Language: UR
حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ قادیان 1921 کے موقع پر ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ کے موضوع پر حقائق و معارف سے پُر، بصیرت افروز، عالمانہ اور جامع خطاب فرمایا تھا۔ حضورؓ نے اپنی اس تقریر میں ہستی باری تعالیٰ کے آٹھ دلائل اور ان پر پیدا ہونے والے اعتراضات کے جواب ارشاد فرمائے۔ خدا تعالیٰ کی صفات سے اس کی ہستی کا ثبوت فراہم فرمایا اور صفات الہیہ کی اقسام بھی بیان فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق اہلِ یورپ کے خیالات، زرتشتیوں، ہندووں، آریوں کے تصورات کے بالمقابل اسلام کی خدا تعالیٰ سے متعلق تعلیمات تفصیل سے بیان فرمائیں۔ علاوہ ازیں اپنی اس تقریر میں حضورؓ نے شرک کی تعریف، اور اس کی اقسام بیان فرماتے ہوئے ان کا اصولی اور مدلل ردّ بھی مہیا فرمایاا ور رؤئیت الٰہی، اس کے مدارج، فوائد اور روئیت کے حصول کے طریق اور ذرائع بھی بیان فرمائے۔
ہستی باری تعالیٰ ناشر نظارت نشر واشاعت قادیان
ہستی باری تعالیٰ از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی باشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب : ہستی باری تعالیٰ تصنیف سن اشاعت : تعداد سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمدخلیفة المسیح الثانی 2013 : 1000 شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان - 143516 مطبع ضلع گورداسپور، پنجاب (بھارت) فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN: 978-81-7912-284-6 HASTI BARI TA'LA Speech delivered by: Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad (ra) Khalifatul Masih II مزید معلومات کے لئے رابطہ کریں شعبه نور الاسلام (احمدیہ مسلم جماعت) Toll Free: 1800 3010 2131 www.ahmadiyyamuslimjamaat.in
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین در حقیقت مذہب کی بنیاد اور روحانیت کا مرکزی نقطہ ہے.اس کے بغیر مذہب کا تصور ہی کا لعدم ہو جاتا ہے.لیکن اس وقت دنیائے مذاہب پر نظر ڈالنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اس کے پیروکاروں نے مادیت میں ملوث ہو کر اپنے انبیاء کی تعلیمات کو بھلا دیا جس کے نتیجہ میں وہ اپنے مالک حقیقی کو ابدی واز کی صفات سے معطل گمان کرتے ہیں اور مختلف تو ہمات میں گرفتار ہیں اور گمراہی ،شرک و بدیوں کا شکار ہورہے ہیں اور آئندہ نسلوں کو بھی دہریت کی اندھیری کھائیوں میں دھکیل رہے ہیں.اسلام نے خدا تعالیٰ کی ہستی کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک اور رب العالمین ہے.اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ نا ایمن کا پیش کردہ خدا ایک زندہ اوری و قیوم خدا ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خليفة انتاج الثانی رضی اللہ تعالی عند الصلح الموعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۱ء کے موقع پر ہستی باری تعالیٰ“ کے موضوع پر حقائق ومعارف سے پر، بصیرت افروز انداز میں ایک عالمانہ اور جامع تقریر فرمائی.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی اس تقریر میں ہستی باری تعالیٰ کے آٹھ دلائل اور ان پر پیدا ہونے والے اعتراضات کے جواب ارشاد فرمائے ہیں.خدا تعالیٰ کی صفات سے خدا کی ہستی کا ثبوت فراہم فرمایا اور صفات الہیہ کی اقسام بھی بیان فرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ کے متعلق اہلِ یورپ کے خیالات، زرتشیوں کے خیالات ، ہندؤوں کے خیالات اور آریوں کے تصورات کے
بالمقابل اسلام کی خدا تعالیٰ سے متعلق تعلیمات تفصیل سے بیان فرمائی ہیں.علاوہ ازیں حضور نے اپنی اس تقریر میں شرک کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے اس کا رڈ بھی فرمایا ہے اور رویت الہی، رؤیت مدارج و درجات اس کے فوائد اور اس رؤیت کے حصول کے طریق و ذرائع بھی بیان فرمائے ہیں.سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی المصل اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت قادیان حضرت اصلح الموعود کی اس تقریر کو افادہ عام کے لئے شائع کر رہی ہے.امید ہے کہ جہاں یہ کتاب دہریت میں غرق لوگوں کے لئے مفید اور بصیرت افروز ثابت ہوگی وہاں مومن باللہ کو اللہ تعالیٰ کی حقیقی اور کامل معرفت عطا کرنے کا ذریعہ بھی بنے گی.خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان
ہستی باری تعالیٰ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ ہستی باری تعالیٰ آج میں ایک ایسے مضمون کے متعلق تقریر کرنی چاہتا ہوں جو سب مضامین کا جامع ہے اور سب مضامین اس کے گرد چکر لگاتے ہیں اور سب اس کے تابع ہیں اور یہ ان کا متبوع ہے.میں اس وقت تک جس قدر مضامین بیان کرتا رہا ہوں وہ سب اس مضمون کے اجزاء اور اس کی شاخیں تھیں اور آئندہ بھی مجھے جو کچھ تو فیق ملے اسی کی تشریح ہوگی.اس مضمون کو خواہ کس قدر بھی سنایا جائے ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایک غیر محدود ہستی سے تعلق رکھتا ہے اور اس وجہ سے غیر محدود ہو گیا ہے.آپ لوگ جس قدر بھی اس مضمون پر غور کریں گے اس کے مطالب کو غیر محدود پائیں گے اور نئے سے نئے مطالب آپ پر ظاہر ہوں گے.سب انبیاء نے اس مضمون کو بیان کیا ہے مگر بالآخر یہی کہا کہ لومضمون بیچ میں ہی رہ گیا اور ہم جاتے ہیں.غرض سب انبیاء اور اولیاء یہی کہتے آئے ہیں کہتے رہے ہیں اور جب تک یہ دُنیا ر ہے گی، کہتی رہے گی اور مرنے کے بعد خلاء میں بھی یہی مضمون ہوگا.یہ مضمون ہے.ذات باری.ذات باری یعنی اللہ کا مضمون بہت وسیع مضمون ہے اور تمام مضامین اس سے نکلتے
