لکھی جاسکی.غرض آپ کا طریق عمل یہی تھا.بار این اگر براہین احمدیہ کا مسودہ مکمل آپ نے پہلے لکھدیا جو بعد میں کسی وجہ سے جل گیا تو اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں.حواشی کے متعلق حضرت اقدس کا صاف ارشاد موجود ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً ایام طباعت میں لکھے جائیں گے جیسا کہ آپ نے اعلان مندرجہ ٹائیٹل براہین احمدیہ جلد اول ۱۸۸۰ء مطبوعه سفیر ہند میں لکھا ہے کہ :.کتاب هذا بڑی مبسوط کتاب ہے یہاں تک کہ جس کی ضخامت سو جزو سے
حیات احمد ۳۳ جلد دوم حصہ اوّل کچھ زیادہ ہوگی اور تا اختتام وقتا فوقتا حواشی لکھنے سے اور بھی بڑھ جائے گی.“ اس اقتباس سے جو خود حضور کے اعلان سے لیا گیا ہے معلوم ہوتا کہ حواشی بعد میں لکھے جاتے تھے لیکن اس میں بھی اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ مستقل حواشی آپ ساتھ ہی لکھ دیتے تھے.چھوٹے چھوٹے نوٹ یا حاشیہ آپ آخری پروف تک اضافہ کرتے رہتے تھے.براہین احمدیہ کی طباعت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ حواشی تصنیف کے وقت ہی لکھے گئے تھے.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ مسودہ صاف کرنے کے وقت لکھے گئے ہوں اس لئے کہ حواشی کا مضمون اس قدر مسلسل اور مربوط اور طویل ہے کہ وہ بجائے خود ایک مستقل تصنیف ہے اس لئے میری تحقیق یہی ہے کہ جب براہین کا مسودہ کا تب کو دیا گیا تو وہ اسی صورت میں دیا گیا.اس میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوسکتا کہ متن پہلے لکھ دیا ہو اور حواشی کو صاف کرتے وقت ساتھ اضافہ کر دیا گیا.اسی سلسلہ میں ایک اور امر بھی میں پیش کر دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ براہینِ احمدیہ کے اندر بعض واقعات کی تاریخیں دی ہوئی ہیں یا یوں کہو کہ بعض امور بقید تاریخ بیان کئے گئے ہیں اس سے لازماً ہم کو یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ وہ مقام جہاں کسی واقعہ کو تاریخ کے ساتھ بیان کیا ہے اس تاریخ سے پہلے نہیں لکھا گیا.میں مثال کے طور پر چند مقامات کا حوالہ دے دینا ضروری سمجھتا ہوں.اول براہین احمدیہ حصہ سوم کے صفحہ ۲۳۸ بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر میں لکھتے ہیں کہ: اس الہام کی مثالیں ہمارے پاس بہت ہیں لیکن وہ جو ابھی اس حاشیہ کی تحریر کے وقت یعنی ۱۸۸۲ء میں ہوا ہے.جس میں یہ امر غیبی بطور پیشینگوئی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس اشتہاری کتاب کے ذریعہ سے اور اس کے مضامین پر مطلع ہونے سے انجام کار مخالفین کو شکست فاش آئے گی.الخ.“ یہ حاشیہ در حاشیہ صفحہ ۲۱۷ سے صفحہ ۲۶۷ تک چلا گیا ہے.کم از کم اس مقام کی تحریر کی تاریخ مہینے کے لحاظ سے مارچ ۱۸۸۲ء ہے.
حیات احمد ۳۴ جلد دوم حصہ اوّل دوم حاشیہ در حاشیہ نمبر۲ میں اس حصہ کے صفحہ ۲۶۸ پر نور افشان ۳ / مارچ ۱۸۸۲ء کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے اس سے یہ ظاہر ہے کہ بہر حال یہ تحریر ۳ مارچ ۱۸۸۲ء کے یقیناً بعد کی ہے یہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۲ صفحہ ۳۰۶ تک چلا گیا ہے.سوم صفحه ۳۴۹ حاشیہ نمبر 1 میں پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کے اخبار دھرم جیون جنوری ۱۸۸۳ء میں شائع کردہ اعتراضات کا جواب دیا ہے اور یہ حاشیہ نمبر 11 حصہ سوم کے شروع سے ہی شروع ہو جاتا ہے (صفحہ ۱۴۶ حصہ سوم ) اور حصہ چہارم کے اخیر تک برابر چلا جاتا ہے.کم از کم یہ ضرور اس سے پایا جاتا ہے کہ یہ صفحہ ۳۴۹ جنوری ۱۸۸۳ء کے بعد لکھا گیا ہے.چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ صفحه ۴۷۵ پر یکم اپریل ۱۸۸۳ء کا ایک واقعہ درج ہے.غرض اس طرح پر متعدد مقامات پر بعض تاریخوں کے حوالے آتے ہیں ان سب پر به هیئت مجموعی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۷۹ء میں یہ سب مسودہ تیار نہ تھا.بالآخر اس امر کے متعلق میں پھر صراحت کر دینا چاہتا ہوں کہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تحقیقات کو غلط نہیں ٹھہراتا.میں نے جو کچھ بیان کیا ہے اسے اپنی تحقیقات کے رنگ میں لکھا ہے بظاہر ایک شخص کو اس میں اختلاف نظر آئے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کی گنجائش نہیں.آسان تاویل یہ ہے کہ متن آپ نے لکھ لیا اور جب مسودہ مبیضہ ہو کر کا تب کے سپرد ہونے لگا تو حواشی کا اضافہ جو بجائے خود ایک مستقل مضمون ہے لکھا گیا.اس تصریح کے بعد دونوں تحقیقاتیں بجائے خود درست ہیں.اسی سلسلہ میں اتنا اور ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ میں نے مکرمی صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعده يسرنا القرآن سے حضرت اقدس کے طریق عمل کے متعلق دریافت کیا اس لئے کہ وہ سالہا سال تک حضرت کے خوشنویس رہے.پیر صاحب نے میرے استفسار کے جواب میں نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ منشی کرم علی صاحب کا تب کی تائید و تصدیق سے لکھا ہے کہ حضرت اقدس کا یہ طریق ہرگز نہ تھا کہ وہ کتاب کا مسودہ تیار کر کے رکھیں بلکہ ساتھ ساتھ تحریر فرمایا کرتے تھے (مفہوم خط پیر صاحب).
حیات احمد ۳۵ جلد دوم حصہ اوّل براہین احمدیہ کی تصنیف کے متعلق ایک معترض کا اعتراف اپنے مضامین کی قوت اور اسلوب بیان کی ندرت کے لحاظ سے بے نظیر اور لا جواب تصنیف ہے جیسا کہ میں آگے چل کر بیان کروں گا.اس کتاب کے متعلق اس زمانہ کے بہت بڑے ریویو نگار مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ میں ریویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی.اور آئندہ کی خبر نہیں.لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ أَمْرًا.اس کا مؤلّف بھی اسلام کی مالی و جانی قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.“ (اشاعة السنه نمبر ۶ جلدے صفحہ ۱۶۹) براہین احمدیہ ۱۸۸۴ء تک چاروں جلدیں شائع ہو گئیں.مخالفین نے بھی اس کے متعلق جو کچھ چاہا لکھا مگر کسی شخص کو یہ لکھنے کی کبھی جرات نہیں ہوئی کہ اس کتاب کی تصنیف میں کسی اور کا کچھ بھی دخل تھا لیکن چند سال ہوئے حیدر آباد دکن میں اَعْظَمُ الْكَلَامِ فِي ارْتِقَاءِ الْإِسْلَامِ “ کے نام سے ایک کتاب مولوی چراغ علی صاحب اعظم یار جنگ کی ایک انگریزی تالیف کا ترجمہ شائع ہوا.مترجم مولوی عبد الحق صاحب بی.اے علیگ نے اس کا ایک مقدمہ بھی لکھا جس میں نواب اعظم یار جنگ کے حالات زندگی بھی لکھے.اس مقدمہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مکتوبات کا خلاصہ دے کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ : ”مولوی صاحب مرحوم نے مرزا صاحب مرحوم کو براہین احمدیہ کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی.“ اعظم الكلام فی ارتقاء الاسلام حصہ دوم صفحہ ۲۶ ایڈیشن اول مطبوعہ ۱۹۱۰ ء مطبع مفید عام آگرہ) مولوی عبدالحق صاحب نے نتیجہ نکالنے میں بہت عجلت سے کام لیا.اگر وہ خودان مکتوبات کے اندرونی شواہد ہی پر غور کرتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ ان کا نتیجہ صحیح نہیں.میں اسے غلط نہی نہیں کہوں گا.بلکہ اسے علمی بد دیانتی سمجھتا ہوں.
حیات احمد ۳۶ جلد دوم حصہ اوّل اس لحاظ سے کہ اس کتاب کے پڑھنے والوں کو پوری حقیقت معلوم ہو جاوے اور صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں میں مولوی عبد الحق صاحب کی اپنی تحریر کو یہاں درج کر دیتا ہوں اور بعض فقرات پر میں نے نمبر دے دیئے ہیں تا کہ قارئین کرام کو میرے پیش کردہ نتائج کے سمجھنے میں آسانی ہو.نقل از اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام صفحه ۲۱) اس موقع پر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جس وقت ہم مولوی صاحب مرحوم کے حالات کی جستجو میں تھے تو ہمیں مولوی صاحب کے کاغذات میں سے چند خطوط مرزا غلام احمد قادیانی صاحب مرحوم کے بھی ملے جو انہوں نے مولوی صاحب کو لکھے تھے اور اپنی مشہور اور پر زور کتاب براہین احمدیہ کی تالیف میں مدد طلب کی تھی.چنانچہ مرزا صاحب اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ آپ کا افتخار نامه محبت آمود....عـــز ورود لایا.اگر چہ پہلے سے مجھ کو بہ نسبت الزام خصم اجتماع براہین قطعیہ اثبات نبوت و حقیقت قرآن شریف میں ایک عرصہ سے سرگرمی تھی مگر جناب کا ارشاد موجب گرم جوشی و باعث اشْتَعَلْ شُعْلَةُ حَمِيَّةِ إِسْلَامِ عَلَى صَاحِبِهِ السَّلام ہوا اور موجب از دیاد تقویت و توسیع حوصلہ خیال کیا گیا.کہ جب آپ سا اولوالعزم صاحب فضیلت دینی و د نیوی نہ دل سے حامی ہو اور تائید دین حق میں دلی گرمی کا اظہار فرماوے بلا شائبہ ریب اس کو تائید غیبی خیال کرنا چاہئے جَزَاكُمُ اللهُ نِعْمَ الْجَزَاءِ..ما سوائے اس کے اگر اب تک کچھ دلائل یا مضامین آپ نے نتائج طبع عالی سے جمع فرمائے ہوں تو وہ بھی مرحمت ہوں.ایک دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں، آپ کے مضمون اثبات نبوت کی اب تک میں نے انتظار کی پر اب تک نہ کوئی عنایت نامہ نہ مضمون پہنچا اس لئے آج مکرر تکلیف دیتا ہوں کہ براہ عنایت بزرگانہ بہت جلد مضمون اثبات حقانیت فرقان مجید طیار کر کے میرے پاس بھیج دیں.میں نے بھی ایک کتاب جو دس حصے پر مشتمل ہے تصنیف کی ہے اور نام اس کا بَرَاهِيْنِ أَحْمَدِيَّهِ عَلَى حَقِّيَّةِ كِتَابِ اللَّهِ 3 1
حیات احمد ۳۷ جلد دوم حصہ اوّل 4 الْقُرْآنِ وَالنَّبُوَّةِ الْمُحَمَّدِيَّہ رکھا ہے اور صلاح یہ ہے کہ آپ کے فوائد جرائد بھی اس میں درج کروں اور اپنے محقر کلام سے ان کو زیب وزینت بخشوں.سواس امر میں آپ توقف نہ فرماویں اور جہاں تک جلد ہو سکے مجھ کو مضمون مبارک اپنے سے ممنون فرما دیں اس کے بعد پنجاب میں آریوں کے شور وشغب اور عداوتِ اسلام کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کیا ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ دوسری گزارش یہ ہے کہ اگر چہ میں نے ایک جگہ سے وید کا انگریزی ترجمہ بھی طلب کیا ہے اور امید کہ عنقریب آ جائے گا ! اور پنڈت دیانند کی دید بھاش کی کئی جلدیں بھی میرے پاس ہیں اور ان کا ستیارتھ پر کاش بھی موجود ہے، لیکن تا ہم آپ کو بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ کو جو اپنی ذاتی تحقیقات سے اعتراض ہنود پر معلوم ہوئے ہوں یا جو وید پر اعتراض ہوتے ہوں ان اعتراضوں کو ضرور ہمراہ دوسرے مضمون اپنے کے بھیج دیں.لیکن یہ خیال رہے کہ کتب مسلّمہ آریہ سماج کی صرف وید اور منوسمرت ہے دوسری کتابوں کو مستند نہیں سمجھتے بلکہ پرانوں وغیرہ کو محض جھوٹی کتابیں سمجھتے ہیں.میں اس جستجو میں بھی ہوں علاوہ اثبات نبوت حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنود کے وید اور ان کے دین پر بھی سخت سخت اعتراض کئے جائیں کیونکہ اکثر جاہل ایسے بھی ہیں کہ جب تک اپنی کتاب کا نا چیز اور باطل اور خلاف حق ہونا ان کے ذہن نشین نہ ہو تب تک کیسی ہی خوبیاں اور دلائل حقاقیت قرآن مجید کے ان پر ثابت کئے جائیں اپنے دین کی طرف داری سے باز نہیں آتے اور یہی دل میں کہتے ہیں کہ ہم اسی میں گزارہ کر لیں گے.سو میرا ارادہ ہے کہ اس تحقیقات اور آپ کے مضمون کو بطور حاشیہ کے کتاب کے اندر درج کر دوں گا.“ ایک اور خط مورخہ ۱۹ / فروری ۱۸۷۹ء میں تحریر فرماتے ہیں ”فرقان مجید کے الہامی اور کلام الہی ہونے کے ثبوت میں آپ کا مدد کرنا باعث ممنونی ہے نہ موجب ناگواری میں نے بھی اسی بارے میں ایک چھوٹا سا رسالہ تالیف کرنا شروع کیا
حیات احمد ۳۸ جلد دوم حصہ اول 8 ہے.اور خدا کے فضل سے یقین کرتا ہوں کہ عنقریب چھپ کر شائع ہو جائے گا.آپ کی اگر مرضی ہو تو وجوہات صداقتِ قرآن جو آپ کے دل پر القاہوں میرے پاس بھیج دیں تا اس رسالہ میں حسب موقع اندراج پا جائے یا سفیر ہند میں.لیکن جو براہین ( جیسے معجزات وغیرہ) زمانہ گزشتہ سے تعلق رکھتے ہوں.ان کا تحریر کرنا ضروری نہیں، کہ منقولات مخالف پر حجت قویہ نہیں آسکتیں.جو نفس الامر میں خوبی اور عمدگی کتاب اللہ میں پائی جائے یا جو عند العقل اس کی ضرورت ہو وہ دکھلانی چاہئے.بہر صورت میں اُس دن بہت خوش ہوں گا کہ جب میری نظر آپ کے مضمون پر پڑے گی.آپ بمقتضا اس کے کہ الْكَرِيمُ إِذَا وَعَدَ وَفَا مضمون تحریر فرماویں.لیکن یہ کوشش کریں کہ كَيْفَ مَا اتَّفَقَ مجھ کو اس سے اطلاع ہو جائے.اور آخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ہم کو اور آپ کو جلد تر توفیق بخشے کہ منکر کتاب الہی کو دندان شکن جواب سے ملزم اور نادم کریں.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ‘ اس کے بعد ایک دوسرے خط مورشه ، ارمئی ۱۸۷۹ء میں تحریر فرماتے ہیں ” براہین احمدیہ ڈیڑھ سو جز ہے جس کی لاگت تخمینا نو سو چالیس روپیہ ہے.اور آپ کی تحریر محققانہ لاحق ہو کر اور بھی زیادہ ضخامت ہو جائے گی“.ان تحریروں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مولوی صاحب مرحوم نے مرزا صاحب مرحوم کو براہین احمدیہ کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی ہے“ (اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام حصہ دوم صفحه ۲۳ تا ۲۶ ایڈیشن اول مطبوعه ۱۹۱۰ء ) افسوس ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب نے ان مکتو بات کو تمام و کمال درج نہیں کیا ور نہ من میں تھی کہ اُن کے اوپر کافی روشنی پڑتی.جس قدر اقتباس مولوی صاحب نے دیا ہے اس سے یہ بات بخوبی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف میں کوئی علمی امداد مولوی چراغ علی صاحب نے نہیں دی.مکتوب اول کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے براہین احمدیہ ایسی
حیات احمد ۳۹ جلد دوم حصہ اوّل کتاب کی تصنیف کے متعلق حضرت کو کوئی خط لکھا ہو اور اس میں اعانت کتاب کا وعدہ کیا ہے حضرت نے اس کے جواب میں جو خط لکھا اس میں دلائل یا مضامین وغیرہ کے بھیجنے کا ذکر بھی کیا.(دیکھو فقرہ نمبرا) لیکن فقرہ نمبر ۲ سے ظاہر ہے کہ وہ مضمون یا اس خط کا جواب تک بھی مولوی صاحب نے نہیں دیا جیسا کہ صاف لکھا ہے: آپ کے مضمون اثبات نبوت کی اب تک میں نے انتظار کی پراب تک نہ کوئی عنایت نامہ نہ مضمون پہنچا پھر فقرہ نمبر ۳ قارئین کرام کی توجہ طلب ہے اس میں کتاب براہین کی تالیف کا ذکر ہے اور مولوی صاحب اگر کوئی مضمون لکھیں تو اس کے درج کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن کسی طرح صلاح یہ ہے کہ آپ کے فوائد جرائد بھی اس میں درج کروں اور اپنے محقر کلام سے ان کو زیب وزینت بخشوں“.اس کا مطلب صاف ہے کہ بطور حاشیہ کے اس پر خود بھی کچھ لکھوں گا.چنانچہ فقرہ نمبرے میں صراحت ہے کہ: اس تحقیقات اور آپ کے مضمون کو بطور حاشیہ کے کتاب کے اندر درج کر دوں گا“ پھر فقرہ نمبر ۸ میں ان کی مرضی پر چھوڑا.اور اصلی حقیقت یہ ہے کہ مولوی چراغ علی صاحب کو اس خط و کتابت کی بنا پر کچھ لکھنے کی توفیق نہیں ملی.خود ان مکتوبات کے اندرونی شواہد ایسے زبردست ہیں کہ کسی محقق کے لئے انکار کی گنجائش نہیں.مولوی چراغ علی صاحب اگر کوئی مضمون لکھتے تو حضرت اسے حاشیہ میں ضرور درج کر دیتے یا بطور ضمیمہ وہ اصل کتاب کا جز و قرار دیکر اسے شائع نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ آپ کے مکتوبات سے ظاہر ہے.مولوی چراغ علی صاحب اگر کچھ بھی لکھتے تو حضرت اقدس کی شکور فطرت اس کے اظہار سے مضائقہ نہ کرتی نواب اعظم یار جنگ کی نہایت حقیر امداد کا جو انہوں نے کتاب کی خریداری کی
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل صورت میں کی شکریہ ادا کیا ہے.وہ تو ایک بڑے آدمی تھے آپ نے تو ان لوگوں کا بھی نام بنام شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے کچھ آنے کتاب کی امداد میں دیئے تھے.غرض یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف میں کسی شخص کی علمی یاد ماضی قوت کا دخل نہیں.میں نے حقیقت کے انکشاف کامل کے لئے مولوی عبدالحق صاحب سے خط وکتابت کی اس وقت وہ اورنگ آباد میں تھے انہوں نے مجھے جواب میں لکھا کہ میرے پاس وہ مکتوبات نہیں میں حیدر آباد جاؤں گا تو کوشش کروں گا.یہ ان کے جواب کا مفہوم تھا.میں نے بمبئی سے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اشتہار تصنیف کتاب براہین احمدیہ بہت اطلاع جمیع عاشقان صدق و انتظام سرمایه طبع کتاب ایک کتاب جامع دلائل معقوله درباره اثبات حقانیت قرآن شریف وصدق نبوت حضرت محمد مصطفے ملے جس میں ثبوت کامل من جانب کلام اللہ ہو نے حضرت خاتم الانبیاء کا اس قطعی فیصلہ سے دیا گیا ہے کہ ساتھ اس کتاب کے ایک اشتہار بھی بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ کے اس مراد سے منسلک ہے کہ اگر کوئی صاحب جو حقانیت اور افضلیت فرقان شریف سے منکر ہے براہین مندرجہ اس کتاب کو توڑ دے یا اپنی الہامی کتاب میں اسی قدر دلائل یا نصف اس سے یا ثلث اس سے یا ربع اس سے یا مس اس سے ثابت کر کے دکھلاوے.جس کو تین منصف مقبولہ فریقین تسلیم کر لیں تو مشتہر اس کو بلا عذر اپنی جائیداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دے دے گا.بوجہ منکرانہ اصرار پنڈت دیانند صاحب اور اُن کے بعض سکرٹریوں کی تصنیف ہوئی ہے اور نام اس کتاب کا مندرجہ حاشيه الْبَرَاهِينُ الاحمديه على حقية كتاب الله القرآن والنبوة المحمدیہ ہے.لیکن بوجہ ضخامت چھپنا اس کتاب کا خریداروں کی مدد پر موقوف ہے.لھذا یہ اشتہار بہت اطلاع جمله اخوان مومنین و برادران موحدین و طالبان راہِ حق و یقین شائع کیا جاتا ہے کہ بہ نیت
حیات احمد ام جلد دوم حصہ اوّل (جہاں آج کل یہ مسودہ لکھ رہا ہوں ستمبر ۱۹۳۰ء) انہیں ایک خط لکھا اور یادہانی کرائی انہوں نے از راہ کرم مجھے جو جواب دیا ہے میں اسے یہاں درج کرتا ہوں :.مکتوب مولوی عبدالحق صاحب علیگ پنجارہ روڈ حیدر آباد دکن ۲۶ ستمبر ۱۹۳۰ء مکرم بندہ تسلیم.آپ کا عنایت نامہ پہنچا جن صاحب کے پاس وہ خطوط تھے ان کا انتقال ہو گیا.اب ان خطوط کا ملنا محال ہے.مولوی چراغ علی مرحوم کے بیٹوں میں کسی کو اس کا ذوق نہیں.بہر حال ان خطوط کے ملنے کی کوئی توقع نہیں.بقیہ حاشیہ: - معاونت اور نصرت دین متین کے اس کتاب کے چندے میں بحسب توفیق شریک ہوں یا یوں مدد کریں کہ بہ نیت خریداری اس کتاب کے مبلغ پانچ روپیہ جو اصل قیمت اس کتاب کی قرار پائی ہے بطور پیشگی بھیج دیں تا سرمایہ طبع اس کتاب کا اکٹھا ہو کر بہت جلد چھپنی شروع ہو جائے.اور جیسے جیسے چھپتی جائے گی بخدمت جملہ صاحبین جو بہ نیت خریداری چندہ عنایت فرمائیں گے مرسل ہوتی رہے گی.لیکن واضح رہے کہ جو صاحب بہ نیت خریداری چندہ عنایت فرمائیں وہ اپنی درخواست خریداری میں بقلم خوش خط اسم مبارک و مفصل پسته و نشان مسکن وضلع وغیرہ کا کہ جس سے بلا ہرج اجزاء کتاب کے وقتاً فوقتاً اُن کی خدمت گرامی میں پہنچتے رہیں ارقام فرماویں.المشتهر مرزا غلام احمد رئیس قادیان.مکرر بڑی شکر گزاری سے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مولوی چراغ علی خان صاحب معتمد مدار المهام دولت آصفیہ حیدر آباد دکن نے بغیر ملاحظہ کسی اشتہار کے خود بخو دا اپنے کرم ذاتی و ہمت اور حمایت و حمیت اسلامیہ سے بوجہ چندہ اس کتاب کے ایک نوٹ دس روپیہ کا بھیجا ہے.( مطبوعہ سفیر ہند امرتسر تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۱۰،۹.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۲۳ ۲۴۰ بار دوم )
حیات احمد ۴۲ جلد دوم حصہ اوّل آپ نے براہین احمدیہ کے سلسلے میں جس اشتہار کے متعلق دریافت فرمایا ہے.مجھے مطلق یاد نہیں اور نہ مجھے اب ان چیزوں سے کچھ سروکار ہے.مجھے افسوس ہے کہ ان امور میں میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.( عبد الحق) مجھے اس خط کے بعد کچھ اور لکھنے کی ضرورت نہیں بجز اس کے کہ یہ نکتہ چینی مجبلت اور عدم تدبر سے کی گئی ہے.حقیقت نفس الا مری یہ ہے کہ براہین احمدیہ حضرت اقدس نے خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت سے تصنیف کی اس میں انسانی طریق تصنیف کو دخل نہیں اور یہ امر بطور دعوی اور خوش فہمی عقیدہ کے نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے بڑے سے بڑے دشمنوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اس قسم کی کتاب اس سے پہلے تصنیف نہیں ہوئی جن ایام میں براہین احمدیہ کھی گئی اس وقت عیسائیوں کی طرف سے جو حملے یا اعتراض اسلام پر کئے جاتے تھے ان کے جوابات اور تردید کے لئے جوطریق اختیار کیا گیا تھا وہ حضرت اقدس کے طریق خطاب و جواب سے بالکل جدا گانہ ہے اور حضرت کا طریق استدلال ممتاز نظر آتا ہے اس وقت امام فن مناظرہ مولوی ابوالمنصور صاحب دہلوی عیسائیوں کے رد میں کتابیں لکھنے میں مشہور تھے مگر انہوں نے ہمیشہ الزامی جوابات کی طرف زیادہ توجہ کی یہی حال دوسرے مسلمان مناظرین اور واعظین کا تھا.مگر حضرت نے برخلاف اس وقت کی روش کے حقیقی جوابات کو مقدم کیا آپ نے ایک اصل پیش کیا کہ قرآن کریم کی کسی تعلیم و ہدایت پر یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل پر جہاں اعتراض کیا گیا ہے اسی جگہ حقائق و معارف کا ایک خزانہ مخفی ہے اور معترضین کے تمام بڑے بڑے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے آپ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا.پس جب ہم اس عہد کے بڑے بڑے مصنفین کی تصنیفات کو جو انہوں نے تائید اسلام کے لئے معترضین اسلام کے رد میں لکھیں دیکھا تو معلوم ہو گیا این زمیں را آسمانے دیگر است
حیات احمد ۴۳ جلد دوم حصہ اول مولوی چراغ علی صاحب نے جو کتا ہیں لکھی ہیں ان کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے اسلوب بیان اور طریق استدلال کو بھی حضرت کے اسلوب اور طریق استدلال سے کوئی نسبت نہیں.میں اس وقت کوئی موازنہ قائم کرنا نہیں چاہتا اور نہ اس کتاب کا یہ منشاء ہے مگر یہ بالکل واضح امر ہے کہ حضرت اقدس کا طریق استدلال بالکل انوکھا اور ممتاز ہے.دوسرے لوگوں نے اعتراضات سے بچنے کے لئے زیادہ تر الزامی جواب دے کر میدان سے ہٹ جانے کی کوشس کی مگر آپ نے نادان معترض کی سفاہت علمی کو کھول کر رکھ دیا اور تعلیمات قرآنی کی افضلیت اور حقیقت کو واضح کر دیا.آپ کے معاصرین نے براہین احمدیہ پر مخالفانہ ریویو بھی لکھنے کی کوشش کی مگر ان میں سے کسی کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ براہین کے متعلق أَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ اخَرُونَ کا دعوی کریں میں جیسا کہ پہلے بھی لکھ آیا ہوں یہ صفائی سے کہتا ہوں کہ اگر براہین کی تصنیف میں کسی شخص کی قلم اور دماغ نے کچھ بھی مدد دی ہوتی آپ نہایت فراخدلی سے اس کا اعتراف کرتے.یہ آپ کی سیرت (کریکٹر ) کا ایک بہت نمایاں پہلو ہے کہ آپ نے جب بہ حیثیت مصنف کسی دوسرے اہل قلم کی تحقیقات اور کوشش سے استفادہ کیا ہے یا اپنے بیان اور تحقیقات کی تائید میں بطور مؤید پیش کیا ہے تو اس کے نام کا شرح صدر سے اظہار کیا ہے اور اس کی محنت کی داد دی ہے اور ایسے وقت میں جب کہ آپ کے لاکھوں مرید تھے.طبعی طور پر انسان ایسے حالات میں جب کہ اس کے ارد گرد عقیدتمندوں کی بہت بڑی جماعت ہو اپنی وضعداری کے خلاف سمجھتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی تصنیف وتالیف سے کچھ لے اور اس کا اقرار کرنے کی جرات کرے یہ اخلاقی کمزوری ہے جو خودغرض مصنفین میں پائی جاتی ہے
حیات احمد ۴۴ جلد دوم حصہ اوّل لیکن جو خدا کی طرف سے کھڑے ہوتے ہیں وہ اس عیب سے پاک ہوتے ہیں حضرت اقدس نے جب چشمہء معرفت لکھی اور یہ ۱۹۰۸ء کا واقعہ ہے یہ کتاب آپ کی وفات سے قریبا دو ہفتہ پیشتر شائع ہوئی.آپ نے چشمہ معرفت میں شرد ہے پر کاش برہمو کی کتاب ”سوانح عمری حضرت محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کچھ اقتباس لیا.اور نہایت مسرت کے جذبات کے ساتھ اس کا اعتراف کیا اور اس کتاب کے لئے جماعت کو سپارش بھی فرمائی.( نفس مضمون چشمه معرفت صفحه ۲۴۵ - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۵۵) اسی طرح ایک دفعہ آپ نے ہندو اور آریہ کی بحث کے سلسلہ میں پادری ٹامس ہاول ( جو اسلام کا بہت ہی خطرناک دشمن تھا) کے ایک مضمون کو اپنی ایک تصنیف کے حاشیہ میں دیا اور اس کا اعتراف کیا.ان حالات میں حضرت کے طریق عمل کے بھی یہ خلاف تھا کہ آپ اگر کسی سے کوئی مدد لیتے تو اس کا اعتراف نہ کرتے اس لئے یہ تو صریح غلطی اور خلاف واقعات ہے کہ آپ نے مولوی چراغ علی صاحب سے کوئی امداد لی البتہ ان مکتوبات کے اقتباس سے ایک امر پر ضرور روشنی پڑتی ہے کہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلال اور قرآن مجید کی حقانیت کے اظہار و اعلان میں کس قدر جوش تھا کہ اگر کوئی شخص اس مقصد کے لئے ذرا بھی آگے بڑھنا چاہتا تو آپ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے.اور اس طرح پر آپ مسلمانوں میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ وہ ناموس نبوت کی صیانت کے لئے اپنے وقت اور فکر کی قربانی کرنا سیکھیں.ان مکتوبات کے پڑھنے سے ایک اور امر پر بھی روشنی پڑتی ہے جو حضرت کی سیرت کا ایک ممتاز پہلو ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ایک جدید علم کلام کے بانی تھے.چنانچہ آپ نے مولوی چراغ علی صاحب کو لکھا ہے کہ کتاب اللہ کی نفس الا مر خوبی اور عمدگی کو دکھایا جاوے یا معقولی رنگ میں کتاب اللہ کی ضرورت کو ثابت کیا جاوے.منقولی معجزات پیش کرنے کا کچھ فائدہ نہیں.یہ ایک عظیم الشان اور
حیات احمد ۴۵ جلد دوم حصہ اوّل مسکت طریق استدلال ہے جس کے مقابلہ میں کوئی مذہب ٹھہر نہیں سکتا.چنانچہ اسی سلسلہ سیرۃ میں جہاں حضرت کے علم کلام پر بحث کروں گا انشاء اللہ دکھاؤں گا کہ بہ حیثیت ایک متکلم کے بھی آپ مجد د تھے آپ نے علم کلام میں وہ رنگ پیدا کر دیا کہ اس سے پہلے کسی دوسرے کو وہ بات نصیب نہیں ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ حاضرہ کی مقتضیات ایسے ہی عظیم الشان مجد دو متکلم کی داعی تھیں.سب سے بڑی اور نمایاں بات جو آپ کے علم کلام میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ الہامی کتاب خود ہی دعویٰ کرے اور آپ ہی اس دعوے کی تائید کے دلائل دے.نیز آپ منکرین و معترضین اسلام کے حملوں کے جواب میں پہلے جس چیز کو لیتے وہ کتاب اللہ کی ذاتی خوبیوں اور تعلیم کے کمالات کا اظہار اور معقولی رنگ میں اس کا قابلِ قبول ہونا تھا.آپ صرف معترضین کا منہ بند کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ صداقت اور حق کو ایسے رنگ میں پیش کرنا چاہتے تھے کہ لوگ اسے قبول کریں.اور اس کے بعد الزامی جواب دینا بھی کرھا چاہتے تھے.کہ دروغ گورا تا بخانه اش باید رسانید اور کچھ فطرت انسانی بھی اسی قسم کی واقع ہوئی ہے.غرض مولوی چراغ علی صاحب کے نام کے مکتوبات کو مولوی عبد الحق صاحب نے پیش کر کے ان سے غلط نتیجہ نکالا ہے اور سچ یہی ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف میں خدا تعالیٰ کی رہنمائی اور مدد کے بغیر کسی دوسرے انسان کا ہاتھ نہیں.اور آپ نے جو کچھ بھی اس میں لکھا وہ خدا تعالیٰ کی تائید کا ایک کھلا کھلا نشان ہے.اور براہین احمدیہ کی خصوصیات پکار پکار کر ایسے دوسرے مصنفین کے طریق استدلال اور اسلوب بیان میں ممتاز کر رہی ہیں عاقلی را اشاره بس است کسی براہین احمدیہ کی تصنیف کے وقت آپ کی حالت براہین احمدیہ کی تصنیف کی تحریک اور اسباب کا میں ذکر کر چکا ہوں.اب میں بتاؤں گا کہ جب آپ نے اس کام کو شروع فرمایا.اس وقت آپ کی کیا حالت تھی؟ اور دنیوی اسباب کس حد لے ترجمہ.جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانا چاہیے.کے ترجمہ عقل مند کو اشارہ کافی ہے.
حیات احمد ۴۶ جلد دوم حصہ اوّل تک آپ کے مساعد تھے؟ آپ کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب ( مرحوم ) کی وفات ہو چکی تھی.اور جائیداد کا تمام انتظام پہلے ہی جناب حضرت مرزا غلام قادر صاحب ( مرحوم ) آپ کے برادر بزرگ کے ہاتھ میں تھا.آپ کو نہ دنیوی معاملات سے دلچسپی تھی.اور نہ ادھر توجہ کرتے تھے.اس لئے اپنی ضروریات زندگی میں ایک صبور و شکور بندے کی حالت میں گزارہ کرتے تھے.اگر چہ آپ کے اپنے حصہ کی جائیداد دس ہزار روپیہ کی مالیت سے زائد تھی.مگر آپ نے اس جائیداد کو تقسیم کر کے اپنے ہاتھ میں لینا پسند نہ کیا.اور جس طریق پر خاندانی انتظام چلا آتا تھا.اُس میں مداخلت کرنا تو در کنار کسی قسم کی دلچسپی ہی نہ لی.ان حالات میں آپ کے پاس براہین احمدیہ کی طبع و اشاعت کے مادی اور خارجی اسباب ہرگز نہ تھے.باوجود یکہ مالی مشکلات آپ کی راہ میں تھے.لیکن آپ نے اس کتاب کی تالیف اور طبع کا ایک عزم صمیم کر لیا تھا.اور آپ کو یقین کامل تھا کہ یہ کتاب طبع ہو کر شائع ہو گی.اور اپنے فیوض و برکات کے دامن کو وسیع کرے گی.اور مُردے اس کے ذریعہ زندہ ہوں گے.براہین احمدیہ کی طباعت بھی نشان ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر حضرت ان ایام میں دنیوی حیثیت سے عسرت کی زندگی بسر نہ کر رہے ہوتے.تو اس کتاب کی طبع واشاعت ایک معمولی کام ہوتا.اور اس میں خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت کا کھلا کھلا ہاتھ نظر نہ آتا.لیکن اس قسم کی مالی مشکلات کے باوجود خدا تعالیٰ کا قبل از وقت آپ کو اس کتاب کی اشاعت و طباعت وغیرہ کے متعلق مبشرات دینا اور پھر ان کا ظہور میں آنا ایک عظیم الشان نشان ہے.حضرت نے خود اس نشان کو اپنی صداقت کا نشان قرار دیا ہے اور مختلف تصانیف میں اس کا ذکر فرمایا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- ” جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے.تو مجھے یہ مشکل پیش آئی.کہ اس کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا.اور میں ایک گمنام
حیات احمد ۴۷ جلد دوم حصہ اوّل آدمی تھا.مجھے کسی سے تعارف نہ تھا.تب میں نے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو وو 66 یہ الہام ہوا ” هُزّ إِلَيْكَ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكَ رُطَبًا جَنِيًّا “.(دیکھو براہین احمدیہ ہر چہار صص صفحہ ۲۲۶.روحانی خزائن جلد اصفحه۰ ۲۵ حاشیه در حاشیہ نمبرا) ( ترجمہ ) کھجور کے تنہ کو ہلا.تیرے پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی.چنانچہ میں نے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے سب سے اول خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ حال مرحوم.عرفانی) کی طرف خط لکھا.پس خدا نے جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ان کو میری طرف مائل کر دیا.اور انہوں نے بلا توقف اڑھائی سو روپیہ بھیج دیا.اور پھر دوسری دفعہ اڑھائی سو روپیہ دیا.اور چند اور آدمیوں نے روپیہ کی مدد کی.اور اس طرح پر وہ کتاب باوجود نومیدی کے چھپ گئی.اور وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.یہ واقعات ایسے ہیں کہ صرف ایک دو آدمی ان کے گواہ نہیں، بلکہ ایک جماعت کثیر گواہ ہے.جس میں ہندو بھی ہیں.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۳۷.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۰) اس الہام کے بعد آپ نے سب سے پہلی تحریک امداد کے لئے خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کو کی.مگر بعض دوسرے لوگوں کو بھی آپ نے تحریک کی.اور اس بشارت سے سب سے اوّل جس بیرونی آدمی کو آپ نے خبر دی وہ حافظ ہدایت علی خاں صاحب اکسٹرا اسٹنٹ ضلع گورداسپور تھے جو اسی یا دوسرے ہی دن قادیان آئے تھے.اور اسی ہفتہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو دی.اور قادیان کے ہندو مسلمانوں کو تو اسی روز دے دی گئی تھی.نفسِ مضمون براہین احمدیہ ہر چہار حصص صفحہ ۲۲۶ حاشیہ نمبر ا.روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۵۱،۲۵۰ حاشیہ نمبر۲) جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے.براہین کی تصنیف کے وقت آپ حسرت کی زندگی بسر کرتے تھے.اور آپ کے پاس روپیہ طبع واشاعت کے لئے نہ تھا.آپ نے خود اس کا ذکر فرمایا ہے.شاید تین سال کے قریب (براہین کی تصنیف کے
حیات احمد ۴۸ جلد دوم حصہ اوّل شروع کے ایام میں.عرفانی) عرصہ گزرا ہوگا کہ میں نے اس کتاب کے لئے دعا کی کہ لوگ اس کی مدد کی طرف متوجہ ہوں.تب یہی الہام شدید الکلمات جس کی میں نے ابھی تعریف کی ہے.ان لفظوں میں ہوا.( بالفعل نہیں ) اور یہ الہام جب اس خاکسار کو ہوا تو قریب دس یا پندرہ ہندو اور مسلمان لوگوں کے ہوں گے کہ جو قادیان میں اب تک موجود ہیں ( زمانہ تصنیف و طبع براہین.عرفانی) جن کو اُسی وقت اس الہام سے خبر دی گئی اور پھر اُسی کے مطابق جیسے لوگوں کی طرف سے عدم تو جہی رہی.وہ حال بھی ان تمام صاحبوں کو بخوبی معلوم ہے.“ ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص صفحہ ۲۲۵.روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۵۰،۲۴۹) جب پہلے الہام کے بعد جس کو میں ابھی ذکر کر چکا ہوں.ایک عرصہ گزر گیا.اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح کی دقتیں پیش آئیں.اور مشکل حد سے بڑھ گئی.تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند کریم نے یہ الہام کیا.هُزِ إِلَيْكَ.....الآخره (براہین احمدیہ ہر چہار حصص صفحہ ۲۲۵ ، ۲۲۶ - روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۵۰ حاشیہ نمبر ) یہ مسرت اور تنگی مشکلات اور موانعات مالی اگر آپ کی راہ میں نہ ہوتے تو براہین احمدیہ کی طبع واشاعت عظیم الشان معجزہ نہ ٹھہرتی.ان حالات میں آپ نے براہین احمدیہ کو تصنیف فرما نا شروع کیا.اور مشکلات اشاعت کو خدا تعالیٰ نے خارق عادت طور پر دور کیا.میں اپنے اپنے مقام پر اُن معاونین کا بھی ذکر کروں گا.جنہوں نے براہین کی اشاعت کے لئے مدد دی.اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت کے اس خصوص میں مظہر تھے.براہین کی تصنیف میں حضرت کا طریق عمل براہین احمدیہ کی تصنیف میں حضرت کا طریق عمل یہ تھا کہ آپ ایک مسودہ تحریر فرماتے.اور اس کی کتابتِ مُبیضہ کے لئے آپ نے میاں شمس الدین صاحب کو ملازم رکھا.میاں
حیات احمد ۴۹ جلد دوم حصہ اول شمس الدین آپ کے استاد زادہ تھے اور قادیان میں یہ لوگ قاضی تھے.میاں شمس الدین فارسی کے اچھے عالم تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اخیر عمر تک اُن کی مدد کرتے رہے.میاں شمس الدین کا ذکر حضرت کی سیرت اور سوانح میں دوسری جگہ بھی آیا ہے.مجھے افسوس ہے کہ ان کے پسماندگان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذاتی اور خاندانی احسانات کا عملی شکریہ ادا کرنے کی بجائے کفرانِ نعمت کیا (خاکسار عرفانی میاں شمس الدین سے ذاتی طور پر واقف تھا اور ایک عرصہ تک وہ اس کے ہمسایہ رہے ) بہر حال میاں شمس الدین بہت خوشخط تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا خط اپنی حیثیت میں بہت پختہ اور ایک خاص شان رکھتا تھا.لیکن آپ اس لحاظ سے کہ مبادا کاتب کو کاپی لکھتے وقت دقت ہو یا غلطیاں زیادہ ہوں.میاں شمس الدین کو صاف کرنے کے لئے دے دیتے تھے.اور میاں شمس الدین خوشخط لکھ کر لے آتے.اور پھر وہ مسودہ صاف شدہ کا تب کے پاس جاتا تھا.اس طرح پر براہین احمدیہ تصنیف ہو رہی تھی.میں پہلے بتا آیا ہوں.اور سب جانتے ہیں.کہ قادیان اس وقت ایک گمنام گاؤں تھا.یہاں علمی ترقی اور معلومات کے کوئی سامان اور اسباب نہ تھے.ان حالات میں براہین جیسی کتاب کی تصنیف خدائی فعل ہے.براہین کی طبع کا انتظام یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس وقت تک حضرت کو مطابع کے طریق کار سے کچھ واقفیت نہیں تھی.آپ قادیان سے باہر نہ جاتے تھے.اور نہ تصنیف واشاعت کتب آپ کا مشغلہ تھا.یہ سب سے پہلی کتاب تھی جو آپ نے آسمانی تحریک کے ماتحت دینِ اسلام کی حمایت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی صداقت کے اظہار کے لئے لکھنے کا ارادہ فرمایا.آپ چاہتے تھے کہ یہ کتاب نہایت اعلیٰ درجہ کی کتابت و طباعت میں شائع ہو.اس وقت تک آپ سوائے پادری رجب علی کے کسی دوسرے اہل مطبع سے واقف نہ تھے.
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل اور ان سے بھی صرف اخبار کے ذریعہ ایک رسمی واقفیت تھی.آپ اخبار سفیر ہند اور وکیل ہندوستان منگوایا کرتے تھے.اُن کو دیکھ کر آپ یہ جانتے تھے کہ پادری رجب علی بہترین چھپائی اور کتابت کا دلدادہ ہے.اس لئے آپ نے براہین احمدیہ کی طباعت کے لئے مطبع سفیر ہند امرتسر میں انتظام کیا.اور پادری رجب علی نے براہین احمدیہ کی طبع کی اجرت بہت ہی زیادہ چارج کی.آپ نے اس کے متعلق کوئی تکرار نہیں کیا جو انہوں نے مانگا آپ نے دے دیا.اصل یہ ہے کہ حضرت کا مذہب یہ تھا.کہ آپ اشاعت کے متعلق یہ کبھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ اس کے کاغذ یا کتابت یا طباعت میں کسی قسم کی کفایت کو مد نظر رکھ کر اس کے حسن میں فرق پیدا کر یں.بلکہ آپ فرماتے تھے کہ میں تو اسے شرک سمجھتا ہوں.غرض پادری صاحب نے براہین کی طباعت کی من مانی اجرت لی.اور اس کتاب کو چھاپنا شروع کیا.وہ کتاب کی طبع کے اخراجات عموماً پیشگی لیتے جس سے بعض اوقات آپ کو تکلیف ہوتی.لیکن آپ اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے.کچھ شک نہیں کہ پادری رجب علی نے کتاب کی طبع کی اُجرت بہت ہی زیادہ چارج کی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس نے کتاب کو نہایت اعلیٰ درجہ کی طباعت سے تیار کیا.مہتمم سفیر ہند اور حضرت مسیح موعود چنانچہ باوجود یکہ براہین احمدیہ کی طباعت میں غیر معمولی توقف اور تعویق ہوتی تھی اور لوگ اس پر اعتراض بھی کرتے تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مطبع میں چھپوانا پسند کیا تا وقتیکہ آب از سرگزشت والا معاملہ نہ ہو گیا.آپ نے لوگوں کے اعتراضات کا جواب دیا.اور پادری رجب علی صاحب کی دقتوں کا عذر خود کیا.چنانچہ فرماتے ہیں شائد ہم بعض دوستوں کی نظر میں اس وجہ سے قابل اعتراض ٹھہریں کہ ایسے مطبع میں جس میں ہر دفعہ لمبی لمبی توقف پڑتی ہے کتاب کا چھپوانا تجویز کیا گیا.سواس اعتراض کا جواب ابھی عرض کیا گیا ہے کہ یہ مہتم مطبع کی طرف سے لاچاری تو قف ہے
۵۱ جلد دوم حصہ اول حیات احمد نہ اختیاری اور وہ ہمارے نزدیک ان مجبوریوں کی حالت میں قابل رحم ہیں نہ قابل الزام.ماسوائے اس کے مطبع سفیر ہند کے مہتمم صاحب میں ایک عمدہ خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت صحت اور صفائی اور محنت اور کوشش سے کام کرتے ہیں اور اپنی خدمت کو عرق ریزی اور جانفشانی سے انجام دیتے ہیں.یہ پادری صاحب ہیں.مگر باوجود اختلاف مذاہب کے خدا نے ان کی فطرت میں یہ ڈالا ہوا ہے کہ اپنے کام منصبی میں اخلاص اور دیانت کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑتے.اُن کو اس بات کا ایک سودا ہے کہ کام کی عمدگی اور خوبی اور صحت میں کوئی کسر نہ رہ جائے.انہیں وجوہ کی نظر سے باوجود اس بات کے کہ دوسرے مطابع کی نسبت ہم کو اس مطبع میں بہت زیادہ حق الطبع دینا پڑتا ہے.تب بھی انہیں کا مطبع پسند کیا گیا.“ (براہین احمدیہ حصہ سوم عذر و اطلاع صفحہ ۲ ۳.روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۱۲،۳۱۱) غرض محض کتاب کے عمدہ اور صحیح طبع ہونے کے خیال سے آپ نے پادری صاحب کے مطبع سفیر ہند کو منتخب کیا.اور پادری صاحب نے بھی اس کتاب کو عمدہ چھاپنے کا اہتمام کیا.اور یہ امر اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کے دیکھنے سے نمایاں ہے.انہوں نے اس کتاب کی کتابت کے لئے منشی امام الدین صاحب کو منتخب کیا.حضرت کو اُس کی شان خط بہت پسند تھی.اور ایک عرصہ دراز تک وہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کا تب رہے.براہین احمدیہ کے ہر سہ حصص انہوں نے لکھے.مگر چوتھی جلد کے کچھ حصہ کی کتابت کی عزت وسعادت حضرت شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی مرحوم کے بھی حصہ میں آئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فطرت میں وفاداری کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.اس لئے آپ منشی امام الدین صاحب سے برابر کام لیتے رہے.اور آئینہ کمالات اسلام تک جب موقعہ ملتا اُن سے کچھ نہ کچھ کام لیتے.مستقل طور پر ان کو بیس روپیہ ماہوار دیتے رہتے تھے.اس شرط پر کہ جب حضرت طلب کریں وہ فوراً آ جاوے.بعد میں منشی غلام محمد امرتسری کی تحریر حضرت کو پسند آئی.مگر اُسے براہین کی سعادت نصیب نہیں ہوئی.اس کی
حیات احمد ۵۲ جلد دوم حصہ اول کتابت کا عہد آپ کے دعویٰ مسیحیت سے شروع ہوتا ہے.براہین احمدیہ کا پرنٹر براہین احمدیہ کی طباعت کے لئے پادری رجب علی صاحب نے مراد آباد سے شیخ نور احمد صاحب کو بلایا جو اپنے فن طباعت میں بہترین ماہر تھا.شیخ صاحب بالآخر اس سلسلہ میں ایک مخلص احمدی کی صورت میں منسلک ہوئے.اور آخر تک وفادار رہ کر فوت ہوئے اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہیں.یہاں میں ان کے حالات زندگی نہیں لکھ رہا بلکہ یہ بتا رہا ہوں کہ پادری صاحب نے خصوصیت کے ساتھ براہین کی طبع کا اہتمام کیا.اور بہترین آدمی مہیا کئے.کچھ عرصہ کے بعد یعنی دوسرے اور تیسرے حصہ کی طباعت کے وقت شیخ نور احمد صاحب نے پادری رجب علی صاحب کا کام چھوڑ کر اپنا ذاتی مطبع ریاض ہند کے نام سے جاری کیا.پادری صاحب نے براہین کی طباعت کا وہی سٹینڈرڈ ( معیار قائم رکھنے کے لئے اس کی طباعت کا کام اُجرت پر شیخ صاحب کو دے دیا.یعنی کتاب فی الحقیقت تو شیخ نور احمد صاحب اپنے مطبع میں چھاپتے تھے.لیکن اس پر مطبع سفیر ہند کا نام درج ہوتا تھا.آج جبکہ میں حضرت اقدس کے سوانح حیات میں براہین کے زمانہ کے حالات لکھ رہا ہوں.پادری رجب علی منشی امام الدین، شیخ محمد حسین صاحب منشی غلام محمد اور شیخ نور احمد صاحب سب کے سب فوت ہو چکے ہیں ان میں سے شیخ محمد حسین اور شیخ نور احمد صاحب اور منشی غلام محمد صاحب کو قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی اور شیخ نور احمد صاحب کو تو خدا تعالیٰ نے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کی دولت عطا فرمائی.شیخ نور احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب واشتہارات کے علی العموم پرنٹر رہے.امرتسر کے علاوہ وہ قادیان میں بھی اپنا پریس لے آیا کرتے تھے.پھر انہوں نے مرزا اسماعیل اور بعض دوسرے لوگوں کو یہ کام سکھا دیا.اور قادیان میں طباعت کا کام ہونے لگا.جہاں تک براہین احمدیہ کی طبع کا سوال ہے.اس کے تین حصوں کو شیخ نور احمد صاحب نے
حیات احمد ۵۳ جلد دوم حصہ اول اپنے ہاتھ سے چھاپا.پہلا حصہ خود پادری رجب علی صاحب کے سفیر ہند میں.اور دوسرے اور تیسرے حصہ کو اپنے مطبع ریاض ہند میں اگر چہ مطبع کا نام ان پر بھی سفیر ہند ہی کا رہا.اور چوتھا حصہ خود ان کی مطبع ریاض ہند ہی میں چھپا.اور اس کے نام سے ہی شائع ہوا.مگر شیخ نور احمد صاحب اس کے ختم ہونے کے وقت ہندوستان میں نہ تھے بلکہ وہ بخارا چلے گئے تھے.اور اہتمام طباعت مکر می شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی کے ہاتھ میں تھا.بلکہ سرورق بھی انہوں نے ہی لکھا.شیخ نور احمد صاحب مراد آباد میں اخبار لوحِ محفوظ کے پریس میں پرنٹری کرتے تھے اور انہوں نے کاپی کی سیاہی کا اشتہار دیا ہوا تھا جسے لوگ پنجاب میں بھی منگواتے تھے.اسی اشتہار کے ذریعہ پادری رجب علی صاحب نے انہیں مراد آباد سے پنجاب بلوا بھیجا.شیخ محمدحسین صاحب مراد آبادی اس سے پہلے پنجاب آچکے تھے.انہوں نے بھی تحریک کی اور شیخ صاحب امرتسر آ گئے.اُس وقت پادری رجب علی صاحب اخبار وکیل ہندوستان کے ایڈیٹر و مینیجر تھے.اُسے چھوڑ کر انہوں نے اپنا اخبار یعنی سفیر ہند جاری کیا.شیخ صاحب بھی اس مطبع میں چلے آئے اور ۱۸۷۸ء کے آخر میں حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب نے سفیر ہند میں براہین احمدیہ کے چھپوانے کا انتظام کیا.شیخ نور احمد صاحب کہتے تھے کہ سفیر ہند کے تمام پریس مین میرے سپرد تھے.اور میرے ہی اہتمام سے سب کام ہوتے تھے.اور خاص کر کتاب براہین احمدیہ پادری صاحب نے چھاپنے کے لئے میرے سپرد کی اور میں نے ہی اُس کا اول حصہ اسی مطبع میں (سفیر ہند ) میں چھاپا.پھر میں نے اپنا پر لیس علیحدہ بنایا.چونکہ چھپائی کا کام میرے ہاتھ سے صفائی سے ہوتا تھا.اس لئے پادری صاحب نے دوسرا اور تیسرا حصہ میرے ہی مطبع میں چھپوایا.سفیر ہند سے ریاض ہند شیخ صاحب کو اس کام کو اپنے ہاں لینے کا خیال نہ تھا اس لئے کہ کام بہر حال ان کے ہی مطبع میں ہو رہا تھا.مگر خدا تعالیٰ جب کوئی غیر متوقع سامان کرتا ہے.تو دیکھنے والوں کو حیرت ہوتی ہے
حیات احمد ۵۴ جلد دوم حصہ اوّل جس عجیب و غریب طریق پر ریاض ہند میں یہ کام چلا گیا.اس کی داستان عجیب ہے.میں اس واقعہ کو اس لئے لکھ دینا نہیں چاہتا کہ براہین احمدیہ کی طبع سے اس کا تعلق ہے یا شیخ نور احمد صاحب کے واقعات زندگی پر اثر ہو بلکہ اس لئے بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا ایک گرامی قدر گو ہر ہے اور میں اسے محفوظ کر دینا چاہتا ہوں.شیخ نور احمد صاحب نے بیان کیا کہ براہین احمدیہ کا تیسرا حصہ میرے مطبع ریاض ہند میں چھپ رہا تھا.پادری صاحب نے حضرت صاحب کو بڑے تقاضے کے خطوط لکھے کہ روپیہ جلد بھیجو.میرے مطبع کی طباعت کی عمدگی اور خوش معاملگی کا اثر دن بدن بڑھ رہا تھا اور کثرت سے کام آ رہا تھا.پادری رجب علی صاحب کے ہاں کا کام بھی میرے ہاں آنے لگا اور اس طرح پر پادری صاحب میرے مطبع کو رقابت کی نظر سے دیکھتے تھے.میرا پریس ہال بازار میں تھا.وہ بھی اپنا پر یس وہاں ہی لے آیا.اُن کا مطبع ہال بازار سے ایک طرف کو ہٹ کر تھا اور میرا مطبع لب سڑک تھا.اُن کے تقاضے کے خطوط کی بناء پر حضرت صاحب روپیہ لے کر امرتسر تشریف لائے.آپ نے ہال بازار میں چھاپا خانہ کا پتہ دریافت کیا تو چونکہ صرف چھاپہ خانہ آپ نے پوچھا اور میرا ہی پریس برلب سڑک تھا بتانے والے نے میرے مطبع کا پتہ دیدیا اور آپ وہاں تشریف لے آئے.اتفاق سے اس وقت براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ کے پتھر پڑھے ہوئے چھپ رہے تھے.آپ کو خیال گزرا کہ یہی رجب علی کا پریس ہے.آپ نے ملازموں سے کہا پادری صاحب کو بلا ؤ.ملازموں نے مجھے خبر دی.میں گھر میں تھا.باہر آیا اور السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مصافحہ کیا.حضرت صاحب چونکہ شیخ نور احمد صاحب سے واقف نہ تھے.اور پادری صاحب کو جانتے تھے.انہیں یہاں نہ پا کر کچھ تعجب بھی ہوا.اور حسب ذیل گفتگو آپ سے ہوئی.حضرت اقدس ( تعجب سے ) کیا یہ پریس رجب علی صاحب کا ہے.شیخ نور احمد صاحب ( مؤدبانہ لہجہ میں ) آپ ہی کا ہے.حضرت اقدس (یہ سمجھ کر کہ یہ اُن کا پریس نہیں ) رجب علی صاحب کا پر یس کہاں ہے اور یہ ہماری
حیات احمد جلد دوم حصہ اول کتاب جو چھپ رہی ہے اس مطبع میں کیسے آئی.شیخ نوراحمد صاحب.ساری کتاب میں نے اپنے مطبع ریاض ہند میں چھاپی ہے.صرف پہلا حصہ پادری صاحب کے مطبع میں چھپا اور وہ بھی میں نے ہی چھاپا ہے.اب اُن کا پریس بند ہے اور وہ خود خیر الدین کی مسجد کے پیچھے رہتے ہیں.حضرت اقدس.رجب علی صاحب ہمیں تنگ کرتے ہیں اور پیشگی روپیہ لے کر بھی کام وقت پر نہیں دیتے.اب ہم اُن کو روپیہ دینے آئے ہیں اور کتاب ابھی چھپی نہیں.اگر ہم کو پہلے سے معلوم ہوتا تو آپ ہی سے چھپواتے.ہمیں اس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ ایک مسلمان کے مطبع میں کتاب چھپ رہی ہے اور ہمارا منشا یہ ہے کہ حصہ چہارم آپ ہی کے ہاں چھاپیں اور چھپنے کے بعد جب کتاب مکمل ہو جاوے تو ایک ماہ کے بعد بتدریج ہم آپ کو روپیہ دیدیں گے کیا آپ یہ انتظام کر سکتے ہیں.شیخ نور احمد صاحب مجھے منظور ہے آپ بعد تکمیل کتاب ایک ماہ بتدریج روپیہ عنایت فرمانا شروع کر دیں.حضرت اقدس یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور یہ معاہدہ طباعت براہین کے متعلق ہو گیا.فرمایا کاغذ بھی اپنے پاس سے لگاؤ.اور چھپائی، ترتیب ، سلائی ، کٹائی سب کام تیار کر کے اور مکمل کر کے کام ہمیں دو.اُس وقت آپ نے کوئی نرخ وغیرہ طے نہیں کیا.صرف یہ فرمایا.کہ ہم کام اچھا چاہتے ہیں اور بعد میں کبھی اس کے نرخ وغیرہ کے متعلق آپ نے نہیں فرمایا کہ یہ زیادہ ہے.جو ہل آپ کی خدمت میں پیش ہوتا اُسے ادا کر دیتے.شیخ صاحب کہتے تھے کہ میں نے رجب علی سے نصف خرچ یا اُس سے بھی کم پر کتاب چھاپ دی.وہ یہ بھی کہتے تھے کہ مجھے جب کتاب دی گئی تو قادیان بلا کر دی تھی.میں نے دیکھا کہ میاں شمس الدین اس کتاب سے مسودہ کی نقل کرتے تھے.ان کا خط اچھا تھا.جس قدر نقل ہو
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل چکی تھی وہ مجھے حضرت نے دے دی اور باقی کے لئے فرمایا کہ جس قدر نقل ہوتی جائے گی ہم بذریعہ ڈاک یا دستی بھیجتے رہیں گے.آپ کا تاکیدی حکم تھا کہ کا پہیاں اور پروف رجسٹری کرا کر بھیجنا کہ کہیں گم نہ ہو جاوے.میں کا پیاں اور اصل مضمون تو رجسٹری کرا دیتا لیکن پروف بغیر رجسٹری صرف ٹکٹ لگا کر بھیج دیتا.مگر آپ بار بار یہی فرماتے کہ پروف بھی رجسٹری کرا کر روانہ کرو کہ اس میں احتیاط ہے اور آپ بھی جب پروف بھیجتے تو رجسٹری کراتے تھے.غرض اس طرح پر مطبع سفیر ہند سے نکل کر براہین احمد یہ ریاض ہند پر لیس میں چلی گئی.اور براہین احمدیہ ہی شیخ نور احمد صاحب کے پنجاب آنے اور پھر اسی سلسلہ میں داخل ہونے اور بالآخر قادیان کے مقبرہ بہشتی میں لانے کا موجب ہوئی.براہین خدا جانے کتنی مرتبہ چھپے گی لیکن جو شرف اور سعادت شیخ نور احمد صاحب کے حصہ میں اس کے سب سے پہلا پرنٹر ہونے کی حیثیت سے آئی ہے.اس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو سکے گا.براہین کی طباعت و اشاعت پر آپ نے پانی کی طرح روپیہ بہا دیا.جو اُجرت پادری صاحب نے طلب کی آپ نے دے دی اور پیشگی دی.سچ یہ ہے کہ آپ اشاعت کے کام میں اس قسم کی بحث کہ نرخ یہ ہو یا وہ.یا گھٹیا قیمت کا کاغذ لگا دیا جاوے یا مصالحہ سیا ہی سستی ہو اس کو پسند ہی نہ فرماتے تھے بلکہ فرمایا کرتے کہ یہ ایک قسم کا شرک ہے.غرض براہین احمدیہ کی طباعت کے لئے آپ نے یہ کوشش کی کہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کی ہو اور اس کے لئے جو اسباب اس وقت میسر آ سکتے تھے آپ نے ان کے فراہم کرنے میں کسی قسم کی کمی نہیں کی.اس وقت پنجاب میں جو مطبع اعلیٰ درجہ کی طباعت کے لئے مشہور تھا اُس سے آپ نے انتظام کیا.اور کچھ شک نہیں پادری رجب علی صاحب نے اس کے لئے پوری کوشش کی جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ چھاپنے کے لئے اُنہوں نے شیخ نور احمد صاحب مرحوم کو مراد آباد سے طلب کیا.
حیات احمد وو ۵۷ پادری رجب علی صاحب پر حضرت اقدس کا اثر جلد دوم حصہ اول میں نے پادری رجب علی صاحب کو نہیں دیکھا.میرے قیام امرتسر کے وقت وہ حیدر آباد میں تھے لیکن ان کی اہلیہ میری" نامی امرتسر میں اسی بلڈنگ کے ایک حصہ میں رہتی تھیں.جس میں خاکسار (عرفانی ) رہتا تھا.اور حافظ عبدالرحمن صاحب امرتسری میرے ساتھ رہتے تھے.اُن کے توسط سے مجھے بھی اہلیہ پادری رجب علی صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوتا تھا.میں نے اُن سے براہین احمدیہ کی طبع کے زمانے کے متعلق جب ذکر کیا تو میری نے ہمیشہ کہا.کہ :- پادری صاحب کہا کرتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب کی عمدہ اور اعلیٰ طباعت کا شوقین کوئی نہیں دیکھا.اور اس کے لئے فراخدلی سے روپیہ خرچ کرنے میں مرزا صاحب سے بڑھ کر مجھے نظر نہیں آیا.باوجودیکہ اُس کے پاس روپیہ نہیں وہ بہت دلیر اور فراخ حوصلہ ہیں.“ کا پیاں امرتسر کبھی آپ خود لے جاتے یا بذریعہ ڈاک بصیغہ رجسٹری بھیجتے اور کبھی لالہ ملاوامل صاحب وغیرہ کو بھیج دیتے.اور یہی طریق پروف بھیجنے کے متعلق تھا.عام طور پر خود جانا پسند فرماتے تھے.اور شیخ نور احمد صاحب کو تو عام ہدایت تھی کہ کبھی پروف بلا رجسٹری نہ بھیجے جاویں یہ امر آپ کی احتیاط پر دلالت کرتا ہے.اس کتاب کے لئے آپ کو بے انتہا محنت کرنی پڑتی تھی.اس لئے کہ قادیان محض ایک گاؤں تھا اور امرتسر تک یکہ پر جانا پڑتا تھا.محرر اور پیکر (Packer) خود ہی تھے آپ اتنا ہی کام نہ کرتے تھے کہ خود کا پیاں لے جاتے اور پروف پڑھتے بلکہ جب کتاب کا کوئی حصہ طبع ہو کر آتا تو اُس کے متعلق تحریک کرنے کے لئے بھی آپ ہی کو خطوط وغیرہ لکھنے پڑتے.ان لوگوں کی فہرستیں (جن کو کتاب یا خطوط لکھنے ہوتے ) خود تیار کرتے.اور یہ بڑی محنت اور کاوش کا کام ہوتا تھا.آج ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ ہر قسم کے وسائل میتر ہیں اور ہر قسم کی ڈائر یکٹریاں اور فہرستیں طبع شدہ میسر آتی ہیں مگر آج سے چالیس برس پیشتر پر نظر کرو کہ کیا حالت
حیات احمد ۵۸ جلد دوم حصہ اوّل تھی.وہ خطوط جو آپ کو لکھنے ہوتے تھے وہ ایک دو یا دس نہ تھے بلکہ اُن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے.چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حصہ کی اشاعت پر آپ نے بعض امرائے اسلام کو قریباً ڈیڑھ سو خطوط اور عرائض لکھے.اور یہ تمام کے تمام مبسوط اور طویل خط تھے کیونکہ ان میں کتاب کی ضرورت اور اس کی طبع کے اخراجات اور اشاعت کے لئے تحریک جیسے امور کی وضاحت لازمی تھی.پھر بعض کو یاد دہانی بھی کرانی پڑی.ان خطوط کے علاوہ روانگی کتاب کا اہتمام بھی خود آپ ہی فرماتے تھے.گویا کتاب کے مصنف سے لے کر اُس کے پروف ریڈر.محتر راور دفتری تک کا سب کام آپ ہی کر رہے تھے.اور یہ سب کام ایک جگہ نہیں ہو رہے تھے.اس لئے کہ کتاب امرتسر میں چھپتی تھی.اور قادیان سے اُسے روانہ کرنا پڑتا تھا.کتاب کے لئے مختلف سفروں کی ساخت اور اس کی تصنیف سے لے کر اُس کی روانگی تک کی قلمی اور دماغی محنت کا اندازہ آسان نہیں.آج تقسیم محنت کے اصول پر جو کام ہو رہا ہے.باوجود یکہ ایک آدمی ایک ہی کام کرتا ہے پھر بھی کثرت کام کا شا کی اور اپنی کوفت سے نالاں ہے.لیکن غور کرو اور دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایام طباعت براہین احمدیہ میں کس قدر کام تنہا کرتے تھے اور اس کے لئے قادیان سے امرتسر آنا جانا بھی پڑتا تھا.طریق عمل براہین احمدیہ کی روانگی کے لئے ایک رجسٹر خریداران مرتب کیا تھا.اور اس میں تمام اصحاب کے نام درج تھے.جن کو کتاب بھیجی جاتی تھی.آپ اس کام کو کسی دوسرے کے سپرد نہیں کرتے تھے کہ روانگی کتاب میں احتمال نہ رہے.آپ خود اپنے ہاتھ سے پیکٹ تیار کرتے تھے اور اپنے ہاتھ سے مکتوب الیہ کا پتہ اُس پر تحریر فرماتے تھے.اکثر صورتوں میں آپ کتاب کی رجسٹری کرا کر بھیجتے تھے یہ آپ کا طریق احتیاط تھا.بیرنگ کبھی بھیجنے کے عادی نہ تھے.کسی شاذ صورت میں بیرنگ بھیجا ہو تو اُس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ مکتوب الیہ نے خود ایسی ہدایت کی ہو.جن لوگوں نے پیشگی قیمت دی تھی اُن کو عموماً آپ نے رجسٹری کرا کر کتاب بھیجی.بعض امراء ورؤساء
حیات احمد ۵۹ جلد دوم حصہ اول کو تحریک کے لئے بھی کتاب پیشگی بھیج دی تھی.یعنی ان سے کوئی قیمت وصول نہیں ہوئی.مگر آپ نے تحریک کے طور پر کتاب بھیج دی اور بذریعہ مکتوب اس کی خریداری پر توجہ دلائی اور بصورت عدم خریداری کتاب کو بیرنگ بھیج دینے کی خواہش ظاہر کی مگر بہت سی کتابیں اس طرح پر ضائع ہوگئیں.اور اس کا نتیجہ یہی نہیں ہوا کہ صرف وہ حصہ ضائع ہوا بلکہ پورا سیٹ کتاب کا ناقص ہو گیا.آپ نے اس بے تو جہی اور تکلیف کی طرف ان لوگوں کو توجہ بھی دلائی مگر نتیجہ معلوم.حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ آپ کو خدا کی مرضی نے بالفعل نہیں، کے الفاظ میں بتا دیا تھا.ابھی براہین کی امداد کے لئے وقت نہیں آیا تھا.اگر پہلی جلد یا اعلان کے نکلتے ہی سیم وزر کی بارش ہونے لگتی تو اس سلسلہ کی عظمت بحیثیت ایک الہی سلسلہ کے نہ ہوتی اور لوگ سمجھتے کہ یہ ان کی کوشش اور مالی امداد کا نتیجہ ہے اس لئے لازمی طور پر سنت اللہ کے موافق ضروری تھا کہ ابتداء باوجود ہر قسم کی کوششوں اور تحریکوں کے مشکلات میں اضافہ ہو اور مالی تنگی ہر طرف سے اپنا سر نکالے چنانچہ یہ امر بڑی وضاحت سے ثابت ہے.بہر حال براہین احمدیہ کے لئے ایک طرف آپ کو ہر قسم کی محنت اور مشقت برداشت کرنی پڑتی تھی.دوسری طرف اس کی طبع واشاعت کے لئے مالی وقتیں سامنے تھیں با ایں آپ کی ہمت اور کوشش میں کوئی فرق نہیں آیا.بلکہ آپ پورے جوش اور اخلاص سے کام کرتے رہے.آپ کی نظر خدا تعالیٰ کے وعدوں پر تھی اور آپ کو یقین تھا کہ یہ کام ہو کر رہے گا.شیخ نور احم اور منشی محمدحسین صاحب سب کے سب عالم بقا کو سدھار چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اُن میں سے ہر ایک براہین کی اشاعت میں عملی حصہ لینے کے باعث حضرت رب العالمین کے رحم و کرم سے حصہ لیں گے.براہین احمدیہ کی طبع کے وقت آپ کا طریق عمل براہین کی طبع کے لئے آپ نے یہ انتظام کیا کہ منشی امام الدین کے لئے مسودہ میاں شمس الدین صاف کیا کرتے تھے اور اسے یہاں قادیان میں بلا کر آپ کتابت اپنے سامنے کراتے تھے.جب کا پیاں تیار ہو جاتی تھیں تو آپ خود اُن کا پیوں کو لے کر امرتسر جایا کرتے تھے.اس وقت
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل آمد و رفت کی یہ سہولتیں نہ تھیں جو آج ہمیں میسر ہیں بلکہ امرتسر اور بٹالہ کے درمیان ابھی ریل بھی تیار نہ ہوئی تھی.امرتسر تک یکہ میں جانا پڑتا تھا اور قادیان سے کبھی کوئی ہیکہ مل جاتا مگر علی العموم آپ بٹالہ تک پیدل سفر کرتے تھے.موسمی شدائد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر شخص بآسانی قیاس کر سکتا ہے کہ حضرت کو براہین احمدیہ کی طبع کے لئے کس قدر محنت اور جفا کشی سے کام لینا پڑتا تھا.آج ہم اُس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.خود مضمون لکھتے پھر صاف شدہ مسودہ کو پڑھتے.پھر کا تب کو دیتے.اور کاپیوں کی اصلاح فرماتے.اور پھر خود ان کو لے کر امرتسر جاتے.اور کا پیاں مطبع میں دے کر بعض اوقات آجاتے اور جب کا پیاں پتھر پر لگ جانے کی اطلاع ملتی تو آپ خود امرتسر تشریف لے جاتے اور کاپیوں کے پروف پڑھتے.امرتسر میں قیام ان ایام میں اس موقعہ کے لئے آپ کو کئی کئی مرتبہ جانا پڑتا.اور کئی کئی دن امرتسر قیام کرنے کی ضرورت پیش آتی.اگر چہ امرتسر کے تمام بڑے بڑے رؤسا سے آپ کے خاندان کے تعلقات تھے اور آپ اگر ان کے ہاں قیام فرماتے تو وہ اپنی سعادت اور عزت یقین کرتے لیکن آپ کی عادت شریف میں یہ نہ تھا.آپ دنیا کے بڑے آدمیوں سے الگ تھلگ رہتے.امرتسر جا کر آپ علی العموم حکیم محمد شریف صاحب کلانوری کے ہاں قیام فرمایا کرتے تھے.اس سفر میں کبھی کبھی لالہ ملاوامل صاحب بھی آپ کے ساتھ ہوتے تھے اور کبھی لالہ شرمپت رائے بھی کبھی لالہ ملاوامل صاحب کو تنہا بھی بھیج دیا کرتے تھے تا کہ وہ کا پیاں لے جاویں یا کسی اور کام کو سرانجام دیں.امرتسر کے قیام کے ایام میں آپ کا کام سوائے براہین کے پروف وغیرہ دیکھنے کے اور کچھ نہ ہوتا تھا.وہاں اگر کچھ وقت ملتا تو آپ مذہبی تذکرہ بھی بعض لوگوں سے فرماتے تھے.ان میں سے مولوی غلام نبی صاحب تاجر کتب اب تک زندہ ہیں.مولوی غلام نبی صاحب رو نصاریٰ میں رسالے اور اخبارات میں مضامین لکھتے رہتے تھے اور انہیں خصوصیت سے اس کا شوق تھا.
حیات احمد ۶۱ جلد دوم حصہ اوّل حضرت اقدس ہر ایسے شخص سے محبت کرتے تھے جو خدمت اسلام کا جوش رکھتا ہو.اس لئے مولوی غلام نبی صاحب سے لکھی محبت رکھتے تھے اور عیسائیوں کے اعتراضات کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی تھی جب کبھی بھی موقعہ ملتا.براہین کی اشاعت تجارتی اصولوں پر نہ تھی بعض لوگوں کو اپنی کسی مخفی شامت اعمال یا معاندانہ حسد کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ براہین کی طبع و اشاعت کا کام محض دنیوی اغراض اور مفاد کو مد نظر رکھ کر کیا گیا تھا.میں بحیثیت ایک معتقد کے نہیں بلکہ ایک مؤرخ اور سیرت نگار کے براہین احمدیہ کی طبع و اشاعت کے تمام پہلوؤں پر نظر کر رہا ہوں اور واقعات اور شواہد سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نے براہین کی اشاعت سے کبھی کسی قسم کا مادی اور مالی مفاد مد نظر نہیں رکھا.سچ تو یہ ہے کہ براہین احمدیہ کی طبع کے وقت اننا روپیہ آیا بھی نہیں جو کسی قسم کی فراغت اور مالی آسودگی پیدا کرتا.خود براہین کے اخراجات بھی بمشکل پورے ہوتے تھے.ہر ایک حصہ کی طبع کے لئے آپ کو فراہمی روپیہ کے وقت مشکلات پیش آتے تھے اور بعض لوگوں کی طرف سے (جن میں سے بڑی تعداد عمائد و امرائے اسلام کی تھی ) آپ کو نقصان اٹھانا پڑا.جس کا اظہار آپ نے خود براہین میں کیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.امرائے عالی ہمت کی سرد مہری بعض صاحبوں نے قطع نظر اعانت سے ہم کو سخت تفکر اور تر ڈو میں ڈال دیا ہے.ہم نے پہلا حصہ جو چھپ چکا تھا اُس میں سے قریب ایک سو پچاس جلد کے بڑے بڑے امیروں اور دولتمندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجی تھیں اور یہ امید کی گئی تھی جو امرائے عالی قدر خریداری کتاب کی منظور فرما کر قیمت کتاب جو ادنی رقم ہے بطور پیشگی بھیج دیں گے اور ان کی اس طور کی اعانت سے دینی کام بآسانی پورا ہو جائے گا اور ہزار ہا بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچے گا.اسی اُمید پر ہم نے قریب ڈیڑھ سو کے خطوط اور عرائض بھی لکھے اور یہ انکسار تمام حقیقت حال سے مطلع کیا مگر باستثناء دوتین
حیات احمد ۶۲ جلد دوم حصہ اوّل عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی.نہ خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں.مصارف ڈاک تو سب ضائع ہوئے لیکن اگر خدانخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا.افسوس جو ہم کو اپنے معزز بھائیوں سے بجائے اعانت کے تکلیف پہنچ گئی.الآخره (براہین احمدیہ صفحہ ب و ج حصہ دوم.روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲ ۶۳ ) اس سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ براہین احمدیہ کے لئے دس ہزار روپیہ لوگوں نے دیا تھا صحیح نہیں.جو لوگ معقول رقمیں دے سکتے تھے انہوں نے بے اعتنائی کی اور جن لوگوں نے جو کچھ دیا وہ خود حضرت نے براہین احمدیہ میں بقید نام چھاپ دیا ہے.اگر محض تجارتی اغراض یا اصولوں پر اس کتاب کی اشاعت و طباعت کا انتظام ہوتا تو ان حالات میں مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب نہ طبع ہوتی نہ شائع ہوتی.چونکہ آپ کی غرض و غایت اس کتاب کی اشاعت سے محض خدمتِ اسلام تھی اس لئے آپ نے کبھی کسی تجارتی اصل کو ملحوظ نہیں رکھا نہ تو کتاب کی طباعت میں ان امور کی پرواہ کی جو اخراجات طباعت کو کم کر دیں اور نہ کتاب کی فروخت میں تجارتی اصول آپ کے زیر نظر رہا.میں اس کی تائید میں اندرونی شواہد پیش کرتا ہوں.اس امر کا ثبوت کہ آپ کے مدنظر تجارتی مقاصد نہ تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق براہین احمدیہ کی اشاعت کے لئے معاونین کو پیدا کیا تو سب سے زیادہ جس شخص نے براہین کے خریداروں کے پیدا کرنے میں سعی کی میر عباس علی صاحب لدھیانوی تھے.میر صاحب کی ابتدا اس سلسلہ میں جس جوش اور اخلاص سے ہوئی افسوس ہے کہ انجام اس اخلاص پر نہ ہوا.اور وہ سلسلہ سے کٹ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے.ہر اس شخص کو ( جو میر صاحب سے واقف ہے ) اس امر کا دکھ ہے کہ اُن کا خاتمہ اس طرح پر ہوا.اور یہ مقام خوف ہے ان کا معاملہ اب خدا تعالیٰ سے ہے.
حیات احمد ۶۳ جلد دوم حصہ اول میر صاحب بطور ایک معاونِ خاص کے براہین کی اشاعت کے لئے کھڑے ہوئے.اور وہ شبانہ روز اس کی اشاعت کی فکر میں تحریک اور کوشش کرتے رہتے تھے.حضرت نے میر عباس علی صاحب کو ۲۸ / اکتوبر ۱۸۸۲ء مطابق ۱۵ رذی الحجہ ۱۲۹۹ھ کو ایک خط لکھا.اس مکتوب شریف میں آپ نے براہین کے خریداران کے متعلق فرمایا :- دد مگر می مخدومی میر عباس علی صاحب زَادَ عِنَايَتُه - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر باعث خوشی ہوا.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.آپ اللہ اور رسول کی محبت میں جس قدر کوشش کریں وہ جوش خود آپ کی ذات میں پایا جاتا ہے حاجت تاکید نہیں.چونکہ یہ کام خالصا خدا کے لئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لئے آپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید فروخت پر نظر ہو بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں انہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے.کیونکہ در حقیقت یہ کوئی خرید وفروخت کا کام نہیں.........غرض آں مخدوم اس سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکل کر کے صادق الا رادت لوگوں سے مدد لیں.اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے.ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدرت رکھتے ہیں.وہ جو قادر مطلق ہے وہ جب چاہے گا تو اسباب کا ملہ خود بخود میسر کر دے گا.کونسی بات ہے کہ اس کے آگے آسان نہ ہوئی ہو ؟“ مکتوبات احمد جلد اصفحہ ۵۰۷مطبوعه ۲۰۰۸ء) یہ مکتوب حضرت نے براہین کی طبع کے ابتدائی ایام میں لکھا.جبکہ خریداران کی نہایت سخت ضرورت تھی.اور اخراجات طبع کے لئے مختلف قسم کی دقتیں آپ کے سامنے تھیں.آپ نے صاف طور پر ایک ایسے شخص کو جو اس کے معاونین کے گروہ کے جمع کرنے کے لئے دیوانہ وار کام کر رہا تھا ایک خاص راستہ پر ڈالدیا.اور وضاحت سے لکھ دیا کہ یہ کوئی خرید وفروخت کا کام
حیات احمد ۶۴ جلد دوم حصہ اول نہیں.اس حقیقت کی خوبی اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب اُس وقت کے حالات عسر اور مالی دقتوں کی کیفیت ذہن میں ہو.پھر ایک دوسرے موقعہ پر میر عباس علی صاحب نے چاہا.کہ کچھ چندہ کیا جاوے.مگر آپ نے اِس سے اُن کو روک دیا.چنانچہ آپ نے لکھا.کہ وو " غرباء سے چندہ لینا ایک مکر وہ امر ہے.جب خدا اس کا وقت لائے گا تو پردۂ غیب سے کوئی شخص پیدا ہو جاوے گا.جو دینی محبت اور دلی ارادت سے اس کام کو سرانجام دے.تجویز چندہ کو موقوف رکھیں.“ (مکتوبات احمد جلد اصح ۵۲۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) مفت دینے میں تامل نہ تھا یہی نہیں بلکہ جب کبھی کوئی ایسا شخص آپ کے سامنے آتا جو استطاعت نہ رکھتا ہو اور دینی محبت اس کے اندر ہوا سے مفت دیدیتے.بہت سی کتابیں آپ نے مفت دی تھیں.میر عباس علی صاحب کو آپ نے ایک مرتبہ لکھا: اگر کوئی ہندو فی الحقیقت طالب حق ہے تو اُس سے رعایت کرنا واجب ہے بلکہ اگر کوئی شخص بے استطاعت ہو تو اُس کو مفت بلا قیمت دے سکتے ہیں غرض اصلی اشاعت دین ہے نہ خرید و فروخت.جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تا کہ بھیجی جاوے.“ مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۲۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) مالی اغراض مدنظر نہ تھے آپ نے مختلف طریقوں سے اس امر کا اظہار کیا.اور واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ براہین احمدیہ کی تصنیف اور اشاعت سے مقصد کسی قسم کی دنیوی خواہش نہ تھی.بلکہ ایک اور صرف ایک ہی قصد تھا کہ دینِ اسلام کی صداقت ظاہر ہو.اور ان حملوں کا جواب دیا جاوے جو اُس وقت اسلام پر کئے جاتے تھے.چنانچہ جب بعض لوگوں نے تحریک اعانت پر اس قسم کا جواب دیا کہ بعد تیاری کتاب خرید لیں گے.تو آپ نے لکھا:
حیات احمد جلد دوم حصہ اول بعض صاحبوں کی سمجھ پر رونا آتا ہے جو وہ ہر وقت درخواست اعانت کے یہ جواب دیتے ہیں.کہ ہم کتاب کو بعد تیاری کے خرید لیں گے پہلے نہیں.ان کو سمجھنا چاہئے کہ یہ کچھ تجارت کا معاملہ نہیں اور مؤلّف کو بجز تائید دین کے کسی کے مال سے کچھ غرض نہیں.“ اعانت کا وقت تو یہی ہے کہ جب طبع کتاب میں مشکلات پیش آ رہی ہیں ورنہ بعد چھپ چکنے کے اعانت کرنا ایسا ہے جیسے بعد تندرستی کے دوا دینا.پس ایسی لا حاصل اعانت سے کس ثواب کی توقع ہوگی.“ 66 ( براہین احمدیہ جلد ۲ صفحہ و.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۶۹) خدا تعالیٰ پر توکل اور کتاب کی اشاعت کا یقین باوجود یکہ مالی مشکلات آپ کی راہ میں تھیں.کتاب کے لئے سرمایہ کی کوئی صورت نہ تھی تحریک اعانت پر لوگوں میں قبض طاری تھی.اور تحریک اعانت کے جوابات دل شکن اور حوصلہ فرسا تھے.مگر با ایں آپ کو یقین اور کامل یقین تھا کہ یہ کتاب طبع ہو جائے گی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.رہا یہ فکر کہ اس قدر روپیہ کیونکر میسر آوے گا سواس سے تو ہمارے دوست ہم کو مت ڈراویں اور یقین کر کے سمجھیں جو ہم کو اپنے خدائے قادر مطلق اور اپنے مولیٰ کریم پر اس سے زیادہ تر بھروسا ہے کہ جو ممسک اور خسیس لوگوں کو اپنی دولت کے اُن صندوقوں پر بھروسا ہوتا ہے کہ جن کی تالی ہر وقت ان کی جیب میں رہتی ہے.سو وہی قادر تو انا اپنے دین اور اپنی واحدانیت اور اپنے بندوں کی حمایت کے لئے آپ مدد کرے گا.اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 66 ( براہین احمدیہ جلد ۲ صفحہ و.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۷۰ ) غرض ایک بار نہیں بلکہ متعدد مرتبہ آپ نے صاف صاف الفاظ میں اس حقیقت کا اعلان کیا.اعانت کے لئے تمام تحریکات صرف اسی فطرتی قانون تمدن و تعاون کی بناء پر تھیں جو ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور نیز رعایت اسباب کے لئے جو تمام انبیاء اور راستبازوں کا خاصہ ہے چنانچہ
حیات احمد ۶۶ جلد دوم حصہ اول آپ نے اس فلسفہ تعاون کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اس کی طرف اشارہ فرمایا.کہ انبیاء علیہم السلام جو تو کل اور تفویض اور تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سبہ سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی یہ رعایت اسباب ظاہری مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللَّهِ کہنا پڑا.خدا نے بھی اپنے قانون تشریعی میں یہ تصدیق اپنے قانونِ قدرت کے ” تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقُوای“ کا حکم فرمایا.“ ( براہین احمدیہ جلد دوم صفحہ الف.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۶۰،۵۹) پس یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ نے کبھی کسی انسان پر وہ چھوٹا ہو یا بڑا بھروسہ نہیں کیا اور نہ اُسے امید گاہ بنایا.ہاں! یہ سچ ہے کہ آپ نے رعایت اسباب کے اصول پر تحریک اعانت کے لئے کوئی کمی نہیں کی.تمام ان لوگوں کو جن کی نسبت سمجھا جا سکتا تھا کہ وہ خدا داد مال و دولت سے اس کارخیر میں حصہ لینے کی اہلیت رکھتے ہیں آپ نے توجہ دلائی.ان کو خطوط لکھے.اشتہارات بھیجے.بالآخر کتابیں بھی بھیجیں.لیکن ہر طرف سے جواب ہمت شکن وصول ہوئے.مگر جس کو خدا پر بھروسہ ہو وہ اس قسم کے جوابات سے ہمت ہار کر نہیں بیٹھ جاتا اس کی امید خدا پر اور بڑھ جاتی ہے.اور وہ اس کی قدرت نمائی کے کرشموں کا نظارہ کرتا ہے.یہی یہاں ہوا.خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے یہ فرما دیا تھا کہ بالفعل نہیں یہ بھی ایک قسم کا انعام تھا.اور اس کے بعد جب کوئی حوصلہ فرسا خط آتا تو آپ کے لئے حوصلہ فرسا نہیں ہوتا تھا بلکہ خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرتا تھا اور امید کو وسیع کرتا تھا اس لئے کہ بالفعل نہیں کے لفظ میں آئندہ کے لئے پیشگوئی مضمر تھی کہ اعانت اور نصرت ہوگی مگر کچھ وقت کے بعد اور یہی ظہور میں آیا خدا تعالیٰ نے آپ سامان پیدا کئے اور ایسے سامان پیدا کئے کہ دیکھنے والوں کو حیرت ہوگئی اور حضرت اسی جوش مسرت میں پکار اُٹھے.خود کنی و خود کنانی کار را خود دہی رونق تو ایں بازار ترجمہ.تو آپ ہی سارے کام بتاتا ہے اور آپ ہی کرواتا ہے اور آپ ہی اس بازار کو رونق دیتا ہے.
حیات احمد ۶۷ جلد دوم حصہ اول حقیقت یہ ہے کہ کتاب کے اعلان کے ساتھ ہی لوگ اس کی تائید اور نصرت کے لئے کھڑے ہو جاتے تو پیشگوئی کی اعجازی قوت اور خدا نمائی کی طاقت کا صحیح اندازہ نہ ہوتا بلکہ واقعات اور حالات پر تبصرہ کرنے والے معترض کہہ دیتے کہ مناسب وقت ایک آواز بلند کی گئی اور لوگوں نے اسے سنا اور ساتھ ہو گئے مگر ایسا نہ ہوا.اعلان شائع ہوا لوگوں نے توجہ بھی نہ کی اور مالی مشکلات جو پہلے سے موجود تھیں بڑھ گئیں لیکن حضرت نے چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور وہم ہو کر اس کتاب کی تصنیف کا ارادہ کیا تھا.اور خدا تعالیٰ نے ہی قبل از وقت تسلی دے دی تھی کہ وقت آتا ہے کہ تیری تائید اور نصرت ہوگی اس لئے کسی قسم کی گھبراہٹ اور اضطراب کا اظہار نہیں کیا گیا.آپ نے کام شروع کر دیا.اور ہر قسم کی مخالف آوازوں کے درمیان اسے جاری رکھا کبھی کبھی کوئی خوشگوار اور موافق آواز بھی بلند ہوتی تھی مگر مخالفت کے اس شور عظیم میں اس کا کیا اثر اور شنوائی ہو سکتی تھی یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ خدا تعالیٰ نے تائیدی سامان پیدا کر دیئے.سیه سامان تائید ایسے رنگ اور واقعات میں پیدا ہوئے کہ انسانی دانش اور تدبر کا نتیجہ نہیں ہو سکتے تھے بلکہ محض تائید ربانی کا کرشمہ تھے.اس لئے کہ امراء اسلام اور مسلم والیان ریاست کو آپ نے توجہ دلائی لیکن ان میں سے کوئی تائید کے لئے کھڑا نہ ہوا اور اگر کسی نے امداد کے لئے وعدہ بھی کیا تو دوسرے وقت اُس نے اپنے وعدہ کا پاس نہ کرتے ہوئے کسی ایک یا دوسرے خوف کی وجہ سے انکار کر دیا جیسا کہ میں اپنے موقع پر بیان کروں گا.غرض آپ کو اس کتاب کی اشاعت کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ تھا اور سچ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے اشارے اور حکم سے آپ نے اس کام کو شروع کیا تھا اور بالآخر خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت نے اپنا کرشمہ قدرت دکھایا.براہین احمدیہ اور رؤسائے ہند جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں براہین احمدیہ کی اشاعت کے سلسلہ میں اس امر کا معلوم کرنا بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا.کہ اس کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں ہندوستان کے مسلمان
حیات احمد ۶۸ جلد دوم حصہ اوّل رؤساء اور امراء کو توجہ نہیں ہوئی.میں ایک خوش اعتقاد مرید کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک وقائع نگار کی حیثیت سے اس مسئلہ کو لیتا ہوں براہین احمدیہ کے متعلق دعوئی یہ کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت خاص سے یہ کتاب لکھی گئی ہے اور مؤلف نے مامور ہو کر اسے لکھا ہے اگر ہندوستان کے نواب اور والیان ریاست اس کتاب کی تائید کرتے تو خدا تعالیٰ کی خاص نصر توں کا پتہ نہ لگتا.حضرت نے اپنی طرف سے اتمام حجت کے لئے اس کتاب کی اعانت کے لئے تمام سر بر آورده رؤسا کو لکھا اور توجہ دلائی مگر صدائے برنخاست کا مضمون ہوا جن چند امراء یا مسلمان عہدہ داروں کو خیال ہوا اور انہوں نے کوئی امداد کی وہ ان کے نام کے ساتھ ایسی حقیر معلوم ہوتی ہے کہ کچھ کہا نہیں جا تا مثلاً نواب اقبال الدولہ مرحوم نے ایک سورو پیہ کی مدد کی یہ شخص اپنی فیاضی میں بینظیر تھا.اس کو ایک لا کھ دیدینا بھی کچھ بات نہ تھی مگر خدا کی مشیت نے ان سے صرف ایک سور و پیہ دلوایا اور وہ بھی بطور نشان تھا کیونکہ حضرت اقدس کو رویا میں دکھایا گیا تھا چنانچہ آپ نے صفحہ ۷ ۴۷ براہین احمدیہ کے حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ میں لکھا ہے: از انجملہ ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ ہوا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدر آباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اُس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ لکھا ہے.یہ خواب بھی بدستور روز نامہ مذکورہ بالا میں اسی ہندو کے ہاتھ سے لکھائی گئی اور کئی آریوں کو اطلاع دی گئی پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدر آباد سے خط آگیا اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا.فَالْحَمْدُ لِله عَلَى ذَالِك ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۶۹،۵۶۸) جن لوگوں نے براہین کی اشاعت کے لئے امداد دی ان کے اسماء پہلے صفحات میں بعض حواشی کے اندر آگئے ہیں مجھے بالتفصیل ان کو یہاں بیان نہیں کرنا بلکہ صرف اس امر پر روشنی ڈالنی ہے کہ امراء اور رؤساء نے اس کام میں کیا حصہ لیا.اس کے متعلق میں اپنی طرف سے کسی
حیات احمد ۶۹ جلد دوم حصہ اوّل امر کو پیش کرنا غیر ضروری سمجھتا ہوں خود حضرت کے کلام سے اسے بیان کر دیتا ہوں فرماتے ہیں: ”ہم نے صد ہا طرح کا فتور اور فساد دیکھ کر کتاب براہین احمدیہ کو تالیف کیا تھا اور کتاب موصوف میں تین سو مضبوط اور محکم علمی دلائل سے صداقت اسلام کو فی الحقیقت آفتاب سے بھی روشن تر دکھلایا گیا چونکہ یہ مخالفین پر فتح عظیم اور مؤمنین کے دل و جان کی مراد تھی اس لئے اُمراء اسلام کی عالی ہمتی پر بڑا بھروسہ تھا جو وہ ایسی کتاب لا جواب کی بڑی قدر کریں گے اور جو مشکلات اس کی طبع میں پیش آ رہی ہیں ان کے دور کرنے میں بدل و جان متوجہ ہو جائیں گے مگر کیا کہیں کیا لکھیں اور کیا تحریر میں لاویں.اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَاللهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى - بعض صاحبوں نے قطع نظر اعانت کے ہم کو سخت تفکر اور تر ڈو میں ڈال دیا ہے ہم نے پہلا حصہ جو چھپ چکا تھا اُس میں سے قریب ایک سو پچاس جلد کے بڑے بڑے امیروں اور دولتمندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجی تھیں اور یہ امید کی گئی تھی جو امرائے عالی قدر خریداری کتاب کی منظور فرما کر قیمت کتاب جواد نی رقم ہے بطور پیشگی بھیج دیں گے اور اُن کی اِس طور کی اعانت سے دینی کام بآسانی پورا ہو جائے گا اور ہزار ہا بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچے گا.اسی اُمید پر ہم نے قریب ڈیڑھ سو کے خطوط اور عرائض بھی لکھے اور بہ انکسار تمام حقیقت حال سے مطلع کیا مگر باستثناء دو تین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی نہ خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں مصارف ڈاک تو سب ضائع ہوئے لیکن اگر خدانخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا.افسوس جو ہم کو اپنے معزز بھائیوں سے بجائے اعانت کے تکلیف پہنچ گئی.“ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اصفحہ ۶۲ ۶۳ ) پھر اسی سلسلہ میں آپ ان امراء ورؤساء کو توجہ دلاتے ہیں کہ کتابوں کو بذریعہ ڈاک واپس
حیات احمد جلد دوم حصہ اول بھیج دیں ہم اسی کو عطیہ عظمی سمجھیں گے اور احسان عظیم خیال کریں گے ورنہ ہمارا حرج ہو گا اور گم شدہ حصوں کو دوبارہ چھپوانا پڑے گا.برائے خدا ہمارے معز ز اخوان سرد مہری اور لا پرواہی کو کام میں نہ لائیں اور دنیوی استغناء کو دین میں استعمال نہ کریں.امیدوار بود آدمی بخیر کساں مرا بخیر تو امید نیست بد مرسانی غرض امراء اور رؤساء نے نہایت حوصلہ شکن اور بعض صورتوں میں قابل شرم سلوک کیا.کتاب تو اکثروں نے واپس نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت بڑا حصہ کتاب کا نامکمل رہ گیا.چنانچہ آخر میں صرف چوتھی جلد ہی رہ گئی تھی اور اگر کسی نے کتاب بھیجی تو ایسی حالت میں کہ وہ ضائع کر دی گئی تھی یعنی اوراق پھٹ گئے اور داغ دھبوں سے خراب ہو چکی تھی.امیروں کی اس حالت پر آپ براہین کی چوتھی جلد کی اشاعت تک افسوس فرماتے رہے.قارئین کرام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ براہین احمدیہ کے ساتھ جو اشتہارات ہر جلد کے ساتھ شامل ہیں ان کو غور سے پڑھیں تو یہ حقیقت اُن پر آشکارا ہو جائے گی.نواب صدیق حسن خان صاحب کا واقعہ اسی سلسلہ میں نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالی کا واقعہ یہاں بیان کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں مجھے نواب صاحب کے سوانح حیات یہاں بیان کرنے مقصود نہیں.نواب صاحب بھوپال میں خدا تعالیٰ کی دین سے بہت بڑے درجہ اور رتبہ پر پہنچے.انہیں اشاعت کتب دینیہ اور تالیف کتب دینیہ کا مذاق اور شوق تھا.اہل حدیث فرقہ سے وہ تعلق رکھتے تھے اور مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب ایڈیٹر اشاعۃ السنہ ان کی تعریف اور شہرت کے لئے اپنے رسالہ کے ذریعہ پراپیگنڈہ کرتے بلکہ بعض اوقات وہ انہیں مجد د چودھویں صدی بھی کہتے تھے.حضرت اقدس کا تو اس وقت کوئی دعوئی نہ تھا.براہین کی اشاعت پر آپ نے نواب صاحب کو ایک خادم دین رئیس سمجھ کر اس کی اعانت کی طرف توجہ دلائی اور انہوں نے ابتداء وعدہ بھی کیا مگر بعد میں گورنمنٹ برطانیہ کے خوف سے دستکش ہو گئے.چنانچہ اس واقعہ کو حضرت اقدس نے اس وقت بلا اظہار ترجمہ:.انسان کولوگوں سے بھلائی کی امید ہوتی ہے، مجھے تجھ سے بھلائی کی امید نہیں میرے ساتھ برائی بھی تو نہ کر.
حیات احمد اے جلد دوم حصہ اول نام مگر ایسے رنگ میں کہ کنایہ صراحت سے بھی بڑھ گیا تحریر فرمایا.کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے.اس خاکسار نے ایک نواب صاحب کی خدمت میں جو بہت پارسا طبع اور متقی فضائل علمیہ سے متصف اور قال اللہ اور قال الرسول سے بدرجہ غایت خبر رکھتے ہیں کتاب براہین احمدیہ کی اعانت کے لئے لکھا تھا.سو اگر نواب صاحب ممدوح اس کے جواب میں لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کے لئے کچھ مدد کی جائے تو کچھ جائے افسوس نہ تھا مگر صاحب موصوف نے پہلے تو یہ لکھا کہ پندرہ ہیں کتابیں ضرور خرید لیں گے اور پھر دوبارہ یاد دہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خرید نایا انہیں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے.اس لئے ریاست سے خرید وغیرہ کچھ امید نہ رکھیں سو ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امید گاہ خدا وند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے) لیکن ہم بادب تمام عرض کرتے ہیں کہ ایسے ایسے خیالات میں گورنمنٹ کی ہجو ملیح ہے گورنمنٹ انگریزی کا یہ اصول نہیں ہے کہ کسی قوم کو اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے سے رو کے یا دینی کتابوں کی اعانت کرنے سے منع کرے.“ ( براہین احمدیہ جلد چہارم صفحہ ج.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۳۲۰) نواب صاحب نے جس گورنمنٹ کی خوشنودی کے لئے براہین احمدیہ کی اعانت اور اس کی خرید کے وعدہ کے ایفا کی پرواہ نہ کی تھی آخر وہ ان پر ناراض ہوگئی اور یہ بڑی دردناک داستان ہے ان کا خطاب نوابی بھی چھینا گیا اور نواب صاحب کی عافیت اس فکر و غم میں جاتی رہی ان کے مداحوں میں حافظ محمد یوسف ضلعدار امرتسر اور دوسرے اکابر اہلحدیث تھے.حافظ صاحب حضرت اقدس سے بھی اظہار ارادت کرتے تھے اور آپ کی دعاؤں پر انہیں بہت عقیدت تھی وہ اور چند اور آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوئے اور بمنت درخواست کی کہ اس
حیات احمد ۷۲ جلد دوم حصہ اوّل مصیبت میں دعا کے ذریعہ مدد کی جاوے حضرت اقدس کو اگر چہ نواب صاحب کی اس بے حسی پر بہت افسوس اور رنج تھا مگر خدا تعالیٰ کے پاک بندے اس کی کسی مخلوق سے کوئی کینہ اور عداوت نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنے دشمنوں تک کے لئے راحت و رحمت کا جوش رکھتے ہیں یہ آخری ایام تھے جب کہ ان لوگوں نے رجوع کیا اور وہ اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا چکے تھے اور نا کام رہ چکے تھے.حضرت نے دعائے خاص کا وعدہ کر لیا.اور اس وقت کسی قسم کی اعانت براہین سے انکار کر دیا.جو کچھ ہوا تھا وہ انہیں الفاظ کے اثر کے ماتحت ہوا تھا جو حضرت نے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے ) لکھے تھے نواب صاحب پر گورنمنٹ کے اس عتاب کا اس قدر اثر ہوا کہ ان کی صحت بگڑ گئی اور وہ سخت بیمار ہو گئے.حضرت نے دعا کی اور دعا واپسی خطاب نواب کے لئے تھی.خدا تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت بخشا مگر وقت آچکا تھا کہ نواب صاحب زندہ رہ کر پھر اس عزت خطاب کا حظ حاصل نہ کریں موت نے خاتمہ کر دیا مگر خطاب بحال ہو گیا.امرائے معاونین غرض مسلمان رؤسا اور امراء نے اس کی طرف توجہ نہ کی سوائے بعض کے ان کا ذکر حضرت نے خود براہین میں کر دیا ہے.اور آپ نے اُن کے اخلاص اور شوق اعانت دین کے تذکرے سے انہیں زندہ جاوید بنادیا ہے اُن کے اس نیک کام کا ذکر میں حضرت کے سوانح حیات میں حضرت ہی کے الفاظ میں کر دینا ضروری سمجھتا ہوں اس لئے حضرت اقدس کی غرض یہ تھی کہ : ہر یک مستفیض کہ جس کا اس کتاب سے (براہین احمدیہ مراد ہے ) وقت خوش ہو مجھ کو اور میرے معاونین کو دعائے خیر سے یاد کرے“ ( براہین احمدیہ جلد اول صفحہ الف.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵) اس لئے حضرت کے اس منشاء کی تکمیل کے لئے میں اُن معاونین کا جن کا حضور نے خود ذکر فرمایا ہے یہاں تذکرہ لازمی سمجھتا ہوں سب سے اول جو بزرگ اول المعاونین رؤسائے ہند
حیات احمد ۷۳ جلد دوم حصہ اول میں سے ہی نہیں تمام مسلمانانِ ہند میں سے کہلانے کے مستحق ہیں وہ حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب مرحوم پٹیالوی ہیں.اس وقت خلیفہ صاحب ریاست پٹیالہ کے پرائم منسٹر تھے.حضرت نے ان کی اعانت کے متعلق یہ تحریر فرمایا ہے : اس جگہ بطور تذکرہ خاص کے اس بات کا ظاہر کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کارِ خیر میں آج تک سب سے زیادہ حضرت خلیفہ سید محمد حسن خانصاحب بہادر وزیر اعظم و دستور معظم ریاست پٹیالہ سے اعانت ظہور میں آئی یعنی حضرت ممدوح نے اپنی عالی ہمتی اور کمال محبت دینی سے مبلغ دوسو پچاس روپیہ اپنی جیب خاص سے اور پچھتر روپیہ اپنے اور دوستوں سے فراہم کر کے تین سو چھپیں روپیہ بوجہ خریداری کتابوں کے عطا فرمایا.عالی جناب سید نا وزیر صاحب ممدوح الا وصاف نے اپنے والا نامہ میں یہ بھی وعدہ فرمایا ہے کہ تا اختتام کتاب فراہمی چندہ اور بہم رسانی خریداروں میں اور بھی سعی فرماتے رہیں گے اور نیز اسی طرح حضرت فخر الدولہ نواب مرزا محمد علا ؤالدین احمد خان صاحب بہادر فرمانروائے ریاست لوہارو نے مبلغ چالیس روپیہ کہ جن میں سے بیس روپیہ محض بطور اعانت کتاب کے ہیں مرحمت فرمائے اور آئندہ اس بارہ میں مدد کرنے کا اور بھی وعدہ فرمایا ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحہ۶،۵) نواب شاہ جہان بیگم صاحبہ رئیسہ بھو پال نے وعدہ امدا د فر مایا تھا مگر وہ نواب صدیق حسن خانصاحب کے سلسلہ خط و کتابت میں ختم ہو گیا.نواب سر وقار الامراء اقبال الدولہ حیدر آباد کا تذکرہ پہلے آچکا ہے کہ انہوں نے ایک سو روپیہ براہین کے ایک نسخہ کی قیمت میں بھیجا اور یہ حضرت اقدس کی ایک رؤیا کی بناء پر ہوا.خاکسار پر ا حاشیہ.نواب سر وقارالامرا اقبال الدولہ کے متعلق رویا میں نے صفحہ ۵۰ (موجودہ سیٹنگ کا صفحہ ۶۷) درج کر دی ہے.نواب صاحب مرحوم حیدر آباد کے امیر کبیر اور پرائم منسٹر تھے.آپ کا خاندان اپنے سلسلہ نسب میں حضرت گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ اولاد میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
حیات احمد ۷۴ جلد دوم حصہ اوّل عرفانی اس موقعہ پر یہ ذکر کرنے سے نہیں رک سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے نواب صاحب ممدوح کی اس اعانت کو قبول فرمایا اور ان کے وجود کو ایک آیۃ اللہ کا رنگ دے دیا.علاوہ بریں دنیا میں ان کے خاندان کی خدمت کا بعض اشد ضرورتوں کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ادنی خادم ( عرفانی) کو موقعہ دیا جو ہمیشہ یہی یقین کرتا ہے کہ یہ موقعہ نواب صاحب کی اسی اعانت کی قبولیت کے ثمرہ میں ملا ہے.اسی سلسله اعانت میں ضلع بلند شہر کے ایک رئیس تھے جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے حضرت کو منع کر دیا تھا اور اپنے اخلاص اور سری اعانت کا نمونہ دکھایا تھا میں اس کتاب کے پڑھنے والوں کو اسی رنگ میں اس بزرگ کے لئے دعا کی تحریک کرتا ہوں.پھر ایک عہدہ دار محمد افضل خان نام نے ایک سو دس روپیہ اور نواب صاحب مالیر کوٹلہ نے تین نسخہ کی قیمت میں سو روپیہ بھیجا.یہ تو مسلم رؤسا کی اعانت کا تذکرہ تھا.مگر براہین احمدیہ کی اشاعت و اعانت کی توفیق ایک سکھ رئیس سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لودھیانہ (بہدوڑ ) کو بھی ملی.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں کہ :- سرا در عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لودھیانہ نے کہ جو ایک ہندو رئیس ہیں اپنی عالی ہمتی اور فیاضی کی وجہ سے بطور اعانت ۲۵ روپے بھیجے ہیں.سردار صاحب نے ہندو ہونے کی حالت میں اسلام سے ہمدردی ظاہر کی.“ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۳۱۹) سردار صاحب ایک بے تعصب اور علم دوست رئیس تھے انہوں نے اپنے ذاتی صرفہ سے بقیہ حاشیہ.تک پہنچتا ہے اور اس طرح پر یہ خاندان فاروقی ہے.اعلیٰ حضرت نظام حیدر آباد کے خاندان سے اس خاندان کو تعلقات قرابت ہیں چنانچہ مرحوم نظام آپ کے ماموں زاد بھائی تھے اور اعلیٰ حضرت حال خَلَّدَ اللهُ مُلک کے آپ پھوپھا تھے.یہ خاندان حیدر آباد میں بہت معزز اور واجب الاحترام سمجھا جاتا ہے.(عرفانی)
حیات احمد ۷۵ جلد دوم حصہ اول لدھیانہ میں ایک بہت بڑی پبلک لائبریری قائم کر رکھی تھی اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت اقدس کے ہی ایک خادم منشی عمر الدین صاحب مرحوم و مغفور کو آخری موقع ملا کہ وہ سرا در صاحب کی خدمت میں رہ کر اعتماد حاصل کریں.سردار صاحب اُن کی دیانت اور محنت اور وفاداری کی تعریف کرتے تھے اور وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک ان کی ملازمت میں ہی رہے.ریاست جونا گڑھ کے مدارالمہام کی امداد رؤسائے ہند کے سلسلہ امداد میں آخری نام جناب شیخ محمد بہاء الدین صاحب مدار المهام جونا گڑھ کا ہے شیخ صاحب نے براہین احمدیہ کی اعانت کے لئے پچاس روپیہ دیئے.شیخ صاحب کی امداد اپنی قیمت و کمیت کے لحاظ سے کچھ بھی ہولیکن یہ امداد ایک رنگ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور نشان کے تھی.اس لئے کہ حضرت اقدس کو قبل از وقت اس کے متعلق رؤیا میں دکھایا گیا تھا چنانچہ آپ فرماتے ہیں:- ”ہم کو یاد ہے کہ محرم ۱۲۹۹ ہجری کی پہلی یا دوسری تاریخ میں ہم کو خواب میں یہ دکھائی دیا کہ کسی صاحب نے مدد کتاب کے لئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں.اُسی رات ایک آریہ صاحب نے بھی ہمارے لئے خواب دیکھی کہ کسی نے مدد کتاب کے لئے ہزار روپیہ روانہ کیا ہے اور جب انہوں نے خواب بیان کی تو ہم نے اُسی وقت اُن کو اپنی خواب بھی سنا دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری خواب میں اُنیس حصے جھوٹ مل گیا ہے اور یہ اسی کی سزا ہے کہ تم ہندو اور دینِ اسلام سے خارج ہو.شاید اُن کو گراں ہی گزرا ہو گا مگر بات سچی تھی جس کی سچائی پانچویں یا چھٹے محرم میں ظہور میں آ گئی.یعنی پنجم یا ششم محرم الحرام میں مبلغ پچاس روپے جن کو جونا گڑھ سے شیخ محمد بہاء الدین صاحب مدار المہام ریاست نے کتاب کے لئے بھیجا تھا.کئی لوگوں اور ایک آریا کے روبرو پہنچ گئے وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِك “ ( براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۵۵ ۲۵۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر ا.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۸۴٬۲۸۳)
حیات احمد ۷۶ جلد دوم حصہ اوّل یہاں تاریخی واقعہ کا تعلق ہے اس لئے میں اتنا کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ آریہ جس کے خواب کا ذکر ہے لالہ شرمپت رائے صاحب تھے.رؤسائے وائسرائے ہند میں سے قریباً یہی لوگ تھے جنہوں نے براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت ابتداء حصہ لیا اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول کرے اور ان کے ساتھ اپنے فضل و رحمت کا سلوک فرمائے.آمین.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایسے وقت اعانت میں حصہ لیا کہ آپ نے کوئی دعوی نہ کیا تھا اور دنیا کے لوگ آپ کے مقام اور شان سے ناواقف تھے بلکہ آپ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا ایسے وقت میں ان لوگوں کا اعانت کے لئے کھڑا ہونا ایک نشانِ نصرت تھا.عوام میں سے معاونین عوام میں سے جن لوگوں نے براہین کی اشاعت میں مدد دینے کا کام کیا ان میں سے میر عباس علی لود بانوی کا نام سب سے اول رہ گیا.میر صاحب کے تذکرہ کے ساتھ دل میں ایک درد پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص آخر میں ان برکات اور فضلوں سے محروم ہو گیا جو حضرت اقدس کے ذریعہ دنیا میں آئیں.اس کی شامت اعمال نے اسے منکرین کے صف میں کھڑا کر دیا اور اسی پر خاتمہ ہوا.حضرت مسیح موعود " کو اس کے اپنے مقام سے گر جانے کی خبر خدا تعالیٰ نے دے دی تھی.اور حضرت نے اس کو اپنے مکتوبات میں اشارتاً اس کی طرف توجہ بھی دلائی تھی.لیکن وہ کشوف اور رویا آپ کے ایسے زمانہ کے تھے کہ میر عباس علی صاحب اَوَّلُ النَّاصِرِین نظر آتے تھے ان کی ارادت اور عقیدت ترقی کر رہی تھی.اُس وقت حضرت نے اُن کو وہ رؤیا لکھی جس سے پایا جا تا تھا کہ میر عباس علی صاحب کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو گیا.مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی اشاعة السنه میں براہین پر ایک مبسوط ریویو لکھ کر اس کی اشاعت کے لئے تحریک کی مگر افسوس ہے کہ دعوی مسیح موعود پر یہ شخص بھی اول الکافرین ہوکر مخالفت کے لئے کھڑا ہوا خدا نے اس کے رجوع کرنے کی خبر دی تھی اس کی زندگی کے آخری ایام نے یہ بتا دیا تھا کہ وہ رجوع کر چکا ہے بہر حال حضرت کی زندگی میں اسے یہ توفیق نہ ملی.اب اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.میرا اپنا یہ
حیات احمد 22 جلد دوم حصہ اوّل مذہب ہے کہ غفور الرحیم خدا اس خدمت کا اجر اُسے ضرور دے گا جو اُس نے براہین کے وقت کی تھی اور حضرت نے اس کے لئے جو دعائیں کی تھیں وہ ضائع نہ جائیں گی.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب.میر عباس علی صاحب کی امداد کا طریق یہ نہ تھا کہ وہ خود کوئی مالدار آدمی نہ تھے اور نہ روپیہ دیتے تھے بلکہ انہوں نے براہین کے خریداروں کے فراہم کرنے کی کوشش کی.ان خریداروں میں سے بعض سعید الفطرت ایسے لوگ نکل آئے جو بالآخر اس سلسلہ میں داخل ہو کر اپنے مقصدِ حیات کو پا گئے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو انہوں نے حاصل کیا ان بزرگوں کے نام یہاں مجھے دینے کی ضرورت نہیں اس کے لئے کوئی دوسرا مقام ہے.بعض ایسے بزرگ بھی تھے جو براہِ راست براہین احمدیہ کے خریدار ہوئے اور انہوں نے اس کی اشاعت کے لئے پوری کوشش کی ان میں سے چود ہری رستم علی خانصاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ کا نام ہمیشہ فخر سے لیا جائے گا.غرض براہین احمدیہ ان حالات میں لکھی گئی اور طبع ہونی شروع ہوئی معاونین کا یہ حال تھا.اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ مخالفین کا بھی کسی قدر ذکر کر دوں.براہین احمدیہ پر جو ریویو لکھے گئے ہیں ان کے متعلق میرا اس وقت یہ خیال ہے کہ اگر ضرورت سمجھی گئی تو اس جلد کے مکمل ہو جانے پر بطور ضمیمہ ایک جلد میں انہیں شائع کر دیا جائے گا یا ان کے بعض ضروری حصوں کو مناسب موقعہ پر دے دیا جائے گا.اِنْشَاءَ اللَّهُ الْعَزِيْزُ وَ بِاللَّهِ التَّوْفِيقِ براہین احمدیہ کے مخالفین اور معاندین براہین احمدیہ کے اعلان کے ساتھ عام طور پر مخالف وموافق گروہ میں ایک شور اور جوش پیدا ہوا.اوّل الذکر گروہ کو خیال تھا کہ ان کے مذہب اور عقیدہ پر ایک حربہ اور حملہ کیا جاوے گا.اور آخر الذکر لوگ منتظر تھے کہ جو کتاب ایسے دعاوی اور تحدی کے ساتھ شائع ہونے والی ہے وہ کوئی غیر معمولی کتاب ہو گی.مخالفین دو قسم کے لوگ تھے اندرونی اور بیرونی.باوجود یکہ یہ کتاب حقیقت اسلام اور صداقت محمدیہ کے اظہار کے لئے لکھی جا رہی تھی مگر پھر بھی بدقسمتی سے
حیات احمد ZA جلد دوم حصہ اول اندرونی مخالفین مسلمانوں کے بعض کوارٹرز میں مخالفت کا ہلکا سا دھواں اٹھتا دکھائی دیا اور جوں جوں کتاب کی جلدیں شائع ہونے لگیں مخالفت کے دائرہ میں بھی وسعت ہوتی گئی.اندرونی مخالفت کی آگ اس وقت شدت سے بھڑک اٹھی جب آپ نے حصہ سوم شائع کیا یا برا ہین کی تصنیف اور اشاعت کے تاریخی سلسلہ کے لحاظ سے یوں کہنا چاہیئے کہ اندرونی مخالفین میں ۸۱-۱۸۸۲ء میں شورش پیدا ہوئی اس لئے کہ حصہ سوم میں آپ نے یہ دعوی کھلے الفاظ میں کر دیا تھا کہ جس کو الہام میں شک ہو ہم اس کو مشاہدہ کرا دیتے ہیں چنانچہ آپ نے حاشیہ نمبر 11 کے صفحہ ۲۱۶ - ۲۱۷ میں اعلان کیا کہ :- جو کچھ ہم نے الہام کی نسبت بیان کیا ہے یعنی یہ کہ وہ اب بھی امت محمدیہ کے کامل افراد میں پایا جاتا ہے اور انہیں سے مخصوص ہے ان کے غیر میں ہرگز نہیں پایا جا تا یہ بیان ہمارا بلا ثبوت نہیں بلکہ جیسا بذریعہ تجربہ ہزار ہا صداقتیں دریافت ہو رہی ہیں ایسا ہی یہ بھی تجربہ اور امتحان سے ہر ایک طالب پر ظاہر ہوسکتا ہے اور اگر کسی کو طلب حق ہو تو اس کا ثابت کر دکھانا بھی ہمارا ہی ذمہ ہے بشرطیکہ کوئی برہمو اور منکر دین اسلام کا طالب حق بن کر اور بصدق دل دینِ اسلام قبول کرنے کا وعدہ تحریری مشتہر کر کے اخلاص اور نیک نیتی اور اطاعت سے رجوع کرے.فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ “ ( ال عمران :۶۴) (براہین احمدیہ ہر چہار حصص صفحہ ۲۱۶ حاشیہ نمبر ۱۱.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۴۰ حاشیہ نمبر۱۱) حضرت اقدس نے یوں تو براہین کے متعلق ہی لکھا تھا کہ مامور اور ملہم ہو کر تالیف کر رہا ہوں لیکن جب اس قسم کا دعویٰ مشتہر کیا گیا تو مخالفین میں ایک جوش پیدا ہو گیا.
حیات احمد ۷۹ جلد دوم حصہ اوّل اندرونی مخالفین کے مرکز اور ان کی مخالفت کے نمایاں آثار اندرونی مخالفین کی مخالفت کے دو مرکز قائم ہوئے اول امرتسر دوم لودھیانہ.یہ مخالفت ابتداءً تو محض تقریروں اور وعظوں میں تھی مگر جوں جوں کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت بڑھتی گئی اور لوگوں میں اس کی قبولیت کا اثر ہونے لگا تو مخالفین اور معاندین کے اس گروہ کی سرگرمیاں بھی تقریر کے میدان سے نکل کر تحریر کے دائرے میں آنے لگیں.مولوی غلام علی صاحب قصوری کی مخالفت امرتسری محاذ کے سپہ سالار مولوی غلام علی قصوری تھے.مولوی غلام علی صاحب قصوری سے خاکسار عرفانی کو نیاز حاصل نہیں ہوا لیکن ان کے بھائیوں مولوی غلام اللہ اور مولوی ولی اللہ صاحب سے نہ صرف شناسائی حاصل تھی بلکہ گونہ بے تکلفی کی عزت حاصل تھی.مولوی غلام علی صاحب اپنے علم کے لحاظ سے امرتسر میں ممتاز تھے اور ان کی خدمت میں لوگ حصول تعلیم کے لئے آتے تھے ہمارے سلسلہ کے ایک مخلص عالم با عمل سید قاضی امیر حسین صاحب رضی اللہ عنہ نے بھی کچھ عرصہ تک مولوی صاحب سے تحصیل علم کی تھی.بہر حال مولوی غلام علی صاحب ایک ذی علم اور مُشَارٌ إِلَيه شخص تھے انہوں نے حضرت اقدس کے دعوی الہام کو سن کر وحی اور الہام کے متعلق ایک رسالہ لکھا جس میں اپنے خیال کے موافق ممکن ہے اونہوں نے وحی اور الہام کی حقیقت بیان کی ہو مگر سچ یہ ہے کہ انہوں نے برہمو ازم کے اصول پر الہام کا انکار کیا ہے ، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ برا ہمو جس طرح الہام کی حقیقت کو مانتے ہیں وہی تعریف اور اصول مولوی صاحب نے بیان کی.اس سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ انہوں نے اولیاء اللہ کے الہام سے انکار کیا ہے.خود حضرت اقدس کے دل پر بھی ان کے رسالہ کو پڑھ کر یہی اثر تھا.چنانچہ حاشیہ در حاشیہ نمبر اصفحہ ۷اللہ میں حضرت نے مولوی صاحب کے رسالہ پر بحث کی ہے.لے براہین احمدیہ ہر چہار قصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۱ حاشیه در حاشیہ نمبرا
حیات احمد ۸۰ جلد دوم حصہ اول مولوی غلام علی صاحب نے کھلم کھلا حضرت اقدس کی مخالفت نہیں کی بلکہ اپنے علم وفکر کے لحاظ سے اصولی طور پر ایک مسئلہ لے کر اس کی تردید کی اور بخیال خویش اس کی توضیح کی اور اس طرح پر ضمناً حضرت اقدس کے دعویٰ الہام کی تغلیط کرنے کی کوشش کی.امرتسری مخالفت عداوت کا نتیجہ نہ تھی بلکہ ناواقفیت کا مولوی غلام علی صاحب قصوری نے اس سے زائد کوئی مخالفت اور کھلم کھلا اعلان جنگ یا اظہار عداوت نہیں کیا اور اس کے بعد وہ خاموش ہو کر رہ گئے.اس لئے یہ کہنا حسن ظن کے طور پر صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ان کے انکار اور مخالفت کی جڑ شرارت نہ تھی.میرے اس خیال کے تصدیق مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ لاہور بھی کرتے ہیں.مولوی صاحب کا رسالہ ان ایام میں ایک بہت بڑی اتھارٹی اور طاقت سمجھا جاتا تھا.اور ان کے علم وفضل کی ایک دھاک تھی وہ اپنے رسالہ اشاعۃ السنه جلد ۶ نمبر ۶ میں امرتسری مخالفین کے متعلق لکھتے ہیں ( متن میں ).ان کے اس انکار و کفران کا مورد و موجب مؤلف کتاب کے وہی الہامات ہیں جو اس کتاب کے اخص برکات سے ہیں.ان الہامات کو بعض مسلمان امرتسری تو صرف غیر صحیح و غیر ممکن و نا قابل تسلیم بتاتے ہیں اور بعضے (لو دہانہ والے ) ان کو کھلم کھلا کفر قرار دیتے ہیں.فریق اول (امرتسری مسلمان ) اپنے انکار کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ الہام غیبی ( جو ہم رنگ وحی ہے ) بجز انبیاء کسی کو نہیں ہوسکتا اور آج تک کسی کو نہیں ہوا اور اگر طبعی خیالات و خطرات مراد ہیں تو ان کو دل سے خصوصیت ہے.یہ خطرات تو خود انسان بلکہ حیوان یکھی.وغیرہ کو بھی ہوتے ہیں.“ (اشاعة السنه جلد ۶ نمبرے صفحہ ۱۷۰، ۱۷۱) اور اس پر حاشیہ میں لکھتے ہیں.امرتسر کے مسلمانوں کے اس انکار کا باعث ان کی نا نہیں اور بے ذوقی اور کسی قدر عموماً اہل اللہ واہل باطن سے گوشہ تعصبی ہے ان کو خاص کر
حیات احمد ΔΙ جلد دوم حصہ اول مؤلّف براہین سے کچھ عداوت نہیں“.مولوی غلام علی صاحب کی پوزیشن اس حد تک صاف ہے اور انہوں نے اس کے بعد عملی اسٹیپ نہیں لیا.حضرت نے براہین میں اُن کے رسالے پر بحث کر کے حاشیہ در حاشیہ نمبر میں اپنے دعوے کے اثبات پر زور دیا.اس حاشیہ در حاشیہ کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس نے وحی اور الہام میں کوئی فرق نہیں کیا اور پُر شوکت دلائل سے بتایا ہے کہ یہ مترادف ہیں.مولوی غلام علی صاحب کے عقیدے کا زہر اُن کے بعض شاگردوں میں بھی پھیل گیا تھا.چنانچہ ایک شخص حافظ نور احمد صاحب (جن کو میں نے خود دیکھا ہے اور حضرت اقدس کے متعلق وہ نیک خیالات اور عقیدت رکھتے تھے گو وہ با قاعدہ سلسلہ میں داخل نہ ہو سکے حضرت اقدس کی مہمان نوازی اور مگارمِ اخلاق کی بہت تعریف کرتے تھے.عرفانی) قادیان آیا.اور حضرت اقدس اس وقت براہین کی تصنیف میں مصروف تھے وہ حضرت صاحب کا مہمان ہوا.حضرت کے حضور اپنے خیالات دربارہ الہام کا ذکر کیا اور حضرت نے معقول طور پر بہت کچھ سمجھایا مگر اثر نہ ہوا آخر توجه إلى الله تک نوبت پہنچی اور خدا تعالیٰ نے ایک نشان ظاہر کر دیا.حضرت نے اس اجمال کی تفصیل براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۷۱ تا ۴۷۲ کے حاشیہ در حاشیہ نمبر سات میں کی ہے.اس کے بعد حافظ نوراحمد صاحب نے اس عقیدہ سے توبہ کر لی تھی اور وہ حضرت اقدس کے ساتھ اظہار عقیدت کرتا رہا.ابتدائی زمانہ دعوئی مسیح موعود میں ہم لوگ اسی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے جہاں حافظ نور احمد صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے اور حافظ نور احمد کبھی مخالفت نہیں کیا کرتے تھے مگر بعد میں اہل محلہ کو بعض لوگوں نے بھڑکایا اور حافظ بھی مجبور ہو گیا اور ہم لوگوں نے بھی اس مسجد کو چھوڑ دیا.لود ہانہ کے مخالفین کی وجہ مخالفت لودہانہ کے مخالفین نے جو علم مخالفت آپ کے خلاف بلند کیا اس کی وجوہات اور اسباب مذہبی اور سیاسی دونوں تجویز کئے گئے تھے.دراصل وجہ مخالفت تو محض عداوت اور بغض تھا لیکن د روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲ ۵ تا ۵۶۵ - حاشیه در حاشیه نمبر ۳
حیات احمد ۸۲ جلد دوم حصہ اول اپنے تقدس اور عالمانہ شان کو قائم رکھنے کے لئے مخالفت کے اسباب مذہبی قرار دئے اور پھر گورنمنٹ کو بدظن کرنے کے لئے سیاسی وجوہات پیدا کر لی گئیں اور وہ مخالفت میں ترقی کرتے چلے گئے.مذہبی نکتہ چینی کیا تھی اس کی تصریح میں اس وقت غیر ضروری سمجھتا ہوں مختصر یہ کہ وہ حضرت اقدس کے الہامات کو ادعائے نبوت قرار دیتے تھے (نبوت سے ایسی نبوت مراد ہے جو حامل شریعت ہو.عرفانی ) اور اسی سلسلہ میں وہ بعض الہامات کی صرفی نحوی غلطیاں ( بخیال خویش) قرار دے کر ان کا انکار کرتے یا یہ کہ غیر ضروری زبانوں میں الہام ہوتے ہیں.اس لود بانوی گروہ کی غرض اس مخالفت کے اعلان سے یہ تھی کہ حضرت اقدس کو ایک طرف عوام میں بدنام کریں اور مسلمان جو اُن کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اس سے روکیں اور دوسری طرف سیاسی رنگ میں بدنام کریں، گورنمنٹ کو اکسائیں.پہلے مقصد کے لئے انہوں نے آپ کے خلاف فتوی کفر کی تجویز کی اور دوسرے مقصد کے لئے حکومت سے چغلیاں کھانی شروع کیں اور کہا کہ یہ کتاب براہین گورنمنٹ کے مخالف ہے چنانچہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب ایڈیٹر اشاعة السنه کی شہادت درج ذیل ہے.لود بانوی حاسدین کی نکتہ چینی بعض حاسدین کو نہ اندیش (لودھیانہ کے مدعیان اسلام ) نے اس نکتہ چینی ( مذہبی.عرفانی) کے علاوہ اس پر پولیٹیکل نکتہ چینی بھی کی ہے اور بوجہ شدت حسد و عناد و بغض فتنہ و فساد بعض لودھیانہ کے عوام میں یہ بات شائع کر دی ہے کہ یہ کتاب گورنمنٹ کی مخالف ہے اور اس کے مؤلف نے پیشوائی مذہب کے علاوہ پولیٹیکل سرداری کا بھی اس میں دعویٰ کیا ہے.اپنے آپ کو مسیح قرار دیا ہے.اور اپنے غلبہ اور فتح کی بشارتیں اور اپنے مخالفین کی شکست و ہزیمت کی خبریں اس میں درج کی ہیں اشاعۃ السنه جلدے نمبر ۶ پھر مولوی ابوسعید صاحب لود بانوی معاندین کی مخالفت کی وجوہات پر مزید روشنی اسی ریویو کے ایک حاشیہ میں اسی مقام پر یوں ڈالتے ہیں.حملا حاشیہ.مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے لودھانوی مخالفین کی مخالفت کے وجوہات و اسباب پر مزید روشنی اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر 1 کے اسی مقام کے متعلق ایک حاشیہ لکھ کر ڈالی ہے اس کے
حیات احمد ۸۳ جلد دوم حصہ اول بیرونی مخالفین یہاں تک تو میں نے براہین احمدیہ کے اندرونی مخالفین کا ذکر کیا ان کے علاوہ براہین کی مخالفت کے لئے بیرونی دشمنوں ہندوؤں اور عیسائیوں میں جوش پیدا ہوا اور ہر ایک قوم نے اپنی پوری قوت اور متحدہ طاقت سے اس نور حق کی مخالفت کے لئے کوشش کی مگر جس نور کے اتمام کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے وہ مخالفین کی پھونکوں سے کس طرح بجھایا جا سکتا ہے.یہ مخالفت جلد اوّل بقیہ حاشیہ.پڑھنے سے قارئین کرام کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت کی مخالفت کے اسباب اس وقت کیا تھے.چنانچہ مولوی ابو سعید صاحب لکھتے ہیں (نوٹ.لائق توجہ گورنمنٹ ) اس انکار و کفران پر باعث لو دیا نہ کے بعض مسلمانوں کو تو صرف حسد و عداوت ہے.جس کے ظاہری دوسبب ہیں.ایک یہ کہ ان کو اپنی جہالت ( نہ اسلام کی ہدایت) سے گورنمنٹ انگلشیہ سے جہاد و بغاوت کا اعتقاد ہے اور اس کتاب میں اس گورنمنٹ سے جہاد و بغاوت کو نا جائز لکھا ہے.لہذا وہ لوگ اس کتاب کے مؤلف کو منکرِ جہاد سمجھتے ہیں اور از راہ تعصب و جہالت اُس کے بغض و مخالفت کو اپنا مذ ہی فرض خیال کرتے ہیں مگر چونکہ وہ گورنمنٹ کے سیف و اقبال کے خوف سے علانیہ طور پر اُن کو منکر جہاد نہیں کہہ سکتے اور نہ سر عام مسلمانوں کے روبرو اس وجہ سے اُن کو کا فر بنا سکتے ہیں لہذا وہ اس وجہ کفر کو دل میں رکھتے ہیں اور بجز خاص اشخاص ( جن سے ہم کو یہ خبر پہنچی ہے ) کسی پر ظاہر نہیں کرتے اور اس کا اظہار دوسرے لباس و پیرایہ میں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ براہین احمدیہ میں فلاں فلاں امور کفریہ دعوی نبوت اور نزول قرآن اور تحریف آیات قرآنیہ پائی جاتی ہیں ) اس لئے اس کا مؤلف کا فر ہے.موقعه جلسه دستار بندی مدرسہ دیوبند پر یہ حضرات بھی وہاں جا پہنچے اور لمبے لمبے فتویٰ تکفیر مؤلّف براہین احمدیہ کے لکھ کر لے گئے اور علماء دیوبند و گنگوہ وغیرہ سے ان پر دستخط ومواہیر ثبت کرانے کے خواستگار ہوئے مگر چونکہ وہ کفر اُن کا خانہ ساز کفر تھا جس کا کتاب براہین احمدیہ میں کچھ اثر نہ پایا جاتا تھا.لہذا علماء دیوبند اور گنگوہ نے ان فتووں پر مہر و دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور ان لوگوں کو تکفیر مؤلّف سے روکا.اور کوئی ایک عالم بھی اُن کا اس تکفیر میں موافق نہ ہوا.جس سے وہ بہت ناخوش ہوئے اور بلا ملاقات وہاں سے بھاگے اور كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَة کے
حیات احمد ۸۴ جلد دوم حصہ اوّل کی اشاعت کے ساتھ شروع ہو گئی بلکہ براہین احمدیہ کی تصنیف اور اشاعت کے اعلان کے ساتھ ہی شور مخالفت اٹھا.لیکن جب پہلی جلد کی اشاعت ہوئی تو مخالف کیمپ میں ایک کھلبلی سی مچ گئی.اس مخالفت کا اظہار اخبار سفیر ہند امرتسر.نورافشاں لو دہانہ.اور رسالہ ودیا پر کا شک امرتسر میں کیا گیا.نورافشاں اور سفیر ہند میں تو پادری صاحبان نے اور ودیا پر کا شک میں آریوں نے طوفان بے تمیزی برپا کیا.ودیا پر کا شک کے ایڈیٹر باوا نرائن سنگھ صاحب وکیل امرتسر تھے.خاکسار عرفانی کو باوا صاحب سے ان کی زندگی میں متعدد مرتبہ ملنے کا اتفاق ہوا بلکہ بعض کاموں میں وہ میرے ساتھ متحدہ اغراض کے لئے ملتے رہے.وہ ان ملاقاتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زور قلم اور قوت استدلال کے قائل تھے.ودیا پر کا شک میں بڑے زور کے ساتھ براہین کی تردید اور جواب کے دعوی کئے گئے ایسا ہی سفیر ہند اور نورافشاں میں بھی ان لوگوں نے صرف تردید اور تکذیب کے اعلان ہی نہیں کئے بلکہ سب وشتم سے بھی کام لیا جس کا شکوہ حضرت مسیح موعود کو کرنا پڑا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.بقیہ حاشیہ.مصداق بنے.ناظرین اُن کا یہ حال سن کر متعجب اور اس امر کے منتظر ہوں گے کہ ایسے دلیر اور شیر بہادر کون ہیں جو سب علماء وقت کے مخالف ہو کر ایسے جلیل القدر مسلمان کی تکفیر کرتے ہیں اور اپنی مہربان گورنمنٹ (جس کے ظلّ حمایت میں با امن شعار مذہبی ادا کرتے ہیں ) جہادکو جائز سمجھتے ہیں ان کے دفع تعجب اور ترفع انتظار کے لئے ہم ان حضرات کے نام بھی ظاہر کر دیتے ہیں.مولوی عبد العزیز اور مولوی محمد وغیرہ پسران مولوی عبد القادر ہیں.جن سب کا ۱۸۵۷ء سے باغی و بدخواہ گورنمنٹ ہونا ہم اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد ۶ وغیرہ میں ظاہر و ثابت کر چکے ہیں اور اب بھی پبلک طور پر سرکاری کاغذات کی شہادت سے ثابت کرنے کو موجود و مستعد ہیں اگر وہ یا ان کا کوئی نا واقف معتقد اس سے انکار کرے.دوسرا سبب یہ کہ انہوں نے باستعانت وغیرہ معزز اہلِ اسلام لودہانہ (جن کی نیک نیتی اور خیر خواہی ملک وسلطنت میں کوئی شک نہیں ) بمقابلہ مدرسہ صنعت کاری انجمن رفاہ عام ایک مدرسہ قائم کرنا چاہا تھا اور اس مدرسہ کے لئے لودہا نہ میں چندہ جمع ہو رہا تھا کہ ان ہی دنوں مؤلف براہین احمدیہ
حیات احمد ۸۵ جلد دوم حصہ اول کئی ایک پادری صاحبوں اور ہندو صاحبوں نے جوش میں آکر اخبار سفیر ہند اور نو را فشاں اور رسالہ و ڈ یا پر کا شک میں ہمارے نام طرح طرح کے اعلان چھپوائے ہیں جن میں وہ دعوی کرتے ہیں کہ ضرور ہم رڈ اس کتاب کی لکھیں گے اور بعض صاحب ڈوموں کی طرح ایسے ایسے صریح ہجو آمیز الفاظ استعمال میں لائے ہیں کہ جن سے اُن کی طینت کی پا کی خوب ظاہر ہوتی ہے گویا وہ اپنی او باشانہ تقریروں سے ہمیں ڈراتے اور دھمکاتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ ہم تو ان کی تہہ سے واقف ہیں اور اُن کے جھوٹے اور ذلیل اور پست خیال ہم پر پوشیدہ نہیں.سو اُن سے ہم کیا ڈریں گے اور وہ کیا ڈراویں گے آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں.افلاطون بن جاویں، بیکن کا اوتار دھاریں، ارسطو کی نظر فکر لاویں، اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلِهَ بَاطِلَہ.اور جب تک اس کتاب کا جواب نہ دیں تب تک بازاروں میں عوام کا لانعام کے سامنے اسلام کی تکذیب کرنا یا ہنود کے مندروں میں بیٹھ کر ایک وید کو ایشر کرت اور ست وڈیا اور باقی سارے پیغمبروں کو مفتری بیان کرنا صفت حیا و شرم سے دور سمجھیں.“ (براہین احمدیہ حصہ دوم صفحہ ۲ و ۳ ٹائٹل پیج.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۵ تا ۵۷) بقیہ حاشیہ.باستد عا اہلِ اسلام اور ہانہ میں پہنچ گئے اور وہاں کے مسلمان ان کے فیض زیارت اور شرف صحبت سے مشرف ہوئے.ان کی برکات اور اثر صحبت کو دیکھ کر اکثر چندہ دینے والے ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس چندہ کے بہت سے روپیہ طبع و اشاعت براہین احمدیہ کے لئے مؤلف کی خدمت میں پیش کش کئے گئے.اور مولوی صاحبان مذکور تہی دست ہو کر ہاتھ ملتے رہ گئے.اس امر نے بھی ان حضرات کو بھڑکا یا اور مؤلف کی تکفیر پر آمادہ کیا.جن کو ان باتوں کے صدق میں شک ہو وہ ہم کو اس امر سے مطلع کرے ہم اور ہانہ سے عمدہ اور واضح طور پر ان باتوں کی تصدیق کرا دیں گے.وَ بِاللهِ التَّوْفِيقِ (اشاعة السنه نمبر ۶ جلد ۷ صفحه ۱۷۰ تا ۱۷۲ حاشیہ)
حیات احمد ۸۶ جلد دوم حصہ اوّل جس قوت اور شوکت کے ساتھ آپ نے ان مخالفین پر اتمام حجت کیا ہے وہ اس سارے اشتہار کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے آپ کو اپنی کامیابی اور مخالفین کے ناکام رہنے کا اس قدر بصیرت افروز یقین تھا کہ آخر میں انہیں خطاب کر کے کہا.سچ سچ کہوا گر نہ بنا تم سے کچھ جواب پھر بھی یہ منہ جہاں کو دکھاؤ گے یا نہیں غرض ایک طوفان بے تمیزی بلند ہوا.آپ نے اس کی پرواہ نہ کی اور کتاب کی مجلدات وقتا فوقتاً شائع ہوتی رہیں ان بیرونی مخالفین میں سے پادری جی ایل ٹھاکر داس اور بر ہموؤں میں سے پنڈت سیتا نند اگنی ہوتری نے براہین پر ریویو نگاری کے رنگ میں اعتراضات کئے اور آریوں میں سے مقتول لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی لیکن ان میں سے کسی کو یہ جرات اور حوصلہ نہ ہوا کہ وہ میدانِ مقابلہ میں آ کر براہین کے اعلان کے موافق فیصلہ کرتے.میں جیسا کہ لکھ چکا ہوں براہین کے ریویوز کے لئے ایک الگ باب رکھتا ہوں اس لئے یہاں ان کے متعلق کچھ کہنا غیر ضروری ہے.یہ بیان صرف اس حیثیت سے کیا جاتا ہے کہ براہین کی مخالفت میں اندر اور باہر سے ایک شور برپا ہوا لیکن اس شور نے آپ کی ہمت اور حوصلہ پر کوئی اثر نہیں ڈالا.نہ بیرونی مخالفوں کی قوت اور وسائل مخالفت کی وسعت مؤثر ہوسکی اور نہ اندرونی مخالفین کی عام مسلمین میں بدظنی اور بداعتقادی پیدا کرنے کے منصوبوں نے آپ کو شکستہ خاطر کیا.جو شخص ان حالات پر جو اس وقت پیدا ہو گئے تھے غور کرتا ہے وہ یقیناً اس نتیجہ پر آتا ہے کہ یہ انسانی تدابیر کا کام نہیں تھا بلکہ اس کی پشت پر نصرت ربانی تھی.
حیات احمد ۸۷ الہامات کے لئے روز نامچہ نولیس کا تقرر جلد دوم حصہ اول جن ایام میں آپ براہین احمدیہ کی تصنیف میں مصروف تھے اور اللہ تعالیٰ کے مکالمات و مخاطبات سے بھی آپ مشترف ہو رہے تھے چونکہ ان میں خدا تعالیٰ بعض غیب کی خبریں آپ پر ظاہر فرما تا تھا آپ کا معمول یہ تھا کہ ایسی خبریں آپ علی العموم ان لوگوں کو جو آپ کے پاس آتے جاتے تھے سنا دیا کرتے تھے ان میں سے لالہ ملاوامل ،شرمپت رائے اور بھائی کشن سنگھ وغیرہ خصوصیت کے ساتھ ہندوؤں میں سے اور میاں جان محمد امام مسجد اور بعض دوسرے مسلمان جو آمد و رفت رکھتے تھے مشہور ہیں مگر بعض اوقات آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ لوگوں کو بلا لیا کرتے تھے اور ان پیشگوئیوں سے آپ آگاہ کرتے.نہ صرف یہ کہ قادیان میں رہنے والوں کو اطلاع دیتے بلکہ بعض اوقات آپ خطوط کے ذریعہ اپنے خاص دوستوں کو باہر بھی اطلاع دیتے تھے.ان میں سے ان ایام میں صرف لالہ بھیم سین وکیل سیالکوٹ مخصوص تھے اور بعض عہدہ داران سرکاری جو آپ سے یا آپ کے خاندان سے تعلق محبت رکھتے تھے اور اگر موقعہ ملتا تو ان کو بھی بتا دیتے ان عہدہ داروں میں سے حافظ ہدایت علی صاحب مرحوم جو ضلع میں ڈپٹی تھے مخصوص تھے چنانچہ آپ کے مبشرات کی ان کو قبل از وقت اطلاع ملی تھی لیکن جب یہ سلسلہ ترقی کرنے لگا تو آپ نے اس مقصد کے لئے ایک ہندو برہمن کو ملازم رکھ لیا اس کا کام یہ تھا کہ وہ آپ کے الہامات کا ایک روز نامچہ لکھا کرے اس کا نام پنڈت شام لال تھا چنانچہ ایک خاص پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ : ان دنوں میں ایک پنڈت کا بیٹا شام لال نامی جو ناگری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا بطور روزنامہ نویس کے نوکر رکھا ہوا تھا اور بعض امور غیبیہ جو ظاہر ہوتے تھے اس کے ہاتھ سے وہ ناگری اور فارسی خط میں قبل از وقوع لکھائے جاتے تھے اور پھر شام لال مذکور کے اس پر دستخط کرائے جاتے تھے.“ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۴۷۶ حاشیه در حاشیہ نمبر۳.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۶۷)
حیات احمد ۸۸ جلد دوم حصہ اول پنڈت شام لال کو میں نے دیکھا ہے وہ چھوٹے بازار میں رہا کرتا تھا حضرت اقدس نے اس کو ایک گلستاں بھی پڑھنے کے لئے عطا فرمائی یہ شخص حضرت اقدس کے پاس عرصہ تک ملازم تھا پنڈت لیکھرام جب قادیان آیا تو اس نے شام لال پر دباؤ ڈلوا کر اس خدمت سے الگ کرا دیا اور قومی اثر کے ماتحت گو وہ الگ ہو گیا پھر بھی کچھ عرصہ تک مخفی طور پر اپنی ملازمت کے لئے جاتا رہا مگر آخر حضرت نے اسے یہ کہا کہ یا تو تم کھلم کھلا یہ کام کرو ورنہ میں اس طرح پر رکھنا نہیں چاہتا.اسے الگ کر دیا.کچھ عرصہ تک پھر ایک اور برہمن کا لیہ بوا داس بھی یہ کام کرتا رہا لیکن جب عام لوگوں کا رجوع ہونے لگا اور ان مکالمات و مخاطبات کی شہادت کے لئے میدان وسیع ہو گیا تو پھر یہ التزام نہ رہا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی.انہیں ایام میں آپ کا یہ بھی معمول تھا کہ لالہ ملا وامل اور شرمپت رائے وغیرہ جو کثرت سے آپ کے پاس آتے تھے ان کو قبل از وقت بعض پیشگوئیوں سے اطلاع دیتے تھے اور پھر وہی لوگ ڈاکخانہ جایا کرتے تھے اور خطوط اور منی آرڈر وغیرہ لاتے تھے.اور اپنے ہاتھوں سے پورا کرتے تھے.ان واقعات کے متعلق براہین احمدیہ کے مختلف مقامات میں تصریحات ہیں ان تفاصیل میں میں نہیں جاؤں گا.مجھے صرف حضرت کے طرز عمل کا ذکر مقصود تھا.براہین احمدیہ کی طبع و اشاعت کے وقت عام طور پر جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے ایسے الہامات کو ( جو بشارات اور پیشگوئیوں پر مشتمل ہوتے تھے ) خصوصاً حضرت اقدس پنڈت شام لال اور بوا داس کا لیہ سے لکھوالیا کرتے تھے اور یہ معمول تھا کہ اور لوگوں کو سنا دیا بھی کرتے تھے چنانچہ میں آپ کی ابتدائی چالیس سالہ زندگی کے حالات کے سلسلہ میں لکھ آیا ہوں کہ آپ اپنے خواب اور مکاشفات سنایا کرتے تھے اور دوسروں کے سن کر اُن کی تعبیر بھی فرمایا کرتے تھے.جوں جوں براہین کی اشاعت ہوتی گئی اور اس اثنا میں بعض لوگوں نے آپ کے ساتھ عقیدت و اخلاص کے تعلقات پیدا کر لئے تو آپ دوران اشاعت براہین میں جو الہام یا مکاشفہ ہوتا اس سے ان بیرونی لوگوں کو بھی بذریعہ مکتوب مطلع کر دیا کرتے تھے اس حقیقت کی صراحت ان
حیات احمد ۸۹ جلد دوم حصہ اوّل مکتوبات کے پڑھنے سے ہوتی ہے جن کو میں شائع کر چکا ہوں.( مکتوبات احمد یہ مرتبہ عرفانی) خصوصاً مکتوبات کی پہلی جلد جو میر عباس علی صاحب کے نام کی ہے اس میں یہ سلسلہ متواتر نظر آئے گا پھر حضرت اقدس نے جو کتا ہیں اپنے دعویٰ مسیح موعود کے بعد تالیف فرمائیں یا براہین کے بعد لکھی ہیں ان میں ایسی پیشگوئیوں کا ذکر بھی کیا ہے جو دوسروں کی شہادت کے ساتھ ثابت ہیں اس لئے کہ جب خدا تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی اسی وقت آپ نے ان لوگوں کو جن کے نام دیئے گئے ہیں اس سے آگاہ کیا اور جب وہ وقوع میں آئی تو وہ لوگ اس کے گواہ ہو کر مصدق ٹھہرے.فی الجملہ براہین کی طبع کی زمانہ میں تحریر الہامات کے لئے روز نامچہ آپ نے رکھا ہوا تھا اور اس کے لکھنے والے ہندو تھے اور آپ کی اس زمانہ کی پیشگوئیوں کے سب سے بڑے گواہ یہی یا دوسرے ہندو تھے خصوصیت سے لالہ ملا وامل اور شرمپت رائے.شہادت کو تلف کرنے کے لئے مخالفین کے منصوبے اسی سلسلہ میں میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان گواہوں کو بہکانے اور تکذیب و تردید کے لئے بھی بڑا زور دیا گیا.مختلف طریقوں سے یہ کوشش کی گئی.واقعات کے تاریخی سلسلہ میں اس کی تفصیل کروں گا ( انشاء اللہ العزیز ) مگر اس وقت اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ سب سے بڑا حصہ آریہ سماج نے لیا.پنڈت لیکھرام خصوصیت سے اس کے لئے کوشش کرتا رہا جب وہ صوابی ضلع پشاور میں تھا اس وقت وہ ان لوگوں کو خطوط لکھتا رہا اور جب وہ ملازمت سے علیحدہ ہو کر آریہ سماج کے اپدیشک کی حیثیت سے پھرتا تھا اس وقت اس نے قادیان آ کر بھی بڑا زور لالہ ملا وامل اور شرمیت رائے پر ڈالا کہ جن پیشگوئیوں کی صداقت کے متعلق ان کی شہادت ہے وہ اس کی تردید کریں مگر انہوں نے اس کی جرات نہ کی اور بالآ خر لیکھرام نے انہیں سماج میں داخل نہیں کیا.چنانچہ پنڈت لیکھرام نے جو سماج قادیان میں قائم کیا اس میں لالہ ملا وامل اور لالہ شرمپت رائے کے نام درج نہ کئے اس لئے کہ وہ کہتا تھا کہ تم اشتہار دو اور یہ انکار کرتے تھے آخر اس نے دھمکی دی کہ سماج میں تمہارا نام نہیں رہے گا.انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی.اس کے بعد جب شجھ چنتک
حیات احمد ۹۰ جلد دوم حصہ اوّل اخبار قادیان سے جاری ہوا.اس میں بھی لالہ ملا وامل وغیرہ پر بہت زور دیا گیا کہ وہ نشانات کی شہادت سے انکار کر دیں.بار بار نہایت اصرار کے ساتھ مطالبہ کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی بھلائی خاموشی ہی میں دیکھی.واقعات کے تاریخی سلسلہ میں انشاء اللہ تحریری سندات پیش کی جائیں گی.سوانح حیات بقید سنین براہین احمدیہ کے عہد اشاعت کے سلسلہ میں اجمالی اور ضروری امور کے بعد میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اب آپ کے سوانح حیات کو بقید سنین پیش کروں.میرا مقصد اس وقت تک یہ ہے کہ آپ کے سوانح حیات اور سیرت کے متعلق ضروری مواد یکجا کر دوں کوئی خاص ترتیب اس وقت تک میں نے مدنظر نہیں رکھی.بجز اس کے کہ آپ کے حالات زندگی کو میں نے چند حصوں میں تقسیم کر دیا جیسا کہ حیات احمد میں اس کا ذکر کر آیا ہوں.اب براہین کی تصنیف سے آغاز بیعت تک کے حصہ کو میں بقید سنین بیان کرنے کی سعی کرتا ہوں میں اس زمانہ کو ۱۸۷۹ء سے لے کر ۱۸۸۹ء تک قرار دیتا ہوں جب کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم و منشاء کے ماتحت بیعت لینی شروع کی.۱۸۷۹ء کے واقعات اور حالات یہ سال براہین احمدیہ کی طبع و تالیف کے آغاز کا سال ہے گو براہین احمدیہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ رو یا صادقہ ۱۸۶۵ء میں بشارت دی تھی لیکن اس کا ظہور تیرہ سال بعد ہوا.کتاب کیونکر تالیف ہوئی اس کے متعلق میں اوپر بہت کچھ لکھ آیا ہوں اب مجھے صرف اس سال کے اہم اور خاص واقعات کا تذکرہ کرنا ہے.(۱) آریہ سماج پر زبر دست فتح اس سال ۱۸۷۹ء کا آغاز آریہ سماج پر ایک زبردست فتح سے ہوا.پنڈت دیانند صاحب بانی آریہ سماج سے روحوں کے بے انت ہونے پر ایک تحریری مباحثہ اخبارات میں ۱۸۷۸ء سے چل رہا تھا.پنڈت دیانند جی نے بالمواجہ مباحثہ کے لئے بھی پیغام بھیجا چنانچہ ان کے الفاظ یہ
حیات احمد ۹۱ جلد دوم حصہ اوّل تھے.اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک ہو تو بالمواجہ بحث کرنی چاہیئے.اور اس بارہ میں ان کا ایک خط بھی آیا اس خط میں بحث کا شوق ظاہر کرتے ہیں.اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بحث بالمواجہ ہم کو بسر و چشم منظور ہے ! سوامی جی کو مقام بحث اور ثالث بالخیر اور انعقاد اجلاس کی تجویز بذریعہ اخبار مشتہر کرنے کی دعوت دی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا.مکتوبات احمدیہ کی جلد دوم میں میں ان خطوں کو چھاپ چکا ہوں.سوامی جی نے پہلے تو روحوں کے بے انت ہونے کے مسئلہ کو ترک کیا اور مباحثہ کے لئے انہیں ہمت اور حوصلہ نہ ہوا.حضرت صاحب نے اپنے اعلان میں یہ بھی لکھ دیا تھا.کہ اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو بس یہ سمجھو کہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے موافقین کے آنسو پونچتے ہیں.“ با وجود غیرت دلانے والے الفاظ کے بھی سوامی جی میدان میں نہ آئے اور مجھے تعجب ہے کہ ان کی زندگی کے حالات لکھنے والے ان واقعات کو سرے سے ہضم ہی کر گئے ہیں.حضرت اقدس نے یہ اعلان ۱۰رجون ۱۸۷۸ء کو کیا تھا.سوامی جی خاموش رہے بالآ خر ۹ رفروری ۱۸۷۹ء کو اخبار سفیر ہند میں حضرت اقدس نے پانسور و پیہ کا ایک انعامی اشتہار دیا اور اس کے بعد متواتر شائع ہوا.اس اعلان میں حضرت صاحب نے سوامی دیانند صاحب کے متبعین کو بھی چیلنج دیا کہ وہ روحوں کا بے انت ہونا ثابت کریں اور نیز یہ کہ پر میشر کو ان کی تعداد معلوم نہیں اس اعلان پر آریہ سماج میں ایک کھلبلی سی پیدا ہوئی اُس وقت لاہور کی آریہ سماج بہت بڑی نمایاں سماج تھی.منشی جیون داس صاحب اس کے سیکرٹری تھے انہوں نے ایک اعلان کے ذریعہ انکار کر دیا کہ : - آریہ سماج والے سوامی دیانند کے تو ابعین سے نہیں ہیں.اور انہوں نے مسئلہ مذکورہ کے متعلق بھی لکھ دیا کہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں جو اس کا دعویدار ہو اس سے سوال کرنا چاہیئے.میں تفصیلی طور پر حیات النبی جلد اول نمبر دوم میں لکھ آیا ہوں اور یہ تحریریں اس میں درج ہیں یہاں اس واقعہ کا مختصر ذکر ۱۸۷۹ء کے حالات اور حمله موجودہ نام حیات احمد جو خود مصنف نے ہی بدل دیا تھا.(ناشر)
حیات احمد ۹۲ جلد دوم حصہ اول واقعات کے ضمن میں کرنا ضروری تھا.غرض اس طرح پر اس سال کا آغاز آریہ سماج پر ایک کامل فتح کے ساتھ ہوا.کامل فتح میں اس لئے کہتا ہوں کہ یہ خود سوامی دیانند جی کو دعوت تھی.(۲) اگنی ہوتری سے مباحثہ تحریری اور کامیابی لاہور میں برا ہم سماج کے سب سے بڑے لیڈر پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری تھے.یہ صاحب پہلے گورنمنٹ سکول میں ڈرائنگ ماسٹر تھے.لیکن اپنی قوت تقریر وتحریر کے لحاظ سے لاہور میں شہرت یافتہ تھے انہوں نے برادر ہند ( ہندو باند ہے ) نام ایک ماہوار رسالہ بھی جاری کیا ہوا تھا ان ایام میں وہ برا ہمو تھے پھر نوکری چھوڑ کر انہوں نے سنیاس لے لیا.بالآخر براہم سماج سے الگ ہو کر دیو سماج کے بانی ہوئے اور خدا تعالیٰ کے منکر ہو کر فوت ہو گئے.بحیثیت براہمو ہونے کے انہیں الہام اور وحی سے انکار تھا.حضرت اقدس اُن کے رسالہ کے باقاعدہ خریدار تھے.اور اس میں مضامین بھی لکھا کرتے تھے.مسئلہ الہام پر ان سے تحریری مباحثہ شروع ہو گیا.اور خودان کے ہی رسالہ میں شائع ہوا.یہ تحریری مباحثہ جو خط و کتابت کے ذریعہ ہوا.مئی اور جون ۱۸۷۹ء میں ہوتا رہا.میں اس کے متعلق کسی قدر تفصیلی حالات حضرت کے سوانح حیات کی جلد اول کے نمبر ۲ میں لکھ آیا ہوں یہاں اس سے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ حضرت صاحب نے اس مباحثہ کے فیصلہ کو پنڈت سیتا نند اگنی ہوتری صاحب کے مسلمہ ثالث ہی کے سپرد کر دینے کولکھا کہ فریقین کی تحریر میں ایک برہمو اور ایک انگریز ثالث کے پاس بھیج دی جاویں اور ان کی رائے کے ساتھ وہ شائع ہو جاویں.برہموؤں میں سے آپ نے کشیب چندرسین کا نام صاف طور پر اپنے مکتوب مورخہ ۱۷رجون ۱۸۷۹ء میں لکھ دیا تھا اور انگریز کے متعلق لکھا تھا ” اور ایک انگریز کہ جس کی قوم کی زیر کی بلکہ بے نظیری کے آپ قائل ہیں انتخاب فرما کر اس سے اطلاع بخشیں تو اغلب ہے کہ میں ان دونوں کو منظور کر لوں گا.اور تحریروں کے متعلق فیصلہ کیا تھا کہ فریقین کی تین تین تحریریں ہوں.مگر یہ مباحثہ آگے نہ چلا اور پنڈت شو نرائن صاحب ختم کر کے بیٹھ گئے مگر خدا تعالیٰ کی
حیات احمد ۹۳ جلد دوم حصہ اوّل قدرت کو دیکھو کہ جس الہام کا وہ انکار کرتے تھے جب وہ برا ہم سماج سے الگ ہوکر دیو سماج کے بانی ہوئے تو اس کے ابتدائی سالوں میں خود ملہم ہونے کے مدعی تھے لیکن یہ دعوی حق پر مبنی نہ تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر نہ صرف الہام بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے بھی منکر ہو گئے.(۳) مقدمات میں مصروفیت اس وقت تک آپ کو بعض مقدمات کی پیروی کے لئے بھی جانا پڑتا تھا چنانچہ اگنی ہوتری کو جو آخری خطاب آپ نے اس سلسلہ میں لکھا تھا اس میں آپ کہتے ہیں : " آپ کا مہربانی نامہ عین اس وقت میں پہنچا جبکہ میں بعض ضروری مقدمات کے لئے امرتسر کی طرف جانے کو تھا.چونکہ اس وقت مجھے دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں اس لئے آپ کا جواب واپس آ کر لکھوں گا.“ مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۳۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یہ خط آپ نے ۷ ارجون ۱۸۷۹ء کو لکھا تھا.مقدمہ کی پیروی کے لئے آپ امرتسر جا رہے تھے اور دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہ تھی باوجود مصروفیت کے آپ نے اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے پھر بھی کچھ وقت نکال کر ایک اطلاعی خط لکھ دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ خدمت دین اور اشاعت اسلام کے لئے کس قدر جوش اور تڑپ رکھتے تھے.نیز آپ کو اپنی سچائی اور دلائل کی قوت پر اس قدر یقین تھا کہ اپنے مخالف کے ساتھ مباحثہ کے فیصلہ کے لئے شریف الطبع ثالث خود اسی کے گھر کا تجویز کر دینے سے مضائقہ نہ فرماتے تھے بشرطیکہ اس کی شرافت اور آزاد خیالی مسلّم ہو.(۴) براہین احمدیہ کے لئے اعلان اسی سال ۱۸۷۹ء میں آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف واشاعت کے لئے اعلان کیا یہ اعلان آپ نے مختلف اخبارات میں شائع کر دیا.مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی کے رسالہ اشاعة السنه نمبر چہارم جلد دوم کے ضمیمہ بابت اپریل ۱۸۷۹ء میں نکلا.منشور محمدی بنگلور میں
حیات احمد ۹۴ جلد دوم حصہ اوّل شائع ہوا اور سفیر ہند امرتسر میں نکلا.مختصر سا اشتہار رسالہ برادر ہند میں بھی دیا گیا تھا.کتاب کی طبع کا کام ۱۸۷۹ء کے اخیر سے پہلے شروع نہ ہو سکا.اخبارات میں اشتہارات کے علاوہ آپ نے خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر متعدد خطوط مسلمان رؤساء اور امراء کو بھی بھیجے تا کہ ان پر اتمام حجت ہو.یہ امر ایک حقیقت ہے.کہ آپ نے یہ خطوط محض اتمام حجت ہی کے لئے لکھے تھے ورنہ آپ کی طبع عالی پر یہ امر بہت گراں تھا کہ کسی کو مدد کے لئے لکھیں اور یہ خدا تعالیٰ کے امر و ایما کے ماتحت تھا.براہین کے متعلق خط و کتابت کا کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اس وقت آپ کو ایسے وسائل میسر نہ تھے کہ کوئی اسٹاف رکھ کر کام کریں.۳ دسمبر ۱۸۷۹ء کو آپ نے اعلان کر دیا تھا کہ کتاب جنوری ۱۸۸۰ء میں طبع ہو کر اسی مہینے یا فروری ۱۸۸۰ء میں شائع اور تقسیم ہو جائے گی.اس طرح پر پہلی جلد کی ترتیب و تصنیف ۱۸۷۹ء میں ہو کر وہ مطبع میں جانے کے لئے صاف ہوتی رہی اور جنوری ۱۸۸۰ء میں اس کی کتابت وغیرہ ہو کر مطبع میں چلی گئی.۱۸۷۹ء کے واقعات میں اور کوئی خاص امر قابل ذکر نہیں آپ کا طریق عمل عام طور پر یہی تھا آپ اپنے حجرہ میں رہتے اور مطالعہ و ذکر و شغل میں مصروف رہتے.عوام سے بہت کم ملتے.اپنی طبعی ضرورتوں اور نمازوں کے لئے باہر آتے.ان ایام میں نمازیں آپ بڑی مسجد (مسجد اقصیٰ) میں پڑھا کرتے تھے عام طور پر آپ کی عادت شریف میں یہ تھا کہ امام دوسرا ہوتا تھا اور آپ مقتدی ہوتے تھے لیکن آپ خود نمازیں پڑھا بھی دیا کرتے تھے اس وقت ہمیشہ جب آپ کو امام نماز ہونے کا اتفاق ہوا جہری نمازوں میں چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے.عصر کی نماز کے بعد بڑی مسجد میں آپ چہل قدمی فرماتے رہا کرتے اور عموماً سیر کو تشریف لے جایا کرتے اس سیر میں لالہ ملاوامل لالہ شرمپت رائے ساتھ ہوتے اور اگر کوئی اور شخص موجود ہوتا تو وہ بھی شریک ہو جاتا تھا.یہ سیر علی العموم جانب ٹوٹر ہوتی تھی اور کبھی بٹالہ بسرائے وغیرہ کے طرف بھی.طبعی ضروریات نمازوں اور ذکر و شغل ( یہ اذکار اشغال خلاف سنت طریقوں سے نہیں تھے
حیات احمد ۹۵ جلد دوم حصہ اول بلکہ آپ درود شریف کو بہت پڑھتے تھے ) قرآن مجید کی تلاوت و تدبر کے علاوہ آپ اسلام پر جو حملے آریوں یا عیسائیوں کی طرف سے کئے جاتے تھے ان کے جوابات لکھنے میں مصروف رہتے.خصوصیت سے یہ سال آریوں سے جنگ میں گزرا اور اسی سلسلہ میں اس رو یا مبارکہ کی عملی تعبیر شروع ہوئی جو ۱۸۶۵ء میں آپ نے دیکھی تھی یعنی کتاب براہین احمدیہ کی تصنیف خدا تعالیٰ سے مکالمات مخاطبات کا سلسلہ بھی برابر جاری تھا خصوصاً حضرت والد صاحب قبلہ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بہت زور شور سے جاری ہو چکا تھا.آپ کے رؤیا اور کشوف کا سلسلہ تو بہت پرانا ہے جوانی کے آغاز کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کا مورد بنا دیا.الہامات اور مخاطبات الہیہ کا شرف تاریخی حیثیت سے ۱۸۶۸ء سے ثابت ہے.گو اس کا نمایاں ظہور ۱۸۷۶ء سمجھا جاتا ہے.جب حضرت کے والد مرحوم کی وفات کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی اور آپ کو اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کہہ کر تسلی دی.یوماً فيوما ي فضل باری ترقی کرتا چلا گیا.خدا تعالیٰ کے مکالمات و مخاطبات کا شرف بڑھتا گیا.۱۸۶۸ء کے الہامات اور نشانات کا ذکر حضرت نے خود نزول مسیح کے صفحہ ۱۴۱ لغایت ۴۳ میں کیا ہے.میں یہاں مختصر طور پر ان نشانات کا ذکر کر دیتا ہوں جن کا تعلق ۱۸۷۹ء سے ہے ہے.ا روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۱۹ تا ۵۲۱ ۲ حاشیہ.حضرت اقدس نے مخاطبات و مکالمات کے شرف کا ۱۲۹۰ھ سے دعوی کیا ہے چنانچہ آپ نے دانیال نبی کی پیشگوئی ایک ہزار دو سو نوے دنوں کی تصریح میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ یہ مسیح موعود کی خبر ہے.جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والا تھا.سو اس عاجز کے ظہور کا یہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چند سال بعد میرے مامور اور مبعوث ہونے کے چھپ کر شائع ہوئی اور یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا.پھر سات سال بعد کتاب براہین احمدیہ جس میں میرا دعویٰ مسطور ہے تالیف ہو کر شائع کی گئی جیسا کہ میری
حیات احمد ۹۶ جلد دوم حصہ اول نشانات اس سال کا سب سے بڑا نشان خود کتاب براہین احمدیہ کی طبع واشاعت کا کام ہے ۱۸۶۵-۶۴ء میں آپ نے رویا دیکھی اور اس کا ظہور ۱۸۷۹ء میں ہوا.پھر کتاب کی طبع کے لئے ہر قسم کے مالی مشکلات تھیں اور مادی اسباب میسر نہ تھے مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کی اشاعت کے لئے مامور کر دیا.اور اسی سال آپ کو یہ الہام ہوا کہ بالفعل نہیں میں اس کے متعلق تفصیل سے لکھ آیا ہوں یہاں مجھے کچھ بیان نہیں کرنا.اس الہام شدید الکلمات (حضرت نے یہی نام رکھا ہے.عرفانی) کی تاریخ اور شان نزول کے متعلق براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه در حاشیہ نمبر صفحه ۲۲۵ پر بحث ہے ایک خاص اہلی واقعہ اسی سلسلہ میں میں ایک خاص خاندانی واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا اگر چہ کہ اس کا وقوع کچھ عرصہ پیشتر ہو چکا تھا لیکن میں اسے اب تک بیان نہ کر سکا لیکن چونکہ وہ ۷۷-۱۸۷۹ء کے سالوں سے تعلق رکھتا ہے میں اُسے اِس موقعہ پر لکھ دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض جدی شرکاء نے جو قادیان کی ملکیت میں شریک تھے قادیان میں اس ممتاز خاندان (یعنی حضرت مسیح موعود کے خاندان ) کے خلاف ایک خطرناک سازش کی تھی جس میں قادیان کے بعض ہندو، قریشی اور دوسرے زمیندار خاندان کی دوسری شاخ کے ساتھ شریک سازش تھے.حضرت صاحب تو گوشہ نشین تھے اور دنیا کے دھندوں میں کوئی مداخلت نہ کرتے تھے بقیہ حاشیہ.کتاب براہین احمدیہ کے سرورق پر یہ شعر لکھا ہوا ہے از بس کہ یہ مغفرت کا دکھاتی ہے راہ تاریخ بھی یا غفور نکلی واه واه (حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۰۰،۱۹۹.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۷، ۲۰۸) روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۵۰،۲۴۹.
حیات احمد ۹۷ جلد دوم حصہ اوّل غیر قابض شرکاء نے اس سازش کو مکمل کرنے کے بعد ابتدائی مراحل شروع کئے اور خاندان کے بزرگ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سے سلسله گفت و شنود شروع کیا کہ ان کا حصہ ان کو دے دیا - جاوے.مرزا غلام قادر صاحب اپنے اثر اور قانونی حقوق کی بناء پر اس قسم کی دھمکیوں سے فیصلہ کے لئے راضی نہ ہوئے.حضرت اقدس کو جب خبر پہنچی تو باوجود یکہ آپ قادیان کی جائیداد کے معاملات میں کسی قسم کا دخل نہ دیتے تھے لیکن دینی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اور حقوق کی نگہداشت کے خیال سے آپ نے اس میں مداخلت کرنی پسند کی اور یہ مداخلت صرف وعظ کے رنگ میں تھی اور جہاں تک معاملہ کی شرعی حیثیت ہے اس سے واقف کرنا مقصود تھا.آپ نے تمام خاندان کے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا کہ بہتر یہی ہے کہ جو جس کا حق ہے اس کو دے دیا جاوے اللہ تعالیٰ اس میں راضی ہے.مگر اس پر توجہ نہ کی گئی اس کی یہ وجہ نہ تھی کہ خاندان کے لوگ حقوق دینا نہ چاہتے تھے بلکہ ان کا منشاء یہ تھا کہ جس طرح پر خاندان کی طرف سے سلوک ہوتا آیا ہے اُسی پر عمل درآمد ہو نیز مرزا غلام قادر صاحب اپنی وجاہت اور آن کے خلاف سمجھتے تھے کہ دب کر کوئی کام کروں.فریق مخالف نے چونکہ دھمکیاں دی تھیں اس لئے وہ بغیر مقابلہ کے کچھ دینے کو آمادہ نہ تھے.حضرت اقدس نے اپنا فرض ادا کر دیا.حضرت کو اس میں مَوَدَّت فِي الْقُرْبَى بھی مد نظر تھی.چونکہ اس معاملہ میں گہری سازش تھی اس لئے خاندان کی دوسری شاخ نے اُن شر کا ء کو اکسا کر اور اپنے قابو میں کر کے اُس اراضی کو مرزا اعظم بیگ صاحب کے پاس بہت ہی کم قیمت پر فروخت کر دیا اور اس پر مقدمات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.حضرت اقدس نے جب مقدمات کے لئے دعا کی تو آپ کو الہام ہوا کہ اُجِیبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِكَ یعنی میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں.حضرت اقدس نے پھر گھر والوں کو جمع کر کے منشاء الہی سے اطلاع دی کہ اس مقدمہ میں کامیابی نہ ہوگی اسے چھوڑ دو.مرزا غلام قادر صاحب چونکہ ہزاروں روپیہ اس پر خرچ کر چکے تھے انہوں نے اس عذر کو مد نظر رکھ کر پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا.حضرت صاحب محسوس کرتے تھے کہ یہ عذر سرسری تھا چنانچہ آپ
حیات احمد ۹۸ جلد دوم حصہ اول نے لکھا ہے کہ : یہ عذر اُن کا سرسری تھا اور ان کو اپنی فتح اور کامیابی پر یقین تھا چنانچہ پہلی عدالت میں تو اُن کی فتح ہو گئی مگر چیف کورٹ میں مدعی کامیاب ہو گئے.“ اس طرح پر یہ جائیداد نہ صرف ہاتھ سے نکل گئی بلکہ دوسری قیمتی جائیداد بھی اس مقدمہ بازی میں تلف ہوگئی.حضرت اقدس نے حقوق العباد ، مَوَدَّت فِي الْقُرْبی اور رعایت حقوق تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر پہلے سمجھا دیا اور پھر خدا تعالیٰ سے خبر پا کرسب کو آگاہ کیا اور آخر وہی ہوا جو آپ نے خبر دی تھی لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں آپ کا فعل نہایت پسندیدہ اور پیارا تھا اس کا ثمرہ یہ ہوا کہ وہی جائیداد پھر مرزا اعظم بیگ کے پڑپوتے اور اس کی پوت بہو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے ہاتھ فروخت کر دی اور وہ اس طرح پر واپس آئی وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذالك اور اس طرح پر یہ ایک عظیم الشان نشان ٹھہر گئی اور اب تو اس زمین کا ہر ذرہ اپنے اندر نشانات آسمانی کی چمک رکھتا ہے جو اپنے موقعہ پر انشاء اللہ بیان کروں گا.وَ بِاللهِ التَّوْفِيقِ.ا ۱۸۸۰ ء لغایت ۱۸۸۲ ء تک کے واقعات حضرت اقدس کی بعض تحریروں میں واقعات اور حالات کا تو پتہ لگتا ہے مگر ان کی کوئی صحیح ترتیب یا تاریخ و سال کا تعین بہت مشکل ہے بلکہ وہ واقعات ۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۸۲ء تک کے درمیان کسی سال میں ہوئے ہیں اس لئے میں اُن کو اسی نوعیت سے دے دیتا ہوں اور کسی خاص سال سے مخصوص کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہاں جہاں مجھے ذاتی تحقیقات سے کسی واقعہ کے کسی سال خاص یا تاریخ معینہ کا علم ہو گا اُسے بقید تاریخ و سال بھی لکھ دوں گا.
حیات احمد ۹۹ جلد دوم حصہ اول براہین کی پہلی اور دوسری جلد کی اشاعت ۱۸۸۰ء کے اہم واقعات میں براہین احمدیہ کی پہلی اور دوسری جلد کی اشاعت ہے جب یہ کتاب سفیر ہند پریس امرتسر سے چھپ کر آئی تو ایک سو پچاس جلد کے قریب بڑے بڑے امیروں اور دولتمندوں اور رئیسوں کو بامید خریداری روانہ کیں اور ہر پیکٹ کے ساتھ ایک رجسٹرڈ خط بھی کتاب کی ضرورت اور اس کی اعانت کی تحریک پر لکھا اس کی تفصیل آپ نے حصہ دوم کے شروع میں " عرض ضروری بحالت مجبوری“ کے عنوان سے لکھ دی ہے.جن لوگوں نے براہین کے اعلان اور تحریک اعانت واشاعت پر خریداری کی درخواستیں بھیج دی تھیں ان کو کتاب روانہ کی گئی اور یہ تمام کام آپ خود اپنے ہاتھ سے کرتے بلکہ کتابوں کے پیکٹ تک بھی آپ خود تیار کر لیا کرتے تھے.آپ کی طبیعت میں احتیاط غالب تھی اور اس کتاب کی صحیح قدرو قیمت سے بھی آپ ہی واقف تھے.اس لئے علی العموم آپ پیکٹ رجسٹری کرا کر جھ کرتے تھے.براہین کی تیاری کے بعد طبع کے سوال کے وقت آپ مالی حیثیت سے عسرت کی زندگی بسر کرتے تھے اس لئے کہ جائیداد جدی کے معاملات میں آپ کچھ دلچسپی نہ لیتے تھے وہ انتظام براہِ راست آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے ہاتھ میں تھا اور جو کچھ وہ کبھی آپ کی ضروریات کے لئے دے دیتے آپ اس پر قناعت کرتے.آپ کے پاس ایک ہی چیز تھی اور درحقیقت وہی چیز غیر فانی اور ہر میدان میں کام آنے والی ہے.وہ خدا تعالیٰ سے تعلق اور اسی سے دعا ہے.اس ضرورت کے وقت بھی آپ نے دعاؤں سے کام لیا اولاً تو بالفعل نہیں“ کا الہام ہوا.اور کتاب کی اشاعت معرض تعویق میں آگئی لیکن پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک دن مغرب کی نماز کے وقت آپ کو دعا کے لئے جوش پیدا ہوا اور اس دعا کے بعد الہام ہوا جس کا مطلب یہ تھا کہ کھجور کے تا کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی“ چنانچہ اس ارشاد الہی کی تعمیل میں آپ نے تمسک پالاسباب کے طور پر تحریک کی.چنانچہ فرماتے ہیں:
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل تب میں نے چند مشہور لوگوں کی طرف خط لکھے تو اس قدر روپیہ آ گیا کہ میں پہلا اور دوسرا حصہ براہین احمدیہ کا اس روپیہ کے ذریعہ سے چھاپ سکا.مگر ابھی میری حالت معمولی تھی اور صرف ایک پرانے خاندان کی کسی قدر شہرت بعض دلوں کو متوجہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے اذن اور حکم سے متحرک ہو گئی تھی.“ براہین میں آپ لکھتے ہیں کہ : نزول مسیح صفحہ ۱۶.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۳۹) ایک دن قریب مغرب کے خداوند کریم نے یہ الہام کیا هُرِ إِلَيْكَ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكَ رُطَبًا جَنِيًّا ، سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہو گا اور اس کی خبر بھی بدستور کئی ہندو اور مسلمانوں کو دی گئی اور اتفاقاً اُسی روز یا دوسرے روز حافظ ہدایت علی خان صاحب جو کہ اُن دنوں اس ضلع میں اکسٹرا اسٹنٹ تھے قادیان میں آگئے اُن کو بھی اس الہام سے اطلاع دی گئی اور مجھے بخوبی یاد ہے کہ اُسی ہفتہ میں میں نے آپ کے دوست مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو بھی اس الہام سے اطلاع دی تھی.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس الہام کے بعد میں نے حسب ارشاد حضرت احدیت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کے بعد لاہور، پشاور، راولپنڈی، کوٹلہ مالیر اور چند دوسرے مقاموں سے جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا مدد پہنچ گئی وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ“ 66 ( براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۲۶،۲۲۵ حاشیه در حاشیہ نمبر ا.روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۵۱،۲۵۰ حاشیه در حاشیه نمبرا) الہام الہی کی بناء پر جو تحریک آپ نے فرمائی اس کے جواب میں اول الناصرین ہونے کی سعادت جس ہستی کے حصہ میں آئی وہ حضرت خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ تھے چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۳۳۷ پر اس کا اعتراف فرمایا ہے کہ:-
حیات احمد 1+1 جلد دوم حصہ اول میں نے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے سب سے اول خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی طرف خط لکھا.پس خدا نے جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ان کو میری طرف مائل کر دیا اور انہوں نے بلا توقف اڑھائی سو روپیہ بھیج دیا اور پھر دوسری دفعہ اڑھائی سو روپیہ دیا.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۵۰) مکالمات و مخاطبات الہیہ کے سلسلہ کی وسعت یوں تو آپ خدا تعالیٰ کی بشارتوں اور رویاء صالحہ اور مکاشفات و مخاطبات الہیہ سے اپنی جوانی کے ایام سے مشرف تھے.۶۴ - ۱۸۶۵ء کے مکاشفات براہین میں درج ہیں اور خود براہین اسی کا ظہور ہے لیکن ۱۸۸۰ء میں یہ سلسلہ بہت قوت اور وسعت کے ساتھ شروع ہو گیا.حضرت نے اپنے الہامات کو درج کرتے وقت کوئی تاریخ وار ڈائری تو نہیں دی لیکن جب ان پیشگوئیوں کے ظہور کا وقت آیا جو ان مبشرات و مکالمات میں موجود تھیں تو آپ نے ۸۰-۱۸۸۲ء ہی کے سالوں کا ذکر فرمایا ہے.ان مکالمات میں جو بشارتیں آپ کو دی گئی ہیں وہ آپ کی آئندہ کا میابی آپ کی جماعت کی ترقی اور سلسلہ کی وسعت ، آپ کی مخالفت ، دشمنوں کی شدت، آپ کے قتل کے منصوبوں میں آپ کا خارق عادت طریق پر محفوظ رہنا.قادیان میں ایک جماعت أَصْحَابُ الصفہ کا جمع ہو جانا.ایک عالی دودمان میں آپ کی دوسری شادی، غرض بیسیوں قسم کی پیشگوئیاں ہیں.میں ان تمام بشارات کی تفصیل کا یہ مقام نہیں پاتا.قارئین کرام براہین احمدیہ، نزول مسیح ، حقیقۃ الوحی میں پڑھیں.ان الہامات و بشا رات کے متعلق آپ کا معمول یہ تھا کہ اپنے پاس آنے جانے والے ہندوؤں آریوں اور مسلمانوں کو سنا دیا کرتے تھے.اور آپ نے یہ التزام بھی کر لیا تھا کہ ڈاک وغیرہ علی العموم وہی ہندو اور آریہ جا کر لایا کرتے تھے تا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ان نشانات کی صداقت پر مہر شہادت ثبت کریں.اب میں اُن سالوں کے بعض واقعات کو بغیر کسی خاص ترتیب کے درج کرتا ہوں.
