Language: UR
روز اول سے ہی خلفائے احمدیت نے جماعت احمدیہ عالمگیر کی رکن خواتین اور بچیوں کی دینی و روحانی تعلیم و تربیت کے لئے وقت دیا ہے اور ان کو درپیش ہر طرح کے مسائل کےحل کے لئے ہمیشہ سے قابل قدر رہنمائی فرمائی ہے۔ قریبا ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل اس مجموعہ میں درج ذیل خطابات کا متن موجودہے اور ہر خطاب سے قبل مضامین کا خلاصہ چند جملوں میں درج کیا گیا ہے۔ جبکہ متن میں ذیلی عناوین شامل کئے گئے ہیں جن سے پیراگراف کا مضمون سمجھنا مزید آسان ہوگیا ہے۔ (الف) احمدی مائیں۔نئی دنیا کی معمار۔ خطاب فرمودہ: 27 جولائی 1991ء۔جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر اسلام آباد ٹلفورڈمستورات سے خطاب۔ (ب) امن عالم گھروں کی تعمیر نو سے ہی ممکن ہے۔خطاب فرمودہ: 28 جولائی 1990ء۔ جلسہ سالانہ برطانیہ منعقدہ اسلام آباد ٹلفورڈ کے موقع پر مستورات سے خطاب۔ (ج) جنت نظیر معاشرہ۔خطاب فرمودہ: 27 دسمبر 1991ء ۔بمقام قادیان۔ برموقع : صدسالہ جلسہ سالانہ عالمگیر، بھارت۔ قادیان (د) ملت واحدہ۔ خطاب فرمودہ: 8 ستمبر 1990ء۔برموقع :سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی۔ بمقام ناصر باغ جرمنی۔ (و) تبلیغ دین اور تربیت اولاد۔ خطاب فرمودہ: 6 جولائی 1991ء۔ بمقام ٹورانٹو،کینیڈا، برموقع، جلسہ سالانہ لجنہ اماء اللہ کینیڈانیز اس موقع پر بذریعہ ٹیلی فون سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی کےلئے جمع ہونے والی مستورات نے بھی استفادہ کیا۔
حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ خطابات حضرت مرزا طاہر احمد MOWE
آج خوا کی برنیت کے ہوتے ہیں ساماں بیٹیاں جنت گم گشتہ کو لے آئی ہیں
حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ خطابات حضرت مرزا طاہر احمدخلیفہ مسیح الرابع امام جماعت احمدیه عالمگیر
احمدی مائیں نئی دنیا کی معمار خطاب حضرت مرزا طاہر احمد خليفة المسيح الرابع ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز فرموده امام جماعت احمدیہ عالمگیر 1991 ۲۷ جولائی ۱۹۹۱ء بر موقع جلس الانه مستورات جماعت احمدیہ برطانیہ بمقام اسلام آباد ، ٹلفورڈ، برطانیہ
حضور اثور کے اس خطاب کے چند اہم نکات ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں تمام عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی صورت میں پورا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ تمام عالم کو خدائے واحد و یگانہ کی ذات پر اکٹھا کر دیا جائے اس کے سوا اور کوئی حوالہ نہیں ہے جس سے آپ منتشر بنی نوع انسان کو ایک ذات میں اکٹھا کر سکیں.صرف انصاف کے بغیر دنیا میں امن ممکن نہیں مکمل انصاف اور صرف خدا کی ذات کے تعلق میں قائم ہو سکتا ہے.نوع انسان کو خدا کے نام پر اکٹھا کرنے کے لئے جماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے.دیوں کو اکٹھا کرنا بنیادی چیز ہے.اس کے بغیر نہ افراد اکٹھے ہو سکتے ہیں نہ قومیں دلوں کو ملانے کا کام دو حصوں سے تعلق رکھتا ہے.ایک اپنے نظریہ اور لائحہ عمل میں ایسی پک تبدیلی کہ نفرتیں محرکات میں شامل نہ ہوں جب تم بدی کو دیکھو تو بدی کی دشمنی تمہارے پیش نظر نہ رہے، ہدی کو حسن میں تبدیل کرنا تمہارا مقصود بن جائے یہ مضمون ذات سے شروع ہوتا ہے جب تک آپ کی ذات میں (دین حق) کی روشنی لوگوں کو دکھائی نہ دے گی دنیا آپ کی باتوں کو کبھی قبول نہیں کرے گی.خدا نما بنے سے پہلے خود خدا کو اپنی ذات میں جلوہ گر کرنا ضروری ہے.دوسرا یہ کہ خدا تعالی -..سے.تعلق جب ایک خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور تصرف شامل حال نہ ہو ولوں کو جوڑا ہی نہیں جا سکتا.آج دنیا کے سارے مسائل کا حل خدا کی محبت ہے.ہی محبت ہے جو ولوں کو اٹھا کر سکتی ہے.یہ محبت کا بجنون ہے جو دنیا میں پاک بیڑیاں پیدا کرے گا اس محبت کا سفر انفرادی طور پر ہر شخص کو کرنا ہو گا.آج سب سے زیادہ اس محبت کے سفر کی احمدی خواتین کو ضرورت ہے
آئندہ کی دنیا مائیں بناتی ہیں.ماؤں کے دودھ سے سے آئندہ دنیا کے لئے یہ تقدیر لکھی جاتی ہے کہ وہ زہریلی قوم بنے گی یا زندگی بخش قوم ثابت ہو گی آئندہ قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرنا عورتوں کا کام ہے اور یہ فیصلہ انہیں آج کرنا ہوگا.اج احمدی خواتین کو اپنے سینوں کو خدا کی محبت سے روشن کرنا ہو گا.آپ کے تبدیل ہوئے بغیر آپ کی اولاد تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک آپ کی ذات خدا کے نور سے نہ بھر جائے آپ کی اولاد کے سینے خدا کے نور سے نہیں بھر سکتے.اپنے گردو پیش ، اپنے ماحول میں خدا کی محبت کے رنگ بھرنے کی کوشش کریں.ابتدائی دور میں دریچوں کو) خدا کے پیار کی لوریاں دیں.خدا کی محبت کی ان سے باتیں کریں آپ ایک نئی صدی کے سر پر کھڑی ہیں اس صدی کی آپ مجدد بنائی گئی ہیں آپ نے آئندہ زمانوں میں اولاد کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں.
کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود تلاوت قرآن مجید کے بعد حضرت خلیفة المسیح الرابع کے اس خطاب سے قبل در ثمین کی ایک طویل نظم سے منتخب اشعار درج ذیل ترتیب سے خوش الحانی سے پڑھے گئے) جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے یہ سفر بھی آزما تقوی ہی ہے یا دو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و سنجل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اس یار کے لئے رو عشرت کو چھوڑ دو رہ تلخی کی زندگی کو کرد صدق سے قبول تا تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پٹے مرضی خدا اسے کرم خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کہر حضرت رب غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں اے حب جاہ والو یہ رہنے کی جانہیں اس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں ڈھونڈو وہ راہ جس سے دل پسینہ پاک ہو نفس دُنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو وہ کہ جو یار گم شدہ کو ڈھونڈ لاتی ہے وہ رہ جو جام پاک یقین کا پلاتی ہے
وه تازه قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں وہ زندہ طاقتیں جو یقین کی سبیل ہیں اس بے نشاں کی چہرہ نمانی نشاں سے ہے 8 ہے کہ سب ثبوت خدائی نشاں سے ہے اس ذات پاک سے جو کوئی دل لگاتا ہے آخر وہ اس کے رحم کو ایسا ہی پاتا ہے جو کھینچے گئے کچھ ایسے کہ دنیا سے سو گئے کچھ ایسا نور دیکھا کہ اس کے ہی ہو گئے دن دیکھے کس طرح کسی مہ رخ یہ آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن جمال یار کے آثار ہی سہی جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں تم اے سونے والے جاگو کہ وقت بہار ہے اب دیکھو آ کے در پہ ہمارے وہ یار ہے ہے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہو غیاں خود اپنی قدرتوں سے دکھا دے کہ ہے کہاں س رخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدعا جنت بھی ہے یہی کہ مے یار آشنا قرآن قصوں سے پاک ہے ، منقول از بر این احمدیہ حصہ نجم صفراول)
تشهد تعودا در سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا.وقت کی ہے اہم آواز J.K.چند دن پہلے صدر لجنہ اماءاللہ یو کے U.K طلاقات کیلئے تشریف لائیں.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں مستورات سے کس موضوع پر خطاب کروں گا تاکہ وہ اس کے مطابق آیات اور تنظیم کا انتخاب کر سکیں میں نے ان سے کہا کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں کن تیم کی تیاری اور فیصلے کے بغیر تقریر کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ خود ہی موقع پر مجھے مضمون بجھا دیتا ہے.تو میں آپ کو آج وہ بات کیسے بتا سکتا ہوں جس کا خود مجھے بھی علم نہیں ہے میں نہیں جانتا کہ میں کس موضوع پر خطاب کروں گا.قرآن کریم کی آیات اور نلوں کے انتخاب کے متعلق میں نے کہا کہ وہ میں خود کروں گا اس کے لئے آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود در آپ پر سلامتی ہو) کی نظم کا انتخاب کیا تو مضمون از خود مجھ پر روشن ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ آج کے وقت کی سب سے اہم آواز دہ ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہوا کے منظوم کلام کی صورت میں ابھی آپ نے سنی ہے.جماعت احمدیہ کے لئے سے بڑا چینی آناکی وبا انتشار کی دنیا
۱۴ ہے.اتفاق کی باتیں بھی کی جاتی ہیں تو انتشار کی نیتوں کے ساتھ کی جاتی ہیں.بڑے بڑے بلند دعا دی کئے جارہے ہیں، مذہبی پلیٹ فارم سے بھی اور سیاسی پلیٹ فارم سے بھی ، کہ ضرورت ہے کہ دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا جائے اور دنیا کو امن سے بھر دیا جائے مگر وہ بلند بانگ دعادی کرنے والے خود امن سے عاری ہیں ، خود منتشر ہیں ان کے ذہن بھی منتشر ہیں، اُن کی نیتیں بھی منتشر ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ دنیا کو امن دے سکیں تمام عالم کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی صورت میں پورا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ تمام عالم کو خدائے واحد و یگانہ کی ذات پر اکٹھا کر دیا جائے، اشتراک کی اور کوئی صورت نہیں ہے.انسانیت کے نام کی باتیں محض فرضی اور خیالی باتیں ہیں در حقیقت میں آج بھی Racialism انسل پستی اسی طرح زندہ ہے جس طرح آج سے سو سال پہلے زندہ تھا.اُس نے مختلف روپ دھار لئے ہیں.مختلف شکلوں میں ڈھل چکا ہے.مگر جغرافیائی تقسیمیں قومی تقسیمیں انسانی تقسیمیں اور مذہبی تقیمیں انسان کو اسی طرح بانٹے ہوئے ہیں جس طرح آج سے پہلے انسان کو بانٹے ہوئے تھیں.جب بھی دنیا کے راہنما کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اُن میں سے ہر ایک اس نیت کے ساتھ وہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے لئے یا لسانی گروہ کے لئے یا اپنے جغرافیائی علاقے کے لئے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کر کے آئے.انصاف کا کوئی تصور وہاں کار فرما نہیں ہوتا.پس انصاف کے بغیر دنیا کو کیسے امن سے بھرا جا سکتا ہے ؟ انصاف کا تصور خدائے واحد و یگانہ کے تصور کے بغیر علمی تصور نہیں بنتا بلکہ علاقائی تصورین جاتا ہے.Absolute justice (شکل انصاف) صرف اور صرف خدا کی ذات کے تعلق میں قائم ہو سکتا ہے اس کے بغیر اس کا کوئی وجود نہیں اور انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا بھی خدائے واحد و یگانہ کی ذات پر ان کو اکٹھا کرنا ہے.اس کے سوا سب خیالی اور فرضی باتیں ہیں ، ڈھکوسلے ہیں، دھوکا بازیاں ہیں محض لفاظیاں ہیں.ان میں کوئی حقیقت نہیں لیکن خدائے واحد و لیگانہ کے نام پر کیسے اکٹھا کیا جائے.یہ وہ بڑا مسئلہ ہے جو ہمیں درپیش ہے.جماعت
۱۵ احمدیہ اسی مقصد کی خاطر قائم کی گئی ہے.جماعت احمدیہ کے لئے سب سے اہم اور سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ تم کیسے نوع انسان کو ان بجھرے ہوئے گروہوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کر دو گے اور کیسے ان کے دل ملانے کی کوشش کرو گے.اسلام کی نشاہ اولی میں برپا ہونے والا روحانی انقلاب جہاں تک دل ملانے کا تعلق ہے اسلام کے آغاز کی تاریخ میں ہم نے بڑی شدت کے ساتھ کٹے ہوئے دلوں کو ملتے دیکھا ہے ، ایسے قبائل کو اکٹھے ہوتے دیکھا ہے جو ایک دوسے کی جان کے دشمن تھے، جہاں بلا وجہ ایک دوسر کا خون کیا جاتا تھا.جہاں سوسالہ پرانی بے عزتیوں کے بدلے بعد میں آنے والی نسلوں سے لئے جاتے تھے اور اس انتقام کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں پڑا کرتی تھی.یہ نظارہ ہم نے آج سے چودہ سو سال پہلے دیکھا کہ وہ بکھری ہوئی منتشر قوم جن کے دل جدا جدا ہی رہتے بلکہ دشمنی اور نفرتوں سے آٹے پڑے تھے وہ اچانک ایک ہاتھ پر اکٹھی ہوگئی اور اکٹھی بھی اس طرح ہوئی کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق وہ محبت کے رشتوں میں باندھے گئے اور ایک دوسر کے بھائی بھائی بن گئے اور بھائی بھی وہ جو ایک دوسر پر جان نشار کرنے والے تھے.قرآن کریم نے اس مضمون کو مختلف جگہ بیان فرمایا ہے.ایک جگہ اس نصیحت کے طور پر فرماتا ہے: ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَانَهُ وَلِيُّ حَمِيمُه (حم السجدة آیت ۳۵) کہ ہم ایک پر و گرم تمھارے سامنے رکھتے ہیں اور وہ پروگرام ہی ہے کہ بدی دیکھو توسن سے اُس یدی کو دور کر د.نفرت سے اس بدی کو دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ بدی تو ایک بدصورت اور بد زیب چیز ہے.اس کا علاج حسن ہے.انتظامی جذبے کی یہ تصویر ابھرتی
14 ہے کہ اگر کسی کی ناک پر پھوڑا ہو تو انسان چھوڑے کا علاج کرنے کی بجائے ناک کو ہی کاٹ دے صیح طریق یہ ہے کہ پھوڑے کے زخم کو بھرنے کی کوشش کی جائے.اس کو کھتے ہیں نقص کو حُسن میں بدلنے کی کوشش.پس قرآن کریم نے ہمارے سامنے یہ پر دوگرام رکھا ہے کہ جب تم بدی کو دیکھو تو بدی کی دشمنی تمہارے پیش نظر یہ رہے.بدی کو حُسن میں تبدیل کرنا تمھارا مقصود بن جائے اگر تم ایسا کروگے تو فرمایا فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمُ.تم اچانک یہ عجیب ماجرا دیکھو گے کہ وہ جو تمہاری جان کے دشمن تھے وہ تم پر جان شار کرنے والے دوست بن جائیں گے.یہ وہ پروگرام تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ لہ علیہ وسلم کےدل پر جاری فرمایا گیا.اور آپ کے اعمال میں ڈھلا، چنانچہ آکے ذریعہ وہ جماعت پیدا ہوئی جس نے آپ سے یہ رنگ سیکھے اور اس کے نتیجہ میں ایک عظیم روحانی انقلاب برپا ہوا.دلوں کو اکٹھا کرنے والا لائحہ عمل پس دلوں کو اکٹھا کرنا بنیادی چیز ہے اس کے بغیر نہ افرد اکٹھے ہوسکتے ہیں نہ ق میں اکٹھی ہو سکتی ہیں.اور دلوں کو اکٹھا کرنے کا کام خدا تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے.چنانچہ اگرچہ یہ پروگرام مسمانوں کو دیا گی لیکن آنحضرت صلی الہ علیہ علی کہ موت کو مخاطب کرکے فرمایاگیا کہ تیرا بھی دلوں پر اختیار نہیں ہے.اگر اللہ نہ چاہتا اور اللہ دلوں پر تصرف نہ فرماتا تو یہ قوم جو بکھری ہوئی اور بٹی ہوئی تھی نہ کبھی ایک ہاتھ پر اکٹھی نہ ہوتی.اس کے بغیر ان کے دل کبھی مل نہیں سکتے تھے.دو کو ملانے کا کام در حیقوں سے تعلق رکھتا ہے ایک اپنے نظریے اور اپنے لائحہ عمل میں ایسی پاک تبدیلی سے کہ نفرتیں محرکات میں شامل نہ ہوں نہ اقام کو آپ کی پلاننگ میں آپ کے لائحہ عمل میں کوئی دخل نہ ہو ایک ہی مقصود ہو کہ جہاں بدی
K دیکھوں وہاں اُسے حسن میں تبدیل کرنے کی کوشش کروں.یہ مرکزی نقطہ ہے.دوسرا حصہ یہ ہے کہ خدا تعالی سے ایسا تعلق ہو کہ اللہ تعالی اس پروگرام میں آپ کا مددگار بن جائے کیونکہ اس کے بغیر گوشش کے باوجود آپ دنیا میں کوئی ایسی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے جو دلوں کو جوڑنے والی ہو.جب تک خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور تصرف شامل حال نہ ہو دلوں کو جوڑا اسی نہیں جا سکتا.لیے ذاتی اصلاح کی اہمیت جہاں تک پہلے حصے کا تعلق ہے کہ بدی کو دیکھو تو حسن میں تبدیل کرنے کی کوشش کردو، یہ دیکھنے اور سنتے ہیں تو بہت خوبصورت پیغام دکھائی دیتا ہے.اور انسان سمجھتا ہے کہ سارے مسئلے حل ہو گئے آج کے بعد سے میں بدی کو حسن میں تبدیل کرنے لگوں گی یعنی خواتین سوچیں تو اس طرح سوچیں گی کہ سارا مسئلہ حل ہو گیا، دنیا فتح ہوگئی.لیکن دنیا توتب فتح ہوگی جب پہلے اپنے آپ کو فتح کریں گی.یہ مضمون ذات سے شروع ہوتا ہے اگر انسان اپنی بدیوں سے آنکھیں بند رکھتا ہے اور اپنی بدلیوں سے قافل رہتا ہے اور بعض دفعہ بالا رادہ اور بعض دفعہ بغیر ارادہ کے اپنی کمزوریوں سے آنکھیں بند کرتا ہے اور انہیں نہیں دیکھنا چاہتا.اس لئے نہیں دیکھنا چاہتا کہ وہ اُن بدیوں کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی کو تلخی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتا.وہ ایک ملمع کاری کا عادی بن چکا ہوتا ہے.وہ اس بات کا عادی بن چکا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ایک خوبصورت حسین، دلکش وجود کے طور پر پیش کرے جو دوسروں سے بہتر ہے.اگر وہ اپنی بدیاں خود تلاش کرے اور دوسروں کو پتہ لگ جائے کہ میں ہوں کون اور کتنے پانی میں ہوں تو اس کی لذت یا بی کا سارا پروگرام منقطع ہو جاتا ہے.وہ کبھی بھی دوسروں کے مقابل پر اپنی حمد کے خود گیت گانے کا اہل نہیں رہتا.بہادر شاہ ظفر کا ایک شعر میں نے بارہا سنایا ہے.یہ شعر بہت ہی پر لطف اور گہرے
منے رکھتا ہے.اسے میں بار بار سناؤں تو تب بھی نہیں تھکتا.وہ کہتا ہے ہے نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اورں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر ہو نظر تو نگاہ میں کوئی بڑا نہ رہا یعنی ایسا دور بھی ہماری زندگی میں گزرا ہے کہ ہمیں اپنے حال کی خبر نہیں تھی تو ہماری تمام تر توجہ لوگوں کی بدیاں معلوم کرنے کی طرف تھی ہم ڈھونڈتے رہتے تھے کہ فلاں میں کتنی برائیاں ہیں، فلاں میں کتنی بڑائیاں ہیں، ایک بیرونی نظر تھی جو روشن سے روشن تر ہوتی جارہی تھی اور ایک اندرونی نظر تھی جو دن بدن اندھی ہوتی چلی جارہی تھی اور اپنے حال سے ہم بالکل فاضل ہو گئے تھے یہاں تک کہ ایک دن ہم جاگ اُٹھے ہیں ہوش آگیا اور ہم نے اپنی برائیوں کی تلاش شروع کی اور اس تلاش کے دوران ہم نے یہ دریافت کیا کہ ہمارے سوا کہیں بریاں موجود نہیں.غیروں کی بدیاں تلاش کرنے کا ہوش ہی باقی نہ رہا.ذاتی اصلاح کے بغیر دنیا کی اصلاح ممکن نہیں پس انسان کی دو دنیائیں ہیں.ایک باہر کی دنیا ہے اور دوسری اندرونی دنیا ہے باہر کی دنیا کو روشن کرنے کی تمنا رکھنے والے لوگ بسا اوقات اشاعت حق کے فرض سے غافل رہتے ہیں کیونکہ جب تک ان کے اندر کی دنیا روشن نہ ہو وہ باہر تو نہیں پھیلا سکتے جیتی چاہیں آپ فرضی باتیں کرلیں جتنی چاہیں آپ تقریریں کرلیں، لوگوں کو بتائیں کہ دین حق کے کیا محامد اور محاسن ہیں، لوگوں کو یہ بتائیں کہ یہ مذہب دنیا میں سب سے زیادہ حسین منسب ہے جب تک آپ کی ذات میں اُس مذہب کی روشنی لوگوں کو دکھائی نٹ سے گی کبھی دُنیا آپ کی باتوں کو قبول نہیں کرے گی.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) فرماتے ہیں بسے دین دیکھے کس طرح کسی مہ رخ پر آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل
14.یعنی جب تک خدا آپ کا قتم نہیں بنتا جب تک خدا آپ کی ذات میں ظاہر نہیں ہوتا وہ آپ کے لئے بھی خیالی ہے اور غیروں کے لئے بھی خیالی ہے.خدائے واحد کی ذات میں تمام کائنات کو اکٹھا کرنا فرضی باتوں سے ممکن نہیں ہے پہلے خدا آپ کی ذات میں جلوہ گر ہونا چاہئے پہلے آپ کی تاریکیاں روشنی میں تبدیل ہو جانی چاہئیں پھر وہ خدا آپ کی ذات میں اس طرح دکھائی دے گا جیسے روشنی ذرات سے ٹکرانے کے بعد دکھائی دیتی ہے فی ذاتہ دکھائی نہیں دیا کرتی.کائنات کے آئین میں خدا کی جلوہ گری اس حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے.ب اوقات لوگ سمجھتے ہیں کہ روشنی از خود نظر آنے والی چیز ہے یہ بالکل جاہلانہ تصور ہے.آج کی سائنس کی دنیا میں سائنس پڑھنے والا بچہ بچہ جانتا ہے کہ روشنی ایک نظر نہ آنے والی چیز ہے جب تک وہ کسی وجود سے ٹکرا کر اس کی ہیئت کو آنکھوں تک نہ پہنچائے اگر آپ کے سامنے سے روشنی حکمرا شکر کر مختلف وجودوں کا عکس آپ کی آنکھوں تک نہیں پہنچاتی اُس وقت تک روشنی لیظا ہر روشنی ہونے کے باوجود آپ کے لئے روشنی نہیں ہے.اسی لئے خدا نما وجودوں کی ضرورت پڑتی ہے.اسی لئے خدا کو کائنات کے آئینہ میں دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ وہ سب روشنیوں سے لطیف تر روشنی ہے اور براہ راست اس کا دیدار ممکن ہی نہیں ہے.مذہبی جماعت کا سب سے اہم مشن پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و تم خدا نا وجود بنے تو ہم نے خدا کو دیکھا.آپ ایسے خدا نما بنے اور آپ پر خدا اس طرح جلوہ گر ہوا کہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں خدا دکھائی دینے لگا.قرآن کریم کو اگر آپ غور سے پڑھیں اور دل لگا کر
۲۰ اُس کا مطالعہ کریں تو سب سے زیادہ گہرا اثر کرنے والا قرآن کریم کا وہ حصہ ہے جو خدا کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلووں پر گفتگو کرتا ہے مختلف رنگ میں خدا تعالیٰ کی صفات بیان کی جاتی ہیں کبھی براہ راست اور کبھی کائنات کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں کبھی خود انسان کے اپنے نفس کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں اور ہر جگہ آپ یہ دیکھیں گے کہ براہ راست خدا دکھائی نہیں دیتا.مگر جب اُس کی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں تو خدا دکھائی دیتا ہے پس اس پہلو سے جب کہا جاتا ہے کہ بن دیکھے کسی طرح کسی مہ رخ پر آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل تو ایک مذہبی جماعت کے لئے سب سے اہم مشن یہ بن جاتا ہے کہ خیالی صنم کو حقیقی منم میں تبدیل کیا جائے.وہ صنم دنیا کو تب دکھائی دے گا جب آپ کی ذات میں اُس کے جلوسے ظاہر ہوں.اور خدا جس ذات میں جلوہ گر ہو اس کو پھر است اروں کے ذریعہ دکھانے کی ضرورت نہیں رہتی.وہ خود اپنی صفات میں ایسا روشن ہے کہ جس ذات ہیں وہ چمکتا ہے اُس ذات کے حوالے سے خُدا دنیا کو دکھائی دینے لگ جاتا ہے اور اس کا معنی ہے خدا نما ہوتا.مگر خدا نما بننے سے پہلے خود خدا کو اپنی ذات میں جلوہ گر کرنا ضروری ہے اپنے اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کرنا ضروری ہے.اگر آپ غیروں کی برائیوں کی تلاش میں رہیں اور یہ دعوے کریں کہ غیروں کی برائیاں ہم دور کریں گے اور اپنی برائیوں کی تلاش سے آنکھیں بند کر لیں اور اگر کوئی توجہ بھی دلائے تو آپ کو غصہ محسوس ہو اس طرح تو خُدا کو اپنی ذات میں جلوہ گر کرنا آپ کے لئے ممکن نہیں ہے.متضاد طرز عمل کو چھوڑ دیں پس یہ جو طرز عمل ہے یہ اندر کی دنیا کو تاریک سے تاریک تر بناتا چلا جاتا ہے
۲۱ بعض دفعہ اس کے باوجود آپ واقعتہ باہر کی دنیا کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں (واقعہ ان معنوں میں کہ بڑے خلوص کے ساتھ) آپ واقعتہ بڑے گہرے جذبے کے ساتھ دنیا میں پاک تبدیلیوں کو روتا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ آپ اپنے وجود کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں.چنانچہ بہت سی ایسی مائیں ہیں جو ہر قسم کی بدیوں میں مبتلا ہیں مگراپنی اولاد کو اچھا دیکھنا چاہتی ہیں، ان کے اندر روشنی دیکھنا چاہتی ہیں.یہ وہ تضاد ہے جس سے وہ خود باخبر نہیں ہوتیں.اگر اُن کی اولاد کے لئے وہ صفات حسنہ اچھی ہیں تو ان کی اپنی ذلت کے لئے کیوں اچھی نہیں.اور جو ان کی ذات کے لئے اچھی نہیں وہ ان کی اولاد کے لئے بھی اچھی نہیں ہو سکتیں.ان معنوں میں کہ ان کی اولاد جانتی ہے کہ ماں کا دل کہاں ہے اور اسے دھوکا نہیں دیا جاسکتا.آپ کی تمنائیں بورخ بھی اختیار کریں گی، اولاد بھی آپ کی تمناؤں کا ہی رُخ اختیار کرے گی.وہ آپ کی زبان کی جو کسی اور رخ پر جاری ہے کوئی پرواہ نہیں کریگی.انسانی فطرت کے گہے فلسفے پس حضرت اقدس مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو نے اس کلام میں نہیں انسانی فطرت کے گہرے فلسفوں سے آگاہ فرمایا ہے.آپ نے فرمایا.کہ اسے قوم تم خدا نما وجود بننا چاہتے ہو تو پہلے خو خدا کو دیکھو.خیالی تم سے تعلقات نہ جوڑو.بلکہ ایسے نم سے محبت کرو جو تمہیں دکھائی دینے لگے.فرمایا - 8 دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی اگرتم خدا کو دیکھ نہیں سکتے تو کم سے کم گفتار تو ہو کچھ گفت وشنید تو ہو کچھ محبت اور پیار کے آثار تو ظاہر ہوں.یہ وہ مضمون ہے جس کی آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت ہے.اور احمدی ماؤں کو احمدی باپوں سے بڑھ کر ضرورت ہے کیونکہ بچے اُن کی کوکھ سے
۲۲ پیدا ہوتے ہیں آئندہ کی دُنیا مائیں بناتی ہیں ماؤں کے دودھ میں آئندہ دُنیا کے لئے یہ تقدیر لکھی جاتی ہے کہ وہ زہر ملی تو بنے گی با زندگی بخش قوم ثابت ہوگی.پس آپ پر ایک عظیم ذمہ داری ہے.وہ احمدی مائیں جو خدا ترس ہوں اور خدا رسیدہ ہوں اُن کی اولاد کبھی ضائع نہیں ہوتی لیکن ایسے باپ میں نے دیکھے ہیں کہ جو بہت خدا ترس اور بزرگ انسان تھے مگر ان کی اولادیں ضائع ہو گئیں کیونکہ ماؤں نے ان کا ساتھ نہ دیا.اس معاملے میں کہیں نے ماؤں کو ہمیشہ جیتے دیکھا ہے.جو مائیں گہرے طور پر خدا سے ذاتی تعلق قائم کر چکی ہوں اُن کی اولادیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں.اسی لئے حضرت اقدس محمد رسول اله صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارے باپوں کے قدموں کے نیچے جنت ہے.فرمایا جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.پس جنت آپ کے تحت اقدام رکھی گئی ہے.آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آئندہ نسلوں کو آپ نے جنت عطا کرنی ہے یا جہنم میں پھینکنا ہے کیونکہ اگر جنت آپ کے پاؤں کے نیچے ہو اور پھر آپ کی نسیں جنبی بن جائیں تواس کی دوسری زرداری آپ پر ہوگی.احمدی ماؤں کی ذمہ داری پس جب یہ کہا گیا کہ جنت ماؤں کے پاؤں کے نیچے ہے تو مراد یہ نہیں تھی کہ ہر ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہی جنت ہے.مراد یہ کہ اگر جنت مل سکتی ہے اگلی نسلوں کو تو ایسی ماؤں سے مل سکتی ہے جو خود جنت نشاں بن چکی ہوں خود جنت اُن کے آثار میں ظاہر ہو چکی ہو.ایسی ماؤں کی اولاد لازما جنتی بنتی ہے.پس میں نے مردوں کو اس مضمون پر مخاطب کرنے کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ آج خواتین کو اس موضوع پر مخاطب کروں کیونکہ میں روشنی تو حضرت اقدس محمد مصطفے صلی الہ علیہ وعلی ابر رستم سے پاتا ہوں.اپنی عقل سے کلام نہیں کرتا جو قرآن سکھاتا ہے وہ کہتا ہوں، جو حضرت محمد صلے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں وہ میں آپ کے سامنے اپنے رنگ میں پیش کرتا ہوں.پس میں نے اس راز کو
۲۳ قرآن اور احادیث کے مطالعہ سے پایا کہ حقیقتاً آئندہ قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرنا عورتوں کا کام ہے.اور یہ فیصلہ انہیں آج کرنا پڑے گا ورنہ مستقبل لاز گا تاریک ہے گا.آج احمدی خواتین کو اپنے سینوں کو خدا کی محبت سے روشن کرنا ہوگا ورنہ اُن کے سینے وہ نور ان کے بچوں کو نہیں پلائیں گے جو ماؤں کے دودھ کے ساتھ پلایا جاتا ہے اور ہمیشہ جزو بدن اور جزو رح ساتھ بن جایا کرتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے فرمایا.خدا کی محبت ایک فرضی چیز نہیں ہے.اُس کے آثار ظاہر ہوا کرتے ہیں.پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں تو آثار ظاہر ہوتے ہیں.جب بارش آنے لگے اُس وقت بھی آثار ظاہر ہوا کرتے ہیں، اچانک نہیں آجایا کرتی.جب موسم تبدیل ہوتے ہیں تو اس وقت بھی آثار ظاہر ہوا کرتے ہیں، وقت سے پہلے آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے.سارے مسائل کا واحد حل پس وہ مائیں جو خدا کی سمت میں حرکت کر رہی ہوں اُن کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.جب میں نے اس مضمون پر غور کیا تو یکے بہت سے مسائل حل ہو گئے.میں آپ کو یہ تاکید کرتا ہوں کہ آپ اپنا خیال رکھیں کہ مغربی تہذیب میں یا دوسری تہذیبوں کی رو میں نہ بہہ جائیں.یہ کریں اور وہ کریں اور ایسی پابندیاں اختیار کریں، یہ ساری نصیحتیں ہیں کبھی اثر کر جاتی ہیں کبھی لوگ ان سے اور زیادہ برک جاتے ہیں اور پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن ایک نصیحت ایسی ہے جو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو نے اس نظم میں بیان فرمائی اور حقیقت میں اسی پر بار با مختلف رنگ میں زور دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ خدا تعالیٰ کی محبت میں مبتلا ہو جائیں تو سارے معاملے حل ہو جاتے ہیں.پھر کسی اور نصیحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی.پھر خدا خود آپ کو سنبھال لے گا وہ خود آپ کے کام بنائے گا کہ کون سی راہ اس طرف جاتی ہے اور کون سی راہ اس سمت سے مخالف چلتی ہے پھر کیسے ممکن ہے
۲۴ کہ انسان اپنے محبوب کی راہ چھوڑ کر اس کے مخالف سمت چلنے والی راہوں پر قدم مارے پھر تو قربانیوں کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے، پاکیزہ زندگی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے.معاشرہ کے اختلاف کے سب مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں.سارے مسائل کا ایک حل ہے اور وہ حل یہی ہے کہ خدا کی محبت میں مبتلا ہو جائیں اس کے نتیجہ میں جون میں پیدا ہوں گی و یقینا خدا والی نسلیں نہیں گی لیکن اُس کے آثار ظاہر ہونے چاہئیں اور وہ آثار دوطرح سے ظاہر ہوتے ہیں اول یہ کہ جو انسان خدا کی سمت میں حرکت کرتا ہے اس کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں، وہ غیر کی بجائے اپنی ذات کا شعور حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے.اس کو پھر اس سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ میرے ہمسایہ کے گھر خدا ہے یا نہیں.اس کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ میرا گھر اتنا صاف ہے یا نہیں کہ اس میں خدا اتر آئے.جب آپ کے گھر کوئی معزز مہمان آنے لگتا ہے تو کبھی یہ تو نہیں ہوا کہ آپ گھر چھوڑ کہ دوسے گھروں میں بھاگ جائیں کہ تم صفائیاں شروع کر دو.جہان آپ کے گھر آنا ہے کوئی اور اپنے ہاں کیوں صفائیاں کرے گا.جب آپ غیروں کو نصیحت کرتی ہیں تو آپ عملاً یہی بات کر رہی ہوتی ہیں.آپ یہ تمنا کرتی ہیں کہ خدا آپ کے گھر اترے اور صفائیاں غیروں کے گھروں کی کروائی جارہی ہیں.یہ سوچ ہی نہیں رہیں کہ مہمان تو آپ کا آنے والا ہے.پس جب آپ کو یہ خیال پیدا ہوگا کہ کون مہمان آپ کے دل میں اُترنے والا ہے تو اس شعور کے ساتھ ہی آپ کو اتنی برائیاں وہاں دکھائی دینے لگیں گی کہ جتنے داغ صاف کریں گی کوئی نہ کوئی نیا داغ ظاہر ہو جائے گا.اور انسان جس کو یہ تجربہ ہو اس کو یہ علم ہے کہ جتنی آپ گھر کی صفائی کریں کوئی نہ کوئی ایپ کو نہ کھدرا دکھائی دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی صفائی کامل نہیں ہوئی.اور جب اُس کو صاف کر دیتی ہیں تو بعض دوسری جگہیں جو پہلے صاف دکھائی دیتی تھیں اس کے مقابل پر داغدار دکھائی دینے لگتی ہیں اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے.
