Language: UR
حیات سمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی C
خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی اَفَلَتْ شُمُوسُ الاَوَّلِيْنَ وَشَمْسُنَا اَبَداً عَلَى فَلَكِ الْعُلَى لَا تَغْرُب حيات شمس مؤلفہ: احمد طاہر مرزا
حیات شمس OOOO Hayaat-e-Shams (A Glimpse into the life of Khalid-e-Ahmadiyyat, Hazrat Maulana Jalal-ud-Din Shams) Compiled by: Ahmad Tahir Mirza OFalah-ud-Din Shams and Munir-ud-Din Shams First Published in USA in 2012 Published by: Islam International Publications Limited Islamabad Sheephatch Lane Tilford, Surrey, GU102AQ, UK Printed at ISBN 978-1-84880-105-9 Cover design by: Salman Muhammad Sajid
وَاجْعَلْ لِي مِنْ أَدْنَكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا ل فتحا مبينا نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمَ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ المَوْعُود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر امام جماعت الحديد لندن 24-02-10 مکرم منیر الدین صاحب شمس السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ آپ نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی پر مشتمل مسودہ مجھے بھیجا.امید ہے انشاء اللہ جب یہ کتابی صورت میں چھپ کر آئے گا تو بہتوں کے لئے ایمان اور ایقان میں زیادتی کا باعث ہو گا.یہ مجاہد احمدیت کے عملی نمونوں کا گلدستہ ہے.خاص طور پر آجکل کے واقفین زندگی اور مبلغین کے لئے ایک مثال ہے.میں نے جستہ جستہ اس کو دیکھا ہے.ہر واقعہ اپنی طرف خاص طور پر متوجہ کر لیتا ہے اور اس باوفا، محنتی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر وقت کوشاں رہنے والے کے لئے دعا نکلتی ہے اور رشک آتا ہے جو مسیح محمدی کے پیغام کو پھیلانے کی دھن لئے ہوئے تھا.حضرت المصلح الموعودؓ نے یونہی انہیں " خالد احمدیت" کے خطاب سے نہیں نوازا تھا.اور حضرت مصلح موعودؓ کا کسی کو ایک خطاب سے نواز نا کوئی معمولی حیثیت نہیں رکھتا تھا.حضرت مولانا صاحب کا جوانی کا زمانہ تھا یا بڑھاپے کا ہر جگہ آپ سینہ سپر نظر آتے ہیں.ہندوستان کی شدھی تحریک ہے یا کوئی اور تبلیغ کا میدان.عرب میں حقیقی اسلام کا پیغام اہل عرب کو پہنچانے کی کوشش ہے یا انگلستان میں عیسائیت کے گڑھ میں بے خوف و خطر اسلام کی خوبیاں بیان کرنا اور مسیح محمدی کے پیغام کو پہنچانا کہ جس مسیح کے انتظار میں تم ہو وہ دو ہزار سال پہلے وفات پا کر کشمیر میں دفن ہو چکا ہے اور اب زمانہ مسیح محمدی کا ہے اور اس دین کا ہے جو ہمیشہ رہنے والا دین ہے.پس آؤ اور مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو جاؤ تا کہ کہ اپنے پیدا کرنے والے کا قرب حاصل کر سکو.پھر حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری کے دنوں میں اس باوفا خادم سلسلہ نے بحیثیت ناظر اصلاح وارشاد بھی پاکستان کی جماعتوں کو سنبھالنے میں خوب کردار ادا کیا.
میرے بچپن کے زمانے کا مجھ پر ان کا نیکی تقومی اور عاجزی کا ایک خاص اثر ہے.ایک بزرگ صورت کا دعائیں کرتے ہوئے مسجد آنا اور نمازیں پڑھانا، خطبہ دینا یاد ہے.بعض فتنوں کو فرو کرنے میں بھی آپ کا ایک خاص کردار تھا جو حضرت مصلح موعودؓ کی لمبی بیماری کی وجہ سے بعض دفعہ اٹھتے رہے.خلافت ثالثہ کے انتخاب کے بعد بھی آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے دست راست رہے.لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور یہ مجاہد احمدیت جلد ہی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا.اللہ تعالیٰ حضرت مولانا صاحب کے درجات بلند فرماتا رہے اور واقفین زندگی خدام سلسلہ کو اپنے بزرگوں کے پاک نمونوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین والسلام خاکسار نقل دفتر PS لندن Nilis خليفة المسيح الخامس
صفحہ xix XX xxi xxii xxiii.xxxvi.xli..1 5.7 8 8.9 10 11 13 14.15.16 18 عناوین خالد احمدیت..الفهرس سید نا حضرت اصلح الموعود.ہمارے بزرگ، ہمارے بھائی ، ہمارے دوست..سید نا حضرت خلیفة أسبح الثالث".انمٹ روا میتیں.یہ مجاہد احمدیت کے عملی نمونوں کا گلدستہ ہے پیش لفظ..دیباچه عرض مؤلف..سید نا حضرت خلیفتہ اسح الرابع" سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فلاح الدین شمس.منیر الدین شمس.احمد طاہر مرزا اصحاب احمد کا مقام بزرگان کی تاریخ اکٹھا کرنے کی مبارک تحریک.پہلا باب سیکرہواں اور سیکیوانی برادران کشمیر سے سیکھواں.حضرت میاں محمد صدیق صاحب وائیں حضرت شرف بی بی صاحب.سیکھواں اور سیکھوانی برادران..سیدنا حضرت اقدس سے تعلقات کا آغاز...بیعت سیکھوانی برادران......قابل رشک نمونه...دوسرا باب.حيات شمس ایک نظر میں تشخیز کے لئے سب سے پہلا مضمون..سمس کا لقب
19 vi 29 29 34 36 37 39 43 44 45 47 48 51 53 58.60 60 63 64.65 65.66 67 69 69 73 74 جلسہ سالانہ پر فی البدیہہ تقریر..مولا نا شمس کیلئے حضرت مصلح موعود کی خاص شفقت و محبت.مغرب سے طلوع شمس کا ایک بطن..ربوہ کا نام..خالد احمدیت.حضرت مصلح موعودؓ کا اظہار خوشنودی.وصال و قرار داد ہائے تعزیت..تیسرا باب والدين ابتدائی حالات وقف حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی.مالی قربانی..مکتوب حضرت میاں امام الدین صاحب.اطاعت میں برکت ہے.میرے والد حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوائی.حضرت مسیح موعود کی ذرہ نوازی.ندائے غیب وصال حضرت مولانا امام الدین صاحب سیکھوائی.حضرت حسین بی بی صاحبہ.والدہ حضرت مولانا شمس صاحب بچپن تعلیم وتربیت.ابتدائی تعلیم.حلیہ مبارک.چند ہم مکتبوں کا ذکر.تحریک وقف زندگی.مبلغین کلاس کے پہلے طالب علم میدان عمل...مولوی ثناء اللہ امرتسری سے ایک ملاقات.تحریک شدھی مالکانہ میں خدمات جلیلہ لوہاری میں مباحثہ..
79 80 81 84.vii 85 86 90 92 94 96.98 99 22 99 102 105 105 107 107 109 110 110 111 112 112 112 112 عائلی زندگی.صابر اور قربانی کرنے والی خاتون سعیدہ بیگم اہلیہ حضرت مولانا شمس صاحب اولاد چوتھا باب.اساتذہ کرام سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ.پانچواں باب.مباحثات و مناظرات پکیواں کا مناظرہ..مباحثہ کلانور مباحثہ سار چور.مباحثہ عالم پور کوٹلہ مباحثہ نوشہرہ..مباحثہ امرتسر.مباحثہ امر سنگھ کا نگلا..مباحثہ بھونگاؤں ضلع مین پوری.کلمۃ الحق مباحثہ جلال پور جٹاں.مباحثه مظفرنگر.مباحثه جاده.مباحثہ دہلی.مباحثه ساگر پوره.مباحثه لودی منگل مباحثہ میانی.مباحثہ سید والا اور جڑانوالہ.
مباحثہ کھاریاں.مباحثہ دلاور چیمہ مباحثہ بٹالہ مباحث گجرات.مباحثہ جہلم ومناظره شمله.مباحثہ بنگہ ضلع جالندھر.مباحثہ دھار یوال.مناظرہ امرتسر مقدمہ بہاولپور.ایک نوجوان جس نے مناظرہ میں مولویوں کے منہ بند کر دیئے ملک نذیر احمد صاحب چھٹا باب بلاد عربيه ميس عرب کے بارہ میں سید نا حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات.عرب میں احمدیت..بلا دعر بیہ کیلئے روانگی..دمشق کے لئے روانگی مولانا شمس صاحب کی زبانی.دمشق کے بارہ میں حضور کا ارشاد..........قاتلانہ حملہ اور شام سے اخراج کا حکم..مباحثه دمشق..سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بلائے دمشق.دمشق کے بارہ میں حضرت اقدس کے الہامات..دمشق میں تبلیغ احمدیت.مولانا عبد الرحیم صاحب نیر ایک مباحثہ کا تذکرہ.کونین کی مکسچر ڈوز..مکتوب دمشق.ایک شیخ سے وفات مسیح پر گفتگو مبلغین دمشق کے کام پر سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کار یویو.ہمارے دونوں مبلغ قابل تعریف ہیں.113 115 viii 115 116 116 116 117 117 118 119 123...124 125 126 127 130 132 133 134 136 138 139 141 143 144 148 151
154 ix 156 158 162 162 163 164 166 167 169 172 174 175 179 180 189 190 192 194 197 200 203 205 207 207 209 212 213 214 مبلغین کو زریں نصائح.دمشق سے متعلق حضرت مسیح موعود کے الہامات.تبلیغی موانع..کلیتہ امریکانی کا مسلم طلباء پراثر.ایک بہائی سے گفتگو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے والا پہلا مشقی خاندان...صداقت مسیح موعود کی ایک دلیل......مسجد احمد یہ لنڈن کے افتتاح کی عربی پریس میں تشہیر..ایک شیخ کا مکالمہ.گیارہ روپے کی موم بتیاں اور عالمگیر جلسوں کے برقی قمقے.1927ء -1929 ء.پادری الفریڈ نیلسن سے مباحثہ.اسلامی ممالک پر عیسائیت کے حملہ کا اندفاع دمشق میں آپ کا زخمی ہوا.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں ایک اہم مکتوب.حادثہ کی تفصیل.فلسطین میں پادریوں کے زہر کا تریاق.بہائیت اور عیسائیت کے متعلق گفتگو.بہائیت کی حقیقت.........بہائیوں سے مکالمہ سید نا حضرت مسیح موعود کا ذکر عرب وادیوں میں.فلسطین میں مسیحیت کا مقابلہ.عصمت انبیاء و معجزہ شق القمر پر ایک مسیحی سے گفتگو تبلیغ کے لئے سفر 1930ء-1931ء.سفر مصر.جامعہ الازہر کے ایک شیخ سے مناظرہ.بلاد عر بیہ میں تبلیغ مسیحی کا مقابلہ ایک از ہری عالم سے گفتگو مصر اور سوڈان میں احمدیت.عربی لٹریچر کی اشاعت.
215 218 222 224 227 227 228 230 232 234 238 243 243 246 247 247 252 255 260 261 263 265 267 269 270 273 X بالسيد منير الحصنى صاحب.مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری.شام وفلسطین میں نئے احمدی.مباحثہ کبابیر.م شنقیطی سے مباحثہ احمدیان فلسطین کا استقلال.طرابلس الشام میں نئی جماعت.محمد سعیدی النشار الحمیدی طرابلسی.اکلوتے بھائی کا ذکر خیر.عربی ممالک میں تبلیغ ، ایک جائزہ..سب سے پہلا تحریری مناظره.مصر میں قیام جماعت..بلا دعر بیہ میں تبلیغ احمدیت اور حضرت مولانا شمس صاحب..تبلیغ احمدیت کے متعلق مفید تجربات.خلافت سے وابستگی.ساتواں باب.کشمیر کمیٹی میں خدمات کشمیریوں کیلئے خدمات سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی طرف سے کشمیر کے کام کی سپردگی کشمیریوں کے لئے حضرت مولانا شمس صاحب کی خدمات خواجہ عبد الغفار صاحب ڈار.آپ کی زندگی کا دوسرا پہلو.آٹھواں باب.قیام انگلستان مغرب سے طلوع آفتاب مغربی ممالک میں تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینے والے مبلغین کو نہایت اہم ہدایات.1936ء.انگلستان کیلئے آپ کا تقرر اور سفر پر روانگی.تبلیغی مشکلات ایک انگریز کا قبول اسلام..ہائیڈ پارک میں لیکچروں کا سلسلہ.ایک مذہبی کانگریس میں احمدیت کا ذکر.
276 282 283 286 287 289 291 292 294 295 298 299 304 306 307 309 313 315 317 321 322 323 325 326 328 329 334 335 345 xi روٹری کلب اور ہائیڈ پارک میں لیکچرز ، ایک پادری سے مکالمہ 1937ء.روٹری کلب میں اسلام کے موضوع پر ایک لیکچر.رائل مصری کلب میں عربی میں گفتگو.بعض انگریزوں کا قبول اسلام..اسلام اور عیسائیت میں عورت کا درجہ.لندن میں یوم التبليغ.یوم ایک مستشرق یہودی سے عربی میں گفتگو ڈاکٹر لیو ٹاف سے گفتگو ایک انگریز خاندان مسلمان ہوتا ہے.خلیفہ نقطہ مرکز یہ ہوتا ہے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے اظہار عقیدت کے متعلق ایک جلسہ.یورپ میں تبلیغ اسلام.دونئے احمدی.- 1938 تبلیغی خطوط اور ملاقاتیں.پنڈت جواہر لعل نہرو کی پارٹی میں شرکت..حضرت صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب کولندن میں الوداعی پارٹی.مسجد فضل لنڈن میں جرمنی، فرانس اور سویڈن کے طلبا کا ورود.تبلیغی ملاقاتیں.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی خدمت میں جماعت لنڈن کا ایڈریس.ر مسیح کی قبر ہندوستان میں کا اعلان یورپ میں.لندن میں عید الفطر کی نماز.سیرة النبی ﷺ کا جلسہ.1939 ء-1940 ء.حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا سفر مدارس میں لیکچرز.کتب کے سیٹ.انٹرنیشنل فرینڈ شپ لیگ میں لیکچر یورپ.مسجد احمد یہ لنڈن میں امنِ عالم کے متعلق مذہبی کا نفرنس کا انتظام.مسجد فضل لندن میں مذاہب عالم کا نفرنس.ٹائمز آف لنڈن میں مسجد کا ذکر.
347 349 352 354 xii 356 362 363 364 368 369 372 373 375 376 378 378 379 381 382 383 384 385 386 390 391 392 393 396 397 ہائیڈ پارک میں تقریریں اور دلچسپ م شاہ فیصل سے ملاقاتیں..مئی 1939 ء تا اپریل 1940ء کی مساعی پر ایک نظر اشتہار قبر مسیح کی ایک لاکھ تعداد میں اشاعت.ورلڈ کانگریس آف میتھس کے جلسے.1941ء -1942ء.ایک نشان.....برٹش پریس میں خطوط.........مکتوب لندن.ہائیڈ پارک میں سوال وجواب.1943ء.مکتوب لنڈن..لنڈن میں عید الفطر کی تقریب.تبلیغی کاوشیں.مختلف شخصیات کو تبلیغ.نام Debating Cosmopolitan سوسائٹی میں ایک لیکچر.Mr.Jones کا قبول اسلام اور شاہِ البانیہ سے ملاقات.1944ء.امیر فیصل سے ملاقات..مکتوب بنام سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی شاہ البانیہ سے ملاقات.ایک انگریز کا قبول اسلام.اشاعت دین کے لئے مساعیہائے جمیلہ ہائیڈ پارک میں مباحثہ..ہائیڈ پارک میں مذہبی مباحثات.کیا موجودہ انا جیل الہامی ہیں؟.ہائیڈ پارک میں صداقت اسلام پر مزید مباحثات.پہاڑی وعظ کا قرآن مجید کی تعلیم سے مقابلہ وزرائے اعظم کو لٹریچر بطور تحفہ شاہ یوگوسلاویہ اور ملکہ ہالینڈ کو تبلیغ اسلام.قرآن کریم اور بائبل کے موضوع پر کامیاب مباحثات.مسٹر گرین سے مزید مباحثات.
انڈیا ہاؤس کی لائبریری میں احمد یہ لٹریچر.لندن میں اشاعت اسلام کیلئے مولانا صاحب کی گراں مایہ کوششیں.سید ممتاز احمد شاہ صاحب.1945ء.ہندوستان اور انگلستان کو باہمی صلح کا پیغام.سید نا حضرت مصلح موعود کی جرمنی پر برطانیہ کی فتح کی پیشگوئی.مسیح کی صلیبی موت پر مباحثہ.لندن میں تین مجاہدین کا ورود.حضرت مسیح موعود اور کرنل ڈگلس صاحب.1946ء.آسمانِ احمدیت کے درخشندہ ستارے..نئے مجاہدین کی وجہ سے تبلیغ میں وسعت کنگ جارج کی خدمت میں تبلیغی مکتوب اور احمد یہ لٹریچر ایک عشرہ کے بعد مغرب سے کامیاب و کامران مشرق کو واپسی لندن میں مولانا شمس صاحب کے اعزاز میں الوداعی پارٹی.مجاہد انگلستان مولا نا شمس صاحب کی واپسی.چوہدری مشتاق احمد صاحب با جوه انگلستان سے واپسی کے لئے بلاد عربیہ میں آمد اور روانگی..مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر..کراچی میں آپ کے اعزاز میں ایک جلسہ.احباب قادیان کی جانب سے اھلا و سھلا مرحبا ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کے نمائندہ کی ملاقات.مغرب سے طلوع شمس کے متعلق رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی.شمس صاحب کا خیرم مقدم.اخبار ڈیلی میل کا خراج تحسین..انگلستان میں خدمات سلسلہ کے بارہ میں حضرت مولوی صاحب کا ریویو..ملک عطاء الرحمن صاحب.لندن میں تبلیغی مشن کا قیام ہمارے وسائل تبلیغ.اسلام اور بائیبل میں عورت کا مقام.بعض غلطیوں کی اصلاح..انجیل و قرآن مجید کی تعلیم کا مقابلہ.آنحضرت ﷺ اور صحیح ناصری.دفاعی جنگ.تبلیغ بذریعہ تحریر.xiii 401 402 404 407 410 411 413 415 418 421 424 427 428 428 431 432 434 436 436 438 440 441 443 445 446 449 450 451 453
453 456 xiv 459 462 469 470 479 481 482 482 497 500 500 503 504 505 511 512.514 515 516 518 522 523 آرچ بشپ آف کینٹر بری سے خط و کتابت..نومسلموں کا اخلاص.ولیم مانٹیگو کرنل ڈگلس پیلاطوس ثانی کرنل ڈگلس سے احباب جماعت کی ملاقاتیں.پیلاطوس ثانی کرنل مونتیکو ولیم ڈگلس مسجد فضل لندن میں.انگلستان میں یوم تبلیغ اور کرنل ڈگلس..مسیح محمدی کا پیلاطوس مسجد فضل لندن میں.کرنل ایم ڈگلس کا انتقال نواں باب.علمی خدمات جہاد بالقلم کے نمونے.تعارف کتب..فهرست دیگر کتب.مقالات و مضامین الحکم اور شمس فہرست مضامین الحکم.فہرست مضامین تشخیذ الاذہان.فہرست مضامین الفضل.فہرست مضامین ریویو آف ریلیچنز متفرق دسواں باب.سيرت تاثرات روايات فرمودات خلفائے سلسلہ احمدیہ..جنگ عظیم دوم کے نازک وقت میں خدمات..مغرب سے طلوع شمس کے متعلق رسول کریم ﷺ کی ایک پیشگوئی شمس صاحب نے اس کام میں جان ڈال دی ہے.جنہوں نے پندرہ پندرہ سال اپنوں سے مہجوری اختیار کر کے خدمت دین کی مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری حضرت خلیفہ المسح الثاني.
524 531 532 534 535 536 539 543 544 547 548 550 551 551 553 553 555 556 560 561 563 564 564 566 567 569 571 572 578 XV ہمارے بزرگ، ہمارے بھائی ، ہمارے دوست..حضرت خلیفة أسبح الثالث".شمس صاحب نے جو روایتیں قائم کی ہیں وہ تو انمٹ ہیں...حضرت خلیفة أسبح الرابع یہ مجاہد احمدیت کے عملی نمونوں کا گلدستہ ہے..آپ نے وقف زندگی کے عہد کو باحسن نبھایا.میرے ہم مکتب..ہم ایک لمبا زمانہ اکٹھے رہے ہیں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مرزا عزیز احمد صاحب.مولانا غلام احمد صاحب بد وملهوی.مولانا قمر الدین صاحب.مولا نا جلال الدین صاحب شمس کی خدمات جلیلہ..مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی میری چند یادیں......مرزا انس احمد صاحب.کچھ واقعات والد محترم اور امی سعیدہ بانو کے...نامور خادم احمدبیت....جمله نسیم ملک صاحبه..عقیلہ شمس نوید صاحبه کچھ واقعات مولانا جلال الدین شمس صاحب کی زندگی......آمنه خان صاحبه عبدالباری قیوم صاحب مولوی محمد الدین صاحب.وہ واقعی اپنے وقت کے باکمال وجود تھے.نامور مبلغ..خدا داد نور فراست.خداداد سورج کی کرنیں.......دلچسپ یادیں..مجاہد احمدیت.پرانی یادیں...خدا نما شخصیت..شفیق و مهربان بزرگ..میرے محبت کرنے والے ماموں..ساده لوح بزرگ..ایفائے عہد اور پابندی وقت.جذبہ غیرت دینی کا ایک واقعہ انصار اللہ میں خدمات..میرے والد ماجد..سلسلہ احمدیہ کے جرنیل..میرے شفیق باپ....مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نسیم اکبر صاحب.ملک منصور احمد صاحب.مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری.السيد طه اقزق صاحب عبدالعزیز صاحب بھانبڑی.اقبال احمد صاحب نجم.احمد حسین صاحب در ولیش قادیان..ملک محمد سلیم صاحب..رفیق احمد صاحب ثاقب کیپٹن شیخ نواب الدین صاحب.چوہدری محمد ابراہیم صاحب.ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس.فوزیہ میر صاحبہ منیر الدین شمس ایک روحانی عالم با عمل انسان کے اقوال و اعمال کی ایک جھلک.......خواجہ محمد افضل بٹ صاحب
قبولیت دعا...خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس..برجستہ جواب..حسن سلوک..عاشق احمدیت.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خالد..سراج الدین صاحب.581 xvi.صاحبزادہ جمیل لطیف صاحب....582..روشن دین صاحب صراف عزیزه حمید بیگم صاحبه..چوہدری عبدالواحد صاحب.587 587 589 چوہدری محمد صدیق صاحب..........593 سیکھوانی بر اور ان کی سادہ فطرت و اخلاص کے رنگ میں رنگین حضرت مولانا شمس صاحب....سید عبدالحی شاه صاحب.روحانی جرنیل..دینی علمی، اخلاقی اور روحانی برکات سے پُر وجود.جلیل الشان مہدی کی تعلیم کے جلیل الشان وارث.تاریخ احمدیت کی معروف ہستی.منظوم تاثرات آه مولانا جلال الدین شمس.تیرا نام اور کام روشن رہے گا.اوصاف حمیده....مولا نا جلال الدین صاحب شمس کی یاد میں زندگی کردار ہے ، کردار تو فافی نہیں..اے دل قیوم کے محبوب ہو تجھ پر سلام.حضرت شمس کی یاد قائم رہے گی..شمس ما جو شمع فضل عمر کا تھا جاں نثار گیا..ذكرى الاستاذ الجليل شمس.اليوم غابت شمسنا..قطعه تاریخ بروفات مولانا جلال الدین صاحب.شمس.گیارھواں باب.بعض رؤيا و كشوف صداقت احمدیت کے متعلق چند رویا.ایک شامی احمدی کا خواب..596 598.چوہدری محمد علی صاحب.مولانا سلطان محمود انور صاحب......600 چوہدری خورشید احمد صاحب سیال..603 سید میر داؤ داحمد صاحب.عقیلہ شمس صاحبه.روشن دین صاحب تنویر.605 612 613 حضرت میر اللہ بخش صاحب تسنیم....613 مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری..616 سیده بیگم شمس صاحبه.عبدالباری صاحب قیوم..مولانا نور محمد صاحب سیفی 617 619 620 حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ 621 عبد السلام صاحب اختر.ظفر محمود صاحب ظفر 622 623 السید محمود احمد عبد القادر صاحب عوده...624 حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ 625 626 627 627
627 628 629 xvii 629 630 630 631 631 633 635 636 637 638 639 641 642 644 646 648 650 652 653 655 656 657 658 659 ایک طرابلسی مغربی شیخ کی قبول احمدیت.چند خواہیں.وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرِّ قَدِ اقْتَرَبَ“.رہائی..الفضل.تین آلو بخارے اور گلاب کا پھول.خطبه جمعه.دشمن پر بجلی گری اور ہم پر خدا تعالیٰ کا انعام ہوا.بیماری سے شفایابی کے متعلق رویا.بارھواں باب.بعض منظومات شمس ان میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے.قصیده مدحیه در شان امام جماعت احمدیہ میں بن گیا ایاز وہ محمود ہو گئے.مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ گذارش احول.ہے دُعائے نیم شب تیر زبانِ اہل درد.آمین.نہیں ہوتا فنا نہیں ہوتا..احمدی نوجوانوں سے خطاب.بنی آدم پہ لازم سجدہ شکرانہ آتا ہے.الحکم کو ہدیہ تبریک.دل تڑپ اٹھتا ہے رہ رہ کر برائے قادیاں..جذبات شمس.چلو آشیانے فلک پر بنائیں.اقبال بڑھا، عمر بڑھا فضل عمر کی درد کیا چیز ہے دوا کیا ہے.اب گیا وقت خزاں آئے ہیں پھل لانے کے دن
xviii 660 661 665 00:00 تیرھواں باب.متفرقات پیغام شمس
خالد احمدیت سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1956ء کی تقریر میں فرمایا: " حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت جب حملے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ مغرورمت ہو.میرے پاس خالد ہیں جو ( دلائل سے ) تمہارے سر توڑ دیں گے مگر اس وقت سوائے میرے کوئی خالد نہیں تھا صرف میں ایک تھا.مگر یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں.چنانچہ شمس صاحب ہیں.مولوی ابوالعطاء صاحب ہیں.عبدالرحمن صاحب خادم ہیں.یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور دیں گے انشاء اللہ تعالی اور اللہ تعالیٰ ان کی فلم میں اور ان کے کلام میں زیادہ سے زیادہ برکت دے گا.“ xix الفضل ربوه 15 مارچ 1957ء)
XX ”ہمارے بزرگ، ہمارے بھائی ، ہمارے دوست“ سیدنا حضرت خلیفة اصبح الثالث نے حضرت مولا نائنس صاحب کی وفات پر خطبہ جمعہ میں فرمایا: ”ہمارے بزرگ، ہمارے بھائی ، ہمارے دوست مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس ہم سے جدا ہوئے.خدا کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی کو گزارا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی ابدی رضا کو حاصل کیا.ان کی وفات کے بعد خدا تعالی خود اس سلسلہ میں ایسے آدمی کھڑے کرے گا جو اسی خلوص کے ساتھ اور جو اسی جذبہ فدائیت کے ساتھ اور جو اسی نور علم کے ساتھ اور جو اسی روشنی فراست کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کرنے والے ہوں گے جس کے ساتھ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے سلسلہ کی خدمت کی تھی کیونکہ خدا تعالیٰ کا سلوک ہمارے ساتھ ایسا ہی چلا آیا ہے.“ روزنامه الفضل ربوہ 19 اکتوبر 1966ء)
xxi انمٹ روائیتیں سید نا حضرت خلیلة امسیح الرابع نے فرمایا: وو ان کا سارا خاندان ہی دین کی خدمت میں قربانی کرنے والا ہے مگر شمس صاحب نے جو روایتیں قائم کی ہیں وہ تو انمٹ ہیں.ی قربانی کرنے والے احمدی ہیں جن کی اولاد میں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے پھر دین میں جت رہی ہیں پھر آگے انشاء اللہ ان کی اولادیں جتی رہیں گی.“ خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1991ء)
xxii وو یہ مجاہد احمدیت کے عملی نمونوں کا گلدستہ ہے.“ سید نا حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحریرفرمایا: " حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی پر مشتمل مسودہ....امید ہے انشاء اللہ جب یہ کتابی صورت میں چھپ کر آئے گا تو بہتوں کیلئے ایمان اور ایقان میں زیادتی کا باعث ہوگا.یہ مجاہد احمدیت کے عملی نمونوں کا گلدستہ ہے.خاص طور پر آجکل کے واقفین زندگی اور مبلغین کیلئے ایک مثال ہے.میں نے جستہ جستہ اس کو دیکھا ہے.ہر واقعہ اپنی طرف خاص طور پر متوجہ کر لیتا ہے اور اس باوفا، محنتی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے ہر وقت کوشاں رہنے والے کے لئے دعا نکلتی ہے اور رشک آتا ہے جو مسیح محمدی کے پیغام کو پھیلانے کی لمصلہ دھن لئے ہوئے تھا.حضرت اصلح الموعود نے یونہی انہیں " خالد احمدیت کے خطاب سے نہیں نوازا تھا.اور حضرت مصلح موعودؓ کا کسی کو ایک خطاب سے نواز نا کوئی معمولی حیثیت نہیں رکھتا تھا.“ ( مکتوب محرره 14 فروری 2010ء بنام مکرم منیر الدین شمس)
xxiii پیش لفظ مکرم فلاح الدین صاحب شمس پسر حضرت مولانا شمس صاحب - مقیم امریکہ) ایک عرصہ سے خواہش تھی اور بہت سے دوست احباب نے بھی اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ حضرت والد ماجد کی سیرت پر کچھ لکھا جائے.نہ صرف لکھا جائے بلکہ آپ کے حالات زندگی پر کتاب بھی شائع کروائی جائے.اگرچہ 68-1967ء میں یہ کام شروع بھی ہوا تاہم بوجوہ معرض التواء میں رہا.اب خدا تعالیٰ نے دوبارہ تو فیق عطا فرمائی اور برادرم احمد طاہر مرزا صاحب نے اس سلسلہ میں خاصی عرق ریزی کی محنت و محبت سے قلمی معاونت فرمائی اور کتاب ” ‘ تالیف کی جو بفضلہ تعالیٰ مکمل ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں ہے.خاکسار والد ماجد کے بارہ میں کچھ تاثرات پیش کرنے کی توفیق پا رہا ہے.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.کتاب لکھنے کی خواہش والد صاحب رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی زندگی کے حالات پر کتاب لکھیں لیکن وقت نہ ہونے کے باعث وہ یہ کام نہ کر سکے.اپنی وفات سے چند ماہ قبل جبکہ میں ابھی امریکہ نہیں آیا تھا انہوں نے اس بات کا اظہار کیا.فرمایا کہ دو کتابیں لکھنا چاہتا ہوں لیکن وقت کی مجبوری کی وجہ سے نہیں کر سکا.ایک تو اپنی زندگی اور اپنے خاندان کے حالات لکھنا چاہتا ہوں اور دوسری ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں جس میں انجیل کی صحیح تفسیر بیان کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ عیسائیوں کو علم نہیں کہ انجیل میں کیسی باتیں بیان ہوئی ہیں.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں کئی باتوں کی تفسیر اور وضاحت فرمائی ہے لیکن اگر ایک تفسیر کی کتاب لکھی جائے تو بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے اور انجیل کی تعلیم اور پیشگوئیاں جو حضرت عیسی علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں وہ سب کے سامنے آسکتی ہیں.اس ضمن میں یاد آیا کہ ہمارے محترم حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رضی اللہ عنہ ؟ عنہ ہمیشہ ہمارے والد صاحب کو ”علامہ شمس کے نام سے پکارتے تھے.میں نے حضرت حافظ صاحب کی محفل میں بہت وقت گزارا ہے.مجھے کبھی بھی یاد نہیں کہ انہوں نے ابا جان کیلئے ”علامہ شمس“ کے علاوہ کوئی نام بھی استعمال کیا ہو.حضرت حافظ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ”علامہ شمس“ کو انتظامیہ کے اتنے کام نہ
xxiv دیئے جاتے اور آپ کتابیں لکھنے پر وقت صرف کرتے تو ہمارے زمانہ کے ”علامہ روم ہوتے.قبولیت دعا حضرت والد صاحب کو اپنے خاندان کے حالات لکھنے کی خواہش صرف تاریخی لحاظ سے حفاظت کی خاطر نہ تھی بلکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کے کئی نشانات بھی ہوئے ہیں.اس وقت بطور مثال میں دو باتیں عرض کر دیتا ہوں.ہمارے خاندان میں نرینہ اولاد بہت چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتی تھی اور اگر کوئی بیٹا زندہ رہتا تو ایک ہی ہوتا تھا.کئی بچے فوت ہونے پر ہمارے دادا حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوائی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں درخواست دعا کی.حضور نے نہ صرف دعا کی بلکہ ایک دوائی ( کشتہ فولاد ) بھی عطا فرمائی جو بعد میں عام لوگوں کے فائدہ کیلئے بھی مہیا کی گئی اور اس طرح اس نسخہ سے بہت سے لوگوں نے فائدہ بھی اٹھایا.یہ نسخہ ہمارے دادا کی روایات مندرجہ رجسٹر روایات میں لکھا ہو ا موجود ہے.بفضلہ تعالیٰ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہمارے خاندان میں بعد میں جو نرینہ اولاد ہوئی وہ زندہ رہی.یہاں میں یہ عرض کر دوں کہ اس کے بعد ایک عجیب صورت حال پیدا ہوئی جو قابل توجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی سلسلہ احمدیہ کے لئے وقف کر دی ان کے ہاں بہت نرینہ اولاد ہوئی جیسا کہ ہمارے والد صاحب اور ان کے چچازاد بھائی مکرم مولوی قمر الدین صاحب مرحوم.باقی خاندان میں اگر چہ نرینہ اولاد ہے لیکن وہ ایک تک ہی محدود رہی.الا ماشاء اللہ.اگر اس خاندان کے شجرہ میں دیکھا جائے تو یہ حیرت انگیز بات نظر آتی ہے.صرف ہمارا ہی خاندان نہیں بلکہ کئی واقفین خاندانوں میں ایسی مثالیں نظر آتی ہیں.میرے تایا جن کا نام بشیر احد تھا اور وہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے، ایک دفعہ بیمار ہو گئے.بہت تیز بخار تھا اور ان کے کچھ گلٹیاں بھی نکل آئیں.اس سے خدشہ ہوا کہ یہ کہیں طاعون نہ ہو.چنانچہ ہمارے دادا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تشویش کا اظہار کیا اور دعا کی درخواست کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس کو میں جانتا ہوں یا جو مجھے جانتا ہے اس کو طاعون نہیں ہوسکتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بالکل صحت یاب ہو گئے.ہمارے تایا جان جوانی کی عمر میں ہی وفات پاگئے.اس وقت ہمارے والد صاحب فلسطین میں بطور مبلغ خدمات بجالا رہے تھے اور جس دن
XXV وفات کی اطلاع ملی اسی روز ایک عرب عالم سے مناظرہ کیلئے تیار ہو گئے.باوجود احباب جماعت کی تجویز کے آپ نے پروگرام کو ملتوی نہیں کیا اور اپنے فرائض کو ذاتی وجوہات کی وجہ سے نہیں چھوڑا.اس کی تفصیل کتاب ہذا میں موجود ہے.والد ماجد کی بعض سعادتیں اب میں اپنے والد صاحب کے حالات زندگی کی طرف آتا ہوں.آپ طبیعت کے بہت سادہ تھے.ہر کسی سے ملتے تو مسکراہٹ کے ساتھ.میں نے کبھی ان کے مونہہ سے اپنی بڑائی کی بات نہیں سنی.ان کو جماعت میں ایک خاص مقام حاصل ہوا لیکن اس کا اثر آپ کی شخصیت پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوا.یہ ایسا مقام ہے کہ جو ابھی تک تاریخ احمدیت میں کسی کو حاصل نہیں ہوا مستقبل کے بارہ میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ، وہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی موجودگی میں اور ان کی اجازت اور حکم کے ماتحت پانچوں نمازیں اور جمعہ پڑھانا جو خود خلیفہ وقت نے پڑھانا تھا.یہ ایک خاص اعزاز تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فر مایا اور پھر یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا.وہ لوگ جو میری عمر کے ہیں انہوں نے والد صاحب کو ہی جمعہ اور نماز میں مسجد مبارک میں پڑھاتے دیکھا ہے.اگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیمارنہ ہوتے تو آپ ہی نمازیں پڑھاتے لیکن انہوں نے شفقت کے ساتھ یہ کام والد صاحب کے سپرد کیا.سوائے اس کے کہ وہ ربوہ سے باہر جماعت کے کام کیلئے گئے ہوتے ورنہ حضور ہمارے والد صاحب کو ہی ارشاد فرماتے.احباب جماعت کے دلوں میں ان کیلئے کافی عقیدت و محبت تھی لیکن میں نے خاص طور پر جلسہ سالانہ پر ایک خاص بات نوٹ کی تھی اور وہ یہ کہ آپ اپنی تعریف سننا پسند نہیں کرتے تھے اور آپ کے چہرہ پر عجیب سی گھبراہٹ کے آثار آجاتے اور میں نے یہ خاص طور پر دیکھا کہ آپ فورا موضوع کو بدلنے کی کوشش کرتے کہ یہ مرحلہ ختم ہو.دود نیاؤں کے باسی ر آپ دو دنیاؤں سے تعلق رکھتے تھے.اس کو میں دو پہلوؤں سے بیان کرسکتا ہوں.ہمارے ایک احمدی نوجوان دوست نے میرا تعارف ایک غیر احمدی صاحب سے کراچی میں کروایا.انہوں نے کہا کہ میہ اُس والد کے بیٹے ہیں جو اس دنیا کے نہیں تھے.میں نے جب بھی انہیں دیکھا ان کے چہرہ پر اگلی دنیا کی
xxvi روشنی دیکھی وہ فرشتہ تھے اور میں اس کا ذاتی گواہ ہوں.دوسرے پہلو سے وہ مشرق میں بطور مبلغ شام، فلسطین اور مصر میں تبلیغ کرتے رہے اور پھر اس کے برعکس مغربی طاقتوں کے مرکز یعنی لندن میں تعین کئے گئے جہاں عربی کی بجائے انگریزی سیکھنی پڑی اور پھر خدا تعالیٰ نے یہ بھی توفیق دی کہ نہ صرف انگریزی میں زبانی تبلیغ کی بلکہ ایک ایسی کتاب بھی لکھی (? Where Did Jesus Die ) که تقریباً چالیس سال کے عرصہ تک اور کوئی کتاب اس طرح کی ہمارے لٹریچر میں کسی نے نہیں لکھی اور جس کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا.اس پہلو سے وہ مشرقی دنیا اور مغربی دنیا سے تعلق رکھتے تھے.چنانچہ انہوں نے انگریزی کے علاوہ اردو اور عربی میں بھی کتابیں لکھیں جو جماعت میں ایک یادگار خدمت ہے.سادگی اگر چہ ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں ہوتے تھے لیکن وہ بھی سادگی سے پُر تھا.ایک اچکن گرمیوں کیلئے اور ایک اچکن سردیوں کیلئے تھی.اس کے علاوہ ایک اوور کوٹ تھا جو سردیوں میں اچکن کے اوپر استعمال کرتے تھے.آپ کی وفات تک میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی اور اچکن یا کوٹ خریدا ہو.یہ طبیعت کی سادگی ہی تھی کہ اگر کسی نے کوئی کام کہا تو اس پر انکار نہیں کر سکتے تھے.بیشک بعد میں ایسا ہوا کہ وہ کام نہیں کر سکتے تھے لیکن شروع میں نہ نہیں کہہ سکتے تھے.ایک دفعہ آپ نے عصر کی نماز کے بعد ایک جنازہ پڑھایا.اس دن بارش ہوئی تھی اور باہر کافی کیچڑ تھا.اس کے تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد ایک نوجوان ہمارے گھر آیا کہنے لگا کہ شمس صاحب کی وہ دوائی دے دیں جو وہ اپنی زبان کے نیچے رکھتے ہیں ان کو دل کی تکلیف ہوگئی ہے اور قبرستان سے آتے ہوئے راستے میں ٹھہر گئے ہیں.چنانچہ میں بھی گیا.ان کو دوائی دی اور آہستہ آہستہ واپس گھر لے کر آئے.ہم نے پوچھا کہ آپ قبرستان کس لئے گئے تھے آپ کو علم تھا کہ باہر کیچڑ ہے اور اس میں آپ کو چلنے میں تکلیف ہوگی.کہنے لگے کہ میت کے ساتھ جو رشتہ دار آئے ہوئے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ قبرستان میں دعا کرائیں اور میں انکار نہ کر سکا.آپ کو شوگر کی بیماری کے علاوہ انجائنا (Angina) کی بھی تکلیف تھی لیکن کسی کے کہنے پر عذر بتانے سے گریز کیا اور ان کی دلجوئی کیلئے قبرستان چلے گئے.میرے بڑے بھائی ڈاکٹر صلاح الدین شمس مرحوم تقریباً دو سال کے تھے اور بڑی بہن جمیلہ شمس چند
xxvii ماہ کی تھیں جب آپ بطور مبلغ لندن تشریف لے گئے.اگرچہ میں بڑے بھائی سے قریباً بارہ سال چھوٹا ہوں لیکن تمام بچوں میں اپنی عمر کا سب سے زیادہ عرصہ اباجان کے ساتھ گزارنے کا مجھے ہی موقعہ ملا.1946ء میں جب والد صاحب لندن سے واپس آئے تو ایک سال کے اندر ہی پاکستان معرض وجود میں آگیا اور ہمارے سب گھر والے قادیان سے لاہور آگئے اور اس کے بعد ربوہ بننے پر وہاں مقیم ہوئے.ہمارے ربوہ کے رہائش کے زمانہ میں میرے بڑے بھائی لاہور میں پڑھائی کی غرض سے رہے اور اس کے بعد میو ہسپتال میں ملازمت کے سلسلہ میں وہیں رہے اور پھر اس کے بعد امریکہ چلے گئے اسلئے ان کو والد صاحب کے ساتھ رہنے کا زیادہ موقعہ نہیں ملا.ہماری بڑی بہن کی شادی ہوگئی تو وہ بھی ربوہ سے منتقل ہو گئیں اس طرح سے ان کو بھی اتنے زیادہ سال ان کے ساتھ رہنے کا موقع نہیں ملا.چونکہ میں ربوہ میں رہا اور وہیں سکول اور کالج میں پڑھا اس لئے قدرتی طور پر تقریباً انیس سال کی عمر تک انہی کے ساتھ رہا.جب میں وہاں سے امریکہ آیا تو اس کے تقریباً تین ماہ بعد ان کی وفات ہوگئی اور اس طرح میرے چھوٹے بھائیوں کو ان کے ساتھ مجھ سے سے زیادہ رہنے کا وقت نہ ملا.تربیت والد صاحب ہمیشہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے ایک قول کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ ماں باپ کو چاہئے کہ اپنے سب سے بڑے بچے کی تربیت صحیح طرح سے کریں تو باقی بچے خود بخود تربیت یافتہ ہو جائیں گے.اس کا حوالہ دے کر مجھے نصیحت کرتے تھے کہ میں سب سے بڑا ہوں اس لئے مجھے یہ ذمہ داری سمجھنی چاہئے.میں مذاقا بحث کرتا تھا کہ سب سے بڑا تو بڑا بھائی ہے میں نہیں ہوں لیکن وہ کہتے تھے وہ تو لاہور میں رہتا ہے اس لئے یہاں اس گھر میں تم ہی بڑے ہو.انہوں نے دو طریق سے مجھے کافی علم حاصل کرنے میں مدد کی.جب آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا سیٹ تیار کروانا شرع کیا تو وہ ایک بہت بڑا کام تھا.اس وقت کا تب کتاب کو پیلی روشنائی سے لکھتے تھے.اس کی پروف ریڈنگ کرنی پڑتی پھر اس کی تصحیح ہوتی اور پھر پلیٹوں پر چسپاں ہوکر پریس میں کتاب چھپتی تھی.والد صاحب نے مجھے اپنے ساتھ پروف ریڈنگ کیلئے لگایا.مجھے ایک آنہ فی صفحہ دیتے تھے.چنانچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصلی کتاب سے پڑھتا اور آپ کا تب کے کاغذ پر اصلاح کرتے.جب عربی یا فارسی کا حصہ آتا تو خود ہی ٹھیک کرتے کیونکہ مجھ سے پڑھی نہیں جاتی
xxviii تھی.اس طرح میں نے چھوٹی عمر میں ہی بہت سی کتابیں جن میں براہین احمدیہ بھی شامل ہے، پڑھ لیں.اپنی عمر کے آخری دو سال میں جب ربوہ سے کسی کام کیلئے باہر جاتے تو مجھے یہ ذمہ داری دی تھی کہ ساری ڈاک کو دیکھ کر اس کی ترتیب کر دوں.اس وقت آپ ناظر اصلاح وارشاد تھے، اس وقت نظارت ایک ہی شعبہ پر مشتمل تھی ، اب اس کے چار شعبے ہیں] الشرکۃ الاسلامیہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے مجلس کار پرداز کے صدر تھے اور اس کے علاوہ بھی کئی کمیٹیوں میں شامل تھے.مزید یہ کہ بہت سے احباب جماعت ان سے فتاویٰ کیلئے یا رائے کیلئے بھی خط لکھتے تھے.چنانچہ میں ڈاک دیکھ کر مختلف دفاتر کیلئے ترتیب دے دیتا اور اگر کوئی فوری خط ہوتا تو اس دفتر میں پہنچا دیتا.اس دوران مجھے مختلف دفاتر کے کام کی کافی سوجھ بوجھ ہو گئی اور کئی لحاظ سے فائدہ مند بات ہوئی کہ جماعتی دفاتر کا نظام کیسے چلتا ہے.جماعتی ذمہ داریاں والد صاحب کی توجہ دو طرف ہی رہتی تھی ایک تو اپنی جماعتی ذمہ داریوں کی طرف اور دوسرے عبادات کی طرف.جماعتی کاموں میں چونکہ بہت توجہ اور انہماک سے رجوع کرتے تھے اس لئے ہمیشہ صحیح موقعہ پر صحیح قدم اٹھانے کا موقع ملتا تھا.اس ضمن میں خاکسار دو واقعات کا ذکر کرنا چاہتا ہے.جب خلافت جو بلی کیلئے سید نا حضرت مصلح موعودؓ کو تجاویز پیش کی گئیں تو حضور کو یہ پسند نہیں تھا کہ آپ کی ذات کیلئے کوئی جشن منایا جائے اور انہوں نے اس بات کا اظہار بھی فرمایا.ہمارے والد صاحب اس وقت لندن میں خدمات بجالا رہے تھے.انہوں نے حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ اگر چہ یہ خلافت ثانیہ کی پچیسویں سالگرہ بھی ہے لیکن ساتھ ہی 1939ء میں جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے پچاس برس ہوئے ہیں کیونکہ جماعت 1889ء میں قائم ہوئی تھی.چنانچہ سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس بات کا ذکر اپنی پہلی تقریر میں کیا جو آپ نے خلافت جو بلی کے موقعہ پر فرمائی اور آپ نے فرمایا کہ میں اس تقریب کے حق میں نہیں تھا لیکن مجھے مولوی جلال الدین صاحب شمس نے لکھا کہ جماعت کی سالگرہ کی تقریب بھی ہے تو پھر میں راضی ہو گیا.ہجرت قادیان دوسرا واقعہ جو قابل ذکر ہے وہ قادیان سے ہجرت کا واقعہ ہے.اکثر احباب جماعت قادیان سے
xxix ہجرت کر کے پاکستان آچکے تھے.سیدنا حضرت مصلح موعودؓد بھی لا ہور تشریف لا چکے تھے اور وہیں سے ہدایات جاری فرما رہے تھے.ہمارے والد صاحب آخری قافلے کے ساتھ اکتوبر 1947ء میں پاکستان کی طرف آئے.قادیان سے باہر نکل کر آپ نے قافلے کو تھوڑی دیر کیلئے ٹھہرایا اور قادیان کی طرف رُخ کر کے وہی الفاظ دہرائے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ چھوڑتے وقت دہرائے تھے کہ اے بستی میرا دل تجھے چھوڑنے کو نہیں کرتا لیکن تیرے لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں اے قادیان تجھے چھوڑ دوں.یہ بھی ایک غیر معمولی بات تھی جس کا ذکر کرنا مناسب سمجھا ہے.اس ضمن میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ربوہ کا نام بھی حضرت والد صاحب نے تجویز فرمایا تھا جسے حضور نے شرف قبولیت عطا فر مایا.عبادت محترم چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں جب پڑھائی کیلئے لندن گئے تو ہمارے والد صاحب نے انہیں تجویز کیا کہ وہ کسی فلیٹ میں رہنے کی بجائے مسجد کی بلڈنگ میں رہیں اس سے ان کا خرچ بھی کم ہوگا اور مسجد کے ماحول میں رہنا تربیتی لحاظ سے بھی بہتر ہوگا.جب مکرم کاہلوں صاحب نے حامی بھر لی تو آپ نے انہیں کہا کہ وہاں ایک بڑا کمرہ ہے اور ایک چھوٹا.بڑے کمرہ میں آپ رہیں گے اور میں چھوٹے کمرہ میں.اس پر کاہلوں صاحب نے اصرار کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ چھوٹے کمرہ میں ہوں اور میں بڑے میں رہوں.جب کاہلوں صاحب نے بہت اصرار کیا تو حضرت والد صاحب نے مجبوراً اس کی وجہ بتائی.کہنے لگے کہ چھوٹے کمرہ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب رہا کرتے تھے جب وہ قرآن شریف کے انگریزی ترجمہ کے سلسلہ میں لندن تشریف لائے ہوئے تھے.آپ کا طریق تھا کہ جب بھی ترجمہ کرنے کیلئے بیٹھتے تھے تو پہلے دو نفل نماز ادا کرتے تھے.انہوں نے اس کمرہ میں اتنی نمازیں پڑھی ہیں کہ مجھے وہ کمرہ بہت پسند ہے اور میں وہیں رہنا پسند کرتا ہوں.اس پر مکرم کا ہلوں صاحب راضی ہو گئے.والد صاحب اپنے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب کو بہت محبت اور عزت سے یاد کرتے تھے.ان کی دو نصیحتوں کو ہمیشہ یادر کھتے تھے.ایک یہ تھی کہ جہاں کہیں بھی مبلغ بن کر جاؤ وہاں ایک شخص کو اپنے خاص طریق سے رنگ دوتا کہ تمہیں اگر کہیں اور جانا پڑے تو وہ تمہاری جگہ لے سکے اور جماعت کا
XXX کام آگے بڑھتا ر ہے.دوسرے یہ کہ جہاں بھی جاؤ قرآن شریف کا درس جاری کرو.والد صاحب نے اس نصیحت کے تحت دمشق میں منیر الحصنی صاحب کو اپنا جان نشین تیار کیا اور جب آپ کو دمشق سے فلسطین مجبور آ جانا پڑا تو انہوں نے جماعت کو سنبھال لیا اور ایک لمبا عرصہ اپنی وفات تک اس ذمہ داری کو نبھایا.دوسری نصیحت کے مطابق جب کہا بیر فلسطین میں جماعت تیار ہوئی تو آپ نے با قاعدگی سے درس قرآن جاری کیا جو جماعت کی تعلیم و تربیت کیلئے بہت سودمند ثابت ہوا.آج تک دمشق کے احباب جماعت آپ کیلئے بہت ہی محبت اور انس کے جذبات رکھتے ہیں.اگر چہ اس بات کو ستر سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن وہ ابھی تک انہیں بزرگ اور اپنے گھر کے ایک فرد کے طور پر جانتے ہیں.یہ میرا بیٹا ہے لیکن میں نے اس کو دس سال سے نہیں دیکھا خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے تو فیق دی کہ دمشق جا کر وہ جگہ دیکھوں جہاں آپ رہتے تھے اور جہاں آپ پر حملہ کیا گیا اور وہ ہسپتال بھی دیکھا جہاں آپ کو لے جایا گیا تھا.احباب جماعت جو میرے ساتھ تھے ان میں سے صرف ایک دوست تھے جو والد صاحب کو 1946 ء میں ملے تھے جبکہ آپ لندن سے قادیان واپس جاتے ہوئے دمشق ٹھہرے ہوئے تھے.لیکن صرف وہی نہیں بلکہ نوجوان احمدی بھی ان کا ایسے محبت کے ساتھ ذکر کرتے تھے کہ ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی تھی.وہ احمدی دوست ابوالفراج صاحب مجھے بتانے لگے کہ جب آپ کے والد صاحب یہاں آئے تو میں ان سے ملتا تھا اور ان کے کمرہ میں جاتا تھا.ایک مرتبہ انہوں نے اپنی جیب میں سے ایک لڑکے کی تصویر نکالی اور مجھے کہنے لگے کہ تم جانتے ہو یہ کس کی تصویر ہے؟ اور پھر مجھے بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن میں نے اس کو دس سال سے نہیں دیکھا ہوا، اب میں قادیان جاؤں گا تو اسے دیکھوں گا.اس سلسلہ میں حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رضی اللہ عنہ کی ایک بات کا ذکر کردوں.حضرت حافظ صاحب نے مجھے بتایا کہ میرے دادا اُن کے پاس میرے بڑے بھائی کو لے کر آتے تھے اور کہتے تھے کہ حافظ صاحب اس بچے کیلئے دعا کریں.یہ اپنے باپ کیلئے روتا ہے.کہتا ہے ” باقی سب کے اتبا ہیں تو میرے کیوں نہیں ہیں ؟ اور میرا دل ہل جاتا ہے مجھ سے دیکھا نہیں جاتا اور یہ کہتے ہوئے ان کے آنسو نکل آتے تھے.حافظ صاحب فرماتے کہ میں بات کا رخ دوسری طرف لے جاتا
xxxi اور انہیں کہتا کہ اس کے والد تو نیک کام کیلئے گئے ہوئے ہیں اور پھران کو یاد دلاتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ آپ کو ان سے نسبت صدیقی ہے.چنانچہ پھر وہ حضرت مسیح موعود کی شفقت کو یاد کر کے اور بھی روتے لیکن یہ محبت کے آنسو ہوتے تھے.خادم خلافت والد صاحب کو خلافت احمدیہ سے حد درجہ محبت تھی.خلیفہ وقت سے متعلق کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی برداشت نہیں کرتے تھے اور فورا درستی کر دیتے تھے.مجھے یاد ہے کہ جب ہماری دادی جو صحابی تھیں اور تین سو تیرہ صحابیوں میں شامل تھیں وہ تقریباً 96 سال کی عمر میں وفات پا گئیں تو والد صاحب نے مجھے کہا کہ کا غذ اور قلم لا دو حضور کو خط لکھنا ہے.مجھے صرف یہ خواہش تھی کہ دیکھوں کہ والد صاحب حضور کو کیسے خط لکھتے ہیں.چنانچہ آپ نے حضور کو درخواست لکھی کہ ان کی والدہ کو قطعہ خاص میں دفن کرنے کی اجازت دی جائے جو حضور نے منظور فرمائی.اس خط میں آپ نے حضور کوان الفاظ میں مخاطب کیا تھا: " آقائی و مولائی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدک اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چنانچہ اسی وقت سے اب تک جب خاکسار بھی کوئی خط خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھتا ہے تو انہی الفاظ سے مخاطب کر کے لکھتا ہے.خلیفہ وقت کی تعظیم ہر وقت مد نظر ہوتی تھی.ایک دفعہ جلسہ کا پروگرام تیار ہو رہا تھا اور حضور اید اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجوایا جانا تھا.میں کسی کام سے آپ کے دفتر میں بیٹھا تھا چنانچہ آپ نے پروگرام پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ حضور منظوری دیں کہ ان اصحاب میں سے کون تلاوت قرآن کریم فرمائے.والد صاحب نے کہا کہ جب حضور سے درخواست ہورہی ہو تو کوئی اور نہیں فرما سکتا.لکھو کہ کون تلاوت کرے.وصیت شمس آپ کی وفات سے تقریباً تین ماہ قبل جب میں امریکہ آنے کی تیاری کر رہا تھا تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ آپ ٹیپ ریکارڈر میں کوئی پیغام ریکارڈ کر دیں.آپ نے کہا کہ اس کو سیٹ کر دو اور مجھے بتا دو کہ کہاں سے بند ہوتا ہے اور کمرہ سے باہر چلے جاؤ اور دروازہ بند کر دو.جب میں ریکارڈ کرلوں گا تو تمہیں واپس بلالوں گا.
xxxii چنانچہ میں نے انہیں بتا دیا اور کمرہ سے باہر چلا گیا.آپ نے اس میں تقریباً نہیں منٹ لمبا پیغام دیا اور شروع میں کہا کہ یہ میری نصیحت ہی نہیں بلکہ وصیت سمجھی جائے اور یہ حقیقت میں ان کی آخری وصیت ہی ثابت ہوئی کیونکہ تین ماہ کے بعد آپ کا انتقال ہو گیا.آپ نے اس میں پہلی نصیحت یہ کی کہ قرآن شریف سے محبت رکھو کہ اس میں تمام کامیابیوں کی کنجی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب فتح اسلام کا حوالہ دے کر کہا کہ قرآن ہی ہمارا کعبہ ہے.دوسری بڑی نصیحت یہ کی کہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہو.جب بھی کوئی نیا خلیفہ چنا جائے یہ تمہارا کام نہیں ہے کہ کون چنا گیا اور کیوں.تمہارا کام صرف یہ ہے کہ اس کی بیعت کرو اور اس کی اطاعت میں آجاؤ.اس کے علاوہ نمازیں ادا کرنے کی تلقین کی اور ایک دو زاتی نصیحتیں بھی کیں.اسی پیغام میں آپ نے ذکر کیا کہ آپ کو خواب میں دکھایا گیا تھا کہ آپ امریکہ گئے ہیں اور آپ نے کہا کہ کئی خواہیں بیٹوں کے ذریعہ سے پوری ہوتی ہیں.شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے امریکہ آنے کی اجازت دی ورنہ آپ کے کئی دوستوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں امریکہ نہیں بھجوانا چاہئے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات کو پیش نظر رکھتے تھے اور ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ ان کو پورا کرسکیں.انہی میں سے ایک خواہش یہ تھی کہ عیسائیوں میں ایک لاکھ کی تعداد میں اشتہار تقسیم کئے جائیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور آپ کی قبر کشمیر میں ہے.چنانچہ اس خواہش کو والد صاحب نے قیام لندن میں پورا کیا.آپ نے ایک لاکھ اشتہار چھپوایا اور پھر لندن کی گلیوں میں تقسیم کروایا.اس وقت آپ کے پاس مبلغین کا ایک گروپ بھجوایا گیا تھا جو چھ ماہ بعد باقی یورپ کے ملکوں میں جانے والے تھے.چنانچہ آپ نے ان کی مدد سے اس اشتہار کی تقسیم کا یہ اہم کارنامہ سرانجام دیا اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا کیا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو حقہ نوشی اور سگریٹ نوشی سے پر ہیز کے لئے ہت تلقین فرمائی ہے بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ اگر یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو وہ اسے ضرور حرام قرار دیتے.اس خواہش کے مطابق والد صاحب نے ایک خاص مہم سگریٹ کے خلاف چلائی.ربوہ میں جگہ جگہ بورڈ لگائے گئے جن پر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات تھے کہ حقہ نوشی سے پر ہیز کرو اور پھر ربوہ میں سگریٹ بیچنے پر بھی پابندی عائد کروائی.مجھے ذاتی طور پر علم ہے ایک دو دکاندار چھپ کر سگریٹ بیچتے تھے.ان کو آپ نے بلایا اور ان کو پیار سے سمجھایا کہ یہ کام درست نہیں
xxxiii ہے، رزق خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ تمہارے باقی رزق میں برکت ڈال دے گا.چنانچہ ربوہ میں تمام دکانوں میں سگریٹ بیچنی بند ہوگئی.اس عرصہ میں کئی احباب نے سگریٹ نوشی چھوڑ دی.میرے نانا جان محترم خواجہ عبید اللہ صاحب جو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور وہ تمام عمر حقہ پیتے رہے تھے لیکن صرف کھانے کے بعد.اس کے علاوہ کسی وقت میں ہم نے انہیں حقہ پیتے نہیں دیکھا.اپنی کسی پیٹ کی بیماری کی وجہ سے صرف کھانے کے بعد چند منٹ پیتے تھے لیکن اس موقعہ پر آپ نے بھی حقہ نوشی ختم کر دی اور اپنی وفات تک دوبارہ حقہ نہیں پیا.والد صاحب کی وفات کے بعدا گرچہ چند سالوں کے بعد دوبارہ سگریٹ بیچنے کی اجازت ہو گئی لیکن آپ کی وفات تک آپ نے اس پر پابندی جاری رکھی.ہمارے والد صاحب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ان کی ساری اولاد خدا تعالیٰ کے فضل سے مختلف طریقوں سے جماعت کی خدمت انجام دے رہی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خواہش کے مطابق کہ ہر خاندان میں ایک بیٹے کو وقف کیا جائے آپ نے میرے چھوٹے بھائی منیر الدین شمس صاحب کو وقف کیلئے پیش کیا.وہ لندن میں ایڈیشنل وکیل الاشاعت کے طور پر خدمات بجالاتے رہے ہیں اور آجکل ایڈیشنل وکیل التصنیف کے طور پر لندن میں خدمات بجا لا رہے ہیں.اس سے پہلے وہ لندن میں بطور نائب امام مسجد فضل لندن اور مبلغ بھی رہے اور کینیڈا میں امیر ومشنری انچارج کے فرائض بھی ادا کئے.ہمارے بڑے بھائی ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس اپنی وفات کے وقت جماعت احمدیہ زائن Zion کے صدر تھے.زائن وہ شہر ہے جسے جان الیگزینڈرڈوئی نے بنایا تھا.یہ وہی ڈوئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں ترقی کے عروج سے قعر مذلت میں جا گرا تھا.ہمارے بڑے بھائی جان کو بہت سے احمدی احباب کو زائن دکھانے اور اس کا تعارف کروانے کا موقعہ ملتا رہا اور اس میں وہ بہت خوشی محسوس کرتے تھے.اسی طرح دوسرے بھائی بھی مختلف عہدوں پر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں.خاکسار کو بھی اللہ تعالیٰ نے موقعہ بخشا کہ مختلف طریق سے جماعت احمدیہ کی خدمت کرسکوں.امریکہ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد ہی جماعت شکاگو کا جنرل سیکرٹری بنے کی توفیق ملی.1975ء میں کچھ احمدی احباب شکا گوشہر کے گردونواح میں رہنے لگے تو وہاں جماعت کا صدر مجھے چنا گیا.حالانکہ میں عمر میں سب احباب سے کم تھا لیکن انہوں نے یہ کام میرے سپرد کیا.1987ء کے آخر میں شکا گوشہر
xxxiv کی جماعت کو ساتھ ملانے کا حکم ہوا اور شکاگو کی نئی جماعت کا صدر خاکسار کو چنا گیا.اس طرح2004ء تک خاکسار کو اس خدمت کا موقعہ ملا.اس کے بعد شکاگو کی جماعت کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا گیا.امریکہ میں مساجد کی تعمیر میں حصہ اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ اپنی صدارت کے دوران ہم تین مسجدیں بنا ئیں.ایک مسجد تو وہ ہے جو حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے 1922ء میں خریدی تھی.اس کیلئے ایک مکان کو مسجد کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور اس کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد بھی لگایا گیا تھا.سید نا حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اس تاریخی جگہ پر نئی مسجد بنانے کا فیصلہ ہوا.چنانچہ پرانی عمارت گرا کرنی مجد تعمیر کی گئی جو مسجد صادق کے نام سے موسوم ہے.1994ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا افتتاح فرمایا.جس وقت مسجد صادق کی تعمیر ہورہی تھی اس دوران میں شکا گوشہر کے مرکزی علاقہ میں ایک عمارت خرید کر اس کو مسجد کے طور پر بنایا گیا جہاں باقاعدگی سے جمعہ کی نماز شروع ہوئی اور شہر کے سنٹر میں کام کرنے والے لوگوں کیلئے بہت آسانی ہوگئی.اس کا بڑا سائن شہر کے آئزن ہاور ہائی وے سے نظر آتا ہے اور الینوائے یونیورسٹی کے بالکل سامنے ہے.یہ جگہ ابھی تک جمعہ اور وقتا فوقتا دوسری تقاریب کیلئے استعمال ہوتی ہے.تیسری مسجد اس جگہ بنائی گئی جو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی تحریک پر پانچ ایکڑ زمین خریدی گئی تھی.یہاں پر تقریباً 30 لاکھ ڈالر کے خرچ سے بڑی مسجد تعمیر کی گئی جس کا افتتاح اپریل 2004ء میں مکرم ڈاکٹر احسان اللہ صاحب ظفر امیر جماعت احمد یہ امریکہ نے کیا.اس مسجد میں ایک ہزار کے قریب لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں.خاکسار نے اپنی صدارت کے دوران شکاگو کے علاقے میں احمد یہ قبرستان کی جگہ لینے کا بھی انتظام کیا.چنانچہ اس وقت تقریبا اڑھائی سوقبروں کی جگہ لے کر اس کو مقبرة الامان کے نام سے استعمال میں لایا گیا ہے.یہ نام حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا.اس میں احباب جماعت نے اپنے اور عزیزوں کیلئے جگہ خریدی لیکن ایک سو پلاٹ جماعت احمد یہ شکاگو کی ملکیت ہیں اور اس نظام کو اس طرح سے بنایا کہ جماعت جیسے جیسے اور پلاٹ بیچتی رہے گی اسی قیمت سے نئے پلاٹ خرید سکتی ہے.چنانچہ اس پروگرام کے مطابق جماعت شکا گو اس قبرستان کو بڑھا سکتی ہے اور مرکز سے کسی رقم کی
XXXV ضرورت نہیں پڑے گی.مرکز نے اس میں موصیان کیلئے پچیس فیصد قبروں کی رقم ادا کی تھی جو مرکز کی ہدایت کے مطابق پلاٹ استعمال ہو سکتے ہیں.اس کے علاوہ خاکسار کو تقریباً سات سال تک بطور نیشنل سیکرٹری تحریک جدید جماعت احمدیہ کی خدمت کی توفیق ملی.جس وقت مجھے چارج دیا گیا پوری جماعت امریکہ کا تحریک جدید کا چندہ ایک لاکھ پچپن ہزار ڈالر تھا اور جب خاکسار نے 1999ء میں اس کا چارج دیا اس وقت تک جماعت امریکہ کا چندہ ساڑھے چھ لاکھ ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا.اس وقت خاکسار بطور نیشنل آڈیٹر کام کر رہا ہے اور رسالہ The Muslim Sunrise جسے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب بھیروی نے 1921ء میں امریکہ سے شروع کیا تھا، کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محض اپنے فضل و کرم سے تمام فرائض کو اپنی استطاعت کے مطابق کرنے کی صلاحیت اور توفیق عطا فرماتے ہوئے مقبول خدمات کی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین.
xxxvi دیباچه بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسوله اکریم علی عبده السيح الموعود مکرم منیر الدین صاحب شمس پسر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) میں چھوٹی عمر کا بچہ تھا جب سے اپنے والد محترم حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی شکل یاد ہے.ہر وقت ایک مسکراہٹ سی چہرہ پر ہوتی.صاف ستھرے کپڑے شلوار قمیص زیب تن ہیں جن پر کوٹ پہنا ہوا ہے.چہرہ پر داڑھی ہے جو چہرہ پر خوب جچتی ہے.سر پر پگڑی ہے جو بھلی معلوم ہوتی ہے.گول اور سیاہ آنکھیں جو خوب چمکدار ہیں جو اس بات کی غماز ہیں کہ نگاہ دور رس ہے.دفتری کاموں میں خوب انہماک تھا یہاں تک کہ دفتری اوقات کے بعد جب گھر آتے تو جہاں شدید گرمی کے باعث ایک ہاتھ میں سیاہ چھتری تانے ہوتے تھے وہاں دوسرے ہاتھ میں فائلیں بھی پکڑے ہوتے تھے تا کہ گھر آکر دفتری امور بھی جاری رہیں لیکن طبیعت میں غصہ کی بجائے ایک اطمینان کی سی کیفیت ہوتی تھی اور گھبراہٹ اور افراتفری کی بجائے ہشاش بشاش نظر آتے اور مسکراہٹ چہرہ پر بکھری ہوتی تھی.ہمارے ابا جان کی خوش قسمتی تھی کہ آپ کو بچپن میں گھر میں نہایت پاکیزہ ماحول میسر آیا.نہ صرف آپ کے والد محترم حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوائی صحابی تھے بلکہ ان کے دونوں بھائی حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوائی اور حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوائی اور آپ کے دادا حضرت میاں محمد صدیق صاحب سیکھوائی اور پھوپھو حضرت امیر بی بی صاحبہ شعرف مائی کا کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شامل تھے.ان کے ذریعہ آپ کو حضور علیہ السلام کے الہامات اور آپ کی صداقت کے اظہار کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائے جانے والے نشانات کا بھی علم ہوتا رہتا اور علم ومعرفت سے بھر پور مجلسوں کا بھی تذکرہ رہتا.اسی طرح الحمد للہ کہ ہم بھی جہاں اپنے گھر میں حضرت ابا جان کے نیک اور پاکیزہ زندگی کے عملی نمونہ سے حصہ پاتے رہے وہاں ہم اپنی عظیم والدہ محترمہ سعیدہ بانو سے آپ کی ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے اور اپنے بچوں کو خوشیاں دینے کیلئے قربانیاں کرتے چلے جانے کے باوجود گھر کے نظم ونسق کی نہایت عمدہ طریق پر چلاتے چلے جانے کے ساتھ اپنے بچوں میں عزت نفس پیدا کرنے اور بلند حوصلگی کا عملی رنگ میں مسلسل سبق حاصل کرتے رہے.اسی طرح ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے نانا جان حضرت خواجہ عبید اللہ صاحب ( ریٹائر ڈالیں.ڈی او) ہمارے ہی ہاں رہتے تھے.آپ بھی پانچوں وقت
xxxvii مسجد میں جا کر با جماعت نمازیں ادا کرنے والے، تہجد گزار اور دینی احکامات پر عامل بزرگ تھے.ہم نے قرآن کریم بچپن ہی میں پڑھنا آپ سے ہی سیکھا تھا.نہ صرف قرآن کریم بلکہ ہمارے سکول کی تعلیم میں بھی آپ ہمارے راہنما تھے.ہمارے گھر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے روزوں کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا.میں نے کبھی کسی کے خلاف شکایت یا ایک دوسرے کے بارہ میں چغلیاں نہیں سنی تھیں ہاں البتہ خوبیوں کے تذکرے ضرور ہوتے تھے اور اچھی باتوں پر احباب کی تعریف ضرور سنی جاتی تھی.میں سولہ سال کا تھا کہ ابا جان کی وفات ہوگئی.میں اس وقت جامعہ کی اولی کلاس میں تھا.اُس روز نجانے کیوں مغرب سے کچھ پہلے میں بستر پر لیٹ گیا اور قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا.کچھ دیر بعد ضیاء الاسلام پریس کے خواجہ عبدالرحمن صاحب مرحوم گھبرائے ہوئے ہمارے گھر آئے.باہر کا دروازہ کھلا تھا.وہ گھر کے اندر آگئے اور پوچھا کہ مولانا شمس صاحب کہاں ہیں؟ میں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ وہ سرگودھا گئے ہوئے ہیں تو انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ وہ وفات پاگئے ہیں.میں نے محسوس کیا کہ میرا دماغ ماؤف ہو گیا ہے لیکن میں قرآن پڑھتارہا اور ہر گز گھبراہٹ محسوس نہیں ہوئی.اس کے بعد کیا کچھ ہوتارہا یہ ایک لمبی داستان ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتنے فضل اور احسانات کئے ہیں کہ ان کا شما ممکن ہی نہیں ہے.خلفائے وقت سے اتنا پیار ملا ہے جو اپنوں سے بھی ممکن نہیں.میں نے جب 1972ء میں جامعہ سے شاہد کا امتحان پاس کیا اور مولوی فاضل پنجاب یونیورسٹی سے کیا تو میری تقرری بدوملہی ضلع سیالکوٹ میں ہوئی لیکن چند ماہ بعد ہی مجھے نائب امام مسجد فضل لندن مقرر کر کے انگلستان بھجوا دیا گیا.میری یہ بہت خوش قسمتی تھی کہ یہاں حضرت ابا جان امام رہ چکے تھے.چنانچہ اس طرح ان کیلئے بھی بہت دعاؤں کا موقع ملتا رہا.ہائیڈ پارک کارنر جہاں آپ کی تقاریر ہوتی رہیں اور ایک پادری کے ساتھ مناظرہ بھی ہوتارہا وغیرہ جگہیں دیکھنے کا موقع ملا.ابا جان کے دور امامت کے بعض احباب سے ملاقات کا موقعہ ملتا رہا جن میں مکرم عبد الوہاب صاحب مرحوم، مکرم عبدالرحیم صاحب آف ماریشس مرحوم، مکرم ناصر احمد صاحب سکرونز مرحوم، ہر دلعزیز مکرم عزیز دین صاحب مرحوم اور مکرم چوہدری انو راحمد کاہلوں صاحب مرحوم وغیرہ سے متعدد مرتبہ ابا جان کی پاکیزہ سیرت کے مختلف پہلوؤں پر سننے کا موقع ملتا رہا.ان سب کے بیان کے مطابق حضرت ابا جان حقیقت میں ایک فرشتہ سیرت انسان تھے اور ہر ایک کے ہمدرد، مونس و غمخوار تھے اور عالم باعمل تھے.انگلستان کی جماعت کے ایک دوست چوہدری خورشید احمد صاحب سیال ہیں جن کی ایک ٹانگ کینسر کی
xxxviii وجہ سے سرجری سے کاٹنی پڑی تھی.وہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنی جان سے بیزار ہو چکے تھے لیکن ہمارے ابا جان حضرت مولانا شمس صاحب تھے جو انہیں با قاعدہ خط لکھا کرتے تھے اور ان کو تسلیاں دیا کرتے تھے اور ڈھارس بندھاتے تھے.میں نے انہیں ابا جان کے بارہ میں چند سطور لکھنے کا کہا تھا اور پھر جب چند مرتبہ یاد دہانی کرائی تو کہنے لگے کہ ان کیلئے ممکن نہ ہو سکے گا کہ وہ ان کے بارہ میں تحریر کرسکیں کیونکہ جب بھی وہ لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں ان کی یاد میں رونا شروع کر دیتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ ابا جان بہت مصروف ہوا کرتے تھے گھر میں بھی دفتری کاموں کا انبار ہوتا تھا.کئی مرتبہ مجھے بھی تربیت اور ٹرینگ کیلئے پروف ریڈنگ کے کام میں اپنے ساتھ بٹھا لیا کرتے تھے.اس کے باوجود بہت سے احباب ایسے تھے جو تقریروں یا نظموں کی تیاری کے سلسلہ میں آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور آپ خوشی سے ان کی مددفرماتے تھے.انسان جب کسی سے لہی محبت اور ہمدردی کرتا ہے تو اسکا اثر بہت گہرا ہوتا ہے.اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جبکہ سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرائع نے اپریل 1998ء میں مجھے اور میری اہلیہ ریحانہ صاحبہ کو کہا بیر کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کیلئے اپنے نمائندہ کی حیثیت سے بھجوایا.حیفا اور کہا بیر کی جماعتیں ابا جان کے ذریعہ شروع ہوئی تھیں.مجھے اس بات کا اندازہ تو تھا ہی کہ وہاں کے احباب کو ابا جان کے ساتھ ایک فطری لگاؤ اور محبت ہوگی لیکن جو نظارہ ہم نے وہاں اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کا تصور نہیں تھا.جب ہم تل ابیب ائر پورٹ سے بذریعہ کار کہا بیر پہنچے تو مسجد اور مشن ہاؤس کے باہر احباب و خواتین کو قطاروں میں کھڑے پایا.ان میں بچے بھی تھے، جو ان بھی تھے اور بوڑھے بھی.احباب میرے ساتھ اور خواتین میری اہلیہ کے ساتھ گلے لگ کر زار و قطار روتے تھے.یہ سلسلہ احمدیہ سے وہی جذ بہ وفا و محبت تھا جو انہیں ان کے بزرگوں نے ابا جان کی وساطت سے خلافت کیلئے منتقل کیا تھا.احباب سے ملاقاتوں کے ذریعہ انہوں نے بتایا کہ انکے آباؤ اجداد انہیں ہمارے ابا جان کے متعلق جس پیار اور خلوص اور محبت کی داستانیں سنایا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ وہ ان کے گھر کے ایک فرد کی طرح تھے، اس وجہ سے ان سب کے دلوں میں ہمارے لئے بھی بے پناہ پیار و محبت اور اخوت کے جذبات ہیں.میری بیٹی عزیزہ ھالہ چند سال قبل جب کہا بیر گئی تو وہاں خواتین نے اسے بتایا کہ آپ لوگ اُس محبت اور پیار اور خلوص اور اخوت کے جذبات کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے جو آپ کے دادا جان کی وجہ سے ہم سب کے دلوں میں آپ کیلئے ہیں.بہت سے احباب اور بالخصوص سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع حضرت ابا جان کے حالات زندگی جمع
xxxix کر کے چھپوانے کی متعلق توجہ دلاتے رہے ہیں.اس سے قبل 1967ء میں مکرم عبد الباری قیوم صاحب نے ابا جان کے بارہ میں ابتداء سے لیکر بلاد عربیہ میں تبلیغی و تربیتی سرگرمیوں پر مشتمل حالات اخبارات وغیرہ کے اقتباسات کے ساتھ جمع کئے تھے جو ہمارے بڑے بھائی محترم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مقیم امریکہ مرحوم کی طرف سے خالد احمدیت جلد اول کے طور پر چھپوائے گئے تھے.اس کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا.چونکہ انگلستان یا بیرون پاکستان و بھارت جماعتی مطبوعه مواد بکثرت دستیاب نہیں اس لئے میرے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ ان حالات کو جمع کر سکتا لہذا ہمارے بھائی مکرم فلاح الدین شمس صاحب کی کوششوں سے مکرم احمد طاہر مرزا صاحب نے بڑی محنت و محبت سے یہ حالات جمع کئے ہیں.فجر اھم اللہ احسن الجزاء.ابتداء میں مکرم حبیب الرحمن زیر وی صاحب نے بعض حوالہ جات تلاش کرنے اور منظوم کلام تلاش کرنے میں مدد فرمائی تھی.ہم ان کے اور ان تمام احباب کے جنہوں نے کسی بھی رنگ میں اس کتاب کی تیاری میں ہماری مددفرمائی ہے، ممنون ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ انہیں اس کا اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.اس سے قبل بھی میں نے چند مرتبہ مسودہ کی پروف ریڈنگ کی ہے اور ضروری درستیاں کروائی گئی ہیں.اس کے بعد میں مئی 2010ء میں بھائیوں اور بہنوں کے مشورہ سے مسودہ کتاب کو حتمی صورت دینے کیلئے ربوہ گیا جہاں مکرم احمد طاہر مرزا صاحب کے ساتھ متعدد نشستیں ہوئی ہیں.خاکسار مکرم و محترم چوہدری حمید اللہ صاحب صدر تحریک جدید و وکیل اعلیٰ کا ممنون ہے جنہوں نے خاکسار کی رہائش وغیرہ کے سلسلہ میں سہولیات مہیا فرما ئیں جس سے کام بہت حد تک آسان ہو گیا.اسی طرح آپ کی زیر ہدایت مکرم میر رفیق مبارک صاحب نے بھی ہر طرح سے خیال رکھا.فجز اھم اللہ احسن الجزاء.جب مسودہ حتمی طور پر تیار ہو گیا تو جائزہ لینے پر محسوس کیا گیا کہ اس میں بعض ایسے امور شامل ہیں جن کا بظاہر اس کتاب سے براہ راست تعلق نہیں.اسلئے از سر نو جائزہ لیکر کتاب کو مزید مختصر کیا گیا ہے.آخر پر ٹائپنگ وغیرہ کے سلسلہ میں داؤ د احمد ظفر صاحب محمود احمد ملک صاحب اور عبدالحفیظ شاہد صاحب نے میری مددفرمائی.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.آمین ہم حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیحد ممنون ہیں جنہوں نے خاکسار کے عرض کرنے پر مسودہ کتاب کو اپنے پاس رکھا اور اس کے کچھ حصے ملاحظہ فرمانے کے علاوہ حضرت ابا جان کے بارہ میں اپنے تاثرات بھی از راہ شفقت واحسان خاکسار کے نام خط میں تحریر فرمائے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.
xl مسودہ میں جہاں [ ] کے درمیان الفاظ لکھے گئے ہیں بالخصوص حوالہ جات میں ان کے بارہ میں از راہ کرم نوٹ فرمالیں کہ یہ مرتب کی طرف سے وضاحت کیلئے لکھے گئے ہیں.کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ بلا وجہ مضامین کو طوالت نہ دی جائے لیکن بعض مقامات پر مضمون کو واضح کرنے کیلئے ایسا کرنا پڑا ہے.براہ کرم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والدین سے مغفرت کا سلوک فرمائے ، انہیں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ہم سب بہن بھائیوں کو ان کے نیک نمونہ کو اپناتے ہوئے مثالی احمدی مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے.ہم نے ان سے ہمیشہ خلافت سے محبت اور خلیفہ وقت کی دل و جان سے اطاعت کرنے کا سبق سیکھا ہے.اللہ ہم سب کو اور ہماری اولاد در اولاد اور نسل درنسل کو اس پر قائم و دائم رہنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.آمین.والسلام خاکسار منیر الدین شمس اکتوبر 2011ء
xli.عرض مؤلف موضع سیکھواں قادیان سے جنوب مغرب کی جانب چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے.اس گاؤں سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی فدائی اور جان نثار صحابہ پیدا ہوئے.سیکھوانی برادران کو سیکھواں کی جماعت میں ایک خاص مقام و امتیاز حاصل ہے.اس خاندان میں حضرت میاں جان محمد صاحب کشمیری ، حضرت خواجہ میاں محمد صدیق صاحب سیکھوائی اور آپ کے تین فرزندگان صالحین حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی ، حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی اور حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی رضی اللہ عنہم نیز اس خاندان کی خواتین کو بھی جن کا نام تاریخ لجنہ اماءاللہ میں محفوظ ہے، خدمات سلسلہ احمدیہ کی سعادت حاصل ہوئی.حضرات سیکھوانی رضی اللہ عنہم کے اخلاص کا ذکر خیر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب و تحریرات میں بعض مقامات پر فرمایا ہے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ، حضرت مولوی امام الدین صاحب سیکھوائی کے فرزند تھے جنہیں صحابی ہونے کی بھی سعادت حاصل ہوئی.گویا مولانا موصوف صحابی ابن صحابی ابن صحابی کا شرف حاصل کئے ہوئے تھے.حضرت مولانا شمس صاحب کو برصغیر ہندو پاک کے علاوہ بلا دعر بیہ اور انگلستان میں سالہا سال تک خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی اور پھر ہندوستان اور پاکستان میں بھی متعددحیثیتوں سے خدمات بجالانے کی سعادت ملی.امیر مقامی ،صدر مجلس کار پرداز اور مختلف نظارتوں میں آپ بطور ناظر انجمن احمد یہ بھی خدمات کی توفیق پاتے رہے.میدان عمل میں آپ نے بیسیوں یادگار اور عہد ساز مباحثوں و مناظروں میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی کی.جماعتی وغیر ملکی اخبارات ورسائل میں آپ کو بیسیوں علمی، تربیتی تحقیقی اور دینی مضامین عربی، اردو اور انگریزی میں شائع کرنے کی توفیق ملی.مقدمہ بہاولپور، فسادات 1953ء کی تحقیقاتی عدالت کے سوالات کے جوابات اور کتب و ملفوظات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو روحانی خزائن کی سیریز میں شائع کرانے نیز ان کتب کا تعارف لکھنے اور ان کا اشاریہ تیار کرنے میں آپ کی خدمات یادگار ہیں.ساٹھ سے زائد ٹھوس تالیفات اور سینکڑوں علمی مضامین بھی آپ کے علمی کارناموں کا ثبوت ہیں.آپ کا وصال پینسٹھ سال کی عمر میں ہو ا.آپ کو سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ” ہمارے بھائی ہمارے بزرگ قرار دیا.زیر نظر کتاب میں اس مجاہد احمدیت کے عملی نمونوں کا تذکرہ
xlii پیش کیا جارہا ہے.آپ کی میدان عمل کی خدمات اور علمی کارناموں کا بالخصوص ذکر کیا گیا ہے.متعدد بزرگان سلسلہ کے حضرت مولانا شمس صاحب کے بارہ میں تاثرات بھی شامل کئے گئے ہیں.لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ یہ کتاب آپ کی گراں قدر خدمات کا احاطہ نہیں کر سکتی.آپ پر مزید کتب لکھنے کی ضرورت ہے.2005 ء کے وسط میں جب پر کام کا آغاز کیا تو ابتداء میں خاصی مشکلات پیش آئیں اور کئی کٹھن مراحل طے کرنے پڑے تاہم بفضلہ تعالیٰ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کی برکت سے کام آسان ہوتا گیا.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میرے جیسے گمنام واقف زندگی کو ایک عظیم ہستی کے حالات زندگی تالیف کرنے کی توفیق عطا فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک.وو سوانح میں جب تک تفصیل نہ ہو قاری پورے طور پر مافی الضمیر اخذ نہیں کر پاتا اس لئے تفصیل دینا بھی نا گزیر ہوتا ہے تا سوانح نگاری کا مقصد پورا ہو جیسا کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: یہ بات ظاہر ہے کہ جب تک کسی شخص کے سوانح کا پورا نقشہ کھینچ کر نہ دکھلایا جائے تب تک چند سطریں جو اجمالی طور پر ہوں کچھ بھی فائدہ پبلک کو نہیں پہنچا سکتیں اور ان کے لکھنے سے کوئی نتیجہ معتد بہ پیدا نہیں ہوتا.سوانح نویسی سے اصل مطلب تو یہ ہے کہ تا اس زمانہ کے لوگ یا آنے والی نسلیں ، ان لوگوں کے واقعات زندگی پر غور کر کے کچھ نمونہ ان کے اخلاق یا ہمت یازہد و تقویٰ یا علم و معرفت یا تائید دین یا ہمدردی نوع انسان یا کسی اور قسم کی قابل تعریف ترقی کا اپنے لئے حاصل کریں اور کم سے کم یہ کہ قوم کے اولوالعزم لوگوں کے حالات معلوم کر کے اس شوکت اور شان کے قابل ہو جائیں ، جو اسلام کے عمائد میں ہمیشہ سے پائی جاتی رہی ہے تا اس کو حمایت قوم میں مخالفین کے سامنے پیش کر سکیں اور یا یہ کہ ان لوگوں کے مرتبت یا صدق اور کذب کی نسبت کچھ رائے قائم کر سکیں اور ظاہر ہے کہ ایسے امور کے لئے کسی قدر مفصل واقعات کے جانے کی ہر ایک کو ضرورت ہوتی ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک نامور انسان کے واقعات پڑھنے کے وقت نہایت شوق سے اس شخص کے سوانح کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور دل میں جوش رکھتا ہے کہ اس کے کامل حالات پر اطلاع پا کر اس سے کچھ فائدہ اٹھائے.تب اگر ایسا اتفاق ہو کہ سوانح نولیس نے نہایت اجمال پر کفایت کی ہو اور لائف کے نقشہ کو صفائی سے نہ دکھلایا ہو تو یہ شخص نہایت ملول خاطر اور منقبض ہو جاتا ہے اور بسا اوقات اپنے
xliii دل میں ایسے سوانح نولیس پر اعتراض بھی کرتا ہے اور درحقیقت وہ اس اعتراض کا حق بھی رکھتا ہے کیونکہ اس وقت نہایت اشتیاق کی وجہ سے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ایک بھوکے کے آگے خوان نعمت رکھا جائے اور معاً ایک لقمہ کے اٹھانے کے ساتھ ہی اس خوان کو اٹھا لیا جائے.اس لئے ان بزرگوں کا یہ فرض ہے جو سوانح نویسی کے لئے قلم اٹھاویں کہ اپنی کتاب کو مفید عام اور ہر دل عزیز اور مقبول انام بنانے کے لئے ، نامور انسانوں کے سوانح کو صبر اور فراخ حوصلگی کے ساتھ اس قدر بسط سے لکھیں اور ان کی لائف کو ایسے طور سے مکمل کر کے دکھلاویں کہ اس کا پڑھنا ان کی ملاقات کا قائم مقام ہو جائے تا اگر ایسی خوش بیانی سے کسی کا وقت خوش ہو تو اس سوانح نویس کی دنیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے دعا بھی کرے اور صفحات تاریخ پر نظر ڈالنے والے خوب جانتے ہیں کہ جن بزرگ محققوں نے نیک نیتی اور افادہ عام کے لئے قوم کے ممتاز شخصوں کے تذکرے لکھے ہیں، انہوں نے ایسا ہی کیا ہے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحات 159 تا 162.حاشیہ) اس غرض کے پیش نظر اشاعت اسلام احمدیت اور خدمات سلسلہ عالیہ احمد یہ پرمشتمل حضرت مولانا موصوف کے کار ہائے زندگی کو قدرے تفصیل سے پیش کیا گیا ہے.تاہم خاکساراپنی کم علمی کا اعتراف کرتا ہے کہ جس طرح محنت کرنے کا حق تھا پورے طور پر ادا نہیں کیا گیا.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کاوش کو قبولیت کا شرف بخشے اور آپ کی یہ سوانح حیات بہتوں کیلئے خدمات دینیہ کے عزائم کو بلند سے بلند تر کرنے کا باعث ہو اور واقفین زندگی کے لئے سبیل الرشاد ہو.اللہ تعالیٰ اسے نافع الناس بنائے.آمین.والسلام خاکسار مؤلف احمد طاہر مرزا بد و ملهوی مئی 2010ء
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس اصحاب احمد علیہ السلام کا مقام و مرتبہ 1 اس کائنات میں اربوں انسان پیدا ہوئے اور گزر گئے.بہت کم ایسے ہیں جن کے سوانح اور حالات زندگی محفوظ کئے گئے ہوں اور اُن میں سے بھاری اکثریت سیاسی ، سماجی یا عام دنیوی امور سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے.مذہبی دُنیا کے بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے حالات محفوظ کئے گئے.سوال یہ ہے کہ ان دنیا وی شخصیات کے احوال نے کتنے افراد کی زندگی میں انقلاب آفرین تبدیلی پیدا کی؟ مہاتما گاندھی، ہٹلر، کارل مارکس ، لینن، ونسٹن چرچل اور قائد اعظم جیسی عالمگیر شخصیات پر ہزاروں کتا ہیں ضبط تحریر میں لائی گئیں.ان ہزاروں سوانح عمریوں کے نتیجہ میں کتنے افراد کی طبائع میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی ؟ اس کا جواب تلاش کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہے جتنا بظاہر نظر آتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ روحانیت کے سرتاج بادشاہوں کے سوانح عمریوں و افکار وحالات کے مطالعہ سے واقعی طبائع میں ایک عظیم الشان تغییر رونما ہوتا ہے.حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے عاشقین کاملین کے سیرت و سوانح پڑھنے سے یقیناً ایک پاک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور یہی سوانح اکٹھا کرنے کا مقصد ہوتا ہے.آئندہ صفحات میں بزرگانِ عالی مقام کی سیرت و سوانح کے کام کی اہمیت و عظمت کے بارہ میں بعض با برکت ارشادات، فرمودات اور تحریرات پیش کی جارہی ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مبارک وہ ایمان لایا صحابه ملا مجھ کو پایا وہی ہے ئے ان کو ساقی نے یلا دی ادی 2 فسبـــــــــــــــــان الذى اخزى الـ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ O (الجمعه : 3-4) وہی وہ ذات ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو (با وجود ان پڑھ ہونے کے ) ان کو اللہ کے احکام سناتا ہے، اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے.گویا وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس ( رسول ) کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.ان آیات قرآنیہ میں جو پیشگوئیاں مضمر ہیں اس پر اکثر علماء قدیم اور بزرگان سلف کا اتفاق ہے کہ هذا عند نزول المهدی - یعنی ان تمام امور کا واقع ہونا امام مہدی کے نزول سے وابستہ ہے.سورۃ الجمعہ کی ان ابتدائی آیات میں لفظ اخرین کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ یھم اجمعین کے استفسار پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ( بخاری کتاب التفسير سورة الجمعه زیر آیت و آخرين منهم حدیث نمبر 4897) یعنی اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی پہنچ جائے، تو ضرور ان لوگوں میں سے بعض رجال یا ایک شخص اسے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 3 ثریا سے واپس لے آئے گا.یعنی ابنائے فارس میں سے ایک مرد یا ایک سے زائد اشخاص ایمان کوثر یا ستارے سے واپس لے آئیں گے.اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں آخرین کو بھی ایک خاص مرتبہ عطا فرمایا ہے اور ان آخرین میں رفقاء واصحاب امام مہدی بھی شامل ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی کے اصحاب کا کئی مواقع پر مرتبہ بیان فرمایا ہے.ایک موقع پر فرمایا: عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْرُوا الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ ( سنن نسائی کتاب الجہا د حدیث نمبر 3188) یعنی میری امت کی دو جماعتیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ قرار دیا ہے.پہلی جماعت وہ ہے جو ہندوستان میں جہاد کرے گی اور دوسری جماعت وہ لوگ ہیں جو عیسی ابن مریم کے ساتھ ہوں گے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت لاکھوں اصحاب حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود کی صورت میں پوری ہوئی.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لاکھوں جان شار عطا فرمائے اور مسیح موعود کی شان مسیحی وقوت قدسی کی برکت سے لاکھوں روحانی مردے زندہ ہو گئے.آپ کے رفقاء ہمارے لئے نور کے مینار اور روشن ستارے ہیں.عالم روحانی میں ہمارے لئے اتنے خزائن ہیں کہ اس پر جتنا بھی شکر خداوندی بجالایا جائے کم ہے.حضور فرماتے ہیں: لیکن ایک بات بڑی غور طلب ہے کہ صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو، جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے.وہ بھی صحابہ میں داخل ہے جو احد کے بروز کے ساتھ ہوں گے، چنانچہ آپ نے فرمایا: وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بهم ( الجمعہ :4 ) یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو، بلکہ مسیح موعود کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ یہی ہوگی.( ملفوظات جلد اول، مطبوعہ پاکستان 2003ء، صفحہ 431) اپنی جماعت کے وہ لوگ جو انتقال کر گئے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دنیا کی دولت اور سلطنت رشک کا مقام نہیں مگر رشک کا مقام دعا ہے.میں نے اپنے احباب حاضرین اور غیر حاضرین کیلئے جن کے نام یاد آئے یا شکل یاد آئی ، آج بہت دعا کی اور اتنی دعا کی کہ اگر خشک لکڑی پر کی جاتی تو سرسبز ہو جاتی.ہمارے احباب کیلئے یہ بڑی نشانی ہے.رمضان کا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس مہینہ الحمد للہ گزر گیا.عافیت اور تندرستی سے یہ دن حاصل رہے.پھر اگلا سال خدا جانے کس کو آئے گا.کس کو معلوم ہے کہ اگلے سال کون ہوگا.پھر کس قدر افسوس کا مقام ہوگا اگر اپنی جماعت کے ان لوگوں کو فراموش کر دیا جائے جو انتقال کر گئے ہیں.“ ( الحکم قادیان 6 مارچ 1898 صفحہ 2) یہ ایسے وقت میں فرمایا کہ جب فہرست میں زندوں کے نام ثبت ہو رہے تھے.برکات کا زمانہ سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے صحابہ حضرت اقدس علیہ السلام کی قدر ومنزلت اور برکات خلافت کے بارہ میں 12 جنوری 1944ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہمیں ملا ہے اور ہمارے لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم وقت پر اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جس اہمیت کا سمجھنا ہمارے لئے دینی اور دنیوی برکات کا موجب ہو سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تو گزر گیا.اب آپ کے خلفاء اور صحابہ کا زمانہ ہے مگر یا درکھو کچھ عرصہ کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے اس تلاش اور جستجو میں اور اس دھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات کی ہومگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات نہ کی ہوصرف مصافحہ کیا ہومگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو مصافحہ نہ کیا ہو صرف اس نے آپ کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا.پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو مصافحہ نہ کیا ہو، آپ کو دیکھا نہ ہومگر کم از کم وہ اس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا.لیکن آج ہماری جماعت کے لئے موقع ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرے.آج کے بعد میں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 5 آنے والے لوگوں کے لئے وہ دروازہ کھلا ہے جس میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی قریب ترین برکات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ کی برکات سے دوسرے نمبر پر ہیں، بڑی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں.مگر کتنے ہیں جو اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں.وہ اسی دھن میں رہتے ہیں کہ افسوس انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ نہ ملا.افسوس وہ ان برکات سے محروم رہ گئے اور اس حسرت اور افسوس میں وہ دوسری برکت جوان کو حاصل ہوئی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا ان کے امکان میں ہوتا ہے وہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے.رستہ کھنچا چلا جاتا ہے.وقت گزرتا چلا جاتا ہے.فائدہ اٹھانے کا زمانہ ختم ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے مگر وہ پہلی برکت نہ ملنے پر ہی افسوس کرتے رہتے ہیں اور موجودہ برکت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے.“ بزرگان کی تاریخ اکٹھا کرنے کی مبارک تحریک (الفضل قادیان 15 اپریل 1944ء) سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اگست ستمبر 1988 ء کو مشرقی افریقہ کے تاریخی دورہ پر تشریف لے گئے.اس دورہ کے دوران اور اس کے بعد بھی کئی مواقع پر آپ نے احباب جماعت احمدیہ کو بزرگان کے حالات زندگی اکٹھا کرنے کی تحریک فرمائی.چنانچہ جماعت احمدیہ کی پہلی صدی کے آخری خطبہ جمعہ فرمودہ 17 مارچ 1989 ء میں آپ نے اپنے خاندان کے بزرگوں کے حالات اور ان کے احسانات کو جمع کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: اس امر کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ سمندر کی تہہ میں بغیر مقصد کے اپنی لاشیں بچھانے والے گھونگوں کی پہلی نسل اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ اس کی آئندہ نسلیں ضرور فتح یاب ہونگی اور وہ نسل سب سے بڑی فتح پانے والی ہے جو سب سے پہلے ترقی کے سلیقے سکھاتی ہے.پس اپنے ان بزرگوں کے احسانات کو نہ بھولیں جو خدا کی راہ میں اپنی جانیں بچھاتے رہے.جن پر احمدیت کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوئیں اور یہ عظیم الشان جزیرے ابھرے.وہ لوگ ہماری دعاؤں کے خاص حق دار ہیں.اگر آپ اپنے پرانے بزرگوں کو ان عظمتوں کے وقت یا درکھیں گے جو آپ کو خدا کے فضل عطا کرتے ہیں تو آپ کو حقیقی انکساری کا عرفان نصیب ہوگا.تب
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس آپ جان لیں گے کہ آپ اپنی ذات میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے.میں نے افریقہ کے دورہ میں ایک یہ ہدایت دی تھی کہ اپنے بزرگوں کی نیکیوں اور احسانات کو یاد رکھ کے ان کیلئے دعائیں کرنا یہ ایک ایسا اچھا خلق ہے کہ اس خلق کو ہمیں اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ہر گھر میں رائج کرنا چاہئے.ان کے حالات کو زندہ رکھنا تمہارا فرض ہے ورنہ تم زندہ نہیں رہ سکو گے.اس سلسلہ میں میں نے ایک ملک غالباً کینیا میں ایک کمیٹی مقرر کی تھی.چنانچہ اس کمیٹی نے بڑا اچھا کام کیا اور ایک عرصہ تک ان کا میرے ساتھ رابطہ رہا اور بعض ایسے بزرگوں کے حالات اکٹھے کئے گئے جو نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے.اس لئے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.ان کی بڑائی کیلئے شائع کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے آپ کو بڑائی عطا کرنے کیلئے ، ان کی مثالوں کو زندہ کرنے کیلئے ان کے واقعات کو محفوظ کریں اور پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے آبا و اجداد تھے اور کس طرح وہ لوگ دین کی خدمت کیا کرتے تھے.بعض ایسے بھی ہونگے جن کو یہ استطاعت ہوگی کہ وہ ان واقعات کو کتابی صورت میں چھپوا دیں.میں امید رکھتا ہوں کہ اگر اس نسل میں ایسے ذکر زندہ ہونگے تو اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بھی بلند کرے گا اور آپ یا درکھیں گے کہ اگلی نسلیں اسی طرح پیار اور محبت سے اپنے سر آپ کے احسان کے سامنے جھکاتے ہوئے آپ کا مقدس ذکر کیا کریں گی اور آپ کی نیکیوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی.(روز نامہ الفضل ربوہ 27 مارچ1989ء) ان ارشادات سے یہ بخوبی واضح ہے کہ ہمارے بزرگان سلسلہ جنہوں نے دین کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں اور جنہوں نے دراصل دین کو دنیا پر مقدم رکھا ان کے حالات سے نئی نسلوں کو باخبر کرنا نہایت ضروری امر ہے.پس اس امر کی ضرورت ہے کہ احباب جماعت جو ا کناف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں، اپنے اپنے خاندان کے بزرگان کے حالات زندگی جمع کرنے کی کوشش کریں یا کم از کم ان احباب کو مواد و مسودات اور معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں جو اس عظیم مہم میں کوشاں ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک اور اہم مقاصد عالیہ کو کمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس پہلا باب سیکھواں اور سیکھوائی برادران 7
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس کشمیر سے سیکھواں 8 وادی کشمیر جنت نظیر سے ہندوستان کی طرف ہجرت کا سلسلہ کئی صدیوں پر محیط ہے.سکھوں کے عہد حکومت سے لیکر انگریز راج تک اور 1947 ء کی برصغیر کی تقسیم سے لیکر موجودہ ہندوستان کی کانگرس گورنمنٹ تک یہ سلسلہ جاری ہے.مؤرخ کشمیر منشی محمد دین صاحب فوق جنہوں نے کشمیر کی تاریخ نویسی میں عمر گزار دی اور چالیس سے زائد کتب کشمیریات پر تحریر کیں ، نے اپنی کتاب ” تاریخ اقوام کشمیر میں سینکڑوں خاندانوں کا تذکرہ کیا جو کشمیر سے ہجرت کر کے ارض ہند کی مختلف ریاستوں اور اضلاع میں آکر آباد ہوگئے تاہم حتمی طور پر سیکھوانی خاندان کے بارہ میں معلوم نہیں ہوسکا کہ کب یہ خاندان پنجاب میں آکر آباد ہوا.البتہ بعض اندازے بیان کئے جاتے ہیں.حضرت میاں محمد صدیق صاحب وائیں حضرت میاں محمد صدیق صاحب وائیں دادا حضرت مولانا شمس صاحب موضع بالحجہ ہالن ژمر ) ناروا و تحصیل کولگام ضلع اننت ناگ اسلام آباد ( مقبوضہ کشمیر) کے باشندہ تھے.اغلبا ڈوگرہ راج میں جب کشمیر میں قحط سالی ہوئی تو وہاں سے ہجرت کر کے ہند پنجاب میں آباد ہو گئے اور پہلے بمقام راجہ ساہنسی ضلع امرتسر میں قیام کیا.بعد ازاں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں سیکھواں میں آکر مقیم ہو گئے اور قادیان میں بھی اس خاندان کی آمد ورفت با قاعدہ جاری ہوگئی.حضرت خواجہ محمد صدیق صاحب وائیں کی شادی خواجہ محمد شریف صاحب آف قادیان کے دادا میاں نظام الدین صاحب کی ہمشیرہ محترمہ شرف بی بی صاحبہ سے ہوئی جنہیں صحابیہ ہونے کا شرف حاصل ہے.ان کے بطن سے حضرت میاں جمال الدین صاحب، حضرت میاں امام الدین اور حضرت میاں خیر الدین صاحبان سیکھوانی پیدا ہوئے.نیز حضرت امیر بی بی عرف مائی کا کو پیدا ہوئیں، جنہوں نے بیوگی کے بعد اپنی ساری زندگی حضرت اماں جان اور بچگان کی خدمت میں گذار دی.( آپ سے مروی کئی روایات سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں محفوظ ہیں ) آپ کا وصال قیام پاکستان کے بعد ہوا.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 9 حضرت میاں محمد صدیق صاحب وائیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی بیعت کنندگان میں شامل تھے.آپ کی قربانیوں کا ذکر بھی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیکھوانی برادران یعنی ان کے بیٹوں کی قربانیوں کے ساتھ ہی فرمایا ہے.آپ کا نام بھی منارة امسیح پر کندہ ہے.آپ کی بعض قربانیوں کا ذکر آئندہ صفحات میں ملے گا.آپ کی وفات اپنے گاؤں سیکھواں میں ہوئی.آپ کی زندگی اتنی صاف اور پاکیز تھی کہ سیکھواں کے بعض ہندو اور سکھ وغیرہ اپنے تنازعات کا ان سے فیصلہ کراتے تھے کیونکہ سارے ان کو بزرگ ، نیک اور مخلص سمجھتے تھے.مزید تفصیل کیلئے دیکھئے تاریخ احمدیت جموں و کشمیر از محمد اسد اللہ قریشی، صفحات 38 تا 42) حضرت شرف بی بی صاحبہ حضرت شرف بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت میاں محمد صدیق صاحب یعنی حضرت مولانا شمس صاحب کی دادی کو بھی صحابیہ ہونے کا شرف حاصل ہے اور سیکھوانی برادران کی بیعت کے بعد انہوں نے بھی بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ بھی بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.دسمبر 2006 ء میں راقم الحروف نے بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کی قبر بھی ملاحظہ کی اور دعا کرنے کی سعادت حاصل کی.آپ کی بیعت کا ذکر حضرت مولا نائٹس صاحب کے مضمون مطبوعہ روز نامہ الفضل بتاریخ 8 جولائی 1941ء میں موجود ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس سیکھواں اور سیکھوانی برادران 10 سیکھواں میں احمدیت کا پودا سکھوانی برادران اور ان کے دوست حضرت منشی عبد العزیز صاحب او جلوی کے سر ہے.بہشتی مقبرہ قادیان میں اس گاؤں کے کئی صحابہ اور صحابیات مدفون ہیں.1907ء میں اس گاؤں کی احمدی تجنید قریباً 80 تھی جیسا کہ مؤسس الحکم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر نے الحکم 24 جون 1907ء میں تحریر کیا ہے.اس طرح یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس گاؤں میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیسیوں صحابہ گزرے ہیں.سیکھوانی برادران نام ہے محبت و اخلاص کا.یہ symbol ہے ایمان اور وفا کا ،علامت ہے مالی و حالی اور جانی قربانی کی.یہ نام ہے جان نثاری ، فداکاری اور فدائیت کا.کتب و ملفوظات اور اشتہارات و مکتوبات سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں متعد دجگہ نیز تاریخ احمدیت اور دیگر کتب سلسلہ عالیہ احمدیہ میں ان احباب کا ذکر خیر پایا جاتا ہے.ہر سہ اصحاب کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین سو تیرہ صحابہ کی فہرست میں معہ اہل بیت رقم فرمایا ہے.اس خاندان کے ایک چشم و چراغ حضرت حکیم محمد اسماعیل ابن حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی بیان کرتے ہیں: ” میری عمر اس وقت پندرہ سولہ سال ہوگی.جب میں اپنے بزرگوں کے ساتھ قادیان پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق تیار کر رہے ہیں جس میں لکھا ہے کہ امام مہدی کے تین سو تیرہ اصحاب ہوں گے.ہمارے بزرگوں کو بعض لوگوں نے تحریک کی کہ آپ بھی درخواست کریں کہ آپ کا نام بھی اس فہرست میں لکھا جائے.لیکن ہمارے بزرگوں نے درخواست کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر ہم ان اصحاب میں شامل ہونے کے قابل ہوئے تو آپ خود لکھیں گے.چنانچہ جب ہمارے بزرگ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں گئے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی جبکہ حضور نے خود ہی فرما دیا تھا کہ ہم نے 313 اصحاب میں ان کے نام شامل کر دیئے ہیں.ان میں میاں محمد صدیق صاحب کا نام بھی درج ہے اور یہ امر اس خاندان کیلئے فخر کا موجب ہے.نیز حضور نے ان اصحاب کے نام کے ساتھ مع اہل بیت بھی لکھا ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 11 یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس خاندان کے لوگ پہلے سے ہی اہلحدیث خیال رکھتے تھے اور اہل حدیث فرقہ کے لوگ مسلمان فرقوں میں سے اچھے دیندار سمجھے جاتے ہیں اور ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہونے والے بہت سے وہ لوگ تھے جو اہل حدیث تھے.ایک بڑا شرک جو حضرت مسیح ناصری کی حیات کے متعلق تھا وہ حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو کر وہ عقیدہ بھی ترک کر دیا.اس طرح اس خاندان کو توفیق دی کہ خدا پرستوں کی جماعت میں شامل ہو گئے.( جسر روایات صحابہ جلد نمبر 4) سید نا حضرت اقدس سے تعلقات کا آغاز اس خاندان کی قادیان میں آمد کی ایک اہم وجہ حضرت میاں جان محمد صاحب کشمیری ( جانو کشمیری ) تھے جو مسجد اقصی قادیان کے امام الصلوۃ تھے اور جنہیں حضرت مرز اغلام مرتضی صاحب نے امام مقررفرمایا تھا.اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اس خاندان کے قادیان کے معزز مغلیہ فارسی الاصل خاندان سے دیرینہ اور قدیمی تعلقات تھے.حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی سید نا حضرت اقدس سے اپنے تعلقات کی بابت بیان کرتے ہیں: ” میری آمد و رفت قادیان میں کیوں ہوئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ( قادیان میں ) میرے نانکے ( ننھیال ) تھے.اس واسطے میری آمد و رفت زمانہ لڑکپن سے شروع تھی.اُس وقت میری عمر قریباً شاید باراں یا تیراں سال کی ہوگی.اس وقت قادیان کی حالت نہایت بے رونق بستی تھی اور بازار خراب ہوتے تھے اور کثرت سے قمار بازی ہوتی تھی.گویا ہر ایک کا ایک پیشہ سمجھا جاتا تھا.ہنسی ٹھٹھا سے بات چیت ہوتی تھی.کوئی بھی خدا کو یاد نہیں کرتا تھا مگر ایک میاں جان محمد مرحوم مسجد اقصی کے امام تھے.وہ ایک غازی تھے.وہ حضرت صاحب کے پاس آتے جاتے تھے.وہ میرے ماموں تھے.(حضرت میاں جان محمد صاحب مرحوم یکی از اصحاب تین سو تیرہ.مرتب ) کچھ ان سے حضرت صاحب کی باتیں سنیں.کچھ عام طور پر لوگوں سے سنیں کہ مرزا صاحب اندر ہی اندر رہتے ہیں.اس سبب سے میں نے حضرت صاحب کے مکان پر آنا جانا شروع کیا.بے شک آپ ایک کوٹھڑی میں رہتے تھے جو بیت الفکر کے نام پر کتابوں میں درج ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 12 جب کبھی میں جاتا تو آپ مہلتے نظر آتے اور کچھ لکھتے رہتے تھے.اس وقت کچھ صحن ہوتا تھا.وہاں ہی ٹہلتے پھرتے اور میں جب کبھی جاتا تو خاموش بیٹھ جاتا.آپ کے چہرہ کی طرف دیکھتا رہتا.نہایت روشن ہوتا تھا گویا خاص طور پر نور الہی چمکتا تھا.وہ زمانہ آپ کا براہین (احمدیہ) لکھنے کا تھا.پھر آپ کے کچھ اشتہار نکلنے شروع ہوئے مگر میں اس وقت پڑھا ہوا انہیں تھا.کچھ باتیں حضرت صاحب کی اپنے بڑے بھائی جمال الدین مرحوم سے سنا کرتا تھا.آج فلاں مختلف مذہب یعنی عیسائی وغیرہ کے اشتہار کا جواب دیا ہے.یہ مجھ سے عمر میں بڑا تھا اس واسطے اس کی آمد ورفت مجھ سے پہلے تھی.یہ مجھ سے زیادہ واقفیت رکھتا تھا.میں جب اپنے گاؤں سے آتا تو نماز مسجد اقصٰی میں پڑھا کرتا تھا.وہاں حضرت صاحب بھی گاہے گا ہے آ کر نماز پڑھا کرتے تھے اور ٹہلتے بھی رہتے تھے اور میاں جان محمد مرحوم امام ہوتے تھے اور گا ہے گا ہے آپ بھی نماز پڑھا دیتے تھے اور چند کس نمازی ہوتے تھے.عام طور پر نمازی نہیں ہوتے تھے اس وقت یہ حالت تھی.جب آپ کی بہت شہرت ہو گئی تو آپ کے بہت مضامین مخالف مذاہب کی تردید کے نکلتے رہتے تھے.پھر جب میں کبھی آتا تو حضور کے پاس جاتا کیونکہ آپ کی محبت کے سوا کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا.پھر آپ نے ایک اشتہار چندہ کے متعلق شائع کیا اور میں اور بھائی خیر الدین صاحب نے 4 آنہ ماہوار مقرر کر کے چندہ پیش کیا تو حضور نے فرمایا.یہ کام بڑا ہے دیکھو تم غریب ہو.ہم نے کہا حضور انشاء اللہ بڑی خوشی سے ادا کریں گے تو پھر حضور نے منظور فرمایا.بفضل خدا آج تک عمل ہوتا رہا ہے.ہم تین بھائی ہیں بڑے کا نام جمال الدین اور میرا نام امام الدین سیکھوانی اور مجھ سے چھوٹے کا نام خیر الدین ہے.اور جب ہم قادیان میں آتے کھانا اپنے رشتہ داروں کے گھر سے کھاتے اور پھر اس مجلس میں بہت وقت گذر جاتا کیونکہ حضرت صاحب ان ایام میں جب مسجد مبارک میں اذان ہوتی تو آجاتے تھے.پھر بہت گفتگو ہوتی رہتی تھی تو پھر ایک دن حضرت صاحب نے مجھ کو کہا تم آج سے ہمارے مہمان ہو یہاں سے کھانا کھایا کرو.پھر بموجب حکم حضور کے کھانا شروع کر دیا.آج تک خدا کے فضل سے حضور کے گھر کے مہمان رہے ہیں.ابتداء میں گھر سے کھانا تیار ہو کر آتا تھا.لنگر خانہ موجود نہیں تھا یہ بعد میں ہوا ہے.حضرت صاحب خود بھی مہمانوں میں بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے.جو گول کمرہ ہے اس میں
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 13 کھانا کھلایا جاتا تھا.مسجد مبارک کی چھت پر کچھ زمانہ سب مہمانوں میں آپ بیٹھ کر کھانا کھاتے رہے ہیں.شام کی نماز پڑھ کر بیٹھ جاتے.پھر گفتگو ہوتی رہتی اور عشاء کی نماز پڑھ کر تشریف لے جاتے اور کھانا حضوڑ جو کھاتے بہت تھوڑ اسا ٹکڑہ منہ میں ڈالتے اور بہت آہستہ آہستہ کھاتے اور کچھ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دستر خوان پر گراتے اور چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں ڈالتے.بالکل تھوڑا کھانا کھاتے تھے.(رجسٹر روایات نمبر 7 صفحات 420-422) بیعت سیکھوانی برادران بیعت کی بابت حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی بیان کرتے ہیں : جس وقت حضور نے بیعت کا اشتہار دیا تو لدھیانہ میں حضور نے بیعت لینی شروع کی.جب حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ سے قادیان تشریف لائے ہم تینوں بھائی حضور کے پاس آئے.عرض کی کہ حضور ہم کو بھی بیعت میں داخل کر لیں.تو حضور نے منظور فرما کر ہاتھ مبارک نکال کر ہاتھ میں ہاتھ لے کر علیحدہ بیعت لی.پھر حضوڑ ایک رجسٹر لائے جس پر پہلی بیعت مولوی نور الدین صاحب کی تھی باقی اور دوستوں کے نام تھے.قریباً ڈیڑھ صد نمبر کی تعداد تھی جو ہم نے تینوں بھائیوں نے اپنے ہاتھ سے نام لکھے تھے.(رجسٹر روایات نمبر 5 صفحہ 58) اسماء گرامی چندہ دہندگان برائے منارة المسیح قادیان سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسیح کے دمشق کے شرقی جانب سفید منارہ پر نازل ہونے کی پیشگوئی کو ظاہری طور پر بھی پورا کرنے کیلئے دمشق کے عین مشرق یعنی قادیان میں ایک سفید منارہ تعمیر کروانے کا آغاز فرمایا.منارة امسیح قادیان کی تعمیر کے سلسلہ میں چندہ دہندگان میں اس تاریخی سعادت میں سیکھوانی خاندان کے حسب ذیل افراد شامل ہیں.نمبر شمار :64 میاں محمد صدیق سیکھواں نمبر شمار :65 میاں امام الدین سیکھواں نمبر شمار : 66 میاں جمال الدین سیکھواں نمبر شمار : 68 میاں خیر الدین سیکھواں احمدیہ جنتری قادیان 1932 صفحہ 38)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس قابل رشک نمونه سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: 14 میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں.وہ تین غریب بھائی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں.ان کے دوست میاں عبد العزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سور و پیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے.وہ سو روپیہ شاید اُس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا مگر تہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا.“ (ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 313-314) حضرت اقدس نے آپ کی مخلصانہ مالی قربانی اور خدمت کا بھی تذکرہ فرمایا ہے.آپ نے اشتہار جلسته الوداع، ضمیمہ اشتہار الانصار 4 اکتوبر 1899ء میں فرمایا: ”میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپورہ اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر الدین نے پچاس روپے دیئے.ان چاروں صاحبوں [ چوتھے حضرت منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ساکن او جله ضلع گورداسپور کا ذکر ابتداء میں فرمایا.ناقل] کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی.“ دیکھیں مجموعہ اشتہارات ، جلد سوم صفحہ 167) جولائی 1900ء میں ان بھائیوں اور ان کے والد محد صدیق صاحب چاروں کی طرف سے ایک سو رو پیه منظور فرما کر فہرست برائے چندہ تعمیر منارۃ اُسیح میں ان کے نام نمبر 64 تا 68 پر درج فرمائے.چونکہ سیکھوانی برادران کے حالات زندگی علیحدہ طور پر شائع کئے جارہے ہیں لہذا اس کتاب میں سیکھوانی برادران کے بارہ میں اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے.OO
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس دوسرا باب ایک نظر میں 15
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 1909 1901 & ایک نظر میں 16 16 حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس یکم مئی 1901ء کو حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی کے ہاں سیکھواں میں پیدا ہوئے.دستور ورواج کے مطابق ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی اور گھر و محلہ سے قرآن کریم ناظرہ پڑھا.اس دوران بچپن میں قادیان بھی اپنے بزرگان کے ساتھ آتے رہے.بچپن میں اپنے والدین اور اقرباء کی معیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی مرتبہ زیارت کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور چند ایک مرتبہ حضور علیہ السلام سے مصافحہ کرنے کا شرف بھی حاصل کیا.دیکھیں رجسٹر روایات صحابہ، جلد نمبر 6 صفحہ 243) +1916 1910 +1917 1910ء میں آپ مدرسہ احمدیہ قادیان کی پہلی کلاس میں داخل ہوئے جہاں آپ نے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی.تشحیذ الاذہان کیلئے سب سے پہلا مضمون حضرت مولانا موصوف نے سب سے پہلا با قاعدہ مضمون 16 سال کی عمر میں تحریر کیا جس کا عنوان تھا.” وفات مسیح از روئے علم منطق آیات قرآنی سے“.( تفخیذ الاذہان دسمبر 1917 ء ) تحریک وقف زندگی آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ جب سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 1917ء میں زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی، اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے 63 نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں آپ بھی شامل تھے.(الفضل قادیان 22 دسمبر 1917ء.17 جولائی 1943ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس +1918 +1919 17 دسمبر 1918ء میں آپ نے ضلع فیروز پور کے مواضعات شیخ عماد حسین خانوالہ، چوڑہ، کھڈیاں، اٹاری اور نوچند وغیرہ مقامات پر تبلیغ احمدیت کی.احمدی احباب سے چندہ وصول کیا.ٹریکٹ اور اشتہارات تقسیم کئے نیز بعض مقامات پر خاص طور پر جلسوں میں وعظ کیا اور مخالفین سے مباحثے بھی کئے.بارہ افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.(الفضل قادیان 28 دسمبر 1918ء) آغاز جنوری میں آپ موضع و نجواں میں تشریف لے گئے جہاں آپ نے اردو میں تقریر کی.الفضل قادیان 21 جنوری 1919 ، صفحہ 1) 1919ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان کے طلباء میں سے دو طالبعلم یعنی حضرت مولوی جلال الدین سیکھوائی اور حضرت مولوی عبد السلام کنکی مولوی فاضل کے امتحان میں شامل ہوئے اور دونوں ہی اچھے نمبروں سے پاس ہوئے.اسی طرح آپ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے مولوی فاضل کا الفضل 24 مئی 1919ء اور 17 نومبر 1966 ، صفحہ 5) ڈپلومہ حاصل کیا.تالیف و اشاعت سید نا حضرت خلیفہ المی الثانی رضی اللہ عنہ نے 1919ء میں صدر انجمن احمد یہ میں نظارتوں کا الفضل قادیان یکم اپریل 1919 ءصفحہ 7-8 ) قیام فرمایا.انہی نظارتوں میں نظارت تالیف واشاعت کا قیام بھی عمل آیا جہاں مولا نائٹس صاحب کو علمی کام کرنے کا موقعہ ملا.اس وقت حضرت مولوی فضل الدین صاحب ،حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلالپوری اور حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کی طرف سے جوابی مضامین کی تحریک ہوتی رہتی تھی.اس صحبت کے باعث حضرت شمس صاحب بڑے مضمون نگار بن گئے اور آپ کی کنیت ابو الثناء سے تفخیذ الاذہان اور اخبار فاروق میں مضامین شائع ہونے لگے.ڈیریا نوالہ ضلع سیالکوٹ میں ماہ ستمبر میں حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی ، حضرت حافظ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 18 جمال احمد صاحب اور حضرت مولانا شمس صاحب جلسہ وسوال جواب کی غرض سے ڈیریانوالہ تشریف لے گئے.جہاں غیر از جماعت مولویان پیر جماعت علی شاہ ،مولوی ثناء اللہ امرتسری اور مولوی ابراہیم سیالکوٹی وغیرہ آئے ہوئے تھے.کچھ دن پہلے اس گاؤں میں ڈیڑھ سو احباب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے.الفضل قادیان 16 ستمبر 1919 ء صفحہ 1) اکتوبر میں آپ بغرض تبلیغ پٹیالہ تشریف لے گئے.(الفضل قادیان کیکم نومبر 1919 ءصفحہ 1) 28دسمبر 1919ء آپ نے الحکم قادیان کیلئے سب سے پہلا مضمون بعنوان ” حضرت مسیح موعود کی صداقت اور شورش کے وقت جماعت احمدیہ کی اطاعت تحریر کیا.نس کا لقب حضرت مولانائٹس صاحب کی رسالہ تخیز الاذہان اور بعد ازاں ریویو آف ریلیجنز سے وابستگی طالب علمی کے زمانہ ہی سے شروع ہو گئی تھی.حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل 1914ء سے 1922ء تک تفخیذ الاذہان کے ایڈیٹر رہے.تفخیذ الاذہان اس زمانہ میں ایک علمی وتحقیقی رسالہ ہوا کرتا تھا.یہی وہ دور تھا جس میں مولانا شمس صاحب کو شمس کا خطاب دیا گیا.آپ کیلئے شمس کا خطاب حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل نے پسند کیا.اس خطاب سے قبل آپ کے نام کے ساتھ فاضل سیکھوانی یا خواجہ جلال الدین لکھا جاتا رہا.اس بارہ میں مولانا علی محمد صاحب اجمیری ( سابق ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنن) تحریر کرتے ہیں : ریویو کے ساتھ مولوی صاحب کی وابستگی اس وقت سے ہے جب کہ ابھی وہ پورے مبلغ نہیں بنے تھے، بلکہ تعلیم حاصل کر رہے تھے اور رسالہ ( تشحیذ الاذہان ) کی ادارت جناب قاضی ظہور الدین صاحب اکمل کے ہاتھ میں تھی.تشخید الاذہان کے بعد اسی رسالہ میں ان کی تحریری زندگی کی ابتداء محترم قاضی صاحب کی زیر تربیت ہوئی تھی اور شمس کا لقب انہیں قاضی صاحب موصوف ہی نے رسالہ شھید میں دیا تھا.جواب ریویو میں شامل ہے.“ ریویو آف ریجنز اردو، نومبر 1936 ، صفحہ 9)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس $1920 مولوی فاضل 19 آپ نے 20 سال کی عمر میں مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کر لی.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر مدیر الحکم تحریر فرماتے ہیں: اکثر احباب جناب مولوی جلال الدین صاحب شمس سیکھوانی کے نام سے واقف ہو چکے ہیں.مولوی جلال الدین صاحب ایک نہایت ذہین و فهیم آدمی ہیں جس نے بہت جلد علوم عربیہ میں ترقی کی اور ہیں.اور میں سال میں مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کر لی اور اب حضرت سید نا خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ] کے منشاء کے ماتحت خاص طور پر علومِ عربیہ میں دسترس حاصل کر رہے ہیں.باوجود اس صغرسنی کے آپ نے بہت سے معرکۃ الآراء مباحثے کئے جن میں مباحثہ سار چور بہت مشہور ہے.جس طرح امام راز کی چھوٹی عمر میں ایک اعلیٰ درجے کا عالم اور لیکچرار بن گیا تھا اسی طرح خدا کے محض فضل سے ہمارا رازی چھوٹی عمر میں ایک اعلیٰ درجے کا عالم، ایک مفید مبلغ اور بے نظیر مباحث ثابت ہوا.اللہ تعالیٰ اس کو نظر بد سے بچائے.“ الحکم قادیان 14 جنوری 1921 ، صفحہ 4) + 1921 جلسہ سالانہ قادیان 1920ء کے موقع پر فی البدیہ تقریر 25 دسمبر 1920ء کو جلسہ سالانہ کے پہلے روز آپ کو عین جلسہ کے وقت تقریر کیلئے کہا گیا.آپ نے اسی وقت صداقت مسیح موعود کے عنوان پر فی البدیہ تقریر کی جس سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے.بعدہ یہ تقریر الحکم میں شائع ہوئی.دیکھیں الحکم قادیان 14 جنوری 1921 ، صفحہ 4 تا 6 ) آپ کے دو مباحثے بہت مشہور ہوئے.مباحثہ عالم پور اور مباحثہ سار چور.ان مباحثوں کی تفصیل مباحثوں کے باب میں دی گئی ہے.میں احمدی کیونکر ہوا حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس فرماتے ہیں:
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس " 20 20 ” 1921ء کا واقعہ ہوگا.حضرت میاں (شریف احمد ) صاحب مجھے فرمانے لگے کہ آپ لوگوں سے یہ حالات اکٹھے کریں کہ وہ احمدی کیونکر ہوئے.یہ سلسلہ تبلیغی اور تربیتی طور پر بہت مفید اور موثر ہو سکتا ہے.چنانچہ آپ نے ایک واقعہ بھی سنایا کہ (حضرت) ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گڑ گا نواں نے سنایا تھا کہ عبداللہ آتھم کی وفات پر جب غلام فرید صاحب چاچڑاں والے نے اپنی غیرت کا اظہار فرمایا تو ان کی احمدیت کا باعث یہ واقعہ ہی ہو اتھا.“ +1922 ) سیرت حضرت مرزا شریف احمد صفحہ 54) چنانچہ آپ کے ارشاد پر حضرت مولانا شمس صاحب نے ایسے حالات اکٹھے بھی کئے تھے.9ستمبر 1922ء کو مولوی جلال الدین صاحب شمس، شیخ عبد الرحمن مصری اور مہاشہ فضل حسین صاحب، بنگہ ضلع جالندھر مباحثہ کیلئے تشریف لے گئے.درس القرآن میں شمولیت $1923 الفضل قادیان 11 ستمبر 1922ء) سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یکم اگست 1922ء کو قادیان میں درس القرآن کا آغاز فرمایا.اس درس میں شامل ہونے احباب کو مسجلین کا نام دیا گیا.ان مسجلین کی سوافراد کی فہرست ، جن میں 45 قادیان اور 55 بیرونی احباب نے شرکت کی.احباب قادیان کی فہرست میں حضرت مولوی شمس صاحب کا نام 22 ویں نمبر پر مرقوم ہے.الفضل قادیان 10 اگست 1922ء) یکم فروری 1923ء کو حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس تبلیغ احمدیت کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے.فروری 1923ء کو قادیان میں مجلس ارشاد کا جلسہ ہوا جس میں خواجہ جلال الدین صاحب شمس فاضل سیکھوانی نے اسلام کے کامل مذہب ہونے پر تقریر کی.4 فروری کو جہلم میں آپ نے مسئلہ ختم نبوت پر تقریر کی اور ایک غیر احمدی اور ایک پیغامی نے سوالات کئے.جوابات پا کر آخر میں شور ڈال کر چل دیئے ، کہنے پر بھی گفتگو کرنے کے لئے تیار
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس $1925 دمشق میں $1926 نہ ہوئے.21 الفضل قادیان 19/8/5 فروری 1923ء) 15اپریل 1923ء کی رات بر مکان جناب خواجہ شجاع الحسن صاحب سب انسپکٹ و پیشنز، جلسہ منعقد کیا گیا جس میں اول حضرت چوہدری فتح محمد خان صاحب سیال نے اشاعت اسلام پر مختصر تقریر کی.پھر خواجہ جلال الدین صاحب شمس مولوی فاضل نے ” کامل الہامی کتاب قرآن ہے یا ویڈ پر تقریر کی.اسلام کی تعلیم کے مقابلہ میں ویدک تعلیم کو پیش کیا.حاضری دواڑھائی سو کے قریب تھی.لوگوں نے لیکچر نہایت دلچپسی اور توجہ سے سنے.الفضل قادیان 16 اپریل 1923ء) 30 جنوری 1925ء کولوکل آریہ سماج کے زیر سر پرستی مختلف مذاہب کی کانفرس کا انعقاد فیروز پور میں ہوا اور مسیحیت ، دیو سماج ، احمدیت، اہلحدیث، سناتن دھرم، آریہ سماج وغیرہ مذاہب کے نمائندوں نے انسانی زندگی کے مضمون پر تقاریر کیں.احمدیت کی طرف سے مولوی جلال الدین صاحب شمس اور اہلحدیث کی طرف سے مولوی بشیر احمد دیوبندی قائمقام تھے اور احمدیت کی کانفرس کی حاضری تمام دوسرے اجلاسوں کے اوقات سے بھی زیادہ تھی.حاضرین نے مضمون کو نہایت توجہ سے سنا اور سر ہلا ہلا کر تعریف و پسندیدگی کا اظہار کیا.دیوسماج اور آریہ سماج کے قائمقاموں نے اصل موضوع کو چھونے کی کوشش تو کی تاہم حاضرین کو تسلی دینے میں کامیاب الفضل قادیان 5 فروری 1925 ء) نہ ہو سکے.آپ مع حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بغرض دعوة وتبليغ 27 جون 1925ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور 17 جولائی 1925ء کو دمشق پہنچے.الفضل قادیان 30 جون، 18 اگست 1925ء) ستمبر 1926ء میں حضرت مولوی شمس صاحب چند دنوں کے لئے دمشق سے بیروت گئے اور پھر واپس آگئے.وہاں بھی تبلیغ کا موقع ملا.ایک شخص سلسلہ میں بھی داخل ہوا.دمشق میں رؤساء
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 22 ذی اثر لوگوں کے دو خاص اجتماعوں میں جو پرائیویٹ جگہوں میں تھے تبلیغ سلسلہ کا موقع ملا.مولوی صاحب کی امداد تبلیغ سلسلہ میں دو تین مقامی احباب جو نو مبائع ہیں، بڑے جوش اور اخلاص سے کرتے ہیں.اپنے احباب کو گفتگو و تبادلہ خیالات کے لئے مکان پر بھی لاتے ہیں اور پھر ایک صاحب نے تو ایک پرائیویٹ مجمع میں لیکچر بھی دیا اور حضرت اقدس کے دعاوی اور سلسلہ کے حالات کو پیش کیا.احباب اس خبر کو پڑھ کر خوش ہوں گے کہ 23 اگست 1925ء سے 8اگست 1926 ء تک پچپیں احباب دمشق اور ملحقہ علاقوں میں داخل سلسلہ حقہ ہوئے ہیں.احمد یہ گزٹ قادیان 26 ستمبر 1926 ء صفحہ 6) ماہ ستمبر 1926ء میں آپ کے ذریعہ پانچ اشخاص داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.گویا اس وقت تک 30 اشخاص داخل سلسلہ ہو چکے ہیں.(احمدیہ گزٹ قادیان 26 اکتوبر 1926ء صفحہ 4) $1927 1928 دمشق میں ایک حادثہ دسمبر 1927ء میں حضرت مولوی صاحب زخمی ہو گئے.زخمی ہونے کا واقعہ دسمبر 1927ء کو پیش آیا.اس واقعہ کے بعد 9 جنوری 1928ء کو ایک ہوٹل میں کمرہ لے کر آپ نے تبلیغ کا کام پھر شروع کر دیا.17 مارچ کو آپ حیفا چلے گئے.حضرت مولوی صاحب کی عدم موجودگی میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے محترم منیر لکھنی آفندی صاحب کو قائمقام امیر مقررفرمایا.احمد یہ گزٹ قادیان 11 جنوری 1929ء) 1929 1930 یکم جنوری تا 30 جنوری 1929ء میں شام و فلسطین کے مختلف شہرود یہات میں 123 حباب داخل احمد یہ گزٹ قادیان 11 مارچ 1929 ء ) سلسلہ احمدیہ ہوئے.23 اگست 1930ء کو حضرت مولانا شمس صاحب کے برادر اکبر حضرت بشیر احمد صاحب نورہسپتال قادیان میں چار پانچ یوم زیر علاج رہ کر عین جوانی کے عالم میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے جبکہ حضرت مولانا موصوف ان ایام میں بلا دعر بیہ میں خدمات بجالا رہے تھے.آپ کے وصال پر ناظر صاحب دعوة وتبلیغ قادیان نے لکھا:
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 23 ان کی اس جواناں مرگ وفات کی وجہ سے جو صدمہ برادر مکرم مولوی جلال الدین صاحب کو خبر پہنچنے پر ہوگا یا مرحوم کے والدین کو ہوا ہے میں اس میں اپنی طرف سے اور نیز تمام کارکنان نظارت دعوۃ التبلیغ کی طرف سے مولوی صاحب موصوف اور ان کے خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے.اس کے بچوں کا حافظ و ناصر ہو اور اس کے اعزاء واقرباء کو صبر جمیل کی توفیق بخشے.مولوی صاحب سے اخلاص ومحبت رکھنے والے احباب اظہار ہمدردی کیلئے ان سے اس پتہ پر خط و کتابت فرما دیں.جلال الدین شمس احمدی.المدرسة الجمالية ، طريق الناصرہ حیفا ( فلسطین).$1931 بلاد عر بیہ سے واپسی $1932 الفضل قادیان 28/26اگست 1930ء) 30 ستمبر 1931ء کو حضرت مولوی صاحب براستہ مصر مرکز سلسلہ قادیان دارالامان کیلئے روانہ ہوئے اور اکتوبر میں قادیان پہنچے.(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں الفضل قادیان ماہ اکتو بر 1931ء کے شمارہ جات ) دسمبر 1931ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دفتر کشمیر کمیٹی کے انچارج کے طور پر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی بجائے آپ کو دفتر کا انچارج مقر رفرمایا.تاریخ احمدیت طبع اول جلد 6 صفحہ 475) 15 جنوری 1932ء کو آپ مباحثہ دھار یوال کے سلسلہ میں دھار یوال تشریف لے گئے.الفضل قادیان 19 جنوری 1932ء) 10 فروری 1932ء کو لجنہ اماءاللہ قادیان نے مولوی جلال الدین شمس صاحب کی کامیاب واپسی کی خوشی میں دعوت چائے دی اور ایڈریس پیش کیا جس میں مولوی صاحب کی دینی خدمات کا اعتراف کیا گیا.اس موقعہ پر سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ نے بھی مختصر خطاب فرمایا.بلا دعر بیہ سے واپسی پر فروری میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کے سپرد کشمیر کا کام کیا.دیکھیں الفضل قادیان 14 فروری 1932ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 24 24 مجلس مشاورت قادیان و ربوه آپ کو متعدد مرتبہ مجلس مشاورت قادیان اور بعد ازاں ربوہ میں شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی.1932ء میں بطور نمائندہ شامل ہوئے.نمائندگان میں آپ کا نام 41 ویں نمبر پر مرقوم ہے.1933ء کی مشاورت میں بطور مرکزی نمائندہ شامل ہوئے.نمائندگان میں آپ کا نام 38 ویں نمبر پر مرقوم ہے.1934ء میں 28 نمبر پر ہے.1950ء کی مشاورت میں آپ بطور ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان شامل ہوئے.1952ء کی مجلس مشاورت میں بطور انچارج لٹریچر و تصنیف ، 1954ء میں بھی بطور انچارج لٹریچر، 1955ء میں بطور نمائندہ صدر انجمن احمد یہ 1957ء میں بطور انچارج لٹریچر و تصنیف،1960ء میں بطور انچارج لٹریچر وتصنیف، 1962ء میں بطور صدر مجلس کار پرداز مصالح قبرستان،جبکہ 1963ء سے 1966ء (تاوصال ( بطور ناظر اصلاح وارشاد مرکز یہ مجلس مشاورت میں شامل ہوتے رہے.متعدد مواقع پر آپ مختلف سب کمیٹیوں کے صدر یا سیکرٹری یا ممبر بن کر خدمات بجالاتے رہے اور اپنی تجاویز و آراء بھی پیش کیں.+1933 مزید تفصیل کیلئے دیکھیں رپورٹ ہائے مجلس مشاورت 1932 ء تا1966ء مطبوعہ قادیان در بوہ ) فروری 1933ء کو حضرت مولانا در وصاحب انگلستان تشریف لے گئے تو ان کے بعد حضرت مولانا شمس صاحب پہلے اسٹنٹ سیکرٹری کشمیر کمیٹی پھر اسٹنٹ سیکرٹری ” آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن“ کی حیثیت سے فرائض انجام دینے لگے.نکاح و شادی تاریخ احمدیت ، طبع اول جلد 6 صفحہ 475 ) حضرت مولا نائٹس صاحب کا نکاح سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1932ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر محترمہ سعیدہ بیگم بنت محترم با بوعبید اللہ صاحب اوورسیئر کے ساتھ پڑھایا تھا.15 مارچ 1933ء کو مولوی شمس صاحب بارات لے کر امرتسر گئے اور اسی دن رخصتانہ کرا کر واپس آگئے.18 مارچ 1933ء کو بعد از نماز مغرب مولانا موصوف نے تین صد ا حباب
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس $1934 کو دعوت ولیمہ دی جس میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی اور دعا کی.الفضل قادیان 21/19 مارچ 1933ء) 25 جنوری 1934ء میں آپ مقدمہ بہاولپور کے سلسلہ میں بہاولپور سے واپس تشریف لے آئے.الفضل قادیان 14 جنوری 1934ء) یکم مارچ کو آپ اور حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہان پوری 3 مارچ کی پیشی کے سلسلہ میں بہاولپور تشریف لے گئے.الفضل قادیان 4 مارچ 1934ء) 26 اپریل 1934 ء کو آپ مقدمہ بہاولپور کیلئے 28 اپریل کی تاریخ کے سلسلہ میں بہاولپور الفضل قادیان 29 اپریل 1934ء) روانہ ہوئے.پہلی آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن کا اجلاس 25 مارچ1934ء کو پہلی آل انڈیا کشمیر ایسوی ایشن کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک سب کمیٹی اس غرض سے تشکیل دی گئی کہ وہ کشمیر کے لیڈروں سے جو لاہور میں مقیم ہیں مل کر کشمیر کی موجودہ صورت حال کے متعلق تحقیقات کرے.یہ کمیٹی درج ذیل اراکین پر مشتمل تھی.مولا نا عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، شیخ نیاز علی ایڈووکیٹ، پروفیسر علم الدین سالک منشی محمد الدین فوق، چوہدری اسد اللہ خاں بیرسٹر ایٹ لاء سید عبدالقادر ایم اے اور مولوی جلال الدین صاحب شمس.اس کمیٹی کا دوسرا اجلاس اور بینگ میں 28 مارچ کو زیر صدارت سید عبد القادر منعقد ہوا.جس میں ذیل کے حضرات شریک ہوئے.سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ، سید حبیب صاحب، مولانا عبد المجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، ڈاکٹر عبد الخالق صاحب شیخ نیاز علی ایڈووکیٹ ،سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ہمنشی محمد الدین فوق، چوہدری اسد اللہ خاں بیرسٹر ایٹ لاء، اور مولوی جلال الدین صاحب شمس.(دیکھیں الفضل قادیان 5 اپریل 1934ء) لائل پور مسجد کا افتتاح اپریل 1934ء کو سیدنا حضرت خلیق اسی اثنی رضی اللہ عنہنے لائل پورمسجد کا افتاح فرمایا.اس افتتاح میں قادیان کے کئی احباب حضور کے ہمرکاب تھے.لائل پور کے جلسہ میں حضور نے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 26 خطاب بھی فرمایا.7 اپریل کو حضرت مولانا شمس صاحب نے ”بلاد اسلامیہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.مخلصین جماعت سے قربانیوں کے مطالبات دیکھیں الفضل قادیان 12 اپریل 1934ء) 23 نومبر 1934ء کو سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قربانی کے مطالبات فرمائے.تیسرا مطالبہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’ جماعت سے قربانی کا تیسر امطالبہ میں یہ کرتا ہوں کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے اس وقت بڑی ضرورت ہے کہ وہ جو گندہ لٹریچر ہمارے خلاف شائع کر رہا ہے اس کا جواب دیا جائے اور اپنا نقطۂ نظر احسن طور پر لوگوں تک پہنچایا جائے اور وہ روکیں جو ہماری ترقی کی راہ میں پیدا کی جارہی ہیں انہیں دور کیا جائے.اس کیلئے بھی ایک خاص انتظام کی ضرورت ہے.یہ میں اس کمیٹی کے سپر د کروں گا جو اس غرض کیلئے بنائی جائے گی.“ $1936 ( خطبات محمود، جلد 15 ، سال1935ء.صفحات 432-433) اس کمیٹی میں 15 ممبران شامل تھے جن میں حضرت مولا نائٹس صاحب بھی شامل تھے.کشمیر ریلیف فنڈ جب فروری 1936ء میں مولانا صاحب انگلستان میں تبلیغ اسلام کیلئے روانہ ہوئے تو آپ کی جگہ کشمیر ریلیف فنڈ ( آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا دفتر بعد میں کشمیر ریلیف فنڈ سے موسوم ہوتا تھا) کے انچارج حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب یکی از اصحاب تین صد تیرہ بنائے گئے.اس دفتر کے بارہ میں مؤلف تاریخ احمدیت تحریر کرتے ہیں : اس دفتر کے ذمہ تحریک آزادی کشمیر سے متعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ امور کا انتظام تھا.غیر احمدی دوستوں کے عطایا مسلم بنک لاہور میں جمع ہوتے تھے اور احمدیوں کا چندہ دفتر وصول کرتا تھا.یہ دفتر کشمیر کمیٹی ہر قسم کے چندہ کی آمد اور خرچ کا پورا حساب رکھتا تھا.اندرون یا بیرون ریاست میں تحریک آزادی کے لیڈروں اور کارکنوں کے فوری اخراجات مہیا کرتا.کشمیری طلباء کے وظائف کا انتظام کرتا.جلا وطن اور نظر بند شہریوں کی امداد کرتا اور عدالتوں کے ضروری اخراجات ادا کرتا تھا.تاریخ احمدیت طبع اول جلد 6 صفحہ 475)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس انگلستان کیلئے تقرر 27 حضرت مولانا شمس صاحب کا انگلستان کیلئے تقر ر فروری 1936ء میں ہو ا جہاں آپ اگست 1946ء تک خدمات بجالاتے رہے.ہالینڈ میں احمدیت حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی انگلستان سے مراجعت کے بعد حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے قیام لنڈن کا زمانہ آتا ہے جو ہالینڈ میں احمدیت کی داغ بیل کے اعتبار سے ایک سنہری دور ہے.مولانا شمس صاحب کی لنڈن مشن کے رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے لنڈن پہنچنے کے بعد ڈچ باشندوں میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری کر دیا تھا.چنانچہ آپ نے قیام انگلستان کے پہلے سال ہالینڈ، جرمنی اور سویڈن کے سکولوں کی ہائی کلاسز کے قریباً70 طلباء کو ایک تقریب پر مدعو کیا.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ قادیان 1939ء - 1938 صفحہ 55) ہالینڈ مشن سے ڈچ زبان میں مولانا شمس صاحب کی کتاب ”اسلام“ اور Where did Jesus ?Die شائع ہوئیں.$1941-45 تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ (212) آپ کے والد ماجد حضرت میاں امام الدین سیکھوانی کا وصال 10 مئی 1941 ء کو ہوا.اس موقع پر آپ نے BBC لندن سے اپنی والدہ کے نام تعزیت کا پیغام جاری کیا.آپ کے والد کے وصال کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اپنے سندھ کے سفر کے دوران حضرت مولانا شمس صاحب کے نام تعزیت کا تارلندن ارسال فرمایا.(الفضل قادیان 16 مئی 1941ء) 13 ستمبر 1941ء کو مولانا شمس صاحب نے BBC لندن سے اپنا پیغام نشر کیا.الفضل قادیان 15 ستمبر 1941ء) قیام لندن کے ان ایام میں آپ نے کئی مباحثات کئے اور کئی اہم مضامین اخبارات ورسائل میں تحریر کئے.ہائیڈ پارک میں آپ کے لیکچروں نے خاصی مقبولیت حاصل کی.ان سالوں کی تبلیغی مہمات’ انگلستان میں خدمات “ والے حصہ میں دی گئی ہیں.
حیات ٹمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس $1946-47 28 جنوری 1946ء میں عید الاضحیہ کے دن بی بی سی لندن سے آپ کی تقریر براڈ کاسٹ کی گئی یہ تقریر بعدہ الفضل قادیان میں شائع ہوئی.(الفضل قادیان 9 اپریل 1946ء) انگلستان سے قادیان حضرت مولانا شمس صاحب کی لنڈن سے مراجعت کے بارہ میں رائیٹر کی لنڈن سے حسب ذیل خبر اخبارات میں شائع ہوئی.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی اے.ایل ایل بی ، مولوی جلال الدین صاحب شمس کی جگہ مسجد احمد یہ لنڈن کے امام مقرر کئے گئے ہیں.آخر الذکر اگست کے پہلے ہفتہ لنڈن سے ہندوستان واپس جا رہے ہیں.جماعت احمد یہ برطانیہ کے ارکان سبکدوش ہونے والے امام کو آئندہ جمعہ کے دن مسجد احمد یہ لنڈن میں الوداعی دعوت دیں گے اور اس الوداعی اجتماع کی صدارت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب فرمائیں گے.نئے امام مسجد احمد یہ لنڈن اکتوبر 1945ء سے احمد یہ مشن میں قیام پذیر ہیں.(الفضل قادیان 18 جولائی 1946ء) حضرت مولانا شمس صاحب نے 9 اگست 1946ء کو بذریعہ تار مطلع فرمایا کہ آنریبل سرمحمد ظفر اللہ خاں صاحب کل بخیریت نیو یارک پہنچ رہے ہیں.میں 11 اگست کولندن سے روانہ ہورہا ہوں.مصر، فلسطین ، شام اور عراق میں ٹھہرتا ہو اہندوستان پہنچوں گا.حضرت مولانا موصوف 26 ستمبر 1946 ء کو مع السید منیر الحصنی دمشق سے قادیان کیلئے روانہ ہوئے.مسلسل دس سال انگلستان میں تبلیغ اسلام کی شاندار خدمات بجالانے کے بعد محترم مولوی صاحب کی واپسی خوشکن ہے.11 اکتو برمولانا موصوف مع السید میراتھنی کراچی پہنچ گئے.15 اکتوبر کو آپ مع السید منیر الحصنی پریذیڈنٹ جماعت دمشق قادیان پہنچے.اس موقعہ پر احباب جماعت قادیان نے آپ کا پُر جوش استقبال فرمایا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مولانا شمس کیلئے سید نا حضرت مصلح موعود کی خاص شفقت و محبت 29 20 آپ 11 اگست 1946ء کو لندن سے روانہ ہوئے.آپ مصر فلسطین ، شام اور عراق میں ٹھہرتے ہوئے ہندوستان پہنچے.آپ کی آمد پر مدیر الفضل قادیان نے لکھا: الفضل قادیان 12 اگست 1946 ، صفحه 2) أَهْلاً وَسَهْلاً وَمَرْحَبًا.انگلستان کے کامیاب اور مجسم اخلاق مبلغ جناب مولوی جلال الدین صاحب شمس کی دس سال کے بعد واپسی.الحمد للہ آج ہم احباب جماعت کو یہ خوشخبری سنانے کے قابل ہوچکے ہیں کہ مکرم و محترم مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد احمد یہ لنڈن اور انگلستان کے کامیاب مبلغ جن کی ملاقات کا ہم کئی روز سے بے تابی اور شدت کے ساتھ انتظار کر رہے تھے، لاہور پہنچ چکے ہیں اور کل بروز شنبہ قادیان پہنچیں گے.ستمبر کے اواخر میں سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ دہلی تشریف لے گئے جہاں تین ہفتے قیام فرمایا.حضور 15 اکتوبر کو قادیان واپس رونق افروز ہوئے.13 اکتوبر کی شام حضور دہلی سے امرتسر پہنچے جہاں 15 اکتوبر کو صبح آٹھ بجے مکرم مولانا شمس صاحب اور مکرم السید منیر الحصنی دمشقی سے ملاقات فرمائی جو لا ہور سے وہاں پہنچ چکے تھے.مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصی اعزاز عطا فرمایا کہ سید نا حضرت مصلح موعود آپ کے استبقال کیلئے خصوصی طور پر دہلی سے تشریف لائے.(الفضل قادیان14 و16 اکتوبر 1946ء) مغرب سے طلوع شمس کا ایک بطن 16 اکتوبر.جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ نے حضرت مولانا شمس صاحب اور السید منیر الکھنی صاحب کو چائے کی دعوت دی جس میں سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ( رضی اللہ عنہ ) نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقعہ پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے عربی میں ایڈریس پیش کیا.اس تقریب کے آخر میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی (رضی اللہ عنہ نے مختصر تقریر فرمائی جس میں فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی مغرب سے طلوع شمس کا ایک بطن اس وقت شمس صاحب کے ذریعہ پورا ہوا جبکہ وہ مغرب سے آئے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس چوتھی خوشی 30 30 15 اکتوبر 1946 ء کو سید نا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے ایک مجلس عرفان میں فرمایا: چوتھی خوشی کی بات یہ ہے کہ شمس صاحب پہنچ گئے ہیں.وہ دس سال کے بعد آئے ہیں.ان کے ساتھ ہمارے شامی بھائی منیر الحصنی صاحب بھی آئے ہیں.وہ پہلی دفعہ آئے ہیں اور پہلے عرب احمدی ہیں جو اس رنگ میں آئے ہیں.“ ( مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ فرمائیے ، الفضل قادیان 12 اگست، 28 ستمبر، 17،18،12اکتوبر 1946ء) 2 اکتوبر کومرکزی انصار اللہ کی طرف سے مولانا شمس صاحب اور السید منیر آفندی اصفی کے ں لئے چائے کی دعوت کا اہتمام کیا گیا جس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس تقریب کے آخر میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے وقف جائداد اور وقف زندگی فرمائی.کی تحریکات کو کامیاب بنانے کی طرف نہایت مؤثر الفاظ میں انصار اللہ کو توجہ دلائی.اسی طرح 29 اکتوبر کوفضل عمر ہاسٹل کی طرف سے مولانا شمس صاحب اور مولانا محمد صادق صاحب کے اعزاز میں Tea Party دی گئی جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بھی شرکت الفضل قادیان 30,23 اکتوبر 1946 ء ) یکم نومبر 1946ء کو کوٹھی نواب محمد عبد اللہ خان صاحب میں اور 10 نومبر کو تعلیم الاسلام کالج کے سٹاف اور طلباء کی طرف سے حضرت مولانا شمس صاحب اور السید منیر الھنی صاحب کے اعزاز میں دعوت چائے کا اہتمام کیا گیا.ہر دو تقاریب میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے شمولیت الفضل قادیان 11.2 نومبر 1946ء) فرمائی.تحریک جدید کی رجسٹریشن 18 اکتوبر 1946ء کو تحریک جدید کی رجسٹریشن ہوئی اور اس تاریخ سے اس کا پورا نام ”تحریک جدید انجمن احمد یہ رکھا گیا.تحریک جدید کے آرٹیکلز اینڈ میمورنڈم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے مرتب کئے.بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ابتدائی دس ممبران میں حضرت مولانا شمس کا نام نویں نمبر پر مرقوم ہے.(ریزولیوشن تحریک جدید 16 مارچ 1946 ء، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 112)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس تحریک جدید صدرانجمن احمد یہ پاکستان کا قیام اور رجسٹریشن 31 اگر چہ تحریک جدید کے فنانشل سیکرٹری چوہدری برکت علیخاں صاحب کی زیر نگرانی تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کا ابتداء ہی سے انتظام ہو چکا تھا مگر ضرورت تھی کہ پاکستان میں تحریک جدید کا ادارہ با قاعدہ صورت میں قائم کر دیا جائے.چنانچہ اس غرض کیلئے سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے وسط نومبر 1947ء میں مولوی عبدالرحمن صاحب انور انچارج تحریک جدید کو قادیان بلوایا.انہوں نے آتے ہی جسونت بلڈنگ کے ایک کمرہ میں دفتر بنا کر کام شروع کر دیا.تحریک جدید کے "Memorandum and articles of Associations‘ کے مسودہ کی تشکیل و ترتیب کی خدمت مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے انجام دی اور یہ ادارہ 19 فروری 1948ء کو (سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کی زیر دفعہ 21 بابت 1860ء کے تحت) رجسٹر ہو گیا اور ابتداء میں اس کے جو 9 ڈائریکٹرز مقرر کئے گئے.ان میں حضرت مولانا شمس صاحب کا نام ساتویں نمبر پر مرقوم ہے.تاریخ احمدیت ،جلد 11 صفحہ 280-281) جلسہ برائے مطالبات تحریک جدید 30 اکتوبر 1946ء کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام مطالبات تحریک جدید کی یاد دہانی کے لئے جلسہ ہوا جس میں مولانا عبد الرحیم صاحب درد، حضرت سر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، حضرت مولانا شمس صاحب، حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اور مولوی یار محمد صاحب نے الفضل قادیان 31 اکتوبر 1946ء) تقاریر کیں.وکیل التبشیر برائے یورپ و امریکہ انگلستان سے واپسی کے بعد آپ وکیل التبشیر برائے یورپ و امریکہ مقرر کئے گئے اور قیام پاکستان تک آپ اس منصب پر فائز رہے.اس دوران آپ کے تبشیر و تعلیم و تربیت کے متعلق بعض مضامین و تحریکات جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے نیز مبلغین کرام کی تبلیغی رپورٹوں پر ریویوز بھی شائع ہوتے رہے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس $1947 مجلس تحریک جدید کا قیام 32 32 سید نا حضرت خلیفہ امسیح کے ارشاد پر 17 مئی 1947 ء کو مجلس تحریک جدید کا قیام عمل میں آیا.جس کا کام تحریک جدید سے متعلق امور پر باہمی مشورہ سے فیصلے کرنا اور ان کو حضور کی خدمت میں منظوری کیلئے بھجوانا تھا.16 مارچ 1947 ء کو حضور کے حکم سے اس مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ کے صدر مولوی جلال الدین صاحب شمس اور سیکرٹری مولوی عبد الرحمن صاحب انور تجویز کئے گئے.اکتوبر 1947ء.امیر مقامی قادیان تاریخ احمدیت جلد 8 طبع اول صفحہ 112) سیدنا حضرت مصلح موعود کے حکم سے صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب، کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کی اسکورٹ میں لاہور آگئے اور ان کی جگہ قادیان میں مولانا جلال الدین صاحب شمس کو امیر مقامی مقرر کیا گیا.بعد ازاں سیدنا حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر مولانا جلال الدین صاحب شمس اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب قادیان سے لاہور آگئے اور مولانا شمس صاحب کی جگہ قادیان میں مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر مقامی اور صاحبزادہ مرزاظفر احمد صاحب ناظر اعلی مقرر ہوئے.( تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 170.نیز الفضل9/6 جنوری 1948ء) سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات کا ذکر حضرت مولا نائنٹس صاحب کے قلم سے سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے قیام پاکستان کے بعد صدر انجمن احمدیہ کی پہلی سالانہ رپورٹ میں مولانا شمس صاحب نے لکھا: جماعت کا شیرزاہ بکھر چکا تھا اور ہزاروں مرد اور عورتیں اور بچے بے سروسامانی کی حالت میں لاہور آکر آستانہ خلافت پر پڑے تھے جن کی خور و نوش کی فکر تھی اور سینکڑوں تھے جو صدموں کی تاب نہ لاکر بیمار اور مضمحل ہو رہے تھے.مزید برآں موسم سرما بھی قریب آرہا تھا اور ان غریبوں کے پاس سردیوں سے بچنے کا کائی سامان نہیں تھا.پھر ان لوگوں کو مختلف مقامات پر آباد کرانے اور
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 1948 33 ان کی وجہ معاش کیلئے حسب حالات کوئی سامان کرنے کا کام بھی کچھ کم اہمیت نہ رکھتا تھا.یہ مشکلات ایسی نہ تھیں جو غیر از جماعت لوگوں پر نہیں آئیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور ہمارا ایک مونس و غمخوار تھا.جب وہ لوگ پراگندہ بھیڑوں کی طرح مارے مارے پھر رہے تھے، ہم لوگوں کو آستانہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ایک گونہ تسکین قلب حاصل تھی.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خدام کی تکالیف کو دیکھا اور ان کے مصائب کو سنا اور ہر ممکن ذریعہ سے نہ صرف سلسلہ کی طرف سے بلکہ ذاتی طور پر بھی ان کی دلجوئی کے سامان کئے.اپنے روح پرور کلام سے ان کی محبتوں کو بڑھایا اور ان کے حوصلوں کو بلند کیا.مہاجر غرباء کی تن پوشی کیلئے تحریک کر کے ذی استطاعت اور مخیر اصحاب سے کپڑے مہیا کرائے اور سلسلہ کے اموال کو بے دریغ خرچ کر کے ان کو فقر وفاقہ کی حالت سے بچایا.بیماریوں کیلئے ادویات اور ڈاکٹروں کا انتظام کرایا اور لاہور سے باہر جا کر آباد ہونے والوں کیلئے حسب ضرورت زاد راہ مہیا کیا اور ان کے گزاروں کیلئے ہر اخلاقی اور مالی امداد فرمائی.موسم سرما میں کام آنے والے پار چات مہیا کرائے.غرض ہزاروں لاکھوں برکات اور افضال نازل ہوں اس محبوب اور مقدس آقا پر جس نے ایسے روح فرسا حالات میں اپنے خدام کی دستگیری فرمائی.ہمارے دل حضور کیلئے شکر و امتنان کے جذبات سے معمور ہیں.لیکن ہماری زبانیں ان جذبات کے اظہار سے عاجز ہیں.“ رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمدیہ پاکستان 48-1947ء صفحہ 50) ناظر تالیف و تصنیف اپریل 1948ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود نے آپ کو قائم مقام ناظر تالیف و تصنیف مقرر فرمایا.مارچ 1948ء کو حضور نے غیر معمولی نوعیت کا ایک نہایت اہم کام آپ کے سپرد کیا.اس کے بارہ میں حضرت مولانا شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں: ' خاکسار ( جلال الدین شمس ناظر تالیف و تصنیف) کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اسلام کے خلاف عیسائیوں کے اعتراضات کو جمع کیا جائے اور ان کا جواب لکھا
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 34 جائے.اس ضمن میں امریکہ ،افریقہ، لندن، ہالینڈ، فرانس، فلسطین، جاوا و دیگر بیرونی ممالک کے مبلغین کو خطوط تحریر کر کے یہ اعتراضات جمع کئے جارہے ہیں.اسی طرح بیرون ممالک سے واپس آنے والے مبلغین سے بھی ان اعتراضات کو جمع کرنے میں مدد لی گئی اور ان کی ایک فہرست مرتب کی جارہی ہے.“ 1948ء میں آپ کے سپرد کئی نظارتوں کے کام ہوئے.چنانچہ مولانا موصوف اس کی بابت تحریر کرتے ہیں: آجکل میرے سپرد کئی نظارتوں کا کام کیا گیا ہے.مثلاً نظارت تالیف و تصنیف، دفتر بہشتی مقبرہ ہسیکرٹری مجلس تعلیم وغیرہ ذالک اس لئے اس کام کیلئے فرصت کم ملتی ہے.ایک بہت بڑی مشکل یہ ہے کہ تصنیف کے کام کیلئے ضروری کتب مہیا نہیں ہیں.میرا اپنا قیمتی کتب خانہ قادیان میں لوٹ کی نذر ہو چکا ہے.اب آئندہ سال (1949ء - 1948 ء) میں انشاء اللہ اس کام کی طرف زیادہ توجہ ہوگی.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے قضیہ فلسطین کے متعلق ایک نہایت اہم خطبہ الکفر ملة واحدة‘ کا عربی ترجمہ کیا گیا اور عراق میں اس کی طباعت کروا کر بلا دعر بیہ میں اس کی اشاعت کی گئی.بغداد کے روز نامہ اخبار " الشوری اور ”الحقیقہ“ وغیرہ نے اس خطبہ کی بہت تعریف کی اور شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے فلسطین کے عربوں اور عام مسلمانوں کی بہت خدمت کی ہے.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ 1948ء - 1947 ء صفحہ 30-31) - ”ربوہ“ کا نام آجکل ربوہ جس جگہ آباد ہے اس کا پرانا نام چک ڈھگیاں تھا.چک ڈھگیاں کی زمین کے حصول کے بعد مؤرخہ 16 ستمبر 1948ء کو صدر انجمن احمدیہ کی میٹنگ میں ” چک ڈھگیاں“ کا نیا نام تجویز کیا گیا کہ جس میں کئی نام زیر غور آئے جن میں ماوی ( پناہ گاہ)، ذکری ( عبادت گاہ)، دارالہجرت اور مدینہ ایسی بھی شامل تھے.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے "چک ڈھگیاں“ کا نیا مبارک نام ”ربوہ“ تجویز فرمایا لہذا اس نام کو حتمی منظوری کیلئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا گیا.عربی زبان میں ربوہ کا وہی مطلب ہے جو کہ پنجابی زبان میں ڈھگیاں یعنی اونچے ٹیلوں والی جگہ کے ہیں.الفضل انٹر نیشنل لندن 7 جولائی 2000 صفحہ 9-10)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس $1952 ممبر تعمیر (ربوہ) کمیٹی 35 26 تبوک ستمبر 1948 ء کو صدر انجمن احمدیہ (ربوہ) کے تعمیراتی کام کے پیش نظر سید نا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں سفارش پیش کی گئی کہ تعمیر کمیٹی کیلئے مندرجہ ذیل ممبروں کا تقر ر منظور فرمایا جائے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (صدر)، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (سیکرٹری)، صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب، مولوی عبدالرحیم در دصاحب ، مولانا جلال الدین صاحب شمس ( ممبران...حضور نے تحریر فرمایا: ریزولیوشن منظور ہے سوائے تعمیر کے سوال کے.اس وقت تعمیر کا کوئی سوال نہیں صرف سامان جمع کرنے کا سوال ہے اور اس کا فیصلہ میری موجودگی میں ہوتا ہے.اس وقت سروے کا سوال ہے اور معلومات جمع کرنا.“ مجلس افتاءر بوہ میں خدمات تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 414) سیدنا حضرت مصلح موعو نے 1943ء میں فقہ اسلامیہ کے مختلف مسائل پر غور وفکر کرنے کیلئے ایک افتاء کمیٹی قائم فرمائی تھی.قیام پاکستان کے بعد افتاء کی اس کمیٹی کا اجراء سید نا حضرت مصلح موعود نے 7 جنوری 1952ء میں فرمایا.اس موقعہ پر آپ نے فرمایا: جیسا کہ جلسہ پر اعلان کیا گیا تھا فقہی مسائل پر یکجائی غور کرنے اور فیصلہ کیلئے جماعت احمدیہ کی ایک کمیٹی مقرر کی جاتی ہے.تمام اہم مسائل پر فتوئی اس کمیٹی کے غور کرنے کے بعد شائع کیا جائے گا.ایسے فتاوی خلیفہ وقت کی تصدیق کے بعد شائع ہوں گے اور صرف انہی امور کے متعلق شائع ہوں گے جس کو اہم سمجھا گیا ہو.ایسے فتاویٰ جب تک ان کے اندر کوئی تبدیلی نہ کی گئی ہو یا تنسیخ نہ کی گئی ہو، جماعت احمدیہ کی قضاء کو پابند کرنے والے ہوں گے اور وہ ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے گی.ہاں ان کی تشریح کرنے میں آزاد ہوگی.لیکن اگر وہ تشریح غلط ہو تو یہی مجلس فتویٰ دہندہ اس تشریح کو غلط قرار دے سکتی ہے.اس کمیٹی کے فی الحال مندرجہ ذیل ممبر ہوں گے:
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ا.مولوی سیف الرحمن صاحب پر نسپل جامعہ احمد یہ ۲ - مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی را جیکی صاحب ( دیگر تیرہ احباب کل تعداد پندرہ) 36 ان ممبران کا اعلان سال بہ سال خلیفہ وقت کی طرف سے ہوا کرے گا اور ہر ایک سال کیلئے نمبر نامزد کئے جایا کریں گے.سر دست اس کمیٹی کے صدر جامعتہ المبشرین کے پرنسپل ملک سیف الرحمن صاحب ہوں گے اور اس کے سیکرٹری مولوی جلال الدین صاحب شمس.مرز امحمود احمد.خلیفہ اسیح الثانی 7 جنوری 1952ء چنانچہ حضرت مولانا شمس صاحب 1952ء سے 1961ء نو سال تک بطور سیکرٹری مجلس افتاء خدمات بجالاتے رہے.1961ء سے تا وفات آپ افتاء کے بطور ممبر کام کرنے کی سعادت حاصل کرتے رہے.( تاریخ احمدیت جلد نم ص 454، ریکارڈ دار الافتاء بحوال ضمیمہ جلد پانزدہم ص 1-4، الفضل لا ہور 11 جنوری 1952ء صفحہ 2) ایک سعادت " " حضرت صاحبزادہ قمر الانبیاء کی جلسہ ہائے سالانہ پر تین تقاریر سیرت طیبہ ” در منشور اور در مکنون“ اور چوتھی تقریر ” آئینہ جمال تھی جو بوجہ علالت آپ بنفس نفیس نہ پڑھ سکے ، ان تقاریر کو پیش کرنے کی سعادت حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے زمرہ میں آئی.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر یہ تقاریر آپ نے پڑھ کر سنائیں.$1956-1957 خالد احمدیت سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ مسیح الثانی نے 1956 ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تین مخلص احباب جماعت احمدیہ کو ان کی مخلصانہ اور بے لوث خدمات سرانجام دینے پر خالد کے خطاب سے نوازا.ان معزز بزرگان دین اور خالد احمدیت کے اسم گرامی ہیں :
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 37 حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب.حضرت مولانا اللہ دتا ابوالعطاء صاحب جالندھریؒ اور حضرت ملک عبد الرحمن خادم صاحب گجراتی.دیکھیں الفضل ربوہ 15 مارچ 1957 ء نیز حیات بشیر ص 201-202) ایک تقریب میں حضرت حافظ روشن علی صاحب کے ذکر خیر کے ساتھ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا: مجھے یاد ہے ایک دفعہ رسالہ الفرقان کے موجودہ ایڈیٹر محترم مولوی ابوالعطاء صاحب کے متعلق ان کی طالبعلمی کے زمانہ میں (حضرت حافظ روشن علی صاحب نے ) فرمایا کہ یہ نو جوان خرچ کے معاملہ میں کچھ غیر محتاط ہے مگر بڑا ہونہار اور قابل توجہ اور قابل ہمدردی ہے.کاش ! اگر حضرت حافظ صاحب اس وقت زندہ ہوتے تو محترم مولوی ابوالعطاء صاحب اور محترم مولوی جلال الدین شمس صاحب کے علمی کارناموں کو دیکھ کر ان کو کتنی خوشی ہوتی کہ میرے شاگردوں کے ذریعہ میری الفضل ربوہ 15 دسمبر 1961ء) یا دزندہ ہے“.ربوہ میں یوم احتجاج کشمیر کو بھارت میں مدغم کرنے کے اعلان پر 26 جنوری 1957ء کور بوہ میں یوم احتجاج منایا گیا.اس روز ربوہ میں صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے جملہ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل عام رہی.تمام دکانیں اور تجارتی کاروبار بندر ہے.اس روز مسجد مبارک میں ایک احتجاجی جلسہ مولانا جلال الدین صاحب شمس کی زیر صدارت منعقد ہوا.تقاریر کے علاوہ قرارداد کے ذریعہ اقوام متحدہ ، حکومت پاکستان اور عوام کو کشمیر کی آزادی کی طرف توجہ دلائی گئی نیز یقین دلایا گیا کہ اس سلسلہ میں اگر حکومت پاکستان کوئی قدم اٹھائے تو جماعت احمد یہ ہرممکن قربانی کے لئے الفضل 29 جنوری 1957ء صفحہ 1) تیار ہے.حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی 1957ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ادارۃ المصنفین کا قیام فرمایا جس کے ممبران میں حضور نے مولانا شمس صاحب کو بھی شامل فرمایا.اس وقت آپ مینیجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیۃ ربوہ تھے.اسی سال جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے 27 دسمبر کو اپنی دوسری تقریر کے دوران جو سال گزشتہ کے کام کے تبصرہ اور نئے سال کے پروگرام سے متعلق تھی ، میں اظہار خوشنودی کے طور پر
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 38 جن سات خوش نصیبوں کو سٹیج پر بلا کر اپنے دست مبارک سے انعامی تھیلیاں عطا فرما ئیں ان میں مولانا شمس صاحب بھی شامل تھے.آپ کو یہ انعام تفسیر صغیر جیسی شاندار تالیف کی بروقت اشاعت کے مثالی کارنامہ کے باعث عطا کیا گیا تھا.( تاریخ احمدیت جلد نمبر 18 مطبوعہ ہندوستان 2007 ، صفحہ 534.بحوالہ الفضل 2 جنوری 1958ء صفحہ 2) 1966 1960 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے رکن آپ 1960 ء سے لیکر 1966ء تک مسلسل سات سال مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے عہد یدار رہے.پہلے قائد تربیت کے طور پر اور پھر قائد تعلیم کی حیثیت میں آپ نے کام کیا.اس دوران بیرونی مجالس کے اجتماعات میں بھی آپ کو شرکت کرنے کی توفیق ملی.صدر مجلس کار پرداز مصالح قبرستان الفضل 23 اکتوبر 1966 ، صفحہ 5) آپ 55-1954 ءتاوفات صدر مجلس کار پرداز مصالح قبرستان کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.حضرت مصلح موعودؓ کے پیغامات 1963ء کے جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر چونکہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی خود تشریف نہیں لا سکے تھے اس لئے حضور کے ارشاد پر حضرت مولانا شمس صاحب نے نہ صرف حضور کا جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس کے لئے پیغام 26 دسمبر کو پڑھ کر سنایا بلکہ 28 دسمبر کو اختتامی اجلاس کے لئے بھی حضور کا پیغام پڑھ کر سنایا.افتتاحی اجلاس کے موقعہ پر آپ نے حضور کا پیغام سنانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر فرمودہ دعا پڑھ کر سنائی جو حضور اقدس نے جلسہ سالانہ میں شریک ہونے والے احباب کے لیے فرمائی تھی.اس کے بعد آپ نے حضور کے ارشاد کے ماتحت اجتماعی دعا کروائی.علاوہ ازیں اجتماعی دعا کے بعد آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ا وہ پیغام بھی پڑھ کرسنایا جوحضور نے وقف جدید کے ساتویں سال کے آغاز پر احباب جماعت کے نام دیا تھا.روزنامه الفضل ربوه 2 جنوری 1964ءصفحہ 1و5 )
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس وصال و قرار داد ہائے تعزیت مکرم راجہ ناصر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں: 39 مکرم مولانا صاحب مرحوم رشتہ میں میرے ماموں ہیں.میری والدہ آمنہ بیگم زوجہ ایم غلام محمد صاحب مرحوم حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوائی کی بیٹی تھیں اور شمس صاحب حضرت میاں خیر الدین صاحب کے بڑے بھائی کے بیٹے تھے.اس طرح سرگودھا میں جو عزیزان ان کے رہائش پذیر تھے وہ یہ ہیں مکرم شش صاحب کی چا زاد ہمشیرہ آمنہ بیگم.مکرم شمس صاحب کے والد صاحب کے بڑے بھائی کے ایک بیٹے حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب ، کرم شمس صاحب کی اہلیہ ممانی سعیدہ صاحبہ کی رشتہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر سلیمہ اختر اور ڈاکٹر قانتہ صادقہ اہلیہ ڈاکٹر شیخ صاحب.مکرم شمس صاحب مع اہلیہ سرگودھا ملنے آئے ہوئے تھے.ممانی سعیدہ اور ڈاکٹر سلیمہ اختر دونوں میری والدہ آمنہ بیگم سے ملنے بلاک 22 سرگودھا آئی ہوئی تھیں کہ سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں مکرم شمس صاحب نماز عصر ادا کر رہے تھے جبکہ ہارٹ اٹیک ہوا.ابھی تھوڑی ہوش میں تھے کہ ڈاکٹر شمیم احمد شیخ گھر پہنچ گئے.ابھی ابتدائی طبی امداد شروع کرنی ہی تھی کہ آپ وفات پاگئے.فوراً بلاک 22 یعنی ہمارے گھر سے ممانی سعیدہ کو بلایا گیا.جماعت کے بہت سے احباب جمع ہو گئے.حضرت مرزا عبد الحق صاحب، ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب نائب امیر، ماسٹر محمد الدین صاحب کوٹھی پہنچ گئے.جلد ہی مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب نے ربوہ پہنچانے کا انتظام کیا اور اس طرح وہ بزرگ جو خود چل کر اہلیہ کے ساتھ سرگودھا آئے تھے واپس ربوہ بھی اہلیہ کے ساتھ خاموشی کی حالت میں پہنچ گئے اور تدفین عمل میں آئی.مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کی اہلیہ وفات پا چکی تھیں.مکرم مولا نائٹس صاحب نے حافظ صاحب سے ڈاکٹر سلیمہ اختر کے رشتہ کی تجویز پیش کی اور اس طرح یہ رشتہ طے پا گیا.مکرم ڈاکٹر حافظ صاحب تو وفات پاچکے ہیں مگر حضرت مولانا صاحب کی تحریک شدہ ڈاکٹر سلیمہ اختر باحیات ہیں اور بلاک 12 سرگودھا میں مقیم ہیں.وفات کے روز مکرم مولانا صاحب ماسٹر محمد الدین صاحب انور کے گھر ان سے ملنے آئے تھے کہ اُسی روز وفات پائی.یہ تمام واقعات محترمہ بشریٰ صاحبہ اہلیہ ماسٹر محمد الدین صاحب انور نے تحریر کروائے ہیں کہ یہ اس وقت کی چشم دید گواہ تھیں.( مکتوب بنام مؤلف محررہ اکتوبر 2006ء) آپ کے وصال پر آپ کے بیٹے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس ( مرحوم) نے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس احباب جماعت کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے لکھا: 40 40 1953ء کے فسادات کے متعلق تحقیقاتی عدالت کے سامنے جماعت احمدیہ کا مؤقف پیش کرنے کے سلسلہ میں آپ نے بہت محنت سے کام کیا.اس کے بعد آپکی صحت کمزور ہوگئی.بعد میں صحت کی خرابی کی وجہ سے ہسپتال داخل ہو گئے تو معلوم ہوا کہ آپ کو پلورسی ہے اور ذیا بیطیس بھی.ذیا بیطیس کیلئے دوائی استعمال کرتے رہتے لیکن جس قدر آرام کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہ مل سکا.کچھ عرصہ کے بعد آپ کو دل کی درد (Angina Pectoris) کی تکلیف بھی شروع ہوگئی.آخری دنوں میں تکلیف کچھ زیادہ ہوگئی تھی اور 13 اکتوبر 1966 ء کو آپ سرگودھا تشریف لے گئے اور عصر کی نماز کے وقت پھر درد محسوس ہوئی.دوائی وغیرہ لینے سے طبیعت سنبھل گئی لیکن مغرب کی نماز کے بعد آپ کو دوسری مرتبہ سخت درد ہوئی اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ان کی وفات کے موقعہ پر جہاں پاکستانی احباب نے ہمارے خاندان کے ساتھ دلجوئی اور ہمدری کا اظہار فرمایا ہے اور کثیر تعداد میں ان کے جنازہ میں شرکت فرمائی ہے وہاں امریکن جماعتوں نے بھی بہت ہمدردی فرمائی ہے.چنانچہ مکرم سید عبد الرحمن صاحب،مولاناشکر الہی صاحب، مولانا بنگالی صاحب، مولانا میجر عبد الحمید صاحب اور سید جواد علی صاحب ،سب نے اظہار ہمدردی فرمایا.مکرم ڈاکٹر نصر اللہ خان صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ ہمارے لئے کھانا بھی لائے اور مکرم داؤد احمد ملک اور ان کی اہلیہ صاحبہ بھی ہمارے لئے کھانا لائے اور ہماری دلجوئی فرمائی اور بہت سے احباب نے ہمارے ساتھ تعزیت فرمائی.اللہ تعالی ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نہایت مشفقانہ رنگ میں حضرت ابا جان کی تعزیت فرمائی.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.(الفضل ربوہ 20 دسمبر 1966ء) آپ کا وصال 13 اکتوبر 1966ء کی شام حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے سرگودھا میں ہوا.آپ کے وصال پر متعدد ادارہ جات اور جماعتوں کی طرف سے تعزیتی پیغامات موصول ہوئے.بطور نمونہ بعض کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے.(انفرادی خطوط اور تار اس کے علاوہ ہیں ) لوکل انجمن احمدیہ مجلس عاملہ لجنہ اماء الله مرکز یہ کارکنان تحریک جدید انجمن احمدیہ، کارکنان
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 41 نظارت اصلاح و ارشاد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ،مجلس وقف جدید انجمن احمد یہ، الشركة الاسلامیہ،صدر انجمن احمد یہ پاکستان مجلس انصار اللہ مرکز یہ نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ مجلس کار پرداز مصالح قبرستان بہشتی مقبره ربوه جماعت احمدیہ انگلستان، جماعت احمدیہ ضلع جہلم مجلس اطفال الاحمدیہ دار الرحمت وسطی ربوہ مجلس خدام الاحمدیہ خوشاب، جماعت احمدیہ کو ہاٹ ، لجنہ اماءاللہ مردان ، جماعت احمد یہ ظفر وال ضلع سیالکوٹ ، جماعت احمد یہ میر پور خاص، لجنہ اماء اللہ کنری، جماعت احمدیہ اوچ شریف ضلع بہاولپور، جماعت احمد یہ گھنو کے حجہ ، انجمن احمد یہ میمن سنگھ مشرقی پاکستان، جماعت احمد یہ درلیال جٹاں آزاد کشمیر، جماعت احمدیہ کوٹلی آزاد کشمیر، وقف جدید انجمن احمد یہ قادیان.مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو الفضل ربوہ ماہ اکتوبر نومبر، دسمبر 1966ء) تعزیت کے پیغامات کا شکریہ آپ کے وصال پر بیسیوں احباب نے خطوط و تعزیت کے پیغامات ارسال کئے.ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مکرم منیر الدین صاحب شمس ( سابق نائب امام مسجد فضل لندن و امیر جماعت احمد یہ کینیڈ او حال ایڈیشنل وکیل التصنیف مقیم انگلستان ) تحریر کرتے ہیں : مورخہ 13 اکتوبر 1966ء کی شام کومحترم والد ماجد حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اچانک وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اس موقع پر احباب نے محترمہ والدہ صاحبہ اور محترم نانا جان خواجہ عبید اللہ صاحب اور چا محترم مولوی قمر الدین صاحب کو بہت سے خطوط اور تار ارسال کر کے ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے اور کئی اداروں کی طرف سے تعزیتی قرار دادیں بھی موصول ہوئی ہیں.سر دست ان کا فرداً فرداً جواب دینا مشکل ہے.رفتہ رفتہ جواب ارسال کرنے کی کوشش کی جائے گا.فی الحال محترمہ والدہ صاحبہ اور ہم سب احباب جماعت کے تہہ دل سے شکر گزار اور دعا گو ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اجر عظیم عطا فرمائے.آمین.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہم سب بدل و جان شکر گذار ہیں اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواتین مبارکہ اور صاحبزادگان کے بھی.اسی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس طرح صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے اداروں کے معزز ارکان اور دوسرے تمام تعزیت کیلئے آنے والے احباب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان سب نے اس صدمہ عظیم میں ہم سب سے ہمدردی فرمائی.جزاهم الله احسن الجزاء (الفضل ربوہ 20 اکتوبر 1966 ء صفحہ 8) 42
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس تيسرا باب والدین، ابتدائی حالات، وقف 43
حیات ٹس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی 44 آپ 1889ء میں سیدنا حضرت اقدس کی بیعت میں شامل ہوئے.رجسٹر بیعت اولی کے مطابق حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے والد محترم حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوائی کے کوائف حسب ذیل ہیں: نمبر شمار : 150 تاریخ عیسوی: 23 نومبر 1889ء بروز جمعہ نام مع ولدیت میاں امام الدین ولد محمد صدیق قوم وا ئیں عرف کشمیری موضع سیکھواں ضلع و تحصیل گورداسپور بقلم خود، پیشه شال بافی خدمات سلسلہ رجسٹر بیعت اولی نمبر شمار 150 از خلافت لائبریری ربوہ ) جب گورداسپور میں مولوی کرم دین صاحب سکنہ بھیں (ضلع جہلم) کے مقدمہ کے سلسلہ میں عدالت میں پیشیاں پے در پے ہوتی رہیں اور دو سال مقدمہ چلتا رہا حضرت میاں امام الدین صاحب نے گورداسپور میں ایک مکان کرایہ پر لیا اور وہیں قیام کیا اور حضرت اقدس کو دبانے کی خدمت سر انجام دیتے رہے.(۱.روزنامہ الفضل 11 مئی 1980 ء،۲.ایضاً8 ستمبر 2000ء) حضرت مولانا قمر الدین مرحوم سیکھوانی تحریر کرتے ہیں:.” میرے تایا حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی 2 مئی بروز جمعہ بیمار ہوئے.ڈاکٹری تشخیص تھی کہ آپ کو سو ہضمی کی شکایت ہو گئی ہے.ڈاکٹری اور یونانی علاج ہر ممکن کوشش کرایا گیا مگر انسانی تدبیر پر خدا کی تقدیر غالب آئی اور آپ ساتویں روز جمعرات کے دن بوقت تقریباً 5 بجے شام اپنے حقیقی مولا سے جاملے.انا لله و انا اليه راجعون.مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخلص اور اولین صحابہ میں سے تھے.بیعت کے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اعلان کے بعد جلد ہی سلسلہ بیعت میں منسلک ہو گئے اور پھر وفات تک پوری استقام دکھائی.45 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 313 صحابہ میں آپ کا نام بتیسواں ہے [ ضمیمہ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 325].سنایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب 313 اصحاب کے نام لکھے تو بعض لوگ درخواست کرتے تھے کہ حضور ہما را نام بھی درج کر لیا جائے مگر ہمیں کچھ علم نہ تھا.ایک دن ہم تینوں بھائی جب سیکھواں سے قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہم نے آپ کے نام 313 اصحاب میں لکھ لئے ہیں.اس پر ہمیں بڑی خوشی اور مسرت حاصل ہوئی.مرحوم نہایت عابد، زاہد اور تہجد گزار تھے.نماز، چندہ اور تبلیغ سے ایک دم غافل نہ ہوتے تھے.ابتدائی ایام میں جبکہ با قاعدہ دعوت و تبلیغ کا صیغہ قائم نہ تھا آنریری طور پر تبلیغ کرتے تھے.ضلع گورداسپور کی بیشتر جماعتوں کے قیام میں آپ کا بھی دخل تھا.جب تک سیکھواں رہے اس جماعت کے سیکرٹری رہے اور جماعت کی خوب خدمت کرتے رہے.مولوی جلال الدین صاحب شمس کے ولایت جانے پر ان کو مجبور رہائش قادیان میں اختیار کرنی پڑی مگر باوجود اس کے جماعت سیکھواں کا کام اپنے ذمہ رکھا اور قادیان میں بھی مفوضہ کام نہایت خوبی سے سرانجام دیتے رہے.خلافت ثانیہ کے شروع میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعتوں کو سمجھانے کیلئے ضلع گورداسپور اور ضلع سیالکوٹ میں ایک وفد بھیجا جس کے ایک ممبر آپ بھی تھے.مالی قربانی ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دینی ضرورت کے لئے 150 روپیہ کی تحریک فرمائی.حضور کے اظہار پر مرحوم نے مع برادران ، اور منشی عبد العزیز صاحب پٹواری ڈیڑھ صد روپیہ کی رقم پیش کر دی.حضور بہت خوش ہوئے اور ایک اشتہار شائع کیا جس میں ان کا ذکر کیا اور تحریر فرمایا کہ ان لوگوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نمونہ دکھایا ہے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس قبولیت دعا 46 46 مرحوم کی اولاد چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتی تھی.کئی بچے فوت ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا.حضور نے کشتہ فولاد استعمال کرنے کا مشورہ دیا.حضور کے بابرکت مشورہ پر عمل کرنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ آپ کی اولا دزندہ رہی.مرحوم قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کی وجہ سے کثرت سے آمد ورفت رکھتے.جو ہمیں جانتا ہے اسے بھی طاعون نہیں ہو سکتی ایک دفعہ آپ کا لڑکا بشیر احمد ران میں گلٹی ہونے کے باعث بیمار ہو گیا.بعض لوگوں نے خیال کیا کہ طاعون ہے.مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضوڑ کو پہلے سے اطلاع ہو چکی تھی حضور نے فرمایا.یہ طاعون نہیں بلکہ داد ہے اور بڑے جوش سے فرمایا دیکھو جس کو ہم جانتے ہیں اسے بھی طاعون نہیں ہو سکتی اور جو ہمیں جانتا ہے اسے بھی طاعون نہیں ہو سکتی.مرحوم یہ کلمات سن کر گاؤں گئے اور تھوڑے دنوں میں بشیر احمد کو آرام ہو گیا.وفد تحصیل شکر گڑھ مرحوم کے اخلاص اور ایمان کی پختگی کا حال کسی قدر اس واقعہ سے لگ سکتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم سے بعض مبلغین کو تحصیل شکر گڑھ بھیجا گیا.وہاں مواشہ قوم کے متعلق خیال تھا کہ اسلام کے قریب آ رہی ہے.مبلغین کی تبلیغ کا یہ نتیجہ ہوا کہ کئی لوگ مسلمان ہونے کے لئے تیار ہو گئے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اطلاع بھجوائی گئی.حضور نے بیعت لینے کے لئے حضرت مرحوم کو منتخب فرمایا.شیخ مصری صاحب نے کہا کہ یہ شخص سادہ سا ہے اسے بھیجنا مناسب نہیں مگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کا مشورہ قبول نہ کیا اور فرمایا آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ان صحابہ کی قدرومنزلت معلوم نہیں.جب کوئی مبلغ نہ تھا تو یہی لوگ تبلیغ کرتے تھے اور دین حق لوگوں تک پہنچاتے تھے.چنانچہ مرحوم کو تحصیل شکر گڑھ بھیجا گیا.آپ نے کئی روز تک وہاں قیام فرمایا اور بیعت لی.“ روزنامه الفضل قادیان 16 مئی 1941 ، صفحہ 5)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مکتوب حضرت میاں امام الدین بنام حضرت مولا نائس صاحب 47 اکتوبر 1925ء میں عین جوانی کے عالم میں جبکہ حضرت مولانا شمس صاحب بلا د عر بیہ میں خدمات بجا وو لا رہے تھے آپ کے والد محترم نے شام میں آپ کے نام ایک مکتوب لکھا جسے ہدیہ قارئین کیا جارہا ہے: عزیزم مولوی جلال الدین فاضل سلمہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ دو خطوط آں عزیز کے پہنچ گئے.نہایت خوشی حاصل ہوئی.تمام حالات سے آگاہی حاصل ہوئی.گو جدائی کے صدمات ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے جو آنعزیز کوم رتبہ عطا کیا ہے ہر ایک کو نہیں ملتا.تبلیغ کا کام سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.سو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آں عزیز کو پسند فرما کر بھیجا ہے.اللہ تعالیٰ اس کام میں برکت عطا فرمائے اور ہر ایک طرح دین کی نصرت عطا فرمائے.جو حالات لوگوں کے تحریر کئے ہیں یہ حالات ہمیشہ ہی رسولوں کے وقت ہوتے رہے ہیں اور لوگ یہی کہتے رہے ہیں مگر کیا لوگ اپنی باتوں میں کامیاب ہوئے یا رسولوں کو کامیابی ہوئی ؟ الہی وعدہ ہے کہ وہ آخر کار اپنے رسولوں کی مدد کرتا ہے.بیشک اللہ تعالیٰ کا ہر دل پر قبضہ ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور یہ یقین ہے اور ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے ہیں، پورے ہوں گے اور ضرور ہونگے.یہ کام تو خدا تعالیٰ خود اپنے فضل سے کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.بمفت ایں اجر نصرت را دہندت آے اخی ورنہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا بکوشید اے جواناں تا بدین قوت شود پیدا بہار , رونق اندر ملت روضه شود پیدا سواب کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ دین میں قوت عطا فرمائے.اب خدا تعالیٰ نے آں عزیز کے سپرد یہ کام کیا ہے نہایت مضبوطئی دل سے یہ کام کرنا.گھبرانا نہیں.آنکھوں کے سامنے وہ نظارے رکھنے چاہئیں.کیا حضرت ابراہیم کا دل چاہتا تھا کہ ہاجرہ اور اپنے بچے اسماعیل کو جنگل میں چھوڑ آؤں مگر وہ کام خدا کے حکم کے ماتحت کرتے تھے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 48 پھر انہیں اس تابعداری کے کیا مراتب ملے.آج دنیا ان کی سنت پر چلتی ہے.علی ہذا القیاس بہت سی نظیریں قرآن شریف سے مل سکتی ہیں.دعا بہت چاہئے.یہ دن خدا کے ملنے کے دن ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کامیابی عطا کرے.امام الدین از سیکھواں بقلم خود الفضل قادیان 29 اکتوبر 1925 ء صفحه 2) حضرت میاں امام الدین صاحب کی زندگی کا ایک واقعہ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے بیان کرتے ہیں :.وو چند دن ہوئے میاں امام الدین صاحب کی فوتیدگی کی خبر ” الفضل میں پڑھ کر دل حزیں ہوا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے.آپ جب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے باقاعدہ مبلغ نہ تھے اس وقت ضلع گورداسپور میں ایک مبلغ اور مناظر کا کام کرتے رہے.یہی وجہ ہے کہ ضلع گورداسپور کی بہت سی جماعتوں کی ترقی اور تربیت میں آپ کا بڑا حصہ ہے.خصوصاً ہماری جماعت ( موضع ہر سیاں) جو حضرت میاں صاحب کے گاؤں سے صرف دو میل کے فاصلہ پر واقع ہے آپ ہی کی تبلیغ اور تربیت کا نتیجہ ہے.اطاعت میں برکت ہے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فرمانبرداری اور اطاعت کا مجسم نمونہ تھے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں دو تین غیر احمدی مولوی موضع ہرسیاں میں آگئے اور انہوں نے مسجد میں حضور کے خلاف بد زبانی شروع کر دی.ہرسیاں میں اس وقت صرف دو تین ہی احمدی تھے.یہ لوگ میاں صاحب کو بلانے آئے کہ چل کر ان غیر احمدی مولویوں سے بحث کریں.میاں صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مناظرہ کے لئے اجازت مانگی جس پر حضوڑ نے فرمایا ” بحث کرنے کی اجازت نہیں.یہ سن کر میاں صاحب ہر سیاں کے احمدی احباب کے ساتھ ہر سیاں چلے آئے مگر مناظرہ کرنے سے انکار کر دیا.آخر جب ان مولویوں نے یہ کہہ کر تنگ کرنا شروع کیا کہ مناظرہ کرنے کی جرات نہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 49 تمام حالات عرض کرنے کے بعد مناظرہ کی اجازت مانگی.اس پر حضور نے پھر یہی فرمایا ” مناظرہ کرنے کی اجازت نہیں“.میاں صاحب فرمایا کرتے تھے ہم نے گاؤں سے باہر سارا دن گذار امگر مناظرہ سے انکار کر دیا گو مخالف جو مونہہ میں آیا کہتے رہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس فرمان کا یہ اثر ہوا کہ چند غیر احمدی شرفاء نے ان مولویوں کو ان کی بدزبانی کی وجہ سے خود گاؤں سے نکال دیا اور دوسرے تیسرے دن جمعہ کی نماز کیلئے پندرہ سولہ آدمی قادیان گئے تا یہ دیکھیں کہ جس شخص کو یہ مولوی بُرا کہتے ہیں وہ واقعی ایسا ہے؟ سب کے سب دوست جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کے لئے عرض کیا.اس طرح وہ لوگ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.میاں صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا ایمان ہے کہ اگر مناظرہ ہوتا تو شاید اس وقت ایک بھی احمدی نہ ہوتا.چونکہ حضور کی زبان میں برکت ہے اس لئے مناظرہ نہ ہونے کی صورت میں غیر احمدی مولویوں کی بد زبانی کا بُرا اثر پڑا اور احمدیوں کی شرافت کا اچھا اثر ہوا اور کئی لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.روز نامه الفضل قادیان 23 مئی 1941 ء صفحہ 3) محترم شمس صاحب کے والد صاحب اپنے بھائیوں میں منجھلے بھائی تھے.نہایت سادہ مزاج تھے.پختہ ایمان رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھائیوں کے ساتھ اکثر ملاقات رہتی تھی اور ایک اسلامی رنگ ان لوگوں پر چڑھا ہو ا تھا.یہ دینی تقاریب میں شامل ہوتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف جو مقدمات بنائے جاتے تھے ان کی پیروی میں حضور علیہ السلام کی ہمرکابی کا شرف ان سب کو حاصل تھا.(سیرت حضرت مولانا جلال الدین شمس، از محمد منور خان، غیر مطبوعہ ) حضرت حکیم محمد اسماعیل ابن حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: میں چونکہ فیض اللہ چک کا رہنے والا تھا اور سیکھواں وہاں سے قریب ہی تھا اس لئے جب ان لوگوں کی خدمات کی ضرورت پڑتی تو مجھے بھجوایا جاتا.تو میں صبح سویرے جا کر بتا دیتا کہ حضور نے آپ کو طلب فرمایا ہے تو یہ صاحبان اسی وقت قادیان روانہ ہو جاتے اور ہمیں اپنے گرم لحافوں میں لپیٹنے کی ہدایت کر جاتے کہ آپ لوگ سردی میں آئے ہیں کہیں سردی نہ لگ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 50 جائے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محترم شمس صاحب کے بھائی بشیر احمد صاحب بیمار ہو گئے اور خیال کیا گیا کہ ان کو طاعون ہو گیا ہے.شمس صاحب کے والد صاحب قادیان گئے اور حضور کی مجلس میں بیٹھے تو حضور نے از خود دریافت فرمایا کہ میاں امام دین کے لڑکے کے متعلق وہ کیا بات ہے.حضرت موصوف نے عرض کیا کہ اس کو گلٹیاں سی نکل آئی ہیں اور عام لوگ خیال کرتے ہیں کہ طاعون ہے.آپ نے فرمایا دیکھو! جس کو ہم جانتے ہیں اس کو طاعون نہیں ہوسکتی.حضور کے یہ فرمانے کے بعد وہ طاعون کی گلٹیاں غائب ہوگئیں اور ایک لمبے زمانہ تک بشیر احمد صاحب زندہ رہے.ان کی شادی خواجہ محمد شریف صاحب آف قادیان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ بیگم سے ہوئی.جن سے چار بچے ہوئے.دولڑ کے اور دولڑ کیاں.حضرت مولانا شمس صاحب کا اخلاص اس جگہ یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ جس وقت حضرت مولانا شمس صاحب تبلیغ کی خاطر کہا بیر ( فلسطین) میں مقیم تھے، آپ کو اپنے بھائی بشیر احمد صاحب کی وفات کا تار ملا اس کے ایک گھنٹہ بعد قاضی اور مشائخ مع چالیس اوباشوں کے حیفا سے کہا بیر کے گاؤں پہنچے اور شور مچایا کہ ہم مباحثہ کیلئے آئے ہیں.حضرت شمس صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے اس وقت مجھے سب ہموم و عموم کو چھوڑ کر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے.احمدی احباب نے روکا اس ڈر سے کہ کہیں فساد نہ ہو جائے لیکن میں نے کہا کہ اگر میں ان کے سامنے نہ گیا تو کہیں گے بھاگ گئے.آپ نے ان سے مناظرہ کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی.چنانچہ اس کے بارہ میں آپ کا بیان ہے: رئیس الجمعیۃ الاسلامیہ نے مجھ سے بہت سے سوالات کئے جن کے میں نے جوابات دیئے اور آخر کار متعجب ہو کر کہنے لگا آپ نے تمام علوم اور عربی زبان کہاں سیکھی ہے.میں نے کہا قادیان سے.پھر مدرسہ احمدیہ قادیان کے نظام کے متعلق بتایا.دو گھنٹہ تک مباحثہ کر کے واپس چلے گئے.راستے میں جو احمدی ان کے ساتھ تھے.ان سے مراد اصفہانی کے متعلق کہا گیا کہ یہ عیسائی ہے.اس نے خوب انا جیل کا مطالعہ کیا ہوا ہے جن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا مگر دوسرے دن حیفا کے احمدیوں نے خبر بھیجی کہ آپ کے پاس کل مراد الاصفہانی اور فلاں شخص آئے تھے.اس کے بعد اس کیلئے کہا بیر
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس میں آنا سخت مشکل ہوگیا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو شرق الاردن کا ایک رئیس اور عیسائی کہا تھا.نیز اس نے یہ بھی سمجھ لیا کہ مباحثہ کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے اس لئے وہ بھی واپس قدس چلا گیا.51 اس کے بعد محمد شنقیطی مغربی کو جو بہت مدت تک مکہ مکرمہ میں درس دیتے رہے اور مصر میں بھی اکابر علماء میں شمار کئے جاتے ہیں مصر سے بلوایا اور پھر 24 اگست کو اسے نیز عوام اور علماء کا ایک بڑا گر وہ جس میں قاضی حیفا بھی تھا، لے کر ایک بجے کے قریب کہا بیر پہنچ گئے جن کے بیٹھنے کے لئے گاؤں سے باہر خروب کے درختوں کے نیچے چٹائیاں بچھا دی گئیں اور گدیلے وغیرہ بچھا دیئے گئے.چونکہ ان کے ساتھ بہت سے اوباش لوگ بھی تھے اس لئے احمدیان کبابیر کی رائے تھی کہ ان سے گفتگو نہ کی جائے اور اتفاقاً ان کے آنے سے ایک گھنٹہ قبل مجھے ناظر صاحب دعوة و تبلیغ کی طرف سے میرے برادر مرحوم بشیر احمد کے وفات پا جانے کا تار ملا تھا.چونکہ میں چند روز کے بعد مصر آ جانے والا تھا اس لئے ضروری سمجھا کہ اسی روز ان سے مباحثہ کر لیا جائے تا بعد میں یہ نہ کہہ سکیں کہ دیکھو ہم ان سے مباحثہ کیلئے گئے مگر وہ گھر سے ہی نہ نکلے.اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے میدان مباحثہ میں چلے گئے.(الفضل قادیان 20 نومبر 1930ء) نوٹ : اس مباحثہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی سے ہمکنار فرمایا.اس مباحثہ کی تفصیل دمشق کے باب میں بالتفصیل پیش کر دی گئی ہے.مؤلف.میرے والد حضرت میاں امام الدین سیکھوانی حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کا بچپن سیکھواں میں گذرا، جہاں مدرسہ میں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی.پیدائشی احمدی ہونے کی برکت سے بچپن سے ہی آپ کا اپنے والد گرامی اور دیگر بزرگان کے ہمراہ قادیان آنا جانا رہا.حضرت مولوی صاحب کے والد ماجد کا وصال 8 مئی 1941ء کو ہوا جبکہ مولانا موصوف انگلستان میں خدمات بجالا رہے تھے.لندن سے آپ نے الفضل کیلئے ایک مضمون ارسال کیا جو دراصل آپ کے والد صاحب کی سیرت و سوانح پر مشتمل ہے، تاہم اس میں مولانا موصوف نے اپنے بچپن تعلیم اور وقف کے حوالہ سے بھی اظہار خیال فرمایا ہے.حضرت مولانا جلال الدین
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب شمس لندن سے تحریر فرماتے ہیں : وو 52...میرے والد ماجد میاں امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ 8 ہجرت بروز جمعرات اس دار فانی سے انتقال فرما گئے.انا للہ وانا اليه راجعون.اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے آمین.مجھے ان کی اس دار فانی سے رحلت کی افسوسناک خبر 10 ہجرت بروز ہفتہ ساڑھے گیارہ بجے بذریعہ تارملی.اس کے بعد بروز سه شنبه حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصره العزیز کی طرف سے تعزیت کا تار پہنچا جس میں حضور نے والد صاحب کی وفات کی خبر دینے کے علاوہ ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی نیز سارے خاندان کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ ہمارا والی و ناصر ہو.حضور کا تار میرے لئے خاص طور پر باعث ازدیاد تسکین ہوا." ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر جب ہفتہ کے روز مجھے یہ غیر متوقع اندوہناک خبر ملی اس وقت چند منٹ تک تو سکون و جمود کی حالت طاری رہی.پھر والد صاحب مرحوم کے ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے جانے کے تصور اور ان کی تکالیف کے خیال نے جو انہوں نے میرے بچپن سے لے کر اب تک میری خاطر اٹھائیں اور پھر اپنی کوتاہیوں کو یاد کر کے جو میری طرف سے ان کی خدمت کے سلسلہ میں ہوئیں سخت حزین و شرمسار ہوا.جب میں استغفار پڑھتا مرحوم کیلئے دعا کرتا ہوا اضطرابی و بے چینی کے عالم میں ایک کمرہ سے دوسرے کمرہ میں چکر لگا رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے تو اچانک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام میری زبان پر جاری ہوا." ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.پس میں نے قبول کیا اور تذکرہ کھول کر دیکھا تو اس سے پہلے یہ الہام تھا.إِنَّمَا يُرِيْدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً.اور تفہیم دیکھی تھی کہ اے اہل خانہ خدا تعالیٰ تمہارا امتحان کرنا چاہتا ہے تا معلوم ہو کہ اس کے اراده پر ایمان رکھتے ہو یا نہیں اور تا وہ اے اہل بیت تمہیں پاک کرے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا.پس خدا تعالیٰ کے ارادہ پر امنا کہا اور سمجھا کہ یہ ایک خدائی امتحان ہے اور شاید اس سے اللہ تعالیٰ کو ہمارے قصوروں اور گناہوں کو بخشنا مد نظر ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس حزن و خوشی کے دو مختلف جذبات 53 مجھے اس افسوسناک خبر سے اضطرابا نہ حزن ہوا.اس خیال سے کہ ہمارے خاندان سے ایک نافع وجود اٹھ گیا جو ہر روز ہمارے لئے دعائیں کرتا تھا.لیکن دوسری طرف یہ بھی خیال آیا کہ آپ ایک خوش قسمت انسان تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود کا زمانہ پایا جس کے دیکھنے کی کروڑوں انسانوں نے خواہش کی لیکن وہ اپنی خواہش پورا کئے بغیر اس دنیا سے چل بسے.لیکن والد صاحب مرحوم نے نہ صرف اس مبارک موعود کا زمانہ ہی پایا بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ان کے اولین صحابہ اور خدام سے ہونے کا شرف بخشا اور خُدا کے مقدس مسیح نے ان کے حق میں اپنے قلم سے تحریر فرمایا کہ انہوں نے بیعت کے عہد کو کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے پورا کر دکھایا.پھر مصلح موعود کے خلافت کے عہد مبارک سے بھی ایک لمبا زمانہ دیکھنے کا موقعہ بخشا اس لئے ان کے حسن خاتمہ پر نظر کرتے ہوئے دل میں ایک خوشی کا جذ بہ بھی ہے کیونکہ آپ کا سانحہ ارتحال شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کے شعر کا مصداق ہے.53 عروسی بود نوبت ما تمت اگر بن نکوئی بود خاتمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذرہ نوازی والد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابہ میں سے تھے.دعوئی مسیحیت سے قبل بھی حضرت اقدس کے پاس آیا جایا کرتے تھے.ان کی قادیان میں کثرت آمد و رفت کی وجہ تعلقات رشتہ داری بھی تھی اس لئے کہ ہماری دادی مرحومہ (حضرت شرفوبی بی) جو بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں ، وہ میاں شریف کشمیری کے والد صاحب کی پھوپھی تھیں اس لئے جب قادیان آتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ملاقات کرتے....حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ میں بیعت شروع کی تھی.جب آپ اس سفر سے واپس تشریف لائے اور والد صاحب کو حضور کی بیعت لینے کا علم ہوا، تینوں بھائیوں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 54 جمال دین صاحب مرحوم اور میرے والد صاحب مرحوم اور میرے چچا میاں خیر دین صاحب نے بیعت کر لی.بعد میں میرے دادا اور دادی صاحبہ نے بھی بیعت کر لی.بیعت کے بعد جوں جوں عرصہ گزرتا گیا آپ کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھتا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قسم کی محبت اور شفقت کا ان تینوں بھائیوں سے اظہار کیا ہے اس کا اندازہ لگانا میری طاقت سے باہر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے جب قادیان آتے تو اپنے رشتہ داروں کے ہاں کھانا کھاتے لیکن دعوی کے بعد جب ان کی آمد ورفت سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے کی وجہ سے زیادہ ہوگئی تو کسی گفتگو کے سلسلہ میں جیسا کہ میں نے والد صاحب سے سنا ہے حضرت اقدس نے فرمایا کہ اب سے آپ ہمارے مہمان ہیں.والد صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد جب ہم قادیان آتے تو اکثر حضور کے دستر خوان اور لنگر سے ہی کھاتے.ظاہری لحاظ سے تینوں بھائی غریب تھے لیکن دل کے غنی تھے اور ہر حال میں قانع اور خدا تعالیٰ کے شکر گزار تھے.بے شک وہ غریب تھے لیکن اس غربت پر ہزاروں امارتیں قربان.بڑے بڑے امیروں، دولتمندوں اور بادشاہوں کے نام دنیا سے مٹ جائیں گے اور ان کا کوئی نام لیوا نہ ہوگا لیکن یہ تینوں غریب بھائی اور ان کے دوست منشی عبد العزیز صاحب آسمانی بادشاہت کے فرزندوں کا نام رہتی دنیا تک جریدہ عالم پر ثابت و قائم رہے گا.ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریده عالم دوام ما ہمارے گاؤں سیکھواں میں احمد یہ جماعت تینوں بھائیوں کی تبلیغ سے قائم ہوئی.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں.اس گاؤں میں احمدیت کا محرک اور بانی ایک کشمیری خاندان ہے اور وہ تین بھائی میاں جمال الدین ، میاں امام الدین ، خیر الدین ہیں.حضرت اقدس کے ساتھ ان کو بہت محبت اور اخلاص ہے.یہ تینوں بھائی ایک دوسرے سے اخلاص میں بڑھے ہوئے ہیں.بڑے مستعد اور جواں ہمت ہیں.ان کے ساتھ ہی ان کا ایک پرانا دوست اور دینی بھائی منشی عبد العزیز پٹواری سیکھواں ہے.یہ شخص اپنے اخلاص کا آپ نمونہ اور نظیر ہے.“