ہیں دیکھو ملائکہ کیا ہیں؟ خدا تعالیٰ کی مخلوق اور اس کی طرف سے مختلف کاموں پر مقرر ہیں.نبی کیا ہیں؟ خدا تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے بھیجے ہوئے.آسمانی کتابیں کیا ہیں؟ خدا تعالیٰ کا کلام.دُعا کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کے حضور التجا.نماز، روزہ، حج، زکوۃ کیا ہیں؟ خدا تعالیٰ کی عبادات.بندوں سے حسن سلوک کیا ہے؟ اپنے محبوب کے پیاروں سے پیار اور اس ذریعہ سے اپنے محبوب سے ملنے کی خواہش اور اس کے انعامات کی اُمید.غرض سارے کے سارے مضمون اس کے گرد اس طرح گھومتے ہیں جس طرح چاند سورج کے گرد گھومتا ہے.کے مضمون کی ضرورت میرا مضمون خدا تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کرنا نہیں بلکہ ذات باری ہے مگر چونکہ اس کا یہ بھی حصہ ہے اس لئے بیان کرتا ہوں.اس زمانہ میں گناہ اور بدی کی کثرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں اور سب بد یاں اور گناہ خدا کو نہ سمجھنے اور اس پر حقیقی ایمان نہ لانے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اس لئے بھی اس مضمون کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے.پھر یورپ کی تعلیم نے کالج کے لڑکوں کو بالکل آزاد بنادیا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا جاہل تھے جو خدا کو مانتے تھے.نہ کوئی خدا ہے اور نہ اس کے ماننے کی ضرورت.میں حج کے لئے گیا تو میرے ساتھ جہاز میں تین طالب علم بھی تھے جو ولایت جارہے تھے.ان میں سے دو مسلمان تھے اور ایک ہندو.ان کی ایک پادری سے بحث ہوئی جسے سُن کر مجھے اس خیال سے خوشی ہوئی کہ انہیں بھی مذہب سے تعلق ہے.یہ سمجھ کر میں نے ان سے کوئی مذہبی بات کی تو وہ تینوں بول اٹھے کہ کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ ہم خدا کو مانتے ہیں.میں نے کہا ہاں.پادری صاحب سے جو آ
مذہب کے متعلق گفتگو کر رہے تھے.وہ کہنے لگے ہم تو قومی مذہب کی حمایت کر رہے تھے نہ کہ خدا کو مان کر اس کے مذہب کی حمایت کرتے تھے.یہ حمایت مذہب کی نہ تھی بلکہ ہندوستانیت کی.اس زمانہ میں خدا کا انکار حد سے بڑھا ہوا ہے اور یہاں تک دلیری سے انکار کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ گفتگو کے درمیان میں انہیں طالب علموں میں سے ایک نے جو نسلاً ہندو تھا میز پر تنکا پھینک کر کہا ئیں تو اس میز کو اُٹھا کر دکھا سکتا ہوں تمہارا خدا اس تنکے کو اٹھا کر دکھا دے.اس کی باتوں کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے آتے ہی ایک ٹریکٹ لکھا جس میں خدا تعالیٰ کی ہستی کے دلائل دیئے.مگر آج اس سے زیادہ وسیع مضمون بیان کرنے کا ارادہ ہے اگر خدا تعالیٰ توفیق دے.خدا کے انکار کی وجہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا انکار بہت بڑھا ہوا ہے جس کا بڑا سبب تو یہ ہے کہ گناہ کی کثرت کی وجہ سے تعلق باللہ نہیں رہا اور دلوں پر زنگ لگ گیا ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ انگریزی دان لوگ یورپ کے فلسفہ سے متاثر ہو کر مذہب سے دُور جا پڑے ہیں اور دوسرے لوگوں نے ان کے اثر کو قبول کیا ہے.یورپ کے فلسفہ کا اور فلسفیوں کے خدا تعالیٰ سے اس قدر دور ہو جانے کا سبب یہ ہے کہ جب یورپ میں علمی ترقی ہونے لگی اور طبعی اکتشافات کا سلسلہ شروع ہوا تو پادریوں کو یہ بیوقوفی سو بھی کہ انہوں نے اس ترقی کو مذہب کے خلاف سمجھا اور اس کی مخالفت شروع کر دی.جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جانتے تھے کہ مسیحیت کی بنیاد ایسے اُصول پر ہے جن کو عقل رڈ کرتی ہے.اگر لوگوں کی توجہ عقل کی طرف ہوگئی تو اس کو کون مانے گا.پس انہوں نے تصرف کو قائم رکھنے کے لئے جو اُن
کو عوام الناس پر حاصل تھا علوم ہی کی مخالفت شروع کر دی اور جو بات بھی علوم طبیعیہ کے متعلق نئی دریافت ہوئی اسے کفر قرار دے دیا اور کہدیا کہ یہ مذہب کے خلاف ہے اور اس کی طرف توجہ کرنا گناہ ہے.چنانچہ ایک شخص نے جب دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو اس کے متعلق پادریوں نے فتویٰ دیدیا کہ یہ مذہب سے نکل گیا ہے.آپ حیران ہونگے کہ زمین کے سورج کے گرد گھومنے کا دعوی کر کے و شخص کس طرح مسیحیت سے نکل گیا مگر اس کا جواب آسان ہے.پادریوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ خدا تعالیٰ کا کلام انسان پر نازل ہوا ہے اور انسان زمین پر بستا ہے اس لئے زمین سب سے اعلیٰ ہوئی.