۲۵ اللہ تعالی کی محبت کا سفر خوش انجام پس اللہ تعالیٰ کی محبت کا سفر ایک ایسا سفر ہے جو آپ کو اپنے سوا کسی اور کی ہوش نہیں رہنے دے گا.سوائے اس کے کہ آپ کی ذات میں وہ جلوہ ایسا چھکے کہ دنیا اس جلوہ سے خیرہ ہو جائے.دنیا اس کی روشنی کو محسوس کرنے لگے اور پھر خدا کے حکم کے تابع آپ پیامبر بن کر دُنیا کے سامنے نکلیں یہی فلسفہ نبوت ہے لوگ کہتے ہیں نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہے.میں کہتا ہوں کہ نبوت تو فرد میں جاری ہے.جب تک کوئی شخص نبوت کی پیروی نہیں کرتا، نبوت کے انداز نہیں سیکھتا اور نبوت کے کام نہیں کرتا اس وقت تک اس کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہو سکتی پس نبی ، نبوت کو ختم کرنے کے لئے نہیں آیا کرتے اور سب سے افضل بنی ان معنوں میں نبوت کو ختم کرنے کے لئے نہیں آیا کہ نبوت کی ادائیں ختم ہو جائیں نبوت کے پھل ختم ہو جائیں.اگر نبوت کی ادائیں ختم ہو جائیں تو کائنات میں جو کچھ تھا اسب ختم ہو گیا.وہ تو اس لئے آتا ہے کہ نبوت کی ادائیں لوگوں میں جاری کردے اور نبوت کے پھل لوگوں کو کھلانے لگے یہی معنے خاتم کے ہیں.ایسی مہر جو اپنی تصویر دوسری سادہ چیزوں پر ثبت کرنے یعنی اپنے نقوش کا اثبات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور اسی کا نام خاتم ہے.پس خاتم کا تحقیقی معنی یہ ہے کہ ایک وجود جو اپنے جیسی تصویریں بنانے لگ جائے اور کثرت سے بنانے لگ جائے تبھی قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذکر کے ساتھ فرمایا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَ الَّذِينَ مَعَهُ کہ دیکھو محمد کیں نہیں رہا.اب وہ جو اس کے ساتھی تھے وہ اس جیسے ہو گئے ہیں.والَّذِينَ مَعَه سے مراد ہے کہ صفات حسنہ میں اس کی معیت اختیار کر گئے ہیں پس ان معنوں میں حقیقت میں مجھے تغیر پیدا ہوتا ہے.لیکن اگر مہر پر وہ نقش نہ ہو تو کیسے وہ کسی اور چیز پر نقش ثبت کرے گی.بعض مہریں مٹ جاتی ہیں.جہاں سے وہ مٹتی ہیں جب اُن کا
نقش ظا ہر ہوتا ہے تو وہاں ایک خام نقش ظاہر ہوتا ہے ایک عیب دار نقش ظاہر ہوتا ہے.بعض حروف بٹے ہوئے ہوتے ہیں.بعض نشان مٹے ہوئے ہوتے ہیں مشکل سے انسان پہچانتا ہے کہ یہ کون سی مہر تھی جس کا نقش ثبت ہوا ہے.پس بعینہ اسی طرح انسان کی کیفیت ہے.انسان جب خدا تعالیٰ کی ذات کو اپنے اندر ثبت کرتا ہے اور اس طرح ثبت کرتا ہے کہ وہ گہرے نقوش چھوڑ جائے اُس وقت وہ مہر میں تبدیل ہونے لگتا ہے.گویا اس پہلو سے خدا سے تعلق کے دو پہلو ہیں.ایک قدم ہے خدا کی صفات حسنہ سے پیارا در محبت کے ذریعہ ایسا تعلق جوڑنا کہ وہ صفات بالاخر آپ کے وجود میں ظاہر ہو جائیں.دوسرا قدم ہے کہ اس کے نقوش کو اتنا گہرا کر دینا کہ پھر وہ دوسروں کے وجود میں ظاہر ہونے کی صلاحیت رکھے.چنانچہ مہر کو کھرچ کر بنایا جاتا ہے ور نہ مہر کے لفظ اگر عام سطح پر لکھے گئے ہوں جس طرح کہ عام تحریریں لکھی جاتی ہیں تو ہر نہیں بن سکتی.حالانکہ تحریر صاف پڑھی جاتی ہے.مہر بنانے کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ الفاظ ایسے طور پر کندہ ہو جائیں، انمٹ ہو جائیں وجود کا ایک ایسا حصہ بن جائیں کہ پھر وہ دوسروں تک اُس اثر کو پہنچانے کی صلاحیت اختیار کر جائیں.بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے کا طریق پس خدا نما بننے کے لئے صرف خدا سے تعلق کافی نہیں بلکہ خدا سے ایک ایسا گہرا تعلق ضروری ہے جس کے نتیجہ میں خدا کی صفات کے نقوش غیروں تک منتقل ہونے کی صلاحیت حاصل کر لیں یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعہ بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنایا جاسکتا ہے کیونکہ صرف ایک خدا کی ذات ہے جس کے حوالے سے انسان ایک ہاتھ پر اکٹھا ہوسکتا ہے اور اس کے سوا اور کوئی حوالہ نہیں ہے میں سے آپ منتشر بنی نوع انسان کو ایک ذات میں اکٹھا کر سکیں.اور اس کا
۲۷ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.یہی طریق ہے اس کے سوا اور کوئی طریق نہیں ہے.باقی فرمی باتیں ہیں ، قھتے ہیں.اپنی ذات میں خدا کو اتاریں اور یہ کام آپ کے بس میں نہیں ہے.سوائے اس کے کہ آپ محبت سے خود کو متصف کریں محبت ایک عجیب طاقت ہے.اس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ہے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے محبت کی تعریف میں ایسا کلام پیش فرمایا ہے جو مجھے دنیا کے لڑ پھر میں اور کہیں دکھائی نہیں دیا فرماتے ہیں..اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو میاں کردی اسے محبت تو عجیب چیز ہے تو نے حیرت انگیز نشان ظاہر کئے ہیں.زخم اور مرہم کو برابر کر دیا ہے.یعنی خدا کی راہ میں اب مجھے زخم لگے تب بھی مرہم کا سائرور ہے اور جب مریم لگے تو اس پر بھی مرسم کا سا ضرور ہے.دنیا میں انقلاب بر پا کرنے والی قوت محرکہ پس وہ محنت جو انسان کو دنیا میں انقلاب برپا کرنے کے لئے چاہیے وہ محنت ، محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ محبت کے بغیر جو کام کیا جاتا ہے وہ مصیبت کا درجہ رکھتا ہے.ایک ماں کسی اور کے بچے کو سنبھالے تو کیسی مشکل پڑتی ہے.یہاں تک کہ میں نے دیکھا ہے نانیاں بھی جب بچہ گندا ہو تو ماں کے اوپر پھینک دیتی ہیں کہتی ہیں تیار کر کے لاؤ تو ٹھیک ہے اس سے بڑا پیار کریں گے.لیکن ذرا گندہ ہوا بد یو آئی کہتی ہیں پکڑو اسے اٹھا کر لے جاؤ ہم تو اسے برداشت نہیں کر سکتے.میری بیگم پاس بیٹھی ہوئی ہیں یہ کی اسی طرح کرتی ہیں.بیٹیاں بیچاری جن کے بڑے پیارے پیارے بچے ہیں وہ ان کو تیار ہوتی ہیں وہ سچ کے خوبصورت لگتے ہیں تو نانیوں کی گود میں آجاتے ہیں اور نانوں کی گود میں
PA آجاتے ہیں اور جب ذرا گندے ہوئے تو مائیں سنبھالیں.ایسا کیوں ہوتا ہے.اس لئے کہ ماؤں کو اپنے بچوں سے زیادہ محبت ہوتی ہے.ایک محبت ہے مزے اٹھانے کی محبت اور ایک محبت ہے ان مزوں کی خاطر تکلیف میں مبتلا ہونے کی محبت.ان دونوں محبتوں میں فرق ہے.پس جب تک آپ کو خدا سے ایسی محبت نہ ہو کہ اس کے نتیجہ میں زخم دمر تم برابر نہ ہو جائیں اُس وقت تک آپ دنیا کا کوئی علاج نہیں کر سکتے.ورنہ یہ سر دردی ہوگی ایک بھیڑا ہوگا ہر وقت کی مصیبت ہوگی لیکن پیار ہو تو یہ سب چیزیں، سب راہیں آسان ہو جایا کرتی ہیں حضور فرماتے ہیں.تانه دیوانه شدم، ہوش نیامد بسرم اے جنوں با گرد تو گردم که چرا حال کردی اسے محبت جب تک تو نے مجھے پاگل نہیں بنا دیا مجھے ہوش نہیں آئی مجھے معرفت نصیب نہیں ہوئی.اسے جنوں میں تیرے گرد مجنوں کی طرح گھوموں کیونکہ تو نے مجھے وہ عطا کر دیا جو خرد مجھے عطا نہیں کر سکتی پس محبت کا جنون ہے جو دنیا میں پاک تبدیلیاں پیدا کرے گا اور اس محبت کا سفر انفرادی طور پر ہر شخص کو کرنا ہوگا.آج سب سے زیادہ اس محبت کے سفر کی احمدی خواتین کو ضرورت ہے.احمدی بچیوں کو ضرورت ہے.کیونکہ انہوں نے کل کی مائیں بنا ہے.یہ مطلب نہیں کہ مردوں کو ضرورت نین مردوں کو لازما ضرورت ہے مگر وہ ماؤں سے یہ فیض پائیں گے کیونکہ مردوں کی جنتیں اُن کی ماؤں کے پاؤں کے نیچے رکھی گئی ہیں اور جنت کی بہترین تعریف اللہ کی محبت ہے.یہاں بعض لوگ بلکہ اکثر جنت کا لفظ سنتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ماؤں کے پاؤں کے نیچے سے سید ھے آپ جنت کے باغوں میں پہنچ جائیں گے.حالانکہ اصل جنت کی تعریف خدا کی محبت ہے.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) فرماتے ہیں.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں یعنی دنیا تو دوسری جنتیں ڈھونڈتی ہے ہیں تو سوائے اس کے کوئی جنت دکھائی
۲۹ نہیں دیتی کہ اللہ کی محبت نصیب ہو جائے اُس کا پیار عطا ہو.اس کی رضا مل جائے.اس کے نتیجہ میں ہمیں اعلیٰ لذات عطا ہوتی ہیں.وہ ایسی لذتیں ہیں جن کا عام آدمی تصور نہیں کر سکتا.کیونکہ عام انسان ان لوگوں کو بعض دفعہ مشقوں میں مبتلا دیکھتا ہے اکثر انبیاء کی زندگی دکھوں میں کشتی ہے.کچھ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دکھ ہیں جو بہت بڑے ڈکھ ہیں.کسی شخص پر جتنی ذمہ داری ڈالی جائے اور جتنا خلوص سے وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرے.اس کی زندگی اتنی ہی بڑی مشکل میں مبتلا ہو جاتی ہے.کچھ دکھ ہیں جو غیران پر پھینکتے ہیں.وہ دشمنی اور نفرتوں کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں.ان حالات میں انبیا کا زندہ رہنا اور ایسی زندگی سے لذت پانا ایک نا قابل حل معمہ ہے جس کی دنیا کو سمجھ نہیں آیا کرتی حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اس کا حل یوں پیش فرماتے ہیں سے ہیں تری پیاری نگا ہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا اغم اغیار کا یعنی لوگ تو سمجھتے ہیں کہ ہم بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں ، غیروں نے یہ یہ علم کئے ہم توان فلموں کے نیچے لیے گئے ہوں گے مگر فرمایا اے میرے آقا اے میرے محبوب رب ! تیری پیاری نگاہیں ایک ایسی تیغ تیز کا حکم رکھتی ہیں جن سے سارا غیروں کا جھگڑا ، اغیار کی سب مصیبتوں کا جھگڑا کٹ جاتا ہے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.تو وہاں بھی محبت ہی ہے جو کام آتی ہے محبت رستوں کو آسان کر دیتی ہے.محبت الہی کی کرشمہ سازیاں ایک شاعر اپنے تجربے کو یوں بیان کرتا ہے کہتا ہے.دن رات جو ہم محبوب کے کوچوں کے چکر لگاتے ہیں اور وہاں سے مشکے کھاتے ہیں اور دھتکارے جاتے ہیں اور پھر بھی جانا نہیں چھوڑتے اور ٹھوکریں کھاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں پاگل ہو گئے ہو.لوگ کہتے
ہیں اپنے آپ کو تبدیل کر دی ہم ان کو جواب میں کیا کہتے ہیں.سہ یہ تونے کیا کہا ناصح نہ جانا کوئے جاناں میں ہمیں تو راہ رووں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا اسے پاگل نصیحت کرنے والے تو یہ کیا کہ بیٹھا ہے کہ اپنے محبوب کے کوچوں میں نہ جاؤں.خدا کی قسم اگر ہر چلنے والا مجھے اس کوچے میں چلتے ہوئے ٹھوکریں مارتا ہوا چلے تب بھی میں وہاں جاؤں گا.ان ٹھوکروں کا مزہ محبت کے سوا سمجھ آہی نہیں سکتا محبت پاگل کر دیا کرتی ہے.محبت ہی ہے جس نے فریاد کا تصور پیدا کیا.وہ تمام عمر ایک پہاڑ کو کاٹتا رہا اس نعرض سے کہ اس پہاڑ سے وہ نہریں جاری ہوں جن کو بعد میں اُس کی محبوبہ کو بطور انعام دیا جائے گا.اور اسی حالت میں اُس نے جان دے دی.کیا بات تھی جس کی خاطر اس نے ساری زندگی اس مشقت کے کام میں گنوادی.وہ مشقت ہی اپنی ذات میں اُس کی جزا تھی.لوگوں کو مجھے نہیں آتی.لوگ کہتے ہیں فریاد پاگل ہو گیا تھا.وہ پاگل تو تھا لیکن عشق میں پاگل ہوا تھا.عام پالکوں جیسا پاگل نہیں تھا جن کو اپنے وجود کی خبر نہیں رہتی.جو عشق خدا کے پاگل ہوتے ہیں ان کا مقصد روحانی مقصد بن چکا ہوتا ہے.اس مقصد کو دنیا والے سمجھ نہیں سکتے.پس محبت الہی کے نتیجہ میں آپ کے سارے کام آسان ہو جائیں گے.پھر اسیس بات کی حاجت نہیں رہے گی کہ کوئی کہے اس طرح نیشن کر کے باہر نہ پھرا کرو ، اس طرح وقت وقت ضائع نہ کیا کرو ، سادہ رہو، جس حد تک ہو سکتا ہے اچھی نو خدا نے تمہیں رزق دیا ہے لیکن اس میں حد سے زیادہ متجاوز نہ کرو، دین کی خدمت کے لئے بھی کچھ رکھو اور دنیا میں ایک پاک معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرو.یہ سب خالی نصیتیں ہیں آپ نہیں گی اور بھول جائیں گی لیکن اگر خدا سے محبت ہو جائے تو آپ کے دل میں ایک ناصح پیدا ہو گا بہر وقت دھیان خدا کی طرف رہے گا.اگر ہر وقت نہیں تو بار بار یہ دھیان آنا شروع ہو جائے گا.لبسا اوقات آپ ایک کام کریں گی اور دل سے ایک آواز اُٹھے گی کہ مجھے تو خدا سے محبت
I ہے اور خدا کو تو یہ بات پسند نہیں.یہ سلسلہ شروع میں تھوڑے تھوڑے تجربوں سے شروع ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس کی انتہا ایک خود کو پانی کی طرح بہتی ہے.اُس وقت انسان اپنے آپ کو متوجہ نہیں کیا کرتا بلکہ محبت میں رواں دواں ہو جاتا ہے وہ اُس کو اُٹھائے پھرتی ہے اس کی زندگیوں کے رخ موڑ دیتی ہے محبت فیصلہ کرتی ہے کہ کس طرف اُس نے جانا ہے اُس وقت وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ ہمیں تو جانا ہی جاتا ہے.کیونکہ وہ بے اختیار ہو جاتے ہیں.خدا تک پہنچنے کے لئے خدا سے مڈ مانگنا ضروری ہے پس آج دنیا کے سارے مسائل کا حل خدا کی محبت ہے اور یہی وہ محبت ہے جو دلوں کو اکٹھا کر سکتی ہے اس کے علاوہ باقی سارے نسخے بے معنی اور جھوٹے اور لغو نسنے ہیں، منہ کی باتیں ہیں.اس سے زیادہ اُن کی کوئی حقیقت نہیں ہے بس یہ سفر شروع کریں اور اگر اس سفر میں آپ بہت سا وقت ضائع کر چکی ہیں اور اس راہ میں بہت پیچھے رہ گئی ہیں تو خدا سے مدد مانگیں کیونکہ خدا کی مدد کے بغیر یہ سفر مکمل نہیں ہوا کرتے کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ وہ خود خدا تک پہنچ جائے یا خدا کا پیار حاصل کر سکے اس کے لئے بھی خدا سے مدد مانگنی پڑتی ہے لیکن نیست فرض ہے اور نیت کی سچائی فرض ہے.یہ کام آپ کے سپرد ہے.آپ ایک دن یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے خدا کی محبت میں مبتلا ہونا ہے اور یہ کہ جیسے تیسے بھی ہو سکے آپ اپنے رب سے محبت کریں گی اور اُس کے حُسن کی تلاش کریں گی جب آپ محبت کی بات کریں گی تو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کا یہ شعر آپ کے لئے ایک تنبیہہ بن جائے گا بن دیکھے کسی طرح کسی مہ رخ پر آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل آپ سوچیں گی کہ میں تو واقعی نظریاتی طور پر ایک خدا کی قائل تھی مجھے تو اس کا
حسن دکھائی نہیں دیتا، میں کیسے محبت کروں ؟ چنانچہ بہت سے احمدی مرد اور بہت سی احمدی عورتیں مجھے گھبرا گھبرا کر کھتے ہیں کہ آپ تو کہتے ہیں ناز میں لذتیں پیدا ہو سکتی ہیں ہم نے تو اتنی ٹکریں ماری ہیں لذت پیدا نہیں ہوئی لذت اس لئے پیدا نہیں ہوئی کہ ان کا صنم خیالی رہا ہے.اس لئے کہ انہوں نے نماز کے کلمات پر غور نہیں کیا اُن میں ڈوب کر نماز نہیں پڑھی.یہی وجہ تھی کہ مجھے کئی مہینوں پر پھیلا ہوا ایک سلسلہ خطبات دینا پڑا.یہ سمجھانے کے لئے کہ نماز میں کیسے دوبا جاتا ہے اور نماز میں ڈوبنے کے نتیجہ میں خدا کا چہرہ دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ اتنا حسین چہرہ ہے کہ آپ چاہیں نہ چاہیں آپ اُس کی محبت میں مبتلا ہو جائیں گی.محبت الہی حاصل کرنے کا راز محبت میں ایک لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں پھر اختیار کی بات نہیں رہتی جو چیز فرض ہے وہ ہے حسن کے ساتھ رابطہ کیونکہ حسن سے رابطے کے بغیر محبت ہو ہی نہیں سکتی.ایک شاعر کہتا ہے یہ ایسی آگ ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے.غالب کا یہ شعر ہے کہ محبت ایک عجیب پاگل کر دینے والی چیز ہے کہ ہم کوشش کریں کہ محبت ہو جائے تو ہوتی نہیں اور جب ہو جائے تو مٹتی نہیں.ایسی آگ لگ جاتی ہے کہ بھائی نہیں جا سکتی.اس لئے بندہ کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہے لیکن حسن کا اختیار ہے.حسن فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو کس سے محبت ہوگی اور مشن چونکہ خدا کا حسن ہے اس لئے خداہی فیصلہ کرے گا کہ کس وقت کتنا آپ پر جلوہ گر ہو.اس لئے دعا ضروری ہے اور دعا یہ مانگنی چاہیئے کہ اے خدا ! اپنا حسین چہرہ دکھا، چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام چونکہ عارف باللہ تھے انہوں نے یہ دُعا نہیں کی کہ اے خدا ! میکہ دل کو محبت سے بھرے انہوں نے یہ دُعا کی کہ اسے خدا مجھے اپنا چہرہ دکھائے.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ چہرہ دیکھا اور میں بے اختیار ہوا.یہی مضمون حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو) نے حضرت محمدمصطفی صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم
٣٣ کے حُسن کے تعلق میں بیان فرمایا.جب آپنے فرمایا.سے - سه اگر خواہی دلیلے عاشقش باش با محمد است بریان محمد یعنی تم دلیل پوچھ سے ہو.محمد کی صداقت کی دلیل یہ ہے کہ تم اس کے عاشق ہو جاؤ مجھ صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی اپنی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ وہ حسین ہے اور حسینوں کی صداقت کی دلیل نہیں مانگی جایا کرتی جبینوں کے اُس جذبہ اور اس قوت کی دلیل نہیں مانگی جایا کرتی جو انسان کو خود بخو د مغلوب کر دیا کرتا ہے جن کو دیکھئے پھر آپ کا اختیار نہیں ہے گا.پھر آپ اس کے پیچھے چلیں گے اور یہ انسانی فطرت ہے.ایسی گہری کشش خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت میں حُسن کے ساتھ رکھ دی ہے کہ پھر بندہ بے اختیار ہو جاتا ہے.تو میں آپ کو یہ راز سمجھاتا ہوں کہ آپ خدا تعالی سے محبت ان معنوں میں مانگیں کہ اے خدا ! انہیں اپنا حسن دکھایا اپنے حسن کے جلوے دکھا، ہمیں بے اختیار کردے ، ہم ایسا تجھے دیکھیں کہ پاگل ہو جائیں ہمیں دنیا و مافیہا کی ہوش نہ رہے.ہم تجھے چاہیں اور تیرے مقابل پر پھر کسی اور کو نہ چا سکیں.احمدی خواتین کا اپنی اولاد پر سب سے بڑا احسان یہ دُعا ہے جس کے نتیجہمیں اللہ تعالی آپ کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کردیگا اور جب تک آپ کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا نہ ہوں باہر کی دنیا میںپاک تبدیلی نہیں پیدا کی جاسکتی ہیں پیدا کی جاسکتی اور نہیں پیدا کی جاسکتی 11 یہ ایک ایسا قطعی اصول ہے جس کو دنیا میں کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.آپ اپنے اندر روشنیاں پیدا کریں.اپنی تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کر دیں اور ایسے جلوؤں سے بھر دیں کہ وہ آپ کے باہر دکھائی دینے لگیں اور از خود آپ کے دل کا نور یا سر جلوہ گر ہو.چنانچہ قرآن کریم اس مضمون کو اسی رنگ میں بیان فرماتا ہے.
۳۴ ونُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ان کا نور جو صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہا کرتا تسعى بين آئيد فهو وه أن کے آگے آگے بھاگتا ہے اور دنیا کو بھی روشن کرتا چلا جاتا ہے.ماؤں کو اس لئے ضرورت ہے کہ ماؤں کے قبضے میں بچے ہوتے ہیں.آپ اگر بچپن میں خدا کی محبت اُن کے دلوں میں پیدا کر سکیں تو سب سے بڑا احسان اپنی اولاد پر آپ کر سکتی ہیں اور خدا کی محبت پیدا کرنے کے لئے آپ کو خدا کی باتیں کرنی ہوں گی.خدا کی باتیں کرتے وقت اگر آپ کے دل پر اثر نہ ہوا.اگر آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ ہے، اگر آپ کا دل موم نہ ہوا تو یہ خیال کرنا کہ بیچے اس سے متاثر ہو جائیں گے، یہ جھوٹی کہانی ہے اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں.ایسی ماؤں کے بچے خدا سے محبت کیا کرتے ہیں کہ جب وہ خدا کا ذکر کرتی ہیں تو ان کے دل کھیل کر آنسو بن کر بہنے لگتے ہیں.ان کے چہروں کے آثار بدل جاتے ہیں.بچے یہ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اس ماں کو کیا ہو گیا ہے ، کس بات کی اداسی ہے، کسی جذبے نے اس پر قبضہ کر لیا ہے یہ وہ تاثر ہے جو بچے کے اندر ایک پاک اور عظیم تبدیلی پیدا کر دیا کرتا ہے.یہ انقلاب کی رح ہے اور انقلاب کی جان ہے.ایسی مائیں بننے کے لئے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا سے مدد مانگتے ہوئے اس کے حسن کی تلاش کرنی ہوگی.یہاں تک کہ وہ حسن آپ پر حلوہ افروز ہوا اور آپ کے دلوں میں ایسی محبت بھر دے کہ آپ کا وجود پگھل جائے اور کھلنے کے بعد ایک نئے وجود میں ڈھالا جائے.تربیت اولاد کا بہترین وقت پس آج کے خطاب کے لئے میں نے صرف یہی مضمون چنا تھا.ہمیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ میں بھتا ہوں کہ ہزار باتوں کی ایک بات یہ ہے، اس کو آپ مضبوطی سے تمام ہیں.خدا سے محبت کرنے کے تو بے شمار طریق ہیں میں مختلف خطبات میں اُن کا ذکر بھی کرتا رہتا
۳۵ ہوں.آج صرف اس حیثیت سے آپ سے مخاطب ہوں کہ آج اگر آپ مائیں بن چکی ہیں تو آپ کو آج بھی خدا تعالیٰ نے یہ استطاعت بخشی ہے کہ اپنے گردو پیش، اپنے ماحول میں خدا کی محبت کے رنگ بھرنے کی کوشش کریں.اگر آپ مائیں نہیں نہیں تو آج وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں تا کہ جب آپ مائیں نہیں تو اس سے پہلے ہی خدا سے محبت کرنے والی وجود بن چکی ہوں.وہ چھوٹی بچیاں اور وہ چھوٹے بچے جو آپ کی گودوں میں پلتے ہیں ، آپ کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں آپ کے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں یا آپ کے ہاتھوں سے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں ہی زمانہ میں ابتدائی دور میں اُن کو خدا کے پیار کی لوریاں دیں.خدا کی محبت کی اُن سے باتیں کریں.پھر بعید کی ساری منازل آسان ہو جائیں گی.اور اصل یہ ہے جو میں نے آخر پر بیان کیا ہے.بعد کے زمانوں میں ماؤں کا یہ کوشش کرتا کہ بیچتے خدا کی محبت میں مبتلا ہو جائیں جب کہ ابتدائی دور میں وہ اس کام سے غافل رہیں بہت مشکل کام ہے، اتنا مشکل کام ہے کہ بعض دفعہ مائیں غم سے ہلاک ہونے لگتی ہیں مگر کچھ نہیں کرسکتیں.تو اس وقت کام شروع کریں جب آسانی ہے اور یہ کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب بچہ آپ کی گود میں اُترتا ہے اور اُس وقت سے آگے پھر سلسل یہ کام اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ اپنے شعور کو پہنچ کر آزاد حیثیت اختیار نہیں کر لیتا.اس دور میں آپ اس کے اندر عظیم الشان تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہیں.اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہیں تو پھر اسی بات کو دہرا کر اس پر اپنے خطاب کو ختم کرتا ہوں کہ جو جو تبدیلیاں آپ کو پیدا کرنی ہوں گی پہلے اپنی ذات میں کرنی ہوں گی.آپ کے تبدیل ہوئے بغیر آپ کی اولاد تبدیل نہیں ہوسکتی ، جب تک آپ کی ذات خدا کے نور سے نہ بھر جائے آپ کی اولاد کے سینے خدا کے نور سے نہیں بھر سکتے.اللہ تعالٰی آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.دیکھیں آپ ایک نئی صدی کے سر پر کھڑی ہیں.اس صدی کی آپ مجد د بنائی گئی ہیں بحیثیت قوم آبیکو خلفاء فرمایا گیا.آپنے آئندہ زمانوں میں تربیت اولاد کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں.یہی وہ طریقت ہے جس سے آپ آئندہ زمانوں میں اولاد کی بہترین تربیت کرسکتی ہیں.اللہ تعالی آپکو سکی توفیق عطا فرمائے.
1 امن عالم گھروں کی تعمیر نو سے ہی ممکن ہے خطاب حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ايده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده امام جماعت احمدیہ عالمگیر ۲۸ جولائی ۱۹۹ید بر موقع جب لانه مستورات جماعت احمدیہ برطانیہ بمقام اسلام آباد ، لفورڈ، برطانیہ
حضور انور کے اس خطاب کے چند اہم نکات ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں آج کے جدید دور میں دنیا کو امن کی تلاش ہے امن کی تلاش میں وہ گلیوں میں بھی نکلتے ہیں، شہروں میں بھی اور ملکوں میں بھی سرگرداں پھرتے ہیں لیکن وہ امن جو گھر میں نصیب ہو سکتا ہے وہ دن بدن ان کے گھروں کو ویران چھوڑتا چلا جا رہا ہے آج کے معاشرہ میں سب سے اہم ضرورت گھروں کی تعمیر نو ہے.وہی معاشرہ صحیح معاشرہ ہے جو اسلام کی تعلیم پر مبنی ہے اس معاشرہ کا کوئی رنگ نہیں ہے نہ وہ مشرق کا ہے نہ وہ مغرب کا ، نہ وہ سیاہ ہے نہ سفید ده نورانی معاشرہ ہے.اسی حد تک معاشرے کو عالمگیر کرنا چاہئے اور تمام بنی نوع انسان کی قدرِ مشترک بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جس حد تک کسی معاشرے کے پہلو اسلام سے روشنی پا رہے ہیں.اگر احمدی خواتین نے وہ ماڈل ز پیش کیا تو وقت کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرنے سے محروم رہ جائیں گی اور تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ میں اکٹھا کرنے میں ناکام رہیں گی.یہ تصور کہ مشرقی معاشرہ گویا اسلامی معاشرہ ہے.غلط ہے.مشرقی معاشر کے بعض پہلو اسلامی ہیں لیکن کثرت لیکن کثرت سے ایسے پہلو ہیں جو نہ صرف اسلامی نہیں بلکہ مذہبی اقدار کے معاند اور مخالف ہیں مشرقی معاشرہ میں جہاں بظاہر خاندان بڑے ہیں اور ظاہری روابط زیادہ مضبوط ہیں وہاں اندرونی طور پر ایک ایسا نظام چل رہا ہے جو ان روابط کو کاٹتا ہے اور نفرتوں کی تعلیم دیتا ہے.مغربی دنیا کی خرابیوں میں بہت بڑی خرابی انفرادیت ہے معاشرے میں خود غرضی پیدا ہو چکی ہے.انفرادیت کی وجہ سے گھر ٹوٹ رہے ہیں اور لذت یابی کے شوق نے قوم کو پاگل کر دیا ہے اور اپنی لذت کی خاطر وہ دوسروں کے امن برباد کرتے ہیں.گھر ٹوٹنے کے نتیجہ میں سارے معاشرہ میں بے اطمینانی اور بے اعتمادی اور نفرت کی
۳۹ ہوائیں چلنے لگتی ہیں قومی تعمیر اور قومی کھیتی پیدا کرنا ناممکن ہے جب تک گھروں کی تعمیر نہ ہو اور گھروں میں بیچتی نہ ہو جس قوم کے گھر منتشر ہو جائیں وہ قوم اکٹھی نہیں رہ سکتی جس قوم کے گھروں میں امن نہیں اس قوم کی گلیاں بھی ہمیشہ امن سے محروم رہیں گی.حقیقی جنت گھر کی تعمیر میں ہے حقیقی بجنت رحمی رشتوں کو مضبوط کرنے میں ہے اسی لئے قرآن کریم نے بارہا ہمیں رحمی رشتوں کی طرف متوجہ فرمایا اگر تم رحمی رشتوں کو کاٹو گے تو خدا کے رحم سے بھی کاٹے جاؤ گے اور جو رحمانیت سے کاٹا گیا وہ کہیں کا نہیں رہا.پھر خدا کی طرف سے تمہاری دعاؤں کے باوجود رحم کا سلوک نہیں کیا جائے گا.گھر آج مغرب میں بھی ٹوٹ رہے ہیں اور مشرق میں بھی اور گھروں کو بنانے والا صرف ایک ہے اور وہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہیں آپ ہی کی تعلیم ہے جو مشرق کو بھی سدھار سکتی ہے اور مغرب کو بھی.آج کی دنیا میں امن کی ضمانت ناممکن ہے جب تک گھروں کے سکون اطمینان.اور اندرونی امن کی ضمانت نہ دی جائے.اگر آپ نے دنیا کو امن عطا کرنا ہے تو احمدی خواتین اپنے گھروں کو سچے دینی...ناقل) گھروں کا ماڈل بنائیں اور تمام دنیا میں وہ ایسے پاک نمونے پیش کریں جس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان دوبارہ گھر کی کھوئی ہوئی جنت کو حاصل کر لیں.آپ گھروں کی تعمیر نو کی کوشش کریں.اپنے گھروں کو جنت نشان بنائیں.اپنے تعلقات میں انکسار اور محبت پیدا کریں.ہر اس بات سے احتراز کریں جس کے نتیجہ میں رشتے ٹوٹتے ہوں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہوں.آج دنیا کو سب سے زیادہ گھر کی ضرورت ہے اس کو یاد رکھیں اور یہ گھر اگر احمدیوں یاد رکھیں اور یہ گھر اگر احمدیوں نے دنیا کو مہیا نہ کیا تو دنیا کا کوئی معاشرہ بنی نوع انسان کو گھر جہیا نہیں کر سکتا.
0
فرمائی : تشہد، تعوذ ا در سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمیہ کی تلاوت يا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْارَ بكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأرْحَام انَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً.) سورة النساء : آیت ۲) پھر حضور نے فرمایا.امن کی تلاش آج کے اس خطاب کے لئے میں نے گھر کا عنوان منتخب کیا ہے، آج کے اس جدید دور میں دنیا کو امن کی تلاش ہے اور امن کی تلاش میں دنیا سرگرداں ہر اس امکانی گوشے پر نگاہ رکھ رہی ہے جہاں سے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں امن کے حصول کی کوئی توقع ہو سکتی ہے اور ہر اس راہ پر دوڑتے چلے جاتے ہیں جہاں وہ امید رکھتے ہیں کہ اس راہ پر آگے بڑھنے سے ہیں ان نصیب ہو جائے گا لیکن ان کے قریب ہونے کی بجائے دن بدن اسن سے دور بیٹھتے پہلے جا رہے ہیں.امن کی تلاش میں وہ گلیوں میں بھی نکلتے ہیں، شہروں میں بھی اور ملکوں میں بھی سرگرداں
۴۲ پھرتے ہیں لیکن وہ امن جو گھر میں نصیب ہو سکتا ہے وہ دن بدن اُن کے گھروں کو ویران چھوڑتا چلا جارہا ہے جیسے پرندہ گھونسلے کو چھوڑ کر اُڑ جائے اسی طرح امن گھروں کو چھوڑ کر رخصت ہوتا چلا جارہا ہے.آج کے معاشرہ میں خواہ دنیا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی موشرق سے تعلق رکھتی ہو یا مغرب سے تعلق رکھتی ہو، شمال سے یا جنوب سے ، سب سے اہم ضرورت گھروں کی تعمیر تو ہے.گھروں کی بربادی کی وجوہات جب ہم گھر کی بربادی کا نقشہ سوچتے ہیں اور خاندانوں کے ٹوٹنے کا تصور باندھتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں بالعموم مغربی معاشرے کا خیال ابھرتا ہے اور مغربی معاشرے کی بعض برائیاں ہیں جن پر نظر پڑتی ہے اور سمجھتے ہیں کہ گھروں کے ٹوٹنے کی بڑی ذمہ داری مغربی تہذیب پر ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو مشرق بھی بہت بڑی حد تک ذمہ دار ہے اور بہت سی ایسی معاشرتی خرابیاں مشرق میں پائی جاتی ہیں جن کا مغرب میں کوئی وجود نہیں اور وہ گھروں کے توڑنے میں بہت ہی زیادہ خطرناک کردار ادا کر رہی ہیں میں نے اس مضمون سے پہلے تقوی کی نظر سے صورت حال کا جائزہ لیا تو مجھے بعض ایسی باتیں دکھائی دیں جن کے نتیجہ میں میں سمجھتا ہوں کہ بعض پہلوؤں سے مشرقی معاشرہ زیادہ خطرناک صورت حال پیدا کر رہا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے بھی گھروں کو توڑا ہے اور دن بدن توڑتی چلی جارہی ہے اور اسکے نتیجہ میں دن بدن معاشرہ زیادہ دکھوں میں مبتلا ہو رہا ہے لیکس ان کے گھر کو توڑنے کا انداز نفرت پر مبنی نہیں بلکہ بے حسی اور عدم توجہ کے نتیجہ میں ہے اور ذاتی خود غرضیوں کے نتیجہ میں ہے.ذاتی خود غرضیاں تو دنیا میں ہر جگہ اسی قسم کا کردارا دا کیا کرتی ہیں لیکن ہمارے مشرق میں جو تہذیبی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو معاشرتی خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ محض تعلقات کو توڑتی نہیں جکہ محبت کی بجائے ان میں نفرت کے رشتے قائم کرتی ہیں اور خاندانوں کے درمیان شہریکے
۴۳ کا جو لفظ آپ نے سن رکھا ہے جو سہاری صدیوں کی تہذیب کا ورثہ ہے ویسا کوئی تصویر آپ کو مغرب میں دکھائی نہیں دے گا اور یہ جو ہمارے ہاں شریکے کا تصور پایا جاتا ہے یہ بہت سی معاشرتی خرابیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے.اس لئے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جب نصیحت کی جائے تو پہلے تمام صورت حال کا جائزہ لے کر بیماری کا تجزیہ کیا جائے پھر دونوں فریق کو جہاں جہاں کوئی نقص دکھائی دے، اس نقص کی طرف متوجہ کیا جائے اور تقویٰ کے ساتھ اللہ کے نام پر نیک نصیحت کی جائے.مشرقی معاشرے کی خرابیوں کا تجزیہ جہاں تک مشرقی معاش کی خرابیوں کا تعلق ہے اس میں ہمارے رشتوں کا بظاہر مضبوط ہونا عملاً ان رشتوں میں دُوری پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے.مغرب میں چونکہ گھر انگ الگ ہو جاتے ہیں اور ایک بڑے خاندان کے اکٹھے لینے کا تصور نہیں ہے یا اگر تھا تو تاریخ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے لیکن ہمارے ہاں اکثر مشرقی مالک میں خاندان زیادہ وسیع ہیں اور ان کے باہمی روابط دیکھتے ہیں مضبوط ہیں اور بعض صورتوں میں ایک ہی گھر میں صرف ہو، بیٹا اور ساس اور داماد وغیرہ یہ سارے اکٹھے نہیں رہتے بلکہ چھا، تایا اور دو کر رشتہ دار بھی رہتے ہیں اور بعض علاقوں میں تو ان کا ایک ہی کچن ہوتا ہے یعنی ایک ہی مطبخ سے ان کا کھانا تیار ہوتا ہے اور بعض بڑے خاندانوں میں ان کی تجارتوں کے باہمی حساب کتاب بھی نہیں کئے جاتے اور نہ صرف یہ کہ غیر احمدی معاشرہ میں بلکہ احمدی معاشرہ میں بھی ایسی خرابیاں دیکھنے میں آئی ہیں کہ باپ فوت ہو گیا یا ماں فوت ہو گئی اور جائیداد بانٹی نہیں گئی بلکہ یہ مجھا گیا کہ ہمارے خاندان کو اکٹھا رکھنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے حق کا مطالبہ نہ کرے اور کوئی شخص اس بات پر زبان نہ کھولے کہ میری ماں یا میرے باپ کی جائیداد کا مجھے بھی حقہ دو بڑے بھائی یا خاندان میں اگر کوئی اور بڑا ہے تو اس کے پہر معاملات رہے اور خاموشی سے لوگوں کے سینوں میں شکوے پلتے رہے اور دن بدن تکلیف
م م بیعتی رہی.یہ احساس بڑھتارہا کہ جس کے ہاتھ میں انتظامات ہیں یا جس کے نام پر جائیداد ہے وہ بہ نسبت دوسروں کے زیادہ استفادہ کر رہا ہے اور اس کے نتیجہ میںپہلی نسل بعض دفع اس بات کو برداشت کر بھی جاتی ہے لیکن آئندہ جو بچے پیدا ہوتے ہیں اور جوان ہوتے ہیں اُن کے دل میں یہ بظاہر محبت کا رشتہ محبت کے رشتے کی بجائے نفرت کے جذبہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ووفقیت اگر ابتدا میں نیک بھی تھی تو چونکہ غلط اقدام تھا اس لئے وہ نیک نیت اچھا پھل نہیں دے سکی اور اچھا پھل نہیں دے سکتی.یہ ایک مثال ہے لیکن عملاً می سے سامنے ایسے بہت سے معاملات آتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کی غلط روایات جو....شریعت کے خلاف ہیں وہ یقیناباد تاریخ پر منتج ہوتی ہیں اور اس سے معاشرہ میں محبت بڑھنے کی بجائے نفرت پھیلتی ہے پس وہی معاشرہ صیح معاشرہ ہے جو آپ کو دنیا میں پیش کرنے کا حق ہے.جو ( دین حق...ناقل) کی تعلیم پر مبنی ہے اور اس معاشرہ کا کوئی رنگ نہیں ہے نہ وہ مشرق کا ہے نہ وہ مغرب کا.نہ وہ سیاہ ہے نہ سفید - وہ نورانی معاشرہ ہے پس اس حد تک معاشرے کو Universalize ر آفاقی کرنا چاہیے اسکو نام دیا میں پھیلانا چاہیے اور تمام بنی نوع انسان کی قدر مشترک بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے میں حد تک کسی معاشرے کے پہلو اسلام سے روشنی پارہے ہیں اور اس کی بنیادیں اسلام میں پیوستہ ہیں مگر سہارے ہاں یہ غلط تصور پایا جاتا ہے کہ مشرقی معاشرہ گویا اسلامی معاشر ہے اور یہ تصور غلط ہے.مشرقی معاشرہ کے بعض پہلو اسلامی ہیں اور ان میں تہذیب اور مذہب باہم ایک دوسرے کے ساتھ جذب ہو کر ایک ہی شکل اختیار کر گئے ہیں لیکن کثرت سے ایسے پہلو ہیں جو نہ صرف یہ کہ اسلامی نہیں بلکہ مذہبی اقدار کے معاندا اور مخالف ہیں اور مذہبی اقدار سے مکرانے والے ہیں اور بت پرست تہذیب کا ورثہ ہیں.اس لئے احمد می خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رہن سہن اور طرز معاشرت کو دین حق کے مطابق ناقل) بنائیں خواہ وہ مشرق سے تعلق رکھتی ہوں خواہ وہ مغرب سے تعلق رکھتی ہوں.
۴۵ اب مشرقی معاشرے کا ذکر چل رہاہے لیکن یہ تو بڑا مشکل کام ہے کہ سارے مشرقی معاشرے کا ذکر کیا جائے مگر میں اب جب مشرقی معاشرے کی بات کروں گا تو میری مراد یہ ہے کہ وہ احمدی خواتین جو مشرقی ممالک میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلیں اُن کا معاشرہ ایک پہلو سے مشرقی معاشرہ ہے لیکن لازم نہیں کہ ہر پہلو سے وہ اسلامی معاشرہ بھی ہو.اس لئے اگر انہوں نے دنیا کی معلمہ بنے کی کوشش کرنا ہے، اگر انہوں نے تمام بنی نوع انسان کی اس شدید ضرورت کو پورا کرنے میں کوئی اہم کر دار ادا کر تا ہے کہ آج بنی نوع انسان کو گھر کی ضرورت ہے تو اچھا گھر بنا کر پھر اس گھر کے نمونے پیش کریں.ماڈل اسلامی معاشرہ کی ضرورت آپ نے دنیا میں دیکھا ہو گا کہ جدید انجنیئرنگ کے اثر کے نتیجہ میں آج کل بڑی بڑی خوبصورت عمارت میں تعمیر ہوتی ہیں اور بعض عمارت میں ماڈل Model کے طور پر بنائی جاتی ہیں تاکہ وسیع پیمانے پر ویسے ہی اور گھر بنائے جائیں.وہ ماڈل کہاں ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو مجھے پریشان کر رہا ہے، کون سا ایسا ماڈل ہے جس ماڈل کو ہم بنی نوع انسان کے سامنے اسلامی معاشرہ کے طور پر پیش کر سکیں.اگر احمدی خواتین نے وہ ماڈل پیش نہ کیا تو وقت کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرنے سے محروم رہ جائیں گی اور تمام بنی نوع انسان کو وہ امت واحدہ میں اکٹھا کرنے اور امت واحدہ کی کڑیوں میں منسلک کرنے میں ناکام رہیں گی اس لئے اس ضرورت کو جو میں آج آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں بہت اہمیت دیں.یہ مضمون چونکہ بہت وسیع ہے اس لئے میں حتی المقدور کوشش کروں گا کہ نکات کی صورت میں آپ کے سامنے باتیں رکھوں.مشرقی معاشرے کی کچھ بنیادی خرابیاں ہمارے معاشرے (ہمارے سے مراد میرا نہیں بلکہ میں تو ر دین حق کے..ناقل معاشرے
ट کا علمبردار ہوں اور اسی کی نمائندگی کرتا ہوں.چونکہ میں مشرق سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے عادتاً ہمارے“ کا لفظ زبان پر جاری ہو جاتا ہے تو مشرقی معاشرے میں بعض بہت ہی گہری خرابیاں پائی جاتی ہیں جو ہماری یعنی احمدیوں کی روز مرہ کی زندگی پر بھی اثر انداز ہیں.ا رشتہ ناتہ میں مالی منفعت پر نظر ہشتوں کے معاملات میں ابھی تک ہماری خواتین کی اس حد تک اصلاح نہیں ہو سکی کہ وہ رشتے کرتے وقت اچھی لڑکی یا اچھے لڑکے کی دولت پر نظر رکھنے کی بجائے اچھی لڑکی یا اچھے لڑکے پر نظر رکھیں.یہ جو عادت ہے یہ ہم نے بالعوم مشرقی معاشرے سے ورثہ میں پائی ہے اور اس کی بنیادیں مشرکانہ معاشروں میں قائم اور نصب ہیں.ہندو معاشرے میں یہ رسمیں بہت زیادہ پائی جاتی تھیں کہ رشتہ کے وقت مالی منفعتیں بھی حاصل کی جائیں.چنانچاس بدنصیبی کا در ثہ آج تک ہمارے ملک پاکستان میں جاری وساری ہے اور مہندوستان کے لینے والے مسلمانوں نے بھی اس سے حصہ پایا ہے جبکہ ہندو قوم اب اس سے بیزاری کا اظہار کر رہی ہے اور ہندو قوم میں نئی تحریکات چل رہی ہیں کہ ان نہایت خطرناک رجحانات کا قلع قمع کرنا چاہیئے اور اگر قانون بنانے کی ضرورت بھی پیش آئے تو قانون بنا کران بدرسموں کا استیصال کرنا چاہیے لیکن ہمارے ہاں روز مرہ ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں کبیٹے کی ماں اس خیال سے کہ بیٹا چونکہ برسر روزگار ہے اور تعلیم یافتہ ہے ہو کی تلاش میں نکلتی ہے اور ہو کے اخلاق پر نظر رکھنے کی بجائے اس کے گھر پر نظر ڈالتی ہے.یہ دیکھتی ہے کہ وہاں کس قسم کے صوفہ سیٹس Sofa sets ہیں.دنیاوی زندگی کی سہولتیں موجود ہیں کہ نہیں.کار ہے یا نہیں ہے اور اگر کار ہے تو کیا وہ اپنی بیٹی کو کار جہیز میں بھی دیں گے یا نہیں دیں گے اور دیگر جائیداد پر نظر ڈالتی ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ماں اپنی بہو کی تلاش میں نہیں نکلی بلکہ انکم ٹیکس کا کوئی انسپکٹر کسی جائیداد کا جائزہ لینے کے لئے نکل کھڑا ہوا ہے.اس کے ایسے خوفناک بر نتائج پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ایسی شادیاں ہو بھی
جائیں تو ان کی تعمیر میں ان کی تخریب کے سامان ڈال دیئے جاتے ہیں اور ایسی شادیاں ایسی شاخ پر بنا کرتی ہیں جس شاخ نے قائم نہیں رہنا، اس نے الز بنا کاٹا جاتا ہے.زیوروں پر نگاہ ہوتی ہے.یہ توقع ہوتی ہے کہ کس حد تک کوئی بہو زیور مانگ کر یا پہن کر اپنا بنا کر گھر آئے گی.مانگنے کا لفظ تو میں نے زائد کر دیا ہے.جہاں تک ان کی توقع کا تعلق ہے وہ بجھتی ہیں کہ چاہے بیٹی والا اپنی ساری جائیداد بیچ دے اپنی بیٹی کو بہت سے زیور سے آراستہ کر کے ہمارے گھر بھیجے اور امر واقعہ یہ ہے کہ ان بیٹیوں کی مائیں جو بور ہو کسی گھر بھجوائی جاتی ہیں بعض دفعہ مانگ کر زیور دیتی ہیں اور گوشش کرتی ہیں کہ دوس کے دن خفیہ طور پر وہ زیور واپس منگوا لیا جائے تاکہ جس کی انت ہے اُس کے سپرد کر دیا جائے چنانچہ بعد میں جو جھگڑے ہوتے ہیں اُن میں یہ باتیں بھی سامنے آتی ہیں.کیسی لغو بات ہے لیکن بڑی سنجیدگی کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ ہم سے دھو کہ کیا گیا.بہو کو جو جھومر پہنایا گیا وہ مانگا ہوا تھا.جو کانٹا پہنایا گیاوہ مانگا ہوا تھا اور ا یہ کہ مانتی نہیں کہ مانگا ہوا تھا.کہتی ہیں دیا تھا اور واپس لے گئیں.ایسا ظالمانہ معاشرہ ہے کہ جس کے تیور میں محبت بڑھنے کی بجائے نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ مائیں جو یہ ظالمانہ طریق اختیار کرتی ہیں وہ اپنے بیٹے کی خوشیوں میں کانٹے بو دیتی ہیں اور معاشرے میں ہمیشہ کے لئے زہر گھول دیتی ہیں اور یہ باتیں پھر لگا نہیں کرتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں.شکووں پڑسکو سے اور نہایت کمینی باتیں.۲.بہو کی کمائی پر نظر پھر بعض مائیں ہیں وہ شایدان باتوںکی پرواہ نہ کرتی ہوں لیکن بیٹی کی تعلیم پر بہت زور دیتی ہیں اور اس کے پس پردہ ایک بدنیت چھپی ہوئی ہوتی ہے.ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ایسی بیٹی گھر آئے جس کی تعلیم اس کے لئے روزی کمانے کا ذریعہ بن سکے چنانچہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ مل کر روزی کمائے اور جو کچھ کھائے وہ ہمارے سپرد کر دے.اب یہ نیت تو زیادہ دیر چھپی نہیں رہ سکتی.جب شادی ہو جاتی ہے تو ان بچیوں کو جھور کیا جاتا ہے کہ اب تم نوکریاں تلاش کرو.
نتیں کرو اور جو کچھ کمائی ہے وہ ہمارے قدموں میں ڈال دو.یہ تمام غیر اسلامی ہمیں ہیں اور یہ ہ میں مغرب میں مفقود ہیں.مغرب میں اگر گھر ٹوٹ رہے ہیں تو نفرتوں کی بناء پر نہیں ٹوٹ رہے وہاں گھر اس لئے ٹوٹتے ہیں کہ مادی لذتوں کی طرف رحجان بڑھ رہا ہے اور انفرادیت نمو پا رہی ہے یعنی وہ پہلے سے بڑھ کر نمایاں ہوتی چلی جارہی ہے اور دنیا کی لذتوں کی راہ میں یہ انفرادیت اس طرح رشتوں کی تعمیر میں حائل ہو جاتی ہے کہ اگر مغرب میں ایک شخص شادی کرتا ہے تو وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ بیوی کی ماں یا بیوی یہ پسند نہیں کرتی کہ خاوند کی ماں ، ان کے گھروں پر کسی قسیم کا بھی بوجھ نہیں.اس سے ان کی آزادی پر ان کی لذت یابی پر فرق پڑتا ہے.چنانچہ آزادی کا جو یہ رحجان ہے یہ سب سے پہلے گھر کو توڑ کر محض میاں بیوی میں تبدیل کر دیتا ہے.باقی رشتہ داریں سے تعلق محض اس حد تک استوار رہتا ہے جس حد تک دنیا کی رسموں میں یا لبعض تقریبوں کے موقعوں پر جس طرح دوستوں کو بلایا ہی جاتا ہے ایسے موقعوں پر خاندان کے دوسرے افراد بھی حقہ لے لیتے ہیں لیکن چونکہ تقاضے نہیں ہیں اس لئے مایوسیاں بھی نہیں ہیں.رفتہ رفتہ خود غرضی کے اس معاشرے نے پی شکل اختیار کر لی کہ بوڑھی مائیں جومرد کی محتاج ہیں وہ بھی بیچاری تنہا پڑھی ہوئی اپنی زندگی کے باقی دن کاشتی ہیں اور موت کا انتظار کرتی ہیں.بوڑھے باپ کو دیکھنے والا کوئی نہیں چنانچہ سارا معاشرہ اپنی اجتماعی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے.ایسے لوگوں کیلئے old homes البوڑھوں کے گھر بنتے ہیں دیکھ بھال کیلئے دوسرے سان فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ معاشرہ سوسائٹی پر اتنازیادہ بوجھ ڈال دیتا ہے کہ پھر مزید تقاضے پورے نہیں ہو سکتے اور ایک عدم اطمینان اور بے چینی کا معاشرہ پیدا ہوتا ہے جو ان چیزوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور دن بدن سارا معاشرہ بے چین ہوتا چلا جاتا ہے.انگلستان میں آپ دیکھ لیجیئے یہی صورت ہے مگر یاد رکھیں کہ ان برائیوں کے نتیجہ میں نفرتیں نہیں پیدا ہوتیں.دکھا وا ، سہارالینی شرقی معاشرہ مجھ کہنا چاہئے مشرقی معاشرے کی خرابیاں
۴۹ نفرتیں پیدا کرتی ہیں اور اسی کا نام شریکہ ہےاور یہ خرابیاں اور بھی کئی قسم کی عادتوں کے نیت میں بڑھتی چلی جاتی ہیں، مثلاً دکھاوا ہے.بسیار شادی کے موقعہ پر لوگوں نے ایک خواہ مخواہ کا ناک بنایا ہوا ہے اور ناک کے کٹنے کی بڑی فکر ہے.ہماری ان خواتین کو یہ وہم ہوتا ہے کہ اگر بیاہ شادی کے موقعہ پر ریا کاری سے کام نہ لیگی تو لوگوں کے سامنے ہمارا ناک کٹ جائے گا بھٹی ا ناک تواس وقت کٹ گیا جب خدا کے سامنے کٹ گیا.باقی ناک رہا کہاں ہے جس کو کاٹو گی ؟ جب خدا کی ہدایات سے روگردانی کی جب رسول کی ہدایات سے روگردانی کی ، جب اسلامی تعلیم کی طرف پیٹھ پھیر دی تومومن کا ناک تو وہیں کٹ جاتا ہے.باقی رہ ہی کچھ نہیں پھر اس بات کی کیا فکر ہے کہ کیا رہتا ہے اور کیا نہیں رہتا.امر واقعہ یہ ہے کہ دکھا دے نے بھی ہمارے معاشرہ میں بہت ہی خوفناک اثرات مرتب کئے ہیں.بہو کو طعن وتشنیع یہ باتیں ابتدا ہیں لیکن اس ابتدا کے بعد ان کے بد اثرات کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی باقائد کوشش کی جاتی ہے کبھی کسی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کسی سے کوئی کوتا ہی ہو گئی ، کوئی دکھاوا نہ ہوسکا، کھانے میں کہیں کمی آگئی یا یہاں تک کہ کھانے میں نمک ہی زیادہ پڑگی، کوئی معمولی سی بھی خرابی ہو تو یہاں شریکہ فوراً سر اُٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں جگہ یہ خرابی ہوئی تھی اور پھر وہ باتیں کبھی بھولتے ہی نہیں اور وہ بیچاری اکیلی بیٹی جو کسی نے کسی کے گھر میں رخصت کی ہے اس کو محسوس ہوتا ہے کہ میں دشمنوں کے گھر میں آگئی ہوں.ہر موقعہ پر اس کو طعنے دیئے جاتے ہیں.کبھی اس نے کھانا پکایا اور خراب ہو گیا تو کہا ہاں ! ہمیں پتہ ہے کس ماں کی بیٹی ہو.دہیں سے آئی تھی ناں جہاں تمہاری شادی کے وقت یہ واقعہ ہوا تھا.مہمانوں نے اف توبہ توبہ کی کسی ے علم نہیں اٹھایا.اٹھایا جاتاہی نہی تھا.اس قسم کی مبلغہ آمیز باتیں اور پھر طی تشیع کے ذریعہ وہ اس بیچاری تجی کی زندگی اجیرن کر دیتی ہیں.