حیات احمد ۱۰۲ امرتسر کے ایک مقدمہ میں شہادت جلد دوم حصہ اول حضرت اقدس کو عدالتوں میں جانے سے بالطبع کراہت تھی اوائلِ شباب میں حضرت والد صاحب مرحوم کے ارشاد کی تعمیل میں اپنی جائیداد کے بعض مقدمات کی پیروی کے لئے آپ کو جانا پڑتا تھا.میں تفصیل سے حیات النبی کے پہلے حصہ میں یہ امر بیان کر آیا ہوں کہ آپ کو بالطبع نفرت تھی مگر ایک سعادتمند اور فرمانبردار بیٹے کی حیثیت سے آپ اپنے جذبات کو کچل کر تعمیل کرتے تھے.اور ان مقدمات میں کبھی اور کسی حال میں صداقت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا آپ نے مقدمات سے تنظر کے اظہار و ثبوت میں ایک مرتبہ مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی کے خط کے جواب میں لکھا کہ :- اگر میں مقدمہ کرنے سے بالطبع متنفر نہ ہوتا تو میں والد صاحب کے انتقال کے بعد جو پندرہ سال کا عرصہ گزر گیا ہے آزادی سے مقدمات کیا کرتا.“ ( آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۰۳.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۰۳) ان مقدمات کے سوا کبھی آپ نے بہ حیثیت مدعی کوئی مقدمہ نہیں کیا حالانکہ اس کے لئے بہت سے ایسے مواقع تھے البتہ آپ کو اگر کسی عدالت میں بطور گواہ طلب کیا گیا تو آپ شہادت کے ادا کرنے کے لئے بخوشی جاتے اس لئے کہ كِتُمَان شَهَادَتِ حَقَّہ کو آپ معصیت یقین کرتے تھے.آپ کی راست بازی اور صداقت شعاری پر مخالفین کو بھی پورا بھروسہ تھا اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ آپ کو ایسے مقدمات میں شہادت کے لئے جانا پڑا جہاں کسی نہ کسی رنگ میں اس شہادت کا اثر آپ پر پڑتا تھا خواہ مالی حیثیت سے یا کسی اور حیثیت سے.مثلاً ایک مرتبہ مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک افتادہ اراضی کے متعلق دعویٰ کیا جو حضرت صاحب کی تھی اور پنڈت شنکر داس نے مکان بنالیا تھا مرزا سلطان احمد صاحب نے دعویٰ کیا.اور مسماری مکان کا دعوی تھا مگر تر تیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت میں وہ مقدمہ ڈسمس ہوتا اور نہ صرف مرزا سلطان احمد صاحب کو بلکہ خود حضرت کو بھی نقصان پہنچتا کیونکہ حقوق مالکانہ اس زمین کے جاتے تھے.فریق حملہ بعد میں اس کتاب کا نام حیات احمد رکھا گیا (ناشر)
حیات احمد ۱۰۳ جلد دوم حصہ اوّل مخالف نے اس سے فائدہ اٹھا کر حضرت کو شہادت میں طلب کرا دیا.مرزا سلطان احمد صاحب کے وکیل نے جب آپ سے دریافت کیا کہ آپ کیا بیان کریں گے تو آپ نے فرمایا کہ وہ اظہار کروں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے (وکیل نے ) کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دستبر دار ہو جاؤں حضرت فرماتے ہیں:.کہ گو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو اِبْتِغَاءَ لِمَرْضَاتِ الله مقدم رکھ کر مالی نقصان پیچ سمجھا.“ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۰۰) قارئین کرام کو معلوم رہے کہ یہ وہی مکان ہے جو مسجد اقصیٰ کے پاس بنا ہوا ہے جس کا حصہ خدا کے فضل و کرم سے آج سلسلہ کی ملکیت ہے.اسی طرح بعض دوسرے مقدمات میں بھی جب آپ شہادت کے لئے بلائے گئے تو آپ تشریف لے گئے انہی ایام میں آپ کو امرتسر ایک شہادت پر جانا پڑا ابھی آپ کے پاس کوئی سمن اور کسی قسم کی اطلاع خارجی طور پر نہ آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی امرتسر جانے کی نسبت خبر دی اور یہ الہام آپ کو انگریزی میں ہوا تھا.اس کے بعد ایک دن آپ کو ایک خط بنظر کشفی دکھایا گیا جو ایک شخص نے بھیجا ہے اس خط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے آئی.ایم.کورلز اور عربی میں یہ لکھا ہے هَذَا شَاهِدٌ نَزَّاغ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو کسی مقدمہ کی شہادت کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے چنانچہ اس کے موافق پادری رجب علی مہتم مطبع سفیر ہند کا خط آیا اور اس کے ساتھ ہی ایک سمن عدالت سے آیا جس سے معلوم ہوا کہ پادری رجب علی نے آپ کو ایک مقدمہ میں گواہ لکھایا ہے.یہ مقدمہ منشی امام الدین کا تب براہین کے خلاف تھا.چنانچہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ :- مہتم مطبع سفیر ہند کے دل میں یہ یقین کامل یہ مرکوز تھا کہ اس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہو گی باعث وثاقت وصداقت اور نیز با اعتبار قابل قدر ہونے کی وجہ سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی اور اسی قیمت سے مہتم مذکور
حیات احمد ۱۰۴ نے اس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی....الآخرہ.“ جلد دوم حصہ اول ( براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۴۷۳-۴۷۴ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳- روحانی خزائن جلدا صفحه ۵۶۵ حاشیه در حاشیه نمبر۳) اس مقدمہ میں شہادت کے لئے آپ امرتسر تشریف لے گئے اور اس سفر کے ساتھ دونشان پورے ہوئے ان نشانات کی صداقت و تفصیل کے لئے براہین احمدیہ صفحہ ۴۶۹ لغایت ۴۷۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ ( روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۶۰ تا ۵۶۵ ) ملا حظہ ہو.بعض خاص نشانات یہاں میں نشانات اور پیشگوئیوں کی تفصیل نہیں دینا چاہتا بلکہ واقعات کو بیان کر رہا ہوں.ان ایام میں بھی قریباً روزانہ ایسے نشانات ظاہر ہوتے تھے.قبل از وقت آپ ان بشارات کو سناتے تھے.اور آریہ ہم نشینوں کے ہاتھ پر وہ پوری ہوتی تھیں اس لئے کہ وہی ڈاکخانہ میں جاتے اور خطوط اور منی آرڈر وغیرہ لاتے تھے بعض اوقات یہ لوگ (آریہ ہم نشین) بعض پیشگوئیوں کو جھٹلانے کی بھی کوشش کرتے تھے.چنانچہ ایک مرتبہ انہیں ایام میں فجر کے وقت حضرت کو بذریعہ الہام خبر دی گئی کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے چنانچہ لالہ ملاوامل صاحب حسب قرار داد ڈاکخانہ گیا اور خبر لایا کہ ہوتی مردان سے دس روپیہ آئے ہیں اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ یہ دس روپیہ ارباب سرور خان نے بھیجے ہیں آریوں نے باوجود یکہ لفظ ارباب اتحاد قومی پر دلالت کرتا تھا اور صداقت پیشگوئی کے لئے کافی تھا.اعتراض کیا کہ قرابتی نہیں ہے اس پر حضرت نے منشی الہی بخش اکو نٹسٹ کو جو اُن دنوں ہوتی مردان میں تھے اور ارادت رکھتے تھے خط لکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ارباب سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے.تب ان کی تسلی ہوئی.( نفس مضمون براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۴ ۴۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴.روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۶۶،۵۶۵)
حیات احمد ۱۰۵ حافظ حامد علی صاحب کی آمد جلد دوم حصہ اول انہی ایام میں حافظ حامد علی صاحب جو تھصہ غلام نبی ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے.حافظ صاحب نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ وہ بیمار رہتے تھے اور ایک مرتبہ امرتسر میں علاج کے لئے گیا اسی راستہ میں حضرت اقدس سے ملاقات ہوئی.اور واپسی پر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تم قادیان آجاؤ تمہارا علاج بھی ہو جائے گا.حافظ صاحب کہتے ہیں کہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا.اور تھوڑے ہی دنوں میں میری بیماری جاتی رہی.میں حیران تھا کہ اس قدر جلد مجھے فائدہ ہوا.پھر مجھے قادیان سے جانے میں تکلیف محسوس ہونے لگی اور میں نے حضرت ہی کی خدمت میں رہنا پسند کیا یہ ۱۸۸۱-۸۰ء کا واقعہ ہے.حافظ صاحب کے حالات زندگی تحریر کرنے کا یہ موقعہ نہیں حضرت اقدس حافظ صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے حافظ صاحب بھی حضور کے جاں نثار خادم تھے یہ حافظ صاحب بہت کم سخن اور خاموش سیرت انسان تھے عبادات میں انہوں نے حضرت اقدس کے رنگ کو حاصل کیا تھا.انہیں ایام میں حافظ معین الدین صاحب بھی حضرت کی خدمت میں آگئے تھے حافظ معین الدین صاحب نابینا تھے.میں نے ان کے حالات زندگی الحکم میں لکھ دیئے ہیں.ان لوگوں کے علاوہ اور بھی بعض لوگ حضرت کی خدمت میں رہتے تھے جیسے میاں جان محمد صاحب.مرزا دین محمد صاحب.مرزا غلام اللہ صاحب.مرزا اسماعیل بیگ صاحب و غیر هم مگر ان سب میں حافظ حامد علی صاحب سب سے پیش پیش تھے.دوسری شادی کے متعلق بشارات ۱۸۸۱ ہی کا واقعہ ہے کہ ابھی تک آپ کو دوسری شادی کے متعلق بشارات نہ ملی تھیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَسِینِ کی بشارت دی آپ نے حسب معمول اس الہام سے قادیان کے ان ہندوؤں اور مسلمانوں کو جو آپ کے پاس آیا کرتے تھے خبر دی اور حاشیہ:- ایک مقام پر نزول مسیح میں آپ نے لکھا ہے کہ ایک مقدس وحی کے ذریعہ سے خبر دی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ ایک شریف خاندان میں میری شادی کرے گا.اور قوم کے سیّد ہوں گے اور اس کو خدا مبارک کرے گا اور اس سے اولاد پیدا ہوگی اور پھر یہ الہام ہوا کہ ہر چہ باید نو عروسی را ہمہ ساماں کنم “ اس الہام کو آپ ۱۸۸۰ء کے قریب بتاتے ہیں.(عرفانی)
حیات احمد 1.4 جلد دوم حصہ اوّل حافظ حامد صاحب (جو آپ کے پاس رہتے تھے ) کو بھی یہ الہام الہی سنایا انہی ایام میں ایک شخص حافظ نور احمد امرتسری (جس کا میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں ) کو بھی سنایا جو ا تفاق سے آیا ہوا تھا وہ حضرت کی خدمت میں آیا کرتا تھا اس لئے کہ واعظ تھا جب کبھی اپنے سفر پر ادھر آتا تو قادیان ضرور آتا.ان ایام میں حضرت اقدس ایک قسم کی زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے اور پہلی بیوی کے ہاں دونر مینہ اولا د ہو کر ان کے بعد کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی.ملا وامل اور شرمپت رائے کو بھی آگاہ کیا اور چونکہ یہ لوگ جانتے تھے کہ قریباً بیس سال سے پھر کوئی اولاد پہلی بیوی کے ہاں نہیں ہوئی تھی اس لئے یہ الہام اچنبھا سا معلوم ہوتا تھا.البتہ حافظ نور احمد نے کہا کہ خدا کی قدرت سے کیا تعجب ہے کہ وہ لڑکا دے دے.اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ دوسری شادی کریں گے لیکن اس سلسلہ میں کچھ عرصہ کے بعد دوسری شادی کی.آپ کو بشارت دی گئی شادی کے متعلق تین مختلف الہام آپ کو ہوئے (۱) اُشْكُرْ نِعْمَتِي رَتَيْتَ خَدِيجَتِي براہین احمدید صفحه ۵۵۸ میری نعمت کا شکر کر تو نے میری خدیجہ کو پایا.اس میں سادات کے گھر میں شادی ہونے کی بشارت تھی.(۲) اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَالنَّسَبَ (۳) بِكُرٌ وَّ ثَيِّبٌ باکرہ اور بیوہ.پھر اسی سلسلہ میں مختلف حالات کے تحت اور بھی الہام ہوئے.مثلاً ہر چہ باید نو عروسی را ہمہ ساماں کنم - يَا أَحْمَدُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ.غرض اسی عرصہ میں یعنی ۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۸۲ء اور ۱۸۸۳ء تک مختلف اوقات میں دوسری شادی کی بشارات ملتی رہیں ایک طرف یہ بشارات تھیں اور دوسری طرف آپ کی حالت اس وقت ایسی تھی کہ دوسری بیوی کا و ہم بھی نہیں آ سکتا تھا چنانچہ خود فرماتے ہیں کہ : یہ خواب (شادی کے متعلق.عرفانی ) ان ایام میں آئی تھی جبکہ میں بعض اعراض اور امراض کی وجہ سے بہت ہی ضعیف اور کمزور تھا بلکہ قریب ہی وہ زمانہ گزر چکا تھا جبکہ مجھے دق کی بیماری ہو گئی تھی اور بباعث گوشہ گزینی اور ترک دنیا کے حاشیہ: حضرت اقدس نے اپنی بیماری دق کا بھی ذکر کیا ہے.یہ بیماری آپ کو حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی زندگی میں ہوگئی تھی اور آپ قریباً چھ ماہ تک بیمار ر ہے.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب آپ کا علاج خود کرتے تھے اور آپ کو بکرے کا پایہ کا شور با کھلایا کرتے تھے اس بیماری میں
حیات احمد 1.6 جلد دوم حصہ اول اہتمامات تأھل سے دل سخت کارہ تھا اور عیالداری کے بوجھ سے طبیعت متنفر تھی تو اس حالت پر ملالت کے تصور کے وقت یہ الہام ہوا تھا ہر چہ باید نو عروسی را ہمہ ساماں کنم یعنی اس شادی میں تجھے کچھ فکر نہیں کرنا چاہیئے.ان تمام ضروریات کا رفع کرنا میرے ذمہ رہے گا.سو تم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُس نے اپنے وعدہ کے موافق اس شادی کے بعد ہر ایک بار شادی سے مجھے سبکدوش رکھا.اور مجھے بہت آرام پہنچا.کوئی باپ دنیا میں کسی بیٹے کی پرورش نہیں کرتا جیسا کہ اس نے میری کی.اور کوئی والدہ پوری ہشیاری سے دن رات اپنے بچہ کی ایسی خبر نہیں رکھتی جیسا کہ اس نے میری رکھی.“ 66 تریاق القلوب ایڈیشن اوّل صفحہ ۳۵.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۰۳٬۲۰۲) ان بشارات کے وقت جو حالت تھی وہ ظاہر ہے.خود حضرت کو شادی کا خیال نہ تھا اور مالی اور جسمانی قوت بھی اس کی اجازت نہ دیتی تھی مگر بائیں ہمہ خدا کی طرف سے بشارات مل رہی تھیں ان بشارات کا ظہور ۱۸۸۴ء میں ہوا اور میں انشاء اللہ ۱۸۸۴ء کے واقعات میں تفصیل سے اس شادی کا تذکرہ کروں گا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی انہی ایام میں آپ نے اپنی شادی کی اس بشارت کا گواہ بنا لیا تھا.آپ کسی تقریب پر بٹالہ تشریف لے گئے اور مولوی محمد حسین ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کے مکان پر گئے اس نے خود سوال کیا کہ کوئی الہام آج کل ہوا ہے تو آپ نے (الهام) بِكْر وثب کا اُس کو سنایا اور اس طرح پر یہ خبر تمام لوگوں میں مشہور ہوگئی ان بقیہ حاشیہ.آپ کی حالت بہت نازک ہو گئی تھی.چنانچہ ایک مرتبہ مرزا غلام محی الدین مرحوم آپ کے چچانے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں یہی حال ہے.سب نے مرنا ہے کوئی آگے گزر جاتا ہے کوئی پیچھے رہ جاتا ہے اس لئے اس پر ہراساں نہیں ہونا چاہیئے.مگر حضرت اقدس کو اس بیماری کی حالت میں بھی سکون اور اطمینان تھا کسی قسم کی گھبراہٹ نہ تھی البتہ بیماری کا طبعی نتیجہ ضعف اور کمزوری تھی.نہ صرف یہ کہ آپ کو موت کا کوئی غم نہ تھا بلکہ آپ کو اپنی موت کا یقین بھی نہ تھا خدا تعالیٰ کی بشارات اور وعدوں کو دیکھتے ہوئے آپ یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس سے نجات دے گا.
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل الہامات پر تین سال گزر گئے حضرت نے نہ کہیں تحریک کی اور نہ آپ کو اس کا کوئی خیال اور خواہش تھی بلکہ آپ تو شادی کے بار سے گھبراتے تھے.ہاں ! خدا تعالیٰ کی بشارت کی صداقت پر ایمان رکھتے تھے کہ وہ جس طرح پر چاہے گا ( کرے گا).ایک پادری کا سوال اور حضرت کا جواب ۳ مارچ ۱۸۸۲ء کے اخبار نور افشاں میں ایک پادری صاحب نے ایک سوال به خیال خویش عدم ضرورت قرآن ثابت کرنے کے لئے شائع کیا کہ :- حیات ابدی کی نسبت کتاب مقدس میں کیا نہ تھا کہ قرآن یا صاحب قرآن لائے اور قرآن کن کن امروں اور تعلیمات میں انجیل پر فوقیت رکھتا ہے.تا یہ ثابت ہو کہ انجیل کے اترنے کے بعد قرآن کے نازل ہونے کی بھی ضرورت ہے.اس سوال کے جواب کے لئے پادری صاحب نے جہاں بعض اور لوگوں کو چیلنج دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام لکھ کر آپ سے بھی خطاب کیا.دوسروں نے اس کا جواب دیا یا نہ دیا مجھے اس سے بحث نہیں مگر آپ نے اس کا ایک مبسوط جواب دیا آپ کا منظوم کلام.آؤ عیسائیو ادھر آؤ نور حق دیکھو راہ حق پاؤ بات جب ہے کہ میرے پاس آویں میرے منہ پر وہ بات کر جاویں مجھ سے اُس دلستاں کا حال سنیں مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی نہ سہی یونہی امتحان سہی والی مشہور نظم اسی تقریب پر آپ نے لکھی تھی.اس سوال کے جواب میں آپ نے ایک باطل کش مضمون لکھا وہ نہ صرف براہین احمدیہ میں چھپا بلکہ اس کے سوا بھی بعض اخبارات میں شائع ہوا نورافشان نے خود سے نہیں چھاپا.عدم ضرورت ثابت کرنے والے مسیحی متکلم کا اس پر دیوالہ نکل گیا.حضرت نے حقیقی جواب کے ساتھ الزامی جواب بھی دیا اور براہین احمدیہ کا دس ہزار کا انعامی چیلنج غیرت دلانے والے الفاظ میں اس کو پیش کیا مگر وہاں جواب دینے اور مقابلہ میں آنے کی
حیات احمد 1+9 جلد دوم حصہ اوّل ہمت کس کو تھی ؟ حضرت نے اس جواب کو براہین احمدیہ کی دوسری جلد کے حاشیہ نمبر۲ میں اپنی تحدی کے ساتھ شائع کر دیا اور آج تک کسی کو اس کے مقابلہ میں آنے کی توفیق نہ مل سکی.یہ پادری صاحب جن کا نام حضرت نے نہیں دیا مگر یہ ثابت ہے کہ آپ پادری جی.ایل ٹھاکر داس صاحب تھے جنہوں نے عدم ضرورت قرآن کے نام سے ایک رسالہ بھی لکھا تھا مگر وہ اس مقابلہ میں نہیں آئے اور یوں دعوے کرتے رہے کہ میں براہین کا رڈ لکھوں گا.پھر ۲۵ رمئی ۱۸۸۲ء کو ایک اور مسیحی نے ٹو را فشاں میں یہ سوال کیا کہ کون کون سی علامات یا شرائط ہیں جن سے بچے اور جھوٹے نجات دہندہ میں تمیز کی جا سکے ؟ آپ نے حقیقی نجات دہندہ کے شرائط و علامات پر بھی ایک مبسوط بحث کی.خطر ناک بیماری کا حملہ اور اس سے اعجازی شفا ۱۸۸۰ء میں ایک مرتبہ آپ پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا یہ بیماری قولنج زحیری کی تھی آپ کے ساتھ ہی میاں محمد بخش حجام اسی مرض سے بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن فوت ہو گیا.مگر آپ پر اس بیماری کا حملہ بظاہر نہایت خطرناک تھا ہر قسم کے علاج کئے گئے اور کوئی فائدہ نہ ہوا آخر اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو ایک علاج بتایا اور اس سے اعجازی شفا آپ کو حاصل ہوئی.آپ نے خود اس بیماری کی جو کیفیت لکھی ہے وہ زیادہ دلچسپ مؤثر اور ایمان افزا ہے.فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا (اس علالت کا سنہ آپ نے ۱۸۸۰ء نزول ایج صفحہ ۲۰۷ پر دیا ہے عرفانی) یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یسین سنائی.جب تیسری مرتبہ سورہ یسین سنائی گئی تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جواب وہ دنیا سے گزر بھی گئے دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے.اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار دمبدم حاجت ہو کر خون آتا تھا.سولہ دن برابر ایسی حالت رہی.اور اس بیماری
حیات احمد 11.جلد دوم حصہ اوّل میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہو گیا حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری.جب بیماری کو سولہواں دن چڑھا تو اُس دن بکلی حالات پاس ہو کر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یسین سنائی گئی اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہو گا.تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ اللَّه تعالی پاک ہے اور اپنے محامد کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ پاک اور برتر ہے اے اللہ ! محمد اور محمد کی آل پر صلوٰۃ ہو ) اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلماتِ طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشتِ سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اس سے تو شفا پائے گا.چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا اور میں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی گئی تھی.اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اس حالت سے نجات ہو.مگر جب وہ عمل شروع ہوا تو مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اُس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری مجھے بکتی چھوڑ گئی.اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا.جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہواوَ اِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِشِفَاءٍ مِّنْ
حیات احمد جلد دوم حصہ اوّل مقلہ.یعنی اگر تمہیں اس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفا پیش کرو.یہ واقعہ ہے جس کی پچاس آدمی سے زیادہ لوگوں کو خبر ہے.تریاق القلوب صفحه ۳۷ - ۳۸.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۰۸، ۲۰۹) اس واقعہ کو آپ نے نزول المسیح اور حقیقۃ الوحی میں بھی بیان فرمایا ہے.اس موقعہ پر عیادت کے لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے والد ماجد شیخ رحیم بخش صاحب بھی آئے تھے اور انہوں نے بعض لوگوں سے بیان کیا کہ آج کل یہ مرض وبا کی طرح پھیلا ہوا ہے.بٹالہ میں ایک جنازہ پڑھ کر آیا ہوں جو اسی مرض سے فوت ہوا ہے.غرض یہ مہلک مرض کا حملہ تھا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا تھا اور اسلام کے احیاء کے لئے آپ کی بعثت ہونے والی تھی آپ کو اس مرض کا ایک معجزانہ علاج سکھایا اور آپ کو شفا دی.غیر مذاہب کو نشان نمائی کی دعوت کی ابتدا براہین احمدیہ کی تصنیف ہی کے دوران میں آپ نے ان برکات اور فیوض اور ثمرات کے ثبوت کے لئے اپنے وجود کو پیش کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع سے اِس اُمت کے افراد کو سیر کرتے ہیں.چنانچہ تیسری جلد براہین کی آپ لکھ رہے تھے اور اس کے حاشیہ نمبر 11 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور آپ کی قدسی تاثیرات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: وہ بھی (آپ کے صادق اور مخلص متبعین ) ان نعمتوں سے اب تک حصہ پاتے ہیں اور جو شربت موسیٰ اور مسیح کو پلایا گیا وہی شربت نہایت کثرت سے نہایت لطافت سے نہایت لذت سے پیتے ہیں اور پی رہے ہیں.سبحان اللہ ثم سبحان اللہ...کیا عظیم الشان نور ہے جس کے ناچیز خادم جس کی ادنیٰ سے ادنیٰ اُمت جس کے احقر سے احقر چاکر مراتب مذکورہ بالا تک پہنچ جاتے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ وَ
حیات احمد ۱۱۲ جلد دوم حصہ اول حَبِيْبِكَ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَ اَفْضَلِ الرُّسُلِ وَ خَيْرِ الْمُرْسَلِيْنَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَ أَصْحَابِهِ وَ بَارِكْ وَسَلَّمْ اس زمانہ کے پادری اور پنڈت اور برہمو اور آریا اور دوسرے مخالف چونک نہ اٹھیں کہ وہ برکتیں کہاں ہیں وہ آسمانی نور کدھر ہیں.ہم نے اسی حاشیہ میں لکھ دیا ہے کہ طالب حق کے لئے کہ جو اسلام کے فضائلِ خاصہ دیکھ کر فی الفور مسلمان ہونے پر مستعد ہے.اس ثبوت دینے کے ہم آپ ہی ذمہ وار ہیں....الخ (براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۶ ۲۴۷ حاشیہ نمبر ۱.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۷۲ ۲۷۳ حاشیہ نمبر ۱۱) یہ اعلان ۱۸۸۲ ء میں ہو چکا تھا.اس لئے کہ براہین کی تیسری جلد ۱۸۸۲ء میں شائع ہو چکی تھی مگر اس آزمائش اور مقابلہ کے لئے کسی میں سکت پیدا نہیں ہوئی.ان ایام میں آپ خدا تعالیٰ کی تائیدات خاصہ اور اظہارِ غیب مصفی کے برکات کو برابر مشاہدہ کر رہے تھے کسی قسم کا دعوئی اپنی ذات کی نسبت نہیں تھا.ہاں ! قرآن مجید کی حقانیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور صداقت کے دلائل عقلی کے علاوہ آپ تائیدی نشانات اور آسمانی شہادات کے ساتھ ثابت کرنے کے لئے بالکل تیار تھے اس لئے کہ ان انعامات خاصہ اور برکات سماویہ کے آپ مورد و مظہر تھے.اسی دعویٰ کو آپ نے حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ صفحہ ۲۶۲ پر بھی بڑی قوت اور بصیرت کے ساتھ بیان کیا ہے.و ہی برکتیں اب بھی جو بندوں کے لئے مشہور ہو سکتی ہیں جس کا جی چاہے صدقِ قدم سے رجوع کرے اور دیکھے اور اپنی عاقبت کو درست کر لے انشاء اللہ تعالیٰ ہر یک طالب صادق اپنے مطلب کو پائے گا اور ہر یک صاحب بصارت اس دین کی عظمت کو دیکھے گا مگر کون ہمارے سامنے آ کر اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ وہ آسمانی نور ہمارے کسی مخالف میں بھی موجود ہے اور جس نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور افضلیت اور قرآن شریف کے منجاب اللہ ہونے سے انکار کیا ہے وہ
حیات احمد ۱۱۳ جلد دوم حصہ اوّل بھی کوئی روحانی برکت اور آسمانی تائید اپنے شامل حال رکھتا ہے؟ کیا کوئی زمین کے اس سرے سے اُس سرے تک ایسا متنفس ہے کہ قرآن شریف کے ان چمکتے ہوئے نوروں کا مقابلہ کر سکے؟ کوئی نہیں ایک بھی نہیں.“ براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۶۲ حاشیہ در حاشیہ نمبر ا.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۹۲۲۹۱) اس امر کا مزید ثبوت کہ یہ اعلان ۱۸۸۲ء میں ہو چکا تھا اس سے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے اس تحدی کو ختم کر کے نور افشاں لودہانہ مورخہ ۳ مارچ ۱۸۸۲ء میں شائع شدہ ایک پادری صاحب کے سوال کا جواب دیا ہے.اور اس طرح پر اُس دعوت کی مِنْ وَجْہِ تاریخ ہم متعین کر سکتے ہیں کہ ۱۸۸۲ء کی پہلی سہ ماہی میں آپ نے ایک کامل بصیرت اور معرفت کے ساتھ اُن تائیدات ربانی کے مقابلہ کے لئے منکرین اسلام کو بلایا جو آپ کے لئے ظاہر ہورہی تھیں.یہ دعوت آپ کی ہمیشہ بلند ہوتی رہی اور جوں جوں خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات میں ترقی ہوتی گئی اس دعوت کی قوت اور اس کی تشہیر میں بھی وسعت ہوتی چلی جائے گی.انفرادی طور پر بھی آپ نے بعض خاص لوگوں کو اس مقابلہ میں بلایا اور جماعتی حیثیت سے بھی اگر کسی نے ابتداء جرات اور شوخی سے کام لیا بھی تو مقابلہ کے وقت بھاگ گیا یا اپنی موت کے ذریعہ ایک نشان صداقت ٹھہر گیا اس کی تفاصیل اپنے وقت پر تاریخی سلسلہ میں انشاء اللہ آئیں گی.پیر سراج الحق صاحب کی آمد پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی جو سر ساوہ ضلع سہارنپور کے ایک صاحب ارشاد خاندان کے فرد ہیں براہین احمدیہ کے اعلان اور اس کی پہلی اور دوسری جلد کی اشاعت نے ایک طور قیامت پھونک دیا تھا اور تمام لوگ آپ کی طرف توجہ کر رہے تھے.پیر صاحب اُس وقت عین عنفوانِ شباب میں تھے وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں ۱۸۸۱ء میں قادیان آیا اس لحاظ سے ان کی آمد آج کے موجودہ رفقاء میں سب سے پرانی ہے.
حیات احمد ۱۱۴ جلد دوم حصہ اوّل صاحبزادہ سراج الحق اُس وقت اپنے مریدوں کے حلقہ میں نہایت محترم تھے پیر زادگی کے باوجود اُن کی طبیعت میں طلب حق کا ایک زبر دست جذبہ تھا.اور اسی لئے انہوں نے اس امر کی پرواہ نہیں کی کہ وہ اپنی سجادگی اور صاحبزادگی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں آخر وہ مستقل طور پر حضرت صاحب کی خدمت میں آئے.یہاں میں ان کے حالات زندگی نہیں لکھ رہا بلکہ حضرت کی زندگی کے واقعات کے سلسلہ میں تاریخی حیثیت سے اُن کی آمد کا ذکر کر رہا ہوں.اس وقت تک خدا کے فضل سے پیر صاحب زندہ ہیں.(۲۴ فروری ۱۹۳۱ء) حضرت اقدس کی آنکھوں کی صفائی کا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شرح صدر اور شق سینہ کا ایک عظیم الشان نشان حضور کے سوانح حیات میں ہے.مسلمانوں نے اس معجزہ کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے مجھ کو اس کی تفصیلات میں جانا نہیں لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ حضور کا شرح صدر ہوا اور جو واقعات اُس کے متعلق بیان کئے جاتے ہیں میں ان پر بھی ایمان لاتا ہوں کہ سب کچھ حق ہے لیکن یہ واقعات ایک ایسے کشفی رنگ میں ہوئے جو بیداری ہی کا واقعہ سمجھے جاتے ہیں اور اس کشف کی قوت واثر اتنا وسیع تھا کہ دوسروں نے بھی مشاہدہ کر لیا ہو تو تعجب نہیں.روحانیات سے ناواقف لوگ ان کو ایسے پیرا یہ میں یا ایسے رنگ میں بیان کر دیتے ہیں کہ وہ موجب اعتراض ہو جاتا ہے ٹھیک اسی رنگ کا ایک واقعہ حضرت اقدس کے ساتھ بھی ہوا ہے اس واقعہ کی صحیح تاریخ متعین نہیں کی گئی لیکن آپ نے اس کے گواہوں میں صاحبزادہ سراج الحق کا نام لیا ہے اور حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کا بھی.صاحبزادہ صاحب کے اپنے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اوّلاً ۱۸۸۱ء میں قادیان آئے ہیں اس لئے اسی واقعہ کے ایک شاہد ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ ۱۸۸۱ء یا غایت کار ۱۸۸۲ء کا ہوگا.اور یہ واقعہ حضرت کی آنکھوں کی صفائی کا ہے.
حیات احمد ۱۱۵ جلد دوم حصہ اول اس واقعہ سے ہی شَقِ صدر کی حقیقت بھی سمجھ میں آتی ہے.فرماتے ہیں کہ : ” میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے.اُس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت اُن میں سے پھینک دی اور ہر ایک بیماری اور کو تہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے.اور ایک مصفی نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنا دیا ہے اور یہ عمل کر کے پھر وہ شخص غائب ہو گیا اور میں اُس کشفی حالت سے بیداری کی طرف منتقل ہو گیا میں نے اس خواب کی بہت سے لوگوں کو اطلاع دی تھی چنانچہ اُن میں سے 66 صاحبزادہ سراج الحق صاحب سرساوی اور میر ناصر نواب صاحب دہلوی ہیں.“ تریاق القلوب صفحه ۹۵ - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۵۲) یہ کشف صریح آپ کے نورعین اور نور فراست کی تیزی اور ہر قسم کے روحانی اور جسمانی امراض سے ( جو آنکھ کے متعلق ہو سکتے ہیں ) آپ کو محفوظ رکھنے کی پیشگوئی کرتا ہے.آپ کی زندگی میں کبھی آپ کو آنکھ کا کوئی عارضہ نہیں ہوا.اور تُو رفراست اور طہارۃ العین جو آپ کو دی گئی تھی اس کا تو دشمنوں نے بھی اعتراف کیا ہے.اسی طرح پر آپ کی تطہیر کا بھی ایک واقعہ ہے اور آپ نے جو ترقی قرب الہی اور تعلق باللہ میں کی کسی مجاہدہ یا لیاقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور رحمت کا نشان ہے اس کے متعلق بھی آپ نے ایک رؤیا دیکھی تھی.اور یہ بھی اُنہیں ایام کی بات ہے.بلکہ یہ رویا نورانی آنکھ والے، کشف سے ایک دن اول یا بعد دیکھی تھی.آپ نے دیکھا ( بمقام گورداسپور ) کہ :- وو میں ایک جگہ چار پائی پر بیٹھا ہوں اور اُسی چار پائی پر بائیں طرف میرے مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں جن کی اولاد اب امرتسر میں رہتی ہے.اتنے میں میرے دل میں محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مولوی
حیات احمد ۱۱۶ جلد دوم حصہ اوّل صاحب موصوف کو چار پائی سے نیچے اتار دوں.چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی طرف رجوع کیا یعنی جس حصہ چار پائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اُس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا.تب انہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے کھسک کر پائینتی کی طرف چند انگلی کے فاصلے پر ہو بیٹھے.تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی میں اُن کو اٹھا دوں پھر میں اُن کی طرف جھکا تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر پھر چند انگلی کے مقدار پر پیچھے ہٹ گئے.پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی اُن کو اور زیادہ پائینتی کی طرف کیا جائے.تب پھر وہ چند انگلی پائینتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے.القصہ میں ایسا ہی ان کی طرف کھسکتا گیا اور وہ پائینتی کی طرف کھسکتے گئے یہاں تک کہ آخر ان کو چار پائی سے انتر نا پڑا اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اتر کر بیٹھ گئے.اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے ایک کا نام اُن میں سے خیراتی تھا وہ بھی اُن کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور میں چار پائی پر بیٹھا رہا.تب میں نے اُن فرشتوں اور مولوی عبداللہ صاحب کو کہا کہ آؤ میں ایک دعا کرتا ہوں.تم آمین کرو.تب میں نے یہ دعا کی کہ.ربّ اذْهَبْ عَنِّى الرِّجْسَ وَ طَهَرُنِى تَطْهِيرًا.اس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اٹھ گئے اور مولوی عبداللہ صاحب بھی آسمان کی طرف اٹھ گئے اور میری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلند تر کھینچ کر لے گئی اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا تعالیٰ نے تمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہوئی کہ جو انسان کے ہاتھ سے یا 66 انسان کے ارادہ سے نہیں ہوسکتی.“ تریاق القلوب صفحه ۹۴ ، ۹۵ - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۵۲،۳۵۱) اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تطہیر کر دی.اور آپ کو تمام منازل سلوک طے کرا دئیے
حیات احمد 112 جلد دوم حصہ اول ہر شخص اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا جوں جوں آپ کا زمانہ بعثت قریب آتا گیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے قرب کی راہوں پر خود چلا کر تقرب الی اللہ کا وہ مقام عطا فر مایا کہ آپ اور مسیح ابن مریم ایک ہی مقام پر نظر آتے ہیں.۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۸۲ء تک کے نشانات حضرت اقدس نے نزول امیج میں اپنی بعض پیشگوئیوں کے متعلق ایک تاریخی اسلوب بیان کیا ہے میں یہاں ان پیشگوئیوں کو تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا اس لئے کہ آپ کے سوانح زندگی میں پیشگوئیوں اور اعجازی تائیدات کی ایک الگ جلد ہوگی (انشاء اللہ العزیز ) لیکن واقعات کے تاریخی سلسلہ کے لحاظ سے یہاں میں اتنا اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ نے ۸۰-۱۸۸۲ء تک کی پیشگوئیوں میں جن کا ذکر کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں.(1) پیشگوئی نمبر ۲ نزول مسیح صفحه ۱۱۹ مندرجہ برا این احمد به صفحه ۲۴ جلد دوم (۲) پیشگوئی نمبر۳ نزول مسیح صفحه ۱۲۳ مندرجہ براہین احمدیہ صفحه۲۴۲ (۳) پیشگوئی نمبر ۴ نزول امسیح صفحه ۱۴۲ مندرجہ براہین احمدیہ صفحه ۲۴۲ اسی طرح پر پیشگوئی ۶،۵، ۷، ۸، ۹ ، ۱۲،۱۱،۱۰ ،۱۴،۱۳، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹ ، ۲۰، ۲۵ ، ۲۶، ۲۷، ۳۱،۳۰،۲۹،۲۸، ۴۰،۳۹،۳۸، ۴۱، ۷۷، ۱۰۳،۷۸ کو آپ نے ان سنین میں بیان فرمایا ہے.تفصیل کے لئے قارئین کرام نزول مسیح کو پڑھیں اور تریاق القلوب اور حقیقۃ الوحی میں بھی ان پیشگوئیوں کے متعلق آپ نے بحث کی ہے.حضرت مولوی عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا شرف باریابی ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۲ء تک کے حالات کو ختم کرتے ہوئے میں حضرت مولوی عبد اللہ سنوری رضی اللہ عنہ کی آمد کا تذکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں.براہین احمدیہ کی پہلی دونوں جلد میں شائع
حیات احمد ۱۱۸ جلد دوم حصہ اول ہو چکی تھیں اور پٹیالہ میں انکا عام چرچا ہورہا تھا.اور اس سلسلہ میں اُن کا تعلق حضرت اقدس سے کس طرح ہوا.میں خود اُن کے ہی الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں.ان کے اس بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۱۸۸۲ء میں قادیان آئے.اگر چہ ایک مرتبہ انہوں نے ایسا بھی بیان کیا تھا کہ وہ ۱۸۸۱ء میں آئے.مگر جہاں تک واقعات سے تصدیق ہوتی ہے اُن کی آمد ۱۸۸۲ء ہی میں ہوئی بہر حال مولوی صاحب کا اپنا بیان حسب ذیل ہے:.۱۸۸۲ء میں آپ کا حضرت مسیح موعود سے تعلق ارادت ہوا اس تعلق کی تفصیل مولوی عبداللہ صاحب یوں بیان کرتے ہیں.دو مجھے بچپن سے ہی ایسے اہل اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا شوق تھا جو متبع سنت اور خالص موحد ہوں.میری اس تڑپ اور شوق کو دیکھ کر میرے ماموں مولوی محمد یوسف صاحب مرحوم نے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی تعریف کی.اور کہا کہ امرتسر میں ایک شخص ہے جو متبع سنت ہے یہ سن کر میں ان کی زیارت کے لئے امرتسر پہنچا.اور وہاں تین چار روز رہا اور مولوی صاحب موصوف کی بیعت کر کے واپس چلا گیا اس وقت ابھی میری عمر بچپن ہی کی تھی.مولوی صاحب موصوف نے بیعت کے بعد مجھے دو وظیفے پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا.ایک یہ کہ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اسْتَغِيتُ ہر وقت پڑھتے رہیں.اور دوسرا یہ کہ صبح کی سنتوں کے بعد یعنی فرضوں سے پہلے اکتالیس بار سورۃ فاتحہ بالالتزام پڑھا کریں جس کی تاثیر کا میں نے مشاہدہ بھی کیا.اس کے بعد ماموں صاحب موصوف نے فرمایا کہ ہندوستان کے ایک شہر آرہ میں ایک بزرگ ہیں جو یہاں تک متبع سنت ہیں کہ اس نے اتباع سنت نبوی میں اپنی مسجد کی چھت بھی کھجور ہی کی شاخوں کی بنائی ہوئی ہے.ان کی زیارت کا مجھے بہت اشتیاق پیدا ہوا چنانچہ میں آرہ جانے کو تیار ہی تھا کہ ایک روز ماموں صاحب
حیات احمد ۱۱۹ جلد دوم حصہ اوّل نے پٹیالہ سے جو سنور سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے واپس آکر مجھ سے کہا کہ عبد اللہ ! اب آرہ جانے کا خیال چھوڑ دو.قادیان میں ایک بزرگ نے اس دعوے سے کتاب لکھنی شروع کی ہے اور پھر اس کتاب کے دعوی کا اور اس پر دس ہزار روپیہ انعام کا ذکر کیا.اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بڑا کامل ہے.اگر تجھے زیارت کے لئے جانا ہے تو اس کے پاس جا.چنانچہ اُسی وقت آرہ جانے کا خیال جاتا رہا اور قادیان روانہ ہو پڑا.بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے اس بات کے سننے پر میرے دل میں کچھ ایسا ولولہ اٹھا کہ جس جگہ پر ماموں صاحب نے مجھ سے یہ ذکر کیا تھا وہیں سے سیدھا میں قادیان کی طرف روانہ ہو گیا.گھر بھی نہیں گیا.جب میں بٹالہ اسٹیشن پر گاڑی سے (جو ابھی شروع ہی ہوئی تھی ) اتر کر رات وہیں رہا اور علی اصبح پیدل چل کر قادیان پہنچا.حضور اس وقت بیت الفکر میں تشریف رکھتے تھے.میں نے بیت الفکر کے چھوٹے دروازہ پر جو بیت الذکر یعنی مسجد مبارک میں ہے دستک دی.حضور نے دروازہ کھول دیا اور میں السلام علیکم عرض کر کے پاس بیٹھ گیا.حضور کا چہرہ دیکھتے ہی بغیر اس کے کہ حضور میرے ساتھ کوئی بات کرتے میری دل میں حضور کی بے حد محبت پیدا ہوگئی.اور حضور کا چہرہ مبارک نہایت ہی پیارا معلوم ہوا.اُس وقت تک میں نے براہین احمدیہ یا اس کا اشتہار خود نہیں دیکھا.یہاں آ کر بھی کوئی دلائل حضور علیہ السلام یا کسی اور سے نہیں سنے بلکہ میری ہدایت کا موجب صرف حضور کا چہرہ مبارک ہی ہوا حضور پر میرا اعتقاد اسی وقت پورا ہو گیا.رفتہ رفتہ نہیں ہوا.یہاں میں تین روز رہ کر واپس روانہ ہو گیا.مگر بٹالے پہنچ کر میرا دل آگے جانے کو نہیں چاہتا تھا اس لئے پھر قادیان واپس آ گیا.حضور نے فرمایا کہ کیوں واپس آگئے میں نے کہا حضور جانے کو دل نہیں چاہتا.فرمایا اچھا اور رہو.چنانچہ میں ہفتہ عشرہ اور رہا اور پھر واپس چلا گیا.اس کے بعد میں اکثر حضور کی خدمت میں
حیات احمد حاضر ہوا کرتا تھا.“ ۱۲۰ جلد دوم حصہ اوّل مولوی عبد اللہ صاحب سے اسی تقریب پر حضرت اقدس نے اپنی دوسری شادی کے متعلق بھی ذکر کیا چنانچہ مولوی عبد اللہ صاحب فرماتے تھے :.” جب میں ۱۸۸۲ء میں پہلے پہل قادیان آیا تو اس وقت میری عمر ۱۷-۱۸ سال کی تھی اور میری ایک شادی ہو چکی تھی اور دوسری کا خیال تھا.جس کے متعلق میں نے بعض خواہیں بھی دیکھی تھیں.میں نے ایک دن حضرت صاحب کے ساتھ ذکر کیا کہ مجھے ایسی ایسی خوا ہیں آئی ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا یہ تمہاری دوسری شادی کے متعلق ہیں اور فرمایا کہ مجھے بھی اپنی دوسری شادی کے متعلق الہام ہوئے ہیں دیکھئے کہ تمہاری شادی پہلے ہوتی ہے کہ ہماری.مولوی عبد اللہ صاحب کو اس طرح پر براہین احمدیہ کی تالیف واشاعت کے آغاز ہی میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی اور انہیں براہین احمدیہ جلد چہارم کی طبع کے کام میں خدمت کا موقع مل گیا اور وہ کبھی پروف وغیرہ لے کر مطبع ریاض ہند امرتسر میں جایا کرتے تھے اور بعض دوسرے کاموں میں بھی حصہ لیتے تھے.غرض حضرت کی خدمت کا انہیں بہت ہی نادر و نایاب موقعہ ملا.اور ان خدمات میں اخلاص اور یک رنگی درجہ کمال پر تھی اس لئے حضرت اقدس بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور اس پر اکثر دوستوں کو رشک آتا تھا.مولوی عبد اللہ صاحب کے سوانح زندگی کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں.اس قدر ذکر محض ۱۸۸۲ء کے واقعات کے ضمن میں کرنا ضروری تھا.
حیات احمد ۱۲۱ جلد دوم حصہ اول لاہور کے پرچہ رفاہ میں براہین کی مخالفت اور حضرت اقدس کا ان کی ناکامی کی پیشگوئی کرنا براہین احمدیہ کی تیسری جلد کی اشاعت کے ساتھ مخالفین میں ایک طوفان بے تمیزی پیدا ہو گیا.اس میں برہموؤں پر خصوصیت سے زد تھی اس لئے اُن میں جوش پیدا ہونا لازمی تھا.فرقہ نیچر یہ کو بھی اس حملہ سے نقصان اٹھانا پڑا.سرسید احمد خان صاحب چونکہ تعلیمی خدمت مسلمانوں کی کر رہے تھے اور ان کے کام کو ایک طبقہ پسندیدہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا.بعض نیک نفس لوگوں کو اس کا بھی احساس ہوا کہ سرسید کے خلاف کچھ نہ لکھا جاوے.نیز بعض مقامات میں جو حضرت کی تعریف تھی اس کو بھی مبالغہ سمجھا گیا.ان شریف الطبع اور نیک نفس لوگوں میں سے ایک منشی احمد جان صاحب لود بانوی تھے انہوں نے میر عباس علی صاحب کے ذریعہ ایک خط لکھوایا جس میں سرسید کے متعلق کچھ نہ لکھنے کا بھی نہایت ادب اور نیک نیتی کے ساتھ اشارہ تھا.حضرت نے ۸/نومبر ۱۸۸۲ء کو اس کے جواب میں آریہ سماج اور برہم سماج کا فرق بتاتے ہوئے ظاہر کیا کہ :- بر ہمو سماج کا فرقہ دلائل عقلیہ پر چلتا ہے اور اپنی عقلِ نا تمام کی وجہ سے کتب الہامیہ کا منکر ہے.چونکہ انسان کا خاصہ ہے کہ معقولات سے زیادہ اور جلد تر متاثر ہوتا ہے اس لئے اطفال مدارس اور بہت سے نو تعلیم یافتہ اُن کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہو گئے اور سید احمد خان بھی انہیں کی ایک شاخ ہے اور انہیں کی صحبتوں سے متاثر ہے پس ان کے زہرناک وساوس کی بیخ کنی کرنا از حد ضروری تھا.لاہور کے برہمو سماج نے پرچہ رفاہ میں بہ نیت رڈ حصہ سوم کچھ لکھنا بھی شروع کیا ہے مگر حق محض کے آگے اُن کی کوششیں ضائع ہیں.عنقریب خدا اُن کو ذلیل اور رسوا کرے گا اور اپنے دین کی عظمت اور صداقت ظاہر کر دیگا." منشی احمد جان صاحب نے جو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو.
حیات احمد ۱۲۲ جلد دوم حصہ اول اس کا مطلب اس عاجز کو معلوم نہیں ہوا.اس کتاب میں تعریف قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.سو وہ دونوں دریائے بے انتہا ہیں.اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل اُن کی تعریف کریں تب بھی حق تعریف کا ادا نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے.ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خداوند کریم کی طرف سے القا ہوئے کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں خاتم الانبیاء کی ہیں صلی اللہ علیہ وسلم اور اُسی وقت تک کوئی دوسرا اُن کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تک اُس نبی کریم کی متابعت کرے اور جب متابعت سے ایک ذرہ منہ پھیرے تو پھر تَحْتَ الشَّـرى میں گر جاتا ہے.اُن الہامی عبارتوں میں خدا وند کریم کا یہی منشاء ہے کہ اپنے نبی اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے.“ مکتوبات بنام میر عباس علی شاہ صاحب - مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۰۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء) واقعات نے بتا دیا کہ برہمو سماج والے براہین کے رڈ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے بلکہ ان کا رئیس ستیا نند اگنی ہوتری اولاً جس الہام کا منکر تھا خود اس کا قائل ہوا.اور پھر برہمو سماج سے الگ ہو کر ایک الگ سماج بنانے کا مدعی ٹھہرا.چنانچہ لاہور میں دیو سماج قائم ہوگئی اور بالآخر وہی شخص جو خدا تعالیٰ سے الہام پانے کا مدعی تھا خود خدا سے منکر ہو کر دیو گرو بھگوان بن گیا.لاہور کے براہم سماج کو اس کی وجہ سے بہت نقصان اور ضعف پہنچا اور اس کی ناکامی اور حضرت مسیح موعود کی کامیابی اور عظمت کا ظہور نمایاں ہے جیسا کہ آگے آئے گا.66 ۱۸۸۳ء کے حالات اور واقعات ۱۸۸۳ء کے واقعات اور آپ کے سوانح حیات کی ترتیب تاریخ وار تو دشوار ہے.اس لئے کہ کوئی باقاعدہ ڈائری ان ایام میں کسی نے نہیں رکھی ہاں جہاں تک ممکن ہو گا تاریخ ترتیب کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا یہ بھی نہیں کہ تکلف کے ساتھ ترتیب تاریخ کو مد نظر رکھا جاوے البتہ
حیات احمد ۱۲۳ جلد دوم حصہ اوّل اہم واقعات کو جدا جدا عنوانوں کے تحت میں درج کرنا ضروری سمجھا گیا ہے.واقعات کی ترتیب میں جہاں تک دستاویزی قرائن صحیحہ کی شہادت سے مددملتی ہے میں کوشش کروں گا کہ مہینوں کی ترتیب کو نظر انداز نہ ہونے دوں.اور یہ بھی بیان کر دینا ضروری ہے کہ حتی الوسع واقعات کے بیان میں خود حضرت ہی کے بیان اور تحریر کو مقدم کیا گیا ہے.واقعات میں اول دوسرے لوگوں کا ذکر آتا ہے.جن پر کسی قسم کا اتمام حجت کیا گیا ہے یا کسی مقابلہ کی دعوت ان کو دینی ہے.ان کی زندگی میں واقعات شائع ہوئے ہیں اور انہوں نے اگر ان کی کوئی تردید نہیں کی تو یہ ایک مستحکم دلیل ان واقعات کی صداقت کی ہے.ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ذیل میں ۱۸۸۳ء کے حالات لکھتا ہوں.جنوری ۱۸۸۳ء اگنی ہوتری اور قرآن شریف کی مثل اس سال کے شروع ہی میں حضرت اقدس کو پھر پنڈت شونرائن اگنی ہوتری سے خطاب کرنے کی ضرورت پیش آئی.براہین کی پہلی تین جلدوں خصوصاً تیسری جلد کی اشاعت پر براہم سماج میں ایک زلزلہ آیا.براہمواور دوسرے منکرین وحی و الہام جو اعتراض کرتے تھے آپ نے براہین میں ان کا تفصیل اور بسط کے ساتھ معقول رڈ کیا.پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری جو براہم سماج کے منسٹر اور کرتا دھرتا تھے اس کے جواب کے لئے آمادہ ہوئے اگر چہ اس سے پیشتر بھی ان سے مسئلہ الہام پر ایک خط و کتابت ہو چکی تھی.جس کا ذکر اسی کتاب میں پہلے ہو چکا ہے مگر اب انہوں نے اپنے اخبار دھرم جیون میں آغاز بحث کیا اور جنوری ۱۸۸۳ء کے دھرم جیون میں قرآن مجید کی تحدی بے نظیری پر ایک آرٹیکل لکھا اور یہ دعوی کر دیا کہ دانشمند انسان ایسی تالیف کر سکتا ہے جو کمالات میں مثل قرآن شریف کے یا اس سے بڑھ کر ہو.آپ نے پنڈت جی کے اس سوال کا جواب فوراً براہین احمدیہ کے حاشیہ نمبر 1 میں صفحہ ۳۲۹ پر لکھا.اور اسی سلسلہ میں آپ نے سورۃ فاتحہ اور گلاب وو
حیات احمد ۱۲۴ جلد دوم حصہ اوّل کے پھول کی مماثلت پر ایک بصیرت افروز بحث کی (قارئین کرام براہین میں پڑھیں ) اس طرح پر اس سال کا آغاز ستیا نند اگنی ہوتری جی کے ساتھ قرآن مجید کی تحدی نظیر پر ایک مباحثہ قلمی شروع ہو گیا.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت کی اس تحریر کی اشاعت کے بعد اگنی ہوتری جی قرآن شریف پر کسی قسم کا حملہ کرنے سے پیچھے ہٹ گئے اور خاموش ہو گئے.پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کے اس اعتراض نے معارف و حقائق قرآنی کے ایک چشمہ کے جاری کر دینے کی تحریک کی اور خدا تعالیٰ نے وہ معارف آپ کو دیئے کہ آپ سے پیشتر کسی نے اس خصوص میں نہ لکھے تھے.اس ضمن میں آریوں اور عیسائیوں کے اعتراضات قرآنِ مجید کے متعلق بھی آپ نے رڈ کئے اور ان کی تعلیمات کا قرآنی تعلیم سے مقابلہ کر کے قرآن مجید کی عظمت اور فضیلت کا اظہار فرمایا.اس طرح پر یہ سال بر ہموؤں ، آریوں ، عیسائیوں پر مشترکہ فتح کے ساتھ شروع ہوا.پنڈت شونرائن صاحب کے متعلق میرا بیان نا تمام رہ جائے گا.اگر اس کے بعد کے واقعات ( جو اس سلسلہ میں پیش آئے ) کا ذکر نہ کر دیا جاوے.پنڈت صاحب نے جیسا کہ اوپر بیان کر چکا ہوں اخبار ” دھرم جیون میں براہین احمدیہ پر ریویو کے ضمن میں وحی والہام کے متعلق ایک سلسلہ بحث شروع کر دیا.آپ نے اس ریویو پر ایک تبصرہ خود براہین احمدیہ میں کرنا پسند فرمایا.اور الہام ووحی کے متعلق دلائل کے سلسلہ کو الگ رکھ کر آپ نے ایک ایسا طریق اختیار کیا کہ جس کا پنڈت اگنی ہوتری کے پاس کوئی جواب نہ تھا اور اس کے لئے دو ہی راستے کھلے تھے.یا تو طالب صادق بن کر آپ کی دعوت کو قبول کرتا اور آپ کی صحبت میں رہ کر اس الہام کی صداقت کو اپنی آنکھ سے دیکھتا اور یا اپنی خاموشی اور گریز سے ہمیشہ کے لئے حضرت کی صداقت پر مہر کر دیتا دونوں راستوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے سے یہی حقیقت عالم آشکار ہوتی.وہ نہ تو طالب صادق بن کر آیا اور نہ ہی مقابلہ میں آیا.اور خاموش رہ جانے سے اس نے اس صداقت کو عملاً ثابت کر دیا.حضرت نے اس مقابلہ کے متعلق براہین احمدیہ کے صفحہ ۳۱۸ کے حاشیہ نمبر ۱۱
حیات احمد ۱۲۵ جلد دوم حصہ اوّل میں بحث کی ہے.اور اس بحث کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دو رجسٹر ڈ خطوط بھی پنڈت صاحب کو بھیجے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ :- اگر پنڈت صاحب حق جو و حق گو ہو کر بحث کرتے تو ان کے لئے بجز اس کے اور کوئی طریق نہ تھا کہ وہ ہمارے دلائل کو توڑ کر دکھلاتے اور جو کچھ ہم نے ثبوت ضرورتِ الہام و ثبوتِ وجود الہام اپنی کتاب میں دیا ہے اُس ثبوت کو اپنے دلائل بالمقابل سے معدوم اور مرتفع کرتے مگر پنڈت صاحب کو خوب معلوم ہے کہ اس عاجز نے دو مرتبہ علی التواتر دو خط رجسٹر کر اکر اس غرض سے اُن کی خدمت میں بھیجے کہ اگر اُن کو اس عادت الہی میں کچھ تر و د در پیش ہے کہ وہ ضرور بعض بندوں سے مکالمات و مخاطبات کرتا ہے اور ان کو ایسی خبروں اور ایسے علموں سے ایک خاص کلام کے ذریعہ سے مطلع فرماتا ہے کہ جن کی شان عظیم تک وہ خیالات نہیں پہنچ سکتے کہ جن کا منشاء اور منبع صرف انسان کے تخیلات محدودہ ہیں تو چند روز صدق اور صبر سے وہ اس عاجز کے پاس ٹھہر کر اس صداقت کو جو اُن کی نظر میں ممتنع اور محال ہے اور خلاف قوانین نیچر ہے بچشم خود دیکھ لیں اور پھر صادقوں کی طرح وہ راہ اختیار کریں جس کا اختیار کرنا صادق آدمی کے صدق کی شرط اور اس کی صاف باطنی کی علامت ہے.مگر افسوس کہ پنڈت صاحب نے باوجود سنیاس دھارنے کے اس امر کو جو حقیقی سنیاس کی پہلی نشانی ہے سچے طالبوں کی طرح قبول نہیں کیا بلکہ اس کے جواب میں قرآن شریف کی نسبت بعض کلمات اپنے خط میں ایسے لکھے کہ جو ایک سچے خدا ترس کی قلم سے ہرگز نہیں نکل سکتے.معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت صاحب کو صداقتِ حقانی سے صرف انکار ہی نہیں بلکہ عداوت بھی ہے ورنہ جس حالت میں تــحــقـق وجود کلمات اللہ پر عقلی اور مشہودی طور پر ایک بھارا ثبوت دیا گیا ہے اور ہر طرح کے وساوس کی بیخ کنی کر دی گئی ہے اور ہر ایک قسم کی تشفی اور تسلی کے لئے یہ عاجز ہر وقت مستعد کھڑا ہے تو پھر بجز
حیات احمد ۱۲۶ جلد دوم حصہ اوّل بغض اور عداوت ذاتی کے اور کونسی وجہ ہے جو پنڈت صاحب کو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے؟“ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۸۱،۳۸۰ حاشیہ نمبر۱۱) عجیب بات یہ ہے کہ حضرت اقدس نے پنڈت سیتا نند کو یہ دعوت دی تھی کہ وہ میری صحبت میں رہ کر اس صداقت کا معائنہ کریں مگر وہ اس میدان میں نہ اترے اللہ تعالیٰ نے ایک اور رنگ میں اس کو پورا کر دیا.اگنی ہوتری جی کے خط کی قبل از وقت اطلاع الہام الہی سے پنڈت جی براہین احمدیہ حصہ سوم کا ر ڈ لکھنا چاہتے تھے اس کے متعلق انہوں نے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا.قبل اس کے کہ وہ خط حضرت اقدس کو پہنچتا اور آپ اس کے مضمون سے واقف ہوتے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ الہام اس خط سے آگاہ کر دیا اور حضرت نے قادیان کے آریوں کو جو علی العموم آپ کے پاس آمد و رفت رکھتے تھے اس کے مضمون سے واقف کر دیا اور اسی طرح ظہور میں آیا.خود حضرت اقدس اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ :- ایک دفعہ پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری صاحب ایڈیٹر رسالہ ”برادر ہند کا ایک خط لاہور سے آنے والا تھا جس میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ میں براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ کا رڈلکھوں گا جس میں الہام ہیں اور ایسا اتفاق ہوا کہ خدا تعالیٰ نے اس خط کے پہنچنے سے پہلے اُسی دن بلکہ اُسی ساعت جبکہ وہ لاہور میں اپنا خط لکھ رہے تھے مجھ کو اس خط سے بذریعہ کشف اطلاع دیدی اور کشفی طور پر وہ خط میرے سامنے آ گیا اور میں نے اُس کو پڑھا.اُس وقت اُن آریوں کو جن کا کئی دفعہ ذکر آچکا ہے اُس خط کے مضمون سے اُسی دن خط آنے سے پہلے مطلع کر دیا اور دوسرے دن اُن میں سے ایک آریہ ڈاکخانہ میں خط لینے کو گیا اور اُس کے روبرو ڈاکخانہ کے تھیلہ سے وہ خط نکلا
حیات احمد ۱۲۷ جلد دوم حصہ اوّل اور جب پڑھا گیا تو بلا کم و بیش وہی مضمون تھا جو میں نے بیان کیا تھا.تب وہ آریہ لوگ نہایت حیرت میں اور تعجب میں رہ گئے.وہ ابتک زندہ موجود ہیں اور حلف دینے سے راست راست بیان کر سکتے ہیں.“ (حقیقة الوحی صفحه ۳۷۸ نشان ۱۷۵ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۹۳،۳۹۲) اس خط کے جواب میں آپ نے پنڈت اگنی ہوتری کولکھا " کہ جس الہام کے سلسلہ میں تم رڈ لکھنا چاہتے ہو اسی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیش از وقت تمہارے خط کے مضمون سے اطلاع دے دی ہے اگر تم چاہو تو قادیان میں آکر اپنے ہندو بھائیوں سے تصدیق کرلو“ نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۰۶) مگر وہ اس کیلئے بھی میدان میں نہ آئے میں یہاں تاریخی مغالطہ کی اصلاح کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں نزول اسیح میں صفحہ ۲۲۸ پر پیشینگوئی نمبر ۱۰۷ کے ضمن میں اس کی تاریخ قریباً ۱۸۸۷ء چھپی ہے.یہ تاریخ چھاپہ کی غلطی سے چھپ گئی ہے اس لئے کہ پیشینگوئی میں صاف ظاہر ہے کہ اس نے حصہ سوم براہین احمدیہ کا رد لکھنا چاہا اور یہ سلسلہ جنوری ۱۸۸۳ء میں دھرم جیون“ اخبار میں شائع ہوا تھا.اس لئے یہ ۱۸۸۳ء کا واقعہ ہے.رجوع خلائق.اہالیان لودھانہ کی دعوت.خواہش بیعت اور حضور کا انکار براہین احمدیہ کا حصہ سوم شائع ہو چکا تھا.اور اب آپ کی شہرت قادیان سے باہر نکل چکی تھی اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو بشارات دی تھیں لوگوں کا رجوع بھی ہور ہا تھا مگر آپ فطرتاً خلوت ہی کو پسند کرتے تھے.لوگوں میں عقیدت و ارادت بڑھ رہی تھی لودھانہ خصوصیت سے اس کا مرکز ہو رہا تھا.میر عباس علی صاحب براہین احمدیہ کی اعانت واشاعت کے سلسلہ میں
حیات احمد ۱۲۸ جلد دوم حصہ اوّل آپ کے کمالات اور خوبیوں کا ذکر کرتے تھے اور اس طرح پر ایک مختصر سی جماعت ایسی پیدا ہو گئی تھی جو حضرت اقدس کے ساتھ اپنی ارادت میں ترقی کر رہی تھی.ان میں مولوی عبد القادر صاحب اور قاضی خواجہ علی صاحب رضی اللہ عنہما پیش پیش تھے.حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ پر بھی اثر تھا.پھر اسی جماعت میں نواب محمد علی خاں صاحب آف جھجھر کا اضافہ ہوا.غرض یہ جماعت يَوْمًا فَيَوْمًا بڑھ رہی تھی میر عباس علی صاحب لوگوں کی اس ارادت اور شوق کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور بار بار حضرت کو لودھیانہ آنے کے لئے لکھ رہے تھے.حضرت صاحب باوجود بار بار ارادہ کرنے کے رُک جاتے تھے.چنانچہ ۱۸ / جنوری ۱۸۸۴ء کو آپ نے میر عباس علی صاحب کو اسی دعوت کے جواب میں لکھا.آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا یہ عاجز اگر چہ بہت چاہتا ہے کہ آں مخدوم کے بار بار لکھنے کی تعمیل کرے مگر کچھ خدا وند کریم ہی کی طرف سے ایسے ایسے اسباب آ پڑتے ہیں کہ رُک جاتا ہوں.نہیں معلوم حضرت احدیت کی کیا مرضی ہے.عاجز بندہ بغیر اس کی مشیت کے قدم نہیں اٹھا سکتا.“ پھر لوگوں کی ارادت و عقیدت کے متعلق تحریر فرمایا کہ :- لوگوں کے شوق و ارادت پر آپ خوش نہ ہوں حقیقی شوق اور ارادت کہ جو لغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتی ہے ورنہ اکثر لوگوں کے دل تھوڑی تھوڑی بات میں بدظنی کی طرف جھک جاتے ہیں اور پھر پہلے حال سے پچھلا حال اُن کا بدتر ہو جاتا ہے.“ لو د ہانہ میں جو جماعت پیدا ہو رہی تھی وہ اس امر پر بھی زور دے رہی تھی کہ آپ بیعت لیں اور اس غرض کے لئے لوگ قادیان جانے کو بھی تیار تھے.میر عباس علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا نام نواب علی محمد خان صاحب آف جھجھر تحریر فرمایا ہے ملاحظہ ہو مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه۲۲ مرتبه شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (ناشر)
حیات احمد ۱۲۹ جلد دوم حصہ اول حضرت کولو د ہا نہ بلاتے رہے اور خدا کی مشیت نے اس وقت تک حضرت کو موقعہ نہیں دیا اور جب میر صاحب نے اس جماعت کے قادیان پہنچنے کے متعلق لکھا تو آپ نے اسی مکتوب میں تحریر فرمایا کہ.بہتر یہ ہے کہ آں مخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف بیعت کے لئے بہت زور نہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے.یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ اُن کی رسم و عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ اُن کے پیرایہ سے نہایت بیگا نہ اور دور ہے سَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ اگر خدا نے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایماء سے اجازت فرما دے.ہر ایک کو اس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پردہ غیب میں مخفی ہے اُس کے ظہور کے منتظر رہیں.۱۸ / جنوری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۸ ؍ ربیع الاول ۱۳۰۱ ھ.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۸۹،۵۸۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد جلد دوم (حصہ دوم) مرتبه یعقوب علی عرفانی
حیات احمد ۱۳۳ جلد دوم حصہ دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات کی دوسری جلد کا دوسرا نمبر شائع کر رہا ہوں.اس دوسری جلد میں حضور کے۱۸۷۹ ء سے لے کر ۱۸۸۹ء تک کے حالات ہوں گے اس جلد کا پہلا نمبر اگست ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا تھا اور قریبا تین سال بعد دوسرا نمبر شائع ہو رہا ہے اس تو قف اور دیر کے جو اسباب ہیں میں ان کو بیان کر کے جماعت کی ذمہ واریوں اور احساس کو صدمہ پہنچا نانہیں چاہتا.اب تک کہ حضور کی وفات پر چوتھائی صدی گزر چکی ہے ہم آپ کے سوانح حیات بھی پورے شائع نہ کر سکے.میں اپنی ذمہ واری کو سمجھتا ہوں مگر چاہتا ہوں کہ جماعت بھی اپنی ذمہ واری کو محسوس کرے.حضرت خلیفۃ امسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۷ء کے جلسہ میں فرمایا تھا کہ یہ کتاب ہر احمدی کے گھر میں خواندہ ہو یا نا خواندہ ہونی چاہئے“ اب ہر احمدی سوچ لے اور اپنا محاسبہ خود کر لے کہ اس نے کہاں تک عمل کیا ہے اس نمبر کی اشاعت شائد اور بھی معرض التواء میں رہتی مگر خدا تعالیٰ نے خان بہادر چوہدری محمد دین صاحب ممبر کونسل آف سٹیٹ پنشنرز ڈپٹی کمشنر حال وزیر مال ریاست جے پور کو تو فیق دی کہ وہ اس کام کو جاری رکھنے کے لئے میری اعانت کریں میں ان کے اخلاص اور صدق کا اندازہ نہیں کر سکتا.انہوں نے کامل انشراح صدر سے اعانت کا ہاتھ بڑھایا میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کی ہر قسم کی کامیابیوں کے لئے دعا کریں اور میں تو یقین رکھتا ہوں کہ اس نیک کام کے لئے اللہ کے حضور ان کے لئے بڑا اجر ہے اگر دوسرے بھی تعاون کریں اور ہر نمبر کو فوراً خرید لیں اور
حیات احمد ۱۳۴ جلد دوم حصہ دوم حضرت کے ارشاد پر عمل کریں تو یہ کتاب خدا کے فضل سے ایک دو سال کے اندر مکمل ہو سکتی ہے میں بالآ خر دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کی تکمیل کی توفیق دے جیسا کہ میرا آقا چاہتا ہے کہ میں اسے پورا کروں اور احباب کو توفیق دے کہ حضرت کے ارشاد کے موافق ہر احمدی اپنے اپنے گھر میں رکھ سکے اور ان کے قلوب میں القا کرے کہ اس کام کی اہمیت اور ضرورت کا عملی احساس کریں.آمین ثم آمین.جب تک کم از کم ایک ہزار خریدار نہیں ہو جاتے اسی ضخامت کے یہ نمبر شائع ہوتے رہیں گے.لیکن اگر ایک ہزار خریدار مستقل ہو جاویں تو اسی قیمت میں ڈیوڑھا حجم بآسانی ہوسکتا ہے.والسلام خاکسار یعقوب علی عرفانی کنج عافیت.تراب منزل.قادیان ۱۹/ مارچ ۱۹۳۴ء
حیات احمد ۱۳۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حیات احمد عليه الصلوة والسلام جلد دوم نمبر دوم تمہیدی نوٹ جلد دوم حصہ دوم حیات احمد علیہ الصلوۃ والسلام (جس کا پہلا نام حیات النبی تھا) کی دوسری جلد کا پہلا نمبر شائع ہو چکا ہے اس جلد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دہ سالہ ۱۸۷۹ ء لغایت ۱۸۸۹ء زندگی کے حالات و واقعات درج ہوں گے اس جلد کا پہلا نمبر جو شائع ہو چکا ہے وہ اگست ۱۹۳۱ء میں لکھا گیا تھا اب میں دوسرا نمبر پیش کر رہا ہوں.اس اہم تالیف کی اشاعت میں اس قدر تعویق میں تو اپنی ہی کسی پنہانی معصیت کا نتیجہ سمجھتا ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ جماعت بھی اس کے لئے ذمہ دار ہے.بہر حال میں سردست اس بحث میں نہیں پڑتا اللہ تعالیٰ سے توفیق چاہتا ہوں کہ وہ مجھے اس کتاب کی تکمیل کی توفیق دے.اس سلسلہ میں یہ آخری تصنیف یا تالیف تو ہے نہیں ہزاروں سوانح حیات کی کتابیں مختلف رنگوں میں لکھی جائیں گی البتہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انشاء العزیز.یہ پہلی اور اساسی تالیف ہوگی مجھے اپنے بخت رسا پر ناز ہے اور نہ صرف میں بلکہ میری آنے والی نسلیں (خدا کرے کہ وہ سب
حیات احمد جلد دوم حصہ دوم خادمِ دین ہوں اور اس سلسلہ کے حقیقی وفادار اور مخلص ہوں.آمین ) بھی اس پر فخر کریں گی کہ مجھے اس تالیف کی توفیق ملی.اس کا اعتراف کیا گیا ہے حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعود کی ایک مختصر سی لائف لکھی ہے اس میں اس خاکسار کو سلسلہ کا مؤرخ تحریر فرمایا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سَلَّمَهُ اللهُ الأحد نے اپنی سیرت المہدی (جس میں روایات کے ذریعہ سوانح کو محفوظ کیا جارہا ہے ) روایت نمبر ۷۷ صفحہ ۱۹۳ میں لکھا ہے کہ :.(۴) " حیات النبی مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی.شیخ صاحب موصوف پرانے احمدی اور سلسلہ کے خاص آدمیوں میں سے ہیں.مہاجر ہیں اور کئی سال حضرت صاحب کی صحبت اٹھائی ہے.ان کے اخبار الحکم میں سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح اور سیرت کا کافی ذخیرہ موجود ہے.شیخ صاحب کو شروع سے ہی تاریخ سلسلہ کے محفوظ رکھنے اور جمع کرنے کا شوق رہا ہے اور دراصل صرف حیات النبی (جس کا نام اب حیات احمد ہے.عرفانی ) ہی وہ تصنیف ہے جو اس وقت تک حضرت مسیح موعود کے سوانح اور سیرت میں ایک مستقل اور مفصل تصنیف کے طور پر شروع کی گئی ہے اس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور قابلِ دید ہیں تاریخ تصنیف ۱۹۱۵ء ہے“.( سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۱۸۱ صفحه ۱۹۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) مسٹر والٹر ایک مسیحی نے احمد یہ موومنٹ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اس میں بھی وہ خاکسار کی تالیف کا ذکر کرتا ہے.غرض واقعات کو جمع کرنے میں میں نے بحمد اللہ اہتمام کیا ہے مجھے اعتراف ہے کہ بہت محنت کی ضرورت ہے جو میں نہیں کر سکا.اس جلد نمبر دوم کے دوسرے نمبر میں بھی واقعات کا سلسلہ انہیں دس سال کے اندر محدود ہے قبل اس کے کہ میں پچھلے شائع شدہ نمبر کے سلسلہ کو شروع کروں بعض امور جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں یہاں درج کرنا چاہتا ہوں قارئین کرام انہیں ملحوظ خاطر رکھیں (عرفانی )
حیات احمد ۱۳۷ (۱) ایک ضروری حاشیہ یا تکملہ جلد دوم حصہ دوم حیات احمد کے صفحہ ۹۵ پر اگنی ہوتری بانی دیو سماج کے متعلق بعض حالات دئے گئے ہیں کہ اگنی ہوتری نے حضرت کو ایک خط لکھا اور اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اس کی اطلاع آپ کو دے دی اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل کا بیان بطور تتمہ بیان لکھ دیا جاتا ہے.پنڈت اگنی ہوتری نے حضرت اقدس کو اپنے اس ارادہ سے اطلاع دی تھی کہ میں حصہ سوم کا ☆ رڈ لکھنا چاہتا ہوں اس نشان کا ذکر صفحہ ۵ میں کیا گیا ہے مزید تقویت اور شہادت کے لئے میں یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہیں ایام میں آپ نے اپنے دوستوں کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی تھی چنانچہ ۳۰ / مارچ ۱۸۸۳ء کو آپ نے میر عباس علی صاحب کے نام ایک مکتوب میں لکھا کہ پنڈت شو ناراین نے جو برہمو سماج کا ایک منتخب معلم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سیوم کا رڈ لکھنا چاہتا ہوں.ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اُس خط کا ظاہر کر دیا.چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندوہی جو آریہ ہے ڈاک خانہ بھیجا گیا تا گواہ رہے.وہی ہندواس خط کو ڈاک خانہ سے لایا پھر میں نے پنڈت شونار این کو لکھا کہ جس الہام کا تم رڈ لکھنا چاہتے ہو خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی اور اُس کے مضمون سے مطلع کیا.اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان میں آ کر اس کی تصدیق کر لو کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں.رڈ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہو جائے گا.میں نے یہ بھی لکھا کہ اگر تم صدق دل سے بحث کرتے ہو تو تمہیں اس جگہ ضرور آنا چاہئے کہ اس جگہ خود اپنے بھائیوں کی شہادت سے حق الامر تم پر کھل جائے گا لیکن باوجود ان سب تاکیدوں کے پنڈت صاحب نے کچھ جواب نہ لکھا اور اس بارے میں دم بھی نہ مارا اور وہ الہام پورا ہوا جو حصہ سوم میں چھپ چکا ہے.سَنُلْقِي فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ.مکتوبات احمد یہ جلد اصفحہ ۷،۶.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۱۶،۵۱۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) موجودہ صفحه ۲۶،۱۲۵ احیات احمد جلد دوم نمبر اوّل
حیات احمد ۱۳۸ جلد دوم حصہ دوم جنوری ۱۸۸۳ ء کے دھرم جیون میں جو پنڈت شو نرائن کا اخبار تھا براہین احمدیہ پر ریویو کے سلسلہ میں اعتراضات کئے حضرت نے ان تمام اعتراضات کا جواب براہین احمدیہ کے حاشیہ نمبر میں دیا جو جلد چہارم کے صفحہ ۹تر کے حاشیہ سے شروع ہوتا ہے.چونکہ اس کا مفصل تذکرہ اعتراضات اور ان کے جوابات میں ہو گا اس لئے میں یہاں اتنا ہی کہوں گا کہ اسے پڑھنا چاہئے اگنی ہوتری سے خط و کتابت میں مکتوبات کی تیسری جلد میں شائع کر چکا ہوں.(عرفانی) (۲) ایک تاریخی غلطی کی اصلاح صفحہ ۱۶ پر جو ۱۸ / جنوری ۱۸۸۳ ء لکھا گیا ہے یہ دراصل ۱۸۸۴ء ہے سفر لودہانہ کے متعلق تحریک تو ۱۸۸۳ء بلکہ ۱۸۸۲ء کے آخر سے شروع تھی.لیکن اس کی تکمیل ۱۸۸۴ء سے پہلے نہیں ہوئی.تاریخی غلطی کی اصلاح نہایت ضروری اور مقدم ہے اس لئے قارئین کرام کو چاہئے کہ وہ ۱۸ / جنوری ۱۸۸۳ء کی بجائے ۱۸ جنوری ۱۸۸۴ ء درست کر لیں.بعض اور واقعات بھی میں لکھ دینا چاہتا تھا جو جلد اوّل کے سلسلہ میں مجھے معلوم ہوئے ہیں.مگر ان کو انشاء اللہ ایک مستقل ضمیمہ میں شائع کر دینے کا عزم رکھتا ہوں.وباللهِ التَّوْفِيقِ.(۳) ایک ضروری نوٹ اس امر کو بھی بحضور دل یا درکھنا چاہئے کہ میں نے واقعات اور حالات کی تعمیل کے لئے یہ ضروری سمجھا ہے کہ انہیں یکجائی طور پر بیان کر دیا جائے اس میں بعض اوقات تاریخی ترتیب مدنظر نہیں رہے گی گونفس واقعہ کے آغاز کی تاریخ کو ترتیب سے تعلق ہو گا.اور سلسلہ میں جو دوسرے واقعات تاریخی ترتیب سے الگ ہوں گے ان میں اتنا ہی لحاظ رکھا جاوے گا کہ ان کی تاریخ ساتھ دی جاوے قارئین کرام اس امر کو زیر نظر رکھیں.د یعنی روحانی خزائن جلد اصفحہ ۳۹۲ کے حاشیہ نمبر ا ا اسے شروع ہوتا ہے.(ناشر)
حیات احمد ۱۳۹ جلد دوم حصہ دوم (۴) ایک اور ضروری امر اس نمبر کی ترتیب میں اس امر کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے کہ بعض خاص دوستوں یا اشخاص ( جن کا ذکر حضوڑ کے سوانح حیات میں کسی تعلق سے آتا ہے ) مختصر الفاظ میں تذکرہ کر دیا جائے تا کہ کچھ معلومات پڑھنے والے کو ہو جائیں ایسے تذکروں کے لئے میرے پروگرام تالیفات میں دوسرا مقام ہے لیکن میں نے اپنی عمر اور کام کی رفتار کو دیکھتے ہوئے مناسب سمجھا کہ مَالَا يُدْرَكُ كُلَّهُ لا يُترك كُله كو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ لکھ دینا بہتر ہو گا.اگر اللہ تعالیٰ نے مفصل تذکرہ احباب کی توفیق دی اور عمر نے وفا کی اور حالات مساعد ہوئے تو وہ بھی لکھا جا سکے گا انشاء اللہ العزیز.ورنہ وہ تمنا اس مختصر سے تذکرے سے پوری ہو جائے گی.ایسا ہی میں نے مناسب سمجھا کہ جہاں ضرورت ہو بعض امور کے متعلق ایک تاریخی یا مناسب حاشیہ بھی لکھ دوں جس سے ان کی اہمیت اور عظمت کا اندازہ ہو سکے آئندہ اس سلسلہ تالیف میں اسے مدنظر رکھنا چاہتا ہوں پہلے میرا خیال تھا کہ میں ایسے امور بطور ضمیمہ شامل کروں گا.لیکن جب دیکھتا ہوں کہ متن بھی ابھی تک ختم نہیں ہوا تو محض امیدوں اور تمناوں پر وقت ضائع کرنا درست نہیں مجھے اپنی رفتار تیز کر دینی چاہئے.سب توفیقیں اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جو تمام طاقتوں کا مالک ہے میں تو ایک ہمہ ضعف وجود ہوں.اس لئے اسی سے توفیق چاہتا ہوں اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور احباب سے دعا کا طالب ہوں.خاکسار عرفانی نزیل بمبئی سالار آفس ۱۳ مئی ۱۹۳۳ء
حیات احمد الده جلد دوم حصہ دوم سفر لودہانہ لود ہا نہ میں جو مختصر سی جماعت آپ کے ساتھ اخلاص ومحبت رکھنے والوں کی پیدا ہو چکی تھی اس کی طرف سے بار بار یہ خواہش اور درخواست پیش ہوتی تھی کہ آپ چند روز کے لئے لودہانہ تشریف لاویں لیکن آپ نے ہر موقع پر اس سفر کی درخواست کو دوسرے وقت پر ملتوی کیا.میں یہاں اتنا اشارہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر کوئی دنیا دار ہوتا اور اس کی غایت و مقصود صرف شہرت ناموری یا سکوں کا حاصل کرنا ہوتا تو وہ ایسے موقع کو غنیمت سمجھتا اور فوراً روانہ ہوتا مگر آپ نے ہر موقعہ پر جواب ہی دیا جب تک کہ وہ ساعت موعودہ نہ آ گئی جو اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی یہ درخواستیں ایک مرتبہ نہیں متعدد مرتبہ کی گئیں.اپریل ۱۸۸۳ء کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میر عباس علی صاحب کو ایک خط لکھا جس میں ان کی درخواست سفر لودہانہ کا ضمناً جواب ہے آپ لکھتے ہیں کہ "بالفعل لودہانہ میں شیہ:.لود ہانہ کی اہمیت تاریخ سلسلہ میں لودہا نہ تاریخ سلسلہ میں ایک خاص اہمیت اور امتیاز رکھتا ہے.تاریخی سلسلہ کے اعتبار سے شاید میں اس کا ذکر ۱۸۸۹ء کے واقعات میں کرتا مگر لودہانہ کے سفر کے سلسلہ میں ہی اس اہمیت کا ذکر کر جانا چاہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل شدہ وحی میں جن مقامات کا ذکر آیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ سفروں کے سلسلہ میں جن کو ریاض ہند امرتسر مورخہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء ضمیمہ کے طور پر جو اشتہار آپ نے شائع کیا اس کے صفحہ ۳ پر پہلی پیشگوئی کے ضمن میں خدا تعالیٰ کے کلام کو پیش کرتے ہیں کہ اس نے مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا:.تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپا یہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو ( جو ہوشیار پور اور اود ہانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.الآخر
حیات احمد ۱۴۱ جلد دوم حصہ دوم اس عاجز کا آنا ملتوی رہنے دیں آپ کے تشریف لے جانے کے بعد چند ہندؤوں کی طرف سے سوالات آئے ہیں ایک ہند وصوابی ضلع پشاور میں کچھ لکھ رہا ہے.پنڈت شونرائن بھی شاید عنقریب اپنا رسالہ بھیج دے گا.چاروں طرف سے مخالف جنبش میں آرہے ہیں غفلت کرنا اچھا نہیں اب دل ٹھہر نے نہیں دیتا کہ اس ضروری اور واجب کام کو چھوڑ کر اور طرف خیال کروں إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ رَبِّی.اگر خدا نے چاہا تو آپ کا شہر کسی دوسرے وقت دیکھ لیں گئے“.بقیہ حاشیہ.ہوشیار پور کا سفر ایک خاص مجاہدہ کے لئے تھا اس کا ذکر میں ۱۸۸۶ء کے واقعات میں انشاء اللہ العزیز کروں گا.وہ دعا ئیں جو ہوشیار پور میں خصوصیت سے آپ نے کیں ان دعاؤں کی قبولیت کا ظہوران بیشتر الہامات اور پیشگوئیوں کے پورا ہونے سے ہوا جو حضرت مصلح موعود کی پیدائش کی صورت میں مقدر تھا.لوگ ایک عرصہ سے آپ کو بیعت لینے کے لئے عرض کر رہے تھے آپ نے ہمیشہ ایسے طالبین کو یہ کہا کہ میں اس غرض کے لئے ابھی مامور نہیں ہوں اور آخر جب خدا تعالیٰ کی وحی نے آپ کو بیعت لینے کے لئے مامور فرمایا تو آپ نے بیعت کے لئے اعلان کر دیا اور بیعت کا آغاز لودہانہ سے ہوا چنانچه ۴ / مارچ ۱۸۸۹ء کو گزارش ضروری کے عنوان سے جو اعلان بیعت کرنے والوں کے لئے آپ نے مطبع ریاض ہند امرتسر میں چھپوا کر شائع فرمایا اس میں صاف لکھا ہے کہ ” تاریخ ہذا سے جوم / مارچ ۱۸۸۹ ء ہے ۲۵ / مارچ ۱۸۸۹ء تک یہ عاجز لو ہانہ محلہ جدید میں مقیم ہے اس عرصہ میں اگر کوئی صاحب آنا چاہیں تو لودہانہ میں ۲۰ / تاریخ کے بعد آ جاویں اور اگر اس جگہ آنا موجب حرج و دقت ہو تو ۲۵ مارچ کے بعد جس وقت کوئی چاہے بعد اطلاع دہی بیعت کرنے کے لئے قادیان حاضر ہو جاوے.“ اس اشتہار کے آخر میں جو آپ نے لکھا ہے وہ یہ ہے خاکسار غلام احمد اور ہانہ محلہ جدید متصل مکان اخی مکر می نشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور.پھر لودہانہ ہی وہ مقام ہے جہاں سے آپ نے مسیح موعود کے دعوئی کا اعلان کیا اور یہی وہ مقام ہے جہاں مولوی محمد حسین بٹالوی کو خطر ناک شکست ہوئی اور اسی جگہ سے آپ نے فتح اسلام اور توضیح المرام اور
حیات احمد ۱۴۲ جلد دوم حصہ دوم اس مکتوب سے عیاں ہے کہ آپ کا کوئی سفر اللہ تعالیٰ کے اذن اور ارادے کی تعمیل کے سوا نہیں تھا اور محض سیر و تفریح کے لئے آپ کہیں جانا نہ چاہتے تھے اور حمایت دین اور مخالفین اسلام کے حملوں کے دفاع کو آپ سب کاموں پر مقدم فرماتے تھے.لود ہانہ کے دوستوں کا اصرار حضرت کی طلبی کے متعلق نہایت اخلاص اور محبت سے بڑھ رہا تھا.اُدھر حضرت کی یہ حالت تھی کہ آپ ان کے اخلاص اور الہی محبت کے جذبات کی قدر کرتے تھے اور ان کی ایک خواہش کے پورا کرنے میں بھی مسرت پاتے تھے مگر آپ کے مدنظر یہ امر تھا کہ اس سفر کے لئے بقیہ حاشیہ.ازالہ اوہام کو شائع کیا.نہایت افسوس کے ساتھ یہ بھی لکھتا ہوں کہ یہی وہ مقام ہے جہاں سب سے پہلا انسان مرتد ہوا اور اسی جگہ سے ایک اور بدقسمت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اخراجات سلسلہ کے متعلق اعتراضی خط لکھا اور اس طرح پر وہ پیشگوئیاں پوری ہو گئیں جو ایسے لوگوں کے متعلق قبل از وقت لکھی گئی تھیں بہر حال لود ہانہ سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.میں ہمیشہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل یقین کرتا رہا ہوں کہ بیعت کا سلسلہ اسی محلہ سے شروع ہوا بلکہ اسی کوچہ سے ہوا جہاں راقم الحروف نے اپنی عمر کا ایک حصہ گزارا ہے.محلہ کی جس مسجد میں حضرت اپنی.نمازیں دوران قیام میں ادا فرمایا کرتے تھے میں اسی میں ادائے نماز کی تو فیق پاتا تھا.وہ مسجد وہ محلہ اور وہ مکان ( جہاں حضرت اپنے ایام قیام میں نیل تھے ) ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور جس مکان میں بیعت کا آغاز ہوا.وہ تو الحمد للہ اب سلسلہ کے قبضہ میں ہے اور دَارُ الْبَيْعَتْ کے نام سے موسوم ہے سلسلے کے آنے والے زمانے میں ایک وقت اس پر نہایت شاندار عمارت ہو گی اور دنیا کے ہر گوشہ سے آنے والے لوگ اس مقام پر یقیناً جانے کی سعادت حاصل کیا کریں گے.غرض اس طرح پر سلسلہ کی عملی بنیاد اور ہانہ ہی میں رکھی گئی.اس لئے کہ سلسلہ بیعت وہاں ہی سے شروع ہوا.یہ مکان محلہ نو میں حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کے مکان کا ایک حصہ ہے جو بعد میں سلسلہ کو ے حاشیہ در حاشیہ:.حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ ایک مشہور و معروف صاحب ارشادصوفی تھے ان کا تذکرہ
حیات احمد ۱۴۳ جلد دوم حصہ دوم دل کے کسی گوشہ میں کوئی ایسا جذبہ نہ ہو جو للہیت اور رضائے الہی کے خلاف ہو یا اس میں ریا اور نمائش اور دنیا کی عظمت کی خواہش کو لئے ہوئے.اور ان سب سے بڑھ کر آپ کے مدنظر اور مقدم جو امر تھا وہ خدمت اسلام تھی اپنی زندگی کا ایک نفس بھی اس عملی مقصد کے بغیر آپ گزارنا نہیں چاہتے تھے.یہی ایک چیز ہے جو حضرت کی زندگی میں ابتدا ہی سے نظر آتی ہے.کسی حالت اور کسی حصہ بقیہ حاشیہ:.دے دیا گیا.یاد ایام نے اس مقام پر مجھے کچھ غم زدہ کر دیا.دل میں ایک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے بیٹھے کیا جانئے ہمیں کیا یاد آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی صحبتیں اور مجلسیں آنکھوں کے سامنے آگئیں ان کی یاد ایک غم افزا مسرت سے ملی ہوئی ہے انہیں ایام میں مجھے حضرت مولوی عبدالکریم.حضرت حکیم الامت.حضرت حافظ حامد علی رضی اللہ عنہم سے ایک تعلق محبت و اخلاص پیدا ہوا.حضرت مخدوم الملۃ اور حکیم الامتہ کی نظروں نے اس کیفیت کو عملی رنگ دے دیا جو حضرت اقدس کی کیمیا اثر سے پیدا ہوئی تھی ان مجلسوں کے تذکرے اور سوال و جواب تک مجھے اپنے رنگ میں یاد ہیں.اور ان ایام کی یاداب بھی جبکہ میں بمبئی میں بیٹھا ہوا یہ حالات لکھ رہا ہوں دل میں چٹکیاں لیتی ہے اور معلوم ہوتا ہے.بقیہ حاشیہ در حاشیہ.خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا یا سنا افسانہ تھا (عرفانی) ایک مبسوط اور مخنیم جدا گانہ تالیف کا مقتضی ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا توفیق دے گا اور وہ اس خدمت کو سرانجام دے گا.اس مقام کے حسب حال ان کا تذکرہ کافی ہے کہ وہ اور ہانہ میں اپنی عملی زندگی کے لحاظ سے ایک نمایاں شہرت رکھتے تھے ان کے مریدوں کا سلسلہ بھی بہت وسیع تھا عام طور پر وہ ایسے صوفیوں میں سے نہ تھے جو مختلف قسم کی بدعات اور منہیات شرعیہ میں مبتلا ہو کر اسے بھی اپنے تصوف و کمال کا ایک شعبہ قرار دیتے رہتے ہیں بلکہ وہ ایک با عمل متبع سنت بزرگ تھے اہلِ بدعت سے ہمیشہ متنفر تھے اور احکام شرعیہ کی پابندی اور ان پر عمل ضروری سمجھتے تھے.نعت گوئی کا بھی ایک خاص شوق تھا شریر تخلص
حیات احمد ママ جلد دوم حصہ دوم زندگی میں اس کے سوا کوئی چیز آپ کا مقصد زندگی نہیں رہا.آپ کی ابتدائی زندگی کے دیکھنے والوں نے اسی کی شہادت دی اور آپ کی ماموریت کے بعد کی زندگی کے دیکھنے والوں نے اسے مشاہدہ کیا.چنانچہ خود راقم الحروف نے بھی خدا کے فضل سے ایک شاہد عینی کی حیثیت سے اسے دیکھا.یہ سلسلہ ایسی درخواستوں کا برابر جاری رہا اور حضرت اقدس اسی قسم کے جواب دیتے رہے بقیہ حاشیہ در حاشیہ.کرتے تھے ایک شعر اس وقت یاد آ گیا.نبی کی نعت لکھیں گے شریر اک اور بھی ہم تو بڑی راتیں ہیں جاڑوں کی بھلا کرتے ہیں کیا بیٹھے ابتدائی تعلیم سلوک کی منزلیں ضلع گورداسپور ہی کے ایک مقام رنز چھتہ میں طے کی تھیں اور ان کی تکمیل بھی گورداسپور ہی کے ضلع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ہوئی ان کا تذکرہ ایک مبسوط اور جدا گانہ تالیف کا مقتضی ہے.وہ علم توجہ میں بہت بڑے ماہر تھے اس فن پر طب روحانی اور رسالہ علم توجہ کے نام سے آپ نے ایک سلسلہ تالیفات شروع کیا تھا لیکن طب روحانی کی پہلی جلد کے بعد جب حضرت اقدس کی مشہور کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد اس کے عدم ضرورت کا اعلان کیا.آپ کا سارا خاندان بیعت میں داخل ہو گیا اور آپ کے دونوں صاحبزادے حضرت پیر افتخار احمد صاحب اور صاحبزادہ منظور محمد صاحب ہجرت کر کے قادیان آ گئے.صاحبزادہ افتخار احمد صاحب کو حضرت کے حضور رہنے کی سعادت حاصل ہوئی کہ وہ آپ کے صیغہ ڈاک میں کام کرتے تھے اور صاحبزادہ منظور محمد صاحب کو بھی قرب کی دولت عطا ہوئی کہ وہ آپ کی تصنیفات کی کتابت کرتے تھے اور بعض صاحبزادگان کی تعلیم قرآن کریم کا شرف بھی آپ کو ملا اور اسی سلسلہ تعلیم میں وہ قرآن مجید کے جدید رسم الخط اور قاعدہ میسرنا القرآن کی تالیف کے موجد ہو گئے.آپ کی صاحبزادیوں میں ایک (اصغری بیگم ) کو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آنے کا شرف عطا ہوا حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ کی بیوی بھی نہایت مخلصہ اور شب زندہ دار خاتون تھیں اور ان کی زندگی کا آخری حصہ قادیان ہی میں گزرا اور یہاں ہی وہ اپنے مولیٰ کریم سے
حیات احمد ۱۴۵ جلد دوم حصہ دوم پھر ایک مکتوب میں آپ نے مولوی عبد القادر صاحب کو لکھوایا جبکہ وہ خود قادیان آنا چاہتے تھے تا کہ آپ کو لو د ہا نہ لانے کے لئے زور دیں آپ نے لکھا کہ :.مولوی صاحب کا اس جگہ تشریف لانا بے وقت ہے یہ عاجز حصہ چہارم کے کام سے کسی قدر فراغت کر کے اگر خدا نے چاہا اور نیت صحیح میسر آ گئی تو غالب امید کی جاتی ہے کہ آپ ہی حاضر ہوگا.وَالْاَ مُرُ كُلُّهُ بِيَدِ اللَّهِ وَمَا أَعْلَمُ مَايُرِيدُ فِي الْغَيْبِ“.بالآخر ۱۹؍ دسمبر ۱۸۸۳ء کو آپ نے ایک مکتوب کے ذریعہ میر عباس علی صاحب کو مطلع فرمایا کہ میں ایک دن کے لئے اور ہا نہ آؤں گا.یہ سفر بھی اتفاقاً پیش آیا تھا اور امرتسر کا تھا اسی کے ضمن میں آپ نے ارادہ کیا کہ احباب لودہانہ کی متواتر درخواستوں کو ایک دن کے قیام لودہانہ کے ذریعہ پورا کر دیا جائے.بقیہ حاشیہ در حاشیہ.جاملیں اور اسی سرزمین میں ان کا مزار ہے.حضرت منشی احمد جان صاحب کے متعلق حضرت اقدس نے اپنی قلم مبارک سے تحریر فرمایا:.حبي في الله منشی احمد جان صاحب مرحوم کے متعلق اس وقت ایک نہایت غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ پر درد قصہ مجھے لکھنا پڑا کہ اب یہ ہمارا پیارا دوست اس عالم میں موجود نہیں ہے اور خدا وند کریم ورحیم نے بہشت بریں کی طرف بلایا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وَإِنَّا بِفِرَا قِهِ لَمَحْزُونُون حاجی صاحب مغفور و مرحوم ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اور ان کے مریدوں میں آثار رشد و سعادت و اتباع سنت نمایاں ہیں اگر چہ حضرت موصوف اس عاجز کے شروع سلسلہ بیعت سے پہلے ہی وفات پا چکے لیکن یہ امران کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اس عاجز کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے در حقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کر لیا چنانچہ انہوں نے اس میں سیرت صالحین پر اپنا تو بہ کا اظہار کیا اور اپنی مغفرت کے لئے دعا چاہی اور لکھا کہ میں آپ کی لٹھی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اور پھر لکھا کہ میری زندگی کا نہایت عمدہ حصہ یہی ہے کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہو گیا ہوں اور پھر کسر نفسی کے طور پر اپنے
حیات احمد ۱۴۶ جلد دوم حصہ دوم سفر امرتسر کا باعث براہین احمدیہ طبع ہو رہی تھی اور حسب معمول مطبع ریاض ہند میں چھپ رہی تھی لیکن مطبع ریاض ہند نے چھ سات جزو کی کا پیاں چشمہ نور پریس کو دے دیں یہ ایک ہندو کا پر لیس تھا مہتم مطبع چشمہ نور نے وعدہ کیا تھا کہ ان کا پیوں کو جلد چھاپ دیا جائے گا اور قبل اس کے کہ پرانی ہو کر خراب ہوں چھپ جاویں گی مگر اس نے وعدہ پورا نہ کیا اور وہ کا پیاں پرانی ہو کر خراب ہو گئیں.میجر مطبع ریاض ہند نے جب اطلاع دی تو آپ نے امرتسر جانے کا عزم فرمایا تا کہ اپنی موجودگی میں ان کی اصلاح تجویز کریں اس سلسلہ میں آپ نے ایک دن کے لئے لودہانہ کے سفر کا عزم کر کے میر عباس علی صاحب کو اطلاع دی یہ زمانہ کرسمس کے قریب تھا اور ان ایام کرسمس میں بھی بعض لوگ آپ کی خدمت میں آ جاتے تھے اس لئے ۲۶ / دسمبر تک آپ واپس آنا چاہتے تھے ان تمام امور کو مدنظر رکھ کر آپ نے میر صاحب کو لکھا.بقیہ حاشیہ در حاشیہ.گزشتہ ایام کا شکوہ لکھا اور بہت سے رقت آمیز ایسے کلمات لکھے جن سے رونا آتا تھا.اس دوست کا آخری خط جو ایک دردناک بیان سے بھرا ہے اب تک موجود ہے مگر افسوس کے حج بیت اللہ سے واپس آتے وقت پھر اُس مخدوم پر بیماری کا ایسا غلبہ طاری ہوا کہ اُس دور افتادہ کو ملاقات کا اتفاق نہ ہوا بلکہ چند روز کے بعد ہی وفات کی خبر سنی گئی اور خبر سنتے ہی ایک جماعت کے ساتھ قادیان میں نماز جنازہ پڑھی گئی حاجی صاحب مرحوم اظہار حق میں بہادر آدمی تھے بعض نافہم لوگوں نے حاجی صاحب موصوف کو اس عاجز کے ساتھ تعلق ارادت رکھنے سے منع کیا کہ اس میں آپ کی کسر شان ہے لیکن انہوں نے فرمایا کہ مجھے کسی شان کی پروا نہیں اور نہ مریدوں کی حاجت.آپ کا صاحبزادہ کلاں حاجی افتخار احمد صاحب آپ کے قدم پر اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اور آثار رشد و صلاح و تقویٰ ان کے چہرہ پر ظاہر ہیں وہ باوجود متو نکلا نہ گزارہ کے اول درجہ کی خدمت کرتے ہیں اور دل وجان کے ساتھ اس راہ میں حاضر ہیں خدائے تعالیٰ ان کو ظاہری اور باطنی برکتوں سے متمتع کرے.
حیات احمد ۱۴۷ مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جلد دوم حصہ دوم بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.موجب ممنونی ہوا.آج میرا ارادہ تھا کہ صرف ایک دن کے لئے آنمخدوم کی ملاقات کے لئے لودہانہ کا قصد کروں لیکن خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ حال طبع کتاب کا ابتر ہورہا ہے.اگر اس کا جلدی سے تدارک نہ کیا جائے تو کاپیاں جو ایک عرصہ کی لکھی ہوئیں ہیں خراب ہو جائیں گی.بات یہ ہے کہ کاپیوں کی چھ سات جزیں مطبع ریاض ہند سے باعث کم استطاعتی مطبع چشمہ نور میں دی گئی تھیں اور مہتمم چشمہ نور نے وعدہ کیا تھا کہ ان کا پیوں کو جلد چھاپ دیں گے اور قبل اس کے جو پورانی اور خراب ہوں چھپ جائیں گی.سوخط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ وہ کا پیاں اب تک نہیں چھپیں اور خراب ہو گئیں ہیں.کیونکہ ان کے لکھے جانے پر عرصہ دراز گزر گیا ہے.ناچار اس بندوبست کے لئے کچھ دن امرتسر ٹھہرنا پڑے گا اور دوسری طرف یہ ضرورت درپیش ہے کہ ۲۶/ دسمبر ۱۸۸۳ء تک بعض احباب بطور مہمان قادیان میں آئیں گے اور ان کے لئے اس خاکسار کا یہاں ہونا ضروری ہے سو یہ عاجز بنا چاری امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہے اور معلوم نہیں کیا پیش آوے.اگر زندگی اور فرصت اور توفیق ایزدی یا ور ہوئی.اور کچھ وقت میسر آ گیا تو انشاء اللہ القدیر ایک دن کے لئے امرتسر میں فراغت پا کر آنمخدوم کی طرف روانہ ہوں گا مگر وعدہ نہیں.اور کچھ خبر نہیں کہ کیا ہو گا اور خداوند کے فضل وکرم ربوبیت سے اس عاجز کو فرصت مل گئی تو اس بات کو آنمخدوم پہلے سے یادرکھیں کہ صرف ایک رات رہنے کی گنجائش ہوگی کیونکہ بشرط زندگی و خیریت کہ جو خدا وند کریم کے ہاتھ میں ہے ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۳ء تک قادیان میں
حیات احمد ۱۴۸ جلد دوم حصہ دوم واپس آ جانا ہے.اُن سے وعدہ ہو چکا ہے والا مُرُكُلُّهُ فِي يَدِ اللَّهِ اور ایک دن کے لئے آنا بھی ہنوز ایک خیال ہے واللهُ أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ.اگر خداوند کریم نے فرصت دی اور زندگی اور امن عطا کیا اور امرتسر کے مخمصہ سے صفائی اور راحت حاصل ہوئی اور تاریخ مقررہ پر واپس آنے کے لئے گنجائش بھی ہوئی تو یہ عاجز آنے سے کچھ فرق نہیں کرے گا.مگر آپ ریل پر ہرگز تشریف نہ لاویں کہ یہ تکلف ہے یہ احقر عبادسخت ناکارہ اور بے ہنر ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس کے لئے کچھ تکلف کیا جائے.مولیٰ کریم کی ستاریوں اور پردہ پوشیوں نے کچھ کا کچھ ظاہر کر رکھا ہے ورنہ من آنم کہ من دانم“.مکتوب ۱۹ دسمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۸ صفر ۱۳۰۱ھ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۴ ۵۸۵،۵۸ مطبوعه ۶۲۰۰۸) مگر خدا کی قدرت کہ یہ سفر بھی ملتوی ہو گیا اس لئے کہ حضرت اقدس امرتسر کے اس مجوزہ سفر پر جو مکتوب بالا میں ذکر کیا گیا ہے نہ جا سکے اور وہ سفر امرتسر بجائے خود دوسرے وقت پر ملتوی کرنا پڑا جیسا کہ جنوری ۱۸۸۴ء کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے.اس مکتوب سے آپ کی سیرت کے کئی پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے ان کی صراحت کا یہ مقام نہیں مختصراً اتنا کہنا ضروری ہے کہ آپ کو اپنے وعدہ کے ایفاء کا کس قدر خیال تھا اور طبیعت پر تو حید اور تو کل علی اللہ کا بہت بڑا غلبہ ہے.تکلفات سے آپ بالکل بری ہیں.خدا کی قدرت یہ سفر بھی نہ ہو سکا.حضرت کے مکتوب سے بھی اشارتاً یہ پایا جاتا تھا کہ غالباً یہ سفر نہ ہو سکے اس لئے کہ آپ نے لودہا نہ جانے کے خیال کو بعض قیود سے تجویز کیا تھا.مثلاً امرتسر کا کام بخیر و خوبی ہو جاوے پھر صحت و امن میسر آئے اور ایسا وقت ہو کہ ۲۶/ دسمبر ۱۸۸۳ ء تک آپ ایک روز قیام کر کے قادیان واپس پہنچ جاویں اس لئے کہ اس تاریخ پر قادیان موجود رہنے کا تو آپ وعدہ کر چکے تھے اور ایفاء عہد مقدم تھا.اور آخر وہی ہوا جو منشاء الہی میں مقد رتھا اور لودہانہ کا سفر ملتوی ہو گیا.لودہانہ کے دوستوں کو اس نعمت سے مستفید نہ ہونے کا جو صدمہ ہوا میں اس کو بیان نہیں کر سکتا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر درخواستیں آنے لگیں.
حیات احمد ۱۴۹ میر عباس علی صاحب کی درخواست جلد دوم حصہ دوم چنانچہ میر عباس علی صاحب نے جنوری ۱۸۸۴ء کے دوسرے ہی ہفتہ میں اور ہا نہ آنے کے لئے درخواست بھیجی اس کے جواب میں حضور نے ۱۸؍ جنوری ۱۸۸۴ء کو ایک خط لکھا یہ خط بہت سے حقائق پر مشتمل ہے اور اسی میں خود میر صاحب کے انجام کے متعلق بھی پیشگوئی ہے سفر لودہانہ کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا کہ: آ نمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا یہ عاجز اگر چہ بہت چاہتا ہے کہ آنمخدوم کے بار بار لکھنے کی تعمیل کرے مگر کچھ خداوند کریم کی طرف سے ایسے اسباب آپڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں.نہیں معلوم کہ حضرت احدیت کی کیا مرضی ہے عاجز بندہ بغیر اس کی مشیت کے قدم نہیں اٹھا سکتا.مکتوب ۱۸ جنوری ۱۸۸۴ ء مطابق ۱۸ ؍ ربیع الاول ۱۳۰۱ھ.مکتوبات احمد جلد اول صفحہ ۵۸۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) حضرت مولوی عبد القادر صاحب کی درخواست میر عباس علی صاحب کو دوسرے لوگ بھی زور دے رہے تھے کہ حضرت کو بلواؤ.میر صاحب نے اپنے خطوط کے علاوہ حضرت مولوی عبد القادر رضی اللہ عنہ کو بھی تحریک کی اور ان سے خط لکھوایا مگر ۲۲ / جنوری ۱۸۸۴ء کو حضرت نے ان کو بھی لکھا کہ یہ خاکسار بباعث بعض موانع ہنوز حاضری سے مُتعدد ہے.انشاء اللہ القدیر وقت مقرر پر موقوف ہے.آنخد وم اگر ممکن ہوتو بطور خود سفر فرما دیں یہ عاجز اگر کسی وقت حاضر ہوگا تو محض ملاقات کی نیت سے.غرض آپ نے ہمیشہ اس قسم کی درخواستوں کا یہی جواب دیا.لودہانہ کے لوگ یہ بھی چاہتے تھے کہ آپ تشریف لاویں تو بیعت کریں مگر آپ بغیر اذن الہی اس کے لئے تیار نہ تھے.
حیات احمد ۱۵۰ بیعت کے لئے مخلصین کا اصرار جلد دوم حصہ دوم اسی سال ۱۸۸۳ء میں مخلصین کے قلوب میں یہ تحریک شروع ہوئی کہ حضرت اقدس ان سے بیعت لیں مختلف رنگوں میں مختلف اشخاص نے اس خواہش کو پیش کیا مگر آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا گو اس کے الفاظ کچھ اور ہوں یا اسلوب بیان دوسرا ہو وہ جواب یہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بیعت لینے پر مامور نہیں فرمایا.اگر چہ آپ کے کلام سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی اس وحی سے جو آپ پر نازل ہو رہی تھی آپ سمجھتے تھے کہ کسی عظیم الشان کام کے لئے آپ مامور ہو رہے ہیں.لیکن بیعت کے لئے صراحتا کوئی حکم نہیں ہوا تھا اس لئے آپ ایسے شائقین کو یہی جواب دیتے تھے:.لَسْتُ بِمَأْمُورٍ ( میں مامور نہیں ہوں ) لود ہانہ کے دوستوں میں یہ جوش خصوصیت سے زیادہ تھا اور اس لئے وہ بار بار آپ کو وہاں بلانے کی دعوت دیتے تھے.آپ نے لودہانہ کے سفر کو بھی ملتوی فرمایا ایسے لوگوں کو بھی مزید انکشاف کے لئے انتظار کا ارشاد فرمایا.ان لوگوں میں حضرت مولوی عبد القادر صاحب رضی اللہ عنہ پیش پیش تھے آپ نے ان کو بذریعہ میر عباس علی صاحب لکھا کہ.’اس عاجز کی فطرت پر تو حید اور تفویض الی اللہ غالب ہے اور معاملہ حضرت احدیت بھی یہی ہے کہ خود روی کے کاموں سے منع کیا جاتا ہے یہ مخاطبت حضرت احدیت بار بار ہو چکی ہے لَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ وَلَا تَقُل لِّشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا.چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خدا وند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں لَعَلَّ اللهُ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْرًا - مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودہ کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اللہ بہت مفید ہوگا.“
حیات احمد ۱۵۱ جلد دوم حصہ دوم اس مکتوب سے حضور کی سیرت کے اس حصہ پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ کبھی تکلف سے کوئی کام کرنا نہیں چاہتے باجود یکہ لوگوں کی خواہش تھی مگر آپ بیعت لینے کے لئے آمادہ نہ تھے اور بر امر آپ کی صداقت اور منجانب اللہ ہونے کی زبر دست دلیل ہے اور آپ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ آپ کی فطرت میں تو حید اور تفویض الی اللہ غالب ہے.لود ہانہ تشریف لے گئے غرض اس سال میں خصوصیت سے بیعت کا سوال بھی پیدا ہوا مگر آپ نے اس کو قبول نہ کیا آخر وہ وقت آیا اور آپ لودہانہ تشریف لے گئے اس پہلے سفر کے متعلق میر عنایت علی صاحب نے جو روایت بیان کی ہے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے روایت نمبر ۳۳۹ ( سیرت المہدی جلد اصفحه ۳۰۹ تا ۳۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) کے نیچے اسے بیان کیا ہے وہ آپ کے ورود لودہانہ کے حالات کی مظہر ہے.میر صاحب فرماتے ہیں کہ :- اول ہی اوّل جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام زمانہ مجددیت (آپ کی مجددیت کا عہد تو آپ کے دعوی مسیح موعود کے بعد بھی رہا اس لئے کہ چودھویں صدی کا مجد وہی مسیح موعود تھا اس لئے یہ خصوصیت کچھ زیادہ موزوں نہیں.عرفانی ) میں لودہانہ تشریف لے گئے اس وقت سوائے ایک شخص یعنی میر عباس علی صاحب جو اس عاجز کے خسر اور چاتھے کوئی اور حضرت کی صورت سے آشنا نہ تھا اس سفر میں تین آدمی حضرت صاحب کے ہمراہ تھے مولوی جان محمد صاحب حافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب، میر عباس علی صاحب اور ان کے ساتھ کئی ایک اور آدمی پلیٹ فارم کا ٹکٹ لے کر حضرت صاحب کے استقبال کے لئے سٹیشن پر گئے اور گاڑی میں آپ کو اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگے لیکن حضرت صاحب کہیں نظر نہ آئے کیونکہ آپ گاڑی کے پہنچتے ہی نیچے اتر کرسٹیشن سے باہر تشریف لے آئے تھے اور پھاٹک کے پاس کھڑے تھے.خوش قسمتی سے میں بھی اس وقت وہیں کھڑا تھا کیونکہ مجھے خیال تھا کہ حضرت صاحب اُسی راستہ سے آئیں گے میں نے اس سے قبل حضرت صاحب کو دیکھا ہوا نہیں تھا لیکن جو نہی کہ میری نظر آپ کے نورانی چہرہ
حیات احمد ۱۵۲ جلد دوم حصہ دوم پر پڑی میرے دل نے کہا کہ یہی حضرت صاحب ہیں اور میں نے آگے بڑھ کر حضرت صاحب سے مصافحہ اور دست بوسی کر لی اس کے بعد میر عباس علی صاحب وغیرہ بھی آگئے اس وقت حضور کی زیارت کے لئے سٹیشن پر بہت بڑا مجمع تھا جن میں نواب محمد علی صاحب رئیس جھجھر بھی تھے.نواب صاحب مذکور نے میر صاحب سے کہا کہ میر صاحب میری کوٹھی قریب ہے اور اس کے گرد باغ بھی ہے بہت لوگ حضرت مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے آئیں گے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تو حضرت صاحب کو یہیں ٹھہرالیا جاوے.میر صاحب نے کہا کہ آج کی رات تو ان مبارک قدموں کو میرے غریب خانہ پر رہنے دیں کل آپ کو اختیار ہے نواب صاحب نے کہا ہاں بہت اچھا.غرض حضرت صاحب کو قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بٹھا کر ہمارے محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان میں اتارا گیا.نماز عصر کا وقت آیا تو حضرت صاحب نے اپنی جرابوں پر مسح کیا اور اس وقت مولوی محمد موسیٰ صاحب اور مولوی عبدالقادر صاحب دونوں باپ بیٹا موجود تھے ان کو مسح کرنے پر شک گزرا تو حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت کیا یہ جائز ہے.آپ نے فرمایا ہاں جائز ہے اس کے بعد مولوی محمد موسیٰ صاحب نے عرض کیا کہ حضور نماز پڑھائیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی عبد القادر صاحب پڑھا ئیں پھر اس کے بعد مولوی عبدالقادر صاحب ہی نماز پڑھاتے رہے.اس موقع پر حضرت صاحب غالبا تین دن لودہانہ میں ٹھہرے بہت لوگ ملاقات کے لئے آتے جاتے تھے اور حضرت صاحب جب چہل قدمی کے لئے باہر تشریف لے جاتے تھے تو اس وقت بھی بڑا مجمع لوگوں کا ساتھ ہوتا تھا.اس قدر روایت لکھ کر حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سفر غالباً ۱۸۸۴ء کے قریب کا ہو گا جہاں تک میری تحقیقات ہے اور یہ دستاویزی شہادت پر مبنی ہے جس کا کچھ ذکر میں اوپر کر آیا ہوں یہ سفر ۱۸۸۴ء ہی کا ہے اس لئے کہ دسمبر ۱۸۸۳ء تک مختلف اوقات میں اس سفر کو ملتوی کرتے آئے یا خدا کی مشیت کے ماتحت ملتوی ہوتا رہا.اکتوبر ۱۸۸۳ء کے آخر میں چند روز ما درست نام نواب علی محمد صاحب رئیس مجھجھر ہے.(ناشر)
حیات احمد ۱۵۳ جلد دوم حصہ دوم کے لئے امرتسر براہین احمدیہ کی طباعت کے کام کی نگرانی کے لئے تشریف لے گئے تھے اس وقت بھی آپ کا ارادہ تھا کہ ایک دو دن کے لئے اور ہا نہ جائیں چنانچہ ۹ نومبر ۱۸۸۳ء کو جومکتوب آپ نے میر عباس علی صاحب کو لکھا اس میں تحریر فرمایا کہ :.یہ عاجز چند روز سے ملاحظہ کام طبع کتاب کے لئے امرتسر چلا گیا تھا آج واپس آکر آنمخدوم کا خط ملا.یہاں سے ارادہ کیا گیا تھا کہ امرتسر جا کر بعد اطلاع دہی ایک دو دن کے لئے آپ کی طرف آؤں مگر چونکہ کوئی ارادہ بغیر تائید الہی انجام پذیر نہیں ہو سکتا اس لئے یہ خاکسار امرتسر جا کر کسی قدر علیل ہو گیا.ناچارا رادہ ملتوی کیا گیا.سو اس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک روک واقع ہوگئی اس کے کام حکمت سے خالی نہیں ( مکتوب مورخه ۹ نومبر ۱۸۸۳ء مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۸۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ان تمام امور پر یکجائی نظر کے بعد یہ فیصلہ آسان اور صحیح ہے کہ اود ہانہ کا سب سے پہلا سفر ۱۸۸۴ء میں ہوا ہے گو میں ابھی تک صحیح تاریخ اس سفر کے متعلق متعین نہیں کر سکا ہوں لیکن قرائن قویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۱۸۸۴ء کی پہلی سہ ماہی میں تشریف لے گئے تھے ترتیب واقعات کے لحاظ سے دسمبر ۱۸۸۳ء میں اس سفر کے ارادے اور ان ارادوں کے فسخ ہونے تک کا ذکر کر کے میں چھوڑ دیتا.اور پھر ۱۸۸۴ء کے واقعات میں سفر لودہانہ کے حالات بیان کرتا.لیکن ایک غیر مرتب امر ہو جاتا.واقعات کی تعمیل کو میں نے مدنظر رکھ لیا.قیام لو د ہانہ کے ان ایام میں خلقت کا عام طور پر آپ کی طرف بہت رجوع تھا.لودہانہ میں آپ نے اپنے معمولات کو ترک نہیں کیا، نمایش اور ریا کاری کے طور پر خانہ نشین ہو کر نہیں رہے بلکہ اپنے معمول کے موافق ہوا خوری کو بھی نکلتے تھے.اس مرتبہ تو آپ لوگوں کی بہت سی درخواستوں اور التجاؤں کے بعد تشریف لائے تھے اور آپ ان کے مہمان تھے جہاں انہوں نے چاہا آپ نے
حیات احمد ۱۵۴ جلد دوم حصہ دوم قیام فرمایا.لیکن اس کے بعد آپ کا معمول یہ تھا کہ جب آپ لودر ہانہ تشریف لاتے تو آپ ایک بڑا مکان کرایہ پر لے لیتے اور وہاں قیام فرماتے اس لئے کہ کثرت سے آپ کے خدام آ جایا کرتے تھے اور ایک قسم کا لنگر خانہ جاری ہو جاتا تھا.مخالفت کی ابتدا اگر چہ اس وقت تک آپ نے کوئی دعوی نہیں کیا تھا اور نہ آپ ( باوجود یکہ لوگ درخواستیں کرتے تھے ) بیعت لیتے تھے اور آپ کی زندگی کا مقصد عظیم اس وقت مخالفین اسلام کے اعتراضات کا جواب اور صداقت اسلام کا علمی اور عملی اظہار تھا.لیکن لودہانہ ہی وہ مقام ہے جہاں سے مخالفت کی آگ سلگنے لگی.لودہا نہ میں مولوی عبد العزیز مولوی عبد اللہ مولوی محمد حنفی تین بھائی تھے.اس وقت ان کا لودہانہ اور دوسرے قرب و جوار کے اضلاع اور علاقہ پر بہت بڑا اثر تھا.وہ غالی حنفی تھے اور عبدالعزیز ایک خوش بیان واعظ اور صوفی نما پیر تھا.غدر ۱۸۵۷ء میں ان لوگوں پر کچھ الزامات بھی تھے انہوں نے جب دیکھا کہ لودہانہ میں آپ کی قبولیت بڑھتی جاتی ہے تو ان کو اپنی حکومت کی فکر ہوئی اور اس کے لئے جو ہتھیار ان کے پاس استعمال کے لئے رکھا ہوا تھا وہ تکفیر ہی کا فتویٰ ہو سکتا تھا.ابھی تک حضرت صاحب اور ہانہ بھی تشریف نہ لے گئے تھے مگر یہ مولوی صاحبان دیکھ رہے تھے کہ یہ سلسلہ ترقی کرے گا.ان کی اس نظر دور بین کی داد دینی چاہئے غرض اس قبولیت کو دیکھ کر ان میں ایک اضطراب اور جوش پیدا ہوتا جاتا تھا اور وہ اپنے وعظوں اور تقریروں میں کچھ حملے کرتے رہتے تھے.جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ لودہا نہ تشریف لا رہے ہیں تو اس مخالفت میں اور بھی ترقی ہو گئی.اور جب آپ لودہا نہ پہنچے اور انہیں اس احترام و قبولیت کا پتہ چلا جولوگوں کے دل میں پیدا ہوئی اور اس کا عملی مظاہرہ ہوا تو ان کے جوش وغضب کی کوئی انتہا نہ رہی اور آخر وہ کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے اور ان مولوی صاحبان نے سب سے پہلا محاذ مخالفت قائم کیا.
حیات احمد جلد دوم حصہ دوم قدرتی طور پر میر عباس علی صاحب اور دوسرے دوستوں کو اس سے تشویش ہوئی اور چونکہ وہ ان مولوی صاحبان کے حالات سے بخوبی واقف تھے اس لئے وہ اس فتنہ کا جو ان کے ذریعہ پیدا ہوسکتا تھا تصور کر کے گھبراتے تھے اور انہوں نے نہایت پریشانی کے خطوط حضرت کو لکھے مگر آپ نے ان کو ایک مکتوب میں لکھا کہ آنمخدوم کا خط بعد واپسی از امرتسر مجھ کو ملا.آنمخدوم کچھ فکر اور تر ڈد نہ کریں اور یقیناً سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں.بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے.کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہ ہوئے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا.اگر لوگ خدا کے بندوں کو کہ جو اس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یونہی ان کی شکل دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت سے عجائبات تھے کہ ان کا دنیا میں ظہور نہ ہوتا.“ ( مکتوب محرّره ۲۶ / فروری ۱۸۸۴ء مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۹۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اس مکتوب سے آپ کا عزم و استقلال اور مخالفت پر ثبات قدم نمایاں ہے مجھے آپ کی سیرت کے ان پہلوؤں کو بیان نہیں کرنا بلکہ صرف یہ دکھانا ہے کہ مخالفت کی آگ ۱۸۸۳ء میں ہی سلگنی شروع ہو گئی اور جس طرح لاود ہانہ کو یہ خصوصیت ہے کہ قبولیت کا آغاز بھی یہاں سے ہوا مخالفت کی ابتدا بھی اس جگہ سے ہوئی اور یہاں ہی سے اس حقیقت کا اظہار ہوا.کوئی پا جائے گا عزت کوئی رسوا ہو گا اور ہانہ کی مخالفت کے اسباب پر ایک مخالف کی رائے لودہانہ کے مولویوں کی مخالفت کے متعلق یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک سلسلہ کے مخالف کی رائے بھی یہاں درج کر دوں اس مخالف سے میری مراد مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی ہے.اس میں شک نہیں کہ ان ایام میں وہ مخالف الرائے نہ تھے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ
حیات احمد ۱۵۶ جلد دوم حصہ دوم بعد میں وہ سخت مخالفت کرتے رہے لیکن اس بیان کی انہوں نے کبھی تردید نہیں کی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ پر ایک مبسوط ریویو لکھا تھا.اس ریویو کا ذکر تو میں شاید کہیں آگے چل کر دوسرے موقع پر کروں یہاں صرف اسی مقام کی مناسبت سے کچھ کہنے کی ضرورت ہے جو اسی سفر لودہانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جیسا کہ خود بٹالوی صاحب کی تحریر سے عیاں ہے.اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضور کا یہ سفر اہلِ اسلام لو دہانہ کی استدعا پر تھا.غرض میں واقعات سفر اور آغاز مخالفت کے اسباب کی تائید کے لئے ریویو براہین احمدیہ کے صرف اسی قدر حصہ کو لیتا ہوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کتاب براہین احمدیہ کی تعریف اس کے برکات اور فیوض کا ذکر نے کے بعد لکھتے ہیں مگر افسوس.صد افسوس سب سے پہلے اس کتاب کی خوبی بحق اسلام نفع رسانی سے بعض مسلمانوں ہی نے انکار کیا اور برطبق أَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمُ أَنَّكُمُ تُكَذِبُونَ.اس احسان مؤلّف کے مقابلہ میں کفران کر کے دکھایا.اسی فقرہ میں مسلمانوں اور انکار کے لفظ پر حاشیہ دے کر آپ نے مسلمانوں سے مراد امرتسر لود ہانہ کے ساکنین بتائی اور انکار کے حاشیہ میں حسب ذیل نوٹ لکھا.( نوٹ لائق توجہ گورنمنٹ ) اس انکار و کفران پر باعث لودہانہ کے بعض مسلمانوں کو تو صرف حسد و عداوت ہے جس کے ظاہری دو سبب ہیں ایک یہ کہ ان کو اپنی جہالت ( نہ اسلام کی ہدایت سے گورنمنٹ انگلشیہ سے جہاد و بغاوت کا اعتقاد ہے اور اس کتاب میں اس گورنمنٹ سے جہاد و بغاوت کو ناجائز لکھا ہے لہذا وہ لوگ اس کتاب کے مؤلف کو منکر جہاد سمجھتے ہیں اور از راہِ تعصب جہالت کے محض مخالفت کو اپنا مذہبی فرض خیال کرتے ہیں.مگر چونکہ وہ گورنمنٹ کے سیف و اقبال کے خوف سے اعلانیہ طور پر ان کو منکر جہاد نہیں کہہ سکتے.لہذا وہ اس وجہ سے کفر کو دل میں رکھتے ہیں اور بجز خاص اشخاص ( جن سے ہم کو یہ خبر پہنچی ہے ) کسی پر ظاہر نہیں کرتے اور اس کا اظہار دوسرے لباس و پیرا یہ میں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ براہین احمدیہ فلاں فلاں امور کفریہ دعوی نبوت اور نزول قرآن اور تحریف آیات قرآنیہ ) پائی جاتی ہے اس لئے اس کا مؤلف کا فر
حیات احمد ۱۵۷ جلد دوم حصہ دوم ہے.مدرسہ دیو بند بر موقع دستار بندی پر یہ حضرات بھی وہاں جا پہنچے اور لمبے لمبے فتویٰ تکفیر مؤلف براہین احمدیہ کے لکھ کر لے گئے.اور علماء دیو بند و گنگوہ وغیرہ سے ان پر دستخط ومواہیر ثبت کرنے کے خواستگار ہوئے مگر چونکہ وہ کفر اُن کا اپنا خانہ ساز کفر تھا جس کا براہین احمدیہ میں کچھ اثر نہ پایا جاتا تھا.لہذا علماء دیو بندو گنگوہ نے ان فتووں پر مہر و دستخط کرنے سے انکار کیا.اور ان لوگوں کو تکفیر مؤلّف سے روکا اور کوئی ایک عالم بھی ان کا اس تکفیر میں موافق نہ ہوا.جس سے وہ بہت ناخوش ہوئے.اور بلا ملاقات وہاں سے بھاگے اور كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ کے مصداق بنے.ناظرین ان کا یہ حال سن کر متعجب اور اس امر کے منتظر ہوں گے کہ ایسے دلیر اور شیر بہادر کون ہیں جو سب علماء وقت کے مخالف ہو کر ایسے جلیل القدر مسلمان کی تکفیر کرتے ہیں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے (جس کے ظِنِ حمایت میں با امن شعار مذہبی ادا کرتے ہیں) جہاد کو جائز سمجھتے ہیں.ان کے دفع تعجب اور رفع انتظار کے لئے ہم ان حضرات کے نام بھی ظاہر کر دیتے ہیں وہ مولوی عبدالعزیز اور مولوی محمد و غیره پسران مولوی عبد القادر ہیں.جن سب کا ۱۸۵۷ء سے باغی و بدخواہ گورنمنٹ ہونا ہم اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد ۶ وغیرہ میں ظاہر و ثابت کر چکے ہیں اور اب بھی پبلک طور پر سرکاری کاغذات کی شہادت سے ثابت کرنے کو موجود و مستعد ہیں اگر وہ یا کوئی ان کا ناواقف معتقد اس سے انکار کرے.دوسرا سبب یہ کہ انہوں نے باستعانت بعض معزز اہلِ اسلام لو دہانہ (جن کی نیک نیتی اور خیر خواہی ملک وسلطنت میں کوئی شک نہیں ) بمقابلہ مدرسہ کے لئے لودہانہ میں چندہ جمع ہو رہا تھا انہیں ایام میں مؤلّف براہین احمدیہ باستد عا اہلِ اسلام لودہا نہ میں پہنچ گئے اور وہاں کے مسلمان ان کے فیض زیارت اور ان کے شرف صحبت سے مشرف ہوئے ان کی برکات اور اثر صحبت کو دیکھ کر اکثر چندہ دینے کے لئے ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس کے بہت سے روپیہ طبع و اشاعت براہین احمدیہ کے لئے مؤلف کی خدمت میں پیشکش کئے گئے اور مولوی صاحب مذکور تہی دست ہو کر ہاتھ ملتے رہ گئے.اس امر نے بھی ان حضرات کو بھڑ کا یا اور مؤلف کی تکفیر پر آمادہ کیا.جن کو ان باتوں کے صدق میں شک ہو وہ ہم کو اس امر سے مطلع کرے.ہم لو دہانہ سے عمدہ اور
حیات احمد ۱۵۸ جلد دوم حصہ دوم واضح طور پر ان باتوں کی تصدیق کرا دیں گے.وبالله التوفيق.“ امرتسر کے مسلمانوں کے اس انکار کا باعث ان کی نافہمی اور بے ذوقی اور کسی قدر عموماً اہل اللہ واہل باطن سے گوشہ تعصبی ان کو خاص کر مؤلف براہین سے کچھ عداوت نہیں ہے.علمائے دیو بند و گنگوہ کی اُس وقت کی حالت اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت تک علماء دیو بند اور گنگوہ میں خشیت الہی اور تقویٰ باقی تھا باوجود یکہ لود بانوی گروہ بہت زبردست تھا مگر اُن ربانی علماء نے تقویٰ سے کام لیا اور تکفیر سے انکار کیا.آج حالت ہی اور ہے.وہی دیو بند جو اسلاف پرستی کا بڑا مدعی ہے اس معاملہ میں سب سے آگے ہے.بہ میں تفاوت رو از کجاست تا یکجا غرض حضرت بخیر و عافیت اس سفر سے واپس تشریف لے آئے مگر آپ کے اس سفر نے ایک شور پیدا کر دیا اور لودہانہ کے مولویوں کو فعل در آتش بنا دیا.لودہانہ کا دوسرا سفر میر عباس علی کی عیادت کے لئے لودہانہ کے سفر کے سلسلہ میں اسی سال ۱۸۸۴ء میں آپ نے ایک دوسرا سفر کیا یہ سفرکسی کی طلبی پر نہیں تھا.بلکہ میر عباس علی صاحب کی علالت کی خبر آپ کو پہنچی اور اس وقت آپ خود بھی بیمار تھے اور مصروف تھے مگر حق دوستی اور اخوت اسلامی کی اس قدر رعایت کی ان کی عیادت کے لئے اور ہانہ تشریف لے گئے.چنانچہ اس سفر کے متعلق آپ نے میر صاحب کو ۸ اکتو بر۱۸۸۴ء کو ایک خط لکھا:.مخدوم و مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حاشیہ.میر عباس علی صاحب اور ہانہ کے ایک تعلیم یافتہ صوفی تھے حضرت اقدس سے ان کو بہت ارادت اور اخلاص تھا.براہین احمدیہ کو پڑھ کر وہ ایسے گرویدہ ہوئے کہ اس کی اشاعت کے لئے انہوں نے بڑی کوشش کی.باوجودیکہ اس کی پہلی جلد دیکھ کر وہ کہتے تھے کہ اس سے نبوت کی بُو آتی ہے اور اخلاص میں ترقی کرتے جا رہے تھے.حضرت کو ان سے اللہ محبت تھی دعویٰ مسیحائی تک اس نے اپنے
حیات احمد ۱۵۹ جلد دوم حصہ دوم یہ عاجز چند روز سے امرتسر گیا ہوا تھا آج بروز چار شنبہ بعد روانہ ہو جانے ڈاک کے یعنی تیسرے پہر قادیان پہنچا اور مجھ کو ایک کارڈ میرا مداد علی صاحب کا ملا.( یہ میر امداد علی صاحب میر عباس علی شاہ صاحب کے رشتہ میں بھیجے تھے.عرفانی) جس کے دیکھنے سے بمقتضائے بشریت بہت تفکر اور تر ڈ ولاحق ہوا اگر چہ میں بیمار تھا مگر اس بات کے معلوم کرنے سے کہ آپ کی بیماری غایت درجہ کی تختی پر پہنچ گئی ہے مجھ کو اپنی بیماری بھول گئی اور بہت ہی تشویش پیدا ہوگئی.خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے عمر بخشے اور آپ کو جلد تر صحت عطا فرما دے.اسی تشویش کی جہت سے آج بذریعہ تار آپ کی صحت دریافت کی اور میں بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ بشرط صحت و عافیت ۱۴ / اکتوبر تک وہیں آ کر آپ کو دیکھوں اور میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو صحت عطا فرمادے آپ کے لئے بہت دعا کروں گا اور اب تَوَلا عَلَی اللہ آپ کی خدمت میں یہ خط لکھا گیا آپ اگر ممکن ہو تو اپنے دستخط خاص سے مجھ کو مسرور الوقت فرما دیں مکتوب مورخه ۱/۸ کتو بر ۱۸۸۴ء مطابق ۷ ارذی الحجہ.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۶۰۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) چنانچہ حضرت اقدس اس وعدے کے موافق ۱۴ راکتو بر ۱۸۸۴ء کو لودہانہ تشریف لے گئے اور میر صاحب کی عیادت کر کے واپس چلے آئے اور خدا تعالیٰ نے ان کو شفا بھی دے دی.اس موقع پر آپ کے جانے کی کوئی خبر نہ ہوئی تھی اور نہ آپ نے خصوصیت.اطلاع دی تھی تاہم چونکہ آپ نے سرسری طور پر لکھ دیا تھا آپ لودہا نہ پہنچے تو حسب معمول ނ بقیہ حاشیہ:.اخلاص کا بہترین نمونہ دکھایا لیکن کوئی مخفی شامت ایسی تھی کہ آخر وہ اس سلسلہ سے کٹ گئے.عجیب بات ہے کہ حضرت کو اُس کے ارتدار کی خبر اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت دے دی تھی جبکہ وہ اخلاص اور ارادت میں ترقی کر رہے تھے.چنانچہ حضرت نے بعض مکتوبات میں ان امور کی طرف اسے اشارہ توجہ بھی دلائی.ان کے خاندان میں سے میر عنایت علی صاحب ایک مخلص اور سَابِقُونَ الأَوَّلُون میں سے اس سلسلہ میں داخل ہیں.(عرفانی)
حیات احمد 17.جلد دوم حصہ دوم قاضی خواجہ علی صاحب مرحوم حضرت مولوی عبدالقادر مرحوم اور حضرت نواب علی محمد خان صاحب مھجری مرحوم دوست آپ کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے.ان ایام میں آپ کے متعلق لودہا نہ میں خاص طور پر جذبات محبت و اخلاص پائے جاتے تھے اور یہی چیز تھی جس نے لودہانہ کے مولوی صاحبان کو نعل در آتش کر رکھا تھا.آپ کو یہ کبھی خیال بھی نہیں ہوتا تھا کہ سٹیشن پر لوگ استقبال کے لئے آئیں بلکہ آپ کی طبیعت پر تو خلوت گزینی اور تنہائی کا اتنا اثر غالب تھا کہ آپ خلوت ہی چاہتے تھے.بہر حال سٹیشن پر ان دوستوں نے آپ کا استقبال کیا.اس مرتبہ بھی آپ نے لودہانہ میں زیادہ عرصہ تک قیام نہیں کیا ایک دو دن ٹھہر کر واپس چلے آئے.غرض میر عباس علی صاحب کی عیادت تھی اور چونکہ مریضوں کی عیادت سنت ہے اور اس کے ذریعہ انسان بہت سی اخلاقی خوبیاں اور کمالات حاصل کرتا ہے.آج کل یہ طریق مفقود ہو گیا ہے اور یہ ایک ایسی رسم ہوگئی ہے جس میں انگریزی تہذیب کا رنگ ہے.حضرت اقدس کے عزم کو دیکھئے کہ قادیان سے ایک مریض دوست کی عیادت کے لئے لو ہانہ تشریف لے گئے.اس طرح آپ ایک مرتبہ نہایت خاموشی کے ساتھ حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے گئے تھے.غرض لو دہانہ کا یہ دوسرا سفر تھا جو اسی سال ۱۸۸۴ء میں ہوا.مسجد مبارک کی تعمیر ۱۸۸۳ء کے واقعات میں سے ایک عظیم الشان واقعہ مسجد مبارک کی تعمیر بھی ہے.جب تک مسجد مبارک تعمیر نہیں ہوئی تھی حضرت مسیح موعود تمام نمازیں مسجد اقصیٰ میں پڑھا کرتے تھے کبھی کبھی آپ بھی امامت کرا دیتے.عام طور پر میاں جان محمد مرحوم نماز پڑھایا کرتے تھے اور وہ امام مسجد قادیان کہلاتے تھے.حاشیہ.میاں جان محمد صاحب مرحوم قادیان کے ایک مشہور کشمیری خاندان کے رکن تھے جن کے بزرگ ہمیشہ حضرت اقدس کے خاندان کے ساتھ اپنی ہجرت از کشمیر کے ایام سے ان کے احسانات کی وجہ سے مخلص اور وفادار رہے میاں جان محمد بقدر ضرورت تعلیم یافتہ تھے اور اسلامی دینیات سے حضرت مسیح موعود کی
حیات احمد ۱۶۱ جلد دوم حصہ دوم مسجد مبارک کی تعمیر آپ نے اس لئے نہیں کی تھی کہ گھر سے مسجد اقصیٰ تک جانے میں آپ - کو تکلیف ہوتی تھی بلکہ آپ کا معمول تھا کہ مسجد میں عموماً نماز سے پہلے جاتے اور عصر کی نماز کے بعد على العموم مسجد اقصیٰ ہی میں ٹہلتے رہتے اور مغرب کی نماز پڑھ کر آتے اور پھر عشاء کی نماز کے لئے جاتے.کبھی کبھی عصر کی نماز کے بعد سیر کو بھی تشریف لے جاتے.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی وحی نے اس کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے اپنے گھر کے اس چوبارہ کے ساتھ جہاں آپ تصنیف کا کام کیا کرتے تھے تعمیر مسجد کا ارادہ فرمایا.یہ چوبارہ مسجد مبارک کے شمالی جانب میں ہے وہ وحی بقیہ حاشیہ.صحبت کی وجہ سے خوب واقف تھے.کسی قدر طب بھی جانتے تھے.جو انہوں نے حضرت اقدس اور آپ کے والد بزرگوار کی صحبت میں حاصل کی تھی.حضرت کے ساتھ ان کو خصوصیت سے محبت تھی اور اکثر سفروں میں آپ کے ساتھ رہتے.بعض سفروں میں ان کا بھائی عبدالغفار (غفا را) بھی رہا کرتا.میاں جان محمد صاحب صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.حضرت اقدس کے ساتھ محبت واخلاص کی وجہ سے ان کو بعض اوقات حضرت کے شرکاء کی طرف سے خطرناک تکالیف اٹھانی پڑیں.اُس کو جسمانی اذیت دی گئی مگر اُس نے اپنے عہد وفا کو نباہا.جامع مسجد کے وہ امام بھی تھے اور حضرت اقدس ان کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے.نہایت مخلص اور عملی مسلمان تھے.حضرت اقدس جب شادی کی تقریب پر دہلی تشریف لے گئے تو میاں جان محمد ساتھ نہ تھے اور لالہ ملا وامل ساتھ تھے.ان کو وہاں سے ایک خط قادیان لکھا جس سے لالہ ملا وامل کے متعلق ایک غلط فہمی ان کے گھر والوں کو پیدا ہو گئی.آخر وقت تک اس نے حضرت صاحب کے ساتھ اپنی عقیدت وارادت کا عملی ثبوت دیا.نہایت بے نفس خدمت گزار اور شریف النفس انسان تھا.اور اپنے رتبہ کے لحاظ سے اُس نے جو قربانی کی وہ نہایت شاندار تھی.حضرت اقدس تو ایک گوشہ گزینی کی زندگی بسر کرتے تھے.دنیوی اقتدار واثر آپ کے بڑے بھائی یا ان کے بعد آپ کے عم زاد بھائیوں کے حصہ میں تھا.اور اس زمانہ کے لحاظ سے ان کی قوت اور سخت گیری سے ہر شخص ڈرتا تھا.مگر میاں جان محمد نے اپنے تمام مفاد کو قربان کر دیا اور ہر قسم کی مصیبت اور ذلت کو اس راستہ میں اختیار کر لینے کا عملی ثبوت دیا.ہر شخص اس قربانی کا اندازہ نہیں کر سکتا.میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میاں جان محمد مرحوم کے اس ذکر خیر سے ایک اور شہادت حقہ کی ادائیگی سے
حیات احمد ۱۶۲ جلد دوم حصہ دوم جس میں اس مسجد کی تعمیر کی طرف اشارہ وحی الہی "أَلَمُ نَجْعَل لَّكَ سَهُولَةٌ فِي كُلِّ أَمْرٍ بَيْتُ الْفِكْرِ وَ بَيْتُ الذِكْرِ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا“ میں ہے.( براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۵۸ حاشیه در حاشیہ نمبر۴.روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۶۶) ترجمہ.کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و مقصد بقید صحت نیت وحسن ایمان داخل ہوگا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آ جائے گا.بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہ جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے اور وہ یہ ہے.مُبَارِكْ وَّ مُبَارَكٌ وَكُلُّ امْرِ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ - یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امر مبارک اس میں کیا جاوے گا.اس وحی الہی کی تاریخ کا تعین تو میں نہیں کر سکتا خود حضرت نے اس نشان کو بیان کرتے وقت ۱۸۸۰ ۱۸۸۲ ء لکھا ہے.اور یہ انداز ہے لیکن آپ کے مکتوب وغیرہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہامات گواسی زمانہ کے ہوں لیکن تعمیر مسجد کے لئے آپ کی توجہ ۱۸۸۳ء کی پہلی ششماہی میں ہوئی.تعمیر مسجد کی زمین اور سامان تعمیر مسجد کے لئے حضور نے اس جگہ کو بیت الفکر و بیت الذکر کے باہم قریبی ذکر اور ایک ہی الہام میں ہونے کی ترتیب کی وجہ سے پسند فرمایا.یہاں کوئی جگہ تو تھی نہیں اس لئے آپ نے اس کو چہ کو مسقف فرمایا جو احمد یہ چوک بازار اور مسجد اقصیٰ کو جاتا ہے جس جگہ آج کل دفتر محاسب بقیہ حاشیہ:.عہدہ برآ ہوتا ہوں ( مجھے میاں جان محمد مرحوم سے بارہا ملنے کا اتفاق ہوا اور اُس کی مجلس میں ایک ذوق ایمانی کو محسوس کیا تفصیلی حالات پھر اگر خدا نے چاہا تو لکھوں گا.ورنہ اپنے مرحوم بھائی کی زندگی کے لئے اس قدر کافی ہے.(عرفانی)
حیات احمد ۱۶۳ جلد دوم حصہ دوم ہے اسی جگہ مرزا غلام محی الدین مرحوم حضرت کے چچا کا خراس تھا.ان کی وفات کے بعد اس کی چھت وغیرہ گر گئی اور اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی نوبت نہ آئی.جب حضرت نے مسجد مبارک کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو وہ ایک کھنڈر تھا آپ نے اس کی شمالی دیوار اور گھر کی جنوبی دیوار پر چھت ڈال کر اس کو چہ کو مسقف کر لیا اور اس کی چھت کو مسجد مبارک کا فرش قرار دے کر تعمیر کا کام شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مالی حالت اس وقت بہت کمزور تھی نیچے کی چھت کے لئے دیسی لکڑی وغیرہ جو باغ وغیرہ سے کاٹی گئی ڈال دی گئی اور اوپر کی چھت پر وہی لکڑی استعمال ہوئی اس کے لئے اینٹوں کو مہیا کرنے کے واسطے عام طور پر پرانی بنیادوں کو کھود کر اینٹیں نکلوائی گئیں.پیراں دیتا ایک معمار جو علی العموم اس خاندان کے تعمیری کام کیا کرتا تھا اس کی تعمیر کے لئے مقرر ہوا اور کام شروع ہو گیا جن لوگوں نے اس مسجد کو دیکھا ہے وہ اسے دیکھ کرسمجھ سکتے ہیں کہ کس محنت سے اس کام کو شروع کیا گیا ہو گا ایک طرف مالی مشکلات تھیں دوسری طرف عم زاد بھائیوں کی مخالفت تھی اس لئے کہ ان کی ایک دیوار پر چھت ڈالی جارہی تھی اور اس کھنڈر کی طرف ایک کھڑ کی رکھی جا رہی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ اس مسجد کے متعلق سہولتوں کا وعدہ فرمایا تھا ہر قسم کی سہولتیں میتر کر دیں اور تعمیر کا کام بآسانی ہوتا چلا گیا اور آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مسجد مکمل ہو گئی.مسجد کی صورت مسجد کی صورت یہ تھی کہ آخری مغربی سرے پر امام کے لئے محراب کا حجرہ تھا اس میں ایک کھڑ کی مغرب کی طرف ایک شمال کی جانب اور ایک مشرقی دروازہ تھا جس میں تختہ لگا ہوا تھا اور ضرورت کے وقت وہ بند ہو کر حجرہ بن جاتا تھا.اس حجرہ میں دو آدمیوں کی گنجائش تھی.اولاً صرف امام ہی کھڑا ہوتا تھا لیکن جب لوگوں کی کثرت ہوئی تو حضرت اقدس بھی وہاں کھڑے ہو جاتے تھے اور کبھی کبھی اوائل زمانہ میں حضرت مخدوم الملۃ رضی اللہ عنہ کسی دوست کو جو نماز کے وقت ان کے پاس ہو ساتھ کھڑا کر لیتے تھے.
حیات احمد ۱۶۴ جلد دوم حصہ دوم راقم الحروف کو بھی کئی دفعہ یہ سعادت نصیب ہوئی.اس کے بعد پھر ایک اور چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں دو تین صفیں ہو جاتی تھیں یہ حجرہ بھی ایک دروازہ رکھتا تھا اور اس میں بھی گویا تین ہی دروازے تھے ایک شمالی دروازہ جو بیت الفکر میں کھلتا تھا ایک جنوبی دریچہ جوخر اس خانہ میں کھلتا تھا اور تیسرا وہ دروازہ جو مشرق کی طرف کھلتا تھا اس کے بعد ایک اور آخری درجہ تھا جس میں ایک دروازہ سیڑھیوں کی طرف سے آتا تھا اور ایک سیڑھیوں کے پاس گھر میں جاتا تھا اور تیسرا اس کو ٹھڑی میں کھلتا تھا جو اس نشان کے لئے مشہور ہے جو سرخ سیاہی کے چھینٹوں کا نشان ہے.یہ حجرہ اس وقت نیچا تھا کوئی دوفیٹ کے قریب نشیب میں تھا اور یہاں وضو کے لئے سامان رہتا تھا.اسی میں ایک لکڑی کا زینہ ہوتا تھا جس کے ذریعہ سے موسم گرما میں اوپر نماز پڑھنے کے لئے چڑھتے تھے.اس مسجد کے دونوں دروزاوں پر الہامات و درود شریف اور آیت اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : ۲۰ لکھی ہوئی تھی.یہ باتیں میں الگ بیان کروں گا الہامات وہ درج تھے جو اس مسجد مبارک کے متعلق ہوئے ہیں اور جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے.مسجد کی تاریخ تعمیر مسجد کے متعلق جہاں تک تحقیقات سے پتہ چلتا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جون یا جولائی ۱۸۸۳ء میں تعمیر کا کام جاری تھا اس لئے کہ آپ ۳۰ / اگست ۱۸۸۳ء کے ایک مکتوب میں جو میر عباس علی شاہ صاحب لود بانوی کے نام لکھا گیا ہے تحریر فرماتے ہیں کہ :.مسجد کا زینہ طیار ہو گیا ہے عجیب فضل الہی ہے کہ شاید پرسوں کے دن (اس سے ۲۷ اگست ۱۸۸۳ء کی تاریخ پائی جاتی ہے.عرفانی ) یعنی بروز دوشنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی تو اسی وقت خدا وند کریم کی طرف سے ایک اور فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے.
حیات احمد ۱۶۵ جلد دوم حصہ دوم فِيهِ بَرَكَاتُ لِلنَّاسِ یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ “ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۵۵ مطبوعه ۶۲۰۰۸) پھر ۱۳ ستمبر ۱۸۸۳ء کے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ :.مسجد کے بارے میں جو خدا وند کریم کی طرف سے الہام ہوا تھا جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تاریخ موجود ہے یہ فقرہ مُبَارِكْ وَّ مُبَارَكٌ وَكُلُّ اَمْرٍ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ خداوند تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اسی مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے جس کے ایک فقرہ سے آپ کو پہلے اطلاع دے چکا ہوں مگر بعد اس کے دوسرا فقرہ بھی الہام ہوا.اور وہ دونوں فقرہ یہ ہیں فِيْهِ بَرَكَاتٌ لِلنَّاسِ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آ گیا.علماء ظاہر شاید اس پر اعتراض کریں کہ یہ تو بیت اللہ خانہ کعبہ کی شان میں وارد ہے.مگر وہ لوگ برکات وسیعہ حضرت احدیت سے بے خبر ہیں اور معذور ہیں.( مکتوب مورخه ۳ ار ستمبر ۱۸۸۳ء.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۶۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء) مسجد کی تعمیر اکتو بر ۱۸۸۳ ء تک جاری رہی ہے چنانچہ آپ نے ۹/اکتوبر ۱۸۸۳ء کو جو مکتوب میر عباس علی صاحب کو لکھا اس میں تحریر فرمایا کہ مسجد میں ابھی کام سفیدی کا شروع نہیں ہوا.خدا تعالیٰ چاہے تو انجام کو پہنچ جائے گا.آج رات (شب درمیانی ۱۹۹۸ اکتو بر۸۳ء.عرفانی ) کیا عجیب خواب آئی
حیات احمد ۱۶۶ جلد دوم حصہ دوم کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد کے دروازے کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے ہیں ایسا سمجھا گیا کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ ان کے پاس ہے جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں اور خط ریحانی میں جو پیچان اور مسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں تب اس عاجز نے ان آیات کو پڑھنا شروع کیا جن میں سے ایک آیت یا د رہی کار آدَّ لِفَضْلِہ اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے جس عمارت کو وہ بناتا ہے اس کو کون مسمار کرے اور جس کو وہ عزت دینا چاہتا ہے اس کو کون ذلیل کرے.“ 66 ( مکتوب مورخه ۹ را کتوبر ۱۸۸۳ء مطابق کے ذی الحجہ ۱۳۰۰ھ.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۷۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) غرض خدا تعالیٰ کی وحی کے ماتحت یہ مسجد مبارک تعمیر ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی میں اس کے دو نام آئے ہیں.مسجد مبارک اور بیت الذکر کے متعلق پانچ مرتبہ آپ کو الہام ہوا.اس مسجد کے متعلق جو بشارات اللہ تعالیٰ نے دی تھیں وہ ہر زمانہ میں پوری ہوتی رہتی ہیں.حضرت نے خود اپنی تصانیف میں اپنے نشانات کے ذیل میں اس پر بحث کی ہے اسی مسجد مبارک کے پہلو میں ایک حجرہ آپ نے زینہ کے ساتھ ہی تعمیر کرایا تھا.اس طرح پر مسجد مبارک کی عمارت کی تقسیم ی تھی.سب سے آگے محراب کا حجرہ تھا جس میں امام کھڑا ہوتا تھا.اس حجرہ میں تین کھڑکیاں تھیں ایک جانب مغرب اور ایک جانب شمال جو اب تک موجود ہیں.مشرق کی طرف جو داخلہ کا دروازہ حاشیہ.سبز رنگ کی سیاہی سے خط ریحانی میں آپ نے فرشتوں کو مسجد کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے دیکھا.ان میں لَا رَادَّ لِفَضلِہ آپ نے پڑھا حضرت اقدس نے ۱۴ دسمبر ۱۸۸۸ء کو ایک سبز اشتہار شائع کیا تھا جس میں بشیر اول کی وفات اور بشیر ثانی ( مصلح موعود ) کی پیشگوئی پر مفصل بحث تھی.یہ سارا اشتہارسبز کاغذ پر شائع کیا گیا تھا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ نے اس رؤیا کی مناسبت سے اُس کو سبز
حیات احمد ۱۶۷ جلد دوم حصہ دوم تھا وہ دیوار نکل کر صاف ہو چکا ہے.محراب کے ساتھ مسجد کا کمرہ تھا اور زینہ کے متصل ایک غسلخانہ تھا ابتدا حضرت نے اسی مقصد کے لئے تیار کرایا تھا کہ وہاں پانی وغیرہ بھی رہے اور گرمیوں کے ایام میں آپ وہاں آرام بھی فرمایا کرتے تھے.قیلولہ یا صبح کی نماز کے بعد کبھی کبھی وہاں استراحت فرمایا کرتے تھے اس پرانی عمارت میں سے اس وقت صرف یہی حجرہ باقی ہے لیکن وہ مسجد کی عام سطح سے نیچے سطح رکھتا تھا.پھر اس کمرہ کی سطح کو اونچا کر کے مسجد کی چھت کے برابر کر لیا گیا اور مولوی محمد علی صاحب وہاں کام کیا کرتے تھے یہی وہ کمرہ ہے جہاں سرخ سیاہی کے چھینٹوں والا نشان ظاہر ہوا تھا.مسجد کے متعلق الہامات اور اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : ۲۰) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا الآية (ال عمران : ۸۶) اور درود شریف لکھا ہوا تھا.اس مسجد مبارک کی تعمیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام علی العموم نمازیں اسی میں باجماعت پڑھا کرتے تھے.اوائل میں آپ ہی اذان دے دیتے تھے اور آپ ہی امامت کرا دیا کرتے تھے مگر عموماً آپ کسی دوسرے کو امام مقرر کر دیا کرتے تھے.خصوصیت سے مسیح موعود کے دعوی کے بعد آپ نے بجز ایک مرتبہ ( بمقام گورداسپور کے کبھی نماز نہیں پڑھائی.البتہ گھر میں جب علالت کی وجہ سے آپ مسجد میں تشریف نہیں لا سکتے تھے تو خود جماعت کرایا کرتے تھے تا کہ التزام جماعت قائم رہے.بقیہ حاشیہ.کاغذ پر شائع فرمایا کیونکہ اس میں آنے والے فضل کی بشارت تھی اور مسجد کی پیشانی پر سبز رنگ میں آپ کو لَا رَ آدَّ لِفَضلہ دکھایا گیا تھا.یہ عجیب بات ہے کہ سبز رنگ کو ہماری جماعت میں کبھی کوئی خصوصیت نہیں پیدا ہوئی گو ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود نے نشان کے طور پر چاہا تھا کہ سبز رنگ کی پگڑی ہومگر یہ امر معرض التوا میں آیا یہاں تک کہ خلافت ثانیہ یعنی حضرت فضل عمر کا زمانہ آیا جس کا نام مسجد پر لکھا ہوا دکھایا گیا تھا.اس لئے اپنے سفر یورپ میں اپنے خدام سفر اور مبلغین کے لئے سبز رنگ کی پگڑی کو مخصوص کر دیا.یہ باتیں کسی تکلف سے نہیں ہوئیں اور نہ اس خیال سے کی گئیں.مگر اللہ تعالیٰ نے ان میں ایک حقیقت پیدا کر دی جو پہلے سے رکھی تھی اور وہ اپنے وقت پر ظاہر ہوگئی.فَالْحَمْدُ ا لِلَّهِ عَلَى ذَالِك (عرفانی)
حیات احمد ۱۶۸ جلد دوم حصہ دوم ہاں جنازہ کی نماز آپ پڑھایا کرتے تھے بشرطیکہ آپ جنازہ کی نماز میں شریک ہوں علی العموم آپ شریک ہوا کرتے تھے سوائے ان حالتوں کے کہ آپ ناسازي مزاج کی وجہ سے معذور ہوں مسجد مبارک پر محمود کا نام اگر چہ واقعات کی ترتیب کے لحاظ سے مجھے یہ ذکر یہاں نہیں کرنا چاہئے تھا مگر مسجد کے بیان میں اس قدر لکھ دینے میں مضائقہ نہیں کہ یہی وہ مسجد مبارک ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موعود بیٹے کا نام لکھا ہوا دکھایا گیا تھا چنانچہ آپ نے تریاق القلوب صفحہ ۴۰ پر لکھا ہے کہ ”میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے اس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر ۱۸۸۸ ء ہے..66 ( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۱۴) مسجد سے مراد جماعت ہوتی ہے یہ حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خلافت و امامت کی ایک پیشگوئی تھی مجھے اس پر لمبی بحث نہیں کرنا.بلکہ صرف اشارہ مقصود ہے جبکہ میں پہلے لکھ آیا ہوں ۱۸۸۲ء کے قریب ایک غلام حسین کی آپ کو بشارت دی گئی تھی جبکہ ابھی شادی کا سلسلہ یا وہم و گمان بھی نہ تھا.بہر حال مسجد مبارک پر آپ کا نام لکھا ہوا دکھایا گیا.عجیب بات یہ ہے کہ مسئلہ خلافت کے متعلق حضرت خلیفتہ اسی ثانی کو جو ر دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہوئی اور جس کو خود حضرت نے اپنے قلم سے اپنی کاپی الہامات میں درج کیا اس میں بھی آپ کو مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں کو دکھایا گیا.غرض یہ مسجد مبارک اس طرح پر تعمیر ہوئی.پھر جب اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بڑھا دیا.تو اس مسجد
حیات احمد ۱۶۹ جلد دوم حصہ دوم ☆ کی توسیع کی ضرورت پیش آئی اور خدا نے آپ ہی اس کی وسعت کے سامان پیدا کر دیئے.اور حضرت کے چازاد بھائیوں سے ان کے مملوکہ خر اس کو خرید لیا.اور آج اس کے نیچے بیت المال اور محاسب کا دفتر ہے اور اوپر اضافہ شدہ مسجد ہے.اس مسجد میں امن کے نشانات کا بھی معائنہ ہوا ایک مرتبہ چھت میں ایک لیمپ لٹک رہا تھا اور حضرت اور آپ کے خدام بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے کہ یکا یک لیمپ بھڑک اٹھا اور اس کے شعلے بلند ہوئے.چھت جو سراسر لکڑی کی تھی دوفٹ کے قریب اس سے اونچی تھی مگر خدا کی قدرت اور شان ہے کہ باوجود اس کے کہ شعلے بلند ہوئے مگر اس لکڑی کو آنچ نہ آئی.ذراسی سیا ہی سی آگئی مگر آگ لگی نہیں اور فوراً اسے بجھا دیا گیا.یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر اس لیمپ کو توڑ کر نیچے گرا دیا جاوے تو مٹی کا تیل ہونے کی وجہ سے نیچے آگ لگ جائے گی.لیکن اس آفت سے بھی اللہ تعالیٰ نے بچا لیا اور اسی وقت حضرت نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے ”مَنُ دَخَلَـهُ كَانَ آمِنًا “ کا وعدہ فرمایا اور یہ اس کا تازہ ثبوت ہے.خاکسار عرفانی اس نشان کے دیکھنے والوں سے ہے اور وہ اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہے کہ اس کے سامنے ہی یہ واقعہ پیش ہوا.پنڈت دیانند بانی آریہ سماج پر اتمام حجت اور اسلامی دعوت اس سال ۱۸۸۳ء کے اہم واقعات میں سے ایک عظیم الشان واقعہ پنڈت دیانند سرستی بانی آریہ سماج پر اتمام حجت اور اس کو اسلام کی طرف آخری دعوت ہے.اگر چہ پنڈت دیانند صاحب سے بحث کا آغاز ۷۸.۱۸۷۹ء میں ہوا.روحوں کے بے انت ہونے کے عقیدہ پر سلسلہ بحث تحریری شروع ہوا اور بالآخر پنڈت دیانند کو اس عقیدہ کے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کے رسالہ برادر ہند اور پادری رجب علی صاحب کے اخبار سفیر ہند کے ذریعہ یہ حقیقت آشکار ہوئی لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لا ہور نے تو کھلم کھلا اعلان کیا.میں ان مباحثات کے متعلق حیات النبی (حیات احمد ) کے حصہ دوم میں بہت کچھ تفصیل سے لکھ آیا ہوں خر اس کی خرید کا تمام انتظام خاکسار عرفانی کے ذریعہ ہوا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ
حیات احمد ۱۷۰ جلد دوم حصہ دوم یہاں واقعات کی ترتیب کے لحاظ سے جس امر کو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ پنڈت دیانند پر آخری اتمام حجت ہے.براہین احمدیہ کی تیسری جلد شائع ہو چکی تھی آپ نے پنڈت جی کو ۲۰ / اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۲ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ کو ایک خط لکھا.اس خط میں آپ نے پنڈت جی کو نہ صرف اے حاشیہ.اس خیال سے کہ اس کتاب کے پڑھنے والوں کو پوری حقیقت معلوم ہو جاوے میں اس اصلی خط کو یہاں درج کرتا ہوں :.بجانب پنڈت دیانند سرستی (بانی آریہ سماج) من آنچه شرط بلاغ است با تو میگویم تو خواه از بختم پند گیر وخواه ملال کے واضح ہو کہ ان دنوں میں اس عاجز نے حق کی تائید کے لئے اور دین اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی غرض سے ایک نہایت بڑی کتاب تالیف کی ہے.جس کا نام ” براہین احمدیہ ہے چنانچہ اس میں سے تین حصے چھپ کر مشتہر ہو چکے ہیں.اور حصہ چہارم عنقریب چھپنے والا ہے.حصہ سوم میں اس بات کا کافی ثبوت موجود ہے کہ سچا دین جس کے قبول کرنے پر نجات موقوف ہے دین اسلام ہے کیونکہ سچائی کے معلوم کرنے کے لئے دو ہی طریق ہیں.ایک یہ کہ عقلی دلائل سے کسی دین کے عقائد صاف اور پاک ثابت ہوں.دوسرے یہ کہ جو دین اختیار کرنے کی علت غائی ہے یعنی نجات اس کے علامات اور انوار اس دین کی متابعت سے ظاہر ہو جائیں کیونکہ جو کتاب دعوی کرتی ہے کہ میں اندرونی بیماریوں اور تاریکیوں سے لوگوں کو شفا دیتی ہوں بجز میرے دوسری کتاب نہیں دیتی تو ایسی کتاب کے لئے ضرور ہے کہ اپنا ثبوت دے.پس انہیں دونوں طریقوں کی نسبت ثابت کر کے دکھلایا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام میں پائے جاتے ہیں.اسلام وہ پاک مذہب ہے کہ جس کی بنیاد عقائد صحیحہ پر ہے کہ جس میں سراسر جلال الہی ظاہر ہوتا ہے.قرآن شریف ہر ایک جز و کمال خدا کے لئے ثابت کرتا ہے اور ہر ایک نقص و زوال سے اس کو پاک ٹھہراتا ہے.اس کی نسبت قرآن شریف کی یہ تعلیم ہے کہ وہ بے چون و بے چیگون ہے اور ہر ایک شبیہ و مانند سے منزہ ہے اور ہر ایک شکل اور مثال سے مبرا ہے.وہ مبدء ہے تمام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مرجع ہے تمام امور کا اور خالق ہے تمام کائنات کا اور پاک ہے ہر ایک کمزوری اور ناقد رتی اور سے ترجمہ.میں تو صرف پیغام پہنچانے کی غرض سے تجھ سے بات کرتا ہوں تو خواہ میری بات سے نصیحت پکڑے خواہ ناراض ہو جائے.
حیات احمد جلد دوم حصہ دوم دعوتِ اسلام دی بلکہ خدا تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کے دکھانے کے لئے بھی آمادگی کا اظہار فرمایا تھا تا کہ پورے طور پر صداقت اسلام ظاہر ہو آپ نے دلائل اور براہین تک معاملہ کو نہیں رہنے دیا بلکہ خوراق اور اعجاز تک بات کو پہنچایا لیکن پنڈت دیانند اس معاملہ سے محروم رہے اور انہوں نے اس خط کے جواب میں کوئی معقول بات پیش نہیں کی جیسا کہ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے حضرت اقدس نے لکھا تھا کہ وہ کتاب براہین احمدیہ مفت منگوا لیں نیز ان کو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے عجائبات کے مشاہدہ کی بھی دعوت دی تھی مگر اُس نے ان باتوں سے اعراض کیا.میر عباس علی صاحب اور ہانوی نے حضرت اقدس سے بذریعہ خط یہ استفسار کیا تھا کہ پنڈت دیانند نے مکتوب مورخہ ۲۰ / اپریل ۱۸۸۳ء کا کیا جواب دیا.اور کیا براہین احمدیہ اس نے منگوائی تو حضرت اقدس نے میر صاحب کو جو خط ۱۵/ جون ۱۸۸۳ء کولکھا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بقیہ حاشیہ: - نقصان سے اور واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور الوہیت میں اور معبودیت میں.نہیں مشابہ اس سے کوئی چیز.اور نہیں جائز کسی چیز سے اس کا اتحاد اور حلول.مگر افسوس کہ آپ کا اعتقاد سراسر اس کے برخلاف ہے اور ایسی روشنی چھوڑ کر تاریکی ظلمت میں خوش ہورہے ہیں.اب چونکہ میں نے اس روشنی کو آپ جیسے لوگوں کی سمجھ کے موافق نہایت صاف اور سلیس اردو میں کھول کر دکھلایا ہے اور اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ لوگ ایک سخت ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں یہاں تک کہ جس کے سہارے پر تمام دنیا جیتی ہے اُس کی نسبت آپ کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ تمام فیضوں کا مبدء نہیں اور تمام ارواح کے حاشیہ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.بعد ہذا آنمخدوم کے وہ عنایت نامے دوسرے بھی پہنچ گئے.الحمد للہ کہ کام طبع کا شروع ہے.یہ سب اسی کریم کی عنایات اور تفضلات ہیں کہ اس ناکارہ اور عاجز کے کاموں کا آپ متوتی ہو رہا ہے.اگر ہر موئے من گردد زبانے از ورانم بهر یک داستانے کے پنڈت دیا نند نے کتاب طلب نہیں کی اور نہ راستی اور صدق کے راہ سے جواب لکھا بلکہ ان لوگوں کی طرح جو شرارت اور تمسخر سے گفتگو کرنا اپنا ہنر سمجھتے ہیں.ایک خط بھیجا ایک اور خط رجسٹری کرا کر بھیجا گیا.جس کے ترجمہ:.اگر میرا ہر بال زبان بن جائے تو میں ہر زبان سے تیری محبت کی داستان بیان کرتا رہوں گا.