لیکن اگر زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو زمین سورج کے مقابلہ میں ادنی ہوگی تو اس کی ذلت میں شبہ نہ رہا اور اس پر بسنے والے بھی ذلیل ہو گئے اس بناء پر اس پر کفر کا فتویٰ دے دیا گیا اور اسے اتنا تنگ کیا گیا کہ آخر اس نے ایک کتاب لکھی جس میں لکھا کہ میں نے سورج کے گرد زمین کے گھومنے کے متعلق جو کچھ لکھا تھا اگر چہ عقل کے رو سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے مگر انسانی عقل ہے کیا چیز کہ اس پر بھروسہ کیا جاوے.اصل بات یہ ہے کہ شیطان چونکہ انسان اور خدا کا دشمن ہے اور خدا کے نور کو دُنیا میں پھیلنے سے روکتا ہے اس لئے اس نے میرے دل میں یہ خیال ڈال دیا اور مجھے اس وقت ایسا معلوم ہونے لگا کہ زمین گھومتی ہے.یہ عذر کر کے اس نے عقلمندوں کی نگاہ میں تو اپنے دعوئی کو پختہ کر دیا لیکن پادریوں نے اپنی بیوقوفی سے سمجھا کہ اب اس کو عقل آگئی ہے اور اس کی توبہ قبول کی گئی.اس قسم کی باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایجادیں کرنے والے اور نئی نئی باتیں دریافت کرنے والے خدا کے ہی خلاف ہو گئے.انہوں نے سمجھا کہ اگر ثابت شدہ باتوں
اور آنکھوں دیکھی باتوں پر عقیدہ رکھنے سے خدا کے کلام کا انکار ہوتا ہے تو خدا کا کوئی وجود ہی نہیں.کیونکہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا کا کلام کچھ اور کہے اور اس کا فعل کچھ اور.اس وجہ سے وہ مذہب کے خلاف ہو گئے اور فلسفی جو مذہب پر پہلے سے ہی معترض تھے ان کے مددگار ہو گئے اور علوم کی ترقی کے ساتھ ساتھ مذہب کی گرفت بھی کم ہوتی چلی گئی.مشرق میں جب ان علوم کا رواج ہو ا تو چونکہ کتابیں لکھنے والے مسیحیت سے تنگ آکر دوسری حد کی طرف نکل گئے تھے جس طرح پادری ہر ایک علمی تحقیق کو کلام الہی کے خلاف ثابت کرتے تھے.انہوں نے ہر ایک علمی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالنا شروع کیا کہ خدا ہی کوئی نہیں اور ان کی کتب کے مطالعہ کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دل جو پہلے ہی زنگ آلود تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بالکل دُور جا پڑے اور طبائع دہریت کی طرف مائل ہو گئیں.فلسفی خیالات کے متعلق ایک اور مصیبت ہے اس میں صرف دماغ کی تر و تازگی کا سامان ہے، کرنا کرانا کچھ نہیں پڑتا اس لئے بہت سے لوگ اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.اس کے خلاف مذہب پر غور و تدبر کرنے کا نتیجہ عملی اصلاح ہے جو لوگوں پر گراں گزرتی ہے.مثلاً جو شخص اسلام پر غور کرے گا اور اس کی خوبی کا قائل ہوگا اس کو ساتھ ساتھ کچھ کرنا بھی ہوگا اور مذہب میں ترقی کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی ترقی ہوتی چلی جائے گی.اگر پہلے فرض شروع کرے گا تو اور غور کرنے پر سنتیں بھی پڑھنے لگ جائے گا اور پھر جب اور غور کرے گا تو اسے معلوم ہوگا نوافل بھی بہت مفید ہیں یہ بھی پڑھنے لگ جائے گا اور جوں جوں غور کرے گا نوافل میں ترقی کرتا جائے گا.غرض مذہب میں انسان جس قدر غور وفکر سے کام لے گا اسی قدر زیادہ پابندیاں اپنے اوپر عائد کرتا جائے گا.مگر فلسفہ میں یہ بات نہیں ہوتی
صرف دماغ تازہ کیا جاتا ہے اور عملی طور پر کیا کرایا کچھ نہیں جاتا اس لئے لوگ ادھر زیادہ متوجہ ہو جاتے ہیں.غرض دہریت اور خدا کے انکار کا اس زمانہ میں بڑا زور ہے.ایک وجہ اس انکار کی یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ خود تحقیق نہیں کرتے بلکہ ان کے مذہب کی بنیاد صرف ماں باپ کے ایمان پر ہوتی ہے اور جن لوگوں کی اپنی تحقیق کچھ ہو ہی نہیں وہ اعتراض کا دفعیہ نہیں کر سکتے بلکہ جلد ان سے متاثر ہو جاتے ہیں.کیونکہ ایک طرف سنی سنائی بات ہوتی ہے اور دوسری طرف دلیل.اگر وہ لوگ دل سے خدا تعالیٰ کو مانتے ہوتے تو اس قدر دہریت نہ پھیلتی.مثلاً یہ میز پڑی ہے یا یہ سائبان ہے.اگر کوئی فلسفی کہے کہ یہ میں نہیں یا یہ سائبان نہیں یا اس وقت سورج چڑھا ہو انہیں.تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی اس کی بات مان لے.اسی طرح اگر لوگوں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہوتا اسے حقیقی طور پر مانتے تو کس طرح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کا انکار کرنے والوں کی بات مان لیتے.بات یہی ہے کہ ایسے لوگوں نے خود نخور نہیں کیا ہوتا دوسروں کے کہنے پر مانتے ہیں اس لئے اگر کوئی ذرا ٹھوکر لگا دے تو کہیں کے کہیں جا گرتے ہیں.ایسے لوگ اگر خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرتے ہیں تو اس لئے کہ بحثیں نہ کرنی پڑیں.جیسے غیر احمد یوں کو جب کہیں کہ حضرت عیسی کی وفات پر گفتگو کر لو تو اس سے بچنے کے لئے کہہ دیتے ہیں فرض کر لو حضرت عیسی مر گئے.اسی طرح جو لوگ مثلاً مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں وہ اپنے قومی مذہب کو اپنے مذہب کے خلاف دیکھ کر اور بحث سے بچنے کے لئے جب سوال ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں اور بعض لوگ تو اپنے آپ کو ذہنی کشمکش سے بچانے کے لئے اپنے نفس کو بھی دھو کے میں رکھتے ہیں اور جب ان کے دل میں شک پیدا ہو تو بلا کسی دلیل کے اس کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں.یہ لوگ بھی درحقیقت دہر یہ ہیں گو بظاہر خدا کو مانتے ہیں.