ساس کا بہو سے حسد بھر یہ باتیں معاشرے کی بدلیوں کی شکل میں اور زیادہ گہری ہو جاتی ہیں جب ماں اپنی ہو سے Jealous (حامد) ہو جاتی ہے.یہ چیز یہاں یورپ کے معاشرہ میں تو کہیں دکھائی نہیں دیتی لیکن مشرقی معاشرہ میں ہر جگہ موجود ہے.ایک بیٹا جو اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے جس کو بظا ہر بڑے شوق سے اور بڑے چاؤ سے اس کی ماں نے بیاہ کر اپنے گھر میں بسایا تو اس وقت کے بعد سے وہ ماں اس کو اجاڑنے پر تل جاتی ہے.کوئی موقعہ ایسا ہاتھ سے جانے نہیں دیتی جس سے اس بیچاری بیٹی کا گھر نہ جڑے چنانچہ بیٹے نے اس کی طرف التفات کیا تو ماں کو غصہ آ گیا اور دو بجھتی ہے کہ بیٹے کو اپنے ہاتھ میں قابو رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ بہو کی برائیاں کھوج کھوچ کر نکالی جائیں اور بیٹے کو بتائی جائیں اور اگر وہ خرابیاں نہ ہوں تو پھر بنائی جائیں.وہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے.بعض لوگ بڑی آسانی سے تھے گھڑ لیتے ہیںاور پھر اگر کبھی اس نو بیاہتا نے اگر وہ غریب گھر سے امیر گھر میں آئی ہے اپنے بھائیوں سے کوئی حسن سلوک کر دیا تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے حالانکہ اکثر صورتوں میں ایسی عورتیں احتیاط کرتی ہیں اور اگر حسن سلوک کرتی ہیں تو اپنی کمائی سے کرتی ہیں مگر یہ ساسیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں، خدا کرے آپ میں سے کوئی ایسی ساس نہ ہو، یہ بھی برداشت نہیں کرتیں کہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی جو کہ اپنے خاوند پرتمام بوجھ نہیں ڈالتی بکہ خود کھاتی ہے کچھ اپنے گھر پر خرچ کرتی ہے کچھ اپنے غریب بھائیوں اور بہنوں کو دیتی ہے تو یہ چیز ان کی برداشت سے باہر ہوتی ہے اور وہ خاوند کے کان بھرنے شروع کر دیتی ہیں اور کھتی ہیں کہ اس طرح ہم نے اپنے بیٹے کو جیت لیا ہے اور وہ ہمارا بن کر رہ رہا ہے.وہ ہمارا تو بنا ہے یانہیں یا اپنا نہیں سکے گا.کیونکہ اس بیٹے کی زندگی تو اجیرن ہو جائے گی جس کا گھر ہی نہیں ہیں سکا.
رحمی رشتوں کی حفاظت ضروری ہے اس مشرقی معاشرہ میں جہاں بظا ہر خاندان بڑے ہیں اور ظاہری روابط زیادہ مضبوط ہیں.وہاں اندرونی طور پر ایک ایسا نظام چل رہا ہے جو ان روابط کو کاٹتا ہے اور نفرتوںکی تعلیم دیتا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے بار ہا ہمیں رحمی رشتوں کی طرف متوجہ فرمایا اور وہ آیت جس کی ہیں نے تلاوت کی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نکاح کے موقعہ پر پڑھا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہی شفقت میں اب ہمیشہ ہر مسلمان کے نکاح میں جو تین آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں سے پہلی ہی ہے جس کی میں نے تلاوت کی تھی اللہ تعالی فرماتا ہے ، يا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا تَبَكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ اسے بنی نوع انسان ! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو اس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے.ایک ہی جان سے پیدا کرنے کے بہت سے مفاہیم ہیں.اس موقعہ سے تعلق رکھنے والا ایک مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے کوئی کسی دوسرے پر کوئی برتری نہیں رکھتا اور ایک جان میں اکٹھے ہونے کا مضمون پایا جاتا ہے.اس لئے معاشرہ جو ایک جان سے پیدا کیا گیا ہے اس کو ایک جان والا معاشرہ بنا رہنا چاہیئے.وہ معاشرہ جو ہٹ کر کئی جانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے وہ اپنی اصل کو بھول جاتا ہے اور اس میں افتراق پیدا ہو جاتا ہے.فرمایا، ہم نے تمہیں کثرت بھی عطا کی کثرت سے مرد بھی پیدا کئے اور عورتیں بھی پیدا کیں لیکن اس لئے نہیں کہ تم باہم اختراق اختیار کرو.ایک دور سے دلوں کے لحاظ سے پھٹ جاؤ بلکہ اس لئے کہ تم ان تعلقات کو دوبارہ باندھو اور پھر ایک ہونے کی کوشش کردن یہ پیغام اس آیت کے آخر پر یوں دیا گیا کہ : اتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ ہے و الان حام ہم نے ہمیں تمام ناہیں پھیلا دیا اور ایک جان سے بے شمار جانیں پیدا کیں مگر اس لئے نہیں کہ رشتے ٹوٹ جائیں بلکہ اس لئے کہ رشتے قائم ہوں اور بڑے احترام کے ساتھ قائم ہوں.فرمایا جسں خدا سے تم منتیں کر کے اپنی مرادیں مانگتے ہویادر کھا کہ وہ خدا نہیں تعلیم دے رہا ہے کہ
۵۲ اپنے ربھی رشتوں کی حفاظت کرنا اور ان کا خیال رکھنا.ان دونوں باتوں کو اس طرح باندھ دیا گیا ہے کہ اگر کوئی عورت یا مرد دونوں میں سے جو بھی ہو بھی رشتوں کا لحاظ نہیں کرتا اور صلہ رحمی کی بجائے قطع رحمی اختیار کرتا ہے تو اس کے لئے پیغام ہے کہ تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی.اس نکتہ کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے کیونکہ بے شمار خطوط جو مجھے دعا کے لئے ملتے ہیں ان میں ایسے بھی بہت سے خطوط ہوتے ہیں کہ ہماری دعائیں پتہ نہیں کیوں قبول نہیں ہو ہیں.دعائیں قبول نہ ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ایک وجہ ہو یہاں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر تم نے اپنے خاندانی تعلقات کو مضبوط بنانے کی بجائے ایسی حرکتیں کیں کہ یہ تعلقات قطع ہو جائیں تو یاد رکھنا کہ تم خدا سے اپنا تعلق منقطع کر لو گی اور جس سے منتیں کر کر کے اپنی مرادیں مانگتی ہو وہ تمہاری مرادیں پوری نہیں کرے گا.یہ تفسیر میری نہیں حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تفسیر ہے.آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ خدا کا نام رحمان اسی مادہ سے ہے جس مادہ سے ماں کا وہ عضو رحم " کہلاتا ہے جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے، فرمایا، رحم ماں کے Uterus کے لئے بھی نام رکھا گیا اور رحم ہی خدا کے رحمان نام کی بنیاد ہے.فرمایا اگر تم رھی رشتوں کو کاٹو گے تو خدا کے رحم سے بھی کاٹے جاؤ گے اور ایک کا دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے پس جو رحمانیت سے کاٹا گیا وہ کہیں کا بھی نہیں رہا اور ایسے معاشرے کا رحمانیت سے کالے جانے کا ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ اس معاشرے میں محبت نہیں پل سکتی اور نفرتیں پیدا ہو جاتی ہیں.جو تم سے کاٹا گی وہ رحمانیت سے کاٹا گیا.اس کا ایک مفہوم تو وہی ہے جو میں نے بیان کیا کہ پھر خدا کی طرف سے تمھاری دعاؤں کے باوجود رحم کا سلوک نہیں کیا جائے گا.دوسرا یہ کہ ایسا معاشرہ رحمت سے عاری ہو جاتا ہے اور اس میں نفرتیں پلنے لگتی ہیں.
۵۳ صرف قرآن اور سنت پر مبنی معاشرہ دُنیا کے سامنے پیش کریں دیکھنے میں بہت بڑی بڑی خرابیاں ہیں مغربی معاشرے میں بھی دکھائی دیتی ہیں اور ائن کا ازالہ بھی ضروری ہے ، ان کا تدارک بھی ضروری ہے لیکن چونکہ اکثر احمدی خواتین سر دست مشرقی معاشرہ سے تعلق رکھنے والی ہیں اس لئے میں ان کو متوجہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے محض تنقید کی نظر سے مغربی معاشرے کو دیکھا اور ان کو اپنے معاشرہ کی طرف بلایا تو وہ بھی جوا ب تنقید کی نظر سے آپ کے معاشرے کو دیکھیں گی اور یہ ق رکھیں گی کہ کہیں کہ یہ معاشرہ ہمیں قبول نہیں ہے.کیونکہ یہ معاشرہ تقویٰ پر مبنی نہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر Racialism (نسلی تعصب) پیدا ہو گا.اس کے نتیجہ میں جغرافیائی اور قومی تفریقات پیدا ہوں گی اور نفرتیں پیدا ہوں گی جو قوموں کو قوموں سے الگ کریں گی.اس کا صرف مغرب سے تعلق نہیں مشرق سے بھی تعلق ہے.میں جب افریقہ کے دورہ پر گیا تو وہاں کئی جگہوں پر مجھ سے بعض افریقین خواتین نے بعض پاکستانی خواتین کی شکایت کی کہ ان کا یہ طرز ندگی ہے اور وہ ہم پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ اسلامی طرز زندگی ہے اور ہم اس کی نمائندہ اور علمبردار ہیں آپ بتائیں کہ کیا یہ اسلامی طرز زندگی ہے اور اگر نہیں تو کیا احمدیت پاکستانیت دنیا پر ٹھوننے کے لئے اور نافذ کرنے کے لئے پیدا کی گئی تھی.بعض جگہ غلط فہمیاں تھیں.بعض جگہ ان کی شکایت میں حقیقت تھی میں نے جب ان کے سامنے کھول کر بات بیان کی تو بڑی اچھی طرح سمجھ گئیں اور میں نے ان کے اور پر یہ بات خوب روشن کر دی کہ احمدیت اور پاکستانیت ایک چیز کے دو نام نہیں ہیں.احمدیت اور ہے.احمدیت (دین حق...ناقل) ہے اور احمدیت کی مرادا مبنی بر قرآن اور مبنی بر گفت ہونی چاہیئے بس وہ ادا جو مبنی بر قرآن ہے اور مبنی بر سنت ہے وہ احمدیت ہے اور جس عورت میں وہ ادا پائی جاتی ہے اس کا حق ہے کہ وہ (دین حق..ناقل) کی نمائندگی میں تمہیں یہ
۵۴ تعلیم دے کہ اس عادت کو اپنالو یار بہن سہن کی اس ہیم کو اپنالو اور اسکے علاوہ جو باقی باتیں ہی اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ آپ تک پہنچائے اور یہ دعوی کرے کہ گویا و مادین حق...ناقل) کی نمائندہ بن کر آپ کو یہ سلیقے سکھانے کے لئے آئی ہے.انفرادیت میغربی معاشرہ کی سب سے بڑی خرابی مغربی دنیا کی خرابیوں میں سے بہت بڑی خرابی دہی انفرادیت ہے.معاشرے میں خود غرضی پیدا ہو چکی ہے اور خود غرضی کو مزید تقویت دینے کے لئے دنیا کی لذتیں اور جدید آلات جو یہ لذتیں پیدا کرنے میں محمد بنے ہوئے ہیں یہ ایک بہت ہی بھیانک کردارادا کر رہے ہیں.دین بدن معاشرہ اس لئے بکھر رہا ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ میں جدید ترقیات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے لذت یابی کے ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کروں اور اس راہ میں کوئی رشتہ حائل نہیں ہوتا.کوئی تعلق حائل نہیں ہوتا.بیٹا جو کماتا ہے وہ اپنے تک محدود رکھتا ہے.شاذ ہی وہ اس سے اپنی تغریب بہن کو حصہ دے گا یا غریب ماں کو حصہ دے گا یا غریب بھائی پر خرچ کرے گا.پس اس پہلو سے یہ معاشرہ انفرادیت کا معاشرہ بنتا چلا جاتا ہے.کیونکہ ہر شخص کی اپنی ضرورت نہیں پوری نہیں ہور ہیں.ضرورتیں پوری نہ ہونے کا مضمون غربت سے تعلق نہیں رکھتا.یہ قناعت سے تعلق رکھتا ہے یعنی اکثر صورتوں میں قناعت سے تعلق رکھتا ہے.مغربی معاشرہ جتنا امیر ہوتا چلا جارہا ہے اتنی ہی زیادہ ان کی طلب بھڑک رہی ہے اور هَلْ مِنْ مَزِنید کی آواز اُٹھ رہی ہے لذت یابی کے جو کچھ بھی سامان ان کو مہیا ہوتے چلے جارہے ہیں ان کی عادت پڑ جاتی ہے.وہ بنیادی حق بن جاتا ہے.اس سے آگے مزید کی طلب پیدا ہو جاتی ہے.یہاں کے ٹیلی ویژن، یہاں کے ریڈیو، یہاں کے دو کر ذرائع ابلاغ اس شکل میں ایک فرضی جنت کو ان کو سامنے رکھتے ہیں جو دُور سے جنت ہی دکھائی دیتی ہے اور ہر انسان اس کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن عملاً وہ جنت نہیں ہے وہ ہمندر کے پانی کی طرح کی ایک جنت ہے
ده جو پیکس بھجانے کی بجائے اُسے بھڑکاتی چلی جاتی ہے..حقیقی جنت رحمی رشتوں کو مضبوط کرنے میں ہے حقیقی جنت گھر کی تعمیر میں ہے حقیقی جنت رخمی رشتوں کو مضبوط کرنے میں ہے اور اسی لئے قرآن کریم نے اس مضمون پر اس آیت میں روشنی ڈالی جو میں نے آپ کے سامنے رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کمال فراست اور کمال عارفانہ نگاہ ڈالتے ہوئے اس آیت کو نکاح کے موقعہ کے لئے منتخب فرما لیا.یہ فراست کے نتیجہ میں بھی تھا، آپ کے عرفان کے میں بھی تھا لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ گو میرے علم میں کوئی ایسی حدیث نہیں آئی کہ آنحضور صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایسا خدا تعالٰی کی واضح وحی کے نتیجہ میں کیا مگر چونکہ آپ کا دستور یہ تھا کہ وجی کے سوا کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے اس لئے مجھے کامل ایمان اور یقین ہے کہ فراست کے علاوہ اس کا دھی سے بھی تعلق تھا.ضمنا آپ یہ کہ سکتی ہیں کہ اگر فراست سے تعلق تھا تو پھر دی.کیسے ہوا اور اگر وجی سے تھا تو پھر فراست سے کیسے ہوا ؟ اس سوال کا جواب قرآن کریم نے خود دے دیا ہے.قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کے نور کی مثال یا خدا کے نور کی مثال آپ کی شکل میں یوں پیش کرتا ہے کہ گویا آپ ایک ایسا شفاف تیل تھے جواز خود بھڑک اٹھنے پر تیار بیٹھا تھا.اس کے اندرایسی پاکیزہ صفات تھیں کہ اگر خدا کی وحی نازل نہ بھی ہوتی تو اس نے دنیا کے لئے روشنی کے ہی سامان کرتے تھے.اس پر خدا کی وحی کا نور نازل ہوا اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم نور علی نور بن گئے.پس دی کا فراست سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف انبیا کی وحی کے مرتبہ میں فرق ہے اور اس کی صفائی اور روشنی میں فرق ہے ورنہ خدا تو رہی ہے جس نے ہر نبی کی طرف وحی بھیجی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو جور روشن تعلیمات نصیب ہوئیں ان تعلیمات میں یقیناً آپ کی خداداد فراست کا دخل تھا جس پر نور وحی نے نازل ہو کر اسے نور علی نور بنا دیا.
: مغربی حاشر ہیں گھروں کی بربادی کے خوفناک نتائج بیاہ شادی کے موقعہ پر اس آیت کا انتخاب غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور گھڑوں کی تعمیر میں یہ آیت ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے.اللہ تعالی انہیں یاد کرا تا ہے کہ تم ایک جان سے پیدا ہوئے تھے.اگرچہ تعداد میں بڑھ رہے ہوا اور پھیلتے چلے جارہے ہو لیکن ہمیشہ ایک جان کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتے چلے جانا اور یہ تبھی نصیب ہو گا اگر گھر کے تعلقات کو مضبوط کروگے اور بھی رشتوں کو استوار کر گے.اس میں حکمت کا ایک بہت بڑا اور گہرا راز یہ ہے کہ قوی تعمیر اور وی کیتی پیا کر نا نا مکن ہے جب تک گھر کی تغیر نہ ہو اورگھروں میں کمی نہ ہو جس قوم کے گھر نت ہو جائیں وہ قوم اکٹھی نہیں رہ سکتی.اس کے مفادات بکھر جاتے ہیں جیں قوم کے گھروں میں اسن نہیں اس قوم کی گلیاں بھی ہمیشہ امن سے محروم رہیں گی.یہ ایک ایسا قانون ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.آپ ان ممالک کے جرائم کا جائزہ لے کر دیکھیں جن مانک میں آج کل با وجود اقتصادی ترقی کے باوجود علمی ترقی کے نہایت خوفناک قسم کے جرائم نشو نما پارہے ہیں اور دن بدن زیادہ بھیانک ہوتے چلے جارہے ہیں تو آپ کو اس کی آخری وجہ یہی معلوم ہوگی کہ گھر ٹوٹتے کے نتیجہ میں یہ جرائم بڑھے ہیں.انگلستان میں آج کل ایک نہایت ہی دردناک جرم کے تذکرے ہورہے ہیں.ہر خبر میں اور ریڈیو، ٹیلی ویژن کی ہر Announcement (نشریہ) میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعض ید بختوں نے گندی نگی فلمیں بنانے کے لئے معصوم بچوں کو اغوا کیا اور جس قسم کی خوفناک نہیں وہ بنانا چاہتے تھے ان فلموں کے بنانے کے دوران تقریباً ہم بچے موت کے گھاٹ اتار دیے.کیسا کیسا بھیانک فلم ان پر کیا ہوگا اوران کی چیخیں سنے والا اوران کی پکارنے والا کوئی نہیں تھا.یہ ایس در یک واقعہ ہے کہ ساری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے بلکہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن دیکھ لیجئے.اس کی آخری وجہ یہی ہے کہ انفرادیت کی وجہ سے گھر ٹوٹ رہے ہیں اور لذت یابی
کے شوق نے قوم کو پاگل کر دیا اور چونکہ گھروںمیں اس نہیں رہا اور گردو میں دلچسپی نہیں رہی اس لئے ایسے گھروں میں پلنے والے نوجوان گلیوں میں نکلتے ہیں لیکن امن کی تلاش میں نہیں بلکہ لذت کی تلاش میں اور اپنی لذت کی خاطر وہ دوسروں کے امن برباد کرتے ہیں.یہ Drug addiction نشے کی لت) یا دیگر Pornography (بخش نگاری، فحش فلمیں ہرقسم کی جتنی بھی خرابیاں ہیں ان کی آخری وجہ ہی ہے.پس اگر چہ گھر توڑنے میں نفرت نے دخل نہیں دیا یا نفرت نے کوئی کردارا دا نہیں کیا مگر گھر کے ٹوٹنے کے نتیجے میں نفرت ہوئی ہے اور عمل آخر فرت پر بات ٹوٹتی ہے، گھر ٹوٹنے کے نتیجہ میں سارے معاشرہ میں بے اطمینانی اور بے اعتباری اور نفرت کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور چونکہ لذت یابی کی تلاکش باہر گلیوں میں ہوتی ہے اس لئے قطعاً کوئی احساس نہیں رہتا کہ کسی کو کیا تکلیف پہنچے گی کسی کو کیا دکھ ہو گا.تھوڑا سا روپیہ حاصل کرنے کے لئے Mugging ازبردستی بھیک مانگنام کرتے وقت بعض دفعہ ہاتھ بھی کاٹ دیئے جاتے ہیں.پیام کی بات ہے کہ جب میں امریکہ گیا تو اپنی بیوی اور دو بچیوں کو لے کر میں ہارلم دیکھنے گیا.مجھے وہاں جانے سے لوگوں نے بڑا ڈرایا.انہوں نے کہا وہاں جاتے ہو، وہ تو بہت ہی خطرناک جگہ ہے.پھر اوپر سے بیوی اور بیٹیوں نے برقعہ پہنا ہوا ہوگا تو پتہ نہیں زندہ بچ کے آتے ہو کہ نہیں.میں نے کہا ایسی تو کوئی بات نہیں ہے.مجھے نہیں سمجھ آتی کہ دن دہاڑے کیا ہو گا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک ایسی ہی مشرقی خاتون اپنے ہاتھ میں سونے کا موٹا کڑا پہنے ہوئے جا رہی تھی تو چونکہ اتنا وقت نہیں تھا کہ چھینا جھپٹی کر کے وہ کڑا اتارا جا سکے اس لئے ایک شخص نے تیز چاقو سے اس کی کلائی کاٹ دی اور کڑا زمین پر گرا تو وہ اُسے لے کر بھاگ گیا.انہوں نے کہا کہ یہاں یہ حالت ہے.یہ حالت صرف وہاں نہیں بلکہ ہر جگہ یہ حالت بنتی چلی جا رہی ہے اور سفا کی بڑھ رہی ہے.وجہ یہ ہے کہ گھروں میں امن نہیں.اگر کسی سوسائٹی میں گھروں میں محبت موجود ہو گھروں میں پیار ہو.صرف میاں بیوی کے تعلقات یا مرد عورت کے تعلقات ہی لذت کا ذرعیہ
نہ ہوں بلکہ بہن بھائی کے تعلقات کو تقویت دی جائے ، ماں بیٹے کے تعلقات کو تقویت دی جائے، باپ بیٹے کے تعلقات کو تقویت دی جائے اور رشتے داروں کے دیگر تعلقات کو بھی جو قرآن کر نیم کی اس آیت میں سب شامل ہیں.(رحمی رشتوں میں میاں کے رحمی رشتے بھی آ جاتے ہیں اور بیوی کے رحمی رشتے بھی آجاتے ہیں اور ایک وسیع خاندان بن جاتا ہے، اس پہلو سے اگر گھروں کی تعمیر کی جائے تو گھر کے اندر ہی انسان کو ایسی لذت محسوس ہوتی ہے کہ بہت سے ایسے بچے جو ایسے خوش نصیب گھروں میں پلتے ہیں ان کو قطعا کوئی شوق نہیں ہوتا کہ سکول سے اگر یا کام سے اگر دوبارہ جلدی سے باہر نکلیں یا Pulis (شراب خانوں کا رخ اختیار کریں یا دوسری گندی سوک ٹیٹیوں میں جو آج کل انسان کو وقتی طور پر لذت دینے کے لئے بنائی جاتی ہیں ان میں جاکر اپنے وقت کو ضائع کرے.یہی وہ معاشرہ ہے جو در اصل بعد میں شراب کو تقویت دیتا ہے.جوئے کو تقویت دیتا ہے، ہرقسم کی برائیاں اس معاشرے میں پنپتی ہیں اور نتیجتہ گھر ٹوٹ جاتے ہیں.گھر کی تعمیر تو صرف حضرت محمد مصطف صل للہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیم سے ہی ممکن ہے پس گھر آج مغرب میں بھی ٹوٹ رہے ہیں اور گھر آج مشرق میں بھی ٹوٹ رہے ہیں اور گھروں کو بنانے والا صرف ایک ہے اور وہ ہمارے آقا و مولا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و علی الہ وسلم ہیں.آپ ہی کی تعلیم ہے جو مشرق کو بھی سدھار سکتی ہے اور مغرب کو بھی سدھار سکتی ہے اور آج کی دنیا میں امن کی ضمانت ناممکن ہے جب تک گھروں کے سکون اور گھڑں کے اطمینان اور گھروں کے اندرونی امن کی ضمانت نہ دی جائے.پس گھروں کی اس تعمیر نو کی فکر کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ میں سے
۵۹ اکثر احمدی خواتین چونکہ مشرقی معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے آپ اپنی کمزوریوں کو دور کر کے اپنے گھر کو ایک ماڈل بنانے کی کوشش کریں.جہاں تک مغرب سے آنے والی احمدی خواتین کا تعلق ہے باوجود اس کے کہ یہاں بہت سی دقتیں ہیں اور انکو اپنا ہی بہن بدلنا اور ایسے لباس پہنا جو ان کی سوسائٹی میں بے وقوفوں والے لباس سمجھے جاتے ہیں مشکل کام ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے خدا کے فضل سے ان میں سے احمدی ہونے والی اکثر خواتین پر دے کی روح کی تو حفاظت کر رہی ہیں اور اپنے آپ کو سمیٹتی ہیں اور اپنے آپ کو سجا کر چلتی ہیں اور ان کا لاز تارخ غیر اسلامی معاشرے سے دینی..ناقل) معاشرے کی طرف ہو چکا ہے.آپ کو بھی لازما ان سے زیادہ قدیم ان کی طرف بڑھانے موں گے یعنی ان احمدی خواتین کو جو مشرقی معاشرے میں پلی ہیں اپنی تطہیر کرنی ہوگی بشرق کی گندی عادت میں توڑنی ہوں گی اور ختم کرنی ہوں گی اور دین حق...ناقل) کے پاکیزہ معاشرے کو از سرتو قائم کرنا ہوگا کیونکہ میسر نزدیک بھی تک مشرقی دنیا کی احمدی خواتین خالصته ( دین حق کا تال) معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں.ان تمام بد رسموں کا قلع قمع کرنا ضروری ہے جو ہیں بعض غیر اسلامی معاشروں سے ورثے میں ملی ہیں ، پاکیزہ اور صاف ستھرے ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے.ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت ہے.ایک دوسرے سے رشتوں میں منسلک ہو کر ان رشتوں کو تقویت دینے کی ضرورت ہے بجائے اس کے گر گھٹیا اور کمینی باتوں سے ان تعلقات کو مجروح کیا جائے وہ عورتیں جن کو طعن و تشنیع کی لذت کی عادت پڑھاتی ہے.وہ عورتیں جو نفی کر دار ادا کر کے ا س کی بڑائی کا تصور قائم کرتی ہیں کہ ہم اپنی ہو گئیں ہم نے فلاں کو نیچا دکھا دیا ، وہ ایک گندی قسم کی لذت میں مبتلا ہیں اور یہ لذت ان کو سکون نصیب نہیں کر سکتی.دن بدن ان کی تکلیفوں میں اور مصیبتوں میں اضافہ ہونا ضروری ہے اور کس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کی تکلیفوں اور دوسروں کی مصیبتوں میں بھی اضافہ کر رہی ہوتی ہیں.وہ نیکی کر کے بھی تو دیکھیں.وہ خدمت کر کے بھی تو دیکھیں.وہ پیار سے اپنی بہو کا
جیتنے کی کوشش بھی تو کریں اور اسی طرح ہوئیں بھی یہ نہ مجھیں کہ غیر کے گھر میں آئی ہیں اور ہاں آکر وہ اپنے ہی گھر کے تذکرے کرتی رہیں اور اپنے ماں باپ کو یاد کرتی رہیں بلکہ قرآنی تعلیم کے مطابق جہاں دونوں کے رحمی رشتوں کا احترام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اگر وہ یہ کوشش کریں کہ میں اُن کی بیٹی بن کر رہوں اور اپنے ماں باپ کی طرح ان کا خیال رکھوں اور ان کی خدمت کروں تو دونوں طرف سے یہ حسن سلوک معاشرے کو جنت بنا سکتا ہے.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اتنے بڑے بڑے بدنتائج پیدا کرتی ہیں کہ اس کے نتیجہ میں سارا معاشرہ دکھوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ہمصیبتوں میں اور عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے.گھر ٹوٹتے ہیں.شادیاں ناکام سوتی ہیں اور پھر بعض دفعہ قضا کی طرف دوڑنا پڑتا ہے.بعض دفعہ عدالتوں کے پھیرے لگانے پڑتے ہیں لیکن ہر دفعہ ہر جگہ ہر موقعہ پر خرابی کی جڑھ اسلامی تعلیم سے روگردانی ہی نظر آئے گی.ایک اہم پیغام پس اگر آپ نے دنیا کو امن عطا کرنا ہے تو احمدی خواتین کا فرض ہے خواہ وہ مشرق میں بسنے والی ہوں یا مغرب میں بسنے والی ہوں کہ اپنے گھروں کو اپنے دینی...ناقل گھروں کا ماڈل بنائیں تاکہ باہر سے آنے والے جب اُن کو دیکھیں تو ان کو پتہ لگے کہ انہوں نے کیا حاصل کیا ہے اور تمام دنیا میں وہ ایسے پاک نمونے پیش کریں جس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان دوبارہ گھر کی کھوئی ہوئی جنت کو حاصل کر لیں.وہ جنت جس کا قرآن کریم میں آدم کی ابتدائی تاریخ میں ذکر ملتا ہے اس کا ئیں سمجھتا ہوں کہ گھر کی جنت سے بڑا گہرا تعلق ہے.چنانچہ بائیل نے جو سزائیں تجویز کی ہیں اگر چہ قرآن کریم نے ان کا ذکر نہیں فرمایا لیکن ان سزاؤں کا گھروں سے ضرور تعلق ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے لئے آج کا بہت ہی اہم پیغام یہی ہے کہ
41 آپ گھروں کی تعمیر نو کی کوشش کریں.اپنے گھروں کو جنت نشان بنائیں.اپنے تعلقات میں انکسار اور محبت پیدا کریں.ہر اس بات سے احتراز کریں جس کے نتیجہ میں رشتے ٹوٹتے ہوں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہوں.آج دنیا کو سب سے زیادہ گھر کی ضرورت ہے اس کو یا درکھیں اور یہ گھر اگر احمدیوں نے دنیا کو مہیا نہ کیا تو دنیا کا کوئی معاشرہ بنی نوع انان کو گھر رہتا نہیں کرسکتا اللہ ہیں اس کی توفیق عطا فرمائے ،
جنت نظیر معاشرہ خطاب حضرت مرزا طاہر احمد خليفة المسيم الرابع ايده الله تعالیٰ بنصرة العزيز فرموده امام جماعت احمدیہ عالمگیر ۲۷ دسمبر ۱۹۹ بر موقع صد ساله جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ عالمگیر مستورات) بمقام قادیان ، بھارت
حضور انور کے اس خطاب کے چند اہم نکات ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں جو عزت اور مقام اور مرتبہ قرآن کریم اور حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے عورت کو عطا فرمایا اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے یہ عورت کے لئے اتنا عظیم اظہار تحمین ہے کہ جس کے متعلق یہ فقرہ کہا جائے بلاشبہ اس کو آسمان کی بلند ترین رفعتیں ہو جاتی ہیں.عورت کے اختیار میں ہے کہ قوم کا مستقبل بنائے جس جنت کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ صرف آخرت کی جنت نہیں بلکہ اس دنیا کی جنت بھی ہے.کوئی قوم جسے اس دنیا کی جنت نصیب نہ ہو اسے آخرت کی جنت کی موہوم امیدوں میں نہیں رہنا چاہئیے اس پہلو سے مسلمان عورت کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جو اس دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں اور اُس دنیا کے ساتھ بھی.اگر ہمارا معاشرہ ہر گھر کو جنت نہیں بنا دیتا تو اس حدیث کی رو سے وہ عاشر اسلامی نہیں ہے.پس جنت کی خوشخبری سے یہ مراد نہیں کہ لازنا ہر ماں کے پاؤس تلے جنت ہے مراد یہ ہے کہ خدا توقع رکھتا ہے کہ اسے مسلمان عور تو ! تمہارے پاؤں تھے سے جنت پھوٹا کرے اور جہاں تمہارے قدم پڑیں وہ برکت کے قدم پڑیں اور تمہاری اولادیں اور تم سے تربیت پانے والے ایک جنت نشاں معاشرے کی تعمیر کریں.احمدی عورت واقعتاً اس بات کی اہلیت رکھتی ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وستم کی توقعات کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے کہ اس دنیا میں جنت کے نمونے پیدا کرے.ہر وہ ماں جو بچے کو صرف پیار ہی نہیں دیتی بلکہ شروع ہی سے اس کے اندر انصاف پیدا کرتی ہے.اس کے اندر توازن پیدا کرتی ہے وہ حقیقت میں مستقبل کے لئے ایک جنت پیدا کر رہی ہوتی ہے.ایک نقصان عورت کا اپنی ذات میں مگن ہونے کا نقصان ہے.جن بچوں
۶۵ نے اپنی ماؤں کو خود غرضی کی حالت میں زندگی بسر کرتے دیکھا ہو وہ لازماً خود غرض بن کر بڑے ہوتے ہیں ایسی مائیں جو اپنے بچوں کو چپ کرانے کی خاطر جھوٹ بول دیتی ہیں یا ساتھ نہ لے جانے کے لئے بہانہ بنا دیتی ہیں ایسی مائیں ہمیشہ جھوٹی نسلیں پیدا کرتی ہیں پس ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں آپ جنت بھی پاتی ہیں اور جہنم بھی پاتی ہیں آپ کو اختیار ہے کہ جہنم کو قبول کر لیں یا جنت کو آپ نے عملاً پاک معاشرہ پیدا کرتا ہے.حضرت محمدؐ کا اسوہ حسنہ ہی آپ کی تعلیم کے لئے کافی ہے گھر کی روزمرہ بد خلقی ہمارے معاشرہ کی اکثر خرابیوں کی ذمہ دار بن جاتی ہے جن خاوندوں کا بیویوں کے ساتھ حسن و احسان کا تعلق نہ ہو، ان کے نازک جذبات کا احساس ہو وہ بھی اپنی اولاد کے لئے ماؤں کے قدموں تلے سے جنت چھین لیتے ہیں اور ایسے مرد کبھی جو ماؤں کی بے راہ روی کو بغیر اظہار افسوس کے قبول کئے جاتے ہیں ہیں ماں اور باپ کے تعلق کے توازن ہیں جو آئندہ نسلوں کے بنانے یا بگاڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں.قرآن سکھانا ایک بہت ہی عظیم سعادت ہے یہ جنت بنانے کا دوسرا پہلو ہے بچپن ہی سے قرآن کریم کی محبت ان (اپنی اولاد) کے دلوں میں پیدا کریں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں، خدا تعالیٰ کا گہرا پیار ان کے دل میں جاگزیں کریں کیونکہ اسی کے پیار سے پھر باقی سب پیار کے سوتے پھوٹتے ہیں : یہ وہ اولاد ہے جو لازماً اپنی ماؤں کے پاؤں تلے سے جنت حاصل کرے گی احمدی خواتین کو بے کار کرنے کے لئے قرآن کریم میں کہیں کوئی تعلیم نہیں ہے.ہر نیکی کے میدان میں مردوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا خدا کی طرف سے بطور قراضیہ آپ پر عائد کر دیا گیا ہے.پس اے احمدی خواتین میں تم سے توقع رکھتا ہوں خدا کا رسول تم سے توقع رکھتا ہے کہ تم اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ مرد تمہیں کیا کہتے ہیں بلکہ تم مہر اس نیکی کے میدان میں جس میں مرد فاضل ہوا ہے میں آگے بڑھنے کی کوشش کرف
تشهد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : اسلام میں عورت کا عظیم ترین مرتبہ دنیا کے سب مذاہب میں عورت کا کسی نہ کسی رنگ میں ذکر ملتا ہے اور میں نے اس پہلو سے دنیا کے تمام مذاہب کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت ہے کہ جو عزت اور مقام اور مرتبہ قرآن کریم اور حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عورت کو عطا فرمایا اس کا عشر عشیر بھی کسی دوکر مذہب میں نہیں ملتا.جب انسان یہ موازنہ کرتا ہے تو تعجب میں غرق ہو جاتا ہے اور بہت ہی تکلیف دہ پر عذاب تعجب میں فرق ہو جاتا ہے کہ یہ تمام مذاہب جن میں عورت کا اگر مثبت رنگ میں ذکر ملتا ہے تو بہت معمولی اور بے حیثیت یا منفی رنگ میں ذکر ملتا ہے ، اسلام پر حملے کرنے میں یہ سب سے زیادہ تیزی دکھاتے ہیں اور شوخی دکھاتے ہیں کہ اسلام میں عورت کا کوئی مقام اور مرتبہ نہیں.ایک دفعہ یورپ میں سوال و جواب کی کسی مجلس میں ایک عیسائی خاتون نے یہ سوال کیا اور مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھی سوال وجواب کی کوئی ایسی مجلس ہوئی ہو جس میں یہ سوال نہ کیا گیا ہوں تو میں نے اُسے کہا کہ میں صرف حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ایک فرمان نہیں سناتا ہوں.تم مذاہب کا ہی نہیں تمام دنیا کی تہذیبوں میں عورت کے ذکر
کی تحقیق کر دیکھو وہ شان جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک چھوٹے سے پاکیزہ جملے میں عورت کو عطا کر دی ہے اس کا لاکھوں کروڑواں حقہ بھی مجھے کہیں اور سے لاد کھاؤ.میں نے اُسے بتایا کہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تمھاری جنت تمھاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.اتنا خوبصورت فقرہ ہے عورت کے لئے اتنا عظیم اظہار سین ہے کہ جس کے متعلق یہ فقرہ کہا جائے بلاشبہ اس کو آسمان کی بلند ترین رفتیں عطا ہو جاتی ہیں.کسی مرد کے متعلق نہیں فرمایا یا مردوں کے کسی گروہ کے متعلق نہیں فرمایا کہ ان کے پاؤں تھے ان کی اولادوں کی جنت ہے یا قوم کی جنت ہے.صرف عورت کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ایسا سرٹیفیکیٹ ، ایسا لقب عطا کر دیا، ایسا مطمع نظر اس کو بخشا جس کی کوئی مثال دنیا کے کسی مذہب اور تہذیب میں نہیں ملتی.جب میں نے اس کی مزید تفصیل بیان کی تو وہی خاتون جنہوں نے بڑی شوخی سے تو نہیں کہنا چاہیے گر اعتماد کے ساتھ یہ جانتے ہوئے، یہ احساس رکھتے ہوئے یہ سوال کیا تھا کہ اس سوال کا کوئی جواب کسی مسلمان کے پاس نہیں ہو سکتا یہ سُن کر نہ صرف یہ کہ اس کا سر جھک گیا بلکہ بعد می تائید میں کھڑی ہوئی اور اس نے کہا آج مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا ہے کہ اسلام عورت کو کیا عزت عطا کرتا ہے اور کیا مقام بخشتا ہے.یہ خوشخبری بھی ہے اور اندار بھی یہ ایک چھوٹی سی ہدایت ہے لیکن اس کے اندر مثبت رنگ کے بھی اور منفی رنگ کے بھی بہت گہرے مضامین ہیں.یہ محض ایک خوشخبری ہی نہیں بلکہ انذار کا پہلو بھی رکھتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا عورتوں کے متعلق مردوں کو یہ نیت کرنا یا تمام قوم کو یہ نصیحتکرنا کہ تمھاری جنت تمھاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے ایک بہت ہی معارف کا سمندر ہے جو ایک چھوٹے سے فقرے کے کونے
۶۹ میں بند کر دیا گیا ہے.عورت کے اختیار میں ہے کہ قوم کا متقبل بنائے.جس جنت کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ صرف آخرت کی جنت نہیں بلکہ اس دنیا کی جنت بھی ہے.کوئی قوم جسے اس دنیا کی جنت نصیب نہ ہو اُسے آخرت کی جنت کی موسوم امیدوں میں نہیں رہنا چاہیئے وہ محض ایک دیوانے کا خواب ہے، کیونکہ جس کے دل کو اس دنیا میں سکینت نصیب نہیں ہوتی اُسے آخرت میں سبھی سکینت نصیب نہیں ہو سکتی جو اس دنیا میں اندھے ہیں وہ اُس دنیا میں بھی اندھے ہی اٹھائے جائیں گے پس اس پہلو سے مسلمان عورت کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جو اس دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں اور اس دنیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں.سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہر خاتون جوگھر کی ملکہ ہے کیا اس کے گھر میںجنت بن گئی ہے یا نہیں بنی ہے کیا اس کی اولاد میں جنتوں والی علامتیں پائی جاتی ہیں کہ نہیں ؟ اُسے دیکھ کر ہر عورت خود اپنے نفس کا جائزہ لے سکتی ہے اور اس بات کو پرکھ سکتی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیش کردہ کسوٹی کے مطابق میں وہ عورت ہوں کہ نہیں جس کا ذکر میرے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اتنے پیار اور اتنے ناز اور اتنے اعتماد کے ساتھ کیا تھا.مجھے مخاطب کیا میرا ذکر فرمایا اور یہ کہا کہ اسے مسلمان عورت ! جو میں کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئی تجھ سے مجھے یہ توقع ہے کہ تیرے پاؤں کے نیچے جنت ہے.پس یہ محض مردوں کے لئے ہی پیغام نہیں ، بچوں کے لئے ہی پیغام نہیں کہ تم اپنی جنت اپنی ماؤں کے پاؤں تلے ڈھونڈو اور بالعموم یہی معنے ہیں جو سمجھے جاتے ہیں اور بیان کئے جاتے ہیں کہ عورت کا ادب کرد.عورت کی دعائیں لوحالا نکہ اس سے بہت زیادہ وسیع تر معنی عورت کے کردار کے تعلق میں بیان ہوئے ہیں.اگر ہمارا معاشرہ ہر گھر کوجنت نہیں بنا دیتا تو اس حدیث کی رو سے وہ معاشرہ اسلامی نہیں ہے اور اگر جنت کو جہنم بنانے میں مردوں کا قصور ہے تو یہ قصور محض اس وقت کے دائرے میں محدود نہیں جس میں اس کی شادی ہوئی اور ایک عورت کے ساتھ اس نے ازدواجی زندگی
بسر کرنی شروع کی بلکہ اس کا تعلق ایک گزرے ہوئے زمانے سے بھی ہے.اس سے ایسی بانصیب ماں بھی پائی کہ جس کے قدموں تلے اسے جنت کی بجائے جہنم علی.پس جنت کی خوشخبری سے یہ مراد نہیں کہ لازماً ہر ماں کے پاؤں تلے جنت ہے.مراد یہ ہے کہ خدا توقع رکھتا ہے کہ اے مسلمان عور تو اتمھارے پاؤں تلے سے جنت پھوٹا کرے اور جہاں تمھارے قدم ہیں دہ برکت کے قدم پڑیں اور تمہاری اولادیں اور تم سے تربیت پانے والے ایک جنت نشان معاشرے کی تعمیر کریں.پس اس نقطہ نگاہ سے احمدی خواتین کو بہت کچھ سوچھے کی ضرورت ہے.بہت کچھ فکر کی ضرورت ہے.اپنے جائزے لینے کی ضرورت سے او منیتی اسلامی تعلیمات بعض عیوب سے تعلق رکھتی ہیں یعنی عورت کو بعض باتیں کرنے سے روکتی ہیں اور بعض ادائیں اختیار کرنے سے منع فرماتی ہیں اُن کا اس حدیث کے مضمون سے بلاشبہ ایک گہرا تعلق ہے.وہ سب باتیں وہ ہیں جو جنت کو جہنم میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں.پس اسلام ان معنوں میں عورت کے لئے قید خانہ نہیں کہ مرد کو تو کھلی چھٹی ہے جو چاہے کرتا پھرے عورت مظلوم گھروں کی چار دیواری میں مقید ہوگئی.ان معنوں میں ایک مومنہ عورت کی زندگی ہرگز ایک قید خانہ میں بسر نہیں ہوتی.ہاں ایک اور معنے میں وہ یقینا قید خانہ میں رہتی ہے اور ان معنوں میں تمام مسلمان مرد بھی تو قید خانہ میں ہی رہتے ہیں کیونکہ آنحضرت صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا :- الدنيا سجن المؤمن جنة الكافر اس کی ایک اور روایت یہ ہے کہ الدنيا سجن المؤمن و جنة للكافر تو وہاں مومن کے لفظ کے اندر تمام مرد مومن بھی اور مومن عورتیں بھی شامل فرما دیں.پس وہ قید خانہ اور ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں لیکن ایسے کسی قید خانے کا ذکر اسلام میں کہیں نہیں ملتا کہ جس کے نتیجہ میں عورت تو اچھی باتوں سے محروم رہ جائے اور مقید ہو جائے لیکن مرد کو کھلی آزادی ہو کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے ہو بھی پابندیاں ہیں
وہ حفاظت کا مضمون رکھتی ہیں.وہ عظمت اور تحریم کا مضمون رکھتی ہیں.ان سے عورت کا مقام بلند ہوتا ہے.اس سے عورت کو دنیا کی دلدلوں میں پھنسنے سے نجات ملتی ہے اس کے سوا ان قیود کا اور کوئی مطلب نہیں لیکن آج میں اس مضمون کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.کچھ اور باتیں ہیں جو میرے پیش نظر ہیں.اول یہ کہ آج دنیا کو مسلمان عورت کے متعلق جو غلط فہمی ہے اس کے محض علمی جواب دینا کافی نہیں.کیونکہ بسا اوقات حیف مجالس سوال و جواب میں اہل مغرب نے اس مضمون پر سوال کئے اور میں نے خدا تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ اور اس کی تائید کے ساتھ کسی حد تک تشفی بخش جواب دیئے تو کبھی ایسا بھی ہوا کہ کوئی عورت اُٹھ کھڑی ہوئی اور اُس نے کہا کہ اچھا ! اگر یہ اسلامی معاشرہ ہے تو اس کے نمونے تو دکھائیے.کیا مصر میں یہ جنت ملتی ہے ؟ یا شام میں نظر آتی ہے ؟ یا سعودی عرب میں دکھائی دیتی ہے.ایا پاکستان میں اس کا مظاہرہ ہوتا ہے ہے کسی اسلامی ملک کا نام تو لیجیے جہاں آپ کی بتائی ہوئی جنت دکھائی بھی توڑے.پس محض بتانا کافی نہیں ہے.وہ جنت جس کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ ایک ٹھوس حقیقت ہے.ایک خواب نہیں ہے جس کی تعبیریں تلاش کی جائیں.ٹھوس حقیقت احمدی خواتین نے اپنی زندگی اور اپنے معاشرے میں عملاً دنیا کو دکھانی ہے.بیس بعض دفعہ میں اُن سے کہتا ہوں کہ وہ جنت اپنی آخری کامل اور حسین تر صورت میں تومیں تمہیں نہیں دکھا سکتا لیکن اگر تمھارے پاس وقت ہو اور اپنے ملک میں بسنے والی احمدی خواتین سے عو ان کے اجلاسوں میں آؤ.ان سے سوال و جواب کرد.ان کے گھروں میں جاکر دیکھو تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس جنت کی کچھ جھلکیاں تمھیں ضرور دکھائی دی گی اور یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ یورپ میں بنے والی احمدی خوابی إلا ما شاء اللہ ایک ایسے معاشرے کو جنم دے رہی ہیں.ایک ایسا معاشرہ پیدا کر رہی ہیں جو یورپ سے بالکل مختلف ایک معاشرہ ہے.