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 55 صرف سیکھواں ہی نہیں بلکہ ضلع گورداسپور کے دیہات کی بہت سی جماعتیں اُن سے مستفید ہوئیں.تینوں بھائیوں نے بہت سے مقامات پر تبلیغ کی اور مباحثات بھی کئے.تبلیغ اور سلسلہ کے دیگر کام والد صاحب مرحوم کو میں نے کئی دفعہ غیر احمدیوں کو تبلیغ کرتے سنا ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے اکثر آپ کے الہامات اور ربانی تائیدات اور پیشگوئیاں جن کے وقوع کے وہ خود چشمدید گواہ تھے پیش کیا کرتے تھے.مولوی کرم الدین والے مقدمہ کے حالات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر جہلم نیز ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ اور دیگر مقدمات جو گورداسپور میں ہوئے اور ان کے متعلق جو پیشگوئیاں پوری ہوئیں ان کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے کیونکہ اُن سب مقدمات کے وہ چشم دید گواہ تھے.یہ سب واقعات میں نے ان سے کئی مرتبہ سنے تھے.گورداسپور کے مقدمات کے سلسلہ میں آپ کو مرکز سے اگر گورداسپور جلسہ کا انتظام کرنے کی کوئی اطلاع ملتی تو آپ خواہ بارش ہوتی یارات کا وقت ہوتا ہر حال میں وہاں پہنچتے تھے.میرے ننھیال ( بھا گووالہ ) میں جب جاتے وہاں تبلیغ کیا کرتے.پنڈت لیکھرام کے قتل کے بعد جب آپ وہاں گئے تو وہاں کے آریہ سرداروں نے آپ کو مارنے کے لئے ایک منصوبہ کیا.وہ واقعہ لمبا ہے یہاں اس کا آخری حصہ درج کرتا ہوں.سرداروں نے اپنے مکان پر بلوا کر جہاں گاؤں کے اور سرکردہ بھی جمع تھے ان پر اس قسم کے الزامات لگانے شروع کئے کہ آپ یہاں فساد کروانا چاہتے ہیں مگر ثابت کوئی بات نہ کر سکے نیز ان سے یہ تحریر بھی مانگی کہ وہ پھر کبھی بھا گوالہ نہیں آئیں گے آپ نے انکار کر دیا.سردار نے کہا لکھنا پڑے گا.والد صاحب نے جواب دیا میں کبھی نہ لکھوں گا.سردار نے ایک شخص سے کہا قلم دوات لاؤ.اتنے میں میرے نانا جان میاں کریم بخش مرحوم کو پتہ لگ گیا اور وہ وہاں پہنچ گئے اور والد صاحب سے کہا تمہیں یہاں کس نے بلایا ہے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر مجلس سے باہر نکال لائے.والد صاحب کا خیال تھا کہ جو لوگ وہاں جمع تھے وہ نہیں جانے دیں گے مگر نانا مرحوم کی جرات کا ان پر کچھ ایسا رعب پڑا کہ سب خاموش رہ گئے.دوسرے روز جب اپنے گاؤں سیکھواں واپس آنے لگے تو گھٹیا نام نمبر دار سے جو آپ کا واقف تھا اور
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 56 اس مجلس میں حاضر تھا سرداروں کی اس کارروائی کا سبب دریافت کیا.اس نے کہا کہ آپ سے گفتگو کا سلسلہ بھی میری رائے کی بنا پر شروع ہوا تھا ورنہ تجویز دی تھی کہ آپ کو اندر بلا کر خوب مارا جائے اور چوری وغیرہ کا الزام لگا دیا جائے.اس نے وجہ یہ بتائی کہ سرداروں کا خیال ہے کہ پنڈت لیکھرام کا قاتل چھینہ ٹیشن سے اتر کر تمہاری معرفت قادیان گیا اور انعام و اکرام پا کر واپس ہو ا.آپ نے اصل حقیقت بتائی مگر اس پر آپ کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا.آپ نے سارا واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا اور حضور نے اپنا الہام و جـاعــل الذين اتبعوک فوق الذين كفروا الى يوم القيامة پڑھا.سلسلہ کی طرف سے جو تحریکات ہوتیں ان میں بقدر استطاعت حصہ لیتے اور سلسلہ کی طرف سے جو کام آپ کے سپرد کیا جاتا وہ رضا کارانہ احسن طریق پر بجا لاتے.جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں نے انہیں صبح کے وقت بلا ناغہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا ہے.آواز اچھی تھی.کام کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار بہ آواز بلند پڑھا کرتے تھے.بچپن سے میں نے انہیں فارسی قصیدہ مندرجہ ازالہ اوہام کے شعر پڑھتے ہوئے کئی مرتبہ سنا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو انہوں نے خدا کی پیشگوئیوں کے مطابق جلد جلد بڑھتے دیکھا اس لئے حضور کی ان کے دل میں بہت عظمت تھی.جب شیخ مصری کا فتنہ اٹھا اور ان کے خلاف اشتہارات نکالنے کی تجویز ہوئی تو میں نے والد صاحب کی خدمت میں لکھا کہ وہ اس تحریک میں میری طرف سے دور و پیہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خود حاضر ہو کر پیش کریں.اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ” بعد میں میں نے کچھ اپنے متعلق حضور سے عرض کرنا چاہا لیکن مجھ پر رقت طاری ہوگئی اور کچھ نہ کہہ سکا حضور سے ملاقات کرتے وقت ان کی اکثر یہی کیفیت ہوا کرتی تھی.میری تربیت میری تربیت اور تعلیم میں والد صاحب کا بہت دخل ہے.آپ کا نیک نمونہ ہر وقت میرے لئے خضر راہ رہا.تینوں بھائیوں میں سے سب سے زیادہ جو قادیان میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے آیا کرتے تھے وہ والد صاحب مرحوم تھے.میں پانچ چھ سال کا تھا جب سے مجھے والد
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 57 صاحب کے ہمراہ قادیان میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے آنا جانا یاد ہے.پھر طاعون کے ایام میں ربّ کل شی خادمک وغیرہ دعائیں بچپن سے انہی کی سکھائی ہوئی مجھے یاد ہیں.میں گاؤں کے مدرسہ میں تعلیم پاتا تھا کہ اخبار بدر، احکم اور اردور یو یو کے پرچے مجھ سے پڑھوا کر سنا کرتے تھے.پھر ایک دن ایسا آیا جو میری زندگی کے مستقبل کے لئے ایک فیصلہ کن دن کہنا چاہئے.جب میں مدرسہ احمدیہ کی دوسری جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت ہم سات طالب علم گاؤں سے روزانہ آیا کرتے تھے.لیکن جب میں تیسری جماعت میں ہوا.تو اس وقت صرف مولوی قمر الدین صاحب [ ابن حضرت میاں خیر الدین سیکھوانی ، خدام الاحمدیہ کے صدر اول مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) اور میں رہ گئے تھے اور دونوں ہی سکول چھوڑنے کا ارادہ کیا کرتے تھے.موسم گرما کی ڈیڑھ ماہ کی رخصتوں کے بعد جب مدرسہ جانے کا دن آیا تو میں نے انکار کر دیا کیونکہ صبح چار پانچ بجے کے قریب جبکہ ابھی اندھیرا ہی ہوتا تھا ہمیں گاؤں سے چلنا پڑتا تھا تا سکول میں وقت پر حاضر ہو جائیں.تب میرے والد صاحب نے مجھے مارا اور تقریباً ایک میل تک ساتھ آئے.میں ہچکیاں لیتا روتا ہوا ان کے ساتھ چلا گیا.اس کے بعد ہم کچھ مدت کے لئے اپنے رشتہ داروں کے گھر قادیان رہنے لگے.پھر اس کے بعد سکول چھوڑنے کا خیال نہیں آیا.وہ دن تھا اگر اس دن والد صاحب سختی نہ کرتے تو نمعلوم میری زندگی کا مستقبل کیا ہوتا.ان کی اس سختی کو یاد کر کے میں ہمیشہ ان کے لئے دعا کرتا ہوں.عزم و ہمت اور صبر و استقلال میں جب فلسطین میں تھا اور مخالفت کا بازار گرم تھا.بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک میری مخالفت کر رہے تھے.بعض مشائخ میرے مونہہ پر کہتے تھے کہ تم قتل کے سزاوار ہو.انہی ایام میں میرے اکلوتے بھائی بشیر احمد صاحب مرحوم وفات پاگئے.انہوں نے اپنے آخری ایام میں مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا.والد صاحب نے مجھے لکھا کہ تمہاری والدہ کی خواہش تھی کہ حضرت صاحب سے عرض کروں لیکن تم تبلیغ کے کام میں مصروف ہو میں نے کہنا مناسب نہ سمجھا لیکن اس سے قبل کا کو میری پھوپھی صاحبہ عرف مائی کا کو) نے ایک دفعہ حضور سے عرض کیا تھا تو حضور نے فرمایا ہمیں ان کے متعلق آپ کی نسبت زیادہ فکر ہے.چند روز
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس کے بعد بھائی مرحوم کی وفات کی خبر ناظر صاحب تبلیغ کی طرف سے بذریعہ تار پہنچی.بعد میں والد صاحب مرحوم کا خط ملا جس میں آپ نے قضاء الہی پر رضا کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری والدہ نے بھی قابل تعریف صبر کا نمونہ دکھایا ہے.میرا انگلستان کا سفر 58 جب میں انگلستان آنے لگا تو میں نے والد صاحب سے عرض کیا کہ وہ اب گاؤں سے قادیان آجائیں.چنانچہ اس وقت سے وہ گاؤں چھوڑ کر قادیان رہتے تھے اور ان کی موجودگی سے میں خانگی امور کی طرف سے بالکل بے فکر اور مطمئن تھا.گذشتہ سال آپ نے مجھے لکھا کہ عزیز حمید احمد اور عزیز محمودہ ( میرا بھتیجا اور بھتیجی ) اب جوان ہو گئے ہیں اور ان کی شادیاں کرنی ہیں سب کی رائے یہ ہے کہ تمہارے واپس آنے تک ملتوی رکھی جائیں میں نے جواب دیا کہ میری واپسی میرے اختیار میں تو ہے نہیں نمعلوم مجھے کتنی مدت ٹھہر نا پڑے.آپ گھر میں موجود ہیں آپ عزیزوں کی شادیاں کر دیں.چنانچہ اس سال اپنے آخری خط میں جو کیم مارچ کا لکھا ہوا ہے اور مجھے اپریل کے آخر میں ملا لکھا.اب حمید احمد کی شادی کی تیاری ہورہی ہے.بہتر تو یہ تھا کہ آں عزیز کی اس شادی میں شمولیت ہوتی مگر حضرت صاحب کی طرف سے ابھی کوئی خبر نہیں سنی کہ آنے کی کب اجازت ہوگی اور جنگوں کے باعث بھی روک رہی ہے کیونکہ آجکل آنا جانا مشکل ہو گیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا منشا ہے.شاید آں عزیز کی معرفت کوئی نشان قائم ہونا ہو.سب چیز خدا کے دست قدرت میں ہے.گذشتہ سال حمید کی شادی کے متعلق لکھا تھا تو اس کا جواب یہ آیا تھا کہ میرے اختیار میں کیا ہے میرے باعث شادی کو نہ روکنا اس واسطے سال گذر جانے کے بعد تیاری ہوگئی ہے.( یہ شادی کرنے کے چند روز بعد ہی آپ فوت ہو گئے.) ندائے غیب کبھی کبھی والد صاحب اپنے خطوط میں اپنے قومی میں ضعف آنے کا بھی ذکر کیا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ کو اپنی وفات کا احساس بھی بہت بڑھ گیا اور اپنی زیادتی عمر کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی.چنانچہ آپ نے اپنے خط مورخہ 1937-7-11 میں مجھے لکھا.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 59 59 میں جب بیمار تھا اور اپنی فصل ربیع کٹوانے کے لئے گاؤں میں گیا ہو ا تھا.مجھے کچھ بخار و کھانسی تھی.عشاء کے بعد جب میں چار پائی پر لیٹ گیا تو مجھے خیال آیا ابھی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اگر میری اجل قریب ہے تو تو ( بخدا ) زیادہ کر سکتا ہے کیونکہ مولوی جلال الدین یہاں نہیں.عمر زیادہ کرنے سے تیری ذات کو کوئی روکنے والا نہیں.جب صبح قریباً تین بجے تھے مجھے آواز آئی.السلام علیکم.بڑی بلند آواز سے.میں اُٹھ کر بیٹھ گیا.میں نے چار پائی کے چاروں طرف دیکھا تو کوئی شخص معلوم نہ ہوا.میں نے سمجھا کہ فرشتہ کی طرف سے سلامتی کا لفظ ہے.ابھی اچھی عمر کا کچھ حصہ رکھا ہے یہ اس کا فضل ہے.اس کے بعد آپ تقریباً چار سال تک زندہ رہے.اے میرے خدا! میں اپنے پیارے محسن باپ کی جدائی پر جو تیرے ارادہ اور قضاء سے واقع ہوئی راضی ہوں جیسا کہ میں نے اپنے اکلوتے بھائی کی وفات پر تیری قضا پر رضا کا اظہار کیا تھا.اے میرے پیارے مولا! تو جانتا ہے کہ جب سے مجھے یہ افسوسناک خبر ملی ہے کتنی مرتبہ میرا گنہگار اور شرمسار دل تیرے حضور گداز ہو کر تجھ سے مغفرت کا خواہاں ہوا.اے غفور و رحیم خدا! میں اپنے دل میں ان کوتاہیوں پر جو مجھ سے میرے محسن باپ کی خدمت کے سلسلہ میں ہوئی ہوں سخت نادم اور پشیمان ہوں.پس تو میرے گنا ہوں اور قصوروں کو معاف فرما اور مجھے توفیق بخش کہ میں اپنے پیارے باپ کی وفات کے بعد تیرے حضور دعاؤں کے ذریعہ ان کی خدمت کر سکوں.ہاں تو میری غم خوار والدہ ماجدہ پر بھی نظر رحمت فرما اور میری پھوپھی صاحبہ پر بھی کہ انہیں والد صاحب سے دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ محبت تھی اور ان کی عمر میں برکت بخش.نیز سارے خاندان کی طرف سے تیرے حضور ملتجی ہوں کہ تو ہمیں اپنی حفاظت میں رکھیو اور خلیفہ وقت کے دامن سے وابستہ اور ہر قسم کی ناپاکی اور گناہ سے بچائیو اور ابرار ہونے کی حالت میں اپنے پاس بلائیو.آمین.“ خاکسار جلال الدین شمس از لندن (روز نامہ الفضل قادیان8 جولائی 1941ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس وصال حضرت مولانا امام الدین صاحب سیکھوائی 60 60 ضرت میاں امام الدین صاحب کے وصال پر روز نامہ الفضل قادیان نے لکھا: یہ خبر نہایت رنج کے ساتھ سنی جائے گی کہ مولوی امام الدین سیکھوانی والد مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ انگلستان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت مخلص اور اولین صحابہ میں سے تھے چند روز بیمار رہنے کے بعد آج پانچ بجے بعمر قریباً 80 سال انتقال کر گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن.بعد نماز عشاء حضرت مولوی شیر علی صاحب نے ایک بہت بڑے مجمع سمیت نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کو مقبرہ بہشتی کے قطعہ خاص صحابہ میں دفن کیا گیا.احباب بلندی درجات اور پسماندگان کے لئے صبر جمیل کی دعا کریں.....66 الفضل قادیان 10 مئی 1941 ، صفحہ 2) حضرت حسین بی بی صاحبہ والدہ حضرت مولانا شمس صاحب بھا گودال میں ایک مختصری احمدی جماعت تھی اور وہاں سکھوں کا زور تھا اور کسی زمانہ میں لیکھر ام بھی وہاں جایا کرتا تھا.وہاں کے سکھ بھی اس سے عقیدت رکھتے تھے.اس خاندان کی ایک شاخ احمد نگر متصل ربوہ میں رہتی ہے جن میں حکیم محمد عبد اللہ صاحب آف بھا گووال معروف ہیں.حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی کی شادی بھاگووال ضلع گورداسپور کے ایک خاندان میں ہوئی.حضرت شمس صاحب کی والدہ کا نام حضرت حسین بی بی تھا جو حضرت کریم بخش صاحب کی بیٹی تھیں.[ حضرت ماسٹر کریم بخش صاحب بھی حضور کے ابتدائی صحابہ میں شامل ہیں ].ریکارڈ بہشتی مقبرہ کے مطابق آپ 1870ء میں پیدا ہوئیں اور 1891ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت کی تھی.آپ کا وصیت نمبر 434 ہے اور چھٹے حصہ کی وصیت کرنے کی سعادت حاصل کی.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں مدفون ہیں.حضرت مولانا شمس صاحب کے بڑے بھائی حضرت بشیر احمد صاحب کی پیدائش سے قبل حضرت حسین بی بی اور حضرت میاں امام الدین صاحب کے ہاں کئی بیٹے پیدا ہوئے مگر وہ بچپن میں ہی فوت جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اس کا ذکر کیا گیا تو حضور نے ایک انگریزی فولاد استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی جس کا نام Ferrite Ammonia Citrate ہے.چنانچہ حضور کے ارشاد
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 61 کے مطابق حمل اور رضاعت کے ایام میں یہ فولاد استعمال کروایا گیا تو اس کے بعد جو بچے پیدا ہوئے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہیں لمبی عمر میں نصیب ہوئیں.حضرت حسین بی بی صاحبہ خاموش طبیعت تھیں لیکن کبھی کبھی عند الضرورت بچوں کو شور شرابے سے منع کرنے کیلئے جلالی شان بھی ظاہر فرما دیتی تھیں.ان کے والد صاحب حضرت میاں کریم بخش صاحب تین سو تیرہ صحابہ میں سے تھے.نوٹ : ضمیمہ انجام آتھم میں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں نمبر 295 پر یوں درج فرمایا ہے : میاں کریم بخش صاحب مرحوم مغفور جمال پور ضلع لدھیانہ.] دیکھیں ضمیمہ انجام آنقم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 328) محترم محمد حسین صاحب ابن میاں عیسی صاحب مرحوم آف بھا گووال ( جن سے حضرت مولانا سٹس صاحب کی ہمشیرہ رمضان بی بی صاحبہ کی شادی ہوئی) نے بیان کیا کہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ جب کبھی احمد نگر ہمارے ہاں تشریف لاتیں تو خاموشی سے چار پائی پر بیٹھی رہتی تھیں.یعنی زیادہ باتیں نہیں کرتی تھیں اور میں علی وجہ الیقین شہادت دیتا ہوں کہ محترمہ موصوفہ اعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں.چھوٹے بچوں سے نہایت درجہ پیار اور محبت سے پیش آتیں.حضرت میاں کریم بخش صاحب کی اولاد میں سے میاں ابراہیم صاحب قادیان میں وفات پاچکے ہیں اور ان کے دو بیٹے حیات ہیں.محترمہ سعیدہ شمس صاحبہ (اہلیہ حضرت مولانا شمس صاحب ) نہایت دیندار خاتون تھیں جماعتی کاموں میں باقاعدہ حصہ لیتیں.آپ محلہ دار الصدر شرقی ربوہ کی صدر لجنہ بھی رہی ہیں.حضرت حسین بی بی صاحبہ کا وصال نوے سال سے زائد کی عمر میں 19 ستمبر 1960ء میں ہوا.آپ کا جنازہ حضرت مولانا شمس صاحب نے دار الضیافت کے بالمقابل گھاس کے پلاٹ میں پڑھایا جس میں کثیر تعداد میں احباب جماعت نے شرکت کی.بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو فرزند اور پانچ بیٹیوں سے نوازا.(الفضل ربوہ 21 ستمبر 1960ء) آپ کے بارہ میں مکرم مولانا منیر الدین صاحب شمس تحریر کرتے ہیں : حضرت داددی جان بھا گو وال تحصیل بٹالہ میں پیدا ہوئیں.آپ کا نام حسین بی بی تھا اور آپ کے والد کا نام ماسٹر کریم بخش تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1889ء میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب اعلان ماموریت فرمایا تو حضرت دادا جان میاں امام الدین نے اپنے دونوں بھائیوں سمیت بلا تاخیر بیعت کر لی.اسی طرح حضرت دادی جان نے بھی ابتدائی ایام میں ہی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس وو 62 بیعت کر لی تھی اور آپ نے اس عہد کو اپنے آخری سانس تک نہایت ہمت و جوانمردی سے نبھایا.چونکہ اس زمانہ میں تعلیم کا رواج نہ تھا اس لئے آپ کچھ زیادہ تعلیم نہ پاسکیں ہاں اپنے والد صاحب سے اتنا ضرور پڑھ لیا تھا کہ قرآن شریف بآسانی اور بڑی خوبی سے پڑھ سکتی تھیں.چنانچہ آپ روزانہ تلاوت قرآن پاک کرتیں اور نمازیں ادا کرتیں.مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب آپ بہت بوڑھی اور کمزور ہوگئیں تو آپ کی چار پائی قبلہ رخ بچھائی جاتی.ادھر اذان ہوتی اُدھر آپ نماز شروع کر دیتیں اور یہ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت کا اثر تھا.ایک مرتبہ آپ ابا جان کی چچی صاحبہ اور پھوپھی صاحبہ مائی کا کو کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ حضور بعض دفعہ بچے پیشاب کر دیتے ہیں اور کپڑے صاف نہیں ہوتے یا پھر کام پڑ جاتا ہے تو کیا ہم نماز ترک کر دیا کریں یا قضاء کیا کریں.تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تاکید فرمایا کہ نماز نہیں چھوڑنی چاہیے جس طرح بھی ہو سکے نماز پڑھ لینی چاہئیے اور خاص طور پر مغرب کی نماز کے متعلق فرمایا کہ اس وقت دن اور رات کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں اس لئے اسے ضرور وقت پر پڑھ لینا چاہئیے.حضرت دادی جان نے اس نصیحت پر آخری وقت تک پوری طرح عمل کیا اور کبھی بھی نماز ترک نہ کی.جو میاں صاحب کہندے نے اوہی کرو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1925ء میں حضرت ابا جان کو شام جانے کے متعلق فرمایا تو جب ابا جان نے حضرت دادی جان سے بات کی کہ حضور مجھے شام کے علاقہ میں بھیجوانا چاہتے ہیں تو آپ نے پنجابی میں فرمایا کہ وو جو میاں صاحب کہندے نے اوہی کرو یعنی جس طرح حضرت صاحب فرماتے ہیں ویسے ہی کرو.حضرت ابا جان فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ سلسلہ کے کاموں کے سرانجام دینے میں مجھے اپنے والدین کی طرف سے کبھی روک نہیں ہوئی.“ (مصباح سالنامہ 1969 ص78-79)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس بچپن تعلیم وتربیت 63 حضرت مولانا شمس صاحب ریکارڈ بہشتی مقبرہ کے مطابق یکم مئی 1901ء میں بعہد سعادت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت میاں امام الدین سیکھوائی کے ہاں موضع سیکھواں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے.آپ موصی تھے آپ کا وصیت نمبر 4367 ہے اور آپ 8 جون 1935ءکو عالمگیر نظام وصیت میں شامل ہوئے.سیکھواں سے ملحقہ دیہات ہر سیاں والا اور فیض اللہ چک بھی تاریخ احمدیت میں اہم مقام رکھتے ہیں.بچپن کے زمانہ میں حضرت مولانا شمس صاحب کے والدین آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لیجایا کرتے تھے.حضور علیہ السلام اپنا دست شفقت آپ کے سر پر پھیرا کرتے.روایت مکرم حافظ سلیم احمد اٹاوی مرحوم بحوالہ خالد احمدیت مرتبه عبدالباری قیوم جلد اول صفحه 17) خود مولانا شمس صاحب نے بھی اپنے والد ماجد کے ذکر خیر میں بیان فرمایا ہے کہ چھ سات سال کی عمر میں مجھے اپنے والدین کے ہمراہ قادیان جانا یاد ہے.مکرم مولوی قمر الدین صاحب کی روایت کے مطابق آپ کا نام سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ” جلال الدین، تجویز فرمایا تھا.حضرت مولوی صاحب جن ایام میں لندن میں مقیم تھے اس دور میں رجسٹر روایات صحابہ کی جمع و تدوین کا کام جاری تھا.28 اگست 1938 ء کو آپ نے لندن سے رجسٹر روایات صحابہ کیلئے مختصر روایات تحریر کر کے ارسال کیں جن میں آپ اپنی قادیان میں آمد اور سیدنا حضرت مسیح موعود کی زیارت کے بارہ میں بیان کرتے ہیں : بچپن سے ہی قادیان آیا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دار میں جایا کرتا تھا.مجھے کوئی ایسے خاص حالات یاد نہیں البتہ جب فنانشل کمشنر قادیان آئے تھے تو میں بھی قادیان آیا تھا اپنے والد صاحب کے ساتھ.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فنانشل کمشنر سے گفتگو ہوئی اس کا نقشہ میرے ذہن میں ہے.مسجد اقصیٰ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کرنا یاد ہے.اسی طرح بچپن میں اپنے والد صاحب کے ساتھ کئی دفعہ قادیان آیا.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 6 صفحہ 243 )
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 64 اہلیہ حضرت مولانا شمس صاحب بیان کرتی ہیں کہ بچپن میں حضرت مولا نائٹس صاحب کو اوپر کی طرف دیکھنے کی عادت تھی جو شاید آپ کے آسمان احمدیت پر آفتاب نصف النہار کی طرح چپکنے کی علامت تھی.چنانچہ جب آپ کو ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لے جایا گیا تو حضور نے فرمایا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر دین کی بہت خدمت کرے گا.“ روایت مکر مہ اہلیہ حضرت مولانا شمس صاحب بحوالہ خالد احمدیت جلد اول از عبدالباری قیوم صفحہ 18) آپ کو بچپن سے ہی محنت اور جفاکشی کی عادت تھی.آپ کے اس وصف نے آپ کو زمانہ طالب علمی میں بہت ہی فائدہ پہنچایا.چنانچہ آپ دن رات اپنے تعلیمی اوقات کے علاوہ بھی خوب محنت کرتے.آپ کے ہاتھ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب یا کاپی رہتی اور آپ چلتے پھرتے جب بھی موقعہ ملتا کتب کا مطالعہ کرتے رہتے اور ساتھ ساتھ نوٹس بھی لیتے رہتے.ابتدائی تعلیم رواج کے مطابق آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سکھواں میں ہی حاصل کی اور پھر جب مدرسہ میں داخل ہوئے تو سیکھواں سے علی اصبح مدرسہ احمدیہ کیلئے قادیان آنے کی کیفیت بڑی دلچسپ ہوتی جس کا ذکر گذشتہ صفحات میں گذر چکا ہے.1910ء میں آپ مدرسہ احمدیہ قادیان کی پہلی کلاس میں داخل ہوئے جس کی کل آٹھ کلاسیں تھیں.اس وقت مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ انچارج حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ تھے.مولانا شمس صاحب ابتدائے زمانہ تعلیم میں ہر روز اپنے گاؤں سیکھواں سے پیدل چل کر قادیان آتے.مدرسم بند ہونے پر مسجد اقصیٰ قادیان میں سٹڈی کرتے اور مغرب سے قبل گھر پہنچ جاتے.کبھی حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کا درس سننے کے بعد قادیان سے روانہ ہوتے اور کبھی (اگر دیر ہو جاتی تو قادیان میں ) اپنے عزیزوں کے گھروں میں رات رہ جاتے.قریباً دو سال یہ سلسلہ رہا.پھر الحکم سٹریٹ میں مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا مرحوم کے مکان کے ساتھ کا کچا کوٹھا دو کمروں والا اول کرایہ پر لیکر پھر اسے خرید کر رہتے رہے.آپ کی پھوپھی صاحبہ حضرت مائی کا کو صاحبہ خادمہ خاص حضرت ام المومنین علیھا السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ اور کبھی آپ کی ہمشیرہ صاحبہ آپ کے کھانے کا انتظام کرتیں اور اس مکان میں رہتیں.“ (الفضل 17 نومبر 1966 ءصفحہ 5)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 65 حلیہ مبارک مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل بیان کرتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں آپ کا قد میانہ ، گول چہرہ سرخی مائل گندم گوں رنگ ، شکل خوبصورت تھی.اچکن اور شلوار قمیض کے ساتھ پگڑی استعمال کرتے تھے اور سادہ جوتا پہنتے تھے.لباس ہمیشہ صاف اور سادہ ہوتا تھا.بیحد صفائی پسند تھے.چہرہ پر ہمیشہ تبسم کھیلتا نظر آتا.نگاہ دور رس تھی.جو شخص آپ سے ایکد فعہ مل لیتا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا.( خالد احمدیت مرتبه عبدالباری قیوم جلد اول صفحہ 18) مدرسہ احمدیہ میں آپ کے چند ہم مکتبوں کا ذکر اس موقعہ پر آپ کے بچپن کے ساتھی اور ہم مکتب حضرت مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی سابق مبلغ سلسلہ گیمبیا کی شہادت درج کرنا مفید ہوگا.مولا نا بدوملہوی صاحب آپ کی تعلیم و تربیت کے بارہ میں بیان کرتے ہیں : محترم مولانا شمس صاحب 1911ء میں مدرسہ احمدیہ کی پہلی کلاس میں داخل ہو چکے تھے کہ چند دن بعد مجھے بھی آپ کا ساتھی بنے کا موقعہ ملا اور پھر کچھ دن بعد مکرم مولوی ظہور حسین صاحب فاضل بھی داخل ہوئے.مولوی محمد شہزادہ خان صاحب فاضل مرحوم اور مکرم مولانا شمس صاحب کے بڑے بھائی مولوی بشیر احمد صاحب پہلے ہی اس کلاس میں داخل تھے.تعداد طلبہ کے لحاظ سے ہماری کلاس بعد میں آنے والی کلاسوں سے بھی سبقت لے گئی اور خدا تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ ہماری کلاس کے اکثر طلبہ کو کسی نہ کسی رنگ میں سلسلہ کی خدمات بجالانے کی توفیق عطا ہوئی.اس کلاس کے طالب علموں میں کٹک کے موجودہ پراونشل امیر [1966ء] مولوی سید محمد احمد صاحب اور ان کے بھائی مولوی عبد السلام، بنگال کے مولوی ظل الرحمن صاحب مرحوم ، مالا بار کے مبلغ مولوی عبد اللہ صاحب فاضل اور ان کے بھائی مولوی محمد بالاری مرحوم کسی نہ کسی وقت شامل تھے.مولوی عنایت اللہ صاحب (بدو ملهوی) تاجر کتب قادیان ،مولوی ظفر اسلام صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ، ممتاز علی خان صاحب رام پوری قادیان [ ابن حضرت مولانا ذوالفقار علی خان گوہڑا، مولوی تاج الدین صاحب استاد متفرق کلاس ، چوہدری علی محمد صاحب
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 66 گوکھووال والے ( جو غالباً 1924ء میں سفر یورپ میں ہمسفر خادم تھے ) بھی اسی کلاس کے طلبہ میں سے تھے.محترم مولانا شمس صاحب نے مدرسہ احمدیہ کی ہر کلاس سے بفضلہ تعالیٰ اچھے نمبروں میں کامیاب ہوتے ہوئے 1919ء میں پنجاب یو مینورسٹی سے مولوی فاضل کا ڈپلومہ الفضل ربوہ 17 نومبر 1966ء صفحہ 5) آپ کے ایک دوست، ہم جلیس اور عزیز حضرت مولانا قمر الدین صاحب مرحوم ، صدر اول مجلس خدام الاحمدیہ آپ کے بچپن کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں : حاصل کیا.خاکسار اور حضرت مولانا ایک لمبازمانہ اکٹھے رہے ہیں.مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے کہ ہم اکٹھے سیکھواں سے قادیان تعلیم کے حصول کی غرض سے آتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہیڈ ماسٹر تھے.پھر بڑی کلاسوں میں جا کر ہم نے قادیان میں رہائش اختیار کی.وہاں عرفانی سٹریٹ میں ہم اپنے مکان کے ایک کمرہ میں رہتے تھے اور کھانالنگر سے کھاتے تھے.سفر و حضر میں اکٹھا وقت گذرتا تھا.قادیان کے گلی کوچوں میں اکٹھے نکلتے اور اکٹھے واپس آتے.سیر کو اکٹھے جاتے ، اکٹھے واپس آتے.یہی صورت نمازوں کی تھی.آخری کلاسوں میں گئے تو ہم بورڈنگ احمد یہ میں داخل ہوگئے اور وہیں سے آخری امتحان پاس کر کے سلسلہ کے کاموں میں لگ گئے.اس سارے عرصہ میں عینی شاہد کے طور پر یہ میرا بیان ہے کہ حضرت مولانا نہایت متدین علم دوست حلم و بردباری کے پیکر، خوش اخلاق اور سادہ طبیعت تھے.طالب عملی کے زمانہ میں امتحان دے کر جب ہم سیکھواں رخصتوں پر جاتے تو مولا نا قرآن کریم حفظ کیا کرتے تھے اور گو آپ سارے قرآن کے تو حافظ نہ تھے مگر قرآن کریم کا بیشتر حصہ ان کو حفظ تھا اور اس کے نتیجہ میں وہ موقع ومحل کی آیات اپنی گفتگو میں پیش کرتے تھے اور لوگوں پر آپ کے قرآنی استنباط سے نیک اثر پیدا ہوتا تھا.تحریک وقف زندگی ( خالد احمدیت جلد اول مرتبہ عبد الباری قیوم، جلد اول صفحات 6-7) حضرت مولانا صاحب کو یہ شرف بھی حاصل رہا ہے کہ جب سید نا حضرت خلیفہ المسح الثانی نے 1917ء میں زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے جن 63 نو جوانوں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 67 نے اپنے نام پیش کئے ان میں آپ بھی تھے.ان میں سے بعض کے اسماء حسب ذیل ہیں : مولوی جلال الدین صاحب شمس، مولوی عبدالرحیم صاحب ایم اے، شیخ یوسف علی صاحب بی اے، صوفی عبد القدیر صاحب نیاز صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی، مولوی ظہور حسین صاحب بخارا، مولوی غلام احمد صاحب، مولوی ابوبکر صاحب سماٹری ، مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی ، خان بہادر مولوی ابوالہاشم خان صاحب ایم اے، مولوی مبارک علی صاحب بنگالی ، شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ، اور مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل.الفضل قادیان 22 دسمبر 1917 نیز 17 جولائی 1943ء) مبلغین کلاس کے پہلے طالب علم حضرت مولانا شمس صاحب بیان کرتے ہیں : جب میں 1919ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کر چکا تو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے میرے لئے ایک نصاب تعلیم تجویز کیا.اس نصاب میں سب سے بڑا آئیٹم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ اور ان کا خلاصہ نکالنا تھا.اس اثناء میں مجھے چھ ماہ کیلئے نظارت تالیف و تصنیف میں بھی کام کرنا پڑا.اس وقت حضرت حافظ [ روشن علی صاحب مرحوم بھی اسی نظارت میں بطور نگران کام کرتے تھے اور [ حضرت مولانا عبدالرحیم در د صاحب مرحوم ناظر تھے.اس چھ ماہ کے عرصہ میں حضرت حافظ صاحب مرحوم کی نگرانی میں میں نے چند کتب اور بہت سے مضامین لکھے.1920ء میں جب مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب بدوملهوی وغیرہ مولوی فاضل کا امتحان پاس کر چکے تو مبلغین کلاس جاری کی گئی جس کا سب سے پہلا طالب علم خاکسار تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب بھی اس کلاس میں شامل ہو گئے.یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں حضرت حافظ صاحب مرحوم جیسے مشفق و مہربان اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول خدا ﷺ کی احادیث کا عالم باعمل استاد ملا جنہوں نے کمال ہمدردی اور بے مثل شفقت اور بے لوث محبت اور خاص محنت اور توجہ سے رات دن ایک کر کے ہمیں خدا تعالیٰ کی پاک کتاب اور احادیث اور دیگر علوم مروجہ کی کتب پڑھائیں.(الفرقان ربوہ دسمبر 1960 ء صفحہ 26) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ابتدائی طلباء کا ذکر کر دیا جائے.حضرت عرفانی الکبیر رقمطراز ہیں :
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 68 مبلغین کلاس کے طلبہ جو مدرسہ احمدیہ میں سات سال تک تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں.بعد ازاں انہوں نے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی ہے اب مبلغین کلاس میں لگے ہوئے ہیں جن کے اسماء یہ ہیں : (۱) مولوی ظہور حسین صاحب فاضل (۲) مولوی جلال الدین صاحب مولوی فاضل (۳) مولوی شہزادہ صاحب فاضل (۴) مولوی غلام احمد صاحب فاضل (۵) مولوی ابوبکر صاحب فارغ التحصیل مدرسہ احمدیہ (۶) مولوی زین العابدین صاحب ماریشس (۷) مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی...انہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے حضور یہ اقرار کیا ہے کہ سات سال تک برابر اسلام کی خدمت کریں گے اور سات سال خدا کیلئے صرف کریں گے.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ ان نوجوانوں کیلئے درددل سے دعا کریں کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین سال نہایت خیر و خوبی سے گذاریں اور ان سات سال کے عوض میں خدا ان کو زندگی بھر خدمت دین کی توفیق دے.آمین.(احکم قادیان 7 مئی 1921 صفحہ 5)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس میدان عمل 69 69 میدان عمل نام ہے زندگی کا، یہ نام ہے خدمت خلق کا ، نام ہے خدمت دین کا.ایک مبلغ اور واقف زندگی کا کل سرمایہ حیات میدان عمل ہے.اللہ تعالیٰ نے میدان عمل میں کام کرنے والوں یعنی مجاہدین کو قاعدین پر فضیلت دی ہے جیسا کہ فرمایا : فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِيْنَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِيْنَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِيْنَ عَلَى الْقَاعِدِيْنَ أَجْراً عَظِيْماً (سورة النساء : 96) یعنی اللہ نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک نمایاں مرتبہ عطا کیا ہے.جبکہ ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا ہی وعدہ کیا ہے.اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک اجر عظیم کی فضیلت عطا کی ہے.(ترجمه بیان فرمودہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع) حضرت مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک طویل مدت زمرہ مجاہدین میں اور کئی سال قاعدین میں خدمت و اشاعت اسلام کی سعادت بخشی ہے.آپ کا میدان عمل 1920ء میں ہی شروع ہو گیا جو 1966 ء تک تادم زیست جاری و ساری رہا.زمانہ طالب علمی میں 1920ء میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے مولوی ثناء اللہ امرتسری سے ایک ملاقات کی.ایک مدرسہ کے طالب علم اور مولوی صاحب کی ملاقات کی روئیداد مولانا شمس صاحب کی زبانی پیش ہے.مولوی ابوتراب ثناء اللہ امرتسری سے ایک ملاقات راقم بہمراہ چند طلباء مدرسہ احمدیہ قادیان، امرتسر میں مولوی ثناء اللہ کی طرف جا رہے تھے کہ راستہ میں مولوی ابوتراب کی دُکان آ گئی.سب نے ان سے ملنے کی خواہش کی اس واسطے ہم مولوی صاحب موصوف کے پاس جا کر بیٹھ گئے مولوی صاحب ہم سے یوں ہمکلام ہوئے.مولوی: آپ امرتسر کیسے تشریف لائے ہیں؟ احمدی: حضرت خلیفہ امسیح کا یہاں چار بجے لیکچر ہوگا لیکچر کے لیے آئے ہیں.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 70 70 مولوی: آپ نے تو حدیث کے خلاف کیا ہے کیونکہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لا تشدوا الرحال الا الى ثلاثة مساجد اور تم نے اس کے برخلاف شد رحال کیا ہے.احمدی: آپ جب خاکسار کے ساتھ راجہ سانسی میں مناظرہ کے لئے گئے تھے اس وقت آپ نے راجہ سانسی کی طرف شد رحال کیوں کیا تھا.مولوی : وہ طلب علم کیلئے شدّر حال تھا اور اس کے متعلق حدیث میں آچکا ہے کہ تم علم کو طلب کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے.احمدی : پھر آپ نے کہا تھا کہ میں آج بٹالہ میں ایک مریض دیکھ کر آیا ہوں.آپ نے بٹالہ کی طرف شد رحال کیوں کیا تھا؟ مولوی : جواب ندارد.احمدی: جب آپ نے خود اپنے فتوئی حدیث کے خلاف بٹالہ کی طرف شد رحال کیا اور پھر آپ کا اعتراض نہیں پڑ سکتا.جب کہ آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ طلب علم کیلئے شد رحال کرنا جائز ہے تو ہم نے بھی طلب علم کیلئے شد رحال کیا ہے جو کہ معین حدیث کے مطابق ہے لیکن آپ نے خلاف حدیث کیا کہ طب کرنے کیلئے بٹالہ کی طرف شد رحال کیا.مولوی : ان کے لیکچر سے طلب علم نہیں ہوسکتا کیونکہ نہ ان کے پاس کوئی سند ہے اور نہ وہ عالم نہ وہ فاضل ہیں اور تم نے ان کی تقریروں کو کئی دفعہ سنا ہوگا.تم ان کے لیکچر سے کیا علم حاصل کر سکتے ہو؟ احمدی : بتائیے.عالم ہونا سند پر منحصر ہے؟ نہیں.آپ یہ تو بتائیں سید عبد القادر جیلانی، حضرت عمر، ابوبکر اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کونسی سند عالم فاضل ہونے کی تھی اور نیز آپ بھی اپنی سند دکھلائیں.مولوی: میرے پاس سند ہے.احمدی : ذرا دکھا ئیں تو سہی.(کئی دفعہ کہا مگر دکھائی نہیں) آپ کا یہ کہنا کہ آپ نے کئی دفعہ تقریروں کو سنا ہو گا اس واسطے پھر سنے کی ضرورت نہیں.سو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ایک دفعہ
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 71 سننے سے پوری یاد نہیں رہ سکتی اس کو بار بارسننا چاہیے.ہاں تحریروں میں ایک بات بار بار لانا ٹھیک نہیں کیونکہ انسان ایک جگہ سے بار بار پڑھ سکتا ہے لیکن قرآن کریم میں ایک واقعہ بار بار بیان کیا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز آپ نے شاید اپنے جیسے مولویوں پر قیاس کر کے کہہ دیا کہ ہر دفعہ ایک ہی تقریر ہوتی ہے لیکن آپ جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر نئے سے نئے معارف کھولتا ہے.مولوی: جواب ندارد ( پھر مولوی صاحب کہنے لگے کہ آپ قرآن وحدیث اور فقہ کو مانتے ہیں ) ؟ احمدی: ہاں بسر و چشم مانتے ہیں.مولوی : لکھ دو لوکا غذ اور قلم دوات.احمدی: میں نے لکھا کہ میں قرآن مجید کو خدا تعالیٰ کا کلام جانتا ہوں اور ایسی احادیث کو جن کے متعلق قرآن کریم خلاف نہیں کہتا صحیح جانتا ہوں اور نیز فقہ کے ایسے مسائل جو کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے مخالف نہیں صحیح سمجھتا ہوں.اس پر مولوی صاحب جھنجھلائے اور آگ بگولا ہو گئے اور بہت واویلا کرنا شروع کیا.مولوی : تم اتنا فقرہ کیوں نہیں لکھ دیتے کہ میں قرآن اور حدیث اور فقہ کو مانتا ہوں اور کیوں تفسير القول بما لا یرضی قائلہ کر رہے ہیں.احمدى::تفسير القول بما لا يرضى قائلہ آپ کر رہے ہیں نہ کہ میں کیونکہ میں نے کہا تھا کہ میں مانتا ہوں اور میں اس بات کا حقدار ہوں کہ بتاؤں کہ میرا حدیث اور فقہ سے کیا مطلب ہے نہ کہ جو آپ کہیں میں اس کو لکھوں.مولوی: حروف المعانی کی تفسیر تو کی جاسکتی ہے کہ میری مراد اس لفظ سے فلاں معنی ہیں.لیکن تم اس کی تفسیر کیوں کرتے ہو.وہی فقرہ کیوں نہیں لکھ دیتے.احمدی: میں نے تفسیر اس واسطے کر دی کہ حدیث کے ماتحت کئی قسم کی احادیث تھیں.ضعیف، موضوع صحیح.تو میں نے اس کی تفسیر کر دی کہ میری مراد اس سے ایسی احادیث ہیں جو کہ قرآن مجید کے خلاف نہ ہوں.مولوی صاحب پھر کہنے لگے کہ میرے ساتھ مناظرہ ثالث ٹھہرا کے کرلو.میں نے کہا کہ میں آپ کو تحریر میں تین بار چیلنج بذریعہ اخبار الفضل دے چکا ہوں جس کا آپ نے ابھی تک جواب نہیں دیا اور میں 11 دسمبر کے الفضل میں ثالث پر قرآن اور حدیث
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس سے بحث کر چکا ہوں.جس کا آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا.مولوی: میں نے اس کا جواب دے دیا ہے.احمدی: دکھاؤ.آپ کے پاس اخباروں کا فائل ہے.72 مولوی : یہ دیکھیے اس کا جواب ہے.احمدی: اس کا لکھنے والا کون ہے؟ [ نوٹ: اس کا لکھنے والا ممتاز ہاشم دہلوی تھا میں نے کہا آپ کا یہ کیسے ہوا.تو کہنے لگے کہ میرے اخبار میں شائع ہوا ہے سو اس لئے میرا ہے.میں نے کہا پیسہ اخبار میں بہت سے مضمون احمدیوں کے چھپتے ہیں کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ ایڈیٹر پیسہ اخبار احمدی ہے.اس مضمون میں میرے ان دلائل کا جو مذہبی مناظرہ میں ایسے ثالث کے عدم جواز پر دیئے ہیں جو تبدیلی مذہب کی شرط پر ہو، جواب کہاں ہے.اس پر مولوی صاحب لا جواب ہو گئے اور کوئی جواب بن نہ آیا اور کہنے لگے کہ آپ ابھی ثالث ٹھہرا کر مناظرہ کر لیں.خاکسار نے کہا کہ میں نے 11 دسمبر کے پرچہ میں یہی تو لکھا ہے کہ ثالث مذہبی مناظرہ میں نہیں ہونا چاہیئے.پہلے آپ اس کا جواب دیں پھر آپ سے مناظرہ کر لیا جاوے گا اور نیز میں آپ کو تین بار چیلنج دے چکا ہوں آپ نے اس کا جواب نہیں دیا لیکن پھر میں اب چیلنج دیتا ہوں کہ اگر مولوی صاحب مناظرہ کی طاقت رکھتے ہیں تو آئیں اور مناظرہ کر لیں.گھر میں گیدڑ بھپکیاں مارنے سے کیا فائدہ مثل مشہور ہے.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا آئیے اور بٹالہ میں ہی مناظرہ کر لیں جو کہ فریقین کے درمیان ہے.والسلام ( الحکم قادیان 14 مئی 1920 ء) آپ کی ساری عمر ہی میدان عمل میں خدمات دینیہ کے کارناموں سے بھری پڑی ہے جن کا اپنے اپنے محل و موقعہ پر ذکر کیا جائے گا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس تحریک شدھی ملکانہ میں خدمات جلیلہ 73 مسلمانان ہندوستان کیلئے 1923ء اور 1924 ء کے سال کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھے.جب ہر طرف ارتداد کا بازار گرم تھا اور سادہ لوح مسلمانوں کو شدھی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا تھا اس وقت سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحریک پر بیسیوں پر جوش نو جوانان احمدیت نے میدان ارتداد میں دن رات ایک کر کے اور کئی دن بھوکے پیاسے رہ کر گاؤں گاؤں بستی بستی اور قریہ قریہ پھر کر مسلمانوں کے ایمان بچانے کیلئے یادگار اور تاریخی خدمات سرانجام دیں.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے کئی وفود میدان ارتداد میں مسلمانوں کی خدمات کیلئے روانہ ہوئے.ان وفود کے نوجوانوں میں سیکھواں کے ایک پُر عزم نوجوان جلال الدین صاحب شمس بھی تھے.ان دو سالوں میں آپ نے بیسیوں مسلمانوں کے ایمان بچانے کیلئے سعی بلیغ کی.باوجود یکہ ان پر درد اور پر آشوب ایام میں ملاں حضرات حسب فطرتی روایت اور بعض مسلمان اخبارات بھی مجاہدین احمدیت کی کوششوں کو تضحیک و استہزاء کی نظر سے دیکھ رہے تھے تا ہم ان اندوہ ناک آوازوں کے باوجود ہمارے مجاہدین مبلغین نے ملکانہ راجپوتوں کی کئی پنچائتیں منعقد کروائیں.مولانا شمس صاحب نے میدان ارتداد میں کئی مناظرے اور مباحثے بھی کئے.مئی 1923 ء میں ضلع ایٹہ کے ایک گاؤں امر سنگھ میں آریوں کے پنڈت کا لی چون صاحب سے کامیاب مباحثہ ہوا جس کی تفصیل الفضل قادیان 21-24 مئی 1923ء میں شائع ہو چکی ہے.مجاہدین کا پہلا وفد جس کے امیر حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال تھے 19 افراد پر مشتمل قادیان سے روانہ ہو ا.اس وفد کی روانگی سے چند دن بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس بھی آگرہ اور اس کے ماحول میں مناظرات و تقاریر کیلئے بھجوائے گئے.( الفضل قادیان 15 مارچ 1923 ء- کارزار شدهی از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم ) میدان شدھی کی گوناگوں مصروفیات کے باوجود مولانا شمس صاحب کا قلم چلتا رہا اور الحکم اور ریویو آف ریلیجنز میں آپ نے کئی علمی وتحقیقی مضامین سلسلہ احمدیہ کی تائید میں لکھے.اسی عرصہ میں آپ کئی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 74 جلسوں میں بھی شریک ہوئے.اس عرصہ میں آپ نے کئی یاد گا ر مباحثات بھی کئے جن میں سے بعض کا ریکارڈ ملتا ہے اور بعض دستیاب نہ ہو سکے.لوہاری میں مباحثہ مثلاً لوہاری میں ایک مباحثہ ہوا.اس مناظرہ کے بارہ میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب المعروف سبز پگڑی والے اپنی خود نوشت سوانح میں بیان فرماتے ہیں: لوہاری گاؤں میں ہمارے ایک مبلغ مولوی عبد الخالق صاحب بڑی محنت سے کام کر رہے تھے.وہ ان دنوں احمد نگر ضلع جھنگ کے صدر ہیں.انہوں نے مجھ سے مشورہ کئے بغیر دیو بندیوں سے مناظرہ مقرر کر لیا.مقررہ تاریخ پر کافی مولوی صاحبان لوہاری پہنچ گئے اور ہماری طرف سے مولوی جلال الدین صاحب شمس ، مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی سیٹھ خیر الدین صاحب آف لکھنو ، قاضی عبد الرحیم صاحب اور اسلم صاحب آف فرخ آباد.غرضیکہ کافی احباب پہنچ گئے.مجھے مناظرہ کی شرائط طے کرنے کیلئے بھیجا گیا.میری واپسی پر مناظرہ کا آغاز ہوا.حیات و ممات مسیح پر دیوبندیوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ ان قادیانیوں کا علاج صرف ڈنڈا ہے اور کسی طریق سے ان کا علاج نہیں ہوسکتا.نیز گاؤں کے لوگ کھڑے ہوکر کہنے لگے کہ اگر علم کی بحث کرنا ہے تو مولویوں سے کرو اور اگر کسی سرے نے ڈنڈا چلانا ہے تو ہم پر چلائے.غرضیکہ مناظرہ اسی شور میں بخیر و خوبی ختم ہو گیا“ ( میری یادیں، باراول، ناشر رانا محمد اقبال 1994 ءصفحہ 65-66) حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل ( مدیر یویو آف ریلیچز اردو ) حضرت فاضل شمس سیکھوانی کی انسداد وارتداد ملکانہ میں خدمات و مصروفیات کی بابت تحریر کرتے ہیں : وو برادر عزیز القدر خواجہ شمس فاضل سیکھوانی انسداد و ارتداد ملکانہ میں حسب الارشاد حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مصروف ہیں.وہاں سے آپ دو چار روز کیلئے قادیان دار الامان تشریف لائے تو مجھ سے ذکر کیا مولوی ثناء اللہ کے رسالہ ” شہادات مرزا کا ایک دوست نے ریل میں ذکر کیا تھا اگر آپ کے پاس ہو تو مجھے دیدیں میں اس کا جواب لکھوں گا.چنانچہ برادر موصوف نے 31 جنوری 1924ء کو مجھے مسودہ پہنچا دیا.جن لوگوں کو
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 75 ذاتی طور پر خواجہ شمس صاحب کی مصروفیت کا علم ہے کہ دن رات وہ سفر اور بے اطمینانی وبے سروسامانی کی حالت میں رہتے ہیں وہ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر تائید ربانی میرے فاضل دوست کے شامل حال تھی.نہ اپنے وقت پر اختیار رکھتے ہیں کیونکہ جس وقت حکم ہوا اور جہاں حکم ہو فوراً ان کو اکثر پیادہ چل کر پہنچنا پڑتا ہے.پھر پاس کتاب کوئی نہیں رکھ سکتے ہیں.ایسی حالت میں سلسلہ احمدیہ کے پرانے دشمن کے مایہ ناز سرمایہ عمر گذشتہ اعتراضات کا اس خوبی سے قلع قمع کرنا ، خراج تحسین لئے بغیر نہیں چھوڑتا.جزاہ اللہ احسن الجزاء.میرا ارادہ تھا کہ مارچ کے رسالہ ( ریویو) میں یہ جواب نکال دوں مگر مذہبی کانفرس لاہور کا مضمون مقصد مذہب مل گیا.اس کی اشاعت کو میں نے مقدم کیا اور اب رسالہ میں یہ جواب شائع کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو ایک جہاں کیلئے ہدایت کا موجب بنائے.“ ریویو آف ریلیجنز قادیان اپریل 1924ء صفحہ 2) (نوٹ: آپ کی کتاب ” کمالات مرزا کا تعارف علمی کارناموں کے باب میں پیش کیا گیا ہے.مؤلف) آپ کی خدمات کے حوالہ سے مکرم مولوی قمر الدین صاحب مرحوم تحریر کرتے ہیں : متحدہ ہندوستان کی صورت میں مولانا تقریباً ہر علاقہ میں کسی جلسہ کی تقریب یا مناظرہ پر تشریف لے گئے تو اس کامیابی سے واپس آئے کہ آج تک علاقہ کے اپنے اور بیگانے آپ کو یاد کرتے ہیں.1924ء میں ملکانہ کے علاقہ میں فتنہ ارتداد کے موقع پر آریوں کے مد مقابل پر ہر جگہ شمس صاحب رضی اللہ عنہ جاتے اور اسلام کی برتری ثابت کرتے تھے اور آریہ مت کا رڈ کرتے تھے.( خالد احمدیت جلد اول مرتبه عبدالباری قیوم، جلد اول صفحات 6-7) میدان فتنہ ارتداد میں کام کیلئے احباب جلد آگر و پہنچیں اس حصہ کے آخر میں خاکسار یہاں حضرت مولانا شمس صاحب کی میدان ارتداد آگرہ سے لکھی ہوئی ایک تحریر نقل کرتا ہے، آپ تحریر فرماتے ہیں: آگرہ میں ہم ایک دن بیٹھے ہوئے اس بات پر غور وخوض کر رہے تھے کہ اب وہ جوش لوگوں میں کیوں نہیں رہا جو ابتداء میں تھا.پہلے پہل حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 76 76 فتنہ ارتداد کی روک تھام کیلئے جماعت میں تحریک کی تو کئی سو آدمیوں نے میدان فتنہ ارتداد میں کام کرنے کیلئے نام دیئے مگر بہت سے نام دینے والوں نے فتنہ ارتداد میں کام کیا اور ایسا کام کیا که قریباً تمام اخبارات ہندوستان نے یک قلم و یک زبان ہوکر احمد یہ جماعت کی مساعی جمیلہ اور خدمات حسنہ کا اعتراف کیا اور کہا کہ اس جماعت کا کام قابل تعریف اور سب جماعتوں سے اعلیٰ درجہ پر ہے مگر اب کچھ ست ہو گئے ہیں.اس پر ایک شخص نے دو احمدیوں کا ذکر کیا جنہوں نے اپنے نام فتنہ کی ارتداد کی روک تھام کرنے کے لئے دیئے تھے.آپس میں کہہ رہے تھے.پہلا : فتنہ ارتداد میں کام کرنے کیلئے نام تو دید یا تھا مگر اب جانے کو دل نہیں چاہتا.دوسرا: آپ فکر نہ کریں جس فہرست میں میرا اور آپ کا نام تھا وہ فہرست گم ہوگئی ہے.اسی طرح اور بہت سے ایسے اصحاب ہیں جنہوں نے پہلے جوش میں آکر نام تو دیدئے مگر کام کرنے کیلئے نہیں گئے.ان میں سے اکثر ایسے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو ایسے ہی رکیک اور لغو پوچ عذرات کی بنا پر تسلی دے دی ہے کہ اب ہم خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ نہیں کیونکہ دفتر والوں کا کام تھا کہ وہ ہمیں بلاتے.ان کا نہ بلانا خواہ کسی وجہ سے ہو ہماری سرخروئی کیلئے کافی ہے مگر ایسے لوگوں کو واضح رہے کہ اگر انہوں نے اپنے نام صرف نام و نمود کی غرض سے دیئے تھے یا کسی شخص کو خوش کرنے کیلئے تو اور بات ہے اور اگر انہوں نے خدا تعالیٰ کا کام سمجھ کر دیئے تھے تو وہ یادرکھیں کہ اگر دفتر والوں سے ان کے اسماء کی فہرست گم ہوگئی ہے تو جو فہرست خدا تعالیٰ کے پاس ہے وہ گم ہونے والی نہیں.آج لوگوں کے سامنے تو کہہ سکتے ہو کہ ہم نے نام ہی نہیں دیا تھا مگر جب عالم الغیب خدا تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی تو اس وقت تمہارا کیا عذر ہو گا.اس دن رونا اور دانت پینا ہوگا.ایک انسان تو دوسرے انسان سے دھو کہ کھا سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ جو خبیر و بصیر اور دلوں کے حالات سے واقف ہے کیسے کسی کے دھوکہ میں آسکتا ہے.اور ایسے اشخاص کو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ان کے اسماء دفتر میں محفوظ نہیں رہے اور کوئی فہرست گم ہوگئی ہے تو ہوسکتا ہے اس میں بھی خدا تعالیٰ کو ان کا امتحان لینا منظور ہو.پھر کسی وقت جا کر کاغذات میں ان کے اسماء کی فہرست مل جائے یا نام معلوم ہو جائیں تو کیا وہ اس قابل سمجھے جائیں گے کہ ان سے کوئی دینی خدمت لی جائے.یہی سمجھا جائے گا کہ یہ دینی خدمت سر انجام نہیں دے سکتے.ہوسکتا ہے کہ
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس جیسے انہوں نے پہلے دھو کہ دیا اسی طرح اس بار بھی دھوکہ ہی دیں.77 اے نونہالان جماعت احمد یہ ایا درکھو خدا تعالیٰ آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ اب پھر روضئہ اسلام میں بہار ورونق پیدا ہو اور تمام عالم کی عصیان آلو د زمین پر جو کفر و سیاہ مستی کی دھواں دھار کالی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے تمام عالم تاریک و تار ہورہا ہے دور کرے اور اسلام کو منور چراغ کے نور سے روشن کرے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث کیا اور اس کی جماعت کو اسی طرح اس خدمت کیلئے انتخاب کیا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں صحابہ کو.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اس خدمت کو جو خدا تعالیٰ نے ان کے سپرد کی باحسن وجوہ سرانجام دیتے ہیں.اے اسلام کیلئے اپنے اموال اور نفوس کو قربان کرنے والی قوم ! تمہیں چاہئے کہ قربانیوں اور مجاہدات کرنے میں صحابہؓ کا نمونہ اختیار کرو.چاہیئے کہ تم میں سے کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو دینی کام کرنے سے جی چرائے.بلکہ استبقوا الخیرات کے حکم کے ماتحت ایک دوسرے سے بڑھ کر نیکی کرنے کیلئے قدم اٹھائے.زمین ہند میں فتنہ ارتداد کے موقع پر جو جان نثاری اور ایثار اور عالی حوصلگی اور انفاق فی سبیل اللہ کا نمونہ احمدی جماعت نے دکھایا وہ باقی تمام اسلامی جماعتوں سے کئی درجہ بڑھ کر ہے مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے اپنے اسماء اس کام کیلئے دیئے تھے ان کا سستی و کاہلی یا بعض نامعقول عذرات کی بناء پر نہ جان سخت نازیبا فعل ہے.بعض احباب عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ بہت گرم علاقہ ہے وہاں کی گرمی نا قابل برداشت ہے.ان کو سوچنا چاہئے کہ ان کے دوسرے بھائی بھی تو گرمی میں کام کر رہے ہیں.یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی جہاد پر نہ جانے والوں نے کہا تھا کہ لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرّ کہ گرمی میں کوچ مت کرو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرَاً لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ.(التوبة: 81) تو کہہ دے کہ دوزخ کی آگ زیادہ گرم ہے اگر ان کو سمجھ ہوتی.پس گرمی کا عذر بھی صحیح نہیں ہے.پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اتنا روپیہ خرچ کیا گیا اور اتنے مبلغین وہاں جا کر کام کر چکے ہیں مگر ظاہری طور پر نتیجہ کوئی دکھائی نہیں دیتا.اوّل آپ کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے اس کا نتیجہ بہتر نکالنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.دوم اس کام سے جو فائدہ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو وہ بہت بڑا فائدہ ہے.مخالف اخباروں نے جو کچھ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 78 جماعت احمدیہ کی تعریف میں لکھا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث لا يزال طائفة من امتی علی الحق میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کا ایک طائفہ حق پر ہو ا کرے گا اور وہ دشمنوں پر غالب رہے گا وہ فرقہ احمد یہ جماعت ہے.رہی یہ بات کہ سب کی سب ملکانہ قوم احمدی نہیں ہوئی.سو اس کیلئے یا درکھنا چاہئے کہ قوموں کا کسی جماعت میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہ کام ایک لمبے عرصہ کو چاہتا ہے.وہ قوم جو کئی سو سالوں سے مردہ چلی آتی ہے اور دین اسلام سے محض نا واقف ہو ان کی اصلاح ایک دوسال میں ہونا ناممکن (البقرہ: 156) ہے.سوم اگر کچھ بھی نتیجہ نہ نکلے تو بھی آپ کا فرض ہے کہ تبلیغ کریں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ.کہ بعض دفعہ ایسے طریق پر بھی ہم تمہیں آزمائیں گے کہ تم پر خوف آئیں گے.تمہیں بھوکے رہنا پڑے گا اور تمہارے مالوں کا بھی نقصان ہوگا ، مال خرچ کرنا پڑے گا.جان پر تکالیف اٹھانی پڑیں گی مگر باوجود ان سب امور کے تمہیں کوئی بہتر نتیجہ نکلتا دکھائی نہ دے گا.تو ایسے وقتوں میں تمہیں گھبرانا نہیں ہوگا.ہمت و استقلال سے کام کرنا ہوگا.اس وقت میدان ارتداد میں کام کرنے والوں کی سخت ضرورت ہے کیونکہ باقی جماعتیں قریباً تمام کی تمام ہمتیں ہار بیٹھی ہیں اور اپنے مبلغین کو واپس بلوا چکی ہیں.اسی طرح آریہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ست پڑ گئے ہیں اس لئے اگر اس وقت خوب محنت و جاں فشانی سے کام کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت عمدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.پس وہ احباب جنہوں نے اپنے اسماء میدان فتنہ ارتداد میں جانے کیلئے پیش کئے تھے وہ بھی اور دوسرے احباب اس وقت فی سبیل اللہ کام کرنے اور اپنے اصل مقصد اعلاء کلمۃ الحق کیلئے جلد سے جلد دفتر انسداد ارتداد قادیان میں اطلاع دیں اور میدان میں جلدی پہنچیں اور اپنے اور غیروں کے درمیان امتیاز کی پیدا کریں اور والعاقبة للمتقین کا شاندار نظارہ دیکھیں.(الحکم قادیان 7 ستمبر 1924ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس عائلی زندگی 79 آپ کی شادی مکرمہ سعیدہ بیگم بنت مکرم خواجہ عبید اللہ صاحب ایس ڈی او سے ہوئی.محترم خواجہ صاحب نہایت مخلص احمدی تھے.ان کی ملازمت کا زیادہ تر عرصہ مالاکنڈ سرحد میں گزرا.جن ایام میں حضرت مولا نائٹس صاحب بلا دعر بیہ میں خدمات بجالا رہے تھے تو خواجہ صاحب نے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنی لڑکی کے رشتہ کیلئے لکھا.چنانچہ حضور نے ان کا رشتہ حضرت مولا نائٹس صاحب سے تجویز فرمایا.یہ رشتہ مقبول ہوا اور سید نا خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1932ء میں اس مبارک نکاح کا اعلان فرمایا.اس بارہ میں الفضل نے لکھا: حضرت مولانا شمس صاحب کا نکاح سید نا حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1932ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر محترمہ سعیدہ بیگم بنت محترم بابوعبید اللہ صاحب اوورسیئر کے ساتھ پڑھایا تھا.15 مارچ 1933ء کو مولوی شمس صاحب بارات لے کر امرتسر گئے اور اسی دن رخصتانہ کرا کر واپس آگئے.18 مارچ 1933ء کو بعد از نماز مغرب مولانا موصوف نے تین صد احباب کو دعوت ولیمہ دی جس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی اور دعا کی.الفضل قادیان 21/19 مارچ 1933 ء ) حضرت مولانا شمس صاحب کے خسر حضرت خواجہ عبید اللہ امرتسری نیک، دعا گو، مخلص ، قربانی کرنے والے اور غیرت دین رکھنے والے بزرگ تھے.آپ حضرت مولانا شمس صاحب کے بیرون ملک قیام کے دوران ان کے اہل وعیال کا بہت خیال رکھتے بے نفس انسان تھے.آپ کا وصال 88 سال کی عمر میں 23 دسمبر 1977ء کو لاہور میں بعارضہ قلب ہو اجہاں سے آپ کی نعش تدفین کیلئے ربوہ لائی گئی.آپ کی نماز جنازہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے.الفضل ربوہ 31 دسمبر 1977 ء صفحہ 2)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس صابر اور قربانی کرنے والی خاتون 80 80 آپ کے بڑے بیٹے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب اور بڑی بیٹی جمیلہ شمس صاحبہ کئی سال اپنے والد کی شفقت و محبت سے محروم رہے اور ان کا بچپن باپ کی شکل دیکھے بغیر گذرا.اہلیہ مولا نانس صاحب نے بھی کئی سال نہایت صبر و استقلال اور قربانی کی روح سے گزارے اور کئی مواقع پر خلفائے احمدیت نے آپ کی قربانی کا ذکر خیر فرمایا ہے.1975ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ” اشاعت اسلام کیلئے جماعت احمدیہ کی جانفشانی“ کے موضوع پر روح پرور خطاب فرمایا جس میں مولانا شمس صاحب اور آپ کی اہلیہ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ” ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیا ہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے.ان عورتوں کے اب بال سفید ہو چکے ہیں.لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ انہیں شادی کے معاً بعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے.ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں.وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے.ان کے واقعات سنکر انسان پر رقت طاری ہو جاتی ہے.ایک دن انکا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ اماں ابا کسے کہتے ہیں؟ سکول میں سارے بچے ابا ابا کہتے ہیں ہمیں تو پتہ نہیں کہ ابا کیا ہوتا ہے؟ کیونکہ وہ بچے تین تین چار چار سال کے تھے جب حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور اس وقت واپس آئے جب وہ جوان ہو چکے تھے اور بیوی بوڑھی ہو چکی تھی.“ تقریر حضرت صاحبزاہ مرزا طاہر احمد بر موقعہ جلسہ سالانہ 1975ء - از خطابات طاهر قبل از خلافت) سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دو مردوں سے کام لینا بھی عورتوں کو آتا ہے.وہ انہیں تحریک کر کے قربانی کے لئے آمادہ کر سکتی ہیں اور اس کی ہمارے ہاں بہت سی مثالیں موجود ہیں.عورتوں نے اپنے مردوں کو تحریک کی اور
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس اولاد انہوں نے قربانیاں کیں.آخر دیکھ لو ہمارے مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرون ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے.ان عورتوں کے اب بال سفید ہو چکے ہیں.لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے معا بعد پیچھے چھوڑ کر لمبے عرصے کے لئے باہر چلے گئے تھے.ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں.وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے.ان کے واقعات بھی سن کر انسان کو رقت آجاتی ہے.ایک دن اُن کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا اماں ! ابا کسے کہتے ہیں؟ سکول میں سارے بچے ابا ، اتبا کہتے ہیں.ہمیں پتا نہیں کہ ہمارا ابا کہاں گیا ہے؟ کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے ہی تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے سترہ سترہ، اٹھارہ اٹھارہ سال کے ہو چکے تھے.اب دیکھ لو یہ اُن کی بیوی کی ہمت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصے تک تبلیغ کا کام کرتے رہے.اگر وہ انہیں اپنی در دبھری کہانیاں لکھتی رہتی تو وہ خود بھاگ آتے یا سلسلہ کو مجبور کرتے کہ انہیں بلا لیا جائے“.81 (خطاب فرمودہ 21اکتوبر 1956 ء بر موقعہ سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ) آپ کی جملہ اولاد کے بارہ میں پیدائش سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے مولا نا شمس صاحب کو بشارات عطا فرمائیں جیسا کہ حضرت مولانا شمس صاحب نے اس بات کا اظہار اپنے رویا وکشوف میں کیا ہے.( جو علیحدہ باب میں کتاب ہذا میں شامل اشاعت ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا.آپ کے بڑے بیٹے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس کا 1991ء میں امریکہ میں وصال ہوا.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس کے وصال پر فرمایا: حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں عارضہ قلب سے وفات پاگئے.بہت ہی مخلص اور فدائی انسان تھے.ان کا سارا خاندان ہی دین کی خدمت میں قربانی کرنے والا ہے مگر ٹس صاحب نے جو روایتیں قائم کی ہیں وہ تو انمٹ ہیں.یہ بچہ صلاح الدین جب پیدا
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 82 ہوا تھا تو اس کے تھوڑے عرصے بعد یا اس سے پہلے ہی مولوی جلال الدین صاحب شمس غیر ملکوں میں فریضہ تبلیغ کے لئے روانہ ہو چکے تھے.انگلستان میں بہت عرصہ رہے جب واپس گئے تو اس بچے کی عمر گیارہ بارہ سال کی تھی اور سٹیشن سے جب مولوی صاحب کو گھر لایا جارہا تھا اور ٹانگے میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو مولوی صاحب نے کہا کہ صلاح الدین کہاں ہے.میرا دل چاہتا ہے میں اپنے بچے کو دیکھوں، اس پر کسی نے کہا کہ مولوی صاحب صلاح الدین آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے، اس کو دیکھیں.یہ قربانی کرنے والے احمدی ہیں جن کی اولا دیں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے پھر دین میں جت رہی ہیں.پھر آگے انشاء اللہ ان کی اولادیں جتی رہیں گی.تو مولوی منیر الدین صاحب شمس نے مجھے توجہ دلائی کہ اگر کسی کا حق ہے جنازہ غائب کا تو پھر میرے بھائی کا تو بدرجہ اولی حق ہے.میں نے اسے تسلیم کیا.عام طور پر تو جب کوئی حاضر جنازے آتے ہیں تو ہم دوسرے جنازے ساتھ ملالیا کرتے ہیں مگر جس رنگ میں مجھے تحریک ہوئی ہے میں نے اس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج جمعہ کے بعد اور عصر کے بعد مولوی جلال الدین صاحب شمس مرحوم و مغفور کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر صلاح الدین کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی جائے گی.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1991ء) آپ کی بقیہ اولاد بفضلہ تعالیٰ بقید حیات ہے اور مختلف طور پر جماعتی خدمات بجالانے کی توفیق وسعادت پارہی ہے.محترمہ جمیلہ نیم صاحبہ کینیڈا میں مقیم ہیں، کرم فلاح الدین صاحب شمس جو The Muslim Sunrise امریکہ کے ایڈیٹر ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر خدمات سلسلہ کی بھی توفیق پارہے ہیں، مکرم بشیر الدین صاحب شمس ، مکرم ریاض الدین صاحب شمس ، محترمہ عقیلہ شمس صاحبہ امریکہ میں مقیم ہیں جبکہ مکرم مولانا منیر الدین صاحب شمس انگلستان میں بطور ایڈیشنل وکیل التصنيف اور دیگر کئی خدمات سلسلہ بجالا رہے ہیں.محترمه سعیده بیگم صاحبہ کی وفات 5 ستمبر 2007 ء کو Hattiesburg, Mississippi امریکہ میں ہوئی.آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے 94 سال عمر پائی.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی وفات 13 اکتوبر 1966ء کو ہوئی تھی اس طرح آپ کی اہلیہ محترمہ نے آپ کی وفات کے بعد 41 سال بڑے صبر وشکر کے ساتھ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے گزارے.قریباً 30 سال سے آپ اپنے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 83 بچوں کے پاس امریکہ میں مقیم تھیں اور آپ کی تدفین شکاگو میں چیپل ہل گارڈن قبرستان میں جماعت کے قطعہ مقبرة الامان میں 8 ستمبر کو ہوئی.جہاں آپ کے سب سے بڑے بیٹے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس بھی مدفون ہیں.تدفین سے قبل آپ کی نماز جنازہ آپ کے بیٹے مکرم منیر الدین صاحب شمس ایڈیشنل وکیل التصنیف نے پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں مقامی احباب اور امریکہ اور کینیڈا کے مختلف شہروں سے آپ کے عزیز واقارب نیز مقامی احمدی اور غیر مسلم و غیر از جماعت احباب نے بھی کثیر تعداد میں شمولیت کی.اس سے قبل آپ کا تابوت شکا گولانے سے قبل Hattiesburg میں آپ کی نماز جنازہ مکرم ظفر اللہ مجر صاحب نے پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں مقامی احباب شامل ہوئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 9 ستمبر کو مسجد فضل لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی نیز مسجد بیت الفتوح میں 14 ستمبر 2007ء کو خطبہ جمعہ کے دوران خطبہ ثانیہ میں آپ کا ذکر خیر بھی فرمایا.OO
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس چوتھا باب اساتذہ کرام 84
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس حضرت مولانا شمس صاحب کو جن اساتذہ کرام سے شرف تلمذ رہا ان میں سے ذیل کے اسماء خاص طور پر قابل ذکر ہیں نیز ان میں سے بعض کے بارہ میں برکت کی خاطر مختصر سا تعارف بھی ذیل میں درج ہے: 1.سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ 2.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ 3.حضرت مولانا سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ 4.حضرت قاضی سید امیرحسین صاحب رضی اللہ عنہ 5.حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ 6.حضرت مولاناسید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ 7.حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ 8.حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری رضی اللہ عنہ 9.حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلالپوری رضی اللہ عنہ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت مولانا شمس صاحب اپنے گاؤں سیکھواں سے روزانہ مدرسہ احمدیہ قادیان پڑھنے کیلئے آتے.خلافت اولی کے اس دور میں سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر تھے.حضرت مولوی صاحب کے عزیز اور ہم جلیس مولا نا قمر الدین صاحب سیکھوانی کا بیان ہے: مدرسہ احمدیہ کی تعلیم کیلئے ہم اپنے گاؤں سیکھواں ضلع گورداسپور سے اکٹھے آتے تھے.یہ زمانہ حضرت خلیفہ اسی الاول رضی اللہ عنہ کا تھا.مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تھے.ہمیں پڑھاتے تھے اور نہایت شفقت سے پیش آتے تھے.الفضل ربوه 20 اکتوبر 1966ء) 85 55
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 98 86 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں : مرحوم و مغفور ایک ایسے وجود تھے جن کی ولادت سے بھی کئی ماہ قبل اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش کے بارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام بشارت دی تھی اور ان کاموں کے پیش نظر جو اس مولود نے خدمت دین کیلئے کرنے تھے اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو قمر الانبیاء کے لقب سے نوازا.یعنی توحید الہی اور دینِ الہی کے قیام کے لئے جو قلمی جہاد کرے گا اس کے پیش نظر وہ نبیوں کا چاند یعنی ان کا محبوب ہوگا جیسے ماں باپ پیارے رنگ میں اپنے بیٹے کو گھر کا چاند یا میرے چاند و غیرہ کہہ دیتے ہیں.اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ انبیاء بمنزلہ سورج ہیں اور وہ ان کیلئے بمنزلہ چاند ہو گا یعنی ان کی پیروی سے اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر اور ان سے اکتساب کو رکر کے لوگوں کو ٹو رانی کرنوں سے منور کرے گا.چنانچہ مرحوم نے زمانہ شباب سے لے کر اپنی وفات تک قلمی جہاد کیا اور توحید الہی کی تائید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت اور صداقت پر ایسا بلند پایہ اور شاندار قیمتی لٹریچر تیار کیا جو رہتی دنیا تک آپ کی یاد کو تازہ رکھے گا.آپ نے سیرۃ خاتم النبین ایسے رنگ میں تحریر فرمائی کہ اپنوں اور بیگانوں نے خراج تحسین ادا کیا.اسی طرح آپ کی دیگر تالیفات بھی حقائق و معارف سے لبریز اور دوسرے مذاہب پر اسلام کی شان و شوکت اور اس کے غلبہ اور تفوق کو ظاہر کرنے والی ہیں.پھر اس الہام میں ایک نشانی یہ بیان کی گئی ہے کہ اس بچے کی جو قمر الانبیاء ہوگا (اگر انبیاء سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام لئے جائیں کیونکہ آپ کو مختلف انبیاء کے نام دیئے گئے ہیں تو قمر الانبیاء سے مراد آپ کا پیارا بیٹا ہوگا ) جن کی پیدائش کے بعد آپ کا کام آسان ہو جائے گا.چنانچہ مرحوم و مغفور کی پیدائش 20 اپریل 1893ء کو ہوئی اور 24 اپریل 1893ء کو جنگ مقدس“ کی شرائط عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان طے پائیں اور مباحثہ 22 مئی سے لے کر 5 جون 1893 ء تک قرار پایا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے نہایت خوشکن امر تھا کیونکہ وہ مسلمان جو آپ کو کافر کہتے تھے وہی خود ان عیسائیوں کے مقابلہ میں آپ کو اسلام کی طرف سے بطور نمائندہ پیش کر رہے تھے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ ذَالِک.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 87 یہ مباحثہ مسلمانوں کے نمائندہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور عیسائیوں کے نمائندہ پادری عبد اللہ آتھم کے مابین پندرہ دن تک ہوا اور اسلام کو عیسائیت پر ایک نمایاں فتح حاصل ہوئی اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ " مسیح موعود کے ذریعہ کسر صلیب ہوگی ویسا ہی ظہور پذیر ہوا اور وہ پیشگوئی بڑی آب و تاب سے پو ری ہوئی.اس عظیم الشان مباحثہ میں نامور پادریوں کو شکست فاش ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس رنگ میں اسلام کو زندہ مذہب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ نبی اور قرآن مجید کو زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا وہ ایسے امور نہ تھے کہ جن سے عیسائی دنیا متاثر نہ ہوتی کیونکہ اس مباحثہ نے تمام عیسائی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا.فَالحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.پھر اسی سال پنڈت لیکھرام کی ہلاکت سے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ وہ چھ سال کے عرصہ میں ہلاک ہو جائے گا اور الحمد للہ کہ ایسا ہی ہوا نیز اسی سال آپ نے فصیح عربی زبان میں کرامات الصادقین، لکھی اور علماء کو بالمقابل ایسا رسالہ لکھنے کی دعوت دی لیکن کسی عالم کو بالمقابل قلم اٹھانے کی جرات نہ ہوئی.اس کے بعد مرحوم و مغفور کی پیدائش پر ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ ” کسوف وخسوف کا نشان ظاہر ہو گیا اور احادیث کے عین مطابق 20 مارچ 1894 ء موافق 13 رمضان المبارک کو چاند گرہن ہوا اور 6 اپریل 1894ء بمطابق 28 رمضان المبارک کو سورج گرہن ہو ا.احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ہی سال اور ایک ہی ماہ یعنی رمضان المبارک میں چاند اور سورج کا گرہن لگنا بچے مہدی علیہ السلام اور بچے مسیح علیہ السلام کی سچائی کی علامت قرار دیا گیا ہے.الغرض مرحوم و مغفور کی ولادت کے بعد جیسا کہ پیشگوئی میں ذکر تھا اللہ تعالیٰ نے اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ظاہر کرنے کیلئے زمین و آسمان سے پے در پے نشانات ظاہر کئے کہ جن سے آپ کا کام سہل ہو گیا.مرحوم و مغفور کے وجود میں اللہ تعالیٰ کی موجودگی اور صداقت کا ایک اور نشان بھی پورا ہو ا جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: بشیر احمد میر الڑ کا آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیا تھا کہ کوئی دوا فائدہ نہ کر سکتی تھی اور بینائی جاتے رہنے کا اندیشہ تھا.جب شدتِ مرض انتہا تک پہنچ گیا تب میں نے دعا کی تو الہام ہوا ”برق طفلی بشیر یعنی میرا لڑکا بشیر دیکھنے لگا تب اسی دن یا دوسرے دن وہ شفایاب (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحه 240) ہو گیا.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 88 اس الہام کے سلسلہ میں حضرت مرحوم و مغفور کے اس خط کا ایک حصہ بھی لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں جو آپ نے 29 جولائی 1963ء کو گھوڑا گلی سے مجھے لکھا اور کراچی میں مجھے ملا.اس میں آپ نے تحریر فرمایا: وو کل رات مجھ پر خواب میں ایک عجیب کیفیت طاری رہی.قریباً ساری رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر وقفہ وقفہ کے بعد میری زبان پر جاری رہا ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار جاگنے پر خیال آیا کہ شاید اس شعر کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام سے تعلق ہو کہ برق طفلی بشیر “ کیونکہ دونوں میں طفل کا لفظ آیا ہے.آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انجام بخیر کرے.میں نے جوابا لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر زبان پر جاری ہونے سے الہام "برق طفلی بشیر“ میں لفظ طفلی سے میں سمجھتا ہوں کہ ایک معنی کے لحاظ سے طفلی میں یاء کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف ہے.یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بیٹے بشیر کی آنکھیں روشن ہو گئیں اور مولانا روم اپنی مثنوی میں اولیاء کے متعلق فرماتے ہیں: اولیاء اطفال حق انداے پسر پس! مذکورہ بالا شعر کے مرحوم کی زبان پر جاری ہونے اور الہام ” برق طفلی بشیر سے آپ کا اطفال حق میں سے ہونا ظاہر ہوتا ہے اور اس القاء کے ایک ماہ اور چار دن کے بعد آپ ہمیشہ کیلئے اپنے مولائے حقیقی کی گود میں چلے گئے.اس زمانہ کا جہاد جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تبلیغ دین حق اور اشاعت قرآن اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے.پس جو شخص اپنی تمام زندگی اس غرض کے لئے وقف کر دیتا ہے اور قلمی جہاد کے میدان میں آخر دم تک جہاد کرتا چلا جاتا ہے یقینا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسے مرد مجاہد ہے ویسے ہی وہ شہید ہے اور آپ تو کشف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لحاظ سے بھی میرے نزدیک شہداء میں داخل ہیں اور شہید جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے.نیز فرماتے ہیں کہ شہید شہد سے بھی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 89 69 نکلا ہے عبادات شاقہ بجالانے والے شہد جیسی ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں اور جیسے شہد فيه شفاء للنَّاس کا مصداق ہے اسی طرح شہید لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں جن کی صحبت سے لوگ امراض سے نجات پاتے ہیں.پھر شہید اس درجہ اور مقام کا بھی نام ہے جہاں بندہ اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے.چنانچہ آپ کی وفات کے بعد جب میں نے خطبہ جمعہ میں آپ کے مناقب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کا مرتبہ شہید کا بتایا تو اس کے بعد مڈھ رانجھا کے سیکرٹری مال مکرم راجہ بشیر الدین احمد صاحب نے لکھا کہ جس دن حضرت میاں صاحب نے وفات پائی اسی رات میں نے خواب میں ایک شخص کی آواز سنی جو کہتا ہے کہ :.دو حضرت علی شہید ہو گئے اور وہ شخص نظر نہیں آیا“ صبح ریڈیو پر خبریں سننے سے آپ کی وفات کا علم ہوا.اسی طرح عزیز صباح الدین نے ایک خواب دیکھا جس میں ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے کہا کہ :.وو اب مصنوعی سانس دینے کی ضرورت نہیں.وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے“ ان خوابوں سے بھی ظاہر ہے کہ آپ کو شہادت کا مقام حاصل ہے اور آپ ہمیشہ کیلئے زندہ ہیں اور حقیقت ہے.ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق مثبت پر جریدہ عالم دوام شاں تذکرہ مجموعہ الہامات و کشوف ، بار چہارم 2004 صفحہ 97] مرحوم و مغفور سے زمانہ طالبعلمی سے خاکسار کو ملنے کا شرف حاصل ہے.آپ مدرسہ احمدیہ میں بطور پرنسپل بھی رہے اور ہمارے استاد بھی اور پھر تبلیغ کے زمانہ میں بکثرت ملاقاتیں ہوئیں اور ربوہ میں تو بہت ہی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.آپ عجب اور ریاء سے بالکل خالی تھے.آپ حد درجہ متواضع اور ملنسار تھے.آپ کی خاکساری اور خصوصاً اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی سے خشیت آپ کی متعددتحریروں سے ظاہر و باہر ہے.باوجود یکہ رات دن آپ سلسلہ کے کام میں مشغول رہتے پھر بھی آپ یہی سمجھتے کہ میں نے کچھ نہیں کیا.آپ نے 1962ء کے ماہ رمضان میں اپنی خرابی صحت کا ذکر کر کے لکھا کہ میرے لئے ان مبارک ایام میں از راہ مہربانی دعا فرمائیں کہ:
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 90 90 اللہ تعالیٰ صحت اور کام کی زندگی عطاء کرے پھر خصوصیت کے ساتھ یہ بھی دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے قیامت کے دن اپنے فضل و کرم اور ذرہ نوازی سے ان لوگوں میں شامل فرمائے جو مطابق بشارت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حساب کتاب کے بغیر بخشے جائیں گے کیونکہ مجھ میں اپنے حساب کتاب کیلئے خدا کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں.یہ دو دعا ئیں ضرور رمضان میں میرے حق میں کر کے مجھے ممنون فرمائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.یہ عاجز ساری جماعت کیلئے دعا کرتا ہے.مطابق آیت وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الجِنَّةَ هِيَ الاولى [ النازعات:41] مرحوم و مغفور کے مذکورہ بالا الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ آپ واقعی جنتی تھے.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات عطاء فرمائے.آمین.حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب کا ذکر خیر الفضل ربوہ 29 اکتوبر 1963 ، صفحہ 14-16) اپنے استاد محترم حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب کے وصال پر حضرت مولانا شمس صاحب نے ایک مضمون لکھا جو پیش خدمت ہے.(از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) حال میں مکرم استاد حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات کی افسوسناک خبر پہنچی.إِنَّا للهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - اللہ تعالیٰ مرحوم و مغفور کو جنت الفردوس بخشے آمین.حضرت آپا جان سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ غفر اللہ لھا کی وفات کے بعد ایک دوسرا عزیز وجود ہم سے جدا ہو گیا.یہ دونوں وجود یتامی ، مساکین ، بیواؤں اور غریبوں کی خبر گیری اور خدمت گذاری کے لحاظ سے جماعت میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے.حضرت میر صاحب مرحوم نے حضرت نانا جان [ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی وفات کے بعد دُور الضعفاء کے قائم رکھنے اور ضعفاء و یتامیٰ کی خبر گیری میں از حد دلچسپی لی.مرحوم اکثر مبلغین کے جو اس وقت مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں، استاد تھے.میں نے اور میرے ہم جماعت دوستوں نے تو مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت سے لے کر مولوی فاضل تک ان سے تعلیم پائی.آپ کا طریقہ تعلیم نہایت اچھا تھا.جو مضمون بھی پڑھاتے شاگردوں کے ذہن نشین کرا دیتے.آپ کے تمام شا گرد آپ سے خوش رہتے تھے.اس وقت آپ کے مناقب کا ذکر کرنا مقصود نہیں کیونکہ اخبار میں اس
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 91 کے متعلق اس وقت تک کافی لکھا جا چکا ہو گا.صرف ایک بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اس سال 28 جنوری [1944ء] کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے با علام الہی یہ اعلان فرمایا کہ مصلح موعود جس کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئی تھی وہ آپ ہی ہیں.یہ بات تمام افراد جماعت کے لیے خوشی کا موجب ہوئی.میں سمجھتا ہوں کہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ اور حضرت سید محمد اسحاق صاحب کی وفات سے پہلے جو جماعت کیلئے موجب رنج وغم ہونے والی تھیں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر یہ انکشاف فرما کر کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت سے ایک رنگ میں ہمدردی کا اظہار کیا تا وہ آنے والی مصیبت پر صبر کر کے خدا تعالیٰ کی رحمت کی وارث ہو.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سے یہی مقدر تھا کہ مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے بھی دو عزیز وجود وفات پائیں اور مصلح موعود کے دعوئی کرنے کے بعد بھی دو معزز وجود ہم سے جدا ہوں.چنانچہ آپ کی پیدائش سے پہلے سیدہ عصمت صاحبہ اور صاحبزادہ بشیر اول کی وفات ہوئی اور اب مصلح موعود کا دعوی کرنے کے بعد ام طاہر سیدہ مریم بیگم صاحبہ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات ہوئی.ایک عورتوں میں سے اور ایک مردوں میں سے جیسا کہ پیدائش سے پہلے بھی ایک لڑکی کی وفات ہوئی اور بعد میں لڑکے کی جس میں اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ مصلح موعود کے زمانہ میں اطفال اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور عورتوں اور مردوں سب کو غیر معمولی طور پر قربانیاں کرنا ہوں گی جن کے نتیجہ میں وہ خدا کے فضلوں اور رحمتوں کے وارث ہوں گے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت بشیر اول کی وفات پر فرمایا کہ اس کی وفات سے پہلی قسم انزال رحمت کی پوری ہوئی جو مصائب پر صبر کرنے والوں پر ہوتی ہے اور ان پر جو صبر کرتے ہیں کامیابی کی راہیں کھولی جاتی ہیں.اسی طرح ہمیں بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ان دونوں حادثوں کو بھی جماعت کی عورتوں اور مردوں کے لیے رحمتوں اور برکات کے نزول کا موجب بنائے.آمین.“ 66 خاکسار جلال الدین شمس - از لندن.(الفضل قادیان 2 جولائی 1944ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 92 2 حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت مولانا شمس صاحب مرحوم کے اساتذہ میں حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ حضرت شمس صاحب نے آپ کے ساتھ مختلف میدانوں اور شعبوں میں ایک لمبا عرصہ گزارا ہے.آپ اپنے زمانہ میں سلسلہ احمدیہ کے بڑے علماء میں سے تھے.قرآن وحدیث کے علاوہ آپ نے ہر ایک اسلامی علم میں تبجر حاصل کیا تھا.عیسائیت، یہودیت اور دیگر مذاہب سے متعلق آپ کو نہایت اعلی درجہ کی واقفیت حاصل تھی.آپ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے.روایات میں آتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنے تمام روحانی علوم میاں محمود کو دے دیئے ہیں اور تمام ظاہری علوم حافظ روشن علی صاحب کو دے دیئے ہیں.(سیرت حافظ روشن علی مرتبہ مکرم سلطان احمد پیر کوئی صفحہ 21) جلسہ سالانہ قادیان کی اسٹیج پر آپ کو 1914ء سے لے کر 1927 ء تک برابر چودہ سال تقاریر کرنے کا موقع ملا.نو سال آپ نے صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر تقاریر کیں لیکن ہر بار آپ نے نئے انداز اور نئے معیاروں سے اس مضمون کو بیان کیا.حضرت حافظ صاحب بہترین مناظر بھی تھے اور مناظرہ میں نہایت سنجیدہ اور غیر دل آزار تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مباحثوں کی وجہ سے حافظ صاحب جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ کہا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد الحق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.الفضل قادیان 19 نومبر 1940ء صفحه 4) رمضان کے مہینہ میں آپ ظہر سے عصر تک با قاعدہ قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے اور آپ کا یہ طریق 1916ء تا 1927ء تک جاری رہا.درس دینے کا آپ کا یہ طریق تھا کہ پہلے آپ ایک پارہ زبانی پڑھ لیتے پھر اس کا ترجمہ اسی روانی کے ساتھ بیان فرماتے پھر ضروری مطالب بیان فرماتے.حضرت حافظ صاحب نہ صرف خود کامیاب مبلغ تھے بلکہ مبلغ گر بھی تھے.تبلیغ کے میدان جہاد کے نہ صرف خود ایک کامیاب اور تجربہ کار جرنیل تھے بلکہ آپ جرنیل گر بھی تھے.جماعت احمدیہ کی طرف
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 93 سے قادیان میں جو سب سے پہلی باقاعدہ تبلیغی کلاس کھولی گئی اس کے آپ پہلے اور ا کیلئے استاد مقرر ہوئے.حضرت حافظ صاحب کو اس بات کا فخر حاصل ہے کہ جماعت احمدیہ کے تمام مبلغ بلا واسطہ یا بالواسطہ آپ کے ہی چشمہ علم سے سیراب ہوئے ہیں.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور حضرت مولانا غلام احمد صاحب آف بدوملہی آپ کے ہی شاگردوں میں سے ہیں.1919 ء میں جماعت کی وقت کے پیش نظر اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قادیان اور بیرونجات کے احباب کے مشورہ سے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جدید انتظام قائم کیا.آپ نے مرکز میں نظارتیں قائم کیں اور بعض اور شعبہ جات قائم کیے تو حضرت حافظ روشن علی صاحب کو حضور نے قاضی کے فرائض سپر د کیے.الفضل قادیان 4 جنوری 1919ء) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 1924ء میں جب انگلستان تشریف لے گئے تو جن اصحاب کو حضور اپنے ساتھ لے گئے ان میں سے ایک حضرت حافظ صاحب بھی تھے.یورپ کے سفر کے دوران آپ کی علمیت کا لحاظ رکھتے ہوئے حضور نے آپ کو ہمیشہ اپنے دائیں طرف چلنے کا ارشاد فرمایا ہوا تھا.پیرس میں تبلیغی مہموں کے لیے سوچ بچار کرنے والی کمیٹی کا آپ کو صدر نامزدفرمایا.حضور کی موجودگی میں آپ نے کئی جلسوں کی صدارت فرمائی.حضرت حافظ صاحب کئی سالوں سے ذیا بیطس کے مرض میں مبتلا تھے.وفات سے کوئی دو سال قبل پیشاب میں الیومن خارج ہونے لگ گئی.بیماری باوجود علاج کے بڑھتی گئی اور 1928ء کے دسمبر میں آپ کی طبیعت قدرے ٹھیک تھی اور آپ نے جلسہ سالانہ میں بطور سامع کے شرکت فرمائی.29 دسمبر کو آپ پر فالج کا حملہ دائیں طرف ہو الیکن علاج سے کچھ افاقہ ہوا.جون 1929ء میں بیماری شدت اختیار کر گئی اور آپ نے 23 جون 1929ء کو وفات پائی.آپ کے ذکر خیر میں حضرت مولا نائٹس صاحب بیان کرتے ہیں : یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد مجھے آپ کی صحبت میں چار پانچ سال متواتر رہنا پڑا.تقریباً تین سال تک با قاعدہ آپ سے مبلغین کلاس میں تعلیم پائی.آپ نے جس محبت اور شفقت سے میری تربیت فرمائی اور اپنے ساتھ تبلیغی دوروں پر لے جا کر مناظرات کی مشق کرائی وہ میں بھول نہیں سکتا.استادوں میں آپ کی نظیر شاذ و نادر
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 94 ہی ملے گی.آپ کو مجھ سے خاص طور پر محبت تھی تبلیغی دوروں میں اکثر دفعہ آپ مجھے اپنے ہمراہ لے جایا کرتے اور جب ہم مبلغین کلاس میں پڑھتے تھے اس وقت دوسرے دن جو درس قرآن مجید اور احادیث کا ہونا ہوتا اس کی تیاری کیلئے آپ مجھے بلوایا کرتے اور میں آپ کو تفسیریں اور احادیث کی شروح سنایا کرتا جس سے مجھے از حد فائدہ ہوا.آپ کے ساتھ میں نے دہلی، مونگھیر ، ڈیرہ دون منٹگمری، پٹیالہ، سیالکوٹ، لاہور، نارووال، گجرات ، جلالپور جٹاں جہلم، مالیر کوٹلہ وغیرہ شہروں کا دورہ کیا.“ (ماہنامہ الفرقان ربوہ دسمبر 1960 ، صفحہ 26) اللہ تعالیٰ حضرت حافظ صاحب موصوف کو اعلی علیین میں بلند سے بلند مقام عطا فرمائے.حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل آپ پچیس مارچ 1881ء بمقام گولیکی ضلع گجرات پیدا ہوئے.مارچ 1897ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی.دسمبر 1906ء میں قادیان ہجرت کی.حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں.تحریر و تقریر اور احمد یہ شاعری میں آپ کا نام بہت معروف ہے.آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد ماجد حضرت میاں امام الدین صاحب فیض گولیکی کی بیعت سے آئی.آپ کو صحابی ابن صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے.آپ نے پچیس سے زائد نہایت علمی کتب تحریر کیں.ذکر المہدی ، ظہورالمهدی، ظہور اسیح، محبت، قبولیت دعا کے چھیاسی گر ، الواح الہدی ، سنت احمد یہ نغمہ اکمل اور کئی دیگر کتب خاصی مقبول ہوئیں.آپ کی بعض ابتدائی کتب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی پسند فرمائیں.تشخید الاذہان ، ریویو آف ریلیجنز ، مصباح، احمد یہ گزٹ ، اخبار بدر قادیان اور الفضل کیلئے آپ کی خدمات یادگار ہیں.جماعتی اخبارات و جرائد میں آپ کے بیسیوں علمی مضامین شائع ہوئے نیز تقسیم وطن سے قبل ہند کے کئی اردو اخبارات و جرائد جیسے قومی رفیق ، چودھویں صدی ، کرزن گزٹ، پنجاب آرگن، انتخاب روزگار، اردو اخبار، دہلی پنج ، سراج الاخبار اور گلزار ہند وغیرہ میں آپ کے علمی و ادبی مضامین شائع ہوتے رہے.ابتداء میں حضرت مولانا شمس صاحب کی علمی و تحریری ترقی میں آپ کی دعا ئیں اور حوصلہ افزائی بھی شامل ہے جس کا ذکر کتاب ہذا میں بعض مقامات پر کیا گیا ہے.حضرت مولانا شمس صاحب کے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 95 بعض ابتدائی مضامین تعمیذ الاذہان اور ریویوار دو میں حضرت قاضی صاحب نے شائع کئے.حضرت مولا نا شمس صاحب نے ایک دفعہ جامعہ احمدیہ میں اپنے ابتدائی حالات کے متعلق تقریر کی جس میں اپنی مضمون نویسی کے متعلق فرمایا: میں مکرم قاضی اکمل صاحب کے دفتر کے سامنے سے گزر رہا تھا.مکرم قاضی صاحب روز مجھے جاتے دیکھتے.ایک روز مجھے بلایا اور گفتگو ہوئی.اس دفتر میں مجھے آنے کے متعلق کہا اور مضمون لکھنے کی ترغیب دی.آخر میں نے ” وفات مسیح از روئے علم منطق پر مضمون لکھا.حضرت قاضی صاحب نے تصحیح کی اور شائع کیا.اس طرح میں مضمون لکھنے لگا اور مکرم قاضی صاحب میری حوصلہ افزائی کرتے رہے.(سوانح حضرت قاضی ظہور الدین اکمل، غیر مطبوعہ صفحہ 497) نوٹ : آپ کا یہ مضمون تفخیذ الاذہان قادیان دسمبر 1917ء میں شائع ہوا.آپ کو طویل مدت سلسلہ کی خدمت کی توفیق ملی.آپ کا وصال 27 ستمبر 1966ء میں ہو ا.عجیب اتفاق ہے کہ اس سے اگلے ماہ ہی حضرت مولانا شمس صاحب کا بھی وصال ہو گیا.( مزید حالات کیلئے ملاحظہ فرمائیں الفضل 28 ستمبر، یکم اکتوبر، 8، 12،10 نومبر 1966ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس پانچواں باب مباحثات و مناظرات 96 96
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 97 برصغیر میں انیسویں اور بیسویں صدی میں مذہبی اور دینی نوعیت کے بین الفرق اور بین المذاہب سینکڑوں مناظرت و مباحثات ہوئے.سلسلہ عالیہ احمد یہ عالمگیر کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس میدان میں ہمیشہ سلسلہ کے مناظرین و مباحثین اور متکلمین کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی کامیابی و کامرانی سے نوازا.اس میدان میں دور امام مہدی آخر الزمان سے لیکر تا حال سلسلہ میں سینکٹروں نابغہ روزگار ہستیوں نے جنم لیا.بزرگ علمائے سلسلہ میں سے مباحثہ اور مناظرہ کے میدان میں ذیل کی شخصیات خصوصاً عدیم المثال تھیں.حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت میر قاسم علی صاحب ، حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت مولانا رحمت علی صاحب ، حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری، حضرت مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس.ان بزرگان کے کئی مناظرے اور مباحثے زیور طباعت سے بھی آراستہ ہوئے جن سے سینکڑوں افراد نے استفادہ کیا مگر عصر حاضر میں مباحثوں اور مناظروں کا رنگ ہی بدل چکا ہے بلکہ یہ فن بہت کم ہو چکا ہے اور آہستہ آہستہ نا پید ہوتا جارہا ہے.نہ تو وہ لوگ رہے نہ اس طرح روایات کے ساتھ مناظروں کا رنگ رہا اور نہ ماحول.شاید اس کی وجہ برصغیر میں آجکل بدامنی اور نقض امن کا مسئلہ بھی ہے جس کا اس قدیم علمی فن پر بھی اثر پڑا.بہر حال وجہ خواہ کوئی بھی ہو ہمارے اسلاف نے اس میدان میں محض اللہ اور اللہ کے فضل و کرم سے خوب کام کیا اور نام کمایا.اس باب میں حضرت مولانا شمس صاحب کے بعض مناظرات و مباحثات کا تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے.خدام الاحمدیہ کے صدر اول مکرم ومحترم مولوی قمر الدین صاحب مرحوم، حضرت مولانا شمس صاحب کے چچازاد بھائی تحریر کرتے ہیں : متحدہ ہندوستان کے وقت آریوں و عیسائیوں سے آپ کے مناظرات ہوئے.ملکانہ کے زمانه ارتداد کے زمانہ میں آپ کو خدا نے بڑی خدمت کرنے کی توفیق دی.مناظرات پر ہمیشہ آپ کو بھجوایا جاتارہا.پنڈت رام چندر سے دہلی میں مولانا موصوف کا کامیاب مناظرہ ہو اجو
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 98 شائع شدہ ہے.پادری عبدالحق سے آپ کے مناظرات ہوئے.جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں شیعوں سے آپ کا مشہور مناظرہ ” کلمۃ الحق“ شائع شدہ ہے.[اس مناظرہ میں اصل مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب تھے جبکہ آپ کی معاونت کیلئے نیز پرچے پڑھنے کیلئے حضرت مولا نائٹس صاحب موصوف تھے.اس مناظرہ کا ذکر اس باب میں آئندہ صفحات میں شامل ہے.مؤلف.] پنجاب میں بالخصوص اور دوسرے صوبوں کے بڑے بڑے شہروں میں بالعموم آپ کے کامیاب لیکچر ہوئے.آپ کا بیان نہایت سادہ ہوتا تھا مگر ٹھوس دلائل سے پُر ہوتا تھا اور سامعین نیا علم لے کر گھروں کو واپس جاتے تھے.جن جن علاقوں میں آپ مناظرہ یا لیکچر کیلئے تشریف لے گئے آج تک ان علاقوں کے احباب آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور آپ کو یاد کرتے ہیں.مناظروں اور لیکچروں کے نتیجہ میں بہت سے احباب کو سلسلہ میں (الفضل ربوہ 3 دسمبر 1966ء) شمولیت کی توفیق ملی 1917ءمیں ” پکیواں“ کا مناظرہ مولا نا صاحب کی زندگی میں مباحثوں اور مناظروں کا آغاز 1917ء میں شروع ہو گیا تھا جبکہ آپ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل کے تلمذ میں مناظروں میں جانا شروع ہو گئے.بقول حضرت مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی : مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1916ء میں مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل نے اپنے شکر گڑھ کے دورے کا حال سنایا تو بتایا کہ وہاں ایک دیہاتی ملاں نے قرآن کریم میں واتبــعــوا مــلــة ابراهيم حنیفا میں واؤ (و حنیفا ) اپنی قلم سے لکھ کر یہ مشہور عام کیا ہو اتھا کہ قرآن کریم میں امام ابو حنیفہ کی اتباع کا حکم ہے.ملحقہ دیہات میں اس طرح دورہ کرنے کے نتیجے میں کسی مولوی سے گفتگو کا موقعہ ملتا جو ہم لوگوں کے مناظرہ کا فن سیکھنے کا موجب ہوتا.ایسے مکالمے اور ایسے تبادلہ خیالات 1916ء کی چھٹیوں سے ہی ہماری کلاس کے شروع ہو گئے.1917ء میں تو پھر رپورٹیں بھی اخبارات میں شائع ہونے لگیں.اس سلسلہ میں محترم مولوی جلال الدین شمس کا مناظرہ پیواں پہلی دفعہ منظر عام پر آیا.موضع پکیواں میں ان کے کچھ اعزہ رہتے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 99 تھے.1930ء میں جب میں گھوڑی پر سوار پکیو اں کے راستے قادیان سے بدوملہی گیا اور وہاں ایک رات رہا تو ان کے اعزہ نے مجھے وہ بڑھ ( برگد ) دکھایا جس کے نیچے وہ مناظرے ہوئے تھے.ایک آریہ سے اور ایک مولوی صاحب سے.(الفضل ربوہ 17 نومبر 1966ء) مباحثہ کلانور یہ مباحثہ اگست 1920ء کو ہوا تاہم اس کی تفصیل معلوم نہیں ہوسکی.اس مباحثہ کا ذکر حضرت مولانا شمس صاحب نے ” مباحثہ سار چھو ڑ میں کیا ہے.مباحثہ سار چور بر مسئله حیات و ممات مسیح 99 یہ مباحثہ مولانا شمس صاحب اور مولوی عبد اللہ صاحب مولوی فاضل غیر از جماعت کے مابین ہوا.اس مباحثہ کو بعد میں محترم میاں محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان نے شائع کیا جس کے 40 صفحات ہیں.” مباحثہ سار چور وہ مباحثہ ہے جس کی وجہ سے حضرت مولانا صاحب کو خاصی شہرت ملی.راقم کو سار چور کی بعض شخصیات سے ملنے کا اتفاق ہوا.وہ اپنے گاؤں کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ ” مباحثہ سار چو رہی بتاتے ہیں.ضمناً موضع سار چور کے بارہ میں عرض کرتا چلوں.موضع سارپور ( تحصیل بٹالہ ) قادیان سے پینتیس چھتیس کلو میٹر پر واقع ہے اور بٹالہ سے قریباً بارہ کلو میٹر جبکہ علی وال نہروں والے سے پانچ کلومیٹر دور ہے.یہ تحصیل بٹالہ کا آخری گاؤں ہے جو ضلع امرتسر کی باؤنڈری لائن سے ملحق ہے.“ عدالت عالیہ تک کا سفر خودنوشت سوانح جسٹس محمد اسلام بھٹی ، بار اول، لاہور: نیازمانہ پبلشر ، 2008 ، صفحہ 16) حضرت مولا نائٹس صاحب اس مباحثہ کے بارہ میں رقمطراز ہیں : 31 اگست و یکم ستمبر 1920ء کو موضع سارپور جو ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ میں مابین احمدیان و غیر احمدیان ایک زبر دست مباحثہ مسئلہ حیات و وفات مسیح پر ہوا.وجہ اس مباحثہ کے قیام کی یہ ہوئی کہ ایک شخص مستمی محمد اسماعیل (جو اپنے آپ کو باوجود علوم دینیہ سے نابلد ہونے بز مرہ مولویان شمار کرتا تھا.حالانکہ قرآن مجید بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا تھا.شب و روز احمدیت کے خلاف شعر کہنا اس کا کام تھا.اس کے اشعار کی کیفیت یہ ہے کہ نہ قافیہ ٹھیک نہ وزن برابر نہ ردیف کا لحاظ ) موضع سار چور میں بغرض وعظ آیا اور لوگوں کو احمدیت کے خلاف بہکایا اور گورنمنٹ کے خلاف عوام الناس کو بھڑ کا یا.احمدیوں نے اس کا مقابلہ کیا.اس
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 100 اثناء میں میرے مکرم مولوی فاضل نور احمد صاحب ساکن لودھی نگل بھی ایک بیمار کے علاج کیلئے قریہ مذکورہ میں پہنچ گئے.محمد اسماعیل صاحب سے آپ کی گفتگو ہوئی تو اسے کچھ جواب نہ بن آیا.تب غیر احمدیوں نے قصبہ فتح گڑھ چوڑیاں سے مولوی عبدالحی اور مولوی عبد اللہ صاحب مولوی فاضل اور مولوی صدرالدین کو بلایا اور احمدیوں سے کہا ہم مولوی ثناء اللہ امرتسری کو لائے ہیں آپ بھی قادیان سے علماء منگوائیں.اسی قرارداد پر دو احمدی 30 اگست 1920ء کو قادیان دار الامان آئے تاکہ ان کے ساتھ کوئی عالم بھیجا جائے.میں کلانور کے مباحثہ سے ( جو 28 اگست 1920ء کو ہوا)، آتے اپنے گاؤں ( سیکھواں ) میں ٹھہر گیا اس لئے وہ دونوں بھائی میرے گاؤں میں جناب امیر جماعت احمدیہ قادیان کا رقعہ لیتے ہوئے پہنچے.میرا ارادہ اس دن قادیان آجانے کا تھا.جب رقعہ دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا: مکرم بندہ مولوی جلال الدین صاحب ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.آج دو آدمی جن کے ہاتھ یہ رقعہ روانہ کیا جاتا ہے سار چھو رسے یہاں پہنچے.وہاں یعنی سار چور میں مباحثہ کیلئے ایک عالم کی ضرورت ہے.تجویز کیا گیا ہے کہ آپ ان کے ہمراہ تشریف لے جاویں.خدا آپ کے ساتھ ہو“ یہ رقعہ پڑھتے ہی بندہ اور حافظ سلیم احمد خان اٹاوی بتوکل علی اللہ اس طرف چل دیئے.ہم بٹالہ پہنچے ہی تھے کہ آفتاب نے شفق کی چادر اوڑھ لی اور شب کی آمد شروع ہوئی.سار چھ روہاں سے نومیل کے فاصلہ پر تھا اس لئے تجویز پیش ہوئی کہ رات بٹالہ میں قیام کرتے ہیں علی الصبح روانہ ہوں گے.میں نے کہا ہمیں وہاں ضرور پہنچنا چاہئے تا ہمارے احمدی بھائیوں کو کسی قسم کی تشویش نہ ہو.چنانچہ رات ہی کو ہم وہاں پہنچ گئے.جھوٹی افواہیں پھیلانے والے شرمندہ ہوئے.“ (مباحثہ سار چور ( مسئلہ حیات و ممات مسیح ناصری)، بار اول، قادیان: مطبع ضیاء الاسلام پریس 1920ء - صفحہ 1-2) اس مباحثہ کے بارہ میں مکرم و محترم مرزا بشیر احمد صاحب مرحوم آف لنگر وال پشاور چھاؤنی تحریر کرتے ہیں: 1920ء میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان بمقام سار چو رضلع گورداسپور ایک تاریخی مناظرہ حیات و ممات حضرت مسیح علیہ السلام پر ہو ا تھا.میں ان دنوں اہلحدیث تھا اور فتح گڑھ چوڑیاں کے اہل حدیث کے سکول میں پڑھتا تھا.غیر احمدیوں کی طرف سے مناظر مولوی محمد عبد اللہ صاحب فاضل فتح گڑھی اور پریذیڈنٹ مولوی عبد الحی صاحب تھے اور
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ مناظر تھے.میں ان دنوں چھوٹی عمر کا تھا اور اپنے چچا جان مرزا سید احمد و مرزا محمد شریف بیگ صاحبان کے ہمراہ میں بھی مناظرہ سننے کے لئے موضع لنگر وال سے سار چور آیا کرتا تھا.چونکہ میں احمدی نہ تھا اس لئے میں غیر احمدیوں کے سٹیج کے قریب بیٹھتا تھا.اس کی کچھ یہ بھی وجہ تھی که مولوی عبد اللہ صاحب کے والد مولوی محمد فاضل صاحب اسلامیہ ہائی سکول فتح گڑھ میں ہمارے استاد تھے.مجھے بوجہ بچپن عربی کا کوئی زیادہ علم اس وقت نہیں تھا اس لئے دوران مناظرہ قرآن کریم کی آیات ، احادیث یا دوسرے عربی حوالہ جات جو دونوں طرف سے پیش کئے جاتے تھے مجھے ان کی سمجھ تو زیادہ نہیں آتی تھی البتہ اتنا ضرور محسوس ہو جاتا کہ مولوی محمد عبد اللہ صاحب عاجز آ رہے ہیں کیونکہ جب حضرت شمس صاحب مرحوم کوئی دلیل پیش کرتے تو غیر احمدیوں کے صدر مولوی عبدالحی صاحب کے مونہہ سے بے ساختہ نکل جاتا اوہو! کام خراب ہو گیا اور مولوی محمد عبد اللہ اور مولوی عبد الحی صاحبان دونوں بعض کتب کی (جو غالباً مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی تصانیف تھیں ) ورق گردانی شروع کر دیتے اور کہتے جاتے کہ جلدی کرو کچھ نکالو.جواب الجواب میں مولوی محمد عبد اللہ صاحب بعض سخت اور ناشائستہ الفاظ بول جاتے لیکن جماعت احمدیہ کے مناظر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ہمیشہ تحمل اور خندہ پیشانی سے جوابات دیتے.مجھ پر یہ اثر تھا کہ جماعت احمدیہ کا مناظر انتہائی بلند اخلاق کا حامل ہے.میں حلفا لکھتا ہوں کہ میری طبیعت پر مولانا شمس صاحب کے طرز مناظرہ اور نرمی و خندہ پیشانی سے جوابات دینے کا گہرا اثر تھا.مجھے یاد ہے کہ مناظرے کے دوسرے یا تیسرے دن دو پہر کے بعد کی نشست میں پارووال کے ایک غیر احمدی معزز چوہدری سردار محمد نے دلائل کے وزنی ہونے اور بلند اخلاق کے مظاہرہ کرنے پر مولانا شمس صاحب کو انعام دیا تھا.جب یہ انعام دیا جار ہا تھا تو دوسری طرف بھی اشارے شروع ہوئے کہ مولوی محمد عبد اللہ صاحب کو بھی کچھ انعام دیا جائے لیکن کسی بھی غیر احمدی نے انہیں انعام دینا پسند نہ کیا البتہ ایک عیسائی نے اُٹھ کر انہیں پانچ روپے کا انعام دیا جس کا بڑے فخر سے اعلان کیا گیا.جس پر چوہدری سردار محمد آف پارووال ( جو اس وقت 101
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس غیر احمدی تھے ) خوب ہنسے اور کہنے لگے کہ خوب! مولوی عبد اللہ صاحب کی حوصلہ افزائی کیلئے کسی کو توفیق ملی تو صرف اور صرف ایک عیسائی کو.اس مباحثہ کا کامیاب اور مؤثر ہونے کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ مباحثہ کے بعد چوہدری سردار محمد صاحب آف پارووال نے بیعت کر لی.مرزا محمد دین صاحب آف لنگروال نے ( جو باوجود بچپن سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس رہے تھے لیکن اب تک احمدی نہ ہوئے تھے ) بیعت کر لی.میرے دل سے احمدیت کے خلاف تعصب جاتا رہا اور میرے دل میں احمدیوں کا احترام پیدا ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی الفضل ربوہ 20 اکتوبر 1966ء) سعادت بھی عطا فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک.مباحثہ عالم پور کوٹلہ 102 مکرم سندھی شاہ احمدی صاحب ٹانڈہ ) مورخہ 8 اکتوبر 1920ء بروز جمعه بر مکان خانصاحب عزیز الرحمن خان رئیس عالم پور کوٹلہ کا روائی مناظرہ مقرر ہوئی.قبل از وقت مناظرہ بوقت نو بجے صبح کے مناظر ثانی کو اطلاع دی گئی کہ مناظرہ کی کارروائی شرائط طے کر کے شروع کر دی جاوے مگر مناظر ثانی کی طرف سے فی الحال کوئی جواب نہ ملا.پھر دوبارہ مناظر ثانی کے پاس آدمی بھیجا گیا پھر بھی مناظر ثانی مناظرہ گاہ میں آنے سے گریز کرتا رہا.آخر کار یہ خاکسار معہ چند ا حباب کے مناظر ثانی کے پاس گیا.مناظرہ کے متعلق ان کو کہا گیا.آخر بہت تکرار کے بعد مناظر ثانی مناظرہ گاہ میں آئے تو ہمارے مناظر صاحب نے فرمایا کہ آپ شرائط مناظرہ طے کر کے کاروائی مناظرہ شروع کر دیں.تو مناظر ثانی نے کہا کہ مناظرہ تحریری اور تقریری ہونا چاہیئے.یعنی پہلے ایک گھنٹہ تحریر ہو جائے پھر اسی تحریر پر لوگوں میں بیان کر دیا جائے تو ہمارے مناظر صاحب نے فرمایا.ایک گھنٹہ ایک فریق کے پرچہ کو تحریر کرتے ہوئے خرچ ہو گا اتنا ہی دوسرے کو.تو اس طرح پبلک کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی پبلک اتنا عرصہ بے کار بیٹھ سکتی ہے کیونکہ پبلک ایک گھنٹہ منہ تکتی رہے گی کہ مولوی صاحبان کا کب پر چہ ختم ہو اور سنایا جاوے اس لئے بہتر ہے کہ تقریر شروع ہو جاوے.تو مولوی ثانی نے فرمایا کہ مجھے پبلک سے کوئی سروکار نہیں ہے میں نے تو اپنی حق شناسی کرنی ہے تو ہمارے مولوی جلال الدین صاحب مولوی فاضل مناظر نے فرمایا کہ اگر آپ کا یہی مقصود ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 103 یہ مناظرہ مبارک کرے اگر اس مبارک مقصود سے پبلک کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جاوے تو آپ کا اس میں کیا حرج ہے.تو مولوی محمد امین فریق ثانی نے فرمایا کہ فی الحال میں شرائط طے نہیں کرسکتا کیونکہ میرے ہم خیال کچھ چند آدمی باہر سے آنے والے ہیں ان کے آنے پر پھر اطلاع دی جاوے گی.یہ بات کہہ کر مولوی صاحب ثانی اپنے مکان کو چل دیئے اور یہ بھی کہہ گئے کہ مناظرہ جمعہ کے بعد شروع کیا جاوے گا.خیر مناظرہ گاہ میں عام احباب احمدی اور غیر احمدی بیٹھے ہوئے تھے تو ایک معزز صاحب نے سوال کیا وو کہ مجھے مرزا صاحب کے اس الہام کا پتہ نہیں لگتا.جو کہ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ : دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا اور خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا.“ اس کے جواب میں ہمارے فاضل مولوی جلال الدین صاحب مناظر بیٹھے جواب دے رہے تھے تو احباب کی طرف سے درخواست ہوئی کہ اس کے متعلق کھڑے ہوکر تقریر ہونی چاہیئے تو مولوی صاحب موصوف نے خوب مدل تقریر فرمائی جس کا لوگوں کے دلوں پر خوب اثر پیدا ہوا اور اعتراض الہام کو خوب دلائل کے ساتھ حل کیا گیا.اسی طرح پر دوران تقریر میں غیر احمد یوں کی طرف سے اعتراض ہوتے چلے گئے جن کا جواب بھی مولوی صاحب فاضل خوب دیتے رہے جو کہ عام پبلک کی سمجھ میں آتے گئے.اس کے بعد نماز جمعہ کا وقت ہو گیا اور جلسہ پبلک ختم کیا گیا.پھر جمعہ کی نماز کے بعد وقت مناظرہ کا قریب ہو گیا تھا.سب صاحبان مناظرہ گاہ میں آگئے اور دو بجے فریق ثانی کو کہا گیا کہ وقت مناظرہ ہو گیا ہے لیکن آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی تو مناظر ثانی نے کہا.اچھا مناظرہ تقریری شروع ہونا چاہئے تو ہمارے مناظر صاحب نے کہا کہ اچھا آپ شروع کریں.اس کے بعد مناظر ثانی نے مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی پیشگوئی پر چند کتابوں کے حوالہ جات پر اعتراض کئے جن کے جواب میں ہمارے مولوی جلال الدین صاحب مناظر نے خوب تشریح کے ساتھ بڑے مدلل جواب دیئے جن کا پبلک کے دلوں پر اچھا اثر پیدا ہوا اور ہر ایک خاص و عام کی سمجھ میں آتا گیا اور خاص کر مناظر ثانی کے دل پر بہت اچھا اثر ہو ا جس سے پتہ لگا کہ فریق ثانی کا مقصد حق شناسی تھا اور اس کے دل پر حق نے اچھا اثر کیا کیونکہ وقت مناظرہ ختم ہو چکا تھا تو فریق ثانی نے پانچ منٹ کی اور درخواست کی کہ مجھے پانچ منٹ اور دیئے جاویں تا کہ میں بقایا شکوک کو رفع کرلوں تو
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 104 ہمارے مناظر صاحب نے پانچ منٹ کی جدید درخواست نامنظور فرمائی اور فریق ثانی نے پھر دوسرے احباب کی سفارش کے ساتھ دس منٹ دینے کی درخواست کی تو تب ہمارے مناظر صاحب نے اس درخواست کو منظور فرمایا اور مناظر ثانی کے بقایا شکوک اچھی طرح سے بذریعہ حوالہ جات بخاری شریف و دیگر بزرگان دین کے حوالہ جات رفع کئے.اس کے بعد مناظرہ ختم ہوا اور نماز مغرب ادا کی گئی.نماز ادا کرنے کے بعد مولوی محمد امین کو پھر وہی حق مسجد کی طرف پکڑ کر لے آیا اور آتے ہی مولوی صاحب نے ہمارے چند احباب کے نام نوٹ کئے اور درخواست کی کہ اگر میں مرزا صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہوں تو کس طرح پر کر سکتا ہوں.تو سب احباب نے کہا کہ آپ نے جب آنا ہو تو ہمیں اطلاع دیں یا قادیان میں آجانا ہم انتظام کر دیں گے.تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ بہت اچھا میں حاضر ہوں گا اور ساتھ یہ بھی درخواست کی کہ اخبار الفضل یا کوئی اور پرچہ میرے پاس بھیجنا.میں نے کہا کہ میرے پاس الفضل آتا ہے میں ٹانڈہ میں آپ کو دکھا دیا کروں گا.پھر کہنے لگے کہ نہیں میں نے ٹانڈہ سے چلے جانا ہے.اتنا کہہ کر مولوی صاحب چلے گئے اور اپنے سب احباب مسجد سے اپنے مکان کو آگئے.مولوی صاحب محمد امین کے اس کہنے پر مجھے خیال پیدا ہوا ہے جو کہ میں مرزا صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کروں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ مولوی صاحب کو مرزا احمد بیگ کی پیشگوئی کا مفصل پر نہیں ہے کیونکہ مولوی صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر مجھے اس پیشگوئی کے شرائط مشروط ہونے کی خبر ہوتی تو میں اس پر مناظرہ ہی نہ کرتا.خیر اب بھی اچھا ہو گیا کہ مولوی صاحب کی غلطی کا ازالہ ہو گیا.آئندہ کیلئے پیشگوئی مذکورہ پر مناظرہ نہ کریں گے.اب میں رپورٹ مناظرہ ختم کرتے ہوئے ان معززین احباب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جن صاحبان نے اجلاس مناظرہ میں تشریف آوری فرما کر جلسہ کو بارونق کیا اور بڑے امن اور غور وفکر کے ساتھ مولوی محمد امین کے اعتراضوں کی تردید کو مد نظر رکھ کر حق اور باطل سے فائدہ اٹھایا اور خاکسار خاص کر سردار گھیر سنگھ صاحب سب انسپکٹر پولیس تھانہ ٹانڈہ کی ان مہر بانیوں کا جو کہ خاکسار کی معروض پر غور کر کے معہ ایک کنسٹیل کے انتظامیہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیکر غریب نوازی کی اور وقت مناظرہ کو بڑے امن کے ساتھ پورا کیا ان کا نہایت مشکور ہوں اور لالہ چند ولعل صاحب
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 105 ساہوکار عالم پور اور خانصاحب عزیز الرحمن خانصاحب کا دل و جان سے مشکور ہوں اور دیگر احباب کی بھی مہربانیوں کا مشکور ہوں.خدا ان کو جزائے خیر دے.مباحثہ نوشہرہ - (الحاکم قادیان 14 اکتوبر 1920ء) یہ مباحثہ ایک آریہ مناظر مہاشہ گیان بھکشو اور حضرت مولانا شمس صاحب کے مابین ہو ا جس پر آپ نے مندرجہ ذیل سوال کئے : ا.وید کے الہامی اور ازلی ہونے کا ثبوت دیں.۲.وید تین ہیں یا چار.۳.وید کن اعمال کے نتیجہ میں ملے.۴.رشیوں کی خصوصیات کیا ہیں وغیرہ.جب مہاشہ جی کوئی جواب نہ دے سکے تو گھبرا کر بول اٹھے کہ.” قادیانی بزرگوں نے اعتراضات کی ایک لسٹ تیار کر کے لونڈے ہمارے پیچھے لگا دئے ہیں مباحثہ کا لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا.مسلمانوں میں اس تقریب سے فائدہ اٹھا کر تبلیغ سلسلہ بھی کی گئی.(الفضل قادیان 8 مئی 1922ء) مباحثہ صداقت مسیح موعود اس مباحثہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس جبکہ غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب شامل تھے.یہ مباحثہ 21 جون 1922 ء کو ہوا.الفضل قادیان 20 جولائی 1922 ء ) مباحثہ امرتسر یہ مباحثہ حضرت حافظ روشن علی صاحب نے 23 اکتوبر 1923ء کو آریہ مناظر پنڈت بھگوت دھت بی اے پروفیسر ڈی اے او کالج لاہور سے کیا لیکن گلے میں تکلیف ہو جانے کی وجہ سے دوسرے دن یکم نومبر کو حضرت شمس صاحب کو مناظرہ کیلئے مقرر کیا گیا.چنانچہ حضرت شمس صاحب نے آریہ مناظر کے اعتراضات کا رد کیا.آریہ مناظر نے وید کے مکمل اور الہامی ہونے کے متعلق تقریر کی اور بتایا کہ ایشور و چار والی ہستی ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ وچار کی ادائیگی ضرور کسی بھاٹا میں ہونی چاہئے اس لئے ایشور کے وچار کی ادائیگی اسی کی زبان میں ہوگی کیونکہ انسانوں کی زبان ناقص ہے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 106 اور مخالفین بھی غور کر کے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شروع میں کوئی نہ کوئی زبان ہونی چاہئے اور یہ صرف ہمارا دعویٰ ہے کہ سنسکرت کئی ارب سالوں سے ہے اس لئے یہ الہامی ہوئی.چونکہ ویدا گنی ریشی پر سب سے اول نازل ہو ا تھا جیسے رگ وید کا منتر ظاہر کرتا ہے اور تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ لوگ اس لئے سورج کی اور آگ کی کئی سالوں سے عبادت کرتے تھے تو معلوم ہوا کہ لوگوں کو اگنی ریشی بھول گیا اور صرف اگنی کا نام یاد رہا جس کے معنی آگ کے ہیں اس لئے لوگ آگ کی طرف متوجہ ہوئے.اسی طرح ایک دو منتر پڑھ کر اس نے آدھ گھنٹہ کے بعد تقریر ختم کر دی اور انہیں باتوں کو بار بار بیان کرتا رہا حالانکہ چاہئے تھا کہ وید کی تعلیم پیش کرتا.کوئی معیار بتا تا جس سے اس کا الہامی ہونا ثابت کرتا.پھر حضرت شمس صاحب نے اس کے دلائل کا توڑ پیش کیا اور وید کا نامکمل ہونا ثابت کیا.پہلے وید پر علی اعتراضات کئے کہ اگر یہ الہام ایشور کی اپنی زبان میں ہوتا تو اس کو کون سمجھ سکے گا اور جب تک کوئی حکم سمجھ میں ہی نہ آئے اس پر عمل کیسے ہو سکتا ہے.وید تین ہیں یا چار ، وید کن لوگوں پر نازل ہوئے ، ان کی تاریخ پیش کرو.پھر ویدوں پر عقلی اعتراض کئے کہ وید بر ہما پر نازل ہوئے یا چار رشیوں پر.وید سے چاروں ویدوں کا اکٹھا نام بتاؤ.اگر دید مکمل ہے تو قدامت روح و مادہ کا دعوی معہ دلائل پیش کرو.ایسی عورت جس کے ہاں اولاد نہ ہو خاوند کیا کرے.وید میں اس کے متعلق کیا حکم ہے یا جس عورت کا خاوند نا قابل اولاد ہووہ عورت کیا کرے.دادی اور خالہ سے شادی کی ممانعت وید میں سے دکھاؤ.سوامی دیانند کے اپنے بتائے ہوئے اصول کے مطابق انسان نجات حاصل نہیں کر سکتا اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی نہ ہی ایشور گناہ معاف کرنے پر قادر ہے اور دیانند کے قول کے مطابق ہے.44-56 سال کی عمر تک انسان پڑھ سکتا ہے تو اتنی عمر میں وہ کیا کم گناہ کرے گا.ان اعتراضات کا رڈ جب مہاشہ صاحب سے نہ ہو سکا تو ادھر ادھر مدد کیلئے کسی ساتھی کو دیکھنے لگے پھر نا قابل اولا دعورت اور مرد کے متعلق بتایا کہ نیوگ کرے.جس پر سوال کیا گیا کہ کیا آریہ لوگ اعلانیہ نیوگ کراتے ہیں.کیا ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کی کوئی فہرست بتائی جاسکتی ہے.کیا شادیوں کی طرح نیوگ میں بھی براتیں جاتی ہیں.پھر جو بہت سے حوالے پیش کئے گئے تھے ان میں سے ایک حوالے میں ایک لفظ اندر تھا جو دو معنوں ایشور اور سورج کیلئے استعمال ہوتا ہے.اس کو ایشور کے معنوں میں پیش کیا گیا تو آریہ مناظر نے بہت شور مچایا کہ دیکھو حوالے غیر سے لے آئے ہیں لیکن یہ
حیات ہنس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 107 معلوم نہیں کہ معنی موقعہ کے مطابق کئے جاتے ہیں اور پھر کہا کہ میں آپ کے اعتراضات کا جواب اتنے تھوڑے وقت میں نہیں دے سکتا.آپ نے بہت زیادہ اعتراض کر دیئے ہیں اور پھر نہ آپ سنسکرت جانتے ہیں نہ آپ اس کی صرف ونحو کی رو سے بحث کر سکتے ہیں.مباحثہ امرسنگھ کا نگلا (ماخوذ از الفضل قادیان 30 نومبر 1922ء) یہ مباحثہ ضلع ایٹہ کے ایک گاؤں امر سنگھ کا نگلا مشہور آر یہ پنڈت کا لی چون صاحب سے ” قرآن کریم الہامی کتاب ہے یا ویڈ" کے موضوع پر ہوا.پہلے دو گھنٹے آریہ مناظر نے قرآن کریم پر اعتراض کئے جن کا حضرت مولانا شمس صاحب نے منہ بند کرنے والا رڈ پیش کیا.لیکن جب وید کی باری آئی تو آریوں نے شور مچا دیا کہ منتر اصل وید سے پڑھے جائیں.پنڈت دیا نند نے جو ترجمہ کیا ہے اس سے منتر نہ پڑھے جائیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ پنڈت دیانند جس کو آپ آریہ سماج کا بانی اور ریشی تسلیم کرتے ہیں اس کے ترجمے سے آپ کو محبت ہونی چاہئے نہ کہ نفرت یا پھر آپ لکھ دیں کہ دیا نند صاحب ویدوں کے علم سے واقف نہیں تھے اور ہم اس کے ترجمہ کو نہیں مانتے مگر انہوں نے کوئی بات نہ مانی نہ ہی مباحثے کیلئے رضامند ہوئے جس سے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ وہ مباحثہ سے بھاگ رہے ہیں.راجپوتوں نے جو غیر مسلم تھے آریوں کے فرار پر اسلام کی جے“ کے نعرے لگائے اور حضرت شمس صاحب کی تحریری شہادت دی.دیو بند کے دو مولوی صاحبان نے بھی جو جلسہ میں شریک تھے،شہادت پر دستخط کئے اور ثابت کر دیا کہ احمدیت کچی ہے کیونکہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے.الفضل قادیان 24/21 مئی 1923ء) مباحثہ بھونگا ؤں ضلع میں یوری یہ مباحثہ حضرت مولانا شمس صاحب اور پنڈت مہاشہ رام چندر صاحب دہلوی کے مابین جولائی 1923ء کے عشرہ اول میں طے شدہ شرائط کے ماتحت ہوا.مباحثہ سے قبل فریقین کی جانب سے اس مباحثہ کی بابت اشتہار بھی شائع ہوئے جو ماہ جون میں تقسیم کئے گئے.اس مباحثہ میں مولانا شمس صاحب نے دلائل سے آریوں کا مونہہ بند کر دیا.مباحثہ کے آخر پر آریہ حضرات شرائط مناظرہ سے بالا تر ہوکر قرآن کریم پر اعتراضات کرنے پر اتر آئے.اس مباحثہ کی روئیداد حضرت میر قاسم علی صاحب دہلوی کی قلم سے الحکم میں محفوظ ہے.اس مباحثہ کی بابت حضرت میر قاسم علی صاحب دہلوی کی ایک نظم پیش ہے:
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ہوئی فضل خدا وہ عیاں شان جلال الدین دکھایا کفر نے وہ کٹ کٹ کے فرقان جلال الدین ادھر تو نوجوان , نونہال گلشن احمد پھر اس پر رحمت حق شوکت و شان جلال الدین حضرت محمود جن پر جان دل قربان طفیل ہوا ہر مومن و مسلم , احسان جلال الدین عجب تھا حق باطل کا تقابل شان حق دیکھو ڈھانپتا تھا لیکے دامان جلال جلال الدین عدة منه کہوں کیا دشمن دیں روبنه مکار تھا پھر تو گرم میدان جلال الدین ہوا جب نام حق لنگوئی کی نیوگی کی ڈھیلی ہوگئی دھوتی کھلا جب کفرکش وہ پاک قرآن جلال الدین مقابل سال خورده گرچه اک پاپی پرانا تھا مگر اس دم ہر تھا طفل دبستان جلال الدین اک مومن کا دل اسلام کی خوبی کو سن کر مسرت میں دل و جان سے تھا قربان جلال الدین پڑا ہر ہاتھ اک اک کے ہوئے جنیو کا پڑا ہر چلی رو رو منکروں میں تیغ برہان جلال الدین پڑی پوری.کچوری کی طرح پھولے ہوؤں پر جب نکال آئی ہر اک کی دال برہان جلال الدین 108
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ہے قادیانی کی مرے پیارے خدا تجھ پھلے پھولے قیامت تک گلستان جلال الدین کلمۃ الحق مباحثہ جلال پور جٹاں 109 (احکم قادیان 21/14 جولائی 1923ء) اس مباحثہ کا نام جو بعد ازاں کتابی صورت میں شائع ہوا ” مباحثة ما بین اہل سنت و الجماعت و اہل تشیع اثنا عشریه المسمى بـه كلمة الحق ہے.جلال پور جٹاں ضلع گجرات پاکستان کا ایک بڑا گاؤں ہے.1923ء میں جلال پور جٹاں کی اہلسنت والجماعت نے شیعوں سے مناظرہ کرنے کیلئے قادیان سےDemand پر حضرت حافظ روشن علی صاحب کو معہ دیگر احباب کو منگوایا.چنانچہ حضرت حافظ صاحب نے اس میں اہلسنت والجماعت کی نمائندگی کی.اس مناظرہ میں حضرت حافظ صاحب کے پرچے حضرت مولانا شمس صاحب کو پڑھنے کی توفیق ملی.اہل تشیع کی طرف سے جناب سید غلام علی شاہ صاحب مناظر تھے.یہ مناظرہ جو 66 صفحات پر مشتمل ہے 1923ء میں شائع ہوا.(کلمۃ الحق مباحثہ جلال پور جٹاں ) اس مناظرہ کے بارہ میں حضرت مولانا غلام احمد صاحب بد و ملہوی کا بیان ہے: 1920ء میں ہی حضرت حافظ صاحب بعض اوقات اپنے تبلیغی سفروں میں ہم میں سے کبھی ایک کبھی دو کو کبھی تین کو اپنے ساتھ لے جاتے اور اپنی راہنمائی میں تقریریں کرنے ، مناظرہ کرنے کی مشق کراتے کبھی کسی مناظرہ کیلئے ایک دو کو بھجوا دیتے.چنانچہ اسی سال 1920ء میں مولوی شمس صاحب کے دو مشہور مباحثے ہوئے.ایک مباحثہ عالم پور کوٹلہ ( بیاس پار ) اور دوسرا مباحثہ سار چور مشہور ہیں.اس کے بعد 1921ء میں اور پھر 1922ء میں یہ بند اور کھل گیا.آخر فروری 1923ء میں مباحثہ جلال پور جٹاں آخری یادگاری تھے جس میں حضرت حافظ صاحب مناظر تھے اور آپ کے پرچہ جات مولوی شمس صاحب پڑھتے تھے اور خاکسار غلام احمد بدوملہوی اور مولوی ظہور حسین صاحب حوالے پیش کرتے تھے.(الفضل ربوہ 17 نومبر 1960ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مباحث مظفر نگر 110 یہ مباحثہ آٹھ نو اور دس فروری 1924ء میں تین دن ہوتا رہا.دوسرے روز حضرت شمس صاحب اور مولوی عبد اللطیف مولوی فاضل منشی فاضل مصطفے آبادی کے درمیان صداقت مسیح موعود کے موضوع پر ہوا.آپ نے قرآنی آیات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کی جس کا وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکے بلکہ سارا وقت استہزاء و تمسخر میں ضائع کیا.کبھی دیوانوں جیسے سوال کرنے شروع کر دیئے.پھر حضرت شمس صاحب نے اس کے اٹھائیس جھوٹ گنوائے جو اس نے تقریر کے دوران بولے تھے جن کا ایک رنگ میں اسے اقرار بھی کرنا پڑا اور دیو بند مولویوں نے اسے بہت ذلیل کیا اور اسے کہا تو نے ہمیں بہت خوار کیا ہے کاش آپ سٹیج پر نہ آتے.تیسرے دن پھر حضرت شمس صاحب نے مولوی عبد اللطیف صاحب کے جھوٹ گنوائے اور فرمایا جو شخص تقریر میں اتنا جھوٹ بولتا ہے وہ کہاں تک سچا اور ایماندار ہوسکتا ہے.یہ سن کر وہ پھر کھڑا ہوگیا لیکن تمسخر اور ٹھٹھے کے سوا کسی سوال کا جواب نہ دیا.آخر بارہ بج گئے اور کھانا کھانے کیلئے مناظرہ بند کر دیا اور نماز ظہر کے بعد حضرت شمس صاحب نے اس کے اٹھائیس جھوٹوں میں آٹھ اور جمع کر دیئے جو اس دن اس نے پھر تقریر میں بولے.مولوی صاحب اپنے جھوٹوں کو سن کر بالکل خاموش بیٹھے رہے.شرم کی وجہ سے نظر او پر نہیں اٹھاتے تھے.پھر دیوبند مولوی بدر عالم صاحب مقابلہ کیلئے کھڑے ہوئے.مناظرہ چار بجے تک جاری رہا لیکن مولوی عبد اللطیف صاحب کی طرح وہ بھی کسی اعتراض کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور استہزاء میں اس نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.مناظرہ ختم ہو گیا.جب مولوی عمر الدین صاحب اور حضرت شمس صاحب واپس آگئے تو دیوبندی مولوی نے پھر جلسہ شروع کر دیا اور حضرت شمس صاحب کے اعتراضات کا رڈ پیش کرنے لگا اس نے کہا لو اب ہم جواب دیتے ہیں جس کا لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑا.لوگوں نے کہا کہ احمدی علماء کے سامنے تو آپ کی زبان بند ہو گئی تھی اور انہوں نے کئی بار مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے اعتراضات کا جواب دیا جائے.بستی والوں نے جب ان کا یہ حال دیکھا تو کہا کہ پھر جلسہ رکھوتا کہ تمہاری تسلی ہو جائے.الفضل قادیان 22 فروری 1924ء) مباحثہ جاده اس مباحثہ کی بابت حضرت مولانا شمس صاحب کا اپنا بیان ہے :
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 111 1/2/1925 تاریخ کو جادہ میں غیر احمدیوں سے مباحثہ ہو ا جس میں احمد یہ جماعت کی طرف سے خاکسار اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین داماد مولوی محمد حسین بٹالوی تھا اور یہ مباحثہ اس وجہ سے قرار پایا تھا کہ وہاں دو آدمی احمدی تھے اور نئے تھے.غیر احمدی انہیں احمدیت سے تو بہ کرنے کے لیے مجبور کرتے تھے تو انہوں نے کہا کہ بہتر ہے کہ تم جلسہ کرو ہم بھی اپنے علماء منگوائیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مباحثہ ہوا اور دو اور شخص بھی سلسلہ میں داخل ہو گئے.3 فروری 1925ء تاریخ کو جب میں رامپور تقریر کے لئے گیا تو حافظ (جادہ کے ایک نواحمدی حافظ ) نے مذکورہ بالا واقعات سنائے اور اس کے بعد بیعت کا خط بھی لکھوایا.یہ نو بجے کا وقت تھا اور رات کو ان ہزیمت خوردہ مولویوں نے اس حافظ کو اپنے ساتھ ملا کر جلسہ کر کے احمدیت سے توبہ کا اعلان کرایا مگر ایک شیعہ نے جو اس کی بیعت کے خط لکھوانے کے وقت حاضر تھا ان کے جلسہ میں کہا.اندھا جھوٹ بولتا ہے اسی نے خط لکھوایا ہے.مسائل کے متعلق تو اس کی کوئی گفتگو ہی نہیں ہوئی.دوسرے دن رات کے وقت میں نے وہاں تقریر کی اور وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوْا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِيْنَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ( آل عمران : 73) کی تفسیر کی اور بتایا کہ دیکھو! کیا اب بھی کوئی ان علماء کے یہود ہونے میں شک باقی رہ گیا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ نابینا حافظ انہیں کا سکھایا ہو اتھا اور وجہہ النہار نو بجے کے قریب کہا کہ میں ایمان لاتا ہوں اور آخرہ رات کے وقت جا کر انکار کر دیا.رہا جماعت میں داخلہ، تو وہ خط ہی ہم نے ارسال نہیں کیا اور جماعت میں تو تب داخل ہو سکتا تھا کہ بیعت کی منظوری بھی آجاتی.(الحکم قادیان 21 جولائی 1938ء) مباحثه ویلی یہ مباحثہ حضرت شمس صاحب اور مولوی عبد الرحمن صاحب اہل حدیث کے مابین ختم نبوت کے موضوع پر ہو ا جس میں خدا تعالیٰ نے حضرت شمس صاحب کو نمایاں کامرانی سے ہمکنار فرمایا.مناظرہ کے بعد مخالفین بھی کہہ رہے تھے کہ مقابل پر مولوی صاحب بہت کمزور تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آج تو خوب احمدیوں کا اثر قائم ہو گیا ہے.خدا تعالیٰ اپنے لگائے ہوئے پودے کی خود آبیاری فرماتا ہے اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خدا تعالیٰ کے اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے پودے کو (الفضل قادیان 28 مارچ1925ء) نقصان پہنچائے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 112 مباحثه ساگر پوره موضع ساگر پوره متصل تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں 13 جنوری 1923ء کو احمدیوں اور غیر احمد یوں کے درمیان مباحثہ ہوا.احمدیوں کی طرف سے مولوی جلال الدین صاحب شمس مقرر تھے.مباحثہ کا موضوع حیات و وفات مسیح تھا.اس مباحثہ کی رپورٹ اخبار اہل سنت والجماعت نمبر 28-29 جنوری 1923ء میں بھی شائع ہوئی تاہم انہوں نے اپنی رپورٹ میں مباحثہ میں بیان کردہ حضرت مولانا شمس صاحب کے اصل جواب پوری طرح پیش نہ کئے.نوٹ: اس مباحثہ کی روئیداد کے بارہ میں مولانا موصوف کا مضمون الفضل قادیان 26 فروری 1923ء میں مرقوم ہے.دیکھئے الفضل قادیان 26 فروری 1923ء.مباحثه لودی منگل یہ مباحثہ حضرت مولانا شمس صاحب ، مولوی عبد اللہ امرتسری اور مولوی عبد الرحیم اہل حدیث کے مابین وفات مسیح اور امکان نبوت کے موضوعات پر دو دن جاری رہا.چھ چھ گھنٹے بحث ہوئی.خدا تعالیٰ نے اس میں عظیم الشان کامیابی سے نوازا.آٹھ آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.الفضل قادیان 30/26 مئی 1925ء) مباحث میانی یہ مباحثہ بمقام میانی ضلع شاہ پور بتاریخ 18-19 اکتوبر 1924ء کوحضرت شمس صاحب اور مفتی غلام مرتضی صاحب سکنہ میانی سے حیات و وفات مسیح کے عنوان پر تحریری و تقریری ہوا.اس علاقہ کے لوگوں نے حضرت شمس صاحب سے درخواست بھی کی کہ مباحثہ کو شائع ضرور کروادیں ہم مباحثہ کی ایک ایک کاپی اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں.تو آپ نے فرمایا کہ یہ مباحثہ انشاءاللہ شائع بھی ہوگا.چنانچہ بعد میں یہ الفضل قادیان 8 نومبر 20 دسمبر 1924ء) مباحثہ کتابی صورت میں شائع بھی ہوا.مباحثہ سید والا اور جڑانوالہ ( مکرم روشن دین صاحب آف اوکاڑہ) منا ظر آپ [ مولا نائٹس صاحب ] اس پایہ کے تھے کہ ابھی فارغ التحصیل ہوکر نکلے ہی تھے کہ آر
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 113 سید والا ایک مناظرہ پر آئے.مقابلہ پر عبد الرحیم اور مولوی محمد علی لکھو کے والے تھے.ہمارے علاقہ کے ایک معزز غیر از جماعت زمیندار رائے نوشیر خان نے اختتام مناظرہ پر کہہ دیا غیر احمدی علماء احمدی مناظر کے دلائل کو نہیں توڑ سکے.اسی طرح ایک دفعہ جڑانوالہ کے قریب ایک مناظرہ ہوا.اس میں مولوی محمد حسین کولو تارڑ وی ہمارے مد مقابل تھے.مولانا جلال الدین شمس صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدر تھے اور مولوی محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین مناظر تھے.مولوی محمد حسین نے اپنی ناکامی کو دیکھتے ہوئے کہ ایک بچہ سے مناظرہ کر رہا ہوں.حضرت شمس صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب ہم نے مولوی نورالدین [ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الاول سے مناظرے اور گفتگو کی ہے، حافظ روشن علی صاحب (رضی اللہ عنہ ) سے مناظرے کئے.مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ( رضی اللہ عنہ ) سے بحث کی ہے اور آج تم ایک بچہ کو ہمارے مقابلہ پر کھڑا کر رہے ہو.حضرت شمس صاحب رضی اللہ عنہ کے جواب سے وہ اور بھی شرمندہ ہو گیا.آپ نے فرمایا ” مولوی صاحب آپ کی ذلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ نے ہمارے استاد سے مناظرہ کیا اور پھر شاگردوں سے مناظرہ کیا اور اب شاگردوں کے شاگردوں سے مناظرہ کر رہے ہیں.کیا اس میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت نہیں ملتا ؟“ مباحثہ کھاریاں الفضل ربوہ 3 دسمبر 1966 ءصفحہ 5) نوٹ: اس تاریخی مباحثہ میں مد مقابل مولوی محمد حسین کولو تارڑوی اور مولوی کرم دین ساکن بھیں تھے.از مکرم سعد الدین صاحب احمدی سابق سیکر ٹری جنرل انجمن احمد یہ کھاریاں) کھاریاں کے غیر احمدیوں نے 1924 ء نومبر کے شروع میں ایک اشتہار شائع کیا کہ 29-30 نومبر کو ہم ایک جلسہ کر رہے ہیں.بعد میں ان کے پروگرام سے پتہ چلا کہ اس جلسہ کی غرض و غایت احمدیت کے خلاف لوگوں کو بھڑ کا نا تھا.اپنے پروگرام میں انہوں نے ایک نوٹ یہ بھی دیا کہ مرزائیوں کو صداقت مرزا اور وفات مسیح پر بولنے کی اجازت ہوگی.پروگرام میں ختم نبوت پر بھی تقریر ہوگی.باوجود ہمارے کہنے کے کہ ہمیں اس تقریر کے بعد بھی وقت دیا جائے.انہوں نے ہمیں کوئی وقت نہ دیا.پہلے تو ہمارے بار بار پوچھنے پر کہ مناظرہ کیلئے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 114 کتنا وقت ہوگا کچھ نہ بتایا.28 نومبر کی رات کو بتایا کہ مناظرہ کیلئے کل وقت 115 منٹ ہونگے جس میں سے احمدیوں کیلئے 45 منٹ اور ان کیلئے 60 منٹ ہوں گے.احمدیوں نے مطالبہ کیا کہ انصاف کیا جائے کیا ایسا مناظرہ بھی کسی نے دیکھا سنا ہے؟ مگر جواب ملا کہ ہم نے جو فیصلہ کیا درست ہے اگر یہ فیصلہ منظور ہے تو ٹھیک ورنہ تمہاری مرضی.پھر احمد یوں نے اسی وقت ایک اشتہار چھپوایا جس کا عنوان تھا ” غیر احمدی علماء کا مباحثہ سے فرار اور اس میں ساری حقیقت بیان کر دی.اس وقت ہمارا خاص آدمی جہلم گیا اور رات گیارہ بجے وہ اشتہار طبع کروا کر لے آیا.یہ اشتہارات 29-30 نومبر کی درمیانی شب دو تین بجے مختلف مقامات پر چسپاں کئے گئے.اس اشتہار نے غیر احمدیوں کے دلوں پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ 30 نومبر کی صبح غیر احمدیوں کا سیکرٹری مع چند اور ممبران اشتہارات کو چھلتا چھلاتا پھرتا تھا اور جو اشتہارا کھڑ نہ سکتا تھا اس پر گوبر وغیرہ ملتا تھا.30 نومبر کی صبح کو جب غیر احمدیوں کا جلسہ شروع ہوا تو مولوی کرم دین ساکن بھیں اٹھا کہ جب تک میں میدان جلسہ میں کھڑا ہوں احمدیوں کو جرات نہیں کہ مناظرہ کیلئے باہر نکلیں.میں نے مرزا صاحب سے مقابلہ کیا، مرزا صاحب مقدمہ کی پیروی کے وقت جب میرے سامنے کھڑے ہوتے تو بیہوش ہو کر گر پڑتے.وہ ابھی یہ باتیں کہہ ہی رہا تھا کہ ہم اچانک بلائے ناگہانی کی طرح میدان میں آکھڑے ہوئے.ہم نے سب انسپکٹر پولیس کھاریاں سے استدعا کی کہ وہ بھی جلسہ میں تشریف لاویں تا جلسہ میں امن قائم رہے.آخر موصوف کی کوشش سے تسلیم کیا گیا کہ فریقین کو مساوی مساوی وقت دیا جائے.دونوں مضامین (حیات مسیح علیہ السلام ، صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کیلئے دو دو گھنٹے وقت مقرر ہوا اور مناظرین کو پندرہ پندرہ منٹ تقریروں کیلئے دیئے گئے.پہلا مبحث وفات مسیح علیہ السلام تھا.غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین کولو تارڑ وی بحیثیت مدعی حیات مسیح کھڑے ہوئے اور آیات بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيهِ ، وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ اور وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ للسَّاعَةِ (النساء: 159 160 ، الزخرف :62) کو رفع جسمانی اور حیات مسیح کے بطور نص بیان کیا.ہماری طرف سے مولوی جلال الدین شمس مولوی فاضل مناظر تھے.شمس صاحب نے مولوی محمد حسین کے دلائل کو ایسا تو ڑا کہ غیر مسلم پبلک بھی محسوس کرتی تھی.لفظ رفع کے معانی لغت سے بیان کر دینے کے بعد مولوی محمد حسین سے مطالبہ کیا کہ اس آیت کے سوا ( کیونکہ یہ متنازعہ فیہ ہے ) کوئی ایسی مثال پیش کرو جس میں لفظ رفع ہو اور اللہ فاعل ہو اور کوئی ذی روح مفعول ہو اور اس کے معنی رفع جسمانی کے ہوں مگر آخر تک وہ اس کو پورا نہ کر سکا.غیر احدی مولوی کے دلائل تو ڑنے کے بعد شس صاحب نے پندرہ کے قریب
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 115 اعتراضات پیش کئے جو عقیدہ حیات مسیح کے سبب سے ان پر پڑ سکتے تھے جن کا کوئی معقول جواب آخر تک نہ دیا گیا.مباحثہ دلاور چیمہ مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ فرمائیں الفضل قادیان 16 اور 18 دسمبر 1924ء) یہ مباحثہ 20-21 مارچ 1925ء کو حضرت مولوی شمس صاحب اور مولوی محمد حسین کولو تارڑوی کے ما بین صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر ہوا.حضرت شمس صاحب نے قرآنی معیاروں کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کی.آپ کی تقریر کا اس قدر اثر ہوا کہ ہندو سامعین بھی عش عش کر اٹھے.مولوی محمد حسین نے شرائط مناظرہ کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرآن کریم کی بجائے ادھر ادھر کی باتیں کرنی شروع کر دیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبد الحکیم والی پیشگوئی پر اعتراض شروع کر دیئے.پھر مناظرے کا پہلا وقت ختم ہو گیا.دوبارہ اڑھائی بجے مناظرہ شروع ہوا.مولوی محمدحسین کو چونکہ اپنی پہلی شکست کا احساس تھا اس لئے اس بات پر مصر تھا کہ بحث صرف حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیوں پر ہوگی.حضرت شمس صاحب نے اس کی یہ بات بھی مان لی.لیکن پھر بھی غیر احمدیوں نے شور وغل اور تمسخر و استہزاء کے سوا کچھ نہ کیا.دوسرے روز پھر غیر احمدی احباب نے چند سوالات کئے جن کا حضرت شمس صاحب نے بڑا مد تل جواب دیا جس کا خدا تعالیٰ کے فضل سے سامعین پر بڑا اچھا اثر ہوا.(الفضل قادیان9 اپریل 1925ء) مباحثہ بٹالہ بٹالہ گو قادیان کے نزدیک ہے مگر بدقسمتی سے اس روحانی چشمہ سے جو اس کے نزدیک جاری ہوا اس شہر نے بہت کم حصہ لیا ہے.یہ مباحثہ حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی اے رضی اللہ عنہ کی تحریک سے حضرت شمس صاحب اور غیر احمدی مناظر مولوی عبد القادر کے مابین ہوا.یہ مباحثہ حیات ووفات مسیح ، امکان نبوت اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مواضیع پر منعقد ہوا.خدا تعالیٰ کے فضل سے مباحثہ کامیاب رہا.ہر ذی شعور شخص نے محسوس کیا کہ حضرت شمس صاحب کے براہین و دلائل قاطع ، ٹھوس و مضبوط اور مسکت تھے.مد مقابل نے بھی اپنی کمزوری محسوس کی اور دوران تقریر مولوی عبد القادر صاحب سے کئی دفعہ اظہار حقیقت بھی ہوا.چنانچہ اس نے خود بھی کہا کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئینہ تھے اور اس میں ابو جہل کو اپنی شکل اور صحابہ کو اپنی صورت نظر آتی تھی اسی طرح مرزا صاحب کی کتابیں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 116 بھی آئینہ ہیں.ان میں غیر احمد یوں کو اپنی صورت اور احمدیوں کو اپنی شکل نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ بٹالہ کے لوگوں نے احمدیت کا پیغام سنا اور اپنی کمزوری کا احساس کیا.(الفضل قادیان2 اپریل 1925ء) مباحث گجرات یہ مباحثہ 10 مئی 1925ء کو حضرت شمس صاحب اور مولوی محمد حسین کولو تارڑوی کے مابین اجرائے نبوت کے موضوع پر ہوا.اس میں بھی جماعت احمدیہ کو نمایاں کامیابی ہوئی.مناظرہ میں موجود گجرات کے پاس کے ایک گاؤں کے زمیندار نے مناظرہ ختم ہونے کے بعد اعلان کیا کہ میں احمدی ہوتا ہوں.الحمد للہ کہ اس گاؤں میں احمدیت کا بیج بویا گیا.الفضل قادیان 30/19 مئی 1925ء) مباحثہ جہلم یه تحریری و تقریری مباحثہ جہلم شہر کے احمدیوں اور عیسائیان شہر جہلم کے مابین ہوا.جماعت احمد یہ جہلم کی نمائندگی حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے کی جبکہ عیسائیوں کی طرف سے پادری عبد الحق نے نمائندگی کی.مباحثہ 12 تا 15 دسمبر 1932ء گرجا گھر جہلم میں منعقد ہوا جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں تعارف کتب کے باب میں دی جا رہی ہے.(مزید تفصیل کیلئے دیکھئے الفضل قادیان 14 اگست 1932ء) مناظرہ شملہ یہ مناظرہ 27 اگست 1933ء کو شملہ میں ہوا.علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے وفات مسیح کے موضوع پر جبکہ ختم نبوت اور صداقت مسیح موعود کے موضوع پر مکرم مولوی محمد سلیم فاضل نے غیر احمدی علماء سے مناظرہ کیا.احمدی مقررین کی تقریریں نہایت موثر اور طرز استدلال نہایت عام فہم تھا جس سے الفضل قادیان 3 ستمبر 1933 ، صفحہ 2) حاضرین بہت متاثر ہوئے.بنگہ ضلع جالندھر میں مباحثہ ستمبر 1922ء کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگہ میں پہلا مباحثہ ستمبر میں ہوا تھا جس میں مولانا موصوف شامل ہوئے.الفضل اخبار نے لکھا: 9 ستمبر 1922ء کو مولوی جلال الدین صاحب، شمس، شیخ عبد الرحمن مصری اور مباشر فضل حسین صاحب ، بنگہ ضلع جالندھر مباحثہ کیلئے تشریف لے گئے (الفضل قادیان 11 ستمبر 1922ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس بنگہ میں ایک مناظرہ 117 یہ مناظرہ 28 تا 30 اکتوبر 1933ء بنگہ میں ہوا جس میں جماعت احمدیہ کو نمایاں فتح حاصل ہوئی.جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا جلال الدین صاحب شمس ، مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور مولوی محمد سلیم صاحب مولوی فاضل مناظر تھے.فریق مخالف کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑ وی اور مولوی محمد صاحب عریبک ٹیچر رائے کوٹ نے بحث کی.اختتام جلسہ پر چار نفوس نے احمدی ہونے کا اعلان کیا.فریق مخالف نے بھی تین آدمی کھڑے کئے جنہوں نے کمال سادگی سے یہ اعلان کیا کہ ہم پہلے مرزائی تھے اب احمدی ہوتے ہیں.اس پر بے اختیار چاروں طرف قہقہے بلند ہوئے.موضع بنگہ میں غیر احمدیوں کے ساتھ یہ پہلا مناظرہ تھا.(الفضل قادیان 9 نومبر 1933 ء صفحہ 2) نوٹ : او پر جو پہلے مباحثہ کا ذکر ہے وہ پہلا مباحثہ ہی تھا جبکہ پہلا مناظر ہ1932ء میں ہی ہوا.مناظرہ دھار یوال اس مناظرہ کی بابت مولوی محمد نذیر صاحب مولوی فاضل تحریر کرتے ہیں : 22-21 اپریل 1934ء میں عیسائیوں سے دھار یوال میں پادری میلا رام اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کے مابین چار مناظرے ہوئے.مرکز قادیان کی طرف سے بہت سے اصحاب بھی مناظرہ سننے کیلئے گئے تھے.عیسائی مناظر کو شکست فاش نصیب ہوئی.ہماری کامیابی کا غیر احمدی احباب نے بھی اعتراف کیا اور اتحاد عمل کا ثبوت دیا.ٹھیکیدارمحمد عبد اللہ احمدی اور منشی محمد الدین صاحب احمدی نے تمام احمدی احباب کے قیام و طعام کا انتظام کیا جس کیلئے وہ شکریہ کے مستحق ہیں.الفضل قادیان 29 اپریل و 6 مئی 1934 ، صفحہ 1-2) مناظرہ امرتسر اس سے قبل ” مباحثہ امرتسر کا ذکر گزر چکا ہے جو آریوں کے ساتھ ہوا.یہ مناظرہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کیساتھ ہوا.مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے 30 ستمبر 1934ء کی رات کو ڈھاب کھٹکیاں میں ایک جلسہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کے موضوع پر تبادلہ خیالات کی دعوت دی جس پر علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل کھاریاں تشریف لے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 118 گئے.علامہ شمس صاحب نے حضور علیہ السلام کی عمر کے متعلق الہامات کے اصل الفاظ پیش کر کے حضور کے الفاظ بلکہ خودمولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کی تحریرات سے ثابت کر دکھایا کہ الہام الہی کے مطابق حضور نے 75 سال کی عمر میں وفات پائی.الفضل قادیان 9 اکتوبر 1934 ء صفحہ 7) مقدمہ بہاولپور حضرت مولانا موصوف کی زندگی کا یہ طویل ترین اور اہم ترین مباحثہ ہے جو عدالت عالیہ کے اندر کئی نابغہ روزگار ، منجھے ہوئے علماء اور چوٹی کے محققین کے ساتھ ہوا.مقدمہ بہاولپور کیلئے حضرت مولا نائٹس کا انتخاب بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے قابل ہے.باوجود یکہ اس وقت سلسلہ احمدیہ میں چوٹی کے علماء موجود تھے تاہم سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی نظر انتخاب آپ ہی پر پڑی.وایں سعادت بزور بازو نیست اس مقدمہ میں اللہ تعالیٰ کی شان کئی طور پر ظاہر ہوئی.کٹہرہ میں ہر موقعہ پر حضرت مولانا شمس صاحب نے دلائل قاطعہ وساطعہ اور براہین ملحمہ سے طائفہ مخالفین کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا.اس مقدمہ کی روئیداد سلسلہ وار کئی اقساط میں اخبار الفضل قادیان 1932 ء تا1934ء میں شائع ہوتی رہی.مولانا شمس صاحب کے مدافعانہ دلائل، مد مقابل مولوی انور شاہ کشمیری اور دیگر کو لاجواب کر دیتے.آپ کے عدالتی بیانات ہمیشہ حقائق پر مبنی ہوتے اور فاضل حج کو بار بار آپ کے دلائل کا رخ دوسری جانب موڑ نا پڑ تایا یہ کہنا پڑا تا کہ اسقدر تفصیل کی ضرورت نہیں.آپ کے بیانات عقلی و نقلی دلائل سے بھر پور ہوتے.مقدمہ بہاولپور کی روئیداد پہلی بار کتابی صورت میں 1963ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی جس کے صفحات 348 ہیں.اس میں حسب ذیل مضامین بیان ہوئے ہیں: ایمان اور اسلام، وجوہات تکفیر کا ر ، قرآن مجید سے بقاء وحی پر دلائل، بزرگان سلف کے عقائد در بارہ وحی.خاتم النبین پر مبسوط بحث، اجراء و انقطاع نبوت پر بحث، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئے جانے والے مختلف پیراؤں میں اعتراضات کے جوابات، حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات پر اعتراضات کے مسکت و مدلل جوابات اور کئی دیگر علمی مضامین شامل ہیں.مقدمہ بہاولپور کی ساری بحث منظم ومرتب اور دلائل عقلیہ و نقلیہ سے معمور ہے.حضرت مولانا شمس صاحب کی زندگی میں اور بھی کئی مناظرے اور مباحثے ہوئے جن میں سے بعض کا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 119 مختصر ساذکر کتاب ہذا میں کسی نہ کسی طور پر آیا ہے جیسے بلا دعر بیہ میں خدمات والے حصہ اور انگلستان میں خدمات سلسلہ کے باب میں بعض کا ذکر کیا گیا ہے تاہم سب کا ذکر اس کتاب میں شامل اشاعت نہیں ہوسکا.ایک نوجوان جس نے مناظرہ میں مولویوں کے مونہہ بند کر دیئے تاثرات مکرم ملک نذیر احمد صاحب لندن) میرے والد صاحب ملک غلام حسین مرحوم بتلاتے ہیں کہ : ” میری عمر اس وقت بائیس تئیس سال کی ہوگی جبکہ میں ریلوے میں ملازم تھا.چنانچہ ملازمت کے سلسلہ میں مختلف شہروں کا سفر کرنا پڑتا تھا اور بعض اوقات کسی دوسرے شہر میں سارا سارا دن یا رات بھی وہیں گزارنی پڑتی.ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ کسی ایک شہر میں سارا دن گزارنا تھا تو میں نے سوچا کہ سٹیشن کے گیسٹ ہاؤس میں وقت گزارنے کی بجائے کیوں نہ شہر کی سیر کی جائے.پس میں شہر گھومنے کیلئے نکل پڑا.بازار میں ایک ڈھول والا منادی کر رہا تھا کہ فلاں میدان میں مرزائیوں کے ساتھ مناظرہ ہونے والا ہے.چنانچہ میں نے سوچا کہ چلو اس کو دیکھتے ہیں.چنانچہ میں وقت کے مطابق وہاں میدان میں پہنچ گیا وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا ہجوم ہے اور ایک پلیٹ فارم پر بڑی بڑی داڑھیوں والے مولوی کھڑے ہیں مگر مجھے جماعت احمدیہ کا کوئی پلیٹ فارم نظر نہ آیا.تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ قریب ہی چھوٹا سا ایک پلیٹ فارم ہے جہاں چند گنتی کے لوگ جمع ہیں.میں یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ یہ کیا مقابلہ کریں گے.پس میں ان کے پاس کھڑا ہو گیا اور حیرت سے پوچھا کہ آپ لوگوں کا مولوی کون ہے ؟ تو ان میں سے ایک شخص نے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کیا.میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس نوجوان کی تو ابھی پوری طرح داڑھی بھی نہیں آئی یہ کیا مقابلہ کرے گا.پس اشتیاق بڑھتا گیا اور میں ان کے پاس کھڑا ہو گیا.مناظرہ شروع ہوا اور بڑی بڑی داڑھیوں والے مولویوں نے سوال اور تقریریں شروع کر دیں اور جماعت احمدیہ کے اس نوجوان نے فرفرمنہ توڑ جواب دینے شروع کئے تو میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ یہ کیا ہورہا ہے.سوال و جواب کا یہ سلسلہ تھوڑی دیر جاری رہا اور جب مولویوں نے دیکھا کہ جواب بڑے سخت اور منہ توڑ اور بڑی روانی سے آرہے ہیں تو پھر دوسرا حر بہ یعنی شور مچانا شروع کر دیا.اب جواب تو سنے ہی نہ جاسکتے تھے خالی سوالوں پر ہی شور ہونے لگا اور جلد ہی شور میں ہجوم کو مشتعل کرنے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 120 لگے، ڈھول بجنے لگا ایک ہنگامہ شروع ہو گیا اور میں از راه ترحم و ہمدردی مولوی صاحب کے پاس حفاظت کیلئے کھڑا رہا اور ویسے ہی چونکہ نو جوانی میں میرا جسم بہت مضبوط تھا میں نے سوچا کہ اس نوجوان مولوی صاحب سے کہوں آپ یہاں سے چلے جائیے اب تو کوئی سنتا ہی نہیں کہ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ شور بڑھتا گیا اور پتھراؤ شروع ہو گیا.پس میں نے اس جماعت کے نوجوان مولوی صاحب سے آگے بڑھ کر کہا کہ اب تو پتھر بھی پڑنے شروع ہو گئے ہیں آپ میرے ساتھ آئیں میں حفاظت سے آپ کو باہر لے جاتا ہوں.تب اس نوجوان مولوی نے بڑے ایمان افروز لہجہ میں کہا جس نے میرے دل کو ہلا دہا: آپ کی حفاظت کا شکریہ.آپ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے دو ایک پتھر پڑ بھی گئے تو کیا ہے مگر ہم یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک یہ سب لوگ یہاں سے نہ چلے جائیں ورنہ کہیں گے مرزائی بھاگ گئے.‘ شور ہوتا رہا پھر پڑتے رہے اور آہستہ آہستہ لوگ ڈھول بجاتے ہوئے وہاں سے چل دیئے.تب میں ان مولوی صاحب سے ملا.انہوں نے مجھے قادیان آنے کو کہا.اس نوجوان مولوی کا نام حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ہے.تب میں نے قادیان جا نا شروع کر دیا اور چند ملاقاتوں کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی.افسوس مجھے تاریخ یاد نہیں.غالباً 1920ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے.“ میری عمر اس وقت دس بارہ سال کی ہوگی جب میرے دادا بستر مرگ پر پڑے تو میرے والد صاحب نے اپنے والد کی علالت کے مد نظر اپنی ملازمت میں درخواست دے کر اپنا تبادلہ وزیر آباد کے اسٹیشن پر کروالیا تا کہ اپنے والد کی مناسب دیکھ بھال کر سکیں.میرے آباء گجرات کے رہنے والے تھے جو کشمیر سے ہجرت کر کے یہاں مقیم ہوئے.دادا کا گھر گجرات میں تھا اور میرے والد صاحب نے بھی اپنا گھر الگ دس پندرہ منٹ کے فاصلہ پر بنایا ہوا تھا.میرے دادا پیٹ کی تکلیف سے ڈیڑھ سال بیمار رہ کر فوت ہوئے.والد صاحب دادا کی خود خدمت کرتے اور والدہ کو بہت کم کہتے.وہ اپنی ڈیوٹی وزیر آباد میں ختم کر کے اگلی گاڑی لے کر گجرات آجایا کرتے اور پھر گھر میں ذرا آرام کرنے کے بعد مجھے ساتھ لے کر دادا کی خدمت کیلئے ان کے گھر چلے جاتے.مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے اپنے والد کو اپنے دادا کی خدمت کرتے دیکھا.خدمت کے طرح طرح کے نظارے دیکھنے میں آئے.اسی سلسلہ میں اپنی زندگی کا اہم ترین واقعہ بیان کرتا ہوں.66
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس میں احمدیت سے کیسے متعارف ہوا 121 کوئی عصر کی نماز کا وقت ہوگا میں اپنے والد صاحب کے پاس کھڑا تھا کہ نہ جانے میرے دادکو کیا خیال آیا.وہ میرے والد صاحب سے پوچھنے لگے غلام حسین جب میں مروں گا تو کیا تو میرا جنازہ پڑھے گا ؟ والد صاحب نے تھوڑی گھبراہٹ، تھوڑے حجاب اور نہ جانے کیا خیال کر کے فرمایا چچا جی کیوں ایسی بات سوچتے ہیں میں جو ہوں میں سب کچھ کروں گا مگر دادا کی کسی طرح بھی تسلی نہ ہوئی.انہوں نے دوبارہ نحیف انداز مگر زور سے پوچھا.جب اصرا بڑھا تو والد صاحب نے احتیاط سے عرض کیا کہ ہماری جماعت عام طور پر سنیوں کا جنازہ.ابھی وہ یہ کہہ ہی رہے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں جیسے میرے دادا میں جان آگئی ہے.سرہانے سے کافی اوپر ہو کر گرج دار آواز میں کہا: غلام حسین اگر یہ احمدیت ہے جو تم ہو تو لاؤ کاغذ میں دستخط کرتا ہوں اور احمدیت کو قبول کرتا " ہوں میرا جنازہ تم نے پڑھنا ہے.“ آج ساٹھ سال بعد یہ واقعہ مجھے ایسے یاد ہے جیسے کل کا ہو.اپنے دادا اور اپنے والد کی اس گفتگو کا نظارہ اب بھی میری آنکھوں میں اتنا تازہ ہے.میں آج بھی احباب سے جب ذکر کرتا ہوں تو یہی کہتا ہوں کہ میں احمدیت سے یوں متعارف ہوا.میرے والد اس بات سے کافی گھبرا گئے اس وقت تو انہوں نے اچھا اچھا کر کے انہیں تسلی دی مگر انہیں بہت گھبراہٹ اور ڈر تھا کہ لوگ خصوصاً میرے غیر از جماعت بہن بھائی کیا کہیں گے کہ اس نے جائیداد کی خاطر یہ سب کچھ کیا ہے.اس وقت مکرم ملک عبد الرحمن صاحب خادم امیر ضلع گجرات تھے اور قانون سے خواب واقفیت رکھتے تھے.والد صاحب کے دوست بھی تھے.والد صاحب نے اُن سے اس واقعہ کا ذکر کیا.جہاں تک میرا خیال ہے انہوں نے چند معز زلوگوں کو اپنے ساتھ لیا اور دادا سے کہا کہ ان کے سامنے بیان کریں کہ آپ نے بخوشی احمدیت قبول کر لی ہے آپ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا.اور ان لوگوں سے بھی کہا کہ آپ بھی تسلی کرلیں.جب ہر طرح تسلی کر لی گئی تو مکرم ملک خادم صاحب مرحوم نے بیعت فارم پر دستخط کروائے اور جنازہ پڑھنے کا وعدہ کیا.چنانچہ دادا کی وفات پر ان کا جنازہ مکرم ملک صاحب مرحوم نے ہی پڑھایا اور ہمارے دیگر سُنی رشتہ دار کھڑے یہ نظارہ دیکھتے رہے.بچپن کا یہ عجیب واقعہ میرے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑ گیا اور آج میں لوگوں سے ذکر کرتا ہوں کہ میں احمدیت سے کیسے متعارف ہوا.اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میرے والد صاحب جو
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 122 حضرت مولانا شمس صاحب مرحوم کی وجہ سے احمدی ہوئے ان میں کس قدر نیکی پیدا ہوئی کہ میرے دادا یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر احمدی ایسے ہوتے ہیں تو میں بھی احمدیت قبول کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان سب پر ہزاروں برکات نازل فرماتا رہے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.تاثرات بنام مکرم منیر الدین صاحب شمس محررہ جولائی 2007ء)
حیات ہنس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس چھٹا باب بلاد عر بیہ میں 123
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 124 عرب کے بارہ میں سید نا حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات و ان ربی قدبشرنى فى العرب و ألهمنى أنْ امونهم و اريهم طريقهم و أصلح شؤونهم (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 182) مصالح العرب ـ ميسر العرب...فرمایا اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عرب میں چلنا شاید مقدر ہو کہ ہم عرب میں جائیں.( بدر جلد 1 نمبر 23 مئورخہ 7 ستمبر 1905 ء صفحہ 2.تذکرہ مجموعہ الہامات، بار چہارم،صفحہ 477) ه يدعون لك ابدال الشام و عبادالله من العرب یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں.خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیوں کر اس کا ظہور ہو.واللہ اعلم بالصواب.از مکتوب 6 اپریل 1885 - مکتوبات احمد یہ جلد اول ص 86 بحوالہ تذکر طبع چہارم، صفحہ 100) ه عرب اپنی قومی ترقی کی طرف توجہ کرینگے اور اس کے حصول کیلئے کوشش کریں گے بلائے دمشق تحفه شهزاده و میلز اردو، بار اول صفحه 81) ( بدر جلد 6 نمبر 15 مئورخہ 11 اپریل 1907 صفحہ 4.تذکرہ مجموعہ الہامات، بار چہارم ، 2004ء،صفحہ 603)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 125 حضرت مولانا شمس صاحب کا بلاد عربیہ میں خدمات دینیہ کا عرصہ سات سال (1925ء تا 1931ء) پر محیط ہے.یہ باب جہاں آپ کی غیر معمولی خدمات دینیہ پر مشتمل ہے وہاں اس عرصہ کی ایک حد تک بلا د عربیہ کی تاریخ بھی محفوظ کئے ہوئے ہے.ان سرگرمیوں کا زیادہ تر ذکر حضرت مولا نا صاحب کی تبلیغی رپورٹوں اور خطوط میں کیا گیا ہے اور انہی رپورٹوں اور آپ کے مضامین کو اس باب میں بنیاد بنایا گیا ہے.عرب میں احمدیت دیارِ حضرت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام آپ کی حیات طیبہ میں ہی 1890ء کے عشرہ میں پہنچ چکا تھا.10 جولائی 1891ء کومکہ مکرمہ کے ایک بزرگ مکرم محمد بن شیخ احمد ( ساکن محله شعب عامر ) اور حضرت السید محمد السعید الحمیدی طرابلسی جنہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی، ہر دو بزرگان تین سو تیرہ اصحاب کرام میں شامل ہیں جن کا ذکر خیر حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں فرمایا ہے.حضرت محمد السعید صاحب الحمیدی کا ذکر خیر آئندہ صفحات میں آئے گا.ان کے علاوہ طائف کے ایک بزرگ مکرم حضرت عثمان صاحب بھی تین سو تیرہ اصحاب میں شامل تھے.سیدنا حضرت مسیح موعود نے اپنی عربی تصنیفات میں سے التبلیغ، کرامات الصادقین، جماعتہ البشریٰ اور تحفہ بغداد خصوصاً عربوں کے لئے تحریرفرما ئیں.کرامات الصاقین میں حضرت محمد السعید الحمیدی کا ذکر خیر فرمایا اور آپ کے چار قصائد بھی درج فرمائے.(دیکھئے کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7 صفحات 155-158)
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 126 حضور کے عہد سعادت میں کئی عرب قادیان میں بھی دیار مہدی میں حاضر ہوئے جن میں بعض کا ذکر جماعتی اخبارات الحکم و بدر کی ڈائریوں میں محفوظ ہے اور بعض عرب احباب کا ذکر خیر سید نا حضرت اقدس نے اپنی تحریرات میں بھی فرمایا ہے جیسے مکرم الحاج محمد المغر بی ، سید عبدالحی عرب ، اور مکرم عبدالحی الحویزی.1902ء میں حضرت حکیم نور الدین صاحب بھیروی نے عربی کتب نقل کرنے کی غرض سے حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری کو بلا د مصر یہ بھجوایا جہاں آپ نے تبلیغی خدمات بھی سرانجام دیں.خلافت اولی کے آخری دور یعنی 1913ء میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شا صاحب اور شیخ عبد الرحمن صاحب مصری مصر میں بغرض تعلیم و تبشیر بھجوائے گئے.اسی طرح خلافت ثانیہ میں 1922ء میں حضرت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مصر میں بغرض تعلیم روانہ ہوئے.جب حضرت مولانا شمس صاحب کا ملک شام کیلئے تقرر ہوا تو آپ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے ہمراہ روانہ ہوئے جو 1913ء سے ان علاقوں میں خدمات کی توفیق پارہے تھے.(نوٹ : عرب ممالک میں احمدیت کے آغاز کی مزید تاریخ کیلئے دیکھئے تاریخ احمدیت جلد چہارم مطبوعہ ہندوستان 2007ء) حضرت مولانا شمس صاحب کی بلا دعر بیہ کیلئے روانگی حضرت مولانا موصوف پہلی بار جون 1925ء میں مع حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ بغرض تبلیغ ملک شام تشریف لے گئے.آپ کی روانگی اور الوداعی تقریب کے پر رقت نظاروں کے بارہ میں ادارہ الفضل قادیان نے ذیل کی رپورٹ شائع کی: جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی فاضل (کے) سفرشام پر روانہ ہونے کے سلسلہ میں 25 جون 1925ء کو خواتین ٹریننگ سکول نے دعوت دی جنہیں شاہ صاحب تعلیم عربی دیا کرتے تھے.اسی دن رات کو مولوی جلال الدین شمس صاحب کے خاندان نے دعوت طعام دی.26 جون بروز جمعہ عصر کے بعد طلباء مدرسہ احمد یہ و ہائی سکول نے بورڈنگ ہائی سکول کے ڈائننگ ہال میں دعوت چائے دی جس میں طلباء نے ایڈریس پیش کیا.ان کے جواب میں دونوں احباب ( شاہ صاحب و شمس صاحب) نے تقریریں کیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 127 اس کے بعد سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل تقریر فرمائی جس میں تبلیغ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے ان مجاہدین کو ان کے کام کے متعلق ہدایات دیں.27 جون کو قادیان سے ان مجاہدین کی روانگی تھی.دونوں مدارس کے طلباء معہ اساتذہ اور بعض دوسرے اصحاب صبح سویرے ہی سڑک کے موڑ پر پہنچ گئے اور آٹھ بجے کے قریب سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مع مجاہدین اور دیگر اصحاب روانہ ہوئے.مقام الوداع پر پہنچ کر حضور نے تمام مجمع سمیت دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور اس کے بعد مجاہدین کے ساتھ معانقہ فرمایا.چونکہ وقت تنگ تھا اور مجمع کثیر اس لئے سب احباب مصافحہ نہ کر سکے.حضور سڑک پر کھڑے احباب کی دورویہ قطار میں سے مجاہدین کی طرف دیکھتے رہے اور جب ان کے ٹانگے روانہ ہو گئے تو حضور واپس تشریف لے آئے.الوداع کے وقت مولوی جلال الدین صاحب بوجہ رقت بات بھی صاف طور پر نہ کر سکتے تھے.احباب خاص طور پر دعا کریں.دمشق کیلئے روانگی مولا نائٹس صاحب کی زبانی حضرت مولانا شمس صاحب سفر مشق کی بابت تحریر کرتے ہیں : الفضل قادیان 30 جون 1925 ، صفحہ 1) یکم جولائی 1925ء کو بمبئی سے ہمارا جہاز روانہ ہوا اور گیارہ جولائی کو سویز پہنچا اور جہاز میں بھی حضرت مسیح موعود کے دعاوی کے متعلق گفتگو ہوئی جن میں سے تین عرب مدنیہ منورہ کے رہنے والے تھے.جناب سید زین العابدین شاہ صاحب نے بھی انہیں بعض مسائل کے متعلق سمجھایا اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے استفادہ کیا اور مواهب الرحمن سے ایک حصہ سنایا.ان میں سے ایک عالم تھا.وہ کہنے لگا کہ بہت عرصہ ہوا ہے احمد رضا بریلوی نے اس مدعی کے متعلق علماء مدینہ سے کفر کا فتویٰ طلب کیا تھا.جو کچھ اس نے لکھا اس پر انہوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا مگر اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے خود مدعی کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا آپ کو یہ کتابیں ضرور وہاں بھیجنی چاہئیں.انہوں نے بہت اصرار کیا کہ یہ کتاب مجھے ضرور دے دیں مگر ہمارے پاس اس کا کوئی اور نسخہ نہ تھا آخر اسلامی اصول کی فلاسفی کے عربی ترجمہ کی ایک کاپی دے دی گئی اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ سے خط و کتابت ضرور رکھیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 128 بیت المقدس میں 13 جولائی کو ہم بیت المقدس پہنچے.وہاں شاہ صاحب کے دوستوں اور شاگردوں سے ملاقات ہوئی اور پھر وہاں پر بڑے بڑے علماء اور مفتی سے وفات مسیح پر اور حضرت مسیح موعود کے دعاوی اور مسئله نبوت پر دیر تک گفتگو ہوئی.وفات مسیح کو تو وہ جھٹ ماننے کے لئے تیار ہو گئے.پھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ مندرجہ ” آئینہ کمالات اسلام در مدح نبی سنایا جس کو سنکر وہ خوش ہوئے.یہاں کے علماء اور ہندوستان کے علماء میں یہ فرق ہے کہ ہندی علماء جلد طیش میں آ جاتے ہیں اور اپنے خلاف بات سننا بھی گوار نہیں کرتے ہیں مگر یہاں کے علماء نے نہایت ہی تسلی اور اطمینان سے ہماری باتیں سنیں.بیت المقدس سے 16 جولائی کو روانہ ہوئے اور نابلس پہنچے.وہاں بھی چند علماء سے گفتگو ہوئی شاہ صاحب گفتگو کرتے تھے.آپ نے انی متوفیک آیت پیش کی تو ایک مولوی صاحب کہنے لگے کہ اس کے معنے تو وفات کے نہیں ہیں تو میں نے تفسیر روح البیان نکال کر سامنے رکھ دی کہ لیجئے اس میں صاف لکھا ہے : انسی ممیتک حتف انفک لا قتلاً بایدیهم - وہ دیکھ کر سخت حیران ہوا.اسی طرح شاہ صاحب نے اختلاف حلیتین کی حدیث پیش کی تو نابلسی جو ایک بہت بڑے عالم ہیں اور ان ہی کی ملاقات کے لیے ان کے مکان پر گئے تھے.وہ کہنے لگے کہ ہم ایسی حدیثوں کو ردی میں پھینکتے ہیں.شاہ صاحب نے کہا کہ بخاری میں ہے وہ کہنے لگے کہ بخاری میں نہیں ہے.میں نے بخاری میں سے دونوں حدیثیں نکال کر دکھا دیں.قنیطره اس کے بعد قنیطرہ پہنچے.شام کا وقت قریب تھا.وہاں کے لوگوں نے ٹھہر نے کے لیے مجبور کیا رات کو وہاں کے سلسلہ کے حالات جاننے کے بعد پیغام حق پہنچایا گیا.قنیطرہ کے امام مسجد نے کہا مجھے صرف نبوت کے متعلق شک ہے.شاہ صاحب نے نبوت کا مسئلہ سمجھایا.کہنے لگے اگر نبوت سے یہ مراد ہے تو ایسا نبی ہو سکتا ہے.18 جولائی 1925ء کو مشق پہنچے.دودن سنترال ہوٹل میں ٹھہرے جہاں پچھلے سال حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ٹھہرے تھے.شاہ صاحب کے یہاں بھی شاگرد اور دوست موجود تھے وہ ملاقات کیلئے آئے ان سے سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی.وزیر معارف سے ملاقات ہوئی.لوگوں کے زیادہ تر خیالات
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 129 سیاست کے طرف مائل ہیں دین کے طرف سے بالکل غافل ہیں.لباس وغیرہ میں یورپ ان پر غالب آیا ہوا ہے.اشیاء بہت گراں ہیں اور مکانوں کے کرایے بھی بہت ہیں.آخر میں درخواست ہے کہ احباب اپنے غریب الوطن بھائیوں کے لئے ضرور دعا کریں.جب تک اللہ کا فضل شامل نہ ہو اور اس کی قدرت کا ہاتھ ہماری تائید نہ کرے تو کچھ نہیں ہو سکتا ہے اس لئے ملک شام میں احمدیت کی اشاعت کے لئے درد دل سے دعا کریں.والسلام خادم محتاج دعا.جلال الدین از دمشق.الفضل قادیان 18 اگست 1925ء) یہاں ایک اہم تحریر پیش کرنا مناسب ہوگا جو بلا دعربیہ کے ابتدائی مبلغ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی ہے.آپ اپنی خود نوشت سوانح میں تحریر کرتے ہیں : 1925ء میں (میں) اور شمس صاحب بلاد عربیہ کو تبلیغ کیلئے دمشق بھیجے گئے.اس بارہ میں حضور کا ارشاد الفضل گیارہ جولائی 1925 ء میں شائع ہوا ہے.دمشق میں میں تبلیغ کے مرکز قائم کرنے کی غرض سے چھ ماہ کے قریب مقیم رہا.اس اثناء میں یہ ضرورت محسوس کر کے کہ زیر تبلیغ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام دیکھنے کی خواہش ہے ”کشتی نوح کا ترجمہ کیا اور اس سے قبل ” اسلامی اصول کی فلاسفی“ کا ترجمہ ہوکر شائع ہو چکا تھا لیکن ان ممالک میں اس کی اشاعت بہت محدود تھی اور اب دمشق میں اس کتاب کی بھی اشاعت ہوئی.علاوہ ازیں مسئلہ حیات مسیح سے متعلق ایک مبسوط کتاب بعنوان "حياة المسيح و وفاته من وجهاته الثلاثة “ شائع کی گئی اور اس کے علاوہ ایک رسالہ بعنوان ” الحقائق عن الاحمدیہ‘ بھی شائع کیا گیا.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی 1924ء میں لندن تشریف لے گئے ہیں تو آپ جاتے ہوئے دمشق میں بھی ٹھہرے ہیں.میرے ایک قدیم دوست شیخ عبد القادر المغر بی بھی حضور سے ملے.یہ ایک چوٹی کے ادباء میں سے تھے.حضور کی باتیں سن کر انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ ان کا ملک دین سے خوب واقف ہے.عربی ان کی زبان ہے.یہاں آپ کی تبلیغ کا اثر نہیں ہوگا.بہتر ہے کہ افریقہ میں کوشش کی جائے.حضور نے اسی وقت پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ لندن سے واپسی پر اس کا جواب دمشق میں مبلغ بھیج کر دیا جائے گا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس دمشق کے بارہ میں حضور کا ارشاد مبارک چنانچہ حضور نے مجھے اس سفر میں ہی اطلاع دی کہ میں تیار ہوں.ایک دن میں اور شمس صاحب دار التبلیغ میں بعض دوستوں سے احمدیت کے بارہ میں باتیں کر رہے تھے کہ شیخ عبدالقادر المغربی مرحوم تشریف لائے اور بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں.اثنائے گفتگو میں استخفاف سے اپنی سابقہ ملاقات کا ذکر کیا اور جو مشورہ حضور کو دیا تھا اسے دہرایا اور مذاقاً کہا کہ الہامات کی عربی عبارت بھی درست نہیں.میں نے خطبہ الہامیہ ان کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ پڑھیں کہاں عربی غلط ہے.انہوں نے اونچی آواز سے پڑھنا شروع کیا اور ایک دولفظوں سے متعلق کہا کہ یہ عربی لفظ ہی نہیں شمس صاحب نے تاج العروس [ عربی لغت] الماری سے نکالی اور وہ لفظ نکال کر انہیں دکھائے.سامعین کو حیرت ہوئی اور میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا کہلاتے تو آپ ادیب ہیں لیکن آپ کو اتنی عربی بھی نہیں آتی جتنی میرے شاگرد کو ( شمس صاحب ان دنوں مجھ سے انگریزی پڑھتے تھے ).اس پر انہیں بڑا غصہ آیا اور یہ کہتے ہوئے اٹھے اور کمرے سے باہر چلے گئے.اُرِيكَ غَدًا نُجُومَ الظهر كل میں تمہیں ظہر کے تارے دکھاؤں گا.( یہ عربی زبان کا محاورہ ہے ) میں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ سامعین میں سے (اس وقت) کچھ متاثر ہیں اُن سے کہا.یہ میرے پرانے دوست ہیں.صلاح الدین ایوبیہ کالج میں علیم ادب پڑھایا کرتے تھے اور سامعین کو علم تھا کہ میں بھی وہاں پڑھایا کرتا تھا.میں نے کہا انہیں خطبہ الہامیہ پڑھ کر ایسی رائے کا اظہار نہ کرنا چاہئے تھا.بجائے ناواقف ہونے کے انہیں حق بات مان لینی چاہئے تھی.جب دوست چلے گئے اور شام ہوگئی تو شمس صاحب نے مجھ سے کہا حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے الوداع کرتے وقت آپ کو یہ نصیحت کی تھی کہ شیخ عبد القادر المغربی سے نہیں بگاڑنا.وہ آپ کے دوست ہیں اور ان کا شہر میں بڑا اثر ہے.میں نے شمس صاحب سے کہا فکر نہ کریں وہ میرے دوست ہیں میں انہیں ٹھیک کرلوں گا.کل صبح ہم دونوں ان کے پاس جائیں گے.دوسرے دن صبح سویرے ہم دونوں ان کے مکان پر گئے.دستک دی تو مغربی صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی مجھ سے بغلگیر ہوئے اور مجھے بوسہ دیا اور کہا کہ آپ سے معافی مانگتا ہوں میں آپ کی طرف آنا 130
حیات ٹمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ہی چاہتا تھا اندر تشریف لے آئیں.قہوہ پیئیں اور میں آپ کو دکھاؤں کہ میری رات کیسے گذری.ہم اندر گئے تو انہوں نے رسالہ الحقائق عن الاحمدیہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ رسالہ میرے ہاتھ میں تھا اور غصہ میں باہر آیا اور پختہ ارادہ کیا کہ اس رسالہ کا رڈ شائع کروں.میں نے حدیث اور تفاسیر کی کتب جو میرے پاس تھیں وہ میز پر رکھ لیں اور عشاء کی نماز پڑھ کر رڈ لکھنا شروع کر دیا.ادھر سے رسالہ پڑھتا اور رڈ لکھنے کے لئے کتا بیں دیکھتا.ایک رڈلکھتا اس میں تکلف معلوم ہوتا اسے پھاڑا پھر ایک اور رڈلکھتا اور اسے بھی پھاڑا اور اسی طرح رات بہت گذر گئی.بیوی نے کہا رات بہت گزرگئی آرام کر لیں.میں نے کہا سید زین العابدین نے مجھے بہت ذلیل کیا ہے اور میں یہ رڈ لکھ کر سوؤں گا.چنانچہ صبح کی اذان ہوئی اور میں رڈ لکھنے کے بعد اس طرح کاغذ پھاڑتا جاتا اور چمنی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ دیکھو ڈھیر.جب الله اکبر کی آواز میرے کان میں پڑی تو میرے نفس نے مجھے کہا صداقت بہت بڑی شئے ہے اور تمہارا اس طرح بناوٹ سے رڈ کرنا درست نہیں اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب ایک کلمہ مخالفت کا مجھ سے نہیں سنیں گے.آپ کے خیالات سراسر اسلامی ہیں اور آپ آزادی سے تبلیغ کریں اور پوچھنے والوں سے میں آپ کے حق میں اچھی بات ہی کہوں گا لیکن میں آپ کے فرقہ میں داخل نہیں ہوں گا کیونکہ فرقہ بندی سے مجھے نفرت ہے.ہمیں یہ سن کر خوشی ہوئی حضرت خلیفہ امیج ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا کہ شیخ عبدالقادر صاحب المغر بی کا جواب اپنے مبلغین کے ذریعہ سے دوں گا چنانچہ یہ جواب دیا گیا اور مغربی مرحوم آخر دم تک جماعت کی تعریف ہی کرتے رہے اور کوئی کلمہ ہمارے خلاف نہیں کہا بجز اس کے کہ فرقہ بندی سے متعلق اُن کا جو پرانا خیال تھا کہ ان فرقہ بندیوں نے اسلام کو تباہ کیا ہے، الگ فرقہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں.الحمد للہ کہ بلاد عربیہ کی تبلیغ کیلئے ایک مرکز دمشق میں قائم ہوا اور دوسرا فلسطین میں.شمس صاحب نے اور دیگر مبلغین نے جو خدمات انجام دیں وہ ہمارے اخبارات [ الفضل، بدر الحکم، فاروق وغیر ہم میں مذکور ہیں.“ 66 131 ( حضرت سید ولی اللہ شاہ مؤلفہ احمد طاہر مرزا، باراول، ربوہ: مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان 2004 ء.صفحات 26-30) شام میں احمد یہ دار التبلیغ کے بارہ میں حضرت ولی اللہ شاہ صاحب مزید بیان فرماتے ہیں : ملک شام میں احمدیہ دار التبلیغ کی ابتداء اس وقت ہوئی جب 4 اگست 1924ء کو حضرت
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 132 امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دمشق تشریف لے گئے.آپ نے وہاں تین چار دن قیام فرمایا.اس اثناء میں علمائے دمشق سے تبادلہ خیال ہوا.النداء رسالہ جو اہل شام کو پیغام حق پہنچانے کی غرض سے اس وقت چھپایا گیا تھا حکومت دمشق نے مطبع میں ہی اسے ضبط کر کے تلف کر دیا.علماء دمشق کے استہزاء اور حکومت کی سینہ زوری کا جواب حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سفر یورپ سے واپس آنے پر یہ دیا کہ 27 جون 1925ء کو مجھے مع مولوی جلال الدین صاحب شمس فاضل دمشق بھیجا تا وہاں ایک مستقل دار التبلیغ قائم کیا جائے.ہم بیت المقدس، نابلس جنین ،طول کرم اور قنطرہ میں اپنا تبلیغی تعارف کراتے ہوئے 17 جولائی کو دمشق پہنچے.ہمارے قیام پر ابھی تین ماہ نہیں گزرے تھے کہ علمائے دمشق کا استہزاء سنجیدگی میں تبدیل ہونے لگا اور انہوں نے چاہا کہ اسلام کے متعلق وہ اعلیٰ تشریحات اور پاکیزہ خیالات خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیفات میں دیکھیں.کشتی نوح کا ترجمہ کیا گیا اور اس کے ساتھ ایک دیباچہ لگایا گیا جس میں نبوت پر روشنی ڈالی گئی.یہ کتاب دمشق کے مطبع میں چھپی اور وہیں شائع ہوئی.نیز اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ بھی ان کے درمیان شائع کیا گیا.اسی اثناء میں وفات مسیح پر ایک مبسوط کتاب شائع کی گئی اور حقائق احمدیہ کے متعلق ایک رسالہ بھی.علاوہ ازیں مقامی اخبارات کے ذریعہ بھی پیغام حق پہنچایا گیا.حکومت کی سینہ زوری احمدیت کو پھر روک نہ سکی.17 جولائی 1925ء سے 23 دسمبر 1928 ء تک احمدیہ دار التبلیغ دمشق کامیابی کے ساتھ کام کرتا رہا.اس اڑھائی سال کے عرصہ کی جدو جہد کے نتیجہ میں اہل شام میں سے ہی ایک جماعت قائم ہوگئی.ان احمد یوں میں سے منیر اکھنی اور ان کا خاندان خاص طور پر قابل ذکر ہے.“ (حضرت سید ولی اللہ شاہ، ربوہ: مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان 2004ء صفحہ 26-30) مولا ناشس پر قاتلانہ حملہ اور شام سے اخراج کا حکم ( حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) دسمبر 1927ء سے 13 مارچ 1928 ء تک دمشق میں احمدیت پر ایک نہایت شدید ابتلاء کا زمانہ آیا.میں اس وقت ہندوستان واپس آچکا تھا.ہماری غیر معمولی ترقی دیکھ کر جاہل و متعصب طبقہ میں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 133 مخالفت یکدم چمک اٹھی.فاضل جلال الدین صاحب شمس پر 23 دسمبر 1927ء کو قاتلانہ حملہ ہوا.جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے مگر خدا تعالیٰ نے انہیں بچالیا اور 11 مارچ 1928ء کو حکومت نے انہیں حکم دیا کہ تین دن کے اندر شام کی سرحد سے نکل جائیں.انہوں نے تعمیل کی اور جانے سے قبل 13 مارچ 1928ء کے دن منیر الحصنی صاحب کو دارالتبلیغ کا چارج دے دیا.منیر لکھنی صاحب اپنے اخلاص وحمیت میں قابل رشک نمونہ ہیں.یہ نوجوان کلیۃ سلطان صلاح الدین ایوبیہ کے سند یافتہ ہیں نیز جرمنی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی.اب جبکہ احمدیت کی جڑ لگ چکی تھی شمس صاحب کا اخراج کسی نقصان کا موجب نہیں ہوسکتا تھا بلکہ جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کیا ان کا اخراج اللہ تعالیٰ کی طرف سے سراسر رحمت کا سبب بنا.حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح ثانی ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت شمس صاحب نے حیفا میں ایک احمد یہ دار التبلیغ قائم کیا.غرض حکومت بھی مشیت الہی کے راستہ میں روک نہ بن سکی بلکہ جو تد بیر بھی اس نے اختیار کی وہ احمدیت کے پنپنے کا باعث بنی.پہلے وہاں ایک مشن تھا اخراج کے بعد دو مشن ہو گئے.یہ مشن کہاں تک قائم ہے.اس سوال کا جواب رسالہ البشریٰ کی ان فہرستوں سے ملتا ہے جو اس میں ماہ بماہ احمدی مبائعین کے نام اور ان کے ماہواری چندے شائع ہوتے رہتے 66 ہیں.ہمارے یہ عرب بھائی تبلیغ و اشاعت کے تمام مقامی اخراجات خود برداشت کرتے ہیں.“ الفضل قادیان 18 مارچ1944ء) ( نوٹ : دمشق میں احمدیت کی ابتدائی تاریخ کے بارہ میں کسی قدر معلومات حضرت شیخ محمود احمد عرفانی کی کتاب ” مرکز احمدیت قادیان میں بھی دی گئی ہیں.مؤلف.) مباحثه دمشق (مدیر افضل قادیان) ہمارے مبلغین شام جناب زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین شمس مولوی فاضل کے شام پہنچنے پر دیگر علماء نے مکالمہ ومخاطبہ کیا.وہاں دمشق کے ایک مشہور اخبار ” وادی بردی“ کے ایک ایڈیٹر صاحب نے بھی اہم مسائل پر طویل گفتگو کی اور اس شرط پر کی کہ اسے اخبار میں شائع کیا جائے گا.احمدی مبلغین اور کیا چاہتے تھے انہوں نے شکریہ کے ساتھ منظور کر لیا اور جو کچھ ان سے پوچھا گیا اسے خوب واضح
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 134 طور پر بیان کیا.اس مکالمہ کو جو بہت طویل ہے ایڈیٹر صاحب مذکور نے اپنے اخبار میں شائع کر دیا اور علماء کرام کو دعوت دی ہے کہ ان دلائل پر جو احمدی مبلغین نے دیئے ہیں غور و فکر کریں.یہ مکالمہ عربی میں ہوا جس کا ترجمہ باقساط الفضل میں اس لئے شائع کیا جائے گا کہ ناظرین کرام معلوم کر سکیں کہ احمدی دلائل کے مقابلہ میں وہ لوگ جو عربی زبان کے اہل ہیں اور جنہیں اسلام کے متعلق ساری دنیا سے زیادہ علم ہو نی کا دعویٰ ہے کس طرح مہر بہ لب اور دم بخود ہو جاتے ہیں اور اس کے علاوہ یہ بھی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس ملک کے لوگ کس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں اور کن اصطلاحات کو پیش کرتے ہیں.چونکہ یہ اہل زبان سے عربی میں پہلا مکالمہ ہے جو اس طرح چھپ کر شائع ہوا اس لئے امید ہے احباب اسے دلچسپی سے پڑھیں گے.چنانچہ اخبار نے لکھا: جماعت احمد یہ ہندوستان کے صوبہ پنچاب کا ایک علمی اسلامی اور تبلیغی گروہ ہے جس کی بنیاد احمد مرحوم قادیانی نے رکھی ہے.جن کا دعوی ہے کہ مجھے بذریعہ وحی بتایا گیا ہے کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور میں وہی مسیح موعود ہوں جس کے نزول کا ذکر احادیث میں موجود ہے جس کی غرض و غایت تبلیغ دین اسلامی ہے اور اس طریق پر آپ کے دعوی کو پھیلانا ہے.ہم نے ایک سے گذشتہ مرتبہ میں سید زین العابدین کے آنے کی خبر دی تھی جو کہ اس جماعت کے ایک رکن ہیں.ہم نے ان سے ملاقات کی اور ہمارے درمیان مندرجہ ذیل بحث ہوئی جس کے متعلق یہ شرط تھی کہ ہم اسے شائع کریں گے چنانچہ ہم اپنے وعدے کے موافق اسے شائع کرتے اور اپنے علماء کرام کو اس بات کا موقع دیتے ہیں کہ وہ اس سے آگاہ ہوں اور جو دلائل ان مسائل کی نفی یا اثبات کے متعلق ان کے پاس موجود ہیں وہ بیان کریں.یہی التجاء ہم قاری الحدیث سے کرتے ہیں.دیکھیں الفضل قادیان 18 اگست 1925ء) نوٹ: اس سے آگے وہ تفصیلی بحث سوال و جواب کی صورت میں دی گئی ہے.اس کی تفصیل الفضل قادیان محولہ بالا سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے.مؤلف.بلائے دمشق ( حضرت مولانا جلال الدین شمس) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں سے ایک الہام میں ” بلائے دمشق بھی ہے کہ دمشق پر ایک بڑی مصیبت آئیگی سو آج ہم اس کا نظارہ دیکھ رہے ہیں.آج کل یہ نہایت ہی مصیبت زدہ ہیں بوجہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 135 اس جنگ کے جوفرانسیسیوں کے درمیان ہو رہی ہے.دمشق کے اردگرد کے بہت سے گاؤں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور تمام اہل دمشق متحیر و سرگرداں ہیں.اس کا ایک بہت بڑا حصہ تو پوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ گولے پھینک پھینک کر خاک سیاہ کر دیا گیا.سینکڑوں مقتول زمین پر پڑے ہیں.کوئی اٹھانیوالا نہیں ہے.کوئی دفنانے والا نہیں ہے.بیچاروں کی شکلیں تبدیل ہو گئی ہیں.بعض نظارے نہایت مہیب اور بدن پرلزرہ پیدا کرنے والے ہیں.کوئی دردمند انسان نہیں ہے جو ان مردوں کو دیکھ کر جن میں بعض کو کتے کھا رہے ہیں، آنسو نہ گرائے.وہ راتیں کس مصیبت سے گزریں جبکہ اوپر سے گولے برس رہے ہیں اور معصوم بچے اور عورتیں اور مرد چیچنیں مار مار کر گھروں سے باہر بھاگ رہے ہیں.دوسرا الہام : يا ايها الناس اتقواربكم ان زلزلة الساعة شئى عظيم - يوم تذهل كل مرضعة عما ارضعت وتضع كل ذات حمل حملها.وترى الناس سكارى وماهم بسكارى ولكن عذاب الله شدید بھی پورے طور پر صادق آرہا ہے.اس مصیبت سے بعض عورتیں حاملہ تھیں اور ان کا حمل بھی گر گیا تھا اور دودھ پلانے والیاں اپنے بچوں کو دودھ پلانا بھی بھول گئی تھیں.مثلا ہمارے ایک بھائی نے اپنی چشم دید واقعہ سنایا کہ ایک خاندان ایک جگہ بیٹھا ہو ا تھا کہ اوپر سے ایک گولہ آکر گرا.ایک عورت اپنے بچے کو چھاتی سے لگائے دودھ پلا رہی تھی گولہ اس کے سر پر آکر لگا اور وہ وہیں پر جان دے بیٹھی اور باقی خاندان کے مرد بھی مر گئے فقط وہ بچہ باقی رہ گیا.پس اس مصیبت کو دیکھ کر ہر ایک شخص اس کو بلائے دمشق قرار دیتا ہے.جس سے پوچھو وہ یہ کہتا ہے بلاء وای بلاء یعنی نہایت سخت ہے.ایسی مصیبت کبھی دمشق پر نہ آئی تھی اور اخباروں نے یہ عنوان رکھا تھا کہ مثلاً اخبار ” احرار‘ نے نكبة دمشق رکھ کر حالات ذکر کئے ہیں.” نكبة دمشق بعینہ بلاء دمشق کا مصیبت ترجمہ ہے.یہ مقدر تھا کہ دمشق پر یہ بلا نہ نازل ہو جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ اور آپ کے خدام وہاں پر پہنچ کر آپ کے دعویٰ کو شہرت نہ دے لیتے.پس جب دعوئی کا اعلان ہو چکا تو اس کے متعلق جو الہام تھا وہ بھی پورا ہو گیا اور ہو سکتا ہے کہ اور بھی کئی رنگ میں اس کا ظہور ہو جس کو ہم ابھی تک نہیں جانتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے اور مقاصد رکھتا ہے.الفضل قادیان 2 فروری 1926ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس دمشق کے بارہ میں حضرت اقدس کے الہامات بلاء دمشق ،سرک سری، ایک اور بلاء بر پا ہوئی 136 تذکرہ مجموعہ الہامات ، بار چہارم ،2004ء صفحہ 602-603] (حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر) قانون قدرت کی ہر دفعہ پر غور کر کے دیکھنے اور کائنات کے اندر روزانہ وقوع میں ہونے والے تغیرات پر نظر غائر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بر بادی دونوں پہلو بہ پہلو قضاء وقدر کے منشاء کے مطابق نظام عالم کو قائم وارتقاء کے ساتھ خدا کے مقررہ وقت قائم رکھنے میں ممدد معاون ہیں.پرانی عمارت کو گرایا جاتا ہے تا کہ اس کی جگہ نئی اور زیادہ خوبصورت و موزوں عمارت بنائے.دھات کو آگ میں ڈالا جاتا ہے تاگل کر جل کر صاف ہو جائے اور برباد ہو کر وہ عزت حاصل کر لے.ایک بالی یا انگشتری کو کسی کان یا انگلی کی زینت بن کر خوش ہے.گیہوں پیس کر اور انگور دبایا جا کر روٹی اور سرکہ بنتے ہیں.غرض بر بادی خواہ سرزنش کیلئے ہو یا کسی اور مقصد کیلئے دراصل آبادی ہے اور رحمتی وسعت کہنے والے رحیم خدا کی رحمت کا ایک طرز ہے.شہر دمشق ملک شام کا سیاسی مرکز مسیحی و اسلامی روایات گذشتہ کی یاد جس سے پولوس اور مسیحیت کی اشاعت کا گہرا تعلق ہے اور جو بنوامیہ کا شاندار دارالخلافہ تھا.وہ دمشق ہاں وہی شہر دمشق توپوں کی رات دن متواتر گولہ باری کا شکار ہو چکا ہے.اس کا تاریخی بازار اور اس کی تاریخی مساجد اور ان کے بلند منارے جن پر پیشگوئیوں کے الفاظ سے محبت رکھنے والے لوگ مسیح ناصری کے منتظر تھے،مسمارو برباد ہو چکے ہیں اور ہزار ہا مخلوق خدا اس شہر میں ضائع ہوئی ہیں.اس پر بلاء دمشق نا گہانی بلا ہو کر آئی ہے اور تازہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً مقدر ہے کہ رپورٹر ہم کو بدیر یا زود اطلاع دے کہ دمشق پر حملہ ہوا اور ایک اور بلا بر پا ہوئی“ ہے.اس بربادی میں کیا راز ہے اور کونسی آبادی مقدر ہے اسے زمانہ بتلائے گا.ہم تو اسقدر جانتے ہیں کہ یہ بربادی اور عذاب کسی آبادی اور اصلاح کا پیش خیمہ ہیں اور یقیناً اس میں علم الہی کے اندر سیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ کیلئے کوئی جمہوری و برتری اور اسلام کیلئے خیر کی خبر ہے.اللہ تعالیٰ نے ” بلاء دمشق کی خبر دیکر فرمایا ہے.اے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 137 پیارے احمد تیرا بھید میرا بھید ہے.یہ راز و نیاز کی باتیں اللہ ورسول کا کلام ، یہ عاشق و معشوق کا ایک دوسرے کے ستر سے واقفیت جتانا اس امر پر دال ہے کہ لوح محفوظ پر دمشق کے مشرق سے بر پا ہونے والے مسیح کیلئے فتنہ دجال کے پیدا ہونے کی اصل جگہ یعنی شہر دمشق کی بربادی کی نسبت کچھ کامیابیوں کے نقوش لکھے گئے ہیں.دمشق پر اتمام حجت خدا تعالی کی سنت ہے کہ کسی قریہ کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا مگر قبل از عذاب تنبیہ کر لیتا ہے جیسا کہ فرمایا.مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتى نَبْعَثَ رَسُولاً (بنی اسرائیل : 16).چنانچہ ملاحظہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ ثانی ( رضی اللہ عنہ ) کا مع ایک جماعت مومنین 1924ء میں دمشق میں نزول ہوتا ہے.آپ پیغام حق پہنچاتے ہیں.دمشق کے نئے یزیدی مخالفت کرتے ہیں اور حق کی طرف توجہ کرنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں.بعض احمدیہ تبلیغی ٹریکٹ تلف کئے جاتے ہیں.اس پر ایک عرصہ گذر جاتا ہے.دمشق میں حضرت مسیح کے منارہ کے قریب نازل ہونے کے ایک سال بعد احمد یہ وفد تبلیغ دمشق میں پہنچ جاتا ہے.سید زین العابدین دوبارہ یزید کے شہر میں وارد ہوتے ہیں.پھر ان کے ساتھ ہی جلال دین کا ظہور ہوتا ہے.اخبارات میں سلسلہ احمدیہ کا چرچا ہوتا ہے.ملاں مخالفت کرتے ہیں، مبلغین کو قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، انہیں دجال کہہ کر پکارا جاتا ہے.ان کے اخراج کی کوشش کی جاتی ہے کہ یکا یک آسمان سے آگ برستی اور تنبیہہ کے بعد عذاب آتا اور عراق کی کربلا کا نظارہ تاریخ دنیا اعادہ کر کے اب کی مرتبہ ایک رنگ میں دمشق کے اندر دکھاتی ہے.حضرت امام حسین کی ذریت سید زین العابدین کو رویا میں دمشق کی تباہی جس طرح قبل از وقت دکھائی گئی وہ مومنین کے ایمان کو تازہ کرے گی.سید صاحب اپنے 15 اکتوبر 1925 ء کے خط میں لکھتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا تھا شہر کے ارد گرد آگ لگی ہوئی ہے اور پھر دیکھا کہ شہر میں بدامنی پھیلی ہوئی ہے اور ہم پر لوگ قتل کا وار کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے اور ان کے درمیان کوئی حائل ہورہا ہے جو انہیں پکڑے ہوئے ہے.اس افراتفری میں بعض سیاسی انقلابات ہوتے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 138 ہیں ایک نئی شکل کی عربی حکومت بنی ہے اس میں بعض میرے دوست بھی ہیں.لوگوں نے پہلا سوال جو اٹھایا ہے وہ یہ کہ یا مجھے قتل کر دیا جائے یا نکال دیا جائے.مجلس کو اور اس کاغذ کو میں دیکھ رہا ہوں.خاصی دیر کے بعد وہ فیصلہ کا کا غذ میرے سامنے آتا ہے کہ مولوی جلال الدین صاحب کو انگریزی قانون کے ماتحت تبلیغ کرنے کی اجازت ہے.وہ گاؤں میں پھر کر تبلیغ کر سکتے ہیں مگر احتیاط سے.“ اس رویا میں دمشق کی بربادی و تباہی کی جو خبر دی گئی تھی وہ کمال صفائی سے پوری ہوئی.چونکہ یہ بلاء صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہے اس لئے خادم مسیح موعود کوقبل از وقت اس سے مطلع کیا گیا.....وہ گھڑی آتی ہے جب عیسی پکاریں گے مجھے تو تھوڑے گئے دجال کہلانے کے دن ره دمشق میں تبلیغ احمدیت الفضل قادیان 24 نومبر 1925ء) اپنی مساعی ہائے جمیلہ کے بارہ میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس تحریر فرماتے ہیں: ٹریکٹ حقائق عن الاحمدیہ شہر دمشق کے علاوہ حلب، بیروت، بیت المقدس، نابلس، مدینه منورہ اور دیگر بلا دعربیہ میں بذریعہ ڈاک روانہ کیا گیا ہے.علاوہ ازیں جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب نے عیسائیوں کے خلاف اخبار العلم میں جس کا مالک وایڈیٹر ایک عیسائی ہے ،سلسلہ مضامین شروع کیا ہے اور ایک پادری نے جواب دینا شروع کیا ہے مگر اس کے جوابات کو پڑھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ یہ محض اس لئے کیا جارہا ہے تا لوگ یہ سمجھیں کہ جواب دیا گیا ہے ورنہ مجیب خود بھی اپنی کمزوری محسوس کر رہا ہے.علاوہ ازیں غیر احمدیوں کے خلاف بھی مسئلہ نبوت وغیرہ کے متعلق اخبارات میں مضامین شائع کئے گئے ہیں.اب مشائخ نے بھی مخالفت شروع کر دی ہے ایک مدعی شیخیت نے حـقـائـق عـن الـاحمدیہ کے جواب میں دو ورقہ اشتہار شائع کر کے عام لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکانا چاہا اور لکھا کہ یہ لوگ نیا دین پھیلاتے ہیں اس لئے جس طرح تم سے ہو سکتا ہے ان کا مقابلہ کرو ہاتھ سے ہو سکے ہاتھ سے ورنہ زبان
