Hayat-e-Ahmad Volume 1

Hayat-e-Ahmad Volume 1

حیاتِ احمد (حیاتِ احمد۔ جلد اوّل)

حضرت مسیح موعود کی سوانح حیات۔ ولادت سے لے کر 1879ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

Book Content

Page 1

00000 حیات احمد جلد اوّل (ہرسہ حصص) مرتبه یعقوب علی عرفانی

Page 2

شائع کرد.نظارت اشاعت صد را مجمن احمد یہ پاکستان.ربوہ..صدرانجمن عدیل خرم صاحب مربی سلسله طالع..طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ.ضیاء الاسلام پریس ربوہ.چناب نگر

Page 3

حیات احمد نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی موعود علیہ الصلوۃ السلام کے سوانح اور عظیم الشان کارناموں کا تذکرہ آپ کے ایک صحابی حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی نے مرتب فرمایا تھا.جو حیات احمد کے نام سے شائع ہوا تھا.یہ چھ جلدوں مشتمل تھا.یہ کتاب ایک عرصہ سے نایاب رہی.خدا تعالیٰ کے فضل واحسان سے نظارت اشاعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر اس کتاب حیات احمد کو دوبارہ شائع کرنے کی توفیق میسر ہو رہی ہے.الحمد لله على ذالك اس اشاعت میں کتاب میں مذکور تمام حوالہ جات کو دوبارہ دیکھ کر تسلی کرلی ہے.اول ایڈیشن کے مطابق اس کی جلدوں اور حصوں کی تقسیم کو من و عن برقرار رکھا گیا ہے.البتہ صفحات کو مسلسل کر دیا گیا ہے.اس کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں محترم محمد یوسف شاہد مربی سلسلہ نظارت اشاعت نے بڑی محنت اور توجہ سے اس کام کو نبھایا.نیز اس کتاب کے سلسلہ میں خدمت کرنے والے دیگر کارکنان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں.جزا ہم اللہ احسن الجزاء حیات احمد جلد اوّل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ولادت سے لے کر 1879 ء تک کے واقعات درج ہیں.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو مامور زمانہ کی حیات و واقعات اور سیرت و سوانح کے مطالعہ و استفادہ کی توفیق بخشے.آمین اگست ۲۰۱۳ء خالد مسعود ناظر اشاعت

Page 4

صفحه ۴۰ २ ام ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۸ 3 ۴۹ ۵۱ ۵۲ // // ۵۳ مضامین حصّہ اوّل حضرت مسیح موعود کا خاندان انبیا ءاشراف ہوتے ہیں فہرست مضامین ( حیات احمد جلداول ہر سہ حصص) حضرت کے خاندان کا تذکرہ احادیث میں صفحہ ۹ 1.۱۲ مضامین حضرت مرزا گل محمد صاحب حضرت میر زاگل محمد کا عہد حکومت حضرت مرزا گل محمد صاحب ولی اور صاحب کرامات تھے خدائی وحی سے فارسی الاصل ہونے کی تائید ۱۴ حضرت میر زاگل محمد صاحب کی وفات اہل فارس بنی اسحاق ہیں حضرت مسیح موعود کا اپنا بیان فارسی الاصل 17 جناب مرزا عطا محمد صاحب جناب مرزا غلام مرتضی صاحب حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کی رؤیا حضرت میرزاغلام مرتضی بہ حیثیت طبیب کے دشمنوں کے ساتھ سلوک اولوالعزمی ۱۹ ۲۷ " ۳۰ ہونے پر فارسی الاصل خاندان میں فاطمی خون فاطمی اور فارسی خونوں کی آمیزش کا راز سرلیپل گریفن کی شہادت قوم برلاس حضرت مسیح موعود کے خاندان کے شاعرانہ مذاق متعلق ایک تاریخی بحث بر لاس قوم کی ایک خصوصیت مسیح موعود کے مورث اعلیٰ کی ہجرت ورود پنجاب اور قادیان کا بنیادی پتھر ۳۲ } ۳۴ ۳۵ حضرت میرزا غلام مرتضی صاحب کی وفادارانہ سپرٹ مفسد ۱۸۵۷۵ء میں خدمات ۳۶ نقل مراسله ولسن صاحب ۳۸ نقل مراسلہ رابرٹ کسٹ صاحب بہادر ورودِ پنجاب کا زمانہ

Page 5

مجھ 22 ZA ۷۹ ง ۸۰ : ۸۲ // ۸۴ // ۸۶ ۸۸ ۸۹ ۹۰ ۹۲ // ۹۳ // ۹۴ // مضامین صفحہ مضامین نقل مراسله فنانشنل کمشنر پنجاب ۵۷ حضرت مرزا صاحب توام پیدا ہوئے تھے ۵۸ حضرت مرزا صاحب کی پیدائش چھٹے ہزار اخلاقی جرات مہاراجہ شیر سنگھ کی علالت سال کے آخر میں ہوئی حکام سے ملاقاتیں اور بے تکلف باتیں ۵۹ حضرت مرزا صاحب کے بہن اور بھائی مرزا صاحب کی تعلیم خانہ داری کا بوجھ مرز اصاحب والد صاحب کے دنیوی کاروبار میں لگائے گئے مقدمات کے لئے سفر // ۶۰ ۶۱ // ایک حجام کی سپارش جرمانہ بلاطلب مسل معاف ہو گیا مرزا غلام قادر صاحب ایک بات میں بحال ہو گئے خودداری کا اظہار حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے قتل کا منصوبہ انبیاء کے لئے سفر ضروری ہے رعب وشوکت طبیعت میں مزاح تھا با وجود دنیا دار ہونے کے خدا پر بھروسہ اور امید وسیع تھی مرزا صاحب کا تکیہ کلام // فطرت محمدیہ کا عکس ۶۴ مقدمات میں تعلق باللہ مقدمات سے بالطبع نفرت تھی تلاش روزگار ملازمت حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب کی زندگی کا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مرحوم اور سیالکوٹ میں ان کا زمانہ قیام بتقریب آخری شاندار دینی کام حضرت مرزا صاحب کی وفات کی قبل از ملازمت وقت اطلاع ۶۷ انگریزی کی طرف توجہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود سیالکوٹ میں مذہبی مناظرے علیہ السلام کے حالات زندگی ۱۸۳۹ء سے پادری ٹیلر سے مباحثہ ۱۸۷۹ء تک کے واقعات یعنی چالیس سالہ پادری ٹیلر کے دل میں عظمت زندگی ( زمانہ براہین احمدیہ تک کے حالات ) ۷۵ سرسید کو پہلا خط حضرت مرزا صاحب کی پیدائش حکیم میر حسام الدین حیم میر حسام الدین صاحب سے تعارف

Page 6

مضامین صفحہ امتحان مختاری ۹۵ مدرسی سے نفرت انبیاء کو احتلام نہ ہونے کی حکمت سرسید کی تفسیر سے بیزاری مرزا صاحب کی عمر اس زمانہ میں ملازمت بھی ایک مکتب ہی تھا "1 ۹۶ مضامین حضرت اقدس کا ایک عجیب مکتوب جلوت پرخلوت کو پسند کروں گوشہ گزینی کی عادت کے نتائج کی اصلاح ۹۷ فرخ قادیانی کون تھا حضرت مسیح موعود کی پرانی دعا // "/ 1..حضرت مسیح موعود کے مجاہدات اور اثنائے صفحہ ± ۱۱۲ ۱۱۴ ۱۱۵ // ۱۱۸ ۱۲۱ // ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ لاي ۱۲۸ // ۱۲۹ مجاہدات میں تجلیات روزہ کا مجاہدہ اس روزہ کے مجاہدہ کے عجائبات // 1+1 حضرت مرزا صاحب کی دلچپسی تعبیر الرؤیا سے رویا قبول نبوت کے لئے فطری راہ نما ہے انبیاء کی وحی رویا صالحہ سے شروع ہوتی ہے حضرت مرزا صاحب کی رؤیا آپ کے والد ماجد کی رؤیا ۱۰۲ صحبت صادقین کا شوق ۱۰۴ عبداللہ غزنوی سے ملاقات زمینداری مقدمات کے دوران میں آپ کے عبداللہ غزنوی سے دعا اور اس کا جواب رویاء صالحہ ڈگری ہوگئی ہے ۱۰۵ میزان الحق نے خوب کام دیا // حضرت مولانا عبداللہ غزنوی کے مکاشفات و سیالکوٹ کے زمانہ میں بعض واقعات کی قبل از الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وقت اطلاع امتحان مختاری کی تیاری ۱۰۷ تائید میں ۱۰ حافظ محمد یوسف کی شہادت لالہ بھیم سین کی کامیابی کا نظارہ دکھایا گیا ! ۱۰۹ حافظ صاحب کے بھائی منشی محمد یعقوب کی راجہ تیجا سنگھ کی خبر وفات قبل از وقت مل گئی حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کی زندگی 11.شہادت کشفی حالت میں مولوی عبد اللہ صاحب سے کے حالات بعد وفات حضرت مرزا ملاقات میاں شرف الدین صاحب سم والے غلام مرتضی صاحب گوشہ گزینی کے لئے حضرت مرزا غلام مرتضی والد صاحب کی وفات کے بعد کے حالات کا صاحب کی خدمت میں نیاز نامہ خطرہ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تسلی اور

Page 7

صفحہ 177 // ۱۶۷ ۱۶۹ ۱۷۲ 수스 121 مضامین صفحہ کفالت کا مژدہ رانی اور درشنی آدمی مضامین ۱۳۱ واقعات کی شہادت مسیح موعود کی راستبازی پر ۱۳۴ پہلی نظیر مکالمات الہیہ کا فیضان ۱۳۵ دوسری نظیر لالہ ملا وامل اور شرمیت رائے ۱۳۹ تیسری نظیر لالہ ملا وامل تپ دق سے بچ گیا ۱۳۷ بعض واقعات کی مزید تشریح لالہ شرمیت پر اتمام حجت ۱۳۸ میں تو نوکر ہو گیا مسیح موعود کی سیرت کو سیرت محمدیہ صلی اللہ علیہ مطالعہ کتب وسلم کے معیار اور آئینہ سے دیکھو حضرت مسیح موعود کی مظہر و پاک زندگی ۱۴۲ قرآن مجید کے لئے غیرت قرآن فہمی کے لئے کیا راہ اختیار کرتے متحد یا نہ زندگی ہے اس پر خدا تعالیٰ کی شہادت ۱۴۴ | تائید اسلام کے لئے قلمی خدمت کا آغاز آقا اور غلام کے سوانح کے لئے خاص امتیاز ۱۴۶ آریہ سماج سے مباحثات کا سلسلہ شروع ہو گیا مخالفین کی شہادت آپ کی راستبازی اور پانچ سور و پیر کا انعامی اعلان تقوی وطہارت پر حصه دوم حکیم مظہر حسین سیالکوٹی کی شہادت ۱۷۳ ۱۷۵ // 122 ۱۴۹ ان انعامی مضامین کا اثر اور آریہ سماج میں کھلبلی ۱۷۸ لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور کا اعلان ۱۷۹ لالہ جیون داس کے متعلق کچھ ۱۵۸ سوامی دیانند کے نام کھلا خط بصورت اعلان آپ کے راستباز ہونے پر واقعاتی شہادت جناب پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کا فیصلہ حضرت خط بخدمت شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی "1 مسیح موعود اور سوامی دیانند صاحب کے مباحثہ پر حضرت مسیح موعود کی تحدی اپنی راستبازی کے اعلان متعلق مولوی محمد حسین کے الزام کا لا جواب جواب اپنی راستبازی کی تائید حدیث صحیح سے ۱۲۰ با وانرائن سنگھ صاحب سے مباحثہ ۱۶۲ انعامی اعلان با وا صاحب کے مقابلہ میں اعلان صادق اور کاذب کی شناخت کا معیار اور اس اشتہار مبلغ پانچ سور و پیه کے مقابلہ کی دعوت ۱۶۳ حضرت مسیح موعود کا پانصدی جواب الجواب ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ ۱۸۵ ۱۸۷ // ۱۸۹ ۱۹۲ ۱۹۴

Page 8

صفحہ ۲۲۷ ۲۳۰ // ۲۳۲ ۲۳۵ ۲۴۱ // ۲۴۲ ۲۴۵ ۲۴۶ ۲۴۸ ۲۴۹ ۲۵۱ ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۸۵ مضامین صفحه مضامین با وانرائن سنگھ اپنی پوزیشن نہیں سمجھتے ۱۹۴ لالہ ملا وامل صاحب سے ابتدائی ملاقات اور خدا اپنی نظیر کیوں پیدا نہیں کرتا ؟ ۱۹۵ تبلیغ اسلام کا پر جوش فطرتی جذبہ روح کہاں سے پیدا ہوئی ؟ بے تکلفی میں بے لطفی خدا جیسے نظیر پیدا نہیں کرتا روح پیدا نہیں کرتا الْبُغْضُ لِلهِ وَالْحُبُّ لِلهِ ۱۹۶ حضرت مسیح موعود کی کہی ہوئی کہانیاں اس کا جواب روحوں کے بے انتہا ہونے کی بحث ۱۹۷ لالہ ملا وامل کو سنائی ہوئی کہانی مثنوی رومی سے فارسی حکایت منشی گور دیال سے مباحثہ روحوں کے بے انت ہونے کی پہلی دلیل اور حضرت مسیح موعود کی کہی ہوئی دوا اور کہانیاں اس کا ابطال روحوں کے آنا دی نہ ہونے پر دوسری دلیل "/ گنجے اور اندھے کی کہانی ۲۰۸ ایک بزرگ اور چور کی کہانی روحوں کے تعداد معتین سے زائد نہ پیدا ہونے بچپن میں ہی نماز کی خواہش تھی اور دعاؤں پر ۲۰۹ فطرتی ایمان تھا! کھیل کود لالہ ملا وامل صاحب سے ناراضگی ۲۱۱ " کا ابطال روحوں کے انادی ہونے کی تیسری دلیل کا ابطال اس سوال پر نظر کہ خدا اب کیا کرتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی کے قیام سیالکوٹ کے مزید واقعات اور بر دنار متعلق کچھ تذکرہ ایام طالب علمی میں دستورالعمل ۲۱۲ اور معجز نما زندگی کے عجائبات ۲۱۳ بات میں بات شکار کا شوق نہ تھا مگر ایک پوڑی ضرور ماری تھی ۲۱۴ فطرت میں دوسروں کی ہمدردی کا جوش لالہ بھیم سین کو ایک تبلیغی خط اور مسئلہ ویدانت ۲۱۵ استغراقی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی والدہ مکرمہ ۲۱۶ و بت پرستی کی تردید سورہ فاتحہ سے اسیری سے دست بردار ہو گئے حضرت مسیح موعود بطور ایک کمیشن کے ۲۲۲ پنڈت سج رام صاحب سے مقابلہ اور خود داری ایک بدمعاش سادھو کو نکلوادیا سا یا قولنج زحیری اور اعجازی شفا ۲۲۱ ملازمت کو قید خانہ ہی سمجھتے تھے ۲۲۳ کا اظہار ۲۲۴ حضرت مسیح موعود کی انگریزی دانی

Page 9

مضامین صفحه انگریزی الہامات مضامین حصه سوم حضرت مسیح موعود انگریزی نہیں جانتے تھے // حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چالیس سالہ انگریزی نہ جاننے پر مولوی محمد حسین صاحب زندگی کے حالات زمانہ براہین احمدیہ تک“ کی شہادت ایک مردہ زندہ کر دیا تائید اسلام میں زندگی وقف ہوگئی ۲۷۸ | عهد تأهل ۲۸۸ خلوت میں جلوت ۲۸۹ مقدمات کی پیروی مباحثات میں رضاء الہی مقصود ہوتی تھی نہ دل به یار دست بکار سخن پروری آپ کے اخراجات ریاست کپورتھلہ کے سرشتہ تعلیم کی افسری سے تعلیم و تدریس صفحہ ۳۱۱ ۳۱۳ ۳۱۴ ۳۱۵ ۳۱۷ ۳۱۸ ۳۱۹ انکار کر دیا مقدمات کیلئے فیصلہ برحق کی دعا ۲۹۳ بھائی کشن سنگھ کے طبی سبق ۲۹۵ طب اکبر میں مالیخولیا کی بحث "/ بعض دوسرے مشاغل متعلق رفاہِ عام قانونی امتحان کی تیاری محض تقوی کی رعایت انعام الہی کیونکر ہوا سے چھوڑ دی حضرت میر ناصر نواب صاحب کی تشریف آوری ۲۹۷ مرزا امام الدین صاحب کی شہادت غفارے کا کٹورا گم ہو گیا کھانا بھی تنہا نہ کھاتے ارشاد الہی کی تکریم اور تحمیل فرشتہ نان دیتا ہے اسی کا مؤید ایک اور واقعہ ۳۲۱ ۳۲۲ ۳۲۴ ۲۹۹ مولوی اللہ دتا صاحب لودھی نکل سے مباحثہ ۳۲۷ // مکتوب در مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۳۰۰ تبلیغ اسلام کا جوش ۳۰۱ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب سے مباحثہ ٣٠٢ ڈاکٹر پادری وایٹ برینٹ کی شہادت ۳۲۸ ۳۳۹ ۳۴۲ ۳۴۵ میاں غفارا نمازی بن گیا ۳۰۳ لاله شرمیت رائے صاحب میدان مناظرہ جوتی گم ہوگئی استغراق الی اللہ کا ایک واقعہ ۳۰۴ میں آ کو دے ماموریت کی بشارت ۳۰۵ برہمو سماج سے مباحثہ کی ابتدا ایک برہمو کی قادیان میں آمد ایک سرکاری مقدمہ کی لپیٹ میں ۳۵۴ ۳۵۹ ۳۶۲

Page 10

صفحہ ۴۰۵ ۴۰۷ ۴۰۹ ۴۱۶ ۴۱۷ ۴۲۳ ۴۲۹ ۴۳۲ ۴۳۳ ۴۳۴ // ۴۳۵ // ۴۳۶ ۴۳۷ // ۴۳۸ مضامین صفحہ مضامین عہد عسرت میں استغناء کی شان نمایاں تھی ۳۶۵ فرخ در صحبت درویشاں سیالکوٹ کی زندگی کے متعلق کچھ اور ۳۷۰ طالبانِ حق کی خدمت کا جوش مرزا موحد سے ملاقات ۳۷۲ عیسائیوں کے فتنہ کا انسداد قیام سیالکوٹ کے زمانہ کے متعلق آپ کے قادیان میں بعض عیسائی مشنری ۳۷۳ کشن سنگھ کے خیالات بدل دیئے زہد وا تقاء کی شہادت پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے مباحثہ کے متفرق امور.سوانح کے حصص اور مآخذ ۳۷۵ قیام بٹالہ کے متعلق بعض باتیں متعلق کچھ اور تمہید جس میں پانسورو پی کا اشتہار بھی درج ہے ۳۷۶ پہلے بندوبست میں ایک دن کی نوکری اعلان متعلقہ مضمون ابطال تناسخ و مقابله ویدو صبح کا بھولا شام کو گھر آ گیا فرقان مع اشتہار پانسو ۵۰۰ روپیہ جو پہلے بھی میرزا اسماعیل بیگ کو خدمت کی سعادت بمباحثہ باوا صاحب مشتہر کیا گیا تھا ۳۷۹ کیونکر ملی قیام قادیان میں شعر گوئی قادیان میں مناظرات نعمۃ الباری یا آلاء اللہ کی تصنیف ۳۸۱ ان ایام میں حضرت کا کام ۳۸۶ حضرت مرزا اسماعیل کو بہلایا کرتے ۳۸۸ کھانے کے وقت کا معمول ۱۸۶۸ء سے ۱۸۷۵ء تک کی زندگی پر ایک نظر ۳۹۰ تہجد اور وضو کے وقت معمول ۱۸۷۶ء سے ۱۸۷۹ ء تک کے واقعات پر نظر ۳۹۱ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کا استفسار ۱۸۷۷ ء و ۱۸۷۸ء پرا جمالی نظر ۳۹۴ اپنے ہم نشینوں کو ہدایت یادداشت لکھنے کا طریق ۳۹۵ بچپن کے بعض واقعات یادداشت بسیار ضروری ۳۹۷ ننہال میں جانا اور وہاں کے مشاغل صحبت درویشاں کا شوق ۴۰۳

Page 11

حیات احمد جلد اوّل (حصّہ اوّل) مرتبه یعقوب علی عرفانی

Page 12

Page 13

حیات احمد جلد اول حصہ اول وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ( الہام مسیح موعود ) حیات احمد یعنی سیرت حضرت مسیح موعود (جلد اول) جس میں حجتہ اللہ علی الارض جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیه الصلوة والسلام و علی آلہ واصحابہ کے حالات زندگی زمانہء پیدائش سے لے کر زمانہ ء تالیف براہین احمدیہ تک درج ہیں جس کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک کمترین خادم خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم و مرتب تفسیر القرآن نے حضرت اولوالعزم صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد فضل عمر خلیفہ ء ثانی و خلف الرشید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد سعادت میں خلافت فضل عُمری کے دوسرے سال (ستمبر ۱۹۱۵ء) میں مرتب کرنا شروع کیا اور پہلی جلد ہندوستان سٹیم پریس لاہور میں باہتمام بابو پرتاب سنگھ بھائیہ مینجر کے چھپوا کر خدا کے فضل و رحم سے شائع کی.

Page 14

حیات احمد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ڈیڈیکیشن جلد اوّل حصہ اوّل نیاز مند ایڈیٹر سیرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دلی ارادت و اخلاص کے ساتھ اس مجموعہ کو اپنے محسن و مخدوم حضرت اولوالعزم مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ الاحد خلیفہ ثانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام نامی سے معنون کرنے کی عزت حاصل کرتا ہے.اس لحاظ سے کہ حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کے آپ حقیقی جانشین اور خلیفہ صادق ہیں جس کی بشارت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو آج سے ۲۷ سال پیشتر اپنی وحی والہام سے دی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے کاموں کے لحاظ سے آپ کا اولوالعزم نام رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فِيْكَ مَادَّةٌ فَارُ وقِيَّة کہہ کر اور آپ کا نام فضل عمر رکھ کر ان عظیم الشان کارناموں کی بشارت دی جو آپ کی ذات سے اسلام اور اہل اسلام کی ترقی اور بہبودی کے لئے ظاہر ہونے والے ہیں.اور اس حیثیت سے کہ آپ ہی نے سیرت مسیح موعود علیہ السلام کی تالیف واشاعت کی ضرورت کا سالانہ جلسہ پر اظہار فرمایا یہ مجموعہ حضور ہی کے نام سے منسوب ہونے کے قابل ہے.اور پھر اس لحاظ سے کہ حسن و احسان میں خدا تعالیٰ کے موافق آپ میرے آقا و مولیٰ اور محدوح و مرشد کے نظیر ہیں.میں آپ ہی کے نام نامی پر ہدیہ کرنا اپنی سعادت یقین کرتا ہوں.مجھے اپنی کمزوری کم علمی اور نا قابلیت کا دلی اعتراف مگر حضور کی کریمانہ تو جہات اور چشم پوشی میرے لئے مسرت افزا ہے.جو مجموعہ میں حضور کے نام نامی سے معنون کر رہا ہوں وہ اپنی ترتیب اور ادبی پہلو سے گو خصوصیت نہ رکھتا ہو اور اسقام رسمیہ سے مبرا نہ ہو مگر جس عظیم الشان شخصیت کے حالات کا امین ہونے کی عزت اسے حاصل ہے وہ كَمِثْلِكَ دُرِّ لَا يُضَاعُ کا مصداق ہے.اس لئے میں اپنی کمزوری کو مد نظر رکھ کر دعا کی درخواست کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں.ہدیہء ما تنگدستان را بچشم کم مبیں از مروت برسر خوان تهی سر پوش باش نیاز مندازلی خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم و مرتب تفسیر القرآن و سیرت مسیح موعود ۳۰ ستمبر ۱۹۱۵ء تراب منزل قادیان دارالامان

Page 15

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل عرض حال ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِهِ الْأَمِيْنِ مُحَمَّدٍ وَّآلِهِ وَاَصْحَابِهِ وَ خُلَفَائِهِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِتِيْنَ أما بعد میں نہایت مسرت اور فخر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کی جلد اوّل شائع کرنے کی سعادت حاصل کرنے کا اعلان کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود کی سیرت کی گونہ اشاعت کی اس سے پہلے بھی مجھے عزت حاصل ہے.کیونکہ اخبار الحکم کے ذریعہ حضرت حجتہ اللہ علی الارض کے ملفوظات اور الہامات و کشوف اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تمام ضروری حالات، میں ایسے وقت سے شائع کرنے کا موقع پا رہا ہوں جب سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے والوں کی تعداد چند سینکڑوں کے اندر محدود تھی اور ہر طرف سے مخالفت کی ڈرانے والی آواز میں اٹھ رہی تھیں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے کہ اس نے مجھ ایسے علمی اور عملی پہلو سے کمزور انسان کو یہ موقعہ دیا نگاه رحمت جاناں عنایت با بهمن کرد است وگرنه چوں منی کے یابد آن رشد و سعادت را حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد میں آپ کی لائف کا کام معا شروع کرنا چاہتا تھا.مگر كُلُّ أَمْرِ مَرُهُونَ بِأَوْقَاتِهَـا اس مقصد کے لئے مشیت ایزدی نے حضرت

Page 16

حیات احمد جلد اول حصہ اوّل اولوالعزم صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ الاحد خلیفہ ثانی کا عصر سعادت مقدر کر رکھا تھا.اس لئے میری کوشش اور ہمت متواتر ناکام رہی.حضرت صاحبزادہ صاحب کو آپ کی سیرت کی اشاعت کا شوق اور جوش بہت عرصہ سے تھا اور خاکسار کو متعدد مرتبہ اس کام کے شروع کرنے کے لئے فرمایا.مگر میں اپنی کم ہمتی اور کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہوں کہ اُس وقت مجھے یہ سعادت نہیں مل سکی.آخر ایک مرتبہ فرمایا کہ میں اب پھر نہیں کہوں گا.جس پر میں نے عرض کیا کہ میں انشاء اللہ اب لکھ کر ہی پیش کروں گا.اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کا فضل ہے کہ میں جزء 1 اس عہد سے سبکدوش ہونے کی سعادت پا رہا ہوں.اور اس فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ اور بھی توفیق رفیق راہ ہوگی.مجھ کو اس سیرت کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اور نہ مجھے اس کے ہر آئینہ مکمل ہونے کا ادعا ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس عظیم الشان کام کی ایک داغ بیل لگانے کی میں نے کوشش کی ہے.آنے والی نسلیں اس پر شاندار عمارتیں بنالیں گی.چونکہ سیرت ایک ضخیم کتاب ہے اس لئے میں نے آج کل کے مروجہ طریق کے موافق پسند کیا کہ اس کو اجزاء کی صورت میں شائع کر دیا جاوے تا کہ جس جس قدر حصہ تیار ہوتا جاوے ناظرین تک پہنچتا رہے.سیرت و سوانح احمدیہ کی تالیف و ترتیب کے مشکلات سے ہر شخص واقف نہیں ہوسکتا کہ اس کے لئے کتنی ورق گردانی اور مطالعہ کی ضرورت ہے ایسی حالت میں اگر میرے جیسا کمزور انسان جو یک سرو ہزارسودا کا واقعی مصداق ہو اس سلسلہ میں پورا کامیاب نہ ہو تو جتنا کچھ بھی کر سکے وہ غنیمت ہے میں اس سیرت کی اشاعت کے کام کو اپنے خیال اور مذاق کے موافق مرتب کرنے کے لئے شاید ابھی اور التوا میں ڈالتا اگر حضرت اولوالعزم کی توجہ غیر معمولی تصرف نہ فرماتی آپ کے حضور سیرت کی اشاعت کا سوال میری موجودگی میں مختلف رنگوں میں آتا.اور آپ کی خاموشی اندر ہی اندر مجھے بے حد نادم کر جاتی اور میں اپنے عہد کو یاد کر کے عرق خجالت میں ڈوب جاتا.ترتیب کے بعد اس کی طبع و نشر کا مرحلہ بھی میرے لئے کچھ کم دقت افزا نہ تھا.مگر اللہ تعالیٰ

Page 17

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل نے یہاں بھی میری دستگیری فرمائی.اور غیب سے ایسی راہ پیدا کر دی جو اس جلد کی طبع واشاعت کا ذریعہ ہو گئی.الحمد للہ.میرے وہم و خیال میں بھی یہ موقعہ نہ تھا.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو جنہوں نے ایسے سامان مہیا کئے.مجھے اس کی ترتیب کی توفیق کا ملنا اور سامان طبع کا انتظام ہو جانا میں ایسے علامات سمجھتا ہوں کہ جو اس کی قبولیت اور مفید و با برکت ہونے کی ٹھنڈی ہوائیں کہلا سکتی ہیں.یہ مجموعہ بہت بڑا ہو گا.اور متعد دحصص میں شائع ہوگا.( بفضلہ تعالی ) اس کی جلد اشاعت اور تحمیل کا کام اللہ تعالیٰ ہی کے فضل پر موقوف ہے.جہاں تک اسباب سے تعلق ہے.وہ احمدی قوم کی حوصلہ افزائی اور اعانت پر موقوف ہے.ایسے عظیم الشان کام قومی سر پرستی کو چاہتے ہیں اور قوم کا فرض ہے کہ وہ اس پر توجہ کرے.میں یہ جرات سے کہتا ہوں کہ یہ کتاب ہر احمدی کے ہاتھ میں ہونی چاہئے.اب رہا قیمت کا سوال یہاں تو ہر چہ بقامت کہتر بقیمت بہتر کا معاملہ ہے مگر میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے یہ سلسلہ ان لوگوں کے لئے شروع کیا ہے جن کی نظر پیسوں اور سکوں پر نہیں ہوتی اور جو کاغذ اور سیاہی مصالح کے اخراجات کا حساب کرنے نہیں بیٹھتے علاوہ بریں یہ دیکھا گیا ہے کہ چونکہ ابھی تک حضرت مسیح موعود کی قدر لوگوں نے شناخت نہیں کی اس لئے ایسی کتابیں بہت تھوڑی تعداد میں نکل کر رہ جاتی ہیں.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے میں جانتا ہوں کہ بعض اوقات قیمت کا مسئلہ بھی اشاعت میں روک کا موجب ہو جاتا ہے.لیکن اگر ہمارے احباب توجہ کریں تو غیر احمدیوں میں اشاعت کے لئے بیسیوں صورتیں نکل سکتی ہیں.بائیں میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر ڈیڑھ ہزار خریدار اس مجموعہ کے پیدا ہو گئے تو آئندہ اس سلسلہ میں رعایت کی مناسب گنجائش نکل آئے گی.میں یہ بھی ظاہر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ سیرت میں مناسب اور ضروری مقامات پر تصویریں بھی ہوں گی.جن کا میں انتظام کر رہا ہوں.اور جو حالات ذاتی طور پر کسی کو معلوم ہوں وہ لکھ کر میرے پاس بھیج دیں.اسی سلسلہ میں یہ بھی میں اعلان کرتا ہوں کہ سیرت کا یہ مستقل کام ہے اور بزرگانِ ملت اور سلسلہ کے دوسرے افراد کی

Page 18

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل زندگیوں کے حالات بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہیں گے.اس لئے ہر شخص اپنے حالات زندگی میرے پاس بھیج دے.بالآخر یہ کام نہایت عظیم الشان ہے میرے حوصلہ اور طاقت سے بالا تر ہے مگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور قدرت بے انتہا ہے وہ اُمیوں پر معرفت کے دروازے کھول دیتا ہے اور کمزورں اور ضعیفوں کو ہر قسم کی قوتیں عطا فرماتا ہے.میں نے اپنی کسی طاقت اور قابلیت کے بھروسہ پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہی فضل پر بھروسہ کر کے اس کو شروع کیا ہے اور اسی کے حضور دعا ہے.آغاز کردہ ام تو رسانی بہ انتہا“.دفتر سیرت مسیح موعود ۳۰ ستمبر ۱۹۱۵ء خاکسار نیاز مند از لی یعقوب علی تراب احمدی

Page 19

حیات احمد ۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت مسیح موعود کا خاندان جلد اوّل حصہ اوّل میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کے خاندان کے متعلق تفصیلی حالات یا بحث سے ضرور کنارہ کشی کرتا اگر اس کے محرک بعض اور اسباب نہ ہوتے جن کا ذکر میں ابھی کروں گا.کیونکہ میرے نزدیک اور شاید تعلیم یافتہ اور صحیح الدماغ طبقہ کے لوگوں کے نزدیک کسی شخص کا سب سے بڑا جو ہر اور خوبی یہ ہے کہ آپ کسی عالی خاندان کا بانی ہو.اور حضرت مرزا صاحب کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں بھی فرمایا - يَنْقَطِعُ آبَاتُكَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ بہر حال وہ بجائے خود ایک عظیم الشان خاندان اور نسل کے بانی ہونے والے تھے.اس لئے اگر ان کے خاندان اور نسب کا میں ذکر نہ کرتا اور اس کی تفصیل اور شرح میں نہ جاتا تو بھی کوئی حرج نہ تھا لیکن مجھے آپ کے خاندان کا ذکر کسی قدر وضاحت سے اس لئے کرنے کی ضرورت ہے کہ اول تو جس حیثیت اور شان سے آپ دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں یعنی بطور خدا کے ایک نبی اور برگزیدہ رسول کے اس حیثیت اور شان کے انسان کے لئے ذوالنسب ہونا ضروری ہے.ہمارے سید و مولى سيد ولد آدم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دربار ہر قل میں جو استفسارات ابوسفیان سے ہوئے ہیں.ان میں پہلا اور ضروری سوال یہی ہوا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا نسب کیا ہے.ابوسفیان نے جو آپ کا سخت منکر اور مخالف تھا جواب میں کہا.قوم کا بڑا شریف اور نجیب الطرفین ہے.ہرقل کے سوال کی جڑ یہی تھی کہ وہ جانتا تھا کہ انبیاء اشراف ہوتے ہیں.تذکره مطبوعه ۲۰۰۴ ء صفحه ۵۳

Page 20

حیات احمد جلد اول حصہ اوّل دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان اور قوم کے متعلق زیادہ تحقیقات اور تفصیل کی اس لئے ضرورت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح اور مہدی کی پیشگوئی جس رنگ میں کی ہے.اس میں اس کے بعض قومی اور خاندانی امتیازات کا ذکر کیا ہے.اس لئے اگر میں ایک صحیح اور معقول تحقیقات کی بناء پر ان خصوصیات قومی کا ذکر محض اس لحاظ سے نہ کروں کہ یہ شخص بجائے خود ایک عالی خاندان کا بانی ہوتا ہے.تو اس کے دعویٰ پر اس حیثیت سے روشنی نہیں پڑتی.سوم چونکہ اس کے وجود سے خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بعض پیشگوئیاں اس رنگ میں پوری ہوئی ہیں.اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے زبردست نشانوں کے اظہار کی نیت سے اور اس خوف سے کہ ان کے عدم تذکرہ سے ان آیات اللہ کا اخفا لازم آئے گا.میں اپنا فرض سمجھتا ہوں.کہ اس پر خوب بحث کروں.ان حالات میں میرے لئے ضروری ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے متعلق اس قدربسط سے لکھوں جس قدر مجھے واقعات اور شواہد مدد دے سکتے ہیں.انبیاء اشراف ہوتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے متعلق ہر قل کے سوالوں کی وجہ میں نے ظاہر کر دی ہے.بخاری میں یہ سوال جواب موجود ہیں اور یہ سوالات اور ان کے جوابات ہرایسے شخص کے لئے بطور معیار اور محک کے ہیں جو دنیا میں ایک مامور و مرسل کی حیثیت سے کھڑا ہو.خود حضرت مسیح موعود پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی اور کلام میں ظاہر فرمایا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَ النَّسَبَ.جس کے یہ معنے ہیں کہ تمام ستائشیں اسی خدا کے لئے ہیں جس نے تجھے ہر ایک پہلو اور ہر ایک طرف سے خاندانی نجابت کا شرف بخشا ہے.کیا تیرا آبائی خاندان اور کیا دامادی کے رشتہ کا خاندان دونوں برگزیدہ ہیں.اور ایک دوسری جگہ فرمایا.سُبْحَانَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى زَادَ مَجْدَكَ يَنْقَطِعُ ابَاءُ كَ وَيُبْدَءُ مِنكَ یعنی سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو نہایت تذکره مطبوعه ۲۰۰۴ء صفحه ۵۳

Page 21

حیات احمد 11 جلد اول حصہ اوّل برکت والا اور عالی ذات ہے.اس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا.اب سے تیرے باپ دادا کا ذکر منقطع ہوگا.اور ابتدا خاندان کا تجھ سے کیا جائے گا.گویا حضرت مسیح موعود کو خاندان کے لحاظ سے دونوں خوبیاں حاصل ہیں.اس لحاظ سے کہ وہ عظیم الشان انسان ہے جو بجائے خود ایک عالی خاندان کا بانی ہوا.اور جبکہ وہ خود بھی ایک عظیم الشان خاندان کا فرد ہو.تو یہ نُورٌ عَلَى نُور ہے.مامورین اور مرسلین کے لئے جو دنیا میں تبلیغ پیغام حق کے لئے منہاج نبوت پر آتے ہیں یہ لازمی امر ہے کہ ذوالنسب ہوں.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس پر مفصل بحث کی ہے اس لطیف بحث کو پڑھ کر ناظرین معلوم کر سکتے ہیں کہ مامور کے لئے ذوالنسب ہونا ضروری ہے.اور تکمیل تقوے کے دروازے کسی قوم اور جسم پر موقوف نہیں.اس لئے اب میں اس کے بعد حضرت مسیح موعود کے خاندان کے متعلق ایک ضروری تنقید اور تحقیق پیش کرتا ہوں.حاشیہ: - یہ الہام که اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَ النَّسَبَ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے تجھے ہر ایک پہلو اور ہر ایک طرف سے خاندانی نجابت کا شرف بخشا ہے.کیا تیرا آبائی خاندان اور کیا دامادی کے رشتہ کے خاندان دونوں برگزیدہ ہیں.یعنی جس جگہ تعلق دامادی کا ہوا ہے وہ بھی شریف خاندان سادات ہے اور تمہارا آبائی خاندان بھی جو بنی فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے مرکب ہے.خدا کے نزدیک شرف اور مرتبت رکھتا ہے.اس جگہ یاد رہے کہ اس الہام کے اندر جو میرے خاندان کی عظمت بیان کرتا ہے ایک عظیم الشان نکتہ مخفی ہے.اور وہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ اور رسول اور نبی جن پر خدا کا رحم اور فضل ہوتا ہے اور خدا ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے وہ دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) ایک وہ جو دوسروں کی اصلاح کے لئے مامور نہیں ہوتے.بلکہ ان کا کاروبار اپنے نفس تک ہی محدود ہوتا ہے.اور ان کا کلام صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر دم اپنے نفس کو ہی زہد اور تقوی اور اخلاص کا صیقل دیتے رہتے ہیں اور حتی الوسع خدا تعالے کی ادق.ادق رضا مندی کی راہوں پر چلتے اور اس کے بار یک وصایا کے پابند رہتے ہیں.اور ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے عالی خاندان اور عالی قوم میں سے ہوں جو علو نسب اور شرافت اور نجابت اور امارت اور ریاست کا خاندان ہو بلکہ حسب آیت کریمہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ الفُكُمْ (الـــحــجـــرات :١٣) صرف ان کی تقوی دیکھی جاتی ہے گو وہ دراصل چوہڑوں میں سے ہوں یا چماروں میں سے.

Page 22

حیات احمد ۱۲ جلد اوّل حصہ اوّل حضرت کے خاندان کا تذکرہ احادیث میں حضرت مسیح موعود یا مرزا غلام احمد صاحب کے خاندان کا تذکرہ یہی نہیں کہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے بلکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی زبان پر اور آپ کے محفوظ کلام میں آج تک موجود ہے اور اگر اس سے بھی اوپر جائیں تو کتب سابقہ میں بھی اس کے متعلق نشانات مل سکتے ہیں لیکن میں اس قدر پیچھے جانا نہیں چاہتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے ہی اس تاریخ کو شروع کرنا پسند کرتا ہوں.(۱).احادیث سے ثابت ہے.کہ جب آیات و يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ (السوية ٣٩) وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة ) نازل ہوئیں تو اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ وہ کون لوگ ہیں.جن کی اس قدر فضلیت اور بزرگی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں بیان کی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ وہ لوگ اس کی قوم میں سے ہوں گے چنانچہ اس کی تصدیق صحیح بخاری و مسلم کی روایت ذیل سے ہوتی ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۃ جمعہ نازل ہوئی اور جب آیت وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا بقیه حاشیه : - یا مثلاً کوئی ان میں سے ذات کا کنجر ہو جس نے اپنے پیشہ سے تو بہ کر لی ہو یا ان قوموں میں سے ہو جو اسلام میں دوسری قوموں کی خادم اور پیچ قو میں سمجھی جاتی ہیں.جیسے حجام.موچی.تیلی.ڈوم.میرای.تھے.قصائی.جولا ہے کنجری.تنبولی.دھوبی.مچھوے.بھڑ بھونجے.نان بائی وغیرہ یا مثلاً ایسا شخص ہو کہ اس کی ولادت میں ہی شک ہو کہ آیا حلال کا ہے یا حرام کا.یہ تمام لوگ تو بہ نصوح سے اولیاء اللہ میں داخل ہو سکتے ہیں.کیونکہ وہ درگاہ کریم ہے اور فیضان کی موجیں بڑے جوش سے جاری ہیں اور اس قدوس ابدی کے دریائے محبت میں غرق ہو کر طرح طرح کے میلوں والے ان تمام میلوں سے پاک ہو سکتے ہیں جو عرف اور عادت کے طور پر ان پر لگائے جاتے ہیں اور پھر بعد اس کے کہ وہ اس خدائے قدوس سے مل گئے اور اس کی محبت میں محو ہو گئے اور اس کی رضا میں کھوئے گئے.سخت بدذاتی ہوتی ہے کہ ان کی کسی نیچ ذات کا ذکر بھی کیا جائے کیونکہ اب وہ وہ نہیں رہے اور انہوں نے اپنی شخصیت کو چھوڑ دیا اور خدا میں جاملے اور اس لائق ہو گئے کہ تعظیم وتکریم سے ان کا نام لیا جائے اور جو شخص بعد اس تبدیلی کے ان کی تحقیر کرتا ہے یا ایسا خیال دل میں لاتا ہے وہ اندھا ہے اور خدا تعالیٰ کے

Page 23

حیات احمد ۱۳ جلد اوّل حصہ اوّل يَلْحَقُوْابِهِمْ (الجمعة(۴) اتری تو ہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر اس آیت میں موجود ہے.اس وقت سلمان فارسی بھی ہمارے درمیان تھے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا ہوگا تو ان لوگوں میں سے بعض ہوں گے جو اس کو واپس لائیں گے.(اس حدیث پر بخاری اورمسلم کا اتفاق ہے.مشکوۃ جلد دوم صفر ۳۵۲) (۲).حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو پڑھا.وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (محمد:۳۹) تو آپ کے صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں.جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس عظمت کے ساتھ کیا ہے.تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کی ران پر ہاتھ رکھا اور فرمایا.یہ اور اس کی قوم، اگر دین ثریا میں ہوگا تو اہل فارس اس کو لے آئیں گے.( اس حدیث کو تر مذی نے روایت کیا ہے.مشکوۃ جلد دوم صفحہ ۳۴۵۶ ) اس کی تائید میں کتب احادیث میں اور احادیث بھی ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم کا ذکر فرمایا.جو اپنے کاموں اور خصوصیات کے لحاظ سے صحابہ کے برابر مدارج پانے والی تھی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کے کندھے پر بقیه حاشیه : - غضب کے نیچے ہے اور خدا کا عام قانون یہی ہے کہ اسلام کے بعد قوموں کی تفریق مٹادی جاتی ہے اور پیچ او نچ کا خیال دور کیا جاتا ہے.ہاں قرآن شریف سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ بیاہ اور نکاح میں تمام قو میں اپنے قبائل اور ہم رتبہ قوموں میں یا ہم رتبہ اشخاص اور کفو کا خیال کر لیا کریں تو بہتر ہے تا اولا د کے لئے کسی داغ اور تحقیر اور ہنسی کی جگہ نہ ہو لیکن اس خیال کو حد سے زیادہ نہیں کھینچنا چاہئے کیونکہ قوموں کی تفریق پر خدا کی کلام نے زور نہیں دیا.صرف ایک آیت سے کفو اور حسب نسب کے لحاظ کا استنباط ہوتا ہے اور قوموں کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مدت دراز کے بعد شریف سے رذیل اور رذیل سے شریف بن جاتی ہے اور ممکن ہے مثلاً بھنگی یعنی چوہڑے یا چمار جو ہمارے ملک میں سب قوموں سے رذیل تر خیال کئے جاتے ہیں کسی زمانے میں شریف مشكواة المصابيح.كتاب المناقب والفضائل باب جامع المناقب - الفصل الاول حدیث نمبر ۶۲۱۲ مشكواة المصابيح.كتاب المناقب و الفضائل باب جامع المناقب - الفصل الثانی حدیث نمبر ۶۲۵۳

Page 24

حیات احمد ۱۴ جلد اول حصہ اوّل ہاتھ رکھ کر صراحت کر دی کہ یہ اعزاز اور امتیاز جس قوم کو حاصل ہوگا اس کا بانی فارسی الاصل ہوگا.اور ایسی حالت اور صورت میں کہ ایمان دنیا سے اٹھ جائے گا.حتی کہ وہ اتنا دور چلا جائے گا کہ گویا ثریا تک چلا جائے گا.تب نسل فارس کا ایک شہوار کھڑا ہو گا اور وہ اُسے دُنیا پر واپس لائے گا.اور جب ہم قرآن مجید کی تفسیر کی طرف توجہ کرتے ہیں تو وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة (٢) کے نیچے یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ یہاں مسیح موعود کی جماعت مراد ہے.پس اگر ان احادیث کو قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر کے ساتھ ملایا جائے.تو یہ بات بہ بداہت ثابت ہوتی ہے کہ آنے والا مسیح موعود فارسی الاصل ہوگا.خدائی وحی سے فارسی الاصل ہونے کی تائید یہاں تک تو احادیث سے یہ پتہ ملتا ہے کہ مسیح موعود فارسی الاصل ہو گا.اب ہم حضرت مسیح موعود کی وحی کی طرف توجہ کرتے ہیں.ایسے وقت اور ان حالات میں جبکہ آپ نے کوئی دعوی دنیا میں مشتہر نہیں کیا.خدا تعالیٰ کی وحی جو مسیح موعود پر اتری.تو وہ اکثر انہیں الفاظ میں نازل ہوئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کو اشارہ کر کے فرمائے تھے.براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۲ میں یہ الہام درج ہے.خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيْـدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ.پھر ایک مرتبہ بقیه حاشیه : - ہوں اور اپنے بندوں کے انقلابات کو خدا ہی جانتا ہے دوسروں کو کیا خبر ہے.سو عام طور پر پنجہ مارنے کے لائق یہی آیت ہے کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنفُسِكُمْ (الحجرات:۱۴) جس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب میں سے خدا کے نزدیک بزرگ اور عالی نسب وہ ہے جو سب سے زیادہ اس تقویٰ کے ساتھ جو صدق سے بھری ہوئی ہو خدا تعالیٰ کی طرف جھک گیا ہو اور خدا سے قطع تعلق کا خوف ہر دم اور ہر لحظہ اور ہر ایک کام اور ہر ایک قول اور ہر ایک حرکت اور ہر ایک سکون اور ہر ایک خُلق اور ہر ایک عادت اور ہر ایک جذ بہ ظاہر کرنے کے وقت اس کے دل پر غالب ہو رہی ہے.جو سب قوموں سے شریف تر اور سب خاندانوں سے بزرگتر اور تمام قبائل میں سے بہتر قبیلہ میں سے ہے اور اس لائق ہے کہ سب اس کی راہ پر فدا ہوں.غرض شریعت اسلامی کا یہ تو عام قانون ہے کہ تمام مدار تقویٰ پر رکھا گیا ہے لیکن نبیوں اور رسولوں اور محدثوں کے بارے میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں.اور تمام قوموں کے لئے واجب الاطاعت ٹھہرتے ہیں قدیم سے خدا تعالیٰ کا ایک خاص

Page 25

حیات احمد ۱۵ جلد اوّل حصہ اوّل الہام ہوا.سَلْمَانَ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ.پھر ایک مرتبہ الہام ہوا.لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ اَبْنَاءِ الْفَارِسِ.خدا تعالیٰ کی اس وحی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی تائید اور تصدیق کر دی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی الاصل ہونے پر ایک ایسی شہادت قائم کی جس کو کوئی سلیم الفطرت رد نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود اس کے متعلق خود فرماتے ہیں.عرصہ سترہ یا اٹھارہ برس کا ہوا کہ خدا تعالیٰ کے متواتر الہامات سے مجھے معلوم ہوا تھا کہ میرے باپ دادے فارسی الاصل ہیں.وہ تمام الہامات میں نے اُن ہی دنوں میں براہین احمدیہ کے حصہ دوم میں درج کر دئے تھے.جن میں سے میری نسبت ایک یہ الہام ہے خُذُوْا التَّوْحِيْدَ التَّوْحِيْدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِسِ یعنی تو حید کو پکڑو.توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو! پھر دوسرا الہام میری نسبت یہ ہے.لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ - یعنی اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو یہ مرد جو فارسی الاصل ہے وہیں جا کر اُس کو لے لیتا.اور پھر ایک تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَدَّ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَكَرَ اللهُ سَعْيَهُ - یعنی جو لوگ کافر ہوئے اس مرد نے جو فارسی الاصل ہے ان کے مذاہب کو رد کر دیا.خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے.یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اولین فارسی بقیه حاشیه: - قانون ہے.جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں.ہم اس سے پہلے ابھی بیان کر چکے ہیں کہ ایسے اولیاء اللہ جو مامور نہیں ہوتے.یعنی نبی یا رسول یا محدث نہیں ہوتے اور ان میں سے نہیں ہوتے جو دنیا کو خدا کے حکم اور الہام سے خدا کی طرف بلاتے ہیں.ایسے ولیوں کو کسی اعلیٰ خاندان یا اعلیٰ قوم کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا سب معاملہ اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن ان کے مقابل پر ایک دوسری قسم کے ولی ہیں جو رسول یا نبی یا محدث کہلاتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک منصب حکومت اور قضا کا لے کر آتے ہیں اور لوگوں کو حکم ہوتا ہے کہ ان کو اپنا امام اور سردار اور پیشوا سمجھ لیں اور جیسا کہ وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اس کے بعد خدا کے ان نائبوں کی اطاعت کریں.اس منصب کے بزرگوں کے متعلق قدیم سے خدا تعالیٰ کی یہی عادت ہے کہ ان کو اعلیٰ درجہ کی قوم اور خاندان میں سے پیدا کرتا ہے حمد اب اس پر ۴۵ سال گزرتے ہیں.

Page 26

حیات احمد ۱۶ جلد اول حصہ اوّل ت وَالْحَقُّ مَا أَظْهَرَهُ الله کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۶۳۶۶۲ حاشیه در حاشیه ) اب یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود فارسی الاصل ہیں.لیکن اس وقت تک ہماری تحقیق اس حد تک محدود ہے کہ احادیث میں ایک فارسی الاصل مصلح کے مبعوث ہونے کی خبر تھی.اور وہ مسیح موعود ہونے والا تھا.اس کے ساتھ ہی مجھے یہ ظاہر کر دینا مقصود ہے کہ احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ اہل فارس بنی اسحاق ہیں.اور اس طرح پر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں.اہل فارس بنی اسحاق ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو وعدے اولاد کے متعلق دئے گئے تھے.وہ حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کے متعلق جدا جدا اور مشترک برکت کے وعدے تھے.اور اپنے اپنے وقت پر وہ پورے ہوئے اور ہوتے رہیں گے.(1) أَهْلُ فَارِسَ هُمْ وُلْدُ إِسْحَاقَ رَوَاهُ الْحَاكِمُ فِي تَارِيخِهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ - یعنی حاکم اپنی تاریخ میں حضرت ابن عمر سے روایت کرتے ہیں.کہ اہل فارس حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے ہیں.(كنز العمال جلد ۶ صفحه ۲۱۵) بقیه حاشیه :- تا ان کے قبول کرنے اور ان کی اطاعت کا جوا اٹھانے میں کسی کو کراہت نہ ہو.اور چونکہ خدا نہایت رحیم و کریم ہے.اس لئے نہیں چاہتا کہ لوگ ٹھوکر کھاویں اور ان کو ایسا ابتلا پیش آوے جو ان کو اس سعادت عظمی سے محروم رکھے کہ وہ اس کے مامور کے قبول کرنے سے اس طرح پر رک جائیں کہ اس شخص کی پیچ قوم کے لحاظ سے تنگ اور عاران پر غالب ہو اور وہ دلی نفرت کے ساتھ اس بات سے کراہت کریں کہ اس کے تابعدار بنیں اور اس کو اپنا بزرگ قرار دیں.اور انسانی جذبات اور تصورات پر نظر کر کے یہ بات خوب ظاہر ہے کہ یہ ٹھوکر طبعاً نوع انسان کو پیش آ جاتی ہے.مثلاً ایک شخص جو قوم کا چوہڑہ یعنی بھنگی ہے اور ایک گاؤں کے شریف مسلمانوں کی تمیں چالیس سال سے یہ خدمت کرتا ہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے 66 كنز العمال كتاب الفضائل من قسم الاقوال الفرس من الاكمال “ حدیث نمبر ۳۷۵۹.مطبوعه مطبع دائرة المعارف النظامية حيدر آباد سن اشاعت ۱۳۱۳ھ

Page 27

حیات احمد ۱۷ جلد اوّل حصہ اوّل (۲) فَارِسٌ عَصْبَتُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ إِسْمَعِيْلَ عَمَّ وُلْدِ إِسْحَاقَ وَإِسْحَاقَ عَمَّ وُلْدِ اسمعيل رواه الحاکم في تاريخه عن ابن عباس - یعنی حاکم اپنی تاریخ میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کہ اے اہل بیت ! فارسی ہمارے عصبہ ہیں کیونکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام اولا د اسحاق علیہ السلام کے چچا ہیں اور اسحاق اولا داسمعیل کے چچا ہیں.(کنز العمال جلد ۶ صفحه ۲۶۴) ان ہر دو احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ اہل فارس حضرت اسحاق کی اولا د سے ہیں.یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان سے بار بار اظہار محبت فرمایا اور اس کو اپنے اہل بیت میں سے بتایا.حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اپنی نیکی اور تقویٰ کے لحاظ سے تو قابل قدر ہی تھے.مگر چونکہ آپ کے خاندان سے ایک عظیم الشان انسان پیدا ہونے والا تھا.اس کی بزرگی اور عظمت نے بھی ان کو وہ قدرو منزلت عطا کی.بہر حال یہ ثابت شدہ صداقت ہے کہ اہل فارس حضرت ابراہیم کی ہی نسل سے ہیں.اور حضرت ابراہیم کی پاک نسل سے امام ہونے کا وعدہ تھا.اور فارسی الاصل خاندان سے بڑے بڑے ائمہ پہلے بھی پیدا ہو چکے ہیں.بقیه حاشیه : - آتا ہے اور ان کے پاخانوں کی نجاست اٹھاتا ہے اور ایک دو دفعہ چوری میں بھی پکڑا گیا ہے اور چند دفعہ زنا میں بھی گرفتار ہو کر اس کی رسوائی ہو چکی ہے اور چند سال جیل خانہ میں قید بھی رہ چکا ہے.اور چند دفعہ ایسے بُرے کاموں پر گاؤں کے نمبرداروں نے اُسے جوتے بھی مارے ہیں اور اس کی ماں اور دادیاں اور نانیاں ہمیشہ سے ایسے ہی نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مُردار کھاتے اور اور گوہ اٹھاتے ہیں.اب خدا تعالیٰ کی قدرت پر خیال کر کے ممکن تو یہ ہے کہ وہ اپنے کاموں سے تائب ہو کر مسلمان ہو جائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایسا فضل اس پر ہو کہ وہ رسول اور نبی بھی بن جائے اور اس گاؤں کے شریف لوگوں کی طرف دعوت کا پیغام لے کر آئے اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا خدا اسے جہنم میں ڈالے گا.لیکن باوجود اس امکان پر جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی خدا نے ایسا نہیں کیا.کیونکہ ایسا کرنا اُس کی حکمت اور کنز العمال كتاب الفضائل من قسم الاقوال فارس “ حدیث نمبر ۴۷۴۹.مطبوعه مطبع دائرة المعارف النظامية حيدرآباد سن اشاعت ۱۳۱۳ھ

Page 28

حیات احمد ۱۸ جلد اوّل حصہ اوّل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے جو وعدے کئے گئے ہیں اس کی تفصیل بائیل میں موجود ہے اور قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنی ذریت کے لئے ހނ کیا خواہش رکھتے تھے.اس میں شک نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو جو عظمت اور بزرگی نصیب ہوئی وہ ابراہیمی نسل کے کسی دوسرے شخص کو نہیں ملی.لیکن اسحاق کے خاندان پر جو فضل ہوئے وہ بھی کچھ کم نہ تھے.خدا تعالیٰ کی برگزیدہ اور منتخب قوم اسرائیل حضرت اسحاق ہی کی نسل تھی، اور ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے پھر اولاد اسحق پر بھی فضل ہوا.یہاں تک کہ آخری زمانہ کا مصلح اور موعود اسحاق کے گھرانے سے آیا.غرض یہ بدیہی بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فارس کے متعلق اولا د اسحاق ہونے اور اس ابراہیمی گھرانے میں ایک عظیم الشان انسان کے پیدا ہونے کی بشارت دی.اور پھر تکلفات سے نہیں.اپنے دعوئی کے بعد سالہا سال کے غور وفکر کے بعد نہیں بلکہ ایسے وقت اور ایسے حالات میں جبکہ حضرت مرزا صاحب نے کوئی دعوی نہیں کیا تھا.وہ اپنے الہامات اور مخاطبات میں ابن فارس کے نام سے پکارے گئے.اور وہ الہامات براہین احمدیہ میں چھپے ہوئے موجود ہیں.اس طرح پر خدا تعالیٰ کی وحی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی تائید کرتی ہے.اور اگر ہم تاریخی بیانات اور روایات پر ذرا بھی بحث نہ کریں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے متعلق یہ ایک زبردست شہادت ہے.جو اللہ تعالیٰ اور بقیه حاشیه : مصلحت کے خلاف ہے اور وہ جانتا ہے کہ لوگوں کے لئے یہ ایک فوق الطاقت ٹھوکر کی جگہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو پشت به پشت رذیل چلا آتا ہے اور لوگوں کی نظر میں نہ صرف وہ بیچ ہے بلکہ اس کا باپ اور دادا اور پڑدادا اور جہاں تک معلوم ہے قوم کے پیچ ہیں اور ہمیشہ سے شریر اور بدکار ہوتے چلے آئے ہیں اور مویشیوں کی طرح ادنی خدمتیں کرتے رہے ہیں.اب اگر لوگوں سے اس کی اطاعت کرائی جائے تو بلاشبہ لوگ اس کی اطاعت سے کراہت کریں گے.کیونکہ ایسی جگہ میں کراہت کرنا انسان کے لئے ایک طبعی امر ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ کا قدیم قانون اور سنت یہی ہے کہ وہ صرف اُن لوگوں کو منصب دعوت و نبوت پر مامور کرتا ہے جو اعلیٰ خاندان میں سے ہوں اور ذاتی طور پر بھی چال چلن اچھے رکھتے ہوں کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ قادر ہے حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال

Page 29

حیات احمد ۱۹ جلد اول حصہ اوّل اس کے برگزیدہ نبی افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت ہے.اس امر کے ثابت ہونے کے بعد کہ حضرت مسیح موعود کے خاندان کا ذکر احادیث میں ہے.اور یہ کہ آپ فارسی الاصل ہیں اور یہ کہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، مجھ کو اس سلسلہ میں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ خود حضرت مسیح موعود نے بھی اپنے فارسی الاصل ہونے کے متعلق دعوی کیا ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح موعود کا اپنا بیان فارسی الاصل ہونے پر چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.واضح ہو کہ ان کا غذات اور پرانی تحریرات سے کہ جوا کا بر اس خاندان کے چھوڑ گئے ہیں.ثابت ہوتا ہے کہ بابر بادشاہ کے وقت میں جو چغتائی سلطنت کا مورث اعلیٰ تھا.بزرگ اجداد اس نیاز مند الہی کے خاص سمر قند سے ایک جماعت کثیر کے ساتھ کسی سبب سے جو بیان نہیں کیا گیا.ہجرت اختیار کر کے دہلی میں پہنچے.“ (ازالہ اوہام بار اول جلد اول صفحه ۱۲۱ حاشیہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۶۰) بقیه حاشیه : - چلن کے ساتھ بھیجے تا کہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے.یہی وجہ ہے جو تمام نبی علیہم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں.اسی حکمت اور مصلحت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کی نسبت ان دونوں خوبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنفُسِكُمْ (التوبة :۱۲۸) یعنی تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے.جو خاندان اور قبیلہ اور قوم کے لحاظ سے تمام دنیا سے بڑھ کر ہے.اور سب سے زیادہ پاک اور بزرگ خاندان رکھتا ہے اور ایک اور جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ.الَّذِي يَرُبكَ حِينَ تَقُومُ.وَتَقَلُّبَكَ فِي السُّجِدِينَ (الشعراء: ۲۱۸ تا ۲۲۰) یعنی خدا پر توکل کر جو غالب اور رحم کرنے والا ہے.وہی خدا جو تجھے دیکھتا ہے جب تو دعا اور دعوت کے لئے کھڑا ہوتا ہے.وہی خدا جو تجھے اس وقت دیکھتا تھا جب تو تخم کے طور پر راستبازوں کی پشتوں میں چلا آتا تھا.یہاں تک کہ اپنی بزرگ والدہ آمنہ معصومہ کے پیٹ میں پڑا.اور ان کے سوا اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں ہمارے بزرگ اور مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علو خاندان اور شرافت قوم اور بزرگ قبیلہ کا ذکر ہے.

Page 30

حیات احمد جلد اول حصہ اوّل پھر اسی ازالہ اوہام کے صفحہ 119 کے حاشیہ میں اپنے دعوی کے متعلق تائیدی دلائل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” دوسری اور تیسری علامت یعنی یہ کہ بخاری یا سمر قندی الاصل ہونا اور زمیندار اور زمینداری کے ممیز خاندان میں سے ہونا یہ دونوں علامتیں صریح اور بین طور پر اس عاجز میں ثابت ہیں.66 (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۵۹ حاشیه ) اسی ضمن میں حارث کی پیشگوئی پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اور حارث کے نام پر جو پیشگوئی ہے اس کی علامات خاصہ پانچ بیان کی گئی ہیں.پہلی یہ کہ وہ نہ سیف کے ساتھ نہ سنان کے ساتھ بلکہ اپنی قوتِ ایمان کے ساتھ اور اپنے نور عرفان اور برکات بیان کے ساتھ حق کے طالبوں اور سچائی کے بھوکوں پیاسوں کو تقویت دے گا اور اپنی مخلصانہ شجاعت اور مومنانہ شہادتوں کی وجہ سے ان کے قدم کو استوار کر دے گا.اسی کے موافق جو مومنین قریش نے مکہ معظمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو قبول کر کے اور اپنے سارے زور اور سارے اخلاص اور کامل ایمانی کے آثار دکھلانے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوئے دعوت کو قوت دے دی تھی اور اسلام کے پیروں کو مکہ معظمہ میں جما دیا تھا.دوسری علامت یہ کہ وہ حارث ماوراء النہر میں سے ہوگا.جس سے مطلب یہ ہے که سمرقندی یا بخاری الاصل ہو گا.تیسری علامت یہ ہے کہ وہ زمینداری کے ممیز خاندان میں سے اور کھیتی کرنے والا ہو گا.چوتھی علامت یہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں ظاہر ہو گا کہ جس وقت میں آل محمد یعنی اتقیاء مسلمین جو سادات قوم و شرفاء ملت میں کسی حامی دین اور مبار زمیدان کے محتاج ہوں گے.آل محمد کے لفظ میں ایک افضل اور طیب جزوکو ذکر کر کے کل افراد جو پاکیزگی اور طہارت میں اس جزو سے مناسبت رکھتے ہیں اُسی کے اندر داخل کئے گئے ہیں.جیسا کہ یہ عام طریقہ متکلمین ہے کہ بعض اوقات ایک جز و کوذ کر کر کے کل اس سے مرا دلیا جاتا ہے.

Page 31

حیات احمد ۲۱ جلد اوّل حصہ اول پانچویں علامت اس حارث کی یہ ہے کہ امیروں اور بادشاہوں اور با جمعیت لوگوں کی صورت پر ظاہر نہیں ہوگا بلکہ اس اعلیٰ درجہ کے کام کی انجام دہی کے لئے اپنی قوم کی امداد کا محتاج ہو گا.اب اول ہم ابو داؤد کی حدیث کو اس کے اصل الفاظ میں بیان کر کے پھر جس قدر مناسب اور کافی ہو، اپنی نسبت اس کا ثبوت پیش کریں گے.سو واضح ہو کہ حدیث یہ ہے.عَنْ عَلِيٌّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ رَجُلٌ مِن وَرَاءِ النَّهْرِ يُقَالُ لَهُ الْحَارِثُ حَرَّاتٌ عَلَى مُقَدَّمَتِهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مَنْصُوْرٌ يُوَطِّيءُ أَوْ يُمَكِّنُ لِآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا مَكَّنَتْ قُرَيْسٌ لِرَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَبَ عَلى كُلِّ مُؤْمِنٍ نَصْرُهُ أَوْ قَالَ إِجَابَتُهُ یعنی روایت ہے علی کرم اللہ وجھہ سے کہ کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک شخص پیچھے نہر کے سے نکلے گا.یعنی بخارا یا سمر قند اس کا اصل وطن ہو گا اور وہ حارث کے نام سے پکارا جاوے گا.یعنی باعتبار اپنے آباء و اجداد کے پیشہ کے افواہ عام میں یا اس گورنمنٹ کے نظر میں حارث یعنی ایک زمیندار کہلائے گا.پھر آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کیوں حارث کہلائے گا.اس وجہ سے کہ وہ حراث ہوگا.یعنی ممیز زمینداروں میں سے ہوگا اور کھیتی کرنے والوں میں سے ایک معزز خاندان کا آدمی شمار کیا جاوے گا.پھر اس کے بعد فرمایا کہ اس کے لشکر یعنی اس کی جماعت کا سردار وسرگروہ ایک توفیق یافتہ شخص ہو گا.جس کو آسمان پر منصور کے نام سے پکارا جاوے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ اس کے خادمانہ ارادوں کا جو اس کے دل میں ہوں گے آپ ناصر ہو گا.اس جگہ اگر چہ اس منصور کو سپہ سالار کے طور پر بیان کیا ہے مگر اس مقام میں در حقیقت کوئی ظاہری جنگ و جدل مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی فوج ہو گی کہ اس حارث کو دی جائے گی جیسا کہ کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے سنن ابی داؤد.کتاب المهدی

Page 32

حیات احمد ۲۲ جلد اوّل حصہ اول ہیں.ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا تب میں نے اُس دوسرے کی طرف رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اُسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے وہ میری بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر چہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں.پر اگر خدائے تعالیٰ چاہے.تو تھوڑے بہتوں پر فتح پا سکتے ہیں.اُس وقت میں نے یہ آیت پڑھی كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةِ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ (البقرة: ۲۵۰) پھر وہ منصور مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ خوشحال ہے خوشحال ہے.مگر خدا تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اس کے پہچاننے سے قاصر رکھا لیکن امید رکھتا ہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایا جائے.اب بقیہ ترجمہ حدیث کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ حارث جب ظاہر ہوگا تو وہ آل محمد کو (آل محمد کے فقرہ کی تفسیر بیان ہو چکی ہے) قوت اور استواری بخشے گا.اور ان کی پناہ ہو جائے گا.یعنی ایسے وقت میں کہ جب مومنین غربت کی حالت میں ہوں گے اور دین اسلام بیکس کی طرح پڑا ہوگا اور چاروں طرف سے مخالفوں کے حملے شروع ہوں گے.یہ شخص اسلام کی عزت قائم کرنے کے لئے بقوت تمام اٹھے گا.اور مومنین کو جھال کی زبان سے بچانے کے لئے بجوش ایمان کھڑا ہوگا اور نور عرفان کی روشنی سے طاقت پاکر ان کو مخالفوں کے حملوں سے بچائے گا اور اُن سب کو اپنی حمایت میں لے لے گا.اور ایسا انہیں ٹھکانا دے گا جیسے قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا.یعنی دشمن کے ہر ایک الزام اور ہر ایک باز پرس اور ہر ایک طلب ثبوت کے وقت میں سب مومنوں کے لئے سپر کی طرح ہو جائے گا اور اپنے اس قومی ایمان سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اس نے حاصل کیا ہے.صدیق اور فاروق اور حیدر کی طرح اسلامی برکتوں اور استقامتوں کو دکھلا کر مومنوں کے امن میں آجانے کا موجب ہوگا.

Page 33

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول ہر ایک مومن پر واجب ہے جو اس کی مدد کرے.یا یہ کہ اس کو قبول کر لیوے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک ایسا عظیم الشان سلسلہ اس حارث کے سپرد کیا جائے گا.جس میں قوم کی امداد کی ضرورت ہوگی.جیسا کہ ہم رسالہ فتح اسلام میں اس سلسلہ کی پانچوں شاخوں کا ذکر کر آئے ہیں اور نیز اس جگہ یہ بھی اشار تا سمجھایا گیا ہے کہ وہ حارث بادشاہوں یا امیروں میں سے نہیں ہوگا تا ایسے مصارف کا اپنی ذات سے متحمل ہو سکے اور اس تاکید شدید کے کرنے سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اُس حارث کے ظہور کے وقت جو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کرے گا لوگ امتحان میں پڑ جائیں گے اور بہتیرے اُن میں سے مخالفت پر کھڑے ہوں گے اور مدد دینے سے روکیں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ اس کی جماعت متفرق ہو جائے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے تاکید کرتے ہیں کہ اے مومنو ! تم پر اس حارث کی مدد واجب ہے.ایسا نہ ہو کہ تم کسی کے بہکانے سے اس سعادت سے محروم رہ جاؤ.اس جگہ جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا.جو مومنوں کو اس کے ظہور سے قوت پہنچے گی اور اس کے میدان میں کھڑے ہو جانے سے اس تفرقہ زدہ جماعت میں ایک استحکام کی صورت پیدا ہو جائے گی اور وہ سپر کی طرح ان کے لئے ہو جائے گا اور ان کے قدم جم جانے کا موجب ہوگا.جیسا کہ عین اسلام کے قدم جمنے کے لئے صحابہ کبار موجب ہو گئے تھے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تیغ اور تبر سے حمایت اسلام نہیں کرے گا اور نہ اس کام کے لئے بھیجا جائے گا کیونکہ مکہ میں بیٹھ کر جو مومنین قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کی تھی جس حمایت میں کوئی دوسری قوم کا آدمی اُن کے ساتھ شریک نہیں تھا.اِلّا شاذ و نادر وہ صرف ایمانی قوت اور عرفانی طاقت کی حمایت تھی.نہ کوئی تلوار میان سے نکالی گئی تھی اور نہ کوئی نیزہ ہاتھ میں پکڑا گیا تھا بلکہ ان کو جسمانی مقابلہ کرنے سے سخت ممانعت تھی.صرف قوت ایمانی اور نور عرفان کے چمکدار ہتھیار اور اُن ہتھیاروں کے جو ہر جو صبر اور استقامت اور محبت اور اخلاص اور وفا اور معارف الہیہ اور حقائق عالیہ دینیہ اُن کے پاس موجود تھے.لوگوں کو دکھلاتے تھے.

Page 34

حیات احمد ۲۴ جلد اوّل حصہ اول گالیاں سنتے تھے.جان کی دھمکیاں دے کر ڈرائے جاتے تھے.اور سب طرح کی ذلتیں دیکھتے تھے.پر کچھ ایسے نشہ عشق میں مدہوش تھے کہ کسی خرابی کی پرواہ نہیں کرتے تھے.اور کسی بلا سے ہراساں نہیں ہوتے تھے.دنیوی زندگی کے رُو سے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا رکھا تھا جس کی توقع سے وہ اپنی جانوں اور عتوں کو معرض خطر میں ڈالتے اور اپنی قوم سے پرانے اور پر نفع تعلقات کو توڑ لیتے.اُس وقت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی اور عسر اور کس نہ پُرسد اور کس نشناسد کا زمانہ تھا اور آئندہ کی امیدیں باندھنے کے لئے کسی قسم کے قرائن اور علامات موجود نہ تھے.سو انہوں نے اس غریب درویش کا ( جو دراصل ایک عظیم الشان بادشاہ تھا) ایسے نازک زمانہ میں وفاداری کے ساتھ محبت اور عشق سے بھرے ہوئے دل سے جو دامن پکڑا.جس زمانہ میں آئندہ کے اقبال کی تو کیا امید خود اُس مرد مصلح کی چند روز میں جان جاتی نظر آتی تھی یہ وفاداری کا تعلق محض قوت ایمانی کے جوش سے تھا.جس کی مستی سے وہ اپنی جانیں دینے کے لئے ایسے کھڑے ہو گئے جیسے سخت درجہ کا پیاسا چشمہ شیریں پر بے اختیار کھڑا ہو جاتا ہے.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی طرح وہ جو حارث آئے گا تو وہ مومنین کو تیر و تبر سے مدد نہیں دے گا.بلکہ مومنین قریش کی اس مخصوص حالت اور اس مخصوص ماجرا کی طرح جو مکہ میں ان پر گزرا تھا جبکہ اُن کے ساتھ دوسری قوموں میں سے کوئی نہ تھا اور نہ ہتھیار استعمال کئے جاتے تھے بلکہ صرف قوت ایمانی اور نور عرفانی کی چپکاریں گفتار اور کردار سے دکھلا رہے تھے.اور انہیں کے ذریعہ سے مخالفوں پر اثر ڈال رہے تھے.یہی طریق اس حارث کا بھی مومنوں کو اپنی پناہ میں لانے کے بارہ میں ہو گا کہ وہ اپنی قوت ایمانی اور نور عرفانی کے آثار وانوار دکھلا کر مخالفین کے منہ بند کرے گا اور مستعد دلوں پر اس کا اثر ڈالے گا اور اس کی قوت ایمانی اور نور عرفانی کا چشمہ جیسا شجاعت و استقامت وصدق و صفا و محبت ووفا کی رو سے بہتا ہوگا.ایسا ہی روحانی امور کے بیان کرنے اور روحانی اور عقلی حجتوں کو مخالفوں پر پورا کرنے کے لئے بڑے زور سے رواں ہوگا اور وہ چشمہ اُسی چشمہ کا ہم

Page 35

حیات احمد ۲۵ جلد اوّل حصہ اول رنگ ہو گا جو قریش کے مقدس بزرگوں صدیق اور فاروق اور علی مرتضیٰ کو ملا تھا.جن کے ایمان کو آسمان کے فرشتے بھی تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جن کے صافی عرفان میں سے اس قدر علوم و انوار و برکات و شجاعت و استقامت کے چشمے نکلے تھے کہ جس کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں سو ہمارے سید و مولیٰ فرماتے ہیں کہ وہ حارث بھی جب آئے گا تو اسی ایمانی چشمہ و عرفانی منبع کے ذریعہ سے قوم کے پودوں کی آبپاشی کرے گا اور اُن کے مرجھائے ہوئے دلوں کو پھر تازہ کر دے گا اور مخالفوں کے تمام بیجا الزاموں کو اپنی صداقت کے پیروں کے نیچے کچل ڈالے گا.تب اسلام پھر اپنی بلندی اور عظمت دکھائے گا.اور بے حیا خنزیر قتل کئے جاویں گے.اور مومنین کو وہ عزت کی کرسی مل جائے گی جس کے وہ مستحق تھے.الغرض حدیث نبوی کی یہ تشریح ہے جو اس جگہ ہم نے بیان کر دی.اور اسی کی طرف وہ الہام اشارہ کرتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہو چکا ہے.بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد.اور اسی کی طرف وہ الہام بھی اشارہ کرتا ہے جو اس عاجز کی نسبت بحوالہ ایک حدیث نبوی کے جو پیشگوئی کے طور پر اس عاجز کے حق میں ہے.خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے جو براہین میں درج ہے اور وہ یہ ہے.لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ، إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ رَدَّ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَكَرَ اللهُ سَعْيَهُ خُذُوْا التَّوْحِيْدَ التَّوْحِيْدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِسِ.اس الہام میں صریح اور صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وہ فارسی الاصل جس کا دوسرا نام حارث بھی ہے بڑی خصوصیت یہ رکھتا ہے کہ اس کا ایمان نہایت درجہ کا قوی ہے.اگر ایمان ثریا میں بھی ہوتا تو وہ مرد وہیں اس کو پا لیتا.خدا اس کا شکر گزار ہے کہ اس نے دینِ اسلام کے منکروں کے سب الزامات و شبہات کو رد کیا اور حجت کو پورا کر دیا.تو حید کو پکڑو تو حید کو پکڑواے ابنائے فارس.یعنی توحید کی راہیں صاف کرو اور توحید سکھلاؤ اور توحید جو دنیا سے گری جاتی اور گم ہوتی جاتی ہے اس کو پکڑ لو کہ یہی سب سے مقدم ہے اور اسی کو لوگ بھول گئے اور اس جگہ ابن کی جگہ جو ابناء کا لفظ اختیار کیا گیا حالانکہ مخاطب صرف

Page 36

حیات احمد ۲۶ جلد اوّل حصہ اول ایک شخص ہے یعنی یہ عاجز بطور اعزاز کے حضرت باری تعالیٰ کی طرف سے ہے.جیسا کہ بعض حدیثوں میں بجائے اس حدیث کے کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ - رِجَالٌ مِنْ فَارِس لکھا ہے.وہ بھی درحقیقت اسی اعزاز کے ارادہ سے ہے.ورنہ ہر جگہ در حقیقت رجُلٌ ہی مراد ہے.اس تمام تحقیق سے معلوم ہوا کہ حارث کی نسبت بھی عمدہ علامت احادیث میں ہے کہ ایمانی نمونہ لے کر دنیا میں آئے گا اور اپنی قوت ایمانی کی شاخیں اور ان کے پھل ظاہر کر کے ضعیفوں کو تقویت بخشے گا اور کمزوروں کو سنبھال لے گا.اور اپنی صداقت کی شعاعوں سے شہر سیرت مخالفوں کو خیرہ کر دے گا.لیکن مومنوں کے لئے آنکھ کی روشنی اور کلیجے کی ٹھنڈک کی طرح سکیت اور اطمینان اور تسلی کا موجب ہوگا.اور ایمانی معارف کا معلم بن کر ایمانی روشنی کو قوم میں پھیلائے گا.اور ہم رسالہ فتح اسلام میں ظاہر کر آئے ہیں کہ در حقیقت مسیح بھی ایک ایمانی معارف کا سکھلانے والا اور ایمانی معلم تھا اور یہ بھی ظاہر کر آئے ہیں کہ میسیج بھی ظاہری لڑائی کے لئے نہیں آئے گا.بلکہ بخاری نے يَضَعُ الْحَرْبَ اُس کی علامت لکھی ہے.اور یہ کہ اُس کا قتل کرنا اپنے دم کی ہوا سے ہوگا.نہ تلوار سے یعنی موجہ باتوں سے روحانی طور پر قتل کرے گا.سو مسیح اور حارث کا ان دونوں علامتوں میں شریک ہونا اس بات پر پختہ دلیل ہے کہ حارث اور مسیح موعود دراصل ایک ہی ہیں.اور یہ حارث موعود کی پہلی علامت ہے جو ہم نے لکھی ہے.یعنی یہ کہ وہ نہ سیف کے ساتھ نہ سنان کے ساتھ بلکہ اپنی قوت ایمان کے ساتھ اور اپنے انوار عرفان کے ساتھ اپنی قوم کو تقویت دے گا.جیسے قریش نے یعنی صدیق و فاروق و حیدر کرار اور دیگر مومنین مکہ نے انہیں صفات استقامت کے ساتھ دینِ احمدی کے مکہ معظمہ میں قدم جما (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۷ تا ۱۵۶ حاشیه) پھر اپنی تصانیف میں مختلف مقامات پر اس مضمون کو دہرایا ہے.ضرورت نہیں کہ میں مکررات کو یہاں دیئے تھے.درج کروں.رض.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت میں سے بھی ایک موعود ہے اس لئے بھی ابناء فرمایا.(ایڈیٹر )

Page 37

حیات احمد ۲۷ جلد اوّل حصہ اوّل فارسی الاصل خاندان میں فاطمی خون حضرت مرزا صاحب کے خاندانی تذکرہ میں اس امر کا بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کے خون و سرشت میں جہاں ایک طرف فارسی خون ہے وہاں فاطمی خون بھی ہے.چنانچہ خود انہوں نے لکھا ہے کہ میں اپنے خاندان کی نسبت کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ وہ ایک شاہی خاندان ہے اور بنی فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے ایک معجون مرکب ہے یا شہرت عام کے لحاظ سے یوں کہو کہ وہ خاندان مغلیہ اور خاندان سیادت سے ایک ترکیب یافتہ خاندان ہے مگر میں اس پر ایمان لاتا ہوں اور اسی پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے خاندان کی ترکیب بنی فارس اور بنی فاطمہ سے ہے.کیونکہ اسی پر الہام الہی کے اترنے کا مجھے یقین دلایا تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۸۷٬۲۸۶) اور گواہی دی.“ پھر ایک جگہ فرمایا.”ہمارا خاندان جو ایک ریاست کا خاندان تھا.اس میں عادت اللہ اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ بعض بزرگ دادیاں ہماری شریف سادات کی لڑکیاں تھیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے بعض الہامات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس عاجز کے خون کی بنی فاطمہ کے خون سے آمیزش ہے اور درحقیقت وہ کشف براہین احمدیہ صفحہ ۵۰۳ کا جس میں لکھا ہے کہ میں نے دیکھا.کہ میرا سر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مادر مہربان کی طرح اپنی ران پر رکھا ہوا ہے.اس سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے.“ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۰۲) فاطمی اور فارسی خونوں کی آمیزش کا راز حضرت مرزا صاحب کے خاندانی حالات کی تنقید اور تصریح کی صرف اس لئے ضرورت ہوئی کہ جس موعود کی حیثیت سے انہوں نے دنیا میں اپنے آپ کو پیش کیا اس کے متعلق احادیث میں خاص صراحت ہے.اس لئے مجھے یہ بھی بتا دینا چاہئے کہ اس نسلی ترکیب و تعلق میں کیا راز ہے.

Page 38

حیات احمد ۲۸ جلد اوّل حصہ اوّل اس کے متعلق فرمایا.غرض تمام زمین کا ظلم سے بھرنا اور ایمان کا زمین پر سے اٹھ جانا اس قسم کی مصیبتوں کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایک ہی زمانہ ہے.جس کو مسیح کا زمانہ یا مہدی کا زمانہ کہتے ہیں.اور احادیث نے اس زمانہ کو تین پیرایوں میں بیان کیا ہے.رجل فارسی کا زمانہ.مہدی کا زمانہ مسیح کا زمانہ.اور اکثر لوگوں نے قلت تدبر سے ان تین ناموں کی وجہ سے تین علیحدہ علیحدہ شخص سمجھ لئے ہیں اور تین قومیں ان کے لئے مقرر کی ہیں.ایک فارسیوں کی قوم.دوسری بنی اسرائیل کی قوم.تیسری بنی فاطمہ کی قوم مگر یہ تمام غلطیاں ہیں.حقیقت میں یہ تینوں ایک ہی شخص ہے جو تھوڑے تھوڑے تعلق کی وجہ سے کسی قوم کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے.مثلاً ایک حدیث سے جو کنز العمال میں موجود ہے.سمجھا جاتا ہے کہ اہل فارس یعنی بنی فارس بنی اسحاق میں سے ہیں.پس اس طرح پر وہ آنے والا مسیح اسرائیلی ہوا اور بنی فاطمہ کے ساتھ اُمہاتی تعلق رکھنے کی وجہ سے جیسا کہ مجھے حاصل ہے فاطمی بھی ہوا.پس گویا وہ نصف اسرائیلی ہوا اور نصف فاطمی ہوا جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے.ہاں میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام الہی کے اور کچھ ثبوت نہیں.لیکن یہ الہام اس زمانہ کا ہے کہ جب اس دعوی کا نام ونشان بھی نہیں تھا.یعنی آج سے میں برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے.اور وہ یہ ہے.خُذُوا التَّوْحِيْدَ التَّوْحِيْدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ یعنی تو حید کو پکڑو تو حید کو پکڑ والے فارس کے بیٹو.اور پھر دوسری جگہ یہ الہام ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ صَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ رَدَّ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَكَرَ اللَّهُ سَعْيَهُ - یعنی جو لوگ خدا کی راہ سے روکتے تھے.ایک شخص فارسی اصل نے ان کا ردلکھا.خدا نے اس کی کوشش کا شکریہ کیا.ایسا ہی ایک اور جگہ براہین احمدیہ میں یہ لکھا ہے.لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالكُرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ.یعنی اگر ایمان ثریا پر اٹھایا

Page 39

حیات احمد ۲۹ جلد اوّل حصہ اول جاتا اور زمین سراسر بے ایمانی سے بھر جاتی تب بھی یہ آدمی جو فارسی الاصل ہے اس کو آسمان پر سے لے آتا.اور بنی فاطمہ ہونے میں یہ الہام ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِهْرَ وَالنَّسَبَ، أَشْكُرْ نِعْمَتِي رَبَّيْتَ خَدِيجَتِی یعنی تمام حمد اور تعریف اس خدا کے لئے جس نے تمہیں فخر دامادی سادات اور فخر علوّ نسب جو دونوں مماثل و مشابہ ہیں عطا فرمایا.یعنی تمہیں سادات کا داماد ہونے کی فضیلت عطا کی.اور نیز بنی فاطمہ اُمہات میں سے پیدا کر کے تمہاری نسب کو عزت بخشی اور میری نعمت کا شکر کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پایا.یعنی بنی اسحاق کی وجہ سے ایک تو آبائی عزت تھی.اور دوسری بنی فاطمہ کی عزت اس کے ساتھ ملحق ہوئی.اور سادات کی دامادی کی طرف اس عاجز کی بیوی کی طرف اشارہ ہے.جو سیدہ سندی سادات دہلی میں سے ہیں.میر درد کے خاندان سے تعلق رکھنے والے.اسی فاطمی تعلق کی طرف اس کشف میں اشارہ ہے.جو آج سے چالیس برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع کیا گیا جس میں دیکھا تھا کہ حضرات پنج تن سید الکونین حسنین فاطمۃ الزہراء اور علی رضی اللہ عنہ عین بیداری میں - آئے.اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں یہ الہام براہین میں درج ہے.اس میں بطور پیشگی اشارہ یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ تمہاری شادی جو سادات میں مقدر ہے ضروری طور پر ہونے والی ہے.اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اولا دکو خدیجہ کے نام سے یاد کیا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ایک بڑے خاندان کی ماں ہو جائے گی.اس جگہ یہ عجیب لطیفہ ہے کہ خدا نے ابتدائے سلسلہ سادات میں سادات کی ماں ایک فارسی عورت مقرر کی جس کا نام شہر بانو تھا.اور دوسری مرتبہ ایک فارسی خاندان کی بنیاد ڈالنے کے لئے ایک سیدہ عورت مقرر کی جس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.گویا فارسیوں کے ساتھ یہ عوض معاوضہ کیا کہ پہلے ایک بیوی فارسی الاصل سید کے گھر میں آئی.اور پھر آخری زمانہ میں ایک بیوی سیدہ فارسی مرد کے ساتھ بیاہی گئی.اور عجیب تریہ کہ دونوں کے نام بھی باہم ملتے ہیں.اور جس طرح سادات کا خاندان پھیلانے کے لئے وعدہ الہی تھا.اس جگہ بھی براہین احمدیہ کے الہام میں اس خاندان کے پھیلانے کا وعدہ ہے اور وہ یہ ہے.سُبْحَانَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى زَادَ مَجْدَكَ يَنْقَطِعُ ابَاءُ كَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ ، فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلك منه

Page 40

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول اس خاکسار کا سراپنی ران پر رکھ لیا.اور عالم خاموشی میں ایک غمگین صورت بنا کر بیٹھے رہے.اسی روز سے مجھ کو اس خونی آمیزش کے تعلق پر یقین کلی ہوا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِك.غرض میرے وجود میں ایک حصہ اسرائیلی ہے.اور ایک حصہ فاطمی.اور میں دونوں مبارک پیوندوں سے مرکب ہوں.اور احادیث اور آثار کو دیکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ آنے والے مہدی آخرالزمان کی نسبت یہی لکھا ہے.کہ وہ مرکب الوجود ہو گا.ایک حصہ بدن کا اسرائیلی اور ایک حصہ محمدی کیونکہ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ جیسا کہ آنے والے مسیح کے منصبی کاموں میں بیرونی اور اندرونی اصلاح کی ترکیب ہے یعنی یہ کہ وہ کچھ مسیحی رنگ میں ہے اور کچھ محمدی رنگ میں کام کرے گا.ایسا ہی اس کی سرشت میں بھی ترکیب ہے.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۱۶ تا ۱۱۸ ) سر لیپل گریفن کی شہادت سرلیپل گریفن جو ابتدا میں مسٹر گریفن تھا.اور ضلع گورداسپور کا ڈپٹی کمشنر رہ چکا ہے اور بعد میں بھوپال وغیرہ ریاستوں کا مشہور ریذیڈنٹ رہا.اس نے رئیسان پنجاب ایک مشہور کتاب لکھی تھی اس میں اس خاندان کا تذکرہ ان الفاظ میں لکھا ہے.”شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل مستمی ہادی بیگ باشندہ سمر قند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا.اور ضلع گورداسپور میں بودوباش اختیار کی.یہ کسی قدر پڑھا لکھا آدمی تھا اور قادیان کے گرد و نواح کے ۸۴ مواضعات کا قاضی یا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا.کہتے ہیں کہ قادیان اس نے آباد کیا اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بدلتے بدلتے قادیاں ہو گیا.کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی ، شاہی عہد حکومت میں معزز عہدوں پر ممتاز رہا.اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہو گیا تھا.گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنھیا مسلوں سے جن کے قبضے میں قادیاں کے گرد و نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے وہ دراصل ایک نہایت ذی علم بزرگ تھا.(مرتب)

Page 41

حیات احمد ۳۱ جلد اول حصہ اوّل رہے.اور آخر کا راپنی تمام جا گیر کو کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ کی پناہ میں چلا گیا اور سال تک امن و امان سے زندگی بسر کی.اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جا گیر پر قابض ہو گیا تھا.غلام مرتضی کو واپس قادیان بلا لیا تھا اور اس کی جڑی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اُسے واپس دے دیا.اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہا راجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں.نونہال سنگھ ، شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورے میں غلام مرتضی ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا ۱۸۴۱ء میں ایک کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا.ہزارے کے مفسدے میں اس نے کار ہائے نمایاں کئے.اور جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا.اس موقع پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے اچھی خدمات کیں.جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج کے دیوان مول راج کی امداد کے لئے ملتان کی طرف جارہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیرداروں لنگر خاں.ساہی وال اور صاحب خان ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑ کا یا اور مصر صاحبدیال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور ان کو شکست فاش دی.ان کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا.جہاں چھ سو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مر گئے.الحاق کے موقع پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہوگئی.مگر ۷۰۰ روپے کی ایک پنشن غلام مرتضی اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی.اور قادیان اور اس کے گرد ونواح کے مواضعات پر ان کے حقوق مالکانہ رہے.اس خاندان نے غدر ۱۸۵۷ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں.غلام مرتضی نے بہت سے آدمی بھرتی کئے.اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا جبکہ افسر مذکور نے تریموگھاٹ پر نمبر ۴۶ نیو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا.جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ء

Page 42

حیات احمد ۳۲ جلد اوّل حصہ اول میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے نمک حلال رہا.غلام مرتضی جو ایک لائق حکیم تھا ۱۸۷۶ء میں فوت ہوا.اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا.غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس اُن افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے.یہ کچھ عرصہ تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا.اس کا اکلوتا بیٹا کم سنی میں فوت ہو گیا.اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنی کر لیا.جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے.مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت کی.اور اب اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ہے.یہ قادیان کا نمبر دار بھی ہے.“ غرض یہ تمام واقعات ایک متفقہ شہادت اس امر کی ہیں کہ حضرت مسیح موعود جن سے مراد اس کتاب میں مرزا غلام احمد صاحب سے ہے.فارسی الاصل تھے.اور نسبی سلسلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں.قوم بر لاس حضرت مسیح موعود کے خاندان کے متعلق ایک تاریخی بحث حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغلوں کی مشہور قوم بر لاس کی یادگار ہیں.چنانچہ آپ نے اپنی متعدد کتب میں اس کا متعدد مرتبہ ذکر کیا ہے فرماتے ہیں.” ( اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس ہے.کتاب البریۃ صفحہ ۱۳۴) اور برلاس ایک مشہور اور معزز قوم مغل کی ہے جس میں تیمور جیسے نامور فاتح اور صاحب ہمت و استقلال کشور کشا گزرے ہیں.اس قوم کا مورث اعلیٰ قرا چار نامی تھا.جو چھٹی صدی ہجری کے قریب گزرا ہے.یہ شخص نہایت نیک طینت اور پاک منش اور خدا پرست تھا اور یہ پہلا شخص تھا جو اپنی قوم میں سے حلقہ اسلام میں داخل ہو کر اس قوم میں اشاعت اسلام کا باعث ہوا.جان ملکم اور مارخم جیسے متعصب مؤرخین نے بھی قراچار کی بڑی تعریف کی ہے.یہ شخص پہلے چغتائی کا وزیر تھا.مگر اس کی جوانمردی اور شجاعت نے بادشاہ کو ایسا

Page 43

حیات احمد ۳۳ جلد اول حصہ اوّل گرویدہ کیا کہ اسے سول وزارت سے علیحدہ کر کے جنگی وزارت اور سپہ سالاری کے عہدہ پر مقرر فرمایا.قراچار نے اپنی قوم برلاس کو سمرقند کے جنوب کی طرف تخمینا ۳۰ میل کے فاصلے پر شہر کش کے گردونواح میں آباد کیا.اس کے پوتے بر قال کے ہاں دو بیٹے ہوئے.جو بجائے خود تقوی و طہارت میں اپنے زمانہ میں بے نظیر تھے.ایک کا نام طرافے اور دوسرے کا نام حاجی برلاس تھا.اور دونوں حضرت قدوۃ السالکین شیخ شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے.شیخ ایک مشہور بزرگ اور خدا رسیدہ تھے.ان کی بہت سی کرامتیں مشہور ہیں.حضرت صاحبقران تیمور کے متعلق لکھا ہے کہ جب طرافے کے ہاں فرزند پیدا ہوا.تو حسن عقیدت سے دونوں بھائی مل کر بچے کو اپنے مرشد کے پاس لے گئے.جب ان کے حضور پہنچے تو حضرت شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ تلاوت میں مصروف تھے.اور اُس وقت سورۃ الملک کی یہ آیت پڑھ رہے تھے.ا مِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ (الملك : ۱۷) بچے کو دیکھتے ہی فوراً فرما دیا کہ اس کا نام تیمور یعنی دنیا میں انقلاب پیدا کرنے والا رکھو.حضرت صاحبقران تیمور کا نام اس وقت حضرت شمس الدین نے گویا ان حالات اور واقعات کو کشفی رنگ میں دیکھتے ہوئے رکھ دیا جو آئندہ اس عظیم الشان انسان سے ظاہر ہونے والے تھے.اور دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ فی الحقیقت وہ بچہ دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب کا موجب ہوا.اگر چه طرافے بجائے خود ایک نیک اور دیندار مرد خدا تھا لیکن حاجی برلاس کو کیا بلحاظ تقوی وطہارت اور کیا بلحاظ جود و کرم بڑی شہرت حاصل تھی.اور اس کی شہرت کا زیادہ تر باعث حلیمہ خاتون تھی جو پرلے درجہ کی پارسا اور کریم النفس اور رحم دل اور بڑی لائق خاتون تھی.اور اپنے شوہر کی وفادار رفیق اور جاں نثار مشیر تھی.کش کی حکومت حاجی برلاس کے حصہ میں تھی اور دوسرا حاجی برلاس کی اطاعت کرتا تھا.لیکن جب تیمور نے زور پکڑا.تو حضرت شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ کی پیشگوئی کے موافق ایک انقلابی سلسلہ شروع ہو گیا اور تیمور نے کش کی حکومت پر قبضہ کر لیا.اور حاجی برلاس وہاں سے نکل جانے پر مجبور ہوا یہ کوئی نئی بات نہ تھی.دنیوی سلطنتوں اور حشمتوں میں اس قسم کے

Page 44

حیات احمد ۳۴ جلد اوّل حصہ اوّل انقلاب معمولی واقعات ہیں.اور دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے.آجکل یعنی جس زمانہ میں میں یہ لائف لکھ رہا ہوں (۱۹۱۵ ء ) کو یورپ کے محاربہ عظیم نے تمام نسبی اور خونی تعلقات کو قطع کر دیا ہے.بہر حال تیمور نے اپنی حکومت کا دامن وسیع کر دیا.اس وقت کی تاریخ سے جو جغرافیائی کیفیت معلوم ہوتی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ تمام علاقہ جو والگا سے بحیرہ فارس تک اور افغانستان و بلوچستان سے بخارا تک پھیلا ہوا ہے فارس کہلاتا تھا.بلکہ بقول بعض، اکثر حصہ افغانستان و بلوچستان موجودہ اور دریائے گنگا کے منبع سے شمالی علاقہ جو کاشغر کی طرف پھیلا ہوا ہے اسی میں داخل تھا.اور رکش بھی انہیں حدود کے اندر ہے.لیکن خلفاء عباسیہ کے زمانہ میں یہ علاقہ ماوراء النہر کا ایک حصہ شمار ہوتا تھا.اور ایک حدیث میں جو مخرج مہدی کا نشان ماوراء النہر بتایا گیا.(دیکھو النجم الثاقب جلد ۲ صفحہ ۱۸۲) اس کی تصدیق بھی اس سے ہو جاتی ہے.جب کش کی حکومت سے تیمور نے اپنے چا حاجی برلاس کو نکال دیا تو انہوں نے خراسان میں پناہ لی تھی اور وہ وہیں فوت ہو گئے تھے.تیمور نے پیچھے خراسان کا علاقہ فتح کر کے اپنے چچا کی اولا د کو جاگیر میں دے دیا.اس لئے انہوں نے وہاں ہی بود و باش اختیار کی.میرزا ہادی بیگ جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام کے مورث اعلیٰ ہیں.خراسان میں ہی پیدا ہوئے تھے.اور اس طرح پر مسند امام احمد بن حنبل میں جو حدیث لکھی ہے.جس میں مہدی کا خروج خراسان سے لکھا ہے.اگر ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں تو اس کا مطلب یہی تھا.جو مرزا ہادی بیگ کے وجود سے سچا ہوا.کیونکہ اس بزرگ کی نسل سے وہ شہسوار ہدایت پیدا ہوا جو مہدی کہلایا.بر لاس قوم کی ایک خصوصیت برلاس قوم کو دینی علوم اور عملی حالت کی اصلاح کا خاص طور پر خیال رہا ہے.چنانچہ کش جو قوم برلاس کا ایک صدر مقام بن گیا تھا.وہ کثرت صلحاء و علماء وفقہاء کی وجہ سے خصوصیت سے مشہور تھا ( دیکھو تواریخ فارس مرتبہ مارخم ) اس قوم نے اللہ تعالیٰ کو ایسا راضی کر لیا تھا کہ ہر قسم کے انعامات کے لئے یہی قوم منتخب ہو گئی تھی اور قرآن مجید میں جیسے جَعَلَ فِیكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا (المائدة: ٢١) النجم الثاقب مطبوعه مطبع احمدی مغلپورہ پٹنہ.سن اشاعت ۱۳۱۰ھ

Page 45

حیات احمد ۳۵ جلد اوّل حصہ اوّل کے انعام کو بنی اسرائیل کے متعلق بیان کیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو مثیل موسیٰ تھے کی غلامی میں بھی اس انعام سے جو بہرہ اندوز ہونے والے تھے.چنانچہ دنیوی حکومت اور سلطنت تو اس وقت اس کو ملی.اور جَعَلَ فِيْكُمُ انْبِيَاءَ والے انعام سے وہ آخری زمانہ میں سعادت اندوز ہونے والی تھی.اور یہ مقدر ہو چکا تھا کہ وہ سب سے بڑا ربانی فضل جو روحانی بادشاہت کے رنگ میں مہدی مسعود اور مسیح موعود کے وجود میں ہونے والا تھا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی قوم کو منتخب اور برگزیدہ کیا.اور ازل سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ آخری زمانہ کی گمراہی اور ضلالت کے وقت جو گم گشتگان حقیقت کو راہ راست دکھائے گا.مرزا ہادی بیگ کی نسل سے ایک مہدی ہوگا جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کلام میں سلمان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریا پر چلا جائے گا تو ایک فارسی الاصل اُسے واپس لائے گا.پس اس طرح پر یہ ہدایت کا فضل اسی گھرانے کے ساتھ مخصوص ہو چکا تھا جس طرح پر ایک بھائی کی اولا د یعنی تیمور کا الہامی نام اپنے معانی کے لحاظ سے دنیا کے تمدنی انقلاب کا موجب ہوا تھا.اُس کے رگ وریشہ میں انقلابی اجزاء بھرے ہوئے تھے.اسی طرح دوسرے بھائی کی اولاد سے ایک معزز و مقتدر فرزند ہادی بیگ کا نام اشتقاق ھدی سے بن کر ہدایت عالم کے روحانی انقلاب کا پیش خیمہ ہوا.سیح موعود کے مورث اعلیٰ کی ہجرت حضرت مرزا ہادی بیگ علیہ الرحمۃ علم و فضل اور تفقہ فی الدین اور پرلے درجہ کی فیاضی طبع اور شجاعت اور عدل و داد اور علم دوستی کے لئے اپنی قوم و رعایا میں ممتاز اور مُشَارٌ إِلَیہ تھے.ان کے تقوی وطہارت اور جوش و اخلاص دین کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کو عظیم الشان انسان کا باپ بننے کے لئے چن لیا تھا جو اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں کا موعود تھا.اور پہلے نوشتوں میں جس کو بڑے بڑے خطابوں سے یاد کیا گیا تھا.حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب اپنے ملک میں ایک معزز و ممتاز صاحب حکومت تھے.مگر ان اسباب کا کوئی پتہ نہیں ملتا جن کے اثر کے نیچے انہوں نے اپنے وطن کو الوداع کہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

Page 46

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمر قند سے اس ملک میں آئے مگر کاغذات سے یہ پتہ ملتا ہے کہ اس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۶۵۴۶۴ حاشیه ) اصل حقیقت جو ہم قیاس کر سکتے ہیں.کہ چونکہ مسیح موعود کی بعثت کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں کدعہ آچکا تھا اس لئے بعض ایسے اسباب پیدا ہو گئے کہ یہ بزرگ با وجود گھر میں ہر طرح آرام و آسائش کے مشیت ایزدی کے ماتحت وہاں سے چل کھڑے ہوئے.مال و اسباب جو کچھ وہ لے سکے ساتھ لیا.اور اپنے عیال و اطفال اور خدام کو لے کر روانہ ہوئے.یہ مختصر سا قافلہ جو قریباً دو سو آدمیوں پر مشتمل تھا.دسویں صدی ہجری کے قریب خراسان سے نکل کر رکش میں آیا.اور آخر وہاں بھی چین نہ آیا.تو پُر خطر جنگلوں اور بیابانوں کو طے کرتے اور پہاڑوں اور دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے سیدھے پنجاب میں آ داخل ہوئے.نہ تو راستے میں کوئی جگہ مسکن بنانے کے لئے پسند آئی اور نہ ہی پنجاب میں کسی اور جگہ دل لگا آخر دریائے بیاس کے قریب ایک جنگل پڑا تھا.وہاں یہ قافلہ اتر پڑا.گرد و نواح کا علاقہ اپنے تصرف میں لا کر ایک مقام اپنے مکان اور قلعہ کے لئے تجویز کر لیا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود لکھتے ہیں کہ ”میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جواب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے.اور ان کے ساتھ قریباً دوسو آدمی اُن کے توابع اور خدام اور اہل وعیال میں سے تھے.اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے.“ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۶۳،۱۶۲ حاشیه ) ورود پنجاب اور قادیان کا بنیادی پتھر اور اس قصبہ ( قادیان) کی جگہ میں جو اس وقت جنگل پڑا ہوا تھا.اور جو لاہور سے تخمیناً پچاس کوس گوشه شمال و مشرق میں واقعہ ہے فروکش ہو گئے جس کو انہوں نے آباد کر کے اس کا نام

Page 47

حیات احمد ۳۷ جلد اوّل حصہ اوّل اسلام پور رکھا.میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ اس قوم کے اور حضرت مسیح موعود کے مورث اعلیٰ حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کو اسلام سے بہت محبت تھی اور وہ اپنی دینی اور عملی حالت کے لحاظ سے ایک ممتاز بزرگ تھے.یہ بات یہاں آ کر اپنے آباد کردہ قصبہ میں بھی انہوں نے ملحوظ رکھی.ممکن تھا کہ آج کل کے دنیا پرستوں کی طرح اس گاؤں کا نام ہادی پورہ یا بر لاس پورہ رکھ لیتے مگران کی دینداری اور زاہدانہ طبیعت نے پسند کیا کہ اس کا نام اسلام پور رکھیں.چونکہ یہ علاقہ جس میں مرزا ہادی بیگ نے اپنے رہنے کے لئے یہ گاؤں آباد کیا ماجھا کہلاتا تھا.جس کا طولانی حصہ قریباً ساٹھ کوس ہے اور شائد یہ نام اس واسطے رکھا گیا ہو کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی ہیں.اور ماجھ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں.یہ بستی جو حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب نے آباد کی اور جس کا نام اسلام پور رکھا.یوما فَيَوْمًا ترقی کرنے لگی.اور اس کے ارد گرد کثرت سے دیہات آباد ہو گئے اور مرزا ہادی بیگ کی نیک چلنی ، حسن اخلاق، دینداری اور اسلامی غیرت و محبت کا تمام گرد و نواح میں عام شہرہ ہو گیا اور شجاعت و طاقت کی ہیت تمام علاقہ پر چھا گئی.یہاں تک کہ اس سارے علاقہ کی حکومت اس خاندان کے ہاتھ میں آگئی اور اسلام پور جواب قادیان کہلاتا ہے.اس سارے علاقہ کا جو (۶۰ میل تک پھیلا ہوا تھا) صدر مقام ٹھہرا.اور یہیں صدر عدالت یعنی دارالقضا تھا.اس لئے لوگوں نے اس قصبہ کا نام اسلام پور قاضی ما جبھی مشہور کر دیا.چونکہ زبان محاورہ اختصار پسند ہوتی ہے اس لئے رفتہ رفتہ لوگوں نے اسلام پور کو چھوڑ کر کچھ عرصہ تک اس کو قاضی ماجھی کے نام سے پکارتے رہے.اور پھر امتدادِ زمانہ نے قاضی ماجھی کی بجائے صرف قاضی نام باقی رہنے دیا.اور چونکہ ض کے تلفظ میں اہل ہندو پنجاب عموماً د سے کام چلاتے ہیں.اس لئے قاضی کی بجائے قادی ہو گیا.پھر اس سے بگڑ کر قادیان بنا اور آج کل اسی جگہ کو قادیان کہتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا کہ مہدی قصبہ کدعہ سے پیدا ہو گا.وہ اسی قصبہ قادی کا پتہ ہے جو لوگ کشفی زبان اور اجنبیت رسم الخط کی حقیقت کو سمجھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کدعہ اور قادی ایک ہی ہیں.

Page 48

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل یہ قصبہ کدعہ ( قادیان) ۳۳ درجے طولانی خط استوا میں واقعہ ہے اور یہ وہی طول بلد ہے جس میں دمشق ہے اور یہ ظاہر ہے کہ دمشق سے اس کی سمت مشرقی ہے.اگر چہ حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کے وہم وگمان میں بھی یہ امر نہ تھا کہ وہ اس قدر دور و در از سفر طے کر کے ایک جنگل میں کیوں قیام کرتے ہیں.لیکن جس مصلحت الہی نے انہیں خراسان اور کش سے پنجاب کی طرف نکالا.اُسی نے انہیں اس مقام پر آباد ہونے کی تحریک کی تا کہ اس حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء پورا ہو جاوے.جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود کا نزول جانب مشرق دمشق سے ہوگا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے.از کلمه مناره شرقی شرقی عجب چوں خود ز مشرق است تحتی نیرم ورودِ پنجاب کا زمانہ یہ بات کہ مرزا ہادی بیگ صاحب ہندوستان میں کب آئے.اگر چہ اس کی کوئی صحیح تاریخ ہمیں نہیں مل سکی.لیکن یہ ثابت شدہ امر ہے کہ بابر بادشاہ کے عہد حکومت میں اس خاندان کے بزرگ ہندوستان میں سرپل گریفن کی تحقیقات کے موافق یہ ۱۵۳۰ء کا واقعہ ہے.حضرت مسیح موعود لکھتے ہیں کہ :.ان کا غذات اور پرانی تحریرات سے کہ جوا کا بر اس خاندان کے چھوڑ گئے ہیں.ثابت ہوتا ہے کہ بابر بادشاہ کے وقت میں جو چغتائی سلطنت کا مورث اعلیٰ تھا بزرگ اجداد اس نیاز مند الہی کے خاص سمرقند سے ایک جماعت کثیر کے ساتھ کسی سبب سے جو بیان نہیں کیا گیا ہجرت اختیار کر کے دہلی میں پہنچے اور دراصل یہ بات اُن کا غذات سے اچھی طرح واضح نہیں ہوتی کہ کیا وہ بابر کے ساتھ ہی ہندوستان میں داخل ہوئے تھے یا بعد اس کے بلا توقف اس ملک میں پہنچ گئے لیکن یہ امرا اکثر کاغذات کے دیکھنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ گو وہ ساتھ پہنچے ہوں یا کچھ دن پیچھے سے آئے ہوں مگر ترجمہ: مشرقی منارہ والی بات سے تعجب نہ کر کہ جبکہ میرے سورج کا طلوع مشرق سے ہے.

Page 49

حیات احمد ۳۹ جلد اوّل حصہ اول انہیں شاہی خاندان سے کچھ ایسا تعلق خاص تھا جس کی وجہ سے وہ اس گورنمنٹ کی نظر میں معزز سرداروں میں سے شمار کئے گئے تھے چنانچہ بادشاہ وقت سے پنجاب میں بہت سے دیہات بطور جاگیر کے انہیں ملے.اور ایک بڑی زمینداری کے وہ تعلقدار 66 ٹھہرائے گئے.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۶۰ حاشیه ) اس بیان سے ظاہر ہے کہ یہ خاندان ہندوستان میں بہر حال سولہویں صدی مسیحی میں وارد ہوا ہے.اس کی عظمت اور وجاہت اس سے ظاہر ہے کہ اس علاقہ کی حکومت اس کے ہاتھ میں تھی اور جب تک پنجاب کا ملک دہلی کے تخت کا باجگزار رہا یہ خاندان اسی رنگ میں حکمران رہا اور آخر میں جب سلطنت مغل اعظم میں خلل پیدا ہوا تو بطور طوائف الملو کی کے اس علاقہ کے رئیس مستقل اسی خاندان کے بزرگ تھے.اور ان کی حکومت ۸۴ یا ۸۵ گاؤں پر ( تھی) وہ کامل فرمانروا تھے.اور یہ حضرت مرزا گل محمد صاحب حضرت مسیح موعود کے پردادا کا عہد حکومت تھا.غرض یہ ثابت ہو چکا کہ یہ خاندان ایک عظیم الشان نسل اسحاق کی یادگار اور ایک حکمران خاندان کی شاخ ہے اور اس خاندان کا مورث اعلیٰ مرزا ہادی بیگ تھا جو ہندوستان میں آیا.حضرت مرزا ہادی بیگ اگر چہ اس ملک میں ایک معزز ریس کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے مگر ان کی پچھلی ریاست اور امارت سے بجز چند خادموں اور قدرے قلیل مال واسباب کے اور کچھ بھی ان کے پاس نہ رہا تھا.ان کی ہجرت کا اللہ تعالیٰ نے یہ ثمرہ بخشا کہ اسی جگہ ان کی ایک مستقل ریاست قائم ہوگئی.اور ان سے اس خاندان کے اعزاز کا ایک جدید سلسلہ قائم ہوا.اس ریاست میں کئی پشتوں تک مرزا ہادی بیگ کی اولاد امن و امان سے حکومت کرتی رہی یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری کی آمد آمد کی آواز کانوں میں آنے لگی.

Page 50

حیات احمد ۴۰ حضرت مرزا گل محمد صاحب جلد اول حصہ اوّل اسلامی لٹریچر میں یہ صدی نہایت خطرناک اور ظلمت وضلالت کی انتہائی صدی سمجھی گئی ہے اور عوام اور جاہل مسلمانوں تک واقف ہیں کہ اس صدی کے خطرناک مصائب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے.اس میں شک نہیں کہ یہ خطرناک تاریکی ایک عظیم الشان روشنی کا پیش خیمہ تھی اور جیسے بہت بڑی بارش آنے سے پہلے امساک باراں ہوتا ہے ویسے ہی مسیح موعود کے آنے سے پہلے ( جو ایک بہت بڑی بھاری روحانیت کی بارش کے مشابہ ہے ) روحانیت کے باران کا امساک ہونا ضروری تھا.اور جیسے مسلمانوں کے تقویٰ و طہارت اخلاق و اعمال میں انقلاب ہوا اسی طرح ان کی حکومتوں اور سلطنتوں میں بھی زوال آنے لگا.ہم دنیا کے دوسرے حصوں کے مسلمانوں کے تذکرے کو چھوڑ کر پنجاب اور پنجاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان تک اپنے واقعات کے سلسلہ کو محدود کر دیتے ہیں.پنجاب کی پولیٹیکل حالت اس وقت یہ تھی کہ پہلے تو سلطنت عالیہ نے ہی غفلت اور بے پرواہی سے پنجاب کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا.بدامنی پھیل گئی.ڈاکوؤں اور سینہ زور سفاکوں نے شور بپا کر دیا.اور مختلف جماعتیں بن کر پولیٹیکل رنگ اختیار کر لیا.جہاں جس کا بس چلا دو چار گاؤں قبضے میں کر لئے اور حاکم بن بیٹھا.تخت و تاراج عام ہو رہی تھی.انہیں دنوں میں سکھوں کو مسلمانوں کو تکالیف دینے کا خیال پیدا ہوا.اُس زمانہ کے سکھ جہالت اور بے علمی کے گڑھے میں غرق تھے.اور جس طرح جلا دوں کے دل سے رحم اور شفقت کے اجزا نکل جاتے ہیں اسی طرح اس وقت یہ لوگ ہمدردی اور رحم اور شفقت کے خواص سے خالی تھے.ان کی لوٹ کھسوٹ اور کشت وخون سے شہر اور قصبے ویران ہو رہے تھے آج بھی ان کی یاد تازہ کرنے کے لئے صرف سکھا شاہی کا لفظ بول دینا کافی ہے.غرض سکھوں کے غلبہ کا زمانہ پنجاب کے مسلمانوں کے لئے دوزخ کا نمونہ تھا.جس میں مسلمانوں کے اعزاز و اموال اور ریاستیں سب جل رہے تھے.گویا امت محمدیہ بنی اسرائیل کے مصر میں قبضہ قبطیوں میں محبوس ہونے کی طرح سکھوں کی قید میں پڑ گئی تھی.بلکہ یہ قید قبطیوں کی قید سے

Page 51

حیات احمد ام جلد اوّل حصہ اوّل زیادہ سخت تھی.بنی اسرائیل تو کھلم کھلا اپنی عبادات بھی بجالا سکتے تھے لیکن یہاں مسلمانوں کو نماز کے لئے اذان دینے کی بھی اجازت نہ تھی.مسجدوں اور معبدوں کو گرانے میں بڑی خوشی ظاہر کرتے تھے.اس زمانہ کی بر چھا گردی کا ثبوت قادیان میں آج تک ایک مسجد دہرم سالہ بنی ہوئی دے رہی ہے.اس وقت اس خاندان کا جو بزرگ فرمانروائے حکومت تھا.ان کا نام نامی حضرت مرزا گل محمد صاحب تھا.حضرت میرزا گل محمد کا عہد حکومت حضرت میرزا گل محمد صاحب ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے اور اس وقت ۸۵ گاؤں اُن کے قبضہ میں تھے.اور بہت سے گاؤں سکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے.تاہم ان کی جوانمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گاؤں انہوں نے مروّت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دے دیئے تھے جو اب تک ان کے پاس ہیں.میرزا گل محمد صاحب علاوہ ریاست و امارت کے اپنی دیانت، امانت، پرہیز گاری اور مردانہ ہمت اولوالعزمی اور حمایتِ دین و ہمدردی مسلماناں کی صفت میں بہت مشہور تھے اور مشائخ و بزرگان زمانہ سے شمار ہوتے تھے.اور صاحب خوارق و کرامات تھے.ان کی صحبت میں رہنے کے لئے بہت سے اہل اللہ اور صلحاء و علماء و فضلاء قادیان میں جمع رہتے تھے.اور عجیب تریہ بات ہے کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور ہیں کہ ایک گروہ کثیر مخالفان دین کا بھی گواہی دیتا رہا ہے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے فسق و فجور سے دور رہنے والے بہادر اور بارعب آدمی تھے.ہمیشہ قریب پانچ سو آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ان کے دستر خوان پر روٹی کھاتے تھے.اور ایک سو قریب ( دوسری روایت کے موافق پانچ سو ) علماء اور صلحاء اور حافظ قرآنِ شریف کے اُن کے پاس رہتے تھے.جن کے کافی وظیفے مقرر تھے اور ان کے دربار میں اکثر قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا اور تمام ملازمین اور کہتے ہیں حضرت شاہ عبداللہ غازی بزرگ ان کے ہی زمانہ میں تھے.(مرتب)

Page 52

حیات احمد ۴۲ جلد اوّل حصہ اوّل متعلقین میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تارک نماز ہو.یہاں تک کہ چکی پینے والی عورتیں بھی پنج وقتہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں.اور گرد و نواح کے معزز مسلمان جو اکثر افغان تھے.قادیان کو جو اس وقت اسلام پور کہلاتا تھا مکہ کہتے تھے.کیونکہ اس پُر آشوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کے لئے یہ قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھا اور دوسری اکثر جگہوں میں کفر اور فسق اور ظلم نظر آتا تھا اور قادیان میں اسلام اور تقویٰ اور طہارت اور عدالت کی خوشبو آتی تھی.گویا اس وقت یہ ایک باغ تھا جس میں حامیانِ دین اور صلحاء اور علماء اور نہایت شریف جوانمرد آدمیوں کے صدہا پودے پائے جاتے تھے اور سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے تھے.منکرات شرعی کو اپنے حد و دریاست میں وہ رائج نہیں ہونے دیتے تھے اور اگر کوئی مسلمان ہو کر خلاف شعار اسلام کوئی لباس یا وضع رکھتا تھا.تو وہ سخت مورد عتاب ہوتا تھا اور سقیم الحال اور غرباء اور مساکین کی خبر گیری کے لئے ایک خاص سرمایہ نقد و جنس کا جمع رہتا تھا.جو وقتاً فوقتاً ان میں تقسیم ہوتا رہتا تھا.حضرت مرزا گل محمد صاحب ایسے صائب تدبیر اور قابل ناظم تھے کہ اُس طوائف الملو کی اور سکھا شاہی میں انہوں نے اپنے وقار اور امتیاز کو قائم رکھا.وہ اپنے پچاسی گاؤں پر کامل اقتدار کے ساتھ فرمانروا تھے.اور انہوں نے اپنی مستقل ریاست کا پورا پورا انتظام کر لیا تھا اور دشمنوں کے حملے روکنے کے واسطے ایک کافی فوج اپنے پاس رکھ لی اور تمام زندگی ان کی ایسی حالت میں گزری کہ کسی دوسرے بادشاہ کے ماتحت نہیں تھے اور نہ کسی کے خراج گذار بلکہ اپنی ریاست میں خود مختار حاکم تھے اور قریب ایک ہزار کے سوار و پیادہ ان کی فوج تھی.اور تین تو ہیں بھی تھیں.ایسی حالت میں جبکہ دہلی کی سلطنت بجائے خود مشکلات میں تھی.ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا جس کا نام غیاث الدولہ تھا قادیان میں آیا اور اس نے حضرت مرزا گل محمد صاحب کے مدبرانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولوالعزمی اور استقلال اور عقل و فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دین اور تقوی وطہارت اور دربار کے وقار کو دیکھا اور ان کے اس مختصر دربار کو نہایت متین، عقلمند اور نیک چلن اور بہادر مردوں سے پر پایا.تب وہ چشم پر آب ہو کر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہوتی ، کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں

Page 53

حیات احمد ۴۳ جلد اوّل حصہ اول سے ایسا مرد موجود ہے.جس میں صفات ضرور یہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں.تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا.کہ ایام کسل اور نالیاقتی اور بدوضعی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھایا جاوے.غرض میرزا صاحب مرحوم ایک مرد اولوالعزم اور متقی اور غایت درجہ کے بیدار مغز اور اوّل درجہ کے بہادر تھے.اگر اس وقت مشیت الہی مسلمانوں کے مخالف نہ ہوتی.تو بہت امید تھی کہ ایسا بہادر اور اولو العزم آدمی سکھوں کی شورش سے پنجاب کا دامن پاک کر کے ایک وسیع سلطنت اسلام کی اس ملک میں قائم کر دیتا.جس حالت میں رنجیت سنگھ نے باوجود اپنی تھوڑی سی پدری ملکیت کے جو صرف نو گاؤں تھی.تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر پیر پھیلائے تھے جو پشاور سے لودہانہ تک خالصہ ہی خالصہ نظر آتا تھا.اور ہر جگہ ٹڈیوں کی طرح سکھوں ہی سکھوں کی فوجیں دکھائی دیتی تھیں.تو کیا ایسے شخص کے لئے یہ فتوحات قیاس سے بعید تھیں.جس کی گم شدہ ملکیت میں سے ابھی چوراسی یا پچاسی گاؤں باقی تھے.اور ہزار کے قریب فوج کی جمعیت بھی تھی.اور اپنی ذاتی شجاعت میں ایسے مشہور تھے کہ اس وقت کی شہادتوں سے بہ بداہت ثابت ہے کہ اس ملک (ماجھا) میں ان کا کوئی نظیر نہ تھا.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے یہی چاہا تھا کہ مسلمانوں پر ان کی بے شمار غفلتوں کی وجہ سے تنبیہ نازل ہو.اس لئے مرزا صاحب مرحوم اس ملک کے مسلمانوں کی ہمدردی میں کامیاب نہ ہو سکے.حضرت مرزا گل محمد صاحب ولی اور صاحب کرامات تھے اور میرزا صاحب مرحوم کے حالات عجیبہ میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفین مذہب بھی ان کی نسبت ولایت کا گمان رکھتے تھے اور ان کے بعض خارق عادت امور عام طور پر دلوں میں نقش ہو گئے تھے.یہ بات شاذ و نادر ہوتی ہے کہ کوئی مذہبی مخالف اپنے دشمن کی کرامات کا قائل ہولیکن حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مرزا صاحب مرحوم کے بعض خوارق عادات ان سکھوں کے منہ سے سنے ہیں جن کے باپ دادا مخالف گروہ میں شامل ہو کر لڑتے تھے.اکثر آدمیوں کا بیان ہے کہ بسا اوقات مرزا صاحب مرحوم صرف اکیلے ہزار ہزار آدمی کے مقابل پر

Page 54

حیات احمد ۴۴ جلد اوّل حصہ اوّل میدانِ جنگ میں نکل کر ان پر فتح پاتے تھے.اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ان کے نزدیک آ سکے.اور ہر چند جان توڑ کر دشمن کا لشکر کوشش کرتا تھا کہ تو پوں یا بندوقوں کی گولیوں سے ان کو ماریں مگر کوئی گولی یا گولہ ان پر اثر نہیں کرتا تھا.یہ کرامت ان کی صد ہا موافقین و مخالفین بلکہ سکھوں کے منہ سے سنی گئی ہے.جنہوں نے اپنے لڑنے والے باپ دادوں سے سند بیان کی تھی.لیکن میرے نزدیک یہ کچھ تعجب کی بات نہیں.اکثر لوگ ایک زمانہ دراز تک جنگی فوجوں میں نوکر رہ کر بہت سا حصہ اپنی عمر کا لڑائیوں میں بسر کرتے ہیں.اور قدرت حق سے کبھی ایک خفیف سا زخم بھی تلوار یا بندوق کا ان کے بدن کو نہیں پہنچتا.سو یہ کرامت اگر معقول طور پر بیان کی جائے کہ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمنوں کے حملوں سے انہیں بچاتا رہا تو کچھ حرج کی بات نہیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ میرزا صاحب مرحوم دن کے وقت ایک پُر ہیبت بہادر اور رات کے وقت ایک باکمال عابد تھے اور معمور الاوقات اور متشرع بزرگ تھے.حضرت میر زاگل محمد صاحب کی وفات حضرت میرزا گل محمد صاحب نے ہچکی کی بیماری سے وفات پائی.ہچکی کے ساتھ بعض اور عوارض بھی تھے.بیماری کے غلبہ کے وقت اطباء نے اتفاق کر کے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کا استعمال کیا جائے تو غالباً اس سے فائدہ ہوگا.مگر جرأت نہیں رکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں.آخر بعض نے ان میں سے نرم تقریر میں عرض کر دیا.تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفا دینا منظور ہو تو اس کی پیدا کردہ اور بھی بہت سی دوائیں ہیں.میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا تعالیٰ کے قضا و قدر پر راضی ہوں.“ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۷۰ حاشیه ) آخر چند روز کے بعد اسی مرض سے انتقال فرما گئے.موت تو مقدر تھی.مگر ان کا یہ طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یادگار رہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا.موت سے بچنے کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا لیکن انہوں نے معصیت کے ارتکاب سے موت کو بہتر سمجھا.

Page 55

حیات احمد ۴۵ جلد اول حصہ اوّل ا افسوس ان بعض نوابوں اور امیروں کی حالت پر کہ اس چند روزہ زندگی میں اپنے خدا اور اس کے احکام سے بکلی بے پرواہ ہو کر اور خدا تعالیٰ سے سارے علاقے تو ڑ کر دل کھول کر ارتکاب معصیت کرتے ہیں.وہ شراب کو پانی کی طرح پیتے ہیں.اور اس طرح اپنی زندگی کو نہایت ناپاک اور پلید کر کے اور عمر طبعی سے بھی محروم رہ کر اور بعض ہولناک عوارض میں مبتلا ہو کر جلد تر مر جاتے ہیں.اور آئندہ نسلوں کے لئے نہایت خبیث نمونہ چھوڑ جاتے ہیں.جناب مرزا عطا محمد صاحب مرزا گل محمد صاحب کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے مرزا عطا محمد صاحب جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دادا ہیں گدی نشین ہوئے.چونکہ حضرت مرزا صاحب کے لئے یہ مقدر تھا کہ آبائی شہرت اور عزت کا سلسلہ منقطع ہو کر نیا سلسلہ مجد واکرام کا اُن سے شروع ہو اس لئے خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے گو سکھوں کے حملے کو روکنے اور ریاست بچانے کے لئے بڑی بڑی تدبیریں کیں لیکن ہر تدبیر میں ناکامی ہوتی رہی.لڑائی میں سکھ غالب آئے.ان کے عہد حکومت کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں.مگر جبکہ قضاء و قدر اُن کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے ناکام رہے اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے یہاں تک کہ دادا صاحب مرحوم کے پاس صرف ایک قادیان رہ گئی اور قادیان اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر ایک قصبہ تھا اور اس کے چار بُرج تھے اور بُرجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے اور چند تو ہیں تھیں اور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اس قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اس پر جا سکتے تھے اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جو رام گڑھیہ کہلاتا تھا.اوّل فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا.اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی

Page 56

حیات احمد ۴۶ جلد اوّل حصہ اول آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے.اور اُن کے مال و متاع سب لوٹے گئے.کئی مسجد میں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا.اور بعض مسجدیں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے، دہرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا.اُس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا.جس میں سے پانسونسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا.جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ تمام مردو زن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے.اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزین ہوئے.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اُن ہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے دادا صاحب کو زہر دی گئی.“ کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۷۳ تا ۱۷۵ حاشیه ) جناب مرزا غلام مرتضی صاحب غرض میرزا عطا محمد صاحب اپنے اہل و عیال کو لے کر ریاست کپورتھلہ کے علاقہ میں بمقام بیگووال چلے گئے.ریاست کپورتھلہ اس وقت راجہ فتح سنگھ صاحب کے قبضہ میں تھی.کئی سال تک خاندان بیگووال میں رہا اور اسی جگہ مرزا عطا محمد صاحب نے وفات پائی اور جناب مرزا غلام مرتضی صاحب آپ کے فرزند رشید خاندان مذکور کے سر پرست قرار پائے اور مرزا غلام مرتضی صاحب راتوں رات مرزا عطا محمد صاحب کا جنازہ قادیان لائے اور ان کو یہاں خاندانی قبرستان میں دفن کیا.اس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد رنجیت سنگھ نے دوسری چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست بنالی.اور لودہانہ سے پشاور تک اور کشمیر سے حدود سندھ تک اپنی ریاست کا سلسلہ پھیلا لیا.اور مہارا جگی کا لقب اختیار کر لیا.اگر چہ رنجیت سنگھ کا عہد مسلمانوں کے لئے مصائب ہی کا زمانہ تھا.تا ہم وہ بذات خود دوسرے سکھوں سے نسبتاً بہتر اور وسیع الاخلاق تھا.مرزا غلام مرتضی صاحب نے اس کے دربار میں رسائی حاصل کر لی.اور مہاراجہ صاحب نے انہیں واپس بلا لیا.اور ان کی جدی

Page 57

حیات احمد ۴۷ جلد اوّل حصہ اوّل ریاست کا صدر قادیان اور پانچ اور دیہات دے دئے.اگر چہ مرزا غلام مرتضی صاحب کی اس وقت کی حالت کے لحاظ سے یہ بڑی کامیابی تھی مگر ان کو اپنے خاندان کی کامیابیوں اور اس کی ریاست پر نظر کر کے یہ خیال آتا تھا کہ جس طرح ممکن ہو اپنے دیہات مقبوضہ کو پھر حاصل کیا جاوے.اور وہی پہلی ریاست کی شان قائم کی جاوے.اُن کی کوشش اور محنت دن رات یہی تھی لیکن مشیت ایزدی کچھ اور چاہتی تھی.اس لئے وہ اس خیال میں کامیاب نہ ہو سکے اور اس نا کامی کا انہیں بہت صدمہ تھا.حضرت مرزا صاحب نے ان کی حالت کا آپ اس طرح پر اظہار کیا ہے.کہ ”میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے.انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار روپیہ کے قریب خرچ کیا تھا جس کا انجام آخر نا کامی تھی.کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور ان کا واپس آنا ایک خیالِ خام تھا.اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے.اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیاوی کدورتوں سے پاک ہے.اگر چہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے.اور سرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا اور ایامِ ملازمت کی پنشن بھی تھی.مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ بیچ تھا اس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو آج شائد قطب وقت یا غوث وقت ہوتا.اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے.بگذشت و نماند است جز آیا می چند عمر به که در یاد کے صبح کنم شامے چند ترجمہ: زندگی گزرگئی اور اس کے چند ایام باقی ہیں.بہتر یہی ہے کہ اب کسی کی (یعنی خدا تعالیٰ کی یاد میں چند شامیں صبح تک صرف کر دی جائیں.

Page 58

حیات احمد ۴۸ جلد اوّل حصہ اول اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے تھے.اور وہ یہ ہے.از در تو اے کس ہر ہے کسے امید نیست امیدم که بروم اور کبھی درددل سے یہ شعرا اپنا پڑھا کرتے تھے.باب دیده عشاق خاکپائے کے و مرا دلی است که در خون تپد بجائے کسے حضرت عزت جل شانہ کے سامنے خالی جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کرتی گئی تھی.بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے.کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کر دی.کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۷ تا۱۸۹ حاشیه) حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی رؤیا ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں.جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے.تو میں اس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا.جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے.یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا.اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے.یہ دیکھ کر میں چشم پر آب ہو گیا اور پھر آنکھ کھل گئی.اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے.کہ دنیا داری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی ا ترجمہ: اے وہ جس کے دروازے پر ہر کس و ناکس حاضر ہوتا ہے.مجھے امید ہے کہ میں اس دروازے سے بے مراد نہیں رہوں گا.کے ترجمہ: عاشقوں کے آنسوؤں اور کسی کے پاؤں کی خاک کی قسم ہے کہ میرے دل میں یہ تمنا ہے کہ وہ کسی ( یعنی خدا تعالیٰ کی محبت میں خون آلود ہو جائے.

Page 59

حیات احمد ۴۹ جلد اوّل حصہ اول طرح ہے.اور فرمایا کرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن ہی میں گزرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر نا کامی تھی.اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پردادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے.جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا ہے.اور دوسرا یہ ہے کہ ع جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے.“ اور یہ غم اور در داُن کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا.“ ) کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۸۹ تا ۱۹۱ حاشیه ) حضرت میرزا غلام مرتضی بہ حیثیت طبیب کے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب ایک حاذق طبیب تھے اور ان کی طبعی قابلیت اور حذاقت مسلم تھی.طب ان کے لئے ذریعہ معاش نہ تھا بلکہ محض نفع رسانی مخلوق کے لئے وہ اس شغل کو رکھتے تھے.ان کے علاج میں جو بات قابل قدر ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ علاج ہمیشہ سہل الحصول تجویز کیا کرتے امراء اور روساء جب ان کی طرف رجوع کرتے تو مرزا صاحب کی عادت تھی کہ طبقہ امراء میں جو کبر اور نخوت ہوتی ہے.اس کی اصلاح کے لئے اوّلاً عدم توجہی فرماتے تھے غرباء کی طرف بہت جلد متوجہ ہوتے اور بعض اوقات قیمتی سے قیمتی ادویات بھی بڑی فیاضی سے دے ڈالتے تھے اور اگر مریض کو جا کر دیکھنے کی ضرورت ہوتی تو کبھی مضائقہ نہ فرماتے تھے.ان کے طبی مشوروں اور معرکہ کے علاجوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ان کے دیکھنے والے ابھی زندہ ہیں.مجھے اگر اس مضمون کے ضرورت سے زیادہ لمبا ہو جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں درج کرتا.تاہم ایک دو واقعات اس لئے درج کرتا ہوں کہ ان سے اندازہ ہو سکے کہ آپ کس غم خواری اور ہمدردی سے علاج کرتے اور معاً اس کو ذریعہ معاش بنانے سے کس طرح پر ہیز فرماتے.طبی ذریعہ سے روپیہ کمانا شرعاً یا عرفاً نا جائز نہ تھا بلکہ طبتی پیشہ ہمیشہ ایک معزز اور قابل قدر پیشہ سمجھا گیا ہے.جس کی ضرورت ایک گدا سے لے کر بادشاہ تک کو ہوتی ہے.مگر با ایں

Page 60

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول مرزا صاحب نے اس فن کو نوع انسان کی بھلائی کا ایک ذریعہ ہمیشہ سمجھا اور اپنے عمل سے ثابت کیا.ایک مرتبہ قادیان میں ہیضہ کی سخت وارداتیں شروع ہوئیں.مرزا صاحب ان دنوں بٹالہ میں تھے.جہاں آپ کی جائیداد غیر منقولہ از قسم مکانات و دوکانات تھی.ہیضہ کی وارد تیں ابھی چوہڑوں میں ہورہی تھیں.وہاں جب آپ کو اطلاع ملی تو آپ فوراً قادیان آئے اور چوہڑوں کے گھروں کے پاس آ کر ٹھہر گئے.اور نہایت ہمدردی ظاہر کی اور ان کو تسلی دی.وہاں ہی کھڑے کھڑے حکم دیا کہ قادیان کے عطّار آملہ ، کشٹے ، گڑ اور نمک لیتے آویں.اور مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں ڈلوا دیا اور حکم دیا کہ جو چاہے گڑ ڈال کر پیئے اور جو چاہے نمکین پئے.دوسرے دن ہیضہ سے قادیان پاک ہو گیا.یہ تو چوہڑوں کے ساتھ جو نہایت غلیظ قوم ہے آپ کی ہمدردی کی ایک مثال ہے.ایک دوسرے موقع پر بٹالہ کا راجہ تیجا سنگھ بیمار ہوا اس کو کار بنکل کی قسم کا ایک پھوڑا تھا.بہت معالجات کئے گئے کوئی صورت فائدہ کی نہ ہوئی.آخر حضرت مرزا صاحب قبلہ کی طرف رجوع کیا گیا اور اپنے عمائد کو بھیج کر مرزا صاحب کو بلایا.مرزا صاحب کی توجہ اور تشخیص بے خطا ثابت ہوئی.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں شفا دی.راجہ صاحب نے مرزا صاحب قبلہ کو ایک کثیر رقم اور خلعت شتاب کوٹ کے علاوہ بعض دیہات ان دیہات میں سے جو آپ کی ریاست کا ایک جزو تھے دینے کے لئے پیش کیا.مگر آپ نے نہایت حقارت کے ساتھ اسے واپس کر دیا.اور باوجود اصرار کے انکار کیا اور فرمایا:.میں ان دیہات کو علاج میں لیتا اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے ہتک سمجھتا ہوں.“ بات بظاہر نہایت معمولی ہے مگر اس سے اُن کی علو ہمتی اور بلند خیالی کا پتہ لگتا ہے.اور ہر شخص اس واقعہ سے نتیجہ نکال سکتا ہے کہ وہ اپنی ریاست کو اپنی ہمت بازو سے لینا چاہتے تھے.

Page 61

حیات احمد ۵۱ جلد اوّل حصہ اوّل دشمنوں کے ساتھ سلوک جناب مرزا غلام مرتضی صاحب قبلہ با وجود اپنی طبی حذاقت کے بلا تفریق ہندو مسلمان، چوہڑہ، چمار، امیر، غریب سب کو فیض پہنچاتے تھے.اور دور دور سے لوگ ان کے معالجہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے آتے تھے.اور یہ مسلم بات ہے کہ ان کا ہاتھ دستِ شفا مشہور تھا.دشمنوں کو بھی اپنے اس فیض سے محروم نہ رکھتے تھے.بلکہ بہت جلد ان کی طرف توجہ کرتے.جب موقع ہوتا اور جس طرح بھی ممکن ہوتا دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک سے کبھی نہ رکتے.یہ بے نظیر خوبی بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے.دنیا دار تو خصوصیت سے اس عیب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں کو بجز گزند پہنچانے کے اور کچھ جانتے ہی نہیں.مگر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ہمیشہ اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرتے.قادیان میں اُن کی رعیت کے بعض محسن کش لوگ ان کے مقابلہ میں قسم قسم کی شرارتیں کرتے اور مقدمات کا سلسلہ شروع کر دیتے لیکن وہ ساتھ ہی جانتے اور یقین کرتے تھے کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کا وجود ان کے لئے ابر رحمت ہے.وہ کینہ تو ز اور انتقامی فطرت رکھتے ہی نہ تھے.کہتے ہیں کہ ایک دکھ دینے والا دشمن جو قادیان ہی کا باشندہ تھا فوت ہو گیا.ایک شخص نے آکر میرزا صاحب کو مبارکباد دی تو انہوں نے اس کو اپنی مجلس سے نکال دیا اور سخت ناراض ہوئے.اس کی وفات پر اظہار افسوس کیا.یہ فطرت ہر شخص کو نہیں دی جاتی اور بجز وسیع الحوصلہ انسان کے کسی کا یہ کام نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرے.یہ لوگ جو آئے دن ان کی مخالفت کرتے.جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاتے تو ان کا حضرت مرزا صاحب کے پاس آکر صرف یہ کہ دینا کافی ہوتا کہ ہم تو آپ کی رعایا ہیں پھر وہ اپنی شان اور ہمت کے خلاف پاتے کہ ان کی ایذا رسانی کی کوشش کریں.بلکہ ان کی تکالیف اور شکایت کو دور کر دینے کے لئے ہر ممکن سعی فرماتے.حکام چونکہ حضرت مرزا صاحب کی بہت عزت و احترام کرتے تھے اور مقامی حکام ان کے مکان پر تشریف لاتے تھے.اس لئے ایسے معاملات میں جو حکام سے متعلق ہوتے حضرت مرزا صاحب بلا تکلف مراسلہ لکھ دیتے اور معاملات کو رفع دفع کرا دیتے.