لیکن اگر خدا ہے تو اس کے ساتھ ان دھوکا بازیوں سے کام نہیں چل سکتا.اگر لوگ محض سنے سنائے اسے مانتے ہیں اور بحث سے بچنے کے لئے مانے کا اقرار کرتے ہیں تو اس سے ان کی نجات نہ ہو سکے گی.ایسے لوگ قیامت کے دن پکڑے جائیں گے اور دہریوں میں شامل کئے جائیں گے.اس لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق غور کیا جائے.خدا کے ماننے کا فائدہ جب کہا جاتا ہے کہ خدا کو مانو تو بعض لوگوں کے دلوں میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے وجود یا عدم وجود کی بحث میں پڑیں ہی کیوں.اس کا فائدہ ہی کیا ہے؟ اب بھی ہم محنت سے کماتے ہیں اگر خدا کو مان کر بھی محنت ہی کرنی پڑے گی اور جو کوشش اب کرتے ہیں وہی پھر بھی کرنی ہوگی تو پھر خدا کے ماننے سے ہماری زندگیوں میں کون سا تغیر ہو ا جس کی خاطر ہم یہ جھگڑ اسیر ہیں.یورپین محققین کا جواب یورپ کے لوگوں کے سامنے بھی یہی سوال آیا ہے جس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ اگر خدا کو نہ مانا جائے تو دنیا سے امن اُٹھ جائے گا کیونکہ پولیس تو ہر جگہ نہیں ہوتی.ہزار ہا لوگ جن کے دل میں چوری کا خیال پیدا ہوتا ہے وہ خدا ہی کے ڈر سے رُکتے ہیں اور اس کے ڈر کی وجہ سے چوری کا ارتکاب نہیں کرتے اس لئے خدا کو ماننا چاہئے.اگر چہ واقع میں کوئی خدا نہیں مگر سیاستا خدا کے خیال کو ضرو زندہ رکھنا چاہئے تاکہ دُنیا میں امن قائم
رہے.یہ عقیدہ پہلے پہل روما سے شروع ہوا.وہاں تین قسم کے خدا مانے جاتے تھے.ایک عوام کا خدا جسے کبھی عورت کے بھیس میں اور کبھی کسی اور شکل میں ظاہر ہونے والا قرار دیا جاتا تھا.دوسرا فلسفیوں کا جو بہت لطیف اور وراء الورامی سمجھا جاتا تھا.تیسرا حکومت کا خدا جس کا مطلب صرف یہ تھا کہ امن قائم رکھنے کے لئے ایک بالا ہستی کو منوانا عوام الناس کو مجرموں سے بچانے کے لئے ضروری ہے.اب یورپ بھی اس قسم کے خدا کا قائل ہے.حالانکہ یہ دہریت ہے اور خدا تعالیٰ کی پاک ذات سے تمسخر.اس دلیل کی کمزوری خدا کے ماننے کے لئے یہ دلیل کہ اس کے ماننے سے امن قائم ہوتا ہے یورپ کی دلیل ہے مگر یہ کوئی دلیل نہیں کیونکہ اگر فی الواقع خدا نہیں ہے تو پھر کیوں دھوکا دے کر لوگوں سے خدا منوایا جائے.دھوکا دے کر لوگوں کو گنا ہوں سے باز رکھنا خود ایک گناہ ہے.اور پھر یہ بھی تو سوال ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود ہی کوئی نہیں تو پھر گناہ کیا ہے ہے؟ خدا تعالیٰ کے نہ ہونے کی صورت میں تو گناہ کی تعریف ہی بدلنی پڑے گی.پس خدا تعالیٰ کے منوانے کی یہ غرض اپنی ذات میں گناہ ہے اور لوگوں کو ذہنی غلامی میں پھنسائے رکھنا ہے اور دہریت پیدا کرنا ہے.کیونکہ جب ایک چیز کو اس کے اصل مقصود سے پھیر دیا جائے تو اس کی حقیقت پر غور کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی.اصل جواب اس سوال کا کہ خدا تعالٰی پر کیوں ایمان لایا جائے یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ موجود ہے اس لئے اس پر ایمان لانا چاہیئے اور دوسری صداقتوں کو جو ہم مانتے ہیں تو یہ سوچ کر تو نہیں مانتے کہ ان کے ماننے میں کیا فائدہ ہے بلکہ اس لئے مانتے ہیں کہ وہ سچائیاں ہیں اور سچائیوں کو معلوم ہونے کے بعد نہ ماننا
جہالت اور حماقت ہے اور جبکہ نہایت چھوٹی چھوٹی صداقتوں کے دریافت کے لئے بغیر اس کے کہ اس دریافت سے کسی فائدہ کی پہلے سے کوئی امید ہولوگ کوشش کرتے ہیں تو کیوں استقدر اہم مسئلہ کی دریافت کی طرف توجہ نہ کی جائے جو پیدائش عالم کی حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے.جب لوگوں نے زمین کے گھومنے یا اس کے گول ہونے یا ستاروں کے فاصلوں پر غور کرنا شروع کیا تھا تو ان امور کی دریافت میں سوائے زیادتی علم کے اور کیا فائدہ سوچا تھا.پس اگر جزئیات کی دریافت کے متعلق بغیر کسی نفع کی امید کے کوشش کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی ہے تو ذات باری کے مسئلہ کے متعلق کیوں غور نہ کیا جائے؟ در حقیقت جولوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق غور ہی کیوں کریں، وہ ایک رنگ میں خدا تعالیٰ کی ذات کا انکار کرتے ہیں.ان کی غرض اس علم سے جو فوائد مترتب ہوتے ہیں ان کا معلوم کرنا نہیں ہوتا.