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 139 سے.اس پر اخبار الزمان اور ابا بیل نے لکھا کہ یہ شخص جاہل ہے اس کی کوئی وقعت نہیں ہے لہذا اس کی طرف شاہ صاحب کو توجہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اس اشتہار کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنکو ہماری آمد کی خبر بھی نہیں تھی ان کو بھی خبر لگ گئی اور ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا.بہت سے لوگ آکر ملے اور سلسلہ کے متعلق ان سے گفتگو ہوتی رہی اس پر مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو شعر یاد آئے: ولولا ثناء الله مازال جاهل یشک ولایدری مــقــامــي ويــحـصــر فهذا علينــا مـنـة مـن ابــى الـوفـاء ارى كل محجوب ضيائي فتشكر کہ اگر شاء اللہ نہ ہوتا تو ہمیشہ جاہل شک میں رہتا اور میرے مقام کو نہ جان سکتا اور مجھ سے رکا رہتا.پس ثناء اللہ کی یہ ہم پر منت ہے کہ اس نے ہر محجوب کو میری روشنی دکھا دی.ایک مباحثہ کا تذکرہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ باہر کے علاقہ میں ایک گاؤں میں مباحثہ قرار پایا.مولوی ثناء اللہ صاحب غیر احمدیوں کی طرف سے پیش ہوئے.ہزار ہا آدمی ارد گرد سے آئے.قریباً چھ گھنٹہ مباحثہ ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام بخوبی سنایا گیا.اگر ہم خود کوشش کرتے تو کبھی اتنے لوگوں کو جمع کر کے نہ سنا سکتے.جب ” زمان “ اور ” ابابیل نے اس کے خلاف لکھا تو اخبار ” العمران میں اس نے ایک مضمون شائع کرایا.جس میں ہماری طرف ان غلط عقائد کو منسوب کر کے لوگوں کو ہمارے خلاف پھر بھڑ کا نا چاہا.اس میں لکھا کہ احمدی کلمہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام بڑھاتے ہیں.حوالہ حقیقۃ الوحی کا مع صفحہ لکھا اور قادیان کو عرش اللہ یقین کرتے ہیں ( دافع البلاء ).ان مفتریات کا جواب اخبار الحسام کے ذریعے دیا گیا اور ایک ہزار روپیہ اس کیلئے انعام مقرر کیا ہے کہ اگر وہ ان امور کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے ثابت کر دے.ایک دن رات کے وقت ایک دوست نے ہمیں اپنے مکان پر بلایا اور لوگوں کو بھی دعوت دی.دو تین مشائخ بھی بلائے.رات کے بارہ بجے تک سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.ایک ان میں سے کہنے لگے وحی سوائے انبیاء کے کسی کو نہیں ہو سکتی.جواب میں قرآن مجید کی آیات إِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 140 الْحَوَارِيِّينَ اور وَاَوْحَيْنَا إِلى أُمّ مُوسیٰ سنائی گئی تو کہنے لگے کہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلا يُظْهِرُ على غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَّسُولٍ (الجن : 27-28) ایسی وحی جس میں غیب کی بات بتائی جائے وہ سوائے انبیاء کے کسی کو نہیں ہوتی.ہم نے کہا یہ بھی غلط ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر جو وحی نازل ہوئی وہ غیب پر مشتمل تھی.اس میں صاف یہ الفاظ ہیں : إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْن - (القصص:8 ) کہ تو اس کو سمندر میں ڈال دے ہم اس کو تیرے پاس پھر لائیں گے اور اس کو رسول بنائیں گے.کہنے لگے تب وہ نبی تھیں ہم نے کہا اگر آپ بنی اسرائیل کی عورتوں کو بھی نبی ماننے کیلئے تیار ہیں باوجود یکہ وہ نبی نہیں تو کیا امت محمدیہ ہی ایسی ناقص ہے کہ اس کے مرد بھی بنی اسرائیل کی عورتوں کا درجہ نہیں پاسکتے پھر تو اچھی خیر امت ہوئی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہزارہا غیب کی باتوں پر خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر خبر دی اور ہم نے بچشم خود پورا ہوتے دیکھیں تو ان کی نبوت میں کیا شک ہوسکتا ہے....جماعت کو منظم صورت میں لانے اور احمدیوں کی تعلیم وتربیت کیلئے کوشش کی جارہی ہے.وقتا فوقتا قرآن مجید کا درس دیا جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں بھی سنائی جاتی ہیں.ایک دو ہفتہ سے لوگوں کی آمد ورفت کم ہے اس کی وجہ جنگ ہے جو فرانسیسیوں اور دروز کے مابین ہو رہی ہے.شیخ در لامی نے ” العمران میں (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ ) شاہ صاحب کا ذکر کرتے ہوئے دجال لکھا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ ہر بات کے ثبوت کے لئے آیات اور احادیث سے استدلال کرتے ہیں جس سے سننے والے کو شک پڑ جاتا ہے کہ شاید یہ حق ہی ہو.اسی طرح ایک روز ہمارے مکان پر ایھا الدجالون الضالون المضلون اخرجوا من هذه البلاد كاغذ پر لکھ کر لٹکا گئے.وہ ان گالیوں سے سمجھتے ہیں کہ بس ہم نے قلعہ فتح کرلیا مگر ہمارے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے پیارے آقا احمد علیہ الصلوۃ والسلام کو لوگوں کی دی ہوئی گالیوں میں سے ایک حصہ ہم نے بھی لیا.آپ فرماتے ہیں.کا فر وملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے پھر بعض لوگ ناصحانہ صورت میں بھی آتے ہیں اور رکاوٹ بھی ڈالنا چاہتے ہیں مثلاً ایک شخص آیا اور کہنے لگا لوگ آپ کے خلاف مشورے کر رہے ہیں اور آپ کو تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں اس لئے اگر آپ مسیح موعود اور دعوی نبوت کو نہ پیش کیا کریں تو اچھا ہے.میں نے کہا تکلیفوں اور مصائب سے ہم ڈر کر حق
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 141 کو نہیں چھپا سکتے ہیں.ہم نے جو اس کام کو اختیار کیا ہے اور وطن چھوڑ کر یہاں آئے ہیں ہم ان مصائب سے غافل نہیں ہیں.ہمیں وہاں ہی معلوم تھا کہ ہمیں تکلیفیں دی جائینگی ، ہماری مخالفت کی جائیگی.کہنے لگا میری یہ مراد نہیں کہ کوئی جسمانی تکلیف دے گا.میں نے جواب دیا ہم جسمانی تکلیفوں سے بھی گھبراتے نہیں.حق کے لئے ہم جان تک دینے کیلئے بھی تیار ہیں : لا نتـقـى قـوس الخطوب ولـا نبــالــي مـرجـدا لا نتـقـى نـوب الـزمــان ولـا نـخــاف تهـددا و نمد في اوقات افات الى المولى يدا حوادثات زمانہ اور اس کے مصائب سے ہم نہیں ڈرتے اور نہ ہی کسی دھمکی کی پرواہ کرتے ہیں اور مصائب و آفات کے وقت ہم اپنے مولیٰ کے آگے ہاتھ لمبے کرتے ہیں.یہ سن کر چپ ہو کر چلا گیا.یہاں جماعت اس وقت تک وسیع طور پر نہیں پیدا ہو سکے گی جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لٹریچر کو سامنے نہیں لایا جائے.وہ ہم سے بھوکوں کی طرح لٹریچر مانگ رہے ہیں مگر ہمارے پاس سوائے چند کتابوں کے ایسی کتابیں نہیں جو مفت تقسیم کی جائیں.یہ ملک اس لحاظ سے کہ عربی ملک ہے، ہندوستان سے زیادہ اشاعت چاہتا ہے.(الفضل قادیان 3 دسمبر 1925 ء) کونین کی مکسچر ڈوز حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس محرر 200 نومبر 1925 ء) دروز اور فرانسیسیوں کے درمیان جنگ جاری تھی دمشق کے حالات بھی مسلسل خراب ہو رہے ہیں.ارد گر د عصابات اور ثوار پھر رہے ہیں لوگوں پر پریشانی کے آثار ظاہر ہیں امن کے حالات پیدا نہیں ہورہے ہیں.اہالیان دمشق پکار اٹھے تھے کہ ایسی بلاء دمشق پر کبھی نہیں آئی.بہت سے لوگ دمشق چھوڑ کر بیروت اور مصر کی طرف روانہ ہو گئے.اس لئے موجودہ حالات میں زبانی تبلیغ کم ہوتی ہے.گذشتہ ہفتہ سے مکر می شاہ صاحب (سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ) نے پیارے آقا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے لیکچر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا عربی ترجمہ کرنا شروع کر دیا ہے جو تھوڑا تھوڑا کر کے اخباروں میں چھپنے کیلئے علیحدہ بھیجا جا رہا ہے اور علاوہ ازیں بلائے دمشق کا مضمون لکھا ہے جس میں آپ نے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی بلائے دمشق کا ذکر بھی کیا ہے اور بتایا ہے کہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 142 اس وقت تلوار نفع نہیں دے گی بلکہ وقت دعا کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فیصلہ جو خطبہ الہامیہ کے آخر پر ہے اخبار ابابیل میں شائع کرا دیا گیا ہے.خاکسار روزانہ شہر میں جاتا گفتگو ہے.مکان شہر سے تقریباً دو میل کے فاصلہ پر ہے وہاں لوگوں سے اکثر سلسلہ کے متعلق گے کرتا ہوں.اگر چہ یہاں کے لوگ پہلے ہی سے دینی مسائل سننے کے عادی نہیں پھر خصوصاً ان ایام میں جب کہ ایک جگہ سیاسی مسائل کا ذکر ہوتا ہے ان کو دینی باتیں سنانا کونین مکسچر کی ڈوز پلانا ہے مگر الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ محنت ضائع نہیں کرتا ہے.اس ہفتہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور نوجوان کو سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.ان کا نام حسن احمد ہے.جس دن احمدی ہؤا اسی دن اپنے والد اور اپنے بڑے بھائی کو بھی احمدیت میں داخل ہونے کیلئے کہا اور احمدیت کی بھی تبلیغ کی.یہاں ایک مشہور ڈاکٹر ہے جس کا نام محمد طاہر ہے ان کے پاس قرآن کریم کی تفسیر کوروزانہ بیان کرتا تھا اب تو ابتدا سے ہی درس شروع کر دیا ہے.ایک دن خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اعتراضات کو دور کر دیا ہے جو اسلام پر کئے جاتے تھے.آریہ سماج اسلام پر اعتراض کرتی ہے کہ قرآن کریم ایک الہامی کتاب نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ عربی زبان میں ہے اور الہامی کتاب کسی قوم کی زبان نہیں ہوسکتی ہے.اگر کسی قوم کی زبان میں ہو تو سمجھنے میں آسانی ہوگی.اس سے پکش پات (طرفداری) لازم ہوگی اور قرآن کریم کو الہامی ماننا لازمی آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عربوں کی رعایت کی کہ عربی میں قرآن اتارا اسلئے کہ وہ بغیر محنت کے سمجھ سکیں بہ نسبت دوسرے ملک کے رہنے والوں کے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہند میں بھیج کر ہندیوں کو عربوں کا استاد بنا دیا تا آریہ سمجھ لیں کہ قرآن کریم کا فہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو دیا جاتا ہے محض زبان پر موقوف نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ثُمَّ أَوْرَثْنَا اللْكِتَابَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا (فاطر:33) اللہ تعالیٰ کے بندے ہی کتاب کے وارث ہوتے ہیں چاہے وہ عرب کے ہوں یا چاہے وہ چین کے باشندے ہوں.جاپان کے رہنے والے ہوں یا ہند کے.اللہ تعالیٰ کا ہند پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اس میں مسیح موعود کو بھیجا جس نے از سر نو آکر قرآن مجید کا علم سکھایا اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور ایمان سے دلوں کو معمور کیا.الفضل قادیان 18 دسمبر 1925 ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مکتوب دمشق 143 حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اپنے مکتوب محررہ دسمبر 1925ء میں اپنی مساعی کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں : دمشق کی حالت بدستور ہے.موجودہ حالات میں تبلیغ لوگوں کے گھروں میں جا کر کی جاتی ہے اور جو ملنے کیلئے آتے ہیں انہیں بھی پیغام حق پہنچایا جاتا ہے.پہلے شہر سے باہر مکان لیا ہو ا تھا وہاں لوگوں سے ملاقات کا کم موقع ملتا تھا مگر اب شہر میں مکان لے لیا ہے.باوجود ان خطر ناک حالات کے ابھی کچھ نہ کچھ تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے گذشتہ ہفتہ میں ایک اور دوست سلسلہ میں داخل ہو گئے ہیں احباب ان کی استقامت کے لئے دعا فرمائیں.یہاں مسیحیوں کے دومشن ہیں ایک بڑا پادری ڈنمارک کا ہے اور دوسرا امریکن ہے.امریکن پادری کا وکیل دودن آثار ہا ہے اور مختلف مسائل کے متعلق اس سے گفتگو ہوتی رہی ہے.قرآن کریم کے حضرت مسیح پر احسانات جب وہ مسیح کی فضیلت قرآن مجید سے ثابت کرنے لگا تو میں نے جواب میں کہا کہ مسیح کا درجہ آپ قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلیٰ ثابت نہیں کر سکتے ہیں بلکہ قرآن مجید سے تو مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردوں کی طرح معلوم ہوتے ہیں.قرآن مجید میں تو مسیح کو غلاماً زکیا کہا گیا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ویزکیھم.مزکی، یعنی زکی بنانیوالا قرار دیا گیا ہے.پھر مسیح کے متعلق فرمایا: ایدناه بروح القدس مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے فرمایا.عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُولى اور شَدِيدُ القُوی کا مرتبہ روح القدس سے کہیں بڑھ کر ہے.روح القدس کا نزول مسیح پر ایک کبوتر کی طرح ہو اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر روح القدس کی تجلی شدید القوی کے رنگ میں ہوئی.تمام افق اس کی تجلی سے بھرا پڑا تھا.اب ان دونوں نبیوں کے درمیان اب تو اتنا ہی فرق ہے جتنا ان دونوں تجلیوں میں.کہاں کبوتر جسے بلی بھی پکڑ سکتی ہے اور کہاں یہ عظیم تجلی جس نے زمین و آسمان کے ما بین کو بھی پر کیا ہو ا تھا.پھر فرمایا فایدهم بروح منه که روح القدس سے صحابہ کی تائید کی.پس آپ قرآن مجید سے مسیح کی فضیلت ثابت نہیں کر سکتے ہیں.وہ کہنے لگا مسیح کی بریت اور اس کے خاندان کی پاکیزگی کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے اور اس نبی کے خاندان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے.بریت کی ضرورت
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 144 تبھی پڑتی ہے جبکہ الزام لگایا گیا ہو.باقی تمام انبیاء کے خاندانوں کی پاکیزگی لوگوں کے نزدیک مسلم تھی لیکن مسیح کے خاندان پر الزام بھی لگایا تھا اس لئے اس کی بریت کی گئی.اسی رنگ کی دوسری مثال قرآن مجید میں وارد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ ( البقرہ : 103).اب حضرت سلیمان سے کفر کی نفی کی گئی باقی انبیاء سے اس طریق پر کفر کی نفی نہیں کی گئی.کیا باقی انبیاء نعوذ باللہ کفر پر تھے ؟ سلیمان کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا تھا کہ ان کی طرف کفر منسوب کیا گیا تھا.آپ کی بریت لفظ انبیاء سے کی کہ آپ نہایت راست گونبی تھے.اس پر جب کوئی جواب نہ بن آیا تو کہنے لگے کہ میں اپنے قیس کو لاؤں گا.دو ہفتے گزر گے نہ وہ آیا نہ اس کا قیس آیا.حيات المسيح ووفاته من وجهاته الثلاثة ایک گردی نے اپنے مکان پر دعوت دی تھی.ان کے پاس رات رہے دو شیخ بھی بلوائے.ہیں کے قریب آدمی تھے.مسائل متنازعہ حیات مسیح و نبوت وغیرہ پر گفتگو ہوتی رہی تھی.جب ان سے کوئی جواب نہ آیا تو کہنے لگے ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے.مکر می شاہ صاحب نے فرمایا حیات مسیح کا عقیدہ رکھنا شرک ہے.حاضرین پر اچھا اثر ہوا.شاہ صاحب کی کتاب حيـــات الـمـسـيـح ووفــاتــه مـن وجهاته الثلاثة چھپ گئی ہے.اس میں آپ نے مسیح کی وفات تین طریق پر ثابت کی ہے از روئے انجیل، از روئے قرآن ، ثابت کیا ہے کہ کشمیر سری نگر محلہ خان یار میں جو قبر یوز آصف کی قبر کے نام سے مشہور ہے وہ صحیح ناصری کی قبر ہے جو عیسی نبی کی قبر کر کے بھی مشہور ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کا بھی ذکر کیا گیا ہے.لوگوں کو مطالعہ کیلئے بھی دی جاتی ہے ، پڑھ کر خوش ہوتے ہیں.(الفضل قادیان 2 مارچ 1926ء) ایک شیخ سے وفات مسیح پر گفتگو ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) حالات حاضرہ کی وجہ سے دمشق کی حالت نہایت نازک ہے.لوگ بدستور یہاں سے ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں جارہے ہیں.دو تین واقعات قتل کے دن کے وقت بھی ہو رہے ہیں اور رات کے وقت تو مشین گنز چلتیں اور تو ہیں دندناتی ہیں.آج قریباً تمام رات تو پوں کے دندنانے کی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 145 آواز سنائی دیتی رہی ہے.دمشق آج کل میدان حرب بنا ہوا ہے.اندریں حالات لوگوں سے اجتماع کا موقعہ بہت ہی کم ملتا ہے اس لئے بذریعہ ڈاک ٹریکٹ روانہ کر رہا ہوں.اگر چہ اس وقت لوگوں کے خیالات پریشان ہیں مذہبی امور کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے مگر بہر حال ان کو دعوت پہنچا دینا ہمارا فرض ہے.عید کے موقعہ پر قریباً 24 اشخاص سے ملنے کا اتفاق ہو ا سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی.میں نے ان میں سے کسی کو ایسا نہیں دیکھا جو وفات مسیح کے دلائل سمجھانے کے بعد حیات مسیح کا قائل رہا ہو.دعوت دی تین چار اور اشخاص بھی بلوائے جن میں ایک شیخ بھی تھا.انہوں نے خود ہی اس شیخ سے کہا کہ آپ کی مسیح کے متعلق کیا رائے ہے یہ تو ثابت کرتے ہیں کہ وہ وفات پاگئے ہیں.دیر تک گفتگو ہوتی رہی.ان میں بعض باتوں کا ذکر کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا.شیخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اتبعوا السواد الاعظم تمام امت محمدیہ کا ابتداء سے آج تک یہی عقیدہ رہا ہے کہ مسیح زندہ ہیں پھر وفات مسیح کو کیسے مانا.احمدی تمام صحابہ کا اجماع وفات مسیح پر ہوا.امام مالک کا یہی مذہب ہے.حدیث کے معنے سمجھتے ہیں صحیح نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَلِيْلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُور.پھر کفار یہی کہتے ہیں.نَحْن اَكْثَرُ أَمْوَالًا وَاَولاد.ہم اموال و جتھے کے لحاظ سے زیادہ ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے 72 فرقے ہوں گے.ایک ناجی 72 ناری ہوں گے.بتائیے کثرت کس طرف ہوگی.پھر فرماتے ہیں ایک گروہ میری امت کا حق پر رہا کرے گا اور وہ دوسروں پر غالب رہے گا.پھر حدیث میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو کثرت پر دلالت کرے.سواد کے معنے طائفہ وگروہ کے ہیں اور اعظم زیادہ عظمت والا اور عظم کا لفظ عربی زبان میں مرتبہ پر دلالت کرتا ہے نہ کہ عدد پر.جو اپنے دشمنوں پر غالب رہے چاہے تعداد میں تھوڑا ہی ہو.اس وقت دشمنوں کا حملہ دین اسلام پر بلحاظ دلائل و براہین کے ہے اس لئے جو دشمنوں پر بلحاظ دلائل و براہین غالب ہو وہی سواد اعظم ہے اور اسی کی پیروی کا حکم رسول کریم ﷺ نے دیا ہے اور وہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہے.پھر اس کے بعد میں نے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المائدة : 118) سے وفات مسیح پر استدلال کیا.شیخ توفی کے معنی تغییب کے ہو سکتے ہیں.احمدی: افسوس عربی زبان ان معنوں کو جائز قرار نہیں دیتی اور آج تک تو فی کا لفظ ان معنوں میں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 146 استعمال نہیں کیا گیا ہے.ورنہ ایک مثال پیش کر دیں جس میں تو فی بمعنی تغییب استعمال ہوا ہے.شیخ کیا قرآن مجید میں آیت مَانَنْسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُفْسِهَا نہیں ہے.احمدی: میں نے کب انکار کیا ہے کہ یہ آیت قرآن مجید میں نہیں ہے.موجود ہے.شیخ پس یہ آیت بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ والی آیت سے منسوخ ہوگئی.احمدی: پہلے علماء احکام میں نسخ کے قائل تھے مگر ایسی اخبار میں نسخ کا قائل کوئی نہیں ہوا ہے مگر آپ اس مسئلہ کے موجد بنے لگے ہیں.اس سے اللہ تعالیٰ کے علم میں نقص لازما آتا ہے.جب آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی اتاری اس وقت معلوم نہیں تھا کہ وہ تو آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.اس کو وفات یافتہ کیوں کہا جائے.آپ کے اس قول کے موجب تو یوں ہوگا کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ وفات پاگئے اور کچھ عرصہ کے بعد یاد آیا نہیں وہ تو زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.تـعـالـى الله عن ذالک علواً كبيراً.شیخ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ سے ظاہر ہے کہ مسیح مقتول ومصلوب نہیں ہوا بلکہ کسی اور شخص کو سولی پر لٹکا کر مارا گیا ہے.احمدی اس بات کو مسیحی اور یہودی کیسے تسلیم کر سکتے تھے.واقعہ صیلب کے وقت یا تو یہودی حاضر تھے یا مسیحی.وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جس کو صلیب پر لٹکایا گیا وہ بذاتہ مسیح تھانہ کوئی اور شخص مسلمان چھ سو سال کے بعد آئے.وہ کہتے ہیں کہ جس کو صلیب پر لٹکایا گیا وہ مسیح نہیں بلکہ دوسر اشخص تھا.پس موافق و مخالف جنہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ جوصیلب پر لٹکایا گیا وہ بعینہ مسیح ہے چھ سو سال کے بعد آنے والے کے قول کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں بلکہ وہ اس امر کو بطور حجت پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تو اس میں خلاف واقعہ بات نہ پائی جاتی.دوسرے جس کو مارا گیا وہ مسیح کی شکل پر تھا.یہود نے اس کو مسیح خیال کیا اور اصل مسیح کو آسمان پر جاتے ہوئے نہ دیکھا.جس کو پکڑ اوہ یہ نہیں کہتا تھا کہ میں مسیح نہیں ہوں.پس یہود عند اللہ مسیح کی تکذیب کرنے میں بری ہونے چاہئیں کیونکہ انہوں نے اپنے زعم میں مسیح کو صیلب پر مار دیا.شیخ اچھا تو آپ اس آیت کے کیا معنی کرتے ہیں.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 147 احمدی ہم کہتے ہیں جس شخص کو صلیب پر کہتے ہیں وہ بذاتہ مسیح تھا مگر صلیب پر نہ مرا بلکہ جس وقت صلیب سے اتارا گیا وہ غشی کی حالت میں تھے.یعنی مشابة بالمقتول والمصلوب اور اس امر کو ہم انجیل سے ثابت کرتے ہیں کہ جب وہ صلیب سے اتارا گیا وہ بخشی کی حالت میں تھے اور اس امر کو ہم انجیل سے ثابت کرتے ہیں کہ جب وہ صلیب پر سے اتارا گیا وہ زندہ تھا مردہ نہ تھا.معنی اس آیت کے یہ ہوئے کہ انہوں نے اسے نہ مقتول کیا اور نہ مصلوب لیکن وہ ان کے لئے مقتول و مصلوب کے مشابہ بنایا گیا.مقتول ومصلوب نہ تھا مگر یہود نے یہ خیال کیا کہ وہ مر گیا ہے.پھر خود یہود نے بھی اس کی موت میں شبہ کیا.شیخ اگر مسیح ہی صلیب پر لٹکائے گئے تھے تو وہ مصلوب ہوئے.پھر ماصلبوہ کیوں کہا.احمدی اگر کوئی شخص کسی کو تلوار سے ضرب لگائے اور وہ نہ مرے تو کیا ہم اس کو مقتول کہیں گے.شیخ حدیث میں وارد ہے کہ مسیح دمشق میں نازل ہوگا.احمدی مواضع نزول میں اختلاف ہے.ایک حدیث میں بیت المقدس ، دوسری میں دمشق ، تیسری میں معسکر المسلمین، چوتھی میں جبل افیق، پانچویں میں نہر اردن.چھٹی میں جبل دقان ،ساتویں میں فج الروحاء شیخ اصح یہی ہے کہ دمشق میں اتریں گے.احمدی اس لئے کہ جناب دمشق میں رہتے ہیں.جو بیت المقدس میں رہتا ہے وہ کہے گا کہ بیت المقدس والی حدیث اصح ہے.شیخ اچھا یہ ہے کہ آپ کی رائے ہے کہ وہ وفات پاگئے ہیں.میری رائے یہ ہے کہ وہ زندہ ہیں.احمدی آپ کی رائے بے بنیاد ہے اور میری رائے علی وجہ البصیرت اور من حیث الدلائل والبراہین یقینی طور پر صحیح ہے.اس پر حاضرین نے کہا کہ شیخ صاحب آپ کوئی جواب نہیں دے سکتے.ان کے دلائل معقولانہ منطقیانہ ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ میخ وفات پاگئے ہیں.(الفضل قادیان 8 جون 1926ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 148 مبلغین دمشق کے کام پرسید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کار یو یو یویو حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ 1926ء میں دمشق سے واپس قادیان تشریف لائے.طلبائے مدرسہ احمدیہ نے آپ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا.حضرت شاہ صاحب نے تقریر میں ان کا شکریہ ادا کیا.اس تقریب کے آخر میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مبلغین دمشق حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولانا شمس صاحب کے کاموں پر اپنے خطاب میں ریویو فر مایا.جس کے بعض حصے پیش ہیں.حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں پوری کرنے کیلئے شاہ صاحب اور شمس صاحب کو دمشق بھیجوانا مشق کے متعلق حضرت مسیح موعود کی ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے اپنے ابتدائی کلام میں ایسے امور بیان فرمائے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دمشق آخری زمانہ میں ایک خاص کام انجام دے گا.ان کاموں میں سے بعض کا وقت آ گیا ہے اور بعض کا آنے والا ہے اس وجہ سے دمشق کی طرف جس شوق سے ہماری نگاہ اٹھ سکتی ہے دوسرے اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.ان پیشگوئیوں میں سے بعض کو پورا کرنے اور بعض کے پورا کرانے کی تحریک کرنے کی غرض سے جب میں سفر یورپ پر گیا تو وہاں انہی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے میں نے شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب کو وہاں بھیجا.ان کے جانے کے بعد جو مشق میں تغیرات ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ دمشق کے متعلق جو کچھ میں نے سمجھا وہ صحیح تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کے فعل نے اس کی تصدیق کردی.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس قوم جس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب آئے وہ حق رکھتی ہے کہ خدا پر اعتراض کرے اگر اس کے پاس عذاب سے کوئی مبشر اور منذر نہ آیا ہو.اس سے بیشک یہ استدلال ہوتا ہے کہ نبی کے آنے کے بغیر عذاب نہیں آسکتا.لیکن اس سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی قوم کے پاس مبشر پہنچ جائیں اور عذاب نازل نہ ہو تو معلوم ہوا خدا کے نزدیک ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ اسے ہدایت قبول کرنے کی دعوت دی جائے.دنیا کے تمام علاقے ایسے نہیں ہوتے کہ ایک ہی وقت میں سب کو مخاطب کیا جائے.دنیا کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تیرہ سو سال بعد نام پہنچا.پس اگر کسی قوم میں مبشر پہنچیں مگر اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا فعل ظاہر نہ ہوتو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ قوم ابھی انذار اور تبشیر کی مخاطب نہیں سمجھی گئی.عام عذاب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد دنیا میں رونما ہوئے وہ اس ملک میں بھی آسکتے ہیں جہاں آپ کا نام نہیں پہنچا مگر اس کے علاوہ خاص عذاب ہوتے ہیں.دیکھو اگر جنگ کا اثر ساری دنیا پر پڑا تو ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہ رہا.اگر زلازل ساری دنیا پر آئے تو ہندوستان میں بھی آئے.اگر انفلوئنز اساری دنیا میں پھیلا تو ہندوستان میں بھی پھیلا مگر باوجود اس کے ہندوستان پر علیحدہ عذاب بھی آئے کیونکہ دنیا کے علاوہ یہ سب سے پہلے مخاطب قوم سمجھی گئی.شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب کے جانے کے بعد دمشق پر جو عذاب آیاوہ بتاتا ہے کہ ہم نے جو عذاب کے متعلق سمجھا تھا کہ اس کے لئے اندار اور تبشیر کا وقت آگیا ہے وہ درست تھا.اور میں وہاں گیا پھر یہ مبلغ بھیجے گئے اس کے بعد وہاں ایسا عذاب آیا کہ دشمن بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی.یہ اعتراف خاص اہمیت رکھتا ہے.جس طرح زلزلوں کے متعلق یہ اعتراف اہمیت رکھتا ہے کہ جتنے اور جیسے خطرناک زلزلے گذشتہ میں سال میں آئے ویسے پہلے اتنی مدت میں کبھی نہیں آئے.دمشق پر جس قسم کا عذاب آیا اس کے متعلق کہتے ہیں اس قسم کے حالات کے ماتحت کسی جگہ بھی کبھی ایسا عذاب نہیں آیا کہ ایک ایسا شہر ہو جسے حفاظت کر نیوالے بھی مقدس سمجھتے ہوں اور اس پر حملے کرنے والے بھی مقدس قرار دیتے ہوں مگر باوجود اس کے اس شہر کو اس طرح تباہ و برباد کیا جائے یہ عذاب استثنائی صورت رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ 149
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کے نزدیک دمشق مخاطب ہو گیا ہے اور یہ خیال کرنا کہ دمشق کی تبلیغ کا وقت ابھی نہیں آیا خدا تعالیٰ کے فعل کو عبث قرار دینا اور اس کی ہتک کرنا ہے.اس کے بعد میں اس طریق پر ریویو کرتا ہوں جو شاہ صاحب نے وہاں اختیار کیا.میرے خیال میں ان کی راہ میں ایسی مجبوریاں تھیں جن کا انہیں جاتے وقت وہم بھی نہ تھا.شاہ صاحب وہاں اس امید پر گئے تھے کہ ان کے وہاں دوست ہیں جن کے ساتھ مل کر وہ کوئی عظیم الشان کام کرینگے مگر جب وہاں پہنچے تو جنگ شروع ہوگئی اور ان کی امنگیں پوری نہ ہوسکیں.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر دو آدمی آپس میں لڑیں تو لوگ دُکانیں بند کر کے اور پیشہ ور اپنا کام چھوڑ کر لڑائی کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور پھر کئی دن تک وہ بات لوگوں کی زبان پر جاری رہتی ہے اور یہ طبعی بات ہے کہ ارد گرد جو بات ہو اس کا نقش انسان کے دماغ میں قائم رہتا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ اس کے متعلق مختلف باتیں سنیں اس کی روایات پر اطلاع پائیں.پس جب دو آدمیوں کی لڑائی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے تو جہاں تمام آبادی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور مقابلہ گورنمنٹ سے ہو.بہت سے افراد اپنی جائدادوں اور وطنوں کو چھوڑ کر اس خیال سے نکل کھڑے ہوں کہ ہم جنگل کے درندوں سے گزارہ کر لیں گے لیکن اس حکومت کے ماتحت نہیں رہیں گے اس قوم کو تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.میں ان دوستوں کے خیال پر تعجب کرتا ہوں جو کہتے ہیں شام میں تبلیغ موثر نہیں ہوئی.میں کہتا ہوں ان معترضین میں سے بہت سے ایسے ہونگے جو ایسے مقام پر ان حالات میں رہنا پسند نہ کریں گے اور بیسیوں ایسے ہونگے جن کے رشتہ دار شور ڈال دینگے کہ ان کو وہاں کیوں رکھا گیا ہے جہاں دن دہاڑے چھاپے پڑتے ہیں.کبھی کوئی حصہ شہر کا مورچہ بن جاتا ہے کبھی کوئی اور گورنمنٹ کی یہ حالت ہے کہ اس نے امن قائم رکھنے کے لئے جو پولیس رکھی ہوئی ہے دشمن حملہ کرتا ہے اور پولیس کی وردیاں تک چھین کر لیجاتا ہے.ایسی حالت کا اندازہ لگاؤ اور پھر دیکھو کہ وہاں رہنا کس قدرمشکل ہے جہاں کبھی دو تین پے در پے چوریاں ہو جائیں تو لوگوں کے چہروں سے فکر کے آثار نظر آنے لگتے ہیں حالانکہ چوریوں اور اس لڑائی میں بہت بڑا فرق ہے.چور روپیہ چرانے کیلئے آتے ہیں جان لینے کے لئے نہیں آتے.لیکن باغی روپیہ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جان بھی لیتے ہیں.پھر چور رات کے وقت آتا ہے 150
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 151 اس کے آنے کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے کہ فلاں وقت تک لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں اس کے بعد آئے.پھر وہ خیال کرتا ہے کہ ایسی جگہ جائے جہاں سے کچھیل سکے.ان باتوں کی وجہ سے اس کا دائرہ عمل محدود ہوتا ہے مگر باغی کا چونکہ ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرے تا کہ وہ حکومت سے بیزار ہو جائیں اور حکومت کا رعب مٹ جائے.لوگ سمجھنے لگ جائیں کہ وہ ان کی جان ومال کی حفاظت نہیں کر سکتی.ان کے مد نظر Terrorism ہوتا ہے، خطرہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.وہ کسی کی جان اس لئے نہیں لیتے کہ ان کا دشمن ہوتا ہے بلکہ وہ بسا اوقات دوست کو بھی مارتے ہیں تا کہ لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی پیدا کرسکیں کہ حکومت اس کی حفاظت نہیں کر سکتی پھر ایسی حکومت کا کیوں ساتھ دیں.ان حالات میں جو مشکلات ہمارے دمشق کے مبلغین کے راستہ میں تھیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو ایسے حالات میں ایسی جگہ ٹھہرنے کے لئے بھی تیار نہ ہوں گے، چہ جائیکہ کوئی کام کرے.ہمارے دونوں مبلغ قابل تعریف ہیں چنانچہ جنگ کے زمانہ میں جبکہ ہزار ہا جہاز چلتے تھے اور ایک فیصدی سے زیادہ نہ ڈوبتے تھے اس وقت کسی مبلغ کو یورپ بھیجنے کے لئے تیار کیا جاتا تو اس کے رشتہ دار کہہ اٹھتے کہ ایسے خطرہ کے موقعہ پر کیوں بھیجا جاتا ہے حالانکہ خشکی کی لڑائی کے مقابلہ میں سمندر میں بہت کم خطرہ تھا اور کجایہ کہ عین جنگ میں کوئی شخص رہے.ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے شام کے مبلغین نے جو کام کیا وہ اس حد تک تعریف کے قابل ہے کہ انہوں نے تبلیغ کو جاری رکھا اور وقت کے خطرات کی وجہ سے ضائع نہیں کیا.پہلی خوبی تو ان کی یہ ہے کہ انہوں نے حالات کے اس قدر خطر ناک ہو جانے پر یہ نہ کہا کہ میں تبلیغ کے لئے بھیجا گیا تھا نہ کہ میدان جنگ میں رہنے کے لئے ، اس لئے ہمیں واپس بلا لیا جائے.یہی ان کی خوبی دین اور سلسلہ سے محبت کی دلیل ہے اور کئی ایک ایسے ہوتے جو کہہ اٹھتے کہ ہمیں جان کا خطرہ ہے ہمیں واپس بلا لومگر اس سے بھی بڑھ کر ان کی خوبی یہ تھی کہ صبح کسی کے گھر ڈاکہ پڑتا باغی مال و اسباب لوٹ کر اور اکثر اوقات قتل کر کے چلے جاتے اور شام کو ہمارے مبلغ اس گھر کے لوگوں کو تبلیغ کرنے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 152 کے لئے ان کے ہاں پہنچ جاتے.مجھے ان کی اس جرات کے متعلق کوئی لفظ تو نہیں ملتا مگر عام لوگ اسے ڈھٹائی بلکہ بے حیائی کہیں گے کہ عجیب لوگ ہیں.صبح کو اس گھر پر گولے برس رہے تھے لوٹ مار ہورہی تھی اور شام کو یہ آکر کہتے ہیں ہماری تبلیغ سن لو.ایسے لوگوں کو تبلیغ کرنے کا اندازہ اس مثال سے ہو سکتا ہے کہ کسی کے ہاں کوئی مر گیا ہو گھر والے اس کو دفن کرنے کے لئے لے جانے لگے ہوں.وہ اس کا جنازہ اٹھانے کو ہی ہوں کہ ایک مبلغ وہاں پہنچ جائے اور ان کا ہاتھ پکڑے کہ میری باتیں سن لو حضرت مسیح موعود آگئے ہیں ان کو قبول کرو.ایسی حالت میں ان لوگوں کے احساسات کا اندازہ کر لو جن سے یہ کہا جائے گا.تو ایسے موقعہ پر تبلیغ کرنا اور بھی جرات اور دلیری کا کام ہے اس کے لئے ہمارے دونوں مبلغ قابل تعریف ہیں اور انہوں نے وہ کام کیا ہے جو ایسے حالات میں اور بہت سے لوگ نہ کر سکتے.پھر میں سمجھتا ہوں ایسے موقعہ پر اپنے کام میں توازن قائم رکھنا بھی بہت مشکل کام ہے.حکومت چاہتی ہے کہ اس سے ہمددری کی جائے اس کی حمایت کی جائے اور ثوار چاہتے ہیں ان کی حمایت کی جائے.اور جب ایک وقت میں ایک فریق کی حکومت ہو جاتی ہے اور دوسرے وقت میں دوسرے کی تو ایسی حالت میں طرفین کو راضی رکھنا بہت مشکل کام ہے.بسا اوقات ایک فریق کی طرف انسان اس قدر جھک جاتا ہے کہ دوسرے فریق والے ایک گولی سے اس کا کام تمام کر سکتے ہیں.ہمارے مبلغین کا یہ بھی ایک کام اور خدمت ہے کہ انہوں نے فریقین میں توازن قائم رکھا اور ایسا رویہ اختیار کیا کہ نہ گورنمنٹ خلاف ہوئی اور نہ باغی مخالف ہوئے.یفسی جرأت اور نفسی بہادری کی علامت ہے اور ساتھ ہی عقلمندی کی بھی مگر باوجود اس کے میں یہ کہوں گا کہ ہمارے مبلغین سے ایک غلطی بھی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ابتدائی دنوں میں انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا ہونے دیا جوعلمی مشاغل رکھتے ہیں.بحث و مباحثہ ان کا مشغلہ بن چکا تھا نہ کہ وہ کسی تحقیق حق کیلئے ایسا کرتے ہیں.یہ لوگ مذہب کے راستہ میں سب سے بڑی روک ہوتے ہیں.یہ روحانیت کے کیڑے ہوتے ہیں.ان کے طرز عمل کو دیکھ کر بظاہر انسان یہ دھو کہ کھا جاتا ہے کہ علمی تحقیق کر رہے ہیں مگر دراصل یہ ان کی عادت ہوتی ہے اور جس طرح جب لکڑی کو گھن لگ جائے تو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا تا کہ آرہ کشوں کی طرح کاٹ رہا ہے کیونکہ گھن کی غرض تو اس لکڑی کو کھا جانا ہوتی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ہے.اسی طرح یہ لوگ بھی جو کام کر رہے ہوتے ہیں اس سے ان کی غرض حق کا حاصل کرنا نہیں ہوتی بلکہ اپنے شغل کو پورا کرنا ہوتا ہے.میرے نزدیک ہمارے مبلغوں سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنے گرد جمع ہونے دیا جن کے مشاغل یہی تھے کہ علمی بحثیں کرتے رہیں.مذہب بدلنا نہ ان کی غرض تھی اور نہ اس کے لئے تیار ہو سکتے ہیں اور اگر بدلیں تو اسلئے کہ دیکھیں دنیا کیا کہتی ہے.بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ ایک چیز کو خواہ مخواہ قبول کر لیتی ہیں تا کہ دنیا دشمن ہو جائے وہ کسی بات کو سنجیدگی سے قبول نہیں کرتے بلکہ اس لئے قبول کرتے ہیں کہ ان کو لڑائی میں مزا آتا ہے.اب اگر لڑائی پیدا نہ ہو تو وہ قبول کر دہ بات کو چھوڑ کر کسی اور طرف چلے جائیں گے.پھر بعض دفعہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ فلاں جماعت میں ایسے خاص فوائد حاصل ہو سکیں گے جن کی خاطر اپنے پہلے رویہ کو بدل دینا چاہیے.ایسے لوگ اگر سلسلہ میں داخل بھی ہو جائیں تو قابل اعتبار نہیں ہوتے.ایسے لوگوں کو ارد گرد جمع ہونے دینا اور ان میں مشغول ہوجانا غلطی تھی جس سے کام کو نقصان پہنچا.جو لوگ فائدہ اٹھا سکتے اور پھر فائدہ پہنچا سکتے ہیں وہ پیشہ ور ہیں، تاجر ہیں، مزدور ہیں.یعنی وہ لوگ جن کو روٹی کمانے سے اتنی فرصت نہیں ہوسکتی کہ علمی مشاغل میں پڑے رہیں.وہ چونکہ اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ اچھا کھائیں اور اچھا پئیں اس لئے زیادہ وقت وہ کمانے میں خرچ کرتے ہیں.ان کی یہ حالت نہیں ہوتی کہ کھانا کہیں سے کھالیں اور علمی باتوں میں پڑے رہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ اگر ہمارے مبلغ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے تو کامیابی ہوتی یا نہ ہوتی.ممکن ہے ان کو تبلیغ کا جو موقعہ ملاوہ اسی لئے ملا کہ ان کے ارد گرد جمگھٹا ہوتا رہا مگر بہر حال اس طبقہ کی طرف ابتداء میں توجہ نہیں ہوئی.اس غلطی کا یہ نتیجہ ضرور ہوا کہ جن کو تبلیغ کی گئی ان میں سے بعض کے قلوب میں تبلیغ نے گہرا اثر نہ کیا اور جن پر اثر کیا وہ وہی لوگ ہیں جو جدھر کی ہوا ہو ادھر ہی جھک جاتے ہیں.بہر حال مبلغین نے جو کچھ ہوسکتا تھا کیا.اور اب مولوی جلال الدین صاحب جس خطرہ میں کام کر رہے ہیں اس کی وجہ سے جماعت کو ان کی قدر کرنی چاہئے.کامیابی کے متعلق یہ غلط اندازہ ہے کہ وہاں کتنی جماعت پیدا ہوئی ہے یا یہ کہ وہاں سے کتنا چندہ آتا ہے.میں بھی اس طرح اندازہ لگایا کرتا ہوں مگر ہر بات 153
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 154 کا موقعہ ہوتا ہے.مختلف حالات کے ماتحت مختلف طریق اندازہ کے ہوتے ہیں.اب تو معلوم ہوتا ہے کہ خدائی فعل اس رنگ میں ظہور پذیر ہورہا ہے کہ ہمارے مبلغ کا وہاں ٹھہرنا ہی اس کی کامیابی ہے اور کچھ کام کرنا تو بڑی بات ہے.میرے نزدیک علاوہ اس اخلاص کے اظہار کے جو شام کے مبلغین نے کیا اور عین گولہ باری کے نیچے تبلیغ کی اس پر ہمارے دشمن بھی حیران ہیں.سفر میں اس بارہ میں بعض غیر احمدیوں سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ہمارے مبلغین کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور کہا آپ ہی کے مبلغ ایسے کام کرنے والے لوگ ہیں جو کسی خطرہ کی پروا نہیں کرتے.مجھے تعجب ہوگا اگر غیر احمدی تو ہمارے مبلغین کی قدر کریں مگر احمدی نہ کریں...مبلغین کو زریں نصائح اس ریویو کے بعد میں اس تقریر کو ختم کرنے سے پہلے طلباء مدرسہ احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میں ان کے شکریہ کے جذبات کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی قوم اس وقت تک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کے افراد اپنے اخلاق خاص طرز پر نہ ڈھالیں اور وہ ہمددری اور محبت کی تعلیم جو اسلام نے دی ہے اور کسی مذہب نے نہیں دی.ایک پنڈت اپنے پیرؤوں کو کیا سکھاتا ہے.وہ صرف پھیرے دینا جانتا ہے مگر اسلام نے جو تعلیم دی ہے وہ ملکی قومی تمدنی فوائد اپنے اندر رکھتی ہے اور ان کا بیان کرنے والا مولوی ہے.اسی طرح عیسائی پادری کیا بیان کرتا ہے یہی کہ صیح گنہگاروں کو بچالے گا.کوئی ایسی تعلیم پیش نہیں کرتا جو روزانہ زندگی میں کام آسکتی ہو.اس وجہ سے جواثر ایک مولوی کی باتوں کا ہونا چاہیے اس کا ہزارواں حصہ بھی پادریوں کی باتوں کا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مولوی جو کچھ بیان کرتا ہے اس کا اثر روزانہ زندگی پر پڑتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ مولوی کی بہت زیادہ قدر ہو اور پادری کی نہ ہومگر اس کے الٹ نظر آتا ہے.یورپ مذہبی لحاظ سے دہر یہ ہو گیا ہے مگر پادری جہاں بھی چلا جائے لوگ اس کی باتوں پر کان دھریں گے.اسی سٹرائک میں جو ولایت کے مزدوروں نے کر رکھی ہے آرچ بشپ آف کمینٹر بری نے ایک اعلان سرکاری اخبار میں شائع ہونے کے لئے بھیجا جو نہ شائع کیا گیا.اس
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس پر پارلیمنٹ میں سوال کیا گیا کہ کیوں اعلان شائع نہیں ہوا.آخر گورنمنٹ کو ماننا پڑا کہ غلطی ہوئی ہے اور اب جلد شائع کر دیا جائے گا.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ پادریوں کی کس قدر قدر کی جاتی ہے.بیشک لوگ ان کی مذہبی باتوں پر ہنستے بھی ہیں مگر ان کی قدر بھی کرتے ہیں کہ ملک کو ترقی دینے اور اٹھانے میں حصہ لیتے ہیں.155 ابھی ہم جب ولایت مذہبی کا نفرنس کے موقعہ پر گئے تو بڑے بڑے لوگ پادریوں پر ہنتے تھے کہ وہ اس وجہ سے کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے کہ اس طرح لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ دنیا میں اور مذاہب بھی ہیں مگر کیا ہم اندھے ہیں کہ یہ بات پہلے نہیں جانتے.اس طرح پادریوں پر بنتے بھی ہیں.ابھی ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یورپ کے 70 فی صدی لوگ عیسائیت کے خلاف ہیں مگر باوجود اس کے پادریوں کی قدر کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ تمدنی زندگی کی اصلاح کر رہے ہیں اور اگر ان کو نکالا یا گیا تو حکومت کا سسٹم ٹوٹ جائے گا.وہ بات جو پادریوں کی قدر کراتی ہے یہ ہے کہ پادری روزانہ گھر سے نکلتا ہے، ایک علاقہ میں چکر لگاتا ہے غریبوں کے گھروں میں جاتا ہے ان کی حالت پوچھتا ہے، بیماروں کی بیمار پرسی کرتا ہے، کوئی بیوہ ہو جسے خرچ کی تنگی ہوا سے لوگوں سے چندہ کر کے خرچ پہنچاتا ہے مالدار لوگوں کو غربا کی مدد اور ہمدردی کی طرف متوجہ کرتا ہے.ایسے لوگوں کے متعلق کیا کوئی قوم برداشت کر سکتی ہے کہ ان کو نکالا جائے ؟ وہ ان کی قدر کرتی ہے اور انہیں عزت کی نظر سے دیکھتی ہے.آپ لوگ بھی اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس طرح لوگوں کی ہمددری حاصل کریں محض مذہبی مباحثے کچھ حقیقت نہیں رکھتے.بے شک آج لوگ لڑائی جھگڑے پسند کرتے ہیں اس لئے مباحثوں کی قدر کرتے ہیں مگر کل ایسا نہیں ہوگا.آج کل پادری آدھ گھنٹہ لیکچر دے آتا ہے جو پانچ سو یا آٹھ سوتنخواہ لیتا ہے تو کوئی اسے یہ نہیں کہتا ہے کہ حرام خور ہے لیکن ایک مولوی جو پانچ وقت نماز پڑھائے ، مردے نہلائے اور اور کام جو کمین کرتے ہیں کرے تو بھی یہی کہتے ہیں حرام خور ہے کچھ نہیں کرتا.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ پادریوں کے کام کو تمدنی طور پر مفید سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کو کوئی نکما نہیں کہتا.لیکن مولوی چونکہ تمدنی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے اس لئے ان کو نکما سمجھا جاتا ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 156 ہماری جماعت کے مبلغین اور طالب علموں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں سے تعلقات پیدا کریں.ان سے ہمددری اور محبت پیدا کر کے انہیں اپنی طرف مائل کریں.اس کے بغیر کوئی مقامی مبلغ کامیاب نہیں ہو سکتا.سیاسی کام تو وہ کوئی کرتا نہیں اس لئے لوگ اس سے ایسے کام کی توقع رکھتے ہیں جو باتوں تک محدود نہ ہو بلکہ عملی زندگی پر اس کا اثر ہو.اس لئے ہمارے طالب علموں اور مبلغوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اندر انکساری، بجز محبت ،غربا کی مدد کرنے کی قابلیت پیدا کریں دوسرے لوگوں کو محتاج لوگوں کی امداد کی تحریک کر سکیں.یہ ایسے کام ہیں جن کے ذریعہ سلسلہ کوحقیقی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور یہ باتیں بچپن میں ہی پیدا کی جاسکتی ہیں.عیسائی پادری کی اٹھان ہی ایسی ہوئی ہے کہ وہ کسی کی خدمت کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کرے.اس وقت میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا ہوں اور دعا پر اس تقریر کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کے اخلاص کو قبول فرمائے اور مولوی جلال الدین صاحب کی حفاظت کرے.ان کے اخلاص میں برکت دے اور وہ طلباء جنہوں نے اس وقت اظہار اخلاص کیا ہے ان کو بھی اس برکت سے حصہ دے.“ (الفضل قادیان 18 جون 1926ء) دمشق سے متعلق حضرت مسیح موعود کے الہامات حضرت مولانا شمس صاحب تحریر کرتے ہیں : ابھی تک حالات دمشق بدستور ہیں.جنگ جاری ہے صلح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.وزارت اولیٰ کے تمام ممبر نظر بند کر کے کہیں بھیج دیئے گئے ہیں اور نئے ممبر بھرتی کئے گئے ہیں اور بھی بڑے بڑے لوگوں کو نظر بند کیا جا رہا ہے.جابجا شہر میں مورچے لگے ہوئے ہیں روزانہ تو ہیں دندناتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا: میں مکانوں کو گرتے اور بستیوں کو ویران پاتا ہوں“ سو یہ نظارے ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے.دمشق میں محلوں کے محلے گرا کر خاک کا ڈھیر کر دئیے گئے اور دمشق کے اردگرد کی بستیاں ویران کی گئیں.اس طرح پر بلائے دمشق کا الہام آفتاب نصف النہار کی طرح پورا ہوا.بلاء کا لفظ بتلا رہا تھا کہ وہ مصیبت ایک دن یا دودن کے لئے نہیں ہوگی بلکہ بدیر رہے گی.سوالیسا ہی ہوا.صرف یہی الہام نہیں بلکہ اس واقعہ سے اور بھی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 157 الہامات پورے ہوئے جنہیں ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحفہ امیر کا بل اردو ( دعوۃ الامیر ) کے صفحہ 229 پر درج فرمایا اور وہ یہ ہیں : آتش فشاں.مصالح العرب - مسير العرب ـ عفت الديار گذِکری “ ،، ( تذکرہ مجموعہ الہامات، بار چہارم ،2004ء ، صفحات 477،476 ،479) یعنی جنگ عظیم الشان کے بعد اہل عرب کے لئے ایسے راستے نکلیں گے کہ ان پر چلنا ان کے لئے مفید ہوگا اور اہل عرب اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.گھروں کو اس طرح اڑا دیا جائے گا جس طرح میر اذ کر وہاں سے مٹ گیا ہے.اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ آتش فشاں پہاڑ پھوٹے گا اور اس کے ساتھ عرب کی مصلحتیں وابستہ ہونگی اور وہ گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.یہ مضمون ظاہری زلزلہ پر ہرگز چسپاں نہیں ہوسکتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ” آتش فشاں“ سے مراد طبائع کا وہ مخفی جوش ہے جو کسی واقعہ سے ابل پڑے گا اور اس وقت عرب بھی دیکھیں گے کہ خاموش رہنا اس کے مصالح کے خلاف ہے اور وہ بھی اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھائیں گے.“ اسی طرح تحفہ شہزادہ ویلیز اردو کے صفحہ 81 پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں سے ایک یہ الہام درج ہے : عرب اپنی قومی ترقی کی طرف توجہ کرینگے.“ ( تخفه شهزاده ویلیز اردوصفحه 81) سو یہ تمام پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری ہوئیں.اس جنگ کی وجہ فقط طبائع کا مخفی جوش ہے جو صرف ایک واقعہ سے ابل پڑا اور وہ یہ ہے کہ رئیس جیل دروز نے دروزیوں کی منشاء کے مطابق فرنساوی حاکم جیل دروز کی تبدیلی چاہی مگر گورنر فرنساوی سختی سے پیش آیا اور ان کی درخواست کی طرف کوئی توجہ نہ کی جس کی وجہ سے طبائع میں حکومت کے خلاف جو مخفی جوش تھا آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھوٹ پڑا اور تمام جیل دروز حکومت کے خلاف ہو گیا.پھر ان کی آواز پر اہل شام نے بھی لبیک کہی اور اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور گھر تباہ کئے گئے اور استقلال کیلئے جنگ شروع کر دی.پس موجودہ جنگ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا الہامات بالفاظہا پورے ہوئے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 158 تبلیغی موانع جوں جوں حالات بگڑتے گئے تبلیغ میں روکیں پیدا ہوتی گئیں.شاید بعض احباب یہاں کی دینی حالت سے ناواقف ہوں.یہاں کوئی لیکچر گاہ نہیں ہے جہاں دینی لیکچر دیئے جاسکیں اور نہ ہی یہاں مذہبی لیکچر دیئے جاتے ہیں اور نہ کوئی عام درس گاہ ہے کہ جہاں درس جاری کیا جائے.مساجد ہیں تو وہ مشائخ کی تکیہ گاہ یا جاگیریں ہیں جن پر ان کا گزارہ ہے.وہ مسجد کو خدا کی ملک نہیں بلکہ اپنی مملوکہ جائیدادوں کی طرح سمجھتے ہیں اور وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا (البقرة: 115) کی وعید سے نہیں ڈرتے.کوئی شخص ان کے خرافاتی عقائد کی تردید میں کچھ بیان نہیں کر سکتا.دوسال کا واقعہ ہے کہ شیخ رشید رضا مدیر المنار مصر سے یہاں آئے.جامع اموی میں بعض کی درخواست پر کسی دینی امر کے متعلق لیکچر دیا.اس میں کوئی بات دمشقی مشائخ کے خیالات کے مخالف انہوں نے اس پر شور ڈالدیا اور جہلاء کو ان کے خلاف بھڑکا دیا جو مارنے کیلئے تیار ہو گئے وہاں تعلیم یافتہ نوجوان بھی موجود تھے انہوں نے بڑی مشکل سے بچا کر انہیں وہاں سے نکالا.کوئی دینی اخبار نہیں کہ اس میں دینی مضامین شائع کرائے جائیں.بیسیوں اخبار میں اور رسالہ جات علاقہ شام میں موجود ہیں مگر سب سیاست پر بحث کرتے ہیں یا فکاہیات ہیں جیسا کہ اردو میں پنج اخبار.میں نے ایڈیٹروں سے دریافت کیا کہ دینی اخبار کیوں نہیں نکالتے.انھوں نے جواب دیا کوئی خریدار نہیں ملتا.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ دین سے کتنے دور جا پڑے ہیں.پھر مینجر ز اور ایڈیٹرز کی یہ حالت ہے کہ وہ دینی مضامین شائع کرنے سے گریز کرتے ہیں.ابھی چند دن کا واقعہ ہے میں نے مکان تبدیل کیا اس کے لئے اعلان کی ضرورت تھی اس میں ایک فقرہ تھا کہ جو دینی امور کے متعلق گفتگو کرنا چاہے وہ ہمارے مکان پر آکر کر سکتا ہے خواہ کسی مذہب کا ہو.اس اعلان پر اجرت مقررہ کے مطابق ایک روپیہ کے قریب خرچ آتا تھا مگر مینجر نے کہا چونکہ یہ اعلان دینی ہے اس لئے اس کی اجرت ایک پونڈ ہے.پھر دوسرے اخبار میں اعلان کروایا.مشائخ کی حالت بعض مشائخ سے گفتگو کا موقعہ ملا.بعض ان میں سے نہایت متعصب ہیں اور اندھے مقلد.بعض
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 159 کو ایمان سے بالکل خالی پایا.بظاہر تو وہ اقرار کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں ، قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر تھوڑا سا کرید کر جب دریافت کیا جائے تو ان کے قلوب ایمان سے بالکل خالی ہیں اور جو ان میں سے صالح ہیں وہ نہایت ہی قلیل تعداد میں ہیں اور دوسرے مشائخ سے ڈرتے ہیں.نئی تعلیم یافتہ پارٹی میں سے قریباً اٹھاون فیصد ہیں جو دین سے متنفر اور امور دین کو استہزاء کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اکثر ان میں سے طبعی ہیں اور اپنے آپ کو اس وجہ سے مسلمان کہتے ہیں کہ ان کے باپ دادا مسلمان ہیں.یہ خیال کہ یہ لوگ جلدی جلدی ہماری باتوں کو قبول کر لیں گے صحیح نہیں ہے الا ما شاء اللہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نور الحق میں فرماتے ہیں : " اور بھائیو! یہ بھی تمہیں معلوم رہے کہ دیار عرب میں کتابوں کے شائع کرنے کا معاملہ اور ہماری کتابوں کے عمدہ مطالب عرب کے لوگوں تک پہنچانا کچھ تھوڑی سی بات نہیں ہے، بلکہ ایک عظیم الشان امر ہے اور اس کو وہی پورا کر سکتا ہے جو اس کا اہل ہو.کیونکہ یہ بار یک مسائل جن کے لئے ہم کافر ٹھہرائے گئے اور جھٹلائے گئے کچھ شک نہیں کہ وہ عرب کے علماء پر بھی ایسے ہی سخت گذریں گے جیسا کہ اس ملک کے مولویوں پر سخت گزر رہے ہیں.بالخصوص عرب کے اہل بادیہ کو تو بہت ہی ناگوار ہوں گے کیونکہ وہ بار یک مسائل سے بے خبر ہیں اور وہ جیسا کہ حق سوچنے کا ہے سوچتے نہیں اور ان کی نظریں سطحی اور دل جلد باز ہیں مگر ان میں قلیل المقدار ایسے بھی ہیں جن کی فطرتیں روشن ہیں اور ایسے لوگ کم پائے جاتے ہیں.نور الحق حصہ اول صفحہ 18 ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 25) یہاں کے علماء ہندی علماء سے زیادہ متعصب ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام یہاں دمشق میں نازل ہونگے.ایک ٹریکٹ شئی من عقائد الجامعة الاحمدیہ کے عنوان سے لکھا تھا جس کا ایک شیخ نے جو بالکل مولوی محمد حسین بٹالوی کا مثیل معلوم ہوتا ہے جواب شائع کیا ہے اور خوب دل کھول کر گالیاں دی ہیں.اس کی ایک سطر نقل کرتا ہوں مجھے مخاطب کر کے لکھتا ہے كل شخص منكم كافر ملحد، مجوسی،مشرک، کذاب، مفتر افاک اثیم یہ سطر پڑھ کر بے ساختہ زبان پر حضرت مسیح موعود کا شعر آیا: 66 کافر و ملحد , دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 160 اور یہی بات سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمائی کہ شام میں ہمارا مقابلہ ہوگا اور سخت ہوگا مگر انشاء اللہ کا میابی بھی بہت بڑی ہوگی.مگر ابھی تک بوجہ حالات حاضرہ کے کما حقہ تبلیغ کا موقعہ نہیں ملا کہ ہر ایک فرد کو پورے طور پر تبلیغ پہنچائی جاسکے.یہ بات امن کی حالت میں میسر ہوسکتی ہے.مارشل لاء جاری ہونے سے پہلے جو ٹریکٹ چھپوائے گئے تھے وہ ابھی تک تقسیم کئے جارہے ہیں اور جو کتابیں مکرمی سید زین العابدین صاحب نے بڑی کوشش اور محنت کر کے چھپوا ئیں تقسیم کی ہیں اور جس قدر ممکن ہوسکتا ہے لوگوں سے مل کر تبلیغ کی جاتی ہے خطوط کے ذریعہ دمشق کے علاوہ دوسری جگہوں میں تبلیغ کر رہا ہوں.اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ حمص میں ایک بڑے عالم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کو قبول کرنے کا اقرار کیا ہے.انہوں نے دو دفعہ کتابیں اور ٹریکٹ بھی طلب کئے جو روانہ کئے گئے ہیں.انہوں نے دوسرے احباب کو پڑھنے کیلئے دیئے.انہوں نے لکھا ہے کہ ہم پوشیدہ طور پر اس دعوت کو پھیلا رہے ہیں اور جو کوئی اعتراض کرتا ہے اس کو جواب دیتے ہیں.اسی طرح ناصرہ میں السید احمد فائق الساعاتی سے خط و کتابت جاری تھی وہ ایک صالح نوجوان ہیں.وہ دمشق آئے بیعت کر گئے.پھر ناصرہ گئے.وہاں سے چار اشخاص کے جن میں سے دوتا جر ہیں خطوط بیعت انہوں نے روانہ کئے ہیں اور لکھا ہے کہ باقی اشخاص خواہش مند ہیں کہ آپ یہاں آئیں اور مفصل مسائل کے متعلق سمجھا ئیں اور خاص دمشق میں اللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کو جماعت میں داخل ہونے کی تو فیق عطا فرمائی ہے.احباب سے سب کی استقامت کیلئے دعا کی درخواست ہے.الفضل قادیان 3 / 6اگست 1926ء) حضرت مولا نا شمس صاحب بیان کرتے ہیں : ایک ہفتہ سے شہر میں کچھ امن کی حالت پیدا ہو رہی تھی.بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاید کوئی صلح کی صورت نکل آئی ہو کہ اچانک پرسوں عصر کے وقت چند ثوار باب الجابیہ سے شہر میں داخل ہوئے اور وسط شہر میں آکر ان سپاہیوں سے جنگ شروع کر دی جو استحکامات پر متعین تھے.طق طق ہونا شروع ہو گیا.دکان دار دکانیں بند کر کے گھروں کو بھاگ گئے.نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ضابط فرنساوی اور ان کے تین چار سپاہی قتل ہوئے اور ایک شخص ثوار سے بھی مارا گیا.اس اثناء میں بعض رؤساء شہر سے بھی اجتماع کا موقعہ ملا اور انہیں پیغام حق پہنچایا گیا.ایک شخص کو وفات مسیح کے دلائل کے مقابلہ میں جواب بن نہ پڑا تو کہنے لگے یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے.اگر کوئی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس شخصا.161 ں اسے زندہ مانے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہے اگر مردہ تسلیم کیا جائے تو کوئی نفع نہیں ہے.میں نے کہا مسئلہ حیات و وفات مسیح اس وقت ایک نہایت اہم مسئلہ ہے ، مسیح ناصری قرآن مجید کی رو سے وفات یافتہ ہے یا زندہ.اگر اسکی حیات از روئے قرآن مجید میں ثابت ہے تو جو شخص اس کے خلاف وفات کا عقیدہ رکھتا ہے وہ قرآن کریم کے خلاف کرتا ہے اور اگر قرآن کریم سے اس کی وفات ثابت ہے تو جو شخص اس کی حیات کا قائل ہے وہ قرآن مجید کو جھٹلاتا ہے.پس اس صورت میں حیات و وفات مسیح کا مسئلہ ایمانیات میں شامل ہو جاتا ہے.دوسرے اس کی وفات سے ایک اہم فائدہ ہے وہ یہ کہ اس کے مرنے سے میسحیت بھی مر جاتی ہے جیسا کہ اس کے خلاف اسے زندہ ماننے سے وہ زندہ ہو جاتی ہے.الحمد للہ کہ باوجود حالات حاضرہ کی خرابی کے ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور احباب کی دعاؤں کی برکت سے کچھ نہ کچھ تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے.گفتگو میں بھی ہوتی ہیں.بعض دوست کتا بیں بھی پڑھ رہے ہیں.میں مکرمی زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا نہایت ممنون ہوں جنہوں نے بڑی جدو جہد سے دو کتابیں چھپوائیں جن کی وجہ سے میں اس قابل ہوا کہ لوگوں کو مطالعہ کیلئے دوں.یہ امر پوشیدہ نہیں کہ تمام تفاصیل انسان زبانی بیان نہیں کر سکتا ہے خصوصاً اس وقت جبکہ پبلک تقریروں کے بجائے تحریر پڑھنے کی زیادہ مشتاق اور عادی ہو.اس ماہ میں پانچ مرد اور تین عورتیں سلسلہ میں داخل ہوئیں.پانچ مردوں میں سے ایک طبیب الاسنان (Dentist ) ہیں اور ایک اخبار ترکیه و عربیہ کا حیفا میں نمائندہ ہے اور ایک دوست محکمہ دیوان العامہ بیروت میں ملازم ہیں.ہمارے ایک مخلص دوست احسان سامی حقی عراق گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو.میں بھی ان کے ہمراہ بیروت گیا.وہاں ایک بہت بڑا کالج ہے جو امریکن مشن کی طرف سے ہے.کلیہ امریکانی کے نام سے مشہور ہے.اس کالج کی اصلی غرض تبشیر مسیحی ہے.اس تمام علاقہ میں فقط یہی ایک بڑا کالج ہے.اس کے متعلق ایک شفا خانہ بھی ہے.ہم نے مینیجر شفا خانہ سے دریافت کیا کہ آپ صرف شفاخانہ پر سالانہ خرچ کیا کرتے ہیں اور یہ خرچ کہاں سے آتا ہے.تو اس نے کہا ساٹھ ہزار ڈالر سالانہ خرچ ہے.تمیں ہزار مشن کی طرف سے خرچ کیا جاتا ہے اور تمیں ہزار یہاں کی آمد سے پورا کیا جاتا ہے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 162 کلیه امریکانی کا مسلم طلباء پراثر ایک وکیل سے سلسلہ کے متعلق گفتگو جاری تھی.دوران گفتگو میں کہنے لگا کہ یہاں کے لوگ نہایت متعصب ہیں دیکھو امریکن مشن نے لاکھوں روپیہ کالج پر صرف کیا ہے اور کئی سال گذر گئے مگر سوائے چندلوگوں کے کوئی مسیحیت میں داخل نہیں ہوا اور انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے.میں نے کہا یہ امرصحیح نہیں ہے.اس کالج نے مسیحی نقطہ نگاہ سے بہت بڑا کام کیا ہے اگر مسلمان پورے عیسائی نہیں بنے تو پورے مسلمان بھی تو نہیں رہے.اگر چہ مسیحیت کا بظاہر اقرار نہ کریں مگر ان کے رنگ میں تو رنگین ہوگئے اور دین اسلام سے متنفر ہو گئے.اخلاق و آداب و تمدن میں ان کے نقش قدم پر چلنے لگے.اکثر ان میں سے طبعی بن گئے خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنے لگے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ کا ذب و مکار اور حیلہ ساز خیال کرنے لگے باوجود مسلمان کہلانے کے علی الاعلان کہنے لگے کہ رسالت کا دعویٰ لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک حیلہ تھا اور یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوا بالکل جھوٹ ہے اور اکثر طالب علم لا دینی ہو کر نکلے.بتاؤ اس سے بڑھ کر اور کیا تاخیر ہوسکتی ہے.دوسری بات یہ ہے کہ ہم تو اسلام کو پیش کرتے ہیں کوئی نیا مذ ہب تو نہیں لائے.پھر اس نے کہا کتنے لوگوں نے یہاں مسیح موعود کی دعوت کو قبول کیا ہے.دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتنی جلدی لوگ ایمان لے آئے.میں نے کہا ” مشہور کے مطابق تین سال میں جتنے لوگوں نے مسیح کی دعوت کو قبول کیا تھا ان سے زیادہ شخصوں نے ایک سال کے عرصہ میں باوجود حالات حاضرہ کے نامناسب ہونے کے مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کو قبول کیا ہے اور آپ کو چاہئے کہ ہماری حالت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کی زندگی پر قیاس کریں اور پھر سوچ کر بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں کتنے لوگ ایمان لائے تھے.ایک بھائی سے گفتگو کالج میں ان دنوں رخصتیں ہیں.چند بہائی طالب علم بھی پڑھتے ہیں ان کے رئیس سے جو وہاں کالج میں ملازم ہے ، گفتگو ہوئی.میں نے اس سے بہائیت کی تعریف پوچھی تو کہنے لگا کہ انسان یہودی ، مجوسی، مسیحی غرضیکہ کسی مذہب کا پیرو ہو اپنے مذہب میں رہ کر بہائی ہوسکتا ہے.میں نے اس پر جرح کی اور بہائیت کی حقیقت کو آشکار کیا اور اس سے دریافت کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک مجوسی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 163 ہو اور بت پرستی کرتا ہوا ، تناسخ اور روح و مادہ کو قدیم سمجھتا ہوا اور مسیحی اور مسئلہ کفارہ کو مانتا ہوا بہائی ہو، تو پھر اللہ کی شریعت کس کے لئے ہے.کہنے لگا کوئی نئی شریعت نہیں ہے.میں نے کہا میں نے خود ”کتاب اقدس کا اول سے آخر تک مطالعہ کیا ہے پھر میں نے اس کے چند احکامات سنائے.آخر اس سے جب کوئی جواب نہ بن آیا تو کہنے لگا اصل میں میں نے کتب دینیہ کا مطالعہ نہیں کیا.میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ پہلے مسلمان تھے ؟ اگر مسلمان تھے تو کونسی خوبی بہائیت میں دیکھی جو اسلام میں نہیں پائی جاتی.کہنے لگا میں پیدائشی بہائی ہوں.میر ادادا اور میرا باپ بہائی تھے.میں نے خود کتب کا مطالعہ نہیں کیا.( الحمد للہ میں بھی پیدائشی احمدی ہوں میرا دادا بھی.احمدی ہونے کی وجہ سے احمدی نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت احمدی ہوں ) پھر کہنے لگا.ہمیں ہندوستان سے خبریں ملتی ہیں کہ احمدیوں میں کثرت سے بہائی ہیں.میں نے کہا کوئی کذاب آپ کو ایسی خبریں لکھتا ہوگا.احمدیت حقیقی اسلام ہے احمدیوں میں الحمد للہ کوئی بہائی نہیں.اگر کوئی بہائی منافقانہ طریق پر احمد یوں میں مل جائے جیسا کہ یہود کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذَا جَاءُ وَكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ (المائده : 62) اور پھر انہیں ان کی شرارتوں پر جماعت سے خارج کر دیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ احمدی بہائی ہو گیا.بہائیوں کو اب تک اپنے عقائد کے اظہار کرنے کی جرات نہیں پڑتی.ہم نے باب کی کتاب بیان کے متعلق بار بار بہائیوں سے دریافت کیا مگر کوئی بہائی اپنے مقدس بانی کی کتاب دکھانے کیلئے الفضل قادیان 28 ستمبر 1926ء) تیار نہیں ہوتا...سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے والا پہلا دمشقی خاندان ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ) جو باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر لکھی ہیں پوری ہو کر رہیں گی.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کی باتیں نہیں ملیں گی مگر ہر ایک امر کیلئے وقت معین ہے جسے انسان نہیں جانتا.انہی خبروں میں سے علاقہ شام میں احمدیت کی اشاعت کی خبر ہے جو اپنے وقت پر پوری قوت کے ساتھ چمکے گی جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے پڑگئی ہے.چنانچہ پہلا خاندان جو دمشق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں داخل ہو اوہ مکرمی برادرم محمد اسماعیل صاحب حقی دمشقی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 164 مدیر السائل مدیر یہ دیوان العامہ حلب کا ہے.پہلے پہل آپ کے فرزند ارجمند برادرم احسان سامی حقی سلسلہ میں داخل ہوئے.پھر ان کے بعد ان کے دوسرے بھائی ممدوح حقی.پھر جب ان کے والد صاحب گزشتہ ہفتہ حلب سے دمشق تشریف لائے تو وہ مع اپنے تیسرے بیٹے محمد خیری حقی کے داخل سلسلہ ہوئے.ان کے دولڑ کے بشیر حقی اور ابراہیم حقی چھوٹی عمر کے ہیں اور اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں.ان کا نام راشد آفندی ہے اور دوسرے کا نام موافق ابن الجندی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو استقامت عطا فرمائے.آمین.صداقت مسیح موعود کی ایک دلیل ایک شخص سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر گفتگو ہورہی تھی تو اس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کی صداقت کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان لانا بھی ہے.وہ ان کے قتل کے لئے گھر سے نکلے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے رستہ میں ہی ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ وہ جاتے ہی مسلمان ہو گئے.میں نے کہا بعینہ اسی طرح مولوی عمر الدین صاحب شملوی جو ایک نہایت مخلص جو شیلے غیور احمدی ہیں وہ شملہ میں تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی اور حافظ محمد یوسف بھی وہیں تھے کہ ان کے پاس حضرت مسیح موعود کی طرف سے رسالہ پہنچا جس میں آیت لو تقول پر بحث کرتے ہوئے لکھا تھا کہ تم میرے قتل کے لئے جس قدر منصوبے اور تدبیریں کر سکتے ہو کر لومگر نا کام رہو گے اور مجھے کوئی قتل نہیں کر سکتا.مولوی عمر الدین صاحب نے ان سے یہ اشتہار لے کر پڑھا اور بڑے جوش سے کہنے لگے کہ تم کیوں اس کو قتل نہیں کروا دیتے.تو انہوں نے کہا ہم نے اس کے قتل کی بہت تجویزیں کی ہیں مگر ہماری کوئی پیش نہیں چلتی تو آپ نے کہا میں جاتا ہوں میں قتل کروں گا.آخر اس کے بعد ایسے سامان پیدا ہو گئے کہ وہ جب قادیان پہنچے تو احمدی ہو گئے.وہ حضرت عمرؓ تھے تو ان کا نام عمر الدین ہے.اس کے ساتھ ہی مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا جس کا ذکر کرنا بھی خالی از فائدہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے.ایک دفعہ خاکسار جناب ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب کے ہمراہ سیالکوٹ ایک مباحثہ کی تقریب پر گیا.وہاں آپ نے سنایا کہ ایک دفعہ ایک پادری سے گفتگو کا موقعہ ملا.اُس نے مجھ سے صداقت مسیح موعود پر دلیل مانگی.میں نے کہا جس دلیل سے تم نے مسیح ناصری کو سچا مانا ہے وہ دلیل پیش کرو ویسی ہی میں دلیل
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 165 پیش کروں گا.تو اس نے انجیل متی کا چوتھا باب پڑھا جس میں لکھا ہے کہ پھر شیطان مسیح کو بیت القدس میں لے گیا اور ہیکل کے کنگروں پر کھڑا کر کے اس سے کہا کہ اگر تو ابن اللہ ہے تو اپنے آپ کو یہاں سے گرا.اگر تو اپنے دعوئی میں سچا ہے تو فرشتے اپنے ہاتھوں پر تجھے لیں گے اور تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.تو مسیح نے جواب دیا کہ یہ بھی تو لکھا ہے کہ تو اپنے خدائے معبود کومت آزما.تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ اسی طرح شیخ نجفی نے لاہور سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اشتہار دیا.اس نے یہ نشان طلب کیا کہ آپ ایک منار سے گر کر دکھا ئیں.اگر آپ سچے ہوں گے تو آپ بچ رہیں گے.تو حضور نے اس کے جواب میں یہی لکھا کہ اے شیخ نجفی پہلے مسیح کے زمانہ میں بھی شیخ نجدی (ابلیس) نے مسیح سے اسی قسم کا مطالبہ کیا تھا سو میں بھی وہی جواب دیتا ہوں جو پہلے مسیح نے دیا کہ چل دور ہولکھا ہے کہ تو اپنے خدائے معبود کو مت آزما.( یہ دونوں روایات سنے ہوئے دیر ہوئی.ہوسکتا ہے کہ الفاظ میں تبدیلی ہو مگر مفہوم جہاں تک مجھے یاد ہے یہی تھا.) پس تمام وہ دلائل صداقت جو متفرق طور پر انبیاء میں پائے گئے اللہ تعالیٰ نے سب مسیح موعود میں جمع کر دیئے جیسے کہ آپ جرى الله في حلل الانبیاء تھے ویسے ہی آپ کے دشمن بھی تمام اعداء انبیاء گزشتہ کے بروز تھے.اس لئے جس جس قسم کے گزشتہ انبیاء سے دشمنوں نے مطالبات کئے ، آپ سے بھی وہ مطالبات کئے گئے اور آپ نے انبیاء کے جوابوں کی طرح جوابات دیئے.از دمشق 16 ستمبر 1926ء.الفضل قادیان 26 اکتوبر 1926ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مسجد احمد یہ لنڈن کے افتتاح کی عربی پریس میں تشہیر 166 مسجد فضل لنڈن جس کی بنیاد سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے 19 اکتوبر 1924ء کو رکھی اور جس کا افتتاح 3 اکتوبر 1926ء کو محترم بیرسٹر شیخ عبد القادر صاحب نے کیا.اصل میں سلطان ابن سعود سے افتتاح کی درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنے بیٹے امیر فیصل کو مسجد کے افتتاح کیلئے اجازت دیں، جو ان ایام میں انگلستان میں مقیم تھے.سلطان ابن سعود نے انہیں تقریب میں شرکت کی اجازت دیدی تاہم شہزادہ امیر فیصل بوجوه افتتاحی تقریب میں شامل نہ ہو سکے جس کی بناء پر شیخ صاحب موصوف نے افتتاح کیا.اس عالمگیر اور عظیم الشان مسجد کے افتتاح کی خبریں دنیا بھر کے بیسیوں اخبارات و جرائد میں نمایاں طور پر شائع ہوئیں جن کا خلاصہ جماعتی اخبارات ورسائل بالخصوص الفضل قادیان میں سلسلہ وار ماہ اکتوبر 1926 ء سے دسمبر 1926 ء تک رپورٹس، تراشہ جات اور تعارف و تبصروں کی صورت میں شائع ہوتا رہا جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ مسجد فضل لندن کی تعمیر تاریخ عالم کا ایک سنگ میل تھا جیسا کہ عصر حاضر میں یہ بات اظہر من الشمس ہو چکی ہے.اس موقع پر حضرت مولانا شمس صاحب نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مکتوب تحریر کیا جو حسب ذیل ہے.حضرت مولانا شس صاحب سید نا حضرت خلیلیہ البیع الثانی کی خدمت میں اپنے مکتوب میں تحریر کرتے ہیں: سب سے پہلے میں افتاح مسجد حد یہ لنڈن کی تقریب پر پیارے آقا حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور تمام افراد جماعت احمدیہ کی خدمت میں جماعت احمد یہ دمشق کی طرف سے مبارک باد عرض کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے جلد تر مغربی پرندوں سے معمور کرے جو صرف اسی کا ترانہ گائیں اور
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 167 باقی نغمے بھول جائیں.الحمد للہ کہ تقریب افتتاح پر جیسا کہ انگلستان کے پریس نے نہایت شوق سے حصہ لیا ویسے ہی عربی پریس نے بھی خبر افتتاح مسجد لنڈن کا پر جوش استقبال کیا اور لمبے چوڑے مضامین شائع کئے جس کی وجہ سے عربی علاقہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خبر پہنچی اور جماعت احمدیہ کی خدمات دینیہ کا اعتراف لوگوں کے کانوں تک پہنچ گیا ہے.یہاں پر میں مصرو حلب وغیرہ کے اخبارات کو چھوڑتا ہو ا دمشق اور بیروت کے ان اخباروں کا نام درج کرتا ہوں جو مجھ تک پہنچے ہیں اور ان میں اس تقریب پر مسجد کے متعلق مضامین شائع ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں : فتى العرب، المقتبس، الراي العام الف باء، المصور، البلاغ، الاحرار، الشرق، ابابيل، الكشاف الوطنی.اسی طرح مصر کے اخباروں میں اور رسالوں میں اس کا ذکر بکثرت آیا ہے اور رسالہ اللطائف ،مصورہ مصر میں مسجد کا نہایت عمدہ خوبصورت فوٹو شائع ہوا ہے.ایک شیخ کا مکالمہ مکر می سید عابدین بیگ صاحب جورؤساء دمشق سے ہیں ان کے مکان پر چونکہ اکثر اوقات رات کے وقت لوگ جمع ہوتے ہیں میں بھی ان کے پاس جایا کرتا ہوں اور سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی ہے.ایک شیخ کو جو نہایت ہی متعصب ہے میرے ان کے پاس جانے اور انکو مطالعہ کیلئے کتا بیں دینے کا پتہ لگ گیا تو اس نے ان سے کہا کاش وہ جس وقت یہاں ہو مجھے بھی پتہ لگ جائے تو میں اس کی موجودگی میں احمدیت کی حقیقت ظاہر کروں.چنانچہ اس ہفتہ بعض احباب ان کے مکان پر جمع ہوئے جن میں ایک ڈاکٹر عبد القادر مصری تھے.مجھے بھی انہوں نے بلوایا.ڈاکٹر صاحب سے گفتگو شروع ہوئی.اتنے میں وہ شیخ بھی جھومتا جھامتا متکبرانہ طریق سے کمرہ میں آداخل ہوا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا.مجھ سے مخاطب ہوا اور کہا تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا تمہیں کیا ؟ میں کہتا ہوں جو کہتا ہوں.اتنے میں اس نے مکرمی عابدین بیگ صاحب سے ترکی میں کہا کہ یہ کافر ہے ضال ہے مغل ہے.انہوں نے اسے روکا اور میری طرف سے جواب دیتے رہے.آخر شیخ نے شیخی بگھاری اور غصہ میں آکر کتاب اٹھا کر ان سے کہا میں سر تو ڑ دوں گا.تم کیوں اسکی حمایت کرتے ہو.اس پر انہیں بھی سختی سے کام لینا پڑا اور غصہ میں آکر اسے کہا خبیث یہاں سے نکل جاؤ تمہیں کس نے بلایا ہے.تم آداب مجلس سے بھی واقف نہیں.اس پر زکریا بیگ نے انہیں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 168 کہا جانے دو یہ تو مجنون ہے.اس پر شیخ نے کہا کیا میں مجنون ہوں تم مجنون ہو.اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا میں بحیثیت ڈاکٹر ہونے کے کہتا ہوں تم مجنون ہو.ابھی رپورٹ کر کے تین سال کے لئے پاگل خانہ بھجوا سکتا ہوں.اس پر چپ ہو گیا.غرضیکہ شیخ صاحب کی ساری شیخی دومنٹ میں ہی کر کری ہوگئی اور اپنا سا منہ لے کر رہ گیا.یہ شیخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی اچھی طرح نہیں لیتا تھا.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ إِنِّي مُهِيْنٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَگ کا جلوہ دکھایا اور سب کے سامنے وہ نہایت ذلیل ہوا.عابدین بیگ صاحب نے کہا کہ میں نے آج تک اپنی عمر میں کسی پر اتنا غصہ کا اظہار نہیں کیا ہے.مجھے اس بات کا ڈر پیدا ہوا کہ یہ مجھ سے اس طرح پیش آیا ہے تو ان سے بھی اسی طرز پر سختی سے گفتگو کرے گا تو اس میں میری ہتک ہے کیونکہ وہ میرے معزز مہمان ہیں.شیخ نے کہا میں نے امرحق کے لئے غضب کا اظہار کیا ہے تاکسی کو گمراہ نہ کر دیں.اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا.اگر ہم سب احمدی ہو جائیں تو تو کوئی ہمارا ٹھیکیدار ہے؟ عابدین بیگ صاحب نے کہا دو ماہ سے میرے پاس آتے جاتے ہیں میں نے ایک دن بھی کوئی بات ان سے خلاف اسلام نہیں سنی بلکہ ہر ایک بات کو مدلل اور معقول پیرایہ میں پیش کرتے ہیں.کچھ دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب استفتاء پڑھنے لگا.چونکہ چھا پہ ہندی تھا اچھی طرح پڑھ نہ سکے.جب رک جاتے تو کہہ دیتے کہ معلوم نہیں یہ کیا کہتا ہے مجنون کی سی باتیں ہیں.میں نے کہا ہر ایک نبی کے وقت مجنونوں نے ایسا ہی کہا ہے.نبی چونکہ بطور شیشہ کے ہوتے ہیں.اس میں ہر ایک شکل دیکھتا ہے.کفار نے بھی آنحضرت صلعم کے متعلق یہی کہا.وَيَقُوْلُوْنَ أَئِنَا لَتَارِكُوا الِهَتِنَا لِشَاعِرِ مَجْنُونِ (الصافات:37) اس کے بعد ختم نبوت کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے کہا.میں نے کہا گفتگو کا طریق یہ ہوگا کہ یہ آیت خاتم النبیین کی پہلے تفسیر کرے ہم سب سنیں.کوئی درمیان میں نہ بولے.آخر تفسیر کھول کر پڑھنے لگا.جب پڑھ چکا تو پھر میں نے مفصل طور پر اس آیت کی تفسیر کی مگر اسے چین کب آتا تھا.درمیان میں بولتا رہا مگر آخر میں حاضرین نے شیخ کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو جو معنے انہوں نے پیش کئے ہیں اس سے آنحضرت صلعم کی شان بڑھ چڑھ کر ثابت ہوتی ہے.اس میں حدیث لَوْ عَاشَ إبْرَاهِيمُ لَكانَ صِدِّيقًا نَبیا پر بحث ہوئی.وہ کہے ضعیف ہے.میں نے کہا یہ حدیث صحیح ہے.تیسرے دن ایک نوجوان کو کتابوں کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے وہاں پر پہنچ گیا.میں بھی اتفاق سے وہیں تھا اور
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 169 راویوں کے اسماء اور ان کے حالات کتب نکال کر پڑھنے لگے.ایک راوی ابراہیم الواسطی ہے.اس کے متعلق لکھا تھا کہ یہ متروک الحدیث ہے.کہنے لگا دیکھا یہ اس وجہ سے حدیث ضعیف ہے.کیا تمہیں یہ بات معلوم تھی.میں نے کہا ہاں اور اس سے زائد بھی معلوم ہے.کہنے لگا وہ کیا.میں نے کہا ابراہیم الواسطی کو بعض نے ضعیف ٹھہرایا ہے مگر باوجود اس کے اس حدیث کو صحیح قرار دیا گیا ہے چنانچہ شہاب على البیضاوی نے صاف طور پر لکھا ہے: و اما صحة الحديث فلا شبهة فيها لانه رواه ابن ماجه و غیرهم کہ حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ ابن ماجہ کے سوا اوروں نے بھی اسے روایت کیا ہے.مختلف طریق سے وارد ہونے کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے.دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ چونکہ یہ حدیث علم غیب پر مشتمل ہے اسلئے کسی راوی کا ضعیف ہونا اس کی صحت پر قادح نہیں ہوسکتا.چنانچہ اس نے ایک کتاب پڑھی جس میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا گیا تھا مگر وہ اس کے مفہوم کو سمجھ نہ سکا اور عبارت پڑھ گیا.میں نے کہا یہ کتاب مجھے دو میں اسی تمہاری کتاب سے یہ ثابت کر دوں گا کہ یہ حدیث صحیح ہے مگر اس نے کتاب دینے سے انکار کیا اور وہ نو جوان جو اس کے ساتھ کتا بیں اٹھا کر لایا تھا وہ بھی میری تائید کرنے لگا اور آہستہ سے اپنے ساتھی کو کہنے لگا اس کے دماغ میں کچھ خلل ہے یہ دوسرے کی بات کو کیوں نہیں سنتا.جب جانے لگا تو کہہ گیا.اب میں نے حجت تمام کر دی ہے اب یہاں مجھے آنے کی ضرورت نہیں ہے.اس کے بعد نہیں آیا.الحمد للہ کہ دو اور شخص سلسلہ میں داخل ہوئے.الفضل قادیان 14 دسمبر 1926ء) گیارہ روپے کی موم بتیاں اور عالمگیر جلسوں کے برقی قمقمے آج سے قریباً 85 سال قبل 1925ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر روشنی کے انتظام کیلئے موم بتیوں پر گیارہ روپے خرچ آئے.آج 2010ء میں یہ سوچ کر کتنا لطف آتا ہے کہ اس وقت جبکہ برقی رو کا انتظام نہیں تھا گیارہ روپے کی شمعیں ہی کافی ہوتی تھیں.اب تو اللہ کے فضل سے کل عالم میں جماعت احمدیہ کے بیسیوں جلسے منعقد ہوتے ہیں جن پر روشنی کے انتظام پر ہزاروں کیا بلکہ لاکھوں روپیہ خرچ ہوتے ہیں لیکن ان گیارہ روپوں کی ایک اپنی شان تھی جو 1926ء کے جلسہ کیلئے جماعت دمشق نے ناظر صاحب
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 170 ضیافت قادیان کے نام ارسال کئے.اس سلسلہ میں ہر دو بزرگان حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب اور مولا نائٹس صاحب کی دلچسپ خط و کتابت پیش ہے.حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب تحریر فرماتے ہیں: اب خدا کے فضل و کرم سے جلسہ سالانہ قریباً بالکل نزدیک آ گیا ہے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبات اور ناظر صاحب بیت المال کی تحریکات متواتر احباب تک پہنچ چکی ہیں اور وہ جگہ حسب دلخواہ چندہ کی فراہمی میں کوشش ہو رہی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ یہ کام جلد سے جلد اپنے مقرر کردہ وقت سے پہلے سرانجام پا کر ہم سب کارکنوں کے اطمینان کا باعث ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ.مجھے کسی نئی تحریک کی ضرورت نہ تھی مگر مجھے ایک خط مولوی جلال الدین صاحب کا دمشق سے آیا ہے جس میں وہ دمشق کی نئی اور مختصر سی جماعت کے چندہ کی اطلاع دیتے ہیں جو انہوں نے جلسہ سالانہ کے لئے جمع کیا ہے.یہ چندہ جمع ہو چکا ہے اور چندہ میں انہوں نے چیز بھی وہ منتخب کی ہے جو دمشق کے منارہ بیضاء کے مناسب حال ہے.میں مولوی صاحب کا خط ذیل میں درج کرتا ہوں تا کہ احباب کو توجہ پیدا ہو کہ جب کہ وہ جماعت جو کل نہیں تھی اور صرف آج صفحہ ہستی پر آئی ہے وہ جلسہ سالانہ کے لئے اپنی بساط کے موافق ہزاروں میں سے چندہ جمع کر رہی ہے تو وہ جماعتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت سے قائم ہیں ان کا فرض کہاں تک جلسہ سالانہ کے چندہ جمع کرنے کے متعلق قیاس کیا جا سکتا ہے.پس احباب اس خط کو پڑھیں اور جہاں وہ دمشق میں اس نئی اور مختصر جماعت کے قیام سے خوش ہوں وہاں ان کے بتاتے ہوئے اس مبارک تقریب کے لئے ممکن سے ممکن ترقی اور اضافہ سے چندہ جمع کر کے مرکز میں روانہ والسلام.سید محمد الحق.ناظر ضیافت قادیان.“ فرمائیں.مولانا جلال الدین صاحب شمس کا مکتوب مکرمی و مخدومی جناب میر محمد الحق صاحب ناظر ضیافت و مہتم جلسہ سالانہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.سب سے پہلے اول تو معافی کا درخواستگار ہوں کہ جب سے یہاں آیا جناب کی خدمت میں کوئی عریضہ ارسال نہیں کیا.ارادہ تھا کہ جماعت احمد یہ دمشق بھی جلسہ سالانہ میں حصہ لیوے.اس بناء پر
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 171 گذشتہ سال جو حضور نے فہرست اشیاء مع قیمت اخبار الفضل میں شائع کی تھی ، مطالعہ کی.ان میں سے موم بتیوں کو انتخاب کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: واختار ذكر لفظ المنارة اشارة الى ان ارض دمشق تنير و تشرق بدعوات المسيح الموعود اس لئے نورانی چیز کو انتخاب کیا.گذشتہ سال موم بتیوں کی قیمت گیارہ روپیکھی ہے.اس امر کی تحریک پر دس مجیدی جو بارہ روپے سے کچھ کم ہیں جمع ہوا ہے.اس لئے آپ میرے وظیفہ ماہ اکتوبر سے بارہ روپے موم بتیوں کیلئے لے لیویں.ناظر صاحب دعوت و التبلیغ کی خدمت میں بھی اس امر کے لئے لکھ دیا ہے اور نہایت عاجزانہ درخواست ہے کہ جلسہ سالانہ میں حضرت صاحب کی تقریر کے وقت جب موم بتیوں کو تقسیم کیا جائے تو جماعت احمد یہ دمشق کی ترقی کے لئے ضرور دعا کی تحریک فرمائیں مشکور ہوں گا.باقی حالات بدستور ہیں ابھی تک جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا.رات کے وقت اب دس بجے تک پھرنے کی اجازت ہے.دس بجے کے بعد کسی کو بازار میں چلنے کی اجازت نہیں ہے.کل نیا مفوض سامی آ رہا ہے.دیکھئے اس کے آنے پر کیا کچھ ہوتا ہے.کذب و نفاق یہاں کثرت سے ہے.کوئی حد ہی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.آخر میں دعا کیلئے عاجزانہ درخواست ہے.والسلام خادم جلال الدین از دمشق الفضل قادیان 26 نومبر 1926ء)
172.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس * 1929-1927 پادری الفریڈ نیلسن سے مباحثہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ) دمشق میں تقریباً سات سال سے مسیحی مشن قائم ہے.بڑے پادری کا نام الفریڈ نیلسن ہے جو ڈنمارک کا رہنے والا ہے اور اس علاقہ میں چودہ پندرہ سال سے کام کر رہا ہے.ماہ فروری 1927ء میں اس سے ملاقات کا اتفاق ہوا.دو دن تک مسیح کی صلیبی موت پر گفتگو جاری رہی.آخر یہ قرار پایا کہ بحث تحریری ہو.اس قرارداد کے مطابق میں نے پہلے خط میں تحریری طور پر چند سوالات لکھ کر بھیجے جن کا جواب دیتے ہوئے اس نے بھی مجھ سے چند سوالات کئے اور صلیبی موت پر انجیل سے چند دلائل پیش کئے جن کو میں نے نہایت معقول طریق پر رد کر دیا جس کی وجہ سے وہ گھبرایا اور مناظرہ سے گریز کرنا چاہا مگر میں نے اسے خوب اکسایا اور کہا کہ یاد رکھو جس مضمون پر بحث ہے وہ نہایت ہی اہم مضمون ہے.پولوس نامہ قرنطیوں کے باب پندرہ میں کہتا ہے کہ اگر مسیح صلیب پر مرنے کے بعد جی نہیں اٹھا تو ہماری ساری تبشیر باطل اور ایمان باطل ہے.اگر ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ مسیح فی الحقیقت صلیب پر نہیں مرا تھا تو دین مسیحی بالکل باطل ہو جائے گا.پس اس مضمون کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کو ان دلائل کا جو میں حضرت مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے متعلق انا جیل سے پیش کروں گا جواب دینا ہوگا.پھر میں نے دس دلائل انجیل سے اپنے دعوی کے ثبوت میں پیش کئے اور اس کے اس سوال کا کہ پہلے تو مسلمانوں میں سے کوئی اس طرح مسیح کی صلیبی موت سے انکار نہیں کیا کرتا تھا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارت دی اور کہا کہ آنحضرت صلعم نے بھی فرمایا تھا کہ مسیح موعود کسر صلیب کرے گا.سو یہ دلائل جو میں نے پیش کئے ہیں اسی کا سر صلیب کی کتب سے بطور خلاصہ کے لکھے ہیں.پھر آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عبارت لکھی جس کا آخری ٹکڑا یہ ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وقت بطور شاہد کے کھڑا کیا ہے تا میں گواہی دوں کہ سب ادیان باطل کا رنگ پکڑ گئے مگر اسلام.اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ روح عطا کی گئی ہے جس کے وو
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 173 مقابلہ کی کسی کو طاقت نہیں.پس جبکہ تم اس روح القدس کا جو مجھے بخشا گیا ہے مقابلہ نہیں کر سکتے تو تمہاری خاموشی تم پر حجت ہوگی.“ اس پر چہ کا اس نے ایک ماہ کے بعد جواب بھیجا مگر دس دلائل میں سے ایک دلیل کو بھی نہ چھوا.اس نے اپنے پر چوں میں لکھا ہے کہ مسیح نے بخوشی خاطر صلیب پر لٹکایا جانا منظور کیا.جواباً میں نے انجیل سے اس امر کو باطل ثابت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہو تو کوئی عاقل اس کے اس فعل کو مستحسن نہیں سمجھے گا اور اس کی مثال ایسی ہی ہوگی کہ اگر کسی استاد کے شاگر د سبق یاد نہ کریں اور اس کے حکموں کو نہ مانیں تو وہ کہے اچھا لو تم میری باتوں کو نہیں مانتے اس لئے میں خود کشی کر لیتا ہوں.خود کشی ان کو کیا فائدہ دے سکتی ہے.اسی طرح جب مسیح نے دیکھا کہ لوگ اس کا کہا نہیں مانتے اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرتے تو اس نے کہا.اچھا لو میں خود کشی کر لیتا ہوں.اسی طرح اس مباحثہ میں مندرجہ ذیل اہم مضامین پر مختصر بحث ہوئی ہے: (۱) صحابہ اور حواریوں کا مقابلہ (۲) قرآن مجید کی تعلیم اور انجیل کی تعلیم کا موازنہ (۳) پولوس کی حقیقت اور اس نے کس طرح دین مسیح کو بگاڑا.پادری کا اپنا اقرار کہ انا جیل میں بعض امور خلاف واقعہ پائے جاتے ہیں.وغیرہ وغیرہ.مباحثہ کا اثر اس مباحثہ کا باعث ایک مسلم نو جوان تھا جو جرمن میں بھی تعلیم پا چکا ہے اور انگریزی زبان سے بھی واقف ہے.اس پر اس مباحثہ کا یہ اثر ہوا ہے کہ وہ اب ہماری تمام باتوں کو مانتا ہے اور لوگوں سے گفتگو کرتا ہے.حتی کہ اس نے مشائخ سے کہا ہے کہ عیسائیوں کے پاس احمدیوں کے دلائل کا کوئی جواب نہیں ہے.یہاں موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مباحثہ کا شائع ہونا مشکل ہے اس لئے مصر کے مطابع سے خط و کتابت کر رہا ہوں.امید ہے کہ اگر یہ مباحثہ شائع ہو گیا تو اس سے ان علاقوں میں ایک عظیم الشان تغیر ہوگا کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات نئی ہے کہ انجیلوں سے یہ ثابت ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.اس وقت جیسا کہ اخباروں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ہندوستان میں مسیحی تبلیغ زوروں پر ہے اس لئے تمام مسلمانوں کو اس مسئلہ پر غور کرنا چاہئے.یہ ایک ایسا کاری حربہ ہے جس کے آگے مسیحیت
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 174 کبھی زندہ نہیں رہ سکتی.پس میں اپنے تجربہ کی بناء پر تمام احمدی احباب اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ اس مسئلہ کو ان دلائل کے ساتھ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کئے ہیں کسی پادری کے سامنے پیش کریں گے تو وہ ہرگز ان دلائل کو توڑنے پر قادر نہیں ہوگا اور ان دلائل کے جاننے کیلئے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کا مطالعہ کرنا الفضل قادیان 15 جولائی 1927ء) چاہئے.اسلامی ممالک پر عیسائیت کے حملے کا اندفاع ( مولانا جلال الدین صاحب شمس ) مسیحی مبلغین اسلامی ممالک میں پھیل چکے ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں.فلسطین میں قدس، حیفاء یافا دوغیرہ میں.عراق میں بغداد، بصرہ، موصل وغیرہ میں مسیحی مشن قائم ہیں.ان مشنوں کے علاوہ سال میں ایک مرتبہ پادری ہر ایک گاؤں کا دورہ کرتے ہیں.شام میں پروٹسٹنٹ کا ڈنمارک کی طرف سے مشن قائم ہے اور اس کے علاوہ ایک امریکن مشن ہے جو کہتا ہیں اور ٹریکٹ شائع کرتے رہتے ہیں.بیروت میں تین چار مشن ہیں اور ایک یونیورسٹی ہے جو ان تمام ممالک اسلامیہ میں مشہور ہے.وہ بھی امریکہ کی ایک کمیٹی کی طرف سے ہے اور ایک اخبار النشرة کے نام سے یونیورسٹی کی طرف سے ہفتہ وار شائع ہوتا ہے.اس سے جو مسلمان طالب علم تعلیم پا کر نکلتے ہیں ان سے تقریبا اسی فیصدی لا دینی ہوتے ہیں.اب تو یہاں ایک ہسپتال کھولا جا رہا ہے اور بعض گاؤں میں مسیحی مبلغین دورہ کر رہے ہیں مگر مسلمان خواب غفلت میں پڑے ہیں اس فتنہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور ان کی اپنی حالت یہ ہو رہی ہے کہ دن بدن دین چھوڑ رہے ہیں.خصوصاً نو تعلیم یافتوں کا اکثر حصہ دین کی پرواہ نہیں کرتا.چونکہ مجھے اکثر ایسے لوگوں سے گفتگو کا موقع ملتا ہے میں نے مسلمان کہلانے والے نو جوانوں کو جن کے آباء آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کیلئے اپنی جان کو فدا کرنا اپنے لئے باعث فخر خیال کرتے تھے اعلانیہ گالیاں دیتے دیکھا ہے.میرا پہلے تو یہاں کے مرکز کے انچارج کے پادری سے کامیاب مباحثہ ہوا اب میں نے یہ ارادہ کیا کہ مسیحیت کے خلاف ہر ماہ چند ٹریکٹ ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کئے جایا کریں.چنانچہ پہلے ٹریکٹ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشگوئیاں تو رات اور انجیل کی رو سے اور پھر اس بات کا ذکر کیا ہے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 175 کہ مسیحی لوگ مسیح کی آمد ثانی کی خوشی میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی ماننا ضروری خیال کرتے ہیں اس لئے میں بتانا چاہتا ہوں کہ جس کی تم انتظار کر رہے ہو وہ خود نہیں آئے گا بلکہ اس کے آنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی خو بو کا ایک شخص آئے گا اور وہ امت محمدیہ میں سے ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے ہو گا چنانچہ وہ آچکا ہے.مسیح ناصری اس لئے آیا تھا کہ تا وہ لوگوں کو سنائے کہ آسمان کی بادشاہت آنے والی ہے اور اس کا اس نے حواریوں کو حکم دیا تھا کہ آسمانی بادشاہت کے قرب کی خبر لوگوں کو سنا دیں.مسیح موعود اس لئے آیا کہ تا یہ گواہی دیوے کہ وہ آسمانی بادشاہت جس کی تم انتظار کر رہے تھے وہ آچکی ہے یعنی وجود باجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.دمشق میں آپ کا زخمی ہونا الفضل قادیان 30 ستمبر 1927ء) 24 دسمبر 1927ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو تار ایک دمشق سے اور دوسری سماٹرا سے موصول ہوئے.دمشق کے تار میں مولوی جلال الدین صاحب مولوی فاضل احمدی مبلغ کے کسی شقی القلب انسان کے ہاتھوں زخمی ہونے کی اطلاع تھی.حضور کے ارشاد کے ماتحت اس تار کا اعلان اسی وقت بورڈ پر لکھ کر لگا دیا گیا جس میں مولوی جلال الدین صاحب کی صحت و عافیت کیلئے دعا کی تحریک بھی کی گئی.پھر حضور نے یہ اعلان کرایا کہ احباب مسجد اقصیٰ میں جمع ہوں جہاں مل کر دعا کی جائے گی.حضور نے بارہ بجے تشریف لانے کا ارشاد فرمایا.احباب کی ایک کثیر تعداد جن میں جلسہ کے لئے تشریف لانے والوں کی بھی ایک خاصی تعداد تھی مسجد میں جمع ہو گئے.حضور ٹھیک بارہ بجے مسجد میں رونق افروز ہوگئے او منبر پر کھڑے ہو کر سب ذیل مخصر تقریر فرمائی.ارشاد سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی آج دو تاریں دو مختلف علاقوں کے مبلغوں کی طرف سے آئی ہیں.چونکہ وہ ایک قومی رنگ میں قومی اہمیت رکھتی ہیں اس لئے میں نے دوستوں کو اس جگہ جمع کیا ہے تا کہ انہیں سنائی جائیں اور احباب مل کر دعا کریں.ایک تار تو شام سے آیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ مولوی جلال الدین صاحب پر جو کہ ہمارے شام کے مبلغ ہیں کسی نے حملہ کیا ہے اور خنجر سے زخمی کر دیا ہے.ابھی یہ تفصیل معلوم نہیں ہوئی کہ انہیں کیسے زخم آئے ہیں.معمولی ہیں یا سخت لیکن
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس بہر حال ایسے موقعہ پر جبکہ حملہ کرنے والے کی نیت قتل ہو یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی طرف سے سخت زخمی کرنے میں کمی نہ کی ہوگی.پس کو تفصیل ابھی نہیں آئی اس لئے یہی خیال آتا ہے کہ زخم سخت ہوں گے.لیکن ممکن ہے زخم سخت نہ ہوں تاہم جب جوش اور غضب کی آگ بھڑ کی ہوئی ہو اور ایک حملہ اگر ناکام رہے تو دوسری دفعہ بھی خطرہ ہوتا ہے.چونکہ حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں اس لئے ہم ایسے حملوں کا اندفاع طاقت سے نہیں کر سکتے.ہمارے پاس صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ وہ اپنے فضل سے ہمارے مبلغین کی جانوں کی حفاظت کرے اور دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھے.176 ایک عرصہ سے شام کے حالات مخدوش ہو رہے تھے.اس وقت تک جو لوگ احمدی ہو چکے ہیں ان میں سے کئی ایک کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں.ہمارے ایک دمشق کے دوست جو اس مجلس میں بھی بیٹھے ہیں ( برادر احسان حقی صاحب) ان کے ایک بھائی جو بہت مخلص احمدی ہیں.ان کے متعلق مولوی جلال الدین صاحب نے لکھا تھا کہ انہیں تین چار آدمیوں نے جن کے پاس خنجر تھے ایک دن شہر سے باہر روک لیا اور کہا یا تو احمدیت سے تو بہ کرو ورنہ قتل کر دیں گے.اسی طرح اور احمدیوں کے متعلق انہوں نے لکھا تھا کہ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں.پچھے ہفتہ کی ڈاک میں جو خط آیا اس میں ذکر تھا کہ علماء نے کہا ہے گورنمنٹ احمدیوں کے متعلق کچھ نہیں کرتی ہمیں خود ان کا انتظام کرنا چاہیئے.پہلے انہوں نے گورنمنٹ کو احمدیوں کے خلاف بہت کچھ کہا اور ملک سے نکال دینے کا مطالبہ کیا مگر گورنمنٹ نے اس معاملہ میں دخل نہیں دیا.اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فرانسیسی حکومت ہے.اسے ذاتی طور پر احمدیوں کے ساتھ احمدی ہونے کی وجہ سے کوئی دشمنی اور عداوت نہیں ہوسکتی دوسرے وہاں پادری بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں.ان کے خلاف جب لوگوں نے شکایت کی تو گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو نہ تو ملک سے نکالا جاتا ہے نہ تبلیغ سے روکا جاتا ہے.مسلمانوں کو ان کی باتوں کا جواب دینا چاہیئے.جب گورنمنٹ پادریوں کے متعلق یہ فیصلہ کر چکی ہے تو اس کیلئے مسلمان کہلانے والے مبلغوں کو ملک سے نکال دینا مشکل امر مولوی جلال الدین صاحب کے خط میں ذکر تھا کہ مولویوں نے جب احمدیوں کو مارنے کا فتویٰ دیا تو لوگوں نے انہیں کہا پادریوں کے متعلق بھی یہی فتویٰ دیا گیا تھا مگر کسی نے کچھ نہ کیا
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 177 اب کس طرح کر لو گے.انہوں نے کہا پادریوں کے متعلق مشکلات تھیں مگر اب کر لیں گے.بات یہ ہے کہ پادری ایک تو مالدار ہونے کی وجہ سے اپنی حفاظت کیلئے بہت کچھ سامان کر سکتے ہیں.پھر پادری فرانسیسی ہیں ان کو مارنے کی وجہ سے یہ ڈر تھا کہ گورنمنٹ ناراض ہو جائے گی اور انتقام لے گی اس وجہ سے پادریوں پر ہاتھ نہ اٹھا سکے.غرض مولوی جلال الدین صاحب کی پچھلی رپورٹوں سے معلوم ہورہا تھا کہ مولویوں کی طرف سے ان پر قاتلانہ حملہ کی تجویز ہو رہی ہے.دوسرا تار پاڈانگ علاقہ سماٹرا سے آیا ہے.مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل و ہاں تبلیغ کیلئے بھیجے گئے ہیں.وہاں ایک بہت بڑا مباحثہ قرار پایا ہے جو آج یا کل سے شروع ہو گا.کئی سوعلماء سارے علاقہ سے اکٹھے ہوئے ہیں.خدا کے فضل سے وہاں جماعت قائم ہوگئی ہے.کئی بارسوخ اور مالدار لوگ داخل ہو چکے ہیں.جب مولویوں نے دیکھا کہ جماعت مضبوط ہو رہی ہے تو پہلے انہوں نے یہ کوشش کی کہ گورنمنٹ کو احمدیوں سے بدظن کریں اس کیلئے انہوں نے احمدیوں پر گورنمنٹ کے باغی ہونے کا الزام لگایا اور کہا انہیں اس ملک میں رہنے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے مگر گورنمنٹ نے ان باتوں کی طرف توجہ نہ کی.اب انہوں نے بہت بڑے مباحثہ کا انتظام کیا ہے.مولوی رحمت علی صاحب وہاں اکیلے ہیں اور مولوی کئی سو جمع ہوں گے اس لئے مولوی صاحب کی کامیابی کیلئے خاص طور پر دعا کرنی چاہئے.وہ علاقہ ایسا ہے جہاں احمدیت کی ترقی کیلئے بہت کچھ گنجائش ہے.چار کروڑ مسلمان ہیں جو اس بات کیلئے تڑپ رکھتے ہیں کہ صداقت معلوم کریں.یہی وجہ ہے کہ وہاں بہت جلد ترقی ہوئی ہے اور کئی ایسے لوگ داخل سلسلہ ہوئے ہیں جو سلسلہ کی مالی مدد بھی کرنے والے ہیں.ان دونوں باتوں کے لئے احباب دعا کریں.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ مولوی جلال الدین صاحب کو شفا دے اور آئندہ محفوظ رکھے دوسرے مولوی رحمت علی صاحب سے جو مباحثہ ہونے والا ہے اس میں خدا غلبہ عطا کرے.“ اس کے بعد حضور مسجد کے محراب میں قبلہ رو ہو کر بیٹھ گئے اور تمام مجمع قبلہ رو ہو گیا اور دعا کی گئی جو پندرہ منٹ تک جاری رہی.خدا تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمارے مبلغین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے.الفضل قادیان 2 جنوری 1928ء) آمین.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اظہار تشکر 178 حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس دمشق میں تبلیغ کے دوران شدید زخمی ہو گئے تھے خدا تعالیٰ نے اعجازی طور پر آپ کو نئی زندگی عطا فرمائی.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے احباب جماعت کو آپ کیلئے دعا کی تحریک فرمائی.حضرت مولانا صاحب اظہار تشکر کرتے ہوئے اس کی بابت اپنے مکتوب میں تحریر کرتے ہیں : السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ الحمد للہ کہ زخم تقریبا مندمل ہو چکے ہیں مگر ابھی تک پوری صحت نہیں ہوئی.ڈاکٹروں نے ہسپتال سے باہر رہنے کی اجازت دے دی تھی کیونکہ اب علاج کی ضرورت نہ رہی تھی.اس لئے بتاریخ 8 جنوری ہسپتال سے چلا آیا ہوں اور ایک ہوٹل میں فی الحال کمرہ لیا ہے.اب کچھ چل پھر بھی لیتا ہوں.چونکہ سردی سخت پڑ رہی ہے، برف پڑتی ہے اس لئے ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق باہر پھرنے سے پر ہیز کرتا ہوں.پیارے آقا حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور جماعت کی دعاؤں کی برکت ہے کہ اتنی جلدی مجھے اللہ تعالیٰ نے شفا عطا کی.جب حضور کی خدمت میں تار روانہ کیا گیا تو یہاں کے بعض احمدی غیر احمدیوں سے کہتے تھے اب دعا کیلئے تار دے دیا گیا ہے انشاء اللہ خدا تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا.اس حادثہ سے بہت سے لوگوں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا ذکر پہنچا ہے.جس دن سے مجھے کلام کرنے کی طاقت ہوئی ہے اسی دن سے برابر تبلیغ کر رہا ہوں.شفا خانہ میں بھی اور یہاں بھی بہت سے لوگ اب کتابیں پڑھنے کا شوق ظاہر کر رہے ہیں.مشائخ تو اخلاقی موت مر چکے ہیں اس واقعہ سے مخلص احمدی اپنے ایمان اور اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں.منیر آفندی اکھنی جو جرمنی میں بھی تین سال تک تعلیم پاچکے ہیں اور جرمنی اور عربی اور فرنساوی اور ترکی خوب جانتے ہیں اور انگریزی زبان بھی کچھ کچھ جانتے ہیں ان کا شکر یہ ادا کرتا ہوں ان کے متعلق میں پھر کسی وقت زیادہ لکھوں گا.برادر احسان سامی حقی کے چھوٹے بھائی مدوح حقی کے ایک خط میں سے جو اس نے اس حادثہ کی خبر سننے کے بعد حلب سے یہاں ایک احمدی دوست محمد علی بیگ حیدر کے نام بھیجا ہے چند اقتباسات کا ترجمہ لکھتا ہوں.برادرم مدوح حقی نہایت مخلص اور جوشیلانو جوان
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 179 احمدی ہے اس وقت حلب کے کالج میں تعلیم پارہا ہے، وہ لکھتا ہے: میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ ہر روز استاذ جلال الدین (یعنی خاکسار ) کی عیادت کو جایا کریں گے آپ انہیں میر اسلام پہنچا دیں.میرا ارادہ تھا کہ میں انہیں براہ راست خط لکھوں مگر یہ خیال کر کے کہ شاید وہ اس حالت میں پڑھ نہ سکیں گے نہیں لکھا.آپ کے دل میں اس امر سے کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں آنی چاہئے.ظالم لوگ عنقریب اپنے کئے کا بدلا پائیں گے میرا تو یہی خیال ہے کہ در حقیقت مجرم مشائخ ہیں انہی کے مشورہ سے یہ بات ہوئی ہے بئس ما یعملون.پھر لکھتا ہے.يجب ان تكون هذه الحادثة كدرس تعلمنا الشجاعة والاقدام في سبيل الله و يجب علينا ان نتلقى كل هذه الصعوبات بصدر رحب ونتخطاها غير مبالين وغير صيابين و ان نعلم الناس كيف تكون الشجاعة.ضروری ہے کہ یہ حادثہ ہمارے لئے ایک سبق ہو جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شجاعت اور اقدام سکھاتا ہے اور ضروری ہے کہ ہم اس قسم کی تمام صعوبات اور مشکلات کو فراخ حوصلگی اور وسیع الصدر ہو کر برداشت کریں اور کسی قسم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور خوف نہ کھاتے ہوئے ان پر سے گزر جائیں اور چاہئے کہ ہم لوگوں کو بتا دیں کہ شجاعت کیونکر ہوتی ہے اور کسے کہتے ہیں.اسی طرح باقی احمدی دوست بھی مثلا ابوعلی مصطفیٰ اور اس کا بھائی ابوصلاح اور محمد خلیل پاشا وغیرہ سب پہلے سے زیادہ تبلیغ میں مشغول رہے.آخر میں سب جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قبولیت حق کی توفیق عطا فرمادے.والسلام.خادم جلال الدین شمس احمدی از دمشق 11 جنوری 1928ء الفضل قادیان 3 فروری 1928ء) سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی خدمت میں ایک اہم مکتوب اپنے زخمی ہونے کے بعد آپ نے حضور کی خدمت میں ذیل کا مکتوب تحریر کیا جس میں اپنے زخمی ہونے کے بارہ میں تحریر کیا:
.خالد احمد بیت حضرت مولانا جلال الدین شمس پیارے آق حضرت خلیفہ مسیح الثانی فضل عمرایک اللہ بنصرہ العزیز! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے مجھے محض اپنے فضل و کرم سے اتنی طاقت عطا فرمائی کہ میں حضور کی خدمت میں یہ عریضہ لکھوں.پیارے آقا! میری زندگی کی کوئی امید نہ تھی.اطبا کہتے تھے کہ پانچ فیصدی بھی بچنے کی امید نہیں.مخالفوں نے حادثہ کے دوسرے روز میری موت کی خبر مشتہر کر دی تھی مگر حضور اور جماعت کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے خارق عادت طور پر جلدی شفا عطا فرمائی کشتی کہ بعض طبیب بھی حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں.آج مجھے چار پائی پر لیٹے ہوئے گیارہ دن ہو گئے ہیں.آج ڈاکٹروں نے آخری معائنہ کیا.زخموں پر سے پٹیاں کھول دی ہیں.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے زخم مندمل ہونے کے قریب ہیں مگر ابھی تک کمزوری کی وجہ سے چلنے کی طاقت نہیں ہے.حادثہ کی تفصیل تفصیل حادثہ کی یہ ہے کہ پہلے تو مجھے مدت سے خطوط میں قتل کی دھمکیاں دی جاتی تھیں.چنانچہ ٹریکٹ الجهاد الاسلامی (جس میں میں نے یہ ثابت کیا تھا کہ اس وقت دین کے لئے قتال جائز نہیں بلکہ یہ زمانہ تبلیغ کا زمانہ ہے ) کے بعد مشائخ کی طرف سے یہ خط آیا تھا کہ چونکہ تم جہاد دینی اور دین کے لئے قتال کو حرام قرار دیتے ہو اس لئے ہم پر تمہارا خون گرانا واجب ہے.پھر دو ماہ سے جب میں نے ان کے چیلنج مباحثہ کا جواب دیتے ہوئے شرائط مناظرہ شائع کیں اور لکھا کہ مناظرہ تحریری ہونا چاہیئے اور فـلـمـا تـو فیتنی کے موت کے سوا آسمان پر اٹھا لینے کے معنی ثابت کرنے پر تین ہزار قرش انعام مقرر کر دیا اور علاوہ ازیں پانچ چھ اشخاص بھی سلسلہ میں داخل ہو گئے تو پھر انہوں نے منبروں پر مساجد میں لوگوں کو ہمارے خلاف اکسانا شروع کیا اور کہا کہ نہ تم اس ہندی سے ملونہ اس کی کتابیں پڑھو اور مزید برآں انہوں نے مخفی کمیٹیاں بھی کیں جن میں قتل و غیرہ کے مشورے کرتے رہے جیسا کہ میں حضور کو ان امور کے متعلق خطوں میں اطلاع دیتا رہا ہوں جب سے یہاں جنگ شروع ہوئی ہے ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں اس لئے ان کو دیکھتے ہوئے میں مستبعد نہیں سمجھتا تھا کہ میرے ساتھ 180
حضرت مولانا جلال الدین شمس
حضرت میاں امام الدین سیکھوانی حضرت میاں خیر الدین سیکھوانی
بر موقع سنگ بنیاد دفاتر صدرانجمن احمد یہ ربوہ جلسہ سالانہ ربوہ حضرت مولانا شمس صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت ملک غلام فرید صاحب
18 نومبر 1927ء بمقام دمشق 1 32408 وہ گلی جس میں حضرت مولا نا صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا.گلی کے اندر کا حصہ، پہلا دروازہ وہ گھر ہے جہاں آپ قیام پذیر تھے
احباب جماعت احمد یہ دمشق ΡΑΠΟΝ
24 جولائی 1936: مسجد فضل لندن میں جرمن لڑکوں اور لڑکیوں کا گروپ فوٹو مسجد فضل لندن میں
اپریل 1936: حضرت مولانا شیر علی صاحب اور حضرت مولانا شمس صاحب کی طرف سے کرنل ڈگلس کے لیے مسجد فضل لندن میں استقبالیہ جولائی 1935 ء مسجد فضل لندن میں حضرت مولانا شمس صاحب کی طرف سے شاہ فیصل کے لیے استقبالیہ
مسجد فضل لندن میں شاہ فیصل کے ہمراہ THE GO ایستاده: کرنل ایم ولیم ڈگلس، بائیں: حضرت مولا نائٹس صاحب
حضرت مولا نائٹس صاحب پرنس فیصل کے ساتھ 1939ء.مسجد فضل لندن میں پرنس فیصل کے ہمراہ
و مبلغین کے ہمراہ
سید نا حضرت خلیفہ المسح الثانی کے ہمراہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے بائیں جانب حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب اور دائیں جانب حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب اور مولانا نذیر احمد مبشر صاحب ہیں
1946: انگلستان سے واپسی پر فلسطین میں احباب جماعت کے ہمراہ
- مکرم منیر الحصنی صاحب، ← حضرت مولانا شمس صاحب، (نامعلوم) 1965: مکرم میر مبشر احمد طاہر، مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب سیالکوٹ، حضرت مولانا شمس صاحب انصار اللہ تھائی الیون سے باتیں
1939: کرنل ایم ولیم ڈگلس اور حضرت مولا نائٹس صاحب
منیر الحصنی صاحب کے ہمراہ کیپٹن ولیم ڈگلس کے ہمراہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس بھی ایسا ہو مگر صدق اور حق کی قوت تھی اور جب کبھی ایسا خیال آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر زبان پر آجاتا تھا.ولست اخاف من موتی و قتلی اذا ما كان موتى في الجهاد دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتاب تذکرۃ الشہا دتین میں ایک عبارت ہے جو ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے.مجھے خوب یاد ہے جب میں نے اسے پہلی بار پڑھا تو اس نے میرے جسم میں ایک بجلی کی سی تاثیر کی تھی.اس وقت میں سخت رویا تھا اور اسی وقت خدا تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے خدا ہمیں بھی سید عبداللطیف صاحب شہید سا صدق وو و استقامت عطا فرما.اس عبارت کے الفاظ تقریباً یہ ہیں.181 ” اے عبد اللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی صدق کا نمونہ دکھایا.اور جو میری جماعت میں سے میری موت کے بعد ر ہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.“ تذكرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 60] اسی طرح میرے ایک معزز دوست نے قادیان سے لکھا کہ اگر دمشق کی بجائے جدہ میں آپ جا کر تبلیغ کریں تو وہاں سے سب ممالک میں تبلیغ کر سکیں گے تو میں نے انہیں یہی جواب دیا تھا کہ میں تو حکم کا بندہ ہوں جیسا حضرت صاحب ارشاد فرمائیں گے بجالاؤں گا لیکن اگر مجھ پر چھوڑا جائے تو میں اسی بات کو ترجیح دوں گا کہ یا تو تبلیغ کرتے کرتے یہاں فوت ہو جاؤں یا اللہ تعالیٰ مجھے ایک مستقل مخلص جماعت عطا فرمائے.22 دسمبر 1927ء کو میں مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے گھر سے نکلا تا کہ کوئی کھانے کی چیز خریدوں.چونکہ دن جمعرات کا تھا اور اس دن رات کو سب احمدی میرے مکان پر جمع ہوتے ہیں بازار دور ہونے کی وجہ سے وہاں جانا نہ چاہا.میرے مکان کی گلی سے باہر نکلتے ہی ایک دکان ہے وہاں سے چنے خرید کر اپنے گھر واپس چلا مکان سے چھ سات قدم کے فاصلہ پر ایک چھوٹا سا موڑ ہے جہاں مغرب ہوتے ہی اندھیرا چھا جاتا ہے.جب وہاں پہنچا تو میں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے کوئی پیچھے سے پکڑ نا چاہتا ہے.جب میں نے اس سے بھاگنے کی کوشش کی تو اس نے زور سے خنجر میری کمر میں مارا.اس ضرب کو میں نے محسوس کیا.میرے ہمسایہ کا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 182 دروازہ کھلا تھا.اس میں جلدی سے داخل ہو گیا اور انہیں کہا دیکھو مجھے کسی نے خنجر مارا ہے.آخر وہ اترے اس وقت خون زور سے بہہ رہا تھا.میں اپنے مکان کے دروازہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا.پولیس پہنچی.آدھ گھنٹہ تقریباً اپنے کاغذات وغیرہ پر کر کے مجھے ہسپتال میں لائے.پہلے پہل جب میں نے محسوس کیا کہ مجھے کوئی پکڑنا چاہتا ہے.اس وقت در حقیقت اس نے خنجر سے ضرب لگائی تھی اور وہ گری اور دائیں شانہ کی ہڈی کے درمیان تھی.جب ہسپتال میں لائے میرے تمام کپڑے خون سے رنگے ہوئے تھے اور جسم بھی خون سے بھرا ہو ا تھا.ڈاکٹر نے خود زخم کو اور وسیع کر کے خون نکالا جو زخم شانہ کے قریب تھا وہ نہایت گہرا تھا.دوشر یا نیں بھی کٹ گئیں.آخر صاف کر کے انہوں نے زخم سی دیئے.احمدی بھی یہاں پہنچ گئے.نہایت افسردہ خاطر ہوئے کیونکہ وہ ڈاکٹروں کو خفیہ طور پر باتیں کرتے سن چکے تھے کہ بچنے کی امید نہیں ہے.میری یہ حالت تھی کہ ضعف اور زخموں کے درد کی وجہ سے زیادہ بول بھی نہیں سکتا تھا.میں نے منیر آفندی الحصنی سے اس وقت کہدیا کہ جو روپیہ میرے پاس باقی ہے اور کچھ فلاں شخص کے پاس ہے یہ سب جماعت کا ہے آپ کو یہ قادیان پہنچادینا ہوگا اور حضرت صاحب کو جس قدر جلد ہو سکے ایک تار روانہ کر دیں.اسی حالت میں بعض مسلم اور غیر مسلم کہتے یہ کیسا بر افعل ہے.تو میں انہیں یہی جواب دیتا تھا کہ مجھے اپنی جان جانے کا قطعاً افسوس نہیں ہے.میرے ہی بھائی تھے جو افغانستان میں اسی امر حق کیلئے سنگسار کئے گئے لیکن مجھے افسوس ہے تو اس بات کا کہ مجھے مارنے والا اور جن کے مشورہ سے اس نے ایسا کام کیا وہ اپنے آپ کو بادشاہ امن یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے والے ہیں لیکن یہ آپ کے نادان دوست ہیں جو اپنے سفا کا نہ فعلوں سے اسلام کو بدنام کرتے ہیں.خدا اور اس کا رسول ایسے کاموں سے بیزار ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہانوں کیلئے رحمت بن کر آئے تھے نہ کہ عذاب.وہ لوگوں کو زندگی بخشنے کے لئے آئے تھے نہ کہ جانیں لینے کیلئے.میرے ذمہ ایک کام تھا کہ میں انہیں پہنچا دوں.آنے والا مسیح آچکا ہے.ہاں وہ شاہزادہ امن جس کی ہزاروں سال سے آمد کی راہ تک رہے تھے وہ آ گیا ہے.سو میرے خون کا ایک ایک قطرہ اس بات کا گواہ ہو گیا ہے کہ میں نے انہیں مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچا دیا جس کے جواب میں انہوں نے میرا خون گرایا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 183 پہلی رات میرا پیٹ اور سینہ سوج گیا.اسی طرح دوسرے دن حالت رہی.میں قطعاً ہل نہ سکتا تھا.آخر دوسرے دن جب حضور کی خدمت میں دعا کیلئے تار روانہ کر دیا گیا تو مجھے ایک اطمینان سا حاصل ہو گیا اور میں خود بخود دل میں کہنے لگا کہ یہ ورم وغیرہ سب زخم میں درد کی وجہ سے ہے.خطرہ اس بات کا تھا کہ زخم کا اثر کہیں پھیپھڑے اور گردوں تک نہ پہنچ گیا ہومگر تیسرے دن الحمد للہ کہ ورم کم ہونا شروع ہو گیا اور تھوک کے ذریعہ خون نہ نکلا.پھر روز بروز شفا ہوتی چلی گئی حتی کہ آج ڈاکٹروں نے مجھے شفایابی کی مبارکباد دی.علاوہ دوسرے ڈاکٹروں کے ایک ڈاکٹر فرنسا وی خود تین دفعہ آیا اور اپنے سامنے زخموں پر پٹیاں بندھوا تا رہا.بہت سے لوگوں کو شفا خانہ میں بھی تبلیغ کا موقعہ ملا ہے.الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے دوبارہ زندگی عطا فرمائی.میں حضور سے اور تمام جماعت احمدیہ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ دعا کی جائے اللہ تعالیٰ مجھے بقیہ زندگی میں پہلے سے بڑھ کر تبلیغ حق اور صدق و استقامت کی توفیق عطا فرمائے.میں اپنے احمدی دوستوں اور خصوصاً سید منیر آفندی احصنی صاحب کا نہایت ممنون احسان ہوں کہ جنہوں نے میری خدمت کیلئے رات دن ایک کر دیا اور نہایت اخلاص سے ہر ایک قسم کی سہولت کے سامان بہم پہنچائے.حضور سے بھی سب کی استقامت کے لئے دعا کی درخواست ہے خصوصاً سید منیر آفندی اٹھنی کیلئے جو سلسلہ کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کرتے.ان کے باپ ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں اس لئے ان کے والد صاحب کے لئے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے سینہ کو حق کی قبولیت کیلئے کھول دے.حضور کا ادنی ترین خادم طالب دعا.خاکسار جلال الدین شمس احمدی از دمشق 3 جنوری 1928ء (الفضل قادیان 7 فروری 1928ء) دمشق کے اخبارات میں آپ کے زخمی ہونے کا ذکر اخبار الف باء نے حادثہ کے دوسرے دن المبشر الاسلامی کے عنوان کے ماتحت لکھا: پولیس کی طرف سے ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ سید جلال الدین شمس ابن امام الدین احمدی جب کہ مغرب کے بعد اپنے گھر جا رہا تھا تو بعض اشخاص نے اُسے خنجر سے خطر ناک طور پر زخمی کر دیا.دو
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 184 شخصوں کو اس جرم میں پکڑا گیا ہے اور تحقیق کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشخاص بعض علماء کی طرف سے اس کام کے لئے بھیجے گئے تھے.اس خبر کو بیروت کے اخبارات البلاغ اور المشرق نے بھی نقل کیا ہے.اخبار الصفا کے دمشقی مراسل نے یہ لکھا ہے کہ یہی بات ارحج معلوم دیتی ہے کہ وہ مشائخ کی طرف سے خصوصاً جویجاتی اور شیخ ہاشم خطیب کی طرف سے بھیجے گئے تھے.اخبار الرأى العام نے لکھا ہے: ہم اپنی رائے کو اس بارہ میں محفوظ رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس وقت تک جو کچھ معلوم ہوا ہے اور لوگوں کی زبانوں پر جاری ہے وہ یہی ہے کہ یہ اشخاص شیخ الخطیب اور شیخ علی الدقر کی طرف سے بھیجے گئے ہیں.اگر یہ بات صحیح ہو تو انہیں سخت سزا دینی چاہئے.اخبار المقتبس نے لکھا ہے: گزشتہ ہفتہ کی خبروں میں سے ایک خبر یہ تھی کہ چند اشخاص نے شیخ جلال الدین شمس المبشر الاحمدی الہندی کو جبکہ وہ اپنے منزل میں داخل ہونے لگا تھا چھری سے چند زخم لگائے اور اسے حیات اور موت کے درمیان زخمی چھوڑ کر بھاگ گئے.یہ وہ خبر تھی جسے ہم نے بھی باقی تمام اخباروں کی طرح ذکر کیا تھا.بغیر اس کے کہ ہم اس کے متعلق ہم اپنی طرف سے کچھ لکھیں جب تک کہ ان اسباب کا پتہ نہ لگا لیں جن کی وجہ سے مجرمین نے ارتکاب جرم کیا اور یہ کہ آیا اس جرم کو وظیفتہ التبشیر سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ہمیں یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ آیا مجرمین کے پیچھے اس جرم شنیع کے ارتکاب کے لئے کوئی اور بھی ہاتھ ہے یا نہیں.پھر لکھا ہے اسلام جہلاء کے ایسے برے افعال سے پاک ہے.وہ ایک سیدھا راستہ ہے جو بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے منع کرتا اور کسی نفس کا بدون حق کے قتل حرام قرار دیتا ہے.کہتے ہیں کہ اس جرم کے ارتکاب کا باعث ایک پر جوش مباحثہ تھا جو استاذ مبشر اور بعض جہلاء مسلمین کے درمیان ہوا.اسی وقت بعض نے ان کے دفتر میں ہی مارنے کا ارادہ کیا لیکن ان کے اور ان کے اس بد ارادہ کے پورا ہونے کے درمیان مسلمانوں کا ایک سنجیدہ گروہ حائل ہو گیا اور مجمع بغیر اس کے کہ کسی قسم کی مکدر بات پیدا ہومنتشر ہو گیا لیکن ان کے کینہ اور غصہ سے بھرے ہوئے دل استاذ مبشر پر غیظ وغضب سے بھر گئے اور اس پر گردشوں کا انتظار کرنے لگے.رستوں کے موڑوں پر اس کو اچانک قتل کرنے کے قصد سے چھپ کر گھاتیں لگانے لگے.اس کی نسبت قسم قسم کی جھوٹی افواہیں اڑانے لگے.اُسے استعمار بریطانی کی تائید کی تہمتیں لگانے لگے اور یہ کہنے لگے کہ مذہب احمدی کا بانی یہ کہتا ہے کہ اسلام کی نجات اسی میں ہے کہ وہ
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 185 دولت برطانیہ کے حکم کے سامنے جھک جائے.وقوع جرم اور حدوث خیانت سے پہلے یہ حالت تھی اور لوگوں کا یہی خیال ہے کہ اسی سبب سے مجرموں نے اس بد جرم کا ارتکاب کیا اور خدا کے نزدیک گنہگار ہوئے کیونکہ اس نے قتل نفس کو بدون حق کے حرام قرار دیا ہے اور اسلام کی طرف بھی برائی منسوب کی کیونکہ وہ مرشد اور ہادی ہو کر آیا ہے.وہ تسامح اور حق کی طرف بلانے ولا ہے نہ کہ جنایات اور جرائم کی طرف.پھر لکھا ہے ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ علماء اور شیوخ اس جرم کو نہایت برا خیال کرتے ہیں.یہ فعل اور جہلاء کا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کیلئے کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اسلام ان کے اس فعل سے بلند اور پاک ہیں.الفضل قادیان 14 فروری 1928ء) علمائے دمشق حضرت مولا نائٹس صاحب اپنے زخمی ہونے اور علمائے دمشق کی بابت اپنے اگلے مکتوب میں تحریر کرتے ہیں: قارئین کرام کو میرے زخمی ہونے کا حادثہ یاد ہوگا کہ وہ مشائخ و ملاؤں کی برانگیخت اور انہی کے خفیہ منصوبوں کا نتیجہ تھا.جب وہ دلائل کی رو سے مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے اور بعض ذی علم اصحاب بھی سلسلہ میں داخل ہو گئے اور اہل علم طبقہ پر بھی علماء کی دینی علوم سے جہالت ظاہر ہونے لگی تو انہوں نے جیسا کہ ہمیشہ سے خداوندی سلسلوں کے دشمنوں کی عادت رہی ہے میرے نکلوانے کی کوشش کی مگر رئیس الحکومت شیخ یا ملا نہ تھا جو ان کی درخواست کی طرف توجہ دیتا.جب انہوں نے اس طرح نا کامی دیکھی تو پھر میرے قتل کی تجویز کی.چنانچہ انہوں نے اپنی طرف سے مجھے قتل بھی کر دیا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور میرے پیارے آقا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور احمدی بھائیوں اور بہنوں کی دعاؤں کی برکت سے وہ اپنے اس مقصد میں ناکام ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا فرمائی.اس حادثہ سے لوگوں کی سلسلہ کی طرف اور زیادہ توجہ ہوگی.شفا پانے کے بعد میں نے ہوٹل میں قیام کیا اور ماہ رمضان میں قرآن مجید کا درس دینا بھی شروع کر دیا جس سے لوگ اور بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور مجھے خدا تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی کہ میں اپنے قاتلوں کے سامنے پھر اسی ہمت اور استقلال سے تبلیغ کروں جیسا کہ حادثہ سے پہلے تبلیغ کرتا تھا.بعض مشائخ نے نہایت تعجب ظاہر کیا اور حیرت سے دریافت کیا کہ کیا وہ اس حادثہ کے بعد بھی یہاں سے نہیں جائے گا.قونصل نے بھی مجھے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 186 بلوا کر کہا کہ چونکہ آپ کے دشمن بہت ہو گئے ہیں اس لئے آپ یہاں سے کسی اور مقام پر چلے جائیں.میں نے جواب دیا کہ میں ایسے وقت میں یہاں سے جانا بزدلی خیال کرتا ہوں میں یہاں ہی رہوں گا اور جو کام میرے سپرد کیا گیا ہے جہاں تک مجھ میں طاقت ہے سرانجام دوں گا.اس عرصہ میں خاص طور پر لوگوں کا سلسلہ کی طرف رجحان تھا.چنانچہ میرے شفا پانے کے بعد ایک ماہ میں بارہ تیرہ اشخاص سلسلہ میں داخل ہوئے اور بہت سے لوگ تحقیقات کر رہے تھے.گذشتہ ہفتہ بھی چار اشخاص سلسلہ میں داخل ہوئے.جن کے نام حسب ذیل ہیں.(۱) حسن بن عبد الله الخروری.(۲) خلیل الخضری جو مشہور تاجر ہیں(۳) حمدی آفندی بن راغب سلطان (۴) آمنہ بنت شیخ عمر زوجہ ابو محمد.وو میزان الاقوال ایک اور بات جو سلسلہ کی اشاعت میں مد ہوئی وہ مشائخ کی کتاب ” اصح الاقوال‘ کا جواب ” میزان الاقوال تھا.زخمی ہونے سے ایک دن پہلے میں اس کتاب کا ٹائٹل پیچ چھپنے کیلئے دے کر آیا تھا.پھر میں ہسپتال میں ہی تھا جو کتاب چھپ کر تیار ہوگئی.اس کتاب میں مشائخ سے فتنہ دجال و نزول اسح وغیرہ کے متعلق احادیث کی بنا پر میں سوالات ہیں اور ان کے اعتراضات کے جوابات قرآن مجید وحدیث سے.اس بات کا ثبوت کہ تبلیغ سے روکنا اور قتل کی خفیہ تدبیریں کرنا اور نکلوانے کی کوششیں کرنا یہ انبیاء اور صلحاء کے اعداء کا کام رہا ہے انبیاء یا ان کی جماعت نے ایسا کام کبھی نہیں کیا.اس میں ان کو یہ بھی تحدی کی کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے.وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيامة - [ تذکره، بار چهارم صفحه 80-81] کہ آپ کے اتباع دلائل و براہین کی رو سے دوسروں پر غالب رہیں گے اس لئے میرا ایمان ہے کہ تم میں سے کوئی ملا میرا دلائل کی رو سے مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ کتاب تقسیم کی گئی.لوگوں نے قبولیت کی نظر سے دیکھا.بعض مشائخ کے جواب کی انتظار کرنے لگے مگر کسی ملا کو جواب دینے کی جرات نہ ہوئی.اب انتخابات کا وقت آگیا تا کہ قانون اساسی بنایا جائے اور حکومت نے اپنے بعض منافع و مطامع سیاسیہ کی خاطر شیخ تاج الدین ابن شیخ بدر الدین کو موقتا رئیس الوزارۃ بنا دیا.اس کے پاس
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 187 مشائخ کے وفود جانے لگے اور میرے نکلوانے کیلئے آہ وزاری کی اور درخواستیں پیش کیں.سو جب وہ بیروت گیا تو اس کے تین دن بعد ہائی کمشنر کی طرف سے مجھے اس حکم کی نقل دی گئی جس میں لکھا ہے: چونکہ استاذ جلال الدین شمس ابن امام الدین الاحمدی کا یہاں پر رہنا معیوب اور باعث قلق راحت عامہ ہے اس لئے ان کے نکالنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے.سیکرٹری عام ہائی کمشنر اور مفتش پولیس عمومی ہر دوان امور میں جو ان سے متعلق ہیں اس قرار کی تنفیذ کیلئے مکلف ہیں“.ایک رؤیا اس حکم کے پورے تین دن پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہتا ہے کہ تین دن تک آپ کے نکالنے کا حکم صادر ہوگا.چنانچہ اس کے مطابق مجھے ٹھیک تیسرے دن حکم پہنچا.گیارہ مارچ کو میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے نام تار دیا کہ حکومت نے مجھے شام چھوڑنے کے لئے مجبور کیا ہے لہذا ابغداد جاؤں یا فلسطین.بارہ مارچ کو ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے تار ملا.ہائی کمشنر کے پاس اپیل کرو کہ بیروت میں ٹھہرنے کی اجازت دے بصورت دیگر حیفا پہنچ جاؤ.چونکہ حکم ہائی کمشنر کی طرف سے تھا اس لئے اس قرار کو منسوخ کرانے کیلئے وقت درکار تھا.لہذا میں سید منیر آفندی اکھنی کو اپنا قائم مقام مقرر کر کے اور جماعت کو چند ہدایات دیکر 17 مارچ کو جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً [الاسراء :82] پڑھتا ہو ا حیفا پہنچا.کیونکہ ملاؤں کا میرے نکلوانے کی کوشش کرنا صرف ان کے دلائل کی رو سے مقابلہ سے عاجز آنے کی وجہ سے تھا اور یہ کہ ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں رہا جب ہی تو وہ ان اوچھے ہتھیاروں پر جو ہمیشہ سے کفار کا طریق رہا ہے اتر آئے جو حق کے غالب اور باطل کے کافور ہونے کی دلیل بین ہے زمانہ مسیح ناصری کی یاد پھر تازہ ہوگئی.مسیح ناصری کو تیسرے سال صلیب پر لٹکایا گیا.بے ہوشی کی حالت طاری ہوگئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچالیا پھر آپ کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی.اسی طرح اس وقت کے مثیل یہود مشائخ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ادنیٰ خادم کو تیسرے سال قتل کرنا چاہا جس سے اس پر بے ہوشی طاری ہوگئی.انہوں نے قتل کی خبر مشہور کردی گر اللہ تعایٰ نے بچالیا پھر وہاں سے نکلنے کے لئے مجبور کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز 1924 ء میں دمشق تشریف لائے اور منارۃ البیضاء کے پاس دمشق کے دروازہ میں آپ نے نزول فرمایا تا وہ حدیث پوری ہو جس میں رسول اللہ صلی اللہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 188 علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسیح دمشق کے دروازہ میں منارہ کے پاس نزول کرے گا.چنانچہ سنتر ال ہوٹل جس میں آپ نے قیام فرمایا وہ دمشق کا دروازہ ہی ہے اور مسجد سنجقدار کے منارہ کے شرقی جانب ہے اور آپ تین دن تک جو نزیل کی احادیث میں مدت بیان ہوئی ہے، وہاں ٹھہرے.آپ کی آمد سے ایک شور بر پا ہو گیا.لوگوں نے سلسلہ کے متعلق مختلف رائیں ظاہر کیں.پھر ایک سال کے بعد حضور نے خاکسار اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو برائے تبلیغ بھیجا.شاہ صاحب نے ایک ٹریکٹ الحقائق عن الاحمدیہ شائع کیا.بہت سے لوگوں سے گفتگو ہوئی.ایک ماہ کا عرصہ ہمارے پہنچنے پر گزرا تھا کہ حکومت اور اہالی جبل دروز کے مابین لڑائی شروع ہو گئی جس میں چند دن کے بعد اہالی شام بھی جبل دروز کے ساتھ مل گئے.تا وہ بات جو اللہ تعالیٰ نے تئیس سال پہلے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ کہی تھی ، پوری ہو.[ بلاء دمشق.سرک سری.ایک اور بلا برپا ہوئی.چنانچہ دمشق ایک عظیم بلا میں مبتلا ہو اجس کی نظیر تین ہزار سال پہلے تک نہیں ملتی.شاہ صاحب چھ ماہ کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حکم کے موافق واپس ہند چلے گئے اور خاکسار اپنی طاقت کے موافق ان حالات میں جبکہ لوگوں کو رات دن اپنی جانوں کا فکر رہتا تھا شہر میں جنگ ہوتی تو ہیں دندناتی مشین گنیں چلتیں اور بم کے گولوں کے پھٹنے کی آوازیں ہر طرف سنائی دیتی تھیں، کام کرتا رہا.دو سال تک یہی حالت رہی.مارشل لاء قائم رہا.اجتماعات ممنوع رہے.جب احکام شدیدہ میں ذرا تخفیف ہوئی تو میں نے اس منارہ کے نیچے جس کے پاس حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا نزول ہوا تبلیغ کیلئے مکان لیا جہاں پانچ اشخاص نے بیعت کی جن میں سید منیر آفندی الحصنی اور سید ابو علی مصطفے بھی تھے.اس کے بعد شہر میں ایک تحریک پیدا ہوئی اور مشائخ میں ایک ہلچل پڑ گئی اور وہ حدیث کہ مسیح منارہ کے نیچے سے نکلے گا مسیح موعود کی دعوت کے پڑگئی اس مقام کے پھیلنے سے پوری ہوئی جو منارہ کے نیچے ہے.اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو دمشق اور دوسری جگہوں میں سلسلہ کی قبولیت کی توفیق عطا فرمائی بچوں وغیرہ کو چھوڑ کر ان کی تعداد تقریبا پچاس ساٹھ ہے جن میں سے بارہ مخلصین کے نام بالترتیب ان کے اخلاص اور سبقت بالایمان کو مدنظر رکھتا ہو الکھتا ہوں.ا.احسان سامی حقی.۲.ممدوح آفندی حقی.۳.محمد اسماعیل بیگ حقی.۴.منیر آفندی الھنی.۵.ابوعلی المصطفے - ۶ - ابو صالح محمد صلاح - ۷ محمد خلیل الباشا.۸.ابو محمود محمد الوجود البا رو دی.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 189 ۹ محمد شریف چوہدری بازار ار دام.۱۰.صبحی آفندی راغب.۱۱.حمدی آفندی ذکی نویلاتی.۱۲ خلیل الخضری وعلی بیگ حیدر.میں تمام احباب سے دعا کے لئے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے سلسلہ کو جلد تران ممالک میں پھیلائے اور ان لوگوں کو جو سلسلہ میں داخل ہیں ہر قسم کی تکالیف اور مصائب اور ابتلاؤں سے محفوظ رکھے اور انہیں تبلیغ کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.والسلام.فلسطین میں یا در یوں کے زہر کا تریاق (الفضل قادیان 20 اپریل 1928ء) ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) فلسطین اور مشرقی الاردن میں پادری نہایت زور و شور سے تبلیغ مسیحیت میں منہمک ہیں اور جو ممکن وسائل مسلمانوں کو مسیحیت میں داخل کرنے کے لئے وہ استعمال کر سکتے ہیں، استعمال کر رہے ہیں.تین ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ ” شفا عمرو بستی میں چالیس خاندان مسلمانوں کے مسیحیت میں داخل ہو گئے اور اسی طرح اکے دکے ہوتے ہی رہتے ہیں.قدس میں ایک مولوی صاحب کا لڑکا بھی میسحیت میں داخل ہو گیا.حیفا میں ایک بہت بڑے عالم کے مکان میں وہ پادری جو مسلمانوں کو عیسائی بناتا ہے محل کرایہ پر لئے ہوئے ہے.قید خانوں میں بھی تبلیغ کی جاتی ہے.چنانچہ تین شخص قید خانہ میں بھی مسیحی ہو چکے ہیں.ہیں.چند دنوں کے بعد قدس میں پادریوں کی ایک مؤتمر منعقد ہونے والی ہے جس میں تمام حکومتوں اٹلی،فرانس، ڈنمارک اور برطانیہ کے پادری شامل ہوں گے اور اس امر پر غور کریں گے کہ کون سے وسائل اور تدابیر عمل میں لائی جائیں جن سے مسلمانوں کو مسیحیت میں داخل کیا جائے.چنانچہ اس مؤتمر کا تمہیدی جلسہ ہو چکا ہے اور کسی غیر شخص کو انہوں نے اس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی.بعض اخبارات کے نمائندوں نے داخل ہونا چاہامگر انہیں داخل نہیں ہونے دیا گیا.اسی طرح اخبار المقتبس جو دمشق سے شائع ہوتا ہے رقمطراز ہے کہ بیروت میں پادریوں کی طرف خاص طور پر ہدایات پہنچی ہیں کہ وہ تبلیغ کی طرف پورے زور سے توجہ کریں.مسیحی اس طرح مشغول ہیں مگر مسلمان ہیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے.یہاں کی حالت کو دیکھ کر ہر عقلمند انسان
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 190 سمجھ سکتا ہے کہ مستقبل نہایت خوفناک ہے.فلسطینی شراب خانوں کو دیکھو تو اکثر مسلمان دکھائی دیں گے.قید خانے مسلمانوں سے بھرے پڑے ہیں کہ قیدیوں میں ایک یا دو یہودی قیدی ہوں گے باقی سب مسلمان.محکموں وغیرہ میں یہودی یا مسیحی دکھائی دیتے ہیں، مسلمان شاذ و نادر اور علماء ہیں جو ابھی تک لوگوں کو علوم جدیدہ پڑھنے سے روکتے ہیں.بہائیت اور عیسائیت کے متعلق گفتگو ایک بڑے عالم سے میں نے بہائیت اور مسیحیت کے متعلق گفتگو کی.باوجود یکہ یہاں بہائیت کا مرکز ہے اسے ان کے مذہب کے متعلق کچھ علم نہ تھا.جب میں نے اسے بہائیوں اور مسیحیوں سے اپنے مباحثات کا ذکر سنایا تو خوش ہوا اور کہنے لگا کہ آپ تمام ادیان سے خوب واقف ہیں آپ نے کہاں تعلیم پائی ہے.میں نے کہا ایک چھوٹی سی بستی میں جس کا نام قادیان ہے.بہت سے لوگوں نے مجھ سے پادریوں کے اعتراضوں کے جوابات نہایت دردناک لہجہ میں دریافت کئے اور تمام اعتراضات اس قسم کے تھے کہ مسیح مردوں کو زندہ کرتا تھا.وہ وجيها في الدنيا والاخرۃ تھا اور روح اللہ تھا.مرنے کے بعد زندہ ہو گیا اور پھر آسمان پر جا بیٹھا.میں نے اس زہر کے ازالہ کیلئے وہ تریاق پیش کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے ہیں.جب وہ جوابات سنتے تو انہیں اطمینان حاصل ہو جاتا اور ان میں ایک ہمت اور جرات پیدا ہو جاتی کہ اب ہم پادریوں کو یہ جواب دیں گے.میں یہ خط لکھ رہا تھا جو شام سے ایک دوست کا خط ملا جس میں اس کے بیٹے نے قدس سے اسے لکھا ہے کہ 250 پادری امریکہ سے نئے آئے ہیں جو ان شہروں میں تبلیغ کریں گے.بعض نوجوانوں نے ان میں سے بعض پر پتھر پھینکے.سنا گیا ہے کہ ایک ان میں سے مرگیا ہے.پندرہ اشخاص اس جرم میں ماخوذ ہیں.تبلیغ مسیحی کے مقابلہ کیلئے جو طریق مسلمان تجویز کر رہے ہیں نہایت غلط طریق ہے.اس کے نتیجہ میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہ حاصل ہوگا کیونکہ بات کا جواب پتھر اور اینٹ سے نہیں ہوسکتا.یہاں کے علماء بھی ایک مضبطہ تیار کر رہے ہیں جس پر مسلمانوں کے دستخط کروا رہے ہیں پھر حکومت کے سامنے پیش کرینگے.خلاصہ مضمون یہ ہے چونکہ بہت بلاد بلا داسلامیہ ہیں اس لئے یہاں سے پادریوں کو نکال دینا چاہئے اور کسی کو یہاں تبلیغ کی اجازت نہ دی جائے ورنہ قتل تک نوبت پہنچے گی اور
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس بغاوت ہو جائے گی.191 اب یہ مضبطہ انہیں کیا فائدہ دے سکتا ہے.اول تو حکومت کا یہی جواب ہوگا کہ اگر ہم نے انہیں تبلیغ کی آزادی دی ہے تو تمہیں بھی دی ہے.تم بھی تبلیغ کر سکتے ہو.دوسرے اس کے یہ معنے ہیں کہ حضرات علماء پادریوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے.ایک ان پڑھ شخص نے جب اُسے دستخط کرنے کیلئے کہا گیا کیا ہی لطیف جواب دیا کہ اگر کوئی بخوشی خاطر مسیحی ہونا چاہے تو یہ تمہارا منضبطہ کیا اسے روک سکتا ہے.دوسرے اگر اسلامی ممالک کے علماء پادریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو دوسری جگہوں میں پھر کون مقابلہ کر سکتا ہے.پھر یہ دلیل پیش کرنا کہ یہ اسلامی ممالک ہیں اس لئے تبلیغ مسیحی کو بند کرنا چاہئے ایسا ہی ہے جیسا کہ کہا جائے یورپ اور امریکہ مسیحی ممالک ہیں اس لئے وہاں تبلیغ اسلام نہ ہونی چاہئے.خرابی تمام کی تمام یہاں کے رؤسا وعلماء کیطرف سے ہے.دین کیلئے ایک پیسہ خرچ کرنا انہیں محال ہے.آپ دیکھیں گے کہ یہاں کے اکابر ہندوستان وغیرہ سے قومی منافع کے لئے چندہ جمع کر کے لاتے ہیں مگر اس کا اکثر حصہ اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں.یہاں کے وقف کی آمدنی اتنی ہے کہ کئی مشن تبلیغ کے لئے کھولے جا سکتے ہیں.ایک مفتی کئی ہزار پونڈ کی جائیدا در کھتا ہے جو انہی طریقوں سے جمع کیا گیا ہے.ماہواری تنخواہ ساٹھ پونڈ لیتا ہے اور رئیس مجلس الاسلامی الاعلیٰ 150 پونڈ ماہوار تنخواہ لیتا ہے مگر کام کوئی بھی نہیں.اسی طرح رو پید اپنے پیٹوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور خوب عیش و نعم سے زندگی بسر کر رہے ہیں مگر اسلام کی طرف کوئی توجہ نہیں.چنانچہ تین چار ہزار پونڈ وقف سے ماہواری تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے مگر پوچھا جائے کہ دین کے لئے کونسا کام کیا جاتا ہے.فقراء بھوک سے مررہے ہیں.بدء الاسلام غريباً وسيعود غريباً.اسلام ایک مسافر بے زاد بے ناصر و معین ہے.اسی حالت کو خدا تعالیٰ کے پیارے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام غمخوار اسلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بے یار و بے کس ہیچو زین العابدین مردم دی مقدرت مشغول عشرتہائے خویش خرم خندان نشسته بابتان نازنیں اے پیارے خدا ہمیں وہ وقت دکھا کہ تیرے دین کی دنیا میں عظمت قائم ہو اور تیرے نام کی تمام روئے زمین پر تسبیح و تقدیس ہو.آمین.(الفضل قادیان 11 مئی 1928ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس بہائیت کی حقیقت 192 حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اپنی رپورٹ مرسلہ 22 مارچ 1928ء میں تحریر کرتے ہیں: میں ان دنوں بہائیت کے مرکز ( حیفا ) میں مقیم ہوں مجھے خواہش تھی کہ یہاں لیڈران بہائیت سے مل کر گفتگو کروں.اتفاقاً عید کے روز جبکہ میں ڈاکٹر رشدی التمیمی کے مکان پر تھا اخبار الكرمل کے ایڈیٹر مسٹر نجیب نصار تشریف لائے.یہ صاحب مسیحی ہیں اور بہاء اللہ کے بیٹے (الغصن الامر ) ودیع اللہ کی بیٹی ساذج ان کی بیوی ہے.میں نے ان سے بہائیت کے متعلق دریافت کیا تو پہلا فقرہ جو ان کی زبان پر جاری ہوا.وہ یہ تھا: " قد ماتت البهائية و لم يبق لها دعاة کہ اب بہائیت مرچکی ہے اور اس کی طرف بلانے والے نہیں رہے.پھر اس نے کہا عباس آفندی اگر چہ حریص اور دنیا کا طالب شخص تھا مگر عالم اور قادر الکلام تھا.اس کے بعد ان میں کوئی عالم شخص نہیں ہے اور دوسرے انہوں نے یہ غلطی کی کہ اسلامی شریعت کو منسوخ قرار دیا اور اپنے آپ کو خدا کہا.حتی کہ میں اپنی بیوی سے کہا کرتا ہوں کہ عباس آفندی نے یہ کیا بیوقوفی کی کہ اپنی لڑکیوں کی عقل کو خراب کر دیا جو وہ ان کیلئے سجدہ کرتی ہیں.عباس آفندی اور علی محمد باب پھر میں عباس آفندی کی قبر دیکھنے گیا.اس کی قبر کے ارد گرد نہایت قیمتی غالیچے بچھائے گئے ہیں.ایک طرف عورتوں کے لئے زیارت کرنے کا مقام ہے اور دوسرے طرف مردوں کے لئے.پھر اس کے ساتھ ہی دوسرے کمرہ میں علی محمد باب کی قبر ہے جو 1265ھ میں تبریز میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا.پھر اُسے ایک خندق میں ڈالا گیا.نہ معلوم بہائیوں نے اس کی یہاں قبر کیسے بنالی اور اتنی دور سے مردہ کو لا نا خود باب کی شریعت کے بھی مخالف ہے.دونوں کے دروازوں پر مناجاتیں لکھی ہوئی ہیں.میں نے مناجاتیں نقل کرنی چاہیں مگر مجاور نے کہا کہ یہ عنایت اللہ بہائی کی دکان سے آپ خرید سکتے ہیں.میں نے کہا بہت اچھا.دوسرے دن میں شوقی آفندی کی ملاقات کے لئے گیا مگر وہ وہاں موجود نہ تھے.خادموں نے کہا کسی اور وقت تشریف لائیں.شوقی آفندی کی عمر بائیس برس کے قریب ہے اور وہ بہاء اللہ کی پوتی اور عباس آفندی اپنے نانا جان کے خلیفہ ہیں.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس فرقہ شاذلیہ 193 تیسرے دن میں نے چاہا کہ اس شہر کو بھی دیکھوں جس کی بہاء اللہ نے اپنی بعض کتابوں میں مذمت کی ہے اور جس میں وہ ایک زمانہ تک قید رہے ہیں یعنی شہر عکہ.شہر میں تو بہائیوں کا کوئی نشان نہیں ہے اس لئے وہاں شیخ علی نور الدین البشر طی مؤسس طریقہ شاذلیہ کی قبر دیکھنے کیلئے گیا.میں قبر کے پاس کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا اور منہ کے بل گر پڑا.اس کو دیکھ کر میرے تمام بدن میں ایک لرزش خفی پیدا ہوئی اور میں نے اسی وقت اسے ملامت کی اور کہا کہ تم ایک بشر کو جو ہمارے جیسا تھا سجدہ کرتے ہو.کیا اس کی تعلیم کا یہی نتیجہ ہے.کہنے لگا ہماری تو یہی عادت ہے.میں نے ان لوگوں پر تعجب کیا جواب اس کے متولی اور اس کے خلیفہ ہیں.اصل بات یہ ہے کہ وہ اس طرح لوگوں سے اپنی بے جا عزت کرانا چاہتے ہیں.میں نے اُسے سمجھایا کہ دیکھو سجدہ خدا کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے یہاں تک کہ آخر وہ شرمندہ ہوا.جب میں وہاں سے نکلا تو شیخ ابوشامات کے بیٹے نے مجھے دیکھ لیا.وہ شامی ہیں اور شام میں مجھ سے ملتے رہتے تھے.انہوں نے مجھے آواز دی اور شیخ علی البشر طی کے پوتے سے جواب ان کا خلیفہ ہے، ملاقات ہوئی.میں وہاں پر تقریبا نصف گھنٹہ تک باتیں کرتا رہا مگر اس نے ایک کلمہ بھی اپنے منہ سے نہ نکالا.اس کی شکل سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ جاہل ہے.میں نے ان سے کہا تم شیخ علی البشرطی کی کتابیں چھپواتے کیوں نہیں تو ابن ابو شامات نے کہا کہ علماء ظواہر سمجھتے نہیں ہیں.میں نے کہا علماء ظواہر پر ہماری باتیں بھی نہایت شاق گزرتی ہیں اور وہ ہمیں کا فرو فاسق بھی کہتے ہیں مگر ان کی تکفیر کی وجہ سے ہم ان سے ڈرتے نہیں بلکہ علی الاعلان لوگوں کے سامنے اپنے عقائد ظاہر کرتے ہیں.پھر اس نے ایک بہت لمبی عبارت سنائی جس پر میں نے کہا کہ دیکھئے یہ اتنی لمبی عبارت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعران معانی کو اس سے نہایت ہی اعلیٰ پیرایہ میں ادا کر رہا ہے.آپ فرماتے ہیں: کس چوں بچشم غیر یار 15° صدیقے نشد زند یقے کہ کوئی شخص محبوب کی نظر میں صدیق نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے اغیار کی آنکھوں میں زندیق نہ ہو.پھر وہاں سے بھجن گئے.یہ مقام عکہ سے دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر ہے جہاں بہائیوں کا خدا مدفون
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 194 ہے.اس کی قبر کے ارد گرد بھی انواع و اقسام کے غالیچے بچھائے گئے ہیں اور اس کی قبر کو خوب مزین کیا گیا ہے.اگر یہی مال کسی اور عمدہ کام پر غریبوں وغیرہ کی امداد پر لگایا جاتا تو کیا اچھا ہوتا مگر معذور ہیں.آخر خدا کی قبر اور دوسروں کی قبر میں فرق تو ہونا چاہئے.وہاں ہی بہاء اللہ کے مکانات ہیں.اس کا بیٹا علی محمد وہاں مقیم ہے اس سے ملاقات کی.میں نے اس سے اختلاف کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ حب الرياسة ریاست کی محبت نے میرے بھائی کو اس اختلاف پر مجبور کیا چونکہ وقت تھوڑا تھا اس لئے میں نے ان سے اجازت لی اور انہوں نے کہا کہ میں ہوٹل میں جہاں آپ مقیم ہیں زیارت کروں گا.میں نے کہا.اَهْلاً وَّ سَهْلاً وَّ مَرْحَبًا.پھر اتوار کے دن حسب الوعدہ شوقی آفندی کی ملاقات کیلئے گیا.وزٹنگ کارڈ بھیج دیا مگر جواب آیا کہ آپ بیمار ہیں اس لئے مل نہیں سکتے.ان کے والد صاحب سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ان کی طرف سے معذوری کا اظہار کیا.میں نے ان سے دریافت کیا کہ فلسطین اور شام میں بہائیوں کی تعداد کیا ہوگی.اس نے کہا تین سو کے قریب ہوگی.(چنانچہ اس کی تصدیق مرزا محمد علی صاحب کے نمائندہ نے بھی کی.جو مجھے ہوٹل میں ملنے کے لئے آئے.انہوں نے میرے سوال پر یہ کہا کہ دونوں فریق کے بہائیوں کی تعداد تین سو کے قریب ہے ) میں نے کہا اگر کوئی شخص بعض سوالات کرنا چاہے تو کس سے کر سکتا ہے.کہنے لگا یہاں تو سوائے شوقی آفندی کے اور کوئی عالم نہیں ہے.میں نے کہا اسی لئے میں چاہتا تھا کہ ان سے ملاقات کروں مگر آپ فرماتے ہیں کہ وہ بیمار ہے.بہائیوں سے مکالمہ پھر جب وہاں سے آنے لگا تو انہوں نے کہا کہ اتوار کے روز بہائیوں کی مجلس ہو ا کرتی ہے آپ اس میں تشریف لائیں.میں وہاں گیا بعض کاموں کی وجہ سے مجھے دیر ہوگئی.مجلس ختم ہو چکی تھی.بعض اشخاص وہاں موجود نہ تھے.ان کو پہلے سے میرے آنے کی اطلاع دی گئی تھی.ایک نے ان میں سے کہا کہ آپ حضرت شوقی آفندی کے پاس بعض باتیں دریافت کرنے کیلئے تشریف لے گئے تھے اس لئے اگر آپ مجھ سے دریافت کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں.میں نے کہا بہت اچھا.احمدی آپ بہاء اللہ کو کیا خیال کرتے ہیں.:بہائی يظهره اللہ کہ وہ خدا تعالیٰ کے مظہر ہیں.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس احمدی خدا تعالیٰ کا مظہر ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے.بہائی کہ وہ مقام الوہیت پر پہنچے ہوئے تھے.انکی باتیں خدا کی باتیں ہیں.195 احمدی (لو تقول کی آیت اور انکے اس عقیدہ میں غور کرنا چاہئے کہ بہائی آیت لو تقول کو اس کے صدق کی دلیل پیش نہیں کر سکتے ) اس کلام کی جس کو آپ خدا کا کلام قرار دیتے ہیں کیا ضرورت تھی جبکہ قرآن مجید ایک کامل شریعت موجود تھی کیونکہ خدا بے ضرورت کام نہیں کیا کرتا.بہائی شریعت اسلامیہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ لوگ وحشی اور جاہل تھے.اس لئے محمد صلعم اور صحابہ کو تلوار کے ذریعہ اسلام منوانا پڑا مگر اب چونکہ علمی زمانہ ہے اس لئے ایک نئی شریعت کی ضرورت تھی.احمدی جبر کسی کو مسلمان نہیں بنایا گیا اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی لڑائیوں کی یہ غرض تھی بلکہ جنگ مدافعانہ طور پر تھی.چنانچہ پہلی آیت جس میں لڑنے کی اجازت دی گئی وہ یہ تھی کہ : إِنَّ اللهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (الحج: 39-40) میں نے مفصل طور پر رپر اس مسئلہ کو بیان کیا اور پھر اس سے دریافت کیا کہ بتاؤ اگر اس وقت کوئی ایسی حکومت ہو جو لوگوں کو جبراً اپنے دین میں داخل کرے اور دوسرے دین میں لوگوں کو داخل ہونے سے بذریعہ تلوار اور قوت رو کے اور تم میں اس کے مقابلہ کی طاقت ہو تو اس وقت آپ اس سے لڑیں گے یا نہیں.بہائی کیوں نہیں.اس سے جنگ کرنا ضروری ہوگا.احمدی پس قرآن مجید کا قانون یہی تھا اور یہ سب زمانوں کیلئے ہے.اس لئے آپ فرما دیں کہ اسلامی شریعت میں کونسی کمی تھی جس کو بہاء اللہ کی شریعت نے پورا کیا.بہائی بہاء اللہ کی شریعت کی غرض یہ ہے کہ تا دنیا میں سلام پھیلے اور یہ جنگیں وغیرہ دنیا سے مٹ کر آپس میں اخوت واتحاد قائم ہو اور اس کیلئے حضرت بہاء اللہ فرماتے ہیں کہ آپس میں نرمی اختیار کرنی چاہئے حتی کہ اگر کوئی شخص قتل کر دے تو اسے قتل نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی تکلیف دے تو غصہ کا اظہار نہیں کرنا چاہئے.احمدی یہ بات تو انجیل میں بھی موجود ہے.اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس طرف پھیر دو مگر میں کہتا ہوں کہ یہ تعلیم ناقص ہے.196 میں نے ناقص کا لفظ بولا ہی تھا جو بہائی غصہ سے بھر گیا.کہنے لگا آپ ادب سے کلام کیجئے.آپ ناقص کا لفظ کیوں استعمال کرتے ہیں.میں نے کہا.دیکھئے لغت کے لحاظ سے یہاں ناقص کے سوا اور کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کامل کے مقابل میں ناقص ہے.اس لئے جبکہ میں ایک بات کو کامل نہیں خیال کرتا تو میں اسے ناقص ہی کہوں گا اور تمہارا اس لفظ پر غصہ ہونا میرے کلام کی تصدیق کر رہا ہے کہ یہ قانون ناقص ہی نہیں بلکہ انقص ہے.یہاں تو میں نے کوئی قتل نہیں کیا اور نہ ہی میں نے آپ کو ایذا دی ہے مگر آپ غصہ سے بھر گئے ہیں.طبائع بشری میں اختلاف ہے.ہر ایک طبیعت دوسرے کو معاف نہیں کر سکتی اور نہ ہی ہر جگہ عفو سے اصلاح ہوسکتی ہے.اسی لئے قرآن مجید فرماتا ہے: وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَا جُرُهُ عَلَى اللهِ إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ.(الشورى:41) کہ اگر کوئی شخص برائی کا بدلہ دینا چاہے تو اتنا ہی دے سکتا ہے.جرم سے زیادہ سزا دینی منع ہے.لیکن اعلیٰ درجہ کا و شخص ہوگا جو ہر وقت مجرم کی اصلاح کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرے.اگر دیکھے کہ مجرم کی اصلاح عفو سے ہوسکتی ہے تو اسے معاف کر دے اور اگر دیکھے کہ اصلاح عقاب کے بغیر نہیں ہو سکتی تو اسے سزا دینی ضروری ہے.پس یہ قانون کامل ہے.بہائی اس طرح تو انجیل بھی کامل تھی کیونکہ مسیح کہتا ہے زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر میری باتیں نہ ملیں گی.احمدی: یہ تو غیب کی خبروں کے متعلق ان کا کلام ہے کہ جو وہ پیشگوئیاں کر رہے ہیں ضروری پوری ہو کر رہیں گی.احکام کے متعلق خود ان کا انجیل یوحنا میں قول موجود ہے کہ مجھے اور بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر تم ان کے برداشت کی طاقت نہیں رکھتے مگر جب وہ روح الحق آئے گی تو وہ تم سے سب باتیں کہے گی.آپ کوئی ایسا حکم پیش کریں جو قرآن مجید میں تو ناقص ہو اور بہاء اللہ نے اس سے اعلی بیان کیا ہو.دیکھئے انجیل میں تو یہ تعلیم تھی کہ کسی کو اپنے بھائی پر بے سبب غصہ نہیں ہونا چاہئے مگر قرآن مجید نے کہا.وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ (آل عمران : 135 ) کہ تعریف کے لائق وہ لوگ ہیں جو باوجود غصہ کا سبب پائے جانے کے غصہ کا اظہار نہیں کرتے.پھر یہیں تک نہیں بلکہ وہ لوگوں کو ان کا قصور معاف کر دیتے ہیں.پھر معاف ہی نہیں کرتے بلکہ ان پر احسان بھی کرتے ہیں اور اس وقت وہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 197 خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاتے ہیں.آپ کوئی ایسا حکم قرآن مجید سے پیش کریں جو ناقص ہو اور محتاج تکمیل ہو.بہائی صاحب خاموش ہو گئے اور کہا آپ بہائیت کی کتابیں پڑھیں جو عنایت اللہ بہائی کی دکان سے ملیں گی.میں نے ایک دوست کو اپنے ساتھ لیا اور عنایت اللہ بہائی کی دکان تلاش کر کے وہاں پہنچے.انہوں نے دیکھتے ہی کہا.آپ قادیانی ہیں.میں نے کہا احمدی ہوں.اسے بھی میرے آنے کی خبر دی گئی تھی.میں نے کہا ہم بہائیت کے متعلق بعض کتب خریدنا چاہتے ہیں.کہنے لگا میرے پاس تو کوئی کتاب نہیں ہے.دیکھئے میں کتابوں کی تو دکان نہیں کرتا.عجیب بات ہے کہ کتا بیں بھی کسی مخفی جگہ میں رکھی ہوئی ہیں.بھلا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ سب بہائی اس کا پتہ دیتے ہیں اور وہ انکار کر دیتا ہے.پھر کہنے لگا مصر اور ہندوستان میں بہت کتابیں ہیں.میں نے کہا.یہاں مرکز بہائیت سے کتب نہیں ملتیں تو باہر سے کیسے ملیں گی.کہاں ہے آپ کی شریعت اولی "بیان" آپ ہی کوشش فرما دیں.جس قدر خرچ ہوگا میں ادا کروں گا اور پھر ایک نسخہ " کتاب الاقدس شریعت ثانیہ کا بھی آپ تلاش کر کے مجھے دیوہیں.اس کی قیمت جو فرما ئیں گے دے دوں گا.کہنے لگا میرے پاس تو میرے پڑھنے کیلئے ہیں زائد نہیں ہے.میں نے کہا آپ نے جہاں سے منگوائی ہیں مجھے بھی منگوا دیں ممنون ہوں گا.غرضیکہ بہائیت بالکل مر چکی ہے اور جو تعداد تین سو کے قریب بتائی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہ سمجھیں کہ شام اور فلسطین کے مسلمانوں سے یہ لوگ بہائیت میں داخل ہوئے ہیں.نہیں بلکہ یہ لوگ عجم سے یہاں آبسے ہیں.پس بہائیت کا آج کل یہاں کوئی اثر نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی اہمیت ہے.ہو بھی کیسے جب کہ ان کے خدا زمین میں مدفون پڑے ہیں.لَا يَمْلِكُونَ مَوتاً وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُوراً (الفرقان 4) سید نا حضرت مسیح موعود کا ذکر عرب وادیوں میں ( الفضل قادیان یکم مئی 1928ء) ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) يدعون لك ابدال الشام و عبادالله من العرب سید نا حضرت خلیفہ اسی ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے سورہ جن کا درس دیتے ہوئے فرمایا.ان کا ذکر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے جو کیا تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے حضرت
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا.یدعون لک ابدال الشام.198 [تذکرہ مجموعہ الہامات، بار چہارم،2004ء،صفحہ 100] کسی نہ کسی ذریعہ آپ کی کوئی کتاب پہنچی اور ابدال آپ پر ایمان لے آئے.یہ پیشگوئی بھی ہے مگر اب بھی معلوم ہورہا ہے کہ کئی لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں.جن کا اب کسی نہ کسی طریق سے پتہ لگتا ہے.چین وغیرہ کے احمدیوں کا پتہ غیروں کے ذریعہ لگ رہا ہے.اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو تقویت دینے اور خوش کرنے کیلئے بتایا کہ دور دور کے لوگ ایمان لا رہے ہیں.66 الحاج محمد المغربي الطرابلسی (ملاحظہ ہو ضمیمہ اخبار الفضل قادیان یکم مئی 1928ء) حضور کے مندرجہ بالا قول کی تصدیق میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.3 جون 1928 ء کو میں اپنے چند احمد یوں کولیکر کر مل پہاڑ پر گیا.وہاں سے قریب ہی ایک وادی ہے بعض دوستوں نے کہا چلو وادی میں اتریں.وہاں نہایت ٹھنڈے پانی کا چشمہ ہے.جب وادی میں اترے اور درخت کے سایہ میں بیٹھے تو ایک شخص ہمارے پاس آ گیا اور میرے ساتھیوں سے میرے متعلق دریافت کیا کہ کیا آپ ہی ہندی مبلغ ہیں.انہوں نے جواب دیا.ہاں.پھر سلسلہ کے متعلق اس سے باتیں ہوتی رہیں.اس نے کہا یہاں قریب ہی ایک شیخ ہے وہ آپ سے ملنا چا ہتا تھا.چنانچہ نماز پڑھ کر ہم اس شیخ کے پاس گئے.تو وہ دور سے ننگے پاؤں دوڑا آیا اور مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور نہایت ہی محبت اور خلوص کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ ہم نے مشائخ کو جامع مسجد میں آپ کے خلاف یہ کہتے سنا ہے.وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہندی کا فر ہے.کہتا ہے کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں اور مسیح موعود آ چکا ہے.تو ہم نے آپ کی تلاش شروع کی.لوگوں سے پوچھتے تو آپ کا پتہ نہ بتاتے.بعض تو کہتے وہ یہاں سے چلا گیا ہے بعض کہتے کہ جنگ یا غزہ میں کسی نے قتل کر دیا ہے.(اس قدر بات کر کے پھر وہ کہنے لگا.الحمد للہ کہ خدا تعالی ہی خود آپ کو ہمارے پاس لایا ہے.ہم تو پہلے سے ہی اس بات پر ایمان لا چکے ہیں اور جو کچھ آپ کی کتاب میزان الاقوال میں لکھا ہے سب صحیح مانتے ہیں.( میزان الاقوال نہ معلوم کیسے ان کے پاس پہنچ چکی تھی ) پھر انہوں نے سنایا کہ میں سال کا عرصہ ہوا ہے میں یمن میں محمد بن ادریس امام یمن کے پاس تھا جو کابل سے امام محمد بن اور لیس کے پاس چند کتابیں اس مدعی کی پہنچیں.آپ نے وہ کتابیں پڑھ کر علما
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 199 کے سپرد کر دیں اور کہا کہ یہ آپ کا کام ہے اس کے متعلق رائے ظاہر کریں اور آپ نے خود اس کے متعلق کچھ نہ کہا.پھر علماء میں اس کے متعلق اختلاف ہوا.بعض کہیں کہ جو کچھ اس نے لکھا ہے سچ ہے بعض کہیں کہ ایسی باتیں کہنے والا کافر ہے مگر میں استخارہ کر کے اور بعض خوا ہیں دیکھ کر آپ پر ایمان لے آیا.چنانچہ میں اسی وقت سے آپ کو امام الوقت مسیح موعود مانتا ہوں.4 جون کو پھر وہ میرے پاس ہوٹل میں ملاقات کے لئے آئے.میں نے ان سے دریافت کیا کون سی کتابیں وہاں پہنچی تھیں.انہوں نے کہا ہم نے اسی وقت چند عبارات حفظ کی تھیں.جب انہوں نے عبارت سنائی تو وہ کتاب الاستفتاء کی تھی.پھر انہوں نے قصیدہ اعجاز یہ کے شعر سنائے.یہ شیخ نہایت عابد زاہد ہیں.وادی میں ایک جگہ چند درخت ہیں وہیں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں.ہر وقت ذکر اللہ میں مشغول اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہتے ہیں.ہر روز روزہ رکھتے ہیں.میں نے کہا حدیث میں تو داؤدعلیہ السلام کے روزوں کو خیر الصیام کہا گیا ہے.کہنے لگے علاج کے طور پر بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کا ارشاد فرمایا ہے.قرآن مجید کی تفسیر صوفیانہ طریق پر کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی آیتوں سے صداقت ثابت کرتے ہیں.ان کی عمر پچاس سال کے قریب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی اور رسول مانتے ہیں.اس ملاقات کے بعد مجھے قدس جانا پڑا.پھر دیر تک ان سے ملاقات نہ ہوسکی مگر ان کا ایک شاگرد میرے پاس آتا رہا.13 جولائی کو وہ میرے مکان پر جمعہ کی نماز کیلئے تشریف لائے تو نماز ادا کرنے کے بعد کہنے لگے اگر چہ میں پہلے سے ایمان لایا ہوا ہوں مگر پھر آپ کے ہاتھ پر تجدید عہد کرتا ہوں.تب وہ اور دو شخص اور ان کے ساتھی سلسلہ میں داخل ہوئے.شیخ کا نام الحاج محمد المغر بی الطرابلسی ہے اور باقی دو کے نام سلیم بن محمد الربانی اور یعقوب محمود ابو عباس ہیں.ایک اور شخص نیازی قدوی حافظ اہالی عکہ سے 18 جولائی کو سلسلہ میں داخل ہوئے.اللہ تعالیٰ سب کو استقامت عطا فرمائے.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ نہ معلوم کتنے صلحاء ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے جنوں کی طرح پوشیدہ ہیں جن کا ہمیں علم نہیں مگر وہ آپ پر ایمان لاچکے ہیں.کیوں نہ ہو، خدا تعالیٰ کا آپ سے وعدہ ہے ” میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ تذکرہ، بار چہارم،2004ء،صفحہ 260] اب جماعت احمدیہ کو تبلیغ کا موقعہ اسی لئے دیا گیا ہے کہ تا وہ ثواب میں شریک ہو جائے ورنہ آپ
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کی تبلیغ کو دنیا میں پہنچانے کا خود خدا تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے.بمفت ایں اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمانست ایں بہر حالت شود پیدا فلسطین میں مسیحیت کا مقابلہ 200 الفضل قادیان 21 اگست 1928ء) تبلیغ مسیحی سے جو ضر ر مسلمانوں کو ہند میں دینی لحاظ سے پہنچا وہ برادران ہند پرمخفی نہیں ہے.ہزار ہا اشخاص جن کے باپ دادا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام پر اپنے اموال ونفوس فدا کرنا اپنے لئے موجب فخر وسعادت خیال کرتے تھے، مسیحیت کا شکار ہو گئے.پھر یہی نہیں کہ انہوں نے اسلام جیسے صلح کن اور کامل مذہب کو چھوڑا بلکہ اس خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں جو کہ حسن و احسان کا مجسم نمونہ تھا سب وشتم اور برا بھلا کہنا کار ثواب سمجھا.تب خدا تعالیٰ کی صفت غیور جوش میں آئی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کو مبعوث کیا.آپ نے تبلیغ مسیحی کا پورے زور سے مقابلہ کیا اور اس سیلاب کو جو اسلام کے لئے وبال جان ہو رہا تھا بڑے بڑے مضبوط بند لگا کر روک دیا اور ایک ایسی جماعت تیار کر دی جو تبلیغ مسیحی کا پوری طرح مقابلہ کر سکے.اب چند سالوں سے عربی ممالک میں تبلیغ مسیحی زور پکڑ رہی ہے.عیسائیوں کا مصمم ارادہ ہے کہ کوئی جگہ کوئی شہر اور کوئی دیہہ ایسا نہ رہے جس میں تبلیغ نہ کی جائے اور وہ یہ عزم کئے ہوئے ہیں کہ اس سلسلہ کو حجاز میں پہنچائیں.ابھی چند ماہ گذرے ہیں کہ مختلف ممالک کے پادریوں اور لیڈروں کی قدس میں مؤتمر ہوئی تھی جس کا ذکر اخبارات میں آچکا ہے مگر مسلمان ابھی تک تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور مقابلہ بالمثل کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ بات کا جواب پتھر یا اینٹ سے دینا چاہتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ کئی مسلمان عیسائی بھی ہو چکے ہیں.الهدية السنية للفئة المبشرة المسيحية(پہلا ٹریکٹ ) جب سے بحکم حضرت امام جماعت احمد یہ ایدہ اللہ تعالیٰ فلسطین میں پہنچا ہوں بہت سے مسیحیوں سے مسلمانوں کی موجودگی میں مناظرات ہوئے ہیں جن سے مذبذب مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا.بعض اشخاص پادریوں کے پاس جایا کرتے تھے اور ان کے زیر اثر تھے وہ میرے پاس آتے رہے.میں نے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 201 ان کے شکوک وشبہات کو جو انہیں اسلام کے متعلق تھے دور کیا.اب جماعت احمد یہ سوریہ وفلسطین نے یہ انتظام کیا ہے کہ وقتا فوقتا مسیحیت کی تردید اور اسلام کی تائید میں ٹریکٹ شائع کئے جایا کریں.چنانچہ پہلاٹریکٹ جو چالیس صفحہ کا ہے دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے اور اس کا نام الهــــــديـــــة السنية للفئة المبشرة المسيحية ہے یعنی مسیحی مبلغ جماعت کیلئے عمدہ تحفہ.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق پر توریت و انجیل سے دلائل بیان کئے گئے ہیں اور نیز ثابت کیا گیا ہے کہ آپ ہی افضل الانبیاء ہیں اور مسیح علیہ السلام اور آپ کا بلحاظ ذاتی فضائل اور اتباع کے مقابلہ کر کے دکھایا گیا ہے.منجملہ ان امور کے ایک بات قارئین کرام کی ضیافت طبع کیلئے رقم کرتا ہوں.اس میں شک نہیں کہ کسی کی دوستی کسی کے تعلق اور قلبی حالت کا اندازہ مصیبت کے وقت ہی لگایا جاسکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک تنگی کا وقت وہ تھا جب کفار نے آپ ﷺ کے قتل کی نیت سے آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ وہاں سے بسلامت نکل کر غار ثور میں پناہ گزیں ہوئے.اب دشمن غار کے منہ پر کھڑا ہے.ذرا نیچے گردن جھکائے اور وہ حضور اور آپ کے یار غار کو دیکھ سکتا ہے.چنانچہ حضرت ابو بکر اس حالت کو دیکھ کر غم کھاتے ہیں تو آپ اسے یوں تسلی دیتے ہیں کہ لا تحزن ان الله معنا کہ تو غم نہ کر اللہ ہمارا محافظ ہے وہ ہمارا ناصر وبدددگار ہے پھر کس کی مجال ہے جو ہمیں قتل کر سکے.مگر جب مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا تو انہوں نے بالفاظ انجیل چلا کر کہا.ایـلـی ایـلـی لما سبقتانی.اے میرے خدا اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اب بتاؤ ان دونوں میں سے کون خدا تعالیٰ کا زیادہ مقرب ہو سکتا ہے اور کس کا اللہ تعالیٰ سے زیادہ تعلق تھا اور کس کو اپنے مولیٰ کی مدد کا زیادہ یقین تھا.کیا وہ جو کہتا ہے کہ اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا یا وہ جس نے اپنے ساتھی کو بھی اپنے ساتھ شامل کر کے کہا کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے.وہ ہمارا محافظ ہے.چنانچہ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے پورا کیا.باوجود یکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت ہوئی اور دشمنوں نے آپ کے قتل کی جان توڑ کوششیں کیں مگر اللہ تعالیٰ نے آپ صلعم کی حفاظت کی.اسی طرح ابو بکر کی خلافت کے وقت ارتداد کا فتنہ بگولے کی طرح اٹھا اور اس وقت بھی اسلام سخت خطرہ کی حالت میں پڑ گیا مگر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کی حفاظت کی مگر قول لا تحزن ان الله معنا کی شان اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر و عثمان و علی سب شہید ہوئے.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 202 اتباع کی حالت دیکھی جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرؓ کی نسبت فرماتے ہیں.ما لقيك الشيطان فجاً الا سلك فجاً غیر فجک کہ اے عمر تجھے شیطان کبھی نہیں ملا مگر اس نے تیرا رستہ چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کی ہے.اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ شیطان حضرت عمر سے ایک بزدل شخص کی مانند بھاگتا ہے مگر مسیح انجیل متی باب 16 میں اپنے سب سے بڑے حواری کو شیطان کے نام سے یاد کرتے ہیں.اس ٹریکٹ کو اب تقسیم کیا جارہا ہے اور مسیحیوں پر اس کا اچھا اثر ہورہا ہے.مسلمانوں کی چونکہ اقتصادی حالت گری ہوئی ہے اس لئے بعض جہلاء کے مسیحی ہو جانے کا خطرہ ہے.اندر ہی اندر سیحی دیہاتوں کی عورتوں اور مردوں میں اپنی تبلیغ کا جال پھیلا رہے ہیں.انشاء اللہ جہاں تک ہماری طاقت ہے ہم اس کا مقابلہ کریں گے.وما توفیقی الا باللہ.الفضل قادیان 28 ستمبر 1928ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس عصمت انبیاء و معجزہ شق القمر پر ایک مسیحی سے گفتگو 203 بعض احباب نے مجھ سے بیان کیا کہ یہاں ایک متعصب مسیحی آپ سے گفتگو کرنے کا خواہش مند ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مثیل فلسطین میں کوئی اور نہیں ہے.میں نے کہا وہ تشریف لے آئیں میں ہر وقت حاضر ہوں.جب آیا تو اس نے سب سے پہلے معجزہ شق القمر پر اعتراض کیا کہ یہ قانون قدرت اور علم ہیئت کے خلاف ہے.میں نے مفصل طور پر شق القمر کی کیفیت وقوع اور پھر اس کے ضمن میں جو کفار کی سطوت و حکومت کے زوال اور صحابہ کے عروج کی پیشگوئی تھی ، بیان کی اور بتایا کہ شق القمر جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے قانون قدرت و علم ہیئت کے قطعاً مخالف نہیں ہے البتہ بائیل میں بکثرت قانون قدرت و علم ہیئت کے مخالف باتیں پائی جاتی ہیں.مثلاً یوشع بن نون کی دعا سے سورج کا وسط آسمان میں پورا ایک دن ٹھہرے رہنا اور اس دن کا دو دن کے برابر ہونا کیونکر علم ہیئت کے مطابق ہوسکتا ہے.(دیکھو کتاب یوشع 14:12) اور نیز روح القدس کے نزول کے وقت آسمانوں کے دروازوں کا کھل جانا ( دیکھومتی 16:3) پھر ان کے بند ہونے کا عدم ذکر وغیرہ کیونکر علم ہیئت کے مطابق ہوسکتا ہے نیز مسیح کا یہ قول کہ سورج اندھیرا ہو جائے گا اور قمر اپنی روشنی چھوڑ دے گا اور ستارے آسمانوں سے گر پڑیں گے اور آسمانی قوتیں مل جائیں گی.تب ابن آدم کو آسمان کے بادلوں میں بڑی قوت اور شان بزرگی سے آتا ہوا دیکھیں گے (دیکھومتی 24:29 ) کون ہیئت دان صحیح مان سکتا ہے.اول تو ستارے جب آسمان سے زمین پر گر پڑے تو اہل زمین کیونکر بچیں گے.ثانیاً جب سورج و چاند روشنی دینے سے باز رہے تو کن آنکھوں سے اس کے جلالی نزول کا مشاہدہ کریں گے.ان باتوں کا اس کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا.پھر عصمت انبیاء پر بحث ہوئی جس پر اسے بحث کرنے کا زیادہ شوق تھا.اس نے یہ دعویٰ کیا کہ مسیح کے سوا سب انبیاء خطاؤں کے مرتکب ہوئے جیسا کہ قرآن مجید سے ظاہر ہے.میں نے کہا قرآن شریف کی رو سے حضرت اسماعیل ، صالح، شعیب ، ذوالکفل ، ادریس علیہم السلام نبی تھے.بتاؤ انہوں نے کون سی خطا کی.اس سوال کا سکوت کے سوا کوئی جواب نہ دے سکا.پھر میں نے کہا جن باتوں کو تم گناہ خیال کرتے ہو ان سے بڑھ کر انجیل میں یسوع مسیح کے حق میں باتیں موجود ہیں.مثلاً
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 204 متی 19:19 میں والدین کی تکریم و تعظیم کا حکم موجود ہے مگر باوجود اس کے جب یسوع مسیح کی والدہ اور بھائی اس سے کوئی بات کرنے کیلئے آئے جبکہ وہ شاگردوں کو درس دے رہا تھا تو ان کی آمد کی خبر پا کر مخبر کو یوں جواب دیا.من ھی امی و من هم اخوتی کون ہوتی ہے میری ماں اور کون ہوتے ہیں وہ میرے بھائی.اب آپ ہی بتائیے کہ کیا والدہ کی تکریم و تعظیم کے اظہار کیلئے یہی مقدس الفاظ رہ گئے تھے.دیکھومتی (48:12) پھر اس نے یوحنا 8:10 میں کہا کہ مجھ سے پہلے جس قدر لوگ آئے ہیں وہ چور اور ڈاکو تھے.کیا یہ جھوٹ نہیں.پھر عید خیام پر جب اس کے بھائیوں نے اسے یہودی آبادی میں جانے کیلئے کہا کہ تا وہ اپنے شاگردوں اور دوسرے لوگوں کو اپنے اعمال دکھائے تو اس نے جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ابھی میرے جانے کا وقت نہیں آیا.مگر جب وہ چلے گئے تو چپکے سے پوشیدہ طور پر خود بھی وہاں جا پہنچا.(دیکھیں یوحنا باب 7 آیات 2 تا10) نیز اس نے یوحنا ہمدان سے بپتسمہ لیا اور وہ بپتسمہ گناہوں سے تو بہ اور مغفرت خطایا کا بپتسمہ لینا ایک لغو کام تھا.اس قسم کی میں نے دس باتیں انجیل سے پیش کیں جن میں سے بعض کے متعلق اس نے دبی زبان سے اقرار کیا کہ واقعی یہ خطا ہے.میں نے کہا چلو ایک ہی سہی.بہر حال یسوع مسیح خطا کے مرتکب ہوئے.جب اس سے میں اس بات کا اقرار لے چکا تو اسے کہا تو اب میں یہ دعوی کرتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے.اس نے فور جواب دیا کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا یہی ان کے گنہ گار ہونے کیلئے کافی ہے.میں نے کہا تمہیں اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ کفار مکہ نے صحابہ پر تلوار اٹھائی اور انہیں انواع واقسام کی ایذاؤں اور تکالیف کا نشانہ بنایا اور ان پر ہرقسم کے مظالم توڑے.ان میں سے بعض کو قتل کیا بعض کو لوٹ لیا اور انہیں اس قدر تنگ کیا کہ وہ اپنا محبوب وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے.کہنے لگا یہ صحیح ہے مگر انہیں ان تمام باتوں پر صبر کرنا چاہیے تھا نہ یہ کہ جنگ کرتے اور انہیں قتل کرتے.میں نے کہا انجیل میں لکھا ہے کہ جب یہود نے یسوع مسیح کو پکڑا تو اس کے ایک شاگرد نے کا ہنوں کے سردار کے ایک خادم کا تلوار سے کان کاٹ ڈالا.تو یسوع مسیح نے اسے تلوار میان میں کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا.لان كل الذين يا خذون السيف بالسيف يهلکون کہ جو تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے ہلاک کئے جاتے ہیں.(دیکھومتی 51:26 )
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 205 پس جب کفار نے اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو نابود کرنے کیلئے تلوار اٹھائی تو حسب قول مسیح کہ جو تلوار اٹھاتا ہے وہ تلوار سے ہی مارا جاتا ہے صحابہ پر لازم تھا کہ وہ بھی ان کے مقابلہ پر تلوار اٹھاتے تا مسیح کا فرمان سچا ہو.پس اب دو ہی صورتیں ہیں یا کہو مسیح نے جھوٹ بولا یا مانو کہ آنحضرت کفار سے جنگ کرنے میں حق پر تھے.آخر اسے ان لوگوں کے سامنے جن کے آگے وہ لافیں مارتا تھا سخت شرمندہ ہونا پڑا اور غیر احمدی دوستوں نے بھی کہا کہ ہم نے یہاں کے علماء سے اس قسم کے زبر دست دلائل آج تک نہیں سنے.تبلیغ کیلئے سفر (الفضل قادیان 18 دسمبر 1928ء) حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اپنی رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں.برادرم مصباح الدین العابودی کے ہمراہ ان کے گاؤں کفر اللبد میں گیا.امام قریہ اور دوسرے لوگ ملنے کے لئے آئے اور مجھ سے پادریوں کے اسلام پر اعتراضات کے جوابات دریافت کرتے رہے.جواب سن کر نہایت خوش ہوئے.رات کو دیہاتی رواج کے موافق نمبر دار نے رؤساء قریہ کو بھی دعوت طعام دی.کھانے کے بعد بہت سے اور لوگ بھی اکٹھے ہو گئے اور رات کے بارہ بجے تک مختلف مسائل کے متعلق گفتگو ہوئی.دوران گفتگو میں وفات مسیح کے مسئلہ پر بھی بحث ہوئی.تقریباً سب نے وفات مسیح کا اقرار کر لیا.صبح کو برادرم مصباح الدین کے چند رشتہ داروں کے سامنے جو ملاؤں کے رنگ میں رنگین ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کے متعلق گفتگو ہوئی.اس سفر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے دیہاتوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خبر پہنچ جائے گی.چند روز کا عرصہ ہوا جب مشائخ نے دیکھا کہ زبانی مخالفت کا کچھ فائدہ نہیں ہوا اور لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے سے باز نہیں آئے تو انہوں نے یہ ٹھان لی کہ جس طرح ہو سکے جبر و اکراہ سے مخالفت کا طوفان بے تمیزی برپا کر کے جہلاء کو بھڑکا کر غرضیکہ جائز و ناجائز وسائل استعمال کر کے احمدیوں کو واپس کیا جائے.چنانچہ ایک شخص کو المجلس الاسلامی کے واسطہ سے بلوایا جس نے اپنی تقریروں میں ہمارے خلاف خوب زہر اگلا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں کوئی احمدی ملے جہلا اسے گالیاں دینے لگے.ایک دو سے خفیف سی لڑائی بھی ہوئی اور خفیہ چنداو باشوں کی احمد یوں کو اذیت پہنچانے کیلئے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 206 جماعت بھی تیار کی گئی اور بعض کو علیحدہ علیحدہ بلوا کر دھمکانا شروع کیا اور ہر قسم کا خوف دلایا گیا.اسی اثناء میں مناظرہ کے لئے خط و کتابت بھی جاری رہی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے مناظرہ سے گریز کیا اور ہماری پیش کردہ شرائط کو منظور نہ کیا.آخر اپنی سازشوں کے ذریعہ دو شخصوں کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ ارتداد اختیار کریں.پھر ایک سے اس بات کی قسم لی کہ وہ میرے پاس قطعا نہ آئے.لیکن جہاں تک تحقیق سے معلوم ہوا ہے اور جیسا کہ ایک نے ان میں سے خود میرے پاس بیان کیا انہوں نے لوگوں کی دھمکیوں سے ڈر کر یہ کام کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان کی وحشت و درندگی اور چیرہ دستیوں سے تنگ آکر اپنی ملازمتوں کو چھوڑ کر دوسری جگہ جا رہے ہیں.مناظرہ کے متعلق خط و کتابت شائع کرنے کا ارادہ ہے جس کے ساتھ ہی بعض ان اعتراضات کا بھی جواب دیا جائے گا جو انہوں نے اپنے لیکچروں میں کئے.التعليم ایک ڈاکٹر نے شام سے کتاب التعلیم کے مقدمہ پر (جس میں مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے مسئلہ امکان نبوت پر بحث کی ہے ) لکھ کر بھیجا جس کا مفصل جواب انہیں لکھ کر بھیجا گیا.اسی طرح برادرم محمد نواز خان صاحب سیکرٹری تبلیغ بغداد اور برادرم میاں احمد گل صاحب نے بعض اشخاص کے اسماء بھیجے تھے جن کے نام تبلیغی خطوط اور کتب روانہ کی گئیں.موصل سے ایک شخص نے لکھا ہے کہ آپ کی مرسلہ کتب پڑھ کر احمدیت کے متعلق مجھے جو شکوک تھے وہ زائل ہو گئے ہیں.الفضل قادیان 30 اگست 1929 ء )
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس سفر مصر $ 1931-1930 ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) 207 برادرم منیر الحصنی 4 دسمبر 1929ء کو حیفا پہنچے.دو دن وہاں قیام کیا.سفر سے پہلے سید رشدی آفندی البسطی سیکرٹری جماعت احمد یہ حیفا کے گھر احمدی دوست جمع ہوئے.میں نے انہیں مناسب ہدایات دیں اور تبلیغ کی طرف توجہ دلائی.برادرم منیر آفندی نے بھی ان کے الوداعی کلمات کے جواب میں تقریر کی.سات دسمبر کی صبح کو ہم مصر روانہ ہوئے.مصر میں بہت سے شامی موجود ہیں.ان کے ایک مشہور لیڈر ڈاکٹر عبد الرحمن شھبند رکی ملاقات کے لئے گئے.ان کے پاس اور بھی بہت سے شامی دوست موجود تھے.تقریباً تین گھنٹے تک وفات مسیح ، دجال ، طلاق ، تعدد ازدواج اور نزول وغیرہ مسائل پر گفتگو ہوئی.حاضرین نہایت محظوظ ہوئے.ڈاکٹر عبدالرحمن شھبند ر نے ہمارے آنے کے بعد برادرم منیر الحضی کے بڑے بھائی سے کہا آج بحث نہایت لذیذ تھی.حاضرین نے دوسروں کے پاس سلسلہ کا ذکر کیا.جامعہ الازہر کے ایک شیخ سے مناظرہ دو شخص حاضرین میں سے ہمارے مکان پر آئے اور کہا کہ آپ کی باتیں نہایت معقول ہیں ہم چاہتے ہیں کہ کسی شیخ کے ساتھ آپ کی گفتگو سنیں.ہم نے کہا مناظرہ سے یونہی شور پڑتا ہے نتیجہ کچھ نہیں نکلتا بہتر ہے کہ آپ کسی شیخ سے دلائل سن لیں اور پھر ہم سے ان کا جواب دریافت کر لیں اور خود فیصلہ کر لیں کہ کون حق پر ہے لیکن انہوں نے بحث پر اصرار کرتے ہوئے کہا ہم ایسا شیخ لائیں گے جو وسیع الصدر ہو.مناظرہ ڈاکٹر عبدالرحمن شھبندر کے مکان پر ہونا قرار پایا.سب سے پہلے شیخ نے مجھ سے وفات مسیح کا ثبوت طلب کیا.میں نے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی اور اس کی تفسیر کیلئے بخاری کی حدیث فَاقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ پیش کی اور بتایا کہ اس آیت اور حدیث سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جیسے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 208 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ارتداد ہوا اسی طرح مسیحیوں نے بھی مسیح کو خدا ان کی موت کے بعد قرار دیا اور ان کا قیامت کو یہ جواب دینا ان کے عدم رجوع کی بین دلیل ہے ورنہ وہ مسیحیوں کے ارتقاء سے لاعلمی کا اظہار نہ کرتے.اس دلیل کا وہ کوئی جواب نہ دے سکا بلکہ آیت انى مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ کی تین چار تو جیہیں اور آیت اِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ کو پیش کیا.جواب میں نے تمام پیش کردہ تو جیہوں کو باطل ثابت کر کے اصل تفسیر پیش کی.اسی طرح آیت إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَاب کی پیش کردہ تعبیر پر چھ اعتراضات کئے اور اصل تفسیر بتائی.وہ جواب سے بالکل عاجز آ گیا.آخر کہنے لگا اگر مان لیں کہ مسیح وفات پا گیا تو احادیث میں جو اس کے نزول کی خبر موجود ہے اس کا کیا ہوگا.میں نے کہا احادیث کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث ظاہر میں قرآن مجید کے مخالف ہو تو ہم اس کی تاویل کر کے قرآن مجید کے موافق کرنے کی کوشش کریں گے.لیکن اگر کسی طرح بھی موافق نہ ہو سکے تو ہم اس حدیث کو قبول نہ کریں گے.آپ بتائیں آپ کا عقیدہ کیا ہے.اس نے کہا حدیث قرآن مجید کو منسوخ کر سکتی ہے.تب میں نے مفصل اس عقیدہ کی دھجیاں اڑائیں.پھر احادیث نزول مسیح ابن مریم اور آیات قرآن مجید میں وجہ موافقت بیان کی.نتیجہ یہ تھا کہ حاضرین میں سے بعض نے شیخ کے منہ پر کہہ دیا آپ نہ تو اپنی کسی دلیل کو ثابت کر سکے اور نہ ہی وفات مسیح پر پیش کردہ دلائل کو رد کر سکے.پہلے تو کہتا تھا کہ میں ہر روز آپ سے گفتگو کیلئے وقت نکال سکتا ہوں مگر اس کے بعد اس نے گفتگو کرنے کا نام تک نہیں لیا.ازہر میں ان مناظروں کی خبر پہنچ گئی.بعض مشائخ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان مسائل میں ان کا مقابلہ نہیں ہوسکتا.احمد ز کی باشا تیمور سے ملاقات ایک روز ہم احمد ز کی باشا تیمور کی ملاقات کیلئے گئے.پہلے تو انہوں نے تاریخی بحث شروع کی جب سلسلہ کے متعلق ذکر آیا تو کہا شام میں احمدیت زور پکڑ رہی ہے میں نے اس کے متعلق بہت سنا ہے اور اخباروں میں بھی پڑھا ہے.پھر انہوں نے بعض خلاف واقعہ افواہوں کا ذکر کیا جن کی حقیقت بتائی گئی.پھر مسائل مختلفہ فیہا پر بحث ہوئی اور بقیہ بحث دوسرے دن پر ملتوی کی گئی.اس دن انہوں نے ہمیں دعوت دی اور چھ سات اور لوگوں کو بھی بلایا جن میں سے بعض ملحدین تھے.ایک رسالہ کا ایڈیٹر جس میں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 209 الحاد کی طرف لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے.کھانے سے فارغ ہو کر مجھ سے گفتگو کر نے کیلئے وہی متعین ہوا.پہلے صدق مسیح موعود پر دلیل پوچھی.میں نے قرآن مجید سے ایک دلیل عقلی صورت میں پیش کی اور پھر بحث ، وجود الہی اور اثبات وحی پر ہوئی.اس پر ایسا رعب چھایا کہ وہ کوئی جواب نہ دے سکا.اسی اثناء میں احمد ز کی باشا نے بحث کو دوسری طرف ٹال دیا.پھر نزول مسیح کی احادیث پر بحث ہوتی رہی.انتہائے گفتگو پر انہیں سلسلہ کی کتابیں مطالعہ کیلئے دی گئیں.انہوں نے خواہش کی کہ ان سے پھر ملاقات ہو.کتاب البرہان الصریح کی مقبولیت ہے.البرهان الصريح في ابطال الوهية المسيح “ کو جنہوں نے پڑھا ہے نہایت پسند کیا.برادرم محمد طه اسلام تحریر فرماتے ہیں میں نے اس کتاب کے نسخے عدن ، سنگا پور ، بغداد، موصل، حلب، بمبئی روانہ کئے ہیں اور مصر میں رئیس الازہر اور احمد تیمور باش و غیرہ کو بھیجے ہیں.مسیحیوں میں بھی تقسیم کئے گئے ہیں اور بہت سے نسخے فروخت بھی کئے ہیں.پھر لکھا ہے کہ جسے ہم دیتے اسے کہہ دیتے تھے کہ اگر پسند نہ آئے تو اپنی قیمت لے لیں اور کتاب واپس کر دیں مگر کسی نے کتاب واپس نہیں کی.ایک شیخ نے خطبہ جمعہ میں لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کایا ہے.مجھے اور انہیں کفر کا فتویٰ دیا.اس پر لوگوں کو اس کتاب کے دیکھنے کا اور زیادہ شوق ہوا.برادر محمد طہ نے پانچ سو نسخے اور طلب کئے ہیں جو انہیں بھیجے گئے نیز مسلمانوں کی ایک جماعت نے اشتہار دیا جس میں مشائخ کورڈ لکھنے کیلئے غیرت دلائی اور مفتی اور قاضی اورسب مشائخ کو نام بنام بھیجا گر کسی نے بھی جواب نہ دیا.حیفا میں جب مشائخ سے مناظرات ہوئے تو انہوں نے ہمیں مسیحی کہنا شروع کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے چاہا کہ وہ اس جھوٹے الزام کا مزا چکھیں.آخری فتنہ میں جو مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا انہوں نے مسیحیوں سے مل کر جمعیت قائم کی جس کا نام الجمعية المسيحية الاسلامیہ رکھا.جوشخص اس میں داخل ہوا سے قمیص یا کوٹ پر لٹکانے کیلئے ایک نشان دیا جاتا ہے جس پر صلیب اور ہلال کی تصویر ہے.میں نے بعض کو ان میں سے کہا کہ ہمیں تو تم مسیحی ہونے کا خلاف واقعہ طعن دیتے تھے مگر اب تو تم نے خود مسیحی ہوکر دکھایا.بلا د عر بیہ میں تبلیغ مسیحی کا مقابلہ الفضل قادیان 7 فروری 1930ء) اخبار بین اصحاب سے مخفی نہیں کہ مسیحی متاد دنیا کے ہر گوشہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور کچھ مدت سے عربی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 210 ممالک میں بھی پہنچ چکے ہیں.میں اپنی عینی شہادت کی بنا پر یقین دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عیسائیت میں داخل ہو چکی ہے جن میں سے بعض علماء بھی ہیں.کہا جاتا ہے کہ جولوگ عیسائی ہوتے ہیں وہ دنیوی منافع کی خاطر ہوتے ہیں مگر میں کہتا ہوں اگر اس بات کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی ہم قومی غفلت کے جرم سے بری قرار نہیں دیئے جاسکتے.اس لئے کہ ان کا دنیوی اغراض کے لئے اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے قلوب ایمان سے خالی ہیں اور اسلام کی صداقت پر انہیں یقین نہیں ہے.مصر میں جا بجا تبلیغی مشن موجود ہیں اور ایک خاص نظام کے ماتحت وہ مسلمانوں کو مسیحی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.امریکن مشن کے انچارج نے کہا تقریباً دوسو مسلم مسیحی ہو چکے ہیں.جو شخص ان بلاد کا بغور ملاحظہ کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ تبلیغ مسیحی کا مسلمانوں کی طرف سے بالمثل مقابلہ نہیں کیا جاتا.از ہر کے ایک استاد سے دوران گفتگو میں میں نے دریافت کیا کہ پادریوں نے اسلام کے خلاف بہت سی کتا ہیں لکھی ہیں ان کا جواب کیوں نہیں دیتے.فرمایا ہم تو وہ کتا بیں ہی نہیں پڑھتے.میں نے کہا آپ پڑھتے نہیں اور جو پڑھتے ہیں وہ دین سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ عیسائی نہ بھی ہوں تو بھی وہ دین سے دور جا پڑتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ملحدین کی جماعت روز بروز بڑھ رہی ہے.کہنے لگے علماء کے پاس قوت تنفیذ یہ نہیں ہے.میں نے کہا قوت تنفیذ یہ سے آپ کی مراد کیا ہے.فرمانے لگے اگر علماء کے پاس قوت تنفیذ یہ اور امر ہوتو پھر بھلا کوئی مرتد ہوسکتا ہے.ایسے شخص کو فورا قتل کر دیا جائے.میں نے کہا قرآن مجید میں تو تبلیغ و وعظ کا ارشاد ہے قتل کا تو کہیں حکم نہیں.نیز اس وقت تقریباً تمام عالم پر مسیحی حکمران ہیں.اگر وہ بھی قتل مرتد کا حکم نافذ کرنا چاہیں تو انہیں بھی اس امر کا حق ہوگا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم کسی مسیحی کو اسلام میں داخل نہ کر سکیں گے.غرض کہ مسلمان ابھی تک تبلیغ مسیحی کی طرف سے غافل ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے.ہم نے تبلیغ مسیحی کا مقابلہ شروع کر رکھا ہے اور ان کے مقابلہ میں کتب بھی حسب استطاعت شائع کی ہیں اور مباحثات بھی کئے ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ نوجوان جو بپتسمہ لے چکے تھے پھر اسلام کی طرف واپس آئے.اب وہ خود انکی مجلسوں میں جا کر ان کا مقابلہ کرتے ہیں اور فلسطین میں بھی ایک مسیحی اسلام میں داخل ہوا ہے.اب میں چند نو جوانوں کو پادریوں کے مقابلہ کیلئے تیار کر رہا الفضل قادیان 29 اپریل 1930ء) ہوں.