Page 62

حیات احمد ۵۲ جلد اول حصہ اوّل اولوالعزمی اولوالعزمی کی خاص شان اُن میں پائی جاتی تھی.شجاعانہ اولوالعزمی اُن سے ہمیشہ مشاہدہ میں آتی تھی.ایک مرتبہ گھوڑی پر سے گر پڑے اور سخت چوٹ آئی.مگر اُس چوٹ کی ذرا بھی پروانہ کر کے فورا لاٹھی لے کر چلتے ہوئے اپنے مکان پر پہنچ گئے.باہر جب نکلتے تو ہمیشہ کمر بستہ نکلتے.گویا ہر وقت ایسے مقابلہ کے لئے تیار ہوتے تھے جو پیش آجاوے.اگر چہ مرزا غلام مرتضی صاحب جدی ریاست کے دیہات حاصل کرنے کے خیال میں تمام عمر سرشار رہے لیکن اس بات سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ وہ نیک نیت، صاف دل اور غیور مسلمان تھے.ان کے چال چلن پر خبیث معصیت اور فواحش کا کوئی داغ نہیں.اور وہ ایک مستقل مزاج اور نوع انسان کے ہمدرد تھے.شاعرانہ مذاق حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے طبیعت رسا پائی تھی اور فارسی میں نہایت عمدہ شعر کہتے تھے.بعض اشعار آپ کے اوپر درج کئے گئے ہیں.تحسین تخلص فرماتے تھے.افسوس ہے آپ کا کلام جمع نہیں ہو سکا.خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک مرتبہ ان کا کلام جمع کیا تھا اور حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر پنجابی اخبار مرحوم کو دیا تھا.ان کے ساتھ ہی وہ بھی تلف ہوا تاہم راقم اس کوشش اور فکر میں ہے کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب قبلہ کے کلام کو پھر جمع کرے اور اس میں انشاء اللہ کامیابی کی امید ہے.کلام کا اندازہ کرنے کے لئے وہ دو تین شعر بھی کافی ہیں.جو او پر میں نے درج کئے ہیں.حضرت میرزاغلام مرتضی صاحب کی وفادارانہ سپرٹ باوجود یکہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب خود ایک حکمران خاندان کی یادگار تھے.اور وہ اپنی ریاست اور جاگیر کے حصول کے لئے ہر طرح کوشاں تھے.مگر ایک بات ان میں ایسی اعلیٰ درجہ کی تھی

Page 63

حیات احمد ۵۳ جلد اول حصہ اوّل کہ جس کی نظیر بہت ہی کم پائی جاتی ہے.اور وہ آپ کا وفادارانہ جذبہ تھا.قرآن مجید نے حکومت وقت کی سچی فرمانبرداری کی تعلیم دی ہے.اور اس لحاظ سے ایک سچے مسلمان کا یہ فرض ہے کہ جب وہ ایک رعایا کی حیثیت سے رہتا ہو تو اپنی حکومت کا سب سے بہتر وفادار شہری ہو.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے اپنی سپرٹ کا اظہار عملی رنگ میں ہر ایسے موقع پر کیا جب اس کی ضرورت محسوس ہوئی.سب سے اوّل حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب بیگووال سے بلائے گئے.اور مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ان کی جڑی جاگیر کا ایک حصہ انہیں واگزار کر دیا تو حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گئے.اور انہوں نے کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سرانجام دیں.جیسا کہ سرلیپل گریفن کے بیان میں ناظرین پڑھ چکے ہیں.نو نہال سنگھ.شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورہ میں بھی حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب ہمیشہ فوجی خدمات پر مامور رہے.اور ۱۸۴۱ء میں وہ ایک پیادہ فوج کے کمیدان بنا کر پشاور بھیجے گئے.اور مفسد ہ ہزارہ میں انہوں نے اپنی نمایاں خدمات کا ثبوت دیا.جن سے یہ بات کھل گئی کہ مرزا غلام مرتضی صاحب جیسے ایک اعلیٰ درجہ کا سپاہی ہے ویسے ہی اعلیٰ درجہ کا سٹیٹسمین (مدبر ) بھی ہے.جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی اُس وقت حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے اپنی سرکار کی پوری وفا داری کا ثبوت دیا.اور اس کی طرف سے لڑے.مفسد ہ ۱۸۵۷ء میں خدمات جب ۱۸۵۷ء کا غدر ہوا اور ملک میں ایک طوفان بے تمیزی پیدا ہو گیا.اس وقت بعض لوگوں کو یہ خیال ہو گیا تھا کہ وہ اپنی گم شدہ ریاستوں کو غدر کی آڑ میں حاصل کرنے کی کوشش کریں.مگر حضرت مرزا صاحب نے اس حالت میں بھی سرکار انگریزی کے ساتھ کچی وفاداری اور دوستی کا پورا ثبوت دیا اور اس عہد دوستی کو ایسا نباہا کہ وہ آج تک ایک قابل قدر خدمت سمجھی جاتی ہے.اُس مفسدہ کے وقت بھرتی میں مدد دینے کے علاوہ پچاس گھوڑے معہ ساز وسامان وسواران اپنے خرچ

Page 64

حیات احمد ۵۴ جلد اوّل حصہ اوّل سے سرکار انگریزی کو دئے.اور آپ کے بڑے صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت لڑ رہے تھے جبکہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر ۴۶ نیو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا.جنرل نکلسن صاحب بہادر نے مرزا غلام قادر صاحب کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا تھا کہ:.۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان، ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا ہے.“ غرض حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب اپنے زمانہ ء حیات میں حکومت کے پورے فرمانبردار اور وفادار دوست تھے.گورنمنٹ نے ان کی خدمات کا ہمیشہ اعتراف کیا.اور مرزا صاحب موصوف گورنمنٹ کے حکام اور عہدہ داروں کی نظر میں ایک موقر اور معتمد دوست سمجھے جاتے تھے.دربار گورنری میں انہیں کرسی دی جاتی تھی.اور ان کی تحریروں پر حرمت کے ساتھ غور کیا جاتا تھا.حکام نے جو چٹھیات انہیں وقتا فوقتا لکھی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دلی جوش سے لکھی گئی ہیں.جو بغیر ایک خاص خیر خواہ اور بچے وفادار کے کسی دوسرے کے لئے تحریر نہیں ہوسکتی ہیں.اکثر صاحبان ڈپٹی کمشنر و کمشنر اپنے ایامِ دورہ میں اظہار محبت و مودت کے لئے مرزا صاحب کے مکان پر جا کر ملاقات کرتے تھے اور کبھی کبھی ایسا بھی اتفاق ہوا کہ مرزا صاحب اُن کی ملاقات کے لئے نکلے ہیں اور پالکی میں جا رہے ہیں.سامنے سے عہدہ دار مذکور آ گیا اور اس نے ان کی عزت و مرتبہ کے لحاظ سے پسند نہیں کیا کہ مرزا صاحب پالکی سے اتریں.وہ آپ ساتھ ساتھ باتیں کرتا ہوا مکان تک چلا گیا ہے.ان کی اس عزت و اکرام کا پتہ ان خطوط سے بھی ملتا ہے جو آپ کی وفات پر ڈپٹی کمشنر سے لے کر کمشنر اور فنانشل کمشنر اور لیفٹینٹ گورنر بہا در تک نے آپ کی تعزیت میں لکھے.میں اس حصہ مضمون کو نا تمام سمجھوں گا.اگر ان چٹھیات میں سے بعض کو یہاں درج نہ کروں جو حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی خدمات اور وفاداری کے اعتراف میں سرکاری عمائد کی طرف سے آئی تھیں.

Page 65

حیات احمد Translation of Certificate of J.M.Wilson ۵۵ جلد اوّل حصہ اول نقل مراسله ولسن صاحب) تہور پناہ شجاعت دستگاه مرزا غلام مرتضی To نمبر ۳۵۳ Mirza Ghulam Murtaza Khan, Chief of Qadian.I have parused your application reminding me of your and your family's past رئیس قادیان حفظه عریضه شما مشعر بر یاد دہانی خدمات و services and rights and I am حقوق خود و خاندان خود به ملاحظه حضور well aware that since introduction of the British اب درآمد ما خوب میدانیم که بلا شک اجناب Government you and your | شما و خاندان شما از ابتدائی دخل و حکومت family have certainly remained devoted faithful and steady سرکار انگریزی جاں نثار وفا کیش ثابت are really worthy of regard.In subjects and that your rights | قدم مانده اید و حقوق شما دراصل قابل قدر every respect you may rest اند بهر نسج تسلی و تشفی دارید.سرکار انگریزی assured and satisfied and that the British Government will حقوق و خدمات خاندان شما را هرگز فراموش never forget your family's rights | نخواهد کرد و بموقعه مناسب بر حقوق و and services which will receive due consideration when a خدمات شما غور و توجه کرده خواهد شد باید که favourable opportunity offers ہمیشہ ہوا خواہ و جان نثار سرکار انگریزی itself.You must continue to be faithful and devoted subjects as in it lies the satisfaction of the Government and welfare.11-06-1849, Lahore بمانند که در میں امر خوشنودی سرکار و بهبودی شما متصور است - فقط المرقوم ارجون ۱۸۴۹ء مقام لا ہور.انارکلی

Page 66

حیات احمد Translation of Mr.Robert Casts Certificate To Mirza Ghulam Murtaza Khan Chief of Qadian.As you rendered great help in enlisting soware Government in the mutiny of to horses ۵۶ نقل مراسله جلد اوّل حصہ اوّل ( رابرٹ کسٹ صاحب بہادر ) کمشنر لاہور تہور و شجاعت دستگاه مرزا غلام مرتضی رئیس قادیان به عافیت باشند.از انجا کہ ہنگام مفسد ہ ہندوستان موقوعه Supplying | ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و and maintained loyalty 1857 مدد دہی سرکار دولتمدار انگلشیه در باب نگهداشت since its beginning up to date and thereby gained the favour سواران و بهمرسانی اسپان بخوبی بمنصہ ء ظہور of Government of khilat worth پہونچی.اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ a Rs.200 is presented to you in recognition of good services reward for your and as loyality.More over in accordance with the wishes of Chief Commissioner as conveyed in his No.576, Dated 10th August is parwana this 1858 addressed to you as a token of بدل ہوا خواہ سرکار رہے.اور باعث خوشنودی سرکار ہوا.لہذا بجلد وی اس خیر خواہی و خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو صد روپیہ کا سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے.اور حسب منشاء چٹھی صاحب کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخه ۱۰/اگست چیف ۱۸۵۸ء پروانہ ہذا باظہار خوشنودی سرکار satisfaction of Government for | نیکنامی و وفاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے.your fidelity and repute.مرقوم تاریخ ۲۰ رستمبر و ۱۸۵۸ء

Page 67

حیات احمد Translation of Sir Robert Egerton Financial Commissiner's Murasiala Dated 29th June 1876.My dear friend Ghulam Qadir.A have perused your letter of the 2nd instant and ۵۷ جلد اول حصہ اوّل نقل مراسله فنانشنل کمشنر پنجاب) مشفق مهربان دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہ.آپ کا خط.ماہ حال کا لکھا ہوا ملا حظہ حضور ایجناب میں گزرا.مرزا غلام مرتضیٰ deeply regret the death of your صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت father Mirza Gulam Murtaza who was a great well wisher افسوس ہوا.مرزا غلام مرتضی سرکار انگریزی کا and faithful Government.chief of In consideration of your family services I will esteem you with the same respect as اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا.ہم آپ کی خاندانی خدمات کے لحاظ سے اُسی طرح پر عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ that bestowed on your loyal وفادار کی کی جاتی تھی.ہم کو کسی اچھے موقعہ کے father.I will keep in mind the restoration and welfare of your family when a favourable opportunity occure.نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا.المرقوم ۲۹ جون ۱۸۷۶ء الراقم.سر رابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر فنانشل کمشنر پنجاب

Page 68

حیات احمد ۵۸ جلد اوّل حصہ اوّل غرض مرزا غلام مرتضی صاحب ایک وفادار رئیس تھے اور یہ جذبہ ان میں ہر وقت موجود تھا.مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں بھی اس کا ظہور ہوا اور سرکار انگریزی کی حکومت میں بھی اس میں فرق نہ آیا بلکہ جیسا کہ واقعات سے میں نے اوپر دکھایا ہے ایسے وقت اور حالات میں جبکہ بہت سے لوگوں کے قدم اکھڑ گئے تھے.اور بہت سے خاندان بے راہ ہو گئے تھے.حضرت مرزا غلام مرتضی کی وفاداری اور دوستی غیر متزلزل تھی.یہ استقلال اور عہد دوستی اور وفاداری بھی انسانی اعلیٰ صفات کے اجزاء ہیں.اور اُن کے شجاعانہ کارناموں کے اظہار کے لئے وہی بیان کافی ہے.جو او پر میں ہزارہ کے مفسد و اور کشمیر کی سرحد پر اُن کی خدمات کے تذکرہ کے متعلق کر آیا ہوں.اخلاقی جرات بہت سے لوگ اخلاقی جرات اور قوت فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف خود تکلیف اٹھاتے ہیں بلکہ بعض اوقات دوسروں کے لئے بھی تکلیف کا موجب ہو جاتے ہیں.جہاں حضرت مرزا صاحب میں شجاعت، مروت، عفو اور احسان کی قابل قدر خوبیاں تھیں.وہاں آپ میں اخلاقی جرأت عام تھی.اور اس کے ساتھ ہی آپ صادق اور راستباز مشہور تھے.اگر چہ بعض وقت امر واقعہ کے اظہار نے آپ کو کسی رنگ میں نقصان پہنچایا ہومگر کہنے سے کبھی مضائقہ نہ کرتے تھے.لوگ ان کی غیور طبیعت اور مستقل مزاجی کا نام ضد اور ہٹ رکھتے ہیں مگر دراصل یہ قصور فہم ہے.مہاراجہ شیر سنگھ کی علالت ایک مرتبہ مہاراجہ شیر سنگھ صاحب کا ہندو ان کے چھنب میں شکار کے لئے تشریف لے گئے.حضرت مرزا صاحب بھی ساتھ تھے مہاراجہ صاحب کے باز دار کو جو قوم کا جولاہا تھا ز کام کی بیماری ہو گئی اور کسی قدر شدید ہو گئی.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے اس کو دو ڈھائی پیسے کا ایک نسخہ لکھ دیا اور وہ فوراً اچھا ہو گیا.اس کے بعد ہی خود راجہ صاحب اسی بیماری سے بیمار ہو گئے اور حضرت مرزا صاحب کو علاج کے لئے کہا گیا.حضرت مرزا صاحب نے تمیں چالیس روپیہ کا ایک نسخہ ان کے لئے تجویز کیا.مہاراجہ صاحب نے کہا کہ یہ کیا بات ہے.اس جولا ہے کے لئے دواڑھائی پیسے کا نسخہ

Page 69

حیات احمد ۵۹ جلد اوّل حصہ اوّل اور میرے لئے اتنا قیمتی اور بیماری ایک ہی ہے.فرمایا.دو شیر سنگھ اور جولاہا ایک نہیں ہو سکتے“ ایسی دلیری اور جرات سے اس کو جواب دیا کہ مہاراجہ شیر سنگھ ناراض ہونے کی بجائے بہت ہی خوش ہوا اور اس زمانے کے رواج کے موافق عزت افزائی کے لئے کڑوں کی ایک جوڑی پیش کی.حکام سے ملاقاتیں اور بے تکلف باتیں حکام سے جب ملتے خواہ وہ کتنے ہی بڑے پایہ کے ہوں بے تکلف ملتے تھے اور نہایت آزادی سے ان سے گفتگو کرتے تھے.اور حکام بھی پوری توجہ سے ان کی باتوں کو سنتے تھے اور قدر کرتے تھے.ہر چند اس سیرت کے متعلق یہ بات نہ ہو مگر میں اس امر کے اظہار پر مجبور ہوں کہ ایسے حکام اور ایسے وفادار رئیس ہی دراصل گورنمنٹ برطانیہ کے استحکام کا ایک ذریعہ تھے.جب تک یورپین حکام کی یہ پولیسی رہی کہ وہ شرفاء اور رؤساء سے نہایت بے تکلفی اور ان کے عزت و مرتبہ کو مدنظر رکھ کر ملتے رہے.رعایا کے یہ افراد جو ایک بڑے حصہ پر اپنا اثر ڈال سکتے تھے.سرکار انگریزی کی محبت اور وفاداری میں بڑھتے گئے.حکام کے لئے یہ پولیسی ہمیشہ رعایا کی تسخیر قلوب کے لئے بابرکت ثابت ہوگی.الغرض حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب اپنی ملاقاتوں میں نہایت بے تکلف اور صاف گو ہوتے تھے.مخلوق کی نفع رسانی کا انہیں بہت خیال رہتا اور اس لئے سپارش کرنے میں بڑے دلیر تھے.بڑے سے بڑے حاکم کو بھی بلا تکلف سپارش کر دیتے.ایک حجام کی سپارش ایک مرتبہ ایک نائی نے جس کی معافی ضبط ہو گئی تھی حضرت مرزا صاحب سے کہا کہ آپ میری سپارش ایجرٹن صاحب سے کر دیں.جو اس وقت فنانشل کمشنر تھے.اور بعد میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب ہو گئے.چنانچہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب اسے ساتھ لے کر لاہور گئے.شالا مار باغ میں جلسہ تھا.جب جلسہ ہو چکا.تو آپ نے مسٹر ا یجرٹن سے کہا کہ آپ اس شخص کی بانہہ پکڑ لیں.

Page 70

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل ایجرٹن صاحب نے ہر چند کہا کہ اس کا کیا مطلب ہے.مگر آپ نے یہی فرمایا.کہ نہیں اس کی بانہہ پکڑ لو.آخر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوا کیونکہ اُن کی بات رڈ نہیں کی جاتی تھی.جب انہوں نے ہاتھ پکڑ لیا تب کہا.کہ ہمارے ملک میں دستور ہے.کہ جس کی بانہہ یعنی ہاتھ پکڑتے ہیں پھر خواہ سر چلا جاوے تو اس کو چھوڑتے نہیں.اب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا ہے تو اس کی لاج رکھنا.اور یہ کہہ کر کہا.کہ اس کی معافی ضبط ہو گئی ہے کیا معافیاں دے کر بھی ضبط کیا کرتے ہیں؟ بحال کر دو! ایجرٹن صاحب نے دوسرے دن اس کی مسل طلب کی اور معافی بحال کر دی.جرمانہ بلاطلب مسل معاف ہو گیا ایسا ہی ایک موقعہ پر ڈیوس صاحب اس ضلع گورداسپور میں مہتم بندوبست تھے.بٹالہ میں جہاں انارکلی واقعہ ہے ان کا عملہ کام کرتا تھا.قادیان کا ایک برہمن جو محکمہ بندوبست میں معمولی ملازم تھا.مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ جو مرزا غلام مرتضی صاحب کے بڑے بیٹے تھے گستاخانہ رنگ میں پیش آیا.مرزا غلام قادر صاحب جو بڑے قوی ہیکل اور سپاہیانہ رنگ کے نوجوان تھے.اور ابو الفضل کی طرح قلم اور سیف دونوں ایک وقت ان کے ہاتھ میں یکساں کام کرتی تھیں.اس گستاخانہ لہجہ کو برداشت نہ کر سکے.انہوں نے وہیں اس گستاخ زبان دراز کو سیدھا کر دیا.معاملہ بڑھ گیا.اور ڈیوس صاحب نے ان پر ایک سورو پیہ جرمانہ کر دیا.مرز اغلام مرتضی صاحب امرتسر میں تھے.وہ فورا ڈیوس صاحب کے پاس گئے اور ان کو اس واقعہ سے اطلاع دی.انہوں نے جناب مرزا صاحب کی دلجوئی اور اس خاندان کے اعزاز کو قائم رکھنے کے لئے بلاطلب مسل جرمانہ معاف کر دیا.مرزا صاحب خود داری کی قدر کرتے تھے.اور سیلف ریسپکٹ کا ایک غیر معمولی نمونہ تھے.مرزا غلام قادر مرحوم کی حمایت اس معاملہ میں انہوں نے محض اسی جذبہ کی قدر کے لئے کی.والا وہ اپنی اولا د کو مؤدب اور فرض شناس بنانا چاہتے تھے.

Page 71

حیات احمد ۶۱ جلد اوّل حصہ اول مرزا غلام قادر صاحب ایک بات میں بحال ہو گئے اس کے لئے میں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں.مرزا غلام قادر صاحب محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے اور ضلع گورداسپور میں نسبٹ (Nisbat) صاحب ڈپٹی کمشنر تھے.ایک مرتبہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں معطل کر دیا.اور پھر جب وہ قادیان آیا اور حضرت مرزا صاحب سے ملاقات ہوئی تو خود نسبٹ صاحب نے کہا کہ میں نے غلام قادر کو معطل کر دیا ہے.اس پر حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے جو جواب دیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.اور نسبٹ صاحب نے جو اُس کی قدر کی وہ دنیا میں ہمیشہ واجب العزت رہے گی.مرزا صاحب نے فرمایا.اگر قصور ثابت ہے تو ایسی سخت سزا دینی چاہئے کہ آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں.ڈپٹی کمشنر نے یہ سن کر مسل میں لکھ دیا کہ در جس کا باپ ایسا ادب دینے والا ہو اُس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں“ اُس زمانہ کے عالی خیال حکام کی یہ موقعہ شناسیاں تسخیر قلوب کے لئے جادو کا کام کرتی ہیں.خود داری کا اظہار ایک مرتبہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے رابرٹ کسٹ صاحب سے جو کمشنر تھے ملاقات کی.اُس نے اثناء گفتگو میں پوچھا کہ قادیان سے سری گوبند پور کتنی دور ہے؟ مرزا صاحب نے کہا کہ میں ہرکارہ نہیں ! سلام“ کمشنر صاحب نے محسوس کیا کہ مرزا صاحب کو یہ استفسار ناگوار گزرا ہے.اس لئے کہا کہ آپ میری بات سے ناراض کیوں ہوئے؟ مرزا صاحب نے کہا کہ ہم آپ کے پاس اپنی باتیں کرنے آتے ہیں ادھر ادھر کی باتوں کے لئے نہیں آتے.یہ میرا کام نہیں جو آپ مجھ سے پوچھتے ہیں.رابرٹ کسٹ صاحب نے مرزا صاحب کی اخلاقی جرات اور اپنے مقام شناسی سے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ مرزا صاحب کس پایہ اور عزت کے انسان ہیں.

Page 72

حیات احمد ۶۲ جلد اوّل حصہ اول حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے قتل کا منصوبہ اس خاندان کے ساتھ کچھ یہ خصوصیت چلی آتی ہے کہ بنی عمام ( چچا زادوں) کی طرف سے ہمیشہ ان کو تکالیف پہنچتی رہی ہیں.کہتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے قتل کا منصو بہ مرزا امام الدین صاحب آپ کے برادر زادہ نے کیا.یہ شخص مرزا غلام مرتضی صاحب کے خاندان کا آخری وقت تک دشمن رہا اور نہایت تلخی کے ساتھ وہ اپنے منصوبوں میں ناکام رہا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے قتل کا منصوبہ اس نے کیا اور سوچیت سنگھ نامی ایک شخص ساکن بھینی کو اس غرض کے لئے اپنے ساتھ ملا کر مامور کیا کہ وہ موقعہ پا کر قتل کر دے.سوچیت سنگھ کا اپنا بیان حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی حفاظت کے متعلق اعجازی رنگ رکھتا ہے.مرزا صاحب اس وقت جس بالا خانے میں رہتے تھے وہاں اس دیوار پر سے چڑھ کر جا سکتے تھے.جہاں آج کل نواب محمد علی خان صاحب نے مکانات بنوائے ہوئے ہیں یہاں ایک کچا دیوان خانہ تھا اور ایک عرصہ تک حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کے زمانہ میں یہاں لنگر خانہ رہا ہے.وہ کہتا ہے میں متعدد مرتبہ اس کچی دیوار پر سے اوپر چڑھا.میں نے جب دیکھا تو مجھے وہاں دو آدمی ان کے محافظ نظر آئے اور اس خوف سے میں نہیں جاسکا.اور بالآخر میں نے اس ارادہ بد سے توبہ کی.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے پاس فی الواقعہ کوئی محافظ نہ تھے.مگر یہ تصرف ربانی تھا کہ سوچیت سنگھ کو ہمیشہ وہاں دو پہرہ دار نظر آتے تھے.اور اس حفاظت وصیانتِ الہی نے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو اس ناپاک منصوبہ سے بچالیا.رعب وشوکت مرز اغلام مرتضی صاحب کا چہرہ پر رعب اور پر شوکت تھا.اور کسی شخص کو یہ جرأت نہ تھی کہ ان سے آنکھ ملا کر گفتگو کر سکے.اور نہ کسی کا یہ حوصلہ ہوتا تھا کہ بلا تکلف ان کے مکان پر چلا جاوے.بلکہ سیڑھیوں پر جانے سے پہلے دریافت کر لیتا اور پھر بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے

Page 73

حیات احمد ۶۳ جلد اول حصہ اوّل ڈرتا تھا.بڑے آدمیوں میں چونکہ نخوت اور تکبر ہوتا ہے اس لئے اس کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہتے.علاج کے لئے جو لوگ آتے اُن میں سے بھی غرباء کی طرف پہلے توجہ کرتے.اور اگر معمولی ملاقات کے لئے بڑے آدمی (جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے ) آتے.تو ان کو اپنا حقہ نہیں دیتے تھے.(حُقہ بہت پیا کرتے تھے ) ہاں اپنے معمولی ملازموں اور خادموں تک کو دے دیتے اور ان کے ساتھ نہایت شفقت اور خندہ پیشانی سے پیش آتے.طبیعت میں مزاح تھا حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی طبیعت میں شریفانہ مزاح تھا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ انسانی فطرت کا ایک شریف حصہ ہے.جو دوسری قوتوں کی طرح اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت بن جاتا ہے.مگر جس طرح پر لوگ دوسری قوتوں کو بداخلاقی کی صورت میں تبدیل کر لیتے ہیں اور فلسفہ اخلاق سے واقف نہ ہونے کے باعث سمجھتے بھی نہیں کہ وہ کسی بداخلاقی کا ارتکاب کر رہے ہیں.اسی طرح مزاح کو بگاڑ کر ایسا مذاق اور ظرافت شروع ہو جاتی ہے جو نہایت ہی مذموم ہو.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب میں یہ قوت اسی رنگ میں تھی.جس طرح ان کو خدا داد شرافت کے ساتھ شجاعت اور راستبازی اور جرات کے خصائل حمیدہ ملے تھے.طبی تعلیم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک شخص حافظ روح اللہ صاحب باغبانپورہ ضلع لاہور میں تھے اُن سے حاصل کی تھی.اور پھر دہلی میں شریف خانی خاندان سے استفادہ کیا تھا.باوجود دنیا دار ہونے کے خدا پر بھروسہ اور امید وسیع تھی مرزا صاحب کے حالات پر یکجائی نظر کرنے سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ وہ دنیا داری کے دھندوں میں بہت منہمک ہو گئے تھے اور یہ بھی آپ کے حالات سے پایا جاتا تھا کہ آپ کو اس مصروفیت پر آخر میں بے حد تاسف تھا.اور اگر اس کو نہایت سادگی کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ

Page 74

حیات احمد ۶۴ جلد اول حصہ اوّل تأسف عمر گزشتہ پر ایک قسم کی تو بہ اور استغفار تھا.اس بات کے بیان کرنے میں کوئی امر ہمیں مانع نہیں کہ ان کی زندگی جہاں ایک طرف نہایت نفع رساں اور مخیر واقع ہوئی تھی اور بہت سے صفات عالیہ سے حصہ رکھتے تھے.ان امور کی طرف ان کی توجہ بہت ہی کم تھی جو قرب الہی کا موجب ہوتے ہیں.یہاں تک کہ وہ صوم اور صلوۃ کے پابند نہ تھے یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ پابندی اور عملی حالت الگ ہے.مگر شعار اسلام کی عظمت ان کے دل میں بے حد تھی اور وہ اپنی اس کمزوری کا ہمیشہ اعتراف کرتے تھے اکثر اپنا ایک شعر پڑھا کرتے تھے.کردیم ناکردنی عمر اے وائے بما کہ ما چه کردیم ایک مرتبہ ایک بغدادی مولوی صاحب قادیان تشریف لائے.حضرت مرزا صاحب (جو علماء کی قدر کرتے تھے ) نے ان کی بڑی عزت کی اور ہر طرح سے ان کی خاطر داری کی.بغدادی مولوی صاحب نے کہا مرزا صاحب آپ نماز نہیں پڑھتے.فرمایا قصور ہے.مگر مولوی صاحب کو اس پر زیادہ ضد اور اصرار ہوا.اور بار بار انہوں نے کہا کہ آپ نماز نہیں پڑھتے.وہ ہر مرتبہ کہہ دیتے کہ قصور ہے.آخر مولوی صاحب نے کہا.کہ آپ نماز پڑھتے نہیں خدا تعالیٰ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا“ اس پر مرزا صاحب کو جوش آ گیا اور فرمایا کہ تم کو کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے دوزخ میں ڈالے گا.یا کہاں؟ میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بدظن نہیں.میری امید وسیع ہے.اس نے فرمایا ہے.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر: ۵۴) تم مایوس ہو گے.میں نہیں.اتنی بے اعتقادی میں نہیں کرتا.میں خدا تعالیٰ کے رحم و کرم پر بھروسہ کرتا ہوں یہ تمہاری اپنی بداعتقادی ہے تم کو خدا پر ایمان نہیں.یہ کہہ کر اس مولوی کو نکلوا دیا.جو کہتے ہیں بعد میں ایک لاہوری ساد ہو بچہ ثابت ہوا.اس واقعہ کے بیان کرنے سے میرا یہ مقصد ہے.کہ مرزا صاحب قبلہ کو خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اور بھروسہ ا ترجمہ: میں تمام عمر ایسے کام کرتا رہا ہوں جو نہ کرنے چاہیں تھے مجھ پر افسوس کہ میں نے کیا کیا.

Page 75

حیات احمد جلد اول حصہ اوّل تھا اور وہ خدا کے فضل اور رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوتے تھے.باایں اپنی کمزوریوں کو کمزوری یقین کرتے اور اس کا صاف لفظوں میں اعتراف کرتے تھے.حضرت مرزا صاحب قبلہ کے متعلق یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ جب حضرت دادی صاحبہ یعنی حضرت مسیح موعود کی والدہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے اندر جانا چھوڑ دیا.ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر جو کچھ ہدایات دینی ہوتی تھیں دے دیتے اور باہر چلے آتے.غذا ہمیشہ صرف ایک کھاتے تھے.یعنی اگر مختلف کھانے آپ کے سامنے آتے تو آپ ایک ہی کھاتے تھے.کتب خانہ کا خاص طور پر شوق تھا.اور بہت سی کتابیں آپ کے کتب خانہ میں موجود تھیں.مرزا صاحب کے حالات کو ختم کرنے سے پہلے یہ امر بھی ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ جن ایام میں آپ بیگووال ریاست کپورتھلہ میں تھے.تو مہاراجہ فتح سنگھ صاحب اہلو والیہ نے آپ کی ایک جا گیر مقرر کر دی تھی.اور وہ چاہتے تھے کہ یہ خاندان ان کی ریاست میں رہے.مگر مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو یہ پسند نہ تھا.بلکہ اسی وجہ سے آپ اپنے والد صاحب مرحوم کا جنازہ رات کو قادیان لائے اور انہیں اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کر دیا.مرزا صاحب کا تکیہ کلام حضرت مرزا گل محمد صاحب کا تکیہ کلام ” ہے بات کہ نہیں تھا اور کثرت استعمال میں” ہے با کہ نہیں سمجھا جاتا تھا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی زندگی کا آخری شاندار دینی کام حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو اپنی زندگی بھر دنیوی کاموں میں مبتلا رہنے کا افسوس اور ناکامی کا صدمہ تھا اور جیسا کہ اوپر بیان ہوا.وہ اس گزشتہ ایام کی یاد سے ہمیشہ مغموم رہتے اور افسوس کا اظہار کرتے.انہوں نے حصول دنیا کے لئے ساری عمر کی کوششوں کو بے ثمر پا کر بچے

Page 76

حیات احمد पप جلد اوّل حصہ اوّل اخلاص اور ندامت سے ایام گزشتہ کی تلافی کے لئے قصبہ کے وسط میں مین برسر بازار ایک مسجد بنانے کا ارادہ کیا.اس سے پہلے مرزا صاحب نے اس مسجد کے لینے کے لئے بے حد کوشش کی جو سکھوں کے ایام جبر میں چھینی گئی تھی اور دہرم سالہ بنائی گئی تھی.مگر بعض نا اہل اور بدقسمت مسلمانوں نے ان کے خلاف شہادتیں دیں اور قانونی طور پر وہ اس کی بازیافتگی سے قاصر رہے.اس پر انہوں نے ارادہ کیا کہ قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کریں.اس مسجد کی اراضی حاصل کرنے میں انہیں بہت بڑی مالی قربانی کرنی پڑی.یہ جگہ جہاں یہ مسجد بنی ہوئی ہے کاردار ان کی حویلی تھی.اور نیلام ہونے پر اہالیانِ قصبہ نے قیمت میں مرزا صاحب کا خوب مقابلہ کیا.اور معمولی قطعہ زمین جو اس وقت چند روپوں کی مالیت کا تھا.وہ کئی سو گنا قیمت پر انہیں خریدنا پڑا.مرزا صاحب نے یہ عزم کر لیا تھا اور خدا تعالیٰ کے حضور سچا عہد کیا تھا.کہ اگر باقی ساری جائیداد بھی فروخت کرنی پڑے تو میں اس زمین کو لے کر مسجد بناؤں گا.اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس اخلاص کو ضائع نہ فرمایا، زمین انہیں مل گئی.اور مسجد کی تعمیر شروع ہوئی چونکہ یہ مسجد بطور جامع مسجد کے بنائی جا رہی تھی.وہ گاؤں کی بعض دوسری مساجد سے بہت بڑی تھی اس وقت ایک شخص نے کہا.اتنی بڑی مسجد کی کیا ضرورت تھی.کس نے نماز پڑھنی ہے.اس مسجد میں چمگادڑ ہی رہا کریں گے.مگر اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ جس اخلاص کے ساتھ بانی نے اس مسجد کو بنانے کا ارادہ کیا اور مالی قربانی کی ہے.خدا تعالیٰ اُسے ضائع نہیں کرے گا.بلکہ اس مسجد کو دنیا میں قبولیت اور عزت کا شرف عطا فرمائے گا.اس میں کچھ شک نہیں کہ دنیا میں بے شمار کار خیر ہوتے رہتے ہیں.مگر یہ سچا اخلاص اور نیت سلیم ہی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی قبولیت کو اپنی طرف جذب کرتی ہے.ہزاروں مساجد دنیا میں بنائی جاتی ہیں.لیکن وہ قبول بارگاہ ایزدی نہ ہونے سے ویرانہ ہو کر گندے استعمالوں میں آتی دیکھی گئی ہیں.مگر اس اخلاص و ندامت سے بنائی ہوئی مسجد کو خدا تعالیٰ نے ایسا فخر قبولیت بخشا ہے کہ آج وہ روئے زمین کی نہایت ممتاز اور مقبول مساجد میں

Page 77

حیات احمد ۶۷ سے ہے.اور مسجد اقصیٰ کہلاتی ہے.جس کا اُس وقت یہ نقشہ تھا.جلد اوّل حصہ اوّل دروازه قیر مرزا علام مریض صاحب غرض اس مسجد کی تعمیر شروع ہوئی ہے اور آپ نے وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو.تا خدائے عزوجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے.کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو.چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہو گئی اور شائد فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت مرزا صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہو گئے.اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر نشان کیا تھا.دفن کئے گئے.اللّهُمَّ ارْحَمْهُ وَادْخِلْهُ الْجَنَّةَ.آمین.قریباً اسنی یا پچاسی برس کی عمر پائی.حضرت مرزا صاحب کی وفات کی قبل از وقت اطلاع حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات سے پہلے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو بذریعہ رؤیا اس واقعہ کی خبر دی گئی.آپ اس وقت لا ہور میں تھے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ ان کی (مرزا صاحب) یہ حسرت کی باتیں کہ میں نے کیوں دنیا کے لئے وقت عزیز کھو یا اب تک میرے دل پر دردناک اثر ڈال رہی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ہر شخص جو دنیا کا طالب ہو گا.آخر اس حسرت کو ساتھ لے جائے گا.میری عمر قریباً چونتیس پینتیس (غالباً ۳۶ یا ۳۷.ایڈیٹر ) برس کی ہوگی.جب حضرت والد صاحب کا

Page 78

حیات احمد ۶۸ جلد اوّل حصہ اول انتقال ہوا.مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے میں اس وقت لاہور میں تھا جب مجھے یہ خواب آیا تھا.تب میں جلدی سے قادیان پہنچا اور انہیں مرض زجیر میں مبتلا پایا.لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے.دوسرے دن شدت دو پہر کے وقت ہم سب عزیز ان کی خدمت میں حاضر تھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کر لو کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی.میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا.وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق.یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاء وقد ر کا مبدء ہے.اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا.اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا.”سبحان اللہ کیا شان خداوند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہونے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوا ہے اس کی وفات کو عزا پرسی کے طور پر بیان فرماتا ہے.اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گے کہ خدا کی عزا پرسی کیا معنی رکھتی ہے.مگر یادر ہے کہ حضرت عزت جل شانہ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کا ہنسنا بھی جو حدیثوں میں آیا ہے ان ہی معنوں کے لحاظ سے ہے.“ (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۹۱ تا ۱۹۴ حاشیه ) غرض حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات کی خبر اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو دی تھی.یعنی اولاً لا ہور میں بذریعہ رویا ظاہر کیا کہ انتقال کا

Page 79

حیات احمد ۶۹ جلد اوّل حصہ اوّل وقت قریب ہے.جس پر وہ لاہور سے قادیان پہنچے.اور یہاں آکر انہیں اس حالت میں پایا کہ کوئی شخص طبی نکتہ نگاہ سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ دوسرے دن فوت ہو جانے والے ہیں.بلکہ وہ اصل بیماری درد گردہ سے صحت پاچکے تھے اور قوی تھے.اور کچھ بھی آثار موت ظاہر نہ تھے اور کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک برس تک بھی وفات پا جائیں مگر جیسا کہ الہام الہی نے خبر دی تھی یہ واقعہ اُسی روز ہو گیا.حضرت مرزا صاحب نے اس واقعہ کو اپنے نشانات صداقت میں نہایت جوش اور فخر کے ساتھ لکھا ہے اور میں اسے یہاں درج کئے بغیر نہیں رہ سکتا.وو ” جب میرے والد صاحب خدا ان کو غریق رحمت کرے اپنی آخری عمر میں بیمار ہوئے تو جس روز ان کی وفات مقدر تھی.دوپہر کے وقت مجھ کو الہام ہوا وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِق.اور ساتھ ہی دل میں ڈالا گیا کہ یہ اُن کی وفات کی طرف اشارہ ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد پڑے گا.اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندہ کو عزا پر سی تھی.تب میں نے سمجھ لیا کہ میرے والد صاحب غروب آفتاب کے بعد فوت ہو جائیں گے اور کئی اور لوگوں کو اس الہام کی خبر دی گئی.اور مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس پر جھوٹ بولنا ایک شیطان اور لعنتی کا کام ہے کہ ایسا ہی ظہور میں آیا اور اُس دن میرے والد صاحب کی اصل مرض جو درد گردہ تھی دور ہو چکی تھی صرف تھوڑی سی زحیر باقی تھی.اور اپنی طاقت سے، بغیر کسی سہارے کے پاخانہ میں جاتے تھے.جب سورج غروب ہوا اور وہ پاخانہ سے آ کر چار پائی پر بیٹھے تو بیٹھتے ہی جان کندن کا غرغرہ شروع ہوا.اسی غرغرہ کی حالت میں انہوں نے مجھے کہا کہ دیکھا یہ کیا ہے اور پھر لیٹ گئے.اور پہلے اس سے مجھے کبھی اس بات کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا کہ کوئی شخص غرغرہ کے وقت میں بول سکے اور غرغرہ کی حالت میں صفائی اور استقامت سے کلام کر سکے.بعد اس کے عین اس وقت جبکہ آفتاب غروب ہوا.وہ اس جہانِ فانی سے انتقال فرما گئے

Page 80

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.اور یہ اُن سب الہاموں سے پہلا الہام اور پہلی پیشگوئی تھی جو خدا نے مجھ پر ظاہر کی دو پہر کے وقت خدا نے مجھے اس کی اطلاع دی کہ ایسا ہونے والا ہے اور غروب کے بعد یہ خبر پوری ہوگئی.اور مجھے فخر کی جگہ ہے اور میں اس بات کو فراموش نہیں کروں گا کہ میرے والد صاحب کی وفات کے وقت خدا تعالیٰ نے میری عزا پرسی کی.اور میرے والد کی وفات کی قسم کھائی جیسا کہ آسمان کی قسم کھائی.جن لوگوں میں شیطانی روح جوش زن ہے وہ تعجب کریں گے کہ ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ خدا کسی کو اس قدر عظمت دے کہ اس کے والد کی وفات کو ایک عظیم الشان صدمہ قرار دے کر اُس کی قسم کھاوے.مگر میں پھر دوبارہ خدائے عزوجل کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ واقعہ حق ہے اور وہ خدا ہی تھا جس نے عزا پُرسی کے طور پر مجھے خبر دی اور کہا کہ وَالسَّمَاءِ وَ الطَّارِق اور اسی کے موافق ظہور میں آیا.فالحمد لله على ذالك.( حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۹٬۲۱۸) حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کے بعد ان کے جانشین مرزا غلام قادر صاحب ہوئے جو نہایت قابل منشی اور مدبر تھے.انہوں نے سرکار انگریزی کی غدر کے وقت اپنے والد صاحب کے حکم سے تریمو گھاٹ پر خود لڑ کر مدد کی.اور بعد میں مختلف صیغہ جات پولیس نہر اور بالآخر محکمہ سول میں ملازمت کی.اور اپنے فرائض کو ہمیشہ مستعدی اور دیانت کے ساتھ ادا کیا.ان کی زندگی کے حالات پر مجھے اس وقت کچھ زیادہ نہیں لکھنا ہے.بلکہ میں اسے کسی دوسرے وقت کے لئے چھوڑ دیتا ہوں.ان کی زندگی بھی اپنے والد صاحب کی طرح اکثر ہموم و عموم کی زندگی تھی.شرکاء نے ان کے ساتھ مختلف رنگ میں شرارتیں شروع کر دیں اور بعض قادیان کے محسن کش بھی اس فریق کے ساتھ جا ملے اور اس طرح پر اس خاندان کو مختلف رنگوں میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی.مرزا غلام قادر صاحب بھی شاعرانہ مذاق رکھتے تھے اور محزون تخلص کرتے تھے.ان کی وفات پر چونکہ وہ لا ولد تھے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کے

Page 81

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول بڑے بیٹے خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب دنیوی رنگ میں جانشین ہوئے جواب گورنمنٹ پنجاب کے ایک ممتاز عہدہ دار ہیں.غالباً یہ بیان ناتمام رہے گا.اگر بعض ان واقعات کا تذکرہ نہ کروں جو بطور نشانات مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی زندگی میں ظاہر ہوئے.حضرت مرزا غلام مرتضی کی وفات جون میں ہوئی تھی.انہوں نے مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کو اپنے شرکاء کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے وصیت کی تھی اور فرمایا تھا کہ یہ شرارے ہیں میں نے ان کو خاکستر سے دبایا ہوا تھا اڑانا نہیں.مگران کی وفات کے بعد واقعات نے صورت بدل لی.مرزا امام الدین صاحب نے جوان کے برادر زادہ تھے بعض خاندانی وراثت کے مقدمات کا سلسلہ چھیڑ دیا.اور اس سلسلہ میں بعض شرکاء کی طرف سے قادیان کی ملکیت کا ایک حصہ مرزا اعظم بیگ صاحب رئیس لاہور کے ہاتھ فروخت کرا دیا.اس جائیداد کے متعلق مقدمات کا ایک سلسلہ شروع ہوا.حضرت مرزا صاحب نے اپنے بھائی صاحب اور دوسرے رشتہ داروں کو اس مقدمہ کے انجام سے قبل از وقت خبر دی اور ان کو منع کیا مگر عام دنیا داروں کے رنگ میں یہ مقدمہ بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا.وہ نہ رُکے اور آخر انجام وہی ہوا.حضرت مرزا صاحب نے اس مقدمہ کے متعلق جو الہام ہوا تھا اور اس کے متعلق جو کیفیت گزری ہے وہ خود تحریر فرما دی ہے چنانچہ فرماتے ہیں:.کہ بعض غیر قابض جدی شرکاء نے جو قادیان کی ملکیت میں ہمارے شریک تھے دخل یا بی کا دعویٰ عدالت گورداسپور میں کیا.تب میں نے دعا کی وہ اپنے مقدمہ میں ناکام رہیں.اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا.اُجَيْبُ كُلَّ دُعَاءِ كَ إِلَّا فِي شُرَكَاءِ كَ یعنی میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شر کا ء کے بارہ میں نہیں.تب مجھے معلوم ہوا کہ اسی عدالت میں یا انجام کا رکسی اور عدالت میں مدعی فتح پا جائیں گے.یہ الہام اس قدر زور سے ہوا تھا کہ میں نے سمجھا کہ شاید قریب محلہ کے لوگوں تک آواز پہنچی ہوگی اور میں جناب الہی کے اس منشاء سے مطلع ہو کر گھر میں گیا

Page 82

حیات احمد ۷۲ جلد اول حصہ اول اور میرے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم اُس وقت زندہ تھے میں نے رو برو تمام گھر کے لوگوں کے سب حال ان کو کہہ دیا.انہوں نے جواب دیا کہ اب ہم مقدمہ میں بہت کچھ خرچ کر چکے ہیں اگر پہلے سے کہتے تو ہم مقدمہ نہ کرتے مگر یہ عذر ان کا محض سرسری تھا.اور ان کو اپنی کامیابی اور فتح پر یقین تھا چنانچہ پہلی عدالت میں تو ان کو فتح ہو گئی مگر چیف کورٹ میں مدعی کامیاب ہو گئے اور تمام عدالتوں کا خرچہ ہمارے ذمہ پڑا اور علاوہ اس کے وہ روپیہ جو پیروی مقدمہ کے لئے آپ نے قرضہ اٹھایا تھا وہ بھی دینا پڑا اس طرح پر کئی ہزار روپیہ کا نقصان ہوا.اور میرے بھائی کو اس سے بڑا صدمہ پہنچا کیونکہ میں نے ان کو کئی مرتبہ کہا تھا کہ شرکاء نے اپنا حصہ میرزا اعظم بیگ لاہوری کے پاس بیچا ہے آپ کا حق شفعہ ہے روپیہ دے کر لے لو مگر انہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا اور وقت ہاتھ سے نکل گیا اس لئے اس بات پر پچھتاتے رہے کہ کیوں ہم نے الہام الہی پر عمل نہ کیا یہ واقعہ اس قدر مشہور ہے کہ پچاس آدمی کے قریب اس واقعہ کو جانتے ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴ ۲۵۵،۲۵) اسی طرح پر جیسے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبل از وقت دے دی تھی.مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کے متعلق بھی قبل از وقت آگاہ کیا.اور اس وقت آپ قادیان میں نہ تھے بلکہ امرتسر میں تھے.آپ کو دکھلایا گیا کہ قطعی طور پر مرزا غلام قادر صاحب کی زندگی کا پیالہ لبریز ہو چکا ہے اور وہ بہت جلد فوت ہو جانے والے ہیں.تب حضرت مرزا صاحب نے اپنے بھائی کو خط لکھا.کہ آپ امور آخرت کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ مجھے دکھلایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں.مرزا غلام قادر صاحب نے گھر والوں کو بھی اس واقعہ سے اطلاع دے دی.پھر چند ہفتوں بعد ان کا انتقال ہو گیا.انتقال ہونے سے دو تین دن پہلے پھر آپ کو دکھایا گیا کہ گویا مرزا سلطان احمد مرزا غلام قادر صاحب کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ

Page 83

حیات احمد ۷۳ جلد اوّل حصہ اول عمّی بازی خولیش کردی و مرا افسوس بسیار دادی اس واقعہ کو بہتر ہوگا کہ حضرت مرزا صاحب کے ہی الفاظ میں لکھ دوں.چنانچہ فرماتے ہیں :.اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغير مجھے یہ الہام ہوا.اے عمی بازی خویش کردی و مرا افسوس بسیار دادی.یہ پیشگوئی بھی اسی شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی.اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بیوقت موت ہو گی جو موجب صدمہ ہوگی.جب یہ الہام ہوا تو اُس دن یا اُس سے ایک دن پہلے شرمپت مذکور کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا اس نے امین چند نام رکھا اور مجھے آ کر اس نے بتلایا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کا نام میں نے امین چند رکھا ہے.میں نے کہا کہ ابھی مجھے الہام ہوا ہے کہ اے عمی بازی خولیش کر دی و مرا افسوس بسیار دادی.“ اور ہنوز اس الہام کے میرے پر معنی نہیں کھلے میں ڈرتا ہوں کہ اس سے مراد تیرا لڑکا امین چند ہی نہ ہو کیونکہ تیری میرے پاس آمد و رفت بہت ہے.اور الہامات میں کبھی ایسا اتفاق ہو جاتا ہے کہ کسی تعلق رکھنے والے کی نسبت الہام ہوتا ہے.وہ یہ بات سن کر ڈر گیا اور اس نے گھر میں جاتے ہی اپنے لڑکے کا نام بدلا دیا یعنی بجائے امین چند کے گوکل چند نام رکھ دیا.وہ لڑکا اب تک زندہ ہے.اور ان دنوں میں کسی ضلع کے بندوبست میں مثل خواں ہے.اور بعد اس کے میرے پرکھولا گیا کہ یہ الہام میرے بھائی کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک نا گہانی طور پر فوت ہو گیا اور میرے اُس لڑکے کو اس کی موت کا صدمہ پہنچا اور اس پیچ میں آ کر شرمیت مذکور جو سخت متعصب آریہ ہے گواہ بن گیا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۳۴،۲۳۳)

Page 84

حیات احمد ۷۴ جلد اوّل حصہ اوّل غرض جس طرح پر حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی وفات کی خبر قبل از وقت آپ کو دی گئی تھی اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی خبر بھی اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت دی اور یہ واقعہ ۱۸۸۳ء میں ہوا.حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب مرحوم کے خاندان کے اس مختصر تذکرہ کے بعد اب حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی لکھنا شروع کرتا ہوں جو اس کتاب کا اصل موضوع ہیں.اور آپ کی زندگی کے ضمن میں ہی ان بزرگوں کے خاندان کے حالات لکھنے ضروری ہوئے تھے.اور خدا کا شکر ہے کہ یہ یہاں ختم ہوا.

Page 85

حیات احمد ۷۵ جلد اوّل حصہ اول حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی ۱۸۳۹ء سے ۱۸۷۹ء تک کے واقعات یعنی چالیس سالہ زندگی ( زمانہ براہین احمدیہ تک کے حالات).حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی لکھنے سے پیشتر میں ناظرین کو ایک عجیب و غریب واقعہ کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں.جو اپنے اندر ایک خارق عادت نشان رکھتے ہیں اور وہ دونوں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی اعجازی زندگی سے متعلق ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مرزا غلام مرتضی صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب کو رام گڑھیہ سکھوں نے دھوکہ سے گرفتار کر کے قلعہ بسر اواں میں جو قادیان سے دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر تھا قید کر دیا.اور ان کے قتل کا ارادہ کیا وہ اپنے منصوبے میں قریباً کامیاب ہو چکے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ے اسباب پیدا کر دئے کہ وہ صاف بچ گئے.کار دار جو قلعہ بسراواں میں موجود تھا اس نے ان بزرگوں کو بھورے سے نکال کر قتل کا ارادہ کیا اور مرزا غلام مرتضی صاحب کو سختی سے خطاب کرنا چاہا.وہ اس بات کی برداشت نہیں کر سکتے تھے.اس لئے بڑی جرات اور جلال سے اسے ڈانٹ کر کہا کہ اپنی زبان کو سنبھالو شرفاء کی طرح بولو.کاردار نے اپنی جماعت کو جو قلعہ میں موجود تھی پکارا.جو جمعدار وہاں موجود تھا اُس نے اپنے سپاہیوں کو لے کر کاردار ہی کی سخت مخالفت کی اور اس کو کہا کہ تو شرفاء کے ساتھ اس طرح پیش آتا ہے.تیری خیر نہیں اس نے ڈر کر مرزا صاحب کو تہ خانہ میں بند کر دیا اور معاملہ دوسرے دن پر ملتوی کر دیا.خدا کی قدرت دوسرے دن مرزا غلام حیدر جو آپ کا چھوٹا بھائی تھا کمک لے کر پہنچ گیا.اور مرزا صاحب خدا کے فضل سے بچ گئے.یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ ابھی حضرت مسیح موعود کی امانت آپ کی پشت میں تھی.اور یہ گویا آخری تلخی اور مصیبت تھی جو سکھوں کے عہد میں اس خاندان پر ہوئی.اب میں ذیل میں

Page 86

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل حضرت مسیح موعودؓ کے حالات زندگی لکھتا ہوں اور سب سے اول اُس حصہ زندگی کو لیتا ہوں جو آپ کی بعثت سے پہلے کا زمانہ ہے.وَ بِاللهِ التَّوفيق حضرت مرزا صاحب کی پیدائش یہ ایک سنت اللہ ہے کہ جو عظیم الشان انسان دنیا میں آتے ہیں ان کی پیدائش کے دن سے ہی بعض آثار و علامات ایسے شروع ہو جاتے ہیں جو دوسروں کی نظر میں اس وقت قابل لحاظ نہیں ہوتے لیکن بعد میں وہ ایک نشان ٹھہر جاتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کی پیدائش بھی اس قسم کے آثار و علامات سے خالی نہ تھی.مرزا صاحب کے خاندانی حالات کے مطالعہ سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کے آخری ایام تک یہ خاندان انقلاب کے کئی رنگ دیکھ چکا تھا.اور ایک حکمران خاندان سے ایک زمیندار رئیس خاندان کی حیثیت تک پہنچ گیا تھا.خدا کی قدرت ہے کہ ان کی پیدائش کے وقت حالات میں تبدیلی پیدا ہو گئی.اور سکھا شاہی سے ملک کو نجات مل رہی تھی اور انگریزی حکومت کا عہد مضبوط ہو رہا تھا.چنانچہ حضرت مرزا صاحب خود رقم فرماتے ہیں.میری پیدائش ۱۸۳۹ ء یا ۱۸۴۰ ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے...میری پیدائش سے پہلے والد صاحب نے بڑے بڑے مصائب دیکھے.ایک دفعہ ہندوستان کا پا پیادہ سیر بھی کیا.لیکن میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا.اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا.اور نہ اپنے دوسرے بزرگوں کی ریاست اور ملک داری سے کچھ حصہ پایا بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح جن کے ہاتھ میں صرف نام کی شہزادگی بوجہ داؤد کی نسل سے ہونے کی تھی.اور ملک داری کے اسباب سب کچھ کھو بیٹھے تھے.ایسا ہی میرے لئے بھی بگفتن یہ بات حاصل ہے کہ ایسے رئیسوں اور تحقیق کے بعد صحیح تاریخ پیدائش ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء ہے.(ناشر)

Page 87

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول ملک داروں کی اولاد میں سے ہوں.شاید یہ اس لئے ہوا کہ یہ مشابہت بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ پوری ہو.اگر چہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میرے لئے سر رکھنے کی جگہ نہیں مگر تا ہم میں جانتا ہوں کہ وہ تمام صف ہمارے اجداد کی ریاست اور ملک داری کی لپیٹی گئی.اور وہ سلسلہ ہمارے وقت میں آ کر بالکل ختم ہو گیا اور ایسا ہوا تا کہ خدا تعالیٰ نیا سلسلہ قائم کرتا جیسا کہ براہین احمدیہ میں اُس سُبْحَانَہ کی طرف سے یہ الہام ہے.سُبْحَانَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى زَادَ مَجْدَكَ يَنْقَطِعُ ابَاءُ كَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ - یعنی خدا جو بہت برکتوں والا اور بلند اور پاک ہے اس نے تیری بزرگی کو تیرے خاندان کی نسبت زیادہ کیا.اب سے تیرے آباء کا ذکر قطع کیا جائے گا.اور خدا تجھ سے شروع کرے گا.“ ) کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۷ تا ۱۷۹ حاشیہ ) غرض حضرت مرزا صاحب کی پیدائش کے ساتھ ہی ملک کی پولیٹیکل حالت میں بھی نمایاں تبدیلی ہوگئی.بر چھا گردی اور سکھا شاہی دور ہو کر گورنمنٹ انگریزی کا استقلال اور استحکام ہو رہا تھا.اور خاندان پر جو مصائب اور مشکلات سکھا شاہی میں پڑے تھے وہ بھی خدا کے فضل سے دور ہور ہے تھے.حضرت مرزا صاحب توام پیدا ہوئے تھے حضرت مرزا صاحب توام پیدا ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ پیدا ہونے والا دوسرا بچہ ایک لڑکی تھی جن کا نام جنت رکھا گیا تھا.وہ چند دنوں کے بعد فوت ہو گئی.اور فی الواقعہ جنت ہی میں چلی گئی.مرزا صاحب نے اس معصومہ کے فوت ہونے پر اپنا خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس طرح پر خدا تعالیٰ نے انثیت کا مادہ مجھ سے بکلی الگ کر دیا.حضرت مرزا صاحب جمعہ کے دن بوقت صبح پیدا ہوئے تھے اور پہلے لڑکی پیدا ہوئی تھی.بعد میں حضرت مرزا صاحب.حضرت مرزا صاحب کے الہامات میں اَردُدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ

Page 88

حیات احمد جلد اول حصہ اوّل بھی ہے.اور آدم علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ ہی کے دن ہوئی تھی.اسی مشابہت کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحب بھی جمعہ کے دن پیدا ہوئے.آپ کی اس پیدائش جمعہ میں بعض اور اسرار بھی ہیں.جن کو یہاں مفصل ذکر کرنے سے طوالت کا اندیشہ ہے.میں ناظرین کو اس کے لئے تحفہ گولڑویہ صفحہ ۹۰ سے ۱۰۱ تک پڑھنے کی صلاح دیتا ہوں.حضرت مرزا صاحب کی پیدائش چھٹے ہزار سال کے آخر میں ہوئی قرآن مجید کے بعض مقامات نیز یہود و نصاری کی وہ پیشگوئی جو بائبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سے چھٹے ہزار سال کے آخر میں پیدا ہو گا.چنانچہ قمری حساب کے رو سے جو اصل حساب اہل کتاب ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادہ الہی میں مقرر تھا.کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اول سے مناسبت چاہئے اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں.اس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار سال کے آخر میں پیدا ہو.وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے.جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (الج : ۴۸) اور احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہو گا.اسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے.اور زیادہ سے زیادہ اس کے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھا ہے.اور اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو گا.اور اس کی پیدائش بھی تو ام کے طور پر ہوگی.یعنی جیسا کہ آدم تو ام کے طور پر پیدا ہوا تھا پہلے آدم اور بعد میں حوا.ایسا ہی مسیح موعود بھی تو ام کے طور پر پیدا ہو گا.سو الحمد لله و المنة کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں.یعنی روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۴۳ تا ۲۶۴ ( ناشر )

Page 89

حیات احمد ۷۹ جلد اوّل حصہ اوّل میں بھی جمعہ کے روز بوقت صبح تو ام پیدا ہوا تھا.صرف یہ فرق ہوا کہ پہلے لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا وہ چند روز کے بعد جنت میں چلی گئی اور بعد اُس کے میں پیدا ہوا.اور اس پیشگوئی کو شیخ محی الدین ابن عربی نے بھی اپنی کتاب فصوص میں لکھا ہے.اور لکھا ہے کہ وہ صینی الاصل ہوگا.بہر حال یہ تینوں پیشگوئیاں ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں اور بباعث تظاہر کے یقین کی حد تک پہنچ گئی ہیں جن سے کوئی عقلمند انکار نہیں کرسکتا.غرض مرزا صاحب کی پیدائش ہر چند ایک معمولی بچے کی پیدائش تھی مگر واقعات کے لحاظ سے وہ ایک عظیم الشان انسان کا دنیا میں نزول تھا.جس کے آنے کے ساتھ بہت سے وعدوں کا پورا ہونا مقدر تھا جو پہلے نبیوں کی زبانی اور بالآخر حضرت سید الرسل صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہو چکے تھے.مرز اصاحب کا نام غلام احمد رکھا گیا.حضرت مرزا صاحب کے بہن اور بھائی حضرت مرزا صاحب سے بڑے ان کے ایک بھائی مرزا غلام قادر صاحب تھے.اور ایک لڑکی جنت نام آپ کے ساتھ پیدا ہو کر فوت ہو چکی تھی.ایک ہمشیرہ آپ کی مسماۃ مراد بیگم نام تھی جو نہایت عبادت گزار اور زاہدہ تھیں.ان کے بہت سے عجائب حالات خاندان میں مشہور ہیں.اور ان واقعات کے دیکھنے والے ابھی تک موجود ہیں کہتے ہیں ایک مرتبہ وہ سو کر اٹھیں تو ان کے پائنچوں میں ریت موجود تھی اور وہ تازہ بتازہ بھیگے ہوئے تھے جیسے دریا کا سفر کرنے کے بعد حالت ہو انہوں نے اٹھ کر یہی واقعہ بیان کیا.اور ایسا ہی ایک مرتبہ سورۃ مریم لکھی ہوئی ان کو دی گئی.مرحومه عین عنفوان شباب میں بیوہ ہو گئی تھیں اور جب تک زندہ رہیں.عبادت و یاد اللہ میں اپنی زندگی گزار دی.مرزا غلام قادر مرحوم ایک رئیس آدمی تھے اور خاندانی سلسلے میں میں ان کا بہت ہی مختصر ذکر بھی پیچھے کر آیا ہوں.قُصُوصُ الْحِكَم‘ مراد ہے.(ناشر)

Page 90

حیات احمد ۸۰ جلد اوّل حصہ اوّل مرزا صاحب کی تعلیم انگریزوں کی عملداری کے اوائل میں مدارس کا سلسلہ ابھی جاری نہ ہوا تھا اور تعلیم کے لئے عام دستور یہی تھا کہ بڑے بڑے رئیس اور صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں پر استاد بطور اتالیق رکھ لیتے تھے.اور خاندانی لوگوں میں تو یہ رواج بہت مدت تک جاری رہا.اسی طرح پر مرزا صاحب کی تعلیم کے لئے انتظام کیا گیا.چنانچہ حضرت مرزا صاحب کی تعلیم کے لئے قادیان ہی کے ایک فارسی خوان استاد کو مقرر کیا گیا.حضرت مرزا صاحب نے نہایت صاف اور سادے الفاظ میں اپنی تعلیم کا خود تذکرہ کیا ہے میں اسے نہایت مؤثر اور بابرکت پاتا ہوں.اس لئے انہیں الفاظ میں دو ہرا دیتا ہوں.چنانچہ لکھا ہے کہ :.” جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خوان معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا.جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں.اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا.اور جب میری عمر قریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خوان مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا.میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا.مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے.اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو اُن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا.اور ان کا نام گل علی شاہ تھا.ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا.اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا.اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والدصاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے.ان دنوں میں

Page 91

حیات احمد ΔΙ جلد اوّل حصہ اول مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں اس دنیا میں نہ تھا.میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے.اور نیز ان کا یہ بھی 66 مطلب تھا کہ میں اس شغل سے الگ ہو کر ان کے ہموم و عموم میں شریک ہو جاؤں.“ کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۸۰ تا ۱۸۲ حاشیه ) حضرت مرزا صاحب کی تعلیم کے لئے تین استاد منتخب ہوئے.جن میں سے پہلا فضل الہی نام قادیان کا باشندہ اور حنفی المذہب تھا.دوسرا مولوی فضل احمد صاحب فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ کا باشندہ تھا اور اہلحدیث تھا.مولوی فضل احمد صاحب مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کے والد ماجد تھے مولوی مبارک علی صاحب نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کی اور حضرت مرزا صاحب چاہتے تھے کہ وہ قادیان میں رہ کر روحانی ترقی کریں اور ہجرت کر کے سیالکوٹ سے آ جاویں مگر انہیں یہ موقع نہ ملا.اور آخر قادیان سے ان کو اتنا بعد ہوتا گیا کہ ان کی آمد ورفت بہت ہی کم ہوگئی.سید مولوی گل علی شاہ صاحب بٹالہ کے رہنے والے شیعہ مذہب کے معلم تھے.قادیان میں جب مولوی گل علی شاہ صاحب پڑھاتے تھے تو بعض اور بچے اس خاندان کے بھی ان کے پاس پڑھتے تھے.اس وقت کے حالات دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ مرزا صاحب مطالعہ میں ہی مصروف رہتے.اور بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کا آپ کو کوئی شوق نہ تھا.ان ایام میں عام طور پر گشتی ، کبڈی اور نگدر اور موگری اٹھانے کے کھیل مروج تھے.اور اس کے ساتھ ساتھ بٹیر بازی.مرغ بازی بھی کثرت سے تھی.مگر مرزا صاحب بالطبع ان کھیلوں سے متنفر.اور کوئی شخص بیان نہیں کرتا کہ اس نے کبھی ان کو لڑکوں میں کھیلتے ہوئے یا کسی کے ساتھ لڑتے جھگڑتے کبھی دیکھا ہو.مرزا صاحب کی مرغوب خاطر اگر کوئی چیز تھی تو وہ مسجد اور قرآن شریف، مسجد ہی میں عموماً ٹہلتے رہتے اور ٹہلنے کا اس قدر شوق تھا اور محو ہو کر اتنا ٹہلتے کہ جس زمین پر ٹہلتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمیز ہو جاتی.

Page 92

حیات احمد ۸۲ جلد اوّل حصہ اوّل ان کے مکتب کے بعض طالب علم اپنے استاد سید گل علی شاہ صاحب سے کوئی مذاق بھی کر بیٹھتے.ان کو خہ پینے کی بہت عادت تھی اور اسی سلسلہ میں بعض شوخ طالب علم مذاق کر لیتے.مرزا صاحب ہمیشہ ان کا ادب و احترام کرتے اور ایسی شرارتوں سے بیزار اور الگ رہتے.خانہ داری کا بوجھ حضرت مرزا صاحب ابھی تعلیم ہی پاتے تھے کہ آپ کے والد ماجد نے آپ کی شادی کر دی نہ صرف اس زمانہ میں بلکہ اس وقت بھی متمول اور علو خاندان کا یہ ایک نشان سمجھا جاتا ہے کہ بچے چھوٹی عمر میں بیا ہے جاویں.مرزا صاحب کا خاندان پنجاب بھر میں ایک متمیز خاندان تھا اس لئے چودہ پندرہ برس کی عمر میں ہی آپ کی شادی ہو گئی.اور عمر کے سولہویں سال خدا تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا فرمایا یہ بیٹا وہی ہے جو آج خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے نام سے مشہور ہے.خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مرزا صاحب کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.انہوں نے ادبی دنیا میں خاص شہرت حاصل کی اور گورنمنٹ کے ممتاز اور مسلم مد بر عہدہ داران میں سے وہ ایک ہیں.پنجاب اور ہندوستان کا کوئی ادبی رسالہ یا مشہور اخبار نہیں جو ان کے قلم کا رہین منت نہ ہو.زمینداروں کی اصلاح کے متعلق ان کی راؤں اور مشورتوں کو خاص عزت حاصل ہے وہ آج کل سونی پت حصہ ضلع میں سب ڈویژنل افیسر ہیں جہاں وہ ریاست بہاولپور کی ریو نیومنسٹری سے اپنی میعاد پوری کر کے گئے ہیں.پھر دوسرا بیٹا فضل احمد نام پیدا ہوا جو عرصہ ہوالا ولد فوت ہو گیا.مرزا صاحب والد صاحب کے دنیوی کاروبار میں لگائے گئے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم چاہتے تھے کہ مرزا صاحب کو تمام دنیاوی امور سے جو انہیں اپنی زمیندارانہ حیثیت میں پیش آتے تھے آگاہ کر دیں تا کہ کسی طرح وہ گم کردہ شان و شوکت اور ریاست اپنے خاندان کی حاصل کریں مگر مرزا صاحب اس قسم کے کاموں کے لئے بنائے نہ گئے تھے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کے سر پر دنیا کی اصلاح کا ایک بار عظیم رکھنا تھا اس لئے آپ کو جو

Page 93

حیات احمد ۸۳ جلد اوّل حصہ اوّل فطرت دی گئی تھی اُسے اس قسم کے کاموں سے مناسبت نہ تھی.ایسے امور اور دنیاوی دھندے آپ کی شان اور طبیعت کے میلان سے دور تھے.اس لئے بالطبع آپ اس طریق سے بیزار تھے اور ان میں مبتلا ہونا پسند نہ کرتے تھے لیکن محض حضرت والد صاحب قبلہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک کامل نمونہ ہونے کے مقدمات وغیرہ کی پیروی میں جہاں کہیں وہ فرماتے چلے جاتے تھے.اصل بات یہ ہے کہ انبیاء و مامورین کا گروہ پرلے درجہ کی سلامتی اور اعتدال سے پُر فطرت لے کر دنیا میں آتا ہے.اور وہ تمام اخلاق اور نیکیوں کے لئے ایک نمونہ ہوتے ہیں اسی بناء پر مرزا صاحب نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ ثواب اطاعت والد صاحب حاصل کرنے کے لئے اپنے تئیں ان خدمات میں لگا دیا اور ان کے لئے دعا میں بھی لگے رہتے تھے.وہ کام کیا تھا جو آ.کے سپرد کیا گیا اس کے متعلق خود حضرت مرزا صاحب کا اپنا بیان نہایت لذیذ ہے.فرماتے ہیں:.”میرے والد صاحب اپنے آباء و اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے.انہوں نے انہیں مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا.مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا.میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا رہا.ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے رو خلق بنا دیں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی.ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیان آنا چاہا میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دو تین کوس جانا چاہئے مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جاسکا پس یہ امر بھی اُن کی ناراضگی کا موجب ہوا.اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا مگر تا ہم میں خیال کرتا ہوں

Page 94

حیات احمد ۸۴ جلد اوّل حصہ اول کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا.اور وہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ ”میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف صحیح اور سچ بات یہی ہے.ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں.“ ) کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۸۲ تا ۱۸۴ حاشیه ) مقدمات کے لئے سفر ان مقدمات کی پیروی کے لئے آپ کو ڈلہوزی اور لاہور تک کے سفر کرنے پڑے اور ڈلہوزی تک متواتر پیدل جاتے رہے.یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ وہ لوگ جو اصلاح خلق کے کام پر مامور ہوتے ہیں اور منہاج نبوت پر مبعوث ہوتے ہیں انہیں کچھ نہ کچھ سفر اپنی بعثت اور ماموریت سے پہلے کرنے پڑتے ہیں.یہ سنت اللہ ہمیں تمام انبیاء کے حالات میں نظر آتی ہے.انبیاء کے لئے سفر ضروری ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر شام سے کون واقف نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مدین تک ایک سفر کرنا پڑا.پھر مدین سے اپنے اہل کو لے کر سفر پر روانہ ہوئے.حضرت مسیح علیہ السلام تو اپنے آپ کو بے خان و مان اسی لئے بتاتے ہیں اوائل میں ان سفروں کے متعلق کسی کوخبر نہیں ہوتی کہ کیوں ہیں مگر بعد میں آنے والے واقعات انہیں اس مامور کی زندگی کا ایک عظیم الشان جزو اور نشان بنا دیتے ہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ ان سفروں میں اور بھی اللہ تعالیٰ کی مصالح اور حکمتیں ہوں گی مگر اتنا تو آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان سفروں میں ایک تو وہ مختلف طبقات کے لوگوں سے مل کر دنیا کی رڈی حالت سے آگاہ ہو جاتے ہیں.اور اس طرح پر وہ جوش جو ہمدردی مخلوق کا اللہ تعالیٰ نے دیا

Page 95

حیات احمد ۸۵ جلد اول حصہ اوّل ہوا ہوتا ہے اور بھی بڑھ جاتا ہے.اور لوگوں کی روحانی اور اخلاقی امراض سے ان کو اطلاع ہو جاتی ہے.دوئم سفر کی صعوبتیں انہیں ہر قسم کے مصائب اور شدائد کے برداشت کے قابل بنادیتی ہیں کیونکہ ایک مامور کی زندگی دنیا کے عرف میں آرام اور راحت کی زندگی نہیں ہوتی بلکہ وہ تو یہی کہتے ہیں:.همه در دور این عالم امان و عافیت خواهند چه افتاد این سر ما را که میخواهد مصیبت را کیونکہ ہر طرف سے ایسے مصائب اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.اور چونکہ سفر میں انسان کو بڑے بڑے مصائب اٹھانے پڑتے ہیں.اس لئے یہ ایک سامان ابتدا ہی سے اسے مصائب کا عادی کرنے کے لئے ہوتا ہے.غرض اس کلیہ سے حضرت مرزا صاحب باہر نہ تھے.انہیں اپنے والد بزرگوار کی اطاعت کے لئے اپنی جاگیر اور جائیداد کے مقدمات کے لئے سفر کرنے پڑے اور قادیان سے ڈلہوزی تک پا پیادہ سفر کیا.آج سے قریباً پچاس سال پیشتر راستوں اور سڑکوں کا ایسا اہتمام نہ تھا اور نہ سفر کی سہولتیں حاصل تھیں.پھر پہاڑوں کا دشوار گزار راستہ اور پیادہ پا طے کرنا آسان کام نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے اس سفر میں کیسی جفاکشی اور غیر معمولی ہمت سے کام لینا پڑتا ہوگا.پھر پہاڑی قوموں کی سوشل لائف بہت کچھ قابل اعتراض ہے.لیکن خدا کا یہ برگزیدہ جو تھوڑے ہی دنوں بعد مامور ہونے والا تھا با وجود اپنی وجاہت ، خوبصورتی اور زمانہ شباب اور ہر قسم کی آزادی کے جذبات کے خطرناک اپیل کرنے والے مقامات سے اسی طرح معصوم آیا جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے.بارہا آپ نے ان ایام کے عجائبات سناتے ہوئے فرمایا ہے کہ :.” جب کبھی ڈلہوزی جانے کا مجھے اتفاق ہوتا تو پہاڑوں کے سبزہ زار حصوں اور بہتے ہوئے پانیوں کو دیکھ کر طبیعت میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کا جوش پیدا ہوتا اور عبادت میں ایک مزا آتا.میں دیکھا تھا کہ تنہائی کے لئے وہاں اچھا موقع ملتا ہے.“ ترجمہ: ہر شخص اس دنیا میں امن و عافیت چاہتا ہے.میرے دل کو کیا آن پڑی ہے کہ مصیبتوں کی خواہش کرتا ہے.

Page 96

حیات احمد ۸۶ جلد اول حصہ اوّل فطرت محمدیہ کا عکس بناوٹ اور تکلف سے کوئی بات انسان کہے تو وہ مخفی نہیں رہ سکتی اور دلی جذبات اور کیفیات کا اندازہ انسان کے بے تکلف کلام سے ضرور ہو جاتا ہے حضرت مرزا صاحب کو ڈلہوزی جاتے ہوئے سبزہ زار پہاڑیوں اور بہتے ہوئے پانیوں نے جس طرف متوجہ کیا ہے وہ ان کی فطرت کا ایک صحیح نقشہ ہے اور ان کی معصوم اور پاکیزہ زندگی کی ایک دلیل.میں اس پر وسعت کے ساتھ کلام نہیں کروں گا بلکہ ناظرین کے لئے اسے چھوڑ دیتا ہوں کہ :.لب جو ہو بادہ ناب ہو کہنے والی زبانوں اور قلبوں سے کس قدر بلندی پر یہ انسان ہے.ان پاکیزہ جملوں کو سن کر ایک شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا پرست فطرت کا مطالعہ کر چکا ہے فوراً اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ آئینہ احمد میں فطرت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہے میں اس موقع پر ان الفاظ کو نقل کئے بدوں نہیں رہ سکتا جو ایک عیسائی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھے ہیں.چنانچہ ڈاکٹر اے سپر نگر صاحب اپنی لائف آف محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں لکھتا ہے کہ جس کے خیال میں ہمیشہ خدا کا تصور رہتا تھا اور جس کو نکلتے ہوئے آفتاب اور برستے ہوئے پانی اور اُگتی ہوئی روئیدگی میں خدا ہی کا ید قدرت نظر آتا تھا اور غرش رعد و آواز آب اور طیور کے نغمہ حمد الہی میں خدا ہی کی آواز سنائی دیتی تھی اور سنسان جنگلوں اور پرانے شہروں کے کھنڈروں میں خدا ہی کے قہر کے آثار دکھائی دیتے تھے.“ مقدمات میں تعلق باللہ مقدمات کا یہ سلسلہ بڑا لمبا تھا اور چیف کورٹ تک بعض مقدمات کی پیروی آپ کو کرنی پڑی.میں اس سیرت کے پڑھنے والوں کو حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے اس حصہ سے واقف کرتے ہوئے جس امر پر متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ آپ کا تعلق باللہ ہے جن لوگوں کو

Page 97

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل حضرت مرزا صاحب کی صحبت میں رہنے اور آپ کی باتیں سننے کا موقع ملا ہے یا جنہوں نے ان تقریروں کو جو شائع ہو چکی ہیں پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب ہمیشہ دست بکار دل به یار کی ہدایت فرمایا کرتے تھے.مقدمات میں فریق مقدمہ کو عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ مدعی ہوں یا مدعا علیہ.ایک اضطراب اور بے قراری کی حالت میں ہوتے ہیں مگر مرزا صاحب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تھے.طبیعت میں کوئی بے چینی اور گھبراہٹ نہیں ہوتی تھی.پورے استقلال اور وقار کے ساتھ دل بہ یار متوجہ رہتے.جہاں یہ مقدمات کی پیروی محض اطاعت والد کے فرض کے ادا کرنے کے لئے تھی وہاں آپ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضا نہیں کی اور اس طرح پر ان فرائض سے غافل نہیں ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق ہیں.عین کچہری میں آپ وقت نماز پر اسی طرح مشغول ہو جاتے گویا آپ کو اور کوئی کام ہی نہ تھا.اور بسا اوقات ایسا ہوا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں اور اُدھر مقدمہ میں طلبی ہوئی.مگر آپ اسی طرح اطمینانِ قلب سے نماز میں لگے رہے ہیں.ایک مرتبہ فرماتے تھے کہ :- میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا.چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا.فریق ثانی پیش ہو گیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا.اور بہت زور اس بات پر دیا مگر عدالت نے پروانہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی.میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھا ہومگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں.“ اس قسم کی بہت سی مثالیں آپ کی اس زندگی میں ملتی ہیں.

Page 98

حیات احمد ۸۸ مقدمات سے بالطبع نفرت تھی جلد اوّل حصہ اوّل میں اوپر حضرت مرزا صاحب ہی کے بیان سے لکھ آیا ہوں کہ آپ کو مقدمات سے بالطبع نفرت تھی.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق ایک خاص واقعہ انہیں ایام کا ظاہر کر دیا جاوے.لاہور میں آپ ایک مقدمہ کی پیروی کے واسطے گئے ہوئے تھے اور وہاں سید محمد علی شاہ صاحب کے مکان پر اُترے ہوئے تھے.سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کے ایک معزز رئیس ہیں.اور اُن دنوں محکمہ جنگلات میں وہ ملازم تھے.حضرت مرزا صاحب کو مقدمات کی پیروی کے لئے جب کبھی جانے کا اتفاق ہوتا تو اُن کے مکان پر ٹھہرتے.ایک مرتبہ ایک مقدمہ کی پیروی کے واسطے گئے ہوئے تھے.شاہ صاحب کا ملازم مرزا صاحب کے لئے کھانا چیف کورٹ ہی میں لے جایا کرتا تھا.ایک دن وہ کھانا لے کر واپس آیا تو شاہ صاحب نے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے کھانا نہیں کھایا تو نوکر نے جواب دیا کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ گھر پر آ کر ہی کھاتا ہوں.چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد مرزا صاحب بہت خوش اور بشاش آپہنچے شاہ صاحب نے پوچھا کہ آج آپ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا فیصلہ ہوا؟ تو فرمایا کہ مقدمہ تو خارج ہو گیا ہے مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے آئندہ اس کا سلسلہ ختم ہو گیا.شاہ صاحب موصوف کہتے ہیں کہ مجھے تو سن کر بہت افسوس ہوا مگر حضرت اقدس بہر حال ہشاش بشاش تھے اور بار بار فرماتے تھے کہ مقدمے کے ہارنے کا کیا غم ہے.غور کا مقام ہے کہ ایک دنیا دار دنیا کی آخری عدالت میں مقدمہ ہارتا ہے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے.بعض اوقات ایسے دیکھنے میں آئے ہیں کہ ایسے موقعوں پر لوگوں نے خود کشیاں کر لی ہیں یا اُن کے دماغ کو کسی قسم کا صدمہ پہنچ گیا ہے.خود اسی خاندان میں نظیر موجود ہے کہ مرزا غلام قادر مرحوم جو آپ کے بڑے بھائی تھے جب چیف کورٹ کی عدالت میں جائیداد قادیان کا مقدمہ جس کا ذکر دوسرے مقام پر آئے گا ہار گئے تو انہیں ایسا صدمہ ہوا کہ پھر اسی غم میں وہ دنیا سے رخصت ہو گئے.لیکن مرزا غلام احمد صاحب چیف کورٹ میں مقدمہ ہارتے ہیں اور مقدمہ کی پیروی اپنے والد صاحب کی طرف سے ان حالات میں کر رہے ہیں جبکہ وہ اپنی جاگیر و جائیداد کے تمام حقوق

Page 99

حیات احمد ۸۹ جلد اوّل حصہ اوّل حاصل کرنے کے لئے بے حد فکر مند تھے.اور آپ کو واپس آ کر والد صاحب کو بھی جواب دینا تھا مگر یہ کیسا قلب ہے کہ اسے کوئی جنبش اور اضطراب نہیں.یہ سکون یہ وقار ایسا نہیں کہ ناظرین سرسری نظر سے اس پر سے گزر جائیں.شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اس مقدمہ کا نتیجہ مرزا صاحب نے پہلے بتا دیا تھا.جہاں اس سے یہ ظاہر ہے کہ آپ کو مقدمات سے نفرت تھی وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رضا بالقضاء آپ کی فطرت میں تھی ورنہ ایسی حالت میں شکر کرنا کارے دارد.مقدمات کے اس سلسلہ کے بیان سے میرا مطلب ان خصائص زندگی کا اظہار خصوصی مقصود نہ تھا جن پر ضمنا میں نے بحث کر دی بلکہ مجھ کو فی الحقیقت آپ کی زندگی کے ان ایام کی مصروفیت کا ذکر کرنا تھا کہ ان ایام میں آپ حضرت مرزا صاحب قبلہ کی اطاعت کے لئے مقدمات کی پیروی اور امور زمینداری کی نگرانی میں مصروف ہو گئے مگر یہ مصروفیت آپ کو نہ تو مطالعہ سے مانع تھی اور نہ یاد الہی میں حارج بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور اس کے حکم کے نیچے تھا.تلاش روزگار آج سے ساٹھ سال پیشتر عام طور پر شرفاء کے لڑکے بعض بڑی بڑی ریاستوں میں اپنے ٹھاٹھ کے ساتھ چلے جاتے اور وہاں بڑے بڑے عہدے حاصل کر لیتے.جناب مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم ریاست کشمیر میں ایک معزز عہدہ پر رہ چکے تھے اس لئے ان کے ایک برادر زادہ کی تحریک پر مرزا صاحب اور سید محمد علی شاہ صاحب تلاش روزگار کے خیال سے قادیان سے چلے گئے.کلانور کے قریب ایک نالے سے گزرتے ہوئے مرزا صاحب کی جوتی کا ایک پاؤں نکل گیا.مگر وہ اپنے رنگ میں ایسے مستغرق اور محو تھے کہ انہیں معلوم بھی نہیں ہوا.جب تک وہاں سے بہت دور جا کر یا د نہیں کرایا گیا.آخر جموں پہنچے وہاں آپ کا کام بجز قرآن شریف کی تلاوت اور نماز کی پابندی کے اور کچھ نہ تھا وہاں ان امور میں منہمک رہتے.چند روز کے بعد ایک رشتہ دار وہاں پہنچا اور سب کو واپس لے آیا.

Page 100

حیات احمد جلد اول حصہ اوّل ملازمت ان حالات میں مرزا غلام مرتضی صاحب قبلہ کو یہ خیال آیا کہ آپ کو سرکاری ملازمت میں داخل کرا دینا چاہئے.شاید یہ میدان ان کے لئے ترقی کا میدان ہو.اور حقیقت میں اگر مرزا صاحب کسی اور مقصد کے لئے پیدا نہ ہوئے ہوتے تو ان کی خاندانی وجاہت ان کا ذاتی چال چلن ایسی چیزیں تھیں جو انہیں ترقی کے بلند مینار پر لے جاتا.حضرت مرزا صاحب سیالکوٹ میں جا کر اہلمد متفرقات کی آسامی پر ملازم ہوئے.یہ ۱۸۶۸ ء تک کا واقعہ ہے.آپ نے دوران ملازمت میں خدا تعالیٰ اور والد صاحب اور سر کا ر اور دیگر مخلوق کے حقوق و فرائض نہایت عمدگی سے ادا کئے.دنیا کے تمام علاقوں میں سے سیالکوٹ کے علاقہ ہی کو یہ عزت حاصل ہوئی کہ آپ نے وہاں اپنی عمر کے چند سال بطور ایک اہلکار کے گزارے اور سیالکوٹ ہی ایک ایسا مقام ہے جس کو قادیان کے بعد آپ قادیان ہی کی طرح پسند فرماتے تھے.چنانچہ سیالکوٹ میں جب آپ نے ۱۹۰۴ء میں لیکچر دیا تو اس میں فرمایا :.میں وہی شخص ہوں جو براہین احمدیہ کے زمانہ سے تخمینا سات آٹھ سال پہلے اسی شہر میں قریباً سات برس رہ چکا تھا.اور کسی کو مجھ سے تعلق نہ تھا اور نہ کوئی میرے حال سے واقف تھا.پس اب سوچو اور غور کرو کہ میری کتاب براہین احمدیہ میں اس شہرت اور رجوع خلائق سے چوبیس سال پہلے میری نسبت ایسے وقت میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ جبکہ میں لوگوں کی نظر میں کسی حساب میں نہ تھا.اگر چہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا براہین کی تالیف کے زمانہ کے قریب اسی شہر میں قریباً سات سال رہ چکا تاہم آپ صاحبوں میں ایسے لوگ کم ہوں گے جو مجھ سے واقفیت رکھتے ہوں.کیونکہ میں اس وقت ایک گمنام آدمی تھا اور اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ تھا اور میری کوئی عظمت اور عزت لوگوں کی نگاہ میں نہ تھی مگر وہ زمانہ میرے لئے نہایت شیریں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی.:

Page 101

حیات احمد ۹۱ جلد اوّل حصہ اول اور کثرت میں وحدت تھی.اور شہر میں میں ایسار ہتا تھا جیسا کہ ایک شخص جنگل میں.مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۴۳٬۲۴۲) حضرت مرزا صاحب کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سیالکوٹ میں کس حیثیت اور شان سے رہتے تھے اور باوجود یکہ آپ ایک اہل کار اور لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے پھر بھی آپ چکا ہوں.“ کی حالت اس شعر کی مصداق تھی بگیر رسم تعلق دلا ز مرغابی بود در آب چو برخاست خشک برخاست پر وہ صیغہ جس میں آپ ملازم تھے.اغراض شکم پری کے لئے ایک بہترین صیغہ تھا مگر آپ کی دیانت اور امانت اور تقویٰ و طہارت اور نیک روش نے آپ کو ہر طرح بےلوث ثابت کیا.آپ کے قیام سیالکوٹ کے مفصل حالات میرے ایک معز ز مخدوم سید میرحسن صاحب قبلہ نے لکھے ہیں جن کی علمی قابلیت اور فیض نے بہت لوگوں کو نفع پہنچایا ہے.سید صاحب نے میری درخواست پر مختصراً جو کچھ لکھا ہے اُس میں بہت کچھ بیان کر دیا ہے اُن کے ایک ایک جملہ پر علم الاخلاق کے لطائف اور سیرت کے اسرار سے واقف ایک ایک رسالہ لکھ سکتے ہیں.اور خدا تعالیٰ نے چاہا تو جہاں حضرت مرزا صاحب کے اخلاق پر بحث ہو گی ان واقعات سے استنباط کیا جائے گا.سردست میں ایک وقائع نگار کی حیثیت سے ان واقعات کو لکھ دینا پسند کرتا ہوں اور حضرت سید میرحسن صاحب کی اس مہربانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں کے الفاظ میں لکھ دینا چاہتا ہوں:.ترجمہ : اے دل تو محبت کے آداب کو مرغابی سے سیکھ.وہ پانی میں ہوتی ہے لیکن جب وہ پانی سے اڑتی ہے تو اس کے پر خشک ہوتے ہیں.

Page 102

حیات احمد ۹۲ جلد اوّل حصہ اول حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مرحوم اور سیالکوٹ میں ان کا زمانہ قیام بتقریب ملازمت حضرت مرزا صاحب ۱۸۶۴ء میں تقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا چونکہ آپ غزلت پسند اور پارسا اور فضول اور لغو سے مجتنب اور محترز تھے.اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جوا کثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے آپ پسند نہیں فرماتے تھے.لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا ڈپٹی مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھے ان کے بڑے رفیق تھے.اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لئے سیالکوٹ میں بھی ان سے اتحاد کامل رہا.پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے.اور چونکہ لالہ صاحب طبع سلیم اور لیاقت زبان فارسی اور ذہن رسا رکھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی.مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ نہ تھے مگر چونکہ اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کا نام پر کسن تھا اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہو گئے تھے ) محمد صالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا.ترجمان کی ضرورت تھی.مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعد ادرکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے.اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو.اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھواتے جاؤ.مرزا صاحب نے اس کام کو كَمَا حَقَّهُ ادا کیا.آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہوئی.انگریزی کی طرف توجہ اس زمانہ میں مولوی الہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے (اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس مشہور ہے) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ

Page 103

حیات احمد ۹۳ جلد اوّل حصہ اوّل رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں.ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں استاد مقرر ہوئے.مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک یا دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں.سیالکوٹ میں مذہبی مناظرے مرزا صاحب کو اُس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا.ایک دفعہ پادری الا یشہ صاحب جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے مباحثہ ہوا.پادری صاحب نے کہا که عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی.مرزا صاحب نے فرمایا نجات کی تعریف کیا ہے؟ اور نجات سے آپ کیا مراد رکھتے ہیں؟ مفصل بیان کیجئے.پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے.اور کہا، میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا.پادری ٹیلر سے مباحثہ پادری ٹیلر صاحب ایم.اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا.یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے.ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ ستر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور آدم کی شرکت سے جو گنہ گار تھا بُری رہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے.پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے.اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا.پس چاہئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے.اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے.

Page 104

حیات احمد ۹۴ پادری ٹیلر کے دل میں عظمت جلد اوّل حصہ اوّل پادری ٹیلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے.اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے.پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی.چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری میں تشریف لائے.ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا.چونکہ میں وطن جانے والا ہوں اس واسطے ان سے آخری ملاقات کروں گا.چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے.سرسید کو پہلا خط چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کرتے تھے اس واسطے مرزا شکستہ تخلص نے جو بعد ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے.اور مراد بیگ نام جالندھر کے رہنے والے تھے.مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے توراۃ وانجیل کی تفسیر لکھی ہے آپ ان سے خط و کتابت کریں.اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی چنانچہ مرزا صاحب نے سرسید کو عربی میں خط لکھا.کچہری کے منشیوں سے شیخ الہ داد صاحب مرحوم سابق محافظ دفتر سے بہت انس تھا اور نہایت پکی اور سچی محبت تھی.شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عُزلت گزین اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھے مرزا صاحب کو دلی محبت تھی.حکیم میر حسام الدین صاحب سے تعارف چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سر بازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب

Page 105

حیات احمد ۹۵ جلد اول حصہ اوّل مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے.اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا.چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا.جناب حکیم میر حسام الدین صاحب قبلہ حضرت میر حامد شاہ صاحب کے والد بزرگوار تھے.ان کو حضرت مرزا صاحب کے ساتھ غایت درجہ کی محبت تھی.چونکہ وہ اس زمانہ کے حالات سے واقف تھے اور انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی عملی زندگی کو دیکھا ہوا تھا.اس لئے وہ آپ کے دعوی پر ایمان لائے اور سلسلہ میں ایک دلیر اور بے ریا بزرگ کی حیثیت سے رہے.حضرت صاحب خود بھی ان کی دوستی اور محبت کو یا درکھتے تھے.چنانچہ سیالکوٹ کے لیکچر میں فرمایا.” میرے اُس زمانہ کے دوست اور مخلص اس شہر میں ایک بزرگ ہیں یعنی حکیم حسام الدین صاحب جن کو اُس وقت بھی مجھ سے بہت محبت رہی ہے.“ لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۴۳ ) اگر چہ میر حکیم حسام الدین صاحب حضرت مرزا صاحب کے حضور نہایت بے تکلفی سے باتیں کرتے تھے مگر با ایں ہمہ اُن کے دل میں بڑا احترام تھا.ایڈیٹر امتحان مختاری چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی.اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا، پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیونکر ہوتے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے.سچ ہے:.ہر کسے را بهر کاری ساختند و مدرسی سے نفرت ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی جس کی ترجمہ: ہر ایک کو کسی کام (خدمت) کے لئے پیدا کیا گیا ہے.

Page 106

حیات احمد ۹۶ جلد اول حصہ اوّل تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی میں نے ان کی خدمت میں عرض کی (مولوی سید میرحسن صاحب نے) آپ درخواست بھیج دیں.چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کی نہایت کامل ہے آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہو جائیں گے فرمایا:.میں مدرسی کو پسند نہیں کرتا کیونکہ اکثر لوگ پڑھ کر بعد ازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں اور علم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا کرتے ہیں میں اس آیت کے وعید سے بہت ڈرتا ہوں :.أَحْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَازْوَاجَهُمُ (الشَّفْت : ۲۳) اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے.“ انبیاء کو احتلام نہ ہونے کی حکمت ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا.آپ نے فرمایا کہ چونکہ انبیاء سوتے جاگتے پاکیزہ خیالوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے اور ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے اس واسطے ان کو خواب میں بھی احتلام نہیں ہوتا.“ ایک مرتبہ لباس کے بارہ میں ذکر ہورہا تھا.ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھا ہوتا ہے.جیسا کہ ہندوستانی اکثر پہنتے ہیں.دوسرے نے کہا کہ تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا ہوتا ہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ :.بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے.اور اس میں پردہ زیادہ ہے کیونکہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہو جاتا ہے.‘سب نے اس کو پسند کیا.“ آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے کر ۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے.ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا.اور بتقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے.

Page 107

حیات احمد ۹۷ سرسید کی تفسیر سے بیزاری جلد اول حصہ اوّل اسی سال سرسید احمد خان صاحب غفرلہ نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی.تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی جب میں اور شیخ الہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثناء گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا.راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آ گئی.جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آ گئی ہے فرمایا :.کل جب آپ آدیں تو تفسیر لیتے آویں.جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا.مرزا صاحب کی عمر اس زمانہ میں اس زمانہ میں مرزا صاحب کی عمر راقم کے قیاس میں تخمینا ۲۴ سے کم اور ۲۸ برس سے زیادہ نہ تھی.غرضیکہ ۱۸۶۴ء میں آپ کی عمر ۲۸ برس سے متجاوز نہ تھی.راقم میرحسن ان واقعات اور حالات پر جو عالی جناب مولوی سید میرحسن صاحب نے لکھے ہیں اس مقام پر کوئی تفصیلی بحث نہیں کروں گا ان پر اگر کچھ اضافہ کرنا ہو گا تو آگے چل کر بیان کروں گا.ملازمت بھی ایک مکتب ہی تھا جیسا که مولوی سید میر حسن صاحب نے لکھا ہے حضرت مرزا صاحب عزلت گزین تھے.اور ان کی ملاقات اگر کسی سے ہوتی تھی تو وہ یا تو علم دوست اشخاص تھے یا مذہبی انسان.پھر اکثر وقت مذہبی مذاکرات میں صرف کرتے تھے.دراصل یہ زمانہ ملازمت بھی گو نہ آپ کی ایک قسم کی تعلیم و تربیت ہی کا زمانہ تھا اور آپ نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا چنانچہ لکھتے ہیں:.ایسا ہی ان کے (والد صاحب) زیر سایہ ہونے کے ایام میں چند سال تک

Page 108

حیات احمد ۹۸ جلد اوّل حصہ اول میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی.آخر چونکہ میرا جدا رہنا والد صاحب پر بہت گراں تھا.اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشاء کے موافق تھا میں نے استعفا دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا.اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں.اُن میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو پورے طور پر صوم اور صلوٰۃ کے پابند ہوں.اور جوان جائز حظوظ سے اپنے تئیں بچا سکیں جو ابتلا کے طور پر اُن کو پیش آتے رہتے ہیں.میں ہمیشہ اُن کے منہ دیکھ کر حیران رہا اور اکثر کو ایسا پایا کہ ان کی تمام خواہشیں مال و متاع تک خواہ حلال کی وجہ ہو یا حرام کے ذریعہ سے محدود تھیں.اور بہتوں کی دن رات کی کوششیں صرف اسی مختصر زندگی کی دنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں.میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم لوگ ایسے پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ حلم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی مخلوق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پرہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں.بلکہ بہتوں کو تکبر اور بد چلنی اور لا پروائی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پایا.اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ ہر ایک قسم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا.اور بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے.من بہر جمعیتے نالاں شدم جفت خوشحالاں و بد حالاں شدم ہر کسے از ظن خود شد یا رمن از درون من نجست اسرار من ترجمہ: ( بنسری کہتی ہے) میں نے ہر مجلس میں اپنا رونا رویا، اور بُرے بھلے ہر قسم کے لوگوں کی صحبت میں رہی.ہر شخص اپنے ظن کی بناء پر ہی میرا دوست بنا لیکن کسی نے میرے دل کے بھیدوں کے جاننے کی کوشش نہ کی.

Page 109

حیات احمد ۹۹ جلد اوّل حصہ اول اور جب میں حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو بدستور اُن ہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گیا مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتا بیں سنایا بھی کرتا تھا.“ (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴ ۱۸ تا ۱۸۷ حاشیه ) حضرت مرزا صاحب کی زندگی اس طرح پر شروع سے لے کر اس زمانہ تک ایک نمونہ کی زندگی تھی.اور زندگی کے جن جن حصوں اور حالتوں سے وہ گزرے وہ ان کے لئے گویا ایک مکتب تھیں چونکہ سیالکوٹ کے عہد ملازمت کے بعد آپ کی زندگی کا ایک دوسرا دور شروع ہونے والا تھا اس لئے جوں جوں وہ زمانہ قریب آتا جاتا تھا آپ کی توجہ تمام تر اسلام کی ترقی کی طرف ہوتی جاتی تھی.سیالکوٹ کی زندگی میں بھی جیسا کہ جناب مولوی سید میر حسن صاحب قبلہ کی تحریر سے ثابت ہوتا ہے آپ کے اوقات گرامی پادریوں سے مباحثات میں خرچ ہوتے تھے.اور ان کے دشمنوں تک کو ان کی پاکیزہ زندگی کا اعتراف ہے.پادری ٹیلر صاحب سکاچ مشن سے تعلق رکھتے تھے وہ اپنے طبقہ میں نہ صرف معزز و ممتاز ہی تھے بلکہ ایک فاضل اور مشہور عالم تورات و انجیل کے سمجھے جاتے تھے.وہ حضرت مرزا صاحب کی تقریر اور دلائل کے بڑے گرویدہ تھے.حضرت مرزا صاحب کے پاس وہ رخصت کے وقت دفتر میں آجاتا اور آپ کے ساتھ چلا جاتا اور گھنٹوں اپنے تمام تکلفات کو چھوڑ کر حضرت مرزا صاحب کے معمولی مکان میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتوں اور صحبت سے فائدہ اٹھاتا.پادریوں کو یہ امر نا گوار گزرا اور یہاں تک بھی کہا اس میں آپ کی اور مشن کی خفت ہے.آپ وہاں نہ جایا کریں.مگر پادری صاحب نے بڑی نرمی سے جواب دیا کہ یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے تم اس کو نہیں سمجھتے میں سمجھتا ہوں.چنانچہ اس کی یہ عقیدت یہاں تک بڑھتی گئی کہ جب وہ سیالکوٹ سے رخصت ہوا تو دفتر میں جا کر حضرت مرزا صاحب سے رخصت ہوا.اور ان کے ساتھ معمولی فرش پر بیٹھا رہا.اور صاحب ڈپٹی کمشنر کے دریافت کرنے پر بھی حضرت مرزا صاحب سے ہی ملاقات کی غرض بتائی.

Page 110

حیات احمد حضرت مرزا صاحب کی دلچپسی تعبیر الرؤیا سے جلد اوّل حصہ اوّل حضرت مرزا صاحب کو شروع جوانی ہی سے جہاں عبادت اور ذکر الہی کا شوق تھا وہاں خوابوں کی تعبیر اور کیفیت کے سمجھنے کا بھی ایک خاص مذاق اور ملکہ تھا.گھر والے سب کے سب اور دوسرے لوگ بھی اس بات کے قائل تھے کہ علم تعبیر الرؤیا میں مرزا صاحب کو بہت مہارت ہے اور ان کی تعبیریں صحیح ہوتی ہیں نہ صرف اس علم سے مذاق تھا بلکہ اصل یہ ہے کہ اسی زمانہ سے ہی آپ رویا ء صالحہ دیکھا کرتے تھے اور وہ واقعات میں پوری ہوتی تھیں.رو با قبول نبوت کے لئے فطری راہ نما ہے بات اصل میں یہ ہے کہ بقدر استعداد ہر شخص کم و بیش صحیح خواب دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے.اور انسانی فطرت میں یہ مادہ اس لئے رکھا گیا ہے تا وہ امر نبوت کے قبول کرنے پر مکلف ہو.یہ سچ ہے کہ خواب تو کم و بیش ہر شخص صحیح دیکھ سکتا ہے مگر تھوڑے اور بہت ہی تھوڑے ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس لطیف سائنس سے واقف ہوں اور یہ بھی کوئی عجیب بات نہیں ہر شاخ علم کا یہی حال ہے.النَّاسُ اَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا درست قول ہے اللہ تعالیٰ نے نبوت کی صداقتوں کے اثبات کے لئے اور اقلا عجائب احوال کے روبروسر تسلیم خم کرانے کے لئے فطرتِ انسانی میں خواب کا عالم ودیعت رکھ دیا.یہ قوی دلیل ہے جس کی راہنمائی کی مدد سے سلیم الفطرت انسان نے انبیاء علیہم السلام کی رؤیا و مکاشفات کو تسلیم کیا ہے کسی پر یہ حالت واقع ہو نہ ہومگر اس نے اسے قانون قدرت کے موافق اور ممکن الوقوع ضرور مانا ہے.حضرت مرزا صاحب کو اس علم کے ساتھ خاص مناسبت تھی جو لوگ آپ کے پاس ابتداء رہا کرتے تھے انہوں نے بتایا ہے کہ صبح اٹھ کر آپ دوسروں سے اُن کی خوا ہیں دریافت کرتے اور اپنی خواہیں سنایا کرتے تھے.انہیں ایام میں آپ نے ایک رؤیا دیکھی جو آپ کی آئندہ زندگی کے عظیم الشان کام کا ابتدائی نقشہ تھا.

Page 111

حیات احمد 1+1 انبیاء کی وحی رویا صالحہ سے شروع ہوتی ہے جلد اوّل حصہ اول یہ ایک مسلّم بات ہے کہ منہاج نبوت پر آنے والوں کی وحی ابتداء رؤیا صالحہ سے ہی شروع ہوتی ہے.اور رویا صالحہ کو نبوت کے اجزاء سے قرار دیا گیا ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی بھی رویا صالحہ سے شروع ہوئی تھی.چنانچہ حضرت صدیقہ مطہرہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ أَرْضَاهَا فرماتی ہیں.اَوَّلُ مَا بَدَءَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِى النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلْقِ الصُّبْحِ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی ابتدا یوں ہوئی کہ آپ کو پہلے خواب میں ٹھیک ٹھیک رؤیا دکھائی دینے لگی.ہر ایک رؤیا کی تعبیر روز روشن کی طرح واضح و آشکار ہوتی تھی.حضرت مرزا صاحب سے بھی سنت اللہ اسی طرح پر واقعہ ہوئی.وہ ابتداء نہایت صحیح رؤیا دیکھتے اور ان خوابوں سے ان لوگوں کو واقف اور آگاہ کرتے جو آپ کے پاس رہتے یا غیر مذاہب کے لوگوں کو بلا کر قبل از وقت بتا دیتے.حضرت مرزا صاحب کو آپ کی آئندہ زندگی کے واقعات بھی قبل از وقت دکھائے گئے تھے.میں ان واقعات اور حالات کو اپنے اپنے مقام پر تفصیل سے لکھوں گا.وَ بِاللَّهِ التَّوْفِيقِ یہاں میں ایک رؤیا آپ کی درج کرنی چاہتا ہوں جو آپ نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء میں دیکھی.آپ نے اس رؤیا کے دیکھنے کا زمانہ ایام طالب علمی میں قرار دیا ہے.لیکن جس سال کا آپ ذکر کرتے ہیں وہ سال آپ کے ابتدائی ایام ملازمت سیالکوٹ کا سال تھا اور ابھی تعلیمی سلسلہ سے تازہ ہی فارغ ہوئے تھے.بہر حال اس بحث میں نہ پڑ کر کہ یہ رویا آپ نے بٹالہ دیکھی یا سیالکوٹ اصل رؤیا یہاں درج کی جاتی ہے.بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم..

Page 112

حیات احمد ۱۰۲ حضرت مرزا صاحب کی رؤیا جلد اول حصہ اوّل چنانچہ یہ عاجز اپنے بعض خوابوں میں سے جن کی اطلاع اکثر مخالفین اسلام کو انہیں دنوں میں دی گئی تھی کہ جب وہ خوا ہیں آئی تھیں.اور جن کی سچائی بھی انہیں کے روبرو ظاہر ہوگئی.بطور نمونہ بیان کرتا ہے.منجملہ اُن کے ایک وہ خواب ہے جس میں اس عاجز کو جناب خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی.اور بطور مختصر بیان اس کا یہ ہے کہ اس احقر نے ۱۸۶۴ ء یا ۱۸۶۵ء میں یعنی اسی زمانہ کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا.جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا.کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے.جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کے تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے.غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا.آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اُس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا تب ایک مُردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آ کھڑا ہوا.اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا.جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے.اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبر دست

Page 113

حیات احمد ۱۰۳ جلد اوّل حصہ اول پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اُس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا.اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اُس نئے زندہ کو دے دی.اور اس نے وہیں کھالی.پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی تب اُسی نور کا مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.یہ وہ خواب ہے کہ تقریباً دو سو آدمی کو انہیں دنوں میں سنائی گئی تھی.جن میں سے پچاس یا کم و بیش ہندو بھی ہیں کہ جو اکثر اُن میں سے ابھی تک صحیح وسلامت ہیں اور وہ تمام لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں براہین احمدیہ کی تالیف کا ابھی نام ونشان نہ تھا اور نہ یہ مرکوز خاطر تھا کہ کوئی دینی کتاب بنا کر اُس کے استحکام اور سچائی ظاہر کرنے کے لئے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جائے.لیکن ظاہر ہے کہ اب وہ باتیں جن پر خواب دلالت کرتی ہے کس قدر پوری ہو گئی ہیں.اور جس قطبیت کے اسم سے اُس وقت کی خواب میں کتاب کو موسوم کیا گیا تھا اُسی قطبیت کو اب مخالفوں کے مقابلہ پر بوعدہ انعام کثیر پیش کر کے حجت اسلام اُن پر پوری کی گئی ہے.اور جس قد ر اجزا اُس خواب کے ابھی تک ظہور میں نہیں آئے اُن کے ظہور کا سب کو منتظر رہنا چاہئے کہ آسمانی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں.66 (براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۴ ۲۷ تا ۲۷۶ حاشیہ نمبرا) اس خواب کی تعبیر فلق الصبح کی طرح ظاہر ہے.وہ زندہ ہونے والا مردہ دین اسلام ہے.جو حضرت مرزا صاحب کے ہاتھ سے زندہ ہوا.ناظرین حضرت مرزا صاحب کی اس رؤیا کو

Page 114

حیات احمد ۱۰۴ جلد اول حصہ اوّل اپنے ذہن میں تازہ رکھ کر ان واقعات اور حالات پر غور کریں گے، جو بعد میں پیدا ہوئے.تو انہیں اس خواب کی تعبیر نہایت وضاحت کے ساتھ نظر آ جائے گی.علاوہ بریں خود حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی ایک اور رؤیا اس کی تصدیق کرتی ہے جو آپ نے ازالہ اوہام میں لکھی ہے.تھوڑے دن گزرے ہیں کہ ایک مدقوق اور قریب الموت انسان مجھے دکھائی دیا اور اس نے ظاہر کیا کہ میرا نام دین محمد ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ دین محمدی ہے.جو مجسم ہو کر نظر آیا ہے.اور میں نے اُس کو تسلی دی کہ تو میرے ہاتھ سے شفا پائے گا.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۰۶) آپ کے والد ماجد کی رؤیا اس مقام پر میں ناظرین کو اُس رویا کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب آپ کے والد ماجد نے دیکھی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مکان کی طرف بڑی شان سے آ رہے ہیں یہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا نقشہ تھا جو انہیں دکھایا گیا.غرض یہ بات مسلّم اور مشہور ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے رویا صالحہ مطابق واقعہ ہوتے تھے.اور جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا فلق الصبح کی طرح ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود کے رویا بھی اُسی طرح پورے ہوتے.یہ خوابات آپ کو کثرت سے آتے.اور اسی وجہ سے آپ کو علم تعبیر الرؤیا میں ایک خاص مذاق اور ملکہ پیدا ہو گیا تھا.سیدمحمدعلی شاہ صاحب رئیس قادیان بیان کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کے گھر والوں کو بھی ان کے رؤیا کا یقین ہو جاتا تھا.اور وہ ان کی تعبیر خواب کے ہمیشہ قائل تھے.

Page 115

حیات احمد ۱۰۵ جلد اوّل حصہ اول زمینداری مقدمات کے دوران میں آپ کے رویا ء صالحہ جن دنوں آپ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے حکم کی تعمیل کے لئے زمینداری مقدمات کی پیروی میں لگائے گئے تھے.ان ایام میں بھی آپ اس حالت سے مستثنیٰ نہ تھے.بہت سے واقعات قبل از وقت آپ پر کھولے جاتے تھے اور ان کی تعبیر مطابق واقعہ ہوتی.یہاں تک کہ بعض مقدمات کے متعلق بھی قبل از وقت آپ کو نتائج کا علم دیا جاتا.آپ کی عادت شریف میں تھا کہ ان خوابوں کو دوسرے لوگوں کو جو ہندو یا مسلمان ہوتے قبل از وقت سنا دیتے.اور پھر جب وہ بشارت پوری ہو جاتی تو ان کے لئے بطور حجت ملزمہ ہو جاتی.چنانچہ ان میں سے بعض میں یہاں درج کرتا ہوں.خاندانی حالات کے ضمن میں میں نے اس مقدمہ کی کیفیت لکھ دی ہے جو مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنے شرکاء سے کر رہے تھے.اور جو گویا ایک خاص انقلاب کا باعث ہو گیا.یہاں میں اس مقدمہ کی کیفیت حضرت اقدس کے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں جو جھنڈا سنگھ نامی ایک دخیل کار پر تھا.ڈگری ہو گئی ہے جھنڈا سنگھ وغیرہ دخیل کار نے جو دفعہ ۵ ایکٹ مزارعان کا دخیل کار تھا.ایک درخت کیکر کا بلا اجازت مالکان کاٹ لیا تھا.اس پر چودہ روپیہ کی نالش کی گئی تھی.اور حضرت مرزا صاحب ہی اس مقدمہ کے پیروکار تھے.آپ کو قبل از وقت اس مقدمہ کے نتیجہ اور انجام سے اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تھی کہ ڈگری ہوگئی ہے چنانچہ فرماتے ہیں.”ہمارا ایک مقدمہ تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں چند موروثی آسامیوں پر تھا.مجھے خواب میں بتلایا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہو گی.میں نے کئی لوگوں کے آگے وہ خواب بیان کی.منجملہ اُن کے ایک ہندو بھی تھا جو میرے پاس آمد ورفت رکھتا تھا اس کا نام شرمیت ہے جو زندہ موجود ہے.اُس کے پاس بھی میں نے یہ پیشگوئی بیان کر

Page 116

حیات احمد 1.4 جلد اوّل حصہ اول دی تھی کہ اس مقدمہ میں ہماری فتح ہو گی.بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ جس روز اس مقدمہ کا اخیر حکم سنایا جانا تھا.ہماری طرف سے کوئی شخص حاضر نہ ہوا اور فریق ثانی جو شائد پندرہ یا سوله آدمی تھے حاضر ہوئے.عصر کے وقت اُن سب نے واپس آ کر بازار میں بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہو گیا.تب وہی شخص مسجد میں میرے پاس دوڑتا آیا اور طنزاً کہا کہ لو صاحب آپ کا مقدمہ خارج ہو گیا.میں نے کہا کہ کس نے بیان کیا.اس نے جواب دیا کہ سب مدعا علیہم آگئے ہیں اور بازار میں بیان کر رہے ہیں.یہ سنتے ہی میں حیرت میں پڑ گیا.کیونکہ خبر دینے والے پندرہ آدمی سے کم نہ تھے اور بعض اُن میں سے مسلمان اور بعض ہندو تھے.تب جو کچھ مجھ کو فکر اور غم لاحق ہوا اُس کو میں بیان نہیں کر سکتا.وہ ہند و تو یہ بات کہہ کر خوش خوش بازار کی طرف چلا گیا.گویا اسلام پر حملہ کرنے کا ایک موقعہ اس کو مل گیا مگر جو کچھ میرا حال ہوا اُس کا بیان کرنا طاقت سے باہر ہے.عصر کا وقت تھا میں مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اور دل سخت پریشان تھا کہ اب یہ ہندو ہمیشہ کے لئے یہ کہتا رہے گا کہ کس قدر دعوی سے ڈگری ہونے کی پیشگوئی کی تھی اور وہ جھوٹی نکلی.اتنے میں غیب سے ایک آواز گونج کر آئی اور آواز اس قدر بلند تھی کہ میں نے خیال کیا کہ باہر سے کسی آدمی نے آواز دی ہے.آواز کے یہ لفظ تھے کہ ڈگری ہوگئی ہے مسلمان ہے!.یعنی کیا تو باور نہیں کرتا.تب میں نے اٹھ کر مسجد کے چاروں طرف دیکھا تو کوئی آدمی نہ پایا.تب یقین ہو گیا کہ فرشتہ کی آواز ہے.میں نے اُس ہندو کو پھر اُسی وقت بلایا اور فرشتہ کی آواز سے اُس کو اطلاع دی مگر اُس کو باور نہ آیا.صبح میں خود بٹالہ کی تحصیل میں گیا اور تحصیلدار حافظ ہدایت علی نام ایک شخص تھا.وہ اس وقت ابھی تحصیل میں نہیں آیا تھا اُس کا مثل خواں متھرا داس نام ایک ہندو موجود تھا.میں نے اُس سے دریافت کیا کہ کیا ہمارا مقدمہ خارج ہو گیا ؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ ڈگری ہو گئی.میں نے کہا کہ فریق مخالف نے قادیان میں جا کر یہ مشہور کر

Page 117

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول دیا ہے کہ مقدمہ خارج ہو گیا ہے.اُس نے کہا کہ ایک طور سے انہوں نے بھی سچ کہا ہے.بات یہ ہے کہ جب تحصیلدار فیصلہ لکھ رہا تھا تو میں ایک ضروری حاجت کے لئے اُس کی پیشی سے اٹھ کر چلا گیا تھا تحصیلدار نیا تھا اُس کو مقدمہ کی پیش و پس کی خبر نہ تھی.فریق مخالف نے ایک فیصلہ اُس کے روبرو پیش کیا جس میں موروثی اسامیوں کو بلا اجازت مالک کے اپنے اپنے کھیتوں سے درخت کاٹنے کا اختیار دیا گیا تھا.تحصیلدار نے اُس فیصلہ کو دیکھ کر مقدمہ خارج کر دیا اور ان کو رخصت کر دیا.جب میں آیا تو تحصیلدار نے وہ فیصلہ مجھے دیا کہ شامل مثل کرو.جب میں نے اُس کو پڑھا تو میں نے تحصیلدار کو کہا کہ یہ تو آپ نے بڑی بھاری غلطی کی.کیونکہ جس فیصلہ کی بناء پر آپ نے یہ حکم لکھا ہے وہ تو اپیل کے محکمہ سے منسوخ ہو چکا ہے.مدعاعلیہم نے شرارت سے آپ کو دھوکہ دیا ہے اور میں نے اُسی وقت محکمہ اپیل کا فیصلہ جو مثل سے شامل تھا اُن کو دکھلا دیا.تب تحصیلدار نے بلا توقف اپنا پہلا فیصلہ چاک کر دیا اور ڈگری کر دی.یہ ایک پیشگوئی ہے کہ ایک ہندوؤں کی جماعت اور کئی مسلمان اس کے گواہ ہیں اور وہی شرمیت اُس کا گواہ ہے جو بہت خوشی سے یہ خبر لے کر میرے پاس آیا تھا کہ مقدمہ خارج ہو گیا.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذَالِكَ.خدا کے کام عجیب قدرتوں سے ظاہر ہوتے ہیں.اس پیشگوئی کی تمام وقعت اس سے پیدا ہوئی کہ ہماری طرف سے کوئی حاضر نہ ہوا اور تحصیلدار نے غلط فیصلہ فریق ثانی کو سنا دیا.دراصل یہ سب کچھ خدا نے کیا اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ خاص عظمت اور وقعت پیشگوئی میں ہرگز پیدا نہ ہوتی.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۴) سیالکوٹ کے زمانہ میں بعض واقعات کی قبل از وقت اطلاع جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں بسلسلہ ملازمت رہتے تھے ان ایام میں بھی آپ کے ساتھ یہ سلسلہ جاری تھا.اور اللہ تعالیٰ آپ کو بعض واقعات کی قبل از وقت خبریں

Page 118

حیات احمد ۱۰۸ جلد اوّل حصہ اوّل دیتا تھا.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ سلسلہ اس سے بھی بہت پہلے کا ہے.براہین احمدیہ کے متعلق جو خواب آپ کو آئی وہ ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء کی ہے.ایام طالب علمی میں بھی اس فیض سے آپ حصہ پار ہے تھے.مگر اس زمانہ کے ان روحانی حالات اور کیفیات کا کوئی مجموعہ ہمارے ہاتھ میں سردست نہیں.اس لئے صرف ان واقعات پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں یا تقریروں سے ہم کو مل سکے ہیں.یا بعض دوسرے موثق ذرائع سے حاصل ہوئے.امتحان مختاری کی تیاری سیالکوٹ کے ایام بود و باش میں آپ نے ایک مرتبہ امتحان مختاری کا ارادہ کیا.اس کی وجہ زیادہ تر تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اہلکاروں کی زندگی کو آپ دیکھتے تھے کہ وہ بہت کچھ قابل اعتراض اور لائق اصلاح ہے جیسا کہ میں آپ کے بیان کی بناء پر اوپر لکھ آیا ہوں.اس لئے آپ کا خیال تھا کہ ایک آزاد پیشہ کی طرف توجہ کرنا مفید ہو گا.اور اس پیشہ کے ذریعہ مظلوموں کی حمایت کی جاسکے گی.آپ کے ایام طالب علمی کے رفقاء میں سے سیالکوٹ میں ایک کائستھ صاحب لالہ بھیم سین بھی تھے.وہ بٹالہ میں آپ کے ہم مکتب تھے اور ایک ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر لالہ مٹھن لال صاحب کے رشتہ دار تھے اور اس وجہ سے حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے ساتھ انہیں پرانا تعلق تھا.لالہ بھیم سین اور حضرت مرزا صاحب ایک ہی مکان میں رہتے تھے اور با ہم بڑا ربط ضبط تھا.لالہ بھیم سین حضرت مرزا صاحب کے اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے گرویدہ اور معتقد تھے.پنجاب میں چیف کورٹ کا نیا نیا افتتاح ہوا تھا اور امتحان وکالت کے لئے ابتدائی آسانیاں میسر تھیں اور بعض اہلکاروں کو قبل از امتحان بھی قانونی پریکٹس کی صاحب ڈپٹی کمشنر کی سپارش پر اجازت دے دی جاتی تھی.لالہ بھیم سین صاحب بھی اسی قسم کے اہلکاروں میں سے ایک تھے.چونکہ لالہ مٹھن لال صاحب ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر صاحب سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر کے ملاقاتی تھے.انہوں نے باوجود یکہ لالہ بھیم سین لوکل بورڈ میں اہلمد تھے.ایک سپارشی چٹھی کے ذریعہ اُن کو وکالت کی اجازت منگوا دی تھی.ہاں شرط یہ تھی کہ اگر وہ امتحان میں پاس نہ ہوں تو انہیں اپنے اصلی

Page 119

حیات احمد 1+9 جلد اوّل حصہ اوّل عہدہ پر واپس ہو جانا پڑے گا.چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے رخصت لے رکھی تھی.تیاری امتحان میں مشغول تھے اور دن کو با قاعدہ پریکٹس کرتے تھے.انہوں نے حضرت مرزا صاحب کو بھی تحریک کی کہ وہ امتحان وکالت دے دیں.غرض اس تحریک یا اور اسباب کی بناء پر حضرت مرز اصاحب بھی شامل امتحان ہوئے.مگر قبل اس کے جو نتیجہ شائع ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نتیجہ امتحان سے آگاہ فرما دیا.لالہ بھیم سین کی کامیابی کا نظارہ دکھایا گیا! حضرت مرزا صاحب نے رویا میں دیکھا کہ امتحان کے جو پرچے تقسیم ہوئے ہیں وہ دو قسم کے کاغذات پر ہیں.زرد اور سرخ.تمام امیدواروں کو زرد رنگ کے پرچے تقسیم ہوئے ہیں اور لالہ بھیم سین کو سرخ رنگ کا پرچہ.حضرت مرزا صاحب نے اس کی تعبیر یوں کی ہے کہ لالہ بھیم سین پاس ہو جائیں گے گویا سرخرو ہوں گے اور زرد رنگ سے نا کامی کی تعبیر کی.امتحان کے کمرہ میں بعض حالات اور واقعات ایسے پیش آئے تھے کہ قریب تھا کہ وہ امتحان منسوخ ہو جائے لیکن آخر جب نتیجہ نکلا تو وہ عین خواب کے مطابق تھا.لالہ بھیم سین کو حضرت مرزا صاحب کی خوبیوں اور فضائل کا پہلے ہی اعتراف تھا اور وہ ان کی رؤیا کور ویا ء صالحہ یقین کرتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ایک مُرتاض زندگی بسر کرنے والے بزرگ ہیں.اس واقعہ نے انہیں اور بھی معتقد بنا دیا.حضرت مرزا صاحب بھی اس امتحان میں فیل ہوئے اور فیل ہونا ضروری تھا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس مقصد اور غرض کے لئے پیدا ہی نہیں کیا تھا.اس واقعہ کو حضرت اقدس نے خود بھی بیان فرمایا ہے.اور براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۵۶ (روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۸۴ حاشیہ نمبرا) میں بھی اس کا ذکر کیا ہے.اور یہ ۱۸۶۸ء کا واقعہ ہے.لالہ بھیم سین صاحب نے خود اپنے خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کو قادیان خبر دی تھی کیونکہ آپ سیالکوٹ سے آچکے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام اپنے نشانات کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ :- ایک وکیل صاحب سیالکوٹ میں ہیں جن کا نام لالہ بھیم سین ہے.( اب وہ

Page 120

حیات احمد 11.جلد اوّل حصہ اول فوت ہو چکے ہیں اور ان کے خلف الرشید لالہ کنور سین ایم.اے لاہور کے لاء کالج کے پرنسپل ہیں.ایڈیٹر ) ایک مرتبہ جب انہوں نے اس ضلع میں وکالت کا امتحان دیا تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے ان کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے فیل ہو جائیں گے.مگر سب میں سے صرف تم ایک ہو کہ وکالت میں پاس ہو جاؤ گے.اور یہ خبر میں نے تمہیں کے قریب اور لوگوں کو بھی بتائی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۵۶ نشان نمبر ۳۵) راجہ تیجا سنگھ کی خبر وفات قبل از وقت مل گئی راجہ تیجا سنگھ صاحب (جن کا ذکر اس سوانح میں پہلے بھی آچکا ہے) کی وفات کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبل از وقت دے دی تھی.اور لالہ بھیم سین کو حضرت نے آگاہ کر دیا تھا.چنانچہ فرماتے ہیں کہ :- انہی وکیل صاحب یعنی لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں.اب فوت ہو چکے ہیں.ایڈیٹر ) ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے راجہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پا کر ان کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہو گئے ہیں اور انہوں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا اور جب قریب دو بجے بعد دو پہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر نا گہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹر مکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ وغیرہ میں ہیں.بہت جلد ایک فہرست تیار ہونی چاہئے کیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہو گئے.تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پا کر نہایت تعجب کیا کہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی.

Page 121

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول اور یہ نشان آج سے ہمیں برس پہلے ( آج ۱۹۱۵ء میں ۳۶ برس پہلے.ایڈیٹر ) براہین احمدیہ میں درج ہے.دیکھو صفحہ ۲۵۶.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۵۶ نشان نمبر ۳۶) غرض یہ سلسلہ خواب کا شروع تھا اور حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی وفات کی خبر بھی آپ کو پہلے سے دی گئی تھی.میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب کی زندگی میں آپ کو مقدمات کی پیروی اور زمینداری امور کے انصرام ونگہداشت کا بھی کام کرنا پڑتا تھا مگر حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات کے بعد اس قسم کے کاروبار کو مرزا غلام قادر مرحوم آپ کے بڑے بھائی نے سنبھال لیا.اور آپ کو ایک طرح پر ان بکھیڑوں سے اطمینان حاصل ہوا.حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کی زندگی کے حالات بعد وفات حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی زندگی کے بعد آپ کے طرز زندگی میں ایک اور انقلاب آیا.اگر چہ اس انقلاب کی تیاریاں حضرت مرزا صاحب کی زندگی میں ہی شروع ہو گئی تھیں.چنانچہ آپ نے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ کر اپنے آپ کو ان تمام بکھیڑوں سے الگ کر لیا تھا.اور اپنے منشاء کو عمدگی سے ان پر واضح کر دیا تھا.وہ خط جو آپ کی اس نئی زندگی کا پیش خیمہ تھا میں نیچے درج کرتا ہوں.گوشہ گزینی کے لئے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی خدمت میں نیاز نامہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے آقا اور محسن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز و اتباع میں گوشہ تنہائی بہت پسند تھا.اور اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو کبھی باہر نہ آتے.چنانچہ آپ اپنی اس حالت کا نقشہ ان اشعار میں کھینچتے ہیں.

Page 122

حیات احمد میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کر دیا کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار تیرے اے میرے مربی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار ابتدا سے گوشہء خلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار جلد اوّل حصہ اول اور متعدد مرتبہ یہ بات آپ نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں ظاہر کی.غرض جب آپ کی گوشہ گزینی کی طبیعت اور خلوت کی فطرت پر ایک پر زور اثر پڑا اور جذبہ الہیہ سے جب آپ بالکل اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچے گئے تو آپ نے حضرت مرزا صاحب قبلہ کو وہ خط لکھا.جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.حضرت اقدس کا ایک عجیب مکتوب ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو ایک گرامی قدر مکتوب درج کیا جاتا ہے.اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ حضور علیہ السلام کس طرح اول عمر ہی سے اس دنیا سے منتظر اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی فکر میں رہتے تھے.یہ مکتوب آپ نے اپنے والد ماجد مرزا غلام مرتضی خان صاحب مرحوم کی خدمت میں ایسے وقت میں لکھا تھا.جب آپ بَدُو شباب میں تھے.یہ مکتوب بھی آپ کی پاکیزہ فطرتی اور مطہرہ سیرت کا ایک جزو ہے.اور وہ یہ ہے.حضرت والد مخدوم من سلامت ! مراسم غلامانه وقواعد فدویانہ بجا آورده معروض حضرت والا میکند - چونکه در این ایام برأي العین می بینم و بچشم سرمشاہدہ میکنم.کہ در ہمہ ممالک و بلا د ہر سال ترجمہ: مخدوم من حضرت والد صاحب سلامت مراسم غلامانہ اور قواعد فدویانہ بجالاتے ہوئے حضور والا میں معروض ہوں کہ چونکہ ان ایام میں میں برأی العین دیکھتا ہوں اور بچشم سرمشاہدہ کر رہا ہوں کہ تمام ممالک اور بلا د میں ہر سال

Page 123

حیات احمد ۱۱۳ جلد اوّل حصہ اوّل چناں وبائے می افتد.کہ دوستان را از دوستان و خویشان را از خویشان جدا میکند - و پیچ سالے نہ بینم که این نائره عظیم و چنیں حادثه الیم در آن سال شور قیامت نیفگند.نظر براں دل از دنیا سرد شده است و رو از خوف جان زرد و اکثر این دو مصرعه شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی بیاد می آیند و اشک حسرت ریختہ مے شود.مکن تکیه بر عمر نا پائدار مباش ایمن از بازی روزگار و نیز این دو مصرعه ثانی از دیوان فرخ قادیانی نمک پاش جراحت دل میشود بدنیائے دون دل مبند اے جوان کہ وقت اجل میرسد ناگهان لہذا می خواهم که بقیه عمر درگوشه، تنہائی نشینم و دامن از صحبت مردم چینم و بیاد وسبحانه مشغول شوم مگر گذشتہ را عذرے و مافات را تدار کے شود.بقیہ حاشیہ: کوئی نہ کوئی وباء آجاتی ہے جو دوستوں کو دوستوں سے اور عزیزوں کو عزیزوں سے جدا کر دیتی ہے اور کسی سال بھی میں یہ نہیں دیکھتا کہ یہ بھڑکتی آگ اور یہ دردناک حوادث اس سال شور قیامت بر پا نہیں کرتے ان حالات کو دیکھتے ہوئے دل دنیا سے سرد ہو چکا ہے اور چہرہ اس کے خوف سے زرد.اور اکثر شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی کے یہ دو مصرعے یاد آتے ہیں.اور حسرت کے آنسو بہتے چلے جاتے ہیں.مکن تکیه بر عمر نا پائیدار مباش ایمن از بازی روزگار عم ناپائیدار پر تکیہ نہ کر اور روزگار کے اس کھیل سے کبھی اپنے آپ کو امن میں نہ سمجھ.نیز یہ دو مصرعے فرینچ قادیانی کے دیوان سے دل کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں.بدنیائے دوں دل مبند اے جوان کہ وقت اجل می رسد نا گہاں اے نوجوان اس گھٹیا دنیا سے دل نہ لگا.کہ اجل کا وقت اچانک آ جایا کرتا ہے.لہذا میں چاہتا ہوں کہ میں بقیہ عمر گوشتہ تنہائی میں بیٹھوں اور لوگوں کی صحبت سے دامن بچاؤں اور اللہ سبحانہ کی یاد میں مشغول ہو جاؤں تا گزشتہ پر عذر اور مافات کا تدارک ہو سکے.(بقیہ اگلے صفحہ پر ) اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرخ تخلص فرماتے تھے.

Page 124

حیات احمد ۱۱۴ جلد اول حصہ اول عمر بگذشت و نماند است جز ایامی چند به که در یاد کسے صبح کنم شامے چند کہ دنیا را اسا سے محکم نیست و زندگی را اعتبارے ئے.وَأَيسَ مَنْ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ آفَةِ غَيْرِه والسلام اس خط کو غور سے پڑھنے پر عجیب معرفت ہوتی ہے کہ آپ کو آخری الہام جو اپنی وفات کے متعلق ہوا وہ بھی یہی تھا.مکن عمر ناپائدار مباش ایمن از بازی روزگار اور آپ نے یاد الہی میں مصروف ہونے کے لئے جس طرح پر والد مکرم سے اجازت چاہی.اس میں بھی اسی سے استدلال فرمایا.جلوت پرخلوت کو پسند کروں اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی شہرت و عظمت کے طلب گار نہ تھے.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق صافی رکھتے تھے.یہ امر واقع ہے کہ آپ کو گوشہ گزینی سے اس قدر محبت تھی کہ آپ کبھی جلوت میں نہ آتے اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل مدنظر نہ ہوتی.چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا کہ:- اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے کہ حکوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ میں خلوت کو اختیار کروں.مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں انہوں نے بقیہ حاشیہ:.عمر بگذشت و نماند است جز ایا می چند به که در یاد کسے صبح کنم شامے چند عمر گزرگئی ہے اور صرف چند قدم باقی رہ گئے ہیں بہتر ہے کسی کی یاد میں چند شاموں کو صبح کر دوں.دنیا کی بنیاد مضبوط نہیں اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.وہ شخص مایوس ہو گیا جو دوسرے کی آفت دیکھ کر اپنے نفس کے بارہ میں خوف زدہ ہو جائے.والسلام (ناشر)

Page 125

حیات احمد ۱۱۵ جلد اوّل حصہ اوّل نکالا ہے.جو لذت مجھے حکوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے.میں قریباً ۲۵ سال تک خلوت میں بیٹھا ہوں.اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا کہ در بارشہرت کی کرسی پر بیٹھوں.مجھے طبعا اس سے کراہت رہی کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں.مگر امر آمر سے مجبور ہوں.“ فرمایا.” میں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے کو جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بناء پر ہے.“ گوشه گزینی کی عادت کے نتائج کی اصلاح جو شخص گوشہ گزینی کا عادی اور خلوت کا دلدادہ ہو یہ ظاہر بات ہے کہ اُسے باہر آنے میں ایک حجاب اور طبیعت پر ایک بوجھ معلوم ہوتا ہے.وہ لوگوں سے ملنا پسند نہیں کرتا.اور کم از کم اسے نفرت ہو جاتی ہے لیکن جس شخص کو قدرت نے باہر نکالا ہو.اور نہ صرف نکالا ہو بلکہ اسے اصلاح خلق کا عظیم الشان کام سپرد کیا گیا ہو.اُس کے لئے یہ فطرت مضر ہو سکتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جب يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کی وحی فرمائی.تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا.لَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللهِ وَلَا تَسْتَمُ مِنَ النَّاسِ.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان الہامات کا ہونا بتا تا ہے کہ آپ کو گوشہ گزینی سے محبت تھی.آخر جس طرح خدا تعالیٰ کی مصلحت نے آپ کو پبلک میں نکالا.اس نے آپ ہی وسعت اخلاق اور علو ہمتی کی اعلیٰ صفات ایسے رنگ میں پیدا کر دیئے کہ آپ کبھی لوگوں کی کثرت سے نہ گھبراتے تھے.فرخ قادیانی کون تھا حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب قبلہ کی خدمت میں جوعریضہ آپ نے لکھا.اس میں ایک شعر دیوان فرخ قادیانی سے نقل کیا.ناظرین حیران ہوں گے کہ یہ فرخ کون بزرگ تھے؟ ان کی حیرانی زیادہ دیر تک نہیں رہے گی.جب انہیں معلوم ہوگا کہ اس سے خود حضرت مرزا صاحب مراد ہیں.آپ کے ہر قسم کے کلام اور تحریروں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حقائق اور معارف کے بیان کرنے

Page 126

حیات احمد 117 جلد اوّل حصہ اول میں قادرالکلام تھے اور عربی، فارسی اور اردو زبان پر پوری حکومت رکھتے تھے.زمانہ بعثت سے پہلے آپ فارسی میں عموما نظم لکھا کرتے.اور اس میں آپ نے عجیب وغریب دیوان لکھا ہے.جو آپ کی پاک زندگی کا ایک مشاہد عدل ہے.کیونکہ اس میں بجز حقائق قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور حمد الہی ور مختلف مذاہب کی تردید کے اور کچھ نہیں پایا جاتا.ان دنوں آپ فرخ تخلص فرماتے تھے.جو بعد میں فی الواقع فرخ ہی ثابت ہوا.میری تحقیقات یہ بتاتی ہے کہ یہ دیوان نصف صدی سے زائد عرصہ پیشتر کا لکھا ہوا ہے.اس کو پڑھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ عین عالم شباب میں آپ کن خیالات میں مست اور محو تھے.اگر چہ مسیح موعود علیہ السلام کی شاعری کے متعلق بحث اپنے مقام پر ہو گی لیکن یہاں ضمناً ذکر ایک لفظ کی تشریح کے سلسلہ میں آ گیا.اور میں اپنے دل میں جوش پاتا ہوں کہ اس سیرت کے پڑھنے والوں کو اس موقع پر حضرت فرخ قادیانی کے اس نصف صدی پیشتر کے کلام سے کچھ محفوظ کروں.چنانچہ آپ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات پر فرماتے ہیں.من نہ پیچم سر از تو اے جاناں دامن خود ز دست من مربان اے میرے محبوب میں تیرے سے روگرداں نہیں ہوتا اپنادا من میرے ہاتھ سے نہ کھینچ من ز مادر برائے تو زادم ہست عشقت غرض ز ایجادم میری والدہ نے مجھے تیرے لیے پیدا کیا ہے میری پیدائش کی غرض ہی تیرا عشق ہے سوئے دیگر کسے میں یہ حضور که دلدارم بس ہست غفور * کسی دوسرے کی طرف توجہ سے نہ دیکھ کیونکہ میرا محبوب بہت غفور دل بدنیائے دوں چرا بندیم ما بیار عزیز خورسندیم ہم اس حقیر دنیا کے ساتھ کیسے دل لگا ئیں؟ ہم تو اپنے پیارے محبوب کے ساتھ ہی خوش ہیں دلير من تو ہستی اے جاناں دل بتو بسته ام ز ہر دو جہاں ہے.اے میرے محبوب تو میرے دل میں بستا ہے میں نے دونوں جہانوں کو ترک کر کے تجھے اختیار کر لیا ہے

Page 127

حیات احمد 112 جلد اوّل حصہ اول ہے من ز مادر برائے تو زادم ہست عشقت غرض ز ایجادم میں اپنی ماں سے تیرے لئے پیدا کیا گیا ہوں میری پیدائش کی غرض تیرا عشق ہی ہے دل ز عشق کسے تپد مرا اے مبارک کسے کہ دید مرا میرا دل تیرے عشق میں تڑپتا ہے کیا ہی مبارک ہے وہ شخص جس نے مجھے دیکھ لیا روئے دلدار بر دل من تافت دل من مقصد دو عالم یافت میرے محبوب کا چہرہ میرے دل میں چمکتا ہے میرے دل نے دونوں جہانوں کا مقصد پالیا ہے پر سر ہر صدی برون آید آنکه دلدار را ہے شاید ہر صدی کے سر پر نمودار ہوتا ہے وہ جو کہ میرے محبوب کو پسند ہوتا ز خود گر دہی برائے نگار عرب خود را بتو بنهر دلدار اگر تو اپنے محبوب کیسے لئے اپنی عزت گنوا دے تو محبوب اپنی عزت تجھے دے دیتا ہے نفس را هر که از میان انداخت شب او روز گشت و ره شناخت جس نے بھی اپنے نفس کو فراموش کر دیا اس کی رات، دن میں تبدیل ہوگئی اور اس نے راہ حق کو پہچان لیا تا به نفس خود اسیر ضلال کشف راه خدا مبذر خیال جب تک تو اپنے نفس کی ضلالت کا غلام رہے گا اس وقت تک خدا تعالیٰ کی راہ کو خیال میں نہ لا ماه تاباں است صورت دلدار نفس تو پیش ماہ چوں دیوار میرے محبوب کا چہرہ چمکتے ہوئے چاند کی طرح سے ہے اور تیرانٹس اس چاند کے سامنے دیوار بن گیا ہے.تا مرا بر رُخ تو سودائی است از خلائق نه غم نه پروائی است جب سے تیرے چہرے کا دیوانہ ہو گیا ہوں مجھے مخلوق سے نہ کوئی غم ہے اور نہ کوئی پرواہ ہے در کاروبار خود ہوشیار ما چو مستان فتاده بر در یار مخلوق اپنے کاروبار میں مشغول ہے اور ہم دیوانوں کی طرح سے اپنے محبوب کے دروازے پر پڑے ہیں خلق لے منہد سہو کا تب معلوم ہوتا ہے شاید کوئی اور لفظ ہوگا.سے مبذ یہ لفظ بھی سہو کتابت لگتا ہے.

Page 128

حیات احمد ۱۱۸ حضرت مسیح موعود کی پرانی دعا جلد اول حصہ اوّل آن خداوند برتر و پاک است صنعتش مهر و ماه و افلاک است وہ خدا بر تر اور پاک ہے اور اس کی صنعتیں سورج چاند اور آسمان ہیں ہر ره و کوچه پر شد از اشرار زنده کن دین خویش دیگر بار ہر کوچہ اور سڑک اشرار سے بھر گئی ہے اے خدا اپنے دین کو دوبارہ زندہ کر باز بنما بدین خود شوکت باز برما نظر کن از رحمت اپنے دین میں دوبارہ شان شوکت پیدا کر اور میری طرف دوبارہ رحمت کی نظر کر باز احیائے دین احمد کن مگس کفر از جهان رد کن ایک بار پھر دین احمد کو زندہ کر اور کفر کی مکھیوں کو ناکام کر دے کافر و کفر از جهان بردار راحت بخش از سگ و مُردار کفر اور کافروں کو اس جہاں سے اٹھا لے کتوں اور مرداروں سے نجات بخش اے خداوند قادر و منان جانِ من از بلا و غم برهان اے قادر اور محسن خدا میری جان کو مصیبت اور غم سے آزاد کر دے تو غفوری و اکبر و امجد ہست بخشائش برون از حد تو غفور سب سے بڑا اور سب سے برتر ( قابل تعریف ہے تیری عنایات بھی بے حد ہیں کس شریک تو نیست در دو جهان بر دو عالم توئی خدائے یگان دونوں جہانوں میں کوئی بھی تیرا شریک نہیں، دونوں جہانوں میں تو ہی اکیلا خدا ہے تو بزرگی و شان تست عظیم تو دمیدی و پاک و فرد قدیم تو صاحب عظمت و شان ہے تو ظاہر اور پاک ہے اور قدیم سے ہے اے خدا هستم بدین افزائے کمر من به بند و ره بکشائے اے میرے خدا مجھ سے دین کی خدمت لے مجھے ہمت دے اور میری راہنمائی کر

Page 129

حیات احمد ۱۱۹ جلد اوّل حصہ اول دل من رشک در دناکاں کن سر من خاک کوئے پاکاں کن میرے دل کو دردمند لوگوں کے لئے قابل رشک بنادے اور میرے سر کو پاک لوگوں کی خاک راہ بنا دے دیده من بصدق روشن کن ہمہ کارم بوجه احسن کن صدق سے میری آنکھوں کو روشن کر دے اور میرے ہر کام کو احسن طریق سے کر دے از وجود خودم بر آرم چنان که نماند تصرف شیطان میں اپنی خودی سے اس طرح آزاد ہو جاؤں کہ اس میں شیطان کا تصرف نہ ہو هدم بنیاد خود پرستی من گم کن از خویش و هستی کن میری خود پرستی کی بنیاد کو مسمار کر دے اور مجھے میری ذات سے بیگانہ کردے اور نئی زندگی دے کشتے دہ بوئے خود را نشان کہ دے نایدم قرار ازاں مجھے اپنی ذات کی پہچان دے ایسی کہ مجھے ایک دم بھی تیرے بغیر قرار نہ آئے دل من پاک کن زکبر و غرور سینه ام پر کن از خاطر نور میرے دل کو تکبر اور غرور سے پاک کر دے اور میرے سینہ کو اپنے نور سے پُر کر دے آنچنانم اسیر عشق خود بکن که نماند ز من نه شاخ و بن اپنے عشق کا مجھے اس طور سے اسیر کر کہ میری ہستی معدوم ہو جائے شور مجنون بریز در مست و مجذوب خود بگردانم میری جان میں مجنوں کی طرح سے شوق پیدا کر اور اپنی ذات کا مست اور مجذوب بنادے آنکه یکدم بجز تو ہوشش نیست آنکہ بے تو زبان و گوشش نیست اس طور سے کر دے کہ مجھے تیرے سوا کوئی ہوش نہ رہے اور یہ کہ تیرے بغیر نہ میری زبان چلے اور نہ کان سنیں آن بگردان مرا کسے خیزی نیست قدر او نزد او پشیزی نیست مجھے ایسا کر دے کہ مجھے کسی سے کوئی غرض نہ رہے اور میرے دل میں کسی کی قدر کھوٹے سکہ کے برابر بھی نہ رہے جانم

Page 130

حیات احمد ۱۲۰ جلد اوّل حصہ اوّل آنکه او را بخلق کار نماند باز کارش بروزگار نماند وہ خدا جو مخلوق کو پیدا کرتا ہے اور پیدا کرنے کے بعد اس کے لئے روزی فراہم کرتا ہے دائم الحبس شود در ان چاہے که نیاید از و برون گا ہے انسان ہمیشہ اس کنویں میں ڈوبا رہتا ہے اور وہ کبھی بھی اس سے باہر نہیں نکلتا سیم و زر کن حقیر در نظرم فقر کن مطلب بزرگترم میری نظر میں چاندی اور سونے کو حقیر کر دے اور فقر کو میرا مقصد اوّل بنا دے آنچناں بخش عقل حق جویم که براهت بچشم و سر پویم حق جوئی کی ایسی عقل مجھے عطا فرما کہ میں تیری راہ پر بسر و چشم متلاشی ہو جاؤں عشقت بریز جانم در مجذوب بگردانم اپنے عشق کا جوش میری جان میں ڈال اور مجھے اپنے عشق میں مست اور مجذوب بنادے ہمہ مدح و ثنائے تو خواہم ہرچہ خواہم برائے تو خواہم میں ہمیشہ تیری ہی مدح و ثناء کا خواہش مند ہوں اور میری جو بھی خواہش ہے تو ہی ہے اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را هم بخش اے میرے خدا میرے گناہ بخش اور اپنی بارگاہ تک میری رسائی کر تا مرا دل به تو حمد تو پیوست ہمہ کاروبا رہا بگسست تا کہ میرا دل اس حد تک تیری ذات اور حمد سے وابستہ ہو جائے کہ تمام دیگر کام فراموش ہو جائیں از

Page 131

حیات احمد ۱۲۱ جلد اوّل حصہ اول حضرت مسیح موعود کے مجاہدات اور اثنائے مجاہدات میں تجلیات میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا.اور نہ گوشتہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی.اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو، بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع اقسام کی بدعات میں مبتلا ہیں.ہاں حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جب کہ اُن کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا.ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اُس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندانِ نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.روزہ کا مجاہدہ سوئیں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے.پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گزارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھالیتا ہوں.مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں.بہتر ہے کہ کسی قد رکھانے کو کم کروں.سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام رات دن میں صرف ایک

Page 132

حیات احمد ۱۲۲ جلد اوّل حصہ اول روٹی پر کفایت کرتا تھا.اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا.اس روزہ کے مجاہدہ کے عجائبات اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گزشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گزر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ حسنین وعلی رضی اللہ عنہم و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی.غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے.اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش و دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے.جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے اُن کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ اُن کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے.یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا.اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہو گئی.یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے.