جب خدا کے نہ ماننے والوں کے سامنے مندرجہ بالا امر پیش کیا جاتا ہے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ باقی باتیں تو اختیاری ہیں کسی کی مرضی ہو تو زمین کے گھومنے کی تحقیقات کرے اور نہ ہو تو نہ کرے اسے کوئی مجبور نہیں کرتا مگر خدا کو تو جیز امنوایا جاتا ہے اور ہر ایک کو مجبور کیا جاتا ہے کہ خُدا کے بارے میں تحقیقات کرے.مگر یہ غلط ہے.جس طرح ان علوم کی اشاعت ہوتی ہے اسی طرح اس علم کی بھی اشاعت کی جاتی ہے.جس طرح دوسرے علوم خاص خاص لوگوں نے جنہوں نے اپنی عمریں ان کی دریافت میں صرف کی ہیں دریافت کئے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکشاف بھی خاص خاص لوگوں پر جو اس امر کے اہل ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا جلوہ کامل طور پر ان پر ظاہر ہوا ہے.اور جب ان پر حقیقت ظاہر ہو گئی ہے تو انہوں نے باقی دنیا کو اس صداقت کے تسلیم کرنے کی دعوت
دی ہے اسی طرح جس طرح ان لوگوں نے جنہوں نے قانونِ قدرت کی باریکیوں کو دریافت کیا اور پھر دوسرے لوگوں کو ان کے ماننے کی دعوت دی.اس میں کیا شک ہے کہ سب دُنیا اس تحقیق میں مشغول نہیں ہوئی تھی کہ زمین گول ہے یا نہیں مگر جب یہ صداقت ظاہر ہوگئی تو پھر سب سے ہی اس صداقت کو منوایا جاتا ہے.اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے وجود کا اس کی محبت میں فنا ہو کر بعض لوگوں نے پتہ لگایا تو اب سب پر فرض ہے کہ وہ اسے مانیں خواہ اس کے ماننے میں ان کو کوئی فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے.اگر زمین کی گولائی اور جوار بھاٹے کے اصول کے دریافت ہونے کے بعد دنیا کو اجازت نہیں دی جاتی کہ جو چاہے مانے.تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کسی کو کچھ نہ کہو خواہ کوئی توجہ کرے یا نہ کرے.جن کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا علم ہوا ہے ان کا حق ہے اور ان پر فرض ہے کہ وہ دوسروں تک اس علم کو پہنچا ئیں اور کسی کا حق نہیں کہ ان کی اس کوشش پر اعتراض کرے یا اس مسئلہ پر غور کرنے کو عبث قرار دے.تیسرا جواب یہ ہے کہ خالق کے معلوم کرنے سے حقائق الاشیاء معلوم ہوتے ہیں اور اس طرح خدا کے معلوم ہونے سے دُنیا کے علوم میں بہت کچھ ترقی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے وجود کے نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ہی شرک پیدا ہوا ہے اور شرک سے حقائق اشیاء کے دریافت کرنے کی طرف بے توجہی ہوئی ہے.اگر ہر اک چیز کی علت خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے ارادہ کو قرار دیا جاتا تو کیوں ان چیزوں کو جو انسان کے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں خدا قرار دیکر انسانی تحقیق سے بالا سمجھ لیا جاتا.
چوھتا جوار یہ ہے کہ یہاں یہ ہی نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے وجود پر غور ہی کیوں کریں کیونکہ غور ہماری طرف سے شروع ہی نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ خود اپنے ایلچی بھیج بھیج کر ہمیں اپنی طرف بلاتا اور ہماری توجہ کو کھینچ رہا ہے.پس جب بلاوا دوسری طرف سے آ رہا ہے تو یہ سوال ہی غلط ہے کہ ہم کیوں خدا تعالیٰ کے وجود کے دریافت کرنے کی کوشش کریں.جب آواز ادھر سے آرہی ہے تو ہماری کوشش کا سوال ہی اُٹھ گیا.اگر چلتے چلتے ایک چیز ہمارے سامنے آجائے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم اسے کیوں دیکھیں کیونکہ وہ چیز ہمارے ارادے سے پہلے ہمارے سامنے آگئی ہے.پس جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اینچی ہماری طرف آ رہا ہے تو اب اس سوال کے معنی ہی کیا ہوئے کہ ہم اس سوال پر کیوں غور کریں.اس کا جواب صاف ہے کہ اس لئے غور کریں کہ یہ سوال ہمارے سامنے آ گیا ہے اور ایسے رنگ میں آگیا ہے کہ اس سے غفلت کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادوں کا سلسلہ ایسا چلایا ہے کہ ایک منکرِ خدا کہہ سکتا ہے کہ دق کر دیا ہے اور جب تک لوگ انکار کرتے رہیں گے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا.حضرت نوح " ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود کے آنے پر بھی جو لوگ نہیں مانتے اگر وہ انکار کرتے چلے جائیں گے تو پھر کسی اور رسول کو بھیج دے گا.لوگوں میں خدا کا خیال کس طرح پیدا ہوا؟ جب اس سوال کو اس طرح رد کیا جاتا ہے تو منکرانِ خُدا اور طرف رُخ بدلتے ہیں