حیات ٹس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 211 رسالہ نداء عام حمص میں برادرم شیخ محمد طه الكاف نے جب رساله البرهان الصريح في ابطال الوهية المسيح لوگوں میں تقسیم کیا تو اس میں چونکہ وفات مسیح کا بھی ذکر تھا اس لئے بعض مشائخ نے مساجد میں ہمارے خلاف لیکچر دیئے اور مجھ پر اور برادرم طه الکاف پر کفر کا فتویٰ لگایا.نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کو کتاب مذکور کے دیکھنے کا اور بھی زیادہ شوق پیدا ہو نیز انہوں نے لکھا لوگ اکثر مسئلہ وحی و نبوت اور مسیح موعود کے ساتھ علیہ الصلوۃ والسلام کہنے پر اعتراض کرتے ہیں ان کا جواب بذریعہ ٹریکٹ دیا جائے.سو برادرم منیر آفندی اٹھنی نے ” نداء عام“ کے عنوان کے ماتحت ہیں صفحہ کا ٹریکٹ لکھا جس میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کا تذکرہ اور وفات مسیح اور عدم رجوع مسیح ناصری اور مذکورہ بالا سوالات کا مفصل جواب دیا.یہ رسالہ ایک ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا ہے.الحق ابلج والباطل لجلج ایک طرابلسی شیخ نے البرھان الصریح کے رد میں تین چار صفحات لکھے مگر ان میں سوائے سب وشتم اور گالیوں کے کچھ نہ تھا.میں نے اس کا جواب مذکورہ بالا عنوان کے ماتحت لکھا ہے.یہ ٹریکٹ چار صفحہ کا ہے اور ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے.مشائخ نے حقیقی جواب سے عاجز آکر جمعہ کے خطبات میں عوام الناس کو احمدیوں کے خلاف بھڑ کا نا شروع کیا اور ایک سفر نامہ تیار کر کے حاکم شہر سے برادرم طہ الکاف کا اخراج طلب کیا اور یہ کہ اسے کتب احمدیت کی اشاعت سے منع کیا جائے لیکن حاکم شہر کے پاس بعض معززین نے شہادت دی کہ یہ سفر نامہ الکاف کے دشمنوں کی طرف سے ہے اور ذاتی عداوت کی بناء پر لکھا گیا ہے.چنانچہ ایک معزز مسیحی نے بھی ان کے حق میں شہادت دی.اس بناء پر انہیں کچھ نہ کہا البتہ ظاہری طور پر مشائخ کی رعایت کر کے ان کے گھر کی تلاشی کرائی.مخالفت کی وجہ سے انہیں مادی لحاظ سے تو نقصان پہنچا اور کئی دن تک وہ دکان نہ کھول سکے مگر انہوں نے لکھا ہے کہ کچھ بھی ہو ہم حق بات کو چھوڑ نہیں سکتے آخر مرنا تو ایک ہی دفعہ ہے.مسیحی تو اب صاف طور پر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مشائخ کا حاکم کے پاس جانا دلیل ہے اس بات کی کہ وہ جواب دینے سے عاجز ہیں اور اپنی شکست خود تسلیم کرتے ہیں.آخری خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ اب بعض اشخاص علانیہ کہتے ہیں کہ ہم بھی احمدی جماعت سے ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ایک از ہری عالم سے گفتگو 212 چند مشائخ میرے پاس آئے جن میں سے بعض از ہر کے استاد بھی تھے.پہلے تو انہوں نے جماعت احمدیہ کے امتیازی امور کے متعلق سوال کیا.میں نے جواب دیا.پھر حاضرین میں سے ایک نے جامعہ ازہر کے استاد سے اِنِّی مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ کی تغییر دریافت کی تو اس نے کہا اس کے معنی ہیں.انی منو مک.کہ میں تجھے سلانے والا ہوں.میں نے کہا ( وہ سوتے تو ہر روز ہی تھے ) اس آیت کی تفسیر میں تو خود مفسرین نے اختلاف کیا ہے.آپ نیند کے معنوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں حالانکہ امام بخاری نے اس کے معنی ابن عباس سے اِنِّی مُتَوَفِّیک روایت کئے ہیں.ابن عباس معر بی جانتے تھے یا نہیں؟ کہنے لگا درست ہے مگر بخاری میں دوسری روایت بھی تو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح پر اونگھ ڈالی اور پھر اسے آسمان پر اٹھا لیا.میں نے کہا آپ کا مقصد یہ ہے کہ بخاری میں دو متضاد روایتیں موجود ہیں.کہنے لگا ان دونوں کے درمیان موافقت دی جاسکتی ہے.میں نے کہا بہر حال بخاری میں ایسی دو روایتیں تو پائی گئیں جو بظاہر ایک دوسرے کے مخالف ہیں.جب دو دفعہ وہ اقرار کر چکا تو میں نے کہا.مولانا مجھے افسوس ہے کہ دوسری روایت کا بخاری میں نام و نشان نہیں ہے.اس پر کہنے لگا میں نے یہ تو نہیں کہا کہ بخاری میں ہے.میں نے کہا آپ حاضرین سے دریافت کر سکتے ہیں.کہنے لگا اصل غرض تو روایت سے ہے.میں نے کہا یہ روایت صحاح ستہ میں بھی موجود نہیں ہے.پھر کہنے لگا کہ میں نے ابھی تک عصر کی نماز نہیں پڑھی نماز پڑھ لوں.پھر یہ کہہ کر کہ ہم آپ کے رسالہ کا جواب لکھیں گے چلا گیا.برادرم سید رشدی آفندی سیکرٹری جماعت احمدیہ حیفا خوب محنت سے تبلیغ کر رہے ہیں.مندرجہ ذیل اشخاص سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.(۱) صالح سوقی شامی.(۲) فقیر محمد عمر نابلسی.(۳) اور مصر میں محمد سلیم آفندی عبد اللہ اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے.جب میں حیفا میں تھا تو یوسف مارکیانی نام سیحی میرے پاس آتا رہا آخر میں اس نے اسلام قبول کر لیا.چونکہ تبدیلی مذہب حسب قانون بواسطه حکومت ہوتی ہے اس لئے جب وہ بذریعہ قاضی مسلمان ہوا تو اس نے کہا کہ دیکھواس ہندی کے پاس نہ جانا حالانکہ اسے اسلام کی صداقت میرے ذریعہ ہی معلوم ہوئی تھی.مشائخ کی مخالفت کی وجہ سے وہ جماعت میں اس وقت داخل نہیں ہوا مگر اب اس نے بیعت کا خط لکھ دیا ہے اور جماعت میں داخل ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی قبولیت حق کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(الفضل قادیان 2 مئی 1930ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مصر میں احمدیت مدیر الفضل قادیان تحریر کرتے ہیں : 213 برادرم عزیز مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ اسلام مقیم فلسطین اپنے یکم جون 1930ء کے مکتوب کے ذریعہ یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ وہ چار ماہ مصر میں نہایت کامیابی کے ساتھ تبلیغ کرنے کے بعد واپس آگئے ہیں.اس عرصہ میں سید رشدی آفندی سیکرٹری جماعت احمد یہ حیفا اور شیخ علی القزق اور شیخ صالح العودہ نے نہایت گرم جوشی و ہمت سے تبلیغ میں حصہ لیا ہے.نیز سیدہ زہر یہ خانم زوجہ سید رشدی آفندی بھی عورتوں کو تبلیغ کرتی رہی ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے.یکم اپریل سے اس وقت تک مندرجہ ذیل اشخاص سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.(۱) صحى الفرق طالب علم ہے تبلیغ کا جوش رکھتا ہے اپنے ہم جماعت طالب علموں کو تبلیغ کرتا رہتا ہے.چنانچہ اس کے ذریعہ تین طالب علم سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.(۲) محمد بن عبد اللطیف الجزائری (۳) عبد القادر بن صالح العوده (۴) حامد (۵) محمد (۱) محمود (۷) امینہ (۸) فاطمه (۹) حلیمه (۱۰) فاطمہ بنت مصطفی حسین زوجہ شیخ علی القزق (۱۱) الشیخ احمد العوده (۱۲) محمد بن الشیخ احمد العوده (۱۳) حلیمہ زوجہ عبد القادر العوده (۱۴) الحاجة حلیمہ زوجہ الحاج عبد القادر العوده (۱۵) مریم زوجہ شیخ صالح العوده (۱۶) مصطفی آفندی (۱۷) محمود حداد (۱۸) خائف موسیٰ زید (۱۹) زوجہ الحاج (الفضل قادیان 10 جون 1930ء) القزق (۲۰) محمد شرقاوی.سوڈان میں احمدیت ( حضرت مولا نا جلال الدین صاحب شمس) اللہ تعالیٰ کے فضل سے مصر کا سفر نہایت مبارک ثابت ہوا.میں اسے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قدسی اور مبارک توجہ اور حضور کی اور جماعت احمدیہ کی دعاؤں کا نتیجہ یقین کرتا ہوں.اس چار ماہ کے قلیل عرصہ میں پندرہ اشخاص سلسلہ میں داخل ہوئے جن میں سے تین نوجوان ایسے ہیں جو پہلے عیسائی ہو چکے تھے.نیز کئی مسیحی مشنوں کے پادریوں سے مباحثات ہوئے جن میں انہیں شکست فاش ہوتی رہی.اخباروں میں بھی دو تین مرتبہ سلسلہ کے متعلق ذکر آیا اور جمعیۃ مکارم الاخلاق میں ایک پبلک لیکچر بھی ہو ا جس میں تقریب دو ہزار کی حاضری تھی.اس لیکچر کا حاضرین پر اور پھر ان کے ذریعہ دوسروں پر نہایت اچھا اثر ہوا.علاوہ ازیں ایک اور عظیم الشان فائدہ یہ ہوا کہ سوڈان سے ایک تعلیم یافتہ شخص جو
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 214 وہاں ایک سکول میں معلم ہیں، مصر میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے آئے.ان سے ملاقات ہوئی اور دو تین مرتبہ ان سے سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی.آخر وہ سلسلہ میں داخل ہو گئے اور ان کے داخل ہونے سے سوڈان میں بھی احمدیت کا بیج بویا گیا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بار آور کرے.وہ اپنے تازہ خط میں لکھتے ہیں میں نے اپنے دوستوں کو تبلیغ کرنی شروع کر رکھی ہے اور انہیں سلسلہ کی کتا بیں بھی مطالعہ کیلئے دی ہیں.یکم مئی کو میں اور برادرم منیر الحضی امیر جماعت احمد یہ دمشق مصر سے واپس آگئے اور برادرم منیر الحصنی نے چند دن حیفا قیام کیا.پھر واپس شام پہنچ کر تبلیغ کا کام شروع کر دیا.اللہ تعالیٰ ان کا حامی و مددگار ہو.مصر میں حسب ذیل اصحاب داخل سلسلہ ہوئے.(۱) محمد مصطفی خورشید (۲) عبد العزیز محمود عیسی طالب علم مدرستہ التربية العلميه الثانویہ (۳) محمد یوسف (۴) محمد سلیم عبد الله (۵) سوڈان سے محمد عثمان سنی مدرس بالمدرسة الاهلية (٦) اور شام سے ذکر یا الاخضر (۷) صالح ابو صلاح الا موتی سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.عربی لٹریچر کی اشاعت الجماعة الاحمديه في الديار العربیة کی طرف سے عربی زبان میں مندرجہ ذیل کتب شائع ہو چکی ہیں.( ا ) الحياة المسيح و وفاته (۲) التعليم ترجمه کشتی نوح (۳) میزان الاقوال (۴) الهدية السنية للفئة المبشرة المسيحية (۵) البرهان الصريح فى ابطال الوهية المسيح (۲) حكمة الصيام (۷) نداء عام لبنى قومى ولكل ناطق بالضاد (۸) تحقيق الادیان کیا موجودہ اناجیل الہامی ہیں؟ (۹) الحق ابلج والباطل لجلج (۱۰) اظهار الحق تین چار عددان کے علاوہ ٹریکٹ شائع کئے گئے جواب ختم ہو چکے ہیں.نداء عام اور البرہان الصریح کے جواب میں علماء حمص و طرابلس الشام کی طرف سے تین رڈ شائع ہو چکے ہیں جن کا جواب لکھا ہوا موجود ہے مگر بوجہ عدم اخراجات طباعت اس وقت تک شائع نہیں ہوسکا.تقریباً ستر اسی صفحہ کی کتاب ہوگی.اس کا نام میں نے توضیح المرام فی الرد على علماء حمص و طرابلس الشام رکھا ہے.اگر بعض ذی مقدرت احباب ہماری تھوڑی مدد کریں تو ایک ماہ کے اندر اندر ہم اسے شائع کر سکتے ہیں.ورنہ شاید دو تین ماہ تک ہمیں انتظار کرنا پڑے گا.جس قدر کوئی شخص یا جماعت ہمیں رقم ادا کرے گی ہم اس کے عوض میں انہیں مطبوعہ عربی کتب روانہ کر دیں گے.(الفضل قادیان 19 جون 1930ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 215 تائید الہی حضرت مولا نائمس صاحب اپنے مکتوب محررہ 2 جولائی 1930ء میں تحریر کرتے ہیں.میں نے ایک چٹھی میں ذی مقدرت احمدی احباب سے اپیل کی تھی کہ وہ ہم سے عربی کتب خرید کر علماء حمص وطرابلس الشام کے تین ردود کے جواب کی چھپوائی کیلئے ہماری مدد فرمائیں ورنہ دو تین ماہ تک ہمیں اس کی چھپوائی کے لئے انتظام کرنا پڑے گا.جس دن میں نے یہ چٹھی روانہ کی اسی دن ڈاک میں برادرم محمد طه الکاف کی طرف سے پانچ مصری پونڈ کی گراں قدر رقم اس رسالہ کی چھپوائی کیلئے ملی.جزاہ اللہ في الدارين خيرا.بقیہ اخراجات طبع شام و فلسطین کے چندہ میں سے کئے گئے.چنانچہ یہ رسالہ ۸۰ صفحات کا دو تین روز تک انشاء اللہ چھپ کر شائع ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے لئے باعث ہدایت بنائے.سوڈان سے برادرم محمد عثمان سنی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں تبلیغ میں مشغول ہوں.یہاں اکثر لوگ جاہل ہیں اس لئے وہ بار یک حقائق کو جلدی نہیں سمجھ سکتے مگر مدارس کے طلباء اور استادوں نے مجھ سے کتابیں لے کر مطالعہ کی ہیں جن کا ان پر اچھا اثر ہوا ہے.وہ اب دوسرے دوستوں کو بھی میرے پاس لاتے ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ضرور سوڈان میں احمدیت کو ترقی دے گا.ان کی طلب پر اور کتب و رسالہ جات ارسال کئے گئے ہیں.شام و فلسطین میں نئے احمدی برادرم منیر الحصنی خوب محنت سے تبلیغ کر رہے ہیں..نیا سالہ بھی انہی کے ذریعہ شام میں چھپوایا گیا ہے.مندرجہ ذیل اشخاص وہاں سلسلہ میں نئے داخل ہوئے ہیں.(۱) ابو فہد محمد الصباغ (۲) قدور بن احمد الافغانی (۳) محمد کاظم بن ادیب الخیاط (۴) فوزیہ بنت عبد العزیز (۵) داود بنت صالح الشویلی.اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی قبولیت کی توفیق عطا فرمائے.کہا بیر گاؤں کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص میں ترقی کر رہی ہے.میں چار پانچ روزان کے پاس رہا اور قرآن و حدیث و کتب مسیح موعود علیہ السلام کا درس دیتا رہا.مندرجہ ذیل اشخاص حیفا میں نئے داخل سلسلہ ہوئے ہیں.(۱) الحاج حسن القزق (۲) محمود القزق (۳) نجیب مصطفیٰ العواد.اللہ تعالیٰ سب کو استقامت
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس عطا فرمائے.216 اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام دنیا کی اصلاح کیلئے مبعوث فرمایا اسی لئے آپ کی کتب میں ہر قسم کے لوگوں کی ہدایت کا سامان موجود ہے یہاں فرقہ شاذلیہ کے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں وہ صوفی مشرب کے ہیں.خطبہ الہامیہ کا ان لوگوں پر عجیب اثر ہوتا ہے.جب پڑھتے ہیں تو ان پر وجد اور رقت کی حالت طاری ہو جاتی ہے.الفضل قادیان 15 جولائی 1930ء) مصر کو دوبارہ روانگی قبل از میں کہا بیر میں غیر احمدی علماء سے مباحثہ کا ذکر کر چکا ہوں.مباحثہ کے تین روز بعد یعنی 31 اگست مصر کو عازم سفر ہوا.روانگی سے پہلے سات عورتیں جن کے خاوند احمدی ہیں سلسلہ میں داخل ہوئیں.جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو انہوں نے عجیب اخلاص و محبت کا مظاہرہ کیا.تمام احمدی مجھے الوداع کہنے کے لئے نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے گاؤں سے باہر آئے اور تقریباً سب ہی چشم پر آب تھے اور بہت سے دوسرے روز حیفا میں ریلوے سٹیشن پر بھی حاضر ہوئے.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص میں برکت دے.جس روز میں مصر کو روانہ ہوا اس سے ایک روز پہلے برادرم ممدوح حقی حلب سے طبر یا پہنچے.ان کا خط مجھے مصر ملا.طبریا سے وہ حیفا اور حیفا سے کہا بیر گئے.وہاں کی جماعت کے متعلق انہوں نے نہایت اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے.لکھتے ہیں کہ گاؤں سے باہر انہوں نے میرا استقبال کیا.پھر نماز میں بہت سے احمدیوں کو دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی.دو روز ان کے پاس ٹھہرا.جس محبت اور اخلاص اور حقیقی اخوت کا انہوں نے اظہار کیا میں بیان نہیں کر سکتا.میں نے انہیں ایمان میں نہایت مضبوط اور راسخ القدم پایا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری جماعت کے غیر تعلیم یافتہ افراد بھی علماء کا مقابلہ کر لیتے ہیں اور ان کی قوت محبت کو دیکھ کر ہر عاقل کو احمدیت کی صداقت کا اقرار کرنا پڑتا ہے.پھر وہ مجھے آپ کے نشانات دکھاتے رہے کہ آپ یہاں بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے.پھر مجھے ان دو تاریخی درختوں کے پاس لے گئے جن کے سایہ میں آپ کا قاضی اور شنقیطی وغیرہ سے مباحثہ ہوا.پھر انہوں نے کیفیت مباحثہ سنائی اور یہ کہ آپ نے کس طرح انہیں لا جواب کیا اور کیونکر وہ خائب و خاسر واپس لوٹے.میں ان سے اس حال میں رخصت ہو رہا ہوں کہ میرا ہر ذرہ لسان شکر ہو کر ان کا شکریہ ادا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں استقلال بخشے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اور اپنے فضلوں کا وراث بنائے.فلسطین ، مصر ، سوڈان اور شام میں تبلیغ 217 فلسطین میں سیکرٹری جماعت احمدیہ حیفا اور سیکرٹری جماعت احمد یہ کہا بیر ہر دو دوسرے احمد یوں سمیت تبلیغ میں مشغول ہیں.برادرم شیخ سلیم دوسرے احمدی نو جوانوں کو لے کر پادریوں کے مشن میں گئے اور ان سے مباحثہ کیا.پادری شیخ سلیم کے اعتراضوں کا جواب نہ دے سکا.برادرم شیخ صالح کے ذریعہ ابراہیم آفندی میرہ گاؤں سے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.31 اگست کو ساڑھے دس بجے شام کو مصر پہنچا.سٹیشن پر پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ وسیکرٹری معہ دیگر احباب کے استقبال کیلئے موجود تھے.تبلیغ کا سلسلہ شروع ہے.ہر جمعرات کے روز شام کو جلسہ ہوتا ہے مندرجہ ذیل اشخاص سلسلہ میں نئے داخل ہوئے ہیں.(۱) برادرم عبدالحمید آفندی (۲) سید علمی آفندی ترکی (۳) عبد العزیز.بعض اوقات مشائخ بھی گفتگو کیلئے آتے ہیں اور دوسرے غیر احمدی دوست بھی اجتماع میں حاضر ہوتے ہیں جن کے سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں.جماعت کو منظم بنانے کی کوشش جاری ہے.گذشتہ اجتماع میں پریذیڈنٹ و سیکرٹری تبلیغ و امین الصندوق کا از سرنو انتخاب کیا گیا.برادرم احمد صمدی آفندی پریذیڈنٹ اور برادرم عبدالحمید سیکرٹری تبلیغ اور برادرم عبد الحمید خورشید امین الصندوق منتخب ہوئے.برادرم محمد عثمان سنی صاحب اپنے تازہ مکتوب میں تحریر کرتے ہیں کہ مجھے سخت افسوس ہے جو بہت مدت سے آپ کو بوجہ مریض ہونے کے خط نہیں لکھ سکا اور ابھی تک میں علیل ہی ہوں مگر اس وقت طبیعت رو بصحت ہے.میں نے اپنے دوستوں میں احمدیت کی تبلیغ کی ان کی گفتگو سے میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک رنگ میں تو احمدیت کو قبول کر لیا ہے ،مگر وہ مشائخ کی مخالفت کے ڈر سے اظہار نہیں کر سکتے مگر عنقریب انشاء اللہ تعلیم یافتہ گروہ میں انقلاب پیدا ہوگا اور وہ ان امور کے خلاف ضرور شور برپا کریں گے جو اصل میں تعلیم اسلامی میں نہیں تھے مگر بعد میں داخل کر لئے گئے اور آخر کار انہیں احمدیت کے ہی زیر دامن آنا پڑے گا.برادرم منیر آفندی اکھنی بلودان میں مقیم ہے جہاں لوگ مصر، عراق ، بیروت اور دیگر بلا د سے گرمی کا موسم گزارنے کیلئے آتے ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ یہاں کے پادریوں سے بھی میری گفتگوئیں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 218 ہوئی ہیں.ایک روز تو بازار میں ہی ایک پادری سے گفتگو شروع ہوگئی.بہت سے لوگ جمع ہوگئے پادری میرے سوالوں کا جواب نہ دے سکا اور جو بات وہ کرتا اسے ندامت اٹھانی پڑتی.مسلمان اس سے بہت خوش ہوئے.آپ کے عراقی اور مصری طالب علموں سے بھی احمدیت کے متعلق مکالمات ہوئے ہیں.دکتو رصدی آفندی النعمانی حمص سے تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے آپ کی کتب جو میزان الاقوال، الهدية السنية ، البرهان الصريح وغیرہ ہیں ان کے مطالعہ سے مجھے ان لوگوں کی حالت پر سخت افسوس آیا جنہوں نے ناحق آپ کے متعلق کا فر وغیرہ کے الفاظ تحریر کئے ہیں.میں نے چند سوالات آپ کی خدمت میں لکھے تھے.ان کے جوابات کا انتظار ہے.(ان کے سوالات کا الفضل قادیان 16 اکتوبر 1930ء) جواب دیا جا چکا ہے.) مباحثہ کبابیر (حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) جب میں دمشق سے حیفا پہنچا اور اور لوگوں کو سلسلہ حقہ کے متعلق علم ہوا اور مشائخ نے دیکھا کہ لوگ متاثر ہورہے ہیں شیخ کامل قصاب سے جو ان میں ایک مشہور لیکچرارشمار کیا جاتا ہے میرا مباحثہ قرار پایا جو دو روز تک ہوا جس میں اسے سخت ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا.پھر اس کے بعد ڈیڑھ سال تک کسی مولوی نے مباحثہ کی تمنا نہ کی.آخر انہوں نے المجلس الاسلامی الا علی کولکھ کر قدس سے ایک مولوی مراد الاصفہانی منگوایا جس نے لیکچروں میں ہمارے خلاف زہر اگلا.اس سے مباحثہ کیلئے خط و کتابت ہوئی مگر اس نے ہماری معقول پیش کردہ شرطوں کو نا منظور کیا.جب ہم نے اس کی بعض شروط کو قبول کر لیا تو اس نے انہیں بدل دیا.اس خط و کتابت میں جو جماعت احمدیہ حیفا اور جمعیة الشبان المسلمین حیفا کے درمیان پانچ چھ روز تک ہوئی مباحثہ کی شروط کے متعلق کامل بحث ہوئی جو انشاء اللہ فلسطین میں احمدیت کی تاریخ میں بطور یادگار رہے گی.اس کے بعد مسلمانوں اور یہود میں فساد ہو گیا.2 دسمبر 1929ء.میں چھ ماہ کیلئے مصر آ گیا.پھر مئی میں واپس گیا تو کہا بیر گاؤں کے ایک سو بارہ نفوس میں سے پچھتر نفوس احمدیت میں داخل ہو گئے.چونکہ یہ لوگ بلحاظ نیکی و تقوی و امانت و دیانت ارد گرد کے دیہاتوں میں مشہور تھے اس لئے پھر مشائخ میں جوش پیدا ہوا مگر کسی کو مباحثہ کیلئے جرات نہ ہوتی تھی.ماہ اگست میں اہل کہا بیر کی درخواست پر ان
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 219 کے پاس ہی جارہا ہوں.ایک روز شام کے وقت خطیب جامع مسجد اور رئیس الجمعیۃ اسلامیہ اور ایک شخص جس نے اپنا سرمنہ لپیٹا ہوا تھا، پہنچے.در حقیقت مراد الاصفہانی تھا جسے شرق الاردن کا ایک امیر بتایا گیا.اس کے آنے کی غرض یہ تھی کہ وہ اپنے سامنے میری باتیں سنیں اور دیکھے کہ آیا وہ مقابلہ کر سکتا ہے یا نہیں.رئیس الجمعیۃ الاسلامیہ نے مجھ سے بہت سے سوالات کئے جن کے میں نے جوابات دیئے اور آخر کار متعجب ہو کر کہنے لگا آپ نے تمام علوم اور عربی زبان کہاں سیکھی ہے.میں نے کہا قادیان سے.پھر مدرسہ احمد یہ قادیان کے نظام کے متعلق بتایا.دو گھنٹہ تک مباحثہ کر کے واپس چلے گئے.راستے میں جو احمدی ان کے ساتھ تھے ان سے مراد اصفہانی کے متعلق کہا گیا کہ یہ عیسائی ہے.اس نے خوب انا جیل کا مطالعہ کیا ہوا ہے جن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا مگر دوسرے دن حیفا کے احمدیوں نے خبر بھیجی کہ آپ کے پاس کل مراد الاصفہانی اور فلاں شخص آئے تھے.اس کے بعد اس کیلئے کہا بیر میں آنا سخت مشکل ہو گیا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو شرق الاردن کا ایک رئیس اور عیسائی کہا تھا نیز اس نے یہ بھی سمجھ لیا کہ مباحثہ کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے اس لئے وہ بھی واپس قدس چلا گیا.اس کے بعد محمد شنقیطی مغربی کو جو بہت مدت تک مکہ مکرمہ میں درس دیتے رہے اور مصر میں بھی اکا بر علماء میں شمار کئے جاتے ہیں مصر سے بلوایا اور پھر 24 اگست کو اسے نیز عوام اور علماء کا ایک بڑا گروہ جس میں قاضی حیفا بھی تھا لے کر ایک بجے کے قریب کہا بیر پہنچ گئے جن کے بیٹھنے کیلئے گاؤں سے باہر ختر وب کے درختوں کے نیچے چٹائیاں بچھا دی گئیں اور گدیلے وغیرہ بچھا دیئے گئے.چونکہ ان کے ساتھ بہت سے اوباش لوگ بھی تھے.اس لئے احمدیان کہا بیر کی رائے تھی کہ ان سے گفتگو نہ کی جائے اور اتفاقاان کے آنے سے ایک گھنٹہ قبل مجھے ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے میرے برادر مرحوم بشیر احمد کے وفات پا جانے کا تار ملا تھا.چونکہ میں چند روز کے بعد مصر آجانے والا تھا اس لئے ضروری سمجھا کہ اسی روز ان سے مباحثہ کر لیا جائے تا بعد میں یہ نہ کہہ سکیں کہ دیکھو ہم ان سے مباحثہ کے لئے گئے مگر وہ گھر سے ہی نہ نکلے.اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے میدان مباحثہ میں چلے گئے اور فریقین آمنے سامنے بیٹھ گئے.اس وقت میرے اور ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی خلاصتہ بطور مکالمہ درج ذیل کرتا ہوں : شمس آپ کے یہاں تشریف لانے کی کیا غرض ہے؟
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس قاضی: ہم آپ سے دعوت کے متعلق کچھ سننا چاہتے ہیں جس کی طرف آپ لوگوں کو بلاتے ہیں.شمس میں تو اڑھائی سال سے حیفا میں تھا.پہلے آپ کو یہ خواہش کیوں نہ ہوئی ؟ 220 شنقیطی: ہم نے سنا ہے کہ تم لوگوں کو گمراہ کرتے ہو.شمس معلوم ہوتا ہے آپ کو ہماری دعوت کے متعلق پورا علم ہے جبھی تو آپ گمراہ کرنے کا الزام دے رہے ہیں.اسی اثناء میں قاضی بولنے لگا.میں نے کہا آپ ایک شخص کو گفتگو کیلئے معین کریں.قاضی پہلے کچھ دیر تک میں آپ سے گفتگو کروں گا جو مباحثہ کے لئے بطور تمہید ہوگی اور اصل مناظر محم شنقیطی ہوں گے.شمس: بہت اچھا فرمائیے قاضی آپ احمد قادیانی کو کیا خیال کرتے ہیں؟ شمس میرا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس زمانہ کی اصلاح کیلئے مبعوث فرمایا ہے اور وہ وہی موعود ہے جس کے متعلق پہلے سے احادیث وغیرہ میں خبر دی گئی تھی اور عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.قاضی تب آپ انہیں رسول خیال کرتے ہیں؟ شمس آپ کے نزدیک رسول کسے کہتے ہیں اور کیا رسول اور نبی میں کوئی فرق ہے؟ قاضی رسول اسے کہتے ہیں جس پر نئی شریعت نازل ہو اور اس کی تبلیغ کیلئے مامور ہو اور نبی وہ ہے جسے شریعت بذریعہ وحی دی جائے مگر وہ اس کی تبلیغ کیلئے مامور نہ ہو.شمس میں ان معنوں کے لحاظ سے انہیں رسول نہیں مانتا کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے ہیں بلکہ میں انہیں خادم شریعت اسلامیہ یقین کرتا ہوں.میرے نزدیک نبی اور رسول کا مصداق ایک ہی شخص ہوتا ہے اور جو فرق آپ نے نبی اور رسول میں کیا ہے صحیح نہیں خیال کرتا.قاضی اس پر امت کا اجماع ہے اور رسول اللہ نے فرمایا ہے.لن تجتمع امتی علی ضلالة.شمس امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے من ادعى الاجماع فهو كاذب اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سب امت محمدیہ گمراہ نہیں ہو سکتی.ضرور ہے کہ ایک فرقہ حق پر رہے.قاضی آپ جانتے ہیں کہ اجماع کیا ہوتا ہے؟ شمس خوب جانتا ہوں.اصول فقہ میں اس کی تعریف یہ ہے کہ ایک زمانہ کے علماء کی اکثریت اگر ایک
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 221 بات پر اتفاق کرلے تو وہ ان کا اجماع کہلائے گا مگر ایک زمانہ کے علماء نہ کبھی اکٹھے ہوئے اور نہ ان کی آراء لے کر کسی بات پر اجماع ہوا ہے.قاضی سب علماء نے یہ فرق کیا ہے.شمس: کیا شیخ محی الدین ابن العربی علماء امت میں سے نہیں تھے؟ قاضی: ہاں ضرور تھے.س انہوں نے نبوت ورسالت کو دو قسموں میں منقسم کیا ہے شرعی اور غیر شرعی.قاضی ان کی یہ شخصی رائے ہے جو حجت نہیں ہو سکتی.شمس ہر ایک نے شخصی رائے کا اظہار کیا ہے ہم پر بھی ان کی رائے حجت نہیں ہوسکتی.قاضی تو پھر کیا آپ رسول و نبی کے الفاظ کو مترادف خیال کرتے ہیں.آپ جانتے ہیں کہ مترادف کیا ہوتا ہے؟ شمس مترادف کہتے ہیں دو لفظ یا دو سے زیادہ ایسے لفظ ہوں جن کے معنے ایک ہوں.میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے معانی واحد ہیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ ان کا مصداق ایک ہوتا ہے.جو اصطلاحی شریعت میں نبی ہوتا ہے وہ رسول بھی ہوتا ہے اور جو رسول ہوتا ہے وہ نبی بھی ہوتا ہے.اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ اسے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے وہ نبی کہلاتا ہے اور اس پہلو سے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتا ہے رسول کا لقب پاتا ہے مگر شخصیت کے لحاظ سے وہ ایک ہی ہوتا ہے.قاضی تو کیا علماء غلطی پر تھے جو انہوں نے یہ تعریف کی؟ شمس انہوں نے کسی وجہ سے یہ اصطلاح قائم کی ہوگی.ولکل ان يصطلح مگر قرآن مجید سے ہماری بات کی تصدیق ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے آیت فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ (البقرة :214) میں نبی کو مبشر اور منذ رقرار دیا ہے.ویسے ہی آیت رُسَلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِينَ (النساء : 166) میں رسول کو مبشر اور منذر قرار دیا.اسی طرح ایک جگہ فرمایا.مَا يَا تِيْهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ ونَ (الحجر: 12) اور ایک آیت میں فرمایا.إِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيْهَا هُدًى وَّ نُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ (المائده : 45) پھر انہی انبیاء کو جو تورات کی شریعت پر عامل تھے دوسری آیت میں رسل کہا.جیسے فرمایا.وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (البقرة : 88) پس ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی یا رسول کے لئے نئی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 222 شریعت کا لانا ضروری نہیں ہے مگر آپ کی تعریف کے مطابق تو ان کیلئے شریعت لانا ضروری تھا مگر وہ بغیر شریعت کے رسول کیسے بن گئے.اچھا مجھے قرآن مجید سے کوئی ایسا نبی بتا ئیں جو نبی ہو اور رسول نہ ہو.قاضی عزیر علیہ السلام نبی تھے رسول نہ تھے.شمس: قرآن مجید میں عزیر کے متعلق نبی کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا.قاضی خضر علیہ السلام نبی تھے رسول نہ تھے.شمس خضر کا نام بھی قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے اور وہاں تو صرف عبداً من عبادنا ہے، من انبیائِنا تو نہیں کہا.:قاضی حدیث میں جو اس کا نام خضر آیا ہے.شمس تو کیا نام خضر ہونے سے ثابت ہو گیا کہ وہ نبی تھے.قاضی لیکن اس کا قول ما فعلته عن امری اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے یہ تینوں کام وحی الہی سے کئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ نبی تھے.سمس اول تو وحی کا لفظ آیت میں موجود نہیں دوسرے جس کی طرف وحی ہو کیا وہ نبی ہو جاتا ہے؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نبی تھیں، ان کی طرف بھی تو وحی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيْهِ - (القصص:8) قاضی یہ وحی بمعنی الہام ہے.شمس قرآن مجید میں دو دفعہ اس وحی کا ذکر آیا ہے اور دونوں دفعہ اللہ تعالیٰ نے وحی کا ہی لفظ استعمال کیا ہے الہام کا نہیں.اگر اس کے معنی الہام یعنی قذف فی القلب کے ہوتے تو ضرور ایک جگہ الہام کا لفظ استعمال کیا جاتا.دوسرے اس میں عظیم الشان پیش گوئیاں ہیں جو الفاظ میں نازل ہوئیں.صرف قذف فی القلب کا نتیجہ قرار نہیں دی جاسکتیں نیز آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ جو وجی خضر کو ہوئی تھی وہ الہام نہیں تھا.محمد شفیملی سے مباحثہ اس موقعہ پر سامعین میں سے بعض نے کہا اصل بحث پر گفتگو ہونی چاہیے تب قاضی صاحب
223.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس خاموش ہوئے.محمد شنقیطی نے تقریر شروع کی.چونکہ وہ عصبی المزاج تھا اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے کہہ لے پھر میں اس کی باتوں کا جواب دوں گا.چنانچہ اس نے مسئلہ حیات مسیح اور خروج دجال اور ظہور مہدی کے متعلق روایات ۲۵ منٹ میں بیان کیں.جب وہ ختم کرنے لگا تو میں نے مندرجہ ذیل سوالات کئے.شمس: حمار الدجال کے متعلق کچھ فرمائیے گا کہ وہ کتنا لمبا چوڑا ہوگا.قاضی ( دوسرے سے مخاطب ہو کر ) کس طرح قابل اعتراض بات پر گرفت کرتا ہے.شنقیطی : اس کے متعلق روایات میں اختلاف ہے.شمس: شنقیطی کیا بخاری میں مسیح موعود کے ساتھ مہدی کے آنے کا بھی ذکر ہے اور مہدی کا لفظ موجود ہے؟ کیا جو حدیث بخاری میں نہ ہو وہ صحیح نہیں ہوگی.میں نے کب کہا کہ وہ میچ نہیں ہے میں تو یہ دریافت کرتا ہوں کہ آیا مہدی کا لفظ بخاری میں ہے.شنقیطی : بخاری میں امامکم منکم ہے جس سے مراد مہدی ہے.مشمس: محمد بخاری میں امامکم منکم سے مراد خود مسیح موعود ہے اور اس کے معنی شروح نے یہ بھی لکھتے ہیں کہ امامکم منکم سے مراد یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت محمدیہ کے موافق حکم کرے گا.مسلم کی حدیث امامکم منکم اور اس کی تشریح جو امام زہری نے بیان کی ہے اس بات کی بین دلیل ہے کہ امامکم سے مراد خود مسیح موعود ہی ہے نیز امام بخاری کا یہ طریقہ ہے کہ اگر کسی حدیث سے بہت سے مسائل مستنبط ہوتے ہیں تو وہ علیحدہ باب باندھ کر اس مسئلہ کو بیان کر دیتے ہیں.اگر ان کے نزدیک امامکم منکم سے مسیح موعود کے سوا کوئی اور مہدی مراد ہوتا تو وہ ضرور اپنی صحیح میں مہدی کے متعلق باب باندھ کر اس حدیث کا ذکر کرتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.بہر حال یہ ثابت ہو گیا کہ بخاری میں مہدی کا لفظ موجود نہیں ہے.لیجیے اب میں آپ کی تقریر کا جواب دیتا ہوں.جب میں نے جواب دینا شروع کیا تو پھر کبھی تو وہ بول پڑتے اور کبھی قاضی.اس پر میں نے کہا جیسے میں نے خاموش ہو کر آپ کی تقریر سنی ہے آپ کو بھی خاموش ہو کر سننا چاہیے.شنقیطی: میں کیسے گمراہی کے کلمات سن کر خاموش رہوں.آپ نے جو بیان کیا میرے نزدیک کیا وہ گمراہی کی باتیں نہیں ؟ اگر آپ مناظرہ کیلئے آئے ہیں تو آپ کو آداب مناظرہ کا خیال رکھنا چاہیے اور میری تقریر خاموش ہو کر سنی ہوگی مگر وہ چپ نہ مشمس
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 224 ہوئے.اس پر احمدی احباب سخت برافروختہ ہوئے اور کہا ہم نے جو کچھ سمجھنا تھا سمجھ لیا ایسے لوگوں سے مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے.میں اٹھا اور میرے ساتھ ہی سب احمدی اٹھ آئے مگر پھر بعض نے یہ کہ کر بلایا کہ آپ بیان کریں وہ درمیان میں نہیں بولیں گے.اس پر ہم دوبارہ بیٹھ گئے.جب میں نے تقریر شروع کی تو اس نے پھر بولنا شروع کر دیا.شیخ احمد احمدی آپ خاموش ہو کر کیوں نہیں سنتے.قاضی (اسے برا معلوم ہوا) علماء کو ادب سے مخاطب کرنا چاہیے.شنقیطی : تم جاہل ہو کر علماء کو اس طرح مخاطب کرتے ہو حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ.شیخ احمد : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عُلَمَاءُ هُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ یہ السَّماءِ.بات بڑھنے لگی تو میں نے شیخ احمد کو خاموش کراد یا اور پھر تقریر شروع کرنے لگا.شنقیطی : تم جو کچھ بیان کرو گے وہ مردود ہے.شمس کیا دنیا میں کوئی ایسا عاقل بھی ہے جو فریق مخالف کی بات سننے سے پہلے ہی اس کے مردود ہونے کا حکم لگادے اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ یہاں کس لئے آئے ہیں؟ شنقیطی : اہل قریہ کو سمجھانے کیلئے آئے ہیں.شمس: پھر مجھے کیوں بلوایا؟ اب آپ کو میری تقریرسننا ہوگی.شنقیطی: (کھڑا ہو کر ) میں گمراہی کی باتیں نہیں سن سکتا.اس پر ہم بھی اٹھ کر چلے گئے اور مباحثہ ختم ہو گیا.یہ مناظرہ احمدیوں کے ازدیاد ایمان کا باعث ہوا اور سات عورتیں سلسلہ میں داخل ہوئیں جن کے خاوند پہلے سلسلہ میں داخل ہو چکے تھے.الفضل قادیان 20 نومبر 1930ء) احمدیان فلسطین کا استقلال احمدیت کو جو خاطر خواہ کامیابی فلسطین میں ہوئی اس کی تاب علماء فلسطین کہاں لا سکتے تھے انہوں نے احمدیت کے روکنے کے لئے ہر ممکن طریق اختیار کرنا پسند کیا.حیفا میں اوباشوں کے ذریعہ بعض احمد یوں کو مارڈالنے کی دھمکیاں دی گئیں اور بعض پر دست درازی بھی کی گئی.اگر حیفا کے معزز پولیس آفیسر اپنے فرائض منصبی کو مد نظر نہ رکھتے ہوئے ذرا بھی کوتاہی سے کام لیتے تو ممکن تھا کوئی شدید حادثہ رونما ہو جاتا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 225 پھر بعض نے گالیاں دے کر اپنا دل خوش کرنا چاہا چنانچہ ایک بدچلن اور بد کردار سے ایک قصیدہ لکھا کر شائع کرایا گیا جس میں سوائے گالیوں کے کچھ نہ تھا.اس شخص کی دماغی حالت کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس اشتہار میں اپنے نام کے ساتھ خود جو القاب لکھتا ہے وہ لقب "طبيب المجاهدين“ اور ”سفیه العالمین“ ہے اور جن اخلاق کا ” سفیه العالمین“ نے اظہار کیا ہے اس کیلئے میں دو تین اشعار بطور نمونہ نقل کر دینا ضروری خیال کرتا ہوں : هم اهل المعاني والبيان ولیسو اکالجهول القادياني لئیم ناكر السبع المثاني مضـل كـافـر رفـع اللثـامـا پھر لکھتا ہے: هو الشيطان بل لاشک انک هو الدجال من يتبعه هالک اذقه يا الهی عذاب مالک عن القرآن حقا قد تعامى الغرض اس طرح کی بے ہودہ سرائی اس نے کی اور احمدیوں کے دلوں کو نہ صرف دکھا یا بلکہ لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کانے کی کوشش کی.جب طبیب المجاہدین کا یہ اعلان مصر میں پہنچا تو ایک احمدی شاعر نے فی البدیہہ اس کا رد لکھا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے مفید ثابت ہوا.میں احباب کے تفنن طبع کیلئے اس کے بھی بعض اشعار لکھ دیتا ہوں.ببسم الله من خلق الاناما وحمد الله خالقنا دواما ونرسل من شريعته سهاما لمن امســي بشـر مستهـامـا سفيه العالمين بلا مراد قبيح الفعل مفتضح........خبيث النـفـس مـنكشف الغطاء لئيم قد غدا يغرى اللئاما أأنت هناك شيخ المسلمينا بربک ام سفيه العالمينا و جهلک یا طبیب الـجـاهلين يكاد اليوم يسقيك الحماما پھر ہمارے مبلغ کو مخاطب کر کے لکھتا ہے: جلال الدین انک فی علاء وارفع عن منازلة الهراء تضيئ الشمس في وسط السماء فينكـرهـا الغبي وقد تعامى
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس فيامن بالهدى والحق نادى فاسمع موته الصخرا لجماد عدوک قدهـوی یـا ســا و بادا وقلت بحكمة الله اعتصاما لك الـرحمــن خـلاق الوجود وليس له سوى جمر الحقودا فبشرى ان مجدک فی سعود ستعلونی كواكبها مقاما و کم لک من نداء او کتاب وما عند الاراذل من جواب سوی شتم تزايد او سباب وقد سقطوابها علما قعـامـا 226 اس طرح یہ لطیف قصیدہ تقریباً اسی اشعار کا چھپوا کر مصر سے بھیجا گیا جو کہ فلسطین کی تمام سوسائیٹیوں اور انجمنوں اور دوسرے افراد تک پہنچا دیا گیا.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کے بعد پھر ”سفیه المجاهدین “ کوسر اٹھانے کا موقعہ نہیں ملا.مخالفین نے ایک شخص مراد اصفہانی کو اس کام پر مقرر کیا کہ وہ مولوی جلال الدین صاحب کی فلسطین سے غیر حاضری کے زمانہ میں لوگوں کو احمدیت سے واپس لانے کی سعی کرے.ان لوگوں کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز کہا بیر گاؤں ہے جہاں کے بلند و بالا پہاڑ پر احمدیت کا جھنڈا اڑتا دیکھ کر ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگتا ہے.اصفہانی کی زیادہ تر توجہ موضع کہا بیر ہی کی طرف رہی.اس نے ارادہ کیا کہ وہاں جا کر کچھ عرصہ قیام کرے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے.چنانچہ 7 نومبر کے خط میں اخویم رشدی آفندی سیکرٹری انجمن احمدیت حیفا مراد اصفہانی کے کہا بیر جانے کے متعلق لکھتے ہیں : اصفهانی شیخ یونس کو لے کر کہا بیر میں گیا.وہاں انہوں نے شیخ صالح احمدی سے ایک کمرہ رہائش کے لئے مانگا جس پر ان کے درمیان حسب ذیل مکالمہ ہوا: شیخ صالح: کمرہ کس لئے چاہیے؟ شیخ یونس: ایک عالم فاضل کیلئے.شیخ صالح: ہمارے پاس کوئی کمر نہیں اور ہمیں کسی ایسے عالم کی ضرورت بھی نہیں ہم بفضل خدا دینی امور سے واقف ہو چکے ہیں.تم اپنے ہم عقیدہ لوگوں کو جا کر دین سکھاؤ قہوہ خانوں اور شراب خانوں کو بند کرا نیکی کوشش کرو.شیخ یونس: تم نے استاد جلال کو یہاں رکھا ہو اتھا اس عالم کو بھی یہاں رکھ لو.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 227 شیخ صالح: استادجلال ہمارا استاد ہے اور ہمارا سید و مولیٰ ہے اس سے ہم نے دین سیکھا.تمہارے عالم کو اس سے کیا نسبت.تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ.اس گفتگو کے بعد اصفہانی اور یونس واپس چلے گئے.طرابلس الشام میں نئی جماعت الفضل قادیان 5 فروری 1931ء) (حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ) عید الاضحی کے روز طرابلس الشام ( ٹریولی ) میں جماعت احمد یہ کے قائم ہونے کی خوشخبری ملی.گذشتہ سال علماء طرابلس نے میری کتابوں کے رد میں تین ٹریکٹ لکھے تھے جن کے جوابات اسی وقت شائع کر دیئے گئے تھے.اس کے بعد علمائے طرابلس تو بالکل خاموش ہو گئے مگر ہماری کتابیں اور ٹریکٹ وہاں تقسیم ہوتے رہے.کچھ مدت سے برادرم مصطفیٰ آفندی نو یلاتی دمشقی جو مخلص احمدی ہیں طرابلس میں کام کرتے ہیں.ان کے ذریعہ مندرجہ ذیل تین اشخاص سلسلہ میں داخل ہوئے.خالد محمد معاوی- عبدالرحمن زعا نیلی.سید علی حیدر.خادمحمد جمعاوی نے اپنے مکتوب میں جو اس نے حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا ہے نہایت مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا ہے.سید علی حیدر شیعہ فرقہ سے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے اور ان کے ذریعہ دوسروں کو قبولیت حق کی توفیق عطا فرمائے.انہوں نے لکھا ہے ہم دوسروں کو بھی تبلیغ کر رہے ہیں.محمد سعیدی النشار الحمیدی طرابلسی اسی طرابلس کا ایک عالم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت قادیان میں آکر سلسلہ میں داخل ہوا تھا جن کا نام محمد سعیدی النشار الحمیدی تھا.حضور نے ان کا ذکر اپنی کتاب نور الحق حصہ اول اور کرامات الصادقین میں کیا ہے.نوٹ : یہ وہی بزرگ ہیں جن کا ذکر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے ضمیمہ انجام آتھم میں اپنے 313 صحابہ کرام کی فہرست میں محمد سعید صاحب شامی طرابلسی نمبر 55 میں تحریر فرمایا ہے.مؤلف.] عید کے روز تین اشخاص اور اس سے پہلے ایک شخص کہا بیر میں اور ایک شخص طیرا گاؤں سے اور ایک شخص حیفا سے سلسلہ میں داخل ہوئے.بعض اوقات ایک دو دوستوں کو دوسرے دیہاتوں میں بھی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 228 تبلیغ کیلئے روانہ کیا جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جدید گاؤں کا نمبر دار کہا بیر میں میری ملاقات کے لئے آیا اور دو روز قیام کیا.رخصت ہوتے ہوئے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کہنے لگے آپ یقین جانیں کہ یہ پہلا ہاتھ ہوگا جو آپ کی ہر طرح مدد کرے گا.یہ شخص امریکہ میں بھی آٹھ سال کے قریب رہ چکا ہے.میں اس کی باتوں سے اس نتیجہ پر پہونچا تھا کہ وہ احمدیت کی حقانیت کو دل سے قبول کر چکا ہے مگر وہ اس بات کی کوشش کرے گا کہ پہلے گاؤں والوں کو اپنے ساتھ ملائے.چنانچہ عید کے دوسرے روز جب برادرم شیخ صالح و برادرم شیخ سلیم کو ان کے گاؤں میں بھیجا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اس امر کیلئے خوب کوشش کر رہا ہے یہاں تک کہ ایک عکاوی شیخ جب ان کے گاؤں میں آیا اور لوگوں کو ہماری کتابیں نہ پڑھنے کی تلقین کرنے لگا تو اس کی اس سے خوب جھڑپ ہوئی.نئے ٹریکٹ دوٹریکٹ آٹھ آٹھ صفحات کے ایک ایک ہزار کی تعداد میں شائع کئے گئے ہیں.ایک تو برادرم منیر الحصنی نے لکھا ہے جس میں مسلمانوں کو احمدیت کی طرف دعوت دی ہے اور طرابلس الغرب کے مسلمانوں پر جو اطالوی لشکروں نے مظالم کئے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو تو جہ دلائی ہے کہ وہ اس آواز پر لبیک کہیں جو اس وقت خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پہنچائی ہے جسے قبول کرنے کے سوا ان عذابوں سے نجات پانا محال ہے.دوسرا ٹریکٹ میں نے مسیحیوں کیلئے لکھا ہے.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو تورات و انجیل سے مبرہن کیا گیا ہے.یٹریکٹ ان دیہاتوں میں جہاں مسیحی کثرت سے آباد ہیں تقسیم کیا جائے گا.برادرم عبدالحمید خورشید مصر سے تحریر کرتے ہیں.ان کا ایک از هری شیخ سے مسئلہ قضا و قدر اور وفات و حیات مسیح علیہ السلام پر مباحثہ ہوا.حاضری تیس کے قریب تھی.اکثر نے برادرم عبدالحمید کے پیش کردہ دلائل کی قوت کو تسلیم کیا اور بعض نے شیخ کو اس کی سخت گوئی پر ملامت بھی کی.وہ لکھتے ہیں اس روز مجھے اس قدر خوشی ہوئی جو پہلے کبھی نہ ہوئی تھی.الفضل قادیان 11 جون 1931ء) اکلوتے بھائی کا ذکر خیر حضرت مولانا شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں: 25 اگست 1930ء کو مکر می جناب ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کی طرف سے میرے اکلوتے بھائی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 229 بشیر احمد صاحب کی وفات حسرت آیات کی خبر بذریعہ تار ملی.بچپن سے لے کر اس وقت تک کے حالات یاد کر کے چشم پر آب ہو گیا.ایسے وقت میں قلبی کیفیت کا اظہار آنکھ ہی کرتی ہے.احمدی احباب یہ خبر سنکر افسردہ ہوئے.بھائی مرحوم مجھ سے تقریباً تین سال بڑے تھے.آپ نے مدرسہ احمدیہ کی دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی پھر والد صاحب کے ساتھ گھر کے کاروبار میں مشغول ہوگئے اور اس وقت تک ان کے پاس ہی تھے.انکی وجہ سے میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی طرف سے بالکل مطمئن البال تھا.مرحوم سادہ طبیعت ، شرمیلے، خوش خلق اور مجھ سے نہایت محبت و احترام سے پیش آیا کرتے تھے آخری دو سال آپ نے بیماری اور صحت میں گزارے.کبھی مرض سے افاقہ ہو جاتا اور کبھی مرض عود کر آتا آخر ۲۳ اگست کو تقریباً تینتیس چونتیس سال کی عمر میں اس دار فانی کو الوداع کہہ کر عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما گئے.انا لله وانا اليه راجعون.آپ نے چار بچے چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں خادم دین بنائے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں مقام عطاء فرمائے.اللهم اغفر له وادخله الجنة واكرم نزله - اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.جس کو میں جانتا ہوں اُس کو طاعون نہیں ہوئی اور جو مجھے جانتا ہے اُسے بھی طاعون نہیں ہوئی ایک بات جو سلسلہ سے تعلق رکھتی ہے عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں وہ یہ کہ طاعون کے ایام میں مرحوم بیمار ہو گئے.خیال کیا گیا کہ طاعون ہے.کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک یہ خبر پہنچا دی.جمعہ کے دن والد صاحب نے بیماری کی کیفیت کو بیان کیا اور کہا کہ اب بچہ کو آرام ہے تو حضور نے فرمایا کہ اس کا نام طاعون نہیں ہے اس کو ددھ (ایک بیماری) کہتے ہیں نیز فرمایا کہ جس کو میں جانتا ہوں اُس کو طاعون نہیں ہوئی اور جو مجھے جانتا ہے اُسے بھی طاعون نہیں ہوئی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھائی کو جلد صحت عطا فرمائی.جس وقت مجھے تار ملا اس کے نصف گھنٹہ بعد قاضی اور مشائخ مع چالیس اوباشوں کے حیفا سے کبابیر گاؤں میں پہنچ گئے اور شور مچایا کہ ہم مباحثہ کیلئے آئے ہیں.میں نے دل میں کہا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے میں بھی اس وقت میدان حرب میں ہوں اس وقت مجھے سب ہموم و غموم کو چھوڑ کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے.احمدی احباب نے اگر چہ گفتگو سے روکا اس ڈر سے کہ کہیں فساد نہ ہو جائے لیکن میں نے کہا اگر میں ان کے سامنے نہ گیا تو کہیں گے کہ بھاگ گئے اس لئے ہم ان سے گفتگو کیلئے گئے.پہلے قاضی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 230 سے گفتگو شروع ہوئی پھر اس کے بعد دوسرے شیخ سے جو مصر سے بلایا گیا تھا مگر وہ عصبی المزاج، تیز طبیعت دوسرے کی بات ہی نہ سنتا تھا.آخر میں نے اس کو کہا تم جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہو بیان کرلو پھر میں اس کا جواب دونگا.تقریباً آدھ گھنٹہ تک مہدی و دجال و حیات عیسی علیہ السلام کے متعلق روایات خرافیہ بیان کرتا رہا جب میری باری آئی تو پھر نہ سنے کہنے لگا جو کچھ تم بیان کرو گے وہ سب مردود ہے.میں نے کہا پھر تم یہاں آئے کس لئے ہو؟ دنیا میں کونسا عقلمند ہے جو دوسرے کی بات سننے سے قبل ہی حکم لگائے.تم احقاق حق کے لئے نہیں آئے.احمدی احباب اس سے سخت برافروختہ ہوئے اور مجھ سے کہا کہ ہمیں ایسے لوگوں سے مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے.مگر حاضرین کے کہنے پر تین چار دفعہ میں نے تقریر شروع کی لیکن وہ سننے کیلئے تیار نہ ہوئے.آخر احمدیوں نے مجھ سے سخت اصرار کیا کہ اب آپ ان لوگوں سے خطاب ہی نہ کریں اس پر گفتگو ختم ہوگئی.نتیجہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا رہا کیونکہ مشائخ نے سارا زور اس بات پر لگایا کہ میں تقریر نہ کروں جس سے وہ سمجھ گئے کہ حق ہمارے پاس ہے ورنہ وہ بھی ہماری تقریر ویسے ہی سنتے جیسے ہم نے خاموشی سے ان کی تقریر سنی.آخر خائب و خاسر جیسے آئے ویسے ہی واپس گئے.پریزیڈنٹ و سیکرٹری جماعت احمدیہ مصر و مولوی محمد نواز صاحب کی طرف سے خطوط آئے ہیں جس میں انہوں نے مجھے مصر جانے کیلئے تحریر کیا ہے.اس لئے میں 31 اگست 1930ء کو مصر جا رہا ہوں.احباب سے دعا کے لئے عاجزانہ درخواست ہے.عربی ممالک میں تبلیغ ، ایک جائزہ والسلام خاکسار جلال الدین شمس احمدی.حیفا فلسطین (الفضل قادیان 27 ستمبر 1930ء) محرم السيد منير الصنی امیر جماعت احمد یہ دمشق کے مشاہدات ) ذیل کا مضمون مکرم سید منیر الحصنی صاحب مرحوم نے عربی زبان میں لکھا تھا جس کا اردو ترجمہ مکرم مولا نا عبد الاحد صاحب فاضل نے کیا.اس مضمون میں دمشق میں تاریخ احمدیت کے بارہ میں آپ کے مشاہدات شامل ہیں جس میں بزرگان سلسلہ خصوصاً حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت مولانا شمس صاحب ، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور دیگر احباب جماعت کی خدمات سلسلہ کا ذکر
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 231 ہے.یہ مضمون عربی ممالک میں احمدیت کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے.اس مضمون کے بعض حصص پیش کئے جارہے ہیں.آپ تحریر کرتے ہیں : جن دنوں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوستان میں احیاء اسلام کیلئے کوشاں اور ہندوستان کے رہنے والوں کو علی الاعلان دعوتِ اسلام دینے میں مشغول تھے انہی ایام میں حضور نے اسلام کی تائید میں اپنی جلیل القدر مطبوعہ کتب ممالک بیرون ہند میں بھی ارسال فرمائیں.آپ نے ہندوستان سے باہر کے دور ونزدیک تمام ممالک میں اپنی تالیفات جو دلائل و براہین سے مملو ہیں اور جن سے صداقت اسلام روز روشن کی طرح چمک اٹھی بھیجیں.جن ممالک میں حضور کی کتب پہنچیں ن میں بلاد عرب بھی شامل ہیں.حضور نے اپنی کتب میں حج قاطعہ سے ان تمام تحریکات کارڈ فرمایا جو اس زمانہ میں اسلام کے خلاف اٹھ رہی تھیں بالخصوص عیسائیت کا جس نے تمام اسلامی ممالک میں فتنہ وفساد پیدا کر رکھا تھا اور جس کے مقابلہ سے عرب کلیۂ لا پرواہ ہو کر گہری نیند میں مدہوش خراٹے بھر رہے تھے.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ عرب ممالک میں مذہبی آزادی مفقود تھی.میری مراد مذہبی آزادی کے فقدان سے یہ نہیں کہ وہاں شعائر اسلامی اور مراسم دینی کی بجا آوری کی ممانعت تھی بلکہ مراد یہ ہے کہ ترکی حکومت کے ماتحت کسی شخص کو تبلیغ کرنیکی اجازت نہ تھی یعنی نہ کوئی غیر مسلم عیسائی وغیرہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرسکتا تھا اور نہ اسلامی اقلیت والے فرقے جیسے شیعہ اہلحدیث وغیرہ اپنے اعتقادات و خیالات کی اشاعت کر سکتے تھے.حکومت ترکیہ کے ماتحت سب سے بڑا اسلامی فرقہ جس کی ملک میں اکثریت تھی سنی مسلمانوں کا تھا اور ترکی حکومت اسی فرقہ کے مسلمانوں کی حکومت تھی اس کیلئے بہت آسان تھا کہ وہ اشاعتِ اسلام کی کوشش کرتی اور اس کیلئے مبلغ تیار کرتی لیکن افسوس کہ اس نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی.اس کے علاوہ بھی عرب ممالک میں دعوتِ اسلام کیلئے کوئی تبلیغی جماعت نہ تھی اور نہ انہیں اس امر کا کوئی حقیقی احساس ہی تھا کہ اسلام ان دنوں کن مصائب و آفات میں گھرا ہوا ہے.ہاں بہت سے برائے نام دینی مدارس ضرور موجود تھے جن میں درسی کتب بطور تقلید تو بے شک پڑھائی جاتی تھیں مگر متعلمین کو حقائق و معارف اسلام اور اس کے احکام کی حکمتوں سے بالکل بے خبر رکھا جاتا تھا.یور بین اقوام نے اس موقع کو غنیمت جان کر بہت سے عیسائی مشن بلا دعر بیہ میں بھیج دیئے اور انہوں نے ان مشنوں کا تانتا باندھ دیا.لیکن چونکہ ایسے مشن علی الاعلان عیسائیت کی تبلیغ نہ کر سکتے تھے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 232 اس لئے انہوں نے مدارس ، ہسپتال اور مطب جاری کر دیئے اور ان کی آڑ میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کے سکول آج سے دس برس پہلے تک بالکل مغربیت کے رنگ میں رنگین ہو چکے تھے حالانکہ اس سے پچاس سال قبل کسی یورپین کو اتنی اجازت بھی نہ تھی کہ وہ اپنی ہیٹ سر پر رکھ کر دمشق کے بازاروں سے گزر سکے.ان یورپین مدارس کا اثر اتنا وسیع ہوا کہ مسلمان طالبات بکثرت یورپین لباس میں ملبوس نظر آنے لگیں اور اکثر نے پردے کو خیر باد کہہ کر نہایت ہی گھناؤنی صورت میں یورپین لیڈیوں کی تقلید اختیار کر لی.یورپین مدارس کی تعداد کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیروت کالج کے پرنسپل نے جب دمشق پر فرانسیسی انقلاب آیا تو اپنے ایک لیکچر میں فخریہ بیان کیا کہ آج سے پچاس سال پہلے بیروت میں صرف ایک عیسائی سکول تھا لیکن اب شام و لبنان میں تقریباً ایک سو عیسائیت سکول ہیں.بلاد عربیہ کے مشہور ترین مدارس جو عیسائیوں نے قائم کئے ان میں سے ممتاز مدارس بالخصوص مصر و شام میں امریکنوں اور فرانسیسیوں کے ہیں.عیسائیوں نے سارے اسلامی ممالک میں سکولوں اور ہسپتالوں کے ذریعہ اپنے مذہبی اثر کو اتنا وسیع کیا کہ اگر کسی عرب باشندہ کے سامنے تبلیغ اور مبلغ کا نام لیا جا تا تو وہ اس سے صرف عیسائیت کی تبلیغ اور عیسائیت کا مشنری سمجھتا.تبلیغ اسلام اور مبلغ اسلام کے نام سے عرب دنیا قطعی نا آشنا تھی اور اس حقیقت سے انہیں محض سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت نے روشناس کیا، کہ تبلیغ سے مراد صرف عیسائیت ہی کی تبلیغ نہیں بلکہ تبلیغ اسلام بھی موجود ہے اور مبلغ سے محض عیسائیت مشنری ہی مراد نہیں بلکہ مبلغ اسلام بھی موجود ہیں.....سب سے پہلا تحریری مناظرہ سب سے پہلا تحریری مناظرہ جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس اور امریکن پادری ریورنڈ الفرڈ نلسن صاحب کے درمیان میری کوششوں سے دمشق میں ہوا.موضوع مناظرہ یہ تھا کہ مسیح ناصری کی وفات جیسا کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے صلیب پر نہیں ہوئی.میرے قبول احمدیت کا سب سے بڑا سبب یہی مناظرہ تھا کیونکہ میں نے دیکھا کہ احمدی مبلغ کے دلائل و براہین لا جواب تھے.مسیحی مناظر سے ان کا کوئی جواب نہ بن پڑا اور عزت و غلبہ اسلام نصف النہار کی طرح ظاہر ہو گیا.عیسائی پادری اور مولانا شمس میں مناظرہ سے پہلے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اختتام مناظرہ پر ساری روئداد مناظرہ فریقین کے خرچ پر
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 233 طبع کرائی جائے گی لیکن جب مناظرہ ہو چکا تو وہ اپنے اس عہد سے پھر گیا اور مناظرہ کو طبع کرانے پر رضامند نہ ہوا.اس مناظرہ کے چند سال بعد میں نے اسے احمدی رسالہ البشری میں جو عربی زبان میں جبل الكرمل سے شائع ہوتا ہے کئی قسطوں میں شائع کیا.نیز اسے کتابی صورت میں اعــــــــــــب الاعاجيب فى نفى الاناجيل لموت المسيح علی الصلیب“ کے نام سے شائع کیا.اس مناظرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ قبول احمدیت کیلئے کھول دیا اور مجھے مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا.اس کے کچھ عرصہ بعد میں موسمی تعطیلات گزارنے کیلئے دمشق سے کچھ فاصلے پر بلودان نامی ایک پہاڑی گاؤں میں گیا.وہاں کے پادری سحم الذہبیہ نامی سے ملنے کا اتفاق ہوا.وہاں کے قیام کے دوران میں اس پادری سے کئی مباحثات ہوئے جن کے نتیجہ میں آخر کا را سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی اور اس نے یہ کہہ کر مجھ سے اپنا پیچھا چھڑایا کہ گو میں آپ کے دلائل و براہین کا جواب نہیں دے سکتا لیکن مصر میں ایک بڑے پادری صاحب ہیں وہ آپ کے تمام اعتراضات کا جواب دیں گے.رساله البرهان الصريح في ابطال الوهية المسيح میں نے مولانا شمس صاحب کو جو ان دنوں مصر میں تھے لکھا کہ وہ اس پادری سے مل کر تبادلہ خیالات فرمائیں لیکن مصر کے تمام پادریوں نے الوہیت مسیح وغیرہ میں سے کسی موضوع پر بھی شمس صاحب سے مناظرہ نہ کیا، اور کوئی بھی مقابلہ پر نہ آیا.شمس صاحب نے بڑی تحدی سے ایک رسالہ البــــر هـــــان الصريح في ابطال الوهية المسیح لکھ کر تمام پادریوں کو چیلنج کیا کہ اس کار دیکھیں ، مگر کسی کو اسکا جواب دینے اور چیلنج قبول کر نیکی ہمت نہ ہوئی.اس کے بعد شمس صاحب مصر سے واپس دمشق تشریف لے آئے.پھر کچھ عرصہ بعد بحیثیت مبلغ آپ دوبارہ مصر تشریف لے گئے.مجھے بھی آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا.مصر پہنچنے پر ہم نے دیکھا کہ بعض امریکی مشن بعض خاص دنوں میں علی الاعلان مسیحیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور مصر کے علماء باوجود کثرت کے کوئی بھی ان کی تردید کیلئے نہیں آتا اور وہ لگا تار اسلام اور بانی اسلام کے خلاف مسلمان نو جوانوں میں زہر پھیلا رہے ہیں.اس پر خاکسار اور شمس صاحب ایک مشن ہاؤس میں گئے.وہاں ہم نے دیکھا کہ ایک مسیحی عرب شیخ کامل منصور نامی صداقت انا جیل پر لیکچر دے رہا ہے اور یہ کہ رہا ہے کہ دیکھو انا جیل کی اشاعت کسی جنگ و جدال کی مرہونِ منت نہیں بلکہ وہ اپنی روحانی قوت سے اکناف عالم میں پھیلیں.لیکچر کے اختتام
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 234 پر میں نے اس سے کہا کہ صداقت انا جیل پر شمس صاحب سے پہلک مناظرہ کر لوتا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ کیا واقعہ موجودہ اناجیل الہامی اور خدا کی طرف سے ہیں؟ اس پر اس نے فوراً میری دعوت قبول کر لی اور خیال کیا کہ خوب شکار ہاتھ آیا.اس نے ہماری دعوت پر بہت خوشی کا اظہار کیا کیونکہ اسے خیال تھا کہ اس کے دلائل لا جواب ہیں لیکن مناظرہ شروع ہونے پر جب اسے اپنے دلائل کا بودا پن معلوم ہوا اور لوگوں پر اس کے خلاف برا اثر پڑنے لگا تو اس نے ہم سے درخواست کی کہ بقیہ بحث کسی آئندہ روز پر ملتوی کر دی جائے.لیکن جب دوسری مرتبہ مناظرہ شروع ہوا تو پہلی دفعہ سے بھی زیادہ اس کی سبکی ہوئی اور دلائل و براہین اسلامی نے اس کے چھکے چھڑا دیئے اور اسے ایسا مبہوت کیا کہ اس نے دوبارہ درخواست کی کہ بقیہ مناظرہ آئندہ پر ملتوی کیا جائے.ہم نے منظور کر لیا لیکن تیسری مرتبہ جب ہم آئے تو بجائے مناظرہ کرنیکے اس نے کہا کہ شمس صاحب احمدی مناظر ہیں اور مسلمان احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اس لئے وہ احمدی مناظر سے بحث کرنے کیلئے تیار نہیں.مولانا جلال الدین شمس صاحب نے فرمایا کہ تم عیسائیت کے وکیل ہو اور میں اسلام کی طرف سے مدافعت کرتا ہوں.جب میں نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ آیا تمہیں باقی عیسائی فرقے عیسائی قرار دیتے ہیں یا نہیں تو پھر تمہیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ مجھ پر یہ اعتراض کرو.اس کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں کہ تم مناظرہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور اسلامی دلائل سے عاجز آکر اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے ہو لیکن اس طرح غیرت دلانے کے باوجود بھی اسے مناظرہ جاری رکھنے کی ہمت نہ ہوئی.مسلمان حاضرین نے پر جوش تالیوں سے عیسائیت پادری کی شکست اور اسلامی مبلغ کی فتح کا اعلان کیا اور کئی منٹ تک اپنی تالیوں سے میدان مناظرہ کو گرمائے رکھا.مصر میں قیام جماعت اس کے بعد شمس صاحب نے اس موضوع پر ایک پمفلٹ بنام تـحـقـيـق الاديان“ شائع کیا جس میں ثابت کیا کہ موجودہ اناجیل وحی الہی نہیں ہیں اور عیسائیوں کو چیلنج کیا کہ اگر ان میں ہمت ہے تو اس کا جواب لکھیں لیکن تمام پادریوں نے ایسی خاموشی اختیار کی گویا یہ رسالہ ان کے لئے ایک صاعقہ تھی جس نے سب پر موت طاری کر دی.اسی اثناء میں مصری عیسائیوں کی مجلس اعلیٰ کے ایک رکن سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ رسالہ جس کے کل ہیں صفحات ہیں، اس کے جواب پر غور کرنے کیلئے مجلس اعلیٰ کی عنقریب ایک میٹنگ منعقد ہونے والی ہے.بعد میں معلوم ہوا کہ جب یہ معاملہ مجلس میں پیش
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 235 ہو ا تو سوائے خاموشی کے ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا.ان مناظرات کی مصر میں بڑی شہرت ہوئی اور اس سے مصر میں جماعت احمدیہ کا با قاعدہ قیام عمل میں آیا.سب سے پہلا مصری جسے قبول احمدیت کا شرف حاصل ہوا، وہ اخی فی اللہ عبد الحمید خورشید ہیں.ان کے بعد احمد علمی صاحب احمدی ہوئے.یہ دونوں صاحبان زیارت قادیان دارالامان سے مشرف اور سید نا حضرت امیر المومنین اصلح الموعود اور صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات سے بہرہ اندوز ہو چکے ہیں اور سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کے روضئہ مبارک کو بچشم خود دیکھ چکے ہیں.مولانا ابوالعطاء صاحب مبلغ اسلام کی قادیان سے بلاد عربیہ کے لئے تقرری کے بعد مولانا شمس صاحب انہیں چارج دے کر قادیان تشریف لے آئے..مذکورہ بالا مبلغین [ مولانا ابوالعطاء صاحب، مولانا محمد سلیم صاحب اور مولانامحمد شریف صاحب] کے ورود سے پہلے سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مکرم جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو دمشق بھیجا تھا.آپ نے وہاں کے قیام کے دوران میں ایک کتاب ” حياة المسيح و وفاتہ“ کے نام سے تحریر فرمائی.اس وقت آپ کے ساتھ شمس صاحب بھی تھے.اس کتاب کا اثر نہ صرف ان عیسائیوں پر پڑا جو وفات مسیح میں اپنے مذہب کی موت تصور کرتے تھے، بلکہ بڑے بڑے مسلمان علماء اور فلاسفروں پر بھی اس کا بہت بڑا اثر ہوا.چنانچہ مجھے مصر کے مشہور مفکر احمد زکی پاشا نے کئی مرتبہ کہا کہ میں خیال کرتا تھا احمد یوں میں کوئی مسلمان نہیں لیکن اب اس رسالہ کے مطالعہ کے بعد میرا یہ خیال ہے کہ وفات مسیح کے متعلق جو تحقیق احمدیوں نے کی ہے اور جس سے اسلام کی برتری ثابت ہوتی اور عیسائیت پر کاری ضرب لگتی ہے، یہ ایک امر ہی احمدیوں کی تمام اسلامی فرقوں پر فضیلت کے لئے کافی ہے.ان کے علاوہ ایک اور ممتاز شخصیت یعنی محسن بک البرازی نے جو حکومت سوریا کے سابق وزیر اور اب سوریا کے القصر الجمہوری کے معتمد اول ہیں، اس علمی تحقیق سے متاثر ہو کر مجھے کہا، کہ افسوس! اگر میرے دنیوی مشاغل مانع نہ ہوتے تو سب سے بہترین کام اور سب سے معزز پیشہ جس کے اختیار کرنے پر میں فخر کرتا یہاں تبلیغ اسلام کا تھا جسے احمدی حضرات سر انجام دے رہے ہیں..دمشق اور فلسطین میں شمس صاحب نے بھی کئی کتابیں اور پمفلٹ مشائخ و علماء کے غلط عقائد کی تردید میں لکھے جن میں سے بڑی بڑی کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں.میزان الاقوال، توضیح المرام، دليل المسلمين، جـوهـر الكلام، الفوز المبين، كشف اللثام، الحق ابلج والباطل
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 236 لجلج ، ان کے علاوہ تردید بہائیت پر آپ نے ایک کتاب تنویر الالباب اور صداقت احمدیت پر نداء عام کے نام سے لکھی.ان کتابوں اور رسالوں کا یہ اثر ہوا کہ مخالف مولوی پسپا ہو گئے اور ان کی معقول تردید سے عاجز آگئے.مجھے دمشق کے بعض مشہور علماء نے کہا کہ بلا ریب احمدیت آسمانی تحریک ہے، یہ ضرور ان علاقوں میں پھیلے گی اور غلبہ پائے گی اور بعض نے کہا کہ احمدیت ایک اہم تحریک ہے اس کے متعلق تحقیق ضروری ہے.شمس صاحب نے اپنی کتاب ”میزان الاقوال میں تمام علماء ومشائخ کو چیلنج کیا کہ اگر ان میں ہمت ہے تو اس کا رڈ لکھیں.اس کتاب میں بیس سے زائد سوالات نزول مسیح اور ظہور دجال کے متعلق تھے.آپ نے مولویوں سے مطالبہ کیا کہ ان کے معتقدات کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم اور احادیث میں تناقض لازم آتا ہے نیز خود ان کے بعض عقائد بعض سے ٹکراتے ہیں کیونکہ وہ ظاہری الفاظ سے تمسک کرتے ، اور حقیقی معنوں کی طرف توجہ نہیں کرتے.اس کا جواب انہوں نے وہی دیا جو ہمیشہ مخالفین حق راستبازوں کو دیا کرتے ہیں یعنی بجائے دلائل کا مقابلہ دلائل ہی سے کرنے کے انہوں نے شمس صاحب کے قتل کی سازش کی، اور رات کی تاریکی میں ان پر خنجر سے حملہ کر کے انہیں سخت زخمی کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے آپ کو سلامت رکھا اور اس مہلک زخم سے صحت عطا فرمائی تا آپ ہمارے امام المصلح الموعود کے جھنڈے تلے خدمت واحیاء اسلام کے لئے کوشاں رہیں.ہمارے مقابلہ کے لئے فلسطین کی مجلس اعلیٰ اسلامیہ نے ایک خاص مبلغ شیخ مراد اصفہانی مقرر کیا.اس مبلغ کی اپنی عملی حالت یہ تھی کہ یورپین لباس میں ملبوس اور ڈاڑھی منڈاتا ہے.اس کے بارہ میں شمس صاحب نے مجھے لکھا کہ میں فلسطین جا کر اسے ملوں.چنانچہ میں فلسطین گیا اور اُس سے ملا.کہا بیر میں میرا اور اس کا مناظرہ ہو ا جس میں اُسے ایسی ہزیمت اٹھانی پڑی کہ وہ گاؤں ترک کرنے پر مجبور ہو گیا.پھر مجھ سے اس نے درخواست کی کہ میں اس سے دوبارہ حیفا میں جمعیتہ شبان المسلمین کے رو برو مناظرہ کروں.میں نے اس کی دعوت قبول کی ، اور جمعیۃ شبان المسلمین کے ہال میں بھی اُس سے مناظرہ کیا.اس مناظرہ میں بہت سے ممتاز لوگ شریک ہوئے.جمعیتہ کے سیکرٹری صاحب جو ایک ممتاز وکیل ہیں وہ بھی موجود تھے.اس مناظرہ میں بھی خدا کے فضل سے اُسے شکست فاش نصیب ہوئی.میں نے خود حاضرین مناظرہ کو مناظرہ کے بعد باہم ایک دوسرے سے یہ کہتے سنا کہ واقعی احمدیت حق ہے.اس مناظرہ سے فلسطین میں غیر احمدی علماء کے مقابلہ میں بھی احمدیت کے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 237 عقائد کا غلبہ ظاہر ہو گیا حتی کہ اسلامی مجلس اعلیٰ کے ایک ممتاز رکن نے کہا کہ احمدیت واقعی سچی ہے اور احمدی خادم اسلام ہیں.اس کے بعد اسلامی مجلس اعلیٰ نے سرکاری طور پر تسلیم کیا کہ احمدی مسلمان ہیں اور اس کی اطلاع محکمہ شرعیہ حیفا کو دی ، تا کہ احمدیوں کے نکاح میں کوئی روک پیدا نہ ہو.فلسطین میں ہماری جماعت نے بہائیت کا مقابلہ بھی کیا.مولانا شمس صاحب، مولانا ابوالعطاء صاحب، مولانا محمد سلیم صاحب اور مولانامحمد شریف صاحب سب مبلغین اسلام نے بہائیوں کے زعیم شوقی آفندی سے ملاقاتی کیں، اور ان کے نمائندوں سے مناظرات بھی کئے.شوقی صاحب خود تو ہمیشہ مختلف حیلوں بہانوں سے احمدیوں سے بحث کرنے کو ٹالتے ہی رہے لیکن ان کے علماء سے مختلف مواقع پر تبادلۂ خیالات ہو جاتا رہا.پہلی مرتبہ جب حیفا میں شوقی صاحب سے شمس صاحب کی ملاقات ہوئی ، تو اس نے شمس صاحب سے عربی زبان میں گفتگو کی.اس کے چند ماہ بعد میں شمس صاحب کی معیت میں حیفا گیا اور شوقی صاحب سے حدیقہ بہائیہ میں ملاقات کی لیکن جب عربی میں گفتگو شروع ہوئی تو انہوں نے عذر کیا کہ وہ عربی میں گفتگو نہیں کر سکتے ، انگریزی میں بول سکتے ہیں.وہاں سے فارغ ہونے پر شمس صاحب نے مجھے کہا کہ شوقی صاحب نے کیسی غلط بیانی سے کام لیا ہے.وہ مجھ سے حیفا میں عربی زبان میں گفتگو کر چکے ہیں.علاوہ ازیں آپ علہ اور حیفا میں عربوں میں ہی پہلے اور جوان ہوئے مگر عربی سے ناواقفیت کا عذر کیا.بہائیوں کے زعیم کی یہ خلاف بیانی ہمارے لئے بڑے تعجب کا موجب ہوئی.اس کے بعد ہمیں دوسرے بہائیوں کے متعلق بھی یہ تجربہ ہوا کہ وہ عموماً جھوٹ سے کام لیتے ہیں.ایک مرتبہ حیفا میں میری ایک بہائی گھڑی ساز سے ملاقات ہوئی.دورانِ گفتگو میں پہلے تو اس نے اپنے بہائی ہونے سے انکار کیا، اور تقیہ کے لباس میں احمدیت پر اعتراضات کرتے ہوئے اس نے اپنے ارد گرد کے دکانداروں کو بھی بلا لیا، تا کسی طرح میرے خلاف شرارت پیدا کرے، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد معلوم ہو گیا کہ وہ بہائی ہے.چنانچہ میرے اصرار سے دریافت کرنے پر آخر اُسے اپنی بہائیت کا اقرار کرنا پڑا.میں نے حاضرین سے کہا دیکھئے ! یہ کیسا جھوٹا شخص ہے ابھی اس نے کہا تھا کہ وہ بہائی نہیں ہے لیکن اسی مجلس میں اپنی بہائیت کا اقرار کر نے پر مجبور ہو گیا ہے.اس پر حاضرین نے اسے بہت شرمندہ کیا.از ہر یونیورسٹی کی سیادت الشیخ مصطفے مراغی مرحوم کی طرف منتقل ہونے کے بعد اخبار الا زہر نے نہ صرف احمدیت کے خلاف لکھنا بند کر دیا بلکہ اس کے برعکس اس میں علماء از ہر کا فتویٰ شائع ہوا کہ
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 238 مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں.اس فتویٰ کے شائع ہونے کا سبب یہ ہوا کہ برادرم عبدالکریم صاحب احمدی برطانوی فوج میں ملازمت کے سلسلہ میں مصر تشریف لے گئے.انہوں نے ایک فتویٰ شیخ الا زہر سے وفات مسیح کے متعلق دریافت فرمایا.شیخ الازہر محمود شلتوت صاحب نے قرآن مجید کی آیات اور احادیث سے استدلال کرتے ہوئے وفات مسیح کا عقیدہ اخبار الرسالۃ“ اور ” الازھر“ میں شائع کرایا اور ساتھ ہی لکھا کہ یہی عقیدہ شیخ الازہر مصطفے المرافی اور شیخ رشید رضا اور مفتی محمد عبدہ کا تھا.اب مصر کے ترقی یافتہ طبقہ میں احمدیت کے مخصوص عقائد جیسے وفات مسیح ، قرآن کریم میں کوئی منسوخ آیت نہیں ، اور جہاد مشروط بشرائط ہے، مقبول ہو چکے ہیں.صرف مسئلہ نبوت میں بعض اکابر کو اختلاف ہے لیکن اگر انہوں نے تحقیق جاری رکھی تو امید کی جاتی ہے کہ جیسے مذکورہ بالا عقائد میں انہوں نے احمدیت کا مسلک قبول کر لیا ہے، اسی طرح انشاء اللہ اس مسئلہ میں بھی احمدی نقطہ نگاہ سے متفق ہو جائیں گے.وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللهِ عَزِيز.ریویو آف ریلیجنز اردو، جنوری 1947 ء صفحات 37-54) شمس الشرق حضرت مولانا شمس صاحب کی بلا دعر بیہ سے واپسی 30 ستمبر 1931ء کو قریباً سات سال بعد بلاد عربیہ میں خدمات عالیہ کی توفیق پا کر حضرت مولانا شمس صاحب براستہ مصر مرکز سلسلہ قادیان دارالامان کیلئے روانہ ہوئے اور اکتوبر میں قادیان دارالامان پہنچے.آپ کی جگہ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب نے مشن کا چارج لیا.آپ کے بارہ میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب تحریر کرتے ہیں: وو اللہ تعالیٰ کے فضل اور جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس کی مساعی جمیلہ سے ہر دو مقام پر اچھی جماعت قائم ہو چکی ہے.میں 8 ستمبر 1931ء کو احباب سے ملا.سب دوستوں نے (الفضل قادیان 15 اکتوبر 1931ء) نہایت محبت اور خلوص کا اظہار فرمایا.ہلا دعر بیہ میں تبلیغ احمدیت اور حضرت مولانا شمس صاحب ( حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری) مولانا جلال الدین صاحب شمس کے والد ماجد کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بخشی کہ وہ اوائل زمانہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ย 239 سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور صحبت کا شرف حاصل کیا.انہوں نے اپنے بیٹے کو خدمت دین کے لئے وقف کر دیا.پاک زمانہ تھا، اعلیٰ ترین مصاحبت نصیب ہوئی.اللہ تعالیٰ نے حضرت میاں امام الدین سیکھوائی کے فرزند کو نوازا.1919ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.کچھ عرصہ مبلغین کلاس میں حضرت حافظ روشن علی صاحب سے تعلیم حاصل کی.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی 1924ء میں سفر یورپ سے واپسی پر بلاد عر بیہ میں با قاعدہ مشن جاری کرنے کا عزم لے کر آئے تھے.حضور کی نگاہ انتخاب مولانا شمس پر پڑی.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی معیت میں مولانا شمس صاحب کو دمشق بھجوایا گیا.تعارف کرانے کے بعد حضرت شاہ صاحب واپس آگئے اور مولانا شمس صاحب بلاد عریبہ میں باقاعدہ مشن کے انچارج مقرر ہوئے.مولانا شمس صاحب نے کم و بیش چھ برس بلاد عریبہ میں بسر کئے.شروع شروع میں آپ نے دمشق میں کام شروع کیا جس کے نیک نتائج نکلنے شروع ہو گئے.الاستاذ منیر الحصنی جو حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے پرانے شاگرد تھے ، مولانا شمس صاحب کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو گئے.مخالفت بڑھ گئی علماء کی اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں ایک جاہل نوجوان نے شمس صاحب پر خنجر سے حملہ کیا.زخم سخت خطر ناک تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچالیا.شام میں فرانسیسی انتداب تھا.فریج گورنمنٹ نے شمس صاحب کو شام سے چلے جانے کا حکم دیا.آپ نے بذریعہ تار حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے بغداد جانے کی اجازت طلب کی.حضور نے مولانا کو ہدایت فرمائی کہ آپ حیفا ( فلسطین) میں چلے جائیں.حیفا میں بھی علماء کی شورشیں بدستور تھیں مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے علماء کے مقابلہ کی توفیق بخشی.آپ نے جرات کے ساتھ اُن سے مباحثات کئے جس سے عوام پر اچھا اثر ہوا.مخالفت بھی بھڑ کی مگر احمدیت کا چرچا بھی گھر گھر ہونے لگا.ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے حیفا کے قریب عکا( فلسطین) میں فرقہ شاذلیہ کے رئیس شیخ ابراہیم کو کافی عرصہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی خط موصول ہو ا تھا.وہ صوفی مشرب انسان تھے انہوں نے اپنے مریدوں کو کہا تھا کہ یہ خط محفوظ رکھو تمہیں حیفا سے امام مہدی کا پیغام ملے گا.مولا نائٹس صاحب کے حیفا آنے پر جب احمدیت کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچی تو ان میں سے بہت سے نیک دل لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق مل گئی.حیفا پہنچتے ہی اللہ تعالیٰ نے مولانا شمس صاحب کو اچھے ساتھی اور مخلص رفیق عطا فرما دیئے اور احمد بیت کا پودا ان ممالک میں قائم ہو گیا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 240 علماء کی طرف سے فتووں کے علاوہ گاہے گاہے مخالفانہ پمفلٹ بھی شائع ہوتے تھے جن کے جواب میں مولانا شمس صاحب لکھتے ، چھپواتے اور شائع کرتے تھے.عیسائیوں سے بھی مقابلے جاری رہتے تھے.فلسطین کے علاوہ سال میں ایک آدھ مرتبہ مصر کا سفر بھی مولانا کو در پیش آتا تھا.وہاں بھی جماعت تھی.نئے احمدیوں کی پدرانہ شفقت کے ساتھ تربیت کرنا مبلغ کا اولین فرض ہے.مولا نا یہ فرض بھی باسلوب اور احسن ادا فرماتے رہے.ان لوگوں کی تعلیم کا بھی خیال رکھنا ضروری تھا.میں نے دیکھا ہے کہ بلاد عربیہ کے سب احمدی احباب مبلغ کو روحانی باپ اور خلیفتہ اسی کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور اس سے نہایت محبت سے پیش آتے ہیں.مولا ناش صاحب نے اگست 1931 ء تک بلاد عر بیہ میں کام کیا ہے اس وقت میں نے جا کر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم سے آپ سے چارج لیا تھا.میں یہ شہادت ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مولا نائٹس صاحب نے اپنے زمانہ میں بلاد عریبہ میں نہایت عمدہ کام کیا ہے.نہایت جانفشانی سے احمدیت کا پیغام پہنچایا ہے اور پوری تندہی سے مخالفین اسلام کا رد کیا ہے.آپ نے عیسائی پادریوں کے رد میں پمفلٹ بھی لکھے، ان سے مناظرات بھی کئے بہائیوں کی بھی تردید کی مخالف علماء کے اعتراضات کے جواب دیئے غرض آپ کا کام نہایت شاندار تھا.آپ نے بعد کے جانے والے مبلغین کیلئے نہایت عمدہ بنیاد قائم کر دی.آپ نے الکبابیر میں مسجد محمود کی بنیاد بھی رکھی تھی آپ فلسطین.سے واپسی کے وقت ایک مخلص اور فدائی جماعت کو چھوڑ کر آئے تھے.جزاہ اللہ عتنا احسن الجزاء.مجھے یاد ہے کہ میں نے اُن کی واپسی سے پہلے جب اُن سے مشورہ کیا کہ اپنا پریس قائم کر کے ماہوار عربی رسالہ جاری کر دیا جائے تو مولانا نے مالی دشواریوں کے باعث اسے مشکل قرار دیا تھا.مگر اُن کی تیار کردہ مخلص جماعت کا یہ حال تھا کہ جونہی ہم انہیں الوداع کہہ کر ریلوے سٹیشن سے دار التبلیغ میں جمع ہوئے اور میں نے احباب کے سامنے یہ تجویز رکھی تو سب نے فوراً لبیک کہا اور قربانی کے لئے تیار ہو گئے.چنانچہ پہلے سہ ماہی اور پھر ماہوار " البشری جاری ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے پریس لگانے کی بھی توفیق دی اور با قاعدہ مدرسہ احمدیہ قائم ہو گیا اور مسجدمحمود بھی مکمل ہو گئی.میں علی وجہ البصیرت جانتا ہوں کہ میرے زمانہ میں تبلیغ تعلیم اور تربیت کا جو کام آگے بڑھا اس میں مولانا مرحوم کا بہت حصہ تھا.انہوں نے پودے لگائے اور ہم نے پھل کھائے.اس لئے میں تو ہمیشہ اُن کیلئے دعا کرتا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور سلسلہ احمدیہ کو اُن
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 241 جیسے بلکہ اُن سے بڑھ کر دین کے مخلص خادم عطا فرماتا رہے آمین.بلا دعر بیہ میں مولانا کے اچھے اخلاص کا تذکرہ یہودی اور عیسائی بھی کرتے تھے.جس مکان میں مولا نائٹس صاحب 1931ء میں حیفا میں رہتے تھے وہ ایک عیسائی کا تھا.اس کے رشتہاروں میں ایک پادری بھی تھا.مولانا کے پاس رات دن تبلیغی چرچے رہتے تھے.احباب کی آمد ورفت رہتی تھی.نمازیں بھی اسی مکان میں ہوتی تھیں اسی مکان میں مولانا کے پڑوس میں ایک یہودی خاندان رہتا تھا.یہ سب مولانا کے اعلیٰ اخلاق کے مداح تھے اور ان سب سے مولانا کا سلوک بہت اچھا تھا.آپ اُن کو تبلیغ بھی کرتے تھے.جب میں فلسطین پہنچا ہوں تو پہلے ایک سال تک تو وہی مکان رہا پھر ہمیں ضرورت کے ماتحت دوسری جگہ ایک وسیع مکان کرایہ پر لینا پڑا.ہمارے مکان چھوڑنے پر پڑوسیوں نے اور مالک مکان عیسائی نے افسوس کا اظہار کیا.کتابوں اور ٹریکٹوں کی طباعت مولانا جن پریسوں میں کراتے تھے وہ سب بھی مولانا کے حسن معاملہ کے مداح تھے.کبابیر میں بڑی جماعت تھی، مولانا کو بسا اوقات ان کی تربیت کیلئے جانا پڑتا تھا.دوستوں نے ایک بالا خانہ مولانا شمس کے لئے مخصوص کر رکھا تھا اور آپ گھر کی طرح احباب کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے.کہا بیر کے بعض بڑے بوڑھے بھی مولانا سے مزاحیہ گفتگو کیا کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے.الحاج عبد القادر عودہ مرحوم جن کی عمر اس وقت نوے سال کے لگ بھگ تھی، ہر نماز میں ضرور آتے اور مولانا سے ضرور کوئی دل لگی کی بات کرتے.مسجد محمود گاؤں سے ذرا باہر بنائی گئی.مولانا اس کی تعمیر کی خود نگرانی کرتے تھے.مسجد تحمیل کی آخری منزلوں میں تھی کہ مولا نا شمس صاحب خاکسار کو چارج دے کر واپس تشریف لے آئے.مسجد محمود کے ساتھ میں نے چھوٹا سا دار التبلیغ بھی بنایا.وہاں پر باہر سے بھی دوست آتے اور اپنے احباب بھی بعد نماز و درس دار التبلیغ میں جمع ہو جاتے اور تعلیم و تربیت کی باتیں ہوتیں.محترم الحاج عبد القادر عوده مرحوم آخری دنوں تک نمازوں کے لئے مسجد میں آتے اور اپنی ظرافت سے ہمیں محظوظ کرتے رہے.غفر اللهُ لَهُ.عربی ممالک میں قرآن مجید کی صحیح تفسیر کے پیش کرنے کی بہت ضرورت ہے.پرانی تفسیروں کے قصوں سے نو تعلیم یافتہ لوگ بیزار ہیں.وہ اس بات کو باور کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف ختم ہو گئے ہیں.عقیدۂ وہ چاہتے ہیں کہ قرآن مجید کی صحیح تفسیر ان تک پہنچائی جائے.پادریوں کے اعتراضات کے جواب ان کو بتائے جائیں.مصر اور شام میں ہزاروں روحیں اس کی پیاسی ہیں.مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا علم دیا تھا.سیدنا مسیح موعود علیہ السلام
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 242 کے تفسیری حقائق اور معارف کو بیان کرنا آپ کا طریق کا رتھا.ان معارف کوسن کر ان ممالک کے تعلیم یافتہ لوگ عش عش کر اُٹھتے تھے.میں نے جب رسالہ البشری جاری کیا اس کے تفسیری حصہ سے بہت سے غیر احمدی نوجوانوں نے بھی خاص دلچسپی کا اظہار کیا تھا.مولا نائٹس کا درس قرآن اپنے اندر خاص رنگ رکھتا تھا.کہا بیر کے احمدی نو مبائعین مبلغین سلسلہ سے روزانہ نماز مغرب کے بعد تفسیر قرآن کریم سننے کے عاشق تھے اور یہ چاٹ ان لوگوں کو شروع میں مولا نائمس صاحب نے ہی لگائی تھی.فلسطین کے ابتد کی مبلغین کھانے وغیرہ کا انتظام خود کرتے تھے سالن خود پکا لیتے اور روٹی بازار سے پکی پکائی مل جاتی تھی.مولا نائٹس صاحب کا بھی یہی دستور تھا.مولانا کا طریق زندگی بہت سادہ تھا.ہر قسم کے تکلف سے آپ دُور تھے.جو میسر آتا تھا شکر سے تناول فرماتے تھے.مجھے فلسطین کے بعض دوستوں نے بتایا تھا کہ بعض اوقات کثرت کار کی وجہ سے مولا نا کھانا کھانا بھول جاتے تھے اور مسلسل کام کرتے رہتے تھے.کچھ عرصہ تنگی کے ایام بھی آئے تھے.فلسطین کے مخلصین مقدور بھر مولانا کی اور دوسرے مبلغین کی خدمت کرتے رہتے تھے.وہاں کا دستور ہے کہ گھر پر ہر آنے والے کو قہوہ ضرور پیش کیا جاتا جو شروع میں مبلغین خود ہی تیار کرتے تھے.وہاں آنے والے دوستوں کا بھی یہ طریق ہوتا تھا کہ وہ ملاقات کے لئے آتے ہوئے کوئی پھل وغیرہ بطور تحفہ لاتے تھے جو سب حاضرین مل کر کھاتے تھے.اس طرح سے اخوت اور موڈت بڑھتی تھی اور یہ چھوٹی سی پاکیزہ برادری ترقی کرتی رہتی تھی.کہا بیر کے احباب زمیندار ہیں ان کی انجیروں کے درخت بہت مزہ دیتے تھے.مسجد محمود کے قریب پہاڑی پر یہ درخت اپنی شہد سے بھری ہوئی سفید انجیروں کے ساتھ بہت بھلے معلوم ہوتے تھے اور کھانے کا بہت لطف ہوتا تھا.چارج دینے سے پہلے مولانا میری موجودگی میں جتنے دن حیفا و کہا بیر میں رہے خوب بے تکلفی رہی اور دعوتوں کا سلسلہ جاری رہا.کبھی کبھی انجیروں کے پودوں کے تلے بھی دعوت ہوتی تھی.مولانا کی الوداعی پارٹی میں احباب جماعت کے علاوہ بعض مسیحی اور یہودی بھی شامل ہوئے تھے.انہوں نے بھی تاثرات کا اظہار کیا تھا اور مولانا کو خراج تحسین ادا کیا تھا.خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مولانا شمس نے بلا د عر بیہ میں نہایت مستقیم بنیا دا شاعت اسلام اور تبلیغ احمدیت کی قائم کی ہے.جزاه الله احسن الجزاء ورفع درجاته في الجنّة العلياء.(ماہنامہ الفرقان.جنوری 1968ء)
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس تبلیغ احمدیت کے متعلق مفید تجربات 243 طلباء مدرسه و جامعہ احمدیہ سے خطاب 1932ء) حضرت مولانا شمس صاحب کی بلاد عر بیہ سے واپسی کے چند ماہ بعد 1932ء میں آپ کے اعزاز میں طلباء مدرسہ و جامعہ احمدیہ نے ایک ٹی پارٹی کا انتظام کیا.طلباء کے ایڈریس کے جواب میں آپ نے حسب ذیل خطاب کیا: سیدی ومولا کی حضرت خلیفہ مسیح اثنی ایده الله بصرہ العزیز برادران طلباء جامع اور مدرسه احمدیہ نے جن جذبات و احساسات کا اپنے ایڈریس اور نظموں میں اظہار کیا ہے میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور دوسرے تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ میری اور مولوی اللہ دتا صاحب کی ترقیات روحانی کیلئے جو میری جگہ مشن کا کام چلا رہے ہیں، درد دل سے دعا فرمائی جائے.میرے بھائیوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے سامنے اپنے تبلیغی تجربات کا اظہار کروں کیونکہ خدا کے فضل سے وہ بھی مبلغ بننے والے ہیں.خلافت سے وابستگی سو میں جو کچھ حاصل کر سکا ہوں اس کے ماتحت کہہ سکتا ہوں کہ تبلیغی لحاظ سے ہر ایک مبلغ کو یہ امر اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اسے کسی قسم کی کامیابی نہیں ہوسکتی جب تک اس کا خلیفہ وقت سے تعلق نہ ہو.خلافت کا وجود جو جماعت کی ترقی کیلئے نہایت ضروری چیز ہے اور اس سے وابستگی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک درخت کی بہت سی شاخیں ہوتی ہیں ان کا تعلق درخت کی جڑ سے ہوتا ہے.تجربہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ کوئی شاخ اس وقت تک پھل پھول پیدا نہیں کر سکتی جب تک اس کا تعلق جڑ سے مضبوط نہ ہو.ہمیشہ وہی شاخ ترقی کرے گی جو اگر چہ معمولی غذا حاصل کرے مگر جڑ سے وابستہ رہے لیکن اگر ایک شاخ کو درخت سے کاٹ کر سمندر کے پانی میں پھینک دیا جائے تو وہ بھی ترقی نہیں کر سکتی بلکہ گل جائے گی کیونکہ اس کا تعلق جڑ سے منقطع ہو گیا.پس اس طرح جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ جماعت سے علیحدہ ہوکر یا خلافت سے منقطع ہو کر بھی وہ ترقی کر سکتا ہے اسے یادرکھنا چاہیئے اس طرح اس کیلئے ترقی کرنا بالکل ناممکن ہے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ خلافت کی برکات ہی ہیں جن کے ماتحت ایک جماعت نہایت آسانی کے ساتھ ترقی کر سکتی ہے.ہمیں جو کچھ وہاں ( بلاد عر بیہ میں ) کامیابی حاصل ہوئی وہ در اصل اسی وابستگی کا نتیجہ ہے.مجھے پر اس کا اظہار جوخلیفہ کا جماعت سے ہوتا ہے اس واقعہ سے خاص طور پر ہو اجب میں زخمی ہوا اور حکومت دمشق نے مجھے وہاں سے نکل جانے کا حکم دیدیا.اس وقت مجھے 48 گھنٹے کا نوٹس ملا تھا اگر چہ بعد میں دس دن کی میعاد بڑھادی گئی.جب میں وہاں سے آنے لگا تو تمام دوست جمع ہوئے اور میں انہیں نصائح کرنے لگا.اس وقت مجھ پر ایک ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں زیادہ بول نہ سکا.یہاں تک کہ بقیہ لکھی ہوئی نصائح میں نے منیر الحصنی آفندی کو دیں اور انہوں نے پڑھ کر سنا ئیں.اس وقت میں نے انہیں کہا.ان مثلى و مثلكم هذا الموقف الوهيب كمثل ام رؤم لها صبية صغار تحبهم من صميم فؤادها فاجبرت فجأة للانفصال عنهم.یعنی میری اور تمہاری مثال اس وقت ایک نہایت ہی شفیق ماں کی سی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے مگر اسے جبر اعلیحدہ کر دیا گیا.244 میری اس جدائی کا ان پر بھی اثر تھا اور میں نے دیکھا کہ ان پر رقت طاری ہوگئی.اس وقت مجھے پر ظاہر ہوا کہ جب میں جو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک ادنیٰ خادم ہوں ان لوگوں سے جو میرے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوئے اس قدر محبت رکھتا ہوں تو خلیفہ کو اپنی جماعت سے کس قدرمحبت ہوگی.پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خدام سے جس قدر محبت رکھتے ہیں اس کی مثال بھی میں نے دیکھ لی جب میرے زخمی ہونے کا یہاں تار آیا تو نہایت شفقت اور محبت سے میرے لئے دعائیں کی گئیں..پھر مبلغ کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہرامر میں خلیفہ وقت سے مشورہ لے مجھے دمشق سے نکلتے وقت 48 گھنٹے کی مہلت ملی تھی.اس وقت میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بذریعہ تار دریافت کیا کہ میں اب کہاں جاؤں عراق یا فلسطین کو.آپ نے فرمایا حیفا چلے جاؤ.اس وقت میرا رجحان عراق کی طرف جانے کا تھا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 245 منشا تھا کہ فلسطین میں میرے ذریعہ احمدیہ جماعتیں قائم ہوں اس لئے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے مجھے وہاں جانے کا ارشاد فرمایا.غرض ہر اہم معاملات میں حضرت اقدس سے مشورہ لینا ضروری ہے.پھر مبلغ کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ اپنا کام کرتا چلا جائے اللہ تعالیٰ خود بخو دلوگوں کو ہدایت کی طرف کھینچ لاتا ہے.الفضل قادیان 28 جنوری 1932ء) حضرت مولانا موصوف جو حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے ساتھ بغرض تبلیغ 27 جون 1925ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور 17 جولائی 1925ء کو دمشق پہنچے اور قریباً سات سال کے عرصہ کے بعد اکتوبر 1931ء میں وہاں سے کامیاب و کامران واپس قادیان تشریف لائے.آتے ہی سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو کشمیریوں کی خدمات پر مامورفرما دیا.DOO
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ساتواں باب کشمیر کمیٹی میں خدمات 246
حیات ٹمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کشمیریوں کیلئے خدمات 247 برصغیر کا سب سے دیرینہ اور اہم مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے.جماعت احمدیہ نے بیسیویں صدی میں عمومی طور پر اور 1930ء کے عشرہ میں خصوصاً کشمیریوں کی آزادی اور کشمیر کمیٹی کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں.تاریخ احمدیت جلد پنجم ایڈیشن 2003ء میں خدام احمدیت کی کشمیریوں کیلئے خدمات کے موضوع پر 300 سے زائد صفحات پر مشتمل اہم دستاویزات و مواد پیش کیا گیا ہے.حضرت مولانا شمس صاحب جب بلاد عر بیہ سے واپس ہندوستان میں تشریف لائے تو آپ کو سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ نے کشمیر کیٹی کی خدمات پر مامورفرما دیا.آپ 1936 ء تک کشمیر یوں کی آزادی کیلئے جدو جہد کرتے رہے اور خلیفہ اسیح کی طرف سے جو خدمت سپرد ہوئی اسے بجالاتے رہے.اس کے بعد 1936ء میں ہی آپ کا انگلستان کیلئے تقرر ہوگیا.آپ نے اس عرصہ میں کشمیر اور کشمیر کمیٹی کیلئے اپنی قالی، حالی، لسانی عملی اور انتظامی خدمات پیش کیں اور حضور کی زیر ہدایت کئی اہم امور سرانجام دیئے.کشمیر اور کشمیریوں کی حمایت کیلئے بہت سی اطلاعات اور اعلانات آپ کی طرف سے شائع ہوئے.کشمیر کی خدمات پر مامور خدام احمدیت کی عدالتی سرگرمیوں اور ان کی کشمیریوں کے حقوق کیلئے دیگر سرگرمیوں کی رپورٹیں بھی آپ کی طرف سے اخبارات و جرائد کی زینت بنیں.اس عرصہ کی آپ کی بعض کا وشوں کی نہایت مختصر جھلک پیش خدمت ہے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے کشمیر کے کام کی سپردگی 1932ء سے 1936 ء تک مولانا صاحب نے کشمیریوں کی حمایت میں کئی مضامین لکھے.کئی اعلانات
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 248 شائع کروائے.کئی لیڈروں کو خلیفہ امسیح کی زیر ہدایات خطوط ارسال کئے، کئی مقامات کا دورہ کیا اور بعض مقامات پر جلسوں میں بھی شامل ہوئے.آپ کی ان خدمات کا دائرہ چار سال پر محیط ہے.اکتوبر 1931ء میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب جب شام سے تشریف لائے تو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کے سپر د کشمیر کا کام کر دیا.اس سلسلہ میں سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک شخص جو چھ سال کا لمبا عرصہ اپنے وطن سے دور سمند پار رہا ہو وہ امید کر سکتا ہے کہ واپسی پر اسے اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے اور آرام کرنے کا موقع دیا جائے گا مگر یہ مردوں اور عورتوں کیلئے تعجب کی بات ہوگی کہ مولوی صاحب جب سے آئے ہیں گل صرف چند گھنٹے کیلئے اپنے وطن گئے کیونکہ آتے ہی انہیں کام پر لگا دیا گیا ہے.“ الفضل قادیان 14 فروری 1932ء) لجنہ اماءاللہ قادیان کی طرف سے چندہ لجنہ اماءاللہ قادیان کی طرف سے بتاریخ 20 اپریل 1932 ء آل انڈیا کشمیری کمیٹی کو 37 روپے 2 آنے اور ایک نقرئی ہار و انگشتری چندہ میں کشمیر کے مظلوم و بے کس یتیموں اور بیواؤں کی امداد کے لئے ملے اور سیکرٹری صاحبہ نے وعدہ فرمایا کہ وہ اس غرض کیلئے مستورات سے اور بھی چندہ جمع کر کے بھجوائیں گی.چنانچہ اس وعدہ کے مطابق 21 اپریل 1932ء کو سیکرٹری صاحبہ نے 42 روپے 12 آنے 6 پائی کی رقم خواتین سے چندہ جمع کر کے بھجوائی.جس کے لئے ہم اپنی ان محترم بہنوں کا عموماً اور سیکرٹری صاحبہ کا خصوصاً بصد خلوص شکر یہ ادا کرتے ہیں اور دوسری مسلمان بہنوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی اس کارخیر میں حصہ لیں اور ان مظلوم بیواؤں اور بے کس یتیموں کے لئے جن کے خاوند اور باپ آزادی کی پُر امن جنگ میں جدو جہد کرتے ہوئے اپنی عزیز جانیں قربان کر چکے ہیں چندہ کر کے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نام یا مسلم بنک آف انڈیا لا ہور میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے حساب میں بھجوائیں.خاکسار شمس کا شمیری اسٹنٹ سیکرٹری کشمیر کمیٹی.(الفضل قادیان 2 اپریل 1932ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 249 ریاست کشمیر میں سیاسی قیدیوں پر تشدد قابل توجہ کرنل کا لون وزیر اعظم کشمیر ہمارے پاس ایک عرصہ سے اس قسم کی متعدد شکایات پہنچ رہی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں حکام جیل سیاسی قیدیوں کے ساتھ نہایت ظالمانہ اور انسانیت سوز سلوک کر رہے ہیں.اس کی کئی ایک مثالیں پہلے بھی ہم بیان کر چکے ہیں.نہایت معزز قیدیوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جاتا ہے جو عام اخلاقی قیدیوں کے لئے بھی مہذب حکومتیں پسند نہ کریں گی حالانکہ ان میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو کہ اعلی تعلیم یافتہ معزز اور نہایت اعلے گھرانوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ان سے اس طرح پر کام لیا جاتا ہے جس طرح کہ اخلاقی قیدیوں سے.غذا کے متعلق بھی قیدیوں کو شکایت ہے کہ ان کو نہایت ذلیل اور مضر صحت غذا دی جاتی ہے.ان کی صحت اور ان کے احساسات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور ان کے ساتھ متشددانہ اور بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے.سرینگر کی پبلک کی طرف سے صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نام تار موصول ہوا ہے کہ وہاں کا سپر نٹنڈنٹ جیل سیاسی قیدیوں کے ساتھ محض اس وجہ سے نازیبا اور سختی کا سلوک کر رہا ہے کہ انہوں نے اس کے اور دوسرے افسران جیل کے تکلیف دہ رویہ کے خلاف بطور احتجاج بھوک ہڑتال کیوں کر رکھی ہے.سپرنٹنڈنٹ جیل جو چاہتا ہے کرتا ہے.لطف یہ ہے کہ افسران بالا بھی اس کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کارروائی ان کے ایماء پر ہو رہی ہے.ٹھا کر کرتار سنگھ کی ہندو نوازی اور مسلم آزاری کو مد نظر رکھتے ہوئے اس امر پر یقین کرنا کہ جو کچھ ہو رہا ہے سب اس کے ایماء سے ہو رہا ہے بعید از قیاس نہیں ہے.پس ہم مسٹر کالون وزیر اعظم کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتے ہوئے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ایسے افسران کو جلد سے جلد تبدیل کر دیں کیونکہ ان کا وجو دریاست کے لئے کسی طرح بھی مفید نہیں ہوسکتا.اگر یہی صورت کچھ عرصہ قائم رہی تو ہمیں اندیشہ ہے کہ بجائے امن قائم ہونے کے رعایا میں بے چینی بڑھ جائے گی.ہم تمام مسلمانان ہند سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں.ایڈیڈ ان جرائد اسلامیہ کو بھی چاہیئے کہ وہ ان مظالم کے متعلق احتجاجی مقالات خاکسار شمس کاشمیری اسٹنٹ سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی.لکھیں.الفضل قادیان 24 اپریل 1932 ء )
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 250 کشمیر کے مصیبت زدہ مسلمانوں کو قانونی امداد سے محروم کیا جارہا ہے اس عنوان کے تحت حضرت شمس کا شمیری برائے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے ایک مضمون لکھا جس میں اہل کشمیر کے مظلومین کی امداد کیلئے اپیل کی گئی.(دیکھئے افضل قادیان مورخہ 6 مارچ1932ء) آل انڈیا کشمیری کمیٹی کے ایک معزز کارکن کا کشمیر سے اخراج حضرت شمس کا شمیری برائے سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی لکھتے ہیں : ریاست کشمیر میں جو شورش اور بدامنی پیدا ہو رہی ہے اس کی حقیقی وجہ وہ نا انصافی ہے جو اس وقت تک ریاست نے مسلمانوں سے روا رکھی ہے.تا حال نہ صرف اُن کے نہایت معقول اور ابتدائی انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے مطالبات پورے نہیں کئے گئے اور طرح طرح کے بہانوں سے انہیں معرض التواء میں ڈالا جارہا ہے بلکہ اس سلسلہ میں بے حد تشدد بھی جاری ہے اور ادنی ادنی با توں بلکہ بعض اوقات بالکل بے بنیاد باتوں پر مسلمانوں کو سنگین سزائیں دی جاتی ہیں لیکن دوسری طرف ریاست کے ہندو اور سکھ جو چاہیں کریں انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں.آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے شروع دن سے ہی اپنے محترم صدر اور ممبران کے ذریعہ اس امر کی کوشش کی ہے کہ ریاست کا امن مخدوش نہ ہو اور بغیر کسی قسم کی شورش اور فساد کے مسلمانوں کو انکے جائز حقوق مل جائیں.چنانچہ اس وقت بھی جبکہ ریاست انتہائی سفا کی اور وحشت سے کام لیتے ہوئے علاقہ راجوری اور میر پور وغیرہ میں مسلمانوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں.یہ اسی کمیٹی کے کارکنوں کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ علاقہ کشمیر میں جسے کشمیر وادی کہنا چاہیئے.کسی قسم کی بدامنی پیدا نہ ہوئی حتی کہ مسلمانانِ کشمیر کے مسلمہ اور معتدل خیال لیڈر شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے حکومت کشمیر کو یہ یقین بھی دلا دیا کہ وہاں سول نافرمانی شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں.یہ دراصل اس جدو جہد کا اثر تھا جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے کارکن قیام امن کیلئے وہاں کر رہے تھے.صوبہ جموں میں بھی جہاں کے حالات نزاکت اختیار کر چکے ہیں اور مسلمانوں کیلئے صبر و برداشت سے کام لینا ناممکن کر دیا گیا ہے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے معزز ارکان اب بھی اس کوشش میں مشغول ہیں کہ جس طرح بھی ہو امن قائم ہو جائے لیکن ریاست کی بے تدبیری اور کوتاہ اندیشی اور مخفی چالبازیوں کا یہ عالم ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے قیام امن کی کوششوں میں بھی روڑے اٹکا رہی ہے اور اس کے کارکنوں کے ساتھ نہایت افسوسناک سلوک کر رہی ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 251 چنانچہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ایک کارکن صوفی عبد القدیر صاحب بی.اے.سابق مبلغ اسلام لنڈن کو کشمیر گورنمنٹ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر حدود ریاست سے نکل جائیں.اس کے مقابلہ میں ہندو مہاسبھا کے وہ ایجنٹ بے حد مبالغہ آمیز اور اشتعال انگیز خبروں کی اشاعت کر کے فتنہ وفساد کی آگ کو ہوا دینے میں شب و روز مصروف ہیں کھلے بندوں وہاں دندناتے پھرتے ہیں.اپنے جلسے کرتے ہیں اور ارکان حکومت سے ملاقاتیں کرتے ہیں حالانکہ عارضی طور پر اس علاقہ میں جانے والوں اور حالات کا سرسری مطالعہ کرنے والوں پر بھی یہ امر روشن ہے کہ یہ سب شرارت انہی فتنہ پردازوں کی ہے.چنانچہ موقر معاصر سیٹسمین.سٹیٹسمین کے ایک غیر جانبدار انگریز نامہ نگار نے 4 فروری 1932ء کی اشاعت میں اس امر کا صاف طور پر ذکر کیا ہے کہ ہندومہاسبھا کے کارندے بے بنیاد خبریں ارسال کر کے برطانوی ہند میں اشتعال پیدا کر رہے ہیں.ایسی صورت میں ریاست کشمیر کی بدقسمتی پر کسے افسوس نہ ہو گا جو امن پسند اور آئینی جدو جہد کرنے والوں سے تو دشمنوں والا سلوک کر رہی ہے لیکن فتنہ انگیزوں کو ملک میں آگ لگانے کے لئے اس نے کھلا چھوڑ رکھا ہے بلکہ ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے.اس موقعہ پر یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ابھی تک مجلس احرار کے کارندے بھی علاقہ جموں وکشمیر میں بلا روک ٹوک آزادی کے ساتھ جو چاہتے ہیں کر رہے ہیں اور ریاست کے حکام کی طرف سے ان سے کوئی تعرض نہیں ہوتا حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ احراریوں کی پالیسی آل انڈ یا کشمیر کمیٹی کی پالیسی کی نسبت نہ صرف بہت زیادہ سخت بلکہ کئی لحاظ سے غیر آئینی بھی ہے.ہم نے باوجود احرار سے بہت اختلافات رکھنے اور ان کے طریق کے اسلامی مفاد کے خلاف ہونے کے کبھی ان سے الجھنا پسند نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کو اُن کے حال پر چھوڑے رکھا ہے اور اب تک بھی ہمارا یہی مسلک ہے لیکن حکام ریاست کا احراری کارکنوں سے تو کسی قسم کا تعرض نہ کرنا اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے کارکنوں کو اخراج کا حکم دے دینا اس بات کو یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکام ریاست احرار کے کام کو بالواسطہ طور پر اپنے مطلب کے پاتے ہیں کیونکہ وہ اس کی آڑ میں نہ صرف غریب مسلمانوں کو مظالم کا نشانہ بنا سکتے ہیں بلکہ اس معاملہ میں ہم احرار کی نیت پر کوئی حملہ نہیں کرتے مگر ریاست کی بدنیتی ظاہر ہے.الفضل قادیان 9 فروری 1932 ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 252 آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مساعی کا نتیجہ بیرونی پلیڈروں کو پیش ہونے کی اجازت مل گئی حضرت شمس کا شمیری برائے سیکرٹری آل انڈ یا کشمیر کمیٹی تحریر کرتے ہیں : ابھی تک ریاست جموں و کشمیر کے قانون کے مطابق بیرونی پلیڈروں کو ریاست کی عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت نہ تھی جس کی وجہ سے ریاست کے مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا تھا.آل انڈیا کشمیر کمیٹی ایک عرصہ سے یہ کوشش کر رہی تھی کہ اس میں ترمیم ہو جائے اور بیرونی پلیڈروں کو بھی مقدمات کی پیروی کی اجازت مل جائے تاکہ ان مظلوم و بے کس مسلمانوں کی جو مقدمات میں مبتلا ہیں باہر سے قانون دان اصحاب بھیج کر قانونی امداد کی جا سکے کیونکہ ریاست کے اندر کافی تعداد میں قابل مسلمان وکلا کا میسر آنا سخت مشکل ہے.کمیٹی کی بار بار کوششوں کے نتیجہ میں اب ریاست نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ بیرونی پلیڈر بھی مقدمات میں پیش ہو سکتے ہیں.اس امر کی اطلاع با قاعدہ طور پر ہمارے پاس پہنچ چکی ہے.ہم مسٹر و لال چیف جسٹس اور کرنل کا لون پرائم منسٹر جموں وکشمیر کے ممنون ہیں جنہوں نے اس امر میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی درخواست پر ہمدردانہ توجہ کی اور مہاراجہ بہادر سے اس امر کی منظوری دینے کے لئے سفارش کی.(الفضل قادیان29 فروری1932ء) اسیران کشمیر کی قانونی امداد حضرت مولانا شمس صاحب کی طرف سے کشمیریوں کی معاونت کے لئے مختلف مقدمات کے سلسلہ میں کشمیر کمیٹی کی کاوشوں کی رپورٹس جماعتی اخبارات میں شائع ہوتی رہیں جن میں اسیران کشمیر کشمیر یوں کے حقوق کیلئے قانونی امداد کا ذکر کیا جاتارہا اور سرکردہ افراد کو کشمیریوں کیلئے خدمات پیش کرنے کی تلقین کی جاتی رہی.سیکرٹری کشمیر کمیٹی کی طرف سے یہ رپورٹس الفضل قادیان کے 1932ء میں خصوصاً جون تا ستمبر کے شمارہ جات میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں.اس سلسلہ کی ایک تفصیلی رپورٹ الفضل 14 جون 1932ء کے پر چہ میں بھی شائع ہوئی.کشمیر یوں کیلئے حضرت مولانا شمس صاحب کی خدمات از مکرم خواجہ عبدالغفار ڈار، سابق مدیر اصلاح سرینگر ) راقم الحروف کو 1928ء میں قادیان کے مدرسہ احمدیہ میں بطور طالب علم جانے کی توفیق ملی اور
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 253 1938ء میں جامعہ احمدیہ سے فراغت کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الثانی الصلح الموعود اسیران کشمیر کے رستگار کے ارشاد گرامی کے تحت اپنے ملک میں خدمت کا موقع ملا.مجھے حضرت شمس صاحب مرحوم کے سلسلہ میں اپنی ذاتی معلومات کا اس جگہ ذکر کرنا ہے ان کی بھر پور زندگی کے حالات و واقعات احمد یہ لٹریچر میں جگہ جگہ تفصیلات کے ساتھ مذکور ہیں.شمس صاحب کا شمیری بھی کہلاتے تھے مگر بہت کم اس لیے کہ وہ ایک مخلص احمدی خاندان میں پیدا ہوئے تھے.بے شک وہ کشمیری تھے مگر قدرتی طور پر احمدیت کی چھاپ ان کی زندگی پر غالب تھی.میں نے انہیں اپنے طالب علمی کے ہی دور میں زیادہ دیکھا ہے.ان کے والد بزرگوار جو حضرت مسیح موعود کے صحابہ میں سے تھے مجھے ان کی بھی زیارت حاصل ہے.مجھے متعدد مرتبہ ان کے مولد گاؤں قادیان کے قریب ہی سیکھواں جانے کا موقع ملا.قادیان میں ذکر حبیب کے نام سے مسجد اقصیٰ میں ایک دور میں حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب کے اہتمام و انصرام کے تحت تقاریب منعقد ہوتی تھیں.میں نے حضرت شمس صاحب کے والد گرامی سے بھی خود ایک بار ذکر حبیب سنا ہے.ان کی شکل وصورت ان کا قد وقامت صاف ستھرا تھا.دیہاتی لباس بھی یاد ہے مگر افسوس کوئی روایت براہ راست سنی ہوئی مجھے یاد نہیں.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس کشمیری خاندان کے بزرگ دو سو سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل 1800ء میں جس گاؤں سے ہجرت کر کے قادیان کے قرب و جوار میں آکر آباد ہوئے تھے وہ گاؤں میرے اپنے معروف احمدی گاؤں موضع آسنور تحصیل کو لگام ضلع اسلام آباد کے قریب ہی ہے.اس گاؤں کا نام بالحجہ ہالن ہے جو ہمارے گاؤں موجودہ نام آستور سے تقریباً بیس میل کی مسافت پر واقع ہے.یہ گاؤں محل وقوع کے لحاظ سے دامن کوہ میں واقع ہے.اس جگہ ایک بلند و بالا پہاڑ ہے جس کا نام مہ بال ہے یہ گاؤں بھی میرا دیکھا بھالا ہے.تاریخ کشمیر کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے معلوم ہے کہ جب تحریک آزادی کے سرخیل سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر بنے تو اسی روز بطور سیکرٹری مولانا عبدالرحیم صاحب در دایم اے کا انتخاب عمل میں آیا تھا مگر جب کام بڑھ گیا تو قادیان میں اس دفتر کے انچارج مولا نائٹس صاحب مرحوم کا تقرر بلا عربیہ سے واپسی پر ہوا اور اس طرح آپ کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں اسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.اس زمانہ کے بعض اخباری بیانات میں ”سٹس کاشمیری کے نام سے آپ کو یاد کیا جا تا تھا مگر آپ کو میری دانست میں کبھی اپنے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 254 آبائی مالوف وطن سرینگر جانے کا کوئی موقع نہیں ملا البتہ ان کے عم زاد بھائی مرحوم قمر الدین صاحب ایک سے زیادہ مرتبہ کشمیر گئے.ڈوگرہ دور میں جب ایک انتہائی قحط سالی کشمیر میں برپا ہوئی تھی یہ 1800ء کا زمانہ تھا.اسی زمانہ کی یہ بات ہے کہ کشمیر سے بالخصوص وادی کشمیر کے قحط زدہ لوگ کثیر تعداد میں ہجرت کر کے ہندوستان کے مختلف شہروں میں آکر آباد ہوئے تھے.چونکہ پنجاب کا ملک قریب تھا اس وجہ سے پنجاب کے مختلف شہروں ،قصبوں اور دیہات میں ان لوگوں نے بسیرا کیا.کشمیری قوم محنت و مشقت کی خوگر قوم ہے بہت جلد اس انبوہ کشمیر نے جس طرح بھی بن پڑا اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے.بعض لوگوں کو جگہ جگہ اپنا کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش تلاش کرنے کے سلسلہ میں در در کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑیں آخر سارے ہی سنبھل گئے.علامہ اقبال کی طرح نامور اور آسودہ حال بنے.شمس صاحب مرحوم کے خاندان کا اتہ پتہ معین طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد ہی معلوم اور معروف ہے اور وہ اس طرح کہ قادیان کے قریب ہی یہ گاؤں سیکھواں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور ہے جہاں اس خاندان کے سر براہ حضرت میاں محمد صدیق صاحب کو حضور کے ابتدائی زمانہ میں ہی آپ کی رفاقت نصیب میں آئی.آپ اس گاؤں کے سرکردہ اور معززشخص تسلیم کئے جاتے تھے.مقامی مسلمان، ہندو اور سکھ بھی اپنے باہمی تنازعات کے تصفیہ اور فیصلہ کے لئے انہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے.مرحوم اپنے گاؤں میں ہی دفن ہیں.آپ کی اولاد میں تین فرزندوں کو بھی خدا تعالیٰ نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق عطا فرمائی.ان میں سے ایک بزرگ میاں امام الدین کہلاتے تھے.پنجاب میں کسی گاؤں یا بستی میں جو شخص صالح اور صاحب کردار اور با اثر اور عبادت گزار ہو جاتا تھا عام طور پر لوگوں میں اسے میاں جی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا.یہی میاں امام الدین صاحب حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے والد بزرگوار تھے.جنہوں نے شمس صاحب مرحوم کو بڑے بڑے جلسوں، مناظروں اور معرکوں میں سنا ہے اور جوان کا انداز تکلم تھاوہ جانتے اور مانتے ہیں کہ اگر حضرت خالد بن ولید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے شمشیر بر ان تھے تو شمس صاحب مرحوم بھی حضرت مصلح موعود کے ہاتھ میں ایک تیغ یزداں تھے.ان کا کلام مخالف سلسلہ کو بے بس اور لاجواب کر دیا کرتا تھا.اسی وجہ سے انہیں خالد احمدیت کے لقب
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 255 سے یاد کیا جاتا ہے.اس خصوصیت کی وجہ سے اگر چہ وہ بظاہر پینسٹھ سال کی عمر میں اس دار فانی سے چلے گئے ہیں مگر احمدی دنیا کی تاریخ میں زندہ جاوید ہیں.آپ کی زندگی کا دوسرا پہلو تحریک حریت کشمیر کی مستند کتاب ”کشمیر کی کہانی“ کے مصنف اپنی اس کتاب کے صفحہ 134 پر ایک جلی عنوان ” مولانا شمس دے کر لکھتے ہیں: مولانا جلال الدین شمس جن کے آباؤ اجداد کسی زمانہ میں کشمیر سے پنجاب آئے تھے کئی سال ہندوستان سے باہر بلا دعربیہ میں رہنے کے بعد دسمبر 31ء میں واپس آئے تو صدر محترم کشمیر کمیٹی نے ان کی واپسی کے دوسرے دن ہی ان کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا نائب سیکرٹری مقرر کر کے ان کے سپر د خصوصی پراپیگنڈا کا کام کر دیا.جب کوئی شخص سالہا سال کے بعد اپنے عزیز واقارب کے پاس آتا ہے تو لازماً اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان سے ملاقاتیں کرے کچھ دن آرام کرے اپنے اہل وعیال کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت بیٹھے اپنے دوستوں سے ملے لیکن صدر کو اللہ تعالیٰ ایسے کارکن دیتا رہا جو قومی کاموں کو ذاتی مفاد پر ہمیشہ مقدم کرتے.چنانچہ شمس صاحب محترم نے بھی اس موقع پر نہایت اخلاص اور قربانی کا مظاہرہ کیا اور اپنی آمد کے بعد دوسرے ہی دن سے پوری تن دہی سے کام کرنا شروع کر دیا.کشمیر کہانی ، آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی عظیم کار کردگی کی ایک مستند دستاویز ہے.اس کتاب کے صفحہ 228 پر ان تمام وکلاء کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے ڈوگرہ دور کے اس زمانہ کی ظالمانہ کارروائیوں کو طشت از بام کیا اور عدالتوں میں چیلنج کیا.ریاست جموں و کشمیر کی اُس وقت کی مختلف مقامات میں قائم کٹھ پتلی عدالتوں میں مسلمانان کشمیر کے خلاف مقدمات کا ایک طو مار بر پا کیا گیا تھا.اس زمانہ کی روئیداد کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف کا ایک تاریخی حوالہ ملاحظہ کیجئے کہ مولا نائٹس صاحب مرحوم نه صرف دفتری کام کی سرانجام دہی میں ہمہ تن کام کرتے تھے بلکہ لکھا ہے کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ایک معزز رکن بھی تھے.چنانچہ لکھا ہے: ” مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم اے سیکریٹری آل انڈیا کشمیر کمیٹی قریباً دو سال تک نہایت شاندار خدمات سرانجام دینے کے بعد 2 فروری 32 ء کو انگلستان تشریف لے گئے.اس سے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 256 قبل یکم فروری 32 ء کو لاہور کے مقام پر سیسل ہوٹل میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ایک فوری اجلاس محترم صدر مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا.اس اجلاس میں سید حسن شاہ ایڈووکیٹ ، ملک برکت علی ایڈووکیٹ لاہور، پروفیسر محمد علم الدین سالک، مولانا غلام رسول مہر ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ، شیخ ارشاد علی ایڈووکیٹ ، مولانا اسماعیل غزنوی ، مولانا غلام رسول مہر، سید زین العابدین ولی اللہ شاہ، خان بہادر سید مقبول شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین شمس اور ڈاکٹر محمد عبد الحق بھی شریک ہوئے.“ اس حوالہ سے واضح ہے کہ مولانا جلال الدین شمس صاحب کشمیر کمیٹی کے مشاہیر کے سنگ سنگ بطور ممبر کشمیر کمیٹی کے شامل اجلاس ہوتے رہے.اسی کتاب کے صفحہ 230 پر وکلاء کی شاندار خدمات کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں : و" ان سب وکلاء کے اخراجات سفر، خرج و ڈاک کا انتظام کشمیر کمیٹی کرتی تھی جو محترم صدر صاحب کے ذمہ تھا اور مولانا جلال الدین شمس جو کمیٹی کے ممبر اور اسسٹنٹ سیکرٹری تھے اور جن کے سپر د وکلاء سے رابطہ رکھنے کا فریضہ تھا بہ طریق احسن اپنے فرض منصبی کو سرانجام دیتے رہے.“ یہ رہا مولانا جلال الدین شمس صاحب مرحوم کا تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ رابطہ اور عمل دخل مگر اتنے اہم عمل دخل کے باوجود شمس صاحب مرحوم کا کسی وقت لگے ہاتھوں کشمیر کی سیر کرنے کا کوئی حوالہ مجھے نہیں ملا البتہ میرا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشمیر تشریف نہیں لے گئے البتہ ایک بار حضور کا جموں تک کا ایک سفر ضرور ہوا ہے اسی طرح ایک اور تاریخی کتاب مصنفہ مولانا اسد اللہ کا شمیری میں لکھا ہے کہ جموں کی جماعت خلیفہ نور الدین صاحب مرحوم کی مستعدی کی وجہ سے زیادہ فعال رہی ہے.مسلمانان جموں کے سر کردہ لوگ ، بینگ میز ایسوسی ایشن اور انجمن ہائے اسلامیہ جموں کا جماعت احمدیہ قادیان کے علماء کو اپنے پاس مدعو کر نے کا عام طور پر یہ سبب تھا کہ وہ معاندین اسلام کے نرغے میں رہتے تھے اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کا بھر پور دفاع جماعت احمدیہ کے سوا اور کسی کے نصیب میں نہیں تھا.مرکز قادیان سے تین مواقع پر ہمارے علماء جموں تک ضرور جاتے رہے.ایک موقع پر جب آریہ سماج والوں نے اسلام دشمنی کا مظاہرہ زور وشور سے کیا تو جموں کے عام مسلمانوں نے قادیان سے ان کے مقابلہ کے لیے علماء منگوائے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 257 پھر جب متحدہ ہندوستان کے زمانہ میں شدھی کی تحریک چلی.اسی طرح جب تمام ہندوستان میں مذاہب عالم میں رواداری اور صلح اور باہمی امن و آشتی قائم کرنے کیلئے سیرت النبی کے جلسوں کا قادیان سے اہتمام ہوا تو اس وقت بھی مولانا شمس صاحب کو میدان عمل میں خدمات بجالانے کی توفیق ملی.مصنف مولوی محمد اسد اللہ قریشی نے بھی اپنی کتاب ” تاریخ احمدیت جموں و کشمیر میں جابجائنٹس صاحب مرحوم اور آپ کے خاندان کا ذکر خیر کیا ہے ان کے ایک حوالہ سے یہ بھی عیاں ہے کہ جماعت احمدیہ کو اپنی بے بضاعتی کے دور میں جب مخالفین اسلام کے مقابلہ میں اپنے علماء کو مختلف مقامات پر بھجوانا ہوتا تھا تو ان کے اخراجات سفر کے لیے بھی بہت سی دشواریوں کا سامنا رہتا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دور میں جہاں آپ کو سیاسی اسیروں کی رستگاری کی بدرجہا توفیق ملی وہاں پرانے مستند حوالہ جات سے پتہ لگتا ہے کہ مذہبی مناظرات اور اسلام دشمن کارروائیوں کے سدباب کے لیے ریاست جموں و کشمیر پر خاص توجہ رہی ہے.چنانچہ 1934ء اور 1935ء میں احراریوں نے بطور خاص جماعت احمدیہ کے خلاف خم ٹھونک کر میدان مبارزت قائم کر رکھا تھا اس فتنہ و فساد کی سرکوبی کیلئے بقول مصنف مولانا اسد اللہ قریشی : 34ء 359ء میں مجلس احرار پنجاب کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف تمام ہندوستان میں اور کشمیر میں تقاریر اور اشتعال انگیزیوں کا سرگرم سلسلہ شروع ہوا.جگہ جگہ منافرت انگیز لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا بھدرواہ علاقہ راجوری رتیال جموں پونچھ وغیرہ مقامات میں احرار یوں نے احمدیوں کو واجب القتل قرار دیا.بعض احمدیوں پر اشتعال انگیزیوں کے نتیجہ میں قاتلانہ حملے بھی ہوئے مگر کوئی جانی نقصان نہ ہوا اور احمدیت کی ترقی بھی نہ رک سکی بلکہ پہلے سے زیادہ ترقی ہوئی.اخبار کسیری سرینگر ہفت روزہ ” ہمت میر پور اسلام کے خلاف دل آزار مضامین شائع کرتے رہے.جموں میں احرار تبلیغ کا نفرنس کو کا میاب بنانے کے لئے جلوس بھی نکالے گئے.بینڈ باجہ اور رضا کا رسیا لکوٹ سے منگوائے گئے مگر ہوا یہ کہ غلام غوث احراری پر حکومت کی طرف سے پابندی لگا دی گئی اس طرح جلوس بھی پھیکا پڑ گیا اور احرار کی کارروائیاں نا کام ہوگئیں اور احمدیت آگے بڑھتی رہی.آگے مصنف لکھتے ہیں : " 66 10 اپریل 35ء کو ان ناموافق حالات کے باوجود جموں میں جماعت احمدیہ کا جلسہ ہوا.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 66 سید زین العابدین، مولانا جلال الدین شمس، گیانی واحد حسین ، شیخ رحمت اللہ شاکر وغیرہ نے قادیان سے جموں پہنچ کر تقاریر کیں اور احرار کا بھانڈہ چوراہے پر توڑ دیا.“ مولانا اسد اللہ قریشی مرحوم کو اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے علمی میدان میں جو کچھ اثاثہ وہ چھوڑ گئے ہیں وہ نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے.اس جگہ ایک تاریخی حقیقت قابل ذکر ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کا آغاز 1931ء میں ہوا تھا.اگر اس سے قبل برادران وطن مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے منصوبے نہ بناتے تو مسلمانان ریاست شایداب تک بھی خفتہ ہی رہتے مگر جو باتیں مقدر ہوتی ہیں وہ ہو کر رہتی ہیں.1923ء میں ہندؤوں نے خود ہی ایک مذہبی کارزار بنایا اور ریاست میں شدھی تحریک کی ایک یورش بر پا کی اور ہندوستان کے ہندؤوں کو ریاست میں شدھی کی تحریک چلانے اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کھلی دعوت دی.ان کی اس تحریک نے بہت زور پکڑا چنانچہ ہند و سبھا نے اپنے اُپدیشک ریاست میں بھجوائے جنہوں نے جگہ جگہ اسلام کے خلاف زہر افشانی کی اور مسلمانوں کو دعوت مقابلہ دی گئی.عجیب اتفاق ہے کہ تحریک آزادی کشمیر میں جس طرح سیاسی میدان میں جماعت احمدیہ نے مسلمانان کشمیر کی دستگیری کی اسی طرح اس زمانہ میں ہندوستان کے ہندوؤں نے کشمیر میں ڈوگرہ راج کا سہارا لے کر بھر پور کوشش کی کہ ساری ریاست کے مسلمانوں کو شدھی کیا جائے.1923ء کی کشمیر میں شروع کی گئی اس تحریک کا ہندوسبھا نے 1925ء کے منعقدہ ایک اجلاس میں خاص طور پر ریاست جموں و کشمیر میں کامیاب بنانے کا فیصلہ کیا.19,18,17 اکتوبر کو اکھنور صوبہ جموں میں آریہ سماج کا سہ روزہ جلسہ ہوا.اشتعال انگیز تقاریر میں مسلمانوں کو دعوت مقابلہ و مناظرہ بھی دی گئی اسی طرح جموں شہر میں آریہ سماج نے ڈوگرہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کا قافیہ تنگ کر دیا.جموں کے مسلمانوں کے سرکردہ احباب نے بالعموم قادیان کی طرف رجوع کیا اور قادیان سے جو جو بزرگ آگے پیچھے جموں آ کر اسلام کا دفاع کرتے رہے ان میں ہمارے علماء کا برین ہی جموں آتے رہے ہیں.ایک ایسے ہی موقع پر علماء قادیان کا وفد ایک ساتھ جموں آیا اور انہوں نے اسلام کا دفاع کیا.یہ بھی عجیب اتفاق ہے مولانا جلال الدین شمس، مولانا ابوالعطاء جالندھری اور مرحوم ملک عبدالرحمان صاحب خادم کو جموں آ کر خدمت سلسلہ کا موقع ملتا ر ہا.آخر الذکر دونوں حضرات 258
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کو وادی کشمیر کی سیر و سیاحت کا موقع بھی ملا اور مولانا ابوالعطاء صاحب کورڈ بہائیت کے خلاف بھی خاص توفیق ملی.الحمد للہ.مگر مولانا جلال الدین شمس ان واقف زندگی حضرات میں سے ایک تھے جن کو کئی کئی سال بیرون ممالک میں تبلیغ احمدیت کا فریضہ سرانجام دینے کے دوران اپنے بچوں کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوتا تھا.چنانچہ ایسے ہی ایک موقع پر جب بچوں کو معلوم ہوا کہ ان کے ابا عید کے موقع پر بھی گھر میں موجود نہ ہوں گے کسی بچے نے اپنی مادر مہربان سے دریافت کیا، امی کیا بڑی عید پر بھی ابا گھر نہیں آئیں گے.والدہ نے اثبات میں جواب دیا کہ بیٹا وہ ہم سے بہت دور انگلستان میں دین کی خدمت کیلئے گئے ہوئے ہیں.معصوم بیٹی نے اپنی والدہ سے شکوہ کیا کہ اگر وہ عید پر بھی نہیں آئیں گے تو آپ نے ان کے ساتھ شادی ہی کیوں کی تھی! 259 یہ معصومانہ سوال و جواب اپنے اندر بہت بڑے معنی رکھتا ہے، مولانا کی انہی قربانیوں کے نتیجہ میں شمس صاحب مرحوم کی یاد احمدی دنیا میں آج بھی قائم ہے.مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ ان کے فرزند فلاح الدین صاحب شمس ( مقیم امریکہ ) اور فرزند مکرم منیر الدین شمس بھی جو بفضلہ تعالی خلافت احمدیہ کے ایک مخلص اور وفا دار خادم ہیں اور اپنے نامور والد گرامی کی یاد کو جلا دینے کیلئے کتاب تدوین کرارہے ہیں ان کی فرمائش پر میں نے یہ مضمون لکھا ہے.گر قبول اللہ زہے عزّ و عز و شرف تاثرات محررہ جولائی 2007ء بنام مولانا منیر الدین شمس صاحب)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس آٹھواں باب قیام انگلستان 260
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مغرب سے طلوع آفتاب 261 مغرب سے طلوع آفتاب اسلام کی پیشگوئی سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے پندرہ صدیاں پیشتر فرمائی تھی اور باعلام الہی اس پیشگوئی کا ظہور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں ہوا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رویا و کشوف مغرب میں طلوع آفتاب کی پیش خبریاں عطا فرمائیں جس کی تعبیر آپ نے یہ فرمائی کہ آپ یا آپ کے متبعین کے ذریعہ مغرب سے اسلام کا شمس ضرور طلوع کرے گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ رویا خوشخبری عطا کی کہ لندن میں آپ نے چند سفید پرندے پکڑے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا: ” میں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدتل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے مواقف اُن کا جسم ہوگا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہوجائیں گے.“ (ازالہ اوہام صفحہ 516-517، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 377) اگر چه سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد با برکت اور خلافت اولی میں ہی آپ کے صحابہ کرام اور آپ کی تحریریں لندن میں مختلف ذرائع سے پہنچنا شروع ہوگئی تھیں تا ہم احمدیہ تبلیغی مرکز لندن کا با قاعدہ آغاز خلافت ثانیہ میں ہوا.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی اپریل 1984ء کی لندن میں ہجرت کے بعد مغرب سے نئے طور پر اسلام کا طلوع ہوتا ہے اور اب لندن تو کل عالم کیلئے امام مہدی آخر الزمان کی جانشینی میں خلافت احمدیہ کا مرکز بن چکا ہے اور اکناف عالم میں نور کی مشعلیں روشن کر رہا ہے اور اہل مغرب کو بچے خدا کا پتہ بتا رہا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ابتداء سے ہی ایشیا روحانیت اور ولایت کا سرتاج رہا اور یورپ و امریکہ نے مادی اور دنیاوی علوم میں ترقی کی مگر اب خدا تعالیٰ یورپ اور امریکہ پر بھی نظر کرم کرنا چاہتا ہے اور یہی دور ہے جس میں انشاء اللہ اہل مغرب کو سچے خدا کا پتہ چلے گا.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 262 انگلستان میں اگر چہ 1913ء میں مکرم خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے ذریعہ و و کنگ مشن کا آغاز ہو چکا تھا اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال گو جولائی 1913ء کو بیرونی مشن کی بنیاد رکھ چکے تھے تا ہم اس کا مستقل آغاز 1914ء میں ہوا جبکہ محترم سیال صاحب و و کنگ چھوڑ کر لندن تشریف لے آئے اور یہاں کرایہ کے ایک مکان کو مرکز بنا کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا.پہلا شخص جو آپ کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہوا ایک صحافی کو ریو Mr Corio نامی تھا.حضرت چوہدری صاحب کی واپسی تک قریباً ایک درجن انگریز مسلمان ہو چکے تھے.ستمبر 1915ء کو حضرت قاضی محمدعبداللہ صاحب رضی اللہ عنہ بے اے بی ٹی انگلستان کیلئے تبلیغ وخدمت اسلام کیلئے روانہ ہوئے اور پورے چار سال تک وہاں خدمات بجالاتے رہے.جب 6 ستمبر 1915ء کو حضرت قاضی حمد عبد اللہ رضی اللہ عنہ بی.اے بی ٹی انگلستان کیلئے تبلیغ وخدمت اسلام کیلئے روانہ ہوئے تو اس موقعہ پر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت قاضی صاحب کو 14 نہایت زریں نصائح فرما ئیں جو مبلغین سلسلہ کے لئے بالخصوص بیرونی ممالک میں خدمات بجالانے والے سب مبلغین کیلئے لائحہ عمل، مشعل راہ اور قندیل کی حیثیت رکھتی ہیں.تفصیل کیلئے دیکھیں الفضل قادیان 14 ستمبر 1915ء.انگلستان مشن کے لئے مختلف اوقات میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر مختلف اصحاب و احباب کو مقرر کیا جاتا رہا جن میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب.حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب.چوہدری مبارک علی صاحب اور ملک غلام فرید صاحب شامل ہیں.حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحب کے دور میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی بنفس نفیس ویمبلے کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن تشریف لے گئے اور اپنے دست مبارک سے 19 اکتوبر 1924ء کو مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا.سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے وجود باجود سے لندن مشن کو عالمگیر شہرت حاصل ہوگئی اور لندن کی مذہبی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نومبر 1924ء میں مع اپنے قافلہ کے خدام نیز حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب غیر کو ساتھ لے کر واپس قادیان تشریف لے آئے اور لندن مشن کے انچارج حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد اور ان کے نائب مکرم ملک غلام فرید صاحب مقرر ہوئے.( مزید تفصیل کیلئے دیکھئے تواریخ مسجد فضل لندن، تاریخ احمدیت جلد چهارم و پنجم )
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 263 یکم فروری 1936ء کو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور 26 فروری 1936ء کو حضرت مولانا شیر علی صاحب بھی ترجمۃ القرآن انگریزی کے سلسلہ میں لنڈن روانہ ہوئے.9 نومبر 1938ء کو حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد، حضرت مولانا شیر علی صاحب اور تمام صاحبزادگان صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب ] قادیان آگئے اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس انچارج مشن کے فرائض سرانجام دینے لگے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس 19 نومبر 1946ء کو قادیان تشریف لائے اور آپ کی جگہ مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد بنے.ماخوز از تاریخ احمدیت جلد 5 ، طبع اول ، صفحات 164-166) مغربی ممالک میں تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینے والے مبلغین کو نہایت اہم ہدایات سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مغرب میں تبلیغ اسلام کرنے والے مبلغین کیلئے اہم نصائح 21 اکتوبر 1936ء بمقام قادیان ارشاد فرمائیں.یہ وہ موقعہ تھا جب بعض مبلغین فریضہ تبلیغ اسلام کی ادا ئیگی کیلئے دیار مغرب کو روانہ ہونے والے تھے.آپ نے یہ خطاب تحریک جدید کے طلباء سے ارشاد فرمایا.حضور نے ان پر معارف نصائح کے آخر میں فرمایا: قدرت ثانیہ آئی اور اس کا ظہور ہو ا مگر افسوس کئی لوگ ہیں جنہوں نے اس کو شناخت نہیں کیا.میں دنیا کے ہر مقدس سے مقدس مقام پر کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جس قدرت ثانیہ کا ظہور ہونا تھا وہ ہو چکا اور وہی ذریعہ ہے آج احمدیت کی ترقی کا....پس ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو تحریک جدید کو خود بھی سمجھیں اور دوسرے لوگوں کو بھی سمجھا ئیں اور اس بات کو مدنظر رکھیں کہ تحریک جدید کو مضبوطی سے قائم رکھنا ان کا فرض ہے.اس بارہ میں افسروں کی ذمہ واری نہایت اہم ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ طلباء کو بار بار اس تحریک کی اغراض اور اس کے مقاصد سمجھا ئیں جس دن اس تحریک کو پوری طرح سمجھ کر ہمارے طلباء باہر نکلے اور اس روح کو لے کر نکلے جو تحریک جدید کے ذریعہ ان میں پیدا ہونی ضروری ہے یہ قومی طور پر ہمارا پہلا چیلنج ہوگا کہ اگر دنیا میں کوئی قوم زندہ ہے تو وہ ہماری
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس زندہ قوم سے مقابلہ کر لے.دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے امریکہ میں جانے والے مبلغین کو اور ان مبلغوں کو بھی جو پہلے سے مغرب میں موجود ہیں صحیح رنگ میں اسلام کی خدمت کی توفیق دے اور وہ اسلامی تعلیم کا سچا نمونہ ہوں.بجائے دشمنوں کے اثر سے متاثر ہونے کے انہیں اسلام کی خوبیوں اور اس کے کمالات کے قائل کرنے والے ہوں اور ان کے ذریعہ جو لوگ وہاں اسلام میں داخل ہوں وہ ایسے ہوں جنہوں نے صدق دل سے اسلام کو قبول کیا ہو اور اس کی خوبیوں کو دیکھ کر اپنے اعمال کو اسلامی رنگ میں رنگین کرنے والے ہوں.اسی طرح وہ طالب علم جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں ان آرزوؤں کے ساتھ داخل ہیں کہ انہیں خدمت احمدیت کی توفیق ملے.اللہ تعالیٰ ان کی آرزوؤں کو بھی پورا کرے اور ان کے ماں باپ کو بھی اس تحریک کے صحیح مقاصد سمجھنے کی توفیق دے اور طالب علموں کو ہمت دے توفیق دے اور عزم دے کہ وہ دین کی خدمت کر سکیں.اسی طرح وہ کارکنوں کو بھی ہدایت دے اور انہیں سمجھ دے کہ وہ اس تحریک کو جاری کرنے کی اغراض سے واقفیت پیدا کریں انہیں ہر قسم کی بددیانتی اور کوتاہی عقل سے بچائے ، ان کی کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کی مساعی کو بار آور کرے تا وہ ایک ایسی جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو خلیفہ وقت کی مددگار ہو اور جس کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس وقت اسلام کی زندگی وابستہ ہے.“ 264 مزید تفصیل کیلئے دیکھئے الفضل ربوہ 19 تا28 فروری 1961ء)
265.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس $ 1936 حضرت مولانا شمس صاحب سیکھوانی کی وقف زندگی کا ایک اہم اور طویل باب انگلستان میں خدمات جلیلہ پر مشتمل ہے.آپ کا دور انگلستان فروری 1936 ء سے لیکر اگست 1946 ء تک ایک عشرہ پر محیط ہے.اس عرصہ میں آپ نے دینی تبلیغی علمی و عملی اور سیاسی و سماجی اور تربیتی میدانوں میں یادگار کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.آپ کے عرصہ قیام انگلستان میں کئی راست باز انگریز راستی سے آشکار ہوئے.حضرت مولانا موصوف نے اپنی رپورٹس میں بعض کا ذکر خیر فرمایا ہے جو تاریخ جماعت احمد یہ انگلستان کا ایک اہم باب ہے.متعدد موضوعات پر لیکچر وخطابات فرمائے.بیسیوں مرتبہ آپ کی سرگرمیوں کی خبریں یورپی اخبارات و جرائد میں شائع ہوئیں.کئی فورمز اور سوسائٹیوں میں آپ نے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے عناوین پر اہم لیکچر دیئے.اس دور میں آپ نے کئی تاریخی اور عہد ساز شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں مسجد فضل لندن میں بھی آنے کی دعوتیں دیں.اس باب میں آپ کی کچھ مساعی ہائے نمایاں کا ذکر پیش کیا جارہا ہے، تا معلوم ہو کہ ہمارے اسلاف کس قدر گن، ہمت، محنت اور جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات اسلام سرانجام دیتے رہے اور اپنا تن من، دھن اور سب کچھ اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر خرچ کر دیتے تھے.علاوہ ازیں کئی دیگر احباب جماعت جیسے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث) اور خاندان سلسلہ کے بعض اور افراد جوان ایام میں انگلستان میں تحصیل علم کیلئے مقیم تھے، حضرت مولانا درد صاحب ، حضرت مولانا شیر علی صاحب اور بعض دیگر احباب جماعت کی تبلیغ اسلام کی کاوشوں نیز دیگر احباب جماعت کی اشاعت اسلام کیلئے مساعیہائے عالیہ کا ذکر بھی شامل کیا گیا ہے.انگلستان کیلئے آپ کا تقر راور سفر پر روانگی حضرت مولانا شمس صاحب کا انگلستان کیلئے تقر ر فروری 1936ء میں ہوا.آپ اگست 1946ء تک
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 266 انگلستان میں خدمات بجالاتے رہے.قادیان سے مبلغین سلسلہ کا قافلہ روانہ ہو ا کثیر احباب نے انہیں الوداع کہا.اس دور میں جب مبلغین بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے روانہ ہوتے تو الوداعی تقریب کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا اور احباب قادیان جوق در جوق ان خدام اسلام کو الوداع کرنے کیلئے جم غفیر کی صورت میں اپنی عاجزانہ دعاؤں سے انہیں رخصت کرتے.مبلغین کو پھولوں کی مالائیں پہنائی جاتیں اور احباب کرام کے ساتھ ان کے گروپ فوٹو کھینچے جاتے.حضرت مولانائٹس صاحب جب فروری 1936ء میں دیگر مبلغین کرام کے ہمراہ دتی ریلوے اسٹیشن پہنچے تو احباب نے انہیں پھولوں کے ہار پہنائے.اس موقعہ پر حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی موجود تھے.اس زمانہ میں بحری جہاز کا سفر ہی مناسب ہوتا تھا کیونکہ فضائی سفر ابھی عام نہیں ہوئے تھے.کئی ہفتوں کا صبر آزما سفر ہوتا تھا.لندن پہنچتے ہی آپ کی بھر پور اور مصروف ترین زندگی کا آغاز ہوتا ہے.آپ کی کاوشوں سے بیسیوں انگریز بھی آغوش احمدیت میں آئے.یہ سراسر اللہ کا فضل و احسان تھا کہ آپ نے مغرب سے دین کے طلوع شمس کی ایک جھلک پیش کی.یہ بجاطور پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا یہ دور تاریخ ساز دور ہے اور اس دور کی تاریخ محفوظ کرنے کیلئے سینکڑوں صفحات درکار ہوں گے.اس عشرہ میں آپ کی خدمات دین حقہ و خدمات سلسلہ عالیہ احمد یہ کے بعض امور پیش ہیں جسے سال بہ سال پیش کیا جا رہا ہے.آپ جب لندن تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے دوران سفر بحری جہاز میں ایک عجیب نظارہ دیکھا جسے آپ کے ہمعصر اور سلسلہ احمدیہ کے نامور مبلغ حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشریوں تحریر فرماتے ہیں : اہل اللہ 1936ء میں جب میں پہلی بار گولڈ کوسٹ ( انا ) آرہا تھا تو ہم ایک جاپانی جہاز میں آرہے تھے اور مولانا جلال الدین صاحب شمس بھی لنڈن تشریف لا رہے تھے.ہم دونوں ایک کمرہ میں تھے اوپر کے تختے پر ان کا بستر تھا اور نیچے کے تختے پر میرا بستر تھا.وہ حج کے ایام تھے اور جہاز عرب کے سمندر سے گزر رہا تھا.ہم نے جاپانیوں سے دریافت کیا کہ وہ ہمیں مکہ کی سمت بتائیں لیکن انہوں نے عذر کیا کہ اگر آپ برطانوی جہاز میں ہوتے تو وہ آپ کو بتا دیتے لیکن ہمیں معلوم نہیں.لیکن اسی رات جب ہم سوئے تو ایک بجے کے قریب مولا نائٹس صاحب
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس نے مجھے اٹھایا اور انہوں نے ایک سمت کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتایا کہ وہاں سے جانب مشرق انہوں نے خواب میں ایک جہاز جاتے ہوئے دیکھا ہے اور اس کے پیچھے لکھا ہے مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِناً چنانچہ ہم دونوں اٹھے اور اٹھ کر تہجد ادا کی اور پھر ہم سو گئے.اس کے ایک گھنٹہ کے قریب مجھے آواز آئی: الْوُضُوْءُ لِشَعَائِرِ اللَّهِ 267 میں نے شمس صاحب کو اٹھایا اور دریافت کیا کہ کیا وہ عربی بول رہے ہیں.انہوں نے فرمایا نہیں اس کے بعد وہ بھی سوگئے اور میں بھی سو گیا اور تھوڑے عرصہ کے بعد میں نے محسوس کیا کہ گویا میں ایک بڑے بوجھل پہاڑ کے نیچے پڑا ہوا ہوں اور مجھ سے ہلا نہیں جاتا تھا اور میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور بہت سے عربی کلمات میری زبان پر جاری ہوئے.جب اسی حالت میں میں نے اپنا منہ بند کرنا چاہا تو نہایت ہی قوت کے ساتھ میرے ہاتھ کو پیچھے ہٹایا گیا اور دیر تک بہت سے عربی فقرات میرے منہ سے جاری رہے.( آپ کی نوٹ بک سے ، بحوالہ تحریک جدید، جولائی 2006، صفحہ 13) انگلستان میں داخل ہوتے ہی مولانا شمس صاحب تبلیغی میدان میں مصروف عمل ہو گئے اور جب تک آپ کا وہاں قیام رہ با قاعدہ اور مسلسل اپنی تبلیغی سرگرمیوں کی رپورٹس مرکز احمدیت قادیان بھجواتے رہے.تبلیغی مشکلات یہاں تبلیغ کا کام دوسرے ممالک سے بالکل جدا رنگ کا ہے.مذہبی گفتگو کیلئے وقت نکالنا یہاں کے لوگوں کیلئے نہایت شاق ہے.ریلوں، لاریوں ،رام وغیرہ میں آپ دیکھیں گے کہ بیسیوں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں مگر کوئی کسی سے کلام نہیں کرتا.یا تو خاموش بیٹھے ہیں یا اخبار پڑھ رہے ہیں.گویا ایک شہر خاموشاں کا نظارہ ہے راہ چلتے ہوئے بھی کسی سے بات نہیں ہوتی سوائے اس کے جو خاص طور پر کسی سے وقت مقرر کر کے اس کی ملاقات کی جائے اور کوئی صورت نہیں.باقی رہیں مذہبی سوسائٹیاں وہ در حقیقت برائے نام ہوتی ہیں.مذکورہ بالاتھیوسوفیکل سوسائٹی جس کا پروگرام با قاعدہ چھپ کر شائع ہوتا ہے اور لنڈن شہر میں ہے اس لیکچر میں جس کا ذکر ابھی کر چکا ہوں[ 4 مئی 1936ء کا مولا نا عبدالرحیم درد صاحب کا لیکچر کل آٹھ عورتیں اور ایک مرد سنے کیلئے آئے تھے.اسی طرح دوران
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 268 ایام رپورٹ میں درد صاحب ایک اور کلب میں لیکچر کیلئے گئے وہاں ایک بھی مرد نہ تھا البتہ پچیس کے قریب عورتیں تھیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی نسبت عورتوں میں مذہبی شوق زیادہ ہے یا انہیں فرصت زیادہ ہوتی ہے.غرضیکہ اس وقت ان لوگوں کی حالت الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيا (الكهف : 105) کسی ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے مردہ دلوں کو روحانی زندگی بخشے اور میں تمام جماعت سے دعا کیلئے درخواست کرتا ہوں کیونکہ ایسی بنجر وخشک زمین میں ایک زبر دست دینی انقلاب کا پیدا ہونا خدا تعالیٰ کے طاقتور ہاتھ کے بغیر نہیں ہوسکتا اور تائید الہی کے حصول کا ذریعہ صرف دعا ہی ہے سچ ہے.غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو! زور دعا دیکھو تو پیرس سے ایک غیر احمدی طالب علم نے لکھا کہ یہاں کے پروفیسروں سے میری بحث جاری ہے وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں زندہ کو جلانا جائز ہے.چنانچہ وہ ایک تاریخی حوالہ پیش کرتے ہیں کہ ہندوستان میں ایک مسلم بادشاہ نے علماء کے فتویٰ سے ایک برہمن کو جلو ایا تھا.اگر اس کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد ہو تو تحریر فرما ئیں.اس پر صحاح ستہ سے انہیں وہ احادیث لکھ کر روانہ کی گئیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جلانے سے منع فرمایا ہے.نیز لکھا ہے کہ تاریخی واقعہ بھی قابل حجت نہیں کیونکہ اگر واقعی اس وقت کا علماء کا یہی فتویٰ تھا کہ کافروں اور مشرکوں کو جلوایا جائے تو پھر دوسرے برہمنوں اور ہندؤوں کو اس بادشاہ نے کیوں نہ جلایا.ہو سکتا ہے کہ اس کے جلانے کے کوئی اور وجوہات ہوں مثلاً اس نے مسلمانوں کو جلایا ہو.پھر وہ طالب علم یہاں بھی تشریف لائے اور جزیہ لینے کے متعلق جو آیات ہیں ان کی تفسیر دریافت کی.چنانچہ انہیں تفسیر بتائی گئی اور مطمئن ہو کر یہاں سے گئے.ہمارے ایک افریقی بھائی ڈاکٹر سلیمان صاحب یہاں ہیں.ان کے ساتھ میں لنڈن سے باہر دیہات دیکھنے کیلئے گیا.تین دیہات دیکھے.دیہات چھوٹے چھوٹے ہیں لیکن صفائی کے لحاظ سے شہروں کی طرح ہیں.ارادہ ہے کہ دیہات میں بھی تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا جائے.اس ہفتہ میر عبدالسلام صاحب بی اے نے ہائیڈ پارک میں اس موضوع پر لیکچر دیا کہ مسیح علیہ السلام نے شریعت کو ناقص حالت میں چھوڑا اور ان کی تعلیم عالمگیر نہ تھی.چنانچہ موجودہ اناجیل سے بھی ظاہر ہے کہ ان کی تعلیم مکمل نہیں ہے.لیکچر کے بعد سوالات کے جوابات دیئے.(خاکسار جلال الدین شمس از لنڈن) ( الفضل قادیان 27 مئی 1936ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس لنڈن میں نیا تبلیغی پروگرام 269 ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) ایک نیا تبلیغی پروگرام تیار کیا گیا ہے.اس پروگرام کے مطابق پہلا اجلاس 17 مئی 1936ء کو تھا.اس میں مولا نا در دصاحب نے اس موضوع پر لیکچر دیا کہ عورت کا اسلام میں کیا درجہ ہے؟ آپ نے اس لیکچر میں پرانی مصری اور رومن تہذیب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس میں عورت کو مرد پر بہت سے اختیارات دیئے گئے تھے لیکن اسلام نے جو درجہ عورت کا بتایا ہے وہی صحیح ہے اور اسی میں نسل انسانی کی بہتری و بهبودی مضمر ہے اور چونکہ عام طور پر یہاں جب بھی لیکچر دیئے گئے تو ان میں عورتوں سے نرمی کے برتاؤ کے پہلوکو پیش کیا گیا اس لئے آپ نے دوسرے پہلو کو جس میں مرد کو عورت پر بعض اختیارات دیئے گئے تھے پیش کیا مثلاً ورثہ، تعدد ازداج اور عند الضرورت اصلاح کی خاطر عورت پر معمولی سختی کرنا اور کہا کہ میں صرف ان امور کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہوئے انہیں تشنہ فصیل چھوڑتا ہوں تا آپ کے دماغ میں جو اعتراض اٹھ سکتے ہیں وہ آپ پیش کریں.چنانچہ ان کے لیکچر کے اختتام پر دوستوں نے بہت سے اعتراضات کئے جن کے جوابات در دصاحب اور میاں مظفر احمد صاحب اور ملک افتخار احمد صاحب نے دیئے.ایک انگریز کا قبول اسلام اس لیکچر میں پورٹ سمتھ سے ایک انگریز ای جی براملی نامی بھی آئے تھے.لیکچر سننے کے بعد انہوں نے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کتاب ” احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا ایک نسخہ خریدا اور وعدہ کیا کہ وہ اسے ضرور پڑھیں گے.بعض اور پمفلٹ بھی انہیں دیئے گئے چنانچہ چند روز کے بعد انہوں نے بیعت فارم پر کر کے بھیج دیا.دوستوں سے ان کی استقامت کیلئے دعا کی درخواست ہے.ہر جمعرات کو ہائیڈ پارک میں لیکچر ہوتا ہے.دو لیکچر میر عبدالسلام صاحب نے دیئے ہیں.لیکچروں کے دوران میں ہی سوالات شروع ہو جاتے ہیں اور یہ سوال وجواب کا سلسلہ رات کے بارہ بجے تک جاری رہتا ہے.گزشتہ جمعرات کو جب میں اور برادرم شیخ احمد اللہ صاحب اور برادرم عبدالعزیز صاحب وہاں گئے تو ایک پادری سے گفتگو شروع ہوگئی.میں اردو میں بولتا تھا اور شیخ احمد اللہ صاحب انگریزی میں ترجمہ کرتے تھے.پگڑیوں کو دیکھ کر چالیس پچاس کے قریب اشخاص ہمارے ارد گرد جمع ہو گئے اور میرے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 270 اردو بولنے کی وجہ سے انہیں اور بھی دلچسپی پیدا ہوگئی.وہ پادری یہ کہ رہا تھا کہ جب یسوع مسیح دوبارہ آئے گا تو اس وقت تمام دنیا کے لوگ اسے مان لیں گے.میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ جب یسوع مسیح پہلی دفعہ آیا تو اسرائیلیوں نے اسے قبول نہ کیا تو اب عقلاً یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس زمانہ دہریت والحاد میں آکر تمام دنیا کو اپنا معتقد بنالیں گے.اس نے جواب دیا کہ یسوع مسیح سب کچھ جانتا تھا اور اس کی سب باتیں پوری ہوں گی.میں نے کہا اس نے خود کنواریوں کی مثال دے کر یہ بتا دیا ہے کہ اس کے ماننے والے بھی جو اس کا انتظار کر رہے ہیں اسے سارے نہیں مانیں گے چہ جائیکہ غیر مذاہب والے اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ہر ایک چیز کا اسے علم تھا کیونکہ اس نے یہ خبر دی تھی کہ جو یہاں کھڑے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اس کی بادشاہت میں آتے ہوئے نہ دیکھ لیں موت کا مزا نہ چکھیں گے (متی 28:16) حالانکہ وہ سب مرگئے اور وہ اپنی بادشاہت میں نہ آیا.کہنے لگے کہ اسکے بعد اس نے جو موسیٰ کو دیکھا.میں نے کہا کہ اس دیکھنے کو بادشاہت میں آنے سے کیا نسبت کیا یہی اس کی بادشاہت تھی کہ اس کے بعد یہود نے اسے صلیب پر لٹکا دیا.پھر میں نے کہا یسوع مسیح نے کہا تھا کہ وہ تین دن اور تین رات قبر میں رہے گا مگر انجیل کی رو سے صرف ایک دن اور ایک رات قبر میں رہا.اس نے جواب دیا کہ اس میں تین رات مراد ہیں میں نے اسی سے انجیل لے کر بتایا کہ اس میں تین دن اور تین رات لکھا ہے پھر کہنے لگا کہ یہود کہتے ہیں کہ وہ جمعرات کو صلیب دیا گیا تھا.میں نے کہا تب انجیل کا بیان غلط ہے کہ وہ جمعہ کو صلیب دیا گیا.اس نے کہا کہ انجیل میں یہ نہیں لکھا کہ جمعہ کے روز صلیب دی گئی.میں نے کہا کہ یوحنا میں یہ صاف بیان لکھا ہے.چنانچہ میں نے اس کی تردید میں دو حوالے دیئے انجیل یوحنا سے نکال کر دکھائے غرض کہ اس سے کوئی جواب نہ بن پایا اور حاضرین نے اس کو بہت شرمندہ کیا اور کہا کہ جاؤ اور انجیل پڑھو تمہیں انجیل نہیں آتی اور یہ تم سے انجیل کو بہت زیادہ جانتے ہیں اور ان سے سوالات نہایت معقول اور ناقابل تردید کیے ہیں.اس مکالمہ کا حاضرین پر اچھا اثر ہوا.ہائیڈ پارک میں لیکچروں کا سلسلہ الفضل قادیان 20 جون 1936ء) (حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب ) ہائیڈ پارک میں لیکچروں کا سلسلہ شروع ہے.ایام زیر رپورٹ میں لیکچر برادرم عبدالعزیز پسر
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 271 عزیز الدین صاحب مرحوم نے دیئے.لیکچروں سے پہلے شیخ احمد اللہ صاحب قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے حاضری اچھی تھی.لیکچر شروع کرنے سے پہلے کسی نہ کسی پادری صاحب سے گفتگو کی جاتی ہے چنانچہ اس دفعہ ایک پادری سے جو انجیل سے خوب واقف تھا اس موضوع پر کہ مسیح کی بعثت صرف بنی اسرائیل کیلئے تھی یا تمام دنیا کیلئے.سامعین میں ایک میری تائید کرتا تھا لیکن پادری صاحب اس کی گفتگو سے بہت برا مانتے تھے.آخر اس دہریہ نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ مسیح کو بلا باپ کے مانتے ہیں.میں نے جواب دیا بلا باپ کے.دہریہ کوئی شخص بلا باپ کے پیدا نہیں ہوسکتا ہے.سٹس ڈاکٹروں نے اپنی تحقیقات کی رو سے اس مسئلہ کوممکن بتایا ہے.نیز مختلف اقوام میں بغیر باپ کے پیدائش کی روایات پائی جاتی ہیں.دہریہ : یہ روایات محض کہانیوں میں پائی جاتی ہیں قابل اعتبار نہیں ہیں.ڈاکٹروں نے کیٹروں کی پیدائش کو تو بلا باپ کے مانا ہے لیکن انسانوں میں انہوں نے تسلیم نہیں کیا البتہ ایسے واقعات مشاہدہ میں آئے ہیں کہ مرد عورت یا عورت مرد بن گئی ہو.شمس متعد داقوام کی متفقہ روایات کو یونہی رد کرنا بھی درست نہیں.پھر موجودہ ڈاکٹروں نے بھی اس امر کا قطعا دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی تحقیق مکمل ہو چکی ہیں اور اب کوئی بات قابل تحقیق نہیں رہی تحقیقات ابھی تک جاری ہیں.ہو سکتا ہے کہ ایسی تحقیقات سے جیسے یہ معلوم ہو گیا کہ مرد عورت بن سکتا ہے یا عورت مرد بن سکتی ہے اسی طرح کسی وقت انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ عورت سے بغیر مرد کے بچہ بھی ہوسکتا ہے.دہریہ آج تک کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ مرد کے بغیر بھی بچہ پیدا ہو سکتا ہے.شمس ایسے واقعات تو ہوئے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہو تو اسے ظاہر نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسی عورت کے متعلق بر اخیال کر لیا جاتا ہے اس لئے اگر کبھی ایسا واقعہ ہوا ابھی تو اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی.ہم نے جو حضرت مسیح کو بغیر باپ مانا ہے تو وہ قرآن مجید کی رو سے جو ہمارے نزدیک خدا کا کلام ہے.دہریہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے عیسائیوں کو قریب کرنے کے لئے مسیح کی Virgin Birth کو تسلیم کر لیا.شمس آپ کا یہ نظریہ درست نہیں ہے قرآن مجید میں عیسائیوں کو کافر اور گمراہ قرار دیا گیا ہے اور کہا ہے
حیات ٹس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 272 کہ اگر وہ مسیح کی الوہیت کو ماننے سے باز نہیں آئیں گے تو انہیں درد ناک عذاب دیا جائے گا اور ان کا ٹھکانا جہنم بتایا ہے نیز یہ کہا کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے.اسی طرح یہود کو سخت تنبیہ کی ہے اور یہی دو قو میں مسیح سے تعلق رکھتی تھیں اور دونوں کے خلاف قرآن نے آواز بلند کی اور دوسرے کو منوانے کیلئے عقلاً کیا یہ مفید ہوسکتا تھا کہ مسیح کو بے باپ مانا جائے یا کہ باباپ.ہر عقلمند شخص یہی جواب دے گا کہ عام لوگوں کو منوانے کیلئے آسان راہ یہی تھی کہ مسیح کا باپ مانا جائے لیکن باوجود اس کے اسے بے باپ ظاہر کر دیا گیا اس لئے کہ اصل واقعہ یہی تھا.دہریہ: اب تو سمجھدار بشپ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کا باپ تھا.شمس وہ جو چاہیں کہیں لیکن ہمیں قرآن کریم کی صداقت پر یقین ہے اور جو کچھ اس میں لکھا ہے وہی درست ہے.قرآن مجید نے آج سے چودہ سو سال قبل بعض ایسی باتیں بیان کیں جن کی حقیقت آج سالہا سال کی تحقیقات کے بعد اب سائنسدانوں کو معلوم ہوئی.مثلاً یہ کہ قرآن مجید نے اعلان کیا کہ.وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ (الذاریات :50) ہم نے ہر ایک چیز کو زوج بنایا ہے نباتات ہو یا حیوانات ،غرضیکہ ہر چیز اپنے اندر زوجیت رکھتی ہے.آج سائنسدان اسے تسلیم کرتے ہوئے پہلے فلاسفروں کی تحقیقات کی تضحیک کر رہے ہیں اسی طرح آئندہ زمانہ میں اگر بلا باپ ولادت کا امکان ثابت ہو گیا تو آج جو لوگ اس کا انکار کر رہے ہیں آنیوالے ان پر ہنیں گے یا نہیں.آپ بتائیں کہ آیا تحقیقات مکمل ہو چکی ہے اور آئندہ کوئی امکان باقی نہیں رہا.[ جیسا کہ تازہ تحقیقات سے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ بن باپ ولادت ممکن ہے.اس پر کئی کتب ، آرٹیکلز اور ریسرچ پیپر بھی شائع ہو چکے ہیں.مرتب] دہریہ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ کیلئے تحقیقات کا دروازہ بند ہوگیا لیکن عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ خدا مریم کے پیٹ میں بچہ کا جسم اختیار کر کے پیدا ہوا کیونکر درست ہوسکتا ہے.شمس ہم عیسائیوں کے اس عقیدہ سے متفق نہیں ہیں.حضرت مسیح Natural طریق پر پیدا ہوا اور ایک انسان تھا اور اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں معلوم ہو کہ بغیر باپ کے کیونکر پیدا ہوسکتا ہے.جیسا کہ ابتدائی انسانوں کی پیدائش کی صحیح کیفیت معلوم نہیں ہوسکی ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ابتدائی انسان بہر حال ماں باپ سے پیدا نہیں ہو ا تھا.(الفضل قادیان 30 جون 1936ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ایک تبلیغی جلسہ 273 ( حضرت مولانا جلال الدین شمس) 27 جون 1936ء کو احمد یہ دار التبلیغ میں Folklore Club کے چالیس ممبر تشریف لائے.چونکہ اس وقت ہم نماز پڑھ رہے تھے اس لئے وہ بھی جوتے اتار کر مسجد میں بیٹھ گئے.نماز کے بعد مولانا درد صاحب نے ان سے نماز کی حکمت اور فضلیت بیان کی اور پھر مسجد کے متعلق ان کے بعض سوالات کے جوابات دیئے اس کے بعد باغ میں آئے جہاں جلسہ کی کارروائی خاکسار نے تلاوت سے شروع کی اور درد صاحب نے اصول اسلام پر برمحل تقریر کی جس میں انبیاء کی توحید اور بعثت کا ذکر کیا اور بتایا کہ خدا تعالیٰ اب بھی اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح وہ پہلے زمانوں میں کرتا تھا.چنانچہ اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو ہندوستان میں مبعوث کیا اور اس سے باتیں کیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ امن کا شہزادہ وہی ہے اور اسی کے بتائے ہوئے اصول اختیار کرنے سے دنیا میں امن ہوسکتا ہے...چونکہ در دصاحب نے اپنے لیکچر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بیان کیا تھا کہ ان کا فوٹوز بیٹنگ روم میں موجود ہے جو دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں چنانچہ سب ممبروں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے فو ٹو دیکھے اور میں نے مختصر انہیں حالات بھی بتائے اور سات کتابیں انہوں نے قیمتاً خریدیں.ایک مذہبی کانگریس میں احمدیت کا ذکر الفضل قادیان 22 جولائی 1936ء) ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) Wolrd Fellowship of Faiths کے قیام کی اصل غرض مختلف مذاہب کے درمیان رشتہ اخوت و محبت اور امن کا قائم کرنا ہے.اس سوسائٹی کی پہلی کانگریس شکاگو اور نیو یارک میں 1933ء 19349ء کو ہوئی تھی جس میں مختلف مذاہب کے 199 نمائندے شریک ہوئے.اس کی تیسری کانگرس 1938ء میں ہندوستان اور 1939ء میں نیو یارک اور 1942ء میں جاپان منعقد ہوگی اور دوسری کانگرس جولائی 1936ء کولنڈن میں ہوئی ہے.اس کے اجلاس یکم جولائی سے لے کر 17 جولائی تک ہوئے ہیں.ہر روز صبح پہلے ایک مذہب کا نمائندہ دعا کرتا جس میں دوسرے بھی شریک ہوتے پھر لیکچر ہاں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 274 میں آتے.اس میں پہلا اجلاس سوا گیارہ بجے سے ایک بجے تک اور دوسراڑھائی بجے سے ساڑھے چار بجے تک ہوتا.ہر مضمون پڑھے جانے کے بعد مباحثہ کا موقعہ دیا جاتا.حاضری عام طور پر 150 یا 200 کے قریب ہوتی تھی.داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا.تین عام اجلاس ہوئے جن میں داخلہ کیلئے لسٹ کی ضرورت ب تھی.اس میں ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ شامل ہو جاتے تھے.16 جولائی کے پروگرام میں دعا مولا نا عبد الرحیم صاحب درد کی رکھی ہوئی تھی اور عیسائی مذہب کے نمائندہ کے مضمون کے متعلق بحث کا افتتاح بھی انہوں نے ہی کرنا تھا.چھپا ہوا مضمون در دصاحب کو پہنچ گیا تھا جس کا جواب آپ نے لکھ لیا تھا اور دعا بھی سوسائٹی والوں نے چھپوا دی تھی.16 جولائی کی صبح کو پروگرام کے مطابق آپ نے دعا کی.پہلے سورہ کہف کی پہلی اور آخری دس آیات تلاوت کیں پھر وہ چھپا ہوا پر چہ پڑھا جس میں چند احادیث نبویہ کا ترجمہ دیا گیا تھا.پھر احمد بیت حقیقی اسلام ہے کے آخر میں جو تمام ممالک کو اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے لکھی تھی ، پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک فارسی نظم کا ترجمہ اور آخر میں سورہ فاتحہ کا ترجمہ دیا گیا تھا.عیسائی مذہب کے نمائندہ کے جواب میں آپ نے اس امر کی وضاحت کر دی تھی کہ سب مذاہب کے نمائندوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ اگر مختلف مذاہب کے درمیان رشتہ محبت واتفاق قائم ہوسکتا ہے تو اس کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ ایک خدا جو سب کا خالق ہے اس پر ایمان لائیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان کیسے پیدا ہو سکتا ہے.یہ کوئی نہیں بتا تا سو اس کا ذریعہ صرف ایک ہی ہے اور وہ خدا کے نبی اور فرستادہ ہوتے ہیں اور ایسے ہی پاک وجودوں کے ذریعہ مختلف مذاہب اور مختلف ممالک کے رہنے والوں کے درمیان حقیقی اتحاد پیدا ہوا کرتا ہے.اس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ اور مختصر طور پر آپ کی سوانح عمری بھی پیش کی.یہ مضمون Muslim Times میں شائع ہو چکا ہے.میں بھی اس کانگریس کے متعدد اجلاسوں میں شریک ہوا اور وہاں مہاراجہ بڑودہ اور سر ہر برٹ سموئیل اور سر آرنلڈسٹیو اور حافظ و ہبہ قونصل حکومت سعودیہ وغیرہ سے ملاقات ہوئی.اس موقعہ پر احمدی دوستوں نے دوسو کے قریب اشتہارات اور ٹریکٹ تقسیم کئے.اس کانگریس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں کی تقریر سننے سے قرآن مجید کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.سورہ صافات کی پہلی آیات
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 275 میں اللہ تعالیٰ نے ایسی کانفرنسوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے.اِنَّ الهَكُمْ لَوَاحِدٌ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ (الصافات: 5-6 ) کہ ایسی تمام کانگرسوں اور کانفرسوں کا نتیجہ آخر یہی نکلے گا کہ انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اے انسانو! تمہارا خدا ایک ہی ہے جو آسمان اور زمین اور مافیھا کا رب ہے اور تمام مشارق کا بھی وہی رب ہے...جرمن طلباء کی مسجد میں آمد 24 جولائی کو جر من طلباء کی ایک کلب کے ممبر مسجد میں آئے جنہیں چائے کی دعوت دی گئی تھی.پینتیس کے قریب طالب علم تھے.استادوں اور یہاں کے مہمانوں کو ملا کر پچاس کے قریب تعداد ہو گئی.یہ طالب علم اچھے اعلیٰ گھرانوں کے تھے.چائے کا انتظام باغ میں کیا گیا تھا.مختلف جگہ میزیں اور کرسیاں لگا دی گئی تھیں.مسجد وغیرہ دیکھنے کے بعد سب کرسیوں پر آکر بیٹھ گئے.ہر ایک میز پر ایک ایک احمدی ان کے ساتھ بیٹھ گیا جو ان سے باتیں کرتا رہا.موسم بہت اچھا تھا.چائے کے بعد سیکرٹری کلب نے مختصر تقریر میں شکریہ ادا کیا جس کا دردصاحب نے جواب دیا اور یہ تجویز کی کہ احمدی دوست مختلف زبانوں میں تھوڑا تھوڑا بولیں.چنانچہ ڈاکٹر سلیمان صاحب نے افریقی زبان میں محمد امین خاں صاحب نے پشتو میں ، برادرم عبد العزیز صاحب نے پنجابی میں.مرز اسعید احمد صاحب نے اردو اور فارسی میں ، ایک دوست نے سواحیلی میں اور خاکسار نے عربی میں تقریر کی.اس تقریب کے موقعہ پر حافظ نذیر احمد صاحب ریٹائرڈ حج آف ریاست کشمیر جو حضرت حافظ روشن علی صاحب کے حقیقی ماموں ہیں ،تشریف رکھتے تھے انہوں نے گہری دلچسپی لی اور مختصری خاکسار جلال الدین شمس از لنڈن.تقریر بھی کی.درس القرآن (الفضل قادیان 9 اگست 1936ء) ستمبر 1936ء میں] اخبار ڈیلی ہیرلڈ کا ایک نمائندہ دار التبلیغ میں آیا اس نے مختلف سوالات کئے جن کے [ مولانا عبدالرحیم] درد صاحب نے جوابات دیئے.اب اس نے مسجد کی تصویر بھی منگوائی ہے.امید ہے کہ وہ اس کے متعلق ایک مضمون شائع کرے گا.نومسلموں کو دینی مسائل سکھانے کیلئے پندرہ روزہ ایک سبق بطور سوال و جواب ٹائپ کر کے بذریعہ ڈاک بھجوایا جاتا ہے اور اتوار کے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 276 روز جو نو مسلم آتے ہیں انہیں بھی سبق دیا جاتا ہے اور دو ہفتہ سے ہندوستانیوں کیلئے بھی درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے.آئندہ بھی ہر اتوار کو یہاں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کے خاص خاص حصص کا انشاء اللہ تعالیٰ درس دیا جایا کرے گا.اس میں غیر احمدیوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے.تمام احباب جماعت سے دعا کیلئے عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو قبولیت حق کیلئے خاکسار جلال الدین شمس از لنڈن.کھول دے.الفضل قادیان 11اکتوبر 1936ء) روٹری کلب اور ہائیڈ پارک میں لیکچرز ، ایک پادری سے مکالمہ ( حضرت مولانا جلال الدین شمس ) لنڈن میں ہائیڈ پارک ایک ایسا مقام ہے جہاں مختلف مذاہب کے نمائندے آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں.تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر سٹیج لگے ہوتے ہیں.اگر ایک سٹیج پر سے یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ یسوع مسیح تمام دنیا کا نجات دہندہ ہے تو دوسرے سٹیج سے اس کے خلاف آواز اٹھتی ہے.مذہبی لیکچروں کے علاوہ سیاسی لیکچر بھی ہوتے ہیں اور جو شیح کسی مذہب سے متعلق ہوتی ہے اس پر اس مذہب کا نام لکھا ہوتا ہے.انہی سٹیجوں میں آپ کو ایک ایسی سٹیج بھی دکھائی دے گی جس پر اسلام لکھا ہوا ہے اور وہ احمدی کی سٹیج ہے.ہر جمعرات کو وہاں اسلام کی تائید میں لیکچر دیا جاتا ہے اور لیکچر کے بعد سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں.چنانچہ برادرم عبدالعزیز صاحب نے دو لیکچر اور میر عبد السلام صاحب نے تین لیکچر دیئے.لیکچروں کے علاوہ مجھ سے بھی بعض لوگوں کی گفتگو ہوتی ہے.گفتگو کے وقت پندرہ ہیں بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ اشخاص ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں.ان میں سے بعض مکالمات خلاصہ کے طور پر ہدیہ ناظرین کرتا ہوں.پادری ( دوران تقریر میں ) ہمارے چرچ کا بنیادی پتھر یسوع مسیح ہے اس لئے چرچ کی بنیاد بڑی مضبوط ہے.کیونکہ یسوع مسیح ہماری پناہ ہے.شمس (اختتام تقریر پر ) انجیل میں تو لکھا ہے کہ مسیح نے پطرس سے کہا کہ تو وہ چٹان ہے جس پر میں اپنا چرچ بناؤں گا.لیکن معا اس کے بعد اسے شیطان کے لقب سے ملقب کیا جیسا کہ آیت 23 میں مذکور ہے.نیز پطرس نے تین دفعہ مسیح کا انکار کیا اور جھوٹے پر لعنت بھی کی.اس سے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 277 معلوم ہوتا ہے کہ چرچ کا نبیادی پتھر نہایت کمزور تھا اور چرچ والوں کا ابتداء سے ایک دوسرے سے اختلاف شاید اسی وجہ سے ہے.پادری پولوس نے کہا ہے کہ مسیح گر جا کا بنیادی پتھر ہے.شمس: میں نے تو حضرت مسیح کا قول پیش کیا ہے.آپ بھی حضرت مسیح کا کوئی قول پیش کریں.انہوں نے اپنے متعلق کہا ہے کہ میں چرچ کا بنیادی پتھر ہوں.پولوس تو حضرت مسیح کا شاگرد بھی نہیں تھا.پادری : بے شک پطرس بھی بنیادی پتھر تھا اور اس میں کمزوری بھی تھی مگر چرچ کی دعائیں اس کی کمزوری کی معالج ہیں.شمس جب بنیادی چٹان ہی کمزور ہوئی تو اس پر جو عمارت بنے گی کیونکر مضبوط ہو سکتی ہے.ایک یہودی سے گفتگو اس کے بعد ایک یہودی سے گفتگو ہوئی.یہودی اسلام کی رو سے انسان پاک کیسے بن سکتا ہے اور دنیا میں امن قائم کر نیکا کیا ذریعہ ہے؟ شمس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکام اور قانون پر عمل کرنے سے انسان پاک ہوسکتا ہے ، اور اس سے دنیا میں امن بھی قائم ہو سکتا ہے.اسلام کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری پوری اطاعت کرنا.یہودی کیا خدا کے قانون پر کوئی شخص عمل کر سکتا ہے.؟ شمس کیوں نہیں؟ اگر کوشش کرے تو کر سکتا ہے.یہودی چونکہ انسان کمزور ہے اس لئے کوئی شخص خدا تعالیٰ کے قانون پر پورے طور پر عمل نہیں کر سکتا.شمس ہماری الہامی کتاب قرآن شریف میں تو یہی لکھا ہے کہ کوشش کرے تو کر سکتا ہے اور لَا يُكلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ: 287) کہہ کر بتا دیا ہے کہ انسان کو اس کی طاقت کے مطابق احکام کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے.یہودی اگر انسان زنا وغیرہ کا مرتکب ہو تو وہ ہر گز پاک نہیں ہوسکتا.شمس ہماری شریعت میں گناہ کا علاج استغفار اور تو بہ مذکور ہے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس یہودی تو بہ کیونکر علاج ہے.شمس جب حضرت موسی آئے اس وقت جو لوگ گناہ کرتے تھے انہیں معاف کیا گیایا نہیں.یہودی معاف کیا گیا.لیکن وہاں پر یسٹ واسطہ ہوتا تھا.شمس: پریسٹ معصوم ہوتا تھا یا گنہگار.تھایا یہودی : وہ بھی گنہگار ہوتا تھا.278 شمس پھر اس کے اپنے گناہ کیسے معاف ہوتے تھے اس پر یہودی ہنس پڑ اور دوسرے بھی ہنس دیئے.میں نے کہا آپ نے خود اقرار کر لیا کہ تو بہ گناہوں کا علاج ہے اور خدا گناہ معاف کر دیا کرتا ہے.پس انسان پوری کوشش کرے تو خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت پر پورے طور سے عمل کر سکتا ہے.یہودی آپ کا قانون کونسا ہے؟ شمس قرآن مجید جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.یہودی توریت میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ شمس توریت صرف بنی اسرائیل کیلئے تھی نہ کہ تمام دنیا کیلئے.قرآن کریم تمام زمانوں اور تمام قوموں کیلئے ہے.یہودی تو رات بھی تمام دنیا کیلئے تھی.شمس ہرگز نہیں جو شریعت تمام قوموں کیلئے ہو ضروری ہے کہ اس کا بھیجنے والا تمام قوموں سے اپنے تعلق کا اظہار کرے مگر تو رات میں آتا ہے کہ اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ موسوی شریعت صرف بنی اسرائیل کیلئے تھی.دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر شریعت موسوی تمام اقوام کیلئے ہوتی تو بنی اسرائیل کے لوگ دوسری قوموں میں تبلیغ کرتے مگر انہوں نے نہیں کی.حضرت مسیح بھی آئے تو انہوں نے کہہ دیا، میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے کیلئے آیا ہوں.لیکن برعکس اس کے قرآن مجید کی مسلمانوں نے تمام دنیا میں تبلیغ کی.یہودی جب تو رات آئی تو اس وقت یہود کے پاس حکومت نہ تھی اس لئے ہم تبلیغ نہیں کر سکتے تھے.شمس جب حکومت تھی اس وقت کن اقوام میں تبلیغ کی تھی.تورات میں خبر دی گئی تھی ، کہ موسیٰ" کی امت میں ایک نبی آئے گا جسے نئی کتاب دی جائے گی.وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس استثناء18:18 سے ظاہر ہے.یہودی : استثناء باب 18:18 میں جس نبی کا ذکر ہے بنی اسرائیل سے آئے گا.شمس بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد بنی اسماعیل ہیں.یہودی بنی اسرائیل کے بھائیوں سے بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے آئے گا.شمس بنی اسماعیل بنی اسرائیل کے ساتھ تھے یا نہیں.یہودی : وہ ایک رنگ میں بھائی تھے لیکن یہاں بنی اسرائیل ہی مراد ہیں.279 شمس آپ تسلیم کرتے ہیں کہ بنی اسماعیل بھی بنی اسرائیل کے بھائی ہیں.اس سے مراد یہ ہے کہ پیشگوئی میں بنی اسرائیل یا بنی اسماعیل.ہمارے نزدیک بنی اسماعیل مراد ہیں اور اس کی تین وجوہات ہیں.(1) اس پیشگوئی کے پہلے لکھا ہے کہ میں نے حورب کے مقام پر یہ کہا کہ وہ خدا کا کلام سننا نہیں چاہتے.خدا نے کہا انہوں نے اچھا کیا جو یہ کہا.اس لئے میں انکے بھائیوں سے نبی مبعوث کروں گا جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان میں سے وہ بنی نہیں آئیگا.(2) جب مسیح آئے تو انہوں نے انگور کے باغ کی مثال دے کر سمجھایا کہ ان کے بعد مالک آئے گا اور یہود کو مخاطب کر کے کہا کہ : ” اب تم سے آسمانی بادشاہت چھین لی جائے گی اور دوسری قوم کو دی جائے گی.“ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح کے بعد بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی نہ آئے گا بلکہ دوسری قوم سے آئے گا اور کتاب پیدائش میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مذکور ہے کہ تیری نسل سے تمام قو میں برکت پائیں گی.اس لئے ضروری تھا کہ جب بنی اسرائیل آسمانی بادشاہت سے محروم کر دیئے گئے تو نبوت حضرت ابراہیم کی دوسری شاخ بنی اسمعیل میں جاتی.اس لئے وہ نبی بنی اسمعیل سے ہی آنا تھا اور یہود سے نبوت چھین لئے جانے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مسیح سے پہلے تو کثرت سے ان میں نبی آئے لیکن ان کے بعد دو ہزار سال میں ان میں سے ایک بھی نبی نہ ہوا.(3) اس پیشگوئی میں جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی گئی ہیں.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 280 یہودی یہود نے تو خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم کر دی تھی جہاں گئے خدا تعالیٰ کی توحید قائم کر دی مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا ؟ شمس: یہود نے دوسری اقوام کو تبلیغ ہی نہیں کی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں مبعوث ہوئے اور اپنی وفات سے پہلے تمام عرب میں جو بت پرستی کا گڑھ تھا تو حید قائم کردی اور آسمانی بادشاہت پورے طور پر جلوہ گر ہوئی.پھر آپ کے پیرو شام و ایران و مصر وغیرہ کی طرف بڑھے اور ان تمام ممالک میں آسمانی بادشاہت قائم کر دی اور خدا تعالیٰ کی توحید کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بٹھا دیا.لا الہ الا اللہ کی پانچ وقت آواز میں ہر طرف گونجنے لگیں.اسی طرح ہندوستان اور دیگر ممالک میں ہوالیکن یہود نے اس کے مقابل میں کچھ بھی نہیں کیا.آخر کار اس نے اقرار کیا کہ ہم تو ختم ہو گئے.حاضرین میں سے بعض نے کہا جب ختم ہو چکے ہو تو پھر خاموش رہو کسی اور کو جگہ لینے دو چاہے وہ مسلمان ہوں یا کوئی اور.ایک فری تھنکر سے گفتگو.ہالینڈ کا ایک فری تھنکر بھی گفتگو سن رہا تھا اس کے بعد اس نے گفتگو شروع کر دی.فری تھنکر : اس عالم کوکس نے بنایا ہے.شمس : اللہ تعالیٰ نے.فری تھنکر : کیا آپ I am ( میں ہوں ) کے سوا کوئی خدا مانتے ہیں.شمس: اگر تو I am سے مراد خدا کا انا الموجود کہنا ہے تو وہ ہمیشہ سے ہے لیکن اگر انسان کا I am کہنا مراد لیا جائے تو اس کے وجود سے پہلے اس کا بھی وجود نہ تھا.فری تھنکر : اگر Iam نہیں تھا تو خدا بھی نہیں تھا.شمس: یہ غلط ہے.آپ کی Iam اسی وقت سے ہے جب سے آپ پیدا ہوئے.پیدائش سے پہلے نہ آپ تھے نہ آپ کی 1am تھی لیکن خدا تھا کیونکہ آپ کے سوا خدا تعالیٰ کی اور بھی بہت سی مخلوق تھی.فری تھنکر : اس امر کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ خدا نے اس عالم کو پیدا کیا ہے؟ شمس اشیاء عالم میں ایک ترتیب پائی جاتی ہے اور ایک قانون کے ماتحت وہ ایک دوسرے پر اثر ڈال رہی ہیں.یہ ترتیب اور قانون اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ اشیاء عالم کی خالق ایک ذی ارادہ
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ہستی ہے.فری تھنکر : اشیاء عالم میں کوئی ترتیب نہیں پائی جاتی.281 شمس آپ پہلے میری دلیل غور سے سن لیں ابھی میں آپ کو ترتیب کا بھی ثبوت دیتا ہوں.مثال کے طور پر آپ انسان کو لے لیں.اس میں سننے چکھنے ، دیکھنے وغیرہ کی قوتیں پائی جاتی ہیں ان کو مد نظر رکھ کر اگر عالم کی چیزوں پر غور کیا جائے تو صاف طور پر معلوم ہو جائے گا کہ انسان اور باقی تمام اشیاء کا خالق ایک ہی ہے اور وہ ذی ارادہ ہستی ہے.انسان کو آنکھ دی لیکن آنکھ کام نہیں دے سکتی تھی جب تک کہ سورج اس قدر فاصلہ پر نہ ہوتا جس قدر فاصلہ پر اب ہے.اسی طرح انسان غذا کا محتاج ہے اور غذا اسورج کی تاثیرات سے تیار ہوتی ہے.اس کی تاثیرات بھی زمین پر ایک قانون کے ماتحت پڑتی ہیں.اسی طرح قوت ذائقہ دی تو اس کیلئے میٹھی نمکین چیزیں بھی پیدا کر دیں.قوت شنوائی دی تو اس کیلئے ہوا بھی پیدا کر دی اگر ہوا نہ ہوتی تو انسان سن نہ سکتا.اسی طرح بیماریاں ہیں تو ان کے علاج بھی صحیفہ عالم میں پائے جاتے ہیں غرضیکہ انسان کی تمام ضروریات کو پورا کیا گیا ہے اور ان تمام چیزوں میں ایک نظام اور ترتیب پائی جاتی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ ان اشیاء کی خالق ایک ذی ارادہ ہستی ہے.فری تھنکر : یہ تمام چیزیں Nature سے پیدا ہوئی ہیں.شمس: Nature کوئی ذی ارادہ چیز نہیں ہے ترتیب اور نظام اور قانون ایک ذی ارادہ ہستی کو چاہتے ہیں.مثلاً اگر ہم کسی کاغذ پر تین سطریں نہایت خوشخط لکھی ہوئی دیکھیں تو ہم کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ یہ خود بخود بغیر ارادہ کے لکھی گئی ہیں بلکہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ سطور بالا رادہ کبھی گئی ہیں.اسی طرح اشیاء عالم میں جو نظام اور ترتیب پائی جاتی ہے وہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ اس تمام عالم کی خالق ایک ذی ارادہ ہستی ہے اور وہی خدا ہے.اس دلیل کافری تھنکر کوئی جواب نہ دے سکا....الفضل قادیان 21 اکتوبر 1936ء)
282.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس $1937 روٹری کلب میں اسلام کے موضوع پر ایک لیکچر (حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) ممبران کلیپیہم روٹری کلب کی دعوت پر 15 فروری 1937ء کو میں نے اسلام کے موضوع پر ایک پر چہ پڑھا جس میں مختصر طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی کا ذکر کرنے کے بعد اسلامی تعلیم کو پیش کیا.چونکہ مسئلہ طلاق و شادی پارلیمنٹ میں زیر بحث تھا اس لئے اس پر میں نے تفصیل سے روشنی ڈالی اور طلاق کے متعلق اسلامی قانون کو پیش کیا.آخر میں ممبران کلب کی طرف سے ایک ممبر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے لیکچر توجہ سے سنا ہے اور ہم اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے.بارہ مارچ کو جسٹس کی عدالت میں ایک طلاق کا مقدمہ پیش ہوا جس میں خاوند اور بیوی کے زانی ثابت کرنے کیلئے فریقین کی طرف سے ان کی لڑکی پیش ہوئی جس نے شہادت دی کہ میری ماں نے اپنے ایک شخص کے ساتھ تعلقات رکھے جو میرا باپ نہیں اور میرا باپ اس عورت کے ساتھ رہتا ہے جو اس کی بیوی نہیں.اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے موجودہ قانون طلاق کے مطابق حصول طلاق کیلئے دوسرے سے ملنا ضروری ہے.جسٹس سوفٹ نے نہایت سخت ریمارک کئے ہیں.مکمل فیصلہ تمام اخبارات میں شائع ہوا ہے چنانچہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ: تیرہ سال ہوئے جب موجودہ عہدہ پر میر ا تقرر ہوا اس وقت سے میں نے جو درد ناک واقعات اور حالات سنے ہیں ان کی بناء پر میں کہتا ہوں کہ موجودہ سسٹم نہایت وحشیانہ اور معیوب ہے اور ہم جو عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر اس قسم کے درد ناک واقعات جیسا کہ آج میں نے سنا ہے سنتے ہیں، چاہتے ہیں کہ آج سے کئی سال پیشتر اس کے متعلق کچھ ہو جانا چاہئے تھا.پھر لکھتے ہیں: To my mind the divorce laws of this country are wrecked and cruel.میری رائے میں اس ملک کے موجودہ قوانین طلاق نہایت معیوب اور وحشیانہ ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنكاً (طه : 125 ) کہ جو میری شریعت سے منہ پھیر تا ہے اسے تنگ زندگی گزارنی پڑتی ہے.ان کی اہلی زندگی درست نہیں ہو سکے گی جب تک
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 283 کہ وہ اسلامی قوانین پر عمل پیرا نہیں ہوں گے.صرف قانون طلاق بدلنے سے بھی کچھ نہیں ہوگا جب تک که مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط کو نہ روکا جائے گا اور زنا کے ارتکاب پر سز امقرر نہیں کی جائے گی.تھیوسوفیکل سوسائٹی میں گفتگو 11 مارچ کو تھیوسوفیکل سوسائٹی میں شخصی اور قومی دولت کے موضوع پر ایک لیکچر تھا.میں اور برادرم عبد العزیز صاحب سننے کیلئے گئے.اختتام لیکچر پر برادرم عبدالعزیز نے سود کے متعلق کہا کہ اسے بند کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نقصانات بہت ہیں.سپیکر نے جواب دیا کہ سود ہے تو بری چیز اور امریکہ میں بجٹ کے خسارہ کا موجب بھی سود ہی ہوا ہے لیکن موجودہ سسٹم کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہے یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اس پر جلدی سے عمل کیا جاسکے.جب میٹنگ ختم ہوگئی تو ایک انگریز سے اسلام کی تعلیم رواداری اور مسیح کی صلیبی موت کے متعلق گفتگو ہوئی.آخر پر اس نے کہا کہ اگر آپ ہماری سوسائٹی میں ایک لیکچر دیں تو بہت اچھا ہوگا.مضمون ” اخوت اور عالمگیر امن ہو.میں نے کہا بہت اچھا اگر آپ چاہیں تو اس پر لیکچر دے دیا جائے گا.انہوں نے پھر اطلاع دینے کا وعدہ کیا.ان صاحب کی دریائے ٹیمز میں بہت سی کشتیاں چلتی ہیں.رائل مصری کلب میں عربی میں گفتگو 14 مارچ کو میں رائل مصری کلب گیا.وہاں سات آٹھ مصری نوجوانوں سے جو یہاں کالجوں میں تعلیم پاتے ہیں تقریباً تین گھنٹہ تک مختلف مسائل پر عربی میں گفتگو ہوئی.پہلے تو انہوں نے عیسائیوں اور سکھوں کے مذہب کے متعلق دریافت کیا.اس کے بعد وفات مسیح اور صداقت مسیح موعود پر گفتگو ہوئی.بعض نے کہا یہ تو نہیں سنا کہ میں دوبارہ آئے گا میں نے کہا کہ اگر آپ تفاسیر اور دیگر علماء کی کتب پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے کہ جو شخص وفات مسیح کا قائل نہیں ہے اور اس کے دوبارہ نزول کا منکر ہے وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے.انہوں نے کہا قرآن مجید سے احمد مسیح موعود کے متعلق کوئی پیشگوئی بتا ئیں.حاضرین میں سے ایک فلسطینی تھا جو مفتی حسین کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے.اس نے کہا اسمه اَحْمَد سے آپ ثابت کرتے ہوں گے مگر یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے.میں نے کہا یہ بھی مسیح موعود کے متعلق ہے اس کے علاوہ اور بھی ہیں مگر چونکہ آپ نے اس کو خود پیش کیا ہے اس لئے اس کو بیان کرتا ہوں مگر پہلے پیشگوئیوں کے متعلق ایک اصول کا ذکر کر دینا ضروری
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 284 سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ پیشگوئیوں کی تفسیر میں ہمیشہ اختلاف ہوتا رہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو رات میں پیشگوئی تھی کہ موسیٰ کی مانند ایک نبی آئے گا مگر اس میں ” تمہارے بھائیوں میں سے آئے گا کے الفاظ سے تمام یہود نے سمجھا کہ وہ ان میں سے آئے گا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں نے اس سے مراد بنی اسماعیل لئے مگر یہود نے اس تفسیر کو نہ مانا اور اس پیشگوئی کی طرف قرآن مجید کی آیت وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرائيلَ عَلى مِثْلِهِ (الاحقاف:11) میں اشارہ کیا گیا ہے.اسی طرح اسمہ احمد کی تفسیر میں اگر آپ ہم سے اختلاف کریں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مگر دیکھنا یہ چاہیے کہ جس تفسیر کی صحت پر دلائل اور قرائن زیادہ پائے جائیں وہی تفسیر زیادہ صحیح ہوگی.آپ بتائیں کہ آپ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیسے مراد لیتے ہیں؟ انہوں نے اپنی تفسیر کی تائید میں تین باتیں پیش کیں.(۱) عیسی علیہ السلام مِنْ بَعْدِی فرماتے ہیں کہ میرے بعد آئے گا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.(۲) فَلَمَّا جَاءَ ہم ماضی کا صیغہ ہے کہ جب وہ ان کے پاس آیا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ احمد سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.(۳) انہوں نے اسے سحر کہا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سیا حر اور آپ کی باتوں کو سحر کہا گیا.میں نے کہا کہ یہ تینوں باتیں اس امر کی قطعی دلیل نہیں ہوسکتی ہیں کہ احمد سے مراد صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ اول تو آپ کا ذاتی نام احمد نہ تھا.اگر یہ پیشگوئی واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تھی تو چاہئے تھا کہ آپ کا نام ابتدا سے احمد ہوتا لیکن یہ بات تاریخ سے ثابت نہیں ہے کہ آپ کا نام احمد تھا.آپ کا نام محمد تھا.قرآن مجید میں بھی جہاں آپ کا نام آیا ہے محمد ہی آیا ہے.(۱) وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( آل عمران : 145) (٢) مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ ( الفتح: 30) (۳) بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ ( سوره محمد : 3 ) (۴) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ (الاحزاب: 41).ایک آیت میں بھی تو آپ کا نام احمد نہیں آیا.پھر عبادات میں اللهم صل علی محمد اذان میں بھی اور پھر کلمہ میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ذکر ہے تو کیا لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ کہنا جائز ہے.کہنے لگے نہیں تو میں نے کہا یہ دلیل ہے اس امر کی کہ آپ کا نام احمد نہیں رکھا گیا تھا.یہ صرف آپ کا دوسرے ناموں کی طرح ایک صفاتی نام تھا اور کا فرصاف طور پر کہہ سکتے تھے کہ پیشگوئی میں تو آنے والے کا نام احمد لکھا ہے اور آپ کا نام تو محمد ہے.پھر آپ کیونکر اس کا مصداق بن سکتے ہیں اور لفظ بعدی سے بعد یت متصلہ مراد لینا ضروری نہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 285 چنانچہ قرآن مجید میں آتا ہے جب جنوں کا گروہ قرآن مجید سن کر قوم کی طرف واپس گیا تو انہوں نے کہا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَاباً أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسى (الاحقاف:31) حالانکہ قرآن مجیدز بور اور انجیل کے بعد اور داؤ د وسلیمان و یحیی و زکریا اور عیسی علیہ السلام کے بعد اترا تھا لیکن انہوں نے اسے موسیٰ کے بعد قرار دیا.پس اگر اس پیشگوئی میں مسیح موعود علیہ السلام کو مرا دلیا جائے تو لفظ بعدی اس کے مخالف نہیں ہے اور فَلَمَّا جَاءَ هُمُ کا یہ جواب ہے کہ پیشگوئی میں اکثر ماضی کا صیغہ بیان کیا جاتا ہے لیکن مراد مستقبل ہوتی ہے.اس کے تحقیق کے وقوع کے یقین ہونے کی وجہ سے ایسے طور پر بیان کی جاتی ہے گویا واقع ہو گئی.چنانچہ اس کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت پائی جاتی ہیں.سورہ ملک میں مکہ والوں پر عذاب آنے کی پیشگوئی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ O (الملک :28) حالانکہ وہ عذاب آنے والا تھا اور تیسری بات کا یہ جواب ہے کہ ساحر ہر نبی کو کہا جاتا ہے اور اس کی باتوں کو سحر قرار دیا جاتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: كَذَالِكَ مَا أَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (الذاريات: 53) اور اسی طرح ہارون و موسیٰ علیہما السلام کے متعلق آتا ہے.قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرا (القصص:49) پس جب مسیح موعود آئے گا اور اسے ساحر اور اس کی باتوں کو سحر کہا جائے گا تو اس پر یہ بات صادق آجائے گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ساحر اور آپ کی باتوں کو سحر کہا گیا.پھر میں نے ابتدائے سورۃ سے آخر سورۃ تک اپنی تفسیر کی تائید میں وجوہات پیش کیں اور یہ بھی بتایا کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصل ہیں اور مسیح موعود آپ کے امتی ہونے کیوجہ سے آپ کے ظل ہیں اس لئے اس رنگ میں آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی پیشگوئی ہے کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو حضرت مسیح موعود کا بھی ظہور نہ ہوتا.ایک نے یہ سوال کرنا چاہا کہ اگر پیشگوئی میں ایک قسم کا اشتباہ ہوتا ہے تو پھر اگر احمد سے مراد مسیح موعود لئے جائیں تو پھر تو اشتباہ نہ رہا.کیونکہ اسی نام کا مسیح موعود آگیا مگر دوسری بات شروع ہو جانے کیوجہ سے اس اعتراض کا اس نے پھر ذکر نہ کیا مگر اس کا یہ جواب ہے کہ اس پیشگوئی میں اشتباہ تو پیدا ہو گیا کہ آیا اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یا مسیح موعود ہیں.پہلے مفسرین اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد لیتے رہے.پس ایک رنگ کا اخفا اس پیشگوئی میں بھی پایا گیا غرض ترجیح اس تفسیر کو دینی چاہیے جس کی تائید میں زیادہ دلائل پائے جائیں.(الفضل قادیان 15 اپریل1937ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس بعض انگریزوں کا قبول اسلام 286 ( حضرت مولانا جلال الدین شمس) محض ہمارے پیارے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور احباب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسٹر اور مسز آرنلڈ کو قبولیت اسلام کی توفیق عطا فرمائی اور 29 مارچ (1937ء) کو انہوں نے بیعت فارم پر دستخط کر دیئے جو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امیرالم کی خدمت میں بھیج دیئے گئے.مسر آرنلڈ کے والد ڈاکٹر Caribell تھے جو ڈیرہ دون میں ڈاکٹری کا کام کرتے اور سردار یعقوب خاں کے فیملی ڈاکٹر تھے.اس کے علاوہ آنریری مجسٹریٹ اور میونسپلٹی کے سیکرٹری بھی رہے.مسٹر آرنلڈ کے دادا ہندوستان میں فوج کے کرنیل کے عہدہ پر ممتاز تھے.مسنز آرنلڈ کچھ اردو جانتی ہیں اور مسٹر آرنلڈ انگریزی، سپینش ، فرنچ اور Catalan زبانیں اچھی طرح جانتے ہیں.دونوں نے بڑے شوق سے مذہبی مسائل کے متعلق تحقیق کی اور کئی دن ان کے مکان پر ان سے تین تین گھنٹہ تک ان مسائل پر جو عیسائیت اور اسلام میں مختلف فیہ ہیں گفتگو ہوئی.ان میں سے ایک دو مسائل کا اختصار کے ساتھ ذکر کرتا ہوں.الوہیت مسیح کے متعلق گفتگو مسٹر آرنلڈ نے مجھے کہا کہ میری بیوی الوہیت مسیح کی قائل ہیں اور وہ خیال کرتی ہیں کہ مسیح سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہو سکتا ہے جب میں دوسری مرتبہ ان کے مکان پر گیا تو مسٹر آرنلڈ سے کہا کہ آپ انجیل اپنے ہاتھ میں لے لیں اور یوں یوحنا باب 7 آیت 6 تا 10 دیکھیں.پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی اس میں یہ ذکر ہے کہ یسوع کے بھائیوں نے اس سے کہا کہ تو بھی ہمارے ساتھ عید کے موقع پر یہودیا میں چل اور وہاں اپنے عجائب کام دکھا.اس نے کہا کہ میں اس عید پر نہیں جاؤں گا تم چلے جاؤ لیکن جب اس کے بھائی چلے گئے تو وہ بھی پوشیدہ طور پر وہاں چلا گیا.میں نے کہا کیا یہ صریح دھو کہ اور غلط بیانی نہیں تھی کہ انہیں تو کہہ دیا کہ میں نہیں جاؤں گا مگر بعد میں پوشیدہ طو پر وہاں چلے گئے.پھر یوحنا 8:10 کی یہ عبارت پڑھائی کہ تمام وہ جو اس سے پہلے آئے وہ چور اور ڈاکو تھے اور پھر خود ہی یہ تعلیم دی کہ ماں باپ کی تعظیم کرنی چاہیے (متی 19:19) لیکن اس کی والدہ اور بھائی باہر کھڑے رہے اور کسی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 287 کے اطلاع دینے پر کہ دیا کہ کون ہے میری ماں اور کون ہے میرے بھائی ؟ اور ان کے پاس جا کر دریافت نہ کیا کہ کیا بات ہے.اور یوحنا 4:2 میں اپنی والدہ کو ڈانٹ کے رنگ میں صرف اے عورت کہہ کر خطاب کیا.اور پھر تعلیم یہ دی کہ دشمن سے محبت اور بغض کرنے والوں سے احسان کرو ( متی 40:5) مگر ایک دیہہ والوں کے دو ہزار خنزیر شریر ارواح کو انہیں داخل ہونے کی اجازت دے کر ہلاک کر دیا.پھر تا مارجس کے خسر نے اس سے زنا کیا اور اس سے جو بچہ پیدا ہو ا یسوع مسیح کے نسب نامہ میں متی نے بیان کیا ہے.جب ایسے تمام حوالے پڑھ چکے تو میں نے کہا کیا ایسا انسان خدا تو کجا بزرگ مانا جا سکتا ہے؟ پھر میں نے قرآن مجید سے مسیح علیہ السلام کے جو حوالہ جات دکھائے اور کہا کہ یہ تو قرآن مجید کا احسان ہے کہ اس نے انہیں نبی اور رسول کہہ دیا ورنہ انجیل سے تو وہ بزرگ بھی ثابت نہیں ہو سکتے.اور پھر بلا باپ ولادت وغیرہ کے متعلق انہوں نے سوالات کیے جن کے جوابات دیے آخر میں انہوں نے کہا کہ واقعی مسیح کو خدا ماننا درست نہیں ہے.اسلام اور عیسائیت میں عورت کا درجہ عورتوں کے حقوق کے متعلق جب سوال آیا تو انہوں نے کہا کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ عورتوں میں روح نہیں ہے.میں نے کہا اسلام کی تعلیم تو میں بعد میں بیان کروں گا.پہلے نئے عہد نامہ سے عورت کا درجہ بتا تا ہوں.1 کرنتھیوں 3:11 تا10 میں لکھا ہے: ہر مرد کا سر مسیح لیکن عورت کا سر مرد ہے مسیح کا سر خدا ہے اور یہ کہ آدمی اللہ کی صورت اور اس کی بزرگی ہے لیکن عورت آدمی کی بزرگی ہے کیونکہ مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے اور مرد عورت کی خاطر نہیں بلکہ عورت مرد کی خاطر پیدا ہوئی ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ عورت مرد کی مساوی نہیں بلکہ جیسے مرد کے لیے دنیا میں اور بہت سی چیزیں پیدا کی گئی ہے ویسے ہی عورت اس کی خاطر پیدا کی گئی ہیں.پھر 1 کرنتھیوں 34:14-35 میں ہے کہ عورتوں کو گرجا میں خاموش رہنا چاہیے اگر وہ کوئی چیز سکھانا چاہتی ہیں تو وہ گھروں میں اپنے خاوندوں سے دریافت کریں کیونکہ عورت کیلئے گرجا میں بولنا باعث شرم ہے اور پھر تمطاؤس باب 2 آیات 12-14 میں لکھا ہے پولوس کہتا ہے میں عورت کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ سکھائے اور معلمہ بنے اور آدم گمراہ نہیں ہوا بلکہ عورت تھی جو اصل میں گمراہ ہوئی اور ایوب 4:25 میں عورت کو نا پاک قرار دیا گیا
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ہے.اس کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 288 مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَاب - (المؤمن: 41) جو کوئی مومن مرد ہو یا عورت، نیک کام کریں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے اور انہیں بغیر حساب رزق دیا جائے گا.پھر احزاب رکوع ۵ کی آیت إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ پیش کی جس میں ہر عبادت کا ذکر کرتے ہوئے مردوں اور عورتوں کا مساوی طو پر ذکر کیا ہے اور آخر میں فرمایا ہے اَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيماً کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے.پھر سورۃ روم کی آیت پیش کی.وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً (الروم :22) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہاری جنس کے جوڑے پیدا کیے یعنی جس قسم کے جذبات اور احساسات اور خواہشات تمہیں دیے گئے اسی قسم کے جذبات و احساسات اور خواہشات عورتوں میں ودیعت کئے گئے اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحم پیدا کیا یعنی ازدواجی زندگی کی احساس محبت اور رحم پر رکھی گئی ہے یہ نہیں کہ چونکہ عورت مرد کی خاطر پیدا کی گئی ہے نہ کہ مرد عورت کیلئے اس لئے عورت مقہور رہنی چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محبت اور رحم کی زنجیر سے دونوں کو ہم نے جکڑا ہے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خُذُوا نِصْفَ دِيْنِكُمْ مِنْ هَذِهِ الْحُمَيْرَاءَ اسنی المطالب ، جلد 1 صفحہ 131) کہ اے مرد و تم نصف دین حضرت عائشہ سے سیکھو.پھر احادیث اور تاریخ سے ثابت ہے کہ بڑے بڑے صحابہ مشکل ترین مسائل کاحل حضرت عائشہ سے دریافت کیا کرتے تھے اور جب آنحضرت ھے وعظ فرمایا کرتے اگر کوئی دریافت کرنے والی بات ہوتی تو عورتیں اسی وقت سوال کر کے دریافت کرلیتیں.پھر قرآن میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ آدم سے غلطی کا باعث عورت تھی اور وہ گمراہ ہوئی بلکہ فرمایا وَعَصَى آدَمُ فَغَولی کہ آدم کی غلطی تھی.غرضیکہ اسلام نے جو درجہ اور حقوق عورت کو دیئے ہیں عیسائیت نے قطعاً نہیں دیئے.مسز آرنلڈ نے کہا اصل میں اسلام کی طرف غلط باتیں منسوب کر کے یہاں مشہور کی گئی ہیں.غرضیکہ جس قدر مسائل کے متعلق انہوں نے دریافت کیا ان کے جواب سننے پر اطمینان اور تسلی کا اظہار کیا.آخر 29 مارچ کو احمدیت قبول کر کے احمد علیہ السلام کے حلقہ خدام میں داخل ہو گئے.الفضل قادیان 25 اپریل 1937ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس لندن میں یوم التبلیغ کیسے منایا گیا 289 ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) یوم التبلیغ سے پہلے بعض دوستوں کو پمفلٹ روانہ کر دیئے گئے تھے جو انہوں نے تقسیم کئے.برادرم مبارک احمد صاحب فیولنگ نے اپنے ایک دوست کے مکان پر جا کر تبلیغ کی اور مسٹر عبدالرحمن بارڈی نے لاریوں میں پمفلٹ رکھ دیئے تا ان میں بیٹھنے والے ان کو لے کر پڑھیں اور میر عبدالسلام صاحب نے ہائیڈ پارک میں تبلیغ کی.مسٹر اور مسنز آرنلڈ نے بھی اپنے مکان پر ایک شخص کو چائے پر بلا کر تبلیغ اسلام کی.لنڈن سے باہر جن دوستوں کو پمفلٹ بھیجے گئے انہوں نے بھی تقسیم کئے.خاکسار صبح ہی برادرم عبد العزیز کے مکان پر گیا اور ان کو ساتھ لے کر مسٹر فاکس کے مکان پر پہنچا جو چرچ آف انگلینڈ کے مشہور لیکچرار ہیں.ان کے پاس ایک نو جوان بھی تھا.ڈیڑھ گھنٹہ تک ان سے مذہبی گفتگو ہوئی.تعدد ازدواج عورت کے درجہ وغیرہ مسائل پر زیادہ بحث ہوئی.انہوں نے اقرار کیا کہ یہاں کے لوگ بعض تعدد ازدواج پر اعترض کرتے ہیں لیکن خود آپس میں کتوں اور بلیوں کی طرح مناکحت کرتے ہیں پھر ہم کلیپیہم کا من چلے گئے راستہ میں پمفلٹ تقسیم کئے گئے.کلیم میں ایک پادری تقریر کر رہا تھا تو اس کی تقریر پر سوالات کیے گئے بعد میں دہریوں سے دو گھنٹہ تک ہستی باری تعالیٰ اور نبوت کے متعلق گفتگو ہوئی.میں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کیا جائے تو نیکی اور بدی کی کوئی تعریف آپ نہیں کر سکتے.دہریہ نے کہا ہر شخص سمجھتا ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے.میں نے کہا کہ معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل کرنا نیکی ہے یا بدی؟ دہریہ نے جواب دیا نہایت بری چیز ہے.میں نے کہا مسولینی سے دریافت کریں وہ کہے گا کہ میری قوم اور اپنے ملک کی عظمت اور شان قائم کرنے کیلئے حبشہ کے معصوم بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا بری چیز نہیں ہے.کہنے لگا کہ وہ غلطی پر ہے.میں نے کہا کہ وہ کہے گا کہ آپ غلطی پر ہیں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گا کہ یہ آپ کی رائے ہے اور وہ اس کی رائے ہے اور اسی طرح ایک چور اور لٹیرا کہے گا کہ چوری اچھی چیز ہے اور دلیل یہ دے گا کہ گورنمنٹ بھی اپنے فائدہ کیلئے ٹیکس زیادہ لینے کیلئے وسائل سوچتی رہتی ہے اور
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس لوگوں کا مال ان کی مرضی کے خلاف لیتی رہتی ہے اسی طرح میں رات بھر تکلیف اٹھا کر اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر مال حاصل کروں اور اپنا پیٹ پالوں تو میر افعل برا کیونکر ہوسکتا ہے؟ لیکن خدا کو ماننے والا کہے گا کہ نیکی وہی ہے جس کو خدا نیکی قرار دے اور بدی وہی ہے جس کو خدا بدی قرار دے.جب انہوں نے خدا کے وجود پر دلیل مانگی تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے ہندوستان دیکھا ہے.کہنے لگے نہیں.میں نے کہا کہ آپ نے کیسے یہ یقین کیا کہ ہندوستان کا کوئی ملک ہے.دو تین دہر یہ بول اٹھے کہ سینکڑوں شخص وہاں گئے اور انہوں نے واپس آکر شہادت دی کہ ہندوستان ایک ملک ہے.میں نے کہا کہ یہی دلیل خدا تعالیٰ کے وجود کی ہے ایک نہیں ہزار نہیں بلکہ ہزاروں انسان پیدا ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا اور اس سے بالمشافہ باتیں کیں تب انہوں نے خدا کے وجود کی شہادت دی اور وہ کوئی معمولی انسان نہ تھے بلکہ اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ سعادت اور راست باز سمجھے جاتے تھے.دہر یہ کہنے لگا در حقیقت کسی خدا نے ان سے باتیں نہ کی تھیں بلکہ انہیں ایسا خیال ہو گیا تھا کہ کوئی ہستی ان سے باتیں کرتی ہے.میں نے کہا اس شبہ کی خود قرآن میں ترید کی گئی ہے 290 کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى (النجم : 12-13) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خدائی تجلیات دیکھیں آپ کے دل نے بھی اس کو غلط قرار نہیں دیا بلکہ تصدیق کی پس اے لوگو اس امر کے متعلق جھگڑا کیوں کرتے ہو جس کا اس نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور اس کے دل نے اس کی تصدیق کی کہ یہ محض آپ کا خیال اور وہم تھا.پس یہ کہنا کہ ابنیاء کا یہ کہنا کہ ان کی طرف وحی ہوتی ہے درحقیقت انہیں کوئی وحی نہیں ہوتی تھی یہ خود ایک وہم ہے جو عدم تفکر سے پیدا ہوتا ہے.پھر ایک عیسائی نے مسیح کی ابنیت کے متعلق دریافت کیا تو میں نے کہا کہ مسیح نے خود اپنے ابن اللہ ہونے کی تفسیر دی ہے.جب یہود نے کہا کہ ہمارا باپ ایک ہے اور وہ خدا ہے مسیح نے کہا تم اپنے باپ کے ہو اور وہ شیطان ہے کیونکہ تم اس کے کام کرتے ہو.پس جس معنی میں یہود کا باپ شیطان تھا انہی معنی میں مسیح کا باپ خدا تھا.نہ شیطان یہود کا حقیقی باپ تھا اور نہ مسیح کا خدا.اس نے کہا کہ شیطان کا لفظ انجیل میں نہیں ہے.میرے پاس انجیل تھی میں نے انجیل سے لفظ دکھا دیا.پھر مسیح کی صلیبی موت پر گفتگو کے دوران میں نے مسیح کے پطرس کو اپنا خلیفہ مقرر کر کے دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرنے کا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 291 ذکر کیا اور کہا کہ مسیح نے پطرس سے کہا کہ.Feed my sheep Lamb کیونکہ ان دولفظوں میں بہت فرق ہے.میں نے انجیل سے Sheep کا لفظ بھی دکھایا.مولا نا در دصاحب اس روز مکان پر رہے اور جو لوگ مکان پر آئے ان سے انہوں نے گفتگو کی.اسی طرح حضرت میاں ناصر احمد صاحب اور دیگر صاحبزادگان کو بھی پمفلٹ بھیج دیئے گئے جو انہوں نے تقسیم کیے.(الفضل قادیان 2 جون 1937ء) ایک مستشرق یہودی سے عربی میں گفتگو خاکسار اور برادرم عبد العزیز صاحب Society for promoting the study of Religions میں گئے.وہاں ڈاکٹر اے ایس یہودا کا جو یہود المذہب اور مستشرق ہیں، ” اسرائیلی نبیوں“ کے موضوع پر لیکچر تھا.انہوں نے لکھا ہو ا پر چاپڑھا.اس کے بعد سوال و جواب کیلئے موقعہ دیا گیا.انہوں نے کہا میں عربی جانتا ہوں اس لئے میں نے عربی میں یہ سوال کیا کہ حضرت موسیٰ کے بعد پے در پے نبی آئے لیکن مسیح علیہ السلام کے بعد یہ سلسلہ کیوں منقطع ہو گیا.کیا اس کی وجہ یہ نہیں جو حضرت مسیح نے بتائی تھی کہ چونکہ انہوں نے میرا انکار کیا ہے اس لئے آسمانی بادشاہت ان سے چھین لی جائے گی اور ایک دوسری قوم کو دے دی جائے گی جو اپنے وقت پر پھل دیگی.زمانہ نے اس کی تصدیق بھی کر دی چنانچہ ان کے بعد یہود سے کوئی نبی مبعوث نہ ہوا اور دوسری قوم بنی اسماعیل سے حضرت موسیٰ“ کی مانند نبی مبعوث ہوا.اگر یہ وجہ درست نہیں ہے تو کیا آپ اصل وجہ یہود سے انقطاع نبوت کی بتا سکتے ہیں؟ وہ چونکہ عربی جلدی نہیں بول سکتے تھے اور در حقیقت ان کیلئے اس سوال کا جواب دینا بھی مشکل تھا انہوں نے کہا میں اس کا جواب پھر دوں گا.اختتام جلسہ پر بھی انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ کسی وقت میرے مکان پر آکر تبادلہ خیالات کریں.عربی بولنے کا حاضرین پر اچھا اثر ہوا.ایک دو نے بعد میں گفتگو بھی کی اور ایک پادری کو میں نے سوال بتایا تو کہنے لگا کہ نہایت معقول سوال ہے.ہم دوسری قوم سے مراد برٹش وغیرہ سمجھتے ہیں لیکن بنی اسماعیل اس سے مراد ہونا قرین قیاس ہے بہر حال میں اس پر غور کروں گا.میں نے کہا حضرت اسماعیل کے متعلق پیدائش میں یہ صاف طور پر لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا کہ میں اسماعیل کو بھی ایک قوم بناؤں گا وہاں بھی Nation کا لفظ ہے اور حضرت مسیح کے قول میں بھی نیشن کا ہی لفظ مذکور ہے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ڈاکٹر لیو ٹاف سے گفتگو 292 ڈاکٹر ریورنڈ پال لیونشاف پی ڈی ڈی سے مذکورہ بالا سوسائٹی میں ملاقات ہوئی.جب میں نے عربی میں سوال کیا تو وہ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میں بھی عربی میں قرآن پڑھا ہوا ہوں.اس وقت چونکہ ایک اور پادری سے گفتگو شروع ہو گئی اس لئے ان سے گفتگو نہ ہوسکی بعد میں میں نے ان کو فون کے ذریعہ دار تبلیغ میں آنے کی دعوت دی.چنانچہ وہ تشریف لائے اور دو گھنٹہ تک ان سے گفتگو ہوئی زیادہ تر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائیبل میں پیشگوئیوں اور انجیل کی حیثیت پر ہوئی.انہوں نے کہا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سچا مانتا ہوں اور عیسائیت کو بھی ، قرآن پر بھی ایمان لاتا ہوں اور انجیل پر بھی.میں نے کہا کہ معاف فرمائیں در حقیقت عدم تفکر کا نتیجہ ہے کیونکہ سچا ماننے کے تو یہ معنی ہیں کہ وہ جوتعلیم لائے ہیں اس کے مطابق عمل کیا جائے.مثلاً آپ انجیل کی رو سے مانتے ہیں کہ مسیح صلیب پر مر گئے مگر قرآن کہتا ہے کہ وہ نہیں مرے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے تو یہ معنی ہیں کہ مسیح کی صلیبی موت سے انکار کیا جائے وہ اس بات کو فوراً سمجھ گئے.پھر انہوں نے کہا کہ مسیح کی الوہیت کا اس رنگ میں کہ وہ علیحدہ و مجسم خدا تھے میں قائل نہیں لیکن اس لحاظ سے کہ میسج میں خدا کی کامل تجلی ہوئی اور ان کے دل میں خدا کا نور اترا اور وہ لوگوں کیلئے کامل نمونہ تھے میں ان کی الوہیت کا قائل ہوں.میں نے کہا دل میں خدا کا نوراترنے کی مثال ایسی ہے جیسے کہ سورج کی شعاع شیشہ پر پڑتی ہے اور اس کا عکس دوسری چیز پر پڑ کر اسے روشن کر دیتا ہے لیکن اس عکس کو سورج کہہ دینا غلطی ہے.اسی طرح جتنا کسی شخص کا قلب صاف ہوگا اسی قدر وہ خدا تعالیٰ کی تجلی کا مورد ہو گا اور خدا کے نور سے منور ہو گا لیکن اس نورانی پر تو کو جو قلب صافی پر پڑتا ہے خدا کہنا درست نہیں ہے.نیز کامل تجلی کا مور داور کامل نمونہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے نہ کہ مسیح علیہ السلام.چنانچہ میں نے دونوں کا تفصیل سے مقابلہ کر کے دکھا دیا.آخر میں انہوں نے کہا: "I admire You that You have vast knowledge of the Bible" یعنی آپ کی تعریف کرتا ہوں کہ آپ کو بائبل کی خوب واقفیت ہے.انہیں تحفہ شہزادہ ویلیز کتاب مطالعہ کیلئے دی گئی.اسی طرح ایک نوجوان مسٹر ایچ بیسٹ سے ایک سوسائٹی میں ملاقات ہوئی پھر انہیں دارد تبلیغ
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 293 میں بلایا گیا.مولانا در دصاحب نے انہیں بتایا کہ آج تمام دنیا اس امر کیلئے بے تاب ہے کہ کوئی ایسا وجود ہونا چاہیے جولوگوں کی راہنمائی کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج دیا ہے.اس کے بعد میں نے انجیل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق حوالہ جات بتائے.ایام زیر رپورٹ میں مسٹر بریڈ شا لندن میں نصیرہ پینس کے ذریعہ اور مسز ریڈارے ہیسٹنگ سے حضرت مولوی شیر علی صاحب سے لمبی خط و کتابت کے بعد داخل سلسلہ ہوئی ہیں...تھیوسوفیکل سوسائٹی میں لیکچر الفضل قادیان 3 جون 1937ء) (اپریل مئی 1937ء میں بعض نئے اشخاص کو تبلیغ کی گئی اللہ تعالیٰ انہیں قبول حق کی توفیق عطا فرمائے.اس کے علاوہ جو کام کیا وہ اختصار کے ساتھ بطور ڈائری مندرجہ ذیل ہے: مسٹر آرنلڈ کے مکان پرومبلڈن میں جا کر ان سے اردو اور نماز کا سبق سنا اور نیا سبق دیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات سنائے اور حضرت مسیح اور حواریوں کے جو معجزات انا جیل میں لکھے ہیں ان کی حقیقت بتائی.ایک انگریز مسٹر Bates اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کے آئے.ان سے ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب امنیت اور الوہیت مسیح اور مسیح کی آمد ثانی وغیرہ مسائل کے متعلق گفتگو ہوئی اور پھر مسجد دکھائی.مسٹر Bates نے کہا کہ دوبارہ میں اپنے ساتھ اور دوستوں کو لے کر آؤں گا.اچھا اثر لیکر گئے.انہیں پڑھنے کیلئے پمفلٹ دیئے چند خطوط لکھے.پھر مسٹر آرنلڈ کے مکان پر گیا وہاں مسٹر سموئیل موجود تھے، مسٹر آرنلڈ نے اسی غرض سے بلایا تھا کہ ان سے مذہبی گفتگو کی جائے.وہ ومبلڈن کے سکول میں لاطینی پڑھاتے تھے.فریج اور جرمن بھی پڑھاتے تھے، ان سے دوگھنٹہ تک ضرورت مذہب اور موجودہ انجیل اور مسیح کے معجزات وغیرہ پر بحث ہوئی، گفتگو کا ان پر اچھا اثر ہوا.مسٹر آرنلڈ نے East End جا کر ایک سکھ سے پگڑی خریدی اور اسے بتایا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں.مسجد کا ذکر کیا تو اس نے کہا میں مرزا صاحب کو جانتا ہوں میں چھوٹا تھا جب وہ لدھیانہ آیا کرتے تھے.بڑے اچھے اور نیک آدمی تھے.ایک معزز ہندوستانی تشریف لائے جن سے گفتگو کی.انہوں نے پوچھا مسلمانوں میں اتفاق کیسے ہوسکتا ہے.میں نے جواب دیا کہ سیاسی لیڈروں کے ذریعہ مذہبی اتحاد ہونا ناممکن ہے.اللہ تعالیٰ نے پہلے سے خبر دی تھی کہ مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوگا اور اس کا علاج بھی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 294 بتادیا تھا.ان کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو بھیجے گا سو وہ آچکے ہیں اور اگر تمام فرقے جمع ہو سکتے ہیں تو اس کی یہی صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر جمع ہو جائیں.تفصیل سے اس امر کو بیان کیا.اسلام کے موضوع پر لیکچر پرچہ اس کے بعد South End گیا اور اسلام کے موضوع پر تھیوسوفیکل سوسائٹی میں ایک گھنٹہ پڑھا.چالیس پچاس کے درمیان حاضری تھی.ایک گھنٹہ تک سوال و جواب ہوئے پہلی مرتبہ تھی.سوالات دوزخ اور جنت، جہاد، عورت میں روح ہے یا نہیں مسیح کا پہاڑی وعظ قابل عمل ہے یا نہیں اور آیا بشپ وغیرہ مذہبی لیڈر دنیا میں امن قائم کر سکتے ہیں یا نہیں ، کے متعلق تھے.سب حاضرین جواب سن کر خوش ہوئے.میں نے حضرت مسیح موعود کی آمد اور یہ کہ دنیا میں اگر امن قائم ہوسکتا ہے تو آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنے سے ہو سکتا ہے تفصیل سے بیان کیا.سیکرٹری اور پریذیڈنٹ نے شکریہ ادا کیا.۲ مئی کو ایل کو لونیل آرڈ بلیو تشریف لائے جو گورداسپور اور دہلی میں سیشن جج رہ چکے ہیں.کرنیل ڈگلس کو جانتے ہیں اور مشہور مقدمہ سے بھی واقف ہیں.ان کے ساتھ مہاراجہ کولہا پور سٹیٹ کے تین چازاد بھائی بھی تھے جو یہاں تعلیم پاتے ہیں...(الفضل قادیان 11 جون 1937ء) ایک انگریز خاندان مسلمان ہوتا ہے ( حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب) قبل ازیں احباب مسٹر لطیف آرنلڈ اور امینہ آرنلڈ اور مسٹرلطیف آرنلڈ کی والدہ کے احمدیت میں داخل ہونے کی خبر اخبار الفضل میں ملاحظہ فرما چکے ہیں.اس خاندان میں سے مسٹر آرنلڈ کے چھوٹے بھائی باقی تھے جو اٹھارہ انیس سال کے نوجوان ہیں.خاموش طبیعت لیکن سمجھدار ہیں.جب میں ان کے بھائی کو تبلیغ کیا کرتا اس وقت انہوں نے بھی دو دفعہ گفتگوسنی.جب علیحدگی میں انہوں نے مجھ سے باتیں کیں تو انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یسوع مسیح در حقیقت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیلئے راستہ صاف کرنے کیلئے آئے تھے.میں نے کہا آپ نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ بالکل درست ہے.خیال تھا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ داخل اسلام ہو جائیں گے مگر جب ان کی والدہ داخل اسلام ہوئیں تو وہ پیچھے رہ گئے.اس کے بعد پھر ان سے ایک دو دفعہ گفتگو کا موقع ملا.( جولائی 1937 ء) میں جب مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے کام سے ایک ہفتہ کیلئے چھٹی لی ہے تو