Page 133

حیات احمد ۱۲۳ جلد اوّل حصہ اول غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے.ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو.میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے.اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کس حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے.اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنتقم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہوسکتا.لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا.میں نے کئی جاہل درویش ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے شدید ریاضتیں اختیار کیں اور آخر یبوست دماغ سے وہ مجنون ہو گئے اور بقیہ عمر اُن کی دیوانہ پن میں گزری یا دوسرے امراض سیل اور دق وغیرہ میں مبتلا ہو گئے.انسانوں کے دماغی قومی ایک طرز کے نہیں ہیں.پس ایسے اشخاص جن کے فطرتاً قولی ضعیف ہیں ان کو کسی قسم کا جسمانی مجاہدہ موافق نہیں پڑ سکتا.اور جلد تر کسی خطرناک بیماری میں پڑ جاتے ہیں.سو بہتر ہے کہ انسان اپنے نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے.اور دین العجائز اختیار رکھے.ہاں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی الہام ہو اور شریعتِ غَرَّاء اسلام سے منافی نہ ہو.تو اُس کو بجالانا ضروری ہے.لیکن آج کل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا.پس ان سے پر ہیز کرنا چاہئے.یادر ہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اصلاح پا کر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا.اور پھر اس طریق کو على الدوام بجالانا چھوڑ دیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا.یہ تو سب کچھ ہوا لیکن

Page 134

حیات احمد ۱۲۴ جلد اوّل حصہ اول روحانی سختی کشی کا حصہ ہنوز باقی تھا.سو وہ حصہ ان دنوں میں مجھے اپنی قوم کے مولویوں کی بدزبانی اور بدگوئی اور تکفیر اور تو ہین اور ایسا ہی دوسرے جہلاء کے دشنام اور دل آزاری سے مل گیا اور جس قدر یہ حصہ بھی مجھے ملا.میری رائے ہے کہ تیرہ سو برس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کم کسی کو ملا ہو گا.میرے لئے تکفیر کے فتوے طیار ہو کر مجھے تمام مشرکوں اور عیسائیوں اور دہریوں سے بدتر ٹھہرایا گیا اور قوم کے سفہاء نے اپنے اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ سے مجھے وہ گالیاں دیں کہ اب تک مجھے کسی دوسرے کے سوانح میں ان کی نظیر نہیں ملی.سو میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ دونوں قسم کی سختی سے میرا امتحان کیا گیا.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۶ تا ۲۰۱ حاشیه ) حضرت مسیح موعود نے یہ مجاہدات جیسا کہ انہوں نے آپ تحریر فرمایا ہے.خاندانِ نبوت کی سنت پر کئے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ روحانیات میں آپ اس وقت بھی خاندانِ نبوت میں داخل تھے اور ان فیوضات اور برکات سے حصہ لینے والے تھے جو انبیاء علیہم السلام سے مخصوص ہیں.یہ ایسے زمانہ کی بات ہے کہ جب آپ نہ مامور ہوئے تھے اور نہ کوئی دعوئی آپ کا پبلک میں آیا تھا اور ابھی آپ کسی حد تک زمینداری معاملات کی نگرانی اور مقدمات کی پیروی میں بھی حصہ لیتے تھے.صحبت صادقین کا شوق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت ایک طرف تنہائی پسند واقعہ ہوئی تھی.دوسری طرف آپ کو ان لوگوں کی صحبت میں جانے اور رہنے کا شوق ضرور تھا جو صادق ہوں مگر اس معاملہ میں آپ کی فراست مومنانہ نے کبھی آپ کو ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع نہیں دیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور پیروی سنت سے الگ راہیں نکالا کرتے ہیں اور جن کی اُس زمانہ میں کثرت تھی بہت سے بدعتی فقیر اور سجادہ نشین خلاف سنت طریقے نکال کر مخلوق کو گمراہ کر رہے تھے.یہاں تک کہ ان لوگوں نے اسلامی ارکان اور اعمال کی بجائے نئے اعمال پیدا کر لئے اور گونہ نئی شریعت بنالی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے لوگوں سے ہمیشہ نفرت تھی.

Page 135

حیات احمد ۱۲۵ جلد اوّل حصہ اوّل عبداللہ غزنوی سے ملاقات ان کے زمانہ میں حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب ایک بزرگ تھے جو متبع سنت اور اہلِ دل بزرگ تھے.حضرت مسیح موعود نے ان کے متعلق لکھا تھا.ایک بزرگ غایت درجہ کے صالح جو مردانِ خدا میں سے تھے اور مکالمہ الہیہ کے شرف سے بھی مشرف تھے.اور بمرتبہ کمال اتباع سنت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرعی رکھنے والے تھے.اور ان صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچا ہوا ہوتا ہے.اور پرلے درجہ کے معمور الاوقات اور یاد الہی میں محو اور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے جن کا نام عبد اللہ غزنوی تھا.“ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۳ حاشیه) اس بزرگ کی خدمت میں حضرت مسیح موعود کبھی کبھی جاتے تھے.یہ بزرگ علاقہ غزنی سے ظالم طبع مولویوں کی ریشہ دوانیوں اور فتاویٰ تکفیر کے باعث نکالے گئے.اور جس طرح پر دوسرے راستبازوں کو ناقدر شناس لوگوں نے ہمیشہ دکھ دیا ہے.اس بزرگ کو بھی اُن نا اہلوں نے اپنے خیال میں ہر طرح ذلیل کر کے نکال دیا.مگر جو خدا تعالیٰ کے حضور معزز و مکرم ہو دنیا کی یہ ذلتیں اس کے سامنے بیچ اور نا قابل التفات ہیں.حضرت مسیح موعود ایک مرتبہ انہیں امرتسر ملے اور ایک مرتبہ خیر دی جو نواح امرتسر میں ایک گاؤں تھا.وہاں امرتسر میں جب وہ آئے تو چونکہ وہابی مشہور تھے.اس لئے حکام کو ان کی نسبت بدظن کیا گیا اور اس پر وہ خیر دی میں جا رہے.غرض اس بزرگ کی خدمت میں حضرت صاحب جاتے اور جب جاتے تو آپ کا معمول تھا کہ کبھی خالی ہاتھ نہ جاتے تھے کوئی تحفہ لے جاتے.اور عموماًوہ اعلیٰ درجہ کا گوشت کا ٹکڑا ہوتا.

Page 136

حیات احمد عبداللہ غزنوی سے دعا اور اس کا جواب حضرت اقدس نے ان سے اپنی ملاقات کا واقعہ بیان کیا ہے کہ:- جلد اوّل حصہ اوّل ” جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیر دی میں اور دوسری دفعہ مقام امرتسر میں ان سے میری ملاقات ہوئی.میں نے انہیں کہا.کہ آپ ملہم ہیں ہمارا ایک مدعا ہے.اس کے لئے آپ دعا کرو.مگر میں آپ کو نہیں بتلاؤں گا کہ کیا مدعا ہے.انہوں نے کہا.کہ در پوشیده داشتن برکت است و من انشاء الله دعا خواہم کرد.والہام امر اختیاری نیست.اور میرا مدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوۃ والسلام روز بروز تنزل میں ہے.خدا اس کا مددگار ہو.بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا.تھوڑے دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک ان کا خط مجھے ملا.جس میں لکھا تھا.کہ این عاجز برائے شما دعا کرده بود القاشد.وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِين - فقیر را کم اتفاق مے افتد کہ بدیں جلدی القا شود.این از اخلاص شما می بینم (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۵۱) حضرت مسیح موعود کی خواہش کا اندازہ اس دعا سے ہو سکتا ہے کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا تھی؟ آپ مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کے پاس اپنی ذاتی غرض کے لئے نہیں گئے تھے اور نہ کچھ پیش کیا.جو غرض مخفی آپ کے دل میں تھی وہ محض اسلام کی ترقی کے لئے تھی.اور اس کی تائید اور نصرت کی دعا تھی.میزان الحق نے خوب کام دیا اس موقع پر جب حضرت مسیح موعود مولوی عبد اللہ غزنوی مرحوم سے ملاقات کے لئے گئے تو آپ کے پاس پادری فنڈر کی مشہور کتاب میزان الحق تھی.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں اسلام کا کس قدر در داور ان دشمنانِ اسلام کے حملوں کے جواب کے لئے کس قدر جوش تھا.اگر چہ ترجمہ: اس عاجز نے آپ کے لئے دعا کی تو یہ القاء ہوا کہ وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِيْن اس عاجز کو ایسا اتفاق کم ہوتا ہے کہ اتنی جلدی القا ہوا ہو میرا خیال ہے کہ ایسا آپ کے اخلاص کی وجہ سے ہوا ہے.

Page 137

حیات احمد ۱۲۷ جلد اوّل حصہ اوّل حضرت اقدس نے ظاہر نہیں فرمایا اور نہ اس کا موقعہ بھی ہوا.مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ کتاب آپ کے پاس اس غرض کے لئے تھی کہ اس کی وجہ سے دعا کے لئے تحریک ہو اور اس کی تردید کی جاوے.بہر حال اس سفر میں یہ کتاب حضرت مسیح موعود کے پاس تھی موسم سخت سردی کا تھا.رات کے آخری حصہ میں آپ نے اس سے پانی گرم کرنے کا کام لیا.فرماتے تھے کہ اس وقت میزان الحق نے خوب کام دیا.حضرت مولانا عبد اللہ غزنوی کے مکاشفات والہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ناظرین او پر پڑھ چکے ہیں کہ جب آپ بمقام خیر دی مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے پاس گئے.اور دعا کے لئے کہا تو قادیان واپس چلے آنے پر عبداللہ صاحب نے بذریعہ خط آپ کو اس الہام سے اطلاع دی.جو حضرت مسیح موعود کے متعلق ہوا تھا اسی سلسلہ خط وکتابت میں انہوں نے بعض اور الہام بھی آپ کی نسبت لکھے.حضرت مسیح موعود نے مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے والے کو خطاب کر کے ایک موقعہ پر لکھا کہ : - مولوی عبد الرحمن صاحب براہ مہربانی فرماویں کہ جبکہ سلف صالح کے برخلاف قرآن شریف کے معنے کرنے سے انسان ملحد ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ عاجز بھی ان کی نظر میں ملحد ہے کہ خدائے تعالیٰ کے الہام سے بعض آیات کے معانی مخفی ظاہر کرتا ہے تو پھر مولوی عبداللہ صاحب مرحوم غزنونی کی نسبت جو اُن کے مرشد ہیں کیا فتویٰ ہے؟ جن کو ایسے ایسے الہام بھی ہو گئے کہ جو آیتیں خاص پیغمبروں کے حق میں تھیں وہ امتی لوگوں کے حق میں قرار دے دیں.چنانچہ دو دفعہ بعض وہ آیتیں جو صحابہ کبار کے حق میں قرآن کریم میں تھیں اس عاجز کی طرف اپنے خط میں لکھ کر بھیج دیں کہ آپ کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا ہے.انہیں میں سے یہ آیات بھی ہیں.(۱) قَدْ اَفْلَحَ مَنُ زكهَا الشَّمس:١٠) (۲) أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة : ۲۸۷) اور یہ عاجز کہ مولوی عبد اللہ غزنوی مرحوم سے محبت اور حسن ظن رکھتا ہے تو درحقیقت

Page 138

حیات احمد ۱۲۸ جلد اوّل حصہ اول اس کی یہی وجہ ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ یہ عاجز من جانب اللہ مامور ہونے والا ہے اور انہوں نے کئی خط لکھے.اور اپنے الہامات متبرکہ ظاہر کئے.اور بعض لوگوں کے پاس اس بارے میں بیان بھی کیا.اور عالم کشف میں بھی اپنی یہ مراد (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۴۲۶۳) ظاہر کی.“ حافظ محمد یوسف کی شہادت حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر امرتسر میں رہتے تھے ان کو مولوی عبد اللہ غزنوی سے بہت محبت اور اخلاص تھا.انہوں نے حضرت مرزا صاحب سے یہ بیان کیا.کہ مولوی عبداللہ صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے کشف سے پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا.مگر افسوس میری اولا د اس سے محروم رہ گئی.حافظ محمد یوسف صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی بڑی ارادت اور عقیدت تھی.اور وہ اپنے کشف اور الہامات بھی حضرت مسیح موعود کی تائید میں سنایا کرتے تھے.اور سلسلہ میں ہر طرح سے دلچسپی رکھتے تھے بعد میں انہیں منشی الہی بخش صاحب کی مخالفت کے سلسلہ میں ابتلا آیا.اور وہ اس سلسلہ کے مخالفین میں شامل ہو گئے.مگر اس اپنے بیان کی کبھی تردید نہیں کی.اور اس طرح پر وہ اس شہادتِ حقہ کو ادا کر کے دنیا سے رخصت ہوئے.ان کے بعض حالات کا تذکرہ جو اس لائف سے متعلق ہے دوسرے مقامات پر انشاء اللہ آئے گا.حافظ صاحب کے بھائی منشی محمد یعقوب کی شہادت حافظ محمد یوسف صاحب کے بڑے بھائی منشی محمد یعقوب تھے.انہوں نے ۱۸۹۳ء میں عبدالحق سے مباہلہ کے دن امرتسر کی عید گاہ میں مباہلہ کے بعد بیعت کی تھی.مگر انہوں نے اپنی بیعت سے قریب سات سال پہلے ۱۸۸۶ء میں جب حضرت مسیح موعود بھی بیعت لینے کے لئے بھی مامور نہ تھے.بمقام ہوشیار پور جبکہ حضرت مسیح موعود شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے مکان

Page 139

حیات احمد ۱۲۹ جلد اوّل حصہ اوّل میں ٹھہرے ہوئے تھے.منشی الہی بخش اکونٹنٹ اور بعض دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کیا.جس کا مفہوم یہ تھا کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم سے ایک دن میں نے سنا کہ وہ آپ کی نسبت یعنی اس عاجز ( مسیح موعود.ایڈیٹر ) کی نسبت کہتے تھے کہ میرے بعد ایک 66 الشان کام کے لئے مامور کئے جائیں گے.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۸۰) منشی محمد یعقوب صاحب کا یہ بیان ۱۸۹۳ء میں شائع ہو گیا.اور اس وقت تک وہ بیعت میں داخل نہ تھے بلکہ انہوں نے جون ۱۸۹۳ء میں بیعت کی ہے.اور اس اثناء میں کبھی انہوں نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی ہی شہادت کی بناء پر انہوں نے بیعت کر لی.ان کے متعلق بعض دوسرے حالات کا تذکرہ مناسب موقع پر آئے گا.کشفی حالت میں مولوی عبداللہ صاحب سے ملاقات حضرت مسیح موعود نے عالم رؤیا میں ان سے جو ملاقات کی.اس کی کیفیت آپ نے اس طرح پر لکھی ہے.ایک دفعہ میں نے اُس بزرگ باصفا کو خواب میں ان کی وفات کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت پر بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوانوں کی مانند مسلح ہونے کی حالت میں کھڑے ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کر کے اُن سے پوچھا کہ مجھے ایک خواب آئی ہے اس کی تعبیر فرمائیے.میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان تک پہنچی ہوئی ہے.جب میں اس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں مخالف اُس سے قتل ہو جاتے ہیں.اور جب بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزار ہا دشمن اُس سے مارے جاتے ہیں تب حضرت عبداللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میری خواب کو سن کر بہت خوش

Page 140

حیات احمد جلد اوّل حصہ اول ہوئے اور بشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات و امارات اُن کے چہرہ میں نمودار ہو گئے اور فرمانے لگے.اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا.اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتا ہے.اس سے مراد وہ اتمام حجت کا کام ہے کہ جو روحانی طور پر انوار و برکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا.اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کر ہزار ہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدا تعالیٰ الزام و اسکات خصم کرے گا اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کر دے گا.پھر بعد اس کے انہوں نے فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں اُمید وار تھا کہ خدا تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا.پھر حضرت عبداللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی لیکن سب کے سب مسلح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں جو بہت جلد آنے والا ہے.پھر اس کے بعد آنکھ کھل گئی.یہ رویاء صالحہ جو درحقیقت ایک کشف کی قسم ہے.استعارہ کے طور پر انہیں علامات پر دلالت کر رہے ہیں جو مسیح کی نسبت ہم ابھی بیان کر آئے ہیں یعنی مسیح کا خنزیروں کو قتل کرنا اور علی العموم تمام کفار کو مارنا انہیں معنوں کی رو سے ہے کہ وہ حجت الہی اُن 66 پر پوری کرے گا اور بینہ کی تلوار سے اُن کو قتل کر دے گا.واللہ اعلم بالصواب.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۴ تا ۱۴۶ حاشیه ) میاں شرف الدین صاحب سم والے ضلع گورداسپور میں طالب پور کے متصل ایک مقام سم شریف کہلاتا ہے.وہاں پانی کا ایک چشمہ سا ہے.وہاں میاں شرف الدین صاحب ایک بزرگ رہتے تھے.حضرت مرزا صاحب اُن

Page 141

حیات احمد ۱۳۱ جلد اوّل حصہ اوّل کے پاس بھی چند مرتبہ تشریف لے گئے.آپ کے یہ سفر کسی ذاتی غرض یا دنیوی مفاد پر مشتمل نه تھے.بلکہ محض كُونُوا مَعَ الصَّادِقِین پر عمل کرنے کے لئے یا ترقی اسلام کے لئے دعا کرانے کے واسطے تھے.شروع ہی سے آپ کی فطرت میں اسلام کی تائید اور نصرت کے لئے خاص جوش تھا.آپ خود بھی اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے جیسا کہ آپ کی ایک پرانی دعا اوپر دیوان فرخ سے میں نے نقل کی ہے.آپ کا سونا.جاگنا.چلنا.پھر نا اسی دُھن اور آرزو میں تھا.غرض حضرت مسیح موعود ان لوگوں کے پاس جایا کرتے تھے.اب میں پھر ناظرین کو اس حصہ زندگی میں لے چلتا ہوں.جبکہ آپ اپنے والد صاحب کی وفات کی خبر اللہ تعالیٰ سے قبل از وقت پا کر قادیان آئے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی اسی دن بعد نماز مغرب فوت ہو گئے.اور مسجد اقصیٰ میں اُسی جگہ جہاں انہوں نے نشان بتایا تھا.اپنے خاندانی قبرستان کو چھوڑ کر دفن ہوئے.والد صاحب کی وفات کے بعد کے حالات کا خطرہ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تسلی اور کفالت کا مژدہ حضرت مسیح موعود چونکہ ایسی فطرت رکھتے تھے کہ کسی انسان کے سامنے اپنی کوئی تکلیف اور ضرورت کو پیش نہیں کرتے تھے.اور گھر والوں کو بھی یہ خیال کر کے کہ وہ دنیا دار نہیں عام دنیا داروں کی طرح کچھ کم توجہ ہوتی تھی.بلکہ بعض وقت آپ پر ایسے بھی گزر جاتے تھے کہ اسی بے التفاتی کی وجہ سے آپ کو فاقہ کرنا پڑتا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب خصوصیت سے خیال رکھا کرتے تھے اور ذریعہ آمدنی بھی ان کی ذات کی وجہ سے وسیع تھے.ان کو سرکاری پنشن بھی ملتی تھی اور سرداری کا بھی کچھ روپیہ آتا تھا.اس کے علاوہ تعلقد اری اور زمینداری کی آمدنی مزیدے برآں تھی.ان میں سے بعض مواجب جو حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی ذات اور شخصیت سے وابستہ تھے وہ بند ہو جانے یقینی تھے.اس لئے جب حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات کی خبر اللہ تعالیٰ نے دی تو آپ کے دل میں جو خیالات گزرے.اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح پر آپ کو تسلی

Page 142

حیات احمد ۱۳۲ جلد اوّل حصہ اول اور اطمینان دلایا وہ ایک عظیم الشان نشان آپ کی صداقت کا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.” جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا.اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ اُنہیں کی زندگی سے وابستہ تھے.اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے جو اُن کی حیات سے مشروط تھی.اس لئے یہ خیال گزارا کہ اُن کی وفات کے بعد کیا ہو گا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے.اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گزر گیا.تب اُسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا.اليْسَ اللَّهِ بِكَافٍ عَبْدَهُ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ اس الہام الہی کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت درد ناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے.درحقیقت یہ امر بار ہا آزمایا گیا ہے کہ وحی الہی میں دلی تسلی دینے کے لئے ایک ذاتی خاصیت ہے اور جڑھ اس خاصیت کی وہ یقین ہے جو وحی الہی پر ہو جاتا ہے.افسوس ان لوگوں کے کیسے الہام ہیں کہ باوجود دعوی الہام کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے الہام ظنی امور ہیں.نہ معلوم یہ شیطانی ہیں یا رحمانی.ایسے الہاموں کا ضرر اُن کے نفع سے زیادہ ہے.مگر میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اُسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں.کیونکہ اس کے ساتھ الہی چمک اور نور دیکھتا ہوں اور اس کے ساتھ خدا کی قدرتوں کے نمونے پاتا ہوں.غرض جب مجھ کو الہام ہوا کہ الیس الله بِكَافٍ عَبْدَہ تو میں نے اُسی وقت سے سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا

Page 143

حیات احمد ۱۳۳ جلد اوّل حصہ اول تب میں نے ایک ہند دکھتری ملاوامل نام کو جو سا کن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا.اور سارا قصہ اُس کو سنایا اور اُس کو امر تسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے.اور میں نے اُس ہندو کو اس کام کے لئے محض اس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تا مولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی.جواب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے.یہ اُس زمانہ میں الہام ہوا تھا جبکہ ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا.اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں ایک گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا.پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشگوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے مالی مدد کی کہ جس کا شکر یہ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں.مجھے اپنی حالت پر خیال کر کے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے.مگر خدا تعالیٰ جو غریب کو خاک میں سے اٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے اُس نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقیناً کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے اور شاید اس سے زیادہ ہو.اور اس آمدنی کو اس سے خیال کر لینا چاہئے کہ سالہا سال سے صرف لنگر خانہ کا ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تک خرچ ہو جاتا ہے.یعنی اوسط کے حساب سے اور دوسری شاخیں مصارف کی یعنی مدرسہ وغیرہ اور کتابوں کی چھپوائی اس سے الگ ہے.پس دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی یعنی اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کس صفائی اور قوت اور شان سے پوری ہوئی.کیا یہ کسی مفتری کا کام ہے یا شیطانی وساوس ہیں.ہرگز نہیں.بلکہ اُس خدا

Page 144

حیات احمد ۱۳۴ جلد اول حصہ اوّل کا کام ہے جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلت اور ادبار اور اقبال ہے.اگر اس میرے بیان کا اعتبار نہ ہو تو میں برس کی ڈاک کے سرکاری رجسٹروں کو دیکھوتا معلوم ہو کہ کس قدر آمدنی کا دروازہ اس تمام مدت میں کھولا گیا ہے حالانکہ یہ آمدنی صرف ڈاک کے ذریعہ تک محدود نہیں رہی بلکہ ہزار ہا روپیہ کی آمدنی اس طرح بھی ہوتی ہے کہ لوگ خود قادیان میں آکر دیتے ہیں.اور نیز ایسی آمدنی جو لفافوں میں نوٹ بھیجے جاتے ہیں.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۹ تا ۲۲۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل تسلی اور اطمینان پالینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سب کوفت اور غم جاتا رہا.فرماتے ہیں کہ :.” یہ ایک پہلا دن تھا جو میں نے بذریعہ خدا کے الہام کے ایسا رحمت کا نشان 66 دیکھا.جس کی نسبت میں خیال نہیں کر سکتا کہ میری زندگی میں کبھی منقطع ہو.“ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۵ حاشیه ) بعد کے واقعات نے اور جیسا کہ میں او پر لکھ آیا ہوں.اس کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا.کہ نہ صرف زندگی بھر بلکہ اب آپ کے بعد بھی خدا تعالیٰ کے فضل کی تائیدات اسی طرح اس سلسلہ کے شامل حال ہیں.رانی اور درشنی آدمی اس الہام کی تائید میں ایک اور مبشر رویا بھی حضرت والد صاحب قبلہ کی وفات کے دوسرے یا تیسرے دن آپ نے دیکھی.چنانچہ فرماتے ہیں کہ :.اس عاجز کو بھی اس بات کا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض اوقات خواب یا کشف میں روحانی امور جسمانی شکل پر متشکل ہو کر مثل انسان نظر آ جاتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب غَفَرَ اللهُ لَهُ جو ایک معزز رئیس اور اپنی نواح میں عزت کے ساتھ مشہور تھے انتقال کر گئے تو اُن کے فوت ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز ایک عورت نہایت خوبصورت خواب میں میں نے دیکھی جس کا حلیہ ابھی تک میری

Page 145

حیات احمد ۱۳۵ جلد اوّل حصہ اوّل آنکھوں کے سامنے آنکھوں کے سامنے ہے اور اس نے بیان کیا کہ میرا نام رانی ہے اور مجھے اشارات سے کہا کہ میں اس گھر کی عزت اور وجاہت ہوں.اور کہا کہ میں چلنے کو تھی مگر تیرے لئے رہ گئی.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۰۶،۲۰۵) اس رؤیا کے وقت آپ نے دیکھا تھا کہ گویا اصل مکان موجودہ مرزا سلطان احمد صاحب والے میں ایک دالان میں بیٹھا ہوں مغربی کوٹھڑی سے ایک برقعہ پوش عورت نکلی.انہیں دنوں میں میں نے ایک نہایت خوبصورت مرد دیکھا.اور میں نے اسے کہا کہ تم ایک عجیب خوبصورت ہو تب اُس نے اشارہ سے میرے پر ظاہر کیا کہ میں تیرا بخت بیدار ہوں اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ تو عجیب خوبصورت آدمی ہے.اُس نے یہ جواب دیا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۰۶) مکالمات الہیہ کا فیضان اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام اور رویاء صالحہ کے ذریعہ آپ کی آنے والی کامیاب زندگی کا نقشہ دکھا دیا تھا.والد صاحب کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ایک خاص انقلاب پیدا ہو گیا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مکالمات کا سلسلہ بڑے زور سے شروع ہو گیا.چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ:.” میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گزری.ایک طرف ان کا دنیا سے اٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھ سے شروع ہوا.میں کچھ بیان نہیں کر سکتا کہ میرا کونسا عمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الہی میرے شامل حال ہوئی.صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطرتا میرے دل کو خدا تعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے رک نہیں سکتی.سو یہ اُسی کی عنایت ہے.“ (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۹۵, ۱۹۶ حاشیه )

Page 146

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل پھر فرماتے ہیں:.کام جو کرتے ہیں تیری راہ میں پاتے ہیں جزا مُجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم کس عمل پہ مجھ کو دی ہے خلعت قرب و جوار رکرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یہ سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا درگاہ میں بار و کرم اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار اس ہمہ نیستی اور کامل تذلل اور عبودیت تامہ ہی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عظیم الشان کام کے لئے منتخب اور مامور فرمایا.لالہ ملا وامل اور شرمیت رائے غرض یہ سلسلہ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود نے فرمایا.آپ کے والد صاحب کی وفات کے بعد نہایت شدت اور زور کے ساتھ جاری ہو گیا.اصل بات یہ ہے کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جا رہا ہے کہ جب آپ دنیا میں ایک مامور کی حیثیت سے نمودار ہونے والے تھے.اس وقت آپ کے پاس بعض قادیان کے ہندو جن میں لالہ ملا وامل اور شرمپت رائے زیادہ مشہور ہیں آیا جایا کرتے

Page 147

حیات احمد ۱۳۷ جلد اوّل حصہ اوّل تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں اپنے الہامات اور خوابات قبل از وقت سنا دیا کرتے تھے اور وہ آپ کے ان نشانات کے اس طرح پر گواہ ٹھہر گئے.بعض باتیں خود ان کی ذات اور متعلقین کے متعلق بھی تھیں اور اس طرح پر وہ نہ صرف دوسرے نشانوں کے گواہ ہیں.بلکہ خود ان کے اپنے وجود اور خاندان کے بعض افرادان آسمانی تائیدات کے گواہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ ایک مرتبہ بلکہ متعدد مرتبہ ان لوگوں کی شہادت کو اپنی تصانیف میں درج کیا.اور انہیں کبھی حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ اس کی تردید کر سکیں.بلکہ بعض اوقات آریہ سماج کے ممبروں نے بھی ان پر زور ڈالا مگر وہ ان بچے اور شائع شدہ واقعات کے خلاف بولنے یا کہنے کی جرات نہیں کر سکے.یہاں تک کہ بعض اوقات آریوں نے بھی انہیں مجبور کیا مگر وہ حوصلہ نہیں کر سکے.اللہ تعالیٰ نے اس وقت تک جو میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں ان کو زندہ رکھا ہے.اور براہین کے زمانہ سے ان کی شہادت کتابوں رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہے اور انہوں نے اس کی تردید نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کی شہادت کے پر کھنے کے لئے یہ ایک محک قرار دیا ہے کہ ملا وامل یا شرمپت کو ان کے بیٹوں کی قسم دی جاوے.یعنی بیٹوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر بطور قسم یہ کہے کہ یہ پیشگوئی میرے نزدیک (جو پیشگوئی ان کی شہادت سے کی گئی ہو ) جھوٹ ہے.اور پوری نہیں ہوئی اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمام واقعہ حق ہے.وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبين اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ملا وامل اور شرمیت کے متعلق ذاتی نشانات کا ذکر کر دوں.لالہ ملا وامل تپ دق سے بیچ گیا لالہ ملا وامل جب ہیں یا بائیس برس کی عمر کے تھے تپ دق میں مبتلا ہو گئے.حضرت اقدس علیہ السلام کہتے ہیں کہ :.رفتہ رفتہ اُس کی مرض انتہا کو پہنچ گئی اور آثار مایوسی کے ظاہر ہو گئے.ایک دن وہ میرے پاس آ کر اور اپنی زندگی سے نامید ہوکر بہت بیقراری سے رویا.میرا دل

Page 148

حیات احمد ۱۳۸ جلد اوّل حصہ اول اس کی عاجزانہ حالت پر پکھل گیا اور میں نے حضرت احدیت میں اس کے لئے دعا کی.چونکہ حضرت احدیت میں اس کی صحت مقدر تھی.اس لئے دعا کرنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا.قُلْنَا يَا نَارُ كُونِی بَرد او سَلَامًا.یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا که تو سرد اور سلامتی ہو جا.چنانچہ اسی وقت اس ہندو اور نیز کئی اور ہندوؤں کو کہ جواب تک اس قصبہ میں موجود ہیں اور اس جگہ کے باشندے ہیں.اس الہام سے اطلاع دی گئی.اور خدا پر کامل بھروسہ کر کے دعوی کیا گیا کہ وہ ہندوضرور صحت پا جائے گا اور اس بیماری سے ہرگز نہیں مرے گا.چنانچہ بعد اس کے ایک ہفتہ نہیں گزرا ہوگا کہ ہندو مذکور اس جاں گداز مرض سے بکلی صحت پا گیا.“ براہین احمدیہ صفحه ۲۲۷ و ۲۲۸ ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۵۳٬۳۵۲ حاشیه در حاشیه نمبرا) یہ نشان براہین احمدیہ میں جس کو آج پینتیس برس کے قریب گزرتے ہیں شائع ہو چکا ہے.لالہ ملا وامل زندہ موجود ہیں اگر اس کو بیٹے کی قسم دے کر کہا جاوے تو وہ اس کا انکار نہیں کرسکتا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے.کہ اگر اس کو بھی اولاد کی قسم دی جاوے تو پھر ممکن نہیں کہ جھوٹ بولے.کیونکہ ان لوگوں کو خدا کی نسبت اولا د زیادہ پیاری ہے.لالہ شرمیت پر اتمام حجت لالہ شرمیت کے بھائی لالہ بشمبر داس کے متعلق ایک پیشگوئی آپ نے کی تھی اور وہ پوری ہوئی.چنانچہ اس کے متعلق براہین احمدیہ میں آپ نے صراحت سے اس کا شان نزول وغیرہ لکھ دیا ہے.یہ ۱۸۷۰ء کا واقعہ ہے.جس ہندو کا ذکر کیا گیا ہے اُس سے مراد لالہ شرمپت رائے ہے جو اب تک زندہ ہیں.اور جس کے متعلق پیشگوئی تھی وہ ان کے بھائی لالہ بشمبر داس تھے جو فوت ہو چکے ہیں.آپ نے لکھا ہے.عرصہ تخمیناً بارہ برس کا ہوا ہے کہ ایک ہندو صاحب کہ جواب آریا سماج قادیان

Page 149

حیات احمد ۱۳۹ جلد اوّل حصہ اول کے ممبر اور صحیح سلامت موجود ہیں.حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آں جناب کی پیشگوئیوں سے سخت منکر تھا.اور اُس کا پادریوں کی طرح شدّتِ عناد سے یہ خیال تھا کہ یہ سب پیشگوئیاں مسلمانوں نے آپ بنالی ہیں ورنہ آنحضرت پر خدا نے کوئی امر غیب ظاہر نہیں کیا اور اُن میں یہ علامت نبوت موجود ہی نہیں تھی.مگر سبحان اللہ کیا فضل خدا کا اپنے نبی پر ہے اور کیا بلندشان اُس معصوم اور مقدس نبی کی ہے.جس کی صداقت کی شعاعیں اب بھی ایسی ہی چمکتی ہیں کہ جیسی قدیم سے چمکتی آئی ہیں.کچھ تھوڑے دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اس ہندو صاحب کا ایک عزیز کسی ناگہانی بیچ میں آکر قید ہو گیا اور اُس کے ہمراہ ایک اور ہندو بھی قید ہوا اور ان دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گزرا.اُس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اُس آریا صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلا سکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے.تب میں نے جواب دیا کہ غیب تو خاصہ خدا کا ہے اور خدا کے پوشیدہ بھیدوں سے نہ کوئی نجومی واقف ہے نہ رمال نہ فال گیر اور نہ کوئی مخلوق.ہاں خدا جو آسمان و زمین کی ہر ایک شدنی بات سے واقف ہے اپنے کامل اور مقدس رسولوں کو اپنے ارادہ اور اختیار سے بعض اسرار غیبیہ پر مطلع کرتا ہے.اور نیز کبھی کبھی جب چاہتا ہے تو اپنے سچے رسول کے کامل تابعین پر جو اہل اسلام ہیں.اُن کی تابعداری کی وجہ سے اور نیز اس باعث سے کہ وہ اپنے رسول کے علوم کے وارث ہیں بعض اسرار پوشیدہ ان پر بھی کھولتا ہے.تا اُن کے صدق مذہب پر ایک نشان ہو.لیکن دوسری قو میں جو باطل پر ہیں جیسے ہندو اور اُن کے پنڈت اور عیسائی اور اُن کے پادری وہ سب ان کامل برکتوں سے بے نصیب ہیں.میرا یہ کہنا ہی تھا کہ وہ شخص اس بات پر اصراری ہو گیا کہ اگر اسلام کے متبعین کو دوسری قوموں پر ترجیح ہے تو اسی موقعہ پر اُس ترجیح کو دکھلانا چاہئے.اس کے جواب میں ہر چند کہا گیا کہ اس میں

Page 150

حیات احمد ۱۴۰ جلد اوّل حصہ اول خدا کا اختیار ہے انسان کا اُس پر حکم نہیں مگر اُس آریہ نے اپنے انکار پر بہت اصرار کیا.غرض جب میں نے دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور دین اسلام کی عظمتوں سے سخت منکر ہے تب میرے دل میں خدا کی طرف سے یہ جوش ڈالا گیا کہ خدا اُس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب کرے.اور میں نے دعا کی کہ اے خدا وند کریم تیرے نبی کی عزت اور عظمت سے یہ شخص سخت منکر ہے اور تیرے نشانوں اور پیشگوئیوں سے جو تو نے اپنے رسول پر ظاہر فرما ئیں سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے سے یہ لا جواب ہوسکتا ہے.اور تو ہر بات پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں.تب خدا نے جو اپنے بچے دین اسلام کا حامی ہے اور اپنے رسول کی عزت اور عظمت چاہتا ہے.رات کے وقت رویا میں کل حقیقت مجھ پر کھول دی اور ظاہر کیا کہ تقدیر الہی میں یوں مقدر ہے کہ اُس کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ماتحت میں پھر واپس آئے گی.اور پھر اس عدالت ماتحت میں نصف قید اُس کی تخفیف ہو جائے گی مگر بُری نہیں ہو گا.اور جو اُس کا دوسرا رفیق ہے وہ پوری قید بھگت کر خلاصی پا جائے گا اور بُری وہ بھی نہیں ہوگا.پس میں نے اس خواب سے بیدار ہو کر اپنے خداند کریم کا شکر کیا.جس نے مخالف کے سامنے مجھ کو مجبور ہونے نہ دیا اور اُسی وقت میں نے یہ رویا ایک جماعت کثیر کو سنا دیا.اور اُس ہند و صاحب کو بھی اسی دن خبر کر دی.“ ( براہین احمدیہ جلد سوم صفحہ ۲۵۰-۲۵۱- حاشیه در حاشیہ نمبر ا.روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۷۶ تا ۲۷۸) اس مقام میں یاد آیا کہ جو رو یا صادقہ حصہ سوم (مندرجہ بالا ) میں ایک ہندو کے مقدمہ کے بارہ میں لکھی گئی ہے.اُس میں بھی ایک عجیب نزاع وانکار کے موقع پر الہام ہوا تھا جس سے ایک بڑا قلق اور کرب دور ہوا.تفصیل اس کی یہ ہے کہ اس رویا صادقہ میں کہ ایک کشف صریح کی قسم تھی یہ معلوم کرایا گیا کہ ایک کھتری ہندو بشمبر داس

Page 151

حیات احمد ۱۴۱ جلد اوّل حصہ اوّل نامی جواب تک قادیان میں بقید حیات موجود ہے مقدمہ فوجداری سے بُری نہیں ہوگا مگر آدھی قید تخفیف ہو جائے گی لیکن اس کا دوسرا ہم قید خوشحال نامی کہ وہ ابھی تک قادیان میں زندہ موجود ہے ساری قید بھگتے گا.سو اس جزو کشف کی نسبت یہ ابتلا پیش آیا کہ جب چیف کورٹ سے حسب پیشگوئی اس عاجز مثل مقدمہ مذکورہ واپس آئی تو متعلقین مقدمہ نے اُس واپسی کو بریت پر حمل کر کے گاؤں میں یہ مشہور کر دیا کہ دونوں ملزم مجرم سے بری ہو گئے ہیں.مجھ کو یاد ہے کہ رات کے وقت میں یہ خبر مشہور ہوئی اور یہ عاجز مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے کو طیار تھا کہ ایک نے نمازیوں میں سے بیان کیا کہ یہ خبر بازار میں پھیل رہی ہے اور ملزمان گاؤں میں آ گئے ہیں.سوچونکہ یہ عاجز علانیہ لوگوں میں کہہ چکا تھا کہ دونوں مجرم ہرگز جرم سے بری نہیں ہوں گے.اس لئے جو کچھ غم اور فلق اور کرب اس وقت گزرا سو گزرا.تب خدا نے کہ جو اس عاجز بندہ کا ہر ایک حال میں حامی ہے نماز کے اول یا عین نماز میں بذریعہ الہام یہ بشارت دی.لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى اور پھر فجر کو ظاہر ہو گیا کہ وہ خبر بری ہونے کی سراسر جھوٹی تھی.اور انجام کا روہی ظہور میں آیا کہ جو اس عاجز کو خبر دی گئی تھی.جس کو شرمپت ایک آریہ اور چند دوسرے لوگوں کے پاس قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا کہ جواب تک قادیان میں موجود ہیں.“ (براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیه در حاشیه نمبر ۴ صفحه ۵۴۹ تا ۵۵۱ - روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۵۲ تا ۶۵۸) لالہ ملا وامل اور شرمیت رائے صاحب حضرت مسیح موعود کے بہت سے نشانات کے گواہ ہیں.یہ دو واقعات تو چونکہ ان کی اپنی ذات سے متعلق تھے میں نے درج کر دیئے.حضرت اقدس کی زندگی میں اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد ایک عظیم الشان انقلاب نوٹ.اس وقت فوت ہو چکا ہے.یہ بھی فوت ہو چکا ہے.(ایڈیٹر )

Page 152

حیات احمد ۱۴۲ جلد اول حصہ اوّل پیدا ہو گیا تھا.اور دنیوی کا روبار مرزا غلام قادر صاحب آپ کے بڑے بھائی نے سنبھال لئے تھے.اس واسطے اب کلیہ آپ رو بخدا ہو گئے اور آپ کی توجہ تمام تر اسلام کی عظمت و شوکت کے اظہار اور اس کی خوبیوں کی اشاعت کی طرف لگ گئی.قادیان میں جو لوگ آپ کے پاس آتے جاتے تھے اُن پر اسلام کی خوبیوں کی تبلیغ کرتے رہتے.اور پھر رفتہ رفتہ بیرونی اخبارات اور رسالجات میں آپ کے مضامین نکلنے شروع ہوئے.چونکہ یہ حصہ زندگی کا آپ کا گونہ بعثت و ماموریت ہی کا حصہ ہے اس لئے میں آپ کی زندگی قبل بعثت کے متعلق ضروری بحث کو مقدم کرتا ہوں.مسیح موعود کی سیرت کو سیرت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار اور آئینہ سے دیکھو میں اس امر کے لکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں پاتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پر غور کرتے ہوئے جس معیار پر میں نے اسے مشاہدہ کیا ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ ناظرین اس پر غور کریں وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے.اور اس وقت بھی میری غرض احمد قادیانی کے آئینہ میں گونہ احمد کی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دیکھنا اور دکھانا ہے.آپ کو آگے چل کر معلوم ہو جائے گا کہ میں نے تکلف اور تصنع سے کوشش نہیں کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے آئینہ میں حضرت مسیح موعود کی سیرت کا مشاہدہ کراؤں.بلکہ حقیقت الامر یہ ہے کہ ہمارے محبوب و مطاع و آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فطرت ایسی ہی بنائی گئی ہے کہ اضطرار ا اگر اس سے وہی افعال سرزد ہوئے جو آپ اور ہم سب کے سید و مقتدا خیر الرسل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئے تھے.اور یہ کوئی انوکھی اور نرالی بات نہ تھی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کی بشارت دیتے ہوئے اسے اپنا ہی بروز اور مظہر اتم قرار دیا تھا اور ھذت مناسبت اور تعلق محبت کی بنا پر یہ فرمایا کہ اس کا نام میرا نام ہوگا یہاں تک کہ وہ میری ہی قبر میں دفن ہوگا.

Page 153

حیات احمد ۱۴۳ جلد اوّل حصہ اوّل اس لئے قدرت نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ احمد قادیانی، احمد مکی علیہما الصلوۃ والسلام کی پاک سیرت کا ایک نمونہ اور مظہر اتم ہوگا.پس ہمارے لئے اب راستہ صاف ہے کہ ہم سیرت المہدی کے مطالعہ کے وقت سیرت محمدیہ کو مدنظر رکھیں.یہ معیار اور محک جو میں نے تجویز کیا ہے یہ بھی خیالی اور ظنی نہیں بلکہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل شدہ وحی الہی کو پڑھا ہے.وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صاف صاف وحی میں بار ہا آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے خطاب فرمایا.اور کثرت کے ساتھ ان آیات کی وحی ہوئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو چکی تھی.یہاں تک کہ فرمایا.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّ آءُ عَلَى الْكُفَّارِ اور پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں.اور بالآخر جو وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تھی کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُخبكُمُ الله (ال عمران: ۳۲) کثرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود پر بھی نازل ہوئی.ان تمام مکالمات الہیہ اور مخاطبات قدسیہ پر یکجائی نظر کرنے سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہی کچھ دیا گیا تھا جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا.ہاں فرق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ ملا وہ براہ راست تھا.اور احمد قادیانی کو جو کچھ دیا گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور کامل محبت کا نتیجہ تھا.اس لئے ایک آقا اور دوسرا غلام کہلایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ وحی اس تواتر اور کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے کہ اس کا توازن اور مقابلہ اسی سیرت کے دوسرے مقام پر انشاء اللہ ہو گا.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت اور لائف کا مطالعہ منہاج نبوت پر اور پھر تمام نبوتوں کے جامع اور اتم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے توازن پر کرنا چاہئے.کیونکہ حضرت مسیح موعود کو فرداً فرداً مختلف انبیاء علیہم السلام کے نام سے اللہ تعالیٰ نے خطاب کیا اور بالآخر جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ فرمایا.

Page 154

حیات احمد ۱۴۴ جلد اول حصہ اوّل حضرت مسیح موعود کی مظہر و پاک زندگی متحد یا نہ زندگی ہے اس پر خدا تعالیٰ کی شہادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لائف اور سیرت ایک عظیم الشان متحد یا نہ نشان ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے متعلق جو تحری عطا فرمائی وہ اُسی رنگ اور انہیں الفاظ میں ہے.جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دئے گئے تھے.چنانچہ فرمایا.وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمُ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُون.اور یقیناً میں نے اس دعویٰ بعثت سے پہلے تم میں اپنی عمر کا ایک حصہ گزارا ہے.کیا تم غور نہیں کرتے ؟ یہ الہام حضرت مسیح موعود پر ۱۸۸۴ء میں ہوا تھا اور خود حضرت نے اپنی کتاب نزول المسیح کے صفحہ۲۱۲ پر بھی اس کا ذکر کیا ہے.یہ وہی تحدی ہے جو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی.حقیقت میں یہ ایسی زبر دست اور نا قابل تسخیر تحدی ہے کہ جسے تیرہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی کبھی مخالف کو اس کے توڑنے کا موقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نہیں ملا.اسی طرح پورے تیس برس گزر جانے کے باوجود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحری کو کوئی باطل نہیں کر سکا.اور یہ ایک زبر دست ثبوت آپ کی مطہر اور مقدس زندگی کا ہے.انبیاء علیہم السلام اور ان کے نواب و خلفاء کے لئے یہ لازمی امر ہے کہ ان کی سیرت اور زندگی مطہر اور مقدس ہو.ہاں اس قابل ہو کہ انسان کے لئے وہ بطور ایک آئیڈیل اور ماڈل کے قرار پا سکے.کیونکہ انسان کی زندگی یا صاف الفاظ میں یوں کہو کہ انسانی تمدن کی بنیاد ایک نمونہ اور نقل پر مبنی ہے اور جس قدر کارخانہ تمدن عالم کا ہے.وہ صرف مختلف نفلوں کا مجموعہ ہے.میں اس فلسفہ تمدن پر لمبی بحث نہیں کرتا.ہر شخص سمجھتا ہے کہ انسان جو کچھ بھی دنیا میں کرتا ہے وہ کسی ایک یا دوسرے کی نقل ہے.کیونکہ اس دنیا کا جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت سے ہمیں

Page 155

حیات احمد ۱۴۵ جلد اوّل حصہ اول رکھا ہے نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ بغیر مل کر رہنے اور صحیح تمدن کے اس کا کارخانہ بارونق نہیں ہوسکتا.یہ بالکل سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ جنگلی جانوروں کی طرح ہماری فطرت بھی ایسی ہی بنا دیتا کہ ہر ایک کا سود و زیاں اُن کی اپنی ہی ذات سے وابستہ ہوتا.جب کہ تم دیکھتے ہو کہ حیوانات کی ضرورتیں ان کے پیٹ اور شرمگاہ سے آگے نہیں جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ انہیں تمدن کی ضرورت نہیں انسان کا باہم مل کر رہنا اور متمدن ہستی ہونا ہی اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی خواہشوں اور تقاضوں کی کوئی حد بست نہیں ہے.فی الحقیقت یہی ایک ہستی ہے جس کی خواہشوں کا حلقہ موٹی اور مشہور چیزوں سے بہت آگے نکل گیا ہے.اور وہ ہمیشہ ان دیکھی خواہشوں اور غیب کی تلاش میں رہتا ہے.اسی واسطے مشیت ایزدی نے چاہا کہ انسان مل کر رہیں.اور اس حیثیت سے اس کو انسان کا نام دیا.جس کے معنے ہیں دو محبتوں کا مجموعہ.ایک محبت اپنے خالق سے اور دوسری اپنی نوع سے.پس اس متمدن ہستی کے باہم مل کر رہنے میں مختلف خیالات اور طبائع اور حالات کے اختلاف کی وجہ سے بعض قسم کے فساد پیدا ہو سکتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کے انسداد کے لئے جب سے انسان دنیا میں آیا حکومت ظاہری کا ایک سلسلہ قائم کیا.اور چونکہ محض قوانین کامل اصلاح اور امن کا ذریعہ نہیں ہو سکتے.اس لئے اس کے ساتھ ہی روحانی حکومت اور باطنی نظام کو قائم رکھنے کے لئے خاص کامل افراد کے سلسلہ کو دنیا میں جاری رکھا.یہ انبیاء علیہم السلام اور ان کے خلفاء کی جماعت ہوتی ہے اور ان کی زندگیاں انسان کے لئے بطور ایک آئیڈیل اور ماڈل کے ہوتی ہیں.اسی لئے قرآن مجید نے یہ دعا تعلیم کی.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحة: ٧،٦) اور سالار منعمین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (جو انسانی زندگی کے شعبوں کی ایک کامل رہنما ہے) کو بطور نمونہ کے قرار دے کر فرمایا.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: ۲۲) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت تمہارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے.

Page 156

حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل خدا تعالیٰ نے اسلام کو جب نوع انسان کے لئے پسندیدہ دین قرار دیا ہے تو اس کے حامل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو کامل نمونہ ٹھہرایا.جس میں ہر حصہ زندگی کے لئے بہترین ہدایت نامہ موجود ہے.اس لحاظ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس وقت احمد قادیانی کے آئینہ میں جلوہ گر ہوتی ہے.آؤ اس آئینہ میں جھانک کر دیکھیں کہ یہ کامل انسان ہمیں کیا بتا رہا ہے.اور اس کو ہم اسی حصہ سے شروع کرتے ہیں جو برنگ تحدّى وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيُكُمُ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُون ہے.ایک شخص غیر قوم غیر ملک میں اس قسم کا دعویٰ کرے تو ممکن ہے کسی شخص کو جرأت نہ ہو کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے لیکن اپنی ہی قوم و اپنی ہی سرزمین و ملک میں ان لوگوں میں کھڑے ہو کر جو یوم پیدائش سے اس کے واقف ہیں.ایسا دعویٰ بجز اس شخص کے کوئی نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کے فضل اور فیض سے ایسا صاف کر دیا گیا ہو کہ کسی شخص کو اس پر حرف رکھنے کی جرات نہ ہو سکے.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی نے نہ کہا کہ آپ کی زندگی پر یہ اعتراض ہے یہاں بھی جرات نہ ہوئی.اور جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایامِ رسالت کے حالات کمال بسط و تفصیل کے ساتھ دنیا میں اعجازی رنگ میں موجود ہیں.یہاں تک کہ آپ کی اندرونی زندگی کے حالات بھی تمام و کمال ملتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی زندگی اور بعثت کی تاریخ ایسی مبرہن اور واضح ہے کہ کسی بانی مذہب کو یہ بات نصیب نہیں ہوئی.اس خصوص میں آقا اور غلام کے سوانح کے لئے خاص امتیاز احمد مکی اور احمد قادیانی علیہما الصلوۃ والسلام ہی ممتاز اور مخصوص ہیں.دنیا بھر کے ہادیانِ مذاہب کو یہ بات نصیب نہیں ہو سکی.آقا کو اگر ایسی جماعت اور قوم ملی تھی جو آ.کے تمام حالات کو یاد رکھنا اپنا فرض سمجھتی تھی.اور قدرت نے انہیں زبر دست قوت حافظہ دی تھی.تو غلام کو ایسے زمانہ میں مبعوث کیا کہ پریس کی برکت سے اُس کی ہر بات اور ہر فعل احاطہ تحریر میں آ جاتا تھا.پس یہ پہلا امتیاز اور خصوصیت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 157

حیات احمد ۱۴۷ جلد اوّل حصہ اول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی.خدا تعالیٰ کی یہ شہادت حضرت مسیح موعود کی پاکیزہ فطرتی اور معصوم و مظہر زندگی کے لئے ایک زبردست شہادت ہے.اور آج تک اس کے خلاف کسی کی لسان اور قلم نے جنبش نہیں کی.اللہ تعالیٰ نے اور بھی متعدد و حیوں سے حضرت مسیح موعود کی پاک زندگی کی شہادت دی ہے.اور یہ اس زمانہ کے الہامات ہیں جب آپ مبعوث نہیں ہوئے.پھر خدا تعالیٰ نے آپ کو اسی طرح پاک وصاف کیا.جس طرح پر وہ ہمیشہ اپنے مامورین و مرسلین کو کرتا آیا ہے.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.تخمینا پچیس برس کے قریب عرصہ گزر گیا ہے کہ میں گورداسپور میں تھا کہ مجھے یہ خواب آئی کہ میں ایک جگہ چار پائی پر بیٹھا ہوں.اور اسی چار پائی پر بائیں طرف میرے مولوی عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں.جن کی اولا داب امرتسر میں رہتی ہے.اتنے میں میرے دل میں محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب موصوف کو چار پائی سے نیچے اتار دوں.چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی جگہ کی طرف رجوع کیا.یعنی جس حصہ چار پائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے.اُس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا.تب انہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے کھسک کر پائینتی کی طرف چند انگلی کے فاصلے پر ہو بیٹھے.تب پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی میں ان کو اٹھا دوں پھر میں ان کی طرف جھکا.تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر پھر چند انگلی کے مقدار پر پیچھے ہٹ گئے.پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اور پائینتی کی طرف کیا جائے.تب پھر وہ چند انگلی پائینتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے.القصہ میں ایسا ہی ان کی طرف کھسکتا گیا اور وہ پائینتی کی طرف کھسکتے گئے.یہاں تک کہ ان کو آخر کار چار پائی سے اترنا پڑا.اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اتر کر بیٹھ گئے.اتنے میں تین فرشتے

Page 158

حیات احمد ۱۴۸ جلد اوّل حصہ اول آسمان سے آئے ایک کا نام ان میں سے خیراتی تھا.وہ بھی ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور میں چار پائی پر بیٹھا رہا.تب میں نے اُن فرشتوں اور مولوی عبداللہ صاحب کو کہا کہ آؤ میں ایک دعا کرتا ہوں.تم آمین کرو.تب میں نے یہ دعا کی کہ رَبِّ اذْهَبْ عَنِّى الرِّجْسَ وَطَهِّرْنِي تَطْهِيرًا اس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اٹھ گئے.اور مولوی عبداللہ صاحب بھی آسمان کی طرف اٹھ گئے.اور میری آنکھ کھل گئی.اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلند تر کھینچ کر لے گئی.اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا نے بتمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہوئی کہ جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادہ سے نہیں ہو سکتی.“ تریاق القلوب صفحه ۹۴ ۹۵ - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۲۳۵۱) اور اُنہیں دنوں میں شاید اس رات سے اول یا اُس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے.مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اُس کا نام شیر علی ہے اُس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی اور ہر ایک بیماری اور کو تہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے.اور ایک مصفا نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارے کی طرح بنا دیا ہے.اور یہ عمل کر کے پھر وہ شخص غائب ہو گیا اور میں اس کشفی حالت سے بیداری کی طرف منتقل ہو گیا.“ تریاق القلوب صفحه ۹۵ - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۵۲) میں آپ کی زندگی پر یہ اجمالی ربانی شہادت پیش کرتا ہوں.والا الہامات الہیہ سے آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بحث اپنی اپنی جگہ انشاء اللہ ہوگی.

Page 159

حیات احمد ۱۴۹ مخالفین کی شہادت آپ کی راستبازی اور تقوی وطہارت پر جلد اوّل حصہ اول خدا تعالیٰ کی اس شہادت کے بعد ہر چند کسی اور شہادت کی ضرورت نہیں.مگر میں اس خیال سے مخالفین اور منکرین کی شہادت پیش کر رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی شہادت توسلیم القلب اور نورفطرت سے حصہ رکھنے والوں کے لئے مفید ہوتی ہے.یہ شہادت کم از کم منکرین پر حجت ہو ہے.سب سے اول میں مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کی شہادت پیش کرتا ہوں.یہ شخص سلسلہ عالیہ احمدیہ کا خطرناک دشمن ہے اور سب سے پہلے اسی نے آپ کے لئے دعوئی میسحیت کے بعد فتویٰ کفر تیار کرایا.اور سینکڑوں صفحے آپ کے رد میں شائع کئے.عدالتوں میں خلاف شہادت دی.مقدمات بر پا کئے کوئی پہلو اور طریق مخالفت کا اٹھا نہیں رکھا مگر حضرت مسیح موعود کی پاک اور مطہر زندگی کے متعلق جو رائے اس نے دی ہے وہ اب بھی قابل غور ہے.” مؤلّف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں.ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلّف صاحب ہمارے ہموطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب.اُس زمانہ سے آج تک ہم میں اُن میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلات برابر جاری رہی ہے.اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دئے جانے کے قابل ہے.“ (اشاعة السنه جون، جولائی ، اگست ۱۸۹۴ء)

Page 160

Page 161

حیات احمد جلد اوّل (حصہ دوم) مرتبه یعقوب علی عرفانی

Page 162

Page 163

حیات احمد ۱۵۳ جلد اول حصہ دوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ عرض حال الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولِهِ الْآمِيْنِ مُحَمَّدٍ وَ الِهِ وَأَصْحَابِهِ وَخُلَفَائِهِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ.أَمَّا بَعد مجھے پھر خدا تعالیٰ کے حمد اور شکر کا موقعہ ملا کہ سیرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ میں دوسرا نمبر شائع کرنے کے قابل ہو گیا.پہلی جلد کی اشاعت کے وقت میرا خیال تھا کہ میں جلد جلد اس سلسلہ کو جاری رکھ سکوں گا مجھے یہ کہنے دیا جائے کہ بلحاظ اسباب اس قسم کے کاموں کے لئے قومی سر پرستی اور اعانت کی بہت ضرورت ہوتی ہے.یہ کام ہر ایک شخص کے کرنے کا نہیں.اس کے لئے ہر قسم کی فراغت کی حاجت ہے.میں تو خدا تعالیٰ کا بڑا ہی فضل سمجھتا ہوں کہ یہاں سب کام مجھے آپ ہی کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے کرم اور غریب نوازی سے توفیق پا رہا ہوں.سیرت کا حصہ ابھی شروع نہیں ہوا.سر دست سوانحات عمری کو گویا جمع کیا جا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق اور سیرت پر جب بحث شروع ہوگی تو انشاء اللہ العزیز قارئین کرام کو پتہ لگے گا کہ یہ کس قسم کی شخصیت رکھنے والا خدا کا برگزیدہ نبی تھا.پہلی جلد کی اشاعت پر بعض دوستوں نے جن کی تعداد تین ہے اس کی قیمت کی طرف مجھے توجہ دلائی ہے کہ یہ قیمت اس کی اشاعت میں روک کا موجب ہوگی.میں نے قیمت کے سوال پر پہلے نمبر میں مناسب روشنی ڈال دی ہے جماعت کے برگزیدہ اور مخلص احباب کی ایک محدود اور مخصوص تعداد ہے جو ہر قیمت پر بھی سلسلہ کی تالیفات اور اخبارات کو لینے کو آمادہ رہتے ہیں.اور اصل یہی گروہ ہے جو قوم میں احمدی لٹریچر کے پھیلانے میں ایک احسان کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس مخلص گروہ کو اور بھی بڑھائے اور ان کے اموال ونفوس میں برکت دے.آمین

Page 164

حیات احمد ۱۵۴ جلد اول حصہ دوم دوسری جلد کی اشاعت میں مالی مشکلات بدستور میرے راہ میں تھے کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ سے پہلے نمبر کی اشاعت کے لئے جو روپیہ شراکت کے طور پر ملا تھا.اس نمبر کے لئے نہیں مل سکتا تھا اور ابھی آئندہ ہیں مگر میں اپنے بعض مخلص اور سلسلہ کی اشاعت کے فدائی احباب کی مالی امداد کا ہمیشہ رہین منت ہوں جو کارخانہ الحکم کی ہر تحریک پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں.اس جلد کی اشاعت کے لئے مجھے خصوصیت سے مولوی حافظ غلام رسول صاحب اسٹیشن ماسٹر اور شیخ باشم علی صاحب گرد اور قانونگو نے مدد دی ہے.دراصل سیرت کے کام کے لئے سر دست ۶۰ ایسے مخلص احباب کی ضرورت ہے جو پانچ پانچ روپیہ بطور ڈونیشن اس کے سرمایہ کے لئے دیدیں.پھر اس کام کے با قاعدہ اجرا میں خدا تعالیٰ چاہے تو کوئی دقت پیش نہ آئے.میں اُن روحوں کا شوق سے انتظار کروں گا جو اپنے محسن و آقا کے حالات زندگی میں ایک نہایت ہی قلیل رقم کی قربانی کے لئے آمادہ ہوں گے.ان کے نام سیرت کے اگلے نمبر میں شائع کر دیئے جائیں گے.جنوری ۱۹۱۶ء سے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو با قاعدہ مہینے میں ایک نمبر اشاعت پاتا رہے گا.اگر مستقل خریداروں کی تعداد ایک ہزار بھی ہو گئی تو انشاء اللہ قیمت میں بہت بڑی کمی ہو جائے گی.میں پھر ایک بار قیمت کے متعلق ان الفاظ کو دہرانا چاہتا ہوں جو پہلے کہے تھے اور اپنے مخلص احباب کا جنہوں نے اس وقت تک اس کی خریداری کے ذریعہ میری ہمت بند ہائی ہے شکر یہ ادا کرتا ہوں.اب رہا قیمت کا سوال یہاں تو ہر چہ بقامت کہتر بقیمت بہتر کا معاملہ ہے مگر میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے یہ سلسلہ اُن لوگوں کے لئے شروع کیا ہے جن کی نظر پیسوں اور سکوں پر نہیں ہوتی.اور جو کاغذ اور سیاہی مصالح کے اخراجات کا حساب کرنے نہیں بیٹھتے.علاوہ بریں یہ دیکھا گیا ہے کہ چونکہ ابھی تک حضرت مسیح موعود کی قدر لوگوں نے شناخت نہیں کی اس لئے ایسی کتابیں بہت تھوڑی تعداد میں نکل کر رہ جاتی ہیں.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے.میں جانتا ہوں کہ بعض اوقات قیمت کا مسئلہ بھی اشاعت میں روک کا موجب ہو جاتا ہے.لیکن اگر ہمارے احباب توجہ کریں تو غیر احمدیوں میں اشاعت کے لئے بیسیوں صورتیں نکل سکتی

Page 165

حیات احمد ۱۵۵ جلد اول حصہ دوم ہیں.مابین میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر ڈیڑھ ہزار خریدار اس مجموعہ کے پیدا ہو گئے تو آئندہ اس سلسلہ میں رعایت کی مناسب گنجائش نکل آئے گی.میں یہ بھی ظاہر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ سیرت میں مناسب اور ضروری مقامات پر تصویریں بھی ہوں گی جن کا میں انتظار کر رہا ہوں.اور جو حالات ذاتی طور پر کسی کو معلوم ہوں وہ لکھ کر میرے پاس بھیج دیں.اسی سلسلہ میں یہ بھی میں اعلان کرتا ہوں کہ سیرت کا یہ مستقل کام ہے.اور بزرگانِ ملت اور سلسلہ کے دوسرے افراد کی زندگیوں کے حالات بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہیں گے.اس لئے ہر شخص اپنے حالات زندگی میرے پاس بھیج دے بالآخر یہ کام نہایت عظیم الشان ہے میرے حوصلہ اور طاقت سے بالا تر ہے.مگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور قدرت بے انتہا ہے.وہ اُمیوں پر معرفت کے دروازے کھول دیتا ہے اور کمزوروں اور ضعیفوں کو ہر قسم کی قوتیں عطا فرماتا ہے.میں نے اپنی کسی طاقت اور قابلیت کے بھروسہ پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہی فضل پر بھروسہ کر کے اس کو شروع کیا ہے اور اس کے حضور دعا ہے.” آغاز کردہ ام تو رسانی به انتہا“ دفتر سیرت مسیح موعود ۱۴ دسمبر ۱۹۱۵ء خاکسار نیازمند از لی یعقوب علی تراب احمدی تراب منزل قادیان دارالامان

Page 166

Page 167

حیات احمد ۱۵۷ جلد اول حصہ دوم جلد اوّل حصہ دوم اپنی رائے کی مضبوطی اور صداقت کے اس اصل کے بیان کے بعد براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب لکھتے ہیں کہ :.اب ہم اس پر اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں.ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.اور آئندہ کی خبر نہیں.لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ أَمْرًا.اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی.جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے.جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے." مجھ کو ان الفاظ پر کسی بحث کی ضرورت نہیں.مولوی محمد حسین صاحب حضرت مسیح موعود کی ہر ادا و حرکت اور قول و فعل کو اسلام کی تائید اور نصرت قرار دیتے ہیں اور گویا ان الفاظ میں قُل اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.کی تفسیر کا صحیح مصداق حضرت مسیح موعود کو قرار دیا ہے.اور پھر مولوی محمد حسین صاحب ان الفاظ میں تحدی کرتے ہیں:.”ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے.تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے.جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج و برہم سماج سے اس زور وشور سے مقابلہ پایا جاتا ہو.اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے.جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ نصرت حالی کا بیڑا اٹھا لیا ہو.اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آ کر اس کا تجربہ و مشاہدہ کرلے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزا بھی چکھا دیا ہو.“ یہ الفاظ اپنی تشریح اور توضیح میں صاف ہیں.اب میں ایک اور مخالف کا بیان درج کرتا ہوں.

Page 168

حیات احمد ۱۵۸ حکیم مظہر حسین سیالکوٹی کی شہادت جلد اول حصہ دوم حکیم مظہر حسین سیالکوٹی ایک دشمن عنید تھا اور اس نے بطر ز ناول حضرت مسیح موعود کے بعض واقعات پر معاندانہ اعتراض کئے ہیں مگر اس میں بھی حق بر زبان جاری کا مضمون ثابت ہوا.اس کے بیان سے وہ صفات میں ذکر کروں گا.جو اس نے حضرت مسیح موعود کے متعلق بیان کی ہیں.ثقہ صورت.عالی حوصلہ.اور بلند خیالات کا انسان اپنی علو ہمتی کے مقابل کسی کا وجود نہیں سمجھتا.اندر قدم رکھتے ہی وضو کے لئے پانی مانگا.اور وضو سے فراغت پاکر نماز مغرب ادا کی.وظیفہ میں تھے ورد و وظائف کا لڑکپن سے شوق ہے.مکتب کے زمانہ میں تحفتہ الہند.تحفۃ الہنود وخلعت الہنود وغیرہ کتابیں اور سنی اور شیعہ اور عیسائی اور مسلمانوں کے مناظرہ کی کتابیں دیکھا کرتے تھے.66 اور ہمیشہ آپ کا ارادہ تھا کہ کل مذاہب اسلام کی تردید میں کتابیں لکھ کر شائع کرائیں.“ یہ مختصر سے کلمات میں نے نقل کئے ہیں.جس سے آپ کی مرتاض زندگی اور غیرت اسلام کا شروع ہی سے جذ بہ ہونے کا اعتراف اس دشمن عنید کو بھی ہے.گو وہ اپنے نفس پر قیاس کر کے ذریعہ روزگار بتاتا ہو.ان شہادتوں کے بعد اب میں واقعات بتاتا ہوں کہ سخت سے سخت ابتلا اور آزمائش کے وقت بھی آپ کی راستبازی اور صداقت میں فرق نہیں آیا.آپ کے راستباز ہونے پر واقعاتی شہادت انسان پر بعض حالتیں ایسی آ جاتی ہیں کہ وہ اپنی مخلصی اور کار برداری کے لئے تقویٰ اور دیانت کے تمام حصوں کو ترک کر دیتا ہے.اور دنیا کو دین پر مقدم کر لیتا ہے.مگر میں واقعات سے بتاؤں گا اور انشاء اللہ دکھاؤں گا کہ کیسے نازک مقامات پر آپ نے راستبازی اور تقویٰ کو ہاتھ سے نہیں دیا.بلکہ دنیا کے نقصان اور شاعت کی ذرا بھی پرواہ نہ کر کے راستبازی کے لئے ہر قسم کی قربانی کر دینے پر آمادگی ظاہر کی.اور بالآ خر سچائی کی فتح ہوئی.اس راستبازی اور صداقت نے اس امتحان میں آپ کو صحیح وسلامت باہر نکالا.

Page 169

۱۵۹ جلد اول حصہ دوم حیات احمد مقدمات میں بڑے بڑے آدمی تکلف اور بناوٹ سے کام لینے میں پر ہیز نہیں کرتے اور آبرو اور جان کے بچاؤ کے لئے جھوٹ کو جائز بھی قرار دے لیتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود کی زندگی ایسے واقعات پیش کرتی ہے.کہ سخت سے سخت ابتلا کے موقعہ پر بھی انہوں نے یہ گوارا کر لیا کہ اگر صداقت کے اظہار سے جان ، مال یا آبرو پر کوئی آفت آتی ہے.تو اُسے قبول کر لیا جاوے.مگر راستبازی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جاوے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے ابتلا آئے.اور ان ابتلاؤں میں آپ ثابت قدم رہے.چنانچہ اس کے بعض نظائر میں ذیل میں درج کرتا ہوں.جو حضرت مسیح موعود نے اپنی راستبازی پر حملے کے جواب میں خود لکھے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جس کی شہادت میں اوپر درج کر آیا ہوں.حضرت مسیح موعود کے دعویٰ مسیحیت کے بعد مخالف ہو گیا.اور جب وہ شدت مخالفت میں بڑھ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے جوش کرم سے اس کو ایک تبلیغی خط لکھا جس میں آپ نے انبیاء علیہم السلام کے طریق پر اور اسی وحی الہی کے ماتحت جو ولـــــــد لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ * کے پاک الفاظ میں آپ پر نازل ہوئی تھی.اپنے سوانح اور سوانح میں راستبازی کو پیش کیا.اس کے جواب میں مولوی محمد حسین صاحب نے جھنجھلا کر آپ کے صدق و راستبازی پر حملہ کیا.یہ نہیں کہ واقعات کی بناء پر بلکہ یونہی جوش اور غیظ و غضب میں ایک بات کہہ دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے جواب میں نظائر پیش کرنے پڑے.اس لحاظ سے کہ ناظرین صفائی کے ساتھ اس بات کو سمجھ لیں.میں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کا وہ حصہ درج کروں گا.جو آپ نے اپنے سوانح کو بطور تحدی پیش کیا.پھر محمد حسین کا حملہ اور اس کا جواب واقعات کے ساتھ :.- تحفہ بغداد.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۹

Page 170

حیات احمد ۱۶۰ جلد اول حصہ دوم خط بخدمت شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود کی تحدی اپنی راستبازی کے متعلق بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نحمده و نصلّى على رسوله الكريم بخدمت شیخ محمد حسین صاحب ابوسعید بٹالوی الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى أَمَّا بَعْد ! میں افسوس سے لکھتا ہوں.کہ میں آپ کے فتویٰ تکفیر کی وجہ سے جس کا یقینی نتیجہ اخـــــد الفَرِيقَین کا کافر ہونا ہے.اس خط میں سلام مسنون یعنی السلام علیکم سے ابتدا نہیں کر سکا لیکن چونکہ آپ کی نسبت ایک مندر الہام مجھ کو ہوا.اور چند مسلمان بھائیوں نے بھی مجھ کو آپ کی نسبت ایسی خواہیں سنائیں.جن کی وجہ سے میں آپ کے خطرناک انجام سے بہت ڈر گیا.تب بوجہ آپ کے ان حقوق کے جو بنی نوع کو اپنے نوع انسان سے ہوتے ہیں.اور نیز بوجہ آپ کی ہموطنی اور قرب و جوار کے میرا رحم آپ کی اس حالت پر بہت جنبش میں آیا اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی حالت پر نہایت رحم ہے.اور ڈرتا ہوں کہ آپ کو وہ امور پیش نہ آ جائیں جو ہمیشہ صادقوں کے مکڈبوں کو پیش آتے رہے ہیں.اسی وجہ سے میں آج رات کو سوچتا سوچتا ایک گرداب تفکر میں پڑ گیا کہ آپ کی ہمدردی کے لئے کیا کروں.آخر مجھے دل کے فتویٰ نے یہی صلاح دی کہ پھر دعوت الی الحق کے لئے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھوں.کیا تعجب کہ اس تقریب سے خدا تعالیٰ آپ پر فضل کر دیوے اور اس خطرناک حالت سے نجات بخشے.سوعزیز من آپ خدا تعالیٰ کی رحمت سے نوامید نہ ہوں.وہ بڑا قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اگر آپ طالب حق بن کر میری سوانح زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پر قطعی ثبوتوں سے یہ بات کھل سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ

Page 171

حیات احمد ۱۶۱ جلد اول حصہ دوم ہمیشہ کذب کی ناپاکی سے مجھ کو محفوظ رکھتا رہا ہے.یہاں تک کہ بعض وقت انگریزی عدالتوں میں میری جان اور عزت ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ بجز استعمال کذب اور کوئی صلاح کسی وکیل نے مجھ کو نہ دی لیکن الله جل شانہ کی توفیق سے میں سچ کے لئے اپنی جان اور عزت سے دستبردار ہو گیا.اور بسا اوقات مالی مقدمات میں محض سچ کے لئے میں نے بڑے بڑے نقصان اٹھائے.اور بسا اوقات محض خدا تعالیٰ کے خوف سے اپنے والد اور اپنے بھائی کے برخلاف گواہی دی اور سچ کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.اس گاؤں میں اور نیز بٹالہ میں بھی میری ایک عمر گزرگئی ہے.مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے؟ پھر جب میں نے محض اللہ انسانوں پر جھوٹ بولنا متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا.تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا.“ اس خط کے جن فقرات کو میں نے جلی قلم سے لکھا ہے.وہ قارئین کرام کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرائے بغیر نہیں چھوڑتے.ایک شخص اپنے وطن اور اپنے واقف کارلوگوں میں اپنی راستبازی کا ایسا متحد یا نہ دعوی کرتا ہے.اور کوئی شخص واقعات کی بناء پر اس کے دعوی کو باطل نہیں کر سکتا.اگر کوئی اور ثبوت ہمارے ہاتھ میں اس کی راستبازی کا نہ ہو.تو یہ اکیلا ہی ایسا زبردست ثبوت ہے کہ اسے مسلّم راستباز ٹھہراتا ہے.یہ نی تحدی ہی نہیں اس کے ساتھ واقعات ہیں.جس شخص کے نام یہ خط ہے اس کی شہادت میں اوپر لکھ آیا ہوں.جو مؤلف براہین احمدیہ یعنی حضرت مسیح موعود کے حالات سے واقفیت کا پورا اظہار و دعوی کرنے کے بعد نصرت اسلام کا اسے حالی وجود قرار دیتا ہے.اب اس تحدی پر حضرت مسیح موعود کو لکھا کہ نعوذ باللہ آپ کا وصف لازم ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود اگر اس کے اس بیان پر خاموش ہو رہتے.تو حضرت مسیح موعود کی تحدی میں یہ ایک نقص ہوتا.مگر جس جرأت اور دلیری کے ساتھ آپ نے اس کا رڈ کیا ہے.اور واقعات کی بناء پر محمدحسین کو چیلنج دیا ہے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی راستبازی اور صداقت کو ایک مستحکم چٹان بنا دیا ہے کہ جو شخص اس سے ٹکرائے گا وہ اپنے سر کو پاش پاش کر لے گا.میں بلا کم و کاست اس اعتراض اور جواب کو لکھے دیتا ہوں.قولہ سے مولوی محمد حسین کا اعتراض مراد ہے.اور اقول حضرت مسیح موعود کے جواب کا اظہار ہے.

Page 172

حیات احمد ۱۶۲ جلد اول حصہ دوم مولوی محمد حسین کے الزام کا لا جواب جواب قوله : عقائد باطله مخالفه دین اسلام و ادیان سابقہ کے علاوہ جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا آپ کا ایسا وصف لازم بن گیا ہے کہ گویا وہ آپ کی سرشت کا ایک جزو ہے.اقول شیخ صاحب جو شخص متقی اور حلال زادہ ہو اؤل وہ جرات کر کے اپنے بھائی پر بے تحقیق کامل کسی فسق اور کفر کا الزام نہیں لگا تا اور اگر لگاوے تو پھر ایسا کامل ثبوت پیش کرتا ہے کہ گویا دیکھنے والوں کے لئے دن چڑھا دیتا ہے پس اگر آپ ان دونوں صفتوں مذکورہ بالا سے متصف ہیں تو آپ کو اس خداوند قادر ذوالجلال کی قسم ہے جس کی قسم دینے پر حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم بھی توجہ کے ساتھ جواب دیتے تھے کہ آپ حسب خیال اپنے یہ دونوں قسم کا خبث اس عاجز میں ثابت کر کے دکھلاویں یعنی اول یہ کہ میں مخالف دین اسلام اور کافر ہوں.اور دوسرے یہ کہ میرا شیوہ جھوٹ بولنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی رؤیا میں صادق تر وہی ہوتا ہے جو اپنی باتوں میں صادق تر ہوتا ہے.“ اپنی راستبازی کی تائید حدیث صحیح سے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق کی یہ نشانی ٹھہرائی ہے کہ اُس کی خوابوں پر بیچ کا غلبہ ہوتا ہے اور ابھی آپ دعویٰ کر چکے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر ایمان لاتا ہوں پس اگر آپ نے یہ بات نفاق سے نہیں کہی.اور آپ در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے قول میں بچے ہیں تو آؤ ہم اور تم اس طریق سے ایک دوسرے کو آزما لیں کہ بموجب اس محک کے کون صادق ثابت ہوتا ہے اور کس کی سرشت میں جھوٹ ہے.اور ایسا ہی اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.

Page 173

حیات احمد جلد اول حصہ دوم لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.یعنی یہ مومنوں کا ایک خاصہ ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے ان کی خواہیں سچی نکلتی ہیں.اور آپ ابھی دعوی کر چکے ہیں کہ میں قرآن پر بھی ایمان لاتا ہوں.بہت خوب ! آؤ قرآن کریم کی رو سے بھی آزما 66 لیں کہ مومن ہونے کی نشانی کس میں ہے.“ صادق اور کاذب کی شناخت کا معیار اور اس کے مقابلہ کی دعوت یہ دونوں آزمائشیں یوں ہو سکتی ہیں کہ بٹالہ یا لا ہور یا امرتسر میں ایک مجلس مقرر کر کے فریقین کے شواہد رؤیا اُن میں حاضر ہو جائیں اور پھر جو شخص ہم دونوں میں سے یقینی اور قطعی ثبوتوں کے ذریعہ سے اپنی خوابوں میں اصدق ثابت ہواُس کے مخالف کا نام کذاب اور دنبال اور کافر اور اکفر اور ملعون یا جو نام تجویز ہوں.اسی وقت اس کو یہ تمغہ پہنایا جائے اور اگر آپ گزشتہ کے ثبوت سے عاجز ہوں تو میں قبول کرتا ہوں بلکہ چھ ماہ تک آپ کو رخصت دیتا ہوں کہ آپ چند اخباروں میں اپنی ایسی خوا میں درج کرا دیں.جو امور غیبیہ پر مشتمل ہوں اور میں نہ صرف اسی پر کفایت کروں گا کہ گزشتہ کا آپ کو ثبوت دوں بلکہ آپ کے مقابل پر بھی انشاء اللہ القدیر اپنی خواہیں درج کراؤں گا.اور جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں یہی میرا دعویٰ ہے کہ میں بدل و جان اُس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس پیاری کتاب قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں اب اس نشانی سے آزمایا جائے گا کہ اپنے دعوئی میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے.اگر میں اُس علامت کے رو سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے قرار دی ہے مغلوب رہا.تو پھر آپ سچے رہیں گے اور میں بقول آپ کے کافر.دجال.بے ایمان.شیطان اور کذاب اور مفتری ٹھہروں گا اور اس صورت میں آپ کے وہ تمام ظنون فاسدہ درست اور برحق ا یونس : ۶۵

Page 174

حیات احمد ۱۶۴ جلد اول حصہ دوم ہوں گے کہ گویا میں نے براہین احمدیہ میں فریب کیا اور لوگوں کا روپیہ کھایا اور دعا کی قبولیت کے وعدہ پر لوگوں کا مال خورد و بر د کیا.اور حرامخوری میں زندگی بسر کی لیکن اگر خدا تعالیٰ کی اُس عنایت نے جو مومنوں اور صادقوں اور راستبازوں کے شامل حال ہوتی ہے مجھ کو سچا کر دیا تو پھر آپ فرما دیں کہ یہ سب نام اس وقت آپ کی مولویانہ شان کے سزاوار ٹھہریں گے یا اُس وقت بھی کوئی کنارہ کشی کا راہ آپ کے لئے باقی رہے گا.آپ نے مجھ کو بہت دکھ دیا اور ستایا میں صبر کرتا گیا مگر آپ نے ذرہ اس ذات قدیر کا خوف نہ کیا جو آپ کی تہ سے واقف ہے.اُس نے مجھے بطور پیشگوئی آپ کے حق میں اور پھر آپ کے ہم خیال لوگوں کے حق میں خبر دی کہ اِنِّی مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اِهَانَتَكَ.یعنی میں اس کو خوار کروں گا جو تیرے خوار کرنے کی فکر میں ہے.سویقیناً سمجھو کہ اب وہ وقت نزدیک ہے جو خدا تعالیٰ ان تمام بہتانات میں آپ کا دروغ گو ہونا ثابت کر دے گا اور جو بہتان تراش اور مفتری لوگوں کو ذلتیں اور ندامتیں پیش آتی ہیں.ان تمام ذلتوں کی مار آپ پر ڈالے گا.آپ کا دعوی ہے کہ میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر ایمان لاتا ہوں.پس اگر آپ اس قول میں بچے ہیں تو آزمائش کے لئے میدان میں آویں تا خدا تعالیٰ ہمارا اور تمہارا خود فیصلہ کرے اور جو کاذب اور دجال ہے روسیاہ ہو جائے اور میرے دل سے اس وقت حق کی تائید کے لئے ایک بات نکلتی ہے اور میں اس کو روک نہیں سکتا کیونکہ وہ میرے نفس سے نہیں بلکہ الْقَاءِ رَبِّنی ہے جو بڑے زور سے جوش مار رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کہ آپ نے مجھے کا فرٹھہرایا اور جھوٹ بولنا میری سرشت کا خاصہ قرار دیا تو اب آپ کو اللہ جَلّ شَانُهُ کی قسم ہے کہ حسب طریق مذکورہ بالا میرے مقابلہ پر فی الفور آ جاؤ تا دیکھا جائے کہ قرآن کریم اور فرمودہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے رو سے کون کا ذب اور دقبال اور کافر ثابت ہوتا ہے اور اگر اس تبلیغ کے بعد ہم دونوں میں سے کوئی شخص متخلف رہا.اور

Page 175

حیات احمد ܬܪܙ جلد اول حصہ دوم باوجود اشد غلو اور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق کے میدان میں نہ آیا اور شغال کی طرح دُم دبا کر بھاگ گیا.تو وہ مندرجہ ذیل انعام کا مستحق ہوگا.(ا) لعنت (۲) لعنت (۳) لعنت (۴) لعنت (۵) لعنت (۶) لعنت (۷) لعنت (۸) لعنت (۹) لعنت (١٠) لعنت ( تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَة) یہ وہ فیصلہ ہے.جو خدا تعالیٰ آپ کر دے گا.کیونکہ اُس کا وعدہ ہے کہ مومن بہر حال غالب رہے گا چنانچہ وہ خود فرماتا ہے.لَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَفِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا لے یعنی ایسا ہر گز نہیں ہو گا کہ کافر مومن پر راہ پاوے.اور نیز فرماتا ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورٌ تَمْشُونَ بِہ کے یعنی اے مومنو! اگر تم متقی بن جاؤ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا تعالیٰ ایک فرق رکھ دے گا وہ فرق کیا ہے کہ تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا یعنی نور الہام اور نور اجابت دعا اور نور کرامات اصطفاء.اب ظاہر ہے کہ جس نے جھوٹ کو بھی ترک نہیں کیا وہ کیونکر خدا تعالیٰ کے آگے متقی ٹھہر سکتا ہے اور کیونکر اُس سے کرامات صادر ہوسکتی ہیں غرض اس طریق سے ہم دونوں کی حقیقت مخفی کھل جائے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ کون میدان میں آتا ہے اور کون بموجب آیت کریم لَهُمُ الْبُشْرى اور حدیث نبوی اَصْدَقُكُمْ حَدِيثًا کے، صادق ثابت ہوتا ہے مَعَ هذا ایک اور بات بھی ذریعہ آزمائش صادقین ہو جاتی ہے جس کو خدا تعالیٰ آپ ہی پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی انسان کسی ایسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس وقت بجز کذب کے اور کوئی حیلہ رہائی اور کامیابی کا اُس کو نظر نہیں آتا تب اُس ا النساء ۲۱۴۲ الانفال: ۳۰ الحديد: ٢٩

Page 176

حیات احمد ۱۶۶ جلد اول حصہ دوم وقت وہ آزمایا جاتا ہے کہ آیا اس کی سرشت میں صدق ہے یا کذب اور آیا اس نازک وقت میں اُس کی زبان پر صدق جاری ہوتا ہے یا اپنی جان اور آبرو اور مال کا اندیشہ کر کے جھوٹ بولنے لگتا ہے ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۲ تا ۲۹۶) ہے.“ واقعات کی شہادت مسیح موعود کی راستبازی پر اس قسم کے نمونے اس عاجز کو کئی دفعہ پیش آئے ہیں جن کا مفصل ذکر کرنا موجب تطویل ہے تا ہم تین نمونے اس غرض سے پیش کرتا ہوں کہ اگر ان کے برابر بھی آپ کو کبھی آزمائش صدق کے موقع پیش آئے ہیں.تو آپ کو اللہ جَلَّ شَانُهُ کی قسم ہے کہ آپ ان کو معہ ثبوت اُن کے ضرور شائع کریں تا معلوم ہو کہ آپ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ امتحان اور بلا کے شکنجہ میں بھی آکر آپ نے صدق نہیں توڑا.“ پہلی نظیر از انجملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے شرکاء ملکیت قادیان سے مجھ پر اور میرے بھائی مرحوم مرزا غلام قادر پر مقدمہ دخل ملکیت کا عدالت ضلع میں دائر کرا دیا اور میں بظاہر جانتا تھا کہ اُن شرکاء کو ملکیت سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ ایک گم گشتہ چیز تھی جو سکھوں کے وقت میں نابود ہو چکی تھی.اور میرے والد صاحب نے تن تنہا مقدمات کر کے اس ملکیت اور دوسرے دیہات کے بازیافت کے لئے آٹھ ہزار کے قریب خرچ و خسارہ اٹھایا تھا جس میں وہ شرکاء ایک پیسہ کے بھی شریک نہیں تھے سو ان مقدمات کے اثناء میں جب میں نے فتح کے لئے دعا کی تو یہ الہام ہوا کہ اُجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرُكَائِكَ.یعنی میں تیری ہر یک دعا قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں.سو میں نے اس الہام کو پا کر اپنے بھائی اور تمام زن و مرد عزیزوں کو جمع کیا جو ان میں

Page 177

حیات احمد ۱۶۷ جلد اول حصہ دوم سے بعض اب تک زندہ ہیں اور کھول کر کہہ دیا کہ شرکاء کے ساتھ مقدمہ مت کرو یہ خلاف مرضی حق ہے مگر انہوں نے قبول نہ کیا.اور آخر ناکام ہوئے لیکن میری طرف سے ہزار ہا روپیہ کا نقصان اٹھانے کے لئے استقامت ظاہر ہوئی اس کے وہ سب جو آب دشمن ہیں گواہ ہیں چونکہ تمام کاروبار زمینداری میرے بھائی کے ہاتھ میں تھا.اس لئے میں نے بار بار ان کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا اور آخر نقصان اٹھایا.دوسری نظیر از انجملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ تخمینا پندرہ یا سولہ سال (۱۸۷۷ء یا ۱۸۷۸ء کا واقعہ ہے) کا عرصہ گزرا ہو گا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں ، آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام ڈلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار (وکیل ہندوستان ) بھی نکلتا تھا.ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا.اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقعہ ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سواس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرا دیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو رویا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ڈلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ

Page 178

حیات احمد ۱۶۸ جلد اول حصہ دوم مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے.غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا ر لیا رام نے خود ڈال دیا ہو گا اور نیز بطور تستی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی ور نہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں مگر میں نے اُن سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑ نا نہیں چاہتا جو ہو گا سو ہو گا.تب اُسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانجات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر نہ ہوا.اُس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے تب میں نے بلا تو قف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اُس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانجات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو (No,No) کر کے اس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا

Page 179

حیات احمد ۱۶۹ جلد اول حصہ دوم ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت.یہ سن کرمیں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجالایا جس نے ایک انگریز افسر کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اُس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اُس بلا سے مجھ کو نجات دی.میں نے اُس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا.میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے.تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے خیر ہے.“ تیسری نظیر از انجملہ ایک نمونہ یہ ہے کہ میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنالیا ہے اور مسماری مکان کا دعوی تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈیمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا.اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا.تب فریق مخالف نے موقعہ پا کر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا.اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی تھا.اُس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اُس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے.میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دستبردار ہو جاؤں.سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابتغاء لِمَرْضَاتِ اللهِ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو بیچ سمجھا.یہ آخری دو نمونے بھی بے ثبوت نہیں.پہلے واقعہ کا گواہ شیخ علی احمد وکیل گورداسپور اور سردار محمد حیات خان صاحب

Page 180

حیات احمد جلد اول حصہ دوم سی.ایس.آئی ہیں.اور نیز مثل مقدمہ دفتر گورداسپورہ میں موجود ہو گی.اور دوسرے واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اس وقت مجھ کو نام یاد نہیں.اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کر چکا ہوں جواب شاید لدھیانہ میں بدل گیا ہے.غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے ( آج اس پر شاید بیس برس سے زیادہ گزرے.ایڈیٹر ) قریب گزرا ہو گا.ہاں یاد آیا.اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے.اب اے حضرت شیخ صاحب! اگر آپ کے پاس بھی اس درجہ ابتلا کی کوئی نظیر ہو جس میں آپ کی جان اور آبرو اور مال راست گوئی کی حالت میں برباد ہوتا آپ کو دکھائی دیا ہو اور آپ نے بیچ کو نہ چھوڑا ہو اور مال اور جان کی کچھ پراوہ نہ کی ہو تو یہ وہ واقعہ اپنا مع اس کے کامل ثبوت کے پیش کیجئے.ورنہ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اس زمانہ کے اکثر ملا اور مولویوں کی باتیں ہی باتیں ہیں ورنہ ایک پیسے پر ایمان بیچنے کو طیار ہیں کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے مولویوں کو بدترین خلائق بیان فرمایا ہے اور آپ کے مجد دصاحب نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم حجج الکرامہ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ آخری زمانہ یہی زمانہ ہے سوایسے مولویوں کا زہد و تقویٰ بغیر ثبوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کی تکذیب لازم آتی ہے.سو آپ نظیر پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو ثابت ہوگا کہ آپ کے پاس صرف راست گوئی کا دعویٰ ہے.مگر کوئی دعوی بے امتحان قبول کے لائق نہیں.اندرونی حال آپ کا خدا تعالیٰ کو معلوم ہوگا کہ آپ کبھی کذب اور افترا کی نجاست سے ملوث ہوئے یا نہیں یا ان کو معلوم ہو گا جو آپ کے حالات سے واقف ہوں گے جو شخص ابتلا کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا اُس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے اگر یہ مہر آپ کے پاس ہے تو پیش کریں ور نہ خدا تعالیٰ سے ڈریں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی پردہ دری کرئے“.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۶ تا ۳۰۱)

Page 181

حیات احمد جلد اول حصہ دوم.اس کے مقابلہ کے لئے مولوی محمد حسین صاحب کو کبھی جرات نہیں ہوئی دعوت اور تحدی کے الفاظ کی شوکت بجائے خود حضرت مسیح موعود کی اخلاقی قوت اور قلبی شجاعت کا نقشہ کھینچ رہی ہے کہ وہ اپنے دعوی میں کیسے صادق تھے.انہوں نے اپنی راست بازی کا معیار خدا تعالیٰ کے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عالی کو پیش کیا.اور اپنی رویا صالحہ کو اس کی نظیر اور تائید میں رکھا.پھر اُن نازک مواقع کا ذکر کیا جہاں دنیا داروں کے نزدیک بدوں جھوٹ بولنے کے نجات نہیں ہو سکتی تھی.مگر آپ ن الصِّدْقُ يُنْجِي وَالْكِذَبُ يُهْلِك - ( صدق نجات دیتا اور کذب ہلاک کر دیتا ہے ) ہی کو مدنظر رکھا.اس تحدی پر اس وقت جبکہ میں یہ لائف لکھ رہا ہوں.تئیس برس گزر چکے ہیں مگر شدید اور مغضوب مخالف کو حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ اس کی تردید کر سکتا.پس اب مسیح موعود کی راستبازی کو ہم بطور ایک خیالی امر کے پیش نہیں کرتے بلکہ ایک ایسے واقعہ کے پیش کرتے ہیں.جو دنیا میں دلائل کی قوت اور روشنی میں بیان کیا گیا ہو.بعض واقعات کی مزید تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان نظائر کے بیان کرنے میں بعض امور کی صراحت نہیں کی.اس لئے کہ وہ امر آپ کے محوظ خاطر نہیں تھا.یا اس واقعہ کے بیان کرنے کے وقت نفس مطلب سے چنداں تعلق نہ رکھتا تھا.مگر سوانح عمری کے لحاظ سے ان واقعات کا اظہار از بس ضروری ہے.با بور لیا رام وکیل امرتسری کے اخبار کے مقدمہ کی نظیر میں مقام فیصلہ نہیں بتایا گیا.مقدمہ کا فیصلہ، مقام دینا نگر ہوا تھا.شیخ علی احمد صاحب مرحوم پلیڈ ر آپ کے پیروکار تھے.مگر جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود اس قانونی مشورہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تو انہوں نے افسوس کے ساتھ علیحدگی اختیار کر لی اور حضرت مسیح موعود ا کیلے ہی پیش ہوئے.مرزا سلطان احمد صاحب والی نظیر میں جس مکان کا ذکر ہے.وہ وہی مکان ہے جو قارئین کرام نے جامع مسجد کے پاس ایک بڑی پختہ حویلی کی صورت میں بمقام قادیان دیکھا ہے.

Page 182

حیات احمد ۱۷۲ جلد اول حصہ دوم میں تو نوکر ہو گیا ي شغل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بدو شباب ہی سے قدرت نے یہ جوش عطا فرمایا تھا کہ وہ تبلیغ و اشاعت اسلام کے لئے بے قرار رہتے تھے.جو لوگ آپ کے پاس آتے تھے انہیں اسلام کی خوبیوں اور سچائیوں سے نہ صرف واقف کرتے بلکہ بعض اوقات گھنٹوں ان سے مباحثہ ہوتے رہتے.سیالکوٹ کے ایام اقامت میں وہاں کے پادریوں سے ہمیشہ مسیحیت اور اسلام پر گے گفتگو میں ہوتیں اور اوقات کچہری کے بعد اکثر وقت اسی میں گزرتا.تا ہم حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی زندگی میں بعض دنیوی مصروفیتیں بھی ہو جاتی تھیں گو آپ کو جب وقت ملتا تو پھر اپنے میں مصروف ہو جاتے.بارہا حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم اپنے واقف کاروں کو لے جا کر دکھاتے کہ کس شغل میں آپ کے اوقات گزر رہے ہیں.جھنڈا سنگھ نامی ایک شخص کا ہلواں متصل قادیان کا رہنے والا بیان کرتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم نے اس کو کہا کہ حضرت مسیح موعود کو بلا لاؤ.جب وہ بلا کر لایا.تو بڑے مرزا صاحب نے فرمایا.غلام احمد تم میرے ساتھ چلو کہ میں تمہیں کسی معزز عہدہ پر ملازم کرا دوں.غلام قادر تو نوکر ہو گیا ہے.تجھے بھی کسی جگہ کرا دوں.حضرت مسیح موعود نے جواب دیا کہ میں تو جس کا نوکر ہونا تھا ہو چکا.مرزا صاحب قبلہ مرحوم یہ جواب سن کر بولے کہ اچھا نوکر ہو گئے؟ پھر جواب میں کہا کہ جس کا نوکر ہونا تھا ہو چکا.اس پر انہوں نے آپ کو رخصت کر دیا اور آپ جا کر اپنے شغل میں مصروف ہو گئے.مطالعہ کتب اس وقت آپ کے مشاغل بجز عبادت و ذکر الہی اور تلاوت قرآن مجید اور کچھ نہ تھے.آپ کو یہ عادت تھی کہ عموماً ٹہلتے رہتے اور پڑھتے رہتے.دوسرے لوگ جو حقائق سے ناواقف تھے.وہ اکثر آپ کے اس شغل پر ہنسی کرتے.قرآن مجید کی تلاوت اُس پر تد بر اور تفکر کی بہت عادت تھی.خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک قرآنِ مجید تھا.اس کو

Page 183

حیات احمد ۱۷۳ جلد اول حصہ دوم پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے.وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو! اس قدر تلاوت قرآن مجید کا شوق اور جوش ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی اس مجید کتاب سے کس قدر محبت اور تعلق تھا.اور آپ کو کلام الہی سے کیسی مناسبت اور دلچسپی تھی.اسی تلاوت اور پر غور مطالعہ نے آپ کے اندر قرآن مجید کی صداقت اور عظمت کے اظہار کے لئے ایک جوش پیدا کر دیا تھا.اور خدا تعالیٰ نے علوم قرآنی کا ایک بحرنا پیدا کنار آپ کو بنا دیا تھا.جو علم کلام آپ کو دیا گیا اس کی نظیر پہلوں میں نہیں ملتی.یہ بحث حضرت مسیح موعود کے علم کلام کے سلسلہ میں ہو گی.غرض ایک تو قرآن مجید کے ساتھ غایت درجہ کی محبت تھی.اور اس کی عظمت اور صداقت کے اظہار کے لئے ایک رو بجلی کی طرح آپ کے اندر دوڑ رہی تھی.جس کا ظہور بہت جلد ہو گیا.قرآن مجید کے ساتھ محبت اور عشق کے اظہار میں آپ کا فارسی عربی ،اردو کلام شاہد ناطق ہے.ایسے رنگ اور اسلوب سے قرآنِ کریم کی مدح کی ہے کہ دوسروں کو وہ بات نصیب نہیں ہوئی.میں یہاں صرف ایک نظم میں سے چند شعر دیتا ہوں.شکر خدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآں غنچے تھے سارے پہلے اب گل کھلا یہی کیا وصف اس کے کہنا ہر حرف اس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوا ہیں خالی ہیں ان کی قابیں خوانِ ہدگی یہی ہے اس نے خدا ملایا وہ یار اس سے پایا راتیں تھیں جتنی گزریں اب دن چڑھا یہی ہے کہتے ہیں حُسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن خوبی و دلبری میں سب سے سوا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے قرآن مجید کے لئے غیرت ہے قرآن مجید کے ساتھ محبت کا اظہار تو ان اشعار سے ہوتا ہے.اور قرآن مجید کے لئے جو غیرت آپ کو تھی.اس کے اظہار کے لئے سر دست میں صرف ایک واقعہ لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں.ہر چند وہ واقعہ سیرت کے اس حصہ سے متعلق نہیں.علاوہ بریں اس عنوان پر سیرت کے کسی

Page 184

حیات احمد ۱۷۴ جلد اول حصہ دوم دوسرے مقام پر مفصل بحث انشاء اللہ ہوگی.حضرت مسیح موعود بحیثیت ایک باپ کے نہایت شفیق اور مہربان تھے.کبھی پسند نہیں کرتے تھے کہ لوگ بچوں کو ماریں.پھر اپنی اولاد کی جو خدا تعالیٰ کے نشانات میں سے تھی.ہر طرح دلداری فرماتے تھے.(تربیت اولاد کا تذکرہ بھی اپنے محل پر ہو گا ) با وجود اس قدر نرمی اور شفقت علی الاولاد کے جب قرآن مجید کا کوئی معاملہ پیش آ جاتا تو بچوں کی کوئی حقیقت آپ کے سامنے نہ رہتی تھی.ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب میاں مبارک احمد اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطًا سے جب کہ وہ بہت چھوٹے بچے تھے.قرآن مجید کی بے ادبی ہو گئی.اس وقت آپ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور ایسے زور سے طمانچہ مارا.کہ انگلیوں کے نشان اس گلاب جیسے رخسار پر نمایاں ہو گئے.اور فرمایا اس کو میری آنکھوں کے آگے سے ہٹا لو.یہ اب ہی قرآن شریف کی بے ادبی کرنے لگا ہے تو پھر کیا ہو گا.یہ واقعہ حضرت مسیح موعود کی قرآنی غیرت پر روشنی ڈالتا ہے.اندرون خانہ میں ایک واقعہ ہوتا ہے.اور یہ واقعہ ایک ایسے بچے سے ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور مکلف نہیں معصوم ہے.اور کوئی شخص بھی اسے مورد اعتراض نہیں ٹھہرا سکتا.پھر باپ وہ باپ جو دوسروں پر بے حد شفیق ہے.دشمنوں اور جاں ستاں دشمنوں تک کے قصور معاف کر دینے کے لئے وسیع حوصلہ رکھتا ہے.بچوں کو سزا دینے کا سخت مخالف ہے اور بچوں کے تنگ کرنے پر بھی گھبرا تا اور ہچکچاتا نہیں.وہ اس زور سے تھپڑ مارتا ہے کہ منہ پر نشان ڈال دیتا ہے.اور پیارے بچے کو سامنے سے ہٹا دینے کے لئے حکم دیتا ہے.اس غیرت کی کوئی نظیر دنیا میں پیش کر سکتا ہے؟ یہ بات پیدا نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ کے کلام کی خاص عظمت دل پر نہ ہو.ایسی محبت نہ ہو کہ اس کے سامنے دوسری ساری محبتیں بیچ اور ساری عظمتیں اس پر قربان نہ ہوں.غرض آپکے مطالعہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کا کلام رہتا.اس کے بعد بخاری پر آپ بہت فکر کرتے اور اسے مطالعہ میں رکھتے.اس کے بعد دلائل الخیرات اور مثنوی مولاناروم آپ کی پسندیدہ کتابیں مطالعہ کے لئے تھیں.ان کے علاوہ

Page 185

حیات احمد ۱۷۵ جلد اول حصہ دوم تذکرۃ الاولیاء اور فتوح الغیب اور سفر السعادت بھی پڑھتے.کتابوں کے اس انتخاب سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کی طبیعت کی افتاد کیسی واقعہ ہوئی تھی.قرآن فہمی کے لئے کیا راہ اختیار کرتے سلسلہ مضمون کی وجہ سے میں یہاں ایک اور امر بیان کرنے پر مجبور ہوں.اور وہ یہ ہے کہ مشکلات قرآنی کے حل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صرف ایک طریق عمل بتادوں.حضرت مسیح موعود کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے یا حجرے میں بیٹھتے تو دروازہ بند کر لیا کرتے تھے.یہی طرز عمل آپ کا سیالکوٹ میں تھا لوگوں سے ملتے نہیں تھے.جب کچہری سے فارغ ہو کر آتے تو دروازہ بند کر کے اپنے شغل اور ذکر الہی میں مصروف ہو جاتے.عام طور پر انسان کی عادت متنجس واقع ہوئی ہے.بعض لوگوں کو یہ ٹوہ لگی.کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے رہتے ہیں.ایک دن اُن ٹوہ لگانے والوں کو حضرت مسیح موعود کی اس مخفی کا رروائی کا سراغ مل گیا.اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لئے دعا کر رہے ہیں کہ :- یا اللہ تیرا کلام ہے.مجھے تو تو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں.“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ قرآن فہمی کے لئے دعاؤں اور توجہ الی اللہ کو ہی اپنا راہ نما بناتے تھے.کیونکہ آپ کا عقیدہ تھا کہ مشکل قرآں نہ از ابنائے دنیا حل شود ذوق آں مے داند آں مستے کہ نوشد آں شراب * آپ کی خلوت و جلوت قرآن مجید کی محبت و غیرت سے معمور ہوتی تھی.اور اب وقت آ گیا تھا.کہ آپ تائید اسلام کے لئے پبلک میں آئیں.اور قرآن مجید کے حقائق اور معارف کو دنیا کے سامنے پیش کریں.آپ کی دعائیں اسلام کی شوکت وعظمت کی بازیافتگی کے لئے تھیں.اور حلا ترجمہ: قرآن کے رموز دنیا دار نہیں سمجھ سکتے اس مزے کا ذوق وہی جانتا ہے جس نے یہ شربت پیا ہے.

Page 186

حیات احمد 127 جلد اول حصہ دوم دوسروں کو بھی آپ اسی قسم کی دعاؤں کی تحریک کرتے تھے.جیسا کہ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے وقت آپ نے محض دعا کے لئے کہا اور الہام الہی نے جو ان پر ہوا ظاہر کر دیا کہ حضرت مسیح موعود کی دعا کی حقیقت کیا تھی.تائید اسلام کے لئے قلمی خدمت کا آغاز قدرت نے آپ کو اسی مقصد عظمی کے لئے پیدا کیا تھا کہ آپ کے ہاتھ پر اسلام کی صداقت اور عظمت کا راز کھولا جاوے اور اسلام کے فیوضات اور زندہ برکات کا ظہور پھر آپ کے ذریعہ سے ہو.خدا تعالی کی وہ وہی جو آپ پر آئی تھی اس راز کا بخوبی اظہار کرتی تھی.مگر آپ کے خیال اور و ہم میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ کسی بڑے کام کے لئے مامور کئے جائیں گے.اس لئے اسلام کی تائید اور قرآن مجید کی صداقت کے اظہار کے لئے آپ جو تذکرے یا مباحثے کرتے تھے.وہ اضطراری رنگ رکھتے تھے.جیسے انبیاء کی شان ہوتی ہے.جو کلام آپ کے اس وقت یعنی گوشہ تنہائی کا ملتا ہے.جو تحریر دیکھی جاتی ہے اس میں یہ رنگ نہایت عمدگی سے نمایاں ہو رہا ہے.تنہائی ہے.وہ تحریر میں پبلک میں اس وقت آ نہیں رہی ہیں.مگر قلم نظم یا نثر کے جو کچھ بھی موتی اگلتی ہے اس سے بجز اس کے اور کچھ نہیں نکلتا کہ تائید اسلام ہو.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی زندگی میں بعض اوقات آپ کو ان مشاغل کی طرف بھی توجہ کرنی پڑتی تھی.جیسا کہ میں اوپر ذکر کر آیا ہوں.لیکن آپ کی وفات کے بعد جب دنیوی کا روبار کلیہ آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے سنبھال لئے تو آپ کو ہر طرح فرصت ہو گئی اور آپ کے مشاغل تائید دین اور صداقت اسلام کے اظہار میں محدود ہو گئے.آریہ سماج سے مباحثات کا سلسلہ شروع ہو گیا حضرت اقدس کے پاس لالہ شرمیت رائے اکثر اور بعد میں لالہ ملا وامل اور دوسرے لوگ آتے جاتے تھے.پنجاب میں آریہ سماج کی تحریک ہو چکی تھی.لالہ شرمپت رائے قادیان کی آریہ

Page 187

حیات احمد 122 جلد اول حصہ دوم سماج کے سیکرٹری کہلاتے تھے.ان کے ساتھ اکثر اسلامی مسائل پر اور آریہ سماج کے عقائد مشتہرہ پر گفتگو ہوتی رہتی تھی.یہ سلسلہ تنہائی اور خلوت سے نکل کر اب پبلک میں آ گیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولوالعزمی اور بلند ہمتی نے ان مباحثات میں قادیان کے محدود الخیال اور کمزور واقفیت کے آریوں کو چھوڑ کر جناب پنڈت دیا نند صاحب سرسوتی بانی آریہ سماج کو ان مسائل اور عقائد کے تصفیہ کے لئے اپنے مقابل کھڑا کیا.جو آریہ سماج اور اسلام میں متنازعہ فیہ تھے یہ ۱۸۷۷ء اور ۱۸۷۸ء کا زمانہ ہے.اس مباحثہ کی ابتدا اس عقیدہ کے اعلان سے ہوئی جو ۷ دسمبر ۱۸۷۷ء کے اخبار وکیل ہندوستان وغیرہ میں آریہ سماج کی طرف سے ہوا تھا کہ 66 ارواح موجودہ بے انت ہیں.اور اس کثرت سے ہیں کہ پر میشور کو بھی ان کی تعداد معلوم نہیں.اس واسطے ہمیشہ مکتی پاتے رہیں گے مگر کبھی ختم نہیں ہوں گے.“ اس عقیدہ کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرت ایمانی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لئے جوش اظہار نے آپ کو اخباری دنیا میں اس عقیدہ کی دھجیاں اڑا دینے پر مجبور کیا.چنانچہ آپ نے ۹ رفروری ۱۸۷۸ء سے لے کر ۹ مارچ ۱۸۷۸ء تک اخبار سفیر ہند امرتسر میں متعدد مضامین لکھ کر ثابت کیا کہ یہ عقیدہ سراسر باطل اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کی ہتک کرنے والا ہے.پانچ سو روپیہ کا انعامی اعلان جو مضامین اس باطل عقیدہ کی حقیقت کو طشت از بام کرنے کے لئے آپ نے لکھے ان کی قوت اور صحت پر آپ کو ایسا وثوق اور اعتماد تھا کہ آپ نے ان کے جواب دینے والوں کے لئے پانچ سو روپیہ کا انعام مشتہر کر دیا.جو سفیر ہند مورخہ 9 فروری ۱۸۷۸ء کے ابتدائی صفحوں پر شائع ہوا اس اشتہار کا خلاصہ یہ تھا :- ان مضامین کی تلاش و جستجو سے میں تھک نہیں گیا.اس نمبر کی اشاعت تک مضامین مل گئے تو وہ بطور ضمیمہ شائع کر دیئے جائیں گے یا جس وقت بھی ملے انہیں شائع کرنے میں تا خیر نہ ہوگی.وباللهِ التَّوْفِیق.(ایڈیٹر )

Page 188

حیات احمد وو جلد اول حصہ دوم کہ جو صاحب منجمله توابع سوامی دیانند سرسوتی صاحب سوال ھذا کا جواب دے کر ثابت کرے کہ ارواح بے انت ہیں.اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں.تو میں اس کو مبلغ پانچ سوروپیہ انعام دوں گا.ان انعامی مضامین کا اثر اور آریہ سماج میں کھلیلی ان مضامین کے شائع ہونے کی دیر تھی کہ آریہ سماج کے کیمپ میں ایک کھلبلی مچ گئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آریہ سماج پر ایک نمایاں فتح حاصل ہوئی.اور اس سوال نے آریہ سماج میں جناب پنڈت دیانند صاحب سرسوتی کی پوزیشن کو اس وقت ایک سخت دھکا دیا.پنجاب میں اس وقت بہت سے علماء موجود تھے.ہندو اور عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی جو آریہ سماج کے اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے ، موجود تھے.مگر خدا تعالیٰ کے پاک نام کی غیرت نے اگر کسی قلب کو متحرک اور مضطرب کیا.تو وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا دل تھا.جو اللہ تعالیٰ کے پاک نام کی ہتک کو گوارا نہیں کر سکتا تھا.یہ ایک بات ہے جو قارئین کرام کے لئے قابل غور ہے.خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت جب تک ایک دل میں اپنا اصلی اور صحیح سکہ قائم نہ کر لے اور خدا تعالیٰ سے اس بندہ کا شدید اور لذیذ تعلق نہ ہو.اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے لئے غیرت پیدا نہیں ہو سکتی.یہ ایک فیکٹ (حقیقت) ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے لئے تو اس قدر غیرت رکھتا ہے کہ بعض وقت ایک کے خلاف معمولی سی بات پر وہ اپنی جان تک پر کھیل جاتا ہے.لیکن تھوڑے اور بہت ہی تھوڑے ہیں وہ دل جن میں یہی اثر اللہ تعالی کے لئے ہو.حضرت مسیح موعود نے اپنی اس فطرت کا نقشہ اس ایک شعر میں کھینچ دیا ہے.همه در دور این عالم امان و عافیت خواهند چه افتاد این سر مارا کہ مے خواہد مصیبت را * القصہ اس تحریری مباحثہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاہور کی آریہ سماج ( جو ان دنوں میں سب سے بڑی اور زبر دست سماج پنجاب میں سمجھی جاتی تھی) کے سیکرٹری لالہ جیوند اس صاحب کو اعلان کرنا پڑا کہ یہ ترجمہ:.سب لوگ اس زمانہ میں امن و عافیت کے خواستگار ہیں میرے سر کو کیا ہوا کہ وہ مصیبت کا خواہش مند ہے.

Page 189

حیات احمد ۱۷۹ جلد اول حصہ دوم عقیدہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں اور پنڈت دیانند صاحب کی ہر ایک بات نہیں مانتے.مجھے اس سے بحث نہیں کہ آریہ سماج لاہور اور پنڈت دیانند صاحب نے اس مسئلہ کے اختلاف پر کیا تصفیہ باہم کیا.اور نہ یہ امر اس سیرت کے اغراض میں داخل ہے.مجھ کو صرف یہ دکھانا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی اس قلمی جنبش نے آریہ سماج کو ہلا دیا اور اسے ایسا اعلان شائع کرنے پر مجبور کر دیا.یہ ایک عظیم الشان فتح تھی جو خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار میں حضرت مسیح موعود کو حاصل ہوئی اور جس نے آریہ سماج میں بیداری پیدا کر کے اندھی تقلید سے انہیں نجات دلائی.شاید یہ بیان ناقص رہ جائے گا اگر میں لالہ جیون داس صاحب سیکرٹری آریہ سماج لاہور کا اعلان درج نہ کروں.آریہ سماج سے مباحثات کے سلسلہ میں سب سے پہلے لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور کا اعلان درج کرتا ہوں جس کا ذکر پہلے کر آیا ہوں.لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور کا اعلان آج میں نے اتفاقاً آپ کے اخبار مطبوعہ 9 فروری کے ابتدائی صفحہ میں ایک اشتہار منجانب مرزا غلام احمد رئیس قادیان دیکھا.لہذا اس کی نسبت چند سطور ارسال خدمت ہیں.امید کہ درج اخبار فرما کر مشکور فرمائیے گا.راقم اشتہار نے لکھا ہے کہ جو صاحب منجملہ توابع سوامی دیانند سرسوتی صاحب سوال ھذا کا جواب دے کر ثابت کرے کہ روح بے انت ہیں.اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں.تو میں اس کو مبلغ پانچ سوروپیہ بطور انعام کے دوں گا.اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لفظ توابع سے صاحب راقم کا کیا مطلب ہے.اگر آریہ سماج والوں سے مراد ہے تو معلوم رہے کہ وے لوگ سوامی دیانند صاحب کے تو ابعین سے نہیں ہیں.یعنی وے عام طور پر پابند خیالات سوامی دیانند کے نہیں.ہاں ان کے خیالات میں سے جو بات جس کو معقول معلوم ہوتی ہے وہ اس کو مانتا ہے.اور یہ امر کچھ آریہ سماج والوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر کوئی امر معقول کو پسند کرتا ہے.اب رہی یہ بات کہ روح بے انت ہیں.اور پر میشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں.آریہ سماج اس کو مانتی ہے یا نہیں.تو

Page 190

حیات احمد ۱۸۰ جلد اول حصہ دوم معلوم ہو کہ یہ مسئلہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں ہے.اگر کوئی ممبر سماج کا اس کا دعویدار ہو تو اس سے سوال کرنا چاہیئے اور اسی کو اس کا جواب دینا لازم ہے.چونکہ اس اشتہار سے لوگوں کو یہ مغالطہ پیدا ہوتا تھا کہ آریہ سماج والے سوامی دیانند صاحب کے پیرو اور تابع ہیں.حالانکہ یہ بات نہیں.اس لئے بغرض اشتباہ اور مغالطہ مذکور کے یہ تحریر عمل میں آئی.راقم جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور.لالہ جیون داس کے متعلق کچھ لالہ جیون داس صاحب گورنمنٹ پنشنز ہیں اور ۱۸۷۸ء میں لاہور سماج کے وہی سیکرٹری تھے.ان کے اس اعلان نے حضرت مسیح موعود پر لالہ جیون داس کی حق پسند طبیعت کی حقیقت کو کھول دیا تھا.اور حضرت مسیح موعود بمقابلہ دیگر آریہ سماجیوں کے لالہ جیون داس کو خاص عزت کی نظر سے دیکھتے تھے.چنانچہ جب آپ نے سرمہ چشم آریہ کھی اور اس کے جواب دینے کے لئے انعام مقرر کر دیا تو آپ نے اس امر کے تصفیہ کے لئے کہ آیا جواب ہو گیا ہے یا نہیں.لالہ جیون داس کو ہی ثالث بنانا تجویز کیا تھا.لالہ جیون داس اپنے خیالات میں آزاد آریہ سماجی رہے.اور انہوں نے سوامی دیانند صاحب کے اکثر خیالات سے اختلاف کیا اور نہ صرف اختلاف کیا بلکہ وہ اختلاف مشتہر بھی کیا.حضرت اقدس کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ ثانی سے بھی انہوں نے خط و کتابت کی تھی اور بعض سوالوں کا جواب چاہا تھا.جو حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ الاحد نے رسالہ تشحیذ میں غالباً چھپوا دیا تھا.غرض لالہ جیون داس ایک پرانے آریہ سماجی ہیں.پنڈت دیانند صاحب سرسوتی ان مضامین اور مطالبات کا کوئی جواب تو نہیں دے سکا.مگر اس سلسلہ میں انہوں نے بعض آریہ سماجیوں کی معرفت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مباحثہ کا چیلنج دیا.جس کو حضرت مسیح موعود نے تو قبول کر لیا اور ایک اعلان بصورت کھلی چٹھی سوامی دیانند صاحب کے نام شائع کیا.کیونکہ حضرت مسیح موعود یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ معاملہ مخفی رہے.اگر چہ سوامی جی

Page 191

حیات احمد ۱۸۱ جلد اول حصہ دوم نے تحریراً اس معاملہ میں آنے سے پر ہیز کیا.گو اس کے اسباب بیان کرنے سے ہم قاصر ہیں مگر یہ امر واقعہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کے مطالبہ کا جواب تحریر ا دینے سے خاموشی اختیار کی.کوئی اس کا نام کچھ رکھے.مگر حقیقتا آپ کی ایک فتح تھی.بہر حال ان کے اس پیام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل اعلان یا کھلا خط شائع کیا.سوامی دیانند کے نام کھلا خط بصورت اعلان یہ کھلا خط لاہور کے رسالہ برادر ہند (جس کے ایڈیٹر جناب پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری تھے ) بابت جولائی ۱۸۷۸ء میں شائع کرا دیا.اور پھر جواب کا انتظار کرنے لگے.مگر پنڈت دیانند صاحب کو حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ اس مباحثہ میں آتے.اس اعلان پر پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری نے اپنی رائے نہایت آزادانہ الفاظ میں ظاہر کی اور انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ حضرت مرزا صاحب کے مضامین نے نہ صرف آریہ سماج کے ممبروں کو قدم آگے بڑھانے کی تحریک کی.بلکہ پنڈت دیانند صاحب اپنے عقیدہ سے ہٹ گئے.روحوں کے بے انت ہونے کا جو اعلان ان کی طرف سے بڑے زور شور سے کیا گیا تھا وہ انہیں واپس لینا پڑا.آریہ سماج نے سوامی دیا نند صاحب کی لائف میں تعجب ہے ، اس عظیم الشان واقعہ کا ذکر نہیں کیا.ممکن تھا اس مباحثہ اور اس میں سوامی جی کی شکست کا حال مشکوک ہو جاتا اگر یہ حالات خود ان کی زندگی میں ہی چھپ کر شائع نہ ہو گئے ہوتے.برادر ہند رسالہ ایک ایسے شخص کے قلم سے ایڈٹ ہوتا تھا جو اسلام کا اسی طرح مخالف تھا جس طرح پر سوامی جی مخالف تھے.مگر اس میں ایک انصاف پسند روح تھی اور وہ دونوں کے کلام پر ایک صحیح حج منٹ لکھ سکتا تھا.چنانچہ اس نے جو فیصلہ کیا اور جور بیمارک اس مباحثہ پر لکھے.وہ میں پہلے درج کرتا ہوں.اور پھر اعلان درج کرتا ہوں.

Page 192

حیات احمد ۱۸۲ جلد اول حصہ دوم جناب پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کا فیصلہ حضرت مسیح موعود اور سوامی دیانند صاحب کے مباحثہ پر پنڈت شونرائن اگنی ہوتری مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان اور آریہ سماج کے عنوان سے اپنے رسالہ بابت جولائی ۱۸۷۸ء میں لکھتے ہیں:.سوامی دیانند سرسوتی مذہب کا جس قدر وعظ کرتے ہیں اور اس کے متعلق جن مسائل کا بیان فرماتے ہیں وہ سب وید کے موافق کہتے ہیں ان کے مقلد یہ یقین کر کے اور وید کو خدا کا کلام مان کر اندھا دُھند کچھ سوامی صاحب کے منہ سے سن لیتے ہیں.وہ خواہ کیسا ہی علم و عقل کے مخالف ہومگر اس کے پیرو ہو جاتے ہیں.چنانچہ چند ماہ سے بعض آریہ سماج کے لائق ممبروں اور ہمارے رسالہ کے مضمون نگار صاحب کے درمیان جو کچھ مباحثہ جاری ہے.اس سے ہمارے ناظرین بخوبی واقف ہیں.سوامی صاحب کے مقلد باوجود خدا کے قائل ہونے کے سوامی جی کی ہدایت کے موافق یا یوں کہو کہ وید کے احکام کے موافق اپنا یہ یقین ظاہر کرتے ہیں کہ ارواح بے انت یعنی لا انتہا ہیں اور خدا ان کا پیدا کرنے والا نہیں ہے اور جب سے خدا ہے.تب ہی سے ارواح بھی ہیں.یعنی وہ انادی ہیں اور نیز خدا کو ارواح کی تعداد کا علم نہیں ہے.ما سوائے کسی روح کو نجات ابدی نہیں حاصل ہوتی اور وہ ہمیشہ تناسخ یعنی آواگون کے سلسلہ میں مبتلا رہتی ہے.ہم اگر چہ ان میں سے کسی مسئلہ کے قائل نہیں ہیں اور حقیقت کے مخالف ہونے کے باعث ان کو محض بیہودہ اور لغو خیال کرتے ہیں.تاہم اس رنج طبعی سے بھی ہم اپنے آپ کو بری نہیں دیکھتے کہ ہمارے بہت سے ہم وطن باوجود علم و عقل رکھنے کے پھر ان کے فیض سے فیضیاب نہیں ہوتے اور مثل ایسے لوگوں کے جن کے دماغ علم اور عقل سے خالی ہیں محض تقلید کی غلامی کرتے ہیں.باوجود دولت رکھنے کے پھر اس کو کام میں نہیں لاتے اور مفلسانہ زندگی بسر کرتے ہیں.باوجود سو جاکھے ہونے کے آفتاب نیمروز کی روشنی میں بھی اندھوں کی طرح حرکت کرتے ہیں.ابھی تک آریہ سماج والے ارواح کے بے انت ہونے

Page 193

حیات احمد ۱۸۳ جلد اول حصہ دوم کے یقین کرتے رہے ہیں اور بائیں خیال کہ اس مسئلہ کو بھی مثل اور مسئلوں کے سوامی جی نے انہیں وید کی ہدایت کے موافق بتلایا تھا اس پر نہایت مضبوطی کے ساتھ دعوی کرتے رہے ہیں.مگر اب ہمارے مضمون نگار مرزا غلام احمد صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار جب مرزا صاحب نے مسئلہ مذکور کو اپنی بحث میں باطل ثابت کر دیا تو لا چارسوامی جی نے مرزا صاحب کو یہ پیغام بھیجا کہ حقیقت میں ارواح بے انت نہیں ہیں لیکن تناسخ صحیح ہے.خیر کچھ ہی ہو.مگر اس موقعہ پر ہم اپنے ناظرین پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ سوامی جی کے اس اقرار سے چار باتیں اُن پر صادق آتی ہیں.اول جبکہ وہ وید کی ہدایت کے موافق آریہ سماج میں اپنے مقلدوں کو یہ یقین دلا چکے تھے کہ ارواح انادی اور لا انتہا ہیں.پھر اُس کے خلاف اس مسئلہ کے باطل ثابت ہونے پر یہ اقرار کرنا کہ ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں.صاف دلالت کرتا ہے کہ جس کتاب کی ہدایتوں کو وہ خدا کا کلام یقین کرتے ہیں اس کے مخالف انہوں نے اپنا یقین ظاہر کیا ہے.دوم اگر یہ پایا جاوے کہ درحقیقت وید میں یہی لکھا ہے کہ جو انہوں نے پیچھے سے اپنا یقین ظاہر کیا ہے.تو پھر اُس سے یہ ضرور لازم آتا ہے.کہ اُن میں خود وید کے سمجھنے کے لئے بہت بڑی لیاقت موجود ہے اور نیز اوروں کے سمجھانے کا بھی خوب ملکہ حاصل ہے.یعنی ایک وقت میں وید سے جس قسم کی ہدایت ظاہر کی جاتی ہے.دوسرے وقت میں حسب موقع ٹھیک اُس کے برعکس بھی بتلائی جاسکتی ہے.سوم :- اگر فی الواقعہ یہ مسئلہ ہی دید میں موجود نہیں ہے.اور سوامی جی نے صرف اپنی رائے کے موافق ہی اپنے مقلدوں کو بتلایا تھا.تو اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ سوامی جی کا یہ وید عجیب ہے.کہ جس میں ریلوے اور تار برقی کے علوم تک کا تو ذکر ہو.مگر خاص دھرم کے متعلق جو مسائل ہیں.ان کا کچھ بیان نہ ہو.اور باوجود وید کے مقلد رہنے کے ان کو پھر اسی سچے وید کی ہدایت کا محتاج ہونا پڑے.جس کو عقل کہتے ہیں.چہارم :.سوامی جی کے اس برتاؤ سے کہ جس میں وہ اپنے کسی یقین کے غلط ثابت ہونے پر اس کو چھوڑ صحیح یا راست امر کی طرف رجوع کرتے ہوئے معلوم ہوتے رہے ہیں.اُن کی اس عمدہ

Page 194

حیات احمد ۱۸۴ جلد اول حصہ دوم خوبی کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ اُن میں انصاف پسندی کی عادت پائی جاتی ہے.چنانچہ یہ ایک مذکورہ بالا حرف اول ہے مثال نہیں ہے جس میں انہوں نے اپنے یقین کو تبدیل کیا ہے.بلکہ اس سے پہلے بارہا ایسا کر چکے ہیں.چند سال ہوئے.کانپور میں جب انہوں نے ایک اشتہار اپنا د تخطی مشتہر کیا تھا.تو اس میں انہوں نے اول اول اکیس شاستروں کو ایشر کرت“ (خدا کے اپنے تصنیف کئے ہوئے ) قرار دیا تھا.پھر رفتہ رفتہ جب انہوں نے ان میں بہت سی خرابیاں دیکھیں.تو سب کو چھوڑ چھاڑ صرف چار ویدوں کو ایشر کرت“ بتلانے لگے.پھر اس کے بعد جب ویدوں کا ایک حصہ جس کو برہمن کہتے ہیں.ان کی نظروں میں صحیح ثابت نہیں ہوا تو اب صرف اُس کے اُس حصہ کو جس کو منتر بھاگ کہتے ہیں.الہامی کہتے ہیں.اس سے اگر چہ ان کی کسی قدر متلون مزاجی بھی ظاہر ہوتی ہے.مگر ساتھ ہی اس کے طبیعت میں راستی پسندی کا بھی ثبوت پایا جاتا ہے.ہاں اس میں صرف ایک بہت بڑی کسر یہ باقی ہے کہ وہ اول ایک چیز کی نسبت پہلے ہی سے ایک یقین پیدا کر لیتے ہیں پھر جب کبھی حسب اتفاق اس یقین کا بطلان انہیں معلوم ہو جاتا ہے تب اس کو چھوڑتے ہیں.مگر اس قسم کی تحقیقات سچے محققوں کے اصول تحقیقات سے بالکل مخالف ہیں.کیونکہ جب تم نے پہلے سے ہی ایک قسم کا یقین اپنے دل میں قائم کر لیا تو پھر اس میں خواہ مخواہ تمہاری طبیعت کا یہ مقتضی ہو جاتا ہے کہ اس کے بارے میں تم جو کچھ سوچتے ہو وہ زیادہ تر وہی ہوتا ہے.جو تمہاری طبیعت کے موافق ہو کر تمہارے پہلے قائم کئے ہوئے یقین کی اعانت کرتا ہے.پس اگر وہ یقین غلط قائم ہو گیا ہے تو اس سے نکلنا ایک دفعہ نہایت مشکل بلکہ عنقریب ناممکن کے ہو جاتا ہے.پس اگر سوامی جی واقعی اپنے تئیں ایک بچے محقق کی مثال بنانا چاہتے ہیں.تو ان کو چاہیئے کہ وہ پیشتر اس کے کہ تحقیقات ختم ہو کسی چیز کے موافق یا منافق یقین پہلے ہی سے پیدا نہ کر لیں بلکہ ثالث بالخیر ہوکر مثل ایک سچے جج کے جب مقدمہ کی کل تحقیقات ختم ہو جائے تب فیصلہ کو دخل دیں.کاش کہ ہمارے فاضل سوامی جی اب بھی دیدوں کے منتر بھاگ کو پہلے سے ہی الہام ماننے سے گریز کریں.اور بعد تحقیقات کامل کے جو اس انیسویں صدی میں چنداں مشکل نہیں ہے.پھر حسب نتیجہ اپنی

Page 195

حیات احمد رائے کو قائم کریں.۱۸۵ جلد اول حصہ دوم خیر اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امرتسر آریہ سماج کے لائق سیکرٹری باوا نرائن سنگھ صاحب اور نیز ان کے دیگر وید بھائیوں نے پہلے جس زور شور کے ساتھ سوامی جی کی ہدایت کے موافق ارواح کے بے انت ہونے کا دم بھرتے تھے.اُسی سرگرمی اور شد ومد کے ساتھ وہ اپنے پہلے یقین کے برعکس سوامی جی کے پچھلے اقرار کے موافق ارواح کے بے انت ہونے کے مسئلہ پر یقین کرنے کو مستعد ہیں یا نہیں؟ اس مختصر مقدمہ کے بعد ہم مرزا صاحب کے اس اعلان کو بمعہ مضمون درج کرتے ہیں.جو انہوں نے اس بحث کے ضمن میں اس رسالہ میں مشتہر کرنے کی غرض سے ہمارے پاس بھیجا ہے.(ایڈیٹر ) ”اعلان“ سوامی دیانند سرسوتی صاحب نے بجواب ہماری اس بحث کے جو ہم نے روحوں کا بے انت ہونا باطل کر کے غلط ہونا مسئلہ تناسخ اور قدامت سلسلہ دنیا ثابت کیا تھا.معرفت تین کس آریہ سماج والوں کے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگر چہ ارواح حقیقت میں بے انت نہیں ہیں.لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ بنا رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں.تو پھر بوقت ضرورت مکتی سے باہر نکالی جاتی ہیں.اب سوامی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک و شبہ ہو تو بالمواجہ بحث کرنی چاہیئے.چنانچہ اسی بارے میں سوامی صاحب کا ایک خط بھی آیا.اس خط میں بھی بحث کا شوق ظاہر کرتے ہیں.اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے عرض کیا جاتا ہے کہ بحث بالمواجہ ہم کو بسر و چشم منظور ہے.کاش سوامی صاحب کسی طرح ہمارے سوالوں کا جواب دیں.مناسب ہے کہ سوامی صاحب کوئی مقام ثالث بالخیر کا واسطے انعقاد اس جلسہ کے تجویز کر کے بذریعہ کسی مشہور اخبار کے تاریخ و مقام کو مشتہر کر دیں.لیکن اس جلسہ میں شرط یہ ہے.کہ یہ جلسہ بحاضری چند منصفان صاحب لیاقت اعلیٰ کہ تین صاحب ان میں سے ممبران بر ہم سماج اور تین صاحب مسیحی مذہب ہوں گے.قرار پائے گا اول تقریر کرنے کا ہمارا حق ہوگا کیونکہ ہم معترض ہیں.پھر پنڈت صاحب

Page 196

حیات احمد ۱۸۶ جلد اول حصہ دوم برعایت شرائط تہذیب جو چاہیں گے جواب دیں گے.پھر اس کا جواب الجواب ہماری طرف سے گزارش ہوگا اور بحث ختم ہو جائے گی.ہم سوامی صاحب کی اس درخواست سے بہت خوش ہوئے.ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کیوں سوامی صاحب اور اور دھندوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایسے سخت اعتراض کا جواب نہیں دیتے جس نے سب آریہ سماج والوں کا دم بند کر رکھا ہے.اب اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو بس یہ سمجھو کہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے تو ابعین کے آنسو پوچھتے تھے اور مکت یا بوں کی واپسی میں جو جو مفاسد ہیں.مضمون مشمولہ متعلقہ اس اعلان میں درج ہیں.ناظریں پڑھیں اور انصاف فرماویں.“ المعلن مرزا غلام احمد رئیس قادیان.۱۰رجون ۱۸۷۸ء پنڈت دیانند صاحب نے باوجود یکہ خود مباحثہ کا پیغام دیا تھا.مگر جب حضرت مسیح موعود کی طرف سے آمادگی کا اعلان ہوا.اور آپ نے انعامی اشتہار دے دیا.تو پھر پنڈت دیا نند صاحب کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ مباحثہ کرتے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سوامی جی پر اتمام حجت کا کوئی پہلو باقی نہیں رکھا.چنانچہ جب براہین تصنیف ہوئی.تو اس وقت پھر آپ نے تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح پر اتمام حجت کی کہ آخر پنڈت صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آیات صداقت میں ایک نشان ٹھہر گئے.کیونکہ ان کی وفات کی خبر قبل از وقت آپ نے ان کے متبعین کو دیدی تھی.یہ حصہ میں براہین احمدیہ کے زمانہ تالیف کے واقعات کے ذکر میں انشاء اللہ بیان کروں گا.غرض پنڈت صاحب کو تو اپنی زندگی بھر حوصلہ اور ہمت نہیں ہوئی کہ وہ حضرت مسیح موعود سے مقابلہ کے لئے تقریر یا تحریر کے میدان میں سامنے آتے.مگر ان کے بعض دوستوں نے کسی نہ کسی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباحثہ کے لئے قدم بڑھایا.لالہ جیون داس صاحب نے تو جس دانشمندی اور انصاف پسندی کے ساتھ سوامی جی کے بیان کردہ عقیدہ متعلق تعداد ارواح سے بیزاری ظاہر کی اوپر ذکر ہو چکا ہے اسی سلسلہ میں امرتسر آریہ سماج کے سیکرٹری باوا نرائن سنگھ صاحب سے مباحثہ شروع ہو گیا.

Page 197

حیات احمد باوا نرائن سنگھ صاحب سے مباحثہ جلد اول حصہ دوم با وا نرائن سنگھ صاحب امرتسر میں ایک پرانے پلیڈر ہیں.۱۸۷۸ء میں.....امرتسر آریہ سماج کے وہ ایک پُر جوش سیکرٹری تھے.باوا صاحب ہمیشہ مختلف تحریکوں میں نمایاں حصہ لیتے رہے ہیں.ودیا پر کا شک نام ایک ماہواری رسالہ بھی انہوں نے جاری کیا تھا.اب جہاں تک میرا خیال ہے آریہ سماج کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں اور اپنی سکھ کمیونٹی کے ایک ممبر ہیں.حضرت مسیح موعود کے مضامین کا سلسلہ جب سفیر ہند میں شروع ہوا اور لاہور سماج کے سرگرم اور دور اندیش سیکرٹری لالہ جیون داس نے اعلان کیا تو باوا صاحب اپنی سماج کی شہرت اور کارگزاری کے عملی ثبوت کے خیال سے کیونکر خاموش رہ سکتے تھے.چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کے مقابل میں آنے کے لئے لاہور کے لئے اخبار آفتاب پنجاب کے کالموں کو منتخب کیا.باوا صاحب نے سب سے پہلے اس اعلان پر بحث شروع کی.جو حضرت مسیح موعود نے انعامی شائع کیا تھا.انعامی اعلان اشتہار ھذا اس غرض سے دیا جاتا ہے.کہ ےر دسمبر ۱۸۷۷ء کے وکیل ہندوستان وغیرہ اخبار میں بعض لائق فائق آریہ سماج والوں نے بابت روحوں کے اصول اپنا یہ شائع کیا کہ ارواح موجودہ بے انت ہیں.اور اس کثرت سے ہیں کہ پر میشر کو بھی ان کی تعداد معلوم نہیں.اسی واسطے ہمیشہ مکتی پاتے رہتے ہیں اور پاتے رہیں گے مگر کبھی ختم نہیں ہوویں گے.تردید اس کی ہم نے 9 فروری سے ۹ / مارچ تک سفیر ہند کے پر چوں میں بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ اصول مذکورہ سراسر غلط ہے.اب بطور اتمام حجت کے یہ اشتہار تعداد پانچ سو روپیہ معہ جواب الجواب باوا نرائن سنگھ صاحب سیکرٹری آریہ سماج امرتسر کے تحریر کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب آریہ سماج والوں میں سے بپابندی اصول مسلمہ اپنے کے کل دلائل مندرجہ سفیر ہند و دلائل مرقومہ جواب الجواب مشمولہ اشتہار ہذا کے تو ڑ کر یہ ثابت کر دے کہ ارواح موجودہ جو سوا چار ارب کی مدت میں کل دورہ اپنا پورا کرتے ہیں بے انت ہیں.اور ایشر کو تعداد ان کا نامعلوم رہا ہے تو میں اس کو مبلغ پانسو روپیہ بطور انعام کے دوں گا.اور در صورت توقف کے شخص مثبت کو اختیار ہو گا کہ بعدد

Page 198

حیات احمد ۱۸۸ جلد اول حصہ دوم عدالت وصول کرے.لیکن واضح رہے کہ اگر کوئی صاحب سماج مذکور میں سے اس اصول سے منکر ہو تو صرف انکار طبع کرانا کافی نہ ہوگا بلکہ اس صورت میں بتفریح لکھنا چاہیئے کہ پھر اصول کیا ہوا.آیا یہ بات ہے کہ ارواح ضرور کسی دن ختم ہو جائیں گے اور تناسخ اور دنیا کا ہمیشہ کے واسطے خاتمہ ہوگا.یا یہ اصول ہے کہ خدا اور روحوں کو پیدا کر سکتا ہے.یا یہ کہ بعد مکتی پانے سب روحوں کے پھر ایشر انہیں مکتی یافتہ روحوں کو کیڑے مکوڑے وغیرہ مخلوقات بنا کر دنیا میں بھیج دے گا.یا یہ کہ اگر چہ ارواح بے انت نہیں اور تعداد ان کا کسی حدود معین میں ضرور محصور ہے مگر پھر بھی بعد نکالے جانے کے باقی ماندہ روح اتنے کے اتنے ہی نہیں رہتے ہیں.نہ مکتی والوں کی جماعت جن میں یہ تازہ مکتی یافتہ جا ملتے ہیں.اس بالائی آمدن سے پہلے سے کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں اور نہ یہ جماعت جسے کسی قدر ارواح نکل گئے بعد اس خرچ کے کچھ کم ہوتے.غرض جو اصول ہو.تفصیل مذکورہ مفضل لکھنا چاہیئے.المشتہر.مرزا غلام احمد رئیس قادیان - عفی عنہ اس اعلان کے شائع ہونے پر لالہ جیون داس صاحب نے تو عملی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو صحیح تسلیم کر لیا.اور روحوں کے بے انت ہونے اور خدا تعالیٰ کو بھی ان کی تعداد معلوم نہ ہونے کے متعلق سوامی دیانند صاحب کی غلطی کو مان لیا.مگر باوا صاحب نے جواب کی آمادگی ظاہر کی.اور ۲۳ فروری ۱۸۷۸ء کے سفیر ہند میں انہیں اس اعلان پر بڑا اعتراض یہ سوجھا کہ بجائے انعام کے لفظ جرمانہ ہونا چاہیئے اور حضرت مرزا صاحب ایک دو تخطی تحریر ان کے پاس بھیج دیں اور روپیہ کی وصولی کا اطمینان چاہا.گویا با واصاحب کے خیال اور علم صحیح میں یہ اعلان کوئی قانونی معاہدہ کی حیثیت نہ رکھتا تھا.جب تک دستخطی تحریر نہ ہو.اور انہیں یقین تھا کہ میرا جواب تو ایسا لا جواب ہو گا کہ میں ضرور انعام لے لوں گا مگر وصول کہاں سے کروں گا اور ان حجتوں سے مباحثہ ختم ہو جائے گا.لیکن جہاں اخلاص اور صدق نیت ہو وہاں اس قسم کی روکیں کچھ کام نہیں آ سکتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کی ان شرائط پر فوراً ایک اور اعلان شائع کیا.جس میں نہ صرف باوا صاحب کی جملہ شرائط کو تسلیم کر لیا.بلکہ نہایت ہی لطیف پیرائے میں باوا صاحب کے جواب پر علمی تنقید کی.وہ اعلان یہ ہے.

Page 199

حیات احمد ۱۸۹ جلد اول حصہ دوم با وا صاحب کے مقابلہ میں اعلان باوا صاحب کی شرائط مطلوبہ پر چه سفیر ہند ۲۳ فروری ۱۸۷۸ء کا ایفاء اور نیز چند امور واجب العرض بتفصیل ذیل (۱) اول ذکر کرنا اس بات کا قرین مصلحت ہے کہ اشتہار مندرجہ ذیل میں جو حسب درخواست ہمارے معزز دوست باوانرائن سنگھ صاحب وکیل کے لکھا جاتا ہے لفظ جرمانہ کے جو بجائے لفظ انعام کے ثبت ہوا ہے محض بغرض رضا جوئی باوا صاحب موصوف کے درج کیا گیا ہے.ورنہ ظاہر ہے کہ ایسا اندراج مطابق منشاء اصول قوانین مجریہ سرکار کے ہرگز نہیں ہے.کیونکہ یہ زیر موعودہ کسی مجرمانہ فعل کا تاوان نہیں تا اس کا نام جرمانہ رکھا جائے.بلکہ یہ وہ حق ہے جو خود مشتہر نے بطیب نفس و رضائے خاطر بلا اکراہ غیرے کسی مجیب مصیبت کو بپاداش اس کے جواب باصواب کے دینا مقرر کیا ہے.اس صورت میں کچھ پوشیدہ نہیں کہ یہ رقم در حقیقت بصلہ اثبات ایک امر غیر مثبت کے ہے جس کو ہم انعام سے تعبیر کر سکتے ہیں.جرمانہ نہیں ہے اور نہ از روئے حکم کسی قانون گورنمنٹ برطانیہ کے کوئی سوال نیک نیتی سے کرنا یا کسی امر میں بصدق نیت کچھ رائے دینا داخل جرم ہے تا اس نکتہ چینی کی کچھ بنیاد ہو سکے.غرض اس موقعہ پر ثبت لفظ جرمانہ کا بالکل غیر معقول اور مہمل اور بے محل ہے لیکن چونکہ باوا صاحب ممدوح پرچہ مقدم الذکر بز مرہ دیگر شرائط کے یہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ بجائے لفظ انعام کے لفظ جرمانہ کا لکھا جاوے تب ہم جواب دیں گے سو خیر میں وہی لکھ دیتا ہوں.کاش باوا صاحب کسی طرح جواب اُس سوال اشتہاری کا دیں.ہر چند میں جانتا ہوں جو باوا صاحب اس جرح قانونی میں بھی غلطی پر ہیں اور کوئی ایسا ایکٹ میری نظر سے نہیں گزرا جو نیک نیتی کے سوال کو جرم میں داخل کرے.