حیات احمد ۱۷۲ جلد دوم حصہ دوم پنڈت دیا نند نے کتاب تو طلب نہیں کی اور نہ ہی راستی اور صدق کے راہ سے جواب لکھا بلکہ ان لوگوں کی طرح جو شرارت اور تمسخر سے گفتگو کرنا اپنا ہنر سمجھتے ہیں.آریہ سماج نے پنڈت دیانند جی کی بہت بڑی لائف لکھی ہے مگر حضرت اقدس سے خط و کتابت اور آپ کی دعوت اسلام بلکہ پنڈت دیانند کی خبر وفات کی پیشگوئی وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں کیا اور باوجود یکہ ایک عرصہ سے یہ باتیں شائع ہو چکی ہیں کوئی تردید بھی وہ نہیں کر سکے پنڈت دیا نند صاحب پر حضرت کی طرف سے بالتفصیل اتمام حجت ان کے عقائد کے متعلق ہوا.اور یہ خط بھی خصوصیت سے لکھے گئے.بقیہ حاشیہ: یعنی جیو اور اُن کی روحانی قوتیں اور استعداد میں اور ایسا ہی تمام اجسام صغار یعنی پر گرتی خود بخود انادی طور پر قدیم سے چلے آتے ہیں اور تمام ہنر یعنی گن جو اُن میں ہیں وہ خود بخود ہیں.اور اس فیصلہ کو صرف عقلی طور پر نہیں چھوڑا بلکہ اسلام کے پاک گروہ میں وہ آسمانی نشان بھی ثابت کئے ہیں جو کہ خدا کی برگزیدہ قوم میں ہونے چاہئیں.اور ان نشانوں کے گواہ صرف مسلمان لوگ ہی نہیں بلکہ کئی آریہ سماج والے لوگ بھی گواہ ہیں اور بفضل خداوند کریم دن بدن لوگوں پر کھلتا جاتا ہے کہ برکت اور روشنی اور بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۶۴: - کا خلاصہ صرف اس قدر تھا کہ مجھ کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلام پر یقین کامل بخشا ہے اور ظاہری اور باطنی دلائل سے مجھ کو کھول دیا ہے کہ دنیا میں سچا دین دین محمد کی ہے.اور اسی جہت سے میں نے محض خیر خواہی خلق اللہ کی رو سے کتاب کو تالیف کیا ہے.اور اس میں بہت سے دلائل سے ثابت کر کے دکھلایا ہے کہ تعلیم حقانی محض قرآنی تعلیم ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوں بلکہ اس بات کا بوجھ آپ کی گردن پر ہے کہ جن قومی دلیلوں سے آپ کے مذہب کی بیخ کنی کی گئی ہے ان کو توڑ کر دکھلا دیں یا ان کو قبول کریں اور ایمان لاویں اور میں ہر وقت کتاب کو مفت دینے کو حاضر ہوں.اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا.انشاء اللہ اسی حصہ چہارم میں ان کے مذہب اور اصول کے متعلق بہت کچھ لکھا جائے گا اور آپ اگر خط کو چھپوا دیں تو آپ کو اختیار ہے.مولوی عبد القادر صاحب کی خدمت میں اور نیز قاضی خواجہ علی صاحب کی خدمت میں سلام مسنون پہنچے.(۱۵ر جون ۱۸۸۳ء بمطابق ۹ر شعبان ۱۳۰۰ ھ.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۳۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۱۷۳ جلد دوم حصہ دوم پنڈت دیانند پر آخری حجت اور ان کی موت کی پیشگوئی پنڈت دیا نند کی جرأت اور قابلیت کا ان کے معتقد بہت کچھ شور مچاتے ہیں مگر یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ حضرت کے مقابلہ میں آنے کی ان کو جرات نہیں ہوئی.حضرت نے پورے طور پر اتمام حجت کیا اور ان واقعات کو پبلک میں شائع کر دیا.انہیں ایام کے مذہبی رسائل یا بعض اخبارات میں یہ مباحث شائع ہوئے.خود حضرت نے ۱۸۸۴ء میں براہین احمدیہ کی چوتھی جلد کے صفحہ ۵۳۱ میں شائع فرمائے اور اس طرح پر قریباً نصف صدی ان واقعات پر گزری ہے.اور پنڈت دیانند جی کے جیون چرتر کی تحقیقات اور تکمیل کا سلسلہ برابر جاری ہے مگر ان واقعات کی تردید کا حوصلہ کسی کو نہیں ہو سکا.حضرت نے براہین احمدیہ کی جلد چہارم کے حاشیہ نمبر 1 میں صفحہ ۵۳۱ سے ۵۳۷ تک اس کو بیان کیا ہے اس میں حضرت نے صاف طور پر دو مرتبہ رجسٹری شده خطوط بقیہ حاشیہ:- صداقت صرف قرآن شریف میں ہے.اور دوسری کتابیں ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں.لہذا یہ خط آپ کے پاس رجسٹری کرا کر روانہ کرتا ہوں اگر آپ کتاب براہین احمدیہ کے مطالعہ کے لئے مستعد ہوں تو میں وہ کتاب مفت بلا قیمت آپ کو بھیج دوں گا.آپ اس کو غور سے پڑھیں اگر اس کے دلائل کو لاجواب پاویں تو حق کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں کہ دنیا روزے چند.آخر کار با خداوند.میں ابھی اس کتاب کو بھیج سکتا تھا.مگر میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے خیالات میں محو ہور ہے ہیں اور دوسرے شخص کی تحقیقاتوں سے فائدہ اٹھانا ایک عار سمجھتے ہیں سو میں آپ کو دوستی اور خیر خواہی کی راہ سے لکھتا ہوں کہ آپ کے خیالات صحیح نہیں ہیں.آپ ضرور ہی میری کتاب کو منگا کر دیکھیں.امید کہ اگر حق جوئی کی راہ سے دیکھیں گے تو اس کتاب کو پڑھنے سے بہت سے حجاب اور پردے آپ کے دور ہو جائیں گے اور اگر آپ اردو عبارت نہ پڑھ سکیں تاہم کسی لکھے پڑھے آدمی کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں.آپ اپنے جواب سے مجھ کو اطلاع دیں.اور جس طور سے آپ تسلی چاہیں خداوند قادر ہے.صرف سچی طلب اور انصاف اور حق جوئی درکار ہے جواب سے جلد تر اطلاع بخشیں کہ میں منتظر ہوں.اور اگر آپ خاموش رہیں تو پھر اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کو صداقت اور روشنی اور راستی سے کچھ غرض نہیں ہے.“ ۲۰ را پریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۲؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ مکتوبات احمد یہ جلد دوم صفحہ ۱ تا ۳.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۱۵۰،۱۴۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۱۷۴ جلد دوم حصہ دوم کے ارسال کرنے کا ذکر کیا ہے اور ان خطوط میں ان کو آسمانی نشانات کے لئے بھی دعوت دے کر قادیان بلایا تھا.چنانچہ آپ نے لکھا کہ :- اگر ان دونوں قسم کے ثبوت میں سے کسی قسم کے ثبوت میں شک ہو تو اسی جگہ قادیان میں آکر اپنی تسلی کر لینی چاہئے اور یہ بھی پنڈت صاحب کو لکھا گیا کہ معمولی خرچ آپ کی آمد و رفت کا اور نیز واجبی خرچ خوراک کا ہمارے ذمہ رہے گا اور وہ خط ان کے بعض آریوں کو بھی دکھایا گیا اور دونوں رجسٹریوں کی ان کی دستخطی رسید بھی آگئی پھر انہوں نے حُب دنیا اور ناموس دنیوی کے باعث سے اس طرف ذرا بھی توجہ نہ کی یہاں تک کہ جس دنیا سے انہوں نے پیار کیا اور ربط بڑھایا تھا آخر بصد حسرت اس کو چھوڑ کر اور تمام درم و دینار سے یہ مجبوری جدا ہو کر اس دارالفنا سے کوچ کر گئے اور بہت سی غفلت اور ظلمت اور ضلالت اور کفر کے پہاڑ اپنے سر پر لے گئے اور ان کے سفر آخرت کی خبر بھی جو اُن کو ۳۰ اکتوبر ۱۸۸۳ء میں پیش آیا تخمیناً ۳ ماہ پہلے خداوند کریم نے اس عاجز کو دے دی تھی چنانچہ یہ خبر بعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی.خیر یہ سفر تو ہر ایک کو در پیش ہے اور کوئی آگے اور کوئی پیچھے اس مسافر خانہ کو چھوڑنے والا ہے مگر یہ افسوس بڑا افسوس ہے کہ پنڈت صاحب کو خدا نے ایسا موقع ہدایت پانے کا دیا کہ اس عاجز کو ان کے زمانہ میں پیدا کیا مگر وہ باوصف ہر طور کے اعلان کے ہدایت پانے سے بے نصیب گئے.روشنی کی طرف ان کو بلا یا گیا انہوں نے کم بخت دنیا کی محبت سے اس روشنی کو قبول نہ کیا اور سر سے پاؤں تک تاریکی میں پھنسے رہے.ایک بندہ خدا نے بارہا ان کو ان کی بھلائی کے لئے اپنی طرف بلا یا مگر انہوں نے اس طرف قدم بھی نہ اٹھایا اور یونہی عمر کو بے جا تعصبوں اور نخوتوں میں ضائع کر کے حباب کی طرح ناپدید ہو گئے حالانکہ اس عاجز کے دس ہزار روپیہ کے اشتہار کا اول نشانہ وہی
حیات احمد ۱۷۵ جلد دوم حصہ دوم تھے اور اسی وجہ سے ایک مرتبہ رسالہ برادر ہند میں بھی ان کے لئے اعلان چھپوایا گیا تھا مگر ان کی طرف سے کبھی صدا نہ اٹھی یہاں تک کہ خاک میں یا راکھ میں جا ملے.صفحه ۵۳۴ تا ۵۳۶ حاشیہ نمبر۱۱.( براہین احمدیہ ہر چہار تصص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۳۹ تا ۶۴۱ حاشیہ نمبر۱۱) پنڈت دیانند کی موت کی خبر اور پیشگوئی کے آریہ سماج قادیان کے ممبر گواہ تھے ان پر مختلف اوقات میں بیرونی آریوں نے زور ڈالا کہ وہ اس کی تردید یا تکذیب شائع کریں انہوں نے اپنی قوم کے طعن سن لئے مگر حق کو چھپانے کے الزام سے بچالیا.پنڈت دیا نند کی وفات کی پیشگوئی اور اس کے پورا ہونے کے متعلق حضرت نے مختلف کتابوں میں ذکر کیا ہے خصوصاً حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۲۱ اور نزول المسیح صفحہ ۱۵۸ پر.میں اس پیشگوئی کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور نہ اس کا یہ محل ہے یہ ذکر واقعات کے ضمن میں مجھے کرنا پڑا ہے البتہ میں اس کتاب کے پڑھنے والے سے یہ کہوں گا کہ وہ اس امر پر غور کرے کہ یہ کیا بات ہے پنڈت دیانند صاحب کی حضرت اقدس کے ساتھ تحریری مباحثات کی بنیاد ۷۹.۱۸۷۸ء میں پڑ چکی تھی اور اس وقت کے اخبارات میں یہ سوال و جواب شائع ہوتے رہے.ودیا پر کا شک امرتسر جو آریہ سماج کے مشہور سیکرٹری باوا نرائن سنگھ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا سفیر ہند جو عیسائیوں کا اخبار تھا جس کے ایڈیٹر پادری رجب علی صاحب تھے اور ہندو باند ہو برا ہمو سماج کے اس وقت کے مشہور لیڈر پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کی ادارت میں نکلتا تھا ان کے سوا اور دوسرے اخبارات نے بھی دلچپسی لی.پنڈت شونرائن اگنی ہوتری جی نے تو حضرت کی فتح کا کھلم کھلا فیصلہ شائع کیا اور لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور نے ایک خاص مسئلہ میں حضرت کے اعتراضات کو پڑھ کر پنڈت دیانند جی صاحب سے اپنا اختلاف مشتہر کر دیا.یہ واقعات نہایت اہم تھے اور ہیں.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۱ ۲۳۲ اور روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۳۶ پیشگوئی نمبر ۳۷
حیات احمد جلد دوم حصہ دوم اور ان کی موت کی پیشگوئی قادیان کے آریہ سماجیوں کو بتائی گئی تھی مگر جب پنڈت جی صاحب کا سوانح نگار ان کا جیون چرتر مرتب کرتا ہے اور وہ بھی پنڈت لیکھرام جیسا آدمی وہ ان واقعات کو تحقیقات کر کے روشنی میں نہیں لاتا اور اب نصف صدی تک آریوں کی خاموشی ان کے خلاف ایک اقبالی ڈگری ہے.ان کی خاموشی کو دیکھ کر میں تو یہی کہتا ہوں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
حیات احمد 122 پنڈت لیکھرام میدان تکذیب میں جلد دوم حصہ دوم اسی سال ۱۸۸۳ء کے واقعات میں سے پنڈت لیکھرام کا میدان تکذیب میں آنا ہے اس وقت یہ شخص صوابی ضلع پشاور کے محکمہ پولیس میں ملازم تھا آریہ سماج کے ساتھ اس کے تعلقات تھے.اس کی شوخ چشمی جو بعد میں ایک نشان کی صورت میں اس کی ہلاکت کا غیر فانی نشان بن گئی کی بنیاد کا پہلا سال یہی ہے.اس نے براہین احمدیہ میں حضرت کے ان نشانات و آیات کو پڑھا جن کے گواہ خود قادیان کے آریہ صاحبان اور دوسرے ہندو اور مسلمان تھے تو اسے یہ خیال پیدا ہوا کہ آریہ سماج پر یہ حملہ بہت خطرناک ہے.اس نے چاہا کہ قادیان کے آریہ صاحبان سے ایسی شہادت حاصل کریں جو ان کی مصدقہ شہادت کی تردید کر سکے اس لئے اس مطلب کے لئے اس نے قادیان آریہ سمارج سے ( جو اس وقت کچھ باقاعدہ سماج نہ تھی بلکہ ابتدائی حالت میں تھی ) خط و کتابت شروع کی مگر اس کو اس معاملہ میں کبھی کامیابی نہ ہوئی.میں یہ کہوں گا کہ قادیان آریہ سماج کے دو بڑے ارکان بلکہ بانیوں لالہ ملا وامل اور لالہ شرمپت رائے پر مختلف اوقات میں آریہ سماج کی طرف سے زور دیا گیا کہ وہ اپنی شہادت کی تکذیب کریں لیکن انہوں نے باوجود یکہ ان پر بہت اثر ڈالا گیا کبھی قبول نہ کیا کہ واقعات کی روشنی میں اس کی تردید کریں.ان کی یہ ہمت اور جرات خواہ کسی وجہ سے ہو ہمیشہ قابل تعریف رہے گی.غرض پنڈت لیکھر ام اس سلسلہ میں قادیان سے روشناس ہوا اور اس نے قادیان کے آریوں سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا.اور ان سے یہ ظاہر کیا کہ وہ رڈ لکھ رہا ہے.چنانچہ پہلی مرتبہ حضرت کی تحریروں میں اس کا ذکر ایک مکتوب میں آیا جو آپ نے میر عباس علی صاحب کے ایک دعوتی خط کے جواب میں لکھا.میں او پر لکھ آیا ہوں کہ میر عباس علی صاحب اور لودہانہ کے احباب بار بار حضرت کو لودہا نہ آنے کی دعوت دے رہے تھے اور خود میر عباس علی صاحب اس دعوت کو لے کر قادیان بھی آئے تھے.حضرت نے ان کو لکھا کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد چند ہندوؤں کی طرف سے سوالات
حیات احمد ۱۷۸ جلد دوم حصہ دوم آئے ہیں.ایک ہندو صوابی ضلع پشاور میں رڈ لکھ رہا ہے“ مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۲۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) یہ ہندو جس کا نام آپ نے نہیں دیا لیکھرام ہی تھا.یہ امر کہ وہ لیکھرام ہی تھا بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا ۳۰ / مارچ ۱۸۸۳ء کو پھر حضرت نے اپنے ایک مکتوب میں اس کا ذکر یوں فرمایا اور اسی میں صوابی آریہ سماج کا ذکر ہے.اس پہلے خط کو اس سے ملانے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ یہ شخص لیکھرام ہی تھا.چنانچہ فرماتے ہیں کل (۲۹ / مارچ ۱۸۸۳ء) صوابی ضلع پشاور سے اس جگہ کی آریہ سماج کے نام صوابی آریہ سماج نے ایک خط بھیجا ہے کہ حصہ سوئم براہین احمدیہ میں تمہاری شہادتیں درج ہیں اس کی اصلیت کیا ہے؟ ”سواگر چہ ہندو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں مگر ممکن نہیں کہ سچ کو چھپا سکیں اس لئے فکر میں ہو رہے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو کیا لکھیں ؟ اگر شرارت سے جھوٹ لکھیں گے تو اس میں روسیا ہی ہے اور آخر پردہ فاش ہو گا اور سچ لکھنے میں مصلحت اپنے مذہب کی نہیں دیکھتے.اب دیکھنا چاہئے کہ کیونکر پیچھا چھڑاتے ہیں؟ شاید جواب سے خاموش رہیں.“ ( ۳۰ مارچ ۱۸۸۳ء) گویا ۲۹ مارچ ۱۸۸۳ء وہ ابتدائی تاریخ ہے.جب پنڈت لیکھر ام اس میدان میں اُترے اور انہوں نے حضرت اقدس کے مقابلہ کی ٹھانی.یہاں تک واقعات سے پتہ لگتا ہے پنڈت لیکھرام کی سکیم یہ تھی کہ وہ براہین احمدیہ کا جواب لکھیں.اور اس میں جن پیشگوئیوں کی صداقت کی شہادت قادیان کے آریہ صاحبان نے دی ہوئی تھی ان سے تکذیب یا تردید کرائیں ان کا خیال تھا کہ قومی پاس داری کے لحاظ سے بہت ممکن ہے یہ لوگ انکار کر دیں اور کوئی تحریر ایسی دے دیں جس کو وہ اعلان تردید کے رنگ میں استعمال کر سکے مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی.گو پنڈت لیکھرام نے اسی سلسلہ میں آگے چل کر ایک مرتبہ حضرت اقدس کو لکھا کہ قادیان کے آریہ
حیات احمد ۱۷۹ جلد دوم حصہ دوم لوگوں سے آپ کی کراماتی قلعی کھل چکی ہے.حضرت اقدس نے اس کو مخاطب کر کے ایک خط میں صاف لکھا کہ ر جس حالت میں قادیان کے بعض آریہ جو میرے پاس آمد و رفت رکھتے ہیں اب تک زندہ موجود ہیں اور اس عاجز کے نشانوں اور خوارق کے قائل اور مُقر ہیں تو پھر نہ معلوم آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ وہ لوگ منکر ہیں اگر آپ راستی کے طالب تھے تو مناسب تھا کہ قادیان میں آ کر میرے رو برو اور میرے مواجہ میں ان لوگوں سے دریافت کرتے تا جو امر حق ہے آپ پر واضح ہو جاتا مگر یہ بات کس قدر دیانت اور انصاف سے بعید ہے کہ آپ دور بیٹھے قادیان کے آریوں پر ایسی تہمت لگا رہے ہیں.ذرا آپ سوچیں کہ جس حالت میں میں نے انہیں آریوں کا نام حصہ سوم اور چہارم میں لکھ کر اُن کا شاہد خوارق ہونا حصص مذکورہ میں درج کر کے لاکھوں آدمیوں میں اس واقعہ کی اشاعت کی ہے تو پھر اگر یہ باتیں دروغ بے فروغ ہوں تو کیونکر وہ لوگ اب تک خاموش رہتے بلکہ ضرور تھا کہ اس صریح جھوٹ کے رڈ کرنے کے لئے کئی اخباروں میں اصل کیفیت چھپواتے اور مجھ کو دنیا میں رسوا اور شرمندہ کرتے.سو منصف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ لوگ باوجود شدت مخالفت اور عناد کے اسی وجہ سے خاموش اور لاجواب رہے کہ جو جو میں نے شہادتیں ان کی نسبت لکھیں وہ حق محض تھا.اور آپ پر لازم ہے کہ آپ اس خطن فاسد سے مخلصی حاصل کرنے کے لئے قادیان آ کر اس بات کی تصدیق کر جائیں.تاسیہ روئے شود ہر کہ درونش باشد و جواب سے جلد تر مطلع کریں والد عا.“ مکتوب بنام لیکھرام ۱۶ اپریل ۱۸۸۵ء مکتوبات احمد یہ جلد۲ صفحه ۲۹ مکتوبات احمد جلد اصفحہ ۶۸،۶۷.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ا ترجمہ :.تا ہر کذب بیانی کرنے والا روسیاہ ہو جائے.(ناشر)
حیات احمد ۱۸۰ پنڈت لیکھرام خود سامنے آ گیا جلد دوم حصہ دوم پنڈت لیکھرام اولاً جیسا کہ اوپر ذکر ہوا قادیان کے آریہ سماجیوں سے خط و کتابت کر رہا تھا اس اثناء میں ۱۸۸۵ء میں حضرت کی طرف سے ایک اعلان کے ( جو مطبع مرتضائی لاہور میں طبع ہوا تھا) دعوت یک سالہ کے رنگ میں شائع ہوا.اس اشتہار میں آپ نے تمام مذاہب کے لے حاشیہ.میں اس قسم کے اعلانات یا بعض مکتوبات کو اس لئے حاشیہ میں دے دیتا ہوں کہ پڑھنے والا فوراً واقعات کو سمجھنے کے قابل ہو سکے پڑھتے وقت اس کے قلب پر کچھ تاثرات وقتی ہوتے ہیں اور وہ وقت گزرنے پر پھر وہ ان معلومات کو مہیا کرنے کی طرف کم توجہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ وہ ایک بات کو مختلف رنگوں میں پیش کرتے.آپ کی تصانیف میں یہ بات نمایاں ہے بعض احمقوں نے اس کا نام تکرار رکھ کر اعتراض کیا آپ نے فرمایا کہ میری غرض تو تبلیغ ہوتی ہے اور ممکن ہے ایک وقت پڑھنے والا یونہی گزر جائے بار بار ایک چیز سامنے آتی ہے تو اس کا اثر رہتا ہے.محض اسی خیال سے اور نیز ان پرانے کاغذات کے تحفظ کے نقطہ خیال سے میں حاشیہ میں دے دیتا ہوں مجھے طوالت مقصود نہیں حفاظت اور واقعات کو یکجائی اور معنی خیز صورت میں پیش کرنا مقصود ہے.وہ دعوت یک سالہ کا خط جو مطبع مرتضائی لاہور میں حضور نے طبع کرایا تھا یہ ہے:.بعد ما وَجَب گزارش ضروری یہ ہے کہ عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جَلّ شَانُهُ کی طرف سے مامور ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہِ راست سے بے خبر ہیں صراط مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے.اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں دکھاوے.اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے.جس کی ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکی ہیں اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط ( جس کی ۲۴۰ کاپی چھپوائی گئی ہے ) مع اشتہار انگریزی (جس کی آٹھ ہزار کا پی چھپوائی گئی ہے)
حیات احمد ۱۸۱ جلد دوم حصہ دوم لیڈروں اور رہنماؤں کو آسمانی نشان کی دعوت دی تھی.اس اشتہار کے لئے مقابلہ کے واسطے کوئی نہیں آیا.اندر من مراد آبادی نے اوّلاً مستعدی کا اظہار کیا لیکن جب حضرت نے اس کے لئے چوبیس سو روپیہ جمع کرانے کا انتظام کر دیا تو وہ بھاگ گیا اس کی تفصیلات ۱۸۸۵ء کے بقیہ حاشیہ شائع کیا جائے اور اس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز پادری صاحبان پنجاب و هندوستان و انگلستان وغیرہ بلاد ( جہاں تک ارسال خط ممکن ہو ) جو اپنی قوم میں خاص طور پر مشہور اور معزز ہوں اور بخدمت معزز بر همو صاحبان و آریه صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان جو جو خوارق و کرامات سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ) ارسال کی جاوے.یہ تجویز نہ صرف اپنے فکر و اجتہاد سے قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب ( جو خط پہنچنے پر رجوع بحق نہ کریں گے ) ملزم ولا جواب و مغلوب ہو جا ئیں گے بنَاءً عَلَيْهِ یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں اس نظر سے کہ قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدا ہیں ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کے کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حِسْبَةً لِله اس خط کے مضمون کی طرف توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے.آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہو گی.اور اس کارروائی کی ( کہ آپ کو رجسٹری شدہ خط ملا پھر جب آپ نے اس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا ) حصہ پنجم کتاب میں پوری تفصیل سے اشاعت کی جاوے گی.اصل مدعا خط جس کے ابلاغ سے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے.اس دین کی حقانیت اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوارق و پیشین گوئیوں ) کی شہادت بھی پائی جاتی ہے جسکو طالب صادق اس خاکسار ( مؤلّف براہین احمدیہ ) کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے.آپ کو اس دین صادق کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر ( قادیان میں ) تشریف لاویں.اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر ان آسمانی نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کر لیں.لیکن اس شرط نیت سے جو طالب صادق کی نشانی ہے کہ بمُجَرَّد معائنہ آسمانی نشانیوں کے اسی جگہ قادیان میں شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے اس شرط نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ
حیات احمد ۱۸۲ جلد دوم حصہ دوم واقعات میں آئیں گی.اندرمن کا تذکرہ جب اخبارات میں آیا تو پنڈت لیکھرام کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور اس نے چاہا کہ میں بھی کیوں پانچوں سواروں میں داخل نہ ہو جاؤں چنانچہ اس نے اس مقابلہ اور بقیہ حاشیہ.آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے.اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں.اب آپ تشریف نہ لاویں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا.اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا.اور اگر آپ آویں.اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دوسو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا.اور دوسو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایان شان نہ سمجھیں تو اپنے خرچ اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے.طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں.اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں.مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا تصدیق خوارق میں توقف نہ فرما ئیں گے.آپ اپنی شرط اظہار اسلام یا تصدیق خوارق ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کو متعدد اردو انگریزی اخباروں میں شائع کیا جائے گا.ہم سے اپنی شرط دو سور و پیہ ماہوار حرجانہ یا جرمانہ (یا جو آپ پسند کریں.اور ہم اس کی ادائیگی کی طاقت بھی رکھیں ) عدالت میں رجسٹری کرا لیں اور اس کے ساتھ ایک حصہ جائیداد بھی بقدر شرط رجسٹری کرا لیں.بالآخر یہ عاجز حضرت خدا وند کریم جل شانہ کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے.اور پھر ان کی اشاعت کے لئے ایک آزا د سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب ( مطبوعہ مرتضائی پریس لاہور ) ۸ / مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹؍ جمادی الاول ۱۳۰۲ھ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۱ تا ۵۳ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۱۸۳ جلد دوم حصہ دوم آزمائش کے لئے قادیان آنے پر آمادگی ظاہر کی اور اس طرح پر اب وہ براہِ راست حضرت کے مقابلہ میں آگیا.پنڈت لیکھرام نے ۱۸۸۵ء کی پہلی سہ ماہی کے آخر میں مطبع مرتضائی کے اس مطبوعہ خط کو پیش نظر رکھ کر چاہا کہ میں مقتدائے قوم بن کر دعوت یک سالہ کے قبول کرنے والوں میں شمار کیا جاؤں.چنانچہ اس نے ۱۸۸۵ء کی پہلی سہ ماہی کے آخر میں حضرت اقدس سے خط و کتابت شروع کی.اور اس میں دو سو روپیہ ماہوار کا مطالبہ کیا.حضرت اقدس نے اس کو جواب دیا کہ تم کسی قوم کے مقتدا اور پیشوا نہیں اور نہ تمہاری آمدنی دوسو روپیہ ماہوار ہے ایسی حالت میں تم اس کے مستحق نہیں لیکھرام کے خطوط میں یاوہ گوئی اور استہزا بھی تھا جیسا کہ حضرت اقدس نے ۱۶ر اپریل ۱۸۸۵ء کے مکتوب میں لیکھرام کے 9 اپریل کے خط کے متعلق لکھا.آپ نے بجائے اس کے کہ میرے جواب پر انصاف اور صدق دلی سے غور کرتے ایسے الفاظ دور از تہذیب و ادب اپنے خط میں لکھے ہیں کہ میں خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی مہذب آدمی کسی سے خط و کتابت کر کے ایسے الفاظ لکھنا روا ر کھے.پھر اسی خط میں آپ نے تمسخر اور ہنسی کی راہ سے دین اسلام کی نسبت تو ہین اور نفرتی باتوں کو پیش کیا ہے اگر چہ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ آپ کس قدر طالب حق ہیں لیکن پھر بھی میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کی سخت اور بد بودار باتوں پر صبر کر کے دوبارہ آپ کو اپنے منشاء سے مطلع کروں.یہ سلسلہ خط و کتابت کسی قدر لمبا ہوا.حضرت اقدس نے بالآ خرلیکھر ام کو کہا کہ وہ آریہ سماج قادیان.امرتسر.لاہور.اور ہانہ.پشاور کے ممبروں کی حلفی تصدیق سے ایک اقرار نامہ پیش کرے جس میں وہ اس کو اپنا مقتد التسلیم کرتے ہوں.اس اقرار نامہ پر بعض ثقہ مسلمانوں اور بعض پادریوں کی شہادت ہو اور اسے اخبارات میں شائع کرا دیا جاوے مگر پنڈت لیکھرام نے کبھی ان پانچوں آریہ سماجوں کی طرف سے دستخطی اقرار نامہ اور مختار نامہ لے کر نہ بھیجا.اس لئے اسی سلسلہ
حیات احمد ۱۸۴ جلد دوم حصہ دوم میں متعد د خطوط طرفین سے لکھے گئے.میں نے ان مکتوبات کو جلد دوم میں شائع کر دیا ہے.یہ خط و کتابت جولائی ۱۸۸۵ ء تک جاری رہی.بالآخر حضرت اقدس نے اتمام حجت کے لئے لیکھرام کی اس شرط کو بھی منظور کر لیا کہ باوجودیکہ وہ ایسی عزت اور حیثیت نہیں رکھتا جو مشتہرہ اعلان ۲۴۰۰ مطبوعہ مرتضائی پریس میں بیان کی گئی ہے تاہم اس کے اصرار پر چوبیں منور کو پیہ بھی دینا منظور کر لیا تا کہ وہ مقابلہ میں آجاوے اور اس پر اتمام حجت ہو چنانچہ خط جو ۷ار جولائی ۱۸۸۵ء کو آپ نے لکھا اس میں تحریر فرمایا کہ ہر چند ہم نے کوشش کی مگر ہم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ آپ ان معزز اور زی مرتبت لوگوں میں سے ہیں جو بوجہ حیثیت عرفی اپنی کے دوسو روپیہ ماہوار پانے کے مستحق ہیں مگر چونکہ آپ کا اصرار اپنے اس دعوئی پر غایت درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ فی الحقیقت میں ایسا ہی عزت دار ہوں اور پیشاور بمبئی تک جس قدر آریہ سماج ہیں وہ سب مجھے معزز اور قوم میں سے ایک بزرگ اور سرگروہ سمجھتے ہیں اس لئے آپ کی طرف لکھا جاتا ہے کہ اگر آپ سچ مچ ایسے ہی عزت دار ہیں تو ہم آپ کی درخواست منظور کر لیتے ہیں اور جہاں چاہو چو میں سوار و پیہ جمع کرانے کو تیار ہیں.۲۴۰۰ مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۷۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس میں حضرت اقدس نے یہ بھی کہا کہ اگر نشان دیکھ کر تم مسلمان نہ ہو تو بطور تاوان چوٹیں سو روپیہ ادا کرو اور اسے تم کسی جگہ داخل کرا دو.اس مقصد کے لئے آپ نے بیس یوم کی میعاد مقرر کی.لیکن نتیجہ کیا ہوا آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے پنڈت لیکھرام نے مقابلہ میں آنے کا تو عزم کیا ہی نہ تھا وہ تو لہو لگا کر شہیدوں میں ملنا چاہتا تھا.نہ اس نے چو ہمیں سو روپیہ جمع کرانے کا وعدہ کیا اور نہ اس شرط کو قبول کیا.آخر وہ مدت مقر رگز رگئی.اس اثناء میں پنڈت لیکھرام نے یہ چاہا کہ میں قادیان چلا جاؤں اور پھر مشتہر کر دوں ا مکتوبات احمد شائع کردہ نظارت اشاعت مطبوعہ ۲۰۰۸ء میں یہ خطوط جلد ا کے صفحہ ۶۵ تا ۷۷ پر ہیں.
حیات احمد ۱۸۵ جلد دوم حصہ دوم گا کہ میں نشان دیکھنے کے لئے گیا تھا مجھے کوئی نشان نہیں دکھایا گیا مگر کافروں کے مکائد آخر ان کی ہی ہلاکت کا موجب ہو جاتے ہیں.قادیان آنے کے محرکات مرزا امام الدین کی کارستانیاں چوبین سوار و پیہ کا اشتہار لیکھر ام کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھا کہ اس مقابلہ میں آنے سے میری عزت و عظمت کا اظہار ہو جائے گا.خط و کتابت سے بات طے نہ ہوئی تو وہ نومبر کے آخری عشرہ میں غالباً ۱۹/ نومبر ۱۸۸۵ء کو قادیان آیا.( یہ تاریخ لیکھر ام کے ایک خط سے معلوم ہوتی ہے جو اس نے ۱۳؍ دسمبر ۱۸۸۵ء کو حضرت کی خدمت میں لکھا اور اس میں تحریر کیا کہ مجھے آج یہاں چھپیں یوم کا عرصہ گزر گیا.(عرفانی) قادیان آنے کا محرك تو یہی اعلان اور وہ سلسلہ خط و کتابت تھا مگر اس کے عمل میں آنے کا جلد امکان نہ تھا لیکن اسے مرزا امام الدین صاحب نے قریب کر دیا.مرزا امام الدین صاحب حضرت کے چچا زاد بھائی تھے ان کی طبیعت پر دہریت والحاد کا غلبہ تھا اور حضرت کی مخالفت ان کا روزانہ شغل.ان کو جب معلوم ہوا کہ لیکھر ام اس قسم کی خط و کتابت کر رہا ہے تو ان کو ایک عجوبہ ہاتھ آ گیا اورلیکھرام کو ایک آلہ کار بنا کر انہوں نے اپنی حاسدانہ مخالفت کے کام کو سرانجام دینا چاہا.چنانچہ وہ خود گئے اور لیکھرام کو اپنے ساتھ قادیان لے آئے.طبیعتوں میں کچھ مناسبت ہوتی ہے لیکھرام کی طبیعت میں بیہودہ گوئی استہزاء اور تمسخر تھا مرزا امام الدین صاحب بھی اپنی طبیعت میں اسی قسم کا رنگ رکھتے تھے اور خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو کا معاملہ ہو گیا.مرزا امام الدین کی مجلس میں بھنگڑ اور چرس پینے والے لوگ جمع ہوتے اور دینی باتوں کی ہنسی اڑانا اور لغو اعتراضات کرنا جیسا کہ ابا حتی فقیروں کا شیوہ ہے اس مجلس کا کام ہوتا تھا اور اب انہیں ایک پالتو طوطا ہاتھ آ گیا.لیکھرام کو انہوں نے سر پر اٹھایا اور اپنے اڈے پر لگا لیا تا کہ وہ پوری شوخی اور بے باکی سے کام لے.
حیات احمد JAY جلد دوم حصہ دوم مرزا امام الدین وغیرہ کے مشورہ سے آریہ سماج قادیان کی تجدید کی گئی اور مرزا امام الدین منشی مراد علی اور ملا حسیناں وغیرہ لوگ آریہ سماج قادیان کے ممبر بنے اور اس کا مقصد عظیم حضرت اقدس کی مخالفت قرار دیا.قیام قادیان کے ایام میں لیکھر ام ایک مرتبہ بھی حضرت اقدس کی خدمت میں اظہار خیالات کے لئے حاضر نہ ہوا.خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا.اس خط و کتابت کے لانے لے جانے میں بھائی کشن سنگھ جو حضرت کی ابتدائی تصنیفات میں کیسوں والے آریہ کے نام سے موسوم ہے زیادہ دخل رکھتے تھے.ان کے ساتھ ہی پنڈت نہال چند بہار دواج.حکیم دیارام وغیرہ بھی لیکھرام کے معتبر تھے.لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت رائے اس معاملہ میں خاموش تھے یا کوئی نمایاں حصہ نہیں لیتے تھے اس لئے کہ وہ اپنی متانت کے پہلو کو دیکھتے ہوئے اس طریق بحث کو پسند نہیں کرتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ مرزا امام الدین کے ہاتھوں میں لیکھر ام کھیل رہا ہے ان کی اس دانشمندانہ بے اعتنائی ہی نے لیکھرام کو جدید آریہ سماج قائم کرنے کا موقع دیا.بہر حال مجھے دوسروں کی تاریخ اور حالات لکھنے زیر نظر نہیں.حضرت اقدس سے خط و کتابت شروع ہوئی.حضرت اقدس کے پاس کبھی کبھی پنڈت موہن لال بہنوت ( جو اس وقت ایک زیرک نو جوان تھا) بھی لیکھرام صاحب کا کوئی رقعہ وغیرہ لے کر چلے جاتے تھے.چونکہ حضرت اقدس کے خاندان کے ساتھ ان کے خاندان کے قدیم تعلقات چلے آتے ہیں حضرت اقدس پنڈت موہن لال صاحب کو بھی جب وہ جاتے خالی نہ آنے دیتے تھے کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور دے دیتے تھے پھل وغیرہ یا شکر ( جو نہایت عمدہ آتی تھی اس زمانہ میں یہ خاص تحفہ ہوتا تھا).پنڈت موہن لال کا بیان پنڈت موہن لال نے (جن کے خاندان کے ساتھ میرے بھی دوستانہ مراسم اُن کے باپ کے وقت سے چلے آتے ہیں) مجھ سے ان ایام کے واقعات کو دوہراتے ہوئے ہمیشہ کہا کہ حضرت صاحب بڑی مہربانی فرماتے تھے اور ہمیشہ ہنستے ہوئے ملتے اور کبھی خالی ہاتھ آنے نہ
حیات احمد جلد دوم حصہ دوم دیتے.ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے نہایت عمدہ سیب دئے میں لے کر گیا پنڈت لیکھرام کا بھی معمول ہو گیا تھا کہ جب میں واپس جاتا تو ضرور پوچھتا کیا لائے ہو؟ میں نے جب کہا کہ سیب لایا ہوں تو اس نے گویا للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر کہا کہ لاؤلاؤ میں کھاؤں.پنڈت موہن لال کہتے ہیں کہ میں نے ان کو ہنسی سے کہا کہ دشمن کے گھر کی چیز تم کو نہیں کھانی چاہئے.تو اُس نے جھٹ میرے ہاتھ سے سیب لے لیا اور کھانا شروع کر دیا.غرض انہوں نے کہا کہ حضرت صاحب ہمیشہ محبت اور مروت سے پیش آئے.اور یہ بھی کہ لیکھرام کو مرزا امام الدین وغیرہ محض اس لئے لے آئے کہ رونق رہے گی اور چھیڑ چھاڑ جاری ہوگی.قادیان میں خط و کتابت کا انجام غرض لیکھر ام قادیان آیا اور خط و کتابت جاری ہوئی مگر اس کا کوئی عملی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا تھا.لیکھرام اپنے خطوط میں اپنی شوخی کے سبب سے کوئی نہ کوئی بات اسلام پر اعتراض کے رنگ میں کہہ دیتا تھا.حضرت اقدس اپنے جواب میں اس کو تحقیقی جواب دیتے آپ یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح سے یہ اسلام کی صداقت کو سمجھ لے لیکن اس کا یہ مقصد نہیں تھا وہ ہر رنگ میں الٹا چلتا اور اپنی مجلسوں میں بھی اسلام پر سوقیانہ حملے کرتا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی اطلاع مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو بھی ہوئی اور ان کو غیرت دینی کے لئے اس قدر جوش آیا کہ انہوں نے لیکھرام کو مباحثہ کا چیلنج دے دیا.یہ شوخی لیکھرام کی مسئلہ جنت پر تھی.قادیان کے مسلمانوں میں بھی جوش پیدا ہو گیا اور مرزا سلطان احمد صاحب پورے طیار ہو کر بازار کو چلے بھی گئے مگر عقلمند ہندوؤں نے سمجھا کہ اس میں خیر نہ ہو گی.اس وقت کو ٹلا دیا اور لیکھرام کو باہر نہ آنے دیا.آخر دسمبر ۱۸۸۵ء کے اوائل میں یہ خط و کتابت نتیجہ کے قریب آنے لگی.لیکھرام نے پہلے تو سال کے لئے چوبیس سو روپیہ معاوضہ ہی طلب کیا تھا اور حضرت اقدس نے بھی مان ہی لیا تھا.لیکن اب قادیان آنے کے بعد معاوضہ کی رقم صرف تمہیں روپیہ ماہوار پر آ گئی.حضرت اقدس
حیات احمد ۱۸۸ جلد دوم حصہ دوم چاہتے تھے کہ بہتر ہے اس تقریب سے فائدہ اٹھایا جاوے اور آریہ سماج کے اصولوں اور تعلیم اسلام کا بھی مقابلہ ہو جاوے.اس لئے آپ لیکھرام کو بار بار اس طرف لانا چاہتے تھے کہ تم اپنی مذہبی سچائی کے دلائل پیش کرو اور ہم قرآن کریم کی آیتوں سے ثابت کریں گے.آپ وہی اصل پیش کرتے تھے جس نے مذہب کے متعلق مناظرات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا یعنی جو دعوئی ہو وہ اپنی مذہبی کتاب سے پیش کرو اور جو دلیل ہو وہ بھی اسی کتاب سے دو.اسلام کے مقابلہ میں ہر ایک مذہب اس اصل کے سامنے شکست کھا جاتا ہے.کسی بڑے سے بڑے عالم کو آج تک جرات نہیں ہوئی کہ اس معیار پر اپنے مذہب کی صداقت ثابت کرے لیکھر ام بیچارے کی تو حقیقت ہی کیا تھی؟ وہ اس سے گریز کرتا.اس لئے حضرت کے خطوط کا جواب دیتے وقت چالاکی سے اصل مطالبہ کا ذکر بھی نہ کرتا اور اپنے جاہل ہم نشینوں کو خوش کرنے کے لئے ہنسی اور ٹھٹھے سے بار بار آسمانی نشان طلب کرتا.۱۳؍ دسمبر کو اس نے ایک خط لکھا جس میں ۱۴ یا ۱۵ کو اپنے قادیان سے روانہ ہونے کا ذکر کیا تھا حضرت نے پھر اسے مفصل خط لکھا مگر وہ اس طرف نہ آیا.آخر میں اس کی شوخی بڑھتی گئی اور اس نے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا جو اس کے لئے پیغام موت تھا.حضرت اقدس نے اس خط کا آخری جواب اس کو دے دیا ( میں یہ دونوں خط حاشیہ میں دے دیتا ہوں.عرفانی) ان خطوط کو پڑھ لینے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ لیکھرام نے بالآخر خَيْرُ الْمَاكِرِين سے نشان مانگا اور خدا تعالیٰ نے اُسے اسی رنگ کا نشان دیا.یعنے اُس کی موت کا نشان دیا اور ایسا نشان کہ آج تک اس کے قاتل کا پتہ نہ لگ سکا.لیکھر ام کے متعلق ایک معاہدہ کے بعد جس پر لیکھرام کے دستخط ہوئے تھے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو خدا تعالیٰ کی وحی سے لیکھرام کی قضا و قدر کے متعلق ایک پیشگوئی کرنے کا اعلان کیا.اس پر لیکھرام نے لکھا کہ میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں.میرے حق میں جو چاہو شائع کرو میری طرف سے اجازت ہے لے حاشیہ.مرزا صاحب.کندن کوہ (اس کے آگے ایک شکستہ لفظ ہے جو پڑھا نہیں جاتا ہے ) افسوس کہ آپ نے قرآنی اسپ ، خود کو اسپ اور اوروں کے اسپ کو خچر قرار دیتے ہیں.میں نے ویدک اعتراض کا
حیات احمد ۱۸۹ جلد دوم حصہ دوم اور میں کچھ خوف نہیں کرتا بالآ خر ۲۰ / فروری ۱۸۹۳ء کو لیکھرام کے متعلق پیشگوئی شائع کر دی گئی اور اس پیشگوئی کے موافق وہ ۶ / مارچ ۱۸۹۷ء کو بمقام لاہور قتل ہو گیا اور آج تک کہ اس پر ۳۷ سال بقیہ حاشیہ عقل سے جواب دیا اور آپ نے قرآنی اعتراض کا نقل سے.مگر وہ عقل سے بسا بعید ہے.اگر آپ فارغ نہیں تو مجھے بھی تو کام بہت ہے اچھا آسمانی نشان تو دکھاویں.اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رَبُّ الْعَرْشِ خَيْرُ الْمَاكِرِین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں.تا فیصلہ ہو.لیکھرام جناب پنڈت صاحب آپ کا خط میں نے پڑھا.آپ یقیناً سمجھیں کہ ہم کو نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے.مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے بجا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں.آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں.آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رَبُّ الْعَرْشِ خَيْرُ الْمَاكِرِيْنِ سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں.یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں.گویا آپ اُس خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بے باکوں کو تنبیہ کر سکتا ہے.باقی رہا یہ اشارہ کہ خدا عرش پر ہے اور مکر کرتا ہے یہ خود آپ کی نا سمجھی ہے.مکر لطیف اور مخفی تدبیر کو کہتے ہیں جس کا اطلاق خدا پر ناجائز نہیں.اور عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لئے آتا ہے.کیونکہ وہ سب اونچوں سے زیادہ اونچا اور جلال رکھتا ہے.یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے.خود قرآن میں ہے کہ ہر ایک چیز کو اس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی چیز کا سہارا نہیں.پھر جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے تو عرش کا اعتراض کرنا کس قدر ظلم ہے.آپ عربی سے بے بہرہ ہیں.آپ کو مکر کے معنی بھی معلوم نہیں.مکر کے مفہوم میں کوئی ایسا نا جائز امر نہیں ہے.جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.شریروں کو سزا دینے کے لئے خدا کے جو باریک اور مخفی کام ہیں ان کا نام مکر ہے.لغت دیکھو پھر اعتراض کرو.میں اگر بقول آپ کے وید سے اُمی ہوں تو کیا حرج ہے کیونکہ میں آپ کے مسلم اُصول کو ہاتھ میں لے کر بحث کرتا ہوں.مگر آپ تو اسلام کے اصول سے باہر ہو جاتے ہیں.صاف افترا کرتے ہیں چاہئے تھا کہ عرش پر خدا کا ہونا جس طور سے مانا گیا ہے اول مجھ سے دریافت کرتے پھر اگر گنجائش ہوتی تو اعتراض کرتے.اور ایسا ہی مکر کے معنی اول پوچھتے پھر اعتراض کرتے اور نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلاوے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار مرزا غلام احمد
حیات احمد 190 جلد دوم حصہ دوم سے زیادہ گزرے ہیں آریہ سماج اور حکومت کی پوری سرگرمی اور تفتیش کے لئے ہر ممکن کوشش کے باوجود اس قتل کا سراغ نہ ملا.حضرت اقدس نے اپنی تصنیفات میں بالتفصیل اس پیشگوئی پر لکھا ہے یہاں اس کے ذکر کی ضرورت اسی قدر تھی.اس طرح پر لیکھرام کا فتنہ جو۱۸۸۳ء میں اس وقت اٹھا تھا جبکہ وہ صوابی ضلع پشاور میں محکمہ پولیس میں نوکر تھا وہ مختلف رنگ بدلتا رہا اور ۱۸۹۳ء میں اس کے انجام کی خبر شائع ہوئی اور ۱۸۹۷ء میں اسی طرح وقوع میں آگئی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ أَوَّلًا وَّاخِرًا وَظَاهِرًا وَّ بَاطِنًا.نواب صدیق حسن خان صاحب اور واپسی براہین تا دے مرد خدا نامد به درد پیچ قومی را خدا رسوا نکر دله براہین احمدیہ کی اشاعت کے متعلق حضرت اقدس کا یہ معمول رہا کہ آپ نے ظاہری اسباب کی حد تک تو اس کی خریداری کے لئے تحریک بھی کی.اشتہارات بھی دیئے اور سنن انبیاء کے طریق پر لوگوں کو براہین کی اعانت کے لئے بھی پکارا مگر ان تمام حالات میں آپ کا مقام توكل وتفویض الی اللہ سب سے اونچا تھا.میں اس جلد کے پہلے نمبر میں صفحہ ۴۴ لغایت صفحہ ۲۵۰ تک اس حیثیت کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں کہ براہین کی اشاعت تجارتی اصولوں پر نہ تھی اور آپ نے بار بار میر عباس علی صاحب کو ( جو اس وقت براہین احمدیہ کی اشاعت کے لئے بہت سرگرمی کے ساتھ مخلصانہ جدو جہد میں مصروف تھے ) لکھا کہ چونکہ یہ کام خالصۂ خدا کے لئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لئے آپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ لحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید وفروخت پر نظر ہو بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں ان کی خریداری مبارک اور بہتر ہے درحقیقت یہ کوئی خرید وفروخت کا کام نہیں.“ لے ترجمہ.جب تک خدا تعالیٰ کے کسی بندے کا دل نہ دکھایا جائے خدا تعالیٰ کسی قوم کو رسوا نہیں کرتا.سے موجودہ صفحه ۲ ۷ تا ۷۵ جلد دوم حصہ اوّل
حیات احمد ۱۹۱ جلد دوم حصہ دوم اور آپ نے صاف صاف اعلان کیا کہ یہ کچھ تجارت کا معاملہ نہیں اور مؤلّف کو بجز تائید دین کے کسی کے مال سے کچھ غرض نہیں لوگ عام طور پر خصوصاً اُمراء براہین کی اشاعت و اعانت کی تحریکوں کا نہایت سرد مہری سے جواب دے رہے تھے اور حضرت نے کبھی اس پر التفات نہ فرمائی.لودہانہ کے ایک رئیس شاہ دین نے کتاب واپس کر دی جو میر عباس علی صاحب کی تحریرہ پر بھیجی گئی تھی جب حضرت کی طرف سے اس کتاب کے متعلق کوئی اطلاع انہیں نہ ملی اور معلوم ہوا کہ کتاب واپس ہو گئی ہے تو انہوں نے حضرت کو لکھا کہ مجھے واپسی کتاب کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی.حضرت نے ۲۱ رمئی ۱۸۸۳ء کو انہیں لکھا کہ :.شاہ دین صاحب رئیس لودہانہ کی طرف انہیں دنوں میں کتاب بھیجی گئی جب آپ نے لکھا تھا مگر انہوں نے پیکٹ واپس کیا اور بغیر کھولنے کے اوپرلکھ دیا کہ ہم کو لینا منظور نہیں چونکہ ایک خفیف بات تھی اس لئے آپ کو اطلاع دینے سے غفلت ہوگئی.آپ کوشش کرنے میں تو شکل کی رعایت رکھیں اور اپنے حفظ مرتبت کے لحاظ سے کارروائی فرماویں اور جو شخص اس کام کی قدر نہ سمجھتا ہو یا اہلیت نہ رکھتا ہواس کو کچھ کہنا مناسب نہیں.“ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۳۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یہ تمہید میں نے ایک عظیم الشان واقعہ کے بیان کے لئے لکھی ہے جو اسی سال ۱۸۸۳ء میں وقوع میں آیا تا کہ پڑھنے والوں کو یہ مغالطہ نہ لگے کہ حضرت اقدس پر جو کیفیت اس واقعہ کے ضمن میں طاری ہوئی وہ کسی ذاتی یا نفسانی جذبہ کے ماتحت تھی بلکہ ایک قدرتی اور ربانی امر تھا.ہاں وہ ان حالات میں پیش آ گیا.یہ عظیم الشان واقعہ نواب صدیق حسن خان آف بھوپال کے متعلق ہے جس نے کتاب براہین احمدیہ کو باوجود اس کی خریداری و اعانت کا وعدہ کرنے کے واپس کیا.قبل اس کے کہ میں اس واقعہ کو کسی قدر صراحت کے ساتھ بیان کروں اتنا اور لکھنا ضروری ہے کہ نواب صدیق حسن صاحب قنوج کے رہنے والے ایک ذی علم انسان تھے تقدیر انہیں بھو پال لے گئی اور وہاں ان کو ایسے اسباب میسر آگئے کہ وہ مولوی صدیق حسن سے نواب صدیق حسن بن گئے.
حیات احمد ۱۹۲ جلد دوم حصہ دوم بیگم صاحبہ بھوپال نے جو والیہ ریاست تھیں ان سے شادی کر لی.اور نواب صدیق حسن صاحب اس طرح پر سیاہ وسفید کے عملاً مالک ہو گئے.مذہباً وہ اہلحدیث تھے اور صاحب تصنیف و تالیف تھے.اب میں اس واقعہ کے متعلق حالات لکھتا ہوں.میں اجمالی طور پر بیان کر آیا ہوں کہ انہوں نے کتاب کی خریداری کا پہلے وعدہ کیا اور پھر کتاب واپس کر دی.اس کی کسی قدر تفصیل یہاں دیتا ہوں.حافظ حامد علی رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت اقدس کی خدمت میں آچکے تھے اور یہ واقعہ ان کے سامنے کا ہے اور انہوں نے بھی بیان کیا تھا.نواب صاحب کی مصائب کی شدت میں دعا کے لئے آنے کا واقعہ خود حافظ محمد یوسف صاحب امرتسری نے مجھ سے بیان کیا جن کے ساتھ مجھے برابر سال ڈیڑھ سال تک رہنے کا اتفاق ہوا.حضرت اقدس نے براہین احمدیہ کے لئے مسلمان رؤسا و امراء کو اعانت کے لئے تحریک کی تھی.اسی سلسلہ میں بیگم صاحبہ بھو پال اور نواب صدیق حسن صاحب کو بھی لکھا گیا.نواب صاحب خود ایک علم دوست اور ذی علم آدمی سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے کتب دینی کی اشاعت و تالیف کا کام بھی خوب کیا.انہوں نے اس وقت براہین کی اعانت و خریداری کا وعدہ کر لیا مگر جب کتاب شائع ہوئی اور حضرت نے اس کے تینوں حصے بھیج دیئے تو انہوں نے کتاب واپس کر دی کہ اس میں عیسائیوں کی تردید ہے اور گورنمنٹ عیسائی ہے ایسی کتابوں کے لئے مدد کرنا گورنمنٹ کو ناراض کرنا ہے لیکن جواب سیاسی الفاظ میں دیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی امید نہ رکھیں اور کتابیں جو بھیجی گئی تھیں وہ واپس کر دیں کتابوں کا پیکٹ انہوں نے وصول کر لیا تھا کھول کر دیکھ کر پھر دوبارہ نہایت بُری طرح پیکٹ بنا کر بھیج دیا اور وہ پھٹ بھی گئی تھیں.حافظ حامد علی صاحب کہتے ہیں کہ جب کتاب واپس آئی تو اس وقت حضرت اقدس اپنے مکان میں چہل قدمی کر رہے تھے اور وہ بھی وہاں موجود تھے کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی ہے اور نہایت بُری طرح سے اس کو خراب کیا گیا ہے حضرت صاحب کا چہرہ متغیر ہو گیا اور غصہ سے سرخ ہو گیا.حامد علی کہتا ہے کہ ”میں نے اپنی ساری عمر میں
حیات احمد ۱۹۳ جلد دوم حصہ دوم حضرت صاحب کو ایسے غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا آپ کے چہرہ کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے قلب میں ناراضگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے.آپ بدستور ادھر ادھر ٹہلتے تھے اور خاموش تھے کہ یکا یک آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے.”اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کر لو چند ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ ان پر ریذیڈنٹ کی طرف سے ایک سیاسی مقدمہ قائم ہو گیا اور نوابی کا خطاب چھین لیا گیا.الزامات نہایت خطرناک تھے سرلیپل گریفن جس نے رؤساء پنجاب لکھی ہے وہ ریذیڈنٹ تھا اور نواب صدیق حسن خان کے متعلق اس کی رائے نہایت خطرناک تھی.مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا.حافظ محمد یوسف نے مجھ سے کہا تھا کہ جب کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہ آئی تو میں نے مشورہ دیا کہ مرزا صاحب سے دعا کرائی جاوے.چنانچہ مولوی ابوسعید محمد حسین نے ہی کہا اور مجھے بھی اس کام پر مقرر کیا گیا اور مولوی محمد حسین نے بھی سفارش کی کہ نواب صاحب پر آفت آجانے کی وجہ سے بہت بڑا نقصان ہو گا اور ان کی دینی خدمات کو پیش کیا.حافظ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جب حاضر ہو کر عرض کیا تو حضرت اقدس نے اوّلاً دعا کرنے سے انکار کر دیا اور براہین کا واقعہ بیان کر کے یہ بھی فرمایا کہ وہ خدا کی رضا پر گورنمنٹ کی رضا کو مقدم کرنا چاہتے تھے اب گورنمنٹ کو راضی کر لیں.موحد ہونے کا دعوی کر کے ایک زمینی حکومت سے خوف اور وہ بھی دین کے مقابلہ میں جس میں خود اس حکومت نے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے.اس پر بہت دیر تک تقریر کرتے رہے.چونکہ مجھ پر مہربانی فرماتے تھے اور میں نے بھی پیچھا نہ چھوڑا.عرض کرتا ہی رہا نواب صاحب کی طرف سے معذرت بھی کی.آخر حضرت صاحب نے دعا کرنے کا وعدہ فرمالیا اور میں تو اسی غرض کے لئے آیا تھا.جب تک آپ نے دعا نہ کر دی اور یہ نہ فرمایا کہ میں نے دعا کر دی ہے.وہ تو بہ کریں خدا تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والا ہے وہ رحم فرمائے گا حکومت کے اخذ سے وہ بچ جاویں گے (میں یہ کہتا ہوں کہ یہ حضرت اقدس کے ارشاد کا مفہوم ہے جو حافظ صاحب نے بیان کیا.عرفانی اس کے بعد میں نے براہین احمدیہ کی خریداری کے لئے
۱۹۴ جلد دوم حصہ دوم حیات احمد نواب صاحب کی طرف سے درخواست کی آپ نے اس کو منظور نہ فرمایا ہر چند عرض کیا گیا آپ راضی نہ ہوئے.فرمایا میں نے رحم کر کے ان کے لئے دعا کر دی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اس عذاب سے بچ جائیں گے.میرا یہ فعل شفقت کا نتیجہ ہے ایسے شخص کو جس نے اس کتاب کو اس ذلت کے ساتھ واپس کیا میں اب کسی قیمت پر بھی کتاب دینا نہیں چاہتا.یہ میری غیرت اور ایمان کے خلاف ہے ان لوگوں کو جو میں نے تحریک کی تھی خدا تعالیٰ کے مخفی اشارہ کے ماتحت اور ان پر رحم کر کے کہ یہ لوگ دین سے غافل ہوتے ہیں براہین کی اشاعت میں اعانت ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جاوے اور خدا تعالیٰ انہیں کسی اور نیکی کی توفیق دے.ورنہ میں نے ان لوگوں کو کبھی امید گاہ نہیں بنایا.ہماری امید گاہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی کافی ہے.حافظ صاحب کہتے تھے کہ پھر زیادہ زور دینے سے میں خود بھی ڈر گیا اور واپس چلا آیا حضرت کی دعا قبول ہو گئی اور نواب صاحب حکومت کے اخذ سے بچ گئے اور نوابی کا خطاب بھی بحال ہو گیا مگر جیسا کہ حضرت اقدس کے الفاظ سے معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کے اخذ سے بچ جاویں گے وہ اس مصیبت سے بچائے گئے لیکن موت نے ان کا خاتمہ کر دیا.نواب صدیق حسن خان کا واقعہ حضرت کی سیرت کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے.آپ کی شفقت آپ کی غیرت دینی آپ پر توحید اور توکل کا غلبہ براہین کے لئے امراء کو تحریک، اعانت کی پاک غرض متاع دنیا سے زہد.غرض بہت سی باتیں اس میں نمایاں ہیں.۱۸۸۳ء کے بعض واقعات کی ڈائری اور نشانات ممکن اس عنوان کے نیچے میں کوئی مفصل ڈائری یا نشانات آپ کے نہیں دے رہا ہوں اور نہ ہی میں ہے بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ جن امور یا واقعات کے متعلق کوئی تاریخی ترتیب واقعات کی ہو سکے اس کا ذکر کر دوں.ایسا ہی نشانات کے متعلق بھی میں کوئی تفصیلی تذکرہ نہیں کروں گا حضرت نے اپنی کتب میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیا ہے میں ان کے حوالہ جات کو یکجائی طور پر لکھ جانا چاہتا ہوں.ضروری نوٹ.نواب صدیق حسن خان بھوپالی کے متعلق جو واقعات لکھے گئے ہیں اس سلسلہ میں اتنا اور یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت اقدس نے جب اس کے لئے دعا کی تو الہام ہوا تھا.کہ سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی.(عرفانی)
حیات احمد ۱۹۵ جلد دوم حصہ دوم ۲۲ جنوری ۱۸۸۳ء مطابق ۱۲؍ ربیع الاول ۱۳۰۰ھ ایک مکتوب اسمی میر عباس علی صاحب لود بانوی نے زمانہ حاضرہ کے اندرونی اور بیرونی فسادات کی تصویر پیش کی اور عہد نبوی علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت زمانہ کی جو حالت تھی اس کو پیش کر کے کمالات نبوت کے ختم کی حقیقت کو بیان کیا اپنے زمانہ کی خرابیوں کو پیش کر کے لکھا کہ ایسے دنوں میں خدا وند کریم کا یہ نہایت فضل ہے کہ اپنے عاجز بندہ کو اس طرف توجہ دی ہے.اور دن رات اس کی مدد کر رہا ہے تا باطل پرستوں کو ذلیل اور رسوا کرے.چونکہ ہر حملہ کی مدافعت کے لئے اس سے زبر دست حملہ چاہئے اور قوی تاریکی کے اٹھانے کے لئے قوی روشنی چاہئے اس لئے یہ امید کی جاتی ہے اور آسمانی بشارات بھی ملتے ہیں کہ خدا وند کریم اپنے زبر دست ہاتھ سے اپنے عاجز بندہ کی مدد کرے گا اور اپنے دین کو روشن کرے گا.“ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۱۱۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (مکتوب نمبر۱۱) اس اقتباس سے بھی اس بصیرت اور معرفت کا پتہ لگتا ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی بشارتوں کے متعلق تھی.قابل غور یہ امر ہے کہ اس وقت تک آپ نے کوئی دعوی نہیں کیا.لوگوں کی درخواستوں کے باوجود بیعت لینے سے انکار کیا.اللہ تعالیٰ آپ کی شان ماموریت کا ایک علم آپ کو دے رہا تھا اور آپ جو کچھ خدا سے سنتے اسے پیش کر دیتے تھے.مگر علی وجہ البصیرت اپنی کامیابی کا اعلان کرتے تھے.۹ر فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۳۰ / ربیع الاول ۱۳۰۰ھ میر عباس علی صاحب کو ایک مکتوب لکھا جس میں آپ نے اس زمانہ کے قرب کی بشارت دی جس میں آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا ظہور ہو گا اور وہ اس طرح پر کہ نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا ئیں.اسی مکتوب میں آپ نے اپنے صادق دوستوں کے متعلق لکھا کہ اس عاجز کے صادق دوستوں کی تعداد بھی تین چار سے زیادہ نہیں.زمانہ کی زہر ناک ہوا کا ذکر کیا.اور صادقوں کے لئے کس قدر غمزدہ رہے.مکتوب نمبر۴ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۱۳٬۵۱۲ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۳) ۱۷ فروری ۱۸۸۳ء پھر ایک مکتوب میں عہد حاضرہ کے فتنوں سے ڈرایا اور آخر تک
حیات احمد ۱۹۶ جلد دوم حصہ دوم صدق کو پہنچانے کی مشکلات کا اظہار فرمایا.عمل معتبر کی حقیقت بتائی اس مکتوب میں ترقی کی پیشگوئی فرمائی اور دوستوں کی قلیل تعداد ( تین چار ) کے بڑھ جانے کی بشارت دی.ایسے زمانہ میں صداقت کی روشنی ایک نئی بات ہے اور اس پر وہی قائم رہ سکتے ہیں جن کے دلوں کو خدا آپ مضبوط کرے اور چونکہ خدا وند کریم کی بشارتوں میں تبدیلی نہیں.اس لئے امید ہے کہ وہ اس ظلمت میں سے بہت سے نورانی دل پیدا کر کے دکھلا دے گا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اس وقت ابھی کوئی دعوی نہیں تھا مگر خدا تعالیٰ کی بشارتیں مل رہی تھیں میر عباس علی صاحب کے متعلق ایک کشف کا بھی ذکر کیا“.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۱۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۴) ۳ مارچ ۱۸۸۳ء میر عباس علی صاحب کے خط کی عبارتیں خط آنے سے پیشتر کشفی صورت میں آپ پر ظاہر کی گئیں.چنانچہ ان کو لکھا آپ کا خط جو آپ نے لودہانہ سے لکھا تھا پہنچ گیا جس کے مطالعہ سے بہت خوشی ہوئی بالخصوص اس وجہ سے کہ جس روز آپ کا خط آیا اسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں.۲ مارچ ۱۸۸۳ء کو لیکھرام کا خط آریہ سماج قادیان کے نام آریہ سماج صوابی کی طرف سے آیا تھا اس کی اطلاع دی.جو اسرار آپ پر کھولے جاتے تھے ان کے اظہار کی حقیقت کو بیان کیا کہ اس زمانہ میں ان باتوں کو بیان کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے گو دوسرے لوگ اپنی نافہمی سے اس اظہار کو ریا کاری میں داخل کریں یا کچھ اور سمجھیں مگر یہ عاجز اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیں گے اور خداوند کریم نے اس عاجز کو عام فقرا کے برخلاف طریقہ بخشا ہے جس میں ظاہر کرنا بعض اسرار ربانی کا عین فرض ہے.(مکتوب نمبر ۶ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۱۶،۵۱۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۵) ۱۸ مارچ ۱۸۸۳ء آپ نے ایک مبسوط مکتوب فلسفہ خواب پر لکھا جس میں بتایا کہ کیوں عالم بیداری کی سی حالت نہیں ہوتی.کشف اور رؤیا کا فرق.مقامِ عبودیت.فناء اتم کی حقیقت کو بیان فرمایا یہ نہایت ہی علمی مکتوب ہے اور تصوف اور ریا کے اسرار پر مشتمل ہے.(۶) ۲۵ مارچ ۱۸۸۳ء کو اسی سلسلہ میں ایک اور مبسوط مکتوب لکھا جس میں حقائق
حیات احمد ۱۹۷ جلد دوم حصہ دوم متصوفین کو نہایت خوبی کے ساتھ مجد دانہ انداز میں بیان کیا.اس قسم کے مکتوبات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کس قدر تحقیق اور تدقیق سے روحانی مسائل کو بیان فرماتے ہیں اور آپ کا علم خدا دا د اور لڈنی ہے.(۷) ۱۵/ اپریل ۱۸۸۳ء درود شریف کے پڑھنے کے طریق پر بحث فرمائی اور فرمایا کہ اعمال میں روح صداقت کی ضرورت ہے نہ رسم و عادات کی.یہ زمانہ عجیب تھا حضور سلوک کے منازل طے کرنے کے لئے عبادات کی حقیقت اور روح پیدا کرنے کے اسرار اور اسباب بیان فرما رہے تھے ”نماز میں قبولیت کی شان کس طرح پیدا ہو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم “میں دلی آہوں سے دلی تضرعات سے دلی خضوع سے دلی جوش سے حضرت احدیت کا فیض طلب کرنا چاہئے اور اپنے تئیں ایک مصیبت زدہ اور عاجز اور لاچار سمجھ کر اور حضرت احدیت کو قادر مطلق رحیم کریم یقین کر کے رابطہ محبت اور قرب کے لئے دعا کرنی چاہیئے“ مکتوب نمبر ۹.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۲۳٬۵۲۲ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۸) ۲۶ / اپریل ۱۸۸۳ء تہجد کی تاکید اور اس کی برکات بیان فرمائے.درود شریف بہتر کونسا ہے اس پر اپنا عمل اور درود شریف پڑھنے میں کسی پابندی کی ضرورت نہیں.البتہ اخلاص محبت اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک پڑھنا چاہئے کہ ایک حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جاوے اور سینہ میں ذوق اور انشراح پایا جائے.مکتوب نمبر ۱۲.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۲۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۹) مئی ۱۸۸۳ ء ایک مکتوب میں اپنی ایک رؤیا کا ذکر کر کے لکھا کہ عنایات الہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں.اور یقین کامل ہے کہ اس وقت قوت ایمان اور اخلاص اور تو کل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئے ہیں پھر خدا وند کریم یاد دلائے گا.اور بہتوں کو اپنی خاص برکات سے متمتع کرے گا کہ ہر ایک برکت ظاہری اور باطنی اسی کے ہاتھ میں ہے.اپنی فطرت کے اثرات میں بتایا کہ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اللہ غالب ہے اور معاملہ حضرت احدیت بھی یہی ہے کہ خود روی کے کاموں سے سخت منع کیا جاتا ہے یہ مخاطبت حضرت احدیت سے بار بار ہو چکی ہے.لَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ وَلَا
حیات احمد ۱۹۸ جلد دوم حصہ دوم تَقُلُ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَالِكَ غَدًا - ان الہامات کو پیش کر کے بیعت کے متعلق جو لوگ درخواستیں کرتے تھے ان کو لکھا کہ چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ أَمْرًا.مکتوب نمبر ۱۴.مکتوبات احمد جلد صفحه ۵۲۷ تا ۵۲۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (۱۰) ۲۱ مئی ۱۸۸۳ ء ایک مکتوب میں اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ بتایا کہ یہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلی یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آجایا کرے.“ مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۳۱٬۵۳۰ مطبوعه ۶۲۰۰۸) انبیاء علیہم السلام میں مخلوق کی ہمدردی کے لئے جو قوت عشقیہ ہوتی ہے اس کی صراحت و حقیقت کو بیان فرمایا اور پیری مریدی کے تعلقات میں پیر کی قوت عشقیہ والدین کا حکم رکھتی.ہے جن لوگوں کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوتی ہے.ان میں قوت عشقیہ بھری ہوتی ہے.(۱۱) ۱۲ جون ۱۸۸۳ء.ان مصائب اور ابتلاؤں سے مِنْ وَجُه خبر دی جو خدا تعالیٰ نے آپ کے یا متبعین کے لئے مقرر ہیں اور سنت اللہ کے موافق ایسے لوگوں کے لئے مقرر ہیں آپ نے بتایا کہ لوگوں کی فضول گوئی سے کچھ نہیں بگڑتا.اسی طرح پر عادت اللہ جاری ہے کہ ہر ایک مہم عظیم کے مقابلہ پر کچھ معاند ہوتے چلے آئے ہیں.خدا کے نبی اور اُن کے تابعین قدیم سے ستائے گئے ہیں سو ہم لوگ کیونکر سنت اللہ سے الگ رہ سکتے ہیں.وہ اندر کی باتیں جو مجھ پر ظاہر کی جاتی ہیں ہنوز ان میں سے کچھ بھی نہیں “ پھر اسی سلسلہ میں اپنی اور اپنے متبعین کے غلبہ اور فوقیت کی بشارت بھی دی اور ایک بشارت اور وحی الہی کی بناء پر فرمایا :.کہ خدا وند کریم ان سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا.اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی ایسا مقبول آنے والا نہیں جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو
حیات احمد ۱۹۹ جلد دوم حصہ دوم مخالف قدم مارے گا اس کو خدا تباہ کرے گا اور اس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی.یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہر گز تختلف نہیں کرے گا.“ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۳۳ و ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) یہ پچاس برس پہلے کی بشارت ہے اور گزشتہ پچاس سال کی تاریخ اسی کی مؤید اور گواہ ہے.یہ امر واقعہ ہے کہ اس وقت تک تو آپ بیعت بھی نہ لیتے تھے لیکن اپنے طریق کو منہاج نبوت پر یقین کرتے تھے اور مگر آئندہ قبولیت اور ربانی فیوض کے حاصل کرنے کے لئے اپنے وجود اور طریق کو صحیح طریق یقین کرتے تھے.پھر ” درود شریف کے پڑھنے پر زور دیا اور طلب برکات (درود) کے اسرار اور فیوض کی حقیقت بتائی.وو (۱۲) ۱۲ جون ۱۸۸۳ء خدا کے راستبازوں کے لئے دعا کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اور درود شریف پڑھنے کی حد کے متعلق پھر فرمایا:.کہ وو (درود شریف کے پڑھنے میں کسی تعداد کی شرط نہیں اس قدر پڑھا جاوے کہ کیفیت صلوۃ سے دل مملو ہو جاوے اور ایک انشراح اور لذت اور حیوۃ قلب پیدا ہو جاوے اور اگر کسی وقت کم پیدا ہو تب بھی بے دل نہیں ہونا چاہئے اور کسی دوسرے وقت کا منتظر رہنا چاہئے اور انسان کو وقت صفا ہمیشہ میسر نہیں آ سکتا سو جس قدر میسر آوے اس کو کبریت احمر سمجھے اور اس میں دل و جان سے مصروفیت اختیار کرے.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۳۲ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۱۳) ۱۵/ جون ۱۸۸۳ء پنڈت دیانند پر اتمام حجت کی اطلاع اور حصہ چہارم براہین احمدیہ کی طباعت کے آغاز کی خبر دی.(۱۴) ۲۱ / جون ۱۸۸۳ ء ویدوں کے تراجم کے پڑھنے اور دیانند کے دید بھاش کے سننے کا ذکر کر کے ویدوں کی تعلیم پر ایک ریویو لکھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر ہو کر کھانے کی حقیقت کو بیان کیا.براہین احمدیہ کی امداد جن رئیسوں نے کی وہ صرف نواب ابراہیم علی خان صاحب مالیر کوٹلہ اور نواب محمود علی خانصاحب رئیس چھتاری ہیں.مدارالمہام صاحب جو نا گڑھ
حیات احمد جلد دوم حصہ دوم بھی ہیں.نواب صاحب بھوپال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ نواب صدیق حسن صاحب بھوپال نے نہایت مخالفانہ خط لکھا.آپ نے میر عباس علی صاحب کو یہ بھی ہدایت کی کہ جو شخص اپنی رائے کے ساتھ کتاب کو واپس کرے یا لینا منظور نہ کرے یا کتاب اور کتاب کے مؤلف کی نسبت کچھ مخالفانہ رائے ظاہر کرے اس کو ایک دفعہ اپنے وسیع خلق سے محروم نہ کریں.(۱۵) ۱۱ار جولائی ۱۸۸۳ء میر عباس علی صاحب نے منشی فضل رسول صاحب نامی کسی شخص کے خط کو جو ویدوں کے فضائل کے متعلق تھا حضرت کو بھیجا تھا آپ نے اس کے جواب میں ایک مبسوط خط ویدوں کی حقیقت پر مشتمل لکھا.اس میں آپ نے اس غیرت قرآنی کا بھی ذکر کیا جو فطر تا آپ کو دی گئی.آپ نے لکھا کہ ” جب میں نے منشی صاحب کے اس فقرہ کو پڑھا کہ اس میں (یعنے دید میں ) تو بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں بھی نہیں ہے تو یہ یاد کر کے کہ منشی صاحب نے وید کو تو حید میں بے مثل و مانند قرار دے کر قرآن شریف کی عظمت کا ایک ذرہ پاس نہیں کیا اور دلیری سے کہہ دیا کہ جو وید میں تو حید ہے وہ کسی دوسری کتاب میں نہیں پائی جاتی.اس فقرہ کے پڑھنے سے عجیب حالت ہوئی کہ گویا زمین و آسمان آنکھوں کے آگے سیاہ نظر آتا تھا.اللَّهُمَّ اصْلِحُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ یه عشق و غیرت قرآن کریم کے لئے کیا کسی دوسرے میں پائی جاتی ہے؟ (۱۶) ۲۵ / جولائی ۱۸۸۳ء میر عباس علی صاحب کو براہین احمدیہ کی قیمت جو ان کے پاس آئے خرچ کر لینے کی اجازت دے دی.یہ وسعت حوصلہ اور فیاضی کا ایک معمولی ثبوت ہے.مخالفت پر صبر اور تو کل علی اللہ کی نصیحت فرمائی.(۱۷) یکم اگست ۱۸۸۳ منشی فضل رسول کے اعتراضات کا پھر مبسوط جواب دیا اور قرآن کریم کی تعلیم کے اثرات اور اسلام کی خصوصیات پر پُر شوکت الفاظ میں توجہ دلائی.اور یہاں تک تحدّی سے لکھا کہ بلا شبہ یہ سچ بات ہے کہ اگر کوئی تَوْبَةُ النَّصوح اختیار کر کے دس روز بھی قرآنی منشاء کے بموجب مشغولی اختیار کرے.تو اپنے قلب پر نور نازل ہوتا دیکھے گا“.(۱۸) ۱۹ار اگست ۱۸۸۳ء ایک مبسوط مکتوب میں تبثل تام حاصل کرنے کی حقیقت بیان
حیات احمد ۲۰۱ جلد دوم حصہ دوم کی.اور اس کے ضمن میں حجاب کی قسموں ( بدیہی و نظری ) کی تشریح فرمائی.جذبہ عشق الہی کے نتائج.سالک کا پہلا اصل وغیرہ مطالب بیان کرتے ہوئے اپنی ماموریت اور دشمنوں کی یورش کا ذکر کر کے مخالفین کے کفر کے فتویٰ پر ناز کیا.کہ اگر اتباع رسول کا نام کفر ہے تو زہے قسمت چنانچہ فرمایا کہ: وو ہم عاجز بندوں کی کیا حقیقت اور بضاعت ہے وہی ایک ہے جس نے اپنے عاجز اور ناتواں بندہ کو ایک خدمت کے لئے مامور کیا ہے.اب دیکھئے کب تک اس ربّ العرش تک اس عاجز کی آہیں پہنچتی ہیں.آپ نے لکھا تھا کہ بعض احباب علماء کی طرف سے یہ فتوی لائے ہیں کہ اتباع قَالَ الله وَقَالَ الرَّسُول اور ترجیح اُس کی دوسرے لوگوں پر کفر ہے مگر یہ بندہ عاجز کہتا ہے کہ زہے سعادت کہ کسی کو یہ کفر حاصل ہو.ے گر این کفرم بدست آید بر و قربان کنم صد دین کے اس کی تائید میں آپ نے ایک دوسرے موقع پر فرمایا.بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرمے (۱۹) ۳۰/ اگست ۱۸۸۳ء مسجد مبارک کے متعلق الهام بروز سه شنبه (۲۸/ اگست ۱۸۸۳ء الہام ہوا کہ فِيهِ بَرَكَاتُ لِلنَّاسِ - فتوح الغیب کے صفحہ اس کی تشریح لکھی گئی.(۲۰) ۶ ستمبر ۱۸۸۳ء فتوح الغیب کے صفحہ ۲۴ کی تفسیر میں كُونُوا مَعَ الصَّادِقِین کی لطیف تفسیر اور اس میں عہد حاضرہ کی اسلامی حالت کا نقشہ بھی بیان کیا کہ یہ وہ زمانہ ہے جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا کہ میری امت کے لوگ نمازیں پڑھیں گے روزے بھی رکھیں گے مسجدوں میں بھی جمع ہوں گے پر اُن میں کوئی مومن نہ ہوگا.(۲۱) ۱۳ ستمبر ۱۸۸۳ ء ایک حدیث نبوی " يَعْرِفُهُمُ غَيْرِی“ کے وہ معنی آپ نے بیان ترجمہ: اے اگر ایسا کرنے سے کفر لازم آتا ہے تو میں اس پر سو دین قربان کرنے کو تیار ہوں.ے خدا کے عشق کے بعد میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.
حیات احمد جلد دوم حصہ دوم کئے جو خدا تعالیٰ نے آپ کو تفہیم کئے.اسی سلسلہ میں اس امر پر بھی بحث کی کہ خوارق کیونکر ملتے ہیں؟ استدراج اور خوارق میں کیا فرق ہے.مجد دامت میں کب آتے ہیں اور ان کا مقام کیا ہوتا ہے.امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ کبھی کبھی آخر صدی پر اصلاح اور تجدید دین کے لئے اس شان کے لوگ مبعوث ہوتے ہیں اور دنیا ان کے وجود سے نفع اٹھاتی ہے اور دین زندہ ہوتا ہے.مسجد مبارک کے متعلق پانچ مرتبہ الہام کی اطلاع اور ایک تاریخ بنائے مسجد کا الہام تحریر فرمایا ہے اسی خط میں اللہ تعالیٰ کے اذن عام سے بعض دوسرے الہامات کا ذکر کیا ہے جو آپ کی بعثت و ماموریت پر آیات ہیتہ ہیں.(۲۲) ۱۲ / دسمبر ۱۸۸۳ء مسئلہ دعا پر ایک لطیف مکتوب تحریر فرمایا.جس میں دعا اور تقدیر اور دوسرے اہم مطالب کو واضح کر کے بیان فرمایا.(۲۳) ۱۴ اکتو بر ۱۸۸۳ء حقیقت نفس اور معرفت نفس پر ایک لطیف مکتوب آپ نے لکھا جس میں وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ کی لطیف تغییر فرمائی اور بتایا کہ نفس انسانی ایک نسخہ جامع جميع اسرار عالم ہے.پھر اسی ضمن میں نجات کی حقیقت اور تزکیہ نفس کے ساتھ اس کا تعلق بتایا اور یہ بھی بیان کیا کہ تزکیہ نفس دو قسم کا ہوتا ہے.مِنْ حَيْنِيَّةِ العِلم اور مِنْ حَيْنِيَّةِ العَمَل.اس تقسیم کی حقیقت کے اظہار میں معرفت ربانی کے اسرار کو عام فہم الفاظ میں بیان کر کے ارشاد فرمایا ہے جس سے پایا جاتا ہے کہ جب انسان بقا باللہ کے مقام میں ہوتا ہے تو اس پر کئی قسم کے الہامات ہوتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنے ہی تجربہ اور مقام کو کھول رہے ہیں گو اس وقت کوئی دعویٰ آپ کا نہ تھا.(۲۴) ۲۴ اکتوبر ۱۸۸۳ء آپ نے بصراحت اپنی کامیابی کی پیشگوئی کی.اور ایک بصیرت کے ساتھ لکھا کہ اس کام کی خداوند کریم نے اپنے ہاتھ سے بنا ڈالی ہے اور ارادہ الہی اس بات کے متعلق ہو رہا ہے کہ شوکت اور شان دین کی ظاہر کرے اور اس بارہ میں اس کی طرف سے کھلی کھلی بشارتیں عطا ہو چکی ہیں سو جس بات کو خدا انجام دینے والا ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا.“ پھر اسی مکتوب میں غیرت نفس کی حقیقت کو بیان کیا اور فرمایا کہ ” مومن کے لئے لازم ہے کہ
حیات احمد ۲۰۳ جلد دوم حصہ دوم وو دنیا دار کے سامنے تذلل اختیار نہ کرے اور اس کی شان باطل کو تحقیر کی نظر سے دیکھے انسان دنیا دار کے سامنے نرمی اور تواضع اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ حضرت خداوند عز وجل کے نزدیک مشرک ٹھہرتا ہے اس سے آپ جس بلند مقام تو حید پر ہیں اس کا پتہ ملتا ہے.پھر بتا کید لکھا ہے کہ: ” دنیا داروں سے مطلب براری کے لئے نرمی کرنا دنیا داروں کا کام ہے اور یہ کام خَالِقُ السَّمَوَاتِ وَالاَرض کا ہے.مجھ کو یا آپ کو لازم نہیں کہ ایک بدنصیب دُنیا دار سے ایسی لجاجت کریں کہ جس سے اپنے مولیٰ کی کسر شان لازم آوے.جو لوگ ذات کبریا کا دامن پکڑتے ہیں وہ منکروں کے دروازے پر ہرگز نہیں جاتے اور لجاجت سے بات نہیں کرتے.سو آپ اس طریق کو ترک کر دیں.“ اللہ تعالیٰ پر توکل اور خود داری کی ایک بہت بڑی شان اس میں نمایاں ہے فتد بر.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۷۷ تا ۷۹ ۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (۲۵) ۲۹ اکتوبر ۱۸۸۳ء آپ اس وعدہ الہی کے پورے ہونے پر اظہار مسرت کرتے 66 ہیں جو خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں دیا تھا يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ یعنی تیری مدد وہ مردانِ دین کریں گے جن کے دل میں ہم آسمان سے آپ ڈالیں گے.“ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بشارات ملنی ہوتی ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا براہین کی اشاعت میں جو تو قف وغیرہ ہوا سب اس کے ارادہ اور منشاء سے ہو رہا ہے.اس نے تو قف اور آہستگی سے کام کرنا چاہا ہے.سب کچھ وہی کرتا ہے.دوسرا کون ہے جو اس کا حارج ہو رہا ہے.بار ہا اِس عاجز کو حضرت احدیت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجہ قدرت احدیت میں مقہور اور مغلوب ہے اور تصرفات الہیہ زمین و آسمان میں کام کر رہے ہیں چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا.اِنْ تَمْسَسْكَ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ لَاتٍ.سوخدا تعالیٰ اپنے کلمات مقدسہ سے اس قدر اس عاجز کو تقویت دیتا ہے کہ پھر اس کے غیر سے نہ کچھ خوف باقی رہتا ہے اور نہ اس کو امید گاہ بنایا جاتا ہے.جب یہ عاجز اپنے
حیات احمد ۲۰۴ جلد دوم حصہ دوم معروضات میں لطیف اور لذیذ کلمات میں جواب پاتا ہے.اور بسا اوقات ہر سوال کے بعد جواب سنتا ہے اور کلمات احدیت میں بہت سے تلطفات پاتا ہے تو تمام ہموم وعموم دل سے دُور ہو جاتے ہیں اور جیسے کوئی نہایت تیز شراب سے مست اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتا ہے ایسی ہی حالت سرور کی طاری ہوتی ہے.“ پھر اسی خط میں آپ نے اپنی انتہائی انکساری کا اقرار کر کے لکھا کہ ”نہ زاہدوں میں سے ہے نہ وہ عابدوں میں سے نہ پارساؤں میں سے نہ مولویوں سے سخت حیرانی ہے کہ کس چیز پر نظر عنایت ہے يَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ (۲۶) ۹/ نومبر ۱۸۸۳ء اوائل نومبر میں سفر امرتسر اختیار کیا مگر وہاں جا کر بیمار ہو گئے اس لئے لودہا نہ جانے کا ارادہ ملتوی ہو گیا.آپ نے مولویت کو فقر کی راہ میں حجاب عظیم قرار دیا.اور پاک نفس ہونے کے لئے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم“ پر زور دینے کی تاکید فرمائی.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۸۱ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۲۷) ۲۰ نومبر ۱۸۸۳ء اپنے کسی ایک رفیق کی وفات کی خبر جو الہامات الہیہ سے ملی تحریر فرمائی اور یہ بھی واضح کیا کہ اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتے ہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت ان کے عُسر یسر کی نسبت عمر کی نسبت ، ظاہر ہوتا رہتا ہے.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۸۲ جدید مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۲۸) ۱۲ دسمبر ۱۸۸۳ء بعض انگریزی اور دوسری زبان غالبا عبرانی کے الہامات کی خبر دی ہے الفاظ کے مفہوم اور ترجمہ کو دریافت فرمایا ایک فقرہ یہ بھی ہے.ہی ہلٹس ان دی ضلع پشاور.اب واقعات کے ظاہر ہو جانے کے بعد راقم الحروف (عرفانی ) کہتا ہے کہ یہ لیکھرام کے متعلق تھا کیونکہ ان ایام میں وہ وہاں تھا.(۲۹)۱۹ر دسمبر ۱۸۸۳ء سفر لودہانہ کے متعلق اطلاع دی گئی چونکہ تفصیل سے لکھا جا چکا ہے اس قدر اشارہ کافی ہے.
حیات احمد ۲۰۵ جلد دوم حصہ دوم یہ ایک مختصر سا خا کہ آپ کی ڈائری ۱۸۸۳ء کا ہے اسے ڈائری تو نہیں کہا جا سکتا.اس کا ایک ورق کہا جا سکتا ہے.اس کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ آپ کے لیل و نہار اشاعت دین کی فکر اور تزکیہ نفس کی سعی میں گزرتے تھے.خدا کی تازہ بتازہ وحی آپ پر نازل ہو رہی تھی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کے متعلق آپ کو تسلی اور اطمینان دلا رہی تھی.ایک طرف مخالفت اور شدید مخالفت کی خبریں دی جا رہی تھیں تو دوسری طرف غلبہ اور اقتدار کی بشارات مل رہی تھیں باوجود اس کے کسی قسم کا دعوئی آپ نے نہیں فرمایا تھا.اس حالت میں تو حید اور تفویض کا بے حد غلبہ آپ کے دل پر تھا.مخلوقات کے سامنے کسی قسم کی لجاجت کرنا یا امید رکھنا آپ دوسروں کے لئے بھی جائز نہیں سمجھتے تھے.یہ واقعات ہیں.اگر غور سے کوئی شخص جو سلیم الفطرت ہو اور اس کا ضمیرسُن نہ ہو گیا ہو ان کو پڑھے گا تو اسے صاف اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ شخص عظیم الشان انسان ہے اور نبوت کی فطرت لے کر آیا ہے.اس حالت میں کہ آپ نے کوئی دعوی نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بشارت بھی دی که وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - اس کے متعلق فرمایا کہ:.یہ آیت بار بار الہام ہوئی اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہو گئی.اس سے یقیناً معلوم ہوا کہ خدا وند کریم اُن سب دوستوں کو کہ جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا.اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے.اور جو مخالف قدم مارے گا اس کو خدا تباہ کرے گا.اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی.یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلف نہیں کرے گا.“ مکتوب ۱۲ / جون ۱۸۸۳ء بنام میر عباس علی شاہ.مکتوبات احمد جلد اصفه ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۲۰۶ مرز اغلام قادر صاحب کی وفات جلد دوم حصہ دوم ۱۸۸۳ء کے واقعات اور حالات میں ایک عظیم الشان واقعہ جناب مرزا غلام قادر صاحب آپ کے برادر بزرگ کی وفات کا واقعہ بھی ہے یہ واقعہ روز مرہ کے حالات موت وفوت کے لحاظ سے اتنا اہم نہ ہو لیکن جیسے آپ کے والد ماجد کی وفات اور آپ کی زندگی میں ایک جدید انقلاب کا جو خدا تعالیٰ کے خاص تکفل کی صورت میں ظاہر ہوا ذریعہ ہوا.اسی طرح مرزا غلام قادر صاحب کی وفات بھی ایک دور جدید کا ذریعہ ہوئی اور علاوہ بریں ان کی زندگی اور بیماری اور موت کو چونکہ آپ کے نشان ہائے صداقت سے زبر دست تعلق ہے اس لئے یہ واقعہ روز مرہ کے عام واقعات کے تحت میں نہیں آتا.مرزا غلام قادر صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی تھے انہوں نے اپنی خاندانی وجاہت اور عظمت کو حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی زندگی میں چار چاند لگا دیئے تھے اپنی قابلیت اور معاملہ فہمی اور رعب کے سبب سے بہت مشہور تھے کچھ عرصہ تک انہوں نے محکمہ نہر میں ملازمت کی اس وقت وہ ضلعدار تھے پھر وہ نوکری چھوڑ کر ضلع گورداسپور میں سپرنٹنڈنٹ ہو گئے اُن کا اثر اور رسوخ اس قدر زبردست تھا اور ان کی دیانت و امانت اور اصابت رائے پر ڈپٹی کمشنر ضلع کو اس قدر اعتماد ہوتا تھا کہ ان کی مرضی کے خلاف وہ کوئی کا رروائی نہیں کرتے تھے بلکہ بعض نے تو یہ حکم دے دیا تھا کہ مجھے ملنے سے پہلے مرزا غلام قادر صاحب کو ملو اگر وہ اجازت دیتے تو صاحب ضلع ان سے ملاقات کرتے.غرض وہ اپنی قابلیت اور معاملہ منہمی اور اپنی دیانت و اصابت رائے کی وجہ سے ممتاز تھے اور یوں خاندانی عظمت کے لحاظ سے بھی ان کا رعب بے حد تھا جس روز وہ آیا کرتے تھے تو لوگ دور سے دیکھ کر کھڑے ہو جاتے اور سامنے سے ہٹ جاتے اور ان کی طرف کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا.بڑے مرزا صاحب
حیات احمد ۲۰۷ جلد دوم حصہ دوم یعنی مرزا غلام مرتضی صاحب کی طرف بھی کوئی نظر نہیں اٹھا سکتا تھا.مرزا غلام قادر صاحب کو ورزش کا بھی شوق تھا پہلوان ملازم رکھ کر ورزش کیا کرتے تھے.غرض خاندانی وجاہت اور اثر ان کے ساتھ قائم تھا اور ساری جائیداد پر عملاً وہ قابض تھے.حضرت اقدس کا احترام ان کے دل میں ضرور تھا مگر وہ سمجھتے تھے کہ وہ اس دنیا کا آدمی نہیں اپنی عبادت یا تصنیفات کے شغل میں رہتے ہیں اس لئے گونہ بے پروائی سی رہتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن کی خاندان میں بڑے ممبر اور بڑے بھائی کی حیثیت سے احترام کرتے تھے مگر اُن کی مجلس یا مشاغل میں کوئی دخل نہ دیتے تھے اور نہ اپنی ضرورتوں کے لئے کبھی ان سے کوئی ذکر کرتے.حضرت اقدس ان سے صرف کسی دینی ضرورت کے وقت گفتگو کیا کرتے تھے.چنانچہ جب کچھ خاندانی جائیداد کے بعض مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے محرک مرزا امام الدین صاحب وغیرہ ابنائے عم تھے تو حضرت اقدس نے اس معاملہ میں دعا کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو جواب دیا کہ میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں“.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ : '' یہ الہام اس قدر زور سے ہوا تھا کہ میں نے سمجھا کہ شاید قریب محلہ کے لوگوں تک یہ آواز پہنچی ہو گی اور میں جناب الہی کے اس منشاء سے مطلع ہو کر گھر گیا اور میرے بھائی مرزا غلام قادر اس وقت زندہ تھے میں نے اُن کے رو برو اور تمام گھر کے لوگوں کے سب حال ان کو کہہ دیا انہوں نے جواب دیا کہ اب ہم مقدمہ میں بہت کچھ خرچ کر چکے ہیں اگر پہلے سے کہتے تو ہم مقدمہ نہ کرتے“ " حضرت اقدس فرماتے ہیں مگر یہ عذر ان کا سرسری تھا اُن کو اپنی کامیابی اور فتح پر یقین تھا چنانچہ پہلی عدالت میں اُن کی فتح ہو گئی مگر چیف کورٹ میں مدعی کامیاب ہو گئے.“ (حقیقۃ الوحی صفحه ۲۴۳ ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴ ۲۵۵،۲۵)
حیات احمد ۲۰۸ جلد دوم حصہ دوم مرزا غلام قادر صاحب کے جواب کی بنیا د ا گر چہ وہی ہے جو حضرت اقدس نے لکھا مگر ان کے جواب کے اسلوب سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ حضرت اقدس کی دعاؤں کی قبولیت اور الہامات پر ایمان رکھتے تھے.غرض کسی دینی ضرورت کے وقت حضرت ان سے کلام کرتے تھے.مرزا غلام قادر صاحب کی موت کی خبر بذریعہ وحی اور حضرت کی دعا سے اس میں تاخیر ہونا مرزا غلام قادر صاحب کی وفات کی اطلاع اول ہی اول حضرت اقدس کو حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی زندگی میں ہوئی.آپ نے اس وقت اس قضا کے بدل جانے کے لئے دعا کی اور خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا.مناسب ہے کہ خود حضرت ہی کے الفاظ میں اس واقعہ کو درج کر دیا جائے.ایک دفعہ میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی نسبت مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ان کی زندگی کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہیں بعد میں وہ یک دفعہ سخت بیمار ہو گئے یہاں تک کہ صرف استخوان باقی رہ گئیں اور اس قدر د بلے ہو گئے کہ چار پائی پر بیٹھے ہوئے نہیں معلوم ہوتے تھے کہ کوئی اس پر بیٹھا ہوا ہے یا خالی چار پائی ہے پاخانہ اور پیشاب اوپر ہی نکل جاتا تھا.اور بے ہوشی کا عالم رہتا تھا.میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی مرحوم بڑے حاذق طبیب تھے انہوں نے کہہ دیا کہ اب یہ حالت یاس اور ناامیدی کی ہے صرف چند روز کی بات ہے مجھ میں اس وقت جوانی کی قوت موجود تھی اور مجاہدات کی طاقت تھی اور میری فطرت ایسی واقع ہے کہ میں ہر ایک بات پر خدا کو قادر جانتا ہوں اور درحقیقت اس کی قدرتوں کا کون انتہا پا سکتا ہے اور اس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں بجز ان امور کے جو اس کے
حیات احمد ۲۰۹ جلد دوم حصہ دوم وعدے کے برخلاف یا اس کی شان کے منافی اور اس کی توحید کی ضد ہیں اس لئے میں نے اس حالت میں بھی ان کے لئے دعا کرنی شروع کی اور میں نے دل میں یہ مقرر کر لیا کہ اس دُعا میں میں تین باتوں میں اپنی معرفت زیادہ کرنی چاہتا ہوں.(۱) ایک یہ کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں حضرت عزت میں اس لائق ہوں کہ میری دُعا قبول ہو جائے.(۲) دوسری یہ کہ کیا خواب اور الہام جو وعید کے رنگ میں آتے ہیں ان کی تاخیر بھی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ (۳) تیسری یہ کہ کیا اس درجہ کا بیمار جس کے صرف استخوان باقی ہیں دعا کے ذریعہ سے اچھا ہو سکتا ہے یا نہیں.غرض میں نے اس بناء پر دعا کرنی شروع کی.پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دعا کے ساتھ ہی تغیر شروع ہو گیا اور اس اثناء میں ایک دوسرے خواب میں میں نے دیکھا کہ وہ گویا اپنے دالان میں اپنے قدموں سے چل رہے ہیں اور حالت یہ تھی کہ دوسرا شخص کروٹ بدلتا تھا.جب دعا کرتے کرتے پندرہ دن گزرے تو ان میں صحت کے ایک ظاہری آثار پیدا ہو گئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند قدم چلوں چنانچہ وہ کسی قدر سہارے سے اٹھے اور سوٹے کے سہارے سے چلنا شروع کیا اور پھر سوٹا بھی چھوڑ دیا.چند روز تک پورے تندرست ہو گئے اور بعد اس کے پندرہ برس تک زندہ رہے اور پھر فوت ہو گئے جس سے معلوم ہوا کہ خدا نے اُن کی زندگی کے پندرہ دن پندرہ سال سے بدل دیئے ہیں.یہ ہے ہمارا خدا جو اپنی پیشگوئیوں کے بدلانے پر بھی قادر ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ قادر نہیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۵ تا ۲۶۷)
حیات احمد ۲۱۰ جلد دوم حصہ دوم اس طرح پر مرزا غلام قادر صاحب کی عمر میں پندرہ سال کا اضافہ ہو گیا.جب یہ میعاد ختم ہونے کو آئی تب خدا تعالیٰ نے پھر آپ کو دو مختلف وقتوں میں اطلاع دی.اپنے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغیر مجھے یہ الہام ہوا.اے عمّی بازی خویش کردی و مرا افسوس بسیار دادی یہ پیشگوئی بھی اسی شرمیت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی.اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بے وقت اور نا گہانی موت ہوگی جو موجب صدمہ ہو گی.جب یہ الہام ہوا تو اُس دن یا اُس سے ایک دن پہلے شرمپت مذکور کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا اُس نے امین چند نام رکھا اور مجھے آ کر اس نے بتلایا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کا نام میں نے امین چند رکھا ہے میں نے کہا کہ ابھی مجھے الہام ہوا ہے.اے عمّی بازی خویش کردی و مرا افسوس بسیار دا دی.اور ہنوز ا اس الہام کے میرے پر معنی نہیں کھلے میں ڈرتا ہوں کہ اس سے مراد تیرا لڑکا امین چند ہی نہ ہو کیونکہ تیری میرے پاس آمد و رفت بہت ہے اور الہامات میں کبھی ایسا اتفاق ہو جاتا ہے کہ کسی تعلق رکھنے والے کی نسبت الہام ہوتا ہے وہ یہ بات سن کر ڈر گیا اور اس نے گھر جاتے ہی اپنے لڑکے کا نام بدلا دیا.یعنی بجائے امین چند کے گوکل چند نام رکھ دیا.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۳) دوم عین اس دن جبکہ آپ کی وفات ہونے والی تھی.چنانچہ حضرت صاحب فرماتے ہیں:.”میرے بڑے بھائی جن کا نام میرزا غلام قادر تھا کچھ مدت تک بیمار رہے جس بیماری سے آخر ان کا انتقال ہوا جس دن ان کی وفات مقدر تھی صبح مجھے الہام ہوا کہ جنازہ.اور اگر چہ کچھ آثار ان کی وفات کے نہ تھے مگر مجھے سمجھایا گیا کہ آج وہ فوت
حیات احمد ۲۱۱ جلد دوم حصہ دوم ہو جائیں گے اور میں نے اپنے خاص ہم نشینوں کو اس پیشگوئی کی خبر دے دی جو اب تک زندہ ہیں پھر شام کے قریب میرے بھائی کا انتقال ہو گیا.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۰ ) انتقال کے وقت مرزا غلام قادر صاحب کی عمر ۵۵ سال کی تھی اور وہ اپنے خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے ان کی وفات کے ساتھ خاندانی تاریخ کا ایک اور باب شروع ہوا.تمام امور دنیوی ان کی ذات سے وابستہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کوئی دلچسپی نہ تھی نہ آپ نے کبھی اپنی زمینوں کو دیکھا اور نہ یہ معلوم کہ کون کاشت کرتا ہے اور کیا آمد ہوتی ہے کہاں خرچ ہوتی ہے.آپ عملاً دنیا سے منقطع تھے.اور ابنائے ہم کو اس خاندان سے بے حد پر خاش تھی اور انہوں نے جدی جائیداد کے متعلق مختلف قسم کی پیچیدگیاں پیدا کر دی تھیں اور مقدمات کے ایک لمبے سلسلہ نے مالی مشکلات الگ پیدا کر دی تھیں.دوسری طرف تائی صاحبہ ( بیگم مرزا غلام قادر مرحوم) کے کوئی اولاد نہ تھی ان کے ہاں ایک لڑکی عصمت نامی اور لڑکا عبدالقادر نام پیدا ہوئے مگر صغرسنی میں فوت ہو گئے تھے ان کو بچپن سے مرزا سلطان احمد صاحب سے محبت تھی اور جب سے ان کا بچہ عبدالقادر نام چھوٹی ہی عمر میں فوت ہو گیا تھا اور بھی مرزا صاحب سے محبت بڑھ گئی تھی.انہوں نے مشہور کر دیا کہ مرزا سلطان احمد صاحب میرا متینی ہے اور کاغذات مال میں بھی اس کا اندراج ہو گیا.حضرت صاحب کو معلوم بھی نہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے.علاوہ بریں آپ جانتے تھے کہ تائی صاحبہ کی ہمدردی اور خبر گیری کے لئے کوئی فارغ اور دنیا دار آدمی ہی چاہئے اور مرزا سلطان احمد صاحب یوں بھی اُس وقت اس جڑی جائیداد کے نصف کے مالک ہو سکتے تھے.اس لئے حضرت صاحب نے اس میں کوئی مداخلت نہ کی.مرزا سلطان احمد صاحب نے انتظام خانہ داری اور زمینداری کو نہایت مشکلات کے طوفان میں سنبھال لیا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بعض اوقات کوئی مشورہ بھی لیتے تھے مگر آپ اُن کو ایسی راہ بتاتے تھے جس سے کسی قسم کا تنازعہ اور جھگڑا پیدا نہ ہو.اور خواہ بظاہر اپنا نقصان بھی ہو جاوے مگر معاملہ بڑھے نہیں.چنانچہ جب مرزا اعظم بیگ صاحب
حیات احمد ۲۱۲ جلد دوم حصہ دوم 66 سے قادیان کی اراضیات کی تقسیم کا سوال ہوا اور وہ اس مقصد کے لئے فیروز پور ( جہاں ان ایام میں مرزا اعظم بیگ صاحب اکسٹرا اسٹنٹ تھے ) جانے لگے تو حضرت سے تقسیم کے اصول کے متعلق پوچھا.آپ نے فرمایا کہ وہ جس طرح پر چاہیں تقسیم کر لیں تم دخل نہ دینا اور اس کو تسلیم کر لینا.چنانچہ مرزا سلطان احمد صاحب نے باوجود یکہ اس خاندان کے ایک قدیم متوسل پنڈت خوشحال رائے نے جو اس وقت مرزا اعظم بیگ صاحب ہی کی ملازمت میں تھے مرزا سلطان احمد کو اس تقسیم کو قبول کرنے سے انکار کا بہ نظر خیر خواہی مشورہ دیا اور اس مشورہ کے صلہ میں اعظم بیگ صاحب کی ملازمت بھی چھوڑنی پڑی مگر مرزا سلطان احمد صاحب نے یہی جواب دیا کہ ” مرزا صاحب نے مجھے جو حکم دیا ہے میں اُسی کی تعمیل کروں گا “ اور انتظار کر کے چلے آئے.میں یقین کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض غیبی اشارات کی بنا پر جانتے تھے کہ آگے چل کر یہ اراضیات میرے ہی خاندان میں آجائیں گی اس لئے ہر قسم کے تنازعات کو ختم کر دینے کے لئے ہر اس فیصلہ کو پسند کر لیا جو بظاہر نقصان کا موجب تھا.غرض مرزا سلطان احمد صاحب عملاً اور فعلاً مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے قائمقام اور جانشین تسلیم کر لئے گئے.چنانچہ پنجاب چیفس کے مصنف نے حضرت اقدس کے خاندان کے تذکرہ میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات اور پھر مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات کے بعد جونوٹ دیا وہ حسب ذیل ہے:.مرزا غلام مرتضیٰ جو ایک مشہور اور ماہر طبیب تھا ۱۸۷۶ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا.مرزا غلام قادر لوکل افسران کی امداد کے واسطے ہمیشہ تیار رہتا ہے اور اس کے پاس ان افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے یہ کچھ عرصہ تک دفتر ضلع گورداسپور میں سپرنٹنڈ نے رہا.اس کا اکلوتا بیٹا صغرسنی میں فوت ہو گیا اور اس نے اپنے بھتیجے مرزا سلطان احمد کو اپنا متبنی بنا لیا تھا جو مرزا غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے.الآخرہ حاشیہ.مرزا غلام قادر صاحب نے مختلف محکموں میں ملازمت کی تھی وہ نہر میں ضاعدار تھے محکمہ پولیس میں بھی رہے اور اوائل عمر میں ٹھیکیداری بھی کرتے رہے آخر میں سپر نٹنڈنٹ ضلع تھے.( عرفانی) وو
حیات احمد ۲۱۳ جلد دوم حصہ دوم جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں.مرزا سلطان احمد صاحب کی تبنیت کا واقعہ صحیح نہیں.اس کی اتنی ہی حقیقت ہے جو میں نے لکھ دی ہے.خاندان کا بزرگ جو مصنف پنجاب چیفس نے لکھا ہے وہ محض اس دنیوی نقطہ خیال سے کہ ہر قسم کے سرکاری کام افسروں سے تعلقات اور نمبر داری کے معاملات مرزا سلطان احمد صاحب ہی سرانجام دیتے تھے والا خاندان کے بزرگ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور خود مصنف پنجاب چیفس نے بھی آپ کا مختصر سا الگ ذکر کیا ہے.غرض مرزا غلام قادر صاحب ۵۵ سال کی عمر میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے اطلاع دی تھی فوت ہو گئے.اسی سلسلہ میں مجھے یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی کمالات کا ہمیشہ احترام کرتے تھے وہ اور سارا خاندان آپ کی نیکی شب زندہ داری اور دعاؤں کی قبولیت کا قائل تھا.مرزا غلام قادر صاحب خاندانی مذاق کے موافق شاعرانہ طبیعت بھی رکھتے تھے مفتون تخلص تھا میں نے پہلی جلد میں بیان کیا ہے کہ بڑے مرزا صاحب یعنی حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم بھی نہایت بلند پایہ کے شاعر تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام تو ظاہر ہے کہ ابتدا میں آپ اپنا تخلص فرخ کرتے تھے.یہ ذکر تو ضمناً آ گیا.غرض مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات کے بعد خاندان اور سلسلہ کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہو گیا.حضرت اقدس بدستور اپنے اس کام میں مصروف رہے جو خدا تعالیٰ نے آپ کے سپرد کیا تھا اور خاندانی اراضیات کے انتظام سے آپ کو کوئی تعلق اور واسطہ نہ رہا وہ ابتداء مرزا سلطان احمد ہی کرتے رہے لیکن بعد میں جب وہ ملا زم ہو گئے.اور بعض کارکنوں نے اچھا طریق عمل نہ پیش کیا تو یہ جائیداد تقسیم ہوگئی.نصف حضرت اقدس کے نام پر درج ہوگئی اور نصف مرزا سلطان احمد صاحب کے نام پر.اس وقت بھی اس کے انتظام میں آپ نے کوئی خاص دلچسپی نہ لی.بلکہ مرزا اسماعیل بیگ جو آپ کے خدام میں بچپن سے داخل تھے یا بعض دوسرے
حیات احمد ۲۱۴ جلد دوم حصہ دوم آدمی اس کی نگرانی کرتے تھے اور جو کچھ وہ وصول کر کے لا دیتے حضرت اس کو لے لیتے.اکثر ایسا ہوتا کہ مرزا سلطان احمد صاحب کے کارندے ان کی اطلاع کے بغیر اپنی چالاکیوں سے نقصان کر دیتے یا ادھر کی کچھ آمدنی غصب کر کے لے جاتے مگر حضرت نے کبھی اس طرف توجہ نہ کی اس لئے کہ آپ کو دنیا اور اس کے معاملات کی طرف رغبت ہی نہ تھی آپ اسی ایک غم میں گداز تھے کہ اعلائے کلمتہ الاسلام ہو اور آپ کی ساری توجہ براہین احمدیہ کی تصنیف اور اس کی اشاعت کی طرف مبذول تھی.اور منکرین و معاندین اسلام جو حملے اسلام پر کرتے تھے ان کے جوابات دینے کے لئے مستعدی سے تیار تھے.مختلف اطراف سے آپ کے پاس خطوط آتے جن میں سوالات ہوتے یا مختلف قسم کے اعتراضات ہوتے آپ ان کو جوابات دیتے اور اگر سوال اس قسم کا ہوتا تو اس کا جواب براہین احمدیہ میں درج کرتے جیسا کہ براہین احمدیہ کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے.اس وقت یعنے مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات تک براہین احمدیہ کے تین حصے شائع ہو چکے تھے اور براہین کی چوتھی جلد زیر تصنیف اور زیر کتابت و طباعت تھی اس کے چھاپنے کا اہتمام شیخ نوراحمد صاحب ما لک ریاض ہند پریس امرتسر کے سپر د تھا مگر وہ انہیں ایام میں بخارا ایک تاجر کے ساتھ چلے گئے اس لئے اب انتظام منشی محمد حسین صاحب مراد آبادی کے سپر د تھا.چنانچہ چوتھی جلد ان کے ہی اہتمام میں شائع ہوئی وہ سَابِقُونَ الاَوَّلُون میں سے تھے اور بڑے مخلص تھے.فتح اسلام انہوں نے ہی لکھا تھا.
حیات احمد ۲۱۵ ۱۸۸۳ء کے الہامات وكشوف جلد دوم حصہ دوم ۱۸۸۳ء کے الہامات و کشوف کی تاریخوں کے متعلق صحیح تعین کا دعوی نہیں کیا جا سکتا لیکن خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں سے جو ثبوت ملتا ہے اس کو مدنظر رکھ کر تاریخی ترتیب دی گئی ہے میں اس معاملہ میں اپنی خوش بختی پر ناز کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے لئے اس کے حضور اپنے سر کو جھکا ہوا پاتا ہوں کہ ان الہامات و کشوف کی اشاعت کے لئے مکتوبات کے ذریعہ پہلی تحریری سند میں نے ہی پیش کی ہے.حضرت اقدس کا معمول تھا کہ اپنے خدام کو تازہ بتازہ الہامات سے مطلع فرما دیا کرتے تھے تا کہ جب وہ پورے ہوں تو ان کا ایمان بڑھے.اور اس طرح پر آپ جماعت کی روحانی تربیت فرماتے تھے.ان الہامات کی ترتیب جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے اسی اصل پر ہے کہ حضرت اقدس کی اپنی تحریروں میں سے جو واقعی یا قریبی تاریخ ملی ہے اس کو مقدم کر لیا گیا ہے.اس امر کو بھی یادرکھنا چاہئے کہ بعض تحریروں میں آپ نے اندازاً بھی کسی الہام کے متعلق لکھ دیا ہے اس حالت میں جو تحریر اس کی تاریخ کے تعین میں مقدم اور صحیح اندازہ کو لئے ہوئے ہے اسی کو لیا گیا ہے.اور ایک اور امر جو قابل لحاظ ہے یہ ہے کہ براہین احمدیہ کی جلد سوم میں جو الہامات درج ہیں ان کا زمانہ بھی ۱۸۸۴ء تک تو یقیناً اور آغاز ۱۸۸۳ء تک پایا جاتا ہے مگر میں نے ان الہامات کو اس جگہ نہیں لیا.میں نے صرف ان کشوف والہامات کو درج کیا ہے جن کا صَرَاحَةً بلا تاویل سال نزول ۱۸۸۳ء ثابت ہے.ان امور کے بیان کرنے کے بعد میں اب ان الہامات کو درج کرتا ہوں.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ (۱) فروری ۱۸۸۳ء کے آخری ایام (۲۸/۲۷ فروری ) یا مارچ ۸۳ء کی پہلی دوسری تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے کشفی رنگ میں میر عباس علی صاحب لود بانوی کے ایک مکتوب کی بعض عبارتیں دکھا دیں چنانچہ فرماتے ہیں کہ :.
حیات احمد ۲۱۶ جلد دوم حصہ دوم جس روز آپ کا خط آیا اسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گئے.( مکتوب مورخه ۳ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۲۲ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۱۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (۲) یہ کشف ۱۸۸۳ء کے ابتدا ہی کا ہے گومکتوب پر تاریخ درج نہیں لیکن ابتدائے سال کے ضمن میں لکھا گیا ہے.میر عباس علی صاحب قادیان آئے ہوئے تھے اور حضرت اقدس سے ملاقات کر کے واپس تشریف لے گئے مگر انہیں ایام میں جبکہ وہ قادیان میں مقیم تھے اور حضرت اقدس سے اخلاص و محبت سے گفتگو کرتے تھے حضرت اقدس پر کشفی رنگ میں ان کے متعلق جو کچھ ظاہر ہوا آپ نے اس کو بذریعہ خط اطلاع دی.چنانچہ آپ لکھتے ہیں:.ایک بات واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت ملاقات ایک گفتگو کی اثنا میں بنظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ کچھ دل میں انقباض ہے اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے حضرت احدیت کی نظر میں درست نہیں تو اس پر الہام ہوا.قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خدا وند کریم اس کو دور کرے مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے.“ مکتوبات احمد یہ جلد ۱ صفحه ۵۲۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) نوٹ.آخر میر عباس علی صاحب کو ایسا انقباض پیش آیا کہ وہ نہ صرف سلسلہ سے کٹ گئے بلکہ بطور ایک معاند اور مخالف کے کھڑے ہو گئے اور حضرت نے ان کو یہ اس وقت لکھا تھا جبکہ وہ اخلاص ووفا میں ترقی کر رہے تھے.(عرفانی) (۳) اگر چہ اس کی کوئی تاریخ درج نہیں مگر حضرت صاحب نے ۱۸۸۳ء میں ہی اس کا کہہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ.
حیات احمد ۲۱۷ جلد دوم حصہ دوم اظہار فرمایا ہے اس لئے اسی ذیل میں درج کر دیا جاتا ہے.ایک رویا.ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالیشان حاکم یا بادشاہ کا ایک خیمہ لگا ہوا ہے اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہور ہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ دفتر کا عہدہ رکھتا ہے اور جیسے دفتروں میں مشکلیں ہوتی ہیں بہت سی مشکلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ دفتر کی طرح ہے اتنے میں اردلی دوڑتا آیا کہ مسلمانوں کی مثل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو ، پس یہ رویا بھی دلالت کرتی ہے کہ عنایات الہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور بہتری کی طرف متوجہ ہیں.الآخرہ مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۲۰۱۹.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۲۹٬۵۲۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) نوٹ.اس رؤیا سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے آنے والے منصب اور مقام کا بھی پتہ لگتا ہے حضرت احدیت کی طرف سے ابتداء اشارات میں اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا جاتا رہا اور جب وہ وقت قریب آ گیا تو نہایت صفائی سے آپ کے منصب ماموریت کا اعلان ہو گیا.(عرفانی) الہام.اسی مکتوب میں حضرت نے لکھا ہے کہ یہ مخاطبت حضرت احدیت سے بار ہا ہو چکی ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ وَلَا تَقُل لَّشَيْءٍ إِنّى فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا.“ مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۲۹ مطبوعه ۶۲۰۰۸) (ترجمہ) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ اور کسی چیز کی نسبت یہ نہ کہو کہ میں اس کو کل کرنے والا ہوں ) (۴) (اپریل ۱۸۸۳ء) ایک دفعہ اپریل ۱۸۸۳ء میں صبح کے وقت بیداری ہی میں جہلم سے روپیہ روانہ ہونے کی اطلاع دی گئی اور اس بات سے اس جگہ کے آریوں کو جن
حیات احمد ۲۱۸ جلد دوم حصہ دوم میں بعض خود جا کر ڈاک خانہ میں خبر لیتے تھے.بخوبی اطلاع تھی کہ اس روپے کے روانہ ہونے کے بارہ میں جہلم سے کوئی خط نہیں آیا تھا.کیونکہ یہ انتظام اس عاجز نے پہلے سے کر رکھا تھا کہ جو کچھ ڈاک خانہ سے خط وغیرہ آتا تھا.اُس کو خود بعض آریہ ڈاک خانہ سے لے آتے تھے اور ہر روز ہر ایک بات سے بخوبی مطلع رہتے تھے اور خود اب تک ڈاک خانہ کا ڈاک منشی بھی ایک ہندو ہی ہے.غرض جب یہ الہام ہوا تو ان دنوں میں ایک پنڈت کا بیٹا شام لال نامی جو ناگری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا بطور روز نامچہ نویس کے نوکر رکھا ہوا تھا.اور بعض امور غیبیہ جو ظاہر ہوتے تھے اس کے ہاتھ سے وہ ناگری اور فارسی خط میں قبل از وقوع لکھائے جاتے تھے.اور پھر شام لال مذکور کے اس پر دستخط کرائے جاتے تھے.چنانچہ یہ پیشگوئی بھی بدستور اس سے لکھائی گئی اور اُس وقت کئی آریوں کو بھی خبر دی گئی اور ابھی پانچ روز نہیں گزرے تھے جو پینتالیس روپے کا منی آرڈر جہلم سے آ گیا اور جب حساب کیا گیا تو ٹھیک ٹھیک اسی دن منی آرڈر روانہ ہوا تھا جس دن خدا وند عالم نے اس کے روانہ ہونے کی خبر دی تھی اور یہ پیشگوئی بھی اسی طور پر ظہور میں آئی جس سے بہ تمام تر انکشاف مخالفین پر اس کی صداقت کھل گئی اور اس کے قبول کرنے سے کچھ چارہ نہ رہا کیونکہ ان کو اپنی ذاتی واقفیت سے بخوبی معلوم تھا کہ اس روپیہ کا اس مہینہ میں جہلم سے روانہ ہونا بے نشان محض تھا جس سے پہلے کوئی اطلاعی خطا نہیں آیا تھا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۴۷۵ تا ۴۷۷ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۶۸،۵۶۷) (۵) (۱۲ر جون ۱۸۸۳ء سے چند روز قبل یعنی اوائل جون ۱۸۸۳ء) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ.إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ.وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ.یہ اُس زمانہ کی بات ہے.(عرفانی)
حیات احمد ۲۱۹ جلد دوم حصہ دوم وَقَالُوا أَنَّى لَكَ هذَا.قُلْ هُوَ اللهُ عَجِيْبٌ يَجْتَبِي مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ - ( ترجمہ ) انہیں کہہ دے کہ اگر تم اللہ کے محب بننا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو اور اللہ تم سے محبت کرے گا.میں تجھے طبعی طور پر وفات دوں گا اور اپنی طرف تیرا رفع کروں گا.اور تیرے تابعداروں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دوں گا.اور انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہہ دے اللہ تعالیٰ عجیب ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے برگزیدہ کر لیتا ہے اور ان ایام کو ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۶) ( ۱۲ جون ۱۸۸۳ء) كَذَبَ عَلَيْكُمُ الْخَبِيثُ كَذَبَ عَلَيْكُمُ الْخِنْزِيرُ عِنَايَةُ اللهِ حَافِظُكَ إِنِّي مَعَكَ اَسْمَعُ وَاَرُى.أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ.فَبَرَّأَهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيْهَا - مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) ( ترجمہ ) تم پر خبیث نے جھوٹ باندھا تم پر خنزیر نے جھوٹ باندھا.اللہ تعالیٰ کی عنایت تیری حافظ ہے میں تیرے ساتھ ہوں میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بری ثابت کیا اس بات سے جو انہوں نے اس کی نسبت کہی تھی وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وجیہ تھا.(۷) (۱۲ / جون ۱۸۸۳ء سے چند روز قبل ) وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ - ( ترجمہ ) اور تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دوں گا ( تشریح ) حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ یہ آیت وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ بار بار الهام ہوئی اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے.اور اس قدر زور سے
حیات احمد ۲۲۰ جلد دوم حصہ دوم ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہو گئی.اس سے یقیناً معلوم ہوا کہ خداوند کریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا.اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلف نہیں کرے گا.اور کفر کے لفظ سے اس جگہ شرعی کفر مراد نہیں بلکہ صرف انکار سے مراد ہے.غرض یہ وہ سچا طریقہ ہے جس میں ٹھیک ٹھیک حضرت نبی کریم کے قدم پر قدم ہے اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمْ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۸) اس کی تاریخ نزول تو حضور نے نہیں دی مگر ۲۱ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵/ شعبان ۱۳۰۰ھ کے مکتوب اسمی میر عباس علی صاحب میں تحریر فرمایا ہے کہ کئی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے یہ الہام ہوا ہے کہ وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۳۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۹) (۲۸ / اگست ۱۸۸۳ء) مکتوب اسمی میر عباس علی صاحب مورخه ۳۰ ر اگست ۱۸۸۳ء میں تحریر فرماتے ہیں کہ شاید پرسوں کے دن یعنی بروز سہ شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی تو اس وقت خدا وند کریم کی طرف سے ایک اور فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے.فِيْهِ بَرَكَاتٌ لِّلنَّاسِ 66 یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں.“ مکتوبات احمد یہ جلد اصفحہ ۴۵.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۵۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۱۰) (۶ ستمبر ۱۸۸۳ء روز پنجشنبه) خدا وند کریم نے عین ضرورت کے وقت میں اس عاجز
حیات احمد ۲۲۱ جلد دوم حصہ دوم کی تسلی کے لئے اپنے کلام مبارک کے ذریعہ سے یہ بشارت دی کہ بست و یک روپیہ آنے والے ہیں چونکہ اس بشارت میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ آنے والے روپیہ کی تعداد سے اطلاع دی گئی اور کسی خاص تعداد سے مطلع کرنا ذات غیب دان کا خاصہ ہے کسی اور کا کام نہیں ہے دوسری عجیب پر عجیب یہ بات تھی کہ یہ تعداد غیر معہود طرز پر تھی کیونکہ قیمت مقررہ کتاب سے اس تعداد کو کچھ تعلق نہیں پس انہیں عجائبات کی وجہ سے یہ الہام قبل از وقوع بعض آریوں کو بتلایا گیا پھر ۱۰ ستمبر ۱۸۳ء کو تاکیدی طور پر سہ بارہ الہام ہوا کہ بست و یک روپیہ آئے ہیں جس الہام سے سمجھا گیا کہ آج اس پیشگوئی کا ظہور ہو جائے گا چنانچہ ابھی الہام پر شائد تین منٹ سے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ ایک شخص وزیر سنگھ نامی بیمار دار آیا اور اس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا ہر چند علاج معالجہ اس عاجز کا پیشہ نہیں اور اگر اتفاقاً کوئی بیمار آ جاوے تو اگر اس کی دو یاد ہو تو محض ثواب کی غرض سے للہ فی اللہ دی جاتی ہے لیکن وہ روپیہ اس سے لیا گیا کیونکہ فی الفور خیال آیا کہ اس پیشگوئی کی ایک جز ہے پھر بعد اس کے ڈاک خانہ میں ایک اپنا معتبر بھیجا گیا اس خیال سے شائد دوسری جز بذریعہ ڈاک خانہ پوری ہو ڈاک خانہ سے ڈاک منشی نے جو ایک ہندو ہے جواب میں یہ کہا میرے پاس صرف ایک منی آرڈر پانچ روپے کا جس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نتھی ہے ڈیرہ غازی خان سے آیا ہے سو ابھی تک میرے پاس روپیہ موجود نہیں جب آئے گا تو دوں گا.اس خبر کے سننے سے سخت حیرانی ہوئی اور وہ اضطراب پیش آیا جو بیان نہیں ہو سکتا چنانچہ یہ عاجز اسی تردد میں سر بزا نو تھا اور اس تصور میں تھا کہ پانچ اور ایک مل کر چھ ہوئے اب اکیس کیونکر ہوں گے یا الہی یہ کیا ہوا سو اسی استغراق میں تھا کہ ایک دفعہ یہ الہام ہوا
حیات احمد ۲۲۲ جلد دوم حصہ دوم بست و یک آئے ہیں اس میں شک نہیں اس الہام پر دو پہر نہیں گزرے ہوں گے کہ اسی روز ایک آریہ کہ جو ڈاک منشی کے پہلے بیان کی خبر سن چکا تھا ڈاک خانہ میں گیا اور اس کو ڈاک منشی نے کسی بات کی تقریب سے خبر کر دی کہ دراصل بست روپے آئے ہیں اور پہلے یونہی منہ سے نکل گیا تھا جو میں نے پانچ روپے کہہ دیا تھا.چنانچہ وہی آریہ میں روپیہ معہ ایک کارڈ کے جو منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ کی طرف سے تھا لے آیا اور معلوم ہوا کہ وہ کارڈ بھی منی آرڈر کے کاغذ سے نتھی نہ تھا اور نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ روپیہ آیا ہوا تھا اور نیز منشی الہی بخش صاحب کی تحریر سے جو بحوالہ ڈاک خانہ کے رسید کے تھی یہ بھی معلوم ہوا کہ منی آرڈر ۶ ستمبر ۱۸۸۳ء کو یعنی اُسی روز جب الہام ہوا قادیان میں پہنچ گیا تھا پس ڈاک منشی کا سارا املا انشاء غلط نکلا اور حضرت عالم الغیب کا سارا بیان صحیح ثابت ہوا پس اس مبارک دن کی یادداشت کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی لے کر بعض آریوں کو بھی دی گئ.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى الْآئِهِ وَنُعَمَائِهِ ظَاهِرِهَا وَبَاطِنِهَا - (براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۲۴ تا ۶۲۶ حاشیه در حاشیه نمبر۳) (۱۱) تاریخ نزول حضرت نے نہیں لکھی البتہ مکتوب مورخہ ۱۳؍ ستمبر ۱۸۸۳ء میں اس کا ذکر کیا ہے لَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ( ترجمہ ) اس کے فضل کو کوئی رد کرنے والا نہیں.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۷۷ مطبوعہ ۶۲۰۰۸) (۱۲) (۹/اکتوبر ۱۸۸۳ ء ) رویا.آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں.جن کو اس عاجز نے شناخت نہیں کیا.وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد کے دروازہ کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے ہیں.ایسا سمجھا گیا ہے کہ فرشتے ہیں.اور سبز رنگ ان کے پاس ہے جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں اور خط ریحانی میں جو پیچاں اور مسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں تب اس عاجز نے ان آیات کو پڑھنا شروع کیا جن میں سے ایک
حیات احمد ۲۲۳ جلد دوم حصہ دوم آیت یادر ہی اور وہ یہ ہے لَا رَادَّ لِفَضلِہ.اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے.جس عمارت کو وہ بنانا چاہے اس کو کون مسمار کرے اور جس کو وہ عزت دینا چاہے اس کو کون ذلیل کرے“.( مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۷۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (۱۳) (۲۲ را کتوبر ۱۸۸۳ء) آج اس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کا پی کو دیکھ رہا تھا کہ بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری جب اس عاجز نے دیکھا.تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی.مگر نہایت رعب ناک جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب ہوتے ہیں.اور تصویر کے یمین و یسار میں حجۃ اللہ القادر وسلطان احمد مختار لکھا تھا.اور یہ سوموار کا روز انیسویں ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ مطابق ۲۲ اکتوبر ۸۳ء اور ششم کا تک سمہ ۱۹۴۰ بکرم ہے.( براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۱۵ - ۵۱۲ حاشیه در حاشیه نمبر۳، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۱۵) (۱۴) تاریخ نزول نہیں دی گئی مگر مکتوب مورخہ ۲۴ اکتو بر ۱۸۸۳ء میں حضور نے لکھا ہے.ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں“ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۷۹مطبوعہ ۶۲۰۰۸) (۱۵) اخیر ہفتہ اکتوبر ۱۸۸۳ء.حضرت نے ۲۹ / اکتوبر ۸۳ء کے مکتوب میں اس کا ذکر فرمایا ہے، إِنْ تَمْسَسْكَ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ حمید براہین احمدیہ کی کاپی مراد ہے.(عرفانی)
حیات احمد ۲۲۴ جلد دوم حصہ دوم فَلَارَادَّ لِفَضْلِهِ اَلَمْ تَعْلَمُ اَنَّ اللهَ عَلى كُلّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ لَاتِ (ترجمہ) اگر تجھے ضرر پہنچے تو اس کے سوائے کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو کوئی دور کرنے والا نہیں تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تحقیق خدا کا وعدہ پورا ہوکر رہتا ہے.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۸۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) (۱۶) ( درمیانی شب ۲۰/۱۹ / نومبر ۱۸۸۳ ء مطابق ۱۹ محرم ۱۳۰۱ھ ) یہ الہام انى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلَی اس قدر ہوا ہے جس کا خدا ہی شمار جانتا ہے.بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے اس کے بھی دو ہی معنی ہیں.رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا.اور وہ یہ ہے قُلْ لَّضَيْفِكَ إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ.قُل لَّا خِيُكَ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ ـ یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا اس کے معنی بھی دو ہی ہیں.ایک تو یہ کہ جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے اس کو کہہ دے کہ میں تیرے پر اتمام نعمت کروں گا.دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں وفات دوں گا.معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے اس قسم کے تعلقات کے کم و بیش کئی لوگ ہیں.اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتے ہیں“.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۸۲ مطبوعه ۶۲۰۰۸) (۱۷) ہفتہ مختمه ۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۳ء ( مکتوب مندرجہ ۱۲/ دسمبر ۱۸۸۳ء ) ان الہامات کے متعلق حضرت نے میر عباس علی صاحب کو لکھا تھا کہ ان کی تحقیقات کر کے لکھا جاوے کہ بعض کلمات شائد عبرانی ہیں.اور بعض منجانب اللہ بطور ترجمہ الہام ہوا.اور وہ کلمات یہ ہیں.پریشن.عمر بر اطوس.یا پلان طوس یعنے براطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے باعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا.اور عمر عربی لفظ ہے.اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں.پھر دو لفظ
حیات احمد ۲۲۵ جلد دوم حصہ دوم 4 اور ہیں هُوَ شَعْنَا نَعْسا معلوم نہیں.کس زبان کے ہیں.اور انگریزی یہ ہیں.اوّل عربی فقرہ ہے يَا دَاوُدُ عَا مِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ إِحْسَانًا يُو مَسْتَ ذُووهَاتَ آئِي ٹولڈ یو.تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے.یہ اردو عبارت بھی الہامی ہے.پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے اور ترجمہ اس کا الہامی نہیں.بلکہ اس ہندو لڑکے نے بتلایا ہے.فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں.اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تا خر بھی ہو جاتا ہے.اس کو غور سے دیکھ لینا چاہئے اور وہ الہام یہ ہیں.دوآل من بلڈ بی انگری بٹ گاری از وری - این شل باپ ہے.انڈس آف گاڈانٹ کی ایکس چینج ہے.پھر بعد اس کے ایک دو اور الہام انگریزی ہیں.جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہے.آئی مثل باپ ہے.مگر بعد اس کے یہ ہے.و یوٹو کو امرتسر پھر ایک فقرہ ہے جس کے معنے معلوم نہیں اور وہ یہ ہے ہی ہل ٹس ان دی ضلع پشاوری مکتوبات احمد یہ جلد اوّل صفحہ ۶۹،۶۸.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۸۴٬۵۸۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) نوٹ.ان الہامات میں نمبرے کا ترجمہ تو الہامی ہے الہام نمبر ۸ انگریزی کا ترجمہ یہ ہے.اگر چہ تمام آدمی ناراض ہو جائیں مگر خدا تعالیٰ ↓ You must do what I told you.✓ Though all men should be angry but God is with you.✓ He shall help you.✓ Words of God not can exchange.I shall help you.✓ You have to go Amritsar.✓ He halts in the Zilla Peshawar.یہ سہو کتابت ہے.براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۵۴ میں حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴ میں ”ناٹ کین“ کی بجائے کین ناٹ (can not) کے الفاظ ہیں.(ناشر)
حیات احمد ۲۲۶ جلد دوم حصہ دوم تمہارے ساتھ ہے اور وہ یقینا تمہاری مدد کرے گا.اور نمبر 9 کا ترجمہ یہ ہے کہ خدا کے کلمات تبدیل نہیں ہو سکتے ہیں نمبر ہا کا ترجمہ ہے تمہیں امرتسر جانا ہوگا.اور نمبرا کا کہ وہ ضلع پشاور میں رہتا ہے.(میرا اپنا خیال ہے کہ یہ لیکھرام کے متعلق ہوا تھا وہ صوابی ضلع پشاور میں تھا جب وہ خط و کتابت کر رہا تھا) دوسرے فقرات عبرانی وغیرہ کے متعلق میر عباس علی صاحب یا کسی اور نے کچھ نہیں لکھا اپنے وقت پر ان کی حقیقت کھل جائے گی یا کھل چکی ہو گی کسی کی توجہ نہیں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بھی ایک صداقت کا نشان ہے کہ جو الہام یا وحی آپ کو ہوتی تھی اسے بیان کر دیتے اور اگر کسی کی حقیقت یا تشریح نہ معلوم ہوتی تو صاف طور پر یہ بھی لکھ دیتے اور اگر کوئی غیر زبان کا لفظ ہوتا تو اس کے مطلب اور مفہوم کو دریافت کرنے میں بھی مضائقہ نہ فرماتے تھے اور بلا تکلف اس زبان کے جاننے والے سے دریافت کرتے مگر اس کی حقیقت کو ہمیشہ اس وقت سے متعلق کرتے جب خدا تعالیٰ واقعات کی صراحت میں اسے ظاہر کرتا.غرض اس قسم کی بشارات اور الہامات کے درمیان یہ سال گزر گیا اس سال میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ خدا تعالی کے تازہ بتازہ نشانات ظاہر نہ ہوئے ہوں.میں اس کی تفصیل میں جانے کے بغیر پڑھنے والوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ نشانات کی تفصیل کے لئے حقیقۃ الوحی.نزول امسیح.اور خود براہین احمدیہ جلد چہارم کو پڑھیں.۱۸۸۴ء کے واقعات ۱۸۸۴ء کا سال سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے ایک دور جدید کا سال ہے یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا ہر نیا دن نئی برکات کو لے کر آتا تھا اور ایک بہت بڑے انقلاب کو قریب کر رہا تھا مگر ۱۸۸۴ء میں
حیات احمد ۲۲۷ جلد دوم حصہ دوم ایک حیرت انگیز انقلاب آپ کی زندگی میں واقع ہوا.اس وقت تک آپ یہ تو جانتے تھے اور خدا تعالیٰ کی متواتر وحی وارشادات کی بنا پر جانتے تھے اور بعض دوستوں کو بھی اس سے مطلع کر چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لئے مامور فرمایا ہے اس ماموریت کی شان کے متعلق بھی آپ نے ان مکتوبات میں جو بعض دوستوں کے نام لکھے صاف صاف بتایا کہ وہ علی منہاج نبوۃ ہے اور جب بھی بعض مشکلات اور مخالفین کی پیدا کردہ روکوں کا ذکر آب تو آپ نے اسی رنگ میں ان کی تصریح کی کہ انبیاء علیہم السلام کو اس طرح پر مشکلات پیش آتی ہیں.غرض اپنی ماموریت کے شعور اور اعلان کے ساتھ آپ اتنا ہی سمجھتے تھے کہ تائید دین کے لئے آپ کتاب براہین احمدیہ لکھ رہے ہیں لیکن جبکہ ابھی چوتھی جلد مطبع ہی میں تھی اور یہ ۱۸۸۴ ء ہی کا واقعہ ہے تو خود براہین احمدیہ کے متعلق ہی ایک نیا امر پیش آگیا ابتدا میں جو خیال تھا وہ جاتا رہا چنانچہ آپ نے چوتھی جلد کے آخر میں ”ہم اور ہماری کتاب“ کے عنوان سے لکھا کہ وو ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اس کے قدرت الہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّی أَنَا رَبُّكَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی.سواب اس کتاب کا متولی اور مہتم ظاہر و باطناً حضرت رب العلمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے‘ الآخرہ اس اعلان کے بعد براہین احمدیہ کی طباعت و اشاعت کا کام بظاہر معرض التواء میں آ گیا اور سلسلہ تصانیف کا ایک دوسرا رنگ شروع ہو گیا.
حیات احمد ۲۲۸ جلد دوم حصہ دوم پھر اس سال کے واقعات میں وہ عظیم الشان اور انقلاب آفرین واقع ہے جو آپ کی دوسری شادی کا واقعہ ہے.میں تفصیل سے آگے چل کر بیان کروں گا.ایک عرصہ دراز سے آپ ایسی زندگی بسر کر رہے تھے جو و یا تجرد کی زندگی تھی لیکن چونکہ بشارت الہیہ نے متواتر اور پے در پے ایک دوسری شادی کا وعدہ دیا اور آپ ہی حضرت احدیت نے اس کے تکفل کا وعدہ فرمایا اس لئے وہ تقریب پیدا ہوگئی.انقلاب آفرین میں اس لئے کہتا ہوں کہ اسی شادی سے وہ عظیم الشان وجود دنیا میں آنے والا تھا جو الہامات الہیہ میں اولوالعزم اور مصلح موعود اور محمود فضل عمر کہلایا اور بعض دوسرے موعود بچے پیدا ہونے کی بشارتیں ملیں جو بطور آیات اور نشانات کے ہیں.پھر اسی سال اس سفر کی تکمیل ہوئی جو لو د ہانہ کا سفر تھا جس کے لئے آپ ۱۸۸۳ء سے مجبور کئے جارہے تھے اور جس کے تفصیلی حالات میں اوپر دے آیا ہوں.اب میں تفصیل کے ساتھ اس سال کے واقعات اور حالات کو پیش کرتا ہوں وَبِاللهِ التَّوفيق.دعومی مجدد کا عام اعلان اگر چہ حضرت نے براہین احمدیہ کی تالیف و اشاعت کے لئے جو اعلان شائع کیا تھا اس میں یہ صاف لکھا تھا کہ ” خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے“ لیکن با ایں عام طور پر اس دعوئی کے متعلق زور نہیں دیا گیا تھا نہ اس لئے کہ آپ کو نعوذ باللہ اس میں کچھ شک تھا بلکہ اس لئے کہ آپ کی توجہ اس وقت تک براہین احمدیہ کی تالیف و اشاعت کی طرف تھی لیکن جب رفتہ رفتہ آپ کے دعوی کا چرچا ہونے لگا تو بعض لوگوں نے کھلم کھلا آپ سے دعوئی مجددیت کے متعلق سوالات شروع کر دیئے.اس قسم کے سائلین میں سے ایک حاجی ولی اللہ صاحب ریاست کپورتھلہ کے ایک معزز عہدہ دار تھے یہ وہی بزرگ ہیں جن کے نام پر پھگواڑہ
حیات احمد ۲۲۹ جلد دوم حصہ دوم کے قریب حاجی پور نام ایک گاؤں آباد ہے اور آپ ہمارے مخلص اور باصفا بھائی منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے.انہوں نے حضرت کی خدمت میں آپ کے دعوی مجددیت کے متعلق خطوط لکھے جن میں آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ شریعت میں مجد د ہیں یا طریقت میں.اور تجدید سے کیا مراد ہے.اور قرآن مجید سے مجد دکا کیا ثبوت ہے.اس مجد دکو پہلوں پر کوئی فضیلت ہے یا نہیں اور کیا آپ مجدد الف ثانی کے پیرو ہیں وغیرہ.اسی قسم کے سوالات تھے آپ نے ان کے سوالات کے جواب میں حاجی صاحب کو ایک مکتوب لکھا (جس کو میں ذیل میں درج کرتا ہوں ) اس مکتوب سے قارئین کرام کو معلوم ہو جائے گا کہ (۱) آپ کی تجدید کی نوعیت کیا ہے (۲) مجددیت کے دعوئی کا کھلا کھلا اعلان (۳) اپنی فضیلت کا مسئلہ علاوہ بریں یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح نمایاں ہے کہ شروع ہی سے آپ کو اپنی ماموریت کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ آپ علی منہاج نبوۃ مامور ہیں چنانچہ جب کوئی سوال اس قسم کا پیدا ہوا تو آپ نے اس کا جواب اسی اصول پر دیا ہے جو نبیوں کا طریق ہے.ایک مرتبہ میر عباس علی صاحب نے بعض مشکلات اور مخالفتوں کا ذکر کیا تو فرمایا:.آپ جانتے ہیں کہ ہر ایک امر خدا وند کریم کے ہاتھ میں ہے کسی کی یاوہ گوئی سے کچھ بگڑتا نہیں اسی طرح پر عادت اللہ جاری ہے کہ ہر یک مہم عظیم کے مقابلہ پر کچھ معاند ہوتے چلے آئے ہیں.خدا کے نبی اور اُن کے تابعین قدیم سے ستائے گئے ہیں.سو ہم لوگ کیونکر سنت اللہ سے الگ رہ سکتے ہیں وہ ایڈا کی باتیں جو مجھ پر ظاہر کی جاتی ہیں ہنوز اُن میں سے کچھ بھی نہیں مکتوب مورخه ۱۲/ جون ۱۸۸۳ء.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۳۳ مطبوعه ۲۰۰۸ء) غرض آپ ایک غیر متزلزل یقین کے ساتھ اپنی بعثت کے متعلق اعلان کرتے آئے ہیں کہ
حیات احمد ۲۳۰ جلد دوم حصہ دوم آپ اور آپ کے خدام کو اسی قسم کے واقعات اور حالات پیش آنے والے ہیں جو انبیاء علیہم السلام اور آپ کے متبعین کو پیش آتے ہیں.اس دعوی میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ زمانہ کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے آپ کے مقام اور مدارج کی حقیقت کھلتی گئی.اس دعوئی میں بھی قوت اور شوکت پیدا ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ آپ نے صاف صاف کہہ دیا کہ ” خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے“ غرض حاجی ولی اللہ صاحب کے سوالات نے ایک حقیقت کا اظہار کرا دیا.اگر چہ خود حاجی صاحب کو اس نعمت اور فضل کے قبول کرنے کی توفیق نہ ملی بلکہ ان کو براہین کے التوائے اشاعت سے بعض شکوک اور شبہات پیدا ہوئے اور انہوں نے بعض ناملائم الفاظ بھی اپنے مکتوب میں لکھے حضرت اقدس نے ان کو ان کے ان خطوط کا بھی ایسا جواب دیا کہ جو ایک سلیم الفطرۃ کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کسی دوسرے موقع پر اس کا ذکر آتا ہے.یہاں مجھے یہی بیان کرنا ہے کہ حاجی صاحب تو محروم رہے مگر ان کے بعض عزیز اور رشتہ دار جیسے حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ایسے داخل ہوئے کہ حضور کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے اور ان کے دوسرے رفقاء سے اپنے ساتھ جنت میں ہونے کا وعدہ دیا بہر حال وہ مکتوب یہ ہے مخدومی مکرمی اخویم سلمہ اللہ.بعد سلام مسنون.آنمخدوم کا دوبارہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کو اگرچہ باعث علالت طبع طاقت تحریر جواب نہیں.لیکن آنمخدوم کی تاکید دوبارہ کی وجہ سے کچھ بطور اجمال عرض کیا جاتا ہے.(۱) یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجد د ہے.(۲) تجدید کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے.اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنی ہیں کہ جو عقائد حقہ میں فتور آ گیا ہے اور طرح طرح کے زوائد ان کے ساتھ لگ
حیات احمد ۲۳۱ جلد دوم حصہ دوم گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں ستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طریق اور قواعد محفوظ نہیں رہے ان کو مجدداً تاکیداً بالاصل بیان کیا جائے.وَقَالَ اللهُ تَعَالَى إِعْلَمُوْا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ـ یعنی عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ دل مر جاتے ہیں اور محبت الہیہ دلوں سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے.اور ذوق اور شوق اور حضور اور خضوع نمازوں میں نہیں رہتا اور اکثر لوگ رو بدنیا ہو جاتے ہیں اور علماء میں نفسانیت اور فقراء میں عجب اور پست ہمتی اور انواع و اقسام کی بدعات پیدا ہو جاتی ہیں تو ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ صاحب قوت قدسیہ پیدا کرتا ہے اور وہ حجتہ اللہ ہوتا ہے اور بہتوں کے دلوں کو خدا کی طرف کھینچتا ہے اور بہتوں پر اتمام حجت کرتا ہے.یہ وسوسہ بالکل نکما ہے کہ قرآن شریف و احادیث موجود ہیں پھر مجد د کی کیا ضرورت ہے یہی انہی لوگوں کے خیالات ہیں جنہوں نے کبھی غمخواری سے اپنے ایمان کی طرف نظر نہیں کی.اپنی حالت اسلامیہ کو نہیں جانچا، اپنے یقین کا اندازہ معلوم نہیں کیا بلکہ اتفاقاً مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے اور پھر رسم و عادات کے طور پر لا اله الا اللہ کہتے رہے.حقیقی یقین اور ایمان بجز صحبت صادقین میسر نہیں آ تا قرآن شریف تو اُس وقت بھی ہو گا جب قیامت آئے گی مگر وہ صدیق لوگ نہیں ہوں گے کہ جو کہ قرآن شریف کو سمجھتے تھے اور اپنی قوت قدسی سے مستعدین پر اس کا اثر ڈالتے تھے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُون - پس قیامت کے وجود کا مانع صرف صدیقوں کا وجود ہے.قرآن شریف خدا کی روحانی کتاب ہے اور صدیقوں کا وجود خدا کی ایک مجسم کتاب ہے جب تک یہ دونوں نمایاں انوار ایمانی ظاہر نہیں ہوتے تب تک انسان خدا تک نہیں پہنچتا.فَتَدَبَّرُوا وَ تَفَكَّرُوا..اس کا جواب جواب دوم میں آ گیا.۴ اول قرآن شریف مجد د کی ضرورت بتلاتا ہے جیسے میں نے ابھی بیان کیا ہے.قَالَ
حیات احمد ۲۳۲ جلد دوم حصہ دوم اللهُ تَعَالَى - يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّالَهُ لَحَافِظُوْنَ اور ایسا ہی حدیث نبوی بھی مجدد کی ضرورت بتلاتی ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُلَهَا دِيْنَهَا.رَوَاهُ ابو داؤد.اور اجماع سنت و جماعت بھی اس پر ہے.کیونکہ کوئی ایسا مومن نہیں کہ جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردان ہو سکتا ہے اور قیاس بھی اسی کو چاہتا ہے کیونکہ جس حالت میں خدا تعالیٰ شریعت موسوی کی تجدید ہزار ہا نبیوں کے ذریعہ سے کرتا رہا ہے اور گو وہ صاحب کتاب نہ تھے مگر مجد دشریعت موسوی تھے اور یہ اُمت خیر الامم ہے.قَالَ اللهُ تَعَالَى - كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس امت کو خدا تعالیٰ بالکل گوشہ خاطر عاطر سے فراموش کر دے اور باوجود صدہا خرابیوں کے کہ جو مسلمانوں کی حالت پر غالب ہوگئی ہیں اور اسلام پر بیرونی حملے ہورہے ہیں نظر اٹھا کر نہ دیکھے.جو کچھ آج کل اسلام کی حالت خفیف ہو رہی ہے کسی عاقل پر مخفی نہیں یعنی تعلیم یافتہ عقائد حقہ سے دست بردار ہوتے جاتے ہیں.پرانے مسلمانوں میں صرف یہودیوں کی طرح ظاہر پرستی یا قبر پرستی رہ گئی ہے ٹھیک ٹھیک رو بخدا کتنے ہیں کہاں ہیں اور کدھر ہیں.ہر ایک صدی میں کوئی نامی مجدد پیدا ہونا ضروری نہیں نامی گرامی مجد دصرف اسی صدی کے لئے پیدا ہوتا ہے کہ جس میں سخت ضلالت پھیلتی ہے.جیسے آج کل ہے.۵.پانچواں سوال میں آپ کا سمجھا نہیں.مجھ سے اچھی طرح پڑھا نہیں گیا..حضرت مجد دالف ثانی اپنے مکتوب میں آپ ہی فرماتے ہیں کہ جولوگ میرے بعد آنے والے ہیں جن پر حضرت احدیت کی خاص خاص عنایات ہیں اُن سے افضل نہیں ہوں.اور نہ وہ میرے پیرو ہیں.سو یہ عاجز بیان کرتا ہے نہ فخر کے طریق پر بلکہ واقعی طور پر شُكْرًا لِنِعْمَةِ الله کہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ نے ان بہتوں پر افضلیت ابو داؤد كِتَابُ الْمَلَاحَم - بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي قَدْرِ قَرْنِ الْمِائَةِ -
حیات احمد ۲۳۳ جلد دوم حصہ دوم بخشی ہے کہ جو حضرت مجد د صاحب سے بھی بہتر ہیں اور مراتب اولیا ء سے بڑھ کر نبیوں سے مشابہت دی ہے سو یہ عاجز مجدد صاحب کا پیرو نہیں ہے.بلکہ براہ راست اپنے نبی کریم کا پیرو ہے اور جیسا سمجھا گیا ہے بدلی یقین سمجھتا ہے کہ ان سے اور ایسا ہی ان بہتوں سے کہ جو گزر چکے ہیں افضل ہے.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءِ.ے.خدا تعالیٰ کے کلام میں مجھ سے یہ محاورہ نہیں ہے مجھ کو حضرت خدا وند کریم محض اپنے فضل سے صدیق کے لفظ سے یاد کرتا ہے اور نیز دوسرے ایسے لفظوں سے جن کے سننے کی آپ کو برداشت نہیں ہوگی اور حضرت خداوند کریم نے مجھ کو اس خطاب سے معز فرما کر إِنِّي فَضَّلْتُكَ عَلَى العَالَمِينَ - قُلُ أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ أَجْمَعِينَ - یہ بات بخوبی کھول دی ہے کہ اس ناکارہ کو تمام عالمین یعنے تمام روئے زمین کے باشندوں پر فضیلت بخشی گئی ہے پس سوال ہفتم کے جواب میں اسی قدر کافی ہے..اس ناکارہ کے والد مرحوم کا نام غلام مرتضیٰ تھا وہی جو حکیم حاذق تھے اور دنیوی وضع پر اس ملک کے گردو نواح میں مشہور بھی تھے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ( ۳۰ دسمبر ۱۸۸۴ء.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۹۶ تا ۳۹۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اس سال کے واقعات کے لحاظ سے شائد میں اسے سب سے پیچھے ذکر کرتا مگر میں نے ایک خاص مقصد سے اسے مقدم کر لیا کہ دعوئی مجددیت کا کھلا کھلا اعلان آپ نے اسی سال ۱۸۸۴ء میں کیا اور جب لوگوں نے مختلف قسم کے سوالات کئے تو آپ نے اپنے مقام اور منصب کا بھی اظہار کر دیا جیسا کہ اس مکتوب سے ظاہر ہے.حاجی ولی اللہ صاحب کو ابتداء حضرت اقدس سے کچھ اخلاص تھا اور وہ براہین احمدیہ کے خریدار بھی تھے لیکن جب براہین کی چوتھی جلد کی اشاعت کے ساتھ اس کی آئندہ اشاعت ایک غیر معین عرصہ کے لئے معرض التوا میں آئی تو جن لوگوں کو شکوک وشبہات شروع ہوئے ان میں سے ایک حاجی ولی اللہ صاحب بھی تھے وہ ریاست کپور تھلہ میں ایک معزز عہدہ دار تھے اور اپنی
حیات احمد ۲۳۴ جلد دوم حصہ دوم حکومت و امارت کا بھی ایک نشہ تھا حضرت کو انہوں نے ایک سخت خط لکھا جس میں براہین احمدیہ کے التوائے اشاعت کی وجہ سے وعدہ شکنی وغیرہ کے الزامات لگائے گئے مگر حضرت نے ان کے مکتوب کو تو حوصلہ اور برداشت سے پڑھا لیکن خیانت اور بددیانتی کا الزام چونکہ محض اتہام تھا.آپ نے اس کا نہایت دندان شکن الجواب ایسے رنگ میں دیا جو صرف خدا تعالیٰ کے مامورین و مرسلین کا خاصہ ہے.لے حاشیہ.مخدومی مکرمی اخویم حاجی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.آج مدت کے بعد عنایت نامہ پہنچا.آپ نے جس قدر اپنے عنایت نامے میں اس احقر عباداللہ کی نسبت اپنے بزرگانہ ارشادات سے بدنیتی.ناراستی اور خراب باطنی اور وعدہ شکنی اور انحراف از کعبہ حقیقت وغیرہ وغیرہ الفاظ استعمال کئے ہیں.میں ان سے ناراض نہیں ہوسکتا.کیونکہ اول تو بع هر چه از دوست می رسد نیکوس کے ہر ماسوا اس کے اگر خدا وند کریم و رحیم ایسا ہی برا انجام کرے جیسا کہ آپ نے سمجھا ہے تو میں اس سے بدتر ہوں اور درشت تر الفاظ کا مستحق ہوں.رہی یہ بات کہ میں نے آپ سے کوئی وعدہ خلافی کی ہے یا میں کسی عہد شکنی کا مرتکب ہوا ہوں تو اس وہم کا جواب زیادہ تر توجہ سے خود آپ ہی معلوم کر سکتے ہیں جس روز چھپے ہوئے پر دے کھلیں گے اور جس روز حُصلَ مَا فِی الصُّدُورِ کا عملدرآمد ہوگا اور بہت سے بدظن اپنی جانوں کو رویا کریں گے.اس روز کا اندیشہ ہر ایک جلد باز کو لازم ہے.یہ سچ ہے کہ براہین احمدیہ کی طبع میں میری امید اور اندازے سے زیادہ تو قف ہو گیا مگر اس توقف کا نام عہد شکنی نہیں.میں فی الحقیقت مامور ہوں.اور درمیانی کارروائیاں جو الہی مصلحت نے پیش کر دیں دراصل وہی تو قف کا موجب ہو گئیں.جن لوگوں کو دین کی غمخواری نہیں.وہ کیا جانتے ہیں کہ اس عرصہ میں کیا کیا عمدہ کام اس براہین کی تکمیل کے لئے ہوئے اور خدا تعالیٰ نے اتمام حجت کے لئے کیا کیا سامان میسر کئے.آپ نے سنا ہو گا کہ قرآن شریف کئی برسوں میں نازل ہوا تھا.کیا وہ ایک دن نازل نہیں ہوسکتا تھا؟ آپ کو اگر معلوم نہ ہو تو کسی باخبر سے دریافت کر سکتے ہیں کہ اس عرصہ میں یہ عاجز بیکار رہا یا بڑا بھاری سامان اتمام حجت کا جمع کرتا رہا.تمیں ہزار سے زیادہ اشتہارات اردو انگریزی میں تقسیم ہوئے ہیں ہزار سے زیادہ ترجمہ.خدا جو بھی سلوک کرے گا بہتر ہی کرے گا.
حیات احمد ۲۳۵ جلد دوم حصہ دوم آخر حاجی صاحب براہین کے متعلق اعتراضات کرنے سے تو باز آ گئے اور انہوں نے حضرت سے اپنے دعوئی کے متعلق سوالات کئے جن کا جواب او پر دیا گیا ہے لیکن اس کے بعد ان کے تعلقات کم ہوتے گئے اور خدا تعالیٰ نے ان کی جگہ ایک نہایت مضبوط اور مخلصین کی جماعت حضرت کو دے دی اور یہ کپورتھلہ کی جماعت ہے جن میں خود ان کے بعض عزیز اور رشتہ دار بھی تھے اور ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ ابتدء جبکہ حضرت نے کوئی دعوی نہ کیا تھا براہین ہی کو دیکھ کر حاجی صاحب خود لوگوں پر ظاہر کیا کرتے تھے کہ یہ مجدد ہیں چنانچہ منشی ظفر احمد صاحب جو خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک زندہ ہیں اور خدا تعالیٰ انہیں اور بھی لمبی عمر عطا کرے فرماتے ہیں کہ حاجی صاحب ۳۸ یا ۳۹ہ بکرمی میں قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں تشریف لے گئے تھے اُس وقت اُن کے پاس براہین احمدیہ تھی وہ حاجی صاحب سنایا کرتے تھے اور بہت سے آدمی جمع ہو جایا کرتے تھے مختلف لوگوں اور مجھ سے بھی سنا کرتے تھے اور حاجی صاحب لوگوں پر یہ ظاہر فرماتے تھے کہ یہ مجدد ہیں.حاجی صاحب کو جو مصیبت پیش آئی وہ کسی مخفی مصیبت از قسم کبر وغیرہ یا اعتراض کے نتیجہ میں آئی جو براہین کے التواء پر کیا تھا.جن ایام میں اُن کے اندر مخالفت یا انکار کے کیڑے ابھی بقیہ حاشیہ:.خطوط میں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر مختلف مقامات میں روانہ کئے.ایک نظمند اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ جد و جہد اور محنت اور عرق ریزی کے کیا کچھ مصارف ان کارروائیوں پر ہوئے ہوں گے.ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.بدظن اور نیک باطن کو خوب جانتا ہے وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ - اور اگر بقول آپ کے میں خراب اندروں ہوں اور کعبہ کی بجائے بتخانہ کو جا رہا ہوں تو وہ عالم الغیب ہے آپ سے بہتر مجھے جانتا ہو گا.لیکن اگر حال ایسا نہیں ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ اس بدظنی کا کیا جواب دیں گے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوَّادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا - وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.( ۲۳ / دسمبر ۱۸۸۴ء.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۳۹۵،۳۹۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۲۳۶ جلد دوم حصہ دوم پیدا نہ ہوئے تھے انہیں ایام میں خدا تعالیٰ مخلصین کی اس جماعت کو تیار کر رہا تھا.جیسا کہ منشی.ظفر احمد صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو انہیں دنوں بڑی عقیدت پیدا ہو گئی تھی جب حاجی صاحب سراوہ گئے تھے اور منشی صاحب براہین سنایا کرتے تھے لیکن ۱۹۴۱ بکرمی (۱۸۸۴ء) وہ کپورتھلہ آگئے تو براہین کا باقاعدہ درس انہوں نے شروع کر دیا اور یہی جماعت صالحین پیدا ہونے کا ذریعہ ہو گیا ادھر ۱۸۸۴ء کے آخر تک حاجی صاحب نے قریباً قطع تعلق کر لیا اور خدا کے فضل نے ان کی جگہ مخلصین کی ایسی جماعت پیدا کر دی جو اپنے اخلاص و وفا میں بے نظیر ثابت ہوئی.اب میں حاجی صاحب کے ذکر کو چھوڑ کر ۱۸۸۴ء کے واقعات کو ایسی ترتیب اور اسلوب سے بیان کرنے کی خدا کے فضل سے کوشش کرتا ہوں کہ جدا گانہ ڈائری یا الہامات و کشوف کے الگ باب قائم کرنے کی ضرورت نہ رہے اور اس مقصد کے لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ہر مہینے کے واقعات کو جمع کرنے کی کوشش کروں اور اگر کوئی واقعہ ایسا ہے کہ وہ کئی ماہ تک برابر چلا گیا ہے تو اس کو یکجائی طور پر بیان کر دیا جاوے.وبالله التوفيق.جنوری و فروری ۱۸۸۴ء ۱۸۸۴ء کا آغاز جہاں بہت سی برکات اور فضلوں کے ظہور اور آئندہ کی نعمتوں کے وعدوں پر مشتمل الہامات سے ہوا.اس کے ساتھ ہی مخالفت کے ایک بے پناہ طوفان میں ایک نئی تحریک پیدا ہو رہی تھی.جوں جوں قبولیت بڑھ رہی تھی ویسے ہی مخالفین حسد سے جل کر مشتعل ہو رہے تھے.براہین کی چوتھی جلد طبع ہو رہی تھی اور حضرت کو اس کی طباعت کا خیال تھا آپ چاہتے تھے کہ جلد سے جلد وہ شائع ہو جاوے اس کے لئے بار ہا پا پیادہ بھی تشریف لے جاتے تھے اس لئے کہ آپ ہی مسودہ پر نظر ثانی فرماتے ، کا پیاں پڑھتے اور پھر پروف دیکھتے.مطبع والوں کی بے اعتنائیاں اور وعدہ خلافیاں الگ موجب تکلیف ہوتی تھیں.آپ اس وقت اسی جہاد عظیم میں مصروف تھے منکرین اسلام کے اعتراضات کو الگ مد نظر رکھتے تھے یہ امر براہین احمدیہ کے حواشی کے پڑھنے
حیات احمد ۲۳۷ جلد دوم حصہ دوم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران طباعت میں بھی اگر کوئی اعتراض کسی اخبار یا رسالہ میں وہ عیسائیوں کا ہو یا آریوں اور برہموؤں کا نظر سے گزرا تو آپ نے اس کے ازالہ کے لئے ایسا علمی حملہ کیا کہ دشمن کا کچھ باقی نہیں رہنے دیا.چنانچہ پادری عمادالدین پانی پتی کے اعتراضات (جو اس نے بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ پر کئے تھے ) کا جواب دیا.یا پادری ٹھا کر داس کی عدم ضرورت قرآن پر آپ نے بحث فرمائی یا پنڈت دیانند اور پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کے اعتراضات سامنے آئے تو سب کا قلع قمع کر دیا.اس وقت کا نظارہ قابل دید ہے کہ یہ پہلوان حضرت رب جلیل چاروں طرف سے دشمنانِ اسلام میں گھرا ہوا ہے اور ہر شخص کے حملہ کا جواب ایسی قوت اور دلیری کے ساتھ دیتا ہے کہ ان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور وہ میدان سے بھاگ جاتے ہیں واقعات شہادت دیتے ہیں.چه ہیبت ها بدادند این جوان را که ناید کس بمیدان محمد * مالی مشکلات اور قبول دعا ایک طرف یہ حملے اور ان کا دفاع اور دوسری طرف براہین احمدیہ کی طباعت کے سلسلہ میں مالی مشکلات.لیکن خدا تعالیٰ ہر میدان میں آپ کی مدد فرماتا ہے اور جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا تھا آپ کی دعاؤں کو سنتا اور غیب سے ایسے آدمی پیدا کر دیتا ہے جو مدد کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں گویا آسمان سے فرشتے ان پر وحی کرتے ہیں.اور جو شخص ان حالات کا مطالعہ کرے گا اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ انسانی تجویز اور دانش کا کام نہیں بلکہ سراسر ربانی نصرت کام کرتی ہے.الہام الہی ان مشکلات کے ضمن میں پچاس روپیہ کی سخت ضرورت پیش آئی اور بظاہر اس کے لئے کوئی سامان نہ تھا یہ جنوری کی پہلی یا دوسری ہی تاریخ کا واقعہ ہے بعض لوگوں کے سخت تقاضے تھے آپ کے پاس بجز دعا کے کوئی حربہ تھا نہیں اور آپ اس بات پر بھی اپنے تجربہ کی بنا پر یقین رکھتے تھے کہ ترجمہ:.اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد کے میدان میں کوئی بھی مقابلہ میں نہیں آتا.
حیات احمد ۲۳۸ جلد دوم حصہ دوم جنگل میں دعا کرنے کا اچھا موقع ہوتا ہے اور وہ قبولیت کو جلد حاصل کرتی ہے.اس خیال سے آپ نہر کی طرف جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف ہے تشریف لے گئے اور ایک خلوت کا مقام تجویز کر کے آپ نے وہاں دعا کی.۳/ جنوری ۱۸۸۴ء کو الہام ہوا.بحسن قبولی دعا بنگر چہ زُود دعا قبول سے کنم لے جنوری ۱۸۸۴ء کو الہام ہوا.اور ۶ / جنوری ۱۸۸۴ء کولود ہانہ سے میر عباس علی صاحب کا منی آرڈر وصول ہو گیا چنانچہ حضرت اقدس نے ۷ جنوری ۱۸۸۴ء کو جو خط میر صاحب کو لکھا اس میں صفائی کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا تے حضرت کا مشرب سلوک اور اس کی تائید میں کشف انہیں ایام اوائل جنوری ۱۸۸۴ء میں آپ نے ایک کشف یا رویا دیکھا جس میں آپ کی روحانی تربیت اور مشرب کی حقیقت بیان کی گئی ہے.حضرت نے کتاب البریہ میں اپنے حالات لکھتے ہوئے ایک خاص امر کا تذکرہ فرمایا ہے جو آپ کی روحانی تربیت اور سلوک کے متعلق ہے.آپ فرماتے ہیں.ایک طرف ان کا (حضرت والد صاحب) دنیا سے اٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھ سے شروع ہوا میں کچھ بیان نہیں کر سکتا کہ میرا کونسا عمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الہی شامل حال ہوئی.صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطرتا میرے دل لے ترجمہ:.دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں.ے حاشیہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کو اپنے نشانات کے ذیل میں یوں تحریر فرمایا ہے کہ ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل فقر اور تو کل پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کو یہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دعا کریں پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جا کر اس نہر کے کنارے پر دعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی
حیات احمد ۲۳۹ جلد دوم حصہ دوم کو خدا تعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے نہیں رک سکتی سو یہ اسی کی عنایت ہے.میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع و اقسام کے بدعات میں مبتلا ہیں.“ ( کتاب البریہ صفحہ ۱۶۴،۱۶۳ بقیہ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۹۵ تا ۱۹۷) ایسا ہی متعدد مرتبہ آپ نے اس حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ آپ کی تربیت روحانی کا رنگ دوسرا ہے جو معروف صوفیوں کے طریقہ سے بالکل نرالا ہے.آپ کے اس مشرب کی حقیقت خدا تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ ظاہر فرمائی جس کے بیان کرنے کے لئے مجھے اس کی صراحت کی ضرورت پیش آئی.حضرت شروع سے اس امر کو بیان کرتے رہے کہ آپ کا طریقہ بالکل منہاج نبوۃ پر ہے گو اس کو دوسرے الفاظ میں اور کبھی صراحة ادا کرتے رہے ہوں چنا نچہ اس کشف کو لکھتے وقت جو آپ نے کے جنوری ۱۸۸۴ء مطابق ۷ ربیع الاول ۱۳۰۱ھ کو میر عباس علی صاحب کو تحریر فرمایا.بقیہ حاشیہ:.طرف واقع ہے جب ہم دعا کر چکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں تب ہم خوش ہو کر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رخ کیا تاکہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لد ہیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالبا وہ روپیہ اُسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا.“ (نزول المسیح صفحه ۲۳۴.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۱۲ ) مکتوب اسمی عباس علی صاحب میں اصل الہام جو میں نے متن میں لکھ دیا ہے تحریر فرمایا ہے اور الہام کی تاریخ ۳/ جنوری ۱۸۸۴ ء اور اس کے پورا ہونے کی تاریخ ۶ جنوری ۱۸۸۴ء ہے گویا اسی روز روپیہ وہاں سے روانہ ہو چکا تھا.(عرفانی )
حیات احمد ۲۴۰ جلد دوم حصہ دوم انسان کو بغیر راست گوئی چارہ نہیں اور انسان سے خدا تعالیٰ ایسی کوئی بات پسند نہیں کرتا جیسے اس کی راست گوئی.اور راست یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس عاجز سے ایک عجیب معاملہ ہے کہ اس جیسے شخص پر اس کا تفضل اور احسان ہے کہ اپنی ذاتی حالت میں احقر اور ارذل عباد ہے.زہد سے خالی اور عبادت سے عاری اور معاصی سے پُر ہے.سو اس کے تفضلات تحیر انگیز ہیں.خدا تعالیٰ کا معاملہ اپنے بندوں سے طر ز واحد پر نہیں اور تو جہات اور اقبال اور فتوح حضرت احدیت کی کوئی ایک راہ خاص نہیں.اگر چہ طرق مشہورہ ریاضات اور عبادات اور زہد اور تقویٰ ہے مگر ماسوا اس کے ایک اور طریق ہے جس کی خدا تعالیٰ کبھی کبھی آپ بنیاد ڈالتا ہے.کچھ دن گزرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمع زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزوں اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور شہود وغیرہ آتا ہے جیسے یہ مصرع تمام شب گزرانیم در قیام و سجودی چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھے ہیں.پھر اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے.مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی اور جو شعر اس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا.وہ بطور الہام زبان پر جاری ہو گیا اور وہ یہ ہے طریق زہد و تعبد ندانم اے زاہد خدائے من قدمم راند براہِ داؤد کے سویچ ہے کہ یہ نا چیز زہد اور تعبد سے خالی ہے.اور بجز عجز ونیستی اور کچھ اپنے دامن میں نہیں.اور وہ بھی خدا کے فضل سے نہ اپنے زور سے.جو لوگ تلاش کرتے ہیں.وہ اکثر زاہدین اور عابدین کو تلاش کرتے ہیں اور یہ بات اس جگہ نہیں.“ لے ترجمہ.میں نے تمام رات رکوع و سجود میں گزار دی ہے.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۸۶، ۵۸۷ مطبوعه ۶۲۰۰۸) سے ترجمہ.اے زاہد! میں تو کوئی زہد و تعبد کا طریق نہیں جانتا میرے خدا نے خود ہی میرے قدم کو داؤد کے راستہ پر ڈال دیا ہے.
حیات احمد ۲۴۱ جلد دوم حصہ دوم پھر ۱۸ / جنوری ۱۸۸۴ء کو بھی ایک مکتوب میں (جبکہ لودہانہ سے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں آنا چاہتے تھے ) تحریر فرمایا کہ وو یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ اُن کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ ان کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دور ہے سَيَفْعَلُ اللهُ مَا يَشَاءُ اگر خدا نے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایما سے اجازت فرما دے.ہر یک کو اس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پردہ غیب میں مخفی ہے اس کے ظہور کے منتظر رہیں.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۸۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۴ء کا آغاز خدا تعالیٰ کی نئی برکات اور تازہ نشانات سے شروع ہوا.قبولیت بڑھ رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی دشمنوں کے دل میں آتشِ حسد و مخالفت بھی بھڑک رہی تھی خصوصاً علماء لودہانہ سخت مخالفت پر آمادہ ہو چکے تھے (اس کا ذکر چونکہ پہلے ہو چکا ہے اب اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ) مگر حضرت اقدس ایک کامل سکون اور پورے استقلال اور ثبات قدم سے نہ صرف خود بلکہ اپنے مخلص احباب کو بھی تسلی دے رہے تھے کہ اس قسم کی مخالفتوں سے کچھ بگڑا نہیں سکتا ایک امر جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے نہایت قابل غور ہے کہ آپ نے جیسے اپنے طریق و مشرب کو عام صوفیوں سے الگ اور جداگانہ بتایا اور اس کے متعلق یہ ظاہر کیا کہ یہ وہ طریق ہے جس کی خدا تعالی آپ کبھی کبھی بنیاد ڈالتا ہے اسی طرح جب آپ کی مخالفت کا ذکر آیا اور بعض مخلصین نے گھبرا کر لکھا کہ مخالفت شدید ہورہی ہے تو آپ نے ان کو تسلی اور سکینت کے خطوط لکھے تو اس میں بھی انبیاء علیہم السلام کے طرز پر ہی جواب دیا چنانچہ میر عباس علی صاحب نے جب آپ کو لودہانہ کی مخالفت کی شدت سے اطلاع دی اور گھبراہٹ اور تر د دظاہر کیا تو آپ نے اس کو لکھا کہ ڈ
حیات احمد ۲۴۲ جلد دوم حصہ دوم اں مخدوم کچھ تفکر اور تردد نہ کریں اور یقیناً سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے.کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہ ہوئے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا اگر لوگ خدا کے بندوں کو جو اس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یونہی ان کی شکل ہی دیکھ کر قبول کر لیتے.تو بہت عجائبات تھے کہ اُن کا ہرگز دنیا میں ظہور نہ ہوتا.(۲۶ فروری ۱۸۸۴ء مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۹۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) مقام غور ہے کہ دونوں صورتوں میں آپ نے اپنی ماموریت اور بعثت کی شان میں نبوت کے رنگ کو نمایاں کیا ہے.گو آپ نے بلا اذنِ الہی اس کا اس وقت کوئی دعویٰ مشتہر نہیں کیا اس لئے کہ اعلان کا اذن ہی نہ تھا.آپ دوستوں کو یہی ہدایت فرماتے تھے کہ جو پردہ غیب میں مخفی ہے اس کے ظہور کے منتظر رہیں جو یقین اور بصیرت آپ کو اپنی کامیابی پر تھی وہ ان واقعات سے ظاہر ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہ حالت کیوں پیدا نہ ہوتی جبکہ ہر روز خدا تعالیٰ کی تازہ وحی آپ کو تسلی دے رہی تھی اور خدا تعالیٰ کا غیبی ہاتھ آپ کی بعثت پر تھا.اگر کوئی شخص محض منصو بہ باز ہوتا تو وہ مخالفت کے اس طوفان سے ڈر جاتا اور گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتا لیکن جیسا کہ سنت انبیاء ہے آپ مخالفت کو ان عجائبات کے ظہور کا موجب قرار دیتے ہیں.جو انبیاء کی مخالفت کے نتیجہ کے طور پر ظہور میں آتے ہیں اور دنیا نے دیکھ لیا کہ آپ کی مخالفت کا انجام کیا ہوا.
حیات احمد ۲۴۳ جلد دوم حصہ دوم میر عباس علی صاحب کے ارتداد کی پیشگوئی ۱۸۸۴ء کے آغاز میں جبکہ میر عباس علی صاحب اپنے اخلاص و خدمت گزاری کے مراحل میں ترقی کی طرف جارہا تھا اور براہین احمدیہ کی اشاعت میں اس کے شب و روز بسر ہو رہے تھے آپ پر اس کے ارتداد کے متعلق انکشاف ہو رہا تھا.اس قسم کے الہامات وکشوف سے کچھ شک نہیں کہ آپ کو بہت تکلیف ہو رہی تھی.اس لئے نہیں کہ ایک مخلص دوست جدا ہو جائے گا اور جو کام وہ کر رہا ہے اس میں کوئی نقص واقع ہوگا.کسی انسان یا اس کی مساعی اور خدمات کو گو یہ لوگ قدر اور شکر گزاری کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر ان کی نظر ان کے وجود پر نہیں ہوتی انہیں تو وہ ایک آلہ سمجھتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہو بلکہ آپ کو اس کی ہلاکت کی وجہ سے افسوس تھا اور آ چاہتے تھے کہ یہ قضا بدل جاوے مگر واقعات کے ظہور نے ثابت کر دیا کہ وہ مبرم تھی آپ کو ایک عرصہ سے مختلف اوقات میں میر صاحب کے متعلق بعض اشارات ہوئے اور آپ نے ان کو وقتاً فوقتاً اس کی اطلاع بھی دی.چنانچہ ۲۲ ستمبر ۱۸۸۳ء کو آپ نے ان کو لکھا کہ "خداوند کریم آپ کی تائید میں رہے اور مکروہات زمانہ سے بچاوے.اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلا کو چاہتا ہے سو اس ابتلا سے آپ بچ نہیں سکتے.“ ایک کشف اور رویا مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۷۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) پھر ۱۸/ جنوری ۱۸۸۴ء کو آپ نے میر صاحب کو اپنا ایک رؤیا لکھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن سے سابق تعارف نہیں ، ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے.اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو اُن کو ناگوار گزری ہے سو ان کے دل منقطع
حیات احمد ۲۴۴ جلد دوم حصہ دوم ہو گئے آپ نے اُس وقت مجھ کو کہا کہ وضع بدل لو.میں نے کہا نہیں بدعت ہے.سو وہ لوگ بیزار ہو گئے اور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جا کر بیٹھ گئے.تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں.میں اُن کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں پھر بھی انہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے.‘ الآخره مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۸۹٬۵۸۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) ایسا ہی ۱۸۸۳ء کی پہلی سہ ماہی میں آپ نے میر عباس علی صاحب کو اس پیش آنے والے ابتلا سے اطلاع دی.میر صاحب قادیان آئے تھے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ حضرت اقدس کو لود ہانہ لے جانے کے لئے پر زور تحریک کریں مگر آپ کے سارے کاموں کا مدار اذن الہی پر تھا ان کے قیام قادیان ہی کے ایام میں حضرت اقدس پر ان کی روحانی حالت اور انجام کا انکشاف ہوا مگر آپ نے اس وقت اکرام ضیف اور دل شکنی کے خیال سے ان کو کچھ نہیں کہا لیکن جب لودہا نہ چلے گئے تو آپ نے ان کو لکھا کہ آپ کے تعلق محبت سے دل کو نہایت خوشی ہے.خدا اس تعلق کو مستحکم کرے.انسان ایسا عاجز اور بے چارہ ہے کہ اس کا کوئی کام طرح طرح کے پردوں اور حجابوں سے خالی نہیں اور اس کے کسی کام کی تعمیل بجز حضرت احدیت کے ممکن نہیں.ایک بات واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت ملاقات ایک گفتگو کے اثناء میں بہ نظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ دل میں کچھ انقباض ہے“.وو (آگے چل کر فرماتے ہیں ) سو الحمد للہ آپ جو ہر صافی رکھتے ہیں غبار ظلمت آثار کو آپ کے دل میں قیام نہیں اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خدا وند کریم اس کو دور کرے مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی انقباض پیش آوے جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اس گھر کی وضع قطع میں بعض امور اس کو حسب مرضی
حیات احمد ۲۴۵ جلد دوم حصہ دوم اور بعض خلاف معلوم ہوں.اس لئے مناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب نہ ہوں“.آخر میں پھر فرمایا:."آپ کی حالت قویہ پر بھی امید کی جاتی ہے کہ آپ ہر ایک انقباض پر غالب آویں.(مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۲۴، ۵۲۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء) یہ زمانہ تھا جبکہ میر صاحب حضرت کے اول المعاونین کے رنگ میں کام کر رہے تھے اور یہ پہلا شخص تھا جس نے اور بہانہ میں سب سے پہلے حضرت کی طرف رجوع کیا اور پہلا شخص تھا جو لود ہانہ سے قادیان حاضر ہوا.وہ برابر اپنے اخلاص میں ترقی کرتا چلا گیا یہ انکشافات حضرت پر ۱۸۸۳ء میں اور پھر ۱۸۸۴ء میں ہوئے اور اس کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی یہاں تک کہ پسر موعود کی پیشگوئی پر ایک طوفان بے تمیزی برپا کیا گیا اور پھر ہوشیار پور کے نکاح کے متعلق پیشگوئی پر بھی اخبارات خصوصاً نو را فشاں وغیرہ میں شور مچایا گیا اور ہنسی کی گئی.لیکن میر عباس علی صاحب کو ابتلا نہ آیا.بیعت کا اعلان ہوا اور میر صاحب نے بڑے اخلاص کے ساتھ پہلے ہی دن بیعت کی.بلکہ ایک مرتبہ اس کشف کے بعد حضرت اقدس سے عرض بھی کیا کہ مجھے اس کشف سے جو میری نسبت ہوا تعجب ہوا.کیونکہ میں تو آپ کے لئے مرنے کو طیار ہوں.حضرت اقدس نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ کے لئے مقدر ہے پورا ہوگا.اس پر آٹھ سال گزر گئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود کا دعویٰ کیا تو ان کو کچھ انقباض شروع ہوا لیکن اس پر بھی وہ کھلم کھلا مخالفت یا ارتداد پر آمادہ نہ ہوئے لیکن لودیا نہ کے مباحثہ کے ایام میں کچھ دنوں تک مخالفین کی صحبت میں رہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوشتہ تقدیر ظاہر ہو گیا اور پیشگوئی پوری ہوگئی وہ صریح طور پر بگڑ گئے اور ایسے بگڑے کہ وہ یقین دل کا اور وہ نورانیت چہرہ کی سب جاتی رہی اور ارتداد کی تاریکی ظاہر ہو گئی اور پھر کھلم کھلا مقابلہ پر آگئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں رسول نمائی کا دعویٰ کیا اور مولوی محمد حسین بٹالوی کو جو اس وقت شدید مخالف ہو چکا تھا ایک کھلونا ہاتھ آ گیا.حضرت اقدس
حیات احمد ۲۴۶ جلد دوم حصہ دوم نے جوابا اس کے لئے ایک رسالہ لکھا اور محمد حسین کو مخاطب کر کے ایک شعر لکھا یا صوفی خود را بروں آر یا تو به گن از بدگمانی* حضرت اقدس نے ہر چند کوشش کی کہ ان کی حالت میں اصلاح ہو جاوے اور حضرت کو فی الحقیقت بہت درد تھا کہ یہ شخص جس نے اوائل میں اس قدر خدمت کی ہے اس طرح پر تباہ نہ ہو مگر قدرت کے نوشتوں کو کون بدل سکتا ہے.حضرت فرماتے ہیں کہ " مرتد ہونے کے بعد ایک دن وہ لودھیانہ میں پیر افتخار احمد صاحب کے مکان پر مجھے ملے اور کہنے لگے کہ آپ کا اور ہمارا مقابلہ اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ ایک حجرہ میں ہم دونوں بند کئے جائیں اور دس دن تک بند ر ہیں پھر جو جھوٹا ہو گا مر جائے گا.میں نے کہا میر صاحب ایسی خلاف شرع آزمائیشوں کی کیا ضرورت ہے؟ کسی نبی نے خدا کی آزمائش نہیں کی مگر مجھے اور آپ کو خدا دیکھ رہا ہے وہ قادر ہے کہ بطور خود جھوٹے کو بچے کے روبرو ہلاک کر دے.اور خدا کے نشان تو بارش کی طرح برس رہے ہیں اگر آپ طالب صادق ہیں تو قادیان میں میرے ساتھ چلیں جواب دیا کہ میری بیوی بیمار ہے میں جانہیں سکتا اور شاید یہ جواب دیا کہ کسی جگہ گئی ہوئی ہے.یاد نہیں رہا.میں نے کہا کہ اب بس خدا کے فیصلہ کے منتظر رہو.پھر اُسی سال وہ فوت ہو گئے اور کسی حجرہ میں بند کئے جانے کی ضرورت نہ رہی.(حقیقۃ الوحی صفحه ۲۹۴، ۲۹۵.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰۷، ۳۰۸) عجیب بات یہ ہے کہ وہ مکتوبات جن میں اس کے ارتداد کے متعلق پیشگوئیاں تھیں خود اس نے جمع کئے اور ایک بیاض میں لکھے اور خود اس کی زندگی میں ہی بعض دوستوں نے اُس بیاض سے نقل کر لئے اور مختلف مقامات پر وہ پھیل گئے.ا ترجمہ :.اے صوفی یا تو خود کو ظاہر کر دے یا بد گمانی سے تو بہ کر.