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 295 15 جولائی کو میں نے انہیں لکھا کہ وہ میرے پاس آکر ایک دن گزار ہیں.چنانچہ وہ تشریف لائے اور ان سے مذہبی گفتگو ہوئی اور انہوں نے اسلام کو قبول کر لیا نیز یہ بھی کہا کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ اس لئے مسلمان نہیں ہو ا تھا کہ تا یہ نہ کہا جائے کہ میں اپنی والدہ کی وجہ سے مسلمان ہو گیا ہوں.اسی شام کو ہم دونوں اکٹھے ان کے بڑے بھائی مسٹر لطیف آرنلڈ کے مکان پر گئے تو انہوں نے جاتے ہی انہیں السلام علیکم کہا تو وہ حیران ہو گئے.پھر اس نے انہیں بتایا کہ میں بھی مسلمان ہو گیا ہوں.یہ سن کر وہ بڑے خوش ہوئے.الحمد للہ کہ یہ سارا خاندان مشرف باسلام ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے.اب ان کے دوسرے رشتہ داروں کو تبلیغ کی جائے گی.خلیفہ نقطہ مرکز یہ ہوتا ہے جس طرح دائرہ کے تمام خطوط نقطہ مرکز یہ پر آ کر جمع ہو جاتے ہیں اسی طرح الہی سلسلہ کا نقطہ مرکز خلیفہ ہوتا ہے جہاں اس سلسلہ کے تمام خطوط آکر مل جاتے ہیں.وہ مرکز میں ہوتا ہے لیکن اس کی تو جہات روحانیہ اور اشعائے نورانیہ ہر اس جگہ کام کر رہی ہوتی ہیں جہاں اس سے وابستگی اور تعلق رکھنے والے پائے جاتے ہیں.یہ بات میں ظنی طور پر نہیں کہ رہا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جسے میں نے خود تجربہ کیا.1927ء میں جب کہ میں دمشق میں تھا اور وہاں فرانسیسیوں اور دروز کی جنگ ہو رہی تھی اور بظاہر لوگوں سے ملاقات مشکل ہوتی تھی ان حالات میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اس امر کی طرف توجہ ہوئی اور حضور کا ارشاد بذریعہ ناظر صاحب دعوت و تبلیغ مجھے پہنچا کہ کام نہایت سست رفتار سے ہو رہا ہے لیکن قبل اس کے جو مجھے حضور کا یہ ارشاد پہنچے چار اشخاص جن میں سے کا د ایک سید منیر الحھنی تھے، سلسلہ میں داخل ہو چکے تھے اور حضور کو میں بیعت کے خطوط روا نہ کر چکا تھا.سید منیر احصنی عربی، ترکی اور جرمن جانتے ہیں.میں نے سمجھا کہ در حقیقت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی توجہ مبارک کا اثر تھا کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی توفیق عطا فرمائی ورنہ بظاہر حالات اس کے مخالف تھے.چنانچہ سید منیر الحصنی ایک نہایت مخلص اور جان نثار احمدی ثابت ہوئے جنہوں نے نہایت جانفشانی سے جماعت کی ترقی کیلئے ہرممکن کوشش کی اب وہ دمشق میں ایڈووکیٹ ہیں اور پریکٹس کر رہے ہیں.اسی طرح اس سال حضرت امیر المومنین خلیل اسی اثنی ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد بذریعہ
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 296 پرائیویٹ سیکرٹری اسی مضمون کا پہنچا اور میں سمجھتا ہوں کہ حضور کی یہ توجہ مبارک کا اثر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسٹر آرنلڈ اور مسز آرنلڈ کو دار التبلیغ میں آنے کیلئے القا کیا.چنانچہ وہ بغیر ہماری کسی تحریک کے خود ہی تشریف لائے اور جب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد پہنچا تو اس کے چار پانچ روز بعد وہ سلسلہ احمدیت میں داخل ہو گئے اور مسٹر آرنلڈ بھی انگریزی سپینش ، فرانسیسی ، کیٹلان زبانیں اچھی طرح جانتے ہیں.اب وہ اردو زبان سیکھ رہے ہیں لیکن جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں اللہ تعالیٰ نے مسٹر آرنلڈ کے بھائی اور والدہ کو بھی قبولیت اسلام کی توفیق عنایت فرما دی ہے اور یہ حقیقۂ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہات روحانیہ کا نتیجہ ہے....خاکسار جلال الدین شمس از لنڈن.الفضل قادیان 3 اگست 1937 ء) ورلڈ فیلوشپ آف فیتھس کے جلسہ میں احمدی معززین کی تقرریں (جولائی 1937ء) حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تقریر WolrdfellowshipofFaiths کے لیکچروں کا سلسلہ 7 جولائی سے شروع ہوا اور 17 جولائی کو ختم ہوا.حاضری پانچ چھ سو کے درمیان تھی.میٹنگ کا افتتاح اذان کے ساتھ ہوا جو میں نے دی اور مکرمی درد صاحب نے حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام حضور کی کتاب ” احمدیت“ کے اقتباس سے پڑھ کر سنایا اور بعض اور لوگوں کے پیغامات سنائے جانے کے بعد آنریبل سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کا لیکچر شروع ہوا.آپ نے اپنی تقریر میں Wolrd FellowshipofFaiths کی مساعی پر جو وہ مختلف مذاہب اور قوموں کے درمیان امن و اخوت پیدا کرنے کیلئے کر رہی ہے پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا صرف اتنی بات انسان کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ حقیقی امن انسان کو اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جبکہ اس کا دل اور اس کی ضمیر مطمئن ہو اور حقیقی اطمینان قلب اسی وقت مل سکتا ہے جب کہ اس کا اپنے خالق سے تعلق پیدا ہو اس لئے Wolrd FellowshipofFaiths کا موجودہ اغراض کے حصول پر اکتفا کر لینا کافی نہیں بلکہ اس سے آگے صحیح مذہب کی تلاش کیلئے قدم اٹھانا چاہیے....آپ کی تقریر کو حاضرین نے بہت پسند کیا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی تقریر 297 14 جولائی کو کرمی در دصاحب کا لیکچر معابد یعنی مسجدوں اور گرجوں کے ذریعہ دنیا میں امن کیونکر قائم کیا جاسکتا ہے“ کے موضوع پر ہوا.آپ نے اس کے متعلق اسلام کی اس روادارانہ تعلیم کا ذکر کیا کہ اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو وہ مسجد میں آکر کر سکتا ہے بشرطیکہ فتنہ پرداز نہ ہو.اگر تمام مذاہب والے اپنے معابد کے متعلق ایسی رواداری دکھلائیں تو مذہبی لحاظ سے جو مختلف مذاہب کے درمیان تنافر پایا جاتا ہے وہ بہت حد تک دور ہو سکتا ہے.اسی طرح آپ نے درستی اخلاق اور کمزور لوگوں سے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور سود کے مضرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے ذریعہ بھی دنیا کا امن برباد ہوتا ہے اور جنگیں ہوتی ہیں نیز فرمایا کہ اصل چیز تو روح ہے.جب تک روح کی صفائی نہ ہو اور اس کیلئے پاک غذا مہیا نہ کی جائے نہ انسان کو اطمینان قلب حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی حقیقی امن دنیا میں قائم ہو سکتا ہے اس لئے جب تک لوگ روحانی ریفارمر کے بتائے ہوئے طریق پر عمل نہیں کریں گے حقیقی امن دنیا میں قائم نہیں ہوگا.احمدی دوستوں کی مذہبی معلومات میں وسعت پیدا کرنے کیلئے ماہ مئی سے دار التبلیغ میں لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے.پروگرام چھپوا کر اپنے دوستوں کے علاوہ دوسروں کو بھی بذریعہ ڈاک بھیجا گیا.اس وقت تک مندرجہ ذیل دوستوں کے لیکچر ہو چکے ہیں.9 مئی کو ڈاکٹر سلیمان صاحب نے ہستی باری تعالیٰ پر اور 23 مئی کو مسٹرلطیف آرنلڈ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائبل میں پیشگوئیاں کے موضوع پر ، 30 مئی کو تحریک جدید کے مطالبات پر مختلف دوستوں نے اور 6 جون کو مسٹر مبارک احمد صاحب فیولنگ نے جہاد پر 27 جون کو مرزا مظفر احمد صاحب بی.اے آنرز نے اسلامی طرز حکومت پر.4 جولائی کو خاکسار نے ” حضرت مسیح صلیب پر نہیں مرے“ کے موضوع پر.گیارہ جولائی کو مسٹر مسعود احمد نے ” باغ عدن پر اور 25 جولائی کو مٹر افتخار الحق خان صاحب ایم اے نے ”سوڈ پر لیکچر دیا.ہر لیکچر کے بعد سوال و جواب ہوتے رہے.تمام اجلاس زیر صدارت مولانا در دصاحب منعقد ہوئے اور ہر لیکچر پر سوال و جواب کے اختتام پر آپ مختصر تقریر کرتے رہے.سیکرٹری شپ کے فرائض مرزا مظفر احمد صاحب بی.اے آنرز نے سرانجام دیئے اور جس اتوار کو لیکچر نہ ہوا اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں سے بعض مقامات سنائے گئے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 298 20 جولائی کو چالیس کے قریب برلن کے مختلف سکولوں کے طالب علم جو ان دنوں لنڈن میں بغرض تبدیلی آب و ہوا اور لنڈن کے سکولوں کے طلباء سے تعارف کی غرض سے آئے ہوئے تھے مدعو کئے گئے.مسجد کے احاطہ میں چائے کا انتظام کیا گیا اور چائے کے بعد مختلف زبانوں میں انہیں ویلکم کہا گیا.مکرمی درد صاحب نے انگریزی میں ، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے پنجابی میں ، میر عبد السلام صاحب نے اردو میں ، مسٹر مسعود احمد نے سواحیلی میں اور خاکسار نے عربی زبان میں خوش آمدید کہا اور مذہب کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا پیغام بھی پہنچایا.طالب علموں کی طرف سے ایک طالب علم نے جرمن زبان میں شکر یہ ادا کیا.جماعت کے متعلق معلومات دینے کیلئے انہیں احمد یہ البم کے نسخے دیئے گئے.خاکسار جلال الدین نس.(الفضل قادیان 8 اگست 1937ء) سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح سے اظہار عقیدت کے متعلق لنڈن میں جلسہ 8 اگست 1937ء کو مہران جماعت احمد یہ لنڈن کی ایک میٹنگ زیر صدارت مولوی عبدالرحیم صاحب درد منعقد ہوئی جس میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خلافت سے وابستگی اور آپ کی ہر رنگ میں اطاعت کرنے کے متعلق تقریریں کی گئیں.سب سے پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے تقریر کی.پھر کرم میر عبدالسلام صاحب پسر حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور آخر میں حضرت مولانا درد صاحب نے خطاب کیا.جملہ بزرگان نے خلافت کی اہمیت و حقیقت، برکات خلافت اور خلافت احمدیہ سے وابستگی کے ثمرات پر پُر معارف تقاریر کیں.اس اہم جلسہ کی روئیداد حضرت مولانا شمس صاحب نے تحریر کی جو جماعتی اخبار کی زینت بنی.اس جلسہ میں ذیل کی قرارداد ممبران جماعت احمد یہ لندن نے پاس کی.ہم ممبران جماعت احمد یہ مقیم لندن بمطابق قرآن و حدیث و کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر پر تہہ دل سے ایمان رکھتے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور موجودہ خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو مصلح موعود اور خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ جانتے ہیں.خلافت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور بعض احادیث نبوی کا مصداق یقین کرتے ہوئے اور ان کے رنگ میں حضور کی اطاعت کو جز و ایمان خیال کرتے ہیں.“ الفضل قادیان 22 اگست 1937 ء)
حیات ٹمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس دونئے احمدی 299 ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) (اگست 1937ء) میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو کس سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے.ان میں سے ایک انگلش خاتون Miss Elsie ہیں جنہیں ہماری نومسلم بہن مسز بہادری دار التبلیغ میں لائیں.ان سے آمد حضرت مسیح موعود اور الوہیت مسیح اور واقعہ صلیب وغیرہ امور کے متعلق گفتگو ہوئی اور انہیں تحفہ شہزادہ ویلز کتاب مطالعہ کیلئے دی گئی.اس کے بعد دو دفعہ ان سے گفتگو ہوئی اور تحفہ شہزادہ ویلیز کے مطالعہ کے وقت جو باتیں قابل دریافت معلوم ہوئیں وہ انہوں نے نوٹ کی ہوئی تھیں، ان کے تسلی بخش جواب پا کر سلسلہ میں داخل ہو گئیں.دوسرے سید حسین شاہ صاحب ہیں جو سید سردار شاہ صاحب کے والد ہیں.انہیں چوہدری دولت خان صاحب و چوہدری اکبر علی خان صاحب دار التبلیغ میں لائے.میں نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے دلائل اور خصوصیات احمدیت بتا ئیں اور وہ بھی بیعت فارم پر کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.اللہ تعالیٰ دونوں کو استقامت عطا فرمائے.آمین.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسز بہادری کا اسلامی نام نعیمہ اور مسٹرلطیف آرنلڈ کے بھائی کا نام رشید آرنلڈ اور ان کی والدہ کا نام حلیمہ آرنلڈ اور مسز ایڈورڈز کا نام عائشہ تجویز فرمایا (الفضل قادیان 25 اگست 1937) ہے.یورپ میں تبلیغ اسلام.دو نئے احمدی ( حضرت مولانا جلال الدین شمس ) دوسرے مسلمان اگر چہ یورپین اقوام کے اسلام لانے سے مایوس ہو چکے ہیں لیکن ایک سچا احمدی کبھی مایوس نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ اقوام بھی سچے دل سے مسلمان ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ کہف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قلبی کیفیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : لَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيْثِ أَسَفًا (الكهف:7) کہ اے رسول تو ان اقوام کی ہدایت کا اس قدر خواہاں ہے اور اس درجہ سوز و گداز کا اظہار کرتا اور ان
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 300 کی خاطر ایسا حزین و دلفگار ہے کہ گویا تو اپنی جان کو ان کے پیچھے ہلاک کر دے گا.پس حضور علیہ السلام کی اس قلبی حالت سے جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا الفاظ میں کھینچا ہے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اقوام کی ہدایت کیلئے کس سوز و گداز سے دعائیں کی ہوں گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انتہائی غم و اندوہ کو دیکھ کر اس سورۃ کے بعد کی سورۃ ( مریم ) میں حضرت یحی اور عیسی علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ بیان کر کے حضور کو تسلی دی کہ اگر چہ ان اقوام کو جن کا ذکر سورہ کہف میں ہو ا بظاہر ایمان لانا نا ممکن نظر آئے گا لیکن دعاؤں کے نتیجہ میں انہیں بھی اسلام سے بہرہ ور کیا جائے گا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی بھی فرما دی کہ آخر کار اسلام کا سورج مغرب سے طلوع کرے گا اور تمام لوگ اس کا مشاہدہ کریں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ان اقوام کی ہدایت کیلئے کثرت سے دعائیں کی ہیں.چنانچہ حضور کی ایک دعا یہ ہے: ” سواے ہمارے پیارے خدا! ان کو مخلوق پرستی کے اثر سے رہائی بخش اور اپنے وعدوں کو پورا کر جو اس زمانہ کیلئے تیرے تمام نبیوں نے کئے ہیں.ان کانٹوں میں سے زخمی لوگوں کو باہر نکال اور حقیقی نجات کے سرچشمہ سے ان کو سیراب کر کیونکہ سب نجات تیری مغفرت اور تیری محبت میں ہے.کسی انسان کے خون میں نجات نہیں.اے رحیم و کریم خدا ان کی مخلوق پرستی پر بہت زمانہ گزر گیا ہے.اب ان پر تو رحم کر اور ان کی آنکھیں کھول دے.اے قادر اور رحیم خدا سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے.اب تو ان بندوں کو اس اسیری سے رہائی بخش اور صلیب اور خون مسیح کے خیالات سے ان کو بچالے.اے قادر کریم خدا ان کیلئے میری دعا سن اور آسمان سے ان کے دلوں پر ایک نور نازل کرتاوہ تجھے دیکھ لیں.کون خیال کر سکتا ہے کہ وہ تجھے دیکھیں گے کس کے ضمیر میں ہے کہ وہ مخلوق پرستی کو چھوڑ دیں گے اور تیری آواز سنیں گے پر اے خدا تو سب کچھ کر سکتا ہے.تو نوح کے دنوں کی طرح ان کو ہلاک مت کر کہ آخر وہ تیرے بندے ہیں بلکہ ان پر رحم کر اور ان کے دلوں کو سچائی کے قبول کرنے کیلئے کھول دے.ہر ایک قفل کی تیرے ہاتھ میں کنجی ہے جب کہ تو نے مجھے اس کام کیلئے بھیجا ہے سو میں تیرے مونہہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں نامرادی سے مروں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو کچھ تو نے اپنی وحی سے مجھے وعدے دیئے ہیں ان وعدوں کو تو ضرور پورا کرے گا کیونکہ تو ہمارا خدا صادق خدا ہے.اے میرے رحیم خدا اس دنیا میں میرا بہشت کیا ہے؟ بس یہی کہ تیرے بندے مخلوق پرستی سے نجات پا
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 66 301 جائیں.سو میرا بہشت مجھے عطا کر اور ان لوگوں کے مردوں اور ان لوگوں کی عورتوں اور ان کے بچوں پر یہ حقیقت ظاہر کر دے کہ وہ خدا جس کی طرف توریت اور دوسری پاک کتابوں نے بلایا ہے اس سے وہ بے خبر ہیں.اے قادر کریم میری سن لے کہ تمام طاقتیں تجھ کو ہیں.آمین ثم آمین.“ (ڈوئی کے نام دوسرا کھلا خط منقول از مکتوبات احمد یہ جلد سوم صفحه 121-122) اسی طرح حضور فرماتے ہیں: میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاری کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہوجا تا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر تو انا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو کچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحات 304-305) لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسری جگہ فرمایا ہے یہ کام قدرت کے ہاتھ سے ہوگا.جماعت کو چاہیے کہ وہ دعا میں لگی رہے.اب ماہ رمضان المبارک کی آمد قریب ہے.یہ بابرکت مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا ہے اس لئے میں تمام عشاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور محبان حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے جو راتوں کو جاگتے اور اپنے مولیٰ کے حضور مخلوق کی ہدایت کیلئے گڑ گڑاتے ہیں نہایت عجز والحاح سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے آخری مطالبہ کی تعمیل میں تمام مبلغین کیلئے عموماً اور یورپ میں اشاعت اسلام کیلئے خصوصاً دعا ئیں کریں اور لنڈن جسے مادی لحاظ سے دنیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یورپ میں یہی وہ شہر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح موعود کو اپنے کشف کے ذریعہ دکھایا اور حضور نے یہاں پرندے پکڑے.ہاں یہ وہی شہر ہے جس میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ تشریف لائے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے مسجد فضل کی بنیاد رکھی اور ویمبلے کا نفرنس میں اسلام کی خوبیاں پر لیکچر دیا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مذکورہ بالا کشف ظاہری الفاظ میں پورا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 302 ہوا.سو اس شہر کیلئے خاص طور پر دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ یہاں ایک ایسی مضبوط اور مخلص جماعت پیدا کر دے جو آئندہ دوسروں کیلئے ہدایت کا موجب بنے.مین.گزشتہ سال بھی ماہ رمضان المبارک کی آمد پر میں نے احباب سے دعا کیلئے درخواست کی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ احباب نے پورے جوش کے ساتھ دعائیں کی ہوں گی اور خدام کی دعائیں اپنے آقا و مطاع حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ مبارک اور دعاؤں کے ساتھ مل کر اس امر کا باعث ہوئیں کہ اس سال اللہ تعالیٰ نے بعض انگریز مرد اور عورتوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.دعاؤں کے علاوہ بعض دوستوں نے کتابیں بھیج کر بھی امداد کی ہے.دعائیں کرنے والے اور کتابیں بھیجنے والے سب دوست ہمارے ساتھ تبلیغ کے ثواب میں شریک ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو قبول فرمائے اور آئندہ اور بھی زیادہ قربانی کی توفیق عطا فرمائے.اب میں پھر دوبارہ احباب سے دعا کیلئے درخواست کرتا ہوں کیونکہ یورپ میں اشاعت اسلام کا سب سے بڑا ذریعہ دردمند دلوں سے نکلی ہوئی دعائیں ہیں.مسٹر Arford کا قبول اسلام مسٹر Arford جو ان میں عمر قریباً چھبیس سال ہے.اسلام سے انہیں پہلے سے دلچسپی تھی وہ دار التبلیغ تشریف لائے.میں نے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے متعلق ذکر کیا اور مسئلہ صلیب پر گفتگو ہوئی.انہوں نے سن کر کہا کہ میں نے مرا کو میں مسلمانوں سے سنا تھا کہ مسیح کی بجائے کسی اور کو صلیب پر لٹکایا گیا تھا اور مسیح آسمان پر اٹھالئے گئے جو مجھے نہایت غیر معقول معلوم ہوا تھا.آپ نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ بہت معقول اور قابل تسلیم ہے.میں نے انہیں تحفہ شہزادہ ویلز اور احمدیت مطالعہ کیلئے دیں.چنانچہ ان کے مطالعہ کے بعد تشریف لائے اور چند سوالات دریافت کئے جن کے تسلی بخش جواب پا کر بیعت فارم پر کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.نیز ایک ہندوستانی مرزا محمد محسن صاحب سلسلہ میں داخل ہوئے ، اللہ تعالیٰ دونوں کو استقامت عطا فرمائے امین.(الفضل قادیان 2 نومبر 1937ء) تبلیغ احمدیت (حضرت مولانا جلال الدین شمس) نومبر 1937 ء) میں بہت سے اشخاص دار التبلیغ میں تشریف لائے جن سے مذہبی گفتگو بھی ہوتی رہی.ایک روز ہماری نو مسلم بہن سلیمہ کے ساتھ سات مردو عورتیں دار التبلیغ میں آئے جنہیں مکرمی درد
حیات ہنس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 303 صاحب اور مسٹر مسعود احمد نے مسجد دکھاتے ہوئے ان کے بہت سے سوالات کے جوابات دیئے اور انہیں تبلیغ کی.ان کے علاوہ مختلف اوقات میں مسٹر اور مسز کیلی اور مسٹر Haris اورلیفٹنٹ جی ڈی گارنگ مع اپنی بیوی اور لڑکے کے اور مسز کا کس اور مسٹر ٹامس تشریف لائے جن سے مذہبی گفتگو ہوئی اور انہیں کتب مطالعہ کیلئے دی گئیں.ایک جاوی طالب علم آر ایچ احمد نیز ابراہیم احمد المصری اور وہ ہندوستانی جو جہاز پر کام کرتے ہیں تشریف لائے.ان سے بھی سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی اور کتا بیں دی گئیں.مسٹر جان اسکندریہ سے آئے.وہ خاندان ہاشمی کی تاریخ لکھ رہے ہیں.خانہ کعبہ کے متعلق بعض باتیں دریافت کیں اور سلسلہ کے متعلق بھی گفتگو ہوئی.نیز ایک فرانسیسی پادری جو بیروت کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں مسجد دیکھنے کیلئے آئے.ان سے عربی میں مسئلہ صلیب مسیح کے متعلق گفتگو ہوئی نیز مسٹر لطیف آرنلڈ کی خالہ کو بھی تبلیغ کی گئی.اللہ تعالیٰ سعید روحوں کو قبولیت حق کی توفیق عطا فرمائے.12 ستمبر کو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے دار التبلیغ میں توحید باری تعالی پر لیکچر دیا جس میں آپ نے عقلی دلائل سے ہستی باری تعالیٰ کو ثابت کرتے ہوئے الہام کو پیش کیا جس سے خدا تعالیٰ کا موجود ہونا مشاہدہ میں آتا ہے نیز آپ نے واحد اور احد میں فرق بیان کرتے ہوئے سورہ اخلاص سے اللہ تعالیٰ کا ہر قسم کی شرکت سے پاک ہونا ثابت کیا....19 ستمبر کو انگریز نومسلم مسٹرکون نے عدم الوہیت می پر لیکچر دیا.یمنی طور پر عیسائیوں کی موجودہ حالت اور ان کی مذہب سے بے زاری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جولوگ گرجوں میں جاتے ہیں اور الوہیت مسیح جیسے عقائد کا اظہار کرتے ہیں وہ بھی صرف عادت کے طور پر کرتے ہیں کبھی سوچنے اور غور کرنے کی تکلیف نہیں اٹھاتے.26 ستمبر کو میر عبدالسلام صاحب نے فضائل اسلام بمقابلہ دیگر مذاہب کے موضوع پر لیکچر دیا جس میں آپ نے نہایت عمدہ طور سے اسلام کی متعد وفضیلتوں اور خوبیوں کا ذکر کیا....3 اکتوبر کو سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کے سی ایس آئی نے احمدیت کے متعلق نہایت لطیف لیکچر دیا.حاضری توقع سے بہت زیادہ تھی.لیکچر نہایت توجہ سے سنا گیا.اس میں بہت سے غیر مسلم انگریز بھی شریک ہوئے.خاتمہ پر ایک شخص نے ختم نبوت کے مسئلہ کے متعلق سوال کیا جس کا جناب چوہدری صاحب نے مدلل جواب دیا.یہ لیکچر Muslim Times میں پورے کا پورا شائع ہو چکا ہے.10 اکتوبر کو یوم التبلیغ تھا.اس روز ہمارے بہت سے اصحاب مثلاً حضرت مولانا شیر علی صاحب،
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 304 مسٹر مسعود احمد صاحب، چوہدری دولت خان صاحب، چوہدری اکبر علی ، شیخ محمود احمد صاحب وغیرہ نے غیر احمدیوں کو تبلیغ کی اور دار التبلیغ میں چوہدری نصیر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کارناموں پر تقریر کی جس میں آپ نے نہایت عمدہ پیرایہ میں مندرجہ ذیل امور پر خصوصیت سے روشنی ڈالی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی غرض.قرآن مجید کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ.نشان نمائی.تعلق باللہ.پھر الہام اور وحی کے متعلق آپ کا دعویٰ پیش کیا.17 اکتوبر کو ہمارے نو مسلم بھائی مسٹرلطیف آرنلڈ نے اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ کرتے ہوئے تو حید و تثلیث اور قرآن مجید اور انجیل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح کے متعلق خاص طور پر ذکر کیا اور اسلامی عقائد اور رسول کی عیسائی عقائد پر برتری ثابت کی.24 اکتوبر کو خاکسار نے اس موضوع پر پرچہ پڑھا کہ ابتدائی عیسائیوں نے مسیح کی صلیبی موت کو کیوں مانا.یہ تمام اجلاس زیر صدارت مولانا درد صاحب ہوئے جنہوں نے ہر اجلاس کے خاتمہ سے پہلے موضوع متعلقہ پر مختصر سی تقریر فرمائی....خاکسار جلال الدین شمس.$ 1938 (الفضل قادیان یکم دسمبر 1937) ( حضرت مولانا جلال الدین شمس) اقوام کی پستی و بلندی اور عروج و تنزل کی بنیا دوہ خیالات اور افکار ہوتے ہیں جو ان کے افراد کے دل ودماغ میں پائے جاتے ہیں.جب کسی قوم کے عروج کا زمانہ آتا ہے تو اس کے افراد کے دلوں میں ترقی کی امنگیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور ان کے دماغوں میں ایسے افکار موجزن ہوتے ہیں جو اس قوم میں ترقی کی روح پھونکنے والے ہوتے ہیں.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہماری ترقی کے راستہ میں دنیا کی کوئی قوم حائل نہیں ہو سکتی.لیکن جب کسی قوم کی پستی اور تنزل کا وقت آتا ہے تو اس کے افراد ہمتیں ہار بیٹھتے ہیں اور یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے.ترقی کے تمام دروازے انہیں مسدود دکھائی دیتے ہیں اور آخر کار نا امیدی و مایوسی ان کی تباہی کا باعث ہو جاتی ہے.اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : من قال هلكت الناس فهو اهلکھم جو شخص یہ کہتا ہے کہ لوگ مر گئے ، تباہ ہو گئے ایسا خیال پیدا کرنے والا ہی درحقیقت ان کی تباہی کا باعث ہوتا ہے.ہماری جماعت جو خدا تعالیٰ ہو.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 305 کے ارادہ اور منشاء کے ماتحت تیار ہوئی اور جس کی رہنمائی کیلئے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً فرمایا.اِصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا [ تذکرہ بار چهارم، صفحہ 409] کہ تم اپنی جماعت کیلئے ہماری حفاظت میں اور ہماری وحی کے ماتحت ایک گشتی تیار کرو جو اسے ان تمام آفات اور طوفان ضلالت اور مصائب سے جو دنیا کو پیش آنے والی ہیں نجات دیگی اور تیری جماعت کو قیامت تک دلائل و براہین کی رو سے دنیا کے تمام مذاہب اور تمام جماعتوں پر غلبہ بخشا جائے گا.غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی ترقی واشاعت کیلئے بہت سے وعدے کئے ہیں جو پورے ہو کر رہیں گے.لیکن ایسے وعدوں کے ایفاء میں تاخیر کی وجہ بعض اوقات جماعت کی سستی بھی ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ ہوا.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ استغفار میں لگی رہے اور اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتی ہوئی جس قدر سلسلہ کیلئے ممکن قربانیاں کر سکتی ہو کرنے سے دریغ نہ کرے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اَلَا إِن نَصْرَ اللهِ قَرِيْبٌ کی بشارت سن لے.میں اپنی رپورٹوں میں وقتاً فوقتاً دوستوں سے دعا کیلئے درخواست کرتا رہا ہوں کہ وہ یہاں احمدیت کی اشاعت کیلئے اللہ تعالیٰ سے درد دل کے ساتھ دعائیں مانگتے رہیں.آپ یقیناً سمجھیں کہ ہماری ظاہری کوششوں کی مثال اس دنیائے مادیت کے مرکز میں تحریکات شیطانیہ اور مخالفین اسلام کی کوششوں کے مقابلہ میں بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص میلوں بڑے تالاب میں تلاطم پیدا کرنے کیلئے اس کے ایک کونہ پر بیٹھا ہوا اپنے ہاتھ سے پانی ہلا رہا ہو.ایسی حالت میں اس تالاب میں تلاطم پیدا کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمی' (الانفال:18) کی حالت کا میسر آنا ہے.پس اگر ہم چاہیں کہ ظاہری اسباب سے مقابلہ کیا جائے تو ہمارے پاس وہ نہیں ہیں جو ہمارے مخالفوں کے پاس ہیں البتہ ہمارے پاس ایک نہایت مؤثر اور کارگر اور بے خطا جانے والا ہتھیار ہے جو دوسروں کے پاس نہیں اور وہ دعا کا ہتھیار ہے جس کے متعلق حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.غیر ممکن کو ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفيو زور دعا دیکھو تو اس لئے میں تمام دوستوں سے دعا کیلئے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ یہاں سلسلہ کی اشاعت کیلئے درد دل سے دعائیں کرتے رہیں یہاں تک کہ وہ وقت آجائے کہ سعید روحیں حق کو قبول کر لیں.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 306 جب بھی میں رپورٹیں لکھتا ہوں اس سے میری اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ دوستوں کو دعا کیلئے تحریک ہوتی رہے.تبلیغی خطوط اور ملاقاتیں سب سے مفید طریقہ تبلیغ خط و کتابت اور پرائیویٹ ملاقاتیں ہیں اور ملاقات کا وقت مقرر کرنے کیلئے بعض دفعہ دو دو تین تین دفعہ خط لکھنا پڑتا ہے.ایام زیر رپورٹ میں (۱) ڈبلیو آر ونڈ ز کو تبلیغی خط لکھا اور کتابیں بھیجیں.(۲)Mrs Matrai کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم پاتی ہیں ان کا پتہ پروفیسرایم عبداللہ صاحب بٹ نے دیا تھا.انہیں تبلیغی خط لکھا اور کتب بھی بھیجیں.پہلے وہ امتحان کی تیاری میں مشغول تھیں اب انہوں نے اپنے تازہ خط میں شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے میرا خیال تھا کہ میں کتابیں ختم کر کے جواب دوں گی لیکن چونکہ میں نے کتابوں کا مطالعہ دیر سے شروع کیا ہے اس لئے ابھی شکریہ ادا کرتی ہوئی کہتی ہوں کتابیں بہت دلچسپ ہیں.امید ہے جب میں سب کتابیں ختم کرلوں گی تو آپ کو پھر خط لکھوں گی.(۳) مسٹرا بیچ والکر کو ڈربی میں کتا بیں بھیجیں اور تبلیغی خط لکھا.(۴) مسٹر بینڈل کو بھی ایک کتاب اور خط بھیجا (۵) مسٹر ایس ولسن نیوزی لینڈ کے رہنے والے ہیں وہ اور JKaithleen مسجد دیکھنے کیلئے آئے، ان سے سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی اور ایک ایک کتاب بھی مطالعہ کیلئے دی گئی.(4)JKaithleen سے ایکٹن روٹری کلب میں ملاقات ہوئی تھی.یہ مصر میں کئی سال رہ چکے ہیں انہوں نے چند سوالات بھی کئے تھے جن کے میں نے جوابات دیئے اور پھر واپس آکر احمدیت یعنی حقیقی اسلام انہیں بھیجی اور مسجد دیکھنے کیلئے بھی دعوت دی.چنانچہ انہوں نے جواب میں دلی شکر یہ ادا کرتے M.C.Balq(۷) ہوئے اور کتاب کو پڑھنے کا وعدہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں مسجد دیکھنے کیلئے بھی کبھی ضرور آؤں گا..Mr.M.C پراونشل بنک لمیٹڈ کے مینجر ہیں ان سے بھی اسی کلب میں ملاقات ہوئی تھی.یہ ہندوستان میں صوبہ سرحد میں کئی سال تک فوج میں رہ چکے ہیں انہیں بھی خط اور تحفہ شاہزادہ ویلز کتاب بھیجی (۸) Mr.E.Apron اٹلی کی اخبارات کے نمائندہ ہیں.انہیں Ahmadiyya Movement کتاب بھیجی.(۹) ٹرکی کی ایک تعلیم یافتہ عورت مسجد دیکھنے کیلئے آئی.اس سے سلسلہ کے متعلق گفتگو کی اور احمد یہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 307 موومنٹ اور احمد یہ الہم اسے کتب دی گئیں.اس نے کہا آج سے پہلے میں نے کبھی آپ کی جماعت کے ( ۱۰ ) Mr Gregson اپنی لڑکی سمیت مسجد دیکھنے کیلئے آئے ان سے بھی کچھ دیر مذہبی گفتگو ہوئی.(11) Mr S.R.Sedwing مسجد دیکھنے کیلئے آئے.سلسلہ کے متعلق اور اسلام اور عیسائیت کی تعلیم کے مقابلہ پر ان سے گفتگو ہوئی انہوں نے بعض کتب بھی خریدیں.رومن کیتھولک کو دوسرے مذاہب کی کتاب پڑھنے کی ممانعت میں نے اپنے ہمسایہ کو چائے کی دعوت دی اور ان سے مذہبی گفتگو بھی کی.انہوں نے کہا کہ سب مذہب اچھے ہیں.میں نے کہا کہ اسلام دوسرے مذاہب کی خوبیوں کا انکار نہیں کرتا لیکن وہ اپنے آپ کو ان تمام خوبیوں کا جامع قرار دیتا ہے جو دوسرے مذاہب میں متفرق طور پر پائی جاتی ہیں.آخر میں میں نے ان سے کہا اگر میں آپ کو کوئی کتاب دوں تو کیا آپ اس کا مطالعہ فرمائیں گے؟ کہنے لگے اگر آپ برا نہ منائیں تو میں کہہ دوں ہم رومن کیتھولک ہیں.ہم دوسرے مذاہب کی کتاب نہیں پڑھتے.میں نے کہا دوسرے مذاہب کے متعلق علم حاصل کرنا بری چیز نہیں ہے بلکہ اچھی ہے.پولوس نے خود لکھا ہے کہ تم ہر چیز کا امتحان کرو.پھر جو اچھی چیز ہوا سے اختیار کرو.کتابیں پڑھنے سے کس نے آپ کو منع کیا ہے ؟ اس نے کہا ہمارے پادریوں نے.میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا کہ اگر وہ دوسری کتابیں پڑھیں تو ان سے متاثر ہو کر گرجوں میں جانا چھوڑ دیتے ہیں.میں نے کہا اس سے معلوم ہوا کہ پادریوں کو اپنے مذہب کی کمزوری کا علم ہے اس لئے وہ لوگ اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ حقیقت سے واقف ہوں مگر کیا کوئی عقل مند انسان ان کی اس بات کو قبول کرنے کیلئے تیار ہو سکتا ہے؟ آپ تو ہمارے ہمسایہ ہیں.مجھے آپ کے مذہب سے واقفیت ہے.اگر کوئی آپ سے ہمارے متعلق دریافت کرے کہ آپ کے ہمسایہ کیا مذہب رکھتے ہیں تو آپ اسے کیا بتا سکتے ہیں؟ کچھ نہیں.پس آپ کو تو ہمارا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے بھی ہمارے مذہب کے متعلق علم حاصل کرنا چاہیے.آخر اس نے کہا بہت اچھا آپ مجھے کتابیں دیں میں ضرور پڑھوں گا..پنڈت جواہر لعل نہرو کی پارٹی میں شرکت حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس لنڈن سے لکھتے ہیں :
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 308 ایک دن چین فنڈ جمع کرنے کیلئے پنڈت جواہر لعل صاحب نہرو کو ایک پارٹی دی گئی تھی.میں اس میں گیا.پنڈت جواہر لعل صاحب نہرو نے پہلے اردو میں مختصر تقریر کی پھر اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا.وہاں سے پھر میں ہائیڈ پارک گیا.وہاں اب لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے.پہلے میں نے چند منٹ تقریر کی جس میں سورہ فاتحہ اور عیسائیوں کی دعا کا مقابلہ کیا.پھر میر عبدالسلام صاحب نے تقریر کی اور سوالات و جوابات ہوتے رہے.میں علیحدہ دوسری جگہ گفتگو کرتا رہا.تین گھنٹہ وہاں رہے ایک آسٹریا کا نوجوان جوٹر کی وغیرہ بھی دیکھ چکا ہوا ہے واقف تھا اسے مسجد میں آنے کیلئے کہا اور اس کا پتہ لے لیا.جمعہ کے روز صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ناروے وغیرہ دیکھنے کیلئے تشریف لے گئے.جمعہ کی نماز میں نومسلموں سے رشید آرنلڈ کی والدہ صاحبہ شامل ہوئیں.اگلے اتوار کو مکر می سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کا لیکچر تھا جس کیلئے سولہ سترہ خطوط لکھ کر بھیجے گئے.اتوار کے روز پہلے ہائیڈ پارک گیا.وہاں دوسرے لیکچراروں پر سوالات کئے.پروفیسر عبداللہ بٹ صاحب کا دار التبلیغ میں لیکچر تھا.وہ کیمبرج سے ایک بجے تشریف لے آئے.حاضری سترہ اٹھارہ کے قریب تھی.نو مسلموں میں سے مسٹر Harrise اور مسز رحیم اور مسز ایڈورڈ ز شامل ہوئے.ٹرینیڈاڈ سے ایک شخص اور ایک عورت اپنی تین لڑکیوں کے ساتھ مسجد دیکھنے کیلئے آئے جو ہندوستان جارہے ہیں.لڑکیاں وہاں تعلیم حاصل کریں گی.امیر علی صاحب نے انہیں بھیجا ہے.مولوی محمد علی صاحب اور مولوی آفتاب الدین صاحب کے نام ان کے پاس چٹھیاں ہیں.جماعت کے متعلق میں نے انہیں بتایا اور اختلاف بھی بتایا اور قادیان میں گرلز سکول کے متعلق بھی انہیں تفصیل سے بتایا.لڑکیاں صرف انگریزی زبان جانتی ہیں.چار انگریز غیر مسلم بھی شریک جلسہ ہوئے.ان میں سے ایک ڈاکٹر رسل فریز و تھے اور ان کے ساتھ ایک عورت تھی.ان سے لیکچر کے بعد دو گھنٹہ تک گفتگو کی اور کتابیں بھی دیں.جب ہم نے نماز پڑھی تو وہ بھی پیچھے ایک صف میں کھڑے رہے.اب کتابیں مطالعہ کیلئے دی ہیں اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے لیکچر سے پہلے میں نے قرآن مجید کی ایک آیت کی تفسیر کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات میں سے دو تین صفحات پڑھے.Mr R.Langridge ایک نوجوان، ایک عورت سمیت آئے.مکرمی درد صاحب نے انہیں ملاقات کا وقت دیا ہو ا تھا لیکن چونکہ وہ یکم سے Sea side پر گئے ہوئے تھے میں نے ان سے ملاقات کی اور مسجد دکھائی اور چائے بھی پلائی.ایک گھنٹہ تک ان سے گفتگو کی.مسٹر Langridge نے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 309 را ڈول کا ترجمہ قرآن پڑھا ہوا تھا.اس میں سے بعض باتیں لکھی ہوئی تھیں جو اس نے دریافت کیں.پھر میں نے انہیں کھانے کیلئے بھی دریافت کیا.غرضیکہ وہ بہت خوش ہو کر گئے اور تحفہ شہزادہ ویلز انہیں مطالعہ کیلئے دی گئی.Sussex میں رہتے ہیں یہاں سے دو گھنٹہ کا راستہ ہے.انہوں نے بوقت فرصت پھر آنے کا وعدہ کیا ہے.الفضل قادیان 4 /اگست 1938ء صفحه 2) حضرت صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب کولندن میں الوداعی پارٹی.انگریز نومسلمین کی طرف سے اظہار عقیدت ( حضرت مولانا شمس صاحب) صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب 1934ء کو لنڈن تشریف لائے.آپ کے یورپ آنے کا اصل مقصد یورپ کے حالات اور مفکرین یورپ کے خیالات و افکار سے واقفیت حاصل کرنا تھی جو آپ نے جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کافی حد تک حاصل کر لی ہے.اس کے ساتھ آپ نے ایک سیمی کورس بھی پورا کر کے اس میں امتحان دیا ہے.آپ کا ان لوگوں پر جنہیں آپ سے گفتگو کرنے یا آپ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا بہت اچھا اثر ہے.آپ نے شعائر اسلام کی پوری طرح پابندی کر کے ان طالب علموں کیلئے ایک نہایت اعلیٰ نمونہ قائم کر دیا جو کہتے ہیں کہ اس ملک میں شعائر اسلام کی پابندی کرنا ناممکن ہے.آپ یہاں سے 21 جولائی کو گیارہ بجے وکٹوریہ ٹیشن سے روانہ ہوئے.گاڑی کے چلنے سے پہلے سب دوستوں نے جو اسٹیشن پر حاضر تھے دعا کی.اب آپ مصر، فلسطین و شام میں تین ماہ تک قیام فرما کر حالات کا مطالعہ فرمائیں گے.خدا تعالیٰ آپ کو سلسلہ کیلئے نہایت خیر اور بابرکت وجود بنائے اور ہر قسم کی روحانی اور مادی ترقیات عطا فرمائے.آمین.10 جولائی کو دار التبلیغ میں جماعت احمد یہ لنڈن کی طرف سے آپ کو ایڈریس پیش کرنے کیلئے ایک الوداعی ڈنر پارٹی دی گئی جس میں تلاوت قرآن کریم کے بعد جو خاکسارنے کی ہمسٹرمحمد حارث ایک انگریز نو مسلم نے جماعت احمد یہ لنڈن کی طرف سے مندرجہ ذیل ایڈریس پڑھا: مخلصانہ ایڈریس حضرت مرزا حافظ ناصر احمد صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ رنج واندوہ اور مسرت و انبساط کے مشترکہ جذبات کے ساتھ ہم ممبران جماعت احمد یہ برطانیہ آپ کی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 310 ہندوستان کو روانگی کے موقع پر آپ کی خدمت میں الوداعی ایڈریس پیش کرتے ہیں.یہ موقعہ ہمارے لئے اس وجہ سے موجب خوشی ہے کہ آپ جس مقصد کے حصول کیلئے یہاں آئے تھے اسے حاصل کرنے کے بعد کامیاب و کامران اپنے وطن جا رہے ہیں.آپ یہاں اس لئے آئے تھے کہ مغرب کے بہترین دماغوں کے خیالات و افکار کا براہ راست علم حاصل کریں اور برطانیہ کی اول درجہ کی یونیورسٹیوں میں سے ایک میں چار سال تک مطالعہ کر کے اس مقصد کے حصول کیلئے آپ نے اس موقعہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے جہاں آپ کو مغرب کے فضلاء کے ساتھ براہ راست میل جول کے مواقع اکثر ملتے رہے ہیں.لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ نے اپنے مطالعہ کو یو نیورسٹی تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دوسرے ممالک اور مغرب کے دوسرے تعلیمی مراکز کی سیاحت کا جو بھی موقعہ آپ کو ملا اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر اپنے دامن علم کو مالا مال کر نیکی کوشش کی ہے اور اس طرح آپ نے مغرب کے سوشل، پولیٹیکل ، اقتصادی اور مذہبی سوالات کا گہرا مطالعہ کیا ہے.مغربی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق آپ نے جو وسیع معلومات حاصل کی ہیں اور مغربی اقوام کے مخصوص کیریکٹر کے متعلق جو وسعت نظر آپ نے پیدا کی ہے اور ان کی مجالس وغیرہ کے متعلق جو واقفیت بہم پہنچائی ہے وہ ہمیں یقین ہے کہ ان عظیم الشان فرائض کی بجا آواری میں آپ کیلئے بہت ممد و معاون ہوگی جو مستقبل قریب میں آپ کے سپر د ہونے والے ہیں.علاوہ ازیں اس موقعہ سے آپ نے ایک اور فائدہ بھی اٹھایا ہے یعنی انگریزی میں پروفیشنسی (Proficiency) حاصل کرنے کے علاوہ آپ نے یورپ میں ایک اور اہم زبان یعنی جرمن کا بھی خاص طور پر مطالعہ کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ آپ کے معلومات میں مغرب کے بڑے بڑے لیڈروں کے آراء و افکار کے اضافہ کا موجب ہوگی بلکہ آپ کو ان لوگوں سے ان کی اپنی زبان میں اپیل کرنے کے قابل بنا دے گی.ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے یہاں پر قیام کے دوران میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا ہے اور دور حاضر کے تمام دنیا کے راہنما حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک قابل قدر فرزند کی حیثیت سے آپ کے سامنے جو عظیم الشان کام ہے اس کیلئے بخوبی تیار ہو کر واپس جارہے ہیں ہمیں علم ہے کہ آپ یہاں کسی نئی صداقت کی تلاش میں نہیں آئے تھے بلکہ اس غرض سے مغرب کا مطالعہ کرنے آئے تھے تاکہ ان لوگوں کو صداقت کے سرچشمہ کی طرف لانے کے طریق اور ذرائع معلوم کر سکیں.ہم یورپ میں آپ کی آمد کو یہاں کے لوگوں کیلئے ایک نیک فال سمجھتے ہیں.ان ممالک میں آپ کی آمد بتاتی ہے کہ مغربی اقوام کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر مقدر ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بھلائی چاہتا ہے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 311 اور اسی لئے اس نے اپنے مقدس پیغمبر کے موعود کے فرزندوں میں سے ایک کو ان لوگوں کی برائیوں اور ن ان کے عوارض کے مطالعہ کیلئے بھیجا تا جب موقعہ آئے تو وہ ان کیلئے صحیح علاج تجویز کر سکے.آپ کی یہاں آمد سے ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ آپ نے ہمارے سامنے ایک بچے احمدی کا نمونہ پیش کیا ہے.ہم میں سے جن کو حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام یا حضور کے بلند مرتبت بیٹے یعنی جماعت کے موجودہ امام کو دیکھنے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی آپ نے ان کے سامنے ایک ایسا نمونہ رکھ دیا ہے کہ جس سے وہ اصل کا صحیح تصور کر سکتے ہیں.اب کہ آپ ہم سے رخصت ہورہے ہیں ہمیں آپ کی جدائی کا سخت صدمہ ہوگا کیونکہ اب ہم اس وجود کو جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی ایک رحمت تھی اپنے درمیان نہ پائیں گے.آپ کی محبت آمیز یاد ہمارے دلوں میں تازہ رہے گی اور اگر ہم آپ کے کیریکٹر کے نہایت نمایاں خوبصورت خدو خال کی نقل کرنے میں کامیاب ہو سکیں تو اسے اپنی خوش بختی سمجھیں گے.ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ آپ کچھ عرصہ ہم میں رہے اور یقین رکھتے ہیں کہ اس سے آپ کو جماعت احمدیہ کے برطانوی حلقہ کے ساتھ خاص دلچسپی پیدا ہوگئی ہوگی اور اس وجہ سے ہمیشہ اس کی خیر خواہی کا آپ کو خیال رہے گا اور اس کی روحانی ترقی کیلئے آپ ہمیشہ دعافرماتے رہیں گے.اگر مغرب اس وجہ سے خوش قسمت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پوتا ایک لمبے عرصہ تک وہاں رہا تو Great Britian کو اس میں خصوصیت حاصل ہے.اب کہ آپ ہم سے رخصت ہورہے ہیں ہم غمگین مگر پُر خلوص قلوب کے ساتھ آپ کو الوداع کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں کہ آپ کو اسلام کی تاریخ میں زریں اور نمایاں خدمات کی توفیق دے.ہم ہیں آپ کے مخلص.ممبران جماعت احمد یہ Great Britian.حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف سے شکریہ موصوف نے موزوں الفاظ میں شکریہ ادا کرتے ہوئے نہایت اختصار کے ساتھ ان جذبات اور تاثرات کا اظہار فرمایا جو ایسے موقع پر ایک حساس انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں.آپ کے بعد سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب موصوف کو جماعت میں اس لحاظ سے ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے آپ کو یورپ کے حالات وافکار اور تمدن کا مطالعہ کرنے کیلئے بھیجا گیا اور آپ نے اس امید کا اظہار فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب موصوف
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 312 اس لحاظ سے یہاں کے حالات کے متعلق صحیح مشورہ دے سکیں گے اور خود عملی طور پر جماعت کے کاموں میں حصہ لے کر سلسلہ کیلئے ایک مفید وجود ثابت ہوں گے اور آئندہ جن ذمہ داریوں کا بوجھ صاحبزادہ صاحب موصوف پر پڑنے والا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مجھے اس وقت افسوس نہیں بلکہ خوشی ہے کہ آپ اس جگہ جا رہے ہیں جو ہمیں سب جگہوں سے پیاری ہے.آپ کے بعد مولانا در دصاحب نے عمدہ پیرایہ میں اپنے ذاتی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب موصوف کی انگلستان میں موجودگی ہمارے لئے تسکین کا باعث تھی.آپ وقتا فوقتاً اپنے قیمتی مشوروں سے مستفید فرماتے رہے.آپ کی ملاقات اور گفتگو راحت اور تسلی کا موجب ہوتی تھی اور آخر میں دعا پر یہ مبارک تقریب ختم ہوئی.خاکسار جلال الدین شمس از لندن.ہائیڈ پارک میں مزید لیکچرز حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں.(الفضل قادیان 7 اگست 1938ء) اس ہفتہ دو دفعہ ہائیڈ پارک میں لیکچر ہوئے.گزشتہ جمعہ کے روز میں نے حضرت مسیح کے صلیب پر نہ مرنے اور کشمیر میں طبعی وفات پانے کے متعلق بیان کیا.بعض عیسائیوں نے خوب شور مچایا اور سوالات کئے.ایک نے کہا بے شک صلیب پر مرنے کیلئے وہ وقت کافی نہ تھا لیکن سپاہی کے نیزہ لگانے سے جو زخم ہوا اسی سے موت واقع ہوئی.میں نے کہا انجیل کہتی ہے کہ وہ پہلے مر چکا تھا لیکن اس کے بعد خون کے نکلنے کو یقینی کر کے بیان کیا گیا ہے.سائل بھی انجیل کے موت کے متعلق بیان کو غلط قرار دیتا ہے لیکن انجیل خون نکلنے کے بعد اس کی وفات کا ذکر نہیں کرتی.اس شخص کو دوسرے عیسائیوں نے کہا تم چپ رہو تمہیں انجیل کا پتہ نہیں ہے.ایک اور شخص سے جو اپنے آپ کو عربی کا عالم کہتا تھا، گفتگو کی گئی.پون گھنٹہ تک سوال وجواب ہوتے رہے.اس کے بعد میر عبدالسلام صاحب نے تقریر کی اور سوال و جواب ہوتے رہے.۲.گزشتہ ہفتہ ایک معزز خاندان کے افراد کو دار التبلیغ میں چائے پر بلایا گیا.ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی.تقریباً دو گھنٹہ تک وہ یہاں ٹھہرے..ایک احمدی عورت نے فون کیا کہ ایک انگریز مسلمان ہونا چاہتا ہے.چنانچہ وہ جمعرات کو اسے ساتھ لے کر آئیں.میں نے ان کو اسلام کے اصول وارکان بتائے.پھر مولا نا در دصاحب نے اسلام
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 313 کے بعض تمدنی مسائل اور الہام و وحی کے اجراء اور سلسلہ کے متعلق گفتگو کی اور ان سے بعض سوالات بھی دریافت کئے.اس نے کہا میں ان تمام باتوں کو صحی مانتا ہوں اور مجھے اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے.اس نے بیعت فارم پُر کر دیا.۴.کل مسٹر فرید الیسکند رترکی کے مسلمان مسجد دیکھنے کیلئے آئے.وہ اصل میں دیار بکر کے ہیں مگر طرسوس کے امریکن کالج میں تاریخ اور جغرافیہ کے ٹیچر ہیں.سلسلہ کے متعلق انہیں کتا بیں دی گئیں.انہوں نے کہا کہ اس سال تو میں ایک ماہ کیلئے یہاں ٹھہروں گا لیکن آئندہ سال تقریباً تین ماہ کیلئے آؤں گا پھر آپ سے آکر ملا کروں گا.الفضل قادیان 30 اگست 1938ء) مسجد فضل لنڈن میں جرمنی، فرانس اور سویڈن کے طلبا کا ورود (حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) اس میں شک نہیں کہ اہل یورپ نے اس زمانہ میں دنیوی علوم میں حیرت انگیز ترقی کی ہے.نہ صرف سائنس بلکہ تاریخ، جغرافیہ اور مختلف ممالک کے حالات اور مختلف اقوام کی طرز رہائش اور تمدن کے متعلق ان کی معلومات نہایت وسیع ہیں.جب وہ کوئی کام شروع کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے مفید اور مصر پہلوؤں پر غور کرتے ہیں پھر کام شروع کرنے کے بعد اس کے اثرات اور نتائج پر غور کرتے رہتے ہیں اور کام کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کیلئے وہ ان وجوہات کے ازالہ کی کوشش کرتے ہیں جو اس کام کے کماحقہ مفید ہونے میں روک واقع ہوں.اس وقت میں ان کی ایک مفید بات کا جو مدارس کے طلباء سے متعلق رکھتی ہے ذکر کرتا ہوں.جب موسمی رخصتیں ہوتی ہیں تو ایک ملک کے طلبا ایک انتظام کے ماتحت چند دنوں کیلئے دوسرے ملک میں چلے جاتے ہیں اور وہاں کے سکولوں کے منتظمین ان مہمان طلباء کیلئے ان کے ایام قیام کے مطابق ایک پروگرام جوئی پارٹیوں اور معزز اشخاص سے ملاقاتوں ، کھیلوں ، اور قابل دید عمارتوں وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے تیار کر چھوڑتے ہیں.مثلاً جرمنی کے جو طالب علم لندن آتے ہیں یہاں کے سکولوں کے منتظمین ان کیلئے ایک پروگرام بنا چھوڑتے ہیں جس کے مطابق وہ اپنے اوقات لندن میں گزارتے ہیں.اسی طرح لندن کے سکولوں کے طالب علم چند روز کیلئے جرمنی چلے جاتے ہیں.اس تبادلہ کے ساتھ جہاں ایک قوم کے نوجوانوں کے دوسری قوم کے نوجوانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا ہوتے ہیں وہاں انہیں دوسری اقوام کی طرز رہائش اور تمدن اور اخلاق کے مطالعہ کا بھی موقع ملتا ہے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 314 اور دوسرے ممالک اور اقوام کے متعلق ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے نیز غیرملکی زبان بولنے کی مشق کا بھی موقع مل جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نہایت مفید طریق ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سیر فی الارض پر بار بار زور دیا ہے نیز فرمایا ہے کہ مختلف اقوام بنانے کی غرض یہ ہے کہ تا وہ آپس میں تعارف پیدا کریں اور ایک دوسرے کیلئے مفید وجود بنیں اس لئے میرے نزدیک محکمہ تعلیم کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے اور موسمی رخصتوں میں ایک صوبہ کی ہائی کلاسز کے ہوشیار طلباء کو دوسرے صوبہ میں لے جانے کا انتظام کرنا چاہیے.اس طرح ایک صوبہ کے طالب علم دوسرے صوبہ کے طالب علموں سے دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کے علاوہ اس صوبہ کے حالات سے بھی واقف ہو جائیں گے.چند سالوں سے لندن آنے والے جرمن طلباء ہماری مسجد دیکھنے کیلئے بھی آتے ہیں.ہر سال نئے طالب علم ہوتے ہیں لیکن اس سال جرمنی کے طلباء کے علاوہ بعض فرانس اور سویڈن کے طالب علم بھی تھے.تعداد تقریباً ستر تھی.ان کیلئے احاطہ مسجد میں گارڈن پارٹی کا انتظام کیا گیا.سب سے پہلے جناب در دصاحب نے مختصری تقریر کی جس میں طالب علموں کو ویلکم کہا اور مسجد کی تاریخ اور جماعت احمد یہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے متعلق اختصار کے ساتھ بیان کیا.ان کے بعد میں نے عربی زبان میں اور حضرت مولوی شیر علی صاحب نے اردو زبان میں ویلکم کہا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اصلی میزبان تو جماعت احمدیہ کے بانی ہیں جن کے طفیل ہم یہاں آئے اور مسجد بنائی اس لئے میں ان کی طرف سے بھی آپ کو ویلکم کہتا ہوں.دونوں کا ترجمہ انگریزی میں جناب درد صاحب نے کیا اور ڈاکٹر سلیمان صاحب نے افریقن زبان میں اور مسٹر عبدالجبار صاحب نے بنگلہ میں ویلکم کہا.پھر جرمن بوائز کے انچارج نے مختصر تقریر میں شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج کا دن دوسرے تمام دنوں سے جو ہم نے لندن میں گزارے زیادہ موجب مسرت اور خوشکن ہے.آخر میں مسٹر بیکر اور مسٹر کنگ نے جن کے انتظام کے ماتحت وہ مسجد میں آئے امام مسجد لندن اور تمام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا.خاتمہ پر تمام طالب علموں کو ایک ایک کاپی احمد یہ البم کی دی گئی اور بعض نے مسجد دیکھ کر بعض سوالات بھی دریافت کئے جن کے مختلف دوستوں نے جوابات دیئے.(الفضل قادیان 3 ستمبر 1938 ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس تبلیغی ملاقاتیں حضرت مولانا شمس صاحب تحریر کرتے ہیں: 315 اگست ستمبر 1938ء میں] متعدد اشخاص دار التبلیغ میں تشریف لائے جن سے مذہبی گفتگو کی گئی.ان میں سے (۱) مسٹر چارلس ایڈورڈ تھے.انہوں نے کہا میں نے مختلف مذاہب کی کتب کا مطالعہ کیا ہے لیکن ابھی تک کسی مذہب کے متعلق اطمینان قلب نہیں ہوا.ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور حضرت مسیح کے صلیب سے نجات پانے اور کشمیر میں مدفون ہونے کے متعلق گفتگو ہوئی اور کتب مطالعہ کیلئے دی گئیں.(۲) پادریوں کے ایک ایجنٹ ہے جو کتابیں فروخت کرتا اور اشتہار تقسیم کرتا تھا آکر گفتگو کی.اسے اس کے اشتہار کے مضمون کے خلاف انجیل سے حوالہ جات دکھائے.(۳) Mr.Sayce دو دفعہ آئے.انہوں نے بعض تمدنی امور کے متعلق اسلامی تعلیم دریافت کی اور مختلف سوالات کئے جن کے جوابات دیئے گئے.(۴) لیفٹینٹ کرنل کلارک سے خط و کتابت کی اور انہیں سلسلہ کی بعض کتب بھیجیں.(۵) Mr.Cravey آئے.یہ مصر اور عراق میں رہ چکے ہیں.اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.تین چار گھنٹہ ان سے گفتگو کی گئی.انہوں نے جماعت احمدیہ کے خصوصی عقائد دریافت کئے اس ضمن میں قرآن مجید اور انجیل سے انہیں بعض حوالے دکھائے.(۶) ایک صاحب Mr.Durhana حضرت مولوی شیر علی صاحب سے ملے انہیں میں نے مسجد دیکھنے کیلئے دعوت دی.دیر تک ان سے مذہبی گفتگو ہوئی.تحفہ شہزادہ ویلز پڑھ چکے ہیں.اب انہیں Teaching of Islam پڑھنے کیلئے دی گئی ہے.(۷) ایف سی ہارڈسن کو ایک تبلیغی خط لکھا اور کتابیں بھیجیں.(۸) Putney Literary & Debating Society کے بعض ممبروں کو مسجد دیکھنے کیلئے دعوت دی جس میں سے مندرجہ ذیل تین ممبر تشریف لائے.Mr Broach جو درحقیقت سوسائٹی کی روح رواں ہیں.Miss Inilers B.A جو ورکنگ کمیٹی کی ممبر ہیں اور سوسائٹی کی سیکرٹری مس وائٹ ہاؤس ایم اے.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی اس وقت یہاں تشریف رکھتے تھے.انہوں نے بھی ان
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس سے گفتگو کی.316 (۹) ڈاکٹر رسل فرنٹئیر اور ایک عورت مسجد دیکھنے کیلئے آئے.ان سے بھی سلسلہ کے متعلق ایک دو گھنٹہ گفتگو کی گئی اور کتب مطالعہ کیلئے دی گئیں.(۱۰) ایک ایرانی لڑکی جو جرمنی سے تعلیم پا کر واپس جارہی تھی معہ ایک آسٹریلین لڑکی مسجد دیکھنے آئیں اور انہوں نے نماز جمعہ بھی پڑھی ان سے گفتگو کی گئی.(۱۱) ایک سویڈش نوجوان مسٹر Hedberg Sten مسجد دیکھنے کیلئے آئے اور ان کے ساتھ ایک انگریز نوجوان مسٹر Salton بھی تھے.ان سے بھی سلسلہ کے متعلق بات چیت ہوئی اور کتب مطالعہ کیلئے دی گئیں.(۱۲) فریڈ الیسکند رطرسوس امریکن کالج کے ٹیچر مسجد دیکھنے کیلئے آئے کچھ دیر ان سے گفتگو ہوئی.(۱۳) مولوی عبد الحلیم صاحب جاوا سے لنڈن آئے.مسجد دیکھنے کیلئے بھی تشریف لائے.مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھ سے تھوڑی دیر گفتگو کی.پھر مکرمی در دصاحب سے کچھ دیر تک گفتگو کرتے رہے.( ۱۴ )Mr.R.Lengradge معہ ایک عورت کے بعض سوالات دریافت کرنے کیلئے آئے.انہوں نے بعض کتا ہیں اسلام کے متعلق عیسائی مؤلفین کی پڑھی ہوئی تھیں.فقہ اسلامی کے متعلق بعض باتیں دریافت کیس نیز عیسائی مؤلفین کے بعض اعتراضات کے جوابات دریافت کئے.سلسلہ کے متعلق بھی گفتگو ہوئی.مندرجہ ذیل دوستوں نے دار التبلیغ میں لیکچر دیئے.میر عبدالسلام صاحب نے جنت و دوزخ کی حقیقت پر.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے ہندوستان کے دفاع پر اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے سوشل لاء آف اسلام پر جس میں آپ نے تعدد ازدواج وغیرہ کے متعلق بھی تفصیل سے بحث کی نیز پروفیسر محمد عبد اللہ صاحب بٹ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائف پر دلچسپ پیرایہ میں لیکچر دیا.ایک میٹنگ تحریک جدید کے متعلق ہوئی جس میں مختلف دوستوں نے دو دو تین تین مطالبات پر تقریریں کیں.یہ تمام اجلاس زیر صدارت مولانا در دصاحب منعقد ہوئے.ایک لیکچر اسلام کے متعلق Chatham روٹری کلب میں دیا گیا.یہ مقام سمندر کے کنارہ لندن سے قریباً دو گھنٹے کے راستہ پر واقع ہے.کلب کے ممبر نہایت اچھی طرح پیش آئے.پنچ کے بعد خاکسار نے پر چہ پڑھا.بعد میں بعض ممبروں نے چند سوالات کئے جن کے جوابات دیئے گئے.سیکرٹری کلب نے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 317 پریذیڈنٹ اور دیگر ممبران کلب کی طرف سے شکریہ ادا کیا.ایام زیر رپورٹ میں مسٹر جوزف گریگری سلسلہ میں داخل ہوئے اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے اور اخلاص عطا فرمائے.ان کے تین بچے اور ایک بیوی ہے.اللہ تعالیٰ اسے بھی قبولیت کی توفیق بخشے آمین.ایک اور شخص مسٹر الفریڈ تھیوڈور نے اسلام قبول کیا.خاکسار جلال الدین شمس از لنڈن.(الفضل قادیان 29 ستمبر 1938ء) صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی خدمت میں جماعت لنڈن کا ایڈریس ( مولانا جلال الدین صاحب شمس) ایک مخلص و صادق احمدی کو ہر وہ بچہ محبوب و پیارا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ اس کا وجود ان پیش گوئیوں کا مصداق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بالہام الہی کیں.آپ کا نام ابراہیم رکھا گیا اور فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کی طرح کثرت سے آپ کو اولا دعطا کی جائے گی نیز فرمایا کہ ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لا ولدرہ کر ختم ہو جائے گی لیکن تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دن تک سرسبز رہے گی.اس پیشگوئی کی صداقت آفتاب نیمروز کی طرح چمک رہی ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ام المومنین کو نہ صرف نسل بعید میں سے پوتے دکھائے بلکہ پڑ پوتے بھی دکھائے اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا نتیجہ.اس لئے ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشان ہونے کی وجہ سے ہر احمدی کو محبوب ہوتا ہے.عرصہ چار سال کا ہوا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تین پوتے اور ایک پڑپوتا یکے بعد دیگرے حصول تعلیم کی خاطر لنڈن آئے.میں سمجھتا ہوں کہ غیر ممالک میں سے انگلستان کو یہ فخر حاصل ہوا جس میں چار نو جوان ابنائے فارس سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جاری شدہ چارشاخوں سے تعلق رکھتے تھے بیک وقت اقامت پذیر ہوئے.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ یہ فخر کسی اور ملک یا شہر کو حاصل ہوگا یا نہیں.ان میں سے ہمارا پیارا سعید (صاحبزادہ مرزا سعید احمد ) تعلیمی جدو جہد کے دوران میں ہی جام شہادت پی کر محبوب ازلی سے جا ملا اور ہمیشہ کیلئے اپنے اقرباء اور اپنے دوستوں کو داغ مفارقت دے گیا.اناللہ وانا الیہ راجعون.باقی تینوں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے اپنے اپنے امتحانات میں کامیاب ہوئے.صاحبزادہ
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 318 مرز اظفر احمد صاحب گزشتہ سال یہاں سے واپس ہندوستان پہنچے اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب عرصہ اڑھائی ماہ سے روانہ ہو چکے ہیں اور مصر میں مقیم ہیں اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ساتھ ہندوستان پہنچیں گے.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے اس قلیل عرصہ میں آئی سی.ایس.کا امتحان پاس کیا اور اب بارایٹ لاء کا امتحان دیا ہے.تمام احباب سے دعا کیلئے درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس امتحان میں بھی کامیابی عطا فرمائے.8 اکتوبر کو صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب کو دار التبلیغ میں الوداعی ٹی پارٹی دی گئی جس میں ہندوستانی اور نو مسلم انگریز دوستوں کے علاوہ بعض غیر مسلم انگریز بھی شامل ہوئے.قرآن مجید کی تلاوت کے بعد جو خاکسار نے کی مکرمی ڈاکٹر سلیمان صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے ایڈریس پڑھا.اس کے بعد صاحبزادہ صاحب موصوف نے ایڈریس کا موزوں الفاظ میں جواب دیا.آپ کے بعد مکرمی در دصاحب نے اپنے ذاتی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا مجھے خوشی بھی ہے اور افسوس بھی کہ ہمارے پاس سے مرزا مظفر احمد صاحب ہندوستان جارہے ہیں.جتنا بھی یہاں مجمع ہے وہ کسی فیاض شخصیت کے پیش نظر نہیں آیا بلکہ سب کے سب خدا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کے اظہار کیلئے جمع ہوئے ہیں.مرزا مظفر احمد صاحب کا ہر دل عزیز ہونا ان کی لیاقت یا قابل تحسین اخلاق کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک نا قابل بیان جذبہ ہے جس کی وجہ سے میں اور ہر دوسرا شخص ان سے محبت کرنے پر مجبور ہوتا ہے.ہر نبی جو دنیا میں آیا اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالتا رہا ہے جس سے ان کی ہر چیز پیاری نظر آنے لگتی ہے.پس ایسی محبت کا ایک کرشمہ ہے جس نے ہمیں آج اس جگہ جمع ہونے پر مجبور کیا ہے.اس سے پہلے بھی ایسے مواقع آئے جن میں قابل عزت ہستیاں ہمارے پاس سے رخصت ہوئیں.مثلاً مرز اظفر احمد صاحب و مرزا ناصر احمد صاحب.نہایت افسوس کی بات ہے کہ بارادہ الہی مرزا سعید احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑپوتے بیمار ہوکر یہاں وفات پاگئے لیکن خوشی کی بات ہے کہ ان چار میں سے تین کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے ہیں.میں سمجھتا تھا اور ایسے احساسات کسی دلیل پر مبنی نہیں ہوتے کہ جب تک صاحب زادگان اس ملک میں موجود ہیں یہاں جنگ نہیں ہوگی.چنانچہ کئی دفعہ جنگ کے زبر دست امکانات پیدا ہوئے لیکن ایسے اسباب پیدا ہو جاتے رہے جن سے جنگ رک جاتی رہی.مجھے خوشی ہے کہ اس اثناء میں مجھے بھی ان کی خدمت کا موقع مل گیا.آخر دعا پر یہ تقریب بخیر وخوبی ختم ہوئی.خاکسار جلال الدین شمس از لندن.الفضل قادیان 23 اکتوبر 1938ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 319 تبلیغی سرگرمیاں [ نومبر.دسمبر 1938ء میں ] مسٹر Priver آئے.دو تین گھنٹہ دار التبلیغ میں ٹھہرے.ان سے انجیل کے الہامی نہ ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے متعلق گفتگو ہوئی.مطالعہ کیلئے کتب دی گئیں.اس کے بعد ایک مرتبہ اور آئے اور ان سے گفتگو ہوئی.(۲) ہائیڈ پارک میں بعض اشخاص ایک کیتھولک پادری سے یہ سوال کر رہے تھے کہ آپ کے مذہب میں دوسرے مذاہب کی کتب پڑھنا کیوں منع ہے.اس نے جواب دیا کہ دوسری کتب کے پڑھنے کی ممانعت نہیں ہاں جھوٹی انجیلیں اور کتب پڑھنے کی ممانعت ہے.میں نے کہا جب تک آپ دوسرے مذاہب کی الہامی کتب پڑھیں گے نہیں تو آپ کو کیسے پتہ لگے گا کہ یہ جھوٹی ہیں یا بچی ہیں.بہر حال اس امر کا فیصلہ کہ کون سی کتاب بچی ہے اور کون سی جھوٹی ان کے مطالعہ پر ہی موقوف ہے.اس نے جواب دیا کہ ہماری کتب مقدسہ کے سوا باقی کتب کچی نہیں ہیں.میں نے کہا تب ان کا سوال کہ تمہارا عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی کتب نہیں پڑھنی چاہئیں درست ہے.(۳) مسٹر Copinger اور ان کی والدہ نے مجھے چائے پر اپنے گھر بلایا تھا نیز اپنے بعض رشتہ دار بھی بلائے.چائے پر اسلامی تمدن، اخلاقی تعلیم کا عیسائیت کی تعلیم سے مقابلہ ، کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے نہ کہ مسیح اور صدقہ و خیرات کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کی.انہوں نے کہا یہ تو بہت اچھی باتیں ہیں اور ہمارے لئے بالکل نئی ہیں.ہمیں یہ نہیں پتہ تھا کہ اسلام میں بھی ایسی تعلیم موجود ہے.پھر میں نے انہیں دار التبلیغ میں بلایا اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سے زائد بیویاں کرنے کی حکمت بتائی اور بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحانیت میں مسیح علیہ السلام سے بڑھ کر تھے.(۴) ایک سپر چولسٹ سے گفتگو ہوئی اس نے بعض واقعات سنائے کہ کس طرح ارواح آتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں.میں نے اس سے دریافت کیا کہ انسانی زندگی کا اصل مقصد تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے.ان واقعات کی اگر صحت بھی تسلیم کی جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے میں کیا مد دل سکتی ہے.اس پر اس نے کہا کہ آپ کی کتاب احمدیت میں بھی تو ایسے واقعات بیان کئے گئے ہیں.میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر وہ باتیں بتا ئیں اور وہ ایسی ہیں کہ ان سے خدا اور اس کی صفات پر یقین بڑھتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جتنا خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 320 مضبوط ہوگا اتنا ہی وہ خدا تعالیٰ کا زیادہ قرب حاصل کرنے کی کوشش کریگا.مثلاً عطا محمد صاحب پٹواری جن کے کوئی ایک بچہ نہیں ہوتا تھا ان کے بچہ ہو جانا اور سعد اللہ لدھیانوی جس کا بچہ تھا ، پر اس کا منقطع النسل ہو جانا اس امر کی دلیل ہے کہ حقیقی خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے.(۵) مسزا کسیلریت ایک یونانی کی بیوی آئیں ان سے گفتگو ہوئی اور سلسلہ کی کتب مطالعہ کیلئے دی گئیں.(۶) ایک دوست نے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق سوالات دریافت کئے جن کے جوابات دیئے گئے.(۷) میں اور حضرت مولوی شیر علی صاحب وکٹوریہ ٹیشن سے مسجد کو آرہے تھے راستہ میں کرنل ڈگلس بھی اسی ڈبہ میں آگئے جس میں ہم بیٹھے تھے.خوشی سے ملے.انہوں نے فرمایا کہ احمدیت کے عقائد اور خیالات تو بہت اچھے ہیں اور لوگ مان بھی چکے ہیں لیکن صرف شخص کو نہیں مانتے.(۸) مسٹر آر تھر جان ایک دفعہ اکیلے آئے پھر دوسری دفعہ اپنے ساتھ اپنی بیوی اور تین اور اپنے دوست لائے.انہیں مسجد دکھائی گئی.The Incamation اور ضرورت مذہب وغیرہ امور پر گفتگو ہوئی.احمدیت یعنی حقیقی اسلام مطالعہ کیلئے دی گئی.اسی طرح بعض اور لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی اور خط و کتابت کی.بعض مصری اور ہندوستانی دوست مسجد دیکھنے کیلئے تشریف لائے جن میں سے ایک الدکتور محمد صادق تھے جو قاہرہ کے ہسپتال قصر العین میں ڈاکٹر ہیں.ان سے عربی میں ایک گھنٹہ کے قریب گفتگو ہوئی اور سلسلہ کا بھی ذکر آیا.ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب جمونی اپنی تکمیل تعلیم کے بعد واپس ہندوستان جاتے ہوئے مسجد دیکھنے کیلئے تشریف لائے.اسی طرح شیخ عبدالحمید صاحب ایم.اے، بی ٹی امرتسری اور ڈاکٹر حسن دین صاحب بہاولپوری اور بعض اور طالب علم بھی تشریف لائے اور مسجد دیکھی.یوم التبلیغ کے روز میں اور شیخ احمد اللہ صاحب تبلیغ کیلئے نکلے پہلے ایسٹ اینڈ گئے.وہاں سے مصری کلب میں اور پھر ایک مکان پر گئے جہاں بعض غیر احمدی دوست رہتے ہیں.وہاں ایک دوست نے مذہبی سوالات کئے جن کے تفصیل سے جوابات دیئے گئے اور قرآن مجید کی بعض آیات کی تفسیر کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ذکر آیا اور حضرت شیر علی صاحب اور عزیزم سید ممتاز صاحب اکٹھے تبلیغ کیلئے گئے.بعض غیر احمدیوں کو آپ نے تبلیغ کی اسی طرح بعض اور دوستوں نے تبلیغ کی.ایک انگریز نو مسلم محمد بر املی نے جو پورٹ سمتھ میں رہتے ہیں اشتہارات تقسیم کئے اور عیسائیوں سے گفتگو کی..خاکسار: جلال الدین شمس.(الفضل قادیان 20 دسمبر 1938ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس وو مسیح کی قبر ہندوستان میں‘ کا اعلان یورپ میں 321 ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) مندرجہ ذیل سطور لکھتے ہوئے قلب میں مسرت و انبساط محسوس کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس نے خاکسار کو حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذرہ نوازی کے صدقہ اس امر کا موقعہ عطا فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک خواہش اور منشاء کے مطابق ایک اشتہار شائع کروں.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ( اللہ تعالیٰ انہیں عمر دراز عطا فرمائے ) ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے تمام مخلص و صادق احمدی تا قیامت اس لئے رہین منت رہیں گے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک ملفوظات کو اپنے قلم سے جمع کر کے ان کیلئے آسمانی مائدہ مہیا کیا.جزاہ اللہ خیرا فی الدنيا والآخرة اسوقت میں بھی ان کے متعلق اپنے قلب میں شکر و امتنان کے جذبات موجزن پاتا ہوں کیونکہ وہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو جس کے پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مجھے موقعہ دیا ہے اپنے ہاتھ سے قلمبند کر کے اور اپنے اخبار میں شائع کر کے ہم تک پہنچایا اور وہ خواہش یہ ہے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یورپ اور دوسرے ملکوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفحے کا ہو تا کہ سب اسے پڑھ لیں.اس کا مضمون اتنا ہی ہو کہ مسیح کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے جو واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہو گئی ہے.اس کے متعلق مزید حالات اور واقفیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کرے.اس قسم کا اشتہار ہو جو بہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جائے“.الحکم قادیان 10 جولائی 1902 صفحہ 3) اس کے مطابق خاکسار نے ایک اشتہار چھپوایا ہے جس کا عنوان ہے ” مسیح کی قبر ہندوستان میں“ اور اس کا مضمون مندرجہ ذیل ہے.” بھائیو! یادر ہے کہ مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی حضرت احمد قادیانی ( پنجاب، ہند ) کی آمد سے پوری ہوگئی ہے جو احمد یہ جماعت کے مقدس بانی ہیں اور جو تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے.انہوں نے ناقابل تردید دلائل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے تھے بلکہ وہ قبر سے فانی جسم کے ساتھ نکلے جو گوشت اور ہڈیوں کا تھا.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 322 انجیل چہارم کے بیان کے مطابق مسیح آخری دفعہ اپنے شاگردوں سے بحیرہ روم پر ملے اور پطرس سے کہا کہ تم میری بھیڑوں کو چراؤ یا نگہبانی کرو اور انہیں خدا حافظ کہہ کر ایک نامعلوم مقام پر چلے گئے.یہ ایک مشہور و معروف واقعہ ہے کہ بارہ حواریوں میں سے تو ما حواری ہندوستان آئے تھے اور ان کی قبر مدراس ( چتائی ) میں واقع ہے لیکن حضرت احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نیا انکشاف کیا ہے جس نے مسیح کے صعوداً الى السماء کی تھیوری کو بالکل غلط ثابت کر دیا ہے اور وہ یہ کہ مسیح کی قبر کا پتہ لگ گیا ہے اور واقعات صحیحہ اور دلائل قویہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ اس قبر میں مسیح ابن مریم مدفون ہیں.یہ قبر محلہ خان یارسری نگر کشمیر میں واقع ہے جس میں پہلے بھی بنی اسرائیل کے بعض گمشدہ فرقے آباد تھے اور اب تک آباد ہیں.مزید برآں مجھے یقین ہے کہ اگر ماہرین علم آثار قدیمہ اس قبر کو کھدوا کر تحقیق کریں تو انہیں ضرور ایسی تحریریں یا ایسے آثارمل جائیں گے جن سے یہ ثابت ہوگا کہ اس قبر میں وہی صحیح مدفون ہے جس کی صدیوں تک غلطی سے عبادت کی گئی اور اسے خدا بنایا گیا.اس اشتہار میں مقبرہ مسیح کا فوٹو بھی دیا گیا ہے.فی الحال پانچ ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا ہے.اس کی تقسیم کے بعد پانچ ہزار اور چھپوایا جائے گا.اس اشتہار کی تقسیم کے متعلق میں انشاء اللہ تعالیٰ پھر عرض کروں گا.لنڈن میں عید الفطر کی نماز (الفضل قادیان یکم جنوری 1939ء) انگلستان میں صرف دو مسجد میں ہیں.ایک ووکنگ میں جو ایک غیر مسلم انگریز نے بعض سیاسی اغراض کے ماتحت بنائی تھی.وہ ایک کمرہ ہے جس کے اوپر گنبد بنا ہوا ہے اور اس کے اندر منبر بھی ہے.بنانے والے کی ایک غرض اپنے ہم وطنوں کو مسلمانوں کی مسجدوں کا نمونہ دکھانا بھی تھی.موجودہ متولیوں نے اس کے اندر کرسیاں رکھی ہوئی ہیں تا آنے والے انگریز اس کے اندر جو تیوں سمیت آسانی سے بیٹھ سکیں.اس میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی اور نہ ہی عید کی نماز.جمعہ کی نماز وہ شہر لنڈن میں ایک کمرہ میں ادا کرتے ہیں اور عید کی نماز انہیں خیمہ میں ادا کرنی پڑتی ہے.غرضیکہ اس مسجد کے بانی نے جس غرض سے وہ مسجد بنائی تھی موجودہ متولیوں کے ذریعہ وہ غرض باحسن وجوہ پوری ہو رہی ہے.دوسری مسجد وہ ہے جو شہر لنڈن میں واقع ہے جس کا سنگ بنیاد اللہ تعالیٰ کے خلیفہ محمود نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھا.جس کا نام مسجد فضل ہے اور جس کے بنانے کی ہمت اور توفیق اللہ تعالیٰ نے اس
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 323 جماعت کو دی جس کے ذریعہ اس کا منشاء ہے کہ دنیا کے کونوں میں اسلام کا نور چمکے.اس میں ہر ایک کو فَاخْلَعْ نَعْلَيْک کے مطابق جوتی اتار کر اندر جانا پڑتا ہے.اس میں باقاعدہ جمعہ کی نماز ہوتی ہے اور عید کی نماز بھی اسی میں ادا کی جاتی ہے.اس دفعہ یہاں چار مقامات پر عید الفطر کی نماز ہوئی.ایک دوکنگ میں.دوسرے مصریوں نے جو پہلے دو کنگ جا کر عید کی نماز ادا کیا کرتے تھے اس مرتبہ علیحدہ مصری کلب میں عید کی نماز ادا کی.تیسرے جمعیتہ السلمین نے جو ہندوستان کے عام مسلمانوں پر مشتمل ہے ایک ہال میں نماز ادا کی.باوجود یکہ وہ کنگ والے بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ ان کا احمدیت سے کوئی بھی تعلق نہیں پیغامیوں کا بھی اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور وہ ان سے بھی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے مسلمان عید کی نماز ان کے ساتھ نہیں ادا کرتے.مسجد فضل لنڈن میں 24 نومبر کو ہم نے عید الفطر کی نماز ادا کی.پچاس کے قریب حاضری ہو گئی تھی جن میں بعض زیر تبلیغ انگریز بھی تھے اور کچھ غیر احمدی بھی شامل ہوئے.بعض نو مسلم بوجہ کام کا دن ہونے کے حاضر نہ ہو سکے.عید کی نماز کے بعد سب کو ہندوستانی کھانا کھلایا گیا.بعض دوست سارادن مسجد میں رہے اور ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرتے رہے.سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ دوسری تقریب جو قابل ذکر ہے وہ سیرت النبی ﷺ کا جلسہ ہے.یہ جلسہ لندن کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت کامیاب رہا.یہاں کے اخبار ساؤتھ ویسٹرن سٹار نے جس کی اشاعت تقریباً چالیس ہزار ہے اس کی رپورٹ لکھی اور اخبار کے درمیانی صفحہ میں جگہ دی جس میں نہایت اہم واقعات کا ذکر ہوتا ہے.اسی طرح لنڈن کے ایک مشہور ہفتہ وار رسالہ ” گریٹ برٹن اینڈ دی ایسٹ“ نے دو جلی عنوان دے کر اس جلسہ کی رپورٹ شائع کی.جماعت کے دو ممبروں کو جو Worthing میں رہتے ہیں ملنے کیلئے گیا.ان سے حالات جماعت کے متعلق گفتگو کی اور ایک دفعہ کیمبرج گیا جہاں یونیورسٹی کے بعض طلباء سے ملاقات ہوئی.(۱) عید الفطر کے روز شام کے قریب نائب امام و وکنگ اور سید عبداللہ پی ایچ ڈی لائل پور اور سید عبدالحمید شاہ اور ڈاکٹر ایچ قادر خان ویٹرنری ڈیپارٹمنٹ میسور تشریف لائے.یہود کے متعلق جو قرآن مجید میں پیشگوئیاں ہیں ان کے دریافت کرنے پر تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ باوجود یکہ یہ قوم سب سے زیادہ دولت مند
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 324 ہے لیکن پھر بھی اسے کبھی حکومت نصیب نہیں ہوئی.اس سے قرآن مجید کی پیشگوئی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے.دوسرے باوجود یکہ یہ قوم ہر زمانہ میں مصائب کا نشانہ بنتی رہی اور جلا وطنی اور کئی قسم کی تکالیف میں مبتلا ہوئی لیکن پھر بھی مٹی نہیں اور اس کی وجہ جیسا کہ میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا.فَجَعَلْنَاهَا نَكَالاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ (البقرة :67) کہ اس قوم کے ذلیل اور مسکین ہونے اور دوسری حکومت کے زیر دست رہنے کو ہم نے آئندہ آنے والی قوموں کیلئے بھی باعث عبرت بنایا ہے.اس قوم کو عبرت بنانے کے یہ معنی ہیں کہ کوئی اور قوم بھی انہی کے نقش قدم پر چلنے والی تھی.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ یہود کے قدم بقدم چلیں گے.سید عبداللہ صاحب نے بعض اور آیات کی بھی تفسیر دریافت کی اور جاتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے ان تفسیروں کے سننے سے بہت خوشی ہوئی ہے اب میں لنڈن سے باہر جارہا ہوں واپس آکر پھر آپ سے ملنے کیلئے آؤں گا.(۲) ایک انگریز Mr Bone برائٹن سے تشریف لائے.پہلے مصر وغیرہ میں رہ چکے ہوئے ہیں.انہیں مطالعہ کیلئے کتا بیں دی گئیں.(۳) ڈاکٹر یہودا پی ایچ ڈی جو مستشرق ہیں اور یہودی عالم ہیں جرمنی اور لنڈن کی یونیورسٹیوں میں پروفیسر رہ چکے ہیں ان کے مکان پر گیا.ان سے سیرۃ النبی کے جلسہ پر تقریر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا.لیکن ان کا اسی روز ایک دوسری جگہ لیکچر تھا اس لئے انہوں نے معذوری کا اظہار کیا.پھر احمدیت کے متعلق انہیں بعض باتیں بتا ئیں.انکے پاس شیخ محی الدین ابن العربی اور سید عبدالغنی نابلسی وغیرہ علماء کی خود نوشت تحریریں تھیں.وہ انہوں نے دکھا ئیں.(۴) ایڈیٹر South Westerm Star کو چائے پر بلایا ہندوستان کی موجودہ سیاسی حالت کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ جب آپ کے ہاں کوئی میٹنگ ہو تو ہمیں اطلاع دے دیا کریں ہم اسے اچھی طرح شائع کیا کریں گے.(۵) ایک ترکی مسٹر داؤ د بیگ مع اپنی بیوی کے آئے جو آسٹرین اور کیتھولک تھیں اور اسلام لانا چاہتی تھیں.میں نے کہا اسلام لانے سے پہلے ضروری ہے کہ وہ اسلام کو کماحقہ سمجھ لیں انہیں وہ کتاب (اسلام) مطالعہ کیلئے دے دی گئی.(۶) مسٹر آرنلڈ یارکشائر سے آئے ان سے اصول اسلام کے متعلق گفتگو ہوئی.احمدیت اور
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس قرآن مجید کا ایک پارہ خرید کر لے گئے.325 (۷) مسٹرمحمد اسحاق صاحب جو کلکتہ یونیورسٹی میں فارسی زبان کے لیکچرار ہیں مع اپنی اہلیہ کے تشریف لائے ان سے گفتگو ہوئی.پھر انہوں نے اپنے مکان پر بلایا اور دریافت کیا کہ احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ تفصیل سے جواب دیا اور دو گھنٹہ تک گفتگو ہوتی رہی.خاکسار : جلال الدین شمس.الفضل قادیان 27 جنوری 1939ء) * 1940- 1939 حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا سفر یورپ ( حضرت مولانا جلال الدین شمس) 1937ء کا ذکر ہے کہ ایک روز حضرت مولوی شیر علی صاحب ، مگر می مولانا در دصاحب اور خاکسار ناشتہ کے بعد لنڈن میں تبلیغ اسلام کے متعلق گفتگو کر رہے تھے.درد صاحب نے فرمایا کہ ووکنگ کے ذریعہ جو میں بعض مسلمان ہوئے تھے وہ اسلام کی تعلیمات اور احکام میں ترمیم کی سکیمیں سوچ رہے تھے.بعض کا خیال تھا کہ تھوڑی سی شراب پی لی جائے تو کوئی حرج نہیں اسلام کے بعض اور دیگر احکام کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناسب حال قرار دے کر پس پشت ڈال رہے تھے لیکن حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سفر یورپ سے یہاں تبلیغ اسلام کے متعلق ایک نیا دور شروع ہوا اور یہ بالکل درست ہے کیونکہ اسلام کے تمدنی احکام کو بھی حضور نے ہی اپنی کتاب احمدیت میں صحیح رنگ میں پیش فرمایا.نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود کو اپنے لیکچروں میں اسلام کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت پیش کیا اور آپ کے آنے سے اخبارات میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تذکرہ ہوا.نیز مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کی شہادت اور مسجد فضل لنڈن کے سنگ بنیاد رکھنے اور پھر مسجد کے افتتاح پر یہاں کے مشہور اخبارات میں بکرات مرات سلسلہ اور بانی سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کیا.پس حقیقت میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ہی وہ مبارک وجود تھے جن کے ذریعہ سچے مسیح کی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 326 آواز لنڈن میں گونجی اور ضروری تھا کہ ایسا ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیا دحمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا.اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جوان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے، دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحه 275) مدارس میں لیکچرز تبلیغ اسلام کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک ایسا نا در موقعہ عطا فرمایا جو میرے وہم و خیال میں بھی نہ تھا.لنڈن میں ایک موومنٹ ہے جس کے ماتحت بیسیوں بالغ مرد و عورتوں کے مدارس ہیں.ان کیلئے خاص نصاب مقرر ہوتا ہے.اس سال جو کتاب ان کے کورس میں رکھی گئی اس میں مختلف مذاہب کے متعلق اسباق تھے جو کہ بائبل میں شامل نہیں.ایک سبق اسلام کے متعلق تھا.میں ایک میٹنگ میں شامل ہوا اس میں ایک عورت ان مدارس میں سے ایک مدرسہ کی پریذیڈنٹ تھی.اس نے اس سوسائٹی کے سیکرٹری سے ذکر کیا کہ اسلام کے متعلق ہم کسی مسلمان سے باتیں سننا چاہتے ہیں.سیکرٹری نے اسے میرا نام بتایا.میں نے اس دعوت کو منظور کر لیا.معلوم ہوتا ہے اس نے دوسروں سے ذکر کیا تو ان کی طرف سے بھی دعوتیں آنی شروع ہو گئیں.چنانچہ میں سکولوں کی طرف سے دعوتیں موصول ہوئیں.سولہ سترہ مدارس میں اس وقت تک لیکچر دیئے جاچکے ہیں کچھ مئی و جون میں ہوں گے ہر لیکچر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد اور جماعت احمدیہ کے متعلق ذکر کیا گیا.5 فروری کو ہاکسٹن اکیڈیمی ایڈلٹ سکول میں 8 فروری کو بلومبری ایڈلٹ سکول میں 12 فروری کو کنگسٹن وومن ایڈلٹ سکول میں.14 فروری کو سٹر تھم ایڈلٹ سکول میں اور 16 فروری کو ولسڈن ایڈلٹ سکول میں اور 17 فروری کو گرین فورڈ ایڈلٹ سکول میں اور 22 فروری کو کرائڈن ایڈلٹ سکول اور منبہل ایڈلٹ سکول میں اسلام کے متعلق خاکسار نے اور 12 فروری کو یوئیل ایڈلٹ سکول میں اور 17 فروری کو وانڈز ورتھ ایڈلٹ سکول میں سید میر عبد السلام صاحب نے اور 14 فروری کو سینٹ الیانس ایڈلٹ سکول میں اور 15 فروری کو لنڈن فیلڈ ایڈلٹ سکول میں ڈاکٹر سلیمان صاحب نے لیکچر
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 327 ہر جگہ لیکچر کے بعد سوالات کا موقعہ دیا جاتا اور حاضرین مختلف سوالات کرتے.میرے ساتھ اکثر مقامات میں مسٹر بلال مثل بھی گئے جو بعض سوالات کا جواب بھی دیتے.ان کے کورس میں اسلام کے متعلق جو سبق درج تھا اس میں اسلام کے متعلق بعض غلط بیانیاں تھیں وہ بھی میں نے ان پر واضح کیں.مثلاً اس میں لکھا تھا کہ مسلمان خدا کیلئے (Love) محبت کے لفظ کو استعمال کرنا تقریباً کفر خیال کرتے ہیں.میں نے کہا قرآن مجید کی کئی آیتوں میں یہ لفظ خدا کے حق میں استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول تو کہہ دے کہ اگر تم خدا کے سچے عاشق اور محبت ہو تو تم میری پیروی کرو.خدا تم سے محبت کرے گا.اسی طرح فرمایا کہ مرتدین کے بدلہ خدا تعالیٰ ایسی قوم لائے گا جو خدا سے محبت رکھیں گے اور وہ ان سے محبت کرے گا.اسی طرح دوسری غلطیوں کو واضح کیا.ایک سکول میں وہ عورت بھی حاضر تھی جس نے وہ سبق لکھا تھا چنانچہ پریذیڈنٹ نے کہا کہ آج کے لیکچر کا ایک فائدہ تو یہ بھی ہوا ہے کہ سبق لکھنے والی کو بھی اپنی غلطیوں کا علم ہو گیا ہے.ایک سکول میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایک شخص نے کہا کہ مسیح نے تو تمام دنیا کا بادشاہ ہونا تھا.میں نے کہا یہود بھی یہی خیال کرتے تھے مگر مسیح فقیرانہ حالت میں آئے اور انہوں نے کہا کہ میری بادشاہت روحانی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو تمام دنیا کیلئے روحانی بادشاہ بنا کر بھیجا ہے.اس نے کہا میں یہ بات تو نہیں مان سکتا.میں نے کہا یہود نے بھی اسی طرح پہلے مسیح کو جس کے ماننے کے تم مدعی ہو نہیں مانا تھا.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ آنے والا صیح آچکا ہے اب کوئی اور مسیح نہیں آئے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب کیلئے کامل نمونہ ایک اور سکول میں ایک شخص نے کہا کہ کیا اچھا ہو کہ مسلمان اور عیسائی ایک ہو جائیں.میں نے کہا یہ تو آپ لوگوں پر موقوف ہے.ہم مسلمان تو تمام انبیاء کو مانتے ہیں حضرت عیسی کو بھی خدا کا راستباز نبی مانتے ہیں لیکن آپ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتے.اگر آپ ایک قدم ہماری طرف بڑھائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مان لیں تو پھر ہم ایک ہو جاتے ہیں.ایک اور سکول میں ایک شخص نے کہا کہ اگرمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بچے نبی بھی ہوں تو بھی صحیح ان سے بہر حال بڑھ کر تھے.وہ خدا ہو کر دنیا کیلئے کامل نمونہ تھے.میں نے کہا اگر وہ خدا تھے تو وہ انسانوں کیلئے نمونہ نہیں ہو سکتے کیونکہ انسان اور خدا کی طاقتوں میں بہت بڑا فرق ہے.وہ محض بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے آئے.دنیا کیلئے کامل نمونہ
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 328 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.مسیح بادشاہ نہ تھے وہ بادشاہوں کیلئے نمونہ نہیں ہو سکتے نہ وہ سپاہی نہ فوجوں کے جرنیل ہوئے نہ قاضی اور جج بنے.نہ ہی وہ شادی شدہ تھے نہ وہ کسی کے ماں باپ ہوئے.پس ایسے تمام لوگوں کیلئے وہ کامل نہیں ہو سکتے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یتیم بھی ہوئے، فقیر بھی رہے، بادشاہ بھی ہوئے ، سپاہی ، جرنیل اور باپ بھی ہوئے.ایک مدت تک آپ نے ایک ہی بیوی رکھی.پھر زیادہ بیویاں بھی کیں.قاضی اور حج بھی بنے.پس آپ ہی ایک ایسے نبی تھے جنہوں نے تمام دنیا کیلئے ایک کامل نمونہ چھوڑا.پس یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ نادر موقع عطا فرما کر سینکڑوں انگریزوں کو اسلام کے متعلق صحیح معلومات بہم پہنچانے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مژدہ سنانے کی توفیق عطا فرمائی.کتب کے سیٹ 1937ء میں میری تحریک پر بہت سے احباب نے تبلیغی کتب کے سیٹ ارسال کئے تھے.کچھ تو گذشتہ سال لوگوں کو دیئے گئے جو باقی تھے وہ اب ہر مدرسہ کی لائبریری کیلئے بطور ہدیہ دیئے گئے ہیں جو انشاء اللہ تعالی مستقل تبلیغ کا کام دیں گے اور ان دوستوں کیلئے جنہوں نے وہ سیٹ بھیجے تھے دائی ثواب کا موجب ہوں گے.چونکہ ان سکولوں میں اکثر ملازم پیشہ مرد اور عورتیں ہیں اور ان کے دلوں میں مذاہب کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کی قدرے خواہش بھی ہے اس وقت درحقیقت وہ کسی خاص مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہیں کرتے اس لئے امید ہے کہ وہ ان کتب کا ضرور مطالعہ کریں گے اور ان سے مستفید ہوں گے.ان کتابوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” ٹیچنگ آف اسلام“ اور مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم (کشتی نوح)، حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی تالیفات میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح عمری ہیں نیز قرآن مجید کا پہلا پارہ بھی دیا گیا ہے.علاوہ ازیں قبر مسیح والا پانچ ہزار اشتہار بھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کا ذکر ہے ،لندن اور اس کے نواح میں تقسیم کیا جا چکا ہے.اس عرصہ میں تین اشخاص بیعت فارم پر کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.ایک مسٹر ٹامس بانڈ ہیں جو برائٹن میں رہتے ہیں.دوسرے میں ڈکنسن جو انگٹن میں رہتی ہیں اور مسٹر براؤن نے جو کرائیڈن میں رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے.آمین.اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح راستہ پر ثابت قدم
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 329 رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور سلسلہ کا سچا خادم بنائے اور ہمیں توفیق بخشے کہ ہم لنڈن کے ہر محلہ اور ہر مکان میں خدا تعالیٰ کے بچے مسیح کی آواز پہنچا سکیں.ہمارا فرض صرف پہنچانا ہے خواہ لوگ مانیں یا نہ مانیں.اگر چہ ہمارا ایمان ہے کہ پیشگوئیوں کے مطابق بہت سے لوگ اسلام کو قبول کریں گے لیکن یہ امر کہ ایسا کب وقوع پذیر ہوگا اور کیونکر ہوگا اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے.جب ہم اپنا فرض تبلیغ کا ادا کر دیں گے تب خدا تعالیٰ کا غیبی ہاتھ اپنی قدرت کا کرشمہ دکھائے گا اور اپنے وعدوں کے مطابق مغرب میں ایک ایسا انقلاب پیدا کرے گا جو اس وقت بظاہر ناممکن نظر آتا ہے.الم تعلم ان الله على كل شيئي قدير و فعال لما يريد.(الفضل قادیان 11 اپریل 1939ء) انٹر نیشنل فرینڈ شپ لیگ میں لیکچر ( مولانا جلال الدین صاحب شمس ) انٹرنیشنل فرینڈ شپ لیگ کی ویمبلے شاخ میں میں نے قرآن اور بائیبل کے موضوع پر ایک پر چہ پڑھا جس میں بتایا کہ قرآن مجید کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ تمام گزشتہ تعلیموں کی خوبیوں کا اقرار کرتا ہے پھر معقولیت اور دلیل و برہان کے ساتھ اپنی اہمیت کو پیش کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدى وَنُوْرٌ (المائده : 45).یعنی ہم نے تو رات کو اتارا تھا جس میں ہدایت اور نور تھا.پھر فرمایا کہ ہم نے ان کے پیچھے عیسی ابن مریم کو بھیجا جو تورات کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا.وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدى وَنُورٌ وَمُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ (المائدہ: 47) اور ہم نے اس کو انجیل دی.اس میں بھی ہدایت اور نور تھا اور وہ بھی ان باتوں کی جو اس سے پہلے تورات میں موجود تھی تصدیق کرنے والی تھیں.پھر فرماتا ہے.وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِناً عَلَيْهِ (المائده: 49) یعنی ہم نے اس کامل کتاب یعنی قرآن مجید کو بھی ضرورت حقہ کے وقت اتارا ہے اور اس سے پہلے جو کتاب موجود تھی اس میں مذکورہ پیشگوئیوں کے مطابق یہ کتاب نازل ہوئی ہے اور تمام تعالیم حقہ کی جو اس سے پہلے موجود تھیں ان کی یہ کتاب محافظ ہے اور کوئی عمدہ تعلیم اس سے باہر نہیں رہ گئی.اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کا یہود سے یہ خطاب کہ اگر تمہارا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان ہوتا تو تم مجھ پر بھی ایمان لاتے کیونکہ اس نے میرے متعلق پیش گوئی کی تھی درست اور معقول تھا.اسی طرح ہر عیسائی اور یہودی کو جو حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح پر
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 330 ایمان لانے کا مدعی ہے اس کتاب پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ یہ کتاب بھی ان پیشگوئیوں کے مطابق اتری ہے جو بائیبل میں مذکور ہیں.پھر میں نے ایک پیشگوئی عہد قدیم سے اور ایک پیشگوئی عہد جدید سے پیش کی جن میں ایک کامل قانون کے بھیجے جانے کا ذکر پایا جاتا ہے.اختتام پر پریذیڈنٹ نے کہا ہم تو اسلام کے متعلق یہی سنتے تھے کہ اسلام جبر و اکراہ کا مذہب ہے معقولیت اور دلائل اپنے ساتھ نہیں رکھتا لیکن آج ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اسلام معقولیت اور دلائل و براہین کے ساتھ اپنی باتوں کو منواتا ہے نیز کہا کہ ہمیں قرآن مجید کا مطالعہ کرنا چاہیے.بعد میں سوالات کا موقعہ دیا گیا جن کے جوابات دیئے گئے.جب سوالات ختم ہو گئے تو ایک عراقی طالب علم سے آدھ گھنٹہ تک عربی میں گفتگو ہوئی.چوہدری انور احمد صاحب بھی میرے ساتھ تھے.وہ دوسروں سے گفتگو کرتے رہے اور انہیں سوالات کے جواب دیتے رہے.عراقی طالب علم عیسائیوں کے خیالات سے متاثر تھا اس نے کہا کہ اگر مسیح کو خدا نہ بھی مانا جائے تا ہم روحانیت میں وہ دوسرے انبیاء سے اونچا مرتبہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ روح اللہ تھے اور کسی نبی کو قرآن مجید میں روح اللہ نہیں کہا گیا.میں نے کہا حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِ فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (الحجر: 30) کہ میں نے اس میں اپنی روح پھونکی اور تمام فرشتوں نے اسے سجدہ کیا.اس نے جواب دیا لیکن روح اللہ تو نہیں کہا.میں نے کہا مسیح کو قرآن مجید میں کب روح اللہ کہا گیا ہے.ان کے متعلق بھی تو روح منہ کے الفاظ آئے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ایک روح تھی لیکن جب حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر کیا تو روح کو اپنی طرف سے مضاف کیا.پھر آدم علیہ السلام کو تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن مسیح کو جیسا کہ متی میں مذکور ہے شیطان نے کہا مجھے سجدہ کر.کہنے لگا پھر ابراہیم خلیل اللہ موسیٰ کلیم اللہ اور عیسی روح اللہ کیوں کہتے ہو.میں نے جواب دیا یہ علماء کی اصطلاح ہے قرآن مجید کی آیات سے استدلال کر کے انہوں نے یہ لکھا ہے.مثلاً حضرت موسیٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَكَلَّمَهُ اللهُ مُوسیٰ تکلیما تو اس سے حضرت موسیٰ کو کیم اللہ بنالیا حالانکہ تمام انبیاء کلیم اللہ تھے.پھر جن علماء نے ایسا لکھا ہے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی تو کچھ لکھا ہے کیا وہ آپ بتا سکتے ہیں.کہنے لگا.محمد رسول اللہ.میں نے کہا کیا مسیح رسول اللہ نہیں ہیں؟ کہنے لگا تھے.میں نے کہا اسی طرح دوسرے رسول بھی روح اللہ تھے.پھر میں نے تفصیلی جواب دیا کہ قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کیلئے خصوصیت کے ساتھ کیوں ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.اس طالب علم
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس پر اچھا اثر ہوا.بعض ممبروں کے پتے لئے گئے جنہیں کتا ہیں مطالعہ کیلئے بھیجی گئی ہیں.ریورنڈ ولیم ویٹ کے مکان پر 331 ریورنڈ ولیم ویٹ جو ایک سال تک فلسطین بطور مشنری جانے والے ہیں میری دعوت پر عید کے موقعہ پر تشریف لائے تھے.ان سے اس وقت گفتگو بھی ہوئی تھی.گزشتہ ہفتہ انہوں نے مجھے اپنے مکان پر دعوت چائے دی اور ایک مشنری عورت مسز ہنری کو بھی بلایا جو عربی ممالک میں چھ سات سال تک کام کر چکی ہے.دوران گفتگو میں اس نے ذکر کیا کہ وہ کہا بیر بھی گئی تھیں.میں نے اسے بتایا کہ وہاں ہماری جماعت موجود ہے.پھر اس نے یہ بھی کہا کہ جب وہ دمشق گئی تھی اس وقت پادری الفریڈ نیلسن سے کسی کا تحریری مباحثہ ہو ا تھا.میں نے کہا وہ مباحثہ مجھ سے ہوا تھا اور اب وہ کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہوا ہے.یروشلم کی ایک عرب مسلمان لڑکی بھی مدعو تھی جس نے مسجد د یکھنے کیلئے آنے کا وعدہ کیا.ایام زیر رپورٹ میں روٹری کلب جاتا رہا اور لنگٹن اور سڈ کپ وغیرہ نومسلموں کے گھروں پر ان سے ملنے کیلئے گیا.سر فیروز خان صاحب نون ہائی کمشنر فار انڈیا نے سردار بہا در موہن سنگھ صاحب کو الوداعی پارٹی دی تھی جس میں شامل ہوا.وہاں بہت سے ہندوستانی اور انگریزوں سے ملاقات ہوئی.خاکسار جلال الدین شمس (الفضل قادیان 16 اپریل1939ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہود یوئیل ایڈلٹ سکول میں مندرجہ بالا موضوع پر میں نے پرچہ پڑھا جس میں پہلے تو بائیل سے اس عہد کا ذکر کیا جو بنی اسرائیل نے خدا سے کیا تھا اور خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کیا تھا.بنی اسرائیل نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ خدا کی باتوں کو سنیں گے.پھر مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کر کے پہلے ان پیشگوئیوں کا ذکر کیا جو پرانے عہد نامہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پائی جاتی ہیں.پھر پولیٹیکل تعلقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ مدینہ کے ارد گرد رہنے والے یہودی قبائل کو کیوں جلاوطن کیا گیا.نیز بنی قریظہ کے جوان مردوں کو قتل کرانے اور بچوں اور عورتوں کو غلام بنانے کے متعلق جو یورپین مورخین نے اعتراض کیا ہے اس کا جواب دیا.واشنگٹن ارونگ لائف آف محمد ( ع ) میں اس واقعہ کا ذکر کر کے لکھتا.ہے: The massacre...is pronounced one of the darkest pages of his history.[Mahomet and His Successors by Washigton Irving, G.P.Putnam, New York, 1860, P.211]
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 332 میں نے بتایا کہ اول تو یہ فیصلہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے دیا تھا دوسرے بائیبل میں پیشگوئیاں تھیں کہ وہ اپنے بد اعمال کی پاداش میں قتل ہوں گے اور ان کے مال و اسباب چھین لئے جائیں گے.تیسرے یہ فیصلہ کوئی ظالمانہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ بنو قریظہ کی مسلمہ الہامی کتاب توریت کے مطابق تھا.چنانچه استثناء باب 20 آیت 11 تا 14 میں یہ لکھا ہے کہ اگر شہر کے لوگ تیرے خلاف جنگ کریں تو تو ان کے شہر کا محاصرہ کرے اور جب خدا اسے تیرے قبضے میں دے دے تو تو ہر مرد کو تلوار سے قتل کر اور بچوں اور عورتوں اور مویشیوں کو اپنے قبضہ میں لے لے.پس سعد بن معاذ کا فیصلہ یہود کی مسلمہ خدائی کتاب کے موافق تھا اور قابل اعتراض نہ تھا.آسمانی اور دنیاوی بادشاہت سے محرومیت رض یہود نے پہلے مسیح علیہ السلام کے وقت میں عہد کو توڑا اور خدا تعالیٰ کی بات سننے سے انکار کیا جس پر جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے مسیح نے فرمایا کہ اب تم سے آسمانی بادشاہت چھین لی جائے گی اور ایک دوسری قوم کو دے دی جائے گی.چنانچہ نبوت کی نعمت ان سے چھین لی گئی.اس کا نا قابل تردید ثبوت یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام سے پہلے تو کثرت سے بنی اسرائیل میں سے انبیاء مبعوث ہوئے لیکن مسیح علیہ السلام کے بعد ان میں سے صادق نبیوں کا آنا بند ہو گیا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں انہیں عہد یاد دلایا گیا اور انہیں سمجھایا گیا کہ اگر وہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو سنیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مان لیں گے تو پھر دوبارہ وہ کھوئی ہوئی نعمتوں کو پالیں گے اور دونوں قسم کی نعمتوں سے متمتع ہوں گے لیکن انہوں نے بجائے ایمان لانے کے آپ کے قتل کی تجویزیں کیں.تب اللہ تعالیٰ نے بطور سزا انہیں نہ صرف آسمانی بادشاہت سے بلکہ دنیاوی بادشاہت سے بھی محروم کر دیا.چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک یہودیوں کی کسی ملک میں حکومت قائم نہ ہوئی.قرآن مجید میں ان کے متعلق جو پیشگوئیاں درج ہیں وہ بیان کیں.پھر گذشتہ صدیوں میں عیسائی حکومتوں نے جو یہودیوں سے سلوک کیا اس کا ذکر کیا.فیلپ آگسٹ نے ان کے تمام اموال پر قبضہ کر کے اور ان کے قرضے جولوگوں کے ذمہ تھے سب ضبط کر کے انہیں فرانس سے نکال دیا.پھر 1306ء میں فیلپ دی فیئر نے بھی وحشیانہ سلوک کے ساتھ انہیں پھر فرانس سے نکال دیا.بعض مقامات پر یہودی عورتوں نے غصہ سے دیوانگی کے جوش میں اپنے بچوں کو بلند جگہوں سے عیسائیوں کے اثر دہام پر پھینک دیا.Chinon میں ایک خندق کھدوائی گئی اور اس
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 333 میں ایک سو ساٹھ یہودی مرد عور تیں اکٹھے جلائے گئے.اسی طرح دوسرے صوبوں میں کیا گیا.سپین میں ملکہ از بیلا نے پندرھویں صدی میں تمام ان یہودیوں کو سپین چھوڑنے کا حکم دیا جنہوں نے عیسائی ہونے سے انکار کیا تھا.کوئی ان میں سے چاندی سونا اپنے ساتھ لے جانے کا مجاز نہ تھا.کنگ عمانوئیل نے 1797ء میں یہود کو نکل جانے کا حکم دیا لیکن خفیہ طور پر یہ آرڈر جاری کیا کہ چودہ سال تک کی عمر کے تمام بچے ان کی ماؤں سے چھین لئے جائیں اور پھر ان کی عیسائی مذہب کے موافق پرورش کی جائے تو بہت سی عورتوں نے اپنے بچوں کو اس خیال سے کہ وہ دشمن کے ہاتھ میں نہ آجائیں اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیا.اسی طرح 1290 ء میں کنگ ہنری سوم کے زمانہ میں یہود کو انگلستان سے نکال دیا گیا اور ان کی سب جائداد اور قرضے وغیرہ بادشاہ کے قبضہ میں آئے.پریذیڈنٹ نے اختتام پر کہا کہ ہم میں سے اکثر کو یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہود کے اس طرح سرگردان پھرنے کا باعث کیا ہے اور کیوں وہ نیشنل ہوم نہیں بنا سکتے لیکن آج کے لیکچر سے ہمیں اس سوال کا تسلی بخش جواب مل گیا ہے.پھر سوالات کے جوابات دیئے گئے.ایک مصری سے گفتگو ایک مصری دوست ہمارے قریب رہتے ہیں.ان سے انسانی پیدائش اور قیامت وغیرہ مسائل پر بحث کے دوران میں حضرت آدم کی نبوت اور رسالت پر گفتگو شروع ہوگئی.انہوں نے کہا حضرت آدم رسول نہ تھے بلکہ صرف نبی تھے ہر رسول نبی اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا.میں نے کہا ہر نبی رسول اور ہر رسول نبی ہوتا ہے.قرآن مجید میں دونوں کی غرض ایک ہی بیان کی گئی ہے.فرما یارُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ اور دوسرے مقام پر فرمایا.فَبَعَتَ اللهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِينَ (البقرہ:214).اسی طرح ایک جگہ فرمایا.مَا يَا تِيْهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وْنَ (الحجر : 12) اور دوسرے مقام پر فرمایا.مَا يَا تِيْهِمْ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وْنَ (الزخرف:8) اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ اسے امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع دیتا ہے وہ نبی کہلاتا ہے اور اس لحاظ سے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی اصلاح کیلئے مامور ہوتا ہے وہ رسول کہلاتا ہے.اس پر وہ کہنے لگے کہ حضرت ہارون رسول تھے نبی نہ تھے.میں نے کہا کہ اگر آپ ثابت کر دیں تو آپ کا دعویٰ صحیح ہوگا.انہوں نے جواب دیا کہ جب حضرت موسیٰ انہیں بنی اسرائیل میں چھوڑ کر کو چطور پر
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 334 گئے تو انہوں نے اس خیال سے کہ کہیں بنی اسرائیل میں تفرقہ نہ پیدا ہو جائے سختی سے کام نہ لیا.اگر وہ نبی ہوتے تو انہیں خدا کی طرف سے اس کا علم دے دیا جاتا پس وہ صرف رسول تھے نبی نہ تھے.میں نے کہا اچھا تو آپ اس آیت کے متعلق کیا فرمائیں گے.وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيَّاً (مريم : 54 ) کہنے لگے کیا یہ قرآن میں ہے؟ میں نے کہا ہاں موجود ہے لائیے قرآن میں آپ کو نکال دیتا ہوں.پھر خاموش ہو گئے.خاکسار جلال الدین شمس از لندن.(الفضل قادیان 8 مئی 1939ء) مسجد احمد یہ لنڈن میں امن عالم کے متعلق مذہبی کا نفرنس کا انتظام گزشتہ دنوں [ مئی 1939ء] مسٹر رائن ایک آئرش کمانڈر I.Dumply کولے کر آئے جن سے اسلامی اصول کے متعلق گفتگو ہوئی اور انہیں احمدیت“ اور ” احمد کتب مطالعہ کیلئے دی گئیں.دوسرے روز مسٹر رائن اپنے ساتھ ایک فریج کو لائے.اس نے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا ہے وہ لنڈن میں رہتے ہیں.اس کے اور بھائی بھی ہیں اور والدہ بھی.(۲) مسٹر کاوی دو دفعہ اردو کا سبق لینے کیلئے آئے وہ اکتوبر میں ہندوستان جائیں گے.ان کے ساتھ مسٹر Slater بھی آئے.وہ بھی آئی سی ایس ہیں.ان کی تقرری بھی پنجاب میں ہو چکی ہے مگر دونوں کو ابھی مقام کا علم نہیں ہوا.ان کو اردو کی مشق کرائی.ان کے ساتھ مسٹر ٹیلر امریکن بھی تھے.(۳) مسٹر پیسٹن کے والد نے جو سارجنٹ پولیس ہیں ایک خط میں ایک پونڈ بھیجا اور لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں کام کی وجہ سے مسجد نہیں آسکا لیکن میں مذہب اسلام کی اشاعت کیلئے بطور امداد ایک پونڈ بھیج رہا ہوں.(۴) مسٹر دارا امام و وکنگ اور بعض اور ہندوستانیوں نے مل کر سر عبد القادر کو Criterion ریسٹورنٹ میں ڈنر دیا تھا.وہاں سر عبد القادر اور دوسرے دوستوں سے ملاقات ہوئی ، ڈاکٹر یہودا اور مسز یہودا سے گفتگو ہوئی.انہوں نے اگلے بدھ کو سر عبد القادر کوئی پارٹی دی ہے اور اخبارات کے نمائندوں میں سے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے نمائندہ ، ہندو مدارس کے نمائندہ ، یونائیٹڈ پریس کے نمائندہ اور سٹیٹسمین کے نمائندہ سے گفتگو ہوئی.کھانے سب انگریزی تھے.میں نے سبزی کھائی اور گوشت نہ لیا اور کہا کہ میں ایسے ڈنروں میں ویجیٹیرین ہوتا ہوں کیونکہ یہ گوشت ہم نہیں کھاتے لیکن
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 335 باقی مسلمان اور ہندو سب کھا رہے تھے.میں نے سول اور دی ہندو کے ایڈیٹرز کو ایک کھانے کی تحریک کے متعلق بتایا.سول اینڈ ملٹری گزٹ کے نمائندہ نے اس تحریک کو بہت پسند کیا اور کہا کہ اس سے انسان کو محنت کرنے کی بھی عادت پڑتی ہے اور وہ آرام پسند نہیں ہوتا.ساؤتھ ویسٹرن سٹار کے ایڈیٹر کو میں نے چائے پر بلایا تھا اور اس کے نمائندہ کو بھی.ایک گھنٹہ تک گفتگو ہوئی."Thetis" آبدوز کشتی کی غرقابی کا ذکر آیا چونکہ نمائندہ کو میرے تار اور جواب کا پتہ تھا ایڈیٹر نے مجھ سے اشاعت کیلئے مانگا.میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے ایسے پیغامات کے جوابات شائع کرنے مناسب خیال نہیں کئے جاتے.کہنے لگے ایسے خبریں شائع کی جاتی ہیں.8 جولائی کی میٹنگ میں بھی آنے کا وعدہ کیا ہے.ہمارے پیغام کا ذکر دوسرے ممالک کے پریذیڈنٹوں اور دو اور بڑی بڑی سوسائٹیوں کے ساتھ ڈیلی ٹیلیگراف میں شائع ہوا تھا.الفضل قادیان 23 جون 1939 ء ) مسجد فضل لندن میں مذاہب عالم کا نفرنس 8 جولائی 1939ء کو مسجد احمد یہ لنڈن میں سر فیروز خان نون (کے سی آئی ای ہائی کمشنر فارانڈیا ) کے زیر صدارت ایک مذہبی کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے نمائندوں نے معزز اور تعلیم یافتہ انگریزوں کے ایک بہت بڑے مجمع میں امن عالم کے موضوع پر مقالے پڑھے.اسلام کی نمائندگی مولوی جلال الدین شمس امام مسجد لنڈن نے فرمائی اور ” امن اور اسلام“ کے موضوع پر ایک پُر مغز مقالہ پڑھا.وو اکیسویں صدی میں امن عالم کا مسئلہ خاصی اہمیت اختیار کر چکا ہے.اسلام جس کے معانی ہی سلامتی کا مذہب کے ہیں، کی طرف نام نہاد دہشت گردی منسوب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں.اس کا نفرنس کے بعد مولانا موصوف نے تینوں مقالے مکرم مولوی علی محمد صاحب اجمیری ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز اردو کی درخواست پر ریویو کیلئے قادیان بھجوادیے جو بعد میں ریویو کی زینت بنے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا شمس صاحب کے اس پر اثر مقالہ کا اردو ترجمہ پیش کیا جائے.حضرت مولانا موصوف بیان کرتے ہیں : امن عالم اور اسلام فی زمانہ دنیا کا امن تباہ ہو چکا ہے، لوگوں کے قلوب نہایت مضطرب ہیں اور مشہور ومعروف مدبرین
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 66 336 بھی دنیا میں عالمگیر امن قائم کرنے کے خیال سے مایوس ہو گئے ہیں جیسا کہ لارڈ میلیفیکس نے اپنی حال ہی میں کی جانے والی ایک تقریر میں کہا ہے آج کل یورپین اقوام ایک دوسری کے مقابلہ میں سرتا پا مسلح ہو رہی ہیں اور جنگی فوجوں کا خطرہ دنیا میں ہر دم محسوس ہورہا ہے.اس حالت میں بنی نوع انسان کو تباہی سے بچانے کیلئے نہایت ضروری ہے کہ مختلف مذاہب کے نمائندے امن عامہ کے موضوع پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں اور لوگوں کو وہ تمام ذرائع اور طریق بتلا ئیں جن کو اختیار کرنے سے دنیا میں امن مستقل طور پر قائم کیا جاسکتا ہے.عام طور یہاں لوگوں کو معلوم نہیں کہ لفظ اسلام سلم “ سے نکالا ہے جس کے معنے صلح اور آشتی کے ہیں.سلام ہی مسلمان ایک دوسرے کو اس دنیا میں ملاقات کے وقت پیش کرتے ہیں اور جنت میں بھی ایک دوسرے سے سلام ہی پیش کریں گے.اللہ تعالیٰ کے ان اسمائے حسنیٰ میں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے، مومن اور میمن بھی ہیں.مومن امن بخشنے والا اور سہیمن امن کا محافظ.قرآن مجید کے مطابق ” سلامتی کا مقام حاصل کرنا ہی بنی نوع انسان کا روحانی مقصد و منتہا ہے.ایک پکا مسلم وہی ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے بنی نوع انسان محفوظ ہوں.اسی لئے اسلام نے جو صلح اور امن کا مذہب ہے، انسان کیلئے اپنے خالق کے ساتھ اور مختلف اقوام اور مذاہب میں صلح اور امن قائم کرنے کے متعلق بہت سے اصول مقرر فرمائے ہیں، اور ہمیں ایک مکمل ضابطہ دیا ہے جس سے ہم مجلسی، تمدنی اور ایسے بین الاقوامی مسائل جس میں فی زمانہ دنیا کی تمام اقوام الجھی ہوئی ہیں ، جل کر سکتے ہیں.عالمگیر امن اور قرآن حکیم اپنے محدود وقت کے پیش نظر میں صرف قرآن کریم کے پیش کردہ اصولوں میں سے عالمگیر امن کے قیام، مختلف مذاہب ، اقوام اور حکومتوں میں ربط و اتحاد قائم کرنے کیلئے صرف چند اصول پیش کرتا ہوں.1.اسلام نے امن قائم کرنے اور باہمی تنازعات کو دور کرنے کیلئے دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کی ہے کہ ہر شخص کا حق ہے کہ اس کا ضمیر آزاد ہو اور جس مذہبی تحریک میں وہ چاہے حصہ لے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اور کہہ دو کہ حق اور سچائی اللہ ہی کی طرف سے ہے.پس جو ایمان لاتا ہے اسے بھی اور جو وو.انکار کرتا ہے اسے بھی اپنی حالت پر چھوڑ دو.مذہب میں کوئی جبر نہیں.“
حیات بشمس.خالد احمد بیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 337 وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الكيف:30) لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرہ: 257) مذہبی معاملات میں آزادی ضمیر اس قدر لازمی سمجھی گئی ہے کہ اسلام میں جارحانہ مذہبی جنگ بالکل جائز نہیں.صرف مذہبی آزادی کے قیام کیلئے مدافعانہ رنگ میں جنگ کی اجازت ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : دو 66 جنگ کرو ان لوگوں سے جو تم پر حملہ کرتے ہیں، اس وقت تک کہ مذہبی آزادی قائم ہو جائے تا انسان مذہب کو محض اللہ تعالیٰ کی خاطر قبول کرے اور کوئی شخص اس کے اخلاق کے روحانی تعلقات میں دخل اندازی نہ کر سکے.“ 2.جھگڑے بسا اوقات اس وجہ سے بھی نمودار ہوتے ہیں کہ ایک مذہب کے پیروکار دوسرے مذاہب کے انبیاء و مصلحین کو کا ذب اور مفتری خیال کرتے اور صرف خود کو سچائی پر کاذب قائم اور اللہ تعالیٰ کی مقرب اور پیاری جماعت سمجھتے ہیں.ایسے گندے خیالات نفرت پیدا کرتے ہیں اور شورشوں، جھگڑوں اور اضطراب کا موجب ہوتے ہیں.حتی کہ بعض اوقات خون خرابہ تک نوبت پہنچتی ہے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جبکہ ہر ایک قوم دوسری اقوام کے انبیاء اور بانیوں کو جھوٹا خیال کرتی تھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اعلان فرمایا: دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں میں سے ان کی راہنمائی کیلئے کوئی نبی مبعوث نہ کیا ہو.وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر :25) یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات مبارک تھی جس نے ہندؤوں ، پارسیوں، یہودیوں اور عیسائیوں اور دوسری اقوام کے انبیاء کے متعلق حق کا اظہار فرمایا اور اس طرح مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان امن اور اخوت کی بنیا درکھی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اگر دوسرے مذاہب کے متبع بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں جس طرح کہ مسلمان لائے تب وہ حقیقت میں صراط مستقیم پر ہیں لیکن اگر وہ اپنی پیٹھیں پھیر لیں تو یقیناً بہت بڑی مخالفت میں ہیں، یعنی مذاہب کے مکمل اتحاد میں وہ محض ایک رکاوٹ ہیں.3.اسلام نے مسلمانوں کو گندی زبان کے استعمال سے منع فرمایا ہے.یعنی مختلف مذاہب کے لیڈروں اور جماعتوں اور ان کی تعلیمات کو برے الفاظ سے ذکر کرنے کی اجازت نہیں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس دی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مت برا کہو ان کو جنہیں وہ (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں (خواہ تمہارے عقیدہ کی رو سے نا جائز ہی ہو ) تا ایسا نہ ہو کہ وہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے جہالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو بُرا بھلا کہیں.“ 338 یعنی تمہارا اس قسم کا قول اور فعل دوسروں کے جذبات کو مجروح کر دے گا اور یہ ایک مصیبت اور خلفشار کا موجب بنے گا اتنا کہ وہ بھی اپنی باری پر تمہارے رسول ، تمہارے نبی اور تمہارے خالق کو برا کہنے کا حوصلہ کریں گے.4.دوسری فساد کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی عبادت میں ان کی مقدس جگہوں میں حائل ہوتے ہیں اور یہاں تک جرات کرتے ہیں کہ ان کے عبادت خانوں کو تباہ کر دیتے ہیں.اسلام نے جو امن کا مذہب ہے عبادت خانوں کے متعلق واضح طور پر فرمایا ہے: اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کا نا اللہ کے گھروں میں بلند کرنے سے روکتا اور ان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا.(البقره:115) پس اسلامی تعلیمات کی رُو سے سب لوگوں کو جو خواہ فاتح ہوں یا مفتوح یہ حق ہے کہ وہ اپنے معبدوں کو پوری آزادی سے استعمال کریں حتی کہ اگر کوئی اپنے طریق پر اللہ کی پرستش کسی اور مذہبی عبادت گاہ میں کرنا چاہے تو اسلام کا حکم یہ ہے کہ اسے بھی نہ روکا جائے کیونکہ معبد ایک ایسی جگہ ہے جو اللہ کے نام اور عبادت سے مخصوص کی گئی ہے، پس وہاں بلالحاظ مذہب و ملت ہر شخص کو عبادت الہی کی اجازت ہونی چاہئے.پہلا شخص جس نے اس سنہری اصول کو عملی جامہ پہنایا، اسلام کا بانی (صلی اللہ علیہ وسلم ) تھا چنانچہ آپ نے نجران کے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی.5.سچائی پر قائم اور مکمل ہونے کے دعوی کے باوجود اسلام تمام موجودہ مذاہب کی خوبیاں تسلیم کرتا ہے بلکہ ان کو بھی مشورہ دیتا ہے کہ وہ تمام غیر مذاہب کی کلیہ تردید کرنے سے باز رہیں اور یہ نصیحت کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خوبیوں کو تسلیم کریں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں دوسرے مذاہب میں کوئی بھی خوبی نظر نہیں آتی اور انہیں سرا سر باطل قرار دیتے ہیں، جاہل اور نادان ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے پیرؤوں کو ان خوبیوں کا اقرار
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 339 کرنا چاہئے ، جو دیگر مذاہب میں پائی جاتی ہیں.کیونکہ خوبی خواہ کہیں بھی ہو خوبی ہی رہتی ہے.دوسرے مذاہب میں کوئی بھی نیکی کی بات نہ دیکھنا محض جہالت اور خود غرضی کے مترادف ہے اور یہ خیال کرنا بالکل جھوٹ ہے گو کہ مذاہب کے اس قدر بڑے نظام میں جس نے صدیوں تک ہمارے لاکھوں خاندانوں کی راہنمائی کی ہے کوئی خوبی نہیں ہے.6.باہمی تنازعات اور جھگڑوں کی ایک وجہ یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے متبعین اپنے اپنے مذاہب کی پیروی صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان کے باپ دادا ان مذاہب کے پیرو تھے وبس.اس لئے انہوں نے حق کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور اندھوں کی طرح دوسرے مذاہب کی مخالفت کر کے فساد برپا کرتے ہیں اور در حقیقت ان کا یہی رویہ مذہبی دیوانگی اور تعصب کا سبب ہے جس سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان جنگیں ہوتی ہیں.اسلام ایسے شخص کے اختیار کے مذہب کو مذہب نہیں مانتا جو صرف آباؤ اجداد کی متابعت میں بغیر سوچے سمجھے اور بغیر دلیل کے اختیار کیا گیا ہو بلکہ ایسے لوگوں کی سخت مذمت کرتا ہے جو بلا سوچے سمجھے کسی مذہب کی پیروی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس کی جو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی ہے وہ کہتے ہیں نہیں ہم تو اس کی پیروی کرتے ہیں جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، خواہ ان کے باپ دادا بالکل عقل سے عاری ہوں اور وہ صراط مستقیم پر چلنے والے نہ ہوں.“ یہ ایک خطر ناک غلطی ہے کہ ایک آدمی اپنے آباؤ اجداد کے عقائد ہی کی پیروی کرے اور اپنے مذہب کو تبدیل نہ کرے، خواہ دوسرا مذہب مکمل اور اس کے اپنے مذہب سے نہایت اعلیٰ ہی ہو کیونکہ اگر ہم اس نظریہ کو حق بجانب قرار دیں تو یہاں ایک بھی عیسائی، یہودی یا مسلم نظر نہ آتا.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مکمل مذہبی آزادی اور رواداری کی تعلیم اور دوسرے مذاہب کی خوبیوں کا اقرار جو اسلام نے سکھایا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام دوسرے مذاہب کے تمام عقائد کو صحیح اور درست سمجھتا ہے.کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ مختلف مذاہب کی موجودہ شکل میں بعض ایسے بنیادی اصول موجود ہیں جو خواہ کلیہ نا قابل تطابق نہ ہوں، مگر باہمی اختلاف ضرور رکھتے ہیں.پس اختلاف کو دور کرنے اور تمام عقائد کے متبعین کے درمیان مکمل اتحاد پیدا کرنے کی غرض سے اسلام ہر شخص کو اپنے مذہب کے عقائد کی اشاعت کی مکمل آزادی دیتا ہے بشرطیکہ وہ دوسروں کے نقائص کو تلاش کرنے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں اور اس کے فضائل پبلک کے سامنے پیش کرے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس وو 340 مت بحث کر واہل کتاب سے بجز اس طریق کے جو سب سے بہتر ہو.“ [ عنکبوت :47] یعنی تم اپنی تعلیمات کی خوبصورتی اور ان کا اعلیٰ ہونا ثابت کرو، وبس.اور سننے والوں کے متعلق فرماتا ہے.” میرے ان بندوں کو خوشخبری دو جو بات کو سنتے ہیں پھر اس میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کی اللہ نے راہنمائی کی ہے اور جو عاقل اور دانا ہیں.[الزمر: 19] اگر مختلف مذاہب کے لوگ مندرجہ بالا طرز عمل کو اختیار کرلیں اور ایک دوسرے کے خیالات کو سنجیدگی سے سنا کریں تو امید کی جاسکتی ہے کہ کسی نہ کسی دن سب کا مذہب ایک ہی ہو جائے گا.7.اس ضمن میں یہ بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ انجیل میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مسیح علیہ السلام کی دوسری آمد کے وقت جنگیں ہوں گی اور قوم پر قوم چڑھائی کرے گی.اسی طرح قرآن مجید میں بھی پیشگوئی پائی جاتی ہے.جس میں زمانہ حال کے دخانی اور ہوائی جہازوں کا ذکر ہے کہ اگر لوگ خدا کی طرف رجوع کر کے اس کا فضل حاصل نہ کر لیں گے تو ان پر آگ اور دھوئیں کا شعلہ پھینکا جائے گا اور وہ اپنے تئیں بچانہ سکیں گے.جماعت احمدیہ کے مقدس بانی علیہ الصلوۃ والسلام ( جن کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا تھا اور جن کے وجود میں وہ پیشگوئیاں پوری ہوئیں جو مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے متعلق تھیں ) مندرجہ ذیل الفاظ میں لوگوں کو آنے والے خطرہ سے 1907ء میں آگاہ کیا تھا: وو ” اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے.تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ “ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 ، صفحہ 269)
حیات ٹس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 341 اس بارہ میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ خوشی اور دل کا اطمینان سچے اور کامل مذہب کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کئے بغیر میسر نہیں آسکتا.8.مزدور اور آقا کی لڑائیوں کے اسباب دور کرنے اور مالک اور مملوک کے درمیان صلح کرانے کیلئے نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تمہارے خدمتگار تمہارے بھائی ہیں خدا نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے.سوجس کے ماتحت کوئی اس کا بھائی ہے اسے چاہئے کہ اپنے کھانے میں سے اسے کھانا کھلائے اور اپنے کپڑوں میں سے اسے کپڑا دے اور اسے کرنے کیلئے اتنا یا ایسا کام نہ دے کہ وہ نہ کر سکے اور اگر دینا ہی پڑے تو پھر اس کی مدد کرے.“ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو نوکروں چاکروں کو اور نہ رعایا کو کسی لحاظ سے اپنے سے کمتر سمجھنا چاہئے.ہم سب عورت مرد بہن بھائی ہیں یہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ ہمارے ہم پلہ ہو جائیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان سے بھائیوں کا سا سلوک کرو.یہ اسلام کا ضابطہ ہے.اگر مزدوروں سے کام لینے والے اس کو اختیار کر لیں تو دنیا کے اقتصادی اور مجلسی جھگڑے یک قلم نیست و نابود ہوجائیں.9.اسلام نے سرمایہ داری اور مزدوری کی مشکل کا بھی ایک حل بتایا ہے.یہ لوگوں کو جائز ذرائع سے اپنی ضرورت سے زائد روپیہ کمانے سے نہیں روکتا لیکن اس کے ساتھ ہی ان امراء پر فرض قرار دیا ہے کہ اپنی دولت کا چالیسواں حصہ بطور خیرات اسلامی بیت المال میں جمع کریں جسے حکومت غریبوں، مسکینوں اور قیموں پر خرچ کرے.علاوہ ازیں اسلام دولت مندوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ لوگوں کی مذہبی ، تمدنی اور تعلیمی ضروریات پر بکثرت روپیہ خرچ کریں.دوسرا اصول جو اسلام نے لوگوں میں دولت کی تقسیم کا بیان کیا ہے وہ وراثت کا قانون ہے.اس کے ماتحت جب ایک آدمی مرجاتا ہے تو اسکا ورثہ اس کی اولاد اور دیگر رشتہ داروں میں تقسیم ہو جاتا ہے.مرنے والے کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس سے ان کو محروم کر دے اور نہ اسے اپنی جائیداد کے تیسرے حصہ سے زیادہ وصیت کرنے کا اختیار ہے.پھر سرمایہ داری اور مزدوری کی مشکل حل کرنے کیلئے اسلام نے سود کو بھی حرام قرار دیا ہے اور اس طرح اسلام افزائش اسلحہ کی دوڑ کو بالواسطہ روکتا اور تباہ کن جنگوں کا خاتمہ کرتا ہے.سود کے بغیر بڑے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 342 بڑے غیر پیدا آور قومی قرضے نہیں ہو سکتے اور ایسے قرضوں کے بغیر بر بادگن لڑائیاں ناممکن ہیں.10.ایک اور وجہ جس سے مختلف قوموں کے مابین جنگ و جدل ہوسکتا ہے یہ ہے کہ ایک قوم اپنے تئیں دوسری قوم سے افضل سمجھتی ہے اور اس طرح دنیا میں نفرت اور دشمنی پیدا کرتی ہے جس کا نتیجہ اکثر اوقات خونریزی ہوتا ہے.اسلام نے قوموں کے فرق کو مٹا دیا ہے اور تمام بنی نوع انسان کو ایک ہی درجہ میں رکھ دیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات : 14) ”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو قوموں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا ہے تا ئم ایک دوسرے کو پہچان سکو تم میں سے سب سے معزز وہ ہے جو متقی اور پر ہیز گار ہو.“ قومی برتری کے تنگ اور غلط خیال کو مٹانے کیلئے بانی اسلام ﷺ فرماتے ہیں: ایک عربی کو غیر عربی سے اپنے آپ کو برتر سمجھنے کا کوئی حق نہیں اور نہ ایک عجمی اپنے آپ کو ایک صلى الله عربی سے بہتر تصور کر سکتا ہے.تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیا گیا تھا.اسی طرح اسلام نے سکھلایا ہے کہ تمام انسان خواہ وہ مشرقی ہوں یا مغربی ہوں ایک ہی باپ کی اولاد ہیں اور ایک ہی خدا کے خادم ہیں.مسلمانوں کی نماز ، روزہ اور مکہ کا حج بھی مختلف اقوام میں جن کی مختلف زبانیں اور مختلف ممالک ہوں، برابری کا ایک عجیب مظاہرہ ہیں اور روزہ کی تکالیف ،بھوک اور پیاس وغیرہ امراء بھی غرباء کی طرح برداشت کرتے ہیں اور اس طرح جب وہ خود تجربہ کر لیتے ہیں کہ ان کے غریب بھائی کس مصیبت میں زندگی گزارتے ہیں تو امراء اپنے اموال سے غرباء کی امداد کو تیار ہو جاتے ہیں.اسی طرح حج میں امیر اور غریب ایک ہی قسم کا لباس پہنتے ہیں.الغرض اسلامی عبادات کے ہر شعبہ میں برابری اور عالمگیری بھائی چارہ کا ایک سبق پنہاں ہے.جنگ کے اصل اسباب نو آبادیات اور علاقوں کا لالچ وحرص اور قوموں کی دولت کے علاوہ اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ مہذب سمجھ کر ان پر حکومت کرنے کا اہل ہونے کا دعویٰ کرنا ہے.جب تک یہ خیالات دور نہ ہوں، تب تک جنگ کے امکانات دور نہیں ہو سکتے.اسلام اس کے متعلق واضح طور پر فرماتا ہے کہ : ایک ایسی قوم جو دوسری قوموں سے زیادہ مہذب ہو اس کا ہر گز حق نہیں کہ دوسری قوموں کو
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 343 مطیع کر لے کیونکہ یہ عین ممکن ہے جب محکوم آزاد ہو تو وہ حاکم قوم سے ترقی یافتہ ہو جائے.“ غیر علاقوں کو حاصل کر کے ان پر حکومت کرنے کی خواہش مٹانے کے لئے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وو وہ فضل جو ہم نے دوسری قوموں پر ان کو آزمانے کیلئے کیا ہے اس کا حسد نہ کرو.جو کچھ تمہارے خدا نے تمہیں دیا ہے وہی تمہارے لئے بہتر ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے.“ اس آیت میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر صرف اس وجہ سے کہ وہ خوش حال ہے غالب آنے کی کوشش نہ کرے اور ایک ملک محض اس پر حکومت کرنے اور وہاں سے مال و دولت جمع کرنے کیلئے غلام نہ بنایا جائے.اس کے برعکس ہر قوم کو غور کرنا چاہئے کہ اس کیلئے کون سی چیز بہتر ہے.کسی قوم کو علاقہ حاصل کرنے کیلئے جنگ نہ چھیڑنی چاہئے اور کسی قوم یا ملک کے اندورنی انتظامات میں دخل اندازی نہ کرنی چاہئے.الغرض اسلام کا مقصد تمام دنیا میں ایک مرکزی حکومت قائم کرنا ہے تا بین الاقوامی اختلافات اور جنگوں کے تمام اسباب مٹا دئے جائیں.ہر ملک اپنی قومی خواہشات کو پورا کرنے میں آزاد ہوگا اور مقامی معاملات میں اسے کامل خود مختاری ہوگی اور پھر بھی گل کا محض ایک حصہ ہوگا لیکن اسلام اس مقصد کو را کرنے کیلئے بھی جنگ کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس سوال کو محض اقوام اور ممالک کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے.پس اسلام کی تعلیم کے مطابق انسانوں کی مختلف قبائل میں تقسیم اس غرض کیلئے نہ کی گئی تھی کہ وہ ایک دوسرے پر حکومت کریں بلکہ اس لئے کی گئی کہ آپس میں دوستیاں پیدا کر کے ایک دوسرے کی بھلائی اور بہتری چاہیں اور باہمی تجارتی تعلقات قائم کر کے ایک دوسرے کے اوصاف اور خوبیوں سے فائدہ اٹھا ئیں.اس تعلیم کے رائج ہونے سے امن عالم خود بخود قائم ہو جاتا ہے.اسلام کا نظریہ اقوام متحدہ بین الاقوامی جھگڑوں کے انفصال کیلئے اسلام جمعیت الاقوام جیسی ایک بین الاقوامی مجلس قائم کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے جس کی بنیاد اس اصول پر ہو کہ جب کسی دو قوموں میں جھگڑے کے آثار ظاہر ہوں، دیگر قومیں ان میں سے ایک یا دوسری کی حمایت کرنے کی بجائے فوراً ان دولڑنے والی قوموں کو نوٹس دیں کہ اپنا جھگڑا ہمارے سامنے پیش کرو اور اگر ان میں سے کوئی اس معاملہ کو مجلس اقوام کے سامنے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 344 پیش نہ کرے یا پیش کر کے اس کا فیصلہ ماننے سے انکار کرے اور لڑائی پر تل جائے تو دوسری سب قومیں مل کر اس کا مقابلہ کریں.یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ایک قوم خواہ کتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہوسب قوموں کی متحدہ افواج کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور جلد ہی اس کو ہار ماننی پڑے گی.جب ایسی قوم ہار مان لے اور مجلس اقوام کا فیصلہ ماننے کیلئے تیار ہو جائے تو پھر ان دونوں قوموں کے درمیان انصاف کا فیصلہ کر دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو انصاف ہی پسند ہے.اس ضمن میں قرآن مجید کے الفاظ مجالس کا ایک وسیع نظام پیش کرتے ہیں.اگر اسلام کے احکام کے مطابق تمام اقوام کو آزادی دے دی جاوے تو ایک بڑی تھی حل ہو جاوے گی.مثال کے طور پر ہندوستان ہی کو لے لیجئے اس میں چودہ صوبے اور متعد دریاستیں ہیں.اس ملک کی انہی اصول پر ایک مجلس ہند بنائی جاسکتی ہے.اپنے صوبائی سوالات کے حل کیلئے ہر ایک صوبہ آزاد ہونا چاہئے اور جملہ صوبوں کے نمائندوں کی ایک مجلس ہند بنائی جائے جو مجلس اقوامِ عالم میں اپنے نمائندے بھیجے.اسی طرح ہر ملک اپنی اپنی مجلس بنا لیوے اور مجلس اقوام عالم میں اپنے نمائندے بھیجے.یہ مجلس اقوام عالم گو یا تمام دنیا کی مرکز ہوگی.1924ء میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے جو جماعت احمدیہ کے موجودہ امام ہیں، قرآن مجید سے جمعیت الاقوام کی حقیقی شکل بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ” احمدیت یعنی حقیقی اسلام“ میں تحریر فرمایا تھا کہ موجودہ جمعیت الاقوام غلط اصول پر بنائی گئی ہے.قرآن مجید نے جس قسم کی جمعیت الا قوام کا نقشہ بیان کیا ہے، وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو یورپ میں بنائی گئی ہے.آپ نے اس وقت یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ جب تک موجودہ جمعیت الاقوام کی اصلاح نہ ہوگی اور اسے قرآنی اصول پر نہ بنایا جائے گا تب تک دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا.جمعیت الا قوام کی ترکیب اساسی کے متعلق قرآن مجید کا بیان کردہ اصول یہ ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکا جائے اور مظلوم کی امداد کی جائے.اپنی کتاب میں آپ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ جمعیت الا قوام نے جرمنی کے بعض مقبوضات کو اس سے چھین کر دوسروں کے حوالہ کرنے میں قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصول کی خلاف ورزی کی ہے.آپ نے واضح طور پر بتایا تھا کہ چونکہ یہ قرآنی تعلیم کے خلاف کیا گیا ہے اس لئے دنیا میں امن قائم نہ ہو سکے گا.پھر جمعیت الاقوام اس بات کی قائل نہیں ہے کہ اپنے فیصلوں کو فوجی طاقت کے ذریعہ نافذ کرے.اس کے متعلق بھی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ غلط اصول ہے.قرآن مجید فرماتا ہے کہ فوجی طاقت کے بغیر کوئی لیگ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی اور آج چودہ سوسال بعد یہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 345 امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ جو چیز قرآن مجید نے پیش کی ہے وہی درست اور صحیح ہے اور دنیا میں امن اسی طرح قائم ہو سکتا ہے کہ قرآن کے بتائے ہوئے اصول پر ایک جمعیت الاقوام بنائی جائے.بالآخر میں علی الاعلان بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام جو امن کا مذہب ہے، اسی کی تعلیمات پر چلنے سے دنیا کے باشندوں کو بہتر اور خوشحال زندگی نصیب ہو سکتی ہے.آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ خدا ہمیں امن عطا کرے.ریویو آف ریلیجنز اردو،اگست 1939 ء صفحہ 41-51) ٹائمنر آف لنڈن میں مسجد کا ذکر برطانیہ کی کامیابی کیلئے مئی اور ستمبر کی معینہ تاریخوں کو بھی دعا مانگی تھی جس کا ٹائمنر آف لنڈن نے خاص طور پر ذکر کیا.پہلی دفعہ سپیشل آرٹیکل میں دوسروں کے ساتھ ہماری مسجد کا بھی ذکر کیا اور دوسری دفعہ خبروں میں جلی عنوان دے کر خبر شائع کی.اخبار الفضل اور سن رائز سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی وصیت کے متعلق علم ہو ا جو دوست اتوار کے روز آئے انہیں سنائی گئی.دعا اور صدقہ کیلئے تحریک کی گئی.جب تحریک کی تو مسٹر عثمان سٹن اسی روز اپنی طرف سے اور اپنے لڑکے منیر احمد سٹن کی طرف سے چھ شلنگ دے گئے.نیز کہا کہ جب کوئی ایسی مالی بات ہو تو مجھے ضرور بتایا کریں.عزیزم سید ممتاز احمد صاحب نے دو پونڈ دیئے ان کے علاوہ مسٹر خالد ڈکنسن اور ڈاکٹر عبدالخالق خان صاحب نیازی پسر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری اور مسٹر حسن نوریہ از ماریشس.میر عبد السلام صاحب اور عبدالعزیز اور خاکسار نے حصہ لیا.جو دوست حاضر نہ تھے یا ٹیلیفون پر نہ تھے انہیں اطلاع نہ دی جاسکی.ساڑھے چار پونڈ کی رقم صدقہ کیلئے جمع ہوئی جس کے متعلق ناظر صاحب تبلیغ کی خدمت میں لکھا گیا تا کہ اس رقم کے بکرے خرید کر جماعت احمد یہ انگلستان کی طرف سے بطور صدقہ ذبح کر دیئے جائیں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی درازی عمر کیلئے دعا کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ اس نشان رحمت کے سایہ کو ہمارے سروں پر تا بدیر قائم رکھے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے تا ان ترقیات کا جو حضور کی ذات سے وابستہ ہیں وقت جلد آئے.آمین.ایک احمدی طیار کی آمد میاں محمد شریف صاحب ڈی.اے سی کے صاحبزادہ میاں محمد لطیف صاحب اکتوبر کو بخیر و عافیت
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 346 لندن پہنچے.ایک غیر احمدی نوجوان جو لنڈن جیسے شہر میں آتا ہے نہ معلوم اس کے قلب میں کیا کیا خواہشات پیدا ہوتی ہوں گی اور کن بڑے بڑے مقامات یا تھیڑوں اور سینماؤں کے دیکھنے کی امنگ دل میں دیکھنے کی گدگدی پیدا کرتی ہوگی لیکن احمدی نوجوان کی نظر لنڈن کی عالیشان عمارتوں، تھیڑوں اور سینماؤں کے بوقلمانی محلات کو نظر انداز کرتی ہوئی مسجد لنڈن 63 میلر وز پر آٹھہرتی ہے تا وہ اس مسجد میں آکر جو اس ظلمت کدہ میں ایک غریب جماعت نے کوشش کر کے بنائی خدا کے حضور سجدہ شکر بجالائے اور نماز ادا کرے.چنانچہ یہی پاکیزہ خواہش تھی جس نے ہمارے نوجوان محمد لطیف صاحب کو مجبور کیا کہ وہ اپنی قیام گاہ سے جو تقریباً بیس میل کے فاصلہ پر ہے دوسرے روز ہی ہوائی حملوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسجد د یکھنے کیلئے تشریف لائیں.اتفاقاً اس روز وانڈ زور تھ سیٹ فائر کمیٹی کی میٹنگ تھی اور میں اس کا ممبر ہونے کی وجہ سے میٹنگ میں گیا ہوا تھا اور انہیں وقت پر اپی قیامگاہ پر واپس پہنچنا تھا.اس لئے وہ واپس چلے گئے.میں نے انہیں خط لکھا لیکن وہ تیسرے روز خط پہنچنے سے پیشتر ہی دوبارہ تشریف لے آئے.باز و پر انہیں ایک پھنسی نکلی ہوئی تھی لیکن کہنے لگے میں نے کسی کو بتایا نہیں ورنہ وہ مجھے آنے نہ دیتے.پھر بعض احمدی بھائیوں سے ملے اور خوش ہوئے.احمدی نوجوانوں کی ایسی خواہشات اس پاکیزہ روح کی علامت ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ جماعت کے نوجوانوں میں پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ ہمارے اس نوجوان طیار کو ترقیات عطا فرمائے اور اپنی حفاظت میں رکھے.نئے احمدی مسٹر ٹی آر خورشا سلسلہ میں داخل ہوئے.رائل ائر فورس میں ہیں.فرانس کی جنگ میں بھی انہوں نے حصہ لیا.گزشتہ سال وہ احمدیت حقیقی اسلام ہے اور دوسری کتابیں لے گئے تھے.جہاز میں پرواز کرتے ہوئے دشمن کی مشین گن سے زخمی بھی ہوئے اور ایک ماہ تک ہسپتال میں رہے.جب وہاں سے نکلے تو مسجد آئے.سکاٹ لینڈ سے میں وائٹ پال کا خط ملا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے مرسلہ کتب (احمدیت یعنی حقیقی اسلام اور تحفہ شہزادہ ویلز) کا بغور مطالعہ کیا اور میں کوئی وجہ نہیں دیکھتی کہ اسلام قبول نہ کروں چنانچہ انہوں نے بیعت فارم پر کر کے بھیجا ہے.مس وائٹ پال ایک یو نیورسٹی کی طالب علم ہیں....خاکسار جلال الدین شمس.الفضل قادیان 18 دسمبر 1940ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ہائیڈ پارک میں تقریریں اور دلچسپ مباحثہ 347 جولائی 1940 ء کو میں ابطال الوہیت مسیح کے موضوع پر بولا.سوال و جواب کے دوران مسیح کی صلیبی موت کا بھی ذکر آیا.لیکچر کے بعد ایک پادری نے اس مسئلہ کے متعلق مجھ سے گفتگو کی.آخر طے پایا کہ 7 اگست کو اس موضوع پر مباحثہ کیا جائے چنانچہ وقت مقررہ پر جب میں نے بولنا شروع کیا تو وہ پادری بھی آ گیا.اس نے وقت مانگا.میں نے کہا پلیٹ فارم لے آؤ چنانچہ وہ پلیٹ فارم لے آئے.آٹھ بجے سے دس بجے شام تک دو گھنٹہ مباحثہ ہوا.دس دس منٹ بولنے کی باری مقرر ہوئی.ایک شخص کو ٹائم کیپر مقرر کیا گیا.مباحثہ ہوتے ہوئے پبلک خوب اکٹھی ہو گئی.میں نے پہلی تقریر میں مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے ثبوت میں انجیل سے مسیح کی دعا پیش کی کہ اے خدا ہر ایک طاقت تجھ کو ہے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے.چنانچہ عبرانیوں باب پانچ آیت سات میں لکھا ہے کہ وہ دعا اس کی سنی گئی.نیز زبور سے اس دعا کی قبولیت کیلئے پیشگوئیوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی تو مسیح مطابق یوحنا گنہگار ثابت ہوتے ہیں.اس کے جواب میں عیسائی مناظر نے کہا کہ مسیح کی دعا پوری نہیں پیش کی گئی.اس کے ساتھ ہی یہ لکھا ہے کہ میری مرضی نہیں بلکہ جو تیری مرضی ہے وہی ہو اور وہ اس لئے آیا تھا کہ صلیب پر مر کر لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو.میں نے کہا اگر اس فقرہ کا یہ مطلب ہے تو ” میری مرضی ہے کہ میں صلیب پر مارا جاؤں یا مجھے مارا جانا چاہیئے تو یہ دعا بے معنی ہوگی کیونکہ اس دعا کا خلاصہ یہ ہوگا کہ اے خدا ہر ایک طاقت تجھ کو ہے.تو یہ موت کا پیالہ مجھ سے ٹال دے.پر اگر تو نہیں چاہتا تو نہ ٹال.کیا یہ بامعنی دعا کہلا سکتی ہے.خدا کی مرضی تو ہو کر رہے گی چاہے کوئی کہے یا نہ کہے.دعا صرف اتنی ہوگی کہ اے خدا تو موت کا پیالہ مجھ سے ٹال دے اور اگر یہ درست ہے کہ وہ لوگوں کی خاطر مرنے کیلئے آئے تھے تو پھر انہیں موت کے پیالہ سے بچنے کیلئے دعا کرنا درست نہ تھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ پادری صاحبان مسیح کے اس قول کا کہ اے خدا میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو“ کا مطلب نہیں سمجھے.مسیح کی دعا کے الفاظ جیسا کہ مرقس نے لکھا ہے یہ تھے: ” اے خدا ہر ایک چیز تیرے لئے ممکن ہے سو یہ پیالہ تو مجھ سے ٹال دے لیکن اس لئے نہیں کہ جو میں چاہتا ہوں وہ ہو بلکہ اس لئے کہ تا تیری مرضی پوری ہو [ مرقس 36:14]
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 348 اس کا مطلب یہ تھا کہ میں جو موت سے بچنے کیلئے دعا کرتا ہوں تو وہ اس لئے نہیں کہ میں تیرے راستے اپنی جان دینے سے ڈرتا ہوں میں تو حاضر ہوں لیکن چونکہ میں تیرا رسول ہوں اور تو میری صداقت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس لئے اگر میں جیسا کہ میرا دشمن چاہتا ہے مارا گیا تو ان کے نزدیک میں جھوٹا ثابت ہوں گا.اس لئے میری یہ درخواست کہ مجھ سے موت کا پیالہ ٹال دیا جائے صرف تیری مرضی اور ارادہ پورا کرنے کیلئے ہے نہ موت کے ڈر سے.اور اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو وہ دعا ہی بے معنی ہو جاتی ہے.اس کا جواب وہ آخر تک نہ دے سکے.اسی طرح دیگر دلائل پر بحث ہوئی.دوران بحث میں اس نے بعض سخت الفاظ بھی استعمال کئے اور کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو.اگر یہی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھایا اور قرآن میں لکھا ہے تو یہ جھوٹ سکھایا.نیز لوگوں کو اکسانے کیلئے کہا یہ عیسائیت کو تباہ و برباد کرنے کیلئے آئے ہیں.ان کی جرات تو دیکھو کہ عیسائیت کے سنٹر میں ہاں لنڈن کے ایک پارک میں عیسائیت کے عقائد کی اس طرح تردید کی جاتی ہے.اگر مسیح صلیب پر نہیں مرے تو وہ کفارہ بھی نہیں ہوئے اس سے تو عیسائیت باطل ہو جاتی ہے مگر اس سے بڑھ کر جھوٹ کیا ہوسکتا ہے.یہ اس جگہ جہاں سے کہ دنیا میں مشنری بھیجے جاتے ہیں عیسائیت کی تردید کرتے ہیں اور اسلام پھیلانا چاہتے ہیں.اس کے سخت الفاظ پر معین حاضرین نے Shame Shame کے آوازے کسے.میں نے کہا میں اسلام کی تعلیم کے مطابق گالیوں کا جواب گالی سے نہیں دوں گا اور نہ ہی میں اس پر دوسرے انگریزوں کو قیاس کرسکتا ہوں کیونکہ میں نے بہت سے چھوٹے اور بڑوں سے گفتگوئیں کی ہیں لیکن میں نے انہیں نہایت متین اور شریف پایا.معلوم ہوتا ہے اس نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے جس قسم کے اخلاق کا اس نے مظاہرہ کیا ہے.میں نے اپنی آخری تقریر میں کہا کہ اسلام سے پہلے یہود نے اسی عقیدہ کی بنا پر کہ مسیح مصلوب ہو گئے انہیں لعنتی اور مفتری ہی قرار دیا اور عیسائیوں نے بھی جیسا کہ پولوس نے کہا اسے ملعون تسلیم کیا.چنانچہ مناظر نے بھی اقرار کیا ہے کہ وہ ان کی خاطر ملعون ہوا لیکن انہوں نے ملعون کے معنوں پر غور نہیں کیا.ایک انسان ملعون اسی وقت کہلاتا ہے جب اس کا خدا سے تعلق بالکل منقطع ہو جائے اور وہ اپنے اقوال و اعمال میں شیطان کی مانند ہو جائے اسی لئے شیطان کا نام ملعون ہے اور ایک ملعون شخص دوسرے کو لعنت سے کیونکر بچا سکتا ہے.کیا اندھا اندھے کی رہنمائی کر سکتا ہے؟ پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احسان تھا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اس لعنت کے داغ سے بری قرار دیا اور فرمایا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 349 کہ وہ صلیب پر نہیں بلکہ طبعی موت سے مرے اور ہماری تحقیقات کی رو سے صلیب سے بیچ کر کشمیر میں آئے اور وہیں وفات پائی چنانچہ ان کی قبر محلہ خانیار سرینگر کشمیر میں موجود ہے.اس نے اپنی تقریر میں چونکہ یہ بھی کہا تھا کہ اناجیل میں لکھا ہے مسیح نے اپنی جان دے دی اس کا میں نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اناجیل میں ایسے اختلاف موجود ہیں جن کے درمیان مطابقت نہیں دی جاسکتی اور یقینی طور پر بعض بیانات غلط ہیں.اس کیلئے میں اپنے مد مقابل کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ آئندہ 14 اگست کو اختلافات انا جیل پر مجھ سے مباحثہ کر لے لیکن اس چینج کا اس نے کچھ جواب نہ دیا.پبلک پر اچھا اثر ہوا کئی حاضرین نے مجھ سے کہا کہ آپ کے دلائل زبر دست تھے اور اس کی سخت کلامی کی مذمت کی.14 اگست کو میں نے انجیل سے اختلافات پیش کئے جن پر بعض نے سوالات کئے جن کے میں نے جوابات دیئے.ایک اختلاف میں نے یہ پیش کیا تھا کہ مسیح نے جب اپنے بارہ شاگردوں کو تبلیغ کیلئے بھیجنا چاہا تو بعض ہدایات دیں.متی کہتا ہے کہ اس نے یہ ہدایت بھی دی کہ وہ اپنے ساتھ سونٹانہ لیں لیکن مرقس کہتا ہے کہ اس نے یہ ہدایت دی تھی کہ وہ سوائے سونٹے کے اور کچھ نہ لیں.یہ ایک صریح تناقض ہے جو کسی طرح نہیں اٹھ سکتا.ہر ایک عقلمند یہی کہے گا دونوں میں سے ایک نے ضرور غلط بیانی کی ہے کیونکہ دونوں ایک ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہیں.ایک عورت نے کہا مثلاً جرمن کہتے ہیں کہ آج ہم نے برٹش کے سو ہوائی جہاز گرائے.اس اختلاف سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا.میں نے کہا میں واقعہ کا تو انکار نہیں کرتا میں تو صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ متی اور مرقس میں سے انگریز کون ہے اور جرمن کون ؟ کس نے خلاف واقعہ بیان دیا ہے.میرے علم کے مطابق اس طرز کا مباحثہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پہلا مباحثہ ہوا.خاکسار جلال الدین شمس از لنڈن.(الفضل قادیان 17 اگست 1940ء) شاہ فیصل سے ملاقاتیں سعودی خاندان کا مسجد فضل لندن سے کسی نہ کسی طور پر 1924ء سے ایک قسم کا تعلق رہا ہے.شاہ فیصل اگر چه با وجود وعده بوجوہ مسجد فضل لندن کے افتتاح کے موقعہ پر تشریف نہ لا سکے تاہم بعد میں گا ہے بگا ہے مسجد فضل لندن میں تشریف لاتے رہے.حضرت مولا نائٹس صاحب نے شاہ فیصل جو اس وقت
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 350 پرنس فیصل تھے سے دو ملاقاتیں کیں.پہلی ملاقات فروری 1939 ء میں ہوئی ، جبکہ دوسری 1944ء میں.پہلی ملاقات کے بارہ میں الحاج مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری جوان ایام میں نائب امام مسجد فضل لندن تھے تحریر کرتے ہیں: ماہ فروری 1939ء میں برطانوی حکومت نے قضیہ فلسطین کے کسی مناسب حل کی تلاش کیلئے لندن میں عرب ممالک کی ایک کانفرنس منعقد کی جس میں فلسطین، عراق، یمن سعودی عرب، مصر، شام، اردن، وغیرہ کے نمائندوں نے شرکت کی.جماعت احمد یہ یہودیوں کے مقابل پر ہمیشہ عربوں کا ساتھ دیتی رہی ہے.چنانچہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم امام مسجد فضل لندن نے اس موقعہ پر انہی دنوں مسجد فضل لندن میں عرب ممالک کے تمام نمائندوں کے اعزاز میں ایک پارٹی دی جس میں ولیعہد امیر فیصل (بعد میں شاہ فیصل) اور حکومت سعودی عرب کے نمائندہ الشیخ ابراہیم سلیمان رئیس النيابة العامۃ اور شیخ حافظ و ہبہ سفیر سعودی عرب اور فلسطین کے نمائندگان عونی بک الہادی، القاضی علی العمری اور القاضی محمد الشامی وغیرہ مندوبین کے علاوہ مختلف ممالک کے سفراء لندن شہر کے اکابر ہمبران پارلیمنٹ اور کئی ایک سرنائٹ جرنیل اور دوصد کے قریب دیگر بڑے اہل منصب انگریز شامل ہوئے نیز ہائی کمشنر فار انڈیا سردار بہادر موہن سنگھ آف راولپنڈی ممبر کونسل فار انڈیا اور لندن میں مقیم دیگر سرکردہ ہندوستانیوں کو بھی مدعو کیا گیا.یہ خاکساراس زمانہ میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ بطور نائب امام مسجد متعین تھا.اس تقریب کے موقعہ پر محترم کرنل عطاء اللہ صاحب مرحوم آف لاہور، محترم میرعبدالسلام صاحب مرحوم آف سیالکوٹ اور خاکسار احمد یہ دار التبلیغ سے باہر گیٹ پر معزز مہمانوں کے استقبال کیلئے مامور تھے.شاہ فیصل اور ان کے ساتھیوں کی آمد پر مولانا شمس صاحب خود بھی ان کے خیر مقدم کیلئے آگئے اور دیگر مہمانوں کے تشریف لے آنے تک انہیں کچھ دیر کیلئے احمد یہ دار التبلیغ کے ڈرائنگ روم میں ہی بٹھایا گیا.چونکہ مولا نائس صاحب اور خاکسار کے علاوہ ان کے ساتھ عربی میں گفتگو کرنے والا اس وقت وہاں اور کوئی موجود نہیں تھا اس لئے دور ان کا نفرنس خاکسار ان کے ساتھ رہا اور حضرت مولانا صاحب دیگر امور میں مصروف رہے.چند منٹ کے بعد شاہ فیصل
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس نے اپنے سعودی لہجہ میں اپنے وزیر شیخ حافظ و ہبہ سے ٹائلیٹ جانے کی حاجت کا ذکر کیا.اس پر میں نے عرض کیا چلئے میں لے چلتا ہوں.تعجب سے کہنے لگے آپ ہماری روز مرہ کی زبان بھی خوب سمجھتے ہیں معلوم ہوتا ہے آپ عربوں میں بھی رہے ہیں.میں نے کہا جی ہاں میں نے تقریباً دو سال عرب ممالک میں گزارے ہیں.کانفرنس کے افتتاح سے پہلے حضرت شمس صاحب نے انہیں مسجد دیکھنے کی دعوت دی، چنانچہ مع تمام مہمانان شاہ فیصل نے مسجد فضل دیکھی اور اندر محراب کے قریب چند منٹ کھڑے رہ کر حضرت شمس صاحب سے مسجد کے حالات سنتے رہے اور کہنے لگے.میں تو سمجھ رہا تھا کہ چھوٹی سی مسجد ہوگی یہ تو خاصی بڑی مسجد ہے.غالبا آپ نے بعد میں اس کی توسیع کی ہے“ مولانا شمس صاحب نے بتایا کہ نہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابتداء ہی سے بڑی بنائی گئی ہے.دیگر نمائندگان اور مہمان بھی مسجد اور دار التبلیغ دیکھ کر بہت خوش ہوئے.اس موقع پر حضرت مولانا شمس صاحب نے شاہ فیصل کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے مطلع کرتے ہوئے حضور کی کتاب مسنن الرحمن اور التبلیغ اور بعض دیگر عربی کتب خوبصورت جلدوں میں بطور ہد یہ پیش کیں اور فرمایا.بارک اللہ فی مساعیکم.کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر دو انگریز نو مسلموں مسٹر بلال نقل اور عبد الرحمن ہارڈی نے تلاوت کی جس کے بعد حضرت مولانا صاحب نے عربی میں خیر مقدم ایڈریس پیش کیا.ایڈریس کی ابتداء میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عرب مندوبین کے نام مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا: میری طرف سے ہز رائل ہائینس امیر فیصل اور فلسطین کانفرنس کے دیگر نمائندگان کو خوش آمدید کہیں اور یقین دلائیں کہ جماعت احمد یہ پوری طرح ان کے ساتھ ہے اور دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی عطا کرے اور تمام عرب ممالک کو کامیابی کی راہ پر چلائے اور ان کو عالم اسلامی کی لیڈرشپ عطا کرے.وہ لیڈرشپ جو ان کو اسلام کی پہلی صدیوں میں حاصل تھی.“ وو اس کے علاوہ حضرت مولانا شمس صاحب نے جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے برطانوی 351
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ނ مدبرین کو کھلے الفاظ میں بتایا کہ عربوں کے مطالبات پورے کئے جائیں.نیز آپ نے عربوں کی کامیابی اور امت مسلمہ کی بہتری اور بہبودی کیلئے مزید دعائیں کیں اور عربوں کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا.اس کے بعد سعودی عرب کے حافظ و ہبہ نے شاہ فیصل کی طرف جوابی تقریر کی جس میں شکریہ کے علاوہ پورے عالم اسلامی کی یگانگت اور اتحاد پر زور دیا.رخصت ہونے سے پہلے شاہ فیصل اور دیگر عرب نمائندگان سے تمام انگریز نومسلموں کا تعارف کرایا گیا اور ایک نو مسلم مسٹر عبد الرحمن ہارڈی کی ساڑھے تین سالہ بچی نے انہیں کلمہ شریف لا اله الا الله محمد رسول الله اپنے مخصوص اور معصومانہ لہجہ میں کئی بار سنایا اور بعض مہمانوں سے انعام حاصل کیا.شاہ فیصل نے روانگی سے قبل احمد یہ دارالتبلیغ کی وزیٹنگ بک دو پر جواب تک لندن مشن میں موجود ہے اپنے قلم سے ذیل کے الفاظ لکھے :.لاثبات عندیّتی و شكرى لحضرة الامام و اعجابي بذكائه فيصل 66 352 اپنے موقف کے اثبات کیلئے اور محترم امام صاحب کے شکر یہ نیز امام صاحب کی فہم و ذکا پر خوشی کے اظہار کیلئے.مؤلف ( روح پرور یادیں ، بار اول، لاہور: محمد لطیف انور ( ناشر )،1980ء.صفحات 188-191) نوٹ : اس ملاقات کا ذکر سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ قادیان 1938ء - 1939 ء صفحات 56-57 پر بھی موجود ہے.حضرت مولانا شمس صاحب کی امیر فیصل سے جنوری 1944ء کی ملاقات کا ذکر 1944ء والے حصہ میں آئے گا.مئی 1939 ء تا اپریل 1940ء کی مساعی پر ایک نظر از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ) ستمبر 1939ء میں جنگ شروع ہو جانے سے تبلیغی کام میں رکاوٹ پیدا ہوگئی.نوجوان طبقہ فوج میں بھرتی ہو گیا دوسرے بہت سے لوگ فیکٹریوں وغیرہ میں جہاں جنگی سامان تیار ہوتا ہے رات دن کام میں مشغول ہو گئے نیز جو سہولتیں جنگ سے پہلے میر تھیں وہ نہ رہیں تاہم مئی 1939ء سے اپریل 1940ء تک جو تبلیغی کام کیا گیا وہ نہایت اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے.گذشتہ سالوں کی طرح امسال بھی نومسلموں کی زیادتی اور غیر مسلموں کو اسلامی مسائل کے متعلق
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 353 معلومات بہم پہنچانے کیلئے دار التبلیغ میں لیکچر دیئے گئے.بعض اوقات قرآن مجید کا درس دیا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ کر سنائی گئیں.ان لیکچروں کی تعداد جو مختلف دوستوں نے دیئے آٹھ ہیں.علاوہ ازیں 29 جولائی یوم التبلیغ کو ایک خاص میٹنگ کی گئی جس کی صدارت کرنل ایم ڈبلیوڈ گلس نے کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر میں نے ایک پرچہ پڑھا جس میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کا تفصیل سے ذکر کیا.غیر احمدیوں کی بھی کافی تعداد تھی.اس جلسہ کی رپورٹ لنڈن کے اخبارات ساؤتھ ویسٹرن سٹار، ومبلڈن برو نیوز اور بعض مصری اخبارات میں شائع ہوئی.مذہبی کا نفرنس امسال مسجد میں ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کی گئی جس میں تقریباً دوسو انگریز شامل ہوئے حاضرین میں لنڈن نوکلور کلب.ساؤتھ کرا ئیڈن ایڈلٹ سکول.ویسٹ لنڈن ایڈلٹ سکول فیڈ ریشن.ہوکسٹن اکیڈیمی ، سنڈے سکول اور فیتر تھیم ایڈلٹ سکول وغیرہ کے بھی بہت سے ممبر تھے.صدر سر فیروز خان صاحب نون ہائی کمشنر فار انڈیا تھے.موضوع امن عالم اور اس کے قیام کے ذرائع تھے.میرے علاوہ ایک یہودی ربی اور ایک عیسائی پادری نے مقرر موضوع پر اپنے اپنے مذہب کی رو سے خیالات کا اظہار کیا.اس کانفرنس کی رپورٹ لنڈن کے اخبارات ٹائمز، جیوئش کرانیکل، ومبلڈن برو نیوز مع فوٹو ، ساؤتھ ویسٹرن سٹار، وانڈ زورتھ برو نیوز نے شائع کی.اس کے علاوہ ہندوستانی اخبارات میں بھی اس کی روئیداد شائع ہوئی سول اینڈ ملٹری گزٹ نے کانفرنس کا فوٹو دے کر تقریباً تین کالم میں مفصل شائع کی.مختلف مقامات پر لیکچرز سال زیر رپورٹ میں مندرجہ ذیل مقامات پر منتظمین کی دعوت پر لیکچرز دیئے گئے اور تبلیغی کتب کے سیٹ بھی دیئے گئے.دی جورج ایڈلٹ سکول.فیملی ایڈلٹ سکول، فیلوشپ آف فیتھس میں عید کے موضوع پر.ویمبلی انٹرنیشنل فرینڈ شپ لیگ میں اسلام اور بائبل پر اور یوٹیل ایڈلٹ سکول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یہود کے موضوع پر لیکچر دیئے گئے.پہلے دو سکول میں سید عبدالسلام صاحب نے لیکچر دیئے.ان میں سے بعض کی رپورٹیں لوکل اخبارات نے شائع کیں.جو اشخاص دار التبلیغ آئے اور ان سے مذہبی گفتگو ہوئی ان کی تعداد سو سے زائد ہے.ان میں بعض فلسطین یعنی مصر بعض امریکہ اور بعض دیگر بلا دو امصار کے بھی تھے.مانچسٹر یونیورسٹی کے عربی زبان کے ایک پروفیسر مع اہل وعیال آئے نیز
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 354 حسن نشأت پاشا مصری کونسل مقیم لنڈن اور سرحسن سہروردی ممبر آف کونسل فار انڈیا مسجد دیکھنے کیلئے تشریف لائے اور انہیں کتابیں دی گئیں.اسی طرح انٹر نیشنل لیگ کے آٹھ ممبر آئے جن سے دیر تک مذہبی معاملات پر گفتگو ہوئی اور میتھوڈسٹ کا لج میں بعض طلباء سے مذہبی گفتگو ہوئی.اشتہار ” قبرسیح کی اشاعت امسال اشتہار ” قبرمسیح ایک لاکھ کی تعداد میں چھپوایا گیا.دو تین ہزار اشتہار مختلف مقامات پر تقسیم کیا گیا اور تقریباً آٹھ ہزار غیر ممالک میں بھیجا گیا.سن رائز کے دو نمبر جن میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ایک خطبہ جنگ کے متعلق اور ایک مضمون تھا وہ ۵۴ ممبران پارلیمنٹ اور 44 ممبران ہاؤس آف بورڈز اور بیس اخبارات کو بھیجا گیا.دوران سال میں ڈیڑھ ہزار سے زائد خطوط لکھے گئے جن میں بعض احباب کو ان کے سوالات کے جوابات دیئے گئے.ایک کتاب The Prince of Peace مکمل کی گئی جواب ہندوستان چھپوانے کیلئے بھیجی گئی ہے.نئے سال کے موقع پر تقریباً دوسوگر یٹنگ کارڈ بھیجے گئے جس میں جلسہ سالانہ کا ایک فوٹو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین الہامات چھاپے گئے جو یہاں کے عمائدین وارکان سلطنت اور بڑے بڑے لوگوں کو بھیجے گئے.ملکہ اور وزراء اور دیگر لارڈز وغیرہ کی طرف سے اس پر شکریہ کے خطوط موصول ہوئے.ہرممکن کوشش کی گئی کہ بڑے لوگوں تک اور شاہی خاندان کے افراد تک بھی مسجد اور جماعت کا ذکر پہنچایا جائے.چنانچہ جب ملکہ اور بادشاہ کینیڈا گئے تو اس وقت انہیں پورٹ سمتھ تار دیا گیا جس کے جواب میں ان کے پرائیویٹ سیکرٹری الیگزانڈر ہارڈنگ کی طرف سے مندرجہ ذیل جواب موصول ہوا.The King and Queen received your message before leaving Portsmouth and they commanded me to convey their cordial thanks for the good wishes it contained.اسی طرح تھیٹس کی غرقابی پر تار کے جواب میں امیر البحر کی طرف سے مندرجہ ذیل تار موصول ہوا ہے.Board of admiralty desire to express their sincere gratitude for your kind message of sympathy from the Ahmadiyya Community in Great Britain.چنانچہ دوسرے پیغامات کے ساتھ ہماری جماعت کا ذکر بھی یہاں کے مشہور اخبارات میں ہوا.اسی طرح جب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ موجودہ جنگ میں
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 355 برطانیہ کی مدد کرے گی تو اس کی اطلاع بذریعہ خطوط یہاں کے ارکان حکومت اور بعض ریٹائرڈ گورنرز وغیرہ کو دی گئی جس کے جواب میں انہوں نے اپنے خطوط میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا نیز بادشاہ کی طرف سے بھی ہوم سیکرٹری نے ان کا اس پیغام پر شکریہ اور خوشنودی کا اظہار تحریر کیا.مسٹر ایٹلی اپوزیشن کے لیڈر کو کتب بھیجی گئیں جن کے پڑھنے کا انہوں نے وعدہ کیا.نیز بعض اور لوگوں کو بھی کتب اور ٹریکٹ بھیجے گئے.سال زیر رپورٹ میں ایک دفعہ کا رڈف گیا.چوہدری محمد نقی صاحب میرے ہمراہ تھے.وہاں یمن اور صومالی لینڈ کے بہت سے عرب ہیں ان سے گفتگو ہوئی اور ایک مولود شریف کے موقعہ پر انہوں نے مجھے سے تقریر کیلئے درخواست کی.چنانچہ عربی میں تقریر کی گئی جس کا ان پر اچھا اثر ہوا.وہاں کے ہندوستانیوں سے بھی سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی دوسرا سفر شمالی انگلستان کا کیا.نیوکیسل گیا وہاں ایک ہفتہ ٹھہرا.کالج کے ہندوستانی طلبا سے گفتگو ہوئی نیز دوسرے ہندوستانیوں سے بھی سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی.وہاں سے ساؤتھ شیلڈ گیا جہاں عربوں اور ہندوستانیوں سے گفتگو ہوئی.نیز ہولی لینڈ اور سنڈرلینڈ بھی گیا.لنڈن واپس آنے پر جن لوگوں سے ملاقات ہوئی تھی انہیں لٹریچر بھیجا گیا.امسال مندرجہ ذیل اشخاص اسلام قبول کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے : (1) مسٹر خالد ڈکنسن (۲) مس جمیلہ ڈکنسن (۳) مسز ایڈٹ (مبارکه) احمد (۴) مسٹر عثمان سٹن (۵) چوہدری عبد العزیز صاحب سٹوڈنٹ لنڈن یونیورسٹی.مسٹر عثمان سٹن پولیس میں ہیں، ان کے لڑکے منیر احمد سٹن گذشتہ سال سلسلہ میں داخل ہوئے تھے.مسٹر عثمان سٹن مسجد کے قریب رہتے ہیں اور جماعت کے کاموں میں خوشی سے حصہ لیتے ہیں اور شوق سے چندہ دیتے ہیں.خاکسار : جلال الدین شمس امام مسجد لنڈن.(الفضل قادیان یکم دسمبر 1940ء) عید الاضحی کی تقریب عید الاضحی لنڈن میں 8 جنوری 1940 ء کو منائی گئی.برف پڑی ہوئی تھی شدت کی سردی تھی لیکن پھر بھی حاضری کافی ہو گئی.بیرونی مقامات سے بھی بعض دوست تشریف لائے مثلاً الحاج ڈاکٹر یوسف سلیمان اور الحاج ڈاکٹر عمر سلیمان نیو کیسل سے جو لنڈن سے 275 میل کے فاصلہ پر ہے اور میاں محمد
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 356 لطیف پائلٹ آفیسر رائل ایرفورس ہونگٹن سے جو قریباً اسی میل کے فاصلہ پر ہے عید کی نماز میں شامل ہوئے پہلے عید کی تاریخ 9 جنوری مقرر کی گئی تھی لیکن 5 جنوری کو مکہ مکرمہ سے تار آیا کہ عید 8 جنوری کو ہوگی.اس لئے دوبارہ تمام دوستوں کو اطلاع دینا پڑی اور تنگئی وقت کی وجہ سے بعض دوستوں کو تار کے ذریعہ اطلاع دی گئی.ایک نمائندہ اخبار کو تبدیلی کی اطلاع نہ ہوئی تھی.جب اسے معلوم ہوا کہ عید کی نماز ہوگئی تو وہ اسی روز شام کو آیا اور خطبہ اور دیگر تفاصیل نوٹ کر کے لے گیا.اس تقریب کی رپورٹ مع دو فوٹوؤں کے ”دی نیوز“ نے شائع کی.ساؤتھ ویسٹرن سٹار نے بھی اور وانڈ زورتھ برونیوز نے رپورٹ لکھی.یہ تینوں ہفتہ وار اخبار ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور Great Britain & the East مشہور ہفتہ وار رسالہ نے بھی اس تقریب کی رپورٹ شائع کی.خاکسار جلال الدین شمس از لندن.(الفضل قادیان 30 اپریل 1940ء) World Congress of Faiths کے جلسے [ مئی.جون 1940ء میں لنڈن پر دو ہوائی حملے سخت ترین ہوئے حملے نو بجے شام سے صبح پانچ بجے تک رہے.سینکڑوں مکانات ویران ہو گئے اور بعض عالیشان عمارات اور بہت سے گرجے اور ہوٹل اور ہسپتال گرکر پیوند خاک ہو گئے.مرد، عورتیں اور بچے کافی تعداد میں مرے اور سینکڑوں زخمی ہوئے.ہمارے علاقہ میں بھی بہت سے نفوس اور عمارات کا نقصان ہوا.اس وقت تک تمام احمدی ممبر لنڈن میں اور لنڈن سے باہر رہنے والے بفضل خدا بخیر و عافیت ہیں..ورلڈ کانگرس آف فیتھس کی چند ہفتہ واری میٹنگز کیکسٹن ہال میں ہوئیں.پہلی میٹنگ کی صدارت میں نے کی.سرفرانسیس بنگ ہسینڈ نے ایک پرچہ پڑھا جس میں مختلف مذاہب کی بعض باتیں بیان کیں.اسلام کا ذکر کرتے ہوئے تو حید اور نمازوں وغیرہ کا ذکر اچھے رنگ میں کیا.مجھے بھی ایک مختصر افتتاحی تقریر کرنے کیلئے کہا گیا تھا.میں نے توحید الہی کا ذکر کیا اور قرآن مجید اور انا جیل اور ہندؤوں کی کتب کے حوالے دے کر بتایا کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو تمام انبیاء نے توحید کی تعلیم دی تھی.مسیح نے بھی ایک طرف دعا کے وقت خدا تعالیٰ کو ان الفاظ میں پکارنے کی تاکید کی.”اے ہمارے باپ جو آسمان میں ہے اور دوسری طرف یہ تاکیدی حکم دیا کہ تم کسی کو زمین پر باپ مت کہو کیونکہ تمہارا ایک باپ ہے جو آسمان میں ہے پس مسیح نے بھی تو حید ہی سکھائی تھی.جب Discussion کا وقت آیا تو بولنے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 357 والوں نے میری تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صحیح طریق یہی ہے کہ انبیاء کی اصل تعلیم کا مطالعہ کرنا چاہیے.ایک میٹنگ میں ایک مسلم نمائندہ کا جو یہاں سرکاری عہدہ پر متعین ہیں اسلام کے متعلق لیکچر تھا انہوں نے خاص طور پر اپنے دوستوں کو اطلاع دے کر بلایا ہو ا تھا چنانچہ شیخ حافظ و ہبہ اور ان کے اسٹنٹ بھی حاضر تھے.عراقی لیگیشن اور ٹرکی لیکیشن کے نمائندے اور مسٹر یوسف علی سابق پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور اور امام مسجد و د کنگ بھی موجود تھے.مجھے بھی لیکچر میں شامل ہونے کیلئے کہلوا بھیجا تھا.انہوں نے اسلام کے موضوع پر ایک پرچہ پڑھا جس میں انہوں نے پردہ کے متعلق کہا کہ اسلام میں کوئی پردہ نہیں ہے اور آیت مَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالآیات کا ترجمہ بنا کر کہہ دیا کہ اور انبیاء نے تو معجزے دکھائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں دکھایا اور آیت إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِيْنَ هَادُوا کا ترجمہ سنا کر کہا کہ نجات کے حصول کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں.یہودی اور عیسائی وغیرہ بھی اگر خدا اور آخرت پر ایمان رکھیں اور نیک عمل کریں تو وہ نجات پا جائیں گے.جب سوالات کا وقت آیا تو میں نے ان دونوں باتوں کا ذکر کر کے کہا کہ یہ دونوں باتیں جو سپیکر نے بیان کی ہیں قرآن مجید کی آیات کے صریح خلاف ہیں.معجزات کے متعلق میں نے سورہ قمر کی پہلی دو آیات پڑھ کر ترجمہ سنایا جن سے ظاہر ہے کہ شق القمر کا نشان مکہ والوں کو دکھایا گیا اور جس آیت کا سپیکر نے حوالہ دیا ہے اس میں خاص نشانات مراد ہیں جو کفار نے طلب کئے تھے.چنانچہ اس کا نمونہ اسی سورۃ میں بیان کیا گیا ہے اس لئے اس آیت سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اور نشانات نہیں دکھائے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ مرقس نے مسیح کے متعلق لکھا ہے کہ جب فریسیوں نے ان سے نشان مانگا تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں کوئی نشان نہیں دیا جائے گا.اس وقت انہوں نے نہ کسی گذشتہ نشان کا حوالہ دیا اور نہ آئندہ دکھانے کا وعدہ کیا لیکن اس قول سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ دوسرے اوقات میں انہوں نے نشانات نہیں دکھائے تھے.اور دوسری بات کے متعلق میں نے آیت إِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا....أُولئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مهيناً (النساء:151-152) پڑھ کر ترجمہ سنایا کہ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص ایک رسول کا بھی انکار کرتا ہے وہ کافر ہے اور مومن نہیں اور لائق سزا ہے.پس نجات اس امر پر موقوف ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اس پر ایمان لایا جائے اور اس کے مطابق عمل کیا جائے.پس جیسے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 358 حصول نجات کیلئے دوسرے رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے ویسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر.لہذا اصولی طور پر یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ حصول نجات کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک عیسائی یا یہودی جو دیانت داری سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعوئی پر غور کرتا ہے اور باوجود غور و خوض کے اس پر آپ کی صداقت نہیں کھلتی وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک معذور ٹھہر کر عذاب سے بچ جائے.جواب دیتے ہوئے سپیکر نے صرف یہ کہا کہ یہاں یوسف علی مفسر قرآن اور عرب بھی موجود ہیں وہ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں ہاں تشریحات مختلف ہوا کرتی ہیں اور اسلام کی دو قسمیں بیان کر دیں.ایک آرتھوڈ کس اسلام اور دوسرے ماڈرن اسلام.چونکہ سپیکر نے یہ بھی کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت بند ہے اس پر ایک عیسائی نے سوال کیا کہ یہود نے تو وحی و نبوت کو موسی" پر اور عیسائیوں نے عیسی" پر ختم کر دیا آپ کہتے ہیں وحی و نبوت محمد اللہ پر ختم ہے تو یہ عقیدہ یہودونصاری کے عقیدہ کی طرح ہوا.اس کا سپیکر نے کوئی جواب نہ دیا.میٹنگ کے ختم ہونے پر سپیکر نے مجھ سے کہا کہ یہ عرب صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا تھا اس میں آیت کا لفظ ہے معجزہ کا نہیں.میں نے اس عرب سے کہا قرآن مجید میں کہیں بھی معجزہ کا لفظ نہیں صرف آیت کا ہی لفظ ہے مسیح کے معجزات کا جہاں ذکر ہے انہوں نے بھی یہی کہا.قـــــد جئتكم باية اور پیکر نے جس آیت کو بطور استدلال پیش کیا تھا اس میں بھی الایات کا ہی لفظ ہے.وہ کوئی جواب نہ دے سکا.ڈاکٹر الحاج عمر سلیمان میرے ساتھ تھے.انہوں نے کہا مجھے تو ایسے لیکچر اروں کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی ضرورت ثابت ہوتی ہے.نیو بری کا سفر ورلڈ کانگرس آف فیتھس کے زیر انتظام دوسرے ممبروں کے ساتھ میر عبدالسلام صاحب اور خاکسار ایسٹر کے ہفتہ و اتوار کیلئے نیو بری گئے تھے جہاں دو روز اجلاس ہوئے مختلف اشخاص نے تقریریں کیں.سوالات کے موقعہ پر میر عبدالسلام صاحب نے سوالات کئے.کئی ممبروں سے مختلف مذہبی مسائل پر گفتگو ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی آمد اور مسیح کی صلیبی موت وغیرہ کے متعلق بھی تفصیلی گفتگو ہوئی.مسٹر پونی ایل ایل ڈی ہنگیرین اور ان کی بیوی سے بھی باتیں ہوئیں وہ بہت متاثر ہوئے.بعد میں وہ ہماری ایک پندرہ روزہ میٹنگ میں شامل بھی ہوئے اور مجھے ایک روز اپنے مکان پر چائے کی بھی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 359 دعوت دی اور مذہبی گفتگو ہوئی.نیو بری میں ایک شخص عبدالروشن نامی کا ایک پیرو ملا کہتا تھا کہ عبدالروشن میں روح القدس کا حلول ہوا ہے اس کے ماننے سے دنیا میں امن قائم ہوگا.میں نے اس سے ایک ٹریکٹ لیا اور پڑھا اس میں عبدالروشن کے متعلق لکھا تھا کہ یہ عربی لفظ ہے جس کے معنے ہیں The Son of Light یعنی روشنی کا بیٹا.میں نے کہا یہ بھی دلچسپ روح القدس ہے کہ مدعی کے نام عبدالروشن کا ترجمہ بھی صحیح نہیں بتا سکی.میں نے کہا ”عبد“ عربی لفظ ہے جس کے معنے بیٹا نہیں بلکہ غلام اور خادم کے ہیں اور روشن فارسی لفظ ہے عربی نہیں جس کے معنی روشنی کے نہیں بلکہ روشن کے ہیں اس لئے یہ نام عربی و فارسی کا مرکب ہے.وہ کوئی جواب نہ دے سکا اور بہت شرمندہ ہوا.مسٹر بولن کہنے لگا ہم سے تو ہر وقت جھگڑ تا رہتا تھا مگر آپ نے تو جھٹ اس کی غلطی پکڑ لی.گزشتہ ماہ سے دار التبلیغ میں پندرہ روزہ لیکچروں کا سلسلہ شروع ہے.تین لیکچر ہو چکے ہیں.حاضرین کی تعداد گزشتہ سالوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ ہوتی رہی ہے.پہلا لیکچر 23 مارچ کو ڈاکٹر عبد الخالق خانصاحب نیازی نے ” اسلام میں اخوت“ کے موضوع پر دیا جو پسند کیا گیا.لیکچر کے بعد سوال و جواب بھی ہوئے اور پھر بعد میں اتحادیوں کی فتح کیلئے نماز میں دعا کی گئی.دوسری میٹنگ میں جو 13 اپریل کو ہوئی دو انگریز نومسلم بولے، مسٹر بلال نکل نے اسلام اور عیسائیت پر تقریر کی اور مسٹر خالد ڈکنسن نے ”اسلام میں صفات باری تعالی پر ایک پرچہ پڑھا.لیکچرز پسند کئے گئے بعد میں سوال و جواب ہوئے.تیسری میٹنگ 27 اپریل کو ہوئی جس میں سید ممتاز احمد صاحب نے اسلامی حکومت“ کے موضوع پر تقریر کی جس میں اسلامک گورنمنٹ کے فرائض کا بھی ذکر کیا گیا اور جنگ کے بواعث بھی بیان کئے.23 مارچ کو جو فتح کیلئے دعا کی گئی تھی اس کے متعلق الحاج عمر سلیمان نے ٹائمر کو ایک خط لکھا جو ایڈیٹوریل والے صفحہ پر جلی عنوان دے کے ٹائمز نے شائع کیا.ڈاکٹر الحاج عمر سلیمان نے تحریک جدید کیلئے دس پونڈ چندہ دیا اور مسٹر عثمان سٹن نے دو پونڈ اور سید ممتاز احمد صاحب نے پانچ روپیہ کے حساب سے ہر سال کچھ زیادتی کے ساتھ تین پونڈ تین شلنگ چندہ دیا.ڈاکٹر عمر سلیمان نے سن رائز میں میرے خط کا ترجمہ پڑھ کر جس میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی وصیت پر صدقہ دیئے جانے کا ذکر ہے مجھے لکھا کہ مجھے اس کی کیوں خبر نہیں دی گئی.کیا مجھے اس میں شریک ہونے سے محروم رکھا جائے گا ہر گز نہیں اس لئے میں پانچ پونڈ کا چیک بھیجتا ہوں چونکہ اور بھی ایسے مبر ہوں گے جن کو اس تحریک کا علم نہیں ہوا ہوگا یا بوجہ تنگدستی نہ دے سکے ہوں اس لئے یہ رقم انگلستان کے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 360 ایسے تمام احمدی ممبروں کی طرف سے مجھی جائے.ساتھ ہی لکھا کہ اب شاید دیر ہوگئی ہو اس لئے آپ جس طرح مناسب سمجھیں یہ رقم خرچ کریں.میں نے انہیں لکھا کہ اس رقم کی تفسیر کبیر کی جلد میں خرید کران غریب احمدیوں کو دی جائیں جو تفسیر پڑھنا چاہتے ہیں لیکن بوجہ مالی تنگی کے خرید نہیں سکتے.اس طرح یہ ایک صدقہ جاریہ ہو جائے گا نیز نیروبی کی مسجد کیلئے انہوں نے پانچ پونڈ چندہ دیا ہے.میں نے انہیں لکھا تھا کہ وہ دو ہفتہ میرے پاس آکر ٹھہریں چنانچہ وہ تشریف لائے اور دو ہفتہ میرے پاس بطور مہمان قیام کیا.اس اثناء میں میں نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کے متعلق پیشگوئیاں اور آپ کے صداقت کے دلائل وغیرہ لکھائے.خاکسار جلال الدین شمس از لنڈن.لیکچرز الفضل قادیان 30 جولائی 1940ء) سال زیررپورٹ ( مئی 1940 ء تا اپریل 1941ء) میں چونکہ انگلستان پر ہوائی حملے ہوتے رہے ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں بچوں اور عورتوں کو لندن چھوڑ کر دوسرے دیہات میں جا کر رہنا پڑا نیز پانچ چھ ماہ کی متواتر بمباری اور جنگ کے مختلف شعبہ جات اور کاموں میں مردوں عورتوں کی مشغولیت تبلیغی مساعی میں حارج ہوئی اور ان کی تمام توجہ جنگی تیاریوں میں لگ گئی.اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ ملاقاتوں کا سلسلہ تقریباً بند ہوگیا اور بلیک آؤٹ کی وجہ سے لیکچروں کا سلسلہ بھی بند کرنا پڑا تاہم ان نامساعد حالات میں کافی حد تک تبلیغ کا کام کیا گیا جس کا اختصار کے ساتھ ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے.گذشتہ سالوں کی طرح موسم گرما میں دار التبلیغ میں مذہبی مسائل پر لیکچروں کا سلسلہ جاری کیا گیا.جن میں احمدیت حقیقی اسلام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم بھی سنائی جاتی رہی.کل تعداد لیکچروں کی اٹھارہ ہے.ان میں سے میرے دو لیکچروں کے وقت سرحسن سہروردی اور شیخ یوسف علی صاحب سابق پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور نے صدارت کی.حاضری اچھی ہوتی رہی.دار التبلیغ کے علا ہائیڈ پارک میں بھی لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا گیا لیکن اگست میں جب بمباری شروع ہوئی تو یہ سلسلہ بند کرنا پڑا.ہائیڈ پارک میں حضرت مسیح کی صلیبی موت کے موضوع پر ایک پادری سے مباحثہ بھی ہوا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس متفرق مساعی 361 عید ین پر اچھا اجتماع ہوتا رہا.خطبوں میں اسلام کی فضیلت کا ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے اور قرآن مجید ہی ایک ایسی کامل الہامی کتاب ہے جس کی پیروی سے انسان کو مکالمہ الہیہ اور کشوف اور رویا صادقہ کا انعام ملتا ہے.چنانچہ ان پیشگوئیوں کا ذکر کر کے جو نجومیوں اور سپر چولسٹوں نے جنگ کے متعلق کی تھیں جنہیں واقعات نے غلط ثابت کیا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی جنگ کے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر کیا.اخبارات نے دونوں عیدوں کی رپورٹ شائع کی.میٹنگز میں بعض نئے اشخاص آتے رہے جن سے مذہبی گفتگو ہوئی.زار روس کی ایک رشتہ دار کوئنس آئی نیز مسٹر رثبت جو آسٹریلیا کی طرف سے لیگ آف نیشنز میں نمائندگی کرتی رہی ہیں مسجد میں آئیں.بعض یونیورسٹیوں کے طلباء بھی آئے جن سے گفتگو ہوئی.نیز تین انگریز آئی سی.ایس طالب علموں کو اردو کے اسباق دیئے جواب ہندوستان میں کام کر رہے ہیں.پولینڈ اور دیگر ممالک کے بعض اشخاص بھی مسجد دیکھنے کیلئے آئے.ایک مقام سے مراکش کے 38 اشخاص نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے آئے.سال زیر رپورٹ میں دمشق اور مصر کے احمدیوں کے متعدد سوالات کے جوابات لکھ کر بھیجے گئے.نیز انگلستان کے بعض انگریزوں نے اپنے خطوط میں جو سوالات دریافت کئے ان کے جوابات دیئے گئے.سیرالیون اور بعض دیگر غیر ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں اشتہارات بھیجے گئے نیز برائٹن اور ڈیون شر کے بعض شہروں میں اشتہارات تقسیم کئے گئے اور بعض اشخاص کو کتب اور پمفلٹ بھیجے گئے.دو ہندوستانی اور تین انگریز بیعت فارم پر کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے.بمباری کے ایام میں اخبار ” الفضل“ کو احمدی دوستوں کی خیریت کے متعلق بذریعہ تار اطلاع دی جاتی رہی تمام احمدی دوست ہوائی حملوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ رہے.فالحمد للہ علی ذالک.والسلام.خاکسار جلال الدین شمس امام مسجد لندن.الفضل قادیان 23 دسمبر 1941ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ایک نشان * 1942-1941 362 ( حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد حمد به اندن ) اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ظاہر ہوتا ہے جس کا ذکر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے خطبہ جمعہ مورخہ 14 اپریل 1941ء میں ہے جو کہ الفضل 11 اپریل میں شائع ہوا ہے.حضور فرماتے ہیں کہ: وو مجھے دکھایا گیا کہ میرے سپرد انگلستان کی حفاظت کا کام کیا گیا ہے اور میں رویا میں ہی برطانیہ کی کامیابی کیلئے دعا کر رہا ہوں“ الفضل قادیان 11 اپریل 1941ء) جس وقت حضور نے یہ خواب ذکر فر ما یا اس وقت سے لیکر 22 جون (جس کی صبح کو جرمنی نے روس پر حملہ کیا ) تک کی اخبارات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہوگا کہ یہاں غالب خیال ہی نہیں بلکہ یقینی امر خیال کیا جاتا تھا کہ جرمنی اس دفعہ برطانیہ پر حملہ کرے گا لیکن اچانک اللہ تعالیٰ نے جرمن کا رخ روس کی طرف پھیر دیا اور اس کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی اور جرمنوں کی خلاف توقع روسیوں نے ان کا سخت مقابلہ کیا.چنانچہ وہ جنگ اس وقت تک زوروں پر ہے جس میں تمہیں چالیس لاکھ کے قریب سپاہی طرفین کے کام آچکے ہیں.کیا عقلمندوں کیلئے یہ نشان نہیں کہ حضور نے خدا سے علم پا کر ایک ایسی بات بیان فرمائی جو سیاستدانوں کے اندازوں اور راؤں کے بالکل مخالف تھی.لیکن آخر خدا کی بات پوری ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک.اور گزشتہ دو تین ماہ میں لنڈن پر سوائے ایک ہوائی حملہ کے اور کوئی حملہ نہیں ہوا.آکسفورڈ میں کا نفرنسیں گزشتہ ماہ میں مجھے دو دفعہ آکسفورڈ جانا پڑا.ایک دفعہ ورلڈ کانگرس آف فیتھس کی سالانہ کانفرنس میں دوسری دفعہ نیو کالج آکسفورڈ میں ”ہندوستان کی موجودہ سیاسی حالت“ کے متعلق سمر سکول کی طرف سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جو سات دن متواتر رہی.منتظمین کا نفرنس نے مجھ سے بھی درخواست کی تھی کہ ہندوستان کیلئے ایک نیا نظام کے موضوع پر ایک پرچہ پڑھوں.کانفرنس کے آخری دن میں میرے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 363 لئے وقت مقرر تھا.پریذیڈنٹ مسٹر فلمی تھے جو تمام اجلاسات میں شریک ہوئے.انہوں نے اپنے آخری پریذیڈنشل ریمارکس میں میری سپیچ کے متعلق کہا کہ یہ تمام تقریروں سے زیادہ مرتب ، مدلل اور غور و خوض کے بعد تیار کی گئی ہے اور یہ ہندوستان میں صحیح پولیٹیکل پویش کو واضح کرتی ہے اور اس کاحل پیش کرتی ہے.برٹش پریس میں خطوط عراق اور مسلمان کے عنوان کے ماتحت ایک میرا خط ٹائمنز آف لنڈن میں شائع ہوا اور ایک خط گریٹ برٹن اینڈ دی ایسٹ ہفتہ وار رسالہ میں ، جس میں میں نے اس بات پر تنقید کی تھی کہ عام لوگوں کے علاوہ پولیٹیکل لیڈر بھی یہ فقرہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں استعمال کرتے ہیں کہ ہم عیسائی تہذیب کے قیام کیلئے لڑ رہے ہیں.حالانکہ ان کے پہلو بہ پہلو مسلمان اور دیگر مذاہب والے بھی لڑ رہے ہیں اس لئے ایسے فقروں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے جن کا استعمال بجائے مفید ہونے کے مشترکہ مفاد کیلئے مضر ہے.سید ممتاز احمد صاحب کو سالانہ امتحان کے بعد ڈیڑھ ماہ کی رخصتیں ہوئیں.انہوں نے پندرہ دن تبلیغ کیلئے دینے کا وعدہ کیا.چنانچہ انہیں نیو کیسل بھیجا گیا جس کے مختلف بازاروں میں انہوں نے اڑھائی ہزار کے قریب اشتہارات تقسیم کئے.موجودہ حالات کے مدنظر سب سے پہلے انہوں نے چیف انسپکٹر پولیس سے مسیح کی قبر ہندوستان میں کے اشتہار کی تقسیم کیلئے اجازت حاصل کی.پولیس والوں نے بھی اشتہار پڑھا اور یہ اشتہارات رکھ بھی لئے.ایک رومانیہ کے باشندہ نے جو وہاں بہت مدت سے مقیم ہے اشتہار پڑھ کر کہا کہ میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا تھا.ان کی رپورٹ سے دو واقعات اس غرض سے ذکر کرتا ہوں کہ وہ لوگ جنہیں نہایت آزاد خیال کیا جاتا ہے ان میں بھی بکثرت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو نہایت تنگدل واقع ہوئے ہیں.وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ایک انگریز پمفلٹ پڑھتے پڑھتے دور نکل گیا.پھر مڑ کر واپس آیا اور کہا کہ میں عیسائی ہوں میں ایسی تحریرات نہیں پڑھنا چاہتا یہ کہہ کر پمفلٹ واپس دے دیا اور فور اچلا گیا.دوسری ایک نوجوان لڑکی بھی اشتہار پڑھنے کے بعد واپس آئی اور آکر کہنے لگی کیا میں تمہیں بتاؤں کہ میری اس پمفلٹ کے متعلق رائے کیا ہے میں سمجھتی ہوں کہ یہ تحریر بالکل لا یعنی ہے.یہ کہہ کر اس نے پمفلٹ زمین پر پھینک دیا اور پیشتر اس کے میں اسے مزید تحقیقات کی طرف توجہ دلاتا وہ چل دی.اس کے علاوہ انہوں نے کنگز کالج نیو کیسل کے ہندوستانی طالب علموں کی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 364 ایسوسی ایشن کیلئے احمدیت حقیقی اسلام ہے اور تحفہ شہزادہ ویلز سوانح عمری آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتب بطور تحفہ پیش کیں جو انہوں نے اپنی لائبریری میں رکھ لیں.(۲) ایک انگریز نو جوان مسٹر سائمن زیر تبلیغ ہیں.انہیں کتب مطالعہ کیلئے بھیجی گئیں اور تبلیغی خط بھی لکھا گیا نیز گزشتہ جنگ عالمی سے پہلے زار کی حکومت کی طرف سے جو روسی کونسل لنڈن میں مقرر تھا اس کو اس کے ایک دوست کی معرفت احمدیت کتاب بھیجی گئی جس کا اس نے شکریہ ادا کیا نیز ڈاکٹر عمر سلیمان نے ایام زیر رپورٹ میں خطوط کے ذریعہ بہت سے سوالات دریافت کئے.جن کے تحقیقی جوابات دیئے گئے.الفضل قادیان 5 اکتوبر 1941ء) مکتوب لنڈن لنڈن میں عید الاضحیٰ 28 دسمبر 1941ء بروز اتوار منائی گئی.حاضری حسب معمولی اچھی تھی.نومسلم انگریز لنڈن کے علاوہ کینٹ اور ولنگٹن وغیرہ سے تشریف لا کر نماز میں شامل ہوئے.ڈاکٹر سلیمان نیوکیسل سے آئے.عید کی رپورٹ ہفتہ وار رسالہ گریٹ برٹن اینڈ دی ایسٹ، ساؤتھ ویسٹرن سٹار اور برو نیوز میں شائع ہوئی.ایام زیر رپورٹ میں سرایڈورڈ میکسیکن سابق گورنر پنجاب کو چائے پر بلایا تھا وہ تشریف لائے اور ڈیڑھ گھنٹہ ٹھہرے.مختلف امور کے متعلق گفتگو ہوئی.زوغو سابق شاہ البانیہ کی ہمشیرہ کو Teachmig of Islam اور احمدیت اور ایک پارہ قرآن کریم کا بطور تحفہ پیش کیا.دو انگریز نو جوان آئے جن سے مذہبی امور کے متعلق گفتگو ہوئی.ہندوستانی احمدی فوجی دوست جو اس وقت انگلستان میں ہیں ان میں سے با بوسلیم اللہ صاحب مردانوی اور سید خادم حسین صاحب گھٹیالیاں اور برکت علی صاحب سکنہ چوبارہ تحصیل پسرور تشریف لائے.بابوسلیم اللہ صاحب کے ساتھ ان کی کمپنی کے امام مولوی رفیع اللہ صاحب بھی تشریف لائے اور عید کے موقعہ پر بعض غیر احمدی طلباء بھی آئے.سید فضل شاہ صاحب سکنہ مدینہ ضلع گجرات بھی مسجد دیکھنے کیلئے آئے.احمدی دوست ملنے کیلئے آتے رہے ایام زیر رپورٹ میں بعض کتب کے مطالعہ کیلئے دو روز کیلئے آکسفورڈ گیا.سیرالیون سے ایک شامی احمدی دوست نے بعض آیات قرآنیہ کی تفسیر دریافت کی جو انہیں لکھ کر بھیجی.ایک سوڈانی دوست محمود زبیر مدت سے پٹنی میں رہتے ہیں اور مسجد میں آتے رہتے ہیں.وہ مسجد وہ کنگ گئے تو انہیں کہا گیا کہ وہ ہمارے ہاں نماز پڑھنے کیلئے کیوں گئے اور یہ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایک نبی مانتے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 365 ہیں غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.اتفاقاً اس سے ایک دوروز پہلے میں انہیں خطبہ الہامیہ کا ایک حصہ سنا چکا تھا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے تھے.انہوں نے کہا کہ مجھے تو ان باتوں کا پتہ نہیں میں دریافت کروں گا لیکن مہدی کی کتاب میں نے سنی ہے اگر وہ انہی کی ہے تو وہ قرآن مجید کے بالکل مطابق ہے اور نبی اگر خدا تعالیٰ چاہے تو بھیج سکتا ہے.انہوں نے واپس آکر ان مسائل کے متعلق مجھ سے دریافت کیا.میں نے تفصیل سے سب باتوں کے متعلق سمجھایا.انہوں نے کہا اس میں تو شک نہیں کہ مہدی صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اسے سچا ماننا چاہیے.میں نے نماز کے مسئلہ کے متعلق کہا ہے کہ اصل اختلاف تو مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کے متعلق ہے کہ آیا وہ اپنے دعوی میں بچے تھے یا نہیں.اگر بچے تھے تو لا محالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک شخص جسے خدا تعالیٰ نے مبعوث کیا اسے اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ لوگوں کی اقتداء کرے بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ دوسرے اس کی اقتداء کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ دعا سکھلاتا ہے.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کہ ہمارے مقتدی بھی متقی ہوں چہ جائیکہ امام غیر متقی ہو نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا يَتَقَبَّلَ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ.کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کی عبادت قبول فرماتا ہے جو متقی ہوں لیکن وہ شخص جو ایک مرسل من اللہ کو نہیں مانتا اور اس کی تکفیر و تکذیب کرتا ہے وہ متقی کیونکر ہوسکتا ہے.انہوں نے کہا نماز تو ہم نے خدا کیلئے پڑھنی ہے نہ کسی شخص کیلئے.میں نے کہا اسی لئے تو ہم غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ نماز خدا کیلئے ادا کرنی ہے نہ کہ بندوں کو خوش کرنے کیلئے.اگر ہم لوگوں کو خوش کرنا چاہتے تو منافقانہ طور پر ان کے پیچھے پڑھ لیتے لیکن ہم جو ان کے پیچھے نہیں پڑھتے تو اسی لئے کہ ہم نے نماز خدا کیلئے پڑھنی ہے نہ کہ بندوں کیلئے اور شریعت اسلامیہ کی رو سے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کا امام احمدی ہونا چاہیے.کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک شخص جو مسیح موعود کو مانتا ہے اور دوسرا جو انکار کرتا ہے دونوں برابر ہیں؟ کہنے لگے کہ نہیں.ہر ایک شخص کو ماننا چاہیے.میں نے کہا شریعت کی رو سے امام وہی ہونا چاہیے جو زیادہ متقی ہو کہنے لگے اس سے تفرقہ اور اختلاف پیدا ہوگا.میں نے کہا یہ تفرقہ ہر نبی کی بعثت پر پڑا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَانَ النَّاسُ أُمَةً وَاحِدَةً (البقره:214).پھر ان میں اختلاف ہوا اللہ تعالیٰ نے انبیاء بھیجے تو پھر ایک اختلاف ہوا بعض تو ہدایت پاگئے اور بعض نے انکار کر دیا.پس انبیاء آتے تو اختلاف کو مٹانے کیلئے ہیں لیکن ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایک اور تفرقہ پیدا کرتا ہے اور خبیث اور طیب
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 366 میں فرق کر دیتا ہے.میں نے کہا یہ نماز وغیرہ نہ پڑھنے پر جوز ورد یا جا تا ہے تو یہ صرف جذبات کو ابھارنے کیلئے ہے ہر نبی کے مخالفوں نے ایسا ہی کیا.فرعون نے یہ کہہ کر کہ موسی" تمہارے دین کو بدلنا چاہتا ہے یا بغاوت کر کے حکومت حاصل کرنا چاہتا ہے موسیٰ علیہ السلام کے خلاف مذہبی اور سیاسی لیڈروں کو بھڑکا دیا اور اصل دعوی کے دلائل پر غور نہ کیا اسی طرح ہمارے مخالف کرتے ہیں.نماز تو ان کے مختلف فرقے ایک دوسرے کے پیچھے نہیں ادا کرتے.بعض بزرگ مکہ میں کئی سال رہے ہیں اماموں کی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے علیحدہ نماز پڑھتے رہے.پھر مکہ میں چار مصلوں کی بھی تو یہی وجہ تھی.پس آپ ان سے یہ دریافت کریں کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی پر ایمان کیوں نہیں لاتے.خاکسار : جلال الدین شمس از لندن.الفضل قادیان 6 مارچ 1942ء) شیفیلڈ میں لیکچر ورلڈ کانگرس آف فیتھس کی ایک میٹنگ شیفیلڈ میں ہوئی.16 مئی 1942 ء کو میں سرفرانسیس بینگ ہسبینڈ کے ہمراہ وہاں گیا.ڈاکٹر گوش ایک ہندو عیسائی بھی ساتھ تھے.منتظمین جلسہ نے سٹیشن پر استقبال کیا.پھر اپنی موٹروں میں ہمیں مناظر دکھانے کیلئے باہر لے گئے.میں ڈاکٹروڈ کے مکان پر ٹھہرا.یہ لٹریچر کے ڈاکٹر ہیں.ڈاکٹروڈ اور مسروڈ سے عیسائیت اور اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد وغیرہ مسائل پر متعدد مرتبہ گفتگو ہوئی.17 مئی بروز اتوار گیارہ بجے صبح ڈاکٹر گوش نے رابندر ناتھ ٹیگور کے شعر پڑھ کر ترجمہ سنایا.حاضری چالیس پچاس کے درمیان تھی.پھر شام کو چھ بجے یونیٹیر بین چرچ میں اجلاس شروع ہوا.اس وقت سر فرانسیس کا اور میر ایکچر تھا.حاضری تین چارسو کے درمیان تھی.سرفرانسیس نے صرف پندرہ منٹ لئے اور ورلڈ کانگرس آف فیتھس کے مقاصد بیان کئے.پھر میں نے اپنا مضمون سنایا جس کا عنوان انٹر ریلیجس فیلوشپ اسلامی نقطہ نگاہ سے تھا.اس میں میں نے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا اور سورہ فاتحہ پر مضمون کی بنیا درکھ کر سات باتیں بیان کیں جس پر انٹر ریلیجس فیلوشپ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور کہا کہ بغیر کسی نبیاد کے فیلوشپ کی خواہش کرنا ہوا میں محل بنانے کی طرح ہے.وہاں کے روزانہ اخبار ٹیلیگراف اینڈ انڈیپنڈنٹ نے میری رائے کا خاص طور پر ذکر کیا.نیز میں نے کہا کہ اگر کانگرس ایک ریزولیوشن کے ذریعہ تمام عیسائی لیکچر اروں اور اہل قلم سے یہ درخواست کرے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اسی عزت کے ساتھ یاد کریں جو ایک نبی کی شان
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 367 کے شایان ہے جیسا کہ مسلمان حضرت مسیح کو عزت کے ساتھ یاد کرتے ہیں تو اس سے عیسائیوں اور مسلمانوں کے تعلقات زیادہ مضبوط ہو سکتے ہیں.مسجدوں میں خدا کی عبادت کی آزادی کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا بھی ذکر کیا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا اعلان بھی سنایا جوحضور نے مسجد لنڈن کا سنگ بنیا در کھتے ہوئے کہا تھا.میٹنگ کے ختم ہونے پر امرتسر کا ایک ڈاکٹر ملا جس نے شیفیلڈ میں شادی کی ہوئی ہے اور مضمون پر خوشی کا اظہار کیا.پھر چیکوسلوا کیا کا ایک عیسائی ملا اور کہا کہ ہمیں تو اسلامی تعلیم کا بالکل پتہ ہی نہیں ہے انگریز تو سنتے رہتے ہیں جب لنڈن آؤں گا تو ضرور ملوں گا.سر فرانسیس نے واپس آکر اپنے خط میں مجھے لکھا: Your address was much appreciated.وہاں جو کانگرس کی شاخ قائم ہوئی اس کیلئے سلسلہ کی کتب دی گئیں اور ڈاکٹر وڈ کو بھی ان کے مطالبہ پر لنڈن واپس آکر بھیجیں.انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ جب لنڈن آئیں گے تو ضرور ملیں گے.اس سال لوگوں کی جنگی کاموں میں مشغولیت اور دودھ، چائے، چینی وغیرہ اشیاء کے راشن ہونے کی وجہ سے دار التبلیغ میں حسب دستور سابق لیکچروں کا جاری رکھنا سخت مشکل ہے تا ہم ایام زیر رپورٹ میں تین میٹنگز کی گئیں.پہلی میٹنگ میں تین نئے احمدی نوجوان انگریزوں نے اپنے اسلام اختیار کرنے کے وجو ہات بیان کئے.دوسری میٹنگ میں میر عبدالسلام صاحب نے نئے نظام کے موضوع پر تقریر کی.بعد میں سوال و جواب ہوئے.میں نے میر صاحب کی تقریر کا خلاصہ ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کا ایک صفحہ پڑھ کر سنایا.دو عورتیں نئی آئی تھیں میٹنگ کے بعد ان سے دو گھنٹہ تک توحید باری تعالیٰ اور حضرت عیسی کے متعلق گفتگو ہوئی.ایک تو سن کر حیران ہوگئی اور کہا کہ مجھے آج تک ان باتوں کا پتہ ہی نہیں.دوسری کہنے لگی میں تو Atheist ہوں اپنے مکان پر جا کر ایک نے انجیل پڑھنی شروع کی اور کہا کہ انجیل پڑھنے کے بعد پھر دوبارہ گفتگو شروع کروں گی.الفضل قادیان 27 ستمبر 1942ء) ہائیڈ پارک میں سوال وجواب [ اکتوبر 1942ء میں] متعدد مرتبہ ہائیڈ پارک میں جا کر عیسائی لیکچراروں پر سوالات کئے گئے.ایک
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 368 کیتھولک پادری نے موجودہ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے سائنس کی مذمت کی اور کہا کہ موجودہ سائنس نے تباہ کن آلات مہیا کرنے کے علاوہ دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا اور گورنمنٹ پر بھی نکتہ چینی کی اور کہا کہ جنگ کرنا انجیل کی تعلیم کی خلاف ہے اور مسیح نے لوگوں کو زندگی دی کسی کی زندگی لی نہیں تھی.میں نے اس سے کہا بعض وقت ایک کی زندگی کے بقا کیلئے دوسرے کی ہلاکت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انجیل سے ثابت ہے.مسیح نے ایک پاگل سے بدروحیں نکالیں تو مسیح نے انہیں سوروں کے ایک غول میں جو وہاں نزدیک چر رہا تھا داخل ہونے کی اجازت دی جس کے نتیجہ میں وہ سوروں کا گلہ دریا میں ڈوب کر مر گیا تو ایک انسان کی زندگی کیلئے مسیح نے دو ہزار سوروں کو ہلاک کیا.پھر انجیر کے درخت پر لعنت کر کے اسے ہمیشہ کیلئے خشک اور بے پھل بنادیا حالانکہ پھل نہ دینے میں درخت کا کوئی قصور بھی نہیں تھا کیونکہ وہ پھل کا موسم نہ تھا.پھر اس نے پیلاطوس سے کہا کہ اگر میری بادشاہت اس دنیا کی ہوتی تو میرے شاگرد جہاد کرتے تا کہ میں ان کے سپرد نہ کیا جاؤں.اس سے معلوم ہوا کہ دنیاوی بادشاہت کے قائم رکھنے کیلئے دفاعی طور پر لڑ نا انجیل کی رو سے جائز ہے.وہ کوئی جواب نہ دے سکا.الفضل قادیان 19 نومبر 1942ء)
369.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس $ 1943 مکتوب لنڈن حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد احمد یہ لنڈن 3 جنوری 1943ء کے مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: گزشتہ مکتوب میں میں نے ذکر کیا تھا کہ میں نے آرچ بشپ آف کمینٹر بری کو اسکے ایک بیان کے متعلق جس میں اس نے پولوس کے حکم کے خلاف عورتوں اور لڑکیوں کو ننگے سر گرجوں میں جانے کی اجازت دی تھی ایک خط لکھا تھا مگر ان کی طرف سے اس کا ایک غیر تسلی بخش جواب موصول ہو اتھا.ایام زیر رپورٹ میں سوسائٹی فار دی سٹڈی آف ریچز میں ایک پادری کا لیکچر ہو ا جس میں اس نے کہا کہ عیسائیوں کے چار سو فرقے ہیں.سوالات کے وقت میں نے کہا کہ اب شاید ایک اور بڑھ جائے کیونکہ آرچ بشپ کا جو عورتوں کے ننگے سر گرجوں میں جانے کی اجازت کے متعلق اخبارات میں بیان شائع ہوا ہے.اس پر ایک اصولی سوال ہوتا ہے کہ آیا نئے عہد نامے کے احکام کو منسوخ کرنے کا بشپوں یا اور کسی کو حق حاصل ہے.میں نے جب پولوس کی عبارات پڑھ کر سنائیں کہ عورتوں کو گرجے میں بولنے کی بھی اجازت نہیں ہے اگر وہ کچھ سیکھنا چاہیں تو وہ اپنے گھروں میں اپنے خاوندوں سے پوچھ سکتی ہیں تو اس پر حاضرین ہنس پڑے لیکن میں نے کہا پولوس کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں خداوند کے احکامات ہیں میرے اپنے نہیں.اس پر خاموش ہو گئے صدر نے اپنے ریمارکس میں کہا میرے نزدیک پولوس کے خط اگر نہ لکھے جاتے تو بہتر تھا.ایک مصری طالب علم سے متعدد مرتبہ سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی.یوگوسلاو گورنمنٹ کی بعض میٹنگز میں شامل ہو ا جن میں سے ایک میں کنگ پیٹر بھی موجود تھے.خطوط کے جوابات دیئے گئے.جو دوست ملنے کیلئے آتے رہے ان سے مذہبی مسائل پر گفتگوئیں ہوئیں.چار انگریز نوجوان جو اس سال سلسلہ میں داخل ہوئے ان میں تین تو ائیر فورس میں شامل ہو گئے اور ایک رائل نیوی میں کام کر رہا ہے.جب رخصت پر لنڈن آئیں تو ملنے کیلئے آتے ہیں.آخر میں ان کے نیز دوسرے نومسلموں کیلئے احباب سے دعا کی درخواست ہے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 370 کتاب The way to victory ایک ہزا چھپوائی گئی جس پر معہ ڈاک 42 پونڈ خرچ آیا.اس کی پانچ سوکا پی بذریعہ ڈاک بھیجی گئی.215 ممبران پارلیمنٹ کو لنڈن کے تمہیں اخبارات کو اور انگلینڈ آئر لینڈ کے 93 اخبارات کو.مختلف حکومتوں کے 46 کو نسلوں کو اور اسی طرح اور دوسری سوسائیٹیوں کو مگر اول تو اس کے پہنچنے میں اور پھر اس کے چھپوانے میں ایک ماہ لگ گیا.کرسمس کی وجہ سے اور مزدوروں کی قلت کی وجہ سے اتنا عرصہ لگا اور اس وقت چھپ کر تیار ہوئی جبکہ لیبیا میں جرمن سپاہی بھاگ رہے تھے.(۲) ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن میں ہندوستان کے متعلق تین لیکچر ہوئے ایک سرعزیز الحق ہائی کمشنر فار انڈیا کا.ان کے مضمون میں ہندو مسلم اتحاد پر زور تھا اور دوسرا سر حسن سہروردی کا اس میں پاکستان پر زور تھا.تیسرا مہاراجہ جام صاحب نو انگر کا جنہوں نے فرمایا کہ ریاستوں کا مطالبہ یہ ہے کہ جو معاہدہ بادشاہ اور ریاستوں کے درمیان ہے اسے قائم رکھا جائے.(۳) سرحسن سہروردی نے دو تین دفعہ کھانے پر بلایا اور سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی اور واشنگٹن ارونگ وغیرہ نے اپنی کتب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات دریافت کئے اور Theway to victory کو پڑھ کر کہا کہ ایسے صاف کشوف اہل اللہ کو ہی ہو سکتے ہیں.(الفضل قادیان 12 مئی 1943ء) بچوں اور نو جوانوں کیلئے مذہبی تعلیم کی ضرورت ایام زیر رپورٹ میں جن دوستوں سے مذہبی گفتگو ہوئی ان میں مسٹرلیمبرٹ قابل ذکر ہیں جو ساؤتھ اینڈ سے آئے.انہوں نے حضرت آدم و حوا کی پیدائش اور مسیح ناصری کے بعض اقوال کے متعلق دریافت کیا اور آخر میں کہا کہ اسلام نے پیدائش عالم کے متعلق جو بتایا ہے وہ قابل تسلیم ہے.احمدیت اور تحفہ شہزادہ ویلز خرید کر لے گئے.دوسرے ڈرہم یونیورسٹی (نیو کیسل) کے ایک پروفیسر آئے جو مدارس میں مذہبی تعلیم کے اجراء کے متعلق تجاویز جمع کر رہے ہیں اور اس ضمن میں مجھ سے ملنے آئے.ان کا خیال تھا کہ صرف بچوں کو مدارس میں مذہبی تعلیم دینا کافی ہے بڑوں کو تعلیم دینے کی ضرورت نہیں.میں نے کہا جب تک بڑوں کیلئے تعلیم کا انتظام نہیں کیا جائے گا اور انہیں مذہب کی طرف نہیں لایا جائے گا بچوں کو تعلیم دینا زیادہ مفید نہیں ہوسکتا.جب وہ بڑے ہوں گے تو وہ بھی پہلوں کے نقش قدم پر چلیں گے اور لا مذہب ہوں گے.اس نے کہا جب بچے بالغ ہو جاتے ہیں تو وہ ایسے اعتراضات کرتے ہیں جن کے استاد تسلی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 371 بخش جواب نہیں دے سکتے.میں نے کہا تو یہی حال بچوں کا بھی ہوگا.جن کو آپ مذہبی تعلیم دیں گے وہ بھی بلوغت کو پہنچ کر ویسے ہی اعتراضات کریں گے.آپ جب تک بڑوں کو مذہب پر کار بند کرانے کیلئے موجودہ زمانہ کی مشکلات کا حل اپنی مذہبی کتب سے پیش نہیں کرتے اور ایسا لٹریچر نہیں تیار کرتے جس میں ان اعتراضوں کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہو اس وقت تک بچوں کو مذہبی تعلیم دینا کافی نہیں.اس کے بالمقابل میں نے اسے اپنا نظام اور اسلامی تعلیم کا ہر پہلو میں مکمل ہونا بتایا اور تعلیم و تربیت اطفال کی اہمیت بھی بتائی.اس نے لکھا کہ ملاقات سے بہت فائدہ ہوا اور بچوں کی مذہبی تعلیم دینے کا بہترین طریق جو مجھے معلوم ہوا، وہ یہی ہے کہ بچوں کو مذہبی تعلیم دی جائے اور دعائیں وغیرہ زبانی یاد کرائی جائیں.گرجوں میں باقاعدہ لے جایا جائے.والدین بھی انہیں اپنے ساتھ گرجوں میں لے جائیں اور جب وہ بڑے ہوں تو وہ اپنے مذہب کا دوسرے مذہب سے مقابلہ کر کے جو مذہب صحیح سمجھیں اسے اختیار کریں.سرفضل بائی کریم بائی نے اپنے مکان پر کھانے کیلئے دعوت دی.وہاں ان سے اور ان کے دوصا حبزادوں سے یا جوج ماجوج ، دجال ، عصمت انبیاء، مسیح ناصری کے معجزات اور مسیح موعود علیہ السلام کے کارناموں وغیرہ امور پر تین چار گھنٹہ تک گفتگو ہوئی.جب میں واپس آنے لگا تو انہوں نے کہا کہ اسلام کی تائید میں ہم نے ایسی باتیں پہلے کبھی کسی عالم سے نہیں سنیں آپ نے تو ہم پر بہت احسان کیا ہے اور قادیان کی زیارت کا شوق دلا دیا ہے.سر عزیز الحق ہائی کمشنر فار انڈیا کوئی پارٹی دی گئی جس میں ستر کے قریب حاضری تھی.انہیں ایڈریس بھی دیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے قادیان میں لڑکیوں اور لڑکوں کیلئے عام مروجہ تعلیم کے علاوہ دینی تعلیم کے انتظام پر خوشی کا اظہار کیا اور مسجد کو دیکھ کر کہا کہ خوبصورت اور شاندار ہے.گزشتہ ماہ (اگست ) میں مسجد کو اندر سے پینٹ کرایا گیا جس پر چالیس پونڈ کے قریب خرچ آئے جس میں سے بیس پونڈ ڈاکٹر الحاج عمر سلیمان نے دیئے.جزاہ اللہ احسن الجزاء.ڈیوک آف کینٹ کی اچانک وفات پر جماعت احمدیہ گریٹ بریٹن کی طرف سے تعزیت کا تار بادشاہ، ملکہ کوئین میری اور ڈچس آف کینٹ کو دیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے تاروں کے ذریعہ اس ہمدردی پر شکریہ ادا کیا.تاریں ساؤتھ ویسٹرن سٹار نے شائع کیں اور مڈل ایسٹ ایجنسی نے مڈل ایسٹ میں اشاعت کیلئے بھیجیں.ایام زیر رپورٹ میں لارڈ میئر فنڈ ڈے منایا گیا.تمام معابد سے زخمیوں وغیرہ کیلئے چندہ جمع کرنے کیلئے درخواست کی گئی تھی.مجھ سے بھی مئیر آف وانڈز ورتھ نے بذریعہ چٹھی درخواست کی تھی چنانچہ چندہ جمع
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس کر کے بھیجا گیا جس پر مئیر آف وانڈ زورتھ نے ممبران جماعت کا دلی شکر یہ ادا کیا.372 ایک نوجوان کا قبول اسلام مسٹر سائمن سن سلسلہ میں داخل ہوئے.یہ نو جوان پہلے پہل عزیزم میاں محمد لطیف صاحب فلائنگ آفیسر سے ملے تھے اور انہوں نے ہی مجھے ان کا پتہ دیا تھا.اس وقت سے ان کے ساتھ خط وکتابت ہو رہی تھی.ان کے سوالات کے جواب دیئے جاتے رہے.کتب کا بھی انہوں نے مطالعہ کیا.کچھ مدت سے وہ رائل نیوی میں شامل ہو گئے تھے.دو روز کی چھٹی پر آئے تو اپنی والدہ کو ساتھ لے کر مسجد آئے اور کہا کہ میں جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کیلئے آیا ہوں.انہیں وضو وغیرہ کروایا گیا اور نماز پڑھنا بھی سکھایا گیا.نماز کی کتاب اپنے ساتھ لے گئے ہیں تا وہ عربی میں نماز یاد کر لیں...لنڈن میں عید الفطر کی تقریب حضرت مولانا شمس صاحب لکھتے ہیں : الفضل قادیان 12 فروری 1943ء) ہم نے اور دو کنگ والوں نے 12 اکتوبر 1943 ء بروز سوموار عید کی اور ایسٹ اینڈ والوں نے اتوار کو یعنی 11 اکتوبر کو، اس لئے کہ مکہ میں اس روز عید ہو رہی تھی.میں نے سرحسن سہروردی کو ان کی غلطی پر آگاہ کر دیا اور بتایا تھا کہ روزہ کا آغاز چاند دیکھنے سے ہوتا ہے اور چاند دیکھنے پر عید ہوتی ہے ورنہ تمیں روزے رکھنا ضروری ہے.سوموار کو چونکہ کام کا دن تھا اس لئے بعض احباب رخصت لینے میں کامیاب نہ ہو سکے تاہم حاضری کافی ہو گئی.ٹائمنز میں اعلان چھپ گیا تھا اسے پڑھ کر تین پریس نیوز ایجنسیوں کے نمائیندے آئے اور متعدد فوٹو لئے.مڈل ایسٹ نیوز ایجنسی نے بھی عید کے کوائف اخبارات کو بھیجنے کیلئے لئے اور بی بی سی کے نارتھ امریکن سیکشن نے نیوز میں براڈ کاسٹ کرنے کیلئے میرے خطبہ کا آخری حصہ لیا جس میں گورنمنٹ اور اتحادیوں کی فتح کیلئے دعا کا ذکر تھا.ہمارے بعض فوجی دوست بھی عید کی نماز کیلئے آئے تھے.ساؤتھ ویسٹرن سٹار نے عید کی رپورٹ شائع کی.سرحسن سہروردی نے ایک روز کھانے پر بلایا تھا.دو تین گھنٹہ تک ان سے سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی.حضرت مسیح موعود کا دعویٰ اور دلائل بتائے.نیز عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات اور قرآن مجید کی بعض آیات کی تفسیر بتائی.انہوں نے کہا مجھے بتایا گیا تھا کہ نبوت کا دعویٰ ان کی طرف بعد میں منسوب کیا گیا.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 373 مسٹر جر کا ایک البانین جمعہ کی نماز کیلئے آئے.یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو کنگ روغو کے ساتھ البانیہ سے نکل آئے.مسٹر بدرالدین بانڈ دو دفعہ تشریف لائے.عید پر بھی برائٹن سے آئے.دوسرے دوست بھی وقتاً فوقتاً آتے رہے.سر راما سوامی مد الیار اور جام صاحب آف نو انگر سے ملاقات ہوئی.سر راما سوامی سے عید کے روز آنے کیلئے کہا تھا مگر اس دن وار کیبنٹ کی میٹنگ تھی اس لئے نہ آسکے...عید کی تقریب پر اخبار South Western Star کا تبصرہ عید کی تقریب کے متعلق اخبار South Westem Star نے جو نوٹ لکھا اس کا حصہ پیش ہے: مسلمانوں کا تہوار عید الفطر مسجد ساؤتھ فیلڈز میں منایا گیا جو احباب نماز کیلئے تشریف لائے ان میں پانیر کور کے ہندوستانی دستہ کے لوگ R ASC کے ممبران اور انگریز مسلمانوں کی خاصی تعداد تھی.اس اجتماع میں نماز مسٹر جے ڈی شمس کی اقتداء میں ادا کی...اس کے بعد امام موصوف نے موجودہ جنگ کے متعلق امام جماعت احمدیہ کے بعض رؤیا اور کشوف کی طرف حاضرین کو تو جہ دلائی اور بتایا کہ تمبر 1940ء میں خدا تعالیٰ نے امام جماعت احمدیہ کو جنگ لیبیا کا نظارہ دکھلایا تھا اور ان پر منکشف کیا گیا تھا کہ دشمن برطانوی افواج کو دو یا تین دفعہ دھکیل کر پیچھے ہٹادے گا لیکن آخر کا راسے پسپا کر دیا جائے گا.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس جنگ میں آخر کار اتحادیوں کی فتح اسلام اور بنی نوع کیلئے مفید ثابت ہوگی اس لئے مناسب ہے کہ ہم اپنی دعاؤں میں ان کیلئے فتح طلب کرنا فراموش نہ کریں.بلحاظ ایک مذہبی جماعت کا ممبر ہونے کے ہم گواہ ہیں کہ مذہبی آزادی عطا کرنے میں گورنمنٹ برطانیہ تمام دوسری حکومتوں سے ممتاز درجہ رکھتی ہے.ہم مذہب کو تمام دوسری اشیاء پر فائق یقین کرتے ہیں اس لئے تمام ان حکومتوں کے مرہون احسان ہیں جنہوں نے مذہبی آزادی دے رکھی ہے.نماز کے بعد حاضرین کو پنچ دیا گیا.الفضل قادیان 26 مارچ1943ء) تبلیغی کاوشیں (1) مئی 1943ء میں] کرنل ڈگلس سے خط و کتابت ہوئی.ڈاکٹر یو کے نے ایک کتاب لکھی تھی اس میں اس نے احمدیت کے متعلق بعض باتیں صحیح نہیں لکھی تھیں.کرنل ڈگلس نے انہیں ان کی غلطی بتائی تھی اور اس کے متعلق مجھ سے بعض باتیں جماعت کے متعلق دریافت کی تھیں، ان کے خطوط کی نقول سن رائز کو بھیج چکا ہوں.