Page 200

حیات احمد ۱۹۰ جلد اول حصہ دوم (۲) شرط دوئم باوا صاحب کی اس طرح پر پوری کر دی گئی ہے.جو ایک خط بقلم خود تحریر کر کے باقرار مضمون مشتہرہ کے خدمت مبارک بادا صاحب میں ارسال کیا گیا ہے.باوا صاحب خوب جانتے ہیں جو اول تو خود اشتہار کسی مشتہر کا جو با ضابطہ کسی اخبار میں شائع کیا جاوے قانونا تا ثیر ایک اقرار نامہ کی رکھتا ہے.بلکہ وہ بلحاظ تعد دنقول کے گویا صد ہا تمسک ہیں.علاوہ ازاں چٹھیات خانگی بھی جو کسی معاملہ متنازعہ فیہ میں عدالت میں پیش کئے جاویں ایک قومی دستاویز ہیں اور قوت اقرار نامہ قانونی کے رکھتے ہیں.سوچٹھی خاص بھی بھیجی گئی ماسوائے اس کے جب کہ اس معاملہ میں اشتہارات زبانی ثالثوں کے بھی موجود ہوگی تو پھر باوجود اس قدر انواع و اقسام کے ثبوتوں کے حاجت کسی عہد نامہ خاص کی کیا رہی.لیکن چونکہ مجھ کو اتمام حجت مطلوب ہے اس لئے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر اس ثبوت پر کفایت نہ کر کے پھر باوا صاحب اقرار نامہ اشٹام کا مطالبہ کریں گے تو فوراً اقرار نامہ مطلوبہ ان کا معرفت مطبع سفیر ہند کے یا جیسا مناسب ہو خدمت میں ان کی بھیجا جاوے گا.لیکن باوا صاحب پر لازم ہو گا کہ در صورت مغلوب رہنے کے قیمت اشٹام کی واپس کریں.(۳) شرط سوم میں باوا صاحب روپیہ وصول ہونے کا اطمینان چاہتے ہیں.سو واضح ہو کہ اگر باوا صاحب کا اس سے دل دھڑکتا ہے کہ اگر روپیہ وقت پر ادا نہ ہو تو کس جائیداد سے وصول ہوگا تو اس میں یہ عرض ہے کہ اگر باوا صاحب کو ہماری املاک موجودہ کا حال معلوم نہیں.تو صاحب موصوف کو ایسے قلیل معاملہ میں زیادہ آگاہ کرنا ضروری نہیں صرف اس قدر نشاندہی کافی ہے کہ در صورت تردد کے ایک معتبر اپنا صرف بٹالہ میں بھیج دیں اور ہمارے مکانات اور اراضی جو قصبہ مذکور میں قیمتی چھ سات ہزار کے موجود اور واقع ہیں ان کی قیمت تخمینی دریافت کر کے اپنے مضطرب دل کی تسلی کر لیں.اور نیز یہ بھی واضح ہو جو بمجرد جواب دینے کے مطالبہ روپیہ کا نہیں ہوسکتا جیسا کہ باوا صاحب کی تحریر سے مفہوم ہوتا ہے.بلکہ مطالبہ کا وہ وقت ہو گا جب کل آرائے تحریری ثالشان اہل انصاف کے جن کے اسمائے مبارکہ تنقیح شرط چہارم میں ابھی درج کروں گا.سفیر ہند میں بشرائط مشروط پر چہ ہذا کے طبع ہوکر شائع ہو جائیں گی.

Page 201

حیات احمد ۱۹۱ جلد اول حصہ دوم (۴) شرط چہارم میں باوا صاحب نے صاحبان مندرجہ ذیل کو منصفان تنقید جواب قرار دیا ہے.مولوی سید احمد خان صاحب منشی کنہیا لال صاحب منشی اندر من صاحب.مجھ کو منصفان مجوزہ باوا صاحب میں کسی نہج کا عذر نہیں.بلکہ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں.جو انہوں نے تجویز تقر ر ثالشان میں مولوی سید احمد خان صاحب کا نام بھی جو ہم سے اخوت اسلام رکھتے ہیں درج کر دیا.اس لئے میں بھی اپنے منصفان مقبولہ میں ایک فاضل آریہ صاحب کو جن کی فضیلت میں باوا صاحب کو بھی کلام نہیں.باعتماد طبیعت صالحانہ اور رائے منصفانہ ان کی کے داخل کرتا ہوں.جن کے نام نامی یہ ہیں.سوامی پنڈت دیانند سرسوتی ،حکیم محمد شریف صاحب امرتسری.مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب لاہوری.لیکن اتنی عرض اور ہے کہ علاوہ ان صاحبوں کے کہ فریقین کے ہم مذہب ہیں.دو صاحب مسیحی مذہب بھی ممبر تنقید جواب کے قرار پانے چاہیئیں.سو میری دانست میں پادری رجب علی صاحب اور بابور لیا رام صاحب جو علاوہ فضیلت علمی اور طبیعت منصفانہ کے اس بحث جاری شدہ سے بخوبی واقف ہیں.بشرطیکہ صاحبین موصوفین براہ مہربانی اس شوری میں داخل ہونا منظور کر لیں اور آپ کو بھی اس میں کوئی کلام نہ ہو بہتر اور انسب ہیں.ورنہ بالآخر اس طرح تجویز ہوگی کہ ایک صاحب مسیحی مذہب کو آپ قبول کر کے اطلاع دے دیں اور ایک کے اسم مبارک سے میں مطلع کروں گا.اور تصفیہ اس طرح پر ہو گا کہ بعد طبع ہو نے جواب آپ کے ان صاحبوں کو جو حسب مرضی فریقین ثالث قرار پائے ہیں.بذریعہ خانگی خطوط کے اطلاع دی جائے گی.لیکن ہر ایک فریق ہم دونوں میں سے ذمہ وار ہو گا کہ اپنے منصفین مجوزہ کو آپ اطلاع دے.تب صاحبان منصفین اوّل ہمارے سوال نمبرا کو دیکھیں گے اور بعد اس کے تبصرہ مشمولہ شرائط ہذا کو جس میں آپ کے جواب الجواب کا جو ۱۸ فروری آفتاب پنجاب میں طبع ہوا تھا ازالہ ہے بغور ملاحظہ فرمائیں گے.پھر آپ کا جواب بند بر تمام پڑھ کر جانچیں گے کہ آیا اس جواب سے وجوہات ہمارے رد ہو گئے یا نہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ آپ نے باثبات دونوں امر مندرجہ اشتہار کے کیا کیا وجوہات پیش کئے ہیں لیکن یہ امر کسی منصف کے اختیار میں نہ ہوگا کہ صرف اس قدر رائے ظاہر کرے کہ ہماری دانست میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ اگر کوئی ایسی رائے ظاہر کرے تو یہ سمجھا جائے گا کہ گویا اس نے کوئی

Page 202

حیات احمد ۱۹۲ جلد اول حصہ دوم رائے ظاہر نہیں کی.غرض کوئی رائے میں نہیں لیا جائے گا جب تک اس صورت سے تحریر نہ ہو کہ اصل وجوہات متخاصمین کو پورا پورا بیان کر کے تقریر مدلل ظاہر کرے کہ کس طور سے یہ وجوہات ٹوٹ گئیں یا بحال رہیں اور علاوہ اس کے یہ سب منصفانہ آراء سے سفیر ہند میں درج ہوں گے.نہ کسی اور پر چہ میں.بلکہ صاحبان منصفین اپنی اپنی تحریر کو براہ راست مطبع ممدوح الذکر میں ارسال فرمائیں گے.باستثنا با بوڑ لیا رام صاحب کے اگر وہ اس شوری تنقید جواب میں داخل ہوئے تو ان کو اپنا رائے اپنے پرچہ میں طبع کرنا اختیار ہو گا.اور جب کہ یہ سب آرائے بقید شرائط متذکرہ بالا کے طبع ہو جائیں گی.تو اس وقت کثرت رائے پر فیصلہ ہو گا.اور اگر ایک نمبر بھی زیادہ ہو.تو باوا صاحب کو ڈگری ملے گی.ورنہ آنجناب مغلوب رہیں گے.اشتہار مبلغ پانچ سو تو پیه ۱۸۷۸ء میں راقم اس سوال کا جو آریہ سماج کی نسبت پر چہ 9 فروری اور بعد اس کے سفیر ہند میں بدفعات درج ہو چکا ہے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کر کے لکھ دیتا ہوں کہ اگر باوا نرائن سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب منجملہ آریہ سماج کے جو ان سے متفق الرائے ہوں ہماری ان وجوہات کا جواب جو سوال مذکورہ میں درج ہے اور نیز ان دلائل کی تردید جو تبصرہ بشمولہ اشتہار ہذا میں مبین ہے پورا پورا ادا کر کے بدلائل حقہ یقینیہ یہ ثابت کر دے کہ ارواح بے انت ہیں اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں تو میں پانچ سو روپیہ نقد اس کو بطور جرمانہ کے دوں گا اور درصورت نہ ادا ہونے روپیہ کے مجیب مثبت کو اختیار ہوگا کہ امداد عدالت سے وصول کرے.تنقید جواب کی اس طرح عمل میں آوے گی.جیسے تنقیح شرائط میں او پر لکھا گیا ہے.اور نیز جواب باوا صاحب کا بعد طبع اور شائع ہونے تبصرہ ہمارے کے مطبوع ہوگا.“ المشتهر - مرزا غلام احمد.رئیس قادیان ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۱ ۱۲ بار دوم )

Page 203

حیات احمد ۱۹۳ جلد اول حصہ دوم قارئین کرام اس اعلان کو غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ کس قوت اور جرات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقانیت اسلام اور ابطال باطل کے لئے میدان میں نکلتے ہیں اور دشمن کو کوئی موقعہ گریز کا نہیں دیتے.اس کی تمام ہی شرائط کو تسلیم کر لیا ہے.ہر چند کہ وہ سراسر غیر ضروری تھیں مگر حمیت اسلام کے جوش نے گوارا نہیں کیا کہ اتنا بھی کہلا ئیں کہ فلاں شرط کی عدم منظوری سے مباحثہ کو ٹال دیا.اب جبکہ معاملہ صاف ہو گیا تو باوا صاحب کا فرض تھا کہ وہ باضابطہ اس مباحثہ کو سرانجام دیتے لیکن تاریخ اس معاملہ میں خاموش ہے اور کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ : با واصاحب نے پانچ سو روپیہ انعام یا جرمانہ کا لے کر اعلان کیا ہو کہ پنڈت دیا نند صاحب کا مشتہرہ عقیدہ درست تھا.بلکہ برخلاف اس کے قدرت حق کا اظہار اس طرح پر ہوتا ہے کہ پنڈت دیانند صاحب اس عقیدہ سے بیزار ہو جاتے ہیں.اسی اعلان میں میں ایک خاص امر کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ثالثوں کے تقرر میں پنڈت دیانند صاحب سرسوتی کا نام بھی پیش کرتے ہیں.پنڈت دیانند صاحب کے پیش کردہ عقیدہ پر بحث ہے.وہ گو یا مدعی ہے اور اس کے دعوی کو توڑنے کا اعلان ہے.اسی مدعی کو بیج مان لیا جاتا ہے کہ تم آپ فیصلہ کرو! کیسا وثوق اور اطمینان اپنے دلائل اور عقیدہ کی مضبوطی پر ہے.مدعی کو خود حوصلہ نہیں پڑسکتا کہ وہ ان دلائل کو توڑ کر اپنے حق میں ڈگری دے دے.اس قسم کی اولوالعزمی اور جرأت کی نظیر بتاؤ اور یقینا نہیں ملے گی.آریہ سماج کی تاریخ ہمارے سامنے ہے اور باوا صاحب بھی اب تک زندہ موجود ہیں.یا تو ان کی وہ مستعدی اور سرگرمی کہ حضرت مسیح موعود کے اعلان کو کافی نہ سمجھ کر دستخطی تحریر لیتے ہیں اور انہوں نے گویا یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ پانچ سوروپیہ بذریعہ عدالت وصول کرنا ہے اور اس کو بطور

Page 204

حیات احمد ۱۹۴ جلد اول حصہ دوم رقم تاوان کے مشتہر کرنا ہے.مگر جب جواب الجواب شائع ہوتا ہے تو باوا صاحب نام نہیں لیتے گویا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا اور ہوتا ہے تو کیا کہ باوا صاحب آج آریہ سماج کے پلیٹ فارم سے الگ ہیں.یہ حضرت مسیح موعود کی آریہ سماج پر فتح کا ایک اور نشان ہے.بہر حال ان نتائج پر بحث کو الگ رکھ کر اس معرکۃ الآراء مضمون کو میں یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں.جس نے سوامی دیا نند صاحب جیسے انسان کو اپنی پوزیشن چھوڑنے پر مجبور کر دیا.حضرت مسیح موعود کا پانصدی جواب الجواب با وانرائن سنگھ صاحب سیکرٹری آریہ سماج امرتسر مطبوعہ پر چه آفتاب ۱۸ فروری اول باوا صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خدا روحوں کا خالق ہے؟ اور ان کو پیدا کر سکتا ہے.اس کے جواب الجواب میں قبل شروع کرنے کے یہ عرض کرنا ضروری ہے.کہ از روئے قاعدہ فن مناظرہ کے آپ کا ہرگز یہ منصب نہیں ہو سکتا کہ آپ روحوں کے مخلوق ہونے کا ہم سے ثبوت مانگیں.باوا نرائن سنگھ اپنی پوزیشن نہیں سمجھتے بلکہ یہ حق ہم کو پہنچتا ہے کہ ہم آپ سے روحوں کے بلا پیدائش ہونے کی سند طلب کریں کیونکہ آپ پر چہ مذکور العنوان میں خود اپنی زبان مبارک سے اقرار کر چکے ہیں کہ پر میشور قادر ہے اور تمام سلسلہ عالم کا وہی منتظم ہے.اب ظاہر ہے کہ ثبوت دینا اس امر جدید کا آپ کے ذمہ ہے کہ پر میشور جو قدیم سے قادر ہے.وہ اب بھی قادر ہے.سو حضرت یہ آپ کو چاہیئے تھا کہ ہم کو اس بات کا ثبوت کامل دیتے کہ پر میشور با وصف قادر ہونے کے پھر روحوں کے پیدا کرنے سے کیوں عاجز رہے گا.ہم پر یہ سوال نہیں ہو سکتا کہ پر میشور ( جو قادر تسلیم ہو چکا ہے ) روحوں کے پیدا کرنے کی کس قدر قدرت رکھتا ہے.کیونکہ خدا کے قادر ہونے کو تو ہم اور آپ دونوں مانتے ہیں.پس اس وقت تک تو ہم میں اور آپ میں کچھ تنازعہ نہ تھا پھر تنازعہ تو آپ نے پیدا کیا جو روحوں کے پیدا

Page 205

حیات احمد ۱۹۵ جلد اول حصہ دوم کرنے سے اس قادر پر میشور کو عاجز سمجھا.اس صورت میں آپ خود منصف ہوں اور بتلائیں کہ بارثبوت کس کے ذمہ ہے.اور اگر ہم بطریق تنزل یہ بھی تسلیم کر لیں کہ اگر چہ دعویٰ آپ نے کیا.مگر ثبوت اس کا ہمارے ذمہ ہے.پس آپ کو مژدہ ہو.کہ ہم نے سفیر ہند ۲۱ فروری میں خدا کے خالق ہونے کا ثبوت کامل دے دیا ہے.جب آپ بنظر انصاف پر چہ مذکور کو ملاحظہ فرمائیں گے.تو آپ کی تسلی کامل ہو جائے گی.اور خود ظاہر ہے کہ خدا تو وہی ہونا چاہیئے.جوموجد مخلوقات ہو نہ یہ کہ زور آور سلاطین کی طرح صرف غیروں پر قابض ہو کر خدائی کرے.خدا اپنی نظیر کیوں پیدا نہیں کرتا ؟ اور اگر آپ کے دل میں یہ شک گزرتا ہے کہ پر میشور جو اپنی نظیر نہیں پیدا کرسکتا شاید اسی طرح ارواح کے پیدا کرنے پر بھی قادر نہ ہوگا.پس اس کا جواب بھی پرچہ مذکور ۹ رفروری میں پختہ دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا ایسے افعال ہرگز نہیں کرتا جن سے اس کی صفات قدیم کا زوال لازم آئے جیسے وہ اپنا شریک نہیں پیدا کر سکتا.اپنے آپ کو ہلاک نہیں کر سکتا.کیونکہ اگر ایسا کرے.تو اس کی صفات قدیمی جو وحدت ذاتی اور حیات ابدی ہے، زائل ہو جائے گی.پس وہ قدوس خدا کوئی کام برخلاف اپنی صفات از لیہ کے ہرگز نہیں کرتا.باقی سب افعال پر قادر ہے.پس آپ نے جو روحوں کی پیدائش کو شریک الباری کی پیدائش پر قیاس کیا تو خطا کی.میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ یہ آپ کا قیاس مع الفارق ہے.ہاں اگر یہ ثابت کر دیتے کہ پیدا کرنا ارواح کا بھی مثل پیدا کرنے نظیر اپنی کے خدا کی کسی صفت عظمت اور جلال کے برخلاف ہے.تو دعویٰ آپ کا بلاشبہ ثابت ہو جاتا.روح کہاں سے پیدا ہوئی؟ پس آپ نے جو تحریر فرمایا ہے کہ یہ ظاہر کرنا چاہیئے کہ خدا نے روح کہاں سے پیدا کئے.اس تقریر سے صاف پایا جاتا ہے.آپ کو خدا کے قدرتی کاموں سے مطلق انکار ہے اور اس کو مثل آدم زاد

Page 206

حیات احمد ۱۹۶ جلد اول حصہ دوم کے محتاج باسباب سمجھتے ہیں اور اگر آپ کا اس تقریر سے یہ مطلب ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح پر میشور روحوں کو پیدا کر لیتا ہے تو اس وہم کے دفاع میں پہلے ہی لکھا گیا تھا کہ پر میشور کی قدرت کاملہ میں ہرگز یہ شرط نہیں کہ ضرور انسان کی سمجھ میں آ جایا کرے.دنیا میں اس قسم کے ہزار ہا نمونہ موجود ہیں کہ قدرت مدرکہ انسان کی ان کی کنہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی اور علاوہ اس کے ایک امر کا عقل میں نہ آنا اور چیز ہے اور اس کا محال ثابت ہونا اور چیز.عدم ثبوت اس بات کا کہ خدا نے کس طرح روحوں کو بنا لیا.اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا کہ خدا سے روح نہیں بن سکتے تھے کیونکہ عدم علم سے عدم سے لازم نہیں آتا.کیا ممکن نہیں جو ایک کام خدا کی قدرت کے تحت میں داخل تو ہو لیکن عقل ناقص ہماری اس کے اسرار تک نہ پہنچ سکے.بلکہ قدرت تو حقیقت میں اسی بات کا نام ہے جو داغ احتیاج اسباب سے منزہ اور پاک اور ادراک انسانی سے برتر ہو.اول خدا کو قادر کہنا اور پھر یہ زبان پر لانا کہ اس کی قدرت اسباب مادی سے تجاوز نہیں کرتی حقیقت میں اپنی بات کو آپ رڈ کرنا ہے.کیونکہ اگر وہ فِی حَدَ ذَاتِهِ قادر ہے تو پھر کسی سہارے اور آسرے کا محتاج ہونا کیا معنی رکھتا ہے.کیا آپ کی پستکوں میں قادر اور سرب شکتی مان اسی کو کہتے ہیں جو بغیر توسّل اسباب کے کارخانه قدرت اس کا بندر ہے.اور نرا اس کے حکم سے کچھ بھی نہ ہو سکے.شائد آپ کے ہاں لکھا ہو گا مگر ہم لوگ تو ایسے کمزور کو خدا نہیں جانتے.ہمارا تو وہ قادر خدا ہے جس کی یہ صفت ہے کہ جو چاہا سو ہو گیا.اور جو چاہے گا سو ہوگا.خدا جیسے نظیر پیدا نہیں کرتا روح پیدا نہیں کرتا اس کا جواب پھر با واصاحب اپنے جواب میں مجھ کو فرماتے ہیں کہ جس طرح تم نے یہ مان لیا کہ خدا دوسرا خدا نہیں بنا سکتا اسی طرح یہ بھی ماننا چاہیئے کہ خدا روح نہیں پیدا کر سکتا.اس فہم اور ایسے سوال سے اگر میں تعجب نہ کروں تو کیا کروں.صاحب من! میں تو اس وہم کا کئی دفعہ آپ کو جواب دے چکا ہوں.اب میں بار بار کہاں تک لکھوں.میں حیران ہوں کہ آپ کو یہ بین فرق کیوں سمجھ میں نہیں آتا.اور کیوں دل پر سے یہ حجاب نہیں اٹھتا کہ جو روحوں کے پیدا کرنے کو دوسرے خدا کی پیدائش

Page 207

حیات احمد ۱۹۷ جلد اول حصہ دوم پر قیاس کرنا خیال فاسد ہے کیونکہ دوسرا خدا بنانے میں وہ صفت ازلی پر میشور کی جو واحد لاشریک ہونا ہے نابود ہو جائے گی.لیکن پیدائش ارواح میں کسی صفت واجب الوجود کا ازالہ نہیں بلکہ نا پید کر نے کا ازالہ ہے کیونکہ اس سے صفت قدرت کی جو پرمیشور میں بالا تفاق تسلیم ہو چکی ہے زاویہ اختفا میں رہے گی اور بپایہ ثبوت نہیں پہنچے گی.اس لئے کہ جب پر میشور نے خود ایجا داپنے سے بلا توسل اسباب کے کوئی چیز محض قدرت کاملہ اپنی سے پیدا ہی نہیں کی تو ہم کو کہاں سے معلوم ہو کہ اس میں ذاتی قدرت بھی ہے.اگر یہ کہو کہ اس میں کچھ ذاتی قدرت نہیں تو اس اعتقاد سے وہ پرادھین یعنی محتاج بالغیر ٹھہرے گا اور یہ بہداہت عقل باطل ہے.غرض پر میشور کا خالق ارواح ہونا تو ایسا ضروری امر ہے جو بغیر تجویز مخلوقیت ارواح کے سب کا رخانہ خدائی کا بگڑ جاتا ہے.لیکن دوسرا خدا پیدا کرنا صفت وحدت ذاتی کے برخلاف ہے.پھر کس طرح پر میشور ایسے امر کی طرف متوجہ ہو کہ جس سے اس کی صفت قدیمہ کا بطلان لازم آوے اور نیز اس صورت میں جو روح غیر مخلوق اور بے انت مانے جائیں کل ارواح صفت انا دی اور غیر محدود ہونے میں خدا سے شریک ہو جائیں گی.اور علاوہ اس کے پرمیشور بھی اپنی صفت قدیم سے جو پیدا کرنا بلا اسباب ہے محروم رہے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ پر میشور کو صرف روحوں پر جمعداری ہی جمعداری ہے اور ان کا خالق اور واجب الوجود نہیں.روحوں کے بے انتہا ہونے کی بحث پھر بعد اس کے باوا صاحب اسی اپنے جواب میں روحوں کے بے انتہا ہونے کا جھگڑا لے بیٹھے ہیں.جس کو ہم پہلے اس سے ۹ / اور ۱۶ / فروری کے سفیر ہند میں ۱۴ دلائل پختہ سے رڈ کر چکے ہیں.لیکن باوا صاحب اب تک انکار کئے جاتے ہیں.پس ان پر واضح رہے کہ یوں تو ان کا انکار کرنا اور نہ ماننا سہل بات ہے اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ جس بات پر چاہے رہے پر ہم تو تب جانتے کہ آپ کسی دلیل ہماری کو ر ڈ کر کے دکھلاتے اور بے انت ہونے کی وجوہات پیش کرتے.آپ کو سمجھنا چاہیئے کہ جس حالت میں ارواح بعض جگہ نہیں پائے جاتے تو بے انت کس طرح ہو گئے.کیا

Page 208

حیات احمد ۱۹۸ جلد اول حصہ دوم بے انت کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ جب ایک جگہ تشریف لے گئے تو دوسری جگہ خالی رہ گئی.اگر پر میشور بھی اس طرح کا بے انت ہے تو کارخانہ خدائی کا معرض خطر میں ہے.افسوس کہ آپ نے ہمارے ان پختہ دلائل کو کچھ نہ سوچا اور کچھ غور نہ کیا اور یونہی جواب لکھنے کو بیٹھ گئے حالانکہ آپ کی منصفانہ طبیعت پر یہ فرض تھا کہ اپنے جواب میں اس امر کا التزام کرتے کہ ہر ایک دلیل ہماری تحریر کر کے اس کے محاذات میں اپنی دلیل لکھتے.پر کہاں سے لکھتے اور تعجب تو یہ ہے کہ اسی جواب میں آپ کا یہ اقرار بھی درج ہے کہ ضرور سب ارواح ابتدا سرشٹی میں زمین پر جنم لیتے ہیں اور مدت سوا چار ارب سے سلسلہ دنیا کا بنا رہتا ہے اس سے زیادہ نہیں.اب اے میرے پیارو اور دوستو! اپنے دل میں آپ ہی سوچو.اپنے قول میں خود ہی غور کرو کہ جو پیدائش ایک مقررہ وقت سے شروع ہوئی اور ایک محدود مقام میں ان سب نے جنم لیا.اور ایک محدود مدت تک ان کے توالد و تناسل کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو ایسی پیدائش کس طرح بے انت ہوسکتی ہے.آپ نے پڑھا ہوگا کہ بموجب اصول موضوعہ فلسفہ کے یہ قاعدہ مقرر ہے کہ جو چند محدود چیزوں میں ایک محدود عرصہ تک زیادتی ہوتی رہی تو بعد زیادتی کے بھی وہ چیزیں محدود ر ہیں گی.اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر متعدد جانور ایک متعدد عرصہ تک بچے دیتے رہیں تو ان کی اولاد بموجب اصول مذکور کے ایک مقدار متعدد سے زیادہ نہ ہوگی اور خود از روئے حساب کے ہر ایک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ جس قدر پیدائش سوا چار ارب میں ہوتی ہے اگر بجائے اس مدت کے ساڑھے آٹھ ارب فرض کریں تو شک نہیں کہ اس صورت مؤخر الذکر میں پہلی صورت سے پیدائش دو چند ہو گی.حالانکہ یہ بات اصلی بدیہات ہے کہ بے انت کبھی قابل تضعیف نہیں ہوسکتا.اگر ارواح بے انت ثابت ہوتے تو ایسی مدت معدود میں کیوں محصور ہو جاتے کہ جن کے اضعاف کو عقل تجویز کر سکتی ہے اور نہ کوئی دانا محدود زمانی اور مکانی کو بے انت کہے گا.باوا صاحب براہ مہربانی ہم کو بتلا دیں کہ اگر سوا چار ارب کی پیدائش کا نام بے انت ہے.تو ساڑھے آٹھ ارب کی پیدائش کا نام کیا رکھنا چاہیئے.غرض یہ قول صریح باطل ہے کہ ارواح موجودہ محدود زمانی اور مکانی ہو کر پھر بھی

Page 209

حیات احمد ۱۹۹ جلد اول حصہ دوم بے انت ہیں کیونکہ مدت معین کا توالد و تناسل تعداد معینہ سے کبھی زیادہ نہیں اور اگر یہ قول ہے کہ سب ارواح بدفعہ زمین پر جنم لیتے ہیں سو بطلان اس کا ظاہر ہے.کیونکہ زمین محدود ہے اور ارواح بقول آپ کے غیر محدود.پھر غیر محدود کس طرح محدود میں سما سکے.اگر یہ کہ بعض حیوانات بوصف مکتی نہ پانے کے نئی دنیا میں نہیں آتے.سو یہ آپ کے اصول کے برخلاف ہے.کیونکہ جیسا کہ پیشتر عرض کیا گیا ہے.آپ کا یہ اصول ہے کہ ہر نئی دنیا میں تمام وہ ارواح جو سرشٹی گزشتہ میں مکتی پانے سے رہ گئے تھے.اپنے کرموں کا پھل بھو گنے کے واسطے جنم لیتے ہیں.کوئی جیو جنم لینے سے باہر نہیں رہ جاتا.اب قطع نظر ان دلائل سے اگر اسی ایک دلیل پر جو محدود فی الزمان والمکان ہونے کے بے غور کی جائے تو صاف ظاہر ہے کہ آپ کو ارواح کے متعدد ماننے سے کوئی گریز گاہ نہیں اور بجر تسلیم کے کچھ بن نہیں پڑتا.بالخصوص اگر ان سب دلائل کو جو سوال نمبر 1 میں درج ہو چکے ہیں.ان دلائل کے ساتھ جو اس تبصرہ میں اندراج پائیں ملا کر پڑھا جائے تو کون منصف ہے جو اس نتیجہ تک نہ پہنچ سکے کہ ایسے روشن ثبوت سے انکار کرنا آفتاب پر خاک ڈالنا ہے.پھر افسوس کہ باوا صاحب اب تک یہی تصور کئے بیٹھے ہیں کہ ارواح بے انت ہیں اور مکتی پانے سے کبھی ختم نہیں ہوں گے.اور حقیقت حال جو تھا سو معلوم ہوا کہ کل ارواح پانچ ارب کے اندراندر ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور نیز ہر پر لے کے وقت پر ان سب کا خاتمہ ہو جاتا ہے.اگر بے انت ہوتے تو ان دونوں حالتوں مقدم الذکر میں کیوں ختم ہونا ان کا، رکن اصول آریہ سماج کا ٹھہرتا.عجب حیرانی کا مقام ہے کہ باوا صاحب خود اپنے ہی اصول سے انحراف کر رہے ہیں.اتنا خیال نہیں فرماتے کہ جو اشیاء ایک حالت میں قابل اختتام ہیں وہ دوسری حالت میں بھی یہی قابلیت رکھتی ہیں.یہ نہیں سمجھتے کہ مظروف اپنے ظرف سے کبھی زیادہ نہیں ہوتا.پس جبکہ کل ارواح ظروف مکانی اور زمانی میں داخل ہو کر اندازہ اپنا ہر نئی دنیا میں معلوم کرا جاتے ہیں اور پیمانہ زمان مکان سے ہمیشہ ماپے جاتے ہیں تو پھر تعجب کہ باوا صاحب کو ہنوز ارواح کے محدود ہونے میں کیوں شک باقی ہے.میں باوا صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ جیسے بقول آپ کے یہ سب ارواح جو آپ کے تصور.

Page 210

حیات احمد ۲۰۰ جلد اول حصہ دوم میں بے انت ہیں سب کے سب دنیا کی طرف حرکت کرتے ہیں.اگر اسی طرح اپنے بھائیوں مکتی یافتوں کی طرف حرکت کریں تو اس میں استبعاد عقلی کیا ہے اور کون سی حجت منطقی اس حرکت سے ان کو روکتی ہے اور کس برہان لمّی یا انی سے لازم آتا ہے کہ دنیا کی طرف انتقال ان سب کا ہر سرشٹی کے دورہ میں جائز بلکہ واجب ہے.لیکن کوچ ان سب کا مکتی یافتوں کے کوچہ کی طرف ممتنع اور محال ہے.مجھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس عالم دنیا کی طرف کون سی پختہ سڑک ہے کہ سب ارواح اس پر بآسانی آتے جاتے ہیں.ایک بھی باہر نہیں رہ جاتی اور ان مکتی یافتوں کے راستہ میں کون سا پتھر پڑا ہوا ہے کہ اس طرف ان سب کا جانا ہی محال ہے.کیا وہ خدا جوسب ارواح کو موت اور جنم دے سکتا ہے سب کو مکتی نہیں دے سکتا.جب ایک طور پر سب ارواح کی حالت متغیر ہوسکتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ دوسرے طور سے وہ حالت قابل تغیر نہیں اور نیز کیا یہ بات ممکن نہیں کہ جو خدان سب ارواح کا یہ نام رکھ دے کہ مکتی یاب ہیں جیسا اب تک یہ نام رکھا ہوا ہے کہ مکتی یاب نہیں.کیونکہ جن چیزوں کی طرف نسبت سلبی جائز ہو سکتی ہے بے شک ان چیزوں کی طرف نسبت ایجابی بھی جائز ہے.اور نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہ قضیہ کہ سب ارواح موجودہ نجات پا سکتے ہیں اس حیثیت سے زیر بحث نہیں کہ محمول اس قضیہ کا جو نجات عام ہے.مثل کسی جز کی حقیقی کے قابل تنقیح ہے بلکہ اس جگہ مجوث عنہ امریکی ہے.یعنی ہم کلی طور پر بحث کرتے ہیں کہ ارواح موجودہ نے جو ابھی مکتی نہیں پائی.آیا بموجب اصول آریہ سماج کے اس امر کی قابلیت رکھتے ہیں یا نہیں کہ کسی طور کا عارضہ عام خواہ مکتی ہو یا کچھ اور ہو ان سب پر طاری ہو جائے سو آریہ صاحبوں کے ہم ممنون منت ہیں جو انہوں نے آپ ہی اقرار کر دیا کہ یہ عارضہ عام بعض صورتوں میں سب ارواح پر واقعہ ہے.جیسے موت اور جنم کی حالت سب ارواح پر عارض ہو جاتی ہے.اب باوا صاحب خود ہی انصاف فرما دیں کہ جس حالت میں دو مادوں میں اس عارضہ عام کے خود ہی قائل ہو گئے تو پھر اس تیسرے مادے میں جو سب کا مکتی پانا ہے انکار کرنا کیا وجہ ہے؟ پھر باوا صاحب یہ فرماتے ہیں کہ علاوہ زمین کے سورج اور چاند اور سب ستاروں میں بھی

Page 211

حیات احمد جلد اول حصہ دوم بکثرت جانور آباد ہیں اور اس سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بس ثابت ہو گیا کہ بس بے انت ہیں.پس باوا صاحب پر واضح رہے.کہ اول تو یہ خیال بعض حکماء کا ہے جس کو یورپ کے حکیموں نے اخذ کیا ہے اور ہماری گفتگو آریہ سماج کے اصولوں پر ہے.سوا اس کے اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ آریہ سماج کا بھی یہی اصول ہے تو پھر بھی کیا فائدہ کہ اس سے بھی آپ کا مطلب حاصل نہیں ہوتا.اس سے تو صرف اتنا نکلتا ہے کہ مخلوقات خدا تعالیٰ کی بکثرت ہے.ارواح کے بے انت ہونے سے اس دلیل کو کیا علاقہ ہے؟ پر شاید باوا صاحب کے ذہن میں مثل محاورہ عام لوگوں کے یہ سمایا ہوا ہو گا کہ بے انت اسی چیز کو کہتے ہیں جو بکثرت ہو.باوا صاحب کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ جس حالت میں یہ سب اجسام ارضی اور اجرام سماوی بموجب تحقیق فن ہیئت اور علم جغرافیہ کے معدود اور محدود ہیں تو پھر جو چیزیں ان میں داخل ہیں کس طرح غیر محدود ہو سکتی ہیں اور جس صورت میں تمام اجرام و اجسام زمین و آسمان کے خدا نے گنے ہوئے ہیں.تو پھر جو کچھ ان میں آباد ہے.وہ اس گنتی سے کب باہر رہ سکتا ہے؟ سو ایسے دلائل سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا.کام تو تب بنے کہ آپ یہ ثابت کریں که ارواح موجودہ تمام حدود و قیود و ظروف مکانی و زمانی اور فضائے عالم سے بالا تر ہیں کیونکہ خدا بھی انہیں معنوں پر بے انت کہلاتا ہے.اگر ارواح بے انت ہیں تو وہی علامات ارواح میں ثابت کرنی چاہئیں.اس لئے کہ بے انت ایک لفظ ہے کہ جس میں بقول آپ کے ارواح اور باری تعالیٰ مشارکت رکھتے ہیں اور اس کا حد تام بھی ایک ہے.یہ بات نہیں کہ جب لفظ بے انت کا خدا کی طرف نسبت کیا جائے تو اس کے معنی اور ہیں.اور جب ارواح کی طرف منسوب کریں تو اور معنی.پھر بعد اس کے باوا صاحب فرماتے ہیں کہ کسی نے آج تک روحوں کی تعداد نہیں کی اس لئے لاتعداد ہیں.اس پر ایک قاعدہ حساب کا بھی جو مَا نَحْنُ فِيْهِ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا پیش کرتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لا تعداد کی کمی نہیں ہوسکتی.پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ ہم تخمینی اندازہ ارواح کا بموجب اصول آپ کے بیان کر چکے ہیں اور ان کا ظروف مکانی اور زمانی میں محدود ہونا بھی بموجب انہی اصول کے ذکر ہو چکا ہے.اور آپ اب تک وہ حساب ہمارے

Page 212

حیات احمد جلد اول حصہ دوم رو برو پیش کرتے ہیں جو غیر معلوم اور نا مفہوم چیزوں سے متعلق ہے.اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خزانچی کو اپنی جمع تحویل شدہ کا کل میزان روپیہ آنہ پائی کا معلوم ہوتا ہے.اسی طرح اگر انسان کو کل تعداد ارواح کا معلوم ہو تو تب قابل کمی ہوں گے ورنہ نہیں.سو یہ بھی آپ کی غلطی ہے کیونکہ ہر عاقل جانتا ہے کہ جس چیز کا اندازہ تخمیناً کسی پیمانہ کے ذریعہ سے ہو چکا تو پھر ضرور عقل یہی تجویز کرے گی کہ جب اس اندازہ معلومہ سے نکالا جاوے تو بقدر تعداد خارج شدہ کے اصلی اندازہ میں کمی ہو جائے گی.بھلا یہ کیا بات ہے کہ جب مکتی شدہ سے ایک فوج کثیر مکتی شدہ ارواح میں داخل ہو جائے تو نہ وہ کچھ کم ہوں اور نہ یہ کچھ زیادہ ہوں.حالانکہ وہ دونوں محدود ہیں اور ظروف مکانی اور زمانی میں محصور.اور جو یہ باوا صاحب فرماتے ہیں کہ تعداد روحوں کی ہم کو بھی معلوم ہونی چاہیئے تب قاعدہ جمع تفریق کا ان پر صادق آئے گا.یہ قول باوا صاحب کا بھی قابل ملاحظہ ناظرین ہے.ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جمع بھی خدا نے کی اور تفریق بھی وہی کرتا ہے اور اس کو ارواح موجودہ کے تمام افراد معلوم ہیں اور فرد فرد اس کے زیر نظر ہے.اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک روح نکل کر مکتی یا بوں میں جاوے گی تو پر میشور کو معلوم ہے کہ یہ فرد اس جماعت میں سے کم ہو گیا اور اس جماعت میں سے بباعث داخل ہونے اس کے ایک فرد کی زیادتی ہو گئی.یہ کیا بات ہے کہ داخل خارج سے وہی صورت بنی رہے.نہ مکتی یاب کچھ زیادہ ہوں اور نہ وہ ارواح کہ جن سے کچھ روح نکل گئی.بقدر نکلنے کے کم ہو جائیں اور نیز ہم کو بھی کوئی برہان منطقی مانع اس بات کا نہیں کہ ہم اس امر متیقن محقق طور پر رائے نہ لگا سکیں کہ جن چیزوں کا اندازہ بذریعہ ظرف مکانی اور زمانی کے ہم کو معلوم ہو چکا ہے.وہ دخول و خروج سے قابل زیادت اور کمی ہیں.مثلاً ایک ذخیرہ کسی قدر غلہ کا کسی کو ٹھے میں بھرا ہوا ہے اور لوگ اس سے نکال کر لئے جاتے ہیں.سو گو ہم کو اس ذخیرہ کا وزن معلوم نہیں لیکن ہم بنظر محدود ہونے اس کے کے رائے دے سکتے ہیں کہ جیسا نکالا جائے گا کم ہوتا جائے گا.اور یہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ خدا کا علم غیر محدود ہے.اور روح بھی غیر محدود ہیں.اسی

Page 213

حیات احمد جلد اول حصہ دوم واسطے خدا کو روحوں کی تعداد معلوم نہیں.یہ آپ کی تقریر بے موقع ہے.جناب من! یہ کون کہتا ہے جو خدا کا علم غیر محدود نہیں.کلام و نزاع تو اس میں ہے کہ معلومات خارجیہ اس کے جو تعیّناتِ وجودیہ سے مقید ہیں اور زمانہ واحد میں پائے جاتے ہیں اور ظروف زمانی و مکانی میں محصور اور محدود ہیں.آیا تعداد ان اشیاء موجودہ محدودہ کو غیر موجود اور غیر محدود ثابت کریں تو تب کام بنتا ہے ورنہ علم الہی کہ موجود اور غیر موجود دونوں پر محیط ہے اس کے غیر متناہی ہونے سے کوئی چیز جو تعینات خارجیہ میں مفید ہو غیر متناہی نہیں بن سکتی.اور آپ نے خدا کے علم کو خوب غیر محدود بنایا کہ جس سے روحوں کا احاطہ بھی نہ ہو سکا اور شمار بھی نہ معلوم ہوا با وصفیکہ سب موجود تھے کوئی معدوم نہ تھا.کیا خوب بات ہے کہ آسمان اور زمین نے تو روحوں کو اپنے پیٹ میں ڈال کر بزبانِ حال اُن کی تعداد بتلائی پھر خدا کو کچھ بھی تعداد معلوم نہ ہوئی.یہ عجیب خدا ہے اور اس کا علم عجیب تر.بھلا میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ خدا کا جو ارواح موجودہ کا جو علم ہے یہ اس کے علوم متناہیہ کا جز ہے یا گل ہے.اگر گل ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا کو سوا روحوں کے اور کسی چیز کی خبر نہ ہو اور اس سے بڑھ کر اس کا کوئی عالم نہ ہو اور اگر جز ہے تو محدود ہو گیا.کیونکہ بجز کل سے ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے.پس اس سے بھی یہی نتیجہ نکلا کہ ارواح محدود ہیں اور خود یہی حق الا مر ہے..جس شخص کو خدا نے معرفت کی روشنی بخشی ہو.وہ خوب جانتا ہے کہ خدا کے بے انتہا علوم کے دریاءِ زمین سے علم ارواح موجودہ کا اس قدر بھی نسبت نہیں رکھتا کہ جیسے سوئی کو سمندر میں ڈبو کر اس میں کچھ تری باقی رہ جاتی ہے.پھر باوا صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض کرنا بجا ہے کہ بے انت اور ا نا دی ہونا خدا کی صفت ہے اور اگر روح بھی بے انت اور انادی ہوں تو خدا کے برابر ہو جائیں گے کیونکہ جزوی مشارکت سے مساوات لازم نہیں آتی.جیسے آدمی بھی آنکھ سے دیکھتا ہے اور حیوان بھی پر دونوں مساوی نہیں ہو سکتے.“ یہ دلیل باوا صاحب کی تغلیط اور تسقیط ہے.ورنہ کون عاقل اس بات کو نہیں جانتا کہ جو

Page 214

حیات احمد ۲۰۴ جلد اول حصہ دوم صفات ذات الہی میں پائی جاتی ہیں.وہ سب اس ذات بے مثل کے خصائص ہیں کوئی چیز ان میں شریک سهیم ذات باری کے نہیں ہوسکتی.کیونکہ اگر ہو سکتی ہے تو پھر سب صفات اس کی میں شراکت غیر کی جائز ہوگی اور جب سب صفات میں شراکت جائز ہوئی تو ایک اور خدا پیدا ہو گیا.بھلا اس بات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے کہ جو خدا کی صفات قدیمہ میں سے جو انادی اور بے انت ہونے کی صفت ہے.وہ تو اس کے غیر میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن دوسری صفات اس کی اس سے مخصوص ہیں.ذرا آپ خیال کر کے سوچیں کہ کیا خدا کی تمام صفات یکساں ہیں یا متقارب ہیں.پس ظاہر ہے کہ اگر ایک صفت میں صفات مخصوصہ اس کی سے اشتراک بالغیر جائز نہ ہوگا اور اگر نہیں تو سب میں نہیں اور یہ جو آپ نے نظیر دی.جو حیوانات مثل انسان کے آنکھ سے دیکھتے ہیں.لیکن اس رویت سے انسان نہیں ہو سکتا نہ اس کے مساوی یہ نظیر آپ کی بے محل ہے.اگر آپ ذرا بھی غور کرتے تو ایسی نظیر کبھی نہ دیتے.حضرت سلامت ! یہ کون کہتا ہے کہ ممکنات کو عوارض خارجیہ میں باہم مشارکت اور مجانست نہیں.امر متنازعہ فیہ تو یہ ہے کہ خصائص الہیہ میں کسی غیر اللہ کو بھی اشتراک ہے یا صفات اس کے اس کی ذات سے مخصوص ہیں.آپ مدعی اس امر متنازعہ کے ہیں اور نظیر ممکنات کی پیش کرتے ہیں جو خارج از بحث ہے.آپ امر متنازعہ کی کوئی نظیر دیں تب حجت تمام ہو ورنہ ممکنات کے تشارک تجانس سے یہ حجت تمام نہیں ہوتی نہ ذات باری کے خصائص کو ممکنات کے عوارض پر قیاس کرنا طریق دانشوری ہے.علاوہ اس کے جو ممکنات میں بھی خصائص ہیں وہ بھی اُن کے ذوات سے مخصوص ہیں.جیسا کہ انسان کی حد تام یہ ہے جو حیوان ناطق ہے اور ناطق ہونا انسان کے خصائص ذاتی میں سے اور اس کا فصل اور ممیز عن الغیر ہے.یہ فصل اس کا نہیں کہ ضرور بینا بھی ہو اور آنکھ سے بھی دیکھتا ہو کیونکہ اگر انسان اندھا بھی ہو جائے تب بھی انسان ہے.بلکہ انسان کے خصائص ذاتیہ سے وہ امر ہے جو بعد مفارقت روح کے بدن سے اس کے نفس میں بنا رہتا ہے.ہاں یہ بات سچ ہے جو ممکنات میں اس وجہ سے جو وہ سب ترکیب عصری میں متحد ہیں بعض حالات خارج از حقیقت تامہ ہیں.ایک دوسرے کی مشارکت بھی ہوتے ہیں.جیسے انسان اور گھوڑا

Page 215

حیات احمد ۲۰۵ جلد اول حصہ دوم اور درخت کہ جو ہر صاحب العباد ثلاثہ اور قوت نامیہ ہونے میں یہ تینوں شریک ہیں اور حساس اور متحرک بالا رادہ ہونے میں انسان اور گھوڑا مشارکت رکھتے ہیں لیکن ماہیت تامہ ہر ایک کی جدا جدا ہے غرض یہ صفت عارضی ممکنات کی حقیقت تامہ پر زائد ہے.جس میں کبھی کبھی تشارک اور کبھی تفاسیر ان کا ہو جاتا ہے اور باوصف مختلف الحقائق اور متغائر الماہیت ہونے کے کبھی کبھی مشارکات میں ایک جنس کے تحت میں داخل ہو جاتے ہیں.بلکہ کسی ایک حقیقت کے لئے ایک اجناس ہوتے ہیں.اور یہ بھی کچھ سمجھا کہ کیوں ایسا ہوتا ہے.یہ اس واسطے ہوتا ہے کہ ترکیب مادی ان کی اصل حقیقت ان کے پر زائد ہے اور سب کی ترکیب مادی کا ایک ہی استفس یعنی اصل ہے.اب آپ پر ظاہر ہوگا کہ یہ تشارک ممکنات کا خصائص ذاتیہ میں تشارک نہیں.بلکہ عوارض خارجیہ میں اشتراک ہے.باطنی آنکھ انسان کی جس کو بصیرت قلبی ( اینلا ئٹمنٹ ) کہتے ہیں.دوسرے حیوانات میں ہرگز نہیں پائی جاتی.اخیر میں باوا صاحب اپنے خاتمہ جواب میں یہ بات کہہ کر خاموش ہو گئے ہیں کہ ” سب دلائل معترض کے تو ہمات ہیں.قابل تردید نہیں.اس کلمہ سے زیرک اور ظریف آدمیوں نے فی الفور معلوم کر لیا ہو گا کہ باوا صاحب کو یہ لفظ کیوں کہنا پڑا.بات یہ ہوئی.اوّل اوّل تو ہمارے معزز دوست جناب باوا صاحب جواب دینے کی طرف دوڑے اور جہاں تک ہو سکا ہاتھ پاؤں مارے اور اُچھلے گودے لیکن جب اخیر کو کچھ پیش نہ گئی اور عقدہ لا نخل معلوم ہوا.تو آخر ہانپ کر بیٹھ گئے اور یہ کہہ دیا کہ کیا تردید کرنا ہے یہ تو تو ہمات ہیں.لیکن ہر عاقل جانتا ہے کہ جن دلائل کی مقدمات یقینیہ پر بنیاد ہے.وہ کیوں تو ہمات ہو گئے.اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور آئندہ بلاضرورت نہیں لکھیں گے.راقم مرزا غلام احمد رئیس قادیان باوا نرائن سنگھ صاحب بھی آخر کار میدان مباحثہ کو چھوڑ گئے.اسی اثناء میں ایک اور شخص آریہ سماج کی حمایت کے لئے میدان میں آیا.

Page 216

حیات احمد ۲۰۶ منشی گور دیال سے مباحثہ جلد اول حصہ دوم منشی گوردیال صاحب مدرس مڈل سکول چنیوٹ تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ آریہ سماج کے مسلمہ اور بنیادی اصول روحوں کے انادی ہونے پر حضرت مرزا صاحب کی طرف سے ایک ایسا خطرناک حملہ ہوا ہے کہ یہ اعتقاد دلائل کے آگے باقی نہیں رہ سکتا تو انہوں نے بھی باوا نرائن سنگھ صاحب کی طرح آفتاب پنجاب میں ایک استفسار چھپوایا جو ۶ ارمئی ۱۸۷۸ء کے آفتاب پنجاب میں شائع ہوا.حضرت مرزا صاحب نے منشی گوردیال کو ایک ایسا جواب دیا کہ وہ بھی اپنے سابق دوستوں اور ہم خیالوں کی طرح خاموش ہو گئے اور ان کی طرف سے پھر اس مسئلہ پر خامہ فرسائی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے.منشی صاحب کے اصرار پر جو مضمون حضرت مرزا صاحب نے لکھا اسے ذیل میں پورا درج کر دیا جاتا ہے.ددمنشی گوردیال صاحب نے بعض خیالات اپنے بابت انادی ہونے روحوں کے پیش کر کے ہم سے جواب اُس کا بکمال اصرار طلب کیا ہے.سواگر چہ ہم مضمون سابق کے خاتمہ میں تحریر کر چکے ہیں کہ آئندہ اس بحث پر بلا ضرورت نہیں لکھیں گے.لیکن چونکہ منشی صاحب ممدوح نے بمراد ازالہ شکوک اپنے کے بہت التجا ظاہر کی ہے اور ہمارے نزدیک بھی رفع کرنا شبہات صاحب موصوف کا حقیقت میں ایک عمدہ تحقیق علمی ہے جو فائدہ عام سے خالی نہیں.لھذا ہم اس جواب کو بوجہ ضروری اور لا بدی اور مفید عام ہونے کے ہمہ استثناء شمار کر کے برعایت اختصار ذیل میں درج کرتے ہیں.روحوں کے بے انت ہونے کی پہلی دلیل اور اس کا ابطال اول خیال منشی صاحب کا جس کو وہ دلیل سمجھ کر بہ ثبوت انادی ہونے روحوں کے پیش کرتے ہیں یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنی مخلوقات کی علت تامہ ہے اور تمام مخلوق اس کے معلول اور کوئی معلول اپنی علت تامہ سے متاثر نہیں رہ سکتا.پس ثابت ہوا کہ ارواح موجودہ مثل ذات باری کے قدیم سے ہیں حادث نہیں ہیں.

Page 217

حیات احمد ۲۰۷ جلد اول حصہ دوم ہماری طرف سے یہ جواب ہے کہ یہ استدلال صاحب معارض کا ہرگز درست نہیں اور نہ ان کو کچھ فائدہ بخشتا ہے.بلکہ الٹا ان کے دعوی کو بجائے صحیح ثابت کرنے کے غلط ثابت کرتا ہے.کیونکہ ظاہر ہے کہ خداوند کریم کی ذات پاک لا محدود ولا انتہا ہے اور ارواح کے پیدائش کی علت تامہ وہی غیر متناہی ہستی ہے.اب اگر بقول مدرس صاحب کے یہ فرض کیا جائے کہ تخلف معلول کا اپنی علت تامہ سے محال ہے.تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ارواح موجودہ (جو بقول ان کے قدیم سے موجود ہیں ) لاتعداد اور غیر متناہی ہیں.کیونکہ جب علت تامہ بے انت ہے.تو معلول بھی بے انت ہونا چاہیئے.ورنہ لازم آوے گا.کہ مؤثر کامل کی تاثیر ناقص ہو.حالانکہ بے انت ہونا ارواح موجودہ کا ہمارے چودہ دلائل سے باطل ہو چکا.جن کے سوامی دیانند صاحب بھی لاچار اور لا جواب ہو کر رہ چکے.پس جبکہ روحوں کے بے انت ہونے کے بارے میں یہ دلیل جھوٹی نکلی.تو ان کو انادی ہونے میں کب سچی ہوسکتی ہے.علاوہ اس کے مشاہدہ افعال الہیہ کا بھی اس کے برخلاف گواہی دیتا ہے.کیونکہ قانون قدرتی کے ہر روز تجربہ اور ملاحظہ نے ہم پر ثابت کر دیا ہے کہ افعالِ الہی مرہون باوقات و موقت بازمنہ ہیں اور اوقات مختلفہ میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں.کبھی دھوپ ہے، کبھی بادل ہے، کبھی رات ہے، کبھی دن ہے، کبھی غم ہے اور کبھی شادی.ایک وقت وہ تھا جو ہم معدوم تھے اور اب یہ وقت ہے کہ ہم زمین پر زندہ موجود ہیں اور پھر وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ ہم نہیں ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بارادہ الہی ہو رہا ہے اور ان سب امور اور عوارض کے وہی ارادہ ازلی علت تامہ ہے.پس اگر بقول مدرس صاحب کے یہ تصور کیا جاوے کہ معیت خالق اور مخلوق کے واجب ہے.تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام حادثات جو وقتا فوقتا ظہور پکڑتے ہیں.ہمیشہ ایک حالت پر بنے رہیں اور دنیا ایک ہی دستور پر رہے.لیکن ہر عاقل جانتا ہے جو عالم متغیر ہے اور تمام اجزاء حوادث کے آنِ واحد میں جمع نہیں ہو سکتے اور کسی مخلوق کو ایک وضع پر قرار نہیں.پس اس سے بھی ثابت ہوا کہ دلائل پیش کرده مدرس صاحب محض نا چیز اور سراسر غلط ہیں.

Page 218

حیات احمد ۲۰۸ جلد اول حصہ دوم سوا اس کے جب دوسری شق کی طرف غور کی جاتی ہے کہ آیا روحوں کے آدمی ہونے کی بابت کوئی دلیل پختہ ہے یا نہیں.تو ایسے دلائل پختہ اور یقینی ملتے ہیں جو انسان کو بجز ماننے ان کے کچھ بن نہیں پڑتا.اس بارے میں ہم مضمون سابقہ میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں.اب اعادہ کرنا غیر ضروری ہے.لیکن ایک نئی دلیل جس سے روحوں کے انادی ہونے کے ابطال میں قطعی فیصلہ ہو گیا بلکہ فیصلہ کیا قلعی ہی کھل گئی.اس مضمون میں بھی درج کی جاتی ہے.روحوں کے انادی نہ ہونے پر دوسری دلیل اور تمہید اس دلیل کی یہ ہے کہ آریہ سماج والے بموجب اصول مسلّمہ اپنے کے خود اقرار کر چکے ہیں کہ ارواح موجودہ سوا چار ارب کے پیمانہ سے زیادہ نہیں.جتنے ہیں اور جس قدر ہیں اسی پیمانہ سے شروع ہوتے ہیں اور اسی کے اندر اندر ختم ہو جاتے ہیں اور نیز یہ بھی اقرار ہے کہ فرودگاہ تمام روحوں کا یہی کرہ زمین معلوم و محدود ہے.اور اسی سکول میں سب ارواح تعلیم پاتے اور علم سیکھتے ہیں.بلکہ جتنے ارواح آج تک عہدہ مکتی کا پاچکے ہیں.وہ سب اسی چھوٹے سے مدرسہ کے پاس یافتہ ہیں.اب ظاہر ہے کہ ان اقرارات سے صاف ثابت ہو گیا کہ ارواح موجودہ بے انت نہیں ہیں.بلکہ بوجہ محدود زمانی اور مکانی ہونے کے کسی اندازہ مقرری میں حصر کئے گئے ہیں.پس جبکہ یہ حال ہے.تو اب ناظرین خود غور فرما دیں کہ اس صورت میں یہ قول مدرس صاحب کا کہ ارواح موجودہ ضرور انادی ہیں کس طرح درست ہو سکتا ہے.کیونکہ جس حالت میں ارواح بے انت نہ ہوئے بلکہ کسی خاص تعداد میں محصور ٹھہرے تو بالضرورت ان کے تناسخ اور مکت یابی کا کوئی ابتدا ماننا پڑا.یعنی وہ زمانہ کہ جس میں پہلے پہل کسی روح نے کوئی جنم لیا تھا.یا عہدہ مکتی کا پایا تھا.پس جب ابتدا تناسخ اور مکتی یا بی کا قرار دیا گیا تو ارواح انادی نہ رہے کیونکہ انادی وہ چیز ہے کہ جس کا کوئی ابتدا نہ ہو.پس ثابت ہو گیا کہ آدی ہیں اور یہی مطلب تھا.(اب کہو حضرت کیا خبر ہے.اب بھی آپ روحوں کو انادی کہتے رہو گے ) بعض صاحبوں نے یہ جواب دیا ہے.کہ ممکن ہے کہ پہلے ایک

Page 219

حیات احمد ۲۰۹ جلد اول حصہ دوم غیر متناہی مدت سے تمام ارواح حالت تعطل اور بیکاری میں پڑے رہے ہوں پھر پیچھے سے ایشر کو یہ خیال آیا کہ فارغ رہنا ان روحوں کا اچھا نہیں.پس اسی دن سے جو ایشر کے دل میں یہ خیال اٹھا تو سب روحوں کو انسان اور حیوان اور کیڑے مکوڑے بنا کر جنم مرن کی مصیبت میں ڈال دیا اور اسی زمانہ میں مکتی بھی شروع ہو گئی.اس صورت میں تناسخ اور مکت یابی کا ابتدا ہونا روحوں کے انادی ہونے میں کچھ خلل نہیں ڈال سکتا.سبحان اللہ کیا اچھا جواب ہے.اس سے معلوم ہوا کہ اب آریہ سماج والے فکر دقیق میں بہت ترقی کر گئے ہیں تبھی تو ایسے ایسے عمدہ جواب دینے لگے.بھلا صاحب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ تمام ارواح قبل تناسخ اور مکت یابی کے دکھوں دردوں میں مبتلا تھے.یا راحت اور آسائش میں اگر دکھوں میں مبتلا تھے تو کس عمل کی شامت سے اور اگر راحت میں تھے تو کس کار خیر کے پاداش میں.علاوہ اس کے اگر پہلے مکت یابی سے خوشحال اور مسرور تھے تو پھر ان کو مکت کا طلب کرنا تحصیل حاصل تھا.پس یہی ماننا پڑا کہ موجود نہ تھے.اگر یہ کہو کہ اگر چہ پہلے بھی آرام میں تھے پھر اُن کو گردش تناسخ میں اس واسطے ڈالا گیا کہ خدا کی شناخت حاصل کریں تو جواب ظاہر ہے کہ جبکہ روحوں کو غیر متناہی مدت میں خدا کے ساتھ رہ کر اور اس کا ہم صحبت ہو کر بلکہ دائمی شریک بن کر خدا کی شناخت حاصل نہ ہوئی تو پھر کیڑے مکوڑے بن کر کیا ذخیرہ معارف کا اکٹھا کر سکتے ہیں.بلکہ ناکردہ گناہ طرح طرح کی تکلیفات جنم مرن میں ڈالنا برخلاف اصول آریہ سماج کے ہے اور اسی سے تو حضرت تناسخ صاحب جزیرۂ عدم کی طرف سدھارتے ہیں.علاوہ اس کے تعطل ارواح بھی بموجب اصول آریہ سماج کے قطعاً نا جائز ہے پھر غیر متناہی تعطل کس طرح جائز ہو.پس ایسا خیال کہ ارواح انا دی ہیں.سراسر باطل.روحوں کے تعداد معتین سے زائد نہ پیدا ہونے کا ابطال ا پھر مدرس صاحب لکھتے ہیں کہ بار بار پیدا ہونا روحوں کا غیر ممکن ہے بلکہ جتنے روح پیدا ہو سکتے تھے وہ قدیم سے موجود ہیں اور آگے کو قدرت خالقیت کی مفقود ہے.یہ ایسی تقریر ہے کہ جس کو

Page 220

حیات احمد ۲۱۰ جلد اول حصہ دوم ہم دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ مدرس صاحب کے اعتقاد میں ان کے ایشر کی گل یہی جائیداد تھی جو سوا چار ارب کے پیمانہ میں ناپی گئی اور آئندہ دیوالیوں کی طرح دونوں ہاتھ خالی ہیں.افسوس کہ مدرس صاحب اس ناقص خیال پر بڑا زور مار رہے ہیں کہ ایشر اتنی ہی روح پیدا کر سکتا تھا جو پیمانہ مذکور میں محدود ہیں اس سے زیادہ نہیں.لیکن افسوس بر افسوس که صاحب موصوف اس دعوی کی کوئی دلیل نہ لکھ سکے کہ کیوں ایشر اس مقدار محدود تک پیدا کر کے پھر ہمیشہ کے واسطے صفت خالقیت سے عاری رہ گیا.بھلا کون سی خندق عمیق ایشر کو اس مقدار سے آگے پیدا کرنے سے روکتی تھی.حالانکہ عقل تجویز کر سکتی ہے اور ہر ایک شخص اپنے نفس کو اس بات کا حکم بنا سکتا ہے کہ جس ایشر نے بقدر پیمانہ سوا چار ارب کے روحوں کو پیدا کیا وہی ایشر بقدر ساڑھے آٹھ ارب کے بھی پیدا کر سکتا تھا.بھلا اس دعوئی پر کون سی برہان فلسفی قائم ہو سکتی ہے جو اس تعداد خاص سے زیادہ کوئی روح پیدا کرنا مستحیل اور محال تھا.جو امر تجویز عقل سے جائز ہے اور حیز امکان میں داخل اس کو خدا کے اقتدار سے باہر سمجھنا ایک ایسا عجیب خیال ہے کہ اگر وہ کوئی بجسم چیز نہ ہوتی تو عجائب گھر میں رکھنے کے لائق تھی.خدا کی قدرتوں کا کسی تعداد معلوم تک حد بست کرنا اور پھر اس کی صفت خالقیت کو ہمیشہ کے واسطے کا لعدم سمجھنا ہم نہیں جانتے کہ اس کا باعث تعصب ہے یا پرلے درجہ کی ناواقعی ہے.اگر مدرس صاحب اس اعتراض کا یہ جواب دیں کہ ایشر کی یہی مرضی تھی کہ اسی قدر روحیں پیدا کرتا جو سوا چار ارب کے پیمانہ میں محدود ہیں تو ہم سے ابھی اس کا جواب سن لیں کہ یہ خیال ہی سراسر باطل اور غیر معقول ہے کیونکہ مرضی کا کام تو پھر بھی ہوسکتا ہے.لیکن بقول مدرس صاحب اب ایشر روحوں کے پیدا کرنے سے ہمیشہ کے واسطے معزول ہے.ہم بصد بجز و نیاز مدرس صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ اس تخصیص بلا مخصص اور ترجیح بلا مریج کی وجہ بیان فرما دیں کیونکہ اغلب ہے کہ ان کے ذہن میں کوئی خاص وجہ ضرور ہوگی کہ ایشر اس مقدار محدود سے آگے پیدا کرنے سے کیوں ہمیشہ کے واسطے رک گیا.شاید کہیں یہ وجہ نہ ہو کہ اس سے زیادہ پیدا کرنا ایشر کی طاقت سے باہر تھا.افسوس کہ مدرس صاحب ہمارے مکمل ثبوت کو چھوڑ کر وہمی باتوں کی طرف بھاگتے ہیں اور دلائل قطعیہ کا اوہام رکیکہ کے ساتھ معارضہ کرنا چاہتے ہیں.اسی طرح باوا صاحب بھی اپنے غلط فلسفہ سے

Page 221

حیات احمد ۲۱۱ جلد اول حصہ دوم ایسا خیال کر رہے ہیں کہ گویا ایشر کو اپنی موجودات کی تعداد ہی معلوم نہیں اور دنیا اس کی نظر سے دور رہ کر یونہی اب تک بچی ہوئی ہے اور نیز یہ بھی باوا صاحب کا خوش اعتقاد ہے کہ ایشر روحوں کا خالق نہیں بلکہ اس سوسائٹی کا ایک رکن اعلی ہے.روحوں کے انادی ہونے کی تیسری دلیل کا ابطال پھر ایک اور دلیل مدرس صاحب نے بتائید انادی ہونے ارواح موجودہ کے پیش کی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر پیدائش ارواح کی قدیمی اور انادی نہیں تو کیا ایشر پہلے زمانوں میں بیکار تھا.یا پیدا کرنے سے عاجز اور ناچار تھا مدرس صاحب نے تو اس دلیل سے ارواح کو انادی اور بے انت ثابت کرنا چاہا مگر جب دانا آدمی غور کر کے دیکھے تو نہ انادی رہے اور نہ بے انت.بلکہ دونوں دعوی کی صفائی ہوئی کیونکہ اگر بقول مدرس صاحب خدا روحوں کو ہمیشہ پیدا کرتا رہا ہے تو پھر ارواح کیا خاک انادی رہے جو صد ہا مرتبہ پیدا ہو چکے.انادی تو وہ شے ہے کہ اس کی پیدائش کا کوئی ابتدا نہ ہو.یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف ہزاروں ابتدا ارواح کی پیدائش کے قبول کرتے ہو اور پھر ان کا نام انادی رکھتے ہو.اسی طرح اس تقریر مبارک سے وہ بے انت بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ بے انت وہ شے ہے کہ جس پر اور زیادتی ممکن نہ ہو اور کوئی مرتبہ نفس الامری نہ پایا جائے جہاں وہ موجود نہ ہو لیکن اگر روحوں پر اور زیادتی بقول مدرس صاحب غیر متناہی زمانوں تک ممکن ہے تو وہ بے انت نہ ہوئے.اور اگر ممکن نہیں تو خدا کا ہمیشہ کے واسطے بیکار ہونا لازم آیا اور وہ بھی بقول مدرس صاحب باطل.پس روحوں کا انا دی ہونا بہر حال باطل ہوا.اس سوال پر نظر کہ خدا اب کیا کرتا ہے؟ اور یہ سوال کرنا کہ پہلے خدا کیا کرتا تھا اور اب کیا کرتا ہے اور پھر کیا کرے گا محض فضول اور طلب محال ہے.کیا کوئی ایسی فہرست پیش کر سکتا ہے کہ جس میں خدا کی کل پہلی کارگزاریاں درج ہوں یا آئندہ کا بجٹ یا اسٹیمیٹ مرتب ہو.جس قدر انسان سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا محتاج بالغیر نہیں یا اس کی خدائی تب ہی ثابت ہو جو وجود غیر کا ثابت ہواور نیز حقیقت امکانیہ پر وجود اور عدم دونوں طاری ہو سکتے ہیں.پس ایسی حقیقت واجب الوجود کس طرح ہو سکے؟ را تم مرزا غلام احمد رئیس قادیان

Page 222

حیات احمد ۲۱۲ جلد اول حصہ دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی کے متعلق کچھ تذکرہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی شادی جس شان سے ہوئی وہ اس خاندان کے اس وقت کے موجودہ رسم و رواج کے لحاظ سے بالکل نرالی اور انوکھی شادی تھی.وہ زمانہ جو آج سے بہتر بہتر برس پیشتر کا زمانہ ہے.ہندوستان کے مسلمانوں پر عجیب ابتلا کا زمانہ تھا.سکھا شاہی کے سبب سے مسلمانوں میں نہ صرف دین و مذہب کی طرف سے بے پروائی پیدا ہوگئی تھی بلکہ النَّاسُ عَلَى دِينِ مُلُوكِهِمْ کے لحاظ سے ان کے طرز بود ماند اور لباس و وضع میں سکھیت پیدا ہو چلی تھی.اسلامی شعائر کی بجائے عجیب و غریب رسوم قائم ہو چکی تھیں.بیا ہوں اور شادیوں پر ایسے ایسے امور ہوتے تھے جو اسلام کے لئے باعث شرم ہوں.اور وہ اعلیٰ تمدن اور اعلیٰ درجہ کے تمول اور خاندان کا نشان سمجھے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی شادی اس دھوم دھام سے کی گئی تھی کہ اس کی نظیر گرد و نواح میں اب تک بھی پیدا نہیں ہوئی.ہر قسم کے سائلین اور غرباء کی جماعت یہاں جمع تھی ایک مہینے تک یہ جشن رہا بعض حاملہ عورتیں جو تقریب پر مانگنے کھانے کے لئے آئی ہوئی تھیں یہاں ہی بچے جن بیٹھیں.جن میں سے ایک سائنسی میں نے بھی دیکھا ہے درواز و نام کا اور اب تک زندہ ہے.راگ رنگ کی محفلیں گرم تھیں اور ۱۸ طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے.اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ شادی کس پیمانہ اور کس رنگ کی تھی مگر حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے ہر رنگ میں ہر قسم کی بدعات اور خلاف شریعت رسوم سے بچالیا.آپ کی شادی کے سوال کا حل آپ کے اختیار میں نہ تھا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کے اختیار میں تھا جو اپنی شان و شوکت کے لحاظ سے اس وقت کے حالات کے موافق ہر قسم کے رسوم کے پابند ہو سکتے تھے.چنانچہ جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی شادی میں اس کا نمونہ نظر آتا ہے.مگر قدرت الہی کا کرشمہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی کے وقت خود بخود ان رسوم خلاف شریعت میں سے ایک بھی ہونے نہیں پائی یہ تصرف الہی تھا آپ چونکہ مامور ہونے والے تھے اگر اس وقت آپ کے متعلق کوئی رسم ایسی ہو بھی جاتی تو بھی آپ

Page 223

حیات احمد ۲۱۳ جلد اول حصہ دوم عند الناس بری الذمہ تھے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس پہلو سے بھی آپ پر کوئی اعتراض آنے نہیں دیا.وہ شادی سادگی اور اسلامی نکاح کا ایک نمونہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خُسر اؤل آپ کے ماموں تھے اور وہ قادیان میں ہی رہتے تھے.اس خاندان کے ساتھ آپ کے خاندان کے تعلقات دیرینہ چلے آتے تھے.چونکہ وہ خاندان اپنے صحیح النسب ہونے کے لحاظ سے ممتاز اور مشار الیہ تھا.اگر چہ دولت و اقبال کے لحاظ سے وہ اس خاندان کے ساتھ کوئی لگا نہیں کھاتا تھا تا ہم وہ چیز جو خاندانی شرافت اور نجابت کے لئے ضروری سمجھی گئی ہے اس میں موجود تھی.مرزا جمعیت بیگ صاحب آپ کے ماموں اور خُسر یہاں ہی رہتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی کی تجویز ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نکاح ہو گیا.کوئی دُھوم دھام اور کوئی رسم آپ کے نکاح میں عمل میں نہ آئی.اس طرح پر جیسے ابتدائے زمانہ ہوش سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے مکروہات سے بچایا اور آپ کی تربیت فرمائی.اس موقعہ پر بھی خلاف شرع امور کے وقوع سے بچالیا.ایام طالب علمی میں دستور العمل آپ کی خلوت پسند طبیعت اور کھیل کو د اور لغویات سے متنفر عادت نے ہر موقعہ پر آپ کا ساتھ دیا.میں آپ کی تعلیم کے متعلق ذکر پہلے کر آیا ہوں.اسی سلسلہ کی تکمیل میں مجھے وہ دستور العمل بیان کر دینا چاہیئے جو ایام طالب علمی میں آپ کا تھا.وہ کچا دیوان خانہ جہاں آج کل نواب محمد علی خان صاحب کے مکانات بنے ہوئے ہیں یہ تعلیم گاہ تھا.عام طور پر مدرس لوگ طلباء سے کچھ ماہوار لے لیا کرتے تھے مگر حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے جس استاد کو مقرر کرتے آپ اس کو پوری تنخواہ دیتے اور دوسرے بچوں کو مفت تعلیم دینے کی اجازت دیتے اس وجہ سے جہاں حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب تعلیم پاتے تھے اس مکتب میں آپ کے طفیل سے اور بچے بھی پڑھتے اور بچے بچے ہی ہوتے ہیں ان میں ہر قسم کی باتیں کھیل کو ہنسی مذاق کی ہوتی ہیں.ان کی عام عادت یہ تھی کہ یہ اپنا سبق آپ پڑھا کرتے

Page 224

حیات احمد ۲۱۴ جلد اول حصہ دوم تھے.بعض لڑکوں کا دستور ہوتا ہے کہ وہ صرف سماعت کرتے ہیں قراءت نہیں کرتے مگر حضرت مرزا صاحب ہمیشہ اپنا سبق آپ پڑھتے اور دو یا تین دفعہ کہہ لینے کے بعد جماعت سے اٹھ جاتے اور اوپر بالا خانہ میں چلے جاتے.وہ بالا خانہ اب تک موجود ہے اور وہاں جا کر ا کیلے اس کو یاد کرتے اور اگر کچھ بھول جاتا تو پھر نیچے آتے اور استاد سے براہ راست پوچھتے اور پوچھ کر پھر او پر چلے جاتے.ان لڑکوں کی کھیل کود اور تفریحوں میں کبھی شریک نہ ہوتے تھے.ہاں یہ آپ کے عادات میں داخل تھا کہ ان بچوں اور لڑکوں میں سے اگر کسی کو سبق بھول جائے یا نہ آئے تو اس کو بتلا دینے اور یاد کرا دینے میں کبھی بخل سے کام نہ لیتے.شکار کا شوق نہ تھا مگر ایک پوڑی ضرور ماری تھی را جس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کا بچپن جوانی کی طرف جارہا تھا عام طور پر لوگ ہتھیارات رکھتے تھے اور استعمال کرتے تھے.اور گنکہ وغیرہ اور تلوار کے کرتب کی ورزشیں عام تھیں لیکن حضرت مسیح موعود چونکہ يَضَعُ الْحَرُب کے لئے آئے تھے اور ان کے زمانہ میں امن اور آسائش کی راہیں کھل جانے والی تھیں آپ نے ان امور کی طرف توجہ نہیں کی.بحالیکہ یہ امور لازمہ شرافت و شجاعت سمجھے جاتے تھے.عام طور پر غلیل کے ذریعہ سے شکار کیا جاتا تھا.میری اپنی تحقیقات سے تو یہ پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کبھی کبھی غلیل چلاتے تھے مگر آپ کے اس شوق کی تعداد شاید تین چار بار سے زیادہ نہ ہو.یہ شوق اگر اس کو شوق کہا جاوے صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ آپ کے دیوان خانہ کے پاس اس حصہ میں جہاں مرزا سلطان احمد صاحب کا مکان ہے.ایک شخص بستا نامی رہا کرتا تھا جو باہر رکھوالا ہوتا تھا وہ حفاظت کے لئے غلیل رکھا کرتا تھا اس سے لے کر کبھی آپ بھی چلا لیتے.اور اسی شوق میں ایک مرتبہ اڑتے ہوئے طوطے کو شکار کر لیا.مگر حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ایدہ اللہ الاحد جن کے عہدِ خلافت میں میں یہ سیرت لکھ رہا ہوں فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بندوق کے ساتھ شکار کیا تھا اور یہ روایت

Page 225

حیات احمد ۲۱۵ جلد اول حصہ دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بیان فرمائی.حضرت صاحبزادہ صاحب کو بحالی صحت کے لئے شکار بندوق کا مشورہ دیا گیا اور بعض اور اسباب بھی تھے جن کے لئے آپ نے ہوائی بندوق اولاً منگوائی تو حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ پنجابی میں ایک ضرب المثل ہے.باپ نہ ماری پدری بیٹا میر شکار.مگر آپ کو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہم نے ایک مرتبہ شکار کے لئے بندوق چلائی تو ایک پڑی شکار ہوگئی.ہر چند یہ آپ کا ایک پاک مزاح یا لطیفہ کہلا سکتا ہے مگر اس واقعہ کے لحاظ سے اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ایک آدھ مرتبہ اگر آپ نے شکار کا شوق کیا ہو تو تعجب نہیں.عام طور پر آپ کو کوئی شوق اور دلچسپی نہ تھی.ہاں طیور کے گوشت کو پسند فرماتے تھے.اور دراصل حضرت صاحبزادگان میں شکار کا شوق بھی حضرت مسیح موعود کی اس خواہش کے پورا کرنے کے لئے آیا.جو حضرت والد صاحب قبلہ کی خوشنودی اور دعا کے حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھا.اُن ایام میں حضرت مسیح موعود کی غذا بالکل کم ہو گئی تھی اور کوئی چیز نہیں کھاتے تھے.پرند کا شور با آپ پسند کرتے تھے اس لئے عام طور پر خدام کوشش کرتے تھے کہ کوئی پرند کا شکار کر کے لائیں اسی سلسلے میں حضرت صاحبزادہ صاحب بھی سعی کرتے.غرض آپ کو کوئی دلچسپی اس سے نہ تھی.اور نہ دوسرے تفریحی مشاغل نے کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا.شطرنج چوسر وغیرہ کھیلیں بھی اُس زمانے میں عام تھیں مگر آپ کو ان سے نفرت اور بیزاری تھی.استغراقی حالت اللہ تعالیٰ کی محبت اور اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ ایسے محو اور متوجہ رہتے تھے کہ پاس ہونے والے واقعات کا بھی علم نہیں ہوتا تھا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر وقت رو بخدا ر ہتے اور باوجود دنیا میں ہونے کے دنیا سے الگ رہتے.یہ حالت بھی آغاز نو جوانی ہی سے پیدا ہو گئی تھی.بھوری پیٹھ کی چھوٹی سی خوش آواز چڑیا جو کئی قسم کی ہوتی ہے ( اردو لغت تاریخی اصولوں پر شائع کردہ ترقی اردو بورڈ کراچی زیر لفظ پڈا) (ناشر)

Page 226

حیات احمد ۲۱۶ جلد اول حصہ دوم ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود ایک دالان میں ٹہل رہے تھے اس دالان میں ایک اوکھلی تھی.مرزا سلطان احمد صاحب چھوٹے بچے تھے کوئی تین ایک برس کے ہوں گے بلکہ اس سے بھی شائد کچھ کم ہی ان کی عمر ہوگی وہ بھی وہیں زمین پر بیٹھے کھیل رہے تھے.کھیلتے کھیلتے اتفاقاً سر کے بل اس اوکھلی میں گر پڑے.اب اس میں سے نکل تو وہ سکتے نہیں تھے سیدھے بھی نہیں ہو سکتے تھے.تھوڑی دیر تک وہ اس حالت میں پڑے رہے آخر بچہ اپنی رہائی کی کوششوں میں نا کامیاب رہ کر رو پڑے.مگر نہ تو اس کے گرنے اور نہ رونے نے حضرت مسیح موعود کی توجہ میں کوئی خلل پیدا کیا یہ اپنے خیالات میں مست اور غرق اسی طرح اطمینان سے پھرتے رہے بچہ کے رونے کی آواز سے حضرت والده مکر مہ رضی اللہ عنہا (یعنی دادی صاحبہ ) کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی.وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور مرزا سلطان احمد صاحب کو نکال کر پیار کے ساتھ اٹھایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بھی چونکہ انہیں بڑی محبت اور شفقت تھی اس لئے انہیں اور تو کچھ نہ کہہ سکیں یہ کہا کہ ان کے پاس تو کوئی مر بھی جاوے تو ان کو پتہ نہیں ہوسکتا کہ کیا واقع ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی والدہ مکرمہ کے ان الفاظ کوسن کر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور جب انہوں نے آپ کو اس واقعہ سے اطلاع دی تو ہنس کر کہہ دیا کہ مجھے تو کچھ بھی خبر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی والدہ مکرمہ یہاں ضمناً ذکر آ گیا ہے اس لئے میں آپ کی والدہ مکرمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کچھ تھوڑا سا ذکر کر دیتا ہوں و الا اس کے لئے میں نے آپ کے خاندان تبیال میں ذکر کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے.آپ کی والدہ مکرمہ کا نام نامی حضرت بی بی چراغ بی بی تھا.اور وہ اپنے نام کی طرح فی الحقیقت دنیا کے لئے چراغ کی طرح روشنی ہی کا موجب ہوئیں.کیونکہ جس کے بطن مبارک سے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام جیسا عظیم الشان انسان پیدا ہوا جس طرح پر حضرت آمنہ کا نام اللہ تعالیٰ نے ان کے ماں باپ سے اسم بامسٹمی رکھوا دیا کہ ان کے بطن مبارک سے امن کا بادشاہ پیدا ہوا صلی اللہ علیہ وسلم جس نے دنیا کو ہر قسم کی تکلیفوں سے نجات اور امن بخشا اسی طرح

Page 227

حیات احمد ۲۱۷ جلد اول حصہ دوم حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ کے نام میں، آنے والے دنیا کے نور کی بشارت مذکور تھی.بہت سے نام دنیا میں رکھے جاتے ہیں مگر ان کو اپنے مسمی سے کچھ بھی نسبت اور تعلق نہیں ہوتا لیکن بعض اسماء ایسے مبارک اور باموقع ہوتے ہیں کہ ان میں وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو نام سے بظاہر مفہوم ہوتی ہے.اسی طرح حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ ایک ایسے نور کی والدہ مکرمہ بننے کا شرف رکھتی ہیں جس نے دنیا کو روشن کر دیا.حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ کا خاندان موضع آئمہ ضلع ہوشیار پور میں ایک معزز اور صحیح النسب مغل خاندان تھا.آپ کی طبیعت میں جود وسخا اور مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.ایک عفت وعصمت کی دیوی خاتون میں جو صفات عالیہ ہونے چاہئیں وہ آپ میں موجود تھے.وہ ہمیشہ بشاش اور متین حالت میں رہتی تھیں.مہمان نوازی کے لئے ان کے دل میں نہایت جوش اور سینہ میں وسعت تھی.وہ لوگ جنہوں نے ان کی فیاضیاں اور مہمان نوازیاں دیکھی ہیں ان میں سے بعض اس وقت تک زندہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں اگر باہر سے یہ اطلاع ملتی کہ چار آدمیوں کے لئے کھانا مطلوب ہے تو اندر سے جب کھانا جاتا تو وہ آٹھ آدمیوں سے بھی زائد کے لئے بھیجا جاتا.اور مہمانوں کے آنے سے انہیں بہت خوشی ہوتی.اپنے شہر کے غرباء وضعفاء کا خصوصیت سے خیال رکھتی تھیں.اور ان کے معمولات میں ایک یہ خاص بات تھی کہ غرباء کے مُردوں کو کفن ان کے ہاں سے ملتا تھا.غرضیکہ غرباء کی ہمدردی اور دستگیری کی وجہ سے وہ سب کے لئے ایک طرح پر مادر مہربان تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت میں حضرت والدہ مکرمہ کی ان صفات و اخلاق نے خاص اثر پیدا کیا اور چونکہ آپ ایک عظیم الشان کنبہ کے مالک ہونے والے تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے ان صفاتِ عالیہ کے پیدا کرنے کے لئے ان کے واسطے یہ سامان کیا کہ ایک ایسی مادر شفیق کی گود میں انہیں رکھا جو ہمدردی عامۃ الناس اور مہمان نوازی اور جود وسخا میں اپنی نظیر آپ تھیں اس طرح پر گویا آپ نے ان صفات کو شیر مادر کے ساتھ پیا.

Page 228

حیات احمد ۲۱۸ جلد اول حصہ دوم استغناء شجاعت اور جرات، صاف گوئی کے صفات آپ کو والد ماجد کی طرف سے ملے تھے تو مہمان نوازی ، جود وسخا اور ہمدردی عامۃ الناس حضرت والدہ مکرمہ کی طرف سے عطا ہوئی تھیں، فطرتاً ہر بچہ کو اپنی ماں کے ساتھ اور ماں کو اولاد کے ساتھ محبت ہوتی ہے ماں کی مامتا مشہور ہے.مگر حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ اپنے بیٹے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے لئے ایک سپر کا کام دیتی تھیں.حضرت مرزا صاحب چونکہ دنیوی تعلقات سے گونہ الگ رہتے تھے اور ان میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے اس لئے دنیا داروں کی نظر میں ایک ہوشیار دنیا دار کی حیثیت سے وہ مشار الیہ نہیں ہو سکتے تھے.آپ کا خاندان دنیوی حیثیت سے ایک نمایاں عزت و افتخار رکھ چکا تھا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں اپنی گزشتہ و رفته جا گیر و جائیداد کی باز یا گلی کے لئے کوشاں رہتے تھے اور حضرت مرزا صاحب کو ان امور سے کوئی دلچسپی نہ تھی اس لئے اس حیثیت سے وہ خاندان میں لائق اور قابل نہ سمجھے جاتے تھے بلکہ ملاں کہلاتے تھے.ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی دلجوئی اور تسلی کے لئے حضرت والدہ مکرمہ کے قلب کو بہت وسیع کر دیا ہوا تھا جو وجود دنیا داروں کی نظر میں نعوذ باللہ محض نکتا سمجھا گیا تھا حضرت والدہ مکرمہ اس نیکی اور سعادت مندی کو دیکھ کر ان پر شار ہو جاتی تھیں اور آپ کی آسائش اور آرام کے لئے ہر طرح کوشش کرتی رہتی تھیں.ان کی زندگی میں حضرت مسیح موعود کو کبھی ایسا موقعہ نہیں آیا کہ وہ گھر والوں کی بے پروائی کی وجہ سے تکلیف پائیں.حضرت کی عادت تھی کہ اپنی ضروریات اور حاجات کو مخلوق کے سامنے پیش نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ صبر و برداشت سے کام لیتے.اس لئے حضرت والدہ مکرمہ خاص احتیاط اور توجہ سے آپ کی ضروریات کا انصرام فرماتی تھیں اور حضرت اقدس کی ضروریات کا نہایت گہری نظر سے مطالعہ کرتی رہتیں اور ان کے کہنے کی نوبت نہیں آتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ حضرت اقدس اظہار نہیں کیا کرتے اس لئے پہلے سے انتظام رکھتی تھیں.حضرت والدہ صاحبہ کی مہربانیوں اور محبت کا حضرت مسیح موعود کے دل پر ایک گہرا اثر اور نقش تھا.والد صاحب کی گونہ بے اعتنائی کی تلافی مہر مادری نے کر رکھی تھی.

Page 229

حیات احمد ۲۱۹ جلد اول حصہ دوم حضرت مسیح موعود بر بِالْوَالِدَيْنِ مشہور ہی تھے.والد صاحب قبلہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے آپ نے اپنے آپ کو انتظام زمینداری اور پیروی مقدمات تک میں لگانے سے عذر نہ کیا تو حضرت والدہ مکرمہ کی اطاعت اور فرمانبرداری تو آپ کی بے نظیر ہی تھی گھر والے بھی اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ آپ کو حضرت والدہ مکرمہ سے بہت محبت ہے چنانچہ جب حضرت والدہ مکرمہ کا انتقال ہوا تو آپ قادیان سے باہر کسی جگہ تھے میراں بخش حجام کو آپ کے پاس بھیجا گیا اور اسے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ یکدم حضرت والدہ مکرمہ کی وفات کی خبر حضرت مسیح موعود کو نہ سنائے.چنانچہ جس وقت بٹالہ سے نکلے تو حضرت کو حضرت والدہ صاحبہ کی علالت کی خبر دی.یکہ پر سوار ہو کر جب قادیان کی طرف آئے تو اس نے یکہ والے کو کہا کہ بہت جلد لے چلو.حضرت نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ ان کی طبیعت بہت ناساز تھی.پھر تھوڑی دور چل کر اس نے یکہ والے کو اور تاکید کی کہ بہت ہی جلد لے چلو.تب پھر پوچھا اس نے پھر کہا کہ ہاں طبیعت بہت ہی ناساز تھی کچھ نزع کی سی حالت تھی خدا جانے ہمارے جانے تک زندہ رہیں یا فوت ہو جائیں.پھر حضرت خاموش ہو گئے.آخر اُس نے پھر یکہ والے کو سخت تاکید شروع کی تو حضرت نے کہا کہ تم اصل واقعہ کیوں بیان نہیں کر دیتے کیا معاملہ ہے تب اُس نے کہا کہ اصل میں مائی صاحبہ فوت ہو گئی تھیں.اس خیال سے کہ آپ کو صدمہ نہ ہو یک دفعہ خبر نہیں دی.حضرت نے سن كر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون پڑھ دیا.اور یہ خدا کی رضا میں محو اور مست قلب اس واقعہ پر ہر چند وہ ایک حادثہ عظیم تھا سکون اور تسلی سے بھرا رہا.حضرت والدہ مکرمہ کی دور اندیشی معاملہ فہمی مشہور تھی.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کے لئے وہ ایک بہتریں مشیر اور غمگسار تھیں اور یہی وجہ تھی کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب با وجود اپنی ہیبت اور شوکت و جلال کے حضرت مائی صاحبہ کی باتوں کی بہت پروا کرتے تھے.اور ان کی خلاف مرضی خانہ داری کے انتظامی معاملات میں کوئی بات نہیں کرتے تھے.بات بظاہر نہایت معمولی سمجھی جاسکتی ہے مگر حضرت مائی صاحبہ کی فراست اور حیا پروری کی یہ ایک عدیم النظیر مثال ہے.

Page 230

حیات احمد ۲۲۰ جلد اول حصہ دوم اس سیرت کے پڑھنے والوں کو معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک ہمشیرہ صاحبہ بی بی مراد بیگم صاحبہ تھیں جو بجائے خود ایک صاحب حال اور عابدہ زاہدہ خاتون تھیں.خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت وہ عین عنفوان شباب میں بیوہ ہو گئیں اور قادیان آگئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح ان کی زندگی ایک خدا پرست خاتون کی زندگی تھی.حضرت مائی صاحبہ کو جیسے حضرت مسیح موعود کے آرام و آسائش کا ہر طرح خیال ہوتا تھا اس خدا پرست خاتون کے لئے بھی وہ بہت دردمند اور محبت سے لبریز دل رکھتی تھیں اور ان کی بیوگی کے زمانہ میں اپنی ذمہ واری کی خصوصیات کو محسوس کرتی تھیں.ان حالات میں انہوں نے حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو مشورہ دیا کہ زنان خانہ میں وہ ہمیشہ دن کو تشریف لایا کریں.چنانچہ حضرت مرزا صاحب مرحوم کا اس کے بعد معمول ہو گیا کہ وہ صبح کو اندر جاتے اور گھر کے ضروری معاملات پر مشورہ اور ہدایات کے بعد باہر آ جاتے.حضرت مائی صاحبہ نے اپنے اس بیٹے اور بیٹی کے لئے اپنے تمام آرام اور آسائشوں کو قربان کر دیا تھا اور ان کے دن رات ان دونوں عزیزوں کے آرام کے انتظام میں بسر ہوتے تھے.اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے رحم اور کرم کرے اور اپنے فضل سے انہیں اس مقام پر اٹھائے جو اس کی رضا کا مقام ہے.آمین بہر حال حضرت اقدس نے ایسی شفیق اور مہربان ماں کی گود میں پرورش پائی تھی جو اپنی صفات عالیہ کے لحاظ سے خواتین اسلام میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں.اس خاتون کی عزت و وقار کا کیا کہنا جس کے بطن مبارک سے وہ عظیم الشان انسان پیدا ہوا جو نبیوں کا موعود تھا اور جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سلام کہا اور خدا تعالیٰ نے جس کے مدارج اور مناقب میں فرمایا: أَنْتَ مِنِّى وَ أَنَا مِنْكَ اس عظیم الشان انسان کی ماں دنیا میں ایک ہی عورت ہے جو آمنہ خاتون کے بعد اپنے بخت رسا پر ناز کر سکتی ہے.دنیا کی عورتوں میں جو ممتاز خواتین ہیں ان میں حضرت آمنہ خاتون اور حضرت چراغ بی بی صاحبہ ہی دو عورتیں ہیں جنہوں نے ایسے عظیم الشان انسان دنیا کو دیئے جو ایک

Page 231

حیات احمد ۲۲۱ جلد اول حصہ دوم عالم کی نجات اور رستگاری کا موجب ہوئے.ہاں یہ سچ ہے کہ ایک ان میں آقا تھا دوسرا غلام.مگر وہ اپنے کمال اتباع وفتا میں اس مقام پر پہنچ گیا کہ آقا کے تمام صفات و اخلاق کو اس نے اپنے اندر لے لیا تب وہ اسی کی چادر پہن کر آیا اور اس کا کامل مظہر اور بروز ہو کر اُسی میں گم ہو گیا اور تفریق و امتیاز کے مقام سے گزر گیا.پھر اس کا آنا اسی محسن و آقا کا آنا ٹھہرا.صلی اللہ علیہ وسلم.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مادر شفیق کی تربیت میں بہت سی نیکیاں اور اعلیٰ عادات حاصل کیں.ان دعاؤں کا تو ہمیں پتہ نہیں جو آپ اپنے والدین کے لئے کرتے ہوں گے مگر والدہ صاحبہ کی محبت کا ایک واقعہ اور جوش دعا کا ایک موقعہ میری اپنی نظر سے گزرا ہے.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود سیر کے لئے اس قبرستان کی طرف نکل گئے جو آپ کے خاندان کا پرانا قبرستان موسوم به شاہ عبداللہ غازی مشہور ہے راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ والدہ صاحبہ کی قبر پر آئے اور بہت دیر تک آپ نے اپنی جماعت کو لے کر جو اس وقت ساتھ تھی دعا کی.اور کبھی حضرت مائی صاحبہ کا ذکر نہ کرتے کہ آپ چشم پر آب نہ ہو جاتے.حضرت صاحب کا عام معمول اس طرف سیر کو جانے کا نہ تھا مگر اس روز خصوصیت سے آپ کا اُدھر جانا اور راستہ سے کترا کر قبرستان میں آکر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا کسی اندرونی آسمانی تحریک کے بدوں نہیں ہوسکتا.اسیری سے دست بردار ہو گئے دنیا کے گرفتارانِ شہرت کو ناموری کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حکام رس ہوں اور جس طرح ممکن ہو وہ سرکار دربار میں عزت و امتیاز حاصل کریں.مگر ان کی طبیعت ایسی باتوں سے بے نیاز اور بے پروا تھی.ایک مرتبہ وہ عدالت سیشن کے لئے اسیر منتخب ہوئے.اگر حضرت مسیح موعود کی جگہ کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو اس انتخاب پر بہت خوش ہوتا.اور اپنی ترقیات کے لئے اس کو ایک زینہ قرار دیتا مگر حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق کیا کیا؟ صاف انکار کر

Page 232

حیات احمد ۲۲۲ جلد اول حصہ دوم دیا اور درخواست کر دی کہ میں نہیں ہونا چاہتا.جس بات نے آپ کو اسیری سے دست بردار کر دیاوہی بات اصل مغز اور روح ہے آپ نے اسیسری کو اس لئے ناپسند کیا کہ مقدمات قتل میں اسیسر اپنی رائے زنی سے ایک ذمہ واری عند اللہ و عند الناس اپنے اوپر لیتے ہیں.وہ اصل حالات سے محض بے خبر ہوتے ہیں واقعات کا ایک سلسلہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کے متعلق انہیں کوئی یقینی اور صحیح علم نہیں کہ اس میں حق اور باطل کی آمیزش کہاں تک ہے اس لئے اگر ایک شخص کے جو فی الواقعہ بے گناہ ہے قاتل اور خونی ہونے کی رائے دیتے ہیں تو بے گناہ کو پھانسی دینے کے الزام میں جوابدہ ہونا پڑے گا.اور اگر گنہگار کو بے گناہ قرار دیتے ہیں تو ظَهِيرًا لِلْمُجْرِمِین ہوں گے.اگر چه اجتہادی نقطہ نگاہ سے اس سوال کا کوئی اور پہلو بریت کا ہو مگر حضرت مسیح موعود کی تقوی شعاری اور احتیاط کو دیکھنا چاہیئے کہ آپ نے ایک ادنی سے احتمال کی بناء پر بھی پسند نہ کیا کہ دنیا داروں کے نزدیک محبوب اور امتیاز کے نشان کو اختیار کریں.جس کے لئے اکثر آدمی روپیہ خرچ کرتے اور حصول کے لئے ہر قسم کی کوشش کرتے ہیں اسے وہ محض اس احتمال پر جس کی تاویل ہو سکتی ہے چھوڑ دیتا ہے کہ مبادا کسی بے گناہ کے قتل یا گنہگار کی حمایت نہ ہو جائے.جس طرح پر مدرسی کو آپ نے ایک نہایت باریک رعایت تقویٰ کی وجہ سے ناپسند کیا اسی طرح اسیسری کو بھی اسی رعایت تقویٰ سے نا پسند کیا اور انکار کر دیا.حضرت مسیح موعود بطور ایک کمیشن کے حضرت مرزا صاحب ان ایام میں جبکہ آپ اپنے والد صاحب مرحوم کے حکم کی تعمیل میں زمینداری معاملات کی نگرانی اور پیروی میں حصہ لینے پر مجبور ہوئے تھے.ایک مرتبہ ایک ناطہ کے مقدمہ میں کمیشن مقرر کئے گئے.میراں بخش نام ایک مغل آپ کے ساتھ تحقیقات کے لئے موقعہ پر گیا.حضرت مرزا صاحب نے سواری کا گھوڑا اور اس کے لئے دانہ بھی لے لیا.اور اپنی روٹی بھی ساتھ ہی لے لی.بظاہر گھوڑا سواری کے لئے لیا مگر اس پر سوار نہیں ہوئے پیدل ہی چلے گئے اور

Page 233

حیات احمد ۲۲۳ جلد اول حصہ دوم میراں بخش گھوڑا پکڑے ہوئے چلا راستہ میں اس کو کہہ دیا کہ تم سوار ہو جاؤ.چنانچہ میراں بخش نے سواری کا لطف اٹھایا اور حضرت مسیح موعود اس کے ساتھ ساتھ پیدل چلے گئے.جب موقعہ پر پہنچے تو فریقین نے ہر طرح آپ کی مدارت کی کوشش کی.اس لئے نہیں کہ آپ ان کے مقدمہ میں کمیشن تھے بلکہ اس لحاظ سے کہ آپ قادیان کے مشہور و معروف سردار اور رئیس کے بیٹے تھے مگر حضرت مرزا صاحب نے کہا کہ میں کھانے کے واسطے روٹی ساتھ لایا ہوں اور میرے گھوڑے کے لئے دانہ بھی موجود ہے مجھے صحیح صحیح واقعات مقدمہ کے بتادو اور کچھ ضرورت نہیں.میراں بخش کہتا تھا کہ میں نے اس عورت کو جس کی لڑکی کے ناطہ کا مقدمہ تھا الگ جا کر کہہ دیا کہ اس نے تو کسی کے گھر کا پانی بھی نہیں پینا گھوڑے کے لئے دانہ اور اپنی روٹی بھی گھر سے ساتھ لایا ہے.مجھ کو تم ایک روپیہ دے دو.وہ یہ بھی کہتا تھا کہ حضرت صاحب نے راستہ میں ہی مجھ کو منع کر دیا تھا کہ وہاں کسی سے کچھ مت لینا مگر میں نے چپکے سے ایک روپیہ لے لیا.یہ واقعہ بظاہر نہایت معمولی واقعہ ہو سکتا ہے مگر حضرت مسیح موعود کی دیانت اور امانت کے لئے ایک زبر دست گواہ ہے اور دوسروں کے آرام کو اپنے آرام پر مقدم کر لینے کی روح ان میں کام کرتی تھی ایک شخص جو بطور ملا زم ساتھ ہے اپنے گھوڑے پر سوار کرالینا اور آپ ساتھ پیدل چلنا ہر نفس کا کام نہیں عظمندوں کے لئے اس ایک واقعہ میں بہت سی کام کی با تیں مل سکتی ہیں.ایک بدمعاش سادھو کو نکلوا دیا ایک طرف آپ کی طبیعت میں دنیا کے بکھیڑوں اور جھگڑوں سے نفرت تھی مگر دوسری طرف دوسروں کی ہمدردی ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے اگر آپ کو مداخلت کرنے کی ضرورت پیش آتی تو مضائقہ نہ فرماتے.۱۸۷۷ء میں قادیان میں ایک بدمعاش سادھو کہیں سے آ گیا.اس کے پاس بڑی بڑی وزنی موگریاں تھیں اور وہ ان کے ذریعہ ورزش کرتا تھا.عوام اہل ہنود جو اپنی خوش اعتقادی یا صاف الفاظ میں ضعیف الاعتقادی میں مشہور ہیں اس کے متعلق خیال کرتے کہ : ان کی کچھ ہنومان کی کچھ ہے.کچھ جانگیہ ہوتا ہے.گویا اسے بڑا پہلوان اور شہر ورسمجھا جاتا تھا

Page 234

حیات احمد ۲۲۴ جلد اول حصہ دوم مگر دراصل وہ ایک غنڈہ اور بدمعاش انسان تھا.اس کے ارد گرد بھی ایسے لوگوں کا جمگھٹا ہونے لگا جو آوارہ مزاج تھے.بھائی کشن سنگھ جو حضرت اقدس کی تصانیف میں کیسوں والا آریہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود کے پاس طب پڑھنے جایا کرتا تھا.اس نے جا کر کہا کہ بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے اور مرزا غلام قادر صاحب نو کر آپ سے کچھ امید نہیں کیا کریں.اس پر فرمایا.بات کیا ہے؟ تب انہوں نے اصل ماجرا اور کیفیت سنائی جب حضرت کو معلوم ہوا کہ شہر میں ایک بدمعاش لوگوں کی بہو بیٹیوں کی آبروریزی کا موجب ہو رہا ہے اور فسق و فجور بڑھ رہا ہے آپ کو جوش آ گیا اور فوراً چوکیدار کو بھیج کر اسے حکم دیا کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ چالان کرا دوں گا.اس حکم اور ان الفاظ میں کچھ ایسی ہیبت اور رعب تھا کہ نہ تو اس بدمعاش کو اور نہ اس کے طرفداروں میں سے کسی کو حوصلہ ہوا کہ اسے ایک دن کے لئے بھی اور رکھ سکیں باوجود یکہ بارشوں کی وجہ سے شہر کے گرد پانی تھا مگر اسے اپنے بوریا بستر اور موگریاں وغیرہ اٹھوا کر بھاگتے ہی بنی اور اس طرح پر حضرت مسیح موعود نے شہر سے فسق و فجور کے ایک اڈا کو اٹھا دیا اور لوگوں کی آبرو بچالی.آپ بالطبع اور فطرتا اس قسم کی باتوں کو چونکہ سخت نفرت اور کراہت کی نظر سے دیکھتے تھے اس لئے ہر چند آپ کی عادت میں نہ تھا کہ وہ لوگوں کے معاملات میں دخیل ہوں مگر جب دیکھا کہ یہ ایک حیا سوز معاملہ ہے اور اس سے شہر کی اخلاقی حالت بگڑ کر عذاب الہی کا موجب ہوسکتی ہے اس وقت آپ نے مداخلت کرنے میں ذرا بھی تو قف اور تامل کرنا پسند نہیں فرمایا.قولنج زحیری اور اعجازی شفا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحت شروع ہی سے کچھ اچھی نہ تھی اور یہ ایک قدرتی بات تھی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی مسیح موعود کے نزول کی بابت فرمائی ہے اس میں اس کا دو زرد چادروں میں آنا بیان کیا گیا ہے اور زرد چادروں سے مراد دو بیماریاں ہیں جو حضرت مسیح موعود کو شروع سے لاحق تھیں.ایک دوران سر کی بیماری تھی اور ایک کثرت پیشاب کی.دورانِ سر کی بیماری

Page 235

حیات احمد ۲۲۵ جلد اول حصہ دوم آپ کو بہت پرانی تھی.بر داطراف ہو کر سخت تکلیف ہوتی اور اسی وجہ سے آپ عموما گرم لباس رکھتے تھے خیر یہ ذکر اور بحث تو انشاء اللہ دوسرے مقام پر ہوگی یہاں اس کی طرف صرف اشارہ کرنے کے بعد مجھ کو ایک واقعہ کا اظہار مقصود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی بعثت سے پہلے ایک مرتبہ قولنج زحیری ہوا اور اس عارضہ سے آپ ایسے بیمار ہوئے کہ کوئی امید جانبر ہونے کی باقی نہ تھی.انہیں دنوں میں مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کے والد شیخ رحیم بخش صاحب بٹالہ سے آپ کی عیادت کے لئے آئے اور انہوں نے آپ کی نازک حالت دیکھ کر یہ بھی کہا کہ آج کل یہ مرض وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے بٹالہ میں ابھی میں ایک جنازہ پڑھ کر آیا ہوں جو اسی مرض سے فوت ہوا.یہاں قادیان میں بھی میاں محمد بخش حجام جو میاں فضل دین احمدی کا باپ تھا اسی مرض سے بیمار ہو کر آٹھویں دن فوت ہو گیا.اس بیماری میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف خارق عادت طور پر آپ کو اعجازی شفا دی بلکہ آپ ہی اس کی دوا بتائی اور دعا بھی تعلیم کی.چنانچہ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ.یعنی اللہ تعالیٰ پاک ہے اور اپنے محامد کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ پاک اور برتر ہے.اے اللہ محمد اور محمد کی آل پر صلوۃ ہو.یہ دعا الہاما اسی وقت سکھائی گئی تھی حضرت نے خود اس علالت اور اعجازی علاج اور شفا کا ذکر اس طرح پر فرمایا ہے:- ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا.یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ بین سنائی.جب تیسری مرتبہ سورہ بین سنائی گئی تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اب وہ دنیا میں سے گزر بھی گئے دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے.اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار دمبدم حاجت ہو کر خون آتا تھا.سولہ دن برابر ایسی حالت رہی اور اس بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہو گیا حالانکہ اس کی مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری.جب بیماری کو

Page 236

حیات احمد جلد اول حصہ دوم سولہواں دن چڑھا تو اس دن بکلی حالت یاس ظاہر ہو کر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یسین سنائی گئی.اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہو گا.تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے سُبْحَانَ اللَّـهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ و عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ.اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں کو اور منہ پر اس کو پھیر کہ اس سے تو شفا پائے گا.چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا.اور میں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی گئی تھی.اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اِس حالت سے نجات ہو.مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکتی مجھے چھوڑ گئی.اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا.جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِشَفَاءٍ مِّنْ مِثْلِهِ - یعنی اگر تمہیں اس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفا پیش کرو.( تریاق القلوب صفحہ ۳۷٬۳۶.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۰۹٬۲۰۸)

Page 237

حیات احمد ۲۲۷ جلد اول حصہ دوم لالہ ملاوائل صاحب سے ابتدائی ملاقات اور تبلیغ اسلام کا پُر جوش فطرتی جذبہ لالہ ملا وامل صاحب (جن کا ذکر اس سیرت میں متعدد مرتبہ انشاء اللہ آئے گا ) اپنی ابتدائی ملاقات کا ذکر یوں بیان کرتے ہیں کہ میں پرائمری سکول قادیان کی تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور قادیان ہی میں میاں شمس الدین صاحب مرزا کمال الدین صاحب اور ایک اور استاد سے بطور خود تعلیم پایا کرتا تھا.مرزا صاحب کے پاس میری آمد و رفت قطعا نہ تھی.ایک روز عشاء کی نماز سے پہلے میں اپنے استاد مولوی پیر محمد صاحب مرحوم کے ہمراہ بڑی مسجد میں چلا گیا.مرزا صاحب نمازیں وہیں پڑھا کرتے تھے.مولوی پیر محمد صاحب سے انہوں نے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟ مولوی پیر محمد صاحب نے بتایا کہ لالہ سوہن لال صاحب کا بیٹا ہے.حضرت مرزا صاحب نے نماز عشاء سے پہلے مجھے اسلام کے متعلق تبلیغ کرنا شروع کی.اسلام کی خوبیوں اور دوسرے مذاہب کے مقابلہ پر تبلیغ کرتے تھے.میں نے ان میں سے بعض باتوں کا جو ہمارے مذہب کے خلاف تھیں جواب دینا چاہا.مولوی پیر محمد صاحب نے مجھے روک دیا تب میں استاد کا ارشاد سمجھ کر خاموش ہو گیا اور حضرت مرزا صاحب نے مجھے تبلیغ کر کے اپنی تقریر ختم کی.وہ نماز پڑھنے میں مصروف ہو گئے اور میں چلا آیا.کچھ دنوں کے بعد ایک صحاف (کتب فروش) قادیان آیا میں بھی کوئی کتاب لینی چاہتا تھا.میں اس کی تلاش میں حضرت مرزا صاحب کے مکانوں کی طرف چلا گیا اور اوپر اس چوبارہ پر جہاں حضرت مرزا صاحب عموماً رہتے تھے گیا.مرزا صاحب وہاں ٹہل رہے تھے انہوں نے مجھے دیکھ کر بلا لیا اور فرمایا کہ کبھی کبھی آ جایا کرو.چونکہ وہ ایک علم دوست اور نیک آدمی تھے میں نے ان کی صحبت کو پسند کیا.کیونکہ وہاں علمی اور اخلاقی باتوں کے سوا اور کچھ تو تھا ہی نہیں.پھر یہ تعلق اس قدر بڑھا کہ چھ ماہ کے اندر ہم بے تکلف واقف ہو گئے.اس کے بعد ایک مرتبہ حضرت مرزا صاحب نے مجھے فرمایا کہ شربتوں کی ضرورت رہتی ہے ملتے نہیں، میں نے کہا کہ میں بنا دیا کروں گا.چنانچہ میں نے سب سے پہلے ان کے لئے نیلوفر کا شربت تیار کیا.شربت عمدہ اور

Page 238

حیات احمد ۲۲۸ جلد اول حصہ دوم خالص تھا دوسرے لوگوں نے بھی مانگ شروع کر دی اور اس طرح پر میری دوکان عطاری کی چمک اٹھی.حضرت مرزا صاحب کا معمول تھا کہ وہ ظہر کی نماز بڑی مسجد میں پڑھ کر ٹہلنے لگتے اور میں اپنی دکان پر سے جب دیکھتا کہ آپ ٹہل رہے ہیں تو سمجھ لیتا کہ نماز سے فارغ ہو گئے ہیں چنانچہ میں بھی چلا جاتا اور برابر عصر تک وہ ٹہلتے رہتے اور گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہر قسم کی باتیں ہوا کرتیں مگر ان میں کوئی بات کبھی ایسی نہیں ہوتی تھی جو اخلاقی یا عرفی رنگ میں معیوب اور و قابل اعتراض ہو.عام طور پر مذہبی تبادلہ خیالات ہم لوگ کرتے.عصر کی نماز کے وقت میں چلا آتا اور وہ نماز پڑھ کر تشریف لے جاتے.پھر یہ وقت تبدیل ہو گیا فجر کی نماز کے بعد حضرت مرزا صاحب کی عادت تھی کہ تھوڑی دیر سو جایا کرتے اور اس کو ٹوری ڈھونکا کہا کرتے تھے اس نوری ڈھونکے کی حالت میں ہم دکان کھولنے سے پہلے وہاں جاتے اور آپ کو جا جگاتے.وہ آواز دینے پر فوراً بلاکسی اظہار ناراضگی یا تکاہل کے اٹھ بیٹھتے اور دریافت کرتے کہ کیا کیا خواب آئی ہے.اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہوتی یا انہیں آئی ہوتی تو بیان کرتے اور پھر تھوڑی دیر ٹھہر کر ہم آ کر اپنی دکانیں کھولتے سردیوں کے دنوں میں ۸ یا ۹ بجے کے قریب اور گرمیوں میں صبح ہی سیر کو چلے جاتے اور دو اڑھائی میل تک ہوا خوری کے لئے جاتے اور اس عرصہ میں واقعات جاریہ اور مذہبی معاملات پر تبادلہ خیالات ہوتا تھا.کبھی کبھی تفریح مگر نہایت پاک اور بے ضرر تفریح کی باتیں بھی ہوتی رہتی تھیں (انوسینٹ ریکری ایشن.ایڈیٹر ) بعض اوقات جب ہم مل کر بیٹھتے تو کہانیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا اور کہانیاں سنائی جاتی تھیں..ایڈیٹر لالہ ملا وامل صاحب نے میری تحریک پر جو کہانیاں سنائی ہیں جو حضرت صاحب انہیں سناتے تھے وہ میں بعد میں درج کروں گا.قارئین کرام کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ ابتدائی مجالس کسی قصہ گو یا افسانہ گو کی مجلس کا رنگ نہ رکھتی تھیں اور ان داستانوں کے سنانے سے آپ کی غرض تضیع اوقات نہ تھی اور نہ محض بچوں کی طرح دل بہلاؤ.بلکہ آپ ان داستانوں کے

Page 239

حیات احمد ۲۲۹ جلد اول حصہ دوم ذریعہ تبلیغ اسلام اور تعلیم اخلاق کا کام لینا چاہتے تھے.یہ کہانیاں جو آپ کہتے عموماً مثنوی مولانا روم کی حکایتیں ہوتی تھیں اور ان سے نتائج بھی نکالا کرتے تھے اور یا تذکرۃ الاولیاء کے تذکرے.اس کے سوا ان کہانیوں میں اور کچھ نہ ہوتا تھا.گہری نظر سے دیکھا جائے تو تکلیف سے نہیں بلکہ صاف صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ان رفقاء کو جو آپ کی صحبت میں آتے تھے.اسلام کی خوبیوں سے واقف و آگاہ کر کے دائرہ اسلام میں لانے کے خواہشمند تھے اور چاہتے تھے کہ وہ مسلمان ہو جائیں.ایک موقع شناس اور باخبر مبلغ کی طرح ( جو صرف انبیاء علیھم السلام کے رنگ میں رنگین ہو ) حکمت اور موعظہ حسنہ سے انہیں اسلام کی صداقت سے آگاہ کرنا چاہتے تھے چونکہ لالہ ملا وامل صاحب کی علمی واقفیت بہت محدود تھی اور اسی حیثیت سے وہ مذہبی معارف اور حقائق سے فائدہ اٹھا سکتے تھے.کہانیوں سے فطرتا انسان مالوف ہوتا ہے اس لئے آپ نے تبلیغ کے لئے کبھی کہانیوں کو اختیار کیا اور کبھی علمی اور عقلی پہلو سے کام لیا.اور پھر نور نبوت سے مذاق پیدا کرنے کے لئے ان لوگوں کو رویائے صالحہ سے دلچسپی کا سلسلہ شروع کیا.آپ کی غرض ان ملاقاتوں، ان کہانیوں اور ان تعلقات کے بڑھانے سے بجز اس کے اور کوئی نہیں پائی جاتی کہ آپ دل سے اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے شیدائی تھے اور چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح ان نو جوانوں کو ہدایت اسلام سے بہرہ یاب دیکھیں.ہدایت پانا یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور لالہ ملا وامل صاحب کی ملاقات اور تعلقات میں جو بات بدیہی طور پر نظر آتی ہے وہ تبلیغ اسلام ہی ہے.سب سے پہلی ملاقات اور محض ناواقفیت کی ملاقات اور اس میں بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آپ نے تبلیغ ہی شروع کر دی.لالہ ملا وامل صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ سمجھا تھا کہ شاید مسلمانوں کے ہاں عشاء کی نماز سے پہلے کسی دوسرے کو تبلیغ اسلام کرنا ایک ضروری فرض ہے کیونکہ مرزا صاحب نے نماز سے پہلے اس کام کو نہایت ضروری سمجھا.لالہ ملا وامل صاحب سے ملاقات اور

Page 240

حیات احمد ۲۳۰ جلد اول حصہ دوم تعلقات کا سلسلہ حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے تین مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے جس کی تشریح اخلاق وسیرت کے حصہ میں انشاء اللہ ہوگی.اول جوش تبلیغ.طریق تبلیغ.تالیف قلوب.غرض لالہ ملاوامل صاحب جو پہلی ملاقات میں دو بدو جواب دینے پر آمادہ تھے حضرت مسیح موعود کے تعلقات میں اس قدر آگے نکل گئے کہ اوقات مقررہ پر ضرور پہنچتے.اور اپنے کاروبار کی بھی چنداں پروا نہ کرتے.بے تکلفی میں بے لطفی کبھی کبھی اس بے تکلفی کی ملاقاتوں میں ناراضگی بھی ہو جاتی تھی.اور یہ ناراضگی صرف مذہبی معاملات میں ہوتی.باہم مذہبی مذاکرات اور مباحثات ہوتے رہتے تھے.لالہ ملاوامل کہتے ہیں کہ میں بھی کبھی ایسی سختی سے جواب دے دیتا جو برداشت نہ کرتے اور مجھے یہ بختی اس وجہ سے استعمال کرنا پڑتی تھی کہ وہ بھی سختی سے حملہ کرتے.تو پھر کئی کئی دن تک سلسلہ ملاقات بند ہو جاتا مگر آپ جمال نامی ایک کشمیری کو بھیج دیتے کہ جا کر بلالا ؤ اور میں بھی بلا تکلف چلا جاتا اور کبھی یہ خیال آتا ہی نہیں تھا کہ وہاں سے ناراض ہو کر آیا تھا.الْبُغْضُ لِلَّهِ وَالْحُبُّ لِلهِ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی محبت اور بغض اللہ ہی کے لئے تھا.کوئی ذاتی غرض درمیان نہ تھی ورنہ دنیا داروں کے جھگڑے اور تنازعات کا سلسلہ لمبا ہوتا ہے اور نفسانی جوش سے جو کبیدگی پیدا ہوتی ہے وہ کینہ کے رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے.یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اسلام کے خلاف آپ کوئی بات ایسے رنگ میں سن نہیں سکتے تھے جس سے ہتک اسلام مترشح ہو.حضرت مسیح موعود کی کہی ہوئی کہانیاں جن کہانیوں کا اوپر ذکر آیا ہے کہ حضرت مسیح موعود سنایا کرتے تھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض کو یہاں درج کر دوں جس سے قارئین کرام کو حقیقت کے سمجھنے میں آسانی ہوگی

Page 241

حیات احمد ۲۳۱ جلد اول حصہ دوم مگر اس سے پہلے کہ میں ان کہانیوں میں سے بعض کو یہاں درج کروں.اس امر کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کہانیوں کے ذریعہ تبلیغ اور تلقین آپ کی فطرت میں اسی طرح واقع تھا جس طرح انبیاء علیھم السلام کی فطرت میں ہوتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح ابن مریم کی تو عادت تھی کہ ہر ایک بات تمثیل ہی میں کہتے.انجیل اس کے لئے بہترین نمونہ موجود ہے بلکہ ایک مرتبہ حضرت مسیح ابن مریم سے کسی نے تمثیل کے متعلق سوال کیا تو اس کا جواب دیتے وقت بھی آپ نے تمثیل ہی شروع کر دی.حقیقت الامر یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض دنیا میں نیکی اور تقویٰ کا پیدا کرنا ہوتا ہے.اور یہ امر جس قدر شواہد اور نظائر سے پیدا ہو سکتا ہے محض قیاسات اور تصورات سے پیدا نہیں ہوتا ور نہ چاہیئے تھا کہ فلاسفر زیادہ متقی اور دیندار ہوتے.اس غرض کے لئے انبیاء علیہم السلام صلحاء اور نیکو کار لوگوں کے تذکروں سے لوگوں کو نیکی اور خدا پرستی کی طرف بلاتے ہیں.اور بدکاروں اور منکرین نبوت کے حالات اور انجام سے ڈراتے ہیں.قرآن مجید نے آپ اسی طرز کو اختیار کیا اور کہنے والے منکرین نے اسے اَسَاطِيرُ الأَوَّلین کہہ دیا.پس نبیوں کی غرض کہانیوں سے یہ کبھی نہیں ہوتی کہ وہ خالی بیٹھے ہوئے بیکار آدمیوں کی طرح نعوذ باللہ تضیع اوقات کریں بلکہ ان کا مقصد وحید صرف یہی ہوتا ہے اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فطرت میں تبلیغ اسلام کا جوش اس قدر تھا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ اس جوش میں میرا دماغ نہ پھٹ جاوے اور تبلیغ اور تلقین ہدایات اسلام کے لئے جو طریق آپ موزوں اور مناسب پاتے اس کو اختیار کرتے.عام فہم طریق کہانیوں اور تمثیلوں کا یہی ہے اس لئے یہ آپ کو ہمیشہ سے پسند تھا.اور اپنی تقریروں میں بھی تذکرۃ الاولیاء کی بعض حکایتوں کو بیان فرماتے.لالہ ملاوا مل صاحب وغیرہ آنے والے

Page 242

حیات احمد ۲۳۲ جلد اول حصہ دوم مؤلفۃ القلوب تک ہی یہ سلسلہ محدود نہ تھا بلکہ گھر میں بھی تبلیغ کے لئے اس طریق کو اختیار کرتے.اگر چہ ترتیب واقعات کے لحاظ سے شاید مجھے یہ بات بہت دور جا کر لکھنی چاہئے تھی مگر واقعات کی مناسبت کے لئے اس جگہ ہی اس کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی (جن کے عہد سعادت میں یہ سیرت میں مرتب کر رہا ہوں ) کو بھی آپ کہانیاں سنایا کرتے تھے اور ان کہانیوں سے آپ کی غرض شروع ہی سے صاحبزادہ موصوف کی دینی تربیت تھی آپ چاہتے تھے کہ اس کے دل و دماغ میں ان خیالات اور حالات کا ذخیرہ ہو جو انسان کو خدا پرست زندگی کی طرف لے جاتے ہیں ۱۸۹۸ء میں جب کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر کوئی نو برس کی تھی اور خدا تعالیٰ کے محض فضل وکرم سے خاکسار کو یہ عزت حاصل تھی کہ صاحبزادہ صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے ماتحت میرے گھر پر ابتدائی تعلیم کے لئے تشریف لایا کرتے تھے مجھے حضرت کی اندرونی زندگی کے متعلق خصوصیت سے دلچسپی ہوتی.میں نے صاحبزادہ صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت صاحب گھر میں کبھی کبھی وعظ کیا کرتے ہیں اور سردیوں کے دنوں میں تو عموماً ہر روز.اسی سلسلہ میں میں نے اُن سے وعظ کا مضمون دریافت کیا تو انہوں نے بعض وہ کہانیاں سنائیں جو آپ سنایا کرتے تھے.سلسلہ مخن ذوق میں دراز ہو رہا ہے میں پھر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تقریروں میں کہانیوں کے ذریعہ بچوں، عورتوں اور غیر مذاہب کے لوگوں کو تبلیغی دلچسپی پیدا کرتے تھے.لالہ ملاوامل صاحب نے جو کہانی بیان کی ہے اس کے مضمون اور مفہوم کو سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ میں نے مثنوی مولانا روم میں وہ کہانی ایک سکھ آشنا کو پڑھائی تھی.میں اس کہانی کو اور ان کہانیوں کو جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے ذریعہ مجھے ملی تھیں یہاں درج کرتا ہوں.لالہ ملا وامل کو سنائی ہوئی کہانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان کہانیوں میں سے ایک کہانی جو لالہ ملاوامل وغیرہ کی صحبتوں میں سنائی جاتی تھی ایک کہانی یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک نوجوان نے کہا کہ

Page 243

حیات احمد ۲۳۳ جلد اول حصہ دوم مجھے جانوروں کی بولیاں آ جائیں تو میں ان سے عبرت حاصل کر لیا کروں.موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ عبرت اور بیداری خدا کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ،اس خیال کو چھوڑ دو.اس میں خطرہ ہے مگر حضرت موسیٰ کے منع کرنے سے اس کو اور بھی شوق پیدا ہوا.اور بڑی التجا کی حضرت موسیٰ نے کہا کہ اس شخص کو شیطان نے فریب دیا ہے اگر اس کو سکھاتا ہوں تو اس کو نقصان ہو گا ورنہ اسے بد گمانی ہوگی.حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اچھا اس کو سکھا دو.غرض حضرت موسیٰ نے اس کو کتے اور مرغ کی زبان سے واقف کر دیا.دوسرے دن تجربہ کے لئے اس نے کتے اور مرغ کی آواز کی طرف توجہ کی.لونڈی نے دستر خوان جو جھاڑا تو رات کے بچے ہوئے ٹکڑے اس میں سے گرے مرغ نے جھٹ وہ اٹھا کر کھالئے.کتے نے اس کو کہا کہ تُو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا تو تو دانے وغیرہ کھا سکتا ہے میں نہیں کھا سکتا ہوں، مرغ نے اس کو کہا کہ تو غم نہ کر تجھ کو ان ٹکڑوں سے بہتر ملنے والا ہے.خواجہ کا گھوڑا مر جائے گا وہ گوشت سوائے کتوں کے اور کس کے کام آئے گا.اس نوجوان نے جب اس مکالمہ کو سنا تو جھٹ اس نے گھوڑا بیچ دیا.اور اس نقصان سے وہ بچ گیا.دوسرے دن پھر ایسا ہی اتفاق ہوا.مرغ نے وہ ٹکڑے کھا لئے اور کتے سے پھر سوال و جواب ہوا تو مرغ نے کہا کہ گھوڑا تو بے شک مر گیا ہے مگر دوسری جگہ جا کر کیونکہ اس نے بیچ دیا تھا.خیر کوئی فکر کی بات نہیں اب کل اونٹ مر جائے گا اور تمہاری عید ہو جائے گی.اس شخص نے اونٹ کو بھی بیچ دیا.تیسرے دن پھر دونوں میں مکالمہ ہوا.اور کتے نے اس کو الزام دیا.مگر مرغ نے پھر وہی جواب دیا کہ اونٹ بھی اس نے بیچ دیا ہے اور وہ دوسری جگہ جا کر مر گیا ہے، خیر کوئی بات نہیں کل اس کا غلام مر جائے گا.تو اس کی وفات پر کتوں اور عزیزوں کو نان ملیں گے.اس شخص نے غلام کو بھی بیچ دیا.اب وہ مرغ اس کتے کے سامنے چوتھے دن بہت ہی شرمندہ ہوا.مرغ نے کہا یہ مت خیال کر کہ میں نے جھوٹ کہا جو کچھ میں نے خبر دی تھی وہ بالکل درست تھی ہماری قوم تو بڑی راستباز ہے اور وقت کی نگران ہے اگر ہم کو بند بھی کیا ہوا ہو تب بھی ٹھیک وقت پر ہم اذان دیتے ہیں خیر جو کچھ بھی ہو گیا سو ہو گیا اب کل یہ خود مرے گا اور خوب تمہاری عید ہو گی.اگر یہ شخص گھوڑے یا اونٹ یا غلام کی پروا نہ کرتا تو

Page 244

حیات احمد ۲۳۴ جلد اول حصہ دوم آپ بچ جاتا.مگر اس نے مال کی پرواہ کی اور اپنی جان کی پروا نہ کی.درویش جو ریاضت کرتے ہیں.اس ریاضت سے ان کی روحانی زندگی بڑھتی ہے.کے غرض اس مرغ نے نہایت عمدہ رنگ میں اس مضمون پر بحث کی اور بتایا کہ کس طرح انسان بلاؤں سے بچ سکتا ہے.اس شخص نے چونکہ پروا نہیں کی اب یہ خود مرتا ہے.خواجہ یہ سن کر ڈرا اور بھاگتا ہوا حضرت موسیٰ کے پاس آیا.حضرت موسی نے کہا کہ اب تو اپنے آپ کو بیچ کر اگریچ سکتا ہے تو تجربہ کر لے.اپنے نقصانِ مال کو تو تو نے دوسروں کے نقصان مال پر ڈالا.اور آپ بچتا گیا مگر اب کیا چارہ ہے اب تو اس سے تو بچ سکتا نہیں، بہتر ہے کہ تو اپنے ایمان کو درست کر.اگر تو ایمان دار فوت ہوا تو مرے گا نہیں بلکہ زندہ ہی رہے گا.مومن دراصل مرتا نہیں زندہ رہتا ہے.غرض آخر وہ ایمان لایا اور اس طرح پر روحانی موت سے بچ گیا.یہ وہ کہانی ہے جو لالہ ملاوامل صاحب سناتے ہیں کہ انہیں سنائی گئی تھی.یہ کہانی اپنے اصل الفاظ میں مثنوی مولانا روم تیسرے دفتر میں موجود ہے جو میں انشاء اللہ نیچے درج کرتا ہوں.اس کہانی میں جیسا کہ اصل مکالمہ سے معلوم ہوگا.مرغ سے مراد اولیائے حق ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے بلانے سے بولتے ہیں.اور وہ اسرار الہی سے واقف ہوتے ہیں عوام ان کی اصلیت اور حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں اور جو باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں خصوصاً پیشگوئیوں کے متعلق ان پر معترض ہوتے ہیں بحالیکہ وہ کسی نہ کسی رنگ میں پوری ضرور ہو جاتی ہیں.پھر اس میں انبیاء علیہم السلام کی قبولیت دعا کے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بالآخر یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے مال و متاع کو آخرت پر مقدم نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان چیزوں کو زندگی کے لئے بطور خادم کے تصور کرنا چاہیئے نہ اصلی مقصود کے.اور حقیقی زندگی صرف ایمان سے پیدا ہوتی ہے.ایمان ہی ایک ایسی چیز ہے جس پر موت اور فنا کا ہاتھ قابو نہیں پاسکتا.پس لالہ ملا وامل صاحب اور ان کے ہم نشینوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس کہانی کے سنانے سے جو کچھ بھی مطلب ہوسکتا ہے وہ بالکل ظاہر اور نمایاں ہے اور لالہ ملاوامل صاحب نے اگر چہ اس سے اب تک فائدہ نہ اٹھایا مگر

Page 245

حیات احمد ۲۳۵ جلد اول حصہ دوم حضرت مسیح موعود کی غرض و غایت جو تبلیغ سے تھی وہ پوری ہوگئی.کیونکہ آپ نے ان کو حق پہنچا دیا.اب میں وہ اصل منظوم حکایت مثنوی سے بھی دے دیتا ہوں تا کہ قارئین کرام مزید لطف اٹھا سکیں.استدعا نمودن شخصی از موسیٰ علیہ السلام زبان بہائم را گفت موسی را یکے مرد جواں بیاموزم زبان عبرت حاصل کنم در دین جانوراں خود تا بود کز بانگ حیوانات و چوں زبانہائے بنی آدم ہمہ دریئے آبست نان و دمدمه بوک حیوانات را دگر ورد باشد از تدبیر ہنگام گذر گفت موسی رو گزر کن زیں ہوس کائیں خطر دارد بیسی در پیش و پس عبرت و بیداری از یزداں طلب نه از کتاب و از مقال و حرف و لب گفت اے موسیٰ چو نور تو بتافت ہر چه چیزی بود از تو چیز یافت گرم تر شد مرد زاں منعش که کرد گرم تر گردد ہے از منع مرد مر مرا محروم کردن زین مراد این زمان قائم مقام حق توئی یاس باشد گر مرا مانع شوی لائق لطفت نباشد اے سخره کردستش مگر جواد رجیم گفت موسیٰ یا رب این مرد گر بیاموزم زیاں کارش بود گفت ای موسی بیاموزش که ما نیاموزم دلش ور میشود رد نکردیم از کرم هرگز دعا گفت یارب او پشیمانی خورد نیست قدرت ہر کسی را سازوار دست خاید جاھا را پر ورد عجز کینز فقر زیں رو فخر آمد جاوداں که بتقوی ماند ماید پرہیز گار ! نارساں

Page 246

حیات احمد زاں غنا و زال ۲۳۶ جلد اول حصہ دوم مردود شد که ز قدرت صبر با پدرود شد آدمی را عجز و فقر آید اماں از بلائی نفس پر حرص و عمان آں غم آمد ز آرزو ہائی فضول کہ بداں خو کرده است آن صید غول آرزوئی گل بود گل خواره را گلشکر نگوارد آں بیچاره را بعد ازاں وحی آمد از حضرت که رو میگوید بلطف خود شنود هرچه بعد ازاں وحی آمد از حضرت که رو وحی آمدن از حق تعالی به موسی علیه السلام که بیا موزش چیزی را که استدعا میکند ہر چہ گفت یزداں کہ بده بایست او بر کشا در میگوید بلطف اختیار آں شنود وست او اختیار آمد عبادت را نمک ورنہ میگردد بنا خواہ ایں فلک گردش او را نہ اجر حساب جمله عالم خود مسنج آمدند ینه کا ختیار آمد ہنر وقت نیست آں تسبیح جبری مزد مند شیخ در دستش از بجرش بکن تا کہ غازی گردد او یا راهزن زانکه گرمنا شد آدم بی اختیار نیم زنبور عسل نیمش مومناں کان عسل زانکه مومن خورد بگزیده شربت از باز کافر خورد شربت الهام خدا اہل مار زنبوردار کافراں خود کان زہری ہمچو مار نبات تا محلی گشت ریق ریق او حیات صديد ہم ز قوتش زهر شد در وی پدید سم الممات عين الحيات اہل تسویل ہوا در جہاں ایں مدح و شاباش شاباش و زہے ز اختیار است و حفاظ جمله رنداں چونکہ در زندان روند متقی و ہیں کہ و آگہی زاہد حق خوان شوند , سرمایه نستاند اجل چونکہ قدرت رفت کلید شد عمل قدرت سرمایه سور سرت ہیں وقت قدرت را نگهدار و ہیں

Page 247

حیات احمد ۲۳۷ جلد اول حصہ دوم کف درکش عنان اختیار کرد چهر که مرادت زرد خواهد دادستت برائی مکر درس آدمی ر جنگ گر منا سوار در باز موسی داد پند او را بمهر ترک این سودا بگو وز حق بنترس دیو ہیں برو درد خود کم طلب سر کائیں مرادت افگند در قانع شدن آن مرد طالب بتعلیم زبان مرغ خانگی وسگ و اجابت کردن موسیٰ علیہ السلام او را صد تعب گفت باری نطق سگ گو بر در ست نطق مرغ خانگی کابل پرست گفت موسیٰ ھین تو دانی ژو رسید نطق ایں ہر دو شود تو پر پدید بامداد آں از برائی امتحان ایستاد او منتظر پر آستان خادمه سفره بیفشاند , فتاد بیات آثار پاره نان زاد در ربود آن را خروسی چون گرو گفت سگ کردی تو برما ظلم رو دانه گندم توانی خورد و من گندم و را , عاجزم در دانه خوردن در وطن تو توانی خورد و من که ای طروب باقی حبوب این لب نانی که قسم ماست آں می رہائی این قدر را از سگال جواب خروس سگ را پس خروش گفت تن زن غم مخور که خدا بدید عوض زیں دگر کسب اسپ ایں خواجہ سقط خواہد شدن روز فردا سیر خور کم کن حزن مر سگان را عید باشد مرگ اسپ روزی وافر بود بی جهد و اسپ را بفروخت چون بشنید مرد پیش سگ شد آن خروسک روئی زرد آن خروس و سگ بر او لب بر کشود روز دیگر همچناں ناں را ر بود کائے خروس عشوه ده چندین دروغ ظالمی اسپ , کاذبی و بے فروغ رکش گفتی سقط گردد کجاست کور اختر گوئی محرومی ز راست

Page 248

حیات احمد ۲۳۸ جلد اول حصہ دوم گفت اورا آن خروس باخبر که سقط شد اسپ او جائی دگر بر دیگراں اسپ را بفروخت جست او از زیاں آں زیاں انداخت او بر مر سگان را باشد آن نعمت فقط لیک فردا استرش گردد سقط زود استر را فروشید آں حریص یافت از غم وز زیاں آں دم و محيص گوس روز ثالث گفت سگ با آن خروس ای امیر کا زباں باطبل تا بکے گوئی دروغی بے فروغ روغی اے نااہل دوغی دوغ دوغ گفت او بفروخت استر را شتاب لیک فردایش غلام آید مُصاب چوں غلام او بمیرد نانها پر سنگ خواهنده ریزند اقربا ایں شیند و آن غلامش را فروخت رست از خسران و رخ را بر فروخت شکریا و شکر ها میکرد تا زبان مرغ شادیها که من رستم از واقعہ اندر زمن و سم سوء القضا سنگ آموختم دیده را خجل شدن خروس پیش سگ بسبب دروغ شدن سه وعده دوختم روز دیگر آن سگ محروم گفت کالے خروس ژاژخا کو طاق و جفت چند چند آخر دروغ و مکر تو خود نپرد جز دروغ از وکر تو گفت حاشا از من و از جنس من که بگردیم از ما خروساں چوں مؤذن راست گو ہم رقیب آفتاب دروغی ممتحن و وقت جو دروں گر کئی بالائی ماطشتے نگوں پاسبان آفتابیم از پاسبان آفتاب اند اولیا در بشر واقف ز اسرار خدا اصل مارا حق ہے بانگ و نماز داد ہدیہ آدمی را در جہاز گر بنا ہنگام سہو از し رود در آن مقتل ما اذاں میشود گفت نا ہنگام حَى عَلَى الفلاح خون مارا آنکه معصوم آمد و پاک از غلط آن خروس وحی جاں آمد فقط میکند خوارد مباح

Page 249

حیات احمد ۲۳۹ جلد اول حصہ دوم آں غلامش مرد پیش مشتری شد زبان مشتری آں یکسری او گریز ایند مالش را لیک یک زباں دفع زیانها میشدی خون خود را ریخت آن در یاب نیک جسم و مال ماست جانها را فدی پیش شاہاں در سیاست گستری می وہی تو مال و سر را می خری قضاء میگریزانی نی دادر مال را اعجمی چون گشته اندر زانکه مالت بر تو گر صدقہ شود آں زیاں نیست سود تو بود خبر دادن خروس از مرگ خواجه لیک فردا خواهد او مردن یقین گاؤ خواہد کشت وارث , در حنین روز فردانک رسیدت کوت رفت صاحب خانه بخواهد مرد رفت پار ہائی نان لا لنگ و و طعام درمیان کوئی یابد خاص و عام گاؤ قربانی و نانہائی تنگ برسگاں , سائلاں ریزد سبک مرگ اسپ و استر و مرگ غلام بد قضا گردان این مغرور خام از زیاں مال درد آن گریخت و این ریاضت ہائے درویشاں چراست تا بقائی خود کی مال افزوں کرد و خون خویش ریخت بر تن بقائی جانهاست کاں بلا بیند سالکے چون کند تن را سقیم و ہالکی دست جنبد بایثار و عمل تا بیند داده را جانش بدل آنکه بدید بی امید و سودہا آں خدایست آں خداییست آں خدا یا ولی حق که خوئی حق گرفت نور گشت تابش مطلق گرفت و کو غنی است و جز او جملہ فقیر کی فقیری بی عوض گوید که گیر تا این او پیاز گنده را ندهد ز دست نه بیند کودکی که ہمہ بازار بہر ایں غرض بر دکانها شسته پر ہوئی عوض متاع خوب عرضه میکنند اندرونِ دل عوضها , می تنند

Page 250

حیات احمد ۲۴۰ جلد اول حصہ دوم یک سلامی نشنوی ای مرد دین که نگیرد آخرت آں آستین بی می طمع نشنیده ام از خاص و عام من سلامی خانه جا بجا ای برادر والسلام و گو بگو جز سلام حق تو ہیں آنرا بجو خانه مشام از دہانِ آدمی خوش ہم پیام حق شنودم هم سلام ویں سلام باقیاں پر ہوئی آں من همی نوشم بدل خوشتر ز جان زاں سلام او سلام حق شدست کاتش اندر دودمان خود از دست مرده است آں خود شده زنده مردن برب زاں بود اسرار حقش در دو لب تن در ریاضت زندگی ست رنج این تن روح را پائندگی ست گوش بنهاده بدال بنهاده بدال مرد خبیث می شنید او از خروش این حدیث دویدن آن شخص بسوئی موسیٰ علیہ السلام بز نہار چوں خبر مرگ خود بشنید چوں شیند اینها رواں شد تیز و تفت پر در موسیٰ کلیم اللہ رفت گفت رو رو ہمی مالید برخاک او ز بیم که مرا فریاد رس زین ای کلیم پره پر چونکہ استا گشته بفروش خود را و جه ز پر مسلماناں زیاں انداز تو کیسه ہمیانها را کن دو تو و من درون خشت دیدم این قضا که در آئینہ عیاں شد مر ترا عاقل اول بیند آخر را بدل اندر آخر بیند از دانش مقل مر مرا بر سر مزن بر رو ممال باز زاری کرد کای نیکو خصال از من آن آمد که بودم ناسزا ناسزائیم را ده تو حسن الجزا گفت تیری جست از شست اے پسر نیست سنت کاید آں واپس بسر تاکہ ایماں آں زمان با خود بری لیک در خواہم ز نیکو داوری چونکہ ایماں برده باشی زنده چونکہ با ایماں روی پاینده

Page 251

حیات احمد ۲۴۱ جلد اول حصہ دوم ہم در اندام حال برخواجه بگشت شورش مرگ است نی ہیضہ طعام دلش شورید آوردند سودت دارد ای بدبخت خام چارکس بردند تا سوئی وثاق ساق می مالید او بر پشت ساق پند موسیٰ نشنوی شوخی کنی خویشتن بر شرم ناید تیغ را از تیغ فولادی زنی جان تو آن تست این برادر آن تو دعا کردن موسیٰ علیہ السلام جهت سلامتی ایمان آن شخص گفت موسی در مناجات آں سحر کای خدا ایمان از و مستاں مبر برو بادشاہی کن بخشا که او سہو کرو کرد و خیره روئی و غلو گفتمش این علم فی در خورد تست دفع پندارید دست بر اژدہا آں کس زند و که عصا را دستش اثر در ها کند ستر غیب آن را سرد آموختن که تواند لب ز گفتن دوختن در خور دریا نشد جز مرغ آب او والله اعلم بالصواب بدریا رفت و مرغابی نبود گشت غرقه دست گیرش آی ودود حضرت مسیح موعود کی کہی ہوئی دو اور کہانیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کہی ہوئی دو اور کہانیاں بھی میں یہاں درج کرتا ہوں اگر چہ وہ ۱۸۹۸ء کی ہیں مگر صرف تعلق مضمون کی وجہ سے میں انہیں یہاں دے رہا ہوں.یہ کہانیاں حضرت صاحبزادہ کو سنائی تھیں.گنجے اور اندھے کی کہانی ایک گنجا اور ایک اندھا تھا.خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر گنجے کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ تو کیا چاہتا ہے تو گنجے نے کہا کہ میرے سر کے بال ہو جاویں اور مال و دولت ہو جاوے.چنانچہ

Page 252

حیات احمد ۲۴۲ جلد اول حصہ دوم فرشتہ نے گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو خدا کی قدرت سے اس کے سر پر بال بھی نکل آئے اور مال و دولت اور نوکر چاکر بھی مل گئے.پھر اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تو کیا چاہتا ہے.اندھے نے کہا کہ میری آنکھیں روشن ہو جاویں تو میں ٹکریں کھاتا نہ پھروں اور روپیہ پیسہ بھی مل جاوے تو کسی کا محتاج نہ رہوں.فرشتہ نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ روشن ہوگئیں اور مال و دولت بھی مل گیا.پھر وہی فرشتہ گنجے اور اندھے کی آزمائش کے لئے خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک فقیر کے بھیس میں آیا اور گنجے کے پاس جا کر سوال کیا.گنجے نے ترش روئی سے جواب دیا اور جھڑک دیا اور کہا چل تیرے جیسے بہت فقیر پھرتے ہیں.فرشتہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر دیا اور پھر وہ گنجے کا گنجا ہو گیا.اور سب مال و دولت جاتا رہا اور پھر ویسا ہی تنگ حال ہو گیا.پھر وہی فرشتہ فقیر کی شکل میں اندھے کے پاس آیا جواب بڑا دولت مند اور بینا ہو گیا تھا اور سوال کیا.اس نے کہا سب کچھ اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے اور اس کا مال ہے.تم لے لو.اس پر پھر اللہ تعالیٰ نے اندھے کو اور بھی مال و دولت دیا.نتیجہ :.پس اے عزیز بچو تم بھی یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر کرو اور اس کی قدر کرو.اور سوالی کو جھڑ کی نہ دو.خیرات کرنا اچھی بات ہے اور سوالی کو دینا چاہیئے.اس سے خدا خوش ہوتا ہے اور نعمت زیادہ کرتا ہے.ایک بزرگ اور چور کی کہانی اللہ پر بھروسہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سلمہ اللہ الاحد نے فرمایا کہ جناب امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام نے ۵ ستمبر ۱۸۹۸ء کو بعد نماز عصر میری درخواست پر مجھے مندرجہ ذیل کہانی سنائی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرنا اور سچا تقویٰ انسان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ خود اس کا کفیل ہو جاتا ہے.اور ایسے طور پر اس کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے کہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی.چنانچہ حضرت نے (یعنی حضرت قبلہ ام) نے فرمایا کہ:-

Page 253

حیات احمد ۲۴۳ جلد اول حصہ دوم ایک بزرگ کہیں سفر پر جارہے تھے اور ایک جنگل میں ان کا گزر ہوا جہاں ایک چور رہتا تھا اور جو ہر آنے جانے والے مسافر کو لوٹ لیا کرتا تھا.اپنی عادت کے موافق اس بزرگ کو بھی لوٹنے لگا.بزرگ موصوف نے فرمایا.وَ فِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (الذاريت :۲۳) تمہارا رزق آسمان پر موجود ہے تم خدا پر بھروسہ کرو.اور تقویٰ اختیار کرو اور چوری چھوڑ دو.خدا تعالیٰ خود تمہاری ضرورتوں کو پورا کر دے گا.چور کے دل پر اثر ہوا.اس نے بزرگ موصوف کو چھوڑ دیا اور ان کی بات پر عمل کیا یہاں تک کہ اسے سونے چاندی کے برتنوں میں عمدہ عمدہ کھانے ملنے لگے.وہ کھانے کھا کر برتنوں کو جھونپڑی کے باہر پھینک دیتا.اتفاقاً وہی بزرگ کبھی ادھر سے گزرے تو اس چور نے جواب بڑا نیک بخت اور متقی ہو گیا تھا.اس بزرگ سے ساری کیفیت بیان کی.اور کہا کہ مجھے اور آیت بتلاؤ.تو بزرگ موصوف نے فرمایا کہ فِی السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ الْحَقُّ یہ پاک الفاظ سن کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اس کے دل پر بیٹھ گئی پھر تڑپ اٹھا اور اسی میں جان دے دی.“ پس اے عزیز جو تم نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے سے کیا کیا نعمتیں ملتی ہیں اور تقویٰ اختیار کرنے سے کیسی دولت ملتی ہے.غور کر کے دیکھو وہ خدا تعالیٰ جو زمین و آسمان کے رہنے والوں کی پرورش کرتا ہے.کیا اس کے ہونے میں کوئی شک وشبہ ہوسکتا ہے؟ وہ پاک اور سچا خدا ہی ہے جو ہم تم سب کو پالتا پوستا ہے پس خدا ہی سے ڈرو.اسی پر بھروسہ کرو اور نیکی اختیار کرو.یہاں پر کہانیوں کے سلسلے میں مجھے یہ بھی بیان کر دینا چاہیئے کہ بعض اوقات بچے بھی آپ کو کہانیاں سنانی شروع کر دیتے آپ بیٹھے سنتے.نہ اس لئے کہ آپ کو کوئی شوق تھا.بلکہ محض اس لئے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو.اور بچوں کی تربیت کے متعلق جو اصول آپ کے ہیں ان کے خلاف نہ ہو.حضرت مخدوم الملۃ مولانا مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :- ’بار ہا میں نے دیکھا ہے کہ اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چار پائی پر بیٹھے ہیں اور آپ کو مضطر کر کے پائنتی پر بٹھا دیا ہے.اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اور کوے چڑیا کی کہانی سنار ہے

Page 254

حیات احمد ۲۴۴ جلد اول حصہ دوم ہیں اور گھنٹوں سنائے جا رہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جارہے ہیں.گویا کوئی مثنوی ملائے روم سنا رہا ہے.“ یہ آپ کی طمانیت قلب کا ایک اظہار ہے.کہانیوں کے متعلق ایک بات اور کہہ کر سر دست یہاں میں اس سلسلہ کو ختم کر دیتا ہوں.حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ ۱۸۹۸ء کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:- آپ کے حکم اور طرز تعلیم اور قوت قدسیہ کی ایک بات مجھے یاد آئی ہے کہ دوسال کی بات ہے.تقاضائے سن اور عدم علم کی وجہ سے اندر کچھ دن کہانی کہنے اور سننے کا چسکا پڑ گیا.آدھی رات گئے تک سادہ اور معصوم کہانیاں اور پاک دل بہلانے والے قصّے ہو رہے ہیں.اور اس میں عادتاً ایسا استغراق ہوا کہ گویا وہ بڑے کام کی باتیں ہیں.حضرت کو معلوم ہوا.منہ سے کسی کو کچھ نہ کہا.ایک شب سب کو جمع کر کے کہا آؤ آج ہم تمہیں اپنی کہانی سنائیں.ایسی خدا لگتی اور خوف خدا دلانے والی اور کام کی باتیں سنائیں کہ سب عورتیں گویا سوتی تھیں جاگ اٹھیں.سب نے توبہ کی اور اقرار کیا کہ وہ صریح بھول میں تھیں اور اس کے بعد وہ سب داستانیں افسانہ خواب کی طرح یادوں ہی سے مٹ گئیں.“ ان واقعات کے سلسلے کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ تبلیغ و تلقین کے لئے ہر ایسے طریق کو اختیار کرتے جو مؤثر اور عام فہم ہوتا.کہانیوں کے کہنے سے کبھی آپ کی غرض بدوں ہدایت اور اصلاح کے کچھ نہ تھی.لالہ ملاوامل صاحب وغیرہ کے سامنے جو کہانیاں بیان کیں ان کی غرض بھی وہی تھی.صاحبزادہ صاحب کو سناتے ہیں تو وہی مقصد ہے.اور مستورات کو جمع کر کے جو کچھ فرمایا.اس کا نتیجہ بھی وہی ہے بچوں کی تربیت کہانیوں کے ذریعہ بھی آپ پسند فرماتے تھے.بچوں اور بچپن کے تذکرہ میں سخت فروگذاشت ہو گی اگر میں آپ کے بچپن کے ایک خاص واقعہ کا ذکر نہ کروں.اس سے معلوم ہو گا کہ آپ کی خواہش اس عمر میں جب کہ کھیل کود کے ولولے اور امنگیں 66

Page 255

حیات احمد ۲۴۵ جلد اول حصہ دوم ہوتی ہیں کیا تھی.یہ واقعہ کیا عجب ! بہت سے بچوں اور جوانوں کے لئے ہدایت کا موجب ہو.اور بہت سے بوڑھوں کے لئے تلافی مافات کے لئے استغفار اور توبہ کی طرف لے جاوے.بچپن میں ہی نماز کی خواہش تھی اور دعاؤں پر فطرتی ایمان تھا! تیرہویں صدی کی خصوصیتوں اور ملک کی رسمیت کے مؤثرات نے مسلمانوں میں دینی حرارت اور مذہبی بڑھی کو بہت ہی کم کر دیا تھا.نماز روزہ کے پابند اکسیر کا حکم رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود کا خاندان بھی ان اثرات سے خالی نہ تھا.ان کے گھر میں بھی بہت سی بدعات نے جگہ لے رکھی تھی.مگر آپ کی فطرت اور افتاد طبیعت ایسی واقعہ ہوئی تھی کہ بہت چھوٹی عمر میں آپ کو نماز کا شوق پیدا ہو گیا تھا.والدہ صاحبہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ابھی بچہ ہی تھیں.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم ہی کے گھر رہا کرتی تھیں کیونکہ ان کے والد مرزا جمعیت بیگ صاحب بھی یہاں ہی رہتے تھے وہ بھی حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو کبھی کبھی استاد کے پاس پڑھنے کے لئے چھوڑ نے جایا کرتی تھیں.یہ مکتب کہیں با ہر نہ تھا بلکہ گھر ہی کے ایک حصہ میں تھا یعنی دیوان خانہ کے ایک حصہ میں اس وقت نہ تو ان کے بچوں کی عمر شادی کے قابل تھی اور نہ گھر بھر میں کسی کے وہم وگمان میں تھا کہ آئندہ یہ دونوں بچے نکاح کے سلک میں منسلک ہوں گے.ان ایام میں حضرت مرزا صاحب ان کو کہا کرتے کہ : - نا مرا دے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے“ اس فقرہ میں کوئی خاص اثر اور قبولیت تھی کہ پورا ہو گیا.بچوں کو کھیل کود کا شوق ہوتا ہے.ان کی خواہشات اور آرزوئیں بہت سطحی ہوتی ہیں.مگر اس بچہ کو دیکھو کہ اس کو جو خواہش پیدا ہوتی ہے وہ بہت ہی کم بوڑھوں اور جوانوں کو بھی نصیب ہوتی ہے.اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ نماز کے لئے کیسا جوش اور تڑپ رکھتے تھے.اور یہ بھی کہ آپ دعاؤں کی قبولیت پر اسی وقت سے ایک ایمان رکھتے تھے.