۷۲ یورپ کا معاشرہ یورپ کے معاشرے کو اگر دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ تموج پیدا کرتا ہے بے چینی پیدا کرتا ہے، ایسی تحریکات آپ کے سامنے رکھتا ہے جس کے نتیجہ میں دل بے اطمینانی سی محسوس نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر طلب کی ایک ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے جو کسی پانی سے سمجھ نہیں سکتی جس پانی کی بھڑک دل میں پیدا ہوتی ہے وہ پانی سمندر کے پانی کی طرح شور پانی ہوتا ہے اور جتنا آپ اس سے پیاس بجھانے کی کوشش کریں اتنا ہی وہ بھڑک اور زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے.یہ ایسی حقیقت ہے کہ جب کھول کر اہل مغرب کے سامنے پیش کی جائے توان کے دل گواہی دیتے ہیں اور وہ ہمیشہ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہماری Civilisation ہماری تہذیب ، ہمارا تمدن جن لذتوں کی طرف بلاتا ہے ان میں آخری تسکین کا کوئی مقام نہیں ہے محض پیچھے بھاگتا ہے اور مزید کی تلاش مزید کی طلب ہے جو آخر کہیں نہیں ملتا اور بالآخر وہ لوگ جو دنیاوی لذتوں کی تلاش میں بے لگام ہو کر بھاگتے پھرتے ہیں، اُن کو سوائے بے چینی کے لیے اطمینانی کے بالا خر کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا.قرآن کریم نے اس معاشرے کی تصویر ایک موقعہ پر یوں فرمائی جیسے کوئی سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہو.پیاس کی شدت اُسے سراب کی پیروی کے لئے اس کی طرف تیز تر بھگاتی چلی جائے لیکن وہ اس سے آگے بھاگتا چلا جائے یہاں تک کہ جب اس میں چلنے کی مزید سکت نہ رہے تو اپنے آپ کو اس سراب کے مقام پر پائے جہاں خدا اس کو جزاء دینے کے لئے پہنچا ہے اور اُسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا.پس ان لوگوں کے اکثر انجام اسی قسم کے ہیں اور دن بدن ان کے معاشرہ میں بے چینی بڑھتی چلی جارہی ہے معاشرہ پر عذاب ہوتا چلا جارہا ہے.اقتصادی لحاظ سے بلند مقامات پر فائز ہونے کے با وجود کوئی دولت ان کے دلوں کی تسکین کے سامان نہیں کر سکتی اور دن بدن گلیوں میں جرم
پل ہے ہیں اور ظلم و سفاکی نشو و نماپا ہے ہیں.ایک طرف تہذیبی تقاضے یہ ہیں کہ تمام دنیا کو یہ تہذیب سکھانے کا دعوی کرتے ہیں اور تیسری دنیا کے غریب ممالک پر اس لحاظ سے طعن زنی کرتے ہیں کہ تمھیں ابھی تک انسانیت بھی نہیں آئی تمھیں انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف بھی توجہ نہیں ہے.تم انسانی حقوق ادا کرنے کے راز نہیں جانتے.ہم تمہیں سکھاتے ہیں کہ Crilisation کیا ہے.کس طرح تہذیب کے ساتھ رہنا ہوتا ہے اور دوسری طرف جب ان کو قریب سے دیکھا جائے تو ایسے خوفناک رحجانات نہ صرف ان کے اندر پیدا ہوئے ہیں بلکہ روز بروز نشو و نما پاتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ سفاکی کے جو نظارے ان کے ٹیلی ویژن پر کھلم کھلا کھائے جانے لگے ہیں یا ان کے اخبارات میں ان کے تذکرے ملتے ہیں وہ ایسے خوفناک ہیں کہ ان کا بیان بھی ممکن نہیں.ایک موقعہ پر ایک ٹیلی وین کے پروگرام میں ایک بہت ہی تجربہ کار پولیس کا بڑا افسر پیش ہوا اور اس نے ایک ایسے شہر کو ٹیلی ویژن پر دکھایا جس کا نام اس نے احتیاطا نہیں لیا تا کہ قانونی جکڑ میں نہ آ جائے.اس نے کہا اس شہر میں ایک لمبے عرصے سے میں اپنے فرائض ادا کرتا چلا آرہا ہوں، غالباً اس نے ۲۵ یا ۳۰ سال بتائے اور کہا کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اس شہر کے کم از کم ۳ فیصدی گھر (یعنی One third ) ایسے ہیں جن میں باپ اپنی بیٹیوں پر سفاکانہ ظلم کرتے ہیں اور مائیں اپنے بیٹوں پر کرتی ہیں اور بے حیائی اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے اور ان کی کوئی شنوائی نہیں.قوانین ایسے ہیں جو مجرم کی حمایت کرنے والے اور معصوم کے خلاف استعمال ہونے والے اور معصوم کے حفاظت کے جتنے حقوق ہیں ان کو پامال کرنے والے ہیں.بہر حال یہ بحث تو اس کی قانونی بحث تھی لیکن میں نے اسے اس نقطہ نگاہ سے دیکھا کہ تہذیب کے اس لمبے سفر کے بعد بالآخر جس مقام پر پہنچے ہیں یہ وہی مقام تو ہے جس کا قرآن کریم میں ایک سراب کی صورت میں ذکر فرمایا گیا تھاکہ بال اخرتم وہاں پہنچ گئےجہاں تمھیں خدا کی عائد کردہ نزا کھڑی دکھائی دے گی.اس سزا میں تم چاروں طرف سے گھیرے جاؤ گے اور تمہارے
،۴ لئے نجات کی کوئی راہ باقی نہیں رہے گی.یہ ایک پہلو ہے جس کا میں نے مختصراً ذکر کیا.لیکن جو بیماریاں اب وہاں راہ پا رہی ہیں.جو دن بدن بدامنی کی کیفیت پیدا ہوتی چلی جارہی ہے اس کا حال یہ ہے کہ ہر انسان اپنے گھر میں جنت ڈھونڈنے کی بجائے باہر جنت کی تلاش کرتا ہے.ایسے گھر بھی الا ماشاء اللہ یقیناً نہیں جن میں سکون ملتا ہے ، جین میں اعلیٰ انسانی قدریں بھی ملتی ہیں مگر اکثر گھروں کی صورت یہ ہو چکی ہے کہ وہ گھر محض رات بسر کرنے کے لئے گھر ہیں ورنہ ان کی لذتیں ان کے سکون گھروں سے باہر پڑے ہیں اور وہ لذتیں اور وہ سکون ایسے ہیں جو حاصل کئے جائیں تو کسی اور کی لذت اور سکون ٹوٹ کر حاصل ہوتے ہیں.ایسی بیماریاں پھیل چکی ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کی عطاء فرمودہ لذتوں کو ایک جہنم میں تبدیل کر دیا ہے.یہ غیر اسلامی تہذیب کی وہ صورت حال ہے جو ہرے غور سے دیکھا جائے تو صرف ایک ملک میں نہیں دو ملکوں میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں رونما ہو رہی ہے.اس میں جب مغرب کی مثال دیتا ہوں تو ہر گز یہ مراد نہیں کہ اہل مشرق ان باتوں سے پاک اور صاف ہیں.میں اسلام اور اسلام کی مخالف قدروں کا موازنہ کر رہا ہوں.ہندوستان بھی انہی بدیوں میں مبتلا ہوتا چلا جارہا ہے اور پاکستان بھی انہی یدیوں میں مبتلا ہوتا چلا جا رہا ہے اور مشرق اور مغرب دونوں اس پہلو سے ایک دستے سے آگے بڑھنے کا مقابلہ کر رہے ہیں.پس اس صورت حال کو کیسے تبدیل کیا جائے.کیسے اس کا رخ پلٹا جائے تاکہ دنیا کو سکون نصیب ہو.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.احمدی عورت کی اہلیت احمدی عورت واقعتاً اس بات کی اہلیت رکھتی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ دوستم کی توقعات کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے کہ اس
دنیا میں جنت کے نمونے پیدا کرے.اپنے گھروں کو وہ جذب ہے، وہ کشش عطا کرے جس کے نتیجہ مں وہ محور بن جائے اور اس کے گھر کے افراد اُس کے گرد گھو میں انہیں یا پر چین نصیب نہ ہو بلکہ گھر میں سکینت ہے.وہ ایک دور سے پیارا در محبت کے ساتھ ایسی زندگی بسر کریں کہ لذت یا بی کا محض ایک ہی رخ سر پر سوار نہ رہے ہو جنون بن جائے اور جس کے بعد دنیا کا امن اُٹھ جائے بلکہ خدا تعالیٰ نے پیار اور محبت کے جو مختلف لطیف رشتے عطا فرما رکھے ہیں ان رشتوں کے ذریعہ وہ سکینت حاصل کریں جیسے خون کی نالیوں سے ہر طرف سے دل کو خون پہنچتا ہے وہ دل بن جائیں اور ہر طرف سے محبت کا خون ان تک پہنچے اور وہ دل بن جائیں اور جم کے ہر عضو کو ان کی طرف سے سکینت کا خون پہنچے.یہ وہ اسلامی معاشرہ ہے جس کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک ہی چھوٹے سے جملے میں فرمایا کہ تمہاری جنت تمھاری ماؤس کے قدموں تلے ہے.پس جہاں جنت ہو انسان اسی طرف تو بھاگتا ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ جنت کہیں اور ہو اور دوڑ کے رُخ کسی اور سمت میں ہوں.اس کی مزید عملی تصویر اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ جن معاشروں میں اسلام کے خلاف قدریں قائم ہو رہی ہیں ان میں کسی نہ کسی تھوڑے فرق کے ساتھ بالعموم یہ رحجان ہے کہ ماؤں کے ساتھ اولاد کا تعلق اور اسی تعلق سے باپوں کے ساتھ اولاد کا تعلق دن بدن کٹتا چلا جارہا ہے یا دھیما پڑتا چلا جارہا ہے اور نئی نسل یہ مجھتی ہے کہ جیسے یہ پرانی نسل ہم پر بوجھ ہے، ایک مصیبت ہے.ایک مذاب سر پر پڑا ہے.وہ ان کے حقوق کے سلسلہ میں کوئی ایسا فرض ادا نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں انہیں تکلیف اٹھانی پڑے.بہت معمولی تکلیف اٹھاکر کبھی کبھی عید بقرعید سے ہم کہتے ہیں وہاں کرسمس کہا جاتا ہے ایسے مواقع پر وہ کبھی ماں باپ کو اپنے ہاں دعوت دے دیتے ہیں یا کبھی ماں باپ کے ہاں چلے جاتے ہیں ورنہ بالعموم بوڑھوں کے لئے اس سوسائٹی میں کوئی جگہ نہیں رہی جو تھوڑی سی جگہ ہے وہ بھی تنگ ہوتی چلی جارہی ہے.ایسے شریف گھرانے ضرور موجود ہیں جنہیں ماحول
14 قدامت پسند سمجھتا ہے اور وہ اپنے ماضی کے گہرے تعلق کی بناء پر ابھی تک مجبور ہیں کہ اپنے ماں باپ کے کچھ حقوق ادا کریں لیکن اس حد تک نہیں کہ وہ مستقلی ان کی رضا جوئی کی کوشش کرتے رہیں.اگر پاؤں تلے جنت ہو تو انسان آخر وقت تک جنت کے حصول کے لئے جدو جہد اور کوشش کرتا رہتا ہے اور اپنی ماں کی آخری وقت کی دعائیں اور اپنے باپ کی رضا کی آواز سننا چاہتا ہے اسی سے اس کو تسکین ملتی ہے مگر ایسی کسی صورت کا مغرب میں تو تصور ہی نہیں رہا.مشرق میں سبھی دن بدن یہ رشتے ٹوٹ رہے ہیں اور مجھے لیا اوقات بعضی احمدی مائیں بھی یہ لکھتی ہیں کہ ہماری اولاد کی نظریں بدل رہی ہیں ان میں وہ احترام وہ تعلق نہیں رہا جیسے غیر غیر ہو رہے ہوں ہم اس کا کا علاج کریں ، اس علاج کے مضمون سے تعلق میں آپ کو یہ بات سمجھانی چاہتا ہوں کہ بچپن ہی میں آپ کے پاس علاج ہوتا ہے.خُدا نے یہ علاج آپ کو عطا فرما کا ہے.اگایا نہ ہوتا تو ہرگز مرسول الله لا اله علی ولی الہ وسلم آپ سے متعلق یہ بات توقع نہ رکھتے کہ جنت آپ کے قدموں تلے ہے ضرور، چاہے آپ اسے استعمال کریں یا نہ کریں.اپنی ذات میں مگن ہونے کا نقصان بات یہ ہے کہ ہر وہ ماں جو بچے کو صرف پیار ہی نہیں دیتی بلکہ شروع ہی سے اس کے اندر انصاف پیدا کرتی ہے اُس کے اندر توازن پیدا کرتی ہے وہ حقیقت میں مستقبل کے لئے ایک جنت پیدا کر رہی ہوتی ہے.جو ماں اپنی اولاد کو صرف محبت دیتی ہے اور اس محبت کے نتیجہ میں وہ سمجھتی ہے کہ اس نے اُسے سب کچھ دے دیا وہ ایک غلط فہی میں مبتلا ہے.ایسی محبتیں جو محض محبت کا رنگ رکھتی ہوں ان میں نظم وضبط کی کوئی رگ شامل نہ ہو جن میں مضبوط تقاضے نہ ہوں جن میں توازن کے مطالبے نہ ہوں.ایسی محبتیں اولاد کے فائدے کی بجائے اُسے نقصان پہنچا دیتی ہیں لیکن اس سے بہت بڑھ کر ایک نقصان عورت کا اپنی ذات میں مگن ہونے کا نقصان ہے اور یہ وہ نقصان ہے جو نئے تقاضوں کے نتیجہ میں
،، دن بدن زیادہ ہو کہ دکھائی دینے لگا ہے.اگر کوئی عورت سنگھار پیار کرتی ہے، سوسائٹی میں جاتی ہے ، دل کے بہلانے کے کچھ سامان کرتی ہے اور اُسے کہا جاتا ہے کہ بی بی ذرا سنبھل کر چلو تو کہے گی چھوٹی موٹی باتیں ہیں میں نے کون سا گناہ کیا ہے ؟ کیا تم میری زندگی کو عذاب بنادو گی لیکن یہ چھوٹی موٹی باتیں درحقیقت بعض دفعہ بہت بڑی باتیں پیدا کر دیا کرتی ہیں.ایسی اولاد میں کی ماں کو اور جس کے باپ کو اپنی لذتوں کی تلاش اتنی ہو جائے کہ وہ اس کی زندگی کے روز مرہ کے انداز پر غالب آجائے تو ایسی مائیں بسا اوقات اپنے بچوں کی تربیت سے فاضل ہو جاتی ہیں.باہر وقت گزار کر کبھی آتی ہیں تو یہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ بچے اپنے کمرے میں موجود ہیں کہ نہیں کچھ ان کی فوری ضرور تیں ہوئیں تو وہ پوری کر دیں.کوئی بیمار ہوا تو اس کا علاج کیا لیکن پھر گلے سے اتار کر اپنے علیحدہ کمروں میں غائب ہو گئیں اور صبح احمد کرنے سوشل پراگرام بنائے گئے اور نئی لذتوں کی تلاش کی گئی.ایسی ماؤں کی نظری پہلے بدلتی ہیں پھر اولاد کی نظریں بدلا کرتی ہیں.اولاد کو خدا تعالیٰ نے بہت ہی فراست عطا فرما رکھی ہے جن بچوں نے اپنی ماؤں کو ایک خود غرضی کی حالت میں زندگی بسر کرتے دیکھا ہو وہ لازما خود غرض بن کر پڑے ہوتے ہیں اور بچپن سے ان کو احساس نہیں ہوتا کہ میری ماں مجھ پر احسان کرنے والی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میری ماں نے اپنی مرضی سے جب اس نے چاہا، جب اس کو خواہش پیدا ہوئی مجھ سے پیار کیا لیکن میری ساتھی نہ بنی مجھے اُس نے رفاقت عطا نہیں کی مجھ سے ایسا تعلق قائم نہ کیا کہ مجھے اس کے ساتھ بیٹھنے کا مزہ آئے اُسے میرے ساتھ بیٹھنے کا مزہ آئے.پس اسی وقت سے اس بچے کا متقبل گھر کی بجائے گلیوں سے وابستہ ہونے لگتا ہے اپنے بچوں کے ساتھ اعتماد اور پیار کا رشتہ قائم کریں صرف یہی نہیں بلکہ جو ٹلانے کی باتیں ہیں یہ بھی بظاہر چھوٹی ہیں لیکن بہت گہرے اور لمبے نقصانات پیدا کرتی ہیں.ایسی مائیں جو اپنے بچوں کو چپ کرانے کی خاطر جھوٹ بول
دیتی ہیں یا ساتھ نہ لے جانے کے لئے بہانہ بنا دیتی ہیں ایسی مائیں ہمیشہ جھوٹی نسلیں پیدا کرتی ہیں اور وہ بچے کبھی بھی اپنی ماؤں کی باتیں نہیں مانتے بلکہ غیر شعوری طور پر انہیں دوسروں کو دھوکہ دینے کے سبق مل جاتے ہیں.بعض دفعہ مائیں خود نیک بھی ہوں لیکن وہ کجھتی ہیں کہ بچے کو ٹالنا معمولی بات ہے یہ تو کوئی گناہ ہی نہیں یا بچے سے کوئی وعدہ کیا اور اُسے بھٹیا دیا تواس میں کوئی خاص بڑی بات نہیں ہے بچوں کے ساتھ تو اسی طرح ہوا کرتا ہے اور وہ نہیں جانتیں کہ وہ بچے کا مستقبل خود اپنے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے برباد کر دیتی ہیں.ایک دفعہ میں نے ایک چھوٹا سا نظارہ اس طرح دیکھا کہ ایک باپ نے اپنے بچے کو پونڈے گنے کا ایک ٹکڑا دیا ہوا تھا اور سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اس کی ماں بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی اُس نے دیکھا کہ بچے سے سنبھال نہیں جاتا تواس نے کہا کہ بیٹا یہ مجھے پکڑا دو میں اوپر جاکر تمہیں واپس کر دوں گی.اُس نے کہا جائیں جائیں ! میں نے آپ کو دیکھا ہوا ہے ! اوپر پہنچتے پہنچتے آپ آدھا کھا جائیں گی.اب یہ بات چھوٹی سی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس رد عمل نے میرا دل ہلا دیا.مجھے سامنے خطرات نظر آئے کہ اس بچے کا مستقبل شاید ٹھیک نہ ہے کیونکہ جو اپنی ماں پر اعتماد نہیں کر سکتا وہ دوسروں پر کیسے اعتماد کرے گا.پس ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں آپ جنت بھی پاتی ہیں اورجہنم بھی پاتی ہیں.آپ کو اختیار ہے کہ جہنم کو قبول کر لیں یا جنت کو قبول کر لیں پس آئندہ کی قوم آپ کے پاؤں سے وابستہ ہو.چکی ہے.آئندہ کی نسل آپ کے قدموں سے وابستہ ہو چکی ہے.اس کے لئے اس دنیا میں جنت چھوڑیں تو دیکھیں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان کی اخروی جنت کی ضمانت بھی یقینا مہیا ہو جائے گی.یہ چند پہلو ہیں جن کی اور بھی بہت سی شاخیں ہیں اور یہ مضمون ایسا ہے جو بڑی تفصیل کا محتاج ہے تاکہ مثالیں دے دے کر آپ کو سمجھایا جائے کہ کہاں کہاں ٹھوکر کا مقام ہے.کہاں کہاں بچنے کی ضرورت ہے کس طرز عمل کو اختیار کی جائے گر میں امید رکھتا ہوں
کہ ان چند مثالوں سے آپ اس مضمون کو سمجھ گئی ہوں گی کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں واقعہ جنت یا جہنم ہو جاتی ہے میں نے بعض ماؤں کو بچوں کو ڈراتے ہوئے دیکھا ہے اور میں بڑی سختی سے اپنے گھر میں یہ بات قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ بچوں کو ڈرایا نہ کریں بسختی سے مراد یہ ہے کہ Firmness مضبوطی کے ساتھ مشدت کے ساتھ نہیں یا سزا دے کر نہیں کیونکہ مجھے یاد نہیں شاید ہی کبھی زندگی میں ایک دو مرتبہ کسی بچے کو سزا دی ہو ورنہ ہمیں اس بات کا قائل ہوں کہ بچے کے ساتھ اگر تمہارا اعتماد کا رشتہ قائم ہو جائے اور پیار کا رشتہ قائم ہو جائے تو تمھاری نظروں کے ہلکے سے تغیر میں بچہ اتنی سزا پا جاتا ہے کہ اُسے کسی اور سزا کی ضرورت نہیں رہتی تو جس حد تک مجھ سے ممکن ہے میں نے اپنے گھرمیں بھی اور با ہر اپنے دو سے عزیزوں کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بچوں کو ڈرایا نہ کریں بچہ سوتا نہیں ہے یا کسی جگہ جانا چاہتا ہے تو مائیں کہ دیتی ہیں کہ بھوت آ جائے گا.فلاں چیز تمہیں چھٹ جائے گی.وقتی طور پر وہ اس بچے سے چھٹکارا حاصل کرتی ہیں اور ہمیشہ کے لئے خوف کا بھوت اُسے چٹا دیتی ہیں جو پھر کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا.باہر نکل رہی ہیں.لمبے عرصے کے لئے جانے کا ارادہ ہے لیکن جھوٹ بول دیتی ہیں کہ ہم ابھی آتے ہیں اور بچہ بیچارا انتظار میں بیٹھا رہ جاتا ہے.ایسے بچے سے بڑے ہو کر بیچ کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے.پس آپ اپنے گھر مں میں رنگ میں زندگی بسر کہ رہی ہوتی ہیں بچہ اس کی اصل تصویر کو دیکھتا ہے.اس تصویر کو قبول نہیں کرتا جو آپ جلی عکس کے طور پر اس پر ڈالتی ہیں اور اس پہلو سے کوئی ماں کسی بچے کو دھوکہ نہیں دے سکتی.ایک دن کا معاملہ ہو تو کوئی اور بات ہوئی.دو دن کا قصہ ہو تو سمجھ میں آجائے.یہ ساری زندگی کے معاملات ہیں.ایک بچہ اپنے ماں باپ کی اصلیت کو ضرور سمجھ جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میاش کے دل میں آئندہ ان کا احترام پیدا ہوتا ہے یا احترام کی بجائے بدتمیزی کے رحجانات پیدا ہوتے ہیں.پس وہ قومیں جن میں پہلی نسلوں اور دوسری نسلوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں اُن میں ضروری نہیں کہ اسی قسم کی غلطیاں ہوں کچھ نہ کچھ غلطیاں ضرور ہوتی ہیں جن کے نیتو میں
بچے اس یقین کے ساتھ بڑے ہو رہے ہوتے ہیں کہ یہ دنیا خود غرضی کی دنیا ہے.اس میں شخص کا جو بس چاہے وہی کرے جس پر زور چلے وہ اپنا نے اور اپنی لذتیں ہمارے اپنے ہاتھ میں نہیں.ہمیں کسی اور پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں.وہ جب اس حالت میں بڑے ہوتے ہیں تو اپنے ماں باپ اُن کو بوجھ دکھائی دیتے ہیں.پرانے زمانے کی چیزیں دکھائی دیتے ہیں.جیسے پرانا استعمال شدہ فرنیچر لبعض دفعہ نظر کو تکلیف دیتا ہے ویسے ہی ماں باپ ایک پرانے فرنیچر کے طور پر دکھائی دینے لگتے ہیں.ایسا معاشرہ جنت سے دور بہٹ رہا ہوتا ہے.ایسا معاشرہ بہترین زمین ہے جس پر بد ترین چیزیں جڑ پکڑیں اور دن بدن ایسے معاشرے ہلاکت اور تباہی کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں.آپ نے عملاً پاک معاشرہ پیدا کرنا ہے اور اس پاک معاشرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی علمی تحقیق کی ضرورت نہیں.یہ چھوٹی چھوٹی عام سادہ ی باتیں ہیں حضرت رسول اکرم صلی الہ علیہ ولی کا رستم کا اور نہ ہی آپ کی تعلیم کے لئے کافی ہے.ہر اس موقعہ پر جب آپ کا اپنی اولاد سے رابطہ پیدا ہوتا ہے اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ اس پر آج ہی نہیں بلکہ کل کے لئے بھی اثر انداز ہو رہی ہیں تو یقیناً آپ کی طرز عمل میں ایک ذمہ داری کا احساس پیدا ہو گا.ماؤں کے قدموں تلے سے جنت چھین لینے والے مرد دوسری بات ایسی ہے جس کا عورت سے بھی تعلق ہے اور مرد سے بھی تعلق ہے.بعض دفعہ عورت ہیں جن کے پاؤں تلے جنت ہونی چاہیئے بدنصیب مردان کے پاؤں تلے سے جنت چھین لیتے ہیں اور ذمہ داری عورت پر نہیں ہوتی بلکہ ان بدنصیب مردوں پر ہوتی ہے جن کی اولاد ماؤں سے جنت حاصل کرنے کی بجائے جہنم حاصل کر لیتی ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو گھروں میں بد خلقی اور بدتمیزی سے پیش آتے ہیں ان کو اپنی بیویوں کے نازک جذبات کا احساس نہیں ہوتا.وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ انہیں زیادہ جسمانی طاقت حاصل ہے اس لئے وہ جس طرح
چاہیں اپنی ہیولوں سے سلوک کریں.اُن کی باتوں میں ملنی پائی جاتی ہے غصہ پایا جاتا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بگڑ جانا اور غصے کا اظہار کرنا ان کا معمول ہوتا ہے.اس کے نتیجہ میں اتنی خرابیاں رونما ہوتی ہیں کہ اگر آپ ان کا تخت کریں.ان کے پیچھے چلیں تو بہت بڑا مضمون ہے ہو آپ کے سامنے ابھرے گا.میں نے بارہا ان باتوں پر غور کیا ہے اور میںسمجھتا ہوں کہ گھر کی روز مرہ کی بد خلقی ہمارے معاشرہ کی اکثر خرابیوں کی ذمہ دار بن جاتی ہے.جن خاندوں کا ہیولوں کے ساتھ حسن و احسان کا تعلق نہ ہو.ان کے نازک جذبات کا احساس نہ ہو.اگر کبھی زیادتی بھی ہو جائے تو حوصلہ سے کام نہ لے سکیں وہ بھی اپنی اولاد کے لئے ماؤں کے قدموں تلے سے جنت چھین لیتے ہیں اور ایسے مرد بھی ماؤں کے قدموں تلے سے جنت چھین لیتے ہیں جو ماؤں کی بے راہ روی کو بغیر اظہار افسوس کے قبول کرتے چلے جاتے ہیں.پس ماں اور باپ کے تعلق کے توازن ہیں جو آئندہ نسلوں کے بنانے یا بگاڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں.جن گھروں میں مائیں مظلوم ہوں جب باپ اُن گھروں سے چلے جاتے ہیں تو مائیں اپنے بچوں کے کانوں میں ان بالوں کے خلاف باتیں بھرتی چلی جاتی ہیں اور یہ ایک ایسا طبعی قانون ہے جو تمام دنیا میں رائج ہے.ایسی نسل پیدا ہوتی ہے جو باپ کی باغی ہوتی ہے اور باغی نسلیں پھر ہر نظم وضبط کی ہر نظام کی باغی ہو جایا کرتی ہیں.مائیں سمجھتی ہیں کہ ہم نے اپنی اولاد کی زیادہ ہمدردی حاصل کر کے باپ سے اپنا بدلہ اتارا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنا بدلہ نہیں اتار رہیں بلکہ اولا دکور بر یاد کر رہی ہیں اور آئندہ کے لئے اُسے کسی کام کا نہیں چھوڑتیں.وہ اولاد جو اپنے باپ کے خلاف چاہے جائز شکایات ہی ہوں بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے لگ جاتی ہے اُسے مذہب کی بھی کوئی قدر نہیں رہتی ، معاشرے کی بھی کوئی قدر نہیں رہتی.اس کا احترام بالعوم اُٹھ جاتا ہے.اور ایک باغی طرز کے مزاج کے لوگ پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں.اب ان باتوں کو مزید بڑھا کر دیکھیں تو یہی مرد ہیں جو آئندہ کسی کے خاوند بننے والے ہیں.آئندہ عورتوں سے تعلق قائم کرنے والے ہیں تو اس ماں نے در حقیقت اپنا بدلہ خاوند سے نہیں اتارا بلکہ آنے والی معصوم
AV عورتوں سے اتارا ہے.اس نے ایسے بدتمیز بچے پیدا کردیئے جنہوں نے اس ظلم کو جاری رکھا جو ان کے باپ نے ماں سے روا رکھا تھا.اسی طرح اس کے برعکس بھی صورت حال ہوتی ہے مائیں بے راہ رو ہو جاتی ہیں اور خاوندان کو روکنے سے عاجز آجاتے ہیں کیونکہ شروع ہی سے بعض عوزر میں اس رنگ میں اپنے مردوں سے تعلقات قائم کرتی ہیں کہ گویا وہ ہر معاشرہ سے آئی ہیں وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں وہ زیادہ باتوں کو بجھتی ہیں.مرد میں نقائص ہیں اس کے با وجود انہوں نے قبول کر لیا.مرد کا خاندان نسبتا ملکا ہے اس کے باوجود وہ شہزادی اُن کے گھر گئی.وہ یہ باتیں منہ سے کہیں نہ کہیں ان کی طرز عمل بتا رہی ہوتی ہے کہ میں اونچی ہوں تم نیچے ہو اور وہ نیچے پھر ہمیشہ کے لئے واقعتہ نیچے ہو جاتے ہیں بڑی باتوں کو گھرمیں دیکھتے ہیں، خلاف اسلام باتوں کو رائج دیکھتے ہیں اور ان کو جرات نہیں ہوتی کہ ان کو روک سکیں.اب اندازہ کیجئے کہ ایسی اولاد جو ایسے گھرمیں پل رہی ہو وہ کیا سیکھے گی اور کیا سوچ کر بڑی ہوگی رفتہ رفتہ اس اولاد کے دل سے اس ماں کی عزت بھی اٹھ جاتی ہے.باپ کہے یا نہ کہے وہ بڑے ہو کر اس ماں کے خلاف گواہیاں دیتے ہیں اور دل سے جانتے ہیں کہ اس ماں نے نہ باپ سے صحیح سلوک کیا نہ حقوق ادا کئے نہ ہماری صحیح تربیت کی لیکن یہ سب کچھ جاننے کے با وجود ده بداثر کو بہتر اثر کی نسبت جلدی قبول کرتے ہیں.فطرت انسانی کا ایک اہم راز یں وقت کی رعایت سے اس خطاب کو نسبتاً چھوٹا کر وں گا لیکن یہ بات میں آپ کو سمجھانی چاہتا ہوں کہ ایک راز کو آپ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں یہ بات خوب یا درکھیں کہ جس طرح پانی نچلی سطح کی طرف بہتا ہے.اسی طرح فطرت انسانی میں یہ بات داخل ہے کہ مشکل چیز کو قبول کرنے کی بجائے اگر آسان چیز میسر ہو تو اسے قبول کرتی ہے.پس ماں اور باپ کے اخلاق میں سے جس کا اخلاق بد تر مو بالعموم وہی اولاد
۸۳ میں رائج ہو جاتا ہے.پس دونوں طرف کی کمزوریاں آگے جا کر جمع ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ضرب کھا جاتی ہیں اس لئے گھر کے معاشرے کو جنت بنانا کوئی معمولی بات نہیں ہے.بہت باریک نظر سے ان باتوں کو اور ان تعلقات کو دیکھنا چاہیئے.آخری فیصلہ اس بات سے ہوگا کہ آپ کا گھر آپ کے لئے جنت بنا ہے کہ نہیں.آپ کے خاوند کے لئے جنت بنا ہے کہ نہیں.آپ کے بچے آپ دونوں سے برابر پیار کرتے ہیں اور احترام کرتے ہیں کہ نہیں.اگر مردمیں کمزوریاں ہیں تو عورت حتی المقدور اُن سے صرف نظر کرتی ہے کہ نہیں لیکن کوشش ضرور کرتی ہے کہ ان کمزوریوں کو دور کرے.نیک اور پاک مخلصانہ نصیحت کے ذریعہ وہ اپنے خاوند کو سمجھاتی رہتی ہے اگر ایسا ہے تو اچھا ہے.اگر پہلی باتیں ہیں تو پھر وہ عورت اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کی اہل نہیں ہے.یہی حال مردوں کا ہے پس اگر چہ حضور کرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مردوں کا نام نہیں لیا اور عورتوں کا لیا ہے تو اس میں بڑی گہری حکمت ہے مگر گھر کی جنت بگاڑنے میں یقینا مرد بھی ایک بڑا بھاری کردار ادا کرتے ہیں اور عورت کا کام ہے کہ اپنی اولاد کی ان سے حفاظت کرے.حفاظت کیسے کی جائے ؟ یہ ایک بار یک نکتہ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.جب مرد کے نظام یامرد کی زیادتیاں کسی عورت کا دل ٹکڑے کڑے کر رہے ہوں تو مرو کے جانے کے بعد اس کا رد عمل یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ اپنی اولاد کی اس ظالم مرد کی عادتوں سے حفاظت کر رہی ہے کہ نہیں.اگر وہ اس اولاد کو اپنا ہمدر دنیا نے کی خاطر بڑھا چڑھا کر ان باتوں کو بیان کرے اور ظلموں کے قصے بنا کر ٹسوے بہائے اور انہیں اپنائے اور انہیں کہے کہ تمھارا ظالم باپ بنے تو اپنے ہاتھوں سے اس نے ان کو برباد کر دیا اور ان کی حفاظت کرنے کی بجائے مرد کے ظلموں کو ان تک پہنچنے کی اجازت دی.اگر وہ قربانی کرے اور مرد کے ظلم اور اولاد کے درمیان حائل ہو جائے.اپنے پر اپنے سینے پر مرد کے فلم نے لیکن اولاد تک ان کا نقص نہ پہنچنے دے تو اس کی مثال ایک ایسی مرغی کی طرح ہوگی جو کمز ور جانور ہے لیکن جب چیل اس کے بچوں پر جھپٹتی ہے تو اپنے پیروں تلے ان کو لے لیتی ہے.خود کتا ہی دُکھ اُٹھائے.خود چاہیے اس راہ
AM میں ماری جائے لیکن اپنے بچوں تک اس ظالم چیل کا نقصان نہیں پہنچنے دیتی سوائے اس کے کہ مرنے کے بعد وہ ان سے جو چاہے کرے.یہ وہ سچی ماں ہے جو ایک جانور کے اندر میں کھائی دیتی ہے.اسے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرنے والی خواتین ! کیا تم جانوروں میں سے ایک بچی ماں کے برابر بھی نہیں ہو سکتی ؟ کیا حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی غلامی کے ہی تقاضے ہیں کہ ماں کی حیثیت سے جوانی دنیا میں جو عظیم نمونے نہیں ملتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لونڈیاں اور آپ کی غلام عورتیں ان نمونوں کو بھی اپنا نہ سکیں ؛ آخری فیصلہ اس بات سے ہوگا کہ آپ اپنی اولاد اور بداثرات کے درمیان حائل ہو کر ہر قیمت پر اپنی اولاد کو ان بداثرات سے روک سکتی ہیں کہ نہیں روک سکتیں.پس بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو گھروں کو بناتی ہیں یا بگاڑتی ہیں.اس مختصر نصیحت میں مجھے پتہ ہے کہ وقت زیادہ ہے لیکن پھر بھی میں مختصر نصیحت کہنا چاہتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ مضمون بہت ہی لمبا ہے اور تھوڑے وقت میں تفصیل سے بیان نہیں ہو سکتا، یہ نمونے میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں ان کو بڑھا لیں اور بیدار مغربی کے ساتھ اپنے گھروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ان توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے ساتھ وابستہ ہیں.آخری نتیجہ اس کا یہ نکلے گا کہ اگر آئندہ نسل جہنم کی طرف قدم بڑھانے ای من و تو حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ علیہ وسلم زبان حال سے آپ کو مطعون کر رہے ہوں گے ، آپ سے شکوہ کر رہے ہوں گے کہ اے میری طرف منسوب ہونے والی ماؤں تم نے اپنے پیچھے جنت نہیں چھوڑی.تمہارے پاؤں سے جہنم کی لپیٹیں تو نکلیں لیکن جنت کی تسکین بخش ہوائیں زچلیں.اس لئے کیا آپ اس شکوہ کے مقام پر اپنے آپ کو دیکھنا چاہتی ہیں کہ نہیں.اس کسوئی کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں تو ہر بات میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا مزاج آپ کی راہنمائی کرے گا.اس مزاج میں اپنے آپ کو ڈال کر سوچا کریں کہ میرا آقا و مولا اس موقع پر مجھ سے کیا توقع رکھتا ہے.