۱۲ اور کہتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ فی الواقع ہوتا تو چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ کا خیال دُنیا میں الہام کے ذریعہ سے پیدا ہوتا مگر ہم جیسا انسانی ارتقاء کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی بالا ہستی کا خیال آہستہ آہستہ قوموں میں پیدا ہوا ہے.چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ پہلے اقوام میں ان اشیاء کی پرستش شروع ہوئی ہے جن سے انسان ڈرا ہے.جس طرح ایک بچہ ڈر کر لجاجت اور گریہ وزاری کرنے لگ جاتا ہے اسی طرح جب انسان بعض چیزوں سے مرعوب ہوا اور ڈرا تو یہ ان کے آگے لجاجت کرنے لگا اور ہاتھ جوڑنے لگا اس سے عبادت پیدا ہوئی پھر جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اپنے سے بالا ہستیوں کا خیال راسخ ہوتا گیا اور تعلیم کی ترقی کے ساتھ انسان نے ادنی چیزوں سے نظر اُٹھا کر صرف بالا ہستیوں کو پوجنا شروع کیا.پھر کچھ مدت کے بعد جب اور علمی ترقی ہوئی تو بالا ہستیاں غیر مادی قرار پا گئیں اور جن چیزوں کی پہلے پرستش کی جاتی تھی وہ ان کا مظہر قرار پائیں اور آخری قدم یہ تھا کہ ایک واحد ہستی جو سب پر فائق تھی تجویز ہوئی.پس خدا تعالیٰ کا خیال بندے کی مخلوق ہے نہ کہ کوئی بالا ہستی بندے کی خالق.چنانچہ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب سے پہلا علم جو دنیا میں رائج ہوا ہے وہ علم ہیئت تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ سورج، چاند، ستارے سب سے زیادہ انسانی عقل کو حیران کرنے والے تھے اس لئے سب سے پہلے انہی کو خدا قرار دیا گیا اور ان کی چالوں پر غورشروع ہوا تا کہ معلوم ہو سکے کہ خدا کا منشاء کیا ہے اور اس سے علم ہیئت کی ترقی ہوئی.علم اور فکر کی ترقی سے متاثر ہو کر جب لوگوں نے اس خیال سے تسلی نہ پائی تو پنڈتوں نے ان چیزوں کو بالا ہستیوں کے مظاہر قرار دے دیا پس خیالات کے اس ارتقاء سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالے کا خیال انسانی دماغ کی ایجاد ہے نہ کہ کسی حقیقت پر مبنی یا کسی الہام کا نتیجہ ہے.اگر فی الواقع خدا ہوتا اور الہام سے دُنیا کو اس خیال کی طرف توجہ پیدا ہوتی تو
شروع سے ہی خدا تعالیٰ کی ذات کی نسبت مکمل اور صحیح عقیدہ دنیا میں موجود ہونا چاہئے تھا.یہ اعتراض واقع میں قابل غور ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.جن اقوام نے الہام کی تعریف کو موجودہ زمانہ کے اعتراضات سے ڈر کر بدل دیا ہے انہوں نے تو اس اعتراض کا جواب نہایت آسانی سے دے دیا ہے اور وہ یہ کہ جس خیال کو تم نامکمل کہتے ہو اور جس تصویر کو تم ناقص کہتے ہو وہ بھی الہام کے ذریعہ سے تھی اور چونکہ دنیا کی ذہنی ترقی ابتداء میں کامل نہ تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنے وجود کو تمثیلی رنگ میں بنی نوع انسان میں ظاہر کیا تھا اور چونکہ اصل چیز جس کی قدر کی جاسکتی ہے وہ تعلق ہے پس جو شخص بھی نیک نیتی سے سانپ یا بچھو یا ستاروں کو خدا سمجھ کر پوجتا ہے وہ در حقیقت خدا کو ہی پوجتا ہے اور وہ بھی اپنی عقل کے مطابق ایک الہام پر ہی عمل پیرا ہے.پس اگر ابتداء میں خدا تعالیٰ کا خیال ناقص تھا تو اس کا موجب یہ نہ تھا کہ انسان کے دماغ نے اس خیال کو ڈر سے پیدا کیا بلکہ اس کا موجب یہ تھا کہ انسانی دماغ بوجہ ناقص ہونے کے خدا تعالیٰ کے خیال کو مکمل صورت میں اخذ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس کی طاقتوں کے مطابق خدا تعالیٰ کا خیال اس کے دماغ پر نقش کیا گیا اور خدا تعالیٰ کا وجود اسے مختلف مظاہر کی صورت میں دکھایا گیا اور پھر یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا کی ہر اک شے ایک بالا طاقت کی مظہر ہے؟ مجھے اس جواب کی صحت یا اس کے ستم پر اس وقت بحث کرنے کی ضرورت نہیں مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ جو لفظی الہام کے قائل ہیں یہ جواب منکرین خدا کے سامنے پیش نہیں کر سکتے.اگر الہام لفظوں میں نازل ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے تو خدا