حیات احمد ۲۴۷ مخالفت اور علمائے دہلی جلد دوم حصہ دوم میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ مخالفت کی ابتدا لودہانہ اور امرتسر سے شروع ہوئی.اس وقت ان منکرین اور مخالفین کو جواب دینے کے لئے خدا تعالیٰ نے مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی کو کھڑا کر دیا اور اس نے نہایت سختی سے ان پر حملہ کیا خصوصاً لودہانہ کے مشہور برادران ثلاثہ پر اور انہیں غدار ثابت کیا انہوں نے دیو بند سے فتوی کفر حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہ نا کام رہے اور آخر وہ اس فتویٰ کو لے کر دہلی پہنچے.دہلی کے علماء نے بھی اس فتویٰ کو درخور اعتنا نہ سمجھا البتہ ان کی اشک شوئی کے لئے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا.جس کا خلاصہ خود حضرت نے میر عباس علی صاحب کو ۱۵ار فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۶ ؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ اس طرح پر تحریر فرمایا.ایک خط دہلی کے علماء کی طرف سے اس عاجز کو آیا تھا کہ مولوی محمد نے تکفیر کا فتویٰ بہ نسبت اس خاکسار کے طلب کیا ہے نہایت رفق اور ملائمت سے رہنا چاہئے“ مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) علماء دہلی کے مکتوب پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں اُن میں اُس وقت تک خوف خدا اور تقویٰ اللہ موجود تھا اور وہ لو دہانہ کے مولویوں کی حقیقت سے واقف تھے.حضرت اقدس تو کسی پر کوئی سختی کرتے ہی نہ تھے پھر آپ کے رفق کا تو خدا کی وحی میں بھی ذکر ہے بہر حال مخالفت کی آگ سلگائی جا رہی ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں ایسی حالت میں کہ دشمن آگ بھڑکا رہے تھے اور ایک طوفان بے تمیزی پیدا کرنا چاہتے تھے اور بعض دوست بھی اس مخالفت کے طوفان سے ڈر رہے تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں مل رہی تھیں چنانچہ اسی ۱۵ فروری ۱۸۸۴ء کو الہام ہوا.يَا عَبُدَ الرَّافِعِ إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ - إِنِّي مُعِنُّكَ لَا مَانِعَ لِمَا أُعْطِى
حیات احمد ۲۴۸ جلد دوم حصہ دوم (ترجمہ) اے عبدالرافع میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں.میں تجھے عزت و بزرگی دینے والا ہوں جو میں عطا کروں اسے کوئی روکنے والا نہیں.ایک اور بشارت ۱۳ فروری ۱۸۸۴ء کو ایک اور الہام ہوا جو پہلے بھی ہو چکا تھا.(1) يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ - (۲) خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الأولى ( یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہو چکا ہے.ان دونوں الہامات کا ترجمہ یہ ہے (۱) کہ اے بیٹی اس کتاب کو قوت سے پکڑو.(۲) اسے پکڑ لو اور ڈرومت.ہم اسے اپنی پہلی سیرت پر لوٹا دیں گے.خدا تعالیٰ کے مامورین و مرسلین کی زندگی کا یہی باب نہایت دلچسپ ہوتا ہے کہ جبکہ دنیا اور اُس کی ساری مادی طاقتیں ان کی مخالفت میں کھڑی ہو جاتی ہیں اور وہ اسے فنا کر دینا چاہتی ہیں ان بے کسی کی گھڑیوں اور مشکلات کی تاریک راتوں میں ان کے قلب پر سکینت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور خدا کا کلام کامیابی کی بشارتوں کو لے کر آتا ہے.جہاں ایک طرف مخالف آپ کو ذلیل کرنا چاہتے تھے خدا عزت اور رفعت کے مقام پر کھڑے کرنے کا وعدہ دیتا ہے اور خطر ناک سے خطر ناک چیزوں کو بے ضرر بنا دینے کے سامان پیدا کر دینے کی بشارت ملتی ہے اور آخر وہی ہوتا ہے.وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.باوجود یکہ حضرت اقدس خدا تعالیٰ کی ان بشارتوں کے ذریعہ تسلی دے رہے تھے لیکن میر عباس علی صاحب پر ایک خوف طاری تھا اور وہ گھبراہٹ کے خطوط متواتر لکھ رہے تھے دراصل یہی ایک بین فرق ہوتا ہے نبیوں کے ایمان میں اور دوسرے لوگوں کے ایمان میں.چنانچہ انہوں نے فروری کے آخیر ہفتہ میں پھر ایک سخت گھبراہٹ کا خط لکھا کہ لودہانہ کے مولوی اور مفتی ایک
حیات احمد ۲۴۹ جلد دوم حصہ دوم طوفان بے تمیزی برپا کر رہے ہیں جس سے شدید مخالفت ہو رہی ہے اور یہ آگ ہر طرف پھیل جائے گی مگر حضرت نے انہیں پھر تسلی دی اور فرمایا کہ آں مخدوم کچھ تفکر اور تردد نہ کریں اور یقیناً سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے.کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہیں ہوئے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا.اگر لوگ خدا کے بندوں کو کہ جو اس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یوں ہی ان کی شکل دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ ان کا ہرگز دنیا میں ظہور نہ ہوتا“.(۲۶ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷ ؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۹۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) غور کرو کہ آپ کے کلام میں ایک ہی رنگ ہے اور آپ اپنے مقام ماموریت کی شان وہی یقین کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کے نبیوں کی ہوتی ہے.اپنے معاملہ کو اسی اصل پر پیش کرتے ہیں.اور آپ کے قلب میں ایک ایسی سکینت اور اطمینان ہے کہ دنیا کی مخالفت اسے ہلا نہیں سکتی بلکہ آپ اپنی سکینت اور تسلی کا اثر دوسروں پر بھی ڈالتے ہیں جیسے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ پر ڈالا اور خدا کی وحی نے یوں تصدیق کی.لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.حضرت چودھری رستم علی صاحب کی آمد حضرت چودھری رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر کے ایک معزز اور شریف خاندان اعوان کے رکن تھے اور بصیغہ ملازمت محکمہ پولیس میں نوکر تھے اور جالندھر میں مقیم تھے کہ آپ تک براہین احمدیہ کا اعلان اور ذکر پہنچا.باوجود یکہ وہ محکمہ پولیس میں نوکر تھے اور ابھی نوجوان تھے مگر صوم وصلوٰۃ کے پابند اور علماء و فقراء کی طرف ان کو رغبت تھی انہوں نے جب براہین احمدیہ اور حضرت اقدس کا چر چا سنا تو براہین احمدیہ کو خرید کیا اور اسے غور سے کئی بار پڑھا جوں جوں وہ براہین کو پڑھتے حضرت اقدس کے ساتھ ان کا ربط اور محبت بڑھتی گئی یہاں تک کہ آپ نے اپنے اخلاص و وفا میں
حیات احمد ۲۵۰ جلد دوم حصہ دوم ان ابتدائی ایام ہی میں ایسی ترقی کی کہ آپ حضرت کے خاص احباب میں سے ہو گئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی نسبت اپنی رائے کا اظہار یوں فرمایا.ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اول درجہ کے دوستوں میں سے ہے.ان کے چہرہ پر ہی علامات غربت و بے نفسی واخلاص ظاہر ہیں کسی ابتلا کے وقت میں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے 66 میری طرف رجوع کیا اُس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز افزوں ہے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن ۳ صفحه ۵۳۶) مجھ کو یہاں چودھری صاحب کے حالات زندگی بیان کر نے متصور نہیں بلکہ صرف ایک واقعہ کا اظہار زیر نظر ہے جو ۱۸۸۴ء کے اوائل سے تعلق رکھتا ہے کہ ایک طرف مخالفت کی آندھیاں اٹھ رہی تھیں اور اسی اثناء میں حضرت احدیت کی طرف سے کامیابی کی بشارتیں مل رہی تھیں اور ان کا ظہور اس طرح پر ہو رہا تھا کہ ایسے مخلص اور باوفا خدام آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہو رہے تھے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ چودھری صاحب اس وقت خاص شہر جالندھر میں محرر پیشی تھے اس زمانہ میں آپ سارجنٹ تھے جن کو آجکل ہیڈ کنسٹبل کہا جاتا ہے حضرت اقدس اس وقت آپ کو جو خطوط لکھتے تھے ان پر پستہ اس طرح پر درج ہوتا.بمقام جالندھر خاص.محکمہ پولیس بخدمت مشفقی مکرمی منشی رستم علی صاحب محرر پیشی محکمہ پولیس کے پہنچے.وحدت وجودیوں سے مباحثہ اُس زمانہ میں خصوصیت سے دوا بہ بست جالندھر اور اس کے ملحقہ اضلاع میں وحدت وجود یوں کی ایک روچل رہی تھی.خاص شہر لودہا نہ میں بھی اس خیال اور عقیدہ کے اباحتی سے لوگ موجود تھے ان میں سب سے آگے نکلا ہوا ایک شخص سیف الرحمن نامی تھا اور وہ عام طور پر مولویوں
حیات احمد ۲۵۱ جلد دوم حصہ دوم اور دوسرے مذہبی مذاق رکھنے والے لوگوں سے شخصی مباحثات بھی کرتا رہتا تھا.اور ہانہ کی حالت ان ایام میں عجیب تھی عیسائیوں کا وہ بڑا اور پرانا گڑھ تھا.اخبار نو را فشاں بڑی شان سے شائع کیا جارہا تھا ان سے مباحثات کے لئے شیخ الہ دیا صاحب جلد ساز پیش پیش تھے شیعہ لوگوں سے بھی چھیڑ چھاڑ رہتی تھی اور حافظ عبدالباقی نام ایک نابینا بڑی دلچسپی لیتے تھے.اور شیعہ حضرات میں میر فرزند حسین صاحب کا طوطی بول رہا تھا.غیر مقلدوں میں میاں محمد حسن صاحب اعوان کی پارٹی تازہ بتازہ جوش دکھا رہی تھی.اور مولوی عبداللہ ، عبدالعزیز اور محمد ہرسہ برادران کے غیظ وغضب اور خود نمائی کا تو ٹھکانہ ہی نہ تھا وہ اپنے آپ کو لودہانہ کے مسلمانوں کے گو یا مذہبی پیشوا یقین کرتے تھے اور اگر کوئی مولوی یا اہلِ علم ان کی مرضی یا اطاعت کے بغیر لودہانہ میں باہر سے آ کر کوئی وعظ وغیرہ کرے تو اس کا ٹھکانا مشکل تھا غرض ایک عجیب قسم کی حالت تھی.وحدت وجود یوں میں میاں سیف الرحمن نے ایک پارٹی بنالی تھی اور وہ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے.حضرت اقدس کا چر چا جب لودہانہ میں عام ہونے لگا اور آپ کے زہد و ورع اور علم وفضل کے متعلق شہرہ ہوا تو انہوں نے میر عباس علی صاحب کے واسطہ سے بعض سوالات شروع کئے چنانچہ میر صاحب نے حضرت کی خدمت میں وحدت وجود کے مسئلہ کے متعلق استفسار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باوجود یکہ آپ براہین کی طبع و اشاعت اور دوسرے دینی کاموں میں از بس مصروف تھے کیونکہ اس وقت کوئی انتظام تو تھا نہیں.سب کام خود کرنے ہوتے تھے، کاپیوں کا پڑھنا پروف دیکھنے وغیرہ اور خطوط کے جواب دینے وغیرہ) میر عباس علی صاحب کے استفسار پر وحدت وجود کی تردید میں ایک مبسوط خط ۱۳ / فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۴ / ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ کو لکھا جس میں وجود یوں کے اعتقادات کے پر نچے اڑا دیئے.وحدت وجود کے مسئلہ پر جب آپ نے قلم اٹھایا تو یونہی خیالی طور پر نہیں بلکہ آپ نے ایک محقق کی حیثیت سے اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غور کر لیا تھا اور کافی مطالعہ کر کے یہ فیصلہ کیا تھا چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اس عاجز نے ہر چند ایک مدت دراز تک غور کی.اور کتاب اللہ اور احادیث
حیات احمد ۲۵۲ جلد دوم حصہ دوم نبوی کو بتدبر و تفکر تمام دیکھا اور محی الدین (ابن) عربی وغیرہ کی تالیفات پر بھی نظر ڈالی کہ جو اس طور کے خیالات سے بھری ہوئی ہیں.اور خود عقل خدا داد کی رو سے بھی خوب سوچا اور فکر کیا لیکن آج تک اس دعوی کی بنیاد پر کوئی دلیل اور صحیح حجت ہاتھ نہیں آئی اور کسی نوع کی برہان اس کی صحت پر قائم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ابطال پر براہین قویہ اور حج قطعیہ قائم ہوتے ہیں کہ جو کسی طرح اٹھ نہیں سکتیں“.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۹۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) آپ کے معمول میں یہ بات تھی کہ کسی مذہب کے کسی مسئلہ پر قلم نہیں اٹھاتے تھے جب تک ایک مخلص محقق کی حیثیت سے اس کے تمام پہلوؤں پر پوری طرح غور نہ کر لیں.اور جہاں جس قدر بھی صداقت اور حقیت ہو اس کے قبول کرنے میں کبھی مضائقہ نہیں کرتے تھے اس لئے کہ وہ تو مومن ہی کی متاع ہے.غرض میر عباس علی صاحب کے ذریعہ مسئلہ وحدت وجود کے قائلین کو ان کی حقیقت سے ایسا آگاہ کیا کہ پھر وہ اس سلسلہ میں آگے نہ بڑھ سکے.آپ کا یہ بھی طرز عمل تھا کہ مجرد دشمن کے اعتراض کا جواب ہی مقصود خاطر نہ ہوتا تھا بلکہ اس کے ضمن میں قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو بھی ظاہر کرنا ضروری سمجھتے تھے.باوجود یکہ آپ ان ایام میں علیل تھے لیکن ایک مذہبی مسئلہ کے جواب کے لئے آپ نے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کی اور نہیں کرتے تھے.چنانچہ بعد کے آنے والے زمانہ میں راقم الحروف (عرفانی) نے دیکھا کہ تمام بڑی بڑی تصنیفات شدید بیماریوں کی حالت میں لکھی گئی ہیں.اس وقت بھی آپ کی طبیعت ناساز تھی لیکن آپ کے دل میں ان خرابیوں کی وجہ سے جو امت محمدیہ میں پیدا ہو چکی تھیں ایک درد تھا چنانچہ لکھا کہ ” خدا تعالیٰ امت محمدیہ کی آپ اصلاح کرے.عجب خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں
حیات احمد ۲۵۳ جلد دوم حصہ دوم اور یہ عاجز باعث اپنی علالت طبع کے اس مضمون کو تفصیل اور بسط سے نہیں لکھ سکا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ طالب حق کے لئے اس قدر کافی ہے.مگر جس شخص کا مقصد خدا نہیں.اس کو کوئی دقیقہ معرفت اور کوئی نشان مفید نہیں“.(۱۳/ فروری ۱۸۸۴ء.مکتوبات احمد جلد اصفحہ ۵۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس فیصلہ کن جواب کو حوالہ ڈاک کر کے آپ براہین کے کام کے لئے اسی روز روانہ ہو گئے اور تحریر فرمایا کہ اب میں تَوَكُلًا عَلَی اللہ امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہوں.کتاب تو تیار ہو چکی تھی.جزو بندی اور سلائی وغیرہ کا کام ہو رہا تھا جیسے جیسے تیار ہوتی جاتی تھی روانہ ہوتی رہتی تھی.
حیات احمد جلد دوم (حصہ سوم) مرتبه یعقوب علی عرفانی
حیات احمد ۲۵۷ جلد دوم حصہ سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ عرض حال الحمد لله ثم الحمد للہ قریباً ۱۸ سال کے بعد میں حیات احمد کی دوسری جلد کا تیسرا نمبر شائع کر رہا ہوں یہ اُسی کے فضل اور رحم کا کرشمہ ہے کہ اُس نے مجھے اب تک زندگی بخشی اور اس عمر (۸۰) میں جبکہ پیر فرتوت ہو گیا قوت و توانائی عطا فرمائی کہ میں اپنے محسن و آقا کے حالات ذکر کو بلند کروں.حیات احمد کا دوسرا نمبر حضرت چوہدری نواب محمد دین رضی اللہ عنہ کے دستِ اعانت کا نتیجہ تھا اور اس سے پہلا حضرت سیٹھ حسن احمدی رضی اللہ عنہ کی محبت کا ، اللہ تعالیٰ ان کے مدارج اپنے قرب میں بلند کرے.حضرت نواب صاحب آج زندہ ہوتے تو وہ یقیناً اس کام کی تکمیل کے لئے میرا ساتھ دیتے اللہ تعالیٰ ان کی اولا د کو یہ توفیق دے.اور حضرت حسن کی سعادت مند اولا د تو میرے ساتھ تعاون کرنے میں سعادت سمجھتی ہے.داستان تالیف آخر کتاب میں لکھ دی ہے.بظاہر شکوہ قوم ہے.لیکن حقیقت میں احساس کی بیداری کے لئے ایک کوشش ہے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۷ء کے جلسہ سالانہ پر فرمایا تھا کہ یہ کتاب ہر احمدی کے گھر میں خواندہ ہو یا نا خواندہ ہونی چاہیئے“ اب ہر احمدی اپنے نفس کا احتساب کر لے.لاکھوں کی جماعت میں ۴۳ سال کے اندر اپنے امام کے حالات زندگی مدون نہ ہوں تو افسوس کیوں نہ ہو.بہر حال میں اپنی حقیر کوشش کو خدا کے فضل پر بھروسہ کر کے جاری رکھوں گا یہاں تک کہ یا کامِ من بر آید یا جان زین برآید ا ترجمہ :.یا تو میرا کام مکمل ہو جائے گا یا جان جسم سے روانہ ہو جائے گی.
حیات احمد ۲۵۸ جلد دوم حصہ سوم میں اُن روحوں کو پکارتا ہوں جو اپنے آقا کی محبت میں سرشار ہیں کہ وہ میرے اس کام میں تعاون کریں ایسے معاونین کے اسماء اس کتاب میں شائع ہوتے رہیں گے.اب عہدِ جدید شروع ہوتا ہے اسی کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کر کے شروع کرتا ہوں اور اسی سے تکمیل کی توفیق آغاز کرده ام تو رسانی به انتہا.آمین خاکسار عرفانی الكبير ۵/ دسمبر ۱۹۵۱ء
حیات احمد ۲۵۹ جلد دوم حصہ سوم اعتذار میں نہایت افسوس سے اس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ چونکہ تمام کام مجھے خود ہی کرنا پڑتا ہے اور میں خود سکندر آباد میں رہتا ہوں مکرر پروف یا کاپیوں کی اصلاح ٹھیک طور پر نہیں ہوتی لیکن آئندہ کے لئے عزیز مکرم مولوی محمد عبد اللہ صاحب بی ایس سی.ایل ایل بی نے کا پہیوں اور پروفوں کے پڑھنے کا کام اپنے ذمہ لے لیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے مجھے امید ہے آئندہ صحت کا پورا التزام رہے گا اور آئندہ کا غذ بھی خواہ کچھ بھی قیمت ہو بہتر کر دیا جاوے گا.عرفانی الكبير
حیات احمد ۲۶۱ جلد دوم حصہ سوم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ حیات احمد علیہ الصلوۃ والسلام مدتے اس مثنوی تا خیر شد (جلد دوم نمبر سوم).(تمہیدی نوٹ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر چالیس سال سے زیادہ گزر گئے اور وہ سلسلہ جو اس وقت ابتدائی حالت میں تھا آج اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے اس کے وعدوں کے موافق اکناف عالم میں پھیل گیا اور پھیلتا جا رہا ہے.دنیا کے تاریک حصوں میں آفتاب صداقت طلوع ہو چکا ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ نصف النہار پر پہنچ جاوے.لیکن میں ایک دردمند دل کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات کی تکمیل نہ کر سکے.اس کے اسباب و علل پر بحث کرنا بیکار ہے اور اس کی تفصیلات میں جانا بے سود.مجھے اپنی کمزوری اور سستی کا اعتراف کرنا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جماعت کا کام تھا ایک ایسی جماعت کا جو منظم ہے جس کی تنظیم مختلف شعبوں پر مشتمل ہے.جن میں ایک شعبہ تالیف و تصنیف بھی ہے.مجھے معلوم نہیں کہ اس صیغہ میں کس قدر دوسری اہم اور ضروری تالیفات زیر نظر تھیں کہ وہ اس طرف توجہ نہ کر سکا.لیکن با ایں میں خود اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و نعمت نے (جو مجھ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ترجمہ :.ایک لمبے عرصہ تک اس مثنوی میں تاخیر ہوگئی.
حیات احمد ۲۶۲ جلد دوم حصہ سوم شناخت اور آپ کے حضور رہنے کی سعادت کی صورت میں ہوئی ) جو فرض مجھ پر عائد کیا تھا میں نے بھی تو اُسے ادا نہ کیا.اگر چہ الحکم کے ذریعے حضور کے کلمات طیبات اور سلسلہ کی تاریخ کے اہم واقعات محفوظ ہو سکے مگر خود حضرت اقدس کے حالات زندگی کی اشاعت کی تکمیل سے میں بھی قاصر رہا.میں نے حضرت کے مرفوع ہونے پر اس سلسلہ کو شروع کیا لیکن میری کسی پنہانی معصیت نے مجھے اس قابل نہ ہونے دیا کہ میں اس کی تکمیل کر دیتا.اگر چہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل کے لئے بھی میرا سر جھکا ہوا ہے کہ اس سلسلہ میں بھی بہت کچھ کام کرنے کی توفیق ملی مثلاً آپ کی زندگی کے ابتدائی چالیس سالوں کا تذکرہ میں مکمل کر سکا جو سب سے زیادہ مشکل کام تھا کیونکہ اس عہد کے حالات تحریروں سے تو مل نہ سکتے تھے اس کے لئے ایسے لوگوں سے حالات جمع کرنا تھا جو آپ کے بچپن سے لے کر چالیس سالہ عمر تک کے پورے واقف ہوں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں اس مرحلہ کو طے کر چکا.آپ کے مکتوبات کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کر کے اس کی اشاعت بھی ہوسکی.آپ کی سیرت کے سلسلہ میں بھی تین مجلدات شائع ہو چکے.یہ معمولی کام نہیں اور میں اسے اپنی کسی قابلیت کا نتیجہ نہیں سمجھتا بلکہ میں تحدیث نعمت کے طور پر اس کا ذکر کر رہا ہوں اور سوانح حیات میں بھی ۱۸۸۳ء تک کے واقعات زندگی لکھ چکا.آخری نمبر سوانح حیات کا جو جلد دوم کا دوسرا نمبر تھا ۱۹ مارچ ۱۹۳۴ء کو حضرت نواب چوہدری محمد الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی توجہ سے شائع ہوا کہ انہوں نے اس کی اشاعت کے اخراجات کا بڑا حصہ دیا.مجھے یقین تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہ سکتا تو حضرت نواب مرحوم کا ہاتھ کھلا ہی رہتا.ان کی ساری خوشیوں کا مرکز نیک کام کرنے کے لئے آمادگی تھا.مجھے صدمہ ہے کہ میں وطن سے دور تھا.اور حالات اتنے نا موافق تھے کہ میں ان کے جنازے کو کندھا تک نہ دے سکا.لیکن میں نے ان کی ترقی مدارج کے لئے دعائیں کی ہیں اور اس وقت بھی کر رہا ہوں.اللہ ان کے درجات اپنے قرب میں بلند کرے اور ان کی اولا دکو ہر قسم کے دینی اور دنیوی فضلوں
حیات احمد ۲۶۳ جلد دوم حصہ سوم سے نوازے اور ان کو جوش خدمت دین سے بہرہ اندوز کرے.یہ ذکر ضمناً آ گیا اور میں نے اس کو ناسپاسی یقین کیا کہ ان کی اس خدمت کا اظہار نہ کروں تا کہ اس کتاب کے پڑھنے والے ان کے لئے دعائے خیر کریں.اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا اور آج میں کہتا ہوں.مدتے ایں مثنوی تاخیر شد اب جبکہ میں اپنی عمر کے ۷۸ سال پورے کر چکا اور چراغ سحری بن رہا ہوں.قوت عمل کا تیل ختم ہو رہا ہے پھر دل میں جوش پیدا ہوا کہ پھر اُسی ڈگر پر چلوں، کیا عجب کہ منزل مقصود پر پہنچ جاؤں.وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيز - مجھے اس کتاب کے متعلق کچھ کہنا نہیں ہے کہ کیسی ہے یا کیسی ہوگی؟ جس محبوب کا ذکر ہے وہ اپنے کمالات حسن سیرت اور بطلِ اسلام کے کارناموں کی حیثیت سے نہایت عظیم الشان ہے اس لئے اس کا ذکر کسی رنگ میں بھی ہو وہ اپنے اندر ایک خوبصورتی اور دلچسپی رکھتا ہے تاہم حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۷ء کے سالانہ جلسہ پر اس کے متعلق فرمایا کہ یہ کتاب ہر احمدی کے گھر میں خواندہ ہو یا نا خواندہ ہونی چاہیئے“ اب ہر احمدی اپنے نفس کا خود محاسبہ کر لے کہ اس نے اس پر کہاں تک عمل کیا ہے اور کیا اس کا گھر اس امانت کا امین ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تالیف سیرت المہدی کی روایت نمبر ۱۷۷صفحہ ۱۹۳ میں لکھا حیات النبی مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی.شیخ صاحب موصوف پرانے احمدی ہیں اور سلسلہ کے خاص آدمیوں میں سے ہیں مہاجر ہیں اور کئی سال حضرت کی صحبت اٹھائی ہے.ان کے اخبار الحکم میں سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح اور سیرت کا کافی ذخیرہ موجود ہے.شیخ صاحب کو شروع ہی سے تاریخ سلسلہ کے محفوظ اور جمع کرنے کا شوق ا ترجمہ:.ایک لمبے عرصہ تک اس مثنوی میں تاخیر ہوگئی.
حیات احمد ۲۶۴ جلد دوم حصہ سوم رہا ہے دراصل صرف حیات النبی (جس کا نام اب حیات احمد ہے.عرفانی ) وہ تصنیف ہے جو اس وقت تک حضرت مسیح موعود کے سوانح اور سیرت میں ایک مستقل اور مفصل تصنیف کے طور پر شروع کی گئی ہے.اس کی دو جلدیں (اب تو جلد اوّل مکمل اور جلد دوم کے دو نمبر شائع ہو چکے ہیں.عرفانی ) شائع ہو چکی ہیں اور قابلِ دید ہیں.“ (سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۱۸۱ صفحه ۱۹۴،۱۹۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) میری اس تالیف کو بعض عیسائی مؤلفین نے بھی بطور اساس قرار دیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ میری یہ خدمت پسند کی گئی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِك اس قدر تمہیدی بیان سے میرا مقصد یہ ہے کہ یہ تالیف نہایت اہم اور ضروری ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے محسن کے حالات زندگی کو اس زمانہ میں جو قلم اور اشاعت کا عہد ہے مکمل کرے میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس رَجُلِ عظیم کے متعدد سوانح حیات اور مختلف زبانوں میں شائع ہوں گے اور ہونے چاہئیں لیکن ہم اپنی زبان میں بھی تو ایک مکمل تالیف بطور اساس شائع کر دیں.میں اپنی ہمت اور استطاعت کے موافق اس سلسلہ میں کام کرتا آیا ہوں اور کرتا رہوں گا انشاء اللہ تعالیٰ جب تک ہاتھ میں قلم پکڑنے کی طاقت ہے کہا جا سکتا ہے کہ تم لکھ کر مکمل کر دو طباعت اپنے وقت پر ہو سکے گی.مگر میں اپنی عادت سے مجبور ہوں.میرا طریق تالیف جدا گانہ ہے.میں جب تک وہ ساتھ ساتھ شائع نہ ہو لکھ نہیں سکتا.اس میں شک نہیں بعض تالیفات میں نے ایسی بھی کی ہیں کہ ان کو مکمل لکھ دیا مگر وہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے ماتحت.ان میں سے ایک تو غایت المرام مصنفہ قاضی سلیمان صاحب پٹیالوی کا جواب ہے اور فوز الکبیر کا اردو ترجمہ اور بخاری کے کچھ پاروں کا ترجمہ اور نوٹس.صرف ونحو پر بھی ایک رسالہ مکمل لکھا تھا.جن کے متعلق میں نہیں کہہ سکتا کہ ان مسودات اور نہایت قیمتی مخطوطات اور میری لائبریری کا کیا حشر ہوا.بہر حال میں تو اس وقت ایک جوش اپنے قلب میں پاتا ہوں جبکہ اس کی طباعت و اشاعت کا
حیات احمد ۲۶۵ جلد دوم حصہ سوم انتظام ہو.میں احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس خصوص میں میرے ساتھ تعاون کریں اور اس تالیف کی تکمیل کے لئے چند سکوں سے مضائقہ نہ کریں میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ ہر اشاعت کو فور آلے لیں تاکہ سلسلہ برابر جاری رہے.اس نمبر میں میں چاہتا ہوں کہ ۱۸۸۴ء سے لے کر ۱۸۸۹ء کے یوم البیعت تک کے واقعات آجاویں اور پھر سلسلہ کا عہد جدید شروع ہوتا ہے میں تو ایک بے حد کمزور انسان ہوں میرے وسائل انتہائی محدود اور عمر کا وہ حصہ کہ ہر سانس قبر کے قریب کر رہا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ تمام قوتوں کا سر چشمہ ہے وہ ہر قسم کے وسائل ایک حُسن سے پیدا کر دیتا ہے میں اس پر بھروسہ کر کے اسی کے نام کو لے کر پھر اپنے محسن و آقا کے ذکر حبیب کو شروع کرتا ہوں اور اپنے مولیٰ کو مخاطب کر کے پکارتا ہوں.آغاز کرده ام تو رسانی به انتها خاکسار یعقوب علی عرفانی الكبير سکندر آباد یکم اگست ۱۹۵۰ء
حیات احمد ۲۶۶ جلد دوم حصہ سوم ۱۸۸۴ء کے واقعات ۱۸۸۴ء کا سال سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے ایک دور جدید کا سال ہے.یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا ہر نیا دن نئی برکات کو لے کر آتا تھا اور ایک بہت بڑے انقلاب کو قریب کر رہا تھا مگر ۱۸۸۴ء میں ایک حیرت انگیز انقلاب آپ کی زندگی میں واقع ہوا.اس وقت تک آپ یہ تو جانتے تھے اور خدا تعالیٰ کی متواتر وحی وارشادات کی بنا پر جانتے تھے اور بعض دوستوں کو بھی اس سے مطلع کر چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لئے مامور فرمایا ہے.اس ماموریت کی شان کے متعلق بھی آپ نے ان مکتوبات میں جو بعض دوستوں کے نام لکھے.صاف صاف بتایا کہ وہ علیٰ منہاج نبوت ہے اور جب بھی بعض مشکلات اور مخالفین کی پیدا کردہ روکوں کا ذکر آیا تو آپ نے اسی رنگ میں ان کی تصریح کی کہ انبیاء علیہم السلام کو اس طرح پر مشکلات پیش آتی ہیں.غرض اپنی ماموریت کے شعور اور اعلان کے ساتھ آپ اتنا ہی سمجھتے تھے کہ تائید دین کے لئے آپ کتاب براہین احمدیہ لکھ رہے ہیں لیکن جبکہ ابھی چوتھی جلد مطبع میں ہی تھی اور یہ ۱۸۸۴ ء ہی کا واقعہ ہے تو خود براہین احمدیہ کے متعلق ہی ایک نیا امر پیش آ گیا ابتدا میں جو خیال تھا وہ جاتا رہا چنانچہ آپ نے چوتھی جلد کے آخر میں ” ہم اور ہماری کتاب“ کے عنوان سے لکھا کہ ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اس کے قدرت الہیہ کی ناگہانی تحتی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی
حیات احمد ۲۶۷ جلد دوم حصہ سوم طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے انسی أَنَا رَبُّكَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی ی تھی.سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتم ظاہر و باطنا حضرت رب العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے.‘الآخرہ ( براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۷۳) اس اعلان کے بعد براہین احمدیہ کی طباعت و اشاعت کا کام بظاہر معرض التوا میں آ گیا اور سلسلہ تصانیف کا ایک دوسرا رنگ شروع ہو گیا.پھر اس سال کے واقعات میں وہ عظیم الشان اور انقلاب آفریں واقعہ ہے جو آپ کی دوسری شادی کا واقعہ ہے.میں تفصیل سے آگے چل کر بیان کروں گا.ایک عرصہ دراز سے آپ ایسی زندگی بسر کر رہے تھے جو گویا تجرد کی زندگی تھی لیکن چونکہ بشارت الهیه نے متواتر اور پے در پے ایک دوسری شادی کا وعدہ دیا اور آپ ہی حضرت احدیت نے اس کے تکفل کا وعدہ فرمایا اس لئے وہ تقریب پیدا ہو گئی.انقلاب آفریں میں اس لئے کہتا ہوں کہ اسی شادی سے وہ عظیم الشان وجود دنیا میں آنے والا تھا جو الہامات الهیه میں اولوالعزم اور مصلح موعود اور محمود فضل عمر کہلایا اور بعض دوسرے موعود بچے پیدا ہونے کی بشارتیں ملیں جو بطور آیات و نشانات کے ہیں.پھر اسی سال اس سفر کی تکمیل ہوئی جو لو دھانہ کا سفر تھا جس کے لئے آپ ۱۸۸۳ء سے مجبور کئے جارہے تھے.اور اس کے تفصیلی حالات میں اوپر دے آیا ہوں.اب میں تفصیل کے ساتھ اس سال کے واقعات اور حالات کو پیش کرتا ہوں.وبِاللهِ التَّوْفِيقِ
حیات احمد ۲۶۸ دعوی مجدد کا عام اعلان جلد دوم حصہ سوم اگر چہ حضرت نے براہین احمدیہ کی تالیف واشاعت کے لئے جو اعلان شائع کیا تھا اس میں یہ صاف لکھا تھا کہ ” خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے لیکن با ایں عام طور پر اس دعوئی کے متعلق زور نہیں دیا گیا تھا نہ اس لئے کہ آپ کو نعوذ باللہ اس میں کچھ شک تھا بلکہ اس لئے کہ آپ کی توجہ اس وقت براہین احمدیہ کی تالیف و اشاعت کی طرف تھی لیکن جب رفتہ رفتہ آپ کے دعوی کا چرچا ہونے لگا تو بعض لوگوں نے کھلم کھلا آپ سے دعوئی مجددیت کے متعلق سوالات شروع کر دیئے.اس قسم کے سائلین میں سے ایک حاجی ولی اللہ صاحب ریاست کپورتھلہ کے ایک معزز عہدہ دار تھے یہ وہی بزرگ ہیں جن کے نام پھگواڑہ کے قریب حاجی پور نام ایک گاؤں آباد ہے اور آپ ہمارے مخلص اور باصفا بھائی منشی حبیب الرحمان صاحب رضی اللہ عنہ کے عزیزوں میں سے تھے.انہوں نے حضرت کی خدمت میں آپ کے دعوئی مجددیت کے متعلق خطوط لکھے جن میں آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ شریعت میں مجدد ہیں یا طریقت میں اور تجدید سے کیا مراد ہے اور قرآن مجید سے مجدد کا کیا ثبوت ہے.اس مجد دکو پہلوں پر کوئی فضلیت ہے یا نہیں اور کیا آپ مجد دالف ثانی کے پیرو ہیں وغیرہ.اسی قسم کے سوالات تھے آپ نے اُن کے سوالات کے جواب میں حاجی صاحب کو ایک مکتوب لکھا (جس کو ذیل میں درج کرتا ہوں ) اس مکتوب سے قارئین کرام کو معلوم ہو جائے گا کہ (۱) آپ کی تجدید کی نوعیت کیا ہے (۲) مجددیت کے دعوی کا کھلا کھلا اعلان (۳) اپنی فضلیت کا مسئلہ.علاوہ بریں یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح نمایاں ہے کہ شروع ہی سے آپ کا اپنی ماموریت کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ ”آپ علی منہاج نبوت مامور ہیں.“
حیات احمد ۲۶۹ جلد دوم حصہ سوم چنانچہ جب کوئی سوال اس قسم کا پیدا ہوا تو آپ نے اس کا جواب اسی اصول پر دیا ہے جو نبیوں وو کا طریق ہے.ایک مرتبہ میر عباس علی صاحب نے بعض مشکلات اور مخالفتوں کا ذکر کیا تو فرمایا:.آپ جانتے ہیں کہ ہر ایک امر خداوند کریم کے ہاتھ میں ہے کسی کی فضول گوئی سے کچھ بگڑتا نہیں اسی طرح پر عادت اللہ جاری ہے کہ ہر ایک مہم عظیم کے مقابلہ پر کچھ معاند ہوتے چلے آئے ہیں.خدا کے نبی اور اُن کے تابعین قدیم سے ستائے گئے ہیں.سو ہم لوگ کیونکر سنت اللہ سے الگ رہ سکتے ہیں.وہ ایڈا کی باتیں جو مجھ پر ظاہر کی جاتی ہیں ہنوز اُن میں سے کچھ بھی نہیں.“ آن مکتوب مورخه ۱۲ / جون ۱۸۸۳ء مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحه ۲۳ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۳۳ مطبوعه ۲۰۰۸ء) غرض آپ ایک غیر متزلزل یقین کے ساتھ اپنی بعثت کے متعلق اعلان کرتے آئے ہیں کہ اور آپ کے خدام کو اسی قسم کے واقعات اور حالات پیش آنے والے ہیں جو انبیاء علیہم السلام اور آپ کے متبعین کو پیش آتے ہیں اس دعوی میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ زمانہ کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے آپ کے مقام اور مدارج کی حقیقت کھلتی گئی اس دعوئی میں قوت اور شوکت پیدا ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا کہ آپ نے صاف صاف کہہ دیا کہ :.” خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے“ غرض حاجی ولی اللہ صاحب کے سوالات نے ایک حقیقت کا اظہار کرا دیا.اگر چہ خود حاجی صاحب کو اس نعمت اور فضل کے قبول کرنے کی توفیق نہ ملی بلکہ اُن کو براہین کے التوائے اشاعت سے بعض شکوک اور شبہات پیدا ہوئے اور انہوں نے بعض ناملائم الفاظ بھی اپنے مکتوب میں لکھے.حضرت اقدس نے اُن کو اُن کے اُن خطوط کا بھی ایسا جواب دیا کہ جو ایک سلیم الفطرت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کسی دوسرے موقعہ پر اس کا ذکر آتا ہے.یہاں مجھے یہی بیان کرنا ہے کہ حاجی صاحب تو محروم رہے مگر ان کے بعض عزیز اور رشتہ دار جیسے حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ
حیات احمد ۲۷۰ جلد دوم حصہ سوم سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ایسے داخل ہوئے کہ حضور کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن سے اور اُن کے دوسرے رفقاء سے اپنے ساتھ جنت میں ہونے کا وعدہ دیا.بہر حال وہ مکتوب یہ ہے:.مخدومی مکر می اخویم سلَّمہ اللہ.بعد سلام مسنون - آن مخدوم کا دوبارہ عنایت نامہ پہنچا.اس عاجز کو اگر چہ باعث علالت طبع طاقت تحریر جواب نہیں لیکن آنمخدوم کی تاکید دوبارہ کی وجہ سے کچھ بطورا جمال عرض کیا جاتا ہے.(۱) یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدد ہے.(۲) تجدید کے یہ معنی نہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے.اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنی ہیں کہ جو عقائد حقہ میں فتور آگیا ہے اور طرح طرح کے زواید ان کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں سُستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طریق اور قواعد محفوظ نہیں رہے ان کو مجد دا تاکید بالاصل بیان کیا جائے وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى : اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ دل مر جاتے ہیں اور محبت الہیہ دلوں سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ذوق اور شوق اور حضور اور خضوع نمازوں میں نہیں رہتا اور اکثر لوگ رو بدنیا ہو جاتے ہیں اور علماء میں نفسانیت اور فقراء میں عجب اور پست ہمتی اور انواع و اقسام کی بدعات پیدا ہو جاتی ہیں تو ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ صاحب قوت قدسیہ کو پیدا کرتا ہے اور وہ حجتہ اللہ ہوتا ہے اور بہتوں کے دلوں کو خدا کی طرف کھینچتا ہے اور بہتوں پر اتمام حجت کرتا ہے یہ وسوسہ بالکل نکتا ہے کہ قرآن شریف و احادیث موجود ہیں پھر مجد د کی کیا ضرورت ہے یہ انہی لوگوں کے خیالات ہیں جنہوں نے کبھی غمخواری سے اپنے ایمان کی طرف نظر نہیں کی.اپنی حالت الحديد : ۱۸
حیات احمد ۲۷۱ جلد دوم حصہ سوم اسلامیہ کو نہیں جانچا.اپنے یقین کا اندازہ معلوم نہیں کیا.بلکہ اتفاقاً مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے اور پھر رسوم و عادات کے طور پر لا إِلهَ إِلَّا اللہ کہتے رہے حقیقی یقین اور ایمان بجز صحبت صادقین میسر نہیں آتا.قرآن شریف تو اس وقت بھی ہوگا جب قیامت آئے گی مگر وہ صدیق لوگ نہیں ہوں گے کہ جو کہ قرآن شریف کو سمجھتے تھے اور اپنی قوت قدسی سے مستعدین پر اس کا اثر ڈالتے تھے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.پس قیامت کے وجود کا مانع صرف صدیقوں کا وجود ہے.قرآن شریف خدا کی روحانی کتاب ہے اور صدیقوں کا وجود خدا کی ایک مجسم کتاب ہے جب تک یہ دونوں نمایاں انوار ایمانی ظاہر نہیں ہوتے تب تک انسان خدا تک نہیں پہنچتا فَتَدَبَّرُوْا وَتَفَكَّرُوْا.(۳) اس کا جواب جواب دوم میں آ گیا.(۴) قرآن شریف مجدد کی ضرورت بتلاتا ہے جیسے میں نے ابھی بیان کیا قال الله تَعَالَى - يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ..اور ایسا ہی حدیث نبوی بھی مجدد کی ضروت بتلاتی ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَة قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُلَهَا دِيْنَهَا رواہ ابو داؤد.اور اجماع سنت و جماعت بھی اس پر ہے.کیونکہ کوئی ایسا مومن نہیں کہ جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روگرداں ہو سکتا ہے اور قیاس بھی اسی کو چاہتا ہے کیونکہ جس حالت میں خدا تعالیٰ شریعت موسوی کی تجدید ہزار ہا نبیوں کے ذریعہ سے کرتا رہا ہے اور گو وہ صاحب کتاب نہ تھے مگر مجد دشریعت موسوی تھے اور یہ امت خیر الام ہے.قَالَ اللهُ تَعَالَى كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس امت کو خدا تعالیٰ بالکل گوشہ خاطر عاطر سے فرمواش کر دے اور باوجود صد ہا خرابیوں کے جو مسلمانوں کی حالت پر غالب ہوگئی ہیں اور اسلام پر - لى الواقعة ٨٠ الحديد ۱۸: الحجر :10: 2 سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر في قدر قرن المأة هي ال عمران: 111
حیات احمد ۲۷۲ جلد دوم حصہ سوم بیرونی حملے ہورہے ہیں نظر اٹھا کر نہ دیکھے جو کچھ آج کل اسلام کی حالت خفیف ہو رہی ہے کسی عاقل پر مخفی نہیں.یعنی تعلیم یافتہ حقائق حقہ سے دست بردار ہوتے جاتے ہیں.پرانے مسلمانوں میں صرف یہودیوں کی طرح ظاہر پرستی یا قبر پرستی رہ گئی ہے.ٹھیک ٹھیک رو بخدا کتنے ہیں ، کہاں ہیں اور کدھر ہیں.ہر ایک صدی میں کوئی نامی مجد د پیدا ہونا ضروری نہیں.نامی گرامی مجد دصرف اُسی صدی کے لئے پیدا ہوتا ہے جس میں سخت ضلالت پھیلتی ہے جیسے آج کل ہے.(۵) پانچواں سوال میں آپ کا سمجھا نہیں.مجھ سے اچھی طرح پڑھا نہیں گیا.(۶) حضرت مجد دالف ثانی اپنے مکتوب میں آپ ہی فرماتے ہیں کہ جولوگ میرے بعد آنے والے ہیں جن پر حضرت احدیت کی خاص عنایات ہیں.اُن سے افضل نہیں ہوں.اور نہ وہ میرے پیرو ہیں.سو یہ عاجز بیان کرتا ہے نہ فخر کے طریق پر بلکہ واقعی طور پر شُكْرًا نِعْمَةِ اللهِ کہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ نے ان بہتوں پر افضلیت بخشی ہے کہ جو حضرت مجد د صاحب سے بھی بہتر ہیں اور مراتب اولیاء سے بڑھ کر نبیوں سے مشابہت دی ہے سو یہ عاجز مجد دصاحب کا پیرو نہیں ہے بلکہ براہِ راست اپنے نبی کریم کا پیرو ہے اور جیسا سمجھا گیا ہے.بدلی یقین سمجھتا ہے کہ ان سے اور ایسا ہی ان بہتوں سے کہ جو گزرچکے ہیں افضل ہے.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ (۷) خدا تعالیٰ کے کلام میں مجھ سے یہ محاورہ نہیں ہے مجھ کو حضرت خداوند کریم محض اپنے فضل سے صدیق کے لفظ سے یاد کرتا ہے اور نیز دوسرے ایسے لفظوں سے جن کے سننے کی آپ کو برداشت نہیں ہو گی اور حضرت خداوند کریم نے مجھ کو اس خطاب سے معزز فرما کر إِنِّي فَضَّلْتُكَ عَلَى الْعَالَمِيْنَ قُلْ أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ أَجْمَعِيْنَ یہ بات بخوبی کھول دی ہے کہ اس ناکارہ کو تمام عالمین تمام روئے زمین کے
حیات احمد ۲۷۳ جلد دوم حصہ سوم باشندوں پر فضلیت بخشی گئی ہے.پس سوال ہفتم کے جواب میں اسی قدر کافی ہے.(۸) اس ناکارہ کے والد محترم کا نام غلام مرتضی تھا وہی جو حکیم حاذق تھے اور دنیوی وضع پر اس ملک کے گرد و نواح میں مشہور بھی تھے.وَالسَّلَامُ عَلى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى 66 (۳۰ / دسمبر ۱۸۸۴ء مکتوبات احمد جلد اول صفحہ ۳۹۶ تا ۳۹۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اس سال کے واقعات کے لحاظ سے شائد میں اسے سب سے پیچھے ذکر کرتا مگر میں نے ایک خاص مقصد سے اسے مقدم کر لیا دعوئی مجددیت کا کھلا کھلا اعلان آپ نے اسی سال ۱۸۸۴ء میں کیا اور جب لوگوں نے مختلف قسم کے سوالات کئے تو آپ نے اپنے مقام اور منصب کا بھی اظہار کر دیا جیسا کہ اس مکتوب سے ظاہر ہے کہ حاجی ولی اللہ صاحب کو ابتداء حضرت اقدس سے کچھ اخلاص تھا اور وہ براہین احمدیہ کے خریدار بھی تھے لیکن جب براہین کی چوتھی جلد کی اشاعت کے ساتھ اس کی آئندہ اشاعت ایک غیر معین عرصہ کے لئے معرض التوا میں آئی تو جن لوگوں کو شکوک و شبہات شروع ہوئے ان میں ایک حاجی ولی اللہ صاحب بھی تھے.وہ ریاست کپورتھلہ میں ایک معزز عہدہ دار تھے اور اپنی حکومت اور امارت کا بھی ایک نشہ تھا حضرت کو انہوں نے ایک خط لکھا جس میں براہین احمدیہ کے التوائے اشاعت کی وجہ سے وعدہ شکنی وغیرہ کے الزامات لگائے گئے مگر حضرت نے اُن کے مکتوب کو تو حوصلہ اور برداشت سے پڑھا لیکن خیانت اور بددیانتی کا الزام چونکہ محض اتہام تھا.آپ نے اس کا نہایت دندان شکن جوابے ایسے رنگ میں دیا جو صرف مخدومی مکرمی اخویم حاجی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.بعد سلام مسنون.آج مدت کے بعد عنایت نامہ پہنچا.آپ نے جس قدر اپنے عنایت نامہ میں اس احقر عباد اللہ کی نسبت اپنے بزرگا نہ ارشادات سے بدنیتی.ناراستی اور خراب باطنی اور وعدہ شکنی اور انحراف از کعبہ ء حقیقت وغیرہ وغیرہ الفاظ استعمال کئے ہیں.میں ان سے ناراض نہیں ہو سکتا.کیونکہ اول تو 8 وو ہر چہ از دوست می رسد نیکوس ترجمہ.دوست جو بھی سلوک کرے اچھا ہی کرے گا.
حیات احمد ۲۷۴ جلد دوم حصہ سوم خدا تعالیٰ کے مامورین و مرسلین کا خاصہ ہے.آخر حاجی صاحب براہین کے متعلق اعترضات کرنے سے تو باز آگئے اور انہوں نے حضرت سے اپنے دعوی کے متعلق سوالات کئے جن کا جواب او پر دیا گیا ہے.لیکن اس کے بعد ان کے تعلقات کم ہوتے گئے اور خدا تعالیٰ نے اُن کی جگہ ایک نہایت مضبوط اور مخلصین کی جماعت حضرت کو دے دی اور یہ کپورتھلہ کی جماعت ہے جن میں خود ان کے بعض عزیز اور رشتہ دار بھی تھے اور ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ ابتداء جبکہ حضرت نے کوئی دعوی نہ کیا تھا براہین ہی کو دیکھ کر حاجی صاحب خود لوگوں پر ظاہر کیا کرتے تھے کہ یہ مجد د ہیں.چنانچہ منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ حاجی صاحب ۳۸ہ یا ۳۹ہ بکرمی میں قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں تشریف لے گئے تھے اُس وقت اُن کے پاس براہین احمدیہ تھی وہ حاجی صاحب سنایا کرتے تھے اور بہت سے آدمی جمع ہو جایا کرتے تھے مختلف لوگوں اور مجھ سے بھی سنا کرتے تھے اور حاجی صاحب لوگوں پر یہ ظاہر فرماتے تھے کہ یہ مجد د ہیں.حاجی صاحب کو جو مصیبت پیش آئی وہ کسی مخفی معصیت از فقسم کبر وغیرہ یا اعتراض کے نتیجہ بقیہ حاشیہ:.ماسوا اس کے اگر خداوند کریم و رحیم ایسا ہی بُرا انجام کرے جیسا کہ آپ نے سمجھا ہے تو میں اس سے بدتر ہوں اور درشت تر الفاظ کا مستحق ہوں.رہی یہ بات کہ میں نے آپ سے کوئی وعدہ خلافی کی ہے یا میں کسی عہد شکنی کا مرتکب ہوا ہوں.تو اس وہم کا جواب زیادہ تر توجہ سے خود آپ ہی معلوم کر سکتے ہیں.جس روز چھپے ہوئے پر دے کھلیں گے اور جس روز حُصلَ مَا فِي الصُّدُورِ کا عملدر آمد ہوگا اور بہت سے بدظن اپنی جانوں کو رویا کریں گے اور اس روز کا اندیشہ ہر ایک جلد باز کو لازم ہے.یہ سیچ ہے کہ براہین احمدیہ کی طبع میں میری امید اور اندازے سے زیادہ تو قف ہو گیا مگر اس توقف کا نام عہد شکنی نہیں میں فی الحقیقت مامور ہوں.اور درمیانی کارروائیاں جو الہی مصلحت نے پیش کر دیں دراصل وہی توقف کا موجب ہو گئیں.جن لوگوں کو دین کی غمخواری نہیں وہ کیا جانتے ہیں کہ اس عرصہ میں کیا کیا عمدہ کام اس براہین کی تکمیل کے لئے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کے لئے کیا کیا سامان میسر کئے.آپ نے سنا ہوگا کہ قرآن شریف کئی برسوں میں نازل ہوا تھا.کیا وہ ایک دن میں نازل نہیں ہوسکتا.آپ کو اگر معلوم نہ ہو تو کسی باخبر سے دریافت کر سکتے ہیں کہ اس عرصہ میں یہ عاجز بیکا رر ہا یا بڑا بھاری العاديات ال
حیات احمد ۲۷۵ جلد دوم حصہ سوم میں آئی جو براہین کے التوا پر کیا تھا.جن ایام میں ان کے اندر مخالفت یا انکار کے کیڑے ابھی پیدا نہ ہوئے تھے انہیں ایام میں خدا تعالیٰ مخلصین کی اس جماعت کو تیار کر رہا تھا.جیسا کہ منشی ظفر احمد صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو انہیں دنوں بڑی عقیدت پیدا ہو گئی تھی.جب حاجی صاحب سراوہ گئے تھے اور منشی صاحب براہین سنایا کرتے تھے لیکن ۱۹۴۱ بکرمی (۱۸۸۴ء) وہ کپورتھلہ آگئے تو براہین کا با قاعدہ درس انہوں نے شروع کر دیا اور یہی جماعت صالحین پیدا ہونے کا ذریعہ ہو گیا ادھر ۱۸۸۴ء کے آخر تک حاجی صاحب نے قریباً قطع تعلق کر لیا اور خدا کے فضل سے ان کی جگہ مخلصین کی ایسی جماعت پیدا کر دی جو اپنے اخلاص و وفا میں بے نظیر ثابت ہوئی.اب میں حاجی صاحب کو چھوڑ کر ۱۸۸۴ء کے واقعات کو ایسی ترتیب اور اسلوب سے بیان کرنے کی خدا کے فضل سے کوشش کرتا ہوں کہ جدا گانہ ڈائری یا الہامات و کشوف کے الگ باب قائم کرنے کی ضرورت نہ رہے اور اس مقصد کے لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ہر مہینے کے واقعات جمع کرنے کی کوشش کروں اور اگر کوئی واقعہ ایسا ہے کہ وہ کئی ماہ تک برابر چلا گیا ہے تو اس کو یکجائی طور پر بیان کر دیا جاوے.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ بقیه حاشیہ: سامان اتمام حجت کا جمع کرتا رہا.تمہیں ہزار سے زیادہ اشتہارات اردو، انگریزی میں تقسیم ہوئے ہیں ہزار سے زیادہ خطوط میں نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر مختلف مقامات میں روانہ کئے.ایک عقلمند اندازہ کر سکتا ہے کہ علاوہ جد وجہد اور محنت اور عرق ریزی کے کیا کچھ مصارف ان کارروائیوں میں ہوئے ہوں گے.ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے بد باطن اور نیک باطن کو خوب جانتا ہے.وَإِنْ يَّكَ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ گذبہ لے اور اگر بقول آپ کے میں خراب اندروں ہوں اور کعبہ کو چھوڑ کر بتخانہ کو جارہاہوں تو وہ عالم الغیب ہے آپ سے بہتر مجھے جانتا ہو گا.لیکن اگر حال ایسا نہیں ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ روز مطالبہ اس بدظنی کا کیا جواب دس گے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَك كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - ۲۳ / دسمبر ۱۸۸۴ء مکتوبات احمدیہ جلد ششم صفحہ ۷، ۸ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۳۹۵،۳۹۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حاشیہ.آخر میں حاجی صاحب نے معذرت کر لی تھی.(دیکھئے مکتوبات احمد یہ جلد ششم (عرفانی) ل المؤمن : ٢٩ ک بنی اسرائیل: ۳۷
حیات احمد ۲۷۶ جنوری و فروری ۱۸۸۴ء جلد دوم حصہ سوم ۱۸۸۴ء کا آغاز جہاں بہت سی برکات اور فضلوں کے ظہور اور آئندہ کی نعمتوں کے مبشر وعدوں پر مشتمل الہامات سے ہوا.اس کے ساتھ ہی مخالفت کے ایک بے پناہ طوفان میں بھی ایک نئی تحریک پیدا ہو رہی تھی.جوں جوں قبولیت بڑھ رہی تھی ویسے ہی مخالفین حسد کی آگ میں جل کر مشتعل ہو رہے تھے.براہین کی چوتھی جلد طبع ہو رہی تھی اور حضرت کو اس کی تکمیل کا بہت خیال تھا آپ چاہتے تھے کہ جلد سے جلد وہ شائع ہو جاوے اس کے لئے بار ہا پا پیادہ بھی تشریف لے جاتے تھے اس لئے کہ آپ ہی مسودہ پر نظر ثانی فرماتے کا پیاں پڑھتے اور پھر پروف دیکھتے مطبع والوں کی بے اعتنائیاں اور وعدہ خلافیاں الگ موجب تکلیف ہوتی تھیں آپ اس وقت اسی جہاد عظیم میں مصروف تھے منکرین اسلام کے اعتراضات کو الگ مد نظر رکھتے تھے یہ امر براہین احمدیہ کے حواشی کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دورانِ طباعت میں بھی اگر کوئی اعتراض کسی اخبار یا رسالہ میں وہ عیسائیوں کا ہو یا آریوں اور برہموؤس کا نظر سے گزرا تو آپ نے اس کے ازالہ کے لئے ایسا علمی حملہ کیا کہ دشمن کا کچھ باقی رہنے نہیں دیا.چنانچہ پادری عمادالدین پانی پتی کے اعتراضات (جو اس نے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پر کئے تھے ) کا جواب دیا.یا پادری ٹھا کر داس کی عدم ضرورت قرآن پر آپ نے بحث فرمائی یا پنڈت دیانند اور پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کے لے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پادری عمادالدین امرتسری کے اس اعتراض کا ذکر اور جواب براہین احمدیہ جلد چہارم میں سورہ فاتحہ کی تفسیر میں دیا ہے جو کتاب مذکور کے حاشیہ نمبر 1 میں درج ہے.پادری عماد الدین کی نقل کر کے باوا نارائن سنگھ وکیل امرتسر نے اپنے رسالہ ودیا پر گا شک میں اُس کو ہرایا چنانچہ آپ فرماتے ہیں ” اس جگہ بعض کو تاہ اندیش اور نادان دشمنوں نے ایک اعتراض بھی بسم اللہ کی بلاغت پر کیا ہے ان معترضین میں ایک صاحب تو پادری عمادالدین نامی ہیں جس نے اپنی کتاب هِدَايَتُ الْمُسْلِمِيْن میں اعتراض کیا ہے، دوسرے صاحب باوا نارائن سنگھ نامی وکیل امرتسری ہیں جنہوں نے پادری کے اعتراض کو سچ سمجھ کر اپنے دلی عناد کے تقاضہ کی وجہ سے وہی پوج اعتراض اپنے رسالہ ودیا پر کا شک میں درج کر دیا ہے.“ براہین احمدیہ کے اس حاشیہ میں بڑی شرح وبسط سے اس پر بحث کی گئی ہے.(عرفانی)
حیات احمد ۲۷۷ جلد دوم حصہ سوم اعتراضات سامنے آئے تو سب کا قلع قمع کر دیا.اس وقت کا نظارہ قابل دید ہے کہ یہ پہلوان حضرتِ رب جلیل چاروں طرف سے دشمنان اسلام میں گھرا ہوا ہے اور ہر شخص کے حملہ کا جواب ایسی قوت اور ا دلیری کے ساتھ دیتا ہے کہ ان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور وہ میدان سے بھاگ جاتے ہیں اور واقعات شہادت دیتے ہیں.چہ ہیبت با بدادند ایں جواں رائے که نائد کس بميدان مــحــمــد مالی مشکلات اور قبول دعا ایک طرف یہ حملے اور ان کا دفاع اور دوسری طرف براہین احمدیہ کی طباعت کے سلسلہ میں مالی مشکلات لیکن خدا تعالیٰ ہر میدان میں آپ کی مدد فرماتا ہے اور جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا تھا آپ کی دعاؤں کو سنتا اور غیب سے ایسے آدمی پیدا کر دیتا ہے جو آمادہ ہو جاتے ہیں گویا آسمان سے فرشتے اُن پر وحی کرتے ہیں.اور جو شخص ان حالات کا مطالعہ کرے گا اُسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ انسانی تجویز اور دانش کا کام نہیں بلکہ سراسر ربانی نصرت کام کرتی ہے.الہام الہی ان مشکلات کے ضمن میں پچاس روپے کی سخت ضرورت پیش آئی اور بظاہر اس کے لئے کوئی سامان نہ تھا یہ جنوری کی پہلی یا دوسری ہی تاریخ کا واقعہ ہے.بعض لوگوں کے سخت تقاضے تھے.آپ کے پاس بجز دعا کے کوئی حربہ تھا نہیں اور آپ اس بات پر اپنے تجربہ کی بناء پر یقین رکھتے تھے کہ جنگل میں دعا کرنے کا اچھا موقعہ ہوتا ہے اور وہ قبولیت کو جلد حاصل کرتی ہے اس خیال سے آپ نہر کی طرف جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف ہے تشریف لے گئے اور ایک خلوت کا مقام تجویز کر کے آپ نے وہاں دعا کی اور اور ۳ / جنوری ۱۸۸۴ء کو الہام ہوا.لے ترجمہ:.اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد کے میدان میں کوئی بھی مقابلہ پر ) نہیں آتا.
حیات احمد ۲۷۸ محسن قبولی دعا نگر کہ چہ زود دعا قبول سے کم لے جلد دوم حصہ سوم جنوری ۱۸۸۴ء کو الہام ہوا اور ۶ / جنوری ۱۸۸۴ء کو لودہانہ سے میر عباس علی صاحب کا منی آرڈر وصول ہو گیا چنانچہ حضرت اقدس نے ۷ / جنوری ۱۸۸۴ء کو جو خط میر صاحب کو لکھا اس میں صفائی کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا ہے حضرت کا مشرب سلوک اور اس کی تائید میں کشف انہیں ایام اوائل جنوری ۱۸۸۴ء میں آپ نے ایک کشف یا رویا دیکھا جس میں آپ کی روحانی تربیت اور مشرب کی حقیقت بیان کی گئی ہے حضرت نے کتاب البریہ میں اپنے حالات لکھتے ہوئے ایک خاص امر کا تذکرہ فرمایا ہے جو آپ کی روحانی تربیت اور سلوک کے متعلق ہے.آپ فرماتے ہیں.ایک طرف ان کا (حضرت والد صاحب) دنیا سے اٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زور وشور سے سلسلہ مکالماتِ الہیہ کا مجھ سے شروع ہوا.میں کچھ بیان نہیں کر سکتا کہ میرا کونسا عمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الہی شامل حال ہوئی صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطرتا میرے دل کو خدا تعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے رک نہیں سکتی سو یہ اُسی کی عنایت ہے.میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح لے ترجمہ.دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں.کے حاشیہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کو اپنے نشانات کے ذیل میں یوں تحریر فرمایا ہے کہ ایک دفعہ ہمیں اتفاقا پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل فقر اور تو کل پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کو یہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دعا کریں.پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جا کہ اس نہر کے کنارہ پر دعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے جب ہم دعا کر چکے تو دعا
حیات احمد ۲۷۹ جلد دوم حصہ سوم مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا اور جو انواع اقسام 66 کے بدعات میں مبتلا ہیں.“ کتاب البرتیہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۵ تا ۱۹۷ حاشیه ) ایسا ہی متعدد مرتبہ آپ نے اس حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ آپ کی تربیت روحانی کا رنگ دوسرا ہے جو معروف صوفیوں کے طریق سے بالکل نرالا ہے.آپ کے اس مشرب کی حقیقت خدا تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ ظاہر فرمائی جس کے بیان کرنے کے لئے مجھے اس کی صراحت کی ضرورت پیش آئی.حضرت شروع سے اس امر کو بیان کرتے رہے کہ آپ کا طریق بالکل منہاج نبوت پر ہے گواس کو دوسرے الفاظ میں اور کبھی صراحتا ادا کرتے رہے ہوں.چنانچہ اس کشف کو لکھتے وقت جو آپ نے ے جنوری ۱۸۸۴ء مطابق سے ربیع الاول ۱۳۰۱ھ کو میر عباس علی صاحب کو تحریر فرمایا.”انسان کو بغیر راستگوئی چارہ نہیں اور انسان سے خدا تعالیٰ ایسی کوئی بات پسند نہیں کرتا جیسے اُس کی راست گوئی.اور راست یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس عاجز سے ایک عجیب معاملہ ہے کہ اس جیسے شخص پر اُس کا تفضل اور احسان ہے کہ اپنی ذاتی حالت میں احقر اور ارزلِ عباد ہے.زُہد سے خالی اور عبادت سے عاری اور معاصی سے پُر ہے.سو اُس کے تفضلات تحیر انگیز ہیں.خدا تعالیٰ کا بقیہ حاشیہ: کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں تب ہم خوش ہو کر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رخ کیا تا کہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپے لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباً وہ روپیہ اسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا.“ نزول المسیح صفر یم ۲۳.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۱۲) مکتوب اسمی عباس علی صاحب میں اصل الہام جو میں نے متن میں لکھ دیا ہے تحریر فرمایا ہے اور الہام کی تاریخ ۳/ جنوری ۱۸۸۴ء اور اس کے پورا ہونے کی تاریخ ۶ / جنوری ۱۸۸۴ء ہے گویا اسی روز روپیہ وہاں سے روانہ ہو چکا تھا.(عرفانی)
حیات احمد ۲۸۰ جلد دوم حصہ سوم معاملہ اپنے بندوں سے طرز واحد پر نہیں اور تو جہات اور اقبال اور فتوح حضرت احدیت کی کوئی ایک راہ خاص نہیں.اگر چہ طرق مشہورہ ریاضات اور عبادات اور زہد اور تقویٰ ہے مگر ما سوا اس کے ایک اور طریق ہے جس کی خدا تعالیٰ کبھی کبھی آپ بنیاد ڈالتا ہے.کچھ دن گزرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا.اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمع زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزون اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قُعُود اور سُجو د اور شُهُود وغیرہ آتا ہے جیسے یہ مصرع تمام شب گزرانیم در قیام و سجودلی چند زاہدین اور عابدین ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھتے ہیں.پھر اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی.اور جو شعر اُس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہو گیا اور وہ یہ ہے.طریق زہد و تعبد ندانم اے زاہد خدائے من قدمم راند براہِ داؤد سوچ ہے کہ یہ نا چیز زہد اور تعبد سے خالی ہے اور بجز بجز و نیستی اور کچھ اپنے دامن میں نہیں اور وہ بھی خدا کے فضل سے نہ اپنے زور سے.جولوگ تلاش کرتے ہیں 66 وہ اکثر زاہدین اور عابدین کو تلاش کرتے ہیں.اور یہ بات اس جگہ نہیں.“ مکتوبات احمد یہ جلد اصفحہ ۷۱ ۷۲.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۸۷،۵۸۶ مطبوعه ۲۰۰۸ء) پھر ۱۸ / جنوری ۱۸۸۴ء کو بھی ایک مکتوب میں (جبکہ لودہانہ سے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں آنا چاہتے تھے ) تحریر فرمایا کہ لے ترجمہ.میں نے تمام رات قیام و سجود میں گزاری ہے.کے ترجمہ.اے زاہد ! میں ریا کارانہ زہد و طاعت کے طریق کو نہیں جانتا کیونکہ میرے خدا نے میرا قدم داؤد کے راستے پر ڈالا ہے.
حیات احمد وو ۲۸۱ جلد دوم حصہ سوم یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ اُن کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ ان کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دور ہے.سَيَفْعَلُ اللهُ مَا يَشَاءُ اگر خدا نے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایماء سے اجازت فرما دے.ہر ایک کو اُس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پردہ غیب میں مخفی ہے اُس کے ظہور کے منتظر رہیں.مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۷۳.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۸۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۴ء کا آغاز خدا تعالیٰ کی نئی برکات اور تازہ نشانات سے شروع ہوا.قبولیت بڑھ رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی دشمنوں کے دل میں آتش حسد و مخالفت بھی بھڑک رہی تھی خصوصاً علماء اور ہانہ سخت مخالفت پر آماد ہو چکے تھے (اس کا ذکر چونکہ پہلے ہو چکا ہے اب اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ) مگر حضرت اقدس ایک کامل سکون اور پورے استقلال اور ثبات قدم سے نہ صرف خود بلکہ اپنے مخلص احباب کو بھی تسلی دے رہے تھے کہ اس قسم کی مخالفتوں سے کچھ بگڑ نہیں سکتا ایک امر جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے نہایت قابل غور ہے کہ آپ نے جیسے اپنے طریق و مشرب کو عام صوفیوں سے الگ اور جدا گانہ بتایا اور اس کے متعلق یہ ظاہر کیا کہ یہ وہ طریق ہے جس کی خدا تعالیٰ آپ کبھی کبھی بنیاد ڈالتا ہے.اسی طرح جب آپ کی مخالفت کا ذکر آیا اور بعض مخلصین نے گھبرا کر لکھا کہ مخالفت شدید ہو رہی ہے تو آپ نے ان کو تسلی اور سکینت کے خطوط لکھے تو اس میں بھی انبیاء علیہم السلام کے طرز پر ہی جواب دیا چنانچہ میر عباس علی صاحب نے جب آپ کو لو د ہانہ کی مخالفت کی شدت کی اطلاع دی اور گھبراہٹ اور تر د دظاہر کیا تو آپ نے اس کو لکھا کہ آن مخدوم کچھ تفکر اور تردد نہ کریں اور یقیناً سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں.بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے.اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہیں ہوئے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا.اگر لوگ خدا کے بندوں کو جو کہ اُس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یوں ہی
حیات احمد ۲۸۲ جلد دوم حصہ سوم اُن کی شکل ہی دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ اُن کا ہر گز دنیا میں ظہور نہ ہوتا.“ مکتوب مورخه ۲۶ / فروری ۱۸۸۴ء مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۸۲ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۹۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) مقام غور ہے کہ دونوں صورتوں میں آپ نے اپنی ماموریت اور بعثت کی شان میں نبوت کے رنگ کو نمایاں کیا ہے گو آپ نے بلا اذن الہی اس کا اس وقت کوئی دعویٰ مشتہر نہیں کیا اس لئے کہ اعلان کا اذن ہی نہ تھا.آپ دوستوں کو یہی ہدایت فرماتے تھے کہ جو پردہ غیب میں مخفی ہے اس کے ظہور کے منتظر رہیں جو یقین اور بصیرت آپ کو اپنی کامیابی پر تھی وہ ان واقعات سے ظاہر ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہ حالت کیوں پیدا نہ ہوتی جبکہ ہر روز خدا تعالیٰ کی تازہ وحی آپ کو تسلی دے رہی تھی اور خدا تعالیٰ کا غیبی ہاتھ آپ کی پشت پر تھا.اگر کوئی شخص محض منصوبہ باز ہوتا تو وہ مخالفت کو ان عجائبات کے ظہور کا موجب قرار دیتے ہیں.جو انبیاء کی مخالفت کے نتیجہ کے طور پر ظہور میں آتے ہیں اور دنیا نے دیکھ لیا کہ آپ کی مخالفت کا انجام کیا ہوا.میر عباس سے علی صاحب کے ارتداد کی پیشگوئی ۱۸۸۴ء کے آغاز میں جبکہ میر عباس علی صاحب اپنے اخلاص و خدمت گزاری کے مراحل میں ترقی کی طرف جارہا تھا اور براہین احمدیہ کی اشاعت میں اس کے شب و روز بسر ہو رہے تھے.آپ پر اس کے ارتداد کے متعلق انکشاف ہو رہا تھا.اس قسم کے الہامات وکشوف سے کچھ شک نہیں کہ آپ کو بہت تکلیف ہو رہی تھی.اس لئے نہیں کہ ایک مخلص دوست جدا ہو جائے گا اور جو کام وہ کر رہا ہے اس میر عباس علی صاحب لدھیانوی چو بشنوی سخن اهل دل مگو که خطا است سخن شناس نہء دلبرا خطا اینجاست ”یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر میں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے افسوس ہے کہ وہ بعض موسوسین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آ گئے بلکہ جماعتِ اعداء میں داخل ہو گئے.بعض لوگ تعجب کریں گے کہ ان کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ اس کا یہ جواب ہے کہ الہام کے صرف اس قدر معنے ہیں کہ اصل اُس کا ثابت ہے.اور آسمان میں اُس کی شاخ ہے.اس میں ترجمہ.جب تو دل والوں کی کوئی بات سنے تو مت کہ اٹھ کہ غلط ہے، اے عزیز! تو بات نہیں سمجھ سکتا غلطی تو یہی ہے.
حیات احمد ۲۸۳ جلد دوم حصہ سوم.میں کوئی نقص واقع ہوگا.کسی انسان یا اس کی مساعی اور خدمات کو گو یہ لوگ قدر اور شکر گزاری کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر اُن کی نظر اُن کے وجود پر نہیں ہوتی انہیں تو وہ ایک آلہ سمجھتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیا بقیہ حاشیہ:.تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں.بلا شبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے کفر کی طرف انتقال کرے تو اُس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیر نہیں.افراد نوع انسان مختلف طور کی کانوں کی طرح ہیں.کوئی سونے کی کان.کوئی چاندی کی کان.کوئی پیتل کی کان.پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں.اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے.بلاشبہ یہ مسلم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق فطرتاً ان کو حاصل ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سراسر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا.ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراطِ مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.موجب نجات اخروی نہیں ہو سکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں بیچ ہیں علاوہ اس کے یہ الہام اس زمانہ کا ہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی.زبر دست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں وہ بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت قدم رہوں گا سوخدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ کی خبر دے دی.یہ بات خدا تعالیٰ کی تعلیمات وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبر دیتا ہے کسی کے کا فر ہونے کی حالت میں اُس کا نام کا فر ہی رکھتا ہے.اور اُس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اُس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے.خدا تعالیٰ کی کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں
حیات احمد ۲۸۴ جلد دوم حصہ سوم ہو بلکہ آپ کو اس کی ہلاکت کی وجہ سے افسوس تھا اور آپ چاہتے تھے کہ یہ قضا بدل جائے مگر واقعات کے ظہور نے ثابت کر دیا کہ وہ مبرم تھی آپ کو ایک عرصہ سے مختلف اوقات میں میر صاحب کے متعلق بقیہ حاشیہ:.کہ میر صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجز کے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کرنے کے وقت نہ صرف آپ انہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر انہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے اُن کا اِس وقت میں اندازہ بیان نہیں کر سکتا.لیکن دوستو کے قریب اب بھی ایسے خطوط ان کے موجود ہوں گے جن میں انہوں نے انتہائی درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوا ہیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر ان کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز من جانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں.اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بناء پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اس جہان اور اُس جہان میں ہمارے ساتھ ہیں.ایسا ہی لوگوں میں بکثرت انہوں نے یہ خوا ہیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کو بتلائیں.اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگر خدائے تعالیٰ کا الہام ہو کہ ی شخص اس وقت ثابت قدم ہے متزلزل نہیں تو کیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا.بہت سے الہامات صرف موجودہ حالات کے آئینہ ہوتے ہیں عواقب امور سے ان کو کچھ تعلق نہیں ہوتا.اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اُس کے سُوء خاتمہ پر حکم نہیں کر سکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جل شانہ کے قبضہ میں ہے.میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے.مال پر ضروری طور پر اس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے.بہتوں نے راستبازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے.مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت
حیات احمد ۲۸۵ جلد دوم حصہ سوم بعض اشارات ہوئے اور آپ نے اس کو وقتا فوقتاً اس کی اطلاع بھی دی چنانچہ ۱۲ ستمبر ۱۸۸۳ء کو آپ نے ان کو لکھا کہ خدا وند کریم آپ کی تائید میں رہے اور مکروہات زمانہ سے بچاوے.اس عاجز سے تعلق بقیہ حاشیہ:.دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زار زار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے.انسان کا دل خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُس حکیم مطلق کے آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں.سومیر صاحب اپنی کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلاء کے اثر سے جوشِ ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیت، اور اجنبیت سے ترک ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جبری عداوت اور ارادہ تحقیر و استخفاف و تو ہین پیدا ہو گیا.عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے.کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی صاحب کا یہ حال ہو گا.مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے.میرے دوستوں کو چاہئے کہ ان کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فروماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں.اور میں بھی انشاء اللہ الکریم دعا کروں گا.میں چاہتا تھا کہ ان کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میر عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوا ہیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کس انکساری کے الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں.انشاء اللہ القدیر کیسی دوسرے وقت میں حسب ضرورت ظاہر کیا جائے گا یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت کچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خِلِيفَةُ اللهِ فِی الْأَرْضِ لکھا کرتا تھا.آج اس کی حالت کیا ہے.پس خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے.اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کرو.کیا استقامت میں فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بڑھ کر ہو گا جن کو ایک ساعت کے لئے ابتلا پیش آ گیا تھا.اور اگر خدائے تعالیٰ کا ہاتھ ان کو نہ تھا متا تو خدا جانے کیا حالت ہو جاتی.مجھے اگر چہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج
حیات احمد ۲۸۶ اور ارتباط کرنا کسی قدر را بتلا کو چاہتا ہے سو اس ابتلا سے آپ بچ نہیں سکتے.“ جلد دوم حصہ سوم مکتوبات احمد یہ جلد اصفحه ۶۵ مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۷۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) بقیہ حاشیہ:.بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیانِ اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا.یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جن کی تعریف میں وحی الہی بھی نازل ہو گئی تھی آخر حضرت مسیح سے منحرف ہو گئے تھے.یہودا اسکر یوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کا تھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھا تا اور بڑے پیار کا دم مارتا تھا.جس کو بہشت کے بارہویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی.اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ آسمان کی کنجیاں اُن کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریں لیکن آخر میاں صاحب موصوف نے جو کر توت دکھلائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر اور اُن کی طرف اشارہ کر کے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر لعنت بھیجتا ہوں.میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں.کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو.میر صاحب کی قسمت میں اگر چہ یہ لغزش مقدرتھی اور اَصْلُهَا ثَابِت کی ضمیر تأنیٹ بھی اس کی طرف ایک اشارہ کر رہی تھی لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا.میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں.حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے.میں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لَاغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِيْن اور اس قدر غلو ہے کہ شیخ نجدی کا استثنا بھی ان کے کلام میں نہیں پایا جاتا.تا صالحین کو باہر رکھ لیتے اگر چہ وہ بعض رُوگردان ارادت مندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہو جانے سے سارا باغ بر باد نہیں ہوسکتا.جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے اور کاٹ
حیات احمد ۲۸۷ جلد دوم حصہ سوم ایک کشف اور رویا پھر ۱۸ جنوری ۱۸۸۲ء کو آپ نے میر صاحب کو اپنا ایک رؤیا لکھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا بقیہ حاشیہ: دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کر دیتا ہے.بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدا تعالیٰ اس کی جگہ نہیں لائے گا.اور اس آیت پر غور کریں فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ (المائدة: ۵۵) بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میر عباس علی صاحب نے ۱۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے سوان الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے لیکن اس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے.اوّل یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے سو اس وسوسہ کے دُور کرنے کے لئے میرا یہی اشتہار کافی ہے بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں.دوم یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا میں ایک نیچیری آدمی ہوں معجزات کا منکر اور لیلۃ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیاء علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقائد اسلام سے منہ پھیر نے والا.سو ان اوہام کے دور کرنے کے لئے میں وعدہ کر چکا ہوں کہ عنقریب میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شائع ہوگا.اگر میر صاحب توجہ سے اس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق از لی اپنی بے بنیاد اور بے اصل بدظنیوں سے سخت ندامت اٹھائیں گے.سوم یہ کہ میر صاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرما کر تحریر فرمایا ہے کہ گویا اُن کو رسول نمائی کی طاقت ہے چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا.میں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسول کریم کی زیارت کرا کر اپنے دعاوی کی تصدیق کرا دی جائے اور یا میں زیارت کرا کر اس بارہ میں فیصلہ کرا دوں گا.میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقف حال سخت متعجب ہو رہا ہے کہ اگر میر صاحب کو یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیں اور
حیات احمد ۲۸۸ جلد دوم حصہ سوم کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن سے سابق تعارف نہیں ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ بھی اُن کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے اُن بقیہ حاشیہ:.باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلا دیں تو پھر انہوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس سال تک برابر خلوص نماؤں کے گروہ میں رہے تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریم اُن کی خواب میں نہ آئے اور اُن پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذاب اور مکار اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے.کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری میں چلا جاوے اور اُن کے فرمودہ کے مطابق کار بند ہو اور اُن سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس تک برابر ایک کذاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا ر ہے اور ایسے شخص کا مرید ہو جاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرت کی تحقیر کرنے والا اور تَحْتَ الشَّری میں گرنے والا ہو زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض خواہیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت نے اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفتہ اللہ اور مجد ددین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعوی کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے.اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے پہلے دیکھا وہ بہر حال اعتبار کے لائق ہوگا.اور اگر وہ خوا ہیں ان کے اعتبار کے لائق نہیں اور أضْغَاتُ احلام میں داخل ہیں تو ایسی خوا ہیں آئندہ بھی قابل اعتبار نہیں ٹھہر سکتیں.ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعوی کس قدر فضول بات ہے.حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی مبرا ہو سکتی ہے جس میں آنحضرت صلعم کو اُن کے خلیہ پر دیکھا گیا ہو اور نہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے ہے اور شیطان لعین تو خدا تعالیٰ کا تمثل اور اُس کے عرش کی تجلی دکھلا دیتا ہے تو پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے.اب جبکہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلعم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیوں کر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت در حقیقت آنحضرت صلعم کی ہے.کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک
۲۸۹ جلد دوم حصہ سوم حیات احمد لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو اُن کو ناگوار گزری ہے.سو اُن کے دل منقطع ہو گئے.آپ نے اُس وقت مجھ کو کہا کہ وضع بدل لو.میں نے کہا نہیں بدعت ہے.سو وہ لوگ بیزار ہو گئے اور ایک بقیہ حاشیہ:.ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے.پس اس زمانہ کے لوگوں کے لئے زیارت حقہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اس زیارت کے ساتھ بعض ایسے خوارق اور علامات خاصہ بھی ہوں جن کی وجہ سے اُس رویا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے.مثلاً رسول اللہ صلعم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلاویں یا بعض قضاء و قدر کے نزول کی باتیں پیش از وقوع مطلع کر دیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلا دیں جو پہلے قلم بند اور شائع نہیں ہو چکے تو بلاشبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی ورنہ اگر ایک شخص دعوی کرے جو رسول اللہ صلعم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بے شک کافر اور دجال ہے اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلعم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اس خواب بین نے چالا کی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنالی ہے سواگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلعم ان کی خواب میں آ جاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھاویں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کر دیں اور علامات اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ سے اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچا دیں کہ در حقیقت انہوں نے آنحضرت صلعم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کر لیں گے اور اگر انہیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اس سیدھے طور سے مقابلہ کریں جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے ہمیں بالفعل اُن کی رسول بینی میں ہی کلام ہے چہ جائیکہ ان کی رسول نمائی کے دعوی کو قبول کیا جائے.پہلا مرتبہ آزمائش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعوی میں صادق ہیں یا کاذب.اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان ہو کہ رسول اللہ صلعم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا پھر بعد اس کے رسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کے لئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا اعجوبہ بھی دکھلا دیں.قادیان میں آجائیں.مسجد موجود ہے اُن کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف و گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے.سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی ، مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفہ اللہ اور امام اور مجہ دکہتا رہا اور اپنی خواہیں بتلاتا رہا کیا وہ اس دعوی میں صادق ہے.عقلمند
حیات احمد ۲۹۰ جلد دوم حصہ سوم دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جا کر بیٹھ گئے.تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں میں اُن کے پاس گیا تا اپنی ☆ امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں پھر بھی انہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں.‘ الآخرة مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ہے.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۸۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) ایسا ہی ۱۸۸۳ء کی پہلی سہ ماہی میں آپ نے میر عباس علی صاحب کو اس پیش آنے والے بقیہ حاشیہ:.میر صاحب کی حالت نہایت قابل افسوس ہے.خدا ان پر رحم کرے پیشگوئیوں کے منتظر رہیں جو ظاہر ہوں گی ازالہ اوہام کے صفحہ ۸۵۵ کو دیکھیں.ازالہ اوہام کے صفحہ ۶۳۵ اور ۳۹۶ کو بغور مطالعہ کریں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے.وَيَسْتَلُوْنَكَ اَحَقُّ هُوَ قُلْ إِلَى وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ.زَوَّجْنَاكَهَا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِي وَإِنْ يَرَوْا ايَةً يُعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِر.اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے.کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے.ہم نے خود اُس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے.میری باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے.66 آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۴۳ تا ۳۵۰) حاشیہ:.مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالٰی.بعد سلام مسنون آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز اگر چہ بہت چاہتا ہے کہ آں مخدوم کے بار بار لکھنے کی تعمیل کی جائے مگر کچھ خداوند کریم ہی کی طرف سے ایسے اسباب آ پڑتے ہیں کہ رُک جاتا ہوں.نہیں معلوم کہ حضرت احدیت کی کیا مرضی ہے عاجز بندہ بغیر اُس کی مشیت کے قدم اٹھا نہیں سکتا.ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن سے سابق تعارف نہیں ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ بھی اُن کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے.اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو اُن کو ناگوار گزری ہے.سو ان سب کے دل منقطع ہو گئے.آپ نے اُس وقت مجھ کو کہا کہ وضع بدل لو.میں نے کہا کہ نہیں بدعت ہے سو وہ لوگ بیزار ہو گئے اور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جا کر بیٹھ گئے.تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں.میں اُن
حیات احمد ۲۹۱ جلد دوم حصہ سوم ابتلا سے اطلاع دی.میر صاحب قادیان آئے تھے اور اُن کا مقصد یہ تھا کہ وہ حضرت اقدس کو لودھانہ لے جانے کے لئے پُر زور تحریک کریں مگر آپ کے سارے کاموں کا مدار اذنِ الہی پر بقیہ حاشیہ: کے پاس گیا تا اپنی امامت سے اُن کو نماز پڑھاؤں پھر بھی انہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں.تب اس عاجز نے اُن سے علیحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اٹھایا.معلوم ہوا کہ اُن سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ ہی ہیں.اب اگر چہ خوابوں میں تعینات معتبر نہیں ہوتے اور اگر خدا چاہے تو تقدیرات معلقہ کو مبدل بھی کر دیتا ہے لیکن اندیشہ گزرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ہی کا شہر نہ ہو.لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں حقیقی شوق اور ارادت کہ جو لغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے ورنہ اکثر لوگوں کے دل تھوڑی تھوڑی بات میں بدظنی کی طرف جھک جاتے ہیں اور پھر پہلے حال سے پچھلا حال اُن کا بدتر ہو جاتا ہے.صادق الارادت وہ شخص ہے کہ جو رابطہ توڑنے کے لئے جلد تر تیار نہ ہو جائے اور اگر ایسا شخص جس پر ارادت ہو کبھی کسی فسق اور معصیت میں مبتلا نظر آوے یا کسی اور قسم کا ظلم اور تعدی اس کے ہاتھ سے ظاہر ہوتا دیکھے یا کچھ اسباب اور اشیاء منہیات کے اُس کے مکان پر موجود پاوے تو جلد تر اپنے جامہ سے باہر نہ آوے اور اپنی دیرینہ خدمت اور ارادت کو ایک ساعت میں برباد نہ کرے.بلکہ یقینا دل میں سمجھے کہ یہ ایک ابتلا ہے کہ جو میرے لئے پیش آیا اور اپنی ارادت اور عقیدت میں ایک ذرہ فتور پیدا نہ کرے اور کوئی اعتراض پیش نہ کرے.اور خدا سے چاہے کہ اُس کو اس ابتلا سے نجات بخشے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کسی نہ کسی وقت اس کے لئے ٹھوکر در پیش ہے.جن پر خدا کی نظر لطف ہے اُن کو خدا نے ایک مشرب پر نہیں رکھا بعض کو کوئی مشرب بخشا اور بعض کو کوئی اور.اُن لوگوں میں ایسے مشرب بھی ہیں کہ جو ظاہری علماء کی سمجھ سے بہت دور ہیں.حضرت موسیٰ جیسے الوالعزم مرسل خضر کے کاموں کو دیکھ کر سراسمیہ اور حیران ہوئے اور ہر چند وعدہ بھی کیا کہ میں اعتراض نہیں کروں گا.پر جوش شریعت سے اعتراض کر بیٹھے اور وہ اپنے حال میں معذور تھے اور خضر اپنے حال میں معذور تھے.غرض اس مشرب کے لوگوں کی خدمت میں ارادت کے ساتھ آنا آسان ہے مگر ارادت کو سلامت لے جانے مشکل ہے.بات یہ ہے کہ خدا کو ہر ایک زائر کا ابتلا منظور ہے تا وہ اُن پر اُن کی چھپی ہوئی بیماریاں ظاہر کرے.سونہایت بد قسمت وہ شخص ہے کہ جو اُس ابتلا کے وقت تباہ ہو جائے کاش ! اگر وہ دُور کا دُور ہی رہتا
حیات احمد ۲۹۲ جلد دوم حصہ سوم تھا.اُن کے قیام قادیان ہی کے ایام میں حضرت اقدس پر ان کی روحانی حالت اور انجام کا انکشاف ہوا مگر آپ نے اس وقت اکرام ضیف اور دل شکنی کے خیال سے ان کو کچھ نہیں کہا.لیکن جب لودھا نہ چلے گئے تو آپ نے ان کو لکھا کہ آپ سے تعلق محبت سے دل کو نہایت خوشی ہے خدا اس تعلق کو مستحکم کرے.انسان ایسا عاجز اور بے چارہ ہے اس کا کوئی کام طرح طرح کے پردوں اور حجابوں 66 سے خالی نہیں اور اس کے کسی کام کی تکمیل بجزر حضرت احدیت کے ممکن نہیں.“ ایک بات اور واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت ملاقات ایک گفتگو کے اثناء میں یہ نظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ دل میں کچھ انقباض ہے.(آگے چل کر فرماتے ہیں) والحمد للہ آپ جو ہر صافی رکھتے ہیں غبار ظلمت آثار کو آپ کے دل میں قیام نہیں اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اس کو دور کرے مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی انقباض پیش آوے جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اس گھر کی وضع قطع میں بعض امور اس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں اس لئے مناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بقیہ حاشیہ: تو اس کے لئے اچھا ہوتا.ابو جہل کچھ سب سے زیادہ شریر نہ تھا پر رسالت کے زمانہ نے اُس کا پردہ فاش کیا.اگر کسی بعد کی صدی میں کسی مسلمان کے گھر پیدا ہو جاتا تو شاید وہ خُبٹ اُس کی چھپی رہتی سو خُبث امتحان ہی سے ظاہر ہوتی ہیں.بہتر ہے کہ آں مخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف کشی کے لئے بہت زور نہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ اُن کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ اُن کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دور ہے.سَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ.اگر خدا نے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایماء سے اجازت فرمادے.ہر ایک کو اس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پر دو غیب میں مخفی ہے اس کے ظہور کے منتظر رہیں.باقی سب خیریت ہے.مکتوبات احمد یہ جلد اصفحہ ۷۲ ۷۳.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۸۹٬۵۸۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۲۹۳ جلد دوم حصہ سوم بھی چاہیں اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب نہ ہوں.آخر میں پھر فرمایا آپ کی حالت قویہ پر بھی امید کی جاتی ہے کہ آپ ہر ایک انقباض پر غالب آویں.یہ اس وقت کی حالت ہے جبکہ میر عباس علی صاحب کامل اخلاص اور محبت سے آپ کی تائید میں اپنا پورا وقت دے رہے تھے.اور اس کو بھی تائید دین یقین کرتے تھے.گویا ۱۸۸۴ء میں حضرت اقدس پر بعض ایسے امور کا انکشاف ہو رہا تھا جو ایک طرف خود آپ کی آنے والی زندگی کے واقعات کی تصویر تھے اور دوسری طرف میر عباس علی صاحب کے انجام کا مرقع.امور غیبیہ کی حقیت تو اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ پورے ہوں اس لئے حضرت اقدس اپنے حسن ظن سے کام لیتے تھے.اور ساتھ ہی میر صاحب کو آنے والے ابتلا سے ہوشیار بھی کرتے جاتے تھے آج یہ واقعات آپ کی صداقت کے روشن دلائل ہیں.حضرت میر عنایت علی صاحب رضی اللہ عنہ جو میر عباس علی صاحب کے بھتیجے اور داماد تھے.فرمایا کرتے کہ میر صاحب کے پاس جب حضرت صاحب کا حاشیہ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالَى - السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.بعد ہذا آپ کا خط ثالث بھی پہنچا.آپ کی دلی تو جہات پر بہت ہی شکر گزار ہوں.خدا آپ کو آپ کے دلی مطالب تک پہنچا وے.آمین یا رب العالمین.غرباء سے چندہ لینا ایک مکر وہ امر ہے.جب خدا اس کا وقت لائے گا تو پردہ غیب سے کوئی شخص پیدا ہو جاوے گا.جو دینی محبت اور دلی ارادت سے اس کام کو انجام دے.تجویز چندہ کو موقوف رکھیں.اب بالفعل لور ہیانہ میں اس عاجز کا آنا ملتوی رہنے دیں.آپ کے تشریف لے جانے کے بعد چند ہندوؤں کی طرف سے سوالات آئے ہیں.اور ایک ہند وصوابی ضلع پشاور میں کچھ رڈ لکھ رہا ہے.پنڈت شیو زرائن بھی شائد عنقریب اپنا رسالہ بھیجے گا.سواب چاروں طرف سے مخالف جنبش میں آ رہے ہیں.غفلت کرنا اچھا نہیں.ابھی دل ٹھہر نے نہیں دیتا.کہ میں اس ضروری اور واجب کام کو چھوڑ کر کسی اور طرف خیال کروں.إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ رَبِّی.اگر خدا نے چاہا تو آپ کا شہر کسی دوسرے وقت میں دیکھیں گے.آپ کے تعلق محبت سے دل کو نہایت خوشی ہے.خدا اس تو اس تعلق کو مستحکم کرے.انسان ایسا عاجز اور بیچارہ ہے کہ اس کا کام طرح طرح کے پردوں اور حجابوں سے خالی نہیں.اور اس کے کسی کام کی تکمیل بجز حضرت احدیت کے ممکن نہیں.ایک بات واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ
حیات احمد ۲۹۴ جلد دوم حصہ سوم کوئی خط آتا تو اسے وضو کر کے پڑھا کرتے تھے.اور ان مکتوبات کو ایک رجسٹر میں نقل کیا کرتے تھے.خاکسار عرفانی الکبیر کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ان خطوط کا ایک بڑا حصہ جمع کر کے شائع کر دیا جو مکتوبات احمد یہ جلد اول کے نام سے موسوم ہے.یہ زمانہ تھا جبکہ میر صاحب حضرت کے اول المعاونین کے رنگ میں کام کر رہے تھے.اور یہ پہلا شخص تھا جس نے اور ہانہ میں سب سے پہلے حضرت کی طرف رجوع کیا اور پہلا شخص تھا جولو دہا نہ سے قادیان حاضر ہوا.وہ برابر اپنے اخلاص میں ترقی کرتا چلا گیا.یہ انکشافات حضرت پر ۱۸۸۳ء میں پھر ۱۸۸۴ء میں ہوئے اور اس کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی یہاں تک کہ پسر موعود کی پیشگوئی پر ایک طوفان بے تمیزی برپا کیا گیا اور پھر ہوشیار پور کے نکاح کے متعلق پیشگوئی پر بھی اخبارات خصوصاً نور افشاں وغیرہ میں شور مچایا گیا.اور جنسی کی گئی.لیکن میر عباس علی صاحب کو ابتلا نہ آیا.بیعت کا اعلان ہوا اور میر صاحب نے بڑے اخلاص کے ساتھ پہلے ہی دن بیعت کی بلکہ ایک مرتبہ اس کشف کے بعد حضرت اقدس سے عرض بھی کیا کہ مجھے اس کشف سے جو میری نسبت ہوا تعجب ہوا.کیونکہ میں آپ کے لئے مرنے کو تیار ہوں.بقیہ حاشیہ:.وقت ملاقات ایک گفتگو کی اثناء میں بنظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ کچھ دل میں انقباض ہے.اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے.حضرت احدیت کی نظر میں درست نہیں.تو اُس پر یہ الہام ہوا.قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِيْنَ سو الحمد للہ ! آپ جو ہر صافی رکھتے ہیں.غبار ظلمت آثار کو آپ کے دل میں قیام نہیں.اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اُس کو دور کرے.مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے.جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اس گھر کی وضع قطع میں بعض امور اس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں.اس لئے مناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں.اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب نہ ہوں.تا یہ محبت کمال درجہ تک پہنچ جائے.یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے.جو زمانہ کی رسمیات سے بہت ہی دور پڑی ہوتی ہے اور ابھی تک ہر ایک رفیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے.
حیات احمد ۲۹۵ جلد دوم حصہ سوم حضرت اقدس نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ کے لئے مقدر ہے پورا ہوگا.“ اس پر آٹھ سال گزر گئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو ان کو کچھ انقباض ہوا لیکن اس پر بھی وہ کھلم کھلا مخالفت یا ارتداد پر آمادہ نہ ہوئے.لیکن لودہانہ کے مباحثہ کے ایام میں کچھ دنوں تک مخالفین کی صحبت میں رہے.اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ :.نوشتہ تقدیر ظاہر ہوگیا اور پیشنگوئی پوری ہوگئی.وہ صریح طور پر بگڑ گئے اور ایسے بگڑے کہ وہ یقین دل کا اور وہ نورانیت چہرہ کی سب جاتی رہی اور ارتداد کی تاریکی ظاہر ہو گئی.اور پھر کھلم کھلا مقابلہ پر آ گئے.یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں رسول نمائی کا دعویٰ کیا اور مولوی محمد حسین بٹالوی کو جو اس وقت شدید مخالف ہو چکا تھا.ایک کھلونا ہاتھ آ گیا حضرت اقدس نے جواباً اس کے لئے ایک رسالہ لکھا اور محمد حسین کو مخاطب کر کے ایک شعر لکھا یا صوفی خود را برون آر یا تو بہ کن ز بد گمانی کے حضرت اقدس نے ہر چند کوشش کی کہ ان کی حالت میں اصلاح ہو جائے اور حضرت کو فی الحقیقت بہت درد تھا کہ یہ شخص جس نے اوائل میں اس قدر خدمت کی ہے اس طرح پر تباہ نہ ہومگر قدرت کے نوشتوں کو کون بدل سکتا ہے.حضرت فرماتے ہیں.وو مرتد ہونے کے بعد ایک دن وہ لدھیانہ میں پیر افتخار احمد صاحب کے مکان بقیه حاشیہ - إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا - وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا (الكهف: ۶۹،۶۸.لیکن خداوند کریم سے نہایت قوی امید رکھتا ہے کہ وہ اس غربت اور تنہائی کے زمانہ کو دور کر دے گا.آپ کی حالت قویہ پر بھی امید کی جاتی ہے کہ آپ ہر ایک انقباض پر غالب آویں گے.وَالْأَمْرُ يَدِ اللَّهِ يَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَعَلَى إِخْوَانِكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ - مکتوبات احمد یہ جلد ا صفحه ۱۴ ،۱۵.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحه ۵۲۵،۵۲۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) لے ترجمہ:اے صوفی یا تو خود کو ظاہر کر دے یا بد گمانی سے توبہ کرلے کے ترجمہ.یقینا تو ہرگز میرے ساتھ صبر کی استطاعت نہیں رکھے گا.اور تو کیسے اس پر صبر کر سکے گا جس کا تو تجربہ کے ذریعہ احاطہ نہیں کر سکا.سے ترجمہ.معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے.آپ کو اور آپ کے مومن دوستوں کو سلام ہو.
حیات احمد ۲۹۶ جلد دوم حصہ سوم پر مجھے ملے اور کہنے لگے کہ آپ کا اور ہمارا اس طرح پر مقابلہ ہو سکتا ہے کہ ایک حجرہ میں ہم دونوں بند کئے جائیں اور دس دن تک بند ر ہیں پھر جو جھوٹا ہو گا مر جائے گا.میں نے کہا میر صاحب! ایسی خلاف شرع آزمائشوں کی کیا ضرورت؟ کسی نبی نے خدا کی آزمائش نہیں کی مگر مجھے اور آپ کو خدا دیکھ رہا ہے وہ قادر ہے کہ بطور خود جھوٹے کو بچے کے رو بر و ہلاک کر دے اور خدا کے نشان تو بارش کی طرح برس رہے ہیں اگر آپ طالب صادق ہیں تو قادیان میں میرے ساتھ چلیں جواب دیا کہ میری بیوی بیمار ہے میں جا نہیں سکتا.اور شاید یہ جواب دیا کہ کسی جگہ گئی ہوئی ہے.یاد نہیں رہا.میں نے کہا کہ اب بس خدا کے فیصلہ کے منتظر رہو پھر اسی سال میں فوت ہو گئے اور کسی حجرہ میں بند کئے جانے کی ضرورت نہ رہی.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰۷، ۳۰۸) عجیب بات یہ ہے کہ وہ مکتوبات جن میں اس کے ارتداد کے متعلق پیشگوئیاں تھیں خود اس نے جمع کئے اور ایک بیاض میں لکھے اور خود اس کی زندگی میں ہی بعض دوستوں نے اس بیاض سے نقل کر لئے اور مختلف مقامات پر وہ پھیل گئے.ان مکتوبات کے ایک حصہ کو جو میسر آ گیا تھا.خاکسار عرفانی نے ۱۹۰۸ء میں شائع کر دیا تھا.اور میرے پاس اصل مکتوبات کے مسودے میرے مخطوطات میں محفوظ تھے مجھے دکھ اور افسوس ہے کہ وہ ۱۹۴۷ء کے انقلاب میں بعض خدا ناترس لوگوں نے میری غیر حاضری میں حفاظت کے نام سے اٹھالئے اور اب تک واپس نہیں کئے باوجود یکہ متعدد مرتبہ میرے کتب خانہ کی واپسی کے متعلق تحریک کی جاچکی ہے.یہ ذکر ضمنا کرنے پر میں مجبور ہوں چاہئے تو یہ تھا کہ جس شخص نے سلسلہ کے لئے ایک بہت بڑی امانت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی اس کی قیمتی متاع کو محفوظ رکھا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا.مجھے افسوس نہ ہوتا اگر ان قیمتی دستاویزات کو سلسلہ کی لائبریری کو دے دیا گیا ہوتا.میں نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ بادشاہ آئیں گے مگر وہ کسی قیمت پر بھی ان کو جدا نہ کریں کہ یہ سرمایہ برکات ہے.هر کس از دست غیر ناله کناں سعدی از دست خویشتن فریاد ی تر جمہ:.ہر شخص غیر کے ہاتھوں یا غیر کی وجہ سے فریاد کرتا ہے.لیکن سعدی تو اپنے ہی اعمال کی وجہ سے فریاد کناں ہے.
حیات احمد ۲۹۷ مخالفت کے طوفان میں چٹان جلد دوم حصہ سوم میں اسی کتاب کی جلد دوم کے نمبر دوم میں یہ ذکر کر آیا ہوں کہ سب سے اول لودہانہ کے حصہ میں یہ شقاوت آئی کہ اس کے علماء کی ایک شاخ ( جو مولوی عبدالعزیز اینڈ برادرز کے نام سے موسوم تھی ) نے محاذ مخالفت قائم کیا اور لودہانہ ہی وہ مقام ہے جہاں سب سے اول مخلصین کی ایک جماعت قائم ہوئی اور یہی وہ مقام ہے جہاں سلسلہ احمدیہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے حکم بیعت کے ماتحت رکھی گئی اور بیعت کا سلسلہ ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء میں جاری ہوا.میں لود ہانہ کی مخالفت کے اسباب پر اپنی طرف سے نہیں بلکہ مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی کا بیان شائع کر چکا ہوں عجیب بات ہے کہ جیسے لودرہا نہ ہی میں اول المعاونین میر عباس علی صاحب نے اپنے وقتی اخلاص اور ایثار کا ایک نمونہ قائم کیا اور پھر اُسی نے ارتداد کیا مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بھی ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے ابتداء حضرت کے ساتھ کمال اخلاص کا اظہار کیا اور لودہانہ کی اس مخالف جماعت کو بڑی شدومد سے جواب دیا اور پھر اسی لودہا نہ میں اس نے آپ سے ایک تاریخی مباحثہ کیا اور آپ کے کفر کے لئے فتویٰ تیار کیا.یہ عجائبات مومن کے لئے عبرت و بصیرت کا بہت بڑا سبق ہیں.غرض جب ان علمائے لو دہانہ نے علم مخالفت بلند کیا تو مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب نے اشاعۃ السنہ کے ذریعہ ان کو دندان شکن جواب دیا اور مخالفت کو کفران نعمت قرار دیا.اس وقت مخالفت کا حلقہ صرف لود ہانہ اور امرتسر تک محدود تھا.لودہانہ کے برادرانِ ثلاثہ نے دیو بند وغیرہ سے فتوی کفر حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اس وقت کے علماء دیو بند اور گنگوہ نے اس کا جرات سے انکار کر دیا.اور میں یہ کہوں گا کہ انہوں نے اپنے عمل سے بتایا کہ ان میں خوف خدا اور تقویٰ موجود تھا.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور اپنا فضل کرے کہ انہوں نے اپنے دامن کو آلودہ نہیں کیا.
حیات احمد ۲۹۸ جلد دوم حصہ سوم دیو بند سے نا کام ہو کر یہ لود بانوی حضرات دہلی پہنچے اور اس وقت کے علماء دہلی نے بھی اس فتوی کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور کفر کا فتویٰ دینے سے انکار کر دیا.البتہ ان کی اشک شوئی کے لئے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا.جس کا خلاصہ خود حضرت میر عباس علی صاحب کو ۱۵ / فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۶ ؍ ربیع الثانی ۳۰۱ اھ اس طرح پر تحریر فرمایا:.ایک خط دہلی کے علماء کی طرف سے اس عاجز کو آیا تھا کہ مولوی محمد نے تکفیر کا فتویٰ بہ نسبت اس خاکسار کے طلب کیا ہے نہایت رفق اور ملائمت سے رہنا چاہئے“ مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۹۷ مطبوعه ۲۰۰۸ء) علماء دہلی کے مکتوب پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ان میں اس وقت تک خوف خدا اور تقویٰ اللہ موجود تھا اور وہ لو ہانہ کے مولویوں کی حقیقت سے واقف تھے حضرت اقدس تو کسی پر کوئی سختی کرتے ہی نہ تھے پھر آپ کے رفق کا تو خدا کی وحی میں بھی ذکر ہے بہر حال مخالفت کی آگ سلگائی جارہی ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں ایسی حالت میں کہ دشمن آگ بھڑکا رہے تھے اور ایک طوفان بے تمیزی پیدا کرنا چاہتے تھے اور بعض دوست بھی اس مخالفت کے طوفان سے ڈر رہے تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں مل رہی تھیں چنانچہ اسی ۱۵ / فروری ۱۸۸۴ء کو الہام ہوا.يَا عَبْدَ الرَّافِعِ إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ إِنِّي مُعِنُّكَ لَا مَانِعَ لِمَا أُعْطِيْ (ترجمہ) اے عبدالرافع میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں.میں تجھے عزت و بزرگی دینے والا ہوں جو میں عطا کروں اسے روکنے والا کوئی نہیں.ایک اور بشارت ۱۳ / فروری ۱۸۸۴ء کو ایک اور الہام ہوا جو پہلے بھی ہو چکا تھا.(۱) يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ -
حیات احمد ۲۹۹ جلد دوم حصہ سوم (۲) خُذْهَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِيْدُهَا سِيْرَتَهَا الأولى ( یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہو چکا ہے) ان دونوں الہامات کا ترجمہ یہ ہے.(۱) کہ اے بیٹی اس کتاب کو قوت سے پکڑو.(۲) اسے پکڑ لو اور ڈرومت ہم اسے اپنی پہلی سیرت پر لوٹا دیں گے.خدا تعالیٰ کے مامورین و مرسلین کی زندگی کا یہی باب نہایت دلچسپ ہوتا ہے.جبکہ دنیا اور اس کی ساری مادی طاقتیں ان کی مخالفت میں کھڑی ہو جاتی ہیں اور وہ اسے فنا کر دینا چاہتی ہیں.اور بیکسی کی گھڑیوں اور مشکلات کی تاریک راتوں میں ان کے قلب پر سکینت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور خدا کا کلام کامیابی کی بشارتوں کو لے کر آتا ہے.جہاں ایک طرف مخالف آپ کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں خدا عزت اور رفعت کے مقام پر کھڑے کرنے کا وعدہ دیتا ہے اور خطر ناک سے خطر ناک چیزوں کو بے ضرر بنا دینے کے سامان پیدا کر دینے کی بشارت ملتی ہے اور آخر وہی ہوتا ہے.وَلِلَّهِ الْحَمْد باوجود یکہ حضرت اقدس خدا تعالیٰ کی ان بشارتوں کے ذریعہ تسلی دے رہے تھے لیکن میر عباس علی صاحب پر ایک خوف طاری تھا اور وہ گھبراہٹ کے خطوط متواتر لکھ رہے تھے.دراصل یہی ایک بین فرق ہوتا ہے نبیوں کے ایمان میں اور دوسرے لوگوں کے ایمان میں چنانچہ انہوں نے فروری کے اخیر ہفتہ میں پھر ایک سخت گھبراہٹ کا خط لکھا کہ لودہانہ کے مولوی اور مفتی ایک طوفان بے تمیزی برپا کر رہے ہیں.جس سے شدید مخالفت ہو رہی ہے اور یہ آگ ہر طرف پھیل جائے گی مگر حضرت نے انہیں پھر تسلی دی اور فرمایا کہ آں مخدوم کچھ تفکر اور تردد نہ کریں اور یقیناً سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں.بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے.اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے.کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہیں ہوئے جب تک وہ
حیات احمد ۳۰۰ جلد دوم حصہ سوم کامل طور پر ستایا نہیں گیا.اگر لوگ خدا کے بندوں کو کہ جو اس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یونہی ان کی شکل ہی دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ ان کا ہرگز دنیا میں ظہور نہ ہوتا.“ مکتوب مورخه ۲۶ فروری ۱۸۸۴ء مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحه ۸۲ مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۹۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) غور کرو کہ آپ کے کلام میں ایک ہی رنگ ہے اور آپ اپنے مقام ماموریت کی شان وہی یقین کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نبیوں کی ہوتی ہے اپنے معاملہ کو اسی اصل پر پیش کرتے ہیں اور آپ کے قلب میں ایک ایسی سکیت اور اطمینان ہے کہ دنیا کی مخالفت اسے ہلا نہیں سکتی بلکہ آپ اپنی سکینت اور تسلی کا اثر دوسروں پر بھی ڈالتے ہیں.جیسے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ پر ڈالا اور خدا کی وحی نے یوں تصدیق کی.لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا - یہ ایک طوفان مخالفت تھا جو ایک ہیبت ناک طریق پر اٹھا مگر آپ اس طوفان میں ایک چٹان کی طرح کھڑے رہے.جس کے ساتھ طوفانی لہریں آکر ٹکراتی ہیں اور نا کام واپس ہو جاتی ہیں اس زمانہ میں کفر کا ہتھیار بڑا سمجھا جاتا تھا اور بڑے سے بڑے حوصلہ والا آدمی بھی علماء کے اس ہتھیار سے گھبراتا تھا.مگر آپ کو اس کی پرواہ نہ تھی یہ طوفان مخالفت ترقی کرتا چلا گیا اور اندر اور باہر سے.یہ دشمنوں کے منصوبوں اور سازشوں کا جال پھیلتا گیا.یہاں تک کہ اپنے پرائے الْكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ ** ہو کر ایک صف میں کھڑے ہو گئے اور مولوی ابوسعید محمد حسین اور میر عباس علی صاحب بھی انہیں لوگوں میں جا ملے مگر آپ پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا.اس طوفان مخالفت میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتوں کا ظہور عجیب رنگ میں ہونے لگا باوجود اس کے ابھی آپ کی طرف سے بیعت لینے کا اظہار نہ ہوا تھا اس لئے کہ آپ اس کے لئے مامور نہ تھے مگر اللہ تعالیٰ کے فرشتے پاک اور سعید روحوں کو اس طرف متوجہ کر رہے تھے اور وہ نہایت اخلاص اور کامل ایثار و نیازمندی کی روح لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے چنانچہ انہیں میں سے ایک بزرگ حضرت چودھری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ تھے حاشیہ.میں اس وقت ایک جوش اپنے قلب میں پاتا ہوں کہ حضرت چودھری صاحب کے اس ابتدائی تعلق کا
حیات احمد ۳۰۱ جلد دوم حصہ سوم اور وہ اسی سال ۱۸۸۴ء میں حضرت کے ارادت مندوں میں داخل ہوئے حضرت چوہدری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ مدار ضلع جالندھر کے ایک معزز اور شریف خاندان اعوان کے رکن تھے اور ان کی ابتدائی تعلیم مسلمانوں کے قدیم طریق تعلیم پر ہوئی تھی فارسی پر انہیں پورا عبور تھا.اور عربی کی بھی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں.اور محکمہ پولیس میں ملازم ہوئے.وہ چونکہ تعلیم یافتہ تھے اس لئے بقیہ حاشیہ:.ذکر کروں جو میری معرفی کا موجب ہوا.اور اس کے لحاظ سے میں ان کو اپنے محسنوں میں یقین کرتا ہوں.وہ محکمہ پولیس میں جیسا کہ متن میں ذکر آیا ملازم تھے میں ۱۸۸۵ء میں پرائمری اسکول پاس کر کے مڈل اسکول کی پہلی جماعت میں شریک تھا ہمارے ہیڈ ماسٹر مولوی سید غلام محی الدین صاحب تھے اس زمانہ میں ہماری جماعت کے مسلمان طلباء علی العموم دیندار اور باجماعت نماز کے پابند تھے اور ان میں سے بعض بالآخر سلسلہ احمدیہ میں بھی داخل ہو گئے بلکہ ایک جماعت قائم کرنے والے ہوئے جیسے حضرت مولوی امام الدین صاحب آف کریم پور ( رضی اللہ عنہ ) مولوی سید غلام محی الدین صاحب کے پاس براہین احمد یہ نہایت خوبصورت مجلد تھی اور وہ اسے اپنے صندوقچہ میں رکھتے اور اکثر پڑھتے تھے ہم سب جہاں نماز پڑھتے حضرت چوہدری رستم علی صاحب بھی وہاں آتے.اور شریک نماز ہوتے ان کے چہرہ پر ٹور، باتوں میں مٹھاس اور رفتار و گفتار میں فروتنی اور انکساری نمایاں تھی.مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ کیا کتاب ہے جس کو مولوی غلام محی الدین صاحب بڑے شوق و ذوق سے پڑھتے ہیں وہ دو پہر کو آرام کرنے کے لئے اپنے ایک حجرہ میں چلے جاتے ایک دن دو پہر کے وقت میں نے اس کتاب کو نکالا اور پاس کے باغ میں جا کر ورق گردانی کرنے لگا.کچھ سمجھ میں آتا نہ تھا اور میرے لئے ایک ہی گھنٹہ کا وقفہ تھا آخر میری نظر اس نظم پر پڑی جو جمال وحسن قرآن نور جان ہر مسلمان ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے اس مضمون کی ندرت اور رفعت نے میرے دل پر ایک خاص اثر کیا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ چوہدری صاحب کی کتاب ہے چودھری صاحب کے تعلقات مولوی غلام محی الدین صاحب سے ہمیشہ ویسے ہی رہے جو میرے اخبار الحکم کے خریدار بھی تھے اور اسی زمانہ میں ان سے ایک مرتبہ ملاقات کا موقعہ ملا تو باوجود یکہ میں ان کا شاگر د تھا.انہوں نے میرے ساتھ بڑے اخلاص و اکرام کا برتاؤ کیا (جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء)
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم انہوں نے بہت جلد ترقی کی.سارجنٹ سے لے کر انسپکٹر پولیس تک پہنچے اور آخر میں کورٹ انسپکٹر کے عہدہ سے پنشن لی.فارسی زبان میں شعر بھی کہتے تھے اور تاریخ گوئی میں کمال حاصل تھا.شروع سے ان کی طبیعت میں انکساری اور فروتنی اور خوش اخلاقی تھی.اور عملی اسلام سے محبت تھی.اپنے علم و معرفت کے موافق وہ ایک عملی مسلمان تھے.جب انہیں حضرت اقدس کا چرچا پہنچا اور آپ کی کتاب براہین احمدیہ کا شہرہ ہوا تو آپ نے براہین کو خریدا اور اس کو کئی مرتبہ پڑھا جوں بقیہ حاشیہ:.وہ حضرت کے ساتھ ارادت و اخلاص رکھتے تھے مگر کسی نا معلوم وجہ سے بیعت نہ کر سکے.غرض احمدیت کا بیج میرے قلب میں اس وقت بویا گیا.اس کے بعد چوہدری صاحب سے پہلی ملاقات ۱۸۹۲ ء میں ہوئی.یہ فروری ۱۸۹۲ء کا آغاز تھا جبکہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام لا ہور تشریف فرما تھے.اس وقت آپ کا قیام محبوب ایوان کے مکان متصل لنگے منڈی میں تھا اور اسی مقام پر وہ مباحثہ ہوا تھا جو مولوی عبدالحکیم کلانوری کے ساتھ مسئلہ محدثیت پر ہوا تھا.اسی مباحثہ میں آپ کا وہ خارق عادت نشان ظاہر ہوا تھا.جو بخاری شریف سے ایک حوالہ کے پیش کرنے کے متعلق ایک نوجوان مخالف مولوی احمد علی صاحب نے کیا تھا اس کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت المہدی جلد دوم میں روایت ۶ کیم میں اجمالی ذکر کیا تھا.میں نے اس کی تصحیح کر دی تھی کہ یہ واقعہ لود بہانہ یا دہلی کا نہیں لاہور کا تھا اور میں اس کا چشم دید گواہ ہوں اور اس وقت نہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب موجود تھے نہ حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب رضی اللہ عنہ.غرض اس موقعہ پر چودھری صاحب بھی آئے انہوں نے مجھے اور میں نے ان کو دیکھا اُن کی آنکھوں میں ایک نورانی چمک اور چہرہ دائمی متبسم اور اس پر تہجد خوانی کے افوار ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا اور خلوص قلب سے ایک دوسرے سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور اس کے بعد تعلقات کا سلسلہ ایک حقیقی اخوت کے رنگ میں رنگین ہو گیا وہ الحکم کے اولین خریدار نیاز مند کے اخص معاونین میں سے تھے.اور اس کی شہادت الحکم کے کالموں میں موجود ہے.اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے فضل اور کرم کرے اپنے قرب میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ان کو ایک فدا یا نہ عشق تھا اور وہ ہر موقعہ فرصت کو غنیمت سمجھ کر حاضر ہوتے.اللَّهُمَّ نَوْرْ مَرْقَدَهُ (خاکسار عرفانی الكبير ) سيرة المهدی جلد اصفحه ۲۸۲ تا ۲۸۵ روایت نمبر ۳۰۶ مطبوعہ فروری ۲۰۰۸ء
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم جوں وہ براہین کو پڑھتے تھے حضرت اقدس سے ربط اور محبت بڑھتی جاتی تھی.اور وہ اپنی ارادت و اخلاص سے اس مقام پر پہنچے جو ہر شخص کو نہیں مل سکتا.حضرت اقدس ان کو اپنے خاص اول درجہ کے دوستوں میں یقین کرتے تھے.یہ وہ زمانہ تھا کہ آپ کا کوئی دعوئی نہ تھا اگر چہ براہین میں وہ سب کچھ موجود تھا غرض چودھری صاحب اس لہی عقیدت میں ایک ممتاز مقام پر پہنچ گئے.اور جب ۱۸۸۹ء میں آپ نے اعلان بیعت کیا تو چودھری صاحب کانگڑہ میں تھے میری اپنی تحقیقات یہ ہے کہ حضرت اقدس سے تعلق کے سلسلہ میں تاریخی حیثیت سے حضرت چودھری صاحب کو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ پر بھی سبقت حاصل ہے.اگر چہ عملاً یوم البیعت میں اولیت کا تاج حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھا گیا.میرے اپنے علم و تحقیقات میں حضرت حکیم الامت (خلیفہ مسیح الاول) کا تعلق حضرت اقدس سے ۱۸۸۵ء میں ہوا ہے چوہدری صاحب نے دسویں نمبر پر حضرت اقدس کی بیعت کی چنانچہ رجسٹر مبایعین مرتبہ حضرت اقدس کے دسویں نمبر پر حضرت اقدس نے خود اپنے دست مبارک سے اس طرح اندراج فرمایا ہے.تاریخ بیعت ۳ / رجب ۱۳۰۶ ه م ۲۳ / مارچ ۱۸۸۹ء.منشی رستم علی ولد شہاب خان.موضع مدار ضلع جالندھر تحصیل جالندھر.(موجودہ سکونت ) کانگڑہ.ملازمت پولیس علاقہ قصیری ڈپٹی انسپکٹر پولیس کانگڑہ.حضرت اقدس سے تعلقات عقیدت پیدا کرنے کے بعد انہوں نے اس منزل اخلاص میں سلوک کی تمام راہوں کو طے کر لیا اور وہ ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہتے تھے.اور حضرت اقدس کی ضروریات کے وقت پیش پیش رہتے تھے.اور خود حضرت اقدس بھی اپنے ایک عزیز کی طرح بے تکلف آپ کو بعض خدمات کا موقع دیتے تھے.یہ تفصیلات ان مکتوبات میں موجود ہیں.اور اللہ تعالیٰ کا شکر اور اسی کی حمد ہے کہ اس نے خاکسار عرفانی الکبیر کو یہ سعادت بخشی کہ اس نے ان مکتوبات کو مکتوبات احمد یہ جلد پنجم کے تیسرے نمبر میں شائع کر دیا.ان مکتوبات کی روشنی میں
حیات احمد ۳۰۴ جلد دوم حصہ سوم چودھری صاحب کے کارنامے اور ان کے روحانی مقام کی عظمت کا پتہ لگتا ہے.وہ حضرت کے ساتھ ایک فدویا نہ تعلق رکھتے تھے اور باوجود پولیس میں ملازم ہونے کے انہوں نے اپنی زندگی کو ایک راستباز متتدین اور حق پسند مومن کی حیثیت سے بسر کیا.خود محکمہ پولیس کے بعض لوگ کہا کرتے تھے کہ شیطان کے محکمہ میں یہ ولی عجیب ہے.اپنے فرائض منصبی کو نہایت دیانتداری سے ادا کرتے اور حق باطل میں کبھی التباس کو پسند نہیں کیا.اور اپنے مال کو کسی ناجائز مال سے ملنے نہ دیا حلال طیب کمائی تھی اور اس میں سے بھی بقدر قوت لایموت لیتے تھے میرے ساتھ ان کے تعلقات بہت قریبی بھائیوں کے تھے.اور وہ ہمیشہ نہایت محبت اور اخلاص سے پیش آتے.حضرت اقدس نے آپ کے متعلق لکھا کہ :.ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اوّل درجہ کے دوستوں میں سے ہے ان کے چہرہ پر بھی علامات غربت و بے نفسی و اخلاص ظاہر ہیں کسی ابتلا کے وقت میں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا.اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے 66 میری طرف رجوع کیا اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز افزوں ہے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۶) اس اخلاص کے اظہار کی تصدیق آپ نے ۱۸۹۱ء میں کی اور اس وقت تک کہ مختلف قسم کے امتحان صادقوں اور بزدلوں میں امیتاز کے لئے پیدا ہو چکے تھے.سب سے بڑا فتنہ تو بشیر اوّل کی وفات اور پیشگوئی پر ہوا.چودھری صاحب کے حصہ میں یہ سعادت بھی آئی تھی کہ بشیر اول کے عقیقہ کی ضروریات کا انتظام بھی حضرت اقدس نے آپ پر ہی چھوڑا اور آپ نے ان کی خدمات کے متعلق ۱۸۹۷ء میں ایک مرتبہ لکھا :.آپ نے خالصتاً بہت خدمت کی ہے اور دلی محبت اور اخلاص سے آپ 66 خدمت میں لگے ہوئے ہیں اللہ جَلَّ شَانُہ آپ کو اس کا بہت اجر بخشے.“ یہ داستان عشق و وفا بہت طویل ہے اور میں یہاں ان کے حالات زندگی مختصر ابھی بیان
حیات احمد ۳۰۵ جلد دوم حصہ سوم نہیں کر سکتا.آخری وقت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو موقعہ دیا کہ وہ گورداسپور تبدیل ہو کر آگئے جس کی ان کو بڑی آرزو تھی اور قیام گورداسپور میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے اور سلسلہ کی خدمت کا بہت موقعہ ملتا تھا.ان کا گھر ایک مہمان خانہ تھا.جہاں ہمیشہ بعض احمدی احباب موجود رہتے تھے چودھری صاحب شب زندہ دار تھے.وہ التزاماً تہجد پڑھتے تھے اور سلسلہ کی تبلیغ اپنے ملنے والوں کو کرتے رہتے تھے.اور ان کے افسروں اور ماتحتوں اور دوسرے متعلق لوگوں کے لئے خود اُن کا وجود ہی تبلیغ تھا.جب چودھری صاحب کا سلسلہ کے ساتھ تعلق شروع ہوا اس وقت وہ سارجنٹ تھے.جس کو آج کل ہیڈ کانسٹبل کہا جاتا ہے.اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے محرر پیشی کے عہدہ پر مامور تھے حضرت اقدس جب ان کو خط لکھتے تو پتہ اس طرح لکھتے :.مقام جالندھر خاص.محکمہ پولیس بخدمت مشفقی مکرمی منشی رستم علی صاحب محرر پیشی محکمہ پولیس کے پہنچے آخری ایام اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو کر انہوں نے وظیفہ لے کر قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور صدر انجمن نے انہیں افسر بیت المال مقرر کیا اور لنگر خانہ کا انتظام بھی ان کے سپرد کیا گویا بوقت واحد آج کل کی اصطلاح میں ناظر بیت المال اور ناظر ضیافت تھے اور اس کام کو وہ اس حد تک آنریری کرتے تھے کہ اپنا کھانا بھی لنگر سے نہ کھاتے تھے اس کا وہاں انتظام بھی نہ تھا تا کہ ایسا نہ ہو لنگر خانہ کی اجناس میں سے کچھ لے لیا جاوے حالانکہ ان کے لئے حلال طیب تھا مگر انہوں نے اس للہی خدمت کے معاوضہ میں کچھ بھی لینا پسند نہ کیا اور اپنی خدمت کو خالصتاً لِلہ رکھا.یہ پہلا سال تھا جو حضرت اقدس کی وفات کا تھا.سالانہ جلسہ میں انہوں نے شبانہ روز اس قدر محنت کی کہ آخر وہ بیمار ہو گئے اور اسی علالت میں جنت الفردوس کو سدہارے.ان کی وفات پر میں نے جو نوٹ الحکم میں لکھا اُسے اپنے بہت ہی پیارے بھائی کی یاد میں یہاں درج کر دیتا ہوں تا کہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہو کہ ان کے بزرگوں میں جان شماری اور سلسلہ کے لئے وفاداری اور خدمت کا کیا مقام تھا.چودھری صاحب آیات اللہ میں سے تھے اور حضرت اقدس کو ان کے نام کے ساتھ وحی بھی ہوئی تھی.
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم چودھری رستم علی" یہ اس وحی کے الفاظ ہیں جو ۲۶ / مارچ ۱۹۰۵ء کو حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ السلام کو ہوئی اور یہ نام ہے ہمارے ایک نہایت ہی مخلص اور صادق بھائی کا جس کی وفات کی خبر میں لکھ رہا ہوں.جنہوں نے قادیان دارالامان میں !ار جنوری ۱۹۰۹ء کوقبل دو پہر ۶ یوم بیمار رہ کر عالم آخرت کی راہ لی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.اسی تاریخ کو انہیں مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا.چودھری رستم علی صاحب ہماری جماعت میں ایک بڑے ہی مخلص اور قابل تقلید احمدی تھے.وہ محکمہ پولیس میں ۱۳۳ برس تک نہایت نیک نامی اور قابلیت کے ساتھ ایک معمولی کانسٹبل.انسپکٹر پولیس کے درجہ تک پہنچے اور اسی عہدہ پر انہوں نے پینشن لی.پنشن لے کر وہ مہاجر بن کر قادیان آگئے اور ایسے آئے کہ پھر نہ گئے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں ہمیشہ ان کا نام زندہ رہے گا اس لئے کہ وہ فی الحقیقت زندہ ہیں.ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت است برجریده عالم دوام ما نیاز مند ایڈیٹر الحکم کو چوہدری صاحب سے اس وقت سے نیاز حاصل ہے جب وہ ایک سارجنٹ تھے اور ایڈیٹر الحکم دوم مڈل کا ایک طالب علم.انہیں ایام میں براہین احمدیہ اور سُرمہ چشم آریہ کا مطالعہ چودھری صاحب کیا کرتے تھے اور خاکسار ایڈیٹر الحکم بھی ان کتابوں کو بدوں سمجھنے کے یا بہت ہی کم سمجھنے کے سن لیا اور پڑھ لیا کرتا تھا.اس لمبے عرصے میں چودھری صاحب مختلف مقامات پر پھرتے پھراتے رہے اور آخر انسپکٹر پولیس ہو گئے اور ایڈیٹر الحکم طالب علمی کے زمانہ سے نکل کر ملازمت کے مزے چکھ کر اسے چھوڑ کر پھر ایسی جگہ آ پہنچا.جہاں اس نے اپنے ایک قدیم شناسا کو اپنے ساتھ ایک ہی باپ کا بیٹا پایا.ترجمہ.وہ شخص ہر گز نہیں مرتا جس کا دل عشق سے زندہ ہو گیا ہو ہمارا ہمیشہ رہنا کائنات کی تختی پر کندہ کیا ہوا ہے.
حیات احمد ۳۰۷ جلد دوم حصہ سوم چودھری صاحب بے شمار خوبیوں کے انسان تھے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ وہ سچے مسلمان تھے بلکہ میں اپنے ایمان میں اولیاء اللہ میں سے یقین کرتا ہوں.حضرت اقدس کی محبت میں ایسے فانی اور گداز تھے کہ اس عشق میں انہوں نے بعض دھوکہ دینے والوں سے مالی نقصان بھی اٹھایا اور بار ہا اٹھایا مگر جب کوئی حضرت کا نام لے کر ان کے پاس چلا جاتا تو اس کو یاد محبوب کا ذریعہ یقین کر کے اس پر سب کچھ شمار کرنے کو تیار ہو جاتے ہمیشہ جو کچھ کمایا.وہ سلسلہ کی خدمت میں دیا.ہر ایک نیک تحریک میں سب سے بڑھ کر حصہ لینے کے لئے بڑے حریص تھے.قادیان آ کر انہوں نے بیت المال کی خدمت اپنے ذمہ لی اور انجمن نے ان کو افسر بیت المال مقرر کیا اور لنگر کا انتظام ان کے سپرد کیا.کیسی فروتنی طبیعت میں تھی.کہ ان ایام میں ہمیشہ اپنے آپ کو خادم بیت المال لکھا کرتے بحالیکہ دوسرے صیغہ جات کے افسر اپنے آپ کو افسر لکھتے ہیں اور یہ کوئی گناہ کی بات بھی نہ تھی مگر انہوں نے ہمیشہ عاجزی اور فروتنی کو پسند کیا.باوجود یکہ وہ لنگر خانہ کے آفیسر تھے مگر اپنے کھانے کے لئے اپنا انتظام اپنی گرہ سے کرتے تھے.اور ایسی محنت اور جفاکشی سے کام کیا کہ اس تھوڑے ہی عرصہ میں کام کرنے والوں کے لئے ایک قیمتی نمونہ چھوڑ گئے ہیں معمولی اشیاء کے لئے وہ خود ادھر اُدھر دوڑتے پھرتے اور کوشش کرتے تھے ، سالانہ جلسہ میں غیر معمولی محنت اور متواتر شب بیداریوں نے انہیں سخت کمزور کر دیا.آخر اسی جہاد ( خدمت دین) میں وہ شہید ہو گئے اور محبوب و مولا آقا کے حضور جا پہنچے.چودھری صاحب کی کسی خوبی کا ذکر کریں ان کی خوبی کے لئے یہ کیا کم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ان کے حق میں نازل ہوا.چودھری رستم علی ، اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں چوہدری کے لفظ سے یاد فرمایا.چودھری صاحب کی مفارقت بڑے رنج اور افسوس کا موجب ہے.مگر اس لحاظ سے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اور اس کے دین کے خادم ہونے کی حیثیت میں دنیا سے رخصت ہوئے خوشی کا باعث ہے اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ ا تذکرہ صفحه ۴۴۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء
حیات احمد ۳۰۸ جلد دوم حصہ سوم اس امتحان میں پورے اترے خدا کرے کہ ہم کو بھی ان جیسا اخلاق صدق اور وفا اور سچی قربانی کا موجب ہو اور اسی طرح خاتمہ بالخیر ہو.چودھری صاحب نے آخری وقت تک بڑے صبر واستقلال کا نمونہ دکھایا.ان کے چہرہ پر کچھ بھی گھبراہٹ کے آثار نہ پائے گئے.بلکہ وہ پورے اطمینان اور حوصلہ سے جان دینے کے وقت تک رہے نہایت استقامت سے وصیت لکھوائی اور خود دستخط کئے.آخری رفع حاجت کے لئے اٹھے اور فارغ ہو کر لیٹے ہی تھے کہ مرغ روح پرواز کر گیا حضرت خلیفہ اسیح نے جنازہ پڑھا اور احباب اپنے نہایت ہی پیارے اور مخلص بھائی کو حضرت امام علیہ السلام کے جوار میں پہنچا آئے.چودھری صاحب نے دنیوی رنگ میں اپنی یادگار صرف ایک بچی چھوڑی ہے.جو اپنی والدہ کے پاس وطن میں ہے.جو ضلع جالندھر میں ہے مگر دراصل ان کی یادگار ان کی نیکیاں ان کی وہ خدمتیں جو دین کے لئے انہوں نے کی ہیں انمٹ ہیں اور کوئی ہاتھ انہیں محو نہیں کر سکتا.اگر موقعہ ملا تو چودھری صاحب کے متعلق کچھ بعد میں لکھیں گے فی الحال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں جو حضور نے آپ کے متعلق ایک وقت لکھی تھی.اس سے پہلے کہ میں حضرت اقدس کی وہ تحریر درج کروں ایک دو باتیں اور کہنا چاہتا ہوں چودھری صاحب کو نیاز مند ایڈیٹر الحکم کے ساتھ خصوصیت سے محبت تھی الحکم کے وہ.پہلے خریدار تھے یعنی سب سے پہلا انسان جس کے نام الحکم جاری ہوا.وہ چودھری رستم علی تھا.اگر چہ ان کی وفات کے ساتھ الحکم اُن کے نام بند ہوتا ہے.مگر میں اپنے مخلص دوست کی یاد تازہ رکھنی چاہتا ہوں.اس لئے ان کی روح کو ثواب پہنچانے کی نیت سے الحکم جب تک جاری رہے گا کسی ایسے نادار شوقین کو دیا جائے گا جو قیمت ادا کر کے نہیں لے سکتا.اور ایسا ہی ہر جدید تصنیف یا تالیف جو کارخانہ الحکم سے ایڈیٹر الحکم شائع کرے گا اپنے دوست کے لئے اس کی ایک کاپی حاجتمند کو لِلہ دیتا رہے گا.إِنْشَاءَ اللَّهُ الْعَزِيزِ احباب سے درخواست ہے کہ وہ اس مخلص بھائی کے لئے جنازہ غائب پڑھیں اور بہت بہت دعائیں کریں.
حیات احمد ۳۰۹ جلد دوم حصہ سوم اب آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ تحریر درج کر دیتا ہوں جو آپ نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۸۰۶ و ۸۰۷ پر شائع کی ہے کیا اچھا ہو کہ یہ کتبہ ان کے قبر پر لگا دیا جاوے.فرماتے ہیں:.وو حِبَى فِى الله منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے یہ ایک نو جوان صالح اخلاص سے بھرا ہوا میرے اوّل درجہ کے دوستوں سے ہے.اُن کے چہرہ پر ہی علامات غربت و بے نفسی و اخلاص ظاہر ہیں.کسی ابتلا کے وقت میں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں.بلکہ روز افزوں ہے.“ (ازالہ اوہام صفحہ ۸۰۶، ۸۰۷ - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۶) الغرض ایک طرف علماء سوء آپ کی مخالفت کے لئے اپنے تیر و ترکش لے کر میدان میں اترے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آپ کے مخلصین کی جماعت میں ترقی کا آغاز کر دیا.اور منکریں اور مخالفین کے حملے اور مساعی سلسلہ عالیہ کی ترقی کے لئے کھا د کا کام دینے لگے حضرت پر ان مخالفوں کا کچھ اثر نہ تھا.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے نصرت و تائید کے آپ کے ہر گونہ اطمینان و تسلی کا موجب تھے.اس وقت آپ قلمی جہاد میں مصروف تھے اور یہ ایک قسم کی اندرونی اور بیرونی جنگ تھی.عیسائیوں، آریوں اور برہمنوں کا دفاع ایک طرف تھا اور بعض اندرونی مفاسد جن کے لئے آپ مہدی ہو کر آئے تھے.آپ کی توجہ کو منعطف کرا رہے تھے چنانچہ ایک فتنہ وحدت الوجود کا پیدا ہورہا تھا.اگر چہ یہ قضیہ بہت پرانا ہے مگر اس زمانہ میں بھی یہ سر نکال رہا تھا.وحدت وجودیوں سے قلمی جنگ اس زمانہ میں خصوصیت سے دوآبہ بست جالندھر اور اس کے ملحقہ اضلاع میں وحدت وجودیوں کی ایک رو چل رہی تھی.خاص شہر اور ہانہ میں بھی اس خیال اور عقیدہ کے
حیات احمد ۳۱۰ جلد دوم حصہ سوم اباحتی لوگ موجود تھے ان میں سب سے آگے نکلا ہوا ایک شخص سیف الرحمن نامی تھا اور وہ عام طور پر مولویوں اور دوسرے مذہبی مذاق رکھنے والے لوگوں سے شخصی مباحثات بھی کرتا رہتا تھا.لودہانہ کی حالت ان ایام میں عجیب تھی عیسائیوں کا وہ بڑا اور پرانا گڑھ تھا.اخبارٹو را فشاں بڑی شان سے شائع کیا جا رہا تھا اُن سے مباحثات کے لئے شیخ الہ دیا صاحب جلد ساز پیش پیش تھے شیعہ لوگوں سے بھی چھیڑ چھاڑ رہتی تھی اور حافظ عبدالباقی نام ایک نابینا بڑی دلچسپی لیتے تھے اور شیعہ حضرات میں میر فرزند حسین صاحب کا طوطی بول رہا تھا.غیر مقلدوں میں میاں محمد حسن صاحب اعوان کی پارٹی تازہ بتازہ جوش دکھا رہی تھی.اور مولوی عبداللہ، عبدالعزیز اور محمد ہرسہ برادران کے غیظ و غضب اور خود نمائی کا تو ٹھکانہ ہی نہ تھا وہ اپنے آپ کو لو د ہانہ کے مسلمانوں کے گویا مذہبی پیشوا یقین کرتے تھے اور اگر کوئی مولوی یا اہل علم ان کی مرضی یا اطاعت کے بغیر لودہانہ میں باہر سے آ کر کوئی وعظ وغیرہ کرے.تو اس کا ٹھکانہ مشکل تھا.غرض ایک عجیب قسم کی حالت تھی.وحدت وجودیوں میں میاں سیف الرحمن نے ایک پارٹی بنالی تھی اور وہ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے حضرت اقدس کا چرچا جب لو ہانہ میں عام ہونے لگا اور آپ کے زہد، ورع اور علم وفضل کے متعلق شہرہ ہوا تو انہوں نے میر عباس علی صاحب کے واسطہ سے بعض سوالات شروع کئے چنانچہ میر صاحب نے حضرت کی خدمت میں وحدت وجود کے مسئلہ کے متعلق استفسار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود یکہ آپ براہین کی طبع واشاعت اور دوسرے دینی کاموں میں از بس مصروف تھے ( کیونکہ اس وقت کوئی انتظام تو تھا نہیں.سب کام خود کرنے ہوتے تھے کا پیوں کا پڑھنا پروف دیکھنے وغیرہ اور خطوط کے جواب دینے وغیرہ ) میر عباس علی صاحب کے استفسار پر وحدت وجود کی تردید میں ایک مبسوط خط ۱۳ / فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ کو لکھا جس میں وجودیوں کے اعتقادات کے پرخچے اڑا دیئے.وحدت وجود کے مسئلہ پر جب آپ نے قلم اٹھایا تو یونہی خیالی طور پر نہیں بلکہ آپ نے ایک محقق کی حیثیت سے اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غور کر لیا تھا اور کافی مطالعہ کر کے یہ فیصلہ کیا تھا چنانچہ آپ فرماتے ہیں.
حیات احمد ۳۱۱ جلد دوم حصہ سوم اس عاجز نے ہر چند ایک مدت دراز تک غور کی.اور کتاب اللہ اور احادیث نبوی کو بتدبر و تفکر تمام دیکھا اور محی الدین عربی وغیرہ کی تالیفات پر نظر ڈالی کہ جو اس طور کے خیالات سے بھری ہوئی ہیں اور خود عقل خدا داد کی رو سے بھی خوب سوچا اور فکر کیا لیکن آج تک اس دعوی کی بنیاد پر کوئی دلیل اور صحیح حجت ہاتھ نہیں آئی.اور کسی نوع کی برہان اس کی صحت پر قائم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ابطال پر براہین قویہ اور حجج قطعیه قائم ہوتی ہیں کہ جو کسی طرح اٹھ نہیں سکتیں.“ ( مکتوبات احمد یہ جلد اصفحہ ۷۴.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۹۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) آپ کے معمول میں یہ بات تھی کہ کسی مذہب کے کسی مسئلہ پر قلم نہیں اٹھاتے تھے جب تک ایک مخلص محقق کی حیثیت سے اس کے تمام پہلوؤں پر پوری طرح غور نہ کر لیں.اور جہاں جس قدر بھی صداقت اور حقیقت ہو اس کے قبول کرنے میں کبھی مذائقہ نہیں کرتے تھے.اس لئے کہ وہ مومن کی متاع ہے.غرض میر عباس علی صاحب کے ذریعہ مسئلہ وحدت وجود کے قائلین کو ان کی حقیقت سے ایسا آگاہ کیا کہ پھر وہ اس سلسلہ میں آگے نہ بڑھ سکے آپ کا یہ بھی طرز عمل تھا مجرد دشمن کے اعتراض کا جواب ہی مقصود خاطر نہ ہوتا تھا بلکہ اس کے ضمن میں قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو بھی ظاہر کرنا ضروری سمجھتے تھے.باوجود یکہ آپ ان ایام میں علیل تھے لیکن ایک مذہبی مسئلہ کے جواب کے لئے آپ نے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کی اور نہیں کرتے تھے.چنانچہ بعد کے آنے والے زمانہ میں راقم الحروف (عرفانی) نے دیکھا کہ تمام بڑی بڑی تصنیفات شدید بیماریوں کی حالت میں لکھی گئی ہیں.اس وقت بھی آپ کی طبیعت ناساز تھی لیکن آپ کے دل میں ان خرابیوں کے وجہ سے جو امت محمدیہ میں پیدا ہو چکی تھیں ایک درد تھا چنا نچہ لکھا کہ ” خدا تعالیٰ اُمّتِ محمدیہ کی آپ اصلاح کرے عجب خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں.اور یہ عاجز بباعث اپنی علالت طبع کے اس مضمون کو تفصیل اور بسط سے نہیں لکھ سکا
حیات احمد ۳۱۲ جلد دوم حصہ سوم لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ طالب حق کے لئے اسی قدر کافی ہے مگر جس شخص کا مقصد خدا نہیں.اس کو کوئی دقیقہ معرفت اور کوئی نشان مفید نہیں.“ ۱۳ / فروری ۱۸۸۴ء.مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۸۱.مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۹۷ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اس فیصلہ کن جواب کو حوالہ ڈاک کر کے آپ براہین کے کام کے لئے اُسی روز روانہ ہو گئے اور تحریر فریا کہ اب میں تَوَكُلا عَلَى اللهِ امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہوں.کتاب تو تیار ہو چکی تھی.جز و بندی اور سلائی وغیرہ کا کام ہورہا تھا جیسے جیسے تیار ہوتی جاتی تھی روانہ ہوتی رہتی تھی.مسئلہ وحدت وجود کے متعلق زبانی تقریروں کے علاوہ بذریعہ خط و کتابت یہی بحث کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہا ان خطوط کو میں نے مکتوبات احمدیہ (جلد اول) میں شائع کر دیا ہے.لود ہانہ کے اس پہلے سفر کے متعلق میں نے حیات احمد جلد دوم نمبر دوم میں یکجائی طور پر مختصر حالات لکھ دیئے ہیں اور حاشیہ میں لودہانہ کی سلسلہ کی تاریخ میں اہمیت کا بھی مختصر ذکر کر دیا ہے.یہاں میں اس قدر اور بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ لودہانہ کا سب سے پہلا سفر ۱۸۸۴ء کی پہلی سہ ماہی میں ہوا.غالب قیاس یہ ہے کہ مارچ ۱۸۸۴ء میں ہوا ہے اس کے بعد دوسری مرتبہ آپ میر عباس علی صاحب کی عیادت کے لئے بھی تشریف لے گئے.ان سفروں کے علاوہ لودہانہ میں سلسلہ بیعت سے پہلے اور بعد مختلف اوقات میں آپ لودہانہ تشریف لے گئے.اور متعدد مرتبہ لودہانہ کے اسٹیشن سے گزرے یہ سفر حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے قیام اود ہانہ انبالہ، بیٹیالہ وغیرہ کی تقریب سے ہوئے.اور بیعت کے سلسلہ کے بعد مسیح موعود کے دعوئی کے بعد سفروں میں وہ سفر بڑی اہمیت کا سفر ہے.جبکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے آپ کا مباحثہ ۱۸۹۱ء میں ہوا.سفر مالیر کوٹلہ آپ کے دوسرے سفروں پر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو سلسلہ واقعات میں ذکر کرتا رہوں گا.البتہ لودہانہ کے سفروں کے سلسلہ میں جب آپ میر عباس علی صاحب کی عیادت کے سلسلہ میں آئے مکتوبات احمد جلد ا مطبوعہ ۲۰۰۸ء کے صفحہ ۵۰۷ تا ۶۴۳ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے میر عباس علی ساحب کے نام خطوط ہیں.ان میں گاہے گا ہے وحدت الوجود کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے.(ناشر)
حیات احمد ۳۱۳ جلد دوم حصہ سوم تو آپ نے لودہانہ سے مالیر کوٹلہ کا بھی سفر کیا.اور یہ سفر آپ نے نواب محمد ابراہیم علی خان کی والدہ صاحبہ کی درخواست پر کیا تھا.نواب صاحب دماغی عارضہ سے بیمار تھے.اور بیگم صاحبہ نے آپ سے دعا کی درخواست کی تھی.اس سفر کے کوائف کے متعلق حضرت میر عنایت علی رضی اللہ عنہ کا بیان درج ذیل ہے.حضرت شیخ غلام احمد (سابق ہیرالال) نو مسلم رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی ان ایام میں ہی انہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اس سے پہلے حضرت اقدس کے حضور اود ہانہ میں شرف ملاقات حاصل کر چکے تھے.سفر مالیر کوٹلہ کے وقت وہ مالیر کوٹلہ میں پہلے سے مقیم تھے.چونکہ وہ نو مسلم تھے اور ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ان کے قبول اسلام کا خاص شہرہ تھا اور بعض خطرات کے پیش نظر مالیر کوٹلہ کے ممتاز مسلمانوں نے ان کو وہاں بلا لیا تھا.بہر حال حضرت میر عنایت علی صاحب کا بیان حسب ذیل ہے.میر عنایت علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مالیر کوٹلہ بھی تشریف لے گئے تھے.قریب آٹھ دس آدمی حضور کے ہمراہ تھے.اس وقت تک ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیں ہوئی تھی.میں بھی حضور کے ہمرکاب تھا.حضرت صاحب نے یہ سفر اس لئے اختیار کیا تھا کہ بیگم صاحبہ یعنی والدہ نواب ابراہیم علی خان صاحب نے اپنے اہلکاروں کو لدھیانہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھا.کہ حضور مالیر کوٹلہ تشریف لا کر میرے لڑکے کو دیکھیں اور دعا فرما ئیں کیونکہ نواب ابراہیم علی خاں صاحب کو عرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہو گیا تھا.حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب مالیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے سواریاں لے جائیں تا کہ آپ باغ میں جا کر نواب صاحب کو دیکھیں مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں ہم پیدل ہی چلیں گے.چنانچہ آپ پیدل ہی گئے اس وقت ایک بڑا ہجوم لوگوں کا آپ کے ساتھ تھا.جب آپ باغ میں پہنچے تو مع اپنے ساتھیوں کے ٹھہر گئے.نواب صاحب کوٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ
حیات احمد ۳۱۴ جلد دوم حصہ سوم گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت سے سلام علیکم کیا اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپا مگر انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا.اس کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آیئے اندر بیٹھیں.چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صاحب کوٹھی کے اندر چلے گئے اور قریباً آدھ گھنٹہ اندر رہے چونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا.اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندر کیا کیا باتیں ہوئیں.اس کے بعد حضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی جامع مسجد کی طرف چلے آئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہر چلے گئے.مسجد میں پہنچ کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ سب لوگ پہلے وضو کریں اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر نواب صاحب کی صحت کے واسطے دعا کریں کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں اور ہم بھی دعا کرتے ہیں.غرض حضرت اقدس نے مع سب لوگوں کے دعا کی اور پھر اس کے بعد فوراً ہی لدھیانہ تشریف لے آئے اور باوجود اصرار کے مالیر کوٹلہ میں اور نہ ٹھہرے.“ ) سیرت المہدی جلد اول صفحه ۳۱۲٬۳۱۱ روایت نمبر ۳۴۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) عظیم الشان نشان ۱۸۸۴ء اپنے واقعات کے لحاظ سے ایک خاص تاریخی سال سلسلہ کی تاریخ کا ہے.اُن عظیم الشان واقعات میں ایک وہ واقعہ ہے جو جماعت احمدیہ میں سرخ چھینٹوں کا نشان کے نام سے مشہور ہے.یہ نشان آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے تعلقات قرب اور معجزات تصرفات خارجیہ میں سے ایک اعجاز ہے.یہ نشان منشی عبداللہ سنوری رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ظاہر ہوا.اور وہ اس کے چشم دید گواہ تھے.اس لئے خود ان کا بیان بلا گم و گاست یہاں درج کر دیا جاتا ہے.میں صرف یہ کہ کر بھی اس واقعہ کو بیان کر سکتا تھا مگر میری غرض اس تالیف سے یہ ہے کہ پڑھنے والے کو واقعات کے لئے کسی قسم کی مزید تلاش کی ضرورت نہ رہے.اس نشان کے متعلق مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اعتراض کیا تو حضرت منشی عبداللہ صاحب اس سے اس خاص امر پر
حیات احمد ۳۱۵ جلد دوم حصہ سوم مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے اور امرتسر جا پہنچے.مگر مولوی صاحب کو جرات مقابلہ نہ ہوئی.میں اس واقعہ کا بیان خود حضرت منشی صاحب مرحوم کی زبانی سے درج کرتا ہوں جو انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے بیان کیا اور آپ نے سیرت المہدی جلد اول کی روایت نمبر ( ۲۰ ) میں بیان درج کیا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ غالباً یہ ۱۸۸۲ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ ماہ جیٹھ یعنی مئی جون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز فجر پڑھ کر اس کے ساتھ والے غسل خانہ میں جو تازہ پلستر ہونے کی وجہ سے ٹھنڈا تھا ایک چارپائی پر جو وہاں بچھی رہتی تھی جالیے.چارپائی پر بستر اور تکیہ وغیرہ کوئی نہ تھا.حضرت کا سر قبلہ کی طرف اور منہ شمال کی طرف تھا.ایک کہنی آپ نے سر کے نیچے بطور تکیہ کے رکھ لی اور دوسری اسی صورت میں سر کے اوپر ڈھانک لی میں پاؤں دبانے بیٹھ گیا.وہ رمضان کا مہینہ تھا اور ستائیس تاریخ تھی.اور جمعہ کا دن تھا.اس لئے میں دل میں بہت مسرور تھا کہ میرے لئے ایسے مبارک موقعے جمع ہیں.یعنی حضرت صاحب جیسے مبارک انسان کی خدمت کر رہا ہوں.وقت فجر کا ہے.جو مبارک وقت ہے.مہینہ رمضان کا ہے.جو مبارک مہینہ ہے.تاریخ ستائیس اور جمعہ کا دن ہے.اور گزشتہ شب شب قدر تھی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ مل جاویں.تو وہ رات یقیناً شب قدر ہوتی ہے.میں انہی باتوں کا خیال کر کے دل میں مسرور ہو رہا تھا کہ حضرت صاحب کا بدن یکلخت کانپا اور اس کے بعد حضور نے آہستہ سے اپنے اوپر کی کہنی ذرا ہٹا کر میری طرف دیکھا اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے.اس کے بعد آپ نے پھر اسی طرح اپنی کہنی رکھ لی.میں دباتے دباتے حضرت صاحب کی پنڈلی پر آیا تو میں نے دیکھا کہ حضور کے پاؤں پر ٹھنے کے نیچے ایک اٹن یعنی سخت سی جگہ تھی.اس پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا تھا جو بھی تازہ گرے ہونے کی وجہ سے بستہ تھا.میں نے اسے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی لگا کر دیکھا کہ کیا ہے.اس پر وہ قطرہ ٹخنے پر بھی پھیل گیا اور میری انگلی پر بھی لگ گیا.پھر میں نے اسے سونگھا کہ شاید اس میں کچھ خوشبو ہومگر خوشبو نہیں تھی.حواله از جدید ایڈیشن.سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۰۰ صفحه ۷۲ تا ۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم میں نے اسے اس لئے سونگھا تھا کہ اسی وقت میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ یہ کوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بات ہے اس لئے اس میں کوئی خوشبو ہو گی.پھر میں دبا تا دباتا پسلیوں کے پاس پہنچا وہاں میں نے اسی سرخی کا ایک اور بڑا قطرہ کرتہ پر دیکھا.اس کو بھی میں نے ٹولا تو وہ بھی گیلا تھا.اس وقت پھر مجھے حیرانی سی ہوئی کہ یہ سرخی کہاں سے آگئی ہے پھر میں چار پائی سے آہستہ سے اٹھا کہ حضرت صاحب جاگ نہ اٹھیں.اور پھر اس کا نشان تلاش کرنا چاہا کہ یہ سرخی کہاں سے گری ہے.بہت چھوٹا سا حجرہ تھا.چھت میں ارد گرد میں نے اس کی خوب تلاش کی مگر خارج میں مجھے اس کا کہیں پتہ نہیں چلا کہ کہاں سے گری ہے.مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں چھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹی ہو تو اس کا خون گرا ہو اس لئے میں نے غور کے ساتھ چھت پر بھی نظر ڈالی مگر اس کا کوئی نشان نہیں پایا.پھر آخر میں تھک کر بیٹھ گیا اور بدستور دبانے لگ گیا.تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر حجرہ میں سے نکل کر مسجد میں جا کر بیٹھ گئے.میں وہاں پیچھے بیٹھ کر آپ کے مونڈھے دبانے لگ گیا.اس وقت میں نے عرض کیا کہ حضور یہ آپ پر سرخی کہاں سے گری ہے.حضور نے بہت بے تو جہی سے فرمایا کہ آموں کا رس ہو گا اور مجھے ٹال دیا.میں نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور یہ آموں کا رس نہیں یہ تو سرخی ہے.اس پر آپ نے سر مبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمایا ” کتھے ہے؟ یعنی کہاں ہے؟ میں نے کرتہ پر وہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے اس پر حضور نے کرتے کو سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنے سر کو ادھر پھیر کر اس قطرہ کو دیکھا.پھر اُس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا بلکہ رویت باری اور امور کشوف کے خارج میں وجود پانے کے متعلق پہلے بزرگوں کے دو ایک واقعات مجھے سنائے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے اس کو یہ آنکھیں دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کی بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہو کر بزرگوں کو دکھائی دے جاتی ہیں.شاہ عبد القادر صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے کئی دفعہ خدا تعالیٰ کی زیارت اپنے والد کی شکل میں ہوئی ہے.نیز شاہ صاحب فرماتے ہیں.کہ ایک دفعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے ایک ہلدی کی گٹھی دی کہ یہ میری معرفت ہے اسے سنبھال کر رکھنا.جب وہ بیدار ہوئے تو ہلدی کی گٹھی ان کی مٹھی میں موجود تھی.اور ایک بزرگ جن کا حضور نے نام نہیں بتایا تہجد کے وقت اپنے حجرہ کے اندر بیٹھے مصلی پر کچھ پڑھ رہے تھے کہ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی شخص
حیات احمد ۳۱۷ جلد دوم حصہ سوم باہر سے آیا ہے اور ان کے نیچے کا مصلی نکال کر لے گیا ہے.جب وہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ فی الواقع مصلی ان کے نیچے نہیں تھا.جب دن نکلنے پر حجرہ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مصلی صحن میں پڑا ہے.یہ واقعات سنا کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ کشف کی باتیں تھیں مگر خدا تعالیٰ نے اُن بزرگوں کی کرامت ظاہر کرنے کے لئے خارج میں ان کا وجود ظاہر کر دیا.اب ہمارا قصہ سنو.جس وقت تم حجرہ میں ہمارے پاؤں دبا رہے تھے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت وسیع اور مصفی مکان ہے اس میں ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک شخص حاکم کی صورت میں بیٹھا ہے میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اَحْكَمُ الْحَاكَمین یعنی رب العلمین ہیں اور میں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے حاکم کا کوئی سر رشتہ دار ہوتا ہے.میں نے کچھ احکام قضاء و قدر کے متعلق لکھے ہیں اور اُن پر دستخط کرانے کی غرض سے ان کے پاس لے چلا ہوں جب میں پاس گیا تو انہوں نے مجھے نہایت شفقت سے اپنے پاس پلنگ پر بٹھا لیا اس وقت میری ایسی حالت ہوگئی کہ جیسے ایک بیٹا اپنے باپ سے بچھڑا ہوا سالہا سال کے بعد ملتا ہے اور قدرتاً اس کا دل بھر آتا ہے یا شاید فرمایا اس کو رقت آ جاتی ہے اور میرے دل میں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ یہ احکم الحاکمین یا فرما یارب العالمین ہیں اور کس محبت اور شفقت سے انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا ہے.اس کے بعد میں نے وہ احکام جو لکھے تھے دستخط کرانے کی غرض سے پیش کئے.انہوں نے قلم سرخی کی دوات میں جو پاس پڑی تھی ڈبویا اور میری طرف جھاڑ کر دستخط کر دیئے.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے قلم کے جھاڑنے اور دستخط کرنے کی حرکتوں کو خود اپنے ہاتھ کی حرکت سے بتایا تھا کہ یوں کیا تھا.پھر حضرت صاحب نے فرمایا یہ وہ سرخی ہے جو اس قلم سے نکلی ہے.پھر فرمایا دیکھو کوئی قطرہ تمہارے اوپر بھی گرا؟ میں نے اپنے کرتے کو ادھر ادھر سے دیکھ کر عرض کیا حضور میرے پر تو کوئی نہیں گرا.فرمایا کہ تم اپنی ٹوپی پر دیکھو.ان دنوں میں ململ کی سفید ٹوپی میرے سر پر ہوتی تھی میں نے وہ ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے عرض کیا حضور میری ٹوپی پر بھی ایک قطرہ ہے پھر میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ یہ کر نہ بڑا مبارک ہے اس کو تبر کالے لینا چاہئے.پہلے میں نے اس خیال سے کہ کہیں حضور جلدی انکار نہ کر دیں حضور سے مسئلہ پوچھا کہ حضور کسی بزرگ کا کوئی متبرک کپڑے وغیرہ کا لے کر رکھنا جائز ہے؟ فرمایا ہاں جائز ہے.
حیات احمد ۳۱۸ جلد دوم حصہ سوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات صحابہ نے رکھے تھے.پھر میں نے عرض کیا کہ حضور خدا کے واسطے میرا ایک سوال ہے فرمایا کہو کیا ہے؟ عرض کیا کہ حضور یہ کر تہ تبرکا مجھے دے دیں.فرمایا نہیں یہ تو ہم نہیں دیتے.میں نے عرض کیا حضور نے ابھی تو فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات صحابہ نے رکھے.اس پر فرمایا کہ یہ گر تہ میں اس واسطے نہیں دیتا کہ میرے اور تیرے مرنے کے بعد اس سے شرک پھیلے گا.اس کی لوگ پوجا کریں گے.اس کو لوگ زیارت بنالیں گے.میں نے عرض کیا کہ حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات سے شرک نہ پھیلا.فرمایا میاں عبداللہ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.جو تبرک جن صحابہ کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا.میں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کر جاؤں گا کہ یہ کرتہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جاوے.فرمایا ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو.چونکہ وہ جمعہ کا دن تھا.تھوڑی دیر کے بعد حضور نے غسل کر کے کپڑے بدلے اور میں نے یہ کرتہ سنبھال لیا.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابھی آپ نے یہ کرتہ پہنا ہی ہوا تھا کہ دو تین مہمان جو ارد گرد سے آئے ہوئے تھے.ان سے میں نے اس نشان کا ذکر کیا وہ پھر حضرت صاحب کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میاں عبداللہ نے ہم سے ایسا بیان کیا ہے.حضور نے فرمایا.ہاں ٹھیک ہے.پھر انہوں نے کہا کہ حضور یہ کرتہ ہم کو دے دیں.ہم سب تقسیم کر لیں گے.کیوں کہ ہم سب کا اس میں حق ہے.حضرت صاحب نے فرمایا ہاں لے لینا اور ان سے کوئی شرط اور عہد وغیرہ نہیں لیا.مجھے اس وقت بہت فکر ہوا کہ یہ نشان میرے ہاتھ سے گیا.اور میرے دل میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی اس لئے میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور اس کرتہ پر آپ کا کوئی اختیار نہیں کیونکہ یہ میری ملک ہو چکا ہے.میرا اختیار ہے میں ان کو دوں یا نہ دوں کیونکہ میں حضور سے اس کو لے چکا ہوں.اس وقت حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ ہاں یہ تو میاں عبداللہ ہم سے لے چکے ہیں.اب ان کا اختیار ہے یہ تمہیں دیں نہ دیں پھر انہوں نے مجھ سے بڑے اصرار سے مانگا مگر میں نے انکار کر دیا.میاں عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ آج تک اس کر نہ پر سرخی کے ویسے ہی داغ موجود ہیں کوئی تغیر نہیں ہوا.اور اس کرتہ کے کپڑے کو پنجابی میں نینو
حیات احمد ۳۱۹ جلد دوم حصہ سوم کہتے ہیں.یہ کرتہ حضور نے سات دن سے پہنا ہوا تھا.میں یہ کرتہ لوگوں کو پہلے نہیں دکھایا کرتا تھا.کیونکہ حضور کے یہ الفاظ کہ یہ کرتہ زیارت نہ بنالیا جاوے مجھے یاد رہتے تھے.لیکن لوگ بہت خواہش کیا کرتے تھے.اور لوگ اس کے دیکھنے کے لئے مجھے بہت تنگ کرنے لگے میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے اس کا ذکر کیا کہ مجھے حضرت صاحب کے الفاظ کی وجہ سے اس کرتہ کے دکھانے سے کراہت آتی ہے.مگر لوگ تنگ کرتے ہیں کیا کیا جاوے؟ حضرت میاں صاحب نے فرمایا اسے بہت دکھایا کرو اور کثرت کے ساتھ دکھاؤ تاکہ اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہو جاویں اور ہر شخص ہماری جماعت میں سے یہ کہے کہ میں نے بھی دیکھا ہے.میں نے بھی دیکھا ہے میں نے بھی دیکھا ہے یا شائد میں نے کی جگہ ہم نے کے الفاظ کہے، اس کے بعد میں دکھانے لگ گیا مگر اب بھی صرف اس کو دکھاتا ہوں جو خواہش کرتا ہے اور از خود دکھانے سے مجھے کراہت ہے.کیونکہ حضرت صاحب کے الفاظ میرے دل پر نقش ہیں.اور ہر سفر میں میں اسے پاس رکھتا ہوں.اس خیال سے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کہاں جان نکل جاوے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ کر نہ دیکھا ہے.سرخی کا رنگ ہلکا ہے.یعنی گلابی سا ہے اور مجھے میاں عبداللہ صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ رنگ ابتدا سے ہی ایسا چلا آیا ہے.( نیز دیکھو روایت نمبر ۳۶ ) خاکسار عرفانی نے بھی اس گر تہ کو دیکھا اور حضرت منشی صاحب کی وفات پر جب وہ کرتہ پہنایا گیا میں موجود تھا اور مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ حضرت منشی صاحب اس خاکسار کے ساتھ بھی خاص محبت رکھتے تھے.مرض الموت میں وفات سے دو تین دن قبل میں گیا تو نہایت محبت سے مصافحہ ا حاشیہ روایت ۴۳۶ مندرجہ سیرت المہدی حصہ دوم حسب ذیل ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ خاکسار عرض کرتا ہے کہ آج بتاریخ ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء بروز جمعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بہت بڑی یادگار خداوند عالم کی ایک زبر دست آیت مقبرہ بہشتی میں سپردخاک ہو گئی یعنی میاں عبداللہ صاحب سنوری کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ گر تہ جس پر خدائی روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے دفن کر دیا گیا.خاکسار نے سیرت المہدی حصہ اوّل میں میاں عبداللہ صاحب برت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۴۳۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم کر کے دیر تک ہاتھ کو پکڑ رہے اللہ تعالیٰ ان کی تربت پر رحمت کے پھول برستا رہے.آمین (عرفانی) تاریخی اصلاح اس نشان کے ظہور کی تاریخ متعلق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت منشی صاحب رضی اللہ عنہ کو کچھ سہو ہوا ہے اپنی روایت مندرجہ سیرت المہدی حصہ اوّل ( جس کو میں نے اوپر درج کیا.بقیہ حاشیہ: کی زبانی وہ واقعہ قلمبند کیا ہے جو حضرت مسیح موعود کے گرتہ پر چھینٹے پڑنے کے متعلق ہے.ضرت صاحب نے میاں عبداللہ صاحب کے اصرار پر اُن کو یہ گر نہ عنایت کرتے ہوئے ہدایت فرمائی تھی کہ یہ گر تہ میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر ان کے ساتھ دفن کر دیا جاوے تا کہ بعد میں کسی زمانہ میں شرک کا موجب نہ بنے سو آج میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر وہ ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا.مجھے یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب نے اپنی زندگی میں کئی دفعہ دکھایا تھا اور میں نے وہ چھینٹے بھی دیکھے تھے.جو خدائی ہاتھ کی روشنائی سے اس پر پڑے تھے.اور جب آج آخری وقت میں غسل کے بعد یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا تو اس وقت بھی وہاں خاکسار موجود تھا میاں عبداللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا دیا ہوا ایک صابن کا ٹکڑا اور ایک بالوں کو لگانے کے تیل کی چھوٹی بوتل اور ایک عطر کی چھوٹی سی شیشی بھی رکھی ہوئی تھی اور غسل کے بعد جو اسی صابن سے دیا گیا.یہی تیل اور عطر میاں عبداللہ صاحب کے بالوں وغیرہ کو لگایا گیا اور کرتا پہنائے جانے کے بعد خاکسار نے خود اپنے ہاتھ سے کچھ عطر اس کرتہ پر بھی لگایا.نماز جنازہ سے قبل جب تک حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ کی آمد کا انتظار رہا لوگ نہایت شوق اور درد و رقت کے ساتھ میاں عبداللہ صاحب کو دیکھتے رہے جو اس کرتہ میں ملبوس ہو کر عجیب شان میں نظر آتے تھے.اور جنازہ میں اس کثرت کے ساتھ لوگ شریک ہوئے کہ اس سے قبل میں نے قادیان میں کسی جنازہ میں اتنا مجمع نہیں دیکھا.اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح کے سامنے میاں عبداللہ صاحب کو اُس گرتہ کے ساتھ بہشتی مقبرہ کے خاص بلاک میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سابقون اور اؤلون خدام کے لئے مخصوص ہے دفن کیا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح نے دفن کئے جانے کے وقت فرمایا کہ جن لوگوں کے سامنے یہ کرتہ بعد غسل میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا ان کی ایک حلفیہ شہادت اخبار میں شائع ہونی چاہئے تا کہ کسی آئندہ زمانہ میں کوئی شخص کوئی جعلی کرنہ پیش
حیات احمد ۳۲۱ جلد دوم حصہ سوم میں وہ تین باتیں بیان فرماتے ہیں (۱) ۱۸۸۴ء کا واقعہ (۲) ماہ جیٹھ (مئی جون ) کا مہینہ تھا.(۳) رمضان کا مہینہ تھا.اور ستائیس تاریخ اور جمعہ کا دن تھا.اگر چہ وہ ۱۸۸۴ء کے متعلق غالبا کا لفظ بولتے ہیں.مگر یہ صحیح ہے کہ یہ واقعہ ۱۸۸۴ء ہی کا ہے.رمضان کے مہینے اور ستائیں تاریخ اور جمعہ کے دن کے متعلق کچھ اشتباہ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ رمضان کا مہینہ ۱۸۸۴ء میں کچھ شک نہیں ۲۵ / جون ۱۸۸۴ کو شروع ہوا اور اس حساب سے ۲۷ / رمضان ۲۱ جولائی ۱۸۸۴ء کو واقع ہوئی اور وہ دن دوشنبہ کا تھا اس لئے میں جہاں تک سمجھتا بقیہ حاشیہ: کر کے یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ کرتہ ہے جس پر چھینٹے پڑے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب مرحوم سابقون اولون میں سے تھے اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ ان کو ایک غیر معمولی عشق تھا میرے ساتھ جب وہ حضرت صاحب کا ذکر فرماتے تھے تو اکثر ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور بعض اوقات ایسی رقت طاری ہو جاتی تھی کہ وہ بات نہیں کر سکتے تھے جب وہ پہلے پہل حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی.اور اس کے بعد آخری لمحہ تک ایسے روز افزوں اخلاص اور وفاداری کے ساتھ مرحوم نے اس تعلق کو نبھایا کہ جو صرف انبیاء کے خاص اصحاب کی ہی شان ہے.ایسے لوگ جماعت کے لئے موجب برکت و رحمت ہوتے ہیں اور ان کی وفات ایک ایسا قومی نقصان ہوتی ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی.مرحوم کو اس خاکسار کے ساتھ بہت انس تھا اور آخری ایام میں جبکہ وہ پنشن لے کر قادیان آگئے تھے انہوں نے خاص شوق کے ساتھ ہمارے اس نئے باغ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جو فارم کے نام سے مشہور ہے اور جو یہ خاکسار کچھ عرصہ سے تیار کروا رہا ہے اور پھر مرحوم نے اس انتظام کو ایسی خوبی کے ساتھ نبھایا کہ میں اس کے تفکرات سے قریباً بالکل آزاد ہو گیا.اللہ تعالیٰ مرحوم کو عالم اُخروی میں اعلیٰ انعامات کا وارث کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص قرب میں جگہ عطا فرمائے جن کا عشق مرحوم کی زندگی کا جزو تھا اور مرحوم کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے.اللهم آمین بوقت وفات مرحوم کی عمر کم و بیش چھیاسٹھ سال کی تھی.وفات مرض فالج سے ہوئی.جس میں مرحوم نے تیرہ دن بہت تکلیف سے کالے.فالج کا اثر زبان پر بھی تھا.اور طاقت گویائی نہیں رہی تھی.مگر ہوش قائم تھے.یوں تو سب نے مرنا ہے مگر ایسے پاک نفس بزرگوں کی جدائی دل پر سخت شاق
حیات احمد ۳۲۲ جلد دوم حصہ سوم ہوں اگر یہ واقعہ ۲۷ / رمضان مطابق ۲۱ جولائی ۱۸۸۴ ء کا ہے تو صرف یوم جمعہ کی بجائے دوشنبہ کا دن ہوگا.اور اس کے متعلق حضرت منشی صاحب کو سہو ہوا ہے.اگر چه منشی صاحب کا تعلق تو حضرت اقدس سے ۱۸۸۲ ء ہی میں ہوا مگر آپ کے نام جو خطوط حضرت اقدس علیہ السلام نے لکھے ہیں افسوس ہے کہ ۸۳ ۸۴ ء کے خطوط میں سے کوئی دستیاب نہیں ہوا.پہلا خط ستمبر ۱۸۸۴ء کا ہے غرض یہ واقعہ سرخ چھینٹوں کے نشان کا ۱۸۸۴ء میں ہوا.سفر سو جان پور ملتوی حضرت اقدس کی زندگی میں جو چیز نمایاں ہے وہ آپ کی خلوت پسندی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.پسند ابتدا سے گوشہء خلوت رہا مجھ کو شہر توں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ وبار گوشه گزینی اور عبادت آپ کا شیوہ تھا.اسی مقصد کے لئے آپ نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ کسی خاموش مقام پر جا کر عبادت کریں اور ایسی جگہ چلے جائیں جہاں کوئی آپ کو اور آپ کسی کو جانتے نہ ہوں اس غرض کے لئے آپ نے سو جان پور واقع ضلع گورداسپور کے مقام کو تجویز کیا تھا.اب تو سو جان پور ایک اچھا خاصہ قصبہ بلکہ شہر کا رنگ رکھتا ہے.وہاں شکر سازی کا بہت بڑا کارخانہ ہے اور آبادی بہت بڑھ گئی ہے مگر آپ نے جس زمانہ میں ارادہ فرمایا تھا اس وقت بقیہ حاشیہ: گزرتی ہے.اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ صحبت یافتہ یکے بعد دیگرے گزرتے جاتے ہیں اور ابھی تک ہم میں اکثر نے اُن سے وہ درس وفانہیں سیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے لائے تھے اور جس کے بغیر ایک مذہبی قوم کی ترقی محال ہے.“ (سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحه ۳۹۶ تا ۳۹۸ مطبوعه (۲۰۰۸)
حیات احمد ۳۲۳ جلد دوم حصہ سوم اس کی کچھ حیثیت نہ تھی.معمولی چھوٹا سا گاؤں تھا.مگر آپ نے مشیت ایزادی کے ماتحت اس ارادہ کو فتح کر دیا.یہ تو کسی کو معلوم نہیں کہ حضور کا خاص مقصد اس سفر کا کیا تھا حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ ایک چلہ کرنا چاہتے تھے (چلہ سے مراد وہ چلہ نہیں جو عام پیر کرتے ہیں یا کراتے ہیں آپ ایک خاص مقصد کے لئے چالیس روز دعا کرنا چاہتے تھے.خلوت میں رہ کر.عرفانی) مگر آپ کو الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی اس لئے اس سفر کو ملتوی کر دیا ہے براہین احمدیہ کے متعلق اعلان براہین احمدیہ کی تصنیف کے متعلق میں جلد دوم نمبر اول و دوم میں کسی قدر لکھ چکا ہوں براہین احمدیہ کس طرح لکھی جاتی تھی اور کس طرح طبع ہوتی تھی یہ سلسلہ ۱۸۸۴ء میں بھی جاری تھا.لیکن جب جلد چہارم شائع ہو رہی تھی تو اللہ تعالیٰ نے خاص الہام اور وحی سے اس سلسلہ کو بظاہر ملتوی کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی صورت بدل گئی براہین احمدیہ کا سلسلہ تو بند ہو گیا لیکن اس کے بعد حقیقت اسلام اور صداقت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حقانیت قرآن کریم پر مبسوط تصنیفات شائع ہونے لگیں.جن کا ذکر اپنے اپنے موقعہ پر آئے گا براہین کے ابتدا پر کا حاشیہ :.اس کے متعلق حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ نے جو بیان دیا ہے وہ میں یہاں مع اس مکتوب کے درج کر دیتا ہوں جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو لکھا تھا حضرت اقدس نے جب اس ارادہ کا ذکر کیا تھا تو حضرت منشی صاحب نے آپ سے اجازت برنگ وعدہ لی تھی کہ اس سفر میں حضرت کے ساتھ جاویں اس لئے آپ نے وہ مکتوب لکھا.مکتوب اسمی حضرت منشی عبداللہ صاحب (۲) پوسٹ کارڈ مشفقی مکرمی اخویم میاں عبداللہ صاحب سَلَّمَهُ بعد سلام مسنون آپ کا عنایت نامہ پہنچا.ابھی تک باعث بعض موانع یہ عاجز قادیان میں ہے سو جان پور
حیات احمد ۳۲۴ جلد دوم حصہ سوم مخالفین اور کمزور طبیعت لوگوں نے بڑا شور مچایا مگر آپ نے بار بار صاف اعلان کیا کہ جو خریدار چاہے وہ کتاب واپس کر کے اپنی رقم لے لے اور بعضوں کو آپ نے قیمت واپس کی حالانکہ کتاب بقیہ حاشیہ:.کی طرف نہیں گیا.بوجہ علالت وضعف طبیعت ابھی ہندوستان کی سیر میں تامل ہے.شاید اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ بات موسم سرما میں میسر آجاوے.ہر ایک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.کبھی کبھی اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں.خواب آپ کی انشاء اللہ بہت عمدہ ہے.بعض نفسانی الا یشوں سے پاک ہونے کی طرف اشارہ ہے وَاللهُ أَعْلَم.( خاکسار.غلام احمد از قادیان ۷ ستمبر ۶۸۴) ( مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۱۴۸، ۱۴۹) (نوٹ ) سو جان پور کی طرف تشریف لے جانے کا ارادہ حضور کا اس بناء پر تھا کہ حضور کو ان ایام میں یہ خواہش تھی کہ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں نہ ہم کسی کو جانتے ہوں نہ ہمیں کوئی جانتا ہو اس پر جناب مولوی عبداللہ صاحب نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور اس خاکسار (مولوی عبداللہ صاحب) کو بھی اپنے ہمراہ لے جائیں حضور نے مولوی عبداللہ صاحب کی اس درخواست کو منظور فرما لیا اسی بناء پر مولوی عبداللہ صاحب کے خط کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا کہ ابھی تک بباعث بعض موانع یہ عاجز قادیان میں ہے.سو جان پور کی طرف نہیں گیا.اسی اثناء میں حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ ” تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہو گی.اس لئے حضور نے سو جان پور کی طرف جانے کا ارادہ ملتوی کر کے ہوشیار پور جانے کا ارادہ فرما لیا چنانچہ اسی بناء پر حضور شروع جنوری ۱۸۸۶ء میں مولوی عبد اللہ صاحب، حافظ حامد علی صاحب اور ایک شخص فتح خاں نامی کو اپنے ہمراہ لے کر سید ھے ہوشیار پور کو روانہ ہو گئے.اور وہاں پہنچ کر شیخ مہر علی صاحب رئیس ( جو اس وقت حضور سے اخلاص و محبت رکھتے تھے ) کے طویلے میں جا کر چالیس روز تک ایک بالا خانہ میں بالکل الگ رہے.حضور کے ہرسہ خدام رفقاء اسی طویلے میں نیچے کے حصہ میں الگ رہتے تھے چنانچہ وہاں حضور نے چلہ کشی کی اور پھر ۲۰ روز وہاں اور ٹھہر کر مارچ ۱۸۸۶ء میں واپس قادیان کو تشریف لائے.ہندوستان کی سیر ۱۸۸۹ء میں آ کر حضور نے صرف اس قدر کی کہ لدھیانہ میں بیعت لینے کے بعد علی گڑھ تشریف لے گئے اور وہاں ایک ہفتہ کے قریب سید تفضل حسین صاحب تحصیلدار کے ہاں ٹھہر کر وہاں سے پھر لد ہیا نہ تشریف لائے.
حیات احمد ۳۲۵ جلد دوم حصہ سوم وہ کئی سال پہلے لے چکے تھے بہر حال آپ نے اس موقعہ پر حسب ذیل اعلان شائع کیا.ہم اور ہماری کتاب ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اس کے قدرت الہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنی آنا رَبُّكَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سواب اس کتاب کا متوتی اور مہتمم ظاہر و باطناً حضرت رب العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے.اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں.اور اُس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکلی دور نہ کرے اپنی تائیدات غیبیہ سے مدد گار رہے گا اگر چہ اس عاجز کو اپنی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں لیکن اس سے نہایت خوشی ہے کہ وہ حی و قیوم کہ جو فنا اور موت سے پاک ہے ہمیشہ تا قیامت دین اسلام کی نصرت میں ہے جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ ایسا اس کا فضل ہے کہ جو اس سے پہلے کسی نبی پر نہیں ہوا.اس جگہ اُن نیک دل ایمانداروں کا شکر کرنالازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے خدا تعالیٰ ان سب پر رحم کرے اور جیسا انہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہر ایک دقیقہ کوشش کے بجالانے میں زور لگایا ہے خدا وند کریم ایسا ہی اُن پر فضل کرے.بعض صاحبوں نے اس کتاب کو محض خرید وفروخت کا ایک معاملہ سمجھا ہے اور بعض کے سینوں کو خدا نے کھول دیا اور صدق اور ارادت کو اُن کے دلوں میں قائم کر
حیات احمد ۳۲۶ جلد دوم حصہ سوم دیا ہے.لیکن مؤخر الذکر ہنوز وہی لوگ ہیں کہ جو استطاعت مالی بہت کم رکھتے ہیں اور سنت اللہ اپنے پاک نبیوں سے بھی یہی رہی ہے کہ اول اول ضعفاء اور مساکین ہی رجوع کرتے رہے ہیں.اگر حضرت احدیت کا ارادہ ہے تو کسی ذی مقدرت کے دل کو بھی اس کام کے انجام دینے کے لئے کھول دے گا.وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.(براہین احمدیہ جلد چہارم روحانی خزائن جلدا صفحه ۶۷۳) التوائے براہین احمدیہ کا اثر جب چوتھی جلد میں براہین احمدیہ کی آئندہ اشاعت کے متعلق مندرجہ بالا اعلان شائع ہوا تو اس کے متعلق کوئی خاص اعتراض یا احتجاج نہیں ہوا.جن لوگوں نے اِبْتِغَاءَ لِّمَرْضَاتِ الله اس کی خریداری یا اعانت میں حصہ لیا تھا انہیں تو کوئی اعتراض ہو نہیں سکتا تھا گو افسوس ہوا کہ حقائق و معارف کی یہ موج سردست رک گئی.جن لوگوں نے محض دنیا داری کے رنگ میں کتاب لی تھی ان میں سے بعض کو ممکن ہے اعتراض ہوا ہو لیکن یہ سوال اس وقت تک نہیں اٹھا جب تک مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مسیح موعود کے دعوئی پر اظہار اختلاف ہی نہیں طوفان مخالفت بر پا کیا اور اس میں حقائق سے قطع نظر اس قسم کے اعتراض اٹھا کر لوگوں میں ایک قسم کی بدظنی اور مخالفت کا جوش پیدا کرنا چاہا.مختلف اوقات میں یہ اعتراض اٹھایا گیا اور ہر موقع پر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں کتاب کی واپسی پر قیمت واپس کرنے کا اعلان کیا اور بقول ڈاکٹر عبدالحکیم خاں ( مرتد ) سو سوا سو آدمیوں کو قیمت واپس کی گئی جہاں تک میری تحقیقات ہے یکم مئی ۱۸۹۳ء کو پہلی مرتبہ اس خصوص میں مندرجہ ذیل اعلان جاری کیا گیا.