Page 256

حیات احمد ۲۴۶ جلد اول حصہ دوم کھیل کود عام طور پر بچوں کو فطر نا کھیل کود سے پیچھپی ہوتی ہے اور یہ کبھی معیوب نہیں سمجھا گیا کہ بچے کھیل کود میں اپنا وقت صرف نہ کریں.بلکہ تعلیم و تربیت کے حامی یہی کہتے ہیں :.ایک نہ ایک وقت کھیلنا بھی ضرور چاہئے حضرت مسیح موعود کی فطرت اور طبیعت بالکل نرالی واقعہ ہوئی تھی.لہو ولعب کی طرف قطعاً توجہ ہی نہیں ہوئی.عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ آپ بچپن میں کبھی کھیل کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے.اس کا اثر طبیعت میں آخر تک باقی رہا (۱۵.فروری ۱۹۰۱ء کو قادیان کے مدرسہ تعلیم الاسلام کے لڑکوں کا گیند بلا کھیلنے کا میچ (مقابلہ ) تھا.بچوں کی خوشی بڑھانے کے لئے بعض بزرگ بھی شامل ہو گئے کھیل میں نہیں بلکہ نظارہ کھیل کے لئے اور فیلڈ ( میدان کھیل ) میں چلے گئے.حضرت اقدس کے صاحبزادے نے بچپن کی سادگی میں آپ کو کہا کہ ابا تم کیوں کرکٹ پر نہیں گئے؟ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ آپ پیر مہر علی شاہ گولڑی کے مقابلہ میں اعجاز المسیح لکھ رہے تھے.بچے کا سوال سن کر جو جواب دیا وہ آپ کی فطرتی خواہش اور مقصد عظمیٰ کا اظہار کرتا ہے.فرمایا: - میرا کرکٹ قیامت تک رہے گا ”وہ تو کھیل کود کر واپس آجائیں گے.مگر میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک باقی رہے گا.“ یہ الفاظ میں نے آپ کی کھیل کود کے ساتھ مناسبت یا عدم مناسبت کے اظہار کے لئے اس زمانہ سے لے لئے ہیں جو اس حصہ سیرت سے تاریخی رنگ میں دور ہے.مگر چونکہ بچپن میں بھی کھیل کو د سے دلچسپی نہ تھی اور ساری دلچپسی اللہ تعالیٰ سے تعلقات کے بڑھانے اور خدمت دین میں تھی اس لئے اس وقت بھی آپ وہ کھیل کھیل رہے تھے جو دنیا کے مذاہب باطلہ کو جیت لینے کا کھیل تھا.

Page 257

حیات احمد ۲۴۷ جلد اول حصہ دوم ان ایام میں جب کہ آپ کے کھیل کود کے دن تھے.اور آپ اس سے بالکل بے رغبتی ظاہر کرتے تھے.کسی کے وہم میں بھی یہ بات نہ آتی تھی کہ آپ اس کھیل میں مصروف ہیں جو نتیجہ خیز اور ابدی ہے.اس وقت تو کھیلنے والے بچے بھی آپ کو محض ناکارہ سمجھ کر کپڑوں کی رکھوالی کے لئے چھوڑ دیتے تھے.کہتے ہیں اس وقت کبڈی جب لڑکے کھیلتے تو مرزا امام الدین وغیرہ کبھی کبھی آپ کو کپڑوں کی حفاظت کے کام پر مقرر کر کے آپ کھیل میں مصروف ہو جاتے اور آپ بیٹھے ہوئے ان کی نگہبانی کرتے.بات بہت معمولی ہے مگر اس سے ایک عارف پتہ کی بات نکال لیتا ہے کہ آپ گویا اس وقت دنیا کے لباس التقویٰ کی حفاظت اور اصلاح کا کام اپنے ذمہ لینے والے تھے اور اس کا قرعہ اس رنگ میں آپ کے نام پڑتا تھا.اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ دوسرے بچے کھیلتے اور آپ ان میں ہار جیت کا فیصلہ کرتے یعنی ایمپائر یا حکم ہوتے.یہ پیش خیمہ اس امر کا تھا کہ آپ حکم عدل کے منصب پر خدا کی طرف سے مامور ہونے والے تھے.اس لئے جس رنگ میں بھی کوئی کام آپ کے سپرد ہوتا اس میں اسی منصب کا اثر باقی ہوتا تھا حتی کہ کھیل کے معاملہ میں بھی، آپ اگر چہ کھیلتے نہ تھے مگر جب کبھی آپ کسی کھیل کے وقت چلے جاتے یا لیجائے جاتے تو آپ کے سپر د دوہی کام ہو تے کھیل کا فیصلہ یا حفاظت اسباب.اور یہی دوامر تھے جو آئندہ آپ کی زندگی میں پیش آنے والے تھے.اللہ تعالیٰ کے دین (اسلام) کی حفاظت و تائید اور امور اختلافیہ اور غلط عقائد کی اصلاح اور ان کا فیصلہ.گویا قدرت پہلے دن سے ہی سے آپ کو اس منصب کے لئے تیار کر رہی تھی.کیا تکلف اور بناوٹ سے یہ باتیں پیدا ہوسکتی ہیں؟ کس کو خیال تھا کون جانتا تھا کہ یہ بچہ ان صفات عالیہ کا مالک ہو کر ان نعمتوں کا وارث ہو گا جو خدا تعالیٰ کے نبیوں کو دی جاتی ہیں اور یہ اس عظیم الشان منصب پر مامور ہو جائے گا جس کے لئے دوسرے انبیاء کے وعدے ہیں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے متعلق بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں.اگر کوئی شخص قلب سلیم

Page 258

حیات احمد ۲۴۸ جلد اول حصہ دوم لے کر ان واقعات میں غور کرے تو اس کے لئے بڑے بڑے سبق اور معرفت کی باتیں ان میں ملیں گی.جی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے.لالہ ملا وامل صاحب سے ناراضگی میں پیچھے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ کبھی کبھی لالہ ملا وامل سے ناراض ہو جاتے مگر یہ ناراضگی کبھی اور کسی حال میں کسی دنیوی معاملہ کے متعلق نہ ہوتی تھی بلکہ دینی غیرت کا نتیجہ ہوتی.اور آپ کو ناراض کرنے والی بات اگر کوئی ہو سکتی تھی تو وہ صرف حمیت دینی ہی ہوتی تھی.میں نے دوسری جگہ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا واقعہ لکھا ہے جس سے یہ حقیقت پورے طور پر ظاہر ہوتی ہے.حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ اپنے وسیع تجربہ کی بنا پر فرماتے ہیں:.ایک ہی چیز ہے جو آپ کو متاثر کرتی ہے.اور جنبش میں لاتی اور حد سے زیادہ غصہ دلاتی ہے وہ ہے هَتْكِ حُرُمَاتِ اللَّهِ اور اِهَانَتِ شَعَائِرِ اللَّهِ: فرمایا : ” میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا 66 مجھ پر آسان ہے بہ نسبت دین کی ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے.“ یہ امر واقعہ ہے اور اس کو حضرت صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کے واقعہ سے ملا کر غور کرو.ایسی غیرت اور حمیت نے ایک مرتبہ آپ کو لالہ ملا وامل صاحب سے سخت ناراض کر دیا وہ حمیت اور غیرت بہت بڑھ گئی اور آپ کے کلام میں تیزی زیادہ ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پر رفق کی ہدایت کی.حضرت مسیح موعود نے اس واقعہ کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نام ایک خط لکھتے ہوئے اعتقاف فرمایا.اور غرض یہ تھی کہ اس تقریب پر آپ مولوی صاحب کو انکساری اور فروتنی کی طرف توجہ دلا ئیں.چنانچہ آپ نے لکھا :- ” میرے خیال میں اخلاق کے تمام حصوں میں سے جس قدر خدا تعالیٰ تواضع اور فروتنی اور انکساری اور ہر ایک ایسے تذلل کو جو منافی نخوت ہے پسند کرتا ہے ایسا کوئی

Page 259

حیات احمد ۲۴۹ جلد اول حصہ دوم شعبہ خُلق کا اس کو پسند نہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بیدین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کے الفاظ استعمال کئے.غیرت دینی کی وجہ سے کسی قدر اس عاجز نے وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ پر عمل کیا.مگر وہ چونکہ ایک شخص کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی.اس لئے الہام ہوا کہ :- تیرے بیان میں سختی بہت ہے.رفق چاہئے رفق“.اگر ہم انصاف سے دیکھیں تو ہم کیا چیز ہمارا علم کیا چیز ؟ اگر سمندر میں ایک چڑیا منقار مارے تو اس سے کیا کم کرے گی.ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ جیسے در حقیقت 66 ہم خاکسار ہیں.خاک ہی بنے رہیں.ہمارے لئے ایسی عزت سے بے عزتی اچھی ہے.جس سے ہم مورد عتاب ہو جائیں.“ اس سے آپ کی صاف دلی بھی عیاں ہے کہ ایک امر جو آپ کی سختی کا مظہر تھا اس کے بیان کرنے میں آپ نے مضائقہ نہیں فرمایا.لالہ ملا وامل صاحب سے یہ ختی چونکہ خدا تعالیٰ ہی کی رضا کے لئے تھی اور اس کے دین متین کی غیرت کے لئے تھی.اس واسطے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو رفق کی ہدایت فرمائی.تو پھر آپ نے لالہ ملا وامل صاحب کے ساتھ نرمی سے پیش آنا پسند فرمایا.اور ان کو بلوالیا.وہ بھی چونکہ محسوس کرتے تھے کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ مذہبی غیرت سے کہا ہے نہ کسی ذاتی بغض یا عداوت کی بنا پر اس لئے قطعاً اس کو بُرا نہیں منایا.اور پھر بلانے پر چلے گئے اور اسی طرح بے تکلفی سے جاتے رہے.قیام سیالکوٹ کے مزید واقعات اور بر دینار اور معجز نما زندگی کے عجائبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی ایک اعجازی زندگی ہے.آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اسی طرح ہوتا رہا ہے جس طرح پر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوتا رہا ہے.چونکہ آپ دنیا

Page 260

حیات احمد ۲۵۰ جلد اول حصہ دوم کے لئے ایک نافع الناس وجود تھے اس لئے اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ کے ارشاد کے ماتحت بعض اوقات خارق عادت طور پر موت کے منہ سے بچائے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور ایک مرتبہ ایک دوست کا خط پیش ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جو آگ ٹھنڈی ہوگئی تھی آیا وہ فی الواقعہ آتش هیزم تھی یا کہ فتنہ و فساد کی آگ تھی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے اپنی زندگی کے بعض واقعات بیان فرمائے جو قیام سیالکوٹ کے زمانے کے تھے اور ان واقعات کو پیش کر کے یہ بتایا کہ فی الواقعہ آتش ہیزم بھی ٹھنڈی ہو سکتی ہے.چنانچہ فرمایا کہ فتنہ و فساد کی آگ تو ہر نبی کے مقابل میں ہوتی ہے اور وہی ہمیشہ ایسا رنگ پیدا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک معجز نما طاقت اپنے نبی کی تائید میں اس کے بالمقابل دکھاتا ہے ظاہری آتش کا حضرت ابراہیم پر بر دکر دینا اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی مشکل امر نہیں اور ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ان واقعات کی اب بہت تحقیقات کی ضرورت نہیں کیونکہ ہزاروں سال کی بات ہے، ہم خود ایسے زمانہ میں ایسے واقعات دیکھ رہے ہیں اور اپنے اوپر تجربہ کر رہے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے جب کہ میں سیالکوٹ میں تھا تو ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہو گیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا اُسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اُس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ اردگرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا.بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جا کر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہو گیا.دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اس کو جلا دیا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی.ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات میں ایک مکان کی دوسری منزل میں سویا ہوا تھا.اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے رات کے وقت شہتیر میں تک تک کی آواز آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا الرعد : ۱۸

Page 261

حیات احمد ۲۵۱ جلد اول حصہ دوم چاہیئے انہوں نے کہا کہ کوئی چوہا ہو گا.خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سب سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پرواہ نہ کی پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا.اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا.ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اور وہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور سب بچ گئے.یہ خدا تعالیٰ کی معجز نما حفاظت ہے.جب تک کہ ہم وہاں سے نکل نہ آئے شہتیر گرنے سے محفوظ رہا.ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مرا ہوا پایا گیا.اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا مگر ہر دو بار خدا نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا.ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی مجھے خبر بھی نہ ہوئی.ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلا یا اور آگ کو بجھا دیا.خدا تعالیٰ کے پاس کسی کے بچانے کی ایک راہ نہیں بلکہ بہت راہ ہیں آگ کی گرمی اور سوزش کے واسطے بھی کئی ایک اسباب ہیں اور بعض اسباب مخفی در مخفی ہیں جن کی لوگوں کو خبر نہیں اور وہ اسباب خدا تعالیٰ نے اب تک دنیا پر ظاہر نہیں کئے جن سے ان کی سوزش کی تاثیر جاتی رہے.پس اس میں کون سی تعجب کی بات ہے کہ حضرت ابراہیم پر آگ ٹھنڈی ہوگئی.“ بات میں بات گو یہ ۱۹۰۳ء کی بات ہے لیکن اسی سلسلہ مضمون سے تعلق رکھتی ہے اس لئے میں اس کو یہا محض اسی تعلق کی وجہ سے لکھ دیتا ہوں.دھرم پال نامی ایک شخص نے آریہ ہو کر ترک اسلام ایک کتاب لکھی اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی برد کنار پر بھی اعتراض تھا.امرتسری منکر مولوی ثناء اللہ نے اس کتاب کا جواب بنام ترک اسلام لکھا.اور اس میں اپنے اندرونی عناد اور بغض سے بلا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر بھی کسی موقعہ پر کیا.اور لکھا کہ ان کو آگ میں ڈال دو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور یہ واقعہ پیش کیا گیا.اور تقریب یہ پیش آئی کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی اس مرتد و تارک اسلام کا جواب لکھ رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 262

حیات احمد ۲۵۲ جلد اول حصہ دوم نے فرمایا کہ ہم کو تو اللہ تعالیٰ کی وحی نے بتا دیا کہ قُلْنَا يَا نَارُ كُوْنِي بَرْدًا وَّ سَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيم اور آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ دشمن ایسی کوشش کریں تو خدا تعالی کی بات ہی کچی ہوگی اور مولوی صاحب کو فر مایا کہ آپ اس کو اپنی کتاب میں لکھ دیں چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح اول نے اپنی کتاب میں صفحہ ۱۴ سے ۱۴۷ تک اس مضمون کو کھول کر لکھا.فطرت میں دوسروں کی ہمدردی کا جوش سیالکوٹ کے واقعہ سے جو مکان کے گرنے کا ہے.جہاں حضرت مسیح موعود کی معجز نما زندگی کا ثبوت ملتا ہے.وہاں دو اور عجیب باتیں بھی ثابت ہوتی ہیں.اوّل آپ کا دوسروں کی ہمدردی میں خارق عادت جوش.دوم آپ کا خارق عادت استقلال اور شجاعت.ان خواب غفلت میں سونے والوں کی بے پرواہی نے آپ کو بار بار اٹھانے اور تاکید کرنے سے گھبرایا نہیں انہوں نے اگر ایک بار توجہ نہیں کی تو دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ انہیں آنے والے خطرہ سے آگاہ کیا.اگر دوسروں کی ہمدردی کا جوش آپ کے اندر نہ ہوتا تو ایک مغلوب الغضب یا خود غرض شخص کی طرح یہ خیال کر کے کہ یہ میری بات سنتے نہیں ان کو چھوڑ کر آپ چلے جاتے اور آپ کہہ دیتے کہ اچھا نہیں نکلتے تو جاؤ اپنا سر کھاؤ اور جان دو مگر نہیں بار بارا ٹھایا اور جب تک انہیں وہاں سے نکال نہیں لیا اُس وقت تک اس مکان سے آپ نہیں گئے.پھر انسان کی عام عادت ہے کہ خطرہ کے مقام سے وہ سب سے پہلے بھاگتا ہے اور اپنے نفس کو مقدم کرتا ہے لیکن یہ فطرت انبیاء کی فطرت ہے کہ جب تک خطرہ کے مقام سے دوسروں کو نکال نہ لیں آپ نہ ہیں.یہ قوت قلبی ہر شخص کو نہیں مل سکتی.معمولی رنگ میں بشریت کا یہی تقاضا ہوتا ہے کہ اپنی جان بچائے.مگر دیکھو کہ حضرت مسیح موعود اس خطرہ کے مقام پر آخری ساعت تک کھڑے رہے اور غرض یہ تھی کہ تا اطمینان کے ساتھ دوسرے نکل جاویں.اور جب سب نکل چکے تو آپ ایسے وقت نکلے ہیں کہ خطرہ بہت قریب تھا.آپ نے کوئی سراسیمگی یا بدحواسی ظاہر نہیں کی.

Page 263

حیات احمد ۲۵۳ جلد اول حصہ دوم لالہ بھیم سین کو ایک تبلیغی محط اور مسئلہ ویدانت و بت پرستی کی تردید سورہ فاتحہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سورہ فاتحہ کا جو ائم الکتاب ہے خاص علم دیا گیا تھا.آپ تمام مذاہب باطلہ کی تردید اسی ایک سورت سے کرنے کی معجز نما قدرت رکھتے تھے.اس کا نمونہ آپ کی تقریروں میں عام طور پر پایا جاتا ہے.اور براہین احمدیہ میں خصوصیت سے اس امر کو دکھایا گیا ہے.لالہ بھیم سین صاحب سے اس سیرت کے پڑھنے والے واقف و آگاہ ہو چکے ہیں.لالہ بھیم سین صاحب ایک نیک دل اور خوش اخلاق انسان تھے.حضرت مسیح موعود سے آپ کو ایک محبت اور وداد کا تعلق تھا.ان کے پرانے کاغذات میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر عالی جناب لالہ کنور سین صاحب ایم.اے پرنسپل لاء کالج لاہور خلف الرشید لالہ بھیم سین آنجہانی کی کرم فرمائی سے مجھے ملی ہے.جو آپ نے لالہ بھیم سین صاحب کو لکھی تھی.اس تحریر کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مخاطب دوست کی کس قدر عزت اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی تعریف کرتے ہیں.اور اس سلسلہ میں آپ کس طرح پر ان کو اسلام کے اعلیٰ اور اکمل مذہب ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہیں.میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ ان واقعات کو اس حصہ میں جمع کرنا مقصود ہے.آپ کے اخلاق اور صفات پر بحث کے لئے ایک جلد اس کتاب کی مخصوص کی گئی ہے جس میں ان واقعات کی طرف اشارہ کرنا ہو گا.یہ خط جہاں تک میں خیال کرتا ہوں (اگر چہ اس پر کوئی تاریخ نہیں) کم و بیش آج سے نصف صدی پیشتر کا ہو گا.اس سے اندازہ ہو سکتا ہے.کہ اس وقت آپ کی توجہ تبلیغ اور اظہار الدین کی طرف کس درجہ تک مائل تھی یہ فارسی زبان میں ہے.اور اصل الفاظ میں میں اسے درج کرتا ہوں قبل اس کے کہ اسے درج کروں میں لالہ کنورسین صاحب ایم.اے کے الفاظ میں اس مضمون کا شان نزول لکھ دینا چاہتا ہوں.یہ مضمون بقول قبله والد ماجد مرزا صاحب نے ان ایام میں اپنے دوست میرے والد صاحب کی خاطر لکھا تھا جبکہ ہر دو صاحب سیالکوٹ میں مقیم تھے اور علاوہ مشاغل قانونی وعلمی کے اخلاقی و

Page 264

حیات احمد ۲۵۴ جلد اول حصہ دوم روحانی مسائل پر بھی غور و بحث کیا کرتے تھے.اس سے اس زمانہ کے مشاغل کا عام پتہ ملتا ہے بہر حال وہ مضمون یہ ہے.هذا كِتَابٌ رَحْمَةُ اللهِ عَلَى قَائِلِهِ وَ قَابِلِهِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (1) حمد را با تو نسبتیست درست بر در هر که رفت بر در تست (۲) اما بعد مخاطب من کسے است که طالب حقیقت است و بر صدق و عدل قائم مے ماند.(۳) و در محافل مغرور و تعصب نے نشید و برنخن ہنرل و استہز ا گوش نمے نہد.و بر صلاح (۴) مکاران نمی رود و آرزومند پیروی اراده خداست - بدان ارشدک اللہ تعالیٰ.(۵) که در دفاتر قوم ہنود حق پژوهی و حقیقت گزاری بس نایاب وہم پرستی نموده اندو افسانہ ہائے (1) نا بوده بر نوشتہ.گرو ہے برآنند که ایز دبیہماں را انبار نمی گیریم.(۷) آنکه بر هما وبشن و مهاد یورا خدا میدانیم از میں خیال است که ایز دبیچوں بدین (۸) سه پیکر مجسم شد و غبارے بد امن وحدت او نه نشت.و آنکه برگا نگان طعنِ (۹) بُت پرستی می کنند نه چنین است بلکه پیکر یکے را از میں ہر سہ صورت پیش نہاد چشم (۱۰) سے سازیم تا اویش را از پراگندگی باز داریم و دل را که خواهش دیدار میکند تکمیل آرزو کنیم.(۱) و پایه پایه از مثال پرستی وا پر داختہ بدریائے حقیقت در شویم وبت) (۲) وقت عبادت ہمچو عینک است بیش نیست و قومے دگر آں ہر سہ اشخاص را ملائک میدانند (۳) و میگویند که بر هما عبارت از جبریل آمده که پیدا کننده است و بشن عبارت از اسرافیل آمده (۴) که نگهدارنده است و در یعنی مهاد یو عبارت از عزرائیل آمده که فنا کننده است (۵) وخدائے عالمیان دیگر است که از تعدد و زادن و زائیدن برتر است و این قوم خدا را (1) معدوم الصفات میداند واللہ اعلم و خود را بیدانتی مے نامند گو کہ ایں فرقہ بلحاظ بادی الرائے (۷) از دیگر فرقہ ہائے ہنود خیلے مائل صلاحیت است مگر آنکس که براستی دل و آزادی فکر تامل میکند

Page 265

حیات احمد ۲۵۵ جلد اول حصہ دوم (۸) معلوم او خواهد بود که چه قدر جائے آویز شبهاست و در حقیقت مذہب بیدانتیاں (۹) ہمیں است که عالم را صانعی هست اما صفت ندارد و تا خیرات که در عالم هست از وسایط هست (۱۰) نہ ازاں ذات و معلوم می شود که در اصل مذہب ہمہ ہنود ہمیں بود بعد ازاں قومی از جہلاء (۱۱) آں ہر سہ ملائیک را فی الحقیقت خدا گمان برده خود را در بت پرستی انداخته چو (۱۲) این مقامات مبالغه کردن از لوازم لا ینفک عوام است - (۱۳) هر چند نتیجه عقیدہ ثانی بت پرستی است مگر خدائے کامل الصفات خالق مطلق را (۱۴) معدوم الصفات پنداشتن کم از بت پرستی نیست - لعنة الله عليهم وَاحِدًا وَاحِدًا (۱۵) از انجا که از ما این استفسار است که تعریف بت پرستی چیست و کدام شے ایشان را بت پرست می گرداند وا جب آمد که تحریرش کنیم - باید دانست که پرستش نتیجه عقاید است و عقاید اہل حق ایں است که خدا یکی است و صفات او جلشانہ بر یکے انداز ست نه صفاتش را تبدل است و نه تغییر است و نه فتا است و نه حدوث است.خدائے راستو حق ابدی سرمدی خدا مخلوق نیست که متولد شود ازاں صفات برتر است که دل ما از تسلیم آنها نفرت کند صفات او آرام گاه دلِ ما است و دل ما مانوس صفات اوست از ازل واحد است کدام دل است که منکر وحدت اوست از ابد یکی است و کدام دل است که مقر تثلیث اوست.اے بے خبر مرو ز ره راستی بروں واقعہ دل یہ ہیں کہ چہ تحریر کرده اند تامل در آئینه دل کنی صفائی بتدریج حاصل کنی وقتیکه او جلوه خواهد داد آن کیست که انکار او خواهد کرد و در فطرت اولین همه کس را جلوه داد همه کس اقرار الوهیتش کردند و کلامش شنیدند و آن در دلها نشست و قرارگاه دلها شد از بینجاست که هرگاه انسان اراده حقیقی دل خود در یابد می داند که تا وقتیکه اقرار آن واحد لطیف نکند گنہ گار است لیکن چونکه عقل را بطور خود و نگذاشته اند بلکہ وہم و خیال دنبال آن گرفته و از ادراک اکثر امور عاجز ومعطل مانده عقل بمنزله بصارت بود اما در تاریکی وهم و خیال گرفتار خدائے کریم از نہایت رحمت خود

Page 266

حیات احمد ۲۵۶ جلد اول حصہ دوم آفتاب کلام خود فرستاد و باید دانست که عقل را برائ دانستن وحدت خدا و راستی کلام او حاجت چیزے نیست از بینجاست که بر غافلان جزیرہ نشیناں کہ ندائے رسالتِ نبوی تا گوش اوشاں نرسیدہ تکلیف ایمان این قدر ہست که خدا را واحد دانسته باشند و اگر بت پرستی خواهند کرد معذب بعذاب الہی خواهند شد گو کہ ندائے رسالت نبوی تا گوش اوشاں نرسیده باشد اکنوں شکر این نعمت عظمی بر ما لا زم است که ما از یاد حق غافل شده بودیم و بایس تمثیل رسیده بودیم که دوستے را دوستے گفت کہ بغلاں شب و در فلاں محفل نزد من حاضر باشی اینک برائے یاداشت دامنت را گره میدهم پس آن دوست را هر وقت گره دامن یاد مے دہانید و او اگر چه دراں محفل رسید مگر از باعث تیرگی شب در تلاش دوست ضبط می نمود آخر کار دوست او بروے رحم کردہ برائے او شمع فرستاد پس او بر ہبری شمع بکمال آسانی تا در دوست رسید پس شکر کردن این نعمت عظمی را کہ خدائے کریم و رحیم بر مابندگان ارزانی فرمود عبادت سے نامند و نعمت این است که اول ما را از عرصه عدم بوجود آورده بعده خود را بر ما جلوه دا داه اقرار وحدت خود در دل ما نشان کرد و کلام خود تا گوش ما رسانید باز آفتاب کلام خود بر ما فرستاد.اما جواب این امر کہ ذات کامل الصفات را با ستایش مخلوق چه افتخار این است که حق تعالیٰ محبت کمال ذات و صفات خود تقاضا میفرماید که هر که خالی از نقصان نباشد برائے او تذلیل کند بخو یکہ فواید آن با فریده باز گردد و موجب بقاء انواع مخلوقات شود پس عبادت چنانچہ حکمت کل را مقتضا است همچناں متقضائے صورت نوعی انسان است و طریق خدا پرستی بتمامه در سورۃ فاتحه بیان شدہ از ہمیں سبب است که در هر رکعت نماز خواندن آن واجب گردیده و ترک آن مبطل صلوۃ آمده اکنوں معنے آں سورۃ مقدسہ بیان میشود که تا حقیقت خدا پرستی دانسته باشی.قولہ تعالیٰ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.حمد است خدا ئے را کہ رب ہم عالم باست الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مہربانی بر مہربانی کننده - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ بادشاہ روز عدالت - اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.ترا عبادت میکنیم و از تو مدد میخواهیم.یعنی عبادت کردن کار ما است و بدرجه قرب و معرفت رسانیدن کارنست -

Page 267

حیات احمد ۲۵۷ جلد اول حصہ دوم چنانچه در آیت مابعد تفصیل معنی مددگار یست که خود تعلیم میفرماید اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - تو ہدایت کن ما را راه راست راه کسانیکه بدرجه معرفت رسانیدی آنها را کسانیکه برایشان خشم نمے گیری کسانیکه از تو دور نیستند.باید دانست که در آیات ما قبل اِيَّاكَ نَعْبُدُ تعلیم معنی عبادت است و در آیات ما بعد إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تعلیم معنی استعانت یعنی مدد خواستن است چنانچه بر ناظر بصیر مخفی نیست اکنون در ذیل این کلام ازالہ اوہام بت پرستان تحریر میشود که سابق ذکر کرده شد در صفحه اول سطر هفتم و هشتم این رساله میگویند که ایز دبیچوں بریں سہ پیکر مجسم شد و غبارے بر دامن وحدت او نه نشست - میگویم که یکے بودن او تعالی و محیط بودن او ہمہ موجودات را و غیر محدود بودن او از ازل تا ابد یکسان بودن او و بزرگ از همه بودن او و غیره صفات با که میدارد همه صفات او در دل ما از روز ازل نشسته است و آرام گاه جانها شده و قرارگاه دلها گردیده صفات او مرجع دلِ ما است و دل ما مانوس ت اوست و سه گفتن کفار و مجسم گفتن و صاحب زن و فرزند و مادر و پدر گفتن فقط بر زبانها کفار است و دل را از تسلیم آن بہرہ نیست.پس زیادہ تر ازیں کدام غبار خواهد بود که آن امور در ذات حق گمان می کنند.شہادت دل بر آن نیست و اگر مراد از غبار آن غبار است که از توده خاک حاصل میشود این امر دیگر است پوشیده نماند که تکلیف ایمان را شهادت دل ضروری است - زیر آنکه احتمال کذب از دامن اخبار دست بردار نیست و علامت کلام ربانی ہمیں است که بر صدق تعلیمات او دل شہادت دهد قیاس باید کرد که ازان که سخنے خواستن داورم را تکلیف شنیدن دادن از عدالت دور ترست پس خدائے کریم و رحیم که عادل و منصف است این چنیں تکلیف مالا يطاق که دل را از صدق و کذب آں اثرے نیست چسان تجویز خواهد کرد که باوصف آنکہ دریں اعتقاد ہمہ ہنود متفق نیستند - مؤرخین ایشان می گویند که این ہرسہ اشخاص ہمعصر بودند و با مردمان اختلاط مے

Page 268

حیات احمد ۲۵۸ جلد اول حصہ دوم داشتند می خوردند و می نوشیدند و بول و براز میکردند و با زنان خود مجامعت می کردند و امور فواحش نیز از ایشاں سرزد شد چنانچہ ایں ہمہ بیان بر ناظر کتب ہنود مخفی نیست و تاویل پرستان ایس قوم میگویند که این ہرسہ ملائک بودند چنانچه سابق ذکر یافت و حکما ء ایشاں میگویند که این هر سه نام زمانه است و زمانه راسه جز و تقسیم میکنند و صاحب ملل و نحل و مصنف و بستان میگوید که قومے از ہنود ایں ہرسہ اشخاص را عبارت از خصیتین و آله تناسل داشته و باز در دلایل دیگران را خموش گردانیده.آرے فَوْقَ كُلَّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ (يوسف: ۷۷) صفحہ اول سطر نم - میگویند که طعن بت پرستی خطا است اہل اسلام حقیقت عقائد مانے فہمند.پیکر یکے را از میں ہرسہ مظہر الوہیت وجہ ہمت سے سازیم.میگویم کہ ہر گاہ مجسم شدن نسبت حق تعالی باطل است پس این خیال از قبیل بناء فاسد بر فاسد شد.صفحہ اوّل سطر دہم.میگویند که نصب العین داشتن است برائے این است که تادل را از پراگندگی باز داریم میگویم دل را دو حرکت است یکے سوئے خارج و آں مبدء شہوات جسمانی است و باعث پراگندگی دل و منجملہ شہوات آں یکے بت پرستی است.دویم.حرکت سوئے داخل و آں مبدء قرب و معرفت است و باعث اطمینان و آرام و تقسیم نفس به نفس اماره و نفس تو امه و نفس مطمئنه تعمیر بریں بنیاد است و دل بر پراگندگی مخلوق نیست ور نه مکلف عبادت نشد ے.میگویند کہ وجہ دیگر بر ورنہ برائے بت پرستی آن ست که دل را که خواهش دیدار میکند تحمیل از رو میکنیم - میگویم که خواهش دل وصال خدا است پس آں شوق بجز وصال خدا کجا تسکین خواهد یافت ایس بدوں میماند که کسی محتاج آب است او را باتش انداختن صفحه ۲ سطرا و ۲- میگویند که پایه پایه از مثال پرستی وا پر داختہ بدریائے حقیقت سے رویم و بُبت ما وقت پرستش ہچو عینک است بیش نیست یعنی چنانکه عینک مددگار چشم است همچنان بت ها مددگار دل اند و موجب سرعت وصول دل بدرجہ معرفت هستند - میگویم آن درجه معرفت از چه مراد است اگر عبارت از داشتن اسماء صفات حق تعالی است

Page 269

حیات احمد ۲۵۹ جلد اول حصہ دوم پس اجمال آن در دل خود موجود است و تفصیل آن از پیروی کلام ربانی حاصل میشود و اگر مراد از درجه معرفت دراصل بخدا شدن است که وصف اولیاء و انبیاء است پس باید دانست که آن مقام از اختیار انسان بلند تر است و در انجا حکمت و تدبیر پیش نمی رود تفصیل این اجمال آنکه از تلاوت آیات ربانی ارادہ حق چنیں دریافت می شود که برائے ایمان آوردن بر وحدت باری تعالی و اذعان ہمہ صفات اوقوتے در دل انسان از دست تقدیر تحریر است وہماں قوت باعث تکلیف ایمان و نیز قوت من وجہ برائے کسب عبادت داده شد و ہماں باعث تکلیف عبادت است اما انسان بیچ قوتے برائے تقرب و وصال حق نمیدارد و انسان را بر علم حقائق انوارالہی طاقتے ومقدورے نیست.چرا کہ خدا محکوم نیست که بر اراده انسان تابع باشد و انسان حاکم خدا نیست که در خزانه انوار ایزدی دست انداز گردد پس ذره امکان برذات محيط العالمین چگونه محیط گردد و یک کس مخلوق خالق ہمہ کس را چہاں دریافت کند - بدون آنکه او خود جلوه انداز گردد دویم دل را منور گرداند لہذا تقاضائے رحمت ایزدی اجازت استعانت از حضرت والائے خود بخشید بدیں مضمون کہ ہر گاہ بر نماز قائم شویم باید که در تصور اسماء وصفات حق تعالیٰ دل خود را از همه چیز با باز پس کشیده بظلمات حیرت انداز یم در آں وقت از خدائے خود استعانت بخواهیم کہ اے بار خدایا ما خویشتن را از نشیب گاه محسوسات حتی المقدور خود بر آوردہ سوئے تصور جلال تو مابر کشیدیم مگر از طاقت خود ہاں درگاہ عالی نتوانیم رسید اکنوں انتظار دستگیری تست اما باید که این تصور استعانت در آن ظلمات حیرت چناں با جان و دل یکے بوده باشد که گویا جان و دل صورت تصور است این غایت جهد ما بنی آدم است بعد ازاں بدرجہ معرفت رسانیدن وسوئے خود کشیدن کار خدا است چنانچه در آیتة كريمه اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اشاره بدیں استعانت است و کفار بتاں را مظهر این استعانت میدانند و آرام و اطمینانِ دل و رسیدن خود بدرجه معرفت از وسیله بتاں می خواهند چنانچہ گفتن اوشاں کہ بت ما وقت عبادت ہیچو عینک است دلالت بریس معنی دارد یعنی چنانچه عینک مددگار بصارت است و نظر را بمقصد اصلی میرساند همچناں بت ہائے ما مددگار دل اند که دل را از پراگندگی باز می دارند و بدرجه قرب و معرفت

Page 270

حیات احمد ۲۶۰ جلد اول حصہ دوم می رسانند ایں نہ معلوم کہ حق تعالی از ازل روئے دل سوئے خود داشته است پس پراگندگی کجا ست و بدرجه معرفت رسیدن کار انسان نیست پس در مومن و بت پرست فرق این استعانت است - بت پرست آن را میگویند کہ برائے کشف انوار حقیقت استعانت از بت مے خواہد و مدد از اشکال تراشیده خود می طلبد و بت پرست می گوید که از مددگار بت بدریائے حقیقت خواهم پیوست ما مے پرسیم کہ آں دریائے حقیقت چه قدر است آیا دل انسان برذات محيط العالمین محیط تواند شد اے دانائے بصیر تو قیاس کن که ذرات انسان را باذات قدیم الصفات چه مطابقت و محدود را با غیر محدود چہ مساوات.و نہایت پذیر را بابے نہایت چه پیوند.نہایت جہد انسان این است که دل خود را از همه محسوسات و مرئیات باز پس کشیده و همه اشکال و اجسام را زیر لائے نافیہ کردہ تصور جلال آں رب العالمین دلِ خود را بظلمات حیرت در انداز دو دراں وقت چنانچه تشنه و گرسنه و دردمند که جان بلب رسیده باشند آب و غذا و دوا را میخواهند همچناں استعانت کشف انوار حقائق از درگه حق مسئلت نماید و از دل خود چیزی نتر اشد چنانچہ کفار ہنود که عبادت خارجی ایشاں بت پرستی است و ہرگاہ که از بت پرستی وارستہ بجائے خود تصور میکنند.یکے شعله برابر انگشت از و هم خود تراشیده پیش تصور خود میدارند و ایں ہم از نوع بت پرستی است.ایں نہ معلوم که خدا محکوم انسان است نیست که تابع تصور انسان باشد آیا آنکه محيط العالمین است در تصور انسان تواند گنجید قیاس تو بروئے نگردد محیط - دروغ و کذب را در محل راستی آوردن و مفروض خود را رونق فی الحقیقت دادن شیوہ بت پرستاں است مولا نا مولوی رومی میفرماید در عبادت خواهم از ذات تواب ربِّ جہاں استعانتها که میخواهند کفار از بتاں وایس بیت ترجمہ آیت کریمه اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ است اندازه آرزو مندی و اندازه آرزو مندے آرزو مندے خود بروئے کشف انوار حقائق و مدد خواهی خود از حق تعالی در بیت ثانی میفرمایند.

Page 271

حیات احمد ۲۶۱ جلد اول حصہ دوم آنچه بر ما می رود گر برشتر رفتی زغم میز دندے کا فراس بر جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ عَلَمُ وظاہر است که انسان در تصور بجائے یک شعلہ ہزار شعله تواند قایم کرد کدام مشکل افتاده ہست زیرا که جان را در د تکلیف نیست و دل را در دسوختگی نے.دررہ جعل و فریب کشادہ است در یکے شعلہ محصور نیست مگر عبادات اہل اسلام جان باختن است که عاشق صادق بروں و در تلاش آن یار حقیقی دل خود را آشنائے دریائے ظلمات گردانیدن و در جان و تن در دو گداز افتادن و از چشم خواب رفتن و جان و دل مستغرق بیقراریها شدن و سوختن و ساختن و فی الحقیقت انبار غم با برداشتن و از دل مہجور آواز ہائے ہائے بر آمدن و پیش از مُردن مردن و حامل چندان غمها و درد با شدن من کیستم که تحریرش کنم پس آن عادل و مقدس دلها را بدلهاره داشته است آیا بیخبر از چنیں طالب خود خواهد بود آیا او دست خود دراز کردہ ایں چنیں بندہ جاں باز را سوئے خود نخواہد کشید.پس اکنوں منصف در دل خود بسنجد که این طریق عشق و محبت و در دمندی که جان و دل را در آرزوئے جلوہ انوار حقیقی سوختن است و خود را بارنج و دردا میختن بر حق و راست است یا آن طریق که یکی شعله از جعل و فریب خود در دل تصور بستن کہ ازاں شعلہ نے جاں را احتراق است و نے دل را سوختگی است و ظاهر آبنیاد این شعله از دروغ و باطل است چرا که خدا مطیع تصور ما نیست وذات محيط السماوات بتصور انسان در نمی آید پس عبادتِ دل کہ سزا وار رب العالمین است در کار آن شعله دادن کفر است اکنوں میںخواہم کہ خلاصہ جواب گفته کلام راختم کنم سوال اینست که تعریف بت پرستی چیست اکنوں گوش کرده بخن من باید فهمید اندریں شک نیست که نصب العین داشتن بت در زعم کفار برائے حصول غرضے است آن غرض را در زبان شریعت استعانت نامیده شد قوله تعالى - اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پس خلاصه آیاتِ ربانی چنین است که خدا می فرماید ہر کہ عبادت من کند و استعانت از بت خواهد در حقیقت بت را عبادت کرده است زیرا که من محتاج عبادت نیستم یعنے وجوب عبادت برائے حاجت برآمدن انسان است چرا که معنی عبادت استدعائے مدد است و شکر کردن مدد و اگر انسان را مدد از خدا نرسد ہلاک شود لہذا در کلام اللہ آمده است که عبادت باعث حیاتِ انسان است و موجب بقائے بنی آدم سے

Page 272

حیات احمد ۲۶۲ جلد اول حصہ دوم تو قایم بخود نیستی یک قدم ز غیبت مدد میرسد د میدم و آدمی زیادہ تر محتاج استعانت در تعدیل و اقامت دل و وصال حق است پس اگر آدمی گوید کہ ایں حاجت من باستعانت و یاوری بت حاصل شده است آن آدمی عبادت خود کرده است خدا را بمنزل متاع فرض کرده که بوسیله بت دستیاب خواهد شد - فقط ترجمه مکتوب بالا هذَا كِتَابٌ رَحْمَةُ اللهِ عَلَى قَائِلِهِ وَ قَابِلِهِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۱) تعریف صرف تجھے ہی زیبا و درست ہے.جو کوئی کسی کے بھی دروازے پر جائے تو وہ تیرے ہی دروازہ پر ہوگا.(۲) اما بعد ! میرا مخاطب وہ شخص ہے جو طالب حقیقت اور صدق و عدل پر قائم رہتا ہے.(۳) مغرور اور متعصب لوگوں کی محفلوں میں نہیں بیٹھتا اور استہزا اور بیہودہ باتوں پر کان نہیں دھرتا (۴) اور مکاروں کی باتوں میں نہیں آتا اور خدا تعالیٰ کے ارادہ کی پیروی کا خواہش مند ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت دے.جا بجا ہے (۵) قوم ہنود کی کتب میں تلاش حق اور بیان حقیقت گوئی کلیتا نایاب (اور ) وہم پرستی (1) اور بیہودہ خیالی افسانے لکھے ہیں.ایک گروہ اس اعتقاد پر ہے کہ ہم خدائے بے مثل کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے.(۷) ہم اس خیال سے برہم و بشن و مہاد یوکو خدا سمجھتے ہیں کہ خدائے بے مثل (۸) ان تین پیکر سے مجسم ہوا اور اسکا دامن وحدت غبار آلودہ نہ ہوا.اور جو بیگانے (۹) بت پرستی پر طعن کرتے ہیں.ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ ہم ان تینوں ( کے ملاپ سے مل کر

Page 273

حیات احمد بننے والے.مترجم ) ایک پیکر کو ۲۶۳ جلد اول حصہ دوم (۱۰) اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ اویسہ کو پراگندگی سے روکیں اور دل جو خواہش دید رکھتا ہے اس آرزو کی تکمیل کریں (۱) اور بندر ریح مثال پرستی کو چھوڑتے ہوئے دریائے حقیقت میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور 4 ہمارے بر عبادت (۲) کے وقت عینک کی طرح ہوتے ہیں اس سے زیادہ ( وقعت ) نہیں ( رکھتے ).اور ایک دوسرا گروہ ہے، وہ ان تینوں کو فرشتہ جانتے ہیں (۳) اور کہتے ہیں کہ برہما جبرائیل سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو پیدا کرنے والا ہے اور بشن اسرافیل سے تعبیر کیا جاتا ہے (۴) جو نگہبان ہے اور ڈ ڈریعنی مہاد یو عزرائیل سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ فنا کر نیوالا ہے (۵) اور عالمین کا خدا کوئی اور ہے جو تعد دو جننے ومتولّد ہونے سے برتر ہے اور یہ قوم خدا کو (۲) معدوم الصفات سمجھتی ہے واللہ اعلم اور خودکو بیدانتی کہتے ہیں گو کہ یہ فرقہ بادی الرائے میں (۷) ہندؤوں کے دوسرے فرقوں کی نسبت زیادہ مائلِ صلاحیت ہے البتہ اگر کوئی صدق دل اور آزادی فکر سے غور کرے (۸) تو اسے معلوم ہوگا کہ اس (اعتقاد ) میں کتنے ہی شبہات جھول رہے ہیں اور درحقیقت بیدانتیوں کامذہب (۹) یہی ہے کہ دنیا کا کوئی صانع ہے لیکن وہ کوئی صفت نہیں رکھتا اور جو تاثیرات دنیا میں رونما ہوتی ہیں (۱۰) وہ وسیلوں کے ذریعے سے ہوتی ہیں نہ اس کی ذات کے ذریعے سے.اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت تمام ہندؤوں کا مذہب یہی ہے.بعد میں جاہلوں میں سے (1) ایک گروہ نے ان تینوں فرشتوں کو خدا گمان کر کے بت پرستی میں اپنے آپ کو مبتلا کر لیا کیونکہ

Page 274

حیات احمد ۲۶۴ جلد اول حصہ دوم (۱۲) ان مقامات میں مبالغہ آمیزی کرنا عوام الناس کا لازمہ ہے.(۱۳) اگر چہ عقیدہ ثانی کا نتیجہ بت پرستی ہے مگر خدائے کامل الصفات خالق مطلق کو (۱۴) معدوم الصفات سمجھنا بھی بت پرستی سے کم نہیں.لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ وَاحِدًا وَاحِدًا ( ان میں سے ہر ایک پر اللہ کی لعنت ہو ) (۱۵) جہاں تک ہم سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ بت پرستی کی تعریف کیا ہے اور ان لوگوں کو کونسی چیز بت پرست بناتی ہے، لازم ہے کہ ان امور کو ہم بیان کریں.جاننا چاہیے کہ عبادت ، عقاید کا نتیجہ ہے اور اہل حق کے عقاید یہ ہیں کہ خدا ایک ہے اور اللہ جل شانہ کی صفات ہمیشہ سے قائم و دائم ہیں یعنی نہ اسکی صفات میں تبدل ہے نہ ہی تغیر اور نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا ہے.سچا اور حقیقی خدا ابدی اور ازلی ہے کوئی مخلوق نہیں کہ متولد ہو اور ایسی صفات سے برتر ہے جن کو تسلیم کرنے سے ہمارا دل نفرت کرے.اسکی صفات تو ہمارے دل کا قرار ہیں اور ہمارا دل اس کی صفات سے مانوس ہے.وہ ازل سے واحد ہے کونسا دل ہے جو اسکی وحدت کا منکر ہے.ابد سے وہ ایک ہے اور کونسا دل ہے جو اسکی تثلیث کا اقرار کرتا ہے.اے بے خبر انسان راہ راستی سے باہر نہ جا.اپنے دل کی خواہش کو دیکھ کہ اُس پر کیا تحریر کیا ہے.جب تو اپنے دل کے آئینہ پر غور کرے گا تو بتدریج پاکیزگی کو حاصل کر لے گا.جس وقت وہ اپنے آپ کو ظاہر کرے گا تو کون ہے جو اس کا انکار کر سکتا ہے اور جب اس نے انسان کی فطرت حقیقی پر جلوہ کیا تھا تو اس نے اسکی الوہیت کا اقرار کیا اور اسکے کلام کو سنا اور وہ کلام دلوں میں دس بیٹھا اور دلوں میں گھر کر گیا تھا.یہی وجہ ہے کہ جب بھی انسان اپنے دل کے ارادہ حقیقی کو پالے تو وہ جان لے گا کہ جب تک وہ اس واحد لطیف کا اقرار نہیں کرتا (اس وقت تک) گناہ گار ہے.لیکن چونکہ انہوں نے اپنی عقل کا استعمال چھوڑ دیا ہے اور وہم اور خیال نے اسکی پیروی میں جگہ لے لی اور اکثر امور کے سمجھنے سے عاجز وقاصر ہوکر ان کی عقل محض بصارت کی حد تک ہو کر رہ گئی تھی تاہم وہم و خیال کی تاریکی میں مبتلا ان لوگوں کے لئے خدائے کریم نے اپنی

Page 275

حیات احمد ۲۶۵ جلد اول حصہ دوم بے نہایت رحمت سے اپنے آفتاب کلام کو بھیجا.جاننا چاہیے کہ عقل کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور ا سکے کلام حق کو پہچاننے کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ بے خبر جزیرہ نشین جن کے کانوں تک رسالت نبوی کی ندا نہیں پہنچی اس ایمان کے مکلف ہیں کہ خدا تعالیٰ کو واحد جانیں اور اگر بت پرستی کریں گے تو عذاب الہی میں گرفتار ہوں گے اگر چہ رسالت نبوی کی ندا ان کے کانوں تک نہ بھی پہنچی ہو.اب اس نعمت عظمی کا شکر ہم پر لازم ہے کہ ہم یاد حق سے غافل تھے اور ہمارے حال پر یہ مثال صادق آتی تھی کہ ایک دوست نے دوسرے دوست کو کہا کہ فلاں شب کو فلاں محفل میں حاضر ہونا اور یاد دہانی کے لیے میں تیرے دامن کو یہ گرہ دے رہا ہوں.پس وہ دامن کی گرہ ہر وقت اس کو دوست کی یاد دلاتی.گو وہ اس محفل میں پہنچ تو گیا لیکن اندھیرے کی وجہ سے اپنے دوست کی ملاقات سے رُکا رہا.آخر کار اسکے دوست نے اس پر رحم کرتے ہوئے شمع بھیجی تا شمع کی راہنمائی سے آسانی کے ساتھ دوست کے دروازے تک پہنچ جائے.پس جو نعمت عظمی خدائے کریم ورحیم نے ہم لوگوں پر فرمائی ہے اس کے شکر کو ہی عبادت کہتے ہیں اور وہ نعمت یہ ہے کہ پہلے ہمیں عدم سے وجود میں لایا اور اسکے بعد اپنی ذات کا جلوہ دکھایا اپنی توحید کے اقرار کو ہمارے دلوں پر ثبت کیا اور اپنے کلام کو ہمارے کانوں تک پہنچایا پھر اپنے کلام کے آفتاب کو ہم پر بھیجا.اس امر کا جواب کہ ذات کامل الصفات کو مخلوق کی ستائیش سے کیا فخر ہوسکتا ہے یہ ہے کہ حق تعالی کی ذات وصفات کی کامل محبت تقاضا کرتی ہے کہ ہر شخص جو ہر آن گھاٹے میں جا رہا ہے.وہ خدا کے حضور اس طرح تذلیل اختیار کرے کہ اس طریق پر اسکے افضال مخلوق کی طرف اتریں اور وہ انواع مخلوقات کی بقا کا موجب بنیں.پس عبادت اُسی طرح حکمت کامل کی مقتضی ہے جس طرح نوع انسان کی ظاہری صورت.اور عبادت کے تمام طریق سورہ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اسکو پڑھنا واجب اور اس کو چھوڑ نا نماز کو باطل کر دیتا ہے.اب اس سورۃ مقدسہ کے معارف بیان کیے جارہے ہیں تا تو خدا پرستی کی حقیقت کو سمجھ لے.اللہ کا ارشاد ہے اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ محمد صرف خدا کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا

Page 276

حیات احمد ۲۶۶ جلد اول حصہ دوم ب ہے.الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مہربانی پر مہربانی فرمانے والا.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ عدالت کے دن کا بادشاہ.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں یعنی عبادت کرنا ہمارا کام اور قرب و معرفت تک پہنچانا تیرا کام ہے.اس کے بعد آنے والی آیت میں استعانت کے معنی کی تشریح ہے جس کی وہ خود تعلیم فرماتا ہے.اِهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین تو ہمیں راہِ راست کی طرف ہدایت دے ان لوگوں کی راہ کی طرف جن کو تو نے معرفت کے درجہ تک پہنچایا ہے.جن پر تو ناراض نہیں ہوتا اور جو لوگ تجھ سے دور نہیں ہیں.جاننا چاہیے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ سے پہلے والی آیات میں عبادت کے معانی تعلیم کئے گئے ہیں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے بعد والی آیات میں استعانت کے معانی بتائے گئے ہیں یعنی مدد چاہنا جو کسی صاحب بصیرت پر مخفی نہیں.اب اس کلام کے ذیل میں بت پرستوں کے اوہام کا ازالہ تحریر کیا جا رہا ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے.اس رسالے کے پہلے صفحہ کی ساتویں اور آٹھویں سطر میں یہ کہتے ہیں کہ خدائے بے مثل ان تین اجسام سے مجسم ہوا پھر بھی اس وحدانیت کا دامن غبار آلود نہیں ہوا.میں کہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ کا واحد ہونا اور اسکا تمام موجودات پر محیط ہونا اور اسکا غیر محدود ہونا اور ازل سے ابد تک اس کا یکساں ہونا اور سب سے بزرگ تر ہونا وغیرہ جو صفات رکھتا ہے اسکی یہ تمام صفات روز اوّل سے ہمارے دل پر نقش ہیں اور ہماری روحیں اور قلوب اس کی قرارگاہ اور آرام گاہ ہو چکے ہیں اور اسکی تمام صفات ہمارے دل کا مرجع اور ہمارے دل ان صفات سے مانوس ہیں.اور کفار کا خدا کے مجسم اور تین وجود ماننا اور انہیں بیوی بچوں اور ماں باپ والا کہنا ان کا صرف زبانی دعویٰ ہے اور دل کو اس کے تسلیم سے کچھ حصہ نہیں.پس اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بات اور کیا ہوگی کہ وہ جن امور کو حق تعالیٰ کی ذات میں گمان کرتے ہیں، دل کی شہادت اس پر نہیں ہے اور اگر اس غبار سے مراد وہ غبار ہے جو تو دی خاک سے حاصل ہوتا ہے تو یہ امر دیگر ہے.

Page 277

حیات احمد ۲۶۷ جلد اول حصہ دوم واضح ہو کہ ایمان لانے کے لیے دل کی شہادت ضروری ہے کیونکہ روایات کا دامن کذب سے آلودہ ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے اور ربانی کلام کی نشانی یہی ہے کہ اسکی تعلیمات کی سچائی پر دل گواہی دے.پس خدائے کریم و رحیم جو کہ عادل و منصف ہے اسطرح کی تکلیف ما لا يطاق کو جس کے صدق و کذب کا دل پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا کس طرح تجویز کرے گا.باوجود یکہ اس اعتقاد پر تمام ہندو متفق نہیں؟ ہندومؤرخین یہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں اشخاص ہم عصر تھے اور لوگوں کے ساتھ ملتے جلتے ، کھاتے پیتے ، بول و براز کرتے تھے اور اپنی بیویوں سے تعلقات قائم کرتے نیز ان سے امور فواحش بھی سرزد ہوئے.چنانچہ ہنود کی کتب کے مطالعہ کرنے والوں پر یہ تمام بیان مخفی نہیں ہے.اور اس قوم کے تاویل کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ تینوں فرشتے تھے جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے اور ان کے دانشور کہتے ہیں کہ یہ تینوں زمانہ کے نام ہیں، اور وہ زمانہ کو تین جزو میں تقسیم کرتے ہیں.ملل ونحل اور مصنف اور دبستان کے مصنفین یہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں میں سے ایک فرقہ ان تینوں اشخاص کے بارہ میں کہتا ہے کہ یہ خصیتین وآلہ تناسل سے تعبیر ہیں اور پھر وہ دلائل میں دوسروں کو ساکت کر دیتا ہے.ہاں! وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ (يوسف:) صفحہ اوّل کی نویں سطر میں تحریر ہے کہ یہ لوگوں کو کہتے ہیں کہ بت پرستی پر طعن کرنا غلط ہے ( کیونکہ ) اہل اسلام ہمارے عقائد کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.ہم ان ہرسہ میں سے ہر ایک کو مظہر الوہیت اور اپنی تو جہات کا مرکز قرار دیتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ کو مجسم ماننے کا عقیدہ ہمیشہ سے باطل ہے.پس ایسا خیال کرنا فاسد پر فاسد کی بناء رکھنے کی طرح ہے.صفحہ اوّل دسویں سطر.ہندو یہ کہتے ہیں کہ ان بتوں کو آنکھوں کے سامنے رکھنا اس وجہ سے ہے کہ تا دل کو ہم پراگندگی سے بچائیں.میں کہتا ہوں کہ دل کی دوحرکتیں ہیں.ایک بیرونی حرکت ہے جو مبدء شہوات جسمانی ہے

Page 278

حیات احمد ۲۶۸ جلد اول حصہ دوم اور دل کی پراگندگی کا باعث ہے.منجملہ ان شہوات میں سے ایک بت پرستی ہے.دوسری اندرونی حرکت ہے جو مبدء قرب و معرفت اور اطمینان و آرام کا باعث ہے.اور نفس کی تقسیم ، نفس امارہ نفس لوامہ ونفس مطمئنہ کی اسی بنیاد پر ہے اور دل کی پراگندگی پر مخلوق نہیں ہے ورنہ انسان عبادت کے لیے مکلف نہ ٹھہرتا.اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بت پرستی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دل دید کی خواہش کرتا ہے اور ہم اس خواہش کی تکمیل بت پرستی سے کرتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ دل تو وصال خدا کا طالب ہے پس وہ شوق بجز وصال خدا کے کہاں تسکین پائے گا.یہ تو اسی مثل کے مصداق ہے کہ کسی کو پانی کی احتیاج ہو اور اس کو آگ میں پھینک دیا جائے.صفحہ ۲ کی سطر ۲.ہندو کہتے ہیں کہ ہم بتدریج اجسام پرستی سے دریائے حقیقت کے طرف جاتے ہیں اور ہمارے بت پرستش کے وقت عینک کی مانند ہیں اس سے زیادہ ہمارے نزدیک وقعت نہیں رکھتے یعنی عینک جو آنکھ کی مددگار ہے اسی طرح بُت بھی دل کے مددگار ہیں جو دل کو جلد تر عرفان کے درجہ پر پہنچا دینے کا موجب ہیں.میں کہتا ہوں کہ اس درجہ معرفت سے کیا مراد ہے؟ اگر یہ اسماء صفات باری جاننے سے تعبیر ہیں تو اس کا اجمال تو خود دل کے اندر ہی نقش ہے جس کی تفصیل کلام ربانی کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے اور اگر درجہ معرفت سے مراد در اصل فانی فی اللہ ہونا ہے جو انبیاء و اولیاء کا وصف ہے.تو جاننا چاہیے کہ وہ مقام انسان کے اختیار سے بلند تر ہے اور اس میں حکمت و تدبیر پیش نہیں جاتی.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تلاوت کلام ربانی سے حق تعالیٰ کا ارادہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ وحدت باری پر ایمان لانے اور اسکی تمام صفات کے اقرار کے لیے دست تقدیر نے ایک قوت انسان کے دل میں تحریر کر دی ہے اور وہی قوت ایمان لانے کا باعث ہے ایک پہلو سے یہ قوت عبادت بجالانے کے لیے دی گئی ہے اور وہی فریضہ عبادت بجالانے کا مکلف بناتی ہے جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ بذات خود قرب و وصال حق کے لیے طاقت نہیں رکھتا اور انسان کو

Page 279

حیات احمد ۲۶۹ جلد اول حصہ دوم انوار الہی کے حقائق کا علم حاصل کرنے کی (ذاتی طور پر طاقت و مقدرت نہیں ہے کیونکہ خدا محکوم نہیں ہے کہ انسان کے ارادہ کے تابع ہو اور انسان حاکم خدا نہیں کہ انوار ایزدی کے خزانہ میں دخل اندازی کر سکے.پس ایک ذرہ امکان محیط العالمین کی ذات والا پر کس طرح محیط ہو اور ایک والا پر حقیر مخلوق ہر چیز کے پیدا کرنے والے کو کس طرح دریافت کرے سوائے اسکے کہ وہ خود اپنی ذات کا جلوہ کسی کو دکھلائے اور دوسرے یہ کہ وہ خود اس کے دل کو منور کر دے.لہذا تقاضائے رحمتِ ایزدی نے خداوند متعال کی طرف سے خود استعانت کی اجازت بخشی.یہی مضمون ہے کہ جب بھی ہم نماز قائم کریں تو چاہیے کہ اسماء وصفات حق تعالیٰ کے تصور سے ہر چیز کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے دل کو ظلمات حیرت میں ڈالیں اور اس وقت اپنے خدا سے استعانت کے طلب گار بنیں کہ اے خدایا! ہم نے محسوسات کے نشیب گاہ سے حتی المقدور اپنے آپ کو باہر نکال کر خود کو تیرے جلال کے تصور کی طرف کھینچا ہے لیکن اپنی طاقت کے بل بوتے پر ہم اس درگاہ عالی تک نہیں پہنچ سکتے اب تیری مدد کے منتظر ہیں.لیکن جاننا چاہیے کہ یہ تصور استعانت اس طرح روح و دل کے ساتھ ظلمات حیرت میں یکجا ہو جائے کہ گویا روح و دل ہی صورت تصور ہے.یہ ہم بنی آدم کی انتہا درجہ کی کوشش ہے اسکے بعد معرفت کے درجہ پر پہنچانا اور اپنی طرف کھینچنا خدا کا کام ہے.چنانچہ آیت إيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں اسی استعانت کی جانب اشارہ ہے اور کفار بتوں کو اس استعانت کا مظہر جانتے ہوئے آرام و اطمینانِ دل اور معرفت کے درجہ تک پہنچنے کا وسیلہ ان بتوں کو بناتے ہیں.چنانچہ انکا یہ کہنا کہ ہمارے بت عبادت کرتے وقت عینک کی طرح ہوتے ہیں ، انہی معنی پر دلالت کرتے ہیں یعنی جس طرح عینک بصارت کی مددگار ہے اور نگاہ کو ہدف حقیقی تک پہنچاتی ہے اسی طرح ہمارے بت بھی دل کے مددگار ہیں جو دل کو پرا گندگی سے بچاتے ہیں اور قرب و معرفت کے درجہ تک پہنچا دیتے ہیں.یہ معلوم نہیں کہ حق تعالیٰ نے ازل سے روئے دل کو اپنی طرف جذب کر رکھا ہے پس پراگندگی کہاں ہے جبکہ معرفت تک پہنچنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے.

Page 280

حیات احمد جلد اول حصہ دوم پس مومن اور بت پرست میں فرق اسی استعانت کا ہے.بت پرست کشف انوار حقیقت کے لیے استعانت بتوں سے مانگتا ہے اور مدد اپنے ہاتھوں تراشیدہ بتوں سے طلب کرتا ہے اور بت پرست کا دعوی ہے کہ بتوں کے توسط سے میں دریائے حقیقت سے مل جاؤں گا.ہم پوچھتے ہیں کہ وہ دریائے حقیقت کتنا زیادہ ہے کیا انسان کا دل محيط العالمین کی ذات پر محیط ہوسکتا ہے؟ اے دانائے بصیر اذرا قیاس تو کر کہ انسانی ذرات کو قدیم الصفات (خدا) کی ذات سے کیا مطابقت اور محدود کو غیر محدود سے کیا برابری اور نہایت پذیر کو بے نہایت ذات سے کیا نسبت؟ انسان کی سعی کا منتہا یہ ہے کہ اپنے دل کو تمام محسوسات ومرئیات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے تمام اشکال و اجسام کو زیر لائے نافیہ لاتے ہوئے اُس ربّ العالمین کے جلال کے تصور سے اپنے دل کو ظلمات حیرت میں ڈال دے اور اس وقت ایسا بھوکا اور پیاسا اور سخت تکلیف میں ہو کہ جاں بلب ہو رہا ہو اور اس کو پانی ، غذا اور علاج کی ضرورت ہواس طرح کشف انوار حقایق کے لیے درگاہ حق میں طلبگار ہو اور اپنی طرف سے کوئی چیز نہ تراشے.چنانچہ کفار ہنود جن کی ظاہری عبادت بُت پرستی ہے اور جب وہ بُت پرستی سے ہٹ کر اسے اپنے طور پر تصور کرتے ہیں اور تو اپنے ہی وہم سے انگشت برابر شعلہ کا خیال باندھ کر اپنے تصور میں رکھتے ہیں تو یہ بھی بت پرستی کی ایک قسم ہے.(مذکورہ عقیدہ میں) یہ نہ جانتے ہوئے کہ خدا انسان کا محکوم ہے یا نہیں جو انسان کے تصور کا تابع ہو.کیا وہ جو محیط العالمین ہے (وہ) انسان کے تصور میں سما سکتا ہے؟ تیرا قیاس اس پر ہرگز محیط نہیں ہوگا.دروغ و کذب کو راستی کے محل پر لانا اور اپنے مفروضہ کو رونق حقیقت بخشنا تو بت پرستوں کا شیوہ ہے.مولا نا مولوی رومی فرماتے ہیں: میں عبادت میں تو بہ قبول کرنے والے جہاں کے ربّ سے ویسی ہی استعانت کا طلبگار ہوں جیسی کفار بتوں سے مانگتے ہیں.یہ شعر آیت ايَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا ترجمہ ہے.حاجت کا اندازہ اور حاجتمند کا قیاس.حاجتمند (مولانا مولوی رومی) تو خود اللہ تعالیٰ سے کشف انوار حقایق کی غرض سے اللہ تعالیٰ سے

Page 281

حیات احمد ۲۷۱ جلد اول حصہ دوم استعانت کے خواستگار ہوتے ہوئے بیت ثانی میں فرماتے ہیں: جو ہم پر غم سے گزری اگر اونٹ پر گزرتی تو کا فرجته الماویٰ پر علم نصب کر دیتے.ظاہر ہے کہ انسان تصور میں ایک شعلہ کی بجائے ہزار شعلے قائم کر سکتا ہے کونسی مشکل آن پڑی ہے کہ ایک پر ہی بس کرے.مترجم ).کیونکہ نہ روح کو احساس درد ہے نہ دل کو جلنے کی تکلیف جعل و فریب کے راستے کھلے ہیں ایک شعلہ تک محدود نہیں مگر اہل اسلام کی عبادات اپنے او پر موت وارد کر لینا ہے کہ عاشق صادق اور متلاشی کو اس یار حقیقی کی تلاش میں اندر اور باہر اپنے دل کو ظلمات کے دریا سے آشنا کرنا اور روح و تن کو درد و غم میں پگھلانا اور آنکھوں سے نیند اڑا دینا اور روح و دل کا بے قراریوں میں مستغرق کرنا اس راہ میں جلنا اور چارہ جوئی کرنا اور درحقیقت غموں کے پہاڑ اٹھانا اور دل مہجور سے ہائے ہائے کی آواز نکلنا اور مرنے سے پہلے مرنا اور بیکراں غم و درد کا پیکر ہو جاتا ہے.غرض یہ کہ میں کیونکر ان کیفیات کو تحریر کروں.پس اس عادل و مقدس نے دلوں کا دلوں سے تعلق رکھا ہے کیا وہ اپنے ایسے طالب سے بیخبر ہو گا ؟ کیا وہ اپنے ہاتھ کو دراز کر کے اس طرح کے جانباز بندہ کو اپنی طرف نہیں کھینچے گا ؟ پس اب منصف مزاج از خود تأمل کرے کہ عشق و محبت و دردمندی کا یہ طریق کہ روح و دل کو جلوہ انوار حقیقی کی آرزو میں جلانا اور خود کو رنج و تکلیف سے دو چار کرنا حق و راست ہے یا وہ طریق کہ اپنے دجل وفریب سے دل میں ایک شعلے کا تصور باندھنا جس سے نہ روح میں احتراق ہے اور نہ ہی دل میں سوز و گداز.ظاہر ہے کہ اس شعلہ کی اصل دروغ و باطل پر ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ہمارے تصور کا تابع نہیں اور نہ ہی ذات محيط السماوات انسان کے تصور میں سما سکتی ہے.پس وہ قلبی عبادت جو رَبُّ الْعَالَمِین کو زیبا ہے اس میں شعلہ کا کام قرار دینا کفر ہے.اب میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس مختصر جواب کلام کو ختم کروں.سوال یہ ہے کہ بُت پرستی کی تعریف کیا ہے؟ اب میرے نکتہ کلام کو غور سے سن کر سمجھنا چاہیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بتوں کو آنکھوں کے سامنے رکھنا کفار کے زعم میں ایک مقصد کے حصول کے لیے ہے اور شریعت کی زبان میں اسی غرض کا نام

Page 282

حیات احمد ۲۷۲ جلد اول حصہ دوم استعانت ہے.ارشادِ باری تعالیٰ ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پس ان آیات ربانی کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی جو عبادت تو میری کرے اور استعانت بت سے طلب کرے تو اس نے در حقیقت بت کی پوجا کی.کیونکہ میں تو محتاج عبادت نہیں ہوں یعنی وجوب عبادت انسان کی حاجت روائی کے لیے ہے کیونکہ عبادت کے معنی مدد طلب کرنا اور اس مدد کا شکر بجالانا ہے اور اگر انسان کو مددمن جانب اللہ نہ پہنچے تو ہلاک ہو جائے.لہذا کلام اللہ میں یہ تحریر ہے کہ عبادت باعث حیات انسان اور موجب بقائے بنی آدم ہے.اگر غیب سے ہر دم مدد نہ پہنچے تو تو ایک لمحہ کے لیے بھی از خود قائم نہیں رہ سکتا.اور انسان راستی ، میانہ روی، استقامت دل اور وصال حق کے لیے زیادہ تر محتاج استعانت ہے.پس اگر انسان کہے کہ میری یہ حاجت بُت کی دستگیری اور اعانت سے پوری ہوئی ہے تو اس انسان نے خود اپنی عبادت کی اور خدا کو ایک متاع کے طور پر فرض کیا جو وسیلہ بہت سے دستیاب ہوگا.فقط ملا زمت کو قید خانہ ہی سمجھتے تھے حیات حجام قادیان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے سیالکوٹ ایک مرتبہ پار چات پوشیدنی لے کر گیا.وجہ یہ تھی کہ آپ کو خود تو یہ شوق تھا نہیں کہ اپنے لباس و خوراک کی طرف توجہ کریں جو مل گیا کھا لیا اور جو کپڑا گھر والوں نے بنوادیا پہن لیا.اسی واسطے سالہا سال تک آپ کو اتنا بھی معلوم نہ ہوا کہ کرتے کو کتنا کپڑا لگتا ہے اکثر آپ کہہ دیا کرتے تھے کہ میرے لئے اتنے کرتے بنادو.درزی نے یا بنانے والے نے جو قیمت کہہ دی دیدی ایسا بھی ہوا کہ بعض لوگوں نے اس معاملہ میں آپ کے مال پر بے جا تصرف کر کے اپنی عاقبت بگاڑی مگر آپ ان امور کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے تھے خیر یہ قصہ تو میں دوسری جگہ کھول کر کہوں گا یہاں مجھ کو اتنا اس تقریب سے کہنا پڑا کہ چونکہ لباس کے متعلق آپ خود کوئی اہتمام نہیں کرتے تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کو خصوصیت سے خیال رہتا تھا.قادیان سے انہوں نے چار جوڑے کپڑوں کے تیار کرا کر آپ کے واسطے سیالکوٹ بھیجے اور حیات حجام لے کر گیا.آپ کی طبیعت چونکہ فیاض واقع ہوئی تھی آپ نے ایک

Page 283

حیات احمد ۲۷۳ جلد اول حصہ دوم جوڑا تو حجام کے حوالہ کیا.پرانا نہیں انہیں نئے کپڑوں میں سے جو حضرت والدہ صاحبہ نے خاص اہتمام سے اس زمانہ کے حالات کے موافق اعلیٰ درجہ کے تیار کرا کر بھیجے تھے.اثنائے گفتگو میں حجام نے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کیا حال ہے.ملازمت آپ کو پسند ہے فرمایا.قید خانہ ہی ہے.پنڈت کی رام صاحب سے مقابلہ اور خود داری کا اظہار جن دنوں آپ سیالکوٹ میں ملازم تھے.ہر چند آپ معمولی درجہ کے اہلکاروں میں سے تھے مگر آپ سلف ریسپکٹ (خودداری) اور استغنا کا ایک نمونہ تھے.آپ کی قابلیت بہر حال ضلع بھر میں مسلم تھی یہاں تک کہ تلخ تر دشمن اور آپ کے حالات کو قصہ کا رنگ دینے والا دشمن بھی اعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنی خدا داد قابلیت کی وجہ سے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی نظروں میں عزت رکھتے تھے.اس وقت سیالکوٹ کے دفاتر کا سپر نٹنڈنٹ ایک شخص پنڈت سہج رام نام تھا.وہ ایک متعصب دشمن اسلام تھا.حضرت مسیح موعود سے وہ ہمیشہ مذہبی مباحثہ کیا کرتا تھا.اسے یہ دھو کہ لگا ہوا تھا کہ حضرت مرزا صاحب میرے ماتحت ایک سرشتہ میں اہلکار ہیں.اس لئے مذہبی مباحثات میں میری وجاہت اور اثر ان کو حق گوئی سے شائد روک دے گا.لیکن حضرت مرزا صاحب جو اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے مبعوث ہونے والے تھے جن کی فطرت میں یہ قوت اور جوش رکھا گیا تھا کہ دلبر کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے ہوشیار ساری دنیا اک باولا یہی ہے وہ بھلا کب خاطر میں لا سکتے تھے.مذہب کے معاملہ میں جب اس سے گفتگو ہوتی نہایت آزادی دلیری اور جرات سے ایسی گفتگوئیں ہوتی تھیں اور جب اسے نادم اور لا جواب ہونا پڑتا تو اپنی لا جوابی اور کمزوری کا بخار سرشتہ کے کاموں میں تعصب کے اظہار سے نکالتا.اسے فطرتاً دین اسلام سے ایک کینہ تھا اس لئے ناممکن تھا کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ اسے کچھ بھی تعلق یا لگاؤ ہوسکتا.آپ کے ساتھ وہ برتاؤ کرنے میں اپنے تمام اخلاق اور شریفانہ تعلقات کو نظر انداز کر دیتا مگر اس کا نتیجہ عموماً یہ ہوتا کہ اگر وہ صاحب ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے بھی کوئی اعتراض کرتا تو اس

Page 284

حیات احمد ۲۷۴ جلد اول حصہ دوم کا دندان شکن جواب وہیں پاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی اُس سے دبتے نہیں تھے یہاں تک کہ بعض اوقات آپ کے دوست اور مخلص دوست لالہ بھیم سین صاحب نے مشورہ دیا کہ ترقی و کامیابی بظاہر اس شخص کے ہاتھ میں ہے مگر حضرت مسیح موعود ایسا موحد اور خدا پرست انسان اس قسم کی باتوں پر کب توجہ کر سکتا تھا.وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ہی ذات سے ہر قسم کی بہتری اور بھلائی وابستہ ہے یہ مردہ کیڑے کیا کر سکتے ہیں؟ اس لئے آپ اپنے فرض منصبی کو تو دیانتداری سے ادا کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتے تھے اور خوشامد اور در بارداری کو اپنی وضع اور مومنانہ غیرت کے سراسر خلاف جانتے تھے.اس بات نے اس کو اور بھی آپ کے ساتھ بدکن بنادیا تھا مگر وہ بھی آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکا کیونکہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر آپ کی لیاقت اور دیانت سے خوب واقف اور اثر پذیر تھا.یہی سمج رام بعد میں کمشنری امرتسر میں سرشتہ دار ہو گیا تھا.حضرت مسیح موعود کو اس کی وفات کی خبر کشفی رنگ میں دکھا دی گئی تھی چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ”میرے ایک بڑے بھائی تھے انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا اور امتحان میں پاس ہو گئے تھے اور وہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے اور نوکری کے امیدوار تھے ایک دن میں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ الٹانا چاہا تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سچ رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آ کھڑا ہوا.جیسا کہ کوئی کہتا ہے میرے پر رحم کرا دو میں نے اُس کو کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہو گیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی.بعد اس کے میں نیچے اترا اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کی نوکری کے بارہ میں باتیں کر رہے تھے میں نے کہا کہ اگر پنڈت سچ رام فوت ہو

Page 285

حیات احمد ۲۷۵ جلد اول حصہ دوم جائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے ان سب نے میری بات سن کر قہقہہ مار کر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مارتے ہو.دوسرے دن یا تیسرے دن خبر آ گئی کہ اُسی گھڑی سمج رام نا گہانی موت سے اس دنیا سے گزر گیا.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۹۶.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰۹) غرض مسیح موعود نے اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے میں تو کبھی کوتاہی نہ کی.مگر کبھی نہ تو جھوٹی خوشامد کی.اور نہ اپنے نفع و ضرر کا مالک کسی افسر و انسان کو سمجھا اور نہ افسری ماتحتی کے تعلقات کی بناء پر اسلام کی حقانیت کے اظہار سے رکے.اگر اسلام سے کسی کو کینہ اور دشمنی تھی تو آپ کو اس کے ساتھ کوئی محبت نہ تھی.اَلْحُبُّ لِلَّهِ وَالْبُغْضُ لِلَّهِ پر آپ کا عمل تھا.پنڈت سج رام کے ساتھ تعلقات ایک ایسی نظیر ہیں جو غیور اور مومن ملازموں کے لئے ایک نشان میل کا کام دے سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود کی انگریزی دانی سیالکوٹ ہی کے سلسلہ قیام میں بقول مولوی سید میر حسن صاحب یہ ذکر آیا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے انگریزی کی ایک یا دو کتابیں پڑھیں.ہر چند کوئی شخص جس کے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل ہو یہ باور نہیں کر سکتا کہ حضرت مسیح موعود اس سے انگریزی دان ہو گئے کیونکہ اگر اس واقعہ کو اپنی جگہ رکھ کر بھی دیکھا جائے تو انگریزی کی ابتدائی پرائمر جس سے حروف تہجی کی شناخت پیدا ہوتی ہے کوئی شخص پڑھ کر بشر طیکہ اس نے پڑھی ہو انگریزی سے واقف بھی نہیں کہلا سکتا لیکن پھر بھی بعض کوڑ مغز ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر واقعات اور حقائق پر نہیں ہوتی.وہ صرف نکتہ چینی کے لئے کوئی بات پیدا کرنا چاہتے ہیں.اس لئے اس وہم کے رفع کرنے کے لئے اور اس خصوص میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوزیشن کو صفائی کے ساتھ پیش کرنے کے لئے میں اس پر مزید بحث کرنی پسند کرتا ہوں.گو بہ حیثیت وقائع نگار اس وقت میرا کام نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزی زبان کے ساتھ کوئی مناسبت اور دلچسپی کبھی نہ تھی.

Page 286

حیات احمد جلد اول حصہ دوم اسی لئے آپ نے اس زبان کو کبھی سیکھا نہیں.اپنے دعوئی مسیح موعود کے بعد بھی ایک مرتبہ آپ کو سرسری خیال آیا کہ میں انگریزی پڑھ لوں.چنانچہ میرے مکرم بھائی مفتی محمد صادق صاحب نے ایک انگریزی کی کتاب خود ترتیب دی اور وہ اس وقت تک میرے پاس موجود ہے.اور کوشش کی کہ حضرت صاحب اس کو پڑھ لیں مگر آپ کو دلچسپی پیدا نہیں ہوئی.انہی ایام میں یہ بھی فرمایا کہ انگریزی چالیس تہجد کی دعاؤں میں آجاتی ہے لیکن آپ فرمایا کرتے کہ اگر اس زبان میں تبلیغ کا کام بھی میں آپ کروں تو پھر میرے دوستوں کے لئے کیا ر ہے اس لئے ثواب کے لئے میں ان کے لئے ہی چھوڑتا ہوں.انگریزی الهامات حضرت مسیح موعود کو انگریزی زبان میں الہامات بھی ہوئے ہیں مگر ان کی تعداد بہت ہی کم ہے حضرت مسیح موعود نے خود اعتراف کیا ہے کہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا بعض نا اہلوں نے انگریزی الہامات کی زبان کی خوبی اور فصاحت پر بھی بحث کی ہے مگر یہ بحث اس قسم کی ہے جیسے حضرت مسیح موعود کے بعض عربی الہامات پر کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود انگریزی نہیں جانتے تھے غرض یہ امر واقعہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزی زبان سے بکلی نا آشنا اور ناواقف تھے.مجھ کو اس موضوع پر خاص بحث کی اس لئے ضرورت نہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنی زندگی کے ان ایام میں جبکہ آپ ملازمت کے مکتب سے گزر رہے تھے انگریزی کی طرف توجہ کرنا یا اس کی ایک آدھ کتاب کا جو حروف تہجی پر ہی مشتمل ہوتی ہے پڑھنا شرعاً، عرفا کوئی گناہ ہے بلکہ ایسے زمانہ میں جبکہ مسلمان لوگ انگریزی تعلیم سے بیزاری کا اظہار کر رہے تھے اور انگریزی خوانی اور ایسے مدارس کی ترویج و تائید کو کفر قرار دیتے تھے اگر حضرت مسیح موعود نے توجہ کی ہوتی تو یہ آپ کی زندگی کا ایک کارنامہ اور آپ کی اولوالعزمانہ طبیعت کا ایک جوہر ہوتا.اس زبان سے آپ کو کبھی نفرت نہ تھی اگر نفرت ہوتی تو

Page 287

حیات احمد ۲۷۷ جلد اول حصہ دوم آپ اپنی عمر کے اُس حصہ میں جو پیرانہ سالی کا حصہ ہے جبکہ آپ کے اردگرد ہزاروں نہیں لاکھوں خدام ہیں اور جن میں ایک کثیر تعداد اعلیٰ درجہ کے انگریزی دانوں کی موجود ہے کیوں توجہ کرتے.آپ نے ایک مرتبہ انگریزی پڑھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور یونہی سا شروع بھی کیا.مرزا ایوب بیگ مرحوم اور مفتی محمد صادق صاحب نے خصوصیت اور بڑے اہتمام کے ساتھ آپ کے لئے تعلیمی سکیم اور ترتیب کو سوچا.بلکہ میں نے حضرت مسیح موعود کی انگریزی خوانی یا زیادہ صاف الفاظ میں انگریزی دانی پر اس لئے بحث کی ہے کہ آپ نے متعدد مرتبہ انگریزی کے حروف کی شناخت کی بھی نفی کی ہے اور جب کبھی انگریزی الہامات آپ کو ہوتے تو آپ کو ان کے معانی کے معلوم کرنے کے لئے کسی انگریزی خوان کی تلاش ہوتی.گو ان کی تفہیم کبھی ساتھ بھی ہو جاتی تھی یہ صرف قیاسی اور خیالی بات نہیں اس کی تائید اور تصدیق کے لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مکتوب اسمی سید عباس علی شاہ لدھانوی سے ایک فقرہ نقل کر دیتا ہوں :- چونکہ اس ہفتہ میں بعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں اور اگر چہ بعض ان میں سے ایک ہندو لڑکے سے دریافت کئے ہیں مگر قابل اطمینان پھر بعد اس کے ایک دو اور الہام انگریزی ہیں جن سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہے.آئی شیل ہیلپ یو.مگر بعد اس کے یہ ہے یو ہیوٹو گوامرتسر.پھر ایک فقرہ ہے جس کے معنی معلوم نہیں بلٹس ان دی ضلع پشاور.یہ فقرات ہیں ان کو تنقیح سے لیکھیں اور براہ مہربانی جلد تر جواب بھیج دیں تا اگر ممکن ہو تو آخیر جزو میں بعض فقرات بموضع مناسب درج ہوسکیں.“ 66 مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۸۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) معمولی اور چھوٹے چھوٹے فقرات کے ترجمہ اور ترتیب کے لئے آپ کو لدھیانہ سے پتہ لینا پڑتا تھا.انگریزی میں الہامات ہونے کا ستر کیا تھا؟ یہ ایک جدا موضوع ہے جس پر بحث کے لئے بہترین مقام کسی دوسری جگہ آ سکتا تھا.لیکن آپ کے انگریزی نہ جاننے کے متعلق میں سلسلہ کے

Page 288

حیات احمد ۲۷۸ جلد اول حصہ دوم تلخ ترین دشمن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت جو انہوں نے ۱۸۸۴ء میں شائع کی یہاں درج کرنی مناسب سمجھتا ہوں اور اس سلسلہ میں خود اُس نے اِس سوال کو اٹھایا اور جواب دیا ہے.میں ان جوابات کے علاوہ بھی بعض اسرار انگریزی زبان میں الہامات کے خدا کے فضل سے جانتا ہوں اور جہاں موقع آئے گا اور مجھے توفیق ملی تو انشاء اللہ العزیز کھول کر لکھوں گا.انگریزی نہ جاننے پر مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت اعتراض دوم کا جواب اس اعتراض کا ماحصل یہ ہے کہ بعض الہامات انگریزی زبان میں ہوئے ہیں جس کا پڑھنا بولنا کفر ہے پھر اس میں الہام وخطاب کیونکر ممکن ہے.الجواب.انگریزی کے پڑھنے بولنے کو کفر کہنا انہی لوگوں کا کام ہے جن کا دل و دماغ کفر کا خزانہ یا سانچہ یا مشین ( یعنی کل) ہے یا انہوں نے کفر کا ٹھیکہ لے رکھا ہے پس وہ جس کو چاہتے ہیں کافر بنادیتے ہیں.دین اسلام میں تو اس حکم کفر کا کہیں پتہ ونشان نہیں.نہ کتاب وسنت میں اس پر کوئی شہادت پائی جاتی ہے نہ تصانیف علمائے امت میں.مؤلف نے براہین احمدیہ کے صفحہ ۳۰۹ میں خود بھی ثابت کر دیا ہے کہ زبانیں (انگریزی ہوں خواہ ہندی عربی ہوں یا فارسی ) کبھی خدا کی تعلیم سے ہیں اور اشاعۃ السنہ نمبر ۶ جلد میں اس مسئلے کی قرآن وحدیث سے کافی تحقیق ہو چکی ہے جو نظارہ ناظرین کے لائق ہے پس اگر کسی زبان کے بولنے پڑھنے پر فتویٰ کفر لگایا جائے تو یہ فتویٰ کفر خدائے تعالیٰ کی طرف عائد ہوتا ہے یہ کفر (بقول ان جہلاء مکفرین کے ) خدا ہی نے لوگوں کو خود سکھلایا ہے.اور اس کفر کے استعمال پر لوگوں کو مفطور و مجبور کر دیا.بالفعل ہم اس اعتراض کے جواب میں اس سے زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتے.خصوم معترض شہادت کتاب وسنت و اقوال علمائے امت سے یہ ثابت کر دیں گے کہ انگریزی کا بولنا پڑھنا کفر ہے اور یہ زبان خدا کی سکھائی ہوئی نہیں تو اس وقت اس کے جواب میں کچھ اور بھی کہیں گے اس

Page 289

حیات احمد ۲۷۹ جلد اول حصہ دوم وقت تک تو ہم اِس اعتراض کو لائق خطاب و مستحق جواب نہیں سمجھتے.ہاں بجائے اس اعتراض کے اگر یہاں یہ سوال کیا جائے کہ باوجود یکہ مؤلف براہین احمدیہ کی مادری زبان ہندی ہے اور مذہبی اور علمی زبان عربی اور صرف علمی و استعمالی فارسی - انگریزی نہ ان کی مادری زبان ہے نہ مذہبی نہ علمی نہ اس زبان سے ان کو کسی قسم کی واقعی ہے پھر ان کو انگریزی میں کیوں الہام ہوتے ہیں اور اس کا ستر وفائدہ کیا ہے تو یہ سوال لائق خطاب و مستحق جواب ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اس زبان میں (جس سے مؤلف کی زبان.کان.دل.خیال کسی کو آشنائی نہ تھی.) مؤلف کو الہام ہونے میں ایک فائدہ وستر تو یہ ہے کہ اس میں سامعین و مخاطبین کو مؤلف کی طبیعت یا خیال کی بناوٹ کا احتمال و گمان نہ ہو.ہندی.فارسی.عربی (جوان کی مادری و مذہبی وعلمی زبانیں ہیں) کے الہامات میں یہ بھی احتمال اور مترددین کو خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ الہامات مؤلف نے خود عمد ابنا لئے ہیں یا بلا ارادہ و اختیار ان کی حالت خواب میں ان کے دماغ و خیال نے گھڑ لئے ہیں.اس گھڑت و بناوٹ کا خیال الہامات انگریزی میں (جس سے صاحب الہام کی زبان.کان.دل و خیال کو کسی قسم کا تعلق نہیں ) کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ طبیعت و خیال کو اس چیز تک رسائی ہوتی ہے جس سے اس کو کسی وجہ سے تعلق ہو.ہندی نژاد ( جو عربی سے محض نا آشنا ہو ) کا خیال عربی نہیں بنا سکتا جیسے مچھلی اُڑ نہیں سکتی.اور چڑیا تیر نہیں سکتی.شائد امرتسری معترضین و منکرین جو اہلِ حدیث کہلا کر حدیث کے نام کو بدنام کر رہے ہیں.یہ اعتراض کریں کہ انگریزی زبان کے الہام میں طبیعت یا خیال کی بناوٹ کا احتمال نہیں تو یہ احتمال تو ہے کہ یہ انگریزی الہام شیطان کی طرف سے ہو جو انگریزی، عربی ، فارسی ، ہندی وغیرہ سبھی زبانیں جانتا ہے.اور اس میں غیب کی باتیں اور پیشین گوئیاں ہیں وہ شیطان نے آسمان سے چھپ کرسن لی ہوں.كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ (البقرۃ: ۱۱۹) یہی بات پہلے مشرکین عرب نے آنحضرت کے الہامات عربی کی نسبت کہی تھی پس جو اس کا جواب خدائے تعالیٰ نے آنحضرت کی طرف سے دیا ہے وہی ہم اس مقام

Page 290

حیات احمد ۲۸۰ میں مؤلف براہین کی طرف سے دے سکتے ہیں.جلد اول حصہ دوم الجواب.سورہ شعراء میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اسی بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيْطِيْنُ وَمَا يَنبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْع لَمَعْزُولُوْنَ (الشعراء : (۲۱۱) تا (۲۱۳) هَلْ أَنَنْتُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيْطِيْنُ تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَاكٍ ايْهِ تُلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كُذِبُونَ.(الشعراء:۲۲۲ تا ۲۲۴) اس قرآن کو شیطانوں نے نہیں اتارا اور نہ ان کو یہ طاقت ہے وہ تو آسمان کی خبریں سننے سے آگ کے شعلوں کے ساتھ (اب) روکے جاتے ہیں.ہم تمہیں بتادیں شیطان کن لوگوں پر اتر تے ہیں.وہ بڑے جھوٹے گنہگاروں پر اترتے ہیں اور ان کو وہ جو کچھ چوری سے (انگار پہنچنے سے پہلے ) سن پاتے ہیں پہنچاتے ہیں.اور اکثر باتوں میں جھوٹے نکلتے ہیں.اس جواب کا ماحصل (چنانچہ بیضاوی و امام رازی نے بیان کیا ہے ) یہ ہے کہ قرآن جو آنحضرت پر نازل ہوا ہے دو وجہ سے القائے شیطانی نہیں ہوسکتا.اوّل یہ کہ جن لوگوں کے پاس شیطان اترتے ہیں وہ اپنے افعال و اعمال میں شیطانوں کے دوست اور بھائی ہوتے ہیں اور بڑے گنہ گار اور بڑے جھوٹے.اور یہ باتیں آنحضرت صلعم میں پائی نہیں جاتیں وہ تو شیطان کے دشمن ہیں اور اُس کو لعنت کرنے والے، جھوٹ اور گناہوں سے مجتنب اور ان سے منع کرنے والے.دوم وہ باتیں جو شیطان لاتے ہیں اکثر جھوٹی نکلتی ہیں اور آنحضرت کے قرآن کی ایک بات بھی جھوٹی نہیں.یہی جواب ہم الہامات مؤلف براہین کی طرف سے دے سکتے ہیں اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ شیطان اپنے ان دوستوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو ( انگریزی خواہ عربی میں ) کچھ پہنچاتے ہیں جو شیطان کی مثل فاسق و بدکار اور جھوٹے دوکاندار ہیں اور مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (والله حسيبه ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں اور نیز شیطانی القا اکثر جھوٹے نکلتے ہیں اور الہامات مؤلف براہین سے (انگریزی میں ہوں خواہ ہندی و عربی وغیرہ ) آج تک ایک بھی جھوٹ نہیں نکلا (چنانچہ اُن کے مشاہدہ کرنے والوں کا

Page 291

حیات احمد ۲۸۱ جلد اول حصہ دوم بیان ہے گو ہم کو ذاتی تجربہ نہیں ہوا) پھر وہ القاء شیطانی کیونکر ہوسکتا ہے.کیا کسی مسلمان متبع قرآن کے نزدیک شیطان کو بھی یہ قوت قدسی ہے کہ وہ انبیاء وملائکہ کی طرح خدا کی طرف سے مُغیبات پر اطلاع پائے اور اس کی کوئی خبر غیب صدق سے خالی نہ جائے.حَاشَا وَ كَلَّا.شائد یہاں ہمارے معترض مہربان مؤلف براہین احمدیہ کے ساتھ ہم کو بھی ملائیں اور ہم پر بھی فتویٰ کفر لگائیں اور یہ فرما ئیں کہ اس جواب میں مؤلف براہین کو آنحضرت سے ملایا گیا ہے اور ان کے الہامات کو وحی نبوی کی مانند تصرف شیطانی سے معصوم ٹھہرایا گیا ہے.لیکن میں اُن کے فتویٰ کفر سے نہیں ڈرتا کیونکہ میں خود اُن پر فتویٰ کفر لگا سکتا ہوں.جو اُن کے پاس آلہ یا سانچہ یا مشین تکفیر ہے وہ میں بھی کہیں سے مستعار لے کر کام چلا سکتا ہوں.ہاں ان کی بات کا یہ جواب دیتا ہوں کہ مؤلف براہین احمدیہ (جبکہ اس کے الہامات صادق ہوں اور ولایت مسلّم ) یا اور اولیاء امت محمد یہ اپنے الہامات میں نبیوں کی مثل معصوم نہیں تو محفوظ تو ہو سکتے ہیں خصوصاً ان الہامات میں جو قرآن اور دین اسلام کے موافق اور مؤید ہوں.ان الہامات میں حفاظت کا حصہ وہ بطور ورثہ بحکم الْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الانْبِيَاءِ عصمت انبیاء سے پاتے ہیں.ان میں اُن میں فرق یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام عموماً ( یعنی اپنے ہر ایک الہام میں معصوم ہوتے ہیں اور اولیاء خصوصاً ان الہامات میں جو شرع نبی کے مخالف نہ ہوں ) اور ان الہامات پر وہ قائم و ثابت رہے ہوں محفوظ ہوتے ہیں.انبیاء کے الہامات کی عامہ خلائق کو پابندی واجب ہے اولیاء کے الہامات کی پابندی غیر پر واجب نہیں.الہامات انبیاء اصل ہیں.یہ الہامات اُن کی ظل.اسی مناسبت کی نظر سے ہم نے اس جواب کو مؤلف کی طرف سے پیش کیا ہے.اس پر جو چاہوفتوی لگاؤ.یہاں بھی قلم دوات حاضر ہے كَمَا تُدِینُ تُدَانُ ہمارے اس بیان کی تائید رسالہ نمبرے جلد ۵ میں بصفحہ ۲۱۵ وغیرہ بھی ہو چکی ہے.اور پوری تائید اس کی جواب اعتراض سوم میں آتی ہے انشاء اللہ تعالی.دوسرا فائدہ وستر الہام انگریزی زبان کا یہ ہے کہ اس وقت مؤلف کے مخاطب اور اسلام کے

Page 292

حیات احمد ۲۸۲ جلد اول حصہ دوم منکر و مخالف (عیسائی، آرید، برہمو وغیرہ ) اکثر انگریزی خواں ہیں.ان کا افہام یا انجام (ساکت کرنا ) جیسا کہ الہامات انگریزی سے ممکن ہے عربی یا فارسی وغیرہ الہامات سے ممکن نہیں.عربی وغیرہ مشرقی زبانوں کے الہامات کو ( وہ ان کے مضامین سے آنکھیں بند کر کر ) یقیناً مؤلف کا ایجاد طبع تے.اب ( جبکہ وہ انگریزی الہامات پڑھتے اور مؤلف کا انگریزی زبان سے محض اُمی و اجنبی ہونا سنتے ہیں ) وہ ان الہامات مؤلف کو تعجب کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں.اور بے اختیار ان کو خرق عادت و برخلاف عام قانون قدرت جن کو وہ غلطی سے قدرت خداوندی کا پیمانہ سمجھ رہے تھے ماننے لگے ہیں.ماہ صیام میں جبکہ میں شملہ پر تھا.ایک بابو صاحب برمجھ سماج کے لیکچرار و پریسٹ (جو میرے ہمسایہ تھے ) مجھے قانونِ قدرت (جس کو لوگوں نے قانون سمجھ رکھا ہے اور درحقیقت وہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا قانون نہیں ہے) کے تغیر و تبدل میں ہمکلام ہوئے.جب میں نے ثابت کر دیا اور ان سے تسلیم کرالیا تو خدا کی قدرت انہی حالات و واقعات میں ( جو ہم دیکھ رہے ہیں) محصور ومحدود نہیں ہے.بلکہ وہ اس سے فوق الفوق اور وراء الوراء وسعت رکھتی ہے.اور ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان اسباب و موجودات سے وہ کام لے جو اس وقت تک ان سے نہیں لئے گئے یا ہم نے نہیں دیکھے.تو وہ صاحب بولے کہ یہ امرممکن تو ہے اور بنظر قدرت وسیع و غیر محدود خداوندی.ہم اس امکان کو مانتے ہیں پر ہم اس کی فعلیت ( وقوع) کو کیونکر مان لیں.جب تک اس کا مشاہدہ نہ کر لیں.اس پر میں نے مؤلف براہین احمدیہ کے الہامات انگریزی زبان کو پیش کیا.اور یہ کہا کہ ایک شخص کا انگریزی زبان سے اُمی و اجنبی محض ہو کر (جس کو ہم روز مرہ کے مشاہدے اور تجربے سے بخوبی جانتے ہیں اور دوسرے کو ثابت و معلوم کرا سکتے ہیں) بلا تعلیم و تعلم اس زبان میں ایسی باتیں بیان کرنا (جن کا بیان انسانی طاقت سے خارج ہو ).تمہارے تجویزی قانون قدرت کے مخالف نہیں تو کیا ہے؟ یہ سن کر بابو صاحب موصوف نے سکوت کیا.اور یہ فرمایا کہ ایسے شخص کو میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں.پھر میں نے یہ بھی سنا کہ انہوں نے ایک خط بھی متضمن اظہار اشتیاق ملاقات مؤلف براہین احمدیہ کے لکھا.اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ اگر وہ اپنے ارادے و وعدے کو پورا کریں گے اور مؤلف کے زاد بوم کے

Page 293

حیات احمد ۲۸۳ جلد اول حصہ دوم ساکنین ہندو مسلمانوں کی متواتر شہادت سے ان کا انگریزی زبان سے محض نا واقف ہونا ثابت کر لیں گے تو وہ اس امر کا خرق عادت اور کرامت ہونا مان لیں گے.اور وہ جب الہامات یا مؤلف کی کسی اور پیشین گوئی کا خود تجربہ اور مشاہدہ کر لیں گے تو قبول اسلام سے دریغ نہ کریں گے.ایسا ہی مجھے اور انگریزی خواناں اہلِ انصاف سے توقع ہے کہ اگر وہ بچشم انصاف انگریزی الہامات مؤلف کو پڑھیں یا بگوش انصاف سنیں اور ساتھ ہی اس کے ان کو یہ بھی تصدیق ہو کہ مؤلف انگریزی کا ایک حرف نہیں جانتا تو وہ اس امر کا کرامت ہونا مان لیں گے.یہ لوگ جو اپنے تجویزی قانون کو قانونِ قدرت خداوندی سمجھتے ہیں.اور اس کے خلاف کو محال جانتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ آج کل ان کو اس قانون کے مخالف کچھ دکھانے والا کوئی نظر نہیں آیا.اور پچھلے خوارق انبیاء و اولیاء پر ( جو بواسطہ فقل ان کو پہنچے ) ان کو راستی کا گمان نہیں ہے اور جوان میں (جیسے حضرات نیچر یہ جو مسلمان برہمو یا فلسفی مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں ) اس نقل کو راست جانتے ہیں وہ اس میں تاویل و تصرف کر کے ان طرق کو امور عادیہ بنا لیتے ہیں.ان لوگوں کو بھی کوئی کرامات دکھانے والا نظر آوے تو امید ہے کہ ان کا انکار بھی مبدل بہ اقبال ہو جائے.اسی امید پر ہم مؤلف براہین احمدیہ کو یہ صلاح دیتے ہیں کہ جیسے آپ نے پادریوں اور برمجھ سماج و آریہ سماج کے سرکردہ داعیان کے نام خطوط متضمن وعدہ مشاہدہ خوارق تحریر کئے ہیں.ویسے ہی سرگروہ فرقہ نیچریہ کے نام بھی ایک خط تحریر فرماویں.اس کے جواب میں اگر وہ یہ کہیں کہ ہم تو اسلام کو قرآن کو مانتے ہیں.خدا کو خدا اور رسول کو رسول جانتے ہیں.ہم کو خوارق و کرامات کی (جن کے مشاہدے سے صرف تصدیق نبوت مقصود ہوتی ہے ) کیا ضرورت ہے.تو اس کا جواب ان کو یہ دیں کہ آپ لوگ گو ذات یا لفظ خدا کو مانتے ہیں مگر اس کی صفات پر پورا ایمان نہیں رکھتے.اس کا قادر مطلق ہونا تسلیم نہیں کرتے.اس بات پر کہ وہ آگ سے پانی کا اور پانی سے آگ کا کام لے قادر نہیں سمجھتے.بلکہ اس امر کو اس کی قدرت میں بٹہ لگانے والا خیال کرتے ہیں اُس خدا کو ایسا ماننا نہ ماننے کے برابر ہے.اس لئے آپ لوگوں کو بھی اس امر کی سخت حاجت ہے کہ کرامات و خوارق عادت کا بچشم خود ملاحظہ کریں اور

Page 294

حیات احمد ۲۸۴ جلد اول حصہ دوم اپنے اس ایمان کو صحیح یا کامل بناویں.A B تیسراسر وفائدہ الہامات انگریزی زبان کا یہ ہے کہ جولوگ انگریزی زبان کے پڑھنے بولنے کو کفر سمجھتے ہیں.انکا یہ خیالی کفر ٹوٹے.اور ان کو (جب وہ انصاف سے کام لیں) اس مسئلہ شرعیہ کہ زبانیں سبھی خدا کی تعلیم والہام سے ہیں.اور کسی زبان کا بولنا پڑھنا منع نہیں ہے.اور کسی زبان کو عربی ہو خواہ فارسی، ہندی ہو خواہ انگریزی ) اس کے مضامین سے نظر اٹھا کر اچھا یا بُرا نہیں کہا جاسکتا.(جس کا مفصل بیان وثبوت شرعی اشاعۃ السنہ نمبر 4 جلد میں گزرا ) با مشاہدہ الہام سے ثبوت ملے.ہر چند قبل تسلیم الہام مؤلف یہ الہام انگریزی زبان ان لوگوں پر حجت نہیں ہو سکتے مگر جب وہ انصاف سے کام لیں گے اور اس بات کو کہ مؤلف براہین احمدیہ انگریزی کا ایک حرف نہیں جانتا.اے بی سی کی صورت تک نہیں پہچانتا.متواتر شہادت سے محقق کر لیں گے اور ان الہامات کے مضامین مشتمل اخبار غیب کو (جن پر کوئی بشر بذات خود قادر نہیں ) انصاف کی نظر سے دیکھیں گے تو انصاف ان کو ان الہامات کی تسلیم پر مجبور کر دے گا.اس وقت ان کو اس مسئلہ قدیمہ شریعت محمدیہ کا با مشاہدہ الہام سے ثبوت ملے گا.ان کو انصاف نصیب نہ ہو گا تو یہ فائدہ انہی لوگوں کو ہو گا جو مؤلف کو جانتے ہیں اور ان کے الہامات کو مانتے ہیں اور اس سے پہلے وہ انگریزی زبان کو بُرا جانتے تھے اور انگریزی پڑھنے والوں کو سخت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اب ان سے امید ہے کہ وہ اس متعصبانہ جاہلانہ خیال کو دماغ سے نکال دیں گے اور دنیاوی اغراض کے لئے جیسے اپنے بچوں کو فارسی ، ہندی سکھاتے ہیں انگریزی بھی سکھائیں گے.اور اسباب ترقی محسن معاشرت سے جس میں اور لوگ بڑھے جاتے ہیں اور یہ باوجود طلب محض جہالت سے پس ماندہ ہیں حصہ پائیں گے.بعض خوش فہم ان فوائد ظاہرہ کو سن کر غور و انصاف سے یکسو ہو کر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انگریزی زبان کے الہاموں میں یہ فوائد تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو انگریزی زبان میں الہام کیوں نہ ہوا؟ اس کا جواب ان فوائد کی تقریر کے ضمن میں ادا ہو چکا ہے.مگر توفیق رفیق نہ ہو تو سمجھ میں

Page 295

حیات احمد ۲۸۵ جلد اول حصہ دوم کیونکر آوے.ان حضرات کے فہم پر ترس کھا کر مَا عَلِمَ ضِمُنًا (یعنی جو ضمناً معلوم ہوا) کی تصریح اور اس جواب کی بالا ختصار تقریر کی جاتی ہے.(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب وقت انگریزی خوان نہ تھے اس لئے آپ کو انگریزی زبان میں الہام نہ ہوا.وہ لوگ عربی زبان تھے.لہذا ان کو عربی زبان میں ہی قرآن نے اعجاز دکھایا اس اعجاز کے علاوہ صدہا معجزات اور بھی ان کو دکھائے جو اس وقت ان لوگوں کے مناسب حال تھے.(۲) اور آنحضرت کے زمانہ میں اقوام غیر کی زبان نہ سیکھنے کو بُرا نہ سمجھا جاتا تھا بلکہ آنحضرت نے زید بن ثابت کو عبرانی زبان سیکھنے کا خود حکم دیا ہے.چنانچہ بخاری میں صفحہ ۱۰۶۸ پر منقول ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر ایسے متعصب ہوتے (جو ہمارے زمانہ میں موجود ہیں ) تو ضرور آنحضرت بھی اقوام غیر کی زبانوں میں ملہم و مخاطب ہوتے اور ابطال خیال متعصبین زمانہ حال کے لئے وہی حکم جو زید بن ثابت کو ارشاد ہو چکا ہے کافی ہے.اور آیات قرآن شریف وَعَلَّمَ ادَمَ الْأَسْمَاء (البقرة :۳۲) اور وَمِنْ آلته....وَاخْتِلَافُ الْسِنَتِكُمُ (الرّوم:۲۳) وغیرہ میں بھی اس خیال کا ابطال پایا جاتا ہے.بعض انگریزی خوان ان الہامات انگریزی پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی انگریزی اعلیٰ درجہ کی فصیح نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اعلیٰ درجے کی فصاحت تو قرآن شریف ہی کا معجزہ ہے.جو بجز قرآن کسی مسلم الثبوت کتاب آسمانی میں بھی نہیں پایا جاتا.پھر ان الہامات میں اعلیٰ درجہ کی فصاحت نہ پائی گئی تو کونسا محل اعتراض ہے.یہاں صرف غیر زبان میں الہام ہونا ہی ( معمولی طور پر کیوں لے خدا تعالیٰ کی قدیم عادت ہے کہ ہر زمانے میں اس قسم کے معجزات و خوارق منکرین کو دکھاتا ہے جو زمانہ کے لئے مناسب ہوں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں سحر کا بڑا زور تھا.اس لئے ان کو ایسا معجزہ ( لاٹھی کا سانپ بن جانا وغیرہ ) جو سحر کا ہم جنس یا ہم صورت تھا.اور پھر وہ سحر پر غالب آیا.

Page 296

حیات احمد ۲۸۶ جلد اول حصہ دوم نہ ہو ) خرق عادت اور کرامت ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا (جن کی امت میں یہ الہام ہوا) معجزہ ہے.بعض یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ان الہامات کی انگریزی میں غلطیاں بھی ہیں جیسے کہ اس فقرہ ملہمہ میں (جو بصفحہ ۴۸۰ کتاب موجودہ ہے ) ''آئی کین ویٹ آئی ول ڈو“.لفظ ویٹ غلط ہے صحیح اس مقام میں لفظ و ہٹ چاہیئے.اس کا جواب یہ ہے کہ اس غلطی کا الہام سے ہونا متعین و متیقن نہیں.جائز وممکن ہے کہ الہام میں لفظ و ہٹ ہو.مؤلف نے اس وجہ سے کہ وہ اس زبان اور حروف سے محض اجنبی واقعی ہے ویٹ پڑھ لیا ہو.جو لفظ وہٹ کا ہمشکل و مشابہ ہے جیسے لفظ ویٹ جو کتاب میں مکتوب ہے اسی تشابہ کے سبب وہٹ پڑھا جا سکتا ہے.چنانچہ ایک لائق انگریزی خوان ( سٹیشن ماسٹر بٹالہ ) سے اس غلطی کا ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو اس لفظ کو وہٹ ہی پڑھا تھا.بعد تحریر اس جواب کے اُسی دن (جس دن یہ جواب لکھا جا چکا تھا ) جناب مؤلف اس شہر بٹالہ میں جہاں میں اب ہوں تشریف لائے اور آپ کی ملاقات کا اتفاق ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ انگریزی الہامات بقیہ حاشیہ.حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں طب کا بڑا چرچا تھا.اس لئے ان کو ایسا مجرب (اندھے مادر زاد اور کوڑھے کو اچھا کرنا.اور مردے کو زندہ کرنا ) دیا گیا.جس نے طبیبوں کو مغلوب کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے مخاطبین وقت کو فصاحت کا ایسا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے سوا اہل سخن نہ جانتے تھے.یہی وجہ ہے کہ وہ بلا د غیر کے لوگوں کا عَجَمُ (یعنی گونگے ) نام رکھتے تھے.اس لئے خدا تعالیٰ نے انگریزی خوانوں پر ( جو عربی سے محض نا آشنا ہیں.اور سماعی باتوں پر وہ ایمان نہیں لاتے ) دین محمدی اور قرآن کا صدق ظاہر کرنا چاہا تو آنحضرت کے امتیوں اور خادموں میں سے ایک شخص کو انگریزی الہامات سے جو انگریزی خوانوں کے افہام یا افحام کا باعث ہوں ) ممتاز فرمایا.یا نوٹ : ایڈیٹر اشاعۃ السنه معجزات مسیح ناصری کی حقیقت کو نہیں سمجھا.مردے اس دنیا میں زندہ نہیں ہو سکتے.یہ قانون الہی قرآن کریم کے خلاف ہے.(ایڈیٹر سیرت)

Page 297

حیات احمد ۲۸۷ جلد اول حصہ دوم آپ کو کس طور پر ہوتے ہیں.انگریزی حروف دکھائے جاتے ہیں یا فارسی حروف میں انگریزی فقرات لکھے ہوئے دکھائے جاتے ہیں.انہوں نے جواب میں فرمایا کہ فارسی حروف میں انگریزی فقرات مکتوب دکھائے جاتے ہیں.جس سے مجھے اپنی تجویز کا یقین ہوا.اور معلوم ہوا کہ یہ غلطی ہے تو مؤلف کے فہم کی غلطی ہے جنہوں نے وہٹ کو ویٹ پڑھا اصل الہام کی غلطی نہیں اور ایسی غلطی فہم یا تعبیر (جس سے کوئی گمراہی پیدا نہ ہو اور نہ اس سے صدق ملہم یا الہام میں فرق آوے) ایسے الہام مشتبہ یا مہم میں کوئی نئی بات نہیں اور نہ محل تعجب و انکار ہے.اس قسم کی غلطیاں پہلے ملہمین مسلم الہام سے بھی ہو چکی ہیں اور یہ ان کے الہام میں خلل انداز نہیں سمجھی گئیں.غرض آپ کی انگریزی دانی کے متعلق یہ قطعی بات اور قول فیصل ہے کہ آپ اس سے محض ناواقف تھے.عمر کے آخری حصہ میں اس کی طرف توجہ کرنا بھی آپ کی عالی ہمتی اور جفا کش طبیعت کو ظاہر کرتا ہے اور آخری حصہ عمر سے مراد وہ ایام ہیں جب کہ برادرم صادق سے آپ نے انگریزی پڑھنی چاہی.یہ وہ وقت ہے جبکہ آپکی جماعت کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی.اس وقت انگریزی کی طرف توجہ کرنے کی ایک ہی ضرورت تھی کہ اس زبان میں یورپین اقوام کو تبلیغ کرسکیں.اس ہمت بلند کو دیکھنا چاہیئے کہ ایک شخص جو گونہ دائم المرض ہے اور تمام قوموں کے ساتھ مذہبی میدان جنگ میں مقابلہ کر رہا ہے.باوجود اس قدر مصروفیت کے بھی چاہتا ہے کہ ایک غیر زبان کو سبقاً سبقاً پڑھ لے یہ امر واقعہ ہے کہ اگر آپ توجہ فرماتے تو ضرور اس زبان کو سیکھ لیتے.لیکن آخر آپ نے کسی کم ہمتی کی بنا پر نہیں بلکہ دوسروں کو ثواب میں شریک کرنے کے لئے فرمایا.یہ حصہ میں جماعت کے لئے چھوڑ دیتا ہوں !!! مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب ایسے واقف کار کی شہادت کے بعد مجھے اس پر کچھ اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں.یہاں مجھے یہ بھی کہ دینا چاہیئے کہ ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جس کا کام محض واقعات اور حالات زندگی کو جمع کرنا ہو شاید رفع اعتراضات کا کام مجھے ہاتھ میں نہیں لینا

Page 298

حیات احمد ۲۸۸ جلد اول حصہ دوم چاہیئے تھا مگر میں واقعات کی تنقید اور صحت کے سوال کو جبکہ زیر نظر رکھتا ہوں تو مجھے ہر ایسے مرحلہ پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے کسی حصہ یا واقعہ پر کوئی اعتراض پیدا ہو اس کے رفع کرنے کی کوشش کرنی ضروری ہے.ایک مردہ زندہ کر دیا جہاں خاکسار ایڈیٹر سیرت مسیح موعود و الحکم کا مکان ہے اس کے پچھواڑے بہت بڑا گڑھا تھا.ایک جولا ہے ( مستمی گلاب ) کا لڑکا اس میں ڈوب گیا.لاش پانی پر تیر پڑی.آخر اُسے نکالا گیا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ وہ مر گیا.اور سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ' مردہ ہی تھا.اس واقعہ کو دیکھنے والے اس وقت تک زندہ موجود ہیں.حضرت مرزا صاحب کو خبر ہوئی.یہ بھی موقعہ واردات پر پہنچے.آپ نے اس مردہ بچہ کو دیکھ کر فرمایا کہ تھی جو چھاچھ میں ڈوب کر مر جاتی ہے.اس پر راکھ ڈالیں تو زندہ ہو جاتی ہے.یہ بھی مغروق ہے ممکن ہے زندہ ہو سکے طبی اصول پر علاج کرنا چاہیئے.چنانچہ آپ نے اُس کا سرتا لو پر سے منڈوا دیا اور اس پر سینگی لگوا دی.اس کی کشش سے یہ اثر پیدا ہوا کہ بچہ کو ایک آنی ہوش آ گئی.اور وہ اٹھ بیٹھا.گویا مردہ زندہ ہو گیا مگر ضعف اور نقاہت کچھ ایسی تھی کہ اس کے منہ سے کوئی بات نہیں نکلی اور بول نہیں سکا.آپ نے اس حالت کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ زندہ نہیں رہ سکتا.چنانچہ چند ہی منٹ کے اندر وہ فوت ہو گیا.یہ واقعہ اگر حقائق پسند قوم کے سامنے نہ ہوتا تو فی الحقیقت اس کی تعبیر مردہ زندہ کرنے کے معجزہ سے ہوتی مگر آپ نے صرف ایک طبی اصل کو زیر نظر رکھ کر تجربہ کیا اور اس تجربہ میں ایک حد تک آپ کو کامیابی ہوئی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت نہایت غور کرنے والی اور فکر رسا واقع ہوئی تھی.کہاں لکھی کا معاملہ اور اس سے استنباط کر کے آپ نے ایک مغروق کے زندہ کرنے کے لئے کوشش کی.

Page 299

حیات احمد ۲۸۹ تائید اسلام میں زندگی وقف ہوگئی جلد اول حصہ دوم سیالکوٹ کے ایام قیام میں بھی جیسا کہ قارئین کرام کو معلوم ہو چکا ہے کہ آپ کی زندگی تائید اور حمایت اسلام ہی کے لئے تھی.اور اپنی فرصت کے وقت کو اسی کام میں لگاتے تھے.لیکن وہاں سے واپس آ جانے کے بعد تو آپ کا کام بجز اس کے اور کچھ نہ رہ گیا تھا کہ تزکیہ نفس کے اعلیٰ مدارج کے لئے مسنون مجاہدات کریں اور جو وقت بچ جاوے اسے تائید اسلام و تبلیغ دین میں صرف کریں.لالہ ملاوامل اور شرمیت رائے صاحب سے مذہبی گفتگوئیں ہوتی تھیں اور پھر یہ سلسلہ جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں اتنا لمبا ہے کہ سوامی دیانند صاحب اور باوا نرائن سنگھ صاحب اور منشی گور دیال صاحب وغیرہ سے قلمی جنگ شروع ہوگئی.اس مذہبی جنگ ( مناظرات ) میں آپ کی غرض و غایت محض خدا کی رضا.اور اعلائے کلمتہ الحق ہوتی تھی.مباحثات میں رضاء الہی مقصود ہوتی تھی نہ بخن پروری تبلیغ اسلام کا جوش آپ کو فطرتاً دیا گیا تھا.اور اظہار الحق کے لئے طبیعت میں کوئی روک اور خوف نہ تھا.اس مقصد کے لئے اکثر ان لوگوں سے جو پاس آتے تھے.مباحثات بھی ہوتے رہتے بلکہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ کو مجبوراً عدالتوں میں پیروی مقدمات کے لئے جانا پڑتا تھا تو وہاں بھی اکثر مذہبی گفتگوئیں شروع ہو جاتی تھیں.بٹالہ میں لالہ جیگو پال ایک نائب تحصیلدار تھے.اُن کی عدالت میں جب کبھی بھی جانے کا اتفاق ہوتا تو ضرور ان سے مذہبی گفتگو ہوتی رہتی.اور سیالکوٹ کے حالات میں تو یہ بات میں لکھ ہی آیا ہوں کہ وہاں اپنے فرض منصبی سے فراغت پانے کے بعد اکثر یہی کام ہوتا تھا اور اپنے دوست لالہ بھیم سین صاحب سے بھی اکثر مذہبی امور میں تبادلہ خیالات جاری رہتا.جب آپ سیالکوٹ سے واپس آگئے تو مولوی محمد حسین بٹالوی نئے نئے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے.اور غیر مقلدین کا فرقہ بھی نیا نیا پنجاب میں اپنا اثر پیدا کر رہا تھا.مولوی ابوسعید

Page 300

حیات احمد ۲۹۰ جلد اول حصہ دوم محمد حسین صاحب نوجوان اور اپنے علم کے نشے میں سرشار.ان مذہبی مباحثات میں جو حنفیوں اور غیر مقلدین میں ہو رہے تھے لیڈنگ پارٹ لیتے تھے.ان کے بٹالہ آنے کے ساتھ بٹالہ کے مسلمانوں میں بھی ایک تحریک اور جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کے خیالات جدیدہ ( وہ لوگ انہیں جدیدی کہتے تھے ) کی تردید کے لئے کوشش کرنی شروع کی.بٹالہ والوں کی نظر حضرت مسیح موعود پر پڑی اور وہ انہیں بلا کر مولوی بٹالوی سے مباحثہ کے لئے لے گئے.اس مباحثہ کے متعلق حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ :- ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں...مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے.جب نئے نئے مولوی ہو کر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کوان کے خیالات گراں گزرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا.چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اُس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ ان کے والد صاحب کے مسجد میں پایا.پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اُس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کر لیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابلِ اعتراض ہو.اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا.رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا، یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے.جو گھوڑوں پر سوار تھے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۱ ۶۲۲۰ حاشیہ نمبر۳)

Page 301

حیات احمد ۲۹۱ جلد اول حصہ دوم لوگ مباحثات کے عام طرز اور مناظرہ کنندگان کی حالت سے خوب واقف ہیں.اپنے فریق مخالف یا مقابل کی بات کو جو حق ہو قبول کر لینا اور پبلک کے سامنے تسلیم کر لینا بہت ہی مشکل ہے.میں علماء کی تحقیر نہیں کرتا مگر علماء کے لئے تو جان دے دینا آسان مگر اپنی غلطی تو در کنار فریق ثانی کی صحیح اور معقول بات کو مان لینے کی عادت بھی نہیں رہی.مگر حضرت مسیح موعود کی حالت محض اخلاص اور مرضاة اللہ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ بالطبع اس کو پسند نہیں کرتے تھے کہ مسلمانوں میں اندرونی طور پر خانہ جنگی ہو اور وہ باہم مسائل کے اختلاف پر حق پژوہی اور حق گوئی کو چھوڑ دیں.اور پھر یہ کس قدر جرات اور دلیری ہے کہ جس شخص سے مناظرہ کرنے جاتے ہیں اس کے گھر پر پہنچتے ہیں.کوئی روک اور جھجک طبیعت میں اس کے علم اور اثر سے نہیں لیکن اس کے منہ سے ایک حق بات سن کر اس بات کی قطعا پرواہ نہیں کی جاتی کہ لوگ کیا کہیں گے.وہ اس کو گریز قرار دیں گے یا فریق ثانی سے مرعوب ہونے سے تعبیر کریں گے.جو بات حق تھی اسے تسلیم کر لیا اور اس کی صحت پر اپنے اقرار سے مہر کر دی.یہ ایک ایسا فعل ہے جس کی نظیر انبياء عليهم السّلام اور ان کے خاص متبعین کی زندگیوں کے سوا کہیں نہیں ملتی.اخلاص في الدين اور اپنی ہوا و ہوس کو کچل دینے کا زور دار جذ بہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے مل سکتا ہے.پھر اس فعل کی قبولیت کے آثار اسی وقت ظاہر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعے بشارت دی اور رضی اللہ عنہ کا گویا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا.انسان دنیا میں چاہتا ہے کہ اس کی قبولیت بڑھے اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں.اللہ تعالیٰ نے اس فعل کے ثمرہ میں بتایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.یہ وہ زمانہ ہے کہ براہین احمدیہ کی تالیف و ترتیت کا بھی ابھی تک خیال پیدا نہیں ہوا چہ جائیکہ کوئی دعوئی ہوتا.دنیا سے قریباً بے تعلقی کی زندگی بسر کر رہے ہیں.ملازمت کے سلسلہ کو بھی ترک کر چکے ہیں.آئندہ زندگی کے گزارہ کے خیالات گو آپ کے دل و دماغ پر متاثر نہیں.مگر گھر والوں کو اس کا خیال ضرور ہوتا ہے کہ یہ کیا کریں گے.حضرت والد صاحب قبلہ ابھی زندہ ہیں.

Page 302

حیات احمد ۲۹۲ جلد اول حصہ دوم غرض زندگی کی اس منزل میں ہیں جہاں ایک دنیا دار کے لئے بڑی امیدیں ہوتی ہیں.اور عمر کا وہ حصہ ہے جبکہ ہر قسم کے خیالات اور خود داری اور خودنمائی کے جذبات پورے جوش اور زور میں ہوتے ہیں.اپنی بات کی بیچ اور ضد ہوتی ہے.ان تمام حالات میں حضرت مرزا صاحب ایک مشہور مولوی سے مباحثہ کیلئے جاتے ہیں.اور اس کی تقریرین کر اسے صحیح پا کر اس کی تصدیق کر دیتے ہیں.نہ تو خیال آتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور نہ اس بات کی پرواہ کی جاتی ہے کہ اس شخص کی عام مخالفت اس کے بعض عقائد کی وجہ سے ہو رہی ہے.اور میں اپنے بیان سے اس کی تائید کر رہا ہوں.میرے خلاف بھی ایک طوفان بے تمیزی پیدا ہو جائے گا.پس آپ غور کریں کہ ان حالات میں جبکہ حنفیوں اور غیر مقلدوں میں سخت معرکہ کی جنگ جاری تھی.اور کسی اہلحدیث کی تائید سے بے انتہا بلاؤں کو خرید لینا ہوتا تھا حضرت مرزا صاحب مولوی محمد حسین صاحب کی تائید کر دیتے ہیں.بحالیکہ ان سے مباحثہ کے لئے بلائے گئے تھے.یہ خیال اور وہم نری حماقت ہوگی کہ مولوی ابو سعید صاحب کا علم یا زور یہاں آپ کے خاموش کرا دینے کا موجب ہو سکا ہوگا.ممکن تھا کہ یہ وہم کوئی وقعت رکھتا اور بعد میں آنے والے واقعات نے اسے مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثات بالمشافہ اور بذریعہ تحریروں کے نہ کرائے ہوتے اور اس کے خطرناک مقابلہ میں یہ جوان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ آیا ہوتا.اور کبھی اور کسی حال میں اس پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کی علمیت اور اثر کا خوف مؤثر نہیں ہو سکا.یہ واقعات ہیں اور کوئی ان کی تکذیب نہیں کر سکتا.پس ایسی حالت میں یہ خیال محض نادانی ہے بلکہ اس کی تہہ میں ایک اور صرف ایک ہی بات تھی اور وہ اخلاص فی الدین تھا.واقعات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی وحی نے بھی اس پر صاد کیا ہے.اور پھر اب اس زمانہ میں تو اس وحی الہی کے واقعات نے پھر تائید اور تصدیق کی ہے.جبکہ دیکھا گیا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے عملی رنگ میں برکت ڈھونڈ رہے ہیں.یہ امر بھی قارئین کرام کی زیر نظر رہنا چاہئے کہ مولوی محمد حسین صاحب کی تائید آپ نے محض

Page 303

حیات احمد ۲۹۳ جلد اول حصہ دوم رضاء الہی کے لئے اس وقت کی جبکہ ایک عالم اُن سے بیزار اور ان کا مخالف تھا.اور پھر محض خدا کی رضا ہی کے لئے علیحدگی اس وقت اختیار کی جبکہ ایک دنیا ہندوستان کی مولوی محمد حسین صاحب کی مذاح اور گرویدہ ہو رہی تھی.اور اس کو اپنی تحریروں اور اثر پر اس قدر ناز تھا کہ وہ نہایت نخوت کے ساتھ یہ دعویٰ شائع کرتا ہے کہ میں نے ہی اس کو اونچا کیا اور میں ہی گراؤں گا.اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر مادی اسباب کا نتیجہ حضرت مسیح موعود کی کامیابی ہوتی.اور وہ کسی شخص کی تائید یا انکار پر مبنی ہوتی تو مولوی محمد حسین صاحب کو اپنے اس دعوئی میں ضرور کامیابی ہو جاتی.کیونکہ اس کا اثر اور رسوخ بہت بڑھ کر تھا.علماء ہند و پنجاب پر وہ اپنی قابلیت اور علمیت کا سکہ بٹھا چکا تھا.جو شہرت اور عزت اسے حاصل تھی وہ ایسے دعوی کی محرک ہو سکتی تھی.مگر خدا تعالیٰ کا مقابلہ کون کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کاموں کو کون روک سکتا ہے.حضرت مسیح موعود کی مخالفت اور عداوت نے اس کے تمام اثر اور رسوخ کو باطل کر دیا.آج جب اُن پرانے واقعات کی یاد تازہ ہو رہی ہے اور یہ حالات ایک مستقل تالیف کی صورت اختیار کر رہے ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب بھی ابھی تک زندہ ہیں.اس کے پہلے حالات اور موجودہ حالات کو دیکھنے والے بھی زندہ ہیں.وہ دیکھتے اور جانتے ہیں کہ کون گرا اور کون اونچا ہوا؟ میرا مقصد اس بیان سے صرف یہ دکھانا ہے کہ کسی رواداری اور پاس خاطر یا علمی رعب و وقعت نے حضرت مسیح موعود کو اس وقت مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ کرنے سے نہیں روکا ور نہ وہ وقت تو ایسا تھا کہ اگر یہ کوئی بات بھی منہ سے نکالتے تو گل بٹالہ بالا تفاق ان کی تائید کرتا.پوری مخالفت کے ایام میں اس کی تائید کرنا اور پوری شہرت اور اثر کے ایام میں میدانِ مقابلہ میں نکلنا یہ دونوں فعل صرف اخلاص فی الدین کا نتیجہ تھے !!! ریاست کپورتھلہ کے سرشتہ تعلیم کی افسری سے انکار کر دیا سیالکوٹ کی ملازمت کے دوران میں وہاں کی تنخواہ ہر چند آپ کی مختصر ضروریات کے لئے تو کفایت کر سکتی تھی بلکہ شائد زیادہ ہو.مگر آپ کی عادت میں دوسروں کے ساتھ سلوک مرقت تھا.اور حتی الوسع بعض مساکین آپ کے دستر خوان سے کھانا کھاتے تھے اس لئے قادیان سے آپ

Page 304

حیات احمد ۲۹۴ جلد اول حصہ دوم کے اخراجات کے لئے ایک معقول رقم جایا کرتی تھی.جب وہاں سے ترک ملازمت کر کے آپ قادیان آگئے.تو کچھ عرصہ کے بعد ریاست کپورتھلہ کی طرف سے وہاں کے صیغہ تعلیم کی افسری کے لئے آپ کو بلایا گیا.خاندانی حالات کے ضمن میں بیان کر آیا ہوں.کہ جن ایام میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب بیگو وال میں تھے تو مہاراجہ کپورتھلہ کی خواہش تھی کہ آپ مستقل طور پر وہاں رہ جائیں اور وہ ایک معقول جا گیر آپ کو دینا چاہتا تھا مگر جناب مرزا غلام مرتضی صاحب نے انکار کر دیا تھا.ریاست کے اعلیٰ عہدہ داروں کے ساتھ آپ کی راہ و رسم تھی اور وہ چاہتے تھے کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے صاحبزادوں میں سے ہی کوئی وہاں رہے.مرزا غلام قادر صاحب چونکہ سرکاری ملازم ہو چکے تھے اس لئے ریاست کپورتھلہ نے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام کو بلانا چاہا مگر حضرت مسیح موعود نے اس عزت و حکومت کی نوکری سے انکار کر دیا اور حضرت والد صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کیا کہ:.میں کوئی نوکری کرنی نہیں چاہتا ہوں.دو جوڑے کھڈ ر کے کپڑوں کے بنا دیا کرو.اور روٹی جیسی بھی ہو بھیج دیا کرو.“ اس سے آپ کی سیر چشم اور قانع طبیعت کا پتہ صاف ملتا ہے کہ دنیا کی حرص و آز ہوتی (نعوذ باللہ ) یا آپ شہرت اور حکومت کے دلدادہ ہوتے تو بہتر سے بہتر موقع آپ کے سامنے پیش آئے مگر آپ کو کبھی ان باتوں نے تحریک نہیں کی.آپ کی ضروریات اور خواہشات کا دائرہ بہت ہی محدود تھا.اس وقت بھی جبکہ آپ کے سامنے دواڑھائی سو روپیہ ماہوار کی ملازمت پیش ہوتی ہے اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب جیسی خوبی اور قابلیت کا انسان جو بڑی ترقی کرنے کی استعداد رکھتا تھا اگر دنیا کا دلدادہ ہوتا تو بڑی خوشی سے منظور کرتا.مگر وہ برخلاف اس کے انکار کرتے ہیں اور اپنی ضروریات کو کپڑے کے دو جوڑوں اور معمولی روٹی میں محدود کر دیتے ہیں.جب حضرت والد صاحب قبلہ نے آپ کا یہ فیصلہ سنا.تو نہایت رقتِ قلب کے ساتھ ایک شخص میاں غلام نبی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میاں غلام نبی میں خوش تو اسی پر ہوں.کچی راہ تو یہی ہے جس پر یہ چل رہا ہے.

Page 305

حیات احمد ۲۹۵ مقدمات کیلئے فیصلہ برحق کی دعا جلد اول حصہ دوم حضرت مسیح موعود کا معمول شروع سے یہ تھا کہ آپ سنن ونوافل گھر پر پڑھا کرتے تھے.اور فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کرتے تھے.یہ التزام آپ کا آخر وقت تک رہا.کبھی کبھی جب مسجد میں بعد نماز تشریف رکھتے تو سنتیں مسجد میں پڑھا کرتے تھے.ان ایام میں جبکہ آپ کو مقدمات کی پیروی کے لئے حضرت والد صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں جانا پڑتا تو آپ کا یہ بھی معمول تھا کہ جس رات کی صبح کو آپ کو تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا تو عشاء کی نماز بڑی مسجد میں پڑھ چکنے کے بعد کہتے کہ :.مجھے کو مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے.میں والد صاحب کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا.دعا کرو کہ اس مقدمہ میں حق حق ہو جاوے اور مجھے مخلصی ملے.میں نہیں کہتا کہ میرے حق میں ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حق کیا ہے؟ پس جو اس کے علم میں حق ہے اس کی تائید اور فتح ہو.“ اس دعا کے لئے آپ خود بھی ہاتھوں کو خوب پھیلاتے اور دیر تک دعا مانگتے اور تمام حاضرین بھی دعا میں شریک رہتے.دعا کے الفاظ اپنی حقیقت اور دعا کرنے والے کے دلی ارادوں اور جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں.قانونی امتحان کی تیاری محض تقوی کی رعایت سے چھوڑ دی قانونی امتحان جب آپ نے پہلی مرتبہ دیا.تو اس وقت آپ کی غرض و مقصود اس پیشہ سے روپیہ کمانا نہ تھا.بلکہ آپ اہل مقدمات کی بے کسی اور مظلومی کو دیکھتے تھے کہ بعض اوقات قانون کی ناواقفیت کے باعث وہ ان برکات اور مفاد سے محروم ہو جاتے ہیں.جو قانون نے ان کے لئے عطا کر رکھے ہیں.محض اپنے ہم جنسوں کی بھلائی اور مدد کے خیال نے آپ کو اس طرف متوجہ کیا تھا.چنانچہ ایک پرانے خط کے چند جملوں سے ظاہر ہوتا ہے :-

Page 306

حیات احمد ۲۹۶ جلد اول حصہ دوم ہم بروش صلحاء و ہم بر مذاق حکماء فواید تعاون و منافع معاونت ہویدا ازیں جاست که فرمان واجب الا ذعان و منطوق کامل الوثوق حضرت عزت عز اسمه با رشاد تَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقْوَى صدور یافتہ.پس نص تنزیل واجب کرد تعاو نے را که از جنس برو تقوی باشد و ظاهر است که عهده وکالت منافی شعار بر و تقوی نیست 66 غرض ابتداء جب یہ خیال آیا کہ امتحان قانونی دینا چاہیئے تو آپ کی غایت مقصود غرباء اور ضعفاء کی امداد و اعانت تھی.والا جو حق پوش اس کو ظلماً حضرت مسیح موعود کی زراندوزی کی طرف منسوب کرتا ہے اس کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ اپنی خاندانی وجاہت اور خوبی اور دیانت وامانت کے لحاظ سے بہترین ملازمت حاصل کر سکتے تھے اور پھر نہ صرف ایک مرتبہ بلکہ دو مرتبہ اعلیٰ درجہ کی اسامیاں جو پیش کی گئیں خود نا منظور کر دیں.اور پھر اپنی ضروریات زندگی کو ہمیشہ بہت ہی کم اور مختصر رکھا.طبیعت میں کبھی تعیش اور تن آسانی کی عادت کو پیدا نہ ہونے دیا.دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی حاجات پر مقدم کرنا ہمیشہ آپ کا شعار رہا.اور اس کو دوسروں سے مخفی رکھا.ان حالات میں سوائے نہایت ہی ناپاک فطرت انسان کے اور کوئی سنجیدہ اور فہیم آدمی آپ کی طرف ایسی نسبت نہیں کر سکتا.غرض قانونی امتحان کی تیاری بھی محض اس اصل پر تھی کہ دوسروں کا بھلا ہو.لیکن بعد میں جب آپ نے غور کیا تو یہ خیال دامن گیر ہوا کہ بعض اوقات اہلِ مقدمات محض جھوٹے اور فرضی بیانات پیش کرتے ہیں اور اول سے لے کر آخر تک ساری کارروائی جھوٹی ہوتی ہے وکیل مقدمہ اس کی تائید کرتا ہے.ہر چند وکیل عالم الغیب نہیں اور وہ نہیں جانتا کہ حقیقت کیا ہے.اور بعض اوقات ا ترجمہ: صلحاء کے طریق اور حکماء کے مذاق کے مطابق تعاون کے فوائد اور معاونت کے منافع اس جگہ پر ظاہر ہیں کہ واجب الاطاعت اور کامل الوثوق فرمان خدا وندى عَزَّ اسْمُهُ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة: ۳) (یعنی نیکی اور تقویٰ کے امور میں تعاون سے کام لو ) بیان ہوا ہے.پس نازل کردہ نص سے تعاون کو واجب کر دیا اور نیکی اور تقویٰ پر تعاون ہو اور ظاہر ہے کہ وکالت کا منصب اور ذمہ داری نیکی اور تقویٰ کی راہ روش کے منافی نہیں ہے.