۸۵ لجنہ اماء اللہ ہندوستان کی ترقیات دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا تھا اور اب مختصر بیان کروں گا کہ جہاں تک لجنہ کا تعلق ہے مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ ہندوستان کی تمام لبنات مسلسل ترقی کی طرف قدم اٹھارہی ہیں.ان کی قیادت بھی بڑی لکھی ہوئی اور علیم قیادت ہے.ہر طرف برابر نظر ہے اور بغیر شور کے اور بغیر دکھائے کے مسلسل ٹھوس پروگرام لبنات کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں.ان کی تحمل طریق پر نگرانی کی جاتی ہے کمزور اور کی نشاندہی کی جاتی ہے مگر فتنے دلا کر نہں یا غصے کا اظہار کرکے نہیں.خدا کرے کہ آپ کی سرابنہ کو ایسی ہی قیادت نصیب ہوا در لجنہ میں کہیں بھی ایسی قیادت نا ہے جو حکم کا طریق اختیار کرے بلکہ محبت اور پیار کے ساتھ سمجھا کہ آگے بڑھاناہی بھی قیادت کا راز ہے.جہاں تک میں نے لجنہ اماءاللہ ہندوستان کی رپورٹوں کا جائزہ لیا ہے مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے قدم ترقی کی جانب ہے.قادیان میں بھی مجلس عاملہ کی جو میرات ہیں مجھے ان کی رپورٹیں پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے ان کی کارروائیوں کا بغور مطالعہ کرتا ہوں اور خدا کے فضل کے ساتھ مجھے ہر چیز درست ٹھیک اپنے مقام پر بیٹھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.خدا کرے کہ یہ جو غیر معمولی عطا آپ کو خدا کی طرف سے نصیب ہوئی ہے آپ اس کی شکر گزار بنے کی کوشش کریں اور اگر آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اس مصلایت کا شکر ادا کریں گی تو یہ صلاحیت مزید بڑھے گی اور نشو و نما پائے گی.میں نے ختلف مواقع پر صیحتیں کی ہیں.بجنات کو بعض خاص پروگرام دیئے ہیں.میں رپوٹوں کی ترسیل اور مضمون نگاری سے اس بات کا جائزہ نہیں لیتا کہ واقعتہ اُن باتوں پرمل کیا گیا ہے یا نہیں بلکہ میں آخری اعداد و شمار کی صورت میں دیکھتا ہوں کہ کیا واقعہ کچھ پیداہوا
A4 یا وہی پہلے والا حال ہے.اس نقطہ نگاہ سے یکی ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ علمی اور تربیتی لحاظ سے جو پروگرام دیے گئے ہیں ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماء اللہ ہندوستان نے کیا کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں.جہاں تک تربیت کا تعلق ہے.بھارت میں قرآن کریم ناظرہ جاننے والی احمدی خواتین کی تعداد ۸۱۹ ۲ تھی.اس ایک سال میں آپ اندازہ کریں کہ کتنی بہی اور تفصیلی محنت سے کام لیا گیا ہوگا کہ اب یہ تعداد بڑھ کر ۳۳۵۲ ہو چکی ہے.ایک سال کے عرصہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی زیادہ خواتین کو جو پہلے قرآن نہیں جانتی تھیں قرآن سکھانا ایک بہت ہی عظیم سعادت ہے اور یہ جنت بنانے کا دوسرا پہلو ہے.پہلا پہلو تھا منفی اثرات سے اپنی اولاد کو بچانا.دوسرا پہلو ہے ایسی مثبت باتیں عطا کرنا جن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُن کے مستقبل کی حفاظت ہو گی اور وہ یہ طریق ہے کہ بچپن ہی سے قرآن کریم کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں حضرت محمد رسول اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت ان کے دل میں پیدا کریں.خداتعالی کا گہرا پیار ان کے دل میں جاگزیں کر دیں کیونکہ اسی کے پیار سے پھر باقی سب پیار چھوٹتے ہیں.خدا سے سچا پیار ہو تو ہر خدا والے سے پیار ہو جاتا ہے.خدا والوں سے پیار ہو تو ان کی عادات اپنانا زندگی کا ایک بہترین مشغلہ بن جاتا ہے.پس ٹھوس تربیت کا مطلب محض نیک نصیحت کرنا نہیں بلکہ عملاً کچھ پیدا کر کے دکھانا چاہئے.پس وہ احمدی خواتین جن کے گھرمیں قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کی عادت نہیں اس پہلو سے وہ گھر ویران ہیں اور آئندہ وہ ویران نسلیں پیدا کریں گی.ان میں معاشرے کی بدیاں نہ بھی پائی جائیں وہ بیچتے ایک خلالے کر اُٹھیں گے اور خلاؤں کو اگر آپ نے خوبیوں سے نہ بھرا ہو تو بعد میں بدیاں ان خلاؤں کو بھر دیا کرتی ہیں.ایسے بچے محفوظ نہیں ہیں.جہاں تک آپ کے گھر میں پہلے مان لیا کہ آپ نے ان کو کوئی برائی نہ دی.آپ برائی اور ان کی راہ میں حائل رہیں لیکن اگر ٹھوس نیکیاں اور ٹھوس خوبیاں ان کو عطا نہ کیں تب بھی اُن کی آئندہ حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہے.پس
AL ایسے کام ہیں جن کی مجھے بعد سے توقعات میں بچپن ہی سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز ان کے کانوں میں گونجنی چاہیئے.وہ ایسی ماؤں کی گود میں ملیں جن کو خدا سے محبت ہو اور خدا والوں سے محبت ہو.وہ بچپن میں ایسے ذکر اُن سے کرتی چلی جائیں یہ وہ اولاد ہے جو لاز کا اپنی ماؤں کے پاؤں تلے سے جنت حاصل کرلے گی.قرآن کریم با ترجمہ جانے کے سلسلہمیں بھی لجند اما راللہ نے بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے.ان کی رپورٹ کے مطابق ، ۱۲۵ کی تعداد میں ایسی خواتین کو ترجمہ سکھایا گیا جن کو اس سے پہلے ترجمہ نہیں آتا تھا.مالی قربانی کے متعلق نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہندوستان کی لغات میں سے سب کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن قادیان کی لجنہ کے متعلق کہ سکتا ہوں کہ نالی قربانی میں یہ بے مثل نمونے دکھانے والی ہے.قادیان کی جماعت ایک بہت غریب جماعت ہے لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی تحریک کی جائے یہاں کی خواتین اور بچیاں ایسے ولولے اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیتی ہیں کہ بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کو روک دوں کہ بیس کرو تم میں اتنی استطاعت نہیں ہے اور واقعتہ مجھے خوشی کے ساتھ ان کا فکر بھی لاحق ہو جاتا ہے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں کی ہیں وہ جانے بلکہ وہ جانتا ہے کہ کس طرح ان کو بڑھ چڑھ کر عطا کرنا ہے.وہی اللہ اپنے فضل کے ساتھ ان کے مستقبل کو دین اور دنیا کی دولتوں سے بھر دے گا.ایک موقعہ پر جب میں نے مراکز کے لئے تحریک کی تو احمدی بچیوں نے جو چھوٹی چھوٹی کھجیاں بنا رکھی تھیں، جیب نظارہ تھا کہ گھر گھر میں وہ کجھیاں ٹوٹنے لگیں اور دیواروں سے مار مار کر کجھیاں توڑ دیں.چند پیسے ، چند سکے جو انہوں نے اپنے لئے بچائے تھے وہ دین کی خاطر پیش کر دیے.ہمارا رب بھی کتنا محسن ہے، کتنا عظیم الشان ہے.بعض دفعہ بغیر
٨٨ محبت اور ولولے کے کروڑوں بھی اس کے قدموں میں ڈالے جائیں تو وہ رد کر دیتا ہے اٹھو کر بھی نہیں مارتا.ان کو کوئی حیثیت نہیں اور ایک مخلص ایک غریب پیار اور محبت کے ساتھ اپنی جمع شدہ پونچی چند کوڑیاں سبھی پیش کرے تو اسے بڑھ کر پیار اور محبت سے قبول کرتا ہے جیسے آپ اپنے محبت کرنے والے محبوبوں کے تحفوں کو لیتے اور چومتے ہیں.خدا کے بھی چومنے کے کچھ رنگ ہوا کرتے ہیں اور میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان معنوں میں خدا نے ان چند کوڑیوں کو ضرور چکھا ہوگا.بظاہر یہ اصطلاح خدا پر صادق نہیں آتی مگر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ دستم نے اسی رنگ میں کئی مرتبہ خدا کا ذکر فرمایا ہے کہ فلاں نظارہ دیکھ کر خدا بھی حرکش پر سہنس پڑا.اور ایک موقعہ پر حضرت مصلح موعود ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) نے یوں فرمایا کہ کہ ایک صحابی کی مہمان نوازی اس انداز کی تھی کہ آسمان پر خدا سبھی مچا کے لینے لگا.یعنی اچھا مزیدار کھانا کھاتے ہوئے جس طرح انسان بعض دفعہ بے تکلفی سے منہ سے بچا کے مارتا ہے اسی طرح اللہ تعالی عرش پر اپنے اس پیارے کی مہمان نوازی کے نظارے دیکھ کر مچا کے لینے لگا تو ان معنوں میں میں یقین رکھتا ہوں کہ ان بظاہر چھوٹی چھوٹی قربانیوں کو خدا تعالیٰ نے لازماً چوما ہوگا اور پیار کا ہوگا اور یہی پیار ہے جو آئندہ ان بچیوں کے نصیب جگائے گا.ان کے گھروں کو جنت ہی میں تبدیل نہیں کرے گا بلکہ جنت عطا کرنے والے گھر بنا دے گا پس یہ اس جنت کا دوسرا پہلو ہے جو آپ کے پاؤں تلے ہے اور آپ کے پاؤں سے وابستہ ہو چکی ہے منفی پہلو سے حفاظت ہی مقصد نہیں بچوں کو چوگا ڈالنا بھی تو ضروری ہے اور پرندس میں میں نے یہ دیکھا ہے کہ جب بچے چھوٹے ہوں تو وہ خود کرد ہونے شروع ہو جاتے ہیں.بعض پرندے ایسے ہیں جن میں اُن کی مادائیں بھی اور تر بھی دونوں سارا دن جنگ جنگ کر اپنے بچوں کی چونچ میں ڈالتے چلے جاتے ہیں خود کمزور ہور ہے ہوتے ہیں لیکن ان کی خاطر قربانی کرتے چلے جاتے ہیں.پس روحانی رزق کے چوگے ہیں جو آپ نے اپنے بچوں کے منہ میں بچپن ہی سے ڈالتے ہیں.قربانی کی یہ ادائیں اگر آپ بچپن میں ان کو سکھا دیں تو مرتے دم
٨٩ یک انکو قربانی کی لذتوں کی ایسی عادت پڑھائے گی کہ اس سے وہ چاہیں نبی تو چٹ نہیں سکیں گے.ہندوستان کی احمدی خواتین کا ایک قابل قدر نمونه جہاں تک (دعوت الی الله - ناقل) کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہندوستان کی خواتین بڑی مستعدی کے ساتھ دعوت الی اللہ- ناقل) میں مصروف ہو چکی ہیں اور اس وقت تک ۱۸۳ - ایسی داعیات الی اللہ ہیں جنہوں نے اپنے عہدوں کو پورا کیا ہے اور واقعتہ (دعو الی اللہ.ناقل) کے کاموں میں مصروف ہو چکی ہیں.ان کو خدا تعالیٰ جس قسم کے پھل عطا کر رہا ہے اس سلسلہ میں ایک نمونہ کو دیکھ کر میری روح وجد میں آگئی.بنگال کے ایک گاؤں کانگولی بنگہ میں ایک بیوہ خاتون نے بیعت کی اور احمدی دعوت کرنے والوں کی وجہ اس تک پیغام پہنچا یا شاید کسی (مرتی.ناقل) کے ذریعہ پہنچا ہو گا لیکن وہ آئندہ دعوت الی اللہ ناقل) کا مرکز بن گئیں اور اس خاتون کی (دعوت الی الله - ناقل) سے مزید تین عورتوں نے بیعت کر لی جس کے نتیجہ میں گاؤں کے بعض مردوں اور مولویوں نے شدید مخالفت شروع کر دی یہاں تک کہ ان تینوں مستورات کے خاندوں نے ان کو یہ دھمکی دی کہ ہم تمہیں طلاق دے کر گھروں سے نکال دیں گے اور ہمارا ہمیشہ کے لئے تم سے تعلق منقطع ہو جائے گا.انہوں نے کہا طلاق دنیا کیا چیز ہے تم اگر ہمارے سر بھی تن سے جدا کر دو تو جب امام مہدی سے تعلق نہیں توڑیں گی اور جو زور لگتا ہے لگاؤ سم لازما (دعوت الی اللہ.ناقل) کریں گی اور اس دین کو آگے پھیلاتی چلی جائیں گی.چنانچہ خدا کے فضل کے ساتھ ایک تھوڑے سے عرصے میں اُن تین عورتوں نے مل کر یہیں سے زیادہ گھروں کو احمدیت سے وابستہ کر دیا.احمدی خواتین نیکی کے سر میدان میں مردوں سے آگے بڑھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی خواتین میں استطاعت ہے اگر وہ چاہیں تو عظیم انقلاب
رونا کرسکتی ہیں.آپ کی بھتی ہیں.آپ گھروں میں بٹھائے رکھنے والی عوز میں ہیں ؟ آپ کو میدان جہاد حب اپنی طرف بلا رہا ہو تو دنیا کا کوئی مولوی اگر اس کے خلاف فتوی دے تو آپ اس کے منہ پر آپ تھوکیں بھی نہیں.اس کی قطعاً پرواہ نہ کریں.احمدی خواتین کو بیکار کرنے کے لئے قرآن کریم میں کہیں کوئی تعلیم نہیں ہے.احمدی یعنی (ایمان لانے والی..ناقل) خواتین سے اللہ تعالیٰ ہر صحت مند میدان میں مردوں سے آگے بڑھنے کی توقع رکھتا ہے.کیونکہ مسلمانوں کو برابر یہ مطمع نظر عطا کیا گیا کہ بِكُلّ وَجْهَةُ هُوَ مُوَتِيْهَا فَاسْتَبِقُوَ الْخَيْرَاتِ.(سورۃ البقرہ آیت ۱۴۹) اب دیکھیے ! آپ ذرا غور تو کریں ! یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے مردوں کے لئے ایک مطلع نظر مقر فرمایا ہے.لفظ اتنے خوبصورت استعمال کئے ہیں جو ہر شخص پر برابر چسپاں ہوتے ہیں.فرمایا ، لكل رجمة : بر شخص کے لئے ہم نے ایک مطمع نظر رکھ دیا ہے.ہر قوم کے لئے ایک مقصود بنا رکھا ہے اور اسے محمد مصطف صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے غلامو تمہارے لئے مقصود یہ ہے کہ تم نے ہر حال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے.پس اگر آپ اس گلی میں داخل ہیں اوریقینا اس کی میں دخل ہیں تو نیکی کے میدان میں مردوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا خدا کی طرف سے بطور راضیہ آپ پربند کر دیاگیا ہے پس اگر دعوت الی اله ناقل) کے میدان میں مرد پیچھے رہ رہے ہیں تو اُن کو پچھے چھوڑ دیں اور آپ نکلیں اور اس ملک میں دین حقی..ناقل) اور احمدیت کا سچا نور پھیلانے کی ذمہ داری اپنی ذات کے لئے قبول کرلیں.میں نے اس سے پہلے ایک خطاب نہیں یہاں عورتوں کو تاریخ اسلام کی ایک درخشندہ مثال بنائی تھی وہ آپ کو بھی بتاؤں گا اور اس کے بعد پھر آپ سے اجازت چاہوں گا.ایک ایسا موقعہ آیا تھا جبکہ میدان جنگ سے مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑ گئے.بعض دفعہ ایسا مجبوری کی حالت میں بھی ہو جاتا ہے.بعض دفعہ دشمن کی طرف سے ایسا ریلا آتا ہے کہ جان دینے کی خواہش رکھنے والے بھی اس کو سنبھال نہیں سکتے اور ان کے پاؤں اکھڑ جایا کرے ہیں بس اُن پر الزام کی صورت میں میں بات نہیں کر رہا ، ایک واقعہ آپ کو بتاتا ہوں کہ ان
سے پیچھے مسلمان خواتین کے نیچے تھے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان مجاہدین اپنے خیموں کی طرف دوڑے چلے آرہے ہیں تو محمد مصطفے صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک سہنی غلام عورت نے اپنی ساتھیوں کو کہا کہ تم اپنے خیموں کے ڈنڈے اکھیڑ لو اور ان مردوں کو یہ بتا دو کہ اب تمھارے لئے دو موتوں میں سے ایک لاز کا مقدر ہے یا دشمن کے ہاتھوں مارے جاؤ گے اور شہید کہلاؤ گے یا ہمارے ڈنڈوں سے مر کر مردود موت کو قبول کرو گے اب بتاؤ تمہیں کیا کرنا ہے.یہ آواز جب مردوں کے کان تک پہنچی تو اس طرح پلٹے ہیں جس طرح کوئی بھوکا غذا کی طرف لوٹتا ہے اور اس شان کے ساتھ انہوں نے اس میدان میں جانیں دی ہیں کہ اس میدان کا یکسر پانسہ پلٹ کر رکھ دیا.اس ذلت ناک شکست کو ایک عظیم فتح میں تبدیل کردیا پس اے احمدی خواتین ! میں تم سے توقع رکھتا ہوں، خدا کا رسوں تم سے توقع رکھتا ہے، کہ تم اس بات کی پروا نہ کرو کہ مر تمہیں کیا کہتے ہیں بلکہ تم ہر اس نیکی کے میدان میں جس میں مرد غافل ہو رہے ہیں آگے بڑھنے کی کوشش کرو.ہر نیکی کے میدان میں نئی فتوحات حاصل کرو یہاں تک کہ تمھارے مردوں میں بھی غیرت جاگ اُٹھے اور وہ بھی دین کی حیثیت میں اور دین کے دفاع میں تم سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اگر تم ایسا کرو تو ہندوستان چند صدیوں کی بات نہیں چند دھاگوں میں اسلام کے قدموں میں پڑا ہوا ہوگا.اور اس فتح کا سہرا تمہارے سر پر لکھا جائے گا.اے احمدی خواتین !تمہارے سر پر اس کا سہرا ہو گا.اسے احمدی خواتین !
۹۲ کوئی مرد دولہا اس سہرے کا حقدار نہیں یہ احمدی دو بہنیں محمد مصطفے صلی للہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دین کی خاطر نیکیوں سے سجی ہوئی دولہنیں ہیں جن کے سر اس فتح کا سہرا باندھا جائے گا.خدا کرے کہ آپ کو بھی یہ سہرا نصیب ہو اور مردوں کو بھی یہ سہرا نصیب ہو.
ملّت واحدہ خطاب حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع ایک اللہ تعالیٰ بنصر لا العزيز فرموده امام جماعت احمدیہ عالمگیر ستمبر ١٩٩ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء الله جر منی بمقام ناصر باغ، جرمنی
حضور انور کے اس خطاب کے چند اہم نکات ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں اللہ تعالی کی نورانی صفات میں سے ایک لاشَرقِیةٍ وَلَا غَربيةٍ ہے یعنی خدا تعالیٰ مشرق کا بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ مغرب کا اسی طرح حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بھی پوری دنیا کے لئے ایک پیغمبر ہیں آپ نہ مشرقی رجحانات رکھتے ہیں اور نہ مغربی بلکہ آپ کے تو انہی بلکہ آپ کے تو انہی رجحانات ہیں آپ کے دین کو بھی وسطی دین قرار دیا گیا.قرآنی آیت لَا شَقِيةٍ ولا عربية میں دنیا کے مسائل حل کرنے کا ایک بہت ہی عظیم الشان نسخہ بیان فرما دیا گیا ہے مشرق بھی خدا کا ہے اور مغرب بھی خدا کا ، ان دونوں کو ضرور ملا دیا جائے گا یہ خدا کی تقدیر ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا..اس تقدیر الہی کی رو سے بالآخر سچی (دینی...ناقل) تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا پاک اسوہ دنیا میں پھیلایا جائے گا اسی اسوۂ حسنہ کے غلبہ کے نتیجہ میں دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہو گی جہاں مشرق و مغرب کی تمیزیں مٹا دی جائیں گی اور دنیا میں انسان ملت واحدہ کا فرد بن کہ زندگی بسر کرے گا یہ تقدیر ان احمدیوں کے ذریعہ ظاہر ہوگی اور ہو رہی ہے جو تمام دنیا میں اس غرض کے لئے پھیلا دیئے گئے ہیں.ہر احمدی جو مغرب کا سفر اختیار کرے یا مشرق کا وہ بلا امتیاز مذہب و ملت اور بلا امتیاز قومیت وہ ہمیشہ خدا کا نمائندہ بنا رہے.(احمدی) اپنی قومیتوں کو اپنے مذہب میں مدغم نہ کریں.آئندہ نسلوں کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ آج کی ماؤں نے کرنا ہے آج کی بہنوں نے کرنا ہے وہ پاک عورتیں جو محمد کی امتی اور غلام ہیں جو پر دیانت داری اور تقوی کے مطابق عمل کرنے والی ہیں ان کے پاؤں تلے جنت ہے.الحياء خير لله یعنی حیا ایک ایسی انسانی خوبی ہے جو تمام تر خیر ہی خیر ہے - به خوبی مغرب سے عنقا ہوتی جا رہی ہے جیا کو ہرگز مرنے نہ
۹۵ دیا جائے کیونکہ حیا کے ساتھ انسانی کردار کا گہرا تعلق ہے.عورت کی سب سے زیادہ حفاظت حیا کرتی ہے حیا کا پردہ طاہری پردہ کے بغیر دیر تک نہیں رہتا.رفتہ رفتہ مٹ جاتا ہے حیا ایک احمدی خانون کاسب سے بڑا ہتھیار ہے آپ یہاں احمدی معاشرے کی حفاظت کریں.جماعت کے طور پر بھی اور افراد جماعت کے طور پر بھی حیا کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے ایک جہاد شروع کریں نظام اسلام کا موسم ملکوں کے فرق سے تبدیل نہیں ہو سکتا.نظام جماعت کو یہاں نئے آنے والوں کا شروع سے ہی نگران ہونا چاہیئے اور ان کی تربیت میں حصہ لینا چاہیئے جبر ر اسلام میں جائز نہیں سب سے بڑی قوت سیتی پاک نصیحت کی قوت ہے خالصتاً انسانی ہمدردی کے زیر اثر دینی..ناقل) معاشرے کی حفاظت کی خاطر پاک دل سے درد ناک طریق پر نصیحت کریں.اصل ہتھیار دنیا کے ہر ملک میں یکساں قوت کے ساتھ کارگر نصیحت ہی ہے جو.ر سکتا ہے.عورتوں کا زبان کے جسکے کی خاطر دوسروں کے بارے میں (غلط اور بلا جواز) باتیں کرنا سراسر نا جائز ہے اس سے سوسائٹی میں گندی جھوٹی اور し حد سے زیادہ مبالغہ آمیز باتیں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں (جس کے بد اثرات سوسی کو ویرانوں میں تبدیل کر دیتے ہیں.اسلام تجسس کی اجازت نہیں دیتا لیکن حکم ہے کہ جب کوئی فاسق خبر پہنچائے تو تبیین کر لیا کرو پہلے پوری تحقیق کر لیا کرو تا کوئی معصوم بلا وجہ مصیبت کا نشانہ نہ بنے ایسی سوسائٹی میں جہاں نظام جماعت فوراً حرکت میں آئے بدی نہیں پھیل سکتی
१५
تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا ہر اللہ تعالی کی نوری صفات کی جلوہ گری اور اثرات اللہ تعالیٰ کا جو نور حضرت اقدس محمد مصلح صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے روحانی سانچے میں ڈھالا گیا اس کا ذکر قرآن کریم میں بہت ہی خوبصورت انداز میں ملتا ہے.سورۃ النور کے آغاز میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ صفات جو سراسر نور ہیں وہ انسان میں بھی جلوہ دکھا سکتی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی نوری صفات سے اپنی صفات کو رنگین کرلے اور اپنے وجود کو اس نور کے سامنے غائب کرے.یہ واقعہ کامل طور پر حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ظاہر ہوا.اللہ تعالیٰ کی جو تورانی صفات بیان فرمائی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ " لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّة ، یعنی خدا تعالی مشرق کا بھی دلیسا ہی ہے جیسا کہ مغرب کا ہے.دو سے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہ تو مشرق کا ہے نہ مغرب کا بلکہ سب کے درمیان سانجھا ہے، برابر ہے.اسی طرح حضرت محمد مصلے صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم بھی پوری دنیا کے لئے ایک تغیر کے طور پر ظاہر ہوئے.آپ نہ صرف مشرق کے ہیں نہ مغرب کئے
۹۸ آپ دونوں کے سنگم ہیں.دونوں میں یکساں ہیں دونوں کے حقوق برا برادا کرنے والے ہیں.کسی کے ساتھ جنبہ داری کا سلوک برتنے والے نہیں ، کامل انصاف کے ساتھ دونوں کے معاملات نپٹانے کی اہلیت رکھنے والے ہیں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہ وہ صفت ہے جسے اللہ کے نور کے طور پر بین فرمایا گیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ خداتعالی مشرق اور مغرب دونوں کا خالق ہے لہذا جس طرح خدا تعالیٰ کے بارہ میں سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ اپنی ایک مخلوق اور اپنی دوسری مخلوق کے درمیان فرق روا رکھے، اس کی سب مخلوقات اس کے نزدیک برابر ہیں اسی طرح جو انسان خدائی صفات میں رنگین ہو ہو جائے اور بالخصوص اس صفت سے بھی حصہ لے تو اُس کے دل سے ہر قسم کی عصبیت مٹ جاتی ہے.نہ قومی عصبیت باقی رہتی ہے ، نہ نسلی عصبیت باقی رہتی ہے ، نہ مذہبی صبیت باقی رہتی ہے ، نہ جغرافیائی عصبیت باقی رہتی ہے.کوئی class distinction طبقاتی تفریق ) باقی نہیں رہتی کہ جو انسانوں کے ایک طبقہ کو اسی ملک کے دوکے طبقوں سے جدا کردے.عصبیت کا زہر اور اس کا قرآنی علاج قرآنی آیت کے اس چھوٹے سے حصّہ (لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَيْبِيَّة ) میں دنیا کے مسائل حل کرنے کا ایک بہت ہی عظیم الشان نسخہ بیان فرما دیا گیا ہے جسے اگر اہل دنیا اختیار کر لیں تو آج کی دنیا کے بیشتر مسائل صرف اس حصہ پر عمل پیرا ہونے پر حل ہو سکتے ہیں جب کہ آپ سب جانتے ہیں آج دنیا کی سیاست میں عصبیت بعض جگہ ظاہری طور پراثر دکھا رہی ہے.وہ قومیں جو نسبتا کم ترقی یافتہ ہیں اور سیاست کے اصولوں سے پوری طرح واقف نہیں ہیں وہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی عصبیتوں کو چھپائیں اور چھپانے میں کامیاب ہوں وہ اپنی عصبیتوں کو ابھارتی ہیں اور عصبیت سے طاقت حاصل کر کے قومی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں.
۹۹ ایسے لوگوں اور قوموں کو ترقی یافتہ دنیا بد تہذیب کہتی ہے اور ان سے اب سلوک کرتی ہے کہ گویا یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں ان بیچاروں کو پتہ ہی نہیں کہ دنیا متمدن ہو چکی ہے اور اتنی ترقی کر چکی ہے کہ اس میں عصبیتوں کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے اور آپ کو مہذب اور متمدن سمجھنے والی دنیا جب اس کم ترقی یافتہ دنیا پر ہنستی ہے تو وہ اس پر بلاجواز ہنس رہی ہوتی ہے.ترقی یافتہ دنیا چونکہ بہتر سیاستدان ہے.بہتر ڈپلومیٹ ہے اس لئے اس دنیا میں اور اُس پرانی دنیا میں جسے یہ غیر متمدن کہتی ہے فرق ہے تو صرف اتنا کہ یہ دنیا اپنی عصبیتوں کو چھپانے میں کامیاب ہو جاتی ہے ، ایسی زبان استعمال کرنے کا یہ ملکہ رکھتی ہے کہ جس کی مدد سے ایک طرف تو عصبیت کے خلاف جہاد جاری رکھا جائے اور دوسری طرف خود اپنے مفادات میں بلاشک و امتیاز عصبیت برتی جائے ، پس آج کی دنیا بھی عصبیت سے پاک نہیں ہے.جہاں تک تیسری دنیا کا تعلق ہے وہ سادہ دیوقوف ہے اُسے سیاست کاری کا فن نہیں آتا احمقوں کی طرح جو کچھ دل میں بھرا ہوا ہے (خواہ وہ عصبیت ہو، اسے اپنی زبان سے ظاہر کرتی چلی جاتی ہے.اُس کی طرف سے عصبیت کا یہ اظہار خود اس کے اپنے خلاف استعمال ہونے لگتا ہے.اب رہی وہ دنیا جو تہذیب کی علمی ار بنتی ہے اور حیس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ عصبیت سے پاک ہے، فی الحقیقت عصبیت سے وہ بھی پاک نہیں ہے.اگر فرق ہے تو صرف اظہار یا عدم اظہار کا فرق ہے.یعنی کوئی اپنی عصبیت کو ظاہر کر دیتا ہے اور کوئی اپنی چرب زبانی سے اپنی عصبیت پر پردہ ڈالے رکھتا ہے.جو اپنی عصبیت کو چھپانے کا فن جانتا ہے اور اُسے بات کرنے کا ایک سلیقہ آتا ہے کہ جس سے اس کی عصبیت چھپی رہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا کہ واقعی وہ عصبیت سے پاک ہے.پس بنیادی طور پر دنیا آج بھی عصبیتوں کی دیسی ہی شکار ہے جیسی آج سے سو سال پہلے بھی یا ہزار سال پہلے تھی.آج بھی دنیا کو عصبیتوں سے ویسا ہی خطرہ درپیش ہے جیسا آج سے چالیس پچاس سال پہلے درپیش تھا یا جیسے اس سے بھی پہلے
بار ہا دنیا کو عصبیت کی وجہ سے خطرات پیش آتے رہے.مسلمان ملکوں اور ان کے رہنماؤں کا طرز عمل جہاں تک مسلمان ملکوں کا تعلق ہے ان سے نہیں دہر اشکوہ ہے، وہ بھی تیسری دنیا کی طرح جذبات میں بہہ کر نہ صرف اپنی عصبیت کے خیالات کو اپنی زبان سے ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان جذبات اور خیالات کو اسلام کے نام پر دُنیا کے سامنے بڑی شدت کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں جو ایک بہت ہی بھیانک جرم ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے ثابت کیا ہے قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس دین کے متعلق جو آپ کو عطا کیا گیا، واشگاف الفاظ میں یہ ظاہر فرما دیا تھا الا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةِ) یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہ مشرقی رجحانات رکھتے ہیں اور نہ مغربی رحجانات رکھتے ہیں بلکہ آپ کے تو الہی رحجانات ہیں.آپ دنیا کے بندے نہیں بلکہ خدا کے بندے بن چکے ہیں.خدائی صفات نے آپ کی ذات میں جلوہ گر ہو کر آپ کو انصاف کا وہ اعلیٰ مقام عطا کر دیا ہے کہ جو کبھی نہ مشرقی عصبیت کی بات کرے گا اور نہ مغربی عصبیت کی بات کرے گا.اسی طرح آپ کے دین کو بھی ایسا وسطی دین قرار دیا گیا جو نہ دائیں طرف جھکتا ہے ، نہ بائیں طرف جھکتا ہے بلکہ وسط کی ، عدل کی راہ پر جاری وساری ہے.اس کے ہوتے ہوئے اگر مسلمان ممالک اور ان کے راہنمایا اُن کے مذہبی علماء ایسے بیانات جاری کریں جن کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ عصبیت کے پکنے والے پھوڑے دنیا پر ظاہر ہوں بلکہ وہ ایسی زبان میں ان کو ظاہر کریں کہ جس کی وجی سے اس کی تمام تر ذمہ داری اسلام پر عائد ہوتی ہو.مثلا السلام کے نام پر جہاد کا اعلان کرتے ہوئے وہ اپنے دلوں کے سیاسی غبار نکالیں تو وہ دہرے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں.ایک طرف تو ان کا ملک بدنام ہوتا ہے.دوسری طرف اس کی زد خود اسلام پر پڑتی ہے.جہاں تک ملک کے بدنام ہونے کا تعلق ہے وہ اس سے ہی ظاہر ہے کہ جذبات اور جوش
پرسینی ان کی سیاست ناکام ہو کر رہ جاتی ہے.آج کل کی دنیا میں اصل لڑائی سیاست کی لڑائی ہے.سیاست میں مقابلہ ہوش سے ہوتا ہے جوش سے نہیں ہوا کرتا.اعلیٰ درجہ کا سیاستدان ہوش سے کام لے کر اپنے لوگوں کو دشمن سے محفوظ بنانے کی کوشش کرتا ہے.اس لئے مسلمان ملکوں کے عوام اور ان کے رہنماؤں کو ( اگر وہ کامیاب ہونا چاہتے ہیں عقل سے کام لینا ہو گا اور عقل کی سیاست کرنا ہوگی محض جوش و خروش کے اظہار سے کچھ نہیں ہو گا یہ لوگ جب اپنے منتقمانہ اور غصہ سے بھرے ہوئے خیالات کو اسلام سے منسوب کر کے جوش و خروش کا اظہار کرتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ صدمہ اسلام کو پہنچتا ہے اور پھر اس کا سب سے زیادہ صدمہ جماعت احمدیہ کو پہنچا ہے جو دنیا میں حقیقی دین حق - ناقل) کی علمبردار ہے ہم نے تو اپنے آپ کو دنیا بھر میں اسلام کے متعلق پھیلی ہوئی غلط فہمیاں دور کرنے کے لئے وقف کر رکھا ہے.جب خود مسلمانوں کی غلط روش کی وجسے غلط فہمیاں پیدا ہو کر ہمارے راستے میں نئی روکیں پیدا کر دیتی ہیں تو ہمیں تمام دنیا کو بتانا پڑتا ہے اور بار بار بتانا پڑتا ہے کہ وہ اسلام نہیں ہے جس کی آوازیں تم سعودی عرب یا ایران با لیبیا سے سن رہے ہو بلکہ اسلام تو وہ ہے جس کی آوازیں محمد صلے صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے آج سے چودہ سو برس پہلے مکہ اور مدینہ سے بلند کیں اور جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے.اسلامی اقدار کا اگر مطالعہ کرنا ہے تو قرآن کا مطالعہ کرو اور محمدمصطفی صل اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کردار کا مطالعہ کرو.یہی وجہ ہے کہ میں بار بار احمدیوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اپنی قومیتوں کو اپنے مذہب کے ساتھ مدغم نہ کریں.اگر وہ پاکستانی ہیں تو اپنی پاکستانیت کو پاکستان کی حدود میں محدود رکھیں.اور جب دوکر ملکوں میں جائیں اور وہاں این جی تامل کا پیغام دیں تو وہ پیغام آفاقی ہونا چاہیئے اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیئے.جیسا کہ اسلام کا لیبیا سے تعلق ہے نہ ایران سے تعلق ہے، نہ سعودی عرب سے تعلق ہے.یعنی اُن قوموں سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہو آج کل اِن
١٠٢ علاقوں میں بستی ہیں.بلکہ اسلام کا تعلق تو قرآن سے ہے، اسلام کا تعلق تو محمد رسول لل صلالہ علیہ وعلی آلہ سلم کے اسوہ حسہ سے ہے جو ہر قسم کے اتہام سے بالا ہے ، پاک ہے جو شفاف ہے، بے داغ ہے.اس اسوہ حسنہ کو پیش کرنا ہمارا کام ہے.ہم یہ اسوہ خواہ جرمنی میں پیش کریں خواہ یورپ کے دوسرے ملک میں یا امریکی یا افریقہ میں یا چین میں یا جاپان میں ملکوں کی تبدیلی کے ساتھ یہ اسو بحسنہ تبدیل نہیں ہو گا اور اسی طرح ملکوں کے فرق کے لحاظ سے اس اسوہ حسنہ کی تاثیر میں فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ نہ شرقی ہے اور نہ یہ مغربی ہے.اسلام کے ذریعہ مشرق اور مغرب کو ملانے کی خدائی تقدیر پس وہ مقولہ جو کسی انگریز مصنف نے ایک دفعہ استعمال کیا اور پھر جو دنیا بھر میں بہت مشہور ہوا یہ ہے کہ : "The east is east and the west is west and never the twins shall meet" یعنی مشرق، مشرق ہی ہے اور مغرب مغرب ہی ہے اور یہ دونوں کبھی نہیں ملیں گے.اس مقولہ کو اس کے کہنے سے تیرہ سو سال پہلے یا اگر یہ اس سے بھی صدی پہلے کا مقولہ ہے تو کہ لیجئے بارہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیشہ کے لئے جھٹلا دیا تھا.کیونکہ خدا نے آسمان پر یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ مشرق بھی خدا کا ہے اور مغرب بھی خدا کا ہے ، ان دونوں کو ضرور ملا دیا جائے گا.یہ خدائی تقدیر ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا.مشرق اور مغرب کو ملانے کی بنیاد مکہ اور مدینہ میں اس وقت پڑی جب وہاں آنحضرت صلی لہ علیہ وعلی آلہ وسلم ظاہر ہوئے اور آپ کے متعلق خدا نے یہ اعلان فرمایا کہ وہ وجود ظاہر ہو چکا ہے جس کا نور نہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا ہے بلکہ وہ دونوں میں قدر مشترک کا درجہ دیتنام رکھتا ہے.پس احمدی ہونے کی حیثیت میں آپ اُس نور کی نمائندہ ہیں.ہر احمدی جو مغرب
۱۰۳ کا سفر اختیار کرے یا مشرق کا سفر اختیار کرے ، وہ افریقہ جائے یا امریکہ جائے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس کردار کی حفاظت کرے.اپنے قول یا اپنے فعل سے کسی رنگ میں بھی دنیا پر یہ تاثر نہ پڑے دے کہ وہ کسی قوم کا نمائندہ ہے یا کسی عصبیت کا نمائندہ ہے.برخلاف اس کے وہ بلا امتیاز مذہب و ملت اور بلا امتیاز تو میت وہ ہمیشہ خدا کا نمائندہ بنا رہے.اگر انصاف کا تقاضا ہو کہ کسی غیر مذہب کی تعریف کی جائے اور اُس مذہب کی خوبیوں کو تسلیم کیا جائے تو اسلام اُس سے یہ تقاضا کرتا ہے ، اسلام کا خدا اُس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ محض اسلام کی عصبیت کی خاطر دو سر کی خوبیوں سے آنکھیں بند نہ کرو کیونکہ قرآن کریم نے سعود غیروں کی بعض خوبیوں کا ذکر کیا ہے.آج کل یہ تاثیر ہے کہ یہود اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں لیکن سب سے بڑے دشمن تو وہ محمد رسول اللہ صلی للہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تھے اُس زمانہ میں جب اُن کی دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی قرآن نے ان کی بعض باتوں کی تعریف میں ایسی باتیں کی ہیں کہ انسان انہیں پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے.کتنا عظیم محسن انسانیت تھا وہ نبی اور اور کتنا بڑا علمبردار تھا وہ انصاف کا کہ اس زمانہ میں جبکہ بعض اغیار کی دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے وہ جہاں ان کی برائیاں گنواتا ہے وہاں بڑے حوصلہ سے ان کی خوبیوں کا بھی اقرار کرتا چلا جاتا ہے.پس یہی وہ اسوہ ہے جو دنیا میں زندہ رہنے کا اہل ہے.اور یہی وہ اسوہ ہے جو بالاخر مشرق و مغرب کو ملانے کا موجب بنے گا اور یہی وہ اسوہ ہے جو مشرق و مغرب کو بالآخر ملانے کی خدائی تقدیر کو عملاً ظاہر کرنے والا ثابت ہو گا.اور دُنیا کی کوئی تدبیر اس تقدیر کو شکست نہیں دے سکتی.مشرق و مغرب کو ملانے والی تقدیر احمدیوں کے ذریعہ ظاہر ہوگی گر یہ تقدیر ان احمدیوں کے ذریعہ ظاہر ہوگی اور ہورہی ہے جو تمام دنیا میں اس غرض سے پھیلا دیئے گئے ہیں.خدا کی تقدیر نے ایسے حالات پیدا کئے کہ وہ لوگ جو پہلے اپنے ملک
۱۰۴ سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ان کو بھی فرشتوں نے زبر دستی دھکیل دھکیل کر اپنے پیارے وطن کو چھوڑنے اور دو کہ وطنوں میں جا کر آباد ہونے پر مجبور کر دیا.یہ اس لئے نہیں تھا کہ اُن کے اقتصادی حالات بدل جائیں.یہ اس لئے تھا کہ نا خدا کے وہ نوشتے پورے ہوں جن کا پورا ہونا ہمیشہ سے مقدر تھا.اکس تقدیر الہی کی رو سے بالا فرستی دینی اقل) تعلیمات اور آنحضر صل اللہ علیہ وعلی آلہ سلم کا پاک اسوہ دنیا میں پھیلایا جائے گا اور یہی پاک اسوہ دنیا پر غالب آئے گا کیونکہ یہ دنیا کے دل جیتنے میں کامیاب ہوگا.اس اسوہ حسنہ کے غلبہ کے نتیجے میں دنیا ایک ایسے نئے دور میں داخل ہوگی جہاں شرق اور مغرب کی تمیزیں مٹادی جائیں گی اور دنیا میں انسان بحیثیت انسان ملت واحدہ کا فرد بن کر زندگی بسر کرے گا.یہ وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے حصول کے لئے بالعموم یورپ میں اور بالخصوص جرمنی میں کوشش ہونی چاہیے کیونکہ میرے علم کے مطابق آج سارے یورپ میں سے کسی ایک ملک میں احمدی اس کثرت سے آباد نہیں ہوئے جیسا کہ جرمنی میں آکر آباد ہوئے ہیں اور یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جو صاف نظر آرہی ہے.مثال کے طور پر یہ لجنہ کا ایک اجتماع ہے.خدا کے فضل سے کنارش تک یہ ہال بھرا ہوا ہے.رپورٹ کے مطابق بارہ بجے تک حاضری دو ہزار تک پہنچ چکی تھی اور مرات ابھی آرہی تھیں.اسی طرح خدام کا علیحدہ اجتماع منعقد ہورہا ہے.ان کے اجتماع میں بھی خدا کے فضل سے بہت چہل پہل ہے جو لوگ ایسے مواقع پر ربوہ سے آتے ہیں وہ کہتے ہیں ہیں تو یوں لگتا ہے یہاں ایک چھوٹا سا ربوہ قائم کر دیا گیا ہے.لیکن یہ ربوہ چھوٹا نہیں رہنا چاہیے اس راوہ کو پھیت اور بڑا ہونا چاہیے.کیونکہ ہجرت کے ساتھ خدا کا توسیع مکان کا وعدہ ہے.یہ دعدہ ہے خدا کا کہ تم ہجرت کر وہم وسعتیں عطاکریں گے جن وسعتوں کا وعدہ دیا گیا ہے ان میں مکانی وسعتوں کے علاوہ مذہبی، روحانی اور اخلاقی وسعتیں بھی شامل ہیں.ان دوستوں کا جنڈا آپ کے ہاتھوں میں تھمایا گیا ہے.اس لئے اگر آپ نے اس میں خیانت کی ، اس عظیم الشان وقع سے فائدہ نہ اٹھایا اور عصبیتوں سے کلیتہ پاک ہو کر دین حق - ناقل کا پیغام اپنے قول اور خوبصورت
۱۰۵ عمل سے ان قوموں تک نہ پہچا یا تو آپ یقیناً جواب دہ ہوں گی اور مرد بھی (بوکس رہے ہیں ) جواب دہ ہوں گے.مغربی دنیا میں سچ کے معیار کا عمومی جائزہ اس پہلو کے پیش نظر کل میں نے باقتضائے انصاف ایک بات خطبہ جمعہ میں پیش کی تھی ہیں نے بیان کیا تھا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ تسلیم کیا جائے کہ مغربی دنیا میں سے کا میار مشرقی دنیا سے مقابلہ بہت بلند ہو چکا ہے.یہ بدنصیبی ہے کہ مشرقی دنیا میں ہر جگہ (صرف پاکستان کی بات نہیں ہے کیا ہندوستان، کیا افریقی مالک اور کیا تیسری دنیا کے دوسرے ممالک اور علاقے سب جگہ جھوٹ بڑھتا چلا جارہا ہے.البتہ مشرق بعید میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پینے کا معیار بہت بلند ہے.مثلاً جاپان میں بیچ کا معیار اتنا بلند ہے کہ میں اپنے ذاتی علم کے مطابق یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس معاملہ میں جاپان یورپ کے کسی ملک سے پیچھے نہیں ہے بلکہ غالباً کچھ آگے ہی ہے.اس لئے کل کے خطاب میں جو یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ گویا ساری مشرقی دنیا جھوٹ کی عادی ہو چکی ہے یہ بھی درست نہیں تھا.اُس وقت میرے ذہن میں جاپان اور کوریا اور مشرق بعید کے دیگر ممالک نہیں تھے.میں در اصل سہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور گردوپیش کے دوسرے ممالک پر نظر رکھ کر بات کر رہا تھا.میرے خیال میں اس کی تصیح ضروری ہے صحیح بات یہ ہے کہ سارا مشرق جھوٹ کا عادی نہیں ہے.مشرق میں بعض تو میں ہیں جو عادتا سچی ہیں اور بعض قومیں ہیں جو عادتاً جھوٹی بن چکی ہیں.مغرب میں اس کے بالمقابل جھوٹ بہت کم پایا جاتا ہے.جھوٹ محض اُس وقت بولا جاتا ہے جب خاص ضرورت پیش آئے در نہ روز مرہ کی سوسائٹی میں جھوٹ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.یہ ایک انصاف کی بات تھی جو میں نے کی.بعض لوگ اس پر تکلیف محسوس کرتے ہیں.ان کا کہنا یہ ہے کہ آپ کے اس طرح کہنے سے جماعت کی بدنامی ہوگی.بدنامی میرے
کہنے سے نہیں ہوگی بنا می اگر ہوگی تو جھوٹ بولنے والوں کی وجیسے ہوگی بعض بیچارے جھوٹ بولنے کے معصوماً عاری ہیں.وہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں پتہ بھی نہیں لگتا کہ وہ کوئی بڑا کام کر رہے ہیں بچپن سے وہ ایسے ماحول میں پہلے میں کہ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی یا توں پر بھی گپ مارنا اور جھوٹ بولنا ان کی عادت ثانیہ بنا ہوا ہے بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ جب سنجیدہ بات ہو رہی ہو تو اُس وقت وہ جھوٹ نہیں بولتے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بہر حال ان میں نیکی کا غلبہ ہے.لیکن یہ عادتیں (کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھوٹ بولنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا جائے خطرناک ہیں.یہ غلط ماحول پیدا کرتی ہیں اور اگلی نسلوں کو تباہ کرنے کا موجب بن سکتی ہیں.اس لئے ان چھوٹی معمولی معمولی عادتوں سے بھی کلیتہ پر ہیز ضروری ہے لجنہ اما والد اس سلسلہ میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہے وہ اس لئے کہ خواتین اگلی نسلوں کی فیکٹریاں ہیں، جسمانی لحاظ سے بھی فیکٹریاں ہیں اور روحانی واخلاقی لحاظ سے بھی فیکٹریاں ہیں.وہ جیسی نسلیں چاہیں پیدا کر کے آئندہ وقتوں کے لئے بھیج سکتی ہیں.اس لئے ہر دو نسلوں کے سنگم پر نئی نسل کو سنوارنے کے سلسلہ میں سب سے اہم کردار اگر کوئی ادا کرتا ہے تو عورت ادا کرتی ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ باپوں کے پاؤں تلے جنت ہے بلکہ یہ فرمایا کہ ماؤں کے پاؤں تلے جنت ہے.اس چھوٹے سے فقرے میں کتنی گہری حکمتیں بیان فرما دی گئیں اور متعد د حکمتیں بیان فرما دی گئیں.ان حکمتوں میں سے ایک یہ ہے که آئندہ نسلوں کا کر دار بنانے میں عورت سب سے زیادہ اور سب سے اہم حصہ لیتی ہے مسلمان عورتوں سے یہی توقع کی جاتی ہے کیونکہ مسلمان عورتوں پر امت محمدیہ میں شامل ہونے کی ویسے آنحضور صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ حسن ظن ہے کہ میری اُمت کی عورتیں ایسی ہوں گی کہ ان کے پاؤں تلے سے جنت پھوٹا کرے گی.پاؤں تلے سے جنت پھوٹنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اگلی نسل جو بعد میں آنے والی ہے وہ اعلیٰ تربیت کے نتیجہ میں منبتی پیدا ہوتی رہے گی.پس دیکھیں کتنی بڑی حسن ظنی ہے جو آپ پر کی گئی ہے اور کتنا اہم پیغام ہے
جو آپ کو دیا گیا ہے کہ آئندہ نسلوں کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ آج کی ماؤں نے کرنا ہے، آج کی بہنوں نے کرنا ہے، اگر وہ آئندہ نسلوں کو جنتی بنانے کا فیصلہ کریں تو وہ ہیں جو وہ عنقریب مائیں بننے والی نہیں اور وہ مائیں جن کے زیر تربیت موجودہ نسلیں پل رہی ہیں بہت عظیم انسان احسان آئندہ نسلوں پر کرنے والی ہوں گی.اگر آپ یہ فیصلہ نہیں کریں گی تو پھر آپ وہ مائیں نہیں ہیں جن کا ذکر محمد رسل اله صل اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرما رہے ہیں.اس تصور نے یہ نہیں فرمایا کہ سرماں کے پاؤں تلے جنت ہے.ان ماؤں کے پاؤں تھے جو نیک نہیں ہوتیں جہنم ہی ہوتی ہے.پس یہ فرمایا کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے اس میں یہ بات معمر ہے کہ وہ پاک عورتیں جو محمدرسول اللہصلی الہ علیہ وعلی آلہ سلم کی امتی اور آپ کی غلام ہیں، جو اسلام پر دیانت داری اور تقویٰ کے مطابق عمل کرنے والی ہیں ان کے پاؤں تلے جنت ہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلیں منیتی صفات لے کر پیدا ہوں گی اور وہ پاکباز ماؤں کی گودوں میں جیتی صفات لے کر پلیں گی اور ماؤں کے دودھ کی شکل میں جنت کے دودھ پئیں گی.یہ وہ پیغام ہے جو آپ (یعنی یہاں موجو د احمدی خواتین) کو عطا کیا گیا ہے اس لئے آپ کو یہاں آنے کے بعد ا یعنی پاکستان کی ان خواتین کو جو جرمنی میں آکر آباد ہوئی ہیں) یہ بات یا درکھنی چاہیئے کہ ان کے پاؤں تلے نہ صرف اپنی آئندہ نسلوں کی جنتیں ہیں بلکہ جو روحانی طور پر نئی نسلیں ان کو عطا ہو رہی ہیں اور تبلیغ کے ذریعہ جور دھانی بچے پیدا ہو رہے ہیں ان کی جنت کا بھی گہرا تعلق احمدی خواتین کے اس پاک اسوہ سے ہے.اگر وہ اس اسوہ میں خامیاں رکھتی ہیں اور اگر وہ اس کو احسن رنگ میں ( دینی.ناقل ) اسوہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں تو پھر یقینا ان کے پاؤں تلے سے اسی حد تک جنت کم ہوتی چلی جائے گی.مغرب سے عنقا ہونے والی ایک قدر اس ضمن میں آج میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جہاں
مشرق میں بعض بدیاں پائی جاتی ہیں وہاں مشرق میں بعض خوبیاں بھی ہیں.اس کے بالمقابل مغرب بعض خوبیوں سے محروم ہوتا چلا جارہا ہے.انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اہل مغرب کو بھی متوجہ کیا جائے کہ تم کون سی قدریں کھوارہے ہو.جو خوبیاں مشرق میں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک خوبی حیا کی ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ پہلے خوبی تھی لیکن اب یہ بھی ماضی کا حصہ بن چکی ہے، مگر یہ خوبی مشرق میں اس قدر اور اس حد تک موجود تھی اور ضائع ہونے کے باوجود آج بھی یہ خوبی (حیا کی خوبی بہت حد تک مشرقی میں موجود ہے.برخلاف اس کے یہ مغرب سے عنقا ہوتی جارہی ہے.اس لئے آپ کے لئے جیا کی قدر کو اپنانا بہت ضروری ہے.یہ امر بہت ضروری ہے کہ جیا کو ہرگز مرنے نہ دیا جائے اور اُسے بہر حال زندہ رکھا جائے.کیونکہ جیا کے ساتھ انسانی کردار کا گہرا تعلق ہے.وہ احمدی خواتین جو حیا دار ماحول میں پل کہ یہاں آئی ہیں اُن کے لئے یہاں حیا کے فقدان کی وجہ سے بہت سے خطرات درپیش ہیں.بعض ایسی اطلاعات ملتی ہیں جن کی وجہ سے میں گہرے طور پر فکرمند ہورہا ہوں خصوصیت کے ساتھ وہ خواتین جو گزشتہ ایک یا ڈیڑھ سال کے اندر یہاں پہنچی ہیں ان کے متعلق زیادہ قابل فکر اطلاعیں مل رہی ہیں.یہاں ایسے لاگر ہیں جہاں مرد اور عورتیں اکٹھے رکھے جاتے ہیں.چونکہ مغرب میں جیا کا کوئی تصور نہیں اس لئے ایسے لاگروں میں قیام مسائل پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے.دراصل مغرب میں آزادی کے سراسر غلط تصور کو اپنا کر عورت کی آزادی کو اس رنگ میں پیش کیا گیا کہ عورتوں کا بے صحابہ اختلاط چنداں معیوب نہ رہا.اس کی وجیسے یورپ نے بہت نقصان اٹھائے حتی کہ ان کی عالمی زندگی پارہ پارہ ہو کر تباہ ہو گئی.پہلی نسلوں سے آئندہ نسلوں کا تعلق کٹ گی یعنی Generation gap (پرانی نسل اور نئی نسل کے درمیان رونما ہونے والا خلاء پیدا ہوا اور بڑھتا ہی چلا گیا ان سب خرابیوں اور قباحتوں میں بے حیائی نے بہت بڑا کر دار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ مغرب میں حیا کا تصور مشرقی حیاء کے تصور سے اس قدر دور جا چکا ہے کہ اب مغرب والے نے جرمنی میں عام لوگوں کے لئے حکومت کی مقدر کر دہ اجتماعی رہائش کھو ہیں