حیات احمد ۳۲۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي اشتہار براہین احمدیہ اور اس کے خریدار جلد دوم حصہ سوم واضح ہو کہ یہ کتاب اس عاجز نے اس عظیم الشان غرض سے تالیف کرنی شروع کی تھی کہ وہ تمام اعتراضات جو اس زمانہ میں مخالفین اپنی اپنی طرز پر اسلام اور قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کر رہے ہیں ان سب کا ایسی عمدگی اور خوبی سے جواب دیا جائے کہ صرف اعتراضات کا ہی قلع قمع نہ ہو بلکہ ہر ایک امر کو جو عیب کی صورت میں مخالف بداندیش نے دیکھا ہے ایسے محققانہ طور سے کھول کر دکھلایا جائے کہ اس کی خوبیاں اور اس کا حسن و جمال دکھائی دے اور دوسری غرض یہ تھی کہ وہ تمام دلائل اور براہین اور حقائق اور معارف لکھے جائیں.جن سے حقانیت اسلام اور صداقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حقیت قرآنِ کریم روز روشن کی طرح ثابت ہو جائے اور تیسری غرض یہ تھی کہ مخالفین کے مذاہب باطلہ کی بھی کچھ حقیقت بیان کی جائے اور ابتدا میں یہی خیال تھا کہ اس کتاب کی تالیف کے لئے جس قدر معلومات اب ہمیں حاصل ہیں وہی اس کی تکمیل کے لئے کافی ہیں لیکن جب چار حصے اس کتاب کے شائع ہو چکے اور اس بات پر اطلاع ہوئی کہ کس قدر بداندیش مخالف حقیقت سے دور و مہجور ہیں اور کیسے صد ہا رنگا رنگ کے شکوک وشبہات نے اندر ہی اندر ان کو کھا لیا ہے.وہ پہلا ارادہ بہت ہی ناکافی معلوم ہوا اور یہ بات کھل گئی کہ اس کتاب کا تالیف کرنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک ایسے زمانہ کے زیروزبر کرنے کے لئے یہ ہماری طرف سے ایک حملہ ہے.جس زمانہ کے مفاسد ان تمام فسادوں کے مجموعہ ہیں جو پہلے اس سے متفرق طور پر وقتاً فوقتاً دنیا میں گزر چکے ہیں بلکہ یقین ہو گیا کہ اگر ان تمام فسادوں کو جمع بھی کیا جائے
حیات احمد ۳۲۸ جلد دوم حصہ سوم تو پھر بھی موجودہ زمانہ کے مفاسد ان سے بڑھے ہوئے ہیں اور عقلی اور نقلی ضلالتوں کا ایک ایسا طوفان چل رہا ہے جس کی نظیر صفحہ دنیا میں نہیں پائی جاتی اور جو ایسا دلوں کو ہلا رہا ہے کہ قریب ہے کہ بڑے بڑے عقلمند اس سے ٹھو کر کھاویں تب ان آفات کو دیکھ کر یہ قرین مصلحت سمجھا گیا کہ اس کتاب کی تالیف میں جلدی نہ کی جائے اور ان تمام مفاسد کی بیخ کنی کے لئے فکر اور عقل اور دعا اور تضرع سے پورا پورا کام لیا جائے اور نیز صبر سے اس بات کا انتظار کیا جائے کہ براہین کے چاروں حصوں کے شائع ہونے کے بعد کیا کچھ مخالف لوگ لکھتے ہیں.اور اگر چہ معلوم تھا کہ بعض جلد باز لوگ جو خریدار کتاب ہیں وہ طرح طرح کے ظنوں میں مبتلا ہوں گے.اور اپنے چند درم کو یاد کر کے مؤلف کو بددیانتی کی طرف منسوب کریں گے.چونکہ دل پر یہی غالب تھا کہ یہ کتاب رطب و یابس کا مجموعہ نہ ہو بلکہ واقعی طور پر حق کی ایسی نصرت ہو کہ اسلام کی روشنی دنیا میں ظاہر ہو جائے.اس لئے ایسے جلد بازوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی گئی اور اس بات کو خدا تعالیٰ بخوبی جانتا ہے اور شاہد ہونے کے لئے وہی کافی ہے کہ اگر پوری تحقیق اور تدقیق کا ارادہ نہ ہوتا تو اس قدر عرصہ میں جو براہین کی تعمیل میں گزر گیا ایسی نہیں تھیں کتابیں شائع ہو سکتی تھیں.مگر میری طبیعت اور میرے نورِ فطرت نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ صرف ظاہری طور پر کتاب کو کامل کر کے دکھلا دیا جائے گو حقیقی اور واقعی کمال اس کو حاصل نہ ہو.ہاں یہ بات ضرور تھی کہ اگر میں ایسا کرتا اور واقعی حقیقت کو مدنظر نہ رکھتا تو لوگ بلاشبہ خوش ہو جاتے لیکن حقیقی راست بازی کا ہمیشہ یہ تقاضا ہوتا ہے کہ مستعجل لوگوں کی لعنت ملامت کا اندیشہ نہ کر کے واقعی خیر خواہی اور غم خواری کو مدنظر رکھا جائے.یہ سچ ہے کہ اس دس برس کے عرصہ میں کئی خریدار دنیا سے گزر بھی گئے اور کئی لمبے انتظاروں میں پڑ کر نومید ہو گئے لیکن ساتھ اس کے ذرہ انصاف سے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کیا وہ لوگ کتاب کے دیکھنے سے بکلی محروم گئے اور کیا انہوں نے ۳۶ جزو کی کتاب پر از حقائق ومعارف
حیات احمد ۳۲۹ جلد دوم حصہ سوم نہیں دیکھ لی اور یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ تمام دنیا کا مقابلہ کرنا کیسا مشکل امر ہے اور کس قدر مشکلات کا ہمیں سامنا پیش آ گیا ہے اور جو کچھ زمانہ کی حالت موجودہ اپنے روز افزوں فساد کی وجہ سے جدید در جدید کوششیں ہم پر واجب کرتی جاتی ہے وہ کس قدر زمانہ کو چاہتی ہیں.ماسوا اس کے ایسے بدظن خریدار اگر چاہیں تو خود بھی سوچ سکتے ہیں کہ کیا ان کے پانچ یا دس روپیہ لے کر ان کو بکلی کتاب سے محروم رکھا گیا.کیا ان کو کتاب کی وہ ۳۶ جزو نہیں پہنچ چکیں.جو بہت سے حقائق و معارف سے پر ہیں.کیا یہ سچ نہیں کہ براہین کا حصہ جس قدر طبع ہو چکا وہ بھی ایک ایسا جواہرات کا ذخیرہ ہے کہ جو شخص اللہ جل شانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو بلا شبہ اس کو اپنے پانچ یا دس روپیہ سے زیادہ قیمتی اور قابل قدر سمجھے گا.میں یقیناً یہ بات کہتا ہوں اور میرا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہے کہ جس طرح میں نے محض اللہ جَلَّ شَانُہ کی توفیق اور فضل اور تائید سے براہین کے حصص موجودہ کی نثر اور نظم کو جو دونوں حقائق اور معارف سے بھری ہوئی ہیں تالیف کیا ہے اگر حال کے بدظن خریدار ان ملاؤں کو جنہوں نے تکفیر کا شور مچارکھا ہے اس بات کے لئے فرمائش کریں کہ وہ اسی قدر نظم اور نثر جس میں زندگی کی روح ہو اور حقائق و معارف بھرے ہوئے ہوں دس برس تک تیار کر کے ان کو دیں اور اسی قدر کی پچاس پچاس روپیہ قیمت لیں تو ہرگز ان کے لئے ممکن نہ ہوگا.اور مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ جو نور اور برکت اس کتاب کی نثر اور نظم میں مجھے معلوم ہوتی ہے اگر اس کا مؤلف کوئی اور ہوتا اور میں اس کے اسی قدر کو ہزار روپیہ کی قیمت پر بھی خریدتا تو بھی میں اپنی قیمت کو اس کے ان معارف کے مقابل پر جو دلوں کی تاریکی کو دور کرتے ہیں ناچیز اور حقیر سمجھتا.اس بیان سے اس وقت صرف مطلب یہ ہے کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ بقیہ کتاب کے دینے میں معمول سے بہت زیادہ توقف ہوا لیکن بعض خریداروں کی طرف سے بھی یہ ظلم صریح ہے کہ انہوں نے اس عجیب کتاب کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم طبعی، اور ذرا خیال نہیں کیا کہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تالیفات میں کیا کچھ مؤلفین کو خون جگر کھانا پڑتا ہے اور کس طرح موت کے بعد وہ زندگی حاصل کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ ایک لطیف اور آبدار شعر کے بنانے میں جو معرفت کے نور سے بھرا ہوا ہو اور گرتے ہوئے دلوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر کو اٹھا لیتا ہو کس قدر فضل الہی درکار ہے اور کس قدر وقت خرچ کرنے کی ضرورت ہے.پھر اگر ایسے آبدار اور پر معارف اشعار کا ایک مجموعہ ہو تو ان کے لئے کس قدر زمانہ درکار ہو گا.ایسا ہی نثر کا بھی حال ہے.جاندار کتابیں بغیر جانفشانی کے تیار نہیں ہوتیں اور بعض منتقد مین ایک ایک کتاب کی تالیف میں عمریں بسر کرتے رہے ہیں.امام بخاری نے سولہ برس میں اپنی صحیح کو جمع کیا حالانکہ صرف کام اتنا تھا کہ احادیث صحیحہ جمع کی جائیں.پھر جس شخص کا یہ کام ہو کہ زمانہ موجودہ کے علم طب علم فلسفہ کے ان امور کو نیست و نابود کرے جو ثابت شدہ صداقتیں سمجھی جاتی ہیں اور ایک معبود کی طرح پوجی جارہی ہیں اور بجائے اُن کے قرآن کا سچا اور پاک فلسفہ دنیا میں پھیلا دے اور مخالفوں کے تمام اعتراضات کا استیصال کر کے اسلام کا زندہ مذہب ہونا اور قرآن کریم کا منجاب اللہ ہونا اور تمام مذاہب سے بہتر اور افضل ہونا ثابت کر دیوے.کیا یہ تھوڑا سا کام ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس عاجز کی نسبت اعتراض کئے ہیں کہ ہمارا روپیہ لے کر کھا لیا اور ہم کو کتاب کا بقیہ اب تک نہیں دیا.انہوں نے کبھی توجہ اور انصاف سے کتاب براہین احمدیہ کو پڑھا نہیں ہوگا.اگر وہ کتاب کو پڑھتے تو اقرار کرتے کہ ہم نے براہین کا زیادہ اس سے پھل کھایا ہے اور اس مال سے زیادہ مال لیا ہے جو ہم نے اپنے ہاتھ سے دیا.اور نیز یہ بھی سوچتے کہ اگر ایسی اعلیٰ درجہ کی تالیفوں کی تعمیل میں چند سال توقف ہو جائے تو بلاشبہ ایسا توقف ملامتوں کے لائق نہیں ہوگا.اور اگر ان میں انصاف ہوتا تو وہ دغا باز اور بددیانت کہنے کے وقت کبھی یہ بھی سوچتے کہ اس عظیم الشان کام کا انجام دینا اور اس خوبی کے ساتھ اتمام حجت
حیات احمد ۳۳۱ جلد دوم حصہ سوم کرنا اور تمام موجودہ اعتراضات کو اٹھانا اور تمام مذاہب پر فتحیاب ہو کر اسلام کی صداقتوں کو آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے دکھلا دینا کوئی ایسا امر نہیں ہے کہ بغیر ایک معقول مدت اور تائید الہی کے ہو سکے.اگر انسان حیوانات کی طرح زندگی بسر نہ کرتا ہو تو اس بات کا سمجھنا اس پر کچھ مشکل نہیں کہ ایک سچا مخلص اور غمخوار اسلام کا جو اسلام کی تائید کے لئے قلم اٹھاوے اگر چہ وہ اپنے کسی موجودہ سامان کے لحاظ سے یہ بھی لکھ دے کہ میں صرف چند ماہ میں فلاں کتاب بمقابلہ مخالفین شائع کروں گا لیکن وہ اس بات کا مجاز ہوگا کہ جدید خرابیاں مشاہدہ کر کے حقیقی اصلاح کی غرض سے اپنے پہلے ارادہ کو کسی ایسے ارادہ سے بدل دے جو خدمت اسلام کے لئے احسن ہے اور جس کا انجام مدت مدید پر موقوف ہے.درحقیقت یہی صورت اس جگہ پیش آ گئی.اور اس عرصہ میں مخالفین کی طرف سے کئی کتابیں تالیف ہوئیں اور کئی رڈ ہماری کتاب براہین کے لکھے گئے اور مخالفین نے اپنے تمام بخارات نکال لئے اور تمام طاقتیں ان کی معلوم ہوگئیں.اور اس عرصہ میں اپنی فکر اور نظر نے بھی بہت ترقی کی اور ہزارہا باتیں ایسی معلوم ہوئیں جو پہلے معلوم نہ تھیں اور کتاب کی تکمیل کے لئے وہ سامان ہاتھ میں آ گیا کہ اگر اس سامان سے پہلے کتاب چھپ جاتی تو ان تمام حقائق سے خالی ہوتی.اور اس عرصہ میں یہ عاجز فارغ بھی نہیں بیٹھا رہا بلکہ میں ہزار کے قریب اشتہار شائع کیا.اور بارہ ہزار کے قریب مخالفین اسلام کو اتمام حجت کے لئے رجسٹری کرا کر خط بھیجے اور بعض کتابیں جو براہین احمدیہ کے لئے بطور ارہاص کے تھیں.تالیف کیں.جیسا کہ سُرمہ چشم آریہ - شحنہ حق.فتح اسلام.توضیح مرام - ازالہ اوہام - آئینہ کمالات اسلام.اور اس شغل میں صد ہا حقائق و معارف براہین کے لئے جمع ہو گئے اور انہیں حقائق و معارف نے اب مجھے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ براہین کے پنجم حصہ کو جواب انشاء اللہ تعالیٰ آخری حصہ کی طرح اس کو نکالوں گا.ایک مستقل کتاب کے طور پر نکالا جائے.سواب پنجم حصہ کی خوبیاں جس قدر
حیات احمد ۳۳۲ جلد دوم حصہ سوم پر میری نظر کے سامنے ہیں ان کے مناسب حال میں نے ضروری سمجھا کہ اس پنجم حصہ کا نام ضرورت قرآن رکھا جائے.اس حصہ میں یہی بیان ہوگا کہ قرآن کریم کا دنیا میں آنا کیسے ضروری تھا.اور دنیا کی روحانی زندگی بغیر اس کے ممکن ہی نہیں.اب میں یقین رکھتا ہوں کہ اس حصہ کے شروع طبع میں کچھ بہت دیر نہیں ہوگی لیکن مجھے ان مسلمانوں کی حالت پر نہایت افسوس ہے کہ جو اپنے پانچ یا دس روپیہ کے مقابل پر ۳۶ جزو کی ایسی کتاب پا کر جو معارف اسلام سے بھری ہوئی ہے ایسے شرمناک طور پر بد گوئی اور بدزبانی مستعد ہو گئے کہ گویا ان کا روپیہ کسی چور نے چھین لیا یا ان پر کوئی قزاق پڑا اور گویا وہ ایسی بے رحمی سے لوٹے گئے کہ اس کے عوض میں کچھ بھی ان کو نہیں دیا گیا.اور ان لوگوں نے زبان درازی اور بدظنی سے اس قدر اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کیا کہ کوئی دقیقہ سخت گوئی کا باقی نہ رکھا.اس عاجز کو چور قرار دیا.مکار ٹھہرایا.مال مردم خور کر کے مشہور کیا.حرام خور کہہ کر نام لیا.دغا باز نام رکھا.اور اپنے پانچ یا دس روپیہ کے غم میں وہ سیاپا کیا کہ گویا تمام گھر ان کا لوٹا گیا اور باقی کچھ نہ رہا.لیکن ہم ان بزرگوں سے پوچھتے ہیں کیا آپ نے یہ روپیہ مفت دیا تھا اور کیا وہ کتا ہیں جو اس کے عوض میں تم نے لیں جس کے ذریعہ تم نے وہ علم حاصل کیا جس کی تمہیں اور تمہارے باپ دادوں کو کیفیت معلوم نہیں تھی اور وہ بغیر ایک عمر خرچ کرنے کے اور بغیر خون جگر کھانے کے یوں ہی تالیف ہو گئی تھیں اور بغیر صرف مال کے یوں ہی چھپ گئی تھیں.اور اگر در حقیقت وہ بے بہا جواہرات تھی جس کے عوض آپ نے پانچ یا دس روپیہ دیئے تھے تو کیا یہ شکوہ روا تھا کہ بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے ہمارا روپیہ لے لیا گیا.آخران جوانمردوں اور پُر جوش مسلمانوں کو دیکھنا چاہئے کہ جنہوں نے براہین کے ان حصوں کو دیکھ کر بغیر خریداری کی نیت کے صرف حقائق معارف کو مشاہدہ کر کے صدہا روپیہ سے محض اللہ مد کی اور پھر عذر کیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکے.ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں تمام قو میں تلواریں کھینچ کر اسلام کے گرد ہو رہی ہیں.اور
حیات احمد ۳۳۳ جلد دوم حصہ سوم کروڑ ہا روپیہ کا چندہ کر کے اس فکر میں ہیں کہ کسی طرح اسلام کو روئے زمین سے نابود کردیں.ایسے وقت میں اگر اسلام کے حامی، اسلام کے مددگار، اسلام کے غم خوار یہی لوگ ہیں کہ ایسی کتاب کے مقابل پر جو اسلام کے لئے نئے اور زندہ ثبوتوں کی بنیاد ڈالتی ہے اس قدر جزع فزع کر رہے ہیں اور ایک معقول حصہ کتاب کا لے کر پھر یہ ماتم اور فریاد ہے تو پھر اس دین کا خدا حافظ ہے.مگر نہیں اللہ جل شانہ کو ایسے لوگوں کی ہرگز پرواہ نہیں جو دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں نہایت تعجب انگیز یہ امر ہے کہ اگر کسی صاحب کو بقیہ براہین کے نکلنے میں دیر معلوم ہوئی تھی اور اپنا روپیہ یاد آیا تھا تو اس شور و غوغا کی کیا ضرورت تھی اور دغا باز اور چور اور حرام خور نام رکھ کر اپنے نامہ اعمال کے سیاہ کرنے کی کیا حاجت تھی.ایک سیدھے معاملہ کی بات تھی کہ بذریعہ خط کے اطلاع دیتے کہ براہین کے چاروں حصے لے لو اور ہمارا روپیہ ہمیں واپس کرو مجھے ان کے دلوں کی کیا خبر تھی کہ وہ اس قدر بگڑ گئے ہیں.میرا کام محض للہ تھا اور میں خیال کرتا تھا کہ گو بعض مسلمان خریداری کے پیرایہ میں تعلق رکھتے ہیں مگر اس پرفتن زمانہ میں للہی نیت خالی نہیں ہیں.اور للہی نیت کا آدمی محسنِ ظن کی طرف بنسبت بدظنی کے زیادہ جھکتا ہے اگر چہ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص بدنیتی سے کسی کا کچھ روپیہ رکھ کر اس کو نقصان پہنچاوے مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک مؤلف محض نیک نیتی سے پہلے سے ایک زیادہ طوفان دیکھ کر اپنی تالیف میں تکمیل کتاب کی غرض سے تو قف ڈال دے وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ الله جَلَّ شَانُہ جانتا ہے کہ میرا یہ یقین ہے کہ جیسا کہ میں نے اس توقف کی وجہ سے قوم کے بدگمان لوگوں سے لعنتیں سنی ہیں.ایسا ہی اپنی اس تاخیر کی جزا میں جو مسلمانوں کی بھلائی کی موجب ہے.اللہ تعالیٰ سے عظیم الشان رحمتوں کا مورد بنوں گا.اب میں اس تقریر کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا.اصل مدعا میرا اس تحریر سے یہ ہے کہ اب میں اُن خریداروں سے تعلق رکھنا نہیں چاہتا جو بچے ارادتمند اور معتقد نہیں ہیں.اس لئے عام طور ترجمہ:.اور اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے.چه سے وہ
حیات احمد ۳۳۴ جلد دوم حصہ سوم پر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ ایسے لوگ جو آئندہ کسی وقت جلد یا دیر سے اپنے روپیہ کو یاد کر کے اس عاجز کی نسبت کچھ شکوہ کرنے کو تیار ہیں یا ان کے دل میں بھی بدظنی پیدا ہو سکتی وہ براہ مہربانی اپنے ارادہ سے مجھے کو بذریعہ خط مطلع فرما دیں.اور میں ان کا روپیہ واپس کرنے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ ایسے شہر میں یا اُس کے قریب اپنے دوستوں میں سے کسی کو مقرر کر دوں گا کہ تا چاروں حصہ کتاب کے لے کر رو پیدان کے حوالہ کرے.اور میں ایسے صاحبوں کی بدزبانی اور بدگوئی اور دشنام دہی کو بھی محض اللہ بخشتا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لئے قیامت میں پکڑا جائے.اور اگر ایسی صورت ہو کہ خریدار کتاب فوت ہو گیا ہو اور وارثوں کو کتاب بھی نہ ملی ہو تو چاہئے کہ وارث چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق خط میں لکھوا کر کہ اصلی وارث وہی ہے.وہ خط میری طرف بھیج دے تو بعد اطمینان وہ روپیہ بھی بھیج دیا جائے گا اور اگر کسی وارث کے پاس کتاب ہوتو وہ بھی بدستور اس میرے دوست کے پاس روانہ کرے لیکن اگر کوئی کتاب کو روانہ کرے اور یہ معلوم ہو کہ چاروں حصے کتاب کے نہیں ہیں تو ایسا پیکٹ ہرگز نہیں لیا جائے گا جب تک شخص فریسندہ یہ ثابت نہ کرے کہ اسی قدر کتاب ان کو بھیجی گئی تھی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى یہ اشتہار 17 خاکسار غلام احمد - از قادیان ضلع گورداسپور - یکم مئی ۱۸۹۳ء کے آٹھ صفحوں پر ہے ) ( مطبوعہ پنجاب پر لیس سیالکوٹ ) تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۲۹ تا ۳۹.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۲۸ تا ۳۳۲ بار دوم ) پھر پانچ سال بعد شہزادہ والا گوہر نے جو پنجاب گورنمنٹ کی سول سروس میں تھے اور حضرت شاہزادہ عبدالمجید رضی اللہ عنہ کے اقارب میں تھے اسی اعتراض کو تحریراً دو ہرایا تو حضرت اقدس نے جواباً لکھا قولہ.براہین احمدیہ کا بقیہ نہیں چھاپتے.
حیات احمد ۳۳۵ جلد دوم حصہ سوم اقول.اس توقف کو بطور اعتراض پیش کرنا محض لغو ہے.قرآن شریف بھی باوجود کلام الہی ہونے کے تئیس برس میں نازل ہوا.پھر اگر خدا تعالیٰ کی حکمت نے بعض مصالح کی غرض سے براہین کی تکمیل میں توقف ڈال دی تو اس میں کونسا حرج ہوا اور اگر یہ خیال ہے کہ بطور پیشگی خریداروں سے روپیہ لیا گیا تھا تو ایسا خیال کرنا بھی حمق اور ناواقفی کے باعث ہوگا کیونکہ اکثر براہین احمدیہ کا حصہ مفت تقسیم کیا گیا ہے اور بعض سے پانچ رو پید اور بعض سے آٹھ آ نہ تک قیمت لی گئی ہے.اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن سے دس روپے لئے گئے ہوں اور جن سے پچیس روپے لئے گئے وہ صرف چند آدمی ہیں پھر باوجود اس قیمت کے جو ان حصص براہین احمدیہ کے مقابل پر جو طبع ہو کر خریداروں کو دیئے گئے ہیں کچھ بہت نہیں ہے بلکہ عین موزوں ہے.اعتراض کرنا سراسر کمینگی اور سفاہت ہے لیکن پھر بھی ہم نے بعض جاہلوں کے ناحق شور وغوغا کا خیال کر کے دو مرتی اشتہا دے دیا.کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتا ہیں ہمارے حوالے کرے اور اپنی قیمت واپس لے لے.چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب کر کے بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی اور کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ ہم ایسے کمینہ طبعوں کی ناز برداری کرنا نہیں چاہتے.اور ہر ایک وقت قیمت واپس دینے پر تیار ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے دنی الطبع لوگوں سے خدا تعالیٰ نے ہم کو فراغت بخشی.مگر پھر بھی اب مجد داہم یہ چند سطور بطور اشتہار لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی ایسا خریدار چھپا ہوا موجود ہے کہ جو غائبانہ براہین کے توقف کی شکایت رکھتا ہے تو وہ فی الفور ہماری کتا بیں بھیج دے ہم اس کی قیمت جو کچھ اس تحریر سے ثابت ہو گی اس کی طرف روانہ کر دیں گے.اگر کوئی باوجود ہمارے ان اشتہارات کے اب اعتراض کرنے سے باز نہ آوے تو اس کا حساب خدا تعالیٰ کے پاس ہے کا یہ اشتہار تبلیغ رسالت جلد سوم کے صفحہ ۲۹ پر زیر نمبر ۱۰۴ درج ہے (المرتب) مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۳۲۸ تا ۳۳۲ بار دوم )
حیات احمد ۳۳۶ جلد دوم حصہ سوم اور شاہزادہ صاحب یہ تو جواب دیں کہ انہوں نے کونسی کتاب ہم سے خریدی اور ہم نے وہ کتاب اب تک پوری نہ دی اور نہ قیمت واپس کی.یہ کس قدر ناخدا ترسی ہے کہ بعض پر کینہ ملانوں کی زبانی ہے تحقیق اس بات کو سننا اور پھر اس کو بطور اعتراض پیش کر دینا.الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان غرض اس قسم کے اعلانات متعدد مرتبہ جاری کئے گئے اور سالہا سال گزر جانے پر بھی بعض لوگوں نے کتاب واپس کر کے قیمت واپس لی اور اس طرح تائید دین کی توفیق سے محروم ہو گئے.آخر وہ وقت آ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ کی پانچویں جلد جس کا دوسرا نام نُصرة الحق ہے شائع کی اور اس میں اس کتاب کی اشاعت میں تولیق کے اسباب بھی بیان کر دیئے جس کا اقتباس ذیل میں دیتا ہوں.میں نے اس کو تفصیل سے اور ان اعلانات کو یکجائی طور پر اس لئے یکجائی طور پر لکھ دیا ہے کہ تا طالب حق کو پورا علم ہو جائے.اقتباس از براهین جلد پنجم ☆ بحمد اللہ کہ آخر این کتابم مکمل مشهد بفضل آن جنابم اما بعد واضح ہو کہ یہ براہین احمدیہ کا پانچواں حصہ ہے کہ جو اس دیباچہ کے بعد لکھا جائے گا.خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے ایسا اتفاق ہوا کہ چار حصے اس کتاب کے چھپ کر پھر تخمینا تئیس برس تک اس کتاب کا چھپنا ملتوی رہا.اور عجیب تر یہ کہ اسی کے قریب اس مدت میں میں نے کتابیں تالیف کیں جن میں سے بعض بڑے بڑے حجم کی تھیں لیکن اس کتاب کی تکمیل کے لئے توجہ پیدا نہ ہوئی اور کئی مرتبہ دل میں یہ درد پیدا بھی ہوا کہ براہین احمدیہ کے ملتوی رہنے پر ایک زمانہ دراز ی ترجمہ:.خدا کا شکر ہے کہ آخر کار میری یہ کتاب جناب الہی کے فضل سے مکمل ہوگئی.
حیات احمد ۳۳۷ جلد دوم حصہ سوم گزر گیا مگر باوجود کوشش بلیغ اور باوجود اس کے کہ خریداروں کی طرف سے بھی کتاب کے مطالبہ کے لئے سخت الحاح ہوا اور اس مدت مدید اور اس قدر زمانہ التوا میں مخالفوں کی طرف سے بھی وہ اعتراض مجھ پر ہوئے کہ جو بدظنی اور بدزبانی کے گند سے حد سے زیادہ آلودہ تھے اور بوجہ امتداد مدت درحقیقت وہ دلوں میں پیدا ہو سکتے تھے مگر پھر بھی قضاء و قدر کے مصالح نے مجھے یہ توفیق نہ دی کہ میں اس کتاب کو پورا کر سکتا.اس سے ظاہر ہے کہ قضاء و قدر در حقیقت ایک ایسی چیز ہے جس کے احاطہ سے باہر نکل جانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے.مجھے اس بات پر افسوس ہے بلکہ اس بات کے تصور سے دل دردمند ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جو اس کتاب کے خریدار تھے اس کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی دنیا سے گزر گئے مگر جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں انسان تقدیر الہی کے ماتحت ہے.اگر خدا کا ارادہ انسان کے ارادہ کے مطابق نہ ہو تو انسان ہزار جد و جہد کرے اپنے ارادہ کو پورا نہیں کر سکتا.لیکن جب خدا کے ارادہ کا وقت آ جاتا ہے تو وہی امور جو بہت مشکل نظر آتے تھے.نہایت آسانی سے میسر آ جاتے ہیں...بالآ خریہ بھی یادر ہے کہ جو براہین احمدیہ کے بقیہ حصہ کے چھاپنے میں تئیس برس تک التواء رہا یہ التواء بے معنی اور فضول نہ تھا بلکہ اس میں یہ حکمت تھی کہ تا اس وقت تک پنجم حصہ دنیا میں شائع نہ ہو جب تک کہ وہ تمام امور ظاہر ہو جائیں جن کی نسبت براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں پیشگوئیاں ہیں کیونکہ براہین احمدیہ کے پہلے حصے عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور پنجم حصہ کی عظیم الشان مقصد یہی تھا کہ وہ موعودہ پیشگوئیاں ظہور میں آجائیں.اور یہ خدا کا ایک خاص نشان ہے کہ اس نے اپنے فضل سے اس وقت تک مجھے زندہ رکھا یہاں تک کہ وہ نشان ظہور میں آگئے براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۲۰۱ ( ناشر )
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم تب وہ وقت آ گیا کہ پنجم حصہ لکھا جائے اور اس حصہ پنجم کے وقت جو نُصرت حق ظہور میں آئی ضرور تھا کہ بطور شکر گزاری کے اس کا ذکر کیا جاتا.سو اس امر کے اظہار کے لئے میں نے براہین احمدیہ کے پنجم حصہ کے لکھنے کے وقت جس کو درحقیقت اس کتاب کا نیا جنم کہنا چاہئیے اس حصہ کا نام نُصرت الحق بھی رکھ دیا تا وہ نام ہمیشہ کے لئے اس بات کا نشان ہو کہ باوجود صد با عوائق اور موانع کے محض خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد نے اس حصہ کو خلعتِ وجود بخشا.چنانچہ اس حصہ کے چند اوائل ورق کے ہر ایک صفحہ کے سر پر نصرت الحق لکھا گیا مگر پھر اس خیال سے کہ تا یاد دلایا جائے کہ وہی براہین احمدیہ ہے جس کے پہلے چار حصے طبع ہو چکے ہیں بعد اس کے ہر ایک سر صفحہ پر براہین احمدیہ کا حصہ پنجم لکھا گیا.پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہو گیا.دوسرا سبب اس التوا کا جو تئیس برس تک حصہ پنجم لکھا نہ گیا یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ ان لوگوں کے دلی خیالات ظاہر کرے جن کے دل مرض بدگمانی میں مبتلا تھے اور ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ اس قدر دیر کے بعد خام طبع لوگ بدگمانی میں بڑھ گئے یہاں تک کہ بعض نا پاک فطرت گالیوں پر اُتر آئے اور چار حصے اس کتاب کے جو طبع ہو چکے تھے کچھ مختلف قیمتوں پر فروخت کئے گئے تھے اور کچھ مفت تقسیم کئے گئے تھے.پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی.اگر وہ اپنی جلد بازی سے ایسا نہ کرتے تو ان کے لئے اچھا ہوتا لیکن اس قدر دیر سے ان کی فطرتی حالت آزمائی گئی.اس دیر کا ایک یہ بھی سبب تھا کہ تا خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر ظاہر کرے کہ یہ کاروبار اُس کی مرضی کے مطابق ہے اور یہ تمام الہام جو براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں لکھے
حیات احمد ۳۳۹ جلد دوم حصہ سوم گئے ہیں یہ اُسی کی طرف سے ہیں نہ انسان کی طرف سے.کیونکہ اگر یہ کتاب خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نہ ہوتی اور یہ تمام الہام اُس کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ امر خدائے عادل اور قدوس کی عادت کے بر خلاف تھا کہ جو شخص اس کے نزدیک مفتری ہے اور اس نے یہ گناہ کیا ہے کہ اپنی طرف سے باتیں بنا کر اس کا نام وحی اللہ اور خدا کا الہام رکھا ہے اس کو تئیس برس تک مہلت دے تا وہ اپنی کتاب براہین احمدیہ کے باقی ماندہ حصہ کو جہاں تک ارادہ الہیہ ہو اور نہ صرف اسی قدر بلکہ خدا اس پر یہ بھی احسان کرے کہ جو باتیں اس تکمیل کے لئے انسانی اختیار سے باہر تھیں ان کو اپنی طرف سے انجام دے دے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے شخص کے ساتھ یہ معاملہ لطف و احسان کا نہیں کرتا جس کو جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے.پس اس قدر دیر اور التواء سے یہ نشان بھی ظہور میں آ گیا کہ نصرت اور حمایت الہی میری نسبت ثابت ہو گئی.اس لمبی مدت میں بہت سے کافر اور دقبال اور کذاب کہنے والے جو مجھے دائرہ اسلام سے خارج کرتے تھے اور مباہلہ کے رنگ میں جھوٹے پر بددعائیں کرتے تھے دنیا سے گزر گئے مگر خدا نے مجھے زندہ رکھا اور میری وہ حمایت کی کہ جھوٹوں کا تو کیا ذکر ہے دنیا میں بہت ہی کم بچے اور راستباز گزرے ہوں گے جن کی ایسی حمایت کی گئی ہو.پس یہ خدا کا کھلا کھلا نشان ہے مگر ان کے لئے جو آنکھ بند نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو قبول کرنے کے لئے طیار ہیں.میرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲ تا ۱۰) براہین کا التوا جیسا کہ حضرت اقدس کے اعلان سے ظاہر ہے آپ کی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز کرتا ہے.براہین احمدیہ میں جو الہامات پیشگوئیوں کے رنگ میں درج ہو کر شائع ہو چکے تھے بعض تو ایسے تھے کہ ساتھ ساتھ پورے ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے جن کے ظہور کا ابھی وقت نہیں آیا تھا اس کا آغاز اسی ۱۸۸۴ء سے ہوتا ہے بظاہر براہین احمدیہ کی اشاعت کے التوا سے ایک غیر معمولی اثر بعض لوگوں پر پڑا اور وہ حسن ظن کے مقام سے گرے مگر جیسا کہ آپ نے
حیات احمد ۳۴۰ جلد دوم حصہ سوم فرمایا کہ موسیٰ ابن عمران کی طرح اِنّى اَنَا رَبُّكَ کی آواز آئی.موسیٰ علیہ السلام کی زندگی جو بعثت کی زندگی ہے.اسی سفر سے جو آپ اپنے اہل کو لے کر کر رہے تھے شروع ہوتی ہے اسی طرح آپ کی زندگی میں جو تغیر اس سال ہوا وہ دراصل سلسلہ کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اگر چہ آپ کو مکالمات مخاطبات الہیہ کا شرف تو عرصہ دراز سے حاصل تھا اور کتاب براہین احمدیہ بھی آپ نے مجدد کی حیثیت سے لکھنی شروع کی تھی لیکن ۱۸۸۴ء میں بعض ایسے عظیم الشان واقعات پیدا ہوئے جو دراصل سلسلہ عالیہ احمدیہ کی عملی تعمیر کے لئے بطور بنیاد تھے.جن میں سے ایک عظیم الشان خود آپ کی زندگی مکرر تابل کی زندگی ہے.میں نے ان الہامات کی بناء پر جو عرصہ دراز پہلے ہو چکے تھے جن میں نہ صرف ایک نجیب الطرفین خاندان میں آپ کی شادی کی بشارت تھی بلکہ اس شادی کے ذریعہ ایسے وجود کی پیدائش کی بھی بشارت تھی جو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے ایک جلیل القدر پہلوان ثابت ہوگا.جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی اشاعت کو مقدر کر رکھا تھا.غور کرو کہ ۱۸۸۴ء میں جیسا کہ آگے آتا ہے آپ نے دوسری شادی کی اور اس شادی سے پیشتر مبشر اولاد کی آپ کو بشارت دی گئی تھی ۱۸۸۶ء میں اس مبشر اولاد کے رجُلِ عظیم کی بشارت دی گئی جو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں عالم وجود میں آیا اور اس کی ولادت کے ساتھ ہی آپ نے اعلان بیعت کیا جس کے لئے آپ باوجودلوگوں کی درخواستوں کے کبھی تیار نہ ہوتے تھے.اور ہر ایسے طالب کو ایک ہی جواب دیتے ” لَسْتُ بِمَأْمُورِ میں اس کے لئے مامور نہیں ہوں.مگر اس رجُلِ عظیم یعنی مصلح موعود کے عالم وجود کے ساتھ ہی اس نوح ثانی علیہ الصلوۃ والسلام کو کشتی بیعت کی تیاری کا حکم دیا گیا ان واقعات کی صراحت اور تفصیل میں ۱۸۸۹ء کے واقعات میں انشاء اللہ کروں گا.یہ تو میں تمہیدی طور پر اس واقعہ کی عظمت کے لئے لکھ رہا ہوں جو اس سال ۱۸۸۴ء میں ہوا جس سے میری مراد الہامی شادی ہے.ان واقعات پر یکجائی نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کی عملی بنیا د اسی سال
حیات احمد ۳۴۱ جلد دوم حصہ سوم رکھی گئی اور لوگوں کا سلسلہ احمدیہ میں داخلہ مصلح موعود کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوا.میرا اپنا عقیدہ یہ ہے کہ سلسلہ اور مصلح موعود گویا توام ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیعت لینے سے بھی روک رکھا جب تک کہ وہ موعود نہ آ گیا.اور اس کے آنے کے ساتھ جو فضل آیا وہ بجائے خود ایک تفصیل طلب واقعہ ہے.اب میں کسی مزید تمہید کے بغیر اس الہامی شادی کے واقعات کو لکھتا ہوں.حضرت اُم المؤمنین کے خاندان کے متعلق تفصیل عزیز مکرم شیخ محمود احمد عرفانی (نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَهُ ) نے اپنی کتاب سیرت اُم المؤمنین میں کی ہے اور اس نے دونوں خاندانوں کی تاریخی عظمت کے لئے گویا ریسرچ کی ہے.اور اس نے لکھا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے کلام کی صداقت کا تاریخی ثبوت بھی دے دیا جاوے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرے اور مجھے یقین ہے کہ اس کی یہ خدمت اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہو چکی.میں اس کے بیان کو شادی کے واقعات میں ضرورتاً درج کروں گا.
حیات احمد ۳۴۲ جلد دوم حصہ سوم الهامی شادی ۱۸۸۴ء کا سال آپ کی زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب کا سال ہے اس وقت تک آپ پہلی شادی اور دو بچوں کے باپ ہو جانے کے بعد گونہ ایک تجرد کی زندگی بسر کرتے تھے مجھے ان اسباب و وجوہ کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں صرف اس قدر کہوں گا کہ پہلی بیوی کے تمام رشتہ دار جو خود آپ کے خاندان ہی کے افراد اور اقارب تھے ایک ایسی زندگی بسر کر رہے تھے جس کو اسلام کی عملی زندگی سے کچھ تعلق نہ تھا بلکہ بعض تو ایسے تھے کہ وہ اسلام کے دشمن تھے اور یہ آپ کی پہلی بیوی انہیں کے زیر اثر تھیں اور اس تجرد کی عملی حالت نے آپ کے قومی پر بھی اثر ڈالا تھا اور آپ کو دوبارہ اہلی زندگی کے اختیار کرنے کی کوئی رغبت نہ تھی اور آپ اپنی اس جنت ہی کو پسند کرتے تھے جو عبادت کے ذوق و شوق اور اظہار الدین کے لئے شبانہ روز مصروفیت میں آپ محسوس کرتے تھے مگر دوسری طرف الہامات الہیہ کا ایک ایسا سلسلہ تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو دوسری شادی کرنی ہو گی یہ سلسلہ ایسے وقت سے جاری تھا جبکہ آپ نے کوئی دعوی نہ کیا تھا اور براہین احمدیہ کی دوسری جلد شائع ہو رہی تھی.اس کی ابتدا ۱۸۸۱ء سے ہوتی ہے.میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان الہامات کو یہاں درج کر دوں تا کہ حیات احمد کے پڑھنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت نمائیوں پر ایمان بڑھے.میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہوں گا خود حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں ہی تشریح کروں گا.شادی سے قبل کی وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب و مرزا افضل احمد صاحب مرحوم کی پیدائش کے بعد ایک لمبا زمانہ گویا تجرد کا زمانہ گزرا ہے آپ اپنے اوقات کو
حیات احمد ۳۴۳ جلد دوم حصہ سوم عبادت اور فکر دین میں گزارتے تھے کہ ۱۸۸۱ء میں آپ پر دوسری شادی اور اس کے ثمرات کے متعلق وحی کا آغاز ہوا.وو عرصہ تخمیناً اٹھارہ برس کا ہوا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر چند آدمیوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں سے اس بات کی خبر دی کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ إِنَّا نُبِشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَسِین یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کے عطا کرنے کی خوشخبری دیتے ہیں.میں نے یہ الہام ایک شخص حافظ نور احمد امرتسری کو سنایا جواب تک زندہ ہے.اور بباعث میرے دعوی مسیحیت کے مخالفوں میں سے ہے.اور نیز یہی الہام شیخ حامد علی کو جو میرے پاس رہتا تھا سنایا.اور دو ہندوؤں کو جو آمد ورفت رکھتے تھے.یعنی شرمپت اور ملا وامل ساکنان قادیاں کو بھی سنایا.اور لوگوں نے اس الہام سے تعجب کیا.کیونکہ میری پہلی بیوی کو عرصہ میں سال سے اولاد ہوئی موقوف ہو چکی تھی اور دوسری کوئی بیوی نہ تھی.لیکن حافظ نور احمد نے کہا کہ خدا کی قدرت سے کیا تعجب کہ وہ لڑکا دے.اس سے تقریباً تین برس کے بعد دہلی میں میری شادی ہوئی.اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا.اور تین اور عطا کئے.“ " تریاق القلوب صفحه ۳۴.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۰۱٬۲۰۰) أَشْكُرْ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيجَتِي ( براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸ - روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۶۶) ترجمہ.میرا شکر کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پایا.یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اُس نکاح کی طرف تھی.جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا.اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے.جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا.اور نیز یہ اس طرف اشارہ تھا اب فوت ہو چکا ہے.(عرفانی)
حیات احمد ۳۴۴ جلد دوم حصہ سوم کہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہو گی“.( نزول المسیح صفحہ ۱۴۶ و ۱۴۷.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۲۵،۵۲۴) قریباً اٹھارہ برس (۱۸۸۱ء) سے ایک یہ پیشگوئی ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَوَ النَّسَبَ - ترجمہ - وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے.اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے.یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیا گیا تھا جو دہلی ہے.اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی جن میں سے ایک شیخ حامد علی اور میاں جان محمد اور بعض دوسرے دوست ہیں اور ایسا ہی ہندوؤں میں شرمیت اور ملا وامل کھتریاں ساکنان قادیان کو قبل از وقت یہ پیشگوئی بتلائی گئی تھی.اور جیسا کہ لکھا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہو گئی اور یہ خاندان خواجہ میر درد کی لڑکی کی اولاد میں سے ہے جو مشاہیرا کا بر سادات دہلی میں سے ہے.جن کو سلطنت چغتائی کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جاگیر عطا ہوئے تھے.اور اب تک اس لے حاشیہ :.ہمارے خاندان کی قومیت ظاہر ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ قوم کے برلاس مغل ہیں اور ہمیشہ اس خاندان کے اکابرا میرا اور والیان ملک رہے ہیں اور سمرقند سے کسی تفرقہ کی وجہ سے بابر بادشاہ کے وقت میں پنجاب میں آئے اور اس علاقہ کی ایک بڑی حکومت ان کو ملی اور کئی سو دیہات ان کی ملکیت کے تھے جو آخر کم ہوتے ہوتے ۸۴ رہ گئے اور سکھوں کے زمانہ میں وہ بھی ہاتھ سے جاتے رہے اور پانچ گاؤں باقی رہ گئے اور پھر ایک گاؤں ان میں سے جس کا نام بہادر حسین کیا تھا جس کو حسین نامی ایک بزرگ نے آباد کیا تھا انگریزی سلطنت کے عہد میں ہاتھ سے جاتا رہا کیونکہ ہم نے خود اپنی غفلت سے ایک مدت تک اس گاؤں سے کچھ وصول نہیں کیا تھا اور جیسا کہ مشہور چلا آتا ہے ہماری قوم کو سادات سے یہ گاؤں بٹالہ سے شمالی طرف سے بفا صلہ تین کوس واقعہ ہے.منہ
حیات احمد ۳۴۵ جلد دوم حصہ سوم جاگیر میں سے تقسیم ہو کر اس خاندان کے تمام لوگ جو خواجہ میر درد کے ورثاء ہیں اپنے اپنے حصے پاتے ہیں.اب ظاہر ہے کہ یہ خاندان دہلوی جس سے دامادی کا مجھے تعلق ہے صرف اسی وجہ سے فضیلت نہیں رکھتا کہ وہ اہل بیت اور سندی سادات ہیں بلکہ اس وجہ سے بھی فضلیت رکھتا ہے کہ یہ لوگ دختر زادہ خواجہ میر درد ہیں اور دہلی میں یہ خاندان سلطنت چغتائیہ کے زمانہ میں اپنی صحت نسب اور شہرت خاندان سیادت اور نجابت اور شرافت میں ایسا مشہور رہا ہے کہ اسی عظمت اور شہرت اور بزرگی خاندان سیادت کی وجہ سے بعض نوابوں نے ان کو اپنی لڑکیاں دیں جیسا کہ ریاست لوہارو کا بقیہ حاشیہ:.سے تعلق رہا ہے کہ بعض دادیاں ہماری شریف اور مشہور خاندان سادات سے ہیں لیکن مغل قوم کے ہونے کے بارے میں خدا تعالیٰ کے الہام نے مخالفت کی ہے جیسا کہ براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۲ میں یہ الہام ہے.خُذُوا التَّوْحِيْدَ التَّوْحِيْدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِس یعنی تو حید کو پکڑ وتو حید کو پکڑ والے فارس کے بیٹو.اس الہام سے صریح طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے بزرگ دراصل بنی فارس ہیں.اور قریب قیاس ہے کہ میرزا کا خطاب ان کو کسی بادشاہ کی طرف سے بطور لقب کے دیا گیا ہو.لیکن الہام نے اس بات کا انکار نہیں کیا کہ سلسلہ مادری کی طرف سے ہمارا خاندان سادات سے ملتا ہے بلکہ الہامات میں اس کی تصدیق ہے اور ایسا ہی بعض کشوف میں بھی اس کی تصدیق پائی جاتی ہے.اس جگہ یہ عجیب نکتہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا کہ سادات کی اولاد کو کثرت سے دنیا میں بڑھاوے تو ایک شریف عورت فارسی الاصل کو یعنی شہر بانو کو ان کی دادی بنایا اور اس سے اہلِ بیت اور فارسی خاندان کے خون کو باہم ملا دیا اور ایسا ہی اس جگہ بھی جب خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ اس عاجز کو دنیا کی اصلاح کے لئے پیدا کرے اور بہت سی اولا د اور ذُریت مجھ سے دنیا میں پھیلا دے جیسا کہ اس کے اُس الہام میں ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۰ میں درج ہے.تو پھر دوبارہ اس نے فارسی خاندان اور سادات کے خون کو باہم ملایا اور پھر میری اولاد کے لئے تیسری مرتبہ ان دونوں خونوں کو ملایا.صرف فرق یہ رہا کہ حسینی خاندان کے قائم کرنے کے وقت مرد یعنی امام حسین اولاد فاطمہ میں سے تھا اور اس جگہ عورت یعنی میری بیوی اولا د فاطمہ میں سے یعنی سید ہے جس کا نام بجائے شہر بانو کے نصرت جہاں بیگم ہے.منہ
حیات احمد ۳۴۶ جلد دوم حصہ سوم خاندان.غرض یہ خاندان اپنی ذاتی خوبیوں اور نجابتوں کی وجہ سے اور نیز خواجہ میر درد کے دختر زادگان ہونے کے باعث سے ایسی عظمت کی نگہ سے دہلی میں دیکھا جاتا تھا کہ گویا دہلی سے مراد ا نہی عزیزوں کا وجود تھا.سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادای کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیادی ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے سو اس میں وہ پیشگوئی مخفی ہے جس کی تصریح براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۰ وصفحہ ۵۵۷ میں موجود ہے اور وہ یہ الہام ہے ” سُبْحَانَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى زَادَ مَجْدَكَ يَنْقَطِعُ ابَاءُ كَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ أَحْيَيْتَ بِالصِّدْقِ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ نُصِرْتَ وَقَالُوا لَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ میں اپنی چہکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اور عربی الہام کا ترجمہ یہ ہے کہ تمام پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو بڑی برکتوں والا اور عالی ذات ہے اس نے تیری خاندانی بزرگی کو تیرے وجود کے ساتھ زیادہ کیا.اب ایسا ہو گا کہ آئندہ تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع کیا جائے گا اور ابتدا خاندان کا تجھ سے ہوگا.تجھے رُعب کے ساتھ نصرت دی گئی ہے.
حیات احمد ۳۴۷ جلد دوم حصہ سوم اور صدق کے ساتھ تو اے صدیق زندہ کیا گیا.نصرت تیرے شامل حال ہوئی اور دشمنوں نے کہا کہ اب گریز کی جگہ نہیں.اور اردو الہام کا خلاصہ یہ ہے کہ میں اپنی قدرت کے نشان دکھلاؤں گا اور ایک چمک پیدا ہو گی جیسا کہ بجلی سے آسمان کے کناروں میں ظاہر ہوتی ہے.اس چمک سے میں لوگوں کو دکھلا دوں گا کہ تو سچا ہے.اگر دنیا نے قبول نہ کیا تو کیا حرج کہ میں اپنا قبول کرنا لوگوں پر ظاہر کر دوں گا.اور جیسا کہ سخت حملوں کے ساتھ تکذیب ہوئی ایسا ہی سخت حملوں کے ساتھ میں تیری سچائی ظاہر کر دوں گا.غرض اس جگہ عربی الہام میں جیسا کہ نصرت کا لفظ واقع ہے.اسی طرح میری خاتون کا نام نصرت جہاں بیگم رکھا گیا.جس کے یہ معنے ہیں کہ جہان کو فائدہ پہنچانے کے لئے آسمان سے نصرت شامل حال ہوگی.اور اردو الہام جو ابھی لکھا گیا ہے.ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مبنی ہے کیونکہ یہ الہام یہ خبر دیتا ہے کہ ایک وہ وقت آتا ہے جو سخت تکذیب ہو گی اور سخت اہانت اور تحقیر ہو گی.تب خدا کی غیرت جوش میں آئے گی اور جیسا کہ سختی کے ساتھ تکذیب ہوئی ایسا ہی اللہ تعالیٰ سخت حملوں کے ساتھ اور آسمانی نشانوں کے ساتھ سچائی کا ثبوت دے گا.اور اس کتاب کو پڑھ کر ہر ایک منصف معلوم کر لے گا کہ یہ پیشگوئی کیسی صفائی سے پوری ہوئی.اور الہام مذکورہ بالا یعنی یہ الہام کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَ النَّسَبَ - جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے تجھے ہر ایک پہلو اور ہر ایک طرف سے خاندانی نجابت کا شرف بخشا ہے.کیا تیرا آبائی خاندان اور کیا دامادی کے رشتہ خاندان دونوں برگزیدہ ہیں یعنی جس جگہ تعلق دامادی کا ہوا ہے وہ بھی شریف خاندان سادات ہے اور تمہارا آبائی خاندان بھی جو بنی فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے مرکب ہے خدا کے نزدیک شرف اور مرتبت رکھتا ہے.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲ ۲۷ تا ۲۷۶)
حیات احمد ۳۴۸ جلد دوم حصہ سوم (نوٹ از عرفانی کبیر) سیرت ام المؤمنین کی جلد اوّل میں حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے خاندان کی عظمت کے متعلق جو تاریخی تحقیقات کی گئی ہے اس کی اصل غرض اور مقصد خدا تعالیٰ کے اس کلام کی صداقت کو ثابت کرنا تھا چنانچہ عزیز مکرم محمود احمد عرفانی مرحوم و مغفور نے جلد اوّل کے صفحہ ۲۵۵ پر ایک خاص عنوان ” میں نے یہ سب کچھ کیوں لکھا “ قائم کر کے صراحت کی ہے اسے مکرر پڑھا جاوے (عرفانی) ایک مرتبہ مسجد میں بوقت عصر یہ الہام ہوا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا.اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی.اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے.ہر چہ باید نو عروسی را ہماں ساماں کنم و انچه مطلوب شما باشد عطائے آن کنم اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی کا تعلق بخشا.سو قبل از ظہور یہ تمام الہام لالہ شرمیت کو سنا دیا گیا.پھر بخوبی اسے معلوم ہے کہ بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خدا تعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی.یعنی نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب.خاندان سادات سے یہ تعلق قرابت اس عاجز کو پیدا ہوا.اور اس نکاح کے تمام ضروری مصارف تیاری مکان وغیرہ تک ایسی آسانی سے خدا تعالیٰ نے بہم پہنچائے کہ ایک ذرہ بھی فکر کرنا نہ پڑا اور اب تک اسی اپنے وعدہ کو پورے کئے چلا جاتا ہے.“ بزرگوار ( شحنه حق صفحہ ۵۷، ۵۸.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۸۴،۳۸۳) ترجمہ:.جو کچھ تمہیں شادی کے لئے درکار ہوگا تمام سامان اُس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتا فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا.
حیات احمد ۳۴۹ شادی کے متعلق ابتدائی تحریک اور ضمنی امور جلد دوم حصہ سوم اوپر کے الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام کا روبار اور تحریک حضرت باری عزاسمہ کی طرف سے بطور ایک پیشگوئی اور ایک امر عظیم کے ظہور کے لئے تھی اس کے متعلق میرے لخت جگر عزیزم شیخ محمود احمد عرفانی مجاہد مصر نے اپنی آخری تالیف سیرت اُم المؤمنین میں جو کچھ لکھا ہے میں اسے بھی یہاں درج کرتا ہوں اس لئے کہ وہ بجائے خود مکمل اور مبقرانہ تحقیقات کا نتیجہ ہے اور اس لئے بھی کہ قارئین کرام مرحوم و مغفور کے مدارج قرب الہی کی ترقیات کے لئے دعا کریں اور میں کہوں گا کہ وہ سیرت اُم المؤمنین کو پڑھیں جس سے ان کے ایمان میں ایک بشاشت پیدا ہوگی وہ لکھتے ہیں.اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے دوسری شادی کے متعلق خود اپنے ارادے کا اظہار فرمایا.اس میں سب سے پہلا لفظ جو قابل غور ہے.وہ میں نے ارادہ کیا ہے“ کا لفظ ہے.ارادہ عربی لفظ ہے.قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوا ہے.مثلاً قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا اَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ - فَسُبْحَنَ الَّذِي بِيَدِهِ (سورة يس آیت ۸۴،۸۳) مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ.یعنی جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا حکم یہی ہوتا ہے کہ ہو جا وہ ہو جاتی ہے.پاک ہے وہ خدا جس کے قبضہ میں ہر چیز کی حکومت ہے اور تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے.پس خدا تعالیٰ جو خالق الاسباب ہے.وہ ساری کائنات کا مالک و حاکم ہے.اس کے ارادہ میں کون روک ہو سکتا ہے.پس اس کا ارادہ ایک تقدیر مبرم اٹل ہے.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں.مگر اس کا ارادہ ٹل نہیں سکتا.
حیات احمد ۳۵۰ جلد دوم حصہ سوم خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور بھی ایک اہل نقد ی تھی جو انسانی منصوبوں سے ٹل نہیں سکتی تھی.اس ظہور کی بڑی غرض یہ تھی.کہ خدا تعالیٰ جس نے دنیا سے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا.اور ایک دفعہ پھر اپنا روئے مستور دنیا پر ظاہر کرے.وہ چاہتا تھا کہ ایک سورج کی طرح اپنی کر نیں ایک دفعہ پھر تاریک دنیا پر ڈال کر زندگی.روشنی.نور اور معرفت وحیات کا عالم پیدا کرے.وہ دنیا کو اسی مادی اور دہریت کے زمانہ میں ایک دفعہ پھر اپنے کلام سے مست و دیوانہ بنانا چاہتا تھا.اس نے ایک دفعہ پھر چاہا کہ وادی غیر ذی زرع کی روحانیت کو دنیا پر آشکارا کرے.اُس نے ایک دفعہ پھر چاہا.کہ وہ ابراہیم و موسی و عیسے " کے نظارہ سے زمین و آسمان کی ہم پلہ بنا دے.اس نے چاہا کہ ایک دفعہ پھر گنگا کی وادی میں محبت کی بنسری بجانے والا کرشن بھیج کر دنیا کومست و بیخود بنادے.یہ اٹل اور بالکل اہل ارادہ تھا.جس نے اس محبوب و دلر با و دلنواز کو دنیا میں بھیجا.بالکل وہی اہل تقدیر تھی اور اس مالک الکل کی تقدیر تھی.کہ اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے اس محبوب اور پیارے کے لئے ایک اور شادی کا انتظام کرے.0 اس الہام میں دوسرا فقرہ ” ایک اور شادی کروں“ کا ہے.جو قابل غور ہے.ایک اور کا لفظ اُسی جگہ بولا جاتا ہے.جہاں پہلی چیز کافی نہ ہو.یا اس ضرورت کو پوری نہ کرتی ہو جس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی چیز وضع کی گئی تھی.یہی دنیا کا دستور ہے.الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں ایک اور “ کا لفظ اسی وقت بولا جاتا ہے.جبکہ پہلی چیز کافی نہ ہو.بالکل اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بیوی پہلے سے موجود تھی.مگر جن اغراض و مقاصد کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں مبعوث کئے گئے تھے.ان مقاصد کے بوجھ اور ان ذمہ داریوں کی وہ بیوی مستعمل نہ ہو سکتی تھی.جیسے میں پہلے لکھ چکا ہوں.کہ منشاء الہی تھا.کہ :.D ایک آسمانی روح والا لڑ کا پیدا کیا جائے.اور ایسی اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو تمام دنیا میں پھیلا دے.
حیات احمد ۳۵۱ جلد دوم حصہ سوم اور اس خاندان کے ذریعہ تمام دنیا کی مدد کی جائے.ان امور کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بین فرق رکھ دیا اور وہ فرق وحی الہی نے یوں بیان فرمایا :.سُبْحَانَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى زَادَ مَجْدَكَ يَنْقَطِعُ ابَاؤُكَ وَيُبْدَأُ مِنْكَ ( تذکره صفحه ۲۹۵ مطبوعه ۲۰۰۴ء) سب پاکیاں خدا تعالیٰ کے لئے ہیں.جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے.اس نے ہے.اس تیرے مجد کو زیادہ کیا.تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہو جائے گا.یعنی بطور مستقل ان کا نام نہیں رہے گا.اور خدا تجھ سے ابتدا شرف اور مسجد کا کرے گا.“ اس وحی سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ پہلے خاندان کو ختم کر دے.اور آپ کے وجود مبارک سے نئے خاندان کی بنیادر کھے.اس نئے خاندان کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :.تیرا گھر برکت سے بھرے گا.اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا.اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا.تیری نسل بہت ہو گی.اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا.اور برکت دوں گا.مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے.اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی.اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی.اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہو جائے گی.اگر وہ تو بہ نہ کریں گے.تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے.اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے.اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا.لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں ارد گرد پھیلائے گا.اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا.اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا.تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.خدا تیرے
حیات احمد ۳۵۲ جلد دوم حصہ سوم نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے.عزت کے ساتھ قائم رکھے گا.اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.“ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۶۱،۶۰.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۹۶، ۹۷ بار دوم ) اس وحی کا یہ مطلب تھا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نئے خاندان کی بنیا د ر کھنے کے لئے پرانے خاندان کو ختم کر دیا جائے گا.اور نئے خاندان کی بنیا د رکھی جائے گی.یہ ایسی ہی بات ہے کہ جب کسی عظیم الشان قصر کی تعمیر مقصود ہوتی ہے تو تمام بوسیدہ عمارتوں کو گرا کر زمین کو صاف کر دیا جاتا ہے اور پرانی عمارت کی ایک اینٹ بھی نئی عمارت میں نہیں لگائی جاتی.بالکل اسی طرح خدا تعالیٰ نے اس نئے خاندان کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ پہلے خاندان کو ختم کر دیا جائے گا.اور نئے خاندان کو بڑھایا جائے گا وہ کثرت سے ملکوں میں پھیل جائیں گے اور ان کو کبھی منقطع نہیں کیا جائے گا اور وہ آخری دنوں تک سرسبز رہیں گے اور وہ اس مقصد وحید میں لگے رہیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے مقصود تھا.ان الہامات سے اس نئے خاندان کی شان و عظمت کا پتہ چلتا ہے اور اس کی غرض و غایت معلوم ہوتی ہے.یہ غرض اور یہ غایت اور یہ مقصد چونکہ پہلی بیوی سے پورا نہیں ہوسکتا تھا.پہلی بیوی سے صرف دولڑ کے تھے.یعنی حضرت میرزا سلطان احمد صاحب اور میر زافضل احمد صاحب اول الذکر محکمہ مال میں ملازم تھے.اور آخرالذکر محکمہ پولیس میں ملازم تھے.اور وہ اپنے دنیاوی کاروبار میں اس قدر منہمک تھے کہ اس مقصد کے لئے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے کوئی وقت نہ دے سکتے تھے.یہی نہیں، بلکہ میر ز افضل احمد صاحب کو تو بیعت کرنے تک کا موقعہ نہ ملا.اور حضرت میرزا سلطان احمد صاحب بھی حضرت مسیح موعود کی ساری زندگی میں بیعت نہ کر سکے.اس لئے چونکہ پہلی بیوی اور اس کی اولاد سے وہ مقصد پورا نہ ہوسکتا تھا اس لئے ایک اور کی طرف توجہ ہوئی قدرتی امر تھا.اس لئے جس قدر اہم مقصد تھا، اسی قدر ہم خاندان کی لڑکی کا انتخاب ضروری تھا.سوایسا ہی ہوا.اس الہام میں تیسرا فقرہ یہ تھا کہ :.سب کام میں خود ہی کروں گا.
حیات احمد ۳۵۳ جلد دوم حصہ سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ تو ایسا تھا کہ کسی کو آپ کا علم ہی نہ تھا.آپ خود فرماتے ہیں:.ع اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا ایسی گمنامی کی حالت میں رہنے والے انسان کے لئے نئی شادی کا انتظام کرنا کئی وجوہ سے بڑا مشکل تھا.اوّل.خاندان کے افراد جو موجود تھے.وہ سب آپ کے دشمن تھے.گھر کی مستورات کا یہ حال تھا کہ وہ اس قدر بھی پسند نہ کرتی تھیں کہ حضرت صاحب کو کوئی کھانے کی چیز ہی تحفہ کے طور پر پیش کر دے جیسے کہ نانی اماں کی روایت میں قبل ازیں آچکا ہے.چہ جائیکہ کوئی ان کو پہلی بیوی کی موجودگی میں اپنی بیٹی کا رشتہ دے.دوم.رشتہ داروں سے تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ اس وقت دنیا کے کاموں میں انہماک تھا جس سے حضرت اقدس کو دور کا بھی تعلق نہ تھا.سوم.حضرت اقدس کی جسمانی حالت کسی شادی کی طرف راغب نہ تھی.چہارم.عمر کا تفاوت بھی روک تھا.پنجم.ایک بیوی کی موجودگی بھی روک تھی.ششم.حضرت صاحب اپنے رشتہ داروں میں تحریک کر ہی نہیں سکتے تھے.کیونکہ اس مقصد عظیم کے پورا کرنے کے لئے آپ کے خاندان میں کوئی بھی گھرانہ ایسا نہ تھا جس میں دینداری کی روح پیدا ہوتی.ان حالات اور وجوہ کی موجودگی میں آپ کا شادی کے لئے کوئی تحریک کرنا اور پھر اس کا کامیاب ہو جانا بہت مشکل تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں سب سامان خود ہی کروں گا اس الہام کا آخری فقرہ تھا: تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی یعنی رشتہ کا انتخاب.شادی کے لئے ضروریات کا مہیا کرنا سب کچھ ہم اپنے ذمہ لے لیں گے.
حیات احمد ۳۵۴ جلد دوم حصہ سوم تحریک رشته چنانچہ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ویسے ہی ہوا.ادھر آسمان سے یہ تحریک ہو رہی تھی اُدھر حضرت میر ناصر نواب صاحب کو اپنی بلند اقبال صاحبزادی کے لئے رشتہ کی فکر تھی.حضرت میر صاحب جو پہلے ہی دن سے دعاؤں میں لگے ہوئے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی بیٹی کے لئے صالح داماد ملنے کی دعا کے لئے لکھا.حضرت مسیح موعود کو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی شادی کے لئے تحریکیں ہو رہی تھیں.یہ بھی بتلا یا گیا تھا کہ رشتہ سادات میں ہو گا.اور یہ بھی بتلایا گیا تھا کہ وہ خاندان دہلی میں سکونت پذیر ہے.جب حضرت میر صاحب کی طرف سے دعا کی تحریک ہوئی تو آپ نے ایک خط حضرت میر صاحب کو لکھا اگر چہ اصل خط محفوظ نہیں.مگر حضرت میر صاحب کا بیان ہے :.وو اس کے جواب میں مجھے حضرت میرزا صاحب نے تحریر فرمایا.کہ میرا تعلق میری بیوی سے گویا نہ ہونے کے برابر ہے.اور میں نکاح کرنا چاہتا ہوں.اور مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے.کہ جیسا تمہارا عمدہ خاندان ہے.ایسا ہی تم کو سادات کے عالیشان خاندان میں سے زوجہ عطا کروں گا.اور اس نکاح میں برکت ہوگی.اور اس کا سب سامان میں خود بہم پہنچاؤں گا.تمہیں کچھ تکلیف نہ ہو گی.یہ آپ کے خط کا خلاصہ ہے.اور یہ بھی لکھا، کہ آپ مجھ پر نیک فنی کر کے اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دیں.اور تا تصفیہ اس امر کو مخفی رکھیں.اور رڈ کرنے میں جلدی نہ کریں.“ (حیات ناصر صفحہ ے ایڈیشن اوّل )
حیات احمد ۳۵۵ حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کا بیان جلد دوم حصہ سوم حضرت میر ناصر نواب صاحب فرماتے ہیں پہلے تو میں نے کچھ تامل کیا کیونکہ میرزا صاحب کی عمر کچھ زیادہ تھی.اور بیوی بچہ موجود تھے.اور ہماری قوم کے بھی نہ تھے.مگر پھر حضرت میرزا صاحب کی نیکی اور نیک مزاجی پر نظر کر کے جس کا میں دل سے خواہاں تھا.میں نے اپنے دل میں مقرر کر لیا کہ اسی نیک مرد سے اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کر دوں.نیز مجھے دتی کے لوگ اور وہاں کے عادات و اطوار بالکل نا پسند تھے، اور وہاں کے رسم و رواج سے سخت بیزار تھا.“ (حیات ناصر صفحہ ۸،۷ ایڈیشن اوّل) ان دونوں بیانوں سے معلوم ہوتا ہے.حضرت اُم المؤمنین کی اماں اور ابا کے دلوں میں الگ الگ قسم کے خیالات تھے.اور الگ الگ قسم کے مواقع.حضرت میر صاحب کے دل میں تین روکیں تھیں :.عمر کا فرق.پہلی شادی اور اولاد.قوم کا فرق.نانی اماں کو پہلی روک یہ تھی.کہ اول تو ان کا دل نہیں مانتا تھا.دوسرے عمر کا بہت فرق تھا.تیسرے دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف سخت تعصب تھا.ان موانع کے باوجود ایک چیز تھی جو اندر ہی اندر کام کر رہی تھی.اور وہ حضرت میر صاحب کا یہ جذبہ تھا.کہ ان کا داماد نیک اور صالح ہو یہ ایک اعلیٰ مقصد تھا.جس کے پیمانہ پر کوئی پورا نہ اتر تا تھا.درخواستیں کرنے والے لوگ اچھے
حیات احمد ۳۵۶ جلد دوم حصہ سوم متمول تھے.مگر نیک اور صالح نہ تھے.حضرت میر صاحب کو دہلی کے لوگوں کے عادات اور اطوار سے سخت نفرت تھی.اس لئے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعا مانگا کرتا تھا کہ میرا مربی و محسن مجھے کوئی نیک اور صالح داماد عطا فرما دے.یہ دعا میں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی جناب میں کی اور آخر قبول ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے متعلق فرمایا کہ لوگ مال اور حسن کے لئے شادی کرتے مگر آپ نے فرما یا خُذُ بِذَاتِ الدِّينِ تم دیندار عورت سے شادی کرو.بالکل اسی اصل کے ماتحت حضرت میر صاحب اپنی صاحبزادی کے لئے دیندار خاوند کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے تھے.اور خدا تعالیٰ سے رشتہ مانگا کرتے تھے.سوان دعاؤں کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کو وہ کچھ دے دیا جو انہوں نے مانگا.یہ ایک عجیب بات ہے.کہ اُس وقت روئے زمین پر ایک ہی انسان تھا، جو نیکوں کا سردار اور راستبازوں کا راستباز تھا.یعنی حضرت مسیح موعود.اور اس وقت دنیا میں ایک ہی شخص تھا ، جو کے حضور اپنی بیٹی کے رشتہ کے لئے ہمیشہ خدا کے آگے رویا کرتا تھا اور گڑ گڑایا کرتا تھا.اور وہ تھا خدا میر ناصر نواب.خدا نے اس کی دعاؤں کو سنا ، اور قبول کیا.اور خود حضرت مسیح موعود کو تحریک کی.اور خود حضرت میر صاحب اور ان کی حرم کے دل میں باقی سب رشتوں سے نفرت پیدا کر کے صرف اور صرف حضرت مسیح موعود کے لئے انشراح پیدا کر دیا اس طرح سے یہ ابتدائی مراحل طے ہو کر اس مبارک اور مقدس جوڑے کی نسبت قرار پا گئی جس سے ایک نئی دنیا.ایک نیا خاندان.ایک نیا قصر امن تعمیر ہونے والا تھا.جس رشتہ کے ذریعہ بنے والی دلہن خدیجہ ثانیہ بننے والی تھی.اور خدیجہ ثانیہ کا شوہر بروز محمد بن کر جلوہ افروز ہونے والا تھا.جس جوڑے کے عالم وجود میں لانے کی ایک غرض ایک موعود بیٹا جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَهُ کی بشارت سے دی تھی پیدا کرنا تھا.اور ایک پاک نسل پیدا کرنی تھی جن کی مخالفت مخالفوں کو یزیدی اور جن کی محبت سعادت اور خدا تعالیٰ کی رضا کا موجب بنانے والی ہے.
حیات احمد ۳۵۷ جلد دوم حصہ سوم پس یہ مبارک جوڑا باوجود روکوں اور حالات کی ناموافقت کے خدا کی منشاء کے ماتحت نامزد ہو گیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَعَلَى الِهِ وَ خُلَفَائِهِ وَ أَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ - تحریک شادی کے متعلق ایک روایت کی تصحیح حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کا بیان اوپر درج کر دیا گیا ہے اسی سلسلہ میں آپ کی اہلیہ محترمہ (سلسلہ عالیہ میں حضرت نانی اماں کہلاتی ہیں ) رضی اللہ عنہا کا حسب ذیل بیان سیرت المہدی حصہ دوم مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب میں شائع ہوا ہے ہمیں اس بیان میں مولوی محمد حسین بٹالوی کی سپارش کا ذکر ہے.یہاں معلوم ہوتا ہے.حضرت نانی اماں کو سہو ہوا ہے.اس لئے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے کہ مولوی محمد حسین نے مخالفت کی تھی.اور خود حضرت اقدس کو بھی آپ نے منع کیا تھا حضرت نانی اماں کا مقام اگر یہ رشتہ نہ بھی ہوتا تب بھی وقیع ہے وہ نہایت نیک خدا ترس اور راست باز خاتون تھیں انہیں سہو ہوا ہے.ممکن ہے مولوی محمد حسین نے کسی اور کے لئے کہا ہو.بہر حال اس روایت کی اصلاح آئندہ زمانہ کے مورخ کے لئے ضروری تھی پہلے میں حضرت نانی اماں کی روایت درج کرتا ہوں اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر تا کہ اس روایت کی تصحیح ہو جائے.میں اس امر کا پھر اظہار کرتا ہوں کہ حضرت نانی اماں کے بیان میں صرف سہو کا دخل ہے.ان کی راستبازی اور پاکبازی تو ایک اسوہ ہے.حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ نے ان کی شان اور ان کے حسنات کا ذکر ایک خاص نظم میں کیا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں پر بڑے بڑے فضل کرے.آمین حمد سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر ۴۴۱ صفحه ۳۹۸ تا ۴۰۱ مطبوعه ۲۰۰۸ء
حیات احمد ۳۵۸ نانی اماں کا بیان جلد دوم حصہ سوم حضرت نانی اماں اس سلسلہ میں سیرت المہدی حصہ دوم میں بیان فرماتی ہیں.میر صاحب نے ایک خط تمہارے ابا کے نام لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے.آپ دعا کریں کہ خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے.تمہارے ابا نے جواب میں لکھا اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتا ہوں.اور آپ کو معلوم ہے کہ گومیری پہلی بیوی موجود ہے اور بچے بھی ہیں مگر آج کل میں عملاً مجرد ہی ہوں.وغیر ذالک.میر صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں بُرا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر نہیں کیا.اور اسی عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمہاری اماں کے لئے پیغام آئے لیکن میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی حالانکہ پیغام دینے والوں میں سے بعض اچھے متمول آدمی بھی تھے اور بہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ تمہارے نانا کے بہت تعلقات تھے انہوں نے کئی دفعہ تمہارے ابا کے لئے سفارشی خط لکھا اور بہت زور دیا کہ مرزا صاحب بڑے نیک اور شریف اور خاندانی آدمی ہیں مگر میری یہاں بھی تسلی نہ ہوئی.کیونکہ ایک تو عمر کا بہت فرق تھا.دوسرے ان دنوں میں دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف بہت تعصب ہوتا تھا بالآخر ایک دن میر صاحب نے ایک لدھیانہ کے باشندہ کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی.اسے رشتہ دے دو.میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا جس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے کیا ساری عمر اسے یونہی بٹھا چھوڑو گی.میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزار درجہ اچھا ہے.میر صاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزا غلام احمد کا
حیات احمد ۳۵۹ جلد دوم حصہ سوم بھی خط آیا ہوا ہے.جو کچھ بھی ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہئے.میں نے کہا اچھا پھر غلام احمد کو لکھ دو چنا نچہ تمہارے نانا جان نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط لکھ دیا.“ ( سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحه ۴۰۰،۳۹۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کا بیان میں صفحہ ۹۳ (موجودہ صفہ ۳۵۲تا۳۵۴) پر درج کر آیا ہوں.حضرت نانی اماں صاحبہ رضی اللہ عنہا کے بیان میں جس حصہ کی تصحیح ضروری ہے اسے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے تحریری بیان سے کر دیتا ہوں آپ تریاق القلوب میں فرماتے ہیں.تخمیناً سولہ برس کا عرصہ گزرا ہے کہ میں نے شیخ حامد علی اور لالہ شرمیت کھتری ساکن قادیاں اور لالہ ملا وامل کھتری ساکن قادیاں اور جان محمد مرحوم ساکن قادیاں اور بہت سے اور لوگوں کو یہ خبر دی تھی کہ خدا نے اپنے الہام سے مجھے اطلاع دی ہے کہ ایک شریف خاندان میں وہ میری شادی کرے گا اور وہ قوم کے سید ہوں گے اور اس بیوی کو خدا مبارک کرے گا اور اس سے اولاد ہوگی.اور یہ خواب اُن ایام میں آئی تھی کہ جب میں بعض اعراض اور امراض کی وجہ سے بہت ہی ضعیف اور کمزور تھا بلکہ قریب ہی وہ زمانہ گزر چکا تھا جبکہ مجھے دق کی بیماری ہو گئی تھی اور باعث گوشہ گزینی اور ترک دنیا کے اہتمامات تأهـل سے دل سخت گا رہ تھا اور عیالدای کے بوجھ سے طبیعت متنفر تھی تو اس حالت پر ملامت کے تصور کے وقت یہ الہام ہوا تھا ہر چہ باید نوعروسی را ہمہ ساماں کنم، یعنی اس شادی میں تجھے کچھ فکر نہیں کرنا چاہئے.ان تمام نوٹ.ہمارا خاندان جو ایک ریاست کا خاندان تھا اس میں عادۃ اللہ اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ بعض ة بزرگ دادیاں ہماری شریف سادات کی لڑکیاں تھیں چنانچہ خدا تعالیٰ کے بعض الہامات میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس عاجز کے خون کی بنی فاطمہ کے خون سے آمیزش ہے.اور درحقیقت وہ کشف براہین احمد یہ صفحہ ۵۰۳ کا جس میں لکھا ہے کہ میں نے دیکھا کہ میرا سر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مادر مہربان کی طرح اپنی ران پر رکھا ہوا ہے.اس سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے.الہام مندرجہ براہین صفحہ۴۹۰ میں یہ بشارت دی
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم ضروریات کا رفع کرنا میرے ذمہ رہے گا.سو تم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نے اپنے وعدہ کے موافق اس شادی کے بعد ہر ایک بار شادی سے مجھے سبکدوش رکھا اور مجھے بہت آرام پہنچایا کوئی باپ دنیا میں کسی بیٹے کی پرورش نہیں کرتا جیسا کہ اس نے میری کی.اور کوئی والدہ پوری ہشیاری سے دن رات اپنے بچہ کی ایسی خبر نہیں رکھتی جیسا کہ اس نے میری رکھی اور جیسا کہ اس نے بہت عرصہ پہلے براہین احمدیہ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ یا اَحْمَدُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ایسا ہی وہ بجالا یا.معاش کا غم کرنے کے لئے کوئی گھڑی اس نے میرے لئے خالی نہ رکھی اور خانہ داری کے مہمات کے لئے کوئی اضطراب اس نے میرے نزدیک آنے نہ دیا.ایک ابتلا مجھ کو اس شادی کے وقت یہ پیش آیا کہ باعث اس کے کہ میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا اور دو مرضیں یعنی ذیا بیطیس اور در دسر مع دورانِ سر قدیم سے میرے شامل حال تھیں جن کے ساتھ بعض اوقات تشیخ قلب بھی تھا اس لئے میری حالت مردمی کالعدم تھی اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی اس لئے میری اس شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیا اور ایک خط جس کو میں نے اپنی جماعت کے بہت سے معزز لوگوں کو دکھلا دیا بقیہ نوٹ تھی سُبْحَانَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى زَادَ مَجْدَكَ يَنْقَطِعُ ابَاؤُكَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ يعنى سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے اس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا اب سے تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو گا اور ابتدا خاندان کا تجھ سے کیا جائے گا.یعنی جس طرح ابراہیم علیہ السلام اپنے نئے خاندان کا بانی ہوا ایسا ہی تو بھی ہوگا کیونکہ الہام میں بار بار اس عاجز کا نام ابراہیم رکھا گیا ہے جیسا کہ براہین صفحہ ۵۶۱ میں یہ الہام ہے.سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ صَافَيْنَاهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ تَفَرَّدْنَا بِذَالِكَ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّی - یعنی اے ابراہیم تجھ پر سلام ہم نے ابراہیم سے صافی محبت کی اور اس کو غم سے نجات دی.ہم ہی اس بات سے خاص ہیں پس اگر تم مقام اصطفاء چاہتے ہو تو تم اس مقام پر اپنا قدم عبودیت رکھو جو ابراہیم یعنی اس عاجز کا مقام ہے.منہ
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم ہے جیسے اخویم مولوی نورالدین صاحب اور اخویم مولوی برہان الدین صاحب وغیرہ اور مولوی محمد حسین صاحب ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے ہمدردی کی راہ سے میرے پاس بھیجا کہ ” آپ نے شادی کی ہے اور مجھے حکیم محمد شریف کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ آپ بباعث سخت کمزوری کے اس لائق نہ تھے.اگر یہ امر آپ کی روحانی قوت سے تعلق رکھتا ہے تو اس میں اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ میں اولیاء اللہ کے خوارق اور روحانی قوتوں کا منکر نہیں ورنہ ایک بڑے فکر کی بات ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی ابتلا پیش آوے“ یہ ایک چھوٹے سے کاغذ پر رقعہ ہے جو اب تک اتفاقا میرے پاس محفوظ رہا ہے اور میری جماعت کے پچاس کے قریب دوستوں نے بچشم خود اسے دیکھ لیا اور خط پہچان لیا ہے.اور مجھے امید نہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب اس سے انکار کریں.اور اگر کریں تو پھر حلف دینے سے حقیقت کھل جائے گی.غرض اس ابتلا کے وقت میں نے جناب الہی میں دعا کی اور مجھے اس نے دفع مرض کے لئے اپنے الہام کے ذریعہ سے دوائیں بتلائیں اور میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک فرشتہ وہ دوا ئیں میرے منہ میں ڈال رہا ہے چنانچہ دوا میں نے طیار کی اور اس میں خدا نے اس قدر برکت ڈال دی کہ میں نے دلی یقین سے معلوم کیا کہ وہ پر صحت طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دنیا میں مل سکتی ہے وہ مجھے دی گئی اور چار لڑ کے مجھے عطا کئے گئے.اگر دنیا اس بات کو مبالغہ نہ بجھتی تو میں اس جگہ اس واقعہ حقہ کو جو اعجازی رنگ میں ہمیشہ کے لئے مجھے عطا کیا گیا بہ تفصیل بیان کرتا تا معلوم ہوتا کہ ہمارے قادر قیوم کے نشان ہر رنگ میں ظہور میں آتے ہیں اور ہر رنگ میں اپنے خاص لوگوں کو وہ خصوصیت عطا کرتا ہے جس میں دنیا کے لوگ شریک نہیں ہو سکتے میں اُس زمانہ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک بچہ کی طرح تھا اور پھر اپنے تئیں خدا داد طاقت میں پچاس مرد کے قائم مقام دیکھا اس لئے میرا یقین ہے کہ ہمارا خدا ہر چیز پر قادر ہے.“ تریاق القلوب صفحه ۳۴ تا ۳۶ - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۰۱ تا ۲۰۴)
حیات احمد ۳۶۲ جلد دوم حصہ سوم (نوٹ) حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر کیا اور میں اس کتاب کے صفحہ ۸۹ میں درج کر آیا ہوں اس کی تفصیل تاریخی دستاویزات کی بناء پر عزیز مکرم شیخ محمود احمد عرفانی رضی اللہ عنہ میرے پر اکبر نے اپنی کتاب سیرت اُم المؤمنین کے حصہ اول میں کی ہے اور اس میں بتایا کہ حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کے خاندان کے قریب زمانہ کے گرامی قدر بزرگ امیر الامراء صمصام الدولہ نواب خان دوران خان بہادر میر بخشی منصور جنگ کمانڈر انچیف افواج مغلیہ تھے یہ تو آبائی سلسلہ ہے اور نہیالی سلسلہ میں بھی حضرت خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہ کا خاندان ہندوستان بھر میں ممتاز ہے یہ خاندان ابتداء مغلیہ حکومت میں اعلیٰ درجہ کے عہدوں پر ممتاز تھا اور نظم و نسق کے اعلیٰ اختیارات ان کے ہاتھ میں تھے ان کے اس خاندان کے جد اعلیٰ روشن الدوله رستم جنگ خواجہ سید محمد ظفر اللہ خاں بہادر یار وفادار ہفت ہزاری تھے لاہور کی سنہری مسجد اسی بزرگ کی بنوائی ہوئی ہے.دہلی کی سنہری مسجد جو تاریخ ہندوستان میں نادرشاہ کے حملہ کے ساتھ ایک عظیم الشان واقعہ کو یاد دلاتی ہے اسی درویش صفت ہفت ہزاری نے بنوائی تھی.آگے چل کر یہ خاندان جو پہلے بھی تاج ولایت کا علمبر دار تھا اسی خرقہ ولا یت کو پہن کر حضرت خواجہ میر درد رضی اللہ عنہ کے خاندانی کام سے ممتاز ہوا.دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان بھی ایک شاہی خاندان ہے اور جس زمانہ میں حضرت اُم المؤمنین کا خاندان مغلیہ حکومت میں ایک امتیازی شان رکھتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کو بھی ہر قسم کے امتیازات اور اعزات حاصل تھے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ اگر چہ شاہی خاندان کے لوگ تھے.ہندوستان کے ورود سے قبل بھی وہ صاحب حشمت تھے.مگر اس کے باوجود انہوں نے درویشی کو اپنا شعار رکھا.حضرت میرزا ہادی بیگ مورث اعلیٰ نے سلطنت کے جھمیلوں سے دور پنجاب کے ایک جنگل میں ایک بستی بسائی.اس کا نام اسلام پور رکھا اس میں حفاظ اور علماء کا ایک جمگھٹا رہتا تھا.قال اللہ اور قال الرسول کے ہر وقت چرچے رہتے تھے.ملاحظہ ہو ( حیات النبی حصہ اول) حیات النبی یعنی حیات احمد حصّہ اوّل ( ناشر )
حیات احمد ۳۶۳ جلد دوم حصہ سوم ی تھی ان کی امیری میں درویشی.اور یہی حال حضرت اُم المؤمنین کے بزرگوں کا رہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کے مناصب سے حصہ وافر دیا تو اس وقت بھی یاد الہی ان کے قلب سے محو نہ ہوئی.جس طرح نواب ظفر خاں روشن الدولہ رستم جنگ ہفت ہزاری شہنشاہ ہند فرخ سیر کے زمانہ میں ہوئے ہیں.یہ حضرت اُم المؤمنین کے خاندان کے مورثان اعلیٰ میں سے ایک تھے.اور اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مورثان اعلیٰ میں عضد الدولہ میرزا فیض محمد خاں صاحب ہفت ہزاری تھے.نواب ظفر خاں نے بادشاہ کی مدد کے لئے تلوار اٹھائی.مگر عضد الدولہ میرزا فیض محمد خاں نے دو کام کئے ایک تو یہ کہ اس خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر اپنی ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد رکھنے کی کوشش نہیں کی باوجود اس کے کہ ۸۴ گاؤں پر آپ کی حکومت تھی.علاقہ پر آپ کا اثر تھا آپ کے پاس با قاعدہ فوج تھی اور مال و دولت سے حصہ وافر تھا.الغرض وہ تمام چیزیں موجود تھیں جن کی وجہ سے کوئی صاحب اثر خاندان طوائف الملو کی کے وقت اپنی سلطنت و حکومت قائم کرے مگر اس خاندان کی شرافت و نجابت اور بزرگی نے بادشاہانِ وقت سے غداری نہ کرنی چاہی اور نہ کی.دوسرے.عضد الدولہ میرزا فیض محمد خاں صاحب ہفت ہزاری ، جو سلک امراء میں اول درجہ کے امیر تھے انہوں نے فرخ سیر شہنشاہ ہند کے حکم کے ماتحت لشکر فیروزی میں حاضر ہو کر مناسب خدمات سرانجام دیں.جیسے فرمان شاہی سے ظاہر ہوتا ہے.ترجمه : منشور محمد فرخ سیر غازی شنہشاہ ہندوستان.محمد فرخ سیر بادشاہ غازی حاجی علیخاں مدوسم بزرگوں و ہمسران میں برگزیدہ میرزا فیض محمد خاں شاہی دلجوئی یافتہ ہو کر جان لیں کہ اس وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظلّ سُبْحَائِی آپ کی وفا کیشی اور خیر اندیشی اور جان شاری
حیات احمد ۳۶۴ جلد دوم حصہ سوم سے نہایت خوش ہوئے اس لئے حکم جہان مطاع عالم مطیع نے صدور کا شرف حاصل کیا ہے.کہ اس اخلاص نشان کو ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منضبط کر کے اور جگہ دے کر عضدالدولہ کے خطاب سے مفتخر اور ممتاز کیا جاتا ہے.چاہئے.کہ اب فیروزی اثر میں اپنے آپ کو موجود اور حاضر کریں اور ہمیشہ عرش آشیانی کی درگاہ کے بندوں کی وفا کیشی اور خیر اندیشی میں مصروف اور ساعی رہیں.(۱۹ر ماه شوال ۴ جلوس) شه یہ مختصر بیان جو میں نے سیرت ام المومنین سے لیا ہے.بقول عزیز مکرم محمود احمد عرفانی مرحوم دراصل یہ سارا بیان تفسیر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند فقروں کی.آپ تحریر فرماتے ہیں:.اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر ا چھے خاندان سے دامادی کا تعلق بخش بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خدا تعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی.یعنی نہایت نجیب اور شریف عالی نسب...ایسے بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلق قرابت اس عاجز کو پیدا ہوا.“ ( شحنہ حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۸۴،۳۸۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس خاندان کی نجابت.شرافت ، عالی نسبی اور بزرگواری کی کوئی تفصیل نہیں دی البتہ اس قدر لکھا ہے کہ یہ خاندان خواجہ میر درد صاحب مرحوم دہلوی کے روشن خاندان کی یادگار ہیں جن کی علو خاندانی دیکھ کر بعض نوابوں نے انہیں اپنی لڑکیاں دی تھیں.جیسے نواب امین الدین خاں والد بزرگوار نواب علاؤ الدین خاں والی ریاست لوہارو کی لڑکی میر ناصر نواب صاحب نحسر اِس عاجز کے بڑے بھائی کو بیاہی گئی ایسے بزرگوار خاندان
حیات احمد ۳۶۵ جلد دوم حصہ سوم سادات سے یہ تعلق قرابت اس عاجز کو پیدا ہوا.اس سے زیادہ تشریح نہیں فرمائی مگر میں نے اس خاندانی تذکرے میں یہ بتلایا ہے کہ کس طرح مغل بادشاہ خواجہ میر درد کے بزرگوں کی عزت کرتے تھے کس طرح قلعہ دہلی میں ان کو دعوتیں ہوئی تھیں.مغلیہ بادشاہوں نے اپنی لڑکیاں ان کے لڑکوں کو دیں اور پھر بڑے بڑے عہدے ان کو دیئے ان میں سے بعض بڑے خطاب یافتہ تھے ان میں سے نواب بھی تھے ہفت ہزاری تھے فوج اور سول کے عہدہ دار تھے پھر یہی نہیں.کہ خواجہ میر درد کے گھرانے کا یہ حال تھا بلکہ نواب خاں دوران خاں جو حضرت میر ناصر نواب صاحب کے پردادا تھے وہ اتنی شخصیت کے آدمی تھے کہ روسی میجر جنرل سیولوف ان کے متعلق لکھتا ہے کہ :." وہ ہندوستان کے خود مختار حاکم تھے“.ان کا ایک بیٹا وزیر اعظم تھا دوسرا بیٹا بھی فوج میں افسر تھا اور بھائی بھی فوج میں میر آتش یعنی افسر بارود خانہ تھا.ان کے ماموں امیر الامراء عزیز میرزا کوکلتاش کمانڈر انچیف افواج ہند تھے وہ لوگ صاحب جاگیر بھی تھے ان کے پاس اپنی ذاتی فوجیں بھی تھیں.دولت.شوکت.حکومت سب کچھ تھا اور وہ اپنے حسب نسب کے لحاظ سے اور اپنے تقوی طہارت کے لحاظ سے ممتاز تھے.وہ مرجع خلائق بنے ہوئے تھے.بادشاہ.وزراء.اُدباء.شُعراء.علماء سب ان کی مجلسوں میں مؤدب بیٹھا کرتے تھے ہندوستان میں ان میں سے بعض اپنے وقت میں ایسے تھے کہ بادشاہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تھے.یہ وہ لوگ تھے اگر چاہتے تو آخری زمانہ میں اپنی سلطنتیں قائم کر لیتے.الغرض میں نے اس خاندان کی ساری اور مفصل تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کی تشریح کے لئے لکھی تا خدا کے مامور ومرسل اور نبی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوشتے واقعات سے سچے ثابت ہوں.
حیات احمد ۳۶۶ اس شادی کے برکات وثمرات جلد دوم حصہ سوم یہ شادی جن برکات اور ثمرات کا موجب ہوئی اس کا کسی قدر ذکر میں آگے چل کر بیان کرتا ہوں میرا اپنا ایمان تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی سلسلہ کی بنیاد پڑی اور ہر قسم کی برکات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.اس سلسلہ میں مجھے کسی قدر تفصیل سے اس لئے بھی لکھنا پڑا کہ یہ خاتون مبارکہ بجائے خود اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہے اور اس کے ذریعہ بہت نشانات کا ظہور ہوا.حضرت اُم المؤمنین کی مبشر اولاد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم اور کرم کے ساتھ حضرت ام المومنین کو وہی خاتون ٹھہرایا تھا جس کے متعلق پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اطلاع دی تھی.کہ مسیح اس سے شادی کرے گا اور اس سے اولاد پیدا ہوگی.(يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَهُ) پس آپ وہی خاتون ہیں ، جس کے بطن مبارک سے مسیح موعود کے لئے اولاد پیدا کرنا مقدر تھا.نیز آپ ان عورتوں میں سے تھیں جن کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خَيْرُ النِّسَاءِ وُلُوْدٌ عورتوں میں سے بہترین عورتیں وہی ہیں جو جننے والی ہیں.سو اللہ تعالیٰ نے حضرت ام المومنین کو اس لحاظ سے بھی خیر النساء بنا دیا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بطن سے دس اولادیں دیں.آپ کی اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک اصل بیان فرمایا تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا:.تیری نسل بہت ہو گی میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.مگر بعض ان میں سے بہت کم عمری میں فوت ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے 66 ملکوں میں پھیل جائے گی.“ (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۹۶ بار دوم )
حیات احمد اس پیشگوئی میں بتلایا گیا کہ :.۳۶۷ نسل بہت ہوگی.اسے بہت بڑھایا جائے گا.وہ کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی.جلد دوم حصہ سوم ان میں سے بعض کم عمری میں فوت ہو جائیں گے.گویا کہ جو زندہ رہیں گے وہ بہت ہوں گے.وہ بہت بڑھیں گے.وہ پھلیں گے اور جو فوت ہوں گے وہ کم عمری میں ہی فوت ہو جائیں گے.اس سلسلہ میں آپ نے ایک پیشگوئی کا اعلان فرمایا یہ پیشگوئی ایک خاص لڑکے کے متعلق تھی یہ پیشگوئی ہوشیار پور کی چالیس روزہ خلوت اور لمبی دعاؤں کے بعد عطا کی گئی تھی.چنانچہ فرمایا:.میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سومیں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لودھیانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا.“ تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۵۹ - مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۹۵ بار دوم ) پس یہ پیش گوئی یہ نشان دعاؤں کی قبولیت پر ایک کھلی کھلی صداقت کی مہر تھا.اس الہام میں اس پیشگوئی کی عظمت کا تذکرہ یوں فرمایا :.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے فضل اور احسان کا 66 نشان تجھے عطا ہوتا ہے.اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے اے مظفر تجھ پر سلام.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۹۵ بار دوم ) گویا کہ یہ نشان قدرت ، رحمت ، اور قربت فضل و احسان کا نشان قرار دیا گیا اور فتح وظفر کی کلید اور اس نشان کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالی کی درگاہ میں مظفر قرار دیئے گئے.
حیات احمد ۳۶۸ جلد دوم حصہ سوم یہ نشان کیوں دیا گیا ؟ اس لئے کہ :.” خدا نے یہ کہا.تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات یاد ہیں.اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آو ہیں.اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے.اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں.جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تاوہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تام انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، ایک کھلی نشانی ملے ، اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۹۵ بار دوم ) یہ آٹھ عظیم الشان امور ہیں جن کی بناء پر اس پیشگوئی کا ظہور میں لانا ضروری قرار دیا گیا ان عظیم الشان امور کے ظہور میں لانے کے لئے جس انسان کا پیدا کیا جانا مقدر تھا وہ کون تھا ؟ وہ وہی شخص تھا جس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:.يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ مسیح موعود کی سچائی کی دلیل قدیم پیشگوئیوں کے مطابق ایک موعودلر کے کا عالم وجود میں آنا بھی تھا.جو لا زم اور ملزوم کی طرح سے تھے اس امر کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس وجی میں اشارہ تھا.اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، ایک کھلی نشانی ملے.اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۹۵ بار دوم )
حیات احمد ۳۶۹ جلد دوم حصہ سوم یعنی ایک وہ لوگ ہیں جو راستبازی کے ساتھ ان تمام پیشگوئیوں پر ایمان رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مسلمانوں کو عطا کی گئیں ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے سے خدا تعالیٰ کے وجود پر ایک کامل ایمان پیدا ہو اور اس کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے رسول پر بھی کامل ایمان پیدا ہو تا جب وہ اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھیں گے تو ان کا دل خود بخو دا ایمان کامل سے لبریز ہو جائے گا.دوسرے وہ لوگ ہیں جو منکرین ہیں ان کے نزدیک نہ کوئی مسیح موعود آنے والا تھا اور نہ اس کے ہاں کوئی موعود لڑکا پیدا ہونے والا تھا.ان کے نزدیک یہ ساری باتیں یوں ہی خیالی اور وہمی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتلایا کہ اس موعود دلڑکے کی پیدائش سے صدیوں کے پرانے نوشتے پورے ہو جائیں گے منکروں اور مکذبوں پر اتمام حجت ہو جائے گی خدا تعالیٰ کے قادر ہونے پر ایک عظیم الشان حجت مل سکے گی اور یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ میں إِنِّي مَعَكَ، إِنِّي مَعَكَ کہنے والا خدا تیرے ساتھ ہوں.اس لحاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ پیش گوئی کتنی شان اور کتنی عظمت کی ہے.اگر خدانخواستہ پوری نہ ہوتی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت تو ایک طرف رہی.اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور خدا تعالیٰ کی قدرت سب مشکوک ٹھہر جاتی اس لئے اس کا ٹلنا ناممکن تھا.کیونکہ یہی وہ چیز تھی جسے حاصل کر کے خدا کا برگزیدہ نبی مظفر و منصور ٹھہرا.یہی وہ چیز تھی جو مانگی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے دے دی تھی پھر کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ دی ہوئی عطاء جس پر خدا تعالیٰ کی اپنی سچائی اور اس کے دین ، کتاب اور سید الانبیاء اور مسیح موعود کی سچائی کا انحصار ہو وہ ہی ٹل جائے اور یہ دیکھ کر کئی کمزور دماغ انسان اپنے آپ کو ان عظیم الشان پیشگوئیوں کا مصداق سمجھنے لگ جائیں ان لوگوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کئی دیوانے مٹی اور پتھر کے کنکر لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہ ان کو جواہرات کا ڈھیر سمجھ لیتے ہیں.
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم کیا حقیقت میں وہ جو ہرات کا ڈھیر ہوتے ہیں؟ یا ان کے دماغ کا نقص ہوتا ہے اور ایسے ہی ہم نے دیکھا ہے کہ کبھی بسنے والے اور آباد گھر جب اجڑ جاتے ہیں تو جنگلوں سے آ کر گیدڑ اور بھیڑیئے اُن میں اپنا مسکن بنا لیتے ہیں اور کئی ایسے اجڑے ہوئے مکانوں میں اگو اور چمگادڑ اپنی سلطنت قائم کر لیتے ہیں.کیا کوئی صحیح الدماغ انسان گیدڑوں اور بھیڑیوں کی وجہ سے ان مکانوں کو آباد کہہ سکتا ہے کیا اُلو ؤں اور چمگادڑوں کی آمد ورفت اور آوازوں سے کوئی عقلمند یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ وہاں بڑی گہما گہمی ہے.ہر گز نہیں اور یہ چیزیں تو ویرانی اور بربادی کی ایک کھلی اور بین دلیل ہیں.پس وہ لوگ جو آج یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں وہ لڑکا پیدا نہیں ہوا اور وہ جو کہتے ہیں کہ اس مادر مہربان کے بطن سے پیدا ہو ہی نہیں سکتا وہ سب در پردہ اس خدائی سلسلہ کے دشمن ہیں.اگر چہ ان کی زبانیں اور منہ اس امر کو تسلیم نہ کریں لیکن ان کے اعمال ان کی قلمیں ، ان کے اخبار اور ان کی ساری کوششیں اس امر پر بنی ہیں کہ وہ یہ ثابت کریں کہ یہ سلسلہ سارا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی نہیں.انہی کی ان کوششوں سے تاریکی کے پردے اسلام کے اس قصر کو خالی سمجھ کر اپنا گھونسلا بنانے کی فکر میں ہیں مگر خدا تعالیٰ کا سورج آج پوری شان کے ساتھ چمک رہا ہے.اور کوئی تیرہ پرست اس جگہ اپنا سر چھپانے کے لئے جگہ نہیں پاسکتا.یاد رہے ! کہ خدا تعالیٰ کے مسیح کی سچائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ لڑکا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ظاہر کیا گیا تھا جسے صلحائے امت اپنی پیشگوئیوں میں ہمیشہ ظاہر کرتے رہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان الفاظ میں فرمایا :.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی
حیات احمد غلام ( لڑکا ) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے.تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.جلد دوم حصہ سوم ( تذکره صفحه ۱۰۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) اس پیشگوئی میں لفظ تیرے ہی تخم اور تیری ہی ذریت نے ایسی حد بندی کر دی ہے کہ کسی مدعی کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی.اس پیشگوئی میں ایک اور پیشگوئی بھی تھی جو پیشگوئی میں اس طرح مل کر آئی تھی کہ عام طور پر اس کی طرف توجہ نہ گئی اور یہی خیال کیا گیا کہ یہ پہلی پیشگوئی کی ہی جزو ہے اور وہ پیشگوئی یتھی:.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نور اللہ ہے.( تذکره صفحه ۱۰۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.“ اس پیشگوئی کو پہلی پیشگوئی کا حصہ ہی سمجھا گیا.حالانکہ یہ پیشگوئی اُس پیشگوئی کا حصہ تھی جو ۱۸۸۱ء میں ان الفاظ میں اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَسِینِ ہم تجھے ایک حسین لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں.الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عظیم الشان لڑکے کی پیشگوئی بذریعہ اشتہار فرما دی.اور اسی اشتہار میں ایک اور لڑکے کی بھی پیشگوئی تھی جس کو مہمان کے نام سے ظاہر کیا گیا.مگر سب کی توجہ اس عظیم الشان لڑکے کی طرف تو گئی.مگر مہمان کی طرف نہ گئی.یہ ذکر تو ضمناً آ گیا اس کی تفصیل دوسرے موقعہ پر آئے گی جبکہ میں ۱۸۸۹ء کے واقعات بیان کروں گا.مجھے اس لئے بھی خصوصیت سے اس پر بحث کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم نے اپنی تالیف مجد داعظم میں غیر ضروری طور پر مصلح موعود کی بحث کو چھیڑ دیا ہے وہ اب ہم میں نہیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.اور اس خصوص میں ان کی جراحتوں اور جراتوں پر چشم پوشی فرمائے کآخر کنند دعویءِ حُبّ پیغمبرم یہ ذکر ضمناً آ گیا میں پھر اسی سلسلہ شادی کے متعلق واقعات کا ذکر کرتا ہوں.ترجمہ:.کیونکہ آخر میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں.
حیات احمد حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ کا بقیہ بیان جلد دوم حصہ سوم حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں مزید جو کچھ فرمایا اسے میں نے حیات ناصر میں درج کر دیا تھا اور اسی کا اقتباس خود حضرت میر صاحب ہی کے الفاظ میں درج کرتا ہوں.پہلے تو میں نے کچھ تامل کیا کیونکہ مرزا صاحب کی عمر زیادہ تھی اور بیوی بچے موجود تھے اور ہماری قوم کے بھی نہ تھے.مگر پھر حضرت مرزا صاحب کی نیکی اور نیک مزاجی پر نظر کر کے جس کا میں دل سے خواہاں تھا میں نے اپنے دل میں مقرر کر لیا کہ اسی نیک مرد سے میں اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کر دوں.نیز مجھے دتی کے لوگ اور وہاں کی عادات و اطوار بالکل ناپسند تھے اور وہاں کے رسم و رواج سے سخت بیزار تھا اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرتا تھا کہ میرا مربی ومحسن مجھے کوئی نیک اور صالح داماد عطا فرما دے یہ دعا میں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی جناب میں کی آخر قبول ہوئی اور مجھے ایسا بزرگ صالح متقی خدا کا مسیح و مہدی نبی اللہ اور رسول اللہ خاتم الخلفاء اللہ تعالیٰ نے داماد عطا فرمایا جس پر لوگ رشک کریں.تو بجا ہے اور اگر میں اس پر فخر کروں تو کچھ بے جا نہ ہوگا.اس نکاح سے چند سال پیشتر میرے گھر میں پانچ بچوں کے مرنے کے بعد ایک لڑکا پیدا ہو کر زندہ رہا جس کا نام محمد اسمعیل رکھا.جواب میر محمد اسمعیل صاحب اسسٹنٹ سرجن ہیں.میں ضلع لاہور سے تبدیل ہو کر پٹیالہ و مالیر کوٹلہ کی طرف گیا وہاں سے چند ماہ کے بعد نقشہ نویس ہو کر ملتان میں پہنچا.اب زمانہ نے بہت رنگ بدلے.اور میرے حال میں کئی تبدلیاں واقع ہوئیں.آخر میں ملتان سے فرلورخصت لے کر دتی پہنچا.اور اپنی فرمانبردار بیوی کولڑ کی کے نکاح کے بارہ میں بہت سمجھا بجھا کر راضی کیا اور سوائے اپنی رفیق بیوی کے اور کسی کو اطلاع نہیں دی اس واسطے ایسا نہ ہو کنبہ میں شور پڑ جاوے اور میرا کیا کرایا بگڑ جاوے اور میری والدہ صاحبہ و دیگر اقرباء مانع ہوں.انجام کار ۱۸۸۵ء میں میں نے حضرت مرزا صاحب کو چپکے سے بلا بھیجا.اور خواجہ میر دردصاحب آہ! آج وہ مقبرہ بہشتی میں آرام کرتے ہیں.عرفانی الکبیر
حیات احمد ۳۷۳ جلد دوم حصہ سوم کی مسجد میں مین العصر والمغرب اپنی دختر نیک اختر کا حضرت صاحب سے گیارہ سو روپیہ مہر کے بدلے نکاح کر دیا.نکاح کا خطبہ مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے پڑھا وہ ڈولی میں بیٹھ کر تشریف لائے تھے کیونکہ ضعف اور بڑھاپے کے باعث چل پھر نہیں سکتے تھے عین موقعہ پر میں نے اپنے اور اپنی بیوی کے رشتہ داروں کو بلایا.اس لئے وہ کچھ کر نہ سکے بعض نے تو گالیاں بھی دیں اور بعض دانت پیس کر رہ گئے.جانئین سے کوئی تکلف عمل میں نہیں آیا رسم و رسوم کا نام تک نہ تھا.ہر ایک کام سیدھا سادہ ہوا.میں نے جہیز کو صندوق میں بند کر کے کنجی مرزا صاحب کو دے دی اور لڑکی کو چپ چپاتے رخصت کر دیا بر خلاف اس کے ہمارے کنبہ میں لاکھ لاکھ مہر بندھا کرتا ہے اور دنیا کی ساری رسمیں جو خلاف شرع ہیں ادا کی جاتی ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذالك کہ مروجہ بد رسوم میں سے ہمارے ہاں کوئی بھی نہیں ہوئی یہ قصہ خصوصاً اس واسطے لکھا ہے که اکثر احمدی احباب نکاح کا حال پوچھا کرتے ہیں کہ تمہارے ہاں حضرت مرزا صاحب کا تعلق کیونکر ہوا.بار بار متفرق اصحاب کے آگے دوہرانے کی اب ضرورت نہیں لوگ اس تحریر کو پڑھ لیں گے اس وقت میر محمد اسمعیل کی عمر تین چار سال کی تھی یہ بھی میرے میں ایک تبدیلی تھی اس زمانہ کا ایک عظیم بیٹا تھا جس کے سبب سے میں ایک بڑا اور تاریخی آدمی بن گیا چندا اپنی برادری کے دنیا دار آدمیوں کو چھوڑا خدا تعالیٰ نے مجھے لاکھوں بچے محب اور ہزاروں مومنین اور صالحین عطا فرمائے جو مجھے باپ سمجھتے ہیں.اور آئندہ جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں گے وہ حضرت مرزا صاحب کے ساتھ مجھے بھی درود بھیجا کریں گے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ.یہ باتیں عاجز نے بطور فخر و تکبر کے نہیں لکھیں بلکہ بطور تحدیث نعمت تحریر کی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ لِ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت میر صاحب ملتان میں متعین تھے.اور وہ فرلو لے کر دہلی آئے حضرت نانی اماں اور حضرت میر صاحب کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً دونوں کے خیالات میں مختلف موانع تھے چنانچہ :.ل الصحي : ۱۲
حیات احمد ۳۷۴ حضرت میر صاحب کے دل میں تین روکیں تھیں :.عمر کا فرق پہلی شادی اور اولاد.قوم کا فرق جلد دوم حصہ سوم نانی اماں کو پہلی روک یہ تھی کہ اول تو ان کا دل نہیں مانتا تھا.دوسرے عمر کا بہت فرق تھا.تیسرے دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف سخت تعصب تھا.ان موانع کے باوجود ایک چیز تھی جو اندر ہی اندر کام کر رہی تھی.اور وہ حضرت میر صاحب کا یہ جذبہ تھا.کہ ان کا داماد نیک اور صالح ہو.یہ ایک اعلیٰ مقصد تھا جس کے پیمانہ پر کوئی پورا نہ اتر تا تھا درخواستیں کرنے والے لوگ اچھے متمول تھے مگر نیک اور صالح نہ تھے.حضرت میر صاحب کو دہلی کے لوگوں کی عادات اور اطوار سے سخت نفرت تھی اس لئے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعا مانگا کرتا تھا کہ میرا مربی ومحسن مجھے کوئی نیک اور صالح داماد عطا فرمائے یہ دعا میں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی جناب میں کی اور آخر قبول ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علی و علیہ وسلم نے بیوی کے متعلق فرمایا کہ لوگ مال اور حسن کے لئے شادی کرتے ہیں مگر آپ نے فرما یا خُذْ بِذَاتِ الدِّينِ تم دیندار عورت سے شادی کرو.بالکل اسی اصل کے ماتحت حضرت میر صاحب اپنی صاحبزادی کے لئے دیندار خاوند کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے تھے اور خدا تعالیٰ سے رشتہ مانگا کرتے تھے سو ان دعاؤں کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کو وہ کچھ دے دیا جو انہوں نے مانگا.یہ ایک عجیب بات ہے اس وقت روئے زمین پر ایک ہی انسان تھا جو نیکیوں کا سردار اور راستبازوں کا راستباز تھا یعنی حضرت مسیح موعود اور اس وقت دنیا میں ایک ہی شخص تھا جو خدا کے
حیات احمد ۳۷۵ جلد دوم حصہ سوم حضور اپنی بیٹی کے رشتہ کے لئے ہمیشہ خدا کے آگے رویا کرتا تھا اور گڑ گڑایا کرتا تھا اور وہ تھا میر ناصر نواب.خدا نے اس کی دعاؤں کو سنا اور قبول کیا اور خود مسیح موعود کو تحریک کی اور خود حضرت میر صاحب اور ان کی حرم کے دل میں باقی سب رشتوں سے نفرت پیدا کر کے صرف اور صرف حضرت مسیح موعود کے لئے انشراح پیدا کر دیا.اس طرح سے یہ ابتدائی مراحل طے ہو کر اس مبارک اور مقدس جوڑے کی نسبت قرار پا گئی جس سے ایک نئی دنیا ایک نیا خاندان ایک نیا قصر امن تعمیر ہونے والا تھا.جس رشتہ کے ذریعہ بنے والی دلہن خدیجہ ثانیہ بنے والی تھی اور خدیجہ ثانیہ کا شوہر بروز محمد بن کر جلوہ افروز ہونے والا تھا جس جوڑے کے عالم وجود میں لانے کی ایک غرض ایک موعود بیٹا جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَهُ کی بشارت سے دی تھی پیدا کرنا تھا.اور ایک پاک نسل پیدا کرنی تھی جن کی مخالفت مخالفوں کو یزیدی اور جن کی محبت سعادت اور خدا تعالیٰ کی رضا کا موجب بننے والی ہے.پس یہ مبارک جوڑا با وجود روکوں اور حالات کی ناموافقت کے خدا کے منشاء کے ماتحت نامزد ہو گیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَعَلَى آلِهِ وَخُلَفَائِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ - آمين تقریب نکاح اور اس کی کیفیت جس تاریخ کو خط لکھا اس تاریخ سے آٹھ دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی پہنچ گئے حافظ حامد علی صاحب بطور خادم کے ساتھ تھے اور لالہ ملا وامل صاحب اور ایک دو آدمی ساتھ تھے حضرت میر صاحب کی برادری کے لوگوں کو جب معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر پنجابی کو رشتہ دے دیا اور کئی لوگ اس ناراضگی کی وجہ سے شامل بھی نہ ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھ کوئی زیور اور کپڑا نہ لے گئے تھے صرف ڈھائی سو روپیہ نقد
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم تھا اس پر بھی رشتہ داروں نے بہت طعن کئے کہ اچھا نکاح کیا ہے کہ نہ کوئی زیور ہے نہ کپڑا.حضرت میر صاحب اور ان کے گھر کے لوگ لوگوں کو یہ جواب دیتے تھے کہ میرزا صاحب کے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ تعلقات نہیں ہیں گھر کی عورتیں ان کی مخالف ہیں پھر وہ جلدی میں آئے ہیں اس حالت میں زیور کپڑا کہاں سے بنوالا تے.مگر برادری کے لوگوں کا طعن و تشنیع کم نہ ہوا (مفہوم.سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحه ۳۹۸ تا ۲۰۱ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حضرت ام المومنین نے خود بھی اپنی شادی کے متعلق سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص ۵۱ پر ایک روایت بیان فرمائی جس کے بعض ضروری فقرات یہ ہیں:.پھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دتی گئے آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملا وامل بھی تھے یہ نکاح مولوی نذیر حسین نے پڑھا تھا.یہ ۲۷ محرم ۱۳۰۲ھ بروز پیر کی بات ہے.اس وقت میری عمر ۱۸ سال کی تھی.حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ رو پید اور ایک مصلے نذر دیا تھا.“ (سیرت المہدی جلد اوّل حصّہ اوّل صفحه ۵۱ روایت نمبر ۶۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء) حضرت میر صاحب نے لکھا ہے کہ نکاح ۱۸۸۵ء میں ہوا.حضرت میر صاحب کو سن کے متعلق غلطی لگی وہ لکھتے ہیں:.” اس نکاح کے متعلق سوائے ان کی رفیق بیوی کے کسی کو علم نہ تھا.حضرت صاحب کو چپکے سے بلا بھیجا تھا.خواجہ میر درد کی مسجد میں بین العصر والمغرب مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے نکاح پڑھا وہ ڈولی میں بیٹھ کر آئے تھے کیونکہ بوجہ ضعف اور بڑھاپے کے وہ چل پھر نہیں سکتے تھے.مہر.گیارہ سو روپیہ مہر مقرر ہوا.حضرت میر صاحب نے عین وقت پر اپنے اور اپنی بیوی کے رشتہ داروں کو بلا بھیجا اس لئے وہ کچھ نہ کر سکے بعض رشتہ داروں نے گالیاں بھی دیں اور بعض دانت پیس کر رہ گئے.میری تحقیق میں شادی کا سال ۱۸۸۴ء ہے.عرفانی الکبیر
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم رسم و رسوم جانبین کی طرف سے کوئی رسم و رسوم کا نام تک نہ لیا گیا.ہر ایک کام سیدھا سادہ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک کے حکم وارشاد کے مطابق ہوا جہیز کا سامان ایک صندوق میں بند کر کے کنجی حضرت صاحب کو دے دی گئی اور چپ چپاتے حضرت ام المومنین کو رخصت کر دیا.(حیات ناصر صفحہ ۸ ایڈیشن اوّل) الغرض اس طرح سے نہایت سادگی کے ساتھ شریعتِ حقہ کے ارشاد کے مطابق اس پاک جوڑے کا تعلق مسجد خواجہ میر درد میں بین العصر والمغرب باندھا گیا.حضرت میر صاحب کے رشتہ دار بُرا بھلا کہہ رہے تھے مگر آسمان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ برکات نازل فرما رہے تھے کیونکہ اس وقت عالم روحانیت میں ایک تعمیر نو کی بنیاد رکھی جا رہی تھی.اس زمانہ میں بٹالے تک ریل بن چکی تھی حضرت صاحب رخصتا نہ کرا کے حضرت ام المومنین کو لے کر قادیان آگئے.میں نے اس شادی کے متعلق کسی قدر تفصیل سے لکھنا پسند اس لئے کیا کہ یہ تقریب ایک آیۃ اللہ کا درجہ رکھتی ہے.میں اس بات سے نہیں ڈرتا جیسا کہ بعض کمزور طبیعت کے لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح حیات کو ایسے رنگ میں لکھا جاوے کہ جانبداری کا شائبہ معلوم نہ ہو.میں اسے مداہنت سمجھتا ہوں جس وجود کو اللہ تعالیٰ نے آیۃ اللہ اور حجۃ اللہ قرار دیا اور جس کو اپنی ہستی کی دلیل ٹھہرایا میں واقعات کو پیش کرتے وقت وہ رنگ اختیار کروں جو صحیح نہیں.اللہ تعالیٰ نے اُسے فرمایا کہ اللہ تعالی عرش سے تیری تعریف کرتا ہے “.مجھے اس کو اسی رنگ میں پیش کرنا ہے.غرض یہ شادی بجائے خود اللہ تعالیٰ کی ہستی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک نشان ہے.اس لئے میں نے اس کے متعلق تمام امور کو جمع کر دیا ہے.لا يَحْمَدُكَ اللَّهُ مِنْ عَرْشِهِ ( تذکره صفحه ۳۷، ۳۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) 66
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم حضرت کے براقی اس شادی کی تقریب پر حضرت اقدس کے ہمراہ صرف تین آدمی تھے لالہ ملا وامل ( جو اس وقت تک زندہ ہیں ) حضرت میاں جان محمد صاحب رضی اللہ عنہ اور حافظ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ آپ نے میر عباس صاحب کو بھی شریک ہونے کے لئے تحریک کی تھی مگر وہ بوجہ علالت ساتھ نہ جاسکے اور ہانہ کے اسٹیشن پر احباب نے ملاقات کی اور حضور پلیٹ فارم پر چہل قدمی فرماتے رہے.حضرت منشی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ بھی ملاقات کے لئے موجود تھے اور انہوں نے ایک پوٹلی (جس میں کچھ رقم تھی) پیش کی تھی.حضرت حافظ حامد علی رضی اللہ عنہ حضور سے بے تکلف تھے وہ بیان کرتے تھے کہ باوجودیکہ حضرت اقدس خود ایک حاذق طبیب تھے کبھی مجھے بھی فرماتے کہ تم کو کوئی نسخہ معلوم ہے نیز حافظ صاحب نے اس شادی کے سلسلہ میں مجھ سے بیان کیا کہ میرا قیام دہلی میں حضرت کے مخصوص کمرہ کے قریب تھا.آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے کوئی ضرورت پانی وغیرہ کے لئے ہو اس لئے قریب رہو.چونکہ رخصتانہ دہلی میں نکاح کے بعد ہو گیا تھا بہت بڑی فجر کو جب حضرت اقدس تہجد کے لئے اٹھے اور مجھے آ کر پکارا اور میں حاضر ہوا تو ہنستے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی فضل کیا.میں نے پوچھا تو فرمایا کہ گھر میں ایام کی حالت ہے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح میری ستاری فرمائی.“ اور بہت ہی خوش تھے اور بار بار الْحَمْدُ لِلَّهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ پڑھتے تھے اس سے آپ کی سیرت مُطَهَّرَہ پر جو روشنی پڑتی ہے اسے میں قارئین کرام پر چھوڑ دیتا ہوں.لالہ ملا وامل صاحب نے مجھے بتایا کہ دہلی سے میاں جان محمد نے ایک خط لکھا تھا اس سے ایک غلط فہمی پیدا ہو گئی اور میرے گھر والوں کو میرے متعلق تو ہمات پیدا ہو گئے کہ شاید میں مسلمان ہو گیا ہوں.اور میں نے بھی شادی کر لی ہے.آخر جب ہم واپس آئے تو یہ شکوک دور ہو گئے.واپسی پر آپ تھوڑی دیر لودہا نہ ٹیشن پر ٹھہرے اس وقت پھلور گاڑی زیادہ ٹھہر تی تھی حضرت منشی احمد جان رضی اللہ عنہ بہ معیت حضرت صاحبزادہ منظور احمد صاحب پھلور تک ساتھ چلے گئے اور وہاں جب تک گاڑی روانہ نہ ہوئی حضرت اقدس کے ہمراہ رہے پھر واپس ہوئے.
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم صاحبزادہ منظور احمد صاحب مجھے یہ واقعہ سنایا کرتے اور فرمایا کرتے کہ گاڑی چلے جانے کے بعد ابا جان نے دہی بھلے ( دہی بڑے) خرید کئے.یہ خیال کر کے کہ میں ساتھ ہوں.اور مجھے کہا ” بخور“ میں نے کہا نہ انہا شما بخورید کچھ دیر تک ہم باپ بیٹوں میں یہ تکرار و اصرار ہوتا رہا.آخر ہم دونوں نے کھا لئے.اس واقعہ کو میں نے تربیت اولا د اور حضرت منشی احمد جان صاحب کی ارادت و عقیدت کے اظہار میں لکھ دیا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ جس روز حضرت اقدس دہلی سے شادی کر کے واپس ہوئے اُسی روز حضرت مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ عنہ اپنی شادی کر کے قادیان پہنچے تھے اور اس شادی کی یادگار سعادت نشان مرز ا عزیز احمد سلمہ اللہ سلسلہ کے ناظر اعلیٰ ہیں.۱۸۸۴ء کی ایک اور خصوصیت حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۸۲ ء سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جاوے کہ یہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے تو یہ مبالغہ نہیں اس وقت تک حضرت اقدس اسلام پر حملہ آوروں کے مقابلہ میں محض ایک دفاعی مقابلہ کرنے والے سپہ سالار کی حیثیت سے کھڑے تھے اور یہ کام آپ عملاً ۷۶.۱۸۷۷ء سے کر رہے تھے.اس وقت مختلف حملہ آوروں (عیسائیوں.آریوں.برہموؤں وغیرہ) کے اعتراضات کا جواب شائع کر رہے تھے اور یہی تحریکیں اپنی پوری قوت سے اسلام پر حملہ آور ہو رہی تھیں.برہموؤں اور دوسرے معترضین اسلام کے طرز کلام اور صورت حملہ میں اختلاف تھا.عیسائیوں نے باوجود اپنی تعلیم کی نرمی کے اظہار کے نہایت دریدہ دہنی سے حملے شروع کئے اور انہوں نے اس میدان میں ان مرتدین اسلام کو پہلی صف میں پیش کیا جو اپنی مادی اور نفسانی اغراض کے ماتحت ترک اسلام کر چکے تھے اور اپنی بدنفسی کا مظاہرہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر معاندانہ حملوں کی صورت میں کیا ان کی
حیات احمد ۳۸۰ جلد دوم حصہ سوم کاسہ لیسی آریوں نے کی.اگر چہ ان میں بعض شریف الطبع اور سنجیدہ مزاج لوگ بھی تھے.جو اس قسم کی ذہنیت کو پسند نہ کرتے تھے.برہم سماج کے لوگ براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور قرآن کریم پر کوئی حملہ نہ کرتے تھے.بلکہ وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک مہا پُرش یقین کرتے تھے اور قرآن کریم کی تعلیم کا احترام کرتے تھے وہ نفس مکالمہ الہی کے منکر تھے.چنانچہ اس موضوع پر آپ نے بڑی تفصیل سے براہین احمدیہ میں بحث کی ہے.آریوں کے حملے ود یا پر کا شک امرتسر آریہ در پکن شاہ جہانپور وغیرہ ماہواری رسائل اور اخبار آفتاب پنجاب میں شائع شدہ مضامین میں ہوتے اور آپ ان کے جوابات شائع کرتے.یہ سلسلہ ۱۸۷۹ء تک جاری رہا تب آپ نے اعلام الہی سے براہین احمدیہ کی اشاعت کا اعلان کیا اور اس کے چار حصے شائع ہو چکے تھے کہ تجلیات الهیه نے حضرت موسی عمران کے رنگ میں آپ کو بہت بڑے کام کے لئے برگزیدہ فرمایا اور اس عظیم الشان مقصد کی تکمیل کے سامانوں میں آپ کی یہ مبشر اور موعود شادی بھی تھی.آپ کی اہلی زندگی پر آپ کی سیرت اور سیرت ام المومنین (مصنفہ محمود احمد عرفانی مرحوم) میں بحث ہو چکی ہے.اور شاید پھر کسی دوسرے موقعہ پر اس کی مزید صراحت ہو.میں نے بتایا ہے کہ اس وقت تک آپ اسلام کے حملہ آوروں کے مقابلہ میں ایک دفاعی سپہ سالار کی حیثیت سے کھڑے تھے لیکن آپ کے دفاع کا طریق بجائے خود ایسا تھا کہ نہ صرف حملہ کا جواب ہوتا تھا بلکہ اس میں ایک صورت اقدام بھی تھی.اگر چہ اس پر تفصیل سے بحث آپ کے علم کلام میں ہو گی مگر مختصراً یہاں اتنا ہی بیان کر جاتا ہوں کہ آپ نے ان حملہ آوروں کے سامنے ایک اصل پیش کیا کہ دوسروں پر حملہ کرنا تو خوبی کی بات نہیں بہتر ہے حقائق تعلیم و تاثیرات تعلیم میں مقابلہ کیا جاوے اور یہ مقابلہ محدود ہو اپنی اپنی مسلمہ الہامی کتاب تک یعنی جو دعوی پیش کیا جاوے اُسی میں سے ہو اور دلائل بھی اُسی میں سے.یہ اصل ایسا صاف دل نشین اور عام فہم تھا کہ کوئی سلیم الفطرت انسان اس سے انکار نہیں کر سکتا
حیات احمد ۳۸۱ جلد دوم حصہ سوم تھا مگر معترضین اسلام کے لئے اسلام کے مقابلہ میں اس کو تسلیم کرنا گویا اپنے مذہب کی شکست فاش کو تسلیم کرنا تھا.اس لئے کبھی کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اس مقابلہ میں آتا اور اس معیار پر اپنی صداقت مذہب کو پیش کرتا یہ تو دراصل ایک بنیاد تھی اس اقدام کی جو آپ آئندہ کرنے والے تھے.اصولی طور پر آپ نے ہر قسم کے معترضین کو جواب دیا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ایسے اعتراضات کے جوابات عموماً اخبارات میں شائع ہوتے تھے اور بعض اوقات آپ کے پاس بذریعہ خطوط بھی اعتراضات آتے تھے آپ ان کے جوابات بذریعہ خطوط بھی دیتے تھے.یہ معترضین اندرونی اور بیرونی ہر قسم کے ہوتے تھے.یعنی غیر مذاہب کے لوگ بھی اور اسلام کے بعض اندرونی فرقوں کے لوگ بھی.اس قسم کے خطوط کے جوابات آپ کے مکتوبات میں ملتے ہیں جو میں نے چھاپ دیئے ہیں.شادی سے قبل تک تو آپ کا سارا وقت اسی مقصد کے لئے وقف تھا لیکن شادی کے بعد نئی قسم کی وہ ذمہ داریاں بھی آپ پر عائد ہوئیں جو ہر متاہل انسان کے لئے ضرور پیش آتی ہیں.اور آپ کے لئے یہ ذمہ داریاں اس لئے بھی بہت بڑھ کر تھیں کہ اس وقت تک آپ کے خاندان کی رشتہ داریاں ایک خاص طبقہ تک محدود تھیں اگر چہ آپ کے اجداد میں سادات کے خاندان سے بھی لڑکیاں آئی تھیں مگر قریب زمانہ میں اپنے ہی عزیزوں کے ایک خاص طبقہ تک یہ سلسلہ محدود تھا ہ اپنے قومی مراسم اور عادات سے واقف تھے اب ایک نئے خاندان سے تعلقات قائم ہوئے اور سارا خاندان اس کے خلاف تھا.اور عجیب بات یہ ہے کہ ذرائع آمد جو خاندانی ملکیت کے تھے وہ فریق مخالف کے قبضہ میں تھے.اس وقت کی کیفیت کو سمجھنے کے لئے خود حضرت ام المومنین (مَتَّعَنَا اللهُ بِطُولِ حَيَاتِهَا) کا بیان کافی ہے.یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ کے ان نشانات اور آیات کو دکھانا ہے جن کے وعدے اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے سے کئے تھے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں.وہ ”اماں جان نے ایک دفعہ ذکر فرمایا جب تمہارے ابا مجھے بیاہ کر لائے تو یہاں
حیات احمد ۳۸۲ جلد دوم حصہ سوم سب کنبہ مخالف تھا.(اس وقت تک شادی کی ہی وجہ سے غالباً) دو چار خادم مرد تھے اور پیچھے سے ان بیچاروں کی بھی گھر والوں نے روٹی بند کر رکھی تھی گھر میں عورت کوئی نہ تھی.صرف میرے ساتھ ”فاطمہ بیگم تھیں اور وہ کسی کی زبان نہ سمجھتی تھیں.نہ ان کی کوئی سمجھے شام کا وقت تھا بلکہ رات تھی جب ہم پہنچے، تنہائی کا عالم ، بیگانہ وطن.میرے دل کی عجیب حالت تھی.اور روتے روتے میرا بُرا حال ہو گیا تھا نہ کوئی اپنا تسلی دینے والا.نہ منہ دھلانے والا ، نہ کھلانے پلانے والا ، کنبہ نہ ناطہ.اکیلی حیرانی پریشانی میں آن کر اتری.کمرے میں ایک کھتری چار پائی پڑی تھی.جس کی پائینتی پر ایک کپڑا پڑا تھا اس پر تھکی ہاری جو بڑی ہوں تو صبح ہوگئی.سیہ اس زمانہ کی ملکہ دو جہاں کا بستر عروسی تھا اور سسرال کے گھر میں پہلی رات تھی.مگر خدا کی رحمت کے فرشتے پکار پکار کر کہ رہے تھے.کہ اے کھتری چار پائی پر سونے والی پہلے دن کی دلہن ! دیکھ تو سہی دو جہان کی نعمتیں ہوں گی اور تو ہوگی بلکہ ایک دن تاج شاہی تیرے خادموں سے لگے ہوں گے.انشاء الله اگلی صبح حضرت مسیح موعود نے ایک خادمہ کو بلوا دیا اور گھر میں آرام کا سب بندو بست کر دیا.“ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خود حضرت ام المومنین کی سیرت کے متعدد پہلو نمایاں ہیں.مگر میں نے اسے اس لئے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے والد ماجد کی وفات سے قبل اطلاع وفات کے ساتھ جو الہام ہوا تھا أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ اور اس شادی کے متعلق جو بشارت ملی تھی کہ ہر چه باید نو عروسی را ہماں سامان کنم وانچہ مطلوب شما باشد عطائے آن کنم ترجمہ:.جو کچھ تمہیں شادی کے لئے درکار ہو گا تمام سامان اُس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا.
حیات احمد ۳۸۳ جلد دوم حصہ سوم وہ کس شان سے پورے ہوئے اس شادی کے بعد برکات الہیہ کا ایک خاص سلسلہ شروع ہو گیا.اور باوجود آپ اپنی مصروفیتوں کے آپ کے عملی پروگرام کا (جو آپ کے منصب و مقام کا نتیجہ تھا ) دامن بہت وسیع ہو گیا.اور آپ نہ صرف اسلام پر حملہ آوروں کے دفاع ہی پر قانع رہے بلکہ آپ نے اقدام کے لئے قدم اٹھانے کا عزم فرمانِ الہی کے ماتحت کر لیا.یادر ہے کہ اقدام کسی جنگی اصطلاح میں نہیں بلکہ یہ انبیاء علیہم السلام کا اصطلاحی اقدام ہے کہ جو الہیات کی اصطلاح میں تبلیغ واشاعت کا نام ہے.اور یہ کوئی نئی تجویز نہ تھی بلکہ اس کی بنیاد تو آپ کی اوائل زندگی ہی میں رکھی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے مختلف رؤیا اور کشوف اور الہامات میں اس کی طرف اشارہ اور صراحت کی تھی بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کی بعثت کے متعلق جو پیشگوئی فرمائی تھی اس میں اور قرآن مجید کی آیت هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (التوبه: ۳۳) میں بھی یہ بشارت موجود تھی.چنانچہ یہ آیت بھی آپ کے الہامات میں موجود ہے میں یہاں آپ کے ایک کشف کو درج کر دینا ضروری سمجھتا ہوں اگر چہ اسی کتاب کی پہلی جلد میں بھی اس کا اقتباس دیا تھا.یہ کشف آپ کی آنے والی زندگی کا ایک نقشہ ہے جبکہ آپ اشاعت و تبلیغ حق کے لئے اقدام کرنے والے تھے.حضرت مولوی عبد اللہ غز نوٹی سے عالم رویا میں ملاقات حضرت مولوی عبداللہ غزنوی کے متعلق جلد اول میں لکھ آیا ہوں انہوں نے خود اپنی زندگی میں حضرت کی ماموریت کے متعلق اپنے کشف کی بناء پر وفات سے کچھ پہلے پیشگوئی کی تھی.کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس میری اولاد اس سے محروم رہ گئی.پھر دوسرے وقت صاف الفاظ میں کہا کہ ” میرے بعد آپ ایک عظیم الشان کام کے لئے مامور ہوں گئے.انہیں دنوں مولوی عبد اللہ صاحب کو آپ نے عالم رویا میں دیکھا اور وہ
حیات احمد رویا یہ ہے.۳۸۴ جلد دوم حصہ سوم ایک دفعہ میں نے اُس بزرگ باصفا کو خواب میں اُن کی وفات کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت پر بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوانوں کی مانند مسلح ہونے کی صورت میں کھڑے ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کر کے ان سے پوچھا کہ مجھے ایک خواب آئی ہے اس کی تعبیر فرمائیے.میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان تک پہنچی ہوئی ہے جب میں اس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں مخالف اس سے قتل ہو جاتے ہیں اور جب بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزار ہا دشمن اس سے مارے جاتے ہیں تب حضرت عبداللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میری خواب کو سن کر بہت خوش ہوئے اور بشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات و امارات ان کے چہرہ میں نمودار ہو گئے.اور فرمانے لگے کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا.اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتا ہے اس سے مراد وہ اتمام حجت کا کام ہے کہ جو روحانی طور پر انوار و برکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا.اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کر ہزار ہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدائے تعالیٰ الزام و اسکات خصم کرے گا اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کر دے گا.پھر بعد اس کے انہوں نے فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں امیدوار تھا کہ خدا تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا.پھر حضرت عبداللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی لیکن سب کے سب مسلح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی پستی کی طرز بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں
حیات احمد ۳۸۵ جلد دوم حصہ سوم جو بہت جلد آنے والا ہے پھر اس کے بعد آنکھ کھل گئی.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۲ تا ۱۴۶ حاشیه ) آپ کی اس رویا میں آپ کو تلوار دی گئی ہے اور اس کی تعبیر خواب ہی میں دلائل و براہین اور انوار و برکات کے ذریعہ اتمام حجت ہے اور خود حضرت کے اپنے الہامات میں ایک الہام تلوار کی حقیقت بیان کرتا ہے.كِتَابُ الْوَلِيِّ ذُوالْفَقَارِ عَلِيٌّ اس الہام میں صاف طور پر تلوار کی ( جو آپ کو دی گئی ) حقیقت بیان کی ہے اور خود آپ نے فرمایا.صف دشمن کو کیا ہم نے بہ حجت پامال سیف کا کام فلم سے ہی دکھایا ہم نے غرض اب وقت آ گیا تھا کہ آپ اتمام حجت کے لئے ایک دوسرا اقدام کریں براہین احمدیہ کی چوتھی جلد شائع ہو کر دلائل و براہین کے ذریعہ اتمام حجت کر چکی تھی اور اس عرصہ میں کسی کو جرات نہ ہوئی کہ شرائط مندرجہ کے موافق تردید کر دکھائے.اللہ تعالیٰ کے منشاء کے موافق آپ نے اتمام حجت اور صداقت اسلام کے اظہار کے لئے انوار و برکات کے ذریعہ مخالفین اسلام کو دعوت دینے کا عزم فرمایا ایک خاص سفر کا ارادہ اور تنسیخ اس اقدام سے پہلے آپ نے یہ ارادہ کیا تھا کہ کچھ عرصہ کے لئے کسی ایسے مقام پر چلے جائیں جہاں کوئی آپ کو نہ جانتا ہو اور نہ آپ کسی کو جانتے ہوں مقصد اس سفر کا یہ تھا کہ خلوت میں شرکت وصداقت اسلام کے لئے دعا کریں.اور ایک اجنبی جگہ ہونے کی وجہ کوئی مشوش نہ ہو سکے گا لیکن یہ عزم اللہ تعالیٰ کے ایک الہام کی بناء پر اُس وقت ملتوی ہو گیا اور ۱۸۸۶ء پر جا پڑا.اس سفر میں آپ نے حضرت منشی عبداللہ سنوری رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کا وعدہ کیا
حیات احمد ۳۸۶ جلد دوم حصہ سوم تھا اور یہ مقام اس وقت سو جان پور ضلع گورداسپور تجویز ہوا تھا اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ستمبر ۱۸۸۴ء میں آپ جانا چاہتے تھے چنانچہ اس بارہ میں حضرت منشی عبداللہ صاحب نے خط لکھا تو جواب دیا وہ خط مع منشی صاحب کے نوٹ کے درج ذیل ہے.پوسٹ کارڈ مشفقی مکرمی اخویم میاں عبداللہ صاحب سلمہ بعد سلام مسنون آپ کا عنایت نامہ پہنچا.ابھی تک باعث بعض موانع یہ عاجز قادیان میں ہے سو جانپور کی طرف نہیں گیا.اور بوجہ علالت وضعف طبیعت ابھی ہندوستان کی سیر میں تامل ہے شاید اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ بات موسم سرما میں میسر آجائے ہر ایک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کبھی کبھی اپنے حالات سے مطلع فرماتے رہیں.خواب آپ کی انشاء اللہ بہت عمدہ ہے کہ بعض نفسانی الا یشوں سے پاک ہونے کی طرف اشارہ ہے وَاللهُ أَعْلَم خاکسار.غلام احمد از قادیان - ۷ ستمبر ۱۸۸۴ء مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۱۴۸) (نوٹ) سو جان پور کی طرف تشریف لے جانے کا ارادہ حضور کا اس بناء پر تھا کہ حضور کو ان ایام میں یہ خواہش تھی کہ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں نہ ہم کسی کو جانتے ہوں.نہ ہمیں کوئی جانتا ہو.اس پر جناب مولوی عبداللہ صاحب نے حضور کی خدمت میں درخواست کی حضور اس خاکسار ( مولوی عبداللہ صاحب) کو بھی اپنے ہمراہ لے جائیں.حضور نے مولوی عبداللہ صاحب کی اس درخواست کو منظور فرمالیا اسی بناء پر مولوی عبد اللہ صاحب کے اس خط کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا کہ ابھی تک باعث بعض موانع یہ عاجز قادیان میں ہے.سو جان پور کے طرف نہیں گیا اسی اثناء میں حضور کو اللہ تعالیٰ کے طرف سے یہ الہام ہوا کہ ” تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہو گی اس لئے حضور نے سو جانپور کی طرف جانے کا ارادہ ملتوی کر کے ہوشیار پور جانے کا ارادہ فرمالیا.چنانچہ اسی بناء پر حضور شروع جنوری ۱۸۸۶ء میں مولوی عبداللہ صاحب، حافظ حامد علی صاحب اور ایک شخص (فتح خاں نام ) کو اپنے ہمراہ لے کر سیدھے ہوشیار پور کو روانہ ہو گئے اور
حیات احمد ۳۸۷ جلد دوم حصہ سوم وہاں پہنچ کر شیخ مہر علی صاحب رئیس ( جو اس وقت حضور سے محبت اور اخلاص رکھتے تھے ) کے طویلہ میں جا کر چالیس روز تک ایک بالا خانہ میں بالکل الگ رہے حضور کے ہرسہ خدام رفقاء اسی طویلہ میں نیچے کے حصہ میں الگ رہتے تھے.چنانچہ وہاں حضور نے چلہ کشی کی.اور پھر ۲۰ روز وہاں اور ٹھہر کر مارچ ۱۸۸۶ء میں واپس قادیان کو تشریف لائے.ہندوستان کی سیر ۱۸۸۹ء میں آکر حضور نے صرف اس قدر کی کہ لد ہیانہ میں بیعت لینے کے بعد علی گڑھ تشریف لے گئے اور وہاں ایک ہفتہ کے قریب سید تفضل حسین صاحب تحصیلدار کے ہاں ٹھہر کر وہاں سے پھر لد ہیا نہ تشریف لائے.آپ کے دل میں صداقت اسلام کا ایک جوش تھا اور وہی تڑپ مختلف اوقات میں کشود کار کے لئے بے قرار رکھتی تھی ۱۸۸۴ء کی آخری سہ ماہی میں آپ کی صحت اچھی نہ رہی اور مختلف عوارض کی وجہ سے ضعف بڑھتا گیا.لیکن اس ضعف کے بعد ایک عظیم الشان کارنامہ ظہور میں آنے والا تھا.جس کا ذکر ۱۸۸۵ء کے واقعات میں آتا ہے.۱۸۸۴ء کے متفرق واقعات حضرت اقدس کا سفر امرتسر حضرت اقدس جیسا کہ آپ نے ۱۳ / فروری ۱۸۸۴ء کے مکتوبات میں تحریر فرمایا تھا امرتسر تشریف لے گئے آپ کا یہ سفر براہین احمدیہ کی طباعت کے سلسلہ میں تھا.ان ایام میں جب آپ امرتسر تشریف لے جاتے تو معمولاً حکیم محمد شریف صاحب کلانوری کے ہاں قیام فرمایا کرتے تھے حکیم صاحب کو آپ کے ساتھ محبت و اخلاص تھا اور حضرت اقدس بھی ان کے اخلاص کی وجہ سے پسند فرماتے تھے کہ ان کے پاس ہی قیام کریں اگر چہ امرتسر کے بعض رؤسا جن کے آپ کے خاندان سے مراسم تھے چاہتے تھے کہ آپ ان کے یہاں قیام کریں لیکن چونکہ آپ متکلف طبیعت نہ رکھتے تھے اور دنیا داروں سے گونہ اجتناب رکھتے تھے اس لئے حکیم صاحب کے ہاں قیام
حیات احمد ۳۸۸ جلد دوم حصہ سوم کرتے اور قادیان سے بعض اوقات ان کو کسی ضروری کام کے لئے بلا تکلف لکھ دیتے تھے چنانچہ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کی مہر بنوائی گئی تو یہ بھی اُن کی ہی معرفت بنوائی گئی تھی اور کبھی حکیم صاحب موصوف کو کسی کے لئے سپارش بھی کر دیتے تھے.چنانچہ حکیم مولوی قطب الدین صاحب ساکن بدوملہی نے طبی تعلیم اور تجربہ کے لئے سپارش چاہی تو آپ نے سپارش کر دی غرض حکیم صاحب موصوف کے آپ سے تعلقات ایک دوستانہ اور مخلصانہ انداز رکھتے تھے اس مرتبہ بھی آپ نے امرتسر جا کر ان کے پاس ہی قیام کیا.ایسے موقع پر آپ کی یہ بھی عادت تھی کہ اپنے مخلص احباب کو جن کے ساتھ خط و کتابت کی کثرت ہوتی تھی اپنے سفر اور مقام سفر اور قیام سفر کی اطلاع دے دیا کرتے تھے تا کہ مراسلات ضرور یہ میں دیر نہ ہو اس مرتبہ آپ کا قیام امرتسر میں ایک ہفتہ سے زائد رہا ۱۳ / فروری ۱۸۸۲ء کو آپ روانہ ہوئے اور غالبا ۲۴ / فروری ۱۸۸۴ء تک آپ نے قیام فرمایا کتابوں کی روانگی کا سلسلہ بھی بدستور امرتسر میں جاری رہا اور بشارت کا سلسلہ بھی جاری رہا دیکھ صفحہ پر) لودہانہ کے ان علماء کی مخالفت کا راز مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے انہی ایام میں اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں کھول دیا تھا اور کسی مخالف کو اس کی تردید کی قدرت نہ ہوئی جیسا کہ میں نے نمبر دوم کے ص ۱۷-۱۸ میں بیان کیا ہے یہ مولوی صاحبان دیو بند اور گنگوہ بھی فتویٰ تکفیر لے گئے تھے وہاں کامیابی نہ ہوئی.پھر علماء دہلی سے مدد چاہی وہاں بھی کامیابی نہ ہوئی چونکہ ایک طوفان مخالفت اٹھ رہا تھا اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت آپ کو ان بشارتوں کے نزول سے مطمئن کر دیا.اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ پر فتویٰ کفر کی ابتدا ۱۸۸۳ء کے آخر ۱۸۸۴ء کے اوائل میں ہوئی.۱۸۸۴ء کی اہمیت میں پہلے بھی لکھ آیا تھا کہ ۱۸۸۴ ء کا سال سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سوانح حیات میں ایک انقلاب آفرین سال تھا.براہین احمدیہ کی چاروں جلدوں کی تکمیل اسی سال میں ہوئی اور آئندہ کے لئے براہین کے متعلق آپ کو موسیٰ ابنِ عمران (علیہ السلام ) موجودہ سیٹنگ میں صفحہ نمبر ۲۹۸
حیات احمد ۳۸۹ جلد دوم حصہ سوم سا رنگ پیش آ گیا اور اسی سال میں آپ نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بشارتوں کے ماتحت دوسری شادی کی اور بعض عظیم الشان واقعات کا سلسلہ پیدا ہو گیا.براہین کی تکمیل کے لئے آپ کو متعد د سفر امرتسر کے کرنے پڑے تھے کاپیوں اور پروفوں کی درستی کے لئے یہ سفر پیش آتے اور آپ بار ہا بلکہ کہنا چاہئے اکثر پا پیادہ بٹالہ تک قادیان سے آتے اور بعض اوقات امرتسر تک یگوں پر سفر کرتے تھے.شب و روز آپ غیر معمولی قوت اور استقلال سے مصروف عمل تھے.آپ کے الہامات کی اشاعت نے ایک نیا انقلاب پیدا کیا اس وقت اس قسم کی آواز کہیں سے آ نہیں رہی تھی.صوفیوں اور سجادہ نشینوں اور علماء پر اس کا غیر معمولی اثر ہوا اور انہوں نے سمجھا کہ ہماری دوکان پر یہ بجلی ہو کر گرے گی اس لئے علماء سوء اپنے ہتھیار لے کر مخالفت کے لئے کھڑے ہوئے اس وقت علماء کی قوت بہت زبر دست تھی عوام پر ان کی ہی حکومت اور قبضہ تھا اور ان کے پاس کفر کا ایک ایسا حربہ اور ہتھیار تھا کہ اس سے جس کو چاہیں تباہ کر دیں.مگر اس معاملہ میں ان کو سب سے پہلی اور آخری نا کامی حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں ہوئی حضرت اقدس نے بھی ان کی اس قسم کی کارروائیوں کی قطعاً پرواہ نہ کی اور وہ کرتے بھی کیوں؟ جبکہ خدا تعالیٰ نے ایک غیر معمولی قوت اور غیر معمولی استقامت کے ساتھ ان کو کھڑا کیا تھا اور قبل از وقت ان آندھیوں کا جو اس کے خلاف چلنے والی تھیں علم دے دیا تھا.اور بار بار فرمایا فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ.اسی مخالفت کے ایام میں آپ براہین احمدیہ کی ہر جلد جو شائع ہوتی اپنی گرہ سے محصول ڈاک دے کر بصیغہ رجسٹری بھیج دیتے.آپ کے دوستوں اور خدام میں سے کوئی اگر علماء کے حملہ سے خائف ہو کر اس کا تذکرہ کرتا تو آپ اس کو بھی تسلی دیتے.غرض اس طوفانِ مخالفت میں آپ ایک مستحکم چٹان کی طرح کھڑے رہے.علماء دہلی کو جواب علماء دہلی نے آپ کو مولوی محمد صاحب لود بانوی کے فتویٰ تکفیر کے متعلق جب اطلاع دی تو آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ اصل کتابیں ان کی خدمت میں بھیج دی جاویں تا کہ وہ پڑھ کر صحیح رائے قائم کر لیں چنانچہ امرتسر ہی سے آپ نے حصہ سوم و چہارم علماء دہلی کو بھیج دیئے.جیسا کہ آپ نے ۲۱ فروری ۱۸۸۴ء کے مکتوب میں میر عباس علی صاحب کو اطلاع دی.
حیات احمد ۳۹۰ جلد دوم حصہ سوم براہین کی تیاری میں یہاں ایک اور امر کا بھی ضمناً ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ براہین احمدیہ کی چوتھی جلد آغاز ۱۸۸۳ء میں ہی چھپ کر تیار ہوگئی تھی البتہ اتنا ہوتا تھا کہ اس کی جز بندی وغیرہ ساتھ ساتھ ہو رہی تھی.براہین احمدیہ کا پرنٹر شیخ نور احمد صاحب مرحوم ان ایام میں بخارا گیا ہوا تھا.اور منشی محمد حسین مراد آبادی ریاض ہند پریس کے مینجر تھے.وہ ایک بلند پایہ کے خوشنویس بھی تھے چنانچہ براہین احمدیہ کی لوح ( ٹائیٹل پیج ) انہوں نے ہی تیار کیا تھا.اسی سلسلہ میں ان کو حضرت اقدس کے روحانی کمال کا علم ہوا.اور اخلاص پیدا ہوا اور آخری عمر تک وہ اس اخلاص میں ترقی کرتے گئے عجیب بات یہ ہے کہ مسیحیت و مہدویت کے دعوی کا آغاز جس رسالہ (فتح اسلام) سے ہوا اس کی کتابت کی عزت وسعادت بھی اُن کے حصہ میں آئی براہین کی طبع واشاعت کے آخری مرحلہ میں یہ امر پیش آیا تھا کہ اکثر پتھروں پر کا پیاں لگا کر ضرورت کے موافق تیار ہوتی رہتی تھیں.مگر یہ آخر میں آ کر ہوا.مخالفت کے سلسلہ میں علماء کی چالیں مخالفت کے سلسلہ میں علماء نے جو رنگ ابتداء اختیار کیا وہ تو یہ تھا کہ آپ کے خلاف فتویٰ کفر حاصل کریں جب اس میں کامیابی ہوتی نظر نہ آئی تو انہوں نے ایک ذلیل علمی حملہ تجویز کیا تا کہ ایسے اعتراض کریں جس سے حضرت اقدس ہی کے علم و قابلیت پر حملہ نہ ہو بلکہ یہ بھی ظاہر کیا جاوے کہ جو الہامات آپ خدا کی طرف سے پیش کرتے ہیں وہ ان کے مجوزہ قواعد ولغت کے لحاظ سے معیار پر پورے نہیں اترتے.اس قسم کے حملے ہمیشہ انبیاء و مامورین کے مخالفین نے اپنی علمی پردہ دری کے لئے کئے ہیں اور اخلاق کے ادنی معیار کے لوگ اپنے حریف کی زبان یا اسلوب بیان پر نقطہ چینی کر کے اپنی کمزوری کا آپ اشتہار دیتے ہیں.
حیات احمد ۳۹۱ پہلا علمی اعتراض اور اس کا جواب جلد دوم حصہ سوم چنانچہ اس سلسلہ میں سب سے پہلا اعتراض آپ کے الہام يَا مَرْيَمُ اسْكُنْ “ پر کیا گیا اور بڑے دعوئی اور قوت سے اسے پیش کیا گیا کہ یہ نحوی قواعد کے لحاظ سے غلط ہے اسگن نہیں بلکہ اُسْكُنِی چاہئے بظاہر اعتراض بڑا وزن دار معلوم ہوتا تھا.یہ اعتراض لو د ہانہ میں کیا گیا جیسے ان ایام میں لودہانہ کو نصرت و تائید کا یگانہ امتیاز حاصل تھا مخالفت کی شدت بھی وہاں ہی تھی.مخالف علماء نے اس اعتراض کو نہایت قوت اور شدت سے پھیلایا جناب میر عباس علی صاحب کو اس پر بڑی گھبراہٹ ہوئی اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک کمزور ایمان کے انسان تھے ورنہ جبکہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ الہامِ ربانی ہے تو کسی شخص کے صرفی نحوی اعتراضات کی کیا کچھ وقعت رہتی انہوں نے اس گھبراہٹ میں حضرت اقدس کو ایک خط لکھا جس میں اسی گھبراہٹ کا اظہار کیا گیا.اس وقت آپ امرتسر ہی میں مقیم تھے.اور حکیم محمد شریف صاحب کے ہاں ہی قیام تھا ایسے موقعہ پر حضرت اقدس کا یہ معمول تھا کہ معترضین کے ازالہ وہم کی فوری کوشش کرتے تھے.بلکہ آپ اکثر فرمایا کرتے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی اعتراض پیدا ہو تو فوراً اس کو پیش کر کے جواب لینا چاہئے.اور اعتراض کو ایسا سمجھنا چاہئے جیسے کسی کے اندر قے کی تحریک ہوتی ہے.اور مواد رڈ یہ اس کے ذریعہ سے خارج ہو جاتا ہے آپ نے فوراً میر عباس علی صاحب کو اس کا جواب لکھ کر روانہ کر دیا تمہیں حلا حاشیہ.میں اصل مکتوب کو اس لئے درج کرتا ہوں تا کہ قارئین کرام کو دونوں باتیں معلوم ہو جاویں.آپ کا طرز عمل اور طریق استدلال بلکہ اِس سے اُس بصیرت اور ایمان کا پتہ لگتا ہے جو آپ کو خدا کی اس وحی پر تھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم - مخدومی مکر می اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلّمۂ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.بعد ہذا آں مخدوم کا عنایت نامہ بذریعہ محمد شریف صاحب مجھ کو ملا.سو آپ کو میں اطلاع دیتا ہوں کہ میں نے حصہ سوئم و چہارم بخدمت علماء دہلی بھیج دیئے ہیں.آپ نے جو لکھا ہے کہ چوتھے حصے کے صفحہ ۴۹۶ پر مخالف اعتراض کرتے ہیں.آپ نے مفصل نہیں لکھا کہ کیا اعتراض کرتے ہیں صرف آپ نے یہ لکھا ہے کہ يَا مَرْيَمُ اسْكُن میں نحوی غلطی معلوم ہوتی ہے.اسگن کی جگہ انگنی چاہئے تھا.
حیات احمد ۳۹۲ جلد دوم حصہ سوم لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا کا ایک عملی نظارہ چونکہ لودہا نہ اس مخالفت کا مرکز تھا اور میر عباس علی صاحب کچھ کمزور طبیعت کے واقع ہوئے تھے ان پر اس کا بہت بُرا اثر تھا باوجود یکہ حضرت اقدس نے ان کو تازہ بتازہ بشارتوں سے اطلاع دی تھی مگر میر صاحب کو اس مخالفت سے سخت گھبراہٹ پیدا ہو رہی تھی چنانچہ انہوں نے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا جس میں مخالفت کی شدت اور اپنی گھبراہٹ کا ذکر تھا.یہ مکتوب ۱۲۱ اور ۲۴ / فروری ۱۸۸۴ء کے درمیان لکھا گیا تھا آپ نے ۲۶ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷ ربیع الثانی ۱۳۰۹ھ کو اس کے جواب میں لکھا کہ بقیہ حاشیہ:.سو آپ کو میں مطلع کرتا ہوں کہ جس شخص نے ایسا اعتراض کیا ہے اس نے خود غلطی کھائی ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ نحو اور صرف سے آپ ہی بے خبر ہے کیوں کہ عبارت کا سیاق دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ مریم سے مریم ام عیسیٰ مراد نہیں.اور نہ آدم سے آدم ابوالبشر مراد ہے اور نہ احمد سے اس جگہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں.اور ایسا ہی ان الہامات کے تمام مقامات میں کہ جو موسیٰ اور عیسی اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں ان ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہیں.بلکہ ہر یک جگہ یہی عاجز مراد ہے اب جبکہ اس جگہ مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد نہیں ہے بلکہ مذکر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے.یعنی مَرْيَمُ اسْكُنْ کہا جائے نہ یہ کہ یا مَرْيَمُ اسْكُنِی ہاں اگر مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد ہوتی تو پھر اس جگہ اُسکنی آتا.لیکن اس جگہ تو صریح مریم مذکر کا نام رکھا گیا اس لئے برعایت مذکر ، مذکر کا صیغہ آیا اور یہی قاعدہ ہے کہ جونو یوں اور صرفیوں میں مسلّم ہے اور کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہے اور زوج کے لفظ سے رفقاء اورا قرباء مراد ہیں.زوج مرا دنہیں ہے.اور لغت میں یہ لفظ دونوں طور پر اطلاق پاتا ہے.اور جنت کا لفظ ، اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے.اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتح یابی اور سرور اور آرام پر بولا جاتا ہے.اور یہ عاجز اس الہام میں کوئی جائے گرفت نہیں دیکھتا.(۲۱ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۲ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ.مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۸۲ مکتوبات احمد جلد اصفحه۵۹۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۳۹۳ جلد دوم حصہ سوم آں مخدوم کا خط بعد واپسی از امرتسر مجھ کو ملا.آں مخدوم کچھ تفکر و تر ڈد نہ کریں اور یقیناً سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں.بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے.اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے.کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہیں ہوئے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا اگر لوگ خدا کے بندوں کو جو اس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یونہی اُن کی شکل دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ ان کا ہرگز دنیا میں ظہور نہ ہوتا.“ مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۷۳.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۵۹۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اس طرح پر آپ نے اطمینان اور سکینت کی ایک رو میر عباس علی صاحب کے قلب میں بھی ڈال دی مجھے اس پر زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آپ ابتدا ہی سے اپنی دعوت کو عــلــى مـنـهـاج النبوة یقین کرتے تھے.غرض مخالفت کا یہ سلسلہ جاری رہا مگر آپ نے کبھی اور کسی حال میں اس کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا ہاں اگر کوئی اعترض اور غلط نہی دشمن نے پیدا کرنی چاہی تو آپ نے اس کا فور أجواب دیا.ان ایام کے مشاغل براہین احمد یہ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں ہر چہار جلد میں تیار ہوگئی تھیں.اور خریداروں کو آپ بھیج رہے تھے اس عرصہ میں بعض نئے خریدار بھی پیدا ہو رہے تھے آپ ان ایام میں اس امر سے بھی غافل نہیں رہتے تھے کہ جو لوگ آپ سے مخلصانہ تعلق اور ارادت رکھتے تھے وقتاً فوقتاً ان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں.اور جہاں کسی شخص کے کسی عمل میں کوئی ایسی بات آپ محسوس فرماتے جو اس کے عمل کو ضائع اور باطل کر دے گی آپ اس کو نہایت شفقت اور حکیمانہ انداز سے اس کی طرف توجہ دلاتے اور اس کے لئے کبھی کسی دوسری فرصت اور موقع کے منتظر نہ رہتے بلکہ جونہی ایک بیماری کا احساس فرمایا اس کے علاج کی طرف متوجہ ہو گئے.اس کی ایک مثال انہیں ایام کی میر عباس علی صاحب کے متعلق ہے جیسا کہ اوپر کے بیانات سے ظاہر ہے
حیات احمد ۳۹۴ جلد دوم حصہ سوم مخالفت زوروں پر تھی اور میر صاحب بھی اخلاص کے ساتھ براہین کی اشاعت و اعانت کے کام میں مصروف تھے مگر آپ نے محسوس کیا کہ میر صاحب کو عمل صالح کی حقیقت اور رسم و عادت کے امتیاز سے واقف کرنا ضروری ہے.بعض اوقات ایک کام کرتا ہے.وہ بظاہر نیکی کا کام ہوتا ہے.لیکن اس میں رضائے مولیٰ کا خیال نہیں ہوتا بلکہ رسم و عادت کا دخل ہوتا ہے اس لئے وہ ضائع ہو جاتا ہے.اس پر آپ نے میر صاحب کو ۲۸ / فروری ۱۸۸۴ء کو عمل صالح کی حقیقت اور اس میں اور رسم و عادت میں امتیاز اور عمل صالح کے برکات پر ایک مبسوط مکتوب لکھا حالانکہ سلسلہ خط و کتابت میں ۲۶ فروری کو ہی آپ خط لکھ چکے تھے.اس میں آپ نے بتایا کہ زیادہ تر اس بات میں کوشش کرنی چاہئے کہ کسی طرح مولیٰ کریم راضی ہو جائے ہر یک سعادت اس کی رضا سے حاصل ہوتی ہے.اور فرمایا کہ حقیقی طور پر عمل صالح اُس عمل کو کہا جاتا ہے کہ جو ہر ایک قسم کے فساد سے محفوظ رہ کر اپنے کمال کو پہنچ جائے.اور اپنے کمال تک کسی عمل صالح کا پہنچنا اس بات پر موقوف ہے کہ عامل کی ایسی نیت صالح ہو کہ جس میں بجز حق ربوبیت بجالانے کی اور کوئی غرض مخفی نہ ہو یعنی صرف اس کے دل میں یہ ہو کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور گواطاعت بجالانے پر ثواب مترتب یا عذاب مترتب ہو اور گواس کا نتیجہ آرام اور راحت ہو یا نکبت اور عقوبت ہو.“ مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحه ۸۳ ۸۴ - مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۲۰۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس طرح پر آپ اصلاح خلق کے کام میں مصروف تھے اور خصوصیت سے آپ دعاؤں میں لگے ہوئے تھے.جیسا کہ واقعات شہادت دیتے ہیں.آپ کے سلسلہ الہامات اور ان کی توضیحات سے معلوم ہوتا ہے آپ کو یہ معلوم ہو رہا تھا کہ آپ کسی امر عظیم کے لئے مامور ہو رہے ہیں اس وقت تک تو آپ یہی سمجھے ہوئے تھے کہ براہین احمدیہ کے ذریعہ حفاظت واشاعت اسلام میرا مقصد ہے لیکن براہین ہی کی تصنیف و طباعت کے ایام میں آپ پر بعض اور اسرار مخفیہ ظاہر
حیات احمد ۳۹۵ جلد دوم حصہ سوم ہوئے لیکن جیسا کہ مامورین کے اسی گروہ کی فطرت اور عادت میں ہے وہ بہت محتاط ہوتے ہیں حضرت اقدس بھی احتیاط اور دعاؤں سے کام لے رہے تھے اور بعض مخفی عبادتوں اور مجاہدات میں بھی مصروف تھے.مگر یاد رہے کہ یہ عبادات اور مجاہدات ایسے نہ تھے جو خلاف شریعت یا خلاف سنت ہوں چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں.میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو.بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع 66 اقسام کے بدعات میں مبتلا ہیں.“ ( کتاب البریہ صفحہ ۱۶۳ ۱۶۴ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۶، ۱۹۷ حاشیه ) غرض اس وقت آپ آنے والے برکات اور اپنے فرائض کو ادا کرنے کے لئے مزید توفیق اور اکتشافات کے لئے دعاؤں میں مصروف تھے براہین جلد پنجم کے لئے بھی آپ کو خیال تھا اور اس میں جو نشانات پورے ہو چکے تھے ان کے اندراج کا بھی ارادہ تھا مخالفین کی طرف سے جو سوالات براہِ راست آتے یا بعض اخبارات میں شائع ہوتے یا بعض خدام لکھ کر بھیجتے ان کے جوابات بھی دیتے اور یہ بڑی مصروفیت کا عہد تھا.قریباً سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے.مہمانوں کی خاطر تواضع.ان کے لئے کھانا لانا.بعض کے لئے وضو کا گرم پانی لانا.خطوط کے جواب دینا کتابوں کی پیکٹ بنانا.اُن پر پتے لکھنا اور پوسٹ کرنا.حیرت ہوتی ہے کہ وہ تمام کام جو اس عہد میں خود حضرت اقدس اپنے دست مبارک سے کرتے تھے اب ان کے متعلق متعدد محکمے اور ادارے قائم ہیں اور ایک دو نہیں سینکڑوں آدمی اس کام کو کر رہے ہیں.اس عہد سعادت کے واقعات کو حالات حاضرہ کی روشنی میں جو شخص سلیم الفطرت ہوکر دیکھے گا اسے بے اختیار اعتراف کرنا پڑے گا یہ انسان کا نہیں خدا کا قائم کردہ سلسلہ ہے.
حیات احمد ۳۹۶ جلد دوم حصہ سوم حضرت اقدس کی زندگی میں یہ ایک عملی خصوصیت نظر آتی ہے کہ آپ اسلام پر اگر کوئی اعتراض ہوتا تو اس کے جواب دینے کے لئے اپنی بیماری اور صحت کی حالت کو بھی نہیں دیکھتے تھے.چنانچہ ۲۹ فروری ۱۸۸۸ء کو میر عباس علی صاحب نے آپ کی خدمت میں ایک سوال تو حید کے متعلق لکھا تھا.یہ مکتوب آپ کو مارچ ۱۸۸۴ء کی ابتدائی تاریخوں میں ملا ہو گا.آپ اس وقت بیمار تھے اور ا ار مارچ ۱۸۸۴ ء تک بیمار تھے مگر اسی حالت میں جواب دیا.مرزا سلطان احمد صاحب کی درخواست دعا ۱۸۸۴ء کے واقعات اور نشانات میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی درخواست دعا کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے.خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے سب سے بڑے بیٹے تھے جو آپ کی پہلی حرم محترم کے بطن سے تھے انہوں نے دنیا میں بہت بڑی ترقی کی آخر میں ڈپٹی کمشنری کے عہدے سے پنشن یاب ہوئے اور خان بہادر کا خطاب ان کو ملا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہوں نے ابتداء بعض کتب بھی پڑھی تھیں ان کی زندگی کے مختلف دور تھے.انہوں نے کبھی اور کسی زمانہ میں حضرت اقدس کی صداقت اور آپ کے دعاوی کا انکار نہیں کیا.میں ایک واقف کار کی حیثیت سے یہ بات کہتا ہوں.البتہ حضرت اقدس کو ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے ایک زمانہ میں رنج پیدا ہوا.مگر وہ اس عرصہ میں بھی سعادت مند رہے.جہاں تک دستاویزی ثبوت ملتا ہے حضرت اقدس اس وقت تک جبکہ مرزا سلطان احمد صاحب لاہور میں تھے اگر کبھی لاہور تشریف لے جاتے تو ان کے پاس قیام کرتے تھے بہر حال خلافت ثانیہ میں خان بہادر نے باقاعدہ بیعت کی اور بعد وفات مقبرہ بہشتی میں اسی احاطہ میں جگہ پائی جہاں حضرت مسیح موعود کا مزار ہے.مارچ ۱۸۸۴ء کے قریب قریب مرزا سلطان احمد صاحب نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا چونکہ حضرت اقدس کی دعاؤں کی قبولیت پر اُن کا ایمان تھا
حیات احمد ۳۹۷ جلد دوم حصہ سوم انہوں نے حضرت اقدس کو دعا کے لئے لکھا.لیکن حضرت اقدس کی زندگی کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے اور اس پر غور کیا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا اور اس کے مالوفات کبھی آپ کے پیش نظر نہ تھے.مرزا سلطان احمد صاحب کی اس دعا کی درخواست کا بھی آپ کے قلب پر اثر ہوا چنا نچہ آپ نے اس خط کو پڑھ کر کراہت سے چاک کر دیا جہاں تک میری تحقیقات ہے یہ خط عصر کی نماز کے قریب آپ کے پاس پہنچا تھا.اور آپ نماز کے لئے وضو کر رہے تھے.اس خط کے پڑھنے سے آپ کو بہت نفرت ہوئی اور اس کا باعث ایک ہی تھا کہ دنیا کی اغراض کے لئے دعا کی درخواست کی گئی.اور اسے چاک کر کے پھینک دیا اور زبان سے بھی آپ نے اس نفرت کا اظہار کیا کہ دینی ترقی کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے مقاصد کے لئے دعا چاہتا ہے میں نہیں کروں گا.خدا تعالیٰ کی شان کریمی کے قربان! مرزا سلطان احمد صاحب نے اس ایمان سے محرک ہو کر جو ان کو حضرت کی دعاؤں کی قبولیت پر تھا خط تحریر کیا.خدا تعالیٰ نے ان کے حسن ظن کو ضائع نہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مقام کہ دنیا کی اغراض کے لئے بیٹے کے واسطے بھی دعا پسند نہ کی.اللہ تعالیٰ کو باپ اور بیٹے کا یہ فعل پسند آیا اور نماز میں آپ کو بشارت مل گئی کہ پاس ہو جائے گا.آپ نے مسکرا کر اس کو بیان کیا کہ ہم نے تو دعا نہیں کی مگر خدا تعالیٰ نے کامیابی کی بشارت دے دی چنانچہ اسی کے موافق وہ پاس ہو گئے.اور ان کی ترقیات کا سلسلہ جاری ہو گیا.یہ امر کہ حضور کو دنیا کے مالوفات کے لئے دعا سے خوشی نہ ہوتی تھی آپ کے ارشادات سے ثابت ہے اور آپ کے فیض صحبت کے تربیت یافتہ لوگ خوب جانتے ہیں.ایسا ہی ایک واقعہ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے متعلق بھی پیش آیا تھا جب آپ نے امتحان انٹر نفیس دیا تو حضرت کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ دعا کریں کہ یہ پاس ہو جائیں آپ نے فرمایا.ہمیں تو ایسی باتوں کی طرف توجہ کرنے سے کراہت پیدا ہوتی ہے ہم ایسی باتوں کے لئے دعا نہیں کرتے ہم کو نہ نوکریوں کی ضرورت ہے اور نہ ہمارا یہ منشاء ہے کہ امتحان اس غرض سے پاس کئے جاویں ہاں اتنی بات ہے کہ یہ علوم متعارفہ میں کسی
حیات احمد ۳۹۸ جلد دوم حصہ سوم قدر دستگاه پیدا کر لیں جو خدمت دین میں کام آئے پاس فیل سے کوئی تعلق نہیں اور نہ 66 کوئی غرض “ اس واقعہ کے اندر حضرت خلیفہ ثانی کی آئندہ زندگی کے دائرہ عمل کی بھی توضیح ہے میں اس پر یا حضرت کی سیرت کے ان مختلف پہلوؤں پر جو اس سے نکلتے ہیں بحث نہیں کرتا یہ ارشادات میں نے محض ایک تائید کے طور پر پیش کئے ہیں ایک اور موقعہ پر فرمایا تھا کہ ” جب کوئی شخص محض دنیا کے لئے دعا کی دراخواست کرتا ہے طبیعت میں بہت کراہت پیدا ہوتی ہے لیکن جب کوئی درخواست خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے.یا کوئی شخص کسی ابتلاء میں محض دین کی خاطر مبتلا ہوتا ہے یا ستایا جاتا ہے اس وقت دعا کے لئے بے اختیار تحریک ہوتی ہے.“ وو غرض مرزا سلطان احمد صاحب نے دعا کی درخواست کی آپ نے اظہار کراہت کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کراہیت کی قدر کر کے دعا کو قبول کر لیا اور مرزا صاحب کامیاب ہو گئے.اس کا ذکر خود حضرت نے اس طرح فرمایا:.وو عرصہ تین ماہ یا کچھ کم و بیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند نے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے اس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہو جاوے اور بہت کچھ انکسار اور تذلل ظاہر کیا کہ ضرور دعا کریں.مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیا کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم اور غم ہے چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی یہ تمام تر نفرت و کراہت چاک کر دیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں.از مکتوبات احمد یہ مکتوب مورخه ارمئی ۱۸۸۳ء بنام نواب علی محمد خانصاحب آف جھجر الحکم ۲۳ /ستمبر ۱۸۹۹ء صفحه )
حیات احمد ۳۹۹ جلد دوم حصہ سوم ۱۸۸۵ء کے حالات یہاں تک کہ ۱۸۸۵ء کا آغاز ہوا اور اس کے آغاز کے ساتھ ہی آپ نے اعلامِ الہی سے اتمام حجت کے لئے ایک ایسا اقدام کیا کہ کسی کو اس کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہوئی یہ اقدام آپ کا دعوت نشان نمائی کی صورت میں تھا.دعوت نشان نمائی آپ نے مختلف مذاہب کے لیڈر اور پیشواؤں کو بذریعہ رجسٹر ڈ مطبوعہ خط کے اسلام کے تازہ بتازہ برکات اور آیات کے دیکھنے کی دعوت یکسالہ دی اور اس کو اپنی اور اسلام کی صداقت کے لئے پیش کیا اس خط کے ساتھ آپ نے ایک اشتہار انگریزی اور اردو میں چھپوا کر بھیجا جس میں اپنی ماموریت اور مجد د ہونے کا اعلان تھا.یہ اشتہار لاہور میں طبع کرایا گیا تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے ذریعہ طبع کرایا گیا تھا اس کا انگریزی ترجمہ یہاں تک میری تحقیقات ہے مولوی نجف علی صاحب برادر ڈاکٹر عبد الغنی صاحب جلالپور جٹاں کے ذریعہ کرایا گیا تھا مولوی نجف علی صاحب نے بیعت بھی کر لی تھی اور وہ مرزا خدا بخش صاحب مرحوم کے رفقاء میں سے تھے.ڈاکٹر عبد الغنی کا بیان ڈاکٹر عبدالغنی صاحب جب کابل چلے گئے تو خطرناک مخالفین کے زمرہ میں کر ہا شریک ہو گئے تھے اور نجف علی صاحب مرتد ہو گئے تھے.۱۹۲۷ء کے ایام حج میں مجھ کو ڈاکٹر عبدالغنی صاحب سے مکہ معظمہ میں نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ کچھ عرصہ تک ہم ایک ہی مکان میں اکٹھے تھے.میں نے ان سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے متعلق دریافت کیا کہ ان کی ذمہ داری اس میں کہاں تک تھی انہوں نے نہایت افسوس کے ساتھ کہا کہ میں کچھ کہنا نہیں چاہتا میں مجبور اور بے بس تھا میرا ہاتھ نہ تھا مگر خاموشی کا مجرم ہوں دعا کرو کہ
حیات احمد ۴۰۰ جلد دوم حصہ سوم اللہ تعالیٰ معاف کرے اور ستاری سے کام لے.یہ واقعہ ضمناً آ گیا میں مولوی نجف علی صاحب کا تعارف کرا رہا تھا یہ اہلحدیث نوجوان تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے زیر اثر تھے سلسلہ بیعت تک قائم رہے بعد میں مسیح موعود کے دعویٰ کے وقت جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے مخالفت کے لئے اقدام کیا تو اُسی رو میں بہہ گئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے شہر جلالپور جٹاں سے بعض مخلص اور جان نثار بز رگ سلسلہ کو دے دیئے ، ان میں مستری محمد عمر صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت صوفی محمد علی صاحب رضی اللہ عنہ تو صاحب کشف و الہام تھے اور انہوں نے صوفی محمد رفیع پنشنر ڈی.ایں.پی جیسے سپوت کو اپنی یادگار چھوڑا جس کا خاندان اپنے اخلاص میں امتیازی درجہ رکھتا ہے.اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ بہر حال حضرت نے اس دعوت یکسالہ کے لئے ایک مکتوب اور ایک اشتہار شائع کرنے کا عزم فرمایا اگر چہ مِنْ وَ جُہ آپ اس کا ذکر براہین میں بھی کر چکے تھے جیسا کہ میں حیات احمد میں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں مگر وہ ضمناً برکات وثمرات اسلام میں ذکر تھا اب مستقل طور پر آپ نے اس دعوتِ خاص کا اعلان کیا چنانچہ ۸/ مارچ ۱۸۸۵ء کو وہ مکتوب دعوت مع اشتہار ماموریت شائع کر دیا گیا.ضروری خطوط یہ خط مطبع مرتضائی لاہور میں طبع ہوا تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے ذریعہ طبع ہوا تھا اور حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کو چھپوا کر لانے کے لئے بھیجا گیا تھا اس سلسلہ کی تکمیل کے لئے اوّلاً ان خطوط کو درج کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جو مولوی محمد حسین بٹالوی اور حضرت منشی عبداللہ کو لکھے تھے.دستی خط بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اس وقت لاہور میں رہتے تھے )
حیات احمد ۴۰۱ جلد دوم حصہ سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ☆ بخدمت اخویم مکرم مولوی صاحب بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.مسودہ خط شکستہ آں مخدوم جو محمد شاہ نام ایک شخص نے مجھ کو دیا ہے.مجھ سے اچھی طرح پڑھا نہیں گیا دوسرا مسودہ جو شمس الدین کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے پڑھ لیا.اس عاجز نے محض اتمام حجت کی غرض سے یہ قصد کیا ہے.بعدا جرائے نوٹس اگر کوئی مقابلہ کے لئے آیا یا نہ آیا.بہر حال اتمام حجت ہے اور إِحْدَى الْحُسْنَيَيْن سے خالی نہیں انشاء اللہ تعالیٰ عمر کا اعتبار نہیں جس قدر جلدی ہو بہتر ہے اخیر خط میں یہ عبارت ضرور چاہئے کہ اگر کوئی شخص آنے کا ارادہ کرے تو اول بذریعہ درخواست اپنے ارادہ سے مطلع کرے میاں عبد اللہ پٹواری جو اس کام کے لئے گئے ہوئے ہیں ان کو آپ فہمالیش کر دیں.کہ دو ہزار اشتہار انگریزی لے کر قادیان آجائیں.اور خطوط بعد میں پہنچ جائیں گے.ان کا زیادہ توقف کرنا ضروری نہیں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۹ رفروری ۱۸۸۵ء پوسٹ کارڈ ) مشفقی مکرمی میاں عبداللہ صاحب بعد سلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.چونکہ خطوط کے چھپنے میں ابھی دیر ہے اس لئے مناسب ہے کہ آپ دو ہزار اشتہار انگریزی لے کر قادیان چلے آویں.اور جس روز یہ خط پہنچے اسی روز روانہ ہو آویں کہ میاں فتح محمد خاں انبالہ کی طرف جائیں گے اور اسی انتظار میں بیٹھے ہیں.مگر توقف نہ ہو فی الفور چلے آویں.اور دو ہزار اشتہار لے آویں.والسلام (خاکسار غلام احمد از قادیان) نوٹ :.یہ خط بھی حضور نے ۹ فروری ۱۸۸۵ء کو ہی لکھ کر مولوی محمد عبد اللہ صاحب کے نام حلا جس اشتہار کا اس خط میں ذکر ہے یہ وہ اشتہار ہے جو سرمہ چشم آریه و شحنه حق و آئینہ کمالات اسلام و برکات الدعا کے اخیر میں بھی لگا کر شائع کیا گیا تھا.اور جس کے ایک صفحہ پر اردو مضمون متعلق براہین احمدیہ و دعوے ماموریت و مجد ڈیت ہے اور دوسرے صفحہ پر اسی اردو مضمون کا انگریزی میں ترجمہ ہے اور جس خط کا اس میں ذکر ہے یہ وہ خط ہے جو اشتہار مذکور کے ساتھ حضور نے مختلف مذاہب کے لیڈروں اور پیشواؤں کے نام رجسٹر کرا کر بھیجا تھا.اور جس میں دو ہزار چار سو روپیہ ایک سال کے لئے بغرض نشان دیکھنے کے یہاں آ کر رہنے والے غیر مذہب کے ممتاز لوگوں کو دینے کا ذکر ہے.
حیات احمد ۴۰۲ جلد دوم حصہ سوم ارسال فرمایا تھا جو ار فروری کو لاہور میں پہنچا.جیسا کہ ڈاک خانہ کی مہر سے بھی ثابت ہوتا ہے.(پوسٹ کارڈ) یکم مارچ ۱۸۸۵ء از عاجز غلام احمد بعد سلام مسنون.مناسب ہے کہ آپ جلد تر کچھ خطوط مطبوعہ ساتھ لے کر (اگر سب کا لانا ممکن نہ ہو ) آ جائیں کہ بہت دیر مناسب نہیں اور بر وقت آنے کے اشیاء مفصلہ (1) (1) (14) ذیل ساتھ لاویں.پان عمدہ کا تھے.چونہ تمباکو زردہ جو پان میں کھاتے ہیں.مہندی وسمہ.یہ سب خرچ اور جو اپنے لئے ضرورت ہو.منشی الہی بخش لے صاحب سے لے لیں اور کل خرچ کا حساب لے آویں.اگر تین روز اور ٹھہر کر کام ہوسکتا ہو.تو ٹھہر جاویں ورنہ آجائیں.بخدمت منشی الہی بخش صاحب سلام مسنون.خاکسار غلام احمد مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحه ۱۵۱ تا۱۵۳) ان خطوط سے اس امر کا پتہ بھی لگتا ہے کہ آپ کا مقصد اس دعوت نشان نمائی سے کیا تھا.اعلان دعوت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ بعد ما وجب گزارش ضروری یہ ہے کہ عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جَلَّ شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلیل و تواضح سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے.اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیں صراط مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار دکھائی دیتے ہیں ) دکھاوے.اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے.جس کی ۳۷ جز چھپ کر شائع ہو چکے ہیں.اور اس کا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے ا مصنف عصائے موسیٰ.
حیات احمد ۴۰۳ جلد دوم حصہ سوم لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط (جس کی ۲۴۰ کاپی چھپوائی گئی ہے) معہ اشتہار انگریزی (جس کی آٹھ ہزار کا پی چھپوائی گئی ہے.شائع کیا جائے.اور اس کی ایک ایک کاپی بخدمت معزز پادری صاحبان پنجاب و هندوستان و انگلستان وغیرہ بلا د جہاں تک ارسال خط ممکن ہو ) جو اپنی قوم میں خاص طور پر مشہور اور معزز ہوں.اور بخدمت معزز بر ہموں صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامات سے منکر ہیں.اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاوے.یہ تجویز نہ اپنے فکر و اجتہاد سے قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب ( جو خط پہنچنے پر رجوع سبق نہ کریں گے ) ملزم ولا جواب ومغلوب ہو جائیں گے.بنا بر علیہ یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور اور مقتدا ہیں ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کے کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حسبةً لِلہ اس خط کے مضمون کی طرف توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے.اگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہو گی.اور اس کاروائی کی ( کہ آپ کو رجسٹری شدہ خط ملا.پھر آپ نے اس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب میں پوری تفصیل سے اشاعت کی جائے گی.اصل مدعا خط جس کے ابلاغ سے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے دینِ حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے.اس دین کی حقانیت اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوارق و پیشین گوئیوں ) کی شہادت بھی پائی جاتی ہے.جس کو طالب صادق اس خاکسار (مؤلف براہین احمدیہ ) کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعاینہ چشم تصدیق کر سکتا ہے.آپ کو اس دین کی حقانیت یا اُن آسمانی
حیات احمد ۴۰۴ جلد دوم حصہ سوم نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں.اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر ان آسمانی نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کر لیں و لیکن اس شرط نیت سے (جو طلب صادق کی نشانی ہے ) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اسی جگہ ( قادیان میں ) شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے اس شرط نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے.اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں اب آپ تشریف نہ لائیں تو آپ پر خدا کا مواخذہ رہا.اور بعد انتظار تین ماہ کے آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا.اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دوسو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا اس دوسو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایان شان نہ سمجھیں تو اپنے حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے.طالبان حرجانہ یا جرمانہ کے لئے ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کریں اور جو لوگ حرجانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں.اگر آپ بذات خود تشریف نہ لاسکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا ( تصدیق و خوارق میں) توقف نہ فرمائیں آپ اپنے شرط اظہار اسلام یا ( تصدیق خوارق ) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کو متعدد اردو انگریزی اخباروں میں شائع کیا جائے گا.ہم سے اپنی شرط دو سو روپیہ ماہوار جرمانہ یا حرجانہ (یا جو آپ پسند کریں.اور ہم ہ یہ ان حضرات نیچر یہ مولوی صاحبوں کو کہا جاتا ہے.جو اسلام کو مانتے ہیں اور پھر وجود خوارق و کرامات سے منکر اور اس عاجز پر بدظن ہیں.