۱۴ تعالیٰ کے وجود کو بنی نوع انسان کے سامنے بالکل ابتدائی زمانہ میں بھی اس رنگ میں پیش کیا جا سکتا تھا کہ انسان محسوس کرے کہ خدا تعالیٰ کا وجود دوسری اشیاء سے جو مخلوق ہیں بالکل الگ تھلگ ہے پس ہمیں اور قسم کے جوابوں کی ضرورت ہے.میرے نزدیک اس اعتراض کا حقیقی جواب دینے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس اعتراض کی حقیقت کیا ہے؟ اگر ہم اس اعتراض کی حقیقت پر غور کریں تو پہلے اس کے مندرجہ ذیل اجزاء معلوم ہوتے ہیں.ا.خدا تعالیٰ کا خیال ڈر اور حیرت سے پیدا ہوا ہے.۲.اس میں تدریجی ترقی ہوئی ہے.اب اگر یہ دونوں باتیں صحیح ہیں تو خدا تعالیٰ کے متعلق جو خیال بنی نوع انسان میں پیدا ہوا ہے اس سے یہ ثابت ہونا چاہئے کہ سب سے پہلے جن چیزوں کی عبادت شروع ہوئی ہے وہ وہی چیزیں ہیں جن سے سب سے پہلے بنی نوع انسان کو خوف پیدا ہوسکتا تھا.اب اگر ذرا بھی تدبر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلے انسان کو خوف درندوں سے ہو سکتا تھا کیونکہ جس وقت انسان کے پاس حفاظت کا پورا سامان نہ تھا اور آبادیوں کا دستور نہ شروع ہوا تھا سب سے زیادہ خطرہ درندوں سے ہی ہو سکتا تھا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ درندوں کی پرستش کیڑوں کی پرستش سے بہت کم ہے.زیادہ تر سانپ کے پجاری ملتے ہیں.شیروں اور بھیڑیوں کی پوجا سانپ سے بہت کم ہوتی ہے حالانکہ سانپ چھپ کر حملہ کرتا ہے اور شیر ظاہر میں اور شیر کی آواز ہے اور سانپ کی نہیں.اور شیر کا جسم بڑا ہے اور سانپ کا نہیں.اور بھیڑیے کا حال بھی شیر کی طرح کا ہے.پس اگر تدریجی ترقی ہوتی تو سب سے پہلے شیر اور بھیڑیے اور ریچھ وغیرہ کی پرستش ہوتی مگر ان کی پرستش اس کثرت سے اور اس قدر پرانی نہیں ہے جس قدر کہ سانپ کی
۱۵ ہے جس سے معلوم ہوا کہ خدا کے خیال کے تدریجا پیدا ہونے کا خیال ہی غلط ہے.علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ اعتراض تب ہی پڑ سکتا تھا جبکہ تسلیم کیا جائے کہ انسان اچانک دُنیا میں پیدا ہو گیا تھا اور اس وجہ سے اسے بعض چیزوں کو دیکھ کر حیرت اور خوف پیدا ہو ا مگر یہ عقیدہ رکھ کر تو فورا ایک پالا رادہ ہستی کو تسلیم کرنا ہو گا جس نے ارادہ کیا کہ انسان پیدا ہو اور وہ پیدا ہو گیا اور خود یہ عقیدہ ہی خدا تعالیٰ کے وجود کو ثابت کر دے گا.پس خدا تعالیٰ کے انکار کے ساتھ اس امر کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ انسان کی پیدائش بتدریج اور مختلف تغییرات سے ہوئی ہے اور اس قسم کے معترضین کا عقیدہ بھی یہی ہے.اب اگر یہ بات درست ہے کہ انسان بتدریج مختلف حالتوں سے ترقی کرتا ہو ابنا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسان بننے کی صورت میں اس نے چاند سورج ، ستاروں اور شیروں، بھیٹریوں اور سانپوں کو اچانک نہیں دیکھا.بلکہ وہ اس سے پہلی حالت میں بھی ان چیزوں کو دیکھتا آیا ہے اور بعض کا مقابلہ کرتا چلا آیا ہے اور بعض کو قطعا نظر انداز کرتا آیا ہے.پس اگر جبکہ انسان بندر یا اس سے بڑھ کر کسی اور جانور کی صورت میں سانپ سے خوب آشنا تھا بلکہ اس کا مقابلہ کیا کرتا تھا تو کیونکر ممکن ہے کہ جب وہ اس حالت سے ترقی کر جائے تو اسے پوجنے لگ جائے.یہ چیز نئی نہ تھی بلکہ ایسی چیز تھی جس سے وہ نسلاً بعد نسل واقف چلا آیا تھا پس ارتقاء کا مسئلہ بھی اس خیال کو رڈ کر رہا ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ درست ہے کہ خوف و حیرت سے خدا کا خیال پیدا ہوا تو چاہئے تھا کہ سب سے پہلے چاند اور سورج کی پرستش شروع ہوتی کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو سب کو اور سب سے پہلے نظر آتی ہیں.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں کی پرستش ستارہ پرستی سے پہلے کی ہے.حالانکہ سورج، چاند وغیرہ کو ہر شخص شروع سے ہی دیکھتا چلا آیا ہے.تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ پہلے
دوسری چیزوں کی عبادت شروع ہوئی بعد میں ایک وراء الورا کی ہستی کا خیال پیدا ہوا ہے.خود تاریخ اس کو رڈ کر رہی ہے اور ان لوگوں کا استدلال تاریخ سے درست نہیں ہے.پرانی سے پرانی اقوام میں ہمیں ایک خدا کے خیال کا پتہ لگتا ہے.دنیا کی سب سے پرانی قوم کا خیال خدا کے متعلق دنیا میں پرانی اقوام جو اب تک محفوظ چلی آتی ہیں ان میں سے سب سے پرانی میکسیکو کی قوم ہے.یہ قوم بہت پرانی سمجھی جاتی ہے اور نہایت قدیم خیالات اس میں محفوظ پائے جاتے ہیں.جب ہم اس قوم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں خدا تعالیٰ کے متعلق کیا خیال ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گو یہ ایک نہایت ہی پرانی قوم ہے مگر اس میں ایک خدا کا خیال موجود ہے وہ کہتے ہیں ایک خدا ہے جس کا نام او و ناولونا (AWONA WILLONA) ہے جوسب کا خالق ہے اور سب پر محیط ہے اور سب باپوں کا باپ ہے.