Page 307

حیات احمد ۲۹۷ جلد اول حصہ دوم کسی مرحلہ پر اسے معلوم بھی ہو جائے تو چونکہ وہ معاوضہ لے چکا ہوتا ہے اس لئے پیروی کرتا ہے.اور چھوڑ نہیں سکتا.اس لئے تقویٰ کی باریک در بار یک رعایت نے اس خیال کو ہمیشہ کے لئے آپ کے دل سے نکال دیا.ایک وقت اس پیشہ کے مختلف پہلوؤں پر آپ نے خوب غور کیا ہے.اس کے تمام نشیب و فراز پر متقیانہ نظر ڈالی ہے.لیکن آخر یہ پہلو غالب آیا کہ چونکہ امکان ہے کہ محض غلط اور فرضی مقدمات کی پیروی ہو یا ایک ظالم مجرم کی حمایت اور تطہیر ہو.اس لئے کلیۂ اس سے الگ رہنے میں امن سمجھا اور دوسری مرتبہ امتحان دینے کا خیال جو آیا تھا وہ ترک کر دیا.اور اس کے ساتھ ہی دنیا میں ہر قسم کی جدو جہد معاش کے لئے ترک کر کے اس قدر پر اکتفا کیا جو خداداد ذریعہ آمدنی بسلسلہ حرث تھا.اور آپ کی مختصر ضروریات کے لئے وہ اچھی طرح ممد تھا.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی تشریف آوری حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت صہری کے لئے منتخب فرمایا تھا.اُس نسبت صہبری کے لئے جس کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس شادی سے اس کے ہاں اولا د ہو گی.حضرت میر ناصر نواب صاحب کا تفصیلی تذکرہ میں اُس حصہ سیرت میں کروں گا ( انشاء اللہ ) جہاں حضرت مسیح موعود کی شادی کا تذکرہ ہوگا.یہاں مجھ کو صرف اس وجہ سے آپ کا ذکر کرنا پڑا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود کے ان ایام کے واقعات اور حالات لکھ رہا ہوں.جب آپ سیالکوٹ سے واپس آچکے تھے.حضرت میر صاحب جیسا کہ سب کو معلوم ہے شروع شروع میں بڑے پکے وہابی (اہلحدیث ) تھے.اس وقت اہلحدیث اسی نام سے پکارے جاتے تھے.اپنی صاف گوطبیعت اور جلد جوش میں آ جانے والی عادت میں مشہور تھے.محکمہ نہر میں وہ ملازم تھے اور اپنے پورے شباب اور زور میں تھے.دینداری کا جذبہ اور اتباع سنت کا جوش بہت تھا.

Page 308

حیات احمد ۲۹۸ جلد اول حصہ دوم حضرت مرزا صاحب کے پاس محض مذہبی دلچسپی اور نیکی اور تقویٰ کے لحاظ سے ان کی آمد ورفت تھی.پھر رفتہ رفتہ انہوں نے اپنا ہیڈ کوارٹر عملی رنگ میں قادیان ہی کو بنالیا.اپنے اہل وعیال کو لے کر قادیان میں آگئے.دورہ کر کے اپنے فرض منصبی کو ادا کر کے واپس قادیان آ جاتے.اور حضرت مسیح موعود کی صحبت سے فیض پاتے.مذہبی اور دینی اذکار ہوتے رہتے.میر صاحب قبلہ اپنی جگہ متبع سنت تھے اور حضرت مسیح موعود تو اس رنگ میں پورے رنگین اور گداز تھے اس لئے دن بدن میر صاحب کے دل میں حضرت مسیح موعود کی عظمت اور عزت بہ حیثیت ایک متقی اور باخدا انسان کے بڑھتی جاتی تھی.حضرت اُم المؤمنین ان دنوں میں قادیان کے ایک محلے میں ایک چھوٹے بچہ کی حیثیت سے کھیلتی تھیں.اور اس بات سے ان کے معزز اور واجب الاحترام والدین اور خود ان کا پاک اور معصوم دل بالکل ناواقف تھے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ وہ معصوم لڑکی اُم المؤمنین کے خطاب سے مخاطب ہوگی.اور یہی قادیان اس کی تمام عزتوں اور عظمتوں کا مرکز ہوگا.اور جس مرد خدا کے ساتھ اس کے باپ کو اس وقت ایک معمولی محبت کا تعلق ہے.وقت آتا ہے کہ صہری تعلقات کی زنجیر میں تبدیل ہو جائے گا.غرض حضرت میر صاحب کو بڑی محبت تھی.اور وہ اکثر حضرت مسیح موعود کے لئے مختلف قسم کے نفیس اور لذیذ کھانے جن میں دہلوی مذاق کی شان نمودار ہوتی تھی لیجایا کرتے.اور حضرت مسیح موعود اپنے معمول کے موافق انہیں اپنے متعلقین ( متعلقین سے مراد وہ بچے اور خادم لوگ تھے جو آپ کے آئے ہوئے کھانے میں حصہ دار ہوا کرتے تھے.گھر والے مراد نہیں ) میں تقسیم کر کے کھاتے اور حمد الہی کرتے.حضرت مسیح موعود کے پاس جو طالب علم یا خادم رہتے.ان میں سے بعض کی آپ نے میر صاحب کے پاس سفارش بھی کی.چنانچہ میاں علی محمد صاحب ( جو آج کل خان بہادر مرزا سلطان احمد کے پاس ہیں ) اور میاں غفارا یکہ والا کو میر صاحب نے نوکر بھی کرا دیا.مگر پھر ان لوگوں کو کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ وہ میر صاحب کے ساتھ نہ رہ سکے.

Page 309

حیات احمد ۲۹۹ جلد اول حصہ دوم الغرض میر صاحب کی زندہ دلی کی وہ صحبتیں اور تذکرے اور بعض مسائل پر نکتہ آفرینیاں ایک عجیب پُرلطف زمانہ کی یاد دلاتی ہیں.حضرت مسیح موعود کی عملی زندگی کے جانچنے اور دیکھنے کا میر صاحب کو خوب موقعہ ملا.غقارے کا کٹورا گم ہو گیا میاں غفا را حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بطور ایک خادم کے انہیں ایام میں رہتا تھا.ایک مرتبہ اس کا ایک کٹورا گم ہو گیا.کٹورا کیا جاتا رہا بس گھر بھر پر آفت آ گئی.میاں غفارے کی نئی نئی جوانی اور جوش اور اس کٹورے کا نقصان.پھر کیا تھا.بیوی کو گالیوں سے لتاڑ ڈالا.اور ممکن تھا کہ بہت سختی سے مارتا بھی.مگر ہٹا دیا گیا.آخر حضرت تک نوبت پہنچی کہ میاں غفارے کا کٹورا گم ہو گیا! یہ عشاء کی نماز کا وقت تھا حضرت صاحب نے اس کو بلا کر کہا : " کم بخت صبر کر ایک کٹورا جاتا رہا تو کیا ہو گیا.خدا جانے کیا ہونا تھا.شکر کر کہ اسی پر بلائٹل گئی.بعض وقت تھوڑا سا نقصان کسی بڑے نقصان کا کفارہ ہو جاتا ہے اس قدر شور کیوں ڈالتا ہے.“ غرض بہت کچھ صبر اور شکر کی ہدایت کرتے رہے اور آخر میں اس کو وہ کہانی سنائی جو کسی دوسری جگہ لالہ ملا وامل کی زبانی درج ہو چکی ہے.جس میں ایک شخص نے جانوروں کی بولیاں سیکھنے کی خواہش کی تھی.اور ایک گھوڑے کی موت سے نقصان کا بچاؤ کرتے کرتے آخر خود خواجہ کی موت آگئی تھی.جب اس طرح پر آپ اس کو نصیحت اور ملامت کر چکے تب کہیں جا کر طـوعــا وَكَرُھا میاں غفارے کا جوش ٹھنڈا ہوا.اور گھر والی مصیبت سے بچی.کھانا بھی تنہا نہ کھاتے ان ایام میں آپ کے معمولات میں یہ امر داخل تھا کہ آپ کا کھانا اس چوبارے میں آیا کرتا تھا.جہاں آپ علی العموم رہتے تھے.جس وقت کھانا آتا تو دو تین لڑکے اور ایک آپ کا عزیز غلام حسین جو بہرہ بھی تھا پاس موجود ہوتے.آپ ایک آدمی کے کھانے کو چار پانچ حصوں میں تقسیم

Page 310

حیات احمد ۳۰۰ جلد اول حصہ دوم کر لیتے اور ہر ایک کو بمقدار مساوی حصہ دے دیتے اور اس طرح پر چوتھائی کبھی پانچواں حصہ آپ کو ملتا.اور اس جماعت میں اپنی روٹی تقسیم کر کے کھانے میں آپ کو بڑا مزا آ تا اور بہت خوش ہوتے.یہ لوگ جو آپ کے دستر خوان پر کھانے والے تھے علی العموم کھانے کے وقت موجود ہوتے اور کبھی ان میں سے کوئی موجود نہ ہوتا تو آپ اس کا حصہ رکھ لیتے تھے.اس طرح پر کسی کو یہ فکر نہ ہوتا تھا کہ اگر وقت پر نہ گئے تو کھانا نہیں ملے گا.بلکہ ہر ایک شخص مطمئن ہوتا تھا کہ اسکا حصہ انشاء اللہ محفوظ ملے گا.یہ ایثار اور طعام المسکین کی عادت شروع سے تھی اور دراصل یہ بطور ایک بیج کے تھی.قدرت آپ کو تیار کر رہی تھی اور وہ وقت آنے والا تھا کہ ہزاروں آدمی آپ کے دستر خوان پر کھانے والے تھے.اس عمل میں آپ کے زیر نظر اللہ تعالیٰ کے ایک خاص امر کی تکریم اور تعمیل بھی تھی.ارشاد الہی کی تکریم اور تحمیل بہت تھوڑے آدمی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی کھلی کھلی ہدایتوں کی بھی پابندی کریں.مگر انبیاء علیہم السلام کی فطرت ایسی واقع ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ادنی اشارہ یا تحریک پر بھی عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں.یہ اوامر الہیہ کی تکریم اور ادب ہوتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک رؤیا میں دیکھتے ہیں کہ گویا اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں.خواب کی بات ہے تعبیر طلب ہے.مگر ابو الملة ای رنگ میں تعمیل کرنے کو اٹھ کھڑا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت میں یوں تو پہلے ہی یہ بات رکھ دی گئی تھی.آ.غربا اور مساکین کے ساتھ سلوک کرتے اور اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دیتے مگر ساتھ ہی انہی ایام میں ۱۸۷۴ء میں آپ نے ایک رؤیا دیکھی جس میں ایک فرشتہ نے آپ کو ایک نان درخشاں دیا.

Page 311

حیات احمد ۳۰۱ جلد اول حصہ دوم چنانچہ وہ رویا یہ ہے :- فرشتہ نان دیتا ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بلند چبوترہ ہے.جو دوکان کے مشابہ ہے اور شاید اس پر چھت بھی ہے.اس میں ایک نہایت خوبصورت لڑکا بیٹھا ہے.جو قریباً سات برس کی عمر کا تھا.میرے دل میں گزرا کہ یہ فرشتہ ہے.اس نے مجھے بلایا یا میں خود گیا یہ یاد نہیں رہا.لیکن جب میں اس چبوترہ کے پاس جا کر کھڑا ہوا.تو اس نے ایک نان جو نہایت لطیف تھا اور چمک رہا تھا اور بہت بڑا تھا گویا چارنان کی مقدار پر تھا.اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مجھے دیا اور کہا کہ یہ نان لو یہ تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے اس رؤیا کا ظہور آج ہر شخص قادیان میں آ کر دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح ایک کثیر جماعت اس نان کو کھا رہی ہے.مگر جس زمانہ کے حالات میں لکھ رہا ہوں.چونکہ انہیں ایام میں آپ یہ رویا دیکھ چکے تھے.اس لئے اس امر الہی کی تعمیل اور ادب میں آپ اپنے کھانے میں دوسروں کو شریک کرلیا کرتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ اس فرشتہ نے کہا تھا.کہ یہ تمہارے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.دوسرے لوگ جو ان اسرار اور حقائق سے واقف نہیں تھے وہ اس حقیقت پر پے نہیں لے جا سکتے تھے.اور یوں بھی آپ کی طبیعت میں فیاضی اور دوسروں کے ساتھ سلوک اور مروت ودیعت کی گئی تھی.اور آپ اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے تھے.اور اس طریق سے کم خوری کا مجاہدہ بھی آپ کر رہے تھے.جس کا راز دوسروں کو معلوم نہ تھا.اس تقسیم میں آپ اپنے قریبی عزیز غلام حسین کا بہت خیال رکھتے تھے.اور جب وہ آپ کے پاس آتا تو ہمیشہ نہایت مسرت اور کشادہ پیشانی سے اس کو ملتے تھے.دوسرے لوگ خاندان نوٹ: - اس مفہوم کی ایک رؤیا حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں نزول امسیح صفحہ ۲۰۶، ۲۰۷.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۵ پر مندرج ہے.(ناشر)

Page 312

حیات احمد جلد اول حصہ دوم کے اس توجہ اور مروت سے اس غریب کے ساتھ پیش نہیں آتے تھے مگر حضرت اقدس کو ہمیشہ اس کا خیال رہتا.اور اپنی بساط کے موافق اس کے ساتھ ضرور سلوک کرتے رہتے تھے.اور اپنے کھانے کے وقت اس کو ضرور شریک کرتے بلکہ اگر موجود نہ ہوتا تو اس کے لئے کھانا رکھ لیتے تھے.اس کا مؤید ایک اور واقعہ میاں غفارا (جس کے یگوں میں اکثر ہمارے احباب آتے جاتے ہیں) ان ایام میں حضرت اقدس کی خدمت میں رہتا تھا.حضرت کی خدمت میں اُس کے آنے کی تقریب عجیب دلچسپ ہے اور آپ کے رحم اور ہمدردی کے جذبات کے اظہار کا ایک نقشہ پیش کرتی ہے.میاں غفارا کہتا ہے کہ میری عمر ۱۳-۱۴ سال کی تھی.میں بڑی مسجد کے صحن پر لیٹا ہوا دانے چبا رہا تھا.اور جس طرح پر بکری کھاتی ہے اس طرح پر منہ سے کھا رہا تھا.حضرت اقدس وہاں آئے اور مجھے اس حالت میں دیکھ کر آپ نے مجھے میرا پتہ ونشان پوچھا اور پھر اپنے ساتھ مکان پر لے گئے.اور دو خمیری روٹیاں لا کر مجھے دیں.میں کھا کر چلا آیا.اور اسی طرح پر مجھے ہر روز کھانا مل جاتا تو میں کبھی وہاں کھا کر اور کبھی گھر کو لے کر چلا آتا.کوئی کام اور خدمت میرے سپرد نہ تھی.پھر رفتہ رفتہ جب میں مانوس ہو گیا.تو آپ نے مجھ کو اور چند اور لڑکوں کو نماز کی ہدایت کی.اور آپ ہی کچھ سورتیں یاد کرائیں.اور ہم سب بڑے پکے نمازی ہو گئے.واقعات کا سلسلہ جو آگے چلتا ہے وہ میں بعد میں لکھوں گا.یہ واقعہ جو اس کی ابتدائی ملاقات اور تقریب کا میں نے لکھا ہے اس میں ایک خاص امر ہے جو قارئین کرام کی توجہ چاہتا ہے.آپ ایک بچے کو دیکھتے ہیں کہ جو کے دانے جانوروں کی طرح کھا رہا ہے آپ اس کی اس حالت سے اس نکتہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ بھوکا ہے اور پھر دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان بچہ دین سے غافل اور بے خبر رہا جاتا ہے.اسے مسجد سے لے آتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں.اور مستقل طور پر اس کے کھانے کا انتظام کرتے اور اس کی دینی تربیت فرماتے اور اسے پورا پابند نماز بنا دیتے ہیں.یہ ہمدردی اور رحم اپنی آپ نظیر ہے.

Page 313

حیات احمد میاں غفارا نمازی بن گیا جلد اول حصہ دوم میاں غفارا جب نمازی ہو گیا تو آپ نے اس کو اور ان بچوں کی پارٹی کو جو آپ کے پاس آتی تھی درود شریف کثرت سے پڑھنے کی طرف توجہ دلائی.اور جو درود مسنون نماز میں پڑھا جاتا ہے اس کا وظیفہ ان کو بتایا کہ عشاء کی نماز کے بعد درود شریف پڑھ کر سو رہا کرو.اور جو خواب وغیرہ آیا کرے صبح کو سنایا کرو.چنانچہ اُن سب کا یہ معمول ہو گیا.اور تعبیر جو حضرت صاحب بیان کرتے وہ صحیح ثابت ہوتی.میاں غفارے پر حضرت مسیح موعود یہاں تک رحم فرماتے.اگر وہ کھانے کے وقت نہ ہوتا تو آپ اپنے کیسہ میں روٹی ڈال کر باغ کی طرف چلے جاتے اور غفا را کو دے دیتے.پھر یہ احسان یہاں تک ترقی کر گیا کہ غفارا کی شادی کے اخراجات کے لئے آپ نے ایک بڑا حصہ دیا.دو زیور اس کو دیئے جو اس نے اسی روپیہ کو فروخت کر لیا.غرض ہر طرح اس کی ہمدردی اور غمخواری فرماتے مگر اس کی حالت بالکل اس کے مصداق ثابت ہوئی.تهیدستان قسمت را چه سود از رهبر کامل که خضر از آب حیوان تشنه می آرد سکندر را جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے برکات اور فیوض کے سلسلہ کو وسیع کیا تو دینی طور پر اس نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.گودنیوی طور پر جماعت کی کثرت نے اس کے کاروبار کو بھی فائدہ پہنچایا مگر اصل حقیقت سے اس نے حصہ نہ لیا.غرض حضرت مسیح موعود ہر طرح ان لوگوں پر رحم فرماتے ( غفارا کا کام اتنا ہی تھا کہ جب آپ مقدمات کے لئے سفر کرتے تو وہ ساتھ ہوتا.اور لوٹا اور مصلی اُس کے پاس ہوتا.اُن دنوں آپ کا معمول یہ تھا کہ رات کو بہت ہی کم سوتے اور اکثر حصہ جاگتے.اور رات بھر نہایت رقت آمیز لہجہ میں گنگناتے رہتے.

Page 314

حیات احمد ۳۰۴ جوتی گم ہو گئی اِسْتِغْرَاقِ إِلَی اللہ کا ایک واقعہ جلد اول حصہ دوم جن دنوں آپ بعض دوسرے اشخاص کی تحریک پر جموں کی طرف تشریف لے گئے ہیں راستہ میں جوتے کے گم ہونے کا واقعہ تو پہلے بیان ہو چکا ہے.ان دنوں ایک مرتبہ آپ کا جوتا عجیب طرز سے گم ہوا جو ایک لطیفہ سے کم نہیں.اور دراصل آپ کے استغراق الى الله کی ایک مثال ہے.سردی کا موسم تھا آپ نے چمڑے کے موزے پہنے ہوئے تھے جن کو اس ملک میں لکڑیل کی جرابیں کہتے ہیں.وہ بجائے خود جوتی ہی کی طرح گویا ہوتی ہیں.رات کو سونے لگے تو پاؤں سے جو تا نکالا.ایک جوتا تو نکل گیا اور دوسرا پاؤں ہی میں رہا.اور اس جوتے سمیت ہی تھوڑا بہت حصہ رات کا جو سوتے تھے سوئے رہے.اٹھے تو جوتے کی تلاش ہوئی.اِدھر اُدھر دیکھا پتہ نہیں چلتا.ایک پاؤں موجود ہے.اور یہ خیال ہی نہیں آتا کہ پاؤں میں رہ گیا ہو گا.خادم نے کہا کہ شاید کتا لے گیا ہو گا.اور اس خیال پر وہ ادھر اُدھر دیکھنے بھالنے لگا.تھوڑی دیر کے بعد اتفاقاً جو پاؤں پر ہاتھ لگا تو معلوم ہوا کہ او ہو ! وہ تو پاؤں ہی میں پھنسا ہوا ہے اور ہم خیال کرتے رہے کہ صرف جراب ہی ہے.خیر خادم کو آواز دی.جو تامل گیا.پاؤں ہی میں رہ گیا تھا.“ بظاہر ایک احمق اور کوتاہ بین یہ کہے گا کہ کیسی بے احتیاطی یا غفلت ہے لیکن اگر وہ خدا کے لئے غور کرے گا.تو اسے معلوم ہو گا کہ ان باتوں کی طرف آپ کی توجہ ہی نہیں تھی.وہ اپنے اوقات گرامی کو ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگانا نہیں چاہتے تھے کہ مثلاً لباس کی ہی دیکھ بھال میں لگے رہیں.آپ کے واقعات زندگی اور آپ کے ملفوظات سے پتہ لگتا ہے کہ آپ اپنے ہر سانس کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت اور تائید ہی میں بسر کرنا چاہتے تھے.ایک مرتبہ فرمایا: کہ "میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ پیشاب پر بھی مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے کہ یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جاوے.اور یہ استغراق ہمیشہ آپ کو رہا.یہ واقعہ تمام کو معلوم ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جب چھوٹے بچہ تھے.تو آپ نے

Page 315

حیات احمد ۳۰۵ جلد اول حصہ دوم حضرت کی جیب میں ایک اینٹ رکھ دی.کئی دن تک حضرت کو اس کے درد نے بے قرار رکھا مگر آپ کو اس وقت تک معلوم نہ ہوا جب تک حامد علی نے اسے نہ نکالا.تو یہ کوئی نئی بات نہیں.یہ استغراق اور توجہ الی اللہ شروع سے ہی آپ کو ایسی تھی کہ ان باتوں کا آپ کو خیال بھی نہیں آتا تھا.رات بھر ایک پاؤں میں جوتا پہنے رہے اور ضرورت پر تلاش کرتے رہے.اور معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں ہے؟ زمانہ ایسا ہے کہ آپ ایک قسم کی گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں گر دو پیش خدام و مریدین کا کوئی حلقہ نہیں جو تکلف سے کوئی بات ہوتی ہو وہ زمانہ آپ کی فطرتی حالت کا نقشہ پیش کرتا ہے کہ کس طرح پر آپ فنا فی اللہ کے مقام پر تھے.الغرض ان حالات میں یہ زمانہ گزر رہا تھا کہ ایک روز صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد یکا یک آپ پر عجیب حالت طاری ہوئی.ماموریت کی بشارت ایک روز صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد یکا یک آپ پر عجیب حالت طاری ہوئی.پاس والوں کو یہ خیال گزرا کہ شاید کسی بیماری نے (خدا نخواستہ) حملہ کر دیا ہے یکا یک آپ پر ایک قسم کی ر بودگی اور غنودگی طاری ہوئی (یہ بڑی مسجد کا واقعہ ہے ) تھوڑی دیر کے بعد وہ حالت جاتی رہی.تو آپ اَلْحَمْدُ لِلہ کہہ کر ہوش میں آئے اور کہا کہ مجھ پر ظاہر ہوا ہے کہ ایک باغ لگایا جا رہا ہے اور میں اس کا مالی مقرر کیا گیا ہوں.“ آپ نے جب یہ واقعہ سنایا تو بعض حقیقت سے دور اور صداقت سے مہجور ہنس پڑے اور حضرت سے کہنے لگے کہ آپ مالی مقرر ہوں گے.وہ نادان سمجھتے تھے کہ جیسے یہ باغ ہم دیکھتے ہیں اور ان کے مالی بیٹھے طوطے اڑاتے ہیں نعوذ باللہ ایسی ہی بات ہے.مگر یہاں تو آپ کو باغ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مالی بنایا جارہا تھا.اُس وقت اُن کی نظروں سے یہ بات پوشیدہ تھی.مگر نوٹ :- حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی روایت میں آدھی ٹوٹی گھڑے کی ایک چینی اور دو ایک ٹھیکرے لکھا ہے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد چہارم طبع دوم صفحہ ۹۹

Page 316

حیات احمد جلد اول حصہ دوم حقیقت میں یہ اس روحانی بارش کی ٹھنڈی ہوا تھی جو بعد میں آنے والی تھی.اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ہم اس سے سیراب ہوئے.آپ کے پاس اس وقت میاں غفا را وغیرہ لوگ تھے جو حضرت کے دستر خوان پر پرورش پاتے اور آپ کی تلقین سے فائدہ اُٹھاتے تھے.یہ لوگ اس کو چہ سے محض ناواقف اور نابلد تھے.وہ دیر تک ہنستے رہے اور مالی کے لفظ کو بار بار پیش کرتے.حضرت اقدس کے لطف وکرم نے انہیں دلیر کر دیا تھا مگر حضرت اقدس کی حالت اس وقت عجیب تھی.خدا تعالیٰ کی بار بارحم کرتے اور ذکر الہی میں مصروف تھے.

Page 317

حیات احمد جلد اوّل (حصّه سوم) مرتبه یعقوب علی عرفانی

Page 318

Page 319

حیات احمد ۳۰۹ جلد اول حصہ سوم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ عرض حال الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِين وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ الْآمِيْنِ مُحَمَّدٍ وَّاله وَأَصْحَابِهِ وَخُلْفَائِهِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِتِيْن - اما بعد میں خدا کے فضل اور رحم اور جائز فخر و مسرت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح حیات کے تیسرے نمبر کی اشاعت کی توفیق پارہا ہوں.مگر ساتھ ہی میں نہیں کہہ سکتا کہ کس قدر ندامت اور تاسف کے جذبات میرے دل و دماغ پر مستولی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر ۲۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے اور ہم آپ کے سوانح حیات اور سیرت کو مکمل طور پر پبلک میں پیش نہ کر سکیں.وہ کامل انسان جو دنیا میں سُلطان القلم کے نام سے آیا ہم اُس کے دامن سے وابستہ ہو کر اس کے کارناموں کو کتابی شکل میں دُنیا کے سامنے پیش کرنے سے ہیں سال تک قاصر رہیں.اللہ تعالیٰ اس قصور و خطا کو معاف فرما دے.تعویق اور توقف کے اسباب اور اس کے لئے ذمہ واریوں اور جوابدہیوں کی تفاصیل داستان دردناک اور طویل ہے.میں ہر احمدی سے درخواست کروں گا کہ وہ سوچے کہ اس نے اس سلسلہ میں اپنے فرض کو کہاں تک ادا کیا ہے میں اپنی بریت کے لئے کوئی عذر پیش نہیں کرنا چاہتا.اللہ تعالیٰ سے اپنے قصور کی معافی چاہتا ہوں اس کا احسان اس کا رحم اور ستاری میری پردہ پوشی فرمائے.میں ہر احمدی کو انفرادی طور پر اور تمام جماعت کو مجموعی حیثیت سے اس کا جوابدہ یقین کرتا ہوں اس لئے کہ ایسے عظیم الشان کام قومی سر پرستی اور حوصلہ افزائی کے بغیر بمشکل پورے ہو سکتے ہیں اب تک جو کچھ ہوا یہ شخض خدا کا فضل اور حضرت خلیفہ اسیح کی توجہ کا نتیجہ ہے میں نے پہلا نمبر شائع کرتے ہوئے بھی کہہ دیا تھا کہ اس کی

Page 320

حیات احمد ۳۱۰ جلد اول حصہ سوم جلد اشاعت اور تحمیل کا کام جہاں تک اسباب سے تعلق ہے احمدی قوم کی حوصلہ افزائی اور اعانت پر موقوف ہے.اور اس کا جو عملی ثبوت ہے وہ ظاہر ہے.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اب تک زندہ رکھا اور میں پھر اسی سلسلہ میں کچھ شائع کر رہا ہوں.گزشتہ سالانہ جلسہ پر حضرت نے اس کی اہمیت کو جن الفاظ میں ظاہر فرمایا میں اُس سے زیادہ نہ کہہ سکتا ہوں اور نہ کہنا چاہتا ہوں.اس لئے کہ اس میں جو قوت اور اثر ہو سکتا ہے وہ دوسرے کے الفاظ اور بیان میں نہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ کتاب ہر احمدی کے گھر میں خواندہ ہو یا نا خواندہ ہونی چاہئے.اب ہر احمدی سوچ لے کہ اس نے اس پر عمل کیا ہے میں اس کی تفصیل میں جا کر دوسروں کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتا.اس لئے کہ ہے که آزرده دل آزرده کند انجمن را میں چاہتا ہوں کہ احباب تلافی کریں اور اس خطرہ سے ڈریں جس کی طرف حضرت نے اشارہ کیا تھا کہ احباب اس کتاب کی تکمیل کے لئے توجہ کریں اور خاکسار عرفانی کی زندگی سے فائدہ اٹھا ئیں ورنہ یہ بہت مہنگی پڑے گی.میں ایک ہزار ایسے دوستوں کو اس کی اشاعت کے لئے پکارتا ہوں جو اس کی اشاعت کے لئے مستقل طور پر اپنے نام درج کرا دیں اور اس مقصد کے لئے تمام جماعتوں کے سیکرٹری صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دیکھیں کہ ہر خواندہ یا نا خواندہ احمدی کے گھر تک یہ کتاب پہلی گئی ہے یا نہیں.میں ناسپاسی کے جرم کا ارتکاب کروں گا اگر یہ ظاہر نہ کروں کہ یہ نمبر بھی ہرگز شائع نہ ہوتا اگر حضرت خلیفہ امسیح کی توجہ عالی مساعدت نہ فرماتی.بالآخر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کے پورا کرنے کی توفیق دے جیسا کہ میرا آقا چاہتا ہے میں اُسے مکمل کرسکوں اور احباب کے دلوں میں القا کرے کہ وہ اس کام کی اہمیت اور ضرورت کا عملی احساس کریں.آمین ثم آمین.خاکسار عرفانی - کنج عافیت تراب منزل قادیان دارالامان ۲۵ رنومبر ۱۹۲۸ء

Page 321

حیات احمد ۳۱۱ جلد اول حصہ سوم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي علیه السلام.لَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ حضرت مسیح موعود کی چالیس سالہ زندگی کے حالات زمانہ براہین احمدیہ تک“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے کسی قدر حالات حصّہ اوّل و دوم میں لکھے جاچکے ہیں لیکن ترتیب اور سلسلہ کے لئے میں اس قدر بتا دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زمانہ بعثت سے پہلے کی زندگی تین حصوں پر منقسم ہے.اس کتاب میں زمانہ بعثت سے میں ہمیشہ وہ مراد رکھتا ہوں جب کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے پر مامور ہوئے اور آپ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی عملی بنیا د رکھی.ورنہ یوں تو آپ نے کتاب براہین احمدیہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور اور ملہم ہو کر تائید دین کے لئے لکھی.ایک حصہ اس قادیانی زندگی کا ایسا ہے کہ آپ عام بچوں کی طرح تعلیم میں مصروف تھے.دوسرے بچوں کی نسبت اس زندگی میں یہ نمایاں امتیاز ہے کہ آپ کسی قسم کی کھیل کود میں عام بچوں کی طرح شریک نہ ہوتے تھے اور اگر کبھی ہوتے تو آپ کا کام ایمپائر یا نگران کا ہوتا تھا.باوجود اس کے کہ آپ کھیل کود کے شیدائی نہ تھے لیکن تیراندازی، تیرا کی ،شاہسواری جو شاہانہ اور شریفانہ تربیت کا ایک قدیم جزو سمجھا جاتا تھا آپ نے حاصل کئے تھے.مگر ان مشاغل میں بھی اپنے گرامی اوقات کو ضائع نہ کرتے تھے.صرف ان فنون کو سیکھ لیا تھا اور پوری اور کافی دسترس رکھتے تھے.آپ کی تعلیم جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں تین مختلف استادوں کے ذریعہ ہوئی.

Page 322

حیات احمد ۳۱۲ جلد اول حصہ سوم قاضی فضل الہی صاحب.مولوی فضل احمد صاحب اور مولوی سید گل علی شاہ صاحب (رَحِمَهُمُ اللهُ تَعَالَى ) اور یہ تینوں اُستاد مختلف فرقہ ہائے اسلام سے تعلق رکھتے تھے.قاضی فضل الہی صاحب حنفی.مولوی فضل احمد صاحب وہابی اور سید صاحب شیعہ تھے.آپ نے بقدر ضرورت ہرسہ اساتذہ سے پڑھا اور مذہب کے معاملہ میں کسی کا خاص اثر آپ پر نہیں ہوا بلکہ آپ کا رنگ مجتہدانہ رہا اور خدا تعالیٰ کی خاص تربیت اور ہدایت نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں اٹھایا اور تعلیم دی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.چوں حاجتی بود به ادیسے دیگر مرا من تربیت پذیر ز رب مہیمن کے اللہ تعالیٰ نے آپ کی تربیت آپ فرمائی اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے براه راست روحانی علوم کو حاصل کیا.اس کا اظہار آپ نے بار ہا فرمایا.ایک موقع پر فرماتے ہیں.دگر استاد را نامی ندانم که خواندم در دبستان محمد ۲۳ اور دوسرے مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے تحدیث بالنعمۃ کے طور پر فرماتے ہیں.آن یکے جوید حدیث پاک تو از زید و عمر و و آں دیگرے کر دہانت بشنود بے انتظار کے غرض آپ نے اسلام کی حقیقت اور شریعت کے مغز اور مسنون طریق کو یا تو براہ راست اللہ تعالیٰ سے سیکھا اور یا آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح نے آپ پر صحیح دروازے کو کھول دیا.اس لئے لے مجھے کسی اور استاد کی ضرورت کیوں ہو.میں تو اپنے خدا سے تربیت حاصل کئے ہوئے ہوں.ے میں اور کسی استاد کا نام نہیں جانتا میں تو صرف محمد ﷺ کے درس کا پڑھا ہوا ہوں.سے ایک تو تیری پاک باتیں زید و عمر و کے پاس جا کر تلاش کرتا ہے اور دوسرا بلا توسط تیرے منہ سے ان کو سنتا ہوں.

Page 323

حیات احمد ۳۱۳ جلد اول حصہ سوم آپ نے مقلدانہ طریق کو اختیار نہیں کیا بلکہ مجتہدانہ رنگ شروع سے ہی پایا جاتا ہے ورنہ یہ بہت ممکن تھا کہ آپ کسی استاد کے خاص اثر کو قبول کر لیتے.اور یہ آپ کی زندگی میں نہیں پایا جاتا.جہاں حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کی عظمت اور اجتہاد کا سوال آتا ہے اور آپ ان کے کسی اجتہاد سے اتفاق کرتے ہیں تو بے تکلف بلا خوف لومة لائم اس کی تعریف کرتے ہیں.اور جہاں اختلاف ہے وہاں ان کی عزت و تکریم کے اصل مقام کو قائم رکھ کر اختلاف کر جاتے ہیں.اسی طرح جہاں اہلِ بیت کی محبت اور ان کے ساتھ خدا کی رضا کے لئے تعلق کا سوال ہے.آپ اس میں سرشار ہیں.اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ محبت اور اخلاص کا خاص مقام بھی آپ کو حاصل ہے.اور اس خصوص میں شیعیت پر پوری قوت اور طاقت سے حملہ کرتے ہیں.اور خشک وہابیت سے تنفر کا اظہار بھی ہے.اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے اتباع اور اسی رنگ میں رنگین رہنے کا جوش آپ کے طرز عمل میں نمایاں ہے.تفصیل کے ساتھ ان امور پر بحث کا دوسرا مقام ہے یہاں مجھے یہی بتانا ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کے اساتذہ میں تین مختلف خیال اور عقیدہ کے ماننے والے تھے مگر آپ پر کسی خاص کا اثر غالب نہیں آیا.اس لئے کہ آپ مجتہد تھے مقلد نہ تھے.اس زمانہ تعلیم میں آپ قادیان اور کبھی کبھی بٹالہ بھی رہے ہیں.اور یہ عین عنفوان شباب کا عہد تھا.مگر خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے ان کو محفوظ رکھا اور اپنے بیگانے ہر ایک نے تسلیم کیا کہ آپ کی زندگی بے لوث تھی.عَهْدِ تَأهل تعلیم کا دور ختم ہونے کے بعد آپ کی زندگی کا وہ زمانہ آتا ہے جس کو میں عَهْدِ تَـأهـل کہتا ہوں.یعنی آپ نے شادی کی.یہ شادی در اصل تو آپ کی تعلیم کے زمانہ ہی میں ہو گئی تھی مگر قریب قریب وہ زمانہ ختم ہو رہا تھا.میں لکھ چکا ہوں کہ آپ کی شادی باوجود خاندان کے صاحب عظمت ہونے اور باوجود حالات زمانہ کے بہت سی رسومات کے شائع ہونے کے، نہایت سادگی سے ہوئی.

Page 324

حیات احمد ۳۱۴ جلد اول حصہ سوم اور کسی قسم کی کوئی رسم خلاف شرع اور خلاف سنت عمل میں نہیں آئی یہ پہلا افضل تھا.شادی کے بعد آپ کی اس مُتَاهِلا نہ زندگی میں جو بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی توجہ تمام تر خدا تعالیٰ کی عبادت اور ذکر و فکر میں لگی ہوئی تھی.آپ کی عمر کے سولہویں سال مرزا سلطان احمد صاحب اور بیسویں سال مرزا فضل احمد صاحب پیدا ہوئے.اور ان دو اولادوں کے بعد کوئی اولا د آپ کے گھر میں نہیں ہوئی.ہاں جب آپ نے خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق پھر دوسری شادی کی تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد کثیر دی.(اس کا ذکر بعد میں آئے گا انشاء اللہ ) اس عَهْدِ تَأهل میں طبعی طور پر ایک نوجوان کی توجہ تمام تر اہلی زندگی میں نظر آنی چاہیئے مگر برخلاف اس کے ہم اس کو ایک حجرہ میں خلوت اور تنہائی کی زندگی بسر کرتے ہوئے پاتے ہیں اور اس کا کام محض اس قدر ہے کہ وہ اپنے اوقات معمورہ پر خدا تعالیٰ کی عبادت تسبیح و تہلیل میں مصروف رہے اور کچھ وقت مطالعہ کتب میں گزارے.جن میں سب سے زیادہ عزیز اور پیاری کتاب خدا کی کتاب ہے.وہ ہر وقت اس کو ہی پڑھتے اور اس پر غور و فکر کرتے نظر آتا ہے.بلا مبالغہ ہزاروں ہی مرتبہ اسے پڑھا.خلوت میں جلوت اس عَهْدِ تَـأهـل میں آپ نے خلوت کو جلوت پر ترجیح دی اور باوجو یکہ آپ ایک رفيع المنزلت خاندان کے ممبر تھے مگر اپنی اس گوشہ گزینی کی وجہ سے وہ کسی کے آشنا نہ تھے اور کوئی شخص آپ کو جانتا نہ تھا.اس تنہائی اور تخلیہ کی زندگی میں آپ کے رفیق بعض چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن میں سے اکثر یتامی ہوتے تھے.آپ کے کھانے میں وہ برابر کے شریک ہوتے تھے اور ان میں سے کوئی کھانے کے وقت موجود نہ ہوتا تھا تو اس کو اس بات کا غم نہ ہوتا تھا کہ اس کا حصہ نہ ملے گا.پہلے سے اس کا حصہ نکال کر رکھ لیا جاتا تھا.اسی زمانہ میں آپ بعض کو سبق بھی پڑھا دیا کرتے تھے مگر عام طور پر آپ کا کام یہ ہوتا تھا کہ ان کو نماز کی تلقین کریں اور زیادہ تر درود شریف پڑھنے کی تاکید کیا کرتے تھے اور خود بھی کثرت سے درود شریف پڑھا کرتے تھے.جن کو اس قابل

Page 325

حیات احمد ۳۱۵ جلد اول حصہ سوم پاتے کہ وہ سمجھ سکتے ہیں ان کو طریق استخارہ بھی سمجھاتے تھے.اور ان کو ہدایت فرماتے کہ اگر وہ کوئی خواب دیکھیں تو صبح کو بیان کریں.آپ ان کے خواب سنتے اور تعبیریں بتاتے تھے.یہ سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا بلکہ کہنا چاہیئے کہ عمر بھر جاری رہا.گو اس کی صورت تبدیل ہوگئی.مقدمات کی پیروی اسی اثناء میں جناب مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم آپ کے والد ماجد نے آپ کو مقدمات کی پیروی میں لگا دیا.میں پہلے اس کے متعلق لکھ آیا ہوں.یہاں سلسلہ بیان کے لئے مختصر ذکر کرتا ہوں.یہ مقدمات زیادہ تر قادیان کی جائیداد اور قادیان کی رعایا یعنی زمینداروں کے متعلق اضافہ لگان.درخت کاٹنے وغیرہ کے ہوا کرتے تھے.ان مقدمات کی پیروی میں آپ کا طریق عمل یہ تھا کہ کبھی کسی مقدمہ میں کسی بناوٹ یا جھوٹ سے کام نہیں لیا.خواہ مقدمہ ہارنا ہی پڑے.مقدمات کے باعث وقت پر ادائے نماز میں کبھی سستی نہ کی.ایسا اتفاق اکثر ہوا کہ عدالت کی طرف سے پکار ہو رہی ہے اور آپ نماز میں مصروف ہیں اور پورے خشوع خضوع کے ساتھ آپ نے نماز کو پورا کیا.اور عجیب کرشمہ قدرت یہ ظاہر ہوا کہ گو مقدمہ آپ کی غیر حاضری میں پیش ہوا مگر آپ اس میں کامیاب ہو گئے.مقدمات کے لئے جب آپ قادیان سے جایا کرتے تھے تو مختلف اوقات میں آپ کے ساتھ مختلف آدمی ہوتے تھے.کبھی مرزا اسماعیل بیگ صاحب ساکن قادیان.کبھی مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر وال اور کبھی میاں غفار (عبدالغفار ) یکہ بان قادیان.آپ کا طریق عمل یہ ہوتا تھا کہ آپ سواری کے لئے گھوڑا لے لیا کرتے تھے.( جو آپ کے اصطبل میں اس وقت بہت ہوتے تھے ) مرزا اسماعیل بیگ صاحب کا بیان ہے کہ گاؤں سے باہر نکل کر وہ ان کو سوار کر لیا کرتے تھے.اور نصف راستہ تک مرزا اسماعیل بیگ سوار رہتے اور نصف راستہ خود.اسی طرح پر واپسی کے وقت آپ کا طریق تھا.مرزا اسماعیل بیگ صاحب عذر کرتے اور شرم کرتے تو آپ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے.مرزا دین محمد صاحب ( جوانگر وال کے رہنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت

Page 326

حیات احمد جلد اول حصہ سوم تک زندہ ہیں اور ان کا خاندان احمدی ہے ) بیان کرتے ہیں کہ میں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واقف نہ تھا یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی.خود حضرت صاحب گوشہ گزینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن چونکہ وہ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور میں ان کی خدمت میں رہنے لگا.جب آپ مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے ساتھ اپنے پیچھے سوار کر لیتے تھے اور بٹالہ جا کر اپنی حویلی میں گھوڑا باندھ دیتے.بٹالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی غیر منقولہ جائیداد کچھ دو کا نہیں اور ایک بہت بڑی حویلی تھی.جو آخر ان مقدمات کے نتیجہ میں فروخت ہوگئی جو شر کاء کی وجہ سے ہوئے.یہ بہت بڑی قیمتی جائیداد تھی.میں نے اس حویلی کو دیکھا ہے.عرفانی ) اس حویلی میں ایک بالا خانہ تھا.آپ اُس میں قیام فرماتے.اس مکان کی دیکھ بھال کا کام ایک جولا ہے کے سپرد تھا جو ایک غریب آدمی تھا آپ وہاں پہنچ کر دو پیسہ کی روٹی منگواتے.یہ اپنے لئے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھا لیتے.باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی وہ اس جولا ہے کو دے دیتے اور مجھے کھانا کھانے کے لئے چار آنہ دیتے تھے.آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے اور کسی قسم کے جسکے کی عادت نہ تھی.قادیان میں کھانے کا انتظام اس طرح پر تھا کہ آپ نے ایک چھگار رکھا ہوا تھا.وہ لڑکا دیتے.گھر والے اس میں روٹی وغیرہ رکھ دیتے.اور بہت ہی کم آپ کھاتے باقی تقسیم کر دیتے.اور شام کے وقت عصر کے قریب بھنے ہوئے کابلی چنے منگوا کر چبایا کرتے تھے.غرض ان مقدمات کی پیروی میں آپ خدام کے ساتھ بہترین سلوک فرماتے اور ان کو آرام پہنچانے کی پوری سعی فرماتے تھے.میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مرزا دین محمد صاحب آپ کے چچا جناب مرزا غلام محی الدین صاحب مرحوم کے سسرال میں سے ہیں.اور اس طرح پر گویا ایک رشتہ داری کے تعلقات بھی تھے اور ہیں.

Page 327

حیات احمد ۳۱۷ جلد اول حصہ سوم پھر ان مقدمات میں ایک امر جو آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے.کہ آپ ان مقدمات کی تیاری پورے طور پر کرتے تھے اور اس کے لئے جس قدر محنت آپ کو کرنی پڑتی تھی ہر شخص اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.یہ کام آپ کے طبعی شوق یا دلچپسی کا تو تھا نہیں بلکہ بالطبع آپ کو کراہت تھی لیکن محض حضرت والد صاحب مرحوم کے ارشاد کی اطاعت اور خدا کی رضا کے لئے آپ اسے کرتے تھے.جس کام میں انسان کو طبعا دلچسپی ہو اس کے لئے تھوڑی سی محنت بھی بہت ہوتی ہے لیکن جہاں ایک امر طبیعت کے خلاف ہو اس کے لئے اپنے نفس کے ساتھ بہت بڑا جہاد کرنا پڑتا ہے.باوجود اس کے آپ تمسك بالاسباب کے طور پر ہر مقدمہ کے لئے پورا تیار ہو کر جاتے تھے.ہر مقدمہ کے متعلق ضروری کا غذات و شواہد کا خلاصہ تحریر کر لیتے.اور ہر ایک قسم کے کاغذات جو شامل کرتے یا عرضی دعویٰ وغیرہ کی نقول رکھتے تا کہ عند الضرورت مقدمہ کے سمجھنے یا سمجھانے میں آسانی ہو.اور ان مقدمات میں گو اخراجات کی کوئی تفصیل حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم آپ سے نہ پوچھتے تھے مگر آپ لکھ لیا کرتے تھے.چنانچہ آپ کی اس وقت کی بعض یادداشتیں موجود ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کسی محنت سے تیاری کیا کرتے تھے.دل به یار دست بکار باوجود اس کے کہ آپ تیاری مقدمہ میں پوری محنت اور کوشش فرماتے تھے مگر ان اسباب پر آپ کبھی بھروسہ نہیں کرتے تھے بلکہ دعاؤں سے کام لیتے اور ہر وقت خدا تعالیٰ ہی کی ذات آپ کے مد نظر رہتی.وہی معبود اور مطلوب تھا.اور اُسی پر توکل و اعتماد.چنانچہ ان مقدمات کی یادداشتوں میں سے ایک پر آپ نے حسب ذیل دعا لکھی ہے.اور اس تحریر سے ثابت ہے کہ یہ مئی ۱۸۷۱ء کی ہے.گویا ۶ ۵ برس پیشتر کی.میں پسند کرتا ہوں کہ اس تحریر کو خود حضرت ہی کے رسم الخط میں دے دوں.مگر اولا نستعلیق میں دیتا ہوں.

Page 328

حیات احمد ۳۱۸ جلد اول حصہ سوم وَ هُوَ هذا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ گرم ہر سرے موئے گرد و زبان بر آنم بهر یک ز تو داستاں چه حاجت که دست دعا گسترم که پیش از دعا میکنی هر کرم چو خود می کنی جمله کام مرا دریں ہم نگہدار نام مرا گرم پر سرگرمی گردد زبان جه است که دست دما گسترم چوخون کیسے جملہ کام مرا + + + به موالم بر یک از تو درستمان به که میدانی از و ماتیکی یه په کوم درین ہم گہدار نام مرا + آپ کے اخراجات او پر مرزا دین محمد صاحب کے بیان سے میں نے لکھا ہے کہ آپ کھانے کے لئے دو پیسہ کی روٹی منگوالیا کرتے تھے.اسی طرح آپ نے خود ایک موقع پر تحریر فرمایا ہے کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی پر مجبور کیا جاوے.تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جاوے.“ اور ایسا ہی آپ نے بعض موقعوں پر اپنی تقریر میں فرمایا کہ میں آدھ پیسہ روز پر گزارا کر سکتا ہوں.اس کا ثبوت انہی یادداشتوں میں آپ نے ایک دن کے اخراجات کی بھی تفصیل لکھی ہے.جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کیا کھاتے تھے.اور کس قدر ۱۴ مئی ۱۸۷۱ء روز یکشنبه بوقت شام حوالہ بوٹا ۸ ترجمہ.(۱) اگر میرا ہر بال زباں ہو جائے تو ہر بال سے تیری حکایت بیان ہوگی.(۲) مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاؤں کیونکہ تو دعا کرنے سے پہلے ہی مجھ پر کرم کر دیتا ہے.(۳) جبکہ تو نے خود ہی میرا تمام کام کر دیا ہے تو ایسی حالت میں میری عزت کی بھی حفاظت کر.

Page 329

حیات احمد ۳۱۹ جلد اول حصہ سوم ۱۴.صابون وغیرہ شکر - گوشت - روغن زرد - آرد - مصالح.تیل.خیرات.بادام سور پاس - اس تفصیل سے جو آپ نے اپنے قلم سے لکھی ہے.آپ کی خوراک کا اندازہ ہوتا ہے.اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ خیرات وصدقات کے پہلو کو بھی کسی حالت میں ترک نہیں کرتے تھے چنانچہ اس خرچ میں بھی خیرات کی مدموجود ہے.جس قدر آپ کی زندگی کے اس پہلو کو ہم واقعات کی روشنی میں دیکھیں گے اسی قدر اس کی عظمت معلوم ہوتی ہے اور زہد وغنا کی عجیب شان جلوہ گر ہے.قناعت اور سادگی کا دلکش منظر ہے.مقدمات کے اس سلسلہ میں آپ کو بٹالہ.گورداسپور.ڈلہوزی.امرتسر اور لا ہور تک کے سفر کرنے پڑتے تھے.جن میں سے ڈلہوزی تک کے سفر آپ نے کئی بار پا پیادہ بھی کئے.القصہ آپ کی قادیان کی زندگی کی ایک مصروفیت ان مقدمات کی صورت میں تھی مگر اس مصروفیت نے کبھی اور کسی حال میں آپ کو اپنے ذکر اور شغل سے باز نہیں رکھا.تعلیم و تدریس انہیں ایام میں جبکہ آپ قادیان میں زاہدانہ زندگی بسر کر رہے تھے اور باوجود خلوت نشینی کے آپ کو حضرت والد صاحب مرحوم کے ارشاد اور حکم کی تعمیل میں مقدمات کے لئے باہر نکلنا پڑتا تھا پھر بھی جو وقت بچتا تھا اپنے مشاغل دینیہ کے بعد تعلیم و تدریس سے بھی مضائقہ نہ فرماتے تھے.یہ تعلیم و تدریس دو قسم کی تھی.ایک عملی تھی.اس میں اپنے پاس آنے والے بچوں کو نماز.درود شریف اور دوسرے احکام اسلامی کی عملی تعلیم دیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ بعض لوگوں کو متعارف کتب کے سبق بھی پڑھا دیا کرتے تھے.ان پڑھنے والوں میں مرزا سلطان احمد صاحب بھی ایک وقت تک آپ سے بعض درسی کتب عربیہ پڑھا کرتے تھے.میاں علی محمد صاحب کو آپ نے گلستان اور بوستان کے کچھ سبق پڑھائے تھے.

Page 330

حیات احمد ۳۲۰ بھائی کشن سنگھ کے طبی سبق جلد اول حصہ سوم بھائی کشن سنگھ صاحب (جن کا ذکر اس سے پہلے بھی آچکا ہے ) نے آپ سے طب پڑھنے کی خواہش ظاہر کی.آپ نے اس کی درخواست کو باوجود اپنی مصروفیت کے رد نہ فرمایا.اور بھائی کشن سنگھ صاحب نے طبی سبق شروع کر دیئے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی وجاہت اور رُعب ایسا تھا کہ کسی شخص کو ان کے حضور جانے کی بھی جرات نہ ہوتی تھی چہ جائیکہ ان سے اس قسم کی درخواست کی جاوے.اگر چہ مرزا صاحب مرحوم مخلوق کی نفع رسانی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.غرض بھائی کشن سنگھ صاحب نے آپ سے درخواست کی اور حضرت نے پڑھانا منظور فرما لیا.بھائی کشن سنگھ صاحب جب جاتے تو آپ دستک دینے پر فوراً دروازہ کھول کر ان کو بلا لیتے.بھائی کشن سنگھ صاحب نے اپنی زندگی کے کئی سال میرے ساتھ بھی علمی شغل میں گزارے ہیں.ان کو یہ شوق تھا.چنانچہ مثنوی مولانا روم.دیوان حافظ اور قرآن مجید کا ترجمہ انہوں نے مجھ سے پڑھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے ان ایام کے متعلق جبکہ وہ طبی سبق پڑھنے جایا کرتے تھے.بیان کیا کرتے تھے کہ لوگ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم سے جرات کر کے کچھ کہہ نہ سکتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بلا تکلف جو چاہتے کہہ لیتے تھے.میں نے بھی اسی لئے اُن سے پڑھنا شروع کیا.مجھے زمانہ طالب علمی (طبی طالب علمی کا زمانہ مراد ہے) میں یہ تجربہ ہوا کہ حضرت مرزا صاحب کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے.ان کی خدمت میں جاتے ہوئے ہم کو ذرا بھی جھجھک اور حجاب نہ ہوتا تھا.ہم بے تکلف جس وقت چاہتے چلے جاتے.اور کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ آپ نے اپنی مصروفیت یا آرام کرنے کا عذر کر کے ٹال دیا ہو.بعض اوقات آپ نے سوتے اٹھ کر دروازہ کھولا ہے.مگر بُر انہیں منایا کہ تم نے میرے آرام میں آ کر خلل پیدا کیا.بھائی کشن سنگھ صاحب کہتے تھے کہ چونکہ دروازہ عموماً بند ہوتا تھا.کبھی کبھی میں اوپر سے کنکر

Page 331

حیات احمد ۳۲۱ جلد اول حصہ سوم ہی پھینک دیتا تھا اور آپ اس کی آہٹ سے اٹھ کر دروازہ کھول دیتے.کبھی ایسا بھی اتفاق ہوتا تھا کہ میں سبق پڑھا کرتا اور آپ کھانا کھاتے جاتے اور پڑھاتے بھی جاتے تھے.اسی حالت میں بعض اوقات میری کتاب میں کوئی غلطی ہوتی تو آپ کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے اور مستند کتاب نکال کر لاتے اور اس غلطی کی اصلاح یا مشکوک امر کو درست فرماتے.میں ہر چند عرض کرتا کہ آپ تکلیف نہ اٹھائیں.کھانا کھا لیں.بعد میں دیکھا جائے گا.مگر آپ میری اس درخواست کو منظور نہ فرماتے.اور کہہ دیتے کہ تمہارا ہرج ہوگا یہ ٹھیک نہیں.وہ اپنے آرام کی پروا نہ کرتے اور کتاب نکال کر مجھے درست کرا دیتے.طلب اکبر میں مالیخولیا کی بحث بھائی کشن سنگھ صاحب کہتے ہیں کہ میں طب اکبر پڑھ رہا تھا اور اس میں مالیخولیا کی بحث میرے سبق میں آئی.طب اکبر میں اس مرض کی علامات اسباب وغیرہ پر مفصل بحث ہے.اس میں خلوت نشینی کو بھی ایک حد تک اس میں داخل کر دیا ہے.اس پر آپ نے فرمایا.طبیبوں نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا.دیکھو جو لوگ خلوت نشین ہوں ان کو بھی مجنون لکھ دیتے ہیں.بھائی کشن سنگھ صاحب کہتے تھے میں نے آپ سے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا کہ جیسے آپ کو بھی تو کہتے ہیں، آپ ہنس پڑے اور مجھے کسی قسم کا زجر نہ فرمایا.گو مجھے کہہ دینے کے بعد افسوس ہوا اور شرم محسوس ہوئی کہ میں نے غلطی کی لیکن میں نے کوئی عذر کرنا ضروری نہیں سمجھا.کیونکہ میں جانتا تھا.مرزا صاحب اس قسم کی بات دل میں نہیں رکھتے اور کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہتے.بظاہر یہ واقعہ ایک معمولی واقعہ ہے.سادگی اور بے تکلفی کی شان اس سے نمایاں ہے.مگر میں اس کو معمولی واقعہ نہیں سمجھتا اور نہ بھائی کشن سنگھ نے اس کو معمولی سمجھ کر بیان کیا تھا.جس وقت اس نے یہ واقعہ بیان کیا تھا.اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے اور اس نے کہا کہ اگر میں اس قسم کے الفاظ مرزا نظام الدین صاحب کے سامنے کہہ دیتا تو خدا جانے میرا کیا حال ہوتا.بیان کی

Page 332

حیات احمد ۳۲۲ جلد اول حصہ سوم مہربانی اور بلند حوصلگی تھی کہ مجھ سے سنا اور پروا بھی نہیں کی.گویا میں نے کچھ کہا ہی نہیں.یہ احساس تو خود بھائی جی کو تھا.اس واقعہ کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق و شمائل کی ایک تفسیر ہے.جس کو ایک ایسے شخص نے بیان کیا.جو مذہب اور عقیدہ کے لحاظ سے ہماری جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھتا تھا.بلکہ کہنا چاہیئے کہ وہ مِنْ وَجْهِ دشمن تھا.لوگ آپ کو بھی مجنون کہتے ہیں آپ اس کی اس بات کو سن کر برا فروختہ نہیں ہوتے بلکہ اس پر التفات ہی نہیں کرتے اور ہنس کر چھوڑ دیتے ہیں یہ ایک عام سنت ہے.اور قرآن مجید اس کی تائید کرتا ہے کہ لوگ انبیاء علیہم السلام کو مجنون کہہ دیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس وقت کوئی دعوی نہ تھا مگر خلوت نشینی (جو انبیاء کا قبل از بعثت ایک خاصہ ہوتا ہے) کی وجہ سے آپ کو بھی مجنون کہا گیا.اور بھائی کشن سنگھ کہتے تھے کہ میں نہیں بعض لوگ ایسا ہی کہا کرتے تھے.میں نے تو صرف نقل روایت کر دیا تھا.حضرت مسیح موعود کی گوشہ نشینی محض اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر و شغل کے لئے تھی اور ا ہل دنیا جو اس حقیقت سے نا آشنا ہیں وہ اسے جنون کی قسم یا نتیجہ بتاتے ہیں.آہ! اس اندھی دنیا کی بھی عجیب حالت ہے کہ وہ اپنے محسنوں اور حقیقی غمگساروں کو بھی مجنون قرار دیتی ہے.وہ ان کے ایمان اور نجات کے لئے شب و روز فکر مند رہتے ہیں مگر یہ ابنائے دنیا خود ان کو ہی کا فر اور بے دین قرار دیتے ہیں.جانم گداخت در غم ایمانت اے عزیز دور میں طرفہ تر که من بگمان تو کافرم انعام الہی کیونکر ہوا با جود یکہ آپ گوشہ گزینی کی زندگی بسر کرتے تھے مگر آپ کی نیکی اور دیندارانہ زندگی کی خوشبو آخر نکلنے لگی اور کبھی کبھی بعض لوگ آپ کی خدمت میں آنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کے لئے ایک خاص جوش اور تڑپ رکھتے تھے.چنانچہ ہتر جمہ: اے عزیز میری جان تیرے ایمان کے غم میں گھل گئی مگر عجیب بات یہ ہے کہ تیرے خیال میں میں کافر ہوں.

Page 333

حیات احمد ۳۲۳ جلد اول حصہ سوم آپ خود فرماتے ہیں:.میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کی ہیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدید ہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا.جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو.“ آپ کا عام مجاہدہ اور ریاضت اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور نماز با جماعت تھی.جس طرح پر صحابہ نے سلوک کے منازل طے کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت فرمائی اسی راہ اور رنگ کو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں.اور آپ نے اسی راہ سے پایا جو کچھ پایا.ایک مرتبہ ایک مولوی صاحب آپ کے پاس آئے.آپ اس وقت اپنے بالا خانہ کے صحن میں ٹہل رہے تھے.وہاں ہی وہ مولوی صاحب آپ سے ملے.اس نے بیٹھتے ہی یہ سوال کیا کہ یہ نعمت آپ کو کیونکر ملی؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو جواب دیا کہ پانچ نمازوں سے زیادہ نمازیں نہیں پڑھیں اور تمیں روزوں سے زیادہ روزے نہیں رکھے.جو کچھ ملا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا نہ کسی عمل سے.آپ نے اس جواب میں اس کو بتایا کہ اتباع سنت نبوی ہی دراصل ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہے.خلاف سنت اعمال اور اذکار انسان کے لئے کبھی اور کسی حال میں کسی برکت اور فیض کا موجب نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے قرآن مجید نے جو راہِ ہدایت بتایا ہے وہ بھی یہی ہے.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران :۳۲) یہی اصل آپ کا دستور العمل تھا.اور اسی کی ہدایت ساری عمر فرماتے رہے.چنانچہ آپ سعدی کا

Page 334

حیات احمد ۳۲۴ جلد اول حصہ سوم یہ شعر عموماً پڑھا کرتے تھے.بزہد و ورع کوش و صدق و صفا و لیکن میزائے ہر مصطفی * جب اس مولوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ جواب سنا.تو اس پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ بے اختیار ہو کر چیخ مار کر رو پڑا اور دیر تک روتا رہا.اور چونکہ اس وقت تک نہ آپ کا کوئی دعوی تھا اور نہ بیعت لیتے تھے.وہ ایک ارادت اور عقیدت کے ساتھ چلا گیا.بعض دوسرے مشاغل متعلق رفاہ عام ہر چند آپ ان تمام امور سے گارہ تھے جن کا تعلق زمینداری اور دنیاوی سلسلہ سے تھا اور آپ کو یہی پسند تھا کہ خدا تعالیٰ کی یاد و عبادت میں اپنی عمر بسر کریں مگر خاندانی معاملات زمینداری وغیرہ ایسے واقع ہوئے تھے کہ آپ کو حضرت والد صاحب قبلہ کے ارشاد کی تعمیل کرنی پڑتی تھی.مقدمات کے متعلق میں اوپر کہہ آیا ہوں.دوسرے امور جو گاؤں کے متعلق ہوتے اُن میں بھی آپ کو گڑھا دخل دینا پڑتا تھا.ایک مرتبہ قادیان کی صفائی وغیرہ کے لئے احکام نافذ ہوئے.قادیان کے لوگ ہمیشہ سے باوجود رعایا ہونے کے اپنے مالک مغلوں سے شورہ پشتی کرتے رہے ہیں اور دراصل ان کی مہر بانیوں اور کرم گستریوں نے انہیں دلیر کر دیا تھا.اس موقع پر بھی انہوں نے مخالفت کی.اس قسم کے انتظامات بھی حضرت ہی کے سپرد تھے.آپ سرکاری احکام کی تعمیل ہمیشہ سے ضروری سمجھتے تھے اور عدم تعاون کو آپ نے پسند نہیں کیا.اس موقع پر آپ نے تحصیلدار بٹالہ کو ایک خط لکھا جس کی نقل مجھے بھی کسی طرح سے مل گئی.اس خط میں آپ نے سرکاری احکام کی تعمیل اور تعاون کا اظہار فرمایا ہے اور اس سے آپ کی زندگی کے ایک پہلو پر روشنی پڑتی ہے.اس لئے میں اسے یہاں دیتا ہوں.جناب مخدوم مکرم تحصیلدارصاحب بٹالہ سلامت.بعد ماوجب ایک خلاصہ رپورٹ حفظان صحت مجریہ جناب معلی القاب صاحب کمشنر بہادر دربارہ ہدایت اٹھانے روڑیوں اور پُر کرنے ایسے گڑھوں کے جو قصبہ میں یا متصل اس کے واقع ہیں ترجمہ: نیکی اور پرہیز گاری اور صدق و صفا کو اختیار کر گر حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھنے کی کوشش نہ کر.

Page 335

حیات احمد ۳۲۵ جلد اول حصہ سوم وغیرہ امور میں شرف صدور لایا ہے.اور قصبہ قادیان میں درمیان قصبہ کے اور متصل دیوار بیرونی قصبہ کے اس قدر کثرت سے روڑی پڑی ہے کہ جا بجا ڈھیر بکثرت جمع ہیں.اور تمام گاؤں میں بد بو بکثرت پھیلی ہوئی ہے.اور بہت قریب گاؤں کے مرد وعورت پاخانہ پھرتے ہیں.چونکہ تعمیل سرکلر موصوف الذکر کی باعث شورہ پشتی اور خودسری ساکنان قادیان کے بدوں مددسرکار کے نہایت مشکل ہے بلکہ اندیشہ فساد اٹھانے اور منصوبہ بنانے کا بات بات میں ان کے متصور ہے.جیسا کہ آنجناب پر آج کل حال باشندگان قصبہ قادیان کا بخوبی واضح ہے.ہر چند معقول طور پر بارہا فہمائش کی گئی کوئی نہیں مانتا.لہذا التماس ہے کہ سرکاری طور پر تعمیل سرکلر فرمائی جاوے.اور بندہ جہاں تک خدمتِ سرکار ہو سکے حاضر ہے.صرف ایک سپاہی دو روز کے لئے تعینات کیا جاوے.تو تعمیل ممکن ہے.“ یہ چٹھی آپ نے تحصیلدار صاحب بٹالہ کولکھ کر قادیان کی صفائی کرائی.اور اس طرح پر قادیان کو ان خطرات سے جو حفظان صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتے ہیں بچالیا.آپ چونکہ کسی پر کسی قسم کی سختی نہیں فرماتے تھے اور عام طور پر لوگ نرمی سے ایسی باتوں کو جو ان کی مرضی کے برخلاف ہوں (خواہ ان کے لئے وہ کیسی ہی مفید ہوں ) مانتے نہیں.اس لئے مجبوراً اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ سرکاری مدد لے کر اس گند کو دور کیا جائے.اس تحریر سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے.کہ اس وقت قادیان کی کیا حالت تھی اور حضرت مسیح موعود کے دعوئی کے بعد اس میں کیا تبدیلی ہوئی اور اب جب کہ میں ان حالات کو لکھ رہا ہوں قادیان کی حالت میں کیا تغیر ہو چکا ہے اور کس کس قسم کے تمدنی تغیرات وقوع میں آ رہے ہیں.۱۸۹۸ء میں جب میں مستقل طور پر یہاں آیا.اس وقت بھی روڑیوں کی یہی حالت تھی اور میری تحریک پر یہاں نوٹی فائڈ ایریا کمیٹی قائم ہوئی اور اب تو خدا کے فضل سے سمال ٹاؤن کمیٹی بن گئی ہے.ان واقعات سے ظاہر ہے کہ آپ کی زندگی کا ایک حصہ اس وقت ایسا تھا کہ زمینداری کے متعلق امور کا انصرام اور بعض مقدمات کی پیروی کرتے تھے.اور ان مشاغل سے جو وقت بچتا تھا اسے بعض لوگوں کی تعلیم و تدریس اور بعض بیتامی کی پرورش اور اسلامی تربیت میں لگا دیتے تھے اور رات ذکر الہی

Page 336

حیات احمد جلد اول حصہ سوم میں صرف کرتے.دن کا جو حصہ بچتا اس میں مطالعہ کتب اور تدبر فی القرآن آپ کا شغل تھا.قادیان کے لوگوں کو آپ کی راست بازی ، دینداری اور بے لوث زندگی پر پورا اعتماد تھا.میں جب سے یہاں آیا ہمیشہ مختلف لوگوں سے آپ کی پہلی زندگی کے متعلق دریافت کرتا رہتا تھا.مرزا امام الدین صاحب کی شہادت شروع شروع میں میرا قیام مرزا امام الدین و نظام الدین صاحبان کے دیوان خانہ ہی میں تھا.جہاں آج کل ناظر امور عامہ و خارجیہ کے دفاتر ہیں.مرزا امام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت خطرناک دشمن تھے.وہ ابن عم تو رشتہ میں تھے ہی مگر حضرت مسیح موعود کے ساتھ انہیں بہت عداوت تھی.میں چونکہ ان کے ہی دیوان خانہ میں رہتا تھا.ان سے مواقع ملاقات اور بے تکلف بات چیت کے ملتے رہتے تھے.میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ حضرت صاحب کی پہلی زندگی کے متعلق مجھے بتاؤ کہ اس میں عملی طور پر یہ یا وہ نقص تھا.آپ کی موجودہ مخالفت یا انکار کو میں وقعت نہیں دیتا.اس لئے کہ آپ کو خاندانی طور پر ہمیشہ خاندان کی اس شاخ کے ساتھ مخالفت رہی ہے.مرزا امام الدین صاحب نے مجھے نہ ایک مرتبہ بلکہ متعدد مرتبہ جب کبھی ایسا تذکرہ میری طرف سے ہوا یہی کہا کہ ( حضرت مرزا ) غلام احمد (صاحب) کی پہلی زندگی کے متعلق تو ہم تب کچھ کہیں کہ ان کی کوئی وقعت ہوتی ان کو کوئی جانتا بھی نہ تھا.دوسرے ساری عمر تو وہ اپنے گھر میں چھپا ہوا رہتا تھا.اس نے کرنا ہی کیا تھا.جو لوگ کوئی عیب کرتے ہیں انہیں بھی ایک جرات اور بہادری ہوتی ہے.جو عورتوں کی طرح حجرہ میں گھسا ر ہے اس نے دنیا کا عیب کرنا کیا ہے.“ یہ ان کے الفاظ کا محض مفہوم نہیں بلکہ اکثر الفاظ انہیں کے ہیں.ان کے خیال کے موافق ایک گناہگار زندگی جرات اور شجاعت کو چاہتی ہے.یہ تو ان کا نقطہ نظر ہے.مگر میں جس بات کو پیش کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو خدا کا بھی منکر ہو جس کو خاندانی عداوت ہو اور جسے یہ

Page 337

حیات احمد ۳۲۷ جلد اول حصہ سوم ذرا بھی مشکل نہ ہو کہ کوئی الزام قائم کر دے.وہ اس کے سلسلہ کو دوکانداری کہہ دیتا ہے.مخالفت کے لئے اور قسم کی تجاویز اختیار کرتا ہے جس سے مقصد محض دکھ دینا ہو.مگر نہیں کر سکتا تو یہ کہ اس کی زندگی پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض کر سکے.اس کی دیانت، امانت، راست بازی، عفت اور صداقت پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.بلکہ یہ کہتا ہے کہ اس میں اس قسم کے عیوب اس لئے نہیں تھے کہ اس میں وہ جرات اور دلیری نہ تھی جو اس کے خیال میں ڈاکوؤں اور بدمعاشوں میں ہوتی ہے.اس جرات اور بہادری سے وہ بزدلی اور کمزوری لا انتہا درجہ بہتر ہے جو انسان کو امین اور راست باز بنا دے.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جرات اور شجاعت پر بحث نہیں کرنا اس کے لئے الگ مقام ہے.حقیقی جرات اور شجاعت کے وقت وہ سب سے زیادہ دلیر اور شجاع تھے.اس مقام پر مجھے آپ کے ایک سخت ترین دشمن کی شہادت آپ کی اعلیٰ درجہ کی پاکیزہ زندگی پر پیش کرنی تھی جو اس زمانہ کے متعلق ہے جبکہ آپ خدا کی مخلوق کی طرف مبعوث نہ ہوئے تھے بلکہ ایک عام انسان کی سی زندگی بسر کر رہے تھے اور دنیا کے کاروبار میں بھی جہاں مختلف قسم کی لغزشوں کے مواقع آ سکتے ہیں خواہ گڑھا ہی سہی مشغول کر دیئے گئے تھے.مگر کسی بھی ترغیب یا ترہیب نے آپ کو اپنے مقام سے جنبش نہ دی.مقدمات میں جھوٹی شہادت دینا یا دلانا بہت ممکن ہوتا ہے مگر آپ کو مقدمات کے ہار جانے کا غم نہیں ہوتا تھا.اگر وہ کسی صبیح واقعہ کے بیان پر ہارے جاتے ہوں.آپ کو اپنے یا خاندان کے کسی نقصان کی ذرا بھی پروا نہ ہوتی اگر آپ کی شہادت پر کوئی جائیداد آپ کے ہاتھ سے نکل جاتی.چنانچہ میں اس کا ذکر دوسری جلد میں کر آیا ہوں کہ کس طرح پر ڈپٹی شنکر داس صاحب کے مکان والی زمین خاندان کے ہاتھ سے نکل گئی.مولوی اللہ دتا صاحب اودھی منگل سے مباحثہ حضرت اقدس نے انہی ایام میں مولوی اللہ دتا صاحب ساکن لودھی منگل کو اپنے صاحبزادگان کی تعلیم کے لئے بلوایا تھا مگر وہ زیادہ دیر تک یہاں نہ رہ سکے.اور واپس لودھی منگل چلے گئے.ایام اقامت قادیان

Page 338

حیات احمد ۳۲۸ جلد اول حصہ سوم میں حضرت مسیح موعود سے بعض مسائل پر مذاکرہ علمیہ یا مباحثہ جو کچھ بھی کہا جائے ہوتا رہا.قادیان سے واپس جا کر مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک منظوم فارسی خط لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بواپسی اس خط کا منظوم جواب لکھ کر بھیج دیا.میں اس جواب کو یہاں اس لئے درج کرتا ہوں کہ اس سے ان مسائل پر بھی روشنی پڑتی ہے جن پر مذاکرہ ہوتا رہا اور نیز بی بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر محبت تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آپ کس قدر قائل تھے.آپ اس وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ نبی ہی یقین کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کو اپنی ذات میں بھی محسوس کرتے تھے.یہ وہ زمانہ ہے جبکہ آپ دنیا میں مبعوث نہ ہوئے تھے اور نہ آپ کا کوئی دعوی کسی قسم کا تھا.اُس عہد قدیم کے حالات اور آپ کی زندگی کا اسلوب ثابت کرتا ہے کہ آپ اظہار حق کے لئے کس قدر مستعد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کے اظہار کے لئے کیسے آمادہ رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خط سے ایک اور بات کا بھی پتہ لگتا ہے کہ اس وقت آپ کی مالی حالت کیسی تھی اور آپ کو اولاد کی تعلیم دینی کا کس قدر فکر اور شوق تھا.اور علماء زمان کی کیا حالت تھی.غرض یہ خط بہت سے امور کو روشنی میں لاتا ہے.میں نے اس مکتوب کے مقاصد و مطالب مہمہ کا ذکر کر دیا ہے.اصل خط کو غور سے پڑھنے سے اور بھی لطف آئے گا اور وہ یہ ہے.مکتوب در مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سپاس آن خداوند یکتائے را بمہر و بمه عالم آرائے را اس بے مثل خداوند کا شکر ہے جس نے دنیا کو چاند اور سورج سے آراستہ کیا بهر لحظه امید باری از وست بہر حالتے دوست داری از دست ہمیں ہر وقت اُس کی طرف سے مدد کی امید ہے اور ہر حالت میں اُسی سے محبت کا تعلق ہے جہاں جمله یک صنعت آباد اوست خنک نیک بختی که در یادِ اوست سارا جہاں اُسی کی کاریگری کا مظہر ہے خوش قسمت ہے وہ نیک بخت جو اس کی یاد میں رہتا ہے

Page 339

حیات احمد ۳۲۹ جلد اول حصہ سوم رسول خدا پرتو از نور اوست ہمہ خیر ما زیر مقدور اوست رسول اللہ اس کے نور کا پر تو ہیں اور ہماری ساری بھلائیاں انہیں کے ساتھ وابستہ ہیں ہماں سرور و سید و نور جان محمد کزو بست نقش جهان وہی سردار، سید اور جان کا نور محمد ہے جس کی وجہ سے جہان کی تخلیق ہوئی بشر کے بدی از ملک نیک تر نہ بودے اگر چون محمد بشر انسان فرشتے سے کیوں کر بڑھ جاتا اگر محمد سا بشر پیدا نہ ہوتا دلش بست نورانی و سرمدی بتابد درو فرة اس کا دل نورانی اور ازلی ہے اور اس میں خدا کی عظمت اور شان چمکتی ایزدی ہے کسے کش بود مصطفی رہنما سر بخت او باشد اندر سماء وہ شخص جس کا رہنما مصطفیٰ ہو اس کا نصیبہ بلندی میں آسمان تک پہنچتا ہے پر از یاد او هست جان و و دلم بخواب اندر اندیشہ ہم نکسلم میرے جان و دل اس کی یاد سے معمور ہیں خواب میں بھی مجھے کوئی دوسرا خیال نہیں آتا پس از وے، سلامم بتو، اے شفیق کرم گستر و همره و هم طریق اس کے بعد اے مہربان اور شفیق اور ہم خیال دوست میں تجھے سلام کہتا ہوں فرستاده نامة ہم ہمچو خور که یاد من خسته کردی نے دُور کیونکہ تو نے اس عاجز کو اتنی دور سے یاد کیا اور ایک خط جو ٹور کی طرح حسین ہے مجھے بھیجا چناں نظم و نثرش که مانند آں ندیدم بعمر خود اندر جہاں اس کی نظم اور نثر ایسی تھی کہ اس جیسی میں نے کبھی دنیا میں نہیں دیکھی صفاہا چنان اندر آن بیش بیش که حاسد به بیند درآں روئے خویش اس میں ایسی اعلیٰ درجہ کی صفائی ہے کہ دشمن اس میں اپنا منہ دیکھ سکتا ہے

Page 340

حیات احمد ۳۳۰ جلد اول حصہ سوم ظہوری گر آگہ شدے زاں صفا نشست پس زانوئے اختفاء اگر ظہوری شاعر اس صفائی سے واقف ہو جاتا تو وہ منہ چھپا کر بیٹھ جاتا چنان در سخن صفوت و بندوبست که عقد گہر را دهد صد شکست آپ کی باتوں میں ایسی چمک اور ایسی ترتیب ہے کہ وہ موتیوں کے ہار کو بھی مات کرتی ہیں تو گفتی سریری است صفوت اساس مرقع ز یاقوت و مرجان و ماس گویا وہ ایک ایسا چیدہ اور منتخب تخت ہے جو یا قوت ، مرجان اور الماس سے جڑا ہوا ہے زہے نحو آن بود نحو سداد ہمہ منطقم صرف آن نحو باد واہ وا اس کی نحو کیسی اعلیٰ نحو ہے کہ میری ساری گویائی اس نحو پر قربان ہے.سخن را ازاں گونه آراسته نے آید از پیر و نوخاسته اس میں کلام کو اس طرح آراستہ کیا گیا ہے کہ اور کوئی نہیں کر سکتا خواہ بوڑھا ہو یا جوان سخن سے کو نمودست در عدن به معنی رسانید ، لفظ سخن کلام سے گویا ایک در عدن ظاہر ہو گیا جس نے الفاظ کو معانی تک پہنچا دیا سخن نام دریافت زاں نامہ اس خط سے سخن نے نام پایا.واہ وا اور اس تحریر کی پختگی کے کیا کہنے.سخن آں چناں باید و استوار چه حاصل سخن گفتن نابکار بات ایسی ہی عمدہ اور پختہ ہونی چاہیے.بے سود باتیں کرنے کا کیا فائدہ! از گفتن این چنیں کہ لب ها نه جنباند از آفرین خموشی پختگی ہائے آں خامہ رہے ایسی (فضول) باتوں سے تو چپ رہنا اچھا ہے جو لوگوں کے منہ سے تعریف حاصل نہیں کر سکتیں نوٹ لے ، ان ہر دو شعروں میں کاغذ کے بوسیدہ ہو کر پھٹ جانے کے سبب پہلے دو دو لفظ معلوم نہ تھے منشی ظفر احمد صاحب نے نقل کے وقت سیاق و سباق کے مطابق یہ الفاظ لکھ دیئے ہیں.

Page 341

حیات احمد ۳۳۱ جلد اول حصہ سوم سخن معدن در و سیم و طلاست اگر نیک دانی ہمیں کیمیاست کلام تو موتی ، چاندی اور سونے کی کان ہے اگر تو اس بات کو خوب سمجھ لے تو یہی کیمیا ہے سخن گرچه باشد چو ٹو ٹو ئے کر گذاریدنش نیز خواہد ہنر بات اگر چہ گوہر آبدار کی طرح ہو.مگر اس کے پیش کرنے کو بھی ہنر چاہیے سخن قامتے هست با اعتدال فصاحت چو خدو ، بنا گوش و خال کلام کی مثال ایک خوبصورت قد کی سی ہے اور اس کی فصاحت رخسار، نوک اور تیل کی طرح ہے اثر ہا کند در دلے لا جرم اثر کرتا ہے چو گفتار باشد بلیغ و تو ضرور دل پر اتم جب کلام بلیغ اور اعلیٰ ہوتا ہے وگر منطقی ، مهمل است و خراب چو خواب پریشاں رود بے حساب لیکن اگر گفتگو بے معنی اور خراب ہو تو وہ خواب پریشاں کی طرح رائیگاں جاتی ہے زباں گرچہ بحرے بود موجزن طلاقت نگیرد بجز علم و فن زبان اگر چه طوفانی سمندری کی طرح ہو.پھر بھی فصاحت بغیر علم وفضل کے نہیں آتی کیسے کو ندارد وقوفے تمام چه طورش سیاقت بود در کلام جو شخص ( زبان کی ) پوری واقفیت نہیں رکھتا.اس کے کلام میں روانی کیونکر آ سکتی ہے بحمد اللہ کان مشفق پُر سداد دریں جملہ اوصاف یکتا فتاد خدا کا شکر ہے کہ آپ جیسا جيها مخلص شفیق ان سب صفات میں یکتا که بودیم 6 ہے در خدمت ارجمند عجب ذوق میداشت آن روز چند وہ دن نہایت پُر لطف تھے جب ہم آپ کی بابرکت خدمت میں حاضر تھے اگر لفظ سیاق ہیں جس کے معنے روانگی ہیں.شائد جائز ہو.تو سیاقت ہے، ورنہ لیاقت ( ظفر احمد )

Page 342

حیات احمد ۳۳۲ جلد اول حصہ سوم کجا شد دریغ آن زمان وصال کجا شد چنان خرم آن ماه و سال افسوس! وہ ملاقات کا زمانہ کہاں گیا اور وہ مبارک مہینہ اور سال کدھر چلا گیا بدستم از آن جز خیالے نماند از آن جام کے ، یک سفالے نماند میرے ہاتھ میں سوائے اس خیال کے کچھ بھی نہ رہا اور اس جام شراب کی ایک ٹھیکری بھی باقی نہ رہی.دریں گوشہ چوں یادِ یاراں کنیم دو دیده چو ابر بہاراں کنیم اس کنج تنہائی میں جب ہم دوستوں کو یاد کرتے ہیں تو دونوں آنکھوں کو ابر بہار کی طرح بنا دیتے ہیں دل خود بدنیا چه بندد کسے که ایام الفت ندارد بسے کوئی اس دنیا سے اپنا دل کیا لگائے کہ محبت کے دن زیادہ باقی نہیں رہا کرتے چه فرق است در روز و شب جز که یار فتد خاک بر فرق این روزگار یار کے بغیر دن اور رات میں فرق ہی کیا ہے؟ اس زمانہ کے سر پر خاک پڑے دو دست دعا پیش حق گسترم کہ چہرت نماید بفضل و کرم میں اپنے دونوں ہاتھ خدا کے حضور میں پھیلاتا ہوں کہ وہ اپنے فضل وکرم سے تیرا چہرہ دکھائے بمكتوب که که بکن شاد کام خط و نامه با ما چرا شد حرام کبھی کبھی خط لکھ کر ہمیں خوش وقت کر دیا کر.تو نے ہمیں خط بھیجنا کیوں ترک کر دیا دگر آنچہ تحریر کرد آن رفیق کرم گسترد نیز آں مکرم کرم فرما.مہربان اور شفیق نے جو که از بحث دیں زاں نکردیم یاد که خوف ملال تو در دل فتاد کہ ہم نے اس لئے اس خط میں دین کی بحث کا ذکر نہیں کیا کہ ہمارے دل میں ناراضگی پیدا نہ ہو ( تو واضح ہو ) من آن هیستم کز رو بغض و کیس برنجم ز تحریک در بحث دیں کہ میں ایسا انسان نہیں ہوں کہ دشمنی اور کینہ وری کی وجہ سے دینی مباحث کی تحریک سے ناراض ہو جاؤں و مهربان و شفیق لکھا ہے

Page 343

حیات احمد ۳۳۳ جلد اول حصہ سوم را ناحق ایں بدگمانی فتاد درون کسے بدگمان ہم مباد آپ کو ناحق یہ بد گمانی لاحق ہوئی..خدا سے کسی کا دل بد ظن نہ ہو به غمخواریت گویم کہ اے نیک مرد نه باید به غم خوار دل رنجه کرد اے نیک مرد میں تجھے بطور غمخوار عرض کرتا ہوں اور غم خوار سے ناراض نہیں ہونا چاہیے نشان است بر موت دلها جلی پر زندگی نبی که انکار کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے انکار.منکروں کے دلوں کی موت کی کھلی کھلی علامت ہے جہاں جمله مُرده فتادست و زار یکے زنده او هست از کردگار سارا جہان مُردہ اور بیمار ہے خدا کی طرف سے صرف وہی ایک زندہ ہے چنین است ثابت بقول سروش اگر راز معنی نیابی خموش الہام الہی سے یہی ثابت ہے.اگر تیری سمجھ میں یہ راز نہ آئے تو چپ رہ اگر در ہوا ہمچو مرغان پری و گر بر سر آب ها بگذری اگر پرندوں کی طرح تو ہوا میں اُڑنے لگے یا پانی پر چلنے لگے و گر ز آتش آئی سلامت بروں و گر خاک را زرکنی از فسوں اور اگر تو آگ سے سلامت باہر نکل آئے یا پھونک مار کر مٹی کو سونا بنا دے اگر منکری از حیات رسول سراسر زیاں است و کار فضول لیکن اگر تو رسول کی زندگی کا منکر ہے تو یہ سب باتیں سراسر فضول اور بے کار ہیں خدایش جو خوانده گواہ جہاں چرا داندش عاقل از غائباں خدا نے جب اسے اہل دنیا کے لیے شاہد فرمایا تو عظمند اسے غائب کیوں سمجھے داشتے بیجان دامنش نیز نگذاشتے اگر منکر او خبر دا.اگر منکر کو اس کی خبر ہوتی تو خواہ جان دینی پڑتی مگر اس کا دامن نہ چھوڑتا

Page 344

حیات احمد ۳۳۴ جلد اول حصہ سوم خردمند بمہر منیرش خطاب از خدا است دریغا ازیں پس گمانها چراست خدا کی طرف سے مہر منیر اس رسول کا خطاب ہے تو افسوس اس کے بعد فضول گمان کیوں ہیں اگر یکدے گم شود آفتاب شود عالم از تیرگی با خراب اگر آفتاب ایک دم کے لیے بھی غائب ہو جائے تو دنیا اندھیرے میں مبتلا ہو جائے نیکومنش طبع راست نتابد سر از آنچه حق و بجاست جو شخص عقل مند، صالح اور نیک فطرت ہے وہ حق اور سچائی سے روگردانی نہیں کرتا چوبیند سخن را از حق پروری وگر در سخن کم کند داوری جب وہ حق شناسی سے بات پر غور کرتا ہے تو پھر وہ اس بات میں جھگڑا نہیں کرتا مشو عاشق زشت رو زینهار و گر خوب گم گردد از روزگار تو ہرگز کسی بدشکل کا عاشق نہ ہو چاہے دنیا سے حسین گم ہو جائیں مکافات دارد ہمہ کاروبار تو خار و خسک تا توانی مکار ہر بات کی جزا سزا مقرر ہے اس لیے جہاں تک ممکن ہے تو کانٹے اور گوکھرو نہ بو زمین از زراعت تہی داشتن به از تخم خار و خسک کاشتن زمین کو زراعت سے خالی رکھنا اس سے بہتر ہے کہ اس میں کانٹے اور گوکھر و بوئے جائیں ز ہے دولت من کہ فضل مجید مرا اندریں اعتقاد آفرید یہ میری خوش قسمتی ہے کہ خدا کے فضل نے مجھے اس اعتقاد پر پیدا کیا ہے ز من نیک تر آں کہ بعد از خبر نیار د بدل اعتقاد دگر اور مجھ سے بھی اچھا وہ شخص ہے جو علم ہو جانے کے بعد دل میں اس کے خلاف اعتقاد نہ رکھے زبان را کند منع زاں ہر سخن که دور از ادب باشد و سوء ظن اور زبان کو ہر اس بات سے باز رکھے جو ادب کے خلاف اور بدظنی ہو

Page 345

حیات احمد ۳۳۵ جلد اول حصہ سوم بدنیا ہمہ نوع سود و زیاں با غلب رسد از ممر زبان دنیا میں ہر قسم کا نفع اور نقصان اکثر زبان کے راستے سے پیدا ہوتا ہے توان از سخن مایه یافتن مقرب شدن پایه یافتن کلام کے ذریعے دولت مل سکتی ہے نیز مقرب ہونا اور عزت پانا بھی ممکن ہے ہم از گفتگوها یکی آن بود که در گفتنش خطره جان بود اسی طرح بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے کہنے میں جان کا خطرہ ہو جاتا ہے چساں گفتهء من بفهمی تمام جہاں ریزم اندر دلت این کلام میری بات کو تو پوری طرح کیونکر سمجھے کسی طرح میں اپنے کلام کو تیرے دل میں ڈال دوں اگر جاہلے سر بتابد ز پند عجب نیست گو خود به جهل است بند اگر کوئی جاہل نصیحت ماننے سے انکار کرے تو تعجب نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی جہالت میں پھنسا ہوا ہے ولے از تو دارم عجب اے امی که فرزانه باشی و نادان شوی لیکن اے بھائی مجھے تو تیری طرف سے حیرانی ہے کہ تو دانا ہو کر نادان بنتا ہے رسولے معظم که دادار جاں چراغ جهانش بگوید عیاں وہ رسول معظم جسے خدا نے صاف طور پر جہان کا چراغ فرمایا ہے چه چیز از تو او را حجاب است و بند چه دیوار داری کشیده بلند تو پھر کونی چیز ہے جو تیری راہ میں بطور حجاب حائل ہے اور وہ کونسی اونچی دیوار ہے جو تیرے سامنے کھینچی ہوئی ہے مشو غره بر گفته یک کسے که عقل و نذیر ندارد بسے تو اس شخص کے قول پر فریفتہ نہ ہو.جو عقل و دانش نہیں رکھتا ز ہر فاضلے بہرہ گیر اے جوان بعقل و ادب باش پیر اے جوان اے جوانمرد.ہر عالم سے فائدہ اُٹھا اور عقل و ادب کی رو سے اے جوان تو بزرگ بن جا

Page 346

حیات احمد ۳۳۶ جلد اول حصہ سوم قدم نہ تقلید اہل کمال که خود اوفتد ناگهان در ضلال اہل کمال کی تقلید کی راہ پر چل کہ آدمی خود رائی سے ناگہاں گمراہی میں جا پڑتا ہے میانه گزیں باش و با اعتدال کہ یکسو روی باشد از اختلال میانہ روی اور اعتدال کے طریقہ کو اختیار کر کہ یک طرفہ چلنا فساد کا موجب ہوتا ہے دو چشم کسے چوں سلامت بود بیک چشم دیدن ندامت بود جس کی دونوں آنکھیں سلامت ہوں تو صرف ایک آنکھ سے دیکھنا اس کے لیے باعث ندامت ہوتا ہے به تحقیق باید نظر پست داشت دو دیده گذاشت معطل نباید ہمیشہ تحقیق کی نظر چست رکھنی چاہیے اور آنکھوں کو بے کار نہیں چھوڑنا چاہیے چوصوف صفا در دل آمیختند مداد از سواد عیون ریختند جب صفائی کا صوف دل میں ملاتے ہیں تو آنکھوں کی سیاہی سے روشنی ڈالتے ہیں دو چیز است چوپان دنیا و دیں دل روشن و دیدہ دور میں دو چیزیں دین و دنیا کی محافظ ہیں.ایک تو روشن دل دوسرے دور اندیش نظر خدا راست آن بندگانِ کرام که از بهر شاں میکند صبح و شام ہے خدا کے نیک بندے ایسے بھی ہیں جن کے لیے خدا صبح و شام کو پیدا کرتا بدنبال چشم چو مے بنگرند جہانے بدنبال خود می کشند جب وہ کن انکھیوں سے دیکھتے ہیں تو ایک جہان کو اپنے پیچھے کھینچ لیتے ہیں اثر هاست در گفتگو ہائے شان چکد نور وحدت نے روہائے شاں ان کے کلام میں اثر ہوتا ہے اور اُن کے چہروں سے توحید کا نور ٹپکتا ہے در او شان به اظہار ہر خیر و شر نها دست حق خاصیت مستتر ان میں نیکی اور بدی کے اظہار کے لیے خدا تعالیٰ نے مخفی خاصیت رکھ دی ہے

Page 347

حیات احمد ۳۳۷ جلد اول حصہ سوم نیستند ولی از خدا هم جدا نیستند بگفتن اگر چه خدا اگر چہ کہنے کو وہ خدا نہیں ہیں.لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہیں کے را که او ظل یزداں بود قیاسش بخود جهل و طغیاں بود تمام جو شخص خدا کا ظل ہو اس کو اپنے پر قیاس کرنا جہالت اور سرکشی ہے بردش ازاں سُو گر آید کتاب ازیں سو بزودی بگویم جواب اس کے رڈ میں اگر کوئی کتاب شائع ہو تو میں اس طرف سے فوراً جواب دوں گا ولیکن بیاید کتابے که باشد محیط همه ما يُرام یہ چاہیے کہ وہ کتاب پوری ہو اور تمام مقاصد پر حاوی ہو ز عہدے کہ کردم نگردم گہے نه گردم رباید صبا زیں رہے میں کبھی اس عہد سے نہیں پھروں گا جو میں نے کیا ہے ہوا میری گرد کو بھی اس رستے سے نہیں ہٹا سکتی مگر کا سمانے دگر گو نہ کار فراز آید از گردش روزگار سوائے اس کے کہ آسمان سے کوئی اور امر گردش زمانہ کی وجہ سے نازل ہو چه گویم ز تدریس اطفال حال که دارم دل از حال شان پر ملال اس زمانہ کے بچوں کی تعلیم کا کیا حال بیان کروں کہ میرا دل ان کی وجہ سے بہت رنجیدہ ہے معلم میتر شود بست کس ولیکن بزر مشکل این است بس بیسیوں استاد مل سکتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ صرف روپیہ سے ملتے ہیں کجا آں قناعت گزین اوستاد کہ بر اند کے آمد از اتحاد وہ قائع استاد اب کہاں رہے جو اپنے اخلاص کے باعث تھوڑے گزارہ پر مل جاتے تھے بکوشیم و انجام کار آن بود کہ آں خواہش و رائے یزداں بود ہم کوشش کرتے ہیں مگر نتیجہ وہی ہوتا ہے جو خدا کی مرضی اور خواہش ہوتی ہے

Page 348

حیات احمد ۳۳۸ جلد اول حصہ سوم فتاد است در فاضلان حرص و آز ہمہ جانگاه شد در طمع باز عالموں کے دلوں میں حرص اور لالچ پیدا ہو گیا ہے اور ہر جگہ طمع کے دروازے کھل گئے ہیں طمع عہد ہائے گران بگسلد ز دلدار پیوند جاں بگسلد لالچ تو بڑے بڑے مضبوط اقراروں کو توڑ دیتا ہے بلکہ محبوب کے ساتھ گہرے ربط کو بھی تو ڑ دیتا ہے بجویند از حرص کثرت بمال ازاں خود فتد اندر ان اختلال یہ لوگ حرص کی وجہ سے کثرتِ مال چاہتے ہیں حالانکہ مال کمانے میں بھی حرص کی وجہ سے فتور پڑتا ہے ندانند این مردمان کہ آہستگی ہم رساند بران افسوس کہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ آہنگی سے بھی ان کی یہ مراد پوری ہو سکتی ہے دریغا زمانه بسا بیذق آہستہ راند کہ ناگاہ ہر جائے فرزیں نشاند زمانہ نے بہت سے پیارے شطرنج کے آہستہ آہستہ بڑھائے جن کو آخر یکدم فرزین کی جگہ بٹھا دیا بنظم ایں قدر ماجرائے برفت بپوشی گر از من خطائے برفت یہ تھوڑا سا حال میں نے نظم میں لکھا ہے اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو پردہ پوشی کر که من بنده ناکس و کهترم نہ گوہر شناسم نه با گوہرم کیونکہ میں ایک کمزور اور عاجز انسان ہوں نہ جوہر شناس ہوں نہ جوہری بود چشم احرار از عیب پاک اگر جاہلے عیب بیند چه باک شریفوں کی آنکھ تو عیب گیری کے نقص سے پاک ہوتی ہے ہاں جاہل عیب بین ہوا کرے تو اس کا کوئی مضائقہ نہیں الرّاق بندہ آنم غلام احمد عفی اللہ عنہ ۶ ستمبر ۱۸۷۲ء نوٹ :.اس نظم کا ترجمہ ہم نے درشین فارسی مترجم ترجمه فرمودہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے صفحہ 313 تا صفحہ 324 سے لیا ہے.یہ نظم اولاً بدر ۲۹ را پریل ۱۹۰۹ء میں شائع ہوئی تھی.( ناشر )

Page 349

حیات احمد ۳۳۹ جلد اول حصہ سوم تبلیغ اسلام کا جوش انہیں ایام میں جبکہ آپ زمینداری کے مقدمات اور دوسرے کاروبار میں مصروف تھے.آپ کو تبلیغ اسلام کا بھی بہت بڑا جوش تھا.جو لوگ آپ کے پاس غیر مذاہب کے آتے تھے.آپ بوجہ احسن ان کو اسلام کی طرف دلائل و برہان اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ دعوت دیتے رہتے تھے اور اس میں زیادہ تر آپ کا طریق یہ ہوتا تھا کہ آپ اسلام کی خوبیاں نہ صرف عقلی طور پر بیان فرماتے بلکہ اسلام کے عملی ثمرات کو پیش کرتے.ان لوگوں میں سے جو آپ کے زیر تبلیغ تھے ان میں سے ایک سردار سنت سنگھ صاحب ساکن بٹر کلاں تھے.وہ ایک معزز خاندان کے ممبر تھے اور تعلیم یافتہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات بوجہ ایک معزز زمیندار کے گویا برادری سے تعلقات تھے.سردار سنت سنگھ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آنے لگے اور رفتہ رفتہ ان کو اسلام سے اُنس پیدا ہوا.ان دنوں میں کسی سکھ کا مسلمان ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہو سکتی تھی اور پھر ایک ایسے معزز آدمی کا اور تعلیم یافتہ کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عملی نمونہ ، آپ کے کمالات باطنی اور روحانی نے سردار سنت سنگھ صاحب کو اسلام کی طرف مائل کیا.اور ایک عرصہ تک وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتارہا اور اسلام کی تعلیم پاتا رہا.آخر وہ پورے طور پر اسلام کی خوبیوں اور اس کی تعلیم کی صداقت اور اس کے اثرات اور اعجازی کمالات کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کو مسلمان ہو جانا چاہیئے کیونکہ بغیر اس کے نجات نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی کہ وہ اپنی بیوی کو بھی تبلیغ کرے.چنانچہ کچھ عرصہ تک سردار سنت سنگھ صاحب کا اظہار اسلام رُکا رہا.وہ مسلمان ہو چکے تھے.مگر اعلان سے پہلے یہ ضروری سمجھا گیا کہ وہ اپنی رفیق زندگی کو بھی شریک کریں.جب انہوں نے اپنی بیوی کو تبلیغ شروع کی تو بعض مشکلات کا پیش آنا ضروری تھا.وہ آئیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رہنمائی سے خدا تعالیٰ نے ان مشکلات کو دور کر دیا.اور حضرت کی توجہ اور دعاؤں کا نتیجہ یہ ہوا کہ سردار سنت سنگھ صاحب مع اپنی

Page 350

حیات احمد ۳۴۰ جلد اول حصہ سوم رفیق زندگی کے اظہار اسلام کے لئے آمادہ ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دربار شہرت میں کسی کرسی پر بیٹھنے سے کراہت اور کسی ایسے کام کے اشتہار سے نفرت تھی.جو محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو.اگر آپ کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا تو وہ سردار سنت سنگھ صاحب کے قبول اسلام کے متعلق اپنی خاص کوششوں کا خوب اشتہار دیتا.مگر آپ نے کبھی پسند نہ کیا کہ اس کا ذکر بھی ہو بلکہ آپ نے اس کے اعلان اسلام کے لئے بھی یہی مناسب سمجھا کہ اُسے بٹالہ صاحبزادہ ظہور الحسن صاحب سجادہ نشین بٹالہ کے پاس بھیج دیں.چنانچہ صاحبزادہ صاحب موصوف نے جو تحریر سردار سنت سنگھ صاحب کے اعلان کے متعلق لکھی.اس میں تحریر فرمایا.اما بعد بر کافہ اہلِ اسلام ہویدا باد کہ اندریں آوان سعید و زمان حمید سردار سنت سنگھ بہ معیت اہلیہ خویش ببرکت صحبت جناب مرزا غلام احمد صاحب سلمہ اللہ الصمد کہ شخصے وحید عصر است نو رایمان در قلب فیض طلب و ا تافت - يَهْدِى اللَّهُ لِنُوْرِهِ مَنْ يَشَاءُ.عزیزی نبی بخش پٹواری ساعی شد که فقیر حسب معمول مشایخ خویش رحمہم اللہ کلمہ شہادت آن سردار صاحب رشد را تلقین کند اگر چہ بروئے حصول ایں سعادت مرزا غلام احمد ہزار درجه از من اولی بود ۲۲ / جمادی الاول ۱۳۰۱ھ دستخط خواجه صاحبزادہ سید ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ قادری فاضلی بدستخط خویش حمید ترجمہ:.اما بعد تمام اہل اسلام پر واضح ہو کہ میں ان پر سعادت ایام میں سردار سنت سنگھ مع ان کی اہلیہ جناب مرزا غلام احمد صاحب سلمه الله الصمد جو وحید عصر ہیں اور نور ایمان ان کے دل فیض طلب میں ظاہر وباہر ہے، کی صحبت سے فیض یاب ہوئے.يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ عزیزی نبی بخش پٹواری نے اہتمام کیا کہ فقیر اپنے مشائخ رحمہم اللہ کے طریق پر اس سردار صاحب رشد کو کلمہ شہادت کی تلقین کرے حالانکہ اس سعادت کے حصول کے لئے مرزا غلام احمد صاحب مجھ سے ہزار درجے اولی اور بہتر ہیں ۲۲ جمادی الاول ۱۳۰۱ھ دستخط خواجہ صاحبزادہ سید ظہور الحسن سجادہ نشین بٹالہ قادری فاضلی بدستخط خویش

Page 351

حیات احمد ۳۴۱ جلد اول حصہ سوم ممکن ہے کسی صاحب کو یہ خیال گزرے کہ بٹالہ جانے کا محرک منشی نبی بخش پٹواری تھا..اگر چه تحریر مذکور خود مظہر ہے کہ سردار سنت سنگھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض صحبت ہی سے حلقہ اسلام میں داخل ہوا.اور صاحبزادہ صاحب کا یہ تحریر فرمانا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب اس سعادت کے حاصل کرنے کے لئے مجھ سے ہزار درجہ افضل ہیں.خود دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ہی تلقین اور اعلان کے لئے ان کو بھیجا تھا.منشی نبی بخش صاحب پٹواری بٹالہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا کرتے تھے.ان کو عیسائیوں سے گفتگو اور مناظرہ کرنے کا شوق تھا.اور اس غرض کے لئے اضافہ معلومات اور حل اعتراضات نصاری کے لئے حضرت کی خدمت میں آیا کرتے تھے.میں اس کے متعلق کسی قدر تفصیل سے آگے لکھوں گا.( انشاء اللہ ) یہاں صرف اتنا ہی بتانا ہے کہ چونکہ وہ حضرت ہی کے پاس آیا کرتے تھے.اور عیسائیوں سے بحث مباحثہ کا ایک شغل رکھتے تھے.حضرت نے سردار سنت سنگھ صاحب کو ان کی ہی معرفت بٹالہ بھیج دیا تا کہ وہ اعلانِ اسلام کریں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.وہ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض صحبت نے اس سکھ خاندان کو اسلام میں داخل کیا.اور اسلام کی لذت اور ایمان کی بشاشت ایسی گھر کر گئی کہ سردار سنت سنگھ صاحب (جن کا اسلامی نام بعد میں عبد الرحمن ہوا) کسی کے بہکانے میں نہ آئے.اگر چہ وہ اپنے گاؤں میں بہت معزز آدمی تھے مگر قبول اسلام کے بعد ہر قسم کی تکالیف ان کے یک جدیوں کی طرف سے دی گئیں لیکن وہ ہمیشہ مردانہ وار اسلام میں کھڑے رہے.آخر پنڈت لیکھرام کو بھی بلایا گیا.اور وہ ایک ڈیپوٹیشن لے کر ان کے پاس پہنچا.اور ہر قسم کے سبز باغ دکھا کر ان کو مرتد کرنا چاہا.مگر اس نے کبھی پرواہ نہ کی اور ذرا بھی اسے جنبش نہ ہوئی.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد دیر تک زندہ رہے اور اب خلافت ثانیہ میں وفات پائی ہے.آخر وقت تک وہ ایک مخلص احمدی رہا.جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کسی قدر تفصیل سے اس کا ذکر انشاء اللہ پھر آئے گا.یہاں اس قدر واقعہ صرف اس لئے بیان کیا ہے کہ آپ اس زمانہ میں بھی تبلیغ و اشاعت اسلام کے کام میں مصروف تھے اور آپ

Page 352

حیات احمد ۳۴۲ جلد اول حصہ سوم کے دلائل و براہین اور آپ کی عملی زندگی اور تاثیرات کی قوت ایسی زبردست تھی کہ اس علاقہ میں ایک معز ز سکھ زمیندار خاندان کو داخل اسلام کر لیا.اور نمود و نمائش سے اس قدر نفرت تھی کہ پسند نہ فرمایا کہ خود اس کے قبول اسلام کا اعلان کریں.مگر خدا کی قدرت اور اس کے فضل کو دیکھو کہ واقعات کی حقیقت کو مخفی نہیں رہنے دیا خود صاحبزادہ ظہور الحسن صاحب نے اپنی تحریر میں اس حقیقت کو آشکارا کر دیا کہ یہ شخص صرف حضرت مرزا صاحب کی صحبت سے داخلِ اسلام ہوا ہے.اور آپ کے مقام کا بھی اظہار کر دیا کہ مجھ سے ہزار درجہ افضل ہیں.پنڈت کھڑک سنگھ صاحب سے مباحثہ سردار سنت سنگھ صاحب مسلمان ہو کر عبدالرحمن بن چکے تھے اور ان کی بیوی بھی اب اُمت مسلمہ میں داخل تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لالہ ملا وامل اور لالہ شرمیت رائے صاحب بھی آیا کرتے تھے اور ان سے اسلام کی خوبیوں اور حقائق و معارف قرآنیہ پر تذکرے برنگ تبلیغ ہوا کرتے تھے.چنانچہ میں پہلی جلد میں لالہ ملاوامل صاحب کی ابتدائی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھ آیا ہوں کہ پہلی ہی ملاقات میں آپ نے ان کو تبلیغ کی تھی.اور آپ کی مجلس میں علی العموم یہی تذکرہ ہوتا تھا کہ یہ تبلیغی تذکرے اور تبادلہ خیالات کے سلسلے اتنے وسیع ہوئے کہ قادیان کے ایک چوہارے سے نکل کر اخبارات تک جا پہنچے.اور ہندو باندھو ( برادر ہند ) و دیا پر کا شک.آفتاب پنجاب.سفیر ہند اور وکیل ہندوستان کے کالموں میں بحث کا میدان گرم ہو گیا.اور سوامی دیانند صاحب سے براہِ راست خطاب کی ریت جا پہنچی اور لاہور کے مشہور مذہبی لیڈر پنڈت شونرائن اگنی ہوتری (حال بانی دیو سماج ) نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں کامیابی کا فیصلہ دے دیا.یہ سلسلہ الگ جاری تھا کہ اسی اثناء میں قادیان کے ہندوؤں نے پنڈت کھڑک سنگھ کو قادیان بلا لیا.یہ پنڈت صاحب اوردو کی کے رہنے والے تھے اور آریہ سماج کے پُر جوش اور سرگرم ممبر تھے.ان کو قدرتی طور پر خیال تھا کہ ایک گاؤں کا رہنے والا جہاں نہ علمی ترقی کے اسباب

Page 353

حیات احمد ۳۴۳ جلد اول حصہ سوم اور ذرائع میسر ہیں میرے مقابلہ میں نہ کچھ کر سکے گا اور نہ زیادہ دیر ٹھہر سکے گا.مگر حقیقت یہ ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب برخود غلط کے مصداق تھے.غرض وہ قادیان میں آئے اور بڑی دھوم دھام سے جو گاؤں کے حسب حال ہو سکتی تھی اُن کا خیر مقدم ہندو حضرات نے کیا.پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباحثہ کی طرح ڈالی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر طالب حق کی تسلی اور اطمینان کے لئے تیار رہتے تھے اور ہر معاند اسلام کے اعتراضات کے جوابات دینے کے لئے آمادہ.چنانچہ پنڈت کھڑک سنگھ نے آ کر جب مباحثہ کرنا چاہا.آپ نے اس میں ذرا بھی تامل نہ فرمایا.مباحثہ کے متعلق میرے پاس دو روایتیں ہیں.ایک بھائی کشن سنگھ صاحب کی دوسری لالہ ملا وامل صاحب کی.لالہ شرمیت رائے نے بھی اس کے متعلق بیان کیا تھا اور وہ بھائی کشن سنگھ صاحب کا مرید تھا.تاہم میں ہر دو روایتیں یہاں دے دوں گا.بھائی کشن سنگھ صاحب کی روایت کی تائید میں تحریری ثبوت یہی ہے.مباحثہ کے لئے بڑہن شاہ کا تکیہ مقرر ہوا تھا.جو سرکاری پرائمری سکول کے پاس ہے.حسب روایت لالہ ملا وامل صاحب بحث کا موضوع تناسخ تھا.لالہ ملا وامل صاحب بیان کرتے ہیں کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے اعتراض کیا کہ ایک کتا جس کو کیڑے پڑے ہوئے ہوں اور وہ اس سے تکلیف اٹھا رہا ہو اس کا کیا قصور ہے.اگر یہ گرموں کا پھل نہیں تو کیا ہے؟ حضرت مرزا صاحب کے جواب کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کیا جواب دیا مگر کچھ کلام میں تیزی پیدا ہو گئی اور لالہ بشمبر داس حضرت صاحب کو وہاں سے لے آئے اور مباحثہ اس پر ختم ہو گیا.برخلاف اس کے بھائی کشن سنگھ صاحب کی روایت یہ ہے کہ مباحثہ وید اور قرآن کریم کی تعلیم پر تھا.اور حضرت مرزا صاحب نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کے کامل اور اعلیٰ ہونے کا ثبوت میں قرآن مجید سے دوں گا.اور تم وید کی تعلیم کے اعلیٰ اور کامل تر ہونے کا ثبوت اور دلائل وید سے دو.ضمنا تناسخ پر بھی بحث تھی.اس پر گفتگو ہو رہی تھی کہ اثنائے تقریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے متعلق بعض

Page 354

حیات احمد ۳۴۴ جلد اول حصہ سوم اعتراضات پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے کئے اور ان کا لہجہ ایسا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کو رنج ہوا اور اُن کے کلام میں تیزی پیدا ہو گئی.اور یہ سمجھا گیا کہ بد مزگی پیدا نہ ہو جائے.اس لئے بشمبر داس اُن کو لے کر چلے آئے.پھر حضرت صاحب نے ایک تحریری پر چہ بھی بھیجا تھا.جس کے جواب کے متعلق معلوم نہیں پنڈت کھڑک سنگھ نے کیا کیا.لالہ شرمیت رائے صاحب نے بھائی کشن سنگھ صاحب کے بیان کی تائید اس طرح پر کی کہ گفتگو ہورہی تھی.کوئی خاص مسئلہ زیر بحث نہ تھا.مختلف سوال و جواب ہوتے تھے.پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے ایک اعتراض کو حضرت مرزا صاحب نے دل آزار سمجھا.اور اس کے جواب میں سختی کی.لوگوں نے سمجھا کہ بات بڑھ نہ جائے.پنڈت کھڑک سنگھ تو چلا جاوے گا.اور ہمارے تعلقات میں فرق آئے گا.اس لئے بحث کو بند کر دیا اور حضرت مرزا صاحب وہاں سے تشریف لے آئے.اور پنڈت کھڑک سنگھ بھی وہاں سے چلے گئے.اس کے بعد ایک دو تحریریں ہوئیں.مگر پنڈت کھڑک سنگھ کو ہم لوگوں نے بھیج دینا مناسب سمجھا.یہ تین روایتیں ہیں.ان ہر سہ روایتوں میں ایک امر مشترک ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے کوئی ایسی بات ضرور کہی ہے جس سے حضرت کو طبعی طور پر رنج ہوا.اور آپ کو اپنے کلام میں نرمی کا طریق چھوڑنا پڑا.اس بات کے متعلق بھائی کشن سنگھ صاحب کا بیان صاف ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض اعتراض پنڈت نے کئے اور اُن کا لہجہ اچھا نہیں تھا.یہی حقیقت اور امر واقعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ آپ میں غیرت دینی بے حد تھی.خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آپ کوئی کلمہ بے ادبی کا سن کر بے تاب ہو جاتے تھے.اور آپ برداشت ہی نہ کر سکتے تھے.اس کے بہت سے واقعات آپ کی زندگی میں پائے جاتے ہیں.آپ نے اپنی بچی (جناب مرزا غلام حیدر صاحب مرحوم کی اہلیہ ) بی بی صاحب جان کے

Page 355

حیات احمد ۳۴۵ جلد اول حصہ سوم ہاں آنا جانا ترک کر دیا.اور ان کے گھر کا کھانا پینا چھوڑ دیا.محض اس لئے کہ ایک مرتبہ اُن کے منہ سے آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بے ادبی کا کلمہ نکل گیا تھا.باوجود اس احترام کے جو آپ بزرگوں کا کرتے تھے.اس بات کا ایسا اثر آپ کی طبیعت پر تھا کہ آپ کا چہرہ غصہ سے تمتما اٹھا اور آپ کا اپنا کھانا پینا بھی اس سے ترک ہو گیا.ڈاکٹر پادری وایٹ بر سخٹ کی شہادت ۱۹۲۵ء کی دوسری ششماہی میں جب میں لنڈن گیا تو میں ڈاکٹر پادری وایٹ بریخٹ صاحب ( جو آجکل وہاں ڈاکٹر سٹانٹن کہلاتے ہیں) سے ملا.پادری صاحب بٹالہ میں مشنری رہے ہیں.اور حضرت صاحب سے بھی ان کی بعض ملاقاتیں ہوئی ہیں.پادری فتح مسیح صاحب سے بٹالہ میں ایک مباحثہ الہام کے متعلق تھا.اس میں بھی ان کا دخل تھا.غرض سلسلہ کی تاریخ میں ان کا کچھ تعلق ہے.اس سلسلہ میں ان سے مجھے ملنے کی خواہش تھی.اور میں ان سے جا کر ملا.اثنائے گفتگو میں میرے بعض سوالات کے جواب میں جو حضرت کی سیرت یا بعض واقعات کے متعلق تھے.ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ : میں نے ایک بات مرزا صاحب میں یہ دیکھی جو مجھے پسند نہیں تھی.کہ وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا جاتا تو ناراض ہو جاتے تھے.اور ان کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا.میں نے پادری صاحب کو کہا کہ جو بات آپ کو ناپسند ہے.میں اسی پر قربان ہوں.کیونکہ اس سے حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے ایک پہلو پر ایسی روشنی پڑتی ہے کہ وہ آپ کی ایمانی غیرت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے محبت ہی نہیں عشق اور فدائیت کو نمایاں کر دیتی ہے.آپ کے نزدیک شاید یہ عیب ہو.مگر میں تو اسے اعلیٰ درجہ کا اخلاق یقین کرتا ہوں.اور آپ کے منہ سے سن کر حضرت مرزا صاحب کی محبت اور آپ کے ساتھ عقیدت میں بہت بڑی ترقی محسوس کرتا ہوں.غرض آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت اور عشق تھا.آپ یہ کبھی

Page 356

حیات احمد ۳۴۶ جلد اول حصہ سوم برداشت ہی نہ کر سکتے تھے کہ کوئی شخص آپ کی بے ادبی کرے.کوئی چیز آپ کو غصہ نہیں دلا سکتی تھی.اور سچ تو یہ ہے کہ آپ کو غصہ آتا ہی نہ تھا.بغیر اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم یا شعائر اللہ کی کوئی بے ادبی کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس حالت کو جانتے ہوئے اور واقعات کو اس کا موید و شاہد پاتے ہوئے اس پر یقین لانے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوسکتا کہ صحیح واقعہ وہی ہے جو بھائی کشن سنگھ صاحب نے بیان کیا.لالہ ملا وامل صاحب نے باوجود میرے استفسار کے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس بات پر ناراض ہوئے.وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ یاد نہیں بہت ممکن ہے انہیں یاد نہ رہا ہو.لیکن جب حضرت کی طبیعت اور عادت اور دوسرے واقعات کے ساتھ ملاتے ہیں تو معاملہ صاف ہو جاتا ہے.اگر کوئی اور شاہد اس کے ساتھ نہ بھی ہوتا تو بھی ہمیں باور کرنے کے لئے کافی وجوہ موجود تھے.مگر سب سے بڑی شہادت ہمارے پاس وہ تحریر ہے.جو پنڈت کھڑک سنگھ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھ کر بھیجی.اور اس میں صاف طور پر آپ نے لکھا ہے کہ تم بارا دہ تو ہین حضرت خاتم الانبیاء کی نسبت بد زبانی کرتے ہو.اور دوسرے موقع پر قرآن مجید کی ہتک کا بھی اسے ملزم قرار دیتے ہیں.اس تحریر کے بعد ہمیں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ اس مباحثہ میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں کسی قدر سخت پیدا ہوگئی تھی تو وہ بہ اقتضائے غیرت اسلامی اور محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نتیجہ میں تھی.میں ذیل میں اس تحریر کو تمام و کمال درج کر دیتا ہوں.اور قارئین خود فیصلہ کریں گے.اس تحریر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیرت دین کے پہلو ہی پر روشنی نہیں پڑتی بلکہ اس کے ساتھ ہی علم کلام کی تجدید کا پہلو بھی نمایاں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے کسی شخص نے یہ دعوی نہیں کیا کہ الہامی کتاب خود ہی دعوئی اور خود ہی اپنے دعوی کے دلائل پیش کرے.چونکہ تفصیلی بحث اس اصول پر میں اس مقام پر کرنا چاہتا ہوں.جہاں آپ کے علم

Page 357

حیات احمد ۳۴۷ جلد اول حصہ سوم کلام پر بحث ہوگی.اس لئے یہاں صرف اس کی طرف اشارہ ہی کر دیتا ہوں.اسی طرح قرآن مجید کی تعلیم کے عہد حاضرہ میں مکمل ہونے کو جس اسلوب اور نجح پر آپ نے پیش کیا ہے.وہ بھی آپ ہی کا حصہ ہے.غرض پنڈت کھڑک سنگھ صاحب سے مباحثہ ہوا.اور وہ آریوں کی تعلیم سے متزلزل ہو گئے.اگر ان میں دیانت اور انصاف ہوتا تو وہ اسی جگہ مسلمان ہو جاتے مگر اس وقت نمائشی حجاب نے حق کی طرف آنے نہ دیا لیکن وہ اس تعلیم سے بیزار ضرور ہو گئے اور اپنی شکست کا عملی اعتراف انہوں نے عیسائی ہوکر کر دیا.جب وہ یہاں سے جانے لگے.تو بعض لوگوں نے ان سے ویدوں سے گائے کی عظمت وغیرہ کے متعلق بھی سوال کیا.اور انہوں نے جو جواب دیا وہ ان کے لئے دل شکن تھا گو دید کی صحیح تعلیم کے موافق تھا.غرض وہ یہاں سے بیدل اور آریہ سماج سے بیزار ہو کر گئے اور عیسائی ہونے کے بعد انہوں نے اپنے دل کے غبار کو آریہ سماج کے خلاف چھ لیکچر لکھ کر نکالا یہ لیکچر آریہ سماج کے اصول و تعلیم و ابطال میں لکھے گئے تھے.اور پادریوں نے کثرت سے ان کو شائع کیا.اگر چہ افسوس ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کو ہدایت نصیب نہ ہوئی.اور وہ دولتِ اسلام سے محروم رہ گیا.مگر اس کا قادیان سے جانے کے بعد عیسائی ہونا اس امر کی کھلی کھلی دلیل تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان دلائل و براہین کے سامنے بہ حیثیت ایک آریہ سماجی کے نہ ٹھہر سکا جو آرین ازم کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کئے.اور یہ ایک ایسا کاری حربہ تھا اور ہے اور رہے گا کہ ہر مذہب کے ماننے والا اپنی الہامی کتاب سے دعوئی اور دلائل پیش کرے پنڈت کھڑک سنگھ کی شکست و ہزیمت کا ثبوت اس کے عیسائی ہونے نے دے دیا.اور اس طرح پر یہ مباحثہ ختم ہو گیا.اب میں ذیل میں وہ تحریر درج کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے

Page 358

حیات احمد ۳۴۸ جلد اول حصہ سوم ایک سوال کی صورت میں یا صاف الفاظ میں ایک چیلنج کی صورت میں لکھی تھی.سوال لا جواب کہ جس کے جواب دینے سے اگر پنڈت کھڑک سنگھ خاموشی اختیار کرے گا.تو اسکا جھوٹا ہونا ثابت ہوگا.قرآن مجید کے کلام الہی ہونے کی بڑی بھاری نشانی یہ ہے کہ اس کی ہدایت سب ہدایتوں سے کامل تر ہے اور اس دنیا کی حالت موجودہ میں جو خرابیاں پڑی ہوئی ہیں قرآن مجید سب کی اصلاح کرنے والا ہے.دوسری نشانی یہ ہے کہ قرآن مجید اور کتابوں کی طرح مثل کتھا کے نہیں ہے بلکہ مدلل طور پر ہر ایک امر پر دلیل قائم کرتا ہے.اس دوسری نشانی پر ہم نے بنام کھڑک سنگھ وغیرہ پانسو روپیہ کا اشتہار بھی دیا.تا کوئی پنڈت یہ صفت وید میں ثابت کر کے دکھلا وے کہ وید نے کن دلائل سے اپنے عقائد کو ثابت کیا ہے.مگر آج تک کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ دم مار سکے.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ وید میں نہ انجیل میں نہ توریت میں ہرگز طاقت نہیں کہ کسی فرقہ مخالف کا رڈ مثلاً دہر یہ کا رڈ یا طبعیہ کا رڈ یا ملحدوں کا رڈیا منکرِ الہام یا منکر نبوت کا رڈیابُت پرست کا رڈیا إِبَاحَتِی کا رڈیا منکر نجات کا رڈ یا منکر عذاب کا رڈ یا منکر وحدانیت باری کا رڈ یا کسی اور منکر کا رڈ دلائل قطعیہ یقینیہ سے ثابت کر دے.یہ سب کتابیں تو مثل مُردہ کے پڑی ہیں کہ جس میں جان نہ ہو.کھڑک سنگھ جو لڑکوں کو بہکاتا ہے کہ وید میں سب کچھ لکھا ہے تو اگر وہ سچا ہے تو ہم اس کو پانسو روپیہ دینا کرتے ہیں.ہم سے ٹونمبو (تمسك) لکھا لے.کسی فرقہ کے رڈ میں دلائل عقلیہ سے جو وید میں درج ہوں.دو تین جز بمقابلہ قرآنِ مجید کے لکھ کر دکھا دے.یا خدا کی خالقیت سے عاجز ہونے پر اور نجات ابدی دینے سے عاجز ہونے پر بمقابلہ ہمارے دلائل کے وید سے دلائل نکال کر لکھے اور پانسو روپیہ فی الفور ہم سے لے لے.اور وہ جو کہتا ہے کہ قرآن مجید توریت انجیل سے نکالا گیا ہے تو اس کو چاہیئے کہ اگر وید سے کام نہیں بنتا تو توریت یا انجیل سے مدد لے.اور اگر توریت یا انجیل وہ دلائل جو فرقان مجید پیش کرتا ہے پیش کر دیں گے تو ہم تب بھی کھڑک سنگھ کو پانسور و پیہ نقد دے دیں گے.اور ایک ٹو نمبو تعدادی پانچسو روپیہ ابھی لکھ کر ہم بھیج دیتے ہیں.لیکن اگر اس کے جواب میں خاموش

Page 359

حیات احمد ۳۴۹ جلد اول حصہ سوم رہے.اور کچھ غیرت و شرم اُس کو نہ آوے تو معلوم کرنا چاہیئے کہ بڑا بے حیا اور بے شرم ہے کہ ایسی پاک اور مقدس کتاب کی ہتک کرتا ہے کہ جس کی ثانی حکمت اور فلسفہ میں اور کوئی کتاب نہیں.تین ماہ سے بنام اس کے بوعدہ انعام پانسو روپیہ ہمارا مضمون چھپ رہا ہے.اس نے کون سے دلائل پیش کئے.شرم چه کنی است که پیش مردان بیاید.اور پہلی نشانی جو ہم نے عنوان اس مضمون میں لکھی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ فرقان مجید اپنے احکام میں سب کتابوں سے کامل تر ہے.اور ہماری موجودہ حالت کے عین مطابق ہے.اور جس قدر فرقان مجید میں احکام ہدایت حسب حالت موجودہ دنیا کے مندرج ہیں کسی اور کتاب میں ہرگز نہیں.اگر کھڑک سنگھ وید میں یا توریت انجیل میں یہ سب احکام نکال دے.تو اس پر بھی ہم پانسو روپیہ دینے کی شرط کرتے ہیں.اگر کچھ شرم ہو گی تو ضرور بمقابلہ اس کے وید سے بحوالہ پستہ و نشان لکھے گا.ورنہ خود یہ لڑکے جن کو بہکا رہا ہے سمجھ جاویں گے کہ جھوٹا ہے.کون منصف اس عذر کو سن سکتا ہے کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ تمہارا دید ناقص ہے.تم یہ احکام وید سے نکال دو.اگر ناقص نہیں تم یہ جواب دیتے ہو ہمیں فرصت نہیں.وید یہاں موجود نہیں.بھلا یہ کیا جواب ہے؟ اس جواب سے تو تم جھوٹے ٹھہرتے ہو.جس حالت میں ہم پانسو روپیہ نقد دینا کرتے ہیں.ٹو نمبو لکھ دیتے ہیں.رجسٹری کرا دیتے ہیں.تو پھر اگر تمہارا دید بھی کچھ چیز ہے تو کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے.دس میں روز کی ہم سے مہلت لے لو.پنڈت دیا نند کو اپنا مددگار بنا لو ہم کو وہ احکام نکال دو جو ہم نیچے فرقان مجید سے نکال کر لکھیں گے.یا یہ اقرار کر دو کہ یہ احکام ہمارے نزدیک ناجائز ہیں تب پھر ان کے ناجائز ہونے کا نمبر واروید سے حوالہ دو.غرض تم ہمارے ہاتھ سے کہاں بھاگ سکتے ہو.اور یہ جو تم محض شرارت سے بارادہ تو ہین حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بدزبانی کرتے ہو.یہ محض تمہاری بد اصلی ہے.اپنے پرچہ میں بھی تم نے ایسی اہانت سب پیغمبروں کی نسبت لکھی ہے.ہم کو خدا نے یہ شرف بخشا ہے کہ ہم سب پیغمبروں کی تعظیم کرتے ہیں

Page 360

حیات احمد ۳۵۰ جلد اول حصہ سوم ۱۰۰۰ اور جیسا کہ خدا نے ہم کو فرمایا ہے نجات سب مخلوقات کی اسلام میں سمجھتے ہیں.تم کو اگر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ اعتراض ہے تو زبان تہذیب سے وہ اعتراض جوسب سے بھاری ہو تحریر کر کے پیش کرو.ہم تحریر کر دیتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض تمہارا صحیح ہوا تو ہزار روپیہ (س) ہم تم کو دیں گے.اور تم ایک ٹو نمبر لکھ دو گے کہ اگر وہ اعتراض جھوٹا نکلا تو سوروپیہ بطور جرمانہ تم ہم کو دو گے.اور اب اگر ہماری یہ تحریرین کر چپ ہو جاؤ اور اس شرط پر بحث شروع نہ کرو تو ہر ایک منصف سمجھ جائے گا کہ وہ سب تو ہین تم نے بے ایمانی سے کی تھی.اکثر لوگوں کا اکثر قاعدہ ہے کہ آفتاب پر تھوکتے ہیں اور بجھا ہوا چراغ لئے بیٹھے ہو.دنیا کو بڑی چیز سمجھ رکھا ہے کہ موت سے ڈرتے نہیں.ورنہ ایسے آفتاب کی توہین کرنا جونور دنیا کا ہے نری حرامزدگی ہے.جھوٹے آدمی کی یہ نشانی ہے کہ جاہلوں کے رو برو تو بہت لاف گزاف مارتے ہیں مگر جب کوئی دامن پکڑ کر پوچھے کہ ذرا ثبوت دے کر جاؤ تو جہاں سے نکلے تھے وہیں داخل ہو جاتے ہیں.اب ہم نیچے وہ احکام فرقان مجید کے لکھتے ہیں کہ جن میں ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ وید میں یہ تمام احکام ضرور یہ ہرگز موجود نہیں.اس لئے وید ناقص تعلیم ہے.اور تم کہتے ہو کہ ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں.اور لعنت اس شخص پر کہ جھوٹا ہے.اوّل.خدا تعالیٰ کی نسبت جو احکام فرقان مجید کے ہیں.خلاصہ آیات کے نیچے لکھتا ہوں.(۱) تم خدا کو اپنے جسموں اور روحوں کا رب سمجھو، جس نے تمہارے جسموں کو بنایا.اُسی نے تمہاری روحوں کو پیدا کیا.وہی تم سب کا خالق ہے.اس بن کوئی چیز موجود نہیں ہوئی.(۲) آسمان اور زمین اور سورج اور چاند اور جتنی نعمتیں زمین آسمان میں نظر آتی ہیں.یہ کسی عمل کنندہ کے عمل کی پاداش نہیں ہیں.محض خدا کی رحمت ہے.کسی کو یہ دعویٰ نہیں پہنچتا کہ میری نیکیوں کے عوض میں خدا نے سورج بنایا زمین بچھائی یا سورج پیدا کیا.(۳) تو سورج کی پرستش نہ کر.تو چاند کی پرستش نہ کر.تو آگ کی پرستش مت کر.تو پتھر کی پرستش مت کر.تو مشتری ستارے کو مت پوجا کر.تو کسی آدم زاد یا اور کسی جسمانی چیز کو خدا مت سمجھ

Page 361

حیات احمد ۳۵۱ جلد اول حصہ سوم کہ یہ سب چیزیں تیرے ہی نفع کے لئے میں نے پیدا کی ہیں.(۴) بجز خدا تعالیٰ کے کسی چیز کی بطور حقیقی تعریف مت کر کہ سب تعریفیں اسی کی طرف راجع ہیں.بجز اس کے کسی کو اس کا وسیلہ مت سمجھ کہ وہ تجھ سے تیری رگِ جان سے بھی زیادہ نزدیک تر ہے.(۵) تو اس کو ایک سمجھ کہ جس کا کوئی ثانی نہیں.تو اس کو قا در سمجھ جو کسی فعل قابل تعریف سے عاجز نہیں.تو اس کو رحیم اور فیاض سمجھ کہ جس کے رحم اور فیض پر کسی عامل کے عمل کو سبقت نہیں.دوم.حالت موجودہ دنیا کے مطابق گناہوں کی مخالفت.(1) تو سچ بول اور سچی گواہی دے.اگر چہ اپنے حقیقی بھائی پر ہو یا باپ پر ہو یا ماں پر ہو یا کسی اور پیارے پر ہو اور حقانی طرف سے الگ مت ہو.(۲) تو خون مت کر.کیونکہ جس نے ایک بے گناہ کو مار ڈالا وہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے سارے جہان کو قتل کر دیا.(۳) تو اولا دکشی اور دختر کشی مت کر تو اپنے نفس کو آپ قتل نہ کر.تو کسی قاتل یا ظالم کا مددگار مت ہو.تو زنا مت کر.(۴) تو کوئی ایسا فعل نہ کر جو دوسرے کا ناحق باعث آزار ہو.(۵) تو قمار بازی نہ کر.تو شراب مت پی.تو سو د مت لے.اور جو اپنے لئے اچھا سمجھتا ہے وہی دوسرے کے لئے کر.(1) تو نامحرم پر ہرگز آنکھ مت ڈال نہ شہوت سے نہ خالی نظر سے کہ یہ تیرے لئے ٹھوکر کھانے کی جگہ ہے.(۷) تم اپنی عورتوں کو میلوں اور محفلوں میں مت بھیجو.اور ان کو ایسے کاموں سے بچاؤ کہ جہاں وہ جنگی نظر آویں.تم اپنی عورتوں کو زیور چھنکارتے ہوئے خوش اور نظر پسند لباس میں کو چوں اور بازاروں اور میلوں کی سیر سے منع کرو.اور ان کو نامحرموں کی نظر سے بچاتے رہو.تم اپنی عورتوں کو تعلیم دو.اور دین اور عقل اور خدا ترسی میں ان کو پختہ کرو.اور اپنے لڑکوں کو علم پڑھاؤ.

Page 362

حیات احمد ۳۵۲ جلد اول حصہ سوم (۸) تو جب حاکم ہو کر کوئی مقدمہ کرے.تو عدالت سے کر اور رشوت مت لے.اور جب تو گواہ ہو کر پیش ہو تو سچی گواہی دے دے.اور جب تیرے نام حاکم کی طرف سے بغرض ادا کسی گواہی کے حکم طلبی کا صادر ہو تو خبر دار حاضر ہونے سے انکارمت کیجیو.اور عدول حکمی مت کر یو.(۹) تو خیانت مت کر.تو کم وزنی مت کر اور پورا پورا تول.تو جنس ناقص کو عمدہ کی جگہ مت بدل.تو جعلی دستاویز مت بنا.اور اپنی تحریر میں جعل سازی نہ کر.تو کسی پر تہمت مت لگا.اور کسی کو الزام نہ دے کہ جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں.(۱۰) تو چغلی نہ کرے.تو گلہ نہ کر.تو نمامی نہ کر اور جو تیرے دل میں نہیں وہ زبان پر مت لا.(۱۱) تیرے پر تیرے ماں باپ کا حق ہے.جنہوں نے تجھے پرورش کیا.بھائی کا حق ہے.محسن کا حق ہے.بچے دوست کا حق ہے.ہمسایہ کا حق ہے.ہم وطنوں کا حق ہے.تمام دنیا کا حق ہے.سب سے رتبہ بارتبہ ہمدردی سے پیش آ.(۱۲) شرکاء کے ساتھ بد معاملگی مت کر.یتیموں اور نا قابلوں کے مال کو خورد بُر دمت کر.(۱۳) اسقاط حمل مت کر.تمام قسموں زنا سے پر ہیز کر کسی عورت کی عزت میں خلل ڈالنے کے لئے اس پر کوئی بہتان مت لگا.(۱۴) رو بخدا ہواور رو بدنیا نہ ہو کہ دنیا ایک گزر جانے والی چیز ہے.اور وہ جہان ابدی جہان ہے بغیر ثبوت کامل کے کسی پر نالائق تہمت مت لگا.کہ دلوں اور کانوں اور آنکھوں سے قیامت کے دن مؤاخذہ ہوگا.(۱۵) کسی سے کوئی چیز جبرا مت چھین.اور قرض کو عین وقت پر ادا کر.اور اگر تیرا قرض دار نادار ہے تو اس کو قرض بخش دے.اور اگر اتنی طاقت نہیں تو قسطوں سے وصول کر.لیکن تب بھی اس کی وسعت و طاقت دیکھ لے.(۱۶) کسی کے مال میں لا پرواہی سے نقصان مت پہنچا اور نیک کاموں میں لوگوں کو مدد دے.(۱۷) اپنے ہمسفر کی خدمت کر اور اپنے مہمان کو تواضع سے پیش آ.سوال کرنے والے کو

Page 363

حیات احمد ۳۵۳ جلد اول حصہ سوم خالی مت پھیر اور ہر ایک جاندار بھوکے پیاسے پر رحم کر.پنڈت کھڑک سنگھ اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دے سکا.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.اس نے اپنی ہزیمت کا عملی اعتراف و یدک دھرم کو چھوڑ کر کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شحنہ حق میں نہایت ہی مختصر الفاظ میں خود بھی اس کا ذکر کیا ہے.فرماتے ہیں.اس وقت مجھے ایک اور پنڈت صاحب بھی یاد آگئے جن کا نام کھڑک سنگھ ہے.یہ صاحب ویدوں کی حمایت میں بحث کرنے کے لئے قادیان میں آئے اور قادیان کے آریوں نے بہت شور مچایا کہ ہمارا پنڈت ایسا عالم فاضل ہے کہ چاروں ویدا سے کنٹھ ہیں.پھر جب بحث شروع ہوئی تو پنڈت صاحب کا ایسا بُرا حال ہوا کہ نا گفتہ بہ اور سب تعریفیں وید کی بھول گئے.دنیا طلبی کی وجہ سے اسلام تو قبول نہ کیا مگر قادیان سے جاتے ہی وید کو سلام کر کے اصطباغ لیا اور اپنے لیکچر میں جو ریاض ہند اور چشمہ نور امرتسر میں انہوں نے چھپوایا ہے صاف یہ عبارت لکھی کہ وید علوم الہی اور راستی سے بے نصیب ہیں اس لئے وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتے اور آریوں کا ویدوں کے علم اور فلسفہ اور قدامت کے بارے میں ایک باطل خیال ہے.اس نازک بنیاد پر وہ حال اور ابد کے لئے اپنی امیدوں کی عمارت اٹھاتے ہیں اور اس ٹمٹماتی ہوئی روشنی کے ساتھ زندگی اور موت پر خوش ہیں.“ (محبه حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۶۰) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر پنڈت کھڑک سنگھ کی زندگی میں شائع ہوئی.اور آریوں نے ہمیشہ اسے پڑھا.مگر نہ تو قادیان کے کسی آریہ کو اور نہ خود پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کو حوصلہ ہوا کہ اس کی تردید کریں.میں نے خود پنڈت کھڑک سنگھ صاحب سے بمقام بٹالہ ملاقات کی تھی.اور ان سے پوچھا تھا کہ آپ نے جو مباحثہ کیا.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق استدلال کے متعلق تمہارا

Page 364

حیات احمد کیا خیال ہے؟ ۳۵۴ جلد اول حصہ سوم پنڈت کھڑک سنگھ نے باوجود عیسائی ہونے کے مجھے یہ کہا تھا.کہ ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ مرزا صاحب سے مباحثہ کرے.ان کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے.اور وہ اپنی بات سے ہٹتے نہیں.میں نے پھر پوچھا کہ مباحثہ تو آریہ مذہب اور اسلام کا تھا.تم نے آریہ مذہب تو چھوڑ ا مگر عیسائیت کیوں قبول کی.اس نے کہا یہ سمجھ کی بات ہے.عیسائیت اسلام کے مقابلہ میں آسانی سے سمجھ میں آتی ہے.میری غرض اس سے کوئی بحث کرنا نہ تھا بلکہ اس مباحثہ کے متعلق حالات معلوم کرنا تھا اور میں اس مختصر جواب سے حقیقت کو معلوم کر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ بالا تحریر کی اشاعت کے بعد وہ عرصہ دراز تک زندہ رہا اور اس نے کبھی اس کی تردید نہ کی.اور یہ اس کی ہزیمت کی تحریری دستاویز ہے.لالہ شرمیت رائے صاحب میدان مناظرہ میں آکو دے غرض پنڈت کھڑک سنگھ صاحب تو شکست کھا کر بھاگ گئے اور انہوں نے اپنی شکست کا عملی اعتراف عیسائی ہو کر کر دیا.اور آریہ سماج کے اصول و تعلیم کے خلاف چھ مسلسل لیکچر لکھ کر ان پر گولہ باری شروع کر دی.ادھر حضرت مرزا صاحب کے مضامین کا سلسلہ برابر سفیر ہند اور ہندو باندھو وغیرہ میں آریہ سماج کے خلاف نکل رہا تھا.اور انعامی اشتہارات شائع ہو رہے تھے.اور آریہ سماج کے کیمپ میں ایک کھلبلی مچی ہوئی تھی.وہ مضامین بدستور لا جواب پڑے ہوئے تھے.جیسا کہ پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری فیصلہ دے چکے تھے.پنڈت دیانند صاحب اپنے مرکزی اعتقاد روحوں کے بے انت ہونے سے انکار کر چکے تھے.اور بالمواجہ بحث کی دعوت دے کر خاموش ہو گئے.جب حضرت مرزا صاحب نے ان کے بالمواجہ مباحثہ کی دعوت کو منظور کر لیا.اور لاہور آریہ سماج کے سیکرٹری لالہ جیون داس صاحب نے بذریعہ اعلان دنیا کو بتا دیا کہ وہ پنڈت

Page 365

حیات احمد ۳۵۵ جلد اول حصہ سوم دیا نند صاحب کے توابع میں سے نہیں ہیں.اور آریہ سماج عام طور پر پابند خیالات سوامی دیانند کی نہیں.یہ بڑی بھاری فتح تھی.اور پنڈت کھڑک سنگھ کی تو کھلی کھلی شکست تھی.ان حالات میں لالہ شرمیت رائے صاحب کو ( جو حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں آیا کرتے تھے ) یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ بھی قادیان کے بازار سے نکل کر اخباری دنیا میں آئیں.اور بطور خود باوا نرائن سنگھ صاحب وکیل (سیکرٹری آریہ سماج امرتسر ) اور حضرت صاحب کے درمیان جو تحریری مباحثہ اخبارات میں جاری تھا.اس پر محاکمہ لکھیں.چنانچہ انہوں نے ایک مضمون لکھ کر ہند و با ند ھولا ہور کو بغرض اشاعت روانہ کیا.ایڈیٹر صاحب نے اس مضمون کو درج کرتے ہوئے حضرت صاحب کے دلائل اور اسلوب مناظرہ پر اور لالہ شرمپت رائے صاحب کی تحریر پر جو فیصلہ دیا.وہ اس قابل ہے کہ اسے یہاں درج کر دیا جاوے.اس لئے کہ وہ ایک تاریخی دستاویز ہے اور وہ ایک مختلف اسلام کا فیصلہ ہے.جس سے حضرت صاحب کے دلائل کی قطعیت اور حجیت کا ثبوت ہوتا ہے.چنانچہ پنڈت شونرائن اگنی ہوتری صاحب لکھتے ہیں.”ہمارے ناظرین کو یاد ہوگا کہ ماہ فروری ۱۸۷۹ء کے رسالہ میں مرزا غلام احمد صاحب کا اخیر مضمون جو ابطال تناسخ پر ہم نے درج کیا تھا.وہ گل کا گل ماہ مذکور کے رسالہ میں مشتہر نہ ہو سکنے کے باعث ما بعد کے دو رسالوں میں مندرج ہو کر اختتام کو پہنچا تھا.اس مضمون کے ضمن میں مرزا صاحب نے ایک اعلان بھی دیا تھا.اور اس میں انہوں نے بطلب جواب آریہ سماجوں کے بانی سوامی دیانند سرسوتی صاحب اور کئی ایک ان کے لائق اور مشہور مقلدوں کو (جن کے نام نامی رسالہ ماہ فروری ۱۸۷۹ء کے صفحہ ۳۹ میں رقم ہو چکے ہیں) مخاطب کیا تھا.ہم نے نہایت خوشی کے ساتھ اس مضمون کو درج رسالہ کیا تھا.اور یہ امید دل میں قائم کی تھی کہ اگر مرزا صاحب کی دلائل جو نہایت صاف اور اصول منطق پر مبنی ہیں.مذکورہ بالا صاحبان کی سمجھ میں آجائیں گے.تو وہ بشرط اپنے اس اصول پر صادق رہنے کے کہ "راستی کے قبول کرنے اور ناراستی کے چھوڑنے کے لئے ہمیشہ مستعد رہنا چاہیئے.ضرور ہے کہ عام اور علانیہ طور سے وہ خدا کی خالقیت اور ابطال تناسخ کو تسلیم کر کے.66

Page 366

حیات احمد ۳۵۶ جلد اول حصہ سوم راستی“ کی تقلید کی واقعی مثال قائم کریں گے.اور اگر ان کی رائے میں مرزا صاحب کے دلائل بے بنیاد اور بے اصل ہیں تو اس بچے طریق کے ساتھ جو حق الامر کی تحقیقات کے لئے محققوں نے قائم کیا ہے مرزا صاحب کے دلائل کو اسی طرح نمبر وار جس طرح مرزا صاحب نے انہیں رقم کیا ہے.کل کو یا اُن میں سے کسی حصہ کو غلط ثابت کر کے اپنے عقیدہ کو تقویت دیں گے.باوجود اس کے کہ ہم نے مرزا صاحب کے مضمون کا پہلا حصہ اپنے اپریل کے رسالہ میں ختم کر دیا تھا.اور یہ یقین کیا تھا کہ اثبات دعوی کے لئے جس قدر دلائل وہ اس مضمون میں رقم کر چکے ہیں بخوبی کافی ہیں مگر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا.اور ایک دوسرا حصہ اور تیار کر کے ہمارے پاس چھپنے کے لئے بھیج دیا ہے.اس حصہ کو ہم نے ہنوز رسالہ میں درج نہیں کیا.باایں خیال کہ جو دلائل مرزا صاحب پہلے حصہ میں مشتہر کر چکے ہیں.اگر انہیں کے رڈ کرنے کے لئے اہل آریہ تیار نہیں ہیں تو پھر مضمون مذکور کو اور زیادہ دلائل کے ساتھ طول دینا بالفعل کچھ ضرور نہیں.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری امید بالکل خالی نہیں گئی.لالہ شرمیت صاحب نے جو آریہ سماج قادیان کے سیکرٹری ہیں.ایک مضمون اثبات تناسخ پر ہمارے پاس برادر ہند میں مشتہر کرنے کے لئے بھیجا ہے.چنانچہ اسے ہم درج رسالہ کرتے ہیں.کس حیثیت کا وہ مضمون ہے.اور اس کا نفس مضمون کس سانچہ کا ڈھلا ہوا ہے.اور اس کی طر ز عبارت سے راقم مضمون کی ذاتی لیاقت اور فضیلت کا کہاں تک اظہار ہوتا ہے.اور اصول مناظرہ سے اس کا ڈھنگ بیان کہاں تک موافق یا منافق ہے.اس کا فیصلہ ہم خود کرنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے ناظرین پر چھوڑتے ہیں.ہاں چند کلمے بطریق ہدایت دوستانہ لالہ صاحب اور نیز ان کے ہم خیال صاحبوں کے لئے یہاں پر درج کرنا مناسب خیال کرتے ہیں.اول.ہر کام کے لئے اس کے موافق انسان میں ایک خاص ملکہ ہونا ضروری ہے.اصولِ مناظرہ یا بحث بھی اس قاعدہ سے خالی نہیں.پس پیشتر اس کے کہ ہم کچھ کہنے یا لکھنے کی جرأت کریں ہمارے لئے یہ لازم ہے کہ اپنے تئیں اصول مذکورہ کی صفت سے متصف بنالیں.اور یہ کوئی

Page 367

حیات احمد ۳۵۷ جلد اول حصہ سوم آسان بات نہیں.برسوں کی تعلیم اور خاص قسم کی تربیت سے یہ ملکہ پیدا ہوتا ہے.اگر یہ ملکہ نہیں تو پھر صرف بولنا کون نہیں جانتا.حیوانات بھی منہ سے آواز برآمد کر سکتے ہیں.اور بے نشانہ ہر ایک تیر بھی لگا سکتا ہے.پس بطور آئیں بائیں شائیں کچھ کہہ دینا یا کاغذ پر لکھ دینا بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ کمان اٹھا کر بے نشانہ کسی سمت میں تیر چھوڑ دینا.ایسا تیر ایک طرف جس طور سے نشانہ پر پہنچنے سے باز رہتا ہے.دوسری طرف چلانے والے کے وقت اور محنت اور تر درد کو ضائع کرتا ہے.دوم.کسی اخبار یا رسالہ میں جس کے ہزاروں پڑھنے والے ہوتے ہیں.جب کوئی مضمون چھپوانا منظور ہو تو اس میں بالخصوص اصول مذکور کے مد نظر رکھنے کی سخت ضرورت.ہے.کیونکہ بے سروپا بکو اس کے ساتھ کاغذ کو سیاہ کر کے ناظرین کے خیالات کو بگاڑنا، ان کی طبیعت کو منتشر کرنا اور خواہ مخواہ ان کی تضیع اوقات کرنا نہ صرف راقم مضمون کے لئے بے جا ہے بلکہ ایڈیٹر کے لئے بھی (جو اندراج مضامین کے لئے پورا پورا ذمہ دار ہے ) یہ امرنا واجب ہے.اب دیکھنا چاہیئے کہ لالہ شرمیت صاحب نے کہاں تک ان اصولوں کی پابندی کی ہے.اول.جو مضمون مرزا صاحب کا ابطال تناسخ پر ہمارے رسالہ میں مشتہر ہوا.لالہ صاحب نے اس کا جواب مطلق نہیں دیا.دوم با وجود مرزا صاحب کی طرف سے بطلب جواب خود مخاطب کئے جانے کے مضمون مذکور پر بطور ثالث کے رائے ظاہر کرتے ہیں.سوم.اخبار سفیر ہند کا حوالہ دے کر اول ایک دلیل اپنے ہم ایمان باوا نرائن سنگھ صاحب کی بطور خلاصہ درج کرتے ہیں.پھر اس کے بعد مرزا صاحب کے دلائل کا لب لباب چند الفاظ میں فرضی رقم کرتے ہیں اور وہ یہ ہے.کہ مرزا صاحب کی یہ وجوہات ہیں کہ جس حالت میں خدا خالق ہے.تو پہلے روحوں کا جو تفاوت مرتبہ اور رنج اور راحت ہے.وہ کس اعمال کے بدلہ میں ہے.“ 66 اس کا نام وجو ہات نہیں ہے.اور نہ جن لوگوں نے مرزا صاحب کے مضامین پڑھے ہیں.وہ کبھی باور کر سکتے ہیں کہ مرزا صاحب اس قسم کے چند حرفی جملہ کو کبھی وجوہات پر محمول کرنا اپنی طرف سے پسند کریں گے ).