۱۰۹ حقیقتاً یہ مجھ ہی نہیں سکتے کہ وہ جیا سے عاری ہو رہے ہیں.ان کا یہ نظر یہ ہے کہ اگر ایک ہی لاگر میں نوجوان لڑکے بھی رہیں اور نوجوان لڑکیاں بھی رہیں تو اس میں حرج کیا ہے.وہ کہتے ہیں کیا فرق پڑتا ہے اس سے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاں حیا کا تصور وہ نہیں رہا جو پہلے ہواکرتا تھا.وہ یکسر بدل کر رہ گیا ہے جبھی تو انہیں نظر نہیں آتا کہ کیوں فرق پڑتا ہے.حیا اور ظاہری پردہ دونوں کو لازم پکڑنا ضروری ہے آپ جانتی ہیں عورت کی سب سے زیادہ حفاظت جیا کرتی ہے.اس لئے عورت کی سب سے زیادہ اور سب سے بڑی دشمن بے حیائی ہے.پر وہ ایک ظاہری شکل بھی رکھتا ہے لیکن اگر اس ظاہری پردہ کے ساتھ حیا کا پردہ نہ ہو تو ظاہری پردہ کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اس کے برعکس اگر ظاہری پردہ نہ بھی ہو یعنی اس شدت کے ساتھ نہ ہو جیسا کہ توقع کی جاتی ہے اور جیا کا پردہ ہو تو ایسی عورت زیادہ محفوظ ہے بعض خواتین یہ بہانہ بنا دیتی ہیں کہ ہم جیا کے پردہ کی پابند ہیں اس لئے ہمیں ظاہری پردہ کی ضرورت نہیں.یہ عذر بھی جھوٹا اور نا معقول ہے.بات یہ ہے کہ حیا کا پردہ ظاہری پردہ کے بغیر زیادہ دیر نہیں رہا کرتا.ایسی صورت میں محض حیا کا پردہ ایک نسل میں تو کچھ دیر چل جاتا ہے لیکن رفتہ رفتہ پھر مٹ جاتا ہے اور کلیتہ بے حیائی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ بے حیائی پہلے سے بڑھ کر خطرناک ہوتی ہے اس لئے ظاہری پردے اور حیا کے پردے میں سے ایک کو دوسے پر ترجیح دینے کا سوال نہیں ہے.دونوں کو یکساں تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، ایک ان مضبوط قدموں کے ساتھ نہیں اپنی زندگی کے سفر میں شامل کرنے کی ضرورت ہے، البتہ حیا کو بہر حال یہ اہمیت حاصل ہے کہ سچی حفاظت عورت کی حیا ہی کرتی ہے.بایں ہمہ حیا کی حفاظت کرنے والے ہو ظاہری ذرائع ہیں ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جیا اور حیا کی حفاظت کرنے والے ذرائع دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے.یہ استثنائی صورت ہوتی ہے کہ ظاہری طور پر ایک
صورت پردہ کرتی ہے مگر حیا کی کمی کی وجہ سے وہ سوٹ سٹی کے لئے خطر ناک بن جاتی ہے ، ور نہ بالعموم ظاہری پر وہ حیا کی حفاظت کرتا ہے.چنانچہ مشرقی کردار میں سب سے زیادہ کیلئے نے جیا کی حفاظت میں حصہ لیا ہے.اس لئے اپنی حیا کی حفاظت کریں اور جس طرح بھی ممکن ہو اس کی حفاظت کریں کیونکہ جیا خود آپ کی حفاظت کرے گی.ہندوستان کے مشہور شاعر کیرالہ آبادی نے پو پاکستان کے قیام سے پہلے فوت ہو گئے تھے پردے کا مضمون بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہے حرم سرا کی حفاظت کو تیغ ہی نہ رہی تو کام دیں گی یہ چلمن کی تیلیاں کب تک مراد ان کی یہ تھی کہ ہماری عورتوں کی عزت اور حرمت کی حفاظت کے لئے سہارے پاس جو تلوار ہوا کرتی تھی یعنی جو سیاسی قوت ہیں نصیب تھی وہی باقی نہ رہی تو یہ چلمنوں کی تیلیاں یعنی شکی ہوئی چھتیں ہماری عورتوں کی عزت اور حرمت کی کب تک حفاظت کر سکتی ہیں یہ شعر بڑا طاقتور ہے اور شعریت کے لحاظ سے بہت بلند ہے لیکن فی الحقیقت سچائی سے عاری ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ عصمتوں کی حفاظتیں تیغ سے نہیں ہوا کرتیں عصمتوں کی حفاظتیں حیا سے ہوا کرتی ہیں اس میں نہ چلمنیں کام آتی ہیں نہ تلواریں کام آتی ہیں.جو قومیں بے جا نے کا فیصلہ کرلیں پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو بے حیائی سے روک نہیں سکتی.بر خلاف اس کے جو قومیں حیا دار رہنے کا فیصلہ کریں اُن کے پاس تلوار ہو یا نہ ہو چلمن سویا نہ ہو حیا ان کی حفاظت کرتی ہے.اسی لئے حضرت اقدس محمد صلے صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حیا کا مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا الحياء خير كه یعنی حیا ایک ایسی انسانی خوبی ہے جو تمام تر خیری خیر ہے.اس میں توازن کا سوال نہیں اس لئے کہ جیا جیتی بھی زیادہ ہو بہتر ہی ہے.اس کا زیادہ سے زیادہ ہونا اچھا ہی اچھا ہے اس کا نقصان نہیں اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے.اس مضمون کو بھی بعض لوگ غلط سمجھتے ہیں لیکن اس وقت میں اس پہلو کو
نہیں چھیڑنا چاہتا ہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حیا ایک احمدی خاتون کا سب سے بڑا ہتیار ہے.آپ کی جو تقریبات ہیں وہ اس ضمن میں حیا ماپنے کا پیمانہ یا نشان بن جاتی ہیں، ایک قسم کا تھرمامیٹر بن جاتی ہیں.خاص طور پر شادی بیاہ کی تقریبات کے متعلق اطلاعیں ملتی ہیں کہ یہاں کے ماحول سے متاثر ہو کر پردے کا پوری طرح لحاظ نہیں رکھا جاتا.عورتوں کی محفل میں مرد بھی آجاتا ہے ہوتے ہیں.ویڈیو فلم بھی بن رہی ہوتی ہے.فریلیں بھی پڑھی جارہی ہوتی ہیں.محفلیں بھی ہم رہی ہوتی ہیں.اس قسم کا غیر اسلامی ماحول برداشت کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دوسروں کی نظریں قدامت پرست شمار نہیں ہوں گے ان کا انداز فکر یہ ہوتا ہے کہ ہم ہیں تو سہی کچھ قدامت پرست لیکن اتنے بھی نہیں گئے گزرے کہ اس قسم کی بے حیائیاں نہ کر سکیں.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ جائز ہے.یہ طرز فکر اور طرز عمل ہرگز درست نہیں ہے.یہ ایسے اقدامات ہیں جو رفتہ رفتہ آپ کو خطر ناک مقام تک پہنچا دیں گے.آپ یہاں احمدی معاشی ہے کی حفاظت کریں اور جہاں بھی معاشرتی قدریں حیا پر حملہ آور ہوں وہاں آپ جیا کی حفاظت اور جا آور ہوں جیا کی میں سینہ سپر مو جائیں.موجا نظام جماعت کو لاگروں میں نگرانی ک انتظام کرنا چاہیے لاگروں ( یعنی عام لوگوں کے لئے حکومت کی مقرر کر دہ اجتماعی رہائش گاہوں) میں ویسے ہی لڑکوں اور لڑکیوں کے باہم اختلاط کے مواقع موجود ہیں.اُدھر نئے آنے والے جو لوگ باہر سے آکر آباد ہوتے ہیں انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اچانک ایک نئے تبدیل شدہ موسم سے آدو چار ہوئے ہیں.وہ بھول جاتے ہیں کہ اصل موسم رہی ہے جو روحانیت کے لحاظ سے ہمیشہ یکساں رہنے والا موسم ہے اور وہ ہے اسلام کا اپنا مخصوص موسم.وہ ایک ایسا موسم ہے جو ملکوں کے فرق سے تبدیل نہیں ہو سکتا نئے آنے والے اس بار یک فرق کو نظر میں نہیں رکھتے.مغربی دنیا کی آزادیوں میں اچانک آکر وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ہمارے راستے
۱۱۲ سے سب روکیں اُٹھ گئی ہیں، اب ہم ایسی دنیا میں پہنچ گئے ہیں جہاں سوال کرنے یا روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں اور پابندیاں عائد کرنے والا کوئی نہیں، اب جو چاہو کر درجیسے چاہو رنگ رلیاں مناؤں گویا جو جی میں آئے کو گزرنے کی چھٹی ہے.حالانکہ جس وقت وہ اس قسم کے خیالات کو دل میں جگہ دیتے ہیں وہ پابندیوں سے چھند کا را حاصل نہیں کرتے بلکہ اسلام سے ہی چھٹی اختیار کر لیتے ہیں.ہوسکتا ہے شروع میں یہ قدم خطرناک نتائج پر منتج نہ بھی سولیکن اس اقدام کے پیچھے جو نیتیں کار فرما ہوتی ہیں وہ پھر پھولتی پھلتی ہیں اور رنگ لائے بغیر نہیں رہتیں وہ لوگ جو محض اس لئے اپنے کردار کو تبدیل ہونے دیتے ہیں کہ ظاہری پابندی کوئی نہیں ان کے دلوں سے نمذہبی پابندیاں بھی ایک ایک کر کے رخصت ہونا شروع ہو جاتی ہیں.جب وہ اپنے آپ کو مذہبی پابندیوں سے بھی آزاد کر لیتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا جاسکتا شروع کا وقت ہوتا ہے جب نظام کو ان کا نگران ہوتا چاہیئے اور خبردار رہنا چاہیئے کہ وہ کس حال میں ہیں اور انہیں یہاں آزاد معاشرہ کی خرابیوں سے بچانے کے لئے کن پیش بندیوں کی ضرورت ہے.نظام جماعت کو ایسے تمام لاگروں میں نگرانی ر نگرانی کا انتظام کرنا چاہیئے جہاں معصوم بچیاں، جو اپنے معاملات کا پورا فہم نہیں رکھتیں یا اسی طرح ایسے نوجوان لڑکے جو اپنے ملک میں بھی اچھے کردار کا نمونہ دکھلانے والے ننھے اکٹھے ہو گئے ہیں.ان کے لئے اخلاقی لحاظ سے حفاظت کے انتظام ہونے چاہئیں.نظام جماعت کو ان پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کی تربیت میں حصہ لینا چاہیئے.ہمارا اصل ہتھیار نصیحت ہی ہے جبر اسلام میں نہ وہاں جائز تھا جہاں سے وہ جرمنی میں نئے آباد ہونے والے) آئے ہیں اور نہ یہاں جائز ہے.سب سے بڑی قوت بھی پاک نصیحت کی قوت ہے.یہ اتنی بڑی قوت ہے کہ اس کے مقابل پر دنیا کی کوئی قوت کام نہیں کر سکتی.قرآن مجید
١١٣٠ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فذكر ان نَفَعَتِ الذكرى ( سورۃ الاعلیٰ آیت (۱۰) نصیحت میں بہت بڑی طاقت ہے پس اے مخاطب ! تو نصیحت کرتا چلا جا.- اس سے ظاہر ہے کہ محمد مصطفے صل للہ علیہ علیہ وسلم کو بھی سب سے بڑا طاقتور ہتھیار جو عطا کیا گیا وہ نصیحت کا ہتھیار تھا اور آپ سب کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی غلامی میں جو سب سے طاقتور ہتھیار دیا گیا ہے وہ نصیحت ہی کا ہتھیار ہے.پس طعنه آمیزی کے رنگ میں نہیں ، چرکے لگانے کی خاطر نہیں ، ماؤں کو قابل اصلاح بیٹوں کے طعنے دیتے ہوئے نہیں اسی طرح بھائیوں کو بہنوں کے طعنے دیتے ہوئے نہیں بلکہ خالصتاً انسانی ہمدردی کے زیر اثر اور دینی.ناقل معاشرے کی حفاظت کی خاطر پاک دل سے درد ناک طریق پر نصیحت کریں جیسا کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے کلام میں یہ شعر آپ نے ابھی تنا ہے.ہمیں کچھ کہیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غربیانہ کوئی جو پاک دل ہود سے دل و جاں اُس پہ قرباں ہے آپ فرماتے ہیں میں جو نصیحت کرتا ہوں کسی فقہ کی بنا پر نہیں کرتا.حقیقت یہی ہے که نصیحت اور غصہ کا باہم کوئی جوڑ نہیں ہے.جس نصیحت میں فقہ پیدا ہو جائے جس نصیحت میں نفرت شامل ہو جائے وہ نصیحت فائدہ کی بجائے ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا نے نصیحتیں فرمانے کے بعد نصیحتوں کا بنیادی فلسفہ بھی بیان فرما دیا.آپ نے فرمایا میں جو نصیحتیں کرتا ہوں خدا گوا ہے کہ میرے دل میں بدوں کے خلاف نہ کوئی غصہ ہے اور نہ کوئی کینہ، ہاں میں پاک اور نظریبانہ نصیحت کے ذریعہ بدی کے خلاف ایک جہاد کر رہا ہوں ، نصیحت کی یہ آواز میں میرے دل سے اُٹھی ہیں اور میں مجبور ہوں کہ بنی نوع انسان کی بھلائی کی خاطر دل سے نکلی ہوئی ان آوازوں کو بنی نوع انسان
۱۱۴ تک پہنچاؤں اسی لئے فرمایا کر ہمیں کچھ کہیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ جہاں تک اس نصیحت کے اثر انداز ہونے کا تعلق ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کر کوئی جو پاک دل ہوئے دل و جاں اس پہ قرباں ہے یعنی میں تو ایک عاجز بندہ ہوں یہ صیح ہے کہ خدا نے مجھے بہت بڑا مقام عطا کیا ہے مگر دل کی کیفیت یہ ہے کہ جہاں بھی پاکی دیکھتا ہوں، جہاں کوئی نیکی دیکھتا ہوں میرا دل اور میری جان اس پر فدا ہونے لگتی ہے.الغرض اصل ہتھیار نصیحت ہی ہے.یہی وہ ہتھیار ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو عطافرمایا گیا.یہی وہ ہتھیار ہے جو حضرت مسیح موعود در آپ پر سلامتی ہو) کو عطا فرمایا گیا.اور یہی وہ ہتھیار ہے جو دنیا کے ہر ملک میں خواہ مشرقی ہو یا مغربی جو یکساں قوت کے ساتھ کارگر ثابت ہو سکتا ہے.اس کام کے لئے کسی حکومت کی ضرورت نہیں ہے.ضرورت ہے تو صرف دل کی پاکی کی اور دل کی عاجزی کی اور نصیحت کو پُر درد بنانے کی جہاں تک حالات معلوم کرنے اور جستجو کر کے حالات سے آگاہ ہونے کا تعلق ہے وہ ضرور کریں.یہ نظام جماعت کے فرائض میں شامل ہے لیکن ایسا سختیوں کی خاطر نہیں ملیکہ نصیحت کے ذریعہ اصلاح کرنے کی خاطر کریں.نصیحت اور علاج کے مختلف ادوار اس ضمن میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ سختی بھی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک سختی یہ ہے کہ اصلاح کی خاطر بر دستی کی جائے اور ایسے ذرائع استعمال کئے جائیں کہ گویا کسی کو کوئی خاص روش ترک کرنے پر جسمانی طور پر مجبور کر دیا جائے.بالغ لوگوں کے خلاف ایسی سختی اسلام میں جاڑا نہیں ہے.اسلام ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے نصیحت سے کام لینے کی تعلیم دیتا ہے.لیکن نصیحت کے دور کے بعد (جو بہر حال مقدم ہے) ایک
داا دوسرا دور بھی آتا ہے اور وہ ہے علاج کا دور.اس نئے دور میں ایک نوع کی سختی روا رکھی جاتی ہے لیکن اُس سختی کی حیثیت جبر کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی حیثیت یا مقام علاج کا ہوتا ہے.جماعت کو آخر پر علاج کا درجہ رکھنے والی سختی سے بھی کام لینا پڑتا ہے.جماعت کو آخری چارہ کار کے طور پر ایسی سختی یہاں بھی کرنا پڑے گی.جیر والی سختی اور علاج والی سختی ہیں جو فرق ہے میں اسے اچھی طرح واضح کر کے سمجھانا چاہتا ہوں.علاج والی سختی کو جب سمجھنا ہرگز بھی درست نہ ہوگا.اس کو ایک مثال سے پاکسانی واضح کیا جاسکتا ہے.بالفرض کہیں کوئی وبا پھیل جائے اور بعض ایسے مریض ہوں جو دوسروں کو بھی بیمار کرنے والے ہوں پوری کوشش کے باوجود بھی ان کی بیماری قابو میں نہ آئے اور وہ یہ بات سمجھنے پر بھی آمادہ نہ ہوں کہ تم اپنی بیماری کو اپنے تک محدود رکھو اور دوسروں کو خواہ مخواہ اس میں مبتلا نہ کرو تو ایسے مریضوں کے لئے دنیا کی تمام آزاد قوموں میں جو جبر کے خلاف میں یہ قانون رائج ہے کہ انہیں مجبور کر کے Quarantine یعنی قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے.قرنطینہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں ایسے مریضوں کا باہر کی دنیا سے اختلاط منقطع کر دیا جاتا ہے تاکہ انکے جراثیم اور اثرات باقی صحت مند لوگوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں.جماعت احمدیہ میں اس قسم کا قرنطینہ تو نہیں ہے جو قرنطینہ ہے وہ ایک اور رنگ کا ہے.ہم باقی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے سزا کے طور پر نہیں بلکہ اپنے دفاع اور خود حفاظتی کے طور پر اپنے سوشل تعلقات توڑیں تا کہ آپ کی معصوم بچیاں ان کی سیرت دیکھ کر اس سے بداثر قبول نہ کریں اور انہیں خطرات لاحق ز ہوں.ایسے بیمار لوگ غیر ذمہ دارانہ باتیں دوسروں کے کانوں میں پھونکتے ہیں.اس سے میدی اور فحشاء پھیلتی ہیں.اسے روکنے اور اس سے دوسروں کو بچانے کی خاطر بالاخر ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں.تستی اور تین کے متعلق اسلامی تعلیم اس ضمن میں ایک
114 اور فرق کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.اُس فرق کو واضح کرنے کے بعد میں اس خطاب کو ختم کردیں گا.جہد تک اس فرق کا تعلق ہے بعض ایسی باتیں ہیں جو تفصیل سے سمجھانی ضروری ہیں ورنہ آپ کے عہدیدار ہوں یا دو سے سننے والے وہ بعض اوقات بعض با یک فرقوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے غلطی کر جاتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ اسلامی نظام اس تفصیل سے نافذ ہو کہ کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے.ہر شخص کو پتہ ہوکہ جو کچھ وہ کر رہا ہے اس کے حق میں کیا دلائل ہیں پھر دلائل ہوں بھی اتنے مضبوط کہ وہ غیروں کو خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم سمجھا سکے اور مطمئن کرا سکے کہ اسلام جو بھی تعلیم دیتا ہے اس میں حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں.اس میں کوئی جبر نہیں کوئی زبردستی نہیں، کوئی جاہلانہ بات نہیں بلکہ کمال بالغ نظری پر مبنی نہایت اعلیٰ تعلیم ہے اور ایسی بے نظیر تعلیم ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے اسے اپنانے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں.جہاں تک حالات سے آگاہی کی غرض سے جستجو کرنے کا تعلق ہے اس کی جائز حدود کو سمجھنا ضروری ہے.اس بارہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام محبت کی اجازت نہیں دیتا.لوگوں کے ذاتی معاملات کے بارہ میں بلاوجہ نیت کرنے اور کرید کرید کر حالات معلوم کرنے کے وہ خلاف ہے.قرآن کریم کی ایک واضح ہدایت ہے کہ ولا تجسسوا یعنی ہر گر جس سے کام نہ لوا لوگوں کے ذاتی معاملات میں بے جا مداخلت نہ کرو اور بلا وجہ توہمات کا شکار ہو کر بیب جو کرنے کی کوشش نہ کرو کہ کوئی چھپ کر کیا کرتا ہے.اس کو تخت کہا جاتا ہے تجسس منع ہے اور اس کی اجازت نہیں ہے.لیکن ایک اور حکم ہے اور وہ سے تین کا حکم فرمایا ، إِذا جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاءِ فَتَبَيَّنُوا کہ جب بھی کوئی فاسق خبر پہنچائے تو تین کر لیا کر ولیعنی اس خبر پر یقین کر لینے کی بجائے اس کی تحقیق کر لیا کرو اب تین اور تیس میں بہت بڑا فرق ہے.میں جو ہدایت دے رہا ہوں و تجسس کی نہیں دے رہا بلکہ تبتین کی دے رہا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خواتین میں اندر ہی اندر باتیں ہوتی ہیں
اب وہ باتیں مختلف لاگروں کے متعلق ہوں یا مختلف گھروں یا بعض بچوں بچوں کے متعلق ہوں ایسی باتیں کرنا سراسر نا جائز ہے.ایسی عورتیں زبان کے چسکے لیتی ہیں اور فحشاء پھیلانے کا موجب بنتی ہیں.ایسی باتیں نصیحت کی خاطر نہیں ہو تیں کیونکہ نصیحت تو اس کو کرنی چاہیئے ہو نصیحت کا محتاج ہے.اس کو تو نصیحت نہیں کہتے کہ ایک عورت گھر سے نکلتی ہے، دوسری ہمسائی کے گھر پہنچتی ہے اور کہتی ہے تمہیں پتہ ہے فلاں جگہ کیا ہو رہا ہے.وہ کام چھوڑ کے کہتی ہے بتاؤ مجھے کیا ہورہا ہے.وہ کہتی ہے وہاں تو لڑکیاں اس طرح کرتی ہیں اور لڑکے اس طرح کرتے ہیں، یہ ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے، کسی کو ہوش ہی کوئی نہیں.وہ کہتی ہے اچھا یہ ہورہا ہے.ہمارے محلہ میں ایسی باتوں میں اول تو بہت سا حصہ بھوٹ ہوتا ہے.مبالغہ آمیزی ہوتی ہے.دوسر جب وہ عورت بات سُن کر آگے پہنچاتی ہے تو اس کو مزہ نہیں آتا جب تک وہ دو چار باتیں ساتھ زائد نہ لگا دے حتی کہ پر کا کوا بنتا چلا جاتا ہے.قوموں کو بلاک کر دینے والی برائی اس طرح سوسائٹی میں ایسی بھیانک خبری پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں جو گندی ہوتی ہیں اور ہوتی بھی جھوٹی ہیں اور حد سے زیادہ مبالغہ آمیز ان کا نہایت مہلک اثر سوسائٹی پر دو طرح سے پڑتا ہے.اول تو وہ عورتیں جو فخشاد کو پھیلانے کا موجب بن جاتی ہیں وہ خدا کی نظر میں پیاری نہیں رہیں.الٹ ان کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے.ان کے درمیان سے برکتیں اُٹھ جاتی ہیں.خدا کے پیار کی مستحق ہونے کی بجائے وہ اُس کی ناپسندیدگی اور ناراضنگی مول لے لیتی ہیں.چونکہ اس مرض کے عورتوں میں پھیلنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے.اس لئے خطرہ یہ ہوتا ہے کہ پوری سوسائٹی ہی اس میں ملوث نہ ہو جائے.اور اگر خدانخواستہ ساری سوسائٹی ہی ملوث ہو گئی تو ہوگا یہ کہ بظاہر ساری عورتیں نیکیاں بھی کر رہی ہوں گی.چندے بھی دے رہی ہوں گی، قرآن بھی پڑھ رہی ہوں گی لیکن ایک ایسے بنیادی حکم کی خلاف ورزی کرتی چلی جارہی ہوں گی میں
HA کے متعلق قرآن نے وارننگ دی ہوئی ہے کہ خبردار اس برائی میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ یہ قوموں کو بلاک کر دیا کرتی ہے.ایسی عورت میں اس بڑائی میں مبتلا ہوتی چلی جاتی ہیں.اور خود اپنے ہاتھوں اپنی نیکیوں کو برباد کرتی چلی جاتی ہیں وہ بدی کو سونی مٹی میں پھیلانے کی مجرم بن جاتی ہیں.ان کی باتوں سے دوسری سننے والی عورتوں میں بدی کے لئے ولولے اور حوصلے پیدا ہوتے ہیں.ان کی باتوں پر سننے والی خواہ کتنی ہی دفعہ کانوں کو ہاتھ لگا کر استَغْفِرُ اللہ پڑھے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری عورت میں تو ایسا کر رہی ہیں میں ہی ایک ایسی رہ گئی ہوں میں کیلئے دین حق - ناقل اور سلسہ کی پابندیاں لازم ہوں.پھر رفتہ رفتہ جب بے حیائی پھیلتی ہے تو وہ کہتی ہے ایسی بھی کوئی بات نہیں فلاں تو ایسا کرتا ہے ہم کیوں نہ کریں.ایسی صورت میں لبنات کی کارکنات پاس مسلہ کے دوسرے کام کرنے والوں کی بیویوں اور بچوں پر نظر رکھتی ہیں اور اگر ان میں کوئی نقص دیکھیں تو اور زیادہ ان کو یہ بہانہ ہاتھ آ جاتا ہے کہ وہ پابندیوں کی خلاف ورزی کریں.وہ کہتی ہیں فلاں ایسا کرتا ہے تو اسے کوئی کچھ نہیں کہتا میں کروں تو میری دفعہ بڑی تکلیف ہوتی ہے.اس طرح نصیحت کارگر ہونے کا ماحول ضائع ہو جاتا ہے.جس طرح صحرا میں کوئی پودا لگ نہیں سکتا اسی طرح ایسے ماحول میں نصیحت کارگر نہیں ہوتی.جب شدت کی دھوپ پڑتی ہو ، جب خشک سالی کا موسم ہو تو سب سے زیادہ ویران وہ ریتلا علاقہ ہوتا ہے جہاں قسمت سے کچھ بارش ہو تو کچھ اگتا ہے دور نہ کچھ آگتا ہی نہیں.یہ جو عورتوں کے بلا جواز باتوں کے چھوٹے چھوٹے چسکے ہیں یہ سوسائٹی کو ویرانوں میں تبدیل کر دیتے ہیں.پھر ایسے ویرانوں میں روحانیت کا پودا لگ ہی نہیں سکتا اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری قوم تباہی کی طرف مائل ہو جاتی ہے.تجسس اور بین کا باہمی فرق زبان کے ان چھوٹے چھوٹے چیکوں کا معاملہ معمولی بات نہیں ہے.حقیقت یہ ہے
کہ یہ بہت خطرناک بات ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کے نتیجہ میں تجسس پیدا ہوتا ہے جس سے خدا نے منع کیا ہے ، جو شخص عام پبلک میں ایسی باتیں کرتا ہے جو اشاعت فشار کے ذیل میں آتی ہیں اُسے خدا تعالی نے فاسق قرار دیا ہے.اُس نے بہت بہی حکیمانہ لفظ کا انتخاب فرمایا ہے یہ کہہ کر کہ جب تمہارے پاس کوئی فاسق باتیں کرے تو تحقیق کرلیا کرو.اس کے دو مطلب ہیں ایک تو یہ کہ عام طور پر فاسقوں میں ایسی باتیں کرنے کا رحجان پایا جاتا ہے شرفاء میں یہ رحجان نہیں ہوتا، ہوتا بھی ہے تو بہت کم اور برائے نام.دوکر جہاں تک اتھارٹیز ر صاحب اختیار کمیتیوں کا تعلق ہے یعنی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپ کے نمائندگان تک جب ایسی بات پہنچے تو قرآن نے ان کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ ان کو یہ تمیز کرنی چاہیئے کہ بات پہنچانے والا کون ہے کیونکہ ان کو تو بات پہنچانے والے فاسق بھی ہوں گے اور صالح بھی ہوں گے.اس لئے فرمایا جہاں صالحین کی طرف سے بات پہنچے زیادہ یقین کے ساتھ اس پر کاروائی ہونی چاہیئے.اور جب بند کر دار لوگ ان تک کوئی بات پہنچائیں تو کسی قسم کے سے پہلے پوری تحقیق کر لیا کریں تاکہ اس ضمن میں کوئی معصوم بلا وجہ مصیبت کا نشانہ نہ بنے.یہ ہے اسلامی تعلیم جس کو تبین کہتے ہیں.پس جہاں بھی لجنہ کی کسی عہدیدار تک کوئی ایسی بات پہنچتی ہے تین اس پر فرض ہو جاتا ہے.قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ تین کرو اور تین کے سلسلے میں جیسا کہ اردو میں کہا جاتا ہے جھوٹے کو گھر تک پہنچانا چاہیئے جو عورت ایسی بات کرتی ہے اُسے وہیں پکڑ لینا چاہیئے کہ تم نے بات خود گھڑی ہے یا کسی سے سنی ہے ؟ اگر سنتی ہے تو بتاؤ کس سے سنی ہے ؟ درنہ میں تمہارا نام لے کر نظام کو اس کی اطلاع دوں گی اور عہدیداران کو بتاؤں گی کہ تم نے یہ بات پھیلائی ہے اور تم کسی کا نام نہیں تیار ہیںکہ جس سے تم نے یہ بات سنی ہو اس کو تین کہتے ہیں.پس اگر وہ عورت تحقیق کے دوران نام نہ بتائے تو وہ اس بات کی مجرم ہے کہ اس نے فحش کو پھیلایا اور اس کو روکنے میں سلسلہ کی مدد نہیں کی.یا پھر وہ مجرم ہے اس بات کی کہ
اس نے از خود افتراء سے کام لے کر ایک بات گھڑی دور نہ بات تھی کوئی نہیں.دونوں صورتوں میں وہ سزا کی مستحق ہے.اگر نظام اس طرح دخل دے اور کارروائی کرے تو سیع اور جھوٹ میں تمیز ہو جائے گی اور پتہ لگ جائے گا کہ بات صحیح ہے یا غلط.ایسی سوسائٹی میں جہاں نظام فوراً حرکت میں آئے بدی پھیل نہیں سکتی.ایسی باتوں کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے کہ بین اختیار کیا جائے لیکن اس امر کو کبھی فراموش نہ کیا جائے کہ تین پنجتن سے بالکل مختلف چیز ہے تجتس یہ ہے کہ آپ لوگوں کے ایسے ذاتی معاملات میں بلا وجہ مداخلت کریں جو باہر نہیں نکلے جنہوں نے از خود نشاء کا رنگ اختیار نہیں کیا اور جو گلیوں میں کھل کھیلنے کے مقام تک ابھی نہیں پہنچے.مداخلت یہ ہے کہ آپ از خود کسی مرد یا عورت کے متعلق شک ری که در پردہ یہ ضرور ایک کو تا یا کرتی ہوگی آپ اس بات کے تجسس میں لگ جائیں اور تاک لگا کر بیٹھی رہیں اور کرید کرید کر اندر کی بات معلوم کرنے کی کوشش کریں.بی جستن ہے جو کلیہ السلام میں منع ہے.ہر انسان کی ایک پرائیویسی ہے.اس پر خدا تعالیٰ کی شادی کا پردہ ہے.خدا کی ساری کے پردے کو پھاڑ کر اندر جھانکنے کی آپ کو اجازت نہیں ہے.لیکن جس نے خود یہ پردہ اتار پھینکا ہے ، جو بے حیائی کے مقام تک پہنچ گیا ہے، جو ایسی حرکتیں کرتا ہے جو باہر سے نظر آنے لگی ہیں وہاں بین نہ کرنا بھی جرم ہے.وہاں تحقیق ضروری ہے.یعنی یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے.تحقیق کے سلسلہ میں جماعت کا عام دستور اس سلسلہ میں جماعت کا عام دستور ہی ہے کہ اگر کسی معاملہ میں کوئی عہدیدار ملوث ہو تو اس کی شکایت اس کی معرفت کی جائے تاکہ اس کو ساتھ ہی اپنے دفاع کا بھی موقع مل جائے.دو کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس نے شکایت سننی ہے اس کا وقت بھی جائے.بجائے اس کے کہ شکایت سننے والا معاملہ کو اُس عہدیدار کے پاس دوبارہ بھیجے جس کے خلاف
۱۲۱ شکایت کی گئی ہے.ایک ہی دفعہ میں وہ طرفین کی باتیں سن کر کسی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے.نظام کا یہ دستور صرف عہدیداروں کے متعلق ہے لیعنی جب کسی عہدیدار کے خلاف کسی کو شکایت ہو تو وہ اس عہدیدار کی معرفت شکایت بھیجے ورنہ افراد جماعت ہر قسم کی بات براہ راست خلیفتہ ایسے کو لکھ سکتے ہیں اور سکھتے ہیں.نظام کا تقاضا ہرگز یہ ہیں ہے کہ ہمیشہ امیر کی عرف چھیاں پہنچا کریں.ایک خاتون ، ایک مرد ایک بوڑھا ، ایک بچہ جو کچھ بھی دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اپنے خطوں میں معصومانہ طور پر اس کا اظہار کرتا رہتا ہے.اس طرح دنیا بھر سے موصول ہو تے والے خطوط کے ذریعہ خلیفہ اسی کو معلوم ہوتا رہتا ہے کہ ہر جگہ عام طور پر کیا ہو رہا ہے.اس طرح بر اور است خط لکھنے میں کوئی روک نہیں ہے اور نہ ایسا کرنا نظام کے خلاف ہے لیکن اگر ایک شخص اُس عہدیدار کو نظر انداز کر کے جس کے خلاف اُسے شکایت ہے براہ راست اپنی شکایت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تواس کو کہتے ہیں کہ اس کا ان امام مراعات کے خلاف ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ براہ راست شکایت کی صورت میں جین تک شکایت پہنچائی گئی ہے اسے ایسی صورت میں تحقیق کرنے کا حق نہیں ہے.اس کا تحقیق کا حق اپنی جگہ قائم ہے اور وہ حق قرآن کریم نے تین کی آیت کے تحت اس کو دیا ہے.جو نظام جماعت قرآن پر مبنی ہو اس کا ہی دستور العمل ہو گا.بسا اوقات میں ایسے لوگوں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ آپ کا براہ راست شکایت کرنا درست طریق نہیں ہے.آپ امیر کی معرفت یا صدر لجنہ کی معرفت یا جو بھی متعلقہ مدیدار ہے اس کی معرفت بھجوائیں اور یہ کہ میں اس وقت تک قدم نہیں اٹھاؤں گا جب تک یہ شکلیت مقررہ طریق کے مطابق نہ پہنچے.لیکن بعض دفعہ میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ یہ معاملہ اس نوعیت کا ہے کہ بجائے اس کے کہ شکایت کنندہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی شکایت متعلق صدیدار کی معرفت بھیجے میں براہ راست متعلقہ عہدیدار یا صدیداروں سے پوچھ لوں.ایسا کرنا نظام حجامت کے خلاف نہیں ہے اور یہ حتی آپ سب عہدیداران کو بھی حاصل ہے.یہ صحیح ہے کہ اگر کسی کے متعلق کوئی شکایت ملتی ہے تو یکطرفہ رائے کو قبول کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے.مثال کے طور
; ۱۲۲ پا گر وہ شکایت نظام کو نظرانداز کر کے آئی ہے تو آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ اس ک رد کر دیں اور لکھنے والے کو مجبور کریں کہ وہ نظام کا توسط اختیار کرے لیکن آپ اس بات کے پابند نہیں ہیں.کہ چونکہ اس نے نظام کا توسط اختیار نہیں کیا.اس لئے آپ کوئی بھی قدم نہ اٹھائیں اور کسی معاملہ میں بھی تبین نہ کریں.بعض شکائتیں اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ وہ نظام کی معرفت نہ بھی پہنچی ہوں تو بھی تحقیق ضروری ہوتی ہے.انصاف کا تقاضا صرف یہ ہے کہ اُس وقت تک کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور دل کو اُس وقت تک کوئی اثر قبول نہ کرنے دیا جائے جب تک کہ دو کہ فریق کی بات نہ سن لی جائے.نظام جماعت کی روح کو نہ سمجھنے کا نقصان پس اس تین اور محبت کا فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے اور نظام جماعت کی روح کو نہ جھنے کی وجہ سے بعی دعدلیہ کی عہدیدار بھی عجب عجیب ترانہ باتیں کرتی ہیں جو درحقیقت ایک تمسخرین جاتا ہے.جب پچھلی دفعہ میں جرمنی آیا تو ایک فیملی کے ساتھ ملاقات کے دوران مجھے سے بات کرتے کرتے ایک بچی روپڑی حتی کہ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہونے والا ہو گیا.میں نے پتہ کرنا چاہا کہ اُسے کیا تکلیف پہنچی ہے، تو پہلے تو وہ بولتی ہی نہ تھی لیکن جب میں نے اس سے کرید کرید کر پوچھا تو اس نے کہا کل میری بہت ہی بے عزتی ہوئی ہے اور اس بے عزتی کی ذمہ دار لجنہ ہے میں نے پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل پور بھی تو اس نے بتایا میں بینہ کے ایک مقابلہ میں اول آئی تھی تقسیم انعامات کے وقت جب میرا نام پکارا گیا اور میں بیگم صاحبہ سے انعام لینے آئی اور میں نے انعام حاصل کرلیا تو لجنہ کی عہدیدار نے بڑی سختی سے سے سے مزید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ انہوں نے سختی سے ہرگز نہیں کہا تھا.نہایت آرام سے اور نرمی سے بات کی تھی مگر وہ بھی بے وجہ جذباتی ہوکر شرمت سے زیادہ ردعمل دکھاگئی.اس لئے جن کی عہدیداروں پر اس تبصرہ کو محض نصیحت کے طور پر لینا چاہئے منفی ریمارکس کے طور پر نہایا جائے.(ارشاد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ)
۱۲۳ جھنک کر مجھ سے وہ انعام چھین لیا اور کہا میں غلطی لگ گئ تھی جو تمہیں بلالیا تم واپس چلی جاؤ.بوتی سے یہ شکایت سن کر مجھے بہت تکلیف پہنچی.میں نے انگلینڈ واپس پہنچ کر صدر لجنہ کو لکھا کہ اس معاملہ کی تحقیق کرائیں اور تحقیق کے نتیجہ سے مجھے اطلاع دیں ، وہاں سے جوا جواب آیا اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ آپ خود تو نظام کی پابندی کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور خود ہی نظام کو توڑ رہے ہیں.مراد یہ تھی کہ چونکہ اس لڑکی نے میری (متعلقہ عہدیدار کی معرفت خط نہیں کھا اس لئے آپ کو حق نہیں کہ تحقیق کریں.یہ جواب درست نہیں ہے.میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ بعض صورتوں میں تحقیق کرنا میرا بھی حق ہے اور آپ میں سے سرعہد یدار کا بھی حق ہے.اگر کوئی شکایت پہنچے اور وہ شکایت اس نوعیت کی ہو کہ وہ صدیدار فیصلہ کرے کہ میں تحقیق کراؤں تو اس کا یہ حق تو نہیں کہ وہ یکطرف اثر قبول کر کے کسی کو مجرم شمار کرے.لیکن یہ حق ضرور ہے کہ از راہ تحقیق نظام جماعت میں چھٹی بھجوائے اور اصل واقعہ کی تفصیل معلوم کرے اور پوچھے کہ ایسا کیوں ہوا.یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.آپ کی لجنہ کی عہدیدار کی لاعلمی اور عدم تربیت کے نتیجہ میں ایسا ہوا ہے.مجھے یاد ہے جین میں جب ہم قادیان میں تھے تو ہمیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہوا کے ساتھ اکٹھے بیٹھنے کا کم موقع ملتا تھا.انہوں نے جب ہمارے گھر کھانا کھانا ہوتا تو ہیں بھی اکٹھے بیٹھنے کا موقع مل جاتا تھا اور کھانے میں ہم بھی ساتھ شامل ہواکہتے تھے.اس وقت میں دیکھا کرتا تھا کہ کئی دفعہ عورتیں اپنی اپنی شکایتیں لے کر آجاتیں.کوئی رولی ہوئی آئی اور اپنی شکایت بیان کر گئی اور آپ نے وہ شکایت نوٹ کر لی.کوئی اور عورت آئی اور چھٹی میں لکھی ہوئی کوئی شکایت دے گئی.ایسی شکایتوں کے متعلق آپ کا دستور یہ تھا کہ جب تک آپ فریق ثانی کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دے لیتے اُس وقت تک کوئی فیصلہ ز کرتے.آپ یکطرفہ بات کبھی نہ مانتے تھے.البتہ یکطرفہ بات کا اس حد تک دل پر ضرور او ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان تکلیف کی حالت میں ہے تو سننے والا خود بھی تکلیف محسوس کرنے
۱۲۴ لگے.یہ ایک انسانی مجبوری ہے لیکن اس تکلیف کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ تکلیف محسوس کرنے والے نے دوسے کو مجرم قرار دے دیا ہے مجرم قرار دینے سے پہلے اس کی تحقیق کروائی جاتی ہے.یہ ایک عام طریق ہے ہمیشہ اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے.میکر پاس ساری دنیا سے شکایتیں آتی ہیں.قرآن کریم کی اس ہدایت کے تابع کہ إِذَا جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَرٍ فَتَبَيَّنُوا میں سمجھتا ہوں کہ تحقیق اس لئے بھی ضروری ہے کہ لکھنے والا مجرم معلوم ہوتا ہے اور خواہ اُس نے نظام جماعت کا واسطہ اختیار نہ کیا ہو میں مناسب سمجھتا ہوں کہ میٹھی نظام جماعت کے پاس واپس بھیجو اؤں اور تحقیق کروں کہ کس حدتک یہ شخص جھوٹے الزامات لگا رہا ہے اور کسی حد تک پہنچے الزامات لگا رہا ہے ؟ اگر میں ایسا نہ کروں تو دو شخص نا واجب طور پر یہ حرکتیں کرتا چلا جائے گا اور اس کو دنیا کے سامنے ظاہر نہیں کیا جاسکے گا اگر میں شکایت کی میٹھی نظام جماعت کی طرف بھیجوں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ امیر کی چھٹی آجائے کہ آپ نظام جماعت کو توڑ رہے ہیں.ظاہر ہے نظام جماعت کا مجھے زیادہ پتہ ہے نہ کہ امیر کو.اگر خلیفہ وقت نے نظام جماعت کی حفاظت نہیں کرنی تو اور کون ہے جو نظام جماعت کی حفاظت کرے گا.خلیفہ وقت بہتر سمجھتا ہے کہ نظام کی باریکیاں کیا ہیں ؟ کس طرح اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور کس طرح اس پر عمل کیا جاتا ہے.اس لئے اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑا کریں.یہ حق آپ کو بھی اور آپ میں سے جماعت کے ہر عہدیدار کو بھی ہے کہ اگر کوئی شکایت آئے تو وہ اس لئے اُسے زیر غور نہ لائے کہ وہ نظام کی معرفت نہیں آئی.بلاشبہ ہر عہدیدار کو یہ حق حاصل ہے لیکن اگر وہ ایسا معاملہ ہو جس کے متعلق اُس کا دل اس کو یہ کہے کہ اس میں تحقیق ضروری ہے توپھر تحقیق کرنا بھی جرم ہو گا لیکن عدل کے اس تقاضے جاء کو طوظ رکھنا ضروری ہوگا کہ جین کے خلاف شکایت کی گئی ہے اُسے پوری بات سے مطلع کر دیا ہے.زیر غور شکایت میں صحیح طرز عمل کی وضاحت ، وہ معامل جو ہیں تے
۱۲۵ ابھی آپ کے سامنے بیان کیا تھا اس کا مجھے جو تفصیلی جواب نظام جماعت کی طرف سے ملا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اس بچی کو جو اول آئی تھی پہلے انعام مل چکا تھا، جب غلطی سے اس کا نام دوبارہ یول گیا تو اس نے کیوں نہیں کہا کہ مجھے تو انعام مل چکا ہے.وہ جھوٹ بولتی ہے کہ ہم نے اس سے النعام واپس لے کر اس پر ظلم کیا، اس نے کیوں نہ بتایا کہ غلطی سے اس کا نام پکارا گیا ہے اس لئے مجھے انعام نہ دیا جائے....یہ سب بچگانہ باتیں ہیں.انعام لینے کا شوق ہر شخص کو ہوتا ہے.جس شخص کو نام لے کر پکارا اور بلایا جائے وہ بہر حال جذبہ شوق سے مغلوب ہو کر دوڑا دوڑا آئے گا.اگر نظام نے غلطی سے ایک انعام دوبارہ دے دیا ہے تو اس سے انعام واپس لینے کا طریق اور ہے نظام کو چاہیے کہ اس سے علیحدگی میں ایسے وقت جبکہ وہ بے عزتی محسوس نہ کرے اُسے یاد دلائے کہ بی بی ہم سے غلطی ہو گئی ہے ہم معافی چاہتے ہیں آپ کو یہ انعام دوسری دفعہ دے دیا گیا ہے اس لئے آپ یہ انعام واپس کر دیں.یہ حسنِ خلق کا تقاضا ہے جسے ایسی صورت میں پورا کرنا ضروری ہے.بصورت دیگر اگر مبھری مجلس میں ایک نو جوان بچی کو رد کیا جائے تو لازما اس کو ٹھوکر لگے گی.پس لجنہ بہت اچھا کام کر رہی ہے بڑی محنت سے کام کر رہی ہے لیکن لجنہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس طرح وہ اپنے جذبات کا خیال رکھتی ہیں اور خلیفہ وقت کی طرف سے جواب طلبی پر بھی دُکھ محسوس کرتی ہیں وہ اسی طرح اپنی ماتحت احمدی بچیوں کے جذبات کا بھی خیال کریں ان کی حرمت کا بھی خیال کیا کریں ان کی حرمت کا بھی احساس کیا کریں.اگر غلطی سے کوئی انعام زیادہ چلا گیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے.پھر اس انعام کا پبلک میں واپسی لینا یقیناً ہر شخص کے لئے بہت ہی تکلیف دہ تجربہ ہے غلطی آپ کی ہے ، آپ نے دوبارہ انعام دیا سی کیوں اور اگر غلطی سے دوبارہ انعام دے دیا تھا اور ضرور واپس لینا ہی تھا تو بعد میں لینا چاہیے تھا اور اگر واپس نہ بھی لیں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی.لجنہ اتنی غریب تو نہیں ہے کہ ایک چھوٹا سا میڈل دوسری دفعہ دے کر ان کا دیوالیہ پٹ جائے گا.اس لئے لجنہ کا جواب
ایک بچگانہ جواب ہے.خیر و بھی ہے میں اس جاب کو قبول نہیں کرتا.مگرمیں آپ کو یہ بات اس لئے نہیں بتارہا کہ آپ کی صدارت یا آپ کی لیڈرشپ غلط ہے.یہ میں آپ کو اس لئے بتا رہا ہوں کہ ایسی باتیں مختلف Levels (مدارج) پر ہوتی رہتی ہیں ان سے عہدہ براء ہونے کے لئے تربیت کی ضرورت ہے ان کو بھی اپنی اصلاح کرنی چاہیئے.ادھر آپ میں سے جو خاتون بھی عہدہ پر فائز ہو اسے اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ اس طرح جذبات سے کھیلنا کہ جس کی وجہ سے کوئی شخص بہتک عزت محسوس کرے اور تکلیف محسوس کرے بعض دفعہ بڑے خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے ، ایک فرد کو ہی نہیں ایک خاندان کو بھی احمدیت سے دور پھینک دیتا ہے.خدمت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.اپنے جذبات کا چنداں خیال نہ کریں اپنے آپ پر رحم نہ کریں لیکن دوسرے کے جذبات کا ضرور خیال کیا کریں اور دوسروں کے لئے رحم کا جذبہ پیدا کریں.نظم وضبط اپنی جگہ ہے اور رحم اپنی جگہ ہے.ان دونوں کے درمیان تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہونا چاہئے مگر ایک کو دیو کے پر قربان بھی نہیں کیا جاسکتا.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ ان نصیحتوں کو سمجھیں اور جو وقت کے تقاضے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے مستعد ہو جائیں.اگر حیا کی حفاظت کے سلسلہ میں کوئی غلطیاں ہوئی بین تو استغفار کریں اور نظام جماعت کے طور پر بھی اور افراد جماعت کے طور پر بھی حیا کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے ایک جہاد شروع کریں.اگر آپ ایسا کریں گی تو مغرب کو بھی اُس کی کھوئی ہوئی قدر واپس دلانے میں کامیاب ہو جائیں گی.اس قدر کا واپس ہونا اور سجال ہونا خود مغربی تہذیب کی حفاظت کے لئے بھی اشد ضروری ہے.اس کی محرومی کی وجہ سے وہ کئی قسم کی بلاؤں میں مبتلا ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
تبلیغ دین اور تربیت اولاد خطاب حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع ايده الله تعالیٰ بنصره العزيز امام جماعت احمد یہ عالمگیر فرمودها جولائی ۱۹۹ بر موقع الا الانه لجنہ اماء اللہ کینیڈا بمقام (۲) سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی (بذریعہ تلیفون) ٹورنٹو، کینیڈا
۱۲۸ حضور انور کے اس خطاب کے چند اہم نکات ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں احمدیت اب ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے.اس کرت کے ساتھ جماعت میں دنیا کی دلچسپی بڑھ رہی ہے اور اس تیزی سے مطالبے آئے ہے ہیں کہ اگر سارے موجودہ وسائل اسی طرح رہیں تو ناممکن ہے کہ ہم دنیا کی ضرورتیں پوری کر سکیں.میری خلافت کا لجنہ اماء اللہ سے ایک گہرا تعلق ہے میرے اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ لجنہ جماعتی خدمات میں بہت ہی مستعد ہو گی اور بہت قوت کے ساتھ میری مدد کرے گی.میری خلافت کا روس کے ساتھ بھی ایک تعلق ہے.اب یہ وقت ہے.جس میں واقعہ بڑی تیزی کے ساتھ ہم روس میں دین پھیلانے لگیں گے.روس میں تبلیغ (دین حقی - ناقل) کے سلسلہ میں احمدی خواتین بہت بڑے کام کر سکتی ہیں اپنی بچیوں کی حفاظت کی خاطر شروع ہی سے ان کے اور پر دینی ذمہ داریاں ڈانا شروع کر دیں ان کے سپرد کوئی ایسے اعلیٰ درجہ کے کام کر دیں جن کے نتیجے میں ان میں ایک احساس پیدا ہو کہ ہم بہت عظیم خواتین ہیں.ہم خاص مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہیں ہم نے بڑے بڑے کام دنیا میں سر انجام دیتے ہیں.دنیا کے پیچھے نہیں گئی بلکہ دنیا کو اپنے پیچھے چلاتا ہے.یہ جذبہ انسان کے اندر ایک اندرونی محافظ پیدا کر دیتا ہے جسے خدا نے ہر ضمیر میں رکھا ہوا ہے اس قسم کا احساس اگر بچپن میں پیدا کر دیا جائے تو بعد میں ان کے ضمیر کا وہ محافظ اور نگران ان کو ہمیشہ صحیح رستہ پر قائم رکھتا ہے جن ملکوں میں ہم خدمت دین کے لئے نکلے ہیں ، جن تہذیبوں سے ہمارا واسطہ ہے ان کا زہر بہت گہرا ہے اور اس سے اپنی اولاد کو بچانا ہمارے اولین مقاصد میں سے ہونا چاہیے اور یہ حفاظت دفاعی طور پر نہیں ہو سکتی.کے لئے اپنے بچوں میں ایسی جارحیت پیدا کریں جو محبت کی جارحیت ہے.دین حق..نافل) آج کے دور میں پیدا ہونے والے بچوں پر آئندہ نسلوں کی تربیت کی قصہ داری ہے پس ایسے اچھے بچے پیدا کرنے کے لئے آپ کو اچھی مائیں بنتا ہو گا
۱۲۹ سب سے اچھا ورثہ جو ماں کسی بچے کو دے سکتی ہے وہ تقوی کا در شر ہے.آپ کی تو ساری دولت ہی اولاد ہے یہی تو آپ کا مستقبل ہے.تربیت کے سلیقے کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز لگن ہے.اگر آپ کے دل میں سچی لگن ہو تو ایسی ماؤں کے بچے ضائع نہیں ہو سکتے.بچپن سے ہی اپنے بچوں کے عادات و اطوار پر نظر رکھیں.محبت اور پیار کے ساتھ ان کے اندر دین کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں.بیوی سے ظلم کا سلوک بہت بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے.یہ ایک ایسا گناہ ہے جو سارے معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے.(عورتیں) اپنے لڑکوں کی ایسی تربیت کریں کہ جب وہ بڑے ہوں تو وہ اپنی بیویوں سے نیک سلوک کرنے والے ہوں آج کی مائیں کل کے مرد پیدا کرنے والی مائیں ہیں.دہ مائیں ہی ہیں جن کی غلط تربیت بعد میں عورتوں کے سامنے آتی ہے گویا فی الحقیقت عورت عورت پر ظلم کر رہی ہے اگر آپ نے اپنے اوپر رحم کرنا ہے تو اپنے لڑکوں کی صحیح تربیت کریں اور عورت کے حقوق ان کو بچپن سے بتائیں اور انہیں بہنوں کی عزت کرنا سکھائیں ان کے اندر نفیس جذبات پیدا کریں اور عورت کی عزت کا خیال ان کے دل میں جاگزیں کریں اگر آپ ایسے لڑکے پیدا کریں گی تو آپ کا احسان آئندہ نسلوں پر بڑا بھاری ہوگا.نسلاً بعد نسلاً احمدی بچوں کو اچھے خاوند عطا ہوتے رہیں گے.ایسے خاوند جیسا ہم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی صورت میں دیکھا ہمیں بہت ضرورت ہے کہ ہمارے گھر کے ماحول اچھے ہوں، پیارے ہوں ، مردوں کی بیٹیوں کی بیٹیوں کی ہر وقت یہ خواہش ہو کہ ہم گھر واپس لوٹیں اور نہیں چین آئے آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہو، پیار ہو اور احمدی گھروں کے تعلقات تمام دنیا کے گھروں سے بہتر تعلقات بن جائیں.یہ وہ نمونہ ہے جس کو پیش کرنے کے نتیجہ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے (دین حق..ناقل) کی بہترین پیغامبر بن جائیں گی ورنہ زبانی باتوں کو آج کی دنیا میں کوئی نہیں سنا کرتا.