حیات احمد ۴۰۵ جلد دوم حصہ سوم اس کی ادائیگی کی طاقت بھی رکھیں) عدالت میں رجسٹری کرا لیں.اور اس کے ساتھ ایک حصہ جائیداد بھی بقدر شرط رجسٹری کرا لیں.بالآخر یہ عاجز جو حضرت خداوند کریم جل شانہ کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اپنے سچے دین کے براہین ہم پر ظاہر کئے اور پھر ان کی اشاعت کے لئے ایک آزاد سلطنت کی حمایت میں جو گورنمنٹ انگلشیہ ہے ہم کو جگہ دی.اس گورنمنٹ کا بھی حق شناسی کی رو سے یہ عاجز شکریہ ادا کرتا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.ـراقـ ۸ مارچ ۱۸۸۵ء مطابق ۲۹ جمادی الاوّل ۱۳۰۴ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب ( مطبوعہ مرتضائی پریس لاہور ) تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۱۱ تا ۱۳.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۶،۲۵.بار دوم ) اشتہار ماموریت اس خط میں جس اشتہار کا ذکر ہے کہ وہ حسب ذیل ہے جو انگریزی اور اردو میں چھپوا کر بذریعہ رجسٹر ڈ لیٹرز بھیجا گیا یہ کل مختلف اوقات میں ہیں ہزار شائع ہوا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ اللَّهُمَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ أَفْضَلَ الرُّسُلِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّنِ اشتہار کتاب براہین احمدیہ جس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں منجانب اللہ اور سچا مذہب جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ کو ہر یک عیب اور نقص سے بُری سمجھ کر اس کی تمام پاک اور کامل صفتوں پر دلی یقین سے ایمان لاتا ہے وہ فقط
حیات احمد ۴۰۶ جلد دوم حصہ سوم اسلام ہے جس میں سچائی کی برکتیں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور صداقت کی روشنی دن کی طرح ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے تمام مذاہب ایسے بدیہی البطلان ہیں کہ نہ عقلی تحقیقات سے ان کے اصول صحیح اور درست ثابت ہوئے ہیں اور نہ اُن پر چلنے سے ایک ذرہ روحانی برکت و دولت الہی مل سکتی ہے بلکہ ان کی پابندی سے انسان نہایت درجہ کا کور باطن اور سیہ دل ہو جاتا ہے جس کی شقاوت پر اسی جہاں میں نشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اس کتاب میں دین اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیا گیا ہے.(۱) اول تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپیہ دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے.اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلی کے لئے عدالت میں رجسٹری بھی کرالے (۲) دوم اُن آسمانی نشانوں سے جو کہ سچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لئے از بس ضروری ہیں.اس امر دوئم میں مؤلف نے اس غرض سے کہ سچائی دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے تین قسم کے نشانات ثابت کر کے دکھائے ہیں.اوّل وہ نشان کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دعا اور توجہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جن کو مؤلف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے.دوم وہ نشان کہ جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں.دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائے جاتے ہیں جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر ایک خاص و عام پر کھول دیا ہے.اور کسی نوع کا عذر کسی کے لئے باقی نہیں رکھا.سوم وہ نشان کہ جو کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت اور رسول برحق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتے ہیں.جن کے اثبات میں اس بندہ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادر مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے بچے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیہ و اسرار لدنیہ و کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کو جو خود اس خادم دین سے صادر ہوئی ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریوں وغیرہ سے )
حیات احمد ۴۰۷ جلد دوم حصہ سوم بشہادت و رؤیت گواہ ہیں.کتاب موصوف میں درج کئے ہیں.اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجد دوقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدت مناسبت و مشابہت ہے.اور اس کو خواص انبیاء ورسل کے نمونه پر محض به برکت متابعت حضرت خیر البشر وافضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے.کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات وسعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بعد و حرمان ہے.یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے کہ جو منجملہ تین سو جزو کے قریب ۳۷ جزو کے چھپ چکی ہے.ظاہر ہوتے ہیں اور طالب حق کے لئے خود مصنف پوری پوری تسلی و تشفی کرنے کو ہر وقت مستعد اور حاضر ہے وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَلَا فَخْرَ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهدی اور اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے.جس کا خدا تعالیٰ کے رو برواس کو جواب دینا پڑے گا.بالآخر اس اشتہار کو اس دعا پر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خدا وند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور تیرے کامل اور مقدس کلام، قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں تا اُن تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو سچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں.اور جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو نہ صرف عقبی میں حاصل ہوسکتی ہے بلکہ بچے راست باز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں بالخصوص قوم انگریز جنہوں نے ابھی تک اس آفتاب صداقت سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی اور جن کی شائستہ اور مہذب اور بارحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاملات سے ممنون کر کے اس بات کے لئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم ان کی دنیا و دین کے لئے دلی جوش سے بہبودی و سلامتی چاہیں تا ان کے گورے و سپید منہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں نورانی و منور ہوں.فَنَسْئَلُ اللهُ تَعَالَى خَيْرَهُمُ
حیات احمد ۴۰۸ جلد دوم حصہ سوم الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اَللَّهُمَّ اهْدِهِمْ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْكَ وَاجْعَلْ لَّهُمْ حَظًّا كَثِيرًا فِي دِيْنِكَ وَاجْذِبْهُمْ بِحَوْلِكَ وَقُوَّتِكَ لِيُؤْمِنُوْا بِكِتَابِكَ وَرَسُوْلِكَ وَيَدْخُلُوْا فِي دِيْنِ اللَّهِ أَفْوَاجًا.آمین ثم آمين وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ المشـ خاکسار.مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب مطبوعہ ریاض ہند پر لیس امرتسر ( بیس ہزار اشتہار چھاپے گئے ) تبلیغ رسالت جلد ا صفحه ۱۴ تا ۱۶.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۲۷، ۲۸.بار دوم ) اس اعلان کا اثر گو یہ اعلان ۱۸۸۵ء میں کیا گیا لیکن دراصل یہ قوت آپ کو ۱۸۸۲ء میں ہی ودیعت ہو چکی تھی اور آپ نے صداقتِ اسلام کے دلائل میں اس کی تاثیرات اور ثمرات کو اعلیٰ مقام دیا تھا اس پر میں نے حیات احمد جلد دوم نمبر اول کے صفحہ ۸۴ پر براہین احمدیہ کے حوالہ سے تفصیل دی ہے.اس اشتہار کی اشاعت پر عیسائیوں وغیرہ میں تو کسی قسم کی فوری حرکت نہیں ہوئی اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ اس نور سے تو وہ بے بہرہ ہیں اور ان برکات کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے وہ اپنی عافیت اسی میں سمجھتے تھے کہ خاموش ہور ہیں.لے ترجمہ.پس ہم اللہ تعالیٰ سے ان کی اس دنیا اور آخرت میں بھلائی کے طالب ہیں.اے اللہ ! انہیں ہدایت دے اور اپنے روح القدس سے ان کی تائید فرما اور اپنے دین میں ان کے لئے حصہ کثیر مقد رفرما.اور ان کو اپنی قوتِ خاص سے اپنی طرف کھینچ لے تا وہ تیری کتاب اور تیرے رسول پر ایمان لا دیں اور وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں آمین ثم آمین.اور تمام تعریفیں اللہ ہی کو زیبا ہیں جورب العالمین ہے.سے.موجودہ صفحه ۹۸ تا ۱۰۱
حیات احمد ۴۰۹ منشی اندرمن کا مقابلہ میں آنا جلد دوم حصہ سوم مگر آریہ سماج میں اس اعلان نے ایک زلزلہ پیدا کر دیا اور سب سے پہلے منشی اندرمن مراد آبادی نے آزمائش کے لئے آنے کا اعلان کیا.قبل اس کے کہ اس مقابلہ کے ضروری کوائف درج کئے جاویں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ منشی اندر من مراد آبادی کے متعلق ایک مختصر اور اجمالی ذکر کیا جاوے.منشی اندر من مراد آباد کے رہنے والے تھے اور اس زمانہ کے رواج کے موافق انہوں نے فارسی زبان میں اپنی تعلیم کی تکمیل کی تھی اسی سلسلہ میں کسی قدر عربی سے بھی آشنا تھے اگر چہ اس وقت اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق عربی زبان کے ماہر کہلانے لگے.اس شخص کی اسلام دشمنی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ اس نے اسلام کے خلاف نہایت گندہ دہنی سے کام لیا اردو اور فارسی میں بعض تالیفات شائع کیں جن کو گورنمنٹ وقت نے ضبط کیا اور آخر اُس پر مقدمہ سرکاری طور پر چلایا گیا اور وہ مستحق سزائے جرمانہ ٹھہرا.۱۸۶۹ء کے قریب اس کی کتابوں کو شری بانی آریہ سماج (سوامی دیانند ) نے بھی سنا جیسا کہ پنڈت ہر دے نارائن کول دتاتریہ وکیل کان پور کے بیان سے معلوم ہوتا ہے جس کو پنڈت لیکھرام صاحب نے سوانح عمری میں بیان کیا ہے اس کے بعد سے منشی اندر من مراد آبادی کے تعلقات شری سوامی جی سے بڑھے.اور ہر مرحلہ پر وہ سوامی جی کی امداد اور سر پرستی سے فائدہ اٹھاتے رہے اور آریہ سماج سے ان کے تعلقات استوار ہوتے گئے اور آخر ان کو آریہ سماج مراد آباد کا سوامی جی نے صدر بنا دیا.نہ صرف یہ بلکہ ان کو آپ نے اس ٹرسٹ کا ایک رکن نامزد کر دیا جو آپ کی وفات کے بعد آپ کی جائیداد کا انتظام کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور پھر ایک پریس اشاعت کے لئے قائم کر نیکی تحریک کی جو منشی اندرمن کے زیر انتظام چلایا جاتا اس کے لئے پانچ ہزار کے سرمایہ کی اپیل کی یہ پریس مراد آباد ہی میں قائم کیا جا رہا تھا اس غرض کے لئے خود سوامی جی نے تحریک کے لئے خطوط لکھے.غرض منشی اندر من سوامی جی کی سر پرستی میں شہرت اور مالی کشائش کے مزے اڑا رہے تھے
حیات احمد ۴۱۰ جلد دوم حصہ سوم کہ ان کی تالیفات پر مقدمہ چلایا گیا اور اس مقدمہ کی پیروی کے لئے ہر قسم کی قانونی امداد اور مالی ضروریات کے پورا کرنے کے لئے بھی ہر قسم کی تحریکات قومی امداد کے رنگ میں ہوتی رہیں اور منشی اندر من صاحب کے لئے تو گویا بتی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا.خوب روپیہ آنے لگا اور منشی جی کی پانچوں گھی میں تھیں.یہ ساری داستان جیون چرتر کلاں میں تفصیل سے درج ہے مجھے اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں ان اقتباسات کو یہاں درج کرتا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شری سوامی جی اور آریہ سماج نے اس وقت اس شخص کی کس قدر امداد کی.لیکن اس شخص نے اپنی بدفطرتی کا ثبوت دیا کہ ایسے محسن کے خلاف بھی قلم اٹھایا اور اپنی گندہ زبانی سے محسن کشی کا شرمناک مظاہرہ کیا اور نہایت سختی سے زہر اگلا جس نے قدرتی طور پر شری سوامی جی کو قلبی دکھ دیا.سوامی جی کے جو خطوط اور اشتہارات شائع ہوئے ہیں ان کے ضمن میں اس معاملہ پر آپ نے آریہ سماج مراد آباد کے سیکرٹری لالہ کالی چرن کو لکھا، اس سے اس قلبی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے.' آپ کو معلوم ہی ہے کہ اندرمن نے احسان کا بدلہ کیسا بُرا دیا ہے اب دیکھو تو ایسے ایسے نامی انسان کی یہ حالت ہو تو عوام کا کیا کہنا.(۱۶ / جون ۱۸۸۲ ء از بمبئی) اسی طرح ایک اور خط میں لالہ شیام سند رکو لکھا.کہ :.مراد.دو منشی اندرمن جی اور لالہ جگن ناتھ سماج میں رہنے کے قابل نہیں ہیں..آباد کے بہت سے رئیسوں نے پہلے ہی مجھے کہا تھا کہ آپ منشی اندرمن جی کو جیسا خیال کرتے ہیں ، وہ ویسا نہیں ہے.ان کا کہنا سچ ثابت ہوا میں نے اپنے وصیت نامہ سے ان کا نام خارج کر دیا ہے.الخ اور جب مراد آبادی استاد شاگرد کا پرو پیگنڈہ شری سوامی جی کے خلاف تیز سے تیز تر ہو گیا تو اس سے آپ کے اندر بھی ان کے خلاف غیض و غضب پیدا ہوا اور آپ نے لالہ کا لی چون سیکرٹری آریہ سماج مراد آباد کو بمبئی سے خط بھیجا کہ ہمارے خلاف رسالہ ہے.
حیات احمد ۴۱۱ جلد دوم حصہ سوم آریہ درپن میں جو جگناتھ نے لکھا ہے.اس کا جواب آپ بہت عمدہ طریق سے لکھیں.کچھ دینا مت خوب ٹکڑے ٹکڑے اڑا دو.ایسا نہ ہوگا ، تو یہ لوگ بند نہ ہوں گے وہ مضمون صرف جگناتھ ہی کا نہیں.اس میں اندر من بھی شریک سمجھنا چاہئے مسلمانوں کے مقدمہ میں امداد کے لئے جو روپیہ آیا تھا اس میں اندرمن نے کیا کیا لیلا (کھیل کھیلے ) وہ تو آپ پر ظاہر ہی ہیں پھر ایسے کا کیا لحاظ رکھنا ، برابر لکھنا چاہئے.“ (۱۴ جون ۱۸۸۲ ء از بمبئی ( منقول از رشی کے پتر اور گیا پن حصہ چہارم ) د یہ تھے منشی اندر من مراد آبادی جس نے اپنے محسن پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہ کیا یہ داستان بہت طویل ہے اور آریہ لٹریچر میں اس کے اوراق پھیلے ہوئے ہیں.اس نے جب حضرت اقدس کے اس اشتہا رکو پڑھا تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے ایک سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ یقین کر کے قبول دعوت کے نام سے خط لکھ دیا افسوس ہے وہ خط مجھے باوجود تلاش کے نہیں مل سکا مگر حضرت نے جو جواب اس کو دیا اس سے حقیقت کا اظہار ہو جاتا ہے.اور میں اسے ذیل میں درج کرتا ہوں.خط بنام اندر من مراد آبادی اندر من مراد آبادی نے دعوت یکسالہ کے لئے چوبیس سو روپیہ مانگا تھا جو مسلمانوں کے لئے ایک معزز ڈیپوٹیشن کے ہاتھ بھیجا گیا اور یہ خط ساتھ لکھا گیا مگر اندر من کہیں بھاگ گیا آخر خط شائع کیا گیا.(ایڈیٹر ) نقل اشتہار منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوعہ خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے استاد و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی ) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھا کہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور زرموعودہ اشتہار پیشگی بنک میں داخل کر دو.وغیرہ وغیرہ.اس کے جواب میں خاکسار نے رقیمہ ذیل معہ دو ہزار چارسو
حیات احمد ۴۱۲ جلد دوم حصہ سوم روپیہ نقد ایک جماعت اہلِ اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا.جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا.وہاں سے ان کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام وہ خط روانہ کیا تھا اسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں.باوجودیکہ اس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا یہ امر نہایت تعجب اور تردد کا موجب ہوا.لہذا یہ قرار پایا کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اس کی ایک کا پی منشی صاحب کے نام حسب نشان مکان موجودہ بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے.وہ یہ ہے:.مشفقی اندر من صاحب ! آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے.جس کی تعمیل مجھ پر اپنے عہد کی رو سے واجب نہیں ہے.میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرا دے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو.آپ اس کے جواب میں اول تو مجھے اپنے پاس (نابھہ میں پھر لاہور میں ) بلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کے لئے.اس پر طرفہ یہ ہے کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا.اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے.بہ میں تفاوت راه از کجاست تا به کجا لہذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرما دیں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کا آپ کو مشاہدہ نہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سو روپیہ دے دوں گا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر اصرار ہو تو مجھ کو اس سے بھی دریغ نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کے لئے سردست چوبیس سو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے.مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امرزائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں اس امرزائد کے
حیات احمد ۴۱۳ جلد دوم حصہ سوم مقابلہ میں کچھ شروط ایسی لوں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے.(۱) جب تک آپ کا سال مقررہ گزر نہ جاوے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زہر موعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو ز ر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے.(۲) اگر آپ مشاہدہ آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دونوں امر سے ایک امر ضرور ہے.(الف ) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی و مربی ہیں اپنا بجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں.وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں پھر اس پر اپنے دستخط کریں.(ب) در صورت تخلف وعدہ جانب ثانی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کے دوستوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نومسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو ).آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے ہیں.صرف مباحثہ کے لئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے امت محمدیہ میں علماء اور فضلاء اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو طیار ہیں.میں جس امر سے مامور ہو چکا ہوں اس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں یہ مباحثہ کی صورت عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے.بجائے چوہیں سو کے دس ہزار روپیہ.۳۰ رمئی ۱۸۸۵ء ( مطبوعہ صدیقی پریس لاہور ) ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۷۸ ۷۹.بار دوم مکتوبات احمد جلد ا صفحه ۵۷ تا ۵۹ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۴۱۴ لا ہوری وفد جو روپیہ لے کر گیا تھا جلد دوم حصہ سوم منشی اندرمن نے یہ مطالبہ اوّلاً نابھہ اور پھر لاہور آ کر کیا تھا اور لاہور سے حضرت کو خط لکھا کہ چوہیں سور و پیہ بھیجا جاوے اسے یہ یقین تھا کہ میرے مطالبہ پر فوری چوبیں سو روپیہ مہیا نہیں ہو سکتا اس لئے کہ وہ اس زمانہ مسرت کے حالات سے واقف تھا اور دراصل وہ دعوت نشان کو قبول نہیں کر رہا تھا وہ مباحثہ کی طرح ڈالنا چاہتا تھا.تاہم حضرت نے اس پر ہر طرح اتمام حجت کیا اگر چہ اس اشتہار سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ وہ لاہوری وفد کن لوگوں پر مشتمل تھا اور روپیہ کس طرح مہیا ہوا.( مگر میں نے اسے اپنے ذاتی علم کی بناء پر جو مجھے اس شخص کے ذریعہ حاصل ہوا جس کو اس میں شرکت کی عزت حاصل تھی ) اس کی کسی قدر تفصیل اس لئے لکھتا ہوں کہ یہ بھی حضرت کی صداقت کا ایک نشان ہے اور کس طرح پر اللہ تعالیٰ اپنے ماموروں کی مدد کرتا ہے.حضرت کے ان ابتدائی ایام میں منشی عبدالحق صاحب، منشی الہی بخش صاحب، حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے دوستوں کی ایک جماعت تھی جو اہلحدیث تھے اور یہ سب حضرت مولوی عبداللہ غزنوی رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق رکھتے تھے اور وہ حضرت کی غیرت اسلامی اور قرآن کریم اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وجلال کے لئے قربانیوں کو جانتے تھے اور براہین احمدیہ کی اشاعت سے خاص تعلق رکھتے تھے اور ہر موقعہ پر وہ مالی امداد کے لئے آمادہ رہتے تھے اسی جماعت میں ایک شخص منشی محمد سزاوار خاں صاحب تھے جو لاہور میں جنرل پوسٹ آفس کے پوسٹ ماسٹر تھے نہایت شریف الطبع.دیندار اور وجیہ مسلمان تھے اس روپیہ کے لئے حافظ محمد یوسف صاحب ان کے پاس رات کو پہنچے.اس لئے کہ دوسرے دن میعاد ختم ہو گئی تھی.منشی سزاوار خاں پوسٹ آفس ہی میں تھے ان سے جب یہ ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا روپیہ موجود ہے مگر گھر پر ہے میں اس وقت جا نہیں سکتا تم چابی لے جاؤ اور جا کر روپیہ لے لو.حافظ محمد یوسف صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں ان کے گھر پر گیا اور ان کا پیغام دے کر
حیات احمد ۴۱۵ جلد دوم حصہ سوم چابی دے کر چوبیس سو روپیہ لے کر چلا آیا جب وہ یہ بیان کرتے تھے تو میں اس وقت بھی اس خوشی کے آثار ان کے چہرہ پر دیکھتا تھا جو انہیں اس کامیابی سے اس لئے ہوئی کہ اسلام سر بلند ہو گیا.وہ کہتے تھے کہ میں جب روپیہ لے کر آیا تو میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ یہ مرزا صاحب کی تائید ربانی کا کھلا ثبوت ہے اور جو کچھ ہوا ربانی تحریک اور تائید سے ہوا.صبح کو یہ لوگ روپیہ اور جواب لے کر اندر من صاحب کی قیام گاہ پر گئے اور وہ وہاں سے جا چکا تھا.جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے اپنے ساتھ جانے والوں میں مرزا امان اللہ منشی امیر الدین اور غالباً بابا محمد چٹو یا خلیفہ رجب دین صاحبان رَحِمَ اللهُ عَلَيْهِمْ اَجْمَعِین) کا نام مجھے یاد ہے.اس وقت لاہور میں مذہبی حیثیت سے بھی یہی پیش پیش تھے.منشی اندرمن کا رد عمل لاہور سے فراری کے بعد منشی اندرمن نے اس مکتوب مورخہ ۳۰ رمئی مورخہ ۱۸۸۵ء کے جواب میں ایک اشتہار شائع کیا جس کے ذریعہ اصل واقعات کو اپنی شکست کی ذلت سے بچنے کے لئے بدل دیا.اس پر حضرت اقدس نے ایک اور خط بذریعہ رجسٹری اس کو لکھا.جس کو حضرت منشی عبد اللہ سنوری رضی اللہ عنہ نے شائع کر دیا ہے جو حسب ذیل ہے.اعلان مرزا غلام احمد صاحب مؤلّف براہین احمدیہ کے اشتہار مورخہ ۳۰ / مئی ۱۸۸۵ء مطبوعه صدیقی پریس لاہور کے جواب میں منشی اندر من مراد آبادی نے ایک اشتہار مطبوعہ مفید عام پریس لا ہور مشتہر کیا تھا جس کے جواب میں مرزا صاحب نے نامہ ذیل تحریر فرما کر رجسٹری منشی اندرمن کے نام ارسال فرمایا ہے.اس کو ہم پبلک سے انصاف چاہنے کی امید پر مشتہر کرتے ہیں.الراقم.فقیر عبداللہ سنوری ترجمہ.اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم فرمائے.
حیات احمد عہد ۴۱۶ جلد دوم حصہ سوم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مشفقی منشی اندر من صاحب ! بعد ما وجب آپ بُرا نہ مانیں.آپ کے اشتہار کے پڑھنے سے عجب طرح کی کارستانی آپ کی معلوم ہوئی.آپ اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ پہلے انہوں نے ( یعنی اس عاجز نے ) مجھ سے بحث کرنے کا وعدہ کیا.جب میں اسی نیت سے مشقت سفر اٹھا کر لاہور میں آیا تو پھر میری طرف اس مضمون کا خط بھیجا کہ ہم بحث کرنا نہیں چاہتے.اور مجھ کو ناحق کی تکلیف دی.اب دیکھئے کہ آپ نے اپنی ہد شکنی اور کنارہ کشی کو چھپانے کے لئے کس قدر حق پوشی اختیار کی اور بات کو اپنی اصلیت سے بدل کر کچھ کا کچھ بنا دیا.آپ خود ہی انصاف فرماویں کہ جس حالت میں آپ ہی سے یہ بیجا حرکت وقوع میں آئی کہ آپ نے اوّل لاہور میں پہنچ کر اس خاکسار کی طرف اس مضمون کا خط لے لکھا.کہ میں آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے ایک سال تک قادیان ٹھہر نا منظور کرتا ہوں مگر اس شرط سے کہ پہلے چوہیں سو روپیہ نقد میرے لئے بنک سرکاری میں جمع کرایا جائے.اور اب میں لاہور میں مقیم ہوں اور سات دن تک اس خط کے جواب کا انتظار کروں گا.پھر جب حسب تحریر آپ کے اندر میعادسات دن کے وہ روپیہ لاہور میں آپ کی خدمت میں بھیجا تو میعاد کے گزرنے سے پہلے ہی آپ فرید کوٹ کی طرف تشریف لے گئے.تو اب وعدہ خلافی اور کنارہ کشی اور عہد شکنی اور روپوشی آپ سے ظہور میں آئی یا مجھ سے.اور جبکہ میں نے بمجرد طلب کرنے آپ کے اس قدر رقم کثیر جو چوبیس سو روپیہ ہے.بنک سرکاری میں جمع کرانے کے لئے پیش کر دی تا بحالت مغلوب ہونے میرے کے وہ سب روپیہ آپ کو مل جائے تو کیا کوئی منصف آدمی گریز کا الزام مجھ کو دے سکتا ہے لیکن آپ فرما دیں کہ آپ کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس حالت میں آپ کو رجسٹری شدہ خط بھیجا گیا تھا اور لکھا گیا تھا کہ اگر آپ ایک سال تک قادیان میں ٹھہریں تو ضرور خداوند کریم اثبات حقیت اسلام میں کوئی آسمانی نشان آپ کو دکھائے گا.اور اگر اس عرصہ ا نوٹ.منشی صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ ( آپ حسب وعدہ مشتہرہ بحساب دوسور و پیہ ماہوار چوبیں سور و پیہ بابت ایک سال بنگ سرکار میں داخل کر دیں) سوناظرین پر واضح ہو کہ اشتہار مشتہر ہ الخ
حیات احمد ۴۱۷ جلد دوم حصہ سوم تک کوئی نشان ظاہر نہ ہو.تو چوہیں سو روپیہ نقد بطور جرمانہ یا ہرجانہ آپ کو دیا جائے گا.اور اگر عرصہ مذکورہ میں کوئی نشان دیکھ لیں تو اسی جگہ قادیان میں مسلمان ہو جائیں.چنانچہ ہم نے آپ کی تسلی کے لئے چوہیں سور و پیہ نقد بھیج دیا.اور جو ہم پر فرض تھا اس کو پورا کر دکھایا.تو آپ نے ہماری اس حجت کے اٹھانے کے لئے جو آپ پر وارد ہو چکی تھی کیا کوشش کی.اگر ہم آپ کے خیال میں جھوٹے تھے تو کیوں آپ نے ہمارے مقابلہ سے منہ پھیر لیا آپ پر واجب تھا کہ قادیان میں ایک سال تک رہ کر اس خاکسار کا جھوٹ ثابت کرتے کیوں کہ اس میں آپ کا کچھ خرچ نہ تھا.آپ کو چو ہمیں سو روپیہ نقد ملتا تھا مگر آپ نے اس طرف تو رُخ بھی نہ کیا اور یونہی لاف و گزاف کے طور پر اپنے اشتہار میں لکھ دیا کہ جو آسمانی نشانوں کا دعوی ہے یہ بے اصل محض ہے.منشی صاحب آپ انصافا فرما دیں کہ آپ کو ایسی تحریر سے کیا فائدہ ہوا.کیا اس سے ثابت ہو گیا کہ ہم در حقیقت اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں.آپ نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ ایک شخص تو اپنی تائید دعوئی میں اس قدر اپنا صدق دکھلا رہا ہے کہ اگر کوئی اس کا جھوٹا ہونا ثابت کرے تو وہ چوبیس سو روپیہ نقد اس کو دیتا ہے.اور آپ اس کی آزمائش دعوی سے تو کنارہ کش.مگر یونہی اپنے منہ سے کہے جاتے ہیں کہ یہ شخص اپنے دعوی میں صادق نہیں ہے.یہ کس قدر دور از انصاف و ایمانداری ہے آپ نے کچھ سوچا ہوتا کہ منصف لوگ آپ کو کیا کہیں گے.رہا یہ الزام آپ کا کہ گو یا اول ہم نے اپنے خط میں بحث کو منظور کیا.پھر دوسرے خط میں نامنظوری ظاہر کی.یہ بات بھی سراسر آپ کا ایجاد ہے.اس عاجز کے بیان میں جس میں آپ نے کھینچ تان کر کچھ کا کچھ بنا لیا ہے کسی نوع کا اختلاف یا تناقض نہیں کیونکہ میں نے اپنے آخری خط میں جو مطبع صدیقی میں چھپا ہے جس کا آپ حوالہ دیتے ہیں کسی ایسی بحث سے ہرگز انکار نہیں کیا جس کی نسبت اپنے پہلے خط میں رضا مندی ظاہر کی تھی بلکہ اس آخری خط میں صرف یہ کہا ہے کہ اگر آپ آسمانی نشانوں کے مشاہدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف مباحثہ کے لئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں مجرد بحثوں کے لئے اور علماء بہت ہیں تو اس تقریر سے انکار کہاں سمجھا جاتا ہے..
حیات احمد ۴۱۸ جلد دوم حصہ سوم اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارا اصل کام اسلامی انوار و برکات کا دکھلانا ہے اور ایسے مطلب کے لئے رجسٹری شدہ خط بھیجے گئے تھے سو یہ ہمیں ہرگز منظور نہیں کہ اس اصل کام کو ملتوی اور موقوف کر کے اپنی خدمت دینی کو صرف مباحثات و مناظرات تک محدود رکھیں.ہاں جوشخص اسلامی آیات و برکات کا دیکھنا منظور کر کے ساتھ اس کے عقلی طور پر اپنے شبہات اور وساوس دور کرانا چاہے تو اس قسم کی بحث تو ہمیں بدل و جان منظور ہے بشرطیکہ تہذیب اور شائستگی سے تحریری طور پر بحث ہو جس میں مجلت اور شتاب کاری اور نفسانیت اور ہار جیت کے خیال کا کچھ دخل نہ ہو بلکہ ایک شخص طالب صادق بن کر محض حق جوئی اور راستبازی کی وضع پر اپنی عقدہ کشائی چاہے.اور دوستانہ طور پر ایک سال تک آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے ٹھہر کر ساتھ اس کے نہایت معقولیت سے سلسلہ بحث کا بھی جاری رکھے لیکن افسوس کہ آپ کی تحریر سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آپ ایسی مہذبانہ بحث کے بھی خواہاں نہیں کیونکہ آپ نے اپنے آخری خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ بحث کرنے سے پہلے میری حفاظت کے لئے گورنمنٹ میں مچلکہ داخل کرنا چاہئے یا ایسے صدر مقام حکام میں بحث ہونی چاہیئے جس میں سرکاری رُعب و داب کا خوف ہو.سو آپ کے ان کلمات سے صاف مترشح ہو رہا ہے کہ آپ اس قسم کی بحث کے ہرگز خواہاں نہیں ہیں.جو دو شریف آدمیوں میں محض اظہار حق کی غرض سے ہو سکتی ہے.جس میں نہ کسی کا مچلکہ ( جو ایک معزز آدمی کے لئے موجب ہتک عزت ہے ) داخل سرکار کرانے کی حاجت ہے اور نہ ایسے صدر مقام کی ضرورت ہے جس میں عند الفساد جھٹ پٹ سرکاری فوجیں پہنچ سکیں.شاید آپ ایسی بحثوں کے عادی ہوں گے لیکن کوئی پاک خیال آدمی اس قسم کی بدبو دار بحثوں کو جو عجلت اور سوء ظن اور ریا کاری اور نفسانیت سے پر ہیں.ہرگز پسند نہیں کرے گا.اور اسی اصول پر مجھ کو بھی پسند نہیں.اور اگر آپ عہد شکنی کر کے فرید کوٹ کی طرف نہ بھاگتے تو یہ باتیں آپ کو زبانی بھی سمجھائی جاتیں.ہر ایک منصف اور پاک دل آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جن مباحث میں پہلے ہی ایسے ایسے سنگین تدارکات کی ضرورت ہے.ان میں انجام بخیر ہونے کی کب توقع ہے.سو آپ پر واضح رہے کہ
حیات احمد ۴۱۹ جلد دوم حصہ سوم اس عاجز نے نہ کسی اپنے خط میں صرف مجرد بحث کو منظور کیا اور نہ ایسی دور از تہذیب بحث پر رضا مندی ظاہر کی جس میں پہلے ہی مجرموں کی طرح مچلکہ داخل کرنے کے لئے انگریزی عدالتوں میں حاضر ہونا پڑے.اور پھر ہم میں اور آپ میں بٹیروں اور مرغوں کی طرح لڑائی ہونا شروع ہو اور لوگ اردگرد سے جمع ہو کر اس کا تماشہ دیکھیں اور ایک ساعت یا دو ساعت کے عرصہ میں کسی فریق کے صدق یا کذب کا سب فیصلہ ہو کر دوسرا فریق فتح کا نقارہ بجاوے.نَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ ایسی پُر فتنہ اور پُر خطر بحثیں جن میں فساد کا اندیشہ زیادہ اور احقاق حق کی امید کم ہے کب کسی شریف اور منصف مزاج کو پسند آ سکتی ہیں اور ایسی پر عجلت بحثوں سے حق کے طالب کیا نفع اٹھا سکتے ہیں.اور منصفوں کو رائے ظاہر کرنے کا کیونکر موقعہ مل سکتا ہے.اگر آپ کی نیت بخیر ہوتی تو آپ اس طرز کی بحثوں سے خود گریز کرتے اور ایک سال تک ٹھہر کر معقولیت اور شائستگی اور تہذیب سے شریفانہ بحث کا سلسلہ تحریری طور پر جاری رکھتے.اور مہذ ہب اور شریف اور ہر ایک قوم کے عالم فاضل جو اکثر اس جگہ آتے رہتے ہیں ان پر بھی آپ کی بحثوں کی ،حقیقت کھلتی رہتی مگر افسوس کہ آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ قادیان میں آنے کے لئے (جو آپ کی نظر میں گویا ایک یاغستان ہے یا جس میں بزعم آپ کے ہندو بھائی آپ کے بکثرت نہیں رہتے ) اول یہ شرط لگائی کہ یہ عاجز آپ کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ میں مچلکہ داخل کرے.ایسی شرط سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنی بحث میں ایسی دور از تہذیب گفتگو کرنا چاہتے ہیں جس کی نسبت آپ کو پہلے ہی خطرہ ہے کہ وہ فریق ثانی کے اشتعال طبع کا ضرور موجب ہو گی تب ہی تو آپ کو یہ فکر پڑی کہ پہلے فریق ثانی کا مچلکہ سرکار میں داخل ہونا چاہئے تا آپ کو ہر ایک طور کی تحقیر اور توہین کرنے کے لئے وسیع گنجائش رہے.اب قصہ کوتاہ یہ کہ یہ عاجز اس قسم کی بحثوں سے سخت بیزار ہے.اور جس طور کی بحث یہ عاجز منظور رکھتا ہے وہ وہی ہے جو اس سے اوپر ذکر کی گئی.اگر آپ طالب صادق ہیں تو آپ کو آپ کے پر میشر کی قسم دی جاتی ہے کہ آپ ہمارے مقابلہ سے ذرا کو تا ہی نہ کریں.آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے قادیان میں آکر ایک سال تک ٹھہر ہیں.اور اس عرصہ میں جو کچھ
حیات احمد ۴۲۰ جلد دوم حصہ سوم وساوس عقلی طور پر آپ کے دل پر دامنگیر ہوں وہ بھی تحریری طور پر رفع کراتے جائیں.پھر اگر ہم مغلوب رہے.تو کس قدر فتح کی بات ہے کہ آپ کو چوبیس سو روپیہ نقد مل جائے گا.اور اپنی قوم میں آپ بڑی نیک نامی ، حاصل کریں گے لیکن اگر آپ ہی مغلوب ہو گئے تو آپ کو اسی جگہ قادیان میں مشرف باسلام ہونا پڑے گا.اور اس بات کا فیصلہ کہ کون غالب یا کون مغلوب رہا بذریعہ ایسے ثالثوں کے ہو جائے گا کہ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں.اگر آپ قادیان میں ایک سال تک ٹھہرنے کی نیت سے آویں تو ہم مراد آباد سے قادیان تک کل کرایہ آپ کا آپ کی خدمت میں بھیج دیں گے.اور آپ کے لئے چوہیں سو روپیہ کسی بنک سرکاری میں داخل کیا جائے گا.مگر اس شرط سے کہ آپ بھی ہمیں اس بات کی پوری پوری تسلی دے دیں کہ آ.بحالت مغلوبیت ضرور مسلمان ہو جائیں گے اور اگر اب بھی آپ نے بپابندی شرائط مذکورہ بالا آنے سے انکار کیا تو آپ خوب یاد رکھیں کہ یہ داغ ایسا نہیں ہے کہ پھر کسی حیلہ یا تدبیر سے دھویا جائے.مگر ہمیں امید نہیں کہ آپ آئیں کیونکہ حقانیت اسلام کا آپ کے دل پر بڑا سخت رُعب ہے اور اگر آپ آگئے تو خدا تعالیٰ آپ کو مغلوب اور رُسوا کرے گا.اور اپنے دین کی مدد اور اپنے بندہ کی سچائی ظاہر کر دے گا.اخیر پر آپ کو واضح رہے کہ آج یہ خط رجسٹری کرا کر آپ کی خدمت میں بھیجا جاتا ہے اور اگر ہیں دن تک آپ کا کوئی جواب نہ آیا تو آپ کی کنارہ کشی کا حال چند اخباروں میں شائع کرایا جائے گا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى خاکسار آپ کا خیر خواہ غلام احمد از قادیان.ضلع گورداسپور.پنجاب تبلیغ رسالت جلد اصفحه تا مجموعه اشتہارات جلد اصفحه۸۰ تا ۸۳ بار دوم ) MA
حیات احمد ۴۲۱ اندرمن کے بعد پنڈت لیکھرام میدان مقابلہ میں جلد دوم حصہ سوم منشی اندرمن کے فرار کے بعد اس دعوت یکسالہ کے لئے کسی اور مذہب کے پیشوا کو تو جرأت نہ ہوئی البتہ پنڈت لیکھرام نے اس دعوت کے جواب میں، حضرت اقدس سے خط و کتابت کی.پنڈت لیکھرام کے متعلق میں تمام واقعات کو جلد دوم کے نمبر دوم ص ۳۳ سے ص ۴۴ تک درج کر چکا ہوں کہ وہ اس میدان میں حسب شرائط کھڑا نہ رہ سکا.اور بلطائف الحیل اس پیالہ کو تو ٹال دیا لیکن اپنی ذات کے متعلق پیشگوئی طلب کی اور اس کی اشاعت کی اجازت دی اور آخر وہ پیشگوئی ۱۸۹۷ء میں پوری ہو گئی اس کی تفصیل اپنے موقعہ پر آئے گی یہاں اس قدر ذکر اس دعوت یکسالہ کے سلسلہ میں آیا ہے.اس سلسلہ میں وہ قادیان بھی آیا تھا قادیان کیوں کر آیا اور اسے کون لایا یہ تمام امور میں اسی جلد دوم نمبر دوم میں تفصیل سے بیان کر آیا ہوں.یہ واقعات ۱۸۸۵ء تک کے وہاں آچکے ہیں اور اب ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں.اندرمن کے وفد کے متعلق کچھ اور اگر چہ میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ اندرمن کے پاس حضرت اقدس نے ایک وفد چوبیس سو روپیہ دے کر بھیجا تھا اس سلسلہ میں حضرت اقدس نے میر عباس علی صاحب کو ایک مکتوب کے ذریعہ سے جو اطلاع دی تھی تائیدی طور پر میں اسے بھی درج کر دینا مناسب سمجھتا ہوں تا کہ آئندہ زمانہ کے مؤرخ کو یکجائی طور پر مواد مل سکے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد.بخدمت اخویم مخدوم و مکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.بعد ہذا ان دنوں میں ایک شخص اندرمن نام جو ایک سخت مخالف اسلام ہے اور کئی کتابیں ردِ اسلام میں اس نے لکھی ہیں.مراد آباد سے اول نابھہ میں آیا اور راجہ صاحب نابھہ کی تحریک سے میرے مقابلہ کے لیے لاہور میں آیا اور لاہور آ کر اس عاجز کے نام خط لکھا کہ اگر چوبیس سو رو پی نقد میرے لئے سرکار میں جمع کرا دو تو میں ایک سال تک قادیان میں ٹھہروں گا.سو یہ موجودہ ایڈیشن میں ۷ ۱۷ تا ۱۹۰
حیات احمد ۴۲۲ جلد دوم حصہ سوم خط اس کا بعض دوستوں کی خدمت میں لاہور بھیجا گیا سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دولت مند مسلمان نے ایک سال تک ادا ہو جانے کی شرط سے چوہیں سو روپیہ نقد اس عاجز کے کار پردازوں کو بطور قرضہ کے دے دیا اور قریب دو سو مسلمان کے جن میں بعض رئیس بھی تھے جمع ہو گئے اور وہ روپیہ مع ایک خط کے جس کی ایک کاپی آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کا اندرمن کے مکان پر جہاں وہ فروکش تھا لے گیا مگر اندر من غالباً اس انتظام کی خبر پا کر فرید کوٹ کی طرف بھاگ گیا.آخر وہ خط بطور اشتہار کے چھپوایا گیا.اور شہر میں تقسیم کیا گیا اور وہ رجسٹری شدہ خط راجہ صاحب نابھہ اور راجہ صاحب فرید کوٹ کے پاس بھیجے گئے اور بعض آریہ سماجوں میں بھی وہ خطوط بھیجے گئے.شاید اگر کسی راجہ کے کہنے کہانے سے اندرمن نے اس طرف رُخ کیا تو پھر اطلاع دی جائے گی.بالفعل اللہ تعالیٰ نے میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں رکھا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - خاکسار غلام احمد مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۹۱.مکتوبات احمد جلد اصفحه ۶۰۹،۶۰۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء) قادیان کے ساہوکاروں اور ہندوؤں کا مطالبہ قادیان کے بعض ہندو اور آریہ جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور بعض اکثر نشانات کے گواہ تھے با ایں انہوں نے ایک سال کے اندر اس دعوت یکسالہ کی بناء پر نشان کا مطالبہ کیا چنانچہ انہوں نے آپ کو ایک تحریری درخواست اس غرض کی دی اور حضرت اقدس نے بھی تحریری جواب به ثبت دستخط گواہان دیا.اس معاہدہ کو قادیان کے ایک مشہور اور ممتاز آریہ سماجی لالہ شرمپت رائے صاحب نے شائع کر دیا چنانچہ وہ تمام خط و کتابت حسب ذیل ہے.
حیات احمد ۴۲۳ جلد دوم حصہ سوم اعلان (منجانب لالہ شرمیت رائے صاحب) چونکہ مرزا غلام احمد صاحب مؤلف براہین احمدیہ اور ساہوکاران اور شرفاء اور ذی عزت اہلِ ہنود قصبہ قادیان میں جو طالب صادق ہونے کے مدعی ہیں آسمانی نشانوں اور پیشگوئیوں اور دیگر خوارق کے مشاہدے کے بارے میں (جن کے دکھلانے کا حسب وعدہ اپنے پروردگار کے مرزا صاحب کو دعوی ہے ) خط و کتابت بطور باہمی اقرار وعہد و پیماں کے ہو کر ہندو صاحبوں کی طرف سے یہ اقرار و عہد ہوا ہے کہ ابتدائے ستمبر ۱۸۸۵ء سے لغایت اخیر ستمبر ۱۸۸۶ء یعنی برابر ایک سال تک نشانوں کے دیکھنے کے لئے مرزا صاحب کے پاس آمد ورفت رکھیں گے اور ان کے کاغذ اور روز نامہ الہامی پیشگوئیوں پر بطور گواہ کے دستخط کرتے رہیں گے اور بعد پوری ہونے کسی الہامی پیشگوئی کے اس پیشگوئی کی سچائی کی نسبت اپنی شہادت چند اخباروں میں شائع کرا دیں گے اور مرزا صاحب کی طرف سے یہ عہد ہوا ہے کہ وہ تاریخ مقررہ سے ایک سال تک ضروری کوئی نشان دکھلاویں گے اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ وہ دونوں تحریریں جو بطور اقرار کے باہم ہندو صاحبان و مرزا صاحب کے ہوئی ہیں شائع کی جائیں سو ہم بہ نیت اشاعت عام واطلاع یابی ہر ایک طالب حق کے وہ دونوں تحریریں دونوں صاحبوں سے لے کر شائع کرتے ہیں.اور بشرط زندگی یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم خود گواہ رؤیت بن کر اس سالانہ کارروائی سے خبر گیراں رہیں گے اور بعد گزرنے پورے ایک سال کے یا سال کے اندر ہی جیسی صورت ہو.جو نتیجہ ظہور میں آئے گا اسی طرح وہ بھی اپنی ذاتی واقفیت کی رو سے شائع کریں گے تا کہ حق کے بچے طالب اس سے نفع اٹھا ئیں اور پبلک کے لئے منصفانہ رائے ظاہر کرنے کا موقع ملے اور روز کے جھگڑوں کا خاتمہ ہو.راق خاکسار شرمپت رائے ممبر آریہ سماج قادیان ضلع گورداسپور پنجاب
حیات احمد ۴۲۴ جلد دوم حصہ سوم ساہوکاران و دیگر ہند و صاحبان قادیان کا خط بنام مرزا صاحب مخدوم ومکرم مرزا غلام احمد صاحب سلمه بعد ما وجب بکمال ادب عرض کی جاتی ہے کہ جس حالت میں آپ نے لنڈن اور امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شدہ خط بھیجے ہیں کہ جو طالب صادق ہو اور ایک برس تک ہمارے پاس قادیان میں ٹھہرے تو خدا تعالیٰ اس کو ایسے نشان درباره اثبات حقیقت ضرور دکھائے گا کہ جو طاقت انسانی سے بالا تر ہوں.سو ہم لوگ جو آپ کے ہمسایہ اور ہم شہری ہیں.لندن اور امریکہ والوں سے زیادہ تر حقدار ہیں اور ہم آپ کی خدمت میں قسمیہ بیان کرتے ہیں جو ہم طالب صادق ہیں کسی قسم کا شر اور عناد جو بمقتضائے نفسانیت یا مغائرت مذہب نا اہلوں کے دلوں میں ہوتا ہے وہ ہمارے دلوں میں ہر گز نہیں ہے.اور نہ ہم بعض نا منصف مخالفوں کی طرح آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہم صرف ایسے نشانوں کو قبول کریں گے جو اس قسم کے ہوں کہ ستارے اور سورج اور چاند پارہ پارہ ہو کر زمین پر گر جائیں.یا ایک سورج کی بجائے تین سورج اور ایک چاند کی جگہ دو چاند ہو جائیں.یاز مین ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آسمان سے جا لگے یہ باتیں بلاشہ ضدیت اور تعصب سے ہیں نہ حق جوئی کی راہ سے لیکن ہم لوگ ایسے نشانوں پر کفایت کرتے ہیں جن میں زمین و آسمان کے زیروزبر کرنے کی حاجت نہیں اور نہ قوانین قدرتیہ کے توڑنے کی کچھ ضرورت.ہاں ایسے نشان ضرور چاہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہوں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پر میشر بوجہ آپ کی راستبازی دینی کے عین محبت اور کر پا کی راہ سے آپ کی دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا سے قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے یا آپ کو
حیات احمد ۴۲۵ جلد دوم حصہ سوم اپنے بعض اسرار خاص پر مطلع کرتا ہے اور بطور پیشگوئی ان پوشیدہ بھیدوں کی خبر آپ کو دیتا ہے یا ایسے عجیب طور سے آپ کی مدد اور حمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے اپنے برگزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے سو آپ سوچ لیں کہ ہماری اس درخواست میں کچھ ہٹ دھرمی اور ضد نہیں ہے اور اس جگہ ایک اور بات واجب العرض ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ شخص مشاہدہ کنندہ کسی نشان کے دیکھنے کے بعد اسلام کو قبول کرے سواس قدر تو ہم مانتے ہیں کہ یہ بیچ کے کھلنے کے بعد جھوٹ پر قائم رہنا د ہرم نہیں ہے اور نہ ایسا کام کسی بھلے منش اور سعیدالفطرت سے ہو سکتا ہے لیکن مرزا صاحب آپ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ ہدایت پا جانا خود انسان کے اختیار میں نہیں ہے.جب تک توفیق ایزدی اس کے شامل حال نہ ہو کسی دل کو ہدایت کے لئے کھول دینا ایک ایسا امر ہے جو صرف پر میشر کے ہاتھ میں ہے سو ہم لوگ جو صد با زنجیروں ، قوم، برادری، نگ و ناموس وغیرہ میں گرفتار ہیں کیونکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم خود اپنی قوت سے ان زنجیروں اور اپنے سخت دل کو آپ ہی نرم کر کے آپ ہی دروازہ ہدایت اپنے نفس پر کھول دیں گے اور جو پر میشر سرب شکتی مان کا خاص کام ہے وہ آپ ہی کر دکھائیں گے بلکہ یہ بات سعادت ازلی پر موقوف ہے جس کے حصہ میں وہ سعادت مقدر ہے اس کے لئے شرائط کی کیا حاجت ہے اس کو تو خود توفیق از لی کشاں کشاں چشمہ ہدایت تک لے آئے گی ایسا کہ آپ بھی اس کو روک نہیں سکتے اور آپ ہم سے ایسی شرطیں موقوف رکھیں اگر ہم لوگ کوئی آپ کا نشان دیکھ لیں گے تو اگر ہدایت پانے کے لئے توفیق ایز دی ہمارے شامل حال ہوئی تو ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں اور پر میشر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اس قدر تو ہم ضرور کریں گے کہ آپ کے ان نشانوں کو جو ہم بچشم خود مشاہدہ کر لیں گے چند اخباروں کے ذریعہ سے بطور گواہ رؤیت شائع کرا دیں گے اور آپ کے منکرین کو ملزم ولا جواب کرتے رہیں گے اور آپ کی صداقت کی حقیقت کو حتی الوسع اپنی قوم میں پھیلائیں گے اور بلاشبہ ہم ایک سال تک عند الضرورت آپ کے مکان پر حاضر ہو کر ہر ایک قسم کی پیشگوئی وغیرہ پر دستخط بقید تاریخ و روز کر
حیات احمد ۴۲۶ جلد دوم حصہ سوم دیا کریں گے اور کوئی بدعہدی اور کسی قسم کی نامنصفانہ حرکت ہم سے ظہور میں نہ آئے گی ہم سراسر سچائی اور راستی سے اپنے پر میشر کو حاضر و ناظر جان کر یہ اقرار نامہ لکھتے ہیں اور اسی سے اپنی نیک نیتی کا قیام چاہتے ہیں.اور سال جو نشانوں کے دکھانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہ ابتدائے ستمبر ۱۸۸۵ء سے شمار کیا جاوے گا.جس کا اختتام تمبر ۱۸۸۶ء کے اخیر تک ہو جائے گا.العبد لچھمن رام بقلم خود جو اس خط میں ہم نے لکھا ہے اس کے موافق عمل کریں گے.پنڈت پہارا مل بقلم خود بشند اس ولد رعدا سا ہو کار بقلم خود.منشی تا را چند کھتری بقلم خود.پنڈت نہال چند.سنت رام - فتح چند پنڈت ہر کرن.پنڈت پیج ناتھ چوہدری بازار قادیان بقلم خود.بشند اس ولد ہیرا نند برہمن.نوٹ:.ساہوکاروں کے مکتوب جن پر لوگوں کے دستخط ہیں ان میں سے سوائے سنت رام.فتح چند اور ہر کرن کے باقی سب سے میری واقفیت ہی نہیں اچھے تعلقات رہے ہیں.(عرفانی الكبير ) یہ پیشگوئی پوری ہو گئی مگر قادیان کے ان ساہوکاروں اور دوسرے نمائندگان نے باوجود اقرار کے اعلان کرنے میں خلاف عہد کیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پنڈت لیکھرام صاحب نے قادیان آ کر ان لوگوں کو روک دیا کہ اس سے صداقت اسلام ثابت ہوتی ہے بلکہ یہ کوشش بھی کی کہ وہ اس کے خلاف اشتہار دیں.خصوصاً لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملا وامل صاحب پر زور دیا کہ وہ ضروری ان نشانات کی تکذیب کریں جن کے وہ گواہ مشتہر ہو چکے ہیں.یہ اصرار ان سے پنڈت لیکھرام صاحب کی وفات کے بعد بھی آریہ اخبارات شبہ چنتک وغیرہ کے ذریعہ جاری رہا مگر انہوں نے اخفائے حق کے جرم سے احتراز کیا اس لئے کہ ان کو قسم کھا کر انکار کرنا پڑتا تھا.اور وہ حضرت اقدس کی صداقت کے قائل اور آپ کے ذریعہ جو نشانات خود ان کے اپنے متعلق ظاہر ہوئے تھے گواہ تھے.
حیات احمد ۴۲۷ جلد دوم حصہ سوم دعوت یکسالہ اور عیسائی میں نے اعلان دعوت نشان نمائی یکسالہ کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ عیسائیوں میں کوئی فوری تحریک اس کے مقابلہ میں آنے کی نہیں ہوئی مگر جب اندر من وغیرہ کے متعلق اعلانات شائع ہوئے تو ایک دیسی عیسائی مسٹر سوفٹ نے اس مقابلہ میں حضرت کو ایک خط لکھا اور آمادگی کا اظہار ایسے رنگ میں کیا جس کا لازمی نتیجہ فرار تھا.اس خصوص میں پادری سوفٹ کو جو جوابی خط حضرت نے لکھا تھا میں نے اسے مکتوبات احمدیہ کی تیسری جلد میں شائع کر دیا تھا چونکہ خط پر کوئی تاریخ نہ تھی میرا خیال اس وقت یہ تھا کہ غالباًا ۱۸۸۴ء میں لکھا گیا لیکن چونکہ حضرت اقدس کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی دعوت یکسالہ کے متعلق ہے اس لئے یہ مکتوب ۱۸۸۵ء کی آخری ششماہی کا ہی ہو سکتا ہے.پادری سوفٹ کون تھا ی شخص دراصل ایک دیسی عیسائی تھا اور اس کا نام رام چند تھا (ماسٹر رام چند اور تھا) یہ گوالیار اسٹیٹ کا باشندہ تھا عیسائی ہو کر اس نے اپنا نام تبدیل کر کے سوفٹ رکھ لیا تا کہ اس طرح وہ اپنی عیسائیت یا پہلی زندگی کو مخفی رکھ سکے یہ شخص بعد میں سہارن پور وغیرہ کے مدرسہ الہیات میں تعلیم پا کر گوجرانوالہ میں متعین ہوا.اور اسے اپنے علم الہیات پر بڑا ناز تھا اس نے اسی سنتی شہرت کے لئے حضرت اقدس کو اس دعوت کے قبول کرنے کے لئے مشروط خط لکھا.حضرت اقدس کا جواب اور سوفٹ کی خاموشی اس خط کا جواب حضرت اقدس نے جو دیا میں ذیل میں درج کر دیتا ہوں اس جواب کے بعد پادری صاحب خاموش ہو گئے اور اس طرح عیسائی قوم پر بھی اتمام حجت ہوگی.
حیات احمد ۴۲۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم جلد دوم حصہ سوم بعد ما وجب.آپ کا عنایت نامہ جس پر کوئی تاریخ درج نہیں بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا.آپ نے پہلے تو بے تعلق اپنے خط میں یہ قصہ چھیڑ دیا ہے کہ حقیقت میں خدائے قادر مطلق خالق و مالک ارض و سماسیح ہے اور وہی نجات دہندہ ہے لیکن میں سوچ میں ہوں کہ آپ صاحبوں کی طبیعت کیونکر گوارا کر لیتی ہے ایک آدم زاد، خاکی نہاد، عاجز بندہ کی نسبت آپ لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ وہی ہمارا پیدا کنندہ ہے اور رب العالمین ہے یہ خیال آپ کا حضرت مسیح کی نسبت ایسا ہی ہے جیسے ہندو لوگ راجہ رام چندر کی نسبت رکھتے ہیں.صرف اتنا فرق ہے کہ ہندو لوگ کشلیا کے بیٹے کو اپنا پر میشر بنا رہے ہیں اور آپ حضرت مریم صدیقہ کے صاحبزادہ کو.نہ ہندوؤں نے کبھی ثابت کر دکھایا کہ زمین و آسمان میں کوئی ٹکڑا کسی مخلوق کا رام چندر یا کرشن نے پیدا کیا ہے اور نہ آج تک آپ لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت کچھ ایسا ثبوت دیا.افسوس کہ جو قو تیں عقل اور ادراک فہم و قیاس کی آپ صاحبوں کی فطرت کو عطا کی گئیں تھیں آپ لوگوں نے ایک ذرا ان کا قدر نہیں کیا.اور علوم طبعی اور فلسفی کو پڑھ پڑھا کر ڈبو دیا اور عقلی علوم کی روشنی آپ لوگوں کے دلوں پر ایک ذرا نہ پڑی.سادگی اور نا سمجھی کے زمانہ میں جو کچھ گھڑا گیا انہیں باتوں کو آپ لوگوں نے اب تک اپنا دستورالعمل بنا رکھا ہے.کاش اس زمانہ میں دو چار دن کے لئے حضرت مسیح اور راجہ رام چندر اور کرشن و بدھ وغیرہ کہ جن کو مخلوق پرستوں نے خدا بنایا ہوا ہے پھر دنیا میں اپنا درشن کرا جاتے تا خود ان لوگوں کا انصاف دلی ان کو ملزم کرتا کہ کیا ان آدم زادوں کو خدا خدا کر کے پکارنا چاہئے؟ اور تعجب تو یہ ہے کہ باوجود ان تمام رسوائیوں کے جو آپ لوگوں کے عقائد میں پائی جاتی ہیں پھر آپ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارے عقائد عقل کے موافق ہیں.میں حیران ہوں کہ جن لوگوں کے یہ اعتقاد ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنا قدیمی اور غیر متغیر جلال چھوڑ کر ایک عورت کے پیٹ میں حلول کیا اور ناپاک راہ سے تولد پایا اور دکھ اور تکلیف اٹھاتا رہا اور
حیات احمد ۴۲۹ جلد دوم حصہ سوم مصلوب ہو کر مر گیا اور پھر یہ کہ وہ تین بھی ہے اور ایک بھی.اور انسانِ کامل بھی اور خدائے کامل بھی.وہ ایسے عقائد کو کیونکر عقل کے مطابق کر سکتے ہیں اور ایسی نئی فلسفی کون سی ہے جس کے ذریعہ سے یہ لغویات معقول ٹھہر سکتے ہیں پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آپ لوگ معقول طور پر اپنے خوش عقیدہ کی سچائی ثابت نہیں کر سکتے تو پھر لاچار ہو کر نقل کی طرف بھاگتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں ہم نے پہلی کتابوں میں یعنی بائیبل میں دیکھی ہیں.اسی وجہ سے ہم ان کو مانتے ہیں لیکن یہ جواب بھی سراسر پوچ اور بے معنی ہے کیونکہ ان کتابوں میں ہرگز یہ بات درج نہیں ہے کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے یا خود رَبُّ الْعَالَمین ہیں اور دوسرے لوگ خدا کے بندے ہیں بلکہ بائیبل پر غور کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا کر کے کسی کو پکارنا یہ ان کتابوں کا عام محاورہ ہے بلکہ بعض جگہ خدا کی بیٹیاں بھی لکھی ہیں.اور ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ تم سب خدا ہو.تو پھر اس حالت میں حضرت مسیح کی کیا خصوصیت رہی؟ ماسوا اس کے کہ ہر ایک عاقل جانتا ہے کہ منقولات اور اخبار میں صدق اور کذب اور تغیر اور تبدل کا احتمال ہے.خصوصا جو جو صدمات عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں کو پہنچے ہیں.اور جن جن خیانتوں کا اور تحریفوں کا انہوں نے اقرار کر لیا ہے ان وجوہ سے یہ احتمال زیادہ تر قوی ہو جاتا ہے.اور یہ بھی آپ کو سوچنا چاہئے کہ اگر ہر یک تحریر بغیر ثبوت باضابطہ کے قابل اعتبار ٹھہر سکتی ہے تو پھر آپ لوگ ان قصوں کو کیوں معتبر نہیں سمجھتے کہ جو ہندؤوں کے پستکوں میں رام اور کرشن اور برہما اور بشن وغیرہ کے معجزات کی نسبت اور ان کے بڑے بڑے کاموں کے بارہ میں اب تک لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں.جیسے مہادیو کی لٹوں سے گنگا کا نکلنا اور مہادیو کا پہاڑ کو اٹھا لینا اور ایسا ہی ارجن کے بھائی راجہ بھیم کے مقابل پر مہادیو کا گشتی کے لئے آنا جس کی پرانوں میں یہ کتھا لکھی ہے مہادیو پلہنسی کا روپ دہار کر راجہ بھیم کے سامنے آ کھڑے ہوئے.بھیم نے چاہا کہ ان سے لڑے.مہادیو جی بھاگ نکلے.بھیم نے ان کا پیچھا کیا.تب وہ زمین میں گھس گئے.بھیم نے یہ دیکھ کر بڑی زور سے ان کی پونچھ پکڑ لی.اور کہا کہ اب میں نہ جانے دوں گا سو پونچھ اور پچھلا دھڑ تو بھیم کے ہاتھ میں رہ گیا.اور منہ نیپال کے
حیات احمد ۴۳۰ جلد دوم حصہ سوم پہاڑ میں جا نکلا اسی وجہ سے منہ کی پوجانیپال میں ہوتی ہے اور پونچھے اور پچھلے دھڑ کی کدار ناتھ میں.اب دیکھئے کہ جو کچھ عقیدہ آپ نے بنا رکھا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کی روح حضرت مریم کے رحم میں گھس گئی اور گھنے کے بعد اس نے ایک نیا روپ دہار لیا جس سے وہ کامل خدا بھی بنے رہے اور کامل انسان بھی ہو گئے.کیا یہ قصہ بھیم اور مہادیو کے قصہ سے کچھ کم ہے.پھر آپ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کو مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نجات حاصل ہو گئی ہے مگر میں آپ لوگوں میں نجات کی کوئی علامت نہیں دیکھتا اور اگر میں غلطی پر ہوں تو آپ مجھ کو بتلائیں کہ وہ کون سے انوار و برکات اور قبولیتِ الہی کے نشان آپ لوگوں میں پائے جاتے ہیں جن سے دوسرے لوگ محروم رہے ہوئے ہیں میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ایمانداروں اور بے ایمانوں اور ناجیوں اور غیر ناجیوں میں ضرور ما بہ الامتیاز ہونا چاہئے مگر پادری صاحب! آپ ناراض نہ ہوں وہ علامات جو ایما ندروں میں ہوتی ہیں اور ہونے چاہئیں جن کو حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی دو تین جگہ انجیل میں لکھا ہے وہ آپ لوگوں میں مجھے کو نظر نہیں آتیں بلکہ وہ نشان سچے مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور انہیں میں ہمیشہ پائے گئے ہیں اور انہیں نشانوں کے ظاہر کرنے لئے اس عاجز نے آپ صاحبان کی خدمت میں رجسٹری کرا کر خط لکھے اور ہیں ہزار اشتہار تقسیم کیا اور کوئی دقیقہ ابلاغ اور اتمام حجت کا باقی نہ رکھا تا خدا کرے کہ آپ لوگوں کو حق کے دیکھنے لئے شوق پیدا ہو اور جو مقبول اور مردود میں فرق ہونا چاہئے وہ آپ بچشم خود دیکھ لیں اور اچھے درختوں کے اچھے پھل اور پھول بذات خود ملاحظہ کر لیں مگر افسوس کہ میری اس قدر سعی اور کوشش سے آپ لوگوں میں سے کوئی صاحب میدان میں نہیں آئے.اب آپ نے یہ خط لکھا ہے مگر دیکھئے کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے آپ نے اپنے خط میں تین شرطیں لکھی ہیں.پہلے آپ یہ لکھتے ہیں کہ چھ سو روپیہ یعنی تین ماہ کی تنخواہ بطور پیشگی ہمارے پاس گوجرانوالہ میں بھیجا جاوے اور نیز مکان وغیرہ کا انتظام اس عاجز کے ذمہ رہے اور اگر کسی نوع کی دقت پیش آوے تو فوراً آپ گوجرانوالہ میں واپس آ جاویں گے اور جو روپیہ آپ کو مل چکا ہو اس کو واپس لینے کا استحقاق اس عاجز کو نہیں رہے گا.یہ پہلی شرط ہے جو آپ نے تحریر فرمائی ہے لیکن گزارش خدمت کیا جا تا ہے کہ روپیہ کسی حالت میں
حیات احمد ۴۳۱ جلد دوم حصہ سوم قبل از انفصال اس امر کے جس کے لئے بحالت مغلوب ہونے کے روپیہ دینے کا اقرار ہے آپ کو نہیں مل سکتا.ہاں البتہ یہ روپیہ آپ کی تسلی اور اطمینان قلبی کے لئے بنک سرکاری میں جمع ہوسکتا ہے یا کسی مہا جن کے پاس رکھا جا سکتا ہے.غرض جس طرح چاہیں روپیہ کی بابت ہم آپ کی تسلی کرا سکتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے اور یہ بات سچ اور قریب انصاف بھی ہے کہ جب تک فریقین میں جو امر متنازعہ فیہ ہے وہ تصفیہ نہ پا جائے تب تک روپیہ کسی ثالث کے ہاتھ میں رہنا چاہئے.امید ہے کہ آپ جو طالب حق ہیں اس بات کو سمجھ جائیں گے اور اس کے برخلاف اصرار نہیں کریں گے.اور جو اسی شرط کے دوسرے حصہ میں آپ نے یہ لکھا ہے کہ اگر مکان وغیرہ کے بارے میں کسی نوع کی ہم کو وقت پہنچی تو ہم فوراً گوجرانوالہ میں آویں گے اور جو روپیہ جمع کرایا گیا ہے ہمارا ہو جائے گا.یہ شرط آپ کی بھی ایسی وسیع التاویل ہے کہ ایک بہانہ جو آدمی کو اس سے بہت گنجائش مل سکتی ہے کیونکہ مکان بلکہ ہر ایک چیز میں نکتہ چینی کرنا بہت آسان ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس جگہ کی آب و ہوا ہم کو مخالف ہے، ہم بیمار ہو گئے ، مکان میں بہت گرمی ہے، فلاں چیز ہم کو وقت پر نہیں ملتی ، فلاں فلاں ضروری چیزوں سے مکان خالی ہے وغیرہ وغیرہ.اب ایسی ایسی نکتہ چینیوں کا کہاں تک تدارک کیا جائے گا سو اس بات کا انتظام اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ آپ ایک دو دن کے لئے خود قادیان میں آ کر مکان کو دیکھ بھال لیں اور اپنے ضروریات کا بالمواجہ تذکرہ اور تصفیہ کر لیں تا جہاں تک مجھ سے بن پڑے آپ کی خواہشوں کے پورا کرنے کے لئے کوشش کروں اور پھر بعد میں نکتہ چینی کی گنجائش نہ رہے.ماسوا اس کے یہ عاجز تو اس بات کا ہرگز دعویٰ نہیں کرتا کہ کسی کو اپنے مکان میں فروکش کر کے جو کچھ نفس امارہ اُس کا اسباب عیش و تنختم مانگتا جاوے وہ سب اس کے لئے مہیا کرتا جاؤں گا.بلکہ اس خاکسار کا یہ عہد واقرار ہے کہ جو صاحب اس عاجز کے پاس آئیں ان کو اپنے مکان میں سے اچھا مکان اور اپنی خوراک کے موافق خوراک دی جائے گی.اور جس طرح ایک عزیز اور پیارے مہمان کی حتی الوسع خدمت و تواضع کرنی چاہئے اُسی طرح ان کی بھی کی جائے گی.اپنی طاقت اور استطاعت کے موافق برتاؤ اور معاملہ ہوگا.اور اپنے نفس سے زیادہ اکل و شرب میں ان کی رعایت رکھی
حیات احمد ۴۳۲ جلد دوم حصہ سوم جائے گی ہاں اگر کوئی اس قسم کی تکلیف ہو جس کو اس گاؤں میں ہم لوگ اٹھاتے ہیں اور اس کا دفع اور ازالہ ہماری طاقت اور استطاعت سے باہر ہے اس میں ہمارے مہمان ہماری حالت کے شریک رہیں گے اور اس بات کو آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر ہرا ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ جس حالت میں ہم نے دوسو روپیہ ماہواری دینا قبول کیا اور اس کے ادا کے لئے ہر طرح تسلی بھی کر دی تو ہم نے اپنے اس فرض کو ادا کر دیا.یا جو کسی کا پورا پورا ہر جہ دینے کے لئے ہمارے سر پر تھا.رہا تجویز مکان و دیگر لوازم مہمانداری سو یہ زوائد ہیں جن کو ہم نے محض حسن اخلاق کے طور پر اپنے ذمہ آپ لے لیا ہے ورنہ ہر ایک با انصاف آدمی جانتا ہے کہ جس شخص کو پورا پورا ہرجہ اس کی حیثیت کے موافق بلکہ اس سے بڑھ کر دیا جائے تو پھر اور کوئی مطالبہ اس کا بیجا ہے.اس کو تو خود مناسب ہے اگر زیادہ تر آرام پسند اور آسائش دوست ہے تو اپنی آسائش کے لئے آپ بندوبست کر لے.جیسا اس حالت میں بندوبست کرتا کہ جب وہ دوسو روپیہ نقد کسی اور جگہ سے بطور نوکری پاتا.غرض جس قدر علاوہ ادائے ہرجہ کے ہم سے کسی کی خدمت ہو جاوے.اس میں تو ہمارا ممنون ہونا چاہئے کہ ہم نے علاوہ اصل شرط کے بطور مہمانوں کے اس کو رکھا نہ کہ الٹی نکتہ چینی کی جائے کیونکہ یہ تو تہذیب اور اخلاق اور انصاف سے بہت بعید ہے اور اس مقام میں مجھ کو ایک سخت تعجب یہ ہے کہ اگر ایسے شرائط جو آپ نے پیش کئے کوئی اور شخص کسی فرقہ مخالف کا پیش کرتا تو کچھ بعید نہ تھا مگر آپ لوگ تو حضرت مسیح علیہ السلام کے خادم اور تابع کہلاتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا دم مارتے ہیں.سو یہ کیسی بھول کی بات ہے کہ آپ حضرت مسیح کی سیرت کو چھوڑے جاتے ہیں.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت مسیح ایک مسکین اور درویش طبع آدمی تھے.جنہوں نے اپنے تمام زندگی میں کوئی اپنا گھر نہ بنایا اور کسی نوع کا اسباب عیش وعشرت اپنے لئے مہیا نہ کیا تو پھر آپ فرما دیں کہ آپ کو ان کی پیروی کرنا لازم ہے یا نہیں؟ جب تک آپ کی زندگی مسیح کی زندگی کا نمونہ نہ بنے تب تک آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح کے بچے پیرو ہیں.سواب آپ غور کر لیں کہ یہ کس قدر نازیبا بات ہے کہ جو آپ پہلے ہی اپنی عیش وعشرت کے لئے مجھ سے شرطیں کر رہے ہیں.آپ پر واضح ہو کہ یہ عاجز مسیح کی زندگی کے نمونہ پر چلتا ہے.کسی باغ میں کوئی امیرانہ
حیات احمد ۴۳۳ جلد دوم حصہ سوم کوٹھی نہیں رکھتا اور اس عاجز کا گھر اس قسم کی عیش و نشاط کا گھر نہیں ہوسکتا جس کی طرف دنیا پرستوں کی طبیعتیں راغب اور مائل ہیں.ہاں اپنی حیثیت اور طاقت کے موافق مہمانوں کے لئے خَالِصًا لله مکانات بنارکھے ہیں اور جہاں تک بس چل سکتا ہے ان کی خدمت کے لئے آمادہ و حاضر ہوں سو اگر ایسے مکانات میں گزارہ کرنا چاہیں تو بہتر ہے کہ اوّل آ کر اُن کو دیکھ لیں.لیکن اگر آپ تنتم پسند لوگوں کی طرح مجھ سے یہ درخواست کریں کہ میرے لئے ایک ایسا شیش محل چاہئے جو ہر ایک طرح کے فرش فروش سے آراستہ ہو.جا بجا تصویر میں لگی ہوئی اور مکان سجا ہوا اور بوتلوں میں مست اور متوالا کرنے والی چیز بھری ہوئی رکھی ہو.اور اردگرد مکان کے ایک خوشنما باغ اور چاروں طرف اس کے نہریں جاری ہوں اور دس ہیں خدمتگار غلاموں کی طرح حاضر ہوں تو ایسا مکان پیش کرنے سے مجبور اور معذور ہوں.بلکہ ایک سادہ مکان جوان تکلفات سے خالی لیکن معمولی طور پر گزارہ کرنے کا مکان ہو موجود اور حاضر ہے.اور مکرر کہتا ہوں کہ آپ کو پر تکلف مکانات اور دوسرے لوازم سے گریز کرنا چاہئے تا آپ میں مسیح کی زندگی کے علامات ظاہر ہو جائیں.اور میں ہرگز خیال نہیں کرتا کہ یہ مکان آپ کو کچھ تکلیف دہ ہوگا بلکہ مجھے کامل تسلی ہے کہ ایک شکر گزار آدمی ایسے مکان میں رہ کر کوئی کلمہ شکوہ شکایت کا منہ پر نہیں لائے گا.کیونکہ مکان وسیع موجود ہے.اور گزارہ کرنے کے لئے سب کچھ مل سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر آپ بعد ملاحظہ مکان چند معمولی اور جائز باتوں میں جو ہماری طاقت میں ہوں فرمائش کریں تو وہ بھی بفضلہ تعالیٰ میسر آ سکتی ہیں.مگر بہر حال آپ کا تشریف لانا از بس ضروری ہے.پھر آپ دوسری شرط یہ لکھتے ہیں کہ الہام اور معجزہ کا ثبوت ایسا چاہئے جیسے کتاب اقلیدس میں ثبوت درج ہیں جن سے ہمارے دل قائل ہو جائیں.اس میں اوّل اس عاجز کی بات کو یاد رکھیں کہ ہم لوگ معجزہ کا لفظ صرف اُسی محل میں بولا کرتے ہیں جب کوئی خارق عادت کسی نبی اور رسول کی طرف منسوب ہولیکن یہ عاجز نہ نبی اور نہ رسول ہے، صرف اپنے نبی معصوم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ☆ یہ آپ کی سچائی کی دلیل ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس راز نبوت کو نہیں کھولا.آپ نے بھی دعوی نہ کیا (ایڈیٹر )
حیات احمد ۴۳۴ جلد دوم حصہ سوم ایک ادنیٰ خادم اور پیرو ہے اور اسی رسول مقبول کی برکت و متابعت سے یہ انوار و برکات ظاہر ہورہے ہیں.سو اس جگہ کرامت کا لفظ موزوں ہے نہ معجزہ کا اور ایسا ہی ہم لوگوں کے بول چال میں آتا ہے اور جو اقلیدس کی طرح ثبوت مانگتے ہیں.اس میں یہ عرض ہے کہ جس قدر بفضلہ تعالیٰ روشن نشان آپ کو دکھلائے جائیں گے بمقابلہ ان کے ثبوت اقلیدس کا جواکثر دوائرہ موہومہ پر مبنی ہے ناکارہ اور پیچ ہے.اقلیدس کے ثبوتوں میں کئی محل گرفت کی جگہ ہیں اور ان ثبوتوں کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے کوئی کہے.کہ اگر اول آپ بلادلیل کسی ایک چارپایہ کی نسبت یہ مان لیجئے کہ یہ چار پا یہ نجاست کھا لیتا ہے اور میں میں کرتا ہے اور بدن پر اس کے اون ہے تو ہم ثابت کر دیں گے کہ وہ بھیڑ کا بچہ ہے.ایسا ہی اقلیدس کے بیانات میں اکثر تناقض ہے.جیسے اول وہ آپ ہی لکھتا ہے.نقطہ وہ شئے ہے جس کی کوئی جز نہ ہو یعنی بالکل قابل انقسام نہ ہو.پھر دوسری جگہ آپ ہی تجویز کرتا ہے کہ ہر ایک خط کے دوٹکڑے ایسے ہو سکتے ہیں کہ وہ دونوں اپنے اپنے مقدار میں برابر ہوں.اب فرض کرو کہ ایک خط مستقیم ایسا ہے جونو لفظوں سے مرکب ہے اور بموجب دعوئی اقلیدس کے ہم چاہتے ہیں جو اس کے دوٹکڑے مساوی کریں تو اس صورت میں یا تو یہ امر خلاف قرار داد پیش آئے گا کہ ایک نقطہ کے دوٹکڑے ہو جائیں اور یا یہ دعوی اقلیدس کا ہر ایک خط مستقیم دوٹکڑے مساوی ہو سکتا ہے غلط ٹھہرے گا.غرض اقلیدس میں بہت سی وہمی اور بے ثبوت باتیں بھری ہوئی ہیں جن کو جاننے والے خوب جانتے ہیں مگر آسمانی نشان تو وہ چیز ہے کہ وہ خود منکر کی ذات پر ہی وارد ہو کر حق الیقین تک اس کو پہنچا سکتا ہے.اور انسان کو بجز اس کے ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا.سو آپ تسلی رکھیں کہ اقلیدس کے ناچیز خیالات کو ان عالی مرتبہ نشانوں سے کچھ نسبت نہیں.چه نسبت خاک را با عالم پاک و اور یہ نہیں کہ صرف اس عاجز کے بیان پر ہی حصر رہے گا بلکہ یہ فیصلہ بذریعہ ثالثوں کے ہو جائے گا.اور جب تک ثالث لوگ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں گے یہ شہادت نہ دیں کہ ہاں فی الحقیقت یہ خوارق اور پیشگوئیاں انسانی طاقت سے باہر ہیں.تب تک آپ غالب اور یہ ترجمہ.دنیوی لوگوں کو عالم پاک سے کیا نسبت.
حیات احمد ۴۳۵ جلد دوم حصہ سوم عاجز مغلوب ہو جائے گا.لیکن در صورت مل جانے ایسی گواہیوں کے جو اُن خوارق اور پیشگوئیوں کو انسانی طاقت سے بالا تر قرار دیتی ہوں.تو آپ مغلوب اور میں بفضلہ تعالیٰ غالب ہوں گا.اور اُسی وقت آپ پر لازم ہو گا کہ اسی جگہ قادیان میں بشرف اسلام مشرف ہو جائیں.پھر آپ اپنے خط کے اخیر پر یہ لکھتے ہیں کہ اگر شرائط مذکورہ بالا کو قبول نہیں فرماؤ گے.تو آپ کا حال اور یہ شرائط چند اخبار ہند میں شائع کئے جائیں گے.سو مشفق من! جو کچھ حق حق تھا آپ کی خدمت میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ عاجز آپ کے حالات شائع کرنے کرانے سے ہرگز نہیں ڈرتا.بلکہ خدا جانے آپ کب اور کس وقت اپنی طرف سے اخباروں میں یہ مضمون درج کرائیں گے مگر یہ خاکسار تو آج ہی کی تاریخ میں ایک نقل اس خط کی بعض اخباروں میں درج کرنے کے لئے روانہ کرتا ہے اور آپ کو یہ خوشخبری پہلے سے سنا دیتا ہے تا آپ کی تکلیف کشی کی حاجت نہ رہے.اور من بعد جو کچھ آپ کی طرف سے ظہور میں آئے گا وہ بھی بیس روز تک انتظار کر کے چند اخباروں میں چھپوا دیا جائے گا.اگر آپ کچھ غیرت کو کام میں لا کر قادیان میں آگئے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ خداوند کریم کس کے ساتھ ہے اور کس کی حمایت اور نصرت کرتا ہے اور پھر اس وقت آپ پر یہ بھی کھل جائے گا کہ کیا سچا اور حقیقی خدا جو خالق اور مالک ارض وسما ہے وہ حقیقت میں ابن مریم ہے یا وہ خدا ازلی و ابدی غیر متغیر و قدوس جس پر ہم لوگ ایمان لائے ہیں.سوئیں اسی خدائے کامل اور صادق کی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور تشریف لائیں ضرور آئیں.اگر وہ قتسم آپ کے دل پر مؤثر نہیں تو پھر اتمام الزام کی نیت سے آپ کو حضرت مسیح کی قسم ہے کہ آپ آنے میں ذرا توقف نہ کریں تا حق اور باطل میں جو فرق ہے وہ آپ پر کھل جائے اور جو صادقوں اور کا ذبوں میں مابہ الامتیاز ہے وہ آپ پر روشن ہو جائے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى بوقت صبح شود هیچو روز معلومت که با که باختهء عشق در شب دیجور من ایستاده ام اینک تو ہم بیاشتاب که تا سیاه شود روئے کاذب مغرور خاکسار آپ کا خیر خواہ مرزا غلام احمد قادیان ضلع گورداسپور ) مکتوبات احمد یہ جلد سوم ۲ تا ۱۰ مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۱۰۲ تا صفحه ۱۰۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ا ترجمہ.صبح کے وقت تیرے متعلق دن کی طرح روشن ہو جائے گا کہ اندھیری رات میں کس کے ساتھ تو نے عشق کا کھیل کھیلا ہے.میں تو یہ کھڑا ہوں تو بھی جلد آجا، تا جھوٹے مغرور کا منہ کالا ہو.
حیات احمد ۴۳۶ جلد دوم حصہ سوم حضرت مولا نا حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ کی آمد اسی سال ۱۸۸۵ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مولانا حکیم نورالدین (خلیفہ امسیح اول ) رضی اللہ عنہ کو حضرت اقدس سے تعلق مراسلت ہوا.حضرت مولانا بھیرہ کے ممتاز علم دوست خاندان کے ممتاز رکن تھے اور تمام علوم عربیہ دینیہ کے مسلم الثبوت ماہر اور مجتہدانہ رنگ رکھتے تھے.قرآن مجید کے عاشق اور اس کے حقائق اور معارف کی اشاعت کے گرویدہ تھے جہاں تک میری تحقیقات کا ماحصل ہے آپ نے حضرت اقدس کا وہ اشتہار پڑھا.(جس کا ذکر میں اندر من مراد آبادی کے واقعات میں کر آیا ہوں ) یہ اشتہار آپ کو کس طرح ملا ؟ میری اپنی تحقیقات میں یہ اشتہار آپ کو ایک بنگالی بابو کے ذریعہ جو اس وقت ریاست جموں میں نو کر تھا اور آپ کے پاس آمد و رفت رکھتا ( اور برہمو خیال کا تھا ) ملا.اور اس نے بطور ایک عجوبہ کے پیش کیا آپ نے اسے پڑھ کر حضرت اقدس کی خدمت میں آپ کے دعوی کے متعلق ایک استفساری خط لکھا جس کا جواب حضرت اقدس نے حسب ذیل دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ماموریت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ یہ عاجز ( مؤلف براہین احمدیہ حضرت جَلَّ جَلالُہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی مسیح کی طرز پر کمال مسکینی اور فروتنی اور غربت اور تذلیل اور تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہِ راست سے بیخبر ہیں صِرَاطِ مُسْتَقِیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے ) اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے
حیات احمد ۴۳۷ جلد دوم حصہ سوم انوار دکھائی دیتے ہیں ) دکھاوے.خاکسار غلام احمد ۱۸ مارچ ۱۸۸۵ء مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۱.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس جوابی مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حضرت اقدس کے دعوی کے متعلق استفسار کیا جو اس اردو انگریزی اشتہار میں کیا گیا تھا اس کے بعد آپ نے حضرت اقدس کو صادق یقین کیا اور رابطہ محبت اس مقام تک پہنچا کہ من تو شدم تو من شدی کا رنگ پیدا ہو گیا اور اس کمال اتحاد و اطاعت کاملہ نے آپ کو حضرت اقدس کا پہلا خلیفتہ امیج بنا دیا.وہ قادیان میں کس طرح آئے اور سلسلہ کی خدمات میں ان کی قربانیوں اور اخلاص کا کیا مقام ہے یہ امور حیات نور سے تعلق رکھتے ہیں لیکن میں اس امر کے اظہار سے رُک نہیں سکتا کہ حضرت حکیم الامت کی آمد اور حضرت سے تعلق حضرت اقدس کی دعا کی قبولیت کا ایک نشان ہے.اور اس طرح پر حضرت حکیم الامت آيَةٌ مِّنْ آيَاتِ اللهِ ہیں.اس کیفیت کو خود حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام اڈیشن اول کے صفحہ ۵۸۳٫۵۸۱ وو (روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸۱ تا ۵۸۳) میں بیان کیا ہے کہ (ترجمہ عربی عبارت ) ” جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا میں انصار الدین کیلئے دعاؤں میں مصروف تھا اور جب میری دعائیں انتہا کو پہنچ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے نورالدین عطا نوٹ:.یہ پہلا خط ہے.جو حضرت حکیم الامت کے نام مجھے ملا ہے قیاس چاہتا ہے اس سے پہلے بھی چند خطوط ہوں اس خط کا بھی اصل مسودہ نہیں ملا بلکہ حضرت حکیم الامت کی نوٹ بک سے لیا گیا اور ۳۱ را گست ۱۹۰۷ ء کے الحکم میں میں نے اسے شائع کر دیا تھا اس خط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مسیح ناصری کے قدم پر مبعوث ، مامور ہونے کا دعوی مارچ ۱۸۸۵ء میں کر دیا تھا لیکن آپ نے بیعت کا اعلان اس وقت تک نہیں کیا.جب تک صریح فرمان ربانی نازل نہیں ہو گیا ( عرفانی) ترجمہ.میں تو ہو گیا اور تو میں ہو گیا.
حیات احمد ۴۳۸ جلد دوم حصہ سوم کیا اور آپ نے بتایا ہے کہ میں اس طرح گویا دعا کرتا تھا جیسے حضور سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سید نا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بشارت دی اور عجیب بات ہے کہ خود حضرت حکیم الامت بھی اس عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں.حضرت حکیم الامت کے کمالات اور فضائل پر اس مقام پر حضرت نے بہت کچھ لکھا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام کے اس بیان میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’” جب وہ میرے پاس آئے مجھ سے ملاقات کی اور میری نظر ان پر پڑی تو میں نے انہیں آیات اللہ میں سے ایک آیت پایا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری دعا ہے جو میں ہمیشہ کرتا تھا.“ غرض اندرمن کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید اور نصرت کا نشان دکھایا اور مقاصد بعثت کی تکمیل اور نصرت کے لیے حضرت حکیم الامت جیسے جلیل القدر انسان کو آپ کی خدمت میں پہنچا دیا.حضرت حکیم الامت کی آمد پر مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مرحوم نے جو بیان لکھا ہے اس پر مجھے تنقید مطلوب نہیں لیکن ایک بات جو انہوں نے لکھی ہے اس کی کوئی سند نہیں ہے.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا ایک بیان ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت سے پہلی ملاقات کے بعد گویا صبح کی سیر میں آپ نے حضرت اقدس سے عرض کیا :.ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا تو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی.حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے دریافت کیا کہ حضور کیا وجہ ہے کہ ابو ہریرہ کو آپ کی اتنی حدیثیں یاد تھیں آپ اس کی وجہ میرے کان میں بتانے کے لئے آگے کو جھکے اور میں ہمہ تن گوش تھا کہ کسی نے مجھے جگا دیا اور بات بیچ ہی میں رہ گئی اس وقت سے خلش ہے کہ وہ کیا وجہ تھی جسے میرے کان میں حضور صلم بتانا چاہتے تھے اس پر حضرت مرزا صاحب نے فرمایا.نہ شبم نه شب پر ستم کہ حدیث خواب گوئم هم از آفتاب هستم هم آن آفتاب گوئم * ترجمہ.نہ میں رات ہوں نہ ہی رات کی پرستش کرتا ہوں کہ خواب کے بارہ میں بیان کروں میں تو سورج سے تعلق رکھتا ہوں تو اسی سورج کی بابت بیان کروں گا.
حیات احمد ۴۳۹ جلد دوم حصہ سوم جس بیان کو حضرت اقدس کی طرف منسوب کیا گیا ہے میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا اور ڈاکٹر صاحب نے اس کی کوئی سند بھی پیش نہیں کی میں کیوں صحیح نہیں سمجھتا اول یہ کہ خود حضرت حکیم الامت نے اپنا خواب متعدد مرتبہ بیان کیا اس کے ساتھ ہی یہ بتایا کہ جب حضور میرے کان میں بتانا چاہتے تھے تو ( حضرت ) خلیفہ نورالدین جمونی ( رضی اللہ عنہ ) سے کوئی شخص جھگڑا کر رہا تھا اس جھگڑے کی آواز سے میں بیدار ہو گیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ با ہمی جھگڑے اور تکرار بڑی نعمتوں سے محروم کر دیتے ہیں.دوم.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو لوگوں سے خود بخو د دریافت کرتے اور اس کی تعبیر بھی فرماتے اور اپنے خواب بھی بیان کرتے.سوم.آپ نے اپنے تعلقات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کمال محبت و یکتائی کا بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں نے بعض احادیث کو خود آپ سے دریافت کیا ہے چنانچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں ؎ آن یکے جدید حدیث پاک تو از زید و عمر و آن دگر خود از دهانت بشنود بے انتظار چہارم.سوال اس قسم کا نہ تھا کہ اس کا جواب اس رنگ میں دیا جاتا پھر اس شخص کو جس کو آپ آيَةٌ مِّنْ آيَاتِ اللَّهِ اور اپنی دعا کہتے ہیں.پنجم.خود حضرت حکیم الامۃ کی عادت اور طریق عمل کے خلاف ہے آپ حضرت سے کوئی سوال نہ کرتے تھے بہر حال مجھے اس کے ماننے میں تامل ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ بہر حال اس طرح پر حضرت حکیم الامہ کو حضرت اقدس سے ارادت و عقیدت کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں اس قدر ترقی ہوئی کہ آپ کو وہ مقام حاصل ہوا کہ حضرت نے لکھا کا ترجمہ.ایک تو تیری پاک باتیں زید و عمر کے پاس جا کر تلاش کرتا ہے اور دوسرا بلا توسط تیرے منہ سے ان کو سنتا ہے.
حیات احمد ۴۴۰ جلد دوم حصہ سوم ☆ چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بود تھے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے اور آپ کی وفات کے بعد خلیفتہ امسیح اول ہوئے.اور جماعت نے متفق طور پر آپ کو اپنا امام اور مطاع تسلیم کیا.آپ نے خط و کتابت کے آغاز کے ساتھ ہی قادیان آنے کی سعی کی اور قادیان تشریف لائے.قادیان پہلی مرتبہ آنے کی کیفیت انہوں نے بارہا اپنے درس میں بیان کی ہے کہ میں بٹالہ سے یکه پر قادیان آیا اور یہ بان کو کہا کہ مرزا صاحب کے پاس لے چلو وہ مجھے مرزا امام الدین کے دیوان خانہ میں لے گیا جہاں وہ اپنی مجلس میں حقہ نوشی کر رہے تھے.حضرت مولانا فرماتے ہیں کہ اس کی شکل دیکھ کر مجھے اس قدر نفرت ہوئی کہ میں نے یکہ بان کو کہا ٹھہر وہم ابھی واپس جائیں گے اور دل میں انقباض و حیرت تھی کہ یہ وہ شخص نہیں ہوسکتا تاہم میں آگے بڑھا اور بلا تکلف بغیر سلام کے چار پائی پر بیٹھ گیا مرزا امام الدین نے مجھ سے دریافت کیا کیا نام ہے کہاں سے آئے ہو میرے بیان کرنے پر اس نے سمجھ لیا اور کہا کہ آپ شاید مرزا صاحب کو ملنے آئے ہیں اس طرح پر آپ کی وہ کلفت دور ہو گئی کہ یہاں اور بھی مرزا ہے.غرض اس نے بتایا اور اپنے آدمی کے ذریعہ آپ کو مسجد مبارک میں پہنچا دیا اطلاع ہونے پر حضرت اقدس سے ملاقات ہوئی جس نے دل کو نو را ایمان سے بھر دیا.چونکہ یہ سفر آپ نے لاہور کے ایک سفر میں ضمنی کیا تھا اس لئے دوسرے دن واپس ہو گئے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کو آپ کے آنے سے کس قدرخوشی ہوئی اور خود حضرت نورالدین کو اس ملاقات سے کس قدر فائدہ ہوا.حضرت مولوی حسن علی نے آپ سے لاہور میں دریافت کیا کہ آپ کو بیعت سے کیا فائدہ ہوا تو ان کو جواب دیا گیا کہ ایک گناہ مجھ سے چھوٹ گیا جس کو میں چھوڑ نہ سکتا تھا.آپ کا سلسلہ میں آنا حضرت اقدس کی قبولیت دعا کا ایک نشان ہے جس کی تفصیل آئینہ کمالات اسلام میں ہے.کا ترجمہ.کیا اچھا ہوتا اگر امت میں سے ہر ایک نور دین ہوتا.یہی ہوتا اگر ہر دل نور یقین سے بھرا ہوتا.
حیات احمد ۴۴۱ جلد دوم حصہ سوم ۱۸۸۵ء کے الہامات ۱۸۸۵ء کے الہامات یا کشوف بعض تو سلسلہ حالات میں آ گئے ہیں جو نہیں آئے ان کو یکجائی طور پر درج کر دیا جاتا ہے.(۱) سرخ چھینٹوں کا نشان میں اس نشان کے متعلق اسی کتاب کے ص سا تم پر درج کر آیا ہوں مگر وہاں میں نے اس کو عینی گواہ حضرت منشی عبداللہ سنوری رضی اللہ عنہ کے بیان ہی کی صورت میں لکھا ہے.اور تاریخ وقوع کو منشی صاحب کے بیان کے موافق ۱۸۸۴ء کے واقعات میں لکھا ہے یہاں میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا بیان درج کرتا ہوں جو آپ نے سرمہ چشم آریہ میں شائع کیا ہے آپ نے اس میں تاریخ نہیں بیان کی تذکرہ میں تاریخ حضرت منشی صاحب کی روایت کے موافق ۲۷ رمضان المبارک بروز جمعہ ۱۳۰۲ھ مطابق ۱۰ / جولائی ۱۸۸۵ء لکھا ہے.لیکن ۱۰ جولائی کو ۲۶ رمضان تھی بہر حال تاریخ کے سوال سے الگ رہ کر یہ ۸۴ یا ۱۸۸۵ء کا واقعہ ہے واقعہ صحیح ہے.اور حضرت اقدس فرماتے ہیں.(۲) ۶ را پریل ۱۸۸۵ء آج اسی وقت میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کسی ابتلا میں پڑا ہوں اور میں نے إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہا اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے میں نے اس کو کہا.کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے؟ اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہے کہ گرایا جائے گا.میں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جل شانہ کے تصرف میں ہوں.جہاں مجھ کو بٹھائے گا، بیٹھ جاؤں گا ، اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا.کھڑا ہو جاؤں گا.اور یہ الہام ہوا.يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَ عِبَادُ اللَّهِ مِنَ الْعَرَبِ یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں.خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیوں کر اس کا ظہور ہو.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب “ از مکتوب مورخه ۱۶ اپریل ۱۸۸۵ء مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۸۶ مکتوبات احمد جلد اصفحہ ۲۰۸،۶۰۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس ایڈیشن کے صفحہ ۳۱۴ تا ۳۱۹ پر دیکھیں (ناشر)
حیات احمد ۴۴۲ (۳)۱۸۸۵ء جلد دوم حصہ سوم ” میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں اور منتظر ہوں.کہ میرا مقدمہ بھی ہو.اتنے میں جواب ملا اصْبِرُ سَنَفْرُعُ يَا مِرْزَال (۴) ۱۸۸۵ء پھر ایک بار دیکھا کہ کچہری میں گیا ہوں تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت میں عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہے اور ایک سررشتہ دار کے ہاتھ میں ایک مثل ہے.جو وہ پیش کر رہا ہے.حاکم نے مثل دیکھ کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو میں نے غور سے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک خالی کرسی ہے مجھے اس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ہے.اور پھر میں بیدار ہو گیا.“ الحکم جلد سے نمبر ۵ صفحه ۱۴ پر چهے فروری ۱۹۰۳ ء والبدر جلد ۲ صفحه ۴۲ پر چه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ء) (۵) ۵/اگست ۱۸۸۵ء مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ اکتیس ماہ تک ان پر ایک سخت مصیبت پڑے گی یعنی ان کے اہل وعیال و اولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہو جائے گا جس سے ان کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا.آج ہی کی تاریخ کے حساب سے جو تئیس ساون 66 سم ۱۹۴۲ مطابق ۵/ اگست ۱۸۸۵ء ہے.یہ واقعہ ظہور میں آئے گا.مرقوم ۵/اگست ۱۸۸۵ء “ اعلان مورخه ۲۰ / مارچ ۱۸۸۵ء) تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۱۰۲.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۲۵ بار دوم ) لے ترجمہ.مرزا ! ذرا ٹھہر وہم ابھی فارغ ہوتے ہیں.( تذکرہ صفحہ ۱۰۲ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) ے عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی.اعلان مورخه ۲۰ مارچ ۱۸۸۵ء مندرجه تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۰۲)
حیات احمد ۴۴۳ اعلان قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو جلد دوم حصہ سوم ہے قادیان کے آریوں کا دہرم پر کھنے کے لئے اگر کسی کو زیادہ فرصت نہ ہو.تو ہمارے اسی اشتہار کے ذریعہ سے ساری کیفیت ان کی معلوم ہو سکتی ہے کہ کہاں تک وہ ایسی سچائی کے قبول کرنے کے لئے مستعد ہیں جس کا اقرار کرنے سے وہ کسی طرف بھاگ نہیں سکتے اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس سال اس عاجز نے قادیان کے ہندوؤں کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کر کے بعض الہامی پیشین گویوں کو بتلانے کا وعدہ کیا تھا انہیں دنوں میں یہ پیشگوئی جو اس اشتہار کے اخیر میں درج ہے بخوبی ان کو سنا کر اور قلم بند کر کے ان میں سے چار آدمیوں کے دستخط اس پر کرا دیئے تھے اور پیشگوئی کے ظہور کی میعاد اکتیس ماہ تک تھی اب جو ۱۸۸۸ء کا مہینہ آیا.جو حساب کی رو سے اکتیسواں مہینہ تھا تو ان بھلے مانسوں کی زہر ناک تعصب نے انہیں اس قدر صبر کرنے نہ دیا کہ مہینہ کے اخیر تک انتظار کرتے.بلکہ ابھی وہ اخیر مہینہ چڑھا ہی تھا کہ انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی غلط نکلی یعنی اب کیا ہے صرف چند روز باقی ہیں لیکن اُس قادر کی قدرت دیکھئے کہ کیسے اخیر پر اس نے الٹا کر مارا.اور کیسے ذلیل اور رسوا کیا کہ ابھی پندرہ دن اکتیسویں مہینے کے پورے ہونے باقی تھے کہ پیشگوئی پوری ہو گئی.افسوس یہ دل کے اندھے نہیں دیکھتے کہ ہر ایک پیشگوئی ہماری خدا تعالیٰ کیسے پوری کرتا جاتا ہے.سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خدا کی کچھ پروا ہی نہیں.
حیات احمد ۴۴۴ جلد دوم حصہ سوم اب جاننا چاہئے کہ وہ پیشگوئی جس کی اکتیس ماہ کی میعاد اور جس پر ہندؤں کی گواہیاں ثبت کرائی گئی تھیں.وہ ہمارے چا زاد بھائی مرزا امام الدین و نظام الدین کے اہل وعیال کی نسبت تھی.اور خدا تعالیٰ نے بذریعہ اپنے الہام کے اس عاجز پر ظاہر کیا تھا کہ مرزا امام الدین و نظام الدین کے عیال میں سے اکتیسویں ماہ کے پورے ہونے تک کوئی شخص فوت ہو جائے گا.چنانچہ عین اکتیسویں مہینے کے درمیان مرزا نظام کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہو گئی.اور آریوں کا شور وغوغا وہیں سرد ہو گیا.یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں کہ وہ ہمیشہ سچ کی حمایت کرتا ہے اور صادق کی پناہ ہوتا ہے اب ہم اس جگہ الہامی پیشگوئی کی وہ عبارت لکھ دیتے ہیں جس پر قادیان کے ہندوؤں کے دستخط ہیں.اور وہ یہ ہیں.مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک ان پر سخت مصیبت پڑے گی یعنی ان کے اہل وعیال و اولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہو جائے گا.جس سے ان کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا.آج ہی کی تاریخ کے حساب سے جو نئیس ساون سمت ۱۹۲ مطابق ۵/ اگست ۱۸۸۵ء ہے.یہ واقعہ ظہور میں آئے گا.مرقوم ۵/اگست ۱۸۸۵ء گواہ شد.پنڈت بھارامل ساکن قادیان بقلم خود گواہ شد.پنڈت بیجناتھ بقلم خود گواہ شد.بشند اس برہمن بقلم خود گواہ شد.جند اس کھتری بقلم خود بالآخر ہم امرتسر اور لاہور کے نامی آریہ صاحبوں کی خدمت میں التماس کرتے ہیں کہ ان بھلے مانسوں سے دریافت تو کریں کہ ہمارا یہ بیان سچ ہے یا نہیں؟ اور اگر سچ ہے تو پھر اسلام کی سچائی اور برکت سے انکار کرنا ہٹ دھرمی میں داخل ہے یا یہ بھی وید کی ہدایت کی رو سے دہرم کی ہی بات ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور - ۲۰ مارچ ۱۸۸۸ء ۲۶۲۲۰ ( مطبوعہ ریاض ہند امرتسر پنجاب) ید اشتهار تقطیع کلاں کے ایک صفحہ پر ہے) سلام تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۱۰۱ تا ۱۰۳ - مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۲۴، ۱۲۵ بار دوم )
حیات احمد ۴۴۵ (۶)۱۸۸۵ء جلد دوم حصہ سوم (الف) ” قریباً چودہ برس کا عرصہ گزرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میری اس بیوی کو چوتھا لڑکا پیدا ہوا ہے اور تین پہلے موجود ہیں اور یہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز دوشنبہ یعنی پیر ہوا ہے.اور جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا یعنی کوئی بھی نہیں تھا اور خواب میں دیکھا تھا کہ اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں.اور چاروں میری نظر کے سامنے موجود ہیں.اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے.اب جبکہ یہ لڑکا یعنی مبارک احمد پیدا ہوا تو وہ خواب بھول گیا.اور عقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا لیکن خدا کی قدرت کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کا سامان نہ ہو سکا اور ہر طرف سے حارج پیش آئے.ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا پھر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گزر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پیدا ہو گا اور اس کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا.تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدل ہو گیا کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیا.اور ہم سب زور لگا رہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو.مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اور عقیقہ پیر کو ہوا.یہ پیش گوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہو گا.انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک کہ چارلڑ کے پیدا ہوسکیں زندہ بھی رہیں.یہ خدا کے کام ہیں.مگر افسوس کہ ہماری قوم دیکھتی ہے.پھر آنکھ بند کر لیتی ہے.“ ( مکتوب مورخه ۲۷ / جون ۱۸۹۹ء بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۱۳۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ب) " عرصہ چوداں برس کا ہوا ایک خواب آئی تھی کہ چار لڑکے ہوں گے.اور چوتھے لڑکے کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا.“ از مکتوب بنام ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب.مورخہ ۲۶ جون )
حیات احمد ۴۴۶ جلد دوم حصہ سوم (۷) نومبر ۱۸۸۵ء ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو ۲۸ / نومبر ۱۸۸۵ء کے دن سے پہلے آئی ہے اس قدر شب شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اس کو بیان کرسکوں.مجھ کو یاد ہے کہ اس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا.کہ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى * سواس رمنی کو رَمْي شھب سے بہت مناسبت تھی.یہ مہب ثاقبہ کا تماشا جو ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیاء کی عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا.لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا.لیکن خدا وند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اس سے حظ اور لذت اٹھانے والا میں ہی تھا.میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں.اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا.جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہا ما ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے.اور پھر اُس کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا.جو حضرت مسیح کے ظہور کے وقت نکلا تھا.میرے دل میں ڈالا گیا.کہ یہ ستارہ بھی تیری صداقت کے لئے ایک دوسرا نشان ہے.“ ( آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۱۰ وااا حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۱۰۱۱۰) ترجمہ.جو کچھ تو نے چلایا یہ تو نے نہیں بلکہ خدا نے چلایا.( تذکرہ صفحہ ۳۵ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
حیات احمد ۴۴۷ جلد دوم حصہ سوم ۱۸۸۶ء کے حالات ۱۸۸۶ء کا سال عجیب و غریب واقعات اور سماوی تائیدات کا سال تھا اللہ تعالیٰ کی کھلی کھلی تائید اور نصرت آپ کے شامل حال نظر آتی ہے اور ہر میدان میں فتح و نصرت آپ کے قدم چومتی ہے اس سال کے سفر کا آغاز ہوشیار پور کے سفر سے ہوا.سفر ہوشیار پور میں ۱۸۸۴ء کے واقعات میں ذکر کر آیا ہوں کہ حضرت اقدس ایک سفر کسی ایسے مقام کے لئے کرنا چاہتے تھے جہاں کوئی آپ کو نہ جانتا ہو اور وہاں آپ چالیس دن تک خلوت میں دعا اور ذکر الہی کریں اور پھر یہ سفر مشیت ایزدی ہی کے ماتحت ملتوی ہو گیا اور علم الہی میں یہ سفر ۱۸۸۶ء میں مقرر تھا.اور اس کے لئے ہوشیار پور کو آپ نے منتخب کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی.غرض جو عزم آپ نے ۱۸۸۴ء میں کیا تھا خدا تعالیٰ نے اس کے لئے ۱۸۸۶ ء کا سال اپنے علم میں مقدر کیا ہوا تھا اور یہ سفر بجائے سو جان پور کی جانب کے ہوشیار پور کی طرف قرار پایا یہ سفر کسی دنیوی غرض و مقصد کو مد نظر رکھ کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ آپ کی غرض یہ تھی کہ وہاں گوشہ تنہائی میں ایک چلہ کریں تا کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں چہل روزہ خلوت کے جو برکات اور فیوض ہیں انہیں حاصل کریں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی روحانی ترقی کے لئے چالیس راتوں کا مجاہدہ قرآن مجید میں منقول ہے اور حضرت اقدس جن ایام میں براہین لکھ رہے تھے تو آپ کو خدا تعالیٰ نے موسیٰ عمران سے تشبیہ دی چنانچہ براہین کی چوتھی جلد کے آخر میں جو اعلان ” ہم اور ہماری کتاب“ کے عنوان سے لکھا گیا ہے اس میں آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اس
حیات احمد ۴۴۸ جلد دوم حصہ سوم کے قدرت الہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّي أَنَا رَبُّكَ کی آواز آئی.“ اور اس وحی میں جو آپ پر نازل ہوئی آپ کا نام موسیٰ بھی رکھا گیا ہے.القصہ یہ چالیس روزہ مجاہدہ کے لئے آغاز ۱۸۸۶ء کے ساتھ سفر ہوشیار پور کا ارادہ فرمایا.ہوشیار پور جانے کا خیال آپ نے اپنے نفس سے تجویز نہیں فرمایا تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی وحی خفی کے ماتحت تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ کے اس سفر کے بابرکت ہونے کی بشارت دی اور آپ نے ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء کو جو اشتہار ضمیمه اخبار ریاض ہندا امرتسر مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء کے طور پر چھپوا کر شائع کیا اس میں اس برکت کے وعدہ کی صراحت ہے تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لودہانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا.پس یہ سفر الہی ہدایت کے ماتحت تھا اور اس میں خدا تعالیٰ کی مشیت نے بہت بڑے اسرار ر کھے تھے.اس سفر کے لئے آپ شروع جنوری ۱۸۸۶ء میں قادیان سے روانہ ہوئے اس سفر میں آپ کے ہمراہ حافظ حامد علی صاحب ، منشی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہما اور میاں فتح خاں صاحب تھے حضرت نے یہ سفر قادیان سے خاموشی کے ساتھ کیا کسی کو معلوم نہ تھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں اور آپ نے اپنے رفقاء سفر کو یہ ہدایت کر دی تھی کہ وہ کسی سے ذکر نہ کریں یہ اسی لئے کہ اگر اس سفر کی شہرت ہو گئی تو احباب جمع ہو جائیں گے اور وہ اصل مقصد جو مجاہدہ چہل روزہ کا ہے فوت ہو جائے گا.چنانچہ اس مقصد کے لئے آپ جنوری ۱۸۸۶ء میں قادیان سے روانہ ہوئے.
حیات احمد ۴۴۹ جلد دوم حصہ سوم ہوشیار پورے کا قیام اور ہوشیار پور پہنچ کر شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم کے طویلہ میں آپ نے ایک بالا خانہ میں قیام فرمایا آپ بالا خانہ میں رہتے تھے اور صرف ضرورت کے وقت نیچے آتے تھے اور کسی کو اوپر جانے کی اجازت نہ تھی جب تک آپ کسی کو طلب نہ کریں.طویلے کے نیچے کے حصہ میں آپ لے حاشیہ.اس سفر میں حضرت منشی عبداللہ سنوری رضی اللہ عنہ ساتھ تھے انہوں نے جو حالات اس سفر کے بیان کئے ہیں وہ میں سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۸۸ سے یہاں درج کرتا ہوں.بسم الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جا کر کہیں چلہ کشی فرمائیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے.چنانچہ آپ نے ارادہ فرمایا کہ سو جان پور ضلع گورداسپور میں جا کر خلوت میں رہیں اور اس کے متعلق حضور نے ایک اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پوسٹ کارڈ بھی مجھے روانہ فرمایا.میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی اس سفر اور ہندوستان کے سفر میں حضور ساتھ رکھیں.حضور نے منظور فرما لیا.مگر پھر حضور کو سفر سو جان پور کے متعلق الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہو گی.چنانچہ آپ نے سو جان پور جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ہوشیار پور جانے کا ارادہ کر لیا.جب آپ ماہ جنوری ۱۸۸۶ء میں ہوشیار پور جانے لگے تو مجھے خط لکھ کر حضور نے قادیان بلا لیا.اور شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کو خط لکھا کہ میں دوماہ کے واسطے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیں جو شہر کے ایک کنارہ پر ہو اور اس میں بالا خانہ بھی ہو.شیخ مہرعلی نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نام سے مشہور تھا خالی کروا دیا.حضور پہلی میں بیٹھ کر دریا بیاس کے راستہ تشریف لے گئے.میں اور شیخ حامد علی اور فتح خاں ساتھ تھے میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے.کہ فتح خاں رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہو گیا.حضور جب دریا پر پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے رستے میں کچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اٹھا کر کشتی میں بٹھایا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا.دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضور نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں عبداللہ کامل کی صحبت اس سفر دریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہونے کا بھی اندیشہ ہے.میں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پر سنی مگر جب فتح خان مرتد ہوا تو مجھے حضرت اقدس کی یہ بات یاد آئی.خیر ہم راستہ میں فتح خان کے گاؤں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیار پور پہنچے.وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالا خانہ
حیات احمد ۴۵۰ جلد دوم حصہ سوم کے ہر سہ خدام جن کا میں نے ذکر کیا ہے قیام پذیر تھے.حضرت اقدس نے ہوشیار پور میں دو ماہ تک قیام کیا اور ۷ار مارچ ۱۸۸۶ء کو وہاں سے واپس ہوئے.بقیہ حاشیہ.میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرما دیئے.چنانچہ میرے سپر دکھانا پکانے کا کام ہوا.فتح خان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایا کرے.شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کر دیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں.ان چالیس دن کے گزرنے کے بعد میں یہاں بیس دن اور ٹھہروں گا.ان میں دنوں میں ملنے والے ملیں.دعوت کا اردہ رکھنے والے دعوت کر سکتے ہیں اور سوال و جواب کرنے والے سوال و جواب کر لیں.اور حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے.میں اگر کسی کو بلاؤں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آوے.میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جاوے مگر اس کا انتظار نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں.نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا.تم نیچے پڑھ لیا کرو.جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو.جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کر سکیں.چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نماز پڑھاتے تھے.اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں کھانا چھوڑ نے اوپر جایا کرتا تھا اور حضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا.ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے.اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہو جاویں چنانچہ میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ پسر موعود کے متعلق الہامات بھی اسی چلہ میں ہوئے تھے اور بعد چلہ کے ہوشیار پور سے ہی آپ نے اس پیشگوئی کا اعلان فرمایا تھا ( خاکسار عرض کرتا ہے ملاحظہ ہو اشتہار ۲۰؎ فروری ۱۸۸۶ء) جب چالیس دن گزر گئے تو پھر آپ حسب اعلان میں دن اور وہاں ٹھہرے ان دنوں میں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ مذہبی تبادلہ خیالات کے لئے آئے.اور باہر سے حضور کے پرانے
حیات احمد ۴۵۱ شیخ مہر علی اور حضرت اقدس کے تعلقات جلد دوم حصہ سوم شیخ مہر علی صاحب ہوشیار پور کے ایک ممتاز خاندان کے رکن تھے اس خاندان کے ساتھ حضرت اقدس کے خاندان کے دیرینہ تعلقات تھے.نواب امام الدین مرحوم کشمیر کے ایک باختیار حاکم تھے اور حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم جن ایام میں کشمیر میں تھے اس بقیہ حاشیہ.ملنے والے لوگ بھی مہمان آئے.انہی دنوں میں مرلی دھر سے آپ کا مباحثہ ہوا.جو سرمہ چشم آریہ میں درج ہے.جب دو مہینے کی مدت پوری ہو گئی تو حضرت صاحب واپس اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے.ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ سالگا ہوا تھا.وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کے لئے پہلی سے اتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں.اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہو گیا اور شیخ حامد علی اور فتح خان بہلی کے پاس رہے.آپ مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ” جب میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دو زانو ہوکر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کر لیتا.ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں.اور رنگ سانولا ہے.پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اس سے ان کے حالات پوچھیں.چنانچہ حضور نے مجاور سے دریافت کیا اس نے کہا میں نے ان کو خود نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سوسال گزر گیا ہے.ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ یہ اس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا.حضور نے پوچھا ان کا حلیہ کیا تھا؟ وہ کہنے لگا کہ سنا ہے سانولا رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں.پھر ہم وہاں سے روانہ ہو کر قادیان پہنچ گئے.خاکسار نے میاں عبداللہ صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت صاحب اس حکوت کے زمانہ میں کیا کرتے تھے اور کس طرح عبادت کرتے تھے؟ میاں عبداللہ صاحب نے جواب دیا کہ یہ ہم کو معلوم نہیں کیونکہ آپ اوپر بالاخانہ میں رہتے تھے.اور ہم کو اوپر جانے کا حکم نہیں تھا.کھانے وغیرہ کے لئے جب ہم اوپر جاتے تھے تو اجازت لے کر جاتے تھے.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دن جب میں کھانا رکھنے اوپر گیا تو حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے بُوْرِكَ مَنْ فِيْهَا وَمَنْ حَوْلَها اور حضور نے تشریح فرمائی کہ مَنْ فِيْهَا سے میں مراد ہوں اور مَنْ حَوْلَهَا سے تم لوگ مراد ہو.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ 66
حیات احمد ۴۵۲ جلد دوم حصہ سوم وقت سے ان کے ذاتی تعلقات تھے اور یوں بھی دونوں خاندان چونکہ ایک اعلیٰ امتیاز کے مالک تھے باہم مراسم تھے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے زمانہ تک نواب امام الدین کے خاندان کے ساتھ تعلقات محبت و یگانت برقرار تھے چنانچہ شیخ نصیر الدین صاحب مرحوم سے ایک قسم کا برادرانہ رنگ تھا اور ان کے بیٹے ریاض الدین صاحب کو بھی اپنے بچے ہی کی طرح سمجھتے تھے.غرض دونوں خاندانوں میں باہم مراسم تھے.اور شیخ مہر علی رئیس اعظم ہوشیار پور حضرت اقدس سے اخلاص و ارادت رکھتے تھے.علاوہ اس ارادت کے وہ حضرت کے خاندان کی عظمت اور شوکت سے واقف ہونے کے سبب سے بھی اپنا فخر سمجھتے تھے کہ حضرت صاحب ان کے مکان پر قیام کریں.حضرت نے ان کے مکان کو پسند کیا جہاں خلوت میسر تھی.ابتدائی تین دن کے بعد حضرت نے پسند فرمایا کہ اپنے کھانے پینے اور ضروریات کا انتظام خود کریں یہ قدرتی بات ہے کہ شیخ صاحب یہ پسند نہ کرتے تھے مگر حضرت کی مرضی اور منشاء کے خلاف کرنا بھی انہیں ناگوار تھا.اس قیام کے ایام میں دعوت کے موقعہ پر حضرت اپنے خدام کو اپنے ساتھ رکھتے اور ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تا کہ ان کے متعلق کسی شخص کو تحقیر کا خیال پیدا نہ ہو اپنے خدام کے ساتھ حضرت کا یہ سلوک آپ کی شان کو بلند کرنے والا تھا میں آپ کی سیرت میں اس پر لکھ چکا ہوں.بقیہ حاشیہ.میں تو سارا دن گھر میں رہتا تھا.صرف جمعہ کے دن حضور کے ساتھ ہی باہر جاتا تھا اور شیخ حامد علی بھی اکثر گھر میں رہتا تھا.لیکن فتح خان اکثر سارا دن ہی باہر رہتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے اغلب ہے کہ اس الہام کے وقت بھی وہ باہر ہی ہو.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ فتح خان ان دنوں میں اتنا معتقد تھا کہ ہمارے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ حضرت صاحب کو تو میں نبی سمجھتا ہوں.اور میں اس بات پر پرانے معروف عقیدہ کی بناء پر گھبراتا تھا میاں عبداللہ صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ ایک دفعہ میں کھانا چھوڑنے گیا تو حضور نے فرمایا کہ مجھے خدا اس طرح مخاطب کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ اگر میں ان میں سے کچھ تھوڑا سا بھی ظاہر کروں تو یہ جتنے معتقد نظر آتے ہیں سب پھر جاویں.“ سیرت المہدی جلد ۱ صفحه ۶۲ تا ۶۵ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۴۵۳ مجاہدہ چہل روزہ کے ثمرات جلد دوم حصہ سوم واقعات کی ترتیب اور تعلق سے معلوم ہوتا ہے کہ فروری ۱۸۸۶ء کے تیسرے ہفتہ کے زمانہ میں یہ مجاہدہ ختم ہو گیا تھا اس عرصہ میں آپ پر بشارات الہیہ کی تجلی ہوئی اور عظیم الشان بشارتیں آپ کو ملیں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ یہ مجاہدہ آپ نے رسالہ سراج منیر کے سلسلہ میں کیا ہے اس لئے کہ آپ اس رسالہ میں ان بشارات کو درج کرنا چاہتے تھے جو حضرت احدیت کی طرف سے پیشگوئیوں پر ر مشتمل ہوں.چنانچه ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء کو آپ نے ایک اشتہار ” رسالہ سراج منیر مشتمل بر نشان ہائے رت قدیر“ کے عنوان سے لکھا اور یکم مارچ ۱۸۸۶ء کو اخبار ریاض ہند امرتسر میں بطور ضمیمہ شائع کرایا.یہ اشتہار حضرت اقدس نے کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ دوبارہ ۱۸۹۳ء میں شائع کیا اور اس سے پہلے جدا گانہ بھی شائع ہوتا رہا.یہ اشتہار حقیقت میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے بمنزلہ ایک بنیادی پتھر کے ہے اور یہ سفر ہوشیار پور تاریخ سلسلہ کا دراصل پہلا باب ہے.ضمیمه اخبار ریاض ہند امرتسر مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است میری جان و دل محمد کے جمال پر فدا ہیں اور خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در هر مکان ندائے جلال محمد است میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا.ہر جگہ محمد کے جلال کا شہرہ ہے ایں چشمہ رواں کہ مخلق خدا دہم یک قطره ز بحر کمال محمد است معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں یہ محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے این آتشم ز آتش مہر محمدیست و ایس آب من ز آب زلال محمد است یہ میری آگ محمد کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میرا پانی محمد کے مصفا پانی میں سے لیا ہوا ہے
حیات احمد ۴۵۴ جلد دوم حصہ سوم رساله سراج منیر مشتمل بر نشا نہائے رب قدیر یہ رسالہ اس احقر ( مؤلف براہین احمدیہ ) نے اس غرض سے تالیف کرنا چاہا ہے کہ تا منکرین حقیت اسلام و مکذبین رسالت حضرت خیر الا نام علیہ وآلہ الف الف سلام کی آنکھوں کے آگے ایسا چمکتا ہوا چراغ رکھا جائے جس کی ہر سمت سے گوہر آبدار کی طرح روشنی نکل رہی ہے اور بڑی بڑی پیشگوئیوں پر جو ہنوز وقوع میں نہیں آئیں مشتمل ہے چنانچہ خود خداوند کریم جَلَّ شَانُهُ و عَزَّ اسْمُهُ نے جس کو پوشیدہ بھیدوں کی خبر ہے اس ناکارہ کو بعض اسرار مخفیہ و اخبار غیبیہ پر مطلع کر کے بار عظیم سے سبکدوش فرمایا حقیقت میں اُسی کا فضل ہے.اور اسی کا کام.جس نے چار طرفہ کشاکش مخالفوں و موافقوں سے اس ناچیز کو مخلصی بخشی کی قصہ کوتاه کرد ورنه درد سر بسیار بود اب یہ رسالہ قریب الاختتام ہے اور انشاء اللہ القدیر صرف چند ہفتوں کا کام ہے اور اس رسالہ میں تین قسم کی پیشگوئیاں ہیں.اوّل وہ پیشگوئیاں کہ جو خود اس احقر کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں یعنی جو کچھ راحت یا رنج یا وفات اس ناچیز سے متعلق ہے یا جو کچھ تفضلات و انعامات الہیہ کا وعدہ اِس ناچیز کو دیا گیا ہے وہ ان پیشگوئیوں میں مندرج ہے.دوسری وہ پیشگوئیاں جو بعض احباب یا عام طور پر کسی ایک شخص یا بنی نوع سے متعلق ہیں.اور ان میں سے ابھی کچھ کام باقی ہے.اور اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو وہ بقیہ بھی طے ہو جائے گا.تیسری وہ پیشگوئیاں جو مذہب غیر کے پیشواؤں یا واعظوں یا ممبران سے تعلق رکھتی ہیں.اور اس قسم میں ہم نے صرف بطور نمونہ چند آدمی آریہ صاحبوں اور چند قادیان کے ہندوؤں کو لیا ہے جن کی نسبت مختلف قسم کی پیشگوئیاں ہیں کیونکہ انہیں میں آج کل نئی نئی قسم کی تیزی اور انکار اشد پایا جاتا ہے اور ہمیں اس تقریب پر یہ بھی خیال ہے کہ خداوند کریم ہماری محسن گورنمنٹ انگلشیہ کو جس کے احسانات سے ہم کو بہ تمام تر فراغت و آزادی گوشه خلوت میسر و گنج امن و آسائش حاصل ہے ظالموں کے ہاتھ سے اپنی حفظ وحمایت میں رکھے.اور روس منحوس کو اپنی سرگردانیوں میں محبوس و معکوس و مبتلا کر کے ہماری گورنمنٹ کو فتح و نصرت نصیب کرے تا ہم وہ بشارتیں بھی (اگر مل جائیں ) اس عمدہ موقع پر
حیات احمد ۴۵۵ جلد دوم حصہ سوم درج رسالہ کر دیں.انشاء اللہ تعالیٰ اور چونکہ پیشگوئیاں کوئی اختیاری بات نہیں ہے تا ہمیشہ اور ہر حال میں خوشخبری پر دلالت کریں.اس لئے ہم با عکسار تمام موافقین و مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی پیشگوئی کو اپنی نسبت نا گوار طبع ( جیسے خبر موت فوت یا کسی اور مصیبت کی نسبت ) پاویں تو اس بندہ ناچیز کو معذور تصویر فرما دیں.بالخصوص وہ صاحب جو باعث مخالفت و مغائرت مذہب اور بوجہ نامحرم ہونے کے حُسنِ ظن کی طرف ہمشکل رجوع کر سکتے ہیں.جیسے منشی اندرمن صاحب مراد آبادی و پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری وغیرہ جن کی قضا و قدر کے متعلق غالباً اس رسالے میں بقید وقت و تاریخ کچھ تحریر ہو گا.اُن صاحبوں کی خدمت میں دلی صدق سے ہم گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں فی الحقیقت کسی کی بدخواہی دل میں نہیں بلکہ ہمارا خدا وند کریم خوب جانتا ہے کہ ہم سب کی بھلائی چاہتے ہیں اور بدی کی جگہ نیکی کرنے کو مستعد ہیں.اور بنی نوع کی ہمدردی سے ہمارا سینہ منور و معمور ہے اور سب کے لئے ہم راحت و عافیت کے خواستگار ہیں.لیکن جو بات کسی موافق یا مخالف کی نسبت یا خود ہماری نسبت کچھ رنج دہ ہو تو ہم اس میں بکتی مجبور معذور ہیں.ہاں ایسی بات کے دروغ نکلنے کے بعد جو کسی کے دل کے دُکھنے کا موجب ٹھہرے ہم سخت لعن وطعن کے لائق بلکہ سزا کے مستوجب ٹھہریں گے ہم قسمیہ بیان کرتے ہیں.اور عالم الغیب کو گواہ رکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ سراسر نیک نیتی سے بھرا ہوا ہے اور ہمیں کسی فرد بشر سے عداوت نہیں.اور کوئی بدظنی کی راہ سے کیسی ہی بدگوئی و بدزبانی کی مشق کر رہا ہے.اور ناخدا ترسی سے ہمیں آزار دے رہا ہے ہم پھر بھی اس کے حق میں دعا ہی کرتے ہیں کہ اے خدائے قادر و توانا اس کو سمجھ بخش اور اس کو اُس کے ناپاک خیال اور نا گفتنی باتوں میں معذور سمجھتے ہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابھی اس کا مادہ ایسا ہے اور ہنوز اس کی سمجھ اور نظر اسی قدر ہے کہ جو حقائق عالیہ تک نہیں پہنچ سکتی.در زاهد ظاہر پرست از حال ما آگاه نیسی حق ما ہرچہ گوید جائے بیچ اکراه نیست ا ترجمہ کوئی ظاہر پرست زاہد ہمارے حال سے واقف نہیں ہوسکتا.اس لئے وہ ہمارے متعلق جو کچھ بھی کہے بُرا منانے کی کوئی وجہ نہیں.
حیات احمد ۴۵۶ جلد دوم حصہ سوم اور باوجود اس رحمتِ عام کے کہ جو فطرتی طور پر خدائے بزرگ و برتر نے ہمارے وجود میں رکھی ہے.اگر کسی کی نسبت کوئی بات نا ملائم یا کوئی پیشگوئی وحشت ناک بذریعہ الہام ہم پر ظاہر ہو تو وہ عالم مجبوری ہے جس کو ہم غم سے بھری ہوئی طبیعت کے ساتھ اپنے رسالہ میں تحریر کریں گے.چنانچہ ہم پر خود اپنی نسبت، اپنے بعض جدی اقارب کی نسبت، اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں.اور ایک دیسی امیر نو وارد پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلا اور کسی کی موت وفوت اعزہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی.منجانب اللہ منکشف ہوئیں ہیں اور ہر ایک کے لئے ہم دعا کرتے ہیں.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر تقدیر معلق ہو تو دعاؤں سے بفضلہ تعالیٰ مل سکتی ہے.اسی لئے رجوع کرنے والی مصیبتوں کے وقت مقبولوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور شوخیوں اور بے راہیوں سے باز آ جاتے ہیں.باایں ہمہ اگر کسی صاحب پر کوئی پیشگوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ ۱۸۸Yء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو.ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھے کو اطلاع دیں.تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے اور موجب دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جائے اور کسی کو اس کے وقتِ ظہور سے خبر نہ دی جاوے.ان ہر سہ قسم کی پیشگوئیوں میں سے جو انشاء اللہ رسالہ میں بہ بسط تمام درج ہوں گی.پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق آج ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء جو مطابق ۱۵؍ جمادی الاوّل ہے.برعایت ایجاز و اختصار کلمات الہامیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے.اور مفصل رسالہ میں مندرج ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عز و جل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے.(جَلَّ شَانُهُ وَ عَزَّ اِسْمُهُ ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں.اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا.سومیں نے تیری تضرعات
حیات احمد ۴۵۷ جلد دوم حصہ سوم کوسنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو ( جو ہوشیار پور اور لود ہیانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں.اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو.اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے.اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں.جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں.اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے.اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک ذکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے.جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا.اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے.دو شنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا ٹور آتا ہے نُور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اُس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا
حیات احمد ۴۵۸ جلد دوم حصہ سوم وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا.اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا - پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا.اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی.اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا.اور برکت دوں گا.مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے.اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی.اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہو جائے گی اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا نازل کرے گا.یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے.ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے.اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا.لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا.اور ایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا.ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا.تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخر دنوں تک سرسبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا.اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا.اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے.اور نا کامی اور نامرادی میں مریں گے.لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا.اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا.اور ان میں کثرت بخشوں گا.اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے.جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا.اور فراموش نہیں کرے گا اور علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے.تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء
حیات احمد ۴۵۹ جلد دوم حصہ سوم بنی اسرائیل.( یعنی ظلمی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے).تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید.تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں.اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا با دشا ہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا.یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکر دو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہوا اگر تمہیں اُس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو.اور اگر تم پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.فقط ـرّاق خاکسار غلام احمد مؤلف براہین احمدیہ ہوشیار پور.طویلہ شیخ مہر علی صاحب رئیس ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ( مطبوعه بار دوم ریاض ہند پر لیس قادیان ۱۸۹۳ء) تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۵۵ تا ۶۲ - مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۹۳ تا ۹۷.بار دوم ) اس اشتہار کا اثر اس اشتہار کی اشاعت نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیا اور لوگ اس رسالہ کی اشاعت کے لئے چشم براہ ہو گئے خدا تعالیٰ کی مشیت نے اس رسالہ کی اشاعت کو ایک لمبے عرصہ کے لئے اپنے مصالح کے ماتحت ملتوی کر دیا یہاں اس رسالہ کے متعلق بحث مقصود نہیں بلکہ صرف حمد امتی کا کمال یہی ہے کہ اپنے نبی متبوع سے بلکہ تمام انبیائے متبوعین علیہم السلام سے مشابہت پیدا کرے یہی کامل اتباع کی حقیقت اور علت غائی ہے جس کے لئے سورہ فاتحہ میں دعا کرنے کے لئے ہم لوگ مامور ہیں بلکہ یہی انسان کی فطرت میں تقاضا پایا جاتا ہے.اور اسی وجہ سے مسلمان لوگ اپنی اولاد کے نام بطور تفاؤل.عیسی ، داؤد، موسیٰ، یعقوب ، محمد وغیرہ انبیاء علیہم السلام کے نام پر رکھتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ تا وہی اخلاق و برکات بطور ظلّ اُن میں بھی پیدا ہو جا ئیں.فَتَدَبَّرْ - منه١٢
حیات احمد ۴۶۰ جلد دوم حصہ سوم یہ بیان کرنا ہے کہ اس اشتہار نے ان لوگوں پر کیا اثر کیا جن کے متعلق صراحت سے ذکر کیا گیا تھا اس اشتہار میں آپ نے صراحتا بلا تاویل پنڈت اندر من مراد آبادی اور پنڈتے لیکھر ام پیشاوری کا نام لے کر ان کی قضا و قدر کے متعلق بقید وقت و تاریخ تحریر کرنے کا اعلان کیا تھا.اور اپنی نسبت ☆ اپنے بعض جدی اقارب کی نسبت اپنے بعض دوستوں کی نسبت بلا اظہار نام بعض پیشگوئیوں کے معلوم ہونے کا ذکر فرمایا اور کنايةَ الْكِنَايَةُ ابْلَغُ مِنَ الصَّرَاحَةِ کے رنگ میں سرسید احمد خاں رمہاراجہ دلیپ سنگھ کے متعلق بعض متوحش خبریں بھی آپ کو معلوم ہو چکی تھیں.اگر چہ آخری دونوں صاحبوں کا نام کنایۃ لیا گیا ہے.مگر فوراہر ایک آدمی اسے سمجھ لیتا ہے.جیسا کہ اس اشتہار میں درج ہے کہ آپ نے دو ہفتہ کی میعاد دے دی تھی اگر کوئی صاحب اپنے قضا و قدر کے متعلق کسی کو پیشگوئی کا اندراج شاق ہو تو وہ اطلاع دے دیں تا کہ درج رسالہ نہ کی جاوے لیکن اس اعلان کے بعد اندرمن نے تو اعتراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا.لیکن پنڈت لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ لکھا کہ ”میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں میرے حق میں جو چاہو شائع کرو میری طرف سے اجازت ہے اور میں کچھ خوف نہیں کرتا سرسید نے خاموشی اختیار کی اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کو کوئی موقعہ نہ تھا.حضرت اقدس نے دلیپ سنگھ کے متعلق پیشگوئی کو عام طور پر کھول کر بھی بیان کر دیا تھا چنانچہ آپ نے اشتہار محک اخیار و اشرار مشمولہ سرمه چشم آریہ میں تحدی کے ساتھ اعلان کیا.” دیکھو ہم نے ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء کو جو پیشگوئی اجمالی طور پر لکھی تھی ایک امیر نووارد پنجابی الاصل کو کچھ ابتلا در پیش ہے.کیسی وہ سچی نکلی.ہم نے صد ہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلا دیا تھا کہ اس پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے جس کی پنجاب میں آنے کی خبر مشہور ہورہی ہے لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ نا کام رہے گا بلکہ اس سفر میں اس کی عزت.آسائش یا جان کا خطرہ ہے یہ پیشگوئی ایسے وقت میں لکھی گئی اور عام طور پر بتلائی گئی تھی.یعنی یا ترجمہ.اشارہ میں بات کرنا صراحت سے بات کرنے سے زیادہ بلیغ ہے.
حیات احمد ۴۶۱ جلد دوم حصہ سوم ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو جبکہ اس ابتلا کا کوئی اثر ونشان ظاہر نہ تھا.بالآخر اُس کو مطابق اسی پیشگوئی کے بہت ہرج اور تکلیف اور سبکی اور خجالت اٹھانی پڑی.اور اپنے مدعا سے محروم رہا.“ تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۹۰ - مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۳ اطبع دوم ) اسی طرح سرسید اور اپنے جدی اقارب کے متعلق جو پیشگوئیاں بعد میں بصراحت شائع ہوئیں.اپنے وقت پر پوری ہوئیں.میں انہیں اپنے محل پر بیان کروں گا.وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ - اور خود حضرت کی کتب میں ان کی تصریحات ہو بھی ہو چکی ہیں.پنڈت لیکھرام کے متعلق باوجود یکہ حضرت نے پیشگوئی شائع کی اور وہ پوری ہوئی.افسوس ہے کہ اس پیشگوئی کے متعلق جو خط و کتابت تھی وہ قتل لیکھرام کے بعد جب حضرت کی تلاشی ہوئی پولیس لے گئی.مگر حضرت نے اپنی تصنیفات میں اس کے اقتباس اور حوالہ جات دے دیئے ہوئے ہیں فی الجملہ یہ سفر ہوشیار پور اور حضرت کا مجاہدہ چہل روزہ اور اس کے بعد اشتہار تاریخ سلسلہ کا ایک شاندار اور پہلا باب ہے.آریہ سماج سے پہلا مباحثہ ہوشیار پور کے اس سفر میں جب آپ نے چہل روزہ عبادت وخلوت کو ختم کیا تو عوام کو بھی ملاقات کا موقعہ دیا جیسا کہ پہلے سے اعلان کر دیا گیا تھا ان ایام میں آریہ سماج اپنے پر چار میں بہت سرگرم تھا.ہوشیار پور کی آریہ سماج کے رکن رکین ماسٹر مرلی دھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر گورنمنٹ سکول تھے خاکسار ( عرفانی الکبیر ) کو ماسٹر مرلی دھر سے ذاتی اور بے تکلف ملاقات کا موقعہ ملا ہے.اس لئے کہ وہ ۱۸۹۱ ۱۸۹۲ء میں لاہور کے ماڈل سکول میں تبدیل ہو کر آ گئے تھے اور عرفانی ماڈل سکول کی آخری کلاس کا ایک طالب علم تھا.اس زمانہ میں ماڈل سکول میں ماسٹر چند ولال مشہور عیسائی اور پنڈت بہا نورث مشہور سناتن دھرمی لیڈر اور ماسٹر مرلی دھر آریہ سماجی اور مولوی خلیفہ حمید الدین صاحب حمایت اسلام کے صدر اور لا ہور اور پنجاب کے ممتاز عالم ایک جگہ جمع تھے اور ہر ایک سے مجھے گفتگوؤں کا موقع ملتا.اس زمانہ کے احباب میں سے حضرت مرزا ناصر علی صاحب رضی اللہ عنہ شریک جماعت اور ان کے بھائی بھی.بہر حال ماسٹر صاحب سے
حیات احمد ۴۶۲ جلد دوم حصہ سوم سکول میں بھی اور سکول سے باہر بھی حتی کہ آریہ سماج و چھوالی کے سالانہ جلسہ پر جن میں پنڈت لیکھرام بھی ہوتے تھے مذاکرات مذہبی کا سلسلہ جاری رہتا تھا میں نے ماسٹر صاحب سے حضرت صاحب کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے صرف اس قدر کہا کہ ” مرزا صاحب غیر معمولی علم رکھتے ہیں میں نے علمائے اسلام میں وہ چیز نہیں دیکھی جو اُن میں ہے“.یہ آریہ سماج سے بالمشافہ اور مجلس مناظرہ میں پہلا مناظرہ تھا اس سے پہلے گو قلمی جنگ جاری تھا جس کا ذکر حیات احمد پہلی جلد میں آچکا ہے اس کے بعد آریہ سماج پر اتمام حجت کا دوسرا دور شروع ہو گیا جو انوار و برکات کے چینج کی صورت میں تھا.میں اس مباحثہ کے متعلق کچھ زیادہ تفصیل سے لکھنا غیر ضروری سمجھتا ہوں حضرت اقدس نے اس مباحثہ کو سُرمہ چشم آریہ کے نام سے شائع کر دیا ہے.اس کتاب کے پڑھنے والے تفصیل سے وہاں پڑھیں.یہاں صرف اس روئیداد کے متعلق اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ کسی شخص کو یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ یکطرفہ یہ روئیداد شائع ہوئی بلکہ ماسٹر مرلی دہر صاحب کو بھیجی گئی.اور وہ اس کے بعد عرصہ دراز تک زندہ رہے انہیں کبھی حوصلہ نہ ہوا کہ اس کی تردید کریں میں نے خود ماسٹر مرلی دہر صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے یہ جواب دیا کہ واقعات درست ہیں نتائج اپنے طرز پر مرزا صاحب نے پیدا کر لئے ہیں اور ہر شخص پڑھ کر رائے قائم کر سکتا ہے.میں نے عرض کیا کہ نتائج ان واقعات سے وہی پیدا ہوتے ہیں.تو کہا کہ اپنا اپنا خیال ہے.میں نے کہا کہ آپ تردید کریں تو کہا ضرورت نہیں.یہ اسی گفتگو کا مفہوم اور خلاصہ ہے جو میں نے مباحثہ ہوشیار پور کے متعلق ان سے کی تھی.
حیات احمد ۴۶۳ جلد دوم حصہ سوم روئیداد مباحثہ ہوشیار پور ما بین حضرت اقدس و ماسٹر مرلی دھر صاحب وو ڈرائنگ ماسٹر یہ مباحثہ اار مارچ ۱۸۸۶ء کو بوقت شب اور ۱۴ مارچ ۱۸۸۶ء کو بوقت دن ہوا.اور حضرت اقدس ہی کے فرودگاہ پر ہوا.حضرت اقدس نے اس روئیداد کے متعلق حسب ذیل تحریر فرمایا ہے.یہ عاجز مؤلف کتاب براہین احمدیہ خدمت میں طالبین حق کے گزارش کرتا ہے کہ مارچ ۱۸۸۶ء کے مہینے میں جبکہ یہ عاجز بمقام ہوشیار پور مقیم تھا.لالہ مرلی دھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر سے جو آریہ سماج ہوشیار پور کے ایک اعلیٰ درجہ کے رکن اور مدارالمہام ہیں مباحثہ مذہبی کا اتفاق ہوا.وجہ اس کی یہ ہوئی کہ ماسٹر صاحب موصوف نے خود آ کر درخواست کی کہ تعلیم اسلام پر میرے چند سوالات ہیں اور چاہتا ہوں کہ پیش کروں چونکہ یہ عاجز ایک زمانہ دراز کی تحقیق اور تدقیق کی رو سے خوب جانتا ہے کہ عقائد حقہ اسلام پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا اور جس کسی بات کو کوئی کو نہ اندیش مخالف اعتراض کی صورت میں دیکھتا ہے وہ در حقیقت ایک بھاری درجہ کی صداقت اور ایک عالی مرتبہ کی حکمت ہوتی ہے.یہ اس کی نظر بیمار سے چھپی رہتی ہے اس لئے باوجود شدت کم فرصتی میں نے مناسب سمجھا کہ ماسٹر صاحب کو ان کے اعتراضات کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے مدد دوں اور بطور نمونہ ان کو دکھلاؤں کہ وید اور قرآن شریف میں سے کونسی کتاب اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت اور شوکت اور شان کے مطابق ہے اور کس کتاب پر بچے اور واقعی اعتراضات وارد ہوتے ہیں سو اس غرض سے ماسٹر صاحب کو کہا گیا کہ اگر آپ کو مذہبی بحث کا کچھ شوق ہے تو ہمیں بسر و چشم منظور ہے لیکن مناسب ہے کہ دونوں فریق کے اصول کی حقیقت کھولنے کی غرض سے ہر دو فریق کی طرف سے سوالات پیش ہوں تا کوئی شخص جو ان سوالات و جوابات کو پڑھے اس کو دونوں مذہبوں کے جانچنے اور پر کھنے کے لئے موقعہ مل سکے چنانچہ بمنظوری جانبین اسی التزام سے بحث شروع ہوئی اول گیاراں مارچ ۱۸۸۶ء کی رات میں اس عاجز کے مکان فرودگاہ پر ماسٹر صاحب کی طرف سے ایک تحریری اعتراض شق القمر کے بارہ میں پیش ہوا اور پھر چودھویں مارچ ۱۸۸Yء کے دن میں اِس عاجز کی طرف.
حیات احمد ۴۶۴ جلد دوم حصہ سوم سے آریہ صاحبوں کے اس اصول پر اعتراض پیش ہوا کہ پر میشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی اور نہ وہ کسی روح کو خواہ کوئی کیسا ہی راستباز اور وفادار اور سچا پرستار ہو ہمیشہ کے لئے جنم مرن کے عذاب سے نجات بخشے گا.ان دونوں بحثوں کے وقت یہ بات طے ہو چکی تھی کہ جواب الجواب کے جواب تک بحث ختم ہو اس سے پہلے نہ ہو لیکن ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ ماسٹر صاحب نے شرائط قرار یافتہ کو کچھ لوظ نہ رکھا.پہلے جلسہ میں جو گیاراں مارچ ۱۸۸Yء کو بوقت شب ہوا تھا ان کی طرف سے یہ نا انصافی ہوئی کہ جب جواب الجواب کے جواب کا وقت آیا جس کی تحریر کے لئے وہ آپ ہی فرما چکے تھے تو ماسٹر صاحب نے رات بڑی چلے جانے کا عذر پیش کیا ہر چند اس عاجز اور اکثر حاضرین نے سمجھایا کہ اے ماسٹر صاحب ابھی رات کچھ ایسی بڑی نہیں گئی ہم سب پر رات کا برابر اثر ہے مگر اقرار کے برخلاف کرنا اچھی بات نہیں جواب ضرور تحریر ہونا چاہئے لیکن وہ کچھ بھی ملتفت نہ ہوئے آخر بمواجہ تمام حاضرین کہا گیا کہ یہ جواب تحریر ہونے سے رہ نہیں سکتا.اگر آپ اس وقت اس کو ٹالنا چاہتے ہیں تو بالضرور اپنے طور پر رسالہ کے ساتھ شامل کیا جائے گا.چنانچہ انہوں نے طوعاً و کرہاً بطور خود لکھا جانا تسلیم کیا پر اسی جلسہ میں وہ تحریر ہو کر پیش ہونا ان کو بہت ناگوار معلوم ہوا جس کی وجہ سے وہ بلا توقف اٹھ کر چلے گئے بات یہ تھی کہ ماسٹر صاحب کو یہ فکر پڑی کہ اگر اس وقت جواب الجواب کا جواب پیش ہوا تو خدا جانے مجھے کیا کیا ندامتیں اٹھانی پڑیں گی غرض یہ جلسہ تو اس طور پر ختم ہو اور اس کے تمام واقعات جو اس مضمون میں مندرج ہیں ان کی شہادت حاضرین جلسہ جن کے نام حاشیہ میں درج ہیں دے سکتے ہیں.ہمیں کا حاشیہ.حاضرین جلسہ بحث گیاراں مارچ کے نام یہ ہیں.میاں شتر و گہن صاحب پسر کلاں راجه رو درسین صاحب والی ریاست سوکیت حال وارد ہوشیار پور.میاں شتر نجمی صاحب پسر خورد راجہ صاحب موصوف.میاں جنمی جی صاحب پسر خورد راجہ صاحب.بابومولراج صاحب نقل نو لیں.لالہ رام کچھمن صاحب ہیڈ ماسٹر لودھیانہ.بابو ہرکشن داس صاحب سیکنڈ ماسٹر ہوشیار پور.اس جگہ مگر لکھا جاتا ہے کہ میاں شتر و گہن صاحب نے کئی بار ماسٹر صاحب کی خدمت میں التجا کی کہ آپ جواب الجوب کا جواب لکھنے دیں ہم لوگ بخوشی بیٹھیں گے ہمیں کسی نوع سے تکلیف نہیں بلکہ ہمیں جواب سننے کا شوق ہے ایسا ہی کئی ہندو صاحبوں نے یہ منشا ظاہر کیا مگر ماسٹر صاحب نے کچھ ایسی مصلحت سوچی کہ کسی بات کو نہ مانا اور اٹھ کر چلے گئے.مؤلف
حیات احمد ۴۶۵ جلد دوم حصہ سوم اب دوسرا جلسہ جو چودہویں مارچ ۸۶ء میں دن کے وقت شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار پور کے مکان پر ہوا اس کی بھی کیفیت سینیے.اوّل حسب قرار داد اِس عاجز کی طرف سے ایک تحریری اعتراض پیش ہوا جس کا مطلب یہ تھا کہ خدائے تعالیٰ کی خالقیت سے انکار کرنا اور پھر اُسی کے التزام سے جاودانی نجات سے منکر رہنا جو آریہ سماج والوں کا اصول ہے اس سے خدائے تعالیٰ کی توحید و رحمت دونوں دور ہوتی ہیں.جب یہ اعتراض جلسہ عام میں سنایا گیا تو ماسٹر صاحب پر ایک عجیب حالت طاری ہوئی جس کی کیفیت کو ماسٹر صاحب ہی کا جی جانتا ہوگا اور نیز وہ سب لوگ جو فہیم اور زیرک حاضر جلسہ تھے معلوم کر گئے ہوں گے.ماسٹر صاحب کو اُس وقت کچھ بھی سوجھتا نہیں تھا کہ اس کا کیا جواب دیں سونا چار حیلہ جوئی کی غرض سے گھنٹہ سوا گھنٹہ کے عرصہ تک یہی عذر پیش کرتے رہے کہ یہ سوال ایک نہیں ہے بلکہ دو ہیں تو اس کے جواب میں عرض کر دیا گیا کہ حقیقت میں سوال ایک ہی ہے یعنی خدائے تعالیٰ کی خالقیت سے انکار کرنا اور مکتی میعادی اُسی خراب اصول کا ایک بداثر ہے جو اُس سے الگ نہیں ہوسکتا اس جہت سے دونوں ٹکڑے سوال کے حقیقت میں ایک ہی ہیں کیونکہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی خالقیت سے منکر ہوگا اس کے لئے ممکن نہیں کہ ہمیشہ کی نجات کا اقرار کر سکے سو انکار خالقیت اور انکار نجات جاودانی با ہم لازم و ملزوم ہے اور ایک دوسرے سے پیدا ہوتا ہے سو در حقیقت جو شخص یہ ثابت کرنا چاہے کہ خدائے تعالیٰ کے رب العالمین اور خالق ہونے میں کچھ حرج نہیں اس کو یہ ثابت کرنا بھی لازم آ جائے گا کہ خدائے تعالیٰ کے کامل بندوں کا ہمیشہ جنم مرن کے عذاب میں مبتلا رہنا اور کبھی دائمی نجات نہ پانا یہ بھی کچھ مضائقہ کی بات نہیں.غرض بعد بہت سے سمجھانے کے پھر ماسٹر صاحب کچھ سمجھے اور جواب لکھنا شروع کیا اور تین گھنٹہ تک بہت سے وقت اور غم و غصہ کے بعد ایک ٹکرہ سوال کا جواب قلم بند کر کے سنایا اور دوسرے ٹکرہ کی بابت جو کتی کے بارہ میں تھا یہ جواب دیا کہ اس کا جواب ہم اپنے مکان پر جا کر لکھ کر بھیج دیں گے چنانچہ اس طرف سے ایسا جواب لینے سے انکار ہوا اور عرض کر دیا گیا کہ آپ نے جو کچھ لکھنا ہے اسی جلسہ میں حاضرین کے روبر و تحریر کریں
حیات احمد ۴۶۶ جلد دوم حصہ سوم اگر گھر میں بیٹھ کر لکھنا تھا تو پھر اس جلسہ بحث کی ضرورت ہی کیا تھی مگر ماسٹر صاحب نے نہ مانا اور کیونکر مانتے اُن کی تو اُس وقت حالت ہی اور ہو رہی تھی.اب قصہ کوتاہ یہ کہ جب کسی طور سے ماسٹر صاحب نے لکھنا منظور نہ کیا تو نا چار پھر یہ کہا گیا کہ جس قدر آپ نے لکھا ہے وہی ہم کو دیں تا اُس کا ہم جواب الجواب لکھیں تو اس کے جواب میں انہوں نے بیان کیا کہ اب ہماری سماج کا وقت ہے اب ہم بیٹھ نہیں سکتے.ناچار جب وہ جانے کے لئے مستعد ہوئے تو اُن کو کہا گیا کہ آپ نے یہ اچھا نہیں کیا کہ جو کچھ باہم عہد ہو چکا تھا اُس کو توڑ دیا نہ آپ پورا جواب لکھا اور نہ ہمیں اب جواب الجواب لکھنے دیتے ہیں.خیر بدرجۂ ناچاری یہ جواب الجواب بھی بطور خود تحریر کر کے رسالہ کے ساتھ شامل کیا جائے گا.چنانچہ یہ بات سنتے ہی ماسٹر صاحب معہ اپنے رفیقوں کے اٹھ کر چلے گئے اور حاضرین جلسہ جن کے نام حاشیہ میں درج ہیں بخوبی معلوم کر گئے کہ ماسٹر صاحب کی یہ تمام کاروائی گریز اور کنارہ کشی کے لئے ایک بہانہ تھی.م اب ہم قبل اس کے کہ ماسٹر صاحب کا پہلا سوال جوشق القمر کے بارہ میں ہے تحریر کریں صفائی بیان کے لئے ایک مقدمہ لکھتے ہیں.یہ مقدمہ درحقیقت اسی مضمون کا ایک حصہ ہے جس کو ہم نے جلسہ بحث گیارہویں مارچ ۱۸۸۶ء میں ماسٹر صاحب کے جواب الجواب کے رڈ میں حاشیہ.نام حاضرین جلسہ جو ماسٹر صاحب کی بیجا کا روائی کے گواہ ہیں شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار پور.مولوی الہی بخش صاحب وکیل ہوشیار پور.ڈاکٹر مصطفی علی صاحب.بابو احمد حسین صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ہوشیار پور.میاں عبداللہ صاحب حکیم.میاں شہاب الدین صاحب دفعدار.لالہ نرائن داس صاحب وکیل.پنڈت جگن ناتھ صاحب وکیل.لالہ رام کچھمن صاحب ہیڈ ماسٹر لودھیانہ.بابو ہرکشن داس صاحب سیکنڈ ماسٹر.لالہ گنیش داس صاحب وکیل.لالہ سیتا رام صاحب مہاجن.میاں شتر و گهن صاحب پسر کلاں راجہ صاحب سوکیت.میاں شترن جی صاحب پسر خورد راجہ صاحب موصوف.منشی گلاب سنگھ صاحب سرشتہ دار.مولوی غلام رسول صاحب مدرس.مولوی فتح الدین صاحب مدرس.ان تمام حاضرین کے روبرو لالہ مرلی دھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر نے ہر ایک بات میں نا انصافی کی.اس عاجز نے اپنا اعتراض ایک گھنٹہ کے قریب سنا دیا تھا مگر انہوں نے تین گھنٹہ تک وقت
حیات احمد ۴۶۷ جلد دوم حصہ سوم لکھنا چاہا تھا مگر بوجہ عہد شکنی ماسٹر صاحب اور چلے جانے ان کے اور برخاست ہو جانے جلسہ بحث کے لکھ نہ سکے ناچار حسب وعدہ اب لکھنا پڑا.سو کچھ اس میں اس جگہ اور کچھ جیسا کہ مناسب محل و ترتیب ہوگا بعد میں لکھیں گے.وَمَا تَوْفِيقِی اِلَّا بِاللهِ هُوَ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ سرمه چشم آریہ صفحه ۴ تا ۱۱.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۵۲ تا ۵۹ ) یہ مباحثہ آریہ سماج پر غیر فانی حجت ثابت ہوا یوں تو آریہ سماج کے ساتھ حضرت اقدس ایک عرصہ سے قلمی جنگ میں مصروف تھے جیسا کہ حضرت کی سوانح حیات کی پہلی جلد میں ذکر آچکا ہے اور ایک چھوٹا سا مباحثہ بھی بمقام قادیان پنڈت کھڑک سنگھ سے ہو چکا تھا.پنڈت لیکھر ام قادیان میں آیا مگر اس نے اپنے وقت کو خط وکتابت ہی میں کھویا ماسٹر مرلی دھر صاحب میدان میں آئے مباحثہ میں ان کی کیا حالت بقیہ حاشیہ.لیا اور پھر بھی اعتراض کا ایک ٹکڑہ چھوڑ گئے اصل منشا ان کا یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی طرح دن گزر جائے اور اس بلا سے نجات پائیں مگر دن ان کا دشمن ابھی تیسرے حصہ کے قریب سر پر کھڑا تھا اور واضح رہے کہ ماسٹر صاحب کا یہ عذر کہ اب ہماری سماج کا وقت آ گیا ہے باکل عبث اور کچا بہا نہ تھا.اوّل تو ماسٹر صاحب نے پہلے کوئی ایسی شرط نہیں کی تھی کہ جب سماج کا وقت ہوگا تو بحث کو درمیان میں چھوڑ کر چلے جائیں گے ماسوائے اس کے یہ تو دین کا کام تھا اور جن لوگوں نے سماج میں حاضر ہونا تھا وہ تو سب موجود تھے بلکہ بہت سے ہندو اور مسلمان اپنا اپنا کام چھوڑ کر اسی غرض سے حاضر تھے اور تمام صحن مکان کا حاضرین سے بھرا ہوا تھا سو اگر ماسٹر صاحب کی نیت میں فرق نہ ہوتا تو اسی جلسہ عظیمہ کو جو صد ہا آدمیوں کا مجمع تھا سماج سمجھا ہو تا علت غائی سماجوں کی لیکچر وغیرہ ہی ہوا کرتی تھی سو وہ تو اس جگہ ایسی میسر تھی کہ جو سماج میں کبھی میسر نہیں آئی ہو گی.ماسوائے اس کے جب ماسٹر صاحب نے بہت سا حصہ وقت کا صرف باتوں میں ہی ضائع کر کے پھر بہت سی سستی اور آہستگی سے جواب لکھنا شروع کیا تو اُسی وقت ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ کی نیت میں خیر نہیں ہے اسی خیال سے اُن کو کہا تھا کہ بہتر یوں ہے کہ جو جو ورق آپ لکھتے جائیں وہ مجھے آپ دیتے جائیں تا میں اس کا جواب الجواب بھی لکھتا جاؤں اس انتظام سے دونوں فریق جلد تر فراغت کر لیں گے مگر ان کا تو مطلب ہی اور تھا وہ کیونکر ایسے انصاف کی باتوں کو قبول
حیات احمد ۴۶۸ جلد دوم حصہ سوم ہوئی وہ مندرجہ بالا روئیداد سرمہ چشم آریہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتی ہے.لیکن اس مباحثہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آریہ سماج پر ایک ابدی اور غیر فانی حجت قائم ہوگئی.حضرت نے سرمہ چشم آریہ کی اشاعت کے وقت آریہ سماج کو وید اور قرآن کے مقابلہ کی دعوت دی یہ گویا اس تحدّی کی تجدید تھی جو آپ باوا نرائن سنگھ اور پنڈت کھڑک سنگھ کے وقت سے کر رہے تھے.اس تحری میں آپ نے فرمایا کہ وید برکات روحانیہ اور محبت الہیہ تک پہنچانے سے قاصر اور عاجز ہے اور کیونکر قاصر و عاجز نہ ہو وہ وسائل جن سے یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں یعنی طریقہ حقہ خداشناسی و معرفت نعماء النبی و بجا آوری اعمال صالحہ و تحصیل اخلاق مرضیه و تزکیه نفس و عَنْ رَذَائِل نفسیه ان سب معارف کے صحیح اور حق طور پر بیان کرنے سے وید بکلی محروم ہے.کیا کوئی آریہ صفحہ زمین پر ہے کہ ہمارے مقابل پر ان امور میں وید کا قرآن شریف سے مقابلہ کر کے دکھلاوے؟ اگر کوئی زندہ ہو تو ہمیں اطلاع دے.اور بقیہ حاشیہ.کرتے سو انہوں نے انکار کیا اور لالہ رام کچھمن صاحب اُن کے رفیق نے مجھے کہا کہ میں آپ کی غرض کو سمجھ گیا لیکن ماسٹر صاحب ایسا کرنا نہیں چاہتے چنانچہ وہی بات ہوئی اور اخیر پر نا تمام کام چھوڑ کر سماج کا عذر پیش ہو گیا اگر کوئی دنیا کا مقدمہ یا کام ہوتا تو ماسٹر صاحب ہزار دفعہ سماج کے وقت کو چھوڑ دیتے پر سچ تو یہ ہے کہ سماج کا عذر تو ایک بہانہ ہی تھا اصل موجب تو وہ گھبراہٹ تھی جو اعتراض کی عظمت اور بزرگی کی وجہ سے ماسٹر صاحب کے دل پر ایک عجیب کام کر رہی تھی.اسی باعث سے پہلے ماسٹر صاحب نے باتوں میں وقت کھویا اور اعتراض کو سنتے ہوئے ایسے گھبرائے اور کچھ ایسے مبہوت سے ہو گئے کہ چہرہ پر پریشانی کے آثار ظاہر تھے اور ناکارہ عذارت پیش کر کے یہ چاہا کہ بغیر تحریر جواب اٹھ کر چلے جائیں اسی وجہ سے لوگ تحریر جواب سے نا امید ہو کر متفرق ہو گئے اور بعض یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ اب کیا بیٹھیں اب تو بحث ختم ہو گئی.آخر ماسٹر صاحب نے طوعاً و کرہاً حاضرین کی شرم سے کچھ لکھا جس کا آدھا دھڑ تو ماسٹر صاحب کے کاغذ پر اور آدھا ان کے دل میں ہی رہا، بہر حال وہ اپنے جواب کو اسی جان کندن میں چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے.ماسٹر صاحب کو اٹھتے وقت میں نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ.
حیات احمد ۴۶۹ جلد دوم حصہ سوم جس امر میں امور دینیہ میں سے چاہے اطلاع دے تو ہم ایک رسالہ بالتزام آیات بینات و دلائل عقلیہ قرآنی تالیف کر کے اس غرض سے شائع کردیں گے کہ تا اسی التزام سے وید کے معارف اور اُس کی فلاسفی دکھائی جائے اور اس تکلیف کشی کے عوض میں ایسے وید خوان کے لئے ہم کسی قدر انعام بھی کسی ثالث کے پاس جمع کرا دیں گے جو غالب ہونے کی حالت میں اُس کو ملے گا.شرط یہی ہے کہ وہ ویدوں کو پڑھ سکتا ہوتا ہمارے وقت کو ناحق ضائع نہ کرے.جاننا چاہئے کہ جو شخص حق سے اپنے تئیں آپ دور لے جاوے اس کو ملعون کہتے ہیں اور جو حق کے حاصل کرنے میں اپنے نفس کی آپ مدد کرے اس کو مقرون کہتے ہیں اب ہمارے مقابل پر مقرون یا ملعون بنا آریوں کے ہاتھ میں ہے اگر کوئی باتمیز آریہ جو ویدوں کی حقیقت سے خبر رکھتا ہو موازنہ و مقابلہ وید و قرآن کی نیت سے تین ماہ کے عرصہ تک میدان میں آگیا اور ہماری طرف سے جو رسالہ بحوالہ آیات و دلائل قرآنی تالیف ہو وید کی شرتیوں کی رو سے اُس نے رڈ کر کے دکھلا دیا تو اُس نے وید کے پیروؤں کی عزت رکھ لی اور مقرون کے معزز خطاب سے ملقب ہو گیا لیکن اگر اس عرصہ میں کسی ویدوان نے تحریک نہ کی تو وہ خطاب جو مقرون کے مقابل پر ہے سب نے اپنے لئے قبول کر لیا.اور اگر پھر بھی باز نہ آویں تو آخِرُ الحِيَل مباہلہ ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارت کر آئے.ہیں مباہلہ کے لیے وید خوان ہونا ضروری نہیں ہاں باتمیز اور ایک باعزت اور نامور آریہ ضرور چاہئے جس کا اثر دوسروں پر بھی پڑ سکے سو سب سے پہلے لالہ مرلی دھر صاحب اور پھر لالہ جیونداس صاحب سیکرٹری بقیہ حاشیہ.اس وقت کسی نوع سے ٹھہرنا مصلحت نہیں سمجھتے تو میں دو روز اور اس جگہ ہوں اور اپنا دن رات اسی خدمت میں صرف کر سکتا ہوں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ فرصت نہیں.اخیر پر ہم یہ بھی ظاہر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ ماسٹر صاحب جو کچھ گھر پر جا کر لکھیں گے ہمیں کچھ اطلاع نہیں اس لئے ہم اس کی نسبت کچھ تحریر کرنے سے معذور ہیں.منہ
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم آریہ سماج لا ہور اور پھر منشی اندر من صاحب مراد آبادی اور پھر کوئی اور دوسرے صاحب آریوں میں سے جو معزز اور ذی علم تسلیم کئے گئے ہوں مخاطب کئے جاتے ہیں کہ اگر وہ وید کی اُن تعلیموں کو جن کو کسی قدر ہم اس رسالہ (سرمہ چشم آریہ مراد ہے.عرفانی) میں تحریر کر چکے ہیں.فی الحقیقت صحیح اور بچے سمجھتے ہیں اور ان کے مقابل جو قرآن شریف کے اصول تعلیمیں اسی رسالہ میں بیان کی گئی ہیں ان کو باطل اور دروغ خیال کرتے ہیں تو اس بارہ میں ہم سے مباہلہ کر لیں اور کوئی مقام مباہلہ کا برضا مندی فریقین قرار پا کر ہم دونوں فریق تاریخ مقررہ پر اس جگہ حاضر ہو جائیں اور ہریک فریق مجمع عام میں اٹھ کر اس مضمون مباہلہ کی نسبت جو اس رسالہ (سرمہ چشم آریہ.عرفانی) کے خاتمہ میں بطور نمونہ اقرار فریقین جلی قلم سے لکھا گیا ہے تین مرتبہ قسم کھا کر تصدیق کریں کہ ہم فی الحقیقت اس کو سچ سمجھتے ہیں اور اگر ہمارا بیان راستی پر نہیں تو ہم پر اسی دنیا میں وبال اور عذاب نازل ہو.غرض جو جو عبارتیں ہر دو کاغذ مباہلہ میں مندرج ہیں جو جانبین کے اعتقاد ہیں بحالت دروغ گوئی عذاب مترتب ہونے کی شرط پر اُن کی تصدیق کرنی چاہئے اور پھر فیصلہ آسمانی کے انتظار کے لئے ایک برس کی مہلت ہوگی پھر اگر برس گزرنے کے بعد مؤلّف رسالہ ہذا پر کوئی عذاب اور وبال نازل ہوا یا حریف مقابل پر نازل نہ ہوا تو ان دونوں صورتوں میں یہ عاجز قابل تاوان پانسو روپیہ ٹھہرے گا جس کو برضا مندی فریقین خزانہ سرکاری میں یا جس جگہ بآسانی وہ روپیہ مخالف کومل سکے داخل کر دیا جائے گا.اور در حالت غلبہ خود بخود اس روپیہ کے وصول کرنے کا فریق مخالف مستحق ہوگا.اور اگر ہم غالب آئے تو کچھ بھی شرط نہیں کرتے کیونکہ شرط کے عوض میں وہی دعا کے آثار کا ظاہر ہونا کافی ہے.“ سرمه چشم آریہ صفحه ۲۴۵ تا ۲۵۱.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۹۵ تا ۳۰۱)
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم یہ تحدی آپ نے شائع کی اور تین ماہ چھوڑ ساٹھ سال گزر گئے اور آریہ سماج میں سے کوئی شخص اس مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ہوا.حضرت اقدس اس اعلان کے بعد ۲۲ سال تک زندہ رہے اور کسی آریہ کو یہ ہمت نہ ہوئی اور آریہ سماج کے جن معزز افراد اور ارکان کو مخاطب کیا گیا تھا انہوں نے اپنے عمل سے حضرت اقدس کی سچائی پر مہر کر دی پنڈت لیکھرام کی تالیف خبط کے متعلق مناسب موقعہ پر بحث ہوگی.اس مباحثہ کے علمی ثمرات اس مباحثہ کے علمی ثمرات کی تفصیل بہت طویل ہے قرآن مجید کے جن حقائق و معارف کا اظہار آپ نے فرمایا وہ میری کسی تشریح کا محتاج نہیں میں یہاں صرف اس قدر لکھنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جوسفر ہوشیار پور کو مبارک ٹھہرایا یہ بھی انہیں برکات میں سے ایک بہت بڑی برکت ہے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف کا ایک دریا آپ نے بہا دیا.اور قانون قدرت معجزات.روح کی حقیقت اور اس کے خواص جیسے مضامین پر نہایت لطیف اور مدلل و مفصل بحث آپ نے کی اور جو کچھ لکھا وہ قرآن مجید سے لکھا.اس کی تفصیل کے لئے میں اس کتاب کے پڑھنے والوں کو کہوں گا کہ وہ سرمہ چشم آریہ کا مطالعہ کریں.پسر موعود کے اشتہار پر رڈ وقدح ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو جو اشتہار دیا گیا تھا اس کے اس حصہ نے جو ایک موعود مصلح کے متعلق تھا ایک شور ملک میں ڈال دیا.مختلف قسم کے اعتراضات اس پر ہوئے.سب سے پہلے تو ہوشیار پور ہی میں اعتراض کیا گیا اور یہ اعتراض ایک آریہ صاحب کی طرف سے تھا.اس نے کہا لڑکا لڑکی پیدا ہونے کی شناخت دائیوں کو بھی ہوتی ہے یعنی دائیاں بھی معلوم کر سکتی ہیں کہ لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی اس معترض نے پیشگوئی کی اہمیت اور عظمت کو کم کرنے کے لئے اس قسم کا اعتراض کیا تھا.یہ پیشگوئی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں شائع کی گئی مگر حقیقت یہ ہے که قریبا دو سال پیشتر آپ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر اس کا اظہار کر دیا تھا.چنانچہ حضرت اقدس
حیات احمد ۴۷۲ جلد دوم حصہ سوم نے اپنے اعلان مورخہ ۲۴ مارچ ۱۸۸۶ء مطبوعہ چشمہ فیض قادری میں کیا تھا.علاوہ اس کے یہ پیشگوئی آج کی تاریخ سے دو برس پہلے کئی آریوں اور مسلمانوں و بعض مولویوں و حافظوں کو بھی بتلائی گئی تھی چنانچہ آریوں میں سے ایک شخص ملا وامل نام جو سخت مخالف اور نیز شرمیت ساکنان قصبہ قادیان ہیں.“ مجموعه اشتہارات جلد اصفحه ۹۹ بار دوم ) ان میں سے شرمپت رائے تو فوت ہو چکا ہے مگر لالہ ملا وامل ابھی تک زندہ ہے.یہ اعلان ان کی زندگیوں میں شائع ہوا اور وہ اس پیشگوئی کے گواہ تھے مگر انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا باوجود یکہ آریہ سماج کی طرف سے بھی ان پر زور دیا گیا کہ وہ اس اور دوسری پیشگوئیوں کی تردید کریں جن کے متعلق ان کی شہادت کا اعلان ہوتا ہے.ہوشیار پور کے بعد قادیان کے بعض لوگوں نے اس پیشگوئی کی وقعت کو کم کرنے کے لئے یہ کہنا شروع کیا کہ " عرصہ ڈیڑھ ماہ سے مشتہر کے گھر میں لڑکا پیدا ہو گیا ہے.گویا یہ پیشگوئی لڑکے کے پیدا ہونے کے بعد مشتہر کی ہے.یہ معترضین سید صابر علی شاہ اور حافظ سلطانی کشمیری تھے.چونکہ اس سے خدا تعالیٰ کے ایک نشان اور آیت اللہ کو مشکوک کیا جا رہا تھا آپ کے نے ۲۴ مارچ ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار اس قسم کی خرافات کے جواب میں شائع کیا ہے جس کو میں نے حاشیہ میں دے دیا ہے.ے حاشیہ.وو اشتهار واجب الاظهار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ چونکہ اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء پر جس میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح ہے جو بہ صفات مندرجہ اشتہار پیدا ہو گا.دو شخص سکنہ قادیان یعنی حافظ سلطانی کشمیری وصابر علی نے روبروئے مرزا نواب بیگ و میاں شمس الدین و مرزا غلام علی ساکنان قادیان یہ دروغ بے فروغ بر پا کیا ہے کہ ہماری دانست میں عرصہ ڈیڑھ ماہ سے صاحب مشتہر کے گھر میں لڑکا پیدا ہو گیا ہے.حالانکہ یہ قول نامبردگان کا سراسر افترا و دروغ و بمقتضائے کینہ وحسد وعناد جبلی ہے.جس سے وہ نہ صرف مجھ پر بلکہ تمام مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں.اس لئے ہم ان کے اس قول دروغ کا رڈ واجب سمجھ کر عام اشتہار دیتے ہیں کہ ابھی تک جو۲۲ / مارچ
حیات احمد ۴۷۳ اندر من مراد آبادی پھر سامنے آیا جلد دوم حصہ سوم اندر من مراد آبادی اس سے پہلے حضرت کے مقابلہ میں بھاگ چکا تھا.چنانچہ دعوت یکسالہ میں وہ بھاگا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے حالانکہ حضرت اقدس کے نمائندے چوبیس سو روپیہ بقیہ حاشیہ.(۱۸۸ء ہے.ہمارے گھر میں کوئی لڑکا بجز پہلے دولڑکوں کے جن کی عمر ۲۰ ۲۲۰ سال سے زیادہ ہے پیدا نہیں ہوا لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی 9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا.خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.اور یہ انتہام کہ گویا ڈیڑھ ماہ سے پیدا ہو گیا ہے.سراسر دروغ ماہ ہے.ہم اس دروغ کے ظاہر کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ آج کل ہمارے گھر کے لوگ بمقام چھاؤنی انبالہ صدر بازار اپنے والدین کے پاس یعنی اپنے والد میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس دفتر نہر کے پاس بود و باش رکھتے ہیں اور ان کے گھر کے متصل منشی مولا بخش صاحب ملازم ڈاک ریلوے اور بابو محمد صاحب کلرک دفتر نہر رہتے ہیں.معترضین یا جس شخص کو شبہ ہو.اُس پر واجب ہے کہ اپنا شبہ رفع کرنے کے لئے وہاں چلا جاوے اور اُس جگہ اردگرد سے خوب دریافت کر لے.اگر کرایہ آمد و رفت موجود نہ ہو تو ہم اس کو دے دیں گے.لیکن اگر اب بھی جا کر دریافت نہ کرے.اور نہ دروغ گوئی سے باز آوے تو بجز اس کے کہ ہمارے اور تمام حق پسندوں کی نظر میں لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِین کا لقب پاوے اور نیز زیر عتاب حضرت أَحْكُمُ الْحَاكِمِين کے آوے.اور کیا ثمرہ اس یاوہ گوئی کا ہو گا.خدا تعالیٰ ایسے شخصوں کو ہدایت دیوے کہ جو جوش حسد میں آ کر اسلام کی کچھ پرواہ نہیں رکھتے.اور اس دروغ گوئی کے مال کو بھی نہیں سوچتے.اس جگہ اس وہم کا دور کرنا بھی قرین مصلحت ہے کہ جو ہمقام ہوشیار پور ایک آریہ صاحب نے اس پیشگوئی پر بصورت اعتراض پیش کیا تھا کہ لڑکالڑکی کے پیدا ہونے کی شناخت دائیوں کو بھی ہوتی ہے.یعنی دائیاں بھی معلوم کر سکتی ہیں کہ لڑکا پیدا ہو گا یا لڑکی.واضح رہے کہ ایسا اعتراض کرنا معترض صاحب کی سراسر حیلہ سازی وحق پوشی ہے.کیونکہ اول تو کوئی دائی ایسا دعویٰ نہیں کر سکتی بلکہ ایک حاذق طبیب بھی ایسا دعوی ہرگز نہیں کر سکتا کہ اس امر میں میری رائے قطعی اور یقینی ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں صرف ایک انکل ہوتی ہے کہ جو بار ہا خطا جاتی ہے.علاوہ اس کے یہ پیشگوئی آج کی تاریخ سے دو برس پہلے کئی آریوں اور مسلمانوں و بعض مولویوں و حافظوں کو بھی بتلائی گئی تھی.چنانچہ آریوں میں سے ایک شخص ملا وامل نام جو سخت مخالف اور نیز شرمپت ساکنان قصبہ قادیان ہیں.ماسوا اس کے ایک نادان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مفہوم پیشگوئی کا اگر بنظر یکجائی دیکھا جاوے تو ایسا بشری طاقتوں سے بالا تر ہے جس کے نشانِ الہی ہونے میں کسی
حیات احمد ۴۷۴ جلد دوم حصہ سوم لے کر اس کے پیچھے پھرتے رہے اور پھر جب مقابلہ کے لئے اس کو بلایا گیا یا قرآن مجید اور دید کے مقابلہ کے لئے بلایا گیا تب بھی اسے جرات نہ ہوئی کہ وہ سامنے آتا لیکن اس اشتہار پر جو پسر مصلح موعود کی پیدائش کے متعلق دیا گیا اور اس میں اس کے ظہور کی مدت نو سال قرار دی گئی تو بقیہ حاشیہ.کوشک نہیں رہ سکتا.اور اگر شک ہو تو ایسی قسم کی پیشگوئی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہو پیش کرے.اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے.جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے.اور در حقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلیٰ واولیٰ و اکمل و افضل واتم ہے.کیونکہ مردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الہی میں دعا کر کے ایک روح واپس منگوایا جاوے اور ایسا مردہ زندہ کرنا حضرت مسیح اور بعض دیگر انبیاء علیہم السلام کی نسبت بائیل میں لکھا گیا ہے.جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے اور پھر باوصف ان سب عقلی و نقلی جرح و قدح کے یہ بھی منقول ہے کہ ایسا مر وہ صرف چند منٹ کے لئے زندہ رہتا تھا اور پھر دوباہ اپنے عزیزوں کو دوہرے ماتم میں ڈال کر اس جہان سے رخصت ہو جاتا.جس کے دنیا میں آنے سے نہ دنیا کو کچھ فائدہ پہنچتا تھا نہ خود اس کو آرام ملتا تھا.اور نہ اس کے عزیزوں کو کوئی سچی خوشی حاصل ہوتی تھی.سو اگر مسیح علیہ السلام کی دعا سے بھی کوئی روح دنیا میں آئی.تو در حقیقت اس کا آنا نہ آنا برابر تھا.اور بفرض محال اگر ایسی روح کئی سال جسم میں باقی بھی رہتی تب بھی ایک ناقص روح کسی رزیل یا دنیا پرست کی جو اَحَدٌ مِّنَ النَّاس ہے دنیا کو کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی.مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانه و برکت حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدواند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی با برکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا.جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.سواگر چہ بظاہر یہ نشان اِحْيَاءِ مَوْتی کے برابر معلوم ہوتا ہے.مگر غور سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مردوں کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ بہتر ہے.مردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے.اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے.مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے.بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے.کہ ایسا کیوں ہوا.اے لوگو! میں کیا چیز ہوں اور کیا حقیقت.جو کوئی مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ درحقیقت میرے پاک متبوع پر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے حملہ کرنا چاہتا ہے.مگر اس کو یا درکھنا چاہئے کہ وہ آفتاب پر خاک نہیں ڈال سکتا.بلکہ
حیات احمد ۴۷۵ جلد دوم حصہ سوم اندر من مراد آبادی نے اعتراض کیا کہ وو یہ بڑی گنجائش کی جگہ ہے ایسی لمبی میعاد تک تو کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے.“ حضرت نے فوراً اس کے جواب میں ایک اعلان بہ عنوان اشتہار صداقت آثار مطبع چشمه فیض قادری بٹالہ میں چھپوا کر ۱/۸ اپریل ۱۸۸۶ء کو شائع کر دیا لیکن اس خیال سے کہ طباعت میں دیر ہو آپ نے اس اشتہار کی قلمی نقول کرا کر بذریعہ رجسٹری اندرمن مراد آبادی.بقیہ حاشیہ:.وہی خاک اس کے سر پر اس کی آنکھوں پر اس کے منہ پر گر کر اس کو ذلیل اور رسوا کرے گی.اور ہمارے نبی کریم کی شان و شوکت اُس کی عداوت اور اس کے بخل سے کم نہیں ہوگی.بلکہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ ظاہر کرے گا.کیا تم فجر کے قریب آفتاب کو نکلنے سے روک سکتے ہو.ایسے ہی تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آفتاب صداقت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے.خدا تعالیٰ تمہارے کینوں اور بخلوں کو دور کرے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى راقم خاکسار غلام احمد - مؤلف براہین احمدیہ.از قادیان ضلع گورداسپور.۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء روز دوشنبه (مطبوعہ چشمہ فیض قادری بٹالہ شریف) حاشیہ:.یہ اشتہار " کے دو صفحوں پر چار کالم کا ۲۵ سطری مسطر پر چھپا ہوا ہے ) A تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۷۲ تا ۷۵.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۹۸ تا ۱۰۰.بار دوم ) اشتهار صداقت آثار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ واضح ہو کہ اس خاکسار کے اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء پر بعض صاحبوں نے جیسے منشی اندرمن صاحب مراد آبادی نے یہ نکتہ چینی کی ہے کہ نو برس کی حد جو پسر موعود کے لئے بیان کی گئی ہے یہ بڑی گنجائش کی جگہ ہے.ایسی لمبی میعاد تک تو کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے.سواوّل تو اس کے جواب میں یہ واضح ہو کہ جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے.کسی لمبی میعاد سے گونو برس سے بھی دو چند ہوتی اس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آ سکتا بلکہ صریح دلی انصاف ہر یک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخص آدمی کے تولد پر مشتمل ہے.انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے اور دعا کی قبولیت ہو کر ایسی خبر کا ملنا بے شک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے.ماسوا
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم پنڈت لیکھرام پشاوری.پنڈت سوامی شو نارائن صاحب اگنی ہوتری منشی جیونداس صاحب سیکرٹری آریہ سمارج لا ہور اور لالہ رام لچھمن صاحب ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ اسکول لودہا نہ پادری عمادالدین صاحب ولالہ مرلی دھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر ہوشیار پور و پادری ٹھا کر داس صاحب جھنگ خاص و مسٹر عبداللہ آتھم صاحب پنشنر سابق اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر بلا توقف بھیج دی گئیں.حضرت اقدس نے جس جرات اور یقین کے ساتھ اتمام حجت کرنے میں کوشش کی ہے وہ اسی سے ظاہر ہے کہ مختلف مذاہب کے لیڈروں اور رہنماؤں کو آپ نے مطلع کر دیا یہ جوش بقیہ حاشیہ.اس کے اب بعد اشاعت اشتہار مندرجہ بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لئے جناب الہی میں توجہ کی گئی تو آج آٹھ اپریل IANYء میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں.لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہوگا یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا اور پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ ”انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں.چونکہ یہ عاجز ایک بندہ ضعیف مولیٰ کریم جل شانہ کا ہے.اس لئے اُسی قدر ظاہر کرتا ہے جو منجانب اللہ ظاہر کیا گیا آئندہ جو اس سے زیادہ منکشف ہوگا.وہ بھی شائع کیا جاوے گا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتہر.خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور - ۱/۸اپریل ۱۸۸۶ء مطابق دوم رجب ۱۳۰۳ھ تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۷۵ ۷۶.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۰۲،۱۰۱ بار دوم ) عربی الہام کے یہ دو فقرہ ہیں.نَازِلٌ مِّنَ السَّمَاءِ وَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جو نزول یا قریب النزول پر دلالت کرتے ہیں.منہ.چونکہ اشتہار چھپنے میں شاید کسی قدر مطبع میں دیر ہو.اس لئے چند قلمی نقلیں ان کی رجسٹری کراکر بخدمت منشی اندر من صاحب مراد آبادی و پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری و پنڈت سوامی شیو نارائن صاحب اگنی ہوتری و نشی جیوند اس صاحب سیکرٹری آریہ سماج لاہور ولالہ رام کچھمن صاحب ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ سکول اور ہیانہ و پادری عماد الدین صاحب ولالہ مرلی دھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور و پادری ٹھا کر داس صاحب جھنگ خاص و مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب پنشنر سابق اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر بلا توقف بھیجی گئی ہیں.مطبوعہ چشمہ فیض قادری پر لیس بٹالہ شریف.یہ اشتہار " کے ایک صفحہ پر ہے)
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم اتمام حجت کا بجز صادق اور ایسے شخص کے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تازہ بتازہ وحی کے ذریعہ معرفت و بصیریت حاصل کر رہا ہو دوسرے کو نصیب نہیں ہوتا.اس اشتہار کے نکلنے پر ان لوگوں میں سے کسی کو پھر حوصلہ اعتراض کا نہ ہوا مگر دنیا میں صادقوں کے مقابلہ کے لئے لوگ کھڑے ہوتے رہتے ہیں اسی اشتہار پر بعض دوسرے لوگوں نے اعتراض شروع کر دیا.کسی نے کہا کہ میعاد گزرگئی اور لڑکا پیدا نہ ہوا.کسی نے کہا کہ نو برس میعاد منسوخ ہو گئی.جو جس کے منہ میں آیا اس نے کہا مگر آپ نے اس مخالفت اور عداوت کے طوفان کو ایک اولوالعزم انسان کی طرح سے دیکھا اور تنہا اس طوفان بے تمیزی کا مقابلہ کرتے رہے انہیں اعتراض کرنے والوں میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست میاں نبی بخش صاحب بھی تھے.میاں نبی بخش کی مخالفت نیک نیتی پر تھی انہوں نے بھی حضرت اقدس کی خدمت میں ایک خط لکھا ان کے دل میں شرارت اور عداوت نہ تھی سو فہم یا سطحی خیال سے انہیں کچھ اعتراض معلوم ہوا اور انہوں نے حضرت کی خدمت میں لکھ دیا.کچھ شک نہیں ان کے الفاظ میں کچھ مرارت اور سوء ادبی کی بھی شان نمودار ہے.یہ ایام منشی نبی بخش صاحب کے عہد جوانی کے ایام تھے اسی جوش اور جنون میں جو ان کے قلم سے نکلا انہوں نے لکھ دیا مگر حضرت کی کریم النفسی ملاحظہ ہو کہ آپ نے گالیاں سن کر دعا دی اور لکھا کہ ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اے خدائے قادر مطلق ان کو سمجھ عطا کر یہ شرارتوں سے کھڑے ہوتے ہیں ان کو نیکی کی توفیق دے“.یہ دعا قبول ہو گئی اور منشی نبی بخش صاحب کو ایک مخلص خادم کی حیثیت سے حضرت کے آستانہ پر لے آئی اور خدا تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کو ایسا کھولا کہ خود انہیں بھی اپنے کلام والہام سے مشرف کیا یہ سب کچھ حضرت ہی کی دعا کا نتیجہ تھا.صاحبزادی عصمت کی پیدائش اور طوفان بے تمیزی حضرت کی دوسری شادی جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا تھا نومبر ۱۸۸۴ء و ۲۷ رمحرم ۱۳۰۳ ہجری بروز دوشنبہ ) دہلی میں ہوئی تھی مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی معروف شیخ الکل ) نے نکاح
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم پڑھا تھا اور حضرت نے پانچ روپیہ نقد اور ایک مصلی مولوی صاحب کو دیا تھا.۱۵ را پریل ۱۸۸۶ء کو حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے پہلی اولا د (لڑکی ) پیدا ہوئی اور حضرت نے اس کا نام عصمت رکھا.چونکہ ۱۸اپریل ۱۸۸۶ء کو آپ نے اشتہار شائع کیا تھا جب صاحبزادی عصمت کی پیدائش کی خبر عام ہوئی تو منکرین اور مخالفین نے ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا.مختلف اخباروں اور اشتہاروں کے ذریعہ خوب شور مچایا گیا ان تمام معترضین کے جواب میں حضرت نے ایک اشتہار محک اخیار و اشرارے کے عنوان سے شائع کر کے ان کے اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا.کچھ عرصہ تک یہ طوفان بے تمیزی ے حاشیہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيْمِ اشتہار محک اخیار و اشرار ہم نے الفت میں تری بار اٹھایا کیا کیا تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا ہر ایک مومن اور پاک باطن اپنے ذاتی تجربہ سے اس بات کا گواہ ہے کہ جولوگ صدق دل سے اپنے مولیٰ کریم جَلَّ شَانُه سے کامل وفاداری اختیار کرتے ہیں وہ اپنے ایمان اور صبر کے اندازہ پر مصیبتوں میں ڈالے جاتے ہیں اور سخت سخت آزمائشوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو بد باطن لوگوں سے بہت کچھ رنجدہ باتیں سنی پڑتی ہیں.اور انواع اقسام کی مصائب و شدائد کو اٹھانا پڑتا ہے اور نااہل لوگ طرح طرح کے منصوبے اور رنگا رنگ کے بہتان ان کے حق میں باندھتے ہیں.اور ان کے نابود کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں.یہی عادت اللہ ان لوگوں سے جاری ہے جن پر اس کی نظر عنایت ہے.غرض جو اس کی نگاہ میں راست باز اور صادق ہیں وہ ہمیشہ جاہلوں کی زبان اور ہاتھ سے تکلیفیں اٹھاتے چلے آئے ہیں.سو چونکہ سنت اللہ قدیم سے یہی ہے اس لئے اگر ہم بھی خویش و بیگانہ سے کچھ آزار اٹھا ئیں.تو ہمیں شکر بجالانا چاہئے اور خوش ہونا چاہئے کہ ہم اس محبوب حقیقی کی نظر میں اس لائق تو ٹھہرے کہ اس کی راہ میں دکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں.سو اس طرح پر دکھ اٹھانا تو ہماری عین سعادت ہے.لیکن جب ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ بعض دشمنانِ دین اپنی افترا پردازی سے صرف ہماری ایذارسانی پر کفایت نہیں کرتے بلکہ بے تمیز اور بے خبر لوگوں کوفتنہ میں ڈالتے ہیں.تو اس صورت میں ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ حتی الوسع ان ناواقف لوگوں کو فتنہ سے بچاویں.