حیات ہنس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 374 (۲) مسٹر جعفر طه ملایا کے ایک طالب علم اور ایک انگریز عورت مسجد د یکھنے کیلئے آئے.ان سے گفتگو بھی ہوئی اور بعض اور دوست بھی ملنے کیلئے آئے.(۳) مسٹر ڈلٹن جو شیفیلڈ میں رہتے ہیں وہ لندن میں ملازمت کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے مئیر آف وانڈ زورتھ کو چٹھی لکھی.انہوں نے ٹاؤن کلرک کے ذریعہ محکمہ متعلقہ کو کھوایا ہے.(۴) Mr Tosbef ایک بورڈنگ کے مینجر ہیں جس میں بیرونی ممالک میں کام کرنے والے مشنری وغیرہ آ کر ٹھہرتے ہیں.مسجد دیکھنے کیلئے آئے.دو گھنٹہ تک گفتگو بھی ہوئی اور چند روز کے بعد شکریہ کی چٹھی لکھی تھی.(۵) وانڈ زورتھ جیل میں ایک انگریز نے مسلمان ہونے کی درخواست دی.افسران متعلقہ نے مجھے لکھا میں اس سے جا کر ملا.گفتگو سے معلوم ہوا اسے اسلام کے متعلق کچھ علم نہیں.میں نے کتابیں دیں کہ وہ ان کا پہلے مطالعہ کرے پھر اگر مسلم ہونا چاہتا ہے تو مجھے لکھے.(1) مسٹر لال ڈپٹی ہائی کمشنر نے اپنے مکان پر کھانے کیلئے بلایا.ان کا باور چی مراد آباد کا مسلمان ہے.بعد میں وہ مسجد دیکھنے کیلئے آیا اور بہت خوش ہو ا.اسے ہماری مسجد کا پتہ نہیں تھا.(۷) پندرہ روزہ میٹنگز جاری کی ہیں.پہلی میں مولوی غلام حسن خان صاحب مرحوم و مغفور کے حالات بیان کئے گئے.دوسری میں بنائے اسلام میں سے نماز کے متعلق میر عبدالسلام صاحب نے اور کلمہ کے متعلق میں نے بیان کیا.(۸) ہندوستانی سپاہی جہاں آکر ٹھہرتے ہیں وہاں دو دفعہ گیا.چند سے گفتگو بھی ہوئی.(۹) ایک عورت کو جو بچپن میں مشنری رہ چکی ہے اس کے خطوط کے جواب میں دو لمبے خطوط لکھے جن میں مختلف مسائل پر بحث کی ہے.سن رائز کو کاپیاں بھیج رہا ہوں.London Times میں میرا ایک خط شائع ہوا.(۱۰) ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن کی بعض میٹنگز میں شامل ہوا.ہائیڈ پارک میں ایک روز دوسرے لیکچراروں پر سوالات کئے.سوشل حالات یہاں کے روز بروز خراب ہورہے ہیں.خاکسار : جلال الدین شمس (الفضل قادیان 13 جون 1943ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس مختلف شخصیات کو تبلیغ 375 مکتوب حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس ) [ جولائی 1943ء میں] مسٹر مائیکل جو مسٹرسٹن کے رشتہ دار ہیں ، برسٹل سے آئے.عیسائیت اور اسلام کے متعلق گفتگو ہوئی.ایک رسالہ پڑھنے کیلئے لے گئے.(۲) ایک ہوٹل میں ایک جاوی سے جو حجاز میں دس سال رہ چکا ہے اور جاوا ( انڈونیشیا) میں ہماری جماعت سے بھی واقف ہے عربی میں گفتگو ہوئی اور مسجد کا پتہ دیا نیز ایک ترکی عورت سے بھی.سید رضا شاہ لاہوری نے جو امتحان پاس کر کے ہندوستان واپس جا رہے ہیں خلق عالم اور قصہ آدم و حوا کے متعلق سوالات کئے.جوابات سن کر خوش ہوئے.مسٹر خدا بخش جو آنکھیں بند کر کے پڑھ لیتا ہے سن رہا تھا.اس نے کہا مجھے یہ جوابات سن کر بہت خوشی ہوئی ہے اور بہت سی نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں.(۳) منصور احمد کپڑ ڈ اپنے ساتھ ایک نوجوان لائے جس سے گفتگو ہوئی.منصور نے اس کے متعلق بتایا کہ وہ بہت متاثر ہوا ہے اور اب قرآن مجید کا مطالعہ کر رہا ہے.(۴) سائپرس کے ایک دوست مسجد دیکھنے کیلئے آئے.ایک انگریز عورت سے شادی کی ہوئی ہے جس سے ایک لڑکی بھی ہے.مسجد دیکھ کر خوش ہوئے.Ahmadiyya Movement کتاب بھی خرید کر لے گئے ہیں پھر بھی آنے کا وعدہ کیا ہے.(۵) اشتہار جو چھا پاتا تقریباً دو ہزار تقسیم کیا جا چکا ہے.اپنے علاقہ میں بھی آٹھ سو تقسیم کروایا ہے.(۶) ایک تحریک یہاں ویدا نیت سوسائٹی کی ہے راما کرشنا اس کا بانی ہے.سوامی اور یکتا نندا یہاں دس سال سے کام کر رہا ہے ان کے بعض ممبر میلر وز روڈ میں بھی ہیں.ان کے مکان پر ان کی سالانہ میٹنگ ہوئی تھی.میں نے سیکرٹری کو بھیجا تھا اس نے تقریر سنی.سوامی نے کہا کہ راما کرشنا نے تپتیا کر کے پتہ لگایا ہے کہ اسلام ، عیسائیت، ہندو وغیرہ مذاہب سچے ہیں.ڈاکٹر Shaw اس کے پریذیڈنٹ ہیں انہیں چائے پر بلاؤں گا.یہاں جو مذہبی تحریکیں پائی جاتی ہیں ان میں سے کوئی بھی تو ایسی نہیں جو انہیں اعمال کی طرف بلائے.صرف خیالات ہیں جن کے اختیار کرنے سے انہیں کچھ کرنا نہیں پڑتا لیکن اب ان سب تحریکوں پر جب میں غور کرتا ہوں تو یقین رہتا ہے کہ آخر ایک دن ہمیں ضرور فتح ہوگی کیونکہ یہ سب تحریکیں ایسی ہیں جن کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 376 پچاس صفحہ کی ایک کتاب چھپنے کیلئے دی ہے جس میں سات باب ہیں مختصر طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی تعلیمات اور کامل مذہب پر بحث کی گئی ہے.(الفضل قادیان 3 اگست 1943ء) م Debating Cosmopolitan سوسائٹی میں ایک لیکچر 28 اکتوبر 1943 ء کو مولانا شمس امام مسجد احمد یہ لنڈن نے لنڈن سے تحریر فرمایا: عید الفطر کی رپورٹ اخبار ساؤتھ ویسٹرن سٹار اور اخبار وانڈ زورتھ برونیوز نے تقریباً نصف نصف کالم میں شائع کی.ناٹنگھم Cosmopolitan ڈیبیٹنگ سوسائٹی نے اپنے مطبوعہ پروگرام میں 19 دسمبر کو میرا بھی مضمون لکھا ہے.موضوع اسلام اور عیسائیت ہے وقت چالیس منٹ ہے.پھر دس منٹ سوالات کیلئے ، پچاس منٹ Discussion کیلئے.پھر پندرہ منٹ مجھے سوالات کا جواب دینے کیلئے.پروگرام میں لکھا ہے کہ حاضری چار پانچ سو کے درمیان ہوتی ہے.اجلاسات یونیورسٹی کا لج بانگھم میں ہوتے ہیں.دعا کیلئے درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ پیغام حق کو صحیح رنگ میں پہنچانے کی توفیق بخشے.آمین.ناٹنگھم میں اشتہارات کی تقسیم الفضل قادیان 24 نومبر 1943ء) [ اگست 1943ء میں] مسٹر عبدالعزیز ناٹنگھم گئے.وہاں انہوں نے کئی سو اشتہارات تقسیم کئے.حضرت مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے متعلق میرا ایک مضمون بھی ایک مجمع کو پڑھ کرسنایا اور سوال و جوابات بھی ہوئے.پادری جو وہاں لیکچر دیا کرتے تھے معقول جواب نہ دے سکے.وہاں ایک فلسطینی لڑکے سے بھی ان کی واقفیت ہوئی جو وہاں یو نیورسٹی میں تعلیم پاتا ہے.اس نے کہا کہ میں نے احمدیت کے متعلق سنا تھا.لیکن مجھے بتایا گیا کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہیں مانتے.اس نے کتابوں کے مطالعہ کا شوق ظاہر کیا.میں نے اسے ایک خط بھی عربی میں لکھا اور عربی میں بعض کتابیں بھی بھیجیں جن کا وہ مطالعہ کر رہا ہے.وہاں اور چند کتب بھی چند اشخاص کو دی گئیں.ایک مشنری عورت کو اس کے خطوط کے جوابات میں بعض تفصیلی خطوط لکھے جن کی نقول Sunrise کو برائے اشاعت بھیجی گئی ہیں.ایک مسلمان انگریز مسجد دیکھنے کیلئے آئے جو دو کنگ مسجد سے تعلق رکھتے ہیں کتاب احمدیت مطالعہ کیلئے لے گئے.مصطفیٰ اجمالی سائپرس کے اور ان کی انگریز بیوی معہ اپنی بچی کے دو تین دفعہ آئے.سلسلہ کے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 377 متعلق گفتگو ہوئی.دونوں کتابیں مطالعہ کر رہے ہیں.مصطفیٰ اجمالی نے کہا جب سے میں آپ کے پاس آنے لگا ہوں اپنی بہت کچھ اصلاح کرلی ہے.مسٹر عبدالفتاح ولیم لیگوس کے مسجد دیکھنے کیلئے تشریف لائے.لاء کی سٹڈی کر رہے ہیں کیمبرج میں رہتے ہیں چھٹی پر لنڈن آئے تھے تو ملنے کیلئے آگئے.سرفضل بھائی کریم بھائی نے ایک روز کھانے پر بلایا.سیاسیات کے علاوہ مذہبی امور پر بھی گفتگو ہوئی.سرحسن سہروردی نے بھی ایک روز پنج پر بلایا اور قرآن مجید کی بعض آیات کی تفسیر دریافت کی ، وہ کتاب لکھ رہے ہیں.اسمعیل و دیواک مسلم سوسائٹی کے پریذیڈنٹ ہیں.ان کے والد روسی تھے اور ماں مصری ، انہوں نے ملاقات کیلئے کہا تھا اور احمدیت سے متعلق بعض باتیں دریافت کرنا چاہتے تھے.چنانچہ ایام زیر رپورٹ میں ان سے ملاقات ہوئی.انہوں نے کہا کہ وہ عبدالمجید امام دوکنگ کے ساتھ دو کنگ میں بھی ایک عرصہ تک رہے ہیں.وہ مسلم سوسائٹی کی طرف سے قاہرہ بھی گئے وہاں شیخ الازہر اور جمعیة الشبان المسلمین وغیرہ سے ملے.لیکن چونکہ وہ وونگ کی طرف سے گئے تھے اس لئے انہوں نے مشتبہ نظر سے دیکھا اور کہا کہ آپ قادیانی تو نہیں ہیں نیز کہا کہ انہوں نے مجھے ایک کتاب بھی احمدیت کے خلاف دی لیکن مؤلف کا نام اس پر نہیں تھا اس لئے میں نے کہا جس کے مؤلف کو اپنا نام بھی ظاہر کرنے کی جرات نہیں اس کی باتوں پر اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے اس لئے مجھے خواہش تھی کہ میں کسی احمدی سے احمدیت کے متعلق دریافت کروں کیونکہ عبدالمجید وغیرہ تو بالکل نام تک نہیں لیتے.اس نے سوالات دریافت کئے پہلے نبوت کے متعلق.میں نے کہا ہاں ہم مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں.پھر اس کی تشریح کی.انہوں نے کہا کہ ایسی نبوت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا کوئی انکار نہیں کرنا پڑتا پھر اس میں کیا حرج ہے.پھر غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ ادا کرنے کے متعلق سوال کیا اس کی بھی تفصیل بتائی.پھر یہ کہ گورنمنٹ آپ کی مدد کرتی ہے مسجدیں وغیرہ بنانے میں مدد کی.میں نے تفصیل سے اس کا بھی جواب دیا.میں نے کہا کوئی ثابت تو کرے کہ گورنمنٹ نے ہمیں ایک پیسہ کی بھی مدددی ہو لیکن ان کی اپنی مسجد میں گورنمنٹ کی امداد کی رہین منت ہیں.ابھی کارڈف میں جو مسجد بنی وہ کولونیل آفس کی مدد سے بنی ہے.احمدیت کتاب مطالعہ کیلئے انہیں دی.(الفضل قادیان 8 دسمبر 1943ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس Mr.Jones کا قبول اسلام اور شاہ البانیہ سے ملاقات 378 لنڈن 21 دسمبر 1943 ء.مولوی جلال الدین صاحب شمس لنڈن سے بذریعہ تار اطلاع دیتے ہیں کہ مسٹر جونز نے اسلام قبول کر لیا ہے.البانیہ کے شاہ زوغ سے ملاقات کی اور ایک گھنٹہ تک مذہبی معاملات کے متعلق ان سے گفتگو ہوئی نیز ان کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا گیا.کل ناٹنگھم Cosmopolitan سوسائٹی میں میرا لیکچر ہو ا حاضری کافی تھی.تقریر کے بعد سوال و جواب ہوئے اور یہ سلسلہ قریباً تین گھنٹہ تک جاری رہا.تقریر کا موضوع عیسائیت اور اسلام تھا.اہم مسائل یہ تھے: مغرب میں عیسائیت کے مقابلہ میں اسلامی تمدن ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ، جس کی بناء پر عیسائیت کی ناقص تعلیم اور اس پر اسلام کے تفوق کے متعلق چھ دلائل بیان کئے گئے.اس موقعہ پرلٹر پر بھی تقسیم کیا گیا اور آئندہ مجھے اسلام اور سائنس کے موضوع پر تقریر کرنے کی دعوت دی گئی.(الفضل قادیان 24 دسمبر 1943ء) امیر فیصل خالد سے ملاقات $ 1944 مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ و امام مسجد احمد یہ لنڈن ) [ جنوری 1944ء میں] امیر فیصل خالد نے ڈار چسٹر ہوٹل میں ریسیپشن دیا جس میں میں بھی شامل ہوا.مختلف اشخاص سے گفتگو ہوئی.ایک شامی تاجر مسٹر حفار سے بھی گفتگو ہوئی انہوں نے کہا میں نے آپ کے لیڈر کی یہ تحریک پڑھی ہے کہ اگر انگریز ان سے دعا کیلئے درخواست کریں تو ان کو فتح حاصل ہوگی.میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ نہ کریں تو کیا پھر فتح نہیں ہوگی.میں نے کہا انہوں نے یہ بھی تو اس کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہم ان کی درخواست کئے بغیر بھی ان کی کامیابی کیلئے دعا کرتے ہیں کیونکہ جہاں تک ہمارا علم کام کرتا ہے اسلام اور احمدیت کا فائدہ انہی کی فتح میں ہے البتہ دعا کیلئے درخواست کی صورت میں فتح یقینی ہے.پھر میں نے جنگ کے متعلق حضور کی بعض خوابوں کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا آج کل لوگ خوابوں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 379 وغیرہ کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ ان پر ہنستے ہیں اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ ایسی باتوں کو پیش نہ کیا جائے.میں نے کہا مخالفوں کی ہنسی سے ڈر کر حقائق کو چھوڑ نا کیا عقلمندی ہے.پہلے سب لوگوں نے کب انبیاء کے الہامات اور خوابوں کو مان لیا تھا.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کفار نے یہ نہ کہا.بل قالوا أَضْغَاتْ اَحْلامِ که یه تو پراگندہ خوا میں ہیں اور ہود علیہ السلام کی قوم نے کہہ دیا.ان هذا الا خلاق الأوَّلِينَ.پھر سوچ کر انہوں نے کہا.اضغاث احلام تو سورہ یوسف میں فرعون مصر کی خواب کے متعلق آیا ہے میں نے کہا سورۃ انبیاء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کے کفار کا قول مذکور ہے.پھر میں نے کہا خواب سے اوپر کشف پھر الہام اور مکالمہ الہیہ کا درجہ ہے.یہ لوگ سب کا انکار کرتے ہیں.پھر آپ قرآن مجید کو بھی چھوڑ دیں ان کی ہنسی سے ڈر کر کس چیز کو آپ ان کے سامنے پیش کریں گے نیز سب سے پہلے مذہب کا مقصد اور تعریف معین کرنی چاہیے اگر مذہب سے مراد خدا تعالیٰ تک پہنچنے اور اس کے قرب کے حصول کا راستہ ہے تو پھر قرب الہی کی کوئی علامت بھی ہونی چاہیے اور اس دنیا میں سوائے رویائے صالحہ، کشوف اور مکالمہ الہیہ کے کوئی نہیں ہوسکتی.وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکے.(۲) عیدالاضحی حسب معمول منائی گئی.ہولٹن پریس ایجنسی نے مڈل ایسٹ پریس کو رپورٹ بھیجی.لنڈن پریس میں بھی شائع ہوئی.صوبیدار سلیم اللہ صاحب سکاٹ لینڈ سے عید میں شامل ہوئے.چوہدری عبدالہادی صاحب احمدی سکنہ پنڈوری ضلع کیمبل پور مسجد دیکھنے کیلئے آئے.چوہدری محمد اشرف صاحب بھی تشریف لائے.الفضل قادیان 4 فروری 1944ء) مکتوب بنام سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی حضرت مولانا شمس صاحب نے 29 فروری 1944ء کو حضور کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب ارسال کیا: سیدی و مولائی حضرت امیر المومنین اید کم اللہ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ایک بڑھیا عورت نے لکھا تھا کہ اسلام سے اسے دلچسپی ہے.ڈاکٹر سلیمان کو میں نے اس کے پاس بھیجا تھا.انہوں نے جا کر اس سے گفتگو کی.انہوں نے کہا کہ وہمی سی ہے اور اسے بعض تکالیف بھی پہنچی ہیں جن کی وجہ سے اس کے دماغ پر بھی اثر ہے.اسے لٹریچر بھی بھیج دیا گیا تھا.(۲) مسز لمیسیر میرو ایک ساؤتھ افریقن عورت بھی دو دفعہ آئی.اس سے اسلام کے متعلق گفتگو
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ہوئی.اس نے دو کنگ کا بھی ذکر کیا.میں نے احمدی اور غیر احمدی میں فرق بتایا کہ دوسرے مسلمان اور دیگر مذاہب بیماری کی تو چیخ و پکار کرتے ہیں لیکن ساتھ کہتے ہیں کہ آج کوئی نبی اور مصلح نہیں آسکتا.لیکن احمدی کہتے ہیں کہ خدا نے معالج بھیج دیا ہے.وہ کتابوں کا مطالعہ کر رہی ہے.مسٹر اور مسز جمال بھی آئے جن سے مذہبی گفتگو ہوئی.(۳) حضور کا خطبہ متعلقہ تحریک جدید سال دہم سنایا گیا.46 پونڈ کے اور وعدے ہوئے.(۴) ناصر احمد سکرونران چار نوجوانوں میں سے ایک ہیں جو ڈیڑھ سال ہو اداخل اسلام ہوئے تھے.داخل ہونے کے بعد وہ ائیر فورس میں شامل ہو گئے تھے اس لئے چند مرتبہ ہی میرے پاس آسکے.وہ اب اسکندریہ میں ہیں.انہیں دوستوں کے پتے بھیج دیئے تھے.وہ خط ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں لوگوں کو احمدیت سے ہمدردی نہیں ہے لیکن جواب میں دے لیتا ہوں لیکن دیہاتی ایسی مخالفت نہیں کرتے وہ مصر کے دوستوں سے جا کر ملیں گے.وہ مسجد اور احمدیت کا ذکر لوگوں سے کرتے ہیں.380 (۵) ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اور ان کے بھائی بشیر احمد صاحب ( پسران حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب مہر سنگھ یکے از اصحاب تین سو تیرہ) نے عدن سے انگریزوں کے دینے کیلئے لٹریچر طلب کیا تھا جو انہیں بھیجا گیا.کل رات کو دو بجے صبح بہت سخت ائیر ریڈ ہوئی.اینٹی ائیر کرافٹ گنز بھی غیر معمولی طور پر فائر کر رہی تھیں.ہمارے علاقہ میں کئی بم گرائے گئے.بعض تو چند سو گز کے فاصلہ پر پڑے جن سے مکان ایسے لرزتا تھا کہ گویا گرنا چاہتا تھا لیکن محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی نقصان نہیں ہوا.تین چار جگہ آگ لگی.اتنی بلند تھی کہ سارے علاقے میں روشنی تھی میں نے خود جا کر انہیں دیکھا سڑکیں ٹوٹے ہوئے شیشے سے پر تھیں.بہت سی اموات ہوئیں.جب سے ہوائی حملے شروع ہوئے ہمارے علاقہ میں کوئی نقصان نہ ہوا تھا.حضور سے دعا کیلئے عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے.کیونکہ اس کے سوا کوئی اور بچانے والا نہیں.آمین.الفضل قادیان 4 اپریل 1944 ، صفحہ 2)
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 9966 ، 381 شاہ البانیہ سے ملاقات دسمبر 1943ء میں کنگ زوغوشاہ البانیہ سے جو لندن سے چھپیس میل کے فاصلہ پر رہتے ہیں ، ملنے کیلئے میں گیا.انگلستان میں مساجد، مسلم اتحاد اور احمدیہ موومنٹ کے متعلق ایک گھنٹہ کے قریب ان سے گفتگو ہوئی.” احمدیت حقیقی اسلام ہے اسلامی اصول کی فلاسفی کا فرانسیسی میں ترجمہ اور ”اسلام“ کتابیں انہیں بطور تحفہ پیش کی گئیں جو انہوں نے بخوشی قبول کیں.ان کی ہمشیرہ کو جو پہلے مسجد احمدیہ میں تشریف لائی تھیں ایک حمائل قرآن شریف کی بطور تحفہ دی گئی.مسلم اتحاد کے متعلق انہوں نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ مذہبی لحاظ سے اتحاد ہو پولیٹیکل امور میں بے شک مختلف رہیں.میں نے کہا مذہبی لحاظ سے اتحاد سے کیا آپ کی یہ مراد ہے کہ شیعہ اپنے مخصوص اعتقادات چھوڑ کر اتحاد کی خاطرسنی بن جائیں یا سنی شیعہ بن جائیں ؟ اگر یہ مراد ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فریق اپنے معتقدات کی غلطی سمجھے بغیر اپنے معتقدات چھوڑ کر دوسرے فریق کے معتقدات کو اختیار کرلے گا.تھوڑے سے وقفہ کے بعد انہوں نے جواب دیا کہ یہ واقعی بہت مشکل ہے.پھر میں نے اس تجویز کا ذکر کیا جو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ہند کے سلسلہ میں 1927ء یا 1928ء میں پیش فرمائی تھی کہ ہر فرقہ بے شک اپنے مخصوص اعتقادات رکھے لیکن اقتصادیات اور دیگر معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اعتقادی اختلاف کو آپس میں دشمنی کا سبب نہ بنا ئیں.احمد یہ جماعت کے متعلق میں نے بتایا کہ اس کے بانی مسیح موعود اور مہدی ہیں جن کی آمد کی تمام مسلمان انتظار کر رہے تھے.انہوں نے پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ میں نے کہا ہمارا مذہب اسلام ہے ہم حنفی شافعی وغیرہ کسی فرقہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہیں کرتے.ہماری جماعت میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے لوگ داخل ہوتے ہیں.پہلے ان میں سے کوئی شیعہ تھا، کوئی سنی کوئی وہابی، کوئی حنفی اور شافعی.غرضیکہ احمد یہ جماعت میں مختلف فرقوں کے لوگ ایک بن جاتے ہیں.آخر میں انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کی ملاقات سے بہت خوشی ہوئی ہے اور بہت سی نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں.ناٹنگھم میں لیکچر 29 دسمبر بروز اتوار میں نا تھم گیا.برادرم عبدالعزیز بھی ساتھ تھے.ناٹنگھم کاسمو پوٹین ڈیبیٹنگ سوسائٹی نے اپنے مطبوعہ پروگرام میں میرے لیکچر کا اعلان کیا تھا.لیکچر گاہ یو نیورسٹی ہال تھا.چونکہ انفلوئنزا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 382 کا ان دنوں زور تھا اس لئے حاضری دوسو سے کچھ زائد ہوئی.پہلے چالیس منٹ میں میں نے اسلام اور عیسائیت کے موضوع پر پرچہ پڑھا.اس کے بعد حاضرین نے سوالات کئے جن کے میں نے جوابات دیئے.پہلا سوال جو ایک انگریز نے کیا یہ تھا کہ آپ ہمیں یہاں وعظ کرنے کیلئے آئے ہیں پہلے ہندوستان جائیں اور وہاں کی حالت درست کریں.دیکھیں بنگال میں کتنے لوگ بھوکے مررہے ہیں.میں نے کہا میں یہاں آپ کو مادی خوراک تو دینے کیلئے نہیں آیا بلکہ روحانی خوراک دینے کیلئے آیا ہوں.تم لوگ ہندوستان گئے تاکہ ہندوستان کی مادی حالت درست کرو اور اس کا نتیجہ وہ ہے جو بنگال میں نظر آرہا ہے.اس پر حاضرین نے چیئر ز دیئے اور سائل بہت شرمندہ ہوئے.سوالات ، تعدد ازدواج ، اسلام میں جبر، عدم ضرورت مذہب وغیرہ تھے.پھر پچاس منٹ ڈسکشن ہوئی.دس اشخاص پانچ پانچ منٹ بولے.Discussion میں میرے جوابات کی روشنی میں ایک شخص نے کہا کہ تعدد ازدواج کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اور ایک نے کہا کہ ہمیں آج معلوم ہوا ہے کہ مذہب بھی مدلل اور عقلی باتیں پیش کرتا ہے.Discussion کا میں نے پندرہ منٹ میں جواب دیا.منتظمین میں سے ایک نے کہا پہلے کسی مذہبی شخص نے اس طرح سوالات کے جوابات نہیں دیئے.پہلے ایک بشپ نے یہاں تقریر کی تھی اس کی سوال کرنے والوں نے خوب خبر لی اور وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکا مگر آپ کے جواب معقول اور ٹو دی پوائنٹ تھے.سیکرٹری نے کہا ہم آپ کو پھر بھی اسلام اور سائنس کے موضوع پر بولنے کیلئے بلائیں گے.ایک انگریز کا قبول اسلام مسٹر آر جونز وانڈ زورتھ جیل میں قید ہیں.گورنر قید خانہ نے لکھا تھا کہ وہ اپنے مذہب کو بدلنا چاہتا ہے.میں نے اس کے جواب میں کتب بھیجیں کہ وہ پہلے ان کا مطالعہ کرے.ان کے مطالعہ کے بعد مسٹر جونز نے لکھا کہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے.میں وہاں گیا اور اس سے گفتگو کی اور اس نے اسلام قبول کر لیا.سرکاری کاغذات میں بھی اس کے مذہب کی تبدیلی کروائی گئی.اللہ تعالیٰ اسے اپنی زندگی کو اسلام کے احکام کے مطابق بنانے کی توفیق بخشے.آمین.ماہ اپریل میں وہ قید خانہ سے باہر آئیں گے اور فوج میں داخل ہوں گے.میجر نارتھ فیلڈ وائنڈز ورتھ جیل کے ڈپٹی گورنر ہیں.جب میں مسٹر جونز کو دیکھنے گیا تو ان سے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 383 ملاقات ہوئی.وہ ہندوستان میں بھی رہ چکے ہیں اور عربی ممالک میں پندرہ سال کے قریب رہے ہیں انہوں نے دوران گفتگو میں اسلام کے متعلق کتب کے مطالعہ کرنے کا شوق ظاہر کیا.چنانچہ میں نے انہیں پہلے اسلام کتاب بھیجی جس کے جواب میں وہ شکر یہ ادا کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے کتاب کو پڑھنا شروع کر دیا ہے.کتاب دلچسپ ہے.میں کسی روز مسجد دیکھنے کیلئے بھی آؤں گا.ناٹنگھم والی میٹنگ میں ہم نے قبر مسیح اور ساؤتھ افریقہ کی فتح کے متعلق پیشگوئیوں والے اشتہارات حاضرین میں تقسیم کئے.بعض کو اسلام کے نسخے بھی دیئے چونکہ اس سوسائٹی کے اکثر ممبر دہریہ ہیں.انہوں نے کہا یہ بات کہ میسج مر گئے اور کشمیر میں دفن ہیں، زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے.ایک شخص نے ناٹنگھم سے دونوں اشتہار پڑھ کر لکھا کہ مجھے اب اس امر کا شوق ہے کہ میں اور لٹریچر پڑھوں.آپ مجھے کتابیں بھیج دیں میں قیمت ادا کر دوں گا.چنانچہ اسے مناسب لٹریچر بھیجا گیا..اشاعت دین کیلئے مساعیہائے جمیلہ الفضل قادیان 10 مارچ 1944ء) مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد احمد یہ لنڈن 19اپریل 1944ء کی چٹھی میں تحریر فرماتے ہیں: چرچ کے سات اخبارات و رسائل کے ایڈیٹروں کو ”اسلام“ کے نسخے برائے ریویو بھیجے.سوسائٹی فار دی سٹڈی آف ریچز کی طرف سے جو سہ ماہی رسالہ شائع ہوتا ہے اس کے ایڈیٹر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس پر ریویو شائع کریں گے.پارلیمنٹ کے بعض ممبروں کو بھی ” اسلام کے نسخے بھیجے گئے.The people ہفتہ وار اخبار میں معراج کے متعلق غلط بیانی کی گئی تھی اس کے متعلق ایڈیٹر کو خط لکھا کہ نامہ نگار نے جو کہانی قرآن کریم کی طرف منسوب کر کے لکھی ہے وہ قرآن مجید میں کہیں مذکور نہیں نامہ نگار کو چاہیے کہ یا تو وہ قرآن مجید کی سورۃ اور آیت بتائے یا اپنے غلط بیان کی تصیح کرے.یوگوسلاویہ کے بادشاہ پیر اول کی شادی شاہزادی الیگزنڈرا سے ہوئی.اس موقعہ پر جماعت احمد یہ انگلستان کی طرف سے مبارک باد کا تار دیا گیا جس کے جواب میں پرائیویٹ سیکرٹری نے بادشاہ اور ملکہ کی طرف سے بذریعہ تارشکریہ ادا کیا.اس شادی کی تقریب پر انہیں کلیئر ج ہوٹل میں ریسیپشن دیا گیا جس میں میں مدعو تھا.منتظمین نے ینگ پیٹر سے مجھے انٹرویو کرایا نیز یوگوسلاویہ کے منسٹر آف ٹرانسپورٹ سے بھی گفتگو ہوئی.مسٹروٹسن جو ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں، ان سے نیز دوسروں سے ملاقات ہوئی.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ہائیڈ پارک میں مباحثہ 384 برادرم عبد العزیز صاحب نے ہائیڈ پارک میں ایک عیسائی لیکچرار مسٹر گرین سے سوالات کئے اور ان سے مباحثہ طے کیا.مسٹر گرین چونکہ مسیح کی الوہیت کے قائل نہیں صرف نبی مانتا تھا اس لئے میں نے ان سے کہا چونکہ آپ مسیح کو صرف نبی مانتے ہیں اور ہم بھی انہیں نبی تسلیم کرتے ہیں اس لئے آنحضرت ﷺ کی نبوت کے متعلق اختلاف رہ جاتا ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کیلئے جو پیشگوئیاں بائبل میں پائی جاتی ہیں ان پر بحث ہو.میں پیشگوئیاں پیش کروں گا آپ تردید کریں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صادق نہیں آتیں یا یہ کہ ان کا مصداق مسیح ہے.کل وقت مباحثہ دو گھنٹے قرار پایا اور تقریر پندرہ پندرہ منٹ کی.چنانچہ گزشتہ 6 اپریل کو چھ بجے شام سے آٹھ بجے تک مباحثہ ہوا.میں نے تین پیشگوئیاں ذکر کیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انہیں چسپاں کیا.استثنا باب اٹھارہ کی پیشگوئی میں جن سات علامات کا ذکر ہے ان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں پورا ہونا ثابت کیا.مسٹر گرین نے اپنی تقریر میں اس کو مسیح پر چسپاں کرنے کی کوشش کی اور مسیح کے متعلق دوسری پیشگوئیاں بیان کیں.میں نے جواب میں کہا مسیح کو تو ہم بھی مانتے ہیں ان کی نبوت تو آج زیر بحث ہی نہیں اس لئے غلط بحث سے بچنے کیلئے مسٹر گرین کو چاہیے کہ وہ میری پیشگوئیوں پر بحث کریں.پھر میں نے چھ وجوہ بیان کیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اس پیشگوئی کے مصداق نہ تھے.وہ کوئی معقول جواب نہ دے سکا.مباحثہ کے اختتام پر حاضرین نے سوالات کئے جن کے جوابات دیئے گئے.اس میں حضرت مسیح موعود کی آمد اور مسیح کے صلیبی موت نہ مرنے کا بھی ذکر آیا.ایک انگریز نے دریافت کیا کہ آپ نے یہ ذکر کیا ہے کہ اس زمانہ میں بھی نبی آیا ہے لیکن مسلمان تو محمد ﷺ کے بعد نبیوں کا آنا بند سمجھتے ہیں.میں نے کہا یہ ان کی غلطی ہے نبوت ایک نعمت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحانی نعمتوں کا دروازہ بند کرنے کیلئے نہیں آئے تھے بلکہ کھولنے کیلئے آئے ، ان کی اتباع سے نبوت کا انعام بھی مل سکتا ہے.اس نے کہا It is a very good idea کہ یہ تو بہت ہی عمدہ خیال ہے.مباحثہ کے اختتام پر حاضرین میں سے بعض نے علی الاعلان کہا کہ ہم آپ کو مبارک دیتے ہیں کہ آپ نے بہت اچھا مباحثہ کیا مسٹر گرین جواب نہیں دے سکا.حاضرین میں سے بعض کو مزید تحقیقات کا شوق ہوا چنانچہ ان میں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 385 سے مسٹر ٹامس اور ان کی لڑکی لندن کے مشرقی حصہ سے مسجد میں تشریف لائے اور انہوں نے مباحثہ کا ذکر کر کے کہا کہ ہم نے ایسی باتیں پہلے نہیں سنی تھیں.مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے متعلق بھی اس نے کہا کہ یہ خیال عمدہ معلوم ہوتا ہے مزید لٹریچر چاہتا ہوں.ان سے ایک گھنٹہ تک گفتگو ہوئی اور انہیں لٹریچر دیا گیا.اخویم سیٹھ محمد اعظم صاحب کے ماموں زاد بھائی عزیزم اکبر حسین احمد صاحب جو Heaven Boys سکیم کے ماتحت ٹیکنیکل ٹریننگ حاصل کرنے کیلئے انگلستان آئے ہیں گزشتہ اتوار و مسجد دیکھنے کیلئے تشریف لائے.ایک روز قیام کیا اور باغیچہ وغیرہ کی درستی کے متعلق بھی مدددی نیز انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر اتوار کو مسجد آیا کریں گے.ہائیڈ پارک میں مذہبی مباحثات الفضل قادیان 4 جون 1944ء) اسلام کی صداقت اور عیسائیت کے نقائص پر ایک انگریز سے گفتگو انگریز سامعین کی بہت بڑی اکثریت نے احمدی مبلغ کے حق میں ووٹ دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائبل میں پیشگوئیاں کیا موجودہ اناجیل الہامی ہیں؟ (حضرت مولا نا جلال الدین صاحب شمس) پہلا مباحثہ 14 اپریل کو ہوا.وقت چھ بجے شام سے آٹھ بجے تک تھا.مضمون پہلا ہی تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بائبل میں پیشگوئیاں.میں نے استثناء باب 18 کی پیشگوئی کے علاوہ دوسری پیشگوئیاں پیش کیں لیکن مسٹر گرین نے بجائے ان پر بحث کرنے کے دوزخ و جنت کی بحث شروع کر دی.قرآن مجید سے دوزخیوں کی سزا بیان کر کے کہنے لگا کہ دیکھو مسلمانوں کا خدا کیسا خوفناک اور خطرناک ہے.میں نے کہا کہ مسٹر گرین اصل موضوع بحث سے دور جارہے ہیں.دوزخ کے متعلق تو انجیل میں بھی ذکر ہے میں نے وہ آیات پیش کیں جن میں لکھا ہے کہ مسیح جب دوبارہ آئے گا تو نافرمانوں کو ہمیشہ کی آگ میں ڈالے گا اور وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا وغیرہ.کیا وہ خدا رحیم و غفور ہوسکتا ہے جو بغیر انتقام لینے کے کسی کا گناہ نہیں بخش سکتا اور اپنے غفور و رحیم ہونے کا ثبوت یہ دیتا ہے کہ
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 386 اپنے معصوم و بے گناہ بیٹے کو نہایت بے دردی اور بے رحمی سے ظالمانہ طور پر قتل کر دیتا ہے.لیکن قرآن کہتا ہے.قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً (الزمر:54) حاضرین پر بہت اچھا اثر ہوا.کیا موجودہ انا جیل الہامی ہیں؟ دوسرا مباحثہ 21 اپریل کو ہوا.موضوع مباحثہ انا جیل تھیں کہ آیا ان میں جو کچھ لکھا ہے وہ درست اور الہامی ہے.مسٹر گرین نے اپنی پہلی تقریر میں مختلف لوگوں کی شہادات پیش کیں کہ انا جیل کب لکھی گئیں اور کس نے لکھیں.ان کی شہادتوں میں بھی اختلاف پایا جاتا تھا.انہوں نے ہمیں منٹ اس پر صرف کئے.میں نے کہا آپ بتا ئیں موجودہ انا جیل میں جو کچھ لکھا ہے کیا وہ درست اور الہامی ہے؟ اس نے کہا ہاں درست ہے اور پرانے عہد نامہ کے بالکل مطابق ہے.اس پر میں نے اپنی تقریر میں یسوع مسیح کے نسب نامہ مندرجہ متی پر سترہ اعتراضات کئے اور اس کی غلطیاں بتائیں اور پرانے عہد نامہ سے اس کی مخالفت ثابت کی.وہ ان میں سے ایک اعتراض کا بھی جواب نہ دے سکے اور کہنے لگے ان کے جواب کیلئے تیاری کی ضرورت ہے اور ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں کہ قرآن میں لکھا ہے انجیلوں پر ایمان لا ناضروری ہے.میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ ہم متی یا لوقا یا مرقس یا یوحنا کی تحریرات پر ایمان لائیں ورنہ مسٹر گرین بتائیں کہ کس آیت میں متنی یا مرقس وغیرہ کا ذکر ہے.پھر میں نے پرانے عہد نامہ اور نئے عہد نامہ کے مخالف بیانات پیش کئے نیز انا جیل کے آپس کے اختلافات بتائے وہ ان کا بھی جواب نہ دے سکے.حاضرین سمجھ گئے کہ مسٹر گرین جواب نہیں دے سکتے.میں نے اپنی آخری تقریر میں کہا کہ مسٹر گرین کہتے ہیں کہ میرے سوالات کے جوابات کیلئے انہیں تیاری کی ضرورت ہے لہذا میں انہیں وقت دینے کو تیار ہوں.آئندہ جمعہ کو جو مباحثہ ہو وہ انہی سترہ سوالات کے متعلق ہو جو میں نے یسوع مسیح کے نسب نامہ مندرجہ متی پر کئے ہیں.آٹھ دن میں وہ جواب تیار کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ پہلا مضمون پیشگوئیوں کے متعلق ابھی مکمل نہیں ہوا تھا جو مسٹر شمس نے دوسرا مضمون شروع کر دیا.میں نے کہا دونوں کی رائے سے یہ موضوع قرار پایا تھا.پیشگوئیوں کے متعلق دو روز مباحثہ ہو چکا ہے اور حاضرین نے دونوں کے خیالات سن لئے ہیں اور وہ اس سے خود نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ کس کے دلائل زبردست ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس حاضرین کی کثرت احمدی مبلغ کیلئے 387 حاضرین میں سے ایک نے کہا کہ ووٹ لئے جائیں.جب یہ دریافت کیا گیا کہ جو سمجھتے ہیں کہ پیشگوئیوں پر کافی بحث ہو چکی ہے وہ ہاتھ اُٹھا ئیں اس پر بہت سے حاضرین نے ہاتھ اٹھائے.مسٹر گرین نے کہا کہ یہ تو یکطرفہ رائے ہوئی.میں نے کہا اچھا جو اس کے مخالف ہیں وہ ہاتھ اٹھا ئیں تو صرف ایک نے ہاتھ اٹھایا.پھر میں نے کہا کہ اگر چہ مسٹر گرین نے آج کے سوالات کے متعلق کہا تھا کہ ان کے جوابات کی تیاری کیلئے وقت چاہیے اور میں نے کہا اگلے جمعہ تک مسٹر گرین تیاری کر کے جواب دیں مگر وہ پھر بھی جوابات دینے کیلئے تیار نہیں ہیں اور پیشگوئی مندرجہ استثناء باب 18 پر پھر بحث کرنا چاہتے ہیں.حاضرین گو میرے خیال سے کہ اس پر کافی بحث ہو چکی ہے متفق ہیں تا ہم مسٹر گرین کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے میں یہ امر منظور کر لیتا ہوں کہ آئندہ اس پیشگوئی پر بحث ہو.مباحثہ کے اختتام پر مصری سفارت خانہ کے ایک دوست مسٹر احمد کمال ملے اور انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ پھر بھی اس مباحثہ کو سننے کیلئے آئیں گے.استثناء باب اٹھارہ کے مصداق تیسرا مباحثه بروز جمعہ 28 اپریل کو ہوا.مسٹر گرین نے پہلے تو استثناء باب 18 کی پیشگوئی کے متعلق بیان کیا کہ اس کا مصداق یسوع مسیح ہیں.میں نے جواب میں اس کی تمام وجوہ کی تردید کی اور پیشگوئی کا اصل مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرار دے کر آٹھ وجوہ اس امر کے ثبوت میں پیش کئے.مسٹر گرین نے دوسری تقریر میں حسب عادت اصل موضوع کو چھوڑ کر کفارہ وغیرہ امور بیان کئے اور قرآن مجید کی آیت وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضِ (النساء: 151 ) کا ترجمہ ولیم میور کی کتاب سے یہ بتایا کہ بعض حصہ کتاب کا مانتے ہیں اور بعض حصہ کا انکار کرتے ہیں.میں نے پوری آیت پڑھ کر بتایا کہ اس میں خدا اور رسولوں پر ایمان و انکار کے لحاظ سے لوگوں کی اقسام بتائی گئی ہیں.مسٹر گرین میرے پیش کردہ دلائل کا جواب نہ دے سکے لیکن کہا کہ یسوع مسیح نے پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد جھوٹے نبی آئیں گے لہذ امحمد سچے نہیں ہو سکتے (نعوذ باللہ من ذالک ).میں نے دریافت کیا کیا سچے نبی بھی ہوں گے ؟ اس نے کہا کہ ہاں.میں نے انجیل متی سے بتایا کہ یہ جھوٹے نبی جن کے متعلق مسیح نے پیشگوئی کی تھی وہ عیسائیوں میں سے ہونے تھے جنہوں نے مسیح کے نام پر نبوت کرنی تھی اور شاگردان مسیح نے اپنے خطوط
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 388 میں ان کے ظاہر ہو جانے کا اقرار کیا ہے اور مسیح نے خود بچے اور جھوٹے نبی کی شناخت کا جو معیار بتایا ہے وہ یہ ہے کہ اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور برا درخت برا پھل.لہذا تم انہیں ان کے پھلوں سے پہچانو گے جو درخت برا پھل لاتا ہے وہ کاٹا جاتا ہے اور آگ میں ڈالا جاتا ہے.دوسرے مقام پر انہوں نے فرمایا وہ پودا جسے میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایا وہ جڑ سے اکھیڑا جائے گا.اس معیار کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور انہیں مطابق پیشگوئی استثناء باب 18:18 اور وعدہ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس (المائده: 68) کوئی شخص قتل نہ کر سکا اور آپ کا سلسلہ دنیا میں پھیل گیا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مسٹر گرین کے عقیدہ کے مطابق اس معیار کی رو سے یسوع مسیح سچے نبی بھی ثابت نہیں ہوئے کیونکہ اس کے نزدیک وہ قتل کئے گئے.گویا درخت کاٹا گیا.پھر مسیح نے کہا وہ آگ میں ڈالا جاتا ہے اور مسٹر گرین کے عقیدہ کے مطابق مسیح صلیب پر مرنے کے بعد دوزخ میں ڈالے گئے.اس پر بعض عیسائی حاضرین بول پڑے کہ آپ تو ان کو نبی مانتے ہیں.میں نے کہا بے شک میں انہیں نبی مانتا ہوں اس لئے میرا عقیدہ ہے کہ وہ صلیب پرلعنتی موت نہیں مرے بلکہ طبعی وفات پائی.کیا مسیح مرنے کے بعد جی اٹھا ؟ مسٹر گرین نے مسیح کی پیشگوئی کا ذکر کیا کہ وہ مرنے کے بعد جی اٹھے گا اور یہ کہ اسی غرض کیلئے وہ آیا تھا.میں نے انجیل یوحنا سے بتایا کہ شاگردوں کو تو اس کے متعلق کوئی علم ہی نہیں تھا کہ وہ مرنے کے بعد جی اٹھے گا.اس پر مسٹر گرین نے حیران ہو کر حوالہ طلب کیا جو دکھایا گیا.سوالات کے وقت ایک شخص نے پورے وثوق سے کہا کہ مسیح نے حضرت یحیی کا نام لے کر یہ نہیں کہا کہ وہ آنے والا ایلیا ہے اسے بھی حوالہ دکھایا گیا جس سے وہ متاثر ہوا.پھر ایک یہودی نے سوال کیا کہ اسمعیل حضرت ابراہیم کے بیٹے نہیں سمجھے گئے تھے صرف اسحاق کو بیٹا قرار دیا گیا اور یہ کہ موسیٰ سب سے بڑے نبی تھے اور استثناء کے آخری باب کی یہ آیت بھی پیش کر دی کہ اسرائیل میں اب تک موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا جس سے خدا نے منہ درمنہ بات کی ہو.میں نے پیدائش سے حوالہ بتایا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے حضرت اسمعیل کے متعلق یہ کہا کہ میں اسے برکت دوں گا کیونکہ وہ تیری نسل ہے.پھر ختنہ عہد کی علامت تھی اور حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمعیل کا ختنہ کرا کر ثابت کر دیا کہ وہ بھی عہد میں شامل تھا.پس حضرت اسمعیل کی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 389 اولا د بابرکت اور ایک بڑی قوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور سے ہوئی.استثناء کی آیت کے متعلق میں نے کہا کہ اس سے تو میر امد عا ثابت ہوتا ہے کہ موسیٰ کی مانند نبی بنی اسرائیل سے نہیں ہوگا ور نہ یہ آیت بے معنی ہو جائے گی.پس حضرت موسی کی مانند بی بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل سے ہونا تھا.چنانچہ مسیح نے فیصلہ کر دیا کہ اس کے بعد اسرائیل سے آسمانی بادشاہت یعنی نبوت چھین لی جائے گی اور دوسری قوم کو دی جائے گی یعنی بنی اسماعیل کو.چنانچہ ایسا ہی ہوا.زندہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مباحثہ اور سوالات ختم ہونے کے بعد ایک لیڈی نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور باقی سب نبی مردہ ہیں صرف یسوع مسیح آسمان پر زندہ ہے.میں نے کہا یسوع مسیح مردہ ہیں اور ان کی قبر کشمیر میں موجود ہے.آپ ہندوستان جائیں اور اس کی زیارت کریں.اس نے کہا نہیں ہمارا خداوند آسمان میں ہے وہ خدا کا بیٹا ہے وہ جب آئے گا تو دنیا میں امن قائم ہو جائے گا.میں نے کہا جیسی پہلی آمد کے وقت ہو ا تھا.اس نے تو دوبارہ آمد کے متعلق بھی یہی کہا ہے کہ نہ ماننے والوں کو ہمیشہ کی آگ میں پھینکا جائے گا اور لکھا ہے کہ ابن آدم آئے گا اور وہ آچکا ہے.اصل میں تمہیں یسوع مسیح پر ایمان نہیں ہے.کہنے لگی کیسے اس نے تو ہمارے لئے قربان ہو کر ہمیں گنا ہوں سے نجات دی.میں نے کہا ایسا باپ جو اپنے معصوم اکلوتے بیٹے کو بے دردی سے ذبح کرے وہ رحیم ومشفق باپ نہیں ہوسکتا.خدا نے تو ابراہیم کو بھی اپنا فرزند ذبح کرنے سے روک دیا تھا.پھر وہ خود ایسی بے رحمی کا مظاہرہ کیوں کر سکتا تھا.میں نے کہا آپ بتائیں کہ کیا خدا بغیر اس قربانی کے لوگوں کے گناہ معاف کر سکتا تھا یا نہیں.اس نے کہا نہیں یہ ممکن نہ تھا.میں نے کہا دیکھا تمہیں یسوع مسیح پر ایمان نہیں ہے.اس نے تو کہا اے خدا لوگوں کے نزدیک تو یہ ناممکن ہے مگر تجھے ہر ایک قدرت ہے تو جو چاہے کر سکتا ہے.آخر میں اس نے کہا.You don't know nothing ( یہ غلط محاورہ ہے جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے ).میں نے کہا بالکل ٹھیک Because nothing cannot be known; but I.know something وہ بہت متاثر ہوئی.بعد میں ایک فلسطینی طالب علم سے ملا اس نے پوچھا آپ ووکنگ سے ہیں؟ میں نے اپنا پتہ بتایا.اس نے کہا میں مسجد کسی جمعہ کو آؤں گا.جب عربی میں باتیں ہوئیں تو اس نے بتایا کہ وہ قاضی یا کہا مفتی کا بیٹا ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 390...برادرم عبد العزیز صاحب اور عبدالوہاب خان صاحب نے ہائیڈ پارک سے باہر اشتہارات تقسیم کئے.ان مباحثات کو سن کر مندرجہ ذیل اشخاص تحقیقات کیلئے آئے.مسٹر اور مس ٹامس ،مسٹر سٹائن ،مسDod اور مسٹر Oldham جن سے مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی اور لٹریچر مطالعہ کیلئے دیا گیا نیز ڈاکٹر ہاورڈ ایڈیٹر رسالہ Thoughts آیا جس سے مسیح کے نزول اور الیاس کے مثیل یوحنا ہونے وغیرہ کے متعلق گفتگو ہوئی.گذشتہ ایام میں چند مرتبہ ائیر ریڈ ہوئے مگر ہمارے ڈسٹرکٹ میں کوئی نقصان نہیں ہوا.الفضل قادیان 29 جون 1944ء) ہائیڈ پارک میں صداقت اسلام پر مزید مباحثات حضرت مولوی جلال الدین شمس امام مسجد احمد یہ لنڈن تحریر فرماتے ہیں : مسٹر گرین سے ایک اور مباحثہ 4 مئی کو ہائیڈ پارک میں پھر مباحثہ ہوا.موضوع قرآن و انجیل کی تعلیم کا مقابلہ تھا.میں نے قرآن مجید سے ان اصولوں کا ذکر کیا جن سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور مختلف قوموں اور مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے.میرے مد مقابل مسٹر گرین نے مسیح کی آمد کے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ جب وہ دنیا میں آئیں گے تو امن قائم ہو جائے گا نیز کہا کہ دفاعی جنگ بھی نہیں کرنی چاہیے.میں نے قرآن مجید سے جنگ کے متعلق اصول بیان کئے جس کا حاضرین پر اچھا اثر ہوا.ایک شخص نے جو معزز اور سمجھدار معلوم ہوتا تھا مجھ سے یہ کہتے ہوئے مصافحہ کیا کہ گو میں عیسائی ہوں لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی تقریر بہت پسند آئی ہے.جب میں نے اسلام کی تعلیم عفو و غیرہ کے متعلق بیان کی تو بعض کہنے لگے یہ تو بالکل ہماری تعلیم کی طرح ہے.نیز میں نے انجیل سے بتایا کہ مسیح جب دوبارہ آئے گا تو وہ لوگوں سے کیسا معاملہ کرے گا.وہ تو مخالفوں کو ہمیشہ کی آگ میں ڈالے گا.مسٹر گرین نے کہا.قرآن میں لکھا ہے کہ کافروں کو قتل کرو.میں نے کہا جب مسٹر گرین پوری آیت پیش کریں گے تو میں اس کا جواب بھی اسی آیت سے دوں گا.اگر یہ حکم عام ہوتا تو پھر مصر، شام، فلسطین وغیرہ ممالک میں عیسائیوں کا کوئی فرد نہیں پایا جانا چاہیے تھا.بھلا کیا یہ درست ہے کہ کوئی شخص مسیح کے اس قول کو پڑھے.یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں اور کہے کہ انہوں نے تو خونریزی کی تعلیم دی.حاضرین میں سے بعض نے کہا یہ بالکل ٹھیک ہے ایسا استعمال درست نہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس پہاڑی وعظ کا قرآن مجید کی تعلیم سے مقابلہ 391 دوسرا مباحثہ 12 مئی کو ہوا.موضوع مباحثہ پہاڑی وعظ کا قرآن مجید کی تعلیم سے مقابلہ تھا لیکن اصل موضوع پر بحث شروع کرنے سے پہلے مسٹر گرین نے قرآن مجید سے کفار کے قتل کے متعلق آیات پڑھیں.میں نے انہی آیات سے ثابت کر دیا کہ ان میں قتل کا حکم ان کافروں کے متعلق ہے جو میدان جنگ میں لڑنے کیلئے آئے اور پہلے حملہ آور ہوئے.غرضیکہ اسلام دفاعی جنگ کو جائز قرار دیتا ہے اور آج تمام مہذب اقوام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم کی پیروی کر رہی ہیں اور عیسائیت کی تعلیم کی اپنے عمل سے پر زور تردید کر رہی ہیں.عقل مند اقوام ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کی پیروی کریں گی.مسٹر گرین نے پہاڑی وعظ سے صرف یہ بات پیش کی : تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمن سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کیلئے دعا مانگو اور کہا کہ یہ سب تعلیموں سے افضل تعلیم ہے.میں نے قرآن مجید سے ہمسایہ سے محبت اور دشمنوں سے نیک سلوک کی تعلیم بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کئے : ا.یہ قول کہ کہا گیا تھا کہ دشمن سے عداوت رکھو.کسی جگہ پرانے عہد نامہ میں مذکور نہیں ہے.۲.انسانوں کا سب سے پہلا اور بڑا دشمن شیطان ہے.کیا شیطان سے محبت رکھنی چاہیے؟.یسوع مسیح نے اس کے خلاف خود کہا: اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دشمنی نہ کرے تو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا.جو لفظ دشمن کا پہلے قول میں مذکور ہے بعینہ وہی لفظ اس جگہ استعمال ہوا ہے گویا مطلب یہ ہوا کہ اپنے بچوں اور بھائیوں اور بہنوں سے دشمنی رکھو مگر دشمنوں سے محبت.۴.ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کہاں تک یسوع مسیح نے خود اس اصل پر عمل کیا.اس پر میں نے ان کے سخت الفاظ کا ذکر کیا جو انہوں نے فقیہوں اور فریسیوں کے متعلق استعمال کئے.وہ ان سوالوں میں سے کسی ایک کا بھی جواب نہ دے سکے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 392 سوالات کے موقعہ پر جب ایک شخص نے جنگوں کے متعلق اعتراض کیا تو میں نے کہا یسوع مسیح نے آسمانی بادشاہت کی مثال بیان کرتے ہوئے خود ظالموں کے قتل کو جائز قرار دیا ہے.انہوں نے آسمانی بادشاہت کی ایک بادشاہ سے مثال دی ہے جس نے اپنے لڑکے کی شادی پر لوگوں کو کھانے کیلئے دعوت دی مگر انہوں نے دعوت کو قبول نہ کیا.اس نے پھر اپنے نو کر بھیجے مگر پھر انہوں نے انکار کیا اور بعض تو اپنے کاموں پر چلے گئے اور جو باقی رہ گئے انہوں نے ان پیغام رسانوں کو قتل کر دیا.تب بادشاہ نے اپنی فوج بھیجی اور ان قاتلوں کو تہ تیغ کیا اور اس مثال میں بادشاہ سے مراد خدا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظالم حملہ آوروں سے جنگ کرنا اس مثال کی رو سے بالکل جائز تھا.مباحثات کے اختتام پر بعض امریکن افسروں سے گفتگو ہوئی اور انہیں لٹریچر بھی دیا گیا.19 مئی کو مسٹر گرین نے بیماری کا عذر کیا.اس لئے اس روز مسٹر عبد العزیز صاحب اور میر عبدالسلام صاحب نے تقریریں کیں اور سوالات کے جوابات دئے.آخر میں میں نے چند سوالات کے جوابات دئے.ایام زیر رپورٹ میں مسٹر ہیرس اور مسز سائس آئے ان سے مذہبی گفتگو ہوئی اور لٹریچر بھی مطالعہ کیلئے دیا گیا.اسی طرح ایک جرمن عورت آئی جو ایک سیلیونی مسلمان کی بیوی تھیں اور بیس سال ہوئے پہلے بھی مسجد آئی تھیں.مسٹر ٹامس اور مس ٹامس جو پہلے مسجد میں آئے تھے انہوں نے لکھا ہے کہ وہ پھر کسی روز آئیں گے اور یہ کہ انہوں نے اپنے دوستوں سے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر ہندوستان میں ہے اور وہ سن کر بہت متعجب ہوئے.وزرائے اعظم کو لٹریچر بطور تحفہ مسٹر جان کرسٹن پرائم منسٹر آف آسٹریلیا اور فیلڈ مارشل سمٹس ساؤتھ افریقہ اور مسٹر میکنزے کنگ کینیڈا ایک کانفرنس میں شمولیت کیلئے لنڈن تشریف لائے.جب کانفرنس ختم ہوگئی تو ان سے خطوط کے ذریعہ دریافت کیا گیا کہ اگر وہ ملاقات کیلئے وقت دے سکیں تو میں انہیں ایک کتاب بطور تحفہ دینا چاہتا ہوں اور نہ بذریعہ ڈاک بھیج دی جائے گی.فیلڈ مارشل سمٹس کے پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے جواب ملا.وہ پسند تو یہی کرتے تھے کہ اپنے ہاتھ سے کتاب لیتے لیکن کام کی کثرت کی وجہ سے ملاقات کیلئے وقت دینا ناممکن ہے اس لئے انہیں تین کتابیں احمدیت ” تحفہ پرنس آف ویلز اور اسلام بذریعہ ڈاک بھیج دی گئیں.ہائی کمشنر کینیڈا کا بھی اسی کے مطابق جواب ملا.انہیں بھی بذریعہ ڈاک کتب بھیجی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 393 گئیں.ان کے متعلق دوسرے دن شائع ہوا کہ وہ کینیڈا پہنچ گئے ہیں لیکن ہائی کمشنر آف کینیڈا نے شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خط اور کتب انہیں کینیڈا بھیجی جارہی ہیں.مسٹر جان کرسٹن وز یر اعظم آسٹریلیا کے پرائیویٹ سیکرٹری نے لکھا کہ مسٹر کرسٹن پسند یہی کرتے تھے کہ آپ سے خود کتب لیتے لیکن سیاسی کاموں میں مشغولیت کی وجہ سے انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں کتب وصول کرلوں.ٹیلیفون پر وقت مقرر کر کے میں ان سے آسٹریلیا ہاؤس جا کر ملا اور کتابیں پیش کر دیں اور جماعت کے حالات بھی بتائے.خصوصاً آسٹریلیا کے قریب جاوا، سماٹر اوغیرہ کی جماعتوں کا خاص طور پر ذکر کیا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اہل مغرب کے دلوں میں حق کی قبولیت کیلئے القاء کرے آمین.شاہ یوگوسلا و یہ اور ملکہ ہالینڈ کو تبلیغ اسلام الفضل قادیان 20 جولائی 1944ء) مدیر الفضل تحریر کرتے ہیں : ایک گزشتہ پرچہ میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس کی تبلیغی مساعی اور دنیا کے ہر طبقے اور ہر ملک تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی تڑپ اور ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینے کے ضمن میں وہ خطوط اور ان کے جوابات درج کئے جاچکے ہیں جو مولوی صاحب مکرم نے کینیڈا، آسٹریلیا اور افریقہ کے وزرائے اعظم کو لکھے.گزشتہ جون میں آپ نے شاہ یوگوسلاویہ اور ملکہ نیدرلینڈ ز کو حمد یہ لٹریچر ( یعنی احمدیت یعنی حقیقی اسلام، تحفہ شہزادہ اور اسلام ) پیش کیا جو ان دونوں نے قبول کر لیا.ذیل میں خطوط کا ترجمہ دیا جاتا ہے.جو مولوی صاحب موصوف نے ان کو لکھے.شاہ یوگوسلاویہ کولکھا : بنام شاه یوگوسلاویہ میں ایک عالمگیر تحریک یعنی احمدیت کا برطانیہ میں نمائندہ ہوں.اس تحریک کی بنیاد 1889ء میں دور حاضر کے موعود نبی نے رکھی تھی جس کی آمد کے بارہ میں مختلف اقوام کے انبیاء نے پیشگوئیاں کی تھیں اور انہی کی ذات میں مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی پوری ہوئی.اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ بہت سے نشانات دکھائے اور بکثرت امور غیبیہ پر مطلع کیا جن میں سے اکثر کا پورا ہونا ہم پہلے ہی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کی تحریک تمام دنیا میں پھیل جائے گی اور اقوام عالم اپنی روحانی پیاس کو اسلام کے شیریں ،
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 394 شفاف اور صاف چشمہ سے بجھائیں گی اور بادشاہ آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.جو کتب میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ان میں سے دو جماعت احمدیہ کے موجودہ امام کی تصنیف ہیں جو کہ مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند اور آپ کے خلیفہ ثانی ہیں.خود موجودہ زمانہ میں روحانی دنیا کے بے نظیر انسان اور خدا تعالیٰ کا ایک زندہ نشان ہیں کیونکہ آپ کی پیدائش سے کئی سال قبل آپ کے عظیم الشان اور جلیل القدر باپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ انہیں ایک فرزند دیا جائے گا جو سخت ذہین اور دل کا حلیم ہوگا.آپ کا جانشین ہوگا ، آپ کے کام کی تکمیل کرے گا اور آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا.وہ عظیم الشان مصلح ہوگا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی اور کہ خدا تعالیٰ اس سے کلام کرے گا جیسا کہ وہ گزشتہ زمانوں میں اپنے برگزیدوں سے کلام کرتارہا ہے.یہ پیشگوئی آپ کی ذات میں لفظ بہ لفظ پوری ہو چکی ہے.آپ 1914ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے جانشین ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو مستقبل سے تعلق رکھنے والی کئی باتوں پر مطلع فرمایا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو موجوہ جنگ کے بارہ میں کئی خبریں قبل از وقت بتا ئیں.ایک رویا میں آپ کو شمالی افریقہ کی لڑائی کا مفصل نقشہ دکھایا گیا اور اتحادیوں کی آخری فتح کی خبر دی گئی.اس رؤیا نیز اس قسم کی بعض دیگر رویاء کی تفاصیل Your Majesty کو اس پمفلٹ میں ملیں گی جو میں پیش کر رہا ہوں.مارچ 1941ء میں Your Majesty اور یوگوسلاوی قوم نے جس بہادری کے ساتھ جرمن فوجوں کا مقابلہ کیا اسکی میرے دل میں بہت قدر ہے.یہ مقابلہ ایسا شاندار تھا کہ موجودہ جنگ کے مؤرخین کبھی اسے نظر انداز نہیں کر سکتے.اگر Your Majesty کی افواج جرمنوں کا ایسا سخت مقابلہ نہ کرتیں تو جرمنی ایک ماہ قبل روس پر حملہ کر دیتا اور اس صورت میں ممکن ہے جنگ کا نتیجہ اس سے بہت مختلف ہوتا جواب ہوگا مگر Your Majesty کی افواج نے جرمنوں کا جو زبردست مقابلہ کیا اس سے روس پر جرمن حملہ میں تاخیر واقع ہوگئی اور اس طرح یوگوسلاوی افواج نے موسم سرما سے قبل ماسکو کو جرمنوں کے قبضہ میں آنے سے بچالیا.میں Your Majesty کی اپنے وطن میں کامیاب اور فاتحانہ واپسی کا خواہاں ہوں.شاہ موصوف کے پرائیویٹ سیکرٹری نے لکھا مجھے His Majesty نے حکم دیا ہے کہ ان کتب کیلئے جو
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 395 آپ نے بکمال مہربانی ارسال کی ہیں ان کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کروں His Majesty آپ کی نیک خواہشات نیز ان جذبات کیلئے جو اہل یوگوسلاویہ کے متعلق آپ نے ظاہر کئے ہیں آپ کے ممنون ہیں.ملکہ ولہمینا کے نام مخط ملکہ موصوفہ کی خدمت میں مولوی صاحب مکرم نے لکھا کہ : میں برطانیہ میں عالمگیر تحریک احمدیت کا نمائندہ ہوں اور Your Majesty کی خدمت میں چند کتب پیش کرنا چاہتا ہوں.ڈچ ایسٹ انڈیز ، جاوا اور سماٹرا میں آپ کی رعایا کے ہزاروں افراد اس جماعت میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں.ان ممالک کے نو جوانوں کے کئی گروہ اس جماعت کے مرکز یعنی قادیان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے اور ان میں سے کئی السنہ شرقیہ کی انتہائی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے ممالک میں واپس پہنچ چکے ہیں تا اپنے اہل وطن کو وہی علوم سکھائیں.1930ء میں Your Majesty کا ایک قونصل قادیان گیا تھا اور ان طلباء سے مل کر بہت خوش ہوا.میں Your Majesty کو یہ اطلاع دینے میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ جہاں تک میراعلم ہے ڈچ حکام کا نقطۂ نگاہ ہماری جماعت کے متعلق ہمدردانہ ہے اور Your Majesty کی حکومت میں جو مذہبی آزادی ہم لوگوں کو حاصل ہے اس کیلئے میں آپ کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں.اسی تعلق کے پیش نظر میں نے یہ کتب پیش کرنے کی جرات کی ہے تا کہ آپ احمدیت کی تعلیم سے آگاہ ہوسکیں.تحریک احمدیت ایک آسمانی تحریک تحریک احمدیت بخلاف دیگر دنیوی تحریکات کے ایک آسمانی تحریک ہے جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے رکھی.آپ ہی وہ دولہا ہیں جس کی کنواریاں منتظر تھیں.اللہ تعالیٰ نے مخلوق پر رحم کر کے آپ کو مبعوث فرمایا.تا آپ چاہ ضلالت اور معصیت میں ڈوبی ہوئی دنیا کو پاکیزگی، انصاف اور امن وفلاح کا رستہ دکھا ئیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی خبر دی کہ وہ وقت عنقریب آئے گا جب زمین پر امن و امان اور پاکیزگی کا دور دورہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے
حیات ہنس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 396 آپ کو یہ بھی خبر دی کہ گو آپ کی مخالفت بہت شدید ہوگی مگر جو بیج آپ کے ہاتھوں بویا گیا ہے وہ بڑھے گا اور پھلے گا اور پھو لیگا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے اکھیڑ نہ سکے گی اور اللہ تعالیٰ آپ پر برکات نازل فرمائے گا حتی کہ بادشاہ آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ اس کے رستہ میں جو لوگ آپ کی مدد کریں گے وہ ان کی مدد فرمائے گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ بہت سے نشانات دکھائے جن میں بعض کا ذکر پیش کردہ کتب میں موجود ہے.ان میں سے دو کتب جماعت احمدیہ کے موجودہ امام کی تصنیف ہیں جو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کا ایک زندہ نشان ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال قبل اور ایک مسلمان ولی اللہ نے آٹھ سو سال قبل یہ پیشگوئی کی تھی کہ مسیح موعود کا ایک لڑکا آپ کا جانشین ہوگا اور آپ کے کام کی تکمیل کرے گا.وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام سب اقوام تک پہنچائے گا اور اس کی شہرت دنیا کے کناروں تک پھیلے گی اور اس کے ذریعہ اقوام برکت حاصل کریں گی.اللہ تعالیٰ آپ سے کلام کرتا ہے اور امور غیبیہ سے آپ کو قبل از وقت مطلع کرتا ہے.اگر یور میجسٹی اسلام کی صداقت کا کوئی تازہ نشان دیکھنا چاہیں.ایسا نشان جو صرف دعاؤں سے ہی حاصل ہوسکتا ہو تو اگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو اس بارہ میں لکھا جائے تو آپ دعا فرمائیں گے.میں Your Majesty ، شاہی خاندان اور Your Majesty کی حکومت کی اپنے وطن کو فاتحانہ واپسی کا خواہاں ہوں.ملکہ موصوفہ کی طرف سے ڈچ کونسل جنرل نے مولوی صاحب مکرم کو لکھا کہ آپ کا خط اور مرسلہ کتب ہر میجسٹی کو پہنچا دی گئی ہیں.ملکہ موصوفہ نے آپ کے تحفہ کو قبول فرمایا اور مجھے اس کیلئے آپ کا شکر یہ ادا (الفضل قادیان 13اکتوبر 1944ء) کرنے کی ہدایت کی ہے.قرآن کریم اور بائبل کے موضوع پر کامیاب مباحثات مدیر الفضل رقمطراز ہیں : مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ انگلستان اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی عطا کی ہوئی توفیق سے جنگ کے شدید خطرات اور مشکلات کے باوجود پوری سرگرمی اور جوش کے ساتھ اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں.جولوگ گزشتہ ایام میں جنوبی انگلستان پر جرمنوں کے خوفناک بموں کے حملوں کا حال
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 397 اخبارات میں پڑھتے رہے ہیں وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مولوی صاحب مکرم احباب سلسلہ کی دعاؤں کے کس قدر مستحق ہیں.مولوی صاحب نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بعض فلائنگ بم عین ہمارے مکان کے اوپر سے گزرے اور ہم نے انہیں دیکھا.ایک بم ہمارے مکان سے تھوڑے سے ہی فاصلہ پر گرا اور اس کے دھماکہ سے ہمارے مکان کی بالائی منزل کی چھت سے پلستر گر پڑا اور نچلی منزل کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے.ہمارے ایک احمدی دوست عبد العزیز صاحب ریل گاڑی میں سفر کر رہے تھے کہ آگے تھوڑے ہی فاصلہ پر فلائنگ بم گرتا دیکھ کر ڈرائیور نے بڑی پھرتی سے بریکیں لگالیں اور گاڑی روک لی.بریکیں تو ٹوٹ گئیں مگر مسافر بچ گئے.اگر نصف منٹ تک اور گاڑی نہ رکتی تو بہت سی جانوں کا نقصان ہوتا.مولوی صاحب موصوف نے لکھا ہے کہ فلائنگ بم ایک چھوٹا سا ہوائی جہاز ہوتا ہے جس میں بم رکھا ہوتا ہے اور اسے جس جگہ بھیجنا مقصود ہو اس کے مطابق مشین کے چلنے کا حساب کر لیتے ہیں اور جب اس کے اڑنے کا مقررہ وقت ختم ہو جاتا ہے تو وہ خود بخود نیچے گر کر پھٹ جاتا ہے.اس کے گرنے سے کچھ قبل اس میں سے آگ کا شعلہ نمودار ہوتا ہے.یہ ہم جہاں گرتا ہے بے حد نقصان پہنچاتا ہے.چونکہ ایسے خوفناک حملوں میں ہمارا یہ مجاہد بھائی اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف ہے اور نہایت تندہی سے خدمات اسلام بجالا رہا ہے اس لئے سب دوستوں کو ان کی نیز دیگر احمد یوں کی صحت و سلامتی کیلئے دعائیں کرنی چاہئے.انگلستان میں ایک تحریک ہے جس کے بانی مسٹر گرین ہیں.ان کا خیال ہے کہ 1950ء میں یسوع مسیح کا آسمان سے نزول ہوگا جبکہ پیدائش آدم سے لے کر چھ ہزار سال ختم ہو جا ئیں گے اور ساتواں ہزار شروع ہوگا.مسٹر گرین 1899 ء سے اس عقیدہ کی اشاعت کر رہے ہیں.وہ ایک رسالہ بھی نکالتے ہیں جس کا نام "The KingdomNews" ہے.مکرم مولوی صاحب کے ان کے ساتھ کئی مباحثات ہو چکے ہیں.مسٹر گرین سے مزید مباحثات حضرت مولانا شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں: ہائیڈ پارک میں دو مباحثے اور ہوئے.پہلا مباحثہ 2 جون 1944 ء کو ہوا.موضوع یہ قرار پایا تھا کہ مسٹر گرین دو گھنٹہ میں قرآن مجید پر جتنے اعتراضات کرنا چاہے ایک ایک کر کے پیش کرتا جائے اور میں جواب دوں گا لیکن اس روز کچھ ایسا الہی تصرف ہوا کہ وہ پہلے مباحثات میں جو اعتراضات کرتا رہا
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 398 تھا وہ بھی پیش نہ کر سکا.اس نے جو نوٹ لکھے ہوئے تھے وہ بھی غلط تھے چنانچہ پہلے دوسوال دو آیتوں کے متعلق تھے اور جو تر جمہ جارج سیل کے ترجمہ قرآن سے نوٹ کیا ہوا تھا وہ بھی غلط طور پر لکھا تھا.آیت قل مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ کے بعد کی آیت کا ترجمہ یوں لکھا تھا.Which was revealed to angels and his apostles.میں نے کہا یہ قرآن مجید کی کسی آیت کا ترجمہ نہیں ہے.میں نے حاضرین کو دو تین دفعہ یہ ترجمہ سنا کر کہا کہ مسٹر گرین کہتا ہے یہ قرآن مجید کی آیت کا ترجمہ ہے.اس نے بھی کہا کہ ہاں یہ آیت کا ترجمہ ہے.سیل کا ترجمہ وہ اپنے ساتھ لایا تھا.میں نے کہا جس ترجمہ قرآن سے مسٹر گرین کہتا ہے کہ اس نے نقل کیا ہے اس میں بھی ایسا نہیں لکھا.پھر جارج سیل کا ترجمہ اس نے پڑھا تو اس میں یہ ترجمہ نہیں تھا کیونکہ وہ آیت مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِيْن (البقره:99) تھی.اسی طرح آیت وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ (البقرہ:103) کے متعلق اس نے کہا کہ اس میں سلیمان کی کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے.میں نے کہا اس آیت میں حضرت سلیمان کی کتابوں کا مطلقاً ذکر نہیں ہے چنانچہ ترجمہ پڑھوایا گیا تو اس میں نہیں تھا.پھر میں نے آیت کا صحیح مفہوم بتا یا.اسی طرح ایک سوال اس نے آیت لا يَمَسُّهُ إِلا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :80) پر کیا کہ کا فرقرآن کو نہ چھوئیں.میں نے اس آیت کا صحیح مفہوم بتا یا.غرضیکہ وہ کوئی معقول اعتراض نہ کر سکا.سوالات کے موقع پر ایک شخص نے پوچھا کہ کیا موسی کو مان کر اور ان کی تعلیم پر عمل کر کے انسان نیک ہوسکتا ہے ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا.کیا عیسی کی باتوں پر عمل کرنے سے ؟ میں نے کہا ہاں.اس نے کہا قرآن میں لکھا ہے کہ جو محمد کو نہیں مانتا وہ مومن اور نیک نہیں ہو سکتا ؟ میں نے کہا یہ بھی درست ہے.اس نے کہا اپنے دونوں بیانوں میں مطابقت دکھا ئیں.میں نے کہا میرے دونوں بیان درست ہیں اور مطابقت حضرت عیسی خود بیان فرما چکے ہیں جب کہ انہوں نے یہود سے کہا اگر تمہیں موسی پر ایمان ہوتا تو تم مجھ پر بھی ایمان لاتے کیونکہ اس نے میرے آنے کے متعلق پیشگوئی کی تھی لیکن جب موسی کی باتوں کو نہیں مانتے تو مجھے کیسے مان سکتے ہو.دوسر ا مباحثہ دوسرا مباحثہ 16 جون 1944ء کو ہوا.اس روز میں نے انا جیل کے متعلق سوالات کرنے تھے.میں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 399 نے دو گھنٹوں میں کئی سوال اس سے دریافت کئے جن کے وہ جواب نہ دے سکا.بعض کے متعلق کہا کہ میں نے یہ پہلے کبھی نہیں سنے اس لئے میں جواب نہیں دے سکتا اور اکثر کے متعلق کہا کہ میں تیاری کر کے جواب دوں گا.حاضرین پر اس کی بے بسی ظاہر ہوگئی.اس روز مجھے یہ شبہ ہو گیا تھا کہ وہ آئندہ مباحثہ کرنے سے گریز کرے گا.چنانچہ اگلے جمعہ جب کہ اس کی باری قرآن مجید پر اعتراضات کرنے کی تھی مباحثہ شروع ہوا اور میں نے اس کے پہلے سوال کا جو جنوں کے متعلق تھا یہ جواب دیا کہ آیت میں جنوں سے مراد الف لیلہ والے جن نہیں ہیں جیسا کہ مسٹر گرین نے کہا ہے بلکہ اس سے مراد بڑے لوگ اور لیڈر ہیں تو مسٹر گرین نے کہا جب تک آپ کسی انگریزی ترجمہ کو صحیح اور مستند نہیں مان لیتے میں مباحثہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں.میں نے کہا یہ ترجمے شخصی ہیں.میں ان کو صحیح مانتا ہوں لیکن اگر کسی جگہ میں سمجھوں کہ ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا اور عربی زبان کی رو سے اس کی غلطی ثابت کر دوں تو مجھے ایسا کرنے کا حق ہے.انجیل کے موجودہ تراجم جو کہ سوسائیٹیوں کی طرف سے شائع کئے گئے ہیں ان کے بعض الفاظ کے ترجمہ کے متعلق آپ خود کہتے رہے ہیں کہ اصل یونانی لفظ یہ ہے اور اس کا صحیح ترجمہ یوں ہے.جب آپ سوسائیٹیوں کے مستند ترجمہ کی غلطی نکالنے کا حق رکھتے ہیں تو مجھے یہ کیوں حق نہیں کہ کسی ایک شخص کے ترجمہ میں اگر غلطی ہو تو وہ ظاہر نہ کروں.لیکن وہ یہ کہہ کر کہ چونکہ یہ انگریزی ترجمہ کو صحیح نہیں مانتے اس لئے میں مباحثہ نہیں کرتا اپنی پلیٹ فارم اٹھا کر دوسری جگہ چلے گئے اور اس طرح مباحثات کا سلسلہ ختم ہو گیا.حاضرین سمجھ گئے کہ مسٹر گرین مباحثہ نہیں کرسکتا.مباحثات کا ذکر ایک رسالہ میں Religions ایک سہ ماہی رسالہ ہے جو Society for the study of Religions کی طرف سے شائع ہوتا ہے.اس میں میری کتاب ”اسلام پر ریویو کرتے ہوئے ہائیڈ پارک میں مباحثات کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے.The Imam of the London Mosque has come into arena of open debate in London recently and is very energetic in presenting his faith to Christian Opponents.یعنی تھوڑے سے عرصہ سے مسجد لندن کے امام لندن میں پبلک مباحثات کے میدان میں نکلے ہیں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 400 اور اپنے مذہب کو اپنے عیسائی مخالفوں کے سامنے پورے زور اور قوت و جوش سے پیش کرتے ہیں.پھر لکھا ہے: The Imam is very skillful in presenting his case and quotes literally from the Bible.یعنی امام اپنی بات کو پیش کرنے میں خوب ماہر ہیں اور کثرت سے بائیبل کے بھی حوالے پیش کرتے ہیں.28 جولائی کو برادرم عبد العزیز صاحب نے مسٹر گرین سے پھر گفتگو کی اور مباحثات کے سلسلہ کو جاری رکھنے کیلئے کہا اور اسے مسجد میں لائے.تین چار گھنٹہ اس سے گفتگو ہوئی.4 اگست کو نجات کے موضوع پر مباحثہ تھا.لیکن مباحثہ کے وقت بارش اور تین ائیر ریڈ وارننگ ہونے کی وجہ سے صرف ایک گھنٹہ مباحثہ ہو سکا اور یہ قرار پایا کہ آئندہ پھر اسی موضوع پر مباحثہ ہو یعنی نجات مسیحی اور اسلامی نقطہ خیال سے.تین ہفتے کیلئے مسٹر گرین لندن سے باہر گئے ہیں.ان کی واپسی پر مباحثات کا پھر سلسلہ شروع ہوگا.مسٹر گرین نے The KingdomNews کے جون کے نمبر میں ہائیڈ پارک میں مباحثات کا ذکر ان الفاظ میں کیا: ایڈیٹر ان ایام میں ہر جمعہ کے روز چھ بجے شام سے ہائیڈ پارک میں امام مسجد لنڈن سے پبلک مباحثہ کرتا ہے جو اس ملک میں مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کا نمائندہ ہے.But who consists of the best order of the most educated and cultured.لیکن وہ اسلام کی تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کے لحاظ سے بہترین فرقہ ہے.مختلف طبقات کے لوگ حاضر ہوتے ہیں جن کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہوتی ہے اور اڑھائی گھنٹے تک مسلسل سنتے ہیں.An achievement rarely experienced in Hyde Park.یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو ہائیڈ پارک میں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آئی ہے.مباحثہ کے اختتام پر فریقین حاضرین کے سوالات کا جواب دیتے ہیں.انڈیا ہاؤس کی لائبریری میں احمد یہ لٹریچر ایام زیر رپورٹ میں مجھے انڈیا ہاؤس کی لائبریری سے بعض کتب کے دیکھنے کی ضرورت پیش آئی.یہ معلوم کر کے کہ ہماری کتابیں وہاں نہیں ہیں میں نے احمدیت اور تحفہ شاہزادہ ویلز اور ”اسلام“ کا ایک
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 401 ایک نسخہ لائبریری کیلئے دیا جولائبریرین نے شکریہ کے ساتھ قبول کئے.ایام زیر پورٹ میں جموں و کشمیر اور سر فیروز خان نون کو ایسٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے ریسپشن دیا گیا تھا جس میں آپ مدعو تھے.مسلمانوں کے دوستوں کی ایک سوسائٹی بنائی گئی جس کے آنریری سیکرٹری مسٹر عبدالحمید ہوئے.انہوں نے سوسائٹی کے اختتام پر Sauay ہوٹل میں لنچ دیا اور ڈون ٹرٹن (DawnTriton) نے صدارت کی وہی سوسائٹی کے چئیر مین بنائے گئے.سر رائلڈ سٹار نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی مجلس میں سنی بھی ہیں شیعہ بھی حنفی بھی شافعی بھی اور احمدی بھی اور وہابی بھی.حافظ و ہبہ اور ٹر کی سفیر بھی حاضر تھے.اس کے ایک ہفتہ کے بعد آنریری سیکرٹری مسٹر عبدالحمید کے مکان پر فلائنگ بم پڑا وہ وفات پاگئے.انا للہ.مدیر الفضل تحریر کرتے ہیں : انگلستان تمام یورپ کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اس حیثیت سے بھی مولوی صاحب فائدہ اٹھاتے رہے.چنانچہ پچھلے دنوں قبرمسیح کے متعلق آپ نے جواشتہار شائع کیا وہ قریباً یورپ کے ہر ملک تک پہنچا.حال ہی میں آپ (مولانا شمس صاحب) کو ایک احمدی دوست برادرم مبارک احمد صاحب نے اٹلی سے لکھا تھا کہ اٹالین زبان میں اشتہار چھپوا کر بھیجا جائے.انہوں نے اشتہار کی چھپوائی کی اجرت بھی بھیج دی.چار صفحہ کا ایک اشتہار اٹالین ترجمہ کروا کر دو ہزار کی تعداد میں چھاپا گیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی اٹالین کو خوش خبری دی گئی.جنگوں اور نئی دنیا کے متعلق بھی پیشگوئی کا ذکر کیا گیا.پانچ سوروانہ کر دیا گیا.ان کی وصولی کی خبر پر باقی بھی انشاء اللہ بھیج دیا جائے گا.کارڈف سے ایک یہودی نے قبر سیح کے متعلق لکھا کہ اس نے وہاں اخبار میں اس کا ذکر پڑھا ہے.اس کے چند نسخے مانگے جو اسے بھجوا دیئے گئے.(الفضل قادیان 6 اکتوبر 1944ء) لندن میں اشاعت اسلام کیلئے مولانا صاحب کی گراں مایہ کوششیں تاثرات لیفٹینٹ سید ممتاز احمد شاہ صاحب، دہلی ) 23 جولائی 1944ء بوقت آٹھ بجے شام مجلس خدام الاحمدیہ دہلی کا جنرل اجلاس منعقد ہو ا جس میں لیفٹینٹ سید ممتاز احمد صاحب جو ساڑھے پانچ سال کے بعد انگلستان سے واپس آئے ہیں کا لیکچر انگلستان اور اسلام کے موضوع پر انگریزی زبان میں ہوا.آپ نے تقریر میں نہایت دلچسپ پیرا یہ اور فصیح زبان میں انگلستان میں احمدیت کی تبلیغی سرگرمیوں ، ان کے اثرات اور کامیابیوں پر روشنی ڈالی اور
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 402 مکرم جلال الدین شمس صاحب امام مسجد فضل لندن کی ان تھک کوششوں اور گراں مایہ خدمات کا ذکر نہایت محبت بھرے الفاظ میں کیا اور ان کی تکالیف ما لا يطاق کا ذکر کرتے ہوئے جو جناب شمس صاحب کو جنگ کی وجہ سے جھیلنی پڑ رہی ہیں اور جن کا آپ مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں کا ذکر کیا.آپ نے جناب شمس صاحب کی ہمت، لیاقت اور سلسلہ کی اشاعت کیلئے درد کی بہت تعریف کی اور خاص طور پر نو مسلم احمدیوں کی تربیت اور انہی رجحانات میں بتدریج تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ انگریزوں میں کس طرح اسلامی روح پیدا کر رہے ہیں اور ان سے احکام اسلام کی پابندی کرا رہے ہیں.آپ نے اپنے لیکچر کو دو حصوں میں تقسیم کیا.اول اپنے مشن کی تبلیغی مساعی اور دوم انگلستان میں دیگر فرقہ ہائے اسلام کی حالت.بعد میں آپ نے دونوں کا مقابلہ کر کے بتایا کہ صرف ہمارا ہی مشن ہے جو اسلام کے صحیح درد کو لے کر کام کر رہا ہے مگر باقی مسلمان اور ان کی تبلیغی کوششیں صرف برائے نام ہیں اس لئے بے اثر بھی ہیں.آپ نے احمد یہ مشن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جنگ سے قبل جب جناب شمس نے 1938 ء میں چارج لیا تو تبلیغی سرگرمیاں نہایت اعلیٰ پیمانے پر جاری تھیں.پہلے سے ہفتہ وار میٹنگز ہوتی تھیں جن میں لوگ کثرت سے شامل ہوتے تھے لیکن جنگ چھڑتے ہی حالت نے پلٹا کھایا اور تبلیغی سرگرمیوں کو اس پیمانے پر جاری رکھنا مشکل ہو گیا.شدید بمباری کی وجہ سے لوگ شہروں سے بھاگ گئے ،ذرائع آمدروفت بند ہو گئے.بلیک آؤٹ ہونے لگا اور لوگوں نے ہماری سرگرمیوں میں دلچسپی لینی چھوڑ دی.آخر جب بمباری میں کمی ہوئی تو جناب شمس صاحب کو تمام کام نہایت ہی مخالف حالات میں از سرنو جاری کرنا پڑا.مخالف حالات اس لئے کہ پہلے ہی وہاں کے لوگ مذہب سے بالکل بے بہرہ ہیں اور ہر چیز ، ہر خیال اور ہر نظریے کو مادی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں.جنگ کے سلسلہ میں ان کی مصروفیت اور انہماک نے ان کی توجہ کو مذہب اور خصوصاً عیسائیت کے علاوہ دوسرے مذاہب سے بالکل ہٹا دیا.جنگ کو تو چھوڑئے ، امن کے زمانہ میں بھی کسی شخص سے مذہب کے بارہ میں گفتگو کرنا سماجی نقطہ نگاہ سے باعث ننگ تصور کیا جاتا تھا.بہر حال یہ نامساعد حالات تھے جن میں شمس صاحب نے کام دوبارہ جاری کیا اور انفرادی تعلقات پیدا کر کے لوگوں کی توجہ اسلام کی طرف پھیری.انگلستان کی دوسری انجمنوں اور سوسائیٹیوں سے میل ملاپ پیدا کیا.ان کے جلسوں میں شریک ہوئے.لوگوں کو مسجد میں آنے کی دعوت دی اور پھر لٹریچر تقسیم کرنا شروع کیا.اس کے علاوہ ہائیڈ پارک میں جلسے وغیرہ منعقد کئے گئے جن میں میر عبدالسلام صاحب بہت ممد
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 403 ثابت ہوئے.بعض اوقات ایک ایک وقت میں پانچ پانچ سو آدمی شریک ہوتے تھے اور تقریر کے بعد سوال و جواب کا موقع دیا جاتا.اس کے علاوہ جناب شمس صاحب پادریوں کی تقریر سننے بھی جاتے اور ان کے مسلمہ عقائد پر نہایت عمدگی سے اعتراض کرتے اور انجیل کے حوالوں سے اسلام کی صداقت اور عیسائیت کا بطلان ثابت کرتے.ان اعتراضات کا پبلک پر بہت اثر ہوتا ہے.خصوصاً مولوی صاحب کے انا جیل کے علم سے وہ مبہوت ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے مولوی صاحب کوئی موقع بھی خواہ وہ انفرادی تبلیغ کا ہو یا اجتماعی تبلیغ کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے.ہر شخص سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں.اکثر انجمنوں کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں نیز ان سے گفت و شنید کر کے اپنے جلسوں میں آنے کی دعوت دیتے ہیں.کرنل ڈگلس سے ملاقاتیں وہ انگریز جو ہندوستان میں بسلسلہ ملازمت رہ چکے ہیں اور سلسلہ کی تاریخ اور کام سے واقف ہیں وہ سلسلہ کی تعریف کرنے میں ذرا باک نہیں کرتے.چنانچہ کرنل ڈگلس وغیرہ کو مولوی صاحب اکثر دعوت دیتے ہیں اور کئی مرتبہ انہوں نے ہمارے پبلک جلسوں میں صدارت کے فرائض انجام دیئے.ایک مرتبہ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران میں یہاں تک کہہ دیا کہ جب مغربی اقوام مادیت پرستی سے اکتا کر مذہب کی طرف رجوع کریں گی تو احمدیت سب سے پہلے ان کو اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب ہوگی.اس کے علاوہ جناب مولوی صاحب نو مسلم انگریزوں کی تربیت کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں.یہ ان ہی کی محنت اور جانفشانی کا نتیجہ ہے کہ وہاں کے تمام نو مسلم احمدی تمام ارکان اسلام سے واقف ہیں اور ان کی صحیح روح کو سمجھتے ہیں.ان میں سے ہر ایک نماز میں امامت کے فرائض بطریق احسن انجام دے سکتا ہے.ان احمدی نوجوانوں سے جو ہندوستان سے بغرض تحصیل علم انگلستان وقتا فوقتا جاتے رہتے ہیں مولوی صاحب اکثر ملتے رہتے ہیں اور ان کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں.ان کو تبلیغی سرگرمیوں میں برابر شریک کر کے ثواب کے مستحق بناتے ہیں..الفضل قادیان 20 اکتوبر 1944ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس $ 1945 ہندوستان اور انگلستان کو باہمی صلح کا پیغام 404 مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب) سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 12 جنوری 1945ء کے خطبہ میں ہندوستان اور انگلستان کو آپس میں صلح کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا.میں انگلستان کو نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں خواہ میری نصیحت ہوا میں ہی اڑ جائے.ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے.الفضل قادیان 17 جنوری 1945ء) اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کے اخلاص سے بھرے ہوئے الفاظ کو ہوا میں نہ رہنے دیا بلکہ اپنی جناب سے اس کے ان لوگوں کے کانوں تک پہنچانے کا سامان مہیا کر دیا جن کیلئے وہ فرمائے گئے تھے.احباب جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح سلسلہ کے ایک مخلص فرزند چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو توفیق بخشی کہ چیٹم ہاؤس لنڈن سے ایسے رنگ اور ایسے موقع پر اپنے آقا کے الفاظ کو پیش کریں کہ انگلستان اور ہندوستان کی نیوز ایجنسیاں اور پریس انہیں ہر شخص تک پہنچا دے.اس اشاعت کے بعد پھر بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ آواز انگلستان کے موقر اخباز ٹائمنر کی 10 مارچ کی اشاعت میں جناب مولوی جلال الدین شمس کا مکتوب گرامی شائع ہوا جس میں انہوں نے تحریر فرمایا : سر محمد ظفر اللہ خاں کی اس تجویز کے بارہ میں کہ کرلیس مشن کی ناکامی سے جو ہندوستان میں ڈیڈ لاک پیدا ہوا گیا ہے اس کے ازالہ کیلئے فوری اقدام کرنا چاہیے.آپ نے 12 جنوری کے خطبہ میں یہی خیال ظاہر فرمایا حضور نے فرمایا کہ: وو دونوں ملکوں کے آئندہ مفاد کے پیش نظر یہ اشد ضروری ہے کہ برطانیہ اور ہندوستان آپس میں صلح کرلیں اور اپنے آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ مستقل دوستی کے رشتہ میں منسلک کرلیں“ پھر جناب مولوی شمس صاحب امام مسجد لنڈن نے کوشش فرمائی کہ سید نا حضرت امیر المومین ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی نصیحت کو حضور کے الفاظ میں ہی عمائدین برطانیہ تک پہنچا دیں چنانچہ جناب مولوی صاحب نے ماہ گذشتہ میں ایک دو ورقہ شائع فرمایا جس کا عنوان ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس انگلستان اور ہند دستان کو مخلصانہ اور بر وقت نصیحت از حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی امام جماعت احمدیہ 405 یہ حضور کے 12 جنوری کے خطبہ کے اقتباسات پر مشتمل ہے جناب مولوی شمس صاحب نے یہ دو ورقہ حکومت برطانیہ کے وزرا اور چھ صد معزز اراکین دارالعوام اور دارالامراء کو بھجوایا.اکابرین برطانیہ نے اسے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا.ان خطوط سے جو مولوی شمس صاحب کو موصول ہوئے ذیل کے چند اقتباسات سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت کی وسیع اشاعت اور مفید اثرات کا اندازہ ہو سکے گا.1.سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب مکتوب اور دو ورقہ کے بجھوانے پر شکر یہ ادا کرتے ہیں ہوئے لکھتے ہیں.” جناب سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا نے پمفلٹ کا دلچسپی سے مطالعہ کیا ہے اور اس میں مندرج دانشمندانہ نصیحت کو ملاحظہ فرمایا ہے.“ 2 - ارل لسٹول پارلیمیٹری انڈرسیکرٹری آف سٹیٹ فارا نڈ یا رقمطراز ہیں : آپ کے مرسلہ دو ورقہ کیلئے جو امام جماعت احمدیہ کی گراں قیمت نصیحت پر مشتمل ہے اور جس وو سے میں نے دلچسپی سے استفادہ کیا ہے بہت ممنون ہوں.“ 3.سرجان وارڈ لامن رکن پارلیمنٹ کے پرائیویٹ سیکرٹری تحریر کرتے ہیں : وو وو انہوں نے دو ورقہ کا دلچپسی سے مطالعہ فرمایا ہے“ 4.الفرڈ بارنز رکن پارلیمنٹ لکھتے ہیں.' آپ کے دو ورقہ میں جن جذبات کا اظہار ہوا ہے مجھے ان سے عمومی اتفاق ہے 5 - لارڈ لنتھکو سابق گورنر جنرل اور وائسرائے ہند دو ورقہ کے متعلق شکر یہ ادا کرتے ہوئے لکھتے ہیں.میں اسے ضرور پڑھوں گا“ 6.سر پیٹرک ہین رکن پارلیمنٹ رقمطراز ہیں: ” میں آپ کا از حد ممنون ہوں کہ آپ نے از راہ کرم مجھے اس دو ورقہ کا ایک نسخہ دیکھنے کا موقع بہم پہنچایا میں مسرت کے ساتھ اس سے استفادہ کی امید رکھتا ہوں“ 7.فارن آفس میں یہ دو ورقہ جب پہنچا مسٹر انتھی ایڈن سان فرانسسکو کانفرس میں شمولیت کیلئے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس تشریف لے جاچکے تھے.مسٹر ہینڈرسن لکھتے ہیں : ” جب وہ واپس آئیں گے تو میں انہیں دکھاؤں گا.-8 406 بریگیڈئیر الیف میڈ لیکاٹ سی.بی.ای.رکن پارلیمنٹ مکرم مولوی شمس صاحب کے مکتوب اور دو ورقہ کی وصولی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں.میں دو ورقہ کو توجہ سے پڑھ رہا ہوں“ 9.لارڈ رینکلر لکھتے ہیں.میں آپ کا بہت ہی ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی مطبوعہ تحریر بھجوائی ہے میرے یہ کہنے کا حاجت نہیں کہ مجھے ان کے اور آپ کے مقاصد سے ہمدردی ہے.مشکلات گو بڑی ہیں تا ہم امید واثق ہے کہ سب کو خوش کن اور دیر پا کیلئے روشنی حاصل ہوگی“ ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی مسجد اقصیٰ کے منبر سے بلند کی ہوئی آواز ہزاروں میل کے فاصلہ پر سمندر پار جا پہنچی اور سلطنت برطانیہ کے عمائدین نے اس کی طرف توجہ کی.خدا کرے جلد انگلستان اور ہندوستان دونوں ایک دوسرے کی طرف عملاً بڑھیں اور اپنے سابقہ اختلافات کو بھلا کر آپس میں مستقل سمجھوتہ کر لیں ( آمین ).احباب جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس مبارک آواز کو، اس صلح کے پیغام کو دہراتے جائیں.اس وقت تک کہ دونوں افتراق کی خلیج کو پاٹتے ہوئے باہم گلے نہ آملیں.(الفضل قادیان 9 جون 1945ء) سید نا حضرت مصلح موعود کی جرمنی پر برطانیہ کی فتح کی پیشگوئی ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) مئی جون 1945ء میں] سب سے بڑا اہم تاریخی واقعہ برطانیہ کی فتح اور جرمنی کی شکست ہوئی ہے جو احمدیت کی صداقت کا ایک زبر دست نشان ہے اور اہل پیغام کیلئے اگر وہ غور کریں تو حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالی کے مقرب الی اللہ اور خلیفہ برحق ہونے کا قطعی ثبوت ہے.میں یہاں اشتہارات کے ذریعہ اور اپنے خطبات میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے رویا اور کشوف کا ذکر کرتا رہا ہوں.گزشتہ دسمبر میں بھی میں نے نئے سال کیلئے Greeting Cards پر مختصر طور پر وہ رویا اور کشوف چھپوائے تھے جن میں برطانیہ کی فتح کا ذکر تھا جو یہاں کے اکابر کو بھیجے گئے تھے.جو شخص بھی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 407 سنجیدگی سے ان خوابوں اور کشوف پر غور کرے گا اور جنگ کے حالات کا بنظر عمیق مطالعہ کرے گا اس پر روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گا کہ ان کا منبع صرف وہی ذات ہے جو علام الغیوب ہے جس کے سامنے مستقبل کی کوئی شے مخفی نہیں.میں نے جہاں تک ان خوابوں پر جو جنگ کے متعلق حضور کو دکھائے گئے غور کیا ہے مجھے ان پر ایک نہایت لطیف ترتیب نظر آئی ہے.میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو ان سب کو کتابی صورت میں لکھوں.اس وقت دو کتابیں تیار ہیں.ایک جناب چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تالیف ہے جو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی بے نظیر شخصیت اور جماعت احمدیہ کے عقائد پر مشتمل ہے.دوسری کتاب میری اپنی تالیف ہے جس میں حضرت عیسیٰ کے صلیبی موت سے نجات پانے اور بعد میں ہندوستان چلے جانے اور آخر کار کشمیر میں وفات پانے کا ذکر ہے.اس کتاب کے بارہ باب ہیں اور اس مسئلہ سے متعلقہ مسائل پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے.تقریباً ڈیڑھ دو سو صفحہ کی ہوگی لیکن افسوس کہ ابھی تک کنٹرول کی طرف سے اس کی طباعت کیلئے کاغذ کی اجازت نہیں ملی گو اس نے وعدہ کیا ہے کہ انتظام کر دے گا.حضرت سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے خطبات جب سے سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب لنڈن تشریف لائے ہیں جب کبھی انہیں ممبروں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے وہ انہیں اسلام کی تعلیم کی فضیلت مختلف پیراؤں میں دیتے ہیں.اس وقت تک انہوں نے جمعہ کے تین خطبات دیئے جن میں تین اہم مسائل کا بمقابلہ عیسائیت ذکر کیا.8 جون کے خطبہ جمعہ میں آپ نے عیسائیت کے اس اصول ” انسان گنہگار پیدا ہوتا ہے“ کی تردید کرتے ہوئے اسلام کا نقطہ نظر بوضاحت بیان کیا نیز آپ نے اس خیال کی لغویت بیان کی کہ پہلے تو خدا نے خود انسان کو گنہگار پیدا کیا پھر اس معنی کیلئے کفارہ کا طریق تجویز کیا.ایک معصوم نفس کو صلیب پر مروا دیا.اس سے تو نہ ہی خدا عادل رہتا ہے نہ رحیم.نیز پولوس کے اس نظریہ کی بھی غیر معقولیت ظاہر کی کہ چونکہ گناہ کا پتہ شریعت کے ذریعہ ہوتا ہے اس لئے جہاں شریعت ہے وہاں گناہ بھی ہے.لہذا شریعت کو ہی اڑا دو تا کہ گناہ گناہ ہی نہ رہے.15 جون کے خطبہ میں آپ نے اسلام کی ایک اور فضیلت بیان کی کہ اسلام دوسرے مذاہب میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں، ان کا اقرار کرتا ہے اور دیگر مذاہب کے مسلک کے خلاف اسلام دوسرے مذاہب
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 408 کے انبیاء پر ایمان لانے کو فرض قرار دیتا ہے.یہ ایک ایسی خوبی ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی ہے.22 جون کے خطبہ میں آپ نے نجات کے متعلق بیان کرتے ہوئے کفارہ کی ترید کی اور بتایا کہ نجات کے حصول کیلئے انسان کو کامل تعلیم اور کامل نمونہ کی ضرورت ہے لیکن عیسائیت کوئی کامل نمونہ پیش نہیں کرتی ہے.انا جیل میں مسیح کے اڑھائی تین سال کے ہی حالات پیش ہیں نہ ان کے بچپن کے حالات کا ہی علم ہے اور نہ ہی وہ شادی شدہ تھے اس لئے وہ کامل نمونہ نہ تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حالات قلمبند ہیں.اسلامی تعلیم کے کمال کو ثابت کرنے کیلئے آپ نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْأَحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى (الحل: 91) کی تفسیر بیان کی اور ہمارے احمدی نوجوان کے والد کرنل مسٹر کوخ نے چوہدری صاحب کو اپنے مکان پر جانے کیلئے دعوت دی آپ نے انہیں بھی عقائد احمدیت سے بالتفصیل آگاہ کیا.بعض اشخاص سے مذہبی گفتگو متعدد اشخاص سے مذہبی گفتگو ہوئی ان میں قابل ذکر مندرجہ ذیل اشخاص ہیں.مسٹر ظفر اللہ کوخ اپنے ساتھ ایک ڈچ کو لائے جو کمیونسٹ خیال کا تھا.دوران گفتگو میں اسے اسلامی تعلیمات کا اقرار کرنا ہی پڑا.ایک اور ڈچ نوجوان کو ہائیڈ پارک میں مباحثہ سنے کیلئے لائے جو بعد میں دومرتبہ پھر دار التبلیغ آیا.اب مسٹر ظفر اللہ کوخ لنڈن سے کوئی بیس میل کے فاصلہ پر چلے گئے ہیں.ایک اتوار کو آئے اور اپنے ساتھ ایک کیتھولک نو جوان کو لائے اس سے تثلیث وغیرہ مسائل پر گفتگو ہوئی تثلیث کے بارہ میں کہا یہ ہماری سمجھ سے بالا ہے.میں نے کہا بے شک ماوراء الطبیعات ایسی باتیں ہیں جس کی ہماری عقول احاطہ نہیں کر سکتی ہیں لیکن یہ بات کہ تین ایک ہے اور ایک تین ہے یہ عقل اور تجربہ کے خلاف ہے عقل سے بالا نہیں ہے.اگر کہو کہ خدا نے ایسا کہا ہے اس لئے آپ ایمان لاتے ہیں تو یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ انا جیل اربعہ میں تثلیث کا لفظ تک موجود نہیں ہے.پھر اس نے جنگ کے متعلق دریافت کیا تو میں نے کہا کہ اسلام نے دفاعی جنگ کو جائز رکھا ہے اس نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے.میں نے کہا کہ عیسائی عقیدہ تو جائز نہیں سمجھتے ہیں تمام قو میں تو عمل اسلام کی تعلیم پر کرتی ہیں لیکن ڈھول عیسائیت کا پیٹ رہی ہیں.دوسری دفعہ جب مسٹر ظفر اللہ کوخ آئے تو کہنے لگے کہ وہ تو اب مذہبی گفتگو ہی نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ تو عقل کو استعمال ہی نہیں کرتا ہے.میں نے کہا گو اس نے یہ طریق اختیار کیا ہے لیکن ہماری گفتگو کی یاد ہمیشہ اس
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 409 کے دل میں اضطراب پیدا کرے گی اور وہ سوچا کرے گا کہ اس کا مذہب کس قدر کمزور ہے.مسٹر زعیم احمد سائپرس کے ایک نوجوان جو کہ ایک سٹوڈنٹ ہیں ، وہ تین دفعہ آئے انہوں نے کہا کہ وہ احمدیت کے اصول تسلیم کرتے ہیں.اسی طرح مسٹرسٹن اور مسرور کمین دو انگریز مختلف اوقات میں آئے اور اسلام کے متعلق مختلف معلومات حاصل کیں کہ ہمیں مطالعہ کیلئے کتا بیں دیں.ان کے علاوہ چند احمدی دوست تشریف لائے جو جرمنی میں قیدی رہ چکے تھے.حوالدار فضل حسین صاحب سید والہ، پیرمحمد صاحب گجرات، طالب حسین صاحب مہمت پوره سید زین العابدین شاہ صاحب گجرات ، میاں عبد الرحیم صاحب کے صاحبزادے عبدالستار صاحب تشریف لائے.ان کے ساتھ چند غیر احمدی دوست بھی تھے جنہوں نے سوالات بھی دریافت کیے.یہ سب ہندوستان کو روانہ ہو چکے تھے.اسی طرح پلندری پونچھ کے سردار ایوب خان تشریف لائے اور خاتم النبیین کی آیت کی تفسیر دریافت کی اور چند سوالات بھی پوچھے اور جوابات کے متعلق انہوں نے تسلی کا اظہار کیا.ایام زیر رپورٹ میں ایک مسٹر جان فرینک نے اسلام قبول کیا وہ جب آئے تو انہوں نے کہا سب سے بڑا سوال جس کے نہ معلوم ہونے کی وجہ سے دل کو بیقراری تھی کہ یسوع مسیح جب انسان تھے تو قبر سے نکلنے کے بعد کہاں گئے اور میں نے اس کا تسلی بخش جواب دیا اور احمدیت اور عام مسلمانوں کے خیال کا بھی مقابلہ کر کے سنایا.میرا جواب سن کر انہوں نے کہا کہ اب میری تسلی ہوگئی.کتا ہیں اور بیعت فارم ساتھ لے گئے.بعد میں بیعت فارم پُر کر کے بذریعہ ڈاک بھیج دیا.خاکسار جلال الدین شمس.(الفضل قادیان 17 جولائی 1945ء) مسیح کی صلیبی موت پر مباحثہ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں.6 جولائی 1945ء کو مسٹر گرین کی خواہش پر حضرت مسیح کی صلیبی موت پر مباحثہ ہوا اور میں نے مسیح کی صلیبی موت سے بچنے کے بارہ میں انا جیل سے چھ حوالے پیش کیے جن میں سے وہ کسی ایک کا بھی جواب نہ دے سکے.دوران بحث اس نے کہا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ وہ مریگا پھر جی اٹھے گا اور بعض مسلمانوں نے کہا He was crucified کہ وہ مصلوب ہو گیا تھا.میں نے کہا کسی ایک شخص کو تر جمہ یا تفسیر کا حق ہے لیکن ایک خلاف واقعہ بات اپنے پاس سے بنا لینا کسی طرح ایک مذہبی آدمی کو زیب نہیں.میں نے کہا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 410 مسٹر گرین اس بات کا ثبوت پیش کریں کیونکہ کسی مسلمان نے مسیح کو صلیب پر مرنے کو تسلیم نہیں کیا.انہوں نے جارج سیل کی تفسیر پڑھنی شروع کر دی.اس نے بھی یہ قول نقل کیا تھا کہ بعض مسلمان اس کی طبعی موت کے قائل ہیں اور یہ کہ مرنے کے بعد وہ اٹھ گیا اور اس پر اسے اتنا شرمندہ ہونا پڑا کہ پلیٹ فارم سے اتر کر وہ نیچے بیٹھ گیا اور میں دیر تک سوالوں کے جوابات دیتا رہا.اس کے بعد تین اشخاص مسجد میں آئے جن سے گفتگو ہوئی.13 جولائی کو موضوع مباحثہ یہ تھا کہ اگر مسیح صلیب پر نہیں مرے اور زندہ اتار دیئے گئے تو وہ اس کے بعد کہاں گئے پھر اپنے شاگردوں سے ملے اور ان کے ساتھ کھانا کھایا چالیس روز کے بعد انہیں الوداع کہی وہ کہاں گئے ؟ اس کے متعلق پہلے میں نے سڈنی کے ڈسٹرکٹ جج مسٹر ڈ ا کر اور ایک جرمن پروفیسر کی تحقیقات بیان کی ، جس میں انہوں نے مسیح کے صلیب سے زندہ اتارے جانے اور آخر کا رطبعی وفات پانے کا اقرار کیا ہے.پھر میں نے انجیل سے مسیح کا اصل مشن بتایا.پھر یہ کہ وہ پہلے دمشق گئے وہاں سے نصیبین اور نصیبین سے ایران کے رستے ہندوستان پہنچے اور ان کی قبر سرینگر کشمیر میں موجود ہے.جواباً مسٹر گرین نے انا جیل سے حوالے پڑھنے شروع کر دیئے کہ مسیح نے صلیب پر مرنا تھا اور یہ کہ وہ صلیب پر مر گیا.میں نے کہا ان حوالوں پر گذشتہ جمعہ بحث ہو چکی ہے اورانا جیل میں بہت سی باتیں خلاف واقعہ درج ہیں.مثلاً ایک پاگل سے بدروحوں کا نکالنا جو قریباً دو ہزار تھیں.مسٹر گرین نے کہا کہ ایسا کہیں نہیں لکھا.میں نے مرقس سے دکھایا کہ وہ خنازیر جن میں وہ بدروحیں داخل ہوئیں قریب دو ہزار تھے.20 جولائی کو مسٹر گرین نے ٹیلیفون پر کہا کہ وہ بوجہ زکام مباحثہ نہیں کرے گا.27 جولائی کو مسٹر گرین نے مسیح کے مردوں سے جی اٹھنے کے متعلق تقریر شروع کی لیکن کوئی نئی بات بیان نہ کی.میں نے اناجیل سے اس کے خلاف دلائل دیتے ہوئے انا جیل کے متناقض اقوال پیش کئے ،مسٹر گرین نے مسیح کی پیدائش اور صلیب کے واقعہ کو قرآن مجید سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تناقض ہے کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ مسیح کا شبیہ سولی دیا گیا.میں نے آیت کے صحیح معنی بتائے.میں نے جب یہ حوالہ پیش کیا کہ مریم مگر لینی جب اتوار کے روز قبر پر گئی جبکہ ابھی اندھیرا تھا مسٹر گرین نے کہا اندھیرے کا لفظ نہیں.میں نے یوحنا سے حوالہ دکھایا.پھر میں نے کہا پولوس صاف طور پر کہتا ہے کہ مسیح میری انجیل کے مطابق مردوں سے جی اٹھا اور ہمارے لئے کفارہ ہو گیا.مسٹر گرین نے اس کا بھی انکار کر دیا اسے حوالہ دکھایا گیا.اس کے بعد بھی دو شخص مسجد میں گفتگو کیلئے آئے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 411 مباحثہ سے فرار چونکہ دوسرے عیسائی مسٹر گرین کی شکست کو نہ دیکھ سکتے تھے اور اسے آخری مباحثات میں پے در پے شکست کھانی پڑی اس لئے اس نے برادرم عبد العزیز صاحب کو خط لکھا اور آئندہ مباحثہ کرنے سے اس بنا پر انکار کیا کہ میرے دلائل بے فائدہ اور بے نتیجہ ہیں.30اگست کو اس کا خط برادرم عبد العزیز نے حاضرین کو پڑھ کر سنایا جس کی میں نے تشریح کی کہ مسٹر گرین آج اسلئے حاضر نہیں ہوئے اور مباحثہ سے اس لئے انکار ہے کہ ان کے دلائل زبر دست ہوتے تھے اور نا قابل تردید تھے اس لئے وہ آئندہ اپنے گھر میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں.لندن میں تین مجاہدین کا ورود الفضل قادیان 12 اکتوبر 1945ء) انگلستان اور یورپ میں حضرت مولانا شمس صاحب کی گراں قد را شاعت اسلام کی خدمات کے پیش نظر مرکز احمدیت قادیان سے آپ کی مدد کیلئے تین مجاہدین احمدیت بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا.چنانچہ یہ تین مجاہدین انگلستان کیلئے روانہ کر دیئے گئے.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب امام مسجد احمد یہ لنڈن نے اپنی رپورٹ میں ان تین مجاہدین کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ایام زیر رپورٹ ( یعنی دسمبر 1945ء) میں سب سے اہم خبرتین مجاہدین کا بخیریت لنڈن پہنچنا ہے.سب سے پہلے شیخ ناصر احمد صاحب پہنچے ان کے بعد چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور چوہدری عبد اللطیف صاحب.انہیں Welcome کہنے کیلئے جماعت کی طرف سے دار التبلیغ میں ٹی پارٹی دی گئی.اس تقریب کی رپورٹ اخبار وانڈ زورتھ ، برو نیوز اور ساؤتھ ویسٹرن سٹار میں بھی شائع ہوئی.تینوں مجاہدین لنڈن یونیورسٹی کے سکول آف اور تشکیل سٹڈیز میں بی اے آنرز عربی کورس کی سٹڈی کر رہے ہیں.علاوہ ازیں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ شارٹ ہینڈ اور شیخ ناصر احمد صاحب اور چوہدری عبداللطیف صاحب جرمن زبان سیکھ رہے ہیں.دار التبلیغ میں بھی انہیں ایسے رنگ میں اسباق دیئے جارہے ہیں کہ انہیں خود تد بر کر کے نئی باتیں نکالنے کی مشق ہو جائے اور جب کبھی انہیں سکول میں یا دوسرے مقامات میں کسی شخص سے ملاقات کا موقعہ ملتا ہے تو وہ پیغام حق پہنچاتے ہیں.چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب اپنے ہینڈ بیگ میں اشتہارات رکھتے ہیں اور ٹرین میں بھی اشتہارات تقسیم
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کرتے ہیں.انگریز نو مسلم بشر احمد فورشا کا ذکر خیر 412 دوران جنگ میں ایک انگریز نوجوان جو رائل ائیر فورس میں سارجنٹ تھے اسلام میں داخل ہوئے.جب تک انگلستان میں رہے چندہ بھیجتے رہے.1941ء کے آخر میں مڈل ایسٹ جانے سے پہلے ملنے کیلئے آئے.مڈل ایسٹ سے وہ برما بھیجے گئے.پھر ان کی طرف سے کوئی خط نہ ملا ان کا پہلا نام جے آرڈ بلیوفورشا تھا اور اسلامی بشر احمد فورشا تھا.گذشتہ ماہ مڈلینڈ بینک نے جن کی معرفت انہیں خط بھیجا گیا تھا ان کے متعلق ہمیں اطلاع دی کہ اب انہیں ائیر منسٹری کی طرف سے آفیشل نوٹیفیکیشن موصول ہوا ہے کہ مسٹر فورشا کے متعلق رپورٹ موصول ہوئی ہے کہ وہ جاپانیوں کے پاس جنگی قیدی تھے اور یہ کہ وہ وہیں وفات پاچکے ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.مسجد فضل لنڈن میں ان کی نماز جنازہ غائب ادا کی گئی.مسلم اور مظلم احمدی مبلغ اسلام سے تعلق رکھنے والی چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی جس طرح خیال رکھتے اور اسے صحیح رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس کی تازہ مثال جناب شمس صاحب کی حسب ذیل تحریر سے مل سکتی ہے آپ تحریر فرماتے ہیں : کچھ مدت ہوئی میں نے ٹائمز کے ایڈیٹر صاحب کو خط لکھا کہ بی بی سی والے جو مسلم کو Moslem مظلم کر کے بولتے ہیں یہ تلفظ صحیح نہیں ہے.مظلم کے معنی عربی زبان میں ” تارک“ کے ہیں اور مسلم اسلام کے پیرو کو کہتے ہیں جس کے معنی خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری اور اپنے آپ کو خدا کے سپر د کر نے کے ہیں صحیح تلفظ مسلم ہے.اس میں کی آواز ایسی ہے جیسی put میں اور S کی جیسے Sid میں.میرے اس خط سے پہلے مسلم کو ٹائمنر میں Moslem لکھا جاتا تھا لیکن اب Moslim لکھا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود اور کرنل ڈگلس صاحب مدیر الفضل رقمطراز ہیں :
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 413 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر عیسائیوں اور ان کے مددگار مسلمانوں اور آریوں نے مل کر اقدام قتل کا مقدمہ بنایا تو اس لئے تھا کہ آپ کی عزت کو بٹہ لگا ئیں اور دنیا کو آپ سے متنفر کریں لیکن خدا کی شان دیکھئے یہی سازش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان کو بلند کرنے اور آپ کی بے حد عزت اور وقعت قائم کرنے کا باعث ہوئی.ایک مجسٹریٹ نے ایک طرف تو آپ کو بالکل بری قرار دے دیا اور دوسرے عیسائیوں وغیرہ کی سازش کا بھانڈا پھوڑ کر رکھدیا.یہی مجسٹریٹ اب تک زندہ ہیں اور ان کی نگاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جوشان اور رتبہ ہے اس کے متعلق جناب شمس صاحب کے حسب ذیل الفاظ ملاحظہ فرمائے جائیں : کرنل ڈگلس صاحب جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الزام اقدام قتل کے مقدمہ میں بری قرار دیا تھا وہ اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں.ان سے کئی بار ملاقات ہوئی ہے.وہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائل ہیں.وہ اپنے خط محررہ 27 ستمبر 1945ء میں تحریر فرماتے ہیں: There is but no God the Eternal Spirit.یعنی خدا صرف ایک ہی ہے جو ازلی ابدی روح ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق لکھتے ہیں: He was an Inspired Reformer and founder of a great spititual movement in the moslem youth as Sir Mohmmad Zafrullah Khan has admirably set forth in his recent treatise.یعنی وہ ایک ملہم ریفارمر تھے اور مذہب اسلام میں ایک عظیم الشان روحانی موومنٹ کے بانی تھے جیسا کہ سر محمد ظفر اللہ خان نے نہایت عمدگی سے اپنی تازہ تصنیف میں پیش کیا ہے.مسجد احمدیہ کا ذکر ایوننگ نیوز میں لنڈن Appreciation Society کے چالیس ممبر جو مسجد کی زیارت کیلئے آئے تھے جب وہ چیلسی سٹوڈیو کو دیکھنے کیلئے گئے تو اس کے نمائندہ سے ملاقات کی.اس ملاقات کا ذکر لنڈن کی خبروں کے عنوان کے تحت کیا گیا کہ یہ سوسائٹی ہر ہفتہ لندن کے کسی دلچسپ مقام کو دیکھنے کیلئے جاتی ہے اور خاص طور پر ہماری مسجد اور ویسٹ منسٹر سکول کا ذکر کیا گیا.اس سوسائٹی کے ممبر اچھا اثر لے کر گئے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 414 تھے.دوستوں نے تنگی کے ایام میں ہمارے لندن مشن کے مجاہدین کو یاد رکھا اور اپنے اخلاص سے کوئی چیز تحفہ بھیجی ان کا ذکر کرتے ہوئے جناب مولوی صاحب موصوف تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب سے جنگ شروع ہوئی ہے اس وقت سے اب تک بدستور چائے ، پتی ،مکھن وغیرہ اشیاء راشن ہیں، ان اشیاء میں سے کسی کو مقرر کردہ راشن سے زیادہ نہیں ملتی ہے.اندریں حالات ہمارے لئے مشکل تھی کہ ہم مسجد اور اپنے احمدی دوستوں کی جن میں بعض ایک دو گھنٹے کا سفر طے کر کے آتے تھے ان کی خاطر تواضع کر سکتے لیکن بعض دوست بغیر کسی تحریک کے اپنی طرف سے وقتاً فوقتاً چینی ، چائے ، قہوہ اور مکھن بقدر اجازت پارسلوں کے بھیجتے رہے ان دوستوں میں سے ایک چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں تھے جنہوں نے دو تین دفعہ چائے بھیجی.لیکن دو دوست خاص طور پر قابل ذکر ہیں ایک ڈاکٹر محمد فیروز جو عدن سے مذکورہ ضروری اشیاء بھیجتے رہے اور دوسرے عزیزم سید اقبال شاہ صاحب ہیں جو میگا ڈی برٹش ایسٹ افریقہ سے بھیجتے رہے اور اب تک بھیج رہے ہیں بلکہ اب تو انہوں نے انگریز احمدی دوستوں کو بھی فوڈ پارسل روانہ کیے ہیں.جزاھم اللہ خیرا.ایام زیر رپورٹ میں مسٹر مصطفی جمال جو تقریباً ڈیڑھ سال سے زیر تبلیغ تھے بیعت فارم پر کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.آپ سائپرس کے رہنے والے ہیں.سائپرس اس وجہ سے ایک اہم مقام ہے کہ عیسائیت اپنے ابتدائی دور میں وہاں پہنچ گئی تھی.اس لحاظ سے مسٹر جمال کے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے سے خوشی ہے کہ سائپرس کے ایک باشندہ بھی جماعت میں داخل ہو گئے ان کے والد تاجر تھے مسٹر جمال نے یہاں شادی کی ہوئی ہے.ان کی ایک بچی بھی ہے.تبلیغی جوش رکھتے ہیں.(الفضل قادیان یکم جنوری 1946ء)
415.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس $ 1946 1946 ء کا سال انگلستان میں حضرت مولانا شمس صاحب کی خدمات سلسلہ عالیہ احمدیہ کا آخری سال تھا.آپ دوران سال اگست میں واپسی کیلئے روانہ ہوئے اور بلا دعر بیہ سے ہوتے ہوئے اکتوبر کے وسط میں قادیان تشریف لائے.حقیقت یہ ہے آپ کی ایک عشرہ پر محیط شبانہ روز خدمات اسلام کی بدولت اشاعت اسلام پورے یورپ تک پہنچ چکی تھی.اگر چہ آپ کی انگلستان سے واپسی ہورہی تھی تاہم اشاعت اسلام کے کاموں کو آپ نے جو وسعت دی تھی اس کے پیش نظر سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تبلیغ اسلام کی غرض سے مزید نو مجاہدین اہل مغرب کیلئے قادیان سے روانہ فرما دیئے.آسمان احمدیت کے درخشندہ ستارے 1946ء کے سال کے آغاز کی سب سے اہم بات ان نو مجاہدین سلسلہ احمدیہ کا دسمبر 1945ء میں قادیان سے اعلائے کلمتہ الاسلام کیلئے روانہ ہونا اور پھر جنوری 1946ء میں لندن پہنچنا اور حضرت مولانا شمس صاحب کا اپنی راہنمائی میں انہیں ہدایات دے کر بلاد مغرب کے مختلف ممالک کے لئے تبلیغ کیلئے روانہ کرنا ہے.ان گروہ مجاہدین کے بارہ میں مولانا موصوف تحریر فرماتے ہیں: نو مجاہدین کا قافلہ جو دار الامان سے 18 دسمبر کو بعز م تبلیغ یورپ روانہ ہو ا،14 جنوری کو انگلستان کی مشہور بندرگا Liver Pool پر اترا اور اسی تاریخ کی شام گیارہ بجے کے قریب لنڈن یوسٹن سٹیشن پر پہنچا.جہاز کی کمپنی نے ہمیں بذریعہ ٹیلیفون ان کی اور پول سے روانگی کے متعلق اطلاع دے دی تھی.میں نے لندن کے مشہور اخبار ڈیلی پیکیج کے دفتر میں ٹیلیفون پر اطلاع دے دی تھی کہ نومشنری یورپ میں تبلیغ کیلئے آج یوسٹن اسٹیشن پر پہنچ رہے ہیں اگر آپ کو اس میں دلچپسی ہو تو آپ اپنا نمائندہ مع فوٹو گرافر بھیج سکتے ہیں ہم بھی سٹیشن پر ہوں گے.چنانچہ ڈیلی پیکیج کا نمائندہ معہ فوٹو گرافر بر وقت سٹیشن پر پہنچ گیا.گاڑی چالیس منٹ کے قریب لیٹ تھی اس اثناء میں وہ ہم سے گفتگو کرتا رہا.جب ٹرین سٹیشن پر پہنچی تو انہوں نے فوٹو لئے اور اخبار میں رپورٹ شائع کی.مندرجہ ذیل اخبارات نے مجاہدین کے متعلق لکھا:
416.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس Manchester Guardian, Daily Package, The Star, The Daily Mirror, ,South Western Star.رائٹر اور تین چار اور ایجنسیوں کے نمائندے آئے اور فوٹو لئے اور دوسرے ممالک کو بیانات بھیجے.سیدنا حضرت مسیح موعود کا آسمانی بادشاہت کے بارہ میں ایک رؤیا وو 2 نومبر 1906ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ: رات کے وقت میں ایک جگہ بیٹھا ہوں اور ایک اور شخص میرے پاس ہے تب میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ بہت سے ستارے آسمان پر ایک جگہ جمع ہیں.تب میں نے ان ستاروں کو دیکھ کر اور انہی کی طرف اشارہ کر کے کہا.آسمانی بادشاہت.پھر معلوم ہوا کہ کوئی شخص دروازہ پر ہے اور کھٹکھٹاتا ہے.جب میں نے دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک سودائی ہے جس کا نام میراں بخش ہے.اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اندر آ گیا.اس کے ساتھ بھی ایک شخص ہے مگر اس نے مصافحہ نہیں کیا اور نہ وہ اندر آیا.اس کی تعبیر میں نے یہ کی کہ آسمانی بادشاہت سے مراد ہمارے سلسلہ کے برگزیدہ لوگ ہیں جن کو خدا زمین پر پھیلا دے گا اور اس دیوانہ سے مراد کوئی متکبر، مغرور، متمول یا تعصب کی وجہ سے کوئی دیوانہ ہے خدا اس کو تو فیق بیعت دے گا.پھر الہام ہوا لا تخف ان الله معنا گویا میں کسی دوسرے کو تسلی دیتا ہوں کہ تو مت ڈرخدا ہمارے ساتھ ہے.“ [ بدر جلد 2 نمبر 45 مورخہ 8 نومبر 1906ء صفحہ 3 بحوالہ تذکرہ مجموعہ الہامات، بار چہارم،2004ء،صفحہ 575] اس خواب میں ستاروں سے وہی جانباز مجاہدین مراد ہیں جو خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کیلئے دنیا کے مختلف ممالک میں نکل جائیں گے اور لوگوں کی ہدایت کا باعث ہوں گے اور ساتھ والے شخص سے مراد حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسی الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ہیں جیسا کہ بعض دوسری خوابوں میں بھی ایک اور شخص کی صورت میں بھی خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا ذکر ہوا ہے اور متکبر و متمول مغرور اور متعصب.شخص سے مراد یورپ کے لوگ ہیں جو ان صفات سے متصف ہیں اور ان کے دروازے کھٹکھٹانے سے ان کی موجودہ حالت کی طرف اشارہ ہے جبکہ وہ بزبان حال اپنے سسٹم کی ناکامی کا اعلان
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 417 کر رہے ہیں اور پکار رہے ہیں کہ کوئی ایسا دین ہو جس میں انسان کے ہر شعبہ زندگی کے متعلق مکمل تعلیم پائی جاتی ہو.لیکن تکبر، مال، غرور اور تعصب ایسی چیزیں ہیں جو اس کامل دین کے قبول کرنے میں ان کے لئے روک بنی ہوئی ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے اس خواب میں بشارت دی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ لوگ جو دنیا کیلئے دیوانے ہو رہے ہیں آخر کا ر اسلام قبول کر لیں گے.لیکن ایک اور طبقہ جو انہیں کے رنگ کا ہوگا نہیں مانے گا اور اس راستہ میں جن مشکلات اور مصائب کا سامنا تھا وہ ظاہر وباہر تھا کیونکہ یورپ جیسے مادہ پرست ملک کیلئے تبلیغ کا انتظام اور مجاہدین کا تیار کرنا پھر ان کے اخراجات وغیرہ مہیا کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ اپنے ساتھ والے شخص کو تسلی دی کہ تو مت ڈر خدا ہمارے ساتھ ہے.وہ اپنے فضل سے اس کیلئے سامان عطا فرمائے گا......الفضل قادیان 13 مارچ 1946ء) ان نو مجاہدین میں مندرجہ ذیل احباب شامل تھے جنہیں 18 دسمبر 1945ء کو قادیان سے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور تمام احباب جماعت کی دعاؤں کی معیت میں انگلستان اور مغربی افریقہ کیلئے رخصت کیا گیا: 1 2 3 4 5 6 7 8 9 مکرم مولا نا چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب مولوی فاضل مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب ( مبلغ فرانس ) مکرم چوہدری اللہ دتہ صاحب مولوی فاضل مکرم مولا نا چوہدری کرم الہی صاحب ظفر مکرم چوہدری محمد اسحاق صاحب ساقی مولوی فاضل مکرم مولوی محمد عثمان صاحب مولوی فاضل مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب مکرم مولوی غلام احمد صاحب بشیر مولوی فاضل الفضل قادیان 19 دسمبر 1945ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس نئے مجاہدین کی وجہ سے تبلیغ میں وسعت 418 حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس انچارج تبلیغ لنڈن اپنے تازہ خط میں تحریر فرماتے ہیں : پروفیسر ہیورٹ ڈن لنڈن یونیورسٹی کے اور کمینٹل سکول میں عربی زبان کے پروفیسر ہیں.مصر اور دیگر عربی ممالک میں پندرہ بیس سال رہ چکے ہیں.شیخ ناصر احمد صاحب نے انہیں مسجد آنے کیلئے دعوت دی.چنانچہ پانچ دسمبر کو وہ اپنے اس طالب علموں سمیت جو مختلف ممالک کے تھے تشریف لائے.انہیں مسجد دکھائی گئی اور مسجد کے متعلق معلومات بہم پہنچائی گئیں.پروفیسر ہیورٹ نے دریافت کیا کہ مسجد دو کنگ اور یہ مسجد احمد یہ جماعت نے ہی بنائی ہیں؟ میں نے کہا تفصیلی حالات ملاقات کے کمرہ میں عرض کروں گا.ہم مسجد سے وزٹنگ روم میں آگئے اور میں نے آدھ گھنٹہ میں خواجہ کمال الدین صاحب کے یہاں آنے اور مسجد دو کنگ کے حالات بیان کر کے مسیح کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئی اور اس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں پورا ہونا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیاں اور حضرت خلیفہ اول اور ثانی کا ذکر کیا.مرد و عورت کے حقوق مسجد میں آنے والے طالب علموں کا ذکر کرتے ہوئے جناب مولوی صاحب موصوف لکھتے ہیں : بعض طالب علموں کے سوال پر مرد و عورت کے حقوق پر بحث شروع ہوگئی.میں نے نئے عہد نامہ سے عورتوں کے حقوق کے متعلق حوالے بیان کئے کہ مرد عورت کا سر ہے اور اسے چرچ میں سوال تک پوچھنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو تعلیم دے سکتی ہے.ان حوالہ جات کو سنکر ایک لڑکی نے جو امریکن تھی کہا کیا یہ انجیل میں ہے جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہماری ہے.انہوں نے اور بھی سوالات کئے جن کے جوابات دیئے.ہمیں طالب علموں میں سے دولڑ کیاں تھیں.جب واپس جانے لگے تو ایک لڑکی نے مصافحہ کرنا چاہا میں نے مصافحہ نہ کیا اس پر مساوات کا سوال اٹھا.میں نے انہیں حیفا کا اپنا واقعہ سنایا.جن دنوں میں حیفا میں مقیم تھا وہاں ایک امریکن مشنری پہنچا میں اس سے ملنے کیلئے گیا اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ تھی اس کے ہاتھ بڑھانے پر میں نے مصافحہ نہ کیا.کچھ دیر کے بعد دوران گفتگو میں اس مشنری نے کہا کہ اسلام عورت کومرد کی طرح مساوی حقوق نہیں دیتا کیونکہ آپ نے مجھ سے تو مصافحہ کیا لیکن میری بیوی سے نہیں کیا.میں نے کہا اسلام نے اس
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 419 حکم میں مردوں اور عورتوں میں مساوات رکھی ہے.اگر کوئی مرد مسلمان عورت سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھائے تو وہ انکار کر دے گی اور مصافحہ نہیں کرے گی.پس مصافحہ کے متعلق اسلام کا قانون مرد اور عورت کیلئے یکساں ہے.اس سے وہ سمجھ گئے.ایک طالب علم مسٹر کینیڈی نے کہا کہ وہ پھر آنا چاہتا ہے اور اپنے ساتھ ایک اور خاتون کو لانا چاہتا ہے جو مسجد دیکھنے کی خواہاں ہے.مدیر الفضل مزید لکھتے ہیں : مسٹر کینیڈی جو سکاچ چرچ مشن سوسائٹی کی طرف سے عراق جانے والے ہیں مع ایک مشنری خاتون (جو افریقہ جائیں گی ) مسجد میں آئے چونکہ وہ جناب مولوی جلال الدین صاحب شمس کی مصنفہ کتاب "Islam" کا مطالعہ کر کے آئے تھے اس لئے انہوں نے چند سوالات پوچھنے چاہے جس کی انہیں اجازت دی گئی.اس پر انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ نے استثناء باب 18 آیت 18 کی پیشگوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائی ہے حالانکہ اس پیشگوئی میں یہ لفظ نہیں کہ موسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا.تمہارے وسط سے تمہارے بھائیوں میں سے میری مانند ایک بنی مبعوث کریگا.اس سے ظاہر ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے ہوگا.جناب مولوی صاحب نے سیاق وسباق سے ثابت کیا کہ آنیوالا نبی بنی اسرائیل میں سے نہیں ہوگا.بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل سے ہوگا.اور یہ لفظ جو آیت پندرہ میں بیان ہوئے ہیں ” تمہارے وسط سے آئیگا آیت نمبر 18 میں چھوڑ دیئے گئے ہیں اور صرف تیرے بھائیوں کا ذکر کیا گیا ہے تاہم یہ الفاظ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتے ہیں کیونکہ مدینہ کے ارد گرد یہود کے قبائل آباد تھے.اس طرح ان کے وسط سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا.غرض اس پیشگوئی پر تفصیل سے بحث کی.ان کے اور سوالوں کے بھی جوابات دیئے.آخر وہ بالکل لاجواب ہو گئے اور کہنے لگے ہم ان امور کے متعلق غور کریں گے اور پھر موقعہ ملا تو ملنے کیلئے آئیں گے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مزید تحریر فرماتے ہیں : چوہدری مشتاق احمد صاحب کی دعوت پر مسٹر بیلونا یجیرین جو گورنمنٹ کے انتظام کے ماتحت لنڈن یونیورسٹی کے اور یستقل سکول میں بی اے آنرز عربی کورس کی سٹڈی کر رہے ہیں دار التبلیغ میں تشریف لائے جن سے میں نے سلسلہ کے متعلق گفتگو کی.قرآن مجید اور بخاری سے مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پیشگوئیاں بتا ئیں.انہوں نے کہا مجھے احمدیت پر کوئی اعتراض نہیں لیکن میں مالکی رہوں تو کیا حرج ہے.میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 420 کی بعثت کی غرض تمام فرقوں کو یکجا اور متحد کرنا ہے اور اس شاہراہ پر لانا ہے جس پر خدا کا رسول اور صحابہ قائم تھے اور جس پر چاروں آئمہ چلتے تھے.اگر امام مالک بھی اس وقت ہوتے تو وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیرو ہوتے.اس کے بعد بھی وہ دو دفعہ تشریف لائے ایک دفعہ ایک سوڈانی طالب علم کولیکر آئے اور ایک دفعہ نماز جمعہ کیلئے.نیز چوہدری صاحب کی دعوت پر ایک مسٹرایم ایس الیاس جو پی ایچ ڈی کی ڈگری کیلئے لنڈن آئے ہیں مسجد دیکھنے کیلئے آئے.ان سے سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی اور مطالعہ کیلئے لٹریچر دیا.دوسرے مسٹرسیف الدین اور ان کے ہمراہ دو فلسطینی طالب علم اور مسٹر پر اشر ایم اے سٹوڈنٹ بھی آئے جن سے سلسلہ کے متعلق گفتگو ہوئی اور مطالعہ کیلئے لٹریچر دیا.سیٹھ دوست محمد الہ الدین مسجد لنڈن میں خانصاحب سیٹھ محمد دوست الہ الدین صاحب نے جو ہمارے مکرم حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے بھتیجے ہیں ایک روز پارک لین ہوٹل سے ٹیلیفون کیا کہ وہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور مسجد میں نماز بھی ادا کریں گے.22 دسمبر کا دن مقرر کیا گیا.میں نے اس خیال سے کہ سیٹھ صاحب کا چند انگریز احمدی دوستوں سے تعارف کرایا جائے مندرجہ ذیل دوستوں کو مدعو کر لیا.مسٹر عثمان سٹن، مسٹر منیر احمد سٹن، مسٹر خالد ڈکنسن ، مسٹر خیر اللہ مع لڑکے عمر ویلز کے، مسٹر بشیر الدین پلیز نیس ہمسٹر ظفر اللہ کوخ اور ان کے علاوہ کیپٹن لطیف آرنلڈ کو بھی بلالیا.سیٹھ صاحب اپنے دوست نواب شیخ فتح علی اکبر کے ہمراہ تشریف لائے.انگریز احمدی دوستوں سے ان کا تعارف کرایا.کچھ دیر سیٹھ صاحب نے ان سے گفتگو کی.اس کے بعد انہیں ساتھ کا مکان دکھایا جو اس سال خریدا گیا ہے.قیمت معلوم کرنے پر کہنے لگے آپ نے تو مفت ہی لے لیا.اب کونسل نے اسکی مرمت کرائی ہے اور اس میں پانچ فلیٹ بنادیئے ہیں.موجودہ حالت میں اس کی قیمت لگی ہوگئی ہے بہت اچھے وقت میں خرید لیا گیا.پھر سب نے مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی.مسٹر بشیر الدین پلیز منیس اور مسٹر منیر احمد سٹن نے اذان اور تکبیر کہی.نماز کے بعد سب نے چائے پی.سیٹھ صاحب نے فرمایا مجھے یہاں آکر بہت ہی خوشی ہوئی ہے نیز فرمایا کہ مسجد کی مرمت پر جو خرچ ہووہ مجھے لکھیں انشاء اللہ تعالیٰ میں ادا کروں گا.ان کی اس زیارت کے متعلق ایک نوٹ اخبار وانڈ زورتھ برو نیوز میں زیرعنوان Indian Industrialist's Visit شائع ہوا.الفضل قادیان 26 جنوری 1946ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس کنگ جارج کی خدمت میں تبلیغی مکتوب اور احمد یہ لٹریچر ہیں: 421 مولانا جلال الدین صاحب شمس انچارج احمد یہ مشن لنڈن اور امام مسجد احمد یہ لنڈن تحریر فرماتے 1944ء میں میں نے بعض قومی لیڈروں اور بادشاہوں کو احمد یہ لٹریچر بھیجا تھا.مدت سے ارادہ تھا کہ ہر میجسٹی کنگ جارج ششم کی خدمت میں بھی لٹریچر روانہ کروں.چنانچہ 28 دسمبر 1945ء کو میں نے ایک خط کے ہمراہ چار کتابیں مع اپنی کتاب ” اسلام بھیجیں.”اسلام“ کو رکھ کر باقی کتب مجھے واپس کردی گئیں.خط اور اس کا جواب مندرجہ ذیل ہے: عالی جناب کنگ جارج ششم یور میجسٹی ، راقم خدائے قادر و توانا کا ایک خادم ہے جس کی بارگاہ میں بادشاہ اور عام لوگ برابر ہیں مگر یہ کہ کوئی اس کی منشاء کے مطابق کام کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جائے.اورUnited Kingdom میں عالمگیر احمدیہ موومنٹ کا ایک نمائندہ ہوں اور اس امر کا خواہشمند ہوں کہ یور میجسٹی کو نئے سال پر تحفہ پیش کروں.میرا تحفہ چار کتابیں ہیں جو ایک ایسے قیمتی خزانہ پر مشتمل ہیں جسے دنیا دار لوگوں کی طرف سے بسا اوقات رد کر دیا جاتا ہے اور دولت مندوں کا اسے رد کرنا اتنا عام ہے کہ دو ہزار سال ہوئے جب ایک خدائی معلم کو یہ کہنا پڑا.” اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو.لیکن جو لوگ اسے قبول کر لیتے ہیں اور اس کی طرف سے وہ زمین و آسمان اور دنیا و آخرت میں عزت دیئے جاتے ہیں.اس دنیا کی بادشاہت ایک عارضی چیز ہے جو عرصہ دراز تک قائم نہیں رہتی.بہت سے بادشاہ حالات سے مجبور ہوکر اپنی زمینی بادشاہتوں سے محروم ہو گئے لیکن جو آسمانی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں وہ ابدی برکت و رحمت سے خوش وقت ہوتے ہیں.یور میجسٹی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک مذہبی شخص کو جیسا کہ خاکسار ہے اس کا مذہب سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے جس کیلئے وہ ہر چیز قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے.اگر ضرورت پڑے تو جان بھی قربان کر دیتا ہے اس لئے جب ایسا شخص اپنے مذہب کو کسی کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ ایسی چیز پیش کرتا ہے جو اسے سب سے پیاری ہوتی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 422 ہے.مجھے امید ہے کہ یور میجسٹی اس سپرٹ میں از راہ مہربانی میرے تحفے کو قبولیت کا شرف بخشیں گے.مجھے اجازت ہو تو میں یہاں چند الفاظ جماعت احمدیہ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.یور میجسٹی یہ معلوم کر کے خوش ہونگے کہ ہماری جماعت نے مجموعی لحاظ سے یور میجسٹی کی گورنمنٹ کی جنگ میں ہر ممکن طریق سے مدد کی ہے.اس نے پندرہ ہزار سے زیادہ سپاہی دیئے اور اڑھائی سو اور تین سو کے درمیان مختلف درجوں کے آفیسر ز دیئے جو جنگ کے ہر میدان میں جا کر لڑے اور یہ تعداد جماعت کی مجموعی تعداد کی نسبت سے ایک بہت بڑی تعداد ہے.احمد یہ موومنٹ کی بنیاد خدا تعالیٰ نے حضرت احمد ساکن قادیان پنجاب انڈیا کے ذریعہ جو اس زمانہ کے نبی اور اس تاریک زمانہ کے نور تھے ، 1889ء میں رکھی تھی.وہ مسیح علیہ السلام کی روح وقوت میں ظاہر ہوئے جیسا کہ حضرت یحیی حضرت ایلیا کی روح وقوت میں ظاہر ہوئے تھے.مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی آپ کے حق میں پوری ہوئی جیسا کہ ایلیاء کی آمد ثانی کی پیشگوئی کا مصداق حضرت بیٹی ثابت ہوئے.مختلف مذاہب کے پیرووں نے ان کی سخت مخالفت کی.ان کے متبعین پر ظلم کیا گیا.مخالفت کے سیلاب آئے.مینہ برسا اور پانی پڑا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گرا کیونکہ ان کی بنیادیں چٹان پر ڈالی گئی تھیں.یور میجسٹی کی پڑدادی ملکہ وکٹوریہ آنجہانی کا زمانہ تھا جبکہ احمد نے موعود ریفارمر اور مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.انہوں نے ہر میجسٹی کی اپنی کتابوں میں تعریف کی ہے کیونکہ ان کے عہد میں ہندوستان میں ہر جگہ مذہبی آزادی اور امن قائم تھا.خدا تعالیٰ ان سے ویسے ہی ہمکلام ہوا جیسا کہ وہ موسیٰ عیسی اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام سے ہمکلام ہوا تھا اور خدا تعالیٰ نے ان کی تائید میں کہ وہ خدا کے رسول تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کے ذریعہ ان کے اس دعوی کی تائید میں بہت سے نشانات ظاہر کئے اور انہیں مستقبل کے بہت سے مخفی واقعات پر اطلاع دی.نومبر 1900ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما فرمایا.” آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا.اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے.آسمان پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا.اربعین نمبر 3 صفحہ 37-38.روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 428].اسی لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ گذشتہ دو عالمی جنگوں میں خدا تعالیٰ نے اسی وجہ سے انگریزوں کو مغلوب ہونے سے بچایا.خدا تعالیٰ نے انہیں 66
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس جس طرح جنگوں سے متعلق اطلاع دی اسی طرح اس نے یہ بھی خبر دی کہ ان کی جماعت روئے زمین پر پھیل جائے گی اور آخر کار لوگ جنگوں کو خیر باد کہہ دیں گے اور روئے زمین پر امن قائم ہو جائے گا.ان کی منجملہ بہت سی الہامی پیشگوئیوں کے ایک تقسیم بنگال ہے جو یور میجسٹی کے معزز باپ کے ذریعہ پوری ہوئی جس کی کیفیت وقوع تحفہ شہزادہ ویلز کے صفحہ 85 تا 83 پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں.آپ کی صداقت کا ایک ظاہر و باہر نشان جماعت احمدیہ کے موجودہ ہیڈ ہیں ، جو پیش کردہ تین کتابوں کے مولف ہیں.ان کی پیدائش سے تین سال پہلے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو یہ بشارت دی کہ ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو بہت ذہین اور دل کا حلیم ہوگا.وہ ان کی نظیر ہوگا اور ان کا خلیفہ بنے گا.خدا اس سے کلام کرے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی اور اس کی شہرت زمین کے کناروں تک پہنچے گی اور یہ پیشگوئی بلفظہ ان کے حق میں پوری ہوئی اور وہ اپنے والد ماجد کے 1914ء میں جانشین بنے.اللہ تعالیٰ آپ سے ویسے ہی کلام کرتا ہے جیسا که زمانہ ماضی میں خدا تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں سے کی.خدا تعالیٰ نے ان کو قبل از وقت جنگ عالمی کے بہت سے واقعات کی اطلاع دی اور ان کو برطانیہ کی سب سے کمزور حالت اور پھر چھ ماہ کے اندر طاقت پکڑنا اور اتحادیوں کی آخری فتح کا علم دیا گیا اور دنیا کی ان تمام پیشگوئیوں کو جو خدا کے نام پر کی گئی تھیں پورے ہوتے مشاہدہ کیا.وہ بلا ریب خدا کی ہستی اور اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہیں.خدا ان کے ذریعہ بھی ان لوگوں کو تازہ نشان دکھا سکتا ہے جو سنجیدگی کے ساتھ حق کے متلاشی ہوں اور ان سے اس بارہ میں عرض کریں.خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود کے ذریعہ یہ خبر دی ہے کہ قو میں اسلام قبول کریں گی اور بادشاہ اس الہی سلسلہ میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا رحم اور فضل ان پر ہوگا اور وہ کثرت سے برکت دیئے جائیں گے اور اس وقت ایک نیا آسمان ہوگا اور ایک نئی زمین اور لوگ یہ جان لیں گے کہ اصل نجات اسلام میں ہی مل سکتی ہے.آخر میں یور میجسٹی کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور خواہش مند ہوں کہ یہ خوشیوں سے پر سال ہو.میں ہوں آپ کا نیا ز مند.جلال الدین شمس امام مسجد لنڈن.423
حیات ٹمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس جواب قصر بکنگھم 19 جنوری 1946ء 424 جناب من مجھے یہ حکم ملا کہ میں بادشاہ معظم کی طرف سے آپ کی کتاب ”اسلام“ کیلئے جو آپ نے ازراہ مہربانی قبول کرنے کیلئے مع خط مورخہ 28 دسمبر 1945ء بھیجی تھی ، پر از خلوص شکریہ ادا کروں.میں یہ ظاہر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قدیم سے رائج قانون کے مطابق جس کی رو سے کوئی بادشاہ کتاب قبول نہیں کرتا جب تک کہ اس کے مؤلف کی طرف سے پیش نہ کی گئی ہو.ہر میجسٹی افسوس کرتے ہیں کہ وہ دوسری تین کتابیں جو آپ نے بھیجیں ، وہ نہیں رکھ سکتے ہیں اس لئے آپ کو اس خط کے ساتھ واپس ارسال کر رہا ہوں.آخر میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان نیک خواہشات کیلئے جو آپ نے اپنے خط میں نئے سال کی ظاہر کی ہیں ،شکر یہ ادا کروں.آپ کا مخلص، ایم.ایم.ایڈیو الفضل قادیان 18 مارچ 1946ء) ایک عشرہ کے بعد مغرب سے کامیاب و کامران مشرق کو واپسی اگست 1946 ء کو آسمان احمدیت کے درخشندہ اور روشن ستارے اور ہمارے مولا ناشس صاحب جنہیں سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مغرب کیلئے طلوع شمس فرمایا کی بلا دغر بیہ سے واپسی ہوئی.لندن سے اپنی واپسی کی بابت حضرت مولانا شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں: آج 11 اگست 1946 ء کو دس سالہ قیام کے بعد لنڈن سے بعزم ہندوستان روانہ ہوا ہوں اور یہ سطور عرشہ جہاز سے لکھ رہا ہوں.میں اپنے ان انگریز اور ہندوستانی دوستوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جور میلوے سٹیشن پر الوداع کہنے کیلئے آئے.پھر ان تمام مبلغین کا اور انگریز و ہندوستانی دوستوں کا خاص طور پر ممنون ہوں جو جہاز پر خدا حافظ کہنے کیلئے تشریف لائے.میں اس پر جزاھم اللہ خیراً کہتا ہوں اور ان تمام مبلغین کیلئے جو میرے بعد کام کریں گے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک مقاصد کی اشاعت کیلئے بڑھ چڑھ کر توفیق بخشے اور ان کی مساعی میں فوق العادت برکت ڈالے.نیز میں تمام دوستوں سے ان کیلئے خصوصا اور باقی مبلغین کیلئے عموماً دعا کیلئے درخواست کرتا ہوں کہ وہ انہیں اپنی نیم شبانہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 425 دعاؤں میں یا درکھیں کیونکہ یورپ میں کسی عظیم الشان تغیر کا پیدا ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی جلوہ نمائی کرے اور اس کے حصول کیلئے جس قدر دعاؤں کی ضرورت ہے وہ ظاہر وباہر ہے.آج جبکہ ہمارا جہاز Sobski سرزمین انگلستان سے ہرلمحہ دور ہورہا ہے میں اپنی دس سالہ زندگی کے واقعات میں سے صرف ایک واقعہ کا ذکر کروں گا جس کیلئے میں اپنے قلب میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے پورا کرنے میں حصہ دار بنایا.اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ اس طرح قائم رہا اور یہ کام جس کو مؤثر رنگ میں شروع کرنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے موقعہ عطا فرمایا اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جبکہ قصر عیسائیت میں ایک تنزل بر پا ہوگا اور سعید روحیں جوق در جوق عیسائیت کو خیر باد کہہ کر حلقہ بگوش اسلام ہوں گی.یہی وہ کاری حربہ ہے جس سے صلیبی عقیدہ پاش پاش ہو جاتا ہے کہ مسیح صلیب پر سے زندہ اترے اور آخر کار کشمیر میں طبعی وفات پائی.اس جگہ میں اختصار سے ان امور کا ذکر کرتا ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں الہی تصرف ہوا ہے.مبلغین کے ذریعہ حضرت اقدس کی ایک خواہش کی تکمیل 1939ء میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل تحریر پڑھی: وو ” یورپ اور دوسرے ملکوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفحہ کا ہوتا کہ سب اسے پڑھ لیں.اس کا مضمون اتناہی ہو کہ مسیح کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے جو واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہوگئی ہے.اس کے متعلق مزید حالات اور واقفیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کرے.اس قسم کا اشتہار ہو جو بہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جائے.“ الحکم قادیان مورخہ 10 جولائی 1901ء) جب میں نے یہ تحریر پڑھی تو اسی وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ حضرت اقدس کی اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے اس مضمون کا ایک اشتہار شائع کروں.چنانچہ قبرمسیح کے فوٹو کے ساتھ تقریباً دواڑھائی سو الفاظ کا ایک اشتہار لکھا اور چار ہزار کی تعداد میں چھپوایا.اس اشتہار کا ذکر الفضل میں پڑھ کر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے تحریک کی کہ ایک لاکھ کی تعداد میں اسے شائع کیا جائے اور اس کیلئے ان کی تحریک پر چند دوستوں نے مطلوبہ رقم پوری کر دی.اشتہار چھپنے کیلئے میں نے مطبع میں دیدیا
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 426 اور ابھی چالیس پچاس ہزار کے قریب چھپا تھا کہ جنگ کا اعلان ہو گیا.میں نے اس خیال سے کہ اب جنگ میں اس کا تقسیم ہونا ناممکن ہوگا مطبع والوں سے کہا کہ اس کا چھاپنا بند کر دیں مگر انہوں نے جواب دیا کہ کاغذ وغیرہ خریدا جا چکا ہے اور اجرت مطبع میں بہت تھوڑی سی تخفیف ہوگی اس لئے بہتر ہے کہ سارا چھپوالیں.چنانچہ انہوں نے ایک لاکھ اشتہار چھاپ دیا جو مکان میں پانچ پانچ ہزار کے بنڈلوں کی صورت میں رکھا گیا.چار ہزار جو پہلے اشتہار چھپوایا گیا تھا صرف وہی تقسیم کیا گیا.جنگ کے چھ سال ختم ہو گئے اور اس اشتہار کی تقسیم جس کیلئے کئی اشخاص کی ہمت درکار تھی خدا نے یہ سامان کیا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے 13 مبلغین کو لنڈن روانہ کیا تاوہ لنڈن ٹھہر کر مختلف ممالک کی زبانوں سے ابتدائی واقفیت حاصل کر لیں.ان مبلغین کی قسمت میں تھا کہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا خواہش کے پورا کرنے میں حصہ دار بنیں.دوسری بات جو اس اشتہار کی تقسیم کیلئے ضروری تھی وہ ایک ایسی کتاب کا موجود ہونا تھا جس میں مسیح کے صلیبی موت سے نجات پانے اور پھر ہندوستان جانے اور وہاں دفن ہونے کے متعلق تفصیلی بحث ہو.سواس کیلئے اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو توفیق بخشی کہ اس مضمون پر میں ایک کتاب لکھوں.چنانچہ مبلغین کے پہنچنے پر وہ کتاب بھی چھپ گئی اور اشتہار کی تقسیم شروع ہوئی.نو دس مبلغین کا لنڈن کے مختلف محلوں میں جا کر اشتہار تقسیم کرنا اہل لنڈن کیلئے ایک عجیب و غریب بات تھی.مبلغین کی آمد پر یہاں کے پریس میں کافی چرچا ہو چکا تھا.ڈیلی سکچھ نے مبلغین کے پہنچنے پر ایک نوٹ لکھا.ڈیلی سٹار نے سب مبلغین کی ایک فوٹو شائع کی نیز مختلف نیوز ایجنسیوں نے انٹرویو لئے جس سے دنیا کے مختلف گوشوں تک سلسلہ کا ذکر پہنچا اور فوٹو شائع ہوئے.چنانچہ ہندوستانی ، امریکن، کینیڈین ، فرنج ، عربی اخبارات کے ہمارے پاس Cuttings پہنچے ہیں جن میں مبلغین کا فوٹو دیا گیا اور ان کا ذکر شائع ہوا.جب اشتہارات کثرت سے تقسیم کئے گئے تو بعض رسائل اور اخبارات کے ایڈیٹروں نے اس کے متعلق تفصیلات چاہیں جنہیں میری کتاب ? Where did Jesus die بھیجی گئی.اخبارات میں اس کے متعلق جو وقتا فوقتاذ کر شائع ہوا.بعض اخبارات میں تو قبر مسیح کے متعلق نوٹ شائع ہونے کے بعد اخبار میں حضرات کی طرف سے خطوط شائع ہوتے رہے جن میں سے بعض ہماری تائید میں تھے اور بعض مخالف.چرچ والوں میں ایک اضطراب پیدا ہوا.چنانچہ بشپ آف لنڈن کو اپنی ایک تقریر میں یہ کہنا پڑا کہ یہ خیال کہ ہم ہی مشنری ہیں اور ہم مذہبی تبلیغ کرنے والے ہیں، درست نہیں بلکہ ہمارے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 427 بالمقابل ایک ایسا مذہب بھی موجود ہے جو اسی رنگ میں ہی ہمارا مقابلہ کرتا ہے اور چرچ کے مشہور آرگن The Life of the faith ہفتہ وار رسالہ میں جو مضمون شائع ہوا اس میں مقالہ نگار نے تقسیم اشتہارات اور میری کتاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ہمارے لئے دائی شرم ہے کہ ہمارے ملک پر اس قسم کا حملہ ہو اور اس خطرہ کا اظہار کیا کہ ملک کی موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو مذہبی آزادی پائی جاتی ہے یہ پرو پیگنڈا ایک حد تک کامیاب ہو جائے.اس میں مقالہ نگار نے Invasion کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی انگلستان پر حملہ.اور یہ لفظ عام طور پر اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کہ ایک ملک کی فوجیں دوسرے ملک پر چڑھائی کر کے اس میں داخل ہو جاتی ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کو بھی ایک رویا میں ولیم دی کنگر رقراردیا گیا جو ایک دن انشاء اللہ تعالیٰ پورا ہوگا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس Invasion کو جاری رکھے یہاں تک کہ مکمل فتح حاصل ہو جائے.آمین.لندن میں مولا ناشس صاحب کے اعزاز میں الوداعی پارٹی الفضل قادیان 28 اگست 1946ء) لنڈن مکرم سیکر ٹری صاحب جماعت احمد یہ لندن بذریعہ تار مطلع فرماتے ہیں کہ جناب مولوی جلال الدین صاحب شمس کے اعزاز میں 19 جولائی کو الوداعی پارٹی دی گئی جس کی صدارت سر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے فرمائی.معزز مہمانوں میں حسب ذیل ممتاز شخصیتیں بھی شامل تھیں : سر ایڈورڈ میسکیکن ، سرفر نیک بیون، آنریبل ہف لائنیز ڈیڈ، آنریبل ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر ڈڈلے رائٹ ، کرنل مجید ملک ، روٹری کلب کے چار ممبران بھی موجود تھے.چائے نوش کرنے کے بعد ہمارے نو مسلم بھائی مسٹر بلال مثل نے مولوی صاحب موصوف کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس میں آپ کی تبلیغی مساعی اور شاندار خدمات اسلامی کی تعریف کی.جناب مولوی صاحب نے ایڈریس کا جواب دیتے ہوئے مقامی جماعت کا اس مدد کیلئے جو ان سے آپ کو ملتی رہی ہے شکر یہ ادا کیا اور برطانوی اہل قلم کو تحریر وتقریر میں آنحضرت ﷺ کی عزت و توقیر کرنے والا ، آپ کی ذات گرامی کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال نہ کرنے کی تلقین کی کیونکہ یہ چیز مسلمانوں کو اہل برطانیہ سے بدظن کرنے کا موجب ہوگی.آنریبل سر محمد ظفر اللہ خاں نے اپنی تقریر میں جناب مولوی صاحب کی شاندار قر بانیوں، خدمات اور تبلیغی کوششوں کی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ انگلستان میں آپ کی شاندار اسلامی خدمات ، انہیں تاریخ احمدیت میں بہت ممتاز کر دیں گی.مکرم میر عبد السلام صاحب نے سب مہمانوں کا نہایت خلوص
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 428 کے ساتھ شکر یہ ادا کیا.بالآخر لارڈ زٹلینڈ ،سرایلفر ڈ اور لیڈی واٹسن، مسٹر فلیمی اور بہت سے دیگر معززین کے حسن ارادت کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے.(الفضل قادیان 22 جولائی 1946ء) مولانا شمس صاحب کے عرصہ قیام انگلستان کا باب اگر چہ طویل ہو گیا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ آپ کی خدمات کی ایک جھلک ہی پیش کی جاسکی ہے.کثیر تعداد میں رپورٹس اس میں شامل نہیں کی گئیں.آپ کی مساعیہائے پر مشتمل بہت سے خطوط اور ذاتی ڈائریاں نا پید ہو چکی ہیں البتہ 1936ء سے 1946ء تک برٹش رسائل و جرائد اور اخبارات میں مسجد فضل لندن اور آپ سے متعلقہ شائع شدہ رپورٹس ہی اگر اکٹھی کر لی جائیں تو یقیناً اس مقصد کیلئے علیحدہ کتاب مرتب کرنی ناگزیر ہوگی.اسی طرح اس دور میں آپ کے کئی مناظرات و مباحثات اور مجالس کا ذکر بھی برٹش اخبارات و رسائل میں متعدد بار شائع ہوا جو ایک جدا کتاب کا متقاضی ہے.وباللہ التوفیق.مجاہد انگلستان مولا نائٹس صاحب کی واپسی 6 شہرہ آفاق نیوز ایجنسی رائیٹر کی لنڈن سے 15 جولائی 1946ء کو بھیجی ہوئی حسب ذیل خبر اخبارات میں شائع ہوئی: چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی اے ایل ایل بی مولوی جلال الدین صاحب شمس کی جگہ مسجد احمد یہ لنڈن کے امام مقرر کئے گئے ہیں.آخر الذکر اگست کے پہلے ہفتہ میں لندن سے ہندوستان واپس جارہے ہیں.جماعت احمدیہ برطانیہ کے ارکان سبکدوش ہونے والے صاحب کو آئندہ ہفتہ جمعہ کے دن مسجد احمد یہ لنڈن میں الوداعی دعوت دیں گے اور اس الوداعی اجتماع کی صدارت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب فرما ئیں گے.نئے امام مسجد احمد یہ لنڈن اکتوبر 1945 ء سے احمد یہ مشن میں قیام پذیر ہیں.الفضل قادیان 18 جولائی 1946 ، صفحہ 2) انگلستان سے واپسی کیلئے بلا دعر بیہ میں آمد اور روانگی مکرم مولانا شیخ نور احمد صاحب منیر.دمشق) جناب مولوی شمس صاحب نے انگلستان سے ہندوستان کو واپسی کے وقت اپنے پروگرام میں بلا دعر بیہ میں آمد کا پروگرام بھی شامل کر رکھا تھا.سب سے پہلے آپ مصر میں تشریف لائے.قاہرہ
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 429 میں آپ کی آمد کا ذکر ” الاھرام نے کیا اور ایک مختصر مگر ٹھوس مقالہ قاہرہ سے ہفتہ واری مجلہ نداء الوطن نے بھی آپ کے متعلق شائع کیا.آپ کی تصویر بھی دی.یہ مجلہ مصر کے حالات حاضرہ کے مطابق ابناء مصر کی آواز کو بلند کرنے میں پیش پیش ہے.مولوی صاحب موصوف نے اپنے قیام مصر میں اسکندریہ کا بھی سفر کیا جماعت قاہرہ نے آپ سے فائدہ اٹھانے کی مکمل کوشش کی.قاہرہ سے حیفا مکرم مولوی صاحب 31 اگست کو تشریف لائے.مقامی حالات کے مطابق جماعت حیفاو کبابیر نے استقبال کیا.مختلف احباب نے آپ کے اعزاز میں دعوتیں دیں.بعض غیر احمدی دوستوں نے بھی اس موقعہ پر دعوتیں دے کر اپنی محبت کا اظہار کیا.بیت المقدس میں 2 ستمبر کو کرم شمس صاحب.مکرم چوہدری محمد شریف صاحب فاضل اور خاکسار بیت المقدس ایک اہم مقصد کے پیش نظر روانہ ہوئے.اس سے قبل عاجز ایک مہینہ بیت المقدس میں گزار کر اسی اہم مقصد کے حالات اور تفصیلات معلوم کر چکا تھا.مکرم الحاج علم دین صاحب سیالکوٹی نے ہماری رہنمائی کی جس کیلئے ہم ان کے شکر گزار ہیں.مولوی صاحب نے یہاں السید عونی عبدالہادی بے سے بھی ملاقات کی اور قضیہ فلسطین کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان کو بعض اہم مشورے دیئے.بیت المقدس میں ہماری آمد کا ذکر فلسطین کے موقر اور کثیر الاشاعت روزنامہ "الدفاع‘ نے کیا اور مسئلہ فلسطین کے متعلق آپ کی خدمات کا اعتراف کیا.” الدفاع میں آپ کی آمد کا ذکر پڑھ کر عربی پریس کے نمائندہ نے آپ سے گفتگو کی اور اس گفتگو کا شخص اس نے ” الدفاع‘ میں شائع کرتے ہوئے جہاں آپ کی اسلامی خدمات کی تعریف کی وہاں آپ کی اس اہم تجویز کا بھی ذکر کیا جس میں آپ نے کہا کہ فلسطین کانفرس میں ہندوستان کی طرف سے بھی ایک نمائندہ شامل ہونا چاہیے کیونکہ قضیہ فلسطین ایک اسلامی قضیہ ہے جس نے موجودہ وقت میں تمام دنیائے اسلام کو مضطرب کر رکھا ہے.بعض پرائیویٹ " خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ مولوی صاحب کی اس تجویز کو عرب حلقوں میں بہت پسند کیا گیا ہے.10 ستمبر کو آپ کے اعزاز میں جماعت حیفا و کہا بیر نے مشترکہ ٹی پارٹی دی اور اپنے محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا.ٹی پارٹی کے بعد خاکسار کے زیر صدرات جلسہ ہوا جس میں مختلف دوستوں نے تقاریر کیں اور مولوی صاحب کے متعلق نہ بھولنے والی محبت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہی سب سے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 430 پہلے مبلغ ہیں جن کی وجہ سے ہمیں احمدیت کا علم ہوا اور خدا تعالیٰ نے ہمیں آپ کے ذریعہ قبول احمدیت کی توفیق دی.مکرم چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے آپ کی خدمات جلیلہ و مساعی جمیلہ کے متعلق ایک مفصل تقریر کی جو نہایت مؤثر تھی.مکرم شمس صاحب نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جماعت کو مختلف امور کی طرف توجہ دلائی خصوصاً اطاعت امیر اور فریضہ تبلیغ اور چندوں کی ادائیگی کی طرف.دمشق میں آمد 17 ستمبر کو صبح کے وقت مکرم شمس صاحب السید منیر الحصنی صاحب اور خاکسار دمشق کیلئے روانہ ہوئے.حکومت شام کی وزارت خارجہ نے مجھے تین مہینے کی تحقیق کے بعد صرف ایک ماہ کیلئے شام میں ٹھہرنے کی اجازت دی.چونکہ اصل شام کو حال ہی میں آزادی ملی ہے اور یہاں کے مقامی سیاسی حالات دگرگوں ہیں اس لئے اجنبی آدمی پر خاص نگرانی کی جاتی ہے یہاں کئی ایک سیاسی پارٹیاں ہیں جو اپنا کام کر رہی ہیں.شام میں ابھی تک حکومت فرانس کی بھی ایک پارٹی ہے.موجودہ وزارت اس پارٹی پر کڑی نگرانی کر رہی ہے.حال ہی میں تمیں جاسوسوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے.ایک پارٹی نے ہاشمی خاندان کے حق میں پرو پیگنڈا کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ پرو پیگنڈا بڑی سرعت سے دمشق میں ترقی کر رہا ہے.حیفا سے دمشق کا راستہ صرف ساڑھے تین گھنٹہ کا ہے مگر آج کل فلسطین کی حدود میں سفر کرنا تکلیف مالا يطاق کے مترادف ہے.ہماری موٹر مختلف مقامات پر ٹھہرتی ہوئی غروب آفتاب سے قبل دمشق میں پہنچی.دمشق میں ہمارا قیام مکرم السيد الحاج بدر الدین احصنی کے مکان پر تھاجو کرم منیر الحصنی آفندی کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں اور احمدیت کے عشق میں مجذوب نظر آتے ہیں.مکرم شمس صاحب نے اپنے دمشق کے مختصر قیام میں وزیر اعظم شام اور وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور جماعت احمدیت کا پیغام پہنچایا.اس ملاقات کا ذکر یہاں کی صحافت نے بھی کیا.اس کے علاوہ آپ نے خلیل مردم بیک اور الحاج عبد القادر مغربی سے بھی ملاقات کی.یہ دونوں شخصیتیں تمام عرب ملکوں میں علمی لحاظ سے نہایت ہی اہم شخصیتیں ہیں اور ابناء شام ان دونوں شخصیتوں پر ناز اور فخر کرتے ہیں.23 ستمبر کی صبح کو الشیخ عبدالرحمن کی دعوت پر ان کے گاؤں بر جانامی میں ( یہ جگہ بیروت سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے ) گئے.سب سے پہلے بیروت پہنچتے ہی موٹر کے اڈہ سے برجا کیلئے روانہ ہوئے.رات
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 431 اس جگہ گزاری اور یہاں مؤثر رنگ میں خدا تعالیٰ نے تبلیغ کا موقعہ عطا فرمایا جس کا اثر یہاں کے کئی اصحاب پر ہوا.دوسرے دن صبح یہاں سے روانہ ہوکر بیروت پہنچے اور بیروت سے دمشق کیلئے روانہ ہوئے.اس سفر میں ہمارے ساتھ السید محمد الھنی تھے جو کرم منیر الحصنی صاحب کے بڑے بھائی ہیں اور بیروت میں تاجر ہیں.مورخہ 26 ستمبر شش صاحب اور مکرم اسید منیر احصنی پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ دمشق قادیان کیلئے روانہ ہوئے.دوست الوداع کیلئے حاضر تھے انہوں نے درد بھری دعاؤں سے ان ہر دو معز ز صاحبان کو فی امان اللہ کہا.پروگرام کے مطابق دمشق سے بغداد انہیں چوبیس گھنٹے میں پہنچ جانا چاہیے تھا مگر موٹر راستہ میں خراب ہو کر آٹھ گھنٹے لیٹ ہوگئی.مکرم الحاج عبد اللطیف نور محمد صاحب کو عاجز نے بذریعہ تاران کی آمد کی اطلاع دی تھی.بغداد کی آمدہ اطلاعات سے معلوم ہوا کہ مکرم شمس صاحب کو سید توفیق السویدی سابق وزیر اعظم عراق سے ملاقات کا موقع ملا اور ریجیٹ سمو الا میں عبد الالہ سے بھی آپ نے ملاقات کی.الجمعية الهندية نے آپ کے اعزاز میں ٹی پاڑی بھی دی جس میں ساٹھ سے زائد اشخاص شامل تھے.اسی طرح الشبان المسلمین کی مجلس میں جا کر آپ کو دو گھنٹہ کے قریب گفتگو کا بھی موقعہ ملا اور ان پر نہایت ہی اچھا اثر ہوا اور آپ کی ملاقات سے بہت خوش ہوئے.شمس صاحب کی ان مصروفیات کا ذکر بغداد کے مشہور جریدہ البلاد نے کرتے ہوئے آپ کی خدمات کو سراہا ہے.میں اس موقعہ پر مکرم الحاج عبد اللطیف نورمحمد صاحب کا شکریہ ادا کرنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں.سلسلہ کے جن خدام کو بغداد کے راستہ سے گذرنے کا اتفاق ہوا وہ جانتے ہیں کہ حاجی صاحب آرام پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے.عاجز کو آپ کی وجہ سے شام کا ویزہ بڑی آسانی سے مل گیا.مکرم منیر الھنی صاحب نے جو خط مجھے بغداد سے روانہ کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکرم حاجی صاحب کی وجہ سے ان ہر دو معزز صاحبان کو بڑا آرام ملا.اسی طرح مکرم ملک معراج دین صاحب کا وجود بھی یہاں سے گزرنے والوں کیلئے بہت مفید ہے.اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ ان صاحبان کو خدمت کی توفیق عطا فرمائے.آمین.الفضل قادیان 25 اکتوبر 1946 ء )
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس وہ وہ کراچی میں آپ کے اعزاز میں ایک جلسہ 432 حضرت مولانا شمس صاحب اور السید منیر الحصنی صاحب جب انگلستان سے کراچی پہنچے تو آپ کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا.ان کی خدمت میں ایک مخلصانہ ایڈریس پیش کیا گیا.اس موقع پر مکرم حکیم قیس منائی صاحب نجیب آبادی نے حسب ذیل نظم پیش کی: وہ آیا تھیں نگاہیں جس کی مشتاق جلال الدین شمس شهره آفاق شمس ماحی کفر و ضلالت فن تبلیغ میں استاد مشاق تجلت آيتة رب الجليل طلوع الشمس في المغرب کا مصداق ناز احمدیت ناز کشمیر وہ فخر آل ابراہیم و اسحاق کبھی افضل تھی جس سے آل یعقوب سکھا آیا وہی نبیوں کے اخلاق توجہ سے ہوئے پھر جس کی روشن جو تھے انجیل کے تاریک اوراق ہ جس کی گرد راہ کا ذره ذره شرر پرورده در آغوش چقماق سکھا کر آگیا تہذیب مشرق اگرچہ مغربیت پر تھا یہ شاق سکھا آیا ہمارا سیکھوائی علوم دین و آداب و اخلاق جزاک اللہ فی الدارین خیراً کر آیا قرضہ انگلینڈ بے باق غرض اسلام کا سورج چڑھا ہے گذرتا جاتا ہے وقت اشراق مسلماں ہیں کہ اب تک سو رہے ہیں وہ شب بیدار سونا جن کو تھا شاق دے اسے بھی کامرانی جو ہے اب جانشین شمس مشتاق تو رکھ مشتاق احمد کا بھی یارب کھلا باب فیوض درس و اسلام وہ آئے واجب التعظیم مہماں وہ مہماں شر خلاق و رزاق وہ الہی بحمد نگاه الله تعالیٰ میں بھی تھی قیس جن الله کی آئے مشتاق الفضل قادیان 16 اکتوبر 1946ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس احباب قادیان کی جانب سے اهلاً وسهلاً ومَرْحَباً حضرت مولانا شمس صاحب کی آمد کے بارہ میں ادارہ الفضل نے لکھا: 433 قادیان 15 اکتوبر.الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ جس مبارک ساعت کے انتظار میں ایک عرصہ سے احباب چشم براہ تھے وہ آگئی یعنی ہمارے کامیاب و کامران مجاہد پیکر ایثار مبلغ مکرم و محترم مولوی جلال الدین صاحب شمس دس سال نہایت کامیابی کے ساتھ انگلستان کی سرزمین میں اعلائے کلمتہ الحق کا فریضہ ادا کرنے کے بعد آج دو بجے دوپہر کی گاڑی سے معہ مکرم و محترم السید منیر احصنی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ دمشق قادیان تشریف لائے.گاڑی کے آنے سے کافی عرصہ قبل احباب بڑے شوق کے ساتھ جوق در جوق سیٹیشن پر جمع ہونے شروع ہو گئے تھے.گاڑی کے آنے تک ایک عظیم الشان مجمع ہوگیا.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز چونکہ آج ہی صبح کے وقت دہلی سے تشریف لاتے ہوئے امرتسر کے سیشن پر دونوں خدام سے ملاقات فرما چکے تھے اس لئے حضور تشریف نہ لائے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ،مکرم نواب عبداللہ خان صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر ارکان کے علاوہ حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ، حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور دیگر متعدد صحابہ کرام بھی تشریف لائے ہوئے تھے.گاڑی کے پہنچنے پر مجمع نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے اور أَهْلا و سهلا وَّ مَرْحَبًا پکارا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دیگر بزرگان سلسلہ نے ہر دو محترم بھائیوں کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ فرمایا اور ہار پہنائے.اس کے بعد ایک انتظام کے ماتحت ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک تمام احباب باری باری مصافحہ کرتے رہے اور ہار پہناتے رہے مصافحوں کا سلسلہ ختم ہونے پر دونوں اصحاب بذریعہ کا رمسجد مبارک میں تشریف لائے اور در حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈیوڑھی میں پہنچ کر حضرت ام المومنین کی خدمت مبارک میں مکرم مولوی شمس صاحب نے انگلستان کے احمدی احباب کے طرف سے اور مکرم السید منیر اکھنی صاحب نے دمشق کے احمدی احباب کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا.مسجد مبارک میں شکرانے کے دو نفل اور نماز ظہر ادا کرنے کے بعد دونوں اصحاب مقبرہ بہشتی میں تشریف لے گئے اور مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دعا کی.اس کے بعد مولوی صاحب اپنے والد حضرت میاں امام دین صاحب کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعا کی.میاں صاحب مرحوم اولین
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 434 اصحاب میں سے تھے.مکرم مولوی صاحب کے قیام انگلستان کے دوران میں انہوں نے وفات پائی تھی.پھر تمام مدفونین کیلئے بھی دعا کی اور مہمان خانہ میں تشریف لے گئے جہاں ناشتہ کا انتظام کیا گیا تھا.اس کے بعد پانچ بجے کے قریب اپنے گھر تشریف لے گئے.مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس 1936ء میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز کے ارشاد پر انگلستان میں تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لے گئے تھے جہاں آپ متواتر دس سال تک رہے اور جنگ کے ہولناک مصائب اور خطرات کے ہجوم میں بھی نہایت عمدگی سے اسلام کا فریضہ ادا کرتے رہے.اس سے پہلے آپ 1925 ء سے لے کر 1931 ء تک بلاد عر بیہ میں نہایت کامیابی کے ساتھ تبلیغ حق کا فریضہ ادا فرما چکے تھے.مکرم و محترم السید منیر لکھنی صاحب دمشق کے ایک نہایت معزز خاندان کے فرد ہیں.آپ 1927ء میں مکرم مولوی صاحب کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئے تھے اور اس وقت سے لے کر اس وقت تک اپنے اخلاص میں برابر ترقی کر رہے ہیں.آپ جماعت احمد یہ دمشق کے پریذیڈنٹ ہیں اور نہایت سرگرمی کے ساتھ تبلیغ احمدیت میں منہمک رہتے ہیں.آپ پہلی مرتبہ دیار حبیب میں تشریف لائے ہیں.ہم ہر دو اصحاب کی خدمت میں دیار حبیب میں تشریف لانے پر ایک بار پھر اهلا وسهلا و مرحبا عرض کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تشریف آوری ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے.(آمین).(الفضل قادیان 16 اکتوبر 1946ء) مولا نا شمس صاحب سے ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کے نمائندہ کی ملاقات مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے جو مسجد لنڈن کے دس سال تک امام اور احمد یہ مشن لنڈن کے انچارج رہ چکے ہیں 16 اکتوبر کو لاہور میں ہندوستان کی جملہ سیاسی جماعتوں کے بارہ میں فرمایا کہ وہ اپنی تمام جائز اور صحیح شکایات کو کشادہ دلی سے جذ بہ مفاہمت کے ماتحت حل کرنے کی کوشش کریں.مکرم مولوی شمس صاحب نے جو اس ہفتے کے دوران میں امام مسجد لندن کے عہدہ سے سبکدوش ہونے پر تین ماہ کی طویل مسافت کے بعد عرب ممالک میں سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچے ہیں ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کے ایک نمائندہ کو بیان دیتے ہوئے فرمایا: ” میری یہی خواہش ہے کہ اہل ہند عدم اتحاد کی روح کو خیر باد کہہ کر بین الاقوامی تحریک معاونت میں اپنے لئے باعزت جگہ حاصل کریں.آج ہندوستان کے متعلق اقوام عالم کا نظریہ حقارت سے پر ہے.آپ نے فرمایا.ابھی وقت ہے کہ ہم اپنے وطن کو عمدگی سے سنوار لیں اور اس طرح اپنے وو
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 66 آپ کو اغیار کے تمسخر کی آماجگاہ بنے رہنے سے محفوظ و مامون کر لیں.“ وو 435 مولا نا صاحب موصوف نے اس حقیقت کا پرزور الفاظ میں اظہار فرمایا کہ اختلافات یقیناً دوستانہ طریق پر طے ہو سکتے ہیں.مشرق وسطی میں لڑائی جھگڑوں اور با ہمی خلفشار پر مولوی صاحب موصوف نے بہت کچھ روشنی ڈالی.آپ نے گفتگو کو مسئلہ فلسطین سے شروع کیا اور آخر میں فلسطین کے متعلق صدر ٹرومین کے آخری بیان دربارہ داخلہ یہود کو ایک چالاکی و ہوشیاری کی ایک چال قرار دیا کہ جو آئندہ صدراتی انتخابات میں یہودی ووٹس حاصل کرنے کی غرض سے چلائی گئی ہے.نیز فرمایا: عرب ہرگز فلسطین میں یہودیوں کے داخلے پر رضامند نہیں ہوں گے.اور پھر پرزور الفاظ میں بتایا کہ عرب کبھی بھی روس سے امداد کی درخواست نہ کریں گے.یہودی کریں تو کریں.آپ نے مزید فرمایا ” مسئلہ فلسطین کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ 1939 ء کا قرطاس ابیض ہے جس کا مقصد فلسطین میں وفاقی حکومت کا قیام ہے جس میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہودی صرف 33 فی صدی کی حد تک شریک کار ہو سکتے ہیں.آپ نے یہ بھی فرمایا.” تمام عرب ممالک عرب لیگ کے ماتحت مصمم طور پر متحد ہو چکے ہیں اور اب وہ اپنے حقوق کے حصول کی خاطر ہر قسم کی جدو جہد کیلئے کافی منتظم اور مضبوط ہیں.(بہر حال) مشرق وسطی میں نازک قسم کے سیاسی تقابل کشمکش کے آثار پائے جاتے ہیں.جہاں آپ نے اس امر کو تسلیم کیا کہ انگریز مسئلہ فلسطین کے بارہ میں عربوں کے حق میں نظر آتے ہیں وہاں مولوی صاحب موصوف نے مصر سے متعلق ان کے رویہ کی مذمت کی اور فرمایا.انگریز کبھی بھی مصر کو بکلی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوں گے.وہ بوجہ اس کے اہم ترین جائے وقوع کے نہر سویز کے معاملات سے اپنے مفاد عظیم کی خاطر گہرا تعلق رکھتے ہیں.یہ ہو سکتا ہے کہ بعض مراعات حاصل کرنے کے بعد وہ مصر کو خالی کردیں لیکن مصر کے آس پاس وہ اپنے اڈے ضرور قائم رکھیں گے، فلسطین میں تو ان کی افواج موجود ہیں.حال ہی میں اگر چہ انہوں نے شام کے علاقوں کو خالی کیا لیکن ساتھ ہی ٹرانس جورڈن (شرق اردن ) میں بادشاہ عبداللہ کو تخت پر بٹھا کر نئے معاہدے کی رو سے اپنی فوجوں کو وہاں لا بٹھایا ہے آپ نے یہ بھی کہا ” تمام مصری بوڑھے اور جوان اور تمام سیاسی جماعتیں بلا استثناء اس مطالبہ پر متفق ہیں کہ برطانوی افواج سرزمین مصر کو بکلی خیر باد کہہ دیں.ایران کے بارہ میں مولوی شمس صاحب نے فرمایا کہ بڑی طاقتوں سے کوئی بھی اس وقت ایران میں لڑائی مول لینے کو تیار نہیں کیونکہ سب جنگ سے اکتا چکی ہیں لیکن تیل کے چشموں پر کبھی نہ کبھی اگر چہ ایک طویل عرصہ کے بعد ہی سہی لڑائی کا امکان ضرور ہے.ایرانی وز یر اعظم
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 436 قوام السلطنت کے بارہ میں آپ نے فرمایا کہ مسئلہ آذربائیجان کے بارہ میں ان کے رویہ اور ان کی حکومت 66 کے دوسرے اقدامات سے میں یہی اندازہ لگا سکا ہوں کہ وہ روس کی طرف مائل معلوم ہوتے ہیں.“ الفضل قادیان 18اکتوبر 1946ء) مغرب سے طلوع شمس کے متعلق رسول کریم صلعم کی ایک پیشگوئی 16اکتوبر 1946 بعد نماز عصر جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے طلباء نے حضرت مولانا شمس صاحب کی انگلستان سے کامیاب مراجعت اور مکرم جناب منیر آفندی احصنی امیر جماعت احمد یہ دمشق کی تشریف آوری پر ایک چائے کی دعوت دی جس میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے پر معارف خطاب فرمایا جس میں حضور نے حضرت مولانا موصوف کی مغرب سے مراجعت کو آنحضرت ﷺ کی مغرب سے طلوع شمس کی پیشگوئی کا ایک بطن قرار دیا.یہ روح پرور خطاب اس کتاب کے سیرت والے حصہ میں شامل کیا گیا ہے.شمس صاحب کا خیرم مقدم ( حافظ سلیم احمد اوٹاوی، قادیان) نکتہ داں اے جلال الدین فاضل اے فقیہہ نکتہ اے مجاہد دین حق کے اے خطیب خوش بیاں ہو کیوں نہ ہر پیر و جواں تیری خوش بختی خوش گل باغ مسیح اے آنے والے تجھ اے محترم مهدی آخر زمان ہوں اللہ کے اللہ کے صدہا سلام لندن کی مسجد کے رسول پاک کے مخلص امام 글은 일본 غلام مقام خواجه یثرب مرحبا صد مرحبا اے بنده عالی تیری تبلیغی مساعی اس قدر ہیں شاندار
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کیوں نہ خالد کا لقب دے کار زار کفر میں ہرگز باطل ہر ایماندار دیا اے پرستار صداقت داعتی حق مرحبا زیر تجھ کو کر سکے ہرگز نہ طاغوتی تبر سپر حق کی خاطر تو رہا میدان میدان میں و شب تو چھاؤں میں تلوار کی کھیلا کیا روز دین کی خاطر ہزاروں سختیاں جھیلا کیا بیوی بچوں سے رہا دس سال تک بالکل جدا آفریں صد آفریں شاباش اے مرد خدا جا کے پھیلائیں جو ہر دین حق آئین کو تیرے جیسے جیسے غازیوں کی ہے ضرورت دین کو یہی اللہ ہے میری اب بار بار ایر رحمت تیرے گھر ہر گھڑی چھایا رہے الفضل قادیان 14اکتوبر 1946ء صفحہ 2) أَهْلاً وَّ سَهْلاً وَ مَرْحَبًا ( حضرت قاضی ظہور الدین اکمل ) جلال الدین شمس سیکھوانی مرحبا آئے جو سورج صدق اسلامی کا مغرب میں چڑھا آئے عرب میں شام میں مصر و فلسطیں کوہ کرمل میں یہی تو ہیں جو اول احمدی سکه بیٹھا آئے 437
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس امام خدا کے فضل منصور تبلیغ فرماتے ہو کر برملا آئے نشأة في العبادة اس جوانی میں مبارک ہو زمان مصلح موعود سبھی برناؤ پیر پیر میخانه سعادت انتما آئے متے عرفاں جو بخشی ہے مسیحائے محمد نے بلاد مغربی میں کم پہ تم اس کے لنڈھا آئے , میں طفل NA فخر پایا ہے جدا آئے عزیز مصر الفت یوسف محبت ہو پیئے دیدار حسن خدمت دین ہدی آئے ملائک پھول برساتے مبارکباد کے اترے تو اصحاب النبی لے کر ہدایائے دعا آئے سرور قلب و نور دیده ہو معذور اکمل کے خدا کا جیتے جی جی مرے تم رُونما آئے 438 الفضل قادیان 15 اکتوبر 1946 ء صفحه 2) اخبار ڈیلی میل کا خراج تحسین مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب سابق مبلغ فرانس.جنوری 1947ء) کچھ دن ہوئے اخبار ڈیلی میل میں ایک مضمون بعنوان ”ہائیڈ پارک میں گوشئہ مقررین“ شائع ہوا ہے.اس مضمون میں انگریزی حکومت کے ماتحت رعایا کو جو آزادی کلام حاصل ہوا ہے اس کا ذکر کیا گیا ہے.تمہید کے بعد صاحب مضمون اپنے اس مقالہ میں بعض مقررین کا خاص ذکر کرتا ہے لیکن اس میں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 439 سب سے نمایاں ذکر ” اسلامی پلیٹ فارم کا کیا گیا ہے.اس طویل بیان میں سے چند اقتباسات پیش ہیں: ہائیڈ پارک کے مقررین کی اس گیلری میں ابھی ابھی ایک نیا اضافہ ہوا ہے.ایک چھوٹے قد باریش ، گندمی رنگ ، چمکیلی، بڑی بڑی آنکھوں والے مقرر کا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اہل لندن کو مسلمان بنانے کا تہیہ کیا ہے.اس کی انگریزی کافی رواں اور تیز ہے.چہرہ پر متانت اور مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ وہ اعتراضات اور سوالات سنتا ہے لیکن جونہی وہ اپنے سائل کے مقصد کو سمجھ جاتا ہے بڑی مشکل سے وہ اپنے آپ کو روک سکتا ہے پھر وہ انتہائی جوش میں آکر انگلیوں کو تیز تیز حرکت دیتے ہوئے پلیٹ فارم پر گوناں گوں وثوق کے ساتھ ہاتھ مارنے لگتا ہے.مجھے سنو! پھر وہ پکارتا ہے سنو! تم جہالت سے کہہ رہے ہو.میرے دوستو اجازت دو کہ تمہیں قرآن اس کا جواب دے.قرآن کو جواب دینے دو اور پھر وہ قرآن کے ایک بہت مستعمل نسخہ کے اوراق الٹنے لگتا ہے.حتی کہ وہ ضروری مقام تلاش کر لیتا ہے.پھر وہ فاتحانہ انداز سے ایک بشاش نظر اپنے گردو پیش پر دوڑاتے ہوئے جو کچھ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا ہے زور بیان اور تاکید کے ساتھ رک رک کر پڑھتا ہے.پہلے وہ گوناں جذبات کے ساتھ اسے عربی زبان میں پڑھتا ہے.اس کے گرد قریب ہی اس کے دیگر مقتدین اور شاگرد دس پندرہ کے قریب جوان عرب بعض سفید پگڑیوں میں اکثر باریش ہاتھ باندھے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور جونہی کہ وہ قرآن کے الفاظ سنتے ہیں وہ بھی فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہیں.سروں کو ہلاتے ہوئے اپنے گرد ملحدوں اور منکروں کی جمعیت کو دیکھنے لگتے ہیں اور عموماً خود کو اس طرح ظاہر کرنے لگتے ہیں کہ ان کے میر میدان اور پہلوان نے ناقابل تردید طریق پر پیش کردہ بات کو ثابت کر دیا ہے.پھر وہ بیتابی اور خوشی کے ساتھ ہاتھوں کو باندھے ہوئے جلدی ان آیات کا انگریزی ترجمہ کرتا ہے.یہ ظاہر اور صریح بات ہے کہ وہ اور سوالات چاہتا ہے اور دلائل چاہتا ہے.یہ ان ایام کا ذکر ہے کہ جب مکرم مولوی صاحب ( حضرت مولانا شمس صاحب ) پندرہ کے قریب دیگر واقفین کے ہمراہ ہائیڈ پارک لیکچر کیلئے تشریف لے جاتے تھے.ہماری اس قدر
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس جمعیت بفضلہ ہائیڈ پارک کے زائرین کی غیر معمولی توجہ اور جذب کا باعث ہوتی.لوگ کثرت ہجوم سے مکر می مولوی صاحب کی تقریر متواتر کئی کئی گھنٹے سنتے اور ہمارا یہ اجلاس غیر معمولی کامیابی سے ختم ہوتا.بفضله الله.اسی طرح چند ایک اور مقرر کا ذکر کرتے ہوئے نہایت وو اختصار کے ساتھ مقالہ نگار اپنے اس مقالہ کو ان الفاظ پر ختم کرتا ہے.440 الغرض آزادی کلام ، آزادی ضمیر، آزادی رائے اور تحمل رواداری اور بردباری کا یہ زندہ نشان لندن کا ایک غیر معمولی حصہ ہے جمہوری طریق حکومت میں جو کہ ساری دنیا کو ایک قابل تقلید سبق دیتا ہے.الفضل قادیان 6 جنوری 1947ء) انگلستان میں خدمات سلسلہ کے بارہ میں حضرت مولوی صاحب کا ریویو 1946ء میں جب حضرت مولانا شمس صاحب لندن سے واپس قادیان تشریف لائے تو ایڈ میٹر ریویو آف ریلیجنز کی درخواست پر آپ نے اپنے گذشتہ دس سال کی انگلستان کی خدمات پر ایک مفصل مضمون تحریر کیا جس کے بعض حصے پیش ہیں.یورپ میں تبلیغ اسلام کی ابتداء حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی زندگی میں لکھوکھا پمفلٹ یورپ اور امریکہ میں بھجوائے اور ان ملکوں میں آپ کے دعوئی کے متعلق مضامین بھی شائع ہوئے.ایک دفعہ آپ کی زندگی میں ایک انگریز مسٹر ڈکنسن نامی قادیان آئے اور آپ سے گفتگو کی.جب وہ واپس جانے لگے تو حضور اقدس بھی انہیں رخصت کرنے کیلئے ساتھ چل پڑے اور مترجم کے ذریعہ اپنے دعوئی اور اسلام کے متعلق گفتگو فرماتے گئے یہاں تک کہ نہر کا پل آگیا جو قادیان سے تقریبا اڑھائی تین میل کے فاصلہ پر ہے.وہ انگریز آپ کی اس ہمت اور صدق و استقامت اور جوش تبلیغ کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا.یہ صرف ایک ہی موقعہ نہ تھا بلکہ اور بھی کئی مواقع پر حضور کی خدمت میں یورپین لوگ آتے رہے اور آپ اسلام کی پاکیزہ تعلیم ان کے سامنے پیش کرتے رہے.ملکہ وکٹوریہ کو براہ راست ایک خط کے ذریعہ دعوتِ اسلام دینے کے علاوہ آپ نے یورپ اور
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 441 امریکہ میں تبلیغ اسلام کی غرض سے 1902 ء میں ماہوار انگریزی رساله ریویو آف ریلیجـنـز جاری کیا.مزید برآں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی پیشگوئیوں کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے دو ایک تاریک و تار مستقبل کو ایک روشن مستقبل میں تبدیل کر دیا.آپ نے فرمایا: طلوع نٹس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا، ہم اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر وضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا.پھر اپنے ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریر میں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہوجائیں گے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 376-377) نیر آپ نے فرمایا : وو وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.“ [ اشتہار 14 جنوری 1897ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 304] اسی طرح جب حضرت مفتی صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کو لندن کے جھوٹے مسیح پکٹ کے دو نوٹس ( جو اس نے مفتی صاحب موصوف کو ان کے خط کے جواب میں بھیجے تھے ) پڑھ کر سنائے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: معقول باتوں کی قدر ہوتی ہے اور وہ رہ جاتی ہیں لیکن جاہلانہ باتوں کی رونق دو تین سطروں میں جاتی رہتی ہے.جھوٹے نبیوں اور مسیحوں کا قدم پہلے لندن میں رکھا گیا اور سچے مسیح کی آواز اس کے بعد لندن میں پہنچے گی.“ 66 (الحکم قادیان 17 نومبر 1902ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس لندن میں تبلیغی مشن کا قیام 442 مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہے کہ آپ کا دل اس یقین سے پر تھا کہ آخر اسلام کی فتح ہوگی اور عیسائیت مغلوب ہوگی.آپ کو یورپ میں تبلیغی مشن کھولنے کا بہت شوق تھا اور اس امر کا آپ نے ایک دفعہ ارادہ بھی ظاہر فرمایا چنانچہ میاں سر فضل حسین مرحوم جب 1927ء میں لندن گئے اور جماعت احمد یہ لندن نے 24 اگست 1927 ء کو ان کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا تو آپ نے اسکا جواب دیتے ہوئے فرمایا : مغرب میں تبلیغ اسلام کا خیال بانی جماعت احمدیہ کا پیدا کردہ ہے.تمہیں سال کا عرصہ ہوا جب آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب سے بالواسطہ دریافت فرمایا کہ کیا وہ یورپ میں تبلیغ اسلام کیلئے جاسکتے ہیں؟ لیکن انہوں نے قانونی پریکٹس شروع کر دی اور اس وقت اسلام کی اشاعت کیلئے اپنے آپ کو وقف نہ کر سکے (ریویو آف ریلیجنز قادیان اکتوبر 1927ء) لیکن یہی شخص جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کو پورا نہ کر سکا، آخر کار حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک مقدمہ کے سلسلہ میں لندن گیا اور پھر تبلیغ اسلام کیلئے وہیں رہ پڑا اور تبلیغ کا کام شروع کیا لیکن تھوڑے مدت کے بعد اس خیال سے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کو پیش کیا گیا تو دوسرے مسلمانوں کی امداد سے محروم ہو جائیگا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو پیش کرنا چھوڑ دیا جنہیں خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اشاعت اسلام کیلئے بھیجا تھا اور اس کے اور اس کے متبعین سے احیاء اسلام کو وابستہ کر دیا تھا.1914ء میں جب حضرت خلیفہ اول وفات پاگئے اور جماعت نے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسح الثانی کوخلیفہ منتخب کرلیا تو خواجہ کمال الدین صاحب غیر مبائعین کے ساتھ مل گئے اس لئے جماعت احمد یہ قادیان نے اپنا مشن ان سے علیحدہ کر لیا.1924ء میں حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح الثانی ایک مذہبی کانفرنس میں شمولیت کیلئے لنڈن تشریف لے گئے.وہاں آپ نے اسلام کی خوبیوں پر ایک لیکچر دیا جو بعد میں کتابی شکل میں زیر عنوان احمدیت یعنی حقیقی اسلام اردو زبان میں اور زیر عنوان Ahmadiyyator True Islam بزبان انگریزی شائع ہوا.اس کتاب میں آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق اسلامی تعلیم کو نہایت احسن اور دلکش پیرایہ میں بیان کیا ہے جس سے انگریزوں کا پڑھا لکھا طبقہ بے حد متاثر ہوا اور انہیں اسلام کے متعلق مزید تحقیق کا شوق پیدا ہوا.
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 443 اثناء قیام لندن میں حضور نے احمدیہ مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا.اس مسجد کا افتتاح......اکتوبر 1926ء میں ہوا.لندن جیسے شہر میں جو عیسائیت کا مرکز ہے احمد یہ مسجد کا بننا کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے عیسائیوں کے قلوب میں بے چینی پیدا نہ ہوتی.چنانچہ دی ہیپیٹسٹ ٹائمنز نے مسجد کے افتتاح پر لکھا: "The coming of the mosque may be regarded as a challenge.The west has been trying to convert the East and unhappily has not maintained its strength at home.Now the East is looking to the West, and the Muslims' call to prayer will be heard in this land." یعنی ” اس مسجد کی عمارت کو ہمیں ایک چیلنج سمجھنا چاہئے.مغرب مشرق کو عیسائی بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن بد قسمتی سے خود اپنے گھر میں اپنی طاقت کو قائم نہیں رکھ سکا.اب مشرق مغرب کی طرف توجہ کر رہا ہے اور نماز کیلئے مسلمانوں کی اذان یہاں سنائی دیگی.مسجد کا لنڈن کے قلب میں دکھائی دینا پادریوں کیلئے ایک پریشان کن چیز تھی.بہر حال اس وقت سے تبلیغی کام پہلے سے زیادہ مؤثر رنگ میں شروع ہوا.1936ء میں مجھے حضور نے لنڈن بھیجا.پہلے دو سال میں وہاں بطور نائب امام مسجد لنڈن کام کرتا رہا.1938ء میں میں نے مشن اور مسجد کا چارج لیا اور اگست 1946 ء تک بطور امام مسجد کام کرتا رہا.اب میں مختصر طور پر لندن مشن کے طریق کار کے متعلق لکھتا ہوں.ہمارے وسائل تبلیغ اس مشن کا مقصد اعظم مخالفین اسلام کے اعتراضات وشبہات کا ازالہ اور اسلام کو اس کے اصلی رنگ میں پیش کرنا ہے اس غرض کیلئے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جاتا ہے اور ان ذرائع کو دو بڑے عنوانوں کے ماتحت لایا جا سکتا ہے یعنی ایک تقریری اور دوسرا تحریری.نومسلموں کے معلومات میں اضافہ اور غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے کیلئے دار التبلیغ لنڈن میں حسب حالات ہفتہ واری یا پندرہ روزہ جلسے کئے جاتے ہیں جن میں عام طور پر اسلامی مسائل پر لیکچر دیئے جاتے ہیں.اسلام کے تمدنی قوانین.سوانح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی تعلیم ، اسلام اور سائنس، ملائکہ کی ہستی کا ثبوت، اسلام اور عیسائیت اور کامل الہامی کتاب وغیرہ موضوعوں پر لیکچر ہوتے ہیں.لیکچروں کے اختتام پر سوالات کا موقع دیا جاتا ہے.بعض وقت سیرۃ النبی کا جلسہ کیا جاتا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض نکتہ چینیوں کا جواب دیا جاتا ہے.اس تقریب پر پادریوں سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 444 سوانح پر تقریر میں کرائی جاتی ہیں.لندن میں ایک موومنٹ ہے جس کے ماتحت بیسیوں بالغ مرد اور عورتوں کی کلاسز ہیں جن کیلئے خاص نصاب مقرر ہوتا ہے.1939ء میں ان کیلئے جو کتاب بطور کورس مقرر ہوئی تھی اس میں اسلام پر بھی ایک سبق تھا جس کے متعلق بعض سکولوں کے منتظمین نے چاہا کہ وہ اسلام کے موضوع پر مجھ سے بھی کچھ سنیں.چنانچہ اس ضمن میں مجھے تھیں سے زائد سکولوں میں بولنے کا موقع ملا.مثال کے طور پر ماہ فروری 1939 ء کا ذکر کرتا ہوں.5 فروری کو ہاکسٹن اکیڈیمی ایڈلٹ سکول میں لیکچر دیا.8 فروری کو بلومسبری ایڈلٹ سکول میں.12 فروری کو کنگسٹن ایڈلٹ سکول میں.14 فروری کو وومن ایڈلٹ سکول میں.15 فروری کو سٹر تھم ایڈلٹ سکول میں.16 فروری کو ولسڈن ایڈلٹ سکول میں.17 فروری کو گرین فورڈ ایڈلٹ سکول میں.22 فروری کو پوکنڈرے اور پھل ایڈلٹ سکولز میں لیکچر دیئے.اسی طرح دی جورج ایڈلٹ سکول، فنچلی ایڈلٹ سکول، یوئیل ایڈلٹ سکول اور دیگر سکولوں میں بھی لیکچر دیئے گئے اور تمام سکولوں کی لائبریریوں کیلئے ایک ایک سیٹ تبلیغی کتب کا دیا گیا.ان کے کورس میں اسلام کے متعلق جو سبق درج تھا اس میں اسلام کے متعلق جو غلط بیانیاں کی گئی تھیں وہ ان پر واضح کی گئیں.بطور نمونہ میں ایک غلط بیانی کا ذکر کرتا ہوں.اس میں لکھا تھا: Tosay, Godloves, Soundsblasphemous to a Muslim.یعنی یہ کہنا کہ خدا محبت کرتا ہے ایک مسلمان کو کفریہ کلمہ سا معلوم ہوتا ہے.میں نے کہا اسلام کے متعلق یورپین مؤلفین جیسی بے ثبوت اور بے بنیاد باتیں لکھتے ہیں یہ اس کا ایک نمونہ ہے.جس نے یہ سبق لکھا ہے مجھے یقین ہے کہ اس نے قرآن مجید کو جو اسلام کا اصل الاصول ہے بھی نہیں پڑھا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : 32) اے رسول! تو لوگوں سے کہدے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا جیسا کہ اس نے مجھ سے محبت کی ہے.پھر فرمایا يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (المائدة:55) اور وہ اس سے محبت کریں گے.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِين يُقَاتِلُوْنَ فِي سَبِيْلِهِ (القف: 5).اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں.نیز فرمایا وَالَّذِيْنَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لله (البقرة: 166).مومن خدا سے ایسی محبت رکھتے ہیں کہ جس سے زیادہ متصور نہیں.پس قرآن مجید میں
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 445 خدا اور اس کے بندوں کے تعلق کومحبت کا تعلق بتایا گیا ہے.جب یہ آیتیں قرآن مجید سے انہیں دکھائی جاتیں تو ان پر مصنف کی جہالت آشکارا ہو جاتی.اسلام اور بائیبل میں عورت کا مقام پھر ایک اور سوال جو ہر جگہ دریافت کیا گیا، وہ یہ تھا کہ کیا درست ہے کہ اسلام کی تعلیم کی رو سے عورتیں جنّت میں نہ جائیں گی اور یہ کہ ان میں روح نہیں؟ میں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہر میٹنگ میں یہ واضح کیا کہ جس قدر حقوق اسلام نے عورت کو دیئے ہیں اتنے کسی اور مذہب نے اسے نہیں دیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی عیسوی میں جبکہ ہر ملک میں عورت کو ذلیل و حقیر خیال کیا جاتا تھا، یہ آواز بلند کی : النساء شقائقُ الرِّجالِ.عورتیں مردوں کی ہم پلہ اور ہم جوڑ ہیں اور قرآن مجید میں مردوں اور عورتوں دونوں کا ذکر پہلو بہ پہلو کیا گیا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُومِناتِ...أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَّ أَجْراً عَظِيماً (الاحزاب : 36) یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے.نیز فرمایا: مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابِ O (المؤمن: 41) اور جو شخص نیک کام کرے مرد ہو یا عورت در آنحالیکہ وہ مومن ہے وہ جنت میں داخل ہوں گے اور اس دنیا میں بغیر حساب رزق دیئے جائیں گے.نیز فرمایا: هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِتُونَ ( لين :57) وہ اور ان کی بیویاں جنت میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوں گے.لیکن برخلاف اس کے نئے عہد نامہ میں لکھا ہے.پولوس کہتا ہے : البتہ مرد کو سر ڈھانکنا چاہئے کیونکہ وہ خدا کی صورت اور اس کا جلال ہے مگر عورت مرد کا جلال ہے اس لئے کہ مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے اور مرد عورت کیلئے نہیں بلکہ عورت مرد کیلئے پیدا ہوئی.“ عہد نامہ جدید 1 کرنتھیوں 7:11-9)
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 446 اس سے ظاہر ہے عورت کو مرد سے بہت نیچا اور ذلیل سمجھا گیا ہے اور جیسے اور چیزیں اس مرد کیلئے اس جہان میں پیدا کی گئی ہیں ویسے ہی عورت بھی اس کیلئے پیدا کی گئی ہے.پھر لکھا ہے: عورتیں کلیسیا کے مجمع میں خاموش رہیں کیونکہ انہیں بولنے کا حکم نہیں بلکہ تابع رہیں جیسا تو رات میں بھی لکھا ہے.اور اگر کچھ سیکھنا چاہیں تو گھر میں اپنے شوہر سے پوچھیں کیونکہ عورت کا کلیسیا کے مجمع میں بولنا شرم کی بات ہے.جو باتیں میں تمہیں لکھتا ہوں وہ خداوند کے حکم ہیں اور اگر کوئی نہ جانے تو نہ جانے.“ عہد نامہ جدید، 1 کرنتھیوں 34:14-38) لیکن اس کے مقابلہ میں اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیں مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کیا کرتیں اور آپ جواب دیتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی حضرت عائشہ کے متعلق صحابہ کو فرمایا کہ تم نصف دین ان سے سیکھو.چنانچہ بڑے بڑے صحابہ مشکل اور پیچیدہ مسائل میں آپ سے فتویٰ پوچھا کرتے تھے.لیکن عیسائیت عورت کو سکھانے کی اجازت دینا تو کجا وہ تو اسے سوال پوچھنے کی بھی اجازت نہیں دیتی مگر باوجود اس کے یورپین مؤلفین کا یہ لکھنا کس قدر ظلم اور خلاف واقعہ ہے کہ اسلام عورتوں میں نہ روح کا قائل ہے اور نہ ان کے جنت میں جانے کا.اسی طرح میں نے ایکٹن ایلنگ براڈوے روٹری کلب ، چیٹیم روٹری کلب کلیپیہم اور وانڈ زورتھ اور دیگر بہت سے روٹری کلبوں میں اسلام کے موضوع پر لیکچر دیئے.ایکٹن روٹری کلب میں جو میں نے اسلام کے موضوع پر مقالہ پڑھا تو کلب کے ایک ممبر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: میں مصر اور اس کے ریگستانوں میں بھی رہا.سنوسیوں سے بھی ملا لیکن اسلام کی صلح کن تعلیم ,, جو میں نے آج سنی ہے پہلے کبھی سننے کا موقعہ نہیں ہوا.“ اسی طرح دوسری سوسائیٹیوں مثلاً تھیوسوفیکل سوسائیٹی ، ویمبلی انٹرنیشنل فرینڈ شپ لیگ، ورلڈ کانگرس آف میتھس ، سوسائٹی فار دی سٹڈی آف ریلیجنز وغیرہ کی دعوتوں پر لیکچر دیئے جاتے ہیں اور اسلام کی صحیح تعلیم پیش کی جاتی ہے.بعض غلطیوں کی اصلاح بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے مسلم لیکچرار عیسائیوں سے مرعوب ہوکر اسلام کے بعض عقائد کو بگاڑ کر پیش کرتے ہیں اور ہمیں ان کے مقابلہ میں آواز اٹھانی پڑتی ہے اور ہم اسلام کا صحیح نقطہ نظر پیش
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 447 کرتے ہیں.اس کیلئے بھی ایک دو مثالوں کا پیش کرنا بے محل نہ ہوگا.ڈاکٹر ڈڈلی رائٹ( جنہوں نے? Where Did Jesus Die کا دیباچہ لکھا ) جو 1913ء میں مسلمان ہوئے تھے، مورلی کالج میں ایک لیکچرار تھے انہوں نے مجھے بھی خط کے ذریعہ لیکچر میں حاضر ہونے کی دعوت دی.میں وقت پر پہنچ گیا.سوالات کے موقع پر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے سردار (CheifofProphets) تھے؟ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ ہم رسولوں کے درمیان امتیاز نہیں کرتے ، اور سب کو یکساں سمجھتے ہیں.اسی طرح ایک دو اور سوالوں کے انہوں نے غلط جوابات دیئے.میں نے صدر کی اجازت سے مذکورہ بالا سوال کے متعلق کہا کہ ہم مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام نبیوں کا سردار مانتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پہلے انبیاء خاص قوموں اور خاص ملکوں کیلئے بھیجے جاتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوئے.یہی وجہ ہے کہ پہلے انبیاء کوصرف اتنی تعلیم کا حصہ دیا گیا جو ان کی قوم کی اصلاح کیلئے ضروری تھا لیکن آنحضرت ﷺ کو ایک مکمل قانون دیا گیا جو دنیا کی تمام اقوام اور تمام زمانوں کی ہدایت کیلئے کافی ہے.اور یہ جو ایک لیڈی نے دریافت کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کیلئے بھیجے گئے تھے تو ہم مسلمان انہیں کیوں مانتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہیں، جو تمام اقوامِ عالم کی ہدایت کیلئے بھیجے گئے تھے اور ایسا نبی جو تمام دنیا کیلئے مبعوث ہوا اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ ان مختلف قوموں کے گذشتہ انبیاء کے متعلق بھی فیصلہ کرتا کہ وہ بچے تھے یا نہیں.سوخدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا کہ وہ خدا کے برگزیدہ نبی تھے جو خاص خاص قوم اور ملک کیلئے بھیجے گئے.حضرت عیسی بھی ، جیسا کہ انہوں نے خود کہا ، صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجے گئے تھے.(انجیل متی، باب 15 آیت 24) اور قرآن مجید نے بھی ان کے متعلق ورسولاً الى بنی اسرائیل کے الفاظ فرمائے ہیں.یعنی کہ وہ بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے بھیجے گئے تھے.اگر حضرت عیسی یا حضرت موسیٰ یا اور کوئی نبی تمام دنیا کیلئے مبعوث ہوتا تو اس کا یہ فرض تھا کہ وہ دوسری اقوام کے نبیوں کے متعلق فیصلہ دیتا کہ وہ سچے نبی تھے یا نہیں لیکن بائیل میں نہ حضرت موسیٰ نے اور نہ حضرت عیسی نے دوسری قوموں کے انبیاء کے متعلق کوئی فیصلہ دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے بھیجے گئے تھے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام قوموں کیلئے مبعوث ہوئے تھے لہذا آپ نے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 448 دوسری قوموں کے انبیاء کی صداقت کا اعلان کیا.اس لئے ہم پر یہ ضروری ہوا کہ ہم خدا تعالیٰ کے تمام نبیوں پر ایمان لائیں.پھر میں نے اس آیت کو جو ڈاکٹر ڈڈلی نے پیش کی تھی ، پڑھ کر اس کا ترجمہ کیا اور بتایا کہ اس آیت میں رسولوں کے درمیان تفریق نہ کرنے سے مراد ایمان لانے میں تفریق ہے کہ بعض کو مانا جائے اور بعض کا انکار کیا جائے نہ کہ درجات اور رتبہ کے لحاظ سے.ڈاکٹر ڈڈلی نے بعد میں مجھے لکھا که مورلی کالج کے پرنسپل نے انہیں لکھا ہے: "To convey to you the thanks of the college for your valuable contribution to last Tuesday's discussion." یعنی گذشتہ منگل کی مجلس میں آپ نے حصہ لے کر جو مفید اور قیمتی معلومات بہم پہنچا ئیں اس پر میں کالج کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.اسی طرح World Congress of Faiths میں ایک دفعہ مسلم مشیر وزیر ہند نے اسلام کے موضوع پر تقریر کی اور آیت وَمَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ (اسراء: 60) سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ گو حضرت عیسی وغیرہ نے معجزات دکھائے لیکن آنحضرت ﷺ کا معجزہ صرف قرآن مجید تھا.نیز آیت انّ الذين امنوا والذين هادوا....الخ (البقرة :63) سے استدلال کیا کہ اسلام تنگدل مذہب نہیں ہے وہ نجات کے حصول کیلئے آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ضروری قرار نہیں دیتا.عیسائی یہودی وغیرہ بھی اگر خدا تعالیٰ پر ایمان رکھیں اور نیک اعمال بجالائیں تو نجات پاسکتے ہیں.میں نے لیکچر کے اختتام پر کہا کہ معزز لیکچرار کی بیان کردہ باتیں قرآن مجید کے صریح منافی ہیں.قرآن مجید کی دوسری آیات میں دوسرے نشانات اور معجزات کا بیان ہوا ہے.چنانچہ معجزہ شق القمر کا ذکر سورۃ القمر میں موجود ہے.میں نے آیت پڑھ کر سنائی.اسی طرح بدر کے موقعہ پر جو دو گروہ لڑے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِتَتَيْنِ الْتَقَتَا (آل عمران :14 ) کہ اس میں بھی تمہارے عمران:14) لئے ایک نشان ہے.اور جس آیت کی طرف معزز سپیکر نے اشارہ کیا ہے، اس آیت میں الآیات سے مراد وہ خاص نشانات ہیں جن کا کفار مطالبہ کرتے تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہمیں یہ مخصوص آیات دکھانے سے صرف یہ بات مانع ہوئی ہے کہ پہلوں کے مطالبہ پر جب نشانات دکھائے گئے تو انہوں نے تکذیب کر دی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئے.اسی طرح اگر ان کفار کو بھی ان کے مطلوبہ معجزات دکھائے جائیں تو موجودہ حالت میں یہ بھی تکذیب پر مصر رہیں گے نتیجہ ان کی ہلاکت و تباہی ہوگی لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ اکثر ان میں
حیات ٹمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 449 سے آخر کار اسلام لے آئیں گے اس لئے انہیں ہلاکت سے بچانے کیلئے وہ معہودہ نشانات خدا نے نہ دکھائے.دوسرے امر کے بارہ میں میں نے کہا کہ قرآن مجید کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر کوئی نجات نہیں پاسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيْدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا.....أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُهِيناً ) (النساء:151-152) یعنی وہ لوگ جو خدا اور اس کے رسولوں کے منکر ہیں اور وہ جو خدا اور اس کے رسولوں میں تفریق کرتے ہیں اور وہ جو بعض کو مانتے اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ جو ان کے درمیان راستہ اختیار کرتے ہیں یہ سب پکے کافر ہیں.اس آیت کی موجودگی میں یہ کہنا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر نجات مل سکتی ہے.نجات کے حصول کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ایسے ہی ضروری ہے جیسے کہ حضرت عیسی اور دوسرے انبیاء پر اور آیت ان الذين امنوا والذين هـــادوا..الخ کا وہ مطلب ہر گز نہیں جو سپیکر نے لیا ہے.ایسا مطلب لینا قرآن مجید کی دوسری آیات کے صریح منافی ہے.انجیل و قرآن مجید کی تعلیم کا مقابلہ ہائیڈ پارک کے مباحثات اور لیکچروں میں سے میں ایک دو باتیں بطور مثال پیش کرتا ہوں.میں نے سب پادریوں کو چیلنج دے رکھا تھا کہ کوئی ان میں سے بائیبل سے ایسی تعلیم پیش کرے جو اس کے نزدیک سب سے اعلیٰ ہو میں اس سے بہتر قرآن مجید سے پیش کروں گا.ایک روز ایک پادری نے مجھے مخاطب کر کے نہایت وثوق اور یقین سے کہا کچھ بھی ہو مسیح نے پہاڑی وعظ میں جو تعلیم دی ہے وہ سب تعلیموں سے اچھی اور اعلیٰ ہے.میں نے اس معترض کو وہی جواب دیا جو میں نے مناظرہ میں ایک پادری کو دیا تھا یعنی یہ کہ قرآن مجید کی تعلیم اس پہاڑی وعظ سے بہت زیادہ اچھی اور مکمل ہے.آپ پہاڑی وعظ میں سے کوئی تعلیم پیش کریں میں اس سے بہت اعلیٰ تعلیم قرآن مجید سے پیش کروں گا.اس پر اس نے کہا مسیح نے یہ تعلیم دی ہے: اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کر اور جو کوئی خون کرے گاوہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر بغیر سبب کے غصے ہوگا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا.“
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 450 میں نے جواب دیا بیشک یہ اچھی تعلیم ہے مگر پہلے بھی کسی نبی نے یہ تعلیم نہ دی تھی کہ اپنے بھائی پر بے سبب غصے ہونا جائز ہے کیونکہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ کوئی انسان بلا وجہ کسی پر ناراض نہ ہو بلکہ امثال 30:3 میں یہی لکھا ہے کہ : کسی انسان سے بے سبب جھگڑ امت کر جس حال میں کہ اس نے تجھ سے کچھ بدی نہیں کی حقیقت یہ ہے کہ صرف اتنی سی بات کسی انسان کو تعریف کا مستحق نہیں بنا سکتی.آئیے قرآن مجید کی تعلیم کو دیکھیں اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت جو خدا تعالیٰ کی رضا کا مقام ہے.وہ ان لوگوں کیلئے ہے جو متقی ہیں اور انکی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے.وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ ( آل عمران :135 ) یعنی وہ باوجود غصہ دلانیوالے اسباب کی موجودگی کے اپنے غصہ کو روک لیتے ہیں اور ظاہر نہیں ہونے دیتے.پھر فرمایا کہ یہ آخری درجہ نہیں بلکہ اس سے اوپر ایک اور درجہ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران : 135) کا ہے یعنی نہ صرف یہ کہ وہ ناراضگی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ لوگوں کو معاف کرنے والے بھی ہیں.یہ ممکن ہے کہ ایک شخص غصہ دلانیوالی بات کا مرتکب ہوا اور دوسرا شخص غصہ کا اظہار نہ کرے لیکن دل میں ناراضگی محسوس کرے یا کم از کم غصہ دلانیوالے کو یہ خیال رہے کہ وہ اپنے دل میں ضرور ناراض ہوگا.سو قر آن مجید نے متقیوں کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ معاف کر کے اس کا کلیہ ازالہ کر دیتے ہیں.پھر فرمایا کہ اس سے او پر ایک اور درجہ بھی ہے اور وہ احسان کا ہے.چنانچہ فرمایا اللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ( آل عمران :135) کہ وہ نہ صرف معاف کرتے بلکہ اس وقت وہ احسان کے طور پر بلاطلب معاوضہ کوئی چیز بھی دیدیتے ہیں اور جب انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ اس وقت خدا کا محبوب بن جاتا ہے جو روحانی منازل کا اعلیٰ مقام ہے.یہ ایسی کامل تعلیم ہے کہ اس سے اوپر اور کوئی مرتبہ تجویز نہیں کیا جاسکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح ناصری کئی دفعہ اس موضوع پر مناظرہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت عیسی میں سے کون افضل ہے؟ ایک موقع پر ایک مسیحی نے مسیح کی افضلیت ثابت کرتے ہوئے کہا کہ جس قسم کے اخلاق کا حضرت مسیح نے نمونہ دکھایا اس کی نظیر کسی نبی میں نہیں پائی جاتی.جب یہودیوں نے اسے صلیب پر لٹکا یا تو اس نے ان کیلئے ان الفاظ میں دعا کی اے میرے باپ تو انہیں معاف کر کیونکہ وہ نہیں جانتے.میں نے کہا بیشک انہوں نے نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا لیکن آنحضرت ﷺ نے بھی اپنے ان دشمنوں کیلئے جنہوں
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 451 نے آپ صلم پر پتھر پھینکے، آپ کو زخمی کیا، یہ دعا کی تھی.اللَّهُمَ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اے خدا تو میری قوم کو ہدایت دے.یہ برا سلوک جو وہ مجھ سے کر رہے ہیں اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ مجھے نہیں جانتے.ظاہر ہے کہ یہ دعا مسیح کی دعا سے زیادہ مکمل تھی کیونکہ ہدایت اسی وقت مل سکتی ہے جبکہ پہلے گناہ معاف ہو جائیں.گویا اس میں ان کے گناہوں کی معافی کیلئے بھی آپ نے دعا کر دی.پھر دونوں کی دعاؤں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ مسیح نے یہود کے گناہ کی سزا یہ بیان کی تھی کہ ان سے آسمانی بادشاہت چھین لی جائیگی.وہ سزا انہیں مل گئی اور مسیح کے بعد ان سے کوئی نبی ظاہر نہ ہوا گویا مسیح کی یہ معافی طلب کرنے والی دعا بارگاہ الہی میں قبول نہ ہوئی.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعا کی تھی وہ خدا تعالیٰ نے سن لی.جب آپ نے مکہ فتح کیا اور سرداران قریش آپ کے رو برو پیش ہوئے تو آپ نے حضرت یوسف کی طرح ان کے گناہوں اور قصوروں کو معاف کر دیا اور پھر وہ اسلام لے آئے اور آپ کی یہ دعا کہ اے خدا میری قوم کو ہدایت دے اپنی پوری شان سے پوری ہوئی.دفاعی جنگ پھر حضرت علیستی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت ثابت کرنے کیلئے اس نے ان کی یہ تعلیم متی باب 5 آیات 38-39 سے پیش کی: " تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ، لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوکوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.“ یہاں یسوع مسیح نے نرمی کی تعلیم دی اور جنگ سے منع کیا اور خون گرانے کو کبیرہ گناہ سمجھا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی اور ہزار ہا انسانوں کے خون بہائے.میں نے کہا یہ تعلیم کہ شتر کا مقابلہ نہ کرو ناقص ہے.اگر بدی کا مقابلہ نہ کیا جائیگا تو تمام دنیا میں بدی پھیل جائیگی.لہذا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (سورة فصلت: 35) کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں بلکہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں اس لئے تجھے بدی کو احسن طریق سے مٹانا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 452 چاہئے اور تیرے ایسا کر نیکا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخر کار تیرا دشمن تیرا گہرا دوست ہو جائیگا.اسلام نے جنگ کی اجازت صرف دفاعی صورت میں دی ہے اور غرض یہ بتائی ہے کہ اگر دفاع کی اجازت نہ دیجاتی تو تمام اہل مذاہب کے معبد، گرجے ، مندر اور مساجد وغیرہ گرا دیئے جاتے اور یہی بات سچی ہے.آج اگر عیسائیت کی تعلیم پر عمل کر کے ہٹلر کا مقابلہ نہ کیا جاتا تو سب جگہ ہٹلر ہی کا راج ہوتا.مگر آج تمام مہذب اقوام جو ہٹلر اور نازیوں کا مقابلہ کر رہی ہیں سب بزبان حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور آپ کی عظمت کا اقرار کر رہی ہیں اور آپ ہی کی تعلیم کو صحیح اور قابل عمل قرار دے رہی ہیں اور عیسائیت کی تعلیم کے ناقص ہونے کا ثبوت پیش کر رہی ہیں.پھر میں نے بتایا کہ انجیل کی رو سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانا جائز تھا.جب یسوع کو یہود پکڑ کر لیجانے لگے اور پطرس نے سردار کا ہن کے نوکر کا آہنی تلوار سے کان اڑا دیا تو ” یسوع نے اس سے کہا اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے.“ (انجیل متی باب 26 آیت 53) اگر دفاعی جنگ کی بھی اجازت نہ ہو تو ظالمانہ طور پر تلوار اٹھانیوالے کیونکر تلوار سے ہلاک کئے جاسکتے ہیں؟ وہ تو سب کو تہ تیغ کر ڈالیں گے.پس مسیح کے اس قول سے صاف ظاہر ہے کہ دفاعی جنگ جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مسیح کے اس قول کی صداقت ثابت کر دی.مسیح نے آسمانی بادشاہت کی تمثیل ایک ایسے بادشاہ سے دی ہے جس نے اپنے بیٹے کی شادی کی اور اپنے نوکروں کو بھیجا کہ وہ مدعوین کو بلا لا ئیں مگر انہوں نے آنا نہ چاہا.پھر اس نے اور نوکروں کو یہ کہہ کر بھیجا کہ بلائے ہوؤں سے کہو کہ دیکھو میں نے ضیافت تیار کر لی ہے میرے بیل اور موٹے موٹے جانور ذبح ہو چکے ہیں اور سب کچھ تیار ہے شادی میں آؤ.مگر وہ بے پروائی کر کے چل دیئے.کوئی اپنے کھیت کو کوئی اپنی سوداگری کو اور باقیوں نے اس کے نوکروں کو پکڑ کر بے عزت کیا اور مار ڈالا.بادشاہ کو غصہ آیا اس نے اپنا لشکر بھیج کر ان خوبیوں کو ہلاک کر دیا اور ان کا شہر پھونک دیا.(دیکھیں انجیل متی باب 22 آیات 1-8) اس تمثیل میں بادشاہ خدا کا قائم مقام ہے اور یہ تمثیل صاف طور پر بتاتی ہے کہ ظالم سے بدلہ لینا جائز ہے.بعینہ یہی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ہوئی.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مائدہ آسمانی کی طرف دعوت دی لیکن مخالفین نے انکار تک ہی بس نہ کی ، بلکہ اس مائدہ آسمانی کی طرف بلانے والوں کو تہ تیغ کیا.تب خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کو اجازت دی کہ ان ظالموں اور
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 453 سفاکوں کا مقابلہ کیا جائے تا وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں.مسیح کے ان اقوال کی موجودگی میں کسی عیسائی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دفاعی جنگ کو قابل اعتراض ٹھہرائے.میری ان تصریحات کو سن کر وہ عیسائی بھی خوش ہوتے تھے جو ہٹلر کے خلاف جنگ کی حمایت میں تھے.ایسی باتیں تو اور بھی بہت سی ہیں جو یہاں بیان کی جاسکتی ہیں لیکن طوالت کا خوف مانع ہے.تبلیغ بذریعہ تحریر تحریری تبلیغ بھی کئی انواع کی ہے.مثلاً تبلیغی خطوط ، یعنی وہ خطوط جن میں اسلام کی تعلیم کی خوبیاں لکھی جاتی ہیں یا سوالات کے جوابات دیئے جاتے ہیں یا عیسائی دینی لیڈروں سے سوالات کئے جاتے ہیں.اس ضمن میں یہ ذکر کرنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ میں نے خود بادشاہوں اور مشہور وزراء اور لیڈروں کو بھی تبلیغی خطوط لکھے اور انہیں کتب بطور تحفہ بھیجیں.شہنشاہ معظم جارج ہفتم کو بھی تبلیغی خط لکھا اور ملکہ ہالینڈ کو بھی اور شاہ ناروے اور کنگ پیٹر آف یوگوسلاویہ کو بھی خطوط لکھے جنہوں نے کتب کے ہدیہ کو قبول کرتے ہوئے شکریہ کے خطوط بھیجے.اسی طرح فیلڈ مارشل سمٹس وزیر اعظم جنوبی افریقہ، مسٹر کنگ پرائم منسٹر آف کینیڈا، پرائم منسٹر آسٹریلیا اور پرائم منسٹر نیوزی لینڈ کو بھی خطوط لکھے اور کتب بھیجیں جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیں.یونائیٹڈ نیشنز کی جنرل اسمبلی کا جو اجلاس اس سال لنڈن میں ہوا اس میں شامل ہونے والے ایک سو پچاس نمائندوں کو بھی لٹریچر بھیجا گیا.آرچ بشپ آف کمینٹر بری سے خط و کتابت اس جگہ بطور مثال نہایت اختصار کے ساتھ اس خط و کتابت کا ذکر کرتا ہوں جو میرے اور آرچ بشپ آف کینٹر بری کے درمیان ہوئی.7 نومبر 1942ء کولنڈن پریس میں آرچ بشپ آف کینٹر بری اور آرچ بشپ آف یارک کا متفقہ اعلان شائع ہوا کہ یہ قدیم رسم کہ عورتیں چرچ میں ننگے سر داخل نہ ہوں سینٹ پال کا حکم ہے اور یہ حکم متقاضی ہے کہ عورتیں پردہ کریں لیکن پردہ کا استعمال مدت ہوئی متروک ہو چکا ہے لہذا بشپوں کے مشورہ کے بعد ہم یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی عورت اور لڑ کی چرچ میں ننگے سر داخل ہونے سے نہ ہچکچائے اور نہ اسکے متعلق اعتراض کیا جائے.(ٹائمنر ).
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اس موقع پر میں نے آرچ بشپ آف کینٹر بری سے مؤرخہ 14 نومبر 1942ء کو بذریعہ خط چند سوالات کئے.میں نے لکھا کہ آپ کا اعلان یقیناً سینٹ پال کے حکم مندرجہ 1 کرنتھیوں باب 11 کے خلاف ہے اس لئے کیا میں آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کر سکتا ہوں ؟ 1.کیا جو احکام اور قوانین نئے عہد نامہ میں مذکور ہیں وہ منسوخ ہو سکتے ہیں؟ 2.اگر ہو سکتے ہیں تو ان کی تنسیخ کا حق کسے حاصل ہے؟ کیا نازیوں نے بھی اسی طرح انجیل کے احکام کو منسوخ نہیں کیا تھا؟ 3.کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شاگردان مسیح کے خطوط میں مندرجہ احکام و ہدایات صرف مخاطبین کیلئے تھے یا تمام لوگوں اور تمام زمانوں کیلئے ؟ اگر آخری بات درست ہے تو پھر ان میں سے کسی کو منسوخ کردینا یقیناً چرچ کے عقیدہ کے مخالف ہوگا جبکہ سینٹ پال نے صاف کہا ہے تم میرے پیرو بنو جیسے میں مسیح کا پیرو ہوں اور ان احکام پر پوری طرح عمل کرو جو میں نے تمہیں لکھے ہیں.4.سینٹ پال نے اس حکم کی یہ وجہ بیان کی ہے.ہر مرد کا سریح اور عورت کا سر مرداور مسیح کا سر خدا ہے.جو مرد سر ڈھنکے ہوئے دعایا نبوت کرتا ہے وہ اپنے سر کو بے حرمت کرتا ہے اور جو عورت بے سر ڈھنکے دعا یا نبوت کرتی ہے وہ اپنے سرکو بے حرمت کرتی ہے.البتہ مردکو اپنا سر ڈھانکنا نہ چاہئے کیونکہ وہ خدا کی صورت اور اس کا جلال ہے.مگر عورت مرد کا جلال ہے اس لئے کہ مرد عورت سے نہیں بلکہ عورت مرد سے ہے اور مرد عورت کیلئے نہیں بلکہ عورت مرد کیلئے پیدا ہوئی“.(1 کرنتھیوں باب 11 آیات 3 تا9) عورت کے چرچ میں سر ڈھانکنے کے جو وجوہ سینٹ پال نے بیان کئے ہیں وہ اگر درست ہیں تو پھر یہ حکم کیونکر باطل ہوسکتا ہے؟ ور نہ ماننا پڑیگا کہ بواعث حکم بھی غلط اور باطل ہیں.5.آپ کے اعلان کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ موجب اعتراض ہوگا اگر مرد چرچ میں اپنے سروں پر ہیٹ رکھ کر جانا شروع کر دیں؟ آرچ بشپ آف کینٹر بری کی طرف سے چپلن اے وائٹ ٹامسن نے 19 نومبر کو مجھے لکھا کہ آرچ بشپ کو آپ کا خط مل گیا ہے لیکن کثرت مشاغل کی وجہ سے وہ خود ذاتی طور پر نہ ہر شخص کو خط لکھتے ہیں اور نہ سوالات کے تفصیلی جوابات دے سکتے ہیں اور ان کے نزدیک گرجا میں عورتوں کے ہیٹ پہن کر جانے سے سینٹ پال کی مرادان عورتوں سے تھی جو نماز پڑھاتی تھیں.454
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 27 نومبر کو میں نے اس خط کے جواب میں لکھا.اگر سینٹ پال کا یہی مقصد تھا کہ عورتیں پردہ کریں تو بچے پیروکار کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کرے.ورنہ وہی سوال اٹھیں گے جو میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں.اور یہ کہنا کہ سینٹ پال کا یہ حکم صرف ان عورتوں کیلئے تھا جو نماز پڑھا ئیں نہ کہ عام عورتوں کیلئے صحیح نہیں ہے کیونکہ اس نے اس خط میں اس امر کی تصریح کی ہے کہ عورتوں کو چرچ میں بولنے تک کی بھی اجازت نہیں ہے اور یہ کہ اگر وہ کوئی سوال بھی دریافت کرنا چاہیں تو انہیں گھر میں اپنے خاوندوں سے پوچھنا چاہئے.نیز وہ لکھتا ہے کہ جو باتیں میں لکھ رہا ہوں وہ میچ کے اقوال ہیں اور تیمتھیس باب 1 میں لکھتا ہے: عورت کو چپ چاپ کمال تابعداری سے سیکھنا چاہئے اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے ، یا مرد پر حکم چلائے ، بلکہ چپ چاپ رہے کیونکہ پہلے آدم بنایا گیا اس کے بعد حوا.اور آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑ گئی.“ پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر کوئی عورت اپنے خداوند کے حکم کے ماتحت عبادت کے وقت سر پر ہیٹ نہیں رکھ سکتی تو اس سے یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ اگر اسے ننگے سر گر جا میں داخل ہونیکی اجازت دی جائے تو وہ عاجزی اور سنجیدگی سے دعا کریگی.میرے نزدیک اصل وجہ گرجوں کی بے آبادی کی یہ ہے کہ ان کے دلوں میں عیسائیت کی صداقت پر ایمان نہیں رہا.آرچ بشپ آف کینٹر بری کے چیپن نے 2 دسمبر 1942ء کو اس خط کا یہ جواب دیا کہ آرچ بشپ اپنے پہلے جواب پر کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتے اور کثرت خطوط کی وجہ سے وہ تمام خطوط کا تفصیلی جواب نہیں دے سکتے.اب ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر آرچ بشپ آف کینٹر بری کے پاس میرے سوالات کا کوئی معقول جواب ہوتا تو وہ میرے خط کو بھی ان چند خطوط میں شمار کر سکتے تھے جن کے وہ تفصیلی جواب دیتے 455 ہیں لیکن انہوں نے کثرت مشاغل کا عذر رکھ کر اس مسئلہ کو ٹالنے ہی میں مصلحت سمجھی.پرائیویٹ خط وکتابت کے علاوہ اخبارات میں بھی مضامین دیئے جاتے ہیں.اخبارات کے نمائندے بھی بعض وقت دار التبلیغ میں آتے ہیں اور اسلام کے متعلق بعض معلومات حاصل کر کے اپنے اخبارات کو بغرض اشاعت بھیجتے ہیں.اسی طرح کبھی کبھی نو مسلموں کے کوائف بھی شائع کرتے ہیں اور اخبارات میں شائع شدہ مضامین سے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا مقصود ہوتا ہے جو یورپ میں اسلام کی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 456 نسبت پھیلائی گئی ہیں.جو لوگ اسلام کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہوں انہیں بعض ایسی کتب دیجاتی ہیں جن میں اسلامی تعلیم کی خوبیاں اور اس کی برتری بیان کی گئی ہے.اس وقت تک کئی کتب اور لکھوکھا کی تعداد میں پمفلٹ لندن مشن کی طرف سے شائع کئے جاچکے ہیں..ہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بینظیر ترقی بخشی ہے.لندن مشن کے دار التبلیغ میں خیر مقدم کی تقریبات پر لارڈز اور بڑے بڑے اراکین تشریف لاتے ہیں.مثال کے طور پر اس تقریب کا ذکر کرتا ہوں جس کا انتظام میں نے 1939ء میں امیر فیصل وائسرائے آف مکہ اور فلسطین کانفرنس کے دوسرے مند و بین کو خوش آمدید کہنے کیلئے کیا تھا.اس موقع پر یمن، شام، فلسطین اور عرب وغیرہ کے زعماء کے علاوہ لندن کے اکابر، ریٹائرڈ آفیسرز، مختلف حکومتوں کے چھ سفیر، پارلیمنٹ کے ممبر ، دس نائٹ اور انگلستان اور دیگر ممالک کے دوسرے بڑے بڑے عہدیدار اور اہل مناصب تشریف لائے تھے.اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ اب خدا کے فضل سے ہمارے مشن کو ایک بین الاقوامی شہرت اور تعارف حاصل ہو چکا ہے.نومسلموں کا اخلاص مسجد میں بعض وقت انگریز نو مسلم اذان دیتے ہیں اور اشهد ان لا اله الا اللہ اور محمدا رسول الله کی آواز بلند کرتے ہیں.عربی زبان میں نماز پڑھتے ہیں اور بعض قرآن مجید کو عربی زبان میں پڑھنا سیکھتے ہیں اور حسب توفیق چندوں میں بھی حصہ لیتے ہیں.چنانچہ 1945ء میں احمدیہ جماعت لنڈن نے مختلف مدات مثلاً چندہ عام، چندہ تراجم القرآن ، زکوۃ، چندہ برائے تعلیم الاسلام کالج، عید فنڈ، چندہ برائے مسجد سیرالیون ، چندہ تحریک جدید اور دیگر تحریکوں میں کل 445 پونڈ 12 شلنگ 3 پینس یعنی 6 ہزار روپیہ کے قریب چندہ دیا.وہ لوگ جو اس مقدس جماعت میں ابھی تک شامل نہیں ہوئے غور کریں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے تو وہ ان کی ایسی نصرت کیوں فرما تا.آج دنیا کے مختلف ممالک میں آپ کے خدام تبلیغ اسلام کر رہے ہیں اور صرف یورپ میں اٹلی، فرانس، سپین، سوئٹزر لینڈ اور انگلستان میں منشن قائم ہیں.آپ کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ کام کر رہی ہے جو دنیا کے تمام مسلمان مجموعی لحاظ سے بھی نہیں کر سکے.اس حالت پر غور کرو جبکہ آپ نے ازالہ اوہام میں مغرب میں تبلیغ اسلام کے متعلق اپنا رو یا لکھا.اس زمانہ میں آپ کے مرید ایک ہزار بھی نہ ہوں گے لیکن اس وقت آپ نے تحریر فرمایا کہ آپ کی تعلیم انگلستان میں پھیلے گی اور راستباز انگریز صداقت کا شکار ہوں گے.کیا اس وقت کسی ظاہر پرست کے خیال میں یہ آسکتا تھا کہ آپ کی جماعت اس قدر ترقی کرے گی کہ دنیا کے مادی سنٹر میں اسلامی مرکز قائم کرے گی اور تثلیث کے مرکز میں مسجد
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 457 بنائے گی اور مذہبی لحاظ سے اس کا حملہ اتنا قوی ہوگا کہ مخالف اسلام اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھے گا اور جماعت کی روحانی طاقت کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہوگا اور میدانِ حجت و برہان میں اپنے تئیں کمزور اور ضعیف یقین کرے گا.اس میں سوچنے والوں کیلئے ایک نشان ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمد یہ 1906ء میں فرماتے ہیں : ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائیگا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاویگا.بہت سی روکیں پیدا ہونگی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دونگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سنے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا.اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا.“ (تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحات 410409) ریویو آف ریلیجنز قادیان جنوری 1947 ء) حضرت مولانا موصوف کی انگلستان سے قادیان کامیاب مراجعت پر مختلف جماعتی ادارہ جات اور احباب جماعت کی طرف سے استقبالئے اور دعوتیں ہوئیں ایک دو استقبالیوں میں سید نا حضرت مصلح موعود بھی رونق افروز ہوئے اور ایک خطاب میں حضرت مولانا شمس صاحب کو طلوع الشمس من مغر بھا کی پیشگوئی کا مصداق قرار دیا.اس کا ذکر دوسرے باب میں گذر چکا ہے.نیز سیرت و تا ثرات والے باب میں حضور کے ارشادات بھی شامل کئے گئے ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ولیم مانٹیگو کرنل ڈگلس پیلاطوس ثانی ایک نیک نیت حاکم کا تذکرہ وو یہ فرق ہماری جماعت میں ہمیشہ تذکرہ کے لائق ہے جب تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں، کروڑوں افراد تک پہنچے گی ، دیسی ویسی تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا اور یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کیلئے اسی کو چنا.“ فرمودہ حضرت مسیح موعود ، از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 56) 458
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس کرنل ڈگلس سے احباب جماعت کی ملاقاتیں 459 سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ میں اور بعد میں بھی سالہا سال تک کئی احباب جماعت نے کیپٹن ڈگلس صاحب مرحوم سے ملاقاتیں کی.ان احباب میں سید نا حضرت مصلح موعودؓ، حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب جالندھریؒ ، حضرت مولانا شیر علی صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، حضرت مولانا ذو الفقار علی خان صاحب گوہرہ حضرت حافظ روشن علی صاحب ، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد، حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب، مکرم عبد الکریم خان صاحب یوسف زئی مرحوم ، حضرت مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری ،مرحوم حضرت شیخ احمد اللہ صاحب مرحوم مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه مرحوم ، مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب مرحوم ، مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر سلمہ ربہ اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس خاص طور پر قابل ذکر ہیں.یوں تو حضرت مولا نا جلال الدین صاحب شمس کی وساطت سے بیسیوں احباب کرام جو جلسوں میں شمولیت کیلئے مسجد لندن میں تشریف لاتے رہے، محترم کرنل ڈگلس سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے رہے تا ہم ہر ایک ملاقات کا ذکر کر نا ممکن نہیں.ان میں سے بعض ملاقاتوں کا ذکر نیز کیپٹن ڈگلس صاحب کا مختصر تعارف بین السطور کیا جارہا ہے.یہ بات یاد رہے کہ آپ سے سب سے زیادہ ملاقاتیں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے کیں.اگر چہ براہ راست اس کتاب سے اس ہستی کا تعلق تو نہیں بنتا تا ہم آپ کے ذکر خیر کو محفوظ کرنے کیلئے بطور یادگار کرنل مانٹیگو ولیم ڈگلس کے بارہ میں بعض یادداشتیں پیش ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس سید نا حضرت مصلح موعود فرمایا: 460 حضرت مرزا صاحب پر ایک پادری نے قتل کا مقدمہ دائر کرایا اور بیان کیا کہ میرے قتل کیلئے آپ نے ایک آدمی کو بھیجا ہے.اس زمانہ میں گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈگلس تھے جو بڑے متعصب خیال کئے جاتے تھے.چنانچہ وہ جب اس ضلع میں آئے تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ یہ شخص ہمارے مذہب کی اتنے عرصہ سے مخالفت کر رہا ہے، ابھی تک اسے کوئی سزا کیوں نہیں دی گئی.ایسا انسان ڈپٹی کمشنر تھا، ایک پادری کی طرف سے مقدمہ دائر تھا، جس میں پادری کی طرف سے گواہی دینے کیلئے مولوی محمد حسین صاحب گئے.ان کا خیال تھا کہ پولیس مرزا صاحب کو گرفتار کر کے لائے گی اور وہ ذلیل حالت میں عدالت کے روبرو کھڑے کئے جائیں گے، جنہیں میں دیکھوں گا مگر وہی دشمن انگریز افسر جواب تک زندہ ہے، اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کو دیکھ کر اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے آپ کو بیٹھنے کیلئے کرسی پیش کی.یہ حالت دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب غصہ سے جل بھن گئے اور آگے بڑھ کر کہنے لگے مجھے بھی کرسی ملنی چاہئے مگر عدالت نے انکار کر دیا.اس پر انہوں نے اصرار کیا تو عدالت نے کہا.بک بک مت کر پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو جا.اس پر وہ باہر آگئے وہاں ایک کرسی پڑی تھی، اس پر بیٹھ گئے.مشہور ہے کہ جس پر آقا ناراض ہو نو کر بھی ناراض ہوتے ہیں.چپڑاسی نے یہ خیال کر کے کہ اگر صاحب نے دیکھ لیا تو مجھ پر ناراض ہوگا، انہیں کرسی سے اٹھا دیا.اس کے بعد ایک چادر پر کچھ مسلمان بیٹھے تھے ، مولوی صاحب اس پر جا بیٹھے لیکن چادر والے نے یہ کہتے ہوئے کہ جو شخص ایک مسلمان کے خلاف گواہی دینے آئے ، میں اس سے اپنی چادر پلید کرانا نہیں چاہتا ، چادر کھینچ لی.وہ کیپٹن ڈگلس جو بعد میں کرنل ہو گیا تھا، آج بھی زندہ موجود ہے اور شہادت دیتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی شکل دیکھتے ہی مجھ پر حقیقت حال منکشف ہو گئی.ان کے H.V.C ملک غلام حیدر صاحب اس وقت راولپنڈی میں زندہ موجود ہیں.ان کے ایک لڑکے ملک عطاء اللہ صاحب ای اے سی غالباً یہاں بھی رہے ہیں.وہ خود سناتے ہیں کہ صاحب بٹالہ میں مقدمہ کی سماعت کرنے کے بعد جب شیشن
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس پر واپس آیا تو بے قراری کے ساتھ پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگا.میں نے کہا.ویٹنگ روم میں تشریف رکھیئے.مگر اس نے کہا نہیں تم جاؤ.پھر دیکھا کہ وہ کچھ گھبرایا سا پھرتا ہے.میں پھر گیا اور جا کر کہا تو اس نے جواب دیا نہیں تم جاؤ میری طبیعت خراب ہے اور ٹہلتا رہا.پھر مجھے کہا کہ دیکھو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں جس طرف جاتا ہوں مرزا صاحب کی رُوح سامنے آتی ہے جو کہتی ہے کہ مجھ پر الزام جھوٹا ہے اور مرزا صاحب کو دیکھتے ہی مجھے یقین ہو گیا ہے.میں نے کہا آپ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کو بلا کر مشورہ کرلیں جو انگریز تھے.461 چنانچہ ان کو مشورہ کیلئے بلایا گیا اور جب وہ آئے تو ڈگلس صاحب نے ان سے کہا کہ مجھے کچھ جنون سا ہو رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مرزا صاحب بے گناہ ہیں، اب کیا کیا جائے.سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ گواہ کو عیسائیوں کے قبضہ سے نکال کر اس سے اصل حقیقت دریافت کرنی چاہئے.ڈپٹی کمشنر نے اسی وقت حکم لکھا کہ وعدہ معاف گواہ پولیس کے حوالہ کیا جائے.چنانچہ اسے منگوا کر جب سپرنٹنڈنٹ صاحب نے دریافت کیا تو پہلے تو اس نے وہی قصہ دہرا دیا جو اسے یاد کرایا گیا تھا مگر جب اسے یقین دلایا گیا کہ ڈرو نہیں اب تمہیں عیسائیوں کے حوالہ نہیں کیا جائے گا.تو وہ چیخ مار کر پاؤں پر گر پڑا اور کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے عیسائیوں نے قتل کی دھمکی دے کر مجھ سے یہ شہادت دلوائی ہے وگر نہ حضرت مرزا صاحب کے جن مریدوں کا ذکر گواہی میں ہے مجھے تو ان کے نام بھی یاد نہیں ہیں وہ میری تھیلی پر لکھ کر مجھے عدالت میں بھیجتے ہیں.یہ سارا واقعہ سپر نٹنڈنٹ پولیس نے ڈپٹی کمشنر سے بیان کر دیا جس نے اگلی ہی پیشی پر مقدمہ خارج کر دیا حالانکہ دعویٰ کرنے والوں میں بڑے بڑے پادری شامل تھے.ایک پادری وارث الدین تھے جو عیسائیوں میں بہت معزز سمجھے جاتے تھے.چنانچہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی نے ان کے نام پر ایک وارث فونٹین پین ایجاد کیا جسے ہمارے بعض مسلمان نوجوان بھی نہایت شوق سے خریدتے ہیں، محض اس وجہ سے کہ وہ کچھ سستا ملتا ہے.ڈگلس صاحب نے مرزا صاحب کو یہ بھی کہا کہ آپ ان پر نالش کر سکتے ہیں مگر آپ نے جواب دیا کہ مجھے کسی پر مقدمہ کرنے کی ضرورت نہیں میرے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت کے ساتھ بری کر دیا.میں جب ولایت میں گیا تو ڈگلس صاحب کو بھی ملاقات کیلئے بلایا.انہوں نے سنایا کہ آج
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس تک اس واقعہ کا مجھ پر اثر ہے اور اب بھی اگر کوئی مجھے کہے کہ تم نے 35 سال تک ہندوستان میں زندگی بسر کی ہے کوئی عجیب واقعہ سناؤ تو میں یہی سنا تا ہوں بلکہ کچھ عرصہ ہوا ضلع ہوشیار پور کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب رخصت پر یہاں آئے جو مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور کہا کہ کوئی عجیب واقعہ سناؤ.تو میں نے انہیں بھی یہی سنایا اور کہا کہ میں نے مرزا صاحب سے کہا تھا کہ آپ پادری وارث الدین اور اس کے ساتھیوں پر نالش کر سکتے ہیں مگر انہوں نے انکار کر دیا.عجیب بات ہے کہ عین اُس وقت جب میں انہیں یہ بات سنا رہا تھا، نوکر نے ایک ملاقاتی کا کارڈ لا کر دیا جو اسی پادری وارث الدین کا بیٹا تھا.میں نے اسے اندر بلایا اور کہا کہ ہم ابھی تمہارے والد کا ہی ذکر کر رہے تھے.اس نے ایک تار دکھایا کہ ابھی آیا ہے اور اس میں لکھا تھا کہ میرا والد فوت ہو گیا ہے.اب غور کرو یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے اور انی مهین من اراد اهانتک و انی معین من اراد اعانتک کا کیساز بر دست ثبوت ہے.462 تحقیق حق کا صحیح طریق، انوارالعلوم جلد 13 صفحات 414-416) پیلاطوس ثانی کرنل مونتیکو ولیم ڈگلس مسجد فضل لندن میں ( حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) 12 اپریل 1936 ء کا دن ایک تاریخی دن تھا کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیلاطوس مسجد احمد یہ لندن میں اس قتل کے مقدمہ کے حالات سنانے کیلئے آیا جو پادریوں کی طرف سے دائر کیا گیا تھا اور جس میں عادلانہ فیصلہ کرنے کی وجہ سے اسے دلیر اور منصف پیلاطوس کا لقب خدا کے مسیح کی زبان سے دیا گیا تھا.12 اپریل وقت مقررہ پر کرنل صاحب موصوف مسجد احمد یہ لندن میں تشریف لائے.سب سے پہلے (حضرت مولانا عبد الرحیم ) درد صاحب نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کا اور میرا ان سے تعارف کروایا اس موقعہ پر حسب ذیل گفتگو ہوئی: ڈگلس : کیا جلال الدین وہی ہیں جنہوں نے مقدمہ میں گواہی دی تھی.در وصاحب نہیں یہ تو اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ان کا نام جلال الدین شمس ہے.ڈگلس : کیا یہ وہی ہیں جو فلسطین میں تھے؟
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس در وصاحب : ہاں 463 اس کے بعد ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے اور مولوی شیر علی صاحب اور خاکسار سے گفتگو ہوتی رہی کرنل صاحب اردو اچھی طرح بول لیتے تھے.میں نے "کشتی نوح“ سے مولوی محمد حسین بٹالوی کی شہادت کا ذکر سناتے ہوئے یہ عبارت پڑھی.” صرف فرق اس قدر تھا کہ سردار کا ہن کو پیلاطوس کے دربار میں کرسی ملی تھی کیونکہ یہودیوں کے معزز بزرگوں کو گورنمنٹ رومی میں کرسی ملتی تھی اور بعض ان میں سے آنریری مجسٹریٹ بھی تھے.اس لئے اس سردار کا ہن نے عدالت کے قواعد کے لحاظ سے کرسی پائی اور مسیح ابن مریم ایک مجرم کی طرح ایک عدالت کے سامنے کھڑا تھا.لیکن میرے مقدمہ میں اس کے برعکس ہوا یعنی یہ کہ برخلاف دشمنوں کی امیدوں کے کپتان ڈگلس نے جو پیلاطوس کی جگہ عدالت کی کرسی پر تھا مجھے کرسی دی.اور یہ پیلاطوس مسیح ابن مریم کے پیلاطوس کی نسبت زیادہ با اخلاق ثابت ہوا کیونکہ عدالت کے امر میں وہ دلیری اور استقامت سے عدالت کا پابند رہا اور بالائی سفارشوں کی اس نے کچھ بھی پرواہ نہ کی اور قومی اور مذہبی خیال نے بھی اس میں کچھ تغیر پیدانہ کیا اور اس نے عدالت پر پورا قدم مارنے سے ایسا عمدہ نمونہ دکھایا کہ اگر اس کے وجود کو قوم کا فخر اور حکام کیلئے نمونہ سمجھا جائے تو بیجا نہ ہوگا“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 55) جب میں نے اس کے بر عکس ہوا“ کے الفاظ پڑھے ، کرنل صاحب کہنے لگے بے شک یسوع مسیح تو ایک معمار تھا یا کسان تھا اس لئے پیلاطوس نے اسے کرسی نہ دی لیکن مرزا صاحب تو ایک معزز اور عالم آدمی تھے.مولوی شیر علی صاحب نے کہا.بہر حال حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے نبی تو تھے.کرنل ڈگلس صاحب نے جواب دیا وہ ایسے ہی تھے جیسے ہندوستان میں فقیر ہوتے تھے لیکن مرزا صاحب بڑے سنجیدہ اور عالم تھے.پھر میں نے حسب ذیل عبارت سنائی.مگر ہم اس بچی گواہی کو ادا کرتے ہیں کہ اس پیلاطوس نے اس فرض کو پورے طور پر ادا کیا اگر چہ پہلا پیلاطوس جو رومی تھا اس فرض کو اچھے طور پر ادا نہ کر سکا اور اس کی بزدلی نے مسیح کو بڑی بڑی تکالیف کا نشانہ بنایا.یہ فرق ہماری جماعت میں ہمیشہ تذکرہ کے لائق ہے.جب تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی ویسی ویسی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 464 تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا اور یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحات 55-56) اس کام کیلئے اسی کو چنا.“ اس موقعہ پر در دصاحب کمرہ میں تشریف لے آئے اور کرنل صاحب سے مخاطب ہوکر کہا آپ اس زمانہ کے پیلا طوس ہیں لیکن پہلے پہیلا طوس سے بڑھ کر ہیں.کرنل صاحب نے کہا کیوں نہیں.پھر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا فوٹو دیکھ کر کہنے لگا یہ نہایت ذہین اور عقلمند ہیں.یہیں لنڈن میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی.وہ اس خیال سے کہ وہ انگریزی زبان میں اچھی طرح تقریر نہ کر سکیں خود تقریر نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے بہت اچھی تقریر کی تھی.گو ابتدائے تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ایسی تقریبوں پر گلاس یا پیالیاں وغیرہ ٹو ٹا کرتی ہیں لیکن آج انگریزی زبان توڑی جائے گی.اگر چه موسم خراب تھا برف گر رہی تھی تاہم اللہ کے فضل سے اتنی حاضری ہوگئی جتنی لنڈن میں عام میٹنگز میں ہو ا کرتی ہے.تمام حاضرین کا مع کرنل ڈگلس فو ٹو لیا گیا.چائے سے فارغ ہونے کے بعد زیر صدارت مولانا عبد الرحیم در دصاحب جلسہ کی کارروائی قرآن پاک کی تلاوت سے شروع ہوئی.مسٹر بلال مثل انگریز نومسلم نے تلاوت کی.اس کے بعد درد صاحب نے کرنل ڈگلس کا تعارف حاضرین سے نہایت دلچسپ اور دل آویز کلمات سے کروایا اور کہا کہ کرنل ڈگلس کو سی.ایس.آئی اور سی.آئی.کے خطابات ملے ہوئے ہیں لیکن یہ سب زمینی خطابات ہیں.ایک سب سے بڑا خطاب جو دنیا میں رہنے والا ہے وہ خدا کے فرستادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دیا ہوا تھا.یعنی آخری زمانہ کا عادل پیلاطوس.اور یہ خطاب ایسا ہے جو نہ کوئی چھین سکتا ہے اور نہ کوئی اور اس خطاب کو حاصل کر سکتا ہے.آج وہ آپ کو اس مقدمہ کے حالات سنائیں گے جس کی وجہ سے ان کو پیلاطوس کا خطاب ملا.اس کے بعد کرنل ڈگلس نے مقدمہ کے حالات با تفصیل سنائے اور فیصلہ کی نقل جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے اس میں سے بہت سا حصہ پڑھ کر سنایا.ان کے بعد مولوی شیر علی صاحب نے اس مقدمہ کے اپنے چشم دید واقعات سنائے اور مولوی محمد حسین بٹالوی کا کرسی طلب کرنے کا واقعہ اور پھر کرنل ڈگلس کا انہیں جھڑ کی دیتے ہوئے یہ کہنا کہ : بک بک مت کر اور پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا“ وو اس کے علاوہ دیگر حالات بیان کیے.تقریر میں با تفصیل مسلم ٹائمز میں شائع ہو رہی ہیں.آخر میں
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 465 درد صاحب نے ان کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ڈگلس صاحب کہتے ہیں کہ یہ مقدمہ بھی دوسرے مقدموں کی طرح عام مقدمہ ہے جس کا انہوں نے حسب عادت فیصلہ کر دیا مگر اب وہ خواہ جتنی ہی خاکساری یا انکساری سے کام لیں لیکن پیلاطوس کا لقب جو انہیں دیا جا چکا ہے اسے کب خیال تھا کہ اس کا ذکر دنیا کے سب کو نوں میں کیا جائے گا.اسے یہ خیال ہوتا تو وہ ضرور استقامت اور شجاعت سے کام لیتا اور کبھی بزدلی نہ رکھتا اسی طرح کا یہ مقدمہ تھا جس میں کرنل صاحب نے عدل کی ایک شاندار مثال قائم کی اور پیلا طوس کا خطاب حاصل کیا ویسے خطاب بھی بغیر امیدوں کے ہی ملا کرتے ہیں.کیا کرنل صاحب کو اُس وقت یہ خیال ہو سکتا تھا کہ اس مقدمہ کا ذکر انہیں پھر کرنا پڑے گا اور خاص کر لنڈن کے انگریز مردوں اور عورتوں کے جلسہ میں.جب یہ مقدمہ ہو اتب جماعت نہایت قلیل تعداد میں تھی لیکن اب بفضل خداد نیا کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی ہے.جہاں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے وہاں وہاں اس مقدمہ کا ضرور ذکر کیا جائے گا.کرنل صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے متعلق انہوں نے جو الفاظ کہے تھے اور جو مولوی شیر علی صاحب نے بیان کئے ہیں وہ نا مناسب تو نہیں تھے؟ میں نے کہا اگر آپ اس سے زیادہ سخت الفاظ بھی استعمال کرتے تو وہ جائز تھے کیونکہ اس سے کمینہ شخص کون ہوسکتا ہے جو عدالت میں آکر اپنے کھڑے رہنے کو تو ہین خیال کر کے کرسی طلب کرے اور پھر جھوٹ بول کر کہ مجھے اور میرے باپ کو عدالت میں کرسی ملا کرتی تھی کرسی لینے کی کوشش کرے.ضلع گورداسپور کے موجودہ حکام کرنل ڈگلس صاحب کے عدل وانصاف کا ذکر کر رہے ہیں.ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس وقت اسی ضلع میں کرنل صاحب کی جگہ جو آفیسر کام کر رہے ہیں انہوں نے نہایت غیر منصفانہ کارروائیاں کی ہیں.در حقیقت گورنمنٹ برطانیہ کے ہندوستان میں استحکام میں گورنمنٹ اسے مانے یا نہ مانے کرنل ڈگلس جیسے انصاف پسند اشخاص کا ہاتھ تھا جن کے انصاف نے لوگوں کے دلوں میں گورنمنٹ کی محبت بٹھادی.لیکن ضلع گورداسپور کے موجودہ حکام جیسے آفیسراب گورنمنٹ کی محبت کو دلوں سے نکالنے کا باعث ہو رہے ہیں.بہر حال با وجود تمام مخالفتوں کے کرنل ڈگلس کا فیصلہ انکی جیسی عدل و انصاف پسندی کی وجہ سے تھا، جو قابل تعریف ہے.کرنل صاحب کے متعلق سید نا حضرت مسیح موعود کی دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں برکات عطا فرمائے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 466 چنانچہ ظاہری طور پر اللہ تعالیٰ نے انہیں برکات دیں.وہ ہائی کمشنر کے عہدہ تک پہنچے اور اب پینشن پارہے ہیں اور ان کی عمر اب اسی برس کے قریب ہے اور ان کے لڑکے بھی معقول پینشن لے رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعائیں اگلے جہان میں بھی انہیں فائدہ دیں گی اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ظاہری طور پر انہیں برکات دی ہیں اسی طرح انہیں روحانی نعمت سے بھی متمتع فرمائے.اس پر جلسہ کی کارروائی ختم ہوئی.They call him the just Pilate مولوی شیر علی صاحب اور کرنل ڈگلس سے لنڈن کے ایک مشہور روزانہ اخبار ڈیلی سکچھ کے نمائندہ نے فوٹو لینے کی درخواست کی.چنانچہ ان دونوں کی اس نے فوٹولی جو دوسرے روز ہی 13 اپریل کے پرچہ میں اس عنوان کے ماتحت شائع ہوئی.They call him the just Pilate وہ ( یعنی احمدی ) اسے عادل پیلاطوس کے نام سے پکارتے ہیں اور اس کے نیچے لکھا: احمد یہ جماعت کے ڈیڑھ ملین سے زائد لوگ اسے عادل پاٹیس پیلاطوس کی طرح سمجھتے ہیں.کرنل مانٹیگو ولیم ڈگلس جو یو نائیٹڈ سروسز کلب کے ممبر ہیں اور ( جزائر ) انڈمان کے ہائی کمشنر رہ چکے ہیں وہ کل مسجدالنڈن میں اس مقدمہ کے مستغاث علیہ کے ایک صحابی مولوی شیر علی صاحب کو ملے جس کی سماعت آج سے چالیس سال پہلے کی تھی.مولوی شیر علی صاحب قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی غرض سے انگلستان تشریف لائے ہیں اور چونکہ وہ مذکورہ بالا مقدمہ کے عینی گواہ تھے جس کا فیصلہ کرنل ڈگلس نے کیا تھا اس لئے کرنل ڈگلس کو ان کی ملاقات کیلئے مسجد لنڈن میں بلایا گیا جہاں کہ انہوں نے اس مقدمہ کے حالات سنائے جو مسلمانوں کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے.کرنل ڈگلس نے ڈیلی نیچ کے نمائندہ سے کل کہا کہ مقدمہ کی سماعت 1897ء میں ہوئی تھی اور مستغاث علیہ مرزا غلام احمد صاحب تھے.مقدمہ کے چند سال قبل (حضرت مرزا غلام) احمد کو اسکے پیرؤوں نے مسیح موعود قبول کر لیا تھا اور اس وجہ سے ہندو اور عیسائی اور دوسرے مسلمان ان کے مخالف ہو گئے تھے اور ان کے درمیان مباحثات جاری تھے اور ان کی نسبت بہت سی افواہیں پھیلائی جارہی تھیں.میں اس وقت بھی اس نظارہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 467 رہا ہوں کہ جب وہ چرچ مشنری سوسائٹی کے ایک مشنری کے قتل کی سازش کے الزام میں میرے روبرو پیش ہوئے اور ایک سولہ سالہ ہندوستانی لڑکے نے جو استغاثہ کا سب سے بڑا گواہ تھا یہ بیان دیا کہ احمد نے اسے ہدایت دی تھی کہ وہ اس مشنری کو قتل کر دے.لیکن اس گواہ نے متضاد بیانات دیئے جس سے میں فور اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ حم پر کوئی الزام نہیں آتا.چنانچہ میں نے انہیں بری کر دیا.بعد میں یہ معلوم ہوگیا کہ اس لڑکے پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ ایسا قصہ بیان کرے جو بالکل جھوٹ تھا.یہ مقدمہ بہت مشہور ہو گیا اور احمد کے پیرو کار کثرت سے پھیل گئے.احمد کے بری کرنے میں جہاں تک میرا تعلق ہے وہ صرف اتنا ہے کہ میں نے بحیثیت حج اپنا فرض منصبی ادا کیا مگر اس جماعت نے مجھے عادل پانٹیس پیلاطوس کا خطاب دینا پسند کیا ہے.امام مسجد نے کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب 1908ء میں وفات پاگئے اور اب ان کے خلیفہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب ہیں.“ اسی طرح دوسرے اخبارات نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے.کرنل ڈگلس سے بعض سوالات مولانا عبد الرحیم درد صاحب نے کرنل ڈگلس سے یہ دریافت کیا کہ کیا آپ غلام حیدر کو جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں.پھر اس کی روایت سنائی کہ وہ کہتے تھے جب آپ گواہیاں لے کر گورداسپور جانے کیلئے اسٹیشن پر آئے اس وقت آپ متفکر نظر آتے تھے اور پلیٹ فارم پر ادھر ادھر پھر رہے تھے.انہوں نے آپ سے پوچھا خیر ہے.گھبراہٹ کی وجہ کیا ہے.آپ نے جواب دیا کہ مجھے تسلی نہیں ہوئی ، مجھے یہ بات بناوٹی معلوم ہوتی ہے گواہیاں مرزا صاحب کے خلاف ہیں لیکن جب مرزا صاحب کی شکل کا خیال کرتا ہوں تو مجھے وہ ایسے کاموں سے نہایت ارفع دکھائی دیتے ہیں.ڈگلس صاحب نے جواب دیا کہ یہ بات تو صحیح ہے لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بات غلام حیدر سے ہوئی تھی یا کسی اور سے.آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے ورانٹ جاری کیوں نہ کیا تھا.کہنے لگے میں خود بھی تعجب کرتا ہوں کہ مجھے فوری طور پر یہ قانونی بات کیونکر سوجھ گئی کہ جب ابھی تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی تو ورانٹ کیسے جاری کیا جا سکتا ہے اس واسطے میں نے سمن جاری کر دیا.آپ نے یہ بھی کہا کہ پہلے گورنر سرفٹس پیٹرک روسن تھے اور بڑے قانون دان تھے ،اس لئے ان کے وقت میں ایسا مقدمہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 468 کرنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی لیکن ان کے بعد جب سرولیم لینگ گورنر ہوئے جو خود چرچ مشنری سوسائٹی سے تعلق رکھتے تھے تو ان کے عہد میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا اور اس وقت گورنمنٹ بھی اس مقدمہ کو واچ کر رہی تھی.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم کی پیش گوئی کے بعد سے ہی پادری ایسے مقدمات بنانے کی سازشیں کر رہے تھے لیکن باوجود ان حالات کے کرنل ڈگلس کا عدل وانصاف کو قائم رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بری قرار دینا ایک ایسی مثال ہے جو دوسرے حکام کیلئے قابل تقلید نمونہ ہے.عبدالحمید پر مقدمہ ڈگلس کے فیصلہ کے دو سال بعد پھر عبد الحمید کو گرفتار کر کے جے.آر.ڈریمنڈ صاحب کی عدالت میں پیش کیا گیا اور اس سے دریافت کیا گیا کہ کیا تمہارا پہلا بیان صحیح ہے یا کہ دوسرا جو تم نے بدل دیا ہے.اس نے جواب دیا کہ میرا دوسرا بیان صحیح ہے.مولوی شیر علی صاحب نے میری موجودگی میں ڈگلس صاحب سے دریافت کیا کہ اگر وہ یہ کہہ دیتا کہ میرا پہلا بیان صحیح ہے تو پھر کیا ہوتا.انہوں نے جواب دیا.پھر نئے سرے سے مقدمہ چلایا جا تا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے.” اب دیکھو کہ اس بندہ درگاہ کی کیسی صفائی سے بریت ثابت ہوئی.ظاہر ہے کہ اس مقدمہ میں عبد الحمید کیلئے سخت مضر تھا کہ اپنے پہلے بیان کو جھوٹا قرار دیتا کیونکہ اس سے یہ جرم عظیم ثابت ہوتا ہے کہ اس نے دوسرے پر ناحق ترغیب قتل کا الزام لگایا اور ایسا جھوٹ اس سزا کو چاہتا ہے جو مرتکب اقدام قتل کی سزا ہوئی ہے.اگر وہ اپنے دوسرے بیان کو جھوٹا قرار دیتا جس میں میری بریت ظاہر کی تھی اس میں قانو ناسزا کم تھی.لہذا اس کیلئے مفید راہ یہی تھی کہ وہ دوسرے بیان کو جھوٹا کہتا مگر خدا نے اس کے منہ سے سچ نکلوا دیا جس طرح زلیخا کے منہ سے حضرت یوسف کے مقابل پر اور ایک مفتری عورت کے منہ سے حضرت موسیٰ کے مقابل پر سچ نکل گیا تھا.سو یہی اعلیٰ درجہ کی بریت ہے جس کو یوسف اور موسیٰ کے قصے سے مماثلت ہے.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 350) پنجاب کے موجودہ چیف جسٹس آنریبل سر ڈگلس بینگ بھی جو ڈگلس خاندان میں سے ہیں.جس رنگ میں عدل وانصاف کے قائل کیلئے ساعی ہیں وہ نہایت قابل تعریف ہے اور تمام اہالیان صوبہ ان کی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.( الفضل قادیان 2 مئی 1936 ء)
مکرم مولانامحمد صدیق امرتسری، سر فیروز خان نون، حضرت مولانا شمس صاحب 1945ء میں قادیان سے روانہ ہونے والا 9 مبلغین کا گروپ حضرت مولا نائٹس صاحب کے ہمراہ لندن میں
اہالیان سیکھواں : جو سیکھوانی برادران کو جانتے ہیں اکتوبر 2004 سیکھواں میں دائیں سے تیسرے مکرم فلاح الدین صاحب شمس ، عقب میں مکرم ظہیر احمد باجوہ صاحب سیکھواں میں حضرت میاں امام الدین صاحب کا گھر ( تصویر چھت سے لی گئی ہے)
پسر ورضلع سیالکوٹ میں مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب مجلس انصار اللہ کی تقریب جنوری 1961 ء : ربوہ میں مولانا شفیع اشرف کے ہمراہ گھر میں تلاوت کرتے ہوئے
دمشق میں وہ منار جہاں حضرت عیسی علیہ السلام وہ عمارت جس میں آپ نے رہائش کے لیے کمرہ کرایہ کی آمد کا انتظار تھا پر لیا جب آپ پہلی مرتبہ حیفا تشریف لے گئے.بائیں سے دوسرا مکان جو آپ نے حیفا میں کرایہ پر حاصل کیا تھا
وادی سیاح کہا بیر، جہاں آپ تبلیغ کیا کرتے تھے دمشق کے گھر کا دروازہ عقب میں چوٹی پر مسجد سید نامحمود دروازہ کے ساتھ اینٹوں پر ” الشمس“ لکھا ہوا ہے دمشق کے تبلیغی مرکز کی لائبریری وادی سیاح کہا بیر، جہاں آپ تبلیغ کیا کرتے تھے جواب حکومت کی طرف سے بند کر دی گئی ہے مکرم خالد البراقی مکرم فلاح الدین شمس ، مکرم ابوالفرج، دمشق کا ہسپتال جہاں حملہ کے بعد آپ زیر علاج رہے مکرم ڈاکٹر مسلم ، مکرم نذیر المرادنی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور دیگر بزرگان سلسلہ کے ساتھ
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث ، حضرت مولا نانش صاحب حضرت مولانا شمس صاحب
برطانوی احمدی احباب لندن میں
مکرم الحاج عبدالحمید خورشید کے ہمراہ ایستاد و دائیں سے بائیں مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب مکرم مولا نا محمد صدیق صاحب امرتسری کرسیوں پر : حضرت مولا نائس صاحب مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب لندن میں
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ( خلیفہ مسیح الرابع ) کے ہمراہ دورہ بنگلہ دیش کے دوران کشتی میں سیر کرتے ہوئے MUCHAN TASAWU009 جماعت احمد یہ کہا بیر کے ساتھ گروپ فوٹو.1931ء
اپریل 1962: دورہ ڈھاکہ اپریل 1962: دورہ ڈھاکہ بائیں سے دائیں سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب حضرت مولا نائس صاحب مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت کوئٹہ پشاور میں احباب جماعت کے ہمراہ
جلسہ سالانہ ربوہ سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدارت فرمارہے ہیں جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر
دائیں سے بائیں : حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، حضرت ملک عبدالرحمان صاحب خادم، مکرم شیخ بشیر احمد صاحب، حضرت مولا نائمس صاحب ،حضرت مولا نا عبدالرحیم صاحب درد مجلس انصار اللہ مرکزیہ
MAKHZAN-E- TASAWEER © 2009 حضرت مولانا جلال الدین شمس
ڈاکٹر صلاح الدین شمس فلاح الدین شمس منیر الدین محمس بشیر الدین شمس ریاض الدین شمس پسران حضرت مولانا شمس صاحب
اگست 1946: حضرت مولانا شمس صاحب اور مکرم سید منیر الحصنی صاحب کا قادیان آمد پر استقبال حضرت خواجہ عبید اللہ صاحب خر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس )
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 469 نوٹ : محولہ بالا تاریخی تقریب کی رپورٹ ریویو آف ریلیجـنـزار دو قادیان مئی 1936ء میں بھی شائع ہوئی جو وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے.مرتب جناب عبد الکریم خان صاحب یوسف زئی پونچھ (کشمیر) نے مئی 1936ء میں کرنل ڈگلس کو ایک خط لکھا جس میں مسجد لنڈن میں ان کی تقریر کے متعلق ذکر تھا.کرنل ڈگلس نے اس خط کا پر خلوص جواب دیا اس خط کا عکس الفضل میں شائع ہو چکا ہے.انگلستان میں یوم تبلیغ اور کرنل ڈگلس مولا نا محمد صدیق صاحب امرتسری تحریر کرتے ہیں : تفصیل کیلئے دیکھیں الفضل قادیان 13 اگست 1936ء) 30 جولائی 1939 کو انگلستان میں جماعت احمدیہ کا یوم تبلیغ تھا.اسی مناسبت سے حضرت مولا نا جلال الدین صاحب امام مسجد فضل لندن نے دیگر تبلیغی پروگراموں کے علاوہ مسجد میں ایک تبلیغی جلسہ کا بھی انتظام کیا جس کی صدارت کیلئے جناب کرنل مانٹیگو ولیم ڈگلس پیلاطوس ثانی سے درخواست کی گئی جو انہوں نے بخوشی قبول فرمالی.جلسہ کا انتظام احاطہ مسجد کے باغ میں کیا گیا تھا جس کے بعد چائے وغیرہ سے حاضرین کی تواضع کرنے کا پروگرام تھا.پروگرام کے مطابق کرنل ڈگلس جلسہ سے کوئی آدھ گھنٹہ پہلے ہی تشریف لے آئے.حضرت مولانا شمس صاحب اور خاکسار نے فلیٹ پر ان کا خیر مقدم کیا اور مشن ہاؤس میں بٹھایا.کچھ دیر کے بعد حضرت مولانا صاحب خاکسار اور مکرم مسٹر بلال منحل مرحوم ( انگریز نومسلم ) اور مکرم شیخ احمداللہ صاحب مرحوم کو کرنل صاحب کے ساتھ بیٹھنے کا ارشادفرما کرخود جلسہ کے انتظامات کیلئے وہاں تشریف لے گئے اور ہم تینوں اور بعض دیگر مہمان کرنل صاحب موصوف سے مصروف گفتگور ہے.....ذہنی یادداشت سے حضور کی تصویر بنانا اس کے بعد کرنل صاحب نے فرمایا: ڈاکٹر مارٹن کلارک کی شکل تو اب میرے ذہن سے اتر چکی ہے لیکن مرزا صاحب کی شکل ابتک اچھی طرح یاد ہے.تقریباً ایسی ہی تھی جیسی کہ ان کی یہ تصویر ہمارے سامنے آویزاں ہے.(اس وقت موجود تھی ).عرصہ ہوا میں نے ایک مرتبہ محض اپنی یاداشت سے کام لے کر پنسل سے مرزا صاحب کی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 470 تصویر کھینچی تھی.بعد میں جب میں نے ان کی اصل تصویر دیکھی تو میں نے اپنے ذہن والی پنسل کی بنائی ہوئی تصویر کو بالکل ان کی اصل تصویر کے مطابق پایا تھا.پھر کہنے لگے : مسیح تو میں مرزا صاحب کو نہیں مانتا لیکن ان کے نیک فطرت اور راستباز انسان ہونے کا جو تاًثر میں نے اس وقت لیا تھا وہ اب بھی میرے دل پر نقش ہے اور جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں ہوسکتا ہے ان کی اچھائی اور مذہبی مقام کی وجہ سے خدا نے مجھ سے اس مقدمہ کا منصفانہ فیصلہ کرایا ہو اس بارہ میں میں یقینی طور پر نہیں کہ سکتا......اس کے بعد کرنل صاحب موصوف نے ہمارے یوم تبلیغ کے جلسہ کی صدارت فرمائی جس میں جماعت احمدیہ کے افراد کے علاوہ لندن کے بعض انگریز معززین اور سکھ، ہندو اور مسلمان بھائی بھی مدعو تھے.جلسہ میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد فضل لندن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے اس عظیم نشان یعنی مقدمہ مارٹن کلارک کے متعلق ایک نہایت مدلل اور پُر از معلومات تقریر فرمائی جس میں اس سلسلہ میں وحی الہی اور حضور علیہ السلام کی اپنی تشریحات اور تاریخی شواہد بیان کرنے کے علاوہ کئی تاریخی اور واقعاتی مماثلتیں بیان کر کے ثابت کیا کہ مسیح ناصری اور مسیح محمدی پر دائر کردہ دونوں مقدمے حیرت انگیز طور پر باہم مشابہ ہیں اور پیلاطوس ثانی یعنی کرنل ڈگلس پیلاطوس اول سے زیادہ انصاف پسند اور زیادہ زیرک، جری اور عادل ہیں.حضرت مولانا کی یہ تقریر غالبار یو یو آف ریلیجنز اردو میں شائع ہوئی تھی.آخر میں صاحب صدر کرنل ڈگلس نے اپنی یادداشت سے کام لے کر خود بھی سلیس انداز میں ڈاکٹر مارٹن کلارک والے مقدمہ کی تفصیل بیان فرمائی اور بوڑھے ہونے کے باوجود آپ نے 1897ء میں پیش آنے " والے واقعات و حالات من و عن صحیح طور پر نہایت سادگی سے حاضرین کو بتاتے ہوئے فرمایا کہ: ” وہ نظارہ اب بھی کبھی کبھی میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے جب کہ مرزا صاحب میری عدالت میں پیش ہوئے اور پہلی پیشی میں ہی میں نے انہیں دیکھ کر بھانپ لیا کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا ( روح پرور یادیں، بار اول، 1981، ناشر محمدلطیف امرتسری ، صفحات 194-200) مسیح محمدی کا پیلاطوس مسجد لنڈن میں ( مولا نا جلال الدین صاحب شمس ، جولائی 1939ء) 30 جولائی 1939 ء کی میٹنگ کی صدارت کیلئے میں نے کرنل مانٹیگو ولیم ڈگلس سے درخواست کی جو
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 471 انہوں نے نہایت خوشی کے ساتھ قبول فرمائی.میٹنگ کا انتظام احاطہ مسجد کے باغ میں کیا گیا تھا.کرنل ڈگلس نو مسلم انگریزوں سے مل کر بہت خوش ہوئے.میٹنگ کی کارروائی تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوئی جو ایک انگریز نو مسلم مسٹر بلال نکل نے کی.اسکے بعد کرنل ڈگلس نے فرمایا کہ میرا احمد یہ جماعت سے یہ تعلق ہے کہ میں نے ایک مقدمہ کا جو بانی جماعت کے خلاف دائر کیا گیا تھا فیصلہ کیا تھا.ان کے بعد مندرجہ ذیل مضمون جو میں نے مقدس بانی جماعت احمدیہ کے موضوع پر لکھا تھا حاضرین کو پڑھ کر سنایا.(مضمون کا ابتدائی حصہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباء و اجداد کی مختصر سوانح اور حضور کے دعوی اسے پہلے کی پاکیزہ زندگی اور آپ کے دعوئی اور اس پر اہل مذاہب کی مخالفت کے ذکر پر مشتمل تھا، میں نے یہاں درج نہیں کیا.میری غرض اس جگہ اس حصہ کو قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے جس کا تعلق زیادہ تر ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ سے تھا اور جس کا فیصلہ کرنل ڈگلس نے کیا تھا) سب سے پہلے میں نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وہی تھی جو پہلے انبیاء کی بعثت کی تھی یعنی آسمانی نشانوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دینا، اور صراط مستقیم کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرنا تا ان کا اپنے خالق سے تعلق مضبوط ہو.پھر میں نے براہین احمدیہ سے چند پیشگوئیاں ذکر کر کے کہا کہ اس وقت ان پیشگوئیوں کے وقوع کی تفصیل بیان نہیں کروں گا بلکہ صرف ایک پیشگوئی کا تفصیل سے ذکر کرنا چاہتا ہوں جو 1894ء میں اور پھر اس کے بعد 29 جولائی 1897ء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام کی تھی اور جس کے پورا ہونے میں آج کی میٹنگ کے صدر کا نہایت گہرا تعلق ہے.واقعہ یہ ہے کہ 1893ء میں عیسائیوں کے ساتھ ایک مباحثہ قرار پایا جس میں عیسائیوں کی طرف سے منا ظر عبد اللہ آتھم ریٹائر ڈاکٹرا اسٹنٹ کمشنر تھے اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام - مقامِ مباحثہ امرتسر تھا.یہ مباحثہ پندرہ روز تک جاری رہا.دورانِ مباحثہ میں اور اس سے پہلے بھی عبد اللہ آتھم اور دوسرے عیسائی آسمانی نشان کا مطالبہ کر چکے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثہ کے آخری دن فرمایا: اُس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لیکر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.“ 472 ( جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحات 291-292) اس پیشگوئی کے بعد عبد اللہ آتھم پر خواب متولی ہو گیا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو بد زبانی وہ کیا کرتا تھا اسے اس نے ترک کر دیا اور یہ مدت خاموشی میں گذاری.اس کی اندرونی حالت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو ان الفاظ میں اطلاع دی.اطلع الله علی همه و غمه ولن تجد لسنة الله تبديلا.ولا تعجبوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان كنتم مؤمنین و بعزتی وجلالی انک انت الاعلى ونمزق الاعـداء كـل مـمـزق و مکر اولئك هو يبور انا نكشف السر عن ساقه يومئذ يفرح المؤمنون - ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس (آتھم ) کے ھم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی جب تک وہ بیبا کی اور سخت گوئی اور تکذیب کی طرف میل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دے.( یہ معنے فقرہ مذکور کے تفہیم الہی سے ہیں.) خدا تعالی کی یہی سنت ہے اور تو ربانی سنتوں میں تغیر و تبدل نہیں پائے گا.تجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر قائم رہو.مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ تو ہی غالب ہے....ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کر دیں گے یعنی اُن کو ذلت پہنچے گی اور ان کا مکر ہلاک ہو جائے گا....اور ہم اصل بھید کو اس کی پنڈلیوں میں سے نگا کر کے دکھا دیں گے یعنی حقیقت کو کھول دیں گے اور فتح کے دلائل بینہ ظاہر کریں گے اور اس دن مومن خوش ہوں گے.(انوار الاسلام صفحہ 2-3 ، روحانی خزائن جلد 9 صفحات 2-3، تذکرہ طبع چہارم 2004 ء صفحات 211-212) ان الہامات کی بناء پر جب عبد اللہ آتھم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قسم کھا کر بتائے کہ اس پر اس پیشگوئی کی وجہ سے اسلام کی عظمت ظاہر نہیں ہوئی اور اس نے اپنی پہلی حالت کو تبدیل نہیں کیا ؟ تو اس نے باوجود چار ہزار روپیہ انعام پیش کیے جانے کے حلف اُٹھانے سے انکار کیا اور حق کو چھپایا.تب سنت الہی کے مطابق وہ چند ماہ کے بعد جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا، مر گیا.مذکورہ بالا علامات میں یہ صاف طور پر بتایا گیا تھا کہ چند عیسائی جو مباحثہ آتھم سے تعلق رکھنے والے ہیں حضرت مسیح موعود ر کے خلاف کوئی سازش کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ اس پوشیدہ مکر کی حقیقت کو ظاہر کر دیگا.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس پھر 29 جولائی 1897ء کو آپ نے یہ خواب دیکھا: 473 ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اس نے کوئی نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور میں اس کو دور سے دیکھ رہا ہوں اور جبکہ وہ قریب پہنچی تو میرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا ہے.پھر بعد اس کے میرا دل اس کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا.ما هذا الا تهديد الحکام.یعنی یہ جو دیکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کارروائی ہوگی.اس سے زیادہ کچھ نہیں تریاق القلوب صفحہ 91.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 341) ہوگا.“ نیز آپ کو الہام ہوا: مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق.( اور پھر اخير حكم ابراء یعنی بے قصور ٹھہرانا.( تریاق القلوب صفحہ 91.روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 342) یہ الہامات اس طرح پورے ہوئے کہ ایک نوجوان لڑکے عبد الحمید کو چند عیسائی پادریوں نے ڈرادھم کا کر اس سے یہ کہلوایا کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو جو ایک عیسائی مشنری اور آتھم کے مباحثہ میں اس کا دست راست اور خاص معاون و مددگار تھا قتل کرنے کے لیے بھیجا ہے.چنانچہ یکم اگست 1897ء کو ڈاکٹر مذکورمسٹراے ای مارٹینو نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی عدالت میں اس مضمون کی ایک درخواست دی کہ ایک نوجوان عبد الحمید نامی کو مرزا غلام احمد قادیانی نے اس کو قتل کرنے کے لیے بھیجا ہے.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا مگر بعد ازاں یہ معلوم کر کے کہ اس کو اختیار قانونی حاصل نہیں ہے اس نے وارنٹ منسوخ کر کے کاغذات مقدمہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور کے پاس بھیج دیئے اور اس وقت اس عہدہ پر کیپٹن ڈگلس تھے جو اب کرنیل ہیں اور آج کی میٹنگ کے صدر ہیں.عبد الحمید نے اُن کے سامنے بھی پہلے وہی بیان دیا جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کے روبرو دیا تھا.اس کے متعلق کرنیل ڈگلس کے فیصلہ سے چند فقرات یہ ہیں.اس مقدمہ کی ساری کارروائی کی مصدقہ نقل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف کتاب البریہ میں درج کی ہے.فیصلہ اور گواہوں کے بیانات کے اقتباس اسی سے لیے گئے ہیں.)