Page 368

حیات احمد ۳۵۸ جلد اول حصہ سوم 9966 چہارم.یہاں تک دونوں طرف کی وجوہات بیان کر کے پھر مثل جج کے فیصلہ لکھتے ہیں.اور فیصلہ کو اس سوال کے ساتھ شروع کرتے ہیں.کہ ایک شخص دنیا میں گناہگار ہے.وہ مرکز ”جب باعتقاد مرزا صاحب دوزخ میں ڈالا جائے گا.تو وہ جب اپنے اعمال قبیحہ کی سزا بخوبی پاچکا تو پھر وہ دوزخ سے نکل کر کہاں جائے گا.“ اور پھر آپ ہی اس کا ایک جواب فرضی دے کر کہ اگر وہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں ڈالا جائے گا.تو خدا کے عادل ہونے میں بہت سا بٹہ لگتا ہے.چٹ سے ایک فرضی فیصلہ بھی لکھ دیتے ہیں.چنانچہ فرماتے ہیں کہ "باوا صاحب کی یہ وجہ کہ تفاوت مراتب راحت و رنج دلیل تناسخ کی ہے قابل اعتبار ہے.اور پھر اخیر میں لکھتے ہیں کہ ”اگر مرزا صاحب ہمارے اس فیصلہ سے منہ موڑیں تو ان پر لازم ہے کہ دوزخ کی بابت جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے مفصل کیفیت جس کو عقل سلیم تسلیم کرے ہمارے سامنے بذریعہ اخبار کے پیش کریں.ورنہ ان کی ڈگری تناسخ کی منسوخ ہو گی.“ واہ کیا فرضی فیصلہ ہے !خدانخواستہ اگر ہمارے لالہ صاحب کسی عدالت کے جج ہوتے.تو مثل اوپر کے خوب پُر بہار فیصلہ لکھا کرتے.اور داد رسوں کے حقوق کی اپنی منطق کے زور میں خوب محافظت کرتے !!! ہم نے اس مضمون کو بالخصوص رسالہ ہذا میں اس لئے درج کیا ہے کہ جن ناظرین نے مرزا صاحب کی وجوہات ابطال تناسخ کے بارے میں علم بیان اور اصول مناظرہ کے طریق پر ملا حظہ کی ہیں.وہ طرف ثانی کی ذکاوت طبع اور ڈھنگ بحث سے بھی واقف ہو جاویں.ہم آخر میں پھر اپنے کلام کا اعادہ کرتے ہیں.اور بادب تمام لالہ صاحب اور ان کے ہم رنگ صاحبان سے التماس کرتے ہیں کہ وہ یا تو عقلِ سلیم کو کام میں لا کر مرزا صاحب کی وجوہات کو جو ابطال تناسخ پر انہوں نے لکھی ہیں.خوب غور اور فکر سے جانچ پڑتال کر کے بشرط صحیح سمجھنے کے اپنے غلط اور فرضی عقیدہ سے طبیعت کو صاف کر لیں یا در صورت مرزا صاحب کی وجوہات کو ناقص سمجھنے کے ان کو نمبر وار دلائل لمّی اور انٹی اور اصول منطق اور مناظرہ کے ساتھ غلط ثابت

Page 369

حیات احمد ۳۵۹ جلد اول حصہ سوم کریں.اور جو کچھ طرف ثانی کے کلام کا حوالہ دیں اس کی تصدیق کے لئے اس کے کلام کو ٹھیک ٹھیک اُسی کے الفاظ میں پیش کریں.کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے کے کام کو ایک شخص یا تو خود نہیں سمجھتا یا بصورت سمجھنے کے جان بوجھ کر اس کی طرف سے اول ایک فرضی بات گھڑ کر تیار کر لیتا ہے.اور پھر اس کی تردید کر کے لوگوں میں خوش ہو ہو کر ظاہر کرتا ہے کہ طرف ثانی کو اس نے پسپا کر دیا حالانکہ ایسا نہیں ہوتا.پس جو طریق ہم نے اوپر ظاہر کر دیا ہے اس کے موافق اہلِ آریہ میں سے کوئی صاحب اگر مضمون رقم کر کے کسی اخبار کے ذریعہ مشتہر کریں گے تو اس سے حق امر بھی ظاہر ہو جائے گا اور لوگ بھی مستفید ہوں گے.ورنہ مفت کی بے سرو پا اور بے ڈھنگی بکواس کا سلسلہ قائم رکھنا عقلمندوں کے نزدیک ایک حرکت لغو شمار کی جاتی ہے.(ایڈیٹر ) بر ہمو سماج سے مباحثہ کی ابتدا اس وقت تک آپ کے تحریری مباحثات آریہ سماج سے ہو رہے تھے.اور عیسائیوں سے بھی قلمی جنگ شروع تھی.اس لئے کہ لدھیانہ کے عیسائی اخبار نور افشاں میں اسلام اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے خلاف نہایت دل آزار اور غیر شریفانہ مضامین اور اعتراضات کا سلسلہ شروع تھا.آپ نے ان کے جوابات کے لئے اخبار منشور محمدی بنگلور کو منتخب کیا جو اسی غرض کے لئے جاری ہوا تھا.آپ کے مضامین اس میں نکلنے شروع ہوئے.اور عیسائی کیمپ میں ایک شور مچا.اس کا ذکر میں بعد میں کروں گا.اس وقت برا ہم سماج سے مباحثات کے سلسلے کے متعلق لکھنا چاہتا ہوں.اس لئے بھی کہ واقعات کے سلسلہ کی زنجیر یہی چاہتی ہے.لاہور میں براہم سماج قائم ہو چکا تھا.اور پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری ( جو لاہور کے گورنمنٹ سکول میں اُس وقت ڈرائینگ ماسٹر تھے ) براہم سماج کے بہت بڑے لیڈر اور ہندو باندھو کے مالک وایڈیٹر تھے.براہم سماج وحی ، نبوت اور الہامِ ربانی کا قائل نہیں.حضرت اقدس کے مضامین ہندو باندھو میں شائع ہو رہے تھے.اسی سلسلہ میں مسئلہ الہام پر اس براہمولیڈر سے خط وکتابت کا سلسلہ برنگ مباحثہ جاری ہو گیا.اور یہ سلسلہ ۲۱ رمئی ۱۸۷۹ء سے ۷ ارجون ۱۸۷۹ء تک جاری رہا.

Page 370

حیات احمد جلد اول حصہ سوم پنڈت شونرائن صاحب نے اس خط و کتابت کو شائع کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت شونرائن صاحب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک برہمو اور ایک کسی انگریز کو اس معاملہ میں منصف مقرر کر کے ان کے فیصلہ کے ساتھ شائع کر دیں اور آپ نے کشیپ چندرسین صاحب کا نام تجویز بھی کر دیا تھا.مگر واقعہ یہ ہے کہ پنڈت شو نرائن صاحب نے کسی کو منصف اور حکم نہ بنایا.اور اس خط و کتابت کو شائع کر دیا.اس سے بحث نہیں.کہ انہوں نے کیوں ایسا کیا.مگر یہ حقیقت اب مخفی نہیں.قریباً پچاس برس کا زمانہ اس پر گزر گیا ہے.اس کے بعد پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری کی زندگی میں ایک تغیر ہوا.اور وہ یہ کہ انہوں نے برہم سماج سے استعفیٰ دے دیا اور آپ ایک اور مشن دیو سماج کے بانی ہوئے.اور یہ دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ ان سے ہمکلام ہوتا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے متعدد کتب لکھیں.کیا یہ خدائی ہاتھ نہیں کہ جو شخص الہام الہی کا منکر تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس مضمون پر بحث کرتا تھا.اور براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت اس پر اس نے مخالفانہ ریویو کر کے اعتراضات کئے.(اس کا ذکر براہین احمدیہ کی اشاعت کے ضمن میں آئے گا) وہی خود الہام الہی کا مدعی ہوا.یہ ایک کھلم کھلا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فتح تھی.یہ دھوئی ملا تھا یا صحیح اس وقت اس کی تحقید پر بحث نہیں بلکہ صرف اس امر کا اظہار مقصود ہے کہ اس شخص نے منکرِ الہام ہو کر بحث کی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے اور اپنے درمیان اس کے مقبولہ اشخاص کو حکم بنانا تسلیم کر لیا.بلکہ ایک ان میں سے خود براہم سماج ہی کا گویا بانی تھا.مگر اس نے اس سے عملاً پہلو تہی کیا.اس طرح پر یہ فیصلہ مشکوک ہو سکتا تھا کہ کون حق پر ہے.مگر اس نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل زبر دست اور حق پر مبنی تھے.چنانچہ وہ ایک عرصہ دراز تک اس عقیدہ کے ساتھ اپنی سماج کا اعلان کرتا رہا.پنڈت کھڑک سنگھ صاحب نے تو اپنی شکست اور آریہ سماج کے باطل ہونے کا اعتراف عیسائی ہو کر کیا.اور اگر وہ

Page 371

حیات احمد ۳۶۱ جلد اول حصہ سوم حضرت مرزا صاحب سے مباحثہ کرنے سے پہلے عیسائی ہو جاتا تو دوسری بات ہوتی.لیکن مباحثہ کے بعد آریہ مذہب کو چھوڑ دینا اپنی شکست کا اعتراف تھا.یہی نہیں بلکہ اس نے میرے سامنے زبانی بھی بمقام بٹالہ اعتراف کیا جبکہ میں اس سے ملنے گیا تھا.جیسا کہ میں او پر لکھ چکا ہوں.اسی طرح یہاں پنڈت شو نرائن صاحب اگنی ہوتری نے اس خط و کتابت اور مباحثہ کے بعد اور براہین احمدیہ پر ریویو لکھ کر الہام کا منکر ہونے کا اعلان کرنے کے بعد پھر یہ اقرار کیا کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور اس طرح پر حضرت صاحب کے دلائل کے سامنے سر جھکا دیا.ایک برہمو کی قادیان میں آمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خط و کتابت جب شائع ہوئی تو ایک برہمو تیلورام کو قادیان آنے کا شوق پیدا ہوا اور وہ تحقیقات کے خیال سے یہاں آیا.پہلے پہل وہ یہاں کے ہندوؤں کے ہاں ٹھہرا ( وہ لالہ شرمیت رائے کے گھر میں ٹھہرا تھا مگر جب اس نے حضرت صاحب سے ملاقات کی تو اس نے حضرت صاحب کی دعوت کو قبول کر لیا.اور آپ کے مکان میں اٹھ آیا.اسے آپ کا کھانا کھانے میں اعتراض نہ تھا.حضرت صاحب سے اسلام کی صداقت اور برہمو ازم کے مسئلہ، انکار نبوت والہام اور بعض دوسرے مسائل پر گفتگو ہوئی.حضرت صاحب چاہتے تھے کہ وہ کچھ زیادہ عرصہ تک یہاں قیام کرے مگر اس نے زیادہ دیر تک نہ ٹھہرنے کا عذر کیا اور واپس چلا گیا.وہ آپ کے اخلاق اور مہمان نوازی اور علم دوستی کا مداح تھا.جاتی مرتبہ اس نے اپنی پانی پینے کی گڈوی وغیرہ راماں چوہڑے سے اٹھوالی.اس لئے کہ وہ چھوت چھات کا قائل نہیں تھا.ہندوؤں میں اس کے متعلق اور بھی چرچا ہوا.پہلے تو اس کے وہاں سے ادھر اٹھ آنے پر ہی ان کو اعتراض اور افسوس تھا.اور اب جو انہوں نے دیکھا کہ وہ چوہڑے سے بھی چھوت نہیں کرتا تو اور بھی تعجب ہوا.افسوس ہے کہ لالہ تیلورام صاحب کے متعلق مفصل حالات معلوم نہ ہو سکے.

Page 372

حیات احمد ۳۶۲ ایک سرکاری مقدمہ کی لپیٹ میں جلد اول حصہ سوم انہی ایام میں جبکہ آپ اسلام کی تائید میں اور مذاہب باطلہ، مخالف اسلام کی تردید میں اخبارات میں مضامین لکھ رہے تھے.آپ قانون ڈاکخانجات کے ماتحت ایک مقدمہ کی لپیٹ میں آگئے.یہ مقدمہ حضرت مسیح موعود کی راست بازی اور صداقت شعاری کی ایک دلیل اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا ایک زبر دست نشان ہے.اس لئے کہ قبل از وقت آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک روڈیا کے ذریعہ اطلاع دے دی تھی.میں نے آپ کے سوانح حیات کے سلسلہ میں آپ کی صداقت شعاری کے نظائر پیش کرتے ہوئے اسی کتاب کے صفحہ ۱۰۴ و ۲۰۵ میں اس مقدمہ کے حالات بیان کر دیئے ہیں کہ کس طرح پر ڈلیا رام نام ایک وکیل نے (جو اخبار وکیل ہندوستان کا مالک اور عیسائی تھا) حضرت مرزا صاحب کے خلاف ڈاکخانجات کے قانون کے ماتحت مقدمہ بنوایا اور آپ نے اس مقدمہ میں اپنی راست بازی کا بر ملا اظہار دیا.اور باوجود یکہ قانون پیشہ لوگ آپ کو صاف اور صحیح بیان نہ دینے کا مشورہ دیتے تھے مگر آپ نے پرواہ نہ کی.اس مقدمہ کے متعلق میرے مکرم و محترم بھائی مولوی فضل الدین صاحب نے بعض لوگوں کے اعتراض پر کہ ڈاکخانہ کا کوئی ایسا قاعدہ نہیں تحقیقات کی اور اس تحقیقات کو سیرت المہدی کے حصہ دوم میں حضرت صاحبزادہ نے مشتہر کیا ہے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس اعتراض کی فکر تھی.اور میں نے محکمہ ڈاک کے پرانے قوانین کی دیکھ بھال شروع کی تو ۱۸۶۶ء کے ایکٹ نمبر ۱۴ دفعہ ۱۶ و ۵۶ اور گورنمنٹ آف انڈیا کے نوٹیفکیشن نمبر ۴۲-۲۴ مورخہ ۷ دسمبر ۱۸۷۷ء دفعہ ۴۳ میں صاف طور پر یہ حوالہ نکل آیا کہ فلاں فعل کا ارتکاب جرم ہے.جس کی سزا یہ ہے.یعنی وہی جو حضرت صاحب نے لکھی تھی.اور اس پر مزید یہ علم ہوا کہ ایک عینی شہادت اس بات کی مل گئی کہ واقعہ میں حضرت صاحب کے خلاف محکمہ ڈاک کی طرف سے ایسا مقدمہ ہوا تھا.یہ شہادت شیخ نبی بخش صاحب وکیل گورداسپور کی شہادت ہے جو بہت پرانے وکیل اور سلسلہ احمدیہ کے مخالفین علام موجودہ صفحہ ۱۶۷ تا ۱۶۹

Page 373

حیات احمد ۳۶۳ جلد اول حصہ سوم میں سے ہیں.انہوں نے لکھ کر دیا کہ ” مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرزا صاحب پر ڈاکخانہ والوں نے فوجداری مقدمہ دائر کیا تھا.اور وہ پیروی کرتے تھے.مرزا صاحب کی طرف سے شیخ علی احمد وکیل پیروکار تھے.میں اور شیخ علی احمد کچہری میں اکٹھے کھڑے تھے جبکہ مرزا صاحب ان کو اپنا مقدمہ بتا رہے تھے.خواہ مقدمہ کم محصول کا تھا یا لفافہ میں مختلف مضامین کے کاغذات ڈالنے کا تھا.بہر حال اس قسم کا تھا.چونکہ میں نے پیروی نہیں کی.اس لئے دفعہ یاد نہیں رہی.فقط نبی بخش ۲۲ جنوری ۱۹۲۴ء میں اس مقدمہ کی واقعیت کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہ سمجھتا تھا مگر یہ شہادت خدا تعالیٰ نے ایسے آدمی کے ہاتھ سے پیدا کر دی ہے جس کو اس سلسلہ سے عداوت اور مخالفت رہی ہے اس لئے میں نے اس کو اپنی تالیف میں لے آنا ضروری سمجھا والا مجھے شیخ علی احمد صاحب وکیل نے خود اس مقدمہ کے واقعات سنائے تھے.انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ آخری دفعہ مقام دینہ نگر پیش ہوا تھا.اور میں نے ہر چند چاہا کہ مرزا صاحب انکار کر دیں کہ یہ خط اس میں نہیں رکھا تھا.میرے نزدیک اس کا کوئی ثبوت نہیں ہو سکتا تھا.کہ وہ خط اسی پیکٹ میں سے برآمد ہوا.اور اس کے متعلق شہادت قوی نہ تھی.بوجہ اختلاف مذہب خود لالہ ڈلیا رام کی شہادت قابل پذیرائی نہ تھی.میں جس قدر اصرار کرتا تھا اسی قدر مرزا صاحب انکار کرنے سے انکار کرتے تھے.میں نے ان کو ہر چند ڈرایا کہ نتیجہ اچھا نہ ہو گا اور خواہ نخواہ ایک معزز خاندان پر فوجداری مقدمہ میں سزا پانے کا داغ لگ جائے گا.مگر انہوں نے میری بات نہ مانی اور میں نے یہ سمجھ کر کہ میری پیروی میں مقدمہ ہارا گیا تو بڑی بدنامی خاندان کی طرف سے ہو گی اس لئے حضرت مرزا صاحب کے انکار نہ کرنے کے اصرار سے فائدہ اٹھا کر میں نے کہا کہ اگر آپ میری بات نہیں مانتے تو میں پیروی نہیں کرتا.میرا خیال یہ تھا کہ مقدمہ میں سزا ہوگی اور الزام ان پر رہ جائے گا کہ وکیل کے مشورہ کے خلاف عمل کرنے سے ایسا ہوا.میں اس طرح اپنی ناراضگی کا اظہار کر کے پیش نہ ہوا اور

Page 374

حیات احمد ۳۶۴ جلد اول حصہ سوم میری غیر حاضری میں مقدمہ پیش ہو گیا.میری حیرت کی حد نہ رہی جب مقدمہ خارج ہو گیا.مجھے افسوس ہوا کہ میں مفت میں کامیابی کا حقدار ہوتا.مگر اب وقت گزر گیا تھا.شیخ علی احمد صاحب اس واقعہ کو بیان کرتے وقت حضرت صاحب کی مستقل مزاجی اور راست بازی کی بے حد تعریف کرتے تھے.ان کے تعلقات اس خاندان سے مرتے دم تک رہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر ہر مقدمہ میں ان سے مشورہ لینا پسند فرمایا کرتے تھے.اور ان کا احترام کرتے تھے.الغرض مباحثات تحریری اور تائید اسلام کے متعلق مضامین کے لمبے سلسلہ میں یہ ایک واقعہ بھی پیش آ گیا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی وفات پر ایک سال یا کچھ زائد عرصہ گزرا تھا جبکہ یہ واقعہ پیش آیا.مگر اس مقدمہ نے آپ کی ہمت کو پست نہیں کیا اور نہ آ نے اس سلسلہ مضامین نویسی کو بند کیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا اور دن بدن بڑھتا چلا گیا.جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات ہو چکی تھی.اور اب گھر کا تمام انتظام آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ہاتھ میں تھا.تمام جائیداد کا وہی انتظام فرماتے اور ہر قسم کی آمدنی ان کے ہی ہاتھ میں ہوتی تھی.بڑے مرزا صاحب پھر بھی کچھ خیال خاص طور پر رکھتے تھے.اور اسی لئے طبعی طور پر آپ کو ان کی وفات پر بعض تفکرات معیشت کی طرف سے تھے.جس پر خدا تعالیٰ نے آپ کو اليْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کے الہام میں تسلی دی تھی.اس تسلی کے بعد آپ کا رنگ پہلے سے بھی زیادہ بدل گیا.اور آپ ایک کامل متوکل کی زندگی بسر کرنے لگے تھے.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ عسرت کی زندگی تھی.میں آگے چل کر اس پر کسی قدر وضاحت سے لکھوں گا.آپ کے ہاتھ میں کیا آتا تھا.اور کس طرح خرچ کرتے تھے.اس کے لئے میں جناب مرزا غلام قادر مرحوم کا ایک رقعہ درج کرتا ہوں.برخوردار برادر عزیز غلام احمد بعد السلام علیکم.ایک گز سوسی بستنی ارسال ہوتی ہے اور خرچ سابق گھر میں بھیجا گیا ہے.روغن زرد اور جھونہ متعاقب پہنچے گا.صافہ بھی متعاقب بھیجا جاوے گا.میں بروز ایتوار انشاء اللہ تعالیٰ.

Page 375

حیات احمد ۳۶۵ جلد اول حصہ سوم تحصیلدار سے اقرار ہو گیا ہے وہ بھی تشریف لاویں گے.ملا زمان کو حسب ذیل روپیہ لے کر دے دیں.پیراں دتا عار (دوروپے).جھنڈ و باغبان سے ( تین روپے).مرزا غلام قادر اس خط سے ظاہر ہے کہ آپ ایک صافہ سر کے لئے اس امر کے منتظر رہتے تھے کہ مرزا غلام قادر صاحب لے کر بھیج دیں.اور ملازمین کے اخراجات بھی آپ کے پاس نہ رہتے تھے بلکہ گھر سے لے کر خود ادا کر دیا کرتے تھے.یہ حالت آپ کی کسی افسوس کا موجب نہیں.بلکہ بعد میں جا کر یہ ایک عظیم الشان نشان بن گئی کہ کس طرح پر خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کو اٹھایا.اور اُسے برومند کیا.جس کے سامنے کسی قسم کے اسباب اور سامان دنیوی ترقی کے نہ تھے.ایک دنیا کو اس کی طرف متوجہ کر دیا.اور وہ جو بعض اوقات شوربے کے چند گھونٹ پی کر سو رہتا.آج اس کے طفیل سے ہزاروں انسان کھاتے ہیں.، عهد عسرت میں استغناء کی شان نمایاں تھی حضرت میرزا صاحب کا یہ عہد (جو قادیانی زندگی کا دوسرا دور تھا.یعنی جب آپ سیالکوٹ سے واپس آچکے تھے ) ایک عسرت کا عہد تھا.یہ عسرت اس لئے نہ تھی کہ خدا نخواستہ گھر میں کسی قسم کی تنگی یا افلاس تھا.خاندان خدا کے فضل سے معزز اور دوسروں کے ساتھ احسان کرنے میں ممتاز تھا.لیکن آپ کی عسرت کے اسباب اور وجوہات کچھ اور تھے.سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ آپ اپنی ضروریات سے ہی کسی کو واقف کرنا نہیں چاہتے تھے اور کبھی کسی قسم کی خواہش کا اظہار اپنے بزرگوں سے نہیں کرتے تھے.آمدنی کے جس قدر وسائل تھے وہ اُن کے ہاتھ میں تھے اور آپ کے اہل وعیال کے اخراجات تمام و کمال خاندانی روایت کے موافق بڑے میرزا صاحب کرتے تھے.آپ کو ان سے تعلق نہ ہوتا.اس لئے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ آپ کی ضروریات کچھ نہیں.کبھی کچھ آپ کو دے دیا.آپ کے اخراجات کی مد میں اخبارات کی خرید اور ڈاک کے اخراجات کے علاوہ داد و دہش بھی ہوتی تھی.کوئی سائل آجاتا یا کسی محتاج کو پاتے تو اس کو کچھ نہ کچھ ضرور دے

Page 376

حیات احمد جلد اول حصہ سوم دیتے.اس وجہ سے ان ایام میں آپ پر روپیہ کے لحاظ سے تنگی کا زمانہ تھا.اور مجھے اس کے کہنے میں ذرا بھی افسوس نہیں کہ آپ پر بے حد تنگی کا زمانہ تھا لیکن باوجود اس مسرت کے آپ کی فیاضی اور فراخدلی کے علاوہ شانِ استغناء نمایاں تھی.آپ گھر کے کسی بزرگ سے کبھی کسی قسم کا سوال نہیں کرتے تھے.اور جو کچھ آتا اسے اپنے خدام کے ساتھ مل کر کھا لیتے مرزا اسمعیل بیگ صاحب جنہوں نے بچپن سے آپ کے آخری عہد زندگی تک خدمت کی کہتے ہیں کہ میں گھر سے سات روٹیاں لایا کرتا تھا.چار آپ کے لئے اور تین اپنے لئے.ان چار میں سے آپ کے حصہ میں ایک روٹی بھی نہیں آیا کرتی تھی.مرزا معیت بیگ صاحب کے دو بیٹے عنایت بیگ اور ولایت بیگ تھے.ان میں سے ولایت بیگ سگ دیوانہ کے کاٹنے سے مر گیا تھا.کھانے کے وقت عین وقت مقررہ پر عنایت بیگ آتا اور دروازہ کھٹکھٹاتا تھا.حضرت کا طریق تھا کہ ہمیشہ دروازہ بند کر کے رکھا کرتے تھے.اور میں کھولدیتا.تو آپ ایک روٹی اور دو بوٹیاں اس کو دے دیتے تھے.اور وہ وہیں بیٹھ کر کھا لیتا.حضرت کھانے میں دیر کرتے.پھر وہ چلا جاتا اور میں دروازہ بند کر دیتا.تھوڑی دیر کے بعد پھر دستک ہوتی اور میں دروازہ پر جاتا تو حسینا کشمیری موجود ہوتا.اس کو اندر آنے کی اجازت ملتی.ایک روٹی اور ایک بوٹی اسے دی جاتی اور وہ بھی وہاں ہی بیٹھ کر کھا کر چلا جاتا.پھر اس کے بعد جمال کشمیری آ جاتا.اسے بھی ملتی.پھر حافظ معین الدین آتا اسے ملتی.اور اس طرح پر آپ اپنا سارا کھانا دے دیتے اور خود تھوڑا سا شور با پی لیتے.میں ہر چند اصرار کرتا مگر میری روٹی میں سے نہ کھاتے اور وہ مجھے دے دیتے.میرے اصرار کرنے پر بھی گھر سے اور روٹی نہ منگواتے اور نہ میری روٹی میں سے کھاتے.کبھی جب میں ایسی ضد کرتا کہ اگر آپ نہیں کھاتے تو میں بھی نہیں کھاتا.تو تھوڑی سی کھا لیتے.اور ایسا ہی شام کو ہوتا.البتہ شام کو ایک پیسے کے چنے منگوا کر کچھ آپ چبالیتے.گریاں میں آپ کو دے دیتا.باقی میں خود کھا لیتا.ایسا ہی کبھی چائے بنوا کر اور مصری ڈال کر پی لیتے.مرزا اسمعیل صاحب کہتے ہیں کہ یہ عام طریق تھا.غفارہ نے بھی کھانے کے متعلق یہی بیان

Page 377

حیات احمد جلد اول حصہ سوم کیا ہے کہ لوگوں کو دے دیا کرتے تھے.مرزا دین محمد صاحب لنگر وال والے بھی یہی بیان کرتے ہیں.اور دوسرے ذرائع سے بھی یہی ثابت ہے آپ کے پاس جو کھانا آتا تھا.اسے بھی دوسروں پر تقسیم کر دیتے تھے.اور با ایں کبھی کسی قسم کی شکایت یا افسوس کا اظہار نہ ہوتا تھا.یہ نہ تھا کہ آپ نقد روپیہ مانگتے تو آپ کو ملتا نہ تھا.مگر آپ میں شان استغناء اس قدر بلند تھی کہ آپ سوال کرتے ہی نہ تھے حالانکہ اپنے گھر اور جائیداد میں سے لینا ہوتا تھا.حضرت بڑے مرزا صاحب جو دے دیتے وہ لے لیتے.اور اگر انہیں خیال نہ گزرے تو آپ کو پرواہ بھی نہ ہوتی تھی.سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور دنیا کے تنعمات سے آپ کو کوئی تعلق ہی نہ تھا.آپ کی ساری مصروفیت اور شغل اعلائے کلمتہ اللہ تھا اور اس کے لئے اخبارات میں مضامین کا سلسلہ جاری تھا.بعض خطوط آتے ان کا جواب دیتے اور بعض لوگ قادیان آ جاتے اور زبانی سوال و جواب کرتے.خود قادیان کے لوگ بھی آپ کی مجلس میں مذہبی مذاکرات کا سلسلہ رکھتے تھے.غرض آپ کے یہ ایام ایک طرف نہایت عسرت اور تنگی کے ایام تھے.جائیداد کی تمام آمدنی جناب مرزا غلام قادر صاحب کے ہاتھ میں جاتی تھی.گو انہیں آپ کی ضروریات کے لئے خرچ کرنے میں خوشی ہوتی مگر چونکہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت اپنی ضرورتوں کو کسی عزیز سے عزیز کے سامنے پیش کرتے ہوئے بھی کراہت کرتی تھی.اس لئے آپ اپنی جان پر ہر تنگی کو برداشت کر لیتے.دوسری طرف آپ اشاعتِ اسلام اور دشمنانِ اسلام کے الزامات اور اعتراضات کی مدافعت کے لئے دل میں جوش رکھتے تھے.اس لئے فقر و فاقہ کے ساتھ آپ کے اوقات یا عبادات میں گزرتے تھے اور یا مجاہدات دینی میں.آریہ سماج اور برہمو سماج کا نیا نیا آغاز تھا اور ملک میں عام طور پر ان جدید تحریکوں کے متعلق ایک جوش پایا جاتا تھا اس لئے آپ اس سے غافل نہ تھے.ویدوں کے متعلق صحیح علم حاصل کرنے کے لئے آپ نے دہلی سوسائٹی اور دوسرے ذی علم لوگوں کے ترجمہ اور تنقیدات کا بغور مطالعہ کیا اور خود آریہ سماج کے بانی پنڈت دیانند کی تحریروں کو خوب غور سے پڑھا اور اس کے متعلق جو تحقیقات کا حق تھا ادا کیا اور اس کے بعد قلم اٹھایا اور جیسا کہ میں جلداول میں لکھ چکا

Page 378

حیات احمد ۳۶۸ جلد اول حصہ سوم ہوں.پنڈت دیا نند صاحب سے خط و کتابت کی اور ان پر اتمام حجت براہ راست کر کے اسلام کا غلبہ ثابت کیا.برہمو سماج کے پنجابی لیڈروں کو بھی مخاطب کیا.ان کے اخبارات اور تصانیف کا بھی بغور مطالعہ کیا اور کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ کوئی بات بغیر کامل تحقیق اور غور کے پیش کر دیں.ہمیشہ اس معاملہ میں خدا تعالیٰ کا خوف اور اظہار حق آپ کو مدنظر تھا.عیسائیوں کا فتنہ تو ان سے بھی پہلے ملک میں پھیل رہا تھا.اور اسلام کی مخالفت میں بہت سی کتابیں نہایت دل آزار طریق پر لکھی جا چکی تھیں.ولایتی اور دیسی پادریوں (جن میں سب سے بڑا حصہ ان مرتدین کا تھا جنہوں نے اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کی تھی ) نے بڑی بڑی ضخیم کتا ہیں لکھ کر ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر نہایت دل آزار اور گستاخانہ حملے کئے تھے.اور ان کتابوں کی ابتدا ۱۸۴۵ء کے قریب سے ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تمام کتابوں کو پڑھا تھا.اور آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے ناموس کے تحفظ اور الزامات کے دفاع کے لئے قلم ہاتھ میں لیا.یہ سلسلہ قادیان ہی میں آ کر شروع نہیں ہوا بلکہ جن ایام میں آپ سیالکوٹ رہتے تھے.اس وقت بھی پادریوں سے مباحثات ہوتے رہتے تھے.چنانچہ میں جلد اوّل میں سیالکوٹ کے ولایتی پادری ٹیلر اور الیشع سے مباحثات کا ذکر کر چکا ہوں.اور عیسائی مذہب کی چھان بین کے متعلق میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس واقعہ کا بھی ذکر جلد اول میں کیا ہے.جو میزان الحق کے متعلق موضع خیر دی میں اس وقت پیش آیا جبکہ آپ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تھے.القصہ عیسائیوں کا فتنہ زوروں پر تھا.حکومت کے ابتدائی ایام کی وجہ سے لوگوں کی حالت کچھ اور تھی.اور پادریوں کا رسوخ اور اثر سیاسی رنگ رکھتا تھا.اس لئے نہایت خطرناک حملے اسلام پر ہوتے تھے.قادیان میں بعض اوقات کوئی مسیحی مبلغ آ جاتا تھا.مگر وہ ٹھہر تے نہ تھے.اور حضرت صاحب کا رعب ان پر اس قدر غالب تھا کہ وہ آپ سے مباحثہ نہیں کرتے تھے بلکہ بازار میں منادی کر کے فوراً چلے جاتے تھے.

Page 379

حیات احمد ۳۶۹ جلد اول حصہ سوم بٹالہ میں بہت بڑا مرکز اور مشن قائم ہو چکا تھا اور بٹالہ کے مسلمانوں کو انہوں نے تنگ کرنا بھی شروع کر دیا تھا بلکہ ایک مولوی قدرت اللہ صاحب نام کو عیسائی بھی بنالیا تھا.مگر خدا کی قدرت دیکھو کہ مولوی قدرت اللہ صاحب آخر پر مسلمان ہو گیا.اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل اور مباحثات کا نتیجہ تھا.بٹالہ کے مباحثات میں اس وقت حضرت مسیح موعود براہِ راست حصہ نہیں لیتے تھے.بلکہ ان مباحثات کے لئے منشی نبی بخش صاحب کو آپ نے تیار کیا تھا.منشی نبی بخش صاحب بٹالہ کے رہنے والے پٹواری تھے.اور عیسائیوں کے ساتھ مباحثات کے سلسلہ ہی میں اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سلسلہ ملاقات شروع ہوا.وہ یہاں آتے اور اُن کے اعتراضات وغیرہ پیش کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے اعتراضوں پر مفصل بحث کرتے اور ان کے جوابات ان کو سمجھاتے.اور اسی طرح عیسائی مذہب پر جو اعتراضات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی ان کو بتاتے اور وہ واپس جا کر اسی طریق پر بحث کرتے اور غالب آتے.منشی نبی بخش صاحب پٹواری کو ہمارے قادیان کے احباب اکثر جانتے ہیں کیونکہ وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں قادیان میں خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے مختار اور اُن کی طرف سے سر براہ نمبر دار بھی رہے ہیں.انہی ایام میں خود خان بہادر مرز ا سلطان احمد کو بھی عیسائیوں سے قلمی جنگ کا شوق پیدا ہو گیا تھا.چنانچہ مرزا صاحب بھی اخبار نور افشاں کے جواب میں لمبے لمبے مضامین بنگلور کے اخبار منشور محمدی میں لکھا کرتے تھے.یہ شوق ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں پیدا ہوا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قلمی جنگ کا بھی اعلان ہو چکا تھا اور منشور محمدی کے صفحات آپ کے مضامین کے رہین منت ہیں.ان مضامین کی نوعیت اور طرز استدلال پر اس وقت بحث نہیں کی جا سکتی.اور نہ ضرورت ہے اس لئے کہ یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود کے علم کلام کے ضمن میں ہو گا.یہاں صرف واقعات اور حالات کا ایک سلسلہ بیان کرنا ہے.

Page 380

حیات احمد جلد اول حصہ سوم سیالکوٹ کی زندگی کے متعلق کچھ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوئی زندگی کے متعلق میں نے پہلی جلد میں کچھ لکھا تھا.لیکن اس جلد کی اشاعت تک بعض اور حالات بھی معلوم ہو چکے ہیں.اور چونکہ یہ تمام حالات اور واقعات زمانہ براہین تک کے عہد میں آتے ہیں.اس لئے اُن کی تکمیل کے لئے میں ان واقعات کو درج کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں.گو ترتیب اور اسلوب کے لحاظ سے شاید یہی مناسب ہوتا کہ اسی جگہ ان کا اندراج ہوتا.لیکن راقم کی پوزیشن نازک اور اس کام کی مشکلات عیاں ہیں.جب اور جہاں مجھے حالات میسر آتے ہیں میں ان کو بلا لحاظ ترتیب درج کر دیتا ہوں.اور سچ تو یہ ہے کہ سوانح عمری گویا بطور ایک مواد کے ہے.آنے والے اہلِ قلم اپنے اپنے رنگ میں اس سے اقتباس کریں گے.اور اپنے اپنے مذاق کے موافق ان واقعات کو ترتیب دے لیں گے.سیالکوٹ کی زندگی کے واقعات کے متعلق پہلے بھی جناب مولوی میر حسن صاحب قبلہ نے ہی مدد فرمائی تھی.اور یہ واقعات بھی اُن کی ہی مہربانی کا نتیجہ ہیں.حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب سے بھی میں نے ان واقعات اور حالات کو نوٹ کیا تھا.جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے.اور راقم کو بھی حضرت کی معیت کی عزت حاصل تھی.میں نے ایک مکان کو بھی دیکھا تھا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اقامت پذیر تھے.الغرض ایام اقامت سیالکوٹ کے واقعات کا یہ تتمہ جناب مولوی میرحسن صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو لکھ کر بھیجا اور میں اُن سے لیتا ہوں.حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اسی عاصی پُر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے.عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے.کچہری سے جب تشریف لاتے تھے.تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے.بیٹھ کر کھڑے ہو کر ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے.اور زار زار رویا کرتے تھے.ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.حسب عادت زمانہ

Page 381

حیات احمد ۳۷۱ جلد اول حصہ سوم صاحب حاجات جیسے اہلکاروں کے پاس جاتے ہیں.اُن کی خدمت میں بھی آجایا کرتے تھے.اسی عمرا مالک مکان کے بڑے بھائی فضل الدین نام کو جو فی الجملہ محلہ میں موقر تھا، آپ بلا کر فرماتے.میاں فضل الدین ان لوگوں کو سمجھا دو کہ یہاں نہ آیا کریں.نہ اپنا وقت ضائع کیا کریں.اور نہ میرے وقت کو برباد کیا کریں.میں کچھ نہیں کر سکتا.میں حاکم نہیں.جتنا کام میرے متعلق ہوتا ہے کچہری میں ہی کر آتا ہوں.فضل الدین ان لوگوں کو سمجھا کر نکال دیتے.مولوی عبدالکریم صاحب بھی اسی محلہ میں پیدا ہوئے.اور جوان ہوئے.جو آخر میں مرزا صاحب کے خاص مقربين میں شمار کئے گئے.اس کے بعد وہ مسجد جامع کے سامنے ایک بیٹھک میں بمع منصب علی حکیم کے رہا کرتے تھے.وہ ( یعنی منصب علی.خاکسار مؤلف ) وثیقہ نویسی کے عہدہ پر ممتاز تھے.بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل دین نام بوڑھے دوکاندار تھے.جو رات کو بھی دوکان پر ہی رہا کرتے تھے.ان کے اکثر احباب شام کے بعد ان کی دوکان پر آجاتے تھے.چونکہ شیخ صاحب پارسا آدمی تھے.اس لئے جو وہاں شام کے بعد آتے سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے.کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے.اور گاہ گاہ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے آ جایا کرتے تھے.مرزا صاحب اور ہیڈ ماسٹر کی اکثر بحث مذہبی امور میں ہو جاتی تھی.مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے.مولوی محبوب عالم صاحب ایک بزرگ نہایت پارسا اور صالح اور مرتاض شخص تھے.مرزا صاحب ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے.اور لالہ بھیم سین صاحب وکیل کو بھی تاکید فرماتے تھے کہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرو چنانچہ وہ بھی مولوی صاحب کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوا کرتے تھے.

Page 382

حیات احمد جلد اول حصہ سوم جب کبھی بیعت اور پیری مریدی کا تذکرہ ہوتا تو مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو خود سعی اور محنت کرنی چاہئے.اللہ فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: ۷۰) - مولوی محبوب عالم صاحب اس سے کشیدہ ہو جایا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ بیعت کے بغیر راہ نہیں ملتی.دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیشروی تو عیاں ہے.مگر جسمانی دوڑ میں بھی آپ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہو چکی تھی.اس کا مفصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخاست ہونے کے بعد جب اہلکار گھروں کو واپس ہونے لگے تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہو گیا.ہر ایک نے دعوی کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں.آخر ایک شخص بلا سنگھ نام نے کہا کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں.مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو.تو ثابت ہو جائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے.آخر شیخ اللہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے اور یہ امر قرار پایا کہ یہاں سے شروع کر کے اُس پل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے ننگے پاؤں دوڑو.جوتیاں ایک آدمی نے اٹھا لیں اور پہلے ایک شخص اُس پل پر بھیجا گیا تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پل پر پہنچا.مرزا صاحب اور بلا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے.جب پل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ حضرت مرزا صاحب سبقت لے گئے.اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا.“ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.میں نے ان واقعات اور حالات کو بطور ایک وقائع نگار کے لکھ دیا ہے.مرزا موحد سے ملاقات مرزا مراد بیگ صاحب جالندھر کے رہنے والے تھے.ان کا تخلص ابتداء مرزا شکستہ تھا لیکن بعد میں جب عیسائیوں کے ساتھ مباحثات کا سلسلہ انہوں نے وسیع کیا.اور عیسائیت کی تردید میں

Page 383

حیات احمد ۳۷۳ جلد اول حصہ سوم مضامین لکھنے شروع کئے.تو انہوں نے اپنا تخلص مرزا موحد رکھ لیا.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عیسائیوں سے مباحثات سیالکوٹ میں وقعت اور عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.آپ کے طریق استدلال پر لوگ عش عش کرتے اور خود پادری صاحبان بھی آپ کی علمی عظمت اور اخلاقی قوت کا احترام کرتے تھے.مرزا موحد کو بھی آپ سے تعلقات بڑھانے کا شوق ہوا.وہ اکثر آپ کی خدمت میں آتے اور عیسائیوں کے اعتراضات کو پیش کرتے.ان کے جوابات سنتے اور پھر اپنے رنگ میں اُن کو اخبارات کے ذریعہ شائع کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فطرت میں یہ بات واقع ہوئی تھی کہ آپ عیسائی مذہب کی غلطیوں اور باطل عقائد کی تردید کے لئے انتہائی جوش رکھتے تھے.اور اگر کسی شخص کو اس میں ذرا بھی دلچسپی لیتے دیکھتے.تو ہر طرح اس کے شوق اور دلچسپی بڑھانے میں مدد دیتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے.آپ کے طرز عمل سے پایا جاتا ہے کہ آپ اس باطل عقیدہ کفارہ و تثلیث و الوہیت مسیح وغیرہ کے ابطال کے لئے کسی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.مرزا موحد کے دل میں اس بات نے آپ کے لئے ایک خاص عظمت پیدا کردی تھی.اور جب آپ سیالکوٹ سے قطع تعلق کر کے قادیان آگئے تو بھی مرزا موحد صاحب آپ کی ملاقات کے لئے قادیان تشریف لایا کرتے تھے.اور آپ سے استفادہ کیا کرتے.ان کے مضامین کا ایک بہت بڑا سلسلہ منشور محمدی میں طبع ہوا کرتا تھا.خود انہوں نے بھی آخر میں سیالکوٹ سے وزیر ہند نام ایک اخبار نکال لیا تھا.اگر چہ وہ زیادہ تر عام اخبار تھا.تا ہم اس میں کبھی کبھی عیسائیوں کے متعلق مضامین بھی نکل جایا کرتے تھے.قیام سیالکوٹ کے زمانہ کے متعلق آپ کے زہد و انقاء کی شہادت سیالکوٹ کے قیام کا زمانہ آپ کے عنفوان شباب کا زمانہ تھا.آپ ایک وجیہ اور مردانہ حسن کے نمونہ تھے مگر آپ کی زندگی نہایت بے لوث اور پاکیزہ زندگی تھی اور اس کے معترف وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے آپ کے دعوی کو کسی وجہ سے قبول نہیں کیا.ان میں سے ایک مولوی سراج الدین احمد صاحب بانی اخبار زمیندار ہیں.مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 384

حیات احمد ۳۷۴ جلد اول حصہ سوم کے زمانہ قیام سیالکوٹ اور اس کے بعد زمانہ قیام قادیان میں آپ سے ملاقات کی اور اپنے ذاتی تجربہ اور علم کی بناء پر جو رائے قائم کی تھی.اسے انہوں نے بلا خوف لومۃ لائم آپ کی وفات کے بعد اپنے اخبار زمیندار میں شائع کیا.چنانچہ آپ کے قیام سیالکوٹ کے متعلق انہوں نے لکھا کہ.”مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ یا ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے.اس وقت آپ کی عمر ۲۲ ۲۴ سال کی ہوگی.اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور منتفی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا.عوام سے کم ملتے تھے.“ اور جب آپ سیالکوٹ سے ملازمت چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے تو اس زمانہ میں بھی مولوی سراج الدین صاحب ایک مرتبہ قادیان میں آئے.جہاں تک میری تحقیقات مساعدت کرتی ہے.مرزا موحد صاحب بھی ان کے ساتھ تھے.اور یہ ۱۸۷۷ء کا واقعہ ہے.ان ایام کی حالت کے متعلق مولوی سراج الدین صاحب لکھتے ہیں.۱۸۷۷ ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی.ان دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی کم گفتگو کرتے تھے.“ یہ اس شخص کی رائے ہے جو آپ کے دعاوی پر ایمان نہیں لایا.مگران کے متعلق بھی وہ کہتا ہے کہ ”آپ کے دعاوی خواہ دماغی استغراق کا نتیجہ ہوں.مگر بناوٹ اور افترا سے بری تھے.“ آپ کو مفتری وہ یقین نہ کرتے تھے.ایسے شخص کا اپنی ذاتی واقفیت اور چشم دید حالات کی بناء پر مندرجہ بالا شہادت دینا معمولی بات نہیں ہے.خود مولوی سراج الدین صاحب سرسید کے اتباع میں تھے.انہوں نے خود بھی حضرت مسیح موعود کے دعاوی کے متعلق ایک مبسوط مضمون لکھا تھا.اس کا جواب مکرم میر حامد شاہ صاحب نے الجواب کے نام سے دیا تھا.سیالکوٹ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق یہی ایک شہادت نہیں.بلکہ ان مخلصین اور اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُون کی عملی شہادت بھی ہے.جنہوں نے

Page 385

حیات احمد ۳۷۵ جلد اول حصہ سوم سیالکوٹ میں حضرت کو دیکھا ہوا تھا.اور جب آپ نے دعویٰ کیا.تو انہوں نے آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہا.اگر وہ آپ کی پاکیزہ زندگی ، آپ کے زہد و انتقاء آپ کے اسلامی خادم و جانثار ہونے کے علی وجہ البصیرت شاہد نہ ہوتے تو کبھی قبول نہ کرتے.حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب اور اُن کے خاندان کا حلقہ ارادت میں داخل ہونا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جیسے عالم اور آزاد خیال عالم کا اخلاص وعقیدت کے ساتھ آپ کو ایسا قبول کرنا کہ ہر قسم کی قربانی کے لئے آمادہ ہو گئے بلکہ کر کے دکھا دی.یہ ایسی باتیں نہیں ہیں کہ کسی مفتری اور مزورکو میسر آ سکیں.وہ لوگ آپ کے حالات کو جانتے تھے.آپ کی راست بازی، دیانت اور تقویٰ سے واقف تھے.انہوں نے اس درد اور جوش کو بچشم خود دیکھا تھا.جو آپ اسلام کے لئے رکھتے تھے.اس غیرت اسلامی کو انہوں نے محسوس کیا تھا.جو تحفظ ناموسِ سرور عالم کے لئے آپ کے دل میں تھی.اس لئے جب آپ نے دعوی کیا کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اُن لوگوں نے اسے صادق سمجھا.اور صادق یقین کر کے اس کے ساتھ ہوئے.“ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے مباحثہ کے متعلق کچھ اور اگر چہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے مباحثہ کے متعلق میں پہلے کچھ لکھ چکا ہوں لیکن ایک ضروری امر رہ گیا.خود حضرت مسیح موعود کا ایک نوٹ نفس مباحثہ کے متعلق مجھے مل گیا اور میں اس پرانی تحریروں کے سلسلہ میں وہ مضمون بھی شائع کر چکا ہوں.جو دورانِ مباحثہ میں حضرت نے پیش کیا تھا.مگر یہاں میں اُس نوٹ کو جو گو یا خلاصہ روئیداد مباحثہ ہے.اوّل درج کرتا ہوں اور بَعْدَهُ اُس نوٹ کی بناء پر جو روئیداد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور تحدی شائع کی تھی اُس کو درج کر دیتا ہوں.اور اس طریق سے آپ نے آریہ سماج پر اب تیسری مرتبہ حجت پوری کی تھی.پہلی دفعہ تو خود پنڈت دیانند صاحب کو مباحثہ کے لئے بلایا.اور باوجود وعدہ کے وہ مقابلہ پر نہ آئے.پھر روحوں کے بے انت ہونے کے مسئلہ پر تحریری مباحثہ ہوتا رہا.جس کا ذکر میں حصہ دوم میں کر آیا

Page 386

حیات احمد جلد اول حصہ سوم ہوں.اور تیسری مرتبہ اب پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کے ذریعہ اتمام حجت ہوا.اور آریوں کو اس مقابلہ کی تاب نہ ہوئی.اور کھڑک سنگھ صاحب کا تو جو انجام ہوا.وہ اوپر ذکر ہو چکا ہے.اب میں اولاً اس نا تمام نوٹ کو جو بطور خلاصہ روئیداد آپ نے لکھا تھا درج کرتا ہوں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تمہید جس میں پانسو روپیہ کا اشتہار بھی درج ہے ناظرین انصاف آئین کی خدمت بابرکت میں واضح ہو کہ چند روز ہوئے ہیں کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب ممبر آریہ سماج امرتسر گورداسپور بغرض بحث امرتسر سے یہاں قادیان تشریف لائے.اور باسترضائے فریقین یہ بات ٹھہری کہ مسئلہ تناسخ اور مقابلہ وید وقرآن میں گفتگو کی جاوے.چنانچہ جلسہ منعقد ہو کر اول ہم نے ایک تقریر جو ذیل میں لکھی گئی ہے.پیش کی.یہ تقریر میں پرانی تحریروں کے سلسلہ میں شائع کر چکا ہوں.عرفانی) اور جواب طلب کیا.پنڈت صاحب نے فرمایا.کل ان سوالات کا جواب دیں گے.جب دوسرے دن پھر جلسہ منعقد ہوا.اور سوالات کا جواب طلب کیا گیا.تو پنڈت صاحب نے سوالات کو چھوڑ کر کچھ اور ہی رکتھا سنانی شروع کر دی.جس کا سوالات سے کچھ بھی تعلق نہ تھا.آخر عرض کیا گیا کہ اگر بحث منظور ہے.تو برعایت آداب مناظرہ سیدھا جواب دینا چاہیئے.ہم سوال کوئی کرتے ہیں.اور آپ کی زبان سے جواب کوئی نکلتا ہے.اس پر پنڈت صاحب نے بجائے اس کے کہ کسی بات کا مدلل جواب دیتے.پھر وہی سکتے قصے اور حکایات کہ جن کو معقول بحث میں پیش کرنا سادہ لوحی کے علامات سے ہے لے بیٹھے کہ جن سے پنڈت صاحب کے کمالات علمی بکی معلوم ہوئے.مکرر عرض کیا گیا کہ اگر ہوسکتا ہے تو کچھ جواب دیجئے گا.ورنہ ہم رکتھا سننے کے واسطے تو نہیں آئے.اس پر پنڈت صاحب نے طیش میں آکر اور شیخی مار

Page 387

حیات احمد کرا خیر بچن بولا کہ جلد اول حصہ سوم جواب دینا کیا مشکل ہے.اگر ہم چاہیں تو پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں.لیکن گھر میں کچھ کام ہے.اب فرصت نہیں.غرض اسی طرح ایک دوساعت کتھا بارتا رہا.بعدہ وہ اپنے گاؤں کی طرف سدھار گئے اور ہمارے سوالات کا ایک بھی جواب نہ دیا.اور گاؤں میں جا کر ایک ایسا مجمل جواب تحریر کر کے بھیجا کہ میں نے آج تک ایسا عجیب جواب کسی نابالغ طفل کی زبان سے بھی نہیں سنا.وہ جواب اس وقت ہمارے سامنے رکھا ہوا ہے.اور ہم خدا کی قدرتوں کا تماشا کر رہے ہیں.اس میں بجر قصوں اور کہانیوں اور تضحیک کتب مقدسه توریت و انجیل و قرآن کے جو طریق حق پرستی اور خدا ترسی بلکہ طرز شرفاء سے بہت بعید ہے.کوئی بات معقول درج نہیں اور جس قدر تناسخ کے جواب دیئے ہیں وہ سب ایسے ہیں کہ گویا غمگینوں کو ہنسانے کے واسطے ایک نسخہ بنایا ہے.اور آخر میں بڑے جوش سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بس ہم دلائل مضمون فریق ثانی کو رد کر چکے اور فضیلت وید کی قرآن پر اور تمام کتب مقدسہ سلسلہ ابراہیمیہ پر ثابت کر چکے.لہذا میں نے بموجب کمال اصرار پنڈت صاحب کے وہی مضمون ابطال تناسخ کا جو جلسہ عام میں سنایا گیا تھا.جس میں ہر ایک دلیل ابطال تناسخ حوالہ آیات قرآنی.سے درج ہے محک امتحان مقابلہ وید اور قرآن کا مقرر کیا ہے.تا ایک ہی مضمون سے دونوں مطلب حاصل ہو جائیں.یعنی مسئلہ تناسخ کی بھی حقیقت ثابت ہو.اور قرآن اور وید میں فرق غالب اور مغلوب کا ظاہر ہو جائے.لیکن چونکہ وہ جواب پنڈت صاحب کا ابھی تک ان کے پاس موجود ہو گا اور ہمارے پاس بھی ایک

Page 388

حیات احمد جلد اول حصہ سوم نقل اس کی موجود ہے.مناسب ہو گا کہ پنڈت صاحب فی الفور اس مضمون مبارک کو سفیر ہند یا برادر ہند یا آریہ در پن میں چھپوا دیں.پس پنڈت صاحب پر لازم ہے کہ ہماری ہر ایک دلیل کا نمبر وار جواب دیں.اور ہر ایک دلیل وہی لکھیں کہ جس کا ماخذ اور اصل کوئی شہرتی ہو.اور اس شرقی کو بجنسہ بحوالہ پستہ و نشان وید کے کہ کس وید میں اور کہاں درج ہے ارقام فرماویں.اور بمقابلہ ہر ایک آیت کے جو ہم نے بتائید اثبات کسی مطلب کے لکھی ہوشرتی تحریر کریں.اور اگر شرتی مفقود ہو تو یہ لکھ دیں کہ اس امر میں وید کی شہرتی ندارد ہے.اور اس بات کا لحاظ رکھیں کہ کوئی نمبر ہماری دلیل کا جواب دینے سے رہ نہ جاوے.66 یہ نوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مباحثہ کی روئیداد اور آئندہ اس کی تکمیل کے لئے لکھا تھا.اور جب کوئی جواب پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کی طرف سے نہ آیا.تو آپ نے اس مضمون کو شائع کر دیا.اور اس مقابلہ میں نہ صرف پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کو رکھا.بلکہ حسب ذیل علماء آریہ سماج کو بھی چیلنج دیا.(۱) سوامی دیانند صاحب (۲) پنڈت کھڑک سنگھ صاحب (۳) باوا نرائن سنگھ صاحب (۴) منشی جیون داس صاحب (۵) جناب منشی کنہیا لال صاحب (۶) جناب منشی بختاور سنگھ صاحب ایڈیٹر آریہ در پن (۷) جناب با بوساردا پرشاد صاحب (۸) جناب منشی شرمیت صاحب سیکرٹری آریہ سماج قادیان.اس چیلنج کے ساتھ پانسو روپیہ کا انعام بھی تھا.مگر کسی صاحب کو حوصلہ نہ ہوا کہ مقابلہ میں آتا.اصل مضمون تو میں پرانی تحریروں کے سلسلہ میں شائع کر چکا ہوں لیکن جو اعلان آپ نے بطور چیلنج کیا تھا وہ یہ ہے.

Page 389

حیات احمد جلد اول حصہ سوم اعلان متعلقہ مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ وید و فرقان مع اشتہار پانسو روپیہ جو پہلے بھی بمباحثہ باوا صاحب مشتہر کیا گیا تھا ناظرین انصاف آئین کی خدمت بابرکت میں واضح ہو کہ باعث مشتہر کرنے اس اعلان کا یہ ہے کہ عرصہ چند روز کا ہوا ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب ممبر آریہ سماج امرتسر قادیان میں تشریف لائے اور مستدعی بحث کے ہوئے.چنانچہ حسب خواہش اُن کے درباره تناسخ اور مقابلہ وید اور قرآن کے گفتگو کرنا قرار پایا.برطبق اُس کے ہم نے مضمون جو اس اعلان کے بعد میں تحریر ہو گا.ابطال تناسخ میں اس التزام سے مرتب کیا کہ تمام دلائل اس کے قرآن مجید سے لئے گئے.اور کوئی بھی ایسی دلیل نہ لکھی کہ جس کا مقصد اور منشاء قرآن مجید نہ ہو.اور پھر مضمون جلسہ عام میں پنڈت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تا کہ پنڈت صاحب بھی حسب قاعدہ ملننز مہ ہمارے کے اثبات تناسخ میں وید کی شرکتیاں پیش کریں اور اس طور سے مسئلہ تناسخ کا فیصلہ پا جائے.اور وید اور قرآن کی حقیقت بھی ظاہر ہو جائے کہ ان میں سے کون غالب اور کون مغلوب ہے.اس پر پنڈت صاحب نے بعد سماعت تمام مضمون کے دلائل وید کے پیش کرنے سے عجز مطلق ظاہر کیا اور صرف دو شر تیاں رگوید سے پیش کیں کہ جن میں اُن کے زعم میں تناسخ کا ذکر تھا.اور اپنی طاقت سے بھی کوئی دلیل پیش کردہ ہماری کو رد نہ کر سکے.حالانکہ ان پر واجب تھا کہ بمقابلہ دلائل فرقانی کے اپنے وید کا بھی کچھ فلسفہ ہم کو دکھلاتے.اور اُس دعویٰ کو جو پنڈت دیانند صاحب مدت دراز سے کر رہے ہیں کہ وید سر چشمہ تمام علوم وفنون کا ہے، ثابت کرتے لیکن افسوس کہ کچھ بھی نہ بول سکے اور دم بخودرہ گئے اور عاجز اور لاچار ہو کر اپنے گاؤں کی طرف سدھار گئے.گاؤں میں جا کر پھر ایک مضمون بھیجا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ابھی بحث کرنے کا شوق

Page 390

حیات احمد جلد اول حصہ سوم باقی ہے.اور مسئلہ تناسخ میں مقابلہ وید اور قرآن کا بذریعہ کسی اخبار کے چاہتے ہیں.سو بہت خوب ہم پہلے ہی تیار ہیں.مضمون ابطال تناسخ جس کو ہم جلسہ عام میں گوش گزار پنڈت صاحب موصوف کر چکے ہیں.وہ تمام مضمون دلائل اور براہین قرآنِ مجید سے لکھا گیا ہے اور جا بجا آیات قرآنی کا حوالہ ہے.پنڈت صاحب پر لازم ہے کہ مضمون اپنا جو دلائل وید سے بمقابلہ مضمون ہمارے کے مرتب کیا ہو.پر چہ سفیر ہند یا برادر ہند یا آریہ درپئن میں طبع کرا دیں.پھر آپ ہی دانا لوگ دیکھ لیں گے.اور بہتر ہے کہ ثالث اور منصف اس مباحثہ تنقیح فضیلت وید اور قرآن میں دو شریف اور فاضل آدمی مسیحی مذہب اور برہمو سماج سے جو فریقین کے مذہب سے بے تعلق ہیں مقرر کئے جائیں.سو میری دانست میں ایک جناب پادری رجب علی صاحب جو خوب محقق مدقق ہیں.اور دوسرے جناب پنڈت شیو نرائن صاحب جو برہمو سماج میں اہلِ علم اور صاحب نظر دقیق ہیں.فیصلہ اس امر متنازعہ فیہ میں حکم بننے کے لئے بہت اولی اور انسب ہیں.اس طور سے بحث کرنے میں حقیقت میں چار فائدے ہیں.اول.یہ کہ بحث تناسخ کی بہ تحقیق تمام فیصلہ پا جائے گی.دوم.اس موازنہ اور مقابلہ سے امتحان وید اور قرآن کا بخوبی ہو جائے گا.اور بعد مقابلہ کے جو فرق اہلِ انصاف کی نظر میں ظاہر ہو گا.وہی فرق قول فیصل متصور ہوگا.سوم.یہ فائدہ کہ اس التزام سے ناواقف لوگوں کو عقائد مندرجہ وید اور قرآن سے بکلی اطلاع ہو جائے گی.چہارم.یہ فائدہ کہ یہ بحث تناسخ کی کسی ایک شخص کی رائے خیال نہیں کی جائے گی.بلکہ محوّل بکتاب ہو کر اور معتاد طریق سے انجام پکڑ کر قابل تشکیک اور تزئیف نہیں رہے گی.اور اس بحث میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ صرف پنڈت کھڑک سنگھ صاحب تحریر جواب کے لئے تنِ تنہا محنت اٹھا ئیں بلکہ میں عام اعلان دیتا ہوں کہ منجملہ

Page 391

حیات احمد ۳۸۱ جلد اول حصہ سوم صاحبان مندرجہ عنوان مضمون ابطال تناسخ جو ذیل میں تحریر ہو گا.کوئی صاحب ارباب فضل و کمال میں سے متصدی جواب ہوں.اور اگر کوئی صاحب بھی باوجود اس قدر تاکید مزید کے اس طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور دلائل ثبوت تناسخ کے فلسفہ متد عویہ دید سے پیش نہیں کریں گے.یا درصورت عاری ہونے وید کے ان دلائل سے اپنی عقل سے جواب نہیں دیں گے تو ابطال تناسخ کی ہمیشہ کے لئے ان پر ڈگری ہو جائے گی.اور نیز دعوئی و ید کا کہ گویا وہ تمام علوم وفنون پر متضمن ہے محض بے دلیل اور باطل ٹھہرے گا.اور بالآخر بغرض توجہ دہانی یہ بھی گزارش ہے کہ میں نے جو قبل اس سے فروری ۱۸۷۸ء میں ایک اشتہار تعدادی پانسور و پیر بابطال مسئلہ تناسخ دیا تھا وہ اشتہار اب اس مضمون سے بھی بعینہ متعلق ہے.اگر پنڈت کھڑک سنگھ صاحب یا اور کوئی صاحب ہمارے تمام دلائل کو نمبر وار جواب دلائل مندرجہ وید سے دے کر اپنی عقل سے توڑ دیں گے تو بلا شبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے.اور بالخصوص بخدمت پنڈت کھڑک سنگھ صاحب کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں یہ گزارش ہے کہ اب اپنی اس استعداد علمی کو رو بروئے فضلائے نامدار ملت مسیحی اور برہمو سماج کے دکھلاویں.اور جو جو کمالات ان کی ذات سامی میں پوشیدہ ہیں.منصہ ظہور میں لاویں.ورنہ عوام کا لانعام کے سامنے دم زنی کرنا صرف ایک لاف گزاف ہے اس سے زیادہ نہیں.،، تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۸ تا ہے.مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۱۴ ، ۱۵ بار دوم ) قیام قادیان میں شعر گوئی اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شاعری پر آپ کی سیرت میں ایک جدا باب ہو گا اور سوانح کی جلد اول میں آپ کے ایک مکتوب کے سلسلہ میں آپ کے تخلص فرسخ کی توضیح کرتے ہوئے آپ کے پرانے کلام میں سے کچھ شعر بھی دیئے ہیں.لیکن اس موقع پر میں

Page 392

حیات احمد جلد اول حصہ سوم آپ کے قیام قادیان کے مشاغل کے سلسلہ میں اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان ہمیشہ سے علم دوست ہی نہیں ذی علم خاندان چلا آیا ہے.اور کم و بیش شاعری بھی ایک خداداد عطاء اس خاندان میں رہی ہے.آپ کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب بھی شاعر تھے.اور تحسین تخلص کرتے تھے.مگر ان لوگوں کی شاعری ایک فطرتی اور طبعی شاعری تھی.جس میں آمد ہوتی تھی اور تکلف اور بناوٹ کو دخل نہ ہوتا تھا.جب بھی کچھ کہتے طبیعت کے صحیح اور بچے جوش کا اظہار اس میں پایا جا تا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ ملکہ جس مقصد اور غرض کے لئے عطا ہوا تھا.اس کا اظہار آپ نے خود.فرمایا ہے:.کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے اس فطرت کا نشو و نما اور ارتقاء کیونکر ہوا.یہ آپ کی شاعری پر بحث کرتے ہوئے انشاء اللہ العزیز میں بیان کرنے کا عزم رکھتا ہوں.جب آپ قادیان میں تنہائی اور تخلیہ کی زندگی بسر کر رہے تھے تو قدرت کے اس گراں مایہ جو ہر کا ظہور بھی کبھی کبھی ہوتا تھا.اور اس کے مختلف محل ہوتے تھے کبھی آپ محض اپنے ان نیک اور اعلیٰ پاکیزہ جذبات اور امنگوں کا جو حضرت احدیت کی محبت و اخلاص میں رکھتے تھے اظہار کرتے اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ اپنے اخلاص کا اظہار فرماتے اور کبھی مختلف مذاہب باطلہ کی تردید میں بھی قلم اٹھاتے اور دشمنانِ اسلام کے اعتراضات کے جوابات دیتے.آپ کی عادت میں یہ امر بھی داخل تھا کہ اگر آپ کو کوئی شخص نظم میں خط لکھتا تو آپ اس کا جواب قلم برداشتہ نظم ہی میں لکھ دیتے.جیسا کہ میں دوسرے مقام پر ایک مولوی صاحب کے خط کے جواب میں لکھ چکا ہوں.مگر یہ شعر گوئی کبھی اور کسی حال میں آپ کا شاعرانہ مشغلہ نہ تھی.قادیان کے اُن ایام کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ دیوان کی صورت میں مگر بے ترتیب

Page 393

حیات احمد ۳۸۳ جلد اول حصہ سوم میرے پاس موجود تھا.میں ایک مرتبہ بیمار ہوا.یہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کی بات ہے.میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو اس حالت اضطراب میں اپنے پاس آنے کی تکلیف دی.اور آپ اپنی شفقت سے تشریف لائے.اس موقع پر میں نے وہ مجموعہ جو نہایت گراں مایہ تھا.آپ کی خدمت میں پیش کر دیا.جو بعد میں در مکنون کے نام سے شائع ہوا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کلام کا حصہ ہے.جو آپ نے سیالکوٹ سے واپس آنے کے بعد لکھا.ممکن ہے کہ اس میں سیالکوٹ کے لکھے ہوئے بعض شعر بھی ہوں.مگر جہاں تک میری تحقیقات ہے.بیشتر حصہ قادیان کے انہیں ایام کا کلام ہے.یہ امر تو کچھ واقعات سے ثابت ہے.اور کچھ پتہ بعض اشعار کے متعلق تاریخ کے اندراج سے بھی چلتا ہے.مثلاً بیان توحید و رد شرک پر کچھ اشعار صفحه ۱۴۶ و صفحه ۱۴۷ پر درج ہیں.ان اشعار کو لکھتے لکھتے ایک موقع پر اس طرح لکھا ہے.نیست اندر سرائے بیچ غنی چوں قناعت متاع مفت و تهی سنگ بے جان زده است بر تو راه سنگ افتد بریں قیاس و نگاه ۲۱ ستمبر ۱۸۷۶ء اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم ستمبر ۱۸۷۶ء میں لکھی ہے.اسی طرح بعض دوسرے مقامات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ مجموعہ در حقیقت ۱۸۶۸ء سے ۱۸۷۶ء تک کے مختلف اوقات کے کلام کا ہے.گو ایک نظم پر ۱۸۸۸ء کی تاریخ بھی ہے بہت ممکن ہے کہ اس کے سوا اور بھی کلام آپ کا اس عہد کا ہو.لالہ شرمپت رائے صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب کے پاس بھی کچھ اشعار تھے.لالہ ملا وامل صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ ضائع ہو گئے.لالہ شرمپت رائے فوت ا ترجمہ: D کسی بھی امیر آدمی کے گھر میں وہ چیز نہیں ہوتی جو کہ قناعت سے مفت مل جاتی ہے.(۳) جو تیری راہ میں بے جان پتھر پڑا ہے اگر تو اس کو پتھر سمجھے تو تیرے ایسے طور سے سمجھنے پر پتھر پڑیں.

Page 394

حیات احمد ۳۸۴ جلد اول حصہ سوم ہو گئے.میں ان کی زندگی میں ان سے مطالبہ کرتا رہا.مگر وہ امروز فردا ہی کرتے رہے.اور وہ اشعار جو اُن کے پاس تھے.میں حاصل نہ کر سکا.میں نے اپنے طلب و تلاش کے جذبات کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیا.اگر میسر آ گئے.تو انشاء اللہ کسی نہ کسی جگہ انہیں درج کر دوں گا.ان ایام کی شعر گوئی مشغلہ بیکاری اور تفریح نہ تھا بلکہ جیسا کہ ابھی اوپر لکھ چکا ہوں آپ نے تکلف سے کبھی شعر کہا ہی نہیں یہ ایک فطرتی اور قدرتی رو ہوتی تھی اور آپ کے کلام میں خدا تعالیٰ کی حمد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت یا بعض دوسرے مطالب عالیہ ہوتے تھے.مثلاً سالک کیا ہوتا ہے.رضائے الہی کی حقیقت اور مقام کیا ہے.منزل عشق اور حقیقت عشق کیا ہے؟ ایسا ہی ترک دنیا اور مناظر قدرت سے کیا سبق ملتا ہے ؟ طریق محبت اور مذاہب باطلہ کی تردید کا احسن طریق کیا ہے؟ غرض آپ کے ان ایام کے کلام میں اسی قسم کے مطالب ہوتے تھے.اور یہ مقصد زندگی کے کسی حصہ میں آپ سے فوت نہیں ہوا کہ اپنی زبان کو تحمید الہی میں نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدح فرقان مجید اور ابطال باطل سے رطب اللسان رکھیں.لالہ شرمپت رائے نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا تھا کہ کبھی کبھی وہ میری درخواست پر بھی کوئی نظم لکھ دیا کرتے تھے.مگر ان کی عادت تھی کہ وہ اس میں اپنے مذہب کی بحث لے آتے تھے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے پادری وایٹ برینٹ نے کہی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے خلاف اعتراض کیا جاوے تو مرزا صاحب کو غصہ آ جاتا تھا.مجھے دونوں ہی باتیں پسند آتی ہیں.پادری وایٹ برینٹ کے منقولہ پر تو میں کسی دوسری جگہ لکھ چکا ہوں.لالہ شرمپت رائے کا قول بتاتا ہے کہ آپ کو اپنے مذہب کے لئے کس قدر غیرت اور اس کی تائید اور اشاعت کے لئے کس قدر جوش تھا.اور آپ یہ چاہتے تھے کہ خدا کی وہ مخلوق جو اس نعمت سے دور ہے.اسلام کی طرف آجاوے.اور اس مقصد کے لئے جو طریقہ بھی موزوں اور جو موقع بھی میسر آتا تھا آپ اس کو ہاتھ سے نہ دیتے تھے.لالہ شرمپت رائے صاحب کے اس قول کی تصدیق آپ کے عمل سے ہم نے خود بھی مشاہدہ کی

Page 395

حیات احمد ۳۸۵ جلد اول حصہ سوم ہے.ایک مرتبہ لالہ شرمپت رائے صاحب اور دوسرے بعض ہندوؤں نے فونوگراف سننا چاہا.فونوگراف اوّل ہی اوّل قادیان میں حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے منگوایا تھا.یہ لوگ نواب صاحب سے براہِ راست تو درخواست کرنے کی جرات نہ کر سکتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر انہیں پورا اعتماد تھا کہ وہ منگوادیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور آپ نے اس تقریب کے لئے فورا ایک نظم لکھی جو آواز آرہی ہے یہ یہ فونو گراف ڈھونڈ و خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے ނ سے شروع ہوتی.اور ایک ریکارڈ میں پنڈت لیکھ رام کے متعلق پیشگوئی کی نظم :.عجب نوریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد بھروا دی.اور ان سب کو بلا کر یہی ریکارڈ سنائے گئے.میں نے اس واقعہ کا ذکر صرف لالہ شرمپت رائے صاحب کے اس قول کی تائید میں کیا ہے.ورنہ اس کے لئے ایک دوسرا مقام ہے اور ور تفصیل سے اسی جگہ ذکر ہو گا.غرض آپ اپنی اُن ایام کی شعر گوئی سے بجز اس کے اور کوئی مطلب نہ رکھتے تھے.یہ کلام عام طور پر فارسی میں ہوتا تھا.اور کبھی کبھی اردو کے اشعار بھی کہتے تھے مگر بہت ہی کم لیکن ان اشعار میں بھی آپ کا مقصد وہی امور ہوتے تھے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.اور کسی کسی شعر سے اس طبقہ اور گروہ کا بھی پتہ لگتا ہے جس میں آپ اس وقت رہتے تھے.مثلاً فرماتے ہیں.کوئی راضی ہو یا ناراض ہووے رضا مندی خدا کی مدعا کر اس شعر میں اُس کیفیت کو کس خوبی سے بیان کیا ہے جو اُس وقت لاحق حال تھی.نیز اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی رضا مندی کے حصول کے لئے آپ کسی کی ناراضی یا رضامندی کی پرواہ ہی نہیں کرتے تھے.اس کی تائید میں ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں.دلبر کی راہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے ہوشیار ساری دنیا اک باولا یہی ہے ا ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان میں ایک عجیب نور ہے محمدؐ کی کان میں ایک عجیب و غریب لعل ہے.

Page 396

حیات احمد ۳۸۶ جلد اول حصہ سوم اس عہد کے کلام کی جو یادداشتیں ملتی ہیں.ان سے ایک یہ امر بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اشعار ناقص چھوڑ دیئے گئے ہیں.کسی جگہ پہلا مصرعہ موزوں ہو گیا ہے.مگر دوسرا مصرعہ رہ گیا ہے.اور کہیں دوسرا مصرعہ لکھا ہے پہلا نہیں ہے اس سے آپ کی اس عادت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ جذبات کی موج جب جوش میں آتی اور اس حالت میں جو نکل جاتا اسے لکھ دیتے.اور پھر کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی کہ شاعروں کی طرح گھنٹوں مصرعہ کے لئے فکر کرتے رہیں اور جب تک وہ تیار نہ ہو وے قرار نہ آوے.آپ اس کے بعد اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے.کیا لکھ دیا ہے؟ کبھی تخلص کا استعمال کر لیتے تھے.اور کبھی نہیں.ان ایام میں آپ فرسخ تخلص کرتے تھے.قادیان میں مناظرات انہیں ایام میں آپ اپنے ملنے جلنے والے غیر مذہب کے لوگوں سے (خصوصیت سے لالہ شرمپت رائے اور ملا وامل صاحب ) مذہبی بات چیت برنگ مناظرہ بھی کرتے رہتے تھے.اور ان کے عقائد اور اصولوں کا اسلام کے عقائد اور اصولوں سے مقابلہ کرتے رہتے تھے.اور کبھی کبھی ان دوستانہ تبادلہ خیالات کو نظم کر دیا کرتے تھے.دیوان فرخ میں ” مناظرہ با ہندو اسی قسم کی دوستانہ محفلوں کی ایک شان اور جھلک ہے.یہ باتیں پبلک میں نہیں ہوتی تھیں بلکہ ایک چوبارہ کے اندر جہاں آپ عموماً رہا کرتے تھے اور صرف دو تین آدمی ہوا کرتے تھے.اس تبادلہ خیالات میں محبت و ہمدردی اور احقاق حق اور ابطال باطل کی شان جلوہ گر ہوتی تھی.اس قسم کی گفتگو ؤں کا نتیجہ اگر چہ اُن دونوں صاحبان میں سے کسی کے مسلمان ہونے کی صورت میں تو نہیں نکلا لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ اپنے قدیم عقائد میں آزاد خیال ہو کر آریہ سماج سے متعلق ہو گئے.اور بعض اوقات تو ان کے متعلق مسلمان ہو جانے کی افواہیں بھی مشہور ہوتی رہیں.چنانچہ ایک مرتبہ لالہ ملا وامل صاحب کے مسلمان ہو جانے کی خبر مشہور ہو گئی

Page 397

حیات احمد ۳۸۷ جلد اول حصہ سوم تھی جبکہ وہ دہلی حضرت صاحب کے ساتھ شریک برات ہو کر گئے ہیں.بلکہ یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ انہوں نے بھی وہاں شادی کر لی ہے.غرض یہ دوستانہ مجالس اور تبادلہ خیالات کی صحبتیں عجب شان رکھتی تھیں.اور آپ کی غرض و غایت سوائے اس کے کچھ نہ تھی کہ اسلام کا بول بالا ہو.اور جو لوگ اب تک اس نعمت سے محروم ہیں.وہ اسلام کی طرف آجا دیں خلاصہ یہ کہ ان حالات اور خیالات میں آپ زندگی کے یہ ایام گزار رہے تھے.اور اس طرح پر آپ کی طبیعت پر مجتہدانہ رنگ غالب آچکا تھا.آپ ہر مسئلہ اور ہر عقیدہ پر جو نظر کرتے تھے.وہ معاندانہ نہیں ہوتی تھی بلکہ اس میں پورے فکر و اجتہاد سے کام لے کر فراست مومنانہ و نور متقیانہ سے ایک رائے قائم کرتے تھے.جہاں تک اعمال کا تعلق ہوتا تھا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ کی پوری اتباع کرتے تھے.اور جہاں عقائد کی حقیقت اور اصلیت کا سوال آتا تھا.وہاں قرآن مجید کے دلائل آپ مقدم کرتے اور ان دلائل کو علوم صحیحہ کی روشنی میں پیش کرتے تھے.مذہبی غیرت کو کبھی اور کسی حال میں ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے سے مضائقہ فرماتے.البتہ اس میں کبھی مضائقہ نہ فرماتے تھے کہ باطل عقیدہ کی شناخت پورے طور پر ظاہر کر دی جاوے.مثلاً مشرکوں کی تردید جب مد نظر ہوتی تو فرماتے.خویشتن را مکش بترک حیا بخدا بنده زاده نیست خدا آنکه مخلوق است و هم فانی ہم حیف باشد گرش خدا خوانی* اس طرح پر آپ اس عقیدہ کے نقص کا اظہار فرماتے اور یہی مقصد ہوتا نہ کچھ اور.ترجمہ:.) حیا کو چھوڑتے ہوئے اپنے آپ کو مت مار خدا کی قسم بندہ کبھی بھی خدا نہیں بن سکتا.P) جو شخص مخلوق اور فانی ہے یہ کتنے افسوس کی بات ہے اگر تو اسے خدا سمجھے.

Page 398

حیات احمد ۳۸۸ جلد اول حصہ سوم نعمۃ الباری یا آلاء اللہ کی تصنیف انہی ایام میں آپ نے ارادہ فرمایا کہ ایک کتاب نِعْمَةُ الْبَارِی لکھوں.کبھی اپنی تحریروں یا نوٹوں میں اسے مثنوی افضال الہی بھی لکھتے ہیں.اسی کتاب کو بعثت کے بعد آپ نے آلاء اللہ کے نام سے لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا.ان ایام میں تو آپ اسے نظم میں لکھنا چاہتے تھے.بلکہ کچھ شعر نے لکھے بھی تھے.مگر بعثت کے بعد آپ اسے نثر میں لکھنے کا عزم کرتے تھے.اس میں ان فیوض اور برکات کا ذکر کرنا چاہتے تھے جو آپ کی ذات سے مخصوص تھیں.اوائل میں آپ نے فارسی نظم میں جب کچھ شعر کہے تھے.تو خدا تعالیٰ کی زبان سے افضال الہی کا تذکرہ فرمایا تھا کہ کس طرح انسان کی وہ پرورش فرماتا ہے.اور اس کو ہر قسم کی نعمتوں سے بہرہ ور کرتا ہے.یہ طریق آپ نے محبت الہی میں ترقی کرنے کے لئے اور عبادت الہی کے لئے شوق پیدا کرنے کے واسطے تجویز فرمایا تھا.اس لئے کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حسن یا احسان کو دیکھ کر اس سے محبت میں ترقی کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے حسن کے اظہار کے لئے آپ نے اس کی حمد و ثناء میں ترانے گائے ہیں.اور اس کے احسانات کے اظہار کے لئے یہ طریق اختیار کیا.چنانچہ آپ نے خدا تعالیٰ کی زبان چند نعماء کا ذکر کر کے لکھا تھا.کہ اگر آئی بمن اے کردہ لرده پرواز ندا آرم بحال خویش باز نباشد نزد جز ہر پختہ رائے جز احسان اہل احسان را جزائے آپ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں یہ کتاب لکھنا چاہتا تھا لیکن جب میں نے قلم لے کر لکھنا شروع کیا تو یکبارگی بارانِ رحمت کا نزول ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ ہر ایک قطرہ بارش اپنے ساتھ لا انتہا برکات اور فیوض لے کر آتا ہے.اس کو دیکھ کر اور اس احساس کے بعد ہی ترجمہ.اے مجھے چھوڑ کر پرواز کرنے والے اگر تو لوٹ کر میری طرف آئے تو میں تجھے اپنا حال سناؤں.(۴) ہر سمجھ دار کی یہی رائے ہوتی ہے کہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے.

Page 399

حیات احمد ۳۸۹ جلد اول حصہ سوم میں نے قلم رکھ دیا کہ میں خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں کو گن نہیں سکتا.جیسے ان بارش کے قطرات کا شمار اور احصاء میرے امکان سے باہر ہے.اسی طرح یہ امر میرے امکان سے خارج ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے انعامات کو جو مجھ پر ہوئے ہیں گن سکوں.ساری دنیا اور اس کا ایک ایک ذرہ اور نظامِ عالم کو میں نے اپنی ذات کے لئے دیکھا.اور ایک معرفت کا دفتر مجھ پر کھولا گیا.اور میں نے سمجھا کہ یہ بارش کا نزول محض اس لئے تھا کہ میں اس حقیقت کو پاؤں کہ میں افضال الہی اور انعام الہی کو شمار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.اور یہ راز منکشف ہو گیا.کہ اگر تم خدا کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو.تو ہرگز نہ کر سکو گے اور اس طرح پر یہ کتاب آلاءُ اللهِ یا نِعْمَةُ الْبَارِی یا افضالِ الہی ہمیشہ کے لئے معرض التوا میں چلی گئی.جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں حقیقت یہی ہے کہ اس کتاب کی تالیف کا ابتدائی عزم آپ نے انہیں ایام میں فرمایا تھا.اور اس کی داغ بیل کے نشانات مثنوی افضال البى يا نعمة الباری کے عنوانوں اور ناموں سے نظر آتی ہے.اور اس کے پڑھنے سے آپ کے مقام اور قیام فِى مَا أَقَامَ اللہ کا پتہ لگتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے اس کتاب کی تالیف کا معرض التوا میں چلا جانا یہ بعثت کے بعد کا واقعہ ہے.ایک اور بات قیام قادیان کے ان ایام میں لالہ ملا وامل اور لالہ شرمیت رائے کے متعلق ایک خصوصیت طریق تبلیغ میں آپ کی تھی.لالہ ملا وامل صاحب کو آپ کبھی کبھی کہانیاں سنایا کرتے تھے.جس کا ذکر میں اس کتاب کے صفحہ ۱۵۰ لغایت ۱۵۵ میں کر آیا ہوں.ان میں غرض وہی تبلیغ و ہدایت ہوتی تھی.لالہ شرمپت رائے صاحب کو عموماً اشعار سنایا کرتے تھے.دُر مکنون میں ان کیفیتوں کو آپ نے گفته آید در حدیث دیگراں ، کے رنگ میں بیان کیا ہے.مثلاً ” مناظرہ باہندو کوئی خیالی بات نہیں.بلکہ یہ ان ایام کی ایک صحبت کا تذکرہ ہے.جس میں آپ نے خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق اہلِ ہنود کے خیالات و معتقدات کا ایک خاکہ کھینچا ہے.اور اسی ضمن میں اس خدا کی طرف رہنمائی کی ہے.جو اسلام پیش کرتا ہے.

Page 400

حیات احمد ۳۹۰ جلد اول حصہ سوم ۱۸۶۸ء سے ۱۸۷۵ء تک کی زندگی پر ایک نظر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس چالیس سالہ زندگی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح آپ کی تربیت فرمائی.آپ کی زندگی کا یہ زمانہ جو ۱۸۶۸ء سے ۱۸۷۵ء تک کا ہے.بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.یوں تو پیدائش سے لے کر ہر حصہ زندگی اپنے اندر کچھ خصوصیتیں رکھتا ہے مگر یہ زمانہ جبکہ آپ سیالکوٹ سے آچکے تھے کچھ اور ہی رنگ اپنے اندر رکھتا ہے.آپ نے ارادہ تو یہ کیا تھا کہ قانونی امتحان پاس کر کے خدا کی اس مخلوق کی مدد کریں جو قانون کی ناواقفیت کی وجہ سے اپنے جائز حقوق اور مفاد سے محروم رہ جاتی ہے اور بہت سے ناکردہ گناہ شورہ پشت اور فتنہ پرداز لوگوں کے منصوبے کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن جب آپ نے اس پیشہ کی بدعنوانیوں کو ملاحظہ کیا اور ان پر غور کیا تو آپ نے اس سے کراہت کی اور توجہ نہ فرمائی.ظالم طبع لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے اس امتحان میں ناکام رہنے کی وجہ سے اپنی توجہ دوسری طرف منعطف کی.حالانکہ آپ کی زندگی کے ابتدائی واقعات بتاتے ہیں کہ آپ کی غایت و مقصود ہمیشہ مذہب رہا ہے.اور اسلام کو ادیان باطلہ پر غالب دکھلانے کے کسی موقع کو آپ نے ان ایام میں بھی ہاتھ سے نہیں دیا جب آپ ملازم تھے.اور اس کے لئے ان لوگوں کی شہادتیں ہیں جو احمدی نہیں بلکہ بعض ان میں سے مسلمان بھی نہیں ہیں.چنانچہ میں لالہ بھیم سین صاحب کے نام کا ایک خط اسی کتاب میں پر درج کر چکا ہوں.جو مجھے لالہ کنور سین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء ( حال حج جموں ہائی کورٹ نے دیا تھا.اور اس کے ساتھ ہی لکھا تھا کہ :- ” یہ مضمون بقول قبلہ والد ماجد مرزا صاحب نے ان ایام میں اپنے دوست ( میرے والد صاحب) کی خاطر لکھا تھا.جبکہ ہر دو صاحب سیالکوٹ میں مقیم تھے.اور علاوہ مشاغل قانونی وعلمی کے اخلاقی و روحانی مسائل پر بھی غور و بحث کیا کرتے تھے.“ اور اسی طرح مخدومی مولانا میر حسن صاحب نے بتایا ہے کہ پادریوں سے مباحثات ہوا کرتے تھے.اور انگریز پادری آپ کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے.آپ کا مقصد زندگی زندگی کے ہر شعبہ

Page 401

حیات احمد ۳۹۱ جلد اول حصہ سوم اور حصہ میں ہمیشہ لا تبدیل رہا ہے.البتہ سیالکوٹ سے واپس آ کر آپ نے عملاً فیصلہ کر لیا تھا کہ بقیہ زندگی خدمت دین میں بسر کریں گے.اور اسی طرف آپ نے توجہ کو تمام تر مصروف کر دیا.اگر چہ اسی حصہ میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب قبلہ مغفور نے آپ کو اپنی جائیداد کے مقدمات میں بھی الجھایا اور آپ نے ان کے ارشاد عالی کی تعمیل سے قطع سرتابی نہیں کی.مگر آپ دل سے اس زندگی کو پسند نہ فرماتے تھے.اور مقدمات کی پیروی میں اس امر کی پروانہ کرتے تھے کہ آیا اس کا نتیجہ ہمارے حق میں ہوگا یا خلاف بلکہ پیروی مقدمات میں یہ امر مد نظر رکھا کرتے تھے کہ حق حق ہو چنانچہ میں اسی کتاب میں لکھ آیا ہوں کہ نہ صرف خود دعا کرتے بلکہ دوسروں کو بھی دعا کی تاکید فرمایا کرتے تھے اور کسی مقدمہ کے ہار جانے کا آپ کو کوئی افسوس نہیں ہوتا تھا.جیسے کہ عام دنیا داروں کی حالت ہوتی ہے کہ بعض اوقات وہ مقدمات میں ناکامی کے صدمہ کو برداشت ہی نہیں کر سکتے.یہ بھی میں نے اس کتاب میں ایک واقعہ سے دکھایا ہے کہ کس طرح آپ چیف کورٹ میں ایک مقدمہ ہار کر خوش خوش واپس ہوئے تھے.۱۸۷۶ء سے ۱۸۷۹ء تک کے واقعات پر نظر یه سارا زمانہ دراصل آپ کی ایک قسم کی تربیت کا تھا.اور دنیا کے نشیب وفراز میں سے آپ گزر گئے.۱۸۷۶ء سے لے کر ۱۸۷۹ء تک کا زمانہ ایک اور رنگ رکھتا ہے اب یہ وقت تھا کہ آپ کو اشاعت اسلام کے لئے مجبوراً پبلک میں آنا پڑا.اور عیسائیوں، آریوں اور برہموؤں کے ان حملوں کے جواب کے لئے آپ نے قلم اٹھایا جو وہ اسلام پر بلا واسطہ یا بالواسطہ کرتے تھے یعنی کبھی تو وہ براہ راست اسلام کے عقائد پر حملہ کرتے اور کبھی اپنے عقائد کے دلائل اس رنگ میں پیش ا کرتے کہ مقابلہ اسلام کے عقائد کمزور اور بودے معلوم ہوں.اس مقصد کے لئے بعض اخبارات کو آپ نے خریدنا شروع کیا.کچھ تو اس لئے کہ مذاہب کی جنگ جو شروع ہوئی ہے.اس کے

Page 402

حیات احمد ۳۹۲ جلد اول حصہ سوم حالات سے واقفیت ہو.اور جہاں حمیت اور حمایت اسلام کا موقع آ جاوے وہاں اپنے قلم سے کام لیں.اس زمانہ میں ہم آپ کی وہ سرگرمیاں قلمی اور لسانی مناظرات کی دیکھتے ہیں جو میں اوپر دکھا آیا ہوں اور بہت ممکن ہے کہ کسی قدر آگے بھی لکھوں.ان مباحثات میں وہ قلمی ہیں یا کسانی آپ کی ایک نمایاں خصوصیت نظر آتی ہے.آپ معقولیت کے ساتھ بحث کرتے ہیں اور آپ دلائل اور براہین کو ایسے علمی طریق سے پیش کرتے ہیں کہ دوسرے کے لئے کوئی راستہ باقی نہ رہ جاوے.اس زمانہ کی تحریروں اور آپ کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کے بعد کی تحریروں کا رنگ بالکل جدا جدا نظر آتا ہے.ہاں ایک بات ہے جو ہمیشہ مشترک رہی ہے اور اسے آپ نے کبھی ترک نہیں کیا اور اس میں آپ تمام مناظرین اسلام سے منفرد ہیں.اور وہ یہ ہے کہ آپ اپنے دعوئی اور دلائل کی بنا قرآن کریم پر رکھتے ہیں.میں جب آپ کے علم کلام پر بحث کرنے کی توفیق پاؤں گا اس وقت اس حقیقت کو تفصیل سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں.وَاللهُ المُوَفِّق.یہاں مجھے صرف اس کا ضمنا ذکر واقعات زندگی کے ایک خاص حصہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کرنا پڑا ہے.دوسری بات جو نمایاں نظر آتی ہے وہ یہ کہ ان تمام مباحثات میں آپ کو کھلی کھلی کامیابی نصیب ہوئی ہے.اپنے اپنے موقع پر میں بیان کر چکا ہوں.آپ کے یہ مناظرے کسی معمولی شخص سے نہیں ہوئے.بلکہ ان لوگوں سے جو اپنے سلسلہ کے بانی یا اس کے لیڈر ممبر تھے.چنانچہ پنڈت دیانند سرستی.پنڈت شونرائن صاحب اگنی ہوتری کے ساتھ تو یہ مباحثات ہوئے.اور آریہ سماج کے دوسرے لیڈروں کے ساتھ بھی.آپ نے ان مباحثات میں ہمیشہ اسی امر کو مدنظر رکھا کہ حق کا بول بالا ہو محض ضد اور نفسانیت سے کبھی کسی مقابلہ کی کوشش نہیں کی.۱۸۷۵ء کا آخر اور ۱۸۷۶ء کا ایک حصہ غالباً پہلی ششماہی تک آپ نے ایک عظیم الشان روحانی مجاہدہ کیا ہے.جس کا ذکر خود حضرت

Page 403

حیات احمد ۳۹۳ جلد اول حصہ سوم ہی کے الفاظ میں پہلی جلد میں کر آیا ہوں اس مجاہدہ کے متعلق آپ کا خود اپنا بیان ہے کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھے خواب میں دکھائی دیا.اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنتِ خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہلِ بیت رسالت کو بجالاؤں.“ اس کشف سے آپ کے مقام کا پتہ با آسانی لگتا ہے مگر میں خود اس پر کوئی تنقید نہیں کرتا اور نہ یہ موقع ہے.مجھے واقعات اور حالات کے تسلسل میں یہ دکھانا ہے کہ چونکہ وہ وقت قریب آ رہا تھا جبکہ خدا تعالیٰ آپ کو ایک عظیم الشان امر کے لئے مامور کرنے والا تھا.اس لئے حالات نے دوسری طرف پلٹا کھایا.اگر چہ آپ پہلے ہی اعمال اسلامی کے پکے عامل تھے اور خدا تعالیٰ کی محبت اور عشق میں سرشار تھے.مگر یہ مجاہدہ صومی آپ کے سامنے آیا.اور اس مجاہدہ صومی کے بعد وہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا.جس نے آپ کی کتاب زندگی کا ایک بہت بڑا قیمتی ورق الٹ دیا.اور اس کے ساتھ ہی ایک شاندار باب شروع کر دیا.یہ ورق حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات کے حادثہ سے تبدیل ہوا.میں حضرت مرزا صاحب مرحوم و مغفور کی وفات کا تذکرہ پہلی جلد میں کر آیا ہوں.یہاں صرف اشارہ ہی کافی ہے.حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے قبل از وقت اس حادثہ کی خبر بھی دے دی تھی اور تسلی اور اطمینان بھی.حضرت مرزا صاحب کی وفات کے بعد آپ کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا.حضرت مرزا صاحب مرحوم و مغفور آپ کی مجاہدانہ اور زاہدانہ زندگی کو دیکھتے ہوئے اس امر کا خیال رکھتے تھے کہ آپ کی کوئی ضرورت ( جو بہت ہی محدود ہوا کرتی ) اٹکی نہ رہے اور بعض وسائل آمدنی جو حضرت مرزا صاحب کی ذات سے وابستہ تھے وہ بھی بند ہو رہے تھے مگر آپ کو کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں ہوئی.مجاہدہ صومی کے ساتھ یہ واقعہ رونما ہوگیا اور آپ گویا عملاً دنیا سے منقطع ہو گئے.مرزا غلام قادر مرحوم آپ کے بڑے بھائی کو آپ سے کسی قسم کا فرق نہ ہو سکتا تھا مگر وہ اپنے کاروبار دنیا میں ایسے منہمک تھے کہ وہ عمداً نہیں بلکہ حالات مصروفیت کے ماتحت گونہ غافل تھے.اور ادھر آپ کی عادت تھی کہ آپ کسی کو کچھ نہ کہتے تھے.ہر قسم کی تکلیف اور دکھ اپنی جان پر برداشت کرتے

Page 404

حیات احمد ۳۹۴ جلد اول حصہ سوم تھے.اگر چہ آپ کو قانون.شرعی اور اخلاقی عرفی حق حاصل تھا کہ آپ نصف جائیداد اپنے قبضہ میں کر لیتے اور تقسیم ہو جاتی مگر آپ نے کبھی اس طرف توجہ نہیں کی.اور اس لئے یہ زمانہ عسرت کا زمانہ تھا مگر خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت کا عہد بھی کھلے کھلے طور پر یہاں ہی سے شروع ہوتا ہے.غرض یہ عہد ایک عجیب عہد ابتلا اور عہدِ اصطفا ہے.دونوں باتیں ایک ہی وقت سے شروع ہوتی ہیں.آپ کی توجہ تمام تر اس طرف ہو گئی.اور جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے اسلام کی تائید میں مضامین کا ایک سلسلہ لامتناہی شروع ہو گیا.حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں ۱۸۷۶ء کا سال حیرت انگیز سال ہے اور یہ سال آپ کو زاویہ گمنامی اور گوشہء خلوت سے نکال کر باہر لے آیا.۱۸۷۷ ء و ۱۸۷۸ء پر اجمالی نظر یہ دوسال آپ کے بالکل قلمی جنگ میں گزرے ہیں.اور دونوں قسم کے مجاہدات آپ کے شامل حال رہے.راتوں کو ہم دیکھتے ہیں.آپ تہجد کی نماز میں صبح کر دیتے ہیں.اور دن کو آپ کا قلم مخالفین اسلام کے لئے وہ معرفت اور حقائق کے جو ہر دکھاتا ہے.کہ آپ کی نصرت اسلام کا ہر شخص معترف نظر آتا ہے اور دوسری طرف آپ کی قبولیت کا شہرہ قادیان کی سرزمین سے نکل کر ادھر ادھر پھیلنے لگتا ہے اور کچھ نہ کچھ لوگ آپ کی خدمت میں آنے لگتے ہیں.غرض ان دونوں سالوں میں آپ کی شہرت کیا بلحاظ ایک ناصر اسلام اور مؤید الدین ہونے کے پھیلنی شروع ہوتی ہے.اور کیا بلحاظ تقویٰ و طہارت خدا شناسی اور خدا نمائی کے ترقی کرتی ہے.بقیہ حاشیہ :.لیکن ہم کو قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ باعث اس شورا شوری کا نرا ضد اور تعصب ہی نہیں.بلکہ بسبب بے علمی اور نا آشنائی کو چہ تحقیق کے ایسے ایسے اوہام خام ان کے دلوں کو پکڑ رہے ہیں.اور وہ لوگ باعث کمزوری عقل اور نا طاقتی فہم کے ان اوہام کی خندق سے خود بخود باہر نکل نہیں سکتے جب تک ہم اٹھ کر ان کی دستگیری نہ کریں.اور یہی وجہ ہے کہ اب ان پر نقل مطابق اصل

Page 405

حیات احمد ۳۹۵ جلد اول حصہ سوم یادداشت لکھنے کا طریق آپ چونکہ سلطان القلم ہونے والے تھے.آپ نے جب تحریر کا کام شروع کیا.آپ کی عادت میں یہ امر داخل تھا کہ آپ جب کسی دشمن کا کوئی اعتراض پڑھتے تو فوراً اسے نوٹ کر لیتے.اور اس کے جواب کے متعلق بھی اگر کوئی خاص امر خاص طور پر ملحوظ خاطر ہوتا تو لکھ لیتے.اور یہ طریق آپ کا آخر وقت تک رہا.اسی طرح آپ اگر کسی کتاب کو پڑھتے یا اخبار کا مطالعہ کرتے اور کوئی امر اس میں ایسا ہوتا کہ کسی موقع پر اس کے ریفرنس کی ضرورت پیش آ سکتی ہے یا کسی مضمون میں اس کا اقتباس دینا ضروری ہے تو آپ اسے بھی نوٹ کر لیتے تھے.آپ کا یہ بھی بقیہ حاشیہ : - ہر طرف سے رحم ہونا شروع ہو گیا ہے.چنانچہ اس بارے میں گجرات سے بھی ایک معزز بھائی نے کہ جن کا شکریہ کرنا ہم پر لازم ہے.اس غمخواری میں ہم پر بھی سبقت کری.اور تھوڑے لفظوں میں ایسا با معنی اور مدلل جواب الجواب لکھا کہ گویا وہ پرانی مثل کہ کوزہ میں دریا ڈالدیا.انہی کے واسطے بنی تھی لیکن چونکہ بلحاظ عقول مخاطبین کے اور بھی تفصیل و تشریح کرنا قرین مصلحت ہے.اور اکثر احباب بھی ہمارے جواب کے منتظر ہیں.اس واسطے آج میں نے قلم اٹھایا تا اس بارہ میں استیفا کلام کروں.اور کامل وجوہات سے اخیر فیصلہ دے کر روز کا جھگڑا موقوف کروں.چنانچہ واسطے صفائی بیان کے پہلے ان دلائل کو بیان کرتا ہوں جن پر ہمارے اعتراض گزشتہ کی بنیاد ہے اور دعویٰ بے انت ہونے ارواح موجودہ کا باطل ہوتا ہے.اور بعد اس کے ہر ایک مجیب صاحب کے عجیب اقوال بیان کر کے دفع وساوس اور دفع اوہام ان کے کا کروں.اب جو وجوہات معدود ہونے ارواح اور پختہ ہونے ہمارے اعتراض کے ہیں گنتے جاؤ.میں ذیل میں بیان کرتا ہوں.(۱).اس بات سے کسی عاقل کو انکار نہیں ہو سکتا کہ خدا کو کل وہ ارواح معلوم ہیں جو آخر کار کسی دن مکت ہو جائیں گے کیونکہ اگر اس کو مکت ہونے والے ارواح معلوم نہیں تو عالم الغیب نہ رہا.اور اگر یہ حال ہے کہ معلوم تو تھے مگر مطابق علم اُس کے کے وہ سب ارواح معلومہ مکت نہ ہوئے تو

Page 406

حیات احمد ۳۹۶ جلد اول حصہ سوم طریق تھا کہ اگر کوئی اچھوتا خیال قرآن مجید کی تلاوت کے وقت یا کسی دوسرے وقت آپ کے قلب میں اترا تو آپ اس خیال سے کہ یہ یاد سے نہ اتر جائے.آپ یہ کوشش کرتے تھے کہ اسے کسی جگہ نوٹ کر لیں.غرض آپ کی زندگی میں یہ معمول تھا.یہ طریق نہ تھا کہ کسی مستقل کتاب کے لکھنے سے پہلے اس کے نوٹ لکھیں.بلکہ وہ قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ چھپا کرتی تھی.یادداشت نویسی کا ایک عام طریق تھا کہ جہاں کوئی بات ایسی معلوم ہوئی وہ بطور یادداشت کے لکھ لی.اس قسم کی یادداشتوں کو اوائل میں آپ فارسی میں لکھتے تھے.۱۸۷۳ء کی ایک یادداشت حسب ذیل ہے.بقیہ حاشیہ :.علم غیب اس کا جھوٹا نکلا.اور اگر مکت ہو گئے.تو مبارک ہو کہ ہمارا اور آپ کا فیصلہ ہو گیا.شاید اس جگہ کوئی یہ سوال کرے.جو ایسے ارواح بھی ہو سکتے ہیں جن کو خدا اپنے علم قدیم سے جانتا ہے جو کبھی مت نہیں ہوں گے.سو اول تو یہ خیال آریہ سماج کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ بموجب وید کے مکتی کا زمانہ کوئی خاص میعاد مقرر نہیں رکھتا جس کے بعد باقی ماندہ روحوں کے کبھی مکتی نہ ہو اور علاوہ اس کے شان ایزدی کے یہ بات ہرگز لائق نہیں جو قلندر کی طرح اس کے ہاتھ میں صرف بندر اور ریچھے رہ جائیں اور ہمیشہ کے واسطے صرف کتوں بلوں سے جہان آباد ہو اور نہ یہ لائق ہے جو مکت ہونے کو خواہ مخواہ بخوف ختم ہونے اپنی جائیداد کے مکت ہونے سے روک دے بس یہ پہلا ثبوت ہے.(۲).دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ارواح میں ہرگز بے انت ہونے کے لچھن نہیں پائے جاتے کیونکہ ہر عاقل جانتا ہے کہ جس کو بے انت مانا گیا ہے اس کو سرب بیا پک اور محیط مطلق بھی ماننا چاہیئے کیونکہ بے انت ہونا اور سرب بیا پک ہونا لازم وملزوم ہے کوئی چیز سرب بیا پک نہیں ہوسکتی جب تک بے انت نہ ہو.اور کوئی چیز بے انت نہیں ہو سکتی جب تک سرب بیا پک نہ ہو.جب کوئی چیز بعض جگہ پائی جائے اور بعض جگہ نہ پائی جائے.تو وہ چیز نہ بے انت ہے.اور نہ سرب بیا پک ہے اسی واسطے یہ دونوں نام خاصہ پروردگار کا ہے اور بے انت ہونا ہے اور سرب بیا پک ہونا اُسی

Page 407

حیات احمد ۳۹۷ جلد اول حصہ سوم یادداشت بسیار ضروری و ایس بیان در یں کتاب ضروری خواهد بود که شریعت مصطفوی از همه شرایع کامل و مکمل است و برائے اثبات این مطلب مثلاً اول حکمے بموجب توریت بیان خواهد شد.بعدہ بموجب انجیل بوده- بعده بموجب قرآن مجید تا مطالعه کننده را بعد نظر در احکام ثلاثه خود معلوم شود که حکم افضل و اعلیٰ از میں ہر سہ احکام کدام است فقط غلام احمد ۱۷/اکتوبر ۱۸۷۳ء بروز جمعہ قادیان.یہ ایک یادداشت ہی نہیں بلکہ آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی متعدد یادداشتیں خود میرے پاس موجود ہیں.جن میں سے بعض کو میں نے الحکم میں چھاپا بھی ہے.ان یادداشتوں کو پڑھ کر ایک بات کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کی فطرت میں اعلائے کلمتہ الاسلام کا جوش ودیعت کیا گیا تھا.بقیہ حاشیہ: - کی شان ہے اور اسی کی صفت ہے.(۳).تیسرا ثبوت یہ ہے جو بموجب ثبوت آریہ سماج کے جب براہ راتری آتی ہے تو سب ارواح آکاش پر چلی جاتی ہیں اور زمین خالی رہ جاتی ہے.اور جب ایشر سرشتی رچتا ہے تو تمام جیو زمین پر آجاتے ہیں اور آکاش خالی رہ جاتا ہے.اگر ارواح بے انت ہوتے تو دوسری جگہ آنے سے وہ پہلی جگہ کیوں خالی ہو جاتی.(۴).چوتھا ثبوت یہ ہے کہ جو چیز محدود کے اندر سما جاوے.وہ بھی محدود ہوتی ہے.اور ہمو جب اصول آریہ صاحبان کے سب ارواح بعد گزر نے براہہ راتری کے انواع و اقسام کے حیوانات ترجمہ: ایک ضروری یا داشت :.اس کتاب میں یہ بیان لازمی ہے کہ مصطفوی شریعت تمام شریعتوں سے زیادہ جامع اور مکمل ہے اور اس بیان کے ثبوت کے لئے سب سے پہلے تو ریت کا حکم بیان ہوگا اور اس کے بعد انجیل کا اور اس کے بعد قرآن مجید کا تاکہ مطالعہ کرنے والے کو ان تینوں احکام کے مطالعہ کے بعد خود معلوم ہو جائے کہ ان تینوں احکام میں سے افضل اور اعلیٰ کون سا حکم ہے.فقط غلام احمد ۱۷ اکتوبر ۱۸۷۳ء بروز جمعہ.قادیان

Page 408

حیات احمد ۳۹۸ جلد اول حصہ سوم آپ کی رات اگر دعاؤں میں اور عبادت میں گزرتی تھی.تو دن اسی غور و فکر میں گزرتا تھا کہ اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کر کے دکھایا جائے.اور اس مقصد کے لئے آپ دوسرے مذاہب کی کتابوں کو اور اسلام پر کئے گئے اعتراضات کو ہمیشہ پڑھتے رہتے تھے.نہ صرف پڑھتے رہتے بلکہ آپ نے ان کو جمع بھی کیا تھا.مگر افسوس ہے کہ وہ مجموعہ طاعون کے ایام میں جل گیا اور اکثر بڑے بڑے اعتراضات کے جوابات آپ کی تصانیف میں آگئے.یہ تحریک آپ کو بہت چھوٹی عمر سے ہوئی.چنانچہ خود آپ نے فرمایا :- میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضوں پر غور کرتا رہا ہوں.میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے.جو عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں.ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے.اللہ تعالی گواہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہم کس کو شہادت میں پیش کر سکتے ہیں.کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے.سولہ یا سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں بقیہ حاشیہ: - بن کر زمین پر جنم لیتے ہیں اور زمین محدود ہے.جس کا محیط ۶۴ ہزار میل سے زیادہ نہیں.پس جب ظرف محدود ہوا تو مظروف بھی محدود ہو گیا.اور یہی ثابت کرنا تھا.(۵).پانچواں ثبوت یہ ہے کہ بموجب اصول شاستر کے کل دورہ آمد ورفت ارواح کا پانچ ارب کے اندر اندر ہمیشہ پورا ہو جاتا ہے.اس سے زیادہ نہیں.اگر ارواح بے انت ہوتے تو مدت معتین میں اُن کا دورہ کس طرح پورا ہو سکتا.ایسا دعویٰ کرنا تو محض نادانی ہے.اس کے لئے مثال ہے.جیسے کوئی کہے کہ ایک بے انت فوج صرف ایک گھنٹہ کی مدت میں میرے سامنے سے آگے گزرگئی.سو ایسا آدمی یا تو دیوانہ ہے یا سخت احمق ہے.کیونکہ اگر وہ فوج بے انت ہوتی تو کیونکر ایک مدت معین تک اُس کے سلسلہ کا انقطاع ہو جاتا.(۲).چھٹا ثبوت اس سوال کا جواب ہے کہ آیا پر میشر نے سب روحوں کو گنا ہوا ہے یا نہیں.اور ان سب کی اس کو کل میزان معلوم ہے یا نہیں سو ظاہر ہے کہ ہر ایک دانا باستثنابا وانر این سنگھ صاحب کے یہی

Page 409

حیات احمد ۳۹۹ جلد اول حصہ سوم پڑھتا رہا ہوں.مگر ایک طرفہ العین کے لئے بھی اُن اعتراضوں نے میرے دل کو مذبذب یا متاثر نہیں کیا.اور یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے.میں جوں جوں اُن کے اعتراضوں کو پڑھتا جاتا تھا.اسی قدر ان اعتراضوں کی ذلت میرے دل میں سماتی جاتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور محبت سے دل عطر کے شیشہ کی طرح نظر آتا.میں نے یہ بھی غور کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس پاک فعل پر یا قرآن شریف کی جس آیت پر مخالفوں نے اعتراض کیا ہے.وہاں ہی حقائق اور حکم کا ایک خزانہ نظر آیا ہے.جو کہ ان بد باطن اور خبیث طینت مخالفوں کو عیب نظر آیا ہے.“ الحکم.مورخہ ۳۰ را پریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ کالم ۱ تا ۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس بیان سے ایک طرف آپ کی غورگن طبیعت اور پھر پاک فطرت کا پتہ لگتا ہے.دوسری طرف جو بات اس سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ 66 بقیہ حاشیہ: - جواب دے گا کہ کوئی روح خدا سے بھولا ہوا نہیں اور سب کی تعداد خدا کو معلوم ہے.پس جبکہ خدا اپنے سچے علم سے جانتا ہے جو کل تعدا دروحوں کی دنیا میں اتنی ہے تو ارواح بے انت نہ رہیں.اور خود ظاہر ہے کہ جبکہ سلاطین اپنے اپنے ممالک کی مردم شماری کر لیتے ہیں.تو کیا خدا کو اپنے موجودات کی روح شماری نہیں آتی اور نیز وہ خدا کا ہے کا خدا ہے جس کی نظر سے کوئی روح غائب ہے.(۷).ساتواں ثبوت یہ ہے کہ آیا جتنے روح موجود ہیں وہ سب کے سب مکتی کے شرائط بجالانے سے مکتی پاسکتے ہیں یا نہیں.اگر پاسکتے ہیں تو فیصلہ ہوا.اور اگر سب سادہن مکتی کے پورے کر کے بھی مکتی نہیں پاسکتے تو پر میشر دیا لو اور نیا کاری نہ رہا.(۸).آٹھواں ثبوت یہ ہے کہ آیا پر میشور اس بات پر قادر ہے یا نہیں کہ سب ارواح کو مکتی دے دے.اگر قادر نہیں تو سرب شکتیمان نہ رہا.اور اگر قادر ہے.تو سب کی مکتی ہو گئی.اور کام تمام ہوا.بعضےصاحبزادے جو بقول شخصے ” لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل“ یوں ہی دوکتا ہیں پڑھ کر قابل

Page 410

حیات احمد ۴۰۰ جلد اول حصہ سوم نے آپ کو دقبال گش فطرت عطا کی تھی.اور چونکہ آپ دنیا میں مسیح موعود کے نام سے مبعوث ہونے والے تھے.اسی لئے بَدْوِ شَبَاب کے ساتھ ہی عیسائی مذہب کے حملوں سے واقف ہو چکے تھے.اور چونکہ یہ اس زمانہ کی بات ہے.جبکہ مرزا سلطان احمد صاحب آپ کے گھر میں پیدا ہوئے.اس لئے مرزا سلطان احمد صاحب کی زندگی کے ابتدائی زمانہ میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ بڑے جوش اور جرات سے عیسائی مذہب کے خلاف قلم اٹھا رہے ہیں.خود میرزا سلطان احمد صاحب کا اپنا بیان ہے کہ:- عیسائی مذہب کے خلاف حضرت کو اس قدر جوش تھا کہ اگر ساری دنیا کا جوش ایک پلڑے میں اور حضرت کا جوش ایک پلڑے میں ہو تو آپ کا پلڑا بھاری ہوگا.“ یہ بھی اسی فطرت کو ثابت کرتا ہے کہ آپ کسر صلیب کے لئے مامور ہونے والے تھے.غرض آپ کے روز وشب کی یہی کیفیت تھی کہ راتوں کو خدا کے حضور گریہ وزاری اور دن کو جہاد قلم بقیہ حاشیہ:- بن بیٹھے ہیں.وہ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ ہرامر پر خدا قادر نہیں ہے.جیسے وہ اپنی نظیر پیدا نہیں کر سکتا.اپنے آپ کو ہلاک نہیں کر سکتا.ان خوش فہموں پر واضح رہے.جو یہ مثال اس موقع سے کچھ تعلق نہیں رکھتی.بلکہ اصل مسئلہ یوں ہے کہ جو افعال خدا کی صفات قدیمہ کے برخلاف ہیں.اور اس کی شان بلند کے خلل انداز ہیں.ایسے افعال خدا ہر گز نہیں کرتا.اور باقی سب افعال پر قادر ہے.مثلاً خدا اپنے آپ کو ہلاک نہیں کرسکتا.کیونکہ وہ زندہ جاوداں ہے.اور حَيٍّ لَا يَمُوت اس کی صفت قدیمی ہے.اگر خود کشی ممکن ہو.وہ صفت قدیمی باطل ہو جائے گی.اسی طرح وہ کوئی اپنی مثل پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ واحد لا شریک ہونا اُس کی صفت قدیمی ہے.اور اپنا ہمتا پیدا کرنا اس صفت کے برخلاف ہے.اسی طرح وہ اپنے موجودات سے بے خبر نہیں رہ سکتا.کیونکہ عالم الغیب ہونا اس کی صفت قدیمی ہے.اور بے علم ہونا اس کے برخلاف ہے.اورسوا ان حالات کے جو اس کی صفات قدیمہ کے لائق نہیں ہیں اور سب امور میں خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے.پس جیسے خدا اس بات پر قادر ہے کہ سب حیووں کو وقت پرکو آنے کے مار دیتا ہے.ویسا ہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ سب حیووں کو مکتی دیدے.بعض حضرات نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ دفعہ ے اور ۸

Page 411

حیات احمد ۴۰۱ جلد اول حصہ سوم میں مصروف رہتے تھے.جائیداد اور زمینداری کے معاملات سے آپ کو کوئی تعلق نہ تھا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب قبلہ کی وفات کے بعد اگر چہ آپ کو حق حاصل تھا کہ جائیداد کو تقسیم کر لیتے.اور اپنی حسرت کے ایام کو فارغ البالی سے تبدیل کر لیتے مگر آپ نے اس کی قطعا پر واہ نہ کی اور جائیداد کا انتظام بدستور جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے ہاتھ میں رہا.اور کبھی آپ نے دریافت نہ کیا کہ کیا آمدنی ہوتی ہے.اور کہاں خرچ ہوتی ہے.ہر فصل پر جب مالیہ وصول ہوتا تو اس وقت کچھ نہ کچھ آپ کو نقدی کی صورت میں مل جا تا مگر وہ بہت ہی قلیل ہوتا.اور جو کچھ بھی آپ کے پاس آتا اس کو اخبارات کی قیمت اور ڈاک کے اخراجات اور بعض دوسرے لوگوں کی مدد میں خرچ کر دیتے.بہت ہی کم آپ کی ذات پر خرچ ہوتا تھا.انہی ایام میں جیسا کہ میں جلد اول کے صفحہ ہے، میں بیان کر چکا ہوں.آپ نے روزہ کا مجاہدہ شروع کیا.جو ایک رؤیا کی بناء پر تھا.جس میں ایک معمر بزرگ نے آپ کو کہا تھا.کہ و کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنتِ خاندانِ نبوت ہے“ بقیہ حاشیہ : کی دلیلوں کی فرضی بات پر بنیاد ہے.یعنی اگر یہ ہوگا تو یہ لازم آوے گا.پس ہم کو ان صاحبوں پر بڑا افسوس ہے.کیا اُن کو مطلق سمجھ ہی نہیں پر یہ بھی کیونکر کہیں کہ سمجھ نہیں تو دنیا کی اور تندہی کس طرح چلاتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں تعصب بھی عجب ظلمات ہے ورنہ ظاہر ہے کہ ان دلائل کی فرض محال پر بنیاد نہیں ہے.بلکہ فرض ممکن الوقوع پر مبنی ہیں جو اثبات مطالب کے واسطے ایک عمدہ وسیلہ ہے.صاحبو آپ لوگوں پر واضح رہے کہ دنیا کے تمام علوم وفنون صرف تین وسائل سے ایجاد ہوئے ہیں.ایک فرض جس پر باعث نا واقفی کے آپ نے اعتراض کیا.دوسرا خاصیت.تیسرا نسبت.یہ تینوں صفات مفتاح العلوم کہلاتے ہیں.کسی علم اور صنعت کو سوچ کر دیکھو.آلہ ایجاد اُس کے کا ان تینوں میں سے کوئی ایک ہوگا.اب ہم اس کلام کو یہیں چھوڑ کر دوسرے دلائل لکھتے ہیں..موجودہ ایڈیشن کا صفحہ ۱۲۱ تا ۱۲۴

Page 412

حیات احمد ۴۰۲ جلد اول حصہ سوم آپ کے اس مجاہدہ صومی کی کیفیت خود حضرت اقدس ہی کے الفاظ میں جلد اول میں لکھ آیا ہوں صرف واقعات کے تسلسل میں اس کا ذکر آیا ہے:.یہ مجاہدات روحانی اور دوسرے مجاہدات قلمی آپ کو کسی امر عظیم کے لئے تیار کر رہے تھے.جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ نظر آتا ہے کہ بعثت سے قبل آپ غار حرا میں جا کر عبادت الہی میں مصروف ہوتے تھے اسی طرح حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے یہ ایام وہی رنگ اور شان اپنے اندر رکھتے ہیں.دراصل سب سے بڑا مجاہدہ آپ کا تائید دین و قوم کے لئے قلم اٹھانا تھا.چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے آپ سے دریافت کیا کہ مجھے کوئی مجاہدہ بتایا جاوے.تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ عیسائیوں کے رڈ میں ایک کتاب لکھو، دوسرے وقت میں آپ نے آریوں کی تردید میں کتاب لکھنے کا ارشاد فرمایا.بقیہ حاشیہ: - (۹).نواں ثبوت.جس قدر ارواح موجود ہیں.وہ پر میشر کے پیدا کئے ہوئے ہیں تو اب بھی وہ پیدا کر سکتا ہے اگر نہیں تو وہ کا ہے کا پر میشر ہے کہ جس نے نہ اوّل کچھ پیدا کیا اور نہ اب پیدا کرنے کی اس کو طاقت ہے اور علاوہ اس کے ارواح غیر مخلوق ہونے میں ایک اور بڑی قباحت ہے.اور وہ یہ ہے کہ جب ارواح پر میشر کی مخلوق ہی نہیں ہیں تو پر میشر ان پر محیط نہیں ہوسکتا.احاطہ صرف بوجہ رابطہ خالقیت اور مخلوقیت کے تھا.سو وہ رابطہ بموجب اصول متبرک آپ کے پرمیشر اور روحوں میں ایک ذرہ بھی نہیں.پس احاطہ نہ ہو سکا.اور جب احاطہ نہ ہوا تو حجاب پیدا ہو گیا اور جب حجاب پیدا ہوا تو صفت غیب دانی کی نابود ہوئی.اور جب پر میشر میں صفت عِلمُ الْغَیبی کی نہ رہی تو انتظام رزاقی اور جزا سزا کا سب درہم برہم ہو گیا.غرض پر میشر ہی ہاتھ سے گیا.(۱۰).دسواں ثبوت.یہ ہے کہ اگر روح انادی ہیں اور ہمیشہ بعلت تناسخ جنم لیتے ہیں.تو چاہئے که تعداد پیدائش کا تعداد مُردوں سے کبھی زیادہ نہ ہو.اور یہ صریح باطل ہے کیونکہ بموجب اُن نسخوں کے جن میں طبی کتابوں میں کرم بنانے کی تجویز لکھی ہے.ایکدن میں پچاس ارب کرم

Page 413

حیات احمد ۴۰۳ جلد اول حصہ سوم یہ واقعہ بتا تا ہے کہ حضرت کی نظر میں اس زمانہ کے لئے سب سے بڑا مجاہدہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قلمی جہاد تھا اور آپ اس میں مصروف ہو گئے.صحبت درویشاں کا شوق میں نے حیات النبی ﷺ میں پہلے بھی بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی بعثت سے پہلے بعض ان لوگوں کی صحبت و ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے جو اہل اللہ کہلاتے تھے.چنانچہ میاں شرف الدین صاحب سم والے اور حضرت مولوی سید عبد اللہ صاحب غزنوی کی ملاقات کے لئے آپ کا تشریف لے جانا ثابت ہے.کبھی کبھی بعض لوگ آپ کی خدمت میں بھی آ جایا کرتے تھے.مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی جھنگلاں نے میرے پاس بیان کیا کہ بقیہ حاشیہ: - بن سکتے ہیں.اب کوئی سوامی جی صاحب سے پوچھے کہ حضرت اتنے جانور کہاں سے آگئے.اس ساعت واحد میں اتنے جانوروں کی موت ثابت کرنی چاہئے.اور جمع خرچ پورا کر کے دکھلانا چاہئے.ورنہ یہ پہاڑ عدم ثبوت کا آپ کی گردن پر رہے گا.اور واضح رہے کہ یہ خود خلاف قیاس ہے کہ جب انسان به تجویز مذکورہ رکرم بنادے.تو اسی وقت دوسرے کروڑوں جانوروں کو موت آجائے.اور پر میشر بھی اسی وقت تناسخ کی سزا دینے لگے.اب ہم اقوال مجیب صاحبوں کے لکھ کر ان کے وساوس رفع کرتے ہیں.لیکن اول گورداسپورہ کے آریہ صاحبوں کا ہم پر حق شفعہ ہے.سو پہلے ہم انہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.قولھم.سوامی جی نے جیووں کے لا انتہائی کو كَمَا يَنْبَغِی ثابت کیا ہے.اقول.اجی حضرت یہ کیا باعث ہوا.جو اُس كَمَا يَنبَغِی ثبوت میں سے آپ نے اپنے جواب میں کچھ بھی درج نہ کیا.اُن عمدہ دلائل سے ایک دلیل تو بطور نمونہ لکھی ہوتی.پر شاید وہ ثبوت آپ کی رائے میں قابل تحریر نہ تھا جو ترک کر دیا.موجودہ نام حیات احمد.یہ تبدیلی مکرم ومحترم عرفانی صاحب نے خود ابتدائی چند جلدوں کے بعد کر دی تھی.(ناشر)

Page 414

حیات احمد ۴۰۴ جلد اول حصہ سوم ایک شخص کے شاہ نام ساکن لیل (متصل دھار یوال ) حضرت کے پاس آتے تھے.اور وہ آپ ہی کے پاس ٹھہرتے تھے.ایک مرتبہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت نے ان کو پوچھا کہ آپ کے وضو کے لئے گرم پانی لاؤں اور یہ کہہ کر آپ گرم پانی لے آئے.اسی طرح دوسری ضروریات اور آسائش و آرام کے امور کے متعلق بھی پورا انصرام فرماتے تھے.یہ سب کچھ اکرام ضیف اور محبت درویشاں کا نتیجہ تھا.اسی طرح مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ایک شخص کوڈے شاہ جولنگڑا تھا.آپ کے پاس آ کر رہا.اور اس نے کہا کہ گھوڑی ہو تو میں جاؤں.حضرت نے اس کے لئے ایک گھوڑی خریدی اور اس کو سوار کر کے بھیج دیا.اور گھوڑی اس کو دے دی.عام طور پر آپ ہر ایسے شخص سے محبت کرتے تھے جس میں کچھ بھی آثار للہیت پائے جاتے بقیه حاشیه: - قولھم.ہم از روئے بچے مذہب اپنے کے خالق اور اس کی مخلوق کو انادی اور لا انتہا کہتے ہیں.اقول.حضرت سلامت ہمارا سوال تو آپ سب مانتے جانتے ہیں.تو پھر اس کی دلیل کیا ہوئی.بھلا جس حالت میں آپ خود اقرار کرتے ہیں جو ارواح مخلوق ہیں.اور خدا ان کا خلاق ہے تو اب صفت خالقیت کی خدا سے کیوں جاتی رہی.خدا تھک گیا یا پیدا کرنے کی عادت بھول گئی.ہر ایک عاقل جانتا ہے جب ارواح مخلوق ہیں تو اب بھی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ اب بھی وہی خدا ہے جس نے پہلے اُن کو پیدا کیا تھا مگر شاید آریہ صاحبوں کا یہ اعتقاد ہو کہ وہ مادہ سب خرچ ہو گیا.جس سے خدا نے روح پیدا کئے تھے.قولهم سوامی جی روحوں کی لا انتہائی ثابت کرتے ہیں.اقول - واہ حضرت چراغ کے نیچے اندھیرا.آپ لوگ تو آریہ سماج کے بڑے بڑے ممبر ہیں پھر تعجب ہے کہ سوامی جی کے اصول کی اب تک آپ کو خبر نہیں.حضرت وہ تو ہمارے اصول ثابت شدہ کو مان گئے.اور ان بیچاروں نے صاف کہہ دیا کہ ارواح لا انتہا نہیں ہیں بلکہ معدود اور محدود ہیں اور ایک دن سب مکت ہو جاویں گے.چنانچہ ہم ان کے اقرار پر خود آریہ سماج کے ممبروں کو گواہ رکھتے ہیں.اور سوامی جی بھی اب تک بقید حیات ہیں.پھر ہم کو کمال افسوس ہے کہ آپ ان کے نائب ہو کر اب تک مرغی کی ایک ٹانگ بتائے

Page 415

حیات احمد ۴۰۵ جلد اول حصہ سوم تھے.انہیں ایام کی آپ کی ایک نظم بھی ہے.جس سے آپ کی محبت درویشاں کا پتہ ملتا ہے.اس کا عنوان آپ نے رکھا ہے.فرخ در صحبت درویشاں میں یہ بھی پہلی جلد میں بیان کر آیا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا تخلص ابتداء فرخ فرمایا کرتے تھے.اس عنوان کے تحت میں آپ نے جو چند بیت لکھے ہیں.وہ یقیناً قارئین بقیہ حاشیہ:- جاتے ہیں.آپ کو ان کے مخالف رائے ظاہر کرنا مناسب نہ تھا.کیونکہ آپ تو انہی کے زگه بردار ہیں اور فضلہ خوار ہیں اگر آپ ان کی پیروی نہیں کرتے تو پھر ان کے خلیفہ جی کیسے بن گئے.قولهم سب جی انادی ہیں.ان کا کوئی ابتدا نہیں.اقول.حضرت وہ زبان اور منہ کہاں گیا جس سے ابھی آپ نے فرمایا تھا.جو ارواح مخلوق ہیں اور خدا ان کا خالق ہے.یہ آپ کا عجب حافظہ ہے کہ آپ کو ابتدا کلام کا انتہا کلام کے وقت یاد نہیں رہتا.جناب من با قرار آپ کے ارواح مخلوق ہوئے.تو پھر مخلوق ہو کر مثل اپنے خالق کے قدیم کس طرح بن گئے مخلوق تو ہر گز قدیم نہیں بن سکتا.مخلوق معنے پیدا شدہ اور پیدا شدہ معنے حادث بھلا کہاں قدیم اور کہاں حادث مخلوق ہونا تو حدوث زمانی پر صریح دلالت کرتا ہے.اور اپنے خالق کے وجود کا مخلوق کے وجود پر مقدم ہونا ہر عاقل پر روشن ہے بجز اس شخص کے کہ نرانقش پھولانی ہو.شاید بعض کے دل کو یہ وہم پکڑتا ہو گا کہ جب پیدا کرنے والا انادی ہے.تو پیدائش اس کی بھی انادی ہوئی.سو یہ ان کی الٹی سمجھ ہے.کیونکہ جو پیدا کرنے کی قدرت ہے وہ انادی ہے.پیدا کیا ہوا کا رج تو انا دی نہیں.کارج تو فعل ہے اور فعل کسی وقت سے ضرور مقید ہو گا.یہ عجیب معاملہ ہے.جو پہلے روحوں کو آپ ہی پیدا شدہ کہنا.اور پھر یہ دعوی کرنا جو روح کسی وقت میں پیدا نہیں ہوئی اور پیدا بھی ہو گئی.حضرت من ! یہ عجائب منطق آپ کسی ملک سے لائے جس کی ارسطو بیچارے کو بھی خبر نہ تھی.اب تک تو تمام دنیا یہ جانتی تھی کہ دو نقیضوں کا جمع ہونا وقت واحد میں محال ہے.اب آپ

Page 416

حیات احمد ۴۰۶ جلد اول حصہ سوم کی دلچسپی کا موجب ہوں گے.گر ترا رحم آں یگاں بکشد دولتت سوئے شاں عناں بکشد زیں جماعت اگر جدا رفتے در نخستین قدم ز پا رفتے وائے آں دور ماندہ زمیں بستاں باز مانده بدشت بر دزداں وائے آں بد نصیب و بے دولت که ندید است این چنیں صحبت گر درین راه بر شتافته آنچه زو یافتم نیافتے بست نرمی سر شمائل پاک خاک شو پیش از اں کہ گردی خاک یہ شوق اور جوش آپ کو كُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ پر عمل کرنے کے لئے تھا.خلاف شرع حرکات اور بقیہ حاشیہ:- کے بیان سے یہ ایک نیا عقدہ حل ہوا.جو آپ نے نقیضوں کو بھی جمع کر ڈالا اور ہم کو اس سپیچ میں ایک اور بات ہاتھ لگی.اور وہ یہ ہے کہ جبکہ باقرار آریہ صاحبوں کے قدرت پیدا کرنے کی پر میشر میں انادی ہے.اور دوسری طرف اُن کا یہ بھی اقرار موجود ہے کہ جو چیز انا دی ہو اس کا انت بھی نہ ہوگا.پس اُن کا یہ قول کہ اب خدا کو روحوں کے پیدا کرنے کی طاقت نہیں اس قول کے مساوی ہوگا کہ قدرت پر میشر کی انادی نہیں ہے.حالانکہ پہلے یہ اقرار کیا تھا کہ انادی ہے.سبحان اللہ ہمارے مجیب صاحبوں کی کیا عمدہ تقریر ہے کہ جس کی نفی مستلزم اثبات اور اثبات مستلزم نفی ہے.شائد یہ وہ ہی منطق ہے کہ جس کی تحصیل کے واسطے باوا نرائن سنگھ صاحب نے ہم کو ہدایت کری تھی.سو ہم ایسی منطق کو دور سے سلام کرتے ہیں.یہ آریہ صاحبوں کو ہی ترجمہ: اگر تجھے واحد خدا کی رحمت اپنی طرف کھینچے اور تیری قسمت اس کی طرف متوجہ ہو (۴) اگر تو ایسی جماعت سے جدا ہو جائے تو تیرا پہلا قدم ہی پھسل جائے گا (۳) افسوس ان لوگوں پر جو اس باغ سے دور ہیں اور دیران صحرا میں بھٹک رہے ہیں افسوس اس بد قسمت تہی دست پر کہ جس نے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار نہیں کی ) اگر وہ اس راہ کو عقل سے ڈھونڈتے تو جو کچھ میں نے حاصل کیا ہے وہ حاصل نہ کر سکتے (۴) نرمی خدا کی صفات کا سر چشمہ ہے اس لئے قبل اس کے کہ تو خاک ہو جائے خاکساری اختیار کر.

Page 417

حیات احمد ۴۰۷ جلد اول حصہ سوم غیر مسنون اوراد و وظائف سے آپ کو نفرت تھی.اور ایسے لوگوں کو آپ تک رسائی نہ ہوتی تھی بلکہ بعض اوقات ان لوگوں کو خطرناک سمجھ کر نکلوا دیا کرتے.جیسا کہ ایک ہندو سادھو کو قادیان سے نکلوانے کا میں نے لکھا ہے :- طالبان حق کی خدمت کا جوش ان ایام میں بھی بعض لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو جایا کرتے تھے.اس لئے کہ آپ کی خلوت نشینی اور گوشہ گزینی اور عبادت کا شہرہ ارد گرد پھیل رہا تھا.ایسی حالت میں اگر کوئی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ نہایت محبت اور اخلاص سے اس کی مہمانداری کرتے اور مناسب موقعہ نصیحت و تبلیغ فرماتے.عام طور پر اس وقت آپ کا معمول یہ تھا کہ ہر ایسے شخص کو بقیہ حاشیہ: - مبارک رہے.اب تمہ اس تقریر کا کہ کچھ باقی رہ گیا تھا.بیان کرتا ہوں.واضح ہو کہ اگر چہ خدا میں قدرت پیدا کرنے کی ہمیشہ سے موجود ہے.مگر اس قدرت کا حیز فعل میں لانا انادی نہیں ہے.کیونکہ فعل قدرت کے بعد ہوتا ہے.اور انادی چیزوں میں فعل بعد متصور نہیں.اور علاوہ اس کے اگر چہ طاقت ایجاد کی ذات باری میں ایک قدیمی صفت ہے.پھر ہمیشہ پیدا کرنا اُس پر خواہ مخواہ فرض نہیں تھا.اور نہ آرزو کسی برہان منطقی کی قدرت مستلزم آفرنیش ہے اور خود یہ بات أجلسی بدیہات ہے کہ پر میشر اُس وقت پیدا کرتا ہے کہ جب اس کی ارادت اور خواہش ہو.یہ نہیں کہ پیدا کرنا اس کی ذات سے بے اختیار لازم وملزوم ہے.بلکہ ظہور فعل کا اُس کی مرضی پر موقوف ہے جب چاہے کرے اور جب چاہے نہ کرے.بہر حال صفت کو صانع سے تأخر ہے.توانادی ہونا کہاں ثابت ہے.اور علاوہ اس کے جیسا وہ پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے ویسا ہی پھر فنا اور نابود کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے.غرض وجود اور فنا آدمی اور سب حیوانات اور کیڑے مکوڑوں کا ہر ایک وقت میں اس کے اختیار میں ہے اُس پر لازم.اور یہی تو اُس کی ہستی پر دلیل ہے.لیکن اگر سب چیزیں انادی ہیں اور کوئی ان کا خالق نہیں تو پھر خدا کی شناخت پر کیا دلیل رہی.کیونکہ سب جانتے ہیں جو خدا قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے.اور وسیلہ شناخت صانع کا صرف

Page 418

حیات احمد ۴۰۸ جلد اول حصہ سوم کثرت سے درود شریف پڑھنے کا وظیفہ بتایا کرتے تھے اور خود بھی کثرت سے درود شریف پڑھتے تھے جب بھی کوئی شخص آپ کی خدمت میں آتا تو آپ اس کی خدمت و تواضع میں اپنی مقدرت کے موافق کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتے تھے.اس وقت آپ کے وسائل آمدنی محدود اور خاندان میں بوجہ اپنی غزلت پسندی اور خلوت نشینی کے مسنتر مشہور تھے.اس لئے ایسی حالت میں جو کچھ آپ کے پاس ہوتا.وہ ان طالبانِ حق کے لئے پیش کر دیتے تھے اور اس میں اپنی ضروریات اور حاجات کا قطعاً خیال نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کے مد نظر وارد ین و صادرین کی خدمت اور آسائش ہوتا تھا.اور ان کی خدمت کے لئے آپ انتہائی عملی انکساری کے مراتب سے بمسرت و حلاوت گزر جاتے تھے.وضو کے لئے پانی لا دینایا اور اسی قسم کی خدمات سے آپ کبھی مضائقہ نہ فرماتے.جیسا کہ ابھی اوپر میں ذکر کر چکا ہوں.بقیہ حاشیہ: - ملاحظہ مصنوعات ہے.اور نیز یہ بات بھی کوئی با سمجھ آدمی یقین کرے گا جو پر میشر میں پہلے تو قوت پیدا کرنے کی تھی مگر اب نہیں.یا وہ قوت اسی قدر تھی جس سے پہلے چند ارواح پیدا ہو چکے اس سے زیادہ نہیں.قولھم.جو چیز غیر معدود ہے.اس کی کمی بیشی کیسے دریافت ہو سکتی ہے.اقول.اے حضرات ہم نے تو دس دلیلوں سے ثابت کر دیا ہے کہ ارواح غیر معدود نہیں ہیں.بلکہ معدود اور محدود ہیں.پس ضرور کم کرنے سے کم ہوتے جائیں گے.پھر معلوم نہیں جو آپ کس عالم میں رہتے ہیں جو اب تک کچھ خبر ہی نہیں.ذرا ہمارے دلائل کا ملا حظہ فرمائیے.اور اپنے ڈانواں ڈول دل کی تسلی کیجئے.قولهم نیستی سے ہستی ہونا کوئی عقلمند آدمی نہیں مانے گا.اقول.جب کوئی عقلمند اس بات کو مان لے گا جو خدا قادر مطلق ہے.تو پھر ہرگز اس کی قدرت کو اپنی عقل ناقص کے ساتھ موازنہ نہیں کرے گا.اور خدائے غیر محدود کی صفات کسی حد میں محدود نہیں جانے گا.اور نیز عاقل جب دیکھے گا جو خدا بغیر حاجت علت فاعلی اور مادی کے خود بخود موجود

Page 419

حیات احمد ۴۰۹ جلد اول حصہ سوم آپ کی فطرت میں یہ جوش اور تڑپ تھی کہ لوگ معرفتِ الہی سے بہرہ اندوز ہوں.اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندہ میں جو رشتہ ہے اس کو مضبوط کریں.چونکہ یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع اور محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے عام طور پر آپ کثرت سے درود شریف پڑھنے کی لوگوں کو ہدایت فرمایا کرتے تھے.جو وقتا فوقتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے.اور جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا جب آپ بیعت لینے پر مامور ہوئے.آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف پڑھنا اپنی شرائط بیعت میں داخل کر دیا.عیسائیوں کے فتنہ کا انسداد عیسائیوں کے ساتھ مذہبی بات چیت کا سلسلہ تو ان ایام میں شروع ہوا تھا جب آ.سیالکوٹ میں مقیم تھے لیکن جب وہاں سے واپس تشریف لے آئے اور قادیان میں مقیم ہو گئے تو بقیہ حاشیہ: - ہے.اور بغیر اسباب آنکھوں کے دیکھتا ہے.اور بغیر اسباب کانوں کے سنتا ہے اور بغیر اسباب زبان کے بولتا ہے.تو بیشک اس بات کا بھی یقین کرے گا جو وہ قادر خدا بغیر اسباب پیدائش کے پیدا بھی کر سکتا ہے.ورنہ ایسی عقل کے مالک سے کوئی دوسرا بھی پوچھے گا کہ خدا کس مادے سے بنا ہوا ہے.اور باوصف معدوم ہونے اسباب بینائی اور شنوائی اور گویائی کے پھر کس طرح دیکھتا اور سنتا اور کلام کرتا ہے.کیونکہ اگر وہ پیدا کرنے کی صفت میں محتاج با سباب ہے تو بے شک دوسری صفات میں بھی محتاج باسباب ہوگا اور اگر نہیں تو سب میں نہیں.جب خدا کو لا يدرك مانا گیا.تو مقتضاء عقل اور ایمان کا یہ ہے جو اس کی صفات کو بھی لا يُدرك مانا جائے.ورنہ ظاہر ہے کہ اگر عقل کی نظر کسی صفت ربانی کے اول آخر پر پڑ جاوے تو وہ صفت محدود ہو جاوے گی.اور صفت کے محدود ہونے سے محدود ہونا ذاتِ باری کا لا زم آوے گا.اور لطف تو یہ ہے کہ مجیب صاحب خود اقراری ہیں کہ ارواح مخلوق ہیں.اور پھر نیستی ہستی کا ہم سے سوال کرتے ہیں.اتنا نہیں سمجھتے کہ جب پہلے مخلوق ہوئے تھے تو کس مادہ سے بنائے گئے تھے.اور اب وہ مادہ کہاں چلا گیا.