۱۳
تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا اور آج کا لجنہ کا یہ اجتماع جو یہاں منعقد کر رہے ہیں اسی قسم کا لجنہ کا ایک اجتماع جرمنی میں بھی منعقد ہورہا ہے اور اس اجتماع میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت اس خطاب کی آواز پہنچ رہی ہے.ان کی طرف سے فیکس کے ذریعہ مجھے یہ اطلاع ملی اور ساتھ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ جب لجنہ کینیڈا کو مخاطب کریں تو ہمارا بھی خیال رکھیں ہم تک بھی آواز پہنچ رہی ہے.ہمارا بھی آج اجتماع کا پہلا دن ہے.اس لئے میں آپ دونوں کو بیک وقت خطاب کر رہا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ لجنہ جرمنی خدا کے فضل سے بہت ہی مستعد لجنہ ہے اور جب بھی مجھے جرمنی جاکر قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے مجھے اس بات سے بہت خوشی پہنچی ہے کہ لجنہ اپنے سب کاموں میں خدا کے فضل سے مستعد ہے اور خصوصاً بچوں کی تربیت کی طرف ان کی گہری توجہ ہے اور اس کے نیک آثار ظاہر بھی ہورہے ہیں.دو سال پہلے جب یں دوہاں گیا یا غالباً پچھلے سال کی بات ہے توپہلی مرتبہ مجند نے یہ ایک نیا پروگرام داخل کیا کہ چھوٹی بچیتوں کے ساتھ سوال وجواب کی مجلس لگائی اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ چھوٹی چھوٹی بچیاں بہت کچھ جانتی تھیں.گر کی کو کچھ علم نہ ہو تو وہ سال بھی نہیں کر سکتا اور صرف جواب ہی سے کسی کے علم کا انداز نہیں ہوا کرتا بہت حد تک حوالوں سے بھی کسی کے علم کا اندازہ ہو جایا کرتا ہے.جن کے سوال سطحی ہوں ان کے علم بھی سھی ہوا کرتے ہیں جن کے سوال
گہرے ہوں اور تلاش کرنے والے ہوں ان کے علم کا بھی پتہ چلتا ہے اوران کی ذہنی جستجو کبھی پتہ چلتا ہے تو ان بچیوں کا میکہ دل پر بہت اچھا اللہ پڑا.بہت اچھے اچھے سوال کئے اور بعض دفعہ ان کے سوالوں سے یہ بھی پتہ چلا کہ ان کے ماں باپ کو کس حد تک دین کا علم ہے.یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے جس کی طرف میں سب سے پہلے آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال اور ہماری ذمہ داریاں ہمارے اوپر آئندہ نسلوںکی ذمہ داری ہے اور خصوصیت کے ساتھ نسل جواب ہمارے سامنے بڑھ کر جوان ہونے والی ہے اس کی ہم پر بہت ہی زیادہ ذمہ داری ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ احمدیت اب ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو خدا نے جو خوشخبری دی کہ اب نیک طبیعتوں کا اس طرف رحجان ہے اور ان پر فرشتے نازل ہو رہے ہیں.ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ہم ان فرشتوں کا نزول اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں.اس کثرت کے ساتھ جماعت میں دنیا کی دلچسپی بڑھ رہی ہے اور اس تیزی سے مطالبے آرہے ہیں کہ اگر ہمارے موجودہ وسائل اسی طرح رہیں تو ناممکن ہے کہ ہم دنیا کی ضرورتیں پوری کرسکیں.ایک USSR ا متحد روس کا میدان ہی اتنا وسیع ہے اور وہاں کی ضروریات اتنی زیادہ ہیں کہ اگر جماعت اپنے تام موجودہ وسائل کو بھی USSR کے لئے وقف کر دے تب بھی وہ ضرور میں پوری نہیں ہو سکتیں.جب سے روس کا ollapse) رستگی ہوا ہے، روس اچانک یوں بیٹھ گیا ہے جیسے اس میں کبھی جان ہی نہیں تھی اس کے کچھ بدنتائج دنیا کے سامنے ظاہر ہورہے ہیں اور کچھ ظاہر ہوں گے.ابھی تو سر دست دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بہت بڑی فتح ہے یا capitalism اسمرا یارانہ نظام کی فتح ہے مگر یہ سب بیوقوفی کی باتیں ہیں.یہ نظام بھی ناکام ہو چکا ہے جس میں ہم اس وقت موجود ہیں اور وہ نظام بھی ناکام ہو چکا ہے اور
١٣٣ ان دونوں نظاموں کے ٹوٹنے کے نتیجہمیں ایک جوٹوٹ کر ظاہر ہوگیا اور ایک ٹوٹنے والا ہے.ن کے نتیجہ میں جو انتشار پیدا ہوگا اس کو سنبھالنے کی تمام تر ذمہ داری جماعت احمدیہ کی ہے.روس USSR میں جماعت احمدیہ کا نفوذ روس کے انتشار کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو وہاں بڑی تیزی سے نفوذ ہوا اور بکثرت ان کے ساتھ ہمارے رابطے ہوئے اور بہت بڑی بڑی اسلامی مملکتوں کے جو اس وقت روس کا حصہ ہیں، چوٹی کے بعض نمائندگان انگلستان آکر مجھ سے ملے اور بعض تک ہم نے اپنے نمائندے بھیجے.اب نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خدا کے فضل سے اکثر مسلمان ریاستوں میں حمامات احمدیہ قائم ہو چکی ہے اور ان کے راہنما اس سال جلسہ میں شرکت کے لئے حاضر ہورہے ہیں.بعض ایسے نئے ممالک بھی احمدیت میں داخل ہوئے جن کے متعلق ہمارے پروگرام میں کوئی ذکر نہیں تھا اور بظاہر کوئی سبیل نظر نہیں آتی تھی کہ کیسے ہم وہاں تک پہنچیں گے مثلاً منگولیا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایسا انتظام کیا کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یقیناً یہ سارا کاروبار جو شروع ہو چکا ہے یہ خدا کی تقدیر کے تابع ہے اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں، ہماری کوششوں کا کوئی دخل نہیں.چنانچہ کچھ عرصہ پہلے منگولیا کے ایک مسلمان لیڈر جو تازق یا فرق قوم سے تعلق رکھتے تھے اور کسی زمانہ میں وہ لوگ روس سے منگولیا منتقل ہو گئے تھے ، انگلستان تشریف لائے.انگلستان آنے کے بعد کسی نے اُن کو مشورہ ا کہ اگرتم کسی مسلمان تنظیم سے رابطہ قائم کرنا چاہتے ہو تو ایک ہی جگہ ہے تم لندن (احمدی بیت الصلوة ناقل) جاؤا اور ان سے طلوبہ وہ نہیں سمجھائیں گے اور تمہاری ضروریات کے متعلق بھی تمہیں آگاہ کریں گے کہ کیسے پوری کی جاسکتی ہیں.چنانچہ انہوں نے رابطہ کیا اور رابطہ کے بعد کئی مجالس ہوئیں اور انہوں نے اس بات پر آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ واپس جاکر پہلے میرے نمائندے کو دعوت دیں گے اور پھر مجھے دعوت دیں گے تاکہ میں خود وہاں جاکران مسلمانوں
۱۳۴ سے رابطہ کر سکوں.ایک لاکھ چائیس ہزار مسلمان قرق وہاں موجود ہیں لیکن الا ما شاء الله تمام کے تمام بے دین ہو چکے تھے.ایک بھی مسجد وہاں ہاتی نہیں رہی تھی.کلیتہ اسلام کے نشانات وہاں سے مٹادیئے گئے تھے.بہت ہی درد ناک تصویر تھی جو انہوں نے میرے سامنے کھینچی لیکن مجھے یہ معلوم کر کے افسوس بھی ہوا کہ ان کے رحجانات تیل کی دولت کی طرف زیادہ ہیں اسلام کی طرف کم ہیں چنانچہ کچھ ایسے اشارے کرتے رہے جن سے میں سمجھا کہ ان کی ضر در تیں ہم سے پوری نہیں ہو سکیں گی.اُن سے میں نے کہا ، دیکھیں ! اگر تو آپ کو دنیا کی دولت چاہیے تو آپ غلط جگہ آگئے ہیں.آپ ایران جائیے.آپ سعودی عرب جائیے.انڈونیشیا جائیے.لیبیا سے رابطہ کریں.دولت تو ملے گی دین نہیں ملے گا اور انسانی قدریں نہیں ملیں گی.اسلام اگر ملا بھی تو ام کا وہ اسلام ملے گا جو تاریک زمانوں کا اسلام ہے حضرت محمدرسول اللہصلی الہ علیہ ولی ال وستم کے روشن زمانے کا اسلام نہیں ہلے گا.اب آپ کی مرضی ہے کہ کون سا رستہ اختیار کرتے ہیں.بہر حال واپس جاکر انہوں نے ایک وعدہ پورا کیا اور میرے نمائندہ کو آنے کی دعوت دی.وہ جب اس علاقے میں پہنچے جہاں سے وہ لیڈر نمائندہ منتخب ہوئے تھے تو ان لوگوں کی طرز عمل بالکل مختلف تھی.وہ واقعہ اسلام کے پیاسے تھے اور چاہتے تھے کہ کوئی ان کی راہنمائی کرے کیونکہ اس سے پہلے میں روسی زبان میں ایک محبت بھرا پیغام اہل روس کے لئے لکھ چکا تھا.وہ اسے ساتھ لے گئے اور اسے پڑھنے کے بعد بہت تیزی سے اُن لوگوں کے اندر دلچسپی پیدا ہوئی.وہاں سینما ہال کے سوا کوئی بال نہیں ہوتے جہاں لیکچرز ہوں تو چونکہ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر خود دلچسپی لے رہے تھے اس لئے انہوں نے ہمارے نمائندہ کی سینما ہال میں تقریر کرائی اور وہاں سب نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر تائید کی کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں.ان کو اس نمائندہ نے مطلع کر دیا کہ تمہارا ایڈر دوسری طرف رحجان رکھتا ہے.ہو سکتا ہے کہ وہ اس بات کو برا منائے کہ تم ہم سے تعلق قائم کر ولیکن انہوں نے کہا کہ ہم نے اُسے لیڈر چنا ہے، اگر وہ ہماری مرضی کے مطابق ہے
۱۳۵ گا تو لیڈر رہے گا نہیں ہوگا تو ہم دوسرا لیڈر چن لیں گے مگر احمدیت میں دلچسپی سے وہ ہمیں اب ہٹا نہیں سکتا.چنانچہ ان کے تین بہت ہی اہم لیڈر میرے امریکہ آنے سے پہلے مجھ سے ملنے آئے اور جب میں وہاں سے رخصت ہوا ہوں تو ابھی وہیں موجود تھے.اس ملاقات کے نتیجہ میں ہم نے منگولین ایمبیسی کو بھی بیچ میں شامل کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ واپس جا کہ یہ بڑی جلدی احمدیت کی باقاعدہ رجسٹریشن کرائیں گے اور اس کے بعد انہوں نے مجھے یہ تاثر دیا کہ ایک دفعہ جب احمدیت کی رجسٹریشن ہوگئی تو ہمارے ساتھ ایک لاکھ چالیس ہزار سلمان احمدیت کے ممبر بن جائیں گے.چنانچہ جتنی دیر وہ وہاں رہے ہماری آپس میں بہت سے مختلف موضوعات پرگفتگو ہوتی رہی اور ان کی علمی ضروریات کی بھی تعین ہوئی اور کس حد تک ہم معلم بھیج کر ان کی مدد کر سکتے ہیں، یہ باتیں بھی طے ہوئیں.یہاں تک کہ منگولین ایمبیسی نے ہم سے وعدہ کیا کہ آپ ان کی تربیت کے لئے وہاں جتنے آدمی بھی بھیجنا چاہیں گے ہم پاکستان کے ذریعے آپ کو ویزا کی درخواست دینے پر مجبور نہیں کریں گے کیونکہ ہم حالات کو جانتے ہیں.آپ براہ راست نہیں کہیں اور ہم ذمہ دار ہیں کہ آپ کے آدمی وہاں پہنچتے رہیں.چنانچہ اللہ تعالے کے فضل سے یہ رابطے بڑی تیری کے ساتھ استوار ہوئے اور ہو رہے ہیں.بہت سی کتب وہ ساتھ لے گئے.کچھ ہم ان کو بھجوا رہے ہیں.خیال یہ ہے کہ انشاء اللہ منگولا میں ہ سے پہلی (بیت الصلوة...ناقل) جماعت احمدیہ قائم کرے گی اور امید ہے کہ بہت جلد اس کی بنیادیں ڈال دی جائیں گی.روس میں اشاعت دین میں لجنہ کا کردار اب یہ ایک لاکھ چالیس ہزار احمدی جو خدا کے فضل ہے اس حال میں داخل ہوئے ہیں کہ ان کی تختیاں بالکل خالی ہیں ، نام کا اسلام ہے لیکن کچھ پتہ نہیں کہ اسلام کیا چیز ہے ان کی تربیت کوئی آسان کام تو نہیں ہے کتنی ہیں ضرور نہیں ہیں.بہت سی
١٣٩ چیزوں کے ترجمے چاہئیں.بہت سے کارکن چاہئیں.بہت سی عورتیں چاہئیں جو عورتوں کے مسائل سے اُن کو آگاہ کریں.اُن آنے والوں میں ایک خاتون بھی تھیں جو میری اہلیہ سے بھی ملیں اور میری بچیوں سے بھی بہت اچھا نیک تأثر لے کر وہ واپس لوٹی ہیں تو اس لئے یں آپ کے ساتھ یہ بات کھل کر کر رہا ہوں کہ آپ پر بہت سی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.صرف ایک منگولیا کا ہی معامر نہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا روس کی مختلف ریاستوں سے بڑی تیزی کے ساتھ دلچسپی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.مردوں نے تو جو کام کرنا ہے وہ کریں گے ہی لیکن میری یہ دلی تمنا ہے کہ عورتیں کسی صورت میں بھی مردوں سے پیچھے نہ رہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر عورتیں یہ فیصلہ کر لیں تو ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مردوں سے پیچھے نہیں رہیں گی.اس پر میرا ایک مشاہدہ گواہ ہے.حضرت مصلح موعود اللہ تعالٰی آپ سے رامنی ہو) کے زمانہ میں بھی جب بھی حضرت مصلح موعود نے ایسی تحریک کی جس میں لجنہ کو خاص طور پر مخاطب کر کے ان پر ذمہ داری ڈالی تو اس تحریک کے جواب میں انہوں نے بہت جلدی بھیک کہا اور مردوں کے مقابل میں بہت تیزی کے ساتھ ان فرائض کو پورا کیا جوائن کے ذمہ لگائے گئے تھے.اسی طرح اب بھی میں دیکھتا ہوں کہ چونکہ اب ہر تک کی صد لجنہ براہ راست مجھ سے متعلق ہو چکی ہے.بیچ میں کوئی واسطہ نہیں رہا، جب بھی کوئی ہدایت لجنہ کو دی جاتی ہے تو بلا تاخیر ان کی طرف سے خدا کے فضل کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے اس تحریک پر عمل ہوتا ہے اور مردوں میں نسبتاً کچھ مستی ہو جاتی ہے تعلیم کے معاملہ میں بھی ہم نے دیکھا ہے ہ ربوہ میں بھی اور پہلے قادیان میں بھی احمدی بچیاں تعلیم میں اپنے بھائیوں وغیرہ سے آگے تھیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس باہر کے مشاغل نہیں تھے.لڑکے باہر جا کر بہت سا وقت ضائع کر دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپس میں باتیں کرنے کے مواقع تو تھے جن کی قربانی کرنا کہ آپس میں باتیں چھوڑ کر پڑھائی کرنا یہ بھی بہت بڑی چیز ہے.چنانچہ لجنہ نے اور احمدی خواتین نے اللہ کے فضل سے اچھے کاموں میں ہمیشہ آگے قدم بڑھائے ہیں
ور دنیا کی علی ضروری پوری کرنے میں بعد بہت بڑے کام کرسکتی ہے.روس میں اشاعت دین کا میری ذات اور لجنہ سے خاص تعلق پہلی بات تو یہ کہ آپ میں سے جو اس وقت تعلیم حاصل کر رہی ہیں ان کو مختلف زبانیں سیکھنی چاہئیں اور روسی زبان اس وقت بہت ہی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ روس کے متعلق حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی یہ پیش گوئی تھی کہ خدا تعالیٰ نے روس کا عصا میرے ہاتھوں میں تھمایا ہے اور پھر یہ پیش گوئی تھی کہ میں ریت کے ذروں کی طرح اپنے متبعین کو روس میں دیکھتا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ وقت ہے اور یہ دور ہے جس میں واقعہ بڑی تیزی کے ساتھ ہم روس میں انشاء اللہ تعالیٰ دین پھیلانے لگیں گے.اس کا لونز سے بھی ایک تعلق ہے اور میری ذات سے بھی تعلق ہے اور میری خلافت کا بھی لجنہ سے ایک تعلق ہے.آج میں یہ مضمون آپ پر کھولنا چاہتا ہوں جب بھی میں غالباً جامعہ احمدیہ کا علم تھاتومیں نے ایک عجیب خواب دیکھا اور اس کا میں نے اپنے پہلے جلسہ کے اس خطاب میں بھی ذکر کیا تھا جو خواتین سے ہوا تھا.وہ خواب یہ دیکھا کہ ایک مجلس ہے جس میں مختلف علماء ( غیر احمدی علماء بھی ہیں اور کچھ احمدی علماء بھی ہیں) کے درمیان احمد تیت کی سچائی یا بطلان کی گفتگو ہورہی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ جو احمدی علماء ہیں وہ جس طرح جواب دینے کا حق ہے ویسا جواب نہیں دے رہے اور جیسا فتح کا نمایاں اثر ظاہر ہونا چاہیئے ویسا فتح کا اثر ظاہر نہیں ہورہا تو میں اُٹھ کر جواب کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہوں اور عجیب فقرہ کہتا ہوں کہ میرے وہم وگمان میں بھی وہ بات نہیں آسکتی تھی.اس زمانے میں یہ فقرہ بالکل ہی غیر معمولی اور اجنبی فقرہ تھا لیکن میں بات ہی اس طرح شروع کرتا ہوں کہ بعض دفعہ بعض تیر لبعض خاص وقتوں کے لئے بچا کر رکھے جاتے ہیں لیکن ان کے استعمال کا وقت توقع سے پہلے آجاتا ہے اور میں لجنہ اماءاللہ کے ان تیروں میں سے ایک تیر ہوں
جو خاص وقت کے لئے بچا کے رکھے گئے تھے لیکن اس سے پہلے وہ وقت آگیا ہے اب میں اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہوں اور اس کے بعد میں نے کچھ تفصیل سے ذکر بھی کیا تھا.بہرحال میں و گفتگو کرتا ہوں اس سے ایک دم کایا پلٹ جاتی ہے اور سارے مخالفین سر مینیک کر ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے ہیں تو اس رویا سے میں یہ بجھتا ہوں کہ میری خلافت کا لجنہ اما والدہ سے ایک گہرا تعلق ہے.لجنہ اما و اللہ کے تیر کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لونڈیوں کا ایک تیر ہے جو دُنیا کے لئے پھینکا جا رہا ہے.اس کا جو بھی مطلب ہوئیں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے کہ میرے دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بوند جماعتی خدمات میں بہت ہی مستعد ہو گی اور بہت قوت کے ساتھ میری مدد کرے گی.یہ تعبیر اس لئے کی ہے کہ تیر تو چلتا ہے لیکن تیر کو چلانے والے ہاتھ پیچھے ہوتے ہیں اور ان ہاتھوں کی طاقت تیروں میں منتقل ہوتی ہے پس مجھے لجنہ اماء اللہ کے تیروں میں سے ایک تیر کہا.اس سے مراد یہ ہے کہ انشاء اللہ میری ہر تحریک پر لبته ایا مرالہ بڑی قوت کے ساتھ عمل کرے گی اور اس کی طاقت کے زور سے دنیا تک ( دین حق...ناقل) کا پیغام پہنچے گا.میری خلافت کا روس کے ساتھ بھی ایک تعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) نے بہت لمبا عرصہ پہلے (یعنی ہندوستان کی تقسیم بھی ابھی نہیں ہوئی تھی اور میں ابھی بہت چھوٹا تھا ایک رویا دیکھی اور رویا یہ تھی کہ آپ کسی ایسی جگہ میں ہیں جہاں ارد گرد فوج کا گھیرا ہے اور خطرہ ہے اور اس کمرے میں اقم طاہر (میری والدہ ) لیٹی ہوئی ہیں اور ان کے ساتھ ایک بچہ ہے جو میرا بچہ ہے لیکن چونکہ میری عمر اس بچے سے بڑی تھی جو ان کو نظر آیا.اس لئے حضرت مصلح موعود اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کو سمجھ نہیں آسکی کہ یہ لڑکا کون ہے.بہرحال آپنے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ خطرہ ہے.ہمیں ام ظاہر کو کہتا ہوں کہ جلدی سے اٹھو اور تیار ہو.اوسم اس ملک سے نکل جائیں لیکن وہ شاید دیر
١٣٩ کرتی ہیں یا تیار نہیں ہوسکیں.آپ نے بچے کو گود میں اٹھایا اور تیزی کے ساتھ وہاں سے باہر نکل گئے.ایسی حالت میں کہ وہ بچہ ان کی گود میں ہے ایک ایسی جگہ جاتے ہیں جو اجنبی ہے اور وہاں جاکر پوچھتے ہیں کہ یہ کونسا علاقہ ہے تو لوگ آہستہ آہستہ کہتے ہیں آہستہ بات کریں.یہ روس کا علاقہ ہے.آپ کہتے ہیں تم کون لوگ ہو.انہوں نے کہا کہ ہم تو احمدی ہیں اور یہاں احمدیت پھیل رہی ہے لیکن ابھی کھل کر بات کرنے کا وقت نہیں ہے.اب اس دنیا میں حضرت مصلح موعود اللہ تعالی آپ سے راضی ہو) کی گود میں جو بچہ ہے وہ میں تھا اور چھوٹا بچہ اس لئے دکھایا گیا کہ ابھی کچھ وقت لگنا تھا جب خدا تعالے مجھے تربیت دے کہ ایسی جگہ کھڑا کرتا کہ جی حالات میں مجھے پاکستان سے ہجرت کرنی پڑی ان حالات میں ہجرت کرتا اور پھر جا کر روس سے میرا رابطہ ہوتا.حضرت مصلح موعود( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو).کی گود میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی حمایت میں ، آپ کی نیک تمناؤں کے مطابق آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں ان وعدوں کے نتیجہ یں جو آپکی ذات سے وابستہ تھے اللہ تعالی آپ کے کسی بیٹے کو یہ توفیق دے گا کہ وہ روس میں تبلیغ دین حق...ناقل) کرے گا اور روسی احمدیوں سے اس کے روابط ہوں گے بس یہ رویا بعینہ میری ذات میں پوری ہوئی ہے کیونکہ فوج کے گھیرے کا مطلب ہے مارشل لاء کے دوران حالات کا خطرناک ہونا.فوجی حکومت کے دوران حالات کا خطر ناک ہوتا اور حضرت مصلح موعود ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوا کے ساتھ میرے سوا آپ کا کوئی اور بیٹا نہیں جو وہاں سے ہجرت کرتا ہے حضرت مصلح موعود اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوں تو تمثیلا دکھائے گئے ہیں لیکن اصل میں میری ہجرت مراد تھی اور بعینہ انہی حالات میں که فورج کا گھیرا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ خطر ناک حالات ہیں مجھے نکل جانا چاہیئے اور پھر یہاں انگلستان آنے کے بعد وہ حالات پیدا ہوئے جبکہ ہمارے روس سے روابط ہوئے.اس سے پہلے ہم ان روابط کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.تو ان دونوں تعلقات کو میں آپ پر کھول رہا ہوں کہ روس میں تبلیغ (دین حق...ناقل) کے سلسلہ میں احمدی خواتین بہت بڑے بڑے
۱۴۰ کام کر سکتی ہیں.احمدی بیچتیاں روسی زبان سیکھیں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میں آپ کو روسی زبان سیکھنے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں بہت کثرت کے ساتھ میں تربیت کرنے والیوں کی ضرورت ہوگی.اس لئے آپ اپنی بچیوں کو یہاں زائد زبان کے طور پر روسی زبان سکھا سکیں تو جہاں تک ممکن ہے یہ زبان سکھائیں ہیں نہیں جانتا کہ یہاں روسی خاندان ہیں کہ نہیں لیکن جرمنی میں بہت کثرت سے روسی خاندان آچکے ہیں کچھ آرہے ہیں.اس لئے جرمنی کی لجنہ کے لئے یہ نسبتاً زیادہ آسان ہے کہ وہ لجنہ اپنے دیگر فرائض میں روسیوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا کام بھی شامل کر لیں اور جہاں تک میں نے روسی خواتین کو دیکھا ہے جرمنی میں سبھی میرا ان سے رابطہ ہوا، میں نے دیکھا ہے کہ وہ بہت جلد احمدیت کے پیغام سے متاثر ہوتی ہیں اور مین خاندانوں سے بھی احمدی مرد و زن نے رابطہ کیا ان کی طرف سے بہت سی دوستانہ اور محبت بھرا جواب ملا ہے تو اگر وہ سردست روس نہیں جاسکتیں تو جرمنی کی خواتین روسی خاندانوں سے جرمنی میں رابطے قائم کر سکتی ہیں اور جو بچیاں زبان سیکھیں اس کی پریکٹس بھی ہوگی.وہ روسی بچیوں سے دوستی بڑھائیں اور اُن سے عنا شر وع کریں.جہاں تک لٹریچر کا تعلق ہے اللہ تعالٰی کے فضل سے وہ ہم بہت حد تک پہلے ہی طبع کر اچکے تھے اور کچھ ایسا ہے جو اب شائع ہو رہا ہے لیکن نہیں ایسی احمدی بچیوں کی ضرورت پڑے گی جو کثرت کے ساتھ کتب حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کا ترجمہ براہ راست اردو سے روسی زبان میں کرسکیں یا سلسلہ کا دوسرا لٹریچر بھی روسی زبان میں ترجمہ کرسکیں.میں امید رکھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں آپ انشاء اللہ تعالیٰ پوری توجہ کے ساتھ اس زرداری کو نبھانے کی کوشش کریں گی.
۱۴ ایک فائدہ آپ کو اس کا یہ ہو گا کہ جن بچیوں کو آپ اس پہلو سے (ابھاریں) Motivate کریں گی ان کے دل میں یہ جذبہ پیدا کریں گی کہ تم خدمت دین کے لئے روسی زبان سیکھو اور اس میں مہارت پیدا کرو، ان کو دیگر ابتلاؤں سے بھی آپ محفوظ کر دیں گی کیونکہ جن بچیوں کو شروع سے ہی ایک اعلیٰ مقصد کی لگن ہو جائے ایک اعلیٰ مقصد کی جستجو ہو جائے وہ ارد گرد کے گندے ماحول سے پھر اثر پذیر نہیں ہو تیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کو اپنے مقصد کی لگن میں اتنی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اور ایسی لذت آنے لگتی ہے کہ وہ دنیا کی دوسری لذتوں کو نسبتاً حقیر سمجھے لگتی ہیں اور غیر ماحول سے کم متاثر ہوتی ہیں.اپنی بچیوں پر دینی ذمہ داریاں ڈالیں اس سلسلہ میں اب دوسری بات میں یہ کہوں گا کہ اپنی بچیوں کی حفاظت کی خاطر شروع ہی سے ان کے اوپر دینی ذمہ داریاں ڈالنا شروع کر دیں ان کے سپرد کوئی ایسے اعلیٰ درجہ کے کام کر دیں جن کے نتیجہ میں ان میں ایک احساس پیدا ہو کہ ہم بہت عظیم خواتین ہیں ہم خاص مقاصد کے لئے پیدا کی گئی ہیں.ہم نے بڑے بڑے کام دُنیا میں سرانجام دیتے ہیں.یہ احساس ہے جو بہت سی بدیوں سے انسان کو بچاتا ہے.اور بچپن ہی میں اس احساس کا پیدا کرنا ضروری ہے.اب میری فیملی ملاقاتیں ہوتی ہیں، ان میں میں نے دیکھا ہے جو بچے وقف نو میں شامل ہیں ان کی مائیں جب ان کا تعارف کراتی ہیں تو ان کے اندر ایک اور اپنائیت کا جذبہ ہوتا ہے.معلوم ہوتا ہے بچپن سے وہ ان کے کانوں میں ڈال رہی ہیں کہ تم وقف ہو تم وقف ہو تم ہمارے نہیں تم جماعت کے ہو گئے ہو تو بعض بچے اس جوش کے ساتھ آئے گلے سے چھٹ جاتے ہیں اور یہ بناتے ہیں کہ ہم آپ کے ہو چکے ہیں ، یہ ماں باپ تو اتفاقاً ہمارے ماں باپ ہیں مستقل ہم آپ کے ہیں اور ایسا معصومانہ پیار کا جذبہ اُن سے بے ساختہ پھوٹتا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی جذبہ ہے جوائن
کی آئندہ حفاظت کرے گا.انہیں مسیح رستے پر قائم رکھے گا.اُن کے اندر یہ احساس رہے گا کہ ہم عام لوگوں سے مختلف اور ایک خاص اعلیٰ مقصد کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں.اسی قسم کا جذبہ باقی بچوں میں بھی پیدا کرنا چاہیے خواہ وہ وقف نہ ہوں.کیونکہ یہ جذبہ انسان کے اندر ایک محافظ پیدا کر دیتا ہے.ایک بیرونی محافظ ہوا کرتا ہے جو ماں باپ کی نصیحتیں ہیں یا ماحول کی نصیحتیں ہیں.یہ بیرونی محافظ ہمیشہ انسان کا ساتھ نہیں دیا کرتے لیکن ایک اندرونی محافظ ہوتا ہے جو اپنے ضمیر سے اٹھتا ہے.اس کی آواز بڑی طاقت والی ہوتی ہے.اس کا سب سے زیادہ اثر انسان کے اوپر پڑتا ہے.اگر آپ اس بڑے ماحول سے اپنی اولاد کو بچانا چاہتی ہیں تو ہر ایک کے ضمیر سے اُس کے محافظ کو جگا دیں جسے خدا نے ہر ضمیر میں رکھا ہوا ہے اور اُس کے اندر ایک لگن پیدا کر دیں ایک جذبہ پیدا کر دیں ، ایک احساس برتری پیدا کریں کہ تم زیادہ اعلی کاموں کی خاطر پیدا کی گئ ہو.تم اعلیٰ مقاصد کے لئے بنائی گئی ہو.تم نے دنیا کے حالات بدلنے ہیں.دنیا کے پیچھے نہیں لگتا بلکہ دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے.اس قسم کا کا احساس اگر بچپن میں پیدا کر دیا جائے تو بعد میں ایسے بچے خواہ کسی سکول میں جائیں خواہ ماں باپ کی نظر سے دور بھی ہٹ جائیں.تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُن کے ضمیر کا وہ محافظ اور نگران ان کو ہمیشہ صحیح راستہ پر قائم رکھتا ہے اور ایسے بچے ہمیشہ اپنے سکولوں میں، اپنے ماحول میں تبلیغ کرتے رہتے ہیں اور پھر گھر اگر اپنے ماں باپ کو شاتے ہیں کہ آج یہ بات ہوئی اور ہم نے یہ جواب دیا اور پھر جب ملاقاتوں کے وقت یہ مجھے اپنی باتیں سناتے ہیں تو بعض دفعہ میں حیران رہ جاتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالے ان کو روشنی عطا کرتا ہے دفعہ بالکل معمولی علم کے بیچے بھی جب اسلام کی خاطر کسی مد مقابل سے حتی کہ بعض دفعہ اپنے استادوں سے مکرلیتے ہیں تو خدا تعالے ایسی ایسی باتیں ان کو سمجھاتا ہے کہ اُن کا دل روشن ہو جاتا ہے اور اس تجربہ کے نتیجہ میں انکا اسلام سے اور بھی زیادہ تعلق بڑھ جاتا ہے.