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم بر پا رہا.ان تمام معترضین کے اعتراضوں نے اور خدائے تعالیٰ کی مشیت نے عصمت کی پیدائش سے مصلح موعود کی پیشنگوئی کو خوب شہرت دے دی اور تمام ملک میں یہ اعلان ہو گیا کہ حضرت نے ایک بقیہ حاشیہ.سو واضح ہو کہ بعض مخالف ناخدا ترس جن کے دلوں کو زنگ تعصب و بخل نے سیاہ کر رکھا ہے ہمارے اشتہار مطبوعہ ۱/۸ اپریل ۱۸۸۶ء کو یہودیوں کی طرح محرف و مبدل کر کے اور کچھ کے کچھ معنے بنا کر سادہ لوح لوگوں کو سناتے ہیں.اور نیز اپنی طرف سے اشتہارات شائع کرتے ہیں تا دھوکہ دے کر ان کے یہ ذہن نشین کریں کہ جو لڑکا پیدا ہونے کی پیشگوئی تھی اس کا وقت گزر گیا اور وہ غلط نکلی.ہم اس کے جواب میں صرف لعنت اللہ علی الکاذبین کہنا کافی سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم افسوس بھی کرتے ہیں کہ ان بے عزتوں اور دیوثوں کو باعث سخت درجہ کے کینہ اور بخل اور تعصب کے اب کسی کی لعنت ملامت کا بھی کچھ خوف اور اندیشہ نہیں رہا.اور جو شرم اور حیا اور خدا ترسی لازمہ انسانیت ہے وہ سب نیک خصلتیں ایسی ان کی سرشت سے اٹھ گئی ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ نے ان میں وہ پیدا ہی نہیں کیں اور جیسے ایک بیمارا اپنی صحت یابی سے نو امید ہو کر اور صرف چند روز زندگی سمجھ کر سب پر ہیزیں توڑ دیتا ہے اور جو چاہتا ہے کھا پی لیتا ہے اسی طرح انہوں نے بھی اپنی مرض کینہ اور تعصب اور دشمنی کو ایک آزار لاعلاج خیال کر کے دل کھول کر بد پر ہیزیاں اور بے راہیاں شروع کی ہیں.جن کا انجام بخیر نہیں.تعصب اور کینہ کے سخت جنون نے کیسی ان کی عقل مار دی ہے.نہیں دیکھتے کہ اشتہا ر ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ ء میں صاف صاف تولد فرزند موصوف کے لئے نو برس کی میعاد لکھی گئی ہے اور اشتہار ۱/۸اپریل ۱۸۸۶ء میں کسی برس یا مہینہ کا ذکر نہیں اور نہ اس میں یہ ذکر ہے کہ جو نو برس کی میعاد رکھی گئی تھی.اب وہ منسوخ ہو گئی ہے.ہاں اس اشتہار میں ایک یہ فقرہ ذوالوجوہ درج ہے کہ مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.مگر کیا اسی قدر فقرہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ مدت حمل سے ایام باقی ماندہ حمل موجودہ مراد ہیں.کوئی اور مدت مراد نہیں.اگر اس فقرہ کے سر پر اس کا لفظ ہوتا تو بھی اعتراض کرنے کے لئے کچھ گنجائش نکل سکتی.مگر جب الہامی عبارت کے سر پر اس کا لفظ ( جو شخصص وقت ہوسکتا ہے ) وارد نہیں تو پھر خواہ مخواہ اس فقرہ سے وہ معنے نکالنا جو اس صورت میں نکالے جاتے ہیں جو اس کا لفظ فقرہ مذکور کے سر پر ہوتا ہے.اگر بے ایمانی اور بد دیانتی نہیں تو اور کیا ہے.دانشمند آدمی جس کی عقل اور فہم میں کچھ آفت نہیں.اور جس کے دل پر کسی تعصب یا شرارت کا حجاب نہیں.
حیات احمد ۴۸۰ جلد دوم حصہ سوم عظیم الشان مصلح کی جو آپ کی ذریت سے ہوگا پیدا ہونے کی بشارت دی ہے وہ لوگ جو آپ کے ساتھ محبت و اخلاص رکھتے تھے وہ اسی عظیم الشان انسان کے آنے کی راہ تک رہے تھے اور معاندین و بقیہ حاشیہ.وہ سمجھ سکتا ہے کہ کسی زوالوجوہ فقرہ کے معنے کرنے کے وقت وہ سب احتمالات مدنظر رکھنے چاہیں.جو اس فقرہ سے پیدا ہو سکتے ہیں.سو فقرہ مذکورہ بالا یعنی یہ کہ مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا ایک ذ والوجوہ فقرہ ہے.جس کی ٹھیک ٹھیک وہی تشریح ہے جو میر عباس علی شاہ صاحب لدھانوی نے اپنے اشتہار آٹھ جون ۱۸۸۶ ء میں کی ہے.یعنی یہ کہ مدت موعودہ حمل سے (جونو برس ہے ) یا مدت معہودہ حمل سے ( جوطبیبوں کے نزدیک اڑھائی برس یا کچھ زیادہ ہے) تجاوز نہیں کر سکتا.اگر حمل موجودہ میں حصر رکھنا مخصوص ہوتا تو عبارت یوں چاہئے تھی کہ اس باقی ماندہ ایام حمل سے ہرگز تجاوز نہیں کرے گا.اور اسی وجہ سے ہم نے اُس اشتہار میں اشارہ بھی کر دیا تھا کہ وہ فقرہ مذکورہ بالا حمل موجودہ سے مخصوص نہیں ہے مگر جو دل کے اندھے ہیں وہ آنکھوں کے اندھے بھی ہو جاتے ہیں.بالآخر ہم یہ بھی لکھنا چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک بڑی حکمت اور مصلحت ہے کہ اس نے اب کی دفعہ لڑکا عطا نہیں کیا.کیونکہ اگر وہ اب کی دفعہ ہی پیدا ہوتا تو ایسے لوگوں پر کیا اثر پڑ سکتا جو پہلے ہی سے یہ کہتے تھے کہ قواعد طبی کے رو سے حمل موجودہ کی علامات سے ایک حکیم آدمی بتلا سکتا ہے کہ کیا پیدا ہو گا.اور پنڈت لیکھر ام پشاوری اور بعض دیگر مخالف اس عاجز پر یہی الزام رکھتے تھے کہ ان کو فن طبابت میں مہارت ہے.د حاشیہ در حاشیہ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اشتہار واجب الاظہار يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُوْرَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ مبارک وے جو راستبازی کے سبب ستائے جاتے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہیں کی ہے.(انجیل ۵-۱۰) ۲ جب سے مرزا غلام احمد صاحب (مؤلف براہین احمدیہ ) نے یہ دعویٰ ہر ایک قوم کی مقابلہ پر کرنا شروع کیا ہے کہ خاص قرآن شریف میں ہی یہ ذاتی خاصیت پائی جاتی ہے کہ اس کے بچے اتباع سے برکتیں نازل ہوتی ہیں.اور خوارق ظہور میں آتے ہیں.مقبولانِ الہی میں جگہ ملتی ہے.اور نہ صرف دعوی کیا بلکہ ان باتوں کا ثبوت دینے میں بھی اپنا ذمہ لیا.یوروپ اور امریکہ کے ملکوں تک رجسٹری کرا کر لے وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کا فرنا پسند کریں (الصف: ۹) سے انجیل متی باب ۵ آیت ۱۰ ( ناشر )
حیات احمد ۴۸۱ جلد دوم حصہ سوم مخالفین اپنی طرف سے عوام میں یہ مشہور کر رہے تھے کہ نعوذ باللہ یہ سلسلہ مکر وفریب پر مبنی ہے.بقیہ حاشیہ.انہوں نے طب کے ذریعہ سے معلوم کر لیا ہو گا کہ لڑکا پیدا ہونے والا ہے.اسی طرح ایک صاحب محمد رمضان نام نے پنجابی اخبار ۲۰ مارچ ۱۸۸۶ء میں چھپوایا.کہ لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دینا منجاب اللہ ہونے کا ثبوت نہیں ہو سکتا.جس نے ارسطو کا ورکس دیکھا ہو گا.حاملہ عورت کا قارورہ دیکھ کر لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا ٹھیک ٹھیک بتلا سکتا ہے اور بعض مخالف مسلمان یہ بھی کہتے تھے کہ اصل میں ڈیڑھ ماہ سے یعنی پیشگوئی بیان کرنے سے پہلے لڑکا پیدا ہو چکا ہے.جس کو فریب کے طور پر چھپا رکھا ہے.اور عنقریب مشہور کیا جائے گا کہ پیدا ہو گیا.سو یہ اچھا ہوا کہ خدائے تعالیٰ نے تولد فرزند مسعود موعود کو دوسرے وقت پر ڈال دیا.ورنہ اگر اب کی دفعہ ہی پیدا ہو جاتا.تو ان مفتریات مذکورہ بالا کا کون فیصلہ کرتا لیکن اب تولد فرزند موصوف کی بشارت غیب محض ہے.نہ کوئی حمل موجود ہے تا ارسطو کے ورکس یا جالینوس کے قواعد حمل دانی بالمعارضہ پیش ہوسکیں.اور نہ اب کوئی بچہ چھپا ہوا ہے.تا وہ مدت کے بعد نکالا جائے بلکہ نو برس کے عرصہ تک خود اپنے زندہ رہنے کا ہی حال معلوم نہیں اور نہ یہ معلوم کہ اس عرصہ تک کسی قسم کی اولاد خواہ نخواہ پیدا ہو گی.چہ جائے کہ لڑکا پیدا ہونے پر کسی اٹکل سے قطع اور یقین کیا جائے اخیر پر ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اخبار مذکورہ بالا میں منشی محمد رمضان صاحب نے تہذیب سے گفتگو نہیں کی.بلکہ دینی مخالفوں کی طرح جا بجا مشہور افترا پردازوں سے اس عاجز کو نسبت دی ہے.اور ایک جگہ پر جہاں اس عاجز نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی کہ اس نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض بابرکت بقیہ حاشیہ در حاشیہ.اسی ذمہ واری کے خط بھیجے.اور اسی مضمون کا ہیں ہزار اشتہار شائع کیا.تب سے آریوں اور پادریوں وغیرہ کے دلوں پر ایک عجیب طور کا دھڑ کا شروع ہو رہا ہے.اور ہر طرف سے جزع اور فزع کی آوازیں آ رہی ہیں بالخصوص بعض اوباش طبع آریوں نے تو صرف زبان درازی اور دشنام دہی اور نالائق بہتانوں سے ہی کام لینا چاہا.تا کسی طرح آفتاب صداقت پر خاک ڈال دیں مگر سچائی کے نوران کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتے اور یہ تو قدیم سے عادت اللہ جاری ہے کہ ہمیشہ راست باز آدمی ستائے جاتے ہیں.اور ان کے حق میں نا اہل آدمی طرح طرح کی باتیں بولا کرتے ہیں مگر آخر حق کا ہی بول بالا ہوتا ہے.اب تازہ افترا جو محض ناخدا ترسی کی راہ سے بعض نادان متعصب آریوں اور عیسائیوں نے کیا ہے.جس کا ذکر ایک شخص مسمی پنڈت لیکھرام پشاوری کی طرف سے اشتہار مطبوعہ شفیق ہند پریس لاہور میں ایک عیسائی صاحب کی طرف سے پرچہ نور افشاں مطبوعہ ۳/ جون میں دیکھا گیا ہے.یہ ہے کہ
حیات احمد ۴۸۲ جلد دوم حصہ سوم منکرین اسلام پر اتمام حجت بذریعہ چہل روزہ مقابلہ کی دعوت ۱۸۸۶ء کے عظیم الشان واقعات کے سلسلہ میں منکرین اسلام پر اتمام حجت کے لئے آپ کا چہل روزہ مقابلہ کی دعوت ہے.اس سے پیشتر آپ نے منکرین اسلام کو ایک سال کے لئے اپنے بقیہ حاشیہ.عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی.اور ان سے اولاد پیدا ہوگی.اس پیشگوئی پر منشی صاحب فرماتے ہیں.کہ الہام کئی قسم کا ہوتا ہے.نیکوں کو نیک باتوں کا اور زانیوں کو عورتوں کا.ہم اس جگہ کچھ لکھنا نہیں چاہتے.ناظرین منشی صاحب کی تہذیب کا آپ اندازہ کر لیں پھر ایک اور صاحب ملازم دفتر ایگزیمنر صاحب ریلوے لاہور کے جو اپنا نام نبی بخش ظاہر کرتے ہیں.اپنے خط مرسلہ ۱۳ جون ۱۸۸۶ء میں اس عاجز کو لکھتے ہیں کہ تمہاری پیشگوئی جھوٹی نکلی.اور دختر پیدا ہوئی.اور تم حقیقت میں بڑے فریبی اور مکار اور دروغ گو آدمی ہو ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہہ سکتے ہیں.کہ اے خدائے قادر مطلق یہ لوگ اندھے ہیں ان کو آنکھیں بخش.یہ نادان ہیں.ان کو سمجھ عطا کر.یہ شرارتوں سے بھرے ہوئے ہیں.ان کو نیکی کی توفیق دے.بھلا کوئی اس بزرگ سے پوچھے کہ وہ فقرہ یا لفظ کہاں ہے جو کسی اشتہار میں اس عاجز کے قلم سے نکلا ہے.جس کا یہ مطلب ہے کہ لڑکا اسی حمل میں پیدا ہو گا.اس سے ہر گز مختلف نہیں کرے گا.اگر میں نے کسی جگہ ایسا لکھا ہے.تو میاں نبی بخش صاحب پر واجب ہے کہ اس کو کسی اخبار میں چھپادیں.اس عاجز کے اشتہارات پر اگر کوئی منصف آنکھ کھول کر نظر ڈالے تو اسے معلوم ہوگا کہ ان میں کوئی بھی ایسی پیشگوئی درج نہیں.جس میں ایک ذرہ غلطی کی بھی گرفت ہو سکے.بقیہ حاشیہ در حاشیہ.مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی سراسر غلط نکلی کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہو گا.کیونکہ ۱۵ ر ا پریل کو ان کے گھر میں دختر پیدا ہوگئی.فقط اب منصف لوگ جو راستی پسند ہیں.مرزا صاحب کے اشتہارات کو پڑھ کر اور پھر جو کچھ ان مخالفوں نے ان اشتہارات کا نتیجہ نکالا ہے.اس پر بھی نظر ڈال کر سمجھ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا کینہ اور بغض اور ان کا مادہ ناخدا ترسی اور دروغگو ئی کس حد تک بڑھ گیا ہے.ہر سہ اشتہار جو مرزا صاحب نے اس بارہ میں چھپوائے ہیں.اس وقت ہمارے سامنے رکھے ہیں.پہلا اشتہار جس کو مرزا صاحب نے بیس فروری ۱۸۸ء کو بمقام ہوشیار پور شائع کیا تھا.اس میں کوئی تاریخ درج نہیں.کہ وہ لڑکا جس کے صفات اشتہار میں درج ہیں کب اور کس سال پیدا ہو گا.دوسرا اشتہار جو ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء کو مرزا صاحب کی
حیات احمد ۴۸۳ جلد دوم حصہ سوم پاس رہنے کی دعوت دی تھی تا کہ آپ ان کو آسمانی نشان دکھا ئیں اس مقابلہ یک سالہ میں کوئی شخص نہیں آیا تھا اندر من مراد آبادی نے آمادگی ظاہر کی اور حضرت نے اس کے لئے چوبیس سو روپیہ بھی بقیہ حاشیہ.بلکہ وہ کچی ہیں اور عنقریب اپنے اپنے وقت پر ظہور پکڑ کر مخالفین کی ذلت اور رسوائی کا موجب ہوں گی.دیکھو ہم نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں جو پیشگوئی اجمالی طور پر لکھی تھی کہ امیر نو وارد پنجابی الاصل کو کچھ ابتلاء در پیش ہے.کیسی وہ سچی نکلی.ہم نے صد ہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلا دیا تھا کہ اس شخص پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے.جس کی پنجاب میں آنے کی خبر مشہور ہو رہی ہے.لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ ناکام رہے گا بلکہ اس سفر میں اس کی عزت آسائش یا جان کا خطرہ ہے.اور یہ پیشگوئی ایسے وقت میں لکھی گئی.اور عام طور پر بتلائی گئی تھی.یعنی ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو جبکہ اس ابتلا کا کوئی اثر ونشان ظاہر نہ تھا.بالآ خر اس کو مطابق اسی پیشگوئی کے بہت حرج اور تکلیف اور سبکی اور خجالت اٹھانی پڑی.اور اپنے مدعا سے محروم رہا.سو دیکھو کہ اس پیشگوئی کی صداقت کیسی کھل گئی.اسی طرح سے اپنے اپنے وقت پر سب پیشگوئیوں کی سچائی ظاہر ہوگی اور دشمن روسیاہ نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ رسوا ہوں گے.یہ خدائے تعالیٰ کا فعل ہے جو ابھی تک انہیں اندھا کر رکھا ہے.ان کے دلوں کو سخت کر دیا.اور ہمارے دل میں در داور خیر خواہی کا طوفان مچا دیا.سو اس مشکل کے حل کے لئے اسی کی جناب میں تضرع کرتے ہیں.اے خدا نور دہ ایں تیرہ درو نانے را یا مده درد دگر هیچ خدا دانے را وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - المشتهر خاکسار غلام احمد.مؤلف براہین احمدیہ از قادیان.مطبوعہ ریاض ہند پریس امرت سر.ضلع گورداسپور پنجاب.تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۸۳ تا ۹۱ - مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۰۸ تا ۱۱۴ بار دوم ) بقیہ حاشیہ در حاشیہ:.طرف سے شائع کیا گیا.یہ بہت مفید اشتہار ہے.اس میں بتصریح تمام کھول دیا گیا ہے کہ وہ لڑکا نو برس کے اندر پیدا ہو جائے گا.اس میعاد سے تخلف نہیں کرے گا.لیکن تیسرا اشتہار جو مرزا صاحب کی طرف سے ۱۸ اپریل ۱۸۸۶ء کو جاری ہوا.اس کی الہامی عبارت ذوی الوجوہ اور کچھ گول گول ہے.اور اس میں کوئی تصریح نہیں کہ وہ کب اور کس تاریخ میں پیدا ہو گا.ہاں اس میں ایک یہ فقرہ ہے کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.اب ظاہر
حیات احمد ۴۸۴ جلد دوم حصہ سوم جمع کرانے بھیجا مگر وہ بھاگ گیا.لیکھرام نے شرائط کے تصفیہ میں اس مقابلہ کو ٹالا اب ہوشیار پور کے مجاہدہ چہل روزہ کے بعد آپ نے منکرین اسلام پر اتمام حجت کے لئے چالیس روز کے مقابلہ بقیه حاشیه در حاشیہ.ہے کہ یہ فقرہ کہ مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.ایک ذوی الوجوہ فقرہ ہے.اگر الہامی عبارت کے سر پر لفظ اس کا ہوتا یعنی عبارت یوں ہوتی کہ اس مدت حمل سے تجاوز نہیں کرے گا.ضرور اس میں پیدا ہو جائے گا.تو بلا شبہ مواخذہ کی جگہ تھی ، مگر اب تو ناحق کی نکتہ چینی ہے.جس سے بجز اس کے کہ یہ ثابت ہو کہ معترض سخت درجہ کا متعصب اور کج فہم اور سمح طبع یا سادہ لوح ہے اور کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکتا.الہامات ربانی یا قوانین سلطانی کی عبارتیں اس پایہ اور عزت کی ہوتی ہیں.جس کے لفظ لفظ پر بحث کرنا چاہئے.سوالہامی عبارت میں اس کا لفظ متروک ہونا (جس سے حمل موجودہ میں پیشگوئی محدود ہو جاتی ہے ) صریح بتلا رہا ہے کہ اس جگہ حمل موجودہ مراد نہیں لیا گیا.بلکہ اس فقرہ کے دو معنے ہیں.تیسرے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے.اول.یہ کہ مدت موعودہ حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.یعنی نو برس سے.کیونکہ اس خاص لڑکے کے حمل کے لئے وہی مدت موعود ہے.دوسرے یہ معنے کہ مدت معہودہ حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.سو مدت معہودہ جمل کی اکثر طبیبوں کے نزدیک ڈھائی برس بلکہ بعض کے نزدیک انتہائی مدت حمل کی تین برس تک بھی ہے بہر حال ان دونوں وجوہ میں سے کسی وجہ کی رو سے پیشگوئی کی صحت پر جرح نہیں ہو سکتا.اسی لئے مرزا صاحب نے اسی اشتہار ۱/۸اپریل میں قیاسی طور پر یہ بھی صاف لکھ دیا تھا کہ غالباً وہ لڑکا اب یا اس کے بعد قریب حمل میں پیدا ہو گا.اور پھر اس اشتہار کی اخیر سطر میں مرزا صاحب نے یہ بھی تحریر کر دیا کہ میں اسی قدر ظاہر کرتا ہوں کہ جو مجھ پر منجانب اللہ ظاہر کیا گیا.اور آئندہ جو اس سے زیادہ منکشف ہو گا وہ بھی شائع کیا جائے گا.سو مرزا صاحب نے اپنے اسی اشتہار میں بتلا بھی دیا کہ اشتہار کا الہامی فقرہ مجمل اور ذوی الوجوہ ہے.جس کی تشریح اگر خدا نے چاہا پیچھے سے کی جائے گی.اب کیا کوئی انصاف پسند مرزا صاحب کے کسی لفظ سے یہ بات نکال سکتا ہے کہ وہ لڑکا ضرور پہلی ہی دفعہ پیدا ہو جائے گا.نہ کسی اور وقت.سو ہم بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ اسلام کے مخالف غلبہ جوش تعصب میں آ کر اپنی وثاقت کو بھی کھو دیتے ہیں اور ناحق اپنی بداند رونی کولوگوں پر ثابت کرتے ہیں.نہیں دیکھتے کہ جب میعاد مقررہ باقی ہے.تب تک اعتراض کی گنجائش نہیں اور وقت سے پہلے شور و غوغا کرنے سے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر یہ پیشگوئی اپنے وقت پر پوری
حیات احمد ۴۸۵ جلد دوم حصہ سوم کی دعوت دی.یہ اعلان ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء کو شائع کیا گیا اور تین ماہ کی مہلت مقرر کی گئی تھی.لیکن کسی شخص کو جرات نہ ہوئی کہ مقابلہ کے لئے آئے اس طرح آپ نے اسلام کی روحانی عظمت کا اعلان کیا.وَلِلَّهِ دَرُّ مَنْ قَالَ آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے بقیہ حاشیہ در حاشیہ.ہوگئی.تو اس روز کیا حال ہو گا.اور کیا کیا ندامتیں اٹھائی پڑیں گی.یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ اگر ایسی بے ہودہ نکتہ چینیوں سے کسی حق الا مر کو کچھ صدمہ پہنچ سکتا ہے تو پھر کوئی سچائی اس صدمہ سے محفوظ نہیں رہ سکتی.حضرت مسیح علیہ السلام کی کئی پیشگوئیوں پر یہودیوں نے ایسی ایسی بلکہ اس سے بڑھ کر نکتہ چینیاں کی ہیں اور ان کی پیشگوئی کو دائرہ صداقت سے باکل دور و مہجور سمجھا ہے.مگر کیا ایسی بے ہودہ نکتہ چینیوں سے ان کی سچائی میں کچھ فرق آ سکتا ہے بد باطن لوگ ہمیشہ بے ایمانی اور دشمنی کی راہ سے چاند پر خاک ڈالتے رہے ہیں لیکن انجام کار راستی کی ہی فتح ہوتی رہی ہے اور ایسی ہی اب بھی ہو گی.مرزا صاحب کا رسالہ سراج منیر عنقریب نکلنے والا ہے.اس میں نہ ایک پیشگوئی بلکہ وہ سارا رسالہ پیشگوئیوں ہی سے بھرا ہوا ہے تب خود سچ اور جھوٹ میں فرق کھل جائے گا.ذرا صبر کرنا چاہئے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر میر عباس علی لودھیانوی ہشتم جون ۱۸۸۶ء مطبوعہ شعلہ نور پریس بٹالہ تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۸۵ تا ۸۸ حاشیہ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۱ تا ۱۱۲ حاشیه بار دوم ) کا حاشیہ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ.اشتہار صداقت انوار بغرض دعوت مقابلہ چہل روزہ گرچہ ہرکس ز رو لاف بیانے دارد صادق آنست که از صدق نشانی دارد ہمارے اشتہارات گزشتہ کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے یہ اشتہار دیا تھا کہ جو معزز آریہ صاحب یا پادری صاحب یا کوئی اور صاحب مخالف اسلام ہیں.اگر ان میں سے کوئی صاحب ایک سال تک قادیان میں ہمارے پاس آ کر ٹھہرے تو درصورت نہ دیکھنے کسی آسمانی نشان کے چوہیں سوروپے انعام پانے کا مستحق ہوگا.سو ہر چند ہم نے تمام ہندوستان اور پنجاب کے پادری صاحبان و آریہ ترجمہ.اگر چہ ہر شخص لاف و گزاف مار لیتا ہے لیکن سچا وہی ہے جو اپنے صدق کے آثار رکھتا.ہے.
حیات احمد ۴۸۶ علمی اور عقلی دلائل کے ذریعہ اتمام حجت جلد دوم حصہ سوم یہ تو روحانی مقابلہ تھا اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کے مشاہدہ کرانے کی دعوت تھی.اس میں فریق مخالف سے کوئی نشان نہیں مانگا گیا تھا اس کے ساتھ ہی آپ نے علمی اور عقلی دلائل کے ساتھ بھی اتمام حجت کا اعلان کیا تھا کہ اسلام کی علمی اور روحانی فتح کا ایک ساتھ اعلان ہوا بقیہ حاشیہ.صاحبان کی خدمت میں اسی مضمون کے خط رجسٹری کرا کر بھیجے.مگر کوئی صاحب قادیان میں تشریف نہ لائے بلکہ منشی اندر من صاحب کے لئے تو مبلغ چوہیں سوروپے نقد لا ہور میں بھیجا گیا تو وہ کنارہ کر کے فرید کوٹ کی طرف چلے گئے.ہاں ایک صاحب پنڈت لیکھرام نام پشاوری قادیان میں ضرور آئے تھے.اور ان کو بار بار کہا گیا کہ اپنی حیثیت کے موافق بلکہ اس تنخواہ سے دو چند جو پشاور میں نوکری کی حالت میں پاتے تھے.ہم سے بحساب ماہواری لینا کر کے ایک سال تک ٹھہرو.اور اخیر پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر ایک سال تک منظور نہیں تو چالیس دن تک ہی ٹھہر و.تو انہوں نے ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت کو منظور نہیں کیا.اور خلاف واقعہ سراسر دروغ بے فروغ اشتہارات چھپوائے.سو ان کے لئے تو رسالہ سرمہ چشم آریہ میں دوبار بھی چالیس دن تک اس جگہ رہنے کا پیغام تحریر کیا گیا ہے.ناظرین اس کو پڑھ لیں.لیکن یہ اشتہار اتمام حجت کی غرض سے بمقابل منشی جیون داس صاحب جو سب آریوں کی نسبت شریف اور سلیم الطبع معلوم ہوتے ہیں اور لالہ مرلیدھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور جو وہ بھی میری دانست میں آریوں میں سے غنیمت ہیں اور منشی اندرمن صاحب مراد آبادی جو گویا دوسرا مصرعہ سورتی صاحب کا ہیں.اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر رئیس امرتسر جو حضرات عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج آدمی ہیں.اور پادری عمادالدین لاہنر صاحب امرتسری اور پادری ٹھاکر داس صاحب مؤلف کتاب اظہار عیسوی“ شائع کیا جاتا ہے.کہ اب ہم بجائے ایک سال کے صرف چالیس روز اس شرط سے مقرر کرتے ہیں کہ جو صاحب آزمائش و مقابلہ کرنا چاہیں وہ برابر چالیس دن تک ہمارے پاس قادیان میں یا جس جگہ اپنی مرضی سے ہمیں رہنے کا اتفاق ہو رہیں.اور برابر حاضر رہیں.پس اس عرصہ میں اگر ہم کوئی امر پیشگوئی جو خارق عادت ہو پیش نہ کریں یا پیش تو کریں مگر بوقت ظہور وہ جھوٹا نکلے یا وہ جھوٹا تو نہ ہو مگر اسی طرح
حیات احمد ۴۸۷ جلد دوم حصہ سوم قرآن مجید اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو آپ نے ایک کھلی کھلی دعوت دی کہ جو اعتراضات ان کے نزدیک سب سے اہم اور غیر متزلزل ہوں وہ پیش کریں آپ اس کا جواب دیں گے.اور اگر ہم جواب نہ دے سکے توفی اعتراض تاوان دیں گے یہ اشتہار بھی یہ بقیہ حاشیہ.صاحب ممتحن اس کا مقابلہ کر کے دکھلا دیں تو مبلغ پانسور و پیہ نقد بحالت مغلوب ہونے کے اُسی وقت بلا توقف ان کو دیا جائے گا لیکن اگر وہ پیشگوئی وغیرہ بپا یہ صداقت پہنچ گئی تو صاحب مقابل کو بشرف اسلام مشرف ہونا پڑے گا.اور یہ بات نہایت ضروری قابل یادداشت ہے کہ پیشگوئیوں میں صرف زبانی طور پر نکتہ چینی کرنا یا اپنی طرف سے شرائط لگانا ناجائز اور غیر مسلم ہو گا.بلکہ سیدھا راہ شناخت پیشگوئی کا یہی قرار دیا جائے گا کہ اگر وہ پیشگوئی صاحب مقابل کی رائے میں کچھ ضعف یا شک رکھتی ہے یا ان کی نظر میں قیافہ وغیرہ سے مشابہ ہے.تو اسی عرصہ چالیس روز میں وہ بھی ایسی پیشگوئی ایسے ہی ثبوت سے ظاہر کر کے دکھلاویں.اور اگر مقابلہ سے عاجز رہیں تو پھر حجت ان پر تمام ہو گی.اور بحالت سچے نکلنے پیشگوئی کے بہر حال انہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور یہ تحریریں پہلے سے جانبین میں تحریر ہو کر انعقاد پا جائیں گی.چنانچہ اس رسالہ کے شائع ہونے کے وقت سے یعنی ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء سے ٹھیک تین ماہ کی مہلت صاحبان موصوف کو دی جاتی ہے اگر اس عرصہ میں اُن کی طرف سے اس مقابلہ کے لئے کوئی منصفانہ تحریک نہ ہوئی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ گریز کر گئے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المشتهر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور.پنجاب ( منقول از سرمه چشم آریہ مطبوعہ بار اول.ریاض ہند پریس امرتسر - ستمبر ۱۸۸۶ء صفحه ۲۵۹ و۲۶۰) تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۷۷ تا ۷۹.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۰۴،۱۰۳.بار دوم ) حاشیہ.اشتہار مفید الاخیار - جاگو جا گو آر یو نیند نہ کرو پیار.چونکہ آج کل اکثر ہندوؤں اور آریوں کی یہ عادت ہورہی ہے کہ وہ کچھ کچھ کتابیں عیسائیوں کی جو اسلام کی نکتہ چینی میں لکھی گئی ہیں.دیکھ کر اور ان پر پورا پورا اطمینان کر کے اپنے دلوں میں خیال کر لیتے ہیں کہ حقیقت میں یہ اعتراضات درست اور واقعی ہیں.اس لئے قرین مصلحت سمجھ کر اس عام اشتہار کے ذریعہ سے اطلاع دی جاتی ہے کہ اول تو عیسائیوں کی کتابوں پر اعتماد کر لینا اور براہ راست کسی فاضل اہل اسلام سے اپنی عقدہ کشائی نہ کرانا اور اپنے اوہام فاسدہ کا محققین اسلام سے علاج طلب نہ کرنا اور خائنین عناد پیشہ کو امین سمجھ بیٹھنا سراسر بے راہی ہے.
حیات احمد ۴۸۸ جلد دوم حصہ سوم ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء کو آپ نے شائع کیا اور ان میں بھی تین ماہ کی میعاد دی تھی اور ایسے تمام مشہور آریوں اور عیسائیوں کے پاس آپ نے رجسٹری کرا کر روانہ کیا مگر اس کا بھی وہی جواب ہوا کہ ے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پر بلایا ہم نے بقیہ حاشیہ.جس سے طالب حق کو پر ہیز کرنا چاہئے.دانشمند لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ جو پادری صاحبان پنجاب اور ہندوستان میں آ کر اپنے مذہب کی تائید میں دن رات ہزار ہا منصو بے باندھ رہے ہیں یہ ان کے ایمانی جوش کا تقاضا نہیں.بلکہ انواع اقسام کے اغراض نفسانی ان کو ایسے کاموں پر آمادہ کرتے ہیں.اگر وہ انتظام مذہبی جس کے باعث سے یہ لوگ ہزار ہا روپیہ تنخواہیں پاتے ہیں.درمیان سے اٹھایا جاوے.تو پھر دیکھنا چاہئے کہ ان کا جوش و خروش کہاں ہے.ماسوا اس کے ان لوگوں کی ذاتی علمیت اور دماغی روشنی بھی بہت کم ہوتی ہے.اور یورپ کے ملکوں میں جو واقعی دانا اور فلاسفر اور دقیق النظر ہیں.وہ پادری کہلانے سے کراہت اور عار رکھتے ہیں اور ان کو ان کے بے ہودہ خیالات پر اعتقاد بھی نہیں بلکہ یورپ کے عالی دماغ حکماء کی نگاہوں میں پادری کا لفظ ایسا خفیف اور دور از فضیلت سمجھا جاتا ہے کہ گویا اس لفظ سے یہ مفہوم لازم پڑا ہوا ہے کہ جب کسی کو پادری کر کے پکارا جاوے تو ساتھ ہی دل میں یہ بھی گزر جاتا ہے کہ یہ شخص اعلیٰ درجہ کی علمی تحصیلوں اور لیاقتوں اور باریک خیالات سے بے نصیب ہے.اور جس قدران پادری صاحبان نے اہل اسلام پر مختلف قسم کے اعتراضات کر کے اور بار بار ٹھوکریں کھا کر اپنے خیالات میں پلٹے کھائے ہیں.اور طرح طرح کی ندامتیں اٹھا کر پھر اپنے اقوال سے رجوع کیا ہے.یہ بات اس شخص کو بخوبی معلوم ہوگی جو ان کے اور فضلاء اسلام کے باہمی مباحثات کی کتابوں پر ایک محیط نظر ڈالے ان کے اعتراضات تین قسم سے باہر نہیں.یا تو ایسے ہیں کہ جو سراسر افترا اور بہتان ہیں.جن کی اصلیت کسی جگہ پائی نہیں جاتی.اور یا ایسے ہیں کہ فی الحقیقت وہ باتیں ثابت تو ہیں لیکن محل اعتراض نہیں محض سادہ لوحی اور کور باطنی اور قلت تذبر کی وجہ سے ان کو جائے اعتراض سمجھ لیا ہے.اور یا بعض ایسے امور ہیں کہ کسی قدر تو سچ ہیں جو ایک ذرہ جائے اعتراضات نہیں ہو سکتے.اور باقی سب بہتان اور افترا ہیں جو ان کے ساتھ ملائے گئے ہیں.اب افسوس تو یہ ہے کہ آریوں نے اپنے گھر کی عقل کو بالکل استعفیٰ دے کر ان کی ان تمام دور از صداقت کارروائیوں کو سچ مچ صحیح اور درست سمجھ لیا ہے.اور بعض آر یہ ایسے بھی ہیں کہ وہ قرآن شریف کا ترجمہ کسی
حیات احمد ۴۸۹ سرمه چشم آریہ کی اشاعت جلد دوم حصہ سوم ان اشتہارات کے علاوہ آپ نے مباحثہ ہوشیار پور کو سرمہ چشم آریہ کے نام سے شائع کیا یہ رسالہ بھی ستمبر ۱۸۸۶ء کے قریب ہی شائع ہوا.اس رسالہ کے ساتھ بھی آپ نے پانچ سورو پہ کا ایک انعامی اعلان شائع کیا جو اس کا جواب لکھنے والے کے لئے مقرر تھا.اس طرح آپ نے علمی اور روحانی طور پر قرآن مجید کے کمالات اور اس تعلیم پر عمل کرنے بقیہ حاشیہ.جگہ سے ادھورا سا دیکھ کر یا کوئی قصہ بے سروپا کسی جاہل یا مخالف سے سن کر جھٹ پٹ اس کو بناءِ اعتراض قرار دے دیتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں خدائے تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا.اس کی عقل بھی بباعث تعصب اور عناد کی زہروں کے نہایت ضعیف اور مردہ کی طرح ہو جاتی ہے.اور جو بات عین حکمت اور معرفت کی ہو.وہ اس کی نظیر سقیم میں سراسر عیب دکھائی دیتی ہے.سواسی خیال سے یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے.اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس قدر اصول اور تعلیمیں قرآن شریف کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھری ہوئی ہیں.اور کوئی بات ان میں ایک ذرہ مؤاخذہ کے لائق نہیں اور چونکہ ہر ایک مذہب کے اصولوں اور تعلیموں میں صد با جزئیات ہوتی ہیں اور ان سب کی کیفیت کا معرض بحث میں لانا ایک بڑی مہلت کو چاہتا ہے اس لئے ہم اس بارہ میں قرآن شریف کے اصولوں کے منکرین کو ایک نیک صلاح دیتے ہیں اگر ان کو اصول اور تعلیمات قرآنی پر اعتراض ہو تو مناسب ہے کہ وہ اوّل بطور کا حاشیہ اشتہار انعامی پانسور و پیه درباره کتاب لاجواب کحل الجواہر سرمه چشم آریہ جو آریوں کے وید اور ان کے عقائد اور اصول کو باطل اور دور از صدق ثابت کرتی ہے.سرمه چشم آریہ پے در و پر بزرگوهرست میں زیر جستجو سال ازیں ظاہرست کے یہ کتاب یعنی رسالہ سرمه چشم آریہ تقریب مباحثہ لالہ مرلید ھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور جو عقائد باطلہ وید کی بکلی بیخ کنی کرتی ہے.اس دعوئی اور یقین سے لکھی گئی ہے کہ کوئی آریہ اس کتاب کا رد نہیں کر سکتا.کیونکہ سچ کے مقابل پر جھوٹ کی کچھ پیش نہیں جاتی.اور اگر کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں رڈ کئے گئے ہیں.سچ سمجھتا ہے.اور اب بھی دید اور اس کے ایسے لے حاشیہ.یہ شعر نتائج طبع مولوی محمد یوسف صاحب سنوری سے ہے.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرًا مِنه کے ترجمہ.سرمہ چشم آریہ موتی اور جواہرات سے بھری ہوئی ہے ( جستجو کے پہلے حرف ) کے ساتھ دیکھو اس کا سال تالیف نکل آئے گا.
حیات احمد ۴۹۰ جلد دوم حصہ سوم کے ثمرات پیش کر کے قرآن مجید کی حقیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی صداقت پر ایک غیر فانی مہر کر دی.اور دنیا کے آخر تک آریوں اور عیسائیوں پر اتمام حجت ہو چکی حضرت اس کے بعد ۲۲ سال تک زندہ رہے لیکن کسی شخص کو یہ حوصلہ اور ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس مقابلہ میں سامنے آتا.بقیہ حاشیہ.خود سوچ کر دو تین ایسے بڑے سے بڑے اعتراض بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں سب اعتراضات سے ایسی نسبت رکھتے ہوں جو ایک پہاڑ کو ذرہ سے نسبت ہوتی ہے.یعنی ان کے سب اعتراضوں سے ان کی نظر میں اقومی واشد اور انتہائی درجہ کے ہوں.جن پر اُن کی نکتہ چینی کی پُر زور نگاہیں ختم ہو گئی ہوں.اور نہایت شدت سے دوڑ دوڑ کر انہیں پر جا ٹھہری ہوں.سو ایسے دو یا تین اعتراض بطور نمونہ کے پیش کر کے حقیقت حال کو آزما لینا چاہئے کہ اس سے تمام اعتراضات کا بآسانی فیصلہ ہو جائے گا.کیونکہ اگر بڑے اعتراض بعد تحقیق ناچیز نکلے.تو پھر چھوٹے اعتراض ساتھ ہی نابود ہو جائیں گے.اور اگر ہم ان کا کافی و شافی جواب دینے سے قاصر رہے.اور کم سے کم یہ ثابت نہ کر دکھایا کہ جن اصولوں اور تعلیموں کو فریق مخالف نے بمقابلہ ان اصولوں اور تعلیموں کے اختیار کر رکھا ہے.بقیہ حاشیہ در حاشیہ.اصولوں کو ایشر کرت ہی خیال کرتا ہے.تو اس کو اسی ایشور کی قسم ہے کہ اس کتاب کا رڈ لکھ کر دکھلا دے.اور پانسور و پیدا انعام پاوے.یہ پانسو روپیہ بعد تصدیق کسی ثالث کے جو کوئی پادری یا بر ہمو صاحب ہوں گے دیا جائے گا.اور ہمیں یاں تک منظور ہے کہ اگر منشی جیوند اس صاحب سیکرٹری آریہ سماج لاہور جو اس گرد و نواح کے آریہ صاحبوں کی نسبت سلیم الطبع اور معزز اور شریف آدمی ہیں.بعد ردّ چھپ جانے اور عام طور پر شائع ہو جانے کے مجمع عام علماء مسلمانوں اور آریوں اور معزز عیسائیوں وغیرہ میں معہ اپنے عزیز فرزندوں کے حاضر ہوں اور پھر اٹھ کر قسم کھا لیں کہ ہاں میرے دل نے یہ یقین کامل قبول کر لیا ہے.کہ سب اعتراضات رسالہ سرمہ چشم آریہ جن کو میں نے اول سے آخر تک بغور دیکھ لیا ہے اور خوب توجہ کر کے سمجھ لیا ہے اس تحریر سے رڈ ہو گئے ہیں اور اگر میں دلی اطمینان اور پوری سچائی سے یہ بات نہیں کہتا تو اس کا ضرر اور وبال اسی دنیا میں مجھ پر اور میری اسی اولاد پر جو اس وقت حاضر ہے پڑے.تو بعد ایسی قسم کھا لینے کے صرف منشی صاحب موصوف کی شہادت سے پانسور و پیہ نقد ر ڈ کنندہ کو اسی مجمع میں بطور انعام دیا جائے گا.اور اگر منشی صاحب موصوف عرصہ ایک سال تک ایسی قسم کے بداثر سے لے اس جگہ منشی جیوند اس صاحب پر لازم ہو گا کہ سب اعتراض مندرجہ رسالہ سرمه چشم آریہ حاضرین کو صیح طور پر سنا بھی دیں.منہ
حیات احمد ۴۹۱ ۱۸۸۶ء کے رویا و کشوف والہامات جلد دوم حصہ سوم اگر چہ اس سال کے بعض الہامات یا رویا وکشوف کا ذکر واقعات کے سلسلہ میں بھی آ گیا ہے تا ہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یکجائی طور پر ان کو تذکرہ سے لے کر درج کر دیا جاوے البتہ بعض جو تفصیل سے پہلے درج ہو چکے ہیں وہ چھوڑ دیئے گئے ہیں.بقیہ حاشیہ.وہ ان کے مقابل پر نہایت درجہ رذیل اور ناقص اور دور از صداقت خیالات ہیں.تو ایسی حالت میں فریق مخالف کو در حالت مغلوب ہونے کے فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تا وان دیا جائے گا لیکن اگر فریق مخالف انجام کار جھوٹا نکلا.اور وہ تمام خوبیاں جو ہم اپنے ان اصولوں یا تعلیموں میں ثابت کر کے دکھلاویں.بمقابل اُن کے وہ اپنے اصولوں میں ثابت نہ کر سکا تو پھر یاد رکھنا چاہئے کہ اسے بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا.اور اسلام لانے کے لئے اول حلف اٹھا کر اسی عہد کا اقرار کرنا ہوگا اور پھر بعد میں ہم اس کے اعتراضات کا جواب ایک رسالہ مستقلہ میں شائع کرا دیں گے.اور جو اس کے بالمقابل اصولوں پر ہماری طرف سے حملہ ہو گا.اُس حملہ کی مدافعت میں اُس پر لازم ہو گا کہ وہ بھی ایک مستقل رسالہ شائع کرے.اور پھر دونوں رسالوں کے چھپنے کے بعد کسی ثالث کی رائے پر یا خود فریق مخالف کے حلف اٹھانے پر فیصلہ ہوگا.جس طرح وہ راضی ہو جائے لیکن شرط یہ ہے کہ فریق مخالف نامی علماء میں سے ہو اور اپنے مذہب کی کتاب میں مادہ علمی بھی رکھتا ہو.اور بمقابل ہمارے حوالہ اور بیان کے اپنا بیان بھی بحوالہ اپنی کتاب کے تحریر کر سکتا ہوتا ناحق ہمارے اوقات کو ضائع نہ کرے.اور اگر اب بھی کوئی نا منصف ہمارے اس صاف صاف منصفانہ طریق سے گریز اور کنارہ کر جائے اور بدگوئی اور دشنام دہی اور توہین اسلام سے بھی باز نہ آوے تو اس سے صاف ظاہر ہوگا کہ وہ کسی حالت میں اس لعنت کے طوق کو بقیہ حاشیہ در حاشیہ محفوظ رہے تو آریوں کے لئے بلا شبہ یہ حجت ہو گی کہ صاحب موصوف نے اپنی دلی صداقت سے اپنے علم اور فہم کے مطابق قسم کھائی تھی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.خاکسار غلام احمد از قادیان - frins ضلع گورداسپور.پنجاب منقول از ٹائٹل سرمه چشم آریہ مطبوعہ بار اول.ریاض ہند پریس امرتسر - تمبر ۱۸۸۶ء جوٹائٹل کے آخری صفحات پر ہے.تبلیغ رسالت جلد ا صفحه ۹۲ تا ۹۴ - مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۱۶، ۱۱۷ بار دوم )
حیات احمد ۴۹۲ جلد دوم حصہ سوم ۲۲ / جنوری ۱۸۸۶ء بروز جمعہ.۱۸۸۶ء میں بمقام ہوشیار پور ایک اور الہام عربی مرزا احمد بیگ کی نسبت ہوا تھا جس کو ایک مجمع میں جس میں بابو الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ ومولوی برہان الدین صاحب جھلمی بھی موجود تھے.سنایا گیا تھا.جس کی عبارت یہ ہے.رَبَّيْتُ هَذِهِ الْمَرْأَةَ وَآثَرُ الْبُكَاءِ عَلَى وَجْهِهَا فَقُلْتُ اَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ تُوُبِى تُوبِيْ فَإِنَّ الْبَلاءَ عَلَى عَقِبِكِ وَالْمُصِيبَةُ نَازِلَةٌ عَلَيْكِ يَمُوتُ وَيَبْقَى مِنْهُ كَلابٌ مُّتَعَدِّدَةٌ ،، " (اشتہار پانزدهم جولائی ۱۸۸۸ء تہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء تبلیغ رسالت جلد صفحه ۲۰ حاشیہ.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۴ باردوم) ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء سے چند روز قبل ” ہم پر خود اپنی نسبت، اپنے بعض جدی اقارب کی نسبت، اپنے بعض بقیہ حاشیہ.اپنے گلے سے اتارنا نہیں چاہتا کہ جو خدائے تعالیٰ کی عدالت اور انصاف نے جھوٹوں اور بے ایمانوں اور بد زبانوں اور بخیلوں اور متعصبوں کی گردن کا ہار کر رکھا ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - بالآخر واضح رہے کہ اس اشتہار کے جواب میں ۲۰ ستمبر ۱۸۸۲ء سے تین ماہ تک کسی پنڈت یا پادری جواب دہندہ کا انتظار کیا جائے گا.اور اگر اس عرصہ میں علماء آریہ وغیرہ خاموش رہے تو انہیں کی خاموشی ان پر حجت ہوگی.مشتهـ خاکسار غلام احمد مؤلف رساله سرمه چشم آریہ منقول از سرمه چشم آریہ.مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر بار اول ستمبر ۱۸۸۶ ء جو صفحہ ۲۶۰ کے آگے چسپاں ہے اور چار صفحہ کا اشتہار ہے.(تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۷۹ تا ۸۲ مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۰۵ تا ۱۰۷.بار دوم ) لے ترجمہ.میں نے اس عورت کو ایسے حال میں دیکھا کہ اس کے منہ پر گریہ و بکا کے آثار تھے.تب میں نے اسے کہا کہ اے عورت! تو بہ کر تو بہ کر.کیونکہ بلا تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے اور یہ مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے.وہ شخص (یعنی مرزا احمد بیگ صاحب ) مرے گا.اس کی وجہ سے کئی سنگ سیرت لوگ ( پیدا ہو کر ) پیچھے رہ جائیں گے.
حیات احمد ۴۹۳ جلد دوم حصہ سوم اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) دوستوں کی نسبت ، اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں..اور ایک دیسی امیر نو وارد پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلاء اور کسی کی موت وفوت اعزہ وغیرہ ، اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی.منجاب اللہ منکشف ہوئی ہیں.“ (ب) ” دلیپ سنگھ کی نسبت پیش از وقوع اس کے کو بتلایا گیا.کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا ہے کہ پنجاب کا آنا اس کے لئے مقدر نہیں.یا تو یہ مرے گا.اور یا ذلت اور بے عزتی اٹھائے گا لے.(الف) ( یہ ) ” پیشگوئی بھی بڑی ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی.اور یکدفعہ نا گہانی طور سے ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے نقصان کا آپ (سرسید احمد خاں صاحب.مرتب ) کو صدمہ پہنچا.آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی ایک مرتبہ منشی بھی ہوگئی.اشتہار ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحه ۴۱ ۴۲ - مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۷ ، ۴۸ بار دوم ) (ب) اخیر عمر میں سید صاحب کو ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا.“ (نزول المسیح صفحہ۱۹۱.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۶۹).(الف) ” ہم نے صد ہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلا دیا تھا کہ اس شخص پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے جس کے پنجاب میں آنے کی خبر مشہور ہو رہی ہے.لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ ناکام رہے گا..بالآخر اس کو مطابق اسی پیشگوئی کے بہت حرج اور تکلیف اور سیکی اور خجالت اٹھانی پڑی اور اور اپنے مدعا سے محروم رہا.“ (اشتہار محک اخیار و اشرار ضمیمه سرمه چشم آریہ صفحہ ۴.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۱۸) (ب) دلیپ سنگھ عدل بیج سے واپس ہوا.اور اُس کی عزت و آسائش میں بہت خطرہ پڑا.جیسا کہ میں نے صد ہا آدمیوں کو خبر دی تھی.“ (نزول المسیح صفحہ ۲۲۶.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۰۴) اخبار ریاض ہند امرت سر مطبوعہ ۳ مئی ۱۸۸۶ء میں مہاراجہ دلیپ سنگھ صاحب کے عدن میں رو کے جانے کی خبر شائع ہوئی.
حیات احمد ۴۹۴ جلد دوم حصہ سوم اور اپنے مطلب سے ناکام رہے گا.۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء " اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء پر جس میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح ہے.جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا.بموجب وعدہ الہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا.خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.“ (اشتہار ۲۲ مارچ ۱۸۸۶ء) ایسا لڑکا تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۷۲.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۹۸.بار دوم ) اپریل ۱۸۸۶ء " بعد اشاعت اشتہار مندرجہ بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لئے جناب الہی میں توجہ کی گئی تو آج ۱/۸ اپریل ۱۸۸۶ء میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں.لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا.“ (اشتہار ۱/۸ اپریل ۱۸۸۶ء تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۷۶.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۰۲،۱۰۱ بار دوم ) بقیہ حاشیہ نمبر۲.( ج ) دلیپ سنگھ کے ابتلا کا حال جو آپ ( یعنی لالہ مرلیدھر صاحب.مرتب ) نے پیش از وقوع اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں پڑھ لیا تھا اور پھر میری زبانی بھی ایک مجمع عام میں جس میں کئی ہندو صاحب آپ کے رفیق بھی شامل تھے، سن لیا تھا.یہ تازہ اجرا امید نہیں کہ اس قدر جلد تر عرصہ میں آپ کو بھول گیا ہو.اب آپ ذرا بیدار ہو کر دیکھیں کہ یہ پیشگوئی کیسی ہو بہو پوری ہوگئی اور دلیپ سنگھ کو قصد سفر پنجاب میں کیا کچھ غم وغصہ تلخی و رنج اٹھانا پڑا اور کیسے وہ نا کامی سے خفیف کر کے واپس لوٹایا گیا.کیا آپ حلف اٹھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو پیش از وقوع دلیپ سنگھ کے ابتلا کی خبر نہیں دی گئی؟ کیا آپ قسم کھا کر بیان کر سکتے ہیں کہ آپ کو جلسہ عام میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ وہ فقرہ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء جس میں لکھا ہے کہ امیر نو وارد پنجابی الاصل کی نسبت متوحش خبریں اس سے مراد دلیپ سنگھ ہے.ایسا ہی یہ خبر جابجا صد ہاہندوؤں اور مسلمانوں کو جو پانچ سو سے کسی قدر زیادہ ہی ہوں گے کئی شہروں میں پیش از وقوع بتلائی گئی تھی.اور اشتہارات ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء بھی دُور دُور ملکوں تک تقسیم کئے گئے تھے.پھر آخر کار جیسا کہ پیش از وقوع بیان کیا گیا اور لکھا گیا تھا.وہ سب باتیں دلیپ سنگھ کی نسبت پوری ہو گئیں.“ سرمه چشم آریہ صفحہ ۱۸۷، ۱۸۸.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۳۶،۲۳۵)
حیات احمد ۴۹۵ جلد دوم حصہ سوم عربی الہام کے یہ دو فقرہ ہیں نَازِلٌ مِّنَ السَّمَاءِ وَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ - جونزول یا قریب النزول پر دلالت کرتے ہیں.تبلیغ رسالت جلد ا صفحہ ۶ حاشیہ مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۰۱ حاشیہ.باردوم) پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ ” انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے.یا ہم دوسرے کی راہ تکیں.“ (اشتہار ۱/۸اپریل ۱۸۸۶ تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۷۶.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۰۲ بار دوم ) ۱۵ را پریل ۱۸۸۶ء کے بعد ” جن دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی.اور لوگوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے شور مچایا.کہ پیشگوئی غلط نکلی.ان دنوں میں یہ الہام ہوا تھا.کی دشمن کا بھی خوب وار نکلا تسپر بھی وہ وار پار نکلا یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی مگر جلد فہیم لوگ سمجھ جائیں گے اور ناواقف شرمندہ ہوں گے.“ الحکم مورخہ ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ کالم نمبر 1) ۲۶ اپریل ۱۸۸۶ء ' شیخ مہر علی شاہ کی نسبت ضرور قادیان میں ۲۶ اپریل ۱۸۸۶ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی.جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی چنانچہ ان ہی دنوں میں ان کو اطلاع بھی دی گئی تھی.خواب یہ تھی کہ ان کے فرش نشست کو آگ لگ گئی.اور ایک بڑا تہلکہ برپا ہوا اور ایک پُر ہول شعلہ آگ کا اٹھا.اور کوئی نہیں تھا جو اس کو بجھاتا.آخر میں میں نے بار بار پانی ڈال کر اس کو بجھا دیا پھر آگ نظر نہیں آئی.مگر دھواں رہ گیا.مجھے معلوم نہیں کہ کس قدر اس آگ نے جلا دیا مگر ایسا ہی دل میں گزرا کہ کچھ تھوڑا نقصان ہوا.یہ حاشیہ:.سیدہ عصمت کی پیدائش اور اس پر مخالفین کے اعتراضات وغیرہ کے متعلق ضروری اشتہارات اوپر آچکے ہیں (عرفانی)
حیات احمد ۴۹۶ جلد دوم حصہ سوم خواب تھی.یہ خط شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد ان کے گھر سے ان کے بیٹے کو ملا.پھر بعد اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے.جن میں اکثر حصہ وحشت ناک اور کسی قدرا چھا تھا.میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں.اور انجام بخیر ہے.مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی.جس کی نسبت دعوی سے بیان کیا جاۓ.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب از مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحب - مکتوبات احمد یہ جلد ۵ حصہ ۳ صفحه ۲.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۳۸۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸ جون ۱۸۸۶ء کے قریب ” شاید چار ماہ کا عرصہ ہوا.کہ عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا.کہ ایک فرزند قوى الطاقتين كامل الظاہر والباطن تم کو عطا کیا جائے گا.سواس کا نام بشیر ہوگا.اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ سے ہوگا.اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہو رہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا.اور جناب الہی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ تمہیں عطا ہوگی.وہ صاحب اولاد ہوگی.اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب الہام ہوا تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے.تین اس میں سے تو آم کے تھے.مگر ایک پھل سبز رنگ بہت بڑا تھا.وہ اس جہاں کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا اگر چہ ابھی یہ الہامی بات نہیں مگر میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہاں کے پھلوں میں سے نہیں ہے وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مراد اولاد ہے جبکہ ایک پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل دیئے گئے.جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے.تو یہی سمجھا جاتا ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب 66 از مکتوبات مورخہ ۱۸ جون ۱۸۸۶ء بنام حضرت خلیفہ مستح اول.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۲۵ مرتبه عرفانی الکبیر مکتوبات احمد جلد۲ صفحه۱۳٫۱۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اگست ۸۶ ''ہم پر آج بھی جو تیسری اگست ۸۶ء ہے.منجانب اللہ اس کی نسبت معلوم ہوا ہے کہ اگر وہ تو بہ نہ کرے تو اس کی بیرا ہیوں کا وبال جلد تر اسے درپیش ہے.اور اگر یہ معمولی رنجوں میں سے کوئی رنج ہو.تو اُس کو پیشگوئی کا مصداق مت سمجھو.لیکن اگر ایسا رنج پیش
حیات احمد ۴۹۷ جلد دوم حصہ سوم آیا جو کسی کے خیال گمان میں نہیں تھا تو پھر سمجھنا چاہئے کہ یہ مصداق پیشگوئی ہے لیکن اگر وہ باز آنے والا ہے.تو پھر بھی انجام بخیر ہوگا یا تنبیہ کے بعد راحت پیدا ہو جائے گی.“ سرمه چشم آریہ صفحہ ۱۹۰ و ۱۹.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۳۸ ، ۲۳۹) ۱۸۸۷ء کے واقعات و حالات سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے سوانح حیات میں اب ہر دن ایک خاص اہمیت لے کر آنے لگا.۱۸۸۶ء کے مجاہدہ اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بشارتوں کے ظہور کی وجہ سے ہر دن ایک ہنگامہ خیزی لے کر آتا تھا اور آئے دن خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہو رہے تھے.ہر طرف جیسے انتشار روحانیت ہو رہا تھا شیطانی قوتیں بھی پورے زور کے ساتھ مقابلہ میں جمع ہو رہی تھیں میں اس سال کے واقعات کو بیان کرنے سے پہلے مناسب سمجھتا ہوں کہ ۱۸۸۷ء کے الہامات و رؤیا کو درج کر دوں میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے موقعہ دیا کہ اکثر الہامات کو محفوظ کر دوں جیسا کہ مکتوبات وغیرہ کے حوالہ سے معلوم ہو گا.جن کو اس خاکسار نے مرتب کر کے شائع کر دیا.۱۸۸۷ء کے الہامات وغیرہ ۱۳ / فروری ۱۸۸۷ء 'آج مجھے فجر کے وقت یوں القا ہوا.یعنی بطور الہام عبد الباسط معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے.آج آپ کے خط میں عبدالباسط دیکھا.شاید آپ کی طرف اشارہ ہو.واللہ اعلم.“ از مکتوب ۱۳ فروری ۱۸۸۷ء بنام حضرت خلیفۃ المسح اول./ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۲۰.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۲۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اپریل ۱۸۸۷ء " چند روز ہوئے.میں نے اس قرضہ کے تردد میں خواب میں دیکھا تھا.کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں.اور اوپر چڑھنا چاہتا ہوں مگر ہاتھ نہیں پہنچتا.اتنے میں ایک بندہ خدا آیا.اُس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا.اور میں اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر
حیات احمد ۴۹۸ جلد دوم حصہ سوم اوپر کو چڑھ گیا.اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے.آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طور پر یہ جم گیا.کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تر ڈر ہوا.آپ ہی ہیں.کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کے لئے دعا کی ایسا ہی برقتِ قلب خط کے پڑھنے سے آپ کے لئے منہ سے دلی دعا نکل گئی فَمُسْتَجَابٌ إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَى مکتوب ۲ رئی علاء بنام حضرت خلیفہ مسج اول مکتوب احمدیہ جلد پنجم نمبر صفحه ۲ مکتوبات احمد جلد۲ صفر ۳ مطبوعه ۲۰۵) ۱۸۸۷ء ” ایک دفعہ ہم ریل گاڑی پر سوار تھے اور لدھیانہ کی طرف جا رہے تھے کہ الہام ہوا.” نصف ترا نصف عمالیق را اور اس کے ساتھ یہ تفہیم ہوئی کہ امام بی بی جو ہمارے جدی شرکاء میں سے ایک عورت تھی مر جائے گی اور اس کی زمین نصف ہمیں اور نصف دیگر شرکاء کو مل جائے گی.یہ الہام ان دوستوں کو جو اس وقت ہمارے ساتھ تھے، سنا دیا گیا تھا.چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا.کہ عورت مذکورہ مرگئی اور اس کی نصف زمین ہمیں اور نصف بعض دیگر شرکاء کو ملی.“ (نزول المسیح صفحه ۲۱۳ ۲۱۴.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۹۲٬۵۹۱) قریباً ۱۸۸۷ء ” ایک دفعہ ہمیں موضع گنجراں ضلع گورداسپور کو جانے کا اتفاق ہوا اور شیخ حامد علی ساکن تھصہ غلام نبی ہمارے ساتھ تھا.جب صبح کو ہم نے جانے کا قصد کیا تو الہام ہوا کہ اس سفر میں تمہارا اور تمہارے رفیق کا کچھ نقصان ہوگا.“ چنانچہ راستہ میں شیخ حامد علی کی ایک چادر اور ہمارا ایک رومال گم ہو گیا.اس وقت حامد علی کے پاس وہی چادر تھی.“ (نزول المسیح صفحه ۲۲۹ و۲۳۰ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۰۷، ۶۰۸ ) ۱۸۸ء ”ایک دفعہ میری بیوی کے حقیقی بھائی سید محمد اسمعیل کا (جن کی عمر اس وقت دس برس کی تھی ) پٹیالہ سے خط آیا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اسحاق میرے چھوٹے بھائی کو کوئی
حیات احمد ۴۹۹ جلد دوم حصہ سوم سنبھالنے والا نہیں ہے.اور پھر خط کے اخیر میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اسحاق بھی فوت ہو گیا ہے.اور بڑی جلدی سے بلایا کہ دیکھتے ہی چلے آویں.اس خط کے پڑھنے سے بڑی تشویش ہوئی کیونکہ اس وقت میرے گھر کے لوگ بھی سخت تپ سے بیمار تھے تب مجھے اسی تشویش میں یکدفعہ غنودگی ہوئی اور یہ الہام ہوا.إِنَّ كَيْدَ كُنَّ عَظِيمٌ یعنی اے عورتو! تمہارے فریب بہت بڑے ہیں.اس کے ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ کہ یہ ایک خلاف واقعہ بہانہ بنایا گیا ہے.تب میں نے شیخ حامد علی کو جو میرا نوکر تھا پٹیالہ روانہ کیا.جس نے واپس آکر بیان کیا کہ اسحاق اور اس کی والدہ ہر دو زندہ موجود ہیں.“ (نزول المسیح صفحه ۲۳۲ و ۲۳۳.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۱۱،۶۱۰ ) اء بیجا تھ برہمن ولد بھگت رام کو کشفی طور پر اطلاع دی گئی تھی کہ ایک برس کے عرصہ تک تجھ پر مصیبت نازل ہونے والی ہے اور کوئی خوشی کی تقریب بھی ہو گی.چنانچہ اس پیشگوئی پر اس کے دستخط کرائے گئے جواب تک موجود ہیں.پھر بعد ازاں ایک برس کے عرصہ میں اس کا باپ جوانی کی عمر میں ہی فوت ہو گیا.اور اسی دن ان کے ہاں شادی کی تقریب بھی پیش تھی.یعنی کسی کا بیاہ تھا.“ ( شحنه حق روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴ ۳۸) ار جولائی ۱۸۸۷ء ” میں نے آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں.دل میں خیال آیا کہ ان کو کیا کھلا ئیں.آم تو خراب ہو گئے ہیں.تب اور آم غیب سے موجود ہو گئے.واللہ اعلم.اس کی کیا تعبیر ہے.“ مکتوب مورخہار جولائی ۱۸۸۷ء بنام چودھری رستم علی مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۳ صفی ۴۲ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۵۰۷ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۵۰۰ جلد دوم حصہ سوم مخالفت کا سلسلہ آریہ سماج کی طرف سے اور اس کا علاج سرمه چشم آریہ کی اشاعت اور مقابلہ روحانی کی دعوت کی وجہ سے آریہ سماج کی طرف سے مخالفت کا بازار گرم ہو گیا.یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام مذاہب میدان میں نکل رہے تھے ہر ایک اپنے مذہبی عقائد کی فضیلت بیان کرنے کے لئے آزاد تھا.اس عرصہ میں جب کہ سرمہ چشم آریہ کے جواب اور دعوت چہل روزہ وغیرہ کے مقابلہ میں کسی کو ہمت نہ ہوئی تو بعض لوگوں نے نہایت سخت الفاظ اور تہذیب سے گرے ہوئے اشتہارات آپ کے خلاف شائع کئے اور بعض کے عنوانات یہ تھے.وو بیل نہ کو دا کو دی گون یہ تماشہ دیکھے کون.سرمہ چشم آریہ کی حقیقت اور فن و فریب غلام احمد کی کیفیت.ان اشتہارات کے علاوہ آپ کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں چنانچہ آپ نے اپنی کتاب شحنہ حق میں جو ۱۸۸۷ء میں شائع ہوئی اس خط کا ذکر اس طرح پر کیا ہے.۲۷ جولائی ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں جو آریوں کی طرف سے مطبع چشمہ نور میں چھپا ہے ہمیں موت کی بھی دھمکی دی گئی ہے کہ تین سال کے اندر اندر تمہارا خاتمہ ہو جائے گا اور پھر ایک خط جو تین دسمبر ۱۸۸۶ء کو ایک گمنام آریہ بن کر کسی معلوم الحقیقت آریہ صاحب نے بصیغہ بیرنگ روانہ کیا ہے اس میں صاف صاف قتل کر دینے کا اعلان ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ زہر خورانی یا کسی اور تجویز سے بہر حال کچھ اندر ہی اندرا تفاق کر لیا گیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط کسی نادان مدرسہ کے لڑکے سے لکھایا گیا ہے جس کا دستخط خراب ہے مگر عبارت ایسے طرز اور ڈھنگ کی ہے جو ۲۷ / جولائی ۱۸۸۶ء کے اشتہار کی عبارت ہے لیکن یادر ہے کہ ہم حق کے اظہار میں ایسے اعلانوں سے ہرگز نہیں ڈرتے.ایک جان کیا اگر ہماری ہزار جان ہو تو یہی خواہش ہے کہ اس راہ میں فدا ہو جائے اور گوہم جانتے ہیں کہ یہ تحریر میں کن حضرات کی ہیں اور کن اندرونی اور بیرونی سازشوں اور مشوروں اور باہم خط و کتابت کے بعد کسی قوی امید سے کسی اسی جگہ کے یہودا اسکر یوطی یا بگڑے ہوئے سکھ کی دم دہی سے جاری
حیات احمد ۵۰۱ جلد دوم حصہ سوم کئے گئے ہیں مگر ہمیں کچھ ضرور نہیں کہ مجازی حکام کو اس کی اطلاع دیں کیونکہ جو کچھ یہ لوگ ہماری نسبت بدارا دے کر رہے ہیں ہمارے حاکم حقیقی کو ان کا علم پہلے ہی سے حاصل ہے“.شحنه حق روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۲۸ تا ۳۳۰ حاشیه ) آپ نے اس مخالفت میں موت کی دھمکی کا جواب تو مومنانہ روح سے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُون کے جذبہ کے اظہار سے دے دیا اور اعتراضات اور قلمی حملوں کا جواب شحنہ حق کی صورت میں دیا.چنانچہ فرمایا ہم متعجب ہیں کہ اُن کی اِن تیزیوں کا باعث ہے کیا رام سنگھ کے کوکوں کی روح تو ان میں کہیں گھس نہیں آئی اے آریو ہمیں قتل سے تو مت ڈراؤ ہم ان ناکارہ دھمکیوں سے ہرگز ڈرنے والے نہیں جھوٹ کی بیخ کنی ہم ضرور کریں گے.اور تمہارے ویدوں کی حقیقت ذرہ ذرہ کر کے کھول دیں گے.☆ نمی ترسیم از مردن چنین خوف از دل افگند تیم که ما مردیم زاں روزے کہ دل از غیر برکندیم دل و جان در ره آن داستان خود فدا کردیم اگر جان ما ز ما خواهد بصد دل آرزو مندیم صبر و شکیب تو ہمارا شعار ہے مگر ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ...یوں تو کون شخص ہے کہ ایک دن نہیں مرے گا مگر یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ ایسی دھمکیاں ان لوگوں کے دلوں پر کیا کارگر ہوسکتی ہیں جن کو کتاب الہی نے پہلے ہی سے یہ تعلیم دے رکھی ہے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: ۱۶۳) یعنی مخالفین کو کہہ دے کہ میں جان کو دوست نہیں رکھتا میری عبادات اور میرا جینا اور میرا مرنا خدا کے لئے ہے وہی حقدار خدا جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا ہے.“ شحنه حق روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۳۰ حاشیه ) ا ترجمہ.ہم مرنے سے نہیں ڈرتے ہم نے یہ خوف دل سے نکال دیا ہے ہم تو اسی دن سے مر چکے جس دن سے ہم نے غیر سے اپنا دل ہٹا لیا ہے.ہم نے اس محبوب کی راہ میں جان و دل فدا کر دیا.اگر وہ ہماری جان بھی مانگے تو ہم شوق سے دیں گے.
حیات احمد ۵۰۲ کتاب شحنہ حق کی تالیف کے اسباب جلد دوم حصہ سوم کتاب شحنہ حق کی تالیف مارچ ۱۸۸۷ء کے اوائل میں ہوئی اور یہ کتاب دراصل ان اشتہارات کے جواب میں لکھی گئی جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے جو جولائی ۱۸۸۶ء کے آخر میں دیئے گئے تھے.آپ نے صبر اور حوصلہ سے ان تمام بدگوئیوں کو برداشت کیا لیکن جب اس میں شدت پیدا ہوگئی تو آپ نے شحنہ حق کے ذریعہ ان تمام الزامات کا جواب دے دیا جس کے بعد اس کے جواب کی بھی کسی کو ہمت نہ ہوئی.ہجرت کا عزم جب یہ شدت مخالفت حد سے گزرگئی تو آپ نے عزم کیا کہ قادیان کی سکونت کو مع اس تمام جائیداد کے جو آپ کے آباؤ اجداد کے وقت سے جز ء ا گر گئی تھی چھوڑ دیں چنانچہ آپ نے اپنے اس عزم کا اظہار اس طرح پر کیا.ہم نہیں جانتے کہ ہم نے ان کا کیا گناہ کیا ہے راستی کو تہذیب اور نرمی سے بیان کرنا ہمارا شیوہ ہے ہاں چونکہ یہ لوگ کسی طور پر سے ناراستی کو چھوڑ نا نہیں چاہتے اس لئے سچ کہنے والے کے جانی دشمن ہو جاتے ہیں سوچونکہ ہمارے نزدیک کلمہ حق سے خاموش رہنا اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے صاف اور روشن علم دیا ہے وہ خلق اللہ کو نہ پہنچانا سب گناہوں سے بدتر گناہ ہے اس لئے ہم ان کی قتل کی دھمکیوں سے تو نہیں ڈرتے اور نہ بجز ارادہ الہی قتل کر دینا ان کے اختیار میں ہے..ہم یہ بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ اب ہم اپنے پیارے زاد بوم قادیان کو مصلحت مذکورہ بالا کے لحاظ سے چھوڑ دیں اور کسی دور کے شہر میں جا کر مسکن اختیار کریں کیونکہ جس جگہ میں ہمارا رہنا ہمارے حاسدوں کے لئے دکھ کا موجب ہوان کا رفع تکلیف کرنا بہتر ہے کیونکہ بخدا ہم دشمنوں کے دلوں کو بھی تنگ کرنا نہیں چاہتے اور ہمارا خدا ہر جگہ ہمارے
حیات احمد ۵۰۳ جلد دوم حصہ سوم ساتھ ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں لیکن میں کہتا ہوں کہ نہ صرف نبی بلکہ بجز اپنے وطن کے کوئی راستباز بھی دوسری جگہ ذلت نہیں اٹھاتا اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَمَنْ يُّهَا جِرْ فِي سَبِيلِ اللهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةُ لا یعنی جو شخص اطاعت الہی میں اپنے وطن کو چھوڑے تو خدا تعالیٰ کی زمین میں ایسے آرام گاہ پائے گا جن میں بلا حرج دینی 66 خدمات بجالا سکے سواے ہم وطنوں ہم تمہیں عنقریب الوداع کہنے والے ہیں.“ ( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۲۶) مگر یہ ارادہ ہجرت اللہ تعالیٰ کے بعض الہامات اور وحی خفی کے ارشادات کی وجہ سے ملتوی ہو گیا.اور آپ نے اپنی بقیہ زندگی قادیان ہی میں بسر کی اس لئے کہ وحی الہی نے آپ کو یہ بشارت دی تھی وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ آپ کی زندگی میں کئی بار آپ کے قتل کے فتویٰ مخالف الرائے علماء اسلام نے شائع کئے اور بعض نے آپ کے قتل پر محض سرحدی لوگوں کو معمور کیا.میں جو اس کتاب کا مؤلف ہوں ذاتی علم سے یہ کہتا ہوں کہ ضلع راولپنڈی کے ایک شخص نے آپ کے قتل کے لئے قادیان میں رومیوں کو بھیجا تھا.اور ان کے حرکات وسکنات سے آگاہ ہو کر متعلقہ حکام کومیں نے مطلع کیا تھا مگر وہ اپنی ناکامی کا یقین کر کے واپس چلے گئے.غرض اس قسم کی دھمکیاں اور کوششیں بارہا دی گئیں اور کی گئیں لیکن آپ ہر مرحلہ پر ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ نمایاں طور پر پورا ہوتا رہا.حضرت اقدس اپنے سلسلہ تبلیغ واشاعت حق میں پوری قوت کے ساتھ مصروف تھے، انگریزی اشتہارات چھپوا کر تمام بلاد یورپ میں شائع کئے گئے اور یورپ کے مقتدر لوگوں کو بھیجے گئے.اور آپ کو اپنی صداقت پر کامل یقین تھا جو لوگ اس نوعیت کے تھے آپ نے ان کو جواب دیا کہ ١٠١ ل النساء : 101 ا ترجمہ.اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا.
حیات احمد وو ۵۰۴ جلد دوم حصہ سوم خیال کرنا چاہئے کہ جو شخص تمام دنیا میں اپنے الہامی دعوی کے اشتہار بھیج کر سب قسم کے مخالفوں کو آزمائش کے لئے بلاتا ہے اس کی یہ جرات اور شجاعت کسی ایسی بنا پر ہو سکتی ہے جو نرا فریب ہے.کیا جس کی دعوت اسلام و دعویٰ الہام کے خطوں نے امریکہ اور یورپ کے دور دور ملکوں تک ہل چل مچادی ہے.کیا ایسی استقامت کی بنیا دصرف لاف و گزاف کا خس و خاشاک ہے.کیا تمام جہان کے مقابل پر ایسا دعویٰ وہ منگار بھی کر سکتا ہے کہ جو اپنے دل میں جانتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں.اور خدا میرے ساتھ نہیں“.( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۷۳٫۳۷۲) مسٹر الیگزینڈ رویب کا قبول اسلام چونکہ او پر اس دعوت اسلام کے اثرات میں مسٹر الیگزینڈر آر.ویب کا ذکر آ چکا ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق اور اس کے قبول اسلام کو جو حضرت اقدس ہی کی تبلیغ کا نتیجہ تھا کسی قدر تفصیل سے بیان کیا جاوے.اس خصوص میں حضرت مولوی حسن علی مسلم مشنری نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے میں اسے ہی یہاں دوں گا.حضرت مولوی حسن علی ہندوستان میں پہلے مسلم مشنری تھے جنہوں نے ایک معقول ملا زمت چھوڑ کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کیا اور بالآخر وہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.وہ چونکہ مسٹر الیگزینڈر آر.ویب کے ساتھ رہے ہیں ان کا بیان نہایت اہم ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں.ملک امریکہ میں اسلام کیونکر پھیل رہا ہے.اس قصہ سے بہت حضرات پورے واقف نہیں ہوں گے.ملک امریکہ کے شہر ہڈسن علاقہ نیویارک میں ۱۸۴۶ء میں ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام الیگزینڈر رسل وب رکھا گیا.اس شخص کا باپ ایک نامی ومشہور اخبار کا اڈیٹر و مالک تھا.نوٹ.امریکہ سے ابھی ہمارے نام ایک چٹھی آئی ہے.جس کے مضمون کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.صاحب من ایک تازہ پرچہ اخبار اسکاٹ صاحب ہمہ اوستی میں میں نے آپ کا خط پڑھا جس میں آپ نے ان کو حق دکھانے کی دعوت کی ہے اس لئے مجھے کو اس تحریک کا شوق ہوا.میں نے مذہب
حیات احمد ۵۰۵ جلد دوم حصہ سوم ویب صاحب نے کالج میں پوری تعلیم پائی.اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر ایک ہفتہ واری اخبار جاری کیا.ویب صاحب کی لیاقت اعلیٰ طرز و تحریر کا شہرہ دور دور ہوا.ایک روزانہ اخبار سینٹ جوزف مسوری ڈیلی گزٹ کی ایڈیٹری کے معزز عہدہ پر ویب صاحب کی دعوت کی گئی.پھر اس کے بعد اور کئی اخباروں کی ایڈیٹری کا کام ویب صاحب کے سپرد ہوتا رہا کوئی صاحب لفظ اخبار کے کہنے سے کہیں رفیق ہند علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اخبار عام کی اڈیٹری نہ سمجھ لیں.ہندوستان کے دیسی اخباروں کو امریکہ کے اخباروں سے وہی نسبت ہے جو ایک تین چار برس کے لڑکے کو ایک چالیس پچاس برس کے ذی علم و تجربہ کار شخص کے ساتھ ہوسکتی ہے.امریکہ کے اخباروں کی تعداد کا حساب ہزار سے نہیں ہوتا بلکہ لاکھ سے.پھر ایڈیٹر بھی اُسی لیاقت و دماغ کا آدمی ہوتا ہے جو اگر ضرورت ہو تو وزارت کے کام کو بھی انجام دے سکے.جس اخبار کے ویب صاحب ایڈیٹر تھے وہ امریکہ میں دوسرے نمبر کا اخبار گنا جاتا تھا.یعنی ایک ہی اخبار ساری قلمرو میں ایسا تھا.جو ویب صاحب کے اخبار سے زیادہ درجہ اور رتبہ کا تھا.ویب صاحب کی قابلیت اور لیاقت کا ایسا شہرہ ہوا کر پریذیڈنٹ سلطنت امریکہ نے ان کو سفارت کے معزز عہدہ پر مقرر کر کے جزیرہ فلپائن کے پایہ تخت منیلا کو روانہ کیا سفیر سلطنت گورنر کا ہم رتبہ ہوتا ہے.۱۸۷۲ء میں مسٹر ویب نے دین عیسوی کو ترک کر دیا.انہوں نے دیکھا کہ عیسائی مذہب سراسر خلاف عقل و عدل ہے.کئی برس تک ویب صاحب کا کوئی دین نہ تھا لیکن ان کو ایک قسم کی بے چینی تھی.دل میں خیال کیا کہ اس جہاں کے سارے ادیان پرغور کروں.شائدان میں سے کوئی سچا مذہب ہو.پہلے پہل بدھ کی تحقیقات کامل کے بعد اس مذہب کو تشفی بخش نہ پایا.اسی بقیہ حاشیہ.بدھ اور برہمن مت کی بابت کچھ پڑھا ہے اور کسی قدر تعلیمات زردشت و کنفیوشس کا مطالعہ بھی کیا ہے.لیکن محمد صاحب کی نسبت بہت کم.میں راہ راست کی نسبت ایسا مذبذب رہا ہوں اور اب بھی ہوں کہ گو میں عیسائی گروہ کے ایک گرجا کا امام ہوں مگر سوائے معمولی اور اخلاقی نصیحتوں کے اور کچھ سکھلانے کے قابل نہیں غرض میں سچ کا متلاشی ہوں اور آپ سے اخلاص رکھتا ہوں.آپ کا خادم الگزنڈر آروب.پستہ.۳۰۲۱.اسٹرن رو نیوسینٹ لوئس مسوری اضلاع متحدہ امریکہ.
حیات احمد ۵۰۶ جلد دوم حصہ سوم زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مجد د زمان کے انگریزی اشتہارات کی یورپ و امریکہ میں خوب اشاعت ہو رہی تھی.ویب صاحب نے اشتہار کو دیکھا.اور مرزا صاحب سے خط و کتابت شروع کی.جس کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ویب صاحب نے اسلام قبول کر لیا.حاجی عبد اللہ عرب ایک میمن تاجر ہیں.جو کلکتہ میں تجارت کرتے تھے.جب اللہ تعالیٰ نے لاکھ دو لاکھ کی پونجی کا ان کو سامان کر دیا.تو ہجرت کر کے مدینہ میں جا بسے.وہاں باغوں کے بنانے میں بہت کچھ صرف کیا.بہت عمدہ عمدہ باغ تیار تو ہو گئے لیکن عرب کے بدوؤں کے ہاتھوں پھل ملنا مشکل.آخر بیچارے پریشانی میں مبتلا ہو گئے.جدہ میں آکر ایک مختصر پونجی سے تجارت شروع کر دی بمبئی سے تجارتی تعلق ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں بھی کبھی کبھی آ جاتے ہیں.یہ بزرگ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا مومن ہے اللہ نے اس شخص کو مادر زاد ولی بنایا ہے.اس کمال و خوبی کا مسلمان میری نظروں سے بہت ہی کم گزرا.مثل بچوں کے دل گناہوں سے پاک وصاف خدا پر بہت ہی بڑا تو کل.ہمت نہایت بلند.مسلمانوں کی خیر خواہی کا وہ جوش کہ صحابہ یاد پڑ جائیں.اے خدا اگر عبداللہ عرب کے ایسے پانچ سو مسلمانوں کی جماعت بھی تو قائم کر دے تو ابھی مسلمانوں کی دنیا بھی بدل جائے.خدا نے اپنے فضل و کرم سے مجھ کو بھی کچھ تھوڑا سا جوش اہلِ اسلام کی خیر خواہی کا عنایت فرمایا ہے.لیکن جب میں عبداللہ عرب کے جوش پر غور کرتا ہوں تو سر نیچا کر لیتا ہوں.مجھ کو عبد اللہ عرب کے ساتھ بڑا نیک ظن ہے اور وہ بھی مجھے محبت سے ملتے ہیں.مجھ کو عبداللہ کے ساتھ رہنے کا عرصہ تک موقع ملا ہے.اگر میں ان کی روحانی خوبیوں کو لکھوں تو بہت طول ہو جائے گا.اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس آخری زمانہ میں بھی اس قسم کے مسلمان موجود ہیں.مکہ معظمہ میں نہر زبیدہ کی اصلاح کے لئے قریب چار لاکھ روپیہ چندہ ایک عبداللہ عرب صاحب کی کوشش سے جمع ہوا تھا.بمبئی میں عبداللہ عرب صاحب نے الگزنڈر رسل ویب سفیر امریکہ کے مسلمان ہونے کا حال سنا.فوراً انگریزی میں خط لکھوا کر ویب صاحب کے پاس روانہ کیا.ویب صاحب نے بھی ویسے ہی گرم جوشی کے ساتھ جواب دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ
حیات احمد ۵۰۷ جلد دوم حصہ سوم ☆ کسی طرح منیلا آ سکتے تو امریکہ میں اشاعت اسلام کے کام میں کچھ صلاح و مشورہ کیا جاتا.حاجی عبداللہ عرب صاحب کو حضرت پیر سید اشہد الدین جھنڈے والے سے بیعت ہے.شاہ صاحب کی بڑی عظمت عبداللہ عرب کے دل میں ہے مجھ سے اس قدر تعریف اُن کی بیان کی ہے کہ مجھ کو بھی مشتاق بنا دیا ہے کہ ایک بار حضرت پیر سید اشہد الدین صاحب کی ملاقات ضرور کروں جب کوئی اہم کام پیش ہوتا ہے.تو حاجی عبداللہ عرب صاحب اپنے پیرومرشد سے صلاح ضرور ہی لے لیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنے مرشد سے منیلا جانے کے بارے میں استفسار کیا.استخارہ کیا گیا.شاہ صاحب نے کہا کہ ضرور جاؤ.اِس سفر میں کچھ خیر ہے عبداللہ عرب صاحب نے مجھ کو خط لکھا کہ تو بھی منیلا چل.میں انگریزی نہیں جانتا.اور ویب صاحب اردو نہیں جانتے.ایک مترجم ضروری ہے.اور ایک نو مسلم سے ملنا ہے.نہ معلوم اس بیچارہ کو دین اسلام کے بارہ میں کیا کچھ پوچھنے کی حاجت ہو.میں اس زمانہ میں کٹک میں تھا.کلکتہ میں حاجی صاحب میرا بہت انتظار کرتے رہے مسلمانانِ کٹک نے مجھ کو جلد رخصت نہ دی.آخر وہ ایک یوریشین نو مسلم کو لیکر منیلا چلے گئے.اس سفر میں حاجی صاحب کا ہزار روپیہ سے بالا صرف ہوا.ویب صاحب سے ملاقات ہوئی.یہ بات طے پائی کہ ویب صاحب سفارت کے عہدہ سے استعفا داخل کریں.اور اشاعت اسلام کے لئے حاجی عبداللہ عرب صاحب چندہ جمع کریں.حاجی صاحب نے ہندوستان واپس آ کر مجھ سے ملاقات کی اور میرے ذریعہ سے ایک جلسہ حیدرآباد میں قائم ہوا.جس میں چھ ہزار روپیہ چندہ بھی جمع ہوا لیکن میں نے حاجی صاحب سے کہہ دیا کہ ابھی ویب صاحب کو عہدہ سے علیحدہ ہونے کو نہ لکھو.جب تک چندہ پورا جمع نہ ہوئے.حاجی صاحب نے اپنے جوش میں میری نہ سنی اور بمبئی سے تار دیا کہ سب ٹھیک ہے تم نوکری سے استعفا داخل کر دو.چنانچہ ویب صاحب نے ویسا ہی کیا اور ہندوستان آئے.میں بمبئی سے ساتھ ہوا بمبئی.پونہ.حیدر آباد.مدراس حاشیہ.یہ پیر صاحب ضلع حیدر آباد سندھ تحصیل ہالہ میں رہتے ہیں.ان کے لاکھوں لاکھ مرید ہیں.اور علاقہ سندھ میں لوگ ان کی بڑی قدر کرتے ہیں.ان کی کرامات و بندگی کے سب قائل ہیں.
حیات احمد ۵۰۸ جلد دوم حصہ سوم میں ساتھ رہا.حیدر آباد میں ویب صاحب نے مجھ سے کہا کہ جناب مرزا غلام احمد صاحب کا مجھ پر بڑا احسان ہے انہیں کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوا.میں ان سے ملنا چاہتا ہوں.مرزا صاحب کی بدنامی وغیرہ کا جو قصہ میں نے سنا تھا.ان کو سنایا.ویب صاحب نے حضرت مرزا صاحب کو ایک خط لکھوایا.جس کا جواب آٹھ صفحہ کا حضرت نے لکھ کر بھیجا اور مجھ کو لکھا کہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے ویب صاحب کو سنا دینا چنا نچہ میں نے ایسا ہی کیا.ویب صاحب نہایت شوق وادب کے ساتھ حضرت اقدس کا خط سنتے رہے.خط میں حضرت نے اپنے اس دعوی کو مع دلیل کے لکھا تھا.پنجاب کے علماء کی مخالفت اور عوام میں شورش کا تذکرہ تھا.حضرت نے یہ بھی لکھا تھا کہ مجھ کو بھی تم سے ( یعنی ویب صاحب سے ملنے کی بڑی خواہش ہے.ویب صاحب حاجی عبد اللہ عرب اور میری ایک کمیٹی ہوئی کہ کیا کرنا چاہئے.رائے یہی ہوئی کہ مصلحت نہیں ہے کہ ایسے وقت میں کہ ہندوستان میں چندہ جمع کرنا ہے.ایک ایسے بدنام شخص سے ملاقات کر کے اشاعت اسلام کے کام میں نقصان پہنچایا جائے.اب اس بد فیصلہ پر افسوس آتا ہے.ویب صاحب لاہور گئے.تو اسی خیال سے قادیان نہ گئے.لیکن بہت بڑے افسوس کی بات یہ ہوئی کہ ایک شخص نے ویب صاحب سے پوچھا کہ آپ قادیان حضرت مرزا صاحب کے پاس کیوں نہیں جاتے.تو انہوں نے یہ گستاخانہ جواب دیا کہ قادیان میں کیا رکھا ہوا ہے.لوگوں نے ویب صاحب کے اس نامعقول جواب کو حضرت اقدس تک پہنچا دیا.غرض ہندوستان کے مشہور شہروں کی سیر کر کے ویب صاحب تو امریکہ جا کر اشاعت اسلام کے کام میں سرگرم ہو گئے.دو ماہ تک میں ویب صاحب کے ساتھ رہا.ویب صاحب حقیقت میں آدمی معقول ہے.اور اسلام کی سچی محبت اس کے دل میں پیدا ہوگئی ہے.مجھ سے جہاں تک ہو سکا.اُن کے معلومات بڑھانے.خیالات کج کو درست کرنے اور مسائل ضروری کی تعلیم میں کوشش کی.اور شیخ محمد میرا ہی رکھا ہوا نام ہے.
حیات احمد ۵۰۹ جلد دوم حصہ سوم خط و کتابت اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ومسٹر الگزنڈر ویب صاحب سے جو خط و کتابت ہوئی درج ذیل ہے.دوسری چٹھی آج یکم اپریل ۱۸۸۷ء کو امریکہ سے پہنچی ہے جس میں اس قدر شوق اور اخلاص اور طلب حق کی بو آتی ہے کہ ہم نے اپنے مخالف ہم وطنوں کے ملاحظہ کے لئے جو باوجود نزدیک ہونے کے بہت ہی دور ہیں اُس چٹھی کا عکس معہ ترجمہ درج کر دینا قرین مصلحت سمجھا اور ساتھ وہ مختصر جواب جو ہم نے لکھا ہے ناظرین کی اطلاع کے لئے تحریر کیا گیا ہے اور وہ چٹھی مع ترجمہ یہ ہے.۳۰۲۱.ایسٹن ایونیو سینٹ لوئی مسوری یو.ایس.اے ۲۴ فروری ۱۸۸۷ء مرزا غلام احمد صاحب مخدومنا آپ کی چٹھی مورخہ ۱۷.دسمبر میرے پاس پہنچی.میں اس قدر شکر گزار اور مرہون منت ہوا 3021 EASTON AVENUE, ST.Louis Missouri, U.S.A.February 24th, 1887 BABU MIRZA GHULM AHMAD Esteemed Sir, I cannot adequately express to you my gratitude for the letter received from you underd ate of December 1 7.I had almost given up all hope of receiving a کہ بیان نہیں کر سکتا.جواب پہنچنے کی میں تمام reply but the contents of the امیدیں قطع کر چکا تھا.لیکن اس آپ کی چٹھی letter and circulars fully repaid اور اشتہار نے توقف کا پورا پورا عوض دے دیا.به سبب ہیچمدانی اور کم واقفیتی کے میں صرف یہی me for the delay.I hardly know what to say in reply except that I am stil very a nxious to gain جواب میں لکھ سکتا ہوں کہ ہمیشہ سے میرا یہی more of the truth than I have شوق اور یہی آرزو ہے کہ سچی حقیقتوں سے مجھے thus far found.After reading your circulars an
حیات احمد ۵۱۰ جلد دوم حصہ سوم اور بھی زیادہ خبر ہو.آپ کا اشتہار پڑھنے کے idea occured to me which I will بعد میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا جس کو your میں بغرض غور و تفکر حضور پیش کروں گا نہ صرف معقولی طور سے بلکہ ایمانی جوش کی تحریک سے so more spiritual than 1, so یقین کرتا ہوں کہ آپ جو روحانی ترقی میں میرے سے بڑھ کر اور خدا کے قریب تر ہیں مجھ کو ایسی طرز سے جواب دیں گے جو کہ افضل to you for present consideration knowing rather feeling confident you, who are I, much to God, will answer me in a way that will be for the best.Were it possible for me to visit India I would do so only too gladly.وانسب ہو.اگر میرے لئے ہندوستان میں I am so پہنچنا ممکن ہوتا تو میں نہایت خوشی سے پہنچتا situated that seems almost an impossibility am have three children, For nearly two years I have been living a لیکن میری ایسی حالت ہے کہ پہنچنا محال معلوم ہوتا ہے.میری شادی ہو چکی ہے اور تین بچے life of ہیں قریب دو سال کے ہوئے میں نے گوشہ نشینی celibacy and shall to do so اختیار کر رکھی ہے اور ایسا ہی بقیہ العمر کرتا رہوں گا I live.My is not میری آمدنی اس قدر نہیں ہے کہ میں اپنے کام سے بلا قباحت علیحدہ ہوسکوں کیونکہ اس آمدنی long as sufficient to justify me in giving up my business as it requires all that I can make to support سے میں بانتظام تمام اپنے عیال و اطفال کی 1 my family; therefore, even if پرورش کرسکتا ہوں اس وجہ سے اگر میں had sufficient means to enable ہندوستان پہنچنے کے لئے کافی زاد راہ بہم پہنچا بھی سکوں تاہم یہ غیر ممکن ہے کہ اپنے عیال بہ me to make the journey to India I would not be able to support for my family during my کے لئے دوری کی حالت میں کافی ذخیرہ مہیا absence.Therefore a visit to کرسکوں.اس لئے ہندوستان میں پہنچنا دور از being out the question it to
حیات احمد ۵۱۱ جلد دوم حصہ سوم قیاس دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا me that I might your aid assist کہ میں اسی جگہ (آپ کی اعانت سے ) سچائی پھیلانے میں کچھ خدمت کر سکتا ہوں اگر جیسے in spreading the truth here, If, as you say the Muhammadan is the only true religion hy کہ آپ فرماتے ہیں دین اسلام ہی سچا دین could I not act as its Apostle ہے تو پھر کیا وجہ کہ میں امریکہ میں تبلیغ و or promulgator in America.My اشاعت کا کام نہ کرسکوں بشرطیکہ کوئی مجھ کو رہبر مل جائے.میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ کو opportunities for doing so seem to me good if I had some one to lead me aright at اس طرح کی اشاعت کے لئے معقول | first.I have been led to believe موقعات حاصل ہیں.مجھ کو یقین ہوا ہے کہ نہ that not only Muhammad but صرف محمد صاحب نے بلکہ عیسی و گوتم بدھ و ذوروسٹر اور بہت سے اور لوگوں نے سچ کی تعلیم also Jesus, Gautam Budha, Zoroaster and many others taught the truth, we that دی اور یہ بتلایا کہ ہم کو نہ انسان کی بلکہ خدا کی should, however, worship God عبادت اور پرستش کرنی لازم ہے اور اگر مجھ کو and not men.If I could know.what Muhammnad taught that was superior to the یہ سمجھ آ جاوے کہ جو محمد صاحب نے تعلیم دی really ہے وہ اوروں کی تعلیم سے افضل ہے تب میں teachings of others, I could اس قابل ہو جاؤں گا کہ دین محمدی کی دیگر then be in a position to defend مذاہب سے بڑھ کر حمایت اور اشاعت کروں لیکن ان کی تعلیمات کا جو مجھ کو religion above all others.But and promulgate the Muhammadan the little I do know of his قدرے علم ہوا ہے اسی قدر علم سے میں teachings is not sufficient for حمایت و اشاعت کرنے کے قابل نہیں.me to do effective work with ہوں.باشندگان امریکہ کی توجہ عام طور The attention of The American
حیات احمد ۵۱۲ جلد دوم حصہ سوم سے مشرقی مذا ہب کی طرف کھنچی ہوئی ہے people is being quite generally اور تحقیقات مذہب بدھ میں دیگر تمام مذاہب کی نسبت زیادہ مشغول ہیں میرے قیاس کے موافق آج کل عام لوگوں کے خیالات ہمیشہ کی attracted to he oriental religious but Buddhism seems to be the foremost in their investigations.The public mind, I think is now نسبت قبولیت دین اسلام و مذہب بدھ کے more than ever fitted to receive لئے زیادہ تر لائق و قابل ہورہے ہیں اور یہ Muhammadanism as well as Buddhism and it may be that ممکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے طفیل سے میرا through you it is to be introduced یہ مذہب میرے ملک میں اشاعت پا جاوے in my country.I am convinced میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ آپ شوق و ذوق | are very much in that you earnest.I have no doubt reason to that you are inspired کے ساتھ مصروف ہیں.میں کسی دلیل سے شبہ نہیں کرسکتا کہ آپ کو خدا نے بغرض اشاعت by God to spread the light of نور حقانیت مشرف بالہام کیا ہے پس یہ truth therefore I would be happy میرے سرور حقیقی کا باعث ہوگا کہ میں آپ کی to know more of your teachings and to hear further from you.God, who can read all hearts, تعلیم کی زیادہ قدر و منزلت کروں اور آپ سے اور تعلیم بھی حاصل کروں خداوند تعالیٰ جو تمام knows that I am seeking for دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے جانتا ہے کہ the truth that I am ready and میں سچ کی تلاش کر رہا ہوں اور جب کبھی مل | eager to embrace it wherever I جائے قبول کرنے کے لئے آمادہ و مشتاق ہوں اگر آپ حقانیت کی مبارک روشنی کی طرف can find it.If you can lead me into its blessed light you will find me not only a willing uptil but an میری رہنمائی کریں تو آپ دیکھیں گے کہ میں anxious one.I have سرد جوش مقتدی نہیں بلکہ ایک گرم جوش طالب been seeking now for three
حیات احمد ۵۱۳ جلد دوم حصہ سوم ہوں میں تین سال سے اس تلاش میں ہوں years and have found a great اور بہت کچھ معلوم بھی کر چکا ہوں کہ خدا نے مجھ پر با فراط اپنی برکتیں نازل کیں اور میری یہ تمنا ہے me deal.God has blessed abundantly and I want to do His work earnestly and faithfully.کہ اس کے کام کو بشوق بصدق تمام تر انجام دوں How to do it is what has moved ہاں یہ کشمکش پیدا ہورہی ہے کہ کس طرح اس کام mehow to do it so that the کو کروں کیا کروں اور کس طرح کروں کہ یہ کام اکمل طور سے پورا کرسکوں اس کی جناب میں یہ most may good be accomplished.I pray to Him that the way may be pointed دعا ہے کہ مجھ کوراہ کی صاف صاف رہنمائی ہو اور out clearly to me so I that may گمراہی سے محفوظ رہوں.اگر آپ میری مدد not go astray.If you can help کریں تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ ایسا کر دیں me I hope that you will do so.I shall keep your letter and prize it highly.I will get the گے میں آپ کی چٹھی کو حفاظت سے رکھوں گا اور اس کی نہایت تکریم کروں گا میں آپ کے اشتہار circulars printed in one of the کو امریکہ کے کسی نامور اخبار میں چھپوا دوں گا leading American newspapers اور ایک نسخہ اس اخبار کا آپ کے پاس بھی بھیجوں گا جس سے اس کی شہرت بہت وسعت ا so that they will have a wide spread circulation and I will send you a copy of the paper.پا جائے گی اور وہ ایسے لوگوں کی نظروں میں They may reach the eyes of گزرے گا جو اس طرح کے معاملات میں شوق اور توجہ ظاہر کریں گے آئندہ کو کوئی اور many who will become interested.I shall be happy to receive from you at any time matter حقیقت جو آپ عام طور سے مشتہر کرنا چاہیں ام طور سے مشتہر کرنا چاہیں which you may have for general گے اور میرے پاس اسی غرض سے بھیجیں گے تو circulation and if you should یہ میری کمال خوشی اور سرور کا باعث ہوگا اور اگر see fit to use my services to
حیات احمد ۵۱۴ جلد دوم حصہ سوم آپ میری خدمتوں کو امریکہ میں امور حقانی further the aims of truth in the کی اشاعت کے قابل سمجھیں تو آپ کو ہر وقت مجھ سے ایسی خدمت کرانے کا پورا پورا اختیار country they will be freely at your disposal provided, of course, that I am capable of receiving ہے بشرطیکہ مجھ تک آپ کے خیالات پہنچتے your ideas and that they convince رہیں اور میں ان کی حقانیت کا قائل ہوتا رہوں me of their truth.I am already مجھ کو یہ تو بخوبی یقین ہو چکا ہے کہ محمد صاحب well satisfied that Muhammad taught the truth that the pointed out the way to salvation and that those who follow نے سچ پھیلایا اور راہ نجات کی ہدایت کی اور جو شخص کہ اس کی تعلیمات کے پیرو ہیں ان کو His ہمیشہ کے لئے خوش اور مبارک زندگی حاصل teachings will attain to a condition ہوگی.of eternal bliss.But did not Jesus Christ also teach the way? مگر کیا عیسی مسیح نے بھی سچا اور سیدھا راہ I should Now suppose نہیں بتلایا؟ اور اگر میں ہدایت عیسی کی follow the way pointed out by متابعت کروں تو پھر کیا نجات کی ایسی یقینی طور Jesus.Would not my salvation سے امید نہیں کی جاسکتی جیسے کہ دین اسلام کی متابعت سے؟ میں سچ معلوم کرنے کی غرض سے سوال کر رہا ہوں نہ مباحثہ وجدال کی be as perfectly assured as if I followed Islam? I ask with a desire to know the truth and not to dispute or argue.I am غرض سے میں حق کی تلاش کر رہا ہوں.میں seeking the truth not to defend کسی خاص دعوی کے اثبات کے لئے جدل any theory'.I think I understand کرنا نہیں چاہتا میں خیال کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آپ محمد صاحب کی فی الحقیقت ہدایات follower of the you to be a esateric teachings of Muhammad and not what is known to the
حیات احمد ۵۱۵ جلد دوم حصہ سوم کے پیرو ہیں نہ ان عقائد کے جو عامہ خلائق دین محمدی سے مراد لیتے ہیں اور تمام مذاہب میں جو سچ سچ حقیقتیں موجود ہیں ان کو مانتے masses of the people as you Muhammadanism; that recognize the truths that underlie all religions and not their exoteric ہیں نہ ان عقائد کو جو عام لوگ بعد میں اپنی features which have been added طرف سے زیادہ کرتے رہے مجھے یہ بھی سخت by men.I too regret very much افسوس ہے کہ میں آپ کی زبان سمجھ نہیں سکتا that I cannot understand your ہوں نہ آپ میری زبان سمجھ سکتے ہیں ورنہ میں language nor you mine; for I feel quite sured that you could, یقینا کہتا ہوں کہ جو سبق میں آپ سے چاہتا تھا tell many things which I much وہ ضرور آپ مجھے سکھاتے تاہم امید قومی رکھتا desire to know.However I am ہوں کہ اگر میں خدا کی محبت کے لائق ہونے impressed to believe that God کی طلب میں رہوں گا تو بے شک وہ کوئی نہ کوئی ایسا طریق نکال دے گا.مبارک ہو will provide a way if I try to de-serve His love.Blessed be His holy name and I اس کا پاک نام.اب امیدوار ہوں کہ پھر آپ hope that I may hear from سے کچھ اور حال سنوں.اور اگر چہ جسمانی you again and that we may ملاقات حاصل نہ ہو سکے تاہم روحانی ملاقات نصیب ہو آپ پر اور آپ کے کلمات سننے some day meet in spirit even if we cannot meet in the body.May the peace of God be with والوں پر خدا کا فضل ہو.دعا کرتا ہوں کہ تمام you and with those who listen آپ کی امیدیں اور تدبیریں پوری ہوں.to your words.I Pray that all your زیادہ آداب و نیاز.hopes realised.and plans may be
جلد دوم حصہ سوم With reverence and esteem.I am Yours Respectfully, ALEX.R WEBB, ST.LOUIS MISSOURI, 3021 Easton Avenue.۵۱۶ حیات احمد آپ کا نیازمند الگزنڈر آر.ویب سینٹ لوئی مسوری ۳۰۲۱.ایسٹن ایونیو.امریکہ ید اس خط کی نقل ہے جو بجواب چٹھی مندرجہ بالا بھیجا گیا :.صاحب من Reply of above said letter.Dear Sir.I receive your letter, dated 24th of February 1887, آپ کی چٹھی جو دل کو خوش اور مطمئن کرنے والی which proved itself to be a great delight to my heart and a saitisfaction to my anxieties.تھی مجھ کو ملی جس کے پڑھنے سے نہ صرف زیادت محبت بلکہ میری وہ مراد بھی جس کے لئے The contents of the letter not only increased my love towards میں اپنی زندگی کو وقف سمجھتا ہوں (یعنی یہ کہ you that led me to the hope of a میں حق کی تبلیغ انہیں مشرقی ممالک میں محدود نہ رکھوں بلکہ جہاں تک میری طاقت ہے امریکہ partial realization of the object which I have in view for which I have dedicated the whole of my life, viz, not to confine the اور یورپ کے ملکوں میں بھی جنہوں نے اسلامی spread of the light of truth to the oriental world but, as far as it اصول کے سمجھنے کے لئے اب تک پوری توجہ نہیں lies in my power to further it in
حیات احمد ۵۱۷ جلد دوم حصہ سوم کی اس پاک اور بے عیب ہدایت کو پھیلاؤں ) Europe, America & Co.Where the attention of the people has کسی قدر حاصل ہوتی نظر آتی ہے سو میں شکر not been sufficiently attracted towards a proper understanding گزاری سے آپ کی درخواست کو قبول کرتا.of the teachings of Islam Therefore I consider it an ہوں اور مجھے اپنے خداوند قادر مطلق پر جو پر جو honour to comply with your میرے ساتھ ہے قوی امید ہے کہ وہ آپ کی request; and have a strong confidence in the Almighty پوری پوری تسلی کرنے کے لئے مجھے مدد دے گا Creater, Who is with me, that میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ پانچ ماہ کے perfect and permanent عرصہ تک ایک ایسا رسالہ جو قرآنی تعلیموں He will assist me in giving you a satisfaction.I give you my word that in the course of about five اور اصولوں کا آئینہ ہو تالیف کر کے اور پھر عمدہ months I will compile a work containing a short sketch of the ترجمہ انگریزی کرا کر اور نیز چھپوا کر آپ کی teachings of the Al-Quran, have it translated into English and خدمت میں بھیج دوں گا جس پر قوی امید ہے printed and then send a copy of کہ آپ جیسے منصف اور زیرک اور پاک خیال it to you.I strongly hope that it will bring full and final کو اتفاق رائے کے لئے مجبور کرے گا اور ,conviction to a justful considerate and uncontaminated انشراح صدر اور قوت یقین اور ترقی معرفت کا mind like yours, enoble your موجب ہوگا مگر شاید کم فرصتی سے یہ موجب soulendow you with a firm belief in God and improve your knowledge of Him.But perhaps
حیات احمد ۵۱۸ جلد دوم حصہ سوم پیش آجاوے کہ میں ایک ہی دفعہ ایسا رسالہ it may be, that the various demands on my time may not ارسال نہ کرسکوں تو پھر اس صورت میں دو یا allow me to spare a sufficient تین دفعہ کر کے بھیجا جائے گا اور پھر اسی رسالہ time for sending the whole work at once.In such a case I will پر موقوف نہیں بلکہ آپ کی رغبت پانے سے send it to you in two or three batches.I will not end the جیسا کہ میں امید رکھتا ہوں اس خدمت کو تا communication of instruction to بحیات اپنے ذمہ لے سکتا ہوں آپ کے محبانہ کلمات مجھے یہ بشارت دیتے ہیں کہ میں جلد تر you by this treatise but will continue satisfying your thirst after the investigation of truth for the rest of my life.Your خوشخبری سنوں کہ آپ کی سعادت فطرتی سے friendly words permit me to entertain the happy idea that I حقانی ہدایت لینے کے لئے نہ صرف آپ کو بلکہ will in a short time have the امریکہ کے بہت سے نیک دل لوگوں کو دعوت intelligence that the instinctive moral greatness has directed حق کی طرف کھینچ لیا ہے.اب میں زیادہ آپ not only to you but to many other virtuous men of America کو تصدیع دینا نہیں چاہتا اور اپنے اخلاص نامہ to the right way of salvation کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ الہ العالمین pointed out by Islam.Here I end my letter of earnestness and جانبین کو آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھ کر sincerety May God you and I be kept secure from all earthly and ان ہماری مرادوں کو انجام تک پہنچا دے کہ heavenly misfortunes and have all our hopes and plans
حیات احمد سب طاقت اور قوت اسی کو ہے.آمین.آپ کا دلی محبت اور خیر خواہ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ملک پنجاب ۴.اپریل ۱۸۸۷ء ۵۱۹ جلد دوم حصہ سوم realized.Yours sincerely, MIRZA GULAM AHMAD Chief of Qadian, Gurdaspur District, Punjab in India, ( شحنه حق روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۳۹ تا ۴۴۴ ) پیر جھنڈے صاحب کا سفیر قادیان میں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ پیر صاحب الحکم خود قادیان آنا چاہتے تھے مگر ان کے خلیفہ عبداللطیف صاحب اور حاجی عبداللہ صاحب قادیان آئے اور اشاعت اسلام امریکہ کے متعلق حالات پیش کئے.اور حضرت سے توجہ کی درخواست کی.اس پر ایک زمانہ گزر گیا پہلی کوششیں ناکام ہوئیں اور بالآخر جیسا کہ پیر صاحب العلم نے فرمایا تھا حضرت کی توجہ ہی نتیجہ خیز ہوئی اور آپ کی توجہ کا ظہور حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے عہد خلافت میں ہوا کہ امریکہ میں اشاعت اسلام کا کام بڑے جوش اور سرگرمی سے ہو رہا ہے اللهُمَّ زِدْفَزِدْ پیر صاحب العلم کے متعلق مجھے ایک اور واقعہ بھی یہاں درج کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے جس سے پایا جاتا ہے کہ وہ صاحب کشف و الہام تھے اور میمن قوم کے وہ مقتدر اور پیر تھے حاجی عبداللہ میمن تھے اور حضرت سیٹھ اسماعیل آدم سلمہ اللہ تعالیٰ کے جو اب ۸۰ برس کے قریب عمر کے ہیں ان کا خاندان بھی صاحب العلم کا مرید تھا اور وہ اپنے حالات قبولیت احمدیت میں یہ شہادت دیتے ہیں.چونکہ میری تعلیم اردو ، فارسی ، گجراتی اور انگریزی سکولوں میں ہوئی تھی ، اور ہم کو تعلیمی نصاب میں یہ پڑھایا گیا تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کس طرح ہوتے ہیں، اس وجہ سے ذہن
حیات احمد ۵۲۰ جلد دوم حصہ سوم حضرت مرزا صاحب کی تصدیق کی طرف جاتا اور مولوی صاحبان کے جو مضامین آتے تھے ، انہیں پڑھ کر ہنسی آتی تھی.مگر پھر بھی بے پروائی جاری رہی.میں سوچتا تھا ، ہم کو کیا ضرورت ہے کہ اس شخص کو مانیں ، کیونکہ ہماری قوم کا ہر فرد پیر کے ہاتھ پر بیعت کرتا تھا ، اور یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ ہم سے اعمال کی پرسش نہیں ہوگی.جس پیر کے ہاتھ پر ہم بیعت کر چکے ہیں ، قیامت کے دن اس کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوں گے ، اور خدا تعالیٰ سے سوال جواب پیر ہی کرے گا اور ہم کو سیدھا جنت میں بھیج دیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ دل میں یہ خیال بھی آتا تھا ، کہ میں نے خود ابھی تک کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ہے.والد صاحب کی زندگی میں جب میری عمر چودہ پندرہ سال کی تھی ، میں نے ان کے پیر کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا.آخر میں نے دل کی تڑپ سے والد صاحب کے پیر کو جن کا نام شاید رشید الدین ہی تھا ، اور جو پیر سائیں جھنڈے والے کہلاتے تھے ، اور جن کی عمر ۱۸۹۵ء میں ساٹھ ستر سال کی تھی فارسی میں خط لکھا کہ یہ شخص مرزا غلام احمد مدعی مسیحیت و مهدویت کون ہے؟ اس کے متعلق آپ ہم کو مشورہ دیں.اگر وہ سچا ہے اور آپ نے ہماری رہ نمائی نہ کی ، یا وہ جھوٹا ہے اور آپ نے ہم کو اس کے پھندے سے نہ چھڑایا ، تو قیامت کے دن ہم آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے.میرے والد آپ کے مرید تھے اور میں نے اب تک کسی کی بیعت نہیں کی ہے ، ہم تو دنیا دار اور اندھے ہیں.آپ ولی اللہ اور صاحب کرامات ہیں.آپ سچی گواہی دیں.ان کا جواب آیا، کہ ہم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تین دفعہ خبر دی گئی ہے کہ یہ شخص سچا ہے.ہمارے سلسلہ کا دستور ہے، کہ مغرب اور عشاء کے درمیان ہم اور ہمارے مرید حلقہ میں بیٹھ کر ذکر الہی کیا کرتے ہیں.ایک دفعہ اس حالت میں ہم نے دیکھا، کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں.اور یہ کشفی حالت تھی ، یعنی ذکر اللہ بھی جاری تھا ، جاگتے بھی تھے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی نصیب ہوئی.میں نے پوچھا ، یا رسول اللہ ! یہ شخص کون ہے؟ سچا ہے یا جھوٹا حاجی عبد اللہ رشید الدین بتاتے ہیں شاید رشیدالدین ہی صحیح ہو.عرفانی
حیات احمد ۵۲۱ جلد دوم حصہ سوم ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ از ماست یعنی ہم میں سے ہے.پھر ہمارے سلسلہ کا دستور ہے، کہ بعد از نماز عشاء ہم کسی سے کلام نہیں کرتے ، اور سو جاتے ہیں.ایک دن ہم نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور پوچھا کہ یہ شخص دعوی میں بہت بلند ہو گیا ہے ، ہم کیا کریں؟ تو آپ نے فرمایا ، " که در عشق ما دیوانه شده است“.یعنی ہمارے عشق میں دیوانہ ہو گیا ہے.پھر ہمارے سلسلہ کا تیسرا دستور یہ ہے کہ پچھلی رات تہجد کی نماز پڑھ کر ذرا لیٹ جاتے ہیں.ایک دفعہ اس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوا ، تو ہم نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اس شخص پر کفر کے فتوے مسلمانوں کی طرف سے شائع ہو گئے ہیں.ہم کیا کریں؟ تو آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا "هُوَ صَادِقَ - هُوَ صَادِق".هُوَ صَادِق “ ( یعنی وہ سچا ہے.وہ سچا ہے.وہ سچا ہے ) اس کے بعد یہ لکھا کہ یہ ہماری گواہی ہے.ہم قیامت کے دن کی پرسش سے سبکدوش ہوتے ہیں.ماننایا نہ مانا یہ تمہارا کام ہے.نیچے پیر صاحب کے دستخط تھے.اس کے نیچے ان کے صاحبزادہ نے لکھا کہ تمہارے والد ہمارے والد کے مرید تھے ، اس لئے تم بھی اسی سلسلہ میں بیعت کر لو میں نے اس کا کوئی جواب ان کو نہ دیا.خط میرے پاس محفوظ تھا.شیخ رحمت اللہ صاحب لاہور والے جو تاجر تھے بمبئی میں آیا کرتے تھے اور ان سے گفتگو ہوا کرتی تھی.مدر اس والے سیٹھ عبدالرحمن کے چھوٹے بھائی صالح محمد سیٹھ سے بھی حضرت صاحب کے متعلق اکثر گفتگو ہوا کرتی تھی.میں نے پیر صاحب کا وہ خط ان کو بتایا ، تو صالح محمد سیٹھ نے کہا کہ اب کونسی چیز کا انتظار کرتے ہو ؟ شیخ رحمت اللہ صاحب انجام آتھم کے ابتدائی آٹھ صفحے جو چھپے تھے ، بمبئی آتے ہوئے لے آئے ، انہوں نے یہ مضمون مجھے سنایا ، تو میں نے اسی دن حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.الحمد اللہ ! پیر صاحب کا خط شیخ رحمت اللہ صاحب مجھ سے لے گئے.نہ معلوم ان کے پاس رہایا انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا.وَاللَّهُ أَعْلَمُ اس سے میری غرض صاحب العلم کی شہادت کی توثیق ہے.
حیات احمد ۵۲۲ مسٹر الیگزینڈ رویب کے متعلق کچھ اور جلد دوم حصہ سوم مسٹر الیگزینڈر ویب ہندوستان کے سفر سے واپس چلے گئے اور اپنے مشن میں ناکام ہو گئے جب وہ لاہور آئے تھے تو راقم الحروف کو بھی ان سے ملنے اور دیکھنے کا موقعہ ملا.ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نے (جو بعد میں مرتد ہو گئے ) ان کو بہت کچھ ترغیب دلائی مگر انہوں نے یہ سمجھا کہ اس وقت وہاں جانا میرے مشن کی ناکامی کا باعث ہو جائے گا.لیکن آخر وہی ناکامی ہوئی.اس محرومی کا ان کو ہمیشہ افسوس رہا.اور ان کو حسرت رہی کہ پھر وہ ہندوستان آئیں.اور حضرت کے حضور سعادت انداز ہوں مگر اب وقت نکل چکا تھا انہوں نے حضرت ڈاکٹر محمد صادق صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنے تاسف کا اظہار کرتے رہے آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر انہوں نے حضرت ڈاکٹر صادق کو تعزیت کا خط لکھا جو حسب ذیل ہے.خط آمده از ویب صاحب از نمبر ۱۴۹ رچنٹ نٹ سٹریٹ رور فورڈ.نیو جرسی.یو.ایس.اے بخدمت مفتی محمد صادق صاحب.قادیان ۳۰ راگست ۱۹۰۸ء میرے پیارے بھائی.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ کا خط مورخہ ۱۰ار جولا ئی مجھے بر وقت مل گیا.ریویو آف ریلیجنز میں ہمارے معزز بھائی حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی وفات کی خبر پڑھ چکا ہوں اس خبر کے پڑھنے سے سخت غم اور رنج کا احساس میرے اندر جوش زن ہوا.مرزا صاحب نے ایک بڑا کام پورا کیا اور سینکٹروں کے دلوں میں نور صداقت پھیلایا.جن تک غالبا صداقت کسی اور طرح نہ پہنچ سکتی تھی.میں سال سے زائد عرصہ گزرتا ہے جبکہ میری پہلے پہل آپ سے خط و کتابت ہوئی اور تب ہی سے میرے دل میں اس امر کا پُر زور اثر ہے کہ مرزا صاحب بے خوف سنجیدگی کے ساتھ حق کی تعلیم پھیلانے کے واسطے اپنے مقصد میں لگے رہے ہیں.لاریب اس شخص کو خدا تعالیٰ نے
حیات احمد ۵۲۳ جلد دوم حصہ سوم اس بڑے کام کے واسطے برگزیدہ کیا تھا جو اس نے پورا کیا ہے اور مجھے اس میں شک نہیں کہ وہ فردوس بریں کے اندر اولیاء اور انبیاء کی رفاقت کا لطف اٹھائے گا.پس اگر چہ ہمارے درمیان سے آپ کا چلا جانا ہمارے واسطے بڑے غم کا موجب ہے تا ہم ہم اس بات پر خوش ہیں کہ آپ کی جسمانی محنت کے ایام ختم ہوئے اور آپ اس سے اعلیٰ اور پاک ترین زندگی میں داخل ہو گئے.آپ کی سلامتی اور راحت کے واسطے دعا کرتا ہوں ، آپ کا بھائی محمد الیگزینڈ رسل ویب.اس کے بعد شیخ محمد ویب صاحب کا دوسرا خط ۳ رستمبر کا لکھا ہوا ہمیں ٢ نومبر کو ملا ہے.جس میں شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ امریکہ میں اس سال ایک مذہبی کانفرنس ہوئی تھی.جس میں شیخ صاحب موصوف نے اسلام کی طرف سے لیکچر دیا تھا.اس میں پھر شیخ صاحب موصوف نے حضرت اقدس کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسے عظیم الشان اور نیک انسان کی وفات غمگین کرنے والی ہے.لیکن چونکہ وہ اپنا کام ختم کر چکے تھے.قادر مطلق کی مرضی یہی تھی کہ ان کی دنیوی زندگی ختم ہو.انہوں نے ایک عظیم الشان کام کیا ہے اور اس واسطے ان کا اجر بھی عظیم الشان ہو گا.آپ براہ مہربانی حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں میرا بادب سلام پہنچائیں اور عرض کر دیں کہ میں یقین کے ساتھ امید اور بھروسہ رکھتا ہوں کہ بچے اسلام کی ترقی کے واسطے جو کوششیں آپ کر رہے ہیں ان میں آپ کو ضرور کامیابی کا تاج پہنایا جائے گا.اگر چہ یہ واقعات ۱۹۰۸ء کے حالات میں آ سکتے تھے مگر میں نے مسٹر ویب کے حالات کو مکمل کرنے کے لئے ان کا ذکر کرنا مناسب سمجھا.قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ آپ نے آریوں کے ان اعتراضات کے جواب میں (جن کا اوپر ذکر کر آیا ہوں ) ایک ماہواری رسالہ کے اجرا کا ارادہ فرمایا جس کا نام آپ نے قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ رکھا.آپ کا
حیات احمد ۵۲۴ جلد دوم حصہ سوم منشاء تھا کہ رسالہ جون ۱۸۸۷ء میں شائع ہو جائے اور اپنے ہی پریس میں چھپے لیکن سرمایہ کے لئے آپ نے قرضہ کی تحریک بعض دوستوں سے کی جن میں حضرت حکیم الامت بھی تھے چنانچہ آپ نے ان کو لکھا کہ میں یہ روپیہ لینا صرف قرضہ کے طور پر چاہتا ہوں کہ دوستوں پر تھوڑا تھوڑ ابار ہو.جو سو روپیہ سے زیادہ نہ ہو.سو اگر ایسا ہو سکے کہ بعض با اخلاص آدمی جو آپ کی نظر میں ہوں اس قرضہ کے دینے میں شریک ہو جائیں تو بہت آسانی کی بات ہے ورنہ مالک خزائن السّماوات والارض کافی ہے.جواب سے جلد مطلع فرما دیں کیونکہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ رسالہ قرآنی طاقتوں کا جلوہ جون کے ماہ میں شائع ہو گا.سو میں چاہتا ہوں کہ اپنے ہی مطبع میں وہ رسالہ چھپنا شروع ہو جائے.مجھے اس قرضہ کے بارہ میں کوئی اضطراب نہیں میں اپنے دل میں نہایت خوشی اور اطمینان اور سرور پاتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میری دعائیں کرنے سے پہلے ہی مستجاب ہیں.“ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحه ۳۴، ۳۵ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۴۰،۳۹.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) 66 یہ مکتوب مئی ۱۸۸۷ء کے اوائل میں آپ نے لکھا تھا مگر مشیت ایزدی میں اس رسالہ کے لئے یہ وقت نہ تھا اس لئے وہ بعض وجوہات کی بناء پر شائع نہ ہو سکا اور ایک زمانہ کے بعد قادیان سے اپنے ہی مطبع سے نورالقرآن جاری ہوا.تکذیب براہین کا جواب انہیں ایام میں پنڈت لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو اس نے اپنے زعم میں براہین احمدیہ کے جواب میں لکھی تھی مگر کبھی کسی کو یہ حوصلہ نہ ہوا کہ براہین احمدیہ کی جلد اول میں جو شرائط جواب اور طلب انعام کے لکھے تھے ان کے موافق لکھ کر جواب کو پیش کرتا اس لئے اس موقعہ پر آپ نے حضرت حکیم الامت کو توجہ دلائی کہ وہ جواب لکھیں.حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ مجھے
حیات احمد ۵۲۵ جلد دوم حصہ سوم کوئی مجاہدہ بتایا جاوے آپ نے فرمایا عیسائیوں کی تردید میں ایک کتاب لکھو اور ان اعتراضات کا جواب دو جو اسلام پر کئے گئے ہیں.میں نے فصل الخطاب لکھی پھر دوسرے موقع پر دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ” آریوں کے اعتراضوں کا جواب دو.یہ حقیقت اگر چہ اس شان نزول کے ساتھ نہیں مگر آپ کے ایک مکتوب سے جو ۲۶ جولائی ۱۸۸۷ء کا ہے ظاہر ہوتی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سَلَّمَهُ تَعَالَى بعد السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.آج نصف قطعہ نوٹ پانسو روپیہ بذریعہ رجسٹری شده پہنچ گیا.اب آنمخدوم کی طرف سے پانسو ساٹھ روپے پہنچ گئے اس ضرورت کے وقت جس قدر آپ کی طرف سے غمخواری ظہور میں آئی ہے اس سے جس قدر مجھے آرام پہنچا ہے.اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.اللہ جل شانہ دنیا و آخرت میں آپ کو تازہ تازہ خوشیاں پہنچا دے.اور اپنی خاص رحمتوں کی بارش کرے.تکذیب براہین کی طرف توجہ میں آپ کو ایک ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ حال میں لیکھرام نامی ایک شخص نے میری کتاب براہین کے رد میں بہت کچھ بکواس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام تکذیب براہین احمد یہ رکھا ہے.یہ شخص اصل میں نبی اور جاہل مطلق ہے.اور بجز گندی زبان کے اور اس کے پاس کچھ نہیں ، مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خواں اور دنتی استعداد ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے.کتاب میں دورنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں.جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں تو ہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں.وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور
حیات احمد ۵۲۶ جلد دوم حصہ سوم کسی عملی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے......اس پر افترا کتاب کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے اور یہ عاجز ابھی ضروری کام سراج منیر سے جو مجھے درپیش ہے بالکل عدیم الفرصت ہے اور میں مبالغہ سے نہیں کہتا اور نہ آپ کی تعریف کی رو سے بلکہ قوی یقین سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ جما دیا ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے آپ کے دل میں جوش ڈالا ہے اور میری ہمدردی پر مستعد کیا ہے.کوئی دوسرا آدمی ان صفات سے متصف نظر نہیں آتا.اس لئے میں آپ کو یہ بھی تکلیف دیتا ہوں کہ آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کئے ہیں.ان سب کو ایک پرچہ کاغذ پر بیادداشت صفحہ کتاب نقل کریں.اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ آپ کو جوابات معقول دل میں ڈالے وہ سب الگ الگ لکھ کر میری طرف روانہ فرما دیں اور جو کچھ خاص میرے ذمہ ہو گا.میں فرصت پاکر اس کا جواب لکھوں گا.غرض یہ کام نہایت ضروری ہے اور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جد وجہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں.اور جس طرح مالی کام میں آپ نے پوری پوری نصرت کی ہے اس سے یہ کم نہیں ہے.کہ آپ خدا داد طاقتوں کی رو سے بھی نصرت کریں“.اسلام پر مخالفوں کا حملہ اور حضرت کو اس کا احساس آج ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک جان کی طرح ہو رہے ہیں اور اسلام کو صدمہ پہنچانے کے لئے بہت زور لگا رہے ہیں.میرے نزدیک آج جو شخص میدان میں آتا ہے.اور اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے فکر میں ہے وہ پیغمبروں کا کام کرتا ہے بہت جلد مجھ کو اطلاع حاشیہ :.اس تحریک کے متعلق حضرت اقدس نے حضرت چودھری رستم علی خاں صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی تحریک فرمائی تھی وہ سابقون الاولون میں اعلیٰ درجہ کے مخلص تھے اور حضرت کی راہ میں قربان تھے چنانچہ آپ نے ان کو یہ خط لکھا.
حیات احمد ۵۲۷ جلد دوم حصہ سوم بخشیں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ رہے.اور آپ کا مددگار ہو.آپ اگر مجھے لکھیں تو میں ایک نسخہ کتاب مذکورہ کا خرید کر آپ کی خدمت میں بھیج دوں.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان - ۲۶ جولائی ۱۸۸۷ء مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۳۶ تا ۳۹.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۴۲ ۴۳.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اس مکتوب سے جو جوش آپ کے قلب میں تھا وہ ظاہر ہے.بشیر اول کی پیدائش اسی سال ۱۸۸۷ء میں 2 اگست ۱۸۸۷ء کو حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے مشکوئے معلی میں رات کے ڈیڑھ بجے کے قریب ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے بشیر احمد رکھا جو سلسلہ کے لٹریچر میں بشیر اول کے نام سے موسوم ہے.اس بچہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہی موعود لڑ کا خیال کیا چنانچہ آپ نے ۷/اگست ۱۸۸۷ء کو ایک دو ورقہ اشتہار بعنوان خوشخبری شائع فرمایا.اس میں تحریر فرمایا.بقیه حاشیه بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّيْ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيْمِ.ماہوار رسالہ کے اجرا کی تجویز رسالہ ماہوار کی قیمت بہت ہلکی و خفیف رکھنا مصلحت سمجھا گیا ہے مگر پہلے رسالہ کے نکلنے پر معلوم ہو جاوے گا.آپ کی ہمدردی دینی کے معلوم کرنے سے بار بار آپ کے لئے دعا نکلتی ہے کہ خداوند کریم جَلَّ شَانُه آپ کو محمود الدنیا والعاقبت کرے.یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ آپ نے دوسور سالہ سراج منیر اپنے ذمہ لے لیا ہے.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا.ملاقات کو دل چاہتا ہے.اگر آپ کو کسی وقت فرصت ملے تو اوّل اطلاع بخشیں.والسلام (خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۸ / اپریل ۱۸۸۷ء) مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۳ صفحه ۳۴، ۳۵ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۴۹۹.مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۵۲۸ جلد دوم حصہ سوم ” اے ناظرین! میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لئے میں نے اشتہار ۸/ اپریل ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی کی تھی اور خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے کھلے کھلے بیان میں لکھا تھا کہ اگر وہ حمل موجودہ میں پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں ، جو اس کے قریب ہے.ضرور پیدا ہو جائے گا.آج ۱۶/ ذیقعدہ ۱۳۰۴ھ مطابق ۷ اگست ۱۸۸۷ء میں ۱۲ بجے رات کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب وہ مولود مسعود پیدا ہو گیا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۲۲.بار دوم ) اس لڑکے کی نسبت پیشگوئی تھی ” خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے.وہ رجس سے پاک ہے.اور نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آوے“.اس لڑکے کا اصل نام بشیر احمد تھا.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے الہامات میں اور بھی نام رکھے تھے.جیسے.مبشر اور بشیر اور نور اللہ.صیب اور چراغ دین وغیرہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ مسیح اوّل کو ایک مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا.کہ :.ان میں ایک بشیر اور ایک عنمو ائیل اور ایک خدا با ماست اور رحمت حق باماست اور ایک يَدُ اللَّهِ بِجَلَالٍ وَ جَمَالٍ ہے.“ 66 ( تذکره صفحه ۱۲۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء) بقیہ حاشیہ.نوٹ.اس مکتوب میں جس رسالہ کا ذکر حضرت اقدس نے کیا ہے اس سے مراد قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ ہے جو آپ ماہوار جاری فرمانا چاہتے تھے اس کا اعلان آپ نے شحنہ حق میں بھی فرمایا تھا.مگر بعد کے واقعات اور حالات نے حضور کو اور طرف متوجہ کر دیا.پھر ایک زمانہ میں نورالقرآن آپ نے شائع کرنا شروع فرمایا چونکہ یہ رسائل کسی تجارتی اصول پر جاری نہیں کرنا چاہتے تھے.اس لئے دونمبروں کے بعد یہ رسالہ بند ہو گیا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے آپ کے مقاصد و منشاء کی اشاعت کے سامان اخبارات اور رسالہ جات کی صورت میں کر دیئے جو آج کئی زبانوں میں جاری ہیں.عرفانی
حیات احمد ۵۲۹ جلد دوم حصہ سوم ایک الہام اس کے متعلق یہ ہوا تھا: - جَاءَ كَ النُّورُ وَ هُوَ اَفْضَلُ مِنْكَ لا (تذکره صفحه ۱۲۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء) اس بچے کی پیدائش پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا.حضرت اقدس نے اس کے عقیقہ کی تقریب پر بہت سے دوستوں کو اس خوشی میں مدعو کیا تھا.یہ خوشی کی تقریب عام دنیا داروں کی طرح نہ تھی جو بچوں کے پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں بلکہ آپ کی غرض یہ تھی کہ آپ اس بچے کی پیدائش پر جس کی روحانی استعداد کا علم قبل از وقت دیا گیا تھا.جس کا وجود اسلام کی سچائی کے لئے ایک چمکتے ہوئے نشان کی طرح تھا.خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں.پس یہ خوشی دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار کے لئے تھی.آپ نے اپنے دوستوں کو خط لکھ کر اس تقریب پر بلایا چنانچہ حضرت رستم علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے ایک مکتوب تحریر فرمایا جو حسب ذیل ہے:." بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّيْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آج سولہویں ذیقعدہ ۱۳۰۴ھ بِفَضْلِهِ تَعَالَی وَ كَرْمِہ اس عاجز کے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے.۲۲؍ ذیقعدہ مطابق ۱۳ اگست روز عقیقہ ہے.اگر کچھ موجب تکلیف و حرج نہ ہو تو آپ بھی تشریف لا کر ممنون احسان فرما دیں.فقط ۱۷ اگست ۱۸۸۷ء خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر سوم صفحه ۴۳ ۴۴.مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۵۱۰.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) پھر ۱۰/ اگست کو ایک کارڈ تحریر فرمایا کہ دو شطرنجی کلاں بھی دو روز کے لئے ساتھ لائیں.پھر ایک دوسرا کارڈ اسی روز اور تحریر فرمایا.کہ ایک سائبان بھی درکار ہے جو خیمہ کی طرز کا ہو.کیونکہ مکان کی تنگی ہے.پھر ایک مکتوب ملفوف تحریر فرمایا.جس پر تاریخ نہیں.مگر اغلبا وہ بھی اسی روز کا لکھا ہوا والسلام ترجمہ.تیرے پاس نو ر آ رہا ہے جو اپنے کمالاتِ استعداد یہ میں تجھ سے افضل.ہے.
حیات احمد ۵۳۰ جلد دوم حصہ سوم ہے اس میں تحریر فرمایا کہ تین روز کی رخصت لے کر حسب ذیل اشیاء عقیقہ کے لئے ساتھ لائیں.روغن زرد عمدہ ڈیڑھ من خام تیس روپیہ نقد ارسال فرما ئیں.تین بوتل عمدہ چٹنی.ہیں ثار آلو پختہ.چار ثار اربی پختہ کسی قدر میتھی پالک وغیرہ تر کاری.پان بھی طلب فرمائے تھے.پھر ایک اور ملفوف تحریر فرمایا.جس میں پھر خیمہ سائیان کی ضرورت پر تحریر فرمایا:.مہمان عقیقہ کے روز اس قدر آئیں گے.کہ مکان میں گنجائش نہیں ہوگی.یہ وو آپ کے لئے ثواب حاصل کرنے کا نہایت عمدہ موقع ہے.“ ( مکتوبات احمد یہ جلد نمبر ۳ صفحه ۴۶.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۵۱۳، مطبوعہ ۶۲۰۰۸) ان خطوط سے اس انہماک کا پتہ لگ سکتا ہے، جو حضور کو صاحبزادہ بشیر احمد اول کی پیدائش پر عقیقہ کے متعلق تھا الغرض سب سامان ہو گئے.بکثرت احباب قادیان میں جمع ہوئے.اور خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکر کرتے رہے.☆ اس طرح حضرت ام المؤمنین کے بطن مبارک سے جولڑ کی پیدا ہوئی تھی وہ اپنی ذات میں مومنوں کے ایمان میں ایک نئی قوت پیدا کرنے کے لئے آئی تھی.اور یہ مبارک لڑکا جو بہت بڑی استعدادوں کے ساتھ اس دنیا میں آیا تھا.والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ہوا تھا.کیسی مبارک ہے وہ ماں جس کی بچی کی یہ شان تھی کہ خدا نے اسے كَرَمُ الْجَنَّةِ دَوْحَةُ الْجَنَّةِ کہا.اور جس کے بیٹے کی یہ شان.کہ خدا تعالیٰ اسے اپنے عرش پر مبشر.بشیر.نوراللہ.چراغ دین وغیر ہ اسماء سے یا د فرما رہا تھا.یہ کھلی کھلی دلیل تھی کہ یہی وہ خاتون تھی کہ جس میں اس قدر پاکیزہ استعداد تھی ، کہ وہ مسیحی صفت بچے پیدا کر سکے ایسی ماں کی عظمت میں کیا شک ہو سکتا ہے.الغرض بشیر احمد اول اپنے مقدس اور بزرگ باپ اور عظیم الشان ماں کی آغوش میں شفقت کے ساتھ بڑھنے لگا.حضرت ام المومنین کو اس کے آرام کا بہت بڑا خیال تھا.چنانچہ خاص اس بچہ کی خدمت کے لئے ایک نوکر کی تلاش ہوئی.ترجمہ.انگور کی جنتی بیل.جنت کا بڑا درخت ( ناشر )
حیات احمد ۵۳۱ جلد دوم حصہ سوم حضرت اقدس نے ۲۱ اگست ۱۸۸۷ء کو چودھری رستم علی صاحب کی خدمت میں لکھا کہ :.ہمارا یہ منشاء ہے کہ کوئی باہر سے خادم آوے جو طفل نوزاد کی خدمت میں مشغول رہے.آپ اس میں نہایت درجہ سعی فرماویں.کہ کوئی نیک طبیعت اور دیندار خادم جو کسی قدر جوان ہومل جائے“.مکتوبات احمد یہ جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۴۹.مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۵۱۶ - مطبوعہ ۲۰۰۸ء) پھر ایک پوسٹ کارڈ ۶ ستمبر کو تحریر فرمایا.جس میں خادمہ کی ضرورت کے متعلق لکھا:.صرف نیک بخت اور ہوشیار اور بچہ رکھنے کے لائق ہو گھر میں تین عورتیں خدمت کرنے والی تو اسی جگہ موجود ہیں.(مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۵۲۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) پھر ۲۱ ستمبر کو تحریر فرمایا : - ” اب ایک خادمہ.محنت کش.ہوشیار.دانا.دیانتدار کی اشد ضرورت ہے.اور اس کا کام یہی ہو گا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی خدمت میں مشغول رہے.“ مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۵۲۰ مطبوعه ۲۰۰۸ء) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ گھر میں تین خادمائیں موجود تھیں مگر اس بچے اور پہلی بچی کی خدمت کے لئے ایک الگ خادمہ کی تلاش کی جارہی تھی تا کہ ان بچوں کو زیادہ سے زیادہ آرام مل سکے اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ نوکرانی بھی ایسی چاہتے تھے جو نیک اور دیانتدار اور تمام اچھی صفات سے متصف ہو.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان بچوں کے متعلق کس قدر اہتمام تھا.اور یہ بچے کیسے بابرکت تھے جو ایسے والدین کے زیر سایہ پرورش پارہے تھے.بشیر احمد کی علالت جب بشیر احمد کی عمر ایک سال کے قریب ہوئی تو وہ سخت بیمار ہو گیا.حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بعد میں خلیفہ اسیح اوّل ہوئے ، کو جموں میں مکتوب گرامی تحریر فرمایا: -
حیات احمد ۵۳۲ جلد دوم حصہ سوم وو بشیر احمد عرصہ تین ماہ تک برابر بیمار رہا.تین چار دفعہ ایسی نازک حالت تک پہنچ گیا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ شاید دو چاردم باقی ہیں مگر عجیب قدرت قادر ہے کہ ان سخت خطرناک حالتوں تک پہنچا کر پھر ان سے رہائی بخشتا رہا.اب بھی کسی قدر علالت باقی ہے.مگر بفضلہ تعالیٰ آثار خطر ناک نہیں ہیں.اور ایسے وقتوں کی دعا بھی عجیب قسم کی دعا ہوتی ہے، سو اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَالْمِنَّۃ کہ آپ ایسے وقتوں میں یاد آجاتے ہیں.(الحکم ۱۷ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۳.مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۶۷ مطبوعہ ٤۲۰۰۸) را ۳.اس کے بعد پھر ایک خط تحریر فرمایا.جس میں تحریر فرمایا :.ایک خط روانہ خدمت کر چکا ہوں.اب باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ بشیر احمد میرا لڑکا جس کی عمر قریب برس کے ہو چلی ہے.نہایت ہی لاغر اندام ہو رہا ہے ، پہلے سخت تپ محرقہ کی قسم کا چڑھا تھا.اس سے خدا تعالیٰ نے شفا بخشی.پھر بعد کسی قدر خفت تپ کی یہ حالت ہوگئی کہ لڑکا اس قدر لاغر ہو گیا ہے کہ استخواں ہی استخواں رہ گیا ہے.سقوط قوت اس قدر ہے کہ ہاتھ پیر بیکار کی طرح معلوم ہوتے ہیں یا تو وہ جسم قوی ہیکل معلوم ہوتا تھا اور یا اب ایک تنکے کی طرح ہے.پیاس بشدت ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ حرارت کا اندر موجود ہے آپ براہ مہربانی غور کر کے کوئی ایسی تجویز لکھ بھیجیں جس سے اگر خدا چاہے بدن میں قوت ہو اور بدن تازہ ہو.اس قدر لاغری اور سقوط قوت ہو گیا ہے کہ وجود میں کچھ باقی نہیں رہا.آواز بھی نہایت ضعیف ہو گئی ہے.یہ بھی واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ دانت بھی اس کے نکل رہے ہیں.چار دانت نکل چکے تھے کہ یہ بیماری شیر کی طرح حملہ آور ہوئی.اب بباعث غایت درجہ ضعف قوت اور لاغری اور خشکی بدن کے دانت نکلنے موقوف ہو گئے ہیں.اور یہ حالت ہے ، جو میں نے بیان کی ہے.براہ مہربانی جلد جواب سے مسرور فرماویں.والسلام مکتوبات احمد جلد ۲ صفحه ۶۸ مطبوعه ۲۰۰۸ء)
حیات احمد ۵۳۳ جلد دوم حصہ سوم اس سے اُس توجہ اور شفقت اور محبت کا پتہ چل سکتا ہے کہ جو حضرت اقدس کو بشیر کی بیماری کے متعلق تھی نیز اس حالت میں آپ کس قدر دعائیں فرما رہے تھے.حضرت اماں جان کی جو حالت ہو گی ، وہ خود بخود ہی واضح ہو جاتی ہے وہ ماں جس کا پہلا بچہ ہو.اور جو خوبصورت بھی ہو.اس کی ذات کے متعلق بڑی بڑی امیدیں وابستہ ہوں.وہ ایسا سخت بیمار ہو تو اس ماں کے قلب کی کیا کیفیت ہو گی.یہ کسی تشریح کی محتاج نہیں.صاحبزادہ بشیر احمد اول اس شدید بیماری سے بالکل اچھا ہو گیا.چنانچہ ۱۸ راگست ۱۸۸۸ء کو ایک خط میں حضرت مولوی صاحب کو لکھا کہ آپ کے آنے کی اب ضرورت نہیں.اب بشیر احمد خدا کے فضل سے اچھا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ نے ان دعاؤں کو جو کی گئیں.شرف قبولیت بخشا.اور صاحبزادہ بشیر اول اچھا ہو گیا مگر اصل تقدیر جو’ مہمان“ کے الہام میں پوشیدہ تھی ، ابھی پوری ہونے والی تھی.چنانچہ بشیر اؤل پھر بیمار ہوا.اور۴ رنومبر ۱۸۸۸ء کو ٹھیس دن بیمار رہ کر فوت ہو گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.آپ نے حضرت مولوی صاحب کو جموں خط لکھا اور اس میں بشیر اول کی وفات کی اطلاع دی.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا:.وو ” میرا لڑکا بشیر احمد تمیس روز بیمار رہ کر آج بقضائے الہی رب عز و جل انتقال کر گیا إِنَّـالِـلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون اس واقعہ سے جس قدر مخالفین کی زبانیں دراز ہوں گی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوں گے اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا.وَإِنَّا رَاضُوْنَ بِرَضَائِهِ وَصَابِرُوْنَ عَلَى بَلَا ئِهِ يَرْضَى عَنَّا مَوْلَانَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْن والسلام ۱۴ نومبر ۱۸۸۸ء ترجمہ.یقیناً ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں اور اسکی طرف سے آنے والی آزمائش پر صبر کرنے والے ہیں تا ہم سے ہمارا مولیٰ دنیا اور آخرت میں راضی ہو اور وہ ارحم الراحمین ہے.(ناشر)
حیات احمد ۵۳۴ جلد دوم حصہ سوم حضرت حکیم الامت کو آپ نے جو مختصر خط لکھا.اس میں دو امور کی طرف اشارہ فرمایا:.اب مخالفوں کی زبانیں دراز ہوں گی.موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوں گے.سوالیسا ہی ہوا.ایک بڑا زلزلہ آیا.مخالفت کا طوفانِ بے تمیزی اٹھا سیرت المہدی حصہ اوّل مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے صفحہ پر لکھا ہے:.مگر قدرت خدا کہ ایک سال بعد یہ لڑکا اچانک فوت ہو گیا.بس پھر کیا تھا.ملک میں طوفانِ عظیم برپا ہوا.اور سخت زلزلہ آیا حتی کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری کا خیال کہ ایسا زلزلہ عامتہ الناس کے لئے نہ اس سے قبل کبھی آیا تھا نہ اس کے بعد آیا.گویا وہ دعویٰ مسیحیت پر جو زلزلہ آیا تھا اسے بھی عامۃ الناس کے لئے اس سے کم قرار دیتے ہیں.مگر بہر حال یہ یقینی بات ہے کہ اس واقعہ پر ملک میں ایک سخت شوراٹھا اور کئی خوش اعتقادوں کو ایسا دھکا لگا کہ وہ پھر نہ سنبھل سکے...حضرت صاحب نے لوگوں کو سنبھالنے کے لئے اشتہاروں اور خطوط کی بھر مار کر دی اور لوگوں کو سمجھایا کہ میں نے کبھی یہ یقین ظاہر نہیں کیا تھا کہ یہ وہی لڑکا ہے ہاں میں نے کہا تھا کہ چونکہ اس لڑکے کے متعلق مجھے بہت الہام ہوئے ہیں.جن میں اس کی بڑی ذاتی فضیلت بتائی گئی تھی اس لئے میرا خیال تھا کہ شاید یہی وہ موعود لڑکا ہو.مگر خدا کی وحی میں جو اس معاملہ میں اصل اتباع کے قابل ہے، ہرگز کوئی تعیین نہیں کی گئی تھی.غرض لوگوں کو بہت سنبھالا گیا چنانچہ بعض لوگ سنبھل گئے لیکن اکثروں پر مایوسی کا عالم تھا.مخالفین میں پرلے درجہ کے استہزا کا جوش تھا.“ یہ ایسا وقت تھا کہ دشمن تو دشمن اپنے بھی بہت خطرے میں پڑ گئے تھے.حضرت اُم المؤمنین نے جو اس وقت رضا بالقضاء کا نمونہ دکھایا اس کی یہ حالت تھی کہ آپ نے جب دیکھا کہ بچے کے اب بچنے کی کوئی صورت نہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں پھر نماز کیوں ملہ سیرت المہدی جلد ا مطبوعہ ۲۰۰۸ء میں یہ روایت صفحہ ۹۵ پر ہے.(ناشر)
حیات احمد ۵۳۵ جلد دوم حصہ سوم قضاء کروں.چنانچہ آپ نے وضو کر کے نماز شروع کر دی اور نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر کے فرمایا کہ بچے کا کیا حال ہے تو اس کے جواب میں بتلایا گیا کہ بچہ فوت ہو گیا ہے.تو آپ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کر خاموش ہو گئیں.یہ واقعہ الحکم میں شائع شدہ موجود ہے.اس وقت جبکہ چاروں طرف شور بے تمیزی بچ رہا تھا.ایک زلزلہ آیا ہوا تھا.ایک ماں کے ایمان کی پختگی کی ایسی مثال کم ملے گی کہ اپنے لخت جگر کو بستر مرگ پر چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے سکونِ قلب کے ساتھ کھڑی ہو جائے.جاؤ ڈھونڈ و! دیکھو کہ اس کی مثال کہیں نظر آتی ہے؟ ان کی زبان سے کوئی شکوہ ، کوئی کلمہ قابل اعتراض نہیں نکلا.انہوں نے اپنے خاوند سے یہ نہیں پوچھا.کہ آپ تو اس لڑکے کے متعلق ایسا خیال کرتے تھے ، اب یہ کیا ہوا.پورا اطمینان ، پورا سکون ، قلب میں موجود تھا اور إِنَّ لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.پڑھ کر خاموش ہو گئیں.یہ شان ہے حضرت ام المؤمنین کے ایمان کی پختگی کی اور رضا بالقضاء کی.اور یہی ایک مسلمان عورت کی شان ہے.حضرت اقدس نے اپنے مخلص مریدوں کو اس پیشنگوئی کی وضاحت پر مفصل خط لکھے جو سلسلہ کے لٹریچر میں موجود ہیں.الغرض صاحبزادہ بشیر اول خدا کے ان الہاموں کے ماتحت فوت ہو گیا.آپ نے ایک اشتہار لکھا ، جس پر یہ شعر لکھا.اور تحریر فرمایا:.ہم نے اُلفت میں تری بار اٹھایا کیا کیا تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا غرض جو اس کی نگاہ میں راستباز اور صادق ہیں وہ ہمیشہ جاہلوں کی زبان اور ہاتھ سے تکلیفیں اٹھاتے چلے آئے ہیں.سو چونکہ سنت اللہ قدیم سے یہی ہے.اس لئے اگر ہم بھی خویش و بیگانہ سے کچھ آزار اٹھا ئیں تو ہمیں شکر بجالا نا چاہئے اور خوش
حیات احمد ۵۳۶ جلد دوم حصہ سوم ہونا چاہئے کہ ہم اس محبوب حقیقی کی نظر میں اس لائق تو ٹھہرے کہ اس کی راہ میں دکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں“.تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحه ۸۳ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۱۰۸ بار دوم ) دو پھر آپ نے ایک مفصل اشتہار بنام " حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر“ شائع کیا.اس میں آپ نے بتلایا کہ یہ الہامی طور پر تصفیہ نہیں ہوا تھا کہ یہی وہ مصلح موعود لڑکا ہے.اصل بات یہی ہے کہ اگر چہ بشیر اول اپنی ذاتی استعدادوں کے لحاظ سے بڑی عظمت اور شان والا لڑکا تھا.اور یہ استعداد میں اس کے اندر اسی طرح موجود تھیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کے اندر نبوت کی استعداد موجود تھی.چنانچہ آپ نے فرمایا.لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيْمُ لَكَانَ صِدِّيْقًا نَبِيًّا ایسی ہی استعدادوں کے ساتھ یہ بشیر بھی آیا.وہ کیوں فوت ہوا؟ اس کی وفات کی یہی وجہ تھی کہ وہ خود مصلح موعود نہ تھا بلکہ جیسے حضرت اقدس نے سبز اشتہار کے حاشیہ صفحہ ۲۱ پر لکھا ہے:.بشیر اول جو فوت ہو گیا ہے.بشیر ثانی کے لئے بطور ا رہاص تھا.“ ( سبز اشتہار صفحہ ۲۱.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۷ ) وہ مصلح موعود کی پیشنگوئی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے آیا تھا.اگر بشیر اول زندہ رہتا تو لوگوں کی توجہ اس کی طرف ہوتی.اور یہ قدر ہوئی.حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ مصلح موعود نہ تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص نے اسے مصلح موعود کے لئے راستہ صاف کرنے کے لئے بھیجا تھا.یہ مختصر حالات ہیں بشیر اوّل کے.اس طرح وہ ۷ / اگست ۱۸۸۷ء کو رات کے ڈیڑھ بجے کے قریب پیدا ہوا.اور ۴ / نومبر ۱۸۸۸ء بروز یکشنبہ اپنی عمر کے سولہویں مہینہ میں فوت ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - ترجمہ.اگر ابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا.
حیات احمد ۵۳۷ جلد دوم حصہ سوم بشیر اول تاریخ پیدائش ۱۷ اگست ۱۸۸۷ء تاریخ وفات.۴۰ رنومبر ۱۸۸۸ء اس کی شان! مبشر.بشیر.نوراللہ.صیب.چراغ دین.عنموائیل وغیرہ وغیرہ بشیر اول کا عقیقہ (سیرت اُم المؤمنین حصّہ اوّل) بشير اوّل (اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا) کا عقیقہ جس روز ہوا بڑی سخت بارش ہوئی اور یہ بھی گویا حضرت کے الہام و صداقت کا نشان تھا احباب جن کو بلایا گیا تھا وہ شرابور ہو کر پہنچے قادیان ایک جزیرہ بنا ہوا تھا.حضرت میر ناصر نواب صاحب کثرتِ بارش کی وجہ سے بٹالہ رکے رہے اور وہیں سے واپس ہو گئے.عقیقہ بیت الفکر میں ہوا جب بچہ کے سر سے بال اتارے جا رہے تھے تو شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اسے اپنی گود میں لئے ہوئے تھے اس لئے کہ وہ حضرت کی خاندان کی عظمت کو دیکھتے ہوئے اس قسم کی خدمات کو فخر سمجھتے تھے میں نے بشیر اول کے حالات کو بھی یک جا کر دیا ہے البتہ حقانی تقریر کو میں نے یہاں درج نہیں کیا وہ تاریخی حیثیت سے ۱۸۸۸ ء ہی کے واقعات میں درج کروں گا.
حیات احمد ۵۳۸ ۱۸۸۸ء کے حالات جلد دوم حصہ سوم ۱۸۸۸ء کے واقعات اور حالات میں ایک عظیم الشان واقعہ عیسائیوں پر اتمام حجت ہے.پادری فتح مسیح سے مقابلہ اور یہ اتمام حجت روحانی طور پر آسمانی نشانات میں مقابلہ کے طور پر ہوا.اور اس کی ابتدا پادری فتح مسیح کے چیلنج سے ہوئی.حضرت اقدس مئی ۱۸۸۸ء میں صاحبزادہ بشیر احمد (بشیر اوّل) کی علالت کی وجہ سے بغرض علاج بٹالہ آئے ہوئے تھے اس وقت آپ کا قیام چوہدری نبی بخش زمیندار بٹالہ کے مکان پر تھا ی حاشیہ.پادری فتح مسیح ضلع گورداسپور کے موضع فتح گڑھ چورایاں کا باشندہ تھا اور عیسائی ہو گیا تھا اس وقت جو مسلمان مرتد ہو کر عیسائی ہو جاتا تھا اس کے لئے مشنریوں کے پاس عزت اور وقعت حاصل کرنے کا ذریعہ اسلام کی مخالفت اور گندہ دہانی تھی اور پادری عمادالدین نے اسی قسم کا لٹریچر جمع کر دیا ہوا تھا بٹالہ میں اس وقت انچارج مشنری وائٹ بر سخٹ تھا جو بعد میں ڈاکٹر سٹانٹن کے نام سے مشہور تھا.میں ۱۹۲۶ء میں اس کے گھر جا کر ملا تھا.وہ عرصہ تک بٹالہ میں رہا اور فتح مسیح اس کے ماتحت واعظ کا کام کرتا تھا.اس نے سستی شہرت کا ذریعہ حضرت مسیح موعود (علیہ الصلواۃ والسلام ) سے مقابلہ سمجھا اس وقت تک آپ کا دعوئی نہ تھا اور نہ آپ بصحت رہتے تھے اور میں ذاتی طور پر فتح مسیح سے نہ صرف واقف تھا بلکہ بعض دفعہ اس سے گفتگو ہوئی وہ نہایت گندہ زبان تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر اور اُمَّهَاتُ الْمُؤْمِنِينَ پر حملے کرنے کا عادی تھا رض اور اپنی شوخیوں کی وجہ سے پادری وائٹ برسخٹ کا منہ چڑھا بھی تھا.اس چیلنج کے علاوہ جس کا ذکر میں اوپر کر رہا ہوں اور اس نے (۱۸۹ء میں حضرت اقدس سے خط و کتابت بھی کی جس کے جواب میں نورالقرآن شائع ہوا.میں نے اس خط و کتابت کو مکتوبات احمد یہ جلد سوم میں شائع کر دیا ہے.آخر وہ ناکام و نامراد حضرت کی زندگی میں فوت ہو گیا حالانکہ وہ ایک نو جوان تھا.( عرفانی الكبير )
حیات احمد ۵۳۹ جلد دوم حصہ سوم جو شہر کے دروازہ کے پاس باہر تھا (راقم الحروف نے اس مقام کو بارہا دیکھا اور بعض تقریروں پر وہاں جانے اور خود زمیندار نبی بخش سے بھی ملاقات کے مواقع ہوئے ) پادری فتح مسیح نے اپنی شخصی شہرت کے لئے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا.حالانکہ تقاضائے اخلاق تو یہ تھا کہ ایسے موقع پر جبکہ آپ نے اپنے بچے کے علاج کے لئے مسافرانہ آئے ہوئے ہیں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کی جاوے مگر فتح مسیح نے موقع کو منتخب سمجھا اور ابھی حضرت اقدس کو وہاں آئے ہوئے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا آپ کے مکان پر پہنچ کر آپ سے مقابلہ کی دعوت دی اس کیفیت کو خود حضرت کی زبان سے سنو جو آپ نے بذریعہ اشتہارات شائع کی یہ تمام مکمل روئداد اس مباحثہ کی ہے.ضمیمہ اخبار ریاض ہندا مرتسر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اعلان ۱۸ مئی ۸۸ روز جمعہ میں ایک صاحب فتح مسیح نام عیسائی واعظ نے بمقام بٹالہ اس عاجز کے مکان نشست گاہ پر آکر ایک عام جلسہ میں جس میں پچاس سے کچھ زیادہ آدمی مسلمان اور ہندو بھی تھے.مجھ سے مخاطب ہو کر یہ دعویٰ کیا کہ جیسے آپ اس بات کے مدعی ہیں کہ میری اکثر دعا ئیں جناب الہی میں بپایہ قبولیت پہنچ کر ان کی قبولیت سے پیش از وقوع مجھ کو اللہ جل شانہ بذریعہ اپنے الہام خاص کے اطلاع دے دیتا ہے اور غیب کی باتوں پر مجھے مطلع کرتا ہے.یہی مرتبہ لہم ہونے کا مجھ کو بھی حاصل ہے.اور خدائے تعالیٰ مجھ سے بھی ہمکلام ہو کر اور میری دعائیں قبول کر کے پیش از ظہور مجھ کو اطلاع دے دیتا ہے.اس لئے میں آپ سے آپ کی پیشگوئیوں یہ اعلان ضمیمه اخبار ریاض ہند مطبوعہ ۲۱ رمئی ۱۸۸۸ء کے صفحہ ۱۵، ۱۶ پر ہے.(المرتب)
حیات احمد ۵۴۰ جلد دوم حصہ سوم میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں.جس قدر اور جس طور کی پیشگوئیں عام جلسہ میں آپ تحریر کر کے پیش کریں گے.اسی قسم کی پیشگوئیاں اپنی طرف سے میں بھی پیش کروں گا اور فریقین کی پیشنگوئیاں اخبار نور افشاں میں چھپوا دوں گا.چنانچہ میاں فتح مسیح نے یہ دعوی کر کے بالمقابل پیشگوئیوں کے پیش کرنے کے لئے ۲۱ مئی ۸۸ روز دوشنبہ دن مقرر کیا.اور وعدہ کیا کہ تاریخ اور روز مقررہ پر ضرور حاضر ہو کر بمقابل تمہارے یعنی اس عاجز کے الہامی پیشگوئیاں پیش کروں گا.اب چونکہ ہم یقیناً جانتے ہیں کہ عیسائی کلیسا برکت اور قبولیت اور ایمانداری کے پھلوں سے بالکل خالی ہے اور سارا گزارہ لاف و گزاف اور یاوہ گوئی پر ہے.اور تمام برکتیں اسلام سے ہی خاص ہیں.اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس لاف و گزاف کی اصلیت ظاہر کرنے کے لئے اور نیز یہ بات پبلک کو دکھانے کے لئے کہ کہاں تک عیسائیوں میں دروغگو ئی اور بے باکی نے رواج پکڑ لیا ہے.اسے بالمقابل کرامت نمائی کے لئے اجازت دی جائے.تاسیہ روئے خود ہر کہ دروغش شود ☆ سو آج ہماری طرف سے بھی اس قسم کا مناظرہ قبول ہو کر عام اطلاع کے لئے یہ اعلان جاری کیا جاتا ہے کہ ۲۱ رمئی ۱۸۸۸ء کو پیر کے روز میاں فتح مسیح عیسائی روح القدس کا فیض دکھلانے اور الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتلانے کے لئے ہمارے مکان پر جو نبی بخش ذیلدار کا طویلہ ہے آئیں گے جیسا کہ انہوں نے قریباً پچاس آدمی کے روبرو یہ وعدہ کر لیا ہے.پہلے ہم الہامی پیشگوئیاں بقید تاریخ پیش کریں اور پھر اس کے مقابل پر ان کے ذمہ ہوگا کہ ایسی ہی الہامی پیشگوئیاں وہ بھی پیش کریں.پس جو صاحب اس جلسہ کو دیکھنا چاہتے ہوں انہیں اختیار ہے کہ دس بجے تک بروز پیر ہمارے مکان پر بٹالہ میں حاضر ہو جاویں.پھر اگر میاں فتح مسیح برطبق اپنے وعدہ کے ترجمہ.تا ہر جھوٹا روسیاہ ہو جائے.
حیات احمد ۵۴۱ جلد دوم حصہ سوم پیر کے دن آ موجود ہوئے ہوں اور روح القدس کی الہامی طاقت جو اٹھارہ سو برس سے عیسائی جماعت سے بوجہ گمراہی ان کی کے گم ہو چکی ہے.تازہ طور پر دکھلائیں.اور ان پیشگوئیوں کی سچائی اپنے وقت میں ظہور میں آجائے تو بلا شبہ عیسائیوں کو اپنے مذہب کی صداقت پر ایک حجت ہو گی.کیونکہ ایسے عظیم الشان میدان مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نہ کی.اور ان کو فتح دی اور مسلمانوں کو نہ دی.لیکن اگر ہماری پیشگوئیاں سچی نکلیں اور اسی میدان میں دشمن کو شکست اور ہم کو فتح ہوئی تو اس سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے اور اگر میاں فتح مسیح تاریخ مقرر پر نہ آئے.اور اس مقابلہ سے ڈر کر بھاگ گئے.تو جو کا ذبوں کی نسبت کہا جاتا ہے.ان سب الفاظ کے وہ مستحق ٹھہریں گے.اور تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے والے عیسائی چلن سے اچھی طرح واقف ہو جائیں گے.اور نیز یہ گریز ان کی حقیقت فتح اسلام متصور ہوگی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المعلن.خاکسار غلام احمد از بٹالہ.طویلہ نبی بخش ذیلدار.۱۸ مئی ۱۸۸۸ء بروز جمعہ A ( یہ اشتہار ۲۳ کے دو صفحوں پر ہے ) (مطبوعہ ریاض ہند پرلیس امرتسر ) تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۱۰۳ تا ۱۰۵ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۱۲۶، ۱۲۷ بار دوم ) (۴۳) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي اکیس مئی ۱۸۸۸ء کے جلسہ مذہبی کی کیفیت اور پادری وایٹ بریخٹ صاحب پر اتمام حجت معلوم جن صاحبوں نے ہمارا اعلان مجریہ ۱۸ رمئی ۱۸۸۸ ء دیکھا ہے.انہیں ہوگا کہ میاں فتح مسیح عیسائی واعظ نے دعوی کیا تھا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے اور میں
حیات احمد ۵۴۲ جلد دوم حصہ سوم بھی پیش از وقوع الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتلا سکتا ہوں.چنانچہ اس دعوی کے پر کھنے کے لئے ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کو بروز دوشنبہ اس عاجز کے مکان فرودگاہ پر ایک بھارا جلسہ ہوا.اور بہت سے مسلمان اور ہندو معزز اور رئیس شہر کے رونق افروز جلسہ ہوئے.اور سب کو اس بات کے دیکھنے کا شوق تھا کہ کونسی پیشگوئیاں بالمقابل پیش کی جاتی ہیں.آخر دس بجے کے بعد میاں فتح مسیح معہ چند دوسرے عیسائیوں کے جلسہ میں تشریف لائے اور بجائے اس کے کہ پیشگوئیاں پیش کرتے اور اور باتیں کہ جو سراسر واہیات اور خارج از مقصد تھیں شروع کر دیں.آخر حاضرین میں سے ایک معزز ہند و صاحب نے انہیں کہا کہ یہ جلسہ صرف بالمقابل پیشگوئیاں کے پیش کرنے کے لئے انعقاد پایا ہے.اور یہی آپ کا اقرار بھی ہے.اور ایسے شوق سے سب لوگ اکٹھے ہوئے ہیں.سو اس وقت الہامی پیشگوئیاں پیش کرنی چاہیں.اس کے جواب میں میاں فتح مسیح نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میری طرف سے دعویٰ الہام نہیں ہے.اور جو کچھ میرے منہ سے نکلا تھا.میں نے یوں ہی فریق ثانی کے دعوے کے مقابل پر ایک دعوی کر دیا تھا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان کا جھوٹا دعوی ہے.سوالیسا ہی میں نے بھی ایک دعوی کر دیا.اس پر بہت لوگوں نے انہیں ملزم کیا.کہ یہ دروغ گوئی نیک چلنی کے برخلاف تم سے وقوع میں آئی.اگر تم فی الحقیقت ملہم نہیں تھے تو پھر خلاف واقعہ ملہم ہونے کا کیوں دعویٰ کیا.غرض حاضرین کی طرف سے میاں فتح مسیح کو اس کی درنگوئی پر سخت عتاب ہو کر جلسہ برخواست ہوا.اور دیسی عیسائیوں کے چلن کا نمونہ عام لوگوں پر کھل گیا.اور ہمیں سخت افسوس ہوا کہ ایسے شخص کے ساتھ جس کو سچائی اور دیانت کی کچھ بھی پروا نہیں.کیوں اپنا وقت عزیز ضائع کیا.اگر کوئی معزز درجہ کا یورپین عیسائی ہوتا تو البتہ ایسے فاش دروغ اور قابل ندامت جھوٹ سے پر ہیز کرتا.