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس.....474 تحقیقات 10 اگست کو شروع ہوئی اور 13 اگست تک جاری رہی.عبد الحمید اس وقت تک بالکل بعض ماتحت عیسائیوں کی نگرانی میں رہا جو سکاچ مشن کے ملازم ہیں.ہم نے بذاتِ خود اس کے بیان کو جیسا کہ ہے، نہایت ہی بعید العقل خیال کیا.اُسکے اُس بیان میں جو اس نے امرتسر میں لکھا یا بمقابلہ اس بیان کے جو میرے سامنے لکھایا، اختلافات ہیں اور ہم اس کی وضع قطع سے جبکہ وہ شہادت دے رہا تھا مطمئن نہیں ہوئے تھے.اس کے علاوہ ہم نے یہ معلوم کیا کہ جتنی دیر تک بٹالہ میں مشن کے ملازموں کی نگرانی میں رہا اتنا ہی اس کی شہادت مفصل اور طویل ہوتی گئی.اس سے یہ نتیجہ پیدا ہوا کہ یا تو کوئی شخص اس کو یا اشخاص سکھلاتے پڑھاتے ہیں یا یہ کہ اس کو اس سے اور زیادہ علم ہے جتنا کہ وہ اب تک ظاہر کر چکا ہے.لہذا میں نے ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس کو کہا کہ آپ اس کو اپنی ذمہ داری میں لے لیں اور آزادانہ طور سے اس سے پوچھیں.جب انہوں نے ایسا کیا اور اس کا بیان لینا شروع کیا تو وہ بغیر دھمکانے اور بغیر وعدہ معافی کا انتظار کرنے کے زار زار رونے لگا اور مسٹر لیمار چنڈ کے پاؤں پر گر پڑا اور کہا کہ وہ ملا زمان مشن کی سازش سے جن کی تحویل میں وہ تھا برابر جھوٹ بولتا رہا ہے.وہ کئی روز تک پہرہ میں رکھا گیا.وہ سخت مصیبت میں گرفتار رہا اور فی الحقیقت اس نے خود کشی کا ارادہ کر لیا تھا.لہذا اس نے مسٹر لیمار چنڈ کے سامنے پورا پورا بیان کر دیا اور یہ کہ وہ مرزا صاحب کی طرف سے نہیں بھیجا گیا تھا اور جو کچھ اس نے مرز اصاحب کے خلاف کہا وہ تین عیسائیوں عبدالرحیم ، وارث دین، اور پریم داس کے سکھلاوے پر کہا.اس نے یہ بھی اقرار کیا کہ سکھلانے والے اسے نام اور پتے زبانی یاد کراتے تھے اور بعض کے نام بھی پنسل سے اس کی ہتھیلی پر لکھ دیتے تھے اور عبد الحمید نے یہ بھی کہا کہ جب اس نے سب سے پہلا بیان ان کے کہنے کے مطابق دیا تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے دل کی مراد پوری ہو گئی.تفصیل کیلئے ملاحظہ فرمائیں ، کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحات 290-293) یہ تفاصیل لکھ کر کرنل ڈگلس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس الزام سے جو آپ پر لگایا گیا تھا بری قراردیا.ایک بڑی حکمت اس مقدمہ کے دائر ہونے میں یہ تھی کہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت عیسی علیہ السلام سے مماثلت قائم کرنا چاہتا تھا.چنانچہ اس مقدمہ سے دس مماثلتیں ثابت ہوئیں.[ نوٹ : سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب البریہ میں سات مماثلتیں بیان فرمائی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 475 ہیں.( دیکھیں کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحات 44-46) اسی طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کشتی نوح میں بھی بعض مماثلتیں بیان فرمائی ہیں جو وہاں سے ملاحظہ فرمائی جاسکتی ہیں.اسی طرح اس مضمون میں حضرت مولانا شمس صاحب نے یکجا طور پر دس مماثلتیں بیان کی ہیں.مماثلتیں بیان کرنے کے بعد حضرت مولانا شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں:] مقدمہ کی آغاز کار روائی سے تین روز پہلے یعنی 29 جولائی 1897ء کو صاف طور پر اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تھی کہ آپ پر ایک مقدمہ بنایا جائے گا اور وہ ابتداء میں ایک بجلی کی طرح نظر آئے گا.لیکن اس سے آپ کو نقصان نہیں ہوگا.بلکہ وہ محض حکام کی ایک تہدید ہو گی.جیسا کہ مجسٹریٹ امرتسر نے پہلے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا اور بیس ہزار روپیہ کے مچلکہ اور بیس ہزار روپے کی ضمانت کا مطالبہ کیا لیکن وہ صرف ایک تہدید ہی ثابت ہوئی اور جب مقدمہ کے کاغذات کیپٹن ڈگلس کے پاس پہنچے تو انہوں نے معمولی سمن جاری کیا اور پھر ایک الہی تصرف یہ ہوا کہ ڈاکٹر کلارک نے فوری عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا.چنانچہ فیصلہ میں لکھا ہے: ’بادی النظر میں یہ مقدمہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس میں پولیس کی جانب سے مزید تحقیقات کی جائے اور پھر سیشن سپر د کیا جائے مگر ڈاکٹر کلارک بوجہ بیماری پہاڑ پر جانا چاہتا تھا.اس کو ڈر تھا کہ شاید اس کا سب سے بڑا گواہ ورغلایا جائے اس واسطے اس نے یہ خواہش ظاہر کی کہ جہاں تک جلد ممکن ہو عدالتی تحقیقات کی جائے.“ ڈاکٹر کلارک کے اس مطالبہ کی بناء پر فوری عدالتی تحقیقات شروع کی گئیں اور باوجود یکہ پانچ گواہوں کے بیانات ہو چکے تھے جو سب کے سب مسیح موعود کے خلاف تھے لیکن کیپٹن ڈگلس کی تسلی نہ ہوئی اور انہیں یہ خیال سوجھا کہ عبد الحمید کو مشن ہاؤس سے علیحدہ کر کے بیان لینا چاہیے اور جب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ایسا کیا تو اس نے اصل حقیقت ظاہر کر دی.پھر جیسا کہ 29 جولائی کے الہامات میں تھا مخالفوں میں پھوٹ پڑی اور انکے بیانات مختلف ہو گئے.اور الہام ” ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق شیخ محمد حسین بٹالوی کے حق میں پورا ہوا.اس نے عدالت میں کرسی مانگی جو اسے نہ دی گئی اور پھر دوسرے مسلمانوں نے اس کو بہت ملامت کی کہ ایک مسلمان کے مخالف عیسائیوں کے ساتھ مل کر شہادت دینے کے لیے گیا اور پھر اخیر حکم ابراء یعنی بے قصور ٹھہرانا پورا ہوا.چنانچہ کیپٹن ڈگلس نے فیصلہ میں لکھا:
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ مرزا غلام احمد سے حفظ امن کے لیے ضمانت لی جائے یا یہ کہ مقدمہ پولیس کے سپرد کیا جائے لہذاوہ بری کیے جاتے ہیں.“ 476 اس جگہ ان چند فقرات کا ذکر کرنا غیر موزوں نہ ہوگا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قلم سے اس مقدمہ کے متعلق تحریر فرمائے ہیں حضور فرماتے ہیں : ” میرے ہلاک کرنے کے لیے ایک خون کا مقدمہ بھی بنایا گیا جس کی میرے خدا نے مجھے پہلے خبر دے دی تھی.وہ مقدمہ جو میرے پر بنایا گیا ، وہ حضرت عیسی بن مریم کے مقدمہ سے بہت سخت تھا کیونکہ حضرت عیسی پر جو مقدمہ کیا گیا اس کی بنا محض ایک مذہبی اختلاف پر تھی جو حاکم کے نزدیک ایک خفیف بات تھی، بلکہ کچھ بھی نہ تھی.مگر میرے پر جو مقدمہ کھڑا کیا گیاوہ اقدام قتل کا دعوی تھا اور جیسا کہ مسیح کے مقدمہ میں یہودی مولویوں نے جا کر گواہی دی تھی ضرور تھا کہ اس مقدمہ میں بھی کوئی مولویوں میں سے گواہی دیتا.اس لیے اس کام کے لیے خدا نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو انتخاب کیا اور وہ ایک بڑا المباجبہ پہن کر گواہی کے لیے آیا اور جیسا کہ سردار کا ہن مسیح کو صلیب دلانے کے لیے عدالت میں گواہی دینے کے لیے آیا تھا یہ بھی موجود ہوئے.صرف فرق اس قدر تھا کہ سردار کا ہن کو پیلاطوس کی عدالت میں کرسی ملی تھی اور مسیح ابن مریم ایک مجرم کی طرح عدالت کے سامنے کھڑا تھا.لیکن میرے مقدمہ میں اس کے برعکس ہوا.یعنی یہ کہ برخلاف دشمنوں کی امیدوں کے کپتان ڈگلس نے جو پیلاطوس کی جگہ عدالت کی کرسی پر تھا، مجھے کرسی دی.اور یہ پیلاطوس مسیح ابن مریم کے پیلاطوس کی نسبت زیادہ با اخلاق ثابت ہوا کیونکہ عدالت کے امر میں وہ دلیری اور استقامت سے عدالت کا پابندر ہا اور بالائی سفارشوں کی اس نے کچھ بھی پرواہ نہ کی اور قومی اور مذہبی خیال نے بھی اس میں کچھ تغیر پیدا نہ کیا.اور اس نے عدالت پر پورا پورا قدم مارنے سے ایسا عمدہ نمونہ دکھایا کہ اگر اس کے وجود کو قوم کا فخر اور حکام کے لیے نمونہ سمجھا جائے تو بیجا نہ ہوگا.عدالت ایک مشکل امر ہے جب تک انسان تمام تعلقات سے علیحدہ ہو کر عدالت کی کرسی پر نہ بیٹھے تب تک اس فرض کو عمدہ طور پر ادا نہیں کر سکتا مگر ہم اس سچی گواہی کو ادا کرتے ہیں کہ اس پیلاطوس نے اس فرض کو پورے طور پر ادا کیا اگرچہ پہلا پیلاطوس جو رومی تھا اس فرض کو اچھے طور پر ادا نہ کر سکا اور اس کی بزدلی نے مسیح کو بڑی بڑی تکالیف کا نشانہ بنایا.کشتی نوح صفحات 51-52 ، روحانی خزائن جلد 19 صفحات 54-56)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس پھر فرماتے ہیں: 477 اگر وہ اپنے اس قول کا پاس کر کے کہ میں اس شخص کا کوئی گناہ نہیں دیکھتا مسح کو چھوڑ دیتا تو اس پر کچھ مشکل نہ تھا اور وہ چھوڑنے پر قادر تھا مگر وہ قیصر کی دو ہائی سن کر ڈر گیا.لیکن یہ آخری پیلاطوس پادریوں کے ہجوم سے نہ ڈرا حالانکہ اس جگہ بھی قیصرہ کی بادشا ہی تھی.لیکن یہ قیصرہ اُس قیصر سے بدر جہا بہتر تھی اس لیے کسی کے لیے ممکن نہ تھا کہ حاکم پر دباؤ ڈالنے کے لیے اور انصاف چھوڑانے کے لیے قیصرہ سے ڈراوے.بہر حال پہلے مسیح کی نسبت آخری مسیح پر بہت شور اور منصوبہ اُٹھایا گیا تھا اور میرے مخالف اور ساری قوموں کے سرگروہ جمع ہو گئے تھے.مگر آخری پیلاطوس نے سچائی سے پیار کیا اور اپنے اس قول کو پورا کر کے دکھلایا کہ جو اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا تھا کہ میں تم پر خون کا الزام نہیں لگاتا.سو اس نے مجھے بہت صفائی اور مردانگی سے بری کیا اور پہلے پیلاطوس نے مسیح کے بچانے کے لیے حیلوں سے کام لیا.مگر اس پیلاطوس نے جو کچھ عدالت کا تقاضا تھا اس طور سے اس تقاضے کو پورا کیا جس میں بزدلی کا رنگ نہ تھا.“ کشتی نوح صفحه 54، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 58) ہماری آج کی میٹنگ کے صدر کو اگر چہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس زندگی میں بھی ریٹائر ہونے سے قبل جزائر انڈیمان کی چیف کمشنری کے معزز عہدہ تک پہنچایا، لیکن جو عزت آپ کے لیے مستقبل میں مقدر ہے اس کا نہ وہ خود اندازہ لگا سکتے ہیں اور نہ کوئی اور شخص.آپ گورنمنٹ برطانیہ کے تاج میں ایک چمکتا ہو اہیرا ہیں جو آج اگر چہ دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے لیکن مستقبل میں وہ نہایت روشن ہے اور آپ کا وجود جب تک دنیا قائم ہے عدل و انصاف کی ایک مثال کے طور پر یاد کیا جائے گا.اب میں ایک اور پیشگوئی کا ذکر کرتا ہوں جو جماعت کی ترقی کے متعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت جبکہ آپ اکیلے تھے، یہ بشارت دی کہ میں تجھے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت دوں گا نیز فرمایا کہ میں تجھے دنیا کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دونگا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈالوں گا اور 1891ء میں آپ نے تحریر فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 478 کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.“ (ازالہ اوہام صفحہ 515-516 ، روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 377) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی جماعت کے مختلف ممالک میں پھیلنے کے متعلق بھی آپ کو بشارت دی چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ” میں نے ایک رؤیا میں مخلص مومنوں اور نیک عادل بادشاہوں کی جماعت دیکھی جو بعض تو ہندوستان کے تھے اور بعض عرب کے اور بعض فارس و شام و روم کے شہروں کے رہنے والے تھے اور بعض ان شہروں کے تھے جن کو میں نہیں جانتا.تب مجھے غیب سے یہ آواز آئی (یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اور تیرے لیے دعائیں کریں گے اور میں تجھے برکتیں دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.( عربی سے ترجمہ) لجة النور، روحانی خزائن جلد 16 صفحات 339-340) یہ بشارات آپ کو اس وقت دی گئیں جبکہ آپ کے پیرو نہایت قلیل التعداد تھے.دشمنان اسلام نے ان کلمات پر ہنسی اُڑائی لیکن آج وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں پوری ہورہی ہیں.1897ء میں جب کرنل ڈگلس نے ڈاکٹر کلارک والے مقدمہ کا فیصلہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مرید چند سو سے زائد نہ تھے اور ہندوستان کے بعض صوبوں میں صرف ایک ایک یا دو احمدی تھے جیسا کہ حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اسیح الاول کی شہادت سے ظاہر ہے.(مسل مقدمہ مندرجہ کتاب البریہ ) لیکن آج آپ کے متبعین دنیا کے تقریبا تمام بڑے بڑے ممالک میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی اور دنیا کے بہت سے ممالک مثلاً ریاست ہائے متحدہ امریکہ، ارجنٹائن ، گولڈ کوسٹ ، نائیجیریا، سیرالیون، جاوا، سماٹرا، چین، جاپان، عربی ممالک اور روم وغیرہ میں آپ کی جماعت کے با قاعدہ تبلیغی مشن قائم ہیں.امریکہ کے مشہور مشنری ڈاکٹر زویر اور یورپ کی مشہور شخصیات جیسے پروفیسر گب، ڈاکٹر مرے ٹیٹس ، ریورنڈ ہینڈرک کیمر، مسٹر ایچ اے والٹر وغیرہ جماعت احمدیہ کی اہمیت کے متعلق لکھ چکے ہیں اور جیسا کہ میں پہلے ذکر کر آیا ہوں جب آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو ہندؤوں ،عیسائیوں اور مسلمانوں و دیگر مذاہب کے پیرؤوں نے آپ کی سخت مخالفت کی اور آپ کی ہلاکت اور آپ کے مٹھی بھر
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 479 مریدوں کی جماعت تتر بتر کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور آپ کی جماعت میں فوق العادت برکت ڈالی.مسیح علیہ السلام نے کہا ہے وہ پودا جسے میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایا وہ جڑ سے اکھیڑا جائے گا.پس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی حیرت انگیز ترقی آپ کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں: میں تو ایک تخم ریزی کرنے کے لیے آیا ہوں.وہ تم میرے ہاتھ سے بویا گیا ، اب وہ بڑھے گا اور پھلے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ میری اس تقریر کے بعد کرنل ڈگلس نے فرمایا: ” مجھ سے بارہا یہ سوال کیا گیا ہے کہ احمدیت کا سب سے بڑا مقصد کیا ہے؟ میں اس سوال کا یہی جواب دیتا ہوں کہ اسلام میں روحانیت کی روح پھونکنا.بانی جماعت احمدیہ نے آج سے پچاس برس پیشتر یہ معلوم کر لیا کہ موجودہ زمانہ میں مذہب اور سائنس کا میلان کس طرف ہوگا.مثلاً یہ کہ مادہ فنا ہو جاتا ہے اور اس مادی زندگی کے بعد ایک روحانی زندگی جاری ہوگی.پروفیسر جینز اپنی کتاب Mysterious World میں لکھتے ہیں کہ مادہ غیر فانی چیز نہیں ہے اور دنیا ایک وسیع خیال کی طرح ہے نہ کہ ایک مشین کی طرح جو مادی اشیاء سے وابستہ ہے.وہ بالفاظ دیگر ایک وسیع خیال کی جگہ ایک بڑی روح کہہ سکتے تھے.جیسا کہ لکھا ہے ، خدا ایک روح ہے.پھر تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ احمدیت کا ایک مقصد اسلام کو موجودہ زمانہ کی زندگی کے مطابق پیش کرنا ہے.میں نے جب 1897ء میں بانی جماعت احمدیہ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کی تھی اس وقت جماعت کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی لیکن آج دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے.پچاس سال کے عرصہ میں یہ نہایت شاندار کامیابی ہے اور مجھے یقین ہے کہ موجودہ نسل کے نوجوان اس کی طرف زیادہ توجہ دیں گے اور آئندہ پچاس سال کے عرصہ میں جماعت کی تعداد بہت بڑھ جائے گی.( ریویو آف ریلیجنزار دو ستمبر 1939ء) نوٹ : 30 جولائی 1939ء کے جلسہ لندن کی تفصیلی رپورٹ الفضل قادیان 16 اگست 1939ء میں بھی شائع ہوئی جو وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے.] کرنل ایم ڈبلیوڈ گلس کا انتقال اس مایہ ناز ، عہد ساز اور تاریخ ساز ہستی کا وصال 25 فروری 1957 ء کو ہوا.آپ کے وصال پر
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اخبار الفضل نے آپ کا بڑے اچھے رنگ میں ذکر کیا.(الفضل ربوہ 28 فروری1957ء) اُس وقت کے امام مسجد لندن مکرم مولو د احمد خان صاحب کے نام امیر مقامی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تعزیتی پیغام بھجوایا نیز حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مارچ 1957ء بمقام ربوہ سر کرنل ڈگلس کا تفصیل کے ساتھ ذکر خیر فرمایا.یہ خطبہ جمعہ 480 الفضل ربوہ کے 30 مارچ1957ء کے شمارہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے.جیسا کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اس عالی مرتبت، انصاف پسند ہستی کا ذکر ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا ہے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کی وساطت سے ان کا ذکر خیر جاری وساری رہے گا.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے آمین.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس نواں باب علمی خدمات 481
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس جہاد بالقلم کے نمونے 482 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ” سلطان القلم کے خطاب سے نوازا اور آپ کو ہزاروں’ انصار سلطان القلم عطا فرمائے جنہوں نے دینی قلمی اور علمی میدان میں ہزاروں کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے.ان سینکڑوں انصار سلطان القلم میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کا نام ایک خاص مقام رکھتا ہے.آپ کا قلم ہمیشہ نوادرات و انکشافات لکھتا رہا اور جب بھی اٹھا تو محض دفاع اسلام اور صداقت اسلام و احمدیت کیلئے اٹھا.آپ کے قلم سے سلسلہ احمدیہ کے مفاد میں پُر اثر اور ٹھوس مضامین و مقالات نکلے.اس باب میں حضرت مولانا موصوف کے علمی اور قلمی کاوشوں کا اجمالی تعارف پیش کیا جارہا ہے نیز آپ کے تحریر کردہ سینکڑوں مضامین کی ایک منتخب فہرست بھی پیش کی جارہی ہے.-1 مسیح موعود کی صداقت پر بارہ نشان یہ کتاب پہلی بار 28 دسمبر 1922ء کو ضیاء الاسلام پر لیس قادیان کے طرف سے پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوئی جس میں پیشگوئی عبد اللہ آتھم ، پنڈت لیکھرام، پیشگوئی درباره دلیپ سنگھ ، ڈاکٹر ڈوئی ، طاعون ، اپنی جماعت کی ترقی کی پیشگوئی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر، سرخ چھینٹوں کا نشان ، جنگ عظیم کی پیشگوئیاں اور ان کے علاوہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ آخری فیصلہ اور ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیشگوئی کی حقیقت وغیرہ وغیرہ بیان کی گئی ہے.ان بارہ پیشگوئیوں کو حضور علیہ السلام کی صداقت پر زندہ نشان کے طور پر پیش کیا گیا ہے.یہ کتاب چونتیس صفحات پر مشتمل ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس -2 عقائد احمدیت 483 یہ کتا بچہ آپ نے بجواب ” مرزائی جماعت کا مصنوعی ایمان، تحریر کیا جسے منشی عبدالعزیز خان پر نٹر نے عزیزی پریس آگرہ سے چھپوا کر انجمن احمد یہ آگرہ کی طرف سے شائع کیا.یہ کتا بچہ چار صفحات پر مشتمل ہے جو 1924ء میں شائع ہوا.اس میں آپ نے عقائد احمدیت پر اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں.مولانا شمس صاحب ان ایام میں آگرہ میں خدمات بجالا رہے تھے.-3 کمالات مرزا بجواب شہادات مرزا معاند احمدیت مولوی ثناء اللہ امرتسری نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف متعدد کتب لکھیں.آپ کی تحریرات، دعاوی اور بعض الہامات پر اعتراضات انہوں نے اپنی کتاب ” شہادات مرزا میں کئے ہیں جو انہوں نے 1923ء میں بوعدہ ایک ہزار انعام لکھی.اس کتاب کا پر معارف جواب مولانا شمس صاحب نے انسداد ملکانہ کے ایام میں چھ ماہ کے اندر جنوری 1924ء میں بمقام قائم گنج تحریر کیا.ان ایام میں حضرت مولانا صاحب انسداد ملکانہ کے میدان میں جہاد میں مصروف کار تھے.یہ جواب پہلی بارا پریل 1924ء میں ریویو آف ریلیجنز اردو کی زینت بنا جو 48 صفحات پر مشتمل ہے.اس میں مولوی امرتسری صاحب کے جملہ اعتراضات کے جوابات دلائل عقلیہ و نقلیہ اور مدلل طور پر دیئے گئے ہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے اعتراضات میں حضور کی بعض پیشگوئیوں نیز بعض تحریروں پر اعتراضات اٹھائے اور اپنے زعم میں تحریروں میں تضاد نکالنے کی کوشش کی تاہم مولانا شمس صاحب نے حضرت اقدس کی تحریرات کی رو سے ان کے اعتراضات کا بدلائل رڈ پیش فرمایا.اس کتاب کا تعارف حضرت مولانا شمس صاحب نے دسمبر 1924ء میں لکھا جو الفضل میں شائع ہوا.-4 تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو الفضل قادیان 16 دسمبر 1924ء) دليل المسلمين في الرد على فتاوى المفتين یہ کتاب آپ نے بلاد عربیہ میں قیام کے دوران تحریر کی جسے مطبعہ الجمیل حنا البحری حیفا نے طبع کیا.76 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جماعت احمدیہ حیفا کی طرف سے 1930ء میں شائع ہوئی.دمشق کے شیخ محمد رشید نے مذاہب اربعہ کے فتاوی کی رو سے السید منیر احصنی اور احمدیوں کے خلاف فتاوی ارتداد و کفر
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 484 جاری کروائے کہ احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں اور حیات مسیح سے انکاری ہیں.حضرت مولانا شمس صاحب نے ان کے فتاوی اور بعض دیگر مفتیان کے فتاوی کا رد پیش کیا ہے.اس کتاب میں جہاد، حیات و وفات مسیح اور قتل مرتد کے احکامات کے موضوعات پر بحث کی گئی ہے اور عقائد احمدیت پر کئے جانے والے بعض اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں.یہ کتاب عربی زبان میں ہے.-5 جوهر الكلام في الرد على فصل الخصام یہ عربی کتاب پہلی بار مئی 1931ء میں المطبعة الخبر یہ قاہرہ سے طبع ہوئی جسے جماعت احمد یہ عرب نے مشتمل ہے.پہلا حصہ مئی میں جبکہ دوسرا حصہ شائع کیا.کتاب ہذا کے 52 صفحات ہیں اور دو حصص جون 1931ء میں حضرت مولانا شمس صاحب نے تحریر کیا.1930ء میں قاہرہ سے ایک کتاب فصل الخصام تحریر کی گئی جس میں عقائد احمدیت پر اعتراضات کے ساتھ مولانا شمس صاحب کی ذات کو بھی نشانہ بنایا گیا اور فتاویٰ کفر لگائے گئے.آپ نے زیر نظر کتاب میں ” فصل الخصام“ کا دلائل عقلیہ و نقلیہ سے رڈ کیا ہے.علاوہ ازیں اس کتاب میں مسئلہ حیات و وفات مسیح، ناسخ و منسوخ اور مقام و صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضامین شامل ہیں.-6 توضيح المرام فى الرد علماء حمص طرابلس الشام یہ عربی کتاب پہلی بار جون 1930ء میں طبع ہوئی جسے جماعت احمدیہ عرب نے شائع کیا.یہ کتاب 82 صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب میں بھی ختم نبوت اور وفات وحیات مسیح کے مضامین پر سیر حاصل بحث ہے.مولانا شمس صاحب کی کتاب " البرهان الصريح في ابطال الوهية المسيح“ کے تین رڈ لکھے گئے.رڈ لکھنے والے علماء میں علمائے طرابلس الشام بھی شامل تھے.آپ کی کتاب کا علمائے حمص نے بھی رڈ شائع کیا.جس کا نام ”النصيحة الاسلامیة“ تھا جو کہ پینتیس صفحات پر مشتمل تھی.حضرت مولا نا ئٹس صاحب نے اس کتاب میں ان علماء کے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں.-7 مباحثہ جہلم یہ تحریری و تقریری مباحثہ جہلم شہر کے احمدیوں اور عیسائیان شہر جہلم کے مابین ہوا.جماعت احمدیہ جہلم کی نمائندگی حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے جبکہ عیسائیوں کی طرف سے پادری عبد الحق نے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 485 نمائندگی کی.مباحثہ 12 تا 15 دسمبر 1932ء گر جا گھر جہلم میں منعقد ہو ا جسے پہلی بار مینیجر احمد یہ بک ڈپو تالیف واشاعت نے دسمبر 1932ء میں شائع کیا.یہ 104 صفحات پر مشتمل ہے.اس مباحثہ میں جماعت احمدیہ جہلم کی طرف سے مولوی عبد الکریم صاحب جہلمی جبکہ عیسائیوں کی طرف سے ایس ایم پال صدر تھے.مباحثہ میں الوہیت مسیح اور مسیح موعود حضرت مرزا صاحب ہیں“ کے موضوعات شامل تھے.اس میں گل گیارہ پرچے پیش کئے گئے.پہلا پرچہ پادری عبد الحق نے پیش کیا جبکہ دوسرا مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پیش کیا.حضرت مولانا موصوف نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی آپ کی اپنی تحریرات کے رو سے پیش کئے ہیں اور الوہیت مسیح کار دانا جیل سے کیا ہے.8- رساله تائید نشان آسمانی یہ کتابچہ پہلی بار احمد یہ بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان کی طرف سے ملک فضل حسین صاحب پبلشر و مینیجر بک ڈپونے شائع کیا جس محترم چوہدری اللہ بخش صاحب مالک اللہ بخش سٹیم پر یس نے طبع کروایا.یہ رسالہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جس میں ایڈیٹر اخبار احسان کے ان اعتراضات کے مکمل، مدلل اور فخم جوابات دیئے گئے ہیں جو انہوں نے قصیدہ شاہ نعمت اللہ ولی دہلوی سے متعلق کئے تھے.حضرت مولانا شمس صاحب نے اس کتاب میں مدیر احسان کے اعتراضات کے جوابات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ” نعمت اللہ ولی" نامی کئی بزرگان اور صوفیاء گذرے ہیں تاہم ا.ح.م.در می خوانم والا قصیدہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی دہلوی کا ہی تحریر کردہ ہے نہ کہ شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی کا یا کسی اور کا.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قصیدہ اپنی تصنیف لطیف نشان آسمانی میں درج فرمایا ہے.-9 Where Did Jesus Die? یعنی حضرت مسیح کہاں فوت ہوئے ؟ انگریزی میں لکھی گئی اپنی اس کتاب کی بابت حضرت مولانا شمس صاحب کا تحریر کردہ تعارف پیش ہے: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا اہم مقصد کسر صلیب اور قصر عیسائیت کو گرا کر اسلامی محل کا تعمیر کرنا ہے اور عیسائیت کا بنیادی مسئلہ صلیبی موت ہے جیسا کہ پولوس نے لکھا ہے کہ اگر مسیح مردوں سے جی نہیں اٹھا تو ہماری تبلیغ بھی بے فائدہ اور ہمارا ایمان بھی بے فائدہ ہے.میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 486 کہ موجودہ عیسائیت کی موت اسی ایک بات میں مضمر ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت مسیح صلیبی موت سے بچ گئے تھے اور آخر کار طبعی وفات پائی اور یہ مسئلہ عیسائیان یورپ کیلئے انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی مفید و مؤثر ثابت ہوگا جیسا کہ مسلمانان ہند کیلئے حضرت مسیح کی طبعی وفات کا مسئلہ مؤثر ثابت ہوا.یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے.باب اول میں انا جیل سے پانچ دلائل دیئے گئے ہیں جن سے ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح صلیب سے زندہ اتار لئے گئے تھے.دوسرے باب میں اناجیل کی شہادت کو ایک مقدمہ کی صورت میں لکھا گیا ہے جس کا دو جوں نے فیصلہ کیا ہے.فیصلہ میں چاروں مؤلفین اناجیل کے بیانات میں جو اختلافات اور تناقضات متعلقہ واقعہ صلیب میں پائے جاتے ہیں ان کا ذکر کیا گیا ہے.تیسرے باب میں سڈنی کے ایک حج اور ایک مشہور جرمن پروفیسر کی انجیلی بیان کی معقول تشریح کی گئی ہے جس میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسیح صلیب پر سے زندہ اتار لئے گئے تھے اور آخر کار طبعی وفات پائی.چوتھے باب میں سویڈن کے ایک مشہور ڈاکٹر کی تحقیق درج کی گئی ہے جس میں اناجیل کی عبارات متعلقہ واقعہ صلیب کی طبی لحاظ سے تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے تھے.پانچویں باب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مسیح آسمان پر نہیں گئے.چھٹے باب میں اس امر پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے کہ مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت اور ان کے آسمان پر جانے کا عقیدہ عیسائیوں میں کیسے پھیلا.ساتویں باب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دوسری بہت پرست اقوام جن کی خاطر یہ عقائد اختراع کئے گئے وہ اپنے دیوتاؤں کے متعلق پہلے سے ہی ایسے عقائد رکھتی تھیں.آٹھویں باب میں کفارہ کی تردید کی گئی ہے.نویں باب میں مسیح کے ہندوستان جانے کا ذکر ہے.مسیح کے حقیقی مشن اور کشمیریوں اور افغانوں کے بنی اسرائیل ہونے پر تاریخی لحاظ سے بحث کی گئی ہے اور یہ کہ مسیح کی آمد کے وقت وہ ہندوستان اور افغانستان میں آباد تھے.دسویں باب میں بدھوں کی قدیم اور پرانی تحریروں پر بحث کی گئی ہے جن میں حضرت عیسی کے ہندوستان جانے کا ذکر ہے.گیارہویں باب میں یورپین مؤلفوں کے خیال کی تردید کرتے ہوئے بدلائل قویہ ثابت کیا گیا ہے کہ یوز آسف اور حضرت عیسی علیہ السلام ایک ہی شخص کے دو نام ہیں.نیز سری نگر کشمیر میں جو قبر یوز آسف کی پائی جاتی ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کی قبر ہے.بارہویں باب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیشگوئی کی عظمت کا ذکر کیا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کسر صلیب کریں گے اور بتایا ہے کہ وہ مسیح موعود آچکا ہے اور اس نے مسیح علیہ السلام کی وفات ثابت کرنے اور اس کی قبر کی نشاندہی کرنے سے اس پیشگوئی کی صداقت پر مہر لگادی ہے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 487 ایک لحاظ سے میری یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کے بعض ابواب کی تشریح اور بعض کا خلاصہ ہے.ڈاکٹر ڈڈلی رائٹ جو تقریباً پچاس کتابوں کے مؤلف ہیں انہوں نے اس کا مسودہ پڑھ کر مجھے لکھا کہ میں نے اس کتاب کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھا ہے: The Latter partinparticular was somewhat of revelation for me.یعنی اس کا آخری حصہ خاص طور پر میرے لئے انکشاف تھا.مجھے یہ تو علم تھا کہ ایک خیال یہ ہے کہ مسیح ہندوستان گئے لیکن مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ مسیح کے ہندوستان کے جانے کا کیس اتنا مضبوط ہے.آپ نے واقعات کو جس خوبی اور زوردار پیرایہ میں بیان کیا ہے.Must demand attention and consideration.میری رائے میں وہ ضرور لوگوں کی توجہ اور فکر کا جذب کرنے والا ہوگا.چنانچہ ڈاکٹر ڈڈلی رائٹ نے دو صفحہ کا ایک مقدمہ بھی لکھا ہے.ابھی چند روز ہوئے مجھے ایک عیسائی نے میرا اشتہار " مسیح کی قبر ہندوستان میں پڑھنے کے بعد نہایت جوش میں آکر خط لکھا.میں سمجھتا ہوں کہ بہت سی طبائع میں ایک الفضل قادیان 18 جنوری 1946 ء صفحہ 7) فکری ہیجان پیدا ہوگا.10.شہزادہ امن قیام انگلستان کے دوران آپ نے انگریزی میں شہزادہ امن کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پُر امن تعلیمات پیش کی گئیں.یہ کتاب دستیاب نہیں ہو سکی.-11- قیام پاکستان و جماعت احمدیہ الفضل قادیان 4 جنوری 1941 ، صفحہ 5) یہ کتاب دراصل آپ کی جلسہ سالانہ 1949ء کی تقریر ہے.یہ تقریر کتابی صورت میں 1950ء میں شائع ہوئی جو کہ 80 صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب کو نظارت اشاعت ولٹریچر نے شائع کیا جس میں 1925ء سے 1948 ء تک قیام پاکستان کے سلسلہ میں جماعتی خدمات کا عمومی تذکرہ شامل ہے.گول میز کانفرس ، کشمیر کمیٹی ، سائمن کمیشن وغیرہ میں جماعت احمدیہ اور حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات نیز سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے قیام پاکستان کی جدو جہد کے سلسلہ میں نہایت اہم ارشادات شامل ہیں جن سے جماعت احمدیہ کی پاکستان سے وابستگی عیاں ہوتی ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 12- امیر منکرین خلافت کی مغالطہ انگیزیوں کا جواب 488 یہ کتاب سینتیس صفحات پر مشتمل ہے جسے صیغہ نشر و اشاعت نظارت اصلاح وارشاد مرکزیہ نے شائع کیا.اس کتاب میں عقلی و نقلی دلائل سے امیر منکرین خلافت کی خلافت کے بارہ میں غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا نیز سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات پر اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں.-13 تبلیغی محط ہر مسلم بھائی اور بہن کے نام ی تبلیغی خط آپ نے اس غرض کے پیش نظر لکھا کہ وہ دوست جنہیں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے متعلق کما حقہ واقفیت نہیں انہیں اس کے متعلق صحیح واقفیت پہنچائی جائے.اس خط میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بیان کرتے ہوئے بعض اعترضات کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں جوعموماً جماعت احمد یہ کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں.اس خط میں آپ نے ختم نبوت اور علمائے امت کی تصریحات ، قادیان سے ہجرت اور جماعت احمدیہ اور جہاد کے موضوعات شامل ہیں جن میں نص صریح ، اقوال بزرگان اور تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی رو سے بحث کی گئی ہے.14- ضرورت علم القرآن یہ کتاب دراصل حضرت مولانا شمس صاحب کی تقریر ہے جو آپ نے فروری 1952ء میں تعلیم الاسلام کالج لاہور کے طلبہ کے سامنے بیان کی.یہ تقریر پہلی بارالشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ر بوہ نے دو ہزار کی تعداد میں اگست 1953 ء کو شائع کی اور 32 صفحات مشتمل ہے.اس کتاب میں آپ نے قرآن کریم کا علم حاصل کرنا کیوں ضروری ہے ، قیام امن کے ذرائع ، لامذہبیت کا توڑ اور قرآن مجید علم تاریخ علم غیب ، یا جوج ماجون، فریضہ تبلیغ اور بعض دوسرے مضامین پر بحث اٹھائی ہے.15- تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر حکومت پنجاب پاکستان نے اینٹی احمد یہ فسادات 1953ء پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کروائی ، جسے جناب جسٹس محمد منیر صاحب نے مرتب کیا.اس کتاب پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر میں حضرت مولانا شمس صاحب نے تبصرہ شائع کیا.آپ نے یہ کتاب اپریل 1955ء میں بحیثیت انچارج تالیف و تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان مرتب کی اور یہ تبصرہ پہلی بار 300 کی تعداد
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 489 میں نظارت تالیف و تصنیف نے شائع کیا جس کے کل 288 صفحات ہیں.حضرت مولانا شمس صاحب تحریر کرتے ہیں: تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک کتابچہ محاسبہ ( از مولانا مودودی صاحب) اور دوسرا تبصرہ شائع ہو چکے ہیں.ان دونوں کتا بچوں میں ساراز در قلم احمدیوں کو ملزم گردانے پر صرف کیا گیا ہے اور مؤلفین تبصرہ نے تو رپورٹ کی قدرو قیمت کم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.ہم نے اس کتاب میں یہ التزام کیا ہے کہ ہر معاملہ میں تحقیقاتی عدالت کی رائے بلا کم و کاست درج کر دی جائے تا بہی خواہانِ مملکت پاکستان معزز عدالت کی رائے کی روشنی میں جو ان وجوہ کا باعث ہوئیں، پھر پیدا نہ ہونے دیں (تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر، پیش لفظ) یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے.پہلے حصہ میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ، دوسرے حصہ میں فسادات 1953ء کی ذمہ داری، تیسرے حصہ میں مسلمانوں اور احمدیوں کے اختلافی مسائل پر بحث ہے، جبکہ چوتھا حصہ بعض اختلافی نظریات قتل مرتد ، مسلمان کی تعریف، اجماع امت اور اسلامی ریاست کے موضوعات پر مشتمل ہے.16- فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے دس سوالات کے جوابات جیسا کہ نام سے ظاہر ہے فسادات 1953ء کے دوران تحقیقاتی عدالت نے مختلف مکتبہ ہائے فکر سے دس سوالوں کے جوابات طلب کئے تھے.جماعت احمدیہ کی طرف سے ان سوالات کے جوابات حضرت مولانا شمس صاحب نے پیش کئے.زیر نظر کتاب پہلی بار الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ نے شائع کی جو 308 صفحات پر مشتمل ہے.تحقیقاتی عدالت کے حسب ذیل سوالات کے عقلی و نقلی جوابات آپ نے اس کتاب میں پیش کئے ہیں : ا.۲.٣.ظہور صحیح و مہدی کا ذکر قرآن وحدیث میں کیا مسیح جن کا آئندہ ظہور تسلیم کیا گیا وہی عیسی بن مریم ہوں گے یا کوئی اور؟ کیا مسیح اور مہدی کا درجہ نبی کا ہوگا ؟ کیا ان میں سے ایک یا دونوں قرآن وسنت کے کسی قانون کو منسوخ کریں گے؟ پیغمبر کوکس طرح وحی آتی ہے، کیا جبرائیل کی مرکی صورت میں ؟
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس _^ و.- 1 + آل مسلم پارٹیز کنونشن نے خاتم الانبیاء کی جو تشریح کی ہے کیا وہ مسلم عقیدہ کا ہمیشہ جزو رہی ہے؟ قرآن وسنت کے حوالے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی ، سیاسی ، مذہبی نظام میں غیر مسلموں کو ایک غیر ملکی عصر کے طور پر قرار دیا گیا ہے 490 ڈائریکٹ ایکشن کا جواز تبصره بر جواب مولانا مودودی صاحب احمدیوں کی مطبوعات جو عامتہ المسلمین کے مذہبی جذبات واحساس کی تو ہین کرتی ہیں دیگر مسلمانوں کی مطبوعات جن سے احمدیوں کے عقائد کی تو ہین ہوتی ہے حضرت مولانا شمس صاحب تحریر فرماتے ہیں: فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت نے دوران تحقیقات متعلقہ جماعتوں سے دس سوالات یا دس نکات کے جوابات طلب کئے تھے.جماعت اسلامی کی طرف سے مولانا مودودی صاحب نے اور اسی طرح بعض اور جماعتوں نے ان کے جوابات دیئے تھے.صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ان دس سوالات کے جو جوابات دیئے گئے وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں اور ہر ایک سوال کے جواب کے بعد مولانا مودودی صاحب کے پیش کردہ جوابات پر نہایت اختصار کے ساتھ تبصرہ کیا جائے گا.(فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے سوالات کے جوابات صفحہ 3) 17- شرح القصيده يا عين فيض الله والعرفان يا عين فيض الله والعرفان سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شہرہ آفاق عربی قصیدہ ہے جس کی شرح لکھنے کی سعادت حضرت مولانا شمس صاحب کو حاصل ہوئی.آپ نے یہ شرح ستمبر 1956ء میں لکھی.اس کتاب میں پہلے قصیدہ درج کر کے اس کا ترجمہ دیا گیا ہے پھر قصیدہ مع ترجمہ و شرح پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ مشکل الفاظ کی لغوی تشریح بھی دی گئی ہے.بعض اشعار کی تشریح میں دلچسپ روایات و واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں.یہ کتاب جو کہ 192 صفحات پر مشتمل ہے، الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ نے 1956ء میں شائع کی.اس کتاب کے آخر میں حضرت مولانا شمس صاحب نے اپنا لکھا ہوا عربی قصیدہ بھی قرآن کریم اور صحابہ رسول اکرم ﷺ کی شان میں پیش کیا ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس -18- پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق 491 یہ کتاب آپ کی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء پر مشتمل ہے جو کتابی صورت میں 1958ء میں شائع ہوئی اور 149 صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب کو مہتم نشر و اشاعت نظارت اصلاح وارشاد نے شائع کیا اور مطبع ضیاء الاسلام ربوہ نے طبع کیا.اس کتاب میں آپ نے بزرگان سلف اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی رو سے ثابت کیا ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود کے حقیقی مصداق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی ہیں.نیز منکرین خلافت کے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں." 19-انڈیکس روحانی خزائن سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ کتب کو روحانی خزائن کی صورت میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے مجلد شکل میں شائع کرنے کا آغاز فرمایا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے موافق ان کتب کا توضیحی انڈیکس تیار کرنے کی سعادت حاصل کی.چنانچہ روحانی خزائن کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی 91 کتب 23 جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں.یہ کام بفضلہ تعالی 1968ء میں بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا.حضرت مولانا شمس صاحب نے جو کہ ان ایام میں ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف تھے اور پھر ناظر اصلاح وارشاد نیز الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات بجالا رہے تھے، پہلی ہیں جلدوں کا پیش لفظ تحریر کیا نیز میں جلدوں کا بصورت مضامین تفصیلی انڈیکس بھی تحریر کیا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر معارف روحانی خزائن“ کے نام سے 1957ء میں شائع ہونا شروع ہوئیں.روحانی خزائن کی پہلی 19 جلدوں کا اشاریہ جو یقیناً سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے ، حضرت مولانا موصوف کو بنانے کی توفیق ملی.آپ کی یہ عہد ساز سعادت قیامت تک یا درکھی جائے گی.بازو اس سعادت بزور بخشد خدات نیست بخشنده آپ روحانی خزائن کی پہلی جلد کے پیش لفظ میں تحریر کرتے ہیں : ”ہم نے اس طبع کو طبع بار اول کے مطابق رکھنے کی کوشش کی ہے.کتاب کے شروع میں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مضامین براہین احمدیہ کا ایک تفصیلی انڈیکس بھی لگا دیا ہے جو ایک رنگ میں براہین احمدیہ میں درج شدہ مضامین کا خلاصہ ہے.66 492 پہلی جلد کا انڈیکس مع پیش لفظ 98 صفحات پرست ر مشتمل ہے.پیش لفظ آپ نے 11 اپریل 1958ء کو تحریر کیا.دوسری جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 88 صفحات پر مشتمل ہے.تیسری جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 83 صفحات پر مشتمل ہے جس کا پیش لفظ نومبر 1958ء کا تحریر کردہ ہے.چوتھی جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 75 صفحات پر مشتمل ہے جو اپریل 1959ء کا تحریر کردہ ہے.پانچویں جلد کا پیش لفظ آپ نے 14 ستمبر 1959ء کو تحریر کیا جو کہ 12 صفحات پر مشتمل ہے.اس جلد کا انڈیکس 78 صفحات پر مشتمل ہے.چھٹی جلد کا انڈیکس 78 صفحات پر مشتمل ہے.جلد ہفتم کا انڈیکس معہ پیش لفظ 96 صفحات پر مش ہے.جلد 8 کا انڈیکس معہ پیش لفظ 70 صفحات پر مشتمل ہے.اس جلد کا پیش لفظ 10 مارچ 1961 ء کا تحریر شدہ ہے.جلد نہم کا انڈیکس 75 صفحات پر جبکہ پیش لفظ 8 صفحات پر مشتمل ہے جو آپ نے نومبر 1961ء میں تحریر کیا.- مشتمل دسویں جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 83 صفحات پر مشتمل ہے.گیارہویں جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 61 صفحات پر مشتمل ہے جس کا پیش لفظ فروری 1963ء کا تحریر کردہ ہے.بارہویں جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 57 صفحات پر مشتمل ہے.جلد 13 کا انڈیکس معہ پیش لفظ 87 صفحات پر مشتمل ہے اور یہ پیش لفظ 3 دسمبر 1963ء کا تحریر کردہ ہے.چودہویں جلد کا انڈیکس مع پیش لفظ 67 صفحات پر مشتمل ہے.پندرہویں جلد کا پیش لفظ 14 صفحات جبکہ انڈیکس 83 صفحات پر مشتمل ہے.اس جلد کا پیش لفظ آپ نے 2 نومبر 1964ء کو تحریر کیا.سولہویں جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 58 صفحات پر مشتمل ہے.اس جلد کا پیش لفظ آپ نے 11 اپریل 1965ء کو تحریر کیا.ستر ہو یں جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 120 صفحات پر مشتمل ہے.اس جلد کا پیش لفظ آپ نے 11 اکتوبر 1965ء کو تحریر کیا.اٹھارہویں جلد کا انڈیکس معہ پیش لفظ 92 صفحات پر مشتمل ہے.پیش لفظ جنوری 1966ء کا تحریر کردہ ہے.انیسویں جلد کا انڈیکس معه پیش لفظ 111 صفحات پر مشتمل ہے.یہ پیش لفظ 23 ستمبر 1966ء کا تحریر کردہ ہے جو آپ کی وفات 13 اکتو بر 1966 سے محض چند روز قبل کا ہے.نوٹ : روحانی خزائن جلد 20 تا 23 کے انڈیکسر مکرم ومحترم سید عبدالحی شاه صاحب ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف کے مرتب کردہ ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 493 جن ایام میں حضرت مولانا موصوف الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹیڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب روحانی خزائن کے سیٹ کی صورت میں تفسیر کبیر اور سلسلہ کی بعض دیگر کتب شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہے تھے.اس سلسلہ میں 1957ء سے 1963 ء تک کے جماعتی اخبارات میں ان کتب کے تعارف و اہمیت کے بارہ میں آپ کے تحریر کردہ مفید علمی مضامین شائع ہوتے رہے جن میں ان روحانی معارف کی اہمیت و برکات اجاگر کی جاتی رہیں تا احباب ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں.(تفصیل کیلئے دیکھئے الفضل ربوہ 1957 ء تا1963ء کے پرچہ جات نیز دیگر جماعتی رسائل.) 1957ءتا1963ء تعارف روحانی خزائن اور تفسیر کبیر جن ایام میں حضرت مولانا موصوف الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب روحانی خزائن کے سیٹ کی صورت میں تفسیر کبیر اور سلسلہ کی بعض دیگر کتب شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہے تھے ، اس وقت آپ کی کیا تمنا تھی اسکی ایک جھلک آپ کی اس تحریک سے ہوتی ہے جو آپ نے الفضل میں شائع کروائی : اے فرزندگان احمدیت ! اگر تم اس مقصد کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ بالا عبارت میں جماعت کا قرار دیا ہے حاصل کرنا چاہتے ہو اور اگر تم شیطان پر غالب آنا چاہتے ہو اور اگر تم اپنے آپ کو اور اپنے اقارب کو اور اپنی اولادوں کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کو پڑھو اور پھر پڑھو اور پھر پڑھو.یا د رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں.جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور 66 خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کیلئے تیار کئے ہیں.“ ( مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 13).پس اپنے ایمان کی مضبوطی اور اپنے اہل و عیال کو زمانہ کی زہریلی ہواؤں سے محفوظ رکھنے کے لئے اور اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور دوستوں کی ہدایت کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب خریدیں.خود پڑھیں اور دوسروں کو پڑھنے کی تلقین کریں.میں آپ تک یہ خوشخبری پہنچانے سے نہیں رک سکتا کہ الشرکة الاسلامیہ لیمیٹڈ ربوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتنی کتب کو 24 جلدوں (بعد میں 23 جلدوں میں مکمل شائع کیا گیا) میں ایک سیٹ کی صورت میں شائع کر رہی ہے تمام جلدیں ایک
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 494 سائز کی ہونگی اور ہر جلد پانچ سو صفحات کی ہوگی.24 جلدوں کے پورے سیٹ کی قیمت 190 روپے ہے.جو دوست پیشگی قیمت ادا کر دیں انہیں 160 روپے میں سیٹ دیا جائے گا اور جو دوست پوری قیمت پیشگی ادا کر دیں اُن کے اسمائے گرامی اگلی جلد میں شائع کئے جائیں گے اور ان کے لئے دعا کی تحریک کی جائے گی کیونکہ مامور اٹھی کی کتب کے سیٹ کے وہ اس وقت خریدار بنے جبکہ دنیا ان روحانی خزائن سے بے رغبت تھی اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی ثواب کے مستحق ہونگے.پیشگی قیمت ادا کرنے والے کے لئے بعض سہولتیں بھی دی جاتی ہیں.کراچی کی جماعت نے اس سلسلہ میں نہایت اچھی مثال قائم کی ہے.چنانچہ اس جماعت کے مختلف دوستوں نے ڈیڑھ سوسیٹ خرید کئے ہیں پھر ان میں سے تین دوستوں نے جماعت کے مخیر اور صاحب مال افراد کے لئے ایک قابل تقلید مثال قائم کی ہے.اے فرزندان احمدیت ! تم لاکھوں کی تعداد میں ہو.کیا تم میں ایک ہزار افراد بھی ایسے نہیں جو مرسل یزدانی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی پر از معارف و حکمت کتابوں کو خریدنے کیلئے لبیک کہیں؟ ساٹھ سال بعد حضرت اقدس کی جملہ کتا بیں چوبیس جلدوں میں ایک سیٹ کی صورت میں شائع ہورہی ہیں.پھر نہ معلوم کتنے سالوں کے بعد پھر یہ موقعہ میسر آئے.پس آج ہی اپنے نام خریداری کے لئے بھجوا دیں.ممنون ہونگا اگر امراء جماعت یا پریذیڈنٹ صاحبان یا سیکرٹریان اصلاح وارشاد اپنی اپنی جماعت کو یہ اعلان پڑھ کر سنادیں.تفسیر کبیر تفسیر کبیر میں قرآن مجید کے مشکل مقامات کا حل جس آسان پیرایہ میں پیش کیا گیا ہے اور کلام اللہ کے جو حقائق و معارف بیان کئے گئے ہیں انکی نظیر متقدمین کی تفاسیر میں تلاش کرنا بے سود ہے.اس بے نظیر تفسیر کی جو جلدیں نایاب ہو چکی ہیں وہ اب کسی قیمت پر بھی نہیں ملتیں.تفسیر کبیر کی جلد میں اس وقت ہمارے پاس موجود ہیں ہم دوستوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ قبل اس کے کہ وہ نایاب ہو جائیں انہیں فوراً حاصل کرنے کی کوشش کریں.[ اس کے بعد تفسیر کبیر کے مختلف اجزاء کی تفصیل بیان کی گئی ہے].حضرت مولا نائٹس صاحب مزید بیان فرماتے ہیں: اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں سے کشتی نوح، اسلامی اصول کی فلاسفی تحفہ گولڑویہ، اعجاز احمدی، ایام اصلح، تذکرۃ الشہادتین سرمه چشم آریہ، تذکرہ ، کلید تذکرہ برائے فروخت موجود ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 495 حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی تالیفات میں سے تفسیر سورہ کہف، دعوۃ الامیر، دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی بزبان اردو.اسلام میں اختلافات کا آغاز.سیرۃ خیر الرسل ، مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ( اسلامک آئیڈیا لوجی) ، سیر روحانی جلد اول و دوم، منہاج نبوت ،نجات، مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے، احمدیت یعنی حقیقی اسلام موجود ہیں.جلال الدین شمس چیر مین و مینیجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹیڈر بو ضلع جھنگ.20- اسلام کا عالمگیر غلبہ (الفضل ربوہ دسمبر 1959ء) یہ آپ کی جلسہ سالانہ 1960ء کی تقریر ہے جسے جولائی 1961ء میں مہتم نشر واشاعت اصلاح وارشاد مرکزیہ نے مطبع ضیاء الاسلام سے طبع کروا کر شائع کیا.اس کے 64 صفحات ہیں.اس میں ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام کا عالمگیر غلبہ حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت کے ہاتھوں مقدر ہے.21 - حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں یہ کتاب دراصل آپ کی تقریر جلسہ سالانہ 1961ء ہے جو کتابی صورت میں 1962ء میں شائع ہوئی اور 61 صفحات پر مشتمل ہے جسے نظارت اشاعت ولٹریچر نے شائع کیا.اس تقریر میں پسر موعود، سلسلہ احمدیہ کا قیام اور ترقی مخالفین کی ناکامی اور نامرادی، اشاعت احمدیت کے بارہ حضرت اقدس کی پیشگوئیاں نیز سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض دیگر پیشگوئیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے.22- تربیت یہ کتاب آپ نے بحیثیت قائد تربیت مجلس انصار اللہ مرکز یہ تالیف کی جسے اکتوبر 1962ء میں مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے شائع کیا.یہ کتاب 95 صفحات پر مشتمل ہے جس میں حسب ذیل تربیتی اور اصلاحی مضامین پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے ارشادات شامل ہیں.نماز با جماعت، اسلامی شعار، داڑھی، پرده ، اطاعت، سچائی، پان، حقہ، زرده ، افیون کی ممانعت، ایفائے عہد، لغویات سے پر ہیز اور ان کے علاوہ دیگر تر بیتی مضامین شامل ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 23.جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ 496 یہ کتاب آپ کی تقریر جلسہ سالانہ ربوہ 1962ء پرمشتمل ہے جسے پہلی بار نظارت اصلاح ارشاد مرکز یہ نے 1963 ء میں شائع کیا جو کہ 120 صفحات پر مشتمل ہے.اس تقریر میں آپ نے سلسلہ احمدیہ کے بارہ میں بعض غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے.24.جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ یہ کتاب آپ کی تقریر جلسہ سالانہ ربوہ 1963 ء ہے جسے پہلی بار نظارت اصلاح ارشاد مرکز یہ نے 1964ء میں شائع کیا جو کہ 120 صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب میں انگریز کا خود کاشتہ پودا کے متعلق غلط فہمیاں اور جہاد کے متعلق غلط فہمیوں کا جواب دیا گیا ہے.نیز عمومی طور پر بعض غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے.-25 کیا موجودہ اناجیل الہامی ہیں؟ اس کتاب کے تین ایڈیشن شائع ہوئے.تیسرا ایڈیشن 1963ء میں شائع ہو ا جو 40 صفحات پر مشتمل ہے.عیسائیت میں تبلیغ کرنے کے حوالہ سے حضرت مولانا صاحب نے اپنے تجربات زندگی اس کتاب میں بیان کئے ہیں.تعارف میں تحریر فرماتے ہیں: مجھے مصر فلسطین اور شام نیز انگلستان اور ہندوستان کے پادریوں سے بکثرت گفتگو اور مباحثہ کرنے کا موقع ملا ہے.اناجیل کے الہامی اور خدا کا کلام ثابت کرنے کیلئے پادری صاحبان جو دلائل دیتے ہیں وہ چار ہیں : 1.اناجیل میں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں جو اس امر کی دلیل ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں بلکہ وحی الہی ہے.2.انا جیل میں کوئی اختلاف یا تضاد نہیں پایا جاتا.3.ان کی تلاوت انسان کو روحانیت میں بڑھاتی ہے اور نفوس میں فوق العادت نیک اثر پیدا کرتی ہے.-4- قرآن مجید ان کے الہامی ہونے اور ان میں جو کچھ لکھا ہے اس کے سچا ہونے کی شہادت دیتا ہے.“ (صفحات 4-5) حضرت مولانا موصوف نے پادریوں کے ان دلائل کا اس کتاب میں بانتفصیل جواب دیا ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 497 -26 جماعت احمدیہ کے اہم فرائض اور اس کی امتیازی خصوصیات 20 مارچ 1964ء کو مولانا صاحب نے بحیثیت ناظر اصلاح وارشاد مرکز یہ جمعہ کے موقع پر ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جماعت احمدیہ کے تربیتی فرائض اور اس کی امتیازی خصوصیات کو باحسن بیان فرمایا.بعد میں مئی 1964ء میں نظارت اصلاح ارشاد مرکزیہ نے یہ خطبہ کتابی صورت میں شائع کیا جو کہ 30 صفحات پر مشتمل ہے.27- بشارات ربانیہ یعنی سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصراحم صاحب خلیفہ لمسیح الثالث کی خلافت کے متعلق بشارات یہ روح پرور کتاب حضرت مولانا صاحب نے بحیثیت ناظر اصلاح ارشاد مرکز یہ تالیف کی.پہلی بار یہ کتاب پانچ ہزار کی تعداد میں 1966ء میں الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ نے شائع کی جسے ضیاء الاسلام پریس ربوہ نے طبع کیا.یہ کتاب 95 صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب میں بزرگان اور احباب جماعت کے 85 رویا و کشوف اور بشارات الہیہ درج کی گئی ہیں.فہرست دیگر کتب مندرجہ بالا کتب کے علاوہ ذیل میں حضرت مولانا شمس صاحب کی تصانیف میں سے بعض کی فہرست پیش کی جارہی ہے.-1 -2 -3 اسلام.( قیام انگلستان کے دوران انگریزی میں لکھی گئی ) اعجب الاعاجيب فى نفى الاناجيل لموت المسيح على الصليب البرهان الصريح في ابطال الوهية المسيح ( اس کتاب کا ذکر بلا دعر بیہ والے باب میں کیا جا چکا ہے.) تحقيق الاديان هل الاناجيل الموجودة موحى بها من الله تعالى -4 -5 -6 -7 تنوير الالباب لابطال دعوة البهاء و الباب حكمة الصيام الساكت عن الحق شيطان اخرس
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس -8 -9 -10 -11 -12 النور المبين في الرد على الشيخ هاشم الخطيب و قريبه محب الدین الهدية السنية للفئة المبشرة المسيحية ميزان الاقوال في الرد على كتاب اصح الاقوال اہالیان چکوال سے خدا اور اس کے رسول کے نام پر دردمندانہ اپیل ایک غلط بیانی کا ازالہ اور خدا ترس مسلمانوں سے ایک دردمندانہ اپیل 13 تنقید صحیح بر بر ہان صریح -14 -15 جماعت احمدیہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ جماعت احمدیہ کے عقائد 16 حضرت بانی جماعت احمدیہ کی طرف سے دعوت اور آپ کی صداقت پر ایک قرآنی دلیل -17 -18 -19 -20 -21 -22 حقیقت جهاد حقیقی عید اور حقیقی قربانی خدا اور اس کے رسول کے نام پر دردمندانہ اپیل خلافت حضرت مصلح موعود خواجہ محمد اسماعیل کی نبوت کے خلاف اہم شہادت تشریح الزكوة 498 23 زریں نصائح 24 - شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم 25 - صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( تقریر جلسہ سالانہ 1964ء) -26 عقائد جماعت احمد یہ بجواب اشتہار مرزائی جماعت کا مصنوعی ایمان 27 - علماء رحیم یار خان کا چیلنج منظور -28 -29 عیسائیوں کی طرف سے دعوت مباہلہ کا جواب گذشته و موجودہ جنگ کے متعلق پیشگوئیاں 30 منکرین خلافت کا انجام ( تقریر جلسہ سالانہ 1934ء) 31 - مودودی کا تحقیقاتی عدالت میں تحریری بیان اور اس پر صدر انجمن احمدیہ کا تبصرہ
499 حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس -32 -33 مولاناسید عطاء اللہ بخاری کے مقدمہ کی تاریخ کا فیصلہ نبوت و خلافت کے متعلق اہل پیغام اور جماعت احمدیہ کا موقف نوٹ : بعض کتب جو مباحثہ یا مناظرہ پر مشتمل ہیں کا ذکر مباحثہ والے باب میں کیا گیا ہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مقالات و مضامین 500 حضرت مولا ناشمس صاحب نے دینی و تربیتی مخالفین سلسلہ کے لٹریچر کے جوابات تبلیغی مساعی، علمی و ادبی علم کلام ، موازنه، سیرت و سوانخ ، تاریخ سلسله منظومات ، نقد ونظر، تقابل ادیان فقہ وفتاوی اور قرآن کریم کے موضوعات پر کئی مضامین و مقالات تحریر کئے.اگر انہیں شمار کیا جائے تو یقیناً ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے.اس جگہ بطور نمونہ آپ کے بعض مقالات و مضامین کی فہرست پیش کی جارہی ہے.الحکم اور شمس سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ کے ماخذ اخبار الحکم کی ابتداء اکتوبر 1897ء میں امرتسر سے ہوئی اور اپنے اجراء کے تین ماہ بعد یعنی جنوری 1898ء سے اس تاریخ ساز وعہد ساز اخبار کا آغازسیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس بستی قادیان دارالامان سے ہو گیا.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اس پہلے اخبار کے بانی و مؤسس شہرہ آفاق ہستی مؤرخ سلسلہ احمدیہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر تھے.الحکم میں حضرت مولانا شمس نے عین عالم شباب میں علمی مقالات و مضامین لکھنے کا آغاز فرمایا.اس سے قبل آپ کے مضامین و مقالات تشخیز الاذہان اور افضل قادیان میں شائع ہو چکے تھے.25 دسمبر 1920ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر حضرت مولانا شمس صاحب کو فی البدیہ تقریر کیلئے کہا گہا تو آپ نے فورا جلسہ کے سٹیج پر آ کر صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر تقریر کی جسے حاضرین جلسہ نے بھی سراہا.جنوری 1921ء میں جب آپ کی یہ تقریر ایڈیٹر الحکم نے الحکم میں شائع کی تو ساتھ لکھا کہ مولوی صاحب موصوف تو چھوٹی عمر میں امام رازی کے نقش قدم پر چل نکلے.اللہ نظر بد سے بچائے.1924ء میں جبکہ حضرت مولانا شمس صاحب آگرہ کے علاقہ میں ارتداد وشدھی کی بیخ کنی کے جہاد
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 501 میں مصروف عمل تھے، اس وقت بھی آپ کو خصوصاً الحکم کی قلمی اور علمی معانت کرنے کی توفیق ملتی رہی.1924ء کا سال سلسلہ عالیم احمدیہ کی تاریخ میں ایک تاریخ ساز اور انقلاب انگیز سال تھا.یہ وہ سال ہے جس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ بلاد عربیہ و یورپ کو عازم سفر ہوئے اور کئی الہی نوشتے پیدا ہوئے.آپ کی معیت میں احباب کرام کا جو قافلہ عازم سفر ہوا ان میں مؤرخ سلسلہ احمدیہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر بھی شامل تھے.حضرت شیخ صاحب کے فرزند حضرت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ان ایام میں بلاد مصر میں مہمات دینیہ میں مصروف کار تھے اس لئے ان کا آنا اور الحکم کی معاونت کرنا عملاً ناممکن تھا.حضرت شمس صاحب میدانِ جہاد میں مصروفیت کی وجہ سے قادیان آکر الحکم کی معاونت سے عملاً قاصر تھے تاہم حضرت عرفانی الکبیر کے عرصہ غیوبت میں آپ نے الحکم کی علمی و قلمی معانت کی باوجود یکہ آپ کی میدان جہاد آگرہ میں غیر معمولی مصروفیات تھیں پھر بھی آپ نے غیر معمولی قلمی معانت فرمائی اور بار بار قادیان میں آکر احکم کی ادارت کرتے رہے.اس دور کے الحکم قادیان کے کئی شمارے آپ ہی کے مرتب کردہ ہیں جیسا کہ 1924 ء کی فائل کے مطالعہ سے مترشح ہوتا ہے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مولانا صاحب کی معاونت کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں : الحکم اور اس کے چلانے والے ہمیشہ اس امر پر بجا فخر کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےعہد سعادت کی یادگار ہے.الحکم کو خدا تعالیٰ نے یہ سعادت وعزت عطا کی کہ وہ آپ کے کلمات طیبات کا امین ہے.اس کے ذریعہ ہزاروں مردوں نے دوبارہ زندگی حاصل کی اور بے شمار اندھے اور بہرے دیکھنے اور سننے لگے.میں جب بھی اس کو یاد کرتا ہوں تو میرے ہر بن مو سے حمد الہی کا ایک ترانہ نکلتا ہے کہ اس نے میرے جیسے بیکس اور کسمپرس کو یہ شرف عطافرمایا ہے.الحکم کی ان خدمات کا اظہار کرتے ہوئے عزیزی ٹھس نے اپنی خدمات کو پیش کیا.میں نے الحکم میں اس قسم کے خطوط چھاپنے سے اکثر پر ہیز کیا ہے مگر میں اس خط کو محض ایک تاریخی حیثیت سے درج کرتا ہوں یہ شمس نے احکم کی قلمی خدمت کیلئے جو میری غیر حاضری میں عزم کیا ہے وہ بہت قابل قدر ہے اور میں اس کا اعتراف پچھلی اشاعت میں کر چکا ہوں.اب مجھے ایسے احباب کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت کی اس یادگار کو میری غیر حاضری میں مالی مشکلات سے بچانے میں [ میرے ممد ہوں ].اس کیلئے صرف یہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس چاہتا ہوں کہ تین سو انجمنیں ( یعنی جماعتیں ) اس کو خریدیں اور اس طرح پر انہیں یہ ابدی عزت نصیب ہوگی کہ وہ حضرت کے عہد سعادت کی یاد گار کو زندہ رکھنے والے تھے.“ مکتوب مولا نا شمس صاحب عازم یورپ عرفاتی.حضرت مولانا شمس صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ نے سلسلہ احمدیہ کی بہت سی خدمات سرانجام دی ہیں.ان خدمات جلیلہ میں سے ایک عظیم الشان خدمت جو آپ نے کی وہ اخبار جاری کرنا تھا.اخباری دنیا میں جو عزت و فضیلت اخبار الحکم اور اس کے ایڈیٹر کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے اخبار اور ایڈیٹر کو بحیثیت ایڈیٹر ہونے کے حاصل نہیں ہوسکتی اور زمانہ کتنی ہی کروٹیں بدل لے مگر وہ رتبہ جو الحکم کو حضرت مسیح موعود کی زندگی کے ایام میں خدمت کرنے کا حاصل ہے کسی اور دوسرے اخبار کو حاصل نہیں ہو سکتا.اخبار الحکم اس وقت جاری ہوا جب کہ حکم و عدل کی قائم کردہ جماعت کو ایک اخبار کی از حد ضرورت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تازہ بتازہ وحی اور الہامات اور آپ کی زبان مبارک سے روزانہ جھڑنے والے پھول اور آپ کے قلم سے نکلنے والے چمکدار موتیوں کے لپکنے کے لئے افراد جماعت کی آنکھیں ترستی رہتی تھیں اور آپ کی مریضوں کو شفا دینے والی اور بے قرار دلوں کو تسکین دینے والی تقریریں، مریضوں اور مضطر بین کے پاس نہ پہنچنے کی وجہ سے ان کے دلوں کو اور زیادہ پریشان کرتی تھیں.ایسی حالت میں اخبار الحکم کا جاری ہونا جماعت احمدیہ کے واسطے کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ وہ ایک روح افزا اور زندگی بخشنے والی چیز تھی.پس خدا تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی کہ اخبار الحکم کے ذریعہ جماعت کی مناسب ضروریات کو پورا کریں.وذالک فضل الله يوتيه من يشاء.پس احمدی جماعت آپ کی اس خدمت جلیلہ کی تہہ دل سے شاکر ہے اور خدا تعالیٰ سے ہماری یہی دعا ہے کہ اے خدا جس طرح تو نے اپنے حکم و عدل کی طرف انوار شباب کولوٹا یا اسی دم ہمیں بھی وہ دن دکھا کہ ہم الحکم کو بھی اپنی پہلی آب و تاب سے نکلتا دیکھیں جس طرح کہ حکم و عدل کے زمانہ میں نکلتا تھا.اب پھر خدا تعالیٰ نے آپ کو نہایت مبارک موقعہ خدمت کا عطا فر مایا 502
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ہے.آپ جس سفر پر جارہے ہیں وہ کوئی معمولی سفر نہیں.دمشق بھی جانا ہوا تو ایک ایسا سفر ہوگا کہ آئندہ آنے والی نسلوں میں سے کسی کو نصیب نہیں ہو سکتا.یہ ایک ایسا مبارک سفر ہے کہ جس کی خبر سرور کائنات فخر موجودات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے دی ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”حمامة البشری میں تحریر فرمایا ہے.ثمّ يُسافِرُ المسيحُ الْمُوعُودُ اَوْ خَلِيْفَةٌ مِنْ خُلَفَائِهِ إِلى أَرْضِ دِمَشْقَ “ "6 503 حمامة البشریٰ صفحہ 37، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 225) پس مبارک ہیں وہ اصحاب جو اس سفر میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ہمراہ جارہے ہیں.پس آپ کو اس سفر کی مبارک بادی دیتا ہو ادعا کرتا ہوں کہ جو خدمت آپ کے سپرد کی گئی ہے اس کے سر انجام دینے کی خدا تعالیٰ آپ کو توفیق عطافرمادے اور بخیر وعافیت تمام قافلہ کو مظفر و منصور قادیان دار الامان واپس لائے.خاکسار انشاء اللہ حسب استطاعت آپ کی غیوبت میں الحکم کیلئے مضامین بھیجتا رہے گا.اگر ان ایام میں خاکسار قادیان ہوتا تو جہاں تک ہوسکتا بشرط فراغت اخبار کو خود ترتیب دیا کرتا مگر خیر اب جو خدمت ہوسکتی ہے بجالا ؤں گا.واللہ الموفق.امید ہے کہ آنجناب بھی بندہ کو اپنی دعاؤں میں یاد کرتے رہیں گے اور نیز میرے والدین صاحبان کی ہر قسم کی بہتری و بہبودی کیلئے دعا فرماتے رہیں گے.حافظ مختار احمد صاحب سلام علیکم کہتے ہیں.دہلی کے سٹیشن پر انشاء اللہ ملاقات ہوگی.والسلام.خادم - جلال الدین شمس از شاہجہان پور.الحام قادیان 28 جولائی 1924 ، صفحہ 7) حضرت مولانا شمس صاحب کے ان تمام مقالات و مضامین کونقل کرنے کیلئے جو آپ نے تحریر فرمائے، بیسیوں صفحات درکار ہیں جن کی یہ کتاب متحمل نہیں ہو سکتی تاہم ان میں سے الحاکم اور بعض دیگر اخبارات و رسائل کے بعض مضامین کی فہرست پیش ہے.فہرست مضامین الحکم 1 - حضرت مسیح موعود کی صداقت اور شورش کے وقت جماعت احمدیہ کی اطاعت 28 دسمبر 1919ء 2.مولوی ابوتراب ثناء اللہ سے ملاقات 14 مئی 1920ء
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 3.کیا اسلام جبر کی تعلیم دیتا ہے؟ 4- ايضاً 5 تفسیر آیت انی اخلق من الطين كهيئة الطير 6.حضرت مسیح موعوڈ پر ایک اعتراض کا جواب 7.پرکاش کی غلط بیانی.یاد آتا ہے ہمیں وہ آقا کا یوم وفات 9.دس نشانات صداقت 7 جون 1920ء 14 جون 1920ء 7 جولائی 1920 ء 21 اکتوبر 1921ء 21 دسمبر 1921ء 1924 28/21 $1924 *28/21 10.حضرت مسیح موعود کی وفات آپ کی صداقت کی زبردست دلیل ہے 28/21 مئی 1924ء 504 11.خدام الصوفہ کی سرگرمیاں 12.گائے اور خنزیر 13.آیت خاتم النبین سے استدلال 28 جولائی 1924ء 28 جولائی 1924ء 14 اگست 1924ء 14 - حضرت خلیفہ امسیح کا محض خدمت اسلام کیلئے پر ایثار سفر ولایت 21 اگست 1924ء 15.گرو اور چیلا 16.کوکب ہند جواب دے 21 اگست 1924ء 21 اگست 1924ء 17.بہشت میں حوریں ملیں گی 18.ایک مجتہد شیعہ اور لفظ توفی 19.کیا آسمان پر جانا کوئی فضیلت نہیں 20.میدان ارتداد میں جانے والے جلد آگرہ میں پہنچیں 28اگست 1924ء $1924-128 7 ستمبر 1924ء 7 ستمبر 1924ء 21.امیر کابل کی نہایت ظالمانہ کارروائی ( شہادت مولوی نعمت اللہ ) 14 ستمبر 1924ء 22.امیر پیغام کی لفظ مکفر ومکذب کی غلط تشریح اور اس کا صحیح مفہوم 28اکتوبر 1924ء 23.حضرت مسیح موعود کی وفات آپ کی صداقت کی زبردست دلیل ہے فہرست مضامین تفخیذ الا ذہان *1934 21 -1 وفات مسیح از روئے علم منطق آیات قرآنی سے دسمبر 1917ء
-2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 -10 -11.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 505 غالباً حضرت مولانا شمس صاحب کا یہ سب سے پہلا باقاعدہ مطبوعہ مضمون ہے جو آپ نے صرف سولہ سال کی عمر میں تحریر فرمایا ] کیا روح و مادہ ازلی ہے؟ ابطال کفاره جون 1918ء نومبر 1918ء لو تقول پر مخالف جرح کا جواب دسمبر 1918ء اذان کی ابتداء اور اس کی فلاسفی پنڈت بھوج دت کے پانچ سوالوں کے جواب جنوری 1919ء فروری 1919ء پیدائش روح کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کا مذہب جولائی 1919ء وفات مسیح کے متعلق اعتراض کا جواب اگست 1919ء خلافت احمدیہ اگست 1919ء ان لمهدينا ايتين ستمبر 1919ء تصحيح الصلواة في جواب توضيح الآيات جنوری 1920ء 12.ایک مولوی فاضل کے سوالوں کا جواب اپریل 1920ء -13 التشريح الصلواة لحديث نزول المسيح اگست 1920ء -14 چند سوالوں کے جواب.نومبر 1920ء 15.کیا قرآن مجید میں ترتیب نہیں؟ فروری 1922ء 16.تناسخ پر چند سوالات البشرى (حيفا فلسطين) فروری 1922ء 1 - عدم موت المسیح علی العالمین ( مناظرہ پادری الفریڈ نیلسن) جولائی 1936ء 2- ايضاً 3-زيارتي لجزيرة البياض ستمبر 1936ء اکتوبر 1936ء فہرست مضامین الفضل امام الزمان اور ان کے منکر الفضل قادیان 19 نومبر 1918ء
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس امام الزمان اور ان کے منکر راجہ ساہنسی سے غیر احمدیوں کا مباحثہ سے فرار الفضل قادیان 23 نومبر 1918ء الفضل قادیان 25اکتوبر 1919ء موضع راجہ ساہنسی سے مولوی ابوتراب کا مباحثہ سے فرار الفضل 11 دسمبر 1919ء پیغامی حضرات توجہ فرمائیں لولاک لما خلقت الافلاک تبلیغ احمدیت کے متعلق مفید تجربات حضرت مسیح موعود بحیثیت حکم و عدل تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام کی غرض ایڈیٹر اہلحدیث کی حدیث دانی اہل عرب کس کی اولاد ہیں قد وسیت کا مظہر اتم نبیوں کا خاتم علی الفضل 6 جنوری 1926 ء الفضل 4 جنوری 1929ء الفضل قادیان 28 جنوری 1932ء الفضل قادیان 3 فروری 1932ء الفضل قادیان 9 فروری 1932ء الفضل قادیان 25 فروری 1932ء الفضل قادیان 16 جون 1932ء الفضل قادیان 6 نومبر 1932ء الفضل قادیان 26 نومبر 1933ء 506 قصیدہ شاہ نعمت اللہ ولی کے متعلق اخبار احسان کی غلط بیانیوں کا جواب الفضل قادیان 24 نومبر 1934ء الفضل قادیان 25 نومبر 1934ء قسط 2 الفضل قادیان 26 نومبر 1934ء قسط 3 الفضل قادیان 27 نومبر 1934ء قطه الفضل قادیان 28 نومبر 1934ء قسط 5 الفضل قادیان یکم دسمبر 1934ء قسط 6 الفضل قادیان 4 دسمبر 1934ء قسط 7 الفضل قادیان 5 دسمبر 1934ء قسط 8 الفضل قادیان 10 دسمبر 1934ء قسط و ازدواجی زندگی میں رسول کریم ﷺ کا فاضل نمونہ الفضل قادیان 25 نومبر 1934ء الفضل قادیان 27 دسمبر 1934ء مسئلہ خلافت رسول کریم ﷺ کی ذات والا صفات کے خلاف ایک اعتراض کا جواب الفضل قادیان 26 اپریل 1935ء
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس قادیان میں رہائشی مکانات بنانے کے سیاسی، مذہبی اور اقتصادی فوائد ( تقریر ) الفضل قادیان 26 مئی 1935ء قسط 2 الفضل قادیان 31 مئی 1935ء قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ پر عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات ( تقریر ) الفضل 28 جنوری 1936ء قرآن مجید اور آنحضرت ﷺ پر عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات الفضل 28 نومبر 1936ء طیورا براہیم الفضل قادیان 20 جنوری 1937ء طیورا براہیم مسیح کی آواز...لندن میں پہنچے گی الفضل قادیان 26 جنوری1937ء الفضل قادیان 8 اپریل 1939ء بچے مسیح کی آواز...لندن میں پہنچے گی بلاد عر بیہ میں بہائیت کی عدم مقبولیت الفضل قادیان 11 /اپریل 1939ء الفضل قادیان 18 جولائی 1939ء الفضل قادیان 28 اکتوبر 1943ء حضرت نوح اور حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود الفضل قادیان 25 جولائی 1944ء ایٹم بم کی ایجاد قرآن مجید اور الہامات حضرت مسیح موعود میں عذاب کی نوعیت کا ذکر 26 ستمبر 1945ء حضرت مصلح موعود کی طرف سے...پانچ ہزار مبلغین کا مطالبہ الفضل قادیان 22 دسمبر 1945ء قولوا حط.....ہماری فتح ہمارا غلبه آیت خاتم النبیین کی صحیح تفسیر آسمانی بادشاہت کے درخشندہ ستارے موعودادیان عالم (قسط دوم) امام مسجد احمد یہ لنڈن کا عیسائی دنیا کو چیلنج ہسپانیہ میں دونو جوانوں کا قبول اسلام مومنین کیلئے بشارات صحابہ کا عدیم النظیر ایمان کیا امام کی اتباع ضروی ہے؟ کیا امام کی اتباع ضروری ہے یا نمازں کی ترتیب؟ الفضل قادیان 24 دسمبر 1945ء الفضل قادیان 2 مارچ 1946ء الفضل قادیان 13 مارچ 1946ء الفضل قادیان 5 دسمبر 1946ء الفضل قادیان 7 دسمبر 1946ء الفضل قادیان 10 را پریل 1947ء الفضل قادیان 3 جولائی 1947ء الفضل لا ہور 30 /اگست 1947ء الفضل لاہور 3 ستمبر 1947 ء الفضل لاہور 16 فروری 1948ء الفضل لا ہور 16 اپریل 1948ء 507
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس آج اگر حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ تشریف لے آئیں الفضل لا ہور 4 دسمبر 1948ء احمد یہ جماعت آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین مانتی ہے الفضل ربوہ 21 مارچ 1950 ء احرار کا جھوٹ ظاہر ہوکر رہے گا پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق (1) پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق (2) الفضل ربوہ 7 اپریل 1950ء الفضل ربوہ 5 جنوری 1951ء الفضل ربوہ 7 جنوری 1951ء پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق (3) الفضل ربوہ 9 جنوری 1951ء پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق (4) الفضل ربوہ 12 جنوری 1951ء پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق (5) الفضل ربوہ 13 جنوری 1951ء پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق (6) الفضل ربوہ 15 جنوری 1951ء پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق (7) الفضل ربوہ 16 جنوری 1951ء پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق (8) الفضل ربوہ 18 جنوری 1951ء احرار جھوٹے ہیں ان سے بچو مصلح موعود کی تعیین احراری ملاؤں کی حکومت کے خلاف شرانگیزی تمام علمائے اسلام دائرہ اسلام سے خارج.الفضل ربوہ 26 اپریل 1951ء الفضل 20 فروری 1952ء الفضل ربوہ 2 جولائی 1952ء الفضل لاہور 15 جولائی 1952ء حضرت فاطمہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کا کشف الفضل 26 دسمبر 1952ء قرآن مجید کا علم حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟ الفضل ربوه 20 نومبر 1954ء حکومت پاکستان کیلئے خدمت اسلام کا ایک زریں موقعہ الفضل 25 مئی 1956ء مسئلہ خلافت نبیوں کا سردار علی الفضل4 /اکتوبر 1956ء الفضل 13 جنوری 1957ء 508 (7 اقساط) ایک سوال اور اس کا جواب (حضرت امام حسین) ایک سوال اور اس کا جواب (حضرت امام حسین) ایک مبارک وجود کا انتقال ( حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق) الفضل ربوہ 13 تا 21 جنوری 1957ء 195762500 الفضل ربوہ 25 جنوری 1957ء الفضل ربوہ 26 جنوری 1957ء الفضل ربوہ 29 جنوری 1957ء
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس د و کنگ مشن کا بے نظیر تبلیغی کارنامہ الفضل ربوہ 3 فروری 1957ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام (انی لاجد ريح يوسف......الفضل ربوہ 3 فروری 1957ء حضرت نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا الفضل ربوہ 7 فروری 1957ء حضرت علیؓ کا حضرت ابو بکر کی بیعت خلافت کرنے کا ثبوت الفضل ربوہ 21 فروری 1957ء منکرین خلافت کا غلط پراپیگنڈا الفضل 12 اپریل 1957ء حقیقت پسند پارٹی کے ارکان کی حقیقت الفضل 17اپریل 1957ء ڈاکٹر غلام محمد کے مضمون پر ایک نظر الفضل 12 اپریل 1957ء ڈاکٹر غلام محمد کے مضمون پر ایک نظر الفضل 13 اپریل 1957ء ڈاکٹر غلام محمد کے مضمون پر ایک نظر الفضل 14 اپریل 1957ء ڈاکٹر غلام محمد کے مضمون پر ایک نظر الفضل 16 اپریل 1957ء کیا یہ عداوت اور بغض نہیں؟ الفضل ربوہ14 مئی 1957ء کیا یہ عداوت اور بغض نہیں؟ حضرت مسیح موعود کے جانشین.صدرانجمن یا خلیفہ؟ شیطانی خوابوں کی ایک واضح مثال سید نا محمود کے عقائد حق ہیں پیغام صلح اور نبوت مسیح موعود علم دین کا حصول اور کتب مسیح موعود الفضل ربوہ ر 15 مئی 1957ء الفضل 26 مئی 1957ء الفضل ربوہ 15 اگست 1957ء الفضل 18 فروری 1958ء الفضل ربوہ 16 مارچ 1958ء الفضل ربوہ 20 اپریل 1958ء تقریب یوم مصلح موعود پر اعتراض کا جواب الفضل ربوہ 7 مئی 1958ء پیغام صلح اور امیر جماعت لاہور (1) الفضل ربوہ 7 مئی 1958ء پیغام صلح اور امیر جماعت لاہور (2) الفضل ربو8 مئی 1958ء پیغام صلح اور امیر جماعت لاہور (3) الفضل ربوه 10 مئی 1958ء حضرت مسیح موعود کے بعد حضرت مصلح موعود کا ظہور الفضل 21 مئی 1958ء کیا حضرت مسیح موعود کے بعد مصلح موعود کا ظہور سنت الہیہ کے منافی ہے الفضل ربوہ 21 مئی 1958ء قسط 2 الفضل ربوه 22 مئی 1958ء 509
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس حضرت مسیح موعود کے بعد حضرت مصلح موعود کا ظہور الفضل 22 مئی 1958ء سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے چند و یا اور الہامات الفضل ربوہ 25 مئی 1958ء خلافت کے متعلق حضرت فضل عمر کی رؤیا خلافت على منهاج النبوة الفضل 25 مئی 1958ء الفضل خلافت نمبر مئی 1958ء حضرت مسیح موعود کا انذار آفات اور جنگوں کا زمانہ الفضل ربوہ 22 جولا ئی 1958ء مصلح موعود کی زمین کے کناروں تک شہرت 20/18 فروری1959ء حضرت علی کا حضرت ابوبکر کی بیعت کرنے کا ثبوت الفضل 21 فروری 1959ء علم و عرفان کے روحانی خزائن کتب مسیح موعود الفضل 22 جنوری 1960ء ظہور مصلح موعود کی ضرورت ( تقریر) الفضل 16 فروری 1960ء سید نا حضرت اقدس کی قیمتی نصائح الفضل 23 فروری 1960ء احمدی مردوں اور عورتوں کے لئے حضرت مسیح موعود کی نصائح الفضل 23 فروری 1960ء ايضاً ايضاً فریضہ تبلیغ کی اہمیت ايضاً ايضاً 25 تا 28 فروری 1960ء الفضل یکم مارچ 1960ء الفضل 3 اپریل 1960ء الفضل 2 جنوری 1961ء الفضل 6 جنوری 1961ء اسلام کا عالمگیر غلبہ الفضل ربوہ 6 جنوری 1961ء اسلام کا عالمگیر غلبہ الفضل ربوه 12 جنوری 1961ء حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں الفضل ربوہ 9 فروری 1961ء حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں اسلام کا عالمگیر غلبہ ان الدین عند الله الاسلام جماعت احمدیہ کے خلاف پیغام صلح کا غلط پروپیگنڈا خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں الفضل ربوہ 21 جون 1961ء الفضل ربوه 12 دسمبر 1961ء الفضل ربوہ 26 دسمبر 1962ء الفضل ربوہ 10 فروری 1961ء الفضل ربو 30 مئی 1961ء 510
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مسیح موعود کی پیشگوئیاں الفضل ربوہ 10/9 فروری 1962ء جماعت احمدیہ کے خلاف غلط فہمیوں کا الزام ( تقریر ) 13 تا20 فروری 1963ء باؤنڈری کمیشن صداقت مسیح موعود اور مصلح دور آخر ان الدين عند الله الاسلام الفضل 13 فروری 1964 ء الفضل دسمبر 1964ء الفضل 21 جون 1966 ء الفضل 3 مئی 1966 ء اسلام کا عالمگیر غلبہ ریویو آف ریچز اردو نزول ابن مریم کے ساتھ من السماء کا لفظ مصلح دور آخر ( تقریر) وہابیوں اور بدعتیوں کے دھوکہ سے بچو نورافشاں کی ظلمت افشانی مارچ 1922ء مئی 1922ء جون 1922ء ستمبر 1922ء حدیث القرطاس سے شیعہ صاحبان کا استدلال اکتوبر 1922ء حضرت مرزا صاحب کا حج فروری 1923ء اصلاح النفس ايضاً سلطان القلم کی صداقت مارچ 1923ء ايضاً اپریل 1923ء ايضا مئی 1923ء کمالات مرزا بجواب شہادات مرزا.از ثناء اللہ امرتسری اپریل 1924ء پادری صاحبان سے تین سوال طلوع الشمس من مغربها حیات بعد الممات انسانی زندگی کا مقصد مکفرین مسیح موعود کے چند اعتراضات کے جوابات ستمبر 1925ء جنوری 1926ء ايضاً ستمبر 1928ء اپریل 1925ء 511
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس حضرت مسیح موعود کی آمد ثانی مسیح کا صلیب پر لٹکایا جانا موجب تو ہین نہیں میرا مذ ہب مجھے کیوں پیارا ہے؟ حیات مسیح اور اس کا دوبارہ آنا حیات مسیح کا عقیدہ باطلہ کیونکر پھیلا ؟ قرآن مجید اور علوم جدیدہ امن اور عالم اسلام مسیحی محمدی کا پیلاطوس مسجد لنڈن میں مارچ 1933ء اگست 1933ء مئی 1936ء مئی 1936ء جون 1936ء فروری1939ء اگست 1939ء ستمبر 1939ء جادہ امن ( عالمگیر مذاہب کی کانفرس میں پڑھا جانے والا مضمون) نومبر 1940ء ( 512 قرآن مجید میں یورپین جنگوں کے متعلق پیشگوئیاں گذشتہ عالمگیر جنگ اور زار روس کی حالت موجودہ عالمگیر جنگ جنگ کے متعلق پیشگوئیاں یورپ میں تبلیغ اسلام متفرق صلح دور آخر (اعتراضات کے جوابات) حضرت مسیح موعود کا ایک عظیم الشان کارنامہ کسر صلیب سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا تعلق باللہ جنوری 1941ء جون 1941ء جولائی 1942ء دسمبر 1942ء جنوری 1947ء فاروق ، قادیان 21 دسمبر 1929ء ماہنامہ انصار اللہ ، اپریل 1962ء ماہنامہ مصباح، نومبر دسمبر 1965ء قیام پاکستان اور استحکام کیلئے جماعت احمدیہ کی مساعی کے موضوع پر اپریل 1954ء میں اخبار اصلح میں 16 اقساط پر مشتمل آپ کا ٹھوس علمی و تحقیق مقالہ شائع ہوا جو اہل علم احباب کیلئے ایک لمصل علمی تحقیق ہے.سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے متعدد مواقع پر اصحاب احمد علیہ السلام کے حالات زندگی قلمبند کرنے اور شائع کرنے کی تحاریک فرمائیں.ان مبارک اور نہایت اہم تحاریک پر کئی احباب کرام نے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 513 لبیک کہا اور اپنے طور پر سیرت و سوانح صحابہ حضرت مسیح موعود کو مرتب و مدون کرنے کی سعادت پائی.حضرت مولانا شمس صاحب نے بھی یہ کام شروع کیا اور بعض احباب کرام کے حالات و روایات اور مشاہدات قلمبند کئے جن میں سے بعض شائع بھی ہوئے.لیکن چونکہ 1930 ء کے بعد آپ میدان تبلیغ میں اتر آئے اس لئے اس کام کو جاری نہ رکھ سکے.ابتدائی زمانہ میں آپ نے صحابہ کرام کے جو حالات مرتب کئے وہ دراصل سید نا حضرت مسیح موعود کے اخلاق اور کئی اعجازی نشانات پر مشتمل ہیں.حضرت مولانا شمس صاحب کی قلمی کاوشوں کی یہ ایک مختصر سی جھلک ہے.ان کے علاوہ کئی دیگر اہم مضامین و مقالات بھی آپ نے رقم فرمائے جو اس فہرست میں شامل نہیں کئے گئے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس دسواں باب سیرت، تاثرات ، روایات 514
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس فرمودات خلفائے سلسلہ احمدیہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی سیدنا 515 خالد احمدیت حضرت مولانا شمس صاحب کی بلا دعر بیہ سے کامیاب مراجعت پر 10 فروری 1932ء کو لجنہ اماءاللہ قادیان نے مولوی جلال الدین شمس صاحب کی کامیاب واپسی کی خوشی میں دعوت چائے " دی.اس موقعہ پر سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے مختصر خطاب میں فرمایا: چونکہ نماز کا وقت قریب ہے اور اس دعوت میں شامل ہونے والوں نے وضو بھی کرنا ہوگا.اس لئے میں دعا پر اس جلسہ کو ختم کرتا ہوں.مولوی جلال الدین صاحب شمس کو واپسی پر کشمیر کا کام سپرد کر دیا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ کی بہت بڑی عنایت ہے کہ ہمارے کام کرنے والے لوگ کام سے تھکتے نہیں.ایک شخص جو چھ سال کا لمبا عرصہ اپنے وطن سے دور سمند پار رہا ہو وہ امید کر سکتا ہے کہ واپسی پر اسے اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے اور آرام کرنے کا موقع دیا جائے گا مگر یہ مردوں اور عورتوں کیلئے تعجب کی بات ہوگی کہ مولوی صاحب جب سے آئے ہیں گل صرف چند گھنٹے کیلئے اپنے وطن گئے کیونکہ آتے ہی انہیں کام پر لگا دیا گیا ہے.ممبرات لجنہ اور دوسرے دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کے اخلاص میں برکت دے اور جس کام پر انہیں لگایا گیا ہے اور جو 66 ملک اور دین اور مسلمانوں کے فائدہ کا کام ہے اس کے کرنے کی توفیق بخشے.آمین.“ الفضل قادیان 14 فروری 1932ء) سید نا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” بنی اسرائیل کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی کو بھی معراج ہوا تھا.چنانچہ مجھے معلوم ہوا کہ عزیزم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے یہودی روایات لندن میوزیم کی کتب دیکھ کر نکالی ہیں جس میں اس واقعہ کا ذکر ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 467) ایک اور موقع پر سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کی بابت ارشاد فرمایا:
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 516 گذشتہ دنوں انگلستان میں پادریوں نے انجیل کی تعلیم کے خلاف یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ عورتیں ننگے سر گر جا جاسکتی ہیں.ہمارے مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس نے ان کو پکڑا کہ تم نے یہ کیا فتویٰ دے دیا تمہاری انجیلی تعلیم تو اس کے مخالف ہے مگر انہوں نے اس کا کوئی ( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه 171) جواب نہ دیا تراجم قرآن کریم سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ” بعض اہم اور ضروری امور 1943ء میں تراجم قرآن کریم کے ضمن میں فرماتے ہیں : تیسری تجویز یہ ہے کہ اس وقت انگلستان میں مختلف ممالک کے لوگ آئے ہوئے ہیں اور ہم آسانی سے اچھے جرمن، اٹالین اور روسی زبانیں جاننے والے لوگ پا سکتے ہیں.یہ لوگ مصیبت زدہ ہیں اور تھوڑے روپیہ پر کام کر سکتے ہیں.ہم نے مولوی جلال الدین صاحب شمس کو اس بارہ میں لکھا تھا.انہوں نے جواب دیا ہے کہ میں اس بارہ میں انتظام کر رہا ہوں.ترجمۃ القرآن کے محکمہ کو میں ہدایت دیتا ہوں کہ جتنا حصہ وہ صاف کر چکے ہیں وہ شمس صاحب کو بھجوادیں تا کہ وہ آگے کسی اور زبان میں ترجمہ کرانے کا انتظام کریں.اس طرح کام میں بہت سہولت ہو جائے گی.اس کے بعد عربی دان اس ترجمہ پر نظر ثانی کر لیں گے اور ہم جلد ہی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر سکیں گے.اس میں دیر نہ کرنی چاہئے جنگ کے بعد لوگ جلد حق قبول کرنے کیلئے تیار ہوں گے اس لئے تفصیلات کی طرف زیادہ نہیں جانا چاہئے بلکہ زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور وہ اسی طرح پہنچ سکتا ہے کہ جلد سے جلد تبلیغی لٹریچر تیار کیا جائے.“ (انوار العلوم، جلد 17 صفحہ 41) جنگ عظیم دوم کے نازک وقت میں خدمات سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بعض اہم اور ضروری امور 1944 ء میں بیرونی ممالک کے تبلیغی مراکز کے ذکر میں فرماتے ہیں: اس سال (1944ء) جنگی مشکلات کے باوجود انگلستان، امریکہ اور افریقہ میں تبلیغی لحاظ سے اچھی کامیابی ہوئی ہے.انگلستان اور امریکہ وغیرہ ممالک میں یہ حالت ہے کہ قریباً تمام
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 517 مرد جنگی خدمات کے سلسلہ میں بھرتی ہو چکے ہیں.یا تو وہ فوج میں کام کرتے ہیں اور یا کارخانوں میں، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے انگلستان میں مولوی جلال الدین صاحب شمس کو توفیق دی اور انہوں نے انگلستان کے بڑے طبقہ کے لوگوں میں احمدیت کو روشناس کرا دیا.اسی طرح امریکہ میں بھی اچھی کامیابی ہوئی ہے مگر سب سے زیادہ کامیابی افریقہ میں ہوئی ہے.“ (انوار العلوم، جلد 17 صفحہ 455) مبلغین کے ذریعہ پیشگوئی کا ظہور سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے معرکۃ الآراء خطاب ” الموعود میں فرماتے ہیں: بعض ممالک کے مبلغ چونکہ اس وقت جنگ کی وجہ سے قید ہیں اور بعض قادیان میں موجود نہیں اس لئے اُن کا ذکر اس وقت نہیں کیا گیا.بہر حال تمہیں کے قریب مختلف ممالک ہیں جن میں اسلام احمدیت اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے مبلغ بھجوانے کی توفیق عطا فرمائی.باوجود اس کے کہ ہماری جماعت بہت قلیل ہے اور باوجود اس کے کہ ہماری جماعت مالی لحاظ سے بے طاقت ہے اُس نے نہ صرف ہندوستان میں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا بلکہ دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام پہنچا دیا.ارجنٹائن ( جنوبی امریکہ ) میں مولوی رمضان علی صاحب ہماری جماعت کی طرف سے تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.البانیہ، یوگوسلاویہ اور چیکوسلواکیہ میں مولوی محمد دین صاحب تبلیغ کرتے رہے ہیں.پولینڈ میں حاجی احمد خاں صاحب ایاز نے کام کیا.لندن میں اس وقت مولوی جلال الدین صاحب سٹس کام کر رہے ہیں.امریکہ میں صوفی مطیع الرحمن صاحب کام کر رہے ہیں.ملک محمد شریف صاحب اٹلی میں کام کر رہے ہیں اور چوہدری محمد شریف صاحب مصر، فلسطین اور شام میں تبلیغی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور مشرقی افریقہ میں شیخ مبارک احمد صاحب اور سماٹرا جاوا اور ملایا میں مولوی رحمت علی صاحب ، مولوی محمد صادق صاحب، مولوی غلام حسین صاحب ایاز ، ملک عزیز احمد صاحب اور سید شاہ محمد صاحب کام کر رہے ہیں.اسی طرح مغربی افریقہ یعنی سیرالیون، گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں ہمارے بہت سے مبلغ کام کر رہے ہیں جن میں مولوی نذیر احمد صاحب ابن بابو فقیر علی صاحب مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ، حکیم فضل الرحمن
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں.اس وقت ویسٹ افریقہ کے ایک نمائندہ دوستوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں اور اُنہوں نے اپنی زبان سے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو کس طرح پورا کیا.غرض جماعت کی قلت اور اس کی غربت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا کیا اور اس نے میرے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام روشن کیا.“ 518 الموعود، انوار العلوم ، جلد 17 صفحہ 576-577) مغرب سے طلوع شمس کے متعلق رسول کریم صلعم کی ایک پیشگوئی 16 اکتوبر 1946 ء بعد نماز عصر جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے طلباء نے حضرت مولانا شمس صاحب کی انگلستان سے کامیاب مراجعت اور مکرم جناب منیر آفندی الحصنی امیر جماعت احمدیہ دمشق کی تشریف آوری پر ایک چائے کی دعوت دی جس میں سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے پر معارف خطاب میں فرمایا: چونکہ مغرب کی نماز کا وقت ہونے والا ہے اس لئے میں بہت مختصر تقریر کروں گا.میں اس وقت صرف ایک بات کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.باتیں تو کئی تھیں مگر چونکہ نماز کا وقت تنگ ہے اس لئے میں صرف اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے کلام کے کئی بطن ہوتے ہیں اور ہر بطن اپنے اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا کہ اس کے سات بطن ہیں اور سات بطنوں میں سے آگے ہر بطن کی الگ الگ تفاسیر ہیں.اسی طرح ایک ایک آیت سینکڑوں اور ہزاروں معانی پر مشتمل ہے.غلطی سے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا ہے که قرآن کریم صرف چند تفسیروں میں محصور ہے.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہر معنی جو عربی زبان سے درست ثابت ہوتے ہیں، ہر معنی جسے عربی صرف و نحو برداشت کرتے ہیں اور ہر معنی جو قرآن کریم کی ترتیب سے نکلتے ہیں، وہ درست اور صحیح ہیں کیونکہ اگر وہ معنی خدا تعالیٰ کے مد نظر نہ ہوتے تو وہ ان معنوں کی ضرور تردید کرتا اور ایسے لفظ نہ بولتا جن سے نئے معنے تو پیدا ہوتے مگر وہ معنے اللہ تعالیٰ کے منشاء یا انسانی عقل کے خلاف ہوتے.بہر حال اس موقعہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس پر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں اس زمانہ کے متعلق ایک اشارہ پایا جاتا ہے ( گو اس کے بعض اور معنے بھی ہیں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں مغرب سے سورج کا طلوع ہوگا اور جب یہ واقعہ ہوگا تو اس کے بعد ایمان نفع بخش نہیں رہے گا.1934ء میں احرار نے ہمارے خلاف ایجی ٹیشن شروع کی اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے احمدیت کا خاتمہ کر دیا ہے اور 1934 ء سے ہی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک نئی زندگی بخشی اور اسے ایک ایسی طاقت عطا فرمائی جو اس سے پہلے اسے حاصل نہیں تھی.اس نئی زندگی کے نتیجہ میں ہماری جماعت میں قربانی کا نیا مادہ پیدا ہوا.ہماری جماعت میں اپنے نفوس اور اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے کا نیا جوش پیدا ہوا اور ہماری جماعت میں دین اسلام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء کیلئے باہر جانے کا نیاولولہ اور نیا جوش موجزن ہوا.چنانچہ پہلے بیسیوں اور پھر سینکڑوں نو جوانوں نے اس غرض کیلئے اپنے آپ کو وقف کیا اور میں نے خاص طور پر ان کی دینی تعلیم کا قادیان میں انتظام کیا تا کہ وہ باہر جا کر کامیاب طور پر تبلیغ کر سکیں.مبلغ باہرر کے رہے اور نئے مبلغوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ جنگ کے خاتمہ پر ہم نے ساری دنیا میں اپنے مبلغ اس طرح پھیلا دیے کہ احمدیت کی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی.باقی مسلمانوں میں تو اس کی کوئی مثال تھی ہی نہیں ہماری جماعت میں بھی جو قربانی کی عادی ہے اس قسم کی کوئی مثال پہلے نظر نہیں آتی.جب مبلغ تیار کر کے بیرونی ممالک میں بھیجے گئے تو خدا تعالیٰ کی مشیت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے ماتحت ہمارا جو شکر گیا ہوا تھا اس میں سے سب پہلے شمس صاحب مغرب سے مشرق کی طرف آئے.پس اس پیشگوئی کا ایک بطن یہ بھی تھا کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کی فتح اور اسلام کی کامیابی اور اسلام کے غلبہ اور اسلام کے استعلاء کیلئے ایسے سامان پیدا کرے گا جن کی مثال پہلے مسلمانوں میں نہیں ملے گی اور اس وقت سورج یعنی شمس مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئیگا ہمارے مولوی جلال الدین صاحب کا نام شمس ان کے والدین نے نہیں رکھا.ماں باپ نے صرف جلال الدین نام رکھا تھا مگر انہوں نے باوجود اس کے کہ وہ شاعر بھی نہیں تھے یونہی 519
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 520 اپنے نام کے ساتھ شمس لگالیا تا کہ اس ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جب شمس مغرب سے مشرق کی طرف آئے گا تو اس وقت ایمان نفع بخش نہیں ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس وقت اسلام اور ایمان کے غلبہ کے آثار شروع ہو جائیں گے اور یہی معنی صحیح اور درست ہیں.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی پیشگوئی پوری ہوتو اسی وقت اس کے تمام پہلو اپنی تکمیل کو پہنچ جانے چاہئیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا.تورات اور بائیبل سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جب آپ ظاہر ہوں گے تو اس وقت کفر بالکل تباہ ہو جائے گا حالانکہ جب آپ ظاہر ہوئے تو آپ ﷺ کے ظہور کے ساتھ ہی کفر تباہ نہیں ہوا.درحقیقت اس پیشگوئی کا مطلب یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور اور آپ کی بعثت کے ساتھ کفر کی تباہی کی بنیا د رکھی جائے گی.اسی طرح اس پیشگوئی کے بھی یہ معنی نہیں کہ جب شمس صاحب آجائیں گے تو اس کے بعد لوگوں کیلئے انکا ایمان نفع بخش ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تبلیغ اسلام کی خاص بنیاد رکھی جائے گی اور اس وقت اسلام کو اتنا غلبہ حاصل ہوگا کہ لوگوں کا ایمان لانا اتنا نفع بخش نہیں ہوگا جتنا پہلے ہو سکتا تھا.پہلے تو اسلام کی آواز ایسی ہی ہوگی جیسے ایک وحید وطر ید انسان کی آواز ہوتی ہے مگر پھر دنیا کے چاروں طرف مبلغ پھیل جائیں گے.قرآن کریم کے تراجم شائع ہوتے چلے جائیں گے.لٹریچر شائع ہونا شروع ہو جائے گا اور اس کے بعد ایک انسان اسلام کی آواز کو اس طرح نہیں سنے گا جیسے اجنبی آواز ہوتی ہے بلکہ وہ اس آواز کو اس طرح سنے گا جیسے ایک شناخت شدہ آواز ہوتی ہے اور ایسی آواز کا انکار اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا ایک منفرد کا انکار آسان ہوتا ہے.یہی معنی اس پیشگوئی کے ہیں کہ اس وقت ایمان قبول کرنا اتنا مشکل نہیں رہے گا جتنا پہلے ہوا کرتا تھا.اس وقت اسلام پھیلانے والے بڑی کثرت سے پھیل جائیں گے لوگ اسلام کی تعلیم سے مانوس ہو جائیں گے اور اسلام قبول کرنا ان کیلئے پہلے جیسا دو بھر نہیں رہے گا.یہ مفہوم ہے جو اس پیشگوئی کا ہے.پھر وہ زمانہ بھی آجائے گا جب اس پیشگوئی کا دوسرا بطن پورا ہوگا اور مغرب سے اسلام کے مبلغ نکلنے شروع ہوں گے اور مغرب میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو بجائے اسلام کو مٹانے کے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اسلام کی تبلیغ کیلئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.پھر وہ زمانہ بھی آئے گا جب اس دنیا پر صرف اشرار ہی اشرار رہ جائیں گے اور جب سورج بھی مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کرے گا اور دنیا تباہ ہو جائے گی.یہ سارے بطن ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے.لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا ایک بطن یہ بھی ہے جوش صاحب کے آنے سے پورا ہوا اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہمارا اس وقت کا روحانی حملہ جارحانہ حملہ ہوگا جو زیادہ سے زیادہ قوی ہوتا چلا جائے گا.521 پس ہماری جماعت کے دوستوں پر بھی اور جامعہ احمد یہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو یکے بعد دیگرے قوم کے نو جوانوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے.جب لڑائی نہیں ہوتی اس وقت فوجوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو جس طرح ایک تنور والا اپنے تنور میں پتے جھونکتا چلا جاتا ہے اسی طرح نو جوانوں کو قربانی کی آگ میں جھونکنا پڑتا ہے اور یہ پرواہ نہیں کی جاتی کہ ان میں سے کون بچتا ہے اور کون مرتا ہے.ایسے موقعہ پر سب سے مقدم، سب سے اعلیٰ اور سب سے ضروری یہی ہوتا ہے کہ جیسے پروانے شمع پر قربان ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح نو جوان اپنی زندگیاں اسلام کے احیاء کیلئے قربان کر دیں کیونکہ ان کی موت کے ساتھ ان کی قوم اور ان کے دین کی زندگی وابستہ ہوتی ہے اور یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اگر قوم اور دین کی زندگی کیلئے دس لاکھ یا دس کروڑ یا دس ارب افراد بھی مرجاتے ہیں تو ان کی پرواہ نہیں کی جاسکتی اگر ان کے مرنے سے ایک مذہب اور دین زندہ ہو جاتا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے.شمس صاحب پہلے مبلغ ہیں شمس صاحب پہلے مبلغ ہیں جو جنگ کے بعد مغرب سے واپس آئے.یوں تو حکیم فضل الرحمن صاحب بھی مغرب میں ہیں.مولوی محمد شریف صاحب بھی مغرب میں ہیں.صوفی مطیع الرحمن صاحب بھی مغرب میں ہیں اور ہو سکتا تھا کہ کوئی اور پہلے آجاتا.ہم نے حکیم فضل الرحمن صاحب کو آج سے نو ماہ پہلے واپس آنے کا حکم دیدیا تھا مگر ان میں سے کسی کو واپس آنے کی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 522 توفیق نہیں ملی.توفیق ملی تو شمس صاحب کو ملی تا اس ذریعہ سے رسول کریم ﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جب آخری حملہ کا وقت آئے گا اس وقت شمس نامی ایک شخص مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئے گا اور اس کے آنے کے ساتھ اسلام کے جارحانہ اقدام اور اسکے حملہ عظیمہ کی ابتداء ہوگی اور نوجوان ایک دوسرے کے پیچھے قربانی کیلئے بڑھتے چلے جائیں گے.پروانہ کیسا بے حقیقت اور بے عقل جانور ہے مگر پروانہ بھی شمع پر جان دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے.اگر پروانہ شمع کیلئے اپنی جان قربان کر سکتا ہے تو کیا ایک عقلمند اور باغیرت انسان خدا اور اس کے رسول کیلئے اپنی جان دینے کو تیار نہیں ہو گا ؟ اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اسلام کی خدمت کی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کا موقعہ دے تا کہ جب ہم خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں تو ان مجرموں کی طرح کھڑے نہ ہوں جن کے ذمہ خدا تعالیٰ کا قرضہ ہوگا بلکہ ان لوگوں کی صف میں کھڑے ہوں جنہوں نے اس کا حق ادا کر دیا اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے: فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر (الاحزاب:24) (فرمودہ 16 اکتوبر 1946 ء از الفضل ربوہ 29 جنوری 1961ء) شمس صاحب نے اس کام میں جان ڈال دی ہے قیام پاکستان کے بعد حضرت مولانا شمس صاحب کے سپرد نظارت تالیف و اشاعت کا کام کیا گیا.سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1952ء کی مجلس شوری کے موقع پر آپ کے بارہ میں ارشاد فرمایا: پھر تصنیف و اشاعت کا محکمہ ہے.یہ کام نیا شروع ہوا ہے لیکن ایک حد تک اس کی اٹھان بہت مبارک ہے.شمس صاحب نے اس کام میں جان ڈال دی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اب مغرور ہو کر ست ہو جا ئیں.بہر حال ان پر الزام کوئی نہیں.انہوں نے پہلے ایک کتاب شائع کی اور پھر اس کی آمد سے اور بہت سی کتابیں شائع کر دیں.یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو امید ہے کہ تین چار سال میں سلسلہ کی ساری کتابیں چھاپ لیں گے مگر اس سلسلہ میں ابھی بہت گنجائش ہے“ رپورٹ مجلس مشاورت 1952ء صفحات 30-31)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 523 جنہوں نے پندرہ پندرہ سال اپنوں سے مہجوری اختیار کر کے خدمت دین کی سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے جنوری 1956ء میں جامعۃ المبشرين ربوہ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ایک ہجرت قومی ہوتی ہے اور ایک ہجرت فردی ہوتی ہے.حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم، مولوی محمد شریف صاحب ، مولوی جلال الدین صاحب شمس اور اسی طرح ہمارے دوسرے مبلغوں نے اپنے وطن سے دس دس پندرہ پندرہ سال مہجوری اختیار کر کے دوسرے ممالک میں دین کی خدمت کا فریضہ ادا کیا وہ فردی ہجرت کا ہی ایک نمونہ ہے.ان سب کی مثالیں تمہارے سامنے ہیں.ان قربانیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا تمہارا کام ہے.اگر قربانیوں کا یہ تسلسل جاری رہے تو پھر فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسی قوم کبھی ضائع نہیں ہوسکتی جوقر بانیوں کے تسلسل کو جاری رکھتی ہے.یعنی ان قربانیوں کا سلسلہ ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر اس قوم کا ہر فرد بجائے خود ایک امت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کو ایک طرح سے دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ فردمر سکتے ہیں امتیں نہیں مرسکتیں.66 الفضل ربوہ 17 جنوری 1956 ءصفحہ 1 و8 ) جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرون ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے سید نا حضرت مصلح موعود درضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وو مردوں سے کام لینا بھی عورتوں کو آتا ہے.وہ انہیں تحریک کر کے قربانی کے لئے آمادہ کر سکتی ہیں اور اس کی ہمارے ہاں بہت سی مثالیں موجود ہیں.عورتوں نے اپنے مردوں کو تحریک کی اور انہوں نے قربانیاں کیں.آخر دیکھ لو ہمارے مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرون ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے.ان عورتوں کے اب بال سفید ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے معا بعد پیچھے چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے.ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں.وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے.ان کے واقعات بھی سن کر انسان کو رقت آجاتی ہے.ایک دن اُن
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا اماں! ابا کسے کہتے ہیں؟ سکول میں سارے بچے ابا ، اتبا کہتے ہیں ہمیں پتا نہیں کہ ہمارا ابا کہاں گیا ہے؟ کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے ہی تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے سترہ سترہ، اٹھارہ اٹھارہ سال کے ہو چکے تھے.اب دیکھ لو یہ ان کی بیوی کی ہمت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کا کام کرتے رہے.اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتی تو وہ خود بھاگ آتے یا سلسلہ کو مجبور کرتے کہ انہیں بلا لیا جائے“.524 ( خطاب فرمودہ 21 اکتوبر 1956 ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ) یدنا الثائر سید نا حضرت خلیفة امسح الثالث ہمارے بزرگ، ہمارے بھائی ہمارے دوست.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے وصال کے موقع پر خطبہ جمعہ میں آپ کے غیر معمولی طور پر اخلاص و وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَلِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن : 27-28) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو بیماریوں اور امراض کیلئے شفا قرار دیا ہے.یہ کتاب عظیم انسان کی اخلاقی بیماریوں کو بھی دور کرتی ہے اور ان زخموں کیلئے بھی جو انسان اپنی فطرت اور طبیعت کے تقاضا کے مطابق محسوس کرتا ہے اور اسے تکلیف پہنچاتے ہیں بطور پھایہ کے کام آتی ہے.ہمیں کل اپنے ایک اچھے دوست، پایہ کے عالم، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور احمدیت کے فدائی کا صدمہ پہنچا ہے اور فطرتا ہمیں اس سے غم اور دکھ محسوس ہوتا ہے.لیکن ہم خدا تعالیٰ کی کتاب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اپنے رب سے تسکین حاصل کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان دو آیات میں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں فرماتا ہے کہ: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ زمین پر ہر چیز جو پائی جاتی ہے وہ فنا ہونے والی ہے سوائے ان باتوں ، اشیاء اور وجودوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ باقی رکھنا چاہیے.وہ خدا ذو الجلال بھی ہے اور ذوالاکرام بھی ہے.ان
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی وقت میں اعلانِ فنا بھی کیا ہے اور اعلان بقا بھی کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کو کلیۂ فنا ہونے سے محفوظ رکھا ہے اور اُس نے ان چیزوں کو اپنی مشیت کے ماتحت ایک بقا عطا کی ہے.525 قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے اور جو دو آیات میں نے پڑھی ہیں وہ بھی مختصراً اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ ایک تو انسان کی روح مرنے کے بعد بقا حاصل کرتی ہے اور دوسرے قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اعمال صالحہ کو بھی باقی رکھتا ہے.غرض ان دونوں آیات میں فرماتا ہے کہ ہر چیز جو اس دنیا میں ہے آخر یہاں سے چلی جائے گی.نہ انسان یہاں رہے گا کہ وہ بھی فانی ہے اور نہ اس کے اعمال.جہاں تک مرنے والے کی ذات کا تعلق ہے اس دنیا میں باقی رہیں گے بلکہ وہ اعمال مرنے والے کے ساتھ ہی دوسرے جہان میں لے جائے جائیں گے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرَامِ ہر چیز جو زمین میں پائی جاتی ہے فانی ہے سوائے ان اشیاء اور وجودوں کے جنہیں خدا تعالیٰ باقی رکھنا چاہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کے ایک معنی تفسیر صغیر میں یہی کئے ہیں کہ اس سرزمین پر جو کوئی بھی ہے آخر ہلاک ہونے والا ہے اور صرف وہ بچتا ہے جس کی طرف تیرے جلال اور عزت والے خدا کی توجہ ہو.پس وہ لوگ اپنے ان اعمال کے ساتھ جن کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی جلال کو دنیا میں قائم رکھنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بقا حاصل کرتے ہیں.یعنی ان کو بقا حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں (جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ) صاحب عزت وہی ہو جاتے ہیں جو صاحب تقویٰ ہوں جیسا کہ فرمایا: اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ (الحجرات: 14) خدا تعالی کی نگاہ میں وہی عزت پاتے ہیں جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن ہوتے ہیں اور رضائے الہی کی جنتوں میں اللہ تعالیٰ ان کا ٹھکانہ بناتا ہے.پس یہاں ایک طرف یہ فرمایا کہ اس دنیا میں نہ کسی شخص نے باقی رہنا ہے اور نہ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے اس کے اعمال نے باقی رہنا ہے.اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ یہاں کی زندگی کے خاتمہ کے ساتھ تم پر کلی فنا وارد نہیں ہوگی بلکہ
حیات بشمس.خالد احمد بیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس تمہاری ارواح کو دوسرے اجسام دے کر ایک دوسری دنیا میں زندہ رکھا جائے گا اس لئے بے فکر نہ ہونا یہ سمجھتے ہوئے کہ مرنے کے ساتھ تمہارا معاملہ خدا تعالیٰ سے کلیہ کٹ چکا ہے.وہ کٹا نہیں بلکہ اے انسانو اور اے آدم زاد و تمہارے ساتھ ہمارا واسطہ ابد تک قائم رہے گا.تمہاری ارواح کو ہم نے زندہ رکھنا ہے.یہ خدائے ذوالجلال والاکرام کا فیصلہ ہے.526 اعمال صالحہ کی بقا کا دوسرا طریق جو ہمیں اسلام میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی الہی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اس لئے کہ اس کی عظمت اور جلال کو قائم کرے تو اس برگزیدہ جماعت کو بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا ہونے کی وجہ سے اس دنیا میں بھی ایک لمبا عرصہ عزت کی زندگی عطا کی جاتی ہے اور صالحین کا بدل پیدا کر کے ان اعمال صالحہ کو اس وقت تک کہ اس قوم اور سلسلہ کی ہلاکت کا وقت آجائے انہیں قومی بقا عطا کرتا ہے.غرض وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کی خاطر کئے جاتے ہیں جن میں غیر کی ملونی نہیں ہوتی.جنہیں انسان بے نفس ہو کر اپنے اوپر عجز و انکسار نیستی اور فناطاری کر کے خود کو کچھ نہ سمجھ کر بلکہ اپنے رب کو ہی سب کچھ مجھتے ہوئے اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کی کوشش اور مجاہدہ کر کے بجالاتا ہے انہیں اس رنگ میں اس قوم میں باقی رکھا جاتا ہے کہ جب اس کے بعض افراد اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کے بعض قائم مقام کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس قوم میں اپنے اعمال صالحہ کا ایک لمبا سلسلہ قائم کر دیتا ہے.ہمارے بھائی جو کل ہم سے جدا ہوئے ہیں ان کا مقام اسی معنی میں جماعت میں قائم مقام کے طور پر بھی تھا.یعنی جب بعض بزرگ ہستیاں جماعت سے جدا ہو ئیں تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جماعت میں ایسے لوگوں کو کھڑا کردیا کہ جنہیں گومر نے والوں کی زندگی میں مقام، وجاہت ، مرتبہ اور علم حاصل نہ تھا جو مرنے والوں کا تھا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے انہیں پہلوں کا سا مقام، وجاہت ،مرتبہ اور علم دیدیا.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حافظ روشن علی صاحب مرحوم میر محمد الحق صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب ان میں سے ایک ( حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب) کتابوں کے حوالے یا درکھنے کی وجہ سے اور باقی دو مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اس وقت ہمیشہ جماعتیں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 527 یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمدالحق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.حالانکہ چند مہینے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں انہیں کوئی خاص اہمیت نہ تھی.میر محمد الحق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور حافظ روشن علی صاحب کو جماعتوں کے جلسوں پر آنے لگ گئے تھے مگر لوگ زیادہ تر یہی سمجھتے تھے کہ ایک نوجوان ہے جسے دین کا شوق ہے اور وہ تقریروں میں مشق پیدا کرنے کیلئے آجاتا ہے مگر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد چند دنوں میں ہی خدا تعالیٰ نے وہ عزت اور رعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں ہوسکتا.پھر کچھ عرصہ کے بعد جب میر محمد اسحق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت خراب ہوگئی اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کیا.اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلے کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں.“ الفضل قادیان 19 نومبر 1940ء) پس الہی سلسلے اپنے بزرگوں کے وصال کے بعد ان سے جدا ہو کر صدمہ اور غم تو محسوس کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں (اگر کوئی ناسمجھ خیال کرے) کہ کسی جانے والے کے بعد اس کی وجہ سے الہی سلسلہ کے کام میں رخنہ پیدا ہوسکتا ہے یا رخنہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے قائم کر دہ سلسلہ کو بقا اور زندگی عطا کرنا چاہتا ہے اس وقت تک ایک شخص کے اعمال پر فنا وارد کرنے کے بعد دوسرے افراد کھڑے کر دیتا ہے جو اسی قسم کے اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور اپنے لئے اور جماعت کیلئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوتے ہیں.ہمارے بزرگ، ہمارے بھائی، ہمارے دوست مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس ہم سے جدا ہوئے.خدا کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی کو گزارا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی ابدی رضا کو حاصل کیا.ان کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ خود اس سلسلہ میں ایسے آدمی کھڑے کرے گا جو اسی خلوص کے ساتھ اور جو اسی جذبئہ فدائیت کے ساتھ اور جو اسی نور علم کے ساتھ اور جو اسی روشنی فراست کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کرنے والے ہوں گے جس کے ساتھ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے سلسلہ کی خدمت کی تھی کیونکہ خدا تعالیٰ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 528 کا سلوک ہمارے ساتھ ایسا ہی چلا آیا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ بھی منشا نہیں اور خدا کرے کہ اس کی کبھی یہ منشانہ ہو کہ اس جماعت کو ہلاک اور تباہ کر دے کیونکہ اس سلسلہ نے جسے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے ابھی وہ کام پورے نہیں کئے جو اس کے سپرد کئے گئے تھے.ابھی غیر مذاہب کے ساتھ جنگ عظیم جاری ہے.عیسائیوں ، یہودیوں، ہندؤوں ، لامذہب اور بد مذہب اقوام کے خلاف روحانی جنگ ہورہی ہے اور اس جنگ میں ابھی ہمیں آخری فتح حاصل نہیں ہوئی.ہماری جماعت کے پھیلاؤ کے ساتھ اور ہماری بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پہلے سے زیادہ اہل اور اس کی رضا میں محو ہونے والے اور اس کے نور سے حصہ لینے والے ایسے جرنیل پیدا کرتا چلا جائے گا جو اسلام کی اس فوج کو بہترین قیادت عطا کریں گے.گے.پس ہمارے دل اپنے ایک دوست کی جدائی کی وجہ سے بے شک دکھی ہیں کیونکہ انسانی فطرت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ جانے والے کے فراق کے نتیجہ میں دُکھ محسوس کرتا ہے.لیکن جہاں تک سلسلہ احمدیہ کا تعلق ہے ایک شمس غروب ہوا تو اللہ تعالیٰ ہزاروں شمس اس پر چڑھائے گا اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس جماعت کو اس وقت تک حاصل ہوتا رہے گا جب تک یہ جماعت اور اس کے افراد اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں اور اس کی رحمتوں کے حصول کے اہل بنائے رکھیں گے.وہ قربانیاں دیتے رہیں گے اور ایثار کا نمونہ دکھاتے رہیں گے جو صحابہ نے خدا تعالیٰ اور اس کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دکھایا تھا.غرض دکھی بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والے بھی ہیں کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں کوئی رخنہ نہیں پڑنے دے گا جس کے نتیجہ میں یہ جماعت کمزور ہو.جیسا کہ سلسلہ کے پہلے جانے والے بزرگوں کے بعد اس نے شمس صاحب جیسے آدمی کھڑے کر دیئے اسی طرح وہ شمس صاحب کے جانے کے بعد شمس صاحب جیسے آدمی کھڑا کر دے گا.مکرم شمس صاحب نے جو خدمات سلسلہ کی کی ہیں ان کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں بڑی قدر تھی.جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے زندہ ہو وہ ہر اس کام میں زندگی پیدا کر دیتا ہے جسے وہ خدا تعالیٰ کے نام پر اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے شروع کرتا ہے.پھر شمس صاحب کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "خالد" کا خطاب بھی دیا حضور نے جلسہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس سالانہ 1956 ء کی تقریر میں فرمایا: 529 ایک بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت جب حملے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ مغرور مت ہو میرے پاس خالد ہیں جو ( دلائل سے ) تمہارے سر توڑ دیں گے.مگر اس وقت سوائے میرے کوئی خالد نہیں تھا.صرف میں ایک شخص تھا.چنانچہ پرانی تاریخ نکال کر دیکھ لو صرف میں ہی ایک شخص تھا جس نے آپ کی طرف سے دفاع کیا اور پیغامیوں کا مقابلہ کیا اور ان سے چالیس سال گالیاں سنیں لیکن باوجود اس کے کہ ایک شخص ان کی طرف سے دفاع کرنے والا تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان میں برکت دی اور ہزاروں ہزار آدمی مبائعین میں آ کر شامل ہو گئے جیسا کہ آج کا جلسہ ظاہر کر رہا ہے.مگر یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں.چنانچہ شمس صاحب ہیں.مولوی ابو العطاء صاحب ہیں.عبدالرحمن صاحب خادم ہیں.یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور دیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ ان کی قلم میں اور ان کے کلام میں زیادہ سے زیادہ برکت دے گا.(الفضل ربوہ 15 مارچ1957ء) اب ان تین دوستوں میں سے جنہیں اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالد قرار دیا تھا دو اپنے رب کو پیارے ہو چکے ہیں.تیسرے کی زندگی اور عمر میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور لمبا عرصہ انہیں خدمت دین کی توفیق عطا کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ مقدر کرے کہ وہ بے نفس ہو کر اور دنیا کی تمام ملونیوں سے پاک ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے وقت کو اور اپنے علم کو اور اپنی قوتوں کو خرچ کرنے والے ہوں.دوستوں کو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ جماعت میں صرف تین خالد تھے جن میں سے دو وفات پاچکے ہیں اب کیا ہوگا ؟ خدا تعالیٰ کا ہمارے ساتھ یہی طریق رہا ہے کہ جب ہم میں سے ایک شخص جاتا ہے تو ہمیں اس کی جگہ ایک نہیں ملتا بلکہ دو، پانچ یا دس آدمی اس کے مقابلہ میں وہ ہمیں عطا کرتا ہے.اس کی نعمتوں کے خزانے غیر محدود ہیں اور ضرورت حقہ کے مطابق وہ اپنی قدرتوں اور اپنی طاقتوں سے اتنے آدمی پیدا کر دیتا ہے جتنے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے جماعت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بہت سے نئے خالد پیدا کرنے ہیں.ہمارے لئے سوچنے اور
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 530 غور کرنے کا یہ مقام ہے اور ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے ہمیں اس گروہ میں شامل کرے جو خالد بننے والے ہیں جو اس کی نگاہ میں خالد قرار دیئے جانے والے ہیں اور جو اس کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے والے ہیں.جن کی تقریروں اور تحریروں میں خدا تعالیٰ اپنے فضل سے برکت دینے والا ہے، جن کی تقریروں اور تحریروں سے دنیا فیض حاصل کرنے والی ہے دنیا سکون حاصل کرنے والی ہے، دنیا ان راہوں کا عرفان حاصل کرنے والی ہے جو راہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں.جانے والا ہمیں بہت پیارا تھا لیکن جس نے اسے بلایا وہ ہمیں سب دنیا سے زیادہ پیارا ہے ہم اس کی رضا پر راضی ہیں اور ہم اس پر کامل تو کل اور بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے اس جانے والے بھائی سے پیار اور محبت کا سلوک کرے گا.اور اس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ جب ہماری باری آئے اور ہمیں اُس طرف سے بلاوا آئے تو وہ ہم سے بھی محبت اور پیار کا سلوک کرے گا.پھر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت میں ہزاروں مخلص نو جوان پیدا کرتا چلا جائے کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں تو ان کے ساتھ بھی محبت، پیار کا سلوک ہو جو محبت کا اور پیار کا سلوک شمس صاحب کو ملا.جو محبت اور پیار کا سلوک میر محمد اسحق صاحب کو ملا.جو محبت اور پیار کا سلوک حافظ روشن علی صاحب کو ملا اور جو محبت اور پیار کا سلوک مولوی عبد الکریم صاحب کو ملا.رضوان الله عليهم - اللهم آمین.روزنامه الفضل ربوہ 19 اکتوبر 1966ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع دوسشمس صاحب نے جو روایتیں قائم کی ہیں وہ تو انمٹ ہیں“ 531 حضرت مولا نائٹس صاحب کے بڑے بیٹے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس کے وصال پر خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا: حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے صاحبزادہ ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں عارضہ قلب سے وفات پاگئے.بہت ہی مخلص اور فدائی انسان تھے.ان کا سارا خاندان ہی دین کی خدمت میں قربانی کرنے والا ہے مگر شمس صاحب نے جو روایتیں قائم کی ہیں وہ تو انمٹ ہیں.یہ بچہ صلاح الدین جب پیدا ہوا تھا تو اس کے تھوڑے عرصہ بعد یا اس سے پہلے ہی مولوی جلال الدین صاحب شمس غیر ملکوں میں فریضہ تبلیغ کے لئے روانہ ہو چکے تھے.انگلستان میں بہت عرصہ رہے جب واپس گئے تو اس بچے کی عمر گیارہ بارہ سال کی تھی اور سٹیشن سے جب مولوی صاحب کو گھر لایا جارہا تھا ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو مولوی صاحب نے کہا کہ صلاح الدین کہاں ہے.میرا دل چاہتا ہے میں اپنے بچے کو دیکھوں ، اس پر کسی نے کہا کہ مولوی صاحب صلاح الدین آپ کے ساتھ بیٹھا ہو ا ہے، اس کو دیکھیں.یہ قربانی کرنے والے احمدی ہیں جن کی اولاد میں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے پھر دین میں جت رہی ہیں.پھر آگے انشاء اللہ ان کی اولادیں جتی رہیں گی.تو مولوی منیر الدین صاحب شمس نے مجھے توجہ دلائی کہ اگر کسی کا حق ہے جنازہ غائب کا تو پھر میرے بھائی کا تو بدرجہ اولیٰ حق ہے.میں نے اسے تسلیم کیا.عام طور پر تو جب کوئی حاضر جنازے آتے ہیں تو ہم دوسرے جنازے ساتھ ملالیا کرتے ہیں مگر جس رنگ میں مجھے تحریک ہوئی ہے میں نے اس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج جمعہ کے بعد اور عصر کے بعد مولوی جلال الدین صاحب شمس مرحوم و مغفور کے بڑے صاحبزادہ ڈاکٹر صلاح الدین کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی جائے گی.(خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1991ء)
.خالد احمد بیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یہ مجاہد احمدیت کے عملی نمونوں کا گلدستہ ہے.“ " حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب محررہ 24 فروری 2010 ء بنام مکرم وو منیرالدین صاحب شمس میں تحریر فرمایا: مکرم منیر الدین صاحب شمس السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 532 آپ نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حالات زندگی پر مشتمل مسودہ مجھے بھیجا.امید ہے انشاء اللہ جب یہ کتابی صورت میں چھپ کر آئے گا تو بہتوں کیلئے ایمان اور ایقان میں زیادتی کا باعث ہوگا.یہ مجاہد احمدیت کے عملی نمونوں کا گلدستہ ہے.خاص طور پر آجکل کے واقفین زندگی اور مبلغین کے لئے ایک مثال ہے.میں نے جستہ جستہ اس کو دیکھا ہے.ہر واقعہ اپنی طرف خاص طور پر متوجہ کر لیتا ہے اور اس باوفا محنتی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے ہر وقت کوشاں رہنے والے کے لئے دعا نکلتی ہے اور رشک آتا ہے جو سیح محمدی کے پیغام کو پھیلانے کی دھن لئے ہوئے تھا.حضرت الصلح الموعودؓ نے یونہی انہیں ” خالد احمدیت کے خطاب سے نہیں نوازا تھا.اور حضرت مصلح موعوددؓ کا کسی کو ایک خطاب سے نواز نا کوئی معمولی حیثیت نہیں رکھتا تھا.حضرت مولانا صاحب کا جوانی کا زمانہ تھا یا بڑھاپے کا ہر جگہ آپ سینہ سپر نظر آتے ہیں.ہندوستان کی شدھی تحریک ہے یا کوئی اور تبلیغ کا میدان.عرب میں حقیقی اسلام کا پیغام اہل عرب کو پہنچانے کی کوشش ہے یا انگلستان میں عیسائیت کے گڑھ میں بے خوف وخطر اسلام کی خوبیاں بیان کرنا اور مسیح محمدی کے پیغام کو پہنچا نا کہ جس مسیح کے انتظار میں تم ہو وہ دو ہزار سال پہلے وفات پا کر کشمیر میں دفن ہو چکا ہے اور اب زمانہ مسیح محمدی کا ہے اور اس دین کا ہے جو ہمیشہ رہنے والا دین ہے.پس آؤ اور مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو جاؤ تا کہ اپنے پیدا کرنے والے کا قرب حاصل کر سکو.پھر حضرت مصلح موعود کی بیماری کے دنوں میں اس باوفا خادم سلسلہ نے بحیثیت ناظر اصلاح وارشاد
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 533 بھی پاکستان کی جماعتوں کو سنبھالنے میں خوب کردار ادا کیا.میرے بچپن کے زمانے کا مجھ پر ان کا نیکی، تقویٰ اور عاجزی کا ایک خاص اثر ہے.ایک بزرگ صورت کا دعائیں کرتے ہوئے مسجد آنا اور نمازیں پڑھانا، خطبہ دینا یاد ہے.بعض فتنوں کو فرو کرنے میں بھی آپ کا ایک خاص کر دار تھا جو حضرت مصلح موعود کی لبی بیماری کی وجہ سے بعض دفعہ اٹھتے رہے.خلافت ثالثہ کے انتخاب کے بعد بھی آپ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دست راست رہے.لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور یہ مجاہد احمدیت جلد ہی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا.اللہ تعالیٰ حضرت مولانا صاحب کے درجات بلند فرما تار ہے اور واقفین زندگی خدام سلسلہ کو اپنے بزرگوں کے پاک نمونوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین.“ والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس آپ نے وقف زندگی کے عہد کو باحسن نبھایا ( حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب) 534 مولا نا جلال الدین شمس صاحب مرحوم خدا کے فضل سے بہت ہی خوبیوں کے مالک تھے.آپ ایک کامیاب مبلغ، ایک مناظر، ایک خادم سلسلہ اور ایک کامیاب منتظم تھے.آپ کے دل میں خدمت دین کیلئے ایک شدید تڑپ تھی.کمزوری صحت کے باوجود آپ نے وقف زندگی کے عہد کو باحسن طریق پر نبھایا اور عمر کے آخری لمحے تک خدمت دین میں مصروف رہے.آپ کی زندگی ہم سب کیلئے قابلِ رشک ہے.آپ بھی منهم من قضى نحبه، کے پورے مصداق تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے جزائے خیر دے اور انہیں اعلی علیین میں بلند مقام عطا فرمائے.( خالد احمدیت جلد اول ، مرتبہ عبدالقیوم صفحہ 5) مصروفیات و خدمات حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ ( مدیر یو یو آف ریلیجنز اردو ) حضرت فاضل سیکھوانی کی انسداد وارتداد ملکانہ میں خدمات و مصروفیات کی بابت تحریر کرتے ہیں : برادر عزیز القدر خواجہ شمس فاضل سیکھوائی انسداد ارتداد مکانہ میں حسب الارشاد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مصروف ہیں.وہاں سے آپ دو چار روز کیلئے قادیان دار الامان تشریف لائے تو مجھ سے ذکر کیا مولوی ثناء اللہ کے رسالہ ” شہادات مرزا کا ایک دوست نے ریل میں ذکر کیا تھا اگر آپ کے پاس ہو تو مجھے دیدیں میں اس کا جواب لکھوں گا.چنانچہ برادر موصوف نے 31 جنوری 1924ء کو مجھے مسودہ پہنچا دیا.جن لوگوں کو ذاتی طور پر خواجہ شمس صاحب کی مصروفیت کا علم ہے کہ دن رات وہ سفر اور بے اطمینانی، بے سروسامانی کی حالت میں رہتے ہیں.وہ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر تائید ربانی میرے فاضل دوست کے شامل حال تھی.نہ اپنے وقت پر اختیار رکھتے ہیں کیونکہ جس وقت حکم ہو اور جہاں حکم ہو فوراً ان کو اکثر پیادہ چل کر پہنچنا پڑتا ہے پھر پاس کتاب کوئی نہیں رکھ سکتے ہیں.ایسی حالت میں سلسلہ احمدیہ کے پرانے دشمن کے مایہ ناز سرمایہ عمر گذشتہ اعتراضات کا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 535 اس خوبی سے قلع قمع کرنا، خراج تحسین لئے بغیر نہیں چھوڑتا.جزاہ اللہ احسن الجزاء.میرا ارادہ تھا کہ مارچ کے رسالہ میں یہ جواب نکال دوں مگر مذہبی کانفرس لاہور کا مضمون ” مقصد مذہب مل گیا.اس کی اشاعت کو میں نے مقدم کیا اور اب رسالہ میں یہ جواب شائع کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو ایک جہان کیلئے ہدایت کا موجب بنائے.“ ریویو آف ریلیجنز قادیان اپریل 1924 ، صفحہ 2) (نوٹ: آپ کی کتاب ” کمالات مرزا کا تعارف علمی کارناموں کے باب میں پیش کیا گیا ہے.) میرے ہم مکتب حضرت مولانا غلام احمد صاحب مجاہد بد و ملهوی) حضرت مولانا شمس صاحب مبلغین کلاس قادیان کے اولین طلباء میں سے تھے.اس سلسلہ میں آپ کے ایک ہم مکتب تحریر فرماتے ہیں : مارچ 1923ء میں آریہ سماج کی طرف سے شدھی کا فتنہ کھڑا کر دیئے جانے کی وجہ سے اس کلاس ( مبلغین کلاس جس کا آغاز جون 1920ء میں ہوا تھا.مرتب) کو ختم کر دیا گیا اور مولانا شمس صاحب کو آگرہ میں.مولانا ظہور حسین صاحب فاضل کو ضلع جیتوں میں.خاکسار غلام احمد بدوملہی کو تحصیل شکر گڑھ میں اور مولوی ظل الرحمن صاحب کو اوّل آگرہ پھر بنگال میں.مولوی محمد شہزادہ خان صاحب کو صوبہ سرحد میں تبلیغی کام سپر د کیا گیا.شمس صاحب مرحوم حلیم، بر دبا دطبیعت کے مالک تھے.اتنالمبا عرصہ اپنے ہم کلاس وہم سکول اپنے مناظرات میں ساتھ شامل ہونے کے لیے تجربہ میں میں نے انہیں ہمیشہ ہی ایسا پایا.لڑائی جھگڑے سے انہیں شدید نفرت تھی.مناظرات میں مخالف کے نامناسب انداز اور بیہودہ مذاق و تمسخر کو طرح دے جاتے حالانکہ جوان عمر تھے، شعر گوئی بھی کرتے تھے ، خوب جواب دے سکتے تھے اپنے بعض ساتھیوں کو ترکی بہ ترکی مخالفوں کا مونہہ بند کرتے دیکھتے بھی تھے مگر خود کبھی یہ انداز نہ برتتے تھے.صرف سوال و جواب اور حوالہ جات دینے پر اکتفا کرتے.مباحثہ عالم پور کوٹلہ اور میدان شدھی میں 1924ء کے بعض مناظروں میں میں نے یہ بات بھی خاص طور پر دیکھی کہ میدان مناظرہ سے واپسی پر جب ساتھ کے دوست خوش ہورہے تھے یا
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس فتح کی خوشی میں مخالف کی کسی لایعنی بات پر ہنسی کر رہے تھے آپ کی زبان سے میں نے ہمیشہ 536 الحمد للہ الحمد اللہ ہی سنا جو ملکی آواز سے آپ چلتے چلتے کہ رہے ہوتے.ایک خاص بات جو ان دنوں تبلیغی سفروں میں میں نے بعض اوقات ساتھ ہونے یا قادیان میں اکٹھا ہوتے وقت دیکھی، (1925 ء سے قبل ) وہ یہ تھی کہ مرحوم کے ہاتھ میں ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء اور علماء سلسلہ کی تصنیفات میں سے کوئی نہ کوئی تصنیف ہوتی تھی جس سے آپ نوٹ لیتے اور ایک موٹی سی کاپی میں لکھتے رہتے اور مضمون لکھتے وقت یا مناظرہ سے قبل اسی سے نوٹ لیتے.شمس صاحب مرحوم کو خدا تعالیٰ نے بہت بلند مقام عطا کیا اور دلی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کی روح کو جنت الفردوس میں اور بھی بلند مقام عطا فرمائے.آمین.آپ اپنے ساتھیوں کو نہ بھولے جب کبھی موقعہ ملا آپ نے اپنے ساتھیوں میں سے کسی کے ساتھ جو ہمدردی، خیر خواہی ہو سکتی تھی اسے بجالانے میں فرق نہ کیا.کسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو اس کے گھر پہنچ کر یا پاس بلا کر اس کی خیر خواہی کی.اللہ تعالیٰ آپ کو اخروی نعماء سے مالا مال فرمائے.ہم ایک لمبازمانہ اکٹھے رہے ہیں (الفضل ربوہ 17 نومبر 1966ء) ( حضرت مولا نا قمر الدین صاحب مرحوم ، صد ر اول مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ) خاکسار اور حضرت مولانا ایک لمبا زمانہ اکٹھے رہے ہیں.مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے کہ ہم اکٹھے سکھواں سے قادیان تعلیم کے حصول کی غرض سے آتے تھے.حضرت خلیفۃ امسیح الثانی رضی اللہ ہیڈ ماسٹر تھے.پھر بڑی کلاسوں میں جا کر ہم نے قادیان میں رہائش اختیار کی.وہاں عرفانی سٹریٹ میں ہم اپنے مکان کے ایک کمرہ میں رہتے تھے اور کھانا لنگر سے کھاتے تھے.سفر وحضر میں اکٹھا وقت گذرتا تھا.قادیان کے گلی کوچوں میں اکٹھے نکلتے اور اکٹھے واپس آتے.سیر کو اکٹھے جاتے اکٹھے واپس آتے.یہی صورت نمازوں کی تھی.آخری کلاسوں میں گئے تو ہم بورڈنگ احمد یہ میں داخل ہو گئے اور وہیں سے آخری امتحان پاس کر کے سلسلہ کے کاموں میں لگ گئے.اس سارے عرصہ میں عینی شاہد کے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 537 طور پر یہ میرابیان ہے کہ حضرت مولانا نہایت متدین علم دوست حلم و بردباری کے پیکر، خوش اخلاق اور سادہ طبیعت تھے.طالب عملی کے زمانہ میں امتحان دے کر جب ہم سیکھواں رخصتوں پر جاتے تو مولانا قرآن کریم حفظ کیا کرتے تھے اور گو آپ سارے قرآن کے تو حافظ نہ تھے مگر قرآن کریم کا بیشتر حصہ ان کو حفظ تھا اور اس کے نتیجہ میں وہ موقع محل کی آیات اپنی گفتگو میں پیش کرتے تھے اور لوگوں پر آپ کے قرآنی استنباط سے نیک اثر پیدا ہوتا تھا.محترم خان بہادر مرز اسلطان احمد صاحب سے مولانا کومحبت تھی اور آپ کے علم دوست ہونے کی وجہ سے کسی وقت حضرت مرزا صاحب موصوف کے مکان کے چوبارہ میں بھی آپ رہتے رہے ہیں.اور وہاں نماز تہجد اور قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا آپ کے معمول میں داخل تھا اور آس پاس کے احباب آپ کے اس عمل سے متاثر تھے.بلاد عربیہ میں جو آپ نے حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایات کے ماتحت کام کیا اس سے حضور بہت خوش تھے اور تفسیر کبیر میں ایک جگہ آپ کا ذکر کیا ہے.ولایت کے زمانہ میں سب سے بڑا مبشرین کا گروپ جس میں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ، حافظ قدرت اللہ صاحب، چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر اور شیخ ناصر احمد صاحب وغیرہ شامل تھے، باوجود یکہ یہ نو جوان سات آٹھ سال قادیان میں واقفین زندگی کے طور پر دینی تعلیم حاصل کر کے مختلف ممالک میں متعین کئے گئے تھے لیکن پھر بھی حضور کی ہدایت تھی کہ شمس صاحب کے پاس چھ ماہ ٹرینگ لے کر اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہوں.چنانچہ یہ لوگ شمس صاحب سے ٹریننگ لیکر اپنے اپنے علاقوں میں گئے.اس طرح گویا شمس صاحب ان سب کے استاد ہیں اور ان کے ذریعہ دنیا کے مختلف ملکوں میں تبلیغ کا کام ہورہا ہے.مولانا کی ولایت سے کامیاب مراجعت پرسیدنا حضرت فضل عمر رضی اللہ عنہ نے ایک تقریب میں طلوع الشمس من مغربها کی پیشگوئی کو شمس صاحب پر چسپاں کیا تھا اور فرمایا کہ یہ پیشگوئی شمس صاحب کے ذریعہ پوری ہوئی.غرضیکہ مولانا شمس صاحب بے نظیر قابلیتوں کے انسان تھے.قدرت نے آپ کے وجود میں بہت سی لیاقتیں جمع کر رکھی تھیں اور اس کے نتیجہ میں جو بلند حیثیت آپ کو جماعت میں حاصل تھی اور جو ارفع شان آپ کو خدا کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی اس سے سلسلہ عالیہ کے خواص وعوام واقف ہیں.متحدہ ہندوستان کی صورت میں مولانا تقریباً ہر علاقہ میں کسی جلسہ کی تقریب یا مناظرہ پر تشریف لے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 538 گئے تو اس کامیابی سے واپس آئے کہ آج تک علاقہ کے اپنے اور بیگانے آپ کو یاد کرتے ہیں.1924ء میں ملکانہ کے علاقہ میں فتنہ ارتداد کے موقع پر آریوں کے مد مقابل پر ہر جگہ شمس صاحب رضی اللہ عنہ جاتے اور اسلام کی برتری ثابت کرتے تھے اور آریہ مت کارڈ کرتے تھے.آپ کے بعض اوصاف ( خالد احمدیت جلد اول مرتبه عبد الباری قیوم، جلد اول صفحات 6-7) حضرت مولانا قمر الدین صاحب سیکھوانی مزید تحریر فرماتے ہیں.1- قرآن کریم سے آپ کو بہت محبت تھی.گو آپ قرآن کریم کے حافظ نہ تھے مگر قرآن کریم کا بہت سا حصہ آپ کو یاد تھا اور نماز پڑھاتے وقت خوش الحانی سے بڑے ذوق وشوق سے قرآن کریم پڑھتے تھے اور مقتدی اصحاب مولانا کی تلاوت سے حظ اٹھاتے تھے.2 سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں مولانا نے جہاں اطاعت اور فرمانبرداری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا وہاں کا رہائے نمایاں کی بھی توفیق ملی اور عربی ممالک اور انگلستان میں فریضئہ تبلیغ کی ادائیگی کے سلسلہ میں بھی نمایاں کام سرانجام دیئے اور ان علاقوں کے احباب اب تک آپ کو یاد کرتے ہیں.3.فلسطین کے قیام کے دوران ایک دفعہ دورہ کرتے ہوئے آپ مصر تشریف لے گئے.ان دنوں وہاں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم اخبار نکالتے تھے.مولانا کے مصر پہنچنے پر مشورہ سے طے ہوا کہ ایک پبلک لیکچر ہو.لیکچر کیلئے عصمت انبیاء کا موضوع تجویز ہوا.اعلان کر دیا گیا.لوگوں کو دعوت دی گئی.اس موضوع پر مولانا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودہ علم کلام کی روشنی میں اس خوبی سے لیکچر دیا کہ اپنے اور بیگانے سب متاثر ہوئے.جماعت احمدیہ کے سیکرٹری عبدالحمید آفندی نے قادیان آکر بیان کیا کہ لیکچر سننے کے بعد ہم احمدیوں نے خوشی سے محترم شمس صاحب کو کندھوں پر اٹھالیا اور دُور تک اٹھا کر لے گئے.جلسہ کے اختتام پر ایک بڑے ادیب نے سب دوستوں کو ٹھہر الیا اور آدھ گھنٹہ کے قریب مولا نائٹس صاحب کی مدح اور تعریف کرتا رہا.اس نے بیان کیا کہ ایسا لیکچر آج تک ہم نے کبھی نہیں سنا تھا.ایک فقرہ جو آپ کی تعریف میں کہا گیا وہ یہ تھا:
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ” والله إِنَّهُ لأبن عبّاس فينا“ یعنی اللہ کی قسم یہ شخص ہم میں حضرت ابن عباس کے مقام پر ہے.مولانا موصوف نے اپنے لیکچر میں قرآن کریم سے عصمت انبیاء کو ثابت کیا اور تمام وہ آیات جنہیں عیسائی انبیاء کی عصمت کے خلاف پیش کرتے ہیں ان کا جواب دیا اور صحیح مطلب بیان کیا.مولانا جلال الدین صاحب شمس کی خدمات جلیلہ 539 (الفضل ربوہ 20اکتوبر 1966ء) ( حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری) مولانا شمس صاحب رضی اللہ عنہ نے اسلام و احمدیت کیلئے بے لوث خدمات میں زندگی گزاری ہے.زمانہ طالب علمی سے لے کر آخری سانس تک وہ اسلام کے لئے شمع کے پروانہ کی طرح قربان ہوتے رہے.انہوں نے 1919ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کیا اور خاکسار نے 1924ء میں.اس طرح ان میں اور مجھ میں پانچ برس کا فاصلہ تھا.مدرسہ احمدیہ کی تعلیم کے دوران مجھے کچھ عرصہ کیلئے ان کا ہم مکتب ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے.مدرسہ احمدیہ کا نصاب ان دنوں آٹھ سال کا تھا.آٹھویں سال میں مولوی فاضل کا امتحان دیا جاتا تھا.گویا مولانا شمس صاحب آخری جماعتوں میں تھے اور میں ابتدائی جماعتوں میں.مجھے خوب یاد ہے کہ ان کے اور دوسرے احباب کے مضامین تفخیذ الاذہان وغیرہ میں پڑھ کر مجھے مدرسہ کی دوسری جماعت میں ہی احساس ہوتا تھا کہ جب ہم بڑے ہوکر مضمون لکھنے کے قابل ہوں گے شاید اس وقت تک یہ علماء سب مضامین ختم کر دیں گے.یہ میرے شوق اور بچپن کی سادگی کا ایک نمونہ تھا.بہر حال مولانا شمس صاحب حضرت قاضی اکمل صاحب کی صحبت کے زیر اثر مدرسہ کی آخری جماعتوں میں کافی مضمون لکھتے تھے.میں نے جب پہلا مضمون تیسری جماعت میں ” اسلام اور تلوار کے زیر عنوان لکھا اور جناب سردار محمد یوسف صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار نور نے اسے عمدہ ریمارکس کے ساتھ اخبار کے ادارتی کالموں میں شائع فرمایا تو مولانا شمس صاحب نے از راہ مذاق مدرسہ کے صحن میں مجھے کہا کہ اچھا اب تو
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مضمون بھی شروع ہو گئے ہیں.حضرت مولوی صاحب موصوف کی طبیعت بڑی شگفتہ تھی.جوانی میں تو مسکراہٹ ہر وقت ان کے چہرہ پر کھیلتی تھی.آخری حصئہ زندگی میں بھی بالعموم ہنس کر بات کرتے تھے.مولانا شمس صاحب کو علم کا بہت شوق تھا.مطالعہ بکثرت کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ذہن بھی نہایت عمدہ عطا فرمایا تھا.اسلام اور احمدیت کیلئے غیر معمولی غیرت رکھتے تھے.مخالف کے اعتراض پر خاموش رہنا ان کی طبیعت کے خلاف تھا.مجھے مدرسہ کی زندگی میں بھی متعدد مقامات پر تقاریر یا مباحثات میں ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا تھا.ان کی جرات اور پُر جوش گویائی قابل داد ہوتی تھی.مباحثہ میانی کے موقع پر میں ان کے ساتھ تھا.ان کے تحریری جوابات ، ان کی قوت اقناع اور استدلال پر واضح ثبوت ہیں.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بلا دعر بیہ اور یورپ کے سفر سے واپس آکر مولا نائٹس صاحب کو بطور پہلے مستقل مبلغ کے دمشق بھجوایا.ان سے پہلے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے شام میں اور حضرت شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے مصر میں تبلیغ احمدیت کی ہے مگر جس طرح ایک با قاعدہ اور مستقل مبلغ کا کام ہوتا ہے وہ بلاد عر بیہ میں محترم مولا نا ئٹس صاحب رضی اللہ عنہ نے ہی سب سے پہلے ادا فرمایا ہے.دمشق کے قاتلانہ حملہ کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر مولانا شمس صاحب حیفا ( فلسطین) تشریف لے گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جگہ آپ کو بہت کامیابی حاصل ہوئی اور مخلصین کی ایک خاص جماعت آپ کے ہاتھ پر سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئی.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مولانا شمس صاحب کو دستی بیعت لینے کا اختیار دے رکھا تھا.1931ء میں جب میں نے مولا نائٹس صاحب سے اس مشن کا چارج لیا تو سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مجھے بھی دستی بیعت لینے کا اختیار دیا گیا.مولا نائٹس صاحب نے شام وفلسطین میں ایسے پاکیزہ اور دائی آثار چھوڑے ہیں جو تاریخ احمدیت کا مستقل حصہ حصہ ہیں.وہ لوگ مولانا شمس صاحب کو بعد میں بھی نمناک آنکھوں اور دلی دعاؤں کے ساتھ یاد کرتے تھے اور اب تو حضرت مولانا کی وفات کی خبر سے ان میں سے زندہ احمدیوں کو شدید صدمہ پہنچا ہے.جو چند خطوط آئے ہیں ان سے یہ تاثرات 540
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 541 نمایاں ہیں.میں اس جگہ یہ ذکر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر چہ خدائی وعدوں کے موافق بلا دعر بیہ میں بھی احمدیت کی ترقی جلد یا بدیر لازما ہوگی لیکن اس کی بنیا در کھنے میں حضرت مولانا شمس صاحب رضی اللہ عنہ نے جو قربانیاں پیش کی ہیں اور جس طرح پوری قوت سے حق جہاد ادا کیا ہے وہ آنے والے مبلغین اور مجاہدین کیلئے مشعل راہ ہے.میں نے ان سے چارج لینے کے بعد محسوس کیا تھا کہ فی الواقع مولانا نے اپنی جان پر کھیل کر پیغام احمدیت کو ان علاقوں میں پہنچایا تھا اوراللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں آپ کو ایک مخلص جماعت عطا فرمائی تھی.یہ موقعہ ان خدمات جلیلہ کی تفصیل میں جانے کا نہیں ہے مگر خلاصہ یہ ہے کہ حضرت شمس صاحب نے بلا عر بیہ میں بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں.وہاں کے مخلصین مولا ناشس صاحب کی وفات پر سخت غمگین ہیں.السید محمد صالح عودہ کے چند فقرات بطور نمونہ درج کرتا ہوں.وہ لکھتے ہیں : سیدى اننا حزنا حزناً عميقاً بوفاة استاذنا الفاضل المرحوم جلال الدين شمس المجاهد الاوّل للديار العربية تغمده الله برحمته و أسكنه فسيح جنانه و نرجو لاولاده من بعد طول العمرو البقاء جعلهم الله خير خلف و جزاه عنا احسن الجزاء و رفع مكانه في اعلی علیین.حضرت مولانا شمس صاحب کو انگلستان میں بھی سالہا سال اسلام کا پرچم لہرانے کی سعادت حاصل ہوئی تھی.عربی زبان کی مہارت اور دینی تفقہ کے باعث وہ مستشرقین اور دیگر اہل علم کیلئے روشنی کا مینار ثابت ہوتے تھے.ان کی مناظرانہ قوت نے عیسائی پادریوں کو انگلستان میں بھی اسلامی دلائل کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا.حضرت شمس صاحب اپنے وقت میں اس ملک کیلئے اسلام کے بارے میں اتھارٹی تھے.آپ کے بیانات اور مضامین نے اسلام کے حق میں فضا سازگار بنانے میں بڑا کام کیا.عسر و یسر اور جنگ کے ایام میں بھی حضرت شمس صاحب نے نہایت شاندار کارنامے سر انجام دیئے.جب یہ روحانی سورج بلا د مغرب سے پھر واپس ہوا تو اس آب و تاب سے ہندوستان اور پاکستان کے علاقوں کو احمدیت کی روشن کرنوں سے منور کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو گیا.ایک بہت بڑی خوبی حضرت شمس صاحب میں یہ تھی کہ جو کام آپ کے سپرد کیا جاتا آپ اسے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس نہایت تن دہی، محنت اور والہانہ شغف سے سرانجام دیتے.ملفوظات کی یہ ضخیم جلدوں کی ترتیب اور روحانی خزائن کی یہ دیدہ زیب طباعت اس محنت ، اس محبت اور خلوص کی مونہہ بولتی تصویریں ہیں جو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن سے تھا.جزاہ اللہ احسن الجزاء.542 حضرت مولانا شمس صاحب کو خدمت دین کا ایک نادر اور بے مثال موقعہ سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیماری کے عرصہ میں بھی حاصل ہوا اور یہ کہنا ایک حقیقت کا اعلان کرنا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے اس موقعہ پر پورا حق ادا کر دیا.نظام جماعت کی پختگی اور افراد جماعت کی تربیت کیلئے جو ان کے بس میں تھا انہوں نے کیا.بسا اوقات ان کی کمزور صحت کے پیش نظر ان کی ہمہ وقت مصروفیت کو دیکھ کر انہیں مشورہ دیا جاتا کہ کچھ آرام بھی کریں اور صحت کا بھی خیال رکھیں تو حضرت مولانا صاحب اپنی معروف مسکراہٹ کے ساتھ یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ کام ختم ہوں تو آرام کیا جائے ابھی تو یہ بھی کرنا ہے وہ بھی کرنا ہے.حضرت مولانا شمس صاحب کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں اور ہزاروں واقعات ہیں.خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس مرد مجاہد نے نہایت کامیاب زندگی بسر کی اور قابل رشک جہاد کا نمونہ قائم فرمایا..عزیز م محترم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمد یہ کوئٹہ نے جن سے حضرت مولانا کو خاص اُنس تھا، مجھے اپنے تعزیت نامہ میں حضرت مولانا کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ: ' آپ کا مرحوم و مغفور کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق بھی تھا اور رفاقت حسنہ بھی.آپ کا ہم سب پر بہت حق ہے کہ اس جلیل القدر متقی، پرہیز گار عالم بے بدل،فقیہہ مفسر قرآن، بایں ہمہ درویش طبیعت اور فقیر طبع دوم، حلیم، شاکر ، صابر، متواضع ہمنکسر المزاج اور دل کے غریب و مسکین خادم دین متین و مبلغ اسلام و احمدیت کی جدائی پر آپ سے بھی دلی تعزیت کریں.سو میں اس شخص کی وفات پر آپ سے دلی تعزیت کرتا ہوں.اس کی وفات موت العالم موت العالم کی مصداق ہے.“ سید نا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے ہمارے استاذ حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر پر 1960ء میں تحریر فرمایا تھا کہ :
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 543 وو " کاش اگر حضرت حافظ صاحب اس وقت زندہ ہوتے تو محترم مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کے علمی کارناموں کو دیکھ کر ان کو کتنی خوشی ہوتی کہ میرے 66 شاگردوں کے ذریعہ میری یا دزندہ ہے.“ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت شمس صاحب کے درجات بلند فرمائے اور سلسلہ کو ہمیشہ ایسے مخلص اور بے لوث خادم عطا فر ما تار ہے.آمین.(الفضل ربوہ 9 دسمبر 1966ء) حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی میری چند یادیں مکرم و محترم صاحبز اداہ مرزا انس احمد صاحب) بہت ہی پیارے وجود تھے مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور میں اکثر دفتر میں جاتا اور آپ کے پاس بیٹھ کر فائدہ اٹھاتا.آپ کے میرے پر بہت سے احسانات تھے.اُن میں سے سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ جب روحانی خزائن شائع ہونی شروع ہوئی اور شمس صاحب نے اعلان کیا کہ سیٹ کی اتنی قیمت ہے اور جو خریدنا چاہیں وہ رقم بھیج دیں اور جس طرح جس طرح سیٹ کی کتابیں چھپتی جائیں گی ہم بھیجتے جائیں گے.اُس وقت میں کالج میں پڑھ رہا تھا.اب مجھے یاد نہیں کہ FA میں تھا یا BA میں بہر حال کا لج میں تھا اور مجھے میرے ابا کی طرف سے پانچ روپے ماہانہ جیب خرچ ملا کرتا تھا.میں نے شمس صاحب سے عرض کیا کہ مجھے پانچ روپے ماہانہ جیب خرچ ملتا ہے اور یہ میں سیٹ کی قسط کے طور پر ہر ماہ آپ کو دیتا رہوں گا آپ ایک سیٹ میرے لئے ریز رو کر لیں.کبھی میری رقم آپ کی طرف زیادہ ہو جائے گی کبھی میں پیچھے رہ جاؤں گا.بہر حال ساری رقم میں ادا کر دوں گا.آپ نے انتہائی شفقت سے میری درخواست قبول کرلی.یہ بہت بڑا احسان تھا.مجھے حضرت مسیح موعود کی کتابیں پڑھنے کے لئے لائبریری جانے کی ضرورت نہیں پڑی.آپ مجھے بہت سے واقعات بتایا کرتے جن میں سے ایک کا ذکر میں کرتا ہوں.آپ نے مجھے بتایا کہ جب حضرت مصلح موعود مسند خلافت پر بیٹھے تو اس وقت آپ مدرسہ احمدیہ میں عربی پڑھاتے تھے تو شمس صاحب اور ایک اور طالب علم جن کا نام مجھے بھول گیا ہے، حضور سے صرف ونحو پڑھتے تھے اور کلاس کا وہ آخری سال تھا.اس پر حضور نے از راہ شفقت فرمایا کہ آپ دونوں کی کلاس قصر خلافت میں میرے دفتر میں ہوا کرے گی.چنانچہ آپ اس ٹرم کے جو باقی مہینے تھے حضرت صاحب سے صرف و نحو پڑھتے رہے اور بڑے اچھے نمبروں سے پاس ہوئے.میرا نکاح بھی شمس صاحب نے ہی 64 ء کے جلسہ سالانہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 544 پر حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر پڑھایا تھا کیونکہ حضور اس وقت بیمار ہو چکے تھے اور صاحب فراش تھے.خلافت ثالثہ کا جب انتخاب ہوا تو شمس صاحب نے ہی وہ تمام رؤیا وکشوف اکٹھے کئے تھے جو مختلف وقتوں میں لوگ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی خلافت کے بارہ میں دیکھتے رہے.خلافت ثالثہ کے انتخاب کے تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کی وفات ہو گئی.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کو آپ کی وفات کا اتنا صدمہ تھا کہ آپ انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر بستر پر لیٹ گئے اور کافی دیر لیٹے رہے اور دعائیں کرتے رہے.سٹس صاحب کی وفات سے آپ کو جو صدمہ ہوا اس کا اثر آپ کے چہرہ پر اتنا گہرا تھا کہ ابھی تک میرے ذہن پر نقش ہے.پھر حضور وفات کے چند گھنٹے کے بعد شمس صاحب کے گھر گئے ، آپ کا چہرہ دیکھا، بچوں سے باتیں کیں، ان کوتسلی دی اور کافی دیر وہاں بیٹھے رہے.یہ نظارہ بھی مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث مجھ سے اکثر یہ ذکر کرتے تھے کہ مکرم شمس صاحب بے نفس واقف زندگی ہیں بہت قناعت ہے اور واقف زندگی سے جو بھی مطالبہ کیا جائے اُس کے لئے تیار رہتے ہیں.اظہار کرنا تو کیا کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ واقف زندگی کو جو جذباتی قربانی دینی پڑتی ہے وہ بعض دفعہ کتنی مشکل ہوتی ہے.کسی قسم کا احساس کمتری نہیں تھا اور اس ضمن میں کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا ، مطالبہ نہیں کیا.یہ بات اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ شمس صاحب کے زمانہ میں واقفین زندگی کو آج کل کے واقفین زندگی کے مقابلہ میں بہت زیادہ قربانی دینی پڑتی تھی.آپ نے یہ قربانی خندہ پیشانی سے دی اور یہ سمجھ کر دی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر بہت بڑا احسان ہے کہ آپ کو اس خدمت کے قابل سمجھا گیا اور قبول کیا گیا اور یہی اُن کا فخر تھا اور اس میں وہ راضی تھے.اللہ تعالیٰ اُن کے درجات کو بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.تحریر برتحریک مکرم منیر الدین شمس صاحب محررہ فروری 2010ء) کچھ واقعات والد محترم اور امی سعیدہ بانو کے تاثرات محترمه جمیلہ نیم صاحبہ بنت حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب) (نوٹ : مکر مہ جمیلہ نسیم صاحبہ بنت حضرت مولانا شمس صاحب ک یہ انٹر ویو کرم ناصر الدین شمس اور ان کی اہلیہ مبارکہ شمس صاحبہ نے فروری 2008ء میں لیا.فجز اھما اللہ احسن الجزاء) ابتداء میں ہمارے ابا جان کی مالی حالت اتنی اچھی نہ تھی بمشکل گزارہ ہوتا تھا لیکن آپ کی اہلیہ یعنی ہماری امی سعیده بانو شمس صاحبہ امیر گھرانے سے تھیں.ان کے والد حضرت خواجہ عبید اللہ صاحب
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 545 امیر آدمی تھے اور SDO تھے.قادیان محلہ دار الرحمت میں جو گھر بنایا وہ امی نے اپنا زیور بیچ کر بنایا اور اس سلسلہ میں نانا جان نے بھی مدد کی.پھر جب ربوہ آئے تو آپ نے زمین لے کر دی.چار دیواری بنوائی پھر دو چھوٹے چھوٹے کمرے بنائے پھر ایک نلکا لگوا کر دیا.چونکہ ہمارے منجھلے بھائی منیر الدین شمس صاحب واقف زندگی تھے اس لئے امی جان نے وہ گھر ابا جان کی وفات کے بعد ان کے نام کر دیا.یہ گھر دار الرحمت سٹیشن کے قریب تھا.ہماری والدہ کی کوئی بہن نہ تھی صرف ایک بھائی تھا.ایک بہن اور ایک بھائی Twins پیدا ہوئے مگر پیدائش کے بعد ہی فوت ہو گئے.ہماری والدہ محترمہ سعیدہ شمس کی والدہ اس وقت فوت ہوئیں جب انکے والد یعنی ہمارے نانا ( حضرت خواجہ عبید اللہ صاحب 22 سال کے تھے.ہمارے نانا نے ساری عمر دوسری شادی نہ کی کہ دوسری ماں بچوں کو اپنی ماں جیسا پیار نہیں دے سکے گی.حضرت نانا جان بہت متقی، پرہیز گار انسان اور نہایت خشوع وخضوع سے عبادت کرنے والے تھے.جب ابا جان فروری 36ء میں انگلستان جارہے تھے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ہماری والدہ محترمہ کو اجازت دی کہ وہ بھی اپنے خرچے پر ساتھ جاسکتی ہیں لیکن امی نے عرض کیا کہ تین سال کی تو بات ہے لیکن جنگ عظیم کی وجہ سے دس سال انتظار کرنا پڑا.جس دن ابا نے انگلستان سے واپس آنا تھا اس دن میں اور بھائی صلاح الدین شمس ، بھائی حمید مولانا شمس صاحب کے بھتیجے ، خواجہ رشید کا بھائی علی محمد (مولانا شمس صاحب کے بھانجے )، خواجہ منور کا بھائی ، پھوپھی حمیدہ کا بیٹا سب ان کو لینے لاہور گئے.ابو نے مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے گھر قیام کیا تھا.جماعت والوں نے وہاں ٹھہرایا تھا.جب ہم ان کے گھر پہنچے تو ابو نہا ر ہے تھے.پھر ابو نے پوچھا میرے بچوں نے کوئی چیز لینی ہے؟ تو میں اور بھائی صلاح الدین شمس ان کے ساتھ انار کلی گئے.ابو نے پوچھا کہ میری بیٹی نے کیا لینا ہے؟ میں چھوٹی سی تھی مجھے برقعہ پہننے کا بہت شوق تھا، میں نے کہا مجھے برقعہ لے کر دیں ( دو گھوڑا بوسکی کپڑا) یہ کپڑا ان دنوں میں خاصا مہنگا تھا.چنانچہ برقعہ کا کپڑا بمبئی کلاتھ ہاؤس سے بسکٹی رنگ میں لیا.پھر میں نے سوچا کہ اگر یہ کپڑا امی نے دیکھا تو انہوں نے تو اس کی قمیض بنوا دینی ہے اس لئے ہم نے اسے سیاہ رنگ کروانے کیلئے دیدیا اور دکان والوں کو گھر کا پتہ دیا کہ یہ پارسل بھیج دیں.پھر میں نے بہت مہنگی چوڑیاں خریدیں.پھر ابا نے بھائی صلاح الدین سے پوچھا کہ میرے بیٹے نے کیا لینا ہے؟ وہ ابو سے بہت شرماتا تھا.میرے کان میں کہا کہ گیند لینی ہے.آپ نے انہیں گیند خرید کرلے دی.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 546 1946ء میں جس دن آپ اتنے سالوں کے بعد واپس لوٹے اسی دن رات کو لاہور میں لیکچر بھی دیا اور اس دن قادیان نہ گئے بلکہ اگلے دن وہ قادیان گئے اور حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں سارے خاص مقام بہشتی مقبرہ، مسجد مبارک وغیرہ کی سیر کروائی.جب ابوقادیان پہنچے تو امی ٹیشن سے دیکھ کر آگئیں اور تسلی کر لی کیونکہ حضور نے ان کو سب جگہوں پر لے کر جانا تھا اور ابوشام کو گھر آئے.پھر آپ ڈیڑھ سال قادیان رہے کہ پارٹیشن ہوگئی.اس وقت کچھ عرصہ کیلئے حضور کے ارشاد پر ابا جان قادیان رہے مگرامی، دادی ( حضرت حسین بی بی زوجہ حضرت میاں امام الدین ) اور بھائی صلاح الدین ، بھائی فلاح الدین، اور صادقہ فضل صاحبہ یہ سب بسوں کے قافلے کے ساتھ لاہور آگئے.وہاں رہنے کو کوئی کمرہ نہ مل رہا تھا.ایک صاحب جو کہ امی کے بھائی کے سر تھے ان کی لاہور میں بہت بڑی کوٹھی تھی انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر دیا.ان دنوں میں اور بھائی صلاح الدین کمرہ ڈھونڈ نے کیلئے بہت دور جودھامل بلڈنگ تک پیدل چل کر جاتے.ان ایام میں میں اور امی قصر استقلال میں بھی کام کرنے جاتے تھے کیونکہ حالات ہی کچھ ایسے تھے.سب کچھ تو قادیان بیچ کر آگئے تھے.قصر استقلال میں دھاگے کی ریلیں بنانے ،صابن بنانے، کپڑے اور کریم وغیرہ بنانے کا کام ہوتا تھا.والدہ محترمہ نے ایک دفعہ ان کیلئے کڑھائی کا کام کیا مگر اجرت نہ ملی.قصر استقلال والوں نے ان کے پیسے کھالئے.ابو گھر میں کتابیں لکھنے کا کام، پروف ریڈنگ وغیرہ بھی کرتے.آپکے ذمہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کام تھا جو وہ احسن طور پر نبھاتے رہے.جس طرح آجکل بعض بڑے لوگوں سے ملنے کیلئے وقت لینا پڑتا ہے ویسے اسوقت نہ تھا.جس کا دل کرتا اور جب آنا چاہتا ابا جان سے ملنے آجا تا عام اجازت تھی.جب آپ انگلستان میں خدمات بجالا رہے تھے تو مسجد فضل لنڈن کے پاس ہی پھلدار درخت تھے جن پر طرح طرح کے پھل لگے ہوئے ہوتے تھے.جب انکا پھل آتا تو آپ تمام غریبوں اور ہر قسم کے لوگوں میں تقسیم کر دیتے.ربوہ کے شروع کے ایام میں جب فضل عمر ہسپتال کچا سا بنا ہو ا تھا تو اس وقت اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی جو یاد گار مسجد کہلاتی ہے اور والد صاحب وہاں درس دینے جاتے تھے.ایک دن آپ درس دے رہے تھے تو اچانک چھت کا پنکھا ان کے اوپر آکر گرا سر میں چوٹیں آئیں اور بہت سا خون بہہ گیا.اس وقت ان کے ساتھ بھائی منیر الدین شمس بھی تھے وہ تو اکثر ابو کے ساتھ مسجد جاتے تھے پھر وہ پٹی وغیرہ کروا کر گھر آئے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 547 مجھ سے والد محترم کو بہت پیار تھا جمیلہ نام بھی آپ نے ہی رکھا.ایک دفعہ مجھے شادی سے پہلے بہت بُرا املیریا بخار ہوا اور اس بخار کے دوران ڈاکٹروں نے بہت بے احتیاطی کی اور ملیر یا بگڑ گیا اور اتنا بگڑ گیا کہ لگتا تھا کہ خدانخواستہ موت بھی واقع ہو جائے گی.اس وقت خواب دیکھا کہ بہت بڑا میز ہے اور میں نے بہت سا پھل کھایا ہے تو ابو پریشان ہوئے کہ شاید جنت کا پھل ہے اور وفات قریب ہے.اسی وقت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو بلوایا.میں بستر پر لیٹی تھی اور میرے ارد گر دسب لوگ جمع تھے امی ، ابو اور بہن بھائی لیکن اب کی قبولیت دعا سے بفضل خدا میں بالکل ٹھیک ہوگئی.الحمدللہ علی ذالک.والدہ محترمہ نے بہت قربانیاں کیں.ابو نے اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے کوئٹہ میں ایک خطبہ کے دوران اپنی اہلیہ کی قربانیوں کی بہت تعریف کی کہ میں آج جو خدمات سلسلہ کے اس مقام پر فائز ہوں اس میں میری بیوی کی بہت سی قربانیوں کا بھی دخل ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کے درجات بلند فرماتا چلا جائے.آمین.نامور خادم احمدیت مکرمہ عقیله شمس صاحبہ بنت مولا نائٹس صاحب) عاشق محمود، نامور خادم احمدیت، جید تبحر عالم، ممتاز خطیب و مقرر، بہترین منتظم، سلسلہ احمدیہ کے جان نثار خادم ، صاحب کشوف و رؤیا اور صالح بزرگ عالم روحانیت کے شہسوار، خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی اندوہناک وفات حسرت آیات سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک عظیم صدمہ اور زلزلہ کی حیثیت رکھتی ہے.حضرت شمس صاحب کی وفات بلا شبہ ایک قومی نقصان کی حیثیت رکھتی ہے.آپ سلسلہ احمدیہ کے چوٹی کے عالم اور محقق تھے.سلسلہ احمدیہ کے مختلف انتظامی شعبوں کی راہنمائی اور نگرانی کرتے ہوئے آپ نے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.خصوصاً سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی آخری علالت کے دوران آپ نے حضور کے دست راست بن کر حضور ہی کی ہدایات کے مطابق جماعتی تنظیم و تربیت کیلئے بے نظیر خدمات سرانجام دیں.خدا تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک کیلئے آپ کو بلا دعر بیہ اور انگلستان میں حق وصداقت کی منادی کرنے اور تشنہ روحوں کی پیاس بجھانے اور حق و صداقت کی متلاشی اور تڑپتی روحوں کی ہدایت کیلئے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 548 علمی، دینی، مالی اور جانی قربانیاں سرانجام دینے کی توفیق عطا کی.آپ کی بینظیر اسلامی خدمات، جذبئہ فدائیت اور تبحر علمی کے پیش نظر حضرت خلیفہ ثانی نے از راہ شفقت آپ کو ” خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا.افسوس صد افسوس کہ وہ بے نظیر انسان جو میدانِ مناظرہ کا شہسوار اور احمدیت کا شیدائی اور فدائی تھا وہ عظیم روحانی وجود جو گالیوں کا جواب مسکراہٹوں سے دیتا تھا، جس کے خطبات تشنہ روحوں کیلئے آب حیات سے کسی طرح کم نہ تھے ، جس کی تقاریر اور تحریریں دلوں میں ایک نیا جوش اور نئی امنگیں اور نئے ولولے پیدا کرتی تھیں، جس نے اپنی ساری زندگی تبلیغ و اشاعتِ اسلام و احمدیت میں صرف کر دی، جو صرف اور صرف اسلام اور احمدیت کیلئے زندہ رہاوہ سالہا سال تک اپنے گھر اور نوعمر بچوں اور اپنے بزرگ و معمر والدین سے دور حق و صداقت کی منادی کرتا رہا اور اعداء اسلام کے بالمقابل سینہ سپر ہو کر برسر پیکار رہا اور احمدیت کی ترقی کیلئے نمایاں کردار ادا کرتارہا جس کی زندگی صحابہ کرام کا زندہ نمونہ اور اسلام واحمدیت کی چلتی پھرتی تصویر تھی، جس نے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر اپنے خون کی قربانی دی تھی جو نہ صرف ایک فصیح اللسان اور شیریں بیاں خطیب و مقرر، قابل رشک ادیب و انشاء پرداز تھا بلکہ اس کے اندر ایک بہترین منتظم اور قابل مربی کی تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھیں جو اپنی تمام خوبیوں کی وجہ سے اپنے ہمعصروں پر سبقت لے گیا، جو خلافت احمدیہ کا زبردست حامی اور نظام سلسلہ کا فرمانبردار اور خلیفہ وقت کا جان نثار اور دست راست تھا ، جس نے عرب کے ریگزاروں کی اپنے خون سے آبیاری کی، جس کا ورثہ ایک بے نظیر علمی خزانہ اور قابل اولاد ہے، جس کی موت سے ہزاروں آنکھیں اشکبار ہوئیں اور ہزاروں دل تڑپتے رہ گئے.یہ دنیا نا پائیدار ہے ہر ایک نے بالآخر اپنے پیدا کرنے والے کے حضور حاضر ہونا ہے.اَلْقُلُوبُ تحزنُ وَالعيونُ تَدْمَعُ وإِنَّا على فراق شمسنا المحزونون (ماہنامہ مصباح ربوہ ، نومبر 1966ء) کچھ واقعات مولانا جلال الدین شمس صاحب کی زندگی کے تاثرات مکرمہ آمنہ خان صاحبہ کینیڈا) نوٹ : آپ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی بھانجی اور حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی کی نواسی ہیں اور آجکل کینیڈا میں مقیم ہیں.یہ تاثرات مکرمہ مبارکہ شمس اہلیہ مکرم ناصر الدین صاحب شمس ابن مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس مقیم امریکہ نے آپ سے جنوری 2008ء میں حاصل کئے اور مؤلف کو ارسال کئے.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 549 (1) حضرت مولانا شمس صاحب بچپن میں بہت کمزور تھے.وہ قادیان سے کافی دور پڑھنے کیلئے جایا کرتے تھے.ایک دفعہ بہت تیز آندھی چلی مولانا شمس صاحب اپنے کزنوں ( چچا کے بیٹوں ) کے ساتھ پڑھنے جاتے تھے اور وہ کافی دور پیدل چل کر جاتے تھے.جس دن بہت تیز آندھی چلی تو ان کے والد ماجد محترم امام الدین صاحب اور چچا اور تایا خیر الدین اور جمال الدین بھی اپنے بچوں کو ڈھونڈ نے چل پڑے کیونکہ وہ بچے بہت کمزور تھے اور ان کے والدین کو فکر تھی کہ آندھی ان کو اڑا کر نہ لے جائے.سو جب وہ سب ڈھونڈنے نکلے تو وہ سب مولانا جلال الدین شمس صاحب اور ان کے کزن ایک درخت کے ساتھ زور سے پکڑ کر کھڑے تھے تا کہ آندھی ان کو اڑا کر نہ لے جائے.ایک دن مولانا شمس صاحب نے اپنے والد محترم سے فرمایا کہ میں اب پڑھنے نہیں جایا کروں گا یہ سننے کی دیر تھی حضرت میاں امام الدین صاحب نے ان کے منہ پر زور سے تھپڑ مارا کہ یہ میں دوبارہ نہ سنوں.آپ اکثر ذکر کرتے کہ یہ طمانچہ میرے لئے رحمت کا موجب تھا کہ ایک چھوٹے سے گاؤں کا آدمی اتنے بڑے لوگوں سے ملتا ہے اور اللہ نے اتنی عزت دی.(2) جب مولانا جلال الدین شمس صاحب لندن چلے گئے تو آپ کے والد محترم سیکھواں چھوڑ کر قادیان منتقل ہو گئے.قادیان میں مولانا شمس صاحب نے ایک گھر بنایا اور اس گھر میں آپ کی ہلیہ، بیٹا، بیٹی بھائی اور بہن عائشہ بیگم بھی رہتی تھیں اور حضرت میاں امام الدین صاحب بھی رہتے تھے.گھر کا نقشہ کچھ اس طرح تھا سب سے اوپر والے پورشن میں مولا نا جلال الدین شمس صاحب کی فیملی رہتی تھی (مولانا شمس صاحب، سعیده بیگم صاحبہ، جمیلہ شمس صاحبہ ، ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب.فلاح الدین صاحب شمس 1947ء میں قادیان ہی میں پیدا ہوئے تھے اور وہ بھی ان کے ساتھ تھے ) نیچے والے پورشن میں ان کی بہن یعنی میری والدہ صاحبہ عائشہ بیگم اپنے بچوں کے ساتھ اور حضرت مولوی امام الدین صاحب اور ان کی اہلیہ رہتے تھے.(3) مولانا شمس صاحب جب لندن گئے تو ان کے جانے کے پانچ یا چھ سال بعد ان کے بھتیجے حمید احمد جو کہ بشیر احمد صاحب کا بیٹا تھا کی شادی تھی 18 سال کی عمر میں ہوئی تھی.ان کی شادی پر حضرت میاں امام الدین صاحب اچانک بیمار ہو گئے ان کا پیٹ خراب تھا.صرف آٹھ یا دس دن بیمار ہوئے.بیمار ہونے سے یعنی اپنی وفات سے چھ مہینے پہلے حضرت امام الدین صاحب نے خواب دیکھا کہ وہ اس دنیا سے جارہے ہیں اس لئے انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو خط لکھا کہ اب اتنے سال ہو گئے ہیں
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 550 مولانا جلال الدین شمس صاحب کو گئے تو برائے مہربانی ان کو بیرون ملک سے واپس بلا لیں.دراصل حضور کے خاندان کے گھر اور مولوی شمس کے گھر کے درمیان میں راستہ میں ریتی چھلا آتا تھا اور جب بھی مولوی امام الدین صاحب یہ خط لکھتے اور حضور کو دینے جاتے تو جب ریتی چھلا کے پاس پہنچتے تو وہ خط پھاڑ دیتے.کئی دفعہ انہوں نے یہ خط لکھا لیکن حضور کی خدمت میں پیش کرنے سے پہلے ہی راستے میں پھاڑ دیا اور وہ اسی بیماری میں جبکہ مولانا شمس صاحب انگلستان ہی میں تھے فوت ہو گئے.دراصل بیٹے سے محبت کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کو بہت یاد کرتے تھے مگر حضور کی خدمت میں یہ عرض کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پاتے تھے.چونکہ مولانا شمس صاحب کے بیٹے ڈاکٹر صلاح الدین کی شکل وصورت بہت زیادہ اپنے والد سے ملتی تھی اس لئے مکرم امام الدین صاحب ہمیشہ کہتے ” صلاح الدین کو میرے پاس بٹھا دو.مجھے اس میں جلال الدین نظر آتا ہے.ایک دفعہ مولانا جلال الدین شمس صاحب کراچی ڈرگ روڈ میں جماعت کے کسی کام کی غرض سے گئے.میرے گھر بھی گئے.میں اس وقت کراچی میں اپنے خاوند مرحوم کے ساتھ مقیم تھی جو Air force میں تھے.گرمیوں کے دن تھے اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی انہوں نے باہر Back yard میں چار پائی بچھائی اور وہاں لیٹ گئے اور کہنے لگے یہاں تو جنت کی ہوا ہے یہاں سے جانے کو دل نہیں کر رہا.یہ ان کا کراچی کا آخری سفر تھا.اس کے دو مہینے بعد آ پکی وفات ہوگئی.وہ واقعی اپنے وقت کے باکمال وجود تھے مکرم عبدالباری قیوم صاحب شاہد ) وہ واقعی اپنے وقت کے باکمال وجود تھے.آخر کیوں نہ ہوتا، کیونکہ وہ یکتائے زمانہ، فاضل اجلل استاد عالم با عمل شاگرد تھے.میں نے ان کی زندگی کے آخری دس سالوں کا بہت قریب سے ہو کر مطالعہ کیا.ان کے ساتھ ایک عہد گذرا اور ان سے بہت کچھ استفادہ کرنے کا موقعہ ملا.اس مشاہدہ کی بناء پر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ واقعی خالد بن ولید اور ابن عباس کے خطاب کہلائے جانے کے مستحق تھے.جن کا بچپن بھی قابل رشک اور جن کی جوانی بھی قابل رشک تھی.جن کی اعلیٰ صلاحیتوں کو بیمثال و با کمال اساتذہ نے جلاء بخشی اور اس طرح اس سونا نے کندن میں تبدیل ہو کر حضرت الصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی قوت قدسی اور خلافت حقہ کے حق میں ایک زندہ و تابندہ دلیل کی صورت اختیار کی.جس کی ساری زندگی بھی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس قابل رشک تھی اور جس کی وفات بھی قابل رشک.551 ان کی اقتداء میں باجماعت نماز کی ادائیگی میں ایک خاص لذت حاصل ہوتی تھی.ان کی تلاوت میں ایک عجیب روحانی کیفیت ہوتی کتنی ہی لمبی لمبی سورتیں انہیں از بر تھیں.وہ روزانہ نمازوں میں احادیث میں بیان فرمودہ ہدایات کے مطابق قرآنی سورتوں کا انتخاب کرتے.ان کی وفات کا صدمہ اب تک ہمارے دلوں میں گہرا اثر چھوڑے ہوئے ہے.ان کی وفات کے واقعہ پر یقین کرنے کو دل تو نہیں چاہتا لیکن قدرت کے اٹل قانون کے آگے کسے دم مارنے کی ہمت ہے.سو ہم بھی خدا تعالیٰ کی مشیت کے آگے جھکتے ہیں اور راضی برضا ہوتے ہیں.نامور مبلغ ( خالد احمدیت جلد اول مرتبه عبد الباری قیوم، جلد اول صفحات 14-15) ( حضرت مولوی محمد الدین صاحب سابق صدر صدرانجمن احمدیہ ) آپ کو صحابی ابن صحابی ہونے کا فخر حاصل تھا.بطور نامور مبلغ اور مجاہد اسلام آپ کی خدمات جلیلہ آنے والی نسلوں کیلئے شاندار نمونہ پیش کرتی ہیں.بلا د عر بیہ اور انگلستان میں بھی اسلام کی سربلندی اور احمدیت کی اشاعت میں ایک طویل عرصہ گراں قدر خدمات سرانجام دیں.آپ متبحر عالم، بلند پایہ مصنف فصیح مقرر اور جزار مناظر اسلام تھے.اپنی خوبیوں کی بدولت آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ے خالد کا خطاب پایا.اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ابتداء عہد خلافت سے لے کر اب تک لمبی خدمات دینیہ کی سعادت بخشی.(الفضل ربوہ 22 اکتوبر 1966ء) خداداد نور فراست مکرم مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق ، تاثرات مئی 2005ء) زمانہ طالب علمی میں میں بسا اوقات علمی مسائل سمجھنے کی غرض سے حضرت مولانا شمس صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا.آپ انتہائی خاکسار اور بے نفس انسان تھے.عجب اور خود پسندی بالکل بھی آپ کو پسند نہ تھی.آپ کی تقاریر وخطابات تحقیقی اور علمی تو ہوتی ہی تھیں اس کے ساتھ ساتھ روحانیت کی ایک رو چلتی تھی جس کی تاثیرات دلوں کو گرما دیا کرتی تھیں.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 552 مجھے مشرقی افریقہ میں اپریل 1962ء سے 1988 ء تک خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے.1964ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار تھے.پاکستان سے ایک دوست نے مشرقی افریقہ میں اپنے بھائی کو خط لکھا.انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ جماعت کا کیا ہوگا تو ہی ہمارے امام کو شفا عطا فرما.لمبی دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں رویا میں بتایا کہ جلال الدین شمس“.انہوں نے یہ خواب مشرقی افریقہ میں مقیم اپنے بھائی احمدی صاحب کو لکھ دی.احمدی صاحب نے وہ خط میرے سامنے رکھ دیا کہ انہوں نے یہ خواب بتائی ہے.میں نے انہیں سختی سے منع کر دیا کہ ہر گز بھی اس خواب یا خط کا کسی سے ذکر نہیں کرنا اور خاموشی اختیار کریں.اس کو صندوق میں بند کر کے محفوظ رکھیں.ایک خلیفہ کی موجودگی میں ایسی باتیں پھیلا نا مناسب نہیں.اگلے سال 1965ء میں خاکسار رخصت پر ربوہ آیا.سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا.خلاف ثالثہ کا انتخاب ہوا.خاکسار بھی وہاں موجود تھا.جب انتخاب ہو گیا تو اس تاریخی موقع پر مسجد مبارک میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایک مختصر سی تقریر کی اور بیان کیا کہ کراچی سے مجھے ایک دوست نے خط لکھا تھا کہ ” مولوی جلال الدین شمس، خلیفہ ثالث منتخب ہو گئے ہیں.میں نے اسی وقت انہیں جواباً لکھ دیا تھا کہ اس سے ہر گز بھی یہ مطلب نہ لے لینا کہ میں خلیفہ بنوں گا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہوگا اس کی برکت و تاثیر سے دین کا جلال ظاہر ہوگا اور کہ دین کائٹس طلوع ہوگا.مجھے مولانا کی یہ بات سن کر خط والی ساری بات یاد آگئی کہ یقیناً یہ خط انہوں نے ہی لکھا ہوگا اور یہ بات درست نکلی.یہ مولانا صاحب کی فراست خداوندی تھی کہ ایک لمحہ کیلئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ شاید یہ خواب میرے متعلق ہو.مجھے ایک بات یاد آئی کہ افریقہ میں ایک احمدی حسن توفیق سلیم تھے.انہوں نے جب مولانا شمس صاحب کی کتاب ? Where Did Jesus Die کا مطالعہ کیا تو مجھے کہنے لگے کہ یہ کتاب علمی اور تحقیقی تو ہے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لکھنے والے ایک ولی اللہ ہیں.میں نے عرض کیا کہ آپ کا مشاہدہ بالکل درست ہے وہ واقعی خدا داد بزرگ ہیں.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس سورج کی کرنیں 553 مکرمہ نسیم اکبر صاحبه وزیر آباد) 1965ء کے جلسہ سالانہ ربوہ پر حضرت مولانا شمس صاحب مرحوم نے احمدی خواتین کے جلسہ میں جو تقریر فرمائی تھی اس سے متاثر ہو کر ایک احمدی خاتون نے محترم شمس صاحب مرحوم کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا: السلام علیکم ورحمة الله و بركاته جلسه سالانه پوری آب و تاب کے ساتھ آیا اور روحانی اور دائمی خوشیاں لٹاتا ہوا چلا گیا.الحمد للہ.آپ کی تقریر کے متعلق پہلے تو پتہ چلا کہ بذریعہ ٹیپ سنائی جائے گی مگر بعد میں اعلان ہوا کہ آپ خود تشریف لا کر تقریر کریں گے.خدا کا شکر ادا کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہماری دعا سنی اور ہمارے ایمانوں کو تازہ کرنے کیلئے آپ جیسے عظیم الشان انسان تشریف لا رہے ہیں.تقریر کے دوران اچانک آپ کی پچھلی جانب نظر پڑی تو عجیب ایمان افروز نظارہ دیکھ کر دل خدا تعالیٰ کی حمد کرنے لگا.سورج کی کرنیں آپ پر اس طرح پڑ رہی تھیں جیسے انسان کی صورت کا عکس شیشے پر پڑتا ہے اور ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے شمس کی کرنیں ہمارے دلوں کو منور کر رہی ہیں.اللہ اللہ ! خدا تعالیٰ کی قدرتوں پہ قربان جس نے ہمارے سلسلے میں اتنی عظیم الشان الفضل ربوہ 20 اکتوبر 1966ء) شخصیتیں پیدا کر دیں.دلچسپ یادیں مکرم ملک منصور عمر احمد صاحب، مربی سلسلہ احمدیہ ) حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ، حضرت مولانا ابوالعطاء اور حضرت قاضی محمد نذیر لائلپوری ایک Batch کے تین بزرگان تھے.ہرسہ بزرگ چوٹی کے مناظر اور مقرر تھے.تقویٰ اور علم کے بلند مقام پر فائز تھے.تینوں ناظر اصلاح وارشاد بھی رہے ہیں.میں نے ایک دفعہ ان تینوں بزرگان کو دیکھا کہ شیروانی پہنے ہوئے سائیکلوں پر بیت العطاء کی طرف جارہے ہیں.یہ نظارہ بھی بہت اچھا لگا.حضرت مولانا شمس صاحب کا خطبہ یا تقریر نہایت سادہ اور عام فہم ہوتی تھی.آپ میانہ قد ، نورانی چہرہ
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 554 کے عالم باعمل تھے.سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیماری کے دوران اکثر آپ ہی خطبہ جمعہ یا عیدین پڑھاتے تھے.مسجد مبارک میں نمازیں بھی اکثر آپ ہی پڑھاتے.آپ کی طبیعت میں ہلکا پھلکا مزاح بھی تھا.ایک مرتبہ چند نکاحوں کا اعلان مسجد مبارک میں کر رہے تھے.ایجاب و قبول کے دوران آپ نے پوچھا ” منظور ہے؟ شاید وہ شخص ابھی موقعہ پر پہنچا نہ تھا.آپ نے یہ نکاح فارم ایک طرف رکھتے ہوئے فرمایا ” اچھا! رائے بدل گئی ہوگی نماز جمعہ کے بعد مسجد مبارک میں ایک نکاح کا اعلان کر رہے تھے.خطبہ نکاح میں آپ نے یہ بھی بیان کیا کہ حتی الوسع نماز جمعہ کے بعد نکاحوں کا اعلان نہیں رکھنا چاہئے.کیونکہ قرآنی حکم ہے کہ فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ.(سورہ الجمعة :11) لہذا قرآنی ارشاد کے مطابق نماز جمعہ کے بعد ایسے فنکشنز نہیں رکھنے چاہئیں بلکہ کاروبار زندگی کیلئے پھیل جانا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا چاہئے.سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایام بیماری میں حضور کے ارشاد پر ایک دفعہ آپ نے عید الفطر پڑھائی.چونکہ حضور بیمار تھے لہذا احباب نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے ملاقات کیلئے لائن بنالی.حضرت مولانا شمس صاحب بھی حضرت میاں صاحب سے ملاقات کیلئے محراب سے تشریف لائے.آپ کے پہنچنے تک کافی لمبی لائن لگ چکی تھی اور ملاقات شروع ہو چکی تھی.مولا نائٹس صاحب نے آگے بڑھ کر ملاقات نہیں کی بلکہ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ پیچھے لائن میں لگ گئے اور اپنی باری پر حضرت صاحبزادہ صاحب سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا اور مصافحہ کرتے ہوئے حضرت میاں صاحب کو اپنا نام بتلایا ” خاکسار جلال الدین شمس“.آپ نے اپنی بچی کی شادی کے موقعہ پر اسے جہیز میں روحانی خزائن اور تفسیر کبیر کے سیٹ دیئے.مسجد مبارک میں آپ ایک نکاح کا اعلان کر رہے تھے.جب لڑکے نے کہا کہ ” منظور ہے تو پردہ کے پیچھے بعض بچیوں کے ہنسنے کی آواز آئی.غالباً دلہن کی سہیلیاں ہوں گی.ہنسنے کی آواز محترم مولانا شمس صاحب پر بہت ناگوار گزری.آپ نے فرمایا کہ لڑکے نے کہا ہے کہ منظور ہے تو آپ ہنس پڑی ہیں اگر وہ کہتا کہ نامنظور ہے تو کیا آپ رو پڑتیں؟ زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ خاکسار نے محترم مولانا شمس صاحب کو کچھ سوالات لکھ کر دیئے کہ مجھے ان کے جواب مطلوب ہیں.آپ نے فرمایا بعد میں مجھے ملکر جواب لے لینا.میں ایک عرصہ تک آپ کی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 555 خدمت میں حاضر نہ ہوسکا.ایک جمعہ کے موقعہ پر انہوں نے خطبہ میں میرا نام لے کر سوالات بتائے اور وو پھر ان کے جوابات بھی دیئے.جب آپ الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر تھے میں ان دنوں تعلیم الاسلام کالج میں پڑھتا تھا.آپ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ کتب ” روحانی خزائن کے نام سے طبع کروا ر ہے تھے اور ساتھ ساتھ الشرکۃ کی طرف سے یہ اعلان بھی شائع ہورہے تھے کہ اتنی رقم جمع کروا دیں تو روحانی خزائن کا سیٹ مل جائیگا.میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا بہت شوق ہے لیکن میں سیٹ کی قیمت یکجا طور پر نہیں دے سکتا.پانچ روپے ماہانہ قسط دے سکتا ہوں.اس پر انہوں نے مکرم شیخ عبد الخالق صاحب کو (جو دفتر میں کارکن تھے ) کہا کہ اس نوجوان کو حضور کی کتب کا بہت شوق ہے لہذا ان کی رقم اقساط میں وصول کی جائے اور روحانی خزائن سیٹ کی کتب دے دی جائیں.مجاہد احمدیت (محررہ 12 مئی 2007ء) ( حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری) مجاہد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ایک فعال وجود تھے.مومن کیلئے سب سے بڑی خوشی اس بات میں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نوازی فرما کر اسے قبول کرلے.اس کی خامیوں پرستاری فرمائے.اس کی خدمات کو شرف قبولیت بخش دے اسے حسنِ خاتمہ سے بہرہ ور فرمائے.اللہ تعالیٰ دلوں کو جانتا ہے، وہی نیتوں اور ارادوں سے واقف ہے اس لئے عمل صالح کی اصل مقبولیت خدا تعالے کے ہاں ہی ہوتی ہے.ہاں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے دلوں میں اس کی قبولیت پیدا کر دیتا ہے.گویا شُهَدَاءُ اللهِ فِی الْأَرِض “ کی شہادت بھی مقبولانِ بارگاہ ایزدی کے حق میں قائم ہو جاتی ہے.مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور قبولیت عطا فرمائی.ان کی خدمات دینیہ کو نو از ا.سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے انہیں اُن کی زندگی میں خالد احمد بیت کے خطاب سے سرفراز فرمایا.ان کے علمی کارناموں کی تعریف فرمائی.حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب نے ان کی زندگی میں ان کے کارناموں کو سراہا اور انہیں حضرت حافظ روشن علی صاحب کی یاد گار قرار دیا.ان کی وفات کے بعد سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی زندگی کو قابلِ رشک قرار دیا اور ان کی نیکی اور
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 556 تقویٰ کی تعریف فرمائی.اُن کیلئے خاص دُعا کی.جماعت احمدیہ کے ہزاروں نیک لوگوں نے آپ کی جدائی کے صدمہ کو محسوس کیا اور آپ کی خدمات کا اعتراف کیا.ایک عرب شاعر نے کہا تھا: کہ اے انسان ! جب تو پیدا ہوا تھا تو روتا تھا اور لوگ خوشی سے ہنستے تھے اب تو زندگی میں ایسے اعمال کر کہ جب تیری موت کے وقت وہ روتے ہوں تو تو خنداں و فرحاں اس جہان سے جائے.یہ بات حضرت مولانا شمس کے حق میں بھی پوری صادق آتی ہے.دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے آمین یارب العالمین.(ماہنامہ الفرقان جنوری 1968ء) پرانی یادیں از مکرم طه اقزق صاحب صدر جماعت اردن، اردو ترجمہ مکرم محمد طاہر صاحب ندیم عربیبک ڈیسک لندن) نوٹ: یہ تحریر مکرم طلا قزق صاحب نے مکرم منیر الدین صاحب شمس کو 2006 ء میں لکھ کر دی تھی.اب ان کی وفات ہو چکی ہے.مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس آج سے تقریباً 78 سال قبل یعنی 1928ء میں حیفا تشریف لائے.اس وقت میری عمر نو سال تھی.قبل ازیں وہ دمشق میں تھے اور وہاں مولویوں کے ساتھ وفات مسیح ناصری علیہ السلام اور صداقت مسیح موعود علیہ السلام جیسے مسائل پر بحث مباحثہ کرتے رہے اور جب مولوی ان کا دلیل و برہان کے ساتھ مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے تو بعض جرائم پیشہ لوگوں کو بھیج کر آپ کو قتل کروانا چاہا.یہ سخت سردی کا موسم تھا اور آپ نے ایک موٹا کوٹ پہن رکھا تھا.ان مجرموں میں سے ایک نے آپ پر چاقو سے وار کیا اور چاقو دل تک جا پہنچا لیکن چاقو اور دل کے درمیان اتنا ہی فاصلہ رہ گیا جتنی کہ اس کوٹ کی موٹائی تھی جو آپ نے پہنا ہو اتھا.آپ نے اس کوٹ کو بہت سنبھال کر رکھا ہو اتھا اور جب حیفا تشریف لائے تو بھی یہ کوٹ آپ کے پاس تھا اور میرا خیال ہے کہ آپ اسے قادیان اپنے ہمراہ ہی لے گئے تھے.حملہ آوروں نے یہی سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.چنانچہ انہوں نے آپ کو خون میں لت پت چھوڑ کر اپنی راہ لی اور ہمسایوں نے آپ کو ہسپتال پہنچایا.جناب مکرم منیر اکھنی صاحب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ فوراً ہسپتال پہنچے لیکن آپ کو ملاقات کی اجازت نہ مل سکی کیونکہ مولانا صاحب کی حالت بہت تشویشناک تھی.آپ نے ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر سے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 557 اجازت لی اور حضرت مولانا سے ملے تو انہوں نے منیر احصنی صاحب کو کہا کہ میرے گھر کے فلاں کمرہ میں فلاں جگہ پر سونے کی اشرفیاں پڑی ہوئی ہیں ان میں سے کچھ فروخت کر کے قادیان حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دعا کا تار بھیج دیں.مکرم منیر احصنی صاحب نے ایسا ہی کیا اور ان کو جوابی تار بھی موصول ہو گیا کہ آپ کی تارمل گئی ہے اور ہم نے دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے دعا سن لی ہے.کسی کو علم نہ تھا کہ یہ سونے کی اشرفیاں کہاں سے آئی ہیں.امام مہدی کی تلاش میں شام کے پہلے احمدی مکرم مصطفیٰ نو یلاتی صاحب علوی شیعہ تھے.ان کے والد صاحب امام مہدی کی تلاش میں تھے اور وہ اس غرض سے اپنے چند بھائیوں کے ساتھ ایران، عراق اور شاید افغانستان کے علاقوں تک بھی گئے تھے لیکن انہیں امام مہدی کے بارہ میں کوئی خبر نہ مل سکی تاہم ان کا راسخ اعتقاد تھا کہ یہی وقت ظہور مہدی کا ہے.مصطفیٰ نو یلاتی صاحب کے والد صاحب نے یہ اشرفیاں اپنے بیٹے کو دی تھیں اور کہا تھا کہ جب تم امام مہدی سے ملو تو اس کو میری طرف سے یہ اشرفیاں بطور چندہ دینا اور جب مولانا جلال الدین صاحب شمس دمشق تشریف لائے تو مصطفی نو یلاتی صاحب وہ پہلے شخص تھے جو بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے اور انہوں نے اپنے والد کی دی ہوئی اشرفیاں مولانا جلال الدین صاحب شمس کے حوالہ کردیں.جب آپ صحت یاب ہوئے تو آپ کو مرکز جماعت قادیان سے حکم ہوا کہ آپ حیفا فلسطین چلے جائیں.آپ حیفا تشریف لائے اور شارع الناصر پر ریلوے اسٹیشن کے قریب کرایہ کے گھر میں رہنے لگے.اسی جگہ پر میرے والد ، میرے چچا اور مکرم رشدی بسطی صاحب بھی کام کرتے تھے.انہی دنوں اخباروں نے لکھنا شروع کیا کہ حیفا میں ایک مبلغ آئے ہیں اور ایسے عقائد کی طرف بلاتے ہیں جن کو لوگ نہیں جانتے.رشدی بسطی صاحب مولانا جلال الدین صاحب شمس سے ملنے گئے اور نہ جانے کتنی دفعہ ملاقات کی حتی کہ بیعت کر لی.میرے والد صاحب بھی ایک دفعہ گئے اور جب واپس آئے اور سوئے تو خواب میں ان کو آواز سنائی دی کہ اے حاجی جلدی کرو احمدی تو مدینہ منورہ کے بھی متولی بن گئے ہیں.چنانچہ وہ اگلے دن ہی گئے اور بیعت کر لی.میرے والد صاحب دیسی جڑی بوٹیوں سے علاج و معالجہ کیا کرتے تھے اور اس میں بڑے حاذق
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 558 طبیب تھے.آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا.خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے اور اکثر حضور علیہ السلام کے عربی قصائد کے اشعار گنگناتے رہتے تھے.ایک دفعہ میرے والد صاحب نے مولانا جلال الدین صاحب شمس کو دعوت پر بلایا اور بازار سے ان کے لئے مٹھائی لے کر آئے لیکن مولانا صاحب کسی وجہ سے چند دن تک نہ آ سکے.میری والدہ نے وہ مٹھائی گھر میں ایک اونچی جگہ پر رکھ دی تا کہ کوئی اسے نہ چھیڑے.میں آتے جاتے کسی نہ کسی چیز کے بہانے اس مٹھائی سے تھوڑا تھوڑا کھاتا رہا.چنانچہ جب مولانا صاحب ہماری دعوت پر تشریف لائے اور گھر والوں نے مٹھائی پیش کرنا چاہی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس میں سے صرف ایک چوتھائی حصہ رہ گیا تھا.پھر شاید میرے والد صاحب ان کے لئے بازار سے مزید مٹھائی لائے تھے.ایک دفعہ مولانا جلال الدین صاحب شمس گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران کچھ عرصہ کے لئے ہمارے گھر پر ٹھہرے.ہم روزانہ نماز فجر کے بعد سمندر پر جا کر تیرا کی کیا کرتے تھے.میں نے اسی سال تیرا کی سیکھی تھی.میرے والد صاحب کے بعد میرے چچانے بیعت کی اور ان کے ساتھ صرف دو خاندانوں کے علاوہ ( اور ان دو خاندانوں نے 1948ء میں بیعت کر لی تھی ) باقی تمام اہل کہا بیر نے بھی بیعت کر لی.اس سے قبل وہ شاذلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے.مولا نا جلال الدین صاحب شمس ایک دفعہ مصر تشریف لے گئے اور وہاں جماعت کی بنیاد ڈالی.وہاں آپ نے مکارم اخلاق سوسائٹی میں خطاب فرمایا.آپ کے خطاب کے دوران جامعہ الازہر کے ایک شیخ تشریف لائے اور بلند آواز سے کہا کہ اے مقرر رُک جا.لوگوں نے سمجھا کہ شیخ صاحب نے اس بات سے لیکچر سے بیزاری کا اظہار کیا ہے.لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان شیخ صاحب نے کہا کہ اے مقرر اپنا خطاب جاری رکھو کیونکہ ہمیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہمارے درمیان ابن عباس خطاب فرما رہے ہوں.اس دورہ کے بعد جب آپ حیفا تشریف لائے تو اہل کہا بیر مردوں عورتوں اور بچوں نے آپ کا پر جوش استقبال کیا.وہ یہ عربی قصیدہ پڑھ رہے تھے.طلع البدر عـــــليــــنـــــــا مــــن ثـنيـــــــات الوداع وجب الشـ ب الشكــر عـلينـــامـــا الـــــــه داع مولانا جلال الدین صاحب شمس کا حیفا میں پہلا مناظرہ شیخ کامل القصاب کے ساتھ ہوا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی.یہ شیخ شام سے بھاگ کر آیا تھا اور فرانسیسی قابضوں کے خلاف
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 559 جدو جہد میں مصروف تھا.اس وقت فرانسیسیوں اور انگریزوں کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار تھے اور فرانسیسیوں کے شام پر قبضہ کی وجہ سے کئی جنگجو بھاگ کر فلسطین آگئے تھے.انہوں نے فلسطین میں ایک مدرسہ کھولا تھا جس پر اسلامی طرز عمل کی چھاپ تھی.میں بھی اسی مدرسہ میں پڑھتا تھا.اس میں نظم ونسق بہت اعلیٰ درجہ کا تھا اور حتی بہت ہوا کرتی تھی.سکول ٹائم کے بعد بھی طلباء کے کئی دستے بازاروں میں راؤنڈ پر رہتے تھے اور اگر کسی طالب علم کو خلاف ادب اور خلاف اخلاق حرکت کرتے ہوئے دیکھتے تو اگلے دن سکول میں اس کو سب کے سامنے بلایا جاتا تھا اور بعض اوقات ڈنڈے مارے جاتے تھے.مدرسہ سے چھٹی کے بعد لڑ کے قطار میں نکلتے تھے اور جس کا گھر آجاتا تھا وہ قطار سے نکل کر گھر میں داخل ہو جاتا تھا.ایک دن ہم قطار میں جارہے تھے کہ سامنے سے مولانا جلال الدین صاحب شمس آگئے میرے ساتھ کے لڑکے نے ان کو دیکھ کر گالی دی.میں خاموش رہا.جب میرا گھر آیا تو میں گھر میں داخل ہوتے وقت اس لڑکے کو بھی گھسیٹ کر اندر لے آیا اور اسے کہا کہ میں تمہیں جان سے مار دوں گا.وہ مجھ سے معافیاں مانگنے لگ گیا چنانچہ میں نے اسے ایک ہلکا ساطمانچہ مار کر چھوڑ دیا.اس لڑکے نے میری شکایت شیخ کامل القصاب کے بیٹے سے کی جو کہ نہایت کرخت اور بہت سخت آدمی تھا.اس نے مجھے بلایا اور جب میں پہنچا تو ناشتہ کر رہا تھا.ناشتہ سے فارغ ہو کر اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس لڑکے کو کیوں مارا تھا؟ میں نے کہا کہ اس نے میرے والد کے دوست کو گالی دی تھی.اس نے پوچھا کہ کون ہے تمہارے والد کا دوست؟ میں نے کہا کہ احمدی مبلغ مولانا جلال الدین صاحب شمس.اس پر اس نے میری توقع کے بالکل برخلاف صرف اتنا کہا کہ ایسا دوبارہ نہیں کرنا اور جانے دیا.مولانا جلال الدین صاحب شمس کی دو باتیں خاص طور پر مشہور تھیں.ایک یہ کہ انہیں جب بھی کسی قرآنی آیت کا حوالہ مطلوب ہوتا تھا تو وہ اکثر اسی جگہ پر مل جاتا تھا جہاں سے وہ قرآن کریم کھولتے تھے یا اس کے ایک دو صفحات ادھر یا اُدھر.دوسری بات یہ کہ وہ غیر معمولی حاضر جواب تھے.بسا اوقات لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں پوچھے جانے والے سوال کا پہلے علم تھا اسی لئے تو اتنا مناسب اور جلدی جواب دے دیا ہے.ایک دفعہ مولانا جلال الدین صاحب شمس ہمارے گھر تشریف لائے.ان کے ہاتھ میں چند خطوط اور اخبار تھا.میں نے انہیں ایک کمرہ میں بٹھا دیا.انہوں نے خط پڑھا اور وہیں تخت پر ہی لیٹ گئے اور اخبارمنہ پر رکھ لیا.میں سمجھا کہ شاید آرام فرمارہے ہیں اسلئے میں کمرہ سے نکل گیا.جب کچھ دیر کے بعد میرے والد صاحب اور چچا جان تشریف لائے اور کمرہ میں گئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مولانا جلال الدین صاحب شمس
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس رور ہے ہیں.پوچھنے پر بتایا کہ اس خط میں ان کے بھائی کی وفات کی خبر تھی.560 ایک دفعہ بیت المقدس کے ایک مولوی شیخ محمد مقدسی آئے اور بیعت کر لی اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ ہی رہنے لگے.میرے چچا کو ان کے بارہ میں کسی قدر انقباض ہی رہا.ایک دن میرے چچانے خواب میں دیکھا کہ یہ مولوی سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں اور عیسائی عورتوں کو بری نظر سے دیکھ رہے ہیں.انہوں نے جب یہ خواب مولانا جلال الدین صاحب شمس کو سنایا تو انہوں نے فوراً اس مولوی کو بوریا بستر گول کر کے رخصت ہو جانے کا حکم دے دیا.اس وقت مولانا ابوالعطاء صاحب بھی وہاں پہنچ چکے تھے.انہوں نے فرمایا کہ ہم تو لوگوں کو احمدیت میں داخل کرتے ہیں اور آپ ان کو نکالے جاتے ہیں کیونکہ مولانا ابوالعطاء صاحب میرے چا کو جانتے نہیں تھے لہذا کسی وضاحت کے بغیر مولانا جلال الدین صاحب شمس دوسری طرف منہ کر کے ہنس دیئے.دوسری طرف مذکورہ مولوی صاحب نے بستر بور یا لیا اورسیدھا گرجا گھر پہنچا اور عیسائی ہو گیا.مولانا جلال الدین صاحب شمس اس وقت کہا بیر سے گئے جب کہ آپ نے شام، فلسطین اور مصر میں جماعت قائم کر لی تھی اور متعدد قیمتی کتب تصنیف فرما ئیں.پھر دوسری دفعہ آپ حیفا اس وقت تشریف لائے جب آپ برطانیہ سے کامیابی کے ساتھ اپنا کام مکمل کر کے واپس قادیان جارہے تھے تو راستہ میں دمشق اور فلسطین سے ہو کر گئے.اس وقت آپ دمشق سے منیر الحصنی صاحب کو بھی ساتھ لے آئے تھے اور پھر ان کو قادیان بھی ساتھ ہی لے کر گئے.آپ نے حیفا میں وہ مسجد دیکھی جس کا سنگ بنیاد آپ نے خود رکھا تھا اور آپ کے اعزاز میں کئی پارٹیاں ہوئیں اور نظم و نثر میں آپ کی تعریف میں بہت کچھ کہا گیا.( تا ثرات حاصل کر دہ جولائی 2006 ء از مکرم منیر الدین صاحب شمس) خدا نما شخصیت مولانا عبدالعزیز بھانبڑی صاحب) آپ کا ایک دعائیہ واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں.1965ء کی بات ہے سید نا حضرت مصلح موعودؓ ان ایام میں صاحب فراش تھے.حضرت مولانا موصوف قائم مقام ناظر اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات بجالا رہے تھے اور جمعہ کے فرائض بھی آپ ہی ادا کرتے.خاکسار کا بیٹا ان ایام میں لاہور میں زیر تعلیم تھا اور ہوٹل میں رہائش پذیر تھا.اس کے امتحانات سر پر تھے کہ بیمار ہو گیا.بچے نے مجھے کہا کہ میرے لئے دعا کریں میری تو کوئی تیاری
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 561 بھی نہیں ہے.میں نے سارا ماجرا حضرت مولانا شمس صاحب کی خدمت میں عرض کیا اور دعا کی درخواست کی.آپ نے دعا کرنے کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی مجھے ایک قلم عنایت کیا اور تاکید کی کہ شرط یہ ہے کہ اسی قلم سے جملہ پرچے دینا ہوں گے تو ضرور کامیابی ہوگی.چنانچہ اسی تاکید کے ساتھ وہ قلم میں نے بیٹے کو لا کر دیدیا.میرے بچے نے اسی قلم سے امتحان دیا.جب رزلٹ نکلا تو یونیورسٹی میں اس کی پانچویں پوزیشن تھی.بعد میں اس نے ایم ایس سی بھی کی.آج میرا بیٹا خدمات سلسلہ بجا لا رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مولوی صاحب کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ نہایت اعلیٰ نمبروں سے فائز المرام ہوا.( تا ثرات حاصل کردہ نومبر 2005 ء ) شفیق و مهربان بزرگ مکرم اقبال احمد نجم صاحب.مبلغ سلسلہ استاذ جامعہ احمدیہ انگلستان) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعلیٰ درجہ کی جماعتی خدمات پر جماعت کے تین بزرگوں کو خالد احمدیت کا خطاب عطا فرمایا تھا.ان تین بزرگوں میں سے ایک آپ بھی تھے.جس جلسہ سالانہ پر ربوہ میں یہ خطاب آپ کو دیا گیا میں بھی اس میں موجود تھا گو بچہ تھا تبھی سے مجھے یہ خواہش رہی کہ میں ان بزرگوں کے قریب ہوسکوں چنانچہ ان میں سے دو بزرگوں کے قریب ہونے کا مجھے موقعہ ملا.ایک ان میں سے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ہیں.میں باوجود کم عمری کے آپ سے خاصا متاثر تھا، متاثر رہا ہوں.میری ملاقات آپ سے تب شروع ہوئی جبکہ میرے دادا جان بابو محمد بخش صاحب انبالوی نے وقف بعد از ریٹائر منٹ کیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی ڈیوٹی حضرت شمس صاحب کے ساتھ الشركة الاسلامیہ میں لگادی.ضیاء الاسلام پریس میں آپ کے تحت بطور مینجر کام کرتے رہے اور گولبازار ربوہ میں الشرکتۃ کے دفتر میں بیٹھا کرتے تھے.1959ء میں میں نے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے میٹرک کیا اور دفتر الشرکتہ میں میرا آنا جانا شروع ہوا جہاں حضرت شمس صاحب سے ملاقات ہو جاتی تھی.آپ مجھے خاص محبت اور شفقت سے دیکھتے اور توجہ فرماتے اور میں نے آپ کو ایک محبت کرنے والا شفیق و مہربان بزرگ پایا.آپ کوئی نہ کوئی علمی کام کر رہے ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود مجھے آپ کی شفقت حاصل رہتی تھی.اپنے زمانہ تبلیغ کے حالات سناتے اور فلسطین میں جو آپ نے مباحثات فرمائے ان کا ذکر فرماتے.آپ نے کہا بیر میں ایک بڑی جماعت بنائی جو آج تک خاصی فعال ہے اور آپ کے لئے ایک صدقہ جاریہ بھی ہے.میں آپ کی باتوں کو غور سے سنتا اور میرے دل میں یہ جذبات پیدا ہوتے کہ کاش مجھے بھی آپ کی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 562 طرح خدمت دین کی توفیق ملے.میں نے اپنا تخلص نجم رکھا یہ سوچ کر کہ شمس تو آپ ہیں اللہ تعالیٰ مجھے ایک چھوٹا سا نجم ہی بنا دے تو اس کی بڑی مہربانی ہوگی.میں نے جب 1964ء میں بی اے کیا اور پھر میں نے وقف بھی کر دیا اور حضرت شمس صاحب کو بتایا کہ میں نے وقف کر دیا ہے تو آپ بہت خوش ہوئے مجھے اٹھ کر سینے سے لگا لیا اور میرے لئے دعا بھی کی.میں سمجھتا ہوں یہ آپ کی دعاؤں اور مربیانہ توجہ کا ثمرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ قدم اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی.آپ دن رات سلسلہ کے کاموں میں مصروف نظر آتے تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا سیٹ چھپوانا شروع کیا.اس کا انڈیکس ترتیب دیا تو میرے دل میں اس سیٹ کے حاصل کرنے کی زبردست خواہش پیدا ہو گئی.میں نے حضرت مولانا سے عرض کیا کہ ڈیڑھ سو روپے قیمت سیٹ یکمشت تو ادا نہیں کر سکتا اور میں اسے حاصل بھی کرنا چاہتا ہوں کوئی صورت نکالیں تو پوچھنے لگے دس روپے ماہانہ تو دے سکتے ہونا ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں اتنے تو دے سکتا ہوں.چنانچہ فرمایا ہر ماہ دس روپے دے دیا کرو پندرہ ماہ میں ادائیگی ہو جائے گی اور سیٹ بھی تمہارا ہو جائے گا.چنانچہ میں سب سیٹ کی کتب لے آیا جو رہ گئی تھیں وہ جوں جوں شائع ہوتی رہیں مجھے ملتی رہیں.اسی طرح بعد میں ملفوظات کا سیٹ بھی مل گیا اور دیگر کتب جو شائع ہوتی تھیں مجھے نصف قیمت پر یا بعض بلا قیمت بھی ملیں.اس طرح سے میری ذاتی لائبریری بن گئی.ایک دن فرمانے لگے کہ مطالعہ کے دوران جو بات خاص طور پر دل کو اچھی لگے اور خاص اثر ہو وہ نوٹ کرلیا کرو.پھر قرآن کریم اور تفسیر کبیر سے اور احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور ملفوظات سے اس بات کے حق میں آیات و احادیث و اقتباسات اکٹھے کرلیا کرو اور پھر ان کو ترتیب سے لکھ لو تو مضمون تیار ہو جائے گا پھر اسے جس اخبار یا رسالہ میں مناسب سمجھو چھپنے کے لئے بھجوا دیا کرو.چنانچہ مضامین لکھنے کی تکنیک آپ نے مجھے سمجھائی اور میں نے الفضل، مصباح، خالد اور تشحیذ میں مضامین لکھنے شروع کر دیئے اور اب تک بہتیرے میرے مضامین اشاعت پذیر ہو چکے ہیں.یہ مضمون آپ کی راہنمائی کا ہی کرشمہ تھے.آپ کی ربوبیت سے مجھے خاصا حصہ ملا.ہر وقت دل سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرما دے.آمین.تاثرات محررہ مئی 2006 ء.حاصل کردہ مکرم منیر الدین صاحب شمس)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس میرے محبت کرنے والے ماموں 563 مکرم احمد حسین صاحب در ولیش قادیان) غالباً 1957ء کی بات ہے کہ نا چیز ربوہ ماموں کے گھر ملنے گیا تو ماموں جان کی صحت کے بارہ میں باتیں ہوئیں.میری ممانی جان صاحبہ نے بتایا کہ ان کی صحت خراب رہتی ہے آرام نہیں کرتے.دفتر سے چھٹی کے بعد فائلیں لے آتے ہیں اور کام کرتے رہتے ہیں باوجود توجہ دلانے کے آرام نہیں کرتے وغیرہ.خیر میں اسی وقت ان کے دفتر کی طرف چل پڑا.چھٹی ہونے والی تھی.چھٹی ہوئی دیکھا کہ انہوں نے دو تین فائلیں پکڑیں، دفتر بند کیا اور گھر کو چل پڑے میں بھی ساتھ ہی ہولیا.راستہ میں میں نے عرض کی کہ ماموں جان آپ کی صحت خراب رہتی ہے فائلیں ساتھ کیوں لے چلے ہیں.دفتر میں ہی کام کر لیا کریں اور گھر میں آرام کیا کریں تو بہتر ہوگا.نہایت پیار سے مجھے فرمانے لگے.” احمد حسین آپ یہ بتائیں کہ حضور مجھے کام کرنے کے لئے دیں اور میں کہوں کہ نہیں کرتا ؟ پھر میں خاموش ہو گیا.مجھے معلوم ہوا کہ ماموں جان ایک بار زیادہ بیمار ہو گئے اور لاہور ہسپتال میں علاج ہوا.ڈاکٹروں نے فارغ کیا اور ہدایت دی کہ اب آپ نے دو تین ماہ کسی ٹھنڈی جگہ جا کر آرام کرنا ہے کوئی کام نہیں کرناگر آپ آتے ہی ربوہ دفتر حاضر ہو کر کام کرنے لگ گئے.چند دن بعد لاہور کا ڈاکٹر ربوہ آیا تو حضور سے ماموں جان کی صحت کے بارہ میں بات ہوئی.ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کو کام سے ابھی منع کیا گیا ہے اور کوئٹہ وغیرہ آرام کیلئے دو ماہ جانے کا کہا ہے.حضور کو جب یہ علم ہوا تو حضور نے فوراً بھجوا دیا.مجھے معلوم ہے کہ ہم بہت غریب تھے ماموں جان کی پوزیشن کے مقابل ہم کچھ بھی نہ تھے مگر جب بھی ملتے نہایت محبت پیار سے ملتے پاس بٹھاتے جس کا مجھ پر از حداثر تھا.چنانچہ 1947ء میں جب درویشی کا زمانہ شروع ہوا.قادیان میں آخری امیر جماعت ماموں جان ہی تھے.قادیان میں رہنے کے لئے بہت سے لوگوں نے نام دیئے تھے.پہلی شفٹ میں رکھنے کے لئے جب قرعہ اندازی ہوئی تو میرا نام جانے والوں میں تھا.میں ماموں جان سے ملا کہ میں قادیان میں رہنا چاہتا ہوں میرا رہنے کا انتظام کیا جائے.فرمانے لگے کہ آپ کی قربانی قبول ہو گئی آپ جائیں دو ماہ بعد آجائیں تو میں نے عرض کی ہم غریب آدمی ہیں دوبارہ نہیں آسکیں گے میں قادیان کی آخری حالت دیکھنا چاہتا ہوں جیسے بھی ہو مجھے رکھا جائے.میرے اصرار پر آپ نے مکرم محمد حیات صاحب کا تب جو حلقہ مسجد مبارک کے نگران تھے ان کو لکھ دیا کہ اگر کوئی جانے والا ہو تو اس کی جگہ احمد حسین کو رکھ لیں.اس طرح سے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 564 میرا قادیان درویشی میں رہنا بھی ماموں جان کی شفقت سے ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے آمین ثم آمین.ماموں جان کے دستخطوں سے ہی سب درویشان کو درویشی نمبر کے کارڈ ملے تھے.تاثرات محررہ اپریل 2006 ء.حاصل کردہ مکرم منیر الدین صاحب شمس) ساد و لوح بزرگ ( مکرم ملک محمد سلیم صاحب مربی سلسلہ ) خاکسار 1963ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوا.1964ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا.1964ء میں ہی حضرت مولانا شمس صاحب سے تعارف ہوا.آپ سادہ لوح بزرگ تھے اور طلباء سے بھی بسا اوقات مشورہ کرتے تھے.چونکہ خاکسار نو مبائع تھا اس لئے مجھ سے زیادہ شفقت کا سلوک فرماتے.ایک دفعہ فرمانے لگے کہ چلو دورہ پر چلتے ہیں اور تم چونکہ نو مبائع ہو اس لئے اس کا تبلیغ و تربیت پر اچھا اثر پڑے گا.میں نے عرض کیا کہ رخصت نہیں ملے گی.آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں جامعہ سے چھٹی لے دیتا ہوں.بہر حال آپ طلباء سے شفقت کا سلوک فرماتے.1965-66ء کی بات ہے.آپ کے بیٹے مکرم منیر الدین صاحب شمس نے جب میٹرک کر لیا تو خاکسار سے از راہ شفقت فرمانے لگے کہ کیا خیال ہے میٹرک کے بعد جامعہ بھیجا جائے یا اسے BA کرا کر بھیجا جائے؟ تو خاکسار نے عرض کیا کہ میٹرک کے بعد جامعہ بھیجنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ شاہد کی ڈگری مکمل کرتے کرتے وہ BA یا MA بھی پرائیویٹ کر سکتے ہیں.چنانچہ بعد میں مکرم منیر الدین شمس صاحب میٹرک کے بعد جامعہ میں داخل ہوئے اور اب آپ کامیاب مبلغ کی حیثیت سے خدمات سلسلہ بجالا رہے ہیں.ایفائے عہد اور پابندی وقت (انٹرویو 5 ستمبر 2005ء) تاثرات مکرم پروفیسر رفیق احمد ثاقب صاحب ربوہ) اس عاجز کا حضرت مولانا شمس صاحب سے زیادہ تعلق تو نہیں رہا تا ہم دوتین ذاتی مشاہدات بیان کرنا چاہتا ہوں.1952ء کی بات ہے یہ عاجز ان دنوں فضل عمر ہوٹل تعلیم الاسلام کالج لاہور میں مقیم تھا.ہوسٹل میں تقاریر کا مقابلہ تھا جس میں مجھے بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی.میری تقریر کا موضوع ” اسلام کا اقتصادی نظام تھا.ان ایام میں ہوٹل میں مرکزی نمائندے آتے ہی رہتے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 565 تھے.ہمارے اس پروگرم کے وقت حضرت مولانا شمس صاحب آئے ہوئے تھے اور اس تقریری مقابلہ کے منصف اعلیٰ تھے.میری اس مقابلہ میں تیسری پوزیشن آئی.جب مولانا موصوف نے نتائج کا اعلان کیا تو میرے نام پر یہ ریمارکس بھی دیئے کہ ان کی تقریر تو اچھی تھی لیکن اس کا زیادہ حصہ موضوع سے ذرا ہٹ کر تھا.ان کا اصل موضوع تو اسلام کا اقتصادی نظام تھا مگر تقریر میں انہوں نے زیادہ تر اسلام کا حکومتی نظام پیش کیا ہے.میری یہ ان دنوں ابتدائی تقریر تھی اتنا ماہر تو تھا نہیں.میں نے اس تقریر کیلئے سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر اسلام کا اقتصادی نظام“ سے استفادہ کیا تھا اور چونکہ اس کا ابتدائی حصہ اسلامی نظام حکومت پر ہے اس لئے یہی حصہ تقریر میں پیش کر دیا.بہر حال مجھے حضرت مولانا صاحب کے ان ریمارکس سے بڑی مدد ملی کہ تقریر ہمیشہ موضوع کے مطابق ہی کرنی چاہئے.1964 ءکا ذکر ہے خاکساران ایام میں رسالہ خالد کام پر تھا کہ غالبا یوم مصلح موعود کے سلسلہ میں خاکسار ان کے گھر حاضر ہوا اور مضمون لکھنے کی درخواست کی.حضرت مولا نائٹس صاحب نے حامی بھر لی کہ میں مضمون لکھ کر دیدوں گا.مجھے یاد ہے کہ اتنے Short Notice میں توقع نہیں تھی کہ مضمون لکھا جائے گا.جب خاکسار حسب وعدہ مضمون لینے گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ واقعہ آپ نے اتنے کم وقت میں نہایت خوش خط اور سلیس اردو میں رسالہ خالد کیلئے ایک مضمون لکھ کر رکھا ہو ا تھا جو عنایت فرما دیا.اس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ پابندی وقت اور ایفائے عہد آپ کی شخصیت کا حصہ تھی.آپ کی پابندی وقت کے حوالہ سے ایک اور بات یہ کہ سید نا حضرت مصلح موعودؓ کے ایام بیماری میں آپ مسجد مبارک میں نمازیں پڑھاتے اور خطبہ جمعہ بھی دیتے تھے.اس دوران میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ مسجد مبارک میں کبھی تاخیر سے پہنچے ہوں.انجمن کے کواٹرز میں آپکا گھر تھا.آپ وہاں سے پیدل نکلتے اور عین نماز کے وقت مسجد میں پہنچ جاتے اور کبھی بھی تاخیر سے نہ پہنچتے.آپ کے انداز خطابت میں ایک خاص Rythem ہوتا تھا.آواز نہ بہت اونچی اور نہ ہی بہت دھیمی تاہم نہایت اثر انگیز ہوتی تھی.تقاریر و خطابات اور خطبات کے دوران آپ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ مائیک مونہہ سے مناسب فاصلے پر ہو تا کہ سامعین تک کما حقہ آواز پہنچے.تاثرات فروری 2006ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس جذبہ غیرت دینی کا ایک واقعہ 566 مکرم محترم کیپٹن شیخ نواب الدین صاحب.ربوہ) میرٹھ (یوپی ہندوستان ) میں نوچندی کا میلہ بہت مشہور ہے.یہ سردیوں میں ہر سال بڑی دھوم دھام سے ہوتا تھا.اور ایک ہفتہ رہا کرتا تھا.میلوں لمبے بازار لگتے تھے جہاں اشیائے خورونوش کے علاوہ بھی ہر قسم کی ضروریات ملتی تھیں.لاکھوں نفوس کا مجمع ہوتا تھا.ملک کے بڑے بڑے رؤسا، راجے ،نواب اپنے لئے علیحدہ علیحدہ زمین ریز رو کروا کر اپنی اور مہمانوں کی رہائش وغیرہ کے لئے وسیع کیمپ لگواتے تھے.ہزاروں دکاندار ملک کے بڑے بڑے شہروں سے آن کرد کا نہیں لگواتے تھے.ہزاروں تانگے اور ٹمٹیں دوسرے اضلاع سے محض اس میلہ کے دوران آمدنی پیدا کرنے کے لئے آن کر شہر کی کمیٹی کو پورے سال کا ٹیکس ادا کرتے تھے لیکن ہجوم کا یہ عالم ہوتا تھا کہ اول تو سواری کا ملنا ہی مشکل ہوتا تھا اور ملتی بھی تھی تو حال یہ ہوتا تھا کہ ایک ایک یکہ میں دس دس سواریاں ٹھونسی جاتی تھیں.میں 1924ء میں ملازمت کے سلسلہ میں وہاں متعین تھا.میرا نو جوانی کا زمانہ تھا اور طبیعت ایسے میلوں سے متنفر تھی.میرا قیام محترم شیخ محمد حسین صاحب ( ریٹائر ڈ ڈپٹی انسپکٹر مدارس اسلامیہ ) کے ہاں تھا.ان کے بچوں کو نو چندی دیکھنے کا شوق تھا.ڈپٹی صاحب کے ارشاد پر کہ وہاں سے چند ضروریات زندگی خرید لائیں گے اور بچوں کا شوق بھی پورا ہو جائے گا میں اُن کے ساتھ چلا گیا.ضروریات تو ہم نے جلد ہی خرید لیں.بازاروں میں سخت بھیڑ تھی اس لئے واپسی پر اس سے بچنے کے لئے ہم رؤسا کی قیام گاہوں کی طرف چلے گئے جہاں ہمیں ایک احمدی دوست ملا جس کے ساتھ ایک منحنی سا نوجوان تھا جسکی عمر بمشکل اٹھارہ سال کے قریب معلوم ہوتی تھی.ہمارا قافلہ تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ ایک خیمہ کے آگے وسیع شامیانہ کے نیچے جلسہ ہوتا دکھائی دیا.تقریر ہورہی تھی اور سینکڑوں کی تعداد میں سامعین کرسیوں پر بیٹھے تھے.قریب جا کر معلوم ہوا کہ آریہ سماج کا جلسہ ہو رہا ہے.ہم بھی بیٹھ گئے.تقریر کا سارا زور اسلام کے خلاف اعتراضات پر تھا.چند منٹ کے بعد تقریر ختم ہوئی تو اُس نوجوان نے اُٹھ کر صد رجلسہ سے درخواست کی کہ چونکہ اسلام پر اعتراضات کئے گئے ہیں اس لئے ہمیں ان کے جوابات کا موقعہ دیا جائے.سامعین میں مسلمانوں کی خاصی تعداد تھی جو نو جوان کی جرات پر حیران ہو کر اُس کی طرف متوجہ ہو گئے.صدر جلسہ نے یہ عذر کر کے کہ یہ اُن کا اپنا پرائیویٹ جلسہ ہے کہا کہ اسکی اجازت نہیں دی جاسکتی.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 567 اس نوجوان نے وہیں اعلان کر دیا کہ اگر ہمیں یہاں اجازت نہیں دی جاتی تو ہم کھلے میدان میں ان اعتراضات کا جواب دیں گے.مسلمانو! چلے آؤ.اُسی وقت جلسہ سے سب مسلمان اُٹھ کھڑے ہوئے اور سامنے کے کھلے میدان میں جمع ہونے شروع ہو گئے.چند نو جوان نزدیک کے کسی نواب صاحب کے ڈیرہ سے کرسیاں اور میز لینے دوڑے گئے.لیکن اُن کو جواب ملا یہ سامان ہمارے نجی مہمانوں اور دوستوں کی ملاقاتوں کیلئے رکھا ہوا ہے مذہبی اکھاڑوں کے لئے نہیں.اتنے میں ایک شخص کہیں سے لکڑی کا ایک سٹول اُٹھا لایا.نوجوان جھٹ اس پر کھڑا ہو گیا اور اس نے اس سٹول پر کھڑے ہو کر تقریر شروع کر دی.چند منٹ میں ہم نے دیکھا کہ وہ منتشر مجمع ایک منظم جلسہ کی صورت اختیار کر گیا.اُسی آن نواب صاحب کے ڈیرہ سے میز کرسیاں بھی پہنچ گئیں اور سٹیج لگ گیا.لوگ گھاس پر ہی بیٹھ گئے.قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تقریر ہوئی جس سے مسلمان تو خوش تھے ہی ہندؤوں کو بھی سوال جواب یا اعتراض کی جرات نہ ہوئی.یہ نوجوان مولانا جلال الدین شمس تھے جن کواللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے بعد میں قابلِ رشک خدماتِ دین کے مواقع سے نوازا جس کے نتیجہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے جن تین نامور ہستیوں نے ”خالد کا خطاب پایا ،مولانا جلال الدین صاحب شمس ان میں ایک تھے.آنانکه هست کوچه ثبت است انصار اللہ میں خدمات جاناں مقام جریده عالم دوام شاں شاں مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب، ایڈیشنل قائد عمومی مجلس انصار اللہ یوکے) جماعت احمدیہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بعض خوش قسمت بزرگ ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور جذبہ خدمت دین کو اس طرح احمدیت پر نچھاور کیا ہے کہ ان کے نقوش پانے تاریخ پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے اور انہوں نے آئندہ نسلوں کے لئے ایسی داستانیں رقم کر دیں کہ ان کی صدائے بازگشت مدت مدید تک سنی جاتی رہے گی.آئندہ آنے والے لوگ ان کی قربانیوں اور اپنے خون سے شجر احمدیت کی آبیاری کی بھینی بھینی خوشبو سونگھتے رہیں گے اور اپنے لئے مشعل راہ پائیں گے.نیز انہوں نے اپنی علمیت اور شبانہ روز کاوشوں کی مقبولیت کا سر ٹیفکیٹ اپنی زندگی ہی میں حاصل کر لیا.انہی خوش قسمت بزرگوں میں سے ایک نمایاں نام حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کا ہے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 568 جنہوں نے اپنی زندگی ہی میں نمایاں خدمات کی بناء پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ سے خالد احمدیت کا لقب پایا.اپنی لسانی اور قلمی خدمات کے موتی ہر جگہ بکھیرے اپنوں اور غیروں سے داد تحسین حاصل کی.پُر وقار چہرہ اور متاثر کرنے والی شخصیت کے مالک تھے.اپنوں کیلئے نرم، رافت اور محبت کے موتی بکھیر نے والے اور دشمن کیلئے بنگی تلوار اور ان کے چھکے چھڑانے والے تھے.جس میدان میں بھی گئے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے سہارے فتح یاب ہو کر نکلے.جماعتی خدمات کے علاوہ ذیلی تنظیموں میں بھی نمایاں خدمات کی توفیق پائی.تاریخ انصار اللہ کی رو سے آپ نے 1960 ء سے اپنی زندگی کے آخری ایام (1966ء) تک قائد تعلیم.قائد تربیت اور قائد اصلاح وارشاد کی حیثیت سے نمایاں خدمات کی توفیق پائی.چہرہ پر ایک خاص نورانی رعب تھا.مجلس میں تشریف لاتے تو ان کی رائے کو ایک خاص قسم کی اہمیت دی جاتی اس میں علمیت.تجربہ اور دعاؤں کا عنصر شامل ہوتا.سلسلہ کے بہت سے اعلیٰ درجہ کے فرائض کی بجا آوری آپ کے سپرد تھی اس لئے بہت ہی معمور الاوقات تھے.1956ء میں انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر شوری انصار اللہ میں یہ فیصلہ ہوا کہ انصار اللہ کا اپنا جھنڈا ہو اور انعامی واعزازی جھنڈا بھی دیا جایا کرے.اس جھنڈے کا ڈیزائن کیا ہو اور رنگ اور سائز کیا ہو یہ تفصیلات طے کرنے کے لئے شوری نے ایک سب کمیٹی مقرر کی جس کے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ساتھ دوسرے اہم رکن آپ تھے.بین الاقوامی طور پر انصار اللہ کے پاس جو جھنڈا ہے وہ اس سب کمیٹی کا تشکیل کر دہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے افراد میں اسلامی تعلیم کو راسخ کرنے کے لئے امتحان کا طریق اپنانے کا اشارہ دیا تھا جسے انصار اللہ نے پہلی دفعہ اپنے سالانہ لائحہ عمل میں اس وقت شامل کیا جب آپ مجلس انصار اللہ عالمگیر کے قائد تعلیم تھے.آپ بڑی محنت سے انصار اللہ کے لئے کورس تجویز کر کے مجلس عاملہ مرکزیہ سے اس کی منظوری لیتے اس کو اخبارات اور رسائل میں شائع کرواتے اور انصار کو ان امتحانات میں شامل ہونے کی تحریک فرماتے اور زعماء کی وساطت سے پرچے حل کروا کر مرکز میں منگواتے اور خود مارکنگ (Marking) کر کے نتیجہ مرتب کرتے اور اس کو اخبارات میں شائع کرواتے تاکہ حوصلہ افزائی کے علاوہ دوسرے انصار کو بھی تحریک ہو سکے.آج نصف صدی سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود انصار اللہ میں امتحانات کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے.ان بزرگوں نے جو نقوش پا چھوڑے تھے جماعت آج بھی ان کی پیروی کر کے مفاد اٹھا رہی ہے.خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 569 حضرت مولانا صاحب خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک زبر دست مناظر، مقرر اور مجمع پر چھا جانے والے بزرگ تھے.تبلیغی میدان میں ہمیشہ اپنی علمیت کے نور اور فصیح البیانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ کے طفیل دشمن کے چھکے چھڑاتے رہے.شجاعت اور بہادری کا وہ جو ہر موجود تھا کہ پیغام حق پہنچانے کے لئے خطرناک سے خطر ناک حالات میں بھی گردن اونچی کر کے اور سینہ تان کر دشمن کا مقابلہ کرتے تھے اور جماعت کے لئے اپنا خون پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا.انصار اللہ کے لائحہ عمل میں تربیت کا خاص پروگرام ہوتا تھا جس کے لئے مرکز میں بھی اور باہر ضلعی سطحوں پر انصار اللہ کے تربیتی اجتماعات منعقد ہوتے تھے.مجلس انصار اللہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ان اجتماعات میں مرکزی نمائندہ کے طور پر شریک ہوتے اور اپنی شیریں بیانی سے احسن رنگ میں تربیت کا فریضہ ادا کرتے.خاکسار کو بھی ان کے ساتھ بعض سفروں میں ساتھ جانے کا موقعہ ملا.شخصیت کا اثر بہر حال سامعین پر ضرور پڑتا ہے جن اجتماعات میں حضرت مولانا اور حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مرحوم جیسی شخصیات شامل ہوتیں ان کی حاضری معمول کی حاضری سے بہت بڑھ جاتی.ان اجتماعات میں خاص طور پر ربوہ میں منعقد ہونے والے مرکزی اجتماعات کے موقعہ پر سوال و جواب کا پروگرام ضرور رکھا جاتا.سوالوں کے جوابات دینے والے بزرگوں میں حضرت مولانا صاحب کا نام ضرور شامل ہوتا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس خالد احمدیت کو اعلی علیین میں جگہ دے اور ان کی اولاد کونسلاً بعد نسل ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اعلی رنگ میں خدمت دین کی توفیق ( تا ثرات محررہ 14 جون 2006 ء.حاصل کردہ مکرم منیر الدین صاحب شمس ) بخشے.آمین.میرے والد ماجد مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس مرحوم شکاگو، امریکہ.پسر حضرت مولانا شمس صاحب) گزشتہ ماہ اکتوبر 1966ء کی پندرہ تاریخ کو جب میں صبح سویرے ہسپتال سے گھر جانے لگا تو حضرت خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ارسال فرمودہ تار ملا.اس میں میرے نہایت ہی پیارے ابا جان کی وفات کی اطلاع تھی.گھر سے اتنی دور یہ جانکاہ خبر ملتے ہی آنکھوں میں آنسو آگئے اور دل و دماغ غم اور افسوس سے ماؤف ہو گئے.آپ حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوائی کے فرزند تھے.دادا جان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کے مقرب صحابہ میں سے تھے اورا با جان خود بھی صحابہ میں شامل
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 570 تھے.بچپن سے ہی طبیعت میں نرمی ، شرافت اور شفقت بھری ہوئی تھی.اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت رکھتے تھے اور ہر ایک کا خیال رکھتے تھے.سکول کے زمانہ میں جب آپ قادیان سے سیکھواں جاتے تو سب کیلئے ضرور کچھ نہ کچھ خرید کر لے جایا کرتے تھے.آپ نے مدرسہ احمد یہ قادیان میں دینی تعلیم حاصل کی.بچپن میں ہی زندگی اسلام کیلئے وقف کر دی.جون 1925ء میں آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دمشق تبلیغ کی غرض سے بھیجا جہاں آپ نہایت کامیابی سے فرائض سر انجام دیتے رہے.قریباً دو سال کے قیام کے بعد آپ پر کسی نامعلوم شخص نے خنجر سے حملہ کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضرت مصلح موعود کی دعاؤں کے طفیل آپ شفایاب ہو گئے.اس اثناء میں وہاں مکرمی منیر احصنی صاحب احمدیت میں داخل ہو گئے.ان کا خاندان بہت معزز ہے.اس طرح سرزمین دمشق میں احمدیت کا بیج بو دیا گیا.اس وقت حکومت نے آپ کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ آپ وہاں سے حضرت مصلح موعود کی اجازت اور ارشاد کے مطابق فلسطین تشریف لے گئے اور وہاں حیفا میں نیا مرکز قائم کیا.اس طرح کہا بیر کے مقام پر ایک احمدیہ مسجد تعمیر ہوئی جس کی بنیاد حضرت ابا جان نے رکھی.یہاں کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مخلص ہے.اس کے بعد آپ واپس قادیان تشریف لے آئے.میں جب دو سال کا تھا تو ابا جان حضرت مصلح موعود کے ارشاد کے مطابق لندن تشریف لے گئے اور محترم مولانا عبد الرحیم درد صاحب کی واپسی پر آپ وہاں کے امام مسجد مقرر ہوئے.دوسری جنگ عظیم کا زمانہ آپ نے وہیں گزارا.اس دوران بمباری ہوا کرتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا.مشن ہاؤس سے بہت ہی قریب بم گرتے رہے حضرت مصلح موعود اور دیگر احباب کرام کی دعاؤں کے طفیل آپ بالکل محفوظ رہے.ابھی آپ لندن میں ہی تھے کہ میرے دادا جان کی قادیان میں وفات ہوگئی اور انہیں یہ صدمہ پردیس میں ہی برداشت کرنا پڑا.قادیان میں واپسی پر آپ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر میں کام کرتے رہے.انقلاب 1947ء کے موقع پر جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لاہور تشریف لے آئے تو آپ کو قادیان کی جماعت کا امیر مقرر کیا گیا.آپ وہاں سے اکتوبر 1947ء میں لاہور تشریف لائے.لاہور میں آنے کے بعد آپ صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر میں مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے.ربوہ کی بنیاد پڑنے پر آپ یہیں آگئے اور تاوفات و ہیں قیام پذیر رہے.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 571 حضرت ابا جان بہت سادہ اور صاف گوانسان تھے.ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور اپنے ماتحتوں سے ہمدردی کا سلوک کرتے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیماری کے ایام میں آپ خطبہ جمعہ بھی دیا کرتے تھے اور عموماً آپ اصلاحی پہلو کی طرف ہی توجہ دلایا کرتے تھے.ان کی اچانک وفات سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے.ہمارا خاندان ایک عظیم بزرگ شخصیت سے محروم ہو گیا اور ہم ان کی دعاؤں سے محروم ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب رکھے.آمین ثم آمین.(الفضل ربوہ 20 دسمبر 1966ء) سلسلہ احمدیہ کے جرنیل محترمہ فوزیہ میر صاحبہ بنت جناب میر ظفر علی صاحب وزیر آباد ) یوں تو یہ سلسلہ ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا.ہر ایک انسان نے مرنا ہے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ہمارے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جید عالم، زبردست ستون اور بڑے بہادر جرنیل تھے جن کی وفات کا صدمہ جانکاہ ابھی تک تازہ ہے.یوں ہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا شمس ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور واقعہ میں موجود ہیں گو بظاہر ہماری مادی آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہیں کیونکہ جس شخص نے مقام شہداء کا بلند مرتبہ پایا اس کا نام رہتی دنیا تک زندہ ہے اور وہ یقینا زندہ ہے.آپ کا نام اور کام تا قیامت زندہ رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ لیکن آپ کی یاد کا زخم وقت بھی مندمل نہیں کر سکتا کیوں کہ وقت کے ہاتھوں یہ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے.پھر ایسا کیوں نہ ہو، زندہ تو میں اپنے مشاہیر کی یاد کو ہمیشہ ہمیش تازہ رکھتی ہیں اس لئے کہ ایسی ہستیاں صدیوں کے بعد پیدا ہوتی ہیں اور اپنے وقت پر سورج کی طرح روشن ہو کر ایک دنیا کو منور کر دیتی ہیں تو ایسی گھٹا ٹوپ تاریکی چھوڑ جاتی ہیں جہاں دُور دُور تک روشنی کے سائے بھی نظر نہیں آتے.ایسا ہی مولانا کی وفات سے جو خلا جماعت میں پیدا ہوا اس کا پُر ہونا بہت دشوار ہے.آہ کیسی پیاری ہستی تھی جو ہم سے بہت جلد روپوش ہوگئی.خاکسارہ نے حضرت مولانا شمس کو سب سے پہلے 1964ء کے ماہ دسمبر میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر دیکھا جس پر آپ کی تقریر سننے کا بھی مجھے اتفاق ہوا.پھر دوبارہ 1965ء میں مولانا مرحوم کو قریب سے دیکھنے اور تقریر دلپذیر سننے کا ایک دفعہ پھر موقعہ میسر آیا.علاوہ اس کے جلسہ کے
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 572 ایام میں خصوصاً درس سے مستفید ہونے کی توفیق ملی جس کا اثر آج تک میرے دل پر ہے.آپ کی نہایت شیریں، دلکش اور پُر سوز آواز میرے کانوں میں میٹھا میٹھا رس گھولتی.آپ کے یہ شیریں پُر از معرفت اور دلر با درس دلوں پر عجیب کیف اور سرور کا اثر چھوڑتے.ان کو قدرت نے ایسا خداداد رعب ودیعت فرما رکھا تھا اور وہ کچھ اس دلآویز انداز سے اپنے مضمون کو شروع فرماتے کہ سننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی.آپ سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں کوشاں رہتے اور ہر کام کو بڑی دلجمعی اور بڑی تندہی سے سرانجام دیتے تھے.یہی وجہ تھی کہ آپ رات دن سلسلہ کے کاموں میں مصروف رہتے تھے.دل میں ایک ہی لگن تھی کہ ہر انسان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لے آئے.تاریخ آپ کے سنہری کارناموں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی.آپ کی بے شمار خوبیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی.آپ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے.آپ اعلیٰ اخلاق کے مالک ، بڑے وضعدار، بڑے ہی پارسا ، حد درجہ بنی، بے حد ہمدرد، بڑے دعا گو، نہایت سادہ مزاج، بارعب، عالم و فاضل، عشق رسول میں فنا اور ہر ایک سے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے تھے.آپ حق کا اظہار کرنے سے کبھی رکتے نہ تھے اور بڑی سے بڑی طاقت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے.یہی وجہ تھی آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ” خالد“ کے لقب سے نوازا.آپ نے اپنے شفیق استاد حضرت علامہ حافظ روش علی کے آخری پیغام کو جو بطور وصیت انہوں نے اپنی وفات سے قبل اپنے شاگردوں تک پہنچایا تھا کہ ” میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں عملی جامہ پہنایا.انہوں نے سمجھا کہ سلسلہ کا تمام تر کام میرا اپنا ہی کام ہے اور آخری دم تک اس اہم ذمہ داری کو (ماہنامہ الفرقان، جنوری 1968ء) نہایت خوش اسلوبی سے نباہتے چلے گئے.میرے شفیق باپ ( مولانا خواجہ منیر الدین صاحب شمس ابن حضرت مولانا شمس صاحب متعلم جامعہ احمد یہ ربوہ ) نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ خَيْرُ كُمْ خَيْرُ كُمْ لا هَلِهِ وَأَنَا خَيْر كُم لَا هَلِی کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہو اور میں تم میں سے اپنے اہل کیلئے سب سے بہتر ہوں.یعنی اس کی گھر میلو زندگی نہایت خوشگوار ہو اور اولاد کی تربیت کی طرف اسے دھیان ہو.میں یہاں سے ہی ابتداء کرتا ہوں.والد صاحب گھر میں ہر ایک سے نہایت شفقت سے پیش آتے تھے اور محبت کا سلوک کرتے تھے.جب کبھی ہم آپس
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 573 میں کسی بات پر جھگڑتے تو نہایت آرام سے سمجھاتے اور بعض دفعہ خاموش رہتے لیکن ہمیں آپ کی خاموشی میں بھی یہ محسوس ہوتا کہ آپ کو سخت تکلیف اور رنج ہے اس لئے ہم حتی الوسع آئندہ جھگڑنے وغیرہ سے رُکے رہتے.آپ میں صبر کا مادہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ تھا کیونکہ آپ کو جب کبھی کوئی رنج ہوتا یا کوئی بات آپ کی مرضی کے خلاف ہوتی تو باوجود یکہ آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا لیکن آپ نہایت صبر و استقلال سے کام لیتے.جس طرح اب میرے بڑے بھائی ڈاکٹر صلاح الدین شمس اور فلاح الدین شمس کو امریکہ میں اپنے عظیم والد کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا بعینہ والد صاحب کو بھی لندن میں حضرت دادا جان کی جدائی کا زخم کھانا پڑا تھا اور آپ نے نہایت صبر اور استقلال دکھلایا تھا.والد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلیل القدر صحابی ( جو کہ 313 صحابہ میں سے ہیں یعنی حضرت میاں امام الدین) کے فرزند جلیل تھے اور والد صاحب خود بھی صحابی تھے اور آپ خود ہی فرمایا کرتے تھے کہ میں اُس وقت چھوٹا سا تھا جب کہ میں نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا تھا.“ جب ابا جان پیدا ہوئے اور دادا جان آپ کو حضرت مسیح موعود کے پاس لے کر حاضر ہوئے تو ابا جان اوپر کی طرف ہی دیکھتے رہتے تھے تو اُس وقت حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ یہ ایک دن دین کی خدمت کرے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح وقت کا فرمان اور پیشگوئی نہایت شان سے پوری ہوئی.عرب جہاں تبلیغ کرنا نہایت مشکل امر ہے.حضرت خلیفہ ثانی کو ایک شخص نے کہا تھا کہ آپ کو عرب ممالک میں مبلغ بھجوانے کی ضرورت نہیں آپ دوسرے ممالک کی طرف ہی توجہ دیں کیوں کہ عرب میں آپ تبلیغ نہ پھیلا سکیں گے لیکن حضور نے والد صاحب کو بطور مبلغ عرب میں بھجوایا اور والد صاحب نے وہاں ایک ایسی مخلص جماعت پیدا کر دی کہ جن کو دیکھ کر رشک آتا ہے.محترم غلام باری صاحب سیف فرماتے ہیں کہ :” میرے نزدیک عرب ممالک میں سب سے بہترین احمدیت کو سمجھنے والے منیر الحصنی صاحب ہیں اور منیر احصنی صاحب والد صاحب کے ذیعہ ہی احمدیت کے باغ میں داخل ہوئے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت منیر احصنی صاحب عرب ممالک میں احمدیت کے باغ کا ایک پھل نظر آتے ہیں.اسی طرح عرب ممالک میں جو سب سے پہلی ہماری مسجد بنی اس کا سنگ بنیاد بھی والد صاحب نے رکھا تھا اور کہا بیر میں احمدیت کا آغاز آپ کے ذریعہ سے ہی ہو ا تھا.والد صاحب وادی سیاح کبابیر میں جب آئے تو ایک بزرگ عبادت کیا کرتے تھے تو والد صاحب اُن کے پاس چلے گئے اور تبلیغ کرنے لگے.اس طرح آہستہ آہستہ لوگ آنے شروع ہو گئے اور آپ کو تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا اور اس طرح
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 574 رفتہ رفتہ وہ سارا گاؤں احمدیت کے دامن سے وابستہ ہو گیا.اس گاؤں کا نام کہا بیر ہے.یہیں جماعت احمدیہ کی عرب ممالک میں سب سے پہلی مسجد ہے.والد صاحب نے جتنی مشکلات عرب میں برداشت کیں اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا.والد صاحب پر شام میں قاتلانہ حملہ ہوا اور دشمن رسول و مسیح نے آپ پر پہلے دو وار تاریکی میں کھڑے ہوکر اور اس وقت جب کہ آپ گھر کی سیڑھیوں پر قدم رکھنے ہی والے تھے خنجر کی دھار سے کئے خنجر چونکہ بہت زیادہ تیز تھا اس لئے والد صاحب کو زیادہ علم نہ ہوسکا.مگر پھر تیسر اوار دشمن نے نوک کی طرف سے کیا تو آپ بالکل نڈھال سے ہو کر گر پڑے خون کی دھار میں آپ کے جسم مبارک سے نکل نکل کر زمین میں جذب ہو رہی تھیں.دشمن آپ کو اپنی طرف سے مار کر چلا گیا.اُس وقت سوائے خدا تعالیٰ کے اور کون تھا جو آپ کو بچا لیتا؟ کچھ دیر بعد جب مکان والوں کو علم ہو ا تو آپ کو ہسپتال لے جایا گیا اور حضور کو اُسی وقت تار دیا گیا.تو حضور نے جواب میں فرمایا کہ پوری توجہ سے علاج کروایا جائے خواہ جتنی بھی رقم لگ جائے.ڈاکٹر وغیرہ سب نا اُمید ہو چکے تھے اور وہ یہاں تک کہہ اُٹھے کہ اب تو کوئی معجزہ ہی ہوگا کہ یہ بچ جائیں ورنہ ظاہر میں تو بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ زخم بہت گہرے تھے.جب والد صاحب کو کچھ ہوش آیا تو آپ نے منیر اکھنی صاحب سے کہا کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو حضور گوفورا اطلاع دے دینا وہ ضرور کسی دوسرے شخص کو میری جگہ بھجوادیں گے اور اُس کو میرا سامان بھی دے دینا.“ ذرا غور کریں کہ آپ کو کتنی خوشی تھی کہ آپ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں اور دوسرے یہ کہ آپ کو کتنا یقین اور بھروسہ تھا کہ احمدیت عرب میں پھیل کر رہے گی اور حضور کوئی نہ کوئی شخص ضرور بھجوائیں گے تا کہ احمدیت کی کرنوں سے جلد از جلد عرب کے گوشے جگمگا اُٹھیں.غرض یہ کہ آپ صحیح وقف کی جیتی جاگتی تصویر تھے.خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے شفا عطا فرمائی اور دوسرے دن لوگ کہتے ہوئے سنے گئے کہ یہ بچ کیسے گیا؟ انہیں کیا معلوم تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنے کو زندگی سمجھتے ہیں اور جو گھروں سے سروں پر کفن باندھ کر آتے ہیں ان پر کبھی بھی موت وارد نہیں کی جاسکتی.چنانچہ اس واقعہ سے بھی بہت سے اصحاب احمدیت سے متاثر ہوئے اور بعض جماعت میں داخل ہو گئے.تو دشمن نے جو تد بیر کی تھی اس کا اللہ تعالیٰ نے اچھا اور بہتر نتیجہ پیدا کر دیا.مَكَرُواوَ مَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ابّا جان کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مولانا غلام باری صاحب سیف فرماتے ہیں میں نے عرب کی جماعت کو سب سے زیادہ محبت شمس صاحب سے کرتے ہوئے محسوس کیا ہے.