Page 420

حیات احمد ۴۱۰ جلد اول حصہ سوم بٹالہ علی العموم جانے کا اتفاق ہوتا تھا اور وہاں مشن قائم ہو چکا تھا.اندر ہی اندر بعض مسلمانوں میں ارتداد کا سلسلہ بھی جاری ہو چکا تھا.حضرت میرزا صاحب کو اس کے معلوم کرنے سے سخت صدمہ ہوا.منشی نبی بخش پٹواری جو عرصہ دراز تک خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے پاس بھی رہے ہیں.اس فتنہ کے نقصانات اور اثرات کو محسوس کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے.آپ کے سامنے وہ اعتراضات جو عیسائی کرتے تھے وہ پیش کرتے.حضرت ان کے جوابات پورے طور پر آپ کو سمجھا دیتے تھے.منشی نبی بخش صاحب کہا کرتے تھے کہ حضرت ان کو اجازت دیتے کہ پورے طور پر مباحثہ کر لو تا کہ تم کو گفتگو کرنے میں دقت واقع نہ ہو.چنانچہ وہ نہایت آزادی اور دلیری کے ساتھ سوالات کرتے.حضرت جواب دیتے اور وہ پھر اعتراض کرتے اور پھر جواب بقیہ حاشیہ: - قوله نیستی سے ہستی کبھی نہیں ہو سکتی.اقول.اے حضرت ! جہاں حکم خدا ہے پھر نیستی کا ذکر کیا ہے.جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس اپنے امر مقصود کو کہتا ہے کہ ہو جا.پس وہ اس کی قدرت کاملہ سے نقش وجود پکڑ جاتا ہے.یہی تو خدائی ہے.اسی کا نام تو قدرت ہے.مگر ہم کو معلوم نہیں کہ وہ آپ کا ایشور کیسا ایشور ہے جس کے یہ اوصاف ہیں کہ وہ اپنے کسی امر متخیل کو کہے کہ ہو جا تو کچھ بھی نہ ہو.اور حکم اُس کا یونہی بڑھتا جائے اور جب تک باہر سے کوئی مادہ نہ آوے اس وقت تک بریکار رہتا رہے.جس پر میشر کے گزشتہ حالات ایسے ہیں تو پھر اس کی آئندہ قدرتوں کی کیا امید ہوسکتی ہے.اور ایسے ضعیف پر میشور پر بھروسہ کرنا بہت بڑا معرض خطر ہو گا.واضح ہو کہ یہ وہم کہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی اُسی وقت تک مجیب صاحبوں کے دل کو پکڑتا ہے کہ جب تک خدا کی قدرت کی عظمت اور بزرگی ان کو معلوم نہیں.اور اس کی صفات کا ملہ کومحض انسانوں کی صفات پر قیاس کرتے ہیں.ورنہ ظاہر ہے کہ وہ جو آپ بغیر توسط اسباب وجود کے خود بخود موجود ہے تو وہ اپنے کاموں کے نفاذ میں دوسرے اسبابوں کا کب محتاج ہوسکتا ہے.اور اگر صرف استعداد عقلی خدا کی قدرتوں کا مانع سمجھا جائے تو سارا کارخانہ قدرت کا بند ہو جائے گا.

Page 421

حیات احمد ۴۱۱ جلد اول حصہ سوم لیتے.یہاں تک کہ پورے طور پر وہ طیار ہو کر جاتے اور پھر عیسائیوں سے مباحثہ کرتے.میاں نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ حضرت کے پاس مرزا پور کی چھپی ہوئی بائبل تھی.اور آپ نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا تھا.بعض اوقات خود بائبل پر نشان کرتے یا الگ حوالہ جات لکھتے تھے.اور میں اُن کو خوب یاد کر لیتا.اور لکھ لیتا.منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ میری طبیعت بہت تیز واقع ہوئی تھی.اور میں نے (عرفانی) سالوں ان کو دیکھا ہے.اور یہاں قادیان میں اکثر ان سے مذاکرے ہوتے رہتے تھے.یوں اُن کی طبیعت میں دھیما پن تھا.لیکن جب وہ مذہب کے متعلق کسی معترض کو جواب دیتے تو عموماً طبیعت میں جوش ہوتا اور زبان پر ایسے الفاظ جاری ہوتے جن کو عرفی تہذیب میں گالی کہا جا سکتا ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی مذہبی غیرت تھی.اور سچ کی بقیہ حاشیہ: - کیونکہ قدرت تو اسی کا نام ہے کہ عقل اس کے اسرار تک نہ پہنچ سکے.اگر قدرت میں یہ بھی شرط ہے کہ زید عمرو کی عقل سے زیادہ نہ ہو.تو بس پھر قدرت ہو چکی.ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر خدا اپنی بزرگی اور جلال اور کامل ذات کے برخلاف کوئی کام نہیں کرتا.اور ایسے امر کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جو اس کی صفت الوہیت اور پاک شان کے برخلاف ہو.اسی واسطے یہ بات کہنا کہ وہ اپنے قتل نفس اور ایجاد شرک خدائی پر قادر ہے یا نہیں محض نادانی اور سراسر جہالت ہے.اور سوا ایسے امور کے جو اس کے اوصاف خداوندی کے برعکس ہوں اور سب حالات میں خدا قادر مطلق ہے.اور انہی باتوں سے تو وہ خدا ہے.اور یہی تو اس کی بلندشان کی خصوصیت ہے.اگر یہی نہ ہو تو وہ خدا کا ہے کا ہے.اور نیز یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اگر وہ جل شانہ کسی وقت میں اپنے ارادہ اور اختیار سے خالق اس قدر مخلوقات کا ہو چکا ہے تو اب بھی ہو سکتا ہے جس طرح پہلے پیدا کیا تھا اب بھی وہی قدرت اس کے پاس ہے اور وہی حکمت اس کو یاد ہے.مجیب صاحب جو اپنے دعویٰ پر یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب فعل کے فاعل کا آغاز معلوم نہیں تو فعل کا آغا ز یا انجام کیونکر معلوم ہو سکتا ہے.یہ وہ خیال ہے کہ جس سے ہم کو ان کی تعلیم یابی کا آغاز انجام معلوم ہو گیا ورنہ جس لڑکے نے ایک چھوٹا سا قاعدہ صرف کا پڑھا ہو.وہ بھی اس بات سے باخبر ہو گا کہ فعل

Page 422

حیات احمد ۴۱۲ جلد اول حصہ سوم لازمی حرارت.چونکہ لوگ گالی اور سچ کی لازمی حرارت میں بعض اوقات فرق نہیں کرتے.اس لئے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں.منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ حضرت مجھ کو عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات دو قسم کے دیا کرتے تھے.الزامی اور تحقیقی.الزامی جوابات کے متعلق آپ کا ارشاد یہ ہوتا تھا کہ جب تم کسی جلسہ عام میں پادریوں سے مباحثہ کرو تو ان کو ہمیشہ الزامی جواب دو.اس لئے کہ ان لوگوں کی نیت نیک نہیں ہوتی.اور لوگوں کو گمراہ کرنا اور اسلام سے بدظن کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر حملہ کرنا مقصود ہوتا ہے.پس ایسے موقع پر الزامی جواب ان کے منہ کو بند کر دیتا ہے.اور عوام جو اس وقت محض تماشے کے طور پر جمع ہو جاتے ہیں.ایسے جواب سے متاثر ہو کر ان کے فریب میں نہیں آتے.لیکن اگر کسی ایسے شخص سے گفتگو کر و.جو اُن بقیہ حاشیہ:.تو کہتے ہی اسی کو ہیں.جو از منہ ثلاثہ میں سے کسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہو.پس جس حالت میں فعل کی یہ تعریف ہو دے.اور خدا کی وہ شان جو ہر زمان اور مکان کے قید سے منزہ اور پاک ہے پھر کس طرح کوئی دانا کہہ سکتا ہے جو ارواح بھی مثل خدا کے انادی ہیں.صاحب من ! جب آپ نے یہ تسلیم کر لیا جو کل ارواح اُس خالق کا ایک فعل ہیں تو پھر مثل اور افعال کے ان کو کسی زمانہ سے مقترن کرنا چاہیئے.دیکھو آپ لوگ یہ فرمایا کرتے ہیں کہ اس سرکتی کی رچی کو اتنے ارب ہو گئے.پس آپ نے جب کہ ایک فعل خدا کو مقرون بزمان کر دیا تو کاش اس میں بھی سمجھا ہوتا کہ یہ بھی اسی خدا کا فعل ہے.میں بڑی سوچ میں ہوں جو اول آپ نے کس منہ سے یہ فرمایا تھا جو ارواح فعل خدا کا اور اس کی مخلوق ہیں.اور اب یہ دعویٰ کس زبان سے کر رہے ہیں جو کسی وقت سلسلہ پیدائش ارواح کا خدا کی طرف منتہی نہیں ہوا.کیا آپ کے نزدیک اجتماع نقصان بھی جائز ہے.اگر سمجھ کا یہی حال ہے تو ہم نے یونہی وقت عزیز آپ کے مقابلہ میں ضائع کیا.جناب من یہ علمی بحث ہے.اس میں بڑا ذہن ثاقب اور فکر صائب درکار ہے کچھ متفرقات کی مثلیں نہیں کہ یونہی کچھ اناپ شناب لکھ کر داخل دفتر کر دیں اور پھر چھٹی ہوئی.جب کہ آپ پر باعث فقدان سرمایہ علمی کے یہ مصیبت نازل ہے جو اپنے بیانات کے تناقض میں

Page 423

حیات احمد ۴۱۳ جلد اول حصہ سوم کے پھندے میں پھنس چکا ہو یا جس پر ایسا محبہ ہو کہ وہ اُس پر یہ ڈورے ڈال رہے ہیں تو اس کو ہمیشہ تحقیقی جواب پہلے دو.اور اس پر مقابلہ کر کے دکھاؤ کہ اسلام اور عیسائیت کی تعلیم میں کیا فرق ہے.ایسے لوگوں کو اگر الزامی جواب پہلے دیا جائے تو وہ یہ ٹھوکر کھا سکتے ہیں کہ حقیقی جواب کوئی نہیں.نورافشاں آپ با قاعدہ منگواتے اور اس میں کئے ہوئے اعتراضات کے جوابات کبھی اپنے نام سے اور کبھی دوسروں سے بھی لکھوا دیتے تھے چونکہ شہرت سے نفرت تھی.اور کبھی یہ مقصد بھی ہوتا تھا کہ لوگ آپ کے مضامین کے زور قلم سے واقف تھے.اس لئے کبھی دوسروں سے لکھوا دیتے تا کہ کوئی دوسرے نام پر بھی جواب دے.اس غرض کے لئے آپ کبھی شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نام سے بھی چھپوا دیتے تھے.بقیہ حاشیہ:- تمیز باقی نہیں رہی.تو آپ ہم سے بحث کیا کریں گے.مناسب ہے کہ اس تنگ حالت میں سوامی جی سے مدد مانگیں کہ وہ آپ کے سماج افسر ہیں.اور ہمیشہ تحصیل علمی اپنی چوداں ودیان بتلاتے ہیں اس سے کم نہیں.اور کیا مجال ہے جو اُن کے روبرو کوئی اتنا بھی کہہ سکے جو دنیا میں کوئی اور بھی پنڈت ہے.اگر وہ اس وقت ہمارے جواب نہ دیں تو پھر کب آپ کے کام آدیں گے.ان کا پنڈت ہونا کس مرض کی دوا ہوگا.اب میں پھر آپ کی طرف رجوع ہوتا ہوں.اس خیال سے کہ شاید پہلا بیان آپ کا جو ارواح مخلوق ہیں بباعث ظاہر داری یا بطور سہو یا عادت کے حوالہ قلم ہو گیا ہو.اور اصل اعتقاد آپ کا یہی ہو جو خدا نے کچھ پیدا نہیں کیا اور دنیا کا کوئی خالق ہی نہیں.سواگر حال یہ ہے.تو اس کا وہی جواب ہے جو دہر یہ مذہب والوں کو دیا جاتا ہے.اور وہ جواب یہ ہے کہ دنیا میں ہم کوئی مصنوع نہیں دیکھتے جس کا کوئی صانع نہ ہو.ایک چھوٹا سا مکان بھی بغیر بنانے والے کے اپنے آپ بن نہیں سکتا.پھر اتنا بڑا مکان جس کو عالم کہتے ہیں بغیر صانع کے کس طرح خود بخود بن گیا.شاید کوئی اس جگہ یہ جواب دے کہ جس طرح باری تعالیٰ کو بغیر بنانے والے کے خود بخو د قدیم سے موجود سمجھتے ہو اسی طرح ارواح کو بھی سمجھنا چاہئے جو بغیر پیدا کر نے کسی خالق کے ہمیشہ

Page 424

حیات احمد ۴۱۴ جلد اول حصہ سوم غرض منشی نبی بخش صاحب پٹواری عیسائیوں کے اعتراضات لاتے اور اُن کے جوابات دریافت کر کے اور اچھی طرح تیار ہو کر جاتے اور بٹالہ کے پادریوں سے مباحثات کرتے جن میں پادری صاحبان نہایت خفیف ہوتے.انہی ایام میں بٹالہ کے ایک شخص مولوی قدرت اللہ نام عیسائی ہو گئے.منشی نبی بخش صاحب نے آ کر خبر دی تو آپ کو اس کے سننے سے طبعی طور پر تکلیف پہنچی.کہتے تھے کہ دیر تک آپ تاکید کرتے رہے کہ اسے سمجھاؤ اور اگر میری ضرورت ہوئی تو میں خود وہاں جانے کو طیار ہوں.لیکن منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ میں نے عرض کیا کہ یہ قبول عیسائیت حق پژوہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی تہ میں بعض دنیوی اغراض ہیں.تو فرمایا کہ اگر کوئی مالی مدد دینی پڑے تو چندہ کرلو.میں بھی شریک ہو جاؤں گا.اس کے نام کے ساتھ مولوی کا لفظ ہے.عوام پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے.بہر حال آپ نے منشی نبی بخش صاحب کو تاکید کی کہ جس طرح ممکن ہو اسے سمجھا بقیہ حاشیہ سے چلے آتے ہیں.سو اس کے جواب الجواب میں یہ عرض ہے کہ اگر حیوانات کے حالات میں آثار حاجت مندی کے نمودار نہ ہوتے اور اُن کو ہم تحصیل ضرورات اور دفع آفات اور کسب کمالات میں محتاج بالغیر نہ پاتے تو اس وقت یہ آپ کی تقریر بھی قبول کر لیتے.جبکہ کوئی چیز ہم کو بجز پاک پروردگار کے داغ احتیاج سے مبرا نہیں معلوم ہوتی تو ہم یہ آپ کی تقریر کس طرح قبول کریں.بھلا جن چیزوں کو چاروں طرف سے حاجت مندی اور خواری اور عاجزی نے گھیرا ہوا ہے.وہ چیزیں کس منہ اور لیاقت سے کہہ سکتی ہیں جو ہم اپنے وجود میں کسی خالق کی محتاج نہیں.بلکہ ہم بھی مثل خالق کے قدیم ہیں.یقینا اگر کوئی اپنے روح کو آپ ہی مخاطب کر کے اس سے مخلوق یا قدیم ہونے کا سوال کرے تو اپنی وجدانی حالت میں یہی جواب پاوے گا جو میں ایک ضعیف بندہ مخلوق ہوں اور سراسر محتاج اور سایہ قدرت کے نیچے زندہ ہوں اور اپنی آمدورفت میں بالکل ایک غالب قادر کا مقہور ہوں.لیکن پاک دلی اور روشن باطنی شرط ہے.سواے حضرات ہم کس قوت اور زور سے اپنے مالک حقیقی کی طرح انادی اور قدیم بن سکیں.اور کس خوبی اور ہنر سے یہ بات منہ پر لاویں کہ خدا ہم سے پہلے نہیں.کہاں خالق اور کہاں ہم بیچارے ذلت کے مارے.وہ قوی ہے اور ہم ضعیف ہیں.وہ بے انت ہے اور ہم چھوٹے چھوٹے اندازوں میں

Page 425

حیات احمد ۴۱۵ جلد اول حصہ سوم کر واپس لانا چاہیئے.منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ میں نے عرض کیا کہ اگر ان سے مباحثہ کرنے میں کچھ سختی کرنی پڑے تو کیا کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کر لیں.آپ نے فرمایا کہ سختی کرنے سے بعض اوقات دل سخت ہو جاتا ہے.اور پھر ایسے لوگوں کا واپس آنا مشکل ہو جاتا ہے.اس لئے نرمی اور تالیف قلوب کا سلوک کرو.مولوی ضدی طبع ہوتے ہیں.اپنی ضد میں آ کر وہ حق اور ناحق کی پرواہ نہیں کرتے.غرض مولوی قدرت اللہ کو واپس لانے کے لئے آپ نے بہت بڑی تاکید کی.اور آپ کو اس کا بہت رنج تھا.اور فرمایا کہ اسلام سے کسی کا مرتد ہو جانا یہ بہت بڑا امر ہے اس کو سرسری نہیں سمجھنا چاہیئے.ہم کو تو دوسروں کو اسلام میں لانا چاہیئے.اگر ہماری غفلت سے مسلمان مرتد ہو جائے تو ہم سب خدا تعالیٰ کے حضور اس کے لئے جواب دہ ہوں گے.بقیہ حاشیہ: محدود ہیں.وہ عالم الغیب ہے ہم جاہل اور بے خبر ہیں.وہ کامل ہے اور ہم ناقص.وہ غنی بالذات ہے اور ہم محتاج ہیں.وہ سب حدود اور قیود سے منزہ اور ہم اپنے اپنے طبائع کے قیدوں اور بندوں میں اسیر ہیں.پھر بھلا ہم کیا چیز ہو کر اور کون بن کر یہ بات زبان پر لاویں جو ہم انادی ہیں خدا کے شریک ہیں.حالانکہ ہماری قدرت کا یہ نقشہ ہے جو اتنی طاقت نہیں جو اپنا ہی بول و براز ایک ساعت تک بند کر سکیں اور علم کا یہ اندازہ ہے جو اتنی خبر نہیں کہ اپنے ہی دل کا حال بتلا سکیں جو ایک لحظہ کے بعد اس میں کیا خیال اٹھے گا.معاذ اللہ ممکن بالک الذات کو واجب حتی قیوم سے کیا نسبت اور ذرہ امکان کو آفتاب وجوب سے کیا مناسبت.سُبحَانَ اللَّهِ رَبُّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ہاں اگر یہ کہو کہ پر میشور بھی ایسا کچھ بہت بے خبر نہیں ہے تو شاید جیوں کے کچھ پاؤں جم جائیں.صاحبو! خدا کے واسطے ذرا اتنا سمجھو کہ اگر ایک مالک ایسا نہیں.وہ سب کا خالق ہو تو پھر سب کا سلسلہ ایک کی طرف کس طرح منتہی ہوگا.اور خدا کس استحقاق سے اُن کا خدا کہلائے گا.اور علاوہ اس کے کون عاقل اس بات کو مانے گا.کہ خدا محتاج بالغیر ہے اور اوروں کے سہارے اور بھروسہ پر کام کرتا ہے اور اپنی ذات میں کامل نہیں.مجھ کو یقین ہے کہ کوئی مہذب اور تعلیم یافتہ ایسا خیال نہیں کرے گا.

Page 426

حیات احمد ۴۱۶ جلد اول حصہ سوم منشی نبی بخش صاحب ہر طرح سے تیار ہو کر گئے آپ نے فرمایا تھا کہ تم جا کر کوشش کرو.میں دعا کروں گا.اور تم اس سے تنہا ملو.لوگوں کے سامنے نہ ملنا اور نہ بحث کرنا.اس طریق سے بھی بیچ پڑ جاتا ہے.منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ میں نے آپ کی نصیحت اور ہدایت پر عمل کیا.اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی قدرت اللہ صاحب واپس اسلام میں آگئے اور اس سے حضرت کو بہت خوشی ہوئی.قادیان میں بعض عیسائی مشنری قادیان میں بعض عیسائی مشنری پادری بیٹ مین وغیرہ آ جایا کرتے تھے مگر ان میں سے کبھی کوئی حضرت سے مذہبی گفتگو نہیں کرتا تھا.بلکہ بازار میں وعظ وغیرہ کہہ کر اور آپ سے ملاقات کر بقیہ حاشیہ:.اور یہ بھی مجھ کو ہرگز امید نہیں کہ کوئی دانش مند اس جستجو میں اپنے اوقات ضائع کرے کہ خدا کہاں رہتا ہے کس طرح بن بنانے والے کے خود بخود موجود ہے.کس وجہ سے محیط عالم ہے کس طور پر بغیر توسط اسباب کے دیکھنا اور سننا اور بولنا اُس کا ہے.کس حکمت سے بغیر مادہ اور بھومی کے ایجاد عالم کرتا ہے.کیونکہ جب عقلمند اس کی صفات لا يُدْرَكُ پر ایمان لایا اور اس کی صفات کو احاطہ عقل اور نظر سے بلند تر یقین کیا تو پھر وہ کاوش کرنا انہی صفات میں جن کو پہلے مان چکا تھا جوفکر اور قیاس سے بالا تر ہے خلاف طریقہ عقلمندی اور دانشوری کے سمجھے گا.خلاصہ یہ ہے کہ ہر دانا اور حکیم کو یہ ماننا پڑے گا کہ خدا اپنی ذات اور صفات میں بے انت ہے.لیکن ہمارے مخاطبین یہ فرماتے ہیں کہ خدا اپنی صفت قدرت میں بے انت نہیں ہے.نہ نیست سے ہست کر سکتا ہے.نہ اب پیدا کرنے کی اس کو قوت ہے.بلکہ بآواز بلند کہتے ہیں کہ بس ہم کو خدا کی قدرت کا سارا راز معلوم ہو گیا اور سب حقیقت خدا کی معلوم ہوگئی.صرف حکم سے پیدا کرنا محض غلط ہے.ایسا بڑا کام خدا سے کب ہو سکتا ہے یہ تو صرف اتنی بات نکلی کہ بہت سے ارواح مثل خدا کے قدیم سے چلے آتے ہیں.انہی سے خدا کام لیتا ہے ہر چند سمجھایا گیا کہ آپ کے اس اعتقاد سے سارا کارخانہ توحید کا بگڑا جاتا ہے.کیونکہ جب صفت قدرت کا آپ کو انت معلوم ہو گیا.

Page 427

حیات احمد ۴۱۷ جلد اول حصہ سوم کے واپس چلے جاتے تھے.میرزا سلطان احمد صاحب کو البتہ شوق پیدا ہو گیا تھا اور وہ بالتزام عیسائیوں کے رد میں مضامین لکھنے لگے تھے اور اگر موقع ملتا اور قادیان کوئی مشنری آ جاتا تو اس سے مباحثہ کر لیتے تھے.غرض عیسائی مشنری قادیان میں بہت ہی کم آتے اگر آتے تو آپ سے سرسری ملاقات کر کے واپس چلے جاتے.وہ اس بات سے مایوس تھے کہ قادیان میں کوئی عیسائی ہو جائے گا.کشن سنگھ کے خیالات بدل دیئے پادری بیٹ مین صاحب کو بھائی کشن سنگھ کے متعلق علم تھا کہ یہ شاید عیسائی ہو جاوے گا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ وہ حضرت صاحب کے پاس آتا جاتا ہے.تو اس نے کہہ دیا تھا کہ کشن سنگھ کے خیالات مرزا صاحب نے بگاڑ دیتے ہیں.مطلب اس کا یہ تھا کہ اب عیسائیت کا جادوکشن سنگھ بقیہ حاشیہ:.تو وہ بے انت ہی نہ رہی.اور اس سے خدا بھی محدود ہو گیا.کیونکہ صفات اس کی اس کی ذات سے الگ نہیں ہیں.حالانکہ آپ کا اصول یہ تھا کہ خدا غیر محدود اور بے انت ہے.اور نیز اگر خدا کواب پیدا کرنے کی کچھ طاقت نہیں تو سارا مدار خدائی کا پیدائش موجودہ پر رہا.اور وہ پیدائش از روئے ان دس دلیلوں کے کہ ہم پہلے اسی رسالہ میں لکھ چکے ہیں.ایک تعداد معین میں محصور اور محاط ہے جو بموجب تشریح ہمارے اعتراض کے کسی دن خاتمہ اس تعداد کا ہو جائے گا.اور پر میشر آگے کو ہمیشہ کے لئے بریکار بیٹھا رہے گا.لیکن اس اعتراض سے قطع نظر کر کے ایک ہمارا فساد جس سے خدا کی عظمت اور جلال یک لخت دور ہو جاتی ہے اور ایک سخت صدمہ اُس کی صفت خداوندی کو پہنچتا ہے یہ پیدا ہوا جو خدا کا ملک راجوں اور رئیسوں کے ملک کی طرح ایک حد اور شمار خاص میں محدود ہو گیا.اور ثابت ہو گیا جو ایشور ہنود کا اپنی خدائی کی قدرت کو اس قدر معلوم سے آگے نہیں بڑھا سکتا اور تیلی کے بیل کی طرح ہمیشہ اُسی حد معین کے اندر اندر گھومتا ہے.پس یہ صفات ہرگز اس خدائے بزرگ کے لائق نہیں ہیں.جو اپنی ذات اور صفات میں بے انت ہے.لیکن معلوم نہیں کہ ہمارے مخاطبین آریہ سماج والے کیوں ایسی بڑی بھاری غلطی پر جسے بیٹھے ہیں.کیا ان کو حق جوئی کا مطلق خیال نہیں یا کچھ مادہ ہی ایسا ہے کہ ایسی موٹی غلطی کو بھی سمجھ نہیں سکتے ؟

Page 428

حیات احمد ۴۱۸ جلد اول حصہ سوم پر نہیں چلے گا.اس قسم کی تقریبوں نے حضرت کو صلیبی فتنہ سے پورے طور پر واقف کر دیا تھا.اگر چہ آپ نے بہت عرصہ سے عیسائی فتنہ کے اثر کو محسوس کیا تھا.اور بہت چھوٹی عمر میں میزان الحق پڑھی تھی.اور جن ایام میں آپ بٹالہ پڑھ رہے تھے انہیں ایام میں بھی آپ نے ان کتابوں کو جو عیسائیوں اور آریوں نے اسلام کے خلاف لکھی تھیں پڑھا تھا.اور اسلام کے لئے ایک غیور فطرت رکھتے ہوئے ان پر بحث کیا کرتے تھے.تحفۃ الہند.خلعت ہنود وغیرہ کتابیں بھی ان ایام طالب علمی ہی میں آپ کے زیر مطالعہ رہ چکی تھیں.غرض آپ کے شب و روز اسلام کی حمایت اور اس کی تائید میں عملاً اور علماً صرف ہو رہے تھے اور کوئی موقع اور فرصت ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے جس میں اسلام کی خدمت ہو سکے.چونکہ بقیہ حاشیہ:.بعض صاحبوں کو میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ اگر چہ خدا فی الحقیقت بے انت ہے.اور اس کی ملک اور قدرت کو زمانہ گزشتہ میں محصور کرنا سچ سچ غلطی ہے کہ جس سے اس کی قدرت بے انت نہیں رہ سکتی اور ماننا پڑتا ہے کہ جو ملک اس کا ہمیشہ اندر اندر ایک مقررہ تعداد کے ہے.لیکن جب کہ یہی ہمارے مذہب کا اصول ہے تو پھر ہم کس طرح اس کو چھوڑ دیں.پس واضح ہو کہ یوں تو ہر کسی کا اختیار ہے کہ جس بات پر چاہے جمار ہے.کوئی مزاحم اور مانع نہیں.لیکن کسی عاقل کو اس امر سے انکار نہ ہو گا کہ جب کوئی غلطی اپنی ثابت ہو جائے تو اس کا چھوڑ نا ہی بہتر ہے اسی کو دھرم کہتے ہیں.اور یہی تو بھگتوں کا اور پہلے لوگوں کا کام ہے.قوله.جو معترض صاحب نظیر دیتے ہیں کہ اگر ہم کسی جگہ چار جیو بیٹھے ہوں.تو جب ایک جیو اٹھ جائے گا تو تین جیو رہ جائیں گے.سو وہ خود اپنی نظیر سے قائل ہو سکتے ہیں.کیونکہ جب چار ہوئے تو وہ بے انت نہ رہے.معدود ہو گئے.کیونکہ جب ایک چیز غیر معدود ہے تو اس کی کمی بیشی کیسے ہوسکتی ہے.اقول.حضرت قائل ہونا تو آپ کے خواص میں سے ہے.معترض بیچارے کو یہ حق نہیں پہنچتا معترض نے تو اول معدود ہونا ارواح کا ثابت کر دیا.پھر یہ مثال بھی تقریباً سلفہم لکھ دی تو پھر اب

Page 429

حیات احمد ۴۱۹ جلد اول حصہ سوم ذاتی طور پر شہرت اور نمود مقصود نہ تھا.اس لئے دوسروں سے کام لے لیتے جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ بعض مضامین شیخ رحیم بخش صاحب کے نام سے چھپوا دیتے ان کولکھوا دیتے اور ان کی طرف سے اخبارات میں چھپ جاتے یا منشی نبی بخش صاحب پٹواری سے کام لیتے تھے.اس سے دوسروں میں شوق پیدا کرنا بھی زیر نظر تھا.حضرت نے اس فتنہ صلیب کو محسوس کیا ہوا تھا.اور آپ کو اس قدر جوش اس فتنہ کے دور کرنے اور صلیبی غلبہ کو پاش پاش کرنے کے لئے تھا کہ میرزا سلطان احمد صاحب کہتے ہیں کہ اگر سارے جہان کا جوش ایک طرف ہو.اور حضرت والد صاحب مرحوم کا ایک طرف تو اُن کا پلڑا بھاری ہو گا.اور اس کے لئے آپ کی پرانی تحریریں شاہد عدل ہیں اور آپ کی زندگی واقعات کا آئینہ.بقیہ حاشیہ بھی اگر آپ نہ سمجھتے تو معترض کا کیا قصور ہے.اور نیز معترض کے ایراد اس مثال سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ بموجب علم طبعی کے ایک دلیل قائم کر کے آپ کا اقرار مخفی ظاہر کرے.کیونکہ بموجب اصول آریہ سماج کے سب ارواح متحد النوع والخواص ہیں.پس جب آپ نے بچشم خود دیکھ لیا جو بعض ارواح جو شہروں اور بستیوں اور قصبوں اور دیہات میں سکونت رکھتے ہیں اُن میں قابلیت معدود ہونے کی پائی جاتی ہے.تو پھر یہ کہنا کہ یہ قابلیت دوسرے روحوں سے مقصود ہے.اپنے مادہ علمی کا وزن دکھلانا ہے.اگر آپ کو کچھ علم حکمت اور منطق کا ہوتا.تو آپ فی الفور سمجھ لیتے کہ جب متحد النوع مان لیا تو پھر متحد الخواص ہونے سے انکار کرنا ایسا ہے کہ جیسے ایک شخص ایک قوم کے انسان ہونے کا تو قائل ہے مگر ان کے ناطق ہونے کا قائل نہیں.صاحب من خواص کسی چیز کے کبھی اس سے منفک نہیں ہو سکتے.اگر انادی اور بے انت ہونا مثل ذاتِ باری کے خاصہ ارواح کا ہو تو کسی حالت میں یہ خاصہ اُن سے منفک نہ ہو سکے گا جیسے خدا کسی حالت میں بے انت ہونے سے بدل کر محدود نہیں بن سکتا.نہ کوئی صفت اس کی محدود ہوسکتی ہے.

Page 430

حیات احمد ۴۲۰ جلد اول حصہ سوم باوجود اس امر کے حضرت کی توجہ براہین احمدیہ کے کام کے آغاز کے قریب قریب آریہ سماج اور براہم سماج کی طرف بے حد تھی.اور آپ اس فتنہ کی سختی کو خصوصیت سے محسوس کر رہے تھے.اس کے کئی اسباب تھے ایک یہ کہ تعلیم یافتہ طبقہ کو ان جدید خیالات کی طرف زور سے توجہ ہورہی تھی.بنگال میں برہمو ازم ترقی کر رہا تھا.اور بمبئی کی طرف آریہ سماج بڑھ رہا تھا.اور اب یہ تحریکیں بنگال اور بمبئی سے نکل کر پنجاب میں آچکی تھیں.اور زور وشور سے اس کا اثر پھیل رہا تھا.دوسری وجہ یہ تھی کہ سب سے ضروری اور اصل الاصول چیز مذہب میں خدا کی وحی اور سلسلہ نبوت ہے بقیہ حاشیہ:- اور نیز آپ پر واضح ہو کہ اصول ہندسہ میں یہ قاعدہ مسلّم ہے کہ جس چیز کو ایک یا کئی حدودں نے گھیرا ہوا ہو.وہ کبھی غیر محدود نہیں ہو سکتیں بلکہ اصطلاح ہندسین میں اس کا نام شکل ا ہے.اور شکل خواہ کیسی ہی طویل و عریض ہو ایک حد اور انتہا رکھتی ہے.اب اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ جب وقت واحد کے حد میں کئی ایک ایسی چیزیں جمع ہوں.جو سب فرداً فرداً اپنا اپنا حد اور انتہا ر کھتے ہوں.تو مجموعہ ان سب کا بھی ایک انتہا اور حد ر کھے گا.ورنہ لازم آوے گا کہ محدود چیزوں سے غیر محدود پیدا ہو اور یہ بات بموجب اصول مذکورہ کے صریح باطل ہے.پس علاوہ دلائل عشرہ کے روحوں کے محدود ہونے کی ایک اور دلیل نکل آئی.اور آپ ہم کو قائل کرتے کرتے خود ہی قائل ہو گئے.مرا خواندی و خود بدام آمدی نظر پخته تر کن که خام آمدی اور آپ کی تقریر مذکورہ بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کو علاوہ علم صرف و منطق کے علم ہندسہ میں بھی خوب دخل ہے.جو محدود چیزوں کے مجموعہ کو غیر محدود قرار دیتے ہیں.غرض آپ سب علوم وفنون میں بے نظیر ہیں.تب ہی تو جواب کہے بیٹھے تھے.قولھم.ایک نام گنتی نہیں ہے.ترجمہ: تو میری خواہش کرتا تھا مگر خود دام میں پھنس گیا.اپنی نظر پختہ کر کیونکہ تو غلط سمجھا تھا.

Page 431

حیات احمد ۴۲۱ جلد اول حصہ سوم اور اس کے خلاف براہم سماج نے خطر ناک طور پر حملہ کیا تھا.اور آریہ سماج بھی اس کا مؤید تھا عیسائی وحی اور نبوت کے قائل تو تھے.اس لئے آپ نے آریہ سماج اور براہم سماج پر پوری قوت اور طاقت سے نہ صرف منقولی رنگ میں حملہ کیا تھا بلکہ آپ نے حالی رنگ پیدا کر کے اس فتنہ کا مقابلہ کیا یہ امور اپنے مقام پر آئیں گے.چونکہ اسلام پر ان لوگوں کے حملہ کا طریق عیسائیوں کے مقابلہ میں جدا گانہ تھا.آپ نے آریہ سماج اور براہم سماج کے لیڈروں اور بانیوں کو مقابلہ کے لئے بلایا.خود آریہ سماج کے بانی اور اس کے دست و باز و سرگرم لیڈر ان پر اتمام حجت کیا.جس کے واقعات میں او پر لکھ آیا ہوں.اور اب وقت آ گیا تھا کہ آپ دنیا بقیہ حاشیہ:- اقول.اے حضرات حقیقی عدد تو ایک ہی ہے.جس سے سب اعداد تالیف پاتے ہیں.اگر ایک عدد نہیں تو پھر دنیا میں عدد کون سا باقی رہا.عدد کی تو یہی تعریف ہے کہ وہ ایک مقدار ہے.جو واحد وغیرہ اعداد پر بولا جاتا ہے.شاید کسی نیم محاسب نے لکھ مارا ہوگا جو واحاد اعداد میں داخل نہیں.سو آپ نے اُس تحریر کو سچ مچ درست ہی سمجھ کر ہمارے سامنے پیش کر دیا.ہم تو تب جانتے کہ اس پر کوئی دلیل بھی لکھتے.کیا جب عدالت میں بابت کسی ایک عدد شے کا نالش ہو تو مقدمہ اس وجہ پر خارج ہوسکتا ہے کہ ایک کچھ چیز ہی نہیں ہے.اور کسی شمار میں داخل نہیں.یا کوئی منشی قانوناً مجاز ہوسکتا ہے کہ ایک روپیہ تک بے تامل رشوت لے لیا کرے.اس عذر سے کہ ایک تو اعداد میں داخل ہی نہیں ہے.اور یہ جو آپ نے تحریر کیا ہے کہ خدا بے انت ہے.اس کو واحد کس طرح بولا جائے.سو یہ بھی آپ کی بے انت غلطیوں میں سے ایک غلطی ہے.کیونکہ خدا اس وجہ سے واحد کہلاتا ہے کہ لاشریک ہے اور دوسری تعدادوں سے جن میں اہل شرک گرفتار ہیں، منزہ ہے.پس ظاہر ہے کہ اس جگہ واحد اس غرض کے لئے مستعمل ہوا.جس طرح اور اعداد استعمال پاتے ہیں.تو پھر کیا کچھ وہ عدد نہ ہو.یا خدا سے متعلق نہ ہو سکے کیا آپ کو اس میں کچھ شک ہے.وہ خدا صرف ایک ہے کئی ایک نہیں ہیں.غرض عدد ایک کا خدا پر بغرض رفع شک تین وغیرہ کے اطلاق پاتا ہے.اور ظاہر ہے کہ جو مقدار کسی عدد کا ابہام دور کرے.وہ بھی

Page 432

حیات احمد ۴۲۲ جلد اول حصہ سوم میں خدا کی قدرتِ اوّل کا مظہر ہوں.اور منہاج نبوت پر اتمام حجت کریں اس کا ظہور براہین احمدیہ کی تصنیف سے ہوتا ہے.میں اس کے متعلق آگے چل کر لکھوں گا.اس جلد میں براہین احمدیہ کی تالیف تک کے واقعات کو ختم کر دینا مقصود ہے.چونکہ آپ کی زندگی کے حالات جو مجھے اپنی تحقیق اور جدو جہد سے ملے ہیں.زمانہ براہین تک لکھ چکا ہوں.اس لئے ے قبل اس کے کہ میں اگلا حصہ لکھوں.جو براہین کی تصنیف سے لے کر اعلان بیعت تک ہوگا.میں ضروری سمجھتا ہوں کہ میں بعض متفرق امور اور واقعات کا ذکر کر دوں.جن کو میں کسی بقیہ حاشیہ : - عدد ہی ہوتا ہے.پس ثابت ہوا کہ لفظ ایک کا جو خدا پر اطلاق پاتا ہے عدد ہے.اور یہی غرض تھی.اور چونکہ آپ کی سب غلطیوں کی اصلاح کرنا موجب طوالت کلام ہے.اور کسی فارغ آدمی کا کام ہے.اسی واسطے اب ہم اسی پر کفایت کر کے آپ کو یہیں چھوڑ کر باوا نرائن سنگھ کی خبر لیتے ہیں.قولہ ارواح بے انت ہیں.اقول.حضرت سوامی جی نے تو صاف اقرار کر لیا کہ ارواح بے انت نہیں ہیں.محدود اور معدود ہیں.اور ہم اس کو اس رسالہ میں لکھ بھی چکے مگر آپ کا انکار عجب بے انت ہے جو اب تک چلا جاتا ہے.خیر اگر آپ کا دل سوامی جی کے اقرار سے قرار نہیں پکڑتا.تو کچھ ضرور نہیں.ہم نے دلائل عشرہ مذکورہ میں آپ کے دل کا ایسا بندو بست کر دیا ہے کہ اب ضرور قرار پکڑ جائے گا.اور عنقریب ہم اس بات کی خوشخبری سنیں گے کہ آپ نے اس حساب اور منطق سے جس کی ہم کو ترغیب دیتے تھے.تو بہ کر لی اور اس بے انت ضدیت سے باز آ گئے اور نیز آپ کو مبارک ہو کہ علاوہ ان دلائل عشرہ کے وہ آپ کے بے انت جانور دام تعداد میں یوں بھی پیش کئے ہیں کہ بموجب اصول آپ کی سماج کے جب پر لو آتا ہے تو ان تمام جانوروں کو صیاد اجل کا پکڑ لیتا ہے.اور ایک ایک پر چھری موت کی چلاتا ہے یہاں تک کہ وہ اتنے جانور کہ جن کا نام آپ نے بے انت رکھا ہوا ہے.ایک دم میں اس دنیا کے قفس کو اپنے اس بے انت وجود سے خالی کر دیتے ہیں اور بھیٹر یا موت کا ایک ایک کر کے سب کو کھا جاتا

Page 433

حیات احمد ۴۲۳ جلد اول حصہ سوم عنوان یا ترتیب سے پہلے نہیں لکھ سکا مگر وہ اسی پہلی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں یا مجھے بعد میں معلوم ہوئے ہیں.جیسا کہ میں کئی بار ذکر کر چکا ہوں کہ میری غرض ان واقعات کو جمع کر دینا ہے اور بعد میں آنے والے اس کو جس طرح چاہیں گے استعمال کریں گے.اس لئے میں اس کی پرواہ نہیں کروں گا کہ ان کے بیان میں کوئی ترتیب مد نظر نہیں رہ سکی.متفرق امور سوانح کے حصص اور مآخذ میں نے اس کتاب میں حضرت اقدس کے سوانح کے چار حصے کئے ہیں یا یوں کہو کہ آپ کے حالات زندگی کی تقسیم بھالا زمانہ چار وقتوں پر کی ہے.اوّل.آپ کی پیدائش سے لے کر زمانہ براہین احمدیہ کی تصنیف تک یعنی ۸۳۹ سے لے کر ۱۸۷۹ء تک.بقیہ حاشیہ: - ہے.اگر سچ سچ بے انت ہوتے تو موت ان سب کا کس طرح انت ظاہر کر دیتی.اب جس حالت میں موت سے ان کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو پھر کیا مکتی سے ان کا خاتمہ ہونا کچھ مشکل ہے.اس مقام پر ہم کو بڑا تعجب ہے کہ آپ کے ایشور کو تو روحوں کی تعداد تک معلوم نہیں تھی اب یہ کیا باعث ہے کہ مارنے کے وقت وہ سب یاد آ گئے.غرض جس حالت میں آپ لوگوں نے یہ اقرار کر دیا ہے کہ ہر پر لو کے سر پر ایشور آپ کا تمام جانوران کو ہلاک کر دیتا ہے.تو اس صورت میں یہ اقرار کرنا چاہیئے کہ وہی ایشور آپ کا اُن تمام جانوروں کو گن بھی سکتا ہے.اور ان سب کو مکتی بھی دے سکتا ہے.ورنہ یہ بات کہنی پڑے گی کہ ایشر سب جانوروں کے ہلاک کرنے پر تو قادر ہے.مگر ان سب کے شمار کرنے اور مکتی دینے پر قادر نہیں.حملا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے رضی اللہ عنہ کی تحقیق کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سن پیدائش ۱۸۳۵ء ہے.(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ ۸ جدید ایڈیشن شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ) (ناشر)

Page 434

حیات احمد ۴۲۴ جلد اول حصہ سوم دوم.براہین کی تصنیف سے لے کر بیعت لینے کی ماموریت تک ۱۸۷۹ء سے لے کر ۱۸۸۹ء تک سوم.اعلان بیعت سے لے کر دعویٰ مسیح موعود تک ۱۸۸۹ء سے لے کر ۱۸۹۰ ء تک.چہارم.دعویٰ مسیح موعود سے لے کر وفات تک.۱۸۹۰ء سے لغایت ۱۹۰۸ء.پہلے حصہ کے واقعات اور سوانح زندگی کا جمع کرنا سب سے مشکل کام ہے لیکن جہاں تک مجھے اسباب اور مواقع مل سکے ہیں.میں نے کوشش کی ہے کہ آپ کی زندگی کے واقعات کو جمع کر دیا جاوے.ان واقعات اور حالات کے مجموعہ میں میں نے جہاں تک روایات کا دخل ہے صرف ان لوگوں کی روایات کو لیا ہے.جو اپنی عام شہرت کے لحاظ سے راست باز اور بے غرض تھے اور جو روایات عام طور پر بکثرت مشہور تھیں.نیز ان لوگوں کی روایات لیں جن کو آپ کی صحبت میں کسی نہ کسی وجہ سے رہنے کا موقع ملا ہے.اور اس طرح پر وہ ان حالات کے دیکھنے والے تھے.آپ کے بچپن کے متعلق یا آپ کی پہلی اولاد کے متعلق جو حالات اور روایات ہیں.وہ حضرت اقدس کی دائی بقیہ حاشیہ: غرض ثابت ہو گیا کہ ارواح بے انت نہیں ہیں.صرف آپ کی نامنہی بے انت ہے.اب خود منصف بنیئے کہ کیا وہ آپ کی خیالی منطق سچی ہوئی یا آخر وہ ہمارا ہی بچن ٹھیک نکلا.قولہ.خدا سب کچھ نہیں جان سکتا.اقول.واہ حضرت آج معلوم ہوا کہ بہت سی چیز میں خدا سے نامعلوم رہی ہوئی ہیں.ورنہ اب تک تمام دنیا یہ جانتی رہی کہ کوئی چیز اس سے بھولی ہوئی نہیں ہے اب یہ تو فرمائیے کہ آپ کا روح بھی خدا کو معلوم ہے یا نہیں.اور کچھ چیز رکھتا ہے یا نہیں کہ امرتسر میں ایک باوا نرائن سنگھ بھی سکونت رکھتے ہیں.پر شاید باعث عہدہ وکالت اور مشہور و معروف ہونے آپ کے خبر رکھتا ہوگا.خیر یہ نہیں سہی.مگر براہ مہربانی کوئی اور دو چار غریبوں مسکینوں کے روح کو بطور نظیر کے پیش کیجئے.جو آپ کے ایشور کو معلوم نہ ہوں.حضرت سلامت یہ آپ کے سب مزخرفات ہیں.ورنہ اگر خدا کو اپنے کل موجودات معلوم نہیں.تو پھر وہ ان پر خدائی کیوں کر کرتا ہے.پس ثابت ہوا کہ خدا تو

Page 435

حیات احمد ۴۲۵ جلد اول حصہ سوم مسماۃ لاڈو ( جو خاکسار عرفانی کے گھر کے سامنے رہتی تھیں ) سے لی ہیں.اور یا حضرت تائی صاحبہ مرحومہ سے اور آپ کے شباب کے حالات قادیان کے پرانے اور عمر رسیدہ لوگوں سے جن میں پنڈت خوشحال رائے.بہار امل حکیم ہندوؤں میں سے اور کشن سنگھ اور نہال سنگھ بانگر و.دیور سنگھ ترکھان.سکھوں میں سے میں نے لئے ہیں.مسلمانوں سے میاں شمس الدین اور میاں غلام قادر صاحب سے اور میاں جانی کشمیری.اور میاں جان محمد امام مسجد.میاں محمد بخش.منشی مراد علی صاحب.مرزا نظام الدین و امام الدین صاحب و مرزا علی شیر بیگ صاحب.ومرزا میرا بخش صاحب مرحوم.بہادر و نظام کشمیری.غفارا کشمیری.حاکو و نا کو.پسران مائی لاڈو دائی.اردگرد کے دیہات میں سے میری روایات جھنڈ اسنگھ ساکن کا ہلواں اور میاں خیر اسا کن کھارا اور شیخ عبدالرحمان صاحب نو مسلم بشر و منشی فیروز الدین پٹواری بٹر تک پہنچتی ہیں.ان حالات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں یا آپ کے معاصرین کی تحریروں میں اگر کوئی مواد ملا ہے تو میں نے اسے مقدم رکھا ہے.سیالکوٹ کے واقعات میں جناب مولانا میر حسن صاحب قبلہ اور حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب مرحوم بقیہ حاشیہ: بے علم نہیں.مگر خود آپ ہی علم اور عقل سے بیگا نہ ہیں.اب جیسا کہ تحقیق ہو گیا کہ خدا کو کل تعداد ارواح موجودہ کا معلوم ہے.تو اس میں کچھ شک و شبہ نہیں کہ جب وہ اپنی جمع معلومہ سے کس قدر ارواح نکالے گا.تو از روئے قاعدہ یقینی حساب کر کے ضرور اس قدر جمع مقرر میں کمی ہو جائے گی.اور مفروق اور مفروق منہ مل کر اس اصل جمع کے برابر ہوں گے.اور جب اس طرح جمع میں کمی ہوتی گئی اور باہر سے آمدن نہ ہوئی تو ضرور ایک دن خاتمہ ہو جائے گا.اور یہ جو باوا صاحب فرماتے ہیں کہ تعداد روحوں کی ہم کو بھی معلوم ہونی چاہیئے.تب قاعدہ جمع تفریق کا ان پر صادق آوے گا.یہ ان کے انواع اقسام کی خامیاں ہیں.جو لوگوں کو معلوم کرا رہے ہیں.ورنہ ظاہر ہے کہ جمع بھی خدا کی ہے اور تفریق بھی وہی کرتا ہے اور ہم کو کوئی برہان منطقی مانع اس امر کی نہیں کہ ہم اس امر متیقن متحقق پر رائے نہ لگا سکیں.ہاں اگر یہ امر ثابت ہوتا ہے.خدا کو اپنی جمع بھی معلوم نہیں تو بے شک شک کرنے کی گنجائش بھی تھی.دیکھو اگر کوئی یہاں سے دس ہزار کوس پر اپنی جمع معلومہ میں سے کچھ

Page 436

حیات احمد ۴۲۶ جلد اول حصہ سوم سے میں نے مواد لیا ہے.غرض میں نے جو کچھ لکھا ہے.اپنی صحیح تحقیقات سے لکھا ہے.حالات میں نے ان لوگوں سے دریافت کئے ہیں جن کو حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے یا آپ کے ساتھ کسی نہ کسی طرح تعلق رکھنے کا شرف اور عزت مل چکی ہے.میں ان راویوں کا بھی ذکر کر دینا مناسب اور ضروری سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے حضرت کی خدمت گزاری کے طور پر ایک زمانہ گزارا ہے.جیسے حافظ حامد علی صاحب مرحوم.حافظ معین الدین مرحوم.میرزا اسماعیل بیگ صاحب.میرزا دین محمد صاحب ساکن لنگر ان ، قاضی علی محمد صاحب مرحوم اور اسی طرح میں نے میاں میراں بخش حجام اور دھننو میراثی.جو حضرت کے خاندان کے ساتھ پشت ہا پشت سے تعلق رکھتے ہیں.بعض حالات کو لیا ہے.بقیہ حاشیہ :.خرچ کرے.تو ہم اس جگہ بیٹھے رائے دے سکتے ہیں کہ جس قدر خرچ ہوا.اس قدر ضرور کمی ہوئی ہوگی.یہ کیا ضرور ہے کہ سارے جہان کے خزانے اوّل ہم کو معلوم ہو لیں.تب ہم رائے ظاہر کر سکیں.معلوم ہوتا ہے کہ باوا صاحب نے وہ اوٹ پٹانگ حساب جو جواب ثانی میں درج فرمایا تھا.ضرور کسی طفل مکتب سے مشورہ لے کر لکھا ہوگا.ورنہ بالغوں کا تو یہ ہرگز کام نہیں.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ جیسا خدا کل روحوں کی تعداد جانتا ہے ویسا ہی اس کو وہ سب روح بھی معلوم ہیں کہ جو آخر کار مکتی پاویں گے.اب فرض کیجئے.کہ خدا کے علم غیب میں یہ مقرر ہے جو سب روح مکتی پا جاویں گے.یا یوں ٹھہرائیے کہ بعض مکت ہوں گے اور بعض کبھی نہیں.بہر حال یا تو کسی دن سب روحوں کا خاتمہ ہے یا پھر مکتی پانے والے نکل کر پر میشر کے ہاتھ میں صرف کیڑے مکوڑے رہ جائیں گے.جن کی کبھی ملتی نہیں.اگر یہ کہو کہ اگر چہ پر میشر کے ارادہ اور علم اور تقدیر میں بعض روحوں یا سب روحوں کا مکتی پانا ہوں.مقرر ہے.مگر پھر بھی وہ مکتی نہیں پاویں گا.تو اس میں سرا سر تحقیر اور توہین پرمیشر کی ہے.کیونکہ پھر ایسے پر میشر کی کیا عزت رہ گئی.جس کا علم جھوٹا نکلا.اور ارادہ پورا نہ ہوا.تقدیرٹیل گئی..یہ غالبالنگر وال ہے.(ناشر)

Page 437

حیات احمد ۴۲۷ جلد اوّل حصہ سوم چونکہ براہین کے زمانہ کے بعد کا زمانہ آپ کے حالات زندگی کا ایسا آ جاتا ہے جہاں تحریر ہماری پوری مساعدت کرتی ہے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس باب کو شروع کرنے سے پہلے اس امر کا اظہار کر دوں.میں یہ بھی ظاہر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے ان حالات کو ۱۸۹۸ء سے لے کر جبکہ میں قادیان میں مستقل طور پر آیا.جمع کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ اس وقت تک ان لوگوں کو واقعات اور حالات کا تازہ ترین علم تھا.اور حضرت کی پبلک لائف پر بہت زمانہ نہیں گزرا تھا.ان مندرجہ بالا راویوں کے علاوہ میں نے خان بہادر میرزا سلطان احمد صاحب اور میرزا فضل احمد صاحب مرحوم سے بھی واقعات اور حالات کی توثیق کرائی.اس کے متعلق میرا طریق عمل بقیہ حاشیہ: قولہ.خدا کو روحوں کی تعداد معلوم نہیں.جیسے اس کو اپنا انتہا معلوم نہیں.اقول اے حضرت! میں آپ کی کس کس غلطی کی اصلاح کروں.یہ تو آپ نے قیاس مع الفارق بیان کر کے اپنے عجیب فہم کا انتہا ظاہر کیا.ورنہ ہر عاقل پر روشن ہے کہ خدا ہر چیز کو اسی طرح جانتا ہے.جیسے اس کے حالات واقعی ہوں.پس جب کہ خدا کی ذات کا واقعی حال یہی ہے.جو وہ بے انتہا اور سرب بیا پک یعنی محیط گل ہے.تو پھر خدا کا اپنے انتہا کو معلوم کرنا خلاف واقعہ کا معلوم کرانا ہے.اور یہ خود باطل اور خدا کی شان کے خلاف ہے.جیسے اگر کسی جگہ دو آدمی موجود ہوں تو خدا ان کو تین آدمی نہیں جانے گا بلکہ صرف دو آدمی جانے گا.کیونکہ دو کا تین جاننا خلاف واقعہ ہے.لیکن کل روحوں کا جاننا اور ان کا شمار معلوم کرنا ایسا علم ہے جو اس کو واقعہ کے برخلاف کہا جائے.کیونکہ ہر روح اپنے اپنے وجود کی فی الحقیقت ایک حد اور انتہا رکھتا ہے.جس کا جاننا خلاف واقعہ جانا نہیں ہے.بلکہ نہ جاننا اس کا صفت عَالِمُ الغَيْبِی کے برخلاف ہے.کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ بوصف یہ کہ فی الواقعہ ایک امر خارج میں موجود تھا.پر خدا کی نظر سے پوشیدہ رہا.اب سوچنا چاہیئے کہ جب واقعی حال یہی ہے کہ ارواح بقید اپنے اپنے حد اور انتہا کے بیچ بیچ دنیا میں موجود ہیں تو لازم آیا کہ اس واقعی حال کا خدا

Page 438

حیات احمد ۴۲۸ جلد اول حصہ سوم یہ تھا کہ میں خان بہادر صاحب سے بعض واقعات بیان کرتا.اور ان سے توثیق چاہتا.اور وہ ان کو اگر صحیح ہوتے تو اسی طرح تصدیق کرتے.اور یا جو اس میں اصلیت ہوتی اس کو بیان کر دیتے.مرزا فضل احمد صاحب مرحوم سے مجھے بہت زیادہ وقت نہیں ملا.وہ جب قادیان میں آتے تھے مجھ سے ملتے تھے.ان کا معمول تھا کہ وہ موجودہ قصر خلافت کے پچھواڑے سے عموماً آیا کرتے تھے اور مرزا نظام الدین صاحب کے مکان میں آ کر مجھے اس جگہ ملتے جہاں آج کل دفتر ناظر امور عامہ ہے اور میں ان سے بعض حالات حضرت کے سلوک اور طرز عمل کے متعلق پوچھتا وہ بیان کر دیتے یہ خلاصہ ہے میرے اس ماخذ کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح کے پہلے حصہ کا ہے.بقیہ حاشیہ: - کو علم ہو.اور کوئی فردان افراد واقعیہ سے خدا کے علم سے باہر نہ رہ جائے.ورنہ لازم آوے گا کہ زید کا علم تو خدا کو ہو.مگر عمرو کا نہ ہو.پس جب ان سب پر خدا کا علم محیط ہوا.تو بالضرورت ثابت ہوا کہ ان سب کا اس کو شمار معلوم ہے.اور یہی مطلب تھا.قولہ.خدا وہ جانتا ہے.جو اس کے جاننے کے لائق ہے.اقول.اس سے معلوم ہوا کہ خدا زانی کو اس حالت زنا میں اور چور کو اس کی حالت چوری میں نہیں جان سکتا.کیونکہ اس سے بڑھ کر اور کون سا علم مکروہ ہوگا.جو اس کی شان کے لائق نہ سمجھا جائے.حضرت خدا تو وہ ذات کامل ہے کہ کوئی موجود اس کے علم سے باہر نہیں.بلکہ اس کے عدم علم سے عدم سے لازم آتا ہے.مگر وہ آپ کا فرضی ایشر کیسا ہے کہ ایک شے تو دنیا میں فی نفس الامر موجود ہے.اور وہ شے خود جانتی ہے.جو میں موجود ہوں پر ایشر کو اس کے وجود کی کچھ خبر ہی نہیں.عَالِمُ الغَیبی تو خدا کی ایک صفت لا ينفك ہے.جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوسکتی.اس صفت کو دوسرے افعال پر قیاس کرنا جو خدا کی شان کے لائق نہ ہوں.یہ باوا صاحب کی لیاقت علمی ہے اور انہی کی شان کے لائق ہے.قولہ.پر میشر اپنے نیم کے مطابق جس روح کے اعمال قابل نجات دیکھتا ہے.اس کو نجات کر دیتا ہے.

Page 439

حیات احمد ۴۲۹ قیام بٹالہ کے متعلق بعض باتیں جلد اول حصہ سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے عہد شباب میں بٹالہ مولوی سید گل علی شاہ صاحب کے پاس تعلیم کے لئے غدر کے زمانہ کے قریب بھیجے گئے تھے.آپ کا بٹالہ میں بہت بڑا عالی شان مکان تھا.میں آپ کی تعلیم کے سلسلہ میں یہ امرلکھ آیا ہوں کہ ابتداء سید گل علی شاہ صاحب قادیان میں تعلیم دینے کے لئے آتے تھے.اس زمانہ میں وہ میرزا نظام الدین صاحب والے دیوان خانہ کے جنوبی حصہ میں رہا کرتے تھے.پھر وہ بٹالہ چلے گئے اور حضرت اقدس بھی بغرض تعلیم وہاں تشریف لے گئے.اس وقت آپ کے ہم مکتبوں میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی تھے اور لالہ بھیم سین بھی وہیں آپ کے ساتھ اُن سے پڑھتے تھے.حضرت اقدس کی پاکیزہ زندگی اور شریفانہ اور غیور طبیعت اور زاہدانہ طرز زندگی سے ذاتی طور پر واقف تھے.مولوی محمد حسین صاحب بقیہ حاشیہ : اقول.باوا صاحب آپ نے اتنا جنگ اور اس قدرات کر کے آخیر کا ر ہم سے صلح کر لی.اب ہم آپ کو آپ ہی کے قول سے قائل کرتے ہیں کہ جس حالت میں پر میشر اپنی نظر ازلی سے دیکھ رہا ہے کہ اتنے روح مکتی کے اعمال بجالاویں گے.اور میں ان کو مکتی دوں گا.پس ضرور ہوا کہ وہ سب ارواح کسی دن ملکتی پا جائیں.ورنہ وہ نظر از لی پر میشر کی غلط ٹھہرے گی.اور جب مکتی پا گئے تو وہی اعتراض ہمارا جس سے آپ منہ پھیرتے ہیں.آپ پر وارد ہوا اور پہلے سے بھی کئی پختہ دلائل سے یہی اعتراض آپ کے دست بدامن ہو رہا ہے.مگر اب تک آپ سے کچھ جواب نہ بن پڑا.اور اگر چہ آپ بہت ہی کو دے اچھلے مگر آخر کار وہی آش در کا سہ رہا.اخیر پر آپ نے لاچار اور عاجز ہو کر اور چاروں طرف سے رک کر اب یہ اقرار کیا کہ جن روحوں کے اعمال پر میشر کی نظر میں قابل نجات ہیں.وہ روح ضرور مکتی پا جائیں گے.سواس اقرار میں آپ صاف مان گئے کہ مکتی پانے والی روحوں کا ایک دن خاتمہ ہے.سو بہت خوب.ہم نے آپ کا یہ اقبال دعوی بسر و چشم منظور کیا.ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ آخر آپ کو ماننا پڑے گا.سومشفق دیکھئے کہ اخیر کو وہی بات ہوئی.اب چونکہ بہت سی پکی دلیلوں اور خود اقرار مبارک سے اعتراض ختم ہونے

Page 440

حیات احمد ۴۳۰ جلد اول حصہ سوم نے بھی اس عہد شباب میں حضرت کے طرز عمل کو خوب دیکھا تھا مگر عداوت کا بُرا ہو کہ یہ انسان کی خوبیوں اور کمالات کو مشکوک کرنے میں انصاف اور دلائل کو پرے پھینک دیتی ہے.مجھ کو یہ واقعہ اس لئے لکھنا پڑا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ اشاعة السنه جلد ۵ نمبر میں کچھ سوالات شائع کئے تھے.جن میں سے اکیسواں سوال یہ تھا.بٹالہ کے مولوی گل علی شاہ صاحب اور ان کے بعض متعلقین علم جفر میں دخل رکھتے تھے.اور آپ کو ان سے صحبت و استفادہ کا تعلق تھا یا نہیں؟ اس سوال کی غرض اور مقصود ظاہر ہے.وہ اُن خوارق اور اعجازی نشانات کو جو حضرت کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے.اپنے خیال میں مشکوک کرنا چاہتا ہے.میں اس وقت اس کا رڈ نہیں کرنا چاہتا.اس لئے کہ میں آپ کے سوانح کے اس حصہ میں آؤں گا تو انشاء اللہ واقعات کی روشنی میں اس پر بحث کرنے کی خدا کے فضل اور رحم سے توفیق کا امیدوار ہوں.یہاں پر میرا مقصد صرف سلسلہ سوانح ہی میں اس پر نظر کرنے کا ہے.حضرت اقدس نے کبھی اس امر سے انکار نہیں کیا کہ مولوی سید گل علی شاہ صاحب سے آپ نے تلمذ نہیں کیا.مگر آپ نے ان سے جو کچھ سیکھا اس کا خود ذکر کیا ہے کہ ”میں نے نحو، منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا.حاصل کیا.“ خود مولوی محمد حسین صاحب اہلِ حدیث کے سرگر وہ کہلا کر اور اپنے عالم یکتا ہونے کے مدعی ہو کر کبھی جفر وغیرہ کے قائل نہ تھے.اور اگر صرف مولوی سید گل علی شاہ صاحب سے نحو اور منطق پڑھنے سے جفر بھی آسکتا تھا تو یہ مولوی محمد حسین صاحب بھی اس میں صاحب کمال ہوتے اور حضرت کا مقابلہ کر کے دکھاتے مگر یہ تو محض ایک لغو قصہ تھا اور ہے.ان کی غرض غور نہ کرنے والے بقیہ حاشیہ:.روحوں کا ثابت ہے.اور کوئی امر زیر بحث باقی نہیں رہا.اور سب عذرات آپ کے رفع ہو گئے.اور سب امور تصفیہ طلب طے ہو چکے.اور کوئی وجہ نہیں کہ اب کیوں فیصلہ دینے میں توقف ہو.پس حضرت مطلع رہو کہ آپ پر ڈگری ہوئی.منہ

Page 441

حیات احمد ۴۳۱ جلد اول حصہ سوم لوگوں کو مغالطہ دینا اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان نشانات کو جو غیب مُصفی کا نمونہ تھے مشتبہ کرنا تھا.مگر خدائی فضل کو دیکھو کہ جلد ۱۵ میں وہ اس سوال کو پیش کرتا ہے.اور جلدے میں یہ لکھتے ہیں کہ ” مؤلّف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب.اس زمانہ سے آج تک ہم میں اُن میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلات برابر جاری رہی ہے.اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم اُن کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے لائق ہے.“ اپنی رائے کی وقعت کے اس اظہار کے ساتھ وہ حضرت اقدس کے متعلق براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے کہتا ہے :- اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.“ اور بھی متعدد اقتباسات اس ریویو سے کئے جا سکتے ہیں.مگر ان کے لئے اس کتاب کا دوسرا حصہ ہوگا اس اقتباس سے یہ ظاہر ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب حضرت اقدس کے ناصر الاسلام ہونے اور ناصر اسلام کی حیثیت سے منفرد ہونے کے خود قائل تھا.اور لوگوں کو توجہ دلا رہا تھا پھر اس کا وہ سوال کیا وقعت رکھتا ہے؟ غرض قیام بٹالہ میں آپ کی پاکیزہ زندگی کا اثر عام تھا اور لالہ بھیم سین پر تو مُدَّةُ العُمر رہا.اور وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک حضرت سے محبت اور تعلق رکھتے تھے.اور ان کے صاحبزادہ لالہ کنورسین صاحب بھی اسی عزت اور عظمت سے دیکھتے ہیں.لالہ بھیم سین صاحب نے آپ کی زندگی کا وہ زمانہ دیکھا تھا.جو آپ کا عہد شباب تھا اور طالب علمی کے ایام تھے.آپ خوبصورت اور وجیہ جوان تھے.ہر طرح آزادی اور فارغ البالی

Page 442

حیات احمد ۴۳۲ جلد اول حصہ سوم تھی.دنیا میں کسی دعوے کو لے کر آپ کھڑے نہ ہوئے تھے.اُن بے تکلفی کے ایام میں اگر آپ کی زندگی اعلیٰ درجہ کی نہ ہوتی.تو وہ مُدَةُ العُمر آپ کے مدح خواں اور مخلص دوست نہ رہتے.خودمولوی محمد حسین صاحب نے آپ کی اس زندگی پر باوجودشدید مخالفت کے کبھی اعتراض نہیں کیا.اور نہ کوئی الزام آپ کے چال چلن کے متعلق لگایا.باوجود یکہ وہ بہت بڑا عالم اور محدث تھا اور اُسے شہرت اور عزت عام حاصل ہو چکی تھی لیکن اس حالت میں بھی وہ حضرت کے لئے اپنے دل میں عزت و احترام کے وہ جذبات رکھتا تھا کہ آپ کا جوتا اٹھا کر آپ کے سامنے سیدھا کر کے رکھتا تھا اور اپنے ہاتھ سے آپ کا وضو کرانا اپنی سعادت سمجھتا تھا.میں ان باتوں کو کہتے ہوئے خدا شاہد ہے یہ مد نظر نہیں رکھتا کہ اس سے مولوی محمد حسین صاحب کی کسی طرح بھی حقارت کروں بلکہ میں ان امور کو اس حالت میں اس کے لئے باعث عزت سمجھتا ہوں کہ یہ عمل صالح ہے اور علمی ناز سے الگ ہو کر مخلصانہ رنگ سے رنگین ہے میرا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ زمانہ طالب علمی اور عہد شباب کے بے تکلف واقف و آشنا آپ کی پاک زندگی کے زندگی بھر گواہ رہے.قیام بٹالہ میں آپ کے مشاغل کا ذکر بھی آچکا ہے.آپ ہمیشہ خلوت کو پسند کرتے تھے اور اپنی تعلیم میں مصروف تھے اور فارغ اوقات میں ان کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے جو مخالفین اسلام نے لکھی ہیں یا ان کے جواب میں مسلمانوں نے تحریر کی ہیں.اس عمر میں بھی آپ تہجد اور نوافل کے پڑھنے کے با قاعدہ عادی تھے اور دعاؤں میں مصروف رہتے تھے.آپ کا قیام اپنی حویلی میں ہوا کرتا تھا زندگی سادہ تھی کھانے پینے کی طرف بہت کم توجہ تھی.اور بہت تھوڑی غذا کھایا کرتے تھے.پہلے بندو بست میں ایک دن کی نوکری ۱۸۵۲ ء میں جب بندو بست شروع ہوا تو اس کا ہیڈ آفس اس ضلع میں بمقام دینا نگر تھا.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کی تحریک پر یہ تجویز ہوئی کہ آپ بندوبست میں ملازم ہو جائیں.تا کہ ابتدائی کام سیکھ کر جلد ترقی حاصل کر سکیں.چنانچہ اس مقصد کے لئے آپ کو دینا نگر بھیجا گیا اور آپ ملازم بھی ہو گئے مگر ایک دن سے زیادہ عہد ملا زمت نہ رہا.

Page 443

حیات احمد ۴۳۳ صبح کا بھولا شام کو گھر آ گیا جلد اول حصہ سوم آپ کی طبیعت ملازمت سے کراہت کرتی تھی.والد صاحب کے حکم کی تعمیل میں چلے گئے اور پھر وہاں کے حالات دیکھ کر چلے آئے.والد صاحب نے اس پر آپ کو کچھ کہا نہیں اس لئے کہ وہ بھی جانتے تھے کہ آپ کی فطرت کسی اور کام کے لئے وضع ہوئی ہے.وہ دنیا کے اصول تدبیر پر کوشش کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ دنیوی ترقی کریں مگر وہاں کچھ اور ہی مقصود تھا.میرزا اسماعیل بیگ کو خدمت کی سعادت کیونکر ملی مرزا اسماعیل بیگ جو آج کل قادیان میں دودھ فروشی کرتا ہے ۱۸۷۷ء یا ۱۸۷۸ء کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور آپ کی زندگی کے آخری ایام تک کسی نہ کسی نہج سے آپ کی خدمت میں رہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے تایا زاد بھائی مرزا غلام اللہ صاحب مرحوم مرزا اعظم بیگ صاحب کے بیٹے اکبر بیگ صاحب کے ہمراہ ٹر کی جانے والے تھے.حضرت نے انہیں فرمایا کہ کوئی لڑکا چاہئے جو میرے لئے گھر سے روٹی وغیرہ لے آیا کرے.اس پر مرزا غلام اللہ صاحب نے عرض کیا کہ میرا چچا زاد بھائی اسماعیل بیگ ہے.نماز کا پابند ہے.آپ نے فرمایا اسے میرے پاس لے آؤ.میری والدہ سے پوچھ کر وہ مجھے جب کہ میں کھیلتا تھا اپنے ساتھ لے گئے.اگرچہ میں نے کہا کہ میں میاں جان محمد صاحب سے پڑھتا ہوں مگر انہوں نے کہا کہ میں وعدہ کر آیا ہوں تم چلو اور اس طرح پر وہ مجھے لے گئے.میری عمر اس وقت نو دس سال کی تھی.مجھے حضرت کے سامنے پیش کیا.اور میرے باپ کا نام سن کر آپ نے میری پشت پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ اس کا باپ نیک اور بھلا مانس تھا.آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تو میرے پاس رہے گا ؟ اور پھر فرمایا کہ ہر وقت یہاں حاضر رہنا پڑے گا ؟ پھر دریافت کیا کہ کیا چار پائی باہر نکال سکتا ہے.میں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا

Page 444

حیات احمد ۴۳۴ جلد اول حصہ سوم اچھا نکالو.جب میں نے چارپائی نکالی تو آپ مسکرا پڑے.اور فرمایا لڑکا تو ہوشیار ہے.میرا کام یہ مقرر ہوا کہ میں آپ کے گھر سے روٹی لے آیا کروں.اور حضرت کے پاس کھالیا کروں.اور نماز آپ کے ساتھ پڑھنے جایا کروں.ان ایام میں حضرت کا کام مرزا اسماعیل بیگ کہتے ہیں کہ اُن ایام میں حضرت صاحب کوئی مسودہ لکھا کرتے تھے.اور قرآن مجید پرنشان کرتے رہتے تھے.میں نے شاید کسی دوسری جگہ بیان کیا ہے کہ حضرت نے قرآن مجید بے انتہا مرتبہ پڑھا ہے آپ کے پاس ایک حمائل تھی.میں نے اس حمائل کو خود دیکھا ہے.اور اس پر سے لے کر اپنی ایک حمائل پر وہ نشان کئے تھے جو حضرت نے احکام القرآن کے لئے لگائے ہوئے تھے.حضرت کا منشاء تھا کہ ایک رسالہ احکام القرآن تحریر فرما دیں اور جستہ جستہ اس کے نوٹ بھی لکھے تھے.پھر آپ کا خیال ہوا تھا کہ رسالہ قرآنی صداقتوں کا جلوہ گاہ میں اُسے شائع کریں.غرض یہ ان نشانات کی طرف مرزا اسماعیل بیگ صاحب اشارہ کرتے ہیں یہ بچے تھے.انہیں تو کچھ معلوم نہ تھا کہ کیا لکھ رہے ہیں اور کیوں نشان کرتے ہیں.وہ صرف واقعہ بتاتے ہیں کہ اُن ایام میں آپ کا شغل یہ تھا.یہی زمانہ وہ تھا جبکہ آپ آریوں سے مباحثات تحریر کر رہے تھے.اور یہی وہ زمانہ ہے کہ جبکہ براہین احمدیہ کی تصنیف کا کام شروع ہو رہا تھا.حضرت مرزا اسماعیل کو بہلایا کرتے چونکہ مرزا اسماعیل بیگ بچہ ہی تھا.اور اسے کھیلتے ہوئے ہی حضرت کی خدمت میں پہنچا دیا گیا تھا.حضرت کسی نہ کسی وقت اس کو بہلایا کرتے.اور پھر اس کے واقعات زندگی سن کر ان پر خوشی اور تعجب کا اظہار کرتے.منجملہ اس کے مرزا اسماعیل بیگ پر ایک بھیڑیے کے حملہ کا واقعہ تھا.مرزا اسماعیل بیگ خود کہتے ہیں کہ

Page 445

حیات احمد ۴۳۵ جلد اول حصہ سوم کبھی فرصت کے بعد پوچھ لیتے کہ تمہارا باپ کتنا عرصہ ہوا فوت ہو گیا ہے.اور پھر تم کیا کرتے رہے.میں بتایا کرتا کہ کڑی چلا گیا تھا اور بکریاں چرا تا تھا.اور وہاں ایک مرتبہ مجھ پر ایک جانور نے جس کو میں کتا سمجھا حملہ کیا اور میں دریا میں چلا گیا اور اس طرح بچا.لوگوں نے بتایا کہ وہ بھیڑ یا تھا.پھر آپ اس واقعہ کو سن کر ہنستے اور فرماتے کہ تو بڑی قسمت والا تھا کہ بھیڑیئے کے منہ سے بچ گیا اور کبھی کبھی مجھ سے یہی کہانی سنتے رہتے.“ کھانے کے وقت کا معمول حضرت کے کھانے کے وقت اپنی روٹیاں یتامی اور مساکین کو تقسیم کرنے کا معمول پہلے بیان ہو چکا ہے.مرزا اسماعیل بیگ صاحب بھی اُسے دہراتے ہیں.اور وہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات ساری روٹیاں تقسیم کر دیتے تھے اور گھر سے اور نہیں منگواتے تھے.آپ صرف شور با پی لیتے تھے.کسی دن میں ضد کرتا کہ آپ نہیں کھاتے تو میں بھی نہیں کھاتا تب کچھ کھا لیتے.تیسرے پہر کا بلی چنے منگواتے میں کبھی گھر سے لے آتا.کبھی ایک پیسہ کے بازار سے، گریاں میں آپ کو دے دیتا اور ثابت دانے میں کھا لیتا.بہت تاکید کرتے کہ تم بھی کھاؤ.اور کبھی چائے بنواتے تو مصری ڈال کر پیتے تھے.تہجد اور وضو کے وقت معمول سردیوں میں عام طور پر گرم پانی سے وضو کرتے تھے.تہجد کے لئے کبھی میں خود جاگ پڑتا اور کبھی جگا لیتے تھے.جگانے میں آپ کا معمول یہ تھا کہ ہلا کر جگایا کرتے تھے.جمال بھی وہاں سویا کرتا تھا.اور وہ اٹھا نہیں کرتا تھا.تب آپ فرماتے کہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے ما رو مگر جب وہ یہ کہتے ہوئے سنتا تو فوراً اٹھ بیٹھتا ایک روز وہ نہ اٹھا.تو اس پر لوٹا ہی ڈالدیا.

Page 446

حیات احمد ۴۳۶ جلد اول حصہ سوم تب وہ اٹھنے لگا اور آپ ہنسے.آپ دراصل یہ چاہتے تھے کہ جو کوئی آپ کے پاس رہے.با قاعدہ نماز پڑھے اور تہجد میں بھی شریک ہونے کی عادت ڈالے.نماز تہجد کے بعد آپ کا معمول تھا کہ چپ ہو کر بیٹھ جاتے.مرزا اسماعیل بیگ کی عمر اس وقت بہت چھوٹی تھی.وہ سمجھ بھی نہ سکتے تھے حقیقت یہ ہے کہ آپ ذکر الہی میں مشغول ہوتے.(عرفانی ) اور فجر کی نماز کے لئے نائیوں کے گھر کی طرف سے جایا کرتے.میاں جان محمد نماز پڑھایا کرتے.فجر کی نماز کے بعد آ کر سو جایا کرتے تھے.فجر کی نماز اول وقت پڑھا کرتے تھے.حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کا استفسار مرزا اسماعیل بیگ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی بڑے مرزا صاحب (حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم و مغفور ) مجھے بلا لیتے وہ آپ چار پائی پر پڑے رہتے تھے.پاس دو کرسیاں پڑی رہتی تھیں مجھے کرسی پر بیٹھ جانے کے لئے فرماتے.اور دریافت کرتے کہ سُنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے؟ میں کہتا تھا کہ قرآن دیکھتے ہیں اور اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے.(مطلب یہ تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت سے فارغ بھی ہوتا ہے.عرفانی ) پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے.میں جواب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں اور اٹھ کر نماز بھی پڑھتے ہیں.اس پر مرزا صاحب کہتے کہ اس نے سارے تعلقات چھوڑ دئے ہیں.میں اور وں سے کام لیتا ہوں.دوسرا بھائی کیسا لائق ہے.وہ معذور ہے.حضرت اقدس جب والد صاحب کی خدمت میں جاتے تو نظر نیچی ڈالکر چٹائی پر بیٹھ جاتے تھے.آپ کے سامنے کرسی پر نہیں بیٹھتے تھے.یہ آپ کی شبانہ روز زندگی کا ایک مختصر خاکہ ہے.

Page 447

حیات احمد ۴۳۷ اپنے ہم نشینوں کو ہدایت جلد اول حصہ سوم آپ کے پاس جو لوگ آیا کرتے تھے.وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی نصیحت فرمایا کرتے.میاں علی محمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ یہاں ایک فاحشہ عورت رہتی تھی مجھے فرمایا کرتے کہ اگر وہاں کبھی گئے تو یہاں میرے پاس نہ آنا.اور پاک زندگی بسر کرنے کی ہدایت فرماتے رہتے.ہر قسم کی منہیات سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے.رات کے وقت فرمایا کرتے کہ وضو کر کے سو جایا کرو.اور داہنی کروٹ پر سویا کرو.اور یہ بھی فرماتے کہ دعا کیا کرو.يَا خَبِیرُ أَخْبِرْنِی اور صبح اٹھ کر خواب پوچھتے اور تعبیر فرماتے.اور جب کوئی ضرورت ہوتی تو فوراً اسے پورا کرتے تھے.ایک مرتبه بالن (ہیزم سوختنی ) کے لئے میں نے عرض کیا ( بروایت میاں علی محمد صاحب ) تو آپ نے جھنڈو باغبان کو کہا کہ ان کو بالن دیدو.اس نے مجھے دے دیا.پیچھے عنایت بیگ آ گیا اور اس نے رکھوالیا.میں واپس چلا آیا.آپ نے مسکرا کر پوچھا کہ کیا دس دن کا گزارہ ہو جائے گا.میں نے جب واقعہ بیان کیا تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اسی وقت جھنڈو کو بلایا اور بہت ناراض ہوئے کہ ایک غریب کو جب دیا گیا تھا تو کیوں چھین لیا گیا.اب تم خود اٹھا کر اس کے گھر چھوڑ کر آؤ.چنانچہ ایسا ہی ہوا.آپ غرباء کا بہت خیال رکھتے تھے اور ان کے لئے ہر قسم کی قربانی کو آمادہ رہتے تھے.بچپن کے بعض واقعات میں نے اسی سوانح کے دوسرے حصہ میں آپ کے شکار کا ذکر کیا ہے کہ آپ نے بندوق سے ایک مرتبہ ایک گل دم کا شکار کیا تھا.اور یہ بھی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے کبھی غلیل کا استعمال بھی کیا ہے.میں اس کی وجہ بھی لکھ آیا ہوں.حضرت اماں جان کی ایک روایت سے جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کی جلد اول میں لکھی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لاسا بنا کر بھی بعض جانوروں کا شکار کیا ہے.چنانچہ فرمایا کہ:- ”ایک دفعہ میں بچپن میں گاؤں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھا ہوالا سا بنارہا تھا کہ اس

Page 448

حیات احمد ۴۳۸ جلد اول حصہ سوم وقت مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوئی.جو گھر سے لانی تھی میرے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا میں نے اسے کہا کہ مجھے یہ چیز لا دو.اس نے کہا کہ میاں بکریاں کون دیکھے گا.میں نے کہا تم جاؤ میں ان کی حفاظت کروں گا اور چراؤں گا.چنانچہ اس کے بعد میں نے اس 66 کی بکریوں کی نگرانی کی.اور اس طرح خدا نے نبیوں کی سنت ہم سے پوری کرادی.“ نہال میں جانا اور وہاں کے مشاغل میں نے کتاب کے دوسرے حصہ میں حضرت اقدس کی والدہ محترمہ رَحِمَهَا اللهُ عَلَيْهَا کا کسی قدر ذکر کیا ہے.حضرت کے نہال موضع آئمہ ضلع ہوشیار پور میں تھے.یہ ایک مغل خاندان وہاں آباد تھا.جو گواپنی دولت اور تمول کے لحاظ سے ممتاز نہ تھا مگر شرافت اور نجابت کے لحاظ سے وہ اپنے اقران میں واجب الاحترام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو دونوں قسم کے امتیاز حاصل تھے وہ ایک حکمران خاندان تھا لیکن با وجود دنیوی حیثیت سے ممتاز ہونے کے اس خاندان نے آئمہ کے خاندان سے رشتہ ناطے کرنے ہی پسند کئے یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آبائی خاندان کی عظمت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے کہ ان کا اخلاق کتنا اعلیٰ اور نقطہ نظر کتنا وسیع تھا کہ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات دولت اور ثروت کے لحاظ سے نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں اپنا عزیز اور جسم و جان سمجھتے تھے.اُن کا اُسی طرح احترام کرتے تھے جس طرح اپنے خاندان کے کسی دوسرے ممبر کا.یہ تعلقات دیرینہ چلے آتے تھے اور رشتہ داریوں کے لئے یہی خاندان مخصوص تھا.اس خاندان کی لڑکیاں حضرت کے خاندان میں آیا کرتی تھیں اور یہ سلسلہ مرزا سلطان احمد صاحب کی پہلی شادی تک برابر چلا آیا.اور سچ تو یہ ہے کہ وہ شریف خواتین فی الحقیقت اس خاندان کی عظمت کی اہل تھیں چنانچہ حضرت مالی چراغ بی بی صاحبہ رَحِمَهَا اللهُ عَلَيْها حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کی فیاضی.نیکی.مہمان نوازی.وسعت حوصلہ.غریب پروری.استغنا.شجاعت.جرأت مشہور ہے.اور میں کسی قدر ذکر اس کتاب کے صفحہ ۴۰ پر موجودہ صفحہ ۲۱۸،۲۱۷

Page 449

حیات احمد ۴۳۹ جلد اول حصہ سوم کر آیا ہوں.بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ اپنے ننہال میں بھی تشریف لے جاتے تھے.آئمہ ایک چھوٹا سا قریہ ہے.وہاں آپ چڑیاں پکڑا کرتے.اور چونکہ سرکنڈا بھی بڑا تیز ہوتا ہے اگر چاقو نہ ملتا تو آپ اس سے ہی اُسے ذبح کر لیتے.وہاں کے واقعات اور حالات میں اس سے زیادہ کچھ نہیں.چڑیوں کا پکڑنا ایک بہت چھوٹا اور معمولی واقعہ ہے لیکن عظیم الشان ہونے والے آدمیوں کی سیرت میں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی آگے چل کر بہت بڑا اثر رکھا کرتی ہے.چنانچہ جب آپ خدا کے فضل و رحم سے مامور ہوئے اور خدا تعالیٰ کے کلام وحی مشرف ہونے لگے تو خدا تعالیٰ نے بعض کشوف میں آپ کو سفید پرندوں کا پکڑنا بھی دکھایا.جو مغربی اقوام کے داخلِ اسلام ہونے کے متعلق ہے.وہ چڑیاں پکڑنا ایک طرح پر پیش خیمہ تھا جیسے بعض انبیاء علیہم السلام میں بکریوں کا چرانا انسانی گلہ بانی کا پیش خیمہ ثابت ہوا.غرض آپ کے بچپن کے حالات اور واقعات زندگی میں نہال میں اس واقعہ کا پتہ چلتا ہے.خود حضرت نے یہ ذکر کیا تھا اور وہ لوگ جو آئمہ کے بڑے بوڑھے تھے اور جو اس عہد کے واقعات کے دیکھنے اور جاننے والے تھے اس کی شہادت دیتے تھے.اور ایک بات جو متفق طور پر آپ کی زندگی میں یہاں اور وہاں پائی جاتی ہے وہ یہ کہ لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیلنے کا آپ کو شوق اور عادت نہ تھی بلکہ الگ الگ رہا کرتے تھے.والدہ صاحبہ کو آپ سے اور آپ کو والدہ صاحبہ سے بہت محبت تھی.یوں تو ہر ماں کو اپنے بچے اور بچے کو ماں سے محبت ہوتی ہے مگر یہ محبت اپنے رنگ میں بے نظیر تھی.حضرت اقدس کے دل پر اس محبت کا گہرا اثر تھا اور بار ہا دیکھا گیا کہ جب کبھی آپ والدہ صاحبہ کا ذکر کرتے تو آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور آپ ایک قادرانہ ضبط سے اس اثر کو ظاہر نہ ہونے دیتے تھے.آپ کی والدہ صاحبہ بھی سیف زبان سمجھی جاتی تھیں اور ان کی زبان ایسا اثر رکھتی تھی کہ بعض اوقات وہ قبل از وقت کوئی بات کہہ دیتی تھیں تو وہ ہو جاتی تھی.چنانچہ کبھی کبھی جب بڑے مرزا صاحب (حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم ) کشمیر میں تھے.تو آپ فرماتی تھیں کہ آج کشمیر سے کچھ آئے گا.تو ضرور کوئی نہ کوئی قاصد وہاں سے تحائف وغیرہ لے کر

Page 450

حیات احمد ۴۴۰ جلد اول حصہ سوم آجاتا تھا.ایسی نیک اور خدا رسیدہ خاتون نے دنیا کو حضرت مسیح موعود جیسا عظیم الشان انسان دیا.اور میں سوانح کی دوسری جلد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہمشیرہ مراد بی بی صاحبہ کا بھی ذکر کر آیا ہوں کہ وہ بھی خدا رسیدہ اور ایک مجذوب خاتون تھی.بچپن کے سفروں میں دوسرا سفر آپ کا ہوشیار پور کا ہے.جہاں ایک اور رشتہ دار خاندان موجود تھا.اس خاندان سے بھی سلسلہ رشتہ داری برابر چلا آتا تھا.اور آئمہ والے خاندان کے ساتھ بھی ہوشیار پوری خاندان کے تعلقات رشتہ داری رہتے تھے.چنانچہ مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیار پوری کی ہمشیرہ کی شادی مرزا علی شیر بیگ سے جو حضرت اقدس کے ماموں زاد بھائی تھے ہوئی.اور ان کی دختر سے مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی شادی ہوئی.چونکہ حضرت صاحب کی والدہ محترمہ ہوشیار پور جایا کرتی تھیں تو آپ بھی ساتھ ہوتے تھے.وہاں آپ تنہا چوؤں میں ( جو وہاں کے برساتی نالے ہیں ) پھرتے رہتے تھے.مختصر یہ کہ آپ کی ابتدائی زندگی میں تنہائی اور خلوت کا پہلو ہمیشہ نمایاں نظر آتا ہے.اور اس کا طبیعت پر بہت بڑا غلبہ تھا.اس طرح پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بچپن عام بچوں سے اس امر میں ممتاز تھا کہ آپ کھیل کود میں کوئی حصہ نہ لیتے تھے اور بچپن میں بھی تنہائی پسند تھے.تعلیم کے ایام میں بھی دوسروں سے الگ رہتے اور اپنی توجہ اپنے سبقوں کی طرف رکھتے.جوانی کا آغاز ہوا تو عبادت الہی کا شوق ہوا اور جوانی کی ساری امنگیں اور تمنائیں ذوق عبادت اور محبت الہی کے محور پر گردش کرنے لگیں دنیا اپنی تمام دلفریبیوں کے باوجود آپ کی نظر میں ایک مَكْرُوهُ الْهَيْئَت چیز ہوگئی.اور آخرت اور خدا میں زندگی کے جذبات میں اس قدر تموج پیدا ہوا کہ اپنے والد محترم کی خدمت میں گوشہ گزینی کی درخواست کر دی اور ہر وقت مکن تکیه بر عمر نا پائیدار آپ کے زیر نظر رہنے لگا.شادی باوجود یکہ عین عنفوان شباب میں ہوئی.مگر شادی کی تمام مسرتیں اور جذبات کی طبعی موجیں آپ کی غلام ہو گئیں.پوری قدرت اور حکومت اپنے جذبات پر

Page 451

حیات احمد ۴۴۱ جلد اول حصہ سوم خدا کے فضل سے حاصل کر لی.باوجود ایک مقابل نوجوان کے آپ مِنْ وَجْهِ مجر دانہ زندگی بسر کر رہے تھے.پبلک حالات کے ماتحت جو تعلقات تھے وہ نہایت شریفانہ اور محسنانہ رنگ اپنے اندر رکھتے تھے.مخلوق کی بھلائی اور نفع رسانی کے لئے ہر وقت تیار رہتے.خدام سے اس وقت بھی سلوک ایسا تھا کہ اس میں نفس انسانیت کے شرف اور عزت کو ضائع نہیں ہونے دیا.انہیں ذلیل اور اچھوت نہ سمجھتے بلکہ جو سلوک اپنی ذات اور نفس سے روا ر کھتے وہی ان کے لئے پسند کرتے.جوخود کھاتے ان کو بھی کھلاتے اور جو خود پہنتے وہ ان کو بھی پہناتے بلکہ بعض حالتوں میں آپ ان سے ایسا سلوک کرتے جو اپنے نفس سے بھی نہیں کرتے تھے.جب اس سے آگے قدم رکھا اور خاندانی ضروریات اور حالات نے آپ کو اپنے زمینداروں اور کاشتکاروں کے ساتھ حفاظتِ حقوق کے مقدمات کے سلسلہ میں ڈالا تو آپ نے کبھی حق اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دیا اور نہ کسی کے نقصان کو گوارا کیا باوجود یکہ طبیعت سخت متنفر تھی مگر والد ماجد کے حکم کی تقبیل اپنی سعادت کبھی اور یہ بہت بڑا مجاہدہ آپ کا تھا.اور اس میں آپ کامیاب ہوئے.اسی اثناء میں سرکاری ملازمت بھی والد ماجد کے ہی ارشادات کو مدنظر رکھ کر کر لی.اور اس زمانہ میں آپ نے اپنے عمل سے دکھایا کہ کس طرح ایک اہلکار ہر قسم کے لالچوں اور تحریصوں سے بچ سکتا ہے.باوجو یکہ آپ کا مشاہرہ قلیل تھا مگر کبھی آپ نے جائز نہ سمجھا کہ کسی شخص سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا ئیں.جس کو دوسرے اہلکار شیر مادر سمجھتے تھے.پھر آپ نے یہ بھی دکھایا کہ فرض منصبی کو کس محنت اور دیانت سے ادا کرنا چاہئے کبھی آپ کام باقی نہ رکھتے.اور روز کا کام روزانہ ختم کرتے.گھر پر نہ لاتے تا کہ اس سلسلہ میں اہلِ غرض مکان پر نہ آ سکیں.جو دوسرے اہلکار عمداً کرتے تا کہ کچھ وصول کریں.دفتر کے کام کے بعد اپنا وقت یاد الہی میں یا تبلیغ دین یا کسی کو پڑھا دینے میں صرف کرتے.بالکل باہمہ اور بے ہمہ کی سی زندگی تھی.آخر اسے بھی ترک کیا.اور پھر آپ نے خدا تعالیٰ کے اشارہ کے ماتحت روحانی مجاہدات کی طرف قدم بڑھایا اور انوار سماوی کا مورد ثابت کر دیا.غیرت دینی حمایت اسلام کا وقت آچکا تھا.آپ قلم لے کر میدان میں

Page 452

حیات احمد ۴۴۲ جلد اول حصہ سوم اترے.اور سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا.اور آپ نے مستقل طور پر خدمت اسلام کا تہیہ فرمالیا اور براہین احمدیہ کی تصنیف کا عہد آ گیا.جو لوگ آپ کی اس چالیس سالہ زندگی پر غور کریں گے وہ دیکھیں گے کہ یہ زندگی ایک اعجازی زندگی ہے.جس میں معرفت کا نور نمایاں ہے.تقوی اللہ کی شان جلوہ گر ہے.نفع رسانی مخلوق کا پہلو کھلا کھلا نظر آتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس کا ہر پہلو اور ہر شعبہ ایسا ہے کہ اس میں وہ شان جلوہ گر ہے جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کی زندگی میں بین نظر آتی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے میں ان چالیس سالہ زندگی کے حالات کو بیان کرنے کے بعد اب اسی کی توفیق سے اگلے حصہ میں تصنیف براہین کے عہد کے واقعات قلمبند کرنے کی تمنا کرتا ہوں.وَهُوَ الْمُوَفِّق (عرفانی)

Page 453

قوائم انڈیکس حیات احمد جلد اوّل آیات قرآنیه.احادیث نبوی الہامات حضرت مسیح موعود.اسماء...........مقامات.کتابیات Y......10

Page 454

آیات قرآنیہ سورة الفاتحة (مکمل) ۲۴۹ ۲۶۵،۲۵۷، ۲۶۶ | یونس اياك نعبد و ایاک نستعین ۲۶۲ ، ۲۷۹، ۲۸۲ لهم البشري في الحيوة الدنيا (۶۵) ۱۶۵،۱۵۳ اهدنا الصراط المستقيم (۷۶) البقرة و علم آدم الاسماء (۳۲) كذالك قال الذين من قبلهم....(۱۱۹) كم من فئة قليلة (۲۵۰) آل عمران قل ان كنتم تحبون الله (۳۲) النساء ۱۴۵ ۲۸۵ ۲۷۹ ۲۲ ۳۱۹ لن يجعل الــلــه لـلـكــافــريــن عـلـى يوسف و فوق كل ذي علم عليم (۷۷) الرعد اما ما ينفع الناس فيمكث في الارض (۱۸) ۲۶۷،۲۵۸ ۲۵۰ ان يــــومــــا عند ربك كالف سنة مما تعدون (۴۸) ۷۸ الشعراء وما تنزلت به الشيطين (۲۱۱ تا ۲۱۳) ۲۸۰ المؤمنين سبيلا (۱۴۲) وتوكل على العزيز الرحيم ( ۲۱۸ تا ۲۲۰) ۱۹ حاشیہ ܬܪܙ هل انبئكم على من تنزل الشيطين المائدة (۲۲۲ تا ۲۲۴) ۲۸۰ تعاونوا على البر والتقوى حاشیه ۲۸۶ العنكبوت جعل فيكم انبياء و جعلكم ملوکا (۲۱) ۳۴ والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا (۷۰) ۳۷۸ الانعام الروم قل ان صلاتی و نسکی و محیای (۱۶۳) ۱۵۷ ومن أيته....و اختلاف السنتكم (۲۳) ۲۸۵ الانفال يايها الذين امنوا ان تتقوا الله (۳۰) ܬܪܙ لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة(٢٢) ۱۴۵ التوبة و يستبدل قوماً غيركم (۳۹) ۱۲ لقد جاء كم رسول من انفسكم (۱۲۸) ۱۹ حاشیه الصافات احشروا الذين ظلموا و ازواجهم (۲۳) ۹۶

Page 455

الزمر لا تقنطوا من رحمة الله (۵۴) محمد و ان تتولوا يستبدل قوماً غيركم (۳۹) الحجرات ان اكرمكم عند الله اتقكم (۱۴) الملك ۶۴ ۱۳ 2 ۱۴۱۱ ء امنتم من في السماء ان يخسف بكم الارض (۱۷) ٣٣ الذاريات و في السماء رزقكم وما توعدون (۲۳) ۲۴۳ الحديد ويجعل لکم نورا تمشون به (۲۹) ܬܪܙ الجمعة و آخرين منهم لما يلحقوا بهم (۴) ۱۴،۱۲

Page 456

اصدقكم حديثا الصدق ينجى و ا و الكذب يهلك يضع الحرب احادیث نبویہ ۱۶۵ ۲۱۴ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا ہو گا...مسیح موعود کانزول جانب مشرق دمشق سے ہوگا ۱۳،۱۲ ۳۸ العلماء ورثة الأنبياء يتزوج ويولد له ۲۸۱ ۳۰۷ مسند امام احمد بن حنبل میں مہدی کا خروج خراسان سے لکھا ہے ۳۴ اول ما بدء به رسول الله من الوحى الرؤيا ایک حدیث میں مہدی کے خروج کا نشان الصالحة في النوم 1+1 فارس عصبتنا اهل البيت فان اسماعيل عم ولد اسحاق اهل فارس هم ولد اسحاق K ۱۶ ۳۴ ما وراء النہر بتایا گیا ہے احادیث اور آثار میں مہدی کی نسبت یہی لکھا ہے کہ وہ مركب الوجود ہوگا يخرج رجل من وراء النهر يقال له الحارث احادیث بالمعنی ۱۸ بخاری نے مسیح موعود کی علامت يَضَعُ الحرب مہدی سے مناسبت اور تعلق محبت..وہ میری ہی قبر میں بھی لکھی ہے دفن ہوگا ۱۴۲ ۲۶ بعض حدیثوں میں رجل من فارس کی جگہ رجال من مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا ۷۸ فارس لکھا ہے احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ اہل فارس بنی اسحاق ہیں مسیح موعود کا دوز رد چادروں میں ملبوس ہونا اور اس طرح وہ ابرا ہیم کی نسل ہیں ۱۶ اگر ان احادیث کو قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر کے ساتھ آخری زمانہ کے مولوی بدترین مخلوق ۲۶ ۲۲۴ ۱۷۰ ملایا جائے تو یہ بات بہ بداہت ثابت ہوتی ہے کہ اپنی رؤیا میں صادق تر وہی ہوتا ہے جو اپنی باتوں میں آنے والا مسیح موعود فارسی الاصل ہوگا ۱۴ صادق تر ہوتا ہے ۱۶۲

Page 457

عربی الہامات اليس الله بکاف عبده الہامات حضرت مسیح موعود ۳۶۲ ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ اجيب كل دعائك الا في شركائك و السماء و الطارق 21 ۷۰،۶۹،۶۸ ولقد لبثت فيــكــم عــمــرا مـن قبله ان الذين كفروا رد عليهم رجل من فارس ۱۵ افلا تعقلون ۱۴۴ ۱۴۳ خذوا التوحيد التوحيد يا ابناء الفارس ۲۸،۱۵،۱۴ لو كان الايمان معلقا بالثريا جرى الله في حلل الانبياء قل ان کنتم تحبون الله يحببكم الله فاتبعونی سلمان منا اهل البيت ۱۴۳ ۲۸،۲۵،۱۵ ۱۵ الحمد لله الذي جعل لكم الصهر محمد رسول الله و الذين معه اشداء والنسب حاشیه ۱۱،۱۰ على الكفار لا تخف انك انت الاعلى قلنا یا نار کونی بردا و سلاما ۱۴۳ ۱۴۱ ۱۳۸ ينقطع ابائك و يبدء منك ۹ ان الذين صدوا عن سبيل الله رد عليهم رجل من فارس ۲۸ اليس الله بکاف عبده قد افلح من زكها ۱۳۲ قلنــایــانـــار کـونـی بـردا و سـلامــــا على ابراهيم ۲۵۲ مولوی عبد اللہ غزنوی کا الہام ) ۱۲۷ سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم انت مولنا فانصرنا على القوم الكافرين ۲۲۶،۲۲۵ ۱۲۷ وانصرنا على القوم الكافرين لا تصعر لخلق الله ولا تسئم من الناس يأتون من كل فج عميق وان كنتم في ريب مما نزلنا ۲۲۶ عبد اللہ غزنوی صاحب کا الہام) اردت ان استخلف فخلقت آدم زاد مجدك 117 ۱۱۵ ۱۱۵ انت منى و انا منك ولقد لبثت فيكم عمرا من قبله.....انی مهين من اراد اهانتك 22 اجيب كل دعائك الا في شركائك سبحان الله تبارك و تعالی اردو الهامات ۱۰، ۲۹ ۱۰۴۰ رسول اللہ پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں ۲۲۰ ۱۵۹ ۱۶۴ ۱۶۶ ۱۵۰

Page 458

بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۲۹۰ اے علمی بازی خولیش کر دی.ڈگری ہوگئی ہے مسلمان ہے آگ سے ہمیں مت ڈراؤ......1+7 ۲۵۲ بخرام که وقت تو نز د یک رسید........انگریزی الہامات تیرے بیان میں تختی بہت ہے رفق چاہیئے رفق ۲۴۹ آئی شیل ہیلپ یو فارسی الہامات مکن تکیه بر عمر نا پائیدار یو ہیوٹو گوامرتسر ۴۴۰ | ہلٹس ان دی ضلع پیشاور ۷۳ ۲۵ ۲۷۷ گاه گاه گاه

Page 459

۳۶۸ ۳۱۳ ۳۲۶،۲۵۷،۷۱۶۲ ۲۸۰ ۴۳۷ ۹۳ ۷۳ 190 ۲۷۷ ۸۶ ۳۸،۳۰،۱۹ - --- ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ اسماء ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ ۹۳،۷۸ ۱۹، ۲۱۵، ۲۱۹ امام اعظم امام ابوحنیفه) ۳۰۰،۲۵۱،۲۵۰،۳۲،۱۹،۱۷ ،۱۶ ( امام الدین مرزا امام رازی اماں جان حضرت امیر شاہ ڈاکٹر امین چند اندرمن منشی ایوب بیگ مرزا اے سپر نگر ڈاکٹر بابر بادشاہ با وانرائن سنگھ ۱۹۶ ،۱۹۴،۱۹۳ ۱۹۲ ۱۹۱ ، ۱۹۰،۱۸۹ ،۱۸۸ ،۱۸۶،۱۸۵ ۱۷ ۱۶ ۲۶،۲۵،۲۲ ۱۹۱ ۹ ۱۳،۱۲ < • ۴۴۰ ۳۹،۱۸،۱۷،۱۶ ۲۶۳،۲۵۴ ۲۱۰، ۲۰۶ ،۲۰۵ ،۲۰۳ ،۲۰۲،۲۰۱ ، ۲۰۰ ، ۱۹۹ ، ۱۹۸ ،۱۹۷ 12.17 ،۴۲۲ ،۴۰۶ ،۳۹۸ ،۳۵۹ ،۳۵۷ ،۳۵۵،۲۹۹،۲۱۱ ۳۶۸ ،۹۹ ،۹۴ ،۹۳ ۳۷۸ ۳۳ ۳۴،۳۳،۳۲ ۲۶۷،۲۵۸ ۲۱۴ آدم آمنه حضرت ابراہیم حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حضرت ابوبکر صدیق حضرت ابو سعید محمد حسین لاہوری ابوسفیان ابوہریرہ حضرت ابوالفضل احمد بیگ مرزا اسحاق حضرت ۴۲۵ ،۴۲۴ ۴۳۶،۴۳۴ ،۴۳۳،۴۲۶،۳۶۶،۳۱۱ ٹیلر پادری ۴۳۳،۱۶۵ ۳۲۷ بختاور سنگ منشی ۳۷۲،۹۷ ،۹۶ بر قال ۱۳۸ بر لاس قوم بر ہما بسا ۹۲ ۹۳ اسرافیل اسماعیل حضرت اسماعیل بیگ مرزا اعظم بیگ مرزا اللہ دتا لودھی مولوی اله داد شیخ الہی بخش منشی اکو نٹنٹ الہی بخش مولوی الایشہ پادری

Page 460

۳۶۸،۹۶ ۲۵۱ ۴۳۶،۴۳۳ ۳۲ ۲۶۳ ۳۶۶،۲۳۰ ۲۴۵،۲۱۳ ۷۹،۷۷ ۵۹،۵۸ ۱۷۲،۱۰۵ ۲۸۹ بشمبر داس بشن ۳۴۴،۳۴۳،۱۴۰،۱۳۸ ٹیلر پادری ۲۶۷،۲۵۴ ثناء اللہ مولوی بشیر احمد صاحبزادہ حضرت ۴۲۳٬۳۷۰ حاشیه، ۴۳۷ جان محمد میاں بشیر الدین محمود احمد مرزا حضرت بلا سنگھ ۳۸۳،۳۰۴،۲۵۲،۲۳۲،۲۱۴،۱۸۰ ۳۷۲ بنی اسحاق بنی اسرائیل جان ملکم جبرائیل" جمال کشمیری ۲۹،۲۸،۱۸،۱۶ | جمیعت بیگ مرزا ۴۱،۴۰،۳۵،۲۸ جنت بنی فارس راہل فارس را بنائے فارس فارسیوں کی قوم جولاہا ( قوم) بنی فاطمه بوٹا بھیم سین لاله ۱۱، ۱۶، ۲۸،۲۷،۱۸،۱۷ جھنڈا سنگھ ۱۱، ۲۷، ۲۸، ۲۹ | جیو پال لاله ۳۱۸ جیون داس لاله ۳۷۸،۳۶۴،۱۹۸،۱۹۷ ،۱۹۶،۱۸۹ ،۱۸۸،۱۸۰ ۴۳۸ ،۲۲۱ ۲۲۰ ۲۱۹ ،۲۱۸ ،۲۱۷ ،۲۱۶ ۳۲ ۳۴،۳۳ 12.17 ۹۵ ۳۰۵ ۴۲۶ ۹۲، ۲۷۴،۲۵۳،۱۰۹،۱۰۸،۹۶، ۲۹۹، ۴۲۹،۳۹۰،۳۷۱ چراغ بی بی ۴۳۱ بیضاوی ۲۸۰ چغتائی حاجی برلاس بیٹ مین پادری پرکسن ۴۱۷ ،۴۱۶ ۹۲ حاکم حامد شاہ میر پرنسب مسٹر 11+ حامد علی پیر محمد مولوی ۲۳۷ حامد علی حافظ حسام الدین میرحکیم ۳۷۰۹۶،۹۵،۹۴، ۳۷۵، ۴۲۵ ۳۹۰،۳۷۰،۲۷۵،۹۹ ،۹۷ ،۹۶۰۹۴ ۱۲۲،۲۹ ۳۶۵ پیراں دتا تیجا سنگھ راجہ ۱۱۰،۵۰ حسن حضرت تیلورام تیمور ۳۶۱ حسن میرسید ۳۵،۳۴،۳۳،۳۲ حسین حضرت

Page 461

۶۳ ۲۷۰ ۲۸۵ ۳۷۸ ۳۷۴ حسینا کشمیری حلیمه خاتون حَوا حیات حجام خدیجہ حضرت داود حضرت ۳۶۶ روح اللہ حافظ ٣٣ ZA ۲۷۳،۲۷۲ رومی مولوی زید بن ثابت " حضرت سار دا پرشاد با بو ۱۰۱،۲۹ سراج الدین احمد مولوی سلطان احمد مرزا صاحبزاده ۷۶ ۲۱۶،۲۱۴،۱۷۲،۱۷۱ ، ۱۶۹ ،۱۳۵،۸۲،۷۲،۷۱ ،۵۲،۳۲ ۲۵۱ ۴۲۶ ،۴۱۹ ،۴۱۷ ، ۴۱۰ ، ۴۰۰ ، ۳۶۹ ،۳۱۹ ،۲۹۸ ،۲۴۵ ۴۲۶ ۴۳۸ ،۴۲۷ ۳۴۸ ۳۵،۱۷ ،۱۴،۱۳،۱۲ ۳۴۵ سلمان رسلمان فارسی حضرت دھرم پال دھنو میراثی دہریہ دیانند سرسوتی پنڈت ۱۷۷ ۱۷۸، ۱۷۹، ۱۸۰، ۱۸۱، ۱۸۲ ، ۱۸۳ سنانٹن ڈاکٹر ( ڈاکٹر پادری وایٹ بریخٹ ) سنت سنگھ سردار ( اسلامی نام عبدالرحمن ) ۳۴۲،۳۴۱،۳۴۰،۳۳۹ ۶۲ ۲۲۷ ۲۷۵،۲۷۴ ۲۷۳ ۳۷۴ ،۹۷ ،۹۴ ١٩٠ ۴۰۳ ،۱۳۰ ۲۸۹ ،۲۰۷ ،۱۹۴ ، ۱۹۳ ،۱۹۱ ،۱۸۸ ،۱۸۶،۱۸۵،۱۸۴ ۳۹۲،۳۷۸،۳۶۸،۳۶۷ ،۳۵۵،۳۴۲ دین محمد مرزا ۳۱۸،۳۱۶،۳۱۵، ۴۲۶،۳۶۷ | سوچیت سنگھ سوہن لال لاله سیج رام پنڈت سید احمد خان سر سید احمد خان مولوی ۳۶۰،۳۴۲ ۶۰ ۶۰،۵۹،۵۷ ۶۱۰۵۶ ۱۳۴، ۱۳۵ شرف الدین میاں سم والے ۳۸۰،۱۹۱ شرمپت رائے ۲۸۹،۱۷۶،۱۴۱،۱۳۷ ،۱۳۶،۱۰۷ ،۱۰۵،۷۳ ۴۱۹ ،۴۱۰،۲۲۵ ۳۶۱ ،۳۵۷ ،۳۵۶ ، ۳۵۵ ، ۳۵۴ ،۳۴۴ ،۳۴۳،۳۴۲ ۴۰۳ ۳۸۹،۳۸۵،۳۸۴،۳۸۳،۳۷۸ ۳۶۳،۱۹۲،۱۹۱،۱۷۱ ،۱۶۸ ،۱۶۷ ٣٣ دیو سماج ڈیوس رابرٹ ایجرٹن رابرٹ کسٹ رانی رجب علی پادری رحیم بخش شیخ رحیم بخش مولوی رلیا رام رنجیت سنگھ مہاراجہ ۴۳،۳۱، ۵۸،۵۳،۴۶ | شمس الدین شیخ

Page 462

شمس الدین میاں شونرائن اگنی ہوتری رشیو نرائن ۲۲۷ عزرائیل ۲۶۳ شہر بانو شیر سنگھ شیر علی عطا محمد ۳۶۰،۳۵۹،۳۵۵،۳۵۴،۱۸۲،۱۸۱، ۳۹۲٬۳۸۰،۳۶۱ عظیم بیگ مرزا علی ر علی مرتضیٰ رحید رحضرت ۵۹،۵۳،۳۱ علی احمد شیخ وکیل ۱۳۸ علی شیر بیگ مرزا ۴۶،۳۱ ،۳۰ 17217 ۲۹ ۱۲۲،۲۹،۲۶،۲۵ ،۲۱ ۳۶۲،۳۶۱،۲۶۰،۲۵۹ ، ۱۷۱ ، ۱۶۹ لدلده شیعہ مذہب ΔΙ علی محمد قاضی ۴۲۶ صاحب جان بی بی ۳۴۴ علی محمد میاں صاحب خان ٹوانہ ۳۱ 5 عمر فاروق حضرت ۴۳۷ ،۳۱۹،۲۹۸ ۲۶،۲۵،۲۲ صاحب دیال ۲۳ عمرا صدیق حسن خان نواب 12.عمر در از حافظ ۵۲ طراغ ۳۳ عنایت بیگ ظفر احمد منشی ظہور الحسن صاحبزادہ عباس علی شاہ سید ۳۰۵ حاشیه ۳۳۱،۳۳۰ | عیسی مسیح حضرت ۳۴۲٬۳۴۰ غفارا یکہ والا ۲۸۶،۲۲۴،۱۳۰،۹۳،۷۷ ۳۶۶،۳۱۵،۳۰۳،۳۰۲۲۹۹ ،۲۹۸ ۲۲۷، ۳۰۵ حاشیه غلام احمد مرزار مسیح موعود / مهدی معهود عبد الحق VAI عبدالرحمن ( پہلا نام سر دار سنت سنگھ ) لهه لدا عبد الرحمن مولوی عبد الکریم مولوی مولانا ۳۷۵،۳۷۱،۲۴۸،۲۳۴ ۳۲،۳۰ ،۲۸ ،۲۷ ،۲۶ ، ۱۹ ، ۱۸ ،۱۶ ،۱۵ ، ۱۴ ،۱۲ ،۱۱،۱۰ ،۹ ۶۷ ،۶۲ ،۴۷ ، ۴۴ ۴۳ ،۴۰، ۳۸،۳۷ ۳۶ ۳۵ ۳۴ ۷۸ ،۷۷ ۷۶ ۷۵ ۷۴ ۷۳ ۷۱ ،۷۰ ،۶۹ ،۶۸ ۹۰۸۹ ،۸۸ ،۸۷ ،۸۶،۸۵،۸۴،۸۳٬۸۲،۸۱،۸۰ ،۷۹ ۱۰۳۱۰۲،۱۰۱ ،۱۰۰ ، ۹۹ ،۹۷ ،۹۶ ، ۹۵ ،۹۴ ،۹۳ ،۹۲،۹۱ ۱۱۶ ،۱۱۵ ،۱۱۴،۱۱۳ ،۱۱۲ ،۱۱۱ ، ۱۰۹ ، ۱۰۸ ۱۰۷ ۱۰۵ ۱۰۴ ۱۳۴،۱۳۲،۱۳۰،۱۲۹ ،۱۲۸ ،۱۲۷ ، ۱۲۶ ، ۱۲۵ ، ۱۲۴ ،۱۲۰،۱۱۸ ۱۴۷ ، ۱۴۶ ،۱۴۴ ،۱۴۳،۱۴۲،۱۴۱ ،۱۳۸ ، ۱۳۷ ،۱۳۶،۱۳۵ ۱۲۷ ام عبداللہ شاہ غازی عبداللہ غزنوی مولوی عرفانی ( یعقوب علی عرفانی) ۱۴۷ ، ۱۳۰،۱۲۹،۱۲۸ ، ۱۲۷ ، ۱۲۶ ، ۱۲۵ ۱۷۲،۱۷۱ ،۱۶۶ ،۱۶۱ ۱۶۰ ۱۵۹ ۱۵۸ ۱۵۴،۱۵۳،۱۴۹ ۴۴۲،۴۳۶،۴۱۱،۴۰۳،۳۷۶

Page 463

۳۱۲،۷۵،۳۱ ۱۸۱،۱۸۰،۱۷۹ ، ۱۷۸ ، ۱۷۷ ، ۱۷۶ ، ۱۷۵ ، ۱۷۴ ،۱۷۳ ۲۰۵ ،۱۹۴،۱۹۳،۱۹۲،۱۸۸ ،۱۸۷ ، ۱۸۶،۱۸۵۱۸۳،۱۸۲ غلام قا در محزون تخلص رکھتے تھے غلام محی الدین غلام محی الدین مرزا ۲۰۶ ۲۱۲ ۲۱۳، ۲۱۴، ۲۱۵، ۲۱۶، ۲۱۷، ۲۱۸، ۲۱۹، ۲۲۰ غلام مرتضی مرزا حضرت ۵۸،۵۷،۵۶،۵۵،۵۴،۵۳،۵۲،۵۱،۵۰،۴۷ ،۳۲،۳۱ ۷۱ ۷۰،۶۸ ،۶۷ ،۶۶ ،۶۵ ،۶۴،۶۳،۶۲،۶۱،۶۰،۵۹ ۱۳۱،۱۱۵،۱۱۲،۱۱۱،۱۰۵ ، ۱۰۴ ،۹۰،۸۹ ،۷۶ ،۷۵ ، ۷۴ ۷۲ ۲۳۰ ،۲۲۹ ۲۲۸ ۲۲۷ ۲۲۵ ۲۲۴ ،۲۲۳ ۲۲۲ ۲۲۱ ۲۴۹ ،۲۴۸ ،۲۴۵ ،۲۴۴ ، ۲۴۱ ، ۲۳۵ ،۲۳۴،۲۳۲،۲۳۱ ۲۷۶ ،۲۷۵ ،۲۷۴ ، ۲۷۳ ، ۲۷۲ ،۲۵۳ ۲۵۲ ۲۵۱ ، ۲۵۰ ۳۲۰،۳۱۵،۲۹۴ ،۲۴۵ ،۲۲۰ ، ۲۱۹ ، ۲۱۸ ،۲۱۳ ،۲۱۲،۱۷ ۲۹۷ ،۲۹۶ ،۲۹۵ ،۲۹۴ ،۲۹۳ ،۲۹۱ ، ۲۹۰۲۸۸ ،۲۸۷ ۴۳۲،۴۰۱،۳۹۳،۳۹۱،۳۹۰،۳۸۲،۳۶۴ ۳۱۱،۳۱۰،۳۰۶۰۳۰۵۰۳۰۳۳۰۱۰،۳۰۰،۲۹۹ ،۲۹۸ ۲۸۲،۵۲ ۲۹۴ ۴۲ ۱۲۲،۲۹،۲۷ 1200179 ۶۵،۴۶ ۳۱ ۳۴۵ ۳۱۵،۸۱،۸۰ ۳۲۶،۳۲۵،۳۲۴،۳۲۳۳۲۲۰۳۲۰،۳۱۶، ۳۲۸، ۳۳۸ غلام مرتضی تحسین تخلص فرماتے ۳۴۰ ۳۴۱، ۳۴۲، ۳۴۳، ۳۴۴، ۳۴۵، ۳۴۶، ۳۴۷ غلام نبی میاں ۳۵۴۳۵۳، ۳۵۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۵۸، ۳۶۰،۳۵۹ غیاث الدوله ۳۶۱، ۳۶۸،۳۶۶،۳۶۵،۳۶۴،۳۶۳،۳۶۲، ۳۶۹ | فاطمه حضرت ۳۷۰، ۳۷۴،۳۷۳،۳۷۲،۳۷۱، ۳۷۵، ۳۷۶، ۳۷۸ فتح دین با بونسب پوسٹ ماسٹر فتح سنگھ راجہ فتح سنگھ سردار فتح مسیح پادری فضل احمد مولوی ۴۰۳ ،۳۹۹ ،۳۹۳ ،۳۹۰ ،۳۸۵ ،۳۸۳ ،۳۸۲ ،۳۸۱ ۴۲۶ ،۴۲۴ ،۴۲۳ ،۴۱۹ ،۴۱۸ ، ۴۱۷ ، ۴۱۶ ،۴۱۰ ، ۴۰۴ ۴۳۸ ،۴۳۶ ،۴۳۴ ،۴۳۳ ،۴۳۱ ،۴۳۰ ، ۴۲۹ ،۴۲۸ ۴۵۰ ،۴۴۹ ۱۱۳، ۴۰۵ فضل احمد مرزا ( فرزند حضرت مسیح موعود ) ۳۱۴٬۸۲ ، ۴۲۷ ، ۴۲۴۰،۴۲۸ مرزا غلام احمد فرخ تخلص فرماتے ۳۱۲،۸۱،۸۰ ۳۷۱ ۳۶۲ ۲۲۵ ۳۷۱ ۲۲۶ فضل الہی رقاضی فضل الہی فضل الدین بھائی ۴۳۳ ۳۰۱،۲۹۹ ۳۴۴۷۵ | فضل الدین مولوی ۱۵۴ فضل دین احمدی غلام اللہ مرزا غلام.حسین غلام حید ر مرزا غلام رسول حافظ مولوی اسٹیشن ماسٹر فضل دین شیخ غلام قادر مرزا ۵۴،۳۲،۳۱ ، ۵۷ ، ۶۱،۶۰، ۷۲،۷۱،۷۰ فنڈر پادری ۲۹۴۲۱۲،۱۷۶،۱۷۲،۱۶۵ ،۱۴۱،۱۱۱،۱۰۵،۸۰ ،۷۹،۷۳ ۴۰۱،۳۹۳،۳۶۷،۳۶۵،۳۶۴

Page 464

قدرت اللہ ۴۱۹ ،۴۱۵،۴۱۴ ،۳۷۹ الله متھر اداس قراچار کشن سنگھ بھائی ۳۲ ۳۳ محبوب عالم محمد اسماعیل میر ۳۴۴۳۴۲۳،۳۲۲،۳۲۱،۳۲۰،۲۲۴، ۳۴۶، ۴۱۷ محمد بخش میاں حجام بھائی کشن سنگھ، حضرت مسیح موعود کی تصانیف میں محمد حسین بٹالوی ابوسعید مولوی کیسوں والا آریہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے کشیپ چندرسین کمال الدین مرزا کے شاہ }}} ۳۶۸،۳۶۷ ،۱۰۴ ۲۲۵ ،۲۸۷ ،۲۷۸ ،۲۴۸ ،۲۲۵ ،۱۷۱ ، ۱۶۲ ۱۶۱ ۱۶۰ ۱۵۷ ، ۱۴۹ ۴۳۲،۴۳۱،۴۳۰،۴۲۹ ،۴۱۳ ،۲۹۳۲۹۲،۲۸۹ ۲۲۴ ۲۲۷ | محمد حیات خان سردار ۴۰۴ محمد شریف حکیم ۲۵۳۱۱۰، ۳۸۶، ۴۲۷ | محمد شریف کلانوری حکیم مولوی کنورسین ایم اے لالہ ۱۷۹ ۱۹۳ ۱۳۳ کنہیا لال منشی کوڑے شاہ ۳۷۸،۱۹۱ محمد صادق مفتی ۴۰۴ محمد صالح کھڑک سنگھ پنڈت ۳۴۳، ۳۴۴، ۳۲۶، ۳۴۷، ۳۴۸ محمد علی خان نواب ۳۵۴،۳۵۳، ۳۷۶،۳۷۵،۳۶۰، ۳۷۷، ۳۸۰،۳۷۸ محمد علی شاہ سید ۹۲ ۳۸۵،۲۱۳،۶۲ ۱۰۴،۸۹ ،۸۸ ۸۲٬۸۱٬۸۰، ۴۲۹،۳۰۸ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲،۱۰،۹ ،۱۴،۱۳، ۱۵، ۱۷، ۱۸، گل علی شاہ مولوی سید گل محمد مرزا گلاب گور دیال منشی ،۳۸ ،۳۶ ،۳۵ ،۲۹ ، ۲۸ ،۲۵ ،۲۴ ،۲۳ ، ۲۲ ، ۲۱ ، ۲۰ ،۱۹ ،۱۲۲،۱۱۶،۱۱۱،۱۰۴ ۱۰۳ ۱۰۲ ۱۰۱،۸۶،۸۴،۷۹ ،۴۸ ، ۴۰ ،۱۶۲،۱۴۷ ، ۱۴۶ ، ۱۴۵ ، ۱۴۴ ، ۱۴۳ ، ۱۴۲ ،۱۳۹ ، ۱۲۴ ،۱۲۳ ،۲۸۵ ،۲۸۴ ،۲۸۱ ، ۲۸۰ ، ۲۵۷ ، ۲۲۱ ، ۱۷۰ ، ۱۶۴ ،۱۶۳ ،۳۲۹ ،۳۲۸ ،۳۲۴ ،۳۲۳،۳۲۲،۳۰۵ ،۲۹۷ ،۲۹۲،۲۸۶ ،۳۵۰،۳۴۹ ،۳۴۶،۳۴۵ ،۳۴۴ ، ۳۴۳،۳۳۵ ،۳۳۳ ،۳۹۸ ،۳۹۷ ،۳۸۶ ،۳۸۴ ،۳۸۳ ،۳۸۱ ،۳۶۸ ،۳۵۹ ۶۵،۴۵ ،۴۴،۴۳،۴۲،۴۱،۳۹،۳۰ ۲۹۸ ۲۹۹،۲۱۱،۲۱۰،۲۰۹ ،۲۰۶ ۷۳ ۳۱ ۵۳،۳۸،۳۰ ۳۸۵،۳۴۱ گوگل چند لنگر خاں ساہی وال لیپل گریفن سر لیکھرام پنڈت مارخم مبارک احمد صاحبزادہ حضرت ۴۱۲،۴۱۱،۴۰۸ ، ۴۰۱ ۳۲ ۳۶۸ ،۱۷۴ محمد یعقوب منشی ۱۲۹،۱۲۸

Page 465

۲۹ ۴۲۶،۲۲۳ ۲۲۲،۲۱۹ ۲۹۹،۲۹۸،۲۹۷ ۳۶۳،۳۶۲ ۱۲۸ میر درد ۷۹ میراں بخش ۳۷۴،۳۷۳۹۴ ناصر نواب میر نبی بخش شیخ وکیل نبی بخش منشی پٹواری ۴۱۹ ،۴۱۵ ،۴۱۴ ،۴۲۱ ،۴۱۲،۴۱۰،۳۶۹ ،۳۴۱،۳۴۰،۱۷۰ ۶۱ ۳۷۱ ۲۹ ۴۲۹،۴۲۸ ،۳۲۶،۳۲۱ ۴۴۰،۲۲۰ ۷۹ ۹۳ ۳۵۰ ۳۲۳،۱۱۳ ۱۶۸ ٣٦٦ ۴۲۶،۳۶۶ نسبٹ نصر الله نصرت جہاں بیگم ۱۱۰ نظام الدین مرزا نکلسن جنرل محمد یوسف حافظ محی الدین ابن عربی مراد بیگ مرزا مراد بیگم مریم مشتری ستاره مصلح الدین سعدی شیرازی مظہر حسین سیالکوٹی حکیم معیت بیگ مرزا معین الدین حافظ مکنیب مسٹر ملاوامل لاله ۱۳۶، ۱۳۷، ۱۳۸، ۱۴۱، ۱۷۶، ۲۲۷، ۲۲۸، ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۲،۲۳۱، ۲۳۴، ۲۴۴، ۲۴۸ ، ۲۴۹، ۲۸۹ ، نورالدین مولوی حضرت نورالدین مولوی حضرت خلیفہ المسح الاول ۳۸۹ ،۳۸۶ ،۳۸۳،۳۴۶،۳۴۳،۳۴۲،۲۹۹ منصب علی حکیم موسیٰ حضرت ۳۷۱،۹۴ نونہال سنگھ ۵۴،۳۱ ۴۰۲،۳۸۳،۲۵۲،۲۵۱،۲۳۳ ۵۳،۳۱ وایٹ بر سخٹ پادری ڈاکٹر ( ڈاکٹر سنانٹن (۳۸۴،۳۵۴ ۷۴،۳۹،۳۸،۳۷ ،۳۵،۳۴،۳۰ ۱۵۴ 1+7 1+9 ۱۷۳ ZA ولایت بیگ ولسن ہادی بیگ ہاشم علی گرداور ہدایت علی حافظ ہر قل یعقوب علی تراب احمدی یوسف حضرت یہود ۲۴۱،۲۴۰،۲۳۷ ،۲۳۶،۲۳۵،۲۳۴،۲۳۳،۲۳۲،۸۴،۳۵ ۳۱ ۱۰۸ ۹۲ ۲۶۳،۲۵۴ ۳۱ ۲۴۶ ۱۲۸ مول راج مٹھن لال لالہ مٹھن لال ڈپٹی مہادیو مہاراج سنگھ مہر علی شاہ گولڑ وی پیر مهر علی شیخ

Page 466

} ۶۲ ۸۲ ۳۶ } مقامات جینی ۴۳۷ ،۴۳۶،۴۳۵ آئمه اسلام پور قاضی را سلام پور قاضی ما جبھی ۳۰، ۴۵،۴۲،۳۷ بہاولپور افغانستان ما ۳۴ بیاس.دریائے بیاس امرتسر ۷۲،۶۰، ۱۲۵، ۱۲۸، ۱۳۳ ، ۱۶۳،۱۴۷، ۱۶۷، ۱۷۷ | بیگووال ۳۷۶،۳۵۵،۳۵۳،۳۱۹ ، ۲۷۷ ، ۱۹۴ ، ۱۸۷ ،۱۸۶،۱۸۵ پیشاور ۲۹۴،۶۵،۵۳،۴۶،۳۱ ۲۷۶،۵۴،۴۶،۴۳،۳۱ ۵۹ ،۴۶ ،۴۳،۴۰ ،۳۹ ، ۳۸ ،۳۷ ،۳۶۹ ،۳۰ پنجاب ۴۲۰،۲۹۷ ،۲۹۳،۱۸۸٬۸۲ ۹۵ ۷۰،۵۴،۳۱ ۴۰۳ ۲۵۰ ۹۴ ۸۹ ۲۰۶ ۵۸ ۹۳ ۳۸،۳۶،۱۰ ۳۶۸،۱۲۵ ۳۸ ۴۰۴ ۳۸۷ ،۳۶۷ ،۶۳،۴۳،۳۸ ،۱۹ ۴۲۹،۳۶۳،۱۷ ۳۴۲ انار کلی اود و کی باغبانپوره بحیرہ فارس ۶۳ ۳۴ پنجاب یونیورسٹی تریمو گھاٹ ۳۴٬۲۱ تلونڈی جھنگلاں تیجا سنگھ کا مندر جالندھر جموں چنیوٹ حاجی پوره ۷۵ ۳۴ ۴۲۰ ۴۲۰ ۳۶۹،۳۵۹ ۱۰۸ ، ۱۰۶ ،۱۰۵ ،۱۰۱ ،۹۲،۸۷ ،۸۱ ، ۶۰،۵۰ بخارا بسراواں بلوچستان بمبئی بنگال بنگلور بٹالہ ۱۶۳،۱۱۰، ۱۶۹، ۱۹۰،۱۷۰، ۲۱۹، ۲۲۵، ۳۱۳،۲۹۳،۲۸۹ | خراسان ۳۱۶، ۳۱۹ ، ۳۲۴، ۳۲۵، ۳۴۰، ۳۴۱، ۳۶۱،۳۵۳،۳۴۵ خیر دی دمشق ۳۳۹ دھار یوال ۳۴۳ دہلی ۳۰ دینا نگر ۴۳۲،۴۳۱،۴۳۰،۴۲۹ ،۴۱۸ ، ۴۱۴ ، ۴۱۰،۳۶۹ بٹر کلاں بڑھن شاہ کا تکیہ بھوپال

Page 467

۱۶ ۱۰۴۹۱،۹۰،۸۹ ،۸۸ ،۸۵ ،۸۱،۸۰ ، ۷۵ ، ۷۲ ۷۱ ۷۰ ۹۲ ۱۳۸ ،۱۳۷ ،۱۳۴،۱۳۳ ،۱۳۲ ،۱۳۱ ، ۱۲۸ ، ۱۲۷ ، ۱۲۶ ،۱۰۹ ۳۱ ۱۸۶،۱۸۲،۱۷۷ ، ۱۷۶ ، ۱۷۲ ، ۱۷۱ ، ۱۶۶ ،۱۵۵ ،۱۴۲،۱۴۱ ۶۲ ۲۲۷ ،۲۲۵ ،۲۲۳۰ ۲۲۰، ۲۱۹ ،۲۱۳،۲۱۱ ، ۲۰۵ ،۱۹۲،۱۸۸ ۹۹ ،۳۱۶،۳۱۵ ،۳۰۱،۲۹۸ ،۲۹۳ ، ۲۷۴ ۲۷۳ ۲۷۲،۲۴۶ ۳۵۳،۳۴۳،۳۴۲،۳۲۸ ،۳۲۷ ،۳۲۶،۳۲۵ ،۳۲۴۳۱۹ الله ۴۶ ۳۸،۳۶،۳۵،۳۳،۳۰،۲۱ ۳۷۴،۳۷۳،۳۶۹ ،۳۶۸ ،۳۶۷ ،۳۶۱ ،۳۵۶،۳۵۵ ۳۹۷ ،۳۸۹ ،۳۸۶ ،۳۸۵ ،۳۸۲ ،۳۸۱ ،۳۷۹ ،۳۷ ۸۲ المهله ۴۳۳،۴۲۹،۴۲۸ ، ۴۲۷ ، ۴۱۷ ، ۴۱۶ ،۴۱۱ ،۴۰۹ ،۴۰۷ ۱۰۷ ، ۱۰۱ ،۹۹ ،۹۵،۹۲،۹۱،۹۰،۸۱،۵۴،۳۱ ۱۸۴ ۱۷۲ ۲۹۳،۶۵،۴۶ ۳۸،۳۷ ،۳۶ ۳۸،۳۵،۳۴،۳۳ ۴۳۹،۸۹،۵۳،۴۶ ۸۹ ۴۳۵ ۳۹۵ لمهله راولپنڈی سا ہی وال سری گوبند پور سکاچ مشن سم شریف سمرقند سندھ سونی پت سیالکوٹ ۱۰۸ ، ۱۰۹ ، ۱۷۲،۱۱۰ ، ۱۷۵، ۲۴۹، ۲۷۲،۲۵۳،۲۵۲،۲۵۰ | کاشغر ۲۷۳، ۲۷۵، ۲۸۹، ۲۹۳، ۲۹۷، ۳۶۵، ۳۶۸، ۳۷۰ کانپور ۴۰۹،۳۹۱،۳۹۰،۳۸۳،۳۷۴،۳۷۳ شالا مار باغ (لاہور) شام کاہلواں ۵۹ کپورتھلہ ۸۴ کدعه کش شمیر کلانور کڑی گجرات گنگا (دریا) گوجرانوالہ گورداسپور ۱۴۷ ،۱۳۰،۹۵،۷۱ ، ۶۱،۶۰ ، ۵۴ ،۳۱،۳۰ ۳۱۹،۱۷۰،۱۹۸ ۹۳ ۲۵۳،۱۱۱ ۲۸۲ الله ۲۲۱ ۴۰۲ ۳۴ IV ۳۷ شملہ صاحب خان ٹوانہ طالب پور عبداللہ شاہ غازی قبرستان غار حرا فارس فیروز والا قادی قادیان ۳۰ ۳۱ ۳۲ ، ۳۶ ، ۳۷، ۳۸، ۴۲،۴۱ ۴۶۰ ۶۹،۶۸ ،۶۵،۶۱،۶۰،۵۷ ، ۵۶،۵۵،۵۴،۵۱،۵۰۴۷ گوہد پور لاء کالج لاہور

Page 468

۸۴ ۴۱۱ ۱۳۱،۶۷ ۴۰ ۴۲،۲۶،۲۳،۲۰ ۳۱ ۳۴ ۴۳۳ ۳۱۵،۸۶،۸۵،۸۴ ۲۹۳،۲۱۲،۸۲۷۶،۳۹،۳۸ ۴۳۹،۴۳۸ ،۱۲۸ ۲۰۱،۳۴ ۱۷ ۳۶، ۵۵، ۶۳،۵۹، ۶۷، ۶۸، ۷۱،۶۹، ۸۴ مدین لاہور ۳۴۲ ،۳۱۹ ،۱۸۷ ، ۱۸۰ ، ۱۷۹ ، ۱۷۸ ،۱۶۳ ، ۱۱۰ ،۸۸ مرزاپور مسجد اقصیٰ مصر ۳۵۹،۲۷۷ ،۱۷۰ ۳۱ مکه معظمه ملتان والگا ٹرکی ڈلہوزی ہندوستان ہوشیار پور یورپ ۴۲۶،۳۶۷،۳۷ ۴۲۶ ۳۴۵ ۴۹،۴۳ ۴۰۴ ۴۳،۳۷ ۳۵۹،۳۵۴ لدھیانہ لنگر خاں لنگروال لنگراں لنڈن لودہانہ لیل ماجھا محلہ کشمیریاں

Page 469

۱۸ کتابیات آریہ در بین آئینہ کمالات اسلام آفتاب پنجاب اخبار/ آفتاب آلاء الله ۳۷۷،۳۷۵ ۱۶۶ ۳۴۰،۲۰۵،۱۹۳،۱۹۰ ۳۸۹،۳۸۸ تحفہ بغداد تحفہ گولڑویہ تذكرة الاولياء ۱۵۹ ۷۸،۳۰ ۲۳۱،۲۲۹،۱۷۵ تذکرہ ( مجموعہ الہامات وکشوف ورؤ یا حضرت مسیح موعود ازالہ اوہام ۲۶،۲۰۱۹، ۳۹، ۱۲۵،۱۰۴، ۱۲۸، ۱۲۹ ۱۳۰، ۱۳۵ علیه السلام) اشاعۃ السنہ ۱۴۹، ۲۸۵،۲۸۴،۲۷۸، ۴۲۷ | ترک اسلام ۱۰ ،۹ ۲۵۱ ۱۳ ۲۲۶،۱۴۸،۱۱۱ ، ۱۱۰،۲۷ ۳۴ ۳۷۷ ،۳۴۸،۹۹ ،۹۴ ۳۵۳ ۱۷۰ ترندی تریاق القلوب تواریخ فارس توراة تورات اتوریت چشمه نور (اخبار) نج الكرامه حقیقۃ الوحی الحام اخبار ۲۷۵ ،۱۳۴،۱۲۶،۱۰۷ ۷۳ ۷۲ ۷۰ ۳۹۹،۳۹۷ ۴۰۳ ۴۰۳ ۴۱۸ ۳۸۹،۳۸۳ ٣٣٦ ۱۷۳ ۱۳۱ ۲۸۰ ۳۰۵ ۲۴۶ ۳۹۷ ،۳۷۷ ،۳۴۸ ،۲۳۱،۹۹ ،۹۴ ۲۶۷ ۷۸،۱۸ ۲۸۵،۱۷۴،۲۶،۱۳،۱۲،۱۰ اصحاب احمد اعجاز امسیح انجیل دبستان بائیبل بخاری صحیح بخاری برا در بندر رساله برادر ہند ۳۹۰،۳۷۸،۳۷۶،۳۵۶،۳۴۲،۱۸۱ ۷۵ ،۲۹ ،۲۸ ،۲۷ ، ۲۵،۱۸ ،۱۵،۱۴ براہین احمدیہ ۷۷، ۹۰ ۱۰۳ ، ۱۰۹۱۰۸، ۱۱۱ ، ۱۳۷، ۱۳۸، ۱۴۰، ۱۴۱، ۱۴۹ حیات احمد ۲۹۳،۲۸۹،۲۸۴،۲۸۰،۲۷۸ ،۲۵۳،۱۸۶۱۶۴،۱۶۱،۱۵۷ حیات النبی ۳۱۱، ۳۶۰، ۴۲۰۳۶۱، ۴۲۲ ، ۴۲۳، ۴۲۴ ، ۴۲۷، ۴۳۱ خلعت هنود ۴۴۲،۴۳۴ بر امن در مکنون ۱۸۳ در نمین فارسی بوستان (بوستان سعدی) ۳۱۹ دلائل الخیرات بیضاوی ( تفسیر ) ۲۸۰ دیوانِ فرخ رازی ( تفسیر فخر الدین رازی) ۴۱۹ ۴۱۸ پرانی تحریر میں تحفة الهند

Page 470

۲۸،۱۷ ،۱۶ ۳۱۹ ۸۶ ۱۹۰ لدلمه له کنز العمال ۱۸۰ گلستان گلستان سعدی) ۳۵۴ لائف آف محمد رسالہ احکام القرآن رسالة تشحید الا ذہان ریاض ہند (اخبار) ر یکسان پنجاب زمیندار (اخبار) سفر السعادت سفیر ہند ۳۷۴ ۱۷۵ ،۱۹۵۱۹۲،۱۹۰،۱۸۹ ،۱۸۸ ،۱۸۷ ، ۱۷۷ ۳۸۰،۳۷۸،۳۵۷ ،۳۵۴،۳۴۲،۱۹۷ سلسلہ احمدیہ سنن ابی داؤد سيرة المهدی شحن حق شرح ملا طب اکبر فتح اسلام فتوح الغیب فصوص رفصوص الحکم قطبی لیکچر سیالکوٹ مثنوی افضال الہی مثنوی رومی مثنوی مولانا روم مثنوی ملائے روم ۴۲۳ مجموعہ اشتہارات ۲۱ ۴۳۷ ،۳۶۲ مسند امام احمد بن حنبل ۳۵۳ مشکوة ،مشکوۃ المصابیح لداها الدما ۳۲۱ مصنف مکتوبات احمد ۲۶،۲۳ ملل محل ( تاریخ ) ۱۷۵ منشور محمدی (اخبار) ۷۹ میزان الحق لدله او الدها النجم الثاقب قرآن کریم ، قرآن مجید ، قرآن کریم ، فرقان مجید نزول المسیح ۱۴۵ ،۱۳۲،۹۹ ،۹۷ ،۸۹ ،۸۱ ،۸۰ ،۷۸ ،۵۳ ،۴۶ ،۱۸ ۲۸۰،۲۷۵ ،۲۳۱ ، ۱۷۵ ، ۱۷۴ ، ۱۷۳ ،۱۷۲،۱۶۳ ،۱۶۲ ۳۴۸ ،۳۴۷ ،۳۴۶ ،۳۴۳ ،۲۸۶ ،۲۸۵ ،۲۸۳ ،۲۸۱ ۳۸۷ ،۳۸۴،۳۸۰ ، ۳۷۹ ،۳۷۷ ، ۳۷۶ ،۳۵۰ ،۳۴۹ ۴۳۶،۴۳۴،۳۹۹،۳۹۷ ،۳۹۶،۳۹۲ کتاب البریه ۳۲،۱۶ ، ۳۶ ۴۴، ۴۶، ۴۹ ، ۶۸، ۷۷ نعمۃ الباری ۹۵،۹۱ ۳۹۰،۳۸۸ ۲۴۹،۲۳۲،۲۲۹ ، ۱۷۵ ،۹۸ ٣٨١ الله الله ۳۴ الله 7hd ۲۷۷ 7hd ۳۷۳،۳۶۹،۳۵۹ ۴۱۸،۳۶۸،۱۲۷ ۱۲۶ لها الدله لمهله ۳۹۹،۳۸۸ ۴۱۳،۳۶۹،۳۵۹ نورافشاں (اخبار) ہندو باندھو ( برادر ہند ) ( اخبار ) ۳۵۹،۳۵۵،۳۵۴،۳۴۲ ۱۸۷ و د یا پر کا شک (ماہواری رسالہ) وزیر هند (اخبار) وکیل ہندوستان (اخبار) ۱۶۷، ۱۷۷، ۳۶۰،۳۴۲،۱۸۷ وید ۳۵۰،۳۴۸ ،۳۴۷ ، ۳۴۳ ،۱۸۵ ،۱۸۴،۱۸۳ ۳۹۶،۳۸۰،۳۷۹،۳۷۸،۳۷۶،۳۶۷ ،۳۵۳ ۱۳۵ ،۱۳۴،۱۲۴ ،۹۹،۸۴،۸۰

Page 470