حیات احمد ۵۴۳ جلد دوم حصہ سوم اب اس اشتہار کے جاری کرنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی معزز یورپین عیسائی صاحب ملہم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں تو انہیں بصد رغبت ہماری طرف سے اجازت ہے کہ بمقام بٹالہ جہاں آخر رمضان تک انشاء اللہ ہم رہیں گے کوئی جلسہ مقرر کر کے ہمارے مقابل پر اپنی الہامی پیشگوئیاں پیش کریں.بشرطیکہ فتح مسیح کی طرح اپنی دروغ گوئی کا اقرار کر کے میدان مقابلہ سے بھا گنا نہ چاہیں.اور نیز اس اشتہار میں پادری وائٹ بریخٹ صاحب جو اس علاقہ کے ایک معزز یورپین پادری ہیں.ہمارے بالتخصیص مخاطب ہیں.اور ہم پادری صاحب کو یہ بھی اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں کہ یہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے تو ہم ان سے کوئی پیشگوئی بالمقابل طلب نہیں کریں گے.بلکہ حسب درخواست ان کی ایک جلسہ مقرر کر کے فقط اپنی طرف سے ایسی الہامی پیشگوئیاں پیش از وقوع پیش کریں گے.جن کی نسبت اُن کو کسی طور پر شک و شبہ کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی اور اگر ہماری طرف سے اس جلسہ میں کوئی ایسی قطعی ویقینی پیشگوئی پیش نہ ہوئی کہ جو عام ہندوؤں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی نظر میں انسانی طاقتوں سے بالا تر متصور ہو تو ہم اُسی جلسہ میں دو سو روپیہ نقد پادری صاحب موصوف کو بطور ہرجانہ یا تاوان تکلیف دہی کے دے دیں گے چاہیں تو وہ دوسو روپیہ کسی معزز ہندو صاحب کے پاس پہلے ہی جمع کرا کر اپنی تسلی کر لیں لیکن اگر پادری صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ حقیقت میں یہ پیشگوئی انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے تو پھر ان پر واجب ولا زم ہوگا کہ اس کا جھوٹ یا سچ پر کھنے کے لئے سیدھے کھڑے ہو جائیں.اور اخبار نور افشاں میں جو ان کی مذہبی اخبار ہے.اس پیشگوئی کو درج کرا کر ساتھ اس کے اپنا اقرار بھی چھپوا ئیں.کہ میں نے اس پیشگوئی کو مِنْ كُلِّ الْوُجُوْہ گوانسانی طاقتوں سے بالاتر قبول کر لیا.اسی وجہ سے تسلیم کر لیا ہے کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو بلا شبہ قبولیت اور
حیات احمد ۵۴۴ جلد دوم حصہ سوم محبوبیت الہی کے چشمہ سے نکلی ہے نہ کسی اور گندے چشمہ سے.جو انکل و اندازہ وغیرہ ہے.اور اگر بالآخر اس پیشگوئی کا مضمون صحیح اور سچ نکلا.تو میں بلا توقف مسلمان ہو جاؤں گا.کیونکہ جو پیشگوئی محبوبیت کے چشمہ سے نکلی ہے وہ اس دین کی سچائی کو ثابت کرنے والی ہے.جس دین کی پیروی سے یہ مرتبہ محبوبیت کا ملتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ محبوبیت کو نجات یافتہ ہونا ایک امر لازمی ہے.اور اگر پیشگوئی کا مضمون صحیح نہ نکلا یعنی بالآ خر جھوٹی نکلے تو وہ دوسو روپیہ جو جمع کرایا گیا ہے.پادری صاحب کو دیا جائے گا.لیکن اگر روز انعقاد جلسہ سے ایک ہفتہ تک پادری صاحب نے مضمون پیشگوئی کو مع اپنے اقرار مشرف اسلام ہونے کے جس پر میں چھپیں معزز مسلمانوں اور ہندوؤں کی گواہی ثبت ہوگی.اخبار نور افشاں میں درج نہ کرایا یا پہلے ہی سے ایسے جلسہ میں آنے سے انکار کیا تو پبلک کو سمجھ لینا چاہئے کہ پادری صاحبوں کو حق کی اطاعت منظور نہیں بلکہ صرف تنخواہ پانے کا حق ادا کر رہے ہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ اگر پادری صاحب بعد وصول اس اشتہار کے پابندی ان شرائط کی اپنے نفس پر قبول کر لیں تو یہ کچھ ضرور نہیں کہ وہ ہمارے مکان پر ہی آویں بلکہ ہم خود اُن کے مکان پر اس شرط سے جا سکتے ہیں کہ دو معزز عہدہ دار سرکاری بھی یعنی ایک تھانیدار اور ایک تحصیلدار اس جگہ حاضر ہوں.جن کا اس جگہ پہلے سے بلا لینا پادری صاحب کے ہی ذمہ ہوگا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.خاکسار غلام احمد از بٹاله ۲۴ رمئی ۱۸۸۸ء یہ اشتہار کلام کے دو صفحوں پر ہے) (شمس الہند گورداسپور ) تبلیغ رسالت جلد اصفحه ۱۰۵ تا ۱۰۸.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۲۸ تا ۱۳۰.بار دوم )
حیات احمد ۵۴۵ (۴۴) جلد دوم حصہ سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ اعلان پادری وائٹ بر سخٹ صاحب پر اتمام حجت اور میاں فتح مسیح کی دروغ گوئی کی کیفیت ہم اپنے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۸۸ء میں جو مطبع شمس الہند گورداسپورہ میں چھپا تھا.اس بات کو بتصریح بیان کر چکے ہیں کہ میاں فتح مسیح عیسائی نے ملہم ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر کے پھر ۲۱ رمئی ۱۸۸۸ء کے جلسہ میں تمام حاضرین کے رو بروجن میں معزز ہندو اور بٹالہ کے آریہ بھی تھے.اپنی دروغگوئی کا صاف اقرار کر دیا.اور بالمقابل الہامی پیشگوئیوں کے پیش کرنے سے بھاگ گیا مگر افسوس کہ اسی عیسائی صاحب نے ۳۱ رمئی ۱۸۸۸ء کے نور افشاں میں اپنی دروغگوئی کے چھپانے کے لئے یہ ظاہر کیا ہے کہ میں نے الہام کا دعویٰ نہیں کیا تھا.مقام تعجب ہے کہ ان دیسی عیسائیوں کو جھوٹ بولنے سے ذرا بھی شرم نہیں آتی.بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ اگر آپ نے ملہم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا تو پھر کیوں ۲۱ مئی ۸۸ء کے جلسہ میں رائے بشمبر داس صاحب رئیس بٹالہ اور بابو گوردت سنگھ صاحب مختار عدالت نے آپ کو ملامت کی کہ ایسا جھوٹ کیوں بولا اور کیوں ناحق لوگوں کو تکلیف دی.اور کیوں منشی محمد بخش صاحب مختار عدالت نے اُسی جلسہ میں شہاد تا بیان کیا کہ فتح مسیح انکار دعوی الہام میں بالکل جھوٹا ہے.اس نے میرے روبرو ایک مجمع کثیر میں اپنے ملہم ہونے کا دعوی کیا ہے.بھلا یہ بھی جانے دو خود پادری وائٹ بر سخٹ سے حلفاً دریافت کیا جائے کہ کیا ۱۸ رمئی ۱۸۸۸ء میں فتح مسیح نے پادری صاحب کے نام یہ چٹھی نہیں لکھی تھی کہ میں نے بالمقابل الہامی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے.اب انصافاً سوچنا چاہئے کہ جس شخص کے مادہ میں اس قدر جھوٹ بھرا ہوا ہے کیا وہ اس منصب کے لائق ہے کہ عیسائی کلیسا کی
حیات احمد ۵۴۶ جلد دوم حصہ سوم طرف سے دوسروں کے لئے واعظ ٹھہرے.پادری وائٹ بریخٹ صاحب اس شخص کی دروغ گوئی کو خوب جانتے ہیں اور حلفاً بیان کر سکتے ہیں.اسی وجہ سے ہم نے اپنے اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۸۸ء میں صاف لکھ دیا کہ آئیندہ ہم ایسے ایسے دروغ گویوں کو مخاطب بنانا نہیں چاہتے.ہاں اگر پادری وائٹ بریخٹ صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں کہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے.اور پھر ہم سے کوئی الہامی پیشگوئی پیش از وقوع طلب کرنا چاہیں تو ہم بدیں شرط جلسہ عام میں پیش کریں گے کہ اگر ہماری پیشگوئی پیش کرده بنظر حاضرین جلسہ صرف انکل اور اندازہ ہو.انسانی طاقتوں سے بالا تر نہ ہو.یا بالآ خر جھوٹی نکلے تو دوسو روپیہ ہرجانہ پادری صاحب کو دیا جائے گا.ورنہ بصورت دیگر پادری صاحب کو مسلمان ہونا پڑے گا.لیکن پادری صاحب نے ایسے جلسہ میں آنا قبول نہ کیا.اور صاف گریز کر گئے.اور کوہ شملہ پر چلے گئے.حالانکہ ہم انہیں کے لئے ایک ماہ تک برابر بٹالہ میں ٹھہرے.غرض انہوں نے تو ہمارے مقابل پر دم بھی نہ مارا.لیکن اسے میاں فتح مسیح نے ۷ جون ۱۸۸۸ء کے اخبار نور افشاں میں چھپوا دیا ہے کہ ہم اس طور پر تحقیق الہامات کے لئے جلسہ کر سکتے ہیں کہ ایک جلسہ منعقد ہو کر چارسوال بند کاغذ میں حاضرین جلسہ میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں گے وہ ہمیں الہاماً بتلائے جائیں اس کے جواب میں اول تو یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ جیسا کہ ہم اپنے اشتہار ۲۴ رمئی ۱۸۸۸ء میں لکھ چکے ہیں.فتح مسیح جس کی طینت میں دروغ ہی دروغ ہے ہرگز مخاطب ہونے کے لائق نہیں.اور اس کو مخاطب بنانا اور اس کے مقابلہ پر جلسہ کرنا ہر ایک راست باز کے لئے عار وننگ ہے.ہاں اگر پادری وائٹ بریخٹ صاحب ایسی درخواست کریں کہ جونور افشاں ۷ جون ۱۸۸۸ء کے صفحہ ے میں درج ہے تو ہمیں بسر و چشم منظور ہے.ہمارے ساتھ وہ خدائے قادر و علیم ہے جس سے عیسائی لوگ ناواقف ہیں وہ پوشیدہ
حیات احمد ۵۴۷ جلد دوم حصہ سوم بھیدوں کو جانتا ہے.اور ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے خالص بندے ہیں.لیکن لہو ولعب کے طور پر اپنا نام لینا پسند نہیں کرتا.پس اگر پادری وائٹ بریخنٹ صاحب ایک عام جلسہ بٹالہ میں منعقد کر کے اس جلسہ میں حلفا اقرار کریں کہ اگر مضمون کسی بند لفافہ کا جو میری طرف سے پیش ہو.دس ہفتہ تک مجھ کو بتلایا جاوے تو میں بلا توقف دین مسیحی سے بیزار ہو کر مسلمان ہو جاؤں گا.اور اگر ایسا نہ کروں تو ہزار روپیہ جو پہلے سے کسی ثالث منظور کردہ کے پاس جمع کرادوں گا.بطور تاوان انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخل کیا جاوے گا.اس تحریری اقرار کے پیش ہونے کے اور نیز نورافشاں میں چھپنے کے بعد اگر دس ہفتہ تک ہم نے لفافہ بند کا مضمون بتلا دیا تو ایفاء شرط کا پادری صاحب پر لازم ہوگا.ورنہ ان کے روپیہ کی ضبطی ہوگی.اور اگر ہم بتلا نہ سکے تو ہم دعویٰ الہام سے دست بردار ہو جائیں گے.اور نیز جوسزا زیادہ سے زیادہ ہمارے لئے تجویز ہو وہ بخوشی خاطر اٹھالیں گے.فقط ( یہ اشتہار " پر دو صفحے کا ہے ) کا المعلن خاکسار غلام احمد قادیانی.۹رجون ۱۸۸۸ء (مطبوعہ ریاض ہند پر لیس امرتسر ) تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۱۰۸ تا ۱۱۱ مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۳۲،۱۳۱.بار دوم ) اس مقابلہ نے بٹالہ مشن کو سخت نقصان پہنچایا اور اسلام کو عیسائیت کے مقابلہ میں فتح عظیم حاصل ہوئی عیسائیوں سے یہ پہلا پبلک مقابلہ تھا.اخبارات میں حضرت اقدس کے اکثر مضامین شائع ہوا کرتے تھے.اس مقابلہ سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بٹالہ کے مسلمانوں میں عیسائیت کی طرف جو بعض نوجوان آمادہ ہو رہے تھے وہ روڑک گئی بلکہ یہ حقیقت ہے کہ عیسویت کی تبلیغ کو یہاں بے اثر کر دیا گیا ورنہ اس سے پہلے بعض مسلمان عیسائی ہو چکے تھے جن میں سے ایک مولوی قدرت اللہ صاحب واپس ہو چکے تھے.اس کی تفصیل حیات احمد کی سابق جلدوں میں آچکی ہے.
حیات احمد ۵۴۸ جلد دوم حصہ سوم اقارب کو تبلیغ کا سامان اء کی آخری ششماہی میں دو عظیم الشان واقعات پیش آئے اور وہ واقعات سلسلہ کے عہد جدید کے آغاز کا ذریعہ ہو گئے.ان میں سے پہلا واقعہ تو مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے خاندان کے متعلق ایک غیر معمولی پیشنگوئی تھی جو سلسلہ کی تاریخ میں محمدی بیگم کی پیشنگوئی کے عنوان سے مشہور ہے.اس پیشنگوئی پر ایک طوفانِ مخالفت برپا ہوا.اور یہ ایک امتحان تھا خود حضرت اقدس کے صبر وعزم کا.اور اس طوفان کے بر پا کرنے والے خود خاندان کے لوگ تھے عیسائی اور آریہ اور دوسرے مسلمان بھی اس میں شریک ہو گئے.حضرت اقدس کا معمول تھا کہ وقتاً فوقتاً اپنے اقارب کو تبلیغ کرتے رہتے مختلف طریقوں سے اس لئے کہ آپ کو یہ الہام بھی ہوا تھا کہ اپنے کنبہ کے اقارب کو انذار کرو.اس پیشنگوئی کی بناء تو دراصل ۲۰ فروری ۱۸۸۸ء کا اشتہار ہی تھا مگر اس میں اشارتاً اور اجمالاً ذکر تھا یہ اشتہار اسی کتاب کے صفحہ ۸ پر درج ہے اس ☆ میں جڑی بھائیوں کی ہر شاخ کے کاٹے جانے کا ذکر ہے.تفصیل وہاں دیکھ لی جاوے اور اس میں رجوع کی شرط بھی درج ہے.مگر ۱۸۸۸ء میں اس کے لئے بعض خاندانی واقعات پیش آگئے اور کچھ ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار کے موافق نشان رحمت کے دونوں پہلو رحمت اور انذار کے پیدا ہو گئے.رحمت کے نشان کے سلسلہ میں موعود لڑکے کی پیدائش کے متعلق ایک طوفان بے تمیزی پیدا ہوا اس کی تفصیل بھی گزر چکی اور کچھ آگے آئے گی.انذاری پہلو کے متعلق یہ پیشنگوئی بالعموم کم ہی شائع ہوئی.اور اس کی اشاعت خود فریق مخالف نے کی جیسا کہ آگے آتا ہے.یہ فریق مخالف کوئی غیر نہ تھا بلکہ آپ کے چچا زاد دو بھائی اور بہن اور ان کے متعلقین تھے.اور مرزا احمد بیگ ان اقارب میں سے ایک تھا.موجودہ سیٹنگ میں صفحہ ۴۵۳ تا ۴۵۹ پر یہ اشتہار ہے.(ناشر)
حیات احمد ۵۴۹ مرزا احمد بیگ کے تعلقات جلد دوم حصہ سوم مرزا احمد بیگ ہوشیار پور میں مقیم ایک معزز مغل خاندان کا فرد تھا اور اس خاندان کے تعلقات قادیان کے ممتاز اور بانی قادیان کے خاندان سے ان کے تعلقات رشتہ داری برابر چلے آتے تھے.میں نے حیات احمد کی پہلی جلدوں میں بیان کیا ہے کہ دولت و ثروت اور حکومت کے لحاظ سے تو قادیان ہی کا خاندان ممتاز تھا مگر اس خاندان نے اپنی ہی قوم سے خواہ وہ اپنی دنیوی حیثیت بناوٹی سے کچھ نسبت نہ رکھتے تھے رشتہ داریوں کو قائم رکھا.اسی خاندانی دستور کے موافق مرزا احمد بیگ کے خاندان سے قرابت اور رشتہ داری تھی.مرزا احمد بیگ کے نکاح میں حضرت اقدس کی چچا زاد بہن عمر النساء بیگم صاحبہ تھیں اور مرزا احمد بیگ کے بڑے بھائی مرزا محمد بیگ کے حبالہ نکاح میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہمشیرہ تھیں مگر مرزا احمد بیگ ان لوگوں کی حرکات سے پہلے ہی فوت ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس عفیفہ صالحہ کے رشتہ کی وجہ سے اس عذاب سے جو اس خاندان پر آیا اسے محفوظ کر دیا.جدی بھائی حضرت کے اشتہار ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء میں جدی بھائیوں کی ہر شاخ کے کاٹے جانے کا ذکر ہے یہ جدی بھائی مرزا امام الدین، مرزا نظام الدین، مرزا کمال الدین صاحبان ابنائے مرزا غلام محی الدین مرحوم ( جو حضرت کے عم مکرم تھے ) تھے اور ان کی تین بہنیں تھیں ایک مرزا احمد بیگ کی منکوحہ تھیں دوسرے جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم برادر بزرگ حضرت اقدس کے حبالہ نکاح میں تھیں اور تیسری مرزا اکبر بیگ ابن مرزا اعظم بیگ رئیس لاہور کی اہلیہ تھیں، بھائیوں میں سے صرف مرزا نظام الدین صاحب کا ایک بیٹا بیچا جو احمدی ہو گیا اور اس کی نسل قائم رہی اس نے رجوع سے فائدہ اٹھایا.تینوں بہنوں نے مختلف اوقات میں احمدیت کو قبول کر لیا اور رجوع کیا.مرزا کمال الدین کا
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم سلسلہ ختم ہو گیا.مرزا امام الدین کی ایک بیٹی حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے نکاح میں آئیں اور وہ ہمت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کو برو مند فرمایا.مرزا احمد بیگ کے بیٹے اور پوتے نے احمدیت کو قبول کر لیا اور عملاً اس انذار سے فائدہ اٹھایا.اس خاندان کی عملی حالت حضرت کے عزیز واقارب کی دینی حالت نہایت خراب تھی اسلام اور مذہب سے ان کو کوئی تعلق نہ تھا اس کا ذکر خود حضرت کے الفاظ میں پڑھو.آپ نے یہ بیان آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے میں اس کے اقتباس کا ترجمہ درج کرتا ہوں اس خاندان کی بے دینی اور دہریت اور ان کی نشان طلبی کے متعلق حضرت اقدس کی اپنی تحریر میں یہاں نقل کرتا ہوں جو آئینہ کمالات اسلام میں عربی میں لکھی ہوئی موجود ہے.میں اختصار کے لئے اس کا اردو تر جمہ لکھ دینے پر اکتفا کرتا ہوں.فرماتے ہیں:.ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک شخص میرے پاس روتا ہوا آیا میں اُس کے رونے سے ڈر گیا اور اس سے کہا کہ کیا تو کوئی موت کی خبر لایا ہے.اس نے کہا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اور بتایا کہ میں ان لوگوں ( یعنی حضرت مرزا صاحب کے رشتہ داروں) کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو دین اللہ سے مرتد ہو گئے ہیں ان میں سے ایک نے رسول اللہ صلعم کو نہایت غلیظ گالی دی جو میں نے اس سے پیشتر کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی.اور میں نے انہیں دیکھا کہ قرآن کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھتے ہیں اور ایسے کلمات منہ سے نکالتے ہیں کہ زبان ان کے نقل کرنے سے قاصر ہے.اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی وجود نہیں.اور نہ دنیا میں کوئی معبود ہے.صرف مفتریوں نے جھوٹی باتیں بنارکھی ہیں.“ آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۸) پھر اس کے آگے اسی کفر و عصیاں کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں تحریر فرماتے ہیں.جس کا
حیات احمد ترجمہ حسب ذیل ہے:.۵۵۱ جلد دوم حصہ سوم ” پھر انہوں نے ایک اشتہار لکھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور کلام اللہ کو اس میں گالیاں دیں اور اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کیا.اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس کتاب میں مجھ سے میری سچائی اور ہستی ءِ باری تعالیٰ کا نشان طلب کیا اور اپنے اس اشتہار کو انہوں نے تمام لوگوں میں مشتہر کیا اور اُس کے ذریعہ سے ہندوستان کے کافروں کو امداد پہنچائی اور بہت بڑی سرکشی اختیار کی جس کی مثال پہلے فرعون کے زمانہ میں بھی نہیں سنی گئی.جب ان کا یہ اشتہار مجھے پہنچا جس کو اس شخص نے لکھا تھا جو اُن میں عمر اور خباثت کے لحاظ سے بڑا تھا اور اس میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایسی گالیاں دیکھیں جن سے مومنوں کے دل پھٹ جائیں اور مسلمانوں کے کلیجے چیرے جائیں اور اس میں نہایت غیر شریفانہ اور رذیل اور احمقانہ باتیں اور شریعت غزا کی تو ہین اور کلام اللہ کی ہجو نظر آئی تو نہایت افسوس اور غضب کے ساتھ میں بھر گیا اور میں نے دیکھا کہ اس میں ایسے کلمات ہیں جن سے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں...پس میں نے دروازوں کو بند کر لیا اور اپنے رب کو پکارا.اور اپنے آپ کو اس کے آگے ڈال دیا اور سر بسجود ہو کر اس سے التجا کی اور نہایت تضرع کے ساتھ اس کی مدد طلب کی اور وہ سب کچھ کیا جو میں اپنی زبان اور جوارح اور آنکھوں کے ساتھ کر سکتا تھا.اور اس کو سوائے رب العالمین کے اور کوئی نہیں جانتا اور میں نے پکارا اے رب ! اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے اعداء کو ذلیل و رسوا کر.قبول کر اے میرے ربّ.میری دعا کو قبول کر.یہ قوم تیرے اور تیرے رسول کے ساتھ تمسخر اور استہزا کر رہی ہے اور تیری کتاب کی تکذیب میں مصروف ہے اور وہ تیرے نبی کو گالیاں دیتے ہیں.تیری رحمت سے میں فریاد کرتا ہوں.اے حتی و قیوم اور اے مددگار.پس رحم کیا میرے رب نے میری
حیات احمد ۵۵۲ جلد دوم حصہ سوم تضرعات پر اور فرمایا کہ میں نے ان کی عصیاں اور سرکشی دیکھی ہے جلدی ہی میں ایسی آفات کا عذاب ان پر وارد کروں گا جو آسمانوں کے نیچے سے انہیں پہنچے گا.اور تو دیکھے گا کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں.اور ہم ہر چیز پر قادر ہیں.میں ان کی عورتوں کو رانڈ اور ان کے بیٹوں کو یتیم بنا دوں گا.اور ان کے گھروں کو ویران کر دوں گا تا کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اور جو کچھ کمایا ہے اس کا مزہ چکھیں.لیکن میں انہیں یک مرتبہ ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تھوڑے تھوڑے کر کے ہلاک کروں گا تا کہ وہ رجوع کریں اور تو بہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں، بے شک میری لعنت نازل ہونے والی ہے.ان پر اور ان کے گھروں کی دیواروں پر اور ان کے چھوٹوں پر اور ان کے بڑوں پر اور ان کی عورتوں پر اور ان کے مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں داخل ہوں اور وہ سب کے سب ملعون ہیں.سوائے اُن کے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور ان سے تعلقات منقطع کر لیں اور ان کی مجالس سے دور ہو جائیں ان ہی لوگوں پر رحم کیا جائے گا یہ اُس کا خلاصہ ہے جو میرے رب نے مجھے الہام کیا پس میں نے انہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا.پس وہ ڈرے اور نہ اس کی تصدیق کی بلکہ سرکشی اور کفر میں بڑھ گئے.اور اعداء دین کی طرح استہزا کرنے لگ گئے.پس میرے رب نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا کہ ہم انہیں رُلانے والے نشان دکھلائیں گے اور ان پر عجیب ہموم و غموم نازل ہوں گے اور عجیب قسم کی بیماریاں آئیں گی اور ہم ان کی روزی تنگ کر دیں گے اور ان پر مصائب ڈالیں گے پس ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۶۹،۵۶۸)
حیات احمد ۵۵۳ جلد دوم حصہ سوم پیشنگوئی کے محرکات اس پیشنگوئی کے دو محرکات ہوئے اور اصل تو ایک ہی تھا یعنی اس خاندان کی اصلاح اور اس پر اتمام حجت مگر ایک دوسرا محرک ایک خاندانی واقعہ ہو گیا میں اسے بھی خود حضرت ہی کے الفاظ میں لکھوں گا.اس کو پورے طور پر سمجھنے کے لئے اتنا اضافہ کرتا ہوں کہ حضرت کے بیان میں جس غلام حسین کا ذکر ہے وہ حضرت کے چچا مرزا غلام حیدر مرحوم کا بیٹا تھا اور اس کے نکاح میں مرزا احمد بیگ کی ہمشیرہ امام بی بی نام تھیں اس کی وفات پر ہی وہ تحریک ہوئی جس کا ذکر حضرت نے کیا ہے.نامبردہ کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی.غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے.نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرا دی گئی تھی.اب حال کے بندوبست میں جوضلع گورداسپور میں جاری ہے.نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور هبه منتقل کرا دیں چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا.چونکہ وہ هبه نامه بجز ہماری رضا مندی کے بریکار تھا اس لئے مکتوب الیہ نے بتمامتر عجز وانکسار ہماری طرف رجوع کیا تا ہم اس هبه پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیں.اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے.جناب الہی میں استخارہ کر لینا چاہئے سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا.پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا.وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا.جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا.
حیات احمد ۵۵۴ جلد دوم حصہ سوم اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا.اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار ۲۰ رفروری ۱۸۸۶ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی بُرا ہوگا.اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی ☆ والد اُس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا.اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵ ۲۸، ۲۸۵) ان لوگوں نے مخالفت اور استہزا میں اس قدر غلو کیا کہ چشمہ نور پریس امرتسر میں ایک اشتہار چھاپ کر مطالبہ نشان نمائی بھی کیا تھا.اس کا ذکر پہلے آچکا ہے ان محرکات کی بناء پر یہ پیشنگوئی ہوئی.پیشنگوئی ابتداء ایک پرائیویٹ حیثیت کی تھی ، حضرت اقدس نے متعلقین کو بذریعہ خط اطلاع دی مگر انہوں نے اس خط کو اخبار نور افشاں اود ہانہ مورخہ ۰ ارمئی ۱۸۸۸ء میں شائع کرا دیا اور اس پر نورافشاں نے نہایت گندہ ریمارک کیا حضرت اقدس نے اس کا جواب ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ دیا جو درج ذیل ہے.ہید تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے.مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے بلکہ بعض مکاشفات کی رو سے مکتوب الیہ کا زمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں نزدیک پایا جاتا ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ منه
حیات احمد ایک پیشگوئی پیش از وقوع کا اشتہار جلد دوم حصہ سوم پیش گوئی کا جب انجام ہویدا ہو گا قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہو گا جھوٹ اور سچ میں جو ہے فرق وہ پیدا ہوگا کوئی پائیگا عزت کوئی رسوا ہو گا اخبار نور افشاں دس مئی ۱۸۸۸ء میں جو اس راقم کا ایک خط متضمن درخواست نکاح چھاپا گیا ہے.اُس خط کو صاحب اخبار نے اپنے پرچہ میں درج کر کے عجیب طرح کی زبان درازی کی ہے.اور ایک صفحہ اخبار کا سخت گوئی اور دشنام دہی میں ہی سیاہ کیا ہے یہ کیسی بے انصافی ہے کہ جن لوگوں کے مقدس اور پاک نبیوں نے سینکڑوں بیویاں ایک ہی وقت میں رکھی ہیں.وہ دو یا تین بیویاں کا جمع کرنا ایک کبیرہ گناہ سمجھتے ہیں بلکہ اس فعل کو زنا اور حرام کاری خیال کرتے ہیں.کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی جز و سلسلہ میں یہ وقت آ پڑتی ہے کہ ایک جور و عقیمہ اور نا قابل اولاد نکلتی ہے.اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ در اصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے.اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی.تحقیق سے ظاہر ہو گا.اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی نسل کی کہاں تک حفاظت کی ہے اور کیسے اُس نے اجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کر دیا ہے.اور انسان کے تقویٰ کے لئے یہ فعل کیا زبر دست مد و معین ہے.خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے جیسے ایام حمل اور حیض نفاس میں یہ طریق با برکت تدارک اس نقصان کا کرتا ہے.اور جس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کے رُو سے کر سکتا ہے وہ اسے بخشا ہے.ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کے لئے مجبور ہوتا ہے.مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہو جائے.تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار مرد اور عورت کی کارروائی کا ہے بریکار اور معطل ہو جاتی ہے.لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کا رروائی کی گل مردکو دی گئی ہے.
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے.ہاں اگر مرد اپنی قوت مردمی میں قصور یا بجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کے رُو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے.اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کر سکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی ذمہ دار اور کار برار نہیں ہوسکتی.اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کے لئے قائم رہتا ہے.جو لوگ قومی الطاقت اور متقی اور پارسا طبع ہیں.ان کے لئے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے.بعض اسلام کے مخالف اپنے نفس امارہ کی پیروی سے سب کچھ کرتے ہیں.مگر اس پاک طریق سے سخت نفرت رکھتے ہیں.کیونکہ بوجہ اندرونی بے قیدی کے جو ان میں پھیل رہی ہے.ان کو اس پاک طریق کی کچھ پروا اور حاجت نہیں.اس مقام میں عیسائیوں پر سب سے بڑھ کر افسوس ہے کیونکہ وہ اپنے مسلم الثبوت انبیاء کے حالات سے آنکھ بند کر کے مسلمانوں پر ناحق دانت پیسے جاتے ہیں.شرم کی بات ہے کہ جن لوگوں کا اقرار ہے کہ حضرت مسیح کے جسم اور وجود کا خمیر اور اصل جڑا اپنی ماں کی جہت سے وہی کثرت ازدواج ہے.جس کی حضرت داؤد ( مسیح کے باپ) نے نہ دو نہ تین بلکہ سو بیوی تک نوبت پہنچائی تھی.وہ بھی ایک سے زیادہ بیوی کرنا زنا کرنے کی مانند سمجھتے ہیں اور اس پر خبث کلمہ کا نتیجہ جو حضرت مریم صدیقہ کی طرف عائد ہوتا ہے.اس سے ذرا پر ہیز نہیں کرتے.اور باوجود اس تمام بے ادبی کے دعوئی محبت مسیح رکھتے ہیں.جاننا چاہئے کہ میل کے رو سے تعدّ دنکاح نہ صرف قولاً ثابت ہے بلکہ بنی اسرائیل کے اکثر نبیوں نے جن میں حضرت مسیح کے دادا صاحب بھی شامل ہیں.عملاً اس فعل کے جواز بلکہ استحباب پر مہر لگا دی ہے.اے ناخدا ترس عیسائیو! اگر ملہم کے لئے ایک ہی جو ر و ہونا ضروری ہے.تو پھر کیا تم داؤ د جیسے راست باز نبی کو نبی اللہ نہیں مانو گے یا سلیمان جیسے مقبول الہی کو ملہم ہونے سے خارج کر دو گے.کیا بقول تمہارے یہ دائمی فعل ان انبیاء کا جن کے دلوں پر گویا ہر دم الہام الہی کی تارگی ہوئی تھی.اور ہر آن خوشنودی یا نا خوشنودی کی تفصیل کے بارے میں احکام وارد ہو رہے تھے.ایک دائی گناہ نہیں ہے.جس سے وہ اخیر عمر تک باز نہ آئے اور خدا اور اس کے
حیات احمد ۵۵۷ جلد دوم حصہ سوم حکموں کی کچھ پرواہ نہ کی.وہ غیرت مند اور نہایت درجہ کا غیور خدا جس نے نافرمانی کی وجہ سے شمود اور عاد کو ہلاک کیا.لوط کی قوم پر پتھر برسائے.فرعون کو معہ اس کی تمام شریرہ جماعت کے ہولناک طوفان میں غرق کر دیا.کیا اس کی شان اور غیرت کے لائق ہے کہ اس نے ابراہیم اور یعقوب اور موسیٰ اور داؤ د اور سلیمان اور دوسرے کئی انبیاء کو بہت سی بیویوں کے کرنے کی وجہ سے تمام عمر نا فرمان پا کر پکے سرکش دیکھ کر پھر ان پر عذاب نازل نہ کیا.بلکہ انہیں سے زیادہ تر دوستی اور محبت کی.کیا آپ کے خدا کو الہام اتارنے کے لئے کوئی آدمی نہیں ملتا تھا یا بہت سی جو رواں کرنے والے ہی اس کو پسند آ گئے ؟ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نبیوں اور تمام برگزیدوں نے بہت سی جو رواں کر کے اور پھر روحانی طاقتوں اور قبولیتوں میں سب سے سبقت لے جا کر تمام دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ دوست الہی بننے کے لئے یہ راہ نہیں کہ انسان دنیا میں مختوں اور نامردوں کی طرح رہے بلکہ ایمان میں قومی الطاقت وہ ہے کہ جو بیویوں اور بچوں کا سب سے بڑھ کر بوجھ اٹھا کر پھر باوجود ان سب تعلقات کے بے تعلق ہو.خدائے تعالیٰ کا بندہ سے محبّ اور محبوب ہونے کا جوڑ ہونا ایک تیسری چیز کے وجود کو چاہتا ہے.وہ کیا ہے؟ ایمانی روح جو مومن میں پیدا ہو کر نئے حواس اس کو بخشتی ہے.اسی رُوح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا کلام مومن سنتا ہے.اور اسی کے ذریعہ سے سچی اور دائمی پاکیزگی حاصل کرتا ہے.اور اسی کے ذریعہ سے نئی زندگی کی خارق عادت طاقتیں اس میں پیدا ہوتی ہیں.اب ہم پوچھتے ہیں کہ جو لوگ جوگی اور راہب اور سنیاسی کہلاتے ہیں یہ پاک روح اُن میں سے کس کو دی گئی ہے.کیا کسی پادری میں یہ پاک روح یا یوں کہو کہ روح القدس پائی جاتی ہے.ہم تمام دنیا کے پادریوں کو بلاتے بلاتے تھک بھی گئے.کسی نے آواز تک نہیں دی.نور افشاں میں بعض پادریوں نے چھپوایا تھا کہ ہم ایک جلسہ میں ایک لفافہ بند پیش کریں گے اس کا مضمون الہام کے ذریعہ سے ہمیں بتلایا جائے.لیکن جب ہماری طرف سے مسلمان ہونے کی شرط سے یہ درخواست منظور ہوئی.تو پھر پادریوں انجیل کے بعض اشارات سے پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح بھی جو رو کرنے کی فکر میں تھے.مگر تھوڑی سے عمر میں اٹھائے گئے ورنہ یقین تھا کہ اپنے باپ داؤد کے نقش قدم پر چلتے.منہ
حیات احمد ۵۵۸ جلد دوم حصہ سوم نے اس طرف رخ بھی نہ کیا.پادری لوگ مدت سے الہام پر مہر لگا بیٹھے تھے.اب جب مہر ٹوٹی اور فیض روح القدس مسلمانوں پر ثابت ہوا.تو پادریوں کے اعتقاد کی قلعی کھل گئی.لہذا ضرور تھا کہ پادریوں کو ہمارے الہام سے دو ہرا رنج ہوتا.ایک مہر ٹوٹنے کا.دوسرے الہام کی نقل منگانے کا.سونو ر افشاں کی سخت زبانی کا اصل موجب وہی رنج ہے جو ذ بولے دق کی طرح لا علاج ہے.اب یہ جاننا چاہئے کہ جس خط کو ۱۰ رمئی ۱۸۸۸ء کو نو را فشاں میں فریق مخالف نے چھپوایا ہے.وہ خط محض ربانی اشارہ سے لکھا گیا تھا.ایک مدت دراز سے بعض سرگروہ اور قریبی رشتہ دار مکتوب الیہ کے جن کے حقیقی ہمشیرہ زادہ کی نسبت درخواست کی گئی تھی.نشان آسمانی کے طالب تھے.اور طریقہ اسلام سے انحراف اور عناد رکھتے تھے.اور اب بھی رکھتے ہیں.چنانچہ اگست ۱۸۸۵ء میں جو چشمہ نور امرتسر میں ان کی طرف سے اشتہار چھپا تھا.یہ درخواست ان کی اس اشتہار میں بھی مندرج ہے.ان کو نہ محض مجھ سے بلکہ خدا اور رسول سے بھی دشمنی ہے ، اور والد اس دختر کا باعث شدت تعلق قرابت ان لوگوں کی رضا جوئی میں محو اور ان کے نقش قدم پر دل و جان سے فدا اور اپنے اختیارات سے قاصر و عاجز بلکہ انہیں کا فرمانبردار ہو رہا ہے اور اپنی لڑکیاں انہیں کی لڑکیاں خیال کرتا ہے اور وہ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں.اور ہر باب میں اس کے مدارالمہام اور بطور نفس ناطقہ کے اس کے لئے ہو رہے ہیں تبھی تو نقارہ بجا کر اس کی لڑکی کے بارہ میں آپ ہی شہرت دے دی.یہاں تک کہ عیسائیوں کے اخباروں کو اس قصہ سے بھر دیا.آفریں بریں عقل و دانش.ماموں ہونے کا خوب ہی حق ادا کیا.ماموں ہوں تو ایسے ہی ہوں.غرض یہ لوگ جو مجھ کو میرے دعوئی الہام میں مکار اور دروغ گو خیال کرتے تھے.اور اسلام اور قرآن شریف پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے.تو اس وجہ سے کئی دفعہ ان کے لئے دعا بھی کی گئی تھی.سو وہ دعا قبول ہو کر خدا تعالیٰ نے یہ تقریب قائم کی کہ والد اس دختر کا ایک اپنے ضروری کام کے لئے ہماری طرف ملتجی ہوا.تفصیل اس کی یہ پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی
حیات احمد ۵۵۹ جلد دوم حصہ سوم تھی.ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا اور بے دینوں کو مسلمان بنا دے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلا دے گا.چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے.كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِؤُوْنَ ، فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللَّهُ وَيَرُدُّهَا إِلَيْكَ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ.أَنْتَ مَعِي وَ أَنَا مَعَكَ.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا.یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے.سو خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں.تمہارا مددگار ہو گا.اور انجام کار اُس کی اُس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا.کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے.تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا.جس میں تیری تعریف کی جائے گی یعنی گواوّل میں احمق اور نادان لوگ بد باطنی اور بدظنی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے.اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی.اس جگہ ایک اور اعتراض نور افشاں کا رفع دفع کرنے کے لائق ہے.اور وہ یہ ہے کہ اگر یہ الہام خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھا.اور اس پر اعتماد کھی تھا.تو پھر پوشیدہ کیوں رکھا.اور کیوں اپنے خط میں پوشیدہ رکھنے کے لئے تاکید کی اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک خانگی معاملہ تھا اور جن کے لئے یہ نشان تھا ان کو تو پہنچا دیا گیا تھا اور یقین تھا کہ والد اس دختر کا ایسی اشاعت سے رنجیدہ ہوگا.اس لئے ہم نے دل شکنی اور رنج دہی سے گریز کی.بلکہ یہ بھی چاہا ا یہ الہام جو شرطی طور پر مکتوب الیہ کی موت فوت پر دلالت کرتا تھا.ہم کو بالطبع اس کی اشاعت سے کراہت تھی بلکہ ہمارا دل یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس سے مکتوب الیہ کو مطلع کریں مگر اُس کے کمال اصرار سے جو اس نے زبانی اور کئی انکساری خطوں کے بھیجنے سے ظاہر کیا ہم نے سراسر کچی خیر خواہی اور نیک نیتی سے اُس پر یہ امر سر بستہ ظاہر کر دیا.پھر اُس نے اور اُس کے عزیز مرزا نظام الدین نے اس الہام کے مضمون کی آپ شہرت دی.منہ
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم که در حالت رڈ وانکار وہ بھی اس امر کو شائع کریں.اور گو ہم شائع کرنے کے لئے مامور تھے مگر ہم نے مصلحتا دوسرے وقت کی انتظار کی یہاں تک کہ اس کے ماموں مرزا نظام الدین نے جو مرزا امام الدین کا حقیقی بھائی ہے.شدت غیظ و غضب میں آ کر اس مضمون کو آپ ہی شائع کر دیا.اور شائع بھی ایسا کیا کہ شائد ایک یا دو ہفتہ تک دس ہزار مرد وعورت تک ہماری درخواست نکاح اور ہمارے مضمون الہام سے بخوبی اطلاع یاب ہو گئے ہوں گے.اور پھر زبانی اشاعت پر اکتفا نہ کر کے اخباروں میں ہمارا خط چھپوایا اور بازاروں میں ان کے دکھلانے سے وہ خط جا بجا پڑھا گیا.اور عورتوں اور بچوں تک اس خط کے مضمون کی منادی کی گئی.اب جب مرزا نظام الدین کی کوشش سے وہ خط ہمارا نور افشاں میں بھی چھپ گیا اور عیسائیوں نے اپنے مادہ کے موافق بیجا افترا کرنا شروع کیا تو ہم پر فرض ہو گیا کہ اپنی قلم سے اصلیت کو ظاہر کریں.بدخیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا.اور نیز یہ پیشگوئی ایسی بھی نہیں کہ جو پہلے پہل اُسی وقت میں ہم نے ظاہر کی ہے.بلکہ مرزا امام الدین و نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صد ہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے کہ ہم نے اسی کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے والا ہے.اب منصف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ پیشگوئی اس پیشگوئی کا ایک شعبہ تھی یا یوں کہو کہ یہ تفصیل اور وہ اجمال تھی.اور اس میں تاریخ اور مدت ظاہر کی گئی.اور اُس میں تاریخ اور مدت کا کچھ ذکر نہ تھا.اور اس میں شرائط کی تصریح کی گئی اور وہ ابھی اجمالی حالت میں تھی.سمجھدار آدمی کے لئے یہ کافی ہے کہ پہلی پیشگوئی اس زمانہ کی ہے جبکہ ہنوز وہ لڑکی نابالغ تھی اور جبکہ یہ پیشگوئی بھی اسی شخص کی نسبت ہے.جس کی نسبت اب سے پانچ برس پہلے کی گئی تھی یعنی اس زمانہ میں جبکہ اس کی یہ لڑ کی آٹھ یا نو برس کی تھی.تو اس پر نفسانی افترا کا گمان کرنا اگر
حیات احمد ۵۶۱ جلد دوم حصہ سوم حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ۲۶۲۲۰ خاکسار غلام احمد - از قادیان ضلع گورداسپورہ.پنجاب ۱۰ جولائی ۱۸۸۸.یہ اشتہار کے آٹھ صفحوں پر ہے ).( مطبوعہ ریاض ہندا مرتسر) تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۱۱۱ تا ۱۱۸.مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۳۳ تا ۱۳۸.بار دوم ) تتمہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء اشتہار مندرجہ عنوان کے صفحہ ۶ میں جو یہ الہام درج ہے.فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ - اس کی تفصیل مکرر توجہ سے یہ کھلی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے کنبے اور قوم میں سے ایسے تمام لوگوں پر کہ جو اپنی بے دینی اور بدعتوں کی حمایت کی وجہ سے پیشگوئی کے مزاہم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کرے گا.اور اُن سے لڑے گا اور انہیں انواع اقسام کے عذابوں میں مبتلا کر دے گا.اور وہ مصیبتیں ان پر اتارے گا.جن کی ہنوز انہیں خبر نہیں.ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا.جو اس عقوبت سے خالی رہے کیونکہ انہوں نے نہ کسی اور وجہ سے بلکہ بے دینی کی راہ سے مقابلہ کیا.ایک عرصہ سے یہ لوگ جو میرے کنبے سے اور میرے اقارب ہیں کیا مرد اور کیا عورت مجھے میرے الہامی دعاوی میں مکار اور دوکاندار خیال کرتے ہیں.اور بعض نشانوں کو دیکھ کر بھی قائل نہیں ہوتے اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ دین اسلام کی ایک ذرہ محبت ان میں باقی نہیں رہی.اور قرآنی حکموں کو ایسا ہلکا سا سمجھ کر ٹال دیتے ہیں.جیسا کوئی ایک تنکے کو اٹھا کر پھینک دے.وہ اپنی بدعتوں اور رسموں اور ننگ و ناموس کو خدا اور رسول کے فرمودہ سے ہزار درجہ بہتر سمجھتے ہیں پس حاشیہ.مرزا نظام الدین جو کنبے کے لوگوں سے نمبر اول کا مخالف ہے ۱۵ را گست ۱۸۸۵ء کو اس کی نسبت صاف پیشینگوئی کی گئی تھی کہ اس ماہ تک ان کے اہل عیال میں سے کوئی شخص بقضاء الہی فوت ہو جائے گا یہ پیشگوئی عام طور پر شائع ہو گئی تھی.یہاں تک کہ بعض قادیان کے آریوں کے اُس پر دستخط بھی ہو گئے تھے.لیکن جب یہ پیشگوئی کہ جو اشتہار ۲۰ / مارچ ۱۸۸۸ء میں مفصل درج ہے.پوری ہوئی تو نظام الدین کے دل پر اس کا ذرہ بھی اثر نہ پڑا.اور نہ اس قادر مطلق کی طرف تو بہ اور استغفار سے رجوع کیا جو گناہوں کو معاف کرتا اور مصیبتوں کو دور کرتا اور عاجز بندوں پر رحم فرماتا ہے.منہ
حیات احمد ۵۶۲ جلد دوم حصہ سوم خدا تعالیٰ نے انہیں کی بھلائی کے لئے انہیں کے تقاضا سے.انہیں کی درخواست سے اس الہامی پیشگوئی کو جو اشتہار میں درج ہے.ظاہر فرمایا ہے تا وہ سمجھیں کہ وہ درحقیقت موجود ہے اور اس کے سوا سب کچھ بیچ ہے.کاش وہ پہلے نشانوں کو کافی سمجھتے.اور یقینا وہ ایک ساعت بھی مجھ پر بدگمانی نہ کر سکتے اگر ان میں کچھ نور ایمان اور کانشنس ہوتا ہمیں اس رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی.سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا تھا.اولا د بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہو گا بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کے قریب مدت تک وعدہ دیا.جس کا نام محموداحمد ہوگا.اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا.پس یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی ہے.محض بطور نشان کے ہے.تا خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو اعجوبہ قدرت دکھلا دے.اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان ان پر نازل کرے اور ان بلاؤں کو دفع کر دیوے جو نزدیک چلی آتی ہیں.لیکن اگر وہ رد کریں تو ان پر قہری نشان نازل کر کے ان کو متنبہ کرے.برکت کا نشان یہ ہے کہ اس پیوند سے دین ان کا درست ہو گا اور دنیا ان کی مِنْ كُلِّ الْوُجُوْہ صلاحیت پذیر ہو جائے گی اور وہ بلائیں جو عنقریب اترنے والی ہیں نہیں اتریں گی اور قہر کا نشان وہی ہے.جو اشتہار میں ذکر ہو چکا.اور نیز وہ جو تمہ ہذا میں درج ہے * وَالسَّلَامُ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الْمُؤْمِنِيْنَ.خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گور دسپور.پانز دہم جولائی ۱۸۸۸ء تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۱۱۸ تا ۱۲۰ - مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۱۴۰،۱۳۹ بار دوم ) حاشیہ :.ان کا اس رشتہ سے بشدت انکار بھی درحقیقت اسی اپنی رسم پرستی کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنی کسی لڑکی کا اس کے کسی غیر حقیقی ماموں سے نکاح کرنا حرام قطعی سمجھتے ہیں.اور اگر سمجھایا جائے تو بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ اسلام اور قرآن سے کچھ غرض واسطہ نہیں سو خدا تعالیٰ نے نشان بھی انہیں ایسا دیا.جس سے ان کے دین کے ساتھ ہی اصلاح ہو اور بدعت اور خلاف شرع رسم کے بیخ کنی ہو جائے تا آئندہ اس قوم کے لئے ایسے رشتوں کے بارے میں کچھ تنگی اور حرج نہ رہے.منہ حمید حاشیہ.قہری نشانوں میں سے کسی قدر اشتہار ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء میں بھی درج ہے.اور جنوری ۱۸۸۶ء میں بمقام ہوشیار پور ایک اور الہام عربی مرزا احمد بیگ کی نسبت ہوا تھا.جس کو ایک مجمع میں جس میں بابو الہی بخش صاحب اکونٹنٹ و مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی موجود تھے.سنایا گیا تھا
حیات احمد ۵۶۳ جلد دوم حصہ سوم یہاں تک میں نے اس پیشگوئی کے متعلق تمام واقعات کو جمع کر دیا ہے.یہ پیشگوئی اپنے مفہوم و منشاء کے مطابق پوری ہو گئی اس پر مخالفین نے مختلف اوقات میں اعتراضات کئے میں نے اس کا جواب آئینہ حق نما میں تفصیل سے دیا تھا اور میری اس تالیف کے بعد مختلف تصانیف اسی اساس پر شائع ہوئیں الحمدللہ چنانچہ مولانا ابوالعطا نے تفہیمات ربانیہ میں اعترافا لکھا کہ تالیفات مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر اور آئینہ حق نما مصنفہ جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے بالخصوص استفادہ کیا.“ اس پیشگوئی کے بعد خاندان میں ایک شور دار جوش مخالفت پیدا ہوا.اور تمام رشتہ دار مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوئے.یہاں تک حضرت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بعض عزیزوں سے قطع تعلق کا اعلان کرنا پڑا.چونکہ یہ سلسلہ بنا ہے اس لئے میں نے ۱۸۸۸ء تک کے واقعات متعلقہ پیشگوئی کا ذکر کیا ہے.آئندہ اس سلسلہ میں جو واقعات پیش آئے ان کا ذکر ان سنینِ متعلقہ میں انشاء اللہ کروں گا.بقیہ حاشیہ.جس کی عبارت یہ ہے.رَتَيْتُ هَذِهِ الْمَرْوَةَ وَ أَثَرَ الْبُكَاءِ عَلَى وَجْهِهَا فَقُلْتُ أَيَّتُهَا الْمَرْءَ ةُ تُوْبِى تُوْبِى فَإِنَّ الْبَلاءَ عَلَى عَقِبِكِ وَالْمُصِيْبَةُ نَازِلَةٌ عَلَيْكِ يَمُوْتُ وَ يَبْقَى مِنْهُ كِلَابٌ مُتَعَدِّدَةٌ * - منه یہ اشتہار ۳۸۴ کے دو صفحوں پر ہے ) A (مطبوعہ ریاض هند پریس امرتسر ) تبلیغ رسالت جلد اصفحہ ۱۲۰ حاشیہ.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۱۴۰ حاشیہ.بار دوم ) ترجمه از تذکره صفحه ۱۰۸ حاشیہ مطبوعہ ۲۰۰۴ء.میں نے اس عورت ( یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ساس کو جو محمدی بیگم کی نانی اور مرزا امام الدین وغیرہ کی والدہ تھی) کو ایسے حال میں دیکھا کہ اُس کے منہ پر گریہ و بکاء کے آثار تھے.تب میں نے اُسے کہا کہ اے عورت! تو بہ کر تو بہ کر کیونکہ ملا تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے اور یہ مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے.وہ شخص ( یعنی مرزا احمد بیگ) مرے گا اور اس کی وجہ سے کئی سنگ سیرت لوگ ( پیدا ہو کر ) پیچھے رہ جائیں گے.
حیات احمد ۵۶۴ وفات بشیر اوّل اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد جلد دوم حصہ سوم دوسرا عظیم الشان واقعہ جو اس سال پیش آیا وہ بشیر اول کی وفات کا واقعہ ہے جس کی وجہ سے ایک شور پیدا ہوا جیسا کہ بشیر اول کی پیدائش اور وفات کا ذکر پہلے کر آیا ہوں اس حادثہ پر مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے حضرت نے ایک اشتہار شائع کیا جو حقانی تقریر بروفات بشیر کے عنوان سے شائع ہوا.اس کے ساتھ ہی سلسلہ کا اعلان ہوا.وہ تقریر اور اعلان حسب ذیل ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفَى حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر واضح ہو.کہ اس عاجز کے لڑکے بشیر احمد کی وفات سے جو ۷/ اگست ۱۸۸۷ء روز یکشنبه میں پیدا ہوا تھا اور ۴ / نومبر ۱۸۸۸ء کو اسی روز یکشنبہ میں ہی اپنی عمر کے سولہویں مہینے میں بوقت نماز صبح اپنے معبود حقیقی کی طرف واپس بلایا گیا عجیب طور کا شور و غوغا خام خیال لوگوں میں اٹھا اور رنگارنگ کی باتیں خویشوں وغیرہ نے کیں اور طرح طرح کی نافہمی اور کنج دلی کی رائیں ظاہر کی گئیں.مخالفین مذہب جن کا شیوہ بات بات میں خیانت و افترا ہے انہوں نے اس بچے کی وفات پر انواع و اقسام کی افتراء گھڑنی شروع کی.سو ہر چند ابتدا میں ہمارا ارادہ نہ تھا کہ اس پسر معصوم کی وفات پر کوئی اشتہار یا تقریر شائع کریں اور نہ شائع کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ کوئی ایسا امر درمیان نہ تھا کہ کسی فہیم آدمی کی ٹھو کر کھانے کا موجب ہو سکے لیکن جب یہ شور و غوغا انتہا کو پہنچ گیا اور کچے اور ابلہ مزاج مسلمانوں کے دلوں پر بھی اس کا مضر اثر پڑتا ہوا نظر آیا تو ہم نے محض للہ یہ تقریر شائع کرنا مناسب سمجھا.نوٹ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تقریر سلسلہ میں سبز اشتہار کے نام سے مشہور ہے اور اسی نام سے روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۴۷ تا ۴۷۰ پر شائع شدہ ہے.( ناشر )
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم اب ناظرین پر منکشف ہو کہ بعض مخالفین پر متوفی کی وفات کا ذکر کر کے اپنے اشتہارات و اخبارات میں طنز سے لکھتے ہیں کہ یہ وہی بچہ ہے جس کی نسبت اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء اور ۱/۸ اپریل ۱۸۸۶ء اور ۱۷ اگست ۱۸۸۷ء میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.بعضوں نے اپنی طرف سے افترا کر کے یہ بھی اپنے اشتہار میں لکھا کہ اس بچہ کی نسبت یہ الہام بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بادشاہوں کی بیٹیاں بیاہنے والا ہو گا لیکن ناظرین پر منکشف ہو کہ جن لوگوں نے یہ نکتہ چینی کی ہے انہوں نے بڑا دھوکا کھایا ہے یا دھوکا دینا چاہا ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ ماہ اگست ۱۸۸۷ء تک جو پسر متوفی کی پیدائش کا مہینہ ہے جس قدر اس عاجز کی طرف سے اشتہار چھیے ہیں جن کا لیکھر ام پشاوری نے وجہ ثبوت کے طور پر اپنے اشتہار میں حوالہ دیا ہے ان میں سے کوئی شخص ایک ایسا حرف بھی پیش نہیں کر سکتا.جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا تھا جو فوت ہو گیا ہے بلکہ ۱٫۸اپریل حاشیہ.یہ مفتری لیکھرام پشاوری ہے جس نے تینوں اشتہار مندرجہ متن اپنے اثبات دعوی کی غرض سے اپنے اشتہار میں پیش کی ہیں اور سراسر خیانتوں سے کام لیا ہے.مثلاً وہ اشتہار ۱/۸اپریل ۱۸۸۶ء کا ذکر کر کے اس کی یہ عبارت اپنے اشتہار میں لکھتا ہے کہ اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل تک تجاوز نہیں کر سکتا لیکن اس عبارت کا اگلا فقرہ یعنی یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اب پیدا ہوگا یہی وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا.اس فقرہ کو اُس نے عمداً نہیں لکھا کیونکہ یہ اس کے مدعا کو مضر تھا اور اس کے خیال فاسد کو جڑھ سے کاٹتا تھا.پھر دوسری خیانت یہ ہے کہ لیکھرام کے اس اشتہار سے پہلے ایک اور اشتہار آریوں کی طرف سے ہمارے نتینوں اشتہارات مذکورہ بالا کے جواب میں مطبع چشمہ نور امرتسر میں شائع ہو چکا ہے.اس میں انہوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ ان تینوں اشتہارات کے دیکھنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لڑ کا جو پیدا ہوا یہ وہی مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے.اس اقرار کا لیکھرام نے کہیں ذکر نہیں کیا.اب ظاہر ہے کہ آریوں کا پہلا اشتہار لیکھرام کے اس اشتہار کی خود بیخ کنی کرتا ہے.دیکھو ان کا وہ اشتہار جس کا عنوان حسب حال اُن کے یہ ہے کہ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَاكِرِينَ منه
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم ۱۸۸۶ء کا اشتہار اور نیز ۱۷ اگست ۱۸۸۷ء کا اشتہار کہ جو ۸ / اپریل ۱۸۸۶ء کی بناء پر اور اس کے حوالہ سے بروز تولد بشیر شائع کیا گیا تھا.صاف بتلا رہا ہے کہ ہنوز الہامی طور پر یہ تصفیہ نہیں ہوا کہ آیا یہ لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا کوئی اور ہے.تعجب کہ لیکھر ام پشاوری نے جوش تعصب میں آکر اپنے اس اشتہار میں جو کہ اس کی جبلی خصلت بد گوئی و بدزبانی سے بھرا ہوا ہے اشتہارات مذکورہ کے حوالہ سے اعتراض تو کر دیا مگر آنکھیں کھول کر ان تینوں اشتہاروں کو پڑھ نہ لیا ہوتا تو جلد بازی کی ندامت سے بچ جاتا.نہایت افسوس ہے کہ ایسے دروغ باف لوگوں کو آریوں کے وہ پنڈت کیوں دروغگو ئی سے منع نہیں کرتے.جو بازاروں میں کھڑے ہو کر اپنا اصول یہ بتلاتے ہیں کہ جھوٹ کو چھوڑنا اور تیا گنا اور سچ کو ماننا اور قبول کرنا آریوں کا دھرم ہے پس عجیب بات ہے کہ یہ دھرم قول کے ذریعہ سے تو ہمیشہ ظاہر کیا جاتا ہے مگر فعل کے وقت ایک مرتبہ بھی کام میں نہیں آتا.افسوس ہزار افسوس.اب خلاصہ کلام یہ کہ ہر دو اشتہار ۱/۸ اپریل ۱۸۸۶ء اور ۷/ اگست ۱۸۸۷ء مذکورہ بالا اس ذکر و حکایت سے بالکل خاموش ہیں کہ لڑکا پیدا ہونے والا کیسا اور کن صفات کا ہے.بلکہ یہ دونوں اشتہار صاف شہادت دیتے ہیں کہ ہنوز یہ امر الہام کے رو سے غیر منفصل اور غیر مصرح ہے کہ ہاں یہ تعریفیں جو او پر گزر چکی ہیں ایک آنے والے لڑکے کی نسبت عام طور پر بغیر کسی تخصیص و تعیین کے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں ضرور بیان کی گئی ہیں لیکن اس حاشیہ.عبارت اشتہار ۱/۸ اپریل ۱۸۸۶ء یہ ہے کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا.لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا جواب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں 9 برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.دیکھو اشتہار ۱/۸ اپریل ۱۸۸۶ء مطبع چشمہ فیض قادری بٹالہ.عبارت اشتہار / اگست ۱۸۸۷ء یہ ہے.کہ اے ناظرین میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لئے میں نے اشتہار ۸/ اپریل ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی کی تھی وہ ۱۶/ ذیقعدہ مطابق ۷/اگست میں پیدا ہو گیا.دیکھو اشتہار ۷ / اگست ۱۸۸۷ء مطبوعہ وکٹوریہ پریس لاہور.پس کیا ان تینوں اشتہارات میں جو لیکھرام پشاوری نے جوش میں آ کر پیش کی ہیں یو تک بھی اس بات کی پائی جاتی ہے کہ ہم نے کبھی پسر متوفی کو مصلح موعود اور عمر پانے والا قرار دیا ہے.فَتَفَكَّرُوْا وَ تَدَبَّرُوْا.
حیات احمد جلد دوم حصہ سوم اشتہار میں تو کسی جگہ نہیں لکھا کہ جو ۷ / اگست ۱۸۸۷ء کو لڑکا پیدا ہو گا وہی مصداق ان تعریفوں کا ہے بلکہ اس اشتہار میں اس لڑکے کے پیدا ہونے کی کوئی تاریخ مندرج نہیں کہ کب اور کس وقت ہو گا پس ایسا خیال کرنا کہ ان اشتہارات میں مصداق ان تعریفوں کا اسی پسر متوفی کو ٹھہرایا گیا تھا سراسر ہٹ دھرمی اور بے ایمانی ہے.یہ سب اشتہارات ہمارے پاس موجود ہیں اور ا ناظرین کے پاس موجود ہوں گے.مناسب ہے کہ ان کو غور سے پڑھیں اور پھر آپ ہی انصاف کریں.جب یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے پیدا ہوا تھا تو اس کی پیدائش کے بعد صد ہا خطوط اطراف مختلفہ سے بدیں استفسار پہنچے تھے کہ کیا یہ وہی مصلح موعود ہے جس کے ذریعہ سے لوگ ہدایت پائیں گے تو سب کی طرف یہی جواب لکھا گیا تھا کہ اس بارے میں صفائی سے ابتک کوئی الہام نہیں ہوا وہاں اجتہادی طور پر گمان کیا جاتا تھا کہ کیا تعجب کہ مصلح موعود یہی لڑکا ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس پر متوفی کی بہت سی ذاتی بزرگیاں الہامات میں بیان کی گئی تھیں جو اُس کی پاکیزگی روح اور بلندی فطرت علو استعداد اور روشن جوہری اور سعادت جبکی کے متعلق تھیں.اور اس کی کاملیت استعدادی سے علاقہ رکھتی تھیں.سوچونکہ وہ استعدادی بزرگیاں ایسی نہیں تھیں جن کے لئے بڑی عمر پانا ضروری ہوتا اسی باعث سے یقینی طور پر کسی الہام کی بنا پر اس رائے کو ظاہر نہیں کیا گیا تھا کہ ضرور یہ لڑ کا پختہ عمر تک پہنچے گا اور اسی خیال اور انتظار میں سراج منیر کے چھاپنے میں توقف کی گئی تھی تا جب اچھی طرح الہامی طور پر لڑکے کی حقیقت کھل جاوے تب اس کا مفصل و مبسوط حال لکھا جائے سو تعجب اور نہایت تعجب کہ جس حالت میں ہم اب تک پسر متوفی کی نسبت الہامی طور پر کوئی قطعی رائے ظاہر کرنے سے بلکلی خاموش اور ساکت رہے اور ایک ذرا سا الہام بھی اس بارے میں شائع نہ کیا تو پھر ہمارے مخالفوں کے کانوں میں کس نے پھونک ماردی کہ ایسا اشتہار ہم نے شائع کر دیا ہے.یہ بھی یادر ہے کہ اگر ہم اس خیال کی بنا پر کہ الہامی طور پر ذاتی بزرگیاں پسر متوفی کی ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا نام مبشر اور بشیر اور نور اللہ صیب اور چراغ دین وغیرہ اسماء مشتمل کاملیت ذاتی اور روشنی فطرت کے رکھے گئے ہیں کوئی مفصل و مبسوط اشتہار بھی شائع کرتے اور اس میں بحوالہ
حیات احمد ۵۶۸ جلد دوم حصہ سوم اُن ناموں کے اپنی یہ رائے لکھتے کہ شاید مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا ہو گا تب بھی صاحبان بصیرت کی نظر میں یہ اجتہادی بیان ہمارا قابل اعتراض نہ ٹھہرتا.کیونکہ ان کا منصفانہ خیال اور ان کی عارفانہ نگاہ فی الفور انہیں سمجھا دیتی کہ یہ اجتہاد صرف چند ایسے ناموں کی صورت پر نظر کر کے دیا گیا ہے.جو فِي حَدٌ ذَاتِہ صاف اور گھلے گھلے نہیں ہیں بلکہ ذوالوجوہ اور تاویل طلب ہیں سو ان کی نظر میں اگر یہ ایک اجتہادی غلطی بھی متصور ہوتی تو وہ بھی ایک ادنی درجہ کی اور نہایت کم وزن اور خفیف سی ان کے خیال میں دکھائی دیتی کیونکہ ہر چند ایک نبی اور کور دل انسان کو خدا تعالیٰ کا وہ قانون قدرت سمجھانا نہایت مشکل ہے جو قدیم سے اس کے متشابہات وحی اور رویا اور کشوف اور الہامات کے متعلق ہے لیکن جو عارف اور بابصیرت آدمی ہیں وہ خود سمجھے ہوئے ہیں کہ پیشگوئیوں وغیرہ کے بارہ میں اگر کوئی اجتہادی غلطی بھی ہو جائے تو وہ محل نکتہ چینی نہیں ہوسکتی کیونکہ اکثر نبیوں اور اولوالعزم رسولوں کو بھی اپنے مجمل مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص وتعیین میں ایسی ہلکی ہلکی غلطیاں پیش آتی رہی ہیں اور اُن کے بیدار دل اور روشن ضمیر پیر و ہرگز ان غلطیوں سے حیرت و سرگردانی میں نہیں پڑے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ غلطیاں نفس الہامات و مکاشفات میں نہیں ہیں بلکہ تاویل کرنے میں غلطی وقوع میں آگئی ہے اب ظاہر ہے کہ جس حالت میں اجتہادی غلطی علماء ظاہر و باطن کی ان کی کسر شان کا موجب نہیں ہوسکتی اور ہم نے کوئی ایسی اجتہادی غلطی بھی نہیں کی جس کو ہم قطعی و یقینی طور پر کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کرتے تو کیوں بشیر احمد کی وفات پر ہمارے کو تہ اندیش مخالفوں نے اس قدر زہر اگلا ہے.کیا ان کے پاس ان تحریرات کا حاشیہ.توریت کی بعض عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بعض اپنی پیشگوئیوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں اجتہادی طور پر غلطی کھائی تھی.اور وہ امیدیں جو بہت جلد اور بلا توقف نجات یاب ہونے کے لئے بنی اسرائیل کو دی گئی تھیں وہ اُس طرح پر ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں.چنانچہ بنی اسرائیل نے خلاف اُن امیدوں کے صورتِ حال دیکھ کر اور دل تنگ ہو کر ایک مرتبہ اپنی کم ظرفی کی وجہ سے جو ان کی طبیعت میں تھی کہ بھی دیا تھا کہ اے موسیٰ و ہارون جیسا تم نے ہم سے کیا خدا تم سے کرے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ دل تنگی اس کم ظرف قوم میں اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ انہوں نے جو جلد مخلصی پاجانے کا اپنے دلوں میں حسب پیرا یہ تقریر موسوی اعتقاد کر لیا تھا اُس طور پر معرض ظہور میں نہیں آیا تھا.اور درمیان میں
حیات احمد ۵۶۹ جلد دوم حصہ سوم کوئی کافی و قانونی ثبوت بھی ہے یا ناحق بار بار اپنے نفس امارہ کے جذبات لوگوں پر ظاہر کر رہے ہیں اور اس جگہ بعض نادان مسلمانوں کی حالت پر بھی تعجب ہے کہ وہ کس خیال پر وساوس کے دریا میں ڈوبے جاتے ہیں.کیا کوئی اشتہار ہمارا ان کے پاس ہے کہ جو ان کو یقین دلاتا ہے ہم اس لڑکے کی نسبت الہامی طور پر قطع کر چکے تھے کہ یہی عمر پانے والا اور مصلح موعود ہے اگر کوئی ایسا اشتہار ہے تو کیوں پیش نہیں کیا جاتا.ہم ان کو باور دلاتے ہیں کہ ایسا اشتہار ہم نے کوئی شائع نہیں کیا.ہاں خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے.ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے.اور دنیوی جذبات بکلی اس کی فطرت سے مسلوب اور دین کی چمک اس میں بھری ہوئی ہے.اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدیقی روح اپنے اندر رکھتا بقیہ حاشیہ.ایسی مشکلات پڑ گئی تھیں جن کی پہلے سے بنی اسرائیل کو صفائی سے خبر نہیں دی گئی تھی.اس کی یہی وجہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اُن درمیانی مشقتوں اور اُن کے طول کھینچنے کی ابتدا میں مصفا اور صاف طور پر خبر نہیں ملی تھی لہذا ان کے خیال کا میلان اجتہادی طور پر کسی قدر اس طرف ہو گیا تھا کہ فرعون بے عون کا آیات بینات سے جلد تر قصہ پاک کیا جائے گا.سوخدا تعالیٰ نے جیسا کہ قدیم سے تمام انبیاء سے اس کی سنت جاری ہے پہلے ایام میں حضرت موسیٰ کو ابتلا میں ڈالنے کی غرض سے اور رُعب استغنا اُن پر وارد کرنے کے ارادہ سے بعض درمیانی مگارہ اُن سے مخفی رکھے کیونکہ اگر تمام آنے والی باتیں اور وارد ہونے والی صعوبتیں اور شدتیں پہلے ہی اُن کو کھول کر بتلائی جاتیں تو اُن کا دل بگلی قوی اور طمانیت یاب ہو جاتا.پس اس صورت میں اُس ابتلا کی ہیبت ان کے دل پر سے اٹھ جاتی جس کا وارد کرنا حضرت کلیم اللہ پر اور ان کے پیروؤں پر بمراد ترقی درجات و ثواب آخرت ارادہ الہی میں قرار پا چکا تھا.ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے جو جو امیدیں اور بشارتیں اپنے حواریوں کو اس دنیوی زندگی اور کامیابی اور خوشحالی کے متعلق انجیل میں دی ہیں وہ بھی بظاہر نہایت سہل اور آسان طریقوں سے اور جلد تر حاصل ہونے والی معلوم دیتی تھیں.اور حضرت مسیح علیہ السلام کے مبشرانہ الفاظ سے جو ابتدا میں انہوں نے بیان کئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اسی زمانہ میں ایک زبر دست بادشاہی ان کی قائم ہونے والی ہے.اسی حکمرانی کے خیال پر حواریوں نے ہتھیار بھی خرید لئے تھے کہ حکومت کے وقت کام آویں گے.ایسا ہی حضرت مسیح کا دوبارہ اترنا بھی جناب ممدوح نے خود اپنی زبان سے ایسے الفاظ سے بیان فرمایا تھا جس سے خود حواری بھی یہی سمجھتے تھے کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ فوت نہیں ہوں گے اور نہ حواری پیالہ ءاجل
حیات احمد ۵۷۰ جلد دوم حصہ سوم ہے.اور اس کا نام باران رحمت اور مبشر بشیر اور ید اللہ بجلال و جمال وغیرہ اسماء بھی ہیں.سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس کی صفات ظاہر کیں یہ سب اُس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں جن کے لئے ظہور فی الخارج کوئی ضروری امر نہیں.اس عاجز کا مدلل اور معقول طور پر یہ دعویٰ ہے کہ جو بنی آدم کے بچے طرح طرح کی قوتیں لے کر اس مسافر خانہ میں آتے ہیں خواہ وہ بڑی عمر تک پہنچ جائیں اور خواہ وہ خورد سالی میں فوت ہو جائیں اپنی فطرتی استعدادات میں ضرور باہم متفاوت ہوتے ہیں.اور صاف طور پر امتیاز متین ان کی قوتوں اور خصلتوں اور شکلوں اور ذہنوں میں دکھائی دیتا ہے جیسا کہ کسی مدرسہ میں اکثر لوگوں نے بعض بچے ایسے دیکھے ہوں گے جو نہایت ذہین اور فہیم اور تیز طبع اور زود فہم ہیں اور علم کو ایسی جلدی سے حاصل کرتے ہیں کہ گویا جلدی سے ایک صف لپیٹتے جاتے ہیں لیکن ان کی عمر وفا نہیں کرتی.اور چھوٹی عمر میں ہی مرجاتے ہیں.اور بعض ایسے ہیں کہ نہایت نبی اور بلید اور انسانیت کا بہت کم حصہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور منہ سے رال ٹپکتی ہے اور وحشی سے ہوتے ہیں.اور بہت سے بوڑھے اور پیر بقیہ حاشیہ.پیئیں گے کہ جو حضرت مسیح پھر اپنی جلالت اور عظمت کے ساتھ دنیا میں تشریف لے آئیں گے.اور معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خیال اور رائے اُسی پیرایہ کی طرف زیادہ جھکا ہوا تھا کہ جو انہوں نے حواریوں کے ذہن نشین کیا جو اصل میں صحیح نہیں تھا.یعنی کسی قدر اس میں اجتہادی غلطی تھی اور عجیب تریہ کہ بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے چار سو نبی نے ایک بادشاہ کی فتح کی نسبت خبر دی اور وہ غلط نکلی یعنی بجائے فتح کے شکست ہوئی.دیکھو سلاطین اول باب ۲۲ آیت ۱۹ مگر اس عاجز کی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں.الہام نے پیش از وقوع دولڑکوں کا پیدا ہونا ظاہر کیا اور بیان کیا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے.دیکھو اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء و اشتہار • ار جولائی ۱۸۸۸ء سو مطابق پہلی پیشگوئی کے ایک لڑکا پیدا ہو گیا.اور فوت بھی ہو گیا.اور دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے.وہ اگر چہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا.زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.نادان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاک بشارتوں پر ٹھٹھا کرتا ہے کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشیدہ ہے اور انجام کار اس کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے.منہ
حیات احمد ۵۷۱ جلد دوم حصہ سوم ☆ فرتوت ہو کر مرتے ہیں اور باعث سخت نالیاقتی فطرت کے جیسے آئے ویسے ہی جاتے ہیں.غرض ہمیشہ اس کا نمونہ ہر ایک شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ بعض بچے ایسے کامل الخلقت ہوتے ہیں کہ صدیقوں کی پاکیزگی اور فلاسفروں کی دماغی طاقتیں اور عارفوں کی روشن ضمیری اپنی فطرت میں رکھتے ہیں اور ہونہار دکھائی دیتے ہیں مگر اس عالم بے ثبات میں رہنا نہیں پاتے اور کئی ایسے بچے بھی لوگوں نے دیکھے ہوں گے کہ ان کے لچھن اچھے نظر نہیں آتے اور فراست حکم کرتی ہے کہ اگر وہ عمر پاویں تو پرلے درجے کے بدذات اور شریر اور جاہل اور ناحق شناس نکلیں.ابراہیم لخت جگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خورد سالی میں یعنی سولہویں مہینے میں فوت ہو گئے.اُس کی صفائی استعداد کی تعریفیں اور اس کی صدیقانہ فطرت کی صفت و ثنا احادیث کے رو سے ثابت ہے ایسا ہی وہ بچہ جو خوردسالی میں حضرت خضر نے قتل کیا تھا.اس کی خباثت جبلّی کا حال قرآن شریف کے بیان سے ظاہر وباہر ہے.کفار کے بچوں کی نسبت کہ جو خوردسالی میں مر جائیں جو کچھ تعلیم اسلام ہے وہ بھی درحقیقت اسی قاعدہ کی رو سے ہے.کہ بوجہ اس کہ الْوَلَدُ سِرِّ لَا بِيْهِ ان کی استعدادات ناقصہ ہیں غرض بلحاظ صفائی استعداد اور نورانیت اصل جوہر و مناسبت تامه دینی کے پر متوفی کے الہام میں وہ نام رکھے گئے تھے.جوا بھی ذکر کئے گئے ہیں.اب اگر کوئی تحكّم کی راہ سے کھینچ تان کر اُن ناموں کو عمر دراز ہونے کے ساتھ وابستہ کرنا چاہے تو یہ اُس کی سراسر شرارت ہوگی جس کی نسبت کبھی ہم نے کوئی یقینی اور قطعی رائے ظاہر نہیں کیا.ہاں یہ سچ ہے اور بالکل سچ کہ ان فضائل ذاتیہ کے تصور کرنے سے شک کیا جاتا تھا کہ شاید یہی لڑکا مصلح موعود ہو گا.مگر وہ شکی تقریر ہے جو کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع نہیں کی گئی.ہندوؤں کی حالت پر سخت تعجب ہے کہ وہ باوصف اس کے کہ اپنے نجومیوں اور جوتشیوں کے منہ سے ہزار ہا ایسی باتیں سنتے ہیں کہ بالآخر وہ سراسر پوچ اور لغو اور جھوٹ نکلتی ہیں.اور پھر اُن پر اعتقاد رکھنے سے باز نہیں آتے.اور غذر پیش کر دیتے ہیں کہ حساب میں غلطی ہو گئی ہے ورنہ جوتش کے سچا ہونے میں کچھ کلام نہیں پھر با وصف ایسے اعتقادات سخیفہ اور ردیہ کے الہامی پیشگوئیوں پر بغیر کسی ترجمہ.بچہ اپنے والد کی عادات لئے ہوتا ہے.
حیات احمد ۵۷۲ جلد دوم حصہ سوم وو صریح اور صاف غلطی پکڑنے کے متعصبانہ حملہ کرتے ہیں.پھر ہندولوگ اگر ایسی بے اصل باتیں منہ پر لاویں تو کچھ مضایقہ بھی نہیں کیونکہ وہ دشمن دین ہیں اور اسلام کے مقابل پر ہمیشہ سے ان کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے یعنی جھوٹ و افتر ا لیکن نہایت تعجب میں ڈالنے والا واقعہ مسلمانوں کی حالت ہے کہ باوجود دعوی دینداری و پرہیز گاری اور باوجود عقائد اسلامیہ کے ایسے ہذیانات زبان پر لاتے ہیں.اگر ہمارے ایسے اشتہارات اُن کی نظر سے گزرے ہوتے جن میں ہم نے قیاسی طور پر پسر متوفی کو مصلح موعود اور عمر پانے والا قرار دیا ہوتا.تب بھی اُن کی ایمانی سمجھ اور عرفانی واقفیت کا مقتضا یہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ ایک اجتہادی غلطی ہے جو کہ کبھی کبھی علماء ظاہر و باطن دونوں کو پیش آ جاتی ہے یہاں تک کہ اولوالعزم رسول بھی اُس سے باہر نہیں ہیں مگر اس جگہ تو کوئی ایسا اشتہار بھی شائع نہیں ہوا تھا.محض دریا ندیده موزہ از پاکشیدہ پر عمل کیا گیا اور یادر ہے کہ یہ چند سطریں جو ہم نے عام مسلمانوں کی نسبت لکھی ہیں محض سچی ہمدردی کے تقاضا سے تحریر کی گئی ہیں تا وہ اپنے بے بنیاد وساوس سے باز آ جائیں.اور ایسا رڈی اور فاسد اعتقاد دل میں پیدا نہ کر لیں جس کا کوئی اصل صحیح نہیں ہے.بشیر احمد کی وفات پر وساوس اور اوہام میں پڑنا انہیں کی بے سمجھی و نادانی ظاہر کرتا ہے ورنہ کوئی محل آویزش و نکتہ چینی نہیں ہے.ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ہم نے کوئی اشتہار نہیں دیا.جس میں ہم نے قطع اور یقین ظاہر کیا ہو کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے.اور گو ہم اجتہادی طور پر اس کی ظاہری علامت سے کسی قدر اس خیال کی طرف جھک بھی گئے تھے مگر اسی وجہ سے اس خیال کی کھلے کھلے طور پر بذریعہ اشتہارات اشاعت نہیں کی گئی تھی کہ ہنوز یہ امر اجتہادی ہے اگر یہ اجتہاد صیح نہ ہوا تو عوام الناس جو دقائق اور معارف علم الہی سے محض بے خبر ہیں.وہ دھوکا میں پڑ جائیں گے مگر نہایت افسوس ہے کہ پھر بھی عوام کالانعام دھوکا کھانے سے باز نہیں آئے.اور اپنی طرف سے حاشیے چڑھا لئے.انہیں اس بات کا ذرا بھی خیال نہیں کہ اُن کے اعتراضات کی بنا صرف یہ وہم ہے کہ کیوں اجتہادی غلطی وقوع میں آئی.ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ اول تو کوئی ایسی اجتہادی غلطی ہم سے ظہور میں نہیں آئی جس پر ہم نے قطع اور یقین اور بھروسا کر کے عام طور پر اس کو شائع کیا ہو.پھر بطور تنزل ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر کسی نبی یا ولی
حیات احمد ۵۷۳ جلد دوم حصہ سوم سے کسی پیشگوئی کی تشخیص و تعیین میں کوئی غلطی وقوع میں آجائے تو کیا ایسی غلطی اس کے مرتبہ نبوت یا ولایت کو کچھ کم کر سکتی ہے یا گھٹا سکتی ہے ہر گز نہیں یہ سب خیالات نادانی و ناواقفیت کی وجہ سے بصورت اعتراض پیدا ہوتے ہیں.چونکہ اس زمانہ میں جہالت کا انتشار ہے اور علوم دینیہ سے سخت درجہ کی لوگوں کو لا پرواہی ہے اس وجہ سے سیدھی بات بھی الٹی دکھائی دیتی ہے.ورنہ یہ مسئلہ بالا تفاق مانا گیا اور قبول کیا گیا ہے کہ ہر یک نبی اور ولی سے اپنے اُن مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص و تعیین میں کہ جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے بخوبی تفہیم نہیں ہوئی غلطی واقع ہو سکتی ہے اور اس غلطی سے اُن انبیاء اور اصفیاء کی شان میں کچھ بھی فرق نہیں آتا کیونکہ علم وحی بھی منجملہ علوم کے ایک علم ہے اور جو قاعدہ فطرت اور قانون قدرت قوت نظریہ کے دخل دینے کے وقت تمام علوم وفنون کے متعلق ہے اُس قاعدہ سے یہ علم باہر نہیں رہ سکتا اور جن لوگوں کو انبیاء اور اولیاء میں سے یہ علم دیا گیا ہے.اُن کو مجبوراً اس کے تمام عوارض و لوازم بھی لینے پڑتے ہیں یعنی اُن پر وارد ہوتے ہیں.جن میں سے ایک اجتہادی غلطی بھی ہے.پس اگر اجتہادی غلطی قابل الزام ہے.تو یہ الزام جمیع انبیاء و اولیاء وعلماء میں مشترک ہے.یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ کسی اجتہادی غلطی سے ربانی پیشگوئیوں کی شان وشوکت میں فرق آ جاتا ہے یا وہ نوع انسان کے لئے چنداں مفید نہیں رہتیں یا وہ دین اور دینداروں کے گروہ کو نقصان پہنچاتے ہیں کیونکہ اجتہادی غلطی اگر ہو بھی تو محض درمیانی اوقات میں بطور ابتلا کے وارد ہوتی ہے اور پھر اس قدر کثرت سے سچائی کے نور ظہور پذیر ہوتے ہیں اور تائیدات الہیہ اپنے جلوے دکھاتی ہیں کہ گویا ایک دن چڑھ جاتا ہے اور مخاصمین کے سب جھگڑے ان سے انفصال پا جاتے ہیں.لیکن اس روز روشن کے ظہور سے پہلے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرستادوں پر سخت سخت آزمائشیں وارد ہوں اور ان کے پیرو اور تابعین بھی بخوبی جانچے اور آزمائے جائیں تا خدا تعالیٰ سچوں اور کچوں اور ثابت قدموں اور بزدلوں میں فرق کر کے دکھلا دیوے.عشق اول سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بولی ا ترجمہ.شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے.
حیات احمد ۵۷۴ جلد دوم حصہ سوم ابتلا جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کر کے ان کو دکھاتا ہے یہ ابتلا اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہہ عالم سے ان کا نام ونشان مٹا یوے کیونکہ یہ تو ہر گز ممکن ہی نہیں کہ خدا وند عزوجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچے اور وفادار عاشقوں کو ذلت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے.بلکہ حقیقت میں وہ ابتلا کہ جو شیر بر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچاوے اور الہی معارف کے بار یک دقیقے ان کو سکھا وے یہی سنت اللہ ہے جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے.زبور میں حضرت داؤد کے ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں.اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تفرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قدرت کی تصریح کرتے ہیں.اگر یہ ابتلا در میان میں نہ ہوتا.تو انبیاء اور اولیاء اُن مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پا سکتے کہ جو ابتلا کی برکت سے انہوں نے پالئے.ابتلا نے اُن کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں.اور کیسے بچے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور حمید حاشیہ.زبور میں حضرت داؤد علیہ السلام کی دعاؤں میں سے جو انہوں نے ابتلائی حالت میں کیں ایک یہ ہے.اے خدا تو مجھ کو بچالے کہ پانی میری جان تک پہنچے ہیں.میں گہری بیچ میں دھس چلا جہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں.میں چلاتے چلاتے تھک گیا میری آنکھیں دھندھلا گئیں.وہ جو بے سبب میرا کینہ رکھتے ہیں شمار میں میرے سر کے بالوں سے زیادہ ہیں.اے خدا وند رب الافواج وہ جو تیرا انتظار کرتے ہیں میرے لئے شرمندہ نہ ہوں.وہ جو تجھ کو ڈھونڈھتے ہیں وہ میرے لئے ندامت نہ اٹھاویں.وے پھاٹک پر بیٹھے ہوئے میری بابت بکتے ہیں اور نشے باز میرے حق میں گاتے ہیں.تو میری ملامت کشی اور میری رسوائی اور میری بے حرمتی سے آگاہ ہے.میں نے تا کا کہ کیا کوئی میرا ہمدرد ہے کوئی نہیں.
حیات احمد ۵۷۵ جلد دوم حصہ سوم سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے اُن پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے.اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مردوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسا تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے.اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویاوہ اُن پر ذرا مہربان نہیں بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے.اور ان کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا.ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلا نازل ہوا.غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت و سختی سے نازل ہوتی ہے.ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں اُن پر ہوئیں پر وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سُست اور دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب و شدائد کا باران پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا.اور جس قدر وہ توڑے گئے اُسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا ان کی ہمت بلند اُن کی شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی بالآخر وہ اُن تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہو کر نکلے.اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت اور حرمت کا تاج اُن کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے حباب کی طرح معدوم ہو گئے کہ گویا وہ بقیہ حاشیہ.(دیکھو زبور (۶۹) ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام نے ابتلا کی رات میں جس قدر تضرعات کئے.وہ انجیل سے ظاہر ہیں.تمام رات حضرت مسیح جاگتے رہے اور جیسے کسی کی جان ٹوٹتی ہے.غم واندوہ سے ایسی حالت اُن پر طاری تھی.وہ ساری رات رو رو کر دعا کرتے رہے تا وہ بلا کا پیالہ کہ جوان کے لئے مقدر تھاٹل جائے پر باوجود اس قدر گریہ وزاری کے پھر بھی دعا منظور نہ ہوئی کیونکہ ابتلا کے وقت دعا منظور نہیں ہوا کرتی.پھر دیکھنا چاہئے کہ سیدنا ومولانا حضرت فخر الرسل و خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتلا کی حالت میں کیا کیا تکلیفیں اٹھائیں اور ایک دعا میں مناجات کی کہ اے میرے رب میں اپنی کمزوری کی تیری جناب میں شکایت کرتا ہوں اور اپنی بے چارگی کا تیرے آستانہ پر گلہ گزار ہوں.میری ذلت تیری نظر سے پوشیدہ نہیں.جس قدر چاہے سختی کر کہ میں راضی ہوں جب تک تو راضی ہو جائے.مجھ میں بجز تیرے کچھ قوت نہیں.منہ
حیات احمد ۵۷۶ جلد دوم حصہ سوم کچھ بھی نہیں تھے.غرض انبیاء و اولیاء ابتلا سے خالی نہیں ہوتے بلکہ سب سے بڑھ کر انہیں پر ابتلا نازل ہوتے ہیں.اور انہیں قوت ایمانی ان آزمائشوں کی برداشت بھی کرتی ہے.عوام الناس جیسے خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کر سکتے ویسے اُس کے خالص بندوں کی شناخت سے بھی قاصر ہیں بالخصوص اُن محبوبان الہی کی آزمائش کے وقتوں میں تو عوام الناس بڑے بڑے دھوکوں میں پڑ جاتے ہیں گویا ڈوب ہی جاتے ہیں.اور اتنا صبر نہیں کر سکتے کہ ان کے انجام کار کے منتظر رہیں.عوام کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ جَلَّ شَانُہ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اُس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کر دیوے بلکہ اس غرض سے کرتا ہے کہ تا وہ پودہ پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اس کے برگ اور بار میں برکت ہو.پس خلاصہ کلام یہ کہ انبیا اور اولیا کی تربیت باطنی اور تکمیل روحانی کے لئے ابتلا کا ان پر وارد ہونا ضروریات سے ہے اور ابتلا اس قوم کے لئے ایسا لازم حال ہے کہ گویا ان ربانی سپاہیوں کی ایک روحانی وردی ہے جس سے یہ شناخت کئے جاتے ہیں.اور جس شخص کو اس سنت کے برخلاف کوئی کامیابی ہو وہ استدراج ہے نہ کامیابی.اور نیز یا درکھنا چاہئے کہ یہ نہایت درجہ کی بدقسمتی و نا سعادتی ہے کہ انسان جلد تر بدظنی کی طرف جھک جائے اور یہ اصول قرار دے دیوے کہ دنیا میں جس قدر خدا تعالیٰ کی راہ کے مدعی ہیں وہ سب مگار اور فریبی اور دوکاندار ہی ہیں.کیونکہ ایسے رڈی اعتقاد سے رفتہ رفتہ وجود ولایت میں شک پڑے گا اور پھر ولایت سے انکاری ہونے کے بعد نبوت کے منصب میں کچھ کچھ تر ڈدات پیدا ہو جاویں گے اور پھر نبوت سے منکر ہونے کے پیچھے خدائے تعالیٰ کے وجود میں کچھ دغدغہ اور خلجان پیدا ہو کر یہ دھوکا دل میں شروع ہو جائے گا کہ شاید یہ ساری بات ہی بناوٹی اور بے اصل ہے.اور شاید یہ سب اوہام.باطلہ ہی ہیں کہ جو لوگوں کے دلوں میں جمتے ہوئے چلے آئے ہیں سواے سچائی کے ساتھ بجان و دل پیار کرنے والو! اور صداقت کے بھوکو اور پیاسو! یقیناً سمجھو کہ ایمان کو اس آشوب خانہ سے سلامت لے جانے کے لئے ولایت اور اس کے لوازم کا یقین نہایت ضروریات سے ہے ولایت نبوت کے اعتقاد کی پناہ ہے اور نبوت اور اقرار وجود باری تعالیٰ کے لئے پناہ.پس اولیاء انبیاء کے وجود کے
حیات احمد ۵۷۷ جلد دوم حصہ سوم لئے میخوں کی مانند ہیں.اور انبیاء خدا تعالیٰ کا وجود قائم کرنے کے لئے نہایت مستحکم کیلوں کے مشابہ ہیں سو جس شخص کو کسی ولی کے وجود پر مشاہدہ کے طور پر معرفت حاصل نہیں.اُس کی نظر نبی کی معرفت سے بھی قاصر ہے.اور جس کو نبی کی کامل معرفت نہیں وہ خدا تعالیٰ کی کامل معرفت سے بھی بے بہرہ ہے.اور ایک دن ضرور ٹھو کر کھائے گا اور سخت ٹھو کھر کھائے گا.اور مجرد دلائل عقلیہ اور علوم رسمیہ کسی کام نہیں آئیں گے.اب ہم فائدہ عام کے لئے یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتے ہیں.کہ بشیر احمد کی موت نا گہانی طور پر نہیں ہوئی بلکہ اللہ جل شانہ نے اس کی وفات سے پہلے اس عاجز کو اپنے الہامات کے ذریعہ سے پوری پوری بصیرت بخش دی تھی کہ یہ لڑکا اپنا کام کر چکا ہے اور اب فوت ہو جاوے گا بلکہ جو الہامات اس پسر متوفی کی پیدائش کے دن میں ہوئے تھے ان سے بھی اجمالی طور پر اُس کی وفات کی نسبت بُو آتی تھی اور مترشح ہوتا تھا کہ وہ خلق اللہ کے لئے ایک ابتلا عظیم ہو گا.جیسا حاشیہ.خدا تعالیٰ کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے بڑے عظیم الشان دوطریقے.اول یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کر کے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے.وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُولَيْكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ " وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ الجز نمبر 2 یعنی ہمارا یہی قانون قدرت ہے کہ ہم مومنوں پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈالا کرتے ہیں اور صبر کرنے والوں پر ہماری رحمت نازل ہوتی ہے.اور کامیابی کی راہیں انہیں پر کھولی جاتی ہیں جو صبر کرتے ہیں.دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و عنبیین وائمہ و اولیاء و خلفاء ہے تا ان کی اقتدا و ہدایت سے لوگ راہِ راست پر آ جائیں.اور ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیں سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آ جائیں.پس اول اس نے قسم اول کے انزال رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا بشر الصبرین کا سامان مومنوں کے لئے تیار کر کے اپنی بشریت کا مفہوم پورا کرے.سو وہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں محض للہ شریک ہوئے.بطور فرط کے ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کا شفیع ٹھہر گیا اور اندر ہی اندر بہت سی برکتیں ان کو پہنچا گیا اور یہ بات کھلی کھلی الہام الہی نے ظاہر کر دی کہ بشیر جوفوت ہو گیا ہے وہ بے فائدہ نہیں آیا تھا بلکہ اس کی موت ان سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہو گی جنہوں نے البقرة : ۱۵۶ تا ۱۵۸
حیات احمد ۵۷۸ جلد دوم حصہ سوم کہ یہ الہام إِنَّا أَرْسَلْنَاهُ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيرً ا كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيْهِ ظُلُمَاتٌ ورَعْدٌ وَ بَرْقَ كُلُّ شَيْءٍ تَحْتَ قَدَمَيْهِ.یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہد اور مبشر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اُس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو.یہ سب چیزیں اس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں یعنی اس کے قدم اٹھانے کے بعد جو اس کی موت سے مراد ہے ظہور میں آجائیں گی.سو تاریکیوں سے مراد آزمائش اور ابتلا کی تاریکیاں تھیں جولوگوں کو اس کی موت سے پیش آئیں اور ایسے سخت ابتلا میں پڑ گئے جو ظلمات کی طرح تھا.اور آیت کریمہ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا کے مصداق ہو گئے.اور الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد رعد اور روشنی کا ذکر ہے یعنی جیسا کہ اس عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پر متوفی کے قدم اٹھانے کے بعد پہلی ظلمت آئے گی اور پھر رعد اور برق اسی ترتیب کے رُو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا یعنی پہلے بشیر کی موت کی وجہ سے ابتلا کی ظلمت وارد ہوئی.اور پھر اُس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے اور جس طرح ظلمت ظہور میں بقیہ حاشیہ محض للہ اس کی موت سے غم کیا اور اُس ابتلا کی برداشت کر گئے کہ جو اس کی موت سے ظہور میں آیا.غرض بشیر ہزاروں صابرین و صادقین کے لئے ایک شفیع کی طرح پیدا ہوا تھا اور اُس پاک آنے والے اور پاک جانے والے کی موت ان سب مومنوں کے گناہوں کا کفارہ ہوگی.اور دوسری قسم رحمت کی جوا بھی ہم نے بیان کی ہے اُس کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا جیسا کہ بشیر اول کی موت سے پہلے ۱۰ / جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں اس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے.وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا.يَخْلُقُ اللهُ مَا يَشَآءُ اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزولِ رحمت کا موجب ہوا.اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے.منہ البقرة: ٢١
حیات احمد ۵۷۹ جلد دوم حصہ سوم آگئی اسی طرح یقیناً جاننا چاہیے کہ کسی دن وہ رعد بھی ظہور میں آ جائے گی جس کا وعدہ دیا گیا ہے.جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دے گی اور جو جو اعتراضات غافلوں اور مردہ دلوں کے منہ سے نکلے ہیں اُن کو نابود اور ناپدید کر دے گی.یہ الہام جو ابھی ہم نے لکھا ہے ابتدا سے صد ہا لوگوں کو بہ تفصیل سنا دیا گیا تھا.چنانچہ منجملہ سامعین کے مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی بھی ہیں اور کئی اور جلیل القدر آدمی بھی اب اگر ہمارے موافقین و مخالفین اسی الہام کے مضمون پر غور کریں اور دقت نظر سے دیکھیں تو یہی ظاہر کر رہا ہے کہ اس ظلمت کے آنے کا پہلے سے جناب الہی میں ارادہ ہو چکا تھا جو بذریعہ الہام بتلایا گیا اور صاف ظاہر کیا گیا کہ ظلمت اور روشنی دونوں اس لڑکے کے قدموں کے نیچے ہیں یعنی اس کے قدم اٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے اُن کا آنا ضرور ہے.سواے وے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا.حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.بشیر کی موت نے جیسا کہ اس پیشگوئی کو پورا کیا.ایسا ہی اس پیشگوئی کو بھی کہ جو ۲۰ فروری کے اشتہار میں ہے کہ بعض بچے کم عمری میں فوت ہوں گے.بالآخر یہ بھی اس جگہ واضح رہے کہ ہمارا اپنے کام کے لئے تمام و کمال بھروسہ اپنے مولیٰ کریم پر ہے.اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق اور ہمارے دعویٰ کو قبول کرتے ہیں یا رڈ.اور ہمیں تحسین کرتے ہیں یا نفرین بلکہ ہم سب سے اعراض کر کے اور غیر اللہ کو مردہ کی طرح سمجھ کر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں.گو بعض ہم میں سے اور ہماری ہی قوم میں سے ایسے بھی ہیں کہ وہ ہمارے اس طریق کو نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں مگر ہم ان کو معذور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو ہم پر ظاہر کیا گیا ہے وہ ان پر ظاہر نہیں.اور جو ہمیں پیاس لگا دی گئی ہے.وہ انہیں نہیں.كُلَّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ * اس محل میں یہ بھی لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مجھے بعض اہل علم احباب کی ناصحانہ تحریروں سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی اِس عاجز کی یہ کارروائی پسند نہیں کرتے کہ برکات روحانیہ و بنی اسرائیل: ۸۵
حیات احمد ۵۸۰ جلد دوم حصہ سوم آیات سماویہ کے سلسلہ کو جو بذریعہ قبولیت ادعیہ و الہامات و مکاشفات تحمیل پذیر ہوتا ہے لوگوں پر ظاہر کیا جائے.بعض کی ان میں سے اس بارہ میں یہ بحث ہے کہ یہ باتیں ظنی وشکی ہیں اور اُن کے ضرر کی امید اُن کے فائدہ سے زیادہ تر ہے.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حقیقت میں یہ باتیں تمام بنی آدم میں مشترک و متساوی ہیں.شائد کسی قدر ادنی کم و بیشی ہو بلکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قریباً یکساں ہی ہیں.ان کا یہ بھی بیان ہے کہ ان امور میں مذہب اور اتفقا اور تعلق باللہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ یہ فطرتی خواص ہیں جو انسان کی فطرت کو لگے ہوئے ہیں.اور ایک بشر سے مومن ہو یا کافر.صالح ہو یا فاسق کچھ تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ صادر ہوتے رہتے ہیں.یہ تو ان کی قیل و قال ہے جس سے ان کی موٹی سمجھ اور سطحی خیالات اور مبلغ علم کا اندازہ ہوسکتا ہے مگر فر است صحیحہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غفلت اور حُبّ دنیا کا کیڑا اُن کی ایمانی فراست کو بالکل کھا گیا ہے اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ جیسے مجزوم کا جذام انتہا کے درجہ تک پہنچ کر سقوط اعضاء تک نوبت پہنچاتا ہے اور ہاتھوں پیروں کا گلنا سڑنا شروع ہو جاتا ہے.ایسا ہی ان کے روحانی اعضاء جو روحانی قوتوں سے مراد ہیں.بباعث غلو محبت دنیا کے گلنے سڑنے سے شروع ہو گئے ہیں.اور اُن کا شیوہ فقط بنسی اور ٹھٹھا اور بدظنی اور بدگمانی ہے، دینی معارف اور حقائق پر غور کرنے سے بکلی آزادی ہے.بلکہ یہ لوگ حقیقت اور معرفت سے کچھ سروکار نہیں رکھتے اور کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے کہ ہم دنیا میں کیوں آئے اور ہمارا اصلی کمال کیا ہے بلکہ جیفہ ء دنیا میں دن رات غرق ہو رہے ہیں.ان میں یہ حس ہی باقی نہیں رہی کہ اپنی حالت کو ٹولیں کہ وہ کیسی سچائی کے طریق سے گری ہوئی ہے اور بڑی بد قسمتی ان کی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی اس نہایت خطرناک بیماری کو پوری پوری صحت خیال کرتے ہیں اور جو حقیقی صحت و تندرستی ہے اس کو یہ نظر تو ہین و استخفاف دیکھتے ہیں.اور کمالات ولایت اور قرب الہی کی عظمت بالکل ان کے دلوں پر سے اٹھ گئی ہے اور نومیدی اور حرمان کی سی صورت پیدا ہوگئی ہے بلکہ اگر یہی حالت رہی تو ان کا نبوت پر ایمان قائم رہنا بھی کچھ معرض خطر میں ہی نظر آتا ہے.
حیات احمد ۵۸۱ جلد دوم حصہ سوم یہ خوفناک اور گری ہوئی حالت جو میں نے بعض علماء کی بیان کی ہے اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ ان روحانی روشنیوں کو تجربہ کی رُو سے غیر ممکن یا شگی وطنی خیال کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہنوز بالا ستیفا تجربہ کرنے کی طرف توجہ نہیں کی.اور کامل اور محیط طور پر نظر ڈال کر رائے ظاہر کرنے کا ابھی تک انہوں نے اپنے لئے کوئی موقعہ پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے کی کچھ پرواہ ہے.صرف ان مفسدانہ نکتہ چینیوں کو دیکھ کر کہ جو مخالفین تعصب آئین نے اس عاجز کی دو پیشگوئیوں پر کی ہیں.بلا تحقیق و تفتیش شک میں پڑ گئے اور ولایت اور قربت الہیہ کی روشنیوں کے بارے میں ایک ایسا اعتقاد دل میں جما لیا کہ جو خشک فلسفہ اور کورانہ نیچریت کے قریب قریب کا حاشیہ.وہ نکتہ چینیاں یہ ہیں کہ ۱۸ اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں اس عاجز نے ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ ایک لڑکا اس عاجز کے گھر میں پیدا ہونے والا ہے.اور اشتہار مذکور میں یہ تصریح لکھ دیا تھا کہ شاید اسی دفعہ وہ لڑکا پیدا ہو یا اس کے بعد اس کے قریب حمل میں پیدا ہو سو خدا تعالیٰ نے مخالفین کا خبث باطنی اور نا انصافی ظاہر کرنے کے لئے اُس دفعہ یعنی پہلے حمل میں لڑکی پیدا کی.اور اُس کے بعد جو حمل ہوا تو اُس سے لڑکا پیدا ہوا اور پیشگوئی اپنے مفہوم کے مطابق سچی نکلی.اور ٹھیک ٹھیک وقوع میں آگئی مگر مخالفین نے جیسا کہ ان کا قدیمی شیوہ ہے محض شرارت کی راہ سے یہ نکتہ چینی کی کہ پہلے دفعہ ہی کیوں لڑکا پیدا نہیں ہوا.ان کو جواب دیا گیا کہ اشتہار میں پہلی دفعہ کی کوئی شرط نہیں بلکہ دوسرے حمل تک پیدا ہونے کی شرط تھی جو وقوع میں آگئی اور پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوگئی.سوایسی پیشگوئی پر نکتہ چینی کرنا بے ایمانی کی قسموں میں سے ایک قسم ہے کوئی منصف اس کو واقعی طور پر نکتہ چینی نہیں کہہ سکتا.دوسری نکتہ چینی مخالفوں کی یہ ہے کہ لڑکا جس کے بارہ میں پیشگوئی ۱/۸اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں کی تھی وہ پیدا ہو کر صغرسنی میں فوت ہو گیا.اس کا مفصل جواب اسی تقریر میں مذکور ہے اور خلاصہ جواب یہ ہے کہ آج تک ہم نے کسی اشتہار میں نہیں لکھا کہ یہ لڑکا عمر پانے والا ہو گا اور نہ یہ کہا کہ یہی مصلح موعود ہے بلکہ ہمارے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں بعض ہمارے لڑکوں کی نسبت یہ پیشگوئی موجود تھی کہ وہ کم عمری میں فوت ہوں گے، پس سوچنا چاہئے کہ اس لڑکے کی وفات سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی یا جھوٹی نکلی؟ بلکہ جس قدر ہم نے لوگوں میں الہامات شائع کئے.اکثر ان کے اس لڑکے کی وفات پر
حیات احمد ۵۸۲ جلد دوم حصہ سوم ہے.انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ مخالفین نے اپنی تکذیب کی تائید میں کونسا ثبوت دیا ہے؟ پھر اگر کوئی ثبوت نہیں اور نری بک بک ہے تو کیا فضول اور بے بنیاد افتر اؤں کا اثر اپنے دلوں پر ڈال لینا عقلمندی یا ایمانی وثاقت میں داخل ہے اور اگر فرض محال کے طور پر کوئی اجتہادی غلطی بھی کسی پیشگوئی کے متعلق اس عاجز سے ظہور میں آتی یعنی قطع اور یقین کے طور پر اُس کو کسی اشتہار کے ذریعہ سے شائع کیا جاتا.تب بھی کسی دانا کی نظر میں وہ محل آویزش نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اجتہادی غلطی ایک ایسا امر ہے جس سے انبیاء بھی باہر نہیں.ماسوائے اس کے یہ عاجز اب تک قریب سات ہزار مکاشفات صادقہ اور الہامات صحیحہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے مشرف ہوا ہے اور آئندہ عجائبات روحانیہ کا ایسا بے انتہا سلسلہ جاری ہے کہ جو بارش کی طرح شب و روز نازل ہوتے رہتے ہیں.پس اس صورت میں خوش قسمت انسان وہ ہے کہ جو اپنے تئیں بصدق وصفا اس ربانی بقیہ حاشیہ.دلالت کرتے تھے.چنانچہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار کی یہ عبارت کہ ایک خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے یہ مہمان کا لفظ در حقیقت اسی لڑکے کا نام رکھا گیا تھا.اور یہ اس کی کم عمری اور جلد فوت ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جاوے.اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہو جاوے اور جو قائم مقام ہو اور دوسروں کو رخصت کرے اس کا نام مہمان نہیں ہوسکتا.اور اشتہار مذکور کی یہ عبارت کہ وہ رجس سے ( یعنی گناہ سے ) بکنی پاک ہے یہ بھی اُس کی صغرسنی کی وفات پر دلالت کرتی ہے.اور یہ دھوکا کھانا نہیں چاہئے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے وہ مصلح موعود کے حق میں ہے.کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفی کے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اُس کا محمود اور تیسرا نام اُس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اُس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے پیدا ہو کر پھر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمتِ الہیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے.اور بشیر اول جو فوت ہو گیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ا رہاص تھا.اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا.
حیات احمد ۵۸۳ جلد دوم حصہ سوم کارخانے کے حوالہ کر کے آسمانی فیوض سے اپنے نفس کو متمتع کرے اور نہایت بدقسمت وہ شخص ہے جو اپنے تئیں ان انوار و برکات کے حصول سے لا پروا رکھ کر بے بنیا دنکتہ چینیاں اور جاہلانہ رائے ظاہر کرنا اپنا شیوہ کر لیوے میں ایسے لوگوں کو محض اللہ متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ایسے خیالات کو دل میں جگہ دینے سے حق اور حق بینی سے بہت دور جا پڑے ہیں اگر انکا یہ قول سچ ہو کہ الہامات اور مکاشفات کوئی ایسی عمدہ چیز نہیں ہے جو خاص اور عوام یا کافر اور مومن میں کوئی امتیاز بین پیدا کر سکیں تو سالکوں کے لئے یہ نہایت دل توڑنے والا واقعہ ہو گا.میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہی ایک روحانی اور اعلیٰ درجہ کی اسلام میں خاصیت ہے سچائی سے اُس پر قدم مارنے والے مکالمات خاصہ الہیہ سے مشرف ہو جاتے ہیں.اور قبولیت کے انوار جن میں اُن کا غیر اُن کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا اُن کے وجود میں پیدا ہو جاتے ہیں.یہ ایک واقعی صداقت ہے جو بے شمار بقیہ حاشیہ.اب ایک منصف انصافا سوچ کر دیکھے کہ ہماری ان دونوں پیشگوئیوں میں حقیقی طور پر کونسی غلطی.ہے؟ ہاں ہم نے پر متوفی کے کمالات استعداد یہ الہامات کے ذریعہ ظاہر کئے تھے کہ وہ فطرتاً ایسا ہے اور ایسا ہے اور اب بھی ہم یہی کہتے ہیں اور فطرتی استعدادوں کا مختلف طور پر بچوں میں پایا جانا عام اس سے کہ وہ صغرسنی میں مر جاویں یا زندہ رہیں ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے.اور کوئی حکماء اور علماء میں سے اس کا منکر نہیں ہوسکتا.پس دانا کے لئے کونسی ٹھوکر کھانے کی وجہ ہے؟ ہاں نادان اور احمق لوگ ہمیشہ سے ٹھو کر کھاتے چلے آئے ہیں.بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی پر ٹھو کر کھائی کہ یہ شخص تو کہتا تھا کہ فرعون پر عذاب نازل ہوگا.سو اس پر کچھ عذاب نازل نہ ہوا.وہ عذاب تو ہم پر ہی پڑا کہ اس سے پہلے صرف آدھا دن ہم سے مشقت لی جاتی تھی اور اب سا را دن محنت کرنے کا حکم ہو گیا.خوب نجات ہوئی حالانکہ یہ دوہری محنت اور مشقت ابتلا کے طور پر یہودیوں پر ابتدا میں نازل ہوئی تھی اور انجام کار فرعون کی ہلاکت مقدر تھی مگر ان بیوقوفوں اور شتاب کاروں نے ہاتھ پر سرسوں جمتی نہ دیکھ کر اُسی وقت حضرت موسی کو جھٹلا نا شروع کر دیا اور بدظنی میں پڑ گئے اور کہا کہ اے موسیٰ و ہارون جو کچھ تم نے ہم سے کیا خدا تم سے کرے.پھر یہودا اسکر یوتی کی نادانی اور شتاب کاری دیکھنی چاہئے کہ اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے سمجھنے میں نہایت سخت ٹھوکر
حیات احمد ۵۸۴ جلد دوم حصہ سوم راستبازوں پر اپنے ذاتی تجارب سے کھل گئی ہے.ان مدارج عالیہ پر وہ لوگ پہنچتے ہیں کہ جو سچی اور حقیقی پیروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتے ہیں اور نفسانی وجود سے نکل کر ربانی وجود کا پیرا ہن لیتے ہیں یعنی نفسانی جذبات پر موت وارد کر کے ربانی طاعات کی نئی زندگی اپنے اندر حاصل کرتے ہیں.ناقص الحالت مسلمانوں کو ان سے کچھ نسبت نہیں ہوتی.پھر کافر اور فاسق کو ان سے کیا نسبت ہو.اُن کی یہ کاملیت اُن کی صحبت میں رہنے سے طالب حق پر کھلتی ہے.اسی غرض سے میں نے اتمام حجت کے لئے مختلف فرقوں کے سرگروہوں کی طرف اشتہارات بھیجے تھے اور خط لکھے تھے کہ وہ میرے اس دعوی کی آزمائش کریں.اگر ان کو سچائی کی طلب ہوتی تو وہ صدق قدم سے حاضر ہوتے سو اُن میں سے کوئی ایک بھی بصدق قدم حاضر نہ ہوا بلکہ جب کوئی پیشگوئی ظہور میں آتی رہی اُس پر خاک ڈالنے کے لئے کوشش کرتے رہے.اب اگر ہمارے علما کو اس حقیقت کے قبول کرنے اور ماننے میں کچھ تامل ہے تو غیروں کے بلانے کی کیا ضرورت.پہلے یہی ہمارے احباب جن میں سے بعض فاضل اور عالم بھی ہیں آزمائش کر لیں اور صدق اور صبر سے کچھ مدت میری صحبت میں رہ کر حقیقت حال سے واقف ہو جائیں.پھر اگر یہ دعوی اس عاجز کا راستی سے معرا نکلے تو انہیں کے ہاتھ پر میں تو بہ کرونگا ورنہ امید رکھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ ان کے دلوں پر تو بہ اور رجوع کا دروازہ کھول دے گا اور اگر وہ میری اس تحریر کے شائع ہونے کے بعد بقیہ حاشیہ.کھائی اور خیال کیا کہ یہ شخص بادشاہ ہو جانے کا دعوی کرتا تھا اور ہمیں بڑے بڑے مراتب تک پہنچاتا تھا مگر یہ ساری باتیں جھوٹ نکلیں اور کوئی پیشگوئی اُس کی سچی نہ ہوئی بلکہ فقر و فاقہ میں ہم لوگ مر رہے ہیں بہتر ہے کہ اس کے دشمنوں سے مل کر پیٹ بھریں.سو اس کی جہالت اُس کی ہلاکت کا موجب ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئیاں اپنے وقتوں میں پوری ہوگئیں.سونبیوں کا ان نادان مکذبین کی تکذیب سے کیا نقصان ہوا.جس کا اب بھی اندیشہ کیا جائے.اور اس اندیشہ سے خدائے تعالیٰ کی پاک کا رروائی کو بند کیا جائے.یقیناً سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اور کلمہ گو ہو کر جلدی سے اپنے دل میں وساوس کا ذخیرہ اکٹھا کر لیتے ہیں.وہ انجام کار اُسی طرح رسوا اور ذلیل ہونے والے ہیں جس طرح نالائق اور کج فہم یہودی اور یہودا اسکر یوتی رسوا اور ذلیل ہوئے.فَتَدَبَّرُوْا يَا أُولِي الْأَلْبَابِ منه
حیات احمد ۵۸۵ جلد دوم حصہ سوم میرے دعاوی کی آزمائش کر کے اپنی رائے کو بپایۂ صداقت پہنچا دیں.تو اُن کی ناصحانہ تحریروں کے کچھ معنے ہوں گے.اس وقت تک تو اس کے کچھ بھی معنے نہیں بلکہ اُن کی مجو بانہ حالت قابل رحم ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ آج کل کے عقلی خیالات کے پر زور بخارات نے ہمارے علماء کے دلوں کو بھی کسی قدر دبا لیا ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ انہیں خیالات پر زور دے رہے ہیں اور تکمیل دین و ایمان کے لئے انہیں کو کافی وافی خیال کرتے ہیں اور نا جائز اور ناگوار پیرایوں میں روحانی برکات کی تحقیر کر رہے ہیں.اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تحقیر تکلف سے نہیں کرتے بلکہ فی الواقع ان کے دلوں میں ایسا ہی جم گیا ہے.اور اُن کی فطرتی کمزوری اس نزلہ کو قبول کر گئی ہے کیونکہ اُن کے اندر حقانی روشنی کی چمک نہایت ہی کم اور خشک لفاظی بہت سی بھری ہوئی ہے اور اپنی رائے کو اس قدر صائب خیال کرتے اور اُس کی تائید میں زور دیتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو روشنی حاصل کرنے والوں کو بھی اُس تاریکی کی طرف کھینچ لاویں.ان علماء کو اسلام کی فتح صوری کی طرف تو ضرور خیال ہے مگر جن باتوں میں اسلام کی فتح حقیقی ہے.ان سے بے خبر ہیں.اسلام کی فتح حقیقی اس میں ہے کہ جیسے اسلام کے لفظ کا مفہوم ہے اُسی طرح ہم اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کے حوالہ کر دیں اپنے نفس اور اُس کے جذبات سے بکلی خالی ہو جائیں اور کوئی بت ہوا اور ارادہ اور مخلوق پرستی کا ہماری راہ میں نہ رہے.اور بکلی مرضیات الہیہ میں محو ہو جائیں.اور بعد اس فناء کے وہ بقا ہم کو حاصل ہو جائے جو ہماری بصیرت کو ایک دوسرا رنگ بخشے اور ہماری معرفت کو ایک نئی نورانیت عطا کرے اور ہماری محبت میں ایک جدید جوش پیدا کرے اور ہم ایک نئے آدمی ہو جائیں اور ہمارا وہ قدیم خدا بھی ہمارے لئے ایک نیا خدا ہو جائے.یہی فتح حقیقی ہے جس کے کئی شعبوں میں سے ایک شعبہ مکالمات الہیہ بھی ہے اگر یہ فتح اس زمانہ میں مسلمانوں کو حاصل نہ ہوئی تو مجرد عقلی فتح انہیں کسی منزل تک پہنچا نہیں سکتی.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس فتح کے دن نزدیک ہیں خدا تعالیٰ اپنی طرف سے یہ روشنی پیدا کرے گا اور اپنے ضعیف بندوں کا آمرزگار ہوگا.
حیات احمد ۵۸۶ جلد دوم حصہ سوم تبلیغ میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچا تا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور کچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولی کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کا ہلانہ اور غذارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں.پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غمخوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا.اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے.یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے.اس بارہ میں بھی عربی الہام یہ ہے.إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا.الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ - وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المبلغ خاکسار غلام احمد عفی عنہ مطبوعہ ریاض ہند امرتسر یکم دسمبر ۱۸۸۸ء (سبز اشتہار روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۴۷ تا ۴۷۰.نیز مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۴۱ تا ۱۵۸ بار دوم )
حیات احمد ۵۸۷ عہد جدید کے آغاز کی اطلاع (داستان تالیف کا ایک صفحہ ) جلد دوم حصہ سوم اللہ تعالیٰ کے محض فضل اور رحم سے آج میں حیات احمد کی دوسری جلد کو اس نمبر کی اشاعت کے ساتھ ختم کرنے کی توفیق پاتا ہوں وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ اس تالیف کا آغاز ستمبر ۱۹۱۵ء میں ہوا.اور سراسر بے بضاعتی کی حالت میں آغاز ہوا مجھے امید تھی کہ احباب اس اہم اور ضروری تالیف میں عملی تعاون کریں گے مگر نہ افراد نے اور نہ انجمن نے عملی تعاون کیا.میں جس طرح پر ممکن ہوا اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی کوشش کرتا رہا چند ایسے بھائی تھے جو ہر قیمت پر اس کی تعمیل کے خواہش مند تھے اور افسوس آج وہ موجود نہیں اور اللہ کو پیارے ہو گئے.دوسرا نمبر ۱۵ دسمبر ۱۹۱۵ء کو شائع ہوا.تیسرا نمبر ۲۵/ نومبر ۱۹۲۸ء کو اور اس طرح پر ۴۸۸ صفحہ پر جلد اول ختم کر دی پھر دوسری جلد کا آغاز یکم اگست ۱۹۳۱ء کو ہوا.اور اس کا دوسرا نمبر مارچ ۱۹۳۲ ء میں شائع ہوا ہے.یہ دو نمبر ۱۹۲ صفحات پر شائع ہوئے اس کے بعد تیسرا نمبر آج دسمبر ۱۹۵۱ء میں شائع ہو رہا ہے.اور اُس کے ساتھ دوسری جلد مکمل ہو جاتی ہے جو دراصل پہلی جلد ہے اور جس کو میں عہد عتیق کہتا ہوں اس کے ساتھ ۱۸۸۸ء تک کے حالات ختم ہوتے ہیں.۱۸۸۹ء سے عہد جدید شروع ہوتا ہے اس لئے کہ اسی سال آپ نے اللہ تعالیٰ سے وحی پاکر اعلانِ بیعت کیا، یہ جلد ۲۵۶ صفحات پر ختم ہوتی ہے اس طرح پر دوسری جلد ساڑھے چارسو صفحات کا مجموعہ ہو گئی گویا اب تک حیات احمد کے ۷۳۶ صفحات شائع ہوئے مگر کتنے سالوں میں ۳۶ برس میں.میں چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اپنے احساس کی قوت کو بیدار کرے دراصل سیرت کا کام اس سے بہت زیادہ ہوا ہے اس لئے کہ حیات احمد کا ایک حصہ مکتوبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہیں اس کی ۶ جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور سیرت مسیح موعو علیہ السلام کی تین جلدیں ایک سلسلہ میں اور جلد پنجم مستقل شائع ہو چکی ہے.
حیات احمد ۵۸۸ جلد دوم حصہ سوم میں خود حیران ہوں کہ یہ اتنا کام اس مشتِ خاک سے کیونکر ہوا جس کے ساتھ جماعت نے من حیث الجماعت کسی قسم کا تعاون نہیں کیا.اللہ تعالیٰ کا فضل اور محض رحم ہے کہ اس نے اس نا کار محض کو توفیق دی اور حیات بخشی کہ میں اسے جاری رکھ سکا.آئندہ بھی اسی کے فضل پر بھروسہ ہے تا ہم میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور ہر اس احمدی کو جسے اس جلد کے پڑھنے کا موقعہ ملے کہتا ہوں کہ اس کام کی تکمیل میں میرا ساتھ دے اور دست تعاون دراز کرے میرے اختیار میں ہوتا تو حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں ایں براہین بز رنگاشتے مگر میری بے بضاعتی اور سامان طباعت کی بے حد گرانی نے مجھے معمولی کاغذ پر شائع کرنے پر مجبور کر دیا اور حیرت ہے کہ لاکھوں کی جماعت میں دس بھی ایسے بزرگ نہیں جو اس کی اشاعت کے اخراجات کا ذمہ لیں بہر حال اب عہد جدید شروع ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے (جس نے مجھے اب تک حیات بخشی ) توقع رکھتا ہوں کہ توفیق ملی تو مارچ کے آخر تک تیسری جلد کا پہلا نمبر جو کم از کم تین سوصفحات کا ہو گا شائع کر سکوں گا.میں چاہتا ہوں کہ وہ اچھے کاغذ پر شائع ہو اور یہ موقوف ہے احباب کے تعاون پر.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ احباب کو اس کی اہمیت سے آگاہی بخشے.آمین خاکسار عرفانی الکبیر ۵/ دسمبر ۱۹۵۱ء
حیات احمد ۵۸۹ جلد دوم حصہ سوم پچاس احمدی جماعتوں یا پچاس احباب سے درخواست میں اپنی تالیفات کے سلسلہ میں پچاس ایسے خاص احباب یا به حیثیت جماعت پچاس ایسی جماعتوں کی اعانت چاہتا ہوں کہ وہ ہر کتاب کی اشاعت پر اس کی دس کا پیاں خرید لیں.اس طرح پر یہ مفید کام بآسانی جاری رہ سکتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ بعض ضروری تالیفات کی تکمیل کر دوں.حیات احمد کے لئے خصوصیت سے مجھے ایسے معاونین کی ضرورت ہے جو اس کے اخراجات اشاعت کے کسی ایک حصہ کو ( جیسے کتابت.طباعت یا کاغذ ہے ) اپنے ذمہ لے لیں تا کہ کام بغیر توقف اور تعویق کے جاری رہ سکے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک مرتبہ مجلس مشاورت کے موقعہ پر فرمایا تھا کہ اگر شیخ صاحب کی زندگی میں یہ کام نہ ہوا تو دس کروڑ خرچ کر کے بھی اس کو پورا نہ کرسکیں گے.“ یہ حضرت کی خادم نوازی اور کتاب کی اہمیت کا اظہار ہے پس احباب اس کا احساس کریں.پاکستان کے جو دوست توفیق اعانت پاتے ہوں وہ دفتر الحکام عیدگاہ روڈ کراچی (۱) پر اپنے ارادہ سے اطلاع دیں.کسی رقم کے بھیجنے کی ضرورت اس وقت ہوگی جب کام با قاعدہ شروع ہو جائے گا اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا کہ معاونین ہمت افزائی کریں.خاکسار عرفانی الكبير ۵/ دسمبر ۱۹۵۱ء
انڈیکس حیات احمد جلد دوم مرتبہ:مقصوداحمد قمر صاحب.ظفر علی طاہر صاحب آیات قرآنیه.احادیث نبویہ الہامات حضرت مسیح موعود.کشوف ✓...........9.1 مقامات.کتابیات
الفاتحة اهدنا الصراط المستقيم(1) البقرة واذا اظلم عليهم قاموا (۲۱) آیات قرآنیہ 192 ۵۷۸ الانعام قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی لله رب العلمين (۱۶۳) التوبة الم تعلم ان الله على كل شيء قدیر (۱۰۷) ۶۵ لا تحزن ان الله معنا (٢٠) وبشر الصابرين.......المهتدون (۱۵۷) ۵۷۷ آل عمران ان الدین عند الله الاسلام (۲۰) من انصاری الی الله (۵۳) ۱۶۷ ،۱۶۴ ۶۶ فان تولوا فان الله عليم بالمفسدين (۲۴) ۷۸ الحجر ۵۰۱ ۲۴۹ انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحافظون (۱۰) ۲۷۱ بنی اسرائیل ولا تقف ما ليس لك به علم (۳۷) ۲۷۵،۲۳۵ كل يعمل على شاكلته (۸۵) ۵۷۹ و من يبتغ غیر الاسلام دينا (٨٦) كنتم خير امة اخرجت للناس (ااا) النساء ۱۶۷ ۲۷۱ و من يهاجر في سبيل الله يجد في الارض مراغما كثيرا وسعة (١٠١) المائدة ۵۰۳ تعاونوا على البر والتقوى (۳) ۶۶ الكهف انك لن تستطيع معى صبرا - و كيف تصبر على ما لم تحط به خبرا (۶۹،۶۸) الفرقان اعانه علیه قوم آخرون (۵) يس ۲۹۵ ۴۳ فسوف ياتى الله بقوم......اعزة على انما امره اذا اراد شيئا.....ترجعون (۸۴۸۳) الكفرين (۵۵) ۲۸۷ ۳۴۹
المؤمن المدثر وان يك كاذبا فعليه كذبه (۲۹) ۲۷۵،۲۳۵ كانهم حمر مستنفرة.فرت من قسورة (۵۲،۵۱) الواقعة لا يمسه الا المطهرون (۸۰) الحديد ۲۷۱،۲۳۱ اعلموا ان الله يحى الارض بعد موتها (۱۸) الصف ۲۷۱،۲۷۰،۲۳۱ يريدون ليطفؤا نور الله بافواههم (۹) ۴۸۰ الضحى اما بنعمة ربك فحدث (١٢) العاديات حصل ما في الصدور (1) احادیث نبویہ ان الله يبعث لهذه الامة على راس كل مائة خير النساء ولود سنة من يجدد لها دينها انما الاعمال بالنيات خذ بذات الدين ۲۷۱ ۳۳۳ ۳۷۴،۳۵۶ ۱۵۷،۸۳ ۳۷۳ ۲۷۴ لو عاش ابراهيم لكان صديقا نبيا يتزوج و يولد له ۵۳۶ ۳۷۵،۳۶۸،۳۶۶،۳۵۶
عربی الہامات الہامات حضرت مسیح موعود اجيب كل دعائك الا في شركائك ۹۷ اذا عزمت فتوكل على الله واصنع الفلك ان كيدكن عظيم ان وعد الله لات انا ارسلناه شاهدا و مبشرا و نذیرا ۴۹۹ ۲۱۵،۲۰۳ ۵۷۸ باعيننا و وحينا اشکر نعمتی رأیت خدیجتی اصبر سنفرغ یا مرزا اصلها ثابت و فرعها في السماء ۵۸۶ ٣٤٣،١٠٦ ۴۴۲ ۲۸۲ الحمد لله الذي جعل لكم الصهر و النسب ۳۴۷ ،۳۴۴ انا نبشرك بغلام حسين اني انا ربك انى معك اسمع و ارى انی فضلتك على العالمين انی متوفيك و رافعك الى ۳۷۱،۳۴۳،۱۰۵ ۴۴۸ ،۳۴۰،۳۲۵،۲۲۷ ، ۱۰ ۲۱۹ ۲۷۲،۲۳۳ ۲۲۴،۲۱۸ انی معزك لا مانع لما اعطى بكر وثيب ب، ج، ح، خ الم نجعل لك سهولة في كل امر بيت بورك من فيها و من حولها الفكر و بيت الذكر و من دخله كان أمنا جاء ك النور وهو افضل منك اليس الله بکاف عبده انت معى و انا معك ۱۶۲ ۳۸۸،۳۸۲٬۹۵ ۵۵۹ ان تمسسك بضر فلا كاشف له الا هو ۲۲۳،۲۱۴،۲۰۳ ان کنتم في ريب مما نزلنا على عبدنا فأتوا بشفاء من مثله ان ربك فعال لما يريد ۵۵۹ ۲۴۷ 1020107 ۴۵۱ ۵۲۹ خذها ولا تخف سنعيدها سيرتها الاولى خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس ر،ز،س،ش ۲۹۹ ،۲۴۸ ۳۴۵ رأيت هذه المرءة واثر البكاء على وجهها ۵۶۳،۴۹۲ سبحان الله تبارك......زاد مجدك ينقطع آباء ك و يبدء منك ۳۶۰،۳۵۱،۳۴۶
زوجناكها لا مبدل لكلماتي ۲۹۰ سبحان الله و بحمده سبحان الله العظيم ١٠ لا راد لفضله سلام علی ابراهیم سنلقي في قلوبهم الرعب ع،ف،ق، ك عسى ان يبعثك ربك مقاما محمودا فاصبر كما صبر اولو العزم من الرسل فسيكفيكهم الله ويردها اليك ۳۶۰ ۱۳۷ ۵۵۹ ۳۸۹ ۵۵۹ اني فاعل ذلك غدا ۱۸۷ ۲۲۲،۱۶۷ تا ۲۲۴ ما رميت اذ رميت ولكن الله رمى ۴۴۶ مبارك و مبارك وكل امر مبارك يجعل فيه ۱۶۵،۱۶۲ من دخله كان امنا ۱۶۹،۱۶۵ نازل من السماء و نزل من السماء ۴۹۵،۴۷۶ و،ه،ی والله يعصمك من الناس ۵۰۳ فيه بركات للناس (مسجد مبارک کے متعلق) قل ارسلت اليكم اجمعين ۲۲۰،۲۰۱،۱۶۵ ۲۷۲،۲۳۳ قل ان كنتم تحبون الله......يحببكم الله ۲۱۸ و ان يروا اية يعرضوا و يقولوا سحر مستمر ۲۹۰ وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا قل لضيفك اني متوفيك قل لاخيك اني متوفيك الى يوم القيامة هذا شاهد نزاع ۲۱۹،۲۱۸،۲۰۵ ۱۰۳ ۲۲۴ قل هاتوا برهانكم ان كنتم صادقین ۲۹۴۲۱۶ هز اليك بجذع النخلة تساقط عليك قل هو الله عجيب ۲۱۹ كتاب الولى ذو الفقار على كذبوا باياتنا وكانوا بها يستهزء ون كرم الجنة دوحة الجنة ۳۸۵ ۵۵۹ ۵۳۰ رطبا جنيا ۱۰۰ ، ۴۷ هو الذي ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهره على الدين كله هوشعنا نعسا ۳۸۳ ۲۲۵ ل،من لا تحزن ان الله معنا لا تبديل لكلمات الله ۳۹۲،۳۰۰ ۵۵۹ یا احمد اسکن انت وزوجك الجنة ١٦٠،١٠٦ ۲۲۵ یا داؤد عامل بالناس رفقا و احسانا يا عبد الرافع اني رافعك الى انى معزك لا مانع لما اعطى ۲۹۸،۲۴۷ لا تقف ما ليس لك به علم ولا تقل لشيء یا مریم اسکن ۳۹۱
يا يحيى خذ الكتب بقوة يحمدك الله من عرشه يد الله بجلال و جمال ۲۴۸ ۵۲۸ يدعون لك ابدال الشام و عباد الله من العرب ۴۴۱ انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں اولوالعزم مصلح موعود محمود - فضل عمر ب، پ، ت، ج، ح بست و یک روپیہ آئے ہیں يسئلونك احق هو قُل اى و ربي انه لحق تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی وما انتم بمعجزين ۲۹۰ ۴۹۵ ۲۲۸ ۲۲۲۲۲۱ ۴۴۷ ،۳۸۶،۳۲۴ ينصرك رجال نوحى اليهم من السماء تیری نسل بہت ہوگی....ملکوں میں پھیل جائے گی فارسی الہامات اے عمی بازی خولیش کردی و مرا افسوس بسیار دادی ۲۱۰ چودھری رستم علی حمۃ اللہ القادر وسلطان احمد مختار بحسن قبولی دعا بنگر که چه زود دعا قبول می کنم ۲۷۸،۲۳۸ چز طریق زہد و تعبد ندانم اے زاہد خدائے من قدمم راند براہِ داؤد نصف تر ا نصف عمالیق را ہر چہ باید نو عروسی را ہماں ساماں کنم ۲۸۰،۲۴۰ ۴۹۸ ۳۸۲،۳۵۹،۱۰۷ ،۱۰۶،۱۰۵ اردو الہامات اس سفر میں تمہارا اور تمہارے رفیق کا کچھ نقصان ہوگا ۴۹۸ د، ر، ز،س ،ش دشمن کا بھی خوب وار نکلا تسپر بھی وہ وار پار نکلا دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری سب کام میں خود ہی کروں گا ٣٦٦ ۲۲۳ ۴۹۵ ۲۲۳ ۳۵۲ سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی (نواب بھوپال) ۱۹۴ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے ع، فم عبد الباسط اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا فتح کا نقارہ بجے ۳۶۷ ۴۹۷ ۲۲۳ آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں.۲۲۳ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ
سب سامان میں خود ہی کروں گا تمہیں کسی بات کی ہی ہل نٹس ان دی ضلع پشاور He halts in the zilla Peshawar.۲۲۵،۲۰۴ یو ہیوٹو گوامرتسر You have to go Amritsar.۲۲۵ یومسٹ ڈووھاٹ آئی ٹولڈیو You must do what I told you.۲۲۵ رؤيا وكشوف ۴۹۳ پنجاب میں آنا اس کے لئے مقدر نہیں مسجد مبارک کی دیوار پر نام لکھا ہوا پایا محمود ۱۶۸ کشف عبداللہ غزنوی ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس میری اولا داس سے محروم رہ گئی.۳۸۳ ۳۴۸ ۱۰۳ تکلیف نہیں ہوگی انگریزی الہامات آئی.ایم.کورلر آئی شیل ہیلپ یو ۲۲۵ I SHALL HELP YOU د و آل مسن هند بی انگری بٹ گا ڈاز ودیو Though all man should be angry but God is with you.۲۲۵ ور ڈس آف گاڈکین ناٹ ایکس چینج words of God can not exchange.۲۲۵ He shall help you ۲۲۵ ہی شل ہیلپ یو
ا، ب، پ، ت،ٹ ، ث ابراہیم علیہ السلام حضرت ابراہیم (لخت جگر رسول اللہ ) ابراہیم علی خان مالیر کوٹلہ ، نواب ابن عمران ( موسیٰ علیہ السلام ) ۳۶۰،۳۵۰ ۵۷۱،۵۳۶ ۱۹۹ ۵۶۸،۴۵۹،۴۴۸ ، ۴۴۷ ، ۳۴۰ ،۳۲۵،۲۶۶۰۲۲۷ ۵۶۳ ۳۰۰،۲۴۹،۱۲ ابوالعطاء، مولوی ابوبکر صدیق ،حضرت ۲۹۲ ابو جہل رض ابو هريرة احمد بیگ مرزا ( ہوشیار پوری) ۴۳۸ ۵۶۳۵۶۲،۵۶۰،۵۵۳،۵۵۰،۵۴۸ ،۴۹۲ احمد جان منشی ، صوفی ۳۷۹،۳۷۸،۱۴۵، ۱۴۴ ، ۱۴۲ ، ۱۲۸،۱۲۱ احمد حسین ڈپٹی انسپکٹر پولیس، با بو احمد خان سید سر ۴۹۳،۴۶۱،۴۶۰،۱۲۱،۷ احمد علی مولوی احمد مجددالف ثانی ارباب محمد لشکر خان، حاجی ارجن ۲۷۲،۲۲۹ ۱۰۴ ۴۲۹ اسماء ارسطو ۴۸۱،۸۵ ۵۱۹ ۲۱۳،۱۰۵،۵۲ ۵۰۷ ۱۴۴ اسماعیل آدم ،سیٹھ اسماعیل بیگ، مرزا اشہد الدین جھنڈے والے پیر سید اصغری بیگم ( صاحبزادی صوفی احمد جان ) اعظم بیگ رئیس لاہور ، مرزا اعظم یار جنگ ،نواب افتخار احمد صاحبزاده، پیر افلاطون اقبال الدولہ حیدر آباد، نواب اقلیدس اکبر بیگ، مرزا ۵۴۹،۲۱۲،۲۱۱ ،۹۸ ،۹۷ ۳۵ ۲۹۵،۲۴۶،۱۴۴ ۸۵ ۷۳،۶۸ ۴۳۴ ۵۴۹ الہی بخش اکو نٹٹ بابو منشی ۴۰۲۰۲۰ ۵۶۲٬۴۹۲۴۱۴۰ الہی بخش وکیل، مولوی الہ دیا جلد ساز ، شیخ الیگزینڈررسل ویب، ۳۱۰،۲۵۱ ۵۲۳،۵۲۲،۵۰۹،۵۰۸،۵۰۶،۵۰۵،۵۰۴ امام الدین کشمیری ، نواب ۴۵۲،۴۵۱ امام الدین ، مرزا ( حضرت مسیح موعود کا چازاد ) ۱۸۵ ۵۶۳۵۶۰،۵۵۰،۵۴۹ ، ۴۴۴ ، ،۴۴۰ ، ۲۰۷ ،۱۸۷ امام الدین ، مولوی آف کریم پور
۴۳۶ ۸۸ ۴۴۴ ۴۶۱ ۴۹۹ ۴۳۰،۴۲۹ لا ۴۹۹،۴۴۴،۴۲۶ ۸۵ ㅎㅎ ۱۹۲ ۴۴ ۲۲۴ ۲۸۶ ۲۲۴ ۴۲۹ ۴۲۶ ۵۱۹ ۴۲۶ امام الدین منشی امام بی بی (احمد بیگ کی ہمشیرہ) امان اللہ ، مرزا امداد علی، میر ۱۰۳،۵۹،۵۱ ۵۵۳،۴۹۸ ۴۱۵ ۱۵۹ بنگالی بابو بواداس، برہمن کالیہ بھارامل، پنڈت بہانودث امیرحسین قاضی ، سید و بھگت رام امیرالدین منشی امیر علی ، ڈپٹی امین الدین خان، نواب امین چند اندر من مراد آبادی منشی ۴۱۵ ۱۵۲ ۳۶۴ بھیم راجہ بھیم سین وکیل ، لاله بیج ناتھ پنڈت ۲۱۰ بیکن بیگم صاحبہ والیہ ریاست بھوپال ۱۸۲،۱۸۱، ۴۰۹ تا ۴۱۲ ، ۴۱۵، ۴۵۵،۴۳۶،۴۲۱،۴۱۶، پر کاش بر ہمومصنف سوانح عمری محمد صاحب ۴۸۶،۴۸۳،۴۷۵ ، ۴۷۰ ، ۴۶۰ با دانرائن سنگھ وکیل امرتسر بدھ، مہاتما بخشی منصور جنگ، میر برہان الدین جہلمی ،مولوی بر ہما بشارت احمد ، ڈاکٹر بشمبر داس ( رئیس بٹالہ ) بشن داس برهمن بشن داس ولد ہیرانند پریشن ۱۳۸ تا ۱۶ پطرس (حواری مسیح علیہ السلام ) ۴۲۸ ۳۶۲ ۵۶۲،۳۶۱ ۴۲۹ ۴۳۹،۴۳۸،۳۷۱ ۵۴۵ ۴۴۴،۴۲۶،۴۲۰ ۴۲۶ پلاطوس پابنی پہارامل، پنڈت پیر جھنڈے والا ( رشیدالدین) تارا چند کھتری منشی تفضل حسین تحصیلدار، سید ٹامس ہاول، پادری ۳۸۷ ،۳۲۴ ३ ۴۴ ۳۱۴ بشیر اول ( پسر مسیح موعود ) ۳۰۴،۱۶۶، ۴۹۶،۴۵۷، ٹھا کر داس، پادری ۵۷۷،۵۷۲،۵۶۸،۵۶۴،۵۳۸،۵۳۵،۵۳۱،۵۲۷ ثناء اللہ امرتسری ، مولوی محمود ( قوم) ،۱۳۶،۳۴،۳۰ بشیر احمد ایم اے، حضرت مرزا ۵۳۴،۳۵۷ ،۳۱۵،۳۰۲،۲۶۳٬۱۵۲
۲۱۲ ۹۵ د، ذ، ر، ز خوشحال رائے ، پنڈت خیر الدین امرتسری دانیال نبی حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت ۵۵۷،۵۵۶،۴۵۹،۳۹۲، دلیپ سنگھ، مہاراجہ ۵۷۴ ۴۹۴،۴۹۳،۴۸۳،۴۶۰ ،۹۰،۴۰،۳۷،۱۸،۱۴۱۰ ،۷ ۴۰۹ ،۲۷۶،۱۹۹،۱۷۵۰۱۷ ۲۰۱۶۹ ۱۰۵ ۵۱۱ ۴۲۹،۴۲۸ ۴۲۷ ۵۰۱ دیانند جی، پنڈت جالینوس ج، چ، ح، خ، ۴۸۱ جان محمد ، میاں (خادم مسیح موعود ) ۱۵۱،۱۰۵،۸۷ جگن ناتھ وکیل ہوشیار پوری، لالہ جنمی جی ،میاں ۳۵۹،۳۴۴،۱۶۰ ۴۶۶،۴۱۰ ۴۶۴ جیون داس سیکرٹری منشی ، لاله ۹۱، ۴۶۹،۱۷۵،۱۶۹، ۴۹۰،۴۸۶ ،۴۷۶ جی ایل ٹھاکر داس ، پادری ۱۰۹ ،۸۶ دین محمد ، مرزا ( خادم مسیح موعود ) چراغ علی خان، مولوی ، مدار المهام دولت آصفیه حیدر آباد | زور و آستر (ZOROASTER) ۴۶۸ ،۴۶۶،۴۶۴ رام چندر، راجہ رام چند، ماسٹر رام سنگھ رام بچمن ، لاله رجب دین، خلیفه رجب علی مہتم سفیر ہند پریس ، پادری رحمت اللہ ، شیخ ( تاجر لا ہور ) ۴۱۵ ،۵۰،۴۹ ۵۲ تا ۱۶۹،۱۰۳،۵۷ ۵۲۱ رحیم بخش ، شیخ ( والد محمد حسین بٹالوی) ۵۳۷ ،۱۱۱ رستم علی خان، چودھری ،۳۰۰،۲۵۰،۲۴۹ ،۷۷ ۵۳۱،۵۲۹،۵۲۶،۴۹۹ ،۴۹۶،۳۰۶،۳۰۳ رشیدالدین خلیفہ ، ڈاکٹر ۴۴۵ رعدا ۴۲۶ رو در سین ، راجه ۴۶۴ ۴۴،۳۹،۳۸،۳۵ ،۲۵ ،۱۹ ۴۶۱ چند ولال حامد علی حافظ ، شیخ ۳۴۴،۳۲۴،۱۹۲،۱۵۱،۱۴۳،۱۰۵، ۴۹۸ ،۴۵۲،۴۴۸ ،۳۸۶،۳۷۸ ،۳۷۵،۳۵۹ ۲۶۹،۲۶۸،۲۳۰،۲۲۹ ۲۵۷ ۵۰۴ ۴۴۰ ۱۸۶ ۳۴۵ ۴۶۱ ۳۹۹ ۲۹۱ حبیب الرحمن به منشی حسن سیٹھ ، حضرت حسن علی ، مولوی حسیناں ، ملا حسین، امام حمیدالدین،خلیفہ(صدرانجمن حمایت اسلام) خدا بخش، مرزا خضر علیہ السلام خواجہ علی ، قاضی ۱۶۰،۱۵۲
۱۲ ریاض الدین ، شیخ زردشت سٹانٹن ، ڈاکٹر س ش ص ، ظ ۴۵۲ ۵۳۸ شتر وگہن ،میاں ۴۶۶،۴۶۴ شرمیت رائے ، لالہ ۱۰۶،۹۳،۷۶،۶۰، ۱۸۶،۱۷۷، ۴۷۲،۴۲۶،۳۴۸ ،۳۴۳،۲۱۰ شمس الدین ، میاں (فاضل فارسی) ۵۵،۴۹،۴۸، سراج الحق نعمانی ، حضرت پیر ۱۱۳ تا ۳۰۲،۱۱۵ شنکر داس، پنڈت سرور خان ، ارباب سعید الدین احمد خان، مرزا ۱۰۴ ۲۶ ۴۷۲،۴۰۱ ۱۰۲ شونرائن اگنی ہوتری ، پنڈت ۱۷۵،۱۹۹،۱۴۱۹۳، سلطان احمد ، مرزا ( پسر مسیح موعود ) ۱۰۲، ۲۱۱،۱۸۷، شہاب خان ( والد چودھری رستم علی ) ۵۵۰،۴۵۲،۳۹۸ ،۳۹۶،۳۷۹،۳۵۲،۳۴۲،۲۱۳ شہاب الدین دفعدار، میاں ٣٠٣ ۴۶۶ ۳۴۶،۳۴۵ ۱۱۵ ۵۲۱ شہر بانو شیر علی ، حضرت مولانا صابر علی شاہ ،سید صالح محمد ، سیٹھ ۴۷۲ ۲۶،۲۵ ۵۵۷،۵۵۶ ۲۶۴ سلطانی کشمیری ، حافظ سلطان الدولہ بہادر، نواب سلیمان علیہ السلام، حضرت سلیمان پٹیالوی، قاضی سنت رام سوفٹ ، مسٹر، پادری سیتا رام مهاجن، لاله سیتا نند اگنی ہوتری ، پنڈت سیف الرحمن ، میاں سیولوف روسی جنرل میجر ۴۲۶ ۴۲۷ ۴۶۶ ۱۲۵ ،۹۲،۸۶ ۳۱۰،۲۵۰ شام لال، پنڈت عالم فارسی و ناگری ۸۷، ۸۸، ۲۱۸ شاہ جہان بیگم،نواب بھوپال شاہ دین ،رئیس لدہانہ شترنجی ،میاں صدیق حسن خان نواب بھوپال ۷۰ تا ۷۳ ۱۹۰ تا ۱۹۴ ظفر احمد منشی ۲۳۰، ۲۳۶،۲۳۵، ۲۷۴،۲۶۹، ۲۷۵ ظفر خان روشن الدوله، نواب ع ، غ ۳۶۳ عباس علی لدھیانوی، میر ۶۴،۶۲ ،۸۹،۷۷،۷۶، ۱۲۷ تا ۱۲۹ ، ۱۳۷ ، ۱۴۰، ۱۴۵ ، ۱۵۳۱۵۲،۱۵۰،۱۴۹ ۱۵۸،۱۵۵ تا ۱۶۴،۱۶۰، ۱۷۱ ، ۷ ۱۹۰،۱۷، ۱۹۵، ،۲۳۸ ،۲۲۹،۲۲۶ ۲۲۴ ۲۲۰ ،۲۱۶،۲۱۵ ،۲۰۵ ،۲۰۰ ،۲۵۲،۲۵۱،۲۴۸ ،۲۴۷ ، ۲۴۴ ، ۲۴۳ ، ۲۴۱ ،۲۳۹ ،۳۱۰،۳۰۰،۲۹۸ ،۲۹۳،۲۸۷ ،۲۸۲،۲۷۸ ،۲۶۹ ۷۳،۲۵ ۱۹۱ ۴۶۶،۴۶۴ ۴۸۵ ، ۴۸۰ ، ۴۲۱
۱۴۳،۳۱ ۵۱۹ ۳۹۹ ۳۳۴ عبدالکریم سیالکوٹی ،مولوی عبد اللطیف (خلیفہ پیر جھنڈے والے) عبد اللطیف ، صاحبزاده عبدالمجید،شہزادہ عزیز احمد ، میرزا عصمت ،صاحبزادی بنت ( مسیح موعود ) ۲۱۱، ۴۷۷ ، ۴۹۵،۴۷۹ ،۴۷ ۷۴ عطر سنگھ رئیس اعظم لودھیانہ، سردار علاء الدین خان والی ریاست لوہارو نواب ۳۶۴ علی محمد خان نواب لدھیانہ ۲۶ علی محمد خان رئیس جھجر ، نواب ۱۶۰،۱۵۲،۱۲۸، ۳۹۸ ۳۱۳۱۷۲،۱۶۰،۱۵۲،۱۲۸ ۵۴۹ ،۴۷۶،۲۷۶،۲۳۷ ۵۳۸،۴۸۶ ۷۵ ۴۳۸،۲۸۵،۷۳ ۲۲۴ ۳۱۳،۲۹۳،۱۵۹،۱۵۱ ۵۲۸،۴۵۷ ،۱۸۰،۲۳،۱۱،۹،۶ ۴۹۹،۳۹۲،۳۵۰،۲۸۶ ۳۱۳ علی خواجہ، قاضی عمر النساء (اہلیہ احمد بیگ) عمادالدین پانی پتی ، پادری عمر دین منشی عمر فاروق اعظم ، حضرت عمر ہرا طوس عنایت علی ، میر عنموائیل عیسی علیہ السلام، مسیح ناصری غلام احمد ، شیخ (سابق ہیرالال) ۱۳ ۳۱۰،۲۵۱ ۴۱۴ ،۳۸،۳۶،۳۵ ۴۲ ۴۱ ۴۰ ۵۲۲،۳۲۶ ٣٠٢ ۵۷ ۵۲۱،۴۴۵ عبدالباقی،حافظ عبد الحق منشی عبدالحق بی.اے علیگ ،مولوی عبدالحکیم، ڈاکٹر عبد الحکیم کلانوری عبدالرحمن امرتسری، حافظ عبدالرحمن مدراسی ،سیٹھ عبد اللہ آھم ، پادری عبداللہ حکیم، میاں ۴۶۶ ،۳۱۹،۳۱۴،۱۲۰،۱۱۷ ،۲۰ عبد اللہ سنوری ، مولوی ۵۳۴،۴۵۲،۴۴۸ ، ۴۴۱ ،۴۱۵ ، ۴۰۰ ، ۳۸۵،۳۲۳ ۵۱۹،۵۰۷،۵۰۶ ۴۱۴ ،۱۱۶،۱۱۵ عبداللہ عرب میمن ، حاجی عبداللہ غزنوی ، مولوی ان کا حضرت مسیح موعود کے متعلق کشف عبد اللہ بی ایس سی ، مولوی ۳۸۳ عبداللہ لدھیانوی ، مولوی ۲۵۹ ۳۱۰،۲۵۱،۱۵۴ عبدالعزیز لدھیانوی، مولوی ،۱۵۷ ،۱۵۴،۸۴ ۳۱۰،۲۹۷،۲۵۱ عبدالغفار ( غفارا) میاں جان محمد کا بھائی عبدالغنی، ڈاکٹر عبد القادر ، مولوی ۱۶۱ ۳۹۹ ،۱۵۲،۱۵۰،۱۴۹،۱۴۵ ،۸۴ ۱۶۰،۱۵۷ ۲۱۱ عبد القادر (صاحبزادہ مرزا غلام قادر )
۱۴ غلام احمد ، مرزا ( حضرت مسیح موعود ) ۳، ۱۰۷، ۱۵، غلام محمد خان سردار ، رئیس واہ ،۸۱،۷۴،۶۹،۶۲،۵۸،۵۶،۴۹ ،۴۸ ، ۴۱،۳۵ ،۲۷ ،۲۳ ،۱۴۵،۱۴۰،۱۳۳، ۱۲۸ ،۱۲۲،۱۱۸ ،۱۱۴ ، ۱۰۸ ، ۱۰۳ ،۹۶ ،۲۱۵،۲۱۱،۲۰۶،۱۹۲،۱۸۹ ، ۱۸۰،۱۶۷ ،۱۶۳، ۱۵۰ ،۲۶۳،۲۵۱،۲۴۸ ،۲۴۵ ،۲۴۱،۲۳۸ ،۲۳۳، ۲۳۰ ،۳۰۹،۳۰۳،۲۹۸ ،۲۹۵ ،۲۹۱،۲۷۶۲۷ ۲۶۶ ،۳۵۰،۳۳۹،۳۳۴،۳۲۶،۳۲۱،۳۱۸،۳۱۵،۳۱۲ ،۳۹۱،۳۸۹،۳۸۲،۳۷۵ ،۳۷۱،۳۶۵،۳۶۲،۳۵۶ ،۴۵۹،۴۵۰ ، ۴۴ ۴ ۴۳۵ ، ۴۲۲۰ ۴۱۵ ، ۴۰۰،۳۹۶ ،۵۱۹،۵۰۸،۵۰۴ ،۴۹ ۷ ، ۴۸۲ ،۴۷۷ ، ۴۷۵ ،۴۶۳ ،۵۵۴،۵۵۰،۵۴۴،۵۴۱ ، ۵۳۵ ،۵۲۹،۵۲۳ غلام مرتضی ، مرزا ( والد ماجد حضرت مسیح موعود ) ۲۶ ۲۷۸،۲۷۳،۲۱۳،۲۰۸ ،۲۰۶ ،۱۰۲،۹۵ ،۴۶ غلام محمد کا تب امرتسری ، مولوی ۵۲۵۱ غلام محی الدین ، مرزا ( حضرت مسیح موعود کے چچا جان ) غلام محی الدین ہیڈ ماسٹر ،مولوی ،سید غلام نبی تاجر کتب ،مولوی ف ق ک گ فاطمہ بیگم (خادمہ) ۵۴۹،۱۶۳،۱۰۷ ۳۰۱ ۶۱۶۰ ۳۸۲ ۳۵۹ ۴۶۶ ۴۲۶ فاطمہ ، حضرت فتح الدین مدرس ، مولوی فتح چند فتح محمد خان فتح مسیح، پادری فرزند حسین ، میر فرعون ،۴۵۰،۴۴۹ ،۴۴۸ ،۳۸۶،۳۲۴ ۴۵۲،۴۵۱ ،۵۴۲،۵۴۱،۵۴۰،۵۳۹،۵۳۸ ۵۴۶،۵۴۵ ۳۱۰،۲۵۱ ۵۸۳،۵۵۱ ۲۰۰ ۳۵۲،۳۴۲ ۵۶۳ ۳۶۳ ۵۸۶،۵۶۴ غلام حسین ، مرزا ( حضرت مسیح موعود کا چازاد) ۵۵۳ غلام حیدر غلام رسول، مولوی غلام اللہ قصوری ،مولوی غلام اللہ، مرزا ( خادم مسیح موعود ) غلام علی قصوری ،مولوی ۵۵۳ ۴۶۶ ۷۹ ۱۰۵ ۴۷۲ غلام علی، مرزا غلام قادر، مرزا ( برادر سیح موعود ) ۴۶، ۹۹٬۹۷، فضل رسول منشی فضل احمد ، مرزا فضل الدین پلیڈر ، مولوی فیض محمد خان، میرزا ۵۴۹،۲۱۳،۲۰۸ ،۲۰۷ ،۲۰۶ ۲۵ ۲۶ غلام قادر خان وزیر نالہ گڑھ پنجاب غلام محبوب سبحانی، نواب لاہور
مبارک احمد مرزا، صاحبزادہ حضرت مسیح موعود ۴۴۵ مبار که بیگم ، نواب ۳۸۱ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ۱۳۱۱۶، ۱۶، ،۲۳۷ ،۱۹۹،۱۲۲،۱۱۴،۱۱۰،۴۰،۳۷ ،۲۴،۲۳،۱۸ ،۳۵۶،۳۲۷،۳۲۳،۳۱۸ ،۳۰۰،۲۸۷ ،۲۷۱ ،۲۴۹ ۱۵ ۵۴۷ ۳۸۸ ۴۱۰ ۴۲۹،۴۲۸ ،۳۵۰ ۳۴ } ،۴۵۹،۴۵۴،۴۳۹،۴۳۸ ،۴۳۳،۴۱۴ ،۴۰۷ ،۳۶۶ ۱۸۶،۸۷ ۹۲ ،۵۵۱،۵۲۱،۵۲۰، ۵۱۲،۵۰۵ ، ۴۹۰ ، ۴۷۵ ، ۴۷ ۴ ۵۴۹ ۵۸۴،۵۷۵،۵۷۱ محمد ، مولوی ( لدھیانوی) ۱۵۴، ۲۵۱،۲۴۷،۱۵۷، ۳۸۹،۳۱۰۲۹۸ ۳۱۳ ۴۹۹،۴۹۸ ۴۹۸،۳۷۳،۳۷۲ ۷۴ 1+9 ۵۴۵ ۷۵ ۵۵۳،۵۴۹ ۵۶۳،۵۴۸ ۴۷۳ ۴۱۵ ۳۱۰،۲۵۱ محمد ابراہیم علی خان ، نواب محمد الحق محمد اسمعیل سید، ڈاکٹر میر محمد افضل خان ، عہدہ دار محمد بخش حجام ، میاں محمد بخش ( مختار عدالت ) ، بابو محمد بہاءالدین مدارالمہام جونا گڑھ، شیخ محمد بیگ مرزا محمدی بیگم محمد کلرک نہر، با بو محمد چٹو ، بابا ۴۶۸،۴۶۷ ۴۶۶ ۷۳ ۴۶۶ ۵۱۱ ۵۴۵ ۲۱۰ ۴۷۶،۴۲۶ قدرت اللہ ، مولوی قطب الدین بدوملہی ،مولوی کالی چرن لالہ ،سیکرٹری کرشن جی مہاراج کرم علی کا تب منشی کشن سنگھ، بھائی ( کیسوں والے ) ۵۵۷ ۱۹۳ ،۱۷۸،۱۷۶،۸۸۰۸۶ کشیب چندرسین کمال الدین ، مرزا کنفیوشس کھڑک سنگھ، پنڈت گلاب سنگھ منشی گنج شکر، حضرت گنیش داس وکیل ، لاله گوتم بدھ گوردت سنگھ ، بابو لوم گوکل چند پیچھمن داس، لاله لوط علیہ السلام، حضرت لیپل گریفن ،سر لیکھرام پیشاوری، پنڈت ۱۸۵،۱۸۲،۱۸۰، ۱۸۷ تا ۴۰۹،۲۲۶،۲۰۴،۱۹۶،۱۸۹، محمد حسن اعوان ، میاں محمد حسن خان بہادر وزیر اعظم ریاست پٹیالہ ۱۰۰ ، ۷۳ ،۴۷ ،۱۹ ، ۴۷۶ ،۴۷۱،۴۶۷ ، ۴۶۱،۴۶۰ ، ۴۵۵ ، ۴۲۶،۴۲۱ ۵۶۵،۵۶۰،۵۲۴ ،۴۸۶۰ ۴۸ ۴ ،۴۸۱
محمد یوسف، حافظ (الحدیث) ۱۹۲۷۱ تا ۱۹۴ ، ۴۱۴ محمد یوسف سنوری ، مولوی (ماموں عبداللہ سنوری ) ۴۸۹،۱۱۸ 17 ،۷۰،۳۵،۲۰ محمد حسین بٹالوی ، مولوی ،۲۴۵،۱۵۶،۱۵۵،۱۴۱،۱۰۷ ، ۱۰۲،۱۰۰،۹۳۸۳٬۸۰ ،۳۶۱،۳۵۷،۳۲۶،۳۱۲،۳۰۰،۲۹۵ ،۲۸۶،۲۴۷ ۵۷۹،۵۳۷، ۴۴۹ ،۴۰۰،۳۹۹،۳۸۸ محمد حسین مراد آبادی، شیخ منشی ۵۱ تا ۳۹۰٬۵۹٬۵۳ محمد الدین ، چوہدری محمد دین، چوہدری ڈپٹی کمشنر جے پور محمد دین، نواب محمد رفیع ، صوفی محمد رمضان منشی محمد سزاوار خاں منشی (پوسٹ ماسٹر ) محمد شاہ ۴۰۱ ،۳۶۲،۳۴۹،۳۴۸ ،۳۴۱ ۳۸۰،۳۶۴ ،۱۴۱،۱۳۶،۳ محمود احمد عرفانی ، شیخ محموداحمد، مرزا (خلیفه امسیح الثانی) ۲۶۲ ،۳۹۷ ،۳۴۰،۳۱۹ ،۲۶۳، ۲۵۷ ، ۱۶۸ ،۱۶۶ ۱۳۳ ،۵۷۸،۵۷۱،۵۶۷ ، ۵۶۲،۵۱۹ ،۴۷۹ ،۴۷۱ ۲۵۷ ۵۸۹،۵۸۲ ۴۰۰ ۱۹۹ ۳۱۱،۲۵۲ محمود علی خان رئیس چھتاری ، نواب محی الدین ابن عربی مراد علی منشی ۴۸۲،۴۸۱ ۴۱۴ ۱۸۶ محمد شریف کلانوری، حکیم محمد صادق ، مفتی ۳۹۱،۳۸۷،۳۶۱۶۰ ۵۲۲،۳۰۲ مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر ۴۶۱ تا ۴۶۶،۴۶۳ تا ۴۶۹، محمد ظفر اللہ خان خواجہ سید ۳۶۲ مریم علیها السلام ۴۹۴،۴۸۹،۴۸۶، ۵۵۶،۴۳۰،۴۲۸،۳۹۲ محمد علاء الدین احمد خاں مرزا ، نواب لوہارو ۷۳،۱۹ مصطفی علی ، ڈاکٹر ۴۶۶ محمد عمر مستری ۴۰۰ معین الدین ، حافظ ۱۰۵ محمد علی ، صوفی ۴۰۰ مکرم الدولہ بہادر، نواب حیدرآباد ۲۵ محمد علی ، مولوی ۱۶۷ ملا وامل پنڈت، لالہ محمد علی مالیر کوٹلہ ، حضرت نواب محمد فرخ سیر غازی شہنشاہ ہند ۳۶۳ محمد فیروز الدین خان نواب بہاولپور ۲۶ محمد موسیٰ ، مولوی ۱۵۲ منظور احمد صاحبزاده، پیر مولا بخش منشی ،۸۹ ،۸۷ ،۶۰،۵۷ ،۳۷۸،۳۷۶،۳۷۵،۳۵۹،۳۴۳،۱۸۶،۱۷۷ ،۱۶۱ ۷۴ ،۴۷۲،۴۲۶ ۳۷۹،۳۷۸ ،۱۴۴ ،۳۴ ۴۷۳
۱۷ مولراج با بو موہن لال بہنوت، پنڈت ۴۶۴ ۱۸۷،۱۸۶ نرائن داس وکیل ،لاله نرائن سنگھ وکیل امرتسر، باوا ۲۷۶،۷۵،۸۴، ۴۶۸ موسیٰ علیہ السلام، حضرت ۱۱،۹، ۲۲۷، ۲۹۱،۲۶۶، نصرت جہاں بیگم (حضرت ام المومنین سیدہ) ۳۴۱، ۵۸۳،۵۶۸،۳۹۲،۳۸۸ ،۳۸۰،۳۵۰،۳۴۰،۳۲۵ ۳۴۵ تا ۳۴۷، ۳۵۴ تا ۳۶۶،۳۶۴،۳۶۳،۳۵۶، ۵۳۳،۳۷۷،٣٧٦ ۴۳۰،۴۲۹ مہادیو مہر علی رئیس اعظم ہوشیار پور، شیخ ۳۲۴، ۳۸۷، ۴۴۹، نصیر الدین نواب، شیخ مسیح ابن مریم ۴۹۵،۴۶۶ ،۴۵۹ ،۴۴۶،۴۳۶،۴۳۲۴۳۰،۴۰۷ ۵۷۴،۵۵۶،۵۱۱،۵۰۳،۴۷۴،۴۵۹ ۴۵۲ ۵۶۰،۵۵۹،۵۴۹ ،۴۴۴ نظام الدین ، مرزا نظیر الدولہ بہادر، نواب بھوپال نوراحمد امرتسری، حافظ ۲۵ ۳۴۳،۱۰۶،۸۱ میر درد، خواجه ۳۴۴ تا ۳۶۴،۳۶۲،۳۴۶، نوراحمد مالک مطبع ریاض هند، شیخ ۵۲٬۲۱ تا ۵۹،۵۷، ۳۷۷،۳۷۶،۳۷۲،۳۶۵ نورالدین، حضرت خلیفہ المسح الاول ۳۹۰ ،۷۷،۳۱،۳ ،۴۴۰،۴۳۹ ،۴۳۶،۳۶۱،۳۰۳،۲۶۴،۱۶۰،۱۴۳ ۴۹۶ تا ۵۳۳،۵۳۱،۵۲۵،۵۲۳،۴۹۸ نواب بیگ، مرزا ۴۷۲ نواب خان دوران خان پر دادا میر ناصر ) ۳۶۵ ۳۶۲ ۴۶۱ میری (اہلیہ رجب علی پادری) ن، و، ه ، ی نادرشاه ناصر علی ، مرزا ناصر نواب، حضرت میر ،۳۴۸،۳۱۲،۱۱۵ ۱۱۴ ۳۵۴ تا ۳۷۲،۳۶۵،۳۶۴،۳۶۲،۳۵۹ تا ۳۷۷، نہال چند بہار دواج، پنڈت ۵۳۷ ،۴۷۳ نبی بخش زمیندار بٹالہ، چوہدری ۵۳۸ تا ۵۴۰ نبی بخش ایگزیمز ریلوے ،میاں نجف علی مولوی نذیر حسین دہلوی ، مولوی ۴۸۲،۴۷۷ ۴۰۰،۳۹۹،۲۰ ۱۸۶ نبال چند، سینڈت ۴۲۶ والٹر ولی اللہ ، حاجی ۲۲۸ تا ۲۳۴،۲۳۰ تا ۲۳۶، ولی اللہ، مولوی ۲۷۵،۲۷۳،۲۶۸ وے
، ۱۰۹ ،۸۱،۷۴،۵۷ ،۹ یعقوب علی عرفانی ، شیخ ،۱۶۴،۱۶۲،۱۵۹،۱۵۱،۱۴۳، ۱۳۹، ۱۳۹،۱۳۴،۱۲۸ ،۲۶۳،۲۵۸،۲۵۲،۲۳۹ ،۲۱۶،۲۰۴،۱۹۳،۱۸۵،۱۶۵ ،۴۶۱،۴۲۶،۳۲۱،۳۱۹ ،۳۰۲،۲۹۴ ،۲۷۹،۲۶۵ ۵۸۹،۵۸۸،۵۶۳،۵۳۸،۵۲۸ ،۴۹۵ ۵۸۴،۵۸۳،۵۰۰،۲۸۶ یہودا اسکر یوطی وائٹ برینٹ ( مشنری انچارج) ہارون علیہ السلام، حضرت ہادی بیگ، مرزا ۱۸ ،۵۴۱،۵۳۸ ۵۴۳ ۵۴۵ تا ۵۴۷ ۵۸۳ ۳۶۲ ۱۰۰،۸۷ ،۴۷ ۴۲۶ ۴۶۶ ۵۵۷ ہدایت علی ڈپٹی ضلع ، حافظ ہر کرن پنڈت ہرکشن داس ، بابو یعقوب علیہ السلام، حضرت
Σ ۲۶ ۷۳،۷۰،۲۵ ۱۹ آ، ا، ب، پ، ت،ٹ مقامات بہاولپور بھوپال بھیرہ پٹیالہ (پنجاب) ۴۳۶ ،۳۱۲،۱۱۸ ، ۱۰۰،۴۷ ، ۲۶ ،۱۹ ۴۹۹،۴۹۸،۳۷۲ ۴۸۶،۲۹۳،۲۰۴ ،۱۹۰،۱۸۴،۱۸۳، ۱۰۰ ،۵۶،۵۳،۳۷،۲۷ ، ۲۴ ، ۱۹ ،۱۶ ،۱۳ پیشاور پنجاب ،۴۸۷ ، ۴۸۳،۴۴۴ ،۴۲۳،۴۰۸ ، ۴۰۳۳۶۲۱۸۱ ۵۶۱،۵۱۹،۵۰۸ ۵۰۷ ۲۶۸،۲۲۸ ۳۷۸ ۴۹۸،۱۰۵ ۴۴۹ پونہ (انڈیا) پھگواڑہ بطور تصہ غلام نبی ( گورداسپور ) 119.11A ۳۵ ۳۶۲ ،۷۹،۷۱،۶۰،۵۹،۵۷ ، ۵۲،۲۷ ، ۲۱ ،۱۳ آره (ہندوستان کا شہر) آگرہ اسلام پوره ( قادیان) امرتسر ،۲۴۷ ،۲۰۴،۱۸۳،۱۴۰،۱۱۸ ،۱۱۵،۱۰۴ ، ۱۰۲،۹۹۰۹۳ ،۴۸۶،۴۴۸،۳۸۹،۳۸۷ ، ۳۱۵،۳۱۲،۲۹۷ ،۲۵۳ ۵۶۵،۵۵۸،۵۵۴ امریکہ ۴۲۴، ۵۱۲،۵۱۱،۵۰۹،۵۰۷،۵۰۴،۴۴۶، ۵۱۹،۵۱۶ ۴۷۳،۳۱۲ ۴۰۳،۱۸۱ انبالہ انگلستان ایشیا ۴۴۶ ٹانڈہ (ضلع ہوشیار پور ) بٹالہ ۹۴،۶۰، ۱۰۷ ، ۱۱۱ ، ۲۳۸ ، ۲۷۷، ۳۴۴، ۳۷۷، ج ، ج ، د، ڈ، ر جالندھر ۳۰۹،۳۰۸،۳۰۳،۳۰۱،۲۵۰،۲۴۹ جده جلال پور جٹاں جموں ریاست ۴۰۰،۳۹۹ ۵۳۳،۵۳۱،۴۳۶،۱۶۰ جھنگ بخارا ۵۶۶،۵۴۷،۵۴۵،۵۴۱ ،۵۳۸ ، ۴۸۵ ، ۴۷۵ ، ۴۴۰ ۳۹۰،۵۳،۲۱ بدوملہی بمبئی بوٹر ( بر ) قادیان بہادر حسین ( بٹالہ سے تین کوس ) ۳۸۸ ۵۲۱،۵۰۷ ،۵۰۶ ،۴۱۱ ،۴۱۰ ، ۱۸۴،۱۴۳۴ ۹۴ ۳۴۴
۳۸۰ ۵۴۶ 197.1900122.M ولد ۴۹۳ ۳۸۷ ،۳۲۴ ۵۳۸ ع ، ف ق ک گ ل لدله له لدا لداله شاہ جہاں پور شمله ( کوه) صوابی (پشاور) ضلع بلند (شهر) عدن علی گڑھ ۱۹۹ ،۷۵ ۲۱۸،۲۱۷ ۱۳۳ ۲۶۸ ،۲۲۹ ،۷۴،۶۸ ،۵۷ ، ۴۱ ، ۲۵ ، ۱۹ ۵۰۸،۵۰۷ ۵۰۷ جونا گڑھ جہلم جے پور حاجی پور حیدرآباد دکن حیدرآباد (سندھ) دیلی ۱۶۱، ۲۴۷، ۳۵۴،۳۴۶،۳۴۳،۳۰۲،۲۹۸،۲۸۷ فتح گڑھ ۳۸۹،۳۸۸،۳۷۹،۳۷۶،۳۷۵،۳۷۲،۳۶۲،۳۵۸ ۳۸۸،۲۹۷ ،۲۴۷ ،۱۵۸،۱۵۷ دیوبند ڈیرہ غازی خان ۲۲۱ فریدکوٹ فلپائن ۲۱۲،۲۶ ،۸۷،۸۱،۵۸،۵۶،۵۲،۴۷ ، ۲۴ ،۱۳ فیروز پور قادیان ۱۷۴،۱۶۰،۱۴۷ ، ۱۴۶،۱۴۱ ، ۱۳۷ ، ۱۳۴،۱۲۵ ، ۱۱۴ ، ۱۰۱ ۲۹۶،۲۹۱،۲۸۹ ، ۲۷۷ ، ۲۴۴ ، ۲۳۸ ،۲۱۶،۱۹۶،۱۸۰ ۳۸۶،۳۷۷ ،۳۵۹، ۳۴۴،۳۳۴،۳۲۳،۳۲۰،۳۰۵ ۴۵۹ ،۴۵۱،۴۴۰ ، ۴۳۵ ، ۴۲۴ ،۴۲۱ ،۴۱۶ ،۴۰۸ ، ۴۰۱ ۵۲۷،۵۲۲،۵۱۹ ، ۵۰۸ ،۵۰۲،۴۸۳،۴۷۲،۴۶۷ 191 ۳۹۹ ٣٠٣ ۵۶۱،۵۴۹،۵۳۷ قنوج ( ہندوستان ) کابل کانگڑہ کپورتھلہ کٹک کدار ناتھ ۲۷۵،۲۷۳،۲۶۸،۲۳۶،۲۳۳،۲۲۸ ۵۰۷ ۴۳۰ راولپنڈی رنز چھتری (گورداسپور ) رسول پور متصل ٹانڈہ س ش ص ض سرا وہ (ضلع میرٹھ) سرساوہ (ضلع سہارنپور ) سکندر آباد سمرقند ۵۰۳،۱۰۰ لد لدها الدله ۲۷۵،۲۷۴،۲۳۶،۲۳۵ سوجان پور (ضلع گورداسپور ) سوکیت ریاست ( ہوشیار پور ) سہارن پور سیالکوٹ الله ۲۶۵،۲۵۹ له لدلد ،۳۲۳،۳۲۲ ۴۴۹،۳۸۶ ،۳۲۴ ۴۶۴ لدها الله ۳۳۴،۸۷
۵۲۱،۵۰۷ ۴۰۹،۱۸۲،۵۹،۵۶،۵۳ ۱۰۴ مدراس مدینہ شریف مراد آباد مردان ۱۶۰،۱۰۳۹۴ تا ۱۶۲ مسجد اقصیٰ ( قادیان) مسجد مبارک ۱۶۰،۱۱۹ تا ۴۴۰،۳۱۵،۲۰۲،۲۰۱،۱۶۸ مکه مکرمه ۵۰۶،۳۹۹ ملتان منیلا میرٹھ ۵۰۷،۵۰۵ ۲۷۴،۲۳۵ نابھہ نیپال نیوجرسی (امریکہ) ۴۲۱،۴۱۴۴۱۲۰۴۱۱ ۴۳۰،۴۲۹ ۵۲۲ واه ۲۶ ہالہ ( ضلع حیدرآباد) ہڈسن ( نیویارک) ۵۰۷ ۵۰۴ ہندوستان ،۳۶۲،۳۲۴،۱۸۱،۱۱۸،۶۷،۵۳،۱۵ ۵۵۱،۵۱۰،۵۰۷ ، ۵۰۴ ، ۴۸۸ ، ۴۴۹ ،۴۰۳،۳۸۶ ۱۰۴ ہوتی ہوشیار پور ۱۴۱، ۲۹۴،۲۴۵، ۳۸۶،۳۶۷، ۴۴۷، ،۴۶۶،۴۶۳،۴۶۱ ،۴۵۹،۴۵۷، ۴۵۳۴۵۰،۴۴۹ ۴۸۹ ،۴۸۴،۴۸۲،۴۷۱ یورپ ۴۴۶ ، ۴۸۰ ، ۵۱۶،۵۰۶،۵۰۴،۵۰۳،۴۸۸ ۲۱ ۵۸۹ ۴۵۱ ۵۰۷،۵۰۶ کراچی کلکتہ کنجراں گنگوہ گوالیار گوجرانوالہ ۴۹۸ ۳۸۸،۲۹۷،۱۵۷ ،۸۳ ۴۲۷ لد المها لداله لد7 گورداسپور ۱۳، ۲۴،۱۹،۱۶، ۲۷، ۴۷، ۱۴۴،۱۰۵، ،۴۰۵،۳۸۶،۳۳۴،۳۲۲،۳۰۵،۲۱۲،۲۰۶،۱۸۲،۱۹۷ ،۴۸۷ ،۴۸۳،۴۷۶۰ ۴۷۵ ، ۴۴۹ ،۴۴۴ ۴۳۵ ،۴۲۳ ۵۶۱،۵۵۳،۵۴۷ ، ۵۴۴ ، ۵۳۸ ،۵۱۹ ،۴۹۸ ل، م، ن، و، ه ، ی ،۱۳۸ ،۱۲۹،۱۲۷ ،۸۴،۸۰ ، ۷۴ ،۲۶ لدھیانہ ،۱۹۶،۱۹۱،۱۸۳،۱۷۷ ، ۱۶۰،۱۵۴ ، ۱۴۹ ،۱۴۵ ،۱۴۱ ،۲۹۹،۲۹۵،۲۹۱،۲۸۰،۲۶۷ ، ۲۵۰ ، ۲۴۸ ،۲۴۶ ،۳۸۷،۳۷۸،۳۶۷ ،۳۵۸،۳۲۴،۳۱۳،۳۰۹،۳۰۲ ۵۵۴،۴۹۸ ، ۴۶۴،۴۵ ۷ ، ۴۴۸ ،۳۹۱،۳۸۸ ،۳۶۲،۳۰۲،۱۷۵،۱۲۱،۱۰۰،۸۰ لاہور ، ۴۷۶ ،۴۶۱ ،۴۴۴ ۴ ۴۰ ، ۴۲۱ ، ۴۱۴ ، ۴۱۱ ،۳۹۹،۳۹۶ ۴۲۴ ۳۴۵ ۳۷۲،۳۱۴،۳۱۳،۱۹۹ ، ۱۰۰ ،۷۴ ٣٠٣ ۵۴۹،۵۲۲،۴۸۱ لنڈن لوہار وریاست مالیر کوٹلہ مدار موضع ( ضلع جالندھر )
" ۲۲ آ، ا، ب، پ،ت آریہ در پن شاہ جہان پور آسمانی فیصلہ آفتاب (اخبار پنجاب) آئینہ حق نما از یعقوب علی عرفانی آئینہ کمالات اسلام احمد یہ موومنٹ کتابیات ۴۱۱،۳۸۰ ۲۹۰ ۳۸۰ ۵۶۳ ،۴۴۰،۴۳۷ ، ۱۰۳ ۱۰۲ ۵۵۴،۵۵۲،۵۵۰،۴۵۳۰ ۴۴۶ ۱۳۶ ،۳۲۳،۳۰۶،۲۸۲،۲۷۶،۲۷۳،۲۶۶،۲۴۹ ،۲۴۳ ۴۸۳،۴۷۵،۴۴۷ ، ۳۹۰،۳۸۰،۳۴۳،۳۲۷ بخاری شریف برادر ہند (اخبار لاہور ) پرانوں ( ہندؤوں کی تاریخی کتب ) تبلیغ رسالت تذکره ٣٠٢ ۱۲۶،۹۴ ،۹۲،۵ ۳۷ ۲۷ ،۲۴ ۵۶۳۵۲۹،۵۲۸،۳۷۷ ،۳۵۱،۳۰۷ تریاق القلوب ۱۱۱،۱۰۷ ۳۶۱،۳۴۸،۳۴۳۱۶۸،۱۱۶ ۵۲۵،۵۲۴،۸۶ ۱۴۱ تکذیب براہین احمدیہ توریت توضیح مرام چ ، ج چشمه معرفت ३ حقیقة الوحی ، ۱۷۵،۱۲۷ ، ۱۱۱ ،۱۰۱ ،۹۶،۴۷ ۲۰۹،۲۰۷ تا ۲۹۶،۲۴۶،۲۱۱ ( حياة النبي ) حیات احمد ۲۶۴،۱۳۶،۱۳۵،۱۰۲۹۱، ۵۸۷ ۳۷۷،۳۵۵،۳۵۴ ۱۲۷ ،۱۲۳،۳۴ حیات ناصر د، ر، ز دھرم جیون (اخبار) ازالہ اوہام ۳۸۵،۳۰۹،۳۰۴،۲۹۰،۲۸۲،۲۵۰،۱۴۲ ،۸۰۷۶،۷۰،۳۵،۹،۵ ۳۸۸،۳۶۱،۱۰۷ ،۹۳٬۸۵،۸۲ ۴۸۶ اشاعۃ السنة (لاہور) اظہار عیسوی اعظم الكلام في ارتقاء الاسلام مولوی چراغ علی ) ۳۶،۳۵ ۴۴۲ ،۳۰۵،۳۰۱،۲۶۳۲۶۲،۳۱ ۵۳۵،۴۴۲،۳۰۶ ۵۷۵،۵۷۴،۱۰۸ ،۱۱ ،۲۷ ،۲۵،۲۲،۲۰،۱۶ ،۱۴،۸،۵ البدر اخبار الحکم (اخبار) انجیل براہین احمدیہ ،۵۶،۵۳،۵۰،۴۹ ،۴۵ ، ۴۲،۴۰،۳۸ ،۳۶،۳۲،۳۰ ،۱۲۷ ،۱۲۰،۱۱۱،۱۰۹ ، ۱۰۴ ۱۰۱ ،۹۸ ،۹۵،۹۲،۹۰۷۸ ،۶۱ ،۲۲۷ ،۲۲۲،۱۹۳ ۱۹۱،۱۸۰ ،۱۷۵، ۱۷۰ ، ۱۶۲،۱۵۶،۱۴۴
شحنه حق ۴۹۹،۳۶۴،۳۴۸ ۵۰۰ تا ۵۰۴، ۵۲۸ ۴۰۲ ۲۶۴ ۳۹۰۱۴۱ ۲۰۱ ۵۲۵ ۲۶۴ عصائے موسیٰ (از منشی الہی بخش) غایت المرام ( از قاضی سلیمان ) ف ق ک گ فتح اسلام فتوح الغیب فصل الخطاب ( از خلیفه اول) فوز الکبیر ( از ولی اللہ شاہ) ،۴۰،۳۷ ،۱۷ ،۱۵،۶ قرآن کریم ۵۵۱،۵۵۰،۳۲۷،۳۲۳،۱۲۲،۱۱۳، ۱۱۲،۹۵،۴۴ قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ (رساله) ۵۲۸،۵۲۴ کتاب البريه گلستان ۳۹۵،۲۷۹،۲۷۸،۲۳۸ ٨٨ م، ن، و،ی مجد داعظم ۳۷۱ مجموعہ اشتہارات جلد اول ۴۱،۲۴، ۳۶۶،۳۳۵، ،۴۸۷ ، ۴۸۳،۴۷۲،۴۶۱ ،۴۴۲ ۴۱۳ ،۴۰۵،۳۶۸ ۵۸۶،۵۶۱،۵۴۱،۵۳۶،۵۲۸ ۲۳ ۱۲۱ ۱۹۳ ۴۱۱ ۱۴۰ ۵۲۲ ۵۷۵،۵۷۴،۱۱ رفاہ لاہور پر چہ بر ہمو سماج ) رفیق ہند علی گڑھ (اخبار) روسائے پنجاب رشی کے پتر اور دگیا بین ریاض ہند ( اخبار.امرتسر ) ریویو آف ریلیجنز زبور س ،ش، ع، غ سبز اشتہار ستیارتھ پرکاش ۵۸۶،۵۶۴،۵۳۶ ۳۷ سراج منیر سرمه چشم آرید ۵۶۷،۵۲۷، ۴۵ ۴،۴۵۳ ،۴۶۸،۴۶۷ ،۴۶۰،۴۴۱،۳۰۶ ۵۰۰،۴۹۷ ، ۴۹۴،۴۸۶،۴۷۰ سفیر ہند امرتسر (اخبار) ۱۶۹،۸۴،۵۰،۱۱ ،۹،۵ ،۲۶۴،۱۵۱،۱۳۶،۳۰ سیرت المہدی جلد اول ،۳۵۹،۳۵۷ ،۳۲۲،۳۲۰،۳۱۹،۳۱۵ ،۳۱۴،۳۰۲ ۵۳۴،۴۵۲،۴۴۹ ،۳۷۶ ۳۵۸،۳۱۹ سیرت المہدی جلد دوم سیرت ام المومنین ( از محمود احمد عرفانی ) ۳۸۰،۳۶۴،۳۶۲،۳۴۹ ،۳۴۸،۳۴۱ ،۱۲۹،۱۲۲،۹۳،۶۳ مکتوبات احمد جلد اول ۲۴۴ ،۲۲۲۹ ،۲۲۲۲۲۰،۲۱۶،۲۰۵ ،۱۹۷ ، ۱۹۵،۱۸۴ ۳۱ ،۳۱۱،۳۰۰،۲۹۸،۲۹۰،۲۸۰،۲۶۹ ،۲۵۳ ۲۵۲،۲۴۵ ۴۴۱،۴۳۵ ، ۴۲۲،۴۱۳،۳۸۶ ۴۲۶ سیرت مسیح موعود ( یعقوب علی عرفانی ) سینٹ جوزف مسوری (اخبار) شبھ چنک (اخبار)
۲۴ مکتوبات احمد جلد دوم ۱۷۹،۱۷۳،۱۲۸،۹۱، ۴۳۷، نورافشاں (اخبار) ۱۱۳،۱۰۸،۸۵،۸۴،۳۴،۵، ۲۴۵، ،۵۴۷ ، ۵۴۵ ،۵۴۳،۵ ۴۰ ، ۴۸۱،۳۱۰،۲۹۴،۲۵۱ ۵۶۰،۵۵۸،۵۵۴ ۵۳۸،۵۲۸ نور القرآن ۵۳۲،۵۳۱،۵۳۰، ۵۲۷ ، ۵۲۴ ۴۹۹ ،۴۹۶ ۹۳،۲۱،۱۹،۱۴۹،۵ ۳۷ منشور محمدی بنگلور (اخبار) منوسمرت نزول اسی ۱۰۰ ، ۱۰۹ ، ۱۱۷، ۱۲۷، ۱۷۵، ۲۳۹، ۲۷۹، و ڈ یا پر کا شک ( با وانرائن سنگھ ) ۳۸۰،۲۷۶،۸۵،۸۴،۱۳ ۸۴،۵۳،۵۰ ۸۵،۳۷،۱۱ وکیل ( اخبار ہندوستان ) وید هدایت المسلمین ( از عمادالدین) ۴۹۹،۴۹۸،۴۹۳،۳۴۴ ،۳۳۶،۳۲،۳۱ ۳۳۹،۳۳۷ نصرة الحق ( براہین احمدیہ حصہ پنجم )