۱۴۳ بچوں میں دینی محبت کی جارحیت پیدا کریں پس جن ملکوں میں ہم خدمت دین کے لئے نکلے ہیں جن تہذیبوں سے ہمارا واسطہ ہے ان کا زہر بہت گہرا ہے اور اس سے اپنی اولاد کو بچانا ہمارے اولین مقاصد میں سے ہونا چاہیئے اور یہ حفاظت دفاعی طور پر نہیں ہوسکتی بلکہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ یہ ایک قسم کی جارحیت اختیار کریں اور وہ جارحیت کوئی ظالمانہ یاد شمنی والی جارحیت نہیں ہے بلکہ ایسی جاریت ہے جیسے ماں اپنی محبت میں اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے.وہ جارحیت محبت کے نتیجے میں ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک بے انداز قوت پیدا ہو جاتی ہے، بہت بڑی دلیری پیدا ہو جاتی ہے.محبت کے نتیجہ میں جو جارحیت ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا.آپ میں سے وہ لوگ جنہوں نے پنجاب میں یا ہند و پاکستان میں یا کہیں اور دیہاتی علاقے میں تربیت پائی ہے انہوں نے بارہا اپنے گھروں میں دیکھا ہو گا کہ مرغیاں ہیں جن کے چھوٹے چھوٹے چوڑے ہوتے ہیں لیکن مرغی کی طبیعت میں چونکہ جارحیت نہیں بلکہ ایک خوف زدہ سا معصوم سا جانور ہے اور ہر چیز سے بھاگ جاتا ہے جبکہ بلی کی طبیعت میں جارحیت ہے، کتے کی طبیعت میں جارحیت ہے لیکن جب چھوٹے بچوں پر کتا یا بھی حملہ کرتے ہیں تو میں نے دیکھا ہے کہ مرغیاں اس طرح بھر کر ان پر پڑتی ہیں اور اس قدر طبیعی جوش ان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھا ہے اور میں حیرت زدہ رہ گیا کہ کتا اسی بھری ہوئی مرغی سے ڈر کر بھاگ گیا کیونکہ اس کی فطرت کو یہ معلوم تھا کہ محبت کی جارحیت کا مقابلہ نہیں ہوسکتا.یوں لگتا ہے اس کے اندر ایک شیر تھا جو بیدار ہو گیا تو دین حق...ناقل) کے لئے اپنے بچوں میں ایسی جارحیت پیدا کریں جو محبت کی جارحیت ہے اور اگر آپ یہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ یقین رکھیں کہ آپ کی اولاد ہمیشہ مخالف ماحول پر غالب رہے گی.کوئی دنیا کی طاقت اسے مغلوب نہیں کر سکے گی کیونکہ واقعہ محبت کی جارحیت جیسی کوئی اور قوت نہیں
۱۴۴ ہے اور آپ ماؤں سے بڑھ کر اور کون جانتا ہے.آپ کی فطرت میں خدا نے یہ بات رکھ دی ہے اور دین حق...ناقل) کو ایسی ماؤں کی ضرورت ہے جو اس رنگ میں اپنی اولادوں کی تربیت کریں.بچے کے لئے ماں کا سب سے اچھا ورثہ تقویٰ ہے آج کے دور میں پیدا ہونے والے بچوں پر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آئندہ نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے.کثرت کے ساتھ لوگ داخل ہو رہے ہیں.صرف زبان کی بات نہیں ہے.اپنے اعمال سے اپنی تنظیم اور نظم وضبط کے ذریعے احمدیوں کو ایسے نمونے بنانے پڑیں گے جن کے نتیجے میں ہر دیکھنے والا ان نمونوں سے متاثر ہو اور ان کے ساتھ رہنا ہی ان کی تربیت کا موجب بن جائے.پیس ایسے اچھے بچے پیدا کرنے کے لئے آپ کو اچھی ماں بننا ہوگا.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ اچھی مائیں بہنیں اور اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرتی ہیں اور دعائیں منگواتی رہیں کہ ان کو خدا اچھا بنا دے.ایسی مائیں جو دنیا کی ہوچکی ہوتی ہیں جن کی تمنائیں دنیا کے لئے وقف ہو جاتی ہیں ، جن کی خواہشات دُنیا کی زندگی کے لئے وقف ہو جاتی ہیں بعض دفعہ ان کے دل میں بھی دین کی محبت ہوتی ہے اور پہلی منزل پر وہ نہیں بجھتیں کہ ہمارا رخ کس طرف ہے.دل میں بچپن سے یہ بات داخل کی جاچکی ہے اور جاگزین کی جا چکی ہے کہ دین دُنیا پر غالب رہنا چاہیے چنانچہ وہ اپنے بچوں کے لئے دین ہی مانگتی ہیں اور دین کی دعائیں کرتی ہیں اور جب بھی موقعہ ملے وہ لکھتی بھی ہیں لیکن خود وہ دنیا کی ہو چکی ہوتی ہیں.ایسی ماؤں کے بچے بالآخر ہا تھوں سے ضرور نکل جاتے ہیں کیونکہ بچوں کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ ذہانت رکھی ہے کہ اپنے ماں باپ کے اصل مدعا کو پہچان لیتے ہیں.اگر ماں باپ ان کو کہیں کہ اچھے بند پہنچے بنو نیک بنوا اور خود جھوٹ بول رہے ہوں، خود وقت ضائع کر رہے ہوں، خود خواہشات دُنیا کی ہوں تو بچے خاموش بھی رہیں گے تو دل ان کا بتا رہا
۱۱۴۵ ہوگا کہ ماں باپ گپیں مارتے ہیں ان کو دنیا زیادہ اچھی لگتی ہے دین نسبتا کم اچھا لگتا ہے اگر ماں باپ کے دل میں دین کی گہری محبت ہو تو وہ خاموش بھی ہوں تو ان کے بچوں پر بہت نیک اثرات پڑتے ہیں.ہم نے ایسی جاہل مائیں بھی دیکھی ہیں جو دنیا کے لحاظ سے جاہل لیکن دل میں نیکی اور اللہ اور رسول کی محبت جاگزیں تھی بسادہ سے لوگ تھے.پرانے زمانوں کے لوگ لیکن ان کی اور دیں سب کی سب خدا کے فضل سے دیندار نہیں.اور جب آپ اُن سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ تو ہماری ماں کا احسان ہے ، اس نے دودھ میں ہمیں اللہ کی محبت پلائی.پس یہ جو دودھ پلانے کا محاورہ ہے اس میں بہت گہری حکمت کی بات ہے.دودھ میں محبت پلانے کا مطلب یہ ہے کہ ان ماؤں کے خون میں وہ محبت رچی ہوئی ہوتی ہے.وہ دودھ پلائیں تو دودھ کے ذریعے وہ محبت بچوں میں جاتی ہے.وہ باتیں کریں تو باتوں کے ذریعے وہ محبت جاتی ہے.اوریاں دیں تو تب بھی وہ محبت اکن کے دلوں میں جاتی ہے.دم ان کو جب پیار کی نظروں سے دیکھتی ہیں تو ساتھ بسم الله کہتی ہیں اور دعائیں کرتی جاتی ہیں کہ اللہ ان کو نیک بنائے ، الل ان کو نیکی پر پروان چڑھائے ایسی سادہ مائیں جو خود عالم نہ بھی ہوں.دین کا کوئی خاص علم نہ بھی رکھتی ہوں لیکن تقومی کھیتی ہیں اور سب سے اچھا در شر جو ماں کسی بچے کو دے سکتی ہے وہ تقویٰ کا درش ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے زائل ہونے کا خوف، یہ تقویٰ ہے جو مائیں اپنے بچوں کو عطا کر سکتی ہیں.ان چیزوں کی طرف توجہ کریں اور یہ کام بچپن میں ہونے چاہئیں.اولاد آپ کی دولت اور متقبل ہے جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں.آپ کے تعلق میں پچھتوں کی مثال زیادہ مناسب ہے) بچیوں کی نظریں بدلنے لگتی ہیں جب اُن کے بالوں کے انداز ان کے کپڑوں کے انداز ان کی مسکرائیں ، اُن کی لچسپیوں کے انداز ظاہر ہو جاتے ہیں اور آپ کو پتہ لگ جاتا ہے کہ انہوں
نے اپنا رخ بدل لیا ہے ، اس وقت اگر آپ کچھ کریں تو کچھ نہیں ہو سکتا.دعاؤں کے نتیج میں کچھ کچھ تو ضرور ہو سکتا ہے لیکن میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایسے بچوں کے حق میں دعائیں نسبتاً کم قبول ہوتی ہیں اور ایسے بچوں کے حق میں زیادہ قبول ہوتی ہیں جن کی ماؤں کی دلی تمنا ان کو نیک رکھنے کی ہوتی ہے.چنانچہ بہت سی ایسی بیچتیاں مجھے دکھائی دیتی ہیں جن کو دیکھ کر مجھے خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی اچھی تربیت نہیں ہوئی اور وجہ یہ ہے کہ ماں باپ نے بچپن سے ان کو اُسی ماحول میں اُسی انداز میں بڑے ہوتے دیکھا ہے اور پر واہ نہیں کرتے بلکہ بعض ان میں سے اپنی جہالت کی وج سے فخر محسوس کرتے ہیں، بعض کا معاشی پس منظر کمز ور ہوتا ہے اور علمی پس منظر کمزور ہوتا ہے اور اس کی وجہ ایک احساس کمتری کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں، وہ جب اپنے بچوں کو نئے نخروں کے ساتھ بلند ہوتے دیکھتے ہیں، زیادہ اچھے تلفظ سے انگریزی بولتے دیکھتے ہیں اور ایسے لباس پہنتے دیکھتے ہیں جو انہوں نے خواب و خیال میں بھی کبھی نہیں دیکھے تھے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے تو بڑے زبر دست بن رہے ہیں، بہت ماڈرن اور عظیم ارمان بچتے ہیں.ہم تو چہ نہیں کس گھوڑے میں پڑے رہے تھے اور یہ نہیں سجھتے کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان کے بچے نہیں رہتے بلکہ کسی اور کے بچے بن رہے ہوتے ہیں.اور جب ان کو احساس پیدا ہوتا ہے اس وقت تک وہ کسی اور کے بن چکے ہوتے ہیں اور مثال ایسی ہے جیسے احمدی ماں باپ کے گھر بچے پیدا ہوں، ان کے اخراجات پر تعلیم حاصل کریں اور آخر جب جوان ہوں تو غیروں کے ہو چکے ہوں تو آپ یہ بچے کس کے لئے پال رہی ہیں ؟ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لئے یا شیطانی طاقتوں کے لئے اور دنیا پرستی کے لئے.آپ کی تو ساری دولت ہی اولاد ہے.یہی تو آپ کا مستقبل ہے.اگر اس کی اداؤں سے آپ واقف ہی نہیں کہ یہ ادائیں کیسی ہیں اور کدھرے کے جارہی ہیں تو پھر آپ کو تربیت کا کوئی سلیقہ نہیں ہے.
۱۴۷ تربیت کے لئے دل میں سچی لگن ہوناضروری ہے تربیت کے سلیقے کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز لگن ہے.میری مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کو سکول میں ڈال کر تربیت سکھائی جائے.یہ تو بہت لمبا کام ہے.میری مراد یہ ہے اگر آپ کے دل میں سچی لگن ہو تو ایسی ماؤں کے بچے ضائع نہیں ہو سکتے.ضرور اکس لگن کا کہیں فقدان ہے ، اس کا بحران ہے اور اس کی طرف آپ کو توجہ کرنی چاہیئے ہو سے ہی اپنے بچوں کے عادات و اطوار پر نظر رکھیں اور جب بھی آپ دیکھیں کہ خطرے کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں تو اسی وقت محنت شروع کریں اور محبت اور پیار کے ساتھ ان کے اندر دین کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں یہ بچپن کی محبت ہے جو ہمیشہ کام آتی ہے بعض دفعہ بچپن کی خوراک بھی ہے جو ہمیشہ کام آتی ہے.بعض مضبوط آدمیوں سے جو بڑی عمر کو پہنچے کا بھی مضبوط تھی، میں نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں آپ کی صحت بڑی اچھی ہے تو جواب دیتے ہیں کہ ہماری ماؤں نے بچپن میں خوب کھلایا پلایا ، دودھ بھی پلائے اور مکھن کھلائے اور ہڈیوں کے جوس نکال نکال کر دیئے کہ آج تک ہم ماؤں کا دیا کھا رہے ہیں.واقعت یه درست ہے.مجھے بھی یاد ہے، ہماری امی کو بھی بھینسوں کا شوق تھا اور چین میں بھینسوں والے کے سپرد کیا ہوا تھا کہ زبر دستی اس کو اٹھا کے لے جایا کرو اور صبح بھینس کی تازہ دھاریں اس کے منہ میں ڈالا کر و.آپ اس کے نتیجے میں خدا کے فضل سے میری ہڈی مضبوط ہے کیونکہ کیلشیم بر او راست اس طرح جاتا رہا، کچھ دواوں کے ساتھ کچھ بچپن کی اس قسم کی غذاؤں کا واقعی اثر ہوتا ہے، تو یہ جو میں بات کر رہا ہوں یہ محض کوئی لطیفے یا محاورے کی بات نہیں ہے.بچپن کی تربیت بھی اسی طرح کیچپن کی غذاؤں کی طرح اثر دکھاتی ہے اور بہت سے بچے ایسے بھی میں نے دیکھتے ہیں جو درمیانی عرصہ میں اگر بھٹک بھی جائیں تو بیچین کی گہری تربیت کے نتیجہ میں وہ پھر لازما واپس آجاتے ہیں اور نیک انجام تک پہنچتے
ہیں اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری ہاؤں پر ہے.بچوں کی تربیت کے لئے وقت خرچ کریں اگر ماؤں کو ان کاموں کے لئے وقت نہ دیا جائے ، ان کاموں کے لئے سہولت نہ دی جائے تو پھر والدین پر بھی اس کی ذمہ داری ہوگی اور اس پہلو سے چونکہ والد یا لبعض فرد جنہوں نے آئندہ والدنیا ہے جو یہ بات سن رہے ہیں ان کو میں بجھانا چاہتا ہوں کہ اسلام نے کمانے کی ذمہ داری مرد پر رکھی ہے اس میں گہری حکمتیں ہیں.اگرچہ عورت کو یہ آزادی دی ہے کہ حسب ضرورت وہ کمائے اور اپنی ضروریات پوری کرے لیکن اس وقت جب وہ مجبور ہو پیشہ کے طور پر کمانے کی ذمہ داری مردوں کی رکھی گئی ہے اور قرآن کریم نے کھول کر بیان کیا ہے کہ مردوں پر عورتوں کا یہ حق ہے کہ وہ اُن کے لئے جس حد تک ممکن ہے آسائش کی زندگی کے سامان پیدا کریں اور ان کی ساری ضروریات کا خیال رکھیں.یہ اس لئے ضروری ہے کہ ماؤں کے پاس اگر وقت ہو گا، سہولت ہوگی ، اچھے ماحول میں زندگی کیبر کر رہی ہوں گی تو وہ آئندہ نسل کی تربیت کر سکیں گی.اگر بھاگ دوڑ ہو گی کہ انہوں نے بھی کام پر جانا ہے.بچے کسی کے سپرد کئے اور آپ بھاگ گئیں یا دوسری دلچسپیوں میں اُن کا وقت لگتا ہے.بعض عورتیں میں نے دیکھی ہیں کہ سنگھار پٹار میں ہی ان کے دو دو تین تین گھنٹے ضائع ہو جاتے ہیں.اور بن کر تیار ہو کر باہر نکلنے کے لئے قریباً آدھا دن تو اسی میں لگ جاتا ہے.اللہ کے فضل سے اس قسم کی عورتیں یہاں نہیں ہیں.کیونکہ میں جانتا ہوں آپ سب لوگ ہمت والی ، کام کرنے والی عورتیں ہیں.آپ کو وقت ہی نہیں ملتا لیکن جن خاندانوں میں بدنصیبی سے آسائشیں آجائیں اُن کا یہ حال ہو جایا کرتا ہے اور اس حال کی طرف ہر عورت منتقل ہونے کا خطرہ اپنے اندر رکھتی ہے کیونکہ مزاج اس کو یہ بات اچھی لگتی ہے.اس لئے مجب میں کہتا ہوں کہ آپ کے لئے کھلا وقت چاہیے تو ہیں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ
۱۴۹ آپ آرام سے گھر میں آدھا دن تک سوتی رہیں اور اس کے بعد انھیں اور باقی وقت سنگھار پیار میں خرچ کریں اور پھر پوری طرح تیار ہو کر شاپنگ کے لئے نکل جائیں.ان کاموں کے لئے وقت نہیں چاہئیے.ان کاموں کے لئے وقت چاہیے کہ آپ تہجد کے وقت اٹھیں، اپنے بچوں کو پیار دیں.ان کو اُٹھانے کی کوشش کریں ، اُن کے لئے دعائیں کریں.نماز کے وقت اگر آپ کا خاوند سُست ہے تو اس کو اٹھائیں، بھائی سست ہے تو اس کو اُٹھائیں، سب بچوں کو جگائیں اور پھر ان کو تلاوت سکھائیں اور خود بھی اچھی آواز میں تلاوت کریں اور بچوں کو بھی تلاوت کر دیا کریں.ان کاموں سے فارغ ہو کر پھر آپ ان کو تیار کرائیں گی.پھر آپ کو ان کو سکول بھیجنا ہو گا یا دیگر گھر کے کام کرنے ہوں گے.تو عورت بیچاری کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے کہ وہ ان فضول باتوں میں خرچ کرے.ان ذمہ داریوں کے ساتھ آپ کو جو محنت کرنی پڑتی ہے اس کی جزا بھی اللہ تعالیٰ ساتھ ساتھ دیتا ہے.کیونکہ میں جو نقشہ کھینچ رہا ہوں میں نے ایسی پرانے زمانے کی مائیں دیکھی ہیں کہ جیسی سکینت اُن کے دل میں دیکھی ہے دوسری عورتیں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں.وہ مائیں تو تہجد کے وقت اُٹھتیں، دُعائیں کرتیں اور پھر اپنے بچوں کی تربیت کرتیں ان کو نماز کے لئے اٹھائیں اور ان کو نماز پڑھتے دکھتی ہیں ، ان کو ان نمازیوں سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک ملتی ہے کہ ان کی نیکیوں سے ان کا دل اس طرح سکون سے بھر جاتا ہے کہ وہ لڑکی جو سارا دن میں کی زندگی بسر کرنے کی تمنا میں اس کی تلاش کرتی پھرتی ہے، اگر باہر نہ ملے تو دن رات گانے سنتی رہتی ہے Pop music (پاپ میوزک میں دل لگانے کی کوشش کرتی ہے ، نئے نئے فیشن تلاش کرتی ہے ، اس کا تو اس کے ساتھ کوئی تعلق کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے جو سکینت اس ماں کو ملتی ہے جس کا میں نے نقشہ کھینچا ہے اس سکینت سے یہ ادنی لذتوں کو تلاش کرنے والی لڑکیاں بالکل عاری ہوتی ہیں.ہر وقت بے چین زندگی گزرتی ہے اور جس چیز کی تلاش ہے پتہ نہیں وہ کیا ہے اور وہ میسر نہیں آتی.اس لئے جو وقت میں کہتا وہ
10.ہوں آپ کو میسر ہونا چاہیے ان کاموں پر خرچ ہونا چاہیے.پھر علمی کام ہیں ، عورتوں کو اپنے اندر علمی ذوق بھی پیدا کرنے چاہئیں.جو اس کا لطف ہے وہ ڈرامے دیکھنے فضول کہانیاں سننے اور اس قسم کی چیزوں میں وقت ضائع کرنے میں نہیں آسکتا.ہم نے اپنے گھر میں دیکھا ہے کہ حضرت چھوٹی پھوپھی جان اور حضرت بڑی پھوپھی جان کی دنیا کے لحاظ سے بہت معمولی تعلیم تھی لیکن حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) کے گھر میں پرورش کا ایک یہ فیض بھی تھا کہ علم سے بڑی دلچسپی تھی اور ظاہری تعلیم نہ ہونے کے با وجود ایسی روشن دماغ تھیں ایسا وسیع مطالعہ تھا کہ اکثر مجھے یاد ہے جب بھی گئے ہیں اُن کے ہاتھوں میں کتا بیں ہی دیکھیں یا بات کرنے لگے ہیں تو کتاب دُہری کر کے رکھ دی تاکہ جب باتیں ختم ہوں تو پھر کتاب اُٹھا لیں اور اس کے نتیجے میں ان کی زبان میں چلا تھی ان کو ادب کا ایسا پیارا ذوق تھا کہ حضرت بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی نظمیں آپ پڑھ کر دیکھیں آپ حیران ہوں گی کہ اس دور کے بڑے بڑے شاعر بھی فصاحت و بلاغت میں آپ کا مقابلہ نہیں کرتے.ذہن بھی روشن، دل بھی روشن اور سکینت بھی.ہر ابتلا میں بھی ایک سکینت تھی کہ جو کبھی زندگی کا ساتھ نہیں چھوڑتی تھی.جو اس زندگی میں مزا ہے وہ مزا ہر وقت متحرک رہنے ، بے چین رہنے میں کہاں نصیب ہو سکتا ہے.اپنے دلوں اور گھروں کو سکون سے بھر دیں پس میں آپ کو کسی بوریت کی طرف نہیں بلا رہا میں آپ کو بہتر زندگی کی طرف بلا رہا ہوں جو دائماً آپ کے دلوں کو سکون سے بھر دے گی اور اس کی اس لئے ضرورت ہے کہ جب تک ہم ایسے گھر نہیں پیدا کریں گے.ہم معاشرے کی اصلاح نہیں کر سکتے ہم معاشرہ کو بتا نہیں سکتے کہ ہم کیوں بہتر ہیں.میری مراد وہ معاشرہ ہے جو غیر کا معاشرہ ہے.وہ آپ کی طرف اُلٹ کر دیکھتا ہے اور تضحیک سے دیکھتا ہے ، حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے
ادا وہ سمجھتا ہے کہ پردے میں لپٹی ہوئی پرانے زمانے کی عورتیں ہیں، ان کو کیا پتہ کہ زندگی کیا چیز ہے.آپ نے اگر زندگی کے معنی سمجھ لئے ہوں.آپ کی زندگیاں اگر اعلیٰ درجہ کی پرسکون زندگیاں بن چکی ہوں تو آپ ان کی طرف رحم کی نظر سے دیکھیں گی.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی سویا ہوا انسان ہو تو جب اُس کو اُٹھایا جائے وہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر ظلم ہو رہا ہے اور وہ کہتا ہے پاگل ہو گئے ہیں، صبح صبح اُٹھ کہ یہ کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے لیکن جب اُٹھ جائے آنکھیں کھل جائیں اور صبح کی تازہ ہوا میں باہر نکلے اور سیر پر جائے تو سونے والوں پر اس کو رحم آنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے یہ بے چارے ابھی تک پاگلوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں.یہ مختلف زاویوں کی بات ہے لیکن جو جاگا ہوازاویہ ہے وہ غالب زاویہ ہے، جو سویا ہوا زاویہ ہے و مغلوب زاویہ ہے.ہر شخص جو سو کر اٹھتا ہے اس کو سونے کا مزا پتہ ہے لیکن جواُٹھنے کا مزا ہے وہ اور ہی مزا ہے اور اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے.آپ کے مزے جاگے ہوئے مرے ہیں.بیدار مغربی کے مزے ہیں.آپ نے روشنی میں آنکھیں کھولی ہیں.اسلام کا ماحول آپ کو اندھیروں سے روشنی میں لے کر آتا ہے.اس لئے یہ لوگ جو آپ پر سنتے ہیں یہ صرف اُن کی بے وقوفی کی تو ہیں ہیں.یہ سوئے ہوئے سمجھ رہے ہیں کہ ہم زیادہ مزے میں ہیں.آپ اگر ان کو اپنے مزے سے آشنا کرنا چاہتی ہیں تو اپنے گھروں میں ایسے ماحول پیدا کریں جو سکون سے بھرے ہوئے ہوں.اور اس میں صرف عورت کا کام نہیں ہے.مرد کی بھی بڑی ذمہ داری ہے.اسی لئے میں نے کہا تھا کہ مرد بھی سن رہے ہیں وہ اچھی طرح غور سے سُن لیں.خدا تعالیٰ نے اوّل ذمہ داری کمانے کی مردوں پر ڈالی ہے.وہ مرد جو عورتوں کی کمائی پر بیٹھے ہوں وہ تو مردوئے لگتے ہیں.مرد تو نہیں لگتے.ایسے بے ہودہ لگتے ہیں کہ سارا دن بیٹھے وہ روٹیاں توڑ رہے ہیں یا سور ہے ہیں یا بیوی کے لئے مصیبت ڈالی ہوئی ہے ان کو لو اس کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے کمانے کی ذمہ داری اُن پر رکھی ہے.وہ کمائیں اور اتنی ضرورتیں پوری کریں کہ عورت ان نیک کاموں کے لئے فارغ ہو.اس نے بچے بھی پیدا کرنے ہیں.کھانے بھی پکانے ہیں.برتن بھی دھونے ہیں.
۱۵۲ ہر وقت اوہ بہتی رہتی ہے.اس پر محمد بوجھ ہیں.پھر دین کے کام بھی کرتے ہیں اور اگر عورت یہ سب کام کرے تو مرد سے زیادہ مستعد ہوتی ہے.میں نے انگلستان میں تجربہ کر کے دیکھا ہے، عورتیں نسبتاً مردوں سے زیادہ وقت ہر قسم کے کاموں میں ، اور دین کے کاموں میں بھی صرف کرتی ہیں اور اگر مرد اور عورت کے اوقات کا مقابلہ کریں تو مجھے یقین ہے کہ عورتوں کے اوقات زیادہ مصروف نظر آئیں گے ، زیادہ بھر پور نظر آئیں گے جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے پس اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ پر اولاد کی تربیت کی بعض زائد ذمہ داریاں ڈالی ہیں اور اس کے نتیجہ میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ گھروں میں گھیری گئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے زیادہ عظمت کے مقام بنتے ہیں اور کئی پہلوؤں سے آپ کو مردوں پر فضیلت ہے.سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و علیٰ الہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری جنت تمہاری ماؤں کے قدموں میں ہے.کہیں نہیں فرمایا کہ باپوں کے قدموں میں ہے.یعنی ساری آئندہ نسلوں کی عورتوں کی بھی اور مردوں کی بھی جنت اُن کی ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.اتنا بڑا مرتبہ و مقام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ د ستم نے عورت کو دے دیا ہے کہ جس کے بعد دنیا کا کوئی جاہل انسان اسلام پر یہ حملہ نہیں کر سکتا کہ اس میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے.وہ مقام حاصل کرنے کے لئے جو ذرائع ہیں وہ میسر آنے چاہئیں.اگر خاوند بیوی سے ہر وقت بد تمیزی سے بات کرتا ہے.اس کی عزت کا خیال نہیں ، اس کے ماں باپ کی عزت کا خیال نہیں ، بات بات پر طعنے دینے لگ جاتا ہے ، گھٹیا باتیں کرتا ہے اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ بھی کرو، وہ بھی کرو اور اس کے با وجود خوش نہیں ہوتا تو ایسا خاوند بسا اوقات خود اپنی بیوی کے پاؤں کے نیچے جہنم پیدا کر رہا ہوتا ہے کیونکہ ایسی عورتیں پھر خود بد اخلاق ہونی شروع ہو جاتی ہیں وہ بھی پھر آگے
۱۵۳ سے جو ان کے بس میں آئے بات کرتی ہیں اوراگر خاوند کی موجودگی میں نہ کر سکیں تو الیسی غیر مطمن عورتیں ہمیشہ اولاد کے ان بھرتی ہیں اور باپ کے خلاف کرتی ہیں تو جہنم کا لفظ اس لئے میں نے استعمال کیا ہے کہ نفسیاتی طور پر اگر ماں اور باپ میں اختلاف ہوں تو اولاد اچھی تربیت حاصل نہیں کرسکتی خصوصیات کے ساتھ اگر مرد باہر کام پر چلا جائے اور وہ ظالم ہو یا نہ ہو.غالباً یہی ہوتا ہے کہ مرد زیادتی کرتا ہے تو عورت میں ایسی بگڑتی ہیں بہر حال جو بھی صورت ہو.اگر بیوی کی یہ عادت ہو کہ خاوند کے جانے کے بعد اپنے بچوں سے خاوند کے کھڑے روئے اور یہ کہے کہ تمہارے بانے مجھ پر یہ ظلم کئے اور یہ حال ہوگیا ہے، میں تو دن رات جیتی رہتی ہوں، مرتی رہتی ہوں اور دیکھو وہ میرا خیال نہیں کرتا، وہ اپنے اوپر بچوں کو رحم دلاتی ہے.نتیجہ ایسے بچوں میں مرد کے خلاف بغاوت پیدا ہو جاتی ہے.باپ کے رشتے.کے خلاف بغاوت پیدا ہو جاتی ہے اور نفسیاتی الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں.ایسے بچے باغیانہ ذہین لے کر اُٹھتے ہیں اور اکثر جاعت سے تعلق توڑنے والے بچے ایسی ماؤں کے ہوتے ہیں پھرایسی مائیں بھی میںنے لکھی ہیں کہ باپ اگر مخلص ہوا ور چندے دیتا ہو اور ماؤس کے اندر خدمت دین کی لگن نہ ہو تو وہ اپنے بچوں کے کان بھرتی ہیں، تو جنت پیدا کر نا صرف ماؤں کا کام نہیں ہے، ایک پورے معاشرے میں جس طرح کی ماں بن رہی ہے اس کے اثر بھی ماں پر پڑتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کو اس لحاظ سے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیئے.جو قربانی کرنی ہے اس قربانی میں بھی اپنی بیویوں کو اپنے بچوں اور بچوں کو شامل کرنا چاہیے اور اپنے رویے میں نمی پیدا کرنی چاہیئے تا کہ عورت میں مردوں سے سکون حاصل کرنے کی کوشش کریں اور مرد عورتوں سے سکون حاصل کریں لیکن قرآن کریم نے زیادہ ترعورتوں کو سکون کا باعث قرار دیا ہے اور اس کو بھی آپ کو خوب سمجھنا چاہیے کہ کیوں ایسا ہوا ہے.سکون کے لئے عورت کی طرف جھکنے کا حکم خدا تعال مردوں کو
۱۵۴ مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ہم نے تم میں سے ہی تمہاری جنس میں سے ہی ایک نازک صنف کو پیدا کیا ہے.لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا تا کہ تم سکون کی خاطر اس کی طرف تجھکو.اس میں مرد اور عورت کے تعلقات کو بہتر بنانے کا بہت بڑا راز ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تسكنوا اليها تاکہ تم عورت کی طرف سکون کی تلاش میں مجھکو میں کا مطلب یہ ہے کہ ایسامرد بد تمیز ہو ہی نہیں سکتا.جس کو کسی سے سکون کی تلاش ہو وہ اس سے بد اخلاقی سے پیش نہیں آسکتا اور سکوت اس کو بھی ملے گا اگر وہ اپنی عورت کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہو گا تو معاش کو جنت بنانے کے لئے ایک چھوٹے سے فقرے میں ایک بہت ہی گہری راز کی بات نہیں سمجھادی گئی کہ مرد وہ مرد جو ہمیشہ عورت سے سکون کے متلاشی رہیں گے اور جانتے ہوں گے کہ میں سکون مجھے اپنے گھر میں مل سکتا ہے باہر میسر نہیں آسکتا ، ان کو واقعتہ عورت سے سکون ملے گا، اور ایسی عورتوں کا رحجان ان کے متعلق ہمیشہ اچھا ہو گا اور اگر وسکون کے لئے باہر جائیں گے تو ایسا گھر جہنم بن جائے گا.آج کے معاشرے کے تجریہ کے وقت یہ بات سب سے زیادہ نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ وہی گھر بگڑتے ہیں، وہی گھر جہنم بنتے ہیں جن کے مرد اپنی ہیولوں سے سکون تلاش کرنے کی بجائے گھر سے باہر سکون ڈھونڈتے نہیں.ایسے گھر لا ما بر باد ہو جایا کرتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی تباہ ہو جایا کرتی ہیں.پھر آپ وہ ماں نہیں بن سکتیں جن کے پاؤں کے نیچے جنت ہے تو میں آپ کو یہ باتیں کھول کھول کر بچوں کی طرح سمجھ رہا ہوں، اس لئے نہیں کریں آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا، ذہین نہیں سمجھتا، مگر یہ باتیں ایسی ہیں جو خوب اچھی طرح وضاحت کے ساتھ گھوٹ گھوٹ کر پلانے والی باتیں ہیں تاکہ آپ میں سے ہر ایک کے دل میں اس طرح پیوست ہو جائیں کہ پھر کبھی بھول نہ سکیں اور مردوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اگر له سوره الروم ، آیت ۲۲
۱۵۵ انہوں نے اس معامہ میں تعاون نہ کیا اور ان کی اولادیں ضائع ہوئیں تو خدا ان سے پوچھے گا اور وہ خدا کے حضور جواب دہ ہوں گے.یہ بھی سوچیں کہ آپ کی اپنی بچیاں بھی ہیں جو دوسروں کے گھروں میں جانے والی ہیں.ایسے مردوں کو خیال کرنا چاہیے کہ جب غیروں کی پہنچیں اُن کے پاس آتی ہیں تو کس طرح بیچاری نہتی اور بے دست و پا ہو کر آتی ہیں.ایک ظالم خاوند کے پہلے پڑ جائیں تو ماں باپ کو کتنی تکلیف پہنچتی ہوگی.اگر کوئی خاوند اپنی بیوی سے اس طرح کا ظالمانہ سلوک کرتا ہو اور اُسے کوئی پرواہ نہ ہو اور کوئی خطرہ محسوس نہ کرے تو اس کو سوچنا چاہیے کہ آئندہ ہو سکتا ہے اس کی بھی بیٹیاں ہوں وہ بھی کسی کے گھر میں جائیں، وہ بھی اسی طرح لیے دست و پا ہوں.اگر وہ اس نظر سے سوچے تو وہ تھر تھرا اٹھے گا وہ سوچے گا کہ یہ تو بہت ہی خطرناک بات ہے لیکن عام طور پر لوگ اس بات کو بھلا دیتے ہیں.بیوی سے ظلم معاشرے کی تباہی کا باعث ہے یں بھتا ہوں کہ بیوی سے ظلم کا سلوک بہت بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے.ام گناہ کبیرہ جتنے بھی ہیں ان کا اکثر اثر انسان کی ذات پر پڑتا ہے لیکن یہ ایک ایسا گناہ ہے جو سارے معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے.جہاں خاوند کی بد خلقی کے نتیجے میں گھر کا ماحول بگڑتا ہے وہاں بجتیاں بے چاری دُکھوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ ان کو بیچتے لے کہ اس طرح گزارے کرنے پڑتے ہیں کہ ساری زندگی ایک عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے.اس کا بد اثر ماحول پر پڑتا ہے.لیکن اس علیحدگی سے پہلے کے حالات میں بھی اگر خا وند اور بیوی کے تعلقات اچھے نہ ہوں تو اولاد دو رخی بن کر اُٹھ رہی ہوتی ہے.بہت سے بچوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میں کدھر جاؤں.ماں کی طرف جاؤں یا باپ کی طرف جاؤں اور وہ دونوں کے جھگڑے سُنتے ہیں.دونوں کی ایک دور سے زیادتیاں ( دونوں کی اس لئے میں کہ رہا ہوں کہ اگر مرد کرتا ہے تو عورتیں بھی شروع کر دیتی ہیں جب وہ دیکھتے ہیں تو بالآخر
104 وہ کسی کے بھی نہیں رہتے، ان کا سکون بھی گھر میں نہیں رہتا ایسے بچے اکثر آوارہ ہو جاتے ہیں.اکثر ان کا سکون باہر کی دنیا میں ہوتا ہے اور وہیں وہ زیادہ اطمینان پاتے ہیں.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں میں لیکن بڑے گہرے اثر والی باتیں ہیں.اپنے لڑکوں کو بیولوں سے نیک سلوک کر نیوالے مرد بنائیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پاک معاشرہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور عورتوں سے ہیں یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کی اور خصوصاً لڑکوں کی تربیت ایسی کریں کہ جب وہ بیٹے ہوں تو وہ اپنی بیویوں سے نیک سلوک کرنے والے ہوں.آج کی مائیں کل کے مرد پیدا کرنے والی مائیں ہیں جیسے میں نے آپ کو بچوں کی تربیت کی طرف متوجہ کیا ہے اسی طرح میں یہ آخری پیغام آپ کو دینا چاہتا ہوں.ایک دفعہ پہلے بھی اس مضمون پر میں نے خطبہ دیا تھا کہ آخری شکل میں تو میں یہ نظر آتا ہے کہ مرد عورت پر ظلم کر رہا ہے لیکن جب انس کے بچپن میں جا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماں نے لڑکوں کی تربیت ایسی کی ہے کہ اُن کو خدا بنا دیتی ہیں ان کو متکبر کر دیتی ہیں.اُن کے نخرے زیادہ اُٹھاتی ہیں اور لڑکیوں پر ان کو فضیلت دیتی ہیں یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ان کو پاگل بنا دیتی ہیں.وہ مائیں ہی ہیں جن کی غلط تربیت بعد میں عورتوں کے سامنے آتی ہے گویا فی الحقیقت آخری شکل میں عورت عورت پر ظلم کر رہی ہے.ہمیشہ ایسے گھر جہاں لڑکے کو خدا بنایا جارہا ہو اور اس کو لڑکیوں پر فضیلت دی جارہی ہو.اس کے سب نخرے برداشت کئے جارہے ہوں اس کو سب چھٹیاں دی جارہی ہوں.ایسے لڑکے جب بڑے ہو کر مرد بنتے ہیں تو ہمیشہ دوسری لڑکیوں کے لئے ایک مصیبت بن جاتے ہیں.حضرت مصلح موعود کا انداز تربیت حضرت مصلح موعود الله
تعالیٰ آپ سے راضی ہو اس کے بالکل بر عکس رویہ رکھتے تھے.حضرت مصلح موعود لڑکوں کے مقابلہ پر لڑکیوں سے زیادہ پیار کرتے تھے اور لڑکیوں کے حقوق کی زیادہ حفاظت کرتے تھے.اس وقت ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی ہم سمجھتے تھے یہ ہم پر ظلم کررہے ہیں.میری اپنی بہن امتہ الباسط سے لڑائی ہوتی تھی وہ میرا منہ نوچ لیا کرتی تھی اور بعد میں مار مجھے ہی پڑتی تھی اور مجال ہے جو کبھی میں ہاتھ اٹھائی اور حضرت مصلح موعود اللہ تعالٰی آپ سے راضی ہو) کو پتہ لگے اور مجھے سزا نہ دیں.بعض دفعہ اتنا سخت خفا ہوتے تھے کہ آدمی کو زندگی سے نفرت ہو جاتی تھی.دل کے بڑے حلیم تھے.الہام میں آپ کے متعلق ی فرمایا گیا کہ دل کا علم ہوگا.دیسےعلیم نہیں فرمایا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو نے مجھے کہا کہ تمہیں پتہ ہے یہ کیوں کہا ہے اس لئے کہ اوپر سے جب بھڑکتے ہیں تو شیر کی طرح گرجتے ہیں اور اگلے کا دل ہلا دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ تم پر مردہ نہ ہو جانا ، اندر سے یہ حلیم ہی ہے اور واقعہ ایپ ہی کیا کرتے تھے.بعض دفعہ سخت ناراض ہوئے اس کے بعد دلداری شروع کر دی.ابھی چند دن پہلے میری اپنی بڑی باجی امتہ القیوم سے باتیں ہو رہی تھیں کہ ابا جان ان کی کمپین میں کس طرح تربیت کرتے تھے.انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ لڑکیاں کھیل رہی تھیں میں بھی تھی.میرا قصور نہیں تھا.بعض دوسری لڑکیوں نے واقعی شرارت کی تھی.اُن پر ناراض ہوئے مجھے بھی ساتھ سزا دے دی اور میری بات ہی نہیں سنی.اس وقت اچانک غصے کا اس قدر جوش تھا کہ کہا کہ بالکل نہیں تم سب کا ٹرپ Irip کینسل اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا میں ناراض ہو گئی اور کمرہ بند کر کے بیٹھ گئی.بعد میں احساس ہوا.اور باقاعدہ باہر گاتے پھرتے تھے کہ میری بیٹی مجھ سے ناراض ہو گئی ہے.اس کو پتہ نہیں اس کا باپ معافی مانگنے کے لئے اس کے پاس آیا ہوا ہے پھر وہ انداز ایسا دردناک تھا کہ نہیں بھی روٹی اور حضرت مصلح موعود اللہ تعالے آپ سے راضی ہوا بھی روئے.باپ بیٹی اس طرح گلے
سے ملے کہ دونوں روز ہے تھے.وہ روتا غم کا نہیں تھا، انبساط کا نہیں تھا، وہ ایک عجیب سارونا تھا.جیسے غلط فہمی کا شکار ہو کر دو روٹھے ہوئے دل جب دوبارہ ملتے ہیں تو ایسی کیفیت تھی.جب میں نے یہ واقعہ سناتو مجھے بچپن کی اور بہت سی ایسی باتیں یاد گئیں.دل کے دہ حلیم ہی تھے لیکن دیکا بہت خطرناک تھا اس میں کوئی شک نہیں اور مجھے دبکے یاد ہیں اکثر مجھ سے ناراضگی اسی بات پر ہوتی تھی پہنیں مجھے مارتی تھیں اور میں اگر دفاع کروں یا سختی کی بات کروں تو کٹی پھر مجھے مار پڑتی تھی لیکن بعد میںسمجھ آئی کہ عورت کا احترام ملاہے دل میں پیدا کی گیا تھا کہ ایک نازک جنس ہے اور تم نے کبھی بھی اس ذمہ داری کو بھلانا نہیں کہ خدا تعالیٰ جب کم زوروں کی ذمہ داریاں تمہارے سپرد کرے.نازک جذبات والوں کی ذمہ داریاں تمہارے سپرد رے تو تمہیں قربانی کرنی چاہیے اور انکے جذبات کا احساس کرنا چاہیے.یہ وہ پیغام تھا جو اس وقت ہیں سمجھ نہیں آیا اور بعد میں ہمارے دل میں سرایت کر گیا.ہمارے خون میں داخل ہو گیا.بعد میں پتہ چلا کہ یہ کیا ہورہا تھا.میں چاہتا ہوں کہ مائیں اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کریں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس کے بالکل برعکس صورت ہے اکثر گھروں میں نہ صرف یہ کہ لڑکے کی خواہش ہے بلکہ ماؤں کو مردوں سے زیادہ خواہش ہوتی ہے.لیکن جب لڑکے پیدا ہوں بلکہ زیادہ بھی ہوں تب بھی ان کو سر پر چڑھا کر رکھتی ہیں اور بچیوں کی عزت نہیں.اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہی مرد ظالم بن جاتے ہیں اور بڑے ہو کر پھر صورتوں پر ظلم کرتے ہیں اور کس طرح ایک نسل کا دوسری نسل پر برا اثر پڑتا ہے اور دوسری کا تیسری نسل پر برا اثر پڑتا ہے بیس اگر آپ نے اپنے اوپر رحم کرنا ہے تو اپنے لڑکوں کی صحیح تربیت کریں اور عورت کے حقوق ان کو بچپن سے بتائیں اور اپنی بہنوں کی عزت کرنا سکھائیں اور اس بات پر نگران رہیں کہ ان سے وہ سخت کلامی بھی نہ کریں.اگر ایسے لڑکے آپ پیدا کریں گی اور ایسے لڑکے
۱۵۹ روان چڑھائیں گی تو میں یقین دلاتا ہوں کہ اپ کا احسان آئندہ نسلوں پر بڑا بھاری ہوگا.تسلا بعد نسل احمدی بچیوں کو اچھے خاوند عطا ہوتے رہیں گے.نیک دل محبت کرنے والے خیال رکھنے والے، قربانی کرنے والے، ایسے خاوند عطا ہوتے رہیں گے جیسا ہم نے حضرت محی وسطی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صورت میں دیکھا.حضرت محمد مصطف صلی الہ علیہ وعلی آکر تم کا یویوں سے سن سلوک آله اناکس پر میں اب اپنی بات کو ختم کرتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ درستم کے اپنی ازواج سے تعلقات کے متعلق آپ جتنا بھی مطالعہ کریں کبھی ایک مرتبہ بھی آپ نے از وانج کی زیادتی کے جواب میں زیادتی نہیں کی.آپ نے بعض دفعہ اپنی ازواج مطہرات سے سخت باتیں بھی سنیں لیکن کبھی بھی غصے سے اُن سے کلام نہیں کیا اور غصے سے کلام نہ کرنا یہ تو بہت مشکل کام ہے.لیکن کچھ نہ کچھ تھی تو ہمیں حضرت محمد مصطفے رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیکھنا چاہیئے.غصے کے نیتجو می بے قابو ہوکر عورتوں پر ہاتھ اٹھ بیٹھنا ان کی بے عریاں کرنا، اُن کے ماں باپ کو گالیاں دینا، یہ توایسی بد تمیزیاں ہیں جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں.آنحضرت صلی الہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا طریق تو یہ تھا کہ گھر آتے تھے تو وہ کام جو عورتوں کو آپ کے کرنے چاہئیں تھے وہ خود اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے اور پھر عورتوں کی بھی ان کے گھریلو کاموں میں مدد شروع کر دیتے تھے کیسا عظیم الشان اسوہ تھا اور اس کے نتیجے میں ہی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نیک نسلیں پیدا ہوئی ہیں جن کا آئندہ نسلوں پر احسان رہا.پس آپ کو اس پہلو سے اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہیئے کہ صرف لڑکیوں کی نہیں لڑکوں کی بھی.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان کے اندر نفیس جذبات پیدا کریں.ان
14.کے احساسات کو کرخت نہ ہونے دیں.اُن کے اندر نرمی پیدا کریں.اُن کے اندر نازک جذبات پیدا کریں اور عورت کی عزت کا خیال ان کے دل میں جا گریں کریں اور ان کے ساتھ پیار بے شک جتنا مرضی کریں لیکن لڑکیوں کے مقابل پر ان کو فضیلتیں نہ دیں ورنہ ان کے دماغ خراب ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا کرے یہیں بہت ضرورت ہے کہ ہمارے گھر کے ماحول اچھے ہوں، پیارے ہوں، امردوں کی بیٹیوں کی بیٹیوں کی ہر وقت یہ خواہش ہو کہ ہم گھر واپس لوٹیں اور ہمیں چین آئے.آپس میں ایک دور سے محبت ہو ، پیار ہو، گھر کے ماحول میں جو مزا آئے، باہر کی سوسائٹی میں کچھ بھی اس کے مقابل پر مزا نہ ہو.لسكنوا النما کی ایک تصویر بن جائیں.ہر وقت جو انسان باہر رہتا ہے وہ خواہ جتنا مرضی کام میں مصروف ہو اس کو مراتب ہی آئے جب وہ گھر کی طرف لوٹے.ایسے گھروں کا یہاں فقدان ہے.مغربی تہذیب ان گھروں سے عاری ہو رہی ہے.بعض لوگ بھول ہی چکے ہیں کہ ایسے گھر بھی دُنیا میں ہوا کرتے تھے وہ آپ نے پیدا کرنے ہیں اور پیدا کریں اور پھر دوسری خواتین کو بلایا کریں، ان کو اپنے گھروں کے ماحول دکھایا کریں.ان کو بتائیں کہ کس طرح آپ سکون سے رہتی ہیں اور آپ کچھ کھ نہیں رہیں بلکہ بہت کچھ پارہی ہیں.دین حق - تاقل) نے آپ کو غلام اور قیدی نہیں بنایا بلکہ دین حق ناقل) نے آپ کو عظمتیں دی ہیں اور دلوں کی دائمی تسکین بخشی ہے.یہ وہ نمونہ ہے جس کو پیش کرنے کے نتیجے میں آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے دین حق...ناقل) کی بہترین پیغامبرین جائیں گی ورنہ زبانی باتوں کو آج کی دنیا میں کوئی نہیں سنا کرتا.للہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ان سب پہلوؤں کو جوئیں نے بیان کئے ہیں ان کو آپ حرز جان بنا لیں.اپنے دل میں جگہ دیں.اپنے اعمال میں ڈھال لیں اور احمدی گھڑوں کے تعلقات تمام دنیا کے گھروں سے بہتر تعلقات بن جائیں، اللہ تعالیٰ ہیں اس کی توفیق عطا فرمائے.