حیات ٹمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 575 میرے ابا جان گھر کے نظم و نسق میں بھی پوری طرح ہاتھ بٹاتے تھے لیکن جماعتی کام بڑی تند ہی سے کرتے.مجھے یاد ہے کہ ابا جان جب دفتر سے واپس آتے تو بس ہاتھ میں قلم اور کاغذ ہوتے تھے اور لکھتے ہی رہتے تھے.نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کی فکر.بس اپنے کام میں ہی مشغول رہتے.بعض دفعہ والدہ صاحبہ بھی کہتیں مگر ہنس کر ٹال دیتے اور فرماتے کہ پھر کام کس طرح ختم ہو گا ؟ نمازوں میں آپ بہت با قاعدہ تھے.تہجد کی نماز بھی پڑھتے اور دعاؤں میں مشغول رہتے.خواہ سردی ہوتی یا گرمی لیکن جہاں تک میں نے دیکھا ہے آپ حتی الوسع مسجد میں تشریف لے جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے.ایک دفعہ عشاء کی نماز کے وقت جب کہ بارش ہورہی تھی اور بادل گھٹا ٹوپ تھے اور گرج رہے تھے، بجلی کڑک رہی تھی ، آپ نماز کیلئے تشریف لے گئے حالانکہ آپ کو دل کی تکلیف ہو جایا کرتی تھی.اُس دن ملک بشیر احمد صاحب کی ساس کا جنازہ تھا.آپ نماز کے بعد میت کی تدفین کیلئے بھی تشریف لے گئے اور جب تدفین کے بعد گھر آئے تو ہم حیران رہ گئے کہ آپ ننگے پاؤں واپس تشریف لا رہے ہیں اور جوتا اور چھتری ایک لڑکا پکڑ کر لا رہا ہے چنانچہ آتے ہی لیٹ گئے اور پتہ چلا کہ آپ کو دل کی تکلیف ہو گئی ہے.پھر آپ نے ” کو رومین وغیرہ پی تو کہیں جا کر طبیعت سنبھلی لیکن صبح دیکھا تو پھر فجر کی نماز میں تشریف لے جارہے ہیں.والد صاحب سیکھواں کے رہنے والے تھے جہاں تعلیم کی بہت کمی تھی.گو آپ کے والد صاحب یعنی میرے دادا جان احمدی ہو چکے تھے مگر پھر بھی چونکہ تعلیم کی کمی تھی اس لئے والد صاحب نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خود ہی محنت کی اور اس عظیم مقام پر پہنچے کہ آپ کو خالد کے لقب سے نواز اگیا اور جب ابا جان انگلستان سے واپس تشریف لائے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس حدیث ” سورج مغرب سے طلوع کرے گا “ کا مصداق آپ کو بھی قرار دیا.فالحمد للہ علی ذالک.سیکھواں کی گمنام ہستی جس کو کوئی نہ جانتا تھا، اس گمنام بستی سے ایک ستارہ نکلا جس نے اتنی ترقی کی اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے عشق میں ایسا ڈوبا کہ خدا تعالیٰ نے اُسے سورج بنادیا جس کی کرنوں نے مشرق و مغرب کو منور کیا.ڈاکٹروں کے مشورہ کے باوجود کہ آپ زیادہ کام نہ کریں ورنہ صحت خراب ہو جائے گی اور بھائی جان جو کہ ڈاکٹر ہیں ، ان کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود بھی آپ اسی طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ کے دین کی آبیاری میں مصروف رہے.اس طرح آپ نے دین کو دنیا پر مقدم رکھا.جب آپ کو انگلستان بھجوایا گیا تو اس وقت آپ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ایک بچہ ابھی بہت چھوٹا تھا
حیات ہنس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 576 اور ہماری بہن ابھی پیدا ہوئی تھی مگر پھر بھی آپ انگلستان تشریف لے گئے اور پھر مسجد کے امام مقرر ہوئے اور بڑی تندہی سے کام کرتے رہے.باہر بم پڑتے ، تو پہیں دندناتیں، گولیاں برستیں اور ہوائی حملے کے سائرن بجتے مگر آپ مسجد کے اندر خدا تعالیٰ پر توکل کئے ہوئے اپنے کام میں مشغول رہتے اور یہی پڑھتے له ربّ كلّ شي خادمک ربّ فاحفظني وانصر نی وارحمنی.آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ مسجد کے چاروں طرف ہم پڑتے تھے مگر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسجد محفوظ رہتی.چونکہ ابا جان انگلستان میں تھے اور میری بہن نے ابا جان کو نہیں دیکھا تھا تو وہ امی جان کر کہا کرتی کہ ایسے جئے ابا نال شی ویاہ ای کیوں کیتا سی؟ چنانچہ حضور نے بھی اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ ہمارے پاس ایسے مبلغ ہیں کہ جن کی بچیاں یہاں تک کہتی ہیں کہ کسی ایسے جئے ابا نال ویاہ ای کیوں کیتا سی جہمیٹرے آندے ای نہیں نیں.“ اسی طرح چونکہ میرے بڑے بھائی جان بھی جب کہ ابا جان انگلستان گئے چھوٹے ہی تھے اس لئے وہ امی جان سے پوچھا کرتے کہ امی ! سچ بتائیں کہ ابا جان ہیں بھی کہ نہیں ؟ روزانہ مجھے لڑکے چھیڑتے ہیں کہ تمہارے ابا تو ہیں ہی نہیں.تو امی سمجھا تیں کہ پھر خط کہاں سے آتے ہیں؟ تو وہ خوش ہو جاتے مگر صد افسوس کہ آج ایسا نہیں.آج ہم حقیقتا یتیم ہو گئے ہیں مگر ہمیں خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑے گا بلکہ اپنا سایہ ہمارے سروں پر رکھے گا.اے خدا تو ایسا ہی کر.والد صاحب مرحوم نے بڑی بڑی اور مشہور شخصیتوں تک بھی پیغام احمدیت پہنچایا جن میں شاہ فیصل بھی شامل ہیں.آپ نے بہت سے معرکۃ الآراء مناظرے کئے.چھوٹی عمر میں ہی مناظرے شروع کر دیئے تھے.روشن فکری اور حاضر جوابی بہت تھی.حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہان پوری اکثر سُنایا کرتے کہ: ایک جگہ عدالت میں ہم نے کتابوں سے حوالہ جات پڑھ کر سُنانے تھے مگر شاید کسی کتاب کا نام درج نہ کیا تھا.تو جب پوچھا گیا تو اُس وقت تمس صاحب بولے کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ اسلامی ملک ہے اور یہاں مسلمان رہتے ہیں یہ کتاب مل جائے گی مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ کتاب یہاں بھی نہ ہوگی اس لئے ہمیں مہلت دیجئے کہ ہم کتاب منگوا کر داخل کروا دیں.چنانچہ اس طرح موقعہ مل گیا.“ بچپن کی بات ہے مجھے یاد ہے کہ ہم ریلوے اسٹیشن کے قریب رہا کرتے تھے.اس زمانہ میں میں بہت زیادہ نمازیں پڑھا کرتا تھا اور پانچوں وقت اذان مسجد میں جا کر دیا کرتا تھا.حالانکہ میں چھ سات سال کا بچہ تھا اور ابھی نماز کا وقت بھی نہ ہوتا تو میں اذان دے دیا کرتا تھا.ایک دفعہ کا ذکر ہے میں نے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 577 اذان دی اور نماز شروع ہوگئی.کسی نے کہا کہ پھر اذان دے دو.میں بچہ تو تھا ہی میں نے پھر اذان دینی شروع کر دی تو پھر مربی صاحب نے مجھے کہا کہ اب تو بس کرو، اب نماز شروع ہوگئی ہے.اُس زمانہ میں ابا جان مسجد مبارک میں نماز پڑھنے آیا کرتے تھے.میں نے تو صرف مسجد مبارک کا نام ہی سُنا ہوا تھا.اُس وقت سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے تحریک کی کہ وہ مبلغین جن کے تین یا چار بچے ہوں انہیں چاہیے کہ وہ ایک کو دین کی راہ میں وقف کر دیں تو میرے شوق اور جذ بہ کو دیکھ کر ابا جان نے مجھے وقف کر دیا.پھر جب میں ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھا تو مجھے وقف کا صحیح مفہوم معلوم ہوا.ہم اُس وقت کوئٹہ میں تھے جبکہ میں نے پہلی دفعہ وقف فارم پر خود دستخط کر دئیے.چنانچہ جب میٹرک میں میں نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی تو مجھے چند احباب سے یہ سُن کر بہت تعجب ہوا اور افسوس بھی کہ اُن کے خیال میں اب میں جامعہ میں داخل نہیں ہوں گا.گویا اُن کے نزدیک جامعہ میں وہی لڑکے آتے ہیں جن کو کوئی نوکری نہ ملتی ہو.اس لیے میری احباب جماعت سے درخواست ہے کہ اچھے اور ذہین لڑکوں کو جامعہ میں زیادہ سے زیادہ بھجوائیں تاکہ سلسلہ کی خدمت کر سکیں اور جلد از جلد سیکھ کرمربی کا کام سرانجام دیں.آخری ایام میں جب کبھی کوئی دل کے مرض کی وجہ سے فوت ہوتا تو والد صاحب مرحوم یہی کہا کرتے کہ اسی طرح میں نے بھی کسی روز چلے جانا ہے اور پتہ بھی نہیں چلے گا.اسی طرح امی جان کو ایک دفعہ کہہ رہے تھے کہ اب میں نے چلے جانا ہے مگر صرف گگو ( ہمارا سب سے چھوٹا بھائی ریاض ) کا فکر ہے کیونکہ وہ ابھی بہت چھوٹا ہے، ذرا بڑا ہو جائے تو پھر ٹھیک ہے.“ 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی رات میں نے ایک خواب دیکھا.کیا دیکھتا ہوں کہ ابا جان تقریر فرمار ہے ہیں اور سامنے کوئٹہ کی جماعت بیٹھی ہوئی ہے.میں نے شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت کوئٹہ کو بھی دیکھا.سب نیچے بیٹھے ہوئے تھے.چنانچہ والد صاحب نے تقریر کے شروع میں یہ کہا کہ یہ میری کوئٹہ جماعت میں آخری تقریر ہے.اور پھر آپ نے ایک لمبی چوڑی تقریر کی جس کے سارے الفاظ میں نے اچھی طرح سنے اور مجھے تمام الفاظ بھی یاد تھے.چنانچہ جب آپ نے یہ الفاظ کہے کہ " یہ میری آخری تقریر ہے اُس وقت خواب ہی میں مجھے سخت بے چینی ہوتی ہے اور میں بہت گھبراتا ہوں اور جب میں خواب سے بیدار ہو ا تو اُس وقت میری حالت رونے کی سی تھی اور سخت گھبرایا ہو ا تھا.جیسے آج ضرور کوئی غیر معمولی بات ہونے والی ہے.اور میں نے دل میں ارادہ کیا کہ میں روزانہ ابا جان کو دبایا کروں گا اور خدمت کروں گا.چنانچہ صبح میں نے محسوس کیا کہ ابا جان مجھے بہت غور سے دیکھ رہے ہیں گویا کچھ کہنا
حیات ٹس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 578 چاہتے ہیں لیکن پھر میں جلدی سے جامعہ چلا گیا.ادھر تقریباً دس بجے ابا جان نے دفتر سے باہر کسی کو کہا کہ لائف (انگریزی رسالہ جس کا لفظی ترجمہ ہے زندگی) کہاں ہے؟ تو اُس نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا.تو بار بار آپ نے مڑ مڑ کر پوچھا.اُس شخص کا بیان ہے کہ میں بہت گھبرا گیا تھا کہ آج کیا بات ہے؟ پہلے تو کبھی ایسا نہ کرتے تھے.خیر آپ نے پھر پوچھا کہ لائف کہاں ہے؟ تو اُس نے کہا میں ابھی لا دیتا ہوں.تو آپ نے فرمایا کہ اچھا میں نے سرگودھا جانا ہے اس کی مجھے بہت ضرورت تھی اس لئے چلو ہمارے گھر میں ہی پہنچا دینا.“ اسی طرح 13 اکتوبر کی صبح کو جس روز آپ کی وفات ہوئی فرما رہے تھے کہ مجھ پر انڈیکس تیار کرنے کا بہت بوجھ تھا، شکر ہے کہ آج ختم ہو گیا.دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اس چھوٹے سے مضمون میں ساری باتیں تو ہرگز نہیں آسکتی ہیں.بہر حال ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ لکھ دیا ہے.آخر میں درخواست ہے جہاں آپ سب حضرت والد صاحب کی بلندی درجات کے لئے دعا فرمایا کریں وہاں میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ مجھے والد صاحب کے نقش قدم پر چلنے کی اور آپ کی توقعات اور خواہشات کو پورا کرنے والا بنائے اور ہم سب کو اپنے فضل اور رحم سے نوازتا رہے.آمین.وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.ماہنامہ الفرقان شمس نمبر جنوری 1968ء) ایک روحانی عالم با عمل انسان کے اقوال و اعمال کی ایک جھلک ( از مکرم خواجہ محمد افضل بٹ صاحب ) نوٹ : آپ حضرت مولا نائٹس صاحب کے بھانجے ہیں اور ربوہ میں مقیم میں مکرم منیر الدین صاحب شمس کی درخواست پر دودون میں آپ نے یہ تاثرات تحریر کئے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.13 اکتوبر 1966ء کی رات کسی صورت میں بھلائی نہیں جاسکتی جبکہ آسمانِ احمدیت کا ایک درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا اور ہم سب لوگ ایک نہایت ہی بلند پایہ شخصیت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے.آپ کی وفات سرگودھا میں ہوئی.رات کا وقت تھا.ہم سب سونے کے لئے لیٹے ہوئے تھے.اچانک دروازہ کھٹکا.والد صاحب نے دروازہ کھولا.مجھے یاد پڑتا ہے کہ خواجہ نذیر احمد صاحب تھے جو ربوہ سے سائیکل پر احمدنگر آئے.ہم سب سن رہے تھے جب انہوں نے والدہ صاحبہ کوتسلی دیتے ہوئے یہ
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 579 خبر دی کہ حضرت شمس صاحب وفات پاگئے ہیں.ہمارے لئے یہ خبر قیامت سے کم نہیں تھی.والدہ صاحبہ نے یہ خبر بہت صبر سے سنی مگر آنسو جاری تھے.ہم سب افراد خانہ ربوہ جانے کے لئے پیدل چل پڑے اور رات ہی ربوہ پہنچ گئے.آپ متقی، پرہیز گار، مشفق، کامیاب مناظر فصیح البیان مقرر تھے.سادہ مزاج ، با اخلاق، پر وقار اور پر رعب رفتار و گفتار کے مالک تھے.آپ سے جو ایک بار ملا وہ بار بار ملنے کا خواہش مند ہوتا اور دعا کا کہتا.ہر ایک کے ساتھ شفقت اور محبت کرنے والا وجود تھا.آپ کی زندگی کو خاکسار نے بہت قریب سے دیکھا ہے.میرے ساتھ بہت ہی محبت اور پیار کا تعلق تھا.مختصر زندگی میں بے شمار واقعات ہیں جو میری زندگی کی راہنمائی کا موجب بنے.ان کی وفات کے بعد کچھ ابتلاء بھی آئے جو گزر گئے.چند واقعات کا ذکر کرتا ہوں.خاکسار نے جب میٹرک کا امتحان دیا تو حضرت شمس صاحب نے فرمایا الشرکۃ الاسلامیہ میں آ جایا کریں، کام بھی کریں اور سلسلہ کی کتب کا مطالعہ بھی کیا کریں.ابھی نتیجہ نہیں نکلا تھا تو الشرکۃ الاسلامیہ میں کام کرتا رہا.حضرت شمس صاحب الشرکۃ الاسلامیہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے.وہاں جتنا کام کیا اس کا معاوضہ بھی ملا اور جو سلسلہ کی کتب پڑھنے سے مجھے فائدہ پہنچا بیان سے باہر ہے.اسی دوران میٹرک کا نتیجہ بھی نکل آیا اور میں پاس ہو گیا اور میں نے ارادہ ظاہر کیا کہ حضرت ماموں جان سے سفارشی خط لے کر کہیں باہر ملازمت کی کوشش کی جائے.محترم ماموں جان نے سفارشی خط دینے سے انکار کر دیا اور ہدایت فرمائی کہ کہیں باہر نہیں جانا، صدر انجمن احمدیہ کا کمیشن کا امتحان دوں اور خدمت سلسلہ بجالاؤں.کافی کوشش کے باوجود سفارشی خط نہ ملا اور کمیشن کا امتحان پاس کر کے صدر انجمن احمد یہ میں ملازمت اختیار کرلی.خاکسار سمجھتا ہے کہ سلسلہ کی خدمت کی توفیق محض حضرت شمس صاحب کی توجہ سے ملی اور خاکسار نے اس نصیحت پر عمل کیا اور پھر کبھی باہر جانے کا سوچا بھی نہیں تھا.حضرت شمس صاحب اپنی ہمشیرگان سے بہت پیار کا سلوک فرماتے اور ہمیشہ رابطہ رکھتے.خاکسار کی والدہ اور ہم سب احمد نگر رہتے تھے.حضرت شمس صاحب باوجود مصروفیات کے ہفتہ میں ایک بار ضرور اپنی ہمشیرہ (رمضان بی بی ) کو ملنے احمدنگر تشریف لاتے.ہماری نانی جان کو بھی اپنی اس بیٹی سے بہت محبت تھی اس لئے اکثر کئی کئی دن احمد نگر آکر رہتیں.حضرت شمس صاحب اپنی والدہ صاحبہ سے بھی ملنے کیلئے احمدنگر تشریف لاتے.حضرت شمس صاحب اکثر عصر کے بعد احمد نگر تشریف لاتے.سب سے فرداً فرداً خیریت دریافت
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 580 فرماتے.ہمارے اکثر رشتہ داروں کو اس دن کا علم ہوتا تھا اور سب ہمارے گھر میں اکٹھے ہو جاتے اور ہمارے گھر میں بہت رونق ہوتی.پھر یہاں سوال و جواب ہوتے جس سے احباب بہت مستفیض ہوتے.آپ خاص کر خلافت سے وابستگی کی تلقین فرماتے.اکثر جماعت کی خواہش کا احترام فرماتے ہوئے مغرب کی نماز احمد نگر پڑھاتے اور بعد ادا ئیگی نماز احباب جماعت کو نصائح فرماتے.اس طرح احباب جماعت احمد نگر بھی مستفیض ہوتے رہے.اس موقع پر یہ بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت عزیز رشتہ دار ہمارے گھر ربوہ سے آتے رہتے تھے.خصوصاً حضرت مولانا جلال الدین شمس کے بڑے بیٹے ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس بھی احمد نگر تشریف لایا کرتے تھے.احباب جماعت بہت محبت سے ملتے اور کئی دوستوں نے اظہار کیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے والد صاحب کا عکس ہیں.ماشاء اللہ شکل وصورت ، داڑھی، قد کاٹھ ہو بہووالد محترم کی طرح تھا.ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ آپ کبھی والد صاحب سے ناراض ہو کر اپنے بھائی یا والدین کے پاس گئی ہیں.( میں نے کبھی والد صاحب اور والدہ کو اپنی زندگی میں ناراض ہوتے نہیں دیکھا ) اس پر والدہ کا جواب کچھ یوں تھا کہ: ایک معمولی بات پر ناراض ہو کر قادیان سے سیکھواں پیدل شدید گرمی میں دن کے دو بجے بھائی حضرت مولانا شمس صاحب کے پاس پہنچی.دروازہ کھٹکھٹایا تو بھائی نے دروازہ کھولا.جب بھائی نے مجھے اکیلے دیکھا تو پوچھا تم اکیلی آئی ہو؟ محمد حسین (میرے والد ) ساتھ نہیں آیا.اس پر امی نے کہا کہ دروازہ پر ہی سوال شروع کر دیئے اندر تو آنے دیں.بھائی سمجھ گئے کہ میں ناراض ہو کر آئی ہوں.اندر گئے، پانی پلایا اور کھانے کا کہا.میں نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور بھائی نے مجھے سمجھایا کہ جب آپ کی رخصتی ہوئی تھی تو آپ کو ایک بات سمجھائی تھی کہ اب آپ کے سرال ہی والدین ہیں.اُن کی عزت کریں اور ہمارے گھر ناراض ہو کر نہیں آنا بلکہ خوشی خوشی اکٹھے آیا کریں اور میں اسی حالت میں واپس لوٹ آئی.یہ بھی ذکر کر دوں کہ بھائی میرے پیچھے پیچھے کافی فاصلہ پر رہتے ہوئے مجھے گھر چھوڑ کر واپس چلے آئے.اس میں والدہ صاحب نے کہا کہ میرے لئے نصیحت تھی اور ساری زندگی ہم خوش و خرم رہے کبھی ناراض نہیں ہوئی.واقعات تو بہت ہیں محترم منیر الدین شمس صاحب کی تحریک پر جلدی میں یہ تحریر لکھ دی تاکہ میں بھی ثواب میں شامل ہو جاؤں.اللہ تعالیٰ ہمارے ماموں حضرت مولا نائٹس صاحب کو جن پر ہم سب کو ہمیشہ فخر رہیگا، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو آپ کی خوبیاں اور نیکیاں اپنانے کی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 581 توفیق عطا فرمائے.آمین.( محررہ یکم مئی 2010ء.حاصل کردہ مکرم منیر الدین صاحب شمس) قبولیت دعا مکرم سراج الدین از مراد وال ہر یا حال کھاریاں ضلع گجرات) شروع 1961ء میں بندہ زندگی اور موت کی کشمکش میں گرفتار تھا.بار بارخدا تعالیٰ کے حضور نہایت ہی بیقراری سے درد بھری دعائیں کی گئیں کہ یہ موت کا پیالہ ٹل جائے مگر بار بار یہی معلوم ہوا کہ یہ تقدیر ائل ہے اور ماہ اپریل میں جسم و جان کا رشتہ منقطع ہو جائے گا.یہی بے چینی اور پریشانی مجلس مشاورت میں لے گئی کہ شاید در دمنت کشِ دوا ہو سکے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ایک دن صبح جب حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نماز فجر پڑھا کر مسجد مبارک سے باہر نکلنے لگے، بندہ نے ایک چٹ پر اشارہ اپنی روداد غم لکھ کر پیش کر دی.آپ پلیٹے اور نمازیوں سے فرمایا کہ یہ صاحب ایک مصیبت زدہ ہیں ان کیلئے دعا کریں.جو نہی دعا شروع ہوئی میرے دل پر سکینت نازل ہونے لگی اور چندلمحوں تک دل ایسا مطمئن تھا کہ گویا کبھی کوئی پریشانی ہی نہیں مگر دُعا ابھی تک جاری تھی جس نے اتنا طول پکڑا کہ یہ عاجز تھک گیا اور اپنے لئے دُعا کرنے کی بجائے آنحترم کے حق میں قربان ہو ہو کر از خود دل سے دعائیں نکلنے لگیں.آخر دعا ختم ہوئی اور مجھے قبولیت دعا کی خوش خبری اور مبارک دی گئی.الحمد للہ.غرض تجربہ کی آنکھوں سے دیکھا که واقعی نگاه مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں اگر چہ دم بھر میں قبولیت دعا اپنی جگہ ایک حیرت انگیز کرشمہ ہے مگر محیر العقول یہ امر ہے کہ مادی محرکات کا شائبہ تک نہ ہو پھر بھی دل اس قدر تڑپ اُٹھے کہ پکھل کر آستانہ بے نیاز سے بہہ نکلے کہ پروانہ قبولیت لے کر ہی لوٹے.صاحب تجربہ احباب بلکہ ہر احمدی خوب جانتا ہے کہ مرنا اور دُعا کرنا برا بر ہے اور غیر ہوکر غیر پر مرنا محال بلکہ ناممکن امر ہے.چنانچہ دعا کرنے اور کرانے کیلئے کچھ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت مسلم ہے لیکن میرا آں محترم کے ساتھ کوئی ذرہ بھر بھی تعلق اور واسطہ نہ تھا.غالباً پیشتر ازیں وہ میرے نام اور شکل وصورت تک سے ناواقف تھے مگر بایں ہمہ اُن کا دل اس قدر کیوں بے چین ہو گیا کہ ایک اجنبی کی تشویش کو دور کرنے کیلئے مرنا قبول کیا؟ میرے لئے یہ ایک عجیب ترین اور عظیم ترین واقعہ ہے جب بھی میں غور کرتا ہوں حیران و ششدر رہ جاتا ہوں کہ یہ عاشق کون سی دنیا کے یارب رہنے والے ہیں لہذا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس جذبہ سپاس گزاری سے بھر پور دل بدست دعا ہے کہ اے خدا بر تربت او بارش رحمت ببار داخلش کن از کمال فضل در بیت 582 نیز اس کے اعزہ واقارب اور دلی محبوں کو مع وابستگان پشت در پشت اپنی رحمت اور شفقت کے دائی سایہ میں رکھ اور انہیں مرحوم و مغفور کی خوبیوں سے وافر حصہ دے.آمین یا رب العالمین.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس (ماہنامہ الفرقان شمس نمبر، جنوری 1968ء) مکرم صاحبزادہ جمیل لطیف صاحب آف شکاگو، نبیرہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید) یادوں کے دریچے ہے آج اس لمحہ اس شخصیت کو دیکھ رہا ہوں جسے حضرت امیر المومنین صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی اصلح الموعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا.مولانا کے بزرگوں نے آپ کا نام پچپن ہی میں جلال الدین رکھا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور خاص تائید و نصرت سے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء سے ایسا فیض پایا کہ علم و معرفت کے بلند مینار پر کھڑے ہو کر براہین اور دلائل سے تمام مخالفین کیا مخالفین اسلام کیا مخالفین احمدیت اور کیا منکرین خلافت سب کے منہ بند کر دیئے.مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں وہ جو ہر دکھائے کہ بلا شبہ آنے والا مورخ خالد احمدیت مولانا جلال الدین شمس کی گراں قدر خدمات ، خلافت حقہ احمدیہ سے بے لوث محبت کو ہمیشہ جلی حروف میں تحریر کرے گا.اسلام اور احمدیت کے لئے آپکی خدمات پر نظر ڈالتے ہوئے بجاطور پر کہا جا سکتا ہے کہ مولانا نے اپنے بزرگوں کی خواہشات اور توقعات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے نام کی خوب لاج رکھ لی.محتر می مولانا شمس صاحب انتہائی سنجیدہ مگر خوش خلق طبیعت کے مالک تھے.فطرتا آپ کم گو شخصیت کے مالک تھے مگر کسی سوال کا جواب دینا ہوتا تو قرآن شریف ، احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود سے ماخوذ حوالہ جات کے ساتھ خلفاء اور دیگر علماء کے حوالہ جات دینے میں کبھی اختصار سے کام نہ لیتے.جس بھی محفل میں تشریف فرما ہوتے تو حاضرین کی کوشش ہوتی کہ آپ کی باتوں سے مستفید اور لطف اندوز ہوں اور یہ سلسلہ جلدی ختم نہ ہو.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 583 عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سید نا حضرت مسیح موعود سے دلی محبت اور آپ کے خلفاء کا احترام اور ان سے پیار آپ کے کردار کا سب سے بڑا حصہ تھا اسی لئے جماعت احمدیہ کے اکثر وبیشتر جلسہ سالانہ کے موقعہ پر سیرت البنی صلی اللہ علیہ وسلم یا صداقت حضرت مسیح موعود یا خلافت سے وابستگی کے موضوعات پر آپ کی تقاریر سنی جاتیں.جلسہ سالانہ میں جب آپکی تقریر کا وقت ہو جاتا تو سب چھوٹے بڑے اگر کسی ضرورت کے پیش نظر جلسہ گاہ سے باہر آئے ہوتے تو جلسہ گاہ کا رخ کرتے اور بیٹھ کر آپ کی تقریر سے مستفید ہوتے.سیدنا حضرت الصلح الموعود کو بھی آپ سے بہت پیار تھا اور اسی لئے اپنی بیماری کے ایام میں آپکی تقریر کا وقت دوسرے علماء کرام سے بڑھانے کی ہدایات جاری فرماتے.آپ کا طرز تقریر بالکل جدا گانہ تھا.جلسہ گاہ میں موجود ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں دوستوں پر آپ کی نظر ہوتی اور نہایت دقیق اور علمی نکات ایسی مہارت سے بیان فرماتے کہ سامعین کی سطح پر آکر بات شروع کرتے اور سامعین کو اپنے ساتھ ساتھ اس مقام پر لے جاتے کہ پنڈال میں ہر طرف نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے.اسلام اور احمدیت کے غلبہ کا ذکر ہمیشہ اس قدر جاہ وجلال سے کرتے کہ اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد کے نعروں میں بعض اوقات آپکی آواز گویا دب جایا کرتی تھی.تحقیق اور طرز بیان کے ساتھ ساتھ آپکی تقریر میں بے پناہ روانی ہوتی ایسی روانی گویا علم کے گہرے سمندر میں طغیانی آئی ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لیتی.مضمون کی مناسبت سے الفاظ کا ایسا انتخاب ہوتا کہ سننے والا محسوس کرتا بلکہ یقین کرتا کہ دست بستہ نظر آتے ہیں ہر اک موڑ پہ حرف ہم جو پروانه سلطان قلم لے کے چلے یہ ایسے حقائق ہیں جو آج تک ہمارے اذہان پر گہرے نقوش چھوڑ گئے ہیں.ایک جلسہ سالانہ ربوہ میں ہم گھر میں بیٹھے (ہمارے گھر الحمد للہ جلسہ سالانہ پر کثیر تعداد میں مہمانان حضرت مسیح موعود آیا کرتے تھے اور ان میں بعض بڑے صاحب ذوق دوست مثلاً نوابزادہ وصال محمد خان صاحب، پیرسید کبرشاه (میجر ) صاحب جیسے علماء بھی ہوتے تھے ) آپ کی تقریر پر بات کر رہے تھے.شاید اس موقع پر میرے والد صاحب حضرت صاحبزادہ محمد طیب صاحب لطیف مرحوم و مغفور کے بہت قریبی دوست سردار کرنل محمد حیات خان صاحب قیصرانی اور میاں عبدالسمیع نون صاحب بھی موجود تھے.بہر حال ہر طرف سے داد تحسین کے ساتھ ساتھ حیرت کا اظہار کیا جارہا تھا.میں ان دنوں طالب علم تھا مگر بزرگوں کی محافل میں بیٹھ کر ان کی باتوں سے مستفید ہونا میرا ایک گونا مشغلہ تھا.جوں جوں محفل پر آپکی تقریر کا رنگ چڑھ رہا تھا میں بھی لطف اندوز
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 584 ہو رہا تھا.میں نے آہستہ سے شمولیت کرنے کی کوشش کی اور عرض کیا کہ شمس صاحب کی تقریر میں روانی کیسی ہوتی ہے! یوں لگتا تھا جیسے بیان کا ایک جاری چشمہ ہے.تب میرے والد صاحب نے تمام حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے جو فرمایا اس نے میری حیرت کو مزید حیران کر دیا.آپ نے بتایا کہ: دوسشمس صاحب کی زبان تو بالکل تلوار کی سی چلتی تھی یہ تو دمشق میں ظالم مخالفین نے جب آپ پر قاتلانہ حملہ کیا تو اس کے بعد اس روانی میں کمی آگئی ہے کیونکہ حملہ آور نے گردن پر وار کیا تھا اور آپ معجزانہ طور بچ گئے مگر بہر حال اس کا کچھ اثر تو باقی رہنا تھا “ محتر می شمس صاحب سفید شلوار قمیض اور اچکن زیب تن فرماتے.گرمیوں میں اکثر سفید ململ کی قمیض پہنتے.کلاہ پگڑی بھی آپ کے لباس کا حصہ تھا سفید پگڑی کلاہ کے اوپر بالکل الگ انداز سے باندھتے.حضرت مصلح موعودؓ آخری ایام میں جب بیماری کی وجہ سے مسجد تشریف نہیں لا سکتے تھے تو آپ کی عدم موجودگی میں محترم می شمس صاحب ہی حضور کے ارشاد کے تحت مسجد مبارک میں امامت کے فرائض انجام دیتے.عیدین اور جمعہ کے خطبات بھی آپ ہی دیتے.ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں معراج کا واقعہ آپ بیان کر رہے تھے.کئی سال گزر جانے کے باوجود مجھے وہ منظر اچھی طرح یاد ہے.آپ نے فرمایا کہ ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معشوق حقیقی سے ملنے کے لئے بے چینی اور بیقراری کے عالم میں بڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے تھے اور مولیٰ کریم آسمان پر یہ منظر دیکھ رہا تھا.تڑپ اور لگن کی یہ حالت دیکھ کر خود معشوق حقیقی عاشق سے ملنے کے لئے آگے بڑھا سچ تو یہ ہے ملنے کا تب مزہ ہے کہ دونوں ہوں بے قرار دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی !!!!!! احساس کی وسیع وادی میں کھڑا سوچ رہا ہوں کہ اے کاش میں اچھا لکھاری ہوتا تو حضرت مصلح موعودؓ جن کے بارہ میں خدائے قدوس نے فرمایا: نور آتا ہے نور كان الله نزل من السماء کی تیار کردہ عظیم فوج کے اس عظیم سپہ سالار کے بارہ میں اپنی مزید یا دیں بیان کرنے کا حق ادا کر سکتا مگر پھر بھی افسردہ نہیں کہ میں جانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے علم کے جو چراغ روشن فرمائے ہیں ان کی ضیاء اور روشنی میں کھڑا قاری اس خاکسار کے لکھے ہوئے بے جوڑ جملوں کو جوڑ کر بھی حقیقت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے.مولانا کی دینی مصروفیات اس قدر تھیں کہ بہت کم ملنے ملانے کا وقت
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 585 انہیں ملتا تھا.تصنیف و تالیف پھر اصلاح وارشاد کی نظارت کو چلانے کے ساتھ ساتھ خلیفہ وقت کی ہدایات و ارشادات جماعت تک پہنچانا یہ ایسی ذمہ داریاں ہیں کہ ان کا اندازہ لگانا بھی معمولی بات نہیں مگر اس کے باوجود مولانا شمس صاحب کی سید الشہداء حضرت سید صاحبزادہ عبداللطیف صاحب سے بے پناہ محبت اور عقیدت کے ناطے ہم سے بھی بہت پیار و شفقت سے ملتے اس لئے کبھی ملاقات کا موقع مل جاتا تھا.ایسی ہی ایک ملاقات میں خاکسار کے پوچھنے پر آپ نے دمشق میں خود پر قاتلانہ حملہ کا واقعہ کچھ اس انداز سے سنایا کہ میں آنکھوں میں آنسو لئے ان کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا.انہوں نے بتایا کہ ابھی وہ جوان تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ” تذکرۃ الشہادتین ایک رات وہ پڑھ رہے تھے.اس مبارک تصنیف کا ایک ایک جملہ میں پڑھتا جاتا تھا تو ایک حسین شہزادے کی حسین تصویر میرے ذہن پر نقش ہوتی چلی گئی.یہ شہزادہ جو اخلاص کی وادی سے عزم و استقامت اور وفا کے پھول مسیح دوراں کیلئے لایا تھا چند ہی روز حضور کی خدمت عالیہ میں رہا اور پھر سب کچھ سمیٹ کر اپنے آقا کی اجازت سے مسیح کی منادی کرنے واپس کا بل چلا گیا اور پھر نہایت جوانمردی سے اپنی بیعت کو سچا کر دکھایا اور کابل پہنچ کر اپنے مبارک خون سے کابل کی دیواروں پر جاء المسیح جاء المسيح تحریر فرما دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس خادم کی اس عظیم قربانی کو جماعت کے لئے اسوہ کے طور پر پیش فرمایا اور اس قدر محبت کا اظہار فرمایا کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے.آپ نے فرمایا: اے عبداللطیف تجھ پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں صدق کا نمونہ دکھایا.شمس صاحب مرحوم یہ واقعہ نہایت جلالی انداز میں سنا رہے تھے اور پھر آگے بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس پیار اور محبت سے اس جلیل القدر انسان کا واقعہ تحریر فرمایا ہے پڑھتے پڑھتے میری حالت غیر ہوتی چلی گئی اور اس عظیم انسان کی عظمت پر اشک بہانے کی بجائے رشک کرتے ہوئے اپنے مولیٰ کریم سے دعا کی کہ: ”اے میرے خدا مجھے بھی حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرح تیرے مسیح سے وفا کے اظہار کا موقع عطا فرما اور پھر مجھے استقامت عطا فرما اور خوشی خوشی یہ راہ اپنانے کی توفیق عطا فرما.یہ میری جوانی کے دنوں کی خواہش تھی جسے مولیٰ کریم نے اس طور پر قبول فرمایا کہ جب میں بلا د عربیہ میں مبلغ بن کر گیا تو دمشق میں ہمیشہ کی طرح حق کی مخالفت کرنے والوں نے پروگرام بنایا کہ امیر المومنین حضرت مصلح موعود کے ہاتھوں لگائے گئے پودے کو نا پید کر دیا جائے اور باقاعدہ پروگرام سے ایک سفاک انسان کو میرے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 586 قتل کرنے پر مامور کر دیا.چنانچہ ایک روز میں سیڑھیوں سے اتر رہا تھا کہ ایک نامعلوم شخص نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا اورحملہ آور نے اس قدر ز بر دست وار خنجر سے مجھ پر کیا کہ میں سنبھل نہ پایا اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا.مارنے والے نے اس یقین سے کہ میں ختم ہو چکا ہوں مجھے ایک ٹانگ سے ٹھڈا مارا اور یہ کہتا چل دیا کہ بس اب ختم ہو چکا ہے مگر وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيرُ المَاكِرِين - ( آل عمران : 55) مجھے بے ہوشی کی حالت میں گاڑی میں ڈال دیا گیا اور ہسپتال پہنچایا گیا.وہ ذات جس کے ہاتھ میں موت وحیات ہے اس نے اپنے شفا کا ہاتھ بڑھایا اور مجھے اسلام اور احمدیت کی خدمت کا کچھ اور موقع دینا تھا سو دیا.اب اس واقعہ کو بہت سال ہو گئے ہیں میں الحمد للہ زندہ ہوں.اس واقعہ کو ایک خطبہ میں بیان کرتے ہوئے مولانا نے یوں شروعات کی: کہ اب جماعت کے سامنے تحدیث نعمت کے طور پر اپنا واقعہ سنانا چاہتا ہوں جب میں دمشق میں مبلغ تھا...در حقیقت یہ وہ لوگ ہیں جن کے نام یاد کر کے ہماری نسلیں اپنے رستوں کا تعین کریں گی اور کرتی ہیں..ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں سلسلہ بدنام نہ ہو !!!! آفریں صد آفریں اے خالد احمدیت تو نے بلا د عربیہ، نصرانیت کے گڑھ لندن، پاکستان کی بستی بستی ، قریہ قریہ میں ہی امام الزمان کی مبارک آواز پہنچانے کے لئے پوری جد و جہد نہیں کی بلکہ اپنے عملی نمونہ اور اعلیٰ تربیت سے اپنی اولاد کو بھی یہ سکھایا.الحمد للہ کہ آپ کے تمام صاحبزادگان دنیاوی وجاہت کے ہوتے ہوئے دین کو دینا پر مقدم کرنے والے ہیں.خلیفہ وقت اور سلسلہ عالیہ احمدیہ سے بے پناہ محبت آپ سب کی پہچان ہے.الحمد للہ محترمی مولانا شمس صاحب کے تمام صاحبزادگان وصیت کے نظام سے منسلک ہیں صرف افراد جماعت سے خالد احمدیت کی اولاد کیلئے دعا کی غرض سے اتنا لکھوں گا.آپ کے منجھلے بیٹے منیر الدین صاحب شمس واقف زندگی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں پہلے بطور نائب امام مسجد فضل لندن، امیر و مبلغ انچارج جماعتہائے احمدیہ کینیڈا اور بطور ایڈیشنل وکیل الاشاعت اور اب بطور ایڈیشنل وکیل التصنيف خدمات بجالا رہے ہیں.آپ کے دوسرے صاحبزادہ فلاح الدین صاحب شمس یہاں شکاگو میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے جماعت کے صدر اٹھائیس سال تک رہ چکے ہیں اور موجودہ شکاگو کی خوبصورت مسجد بیت الجامع آپ ہی کی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 587 سر براہی اور دور صدارت میں تعمیر ہوئی.اسی طرح پر آپ کے تیسرے لڑکے بشیر الدین نشس صاحب بھی الحمد للہ نیوآر لینز میں بطور صدر جماعت کی خدمات بجالا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتیں ہوں ان سب پر کہ یہ ہمارے نہ بھولنے والے بزرگ عالم دین خالد احمدیت مولانا جلال الدین شمس کی اولاد ہیں.اللهم زد فرد.تحریر حاصل کردہ مکرم فلاح الدین صاحب شمس) برجستہ جواب ( مکرم روشن دین صاحب صراف اوکاڑہ ) ایک دفعہ جڑانوالہ کے قریب ایک مناظرہ ہوا اس میں مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑ والے ہمارے مقابلہ پر تھے.مولانا جلال الدین صاحب شمس صدر تھے اور مولوی محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین مناظر تھے.مولوی محمد حسین صاحب نے اپنی ناکامی کو دیکھتے ہوئے کہ ایک بچہ سے مناظرہ کر رہا ہوں حضرت شمس صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب! ہم نے مولوی نور الدین سے مناظرہ اور گفتگو کی ہے ، حافظ روشن علی صاحب سے مناظرے کئے ، مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے بحث کی ہے اور آج ایک بچہ کو ہمارے مقابلہ پر کھڑا کر رہے ہو؟ حضرت شمس صاحب کے جواب سے وہ اور بھی شرمندہ ہو گیا.آپ نے فرمایا مولوی صاحب آپ کی ذلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ نے ہمارے اُستاد سے مناظرہ کیا اور پھر شاگردوں سے مناظرہ کیا اور پھر شاگردوں کے شاگردوں سے مناظرہ کر رہے ہیں کیا اس میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی (ماہنامہ الفرقان ، جنوری 1968ء) صداقت کا ثبوت نہیں ملتا.حسن سلوک از محترمه عزیزه حمید بیگم صاحبہ چک جمال ضلع جہلم) حضرت مولا نائس صاحب اپنی شفقت، خدا ترسی، تقومی شعاری اور بے نفسی کی وجہ سے سب احباب جماعت میں مقبول تھے.اس میں امیر وغریب اور اپنے پرائے کا امتیاز نہ تھا.میں ایک واقعہ بیان کرتی ہوں جس سے آپ کے قتیموں سے شفقت بھرے سلوک کا اظہار ہوتا ہے.میرے لئے یہ ہمیشہ یاد رہنے والا واقعہ ہے.میں پانچ چھ سال کی تھی کہ اپنے والدین کی شفقت اور پیار سے محروم ہوگئی.میرے ابا جان میری دو سال کی عمر میں چار کوٹ تحصیل راجوری میں اور والدہ محترمہ پارٹیشن کے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 588 بعد پانچ چھ سال کی عمر میں جہلم میں 1952ء میں وفات پاگئیں.اس طرح مجھے اپنے والدین کا کوئی لاڈ پیار بلکہ اُن کی شکل وصورت بھی یاد نہیں.والدہ کی وفات کے وقت بھائی جان مکرم مولوی بشیر احمد قمر مربی سلسلہ احمدیہ جامعہ احمدیہ احمد نگر میں پڑھتے تھے.والدہ کی جدائی کے بعد بھائی جان سے بڑھ کر میرا کوئی ہمدرد اور خیر خواہ نہ تھا، اس لئے وہ مجھے احمد نگر لے آئے.یہاں انہوں نے نامساعد حالات میں اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ میری تعلیم وتربیت کا بھی بوجھ برداشت کیا، یہاں پر ہی ان کی شادی خواجہ محمد حسین صاحب کی بیٹی سے ہو گئی جو کہ حضرت شمس صاحب کی بھانجی ہیں.اس وجہ سے ہم حضرت شمس صاحب کو ماموں جان ہی کہا کرتے تھے.اس تعلق کے بعد وقتا فوقتا ان کے ہاں آنے جانے اور بعض دفعہ کئی دنوں تک ان کے پاس ٹھہر نے کا اتفاق ہوتا رہا.ہمیشہ محبت سے خیر و عافیت دریافت فرماتے.بھائی جان کے متعلق قمر صاحب“ کہہ کر دریافت فرماتے.پھر مطالعہ یا مضمون لکھنے یا سلسلہ کے کسی کام میں مشغول ہو جاتے.زیادہ طول طویل گفتگو نہ فرماتے جتنی بات کرتے بشاشت اور خندہ پیشانی سے فرماتے.وہ واقعہ جو مجھے کبھی نہ بھولے گا اور آپ کی پیاری یاد اور دُعا کا موجب ہوتا رہے گا انشاء اللہ یہ ہے کہ دسمبر 1956ء میں میر ارخصتانہ قرار پایا.میرے سسرال جو چک جمال ضلع جہلم میں رہتے ہیں مصر تھے کہ رخصتانہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہوتا کہ ہم جلسہ پر آئیں تو لڑ کی ساتھ لے آئیں.بھائی جان نے حضرت ماموں جان سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان دنوں میرا شامل ہونا مشکل ہے اگر آگے پیچھے کر لیا جائے تو اچھا ہے لیکن پروگرام بعض اور مجبوریوں کی وجہ سے نہ بدل سکا.آپ کی اُن دنوں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری کی وجہ سے بہت مصروفیت ہوتی تھی.نیز نظارت کے کام کی وجہ سے بھی مصروفیت تھی لیکن آپ کا شریک نہ ہونا ہمارے لئے بھی بہر حال افسوس کی بات تھی.29 دسمبر کو سات آٹھ بجے صبح برات نے احمد نگر پہنچنا تھا.برات پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہمارے ماموں جان بھی کسی دوست، عزیز کی کار یا جیپ لے کر احمد نگر پہنچ گئے.آپ کی اس غیر متوقع آمد پر سب ہی بہت خوش ہوئے.فرمایا بہت تھوڑے وقت کیلئے آیا ہوں، دعا ہو جائے تا میں واپس جاسکوں.فرش پر براتیوں اور مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گئے مہمانوں کے ناشتہ سے فارغ ہونے پر دُعا کروائی.بعد دعا آپ کے ساتھ مل کر مہمانوں نے فوٹو لینے کی خواہش کی.آپ بیٹھ گئے.فوٹو کھنچوایا اور پھر اٹھ کر اپنی بیٹی جمیلہ شمس اور بھانجے احمد حسین صاحب درویش کے ساتھ میرے پاس آگئے.کھڑے کھڑے میرے سر پر پیار
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 589 و شفقت کا ہاتھ پھیرا، دعا دی اور خدا حافظ کہہ کر چلے گئے.اس طرح اس وقت والدین کی شفقت اور پیار سے میرے محرومی کے احساس کو آپ نے محسوس کر کے میری حوصلہ افزائی فرمائی.اس طرح آپ نے ایک یتیم اور غریب لڑکی کی دلجوئی فرمائی.(ماہنامہ الفرقان شمس نمبر، جنوری 1968ء) عاشق احمدیت مکرم و محترم چوہدری عبد الواحد صاحب بی.اے نائب ناظر بیت المال) ہزاروں لاکھوں انسان اس دنیا میں آتے ہیں.قسّام ازل نے جتنا جتنا عرصۂ حیات کسی کے لئے مقدر کیا ہوتا ہے گزار کر اس دار فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں.ان میں سے بعض کا پیدا ہونا اور مرنا برابر ہی ہوتا ہے نہ اُن کے پیدا ہونے کی کسی کو خوشی ہوتی ہے اور نہ مرنے کا غم.بعض کی یاد اس کے پسماندگان، عزیزوں اور دوستوں کے دلوں میں چند دن ، چند مہینے یا زیادہ سے زیادہ چند سال تک قائم رہتی ہے.اس کے مرنے کے بعد اگر زیادہ سے زیادہ کسی نے کچھ کیا تو یہ کہ کسی اخبار یا رسالہ میں اس کی وفات کی خبر چند سطروں میں چھپوا دی اور بس.آخر کچھ عرصہ کے بعد اس جانے والے کا نام ہمیشہ ہمیش کے لئے اس دنیا سے محو ہو جاتا ہے.مگر بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا نام اُن کے بینظیر کارناموں کی وجہ سے دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیش کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے اور آنے والے لوگ اُن کو اور اُن کے کارناموں کو یاد کرتے رہتے اور نیا جوش اور نئی زندگی محسوس کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے انہیں راستوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں جن راستوں پر چل کر ان لوگوں نے اپنی زندگیوں کو کامیاب بنایا اور ابدی شہرت حاصل کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ فیوض و برکات کا زمانہ تھا.جن خوش قسمت لوگوں نے حضور اقدس کا زمانہ پایا، حضور اقدس کی مجالس میں بیٹھے اور حضور اقدس کے کلمات طیبات سننے کا موقعہ پایا، انہوں نے حسب مراتب ان فیوض و برکات سے حصہ پایا، انہوں نے روحانیت میں بڑھ چڑھ کر مقام حاصل کیا اور اپنے قول و فعل سے اسلام کا سچانمونہ پیش کیا.اُن میں سے اکثر دنیاوی نقطۂ نگاہ سے کوئی زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے مگر محبت اور فدائیت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا علم دیا کہ دُنیا کے استاد بن گئے.اُنہوں نے چل پھر کر لوگوں کے سامنے اپنے عملی نمونہ سے حقیقی اسلام کو پیش کیا وہ جس شہر جس قصبہ میں اور جس گاؤں میں بیٹھ گئے انہوں نے وہاں پاک اور قدسی لوگوں کی جماعتیں پیدا کر لیں اور جس طرح ایک
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 590 چراغ سے دوسرا چراغ روشنی حاصل کرتا ہے اسی طرح ان برگزیدہ لوگوں سے بہتوں نے نور حاصل کیا جنہوں نے پھر آگے نور اسلام کو ترقی دی.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس بھی اُن قدسی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقدس زمانہ پایا اور حضور کے خلفاء اور بزرگ صحابہ سے فیوض و برکات حاصل کئے.حضرت مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خاص علم وفضل سے نوازا تھا.غیر معمولی ذہانت و فراست کے مالک تھے جنہوں نے نصف صدی تک تبلیغ اسلام اور میدان مناظرہ میں ایک کامیاب جرنیل کی حیثیت میں کام کیا.حضرت مولانا صاحب کو خلافت ثانیہ میں جو مقام حاصل رہا ہے وہ احباب جماعت سے پوشیدہ نہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے علم و فضل ، ذہانت و فراست اور فدائیت کی وجہ سے خالد احمدیت کے خطاب سے نوازاتھا.حضور کی بیماری کے ایام میں جماعت کی تربیت سے متعلق اہم کام حضرت مولانا صاحب سرانجام دیتے تھے.شدید گرمی ہو یا سردی ، آندھی ہو یا بارش شمس صاحب پانچوں وقت مسجد مبارک میں آ کر نمازیں پڑھایا کرتے تھے.نماز جمعہ، نماز عیدین، نماز خسوف وکسوف ،نماز استسقاء،نکاح، جنازے وغیرہ اکثر حضور کی اجازت سے حضرت شمس صاحب ہی پڑھایا کرتے تھے.جلسوں کی صدارت کے لئے حضرت شمس صاحب کی خدمت میں گزارش کی جاتی.ہر تقریب پر دُعا کے لئے سٹس صاحب پر نظریں ہوتیں.ہر محفل کی رونق اور ہر مجلس کی شمع شمس صاحب ہوا کرتے تھے.بیرونی جماعتیں بھی اپنی مجالس اور تقریبات میں شمس صاحب کو مدعو کرنے کی متمنی ہوتیں.ایک ہی مسئلہ پر سلسلہ کے جید علماء اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور بظاہر مسئلہ کا کوئی پہلو ایسا نہیں رہا جس پر کچھ مزید کہا جا سکے مگر شمس صاحب اپنی تقریر یا صدارتی خطاب میں اس مسئلہ پر مزید تشریح کچھ ایسے رنگ میں کرتے کہ سامعین اپنے اندر ایک نئی جلا پاتے اور قلوب میں خوشی اور اپنے علم میں زیادتی محسوس کرتے.شمس صاحب اپنے وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے تھے.گھر میں ہوں یا دفتر میں ، مرکز میں ہوں یا مرکز سے باہر مطالعہ میں مصروف یا تحریر کا کام کرتے.اگر کبھی بیماری کی وجہ سے دفتر آ نہ سکتے تو امکانی حد تک گھر پر ہی بستر میں پڑے مطالعہ یا تحریر کا کام کرتے.اگر بیٹھے بیٹھے تھک گئے مگر کام بدستور جاری ہے.ایک دفعہ جب کہ آپ بیماری کی وجہ سے دفتر نہ آ سکے تو راقم الحروف بیمار پرسی کیلئے گھر پر گیا.دیکھا کہ لکھنے پڑھنے کا سامان پڑا ہوا ہے اور خود لحاف اوڑھے پڑے ہیں داڑھی اور سر کے بال کچھ بکھرے پڑے ہیں مگر چہرہ دمک رہا ہے.میں نے دل میں کہا ” گدڑی میں لعل ہے.“
حیات ٹمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 591 میں نے ایک دفعہ عرض کیا کہ آپ بیماری میں بھی آرام سے نہیں بیٹھتے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے قابل سے قابل بزرگ علماء آپ کے پاس ہیں عارضی طور پر اپنا کچھ کام ان میں سے کسی ایک کے سپرد کر دیں.مسکرا کر کہنے لگے ”میں اپنا کام جب تک خود نہ کروں مجھے تسلی نہیں ہوتی.اگست 64ء میں جب خرابی صحت کی وجہ سے آپ کچھ دنوں کیلئے کو ئیہ تشریف لے گئے تو راقم الحروف نے ان کو لکھا کہ آپ کی صحت ایسی ہے کہ اس حالت میں کوئی دماغی کام کرنا مناسب نہیں، اپنے دل و دماغ کو آزاد رکھیں اور اپنی صحت کو بحال کرنے کی کوشش کریں.آپ کے بیوی بچوں کا آپ پر حق ہے، قوم کا آپ پر حق ہے، ان کی خاطر اور آئندہ زیادہ کام کرنے کے لئے اپنی صحت کو عمدہ بنانے کی کوشش کریں.میری اس چٹھی کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا: آپ کی نصیحت تو اپنی جگہ پر ٹھیک ہے مگر پروگرام پر پروگرام بنتا چلا جارہا ہے.چار پانچ تقریریں تو کر چکا ہوں.اگلے جمعہ کو حیدرآباد جانا ہے اور اتوار کو سیرۃ النبی کا جلسہ کرنا چاہتے ہیں تھی سوفیکل ہال میں.تین چار روز سخت زکام رہا اور اسی حالت میں خطبہ جمعہ ایک گھنٹہ اور سیرۃ النبی کے جلسہ میں تقریر ڈیڑھ گھنٹہ اور اطفال کے اجتماع میں تقسیم انعامات کے موقعہ پر افتتاحی تقریر کرنا پڑی.جو دوست گفتگو کے لئے آتے ہیں انہیں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا.ان سطور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر مصروف تھی ان کی زندگی.کوئٹہ اور کراچی کے احباب خوب جانتے ہیں کہ ان دنوں اُن کو کس قدر مصروفیت ہوتی تھی تکلیف پر تکلیف ہے مگر کام پر کام کرتے چلے جارہے ہیں کسی کام سے انکار کرنا ان کی عادت میں داخل نہ تھا.کراچی تھیوسوفیکل ہال، کوئٹہ منٹگمری ، اوکاڑہ ، لاہور وغیرہ بڑے بڑے شہروں میں روٹری کلبوں میں ان کی تقریریں ہوئیں.ان کلبوں میں اعلی تعلیم یافتہ اور اونچے طبقہ کے سرکاری اور غیر سرکاری لوگ شامل ہوا کرتے ہیں.سامعین پر ان کی تقریر کا نہایت گہرا اثر ہوا کرتا تھا بعض لوگ سوال کرتے آپ نہایت عالمانہ جواب سے سائل کو مطمئن کر دیتے.ہر جگہ ایسا ہوا کہ غیر احمدی شرفاء نے خواہش کی کہ ایسی تقریریں ضرور ہونی چاہئیں.ایک جگہ جب حضرت مولوی صاحب نے جماعت احمدیہ کے ممالک بیرون میں تبلیغ و اشاعت اسلام کی کارگزاریاں اختصار کے ساتھ بیان کیں تو سامعین سُن کر حیران ہوئے اور خوش بھی.بعض نے کہا کہ آپ لوگ خدمت اسلام کا ایسا شاندار کام کر رہے ہیں اور لوگوں کے سامنے 66 آپ پیش ہی نہیں کرتے یہ تو جماعت کا بڑا کارنامہ ہے اس کو مسلمانوں کے سامنے بار بار پیش کرنا چاہیے.حضرت مولوی صاحب کا طرز بیان ایسا ہوا کرتا تھا کہ مشکل سے مشکل مسئلہ آسان سے آسان پیرائے میں سمجھا دیتے.طالب علمی کے زمانہ میں ہی ملک کے مشہور اور احمدیت کے اشد ترین مخالف علماء
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 592 کے ساتھ مناظرے ( کاش کہ جماعت کے وہ بزرگ لوگ جنہوں نے حضرت مولانا شمس صاحب کے مناظرے خود سُنے ہیں وہ ان مناظرات کی تفاصیل اور سامعین پر ان کے اثرات وغیرہ لکھ کر سلسلہ کے کسی اخبار یا رسالہ میں شائع کرا دیں تا کہ یہ قیمتی یادداشتیں جو ابھی تک سینوں میں مخفی ہیں تحریر میں آ کر محفوظ ہو جائیں ) کیے اور ہر میدان میں اُن کو شکست دی.جن لوگوں نے حضرت شمس صاحب کے مناظرے سنے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اُن کی زبان میں کس غضب کی روانی تھی اور کس طرح معترض کو لا جواب کر دیتے تھے.تقریر سُن کر غیر احمدی بھی عش عش کر اُٹھتے اور اُن کے حسنِ بیان کی داد دیتے تھے.جس نے ایک بار شمس صاحب کا مناظرہ سُنا وہ پھر بھی سننے کی تمنا کرتا تھا.شمس صاحب کے ذریعہ کئی لوگوں نے ہدایت پائی.کئی لوگوں کی احمدیت کے بارہ میں غلط فہمیاں دور ہوئیں.اگر چہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شمس صاحب کو علم وفضل سے نوازا ہو اتھا.قرآن کریم کاعلم تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر عبور حاصل تھا پھر بھی اپنی تصنیف کا مسودہ اور ہر تقریر کا مضمون حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہان پوری کو ضرور سُنا لیا کرتے اور اُن کی ہدایت سے فائدہ اٹھاتے.میں نے دیکھا اُس وقت آپ حضرت حافظ صاحب کے سامنے ایسے بیٹھے ہوئے ہوتے جس طرح ایک ادنیٰ شاگرد اپنے استاد کے سامنے.عربی اور فارسی کے قدیم اور جدید شعراء کے کلام کا اکثر و بیشتر حصہ اُن کو زبانی یاد تھا.ہر موقعہ اور مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے عربی کے کئی کئی شعر سُنا دیتے.اللہ تعالیٰ نے شمس صاحب کو آخری عمر میں مالی خوشحالی دی ہوئی تھی مگر عادات اور لباس میں وہی سادگی رہی جو ابتدائے عمر میں تھی.لباس ہمیشہ سفید پگڑی ،سفید شلوار، اچکن اور پاؤں میں گرگابی.کبھی بوٹ پہنے اُن کو نہیں دیکھا گیا.گھر میں جو بھی پکتا خواہ سادہ سے سادہ غذا پیش کر دی جاتی خوشی سے کھا لیتے.کھانے میں کبھی کوئی نقص نہ نکالتے اپنی اہلیہ کی بڑی عزت کرتے اور بچوں سے بڑی محبت سے پیش آتے.خود مریض تھے مگر اپنی تکلیف کا اظہار کبھی نہ کرتے.جب کبھی آپ کی اہلیہ صاحبہ یا کسی بچے کو کوئی تکلیف ہوتی تو بے قرار ہو جاتے اور فوراً انہیں ہسپتال لے جاتے یا خود ہسپتال جا کر دوائی لا دیتے.خاکسار راقم الحروف نے حضرت مولانا صاحب کو پہلی بار اگست 1918ء میں دیکھا جب کہ آپ نے جوانی میں ابھی قدم رکھا تھا.جسم دبلا پتلا چہرہ گورا چٹا نہایت خوبصورت ، ٹھوڑی پر ابھی بہت کم بال آئے تھے.جتنے بھی تھے سیاہ باریک اور گھونگر والے تھے.آپ مسجد اقصیٰ ( قادیان) کے صحن میں کھڑے تھے اور ارد گر دلوگ تھے غالباً کسی احمدی عالم کے ساتھ اگلے دن مناظرہ کے لئے باہر جانا تھا.اردگر دکھڑے ہونے والے اصحاب
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 593 کے چہروں پر خوشی اور یقین کے آثار تھے کہ ایک بڑے پرانے تجربہ کار اور معروف مناظر کے ساتھ مقابلہ کیلئے ان کا وہ نو جوان جارہا ہے جو ہمیشہ ہر میدان مناظرہ میں فتح یاب ہو کر آیا کرتا ہے.آپ لوگوں کے درمیان بہت شرمیلے انداز میں نظریں پاؤں کے انگوٹھوں میں لگائے کھڑے تھے.مجمع میں سے کسی نے اُس غیر احمدی مناظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسئلہ کو منطق و فلسفہ اور گرائمر میں لا کر الجھانے کی کوشش کیا کرتے ہیں." ย اس پر حضرت مولانا نے نہایت اعتماد مگر دھیمی آواز میں کہا ” آپ بے فکر رہیں ہم اس کا جواب دے لیں گے“.” ہم اس کا انتظام کر لیں گے.مجھے حضرت مولانا صاحب کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقعہ اُس وقت ملا جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ کا مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر فرمایا.الشرکة کے سلسلہ میں ان کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنے کا موقعہ ملا.ان کے ساتھ بے تکلفانہ باتیں کیں.حضرت مولوی صاحب بے نفس، درویش صفت اور عالم باعمل بزرگ تھے.اپنے ہی کام سے غرض رکھتے.دنیا کے جھمیلوں سے حتی المقدور دامن بچا کر چلنے کی کوشش کرتے.آپ نے الشركة الاسلامیہ کو کامیابی کی راہوں پر چلانے کی کوشش کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ کتب کو سنِ تصنیف کی ترتیب کے لحاظ سے روحانی خزائن کے نام سے 23 جلدوں میں شائع کرنے کا اہتمام کیا.آپ کا یہ کارنامہ ہمیشہ یادگار رہے گا.ہر جلد کا انڈیکس جو کم و بیش سو صفات پر مشتمل ہوتا آپ خود تیار کرتے.آپ کی زندگی میں روحانی خزائن کی انہیں جلدیں شائع ہو چکی تھیں بیسویں جلد تیار ہو چکی تھی.اس کا انڈیکس آپ تیار کر رہے تھے.وفات سے ایک دن پہلے جب کہ آپ نے انڈیکس کا مسودہ مکمل کر لیا تو خوشی اور اطمینان کا سانس لے کر فر مایا الحمد للہ آج میرا کام مکمل ہو گیا.اگلے دن آپ کی وفات ہو جاتی ہے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خالد (ماہنامہ الفرقان ، جنوری 1968ء) محترم مولانا چوہدری محمد صدیق صاحب، سابق انچارج خلافت لائبریری) حضرت مولانا جلال الدین شمس بھی اس خوش قسمت گروہ میں شامل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ کی تبلیغ اور خدمت کے لئے چن لیا اور آپ کو ایسی فعّال زندگی عطا فرمائی کہ آخر دم تک خدمت سلسلہ میں مصروف رہے.حضرت مولانا شمس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے غیر معمولی قوتیں اور طاقتیں عطا فرمائی تھیں.آپ نہ صرف اعلیٰ درجہ کے مقرر تھے بلکہ اعلیٰ درجہ کے مناظر ، قابل مصنف اور
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 594 بہترین منتظم بھی تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے اپنی زندگی میں قریباً ہر میدان میں اپنی قابلیت کے جو ہر دکھانے کا موقعہ عطا فر مایا چنانچہ ذیل میں چند امور کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینہ اور زبان کو اپنے دین کی خدمت کے لئے اپنے خاص نور سے منور و معمور کر رکھا تھا اور آپ کو اعلیٰ درجہ کی تقریر کا ملکہ عطا فر مایا تھا.آپ اپنی جوانی کے ایام میں نہایت تیز مقرر تھے.عنفوانِ شباب میں ہی آپ نے بڑے بڑے تبلیغی معر کے سر کیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میدان تقریر میں ایسا سکہ بٹھایا کہ بڑے سے بڑے مخالف علماء بھی اُن کے نام سے ڈرتے تھے.آپ کو اُردو زبان کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا.چنانچہ آپ نے اپنے عرصہ قیام فلسطین، شام و مصر وغیرہ ممالک عریبہ کے دوران بڑے بڑے علماء کو دعوتہائے مقابلہ دیں اور بہت ساعر بی لٹریچر سلسلہ کی تائید میں شائع کیا اور عرصہ قیام انگلستان میں بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور لاٹ پادریوں کو مقابلہ کیلئے بلایا اور تقریری وتحریری ہر دو رنگ میں شاندار خدمات بجا لائے اور نہ صرف ?Where did Jesus die جیسی شاندار اور لاجواب کتاب تصنیف فرمائی بلکہ اور بہت سا لٹریچر انگریزی زبان میں شائع کیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو فن مناظرہ میں بھی خاص ملکہ اور مہارت عطا فرمائی تھی تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری جو بزعم خود فاتح قادیان“ کہلاتے تھے انہیں بھی حضرت مولانا شمس کے مقابل پر آنے میں تر در ہوتا تھا.آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے مناظرے کئے.مخالف علماء کو آپ کے دلائل توڑنے کی ہمت نہ ہوتی تھی.فن مناظرہ میں مہارت کے علاوہ آپ کو اعلیٰ درجہ کی قوت استدلال بھی ودیعت ہوئی تھی اور آپ اعلیٰ درجہ کے نئے نکات بیان فرماتے تھے.آپ نے سلسلہ کے خلاف غیر از جماعت لوگوں کی طرف سے کھڑے کئے گئے بعض مقدمات میں سلسلہ کی نمائندگی فرمائی.چنانچہ مقدمہ بہاولپور اس کی عمدہ مثال ہے آپ نے جس قابلیت سے مقدمہ کی پیروی کی اور مخالفین کے اعتراضات کے جواب دیئے، وہ آپ ہی کا حصہ تھا.1953ء کے فسادات پنجاب سے متعلقہ تحقیقاتی عدالت میں مولوی مودودی وغیرہ مخالفین کے تحریری بیانات پر تبصرہ صرف چند دنوں میں تیار کر کے شائع کرنا بھی آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوتِ استدلال کا بین ثبوت ہے جس میں مخالفین کے بیانات کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیئے گئے ہیں.آپ کو نہ صرف تقریر کا خاص ملکہ حاصل تھا بلکہ آپ ایک عمدہ مصنف بھی تھے چنانچہ آپ نے عربی ، انگریزی اور اُردو میں بہت
595 حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس سایتی لٹریچر انی یاد گار چھوڑا جو نہایت اہم مسائل پرمشتمل ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیگر صلاحیتوں کے علاوہ انتظامی صلاحیت سے بھی نوازا تھا.چنانچہ آپ نے تبلیغ کے میدان کے علاوہ سلسلہ کے نہایت اہم اور اعلیٰ ذمہ داری کے مناصب پر فائز ہوکر اپنے فرائض کو عمدہ طریق پر سر انجام دیا.چنانچہ آپ کو سالہا سال تک بطور انچارج مشنہائے ممالک بیرون ، نائب ناظر اعلی ، صدر کار پرداز مقبره بهشتی ، ناظر اصلاح و ارشاد اور الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر کے طور پر سلسلہ کی بہت اہم خدمات کا موقعہ ملا.اس کے علاوہ ربوہ کے قیام کے ابتدائی سالوں میں کئی سال تک آپ بطور جنرل پریذیڈنٹ ربوہ بھی نہایت خوش اسلوبی سے خدمات سلسلہ بجالاتے رہے اور اپنی خدا داد انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے رہے.آپ کو بے حد محنت کی عادت تھی.سلسلہ کے کاموں میں کبھی آپ نے دن یا رات کی پرواہ نہ کی.خاکسار کو بھی 1953ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی کاروائی کے دوران حضرت مولانا شمس کے ساتھ تقریباً ساتھ آٹھ ماہ تک دن رات کام کرنے کا موقعہ ملا.آپ نہایت ہی محنت سے اپنے فرائض ادا کرتے.تمام دن عدالت عالیہ کی کارروائی میں شریک ہوتے اور واپس آ کر تقریباً ساری ساری رات اگلے دن کے لئے تیار کرنے اور مخالف علماء کے بیانات کے جواب تیار کرنے میں لگے رہتے حتی کہ اپنی صحت کا بھی خیال نہ فرماتے.چنانچہ اسی محنت شاقہ کے باعث انہی ایام میں آپ کی صحت گرنی شروع ہو گئی.وہاں سے فراغت پر الشرکة الاسلامیہ لمیٹیڈ کے قیام پر آپ بطور مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے تو اس کمپنی کو چلانے کے لئے آپ نے دن رات محنت کی اور لمبے لمبے سفر بھی اختیار کئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور آپ کے ملفوظات کی اشاعت کی کوشش میں شبانہ روز محنت کی.خود ہی کا پیوں اور پروفوں کی نگرانی فرماتے اور تمام کتب کے انڈیکس بھی خود ہی تیار کرتے.اس طرح آپ کی صحت پر بہت زیادہ اثر پڑا اور آپ ایک لمبے عرصہ تک پلورسی کی تکلیف میں مبتلا رہے اگر چہ علاج معالجہ کے بعد یہ تکلیف جاتی رہی لیکن صحت کمزور ہو چکی تھی.مگر سلسلہ کے کاموں کا بوجھ پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا تھا.آپ نے اپنی طاقت سے بھی بڑھ کر کام کیا.علاوہ دیگر خوبیوں اور اوصاف کے آپ میں خلافت سے محبت اور خلیفہ وقت سے وابستگی اور شیدائیت کا وصف اپنے کمال کو پہنچا ہو ا تھا.چنانچہ آپ نے حضور کی لمبی بیماری کے ایام میں اپنے خطبات اور تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ جماعت کی اعلیٰ رنگ میں تربیت کی اور خلافت سے وابستگی اور اس پر
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 596 شیدائیت کا ثبوت دیا.خلافت ثالثہ کے قیام پر آپ کی معرکۃ الآراء تقریر بھی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ آپ کو خلافت حقہ سے والہانہ عقیدت و محبت اور فدائیت عطا ہوئی تھی.الغرض حضرت مولانا شمس بہت سی خوبیوں اور صفات حسنہ کے مالک تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلی محبت اور بچے فدائی تھے.آپ نے سلسلہ حقہ کی خاطر چھرے کے وار برداشت کئے اور ساری عمر دینی جہاد میں صرف کر دی.ان کی اچانک وفات ہم سب کیلئے بے حد صدمہ کا باعث ہوئی.ہم (ماہنامہ الفرقان، جنوری 1968ء) سیکھوانی برادران کی سادہ فطرت و اخلاص کے رنگ میں رنگین حضرت مولانا شمس صاحب تاثرات مکرم ومحترم مولانا سید عبدالحی شاہ صاحب، ناظر اشاعت ربوہ) سلسلہ کے لٹریچر میں سیکھوانی برادران کی سادہ فطرت، اخلاص اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عاشقانہ اور عقیدت مندانہ تعلق کا جو ذکر آتا ہے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اس رنگ میں رنگین اور انہی بزرگوں کا تسلسل تھے.الحمد للہ ! خاکسار کوحضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ ان کے ناظر اصلاح وارشاد مقرر ہونے سے وفات تک کام کرنے کا موقعہ ملا ہے.حضرت شمس صاحب بہت شفیق افسر تھے اور نکتہ نواز تھے.انتہائی بے نفس اور سلسلہ کے کاموں میں مشقت اٹھانے والے تھے.مجھے ان کے ساتھ بعض سفروں میں ساتھ جانے کا موقعہ ملا ہے.انہیں شدید گرمی میں بھی سلسلہ کیلئے سفر کرنے پڑے.عام بس میں سفر کرتے تھے.راستہ میں کوئی گرم یا سرد مشروب یا کھانے کی چیز قبول نہیں کرتے تھے.جہاں ان کے عزیز ہوتے تو جماعتی نظام کے تحت رہنے کی بجائے عزیزوں کے ہاں ہی ٹھہر تے.لاہور میں ان ایام میں ان کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر صلاح الدین میڈیکل ہوٹل میں رہتے تھے.کھانا ان کے پاس ہی کھاتے اور سامنے جودھا مل بلڈنگ یا سیمنٹ بلڈنگ میں ان کے ایک عزیز کے ہاں ان کا قیام ہوتا.جہاں ان کے عزیز موجود نہ ہوتے باوجود احمدیوں کے اصرار کے مربی سلسلہ کی قیام گاہ پر ہی ٹھہرتے.ایک دفعہ میرے دریافت کرنے پر آپ نے بتایا کہ ان کے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب نے انہیں نصیحت کی تھی کہ مولوی کھانے پینے میں بدنام ہیں اس لئے کوشش کرنا کہ جماعتوں میں جا کر اپنے دامن کو صاف رکھنا.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 597 جب حضرت مولانا شمس صاحب الشركة الاسلامیہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے تو اس وقت ربوہ میں نہ بھلی تھی نہ آرام دہ کمرہ اور خلافت لائبریری بھی اس وقت مکمل نہ تھی ، آپ نے ملفوظات اور روحانی خزائن کے وسیع پرا جیکٹ کو تن تنہا شروع کیا.خود ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو صحت کے ساتھ کتابت کرواتے ،خود ہی کا پیاں پڑھتے اور خود ہی پروف ریڈنگ کرتے.پھر ان کتب کا تعارف اور انڈیکس مرتب فرماتے.ضیاء الاسلام پریس بھی الشرکة کے ماتحت تھا.اس کے جملہ امور کی انجام دہی بھی فرماتے.مجھے یاد ہے کہ 1956ء میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر کا کام شروع کیا.حضور جابہ میں باوجود اپنی بیماری کے قرآن کریم کا یہ معرکۃ الآراء ترجمہ فرماتے.کا تب وہاں ہی اسکی کتابت کرتا اور حضرت مولانا شمس صاحب روزانہ ربوہ سے صبح بس پر جا بہ جاتے اور وہاں سے کتابت شدہ کا پیاں لا کر اگلے دن ضیاء الاسلام کے پریس سے اس کے پروف لے کر خود جابہ پہنچاتے.یہ روزانہ کا سفر کئی ماہ جاری رہا مگر حضرت مولانا شمس صاحب بشاشت سے یہ خدمت انجام دیتے رہے.جب آپ ناظر اصلاح وارشاد مقرر ہوئے تو مجھے آپ کے قریب رہنے کا موقعہ ملا.آپ مربیان کرام کا بہت احترام فرماتے حالانکہ ان میں بہت سارے مربیان عمر میں ان کے بچوں کی طرح تھے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب دنیا میں جہاں بھی ہوتے ہر ہفتے دس دن کے بعد ان کا خط آپ کو آتا تھا.اسی طرح انڈین فارن سروس کے مالک رام صاحب جو تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہیں، سید احمد برکات صاحب، یہ بھی انڈین فارن سروس میں تھے ،سر شہاب الدین کے فرزندمیاں نیم احمد پاکستانی فارن سروس اور ان کی اہلیہ دونوں شمس صاحب کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے.یہ سب لوگ حضرت مولا نائمس صاحب کو دعا کیلئے لکھا کرتے تھے اور حضرت شمس صاحب باقاعدگی سے ہر ایک کا جواب دیتے تھے اور لندن کے ایسے احمدی جن کے حضرت مولانا شمس صاحب سے عقیدت مندانہ تعلقات تھے اکثر ان لوگوں کے خطوط آیا کرتے تھے.حضرت شمس صاحب ایک طویل عرصہ لندن میں بطور مبلغ مقیم رہے.چوہدری جلال الدین صاحب قمر نے مجھے بتایا کہ وہ بھی جنگ عظیم دوم کے زمانہ میں لندن میں ہی تھے.ایک دفعہ انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنی طرف سے لکھا کہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس لندن میں بغیر بیوی بچوں کے طویل عرصہ سے رہ رہے ہیں ان کے حالات دیکھ کر میرے دل میں تحریک ہوئی ہے کہ میں حضور کی خدمت میں لکھوں کہ اب جبکہ جنگ بند ہو چکی
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 598 ہے ان کے بچوں کو لندن بھجوا دیا جائے تو مناسب ہوگا.وہ بتاتے تھے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ خط بغیر تبصرہ کے محترم شمس صاحب کو بھجوا دیا.اس پر شمس صاحب نے مجھے بلا لیا اور سخت ناراض ہوئے کہ تمہیں یہ خط نہیں لکھنا چاہیئے تھا.حضور سمجھیں گے کہ شاید میں نے تمہیں ایسا خط لکھنے کو کہا ہے.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے حضرت شمس صاحب کا نہایت قریبی تعلق تھا.خاندان کے افراد اور خواتین بھی آپ کی خدمت میں دعا کیلئے خط لکھا کرتے تھے اور خلیفہ اسیح الثالث حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سے ان کے خلیفہ منتخب ہونے سے پہلے بھی بہت عقیدت مندانہ تعلق تھا.آپ کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد آپ نے ” بشارات ربانیہ“ کے نام سے وہ تمام رویاء اور کشوف اور سابقہ کتب کے حوالے جمع کئے تھے جن میں حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کا نام صراحتاً آیا تھا.یہ تصنیف اگر چہ مختصر تھی لیکن سعید فطرت احمدیوں کیلئے از دیا دایمان کا باعث تھی.آپ کے اجداد وادی کشمیر کی تحصیل کو لگام کے علاقہ شمر میں بات جه هالن سے پنجاب آئے تھے.حضرت شمس صاحب کو کبھی کشمیر اپنے گاؤں جانے کا موقعہ نہیں ملا.روحانی جرنیل وو ( تاثرات محرر 2008ء) ( مکرم چوہدری محمد علی صاحب.ایم اے.وکیل التصنیف تحریک جدید.ربوہ ) حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب سے خاکسار کی پہلی ملاقات ان کی لندن سے واپسی پر دار الضیافت قادیان میں ہوئی.لندن جنگ کے دوران ان کی بہادرانہ مساعی کے متعلق بہت کچھ سنا ہوا تھا دیکھنے کا موقع اب ملا.حضرت سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری دارالضیافت کے ایک کمرہ میں مقیم تھے.وہیں ہم سب لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے.جس تقریب کا ذکر کر رہا ہوں اس موقع پر حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب رحمہ اللہ بھی موجود تھے اور حضرت حافظ صاحب کو کسی کتاب یا مضمون کا مسودہ دکھا رہے تھے.اس دوران میں حضرت حافظ صاحب نے حضرت شمس صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں جب آپ ابھی نوجوان تھے اور سبزے کا آغاز تھا تو آپ نے بہاولپور کے مقدمہ میں جس تجر علمی اور مہارت سے جماعت کے موقف کو پیش کیا میں اس وقت بھی آپ کو علامہ کہتا تھا.اس کے بعد ایک اور تقریب پیدا ہوگئی.انہی دنوں سیدنا حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ ) کے ارشاد پر مجلس
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مذہب وسائنس کا قیام عمل میں آیا.599 نوٹ : فروری 1945ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ” مجلس مذہب و سائنس کی تاسیس فرمائی جس کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کو نامزد فرمایا جبکہ نائب صدر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان مقرر ہوئے.اس مجلس کا پہلا اجلاس 29 مارچ 1945ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں ہوا.اس مجلس میں چوٹی کے علماء اپنے تحقیقی مقالات پیش کرتے.مکرم ومحترم چوہدری محمد علی صاحب ایم اے نے 21 مئی 1945ء کے اجلاس میں اس مجلس میں اپنا مقالہ ” علم النفس کے جدید نظریئے پیش فرمایا.] اس کے اجلاس عموماً مسجد مبارک ہی میں ہو ا کرتے تھے اور حضور انور ( نور اللہ مرقدہ ) بنفس نفیس صدارت فرمایا کرتے تھے.تقاریر انگریزی میں ہوا کرتی تھیں اور حضور بھی نہایت شستہ اور رواں انگریزی میں صدارتی ریما کس دیا کرتے تھے.مجلس مذہب و سائنس کے زیر اہتمام حضرت شمس صاحب کا لیکچر بھی ہوا.اس پر حضور انور نے جو صدارتی ریماکس دیئے ان کا نشہ اب تک محسوس کرتا ہوں.حضور نے نہایت شگفتہ انداز میں جو کچھ فرمایا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ حضور کو اپنے اس روحانی جرنیل سے کتنی محبت ہے اور اس پر کتنا فخر ہے.یہ غالبا1946ء کے اواخر کی بات ہے.اس کے بعد 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آگیا.اس کے ساتھ ہی کالج لاہور میں آگیا.1948ء میں جماعت احمدیہ کے نئے مرکز کا قیام عمل میں آیا اور اس کا نام قرآن کریم میں مذکور لفظ کی مناسبت سے ربوہ رکھا گیا.یہ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کا ہی تجویز کردہ ہے جسے حضور انور حضرت مصلح موعود ( نوراللہ مرقدہ ) نے منظور فرمایا.انجمن کے دفاتر ربوہ شفٹ ہو گئے.کالج ابھی لاہور ہی میں تھا.ان دنوں حضرت شمس صاحب سے بار بار ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا.وہ چاہتے تو ہر احمدی کے گھر کے دروازے انکے قیام اور میزبانی کے شرف کیلئے چشم براہ تھے لیکن یہ شرف فضل عمر ہوٹل کو حاصل ہوا کہ آپ لاہور میں آتے تو عموماً ہوٹل ہی میں قیام فرماتے.یہ ہوٹل کیا تھا کلاس رومز اور لائبریری کو کمروں میں تبدیل کر لیا ہوا تھا.بائیالوجی لیبارٹری کے اوپر کے کمروں میں خاکسار رہتا تھا.نیچے دفتر تھا ایک کلاس روم تھا اور چھوٹا سا کمرہ جس میں آپ قیام فرماتے.ٹائلٹ کا کوئی ملحقہ انتظام نہیں تھا.لوٹا اٹھا کر دور بیت الخلاء میں جانا پڑتا تھا.اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے آپ صرف قیام فرماتے تھے نہ ناشتہ قبول فرماتے نہ کھانا.اس پر ہم متعجب بھی ہوئے اور شرمندہ بھی.قیاس کہتا ہے کہ آپ کھانا ناشتہ وغیرہ بازار سے کھاتے ہونگے.ہم میں سے اکثر انجمن سے TADA بھی وصول کرتے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 600 ہیں اور ساتھ ساتھ مہمان نوازی سے بھی مستفیض ہوتے ہیں.دیانت اور امانت کا یہ خاموش مظاہرہ ہمیشہ ہی یاد آنے پر حضرت مولوی صاحب کیلئے دل کو احترام اور محبت کے جذبات سے گرمادیتا ہے.کالج میں جلسہ ہائے تقسیم اسناد کے مواقع پر خطبہ تقسیم اسناد کیلئے ملکی سطح پر معروف مشاہیر کو دعوت دی جاتی تھی.مثلاً وزیر تعلیم سردار عبدالحمید دستی، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی میاں افضل حسین صاحب وغیرہ.ایک مرتبہ فیصلہ ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے کسی ایک کو دعوت دی جائے.دو بزرگوں نے تو اپنی انتہائی کسر نفسی اور انکسار کے باعث معذرت کر دی.حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نور اللہ مرقدہ اس شرط پر آمادہ ہوئے کہ ان کا لکھا ہو ا خطبہ تقسیم اسناد وہ خود نہیں بلکہ مولانا جلال الدین شمس صاحب پڑھیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت شمس صاحب نے وہ بابرکت اور پر حکمت خطبہ نہایت پر تاثیر جوش و جذبہ کے ساتھ پڑھا.اس کے علاوہ بھی متعدد بار کالج میں تشریف لائے اور طلباء اور اساتذہ کو اپنے حکمت اور معرفت سے لبریز خطابات سے نوازا.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کا ان کو بہترین اجر عطا فرمادے اور ان کی آل اولاد پر اپنا فضل فرما دے.ان کے فرزند مولانا منیر الدین شمس صاحب ماشاء اللہ واقف زندگی ہیں اور لندن میں ایڈیشنل وکیل التصنیف ہیں اور متعدد حیثیتوں میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت بجا لا رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے تمام افراد خاندان کو اپنی خاص حفظ وامان میں رکھے اور اپنے عظیم باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیتار ہے اور دین و دنیا کی نعماء سے نوازے.آمین“.دینی علمی ، اخلاقی اور روحانی برکات سے پُر وجود تاثرات محررہ دسمبر 2006ء) محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب.ناظر خدمت درویشان) جماعت احمدیہ کی تاریخ میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کو ایک غیر معمولی شہرت و اہمیت حاصل ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے سائے میں ہر طرح خدمات بجالانے کی سعادت پائی تھی.بیرون ملک پیغام حق پہنچانے کے لئے ایک بے مثال کردار کے وہ مالک تھے.مرکز ربوہ میں جہاں ایک عالم کے طور پر اُن کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی مسجد مبارک ربوہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر جمعہ کا خطبہ دینے کی اُنہیں سعادت ملتی رہی.پھر ایک
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 601 لمبا عرصہ انہوں نے نظارت اشاعت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور اس عرصہ میں آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود کی کتب کا ایک تاریخی معیار کے رنگ میں فریضہ ادا کیا.سیدنا حضرت مسیح موعود کی 85 کے قریب کتب تھیں ان کتب کی اجتماعی اشاعت کے لئے آپ نے روحانی خزائن کے تحت 23 جلدوں میں ان کتب کو شائع کر دیا اور ہر کتاب کے ساتھ ایک انڈیکس تیار کیا اور یہ اسی تفصیلی انڈیکس ہے کہ کسی بھی مضمون یا حوالہ کی ضرورت ہو تو چند سیکنڈ میں انسان کو مطلوبہ موادل جاتا ہے.یہ ایک غیر معمولی محنت اور کاوش تھی جس کی حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے سعادت پائی.پھر ایک اعلیٰ پایہ کے مقرر کے طور پر مختلف میدانوں میں احمدیت کے علم کلام کا حق ادا کیا جس کے نتیجہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو "خالد احمدیت" کا مبارک خطاب عطا فرمایا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک وقت ناظر اصلاح و ارشاد کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے اور جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 26 دسمبر 1961 ء کو وصال ہوا تھا تو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کو ناظر اصلاح وارشاد کا عہدہ عطا ہوا.خاکسار کو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ تعارف کا پہلا موقعہ اس وقت نصیب ہو اجب 1956ء میں حضرت ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر ایک پروگرام ترتیب دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد یہ تھا کہ ملک صاحب خود مفتی سلسلہ ہیں لیکن فرمایا کہ آپ اپنے جانشین تیار کریں اس پر حضرت ملک سیف الرحمن صاحب نے ایک تفصیلی منصو بہ تیار کر کے صدر انجمن احمدیہ میں پیش کیا جس کا ملخض یہ تھا کہ کم از کم جامعہ احمد یہ ربوہ کے تین طالبعلموں کو فقہ میں specialize کرنے کا موقعہ دیا جائے اور فقہ کا کورس مکمل کرنے کے بعد ان طالبعلموں کا انگریزی تعلیم کے لئے graduation کرایا جائے اور یہ کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کو عالمگیر سطح پر world tour پر بھجوایا جائے تاکہ انکی معلومات میں وسعت آجائے اور آخری شق یہ تھی کہ world tour کے بعد انکو نائب ناظر کا status دیا جائے خواہ کام ان سے جو بھی لینا ہو لیا جائے.صدر انجمن احمدیہ نے طلباء کے انتخاب کے لئے ایک کمیٹی نامزد فرمائی جس میں حسب ذیل اراکین تھے :.(۱).حضرت مولوی محمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۲).حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۳).حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب در درضی اللہ تعالیٰ عنہ (۴).حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۵) مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ (نمائندہ تحریک جدید ).اس کمیٹی
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 602 نے جامعہ احمد یہ ربوہ کے دس طالبعلموں کا انٹر ویولیا اور تین طالبعلموں کا انتخاب فرمایا جن کے نام یہ ہیں:.(۱) سید عبدائی شاہ صاحب (۲).خاکسار سلطان محمود انور (۳) محمود احمد مختار صاحب ( کوٹلی آزاد کشمیر والے ).تین طالبعلموں کا انتخاب ہونے کے بعد حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کے مجوزہ پروگرام کے بارہ میں صدر انجمن احمدی کا یہ پروگرام تھا کہ بی طالبعلم اپنا علمی کورس مکمل کریں دو سال کے بعد پروگرام کی باقی شقیں علمی کورس پورا ہونے کے بعد زیر غور لائی جائیں گی.اس انٹرویو میں ہم سے زیادہ سوالات پوچھنے والے حضرت مولانا شمس صاحب تھے انکی گفتگو، انکا علمی معیار اور سوال و جواب کے انداز انتہائی مہارت کا منظر پیش کرتے تھے.خاکسار دو سال کا کورس پورا کرنے کے بعد نظارت اصلاح وارشاد میں حاضر ہو گیا اور جن دنوں میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد کے منصب پر آئے ، خاکسار اس وقت گجرات ضلع کا مربی تھا.تین چار سال بعد خاکسار کا وہاں سے باندھی ضلع نواب شاہ میں تقر ر ہو ا وہاں سال، سوا سال کام کیا تو ایک دن حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد کی طرف سے میرے نام ٹیلی گرام موصول ہوئی کہ آپ کا باندھی سے میر پور خاص تقرر کیا جاتا ہے.خاکسار میر پور خاص چلا گیا لیکن وہاں پر رہائش کا مناسب انتظام نہ ہونے کی بناء پر ربوہ پہنچا اور ساری صورتحال حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے سامنے بیان کی.حضرت مولانا شمس صاحب کو کسی ذریعہ سے اس تبادلہ پر یہ تاثر دیا گیا تھا کہ دو امراء صاحبان، حضرت صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعت سکھر اور حضرت ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی امیر ضلع میر پورخاص کے باہمی مشورہ سے یہ تبادلہ کیا گیا ہے.خاکسار نے میر پور خاص سے واپسی پر دفتر اصلاح و ارشاد میں حاضر ہوکر حالات پیش کئے کہ یہ دونوں امراء کے باہمی مشورہ سے طے ہوا تھا لیکن چونکہ میر پور خاص میں رہائش کا انتظام نہ ہو سکا اس لئے خاکسار کو یہ حکم ملا کہ آپ واپس ربوہ آجائیں اور میری تقرری منڈی بہاؤالدین میں کر دی گئی.حضرت مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جہاں ذہنی بصیرت عطا کر رکھی تھی وہاں مربیان کے ساتھ شفقت محبت اور خیر خواہی کا انتہائی جذبہ تھا.خاص طور پر جب کسی مربی کوکسی دقت یا مشکل کا سامنا ہوتا تو آپ خود بھی اس کی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مضطرب ہو جایا کرتے تھے اس سے غرض یہ تھی کہ مربی کو پریشانی سے محفوظ کیا جائے چنانچہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک امیر جماعت سے میرا معاملہ ذرا بگڑ گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ خاکسار خطبہ جمعہ دے رہا تھا اور امیر صاحب موصوف دو آدمیوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے.خاکسار نے خطبہ میں ہی اس کا نوٹس لیا اور امیر صاحب کی اس روش پر اپنے سخت جذبات کا اظہار کیا.اگلے روز خاکسارر بوہ حاضر ہوا اور حضرت مولانا شمس صاحب کے سامنے صورتحال بیان کر دی.انہوں
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 603 نے مجھے تسلی دلائی اور فرمایا کہ آپ دو تین دن کے لئے ربوہ میں ٹھہریں.اور اس دوران انہوں نے متعلقہ امیر صاحب کو ربوہ طلب کیا.موصوف یہاں پہنچے اور دفتر میں پیش ہوئے تو حضرت مولانا شمس صاحب نے مجھے بھی دفتر میں طلب فرمایا اور امیر صاحب کے سامنے ساری صورتحال بیان فرمائی اور اُن سے رائے لی کہ کیا یہ اطلاع درست ہے؟ امیر صاحب نے فرمایا کہ ہاں اطلاع درست ہے.اس پر حضرت مولانا شمس صاحب نے فرمایا کہ اگر یہ اطلاع درست ہے تو مربی کو اس سے زیادہ ایکشن لینا چاہئے تھا.اس پر محترم امیر صاحب فوراً اپنی سیٹ سے اُٹھ کر مجھ سے بغلگیر ہو گئے اور بڑی فراخدلی کے ساتھ اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہوئے مجھ سے محبت اور وفا کا عہد کیا.حضرت مولا نائٹس صاحب کو بھی اس بات کا اطمینان ہو گیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا.حضرت مولانا شمس صاحب کا معمول یہ تھا کہ بالعموم مجلس کی صورت میں ، سوائے ضرورت حقہ کے، اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتے تھے اور دینی علم پر ہر وقت اُنکی توجہ رہتی تھی.حضرت مولانا شمس صاحب سے مختلف انداز سے استفادہ کا موقعہ ملتارہا جس کی تفصیل آئندہ انشاء اللہ کسی مضمون میں پیش کرونگا.سر دست اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے دو تین باتوں کا ذکر کر دیا ہے.حضرت مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بڑا وسیع ظرف اور بے پناہ محبت اور شفقت کے کثیر انداز عطا فرمائے ہوئے تھے اور یہ ممکن نہ تھا کہ اُن کی مجلس اور صحبت میں بیٹھ کر انسان دینی علمی، اخلاقی اور روحانی برکات سے متمتع نہ ہو.اللہ تعالیٰ اُن کی روح پر بے شمار رحمتوں برکتوں کو ہمیشہ نازل فرماتا رہے.اور اُن کی محبت بھری اور مشفقانہ دعاؤں کے ثمرات ہم سب پر سایہ فگن رہیں.آمین.( تحریر محرہ تمبر 2010ء بنام مکرم منیر الدین صاحب شمس) جلیل الشان مہدی علیہ السلام کی تعلیم کے جلیل الشان وارث تاثرات مکرم چوہدری خورشید احمد سیال صاحب) میں خورشید عاجز بندۂ خدا کینسر یعنی "osteosarcoma" کی موذی مرض میں مبتلا ہوکر بڑے مصائب میں تھا اور یہ مصائب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے مجھ پر ڈالے تھے.اور میں ہر وقت اس خوف میں تھا کہ اب اس زندگی کا معاملہ بہت بگڑ جاویگا.چنانچہ میں نے بڑی انکساری سے دعائیں کیں کہ خدا تعالیٰ مجھے اس گرنے کے وقت سنبھال لیوے.اور تائید غیبی اس طریق کو سمجھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود یہ السلام کے صحابہ کرام اور دیگر بزرگان کو دعا کی درخواست کروں.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 604 ہسپتال میں بستر پر پڑا یہ سلسلہ خط و کتابت شروع کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے علاوہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خانصاحب اور حضرت مولانا مولوی جلال الدین صاحب مشمس سب ان میں تھے.مجھے یاد ہے مارچ کا مہینہ تھا صبح 10 بجے کے قریب کینسر کے ماہر سرجن اپنے ایک سینئر رجسٹرار کے ہمراہ میرے پاس آئے اور آتے ہی دونوں احباب بستر پر بیٹھ گئے.میرے آپریشن اور بیماری کی نوعیت کے تمام واقعات مجھ پر ظاہر کئے اور نہایت افسوسناک لہجہ میں مجھے چھ ماہ کی زندگی کی مہلت دے کر چلے گئے.اس موت کا پیالہ سن کر جو میری حالت ہوئی اس موقعہ پر اس کو بیان کرنا میری قوت قلم سے باہر ہے.کہاں سے الفاظ لاؤں اور کس منہ سے کچھ کہوں.گویا میں موت کے پردہ میں چُھپ گیا.یہ موت کا پیالہ سن کر میں نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت مولانا شمس صاحب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس کی اطلاع کر دی.کوئی ہفتہ عشرہ ہی گزرا ہوگا کہ حضرت چوہدری صاحب رضی اللہ عنہ کا خط آیا جس میں رقم تھا کہ ان ماہرین سے پوچھو کہ کیا چھ ماہ کی زندگی کی مہلت کا سرٹیفیکیٹ انہیں خدا نے دیا ہے، میں توجہ سے دعا کر رہا ہوں، خدا تعالیٰ رحم فرمائیگا.اس کے چند دن بعد مکرم حضرت شمس صاحب رضی اللہ عنہ کا خط بھی آگیا جس میں لکھا تھا ماہرین کی پیشگوئی کی کیا حیثیت.زندگی اور موت کا معاملہ خدا تعالیٰ کے اپنے ہاتھ میں ہے.باقی تو سارے قصے کہانیاں ہیں گھبراؤ نہیں میں التزام کیساتھ دعا کر رہا ہوں.خدا تعالیٰ رحم کریگا.حضرت شمس صاحب اپنے خطوط میں بعض قرآن کریم کی دعائیں لکھ دیتے کہ ان دعاؤں کا ورد کرتے رہا کرو.میرا عقیدہ ہے کہ میں ان صحابہ کرام کی جماعت کی دعاؤں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بچ گیا مگر اس موقعہ پر ان تمام صحابہ کا ذکر کر نا غرض نہیں.صرف حضرت مولا نا مولوی جلال الدین صاحب شمس کا تھوڑا سا ذکر کرنا اصل مقصد ہے.حضرت شمس صاحب خدا تعالیٰ کے فرستادہ تھے.ان کی قلم اور زبان روح القدس سے مدد پاتی تھی.خدا ان کی دعاؤں کو سنتا اور قبول فرماتا تھا.ان کا ہر خط اور ایک ایک لفظ میرے لئے نزول من السماء کا باعث تھا میرے لئے غیر ممکن ہے کہ میں حضرت شمس صاحب کی روحانیت جوفلق اور خو اور محبت اور ہمدردی اور خلائق میں ایک قطب اور ابدال کے مشابہ تھی بیان کر سکوں.وہ جلیل الشان مہدی علیہ السلام کی تعلیم کے جلیل الشان وارث تھے.میں حضرت چوہدری صاحب اور حضرت شمس صاحب اور صحابہ کرام کی دعاؤں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس موذی مرض سے بچ گیا اور کچھ نہیں.( تحریر محررہ 29 جون 2010ء بنام مکرم منیر الدین صاحب شمس)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس تاریخ احمدیت کی معروف ہستی 605 مکرم و محترم سید داؤ د احمد صاحب مرحوم سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ) مکرم ومحترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کی خدمت میں یہ ایڈریس ایک پرشکوہ تقریب میں مکرم و محترم سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے پیش کیا.اپنے افادہ کے لحاظ سے یہ ایڈریس اس قابل ہے کہ ہر دردمند دل رکھنے والا احمدی اس کا مطالعہ کرے.بسم اللہ الرحمن الرحیم صاحب صد ر و ا حباب کرام! محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ آج شام ہم جامعہ احمدیہ کی سالانہ انعامات کی تقریب کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.اس غرض کے لئے ہمارا طریق یہ ہے کہ اس درسگاہ کے کسی سابق طالب علم کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ وہ یہاں تشریف لا کر اپنے ہاتھ سے انعامات تقسیم فرما ئیں.چنانچہ آج کی تقریب کے لئے مکرم و محترم جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس کی خدمت میں درخواست کی گئی ہے.محترم مشمس صاحب احمد یہ تاریخ کی معروف ہستی ہیں.لیکن تاہم ان کا مزید مختصر تعارف پیش کرناضروری سمجھتا ہوں.آپ حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوائی کے صاحبزادے ہیں.حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے.اور نہایت درجہ مخلص انسان تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس درجہ محبت و عشق رکھتے [ تھے] کہ اشتہار جلسہ الوداع میں ان کے اور ان کے بھائیوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا: " حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے.آمین محترم شمس صاحب مئی 1901ء میں سیکھواں نامی گاؤں میں جو قادیان سے جانب غرب تین میل کے فاصلہ پر تھا پیدا ہوئے.ذرا چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو اپنے والد ماجد کے ساتھ قادیان آنا شروع کیا اور اپنے ننھے ننھے ہاتھ صحیح پاک کے ہاتھوں میں دے کر برکت حاصل کرتے رہے.
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 606 آپ نے ابتدائی تعلیم لوئر پرائمری تک اپنے گاؤں سیکھواں ہی میں حاصل کی.لیکن آپ کی اصلی اور مستقل تعلیم کا آغاز 1910ء میں ہو ا جب آپ باقاعدہ قادیان آ کر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.مدرسہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے 1906ء میں جاری کرنے کی تجویز فرمائی تھی اور جس وقت آپ داخل ہوئے اس وقت تیسری جماعت کھل رہی تھی.آپ ایک نہایت ہو نہار محنتی اور سمجھدار طالب علم تھے.آپ ہر سال پاس ہوتے چلے گئے تا آنکہ 1919ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی سند حاصل کی اور پھر تین سال کی خصوصی تعلیم و تربیت کے بعد آپ نے مبلغین کلاس کا امتحان پاس کیا.ایک طرف جہاں آپ کو حضرت مسیح پاک کی نظروں کی برکت اور اپنے نہایت درجہ تخلص باپ کی تربیت حاصل ہوئی وہاں دورانِ تعلیم میں حضرت خلیفتہ امیج الاول رضی اللہ عنہ کا درس قرآن سنا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت قاضی میرحسین صاحب ، حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب رضی اللہ عنہم جیسے آسمان احمدیت کے ستارے بطور استاد میسر آئے جو اس پاک مٹی پر سونے پر سہا گہ کی طرح کام دے گئے.آپ نے 1918ء سے اپنے طالب علمی کے زمانہ سے مضامین لکھنے شروع کئے اور مناظروں میں حصہ لینا شروع کر دیا.چنانچہ 1919ء میں آپ نے مشہور مناظرہ سار چور میں کیا.جس میں آپ کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی اور ایک سکھ ڈاکٹر کی طرف سے آپ کو انعام ملا.اس مناظرہ کی کارروائی شائع شدہ ہے.اس کے علاوہ آپ نے بیسیوں مباحثات اس زمانہ میں شیعوں ، سنیوں اور پادریوں سے کئے.جن میں مباحثہ بھونگاؤں ، مباحثہ جہلم اور مباحثہ میانی شائع شدہ ہیں.1923ء میں آپ کو مبلغین کلاس پاس کرنے کے بعد ملکانوں کے فتنہ ارتداد کے دور کرنے کے لئے بھجوایا گیا جہاں آپ نے 11 سال تک جانفشانی سے کام کیا.1924ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سفر ولایت میں جب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کا ساتھ جانے کا فیصلہ ہو ا تو آپ کو ملکانہ سے واپس بلا کر ان کی جگہ الحکم کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا.آپ کی محنت علمی مشاغل، زور بیان کو دیکھ کر سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے آپ کو عرب ممالک میں بطور مبشر احمدیت بھجوانے کا فیصلہ فرمایا.چنانچہ آپ 1925ء میں بلا دعر بیہ تشریف لے گئے.جہاں آپ کے ذریعہ دمشق، کہا بیر، حیفا اور مصر میں جماعتیں قائم ہوئیں.آپ ہی کے ذریعہ
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 607 سید منیر احصنی صاحب اور چند اور مخلص دوست سلسلہ میں داخل ہوئے جس سے سارے شام میں شور برپا ہو گیا.اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے عربی زبان میں ایک کتاب میزان الاقوال لکھی جس میں آپ نے تمام عرب علماء کو چیلنج کیا کہ تم میرے ساتھ دلائل میں مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے کہ میرے امام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آپ کے اتباع ہی غالب رہیں گے.اور ہو ابھی یہی.لیکن جب علماء آپ کے مقابلہ میں ٹھہر نہ سکے تو انہوں نے آپ کو جسمانی طور پر مٹانا چاہا اور ایک بے سمجھ انسان نے آپ پر خنجر سے حملہ کر دیا جس سے آپ کے شانہ اور کمر میں زخم آئے اور اس طرح جسمانی طور پر آپ نے اپنا خون اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کیا.لیکن اس رحیم و کریم ہستی کو ابھی آپ کو اور نو از نا منظور تھا لہذا اس نے اپنے فضل سے آپ کو صحت فرمائی.شرق الاوسط کے قیام کے دوران میں جو 1931 ء تک رہا متعدد مناظرے مسلمان اور عیسائی علماء سے کئے.اور عربی زبان میں چودہ کتب و رسائل جو بہائیوں اور عیسائیوں اور مولویوں کے خلاف تھے تصنیف کرنے کی توفیق پائی.دمشق سے کامیاب واپسی کی خوشی میں لجنہ اماءاللہ قادیان نے دعوت چائے دی اور ایڈریس پیش کیا.حضور نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہمارے کام کرنے والے لوگ کام سے تھکتے نہیں.ایک شخص چھ سال کا لمبا عرصہ اپنے وطن سے دُور اور سمندر پار رہا ہو.وہ امید کر سکتا ہے کہ واپسی پر اسے اپنے رشتہ داروں کے پاس رہنے اور آرام کرنے کا موقعہ دیا جائے.مگر یہ مردوں اور عورتوں کے لئے تعجب کی بات ہوگی کہ مولوی صاحب جب سے آئے ہیں کل صرف چند گھنٹوں کے لئے اپنے وطن گئے.کیونکہ آتے ہی انہیں کام پر لگا دیا گیا.ممبرات لجنہ اور دوسرے دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کے اخلاص میں برکت دے“.1931ء سے 1936ء تک آپ قادیان میں مختلف خدمات سرانجام دیتے رہے جن میں مقدمہ بہاولپور اور کشمیر کمیٹی کا نام بہت نمایاں ہے.1936ء کے شروع میں آپ انگلستان کے لئے تشریف لے گئے.جہاں آپ گیارہ برس تک لنڈن مسجد کے امام کی حیثیت سے کام کرتے رہے.آپ نے پہلی بار ہمارے اس مشن کو حقیقی تبلیغی مشن کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے پیش کیا یہاں ہی سے آپ نے شاہ انگلستان، شاہ یوگوسلاویہ اور شاہ زوغو والی البانیہ کو تبلیغی خطوط لکھے.ہائیڈ پارک میں آپ کے مناظرے اب بھی وہاں یاد کئے جاتے ہیں اور
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 608 دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ ہائیڈ پارک کے مخصوص آوازے کسنے والوں کے مقابلہ میں مسکت جواب دینے والوں میں آپ بہت مشہور تھے.انگلستان میں یہ گیارہ سال کا لمبا زمانہ اپنے اہل وعیال اور دوستوں سے الگ خصوصاً مہیب اور خوفناک جنگ کے دوران کا عرصہ جس میں انگلستان میں رہنے والوں کی زندگی کے متعلق ایک منٹ کی بھی تسلی نہیں ہو سکتی تھی آپ نے اپنے امام کے حکم کے ماتحت نہایت صبر اور بہادری سے گزارا.ادھر بمباری ہوتی رہتی اور ادھر آپ مسجد میں اطمینان سے اپنا کام کر رہے ہوتے.خود ہی نہیں بلکہ آپ وہاں کے دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی جو ہر وقت ڈر سے کانپتے تھے ڈھارس اور سہارا کا موجب بنے رہے.اپنے انگلستان میں قیام کے دوران میں دو کتب الاسلام اور ? Where Did Jesus Die“ تصنیف کیں.موخر الذکر کتاب پر بہت سے اخبارات نے ریویو لکھے.اس کتاب کا ترجمہ ملیالم اور ڈچ زبانوں میں شائع ہو چکا ہے.اسی طرح آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو بھی وہاں پورا کیا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر کے متعلق ایک لاکھ اشتہار شائع کیا جائے.آپ اکتوبر 1946ء میں واپس تشریف لائے.مجھے یاد ہے کہ خدام الاحمدیہ کی طرف سے جو دعوت آپ کے اعزاز میں دی گئی تھی اس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کہ آخری زمانہ میں طلوع الشمس من المغرب کی تشریح فرماتے ہوئے بیان فرمایا تھا کہ ایک لحاظ سے اس حدیث میں محترم شمس صاحب کے یورپ سے واپس آنے کا بھی ذکر ہے.لنڈن سے واپسی پر آپ مجلس تحریک جدید کے صدر اور وکیل التبشیر مقرر ہوئے.ہجرت کے پر آشوب زمانہ میں صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے واپس آنے کے بعد آخری قافلے کے آنے تک قادیان میں محصور لوگوں کی قیادت کرنے کی بھی سعادت آپ کو نصیب ہوئی.پاکستان آنے پر آپ 12 سال تک ناظر اعلیٰ بھی رہے اور آپ ہی کے زمانہ میں ربوہ میں آبادی کا افتتاح ہوا اور اب آپ سلسلہ کے اس محکمہ کے انچارج ہیں جس کے سپر د حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور سلسلہ کے دوسرے ضروری لٹریچر کی اشاعت کا کام ہے.1956ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضر امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ الہ تعالی نے آپ کو ” خالد کے خطاب سے نوازا.خدا آپ کے قلم میں اور برکت عطا فرمائے.آمین.ی مختصر سوانح بیان کرنے کے بعد میں اپنے عزیز طلباء سے عرض کرتا ہوں کہ شمس یونہی نہیں بن جایا
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 609 کرتے.سورج بن کر طلوع ہونے کے لئے اور دنیا کو روشن کرنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے محنت کی ، اخلاص و محبت کی.ضرورت ہوتی ہے اپنے آپ کو کام میں فنا کر دینے کی.پس اگر ایک طالب علم جو آپ ہی کی طرح ایک غریب گھرانے سے آیا تھا وہ اپنے اخلاص و محبت اور محنت سے سورج بن کر چمک سکتا ہے.تو کیا آپ ایسا نہیں کر سکتے ؟ میں یہاں اپنے اساتذہ سے بھی عرض کروں گا کہ شمس کو شٹس بنانے میں ان بےنفس انسانوں کا بھی دخل تھا جو کسی زمانہ میں ہماری اس درسگاہ کے استاد تھے.ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر ہم سب اس ادارے میں موتی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، حضرت قاضی میرحسین صاحب ، حضرت مولوی سرور شاہ صاحب، حضرت میر محمد الحق صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرح موتی گر بنیں.کیا آج ہمارے دلوں میں اتنا ہی درد ہے جو ان بزرگوں کے دلوں میں تھا ؟ کیا ہم اپنے کام میں اتنی ہی دلچسپی لیتے ہیں جتنی یہ بزرگ لیتے تھے؟ کیا ہم اپنی ذاتی علمی قابلیت کی طرف اتنی ہی توجہ دیتے ہیں جتنی یہ بزرگ دیتے تھے.کیا ہم نے اسلام کی تعلیم کو اپنے اوپر اتنا وارد کیا ہے جتنا ان لوگوں نے کیا تھا.اگر نہیں تو پھر یہ ادارہ سورج چھوڑ کر ایک ٹمٹما تا ہو ا دیا بھی دنیا کی ہدایت کے لئے پیدا نہیں کر سکتا اور ایک مفلس کسان کی جھونپڑی کا ٹمٹماتا ہوا دیا بنکر کوئی دنیا کو کیا فائدہ دے سکتا ہے.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر آپ سب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونی چاہئے.حضور فرماتے ہیں: ” میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے.اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریت کو نہایت ضرورت ہے.سو میں اس کے لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدا تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاعت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے.اور پھر جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیاء اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ امریکہ اور یورپ میں تعلیم اسلام پھیلانے کے لئے کیا کرنا چاہئے.کیا یہ مناسب ہے کہ بعض انگریز مسلمانوں میں سے یورپ اور امریکہ میں جائیں اور وعظ اور منادی کے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 610 ذریعہ سے مقاصد اسلام ان لوگوں پر ظاہر کریں.لیکن میں عموماً اس کا جواب ہاں کے ساتھ کبھی نہیں دوں گا.میں ہرگز مناسب نہیں جانتا کہ ایسے لوگ جو اسلامی تعلیم سے پورے طور پر واقف نہیں اور اس کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے بکلی بے خبر اور نیز زمانہ حال کی نکتہ چینیوں کے جوابات پر کامل طور پر حاوی نہیں ہیں اور نہ روح القدس سے تعلیم پانے والے ہیں وہ ہماری طرف سے وکیل ہو کر جائیں.میرے خیال میں ایسی کارروائی کا ضرر اس کے نفع سے اقرب اور اسرع الوقوع ہے الا ماشاء اللہ.بلا شبہ یہ سچ بات ہے کہ یورپ اور امریکہ نے اسلام پر اعتراضات کرنے کا ایک بڑا ذخیرہ پادریوں سے حاصل کیا ہے اور ان کا فلسفہ اور طبعی بھی ایک الگ ذخیرہ نکتہ چینی کا رکھتا ہے.میں نے دریافت کیا ہے کہ تین ہزار کے قریب حال کے زمانہ نے وہ مخالفانہ باتیں پیدا کی ہیں جو اسلام کی نسبت بصورت اعتراض سمجھی گئی ہیں.حالانکہ اگر مسلمانوں کی لا پرواہی کوئی بد نتیجہ پیدا نہ کرے تو ان اعتراضات کا پیدا ہونا اسلام کے لئے کچھ خوف کا مقام نہیں.بلکہ ضرور تھا کہ وہ پیدا ہوتے تا اسلام اپنے ہر یک پہلو سے چمکتا ہوا نظر آتا.لیکن ان اعتراضات کا کافی جواب دینے کے لئے کسی منتخب آدمی کی ضرورت ہے جو ایک در یا معرفت کا اپنے صدر منشرح میں موجود رکھتا ہو.جس کے معلومات کو خدا تعالیٰ کے الہامی فیض نے بہت وسیع اور عمیق کر دیا ہو.اور ظاہر ہے کہ ایسا کام ان لوگوں سے کب ہوسکتا ہے جن کی سماعی طور پر بھی نظر محیط نہیں.اور ایسے سفیر اگر یورپ اور امریکہ جائیں تو کس کام کو انجام دیں گے اور مشکلات پیش کردہ کا کیا حل کریں گے؟ اور ممکن ہے کہ ان کے جاہلانہ جوابات کا اثر معکوس ہو جس سے وہ تھوڑا سا ولولہ اور شوق بھی جو حال میں امریکہ اور یورپ کے بعض منصف دلوں میں پیدا ہوا ہے جاتا رہے اور ایک بھاری شکست اور ناحق کی سبکی اور نا کامی کے ساتھ واپس ہوں.سو میری صلاح یہ ہے کہ بجائے ان وعظوں کے عمدہ عمدہ تالیفیں ان ملکوں میں بھیجی جائیں.اگر قوم بدل و جان میری مدد میں مصروف ہو تو میں چاہتا ہوں کہ ایک تفسیر بھی تیار کر کے اور انگریزی میں ترجمہ کراکر ان کے پاس بھیجی جائے.میں اس بات کو صاف صاف بیان کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ یہ میرا کام ہے.دوسرے سے ہرگز ایسا نہیں ہوگا جیسا مجھ سے یا جیسا اس سے جو میری شاخ ہے اور مجھ ہی میں داخل ہے.ہاں اس قدر میں پسند کرتا ہوں کہ ان کتابوں کے تقسیم کرنے کے لئے یا ان لوگوں کے خیالات اور اعتراضات کو ہم تک پہنچانے کی غرض سے چند آدمی ان ملکوں میں بھیجے جائیں جو امامت اور مولویت کا دعویٰ نہ کریں بلکہ ظاہر کر دیں کہ ہم اس لئے بھیجے گئے ہیں کہ تا کتابوں کو تقسیم کریں اور اپنے معلومات کی حد تک سمجھا دیں اور اپنے مشکلات اور مباحث دقیقہ کا حل ان اماموں سے چاہیں
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس جو اس کام کے لئے ملک ہند میں موجود ہیں.611 حضور کے ان ارشادات کو پڑھ کر میری روح کانپ جاتی ہے اور میں پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ ہم اس ادارے سے ایسے عالم اور مبشر پیدا کریں جن کو نہ خود اسلام کا کچھ علم ہو اور نہ وہ خود دوسروں کو پہنچا سکیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی روح قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.اس کے بعد میں محترم صدر صاحب سے گذارش کروں گا کہ آپ مقابلوں میں حصہ لینے والوں کو انعام تقسیم فرما دیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء والسلام سید داؤ د احمد پرنسپل جامعہ احمدیہ (ماہنامہ خالد ربوہ مارچ 1959 ء صفحہ 7 تا 12 )
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس آہ مولانا جلال الدین شمس منظوم تاثرات 612 مکرمہ عقیلہ شمس بنت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس ) رہا کیا بتاؤں آہ کیا گم کیا گم ہو گیا جاتا اک ور تابنده بہا جاتا رہا دشمنوں روز , شب حق کی خاطر زخم جو کھاتا رہا وعظ کرتا اور سمجھاتا رہا کا نیک بنده وہ جس کے زہد و اتقاء خدا تھا فرشتوں کو بھی رشک پر پارسا جاتا رہا الله الله حسن سیرت حسن صورت دیکھ کر چاند بھی شرمندگی جس کی شرماتا رہا جام بھر بھر کر جو دیتا تھا وہ ساقی چل بسا پلانے اور کا مزا جاتا رہا گیا بدلی میں وہ چاند آہ غائب ہو گیا اندھیروں میں ہمیشہ نور برساتا رہا اب آتا ہے پیام اس کا آتا ہے سلام ورنہ برسوں نامه پر آتا رہا جاتا رہا (ماہنامہ مصباح ربوہ، اکتوبر 1967ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس تیرا نام اور کام روشن رہے گا 613 مکرم روشن دین صاحب تنویر ) شهید فنا ہو مسیح الزماں ہو گیا تو کے بھی جاوداں ہو گیا تو عناصر کے جالوں سے آزاد ہو کر روانه سوئے آشیاں ہو گیا تو زمیں کے غباروں سے دامن جھٹک کر ہم آغوش نور جناں ہو گیا تو خلوص ایسا سجدوں میں تو نے دکھایا سر تا قدم آستاں ہو گیا تو تیرا نام نام اور کام روشن رہے گا اوصاف حمیده کہ منزل کا سنگ نشاں ہو گیا تو الفضل ربوه 122 اکتوبر 1966ء) ( حضرت میر اللہ بخش تسنیم ) پھر جلال الدین شمس آئی ہے تیری یاد آج ہر نفس اپنا سراپا بن گیا فریاد آج آج پھر آنسو بہاتا ہوں میں تیری یاد میں روح فرسا گیت اک گاتا ہوں تیری یاد میں سرفروشانِ جہادِ حق کا تو سالار تھا دیں کی خاطر جان تک دینے کو تو تیار تھا
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس سر زمین شام تیرے خوں سے لالہ رنگ اور یورپ کی فضاء جرات یہ تیری دنگ ہے ہے کر دکھایا تو نے فرض اپنا ادا جس شان سے سکتا ہے ہر انساں آج انگلستان سے ہر طرف ہوتی رہی بارش اگرچہ آگ کی ئے مگر دھیمی نہ ہونے پائی تیرے راگ کی تو حسین ابن علی کی روح کی تفسیر تھا کربلا تھی سر زمین شام تو شبیر تھا کھا کے تو دست عدد زخم خنجر بچ گیا بچ گیا تو موت کے منہ میں بھی جا کر بچ گیا کو چھو نہیں سکتا فنا کا ہاتھ تیرے نام تو نے اپنے خوں سے دی تازہ بہار اسلام کو لوٹنا ممکن ہو یوں تیرا تو ہم روتے رہیں مشق ستم آلام کا ہوتے رہیں عالم اسلام کا تو تھا وہ فرزند جلیل آج تک گائی ہے نغمے جس کے موج رود نیل دیا منہ بند تو نے پادری منصور کا کچل کر رکھ دیا باطل کے مکر و زور کا گئے سر زمین مصر کے فرزند حیران رہ دیکھ کر تیرا تجر خس بدنداں رہ گئے 614
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس کارناموں تیرے ویرانه ہندوستاں آج بھی سنتا ہے صبح و شام گلبانگ اذاں ایسے ایسے فاضلوں کی یاد میں روتے ہیں ہم اور اسیر حلقہ رنج و الم ہوتے ہیں ہم پھر کہاں پیدا کرے گی سیکھواں کی سرزمیں اس طرح کا حبر کامل حامی دین متیں آہ وہ رشد و ہدی کے آسماں کا آفتاب مشرق و مغرب ہوئے جس کی ضیا سے فیضیاب مہدی موعود کی افواج کا وہ جاں فروش کر دیا کیوں موت کے بے رحم ہاتھوں نے خموش آج وہ محمود کا خالد ہے کہاں سیف آسا تیز تھا جس کا قلم جس کی زباں آه گفتگو وہ وہ چهره شگفته آه شیریں جبیں میں دلفریبی اور خاموشی حسیں بحث میں شان متحمل بردباری کی نمود عقدہ ہائے صحب کی چند ایک لفظوں میں کشود اسلام کی تصویر وہ تھا سراپا خدمت اسلام کی کو ہستی تھا ایک اخلاص کی تصویر وہ پر آج وہ پروانه خلافت ہے کہاں عاشق دیں جاں نثار احمدیت ہے کہاں 615
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اس طرح کے آدمی آتے نہیں ہیں روز روز جن کے سینے میں محبت دیں کی ہو مذہب کا سوز چھین کر ہم سے بزور ایک ایک کر کے لے گئی موت اس جیسے گہر ہائے گراں مایہ کئی مولا نا جلال الدین صاحب شمس یہی یاد میں 616 (ماہنامہ الفرقان جنوری 1968ء) از جناب مولوی محمد صدیق صاحب فاضل امرتسری) جلال الدین پر رحمت خدا کی جنہوں نے عمر بھر اس سے وفا کی قلم میں ان کے جادو کا اثر تھا روانی لیکچروں میں تھی بلا کی وہ اک شمس میں تھے دین حق کے اسی رہ میں بالآخر جاں فدا کی گزاری زندگی صبر و رضا میں ہر اک کے واسطے ہر دم دعا کی حقیقت میں تھے مردِ آسمانی بظاہر گوہر نظر آتے تھے خاکی ہوئے دو چار جب بھی مشکلوں سے نہیں ہرگز کبھی چون و چرا کی بہت ہی صابر و شاکر بشر تھے کبھی پایا نہ ہم نے ان کو شاکی خوشی کا دن چڑھایا رنج کی شب ہمیشہ اپنے مولیٰ سے وفا کی امام مسجد لندن تھے جب وہ وہاں میں نے بھی ان کی اقتدا کی رہا دو سال تک میں اُن کا نائب بہم تبلیغ ہم نے جا بجا کی میں شاہد ہوں کہ ہر دم اُن کو پایا مثال خاص زہد و اتقا کی وہاں پڑھتا رہا میں اُن سے تفسیر کتاب حضرت رب العلمی کی
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس تھی اک شرح موطا اُن کی اپنی بڑی شفت سے وہ مجھ کو عطا کی غرض سیکھا بہت کچھ میں نے اُن سے ہوں اُن پر رحمتیں بے حد خدا کی بلا وا حق سے جب آیا اچانک تو جاں تن سے سفر ہی میں جُدا کی ملے گی عمر پینسٹھ سال ان کو ازل سے تھی یہی مرضی خدا کی الہی تو عظیم المغفر نہیں.ہے حد تیری بخشش اور عطا کی وہ بے شک تھا ترا ایک نیک بندہ تو کردے مغفرت اس باوفا کی رہے سایہ تری رحمت کا اس پر ملے جنت میں قربت انبیاء کی اگر تقویٰ نہیں ہے تجھ میں صدیق عبادت تو نے کچھ کی بھی تو کیا کی زندگی کردار ہے، کردار تو فافی نہیں 617 (ماہنامہ الفرقان جنوری 1968ء) از محترمه سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مولانا شمس صاحب) آہ ! کیوں غمناک سے ہیں اب مرے شام و سحر چھا رہی ہے ایک ویرانی سی تا حد نظر دور تک پھیلی ہوئی ہیں، درد کی پر چھائیاں پیکر افسردگی ہیں ذہن و دل کے بام و در روح سے لیٹے ہوئے ہیں غم کے سائے ، اُف خدا زندگی لے آئی مجھ کو سسکیوں کے موڑ پر دن گزر جاتا ہے میرا سوزش آلام میں آنسوؤں کے موتیوں کو رولتی ہوں رات بھر
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس کس لئے یہ تلخیاں، یہ رنج ہیں میرے لئے اور پھر خاموش ہو جاتی ہوں یہ سب سوچ کر موت کی ہنگامہ آرائی بچ سکتا ہے کون؟ گور کی بے درد تنہائیوں سے بچ سکتا ہے کون ؟ ابتداء سے زندگی کا بس یہی معمول ہے چار دن کی زندگی پھر لحد کی دھول ہے آپ کو بھی اس سفر پر لے گیا میرا خدا میں اگر شکوے کروں تو یہ مری ہی بھول ہے زندگی کردار ہے کردار تو فانی نہیں جو شگفتہ رہتا ہے ہر دم یہی وہ پھول ہے کبھی آپ کے کردار کی عظمت کو بھولیں ہم ہماری ہی نہیں انسانیت کی بھول ہے سچ کہیں گر ہم تو زندہ ہیں فقط اس کے لئے آپ کی اقدار کی یادوں میں دل مشغول ہے پھولتی ہے احمدیت آپ کی تحریر جھومتی تھی احمدیت آپ احمدیت آپ کی تقریر ނ احمدیت میں تھی ڈوبی زندگانی آ زندگانی آپ کی روح دین مصطفه ނ ہر طرح تھی جنت کی فضاؤں میں سدا دلشاد ہوں آپ کے ہمدوش ہوں فضل و رضائے ایزدی 618
حیات ٹس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس آپ کے مرقد سورج پھول برساتا رہے ܀ شبنم کی نمی موتی لٹائے اس نرم ނ دن کو بادل اس پہ اپنی رحمتیں صدقے کریں فگن ہو اس زریں چاندنی رات کو سایه آپ کے نقشِ قدم پر ہم سدا ہوں گامزن آپ کی یادوں کا زیور ہے ہماری زندگی 619 وو میرے سورج کی شعاعیں پھولتی پھلتی رہیں رحمتوں اور برکتوں کی گود میں پلتی رہیں (ماہنامہ الفرقان، جنوری 1968ء) اے دل قیوم کے محبوب ہو تجھ پر سلام ( مکرم عبدالباری قیوم صاحب شاہد ) جاں نثار احمدیت، پیکرِ حسن و صفا دین کے خادم، منار علم ہو تجھ پر سلام عاشق محمود، ملت کے سجیلے رہنما شاہد اسلام، بحر معرفت تجھ پر سلام تیرے جانے سے ہزاروں دل تڑپتے رہ گئے غمگسار بیکساں، اے باوفا تجھ پر سلام اسوۂ اصحاب احمد صورت عشق و وفالشکر اسلام کے بطل جری تجھ پر سلام تو خلافت کا ہمیشہ عاشق و مفتوں رہا فاتح اعداء حق ، گھر کی شمع تجھ پر سلام زندگی تیری کئی تبلیغ اور تبشیر میں عرب و انگلستان کے غازی تجھ پر سلام اے شہید احمدیت غازی اسلام وحق ہوں ہزاروں برکتیں اور رحمتیں تجھ پر سلام تیرے احسانات کو ہرگز گنا سکتا نہیں اے دلِ قیوم کے محبوب ہو تجھ پر سلام (ماہنامہ مصباح، نومبر 1966ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس حضرت شمس کی یاد قائم رہے گی ( مکرم مولا نا نورمحمد صاحب نسیم سیفی مرحوم ) 620 تری سعی مشکور نے احمدیت کے خوش رنگ گلشن کو برسوں نکھارا ترے جذبہ عشق احمد نے احمد کے دیں کی محبت پہ ہم کو ابھارا تری یاد کی جھلکیاں ظلمتوں کی فضاؤں میں یونہی چمکتی رہیں گی ترا نام روشن رہے گا ہمیشہ زمیں کا ہے جھومر فلک کا ستارا تر انقش پاشبت ہے مصروشام وفلسطیں کی شاہراہوں پہ اب تک تجھے اہل یورپ نہ بھولیں گے ہر گز تو نے انہیں سوئے وحدت پکارا ہر اک حال میں زندگی کے سفر کو جہاد مسلسل سمجھتا رہا تو ہر اک گام پر کامیابی نے تیرے قدم چوم کر تیرا جذ بہ اُبھارا تجھے خالد احمدیت کا دے کر لقب تجھ کو پائندگی بخش دی ہے کہاں سے اُٹھا کر کہاں لے گیا تجھ کو فضل عمر کی عنایت کا دھارا یہ جی چاہتا تھا کہ اک بار کہتے ابھی تو یہاں بھی ضرورت ہے تیری کہے کون اور کہہ سکے بھی تو کیونکر کسے اتنی جرات یہ ہے کس کو یا را حقیقت تو یہ ہے نسیم اس طرح حضرت شمس کی یاد قائم رہے گی اگر خدمت دین میں شوق سے زندگی کا ہر لمحہ تم نے گذارا (ماہنامہ الفرقان، جنوری 1968ء)
621 مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائلپور) عندلیب.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس پیکر ایمان و عرفاں شمس بوستان شمسِ ما احمدی واقف اسرار قرآں شمس ما از معارف گوہر افشاں شمس ما یادگار حافظ روشن علی ماه رخشاں مہر تاباں مس ما سر بسر شمشیر برہاں تمس ما جملگی درویش یزداں شمس ما ہم دمشق اندر حدی خواں شمس ما در بدر مجموعه علم و عمل احمدی اخلاق را آئینه دار ہم به لندن نغمه پرداز ہدی ہم بہ مشرق نور علمش از از برائے احمدیت در رسید خالدے در تقریر با بارنده میغ یاد آید خوبی گفتار او با دریادِ او خوں نابہ بار سابق الخيرات آمد آنچناں محمود او در جہاں تبلیغ دیں والات أو را در نگر زیستن در خدمت دین متیں ہمت ہم بہ مغرب شد درخشاں شمس ما مرد میداں سیف یزداں شمس ما از سر تحریر با برنده تیغ دامن دل می کشد کردار او بر زباں ہا می رود اذکار او پا ربوده بهتر از پیرار او احمدیت مرکز پرکار او وا بہ میں قربانی و ایثار او ہم بہ دنیا یافتن خلدِ بریں (الفرقان ربوہ جنوری 1968ء)
.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس جو شمع فضل عمر کا تھا جاں نثار گیا کون جانب خُلدِ بریں 622 مکرم عبد السلام اختر ایم اے ربوہ ) سدھار گیا دلوں کا صبر و سکوں اٹھ گیا قرار گیا حضور ساقی کوثر کا میگسار گیا نشاط بادة عرفاں کا باده خوار گیا حیات متاع گریزاں مایید فانی کی سُرورِ بزم محبت کی جاں ہوئی رخصت جو شمع فضل عمر کا فضل عمر کا تھا جاں نثار گیا طلوع شمس کا منظر دکھا کے مغرب میں عظمتیں بکھریں کا اعتبار گیا جہاں آیا تھا وہ میر زرنگار گیا قلم تھا جس کا روانی میں آبشار اٹھا زباں تھی جس کی فصاحت میں شعلہ بار گیا کرم جہاں جہاں پہ سدا یوں کرم نواز کرے ترے بچوں کا خدا سلسلہ دراز کرے الفضل ربوہ 16 اکتوبر 1966ء)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس رض ذكرى الاستاذ الجليل شمس (للاستاذ ظفر محمد ظفر المحترم جَلَالَ الدِّينِ يَا بَدْرِى وَشَمْسِيْ اَحَقًّا قَدْ أَفَلْتَ حَبِيْبَ نَفْسِى بنُورِكَ قَدْ آنَرْتَ الْعَالَمِيْنَ فَكَيْفَ سَكَنْتَ فِي ظُلُمَاتِ رَمْسِ 623 عَلَى الْأَعْدَاءِ قُمْتَ مَقَامَ سَيْفِ وَلِلإِسْلامِ نُبْتَ مَنَابَ تُرْسٍ وَلَوْ قُبَلَ الْحِمَامُ فِدَاء نَفْسٍ لَقَامَتْ فِي فِدَاءِكَ أَلْفُ نَفْسٍ يُذَكِّرُ نِي طُلُوْعُ الشَّمْسِ شَمْسًا وَاذْكُرُهُ لِكُلِّ غُرُوْبِ شَمْسِ“ (الفرقان ربوہ جنوری 1968 ء صفحہ 55)
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس الْيَوْمَ غَابَتْ شَمْسُنَا (للسيّد محمود احمد عبد القادر العوده المحترم بِالأمْسِ أَظْلَمَ يَوْمُنَا وَالْيَوْمَ غَابَتْ شَمْسُنَا لَمْ نَنْسَ بَعْدُ فراق محمو د الْبَشِيرِ امَ دِ اِمَامِنَ اكْتَوَيْنَا بِاللظى وَتَفَطَّرَتْ أَكْبَادُنَا وَالْيَوْمَ انْتَزَعَ الـمـنـونُ مِنَ الْحَيَاةِ جَلَالَـنَــــا العَيْنُ تَسْكَبُ مَانَهَا وَالنَّارُ فِي أَحْشَائِنَا فَقَدِ رُحْمَاكَ رَبِّي لَا تَكِلْنَا لِلْمَ لِلْمَصَائِبِ وَالْعِنَا إِنْ مَاتَتِ الْأَجْسَادُ فَالُا رْوَاحُ ضِرَةٌ هُنَا الْمَوْتُ حَقٌّ إِنَّمَا لَا يُسْتَسَاعُ لِحِبْنَا لَكِنْ مِنَ الْإِيْمَانِ تَسْلِيْمُ الْأُمُوْرِ لِرَبِّنَا 624 هُوَ خَالِقُ الْأَشْيَاءِ مِن عَدْمٍ، إِلَيْهِ مَلَاذُنَ جَنَّاتُ عَدْن أُزْلِفَت لإِمَامِنَا وَ جَلَالِـنَــا وَاللَّهَ نَسْتَلُ أَنْ يُعَوِّضَنَا بِمَا فَرَاغِنَا وَيُعِيْنَ مَوْلَانَا الْخَلِيفَةَ نَاصِرَ بْنَ بَشِيْرِنَا وَيَسُودُ دِينَ السَّلْمِ فِي الدُّنْيَا وَيَرْجِعُ مَجْدُنَا (الفرقان ربوہ جنوری 1968 ، صفحہ 47)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس قطعه تاریخ بروفات مولانا جلال الدین صاحب شمس 625 ( حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر) کرده شمس سفر کرده ازیں دار فانی اقامت گزیں بدار سال رحلت بگفتا انتیم سروش " ۱۳۸۶ الفضل ربوہ 18 نومبر 1966ء)
حیات ہنس.خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس گیارہواں باب بعض رویا و کشوف 626
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس صداقت احمدیت کے متعلق چند رویا 627 حضرت مولانا موصوف کے بعض رؤیا کتاب ہذا میں بعض مقامات پر نظر آئیں گے.ذیل کے رویا وکشوف آپ نے ایک خاص تحریک کے تحت تحریر کئے تھے اس لئے انہیں علیحدہ طور پر درج کیا جا رہا ہے.از قلم مولانا جلال الدین شمس سابق مبلغ بلا دعر بیده و دیار غربیه ) ایک شامی احمدی کا خواب 1927ء کا واقعہ ہے کہ السید ابوعلی مصطفی نو یلاتی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو چکے تھے اور ان کے بڑے بھائی نے ابھی بیعت نہیں کی تھی.اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالیشان مکان ہے اور اس کے وسیع صحن میں تین کرسیاں رکھی ہیں جن میں سے ایک پر خاکسار بیٹھا ہے اور میرے دائیں بائیں کرسیوں پر سید منیر الحصنی اور السید ابوعلی مصطفی نو یلاتی بیٹھے ہوئے ہیں اور قریب ہی ایک طرف ایک کمرہ میں گدھے کا بچہ ہے اور وہ ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے.خَلِيْكَ مَا اَنْتَ عَلَيْهِ.یعنی جو تمہارا عقیدہ ہے تم اسی پر قائم رہو.انہوں نے اس کی تعبیر دریافت کی تو میں نے کہا.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں علماء سوء کو حمار یعنی گدھے سے تشبیہ دی ہے.گدھے کے بچے سے مراد چھوٹا عالم یا کسی عالم کا شاگرد ہے.چنانچہ اسی دن یا ایک دن کے بعد وہ ایک دکان پر بیٹھے تھے اور دینی گفتگو ہو رہی تھی کہ شیخ علی دقت کا ایک شاگر داس دکان پر آیا اور اس نے ان سے مخاطب ہوکر یہی الفاظ کہے کہ خَلِیکَ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں آپ کو پہلے ہی خواب میں دیکھ چکا ہوں کہ آپ نے مجھ سے یہ الفاظ کہے ہیں اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا.دیکھا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مجھے خواب میں دکھا دیا.اس کے بعد وہ بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.ایک طرابلسی مغربی شیخ کی قبول احمدیت 3 جون 1928ء کو میں اپنے چند احمدی دوستوں کو لے کر کرمل پہاڑ پر گیا.وہاں سے قریب ہی ایک وادی تھی.بعض دوستوں نے کہا چلو وادی میں اُتریں.وہاں ایک ٹھنڈے پانی کا چشمہ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 628 ہے.جب ہم وادی میں اتر کر چشمہ کے پاس ایک توت کے درخت کے سایہ میں بیٹھے.تو ایک شخص ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا اور میرے ساتھیوں سے میری نسبت دریافت کیا کہ کیا آپ ہی ہندی مبلغ ہیں.انہوں نے کہا کہ ہاں وہ یہی ہیں.اس نے کہا یہاں قریب ہی ایک شیخ رہتا ہے وہ ان سے ملنے کا خواہشمند ہے.عصر کی نماز پڑھ کر ہم اس شیخ کے پاس گئے.وہ دور سے ہمیں آتا دیکھ کر ننگے پاؤں دوڑا آیا اور مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کر کے اس نے نہایت ہی محبت اور خلوص کا اظہار کیا اور کہا.جب ہم نے مشائخ کو جامع مسجد حیفا میں آپ کے خلاف یہ کہتے سنا کہ یہ ہندی کا فر ہے.کہتا ہے مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور مسیح موعود آچکا ہے تو ہم نے آپ کی تلاش شروع کی.لوگوں سے پوچھتے تو آپ کا پتہ نہ دیتے بعض کہتے وہ یہاں سے چلا گیا ہے.بعض کہتے کہ نابلس یا غزہ میں کسی نے قتل کر دیا ہے ( اس قدر بات کر کے وہ رو پڑا ) پھر کہنے لگا.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کو ہمارے پاس لے آیا ہے.ہم تو پہلے ہی اس بات پر ایمان لا چکے ہیں کہ جو کچھ آپ نے میزان الاقوال میں لکھا ہے اس پر ہم ایمان رکھتے ہیں (میزان الاقوال میری کتاب ان کے پاس پہنچ چکی تھی ) پھر انہوں نے سنایا کہ بیس سال کا عرصہ ہوا میں یمن میں امام محمد بن ادریس کے پاس تھا کہ کابل کی طرف سے امام محمد بن ادریس کے پاس چند کتابیں اس مدعی کی پہنچیں.آپ نے وہ کتابیں پڑھ کر علماء کے سپرد کر دیں اور کہا کہ یہ آپ کا کام ہے اس کے متعلق رائے ظاہر کریں اور خود اس کے متعلق کچھ نہ کہا.پھر علماء میں اس کے متعلق اختلاف ہو گیا.بعض کہیں جو کچھ اس نے لکھا ہے سچ ہے.بعض کہیں ایسی باتیں کہنے والا کافر ہے.مگر میں استخارہ کر کے اور بعض خواہیں دیکھ کر آپ پر ایمان لے آیا.چنانچہ اس وقت سے میں امام الوقت مسیح موعود کو مانتا ہوں.اس بزرگ کا نام الحاج محمد المغرب الطرابلسی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الهام يَدْعُونَ لَكَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَ عِبَادُ اللَّهِ مِنَ الْعَرَبِ کے مصداق ہیں.چند خوا ہیں : اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے مجھے بہت سی باتیں رویا میں دکھا ئیں جو اپنے وقت پر اسی طرح پوری ہوئیں جیسا کہ رویا میں دکھائی گئی تھیں میں مؤلف کتاب ہذا کے ارشاد کے
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس مطابق بطور نمونہ چند رویا درج ذیل کرتا ہوں." وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرِّ قَدِ اقْتَرَبَ» رہائی جولائی 1925ء میں بمقام دمشق میں نے خواب میں دیکھا کہ میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں کہ ”وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرِّ قَدِ اقْتَرَب عرب کے لئے ویل (بلاء.مصیبت.ہلاکت.تباہی) ہے ایک شر سے جو نزدیک آگئی ہے.چنانچہ اس کے ایک ماہ بعد فرانسیسیوں اور اہالیان جبل دروز کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس میں تمام ملک شام شامل ہو گیا اور انہیں سخت مصیبت کا سامنا ہوا.اس جنگ میں فرانسیسیوں نے دمشق پر متواتر کئی گھنٹے شدید گولہ باری کی جس سے اس کا ایک بڑا حصہ کھنڈرات بن کر رہ گیا اور وہ رات قیامت کا منظر پیش کر رہی تھی.اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام بلاء دمشق پورا ہوا.یہ جنگ اڑھائی سال تک جاری رہی.1927 ء کے آخر میں عفو عام کا اعلان ہوا اور انتخابات کا وقت آ گیا تا قانون اساسی بنایا جائے اور فرانسیسی حکومت نے اپنی سیاسی اغراض کے پیش نظر دمشق کے مشہور شیخ بدرالدین کے بیٹے شیخ تاج الدین کو رئیس الوزراء بنا دیا.دسمبر 1927ء میں مشائخ شام نے مجھے قتل کرانے کی غرض سے بعض غنڈوں کو مقرر کر دیا.جنہوں نے 20 دسمبر کو جبکہ میں اپنے گھر کو جارہا تھا راستہ میں مجھ پر قاتلانہ حملہ کر کے بُری طرح زخمی کر دیا.جب میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوا تو میں نے ایک ہوٹل میں کمرہ لے لیا.فروری 1928ء میں حکومت نے دو مشائخ پر میرے زخمی ہونے کے سلسلہ میں کیس چلا یا اس اثناء میں شیخ تاج الدین کے پاس مشائخ کے وفود گئے اور میرے نکلوانے کے لئے آہ وزاری کی اور درخواستیں پیش کیں.وہ بیروت گیا اور فرانسیسی ہائی کمشنر سے میرے نکلوانے کے لئے درخواست کی.اور میں نے خواب میں دیکھا ( یہ خواب ایک قسم کی بیداری میں ہی تھی ) کہ ایک شخص میرے پاس آیا ہے اور کہتا ہے کہ تین دن تک آپ کے نکالنے کا حکم صادر ہوگا.چنانچہ اس کے مطابق ٹھیک تین دن کے بعد مجھے دائرۃ الامن العام کی طرف سے ہائی کمشنر کے حکم کی نقل دی گئی کہ میں 629
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ۴۸ گھنٹہ کے اندر اندر دمشق چھوڑ دوں.الفضل 630 اس کے بعد میں حیفا ( فلسطین ) چلا گیا.وہاں 29 اپریل 1928ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ” الفضل“ کا پرچہ ہے.جس میں ایک مضمون ہے اور اس کا عنوان ہے.ایک اور شہید یا شہادت.چنانچہ کے مئی کو جب اخبار الفضل کے پرچے ملے.پہلا پرچہ کھولا تو وو اس میں یہ عنوان تھا.ایران میں ایک احمدی مبلغ کی شہادت“.تین آلو بخارے اور گلاب کا پھول اثناء قیام لنڈن میں میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ٹوکری میں نہایت اچھے آلو بخارے ہیں.جن میں سے میں نے تین کھائے ہیں.خواب میں ہی میں نے تعبیر کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے تین لڑکے عطا کرے گا.1946ء میں جب میں واپس آیا تو اللہ تعالیٰ نے 1947 ء میں ایک لڑکا عطا فرمایا.جس کا نام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فلاح الدین رکھا.پھر 1949ء میں اللہ تعالیٰ نے دوسر الر کا عطا کیا جس کا نام حضور نے منیر الدین رکھا اور اس وقت میں نے سمجھا کہ اب وہ خواب پوری ہو گئی.کیونکہ ایک لڑکا پہلے موجود تھا جس کا نام صلاح الدین ہے.لیکن 20 فروری 1951ء کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور لڑکا عطا کیا جس کا نام حضور نے بشیر الدین تجویز فرمایا.اس طرح خواب کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پے درپے تین لڑکے عطا فرمائے.اس کے بعد 1953ء میں اللہ تعالیٰ نے لڑکی عطا فرمائی.اس کی پیدائش سے قبل مجھے خواب میں پہلے دکھایا گیا کہ لڑکی ہو گی.اس کا نام حضور نے عقیلہ رکھا.پھر 11 دسمبر 1955ء کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور فرزند عطا فرمایا.اس کی پیدائش کے چند روز پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ شیخ محمد دین صاحب نے مجھے گلاب کا پھول دیا ہے اور حضور نے اس کا نام ریاض الدین رکھا.اللہ تعالیٰ ان سب کو خادم دین بنائے اور اپنا قرب عطا فرمائے.آمین.
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس خطبہ جمعہ وو اثنائے قیام لنڈن 7 جولائی 1946ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کوئی عہدہ دیا ہے.نواب میاں عبداللہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ حضور کا منشاء تھا کہ آپ خطبہ جمعہ بھی پڑھا کریں گے.میں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ میں نے اپنی خوابوں میں دیکھا تھا ( اس سے پہلے ایک دو خوابوں میں ایسا دیکھا تھا ) کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خطبہ جمعہ پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا اور میں نے خطبہ پڑھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس خواب کو بھی سچا کر دیا اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق میں نے کئی خطبات جمعہ پڑھے.فالحمد للہ علی ذالک.دشمن پر بجلی گری اور ہم پر خدا تعالیٰ کا انعام ہوا.“ 631 نومبر 1957ء میں جبکہ مشرقی پنجاب کے مسلمان پاکستان کو ہجرت کر رہے تھے.اس وقت میں قادیان میں امیر تھا.میں سارا بائی مرد ولا مسٹر گاندھی جی کے نمائندہ کے طور پر حالات دیکھنے کے لئے قادیان تشریف لائیں.انہیں ہماری طرف سے ایک درخواست دی گئی جس میں یہ بھی ذکر کیا گیا تھا کہ احمد یہ ہوزری کا سامان کمبل وغیرہ خود مجسٹریٹ کی موجودگی میں لوٹا گیا اور اس پر بحیثیت پریذیڈنٹ جماعت میرے دستخط تھے.وہ درخواست مس سارا بائی مرد و لا اس میز پر بھول گئیں جو مجسٹریٹ متعین قادیان استعمال کیا کرتا تھا.مجسٹریٹ نے جب وہ درخواست پڑھی تو آگ بگولا ہو گیا.جب بازار میں راؤنڈ کے لئے آیا تو اس نے غصہ میں کہا کہ میں جلال الدین شمس کو اس شکایت کا مزہ چکھاؤں گا اور قید کی بھی دھمکی دی.قبل ازیں مکرم چوہدری فتح محمد صاحب اور مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو قید کر چکے تھے.اسی رات صاحبزادہ میاں مظفر احمد صاحب کو جو اس وقت سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر لگے ہوئے تھے ٹیلیفون پر اطلاع دی گئی اور میں جب رات کو بستر پر لیٹا ( حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کی بیٹھک میں سویا کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا تو قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے.میں اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں.نُؤْمِنُ بِكَ وَ نَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ دعا کرتے کرتے میں سو گیا.میں نے دیکھا کہ مجھ پر وہ حالت طاری ہوئی ہے جو الہام کے وقت
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ہوتی ہے.دیکھا کہ نہایت خوشگوار باد نسیم چل رہی ہے اور میں ایسی لطیف ٹھنڈک محسوس کر رہا ہوں جس کی کیفیت الفاظ میں ادا نہیں کی جاسکتی.پھر ایسا محسوس ہوا کہ میرا تمام جسم میرے کنٹرول میں نہیں رہا.یہاں تک کہ زبان سے بولنا بھی میرے اختیار سے باہر ہو گیا.پھر تھوڑی دیر کے بعد میری زبان پر الحمد للہ کے الفاظ جاری ہوئے اور دیر تک الحمد للہ کہتا رہا.اس کے بعد وہ حالت چلی گئی.لیکن تھوڑی سی دیر کے بعد پھر وہی پہلی سی حالت طاری ہوئی اور میری زبان پر رَبُّ الْعَالَمِيْنَ - اَلرَّحْمَنِ الرَّحِیم‘ کلمات جاری ہوئے اور متعدد بار ہوئے.پھر اس کے ساتھ یہ تفہیم جاری ہوئی کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کی ان تینوں صفات کے مظہر ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے بھی یہ بات عرض کر دی جائے.لیکن خواب میں مجھے یاد نہیں کہ بتائی ہے یا نہیں.پھر اس کے بعد ایک اور نظارہ دیکھا کہ ہم ایک کمرہ میں ہیں اور نماز فجر کے لئے تیاری ہے.632 ملک غلام فرید صاحب اور حضرت میاں بشیر احمد صاحب بھی ہیں.وہ خوابوں کی باتیں کر رہے ہیں.وہ ایک بات کے بعد دوسری بات شروع کر دیتے ہیں میں انہیں یہ خواب نہ سنا سکا.پھر میں نے ملک صلاح الدین سے خواب کی حالت بیان کرنی شروع کی تو انہوں نے بریز کا لفظ بولا.پھر بریز (باد نسیم ) چلنی شروع ہوئی.پھر میں نے ان سے کہا کہ میری زبان پر الحمد للہ کے الفاظ جاری ہوئے جو شکریہ کے وقت کہے جاتے ہیں.انہوں نے کہا کہ بجلی.گویا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ بجلی گرنے کے وقت بھی تو کہے جاتے ہیں.میں نے اس وقت ان کی اس تعبیر کو پسند نہ کیا.میں نے کہا.شکریہ کے وقت کہے جاتے ہیں.اس کے ساتھ ہی مجھے نیم بیداری کی سی حالت ہوگئی اور میں دل میں کہتا ہوں کہ میں اس کی تعبیر پہلے کر چکا ہوں اور پھر میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوا.دشمن پر بجلی گری اور ہم پر خدا تعالی کا انعام ہوا.اور کئی منٹ تک یہی الفاظ جاری رہے.نہ معلوم کتنی دیر یہ فقرہ میری زبان سے نکلا شائد پچاس دفعہ کے قریب ہوگا.میں یہ الفاظ کہہ ہی رہا تھا کہ غسل خانہ میں کسی کے داخل ہونے کی آواز آئی اور نیم بیداری کی حالت جاتی رہی اور میں نے آواز دی کہ کیا میاں عطاء اللہ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں.میں نے پوچھا اذان تو نہیں ہوئی ؟ انہوں نے کہا.نہیں.وقت دیکھ کر کہا کہ پانچ
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس 633 بج کر پینتیس منٹ ہیں اور کہا کہ اذان ہونے والی ہے.اس کے چند منٹ بعد اذان سنائی دی اور میں نے کہا.اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا انعام نازل کرے اور دشمن پر بجلی گرائے.اے خدا تو ایسا ہی کر کہ ہر یک طاقت اور قدرت تجھے حاصل ہے.دوسرے دن ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور قادیان پہنچ گئے اور ہمیں انہوں نے مکرم چودھری سرظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پر بلایا.اس وقت مجسٹریٹ وہیں رہتا تھا.ڈی سی نے ہمیں ہر قسم کا اطمینان دلایا.اور مجسٹریٹ نے بھی معذرت کی اور کہا کہ ہم تو آپ کی خدمت کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں.بعد میں معلوم ہوا کہ اس تغیر کی وجہ یہ تھی کہ میاں مظفر احمد صاحب نے سیالکوٹ سے ٹیلیفون پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کولاہور اطلاع کر دی اور مس سارا بائی مرد و لا اس روز لاہور میں تھیں.حضور نے انہیں ٹیلیفون پر اطلاع کروائی اور میرے متعلق انہیں بتایا گیا.انہوں نے اسی وقت ٹیلیفون پر ڈی سی ضلع گورداسپور سے کہا کہ مجسٹریٹ کو ختی سے روک دیا جائے کہ وہ جلال الدین شمس کے متعلق کوئی اس قسم کا اقدام نہ کرے.چنانچہ ڈی سی نے مجسٹریٹ کو ٹیلیفون کیا اور کہا کہ میں خود صبح قادیان پہنچ رہا ہوں.سو اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں مجسٹریٹ کی شرارت سے محفوظ کر لیا اور جب ہم 17 یا 19 نومبر کو قادیان سے لاہور آگئے تو اس کے بعد مجسٹریٹ کو وہاں سے بدل دیا گیا اور سنا تھا کہ اس پر گندم کے ٹرک لے جانے پر کوئی مقدمہ بھی گورنمنٹ کی طرف سے چلایا گیا تھا.فالحمد للہ علی ذالک بیماری سے شفایابی کے متعلق رویا 23 فروری کو ایکسرے کے ذریعہ چھاتی کی تصویر لینے پر معلوم ہوا کہ میرے بائیں پھیپھڑے کا نصف حصہ کسی چیز سے ڈھکا ہوا ہے اور میں بعارضہ پلوری بیمار ہوں اور اس کے ساتھ ہی کئی دنوں سے مجھے بخار بھی تھا اور اس دن ٹمپر یچر 101 ڈگری تھا.ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب نے دوائی اور ٹیکے تجویز کئے اور مکمل آرام کرنے کی تاکید کی.چنانچہ مجھے بہت فکر ہوئی اور دعا بھی کی.23 اور 24 فروری کی درمیانی شب میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دبلی چھوٹی بتی میرے سینہ پر چڑھی ہے.میں نے اس کو گردن سے پکڑ لیا اور دبانا شروع کیا اور دوسرے ہاتھ کو میں بچاتا ہوں تا اسے پنجہ نہ مارے.لیکن دیکھا کہ دو انگلیوں میں اس نے ناخن چبھوئے
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ہیں اور میں نے اسے گلے سے اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک وہ مر نہ گئی اور دیکھا کہ اس کے دو ناخن اس کے پنجے سے علیحدہ ہو کر میری انگلیوں میں رہ گئے ہیں.جنہیں میں نے آسانی 634 سے نکال دیا.بلی کی تعبیر میں نے بیماری کی اور اس کی موت سے یہ مراد کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیماری سے شفا بخشے گا.ایکسرے کے ذریعہ جو تصویر میں لی گئیں ان سے ظاہر ہوا کہ پلوری کے علاوہ پھیپھڑے میں دو پرانے داغ بھی ہیں.میو ہسپتال میں سوا دو ماہ گذار کر میں طبی مشورہ کے ماتحت چار ماہ کے لئے کوئٹہ چلا گیا جہاں با قاعدہ علاج کراتا رہا.کوئٹہ سے واپسی پر 6 اکتوبر کو جو ایکسرے کے ذریعہ تصویر لی گئی تو پھیپڑا بالکل صاف نظر آیا اور پلوری کا کوئی اثر باقی نہ تھا.وہ پرانے دو داغ بھی جو دو ناخنوں کی صورت میں خواب میں دکھائے گئے تھے درست ہو گئے تھے.فالحمد للہ علی ذالک.المبشرات از مولوی عبدالرحمن صاحب ڈیرہ غازی خانوی ، جلد اول صفحہ 221 تا228)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس بارهواں باب بعض منظومات قفس بہت کم احباب اس بات سے واقف ہیں کہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب ہنس کے مخلص سے شاعری بھی کرتے رہے ہیں.آپ کی ساری شاعری عشق دین اسلام احمدیت و صداقت مسیح موعود کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے.بطور نمونہ آپ کی بعض نظمیں پیش خدمت ہیں.635
حیات بشمس.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس ان میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے 636 موعود پاک آکے بڑا کام کر گئے پھیلا کے چار دانگ میں اپنا اثر گئے پابوس صبح شام رہیں کامیابیاں دشمن تمام آپ کے ناکام مر گئے آئی بہار خوب ہی رنگینیوں کے ساتھ گلہائے تر سے دامن گلزار بھر گئے دین دار بن گئے ہیں جو کبھی تھے مے پرست صہبائے فستق و کفر کے نشے اتر گئے دن رات جن کو لڑنے جھگڑنے سے کام تھا دل ان کے اب محبت والفت سے بھر گئے و جور کی جولانیاں گئیں جو مدتوں سے بگڑے ہوئے تھے سنور گئے آیا وہ پاکباز کہ تھا جس کا انتظار لاکھوں بزرگ شوق میں جن کے گذر گئے ڈالی ہے روح پاک عظام رسیم میں آکر مسیح پاک عجب کام کر گئے اس زلزلہ سے اب کے جو آیا بہار میں لاکھوں ہوئے تباہ ہزاروں ہی مر گئے اے شمس پھر بھی باز نہ آئے مکذ میں ان میں سے ہائے سوچنے والے کدھر گئے ارباب ظلم (الحکم قادیان 21-28 مئی 1934ء)
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس قصیده مدحیه در شانِ امام جماعت احمدیہ ہمارا خلیفہ ہے محمود پیارا 637 از مولانا جلال الدین صاحب شمس مبلغ لنڈن ) جو ہے احمدیوں کی آنکھوں کا تارا وہ ہمدرد سب کا ہے غمخوار سب کا جماعت کا راعی ہے قائد ہمارا مقابل ہو اس کا یہ طاقت ہے کس میں غرور اس نے توڑا ہے دشمن کا سارا کہاں اس کی تفصیل اوصاف ممکن یہ کہہ دوں کہ ہے حق تعالیٰ کا پیارا سراپا تقدس ہے نور مجسم مسیحا کا فرزند حق کا دلارا اسیروں کی وہ رستگاری کا موجب اور ان کے مقدر کا روشن ستارا وہ فضل عمر ہے اولو العزم بے شک نظیر مسیحا ہے مہدی کا پیارا عدد میں رہی اس کا چیلنج سن کر نہ اٹھنے کی طاقت نہ چلنے کا یارا وہ ابن جری ہے وہ شیر خدا ہے کہ اس کے مقابل جو آیا وہ ہارا کہاں ہیں کہاں طالبان حقیقت سنیں آکے قرآن اس سے خدارا وہ اس کے حقائق وہ اس کے معارف کہ سن کر جنہیں دنگ عالم ہو سارا یہ کشتی اسلام تھی ڈوبنے کو اسی نے دکھایا ہے اس کو کنارا ذلیل اس کے دشمن ہوئے کیسے کیسے یہ پبلک میں ہم سے نہ پوچھو خدا را ہے اس کی وفادار ایسی جھکے جس طرف بھی ہو اس کا اشارا ہماری ترقی سے دل دشمنوں کے حد سے ہوئے جاتے ہیں پارا پارا خدا کا یہ وعدہ ہے ہم کو ملیں گے عصا روس کا اور قوس بخارا رہے گا جو اے شمس حق کا مخالف اٹھائے گا دونوں جہاں میں خسارا (احکام قادیان 21-28 دسمبر 1937ء) جماعت
.خالد احمدیت حضرت مولا نا جلال الدین شمس میں بن گیا ایاز وہ محمود ہو گئے 638 احمد نبی جو فارس موعود ہو گئے (از حضرت مولانا جلال الدین شمس) حاد کی نظر میں وہ محسود ہو گئے مامور تھے خدا کے حبیب و خلیل بھی دشمن شدید آپ کے نابود ہو گئے ان کے خلاف عسکر کفار کے جیل دھو کے فریب و مکر سب بے سود ہو گئے چاروں جہت سے لشکر شیطان کے خلاف خدام ان کے گولہ و بارود ہو گئے گئے آدم میں دیکھو رتبہ مامور ایزدی سارے ملائکہ کے وہ مسجود ہو کبر و غرور سے جو ہوئے منکرین ملعون ہو گئے سبھی مردود ہو گئے وہ اے منکرِ خلافت فضل عمر ہیں کیوں؟ بڑھنے کے تجھ یہ راستے مسدود ہو کافر نبوت احمد ہوئے تو وہ گئے فضل خدا مصلح موعود ہو گئے ނ جالوت کی صفات جو رکھتے تھے منکرین ان کے لئے وہ مظہر داؤد ہو گئے ذرہ نوازی مجھے یہ ہوئی ان کی اس قدر میں بن گیا ایاز وہ محمود ہو گئے اتنا بڑھا ہے ان ނ عقیدت کا رابطہ شاہ ہوا شمس وہ مشہور ہو الحکم قادیان 21-28 دسمبر 1937ء صفحہ 12) گئے
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ کوئی عاشق ہے کسی کی خوبی گفتار کا کوئی متوالا بنا ہے.ابروئے خمدار کا کوئی طالب ہے بتوں کا.کوئی خواہاں مال کا ہے خدائے ـ زل محبوب اس نادار کا بادشاہ حسن لوگ غافل ہیں تمام قبلہ و کعبہ جو ہے.ہر کافر دیندار کا و گر مجازی حقیقی میں کرتے امتیاز و زنار کا پھر نہ ہوتا کوئی جھگڑا سُبحه لوگ خوبان جہاں کو دیکھ کر مبہوت ہیں حسن مہ بخشا ہوا ہے سب مری سرکار کا جبینوں پر چھڑک کر ایک چھینٹا حسن کا جائزہ اُس نے لیا ہر غافل عارفان حق سمجھتے ہیں فقط اس و ہشیار کا راز کو یعنی جلوہ ہے حسینوں میں اُسی اک یار کا 639
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس لعل , یاقوت زمرد اور خورشید و قمر ہیں کرشمہ سب اُسی کے حسن پر انوار کا نفس انسانی میں رکھتے.اس نے اسرار جہاں تا بشر ظل ہو صفات داور دادار کا اُس کی باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں رازدار ناطقہ ہے بند اس جا ہر لب اظہار کا " جس نے اپنے آ کو سمجھا خدا کو لیا پا ہے قول محکم احمد رکس کی تیغ ناز چپکی ہے؟ کہ جس سے ہر P مختار کا طرف شور بریا ہو رہا ہے عاشقان زار کا ره عالم امکاں میں اے غافل بہت ہشیار اک نگہباں ہے ترے ہر قول کا کردار کا کیوں نہ ہو مجھ کو بدی سے بغض اور نیکی نیکی سے پیار امتی ہوں میں جناب سید ابرار کا شمس کیوں شیدا نہ ہو تیرا میرے پیارے خدا ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا الفضل قادیان 4 دسمبر 1932ء) 640
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس گذارش احول 641 لوگ کہتے ہیں کہ میں مسرور ہوں حق بجانب ہیں کہ ان سے دور ہوں میرے دل کو چیر کر دیکھیں اگر وہ یقیں کر لیں کہ میں رنجور ہوں مت ہنسیں وہ ناتوانی پر مری مجھ کو خود اقرار ہے، کمزور ہوں تھا تو ناداں پر خدا کے فضل حلقہ احباب میں مشہور ہوں دل کی مضبوطی کو کافی ہے یہ بات حضرت محمود کا مامور ہوں جو دُعا میں یاد رکھتے ہیں مجھے صدق دل سے اُن کا میں مشکور ہوں وصل کب ہوگا مرے پیارے نصیب مدتیں گزریں کہ میں مہجور ہوں اپنے ہاتھوں سے مرے پیارے اٹھا ہر طرح کمزور ہوں مقہور ہوں مٹ گئیں دل سے مری سب خواہشیں میں نہ مشتاق جمالِ دُور ہوں بس تمنا ہے کہ ہو دیدار یار دل کہے میرا سراپا نور ہوں ظلمتیں کافور ہو جائیں تمام طلوع ہو والسلام
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ہے دُعائے نیم شب تیر زبانِ اہل درد و مختار جب ہوں مدح خوانِ اہل درد کیا ہو مجھ سے پھر تعریفِ شانِ اہل درد درد والوں کا نہیں دنیا میں گر پرساں کوئی غم نہیں! اللہ تو ہے پھر قدردانِ اہل درد حیف! جو بیدرد ہیں پروردہ آغوش مکر ان کی خواہش تھی کہ ہم لیں امتحانِ اہل درد آگیا احرار پر اک انقلاب زندگی عرش سے ٹکرائی جب آہ و فغانِ اہلِ درد قبر حق تھی حضرت محمود کی یلغار بھی مونہہ کے بل اوندھے گرے ہیں دشمنانِ اہلِ درد ناخنوں تک بھی لگالو زور لیکن دشمنو تم مٹا سکتے نہیں ہرگز نشانِ اہل درد کامیابی ہو یقینی کیوں نہ اہلِ درد کی حضرت محمود ہیں جب پاسبانِ اہل درد 642
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کچھ نہیں حاجت ہمیں تیغ و تفنگ و توپ کی ہے دعائے نیم شب تیر زبانِ اہل درد سرنگوں ہو جائینگی ساری زمینی طاقتیں ان پہ جب حملے کرے گا آسمان اہل درد اور بھی دنیا میں ہونگے جابجا رسوا و خوار جور بے جا چھوڑ دیں ایذارسان اہل درد آج جتنی چاہیں دے لیں گالیاں پروا نہیں کل یہی بدگو بنیں گے مدح خوانِ اہل درد دشمنو سے تم یہ کہہ دو شمس بے خوف و خطر روز افزوں ہو گی قدر عز و شانِ اہل درد 643 (الفضل قادیان 6 نومبر 1935ء)
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 644 آمین اپنے بڑے بیٹے صلاح الدین کے قرآن کریم مکمل کرنے کی اطلاع پا کر مندرجہ ذیل اشعار کہے.صلاح الدین کا بہت اللہ کا ہے ختم قرآں ہے ہم احسان کوئی دولت بھلا دُنیا میں ایسی بتائے کوئی ہو جو مثل فرقاں خزانہ ہے اک علم و ہدی کا شفا ہے، نور ہے، قول رحماں یہی ہے جو کہ حرز مومنیں ہے دوا ہے ہر مرض کی اور درماں بشارت ختم قرآں کی سنی جب مرا دل ہو گیا ہے شاداں و فرحاں خدا کا شکر مجھے کیا ادا ہو نازاں ہوں اس کے فضل اور رحمت صلاح بنے یا الدین مرا نور نظر ہے وہ دیں کا مہر تاباں
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس بچے وہ تادم آخر بدی رہے وہ عمر بھر نیکی کا خواہاں زباں پر اس کی تیرا ذکر جاری رہے ہر دم نہ غافل غافل ہو کسی آں ترا بنده ہو 60 پابند تقوی عمل صالح کرے ہو دل میں ایماں اُسے محفوظ رکھنا ہر بلا جو مشکل پیش آئے کرنا آساں ہو محتاج دُنیا میں کسی کا غنی بھی بھی ہو مگر ہو نیک انساں مری بچی جمیلہ منخصی کو بھی سعادت ہو عطا اور ختم قرآں دعا ہے سٹس کی دونوں کے حق میں تاباں بنیں مہر درخشاں (الفضل قادیان 3 جولائی1943ء) 645
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس نہیں ہوتا فنا نہیں ہوتا یوں تو ہونے کو کیا نہیں ہوتا صدق لیکن فنا نہیں ہوتا لعنت كذب ہوتا ہے موجب لعنتی با خدا نہیں ہوتا راستبازوں کا خدا حافظ ہے کبھی ان ނ مفتری ان کا جدا نہیں ہوتا کے لیے فلاح کہاں ناصر خُدا نہیں بس وہی دل ہے زندہ جاوید ف ہوتا جو خدا جدا نہیں ہوتا ہو چکا جو قتیل حسن ازل ہوتا ، فنا 3 ہوتا نہیں نہیں جس کے دل میں رہے کدورت كذب وہ ہم اس کبھی باصفا نہیں خدا کی پناہ چاہتے ).ہوتا ہیں جو پارسا نہیں ہوتا 646
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس لوگوں کب وہ کرتے ہیں جن کو خوف خدا نہیں ہوتا خدا کی طرف ہی جھکتے ہیں کوئی آسرا آسرا نہیں ہوتا ایماں ہے حیا 3: نہیں ہوتا 647 دل بھی سمس عزم ایک قوت ہے عزم کر لو تو کیا نہیں ہوتا الفضل لاہور 28 جنوری 1950ء)
648 حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس احمدی نوجوانوں سے خطاب خون دل سے پہینچ کر اے احمدی نوجواں ملت اسلام دیدنی ہر کا شاداب کر دے بوستاں ہو رنگ شان ہر نہال گلستاں طائرانِ قدس آ آ کر بنائیں آشیاں کثرت گلہائے گوناگوں سے رنگیں ہو چمن وجد آور ہو نوائے طوطی شکر فشاں رنگ لائے تیری سعی پیہم و حُسنِ عمل باغ دین مصطفیٰ بن جائے پھر رشک جناں طرف اٹھکیلیاں کرتی پھرے بادِ بہار نگہت گل سے مہک اٹھیں زمین و آسماں خوب چمکے ہر طرف اسلام کا حُسنِ شباب اور لہرائے جہاں میں پرچم امن و اماں مذہب تثلیث کا مٹ جائے دنیا سے نشاں گونج اٹھیں نعرہ توحید سے ہفت آسماں ایک ہی معبود ہو اللهُ حَقٌّ لَا يَمُوت لا الـ هَ غَيْرُہ کی چار سو گونجے اذاں ساری دنیا مان لے حکم محمد مصطف قائد پیغمبران و بادشاه دو آتش بغض و حسد سے ہو دل دشمن کباب یاس و نو میدی و ناکامی سے ہو وہ نیم جاں جہاں
649 حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اے جواں بخت و جواں ہمت جواں سال احمدی مردِ میداں بن کے اٹھ تو اے خدا کے پہلواں جانتا بھی ہے یہ عہد مصلح موعود ہے عہد محبوب خدا فضل عمر پیر و جواں دور میں اس کے مقدر فتح ہے اسلام کی وہ ہے منصورِ خدا اور اس کی رحمت کا نشاں ہوشیار! آج امتحان ہمت مردانہ ہے کام وہ کر جس پر عش عش کر اُٹھے سارا جہاں لوگ کہتے ہیں خزاں میں آ نہیں سکتی بہار لا کے دکھلا دے خزاں میں تو بہار جاوداں دست ہمت سے نہ چھوٹے دامن سعی عمل نور حق سے جگمگا اٹھیں زمین و آسماں پائے استقلال میں جنبش کبھی نہ آنے پائے ورنہ ہو جائیں گی ضائع تیری سب قربانیاں وہ کہاں ایٹم میں جو قوت ہے استقلال میں یہ اڑا دیتا ہے ساری قوتوں کی دھجیاں روشنی دنیا کو پہنچانا ہے تیرا کام شمس رے دشمن ہیں تو ہوں ظلمت پسندانِ جہاں تیرے روزنامه الفضل لاہور 25 مئی 1951ء)
650 حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس بنی آدم پہ لازم سجدہ شکرانہ آتا ہے جو کوئی شور کرتا جھومتا مستانہ آتا ہے تو یہ دُھن ہے کہ وہ کہد میں مرا دیوانہ آتا ہے منایا ہے مگر اس شمع رو نے جشن قربانی کہ جو آتا ہے اک اڑتا ہوا پروانہ آتا ہے طرب انگیزی دل پر نہ ہو حیران اے زاہد پسند اس جانِ عالم کو یہی کا شانہ آتا ہے تصور بعد مے نوشی بھی موقع کا نہیں جاتا جب آتا ہوں تو میرے ساتھ ہی میخانہ آتا ہے وہ خوش قسمت ہے آنکھوں کی وہ ٹھنڈک پائے گا آخر کہ جس کو آتشِ الفت سے دل گرمانا آتا ہے چمن میں رہنے والوں پر نہیں کوئی بھی پابندی یہ آزادانہ جاتا ہے وہ بے باکانہ آتا ہے وہی مسلم وہی مومن وہی عارف وہی واقف جسے راہِ خدا میں اپنا سر کٹوانا آتا ہے
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس کبھی تھی نورِ ایماں سے مزین جن کی پیشانی نظر آتے ہیں یوں جیسے نظر ویرانہ آتا ہے اُلجھ پڑنے کی عادت ہے الجھ پڑتے ہیں وہ ناحق طريق منصفانہ ان کو آئے گا نہ آتا ہے نہیں آتا انہیں قرآں نہیں آتا نہیں آتا قدوری حفظ ہے.افسانہ در افسانہ آتا ہے وہ کیسے فخر، کیسے ناز سے کرتے ہیں یہ دعویٰ کہ راہ حق سے لوگوں کو انہیں بہکانا آتا ہے خدا کی نعمتوں کو شمس کوئی گن نہیں سکتا بنی آدم پہ لازم سجدہ شکرانہ آتا ہے (الفضل2 اپریل 1957ء) ا علم فقہ کی کتاب 651
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس الحکم کو ہدیہ تبریک از مولا نائنٹس 652 مولانا جلال الدین شمس جماعت کے ان مجاہدین میں سے ہیں جنھوں نے ہندوستان کے باہر بلا داسلامیہ عربیہ میں بے نظیر کام کیا ہے.اور سلسلہ کے تمام افراد آپ کی خدمات سے واقف ہیں مولانا’ الحکم کے مطالعہ سے بیحد متاثر ہوئے اور باوجود علالت طبع کے الحکم کے لئے ہدیہ تبر یک بمع ایک چھٹی کے لکھ کر ارسال فرمایا ہے.جزاھم اللہ احسن الجزاء (مدیر) الحکم جاری ہوا شکر خدائے دو جہاں بزم احمد کا جو ہے سب سے زیادہ راز داں کہئے عرفانِ الہی کا اسے بحرِ عظیم جس میں علم و معرفت کا اک خزانہ ہے نہاں گوہر مقصود ہے لاریب وہ سارا کلام تھی صدف جس کی زماں مہدی آخر زماں الحكم حامل اقوال حکم کا بالیقیں دی مبارک باد عرفانی کو میں نے بے گماں مالکان الحکم کو دے یہ توفیق اے خدا رکھیں وہ جاری اسے تا انتہائے ایں جہاں نے ”الحکم کو اپنا بازو کہدیا ہے سمس اس کی مدح میں پھر کیوں نہ ہو رطب اللساں (الحکم قادیان 7 فروری 1934ء)
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس دل تڑپ اُٹھتا ہے رہ رہ کر برائے قادیاں ه الله رونق ارض و سمائے قادیاں میری آنکھوں میں مرے دل میں ضیائے قادیاں آہ وہ کیفیت صبح و مسائے قادیاں دل تڑپ اُٹھتا ہے رہ رہ کر برائے قادیاں ولولے دل میں یہ اُٹھتے ہیں برائے قادیاں ہر جگہ عالم میں لہرائے لوائے قادیاں دل سراپا درد بن جاتا ہے جب آتے ہیں یاد حامی دین دین محمد میرزائے قادیاں گلشن اسلام کے ایسے گل رعنا تھے وہ جس کی خوشبو سے مہک اٹھی فضائے قادیاں مسجد اور ،اقصی مبارک، نور ہیں پیش نظر وہ آرام گاہ اتقیائے قادیاں اُن کو حرص جاہ دنیا.خواہش عقبی اسے ہے شاہانِ عالم سے گدائے قادیاں بڑھ کے آ گیا ہے گوہر مقصود ہاتھ آنے کا وقت مژدہ اے غواص دریائے وفائے قادیاں 653
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس ابتدا سے سے تھی تھی یہ خواہش حضرت محمود کی کاش میں دنیا میں پہنچاتا ندائے قادیاں شکر لـ وہ تمنا آج پوری ہوگئی جس طرف بھی جاؤ آتی ہے نوائے قادیاں نُورِ حق پھیلے جہاں میں ظلمتیں کافور ہوں شمس چمکیں شمس بن کر ذرہ ہائے قادیاں ( الفضل 12 مارچ 1958 ء ) 654
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس جذبات شمس دنیا میں کوئی بھی نہیں معصوم و بے گناہ وہ 655 از مولوی جلال الدین صاحب سمس مبلغ لنڈن ) نہیں عاجز مری زبان ہے زور بیاں نہیں ہو ورنہ ختم! ایسی مری داستاں ، گناہ رحیم الہی اس کا اگر پاسباں نہیں لندن کی پوچھیئے تو یہ کانِ گناہ ہے کونسی بدی ہے جو ہوتی یہاں نہیں آزادی گناہ کو دیکھو تو بول اٹھو دوزخ ہے یہ مقام جنت نشاں نہیں یہ خمروز ناؤ رقص ہیں یاں جزو زندگی ٹاکیز سینما کی تو حد و بیاں نہیں اے مولوی جہاد کا اب چھوڑ دے خیال یہ وقت ہے دلیل کا وقت سناں نہیں کہدو یہ اس سے جس کا ہے تلوار پر مدار اسلام کو تو حاجت تیرو کماں ہو کر شہید جس نے دکھایا کمال صدق کیا وہ جواں ہمارا ولی داد خاں نہیں محفوظ ٹھوکروں سے ہو کیونکر سے ہو کیونکر وہ قافلہ سردار جس کا کوئی نہیں سارباں نہیں ابناء فارسی کو نوازا خدا نے دنیا میں اس سے اچھا کوئی خانداں نہیں ہے نہیں ہر فرد اک نشان ہے اس خاندان کا شادی بیاہ ان کا بھلا کیوں نشاں نہیں مولی! تو جانتا ہے مرے دل کا اضطراب وہ راز کونسا جو تجھ پر عیاں نہیں ہے دل میں وفورِ شوق سے تبلیغ کا ہے جوش پر کیا کروں کہ آہ وہ تاب و تواں نہیں یا رب تیری مدد ہو تو اصلاح خلق ہو اُٹھنے کا مجھے ނ ورنہ یہ بارِ گراں نہیں فاروق خلافت جوبلی نمبر جلد ۲۴ نمبر ۴۶ ۴۷-۲۱ تا ۲۸ دسمبر ۱۹۳۹)
حیات پس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین انس چلو آشیانے فلک پر بنائیں 656 اگر وہ ہمیں اپنا جلوہ دکھائیں خوشی سے نہ جامے میں پھولے سائیں مسرت سے پہلو میں ان کو بٹھائیں کریں ان سے باتیں گلے سے لگائیں بنیں ایک دونوں مقام لقا میں اثر دل سے نقشِ دوئی کا مٹائیں محبت کے عالم میں یکرنگ ہو کر من وتو کے یہ سارے جھگڑے چکا ئیں محبت کی کو جب لگائی ہے دل میں تو پھر جلوہ حُسن و صورت دکھائیں بہر حال ہم ان سے راضی رہیں گے ستائیں وہ جتنا بھی چاہیں ستائیں خوشی سے اٹھائیں گے ہم ناز ان کے اور ان کی اداؤں کی لیں گے بلائیں روش شمس کی کر رہی ہے یہ ایماء ره یہ پرواز کا وقت ہے عشق میں تیز گامی دکھائیں مئے بے خودی کے لئے جائیں ساغر خودی کو مٹائیں، خودی کو مٹائیں ہمصیفرو چلو آشیانے فلک پر بنائیں زمیں پر رہیں جو کہ اہلِ زمیں ہیں ز میں سے فلک والے کیوں دل لگائیں بہار آئی ہے گلستان وفا میں خوشی سے محبت کے ہم گیت گائیں لگائیں اگر جوش میں کوئی نعرہ تو الله اکبر کا نعرہ لگائیں جنہیں آتشِ عشق بھڑ کا رہی ہو کہاں تک وہ جوش طبیعت دبائیں ہوا شمس سیماب فرقت میں اُن کی تجلّی سے اس کو تسلی دلائیں (روز نامه الفضل لا ہور 12 جنوری 1952ء)
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اقبال بڑھا،عمر بڑھافضل عمر کی کیا پوچھتے ہو کیسے شب ہجر بسر کی رو کے دعا کرتے ہوئے میں نے سحر کی ہے بس میرا خدا مجھ ہو راضی رو درکار اللہ کی دنیا کا نہ طالب ہوں نہ خواہش مجھے زر کی ره میں جو کرے دشت نوردی نہیں اس کو کبھی آگ سفر کی سکتی نہیں چھو جس نور چهره محبوب درخشاں وہ نور خدا نہ ضیاء شمس قمر کی , 657 ہے اللہ تو شافی شفا کو عطا کر ہے اقبال بڑھا 6 عمر بڑھا عمر کی حاصل ہے کیوں قابل صد رشک نه اسے اللہ کے گدائی اسے در (الفضل ربوہ 27 اپریل 1956ء) ہو شمس کی تقدیر کی
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس درد کیا چیز ہے دوا کیا ہے 658 کیا کہوں ان سے مدعا کیا ہے مجھ کو خود بھی نہیں پتا کیا ہے حیف صد حیف قوم مسلم پر ابتداء کیا تھی انتہاء کیا ہے تھے جو کل تک خدا شناس افسوس آج وہ کہتے ہیں خدا کیا ہے برہم تو رہتے ہیں لیکن یہ بتاتے نہیں خطا کیا ہے مجھ مانتے یا مانتے آخر سن تو لیتے کہ التجاء کیا ہے کیا کریں گے وہ ہم سے وعدہ وفا جو نہیں جانتے وفا کیا ہے کہہ رہے ہیں آج ہم نہیں جانتے دغا کیا ہے پھر سے دنیا ہے برسر پیکار عقل والو ماجرا کیا ہے خیال کہاں کیا روا اور ناروا کیا ہے اس زمانہ میں بے محابا ملے جو غیروں وہ ނ بھی تقریر ہے کوئی تقریر جو دلوں وہ ہو پر ایسی خاتون کی حیا کیا ہے سننے والے کہیں کہا کیا ہے ہو اثر انداز پھر وہ تفسیر مدعا کیا ہے جو مثل صدا بصحرا ہو وہ صدا کیا ہے وہ ندا کیا ہے ہے گداز سے خالی اے دعا والو جو سوز دیوانگان عشق پوچھ درد وہ دعا کیا کیا چیز ہے دوا کیا ہے پیتے ہیں جب نشہ اتر جائے ایسی مے پینے کا مزہ کیا ہے دل لگاؤ نہ شمس دنیا اس کا انجام جز فنا کیا ہے (الفضل ربوہ 23 جولائی 1956 ء)
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس د, اب گیا وقت خزاں ، آئے ہیں پھل لانے کے دن مصرعه طرح 659 26 مئی 1908ء یوم وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مناسبت سے 26 مئی 1932 ء کو دارالامان قادیان میں تبلیغی جلسہ منعقد ہوا.اس موقعہ پر ایک مشاعرہ بھی ہوا تھا جس میں مختلف دوستوں نے اپنی اپنی نظمیں سنائیں.مندرجہ ذیل نظم حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے سنائی: آرہے ہیں دوستو اب کفرمٹ جانے کے دن شمس اسلامی کے مغرب سے نکل آنے کے دن آمد مہدی سے باطل ہو گیا ہے سرنگوں آگئے پھر پرچم اسلام لہرانے کے دن آج کی تاریخ اور سن آٹھ تھی یومِ وصال تھے جماعت کے لیے وہ سخت گھبرانے کے دن پر تسلی دی تھی ہم کو آپ نے قبل از وفات قدرت ثانی کے ہیں وہ جلوہ دکھلانے کے دن قدرتِ ثانی کے اول فرد نور دین تھے اور ان کے دن تھے دیں کا نُور پھیلانے کے دن فردِ ثانی حضرت مرزا بشیر الدین ہیں ہو بشارت آئے دیں کے غلبہ پا جانے کے دن ہو رہی ہے اب اشاعت دین کی ہر ملک میں اسود و احمر کے ہیں اسلام میں آنے کے دن اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن“ چھوڑ کر سب سُستیاں نکلو پئے تبلیغ تم ہیں یہی اے دوستو لوگوں کو سمجھانے کے دن گارہی ہیں گلشن احمد کی ساری بلبلیں ”اب گیا وقت خزاں ، آئے ہیں پھل لانے کے دن“ (مطبوعہ فاروق.قادیان.28 مئی 1932ء)
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس تیرھواں باب متفرقات 660
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 661 پیغام تمس ذیل میں حضرت مولانا شمس صاحب کا وہ پیغام درج کیا جارہا ہے جو آپ نے مکرم کلیم احمد صاحب آف انگلستان کی خواہش پر احباب انگلستان کے نام تحریر فرمایا تھا.آپ کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی یہ تحریر مکرم منیر الدین شمس صاحب نے مہیا فرمائی جو ان کے پاس محفوظ ہے.میرے عزیز بھائیو اور بہنو بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہمارے عزیز بھائی کلیم احمد صاحب نے ربوہ پہنچ کر مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ میں آپ کے نام کوئی پیغام دوں.سو عزیز مکرم کی اس نیک خواہش کو پورا کرنے کے لئے میرا پیغام آپ کے نام یہی ہے کہ آپ اس عہد کو ہر رنگ میں پورا کریں جو آپ نے بیعت کے وقت دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا باندھا تھا.آپ اس وقت جس ملک میں قیام پذیر ہیں وہ وہ ملک ہے جس کے باشندے آج سے بیس سال پہلے ہندوستان پر حکمران تھے.ان کے عہد حکومت کی ایک امتیازی بات یہ ہے کہ انہوں نے تمام مذاہب کو پوری آزادی دی تھی اور انگریز قوم کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے عہد حکومت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور ان کے مذہبی آزادی دینے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود نے باوجود عیسائی حکومت کے نہایت آزادی کے ساتھ کسر صلیب کی اور عیسائیت کو باطل ثابت کیا اور دین اسلام کی صداقت ظاہر کی.پس انگریز قوم کے اس لئے کہ اس نے مذہبی آزادی دی تھی ہم ممنون احسان ہیں اور احمدیوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اس احسان کا بدلہ انہیں اس صورت میں دیں کہ ان کیلئے دعائیں کریں اور ایسے تبلیغی طریق اختیار کریں کہ وہ دین اسلام کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ سے روحانی نعمتوں کے وارث بن جائیں.یہ ملک جس میں آپ اس وقت مقیم ہیں ان ممالک میں سے ہے جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث طلوع الشمس من مغربها میں پیشگوئی پائی جاتی ہے کہ وہ اسلام کے نور سے منور ہوں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 662 کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے." (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 376-377) اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا مقصد بھی اشاعت توحید اور دین اسلام پر تمام لوگوں کو جمع کرنا ہے.جیسا کہ حضور فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.“ (رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306) پس آپ لوگوں کو چاہیئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو انگلستان میں مادی رزق حاصل کرنے کا موقعہ عطا فرمایا ہے تو آپ اہل انگلستان کو وہ روحانی رزق پیش کریں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کو دیا ہے.اب میں نہایت اختصار کے ساتھ وہ چند باتیں پیش کرتا ہوں جواس ملک کے باشندوں کیلئے دین اسلام کی طرف متوجہ کرنے کا باعث ہو سکتی ہیں.1.ایک دوسرے سے ایسی محبت رکھو کہ جس کی نظیر دوسری قوموں میں نہ مل سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم با ہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں.پس اپنے بھائیوں سے ایسا حسن سلوک کرو
663 حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس اور ایسی محبت سے پیش آؤ کہ دنیا کی نظروں میں تم قابل رشک ہو جاؤ.2.صفائی کا ہر حال میں خیال رکھو.اسلام نے صفائی کے متعلق بہت احکام دئے ہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التوابين و يُحِبُّ المتطهرين (البقرة:223 ) کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب وہی ہوتے ہیں جو باطنی طہارت اور پاکیزگی اور اسی طرح ظاہری صفائی اور پاکیزگی رکھتے ہیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ تم اپنے گھروں کے صحنوں کو بھی صاف ستھرا رکھو.اہل مغرب صفائی پسند ہیں مگر تم جو احمدی مسلمان ہو چاہئے کہ اپنے گھروں اور اپنے محلہ کو ایسا صاف اور ستھرارکھو کہ وہ دوسروں کے لئے صفائی میں ایک مثال ہو.اس کا اثر ان لوگوں پر بہت اچھا پڑے گا.3.صدق اور دیانت اور امانت کی نہایت اعلیٰ درجہ کی مثال قائم کرو.تم جس جس جگہ کام کرتے ہو اپنی ڈیوٹیوں کو ایسے شاندار رنگ میں ادا کرو اور جو کام تمہارے سپرد ہو وہ ایسے رنگ میں بجالاؤ کہ تمہارے نگران اور افسر تمہاری تعریف کئے بغیر نہ رہ سکیں.جب تم اس قسم کی دیانت اور امانت کا مظاہرہ کرو گے تو وہ خود بخود تمہاری طرف متوجہ ہوں گے اور تمہاری باتوں سے متاثر ہوں گے.4.جہاں تک ممکن ہو سکے دوسروں کی ہمدردی کرو اور مشکلات کے وقت ایک دوسرے کی امداد کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دس شرائط بیعت میں ایک شرط یہ رکھی ہے کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لله مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدادا دطاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.5.مغربی ملکوں کا ماحول اور معاشرہ ایسا ہے کہ انسان کا گناہوں سے بچنا بظاہر محال نظر آتا ہے لیکن اس کے دو علاج ہیں.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو اور خدا تعالیٰ کی خشیت اور خوف سے اپنے دلوں کو معمور رکھو اور اس کے حاصل کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہو.دوسرا طریق گناہوں سے بچنے کا نماز ہے.پس پنجوقتہ نمازوں کو حضور قلب سے ادا کرو اور جو حقیقت میں نماز کو مدنظر رکھ کر نمازیں ادا کرے گا تو یقینا وہ گنا ہوں کے ارتکاب سے بچ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: نماز پڑھو نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا ہے.بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہر وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھوڈالو.تب ان دونوں وضوؤں
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 664 کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیا جائے“.6.الغرض توحید پر قائم رہو اور نماز کے پابند ہو جاؤ اور اپنے مولی حقیقی کے حکموں کو سب سے مقدم رکھو.اپنے اعمال سے اور اپنے نیک نمونہ سے اسلام کی خوبی باشندگانِ انگلستان پر ثابت کرو اور چاہئے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودار ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے اور خدا کی برکتیں تمہارے شامل حال رہیں گی.وہ گھر بھی بابرکت ہوگا جس میں تم رہتے ہوگے اور ان دیواروں پر بھی خدا تعالیٰ کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں اور وہ شہر بھی بابرکت ہوگا جس میں تم رہو گے.اے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم خدا کے ساتھ ہو جاؤ.وہ ہر جگہ تمہارا پاسبان اور محافظ ہو اور وہ تم سب کو دینی اور دنیوی ترقیات سے وافر حصہ عطا فرمائے اور آپ کا اور ہم سب کا انجام بخیر ہو اور ہم مسلمان ہونے کی حالت میں اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کریں.آمین.آپ کا مخلص بھائی ،جلال الدین شمس 00000
شجرہ نسب خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب سمس مورث اعلیٰ جمال وائیں → سلام وائیں میاں محمد صدیق صاحب وائیں (صحابی) میاں خیر الدین صاحب (صحابی) زوجہ امیر بی بی صاحبہ میاں جمال الدین صاحب (صحابی ) میاں امام الدین صاحب (صحابی) امیر بی بی صاحبہ ( صحابیہ) زوجه : فضل بی بی صاحبہ زوجه : حسین بی بی صاحبہ عرف مائی کا کو خاوند: رحیم بخش صاحب (بنت میاں کریم بخش صاحب) ہاجرہ بیگم صاحبہ خاوند : حسین بخش صاحب بشیر احمد صاحب خالد احمدیت عائشہ بی بی صاحبہ زوجه : فاطمه بی بی صاحبہ مولانا جلال الدین صاحب شمس خاوند حاجی میر ولی محمد صاحب زوجه : سعیده بانو صاحبہ بنت خواجہ عبید اللہ صاحب (صحابی) ایس.ڈی.او) حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس رمضان بی بی صاحبہ خاوند : محمد حسین صاحب حمیده بی بی صاحبہ بشری بی بی صاحبہ خاوند چوہدری وزیر محمد صاحب پٹیالوی خاوند : مولوی چراغ دین صاحب (مربی سلسله) 4 ڈاکٹر صلاح الدین شمس زوجہ کوکب منیره ( بنت رشید احمد خان ضلعدار نہر ) جمیلہ شمس خاوند: ملک نسیم احمد ایڈووکیٹ 5 6 7 فلاح الدین شمس منیر الدین شمس بشیر الدین شمس عقیلہ مشمس زوجہ زاہدہ منصوره زوجہ ریحانه بانو (ابن ملک عزیز محمد ایڈووکیٹ) زوجه : نورین فضل خاوند نوید احمد ملک ( بنت حافظ بشیر احمد ) ( بنت عبدالرحیم لون) ( بنت شیخ فضل احمد ) (ابن میجر سعید احمد ملک) ریاض الدین شمس زوجه : فوزیہ خان (بنت منصور احمد خان) 2 665
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 1 ڈاکٹر صلاح الدین شمس زوجہ کوکب منیره (بنت رشید احمد خان ضلعدار نهر ) 666 صبیحہ ر شمس * خاوند: امتیاز احمد ابن نذیر احمد (علیحدگی) موجودہ خاوند : انعام الرحمن (ابن لطف الرحمن محمود) * عادل انیل احمد فاتح الدین شمس زوجه را شده فضل صباح الدین شمس زوجہ امۃ القدوس ایاز ناصرالدین شمس زوجہ مبارکہ بشری ( بنت شیخ فضل احمد ) ( بنت ڈاکٹر افتخار احمد ایاز ) (بنت را نا بشارت الرحمن) نادیہ شمس * خاوند : طاہر احمد صوفی (علیحدگی) (ابن ناصر احمد صوفی ) حفیظ الدین شمس زینا سلام مرروش مبار که ششمس * سنید راشد احمد زوجہ عائشہ احمد زویا امیرہ شمس اسماء مریم مشمس ربوه منها شمس * حارث احمد ( بنت ڈاکٹر خواجہ وحید احمد ) منیزه رییا شمس ابراہیم نافع احمد * عاصم رحیم صدف مهرین
خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس شمیم احمد ملک زوجہ عمرانہ فاروق ( بنت فاروق احمد ) زاہدہ بیگم خاوند : عزیز الدین عبید اللہ (ابن حافظ بشیر الدین عبید اللہ ) 2 جمیله شمس خاوند: ملک نسیم احمد ایڈووکیٹ (ابن ملک عزیز محمد ایڈووکیٹ ) ملک کلیم احمد زوجہ شاہدہ منور بنت خواجہ منور احمد ) 667 ملک محمود احمد زوجہ شیلا احمد ( بنت مظفر احمد ) شاہدہ پروین ملک خاوند طاہر احمد ( ابن یقین محمد ) عمیر احمد ملک صباح الدین عبید اللہ فریحہ کلیم عدیلہ کنول ملک یاسر احمد حسیب احمد ملک هبة الحی فرخ احمد ملک نبیلہ یا کمین ملک اسر احمد مدیحہ شمیم فہد عبید اللہ ایان احمد ملک انیقہ جبین ملک ساحر احمد واسع احمد ملک سعد احمد ملک
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 3 فلاح الدین شمس زوجہ : زاہدہ منصورہ (بنت حافظ بشیر احمد ) شعیب احمد شمس زوجہ : عطیہ احمد ( بنت ڈاکٹر انوار احمد ) ماریہ عندلیب شمس خاوند: عامر فهیم احمد عدنان احمد شمس ( ابن کر نل مد ثر احمد ) زوجہ عروج باجوہ ( بنت طارق احمد باجوہ) عظیم احمد مشمس سبحان اسماعیل احمد الیہ فریدہ شمس ایان ابراہیم احمد اینه سعیده مشمس شان اسحاق احمد عمارہ ناصر شمس 668
حیات بشمس خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس 4 منیر الدین شمس زوجہ ریحانہ بانو (بنت عبدالرحیم لون) 669 خوله شمس نصیر الدین شمس شمس خاوند : رافیل احمد ملک محی الدین احمد شمس زوجہ نعیمہ خان (ابن اسد ملک ) ( بنت زرتشت منیر احمد خان) خاوند : محمد ذبیح جعلمی (ابن مولانا مسعوداحمد جلمی) سجیل احمد ملک جلال الدین شمس حز قیل احمد ملک بارعہ شمس عمر فاروق شمس زوجه : آمنه مریم سعید ( بنت منور احمد سعید ) نایا شمس نوح رحیم شمس سومنیا شمس خاوند : ذیشان اسلم ( ابن چوہدری محمد اسلم) نورا اسلم 5 بشیر الدین شمس زوجہ نورین فضل ( بنت شیخ فضل احمد ) شہزین طوبی سنس سحرش نائلہ شمس
خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس طلال بن نوید ملک زوجہ قرة العین ملک ( بنت رشید احمد ملک) لائکہ ملک 6 عقیلہ شمس خاوند : نوید احمد ملک (ابن میجر سعید احمد ملک) طانیہ ملک جلال بن نوید ملک 7 ریاض الدین شمس زوجہ : فوزیہ خان (بنت منصور احمد خان) ناصر الدین شمس ماریہ ریاض نفس عزاه ریاض شمس 670 مر شبه : منیر الدین شمس گرافکس: ایاز محمود خان
Hayaat-e-Shams A Glimpse into the Life of Hazrat Maulana Jalal-ud-Din Shams, Khalid-e-Ahmadiyyat سلسلہ احمدیہ کے سلطان نصیر، آسمان احمدیت کے درخشندہ ستارے اور خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس یکم مئی 1901ء کو حضرت میاں امام الدین سیکھوائی کے ہاں پیدا ہوئے.1917ء میں زندگی وقف کی اور مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہوکر پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کیا.تحریک شدھی و ملکانہ اور کئی مناظروں میں فاتح کی حثیت سے جماعت احمدیہ کی نمائندگی کی.1925ء سے اکتوبر 1931 ء تک بلاد عر بیہ میں تبلیغ اسلام احمدیت کی توفیق ملی.بلاد عر بیہ سے واپسی پر کشمیر کمیٹی میں خدمات پر مامور ہوئے.مقدمہ بہاولپور میں خدمات کی خاص سعادت حاصل کی.1936ء سے 1946 ء تک انگلستان میں بطور مبلغ اور امام مسجد فضل لندن خدمات بجالانے کی توفیق پائی.آپ جب انگلستان میں خدمات سلسلہ بجالانے کے بعد قادیان واپس آئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کی پیشگوئی کہ سورج یعنی شمس مغرب سے طلوع ہو گا آپ کے ذریعہ بھی پوری ہوئی.پارٹیشن کے وقت آپ کو حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد اصاحب کے قادیان سے پاکستان آنے کے بعد حضور نے قادیان کا امیر مقامی مقرر فرمایا.تحریری اور تبلیغی خدمات کے علاوہ آپ کو مختلف نظارتوں میں بحثیت انچارج اور ناظر کام کرنے کا موقعہ ملا.مجلس افتاء کے سیکریٹری مجلس کار پرداز کے صدر.نیز الشرکۃ الاسلامیہ کے انچارج رہے.آپ کا وصال 13 اکتوبر 1966ء کو سرگودہا میں ہوا.آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.آپ کے وصال پر حضور نے خطبہ جمعہ میں فرمایا: " ہمارے بزرگ، ہمارے بھائی، ہمارے دوست مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس ہم سے جدا ہوئے.خدا کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی کو گزارا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی ابدی رضا کو حاصل کیا." (روز نامہ الفضل ربوہ 19 اکتوبر 1966ء) ISBN 978-1-84880-105-9 9 781848 801059