ابتداء میں جب کچھ نہ تھا ولونا نے خیال کیا اور اس کے خیال کرنے کے بعد اس خیال سے نمو کی طاقت پیدا ہوئی اور وہ طاقت بڑھتے بڑھتے وسیع فضا کی صورت میں تبدیل ہوگئی اور اس سے خدا کی روشنی جلوہ گر ہوئی اور فضا سکڑنے لگی جس سے یہ چاند اور سورج اور ستارے بنے.یہ میکسیکو کے باشندوں کا نہایت ہی پرانا خیال ہے.اب خدا تعالیٰ کے متعلق جو تازہ سے تازہ خیالات ہیں ان کو ان سے ملا کر دیکھو وہ بھی ان کے مشابہ ہیں.عیسائیت میں بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ پہلے تاریکی تھی پھر دنیا بنی اور اسلام میں بھی یہی ہے.یہ ہزاروں سال بعد کی تحقیقا تیں بھی یہی ثابت کرتی ہیں اور یہی باتیں ہیں جو سائنس کہتی ہے کہ پہلے بہت باریک ذرات تھے جو بغیر کسی سبب اور ذریعہ کے اکٹھے ہوئے اور بادل بنے.ان میں ایک جگہ ٹھوس ہو گئی اس لئے کہ وہاں
12 زیادہ مادہ جمع ہو گیا.اس جگہ نے دوسرے ذروں کو کھینچنا شروع کیا اور کرہ بڑھنے لگا اور اس میں گولائی آنے لگی.اس طرح بہت بڑا کرہ بنا.پھر اسکے ٹکڑے ہو گئے.کوئی سورج بن گیا، کوئی چاند ، کوئی ستارے.افریقہ کے قدیمی باشندوں کے خیال پھر افریقہ کی طرف آئیے.وہاں کے پڑانے اور قدیمی باشندوں کے دماغ اتنے ادنیٰ درجہ کے ہیں کہ اگر انہیں پڑھایا جائے تو بڑھاپے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ استقدر ادنی ہوتے ہیں کہ سیکھی ہوئی باتوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے.ان میں بھی ایک وراء الوڑی ہستی کے خیال کا پتہ لگتا ہے.چنانچہ ان کے ایک قبیلہ کا خیال ہے کہ ایک وراء الور کی ہستی ہے جو سب کی خالق ہے اور اسے وہ نینگمو (NYONGMO) کہتے ہیں.بابلیوں میں خدا کا عقیدہ پھر بابلیوں میں بھی یہی عقیدہ پایا جاتا ہے.چنانچہ بابل کے ایک نہایت ہی پرانے بادشاہ کی ایک دُعا نکلی ہے جو یہ ہے:.کہ اے دائمی بادشاہ تمام مخلوق کے مالک تو میرا خالق ہے.اے بادشاہ تیرے رحم کے مطابق.اے آقا جو تو سب پر رحم کرنے والا ہے تیری وسیع بادشاہت رحم کرنے والی ہو.اپنی الوہیت کی عبادت کی محبت میرے دل میں گاڑ دے.اور جو کچھ تجھے اچھا معلوم دیتا ہے وہ مجھے دے.کیونکہ تو ہی ہے جس نے میری زندگی کو اس رنگ میں ڈھالا ہے.
کتنا اعلیٰ اور نبیوں والا خیال ہے جو اس دُعا میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے میں کوئی چیز مانگوں اور وہ میرے لئے مضر ہو.اس لئے اے خدا جو کچھ تجھے میرے لئے اچھا معلوم ہوتا ہے وہ دے.یہ اس قوم کی دُعا ہے جسے بت پرست کہا جاتا ہے.دیگر اقوام کے خیال اسی طرح کینیڈ والے قدیمی باشندے ایک خدا کو مانتے ہیں.پھر آسٹریلیا کا علاقہ جو چند صدیوں سے ہی دریافت ہوا ہے اور جہاں کے لوگ دُنیا سے بالکل علیحدہ تھے اور اس قدر وحشی اور خونخوار تھے کہ ان کا قریبا خاتمہ کر دیا گیا.ان کا ارشا (ARUNTA) نامی ایک قبیلہ ہے.وہ ایک ایسے خدا کا قائل ہے جو آسمان پر رہتا ہے اسے وہ الٹیر ا (ALTJIRA) کہتے ہیں.ان کا خیال ہے کہ وہ چونکہ حلیم ہے اس لئے سز انہیں دیتا اور اس لئے اس کی عبادت کی ضرورت نہیں.افریقہ کا ایک وحشی قبیلہ جسے زولو (ZULU) کہتے ہیں ان میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ایک غیر مرئی خدا ہے جو سب دُنیا کا باپ ہے.اس کا نام انکولنکولو (UNKULUNKIVLU) بتاتے ہیں.ہندوؤں میں خدا تعالیٰ کی غیر محدود طاقتوں کے متعلق خیال پایا جاتا ہے.چنانچہ درونا کے متعلق وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ عالم الغیب اور غیر محدود طاقتوں والا ہے.چنانچہ اس کے متعلق ہندوؤں کا پرانا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی کھڑا ہو یا چلے یا پوشیدہ ہو جائے.اگر وہ لیٹ جائے یا کھڑا ہو جائے یا جو دو آدمی اکٹھے بیٹھ کر ایک دوسرے سے سرگوشیاں کریں.بادشاہ درونا اسے جانتا ہے وہ وہاں بطور ثالث موجود ہے.
۱۹ ی زمین بھی درونا کی ہے اور آسمان اپنے وسیع فضا سمیت بھی اسی کا ہے.وہ شخص آسمان سے بھی بھاگ کر نکل جائے وہ بھی بادشاہ رونا کی حکومت سے باہر نہیں جاسکتا.“ اسی طرح آسٹریا کے قدیم وحشی باشندے نورینڈیئر (NURRENDIRE) کو شریعت دینے والا خدا سمجھتے ہیں.دومبو ایک پرانا وحشی قبیلہ نوریلی (NURELLI) کے نام سے ایک زبر دست خدا کی پرستش کرتا ہے.افریقہ کا مشہور مغربی بختو قبیلہ نزامی (NZAMBI) تمام دنیا کا پیدا کرنے والا اور بنی نوع انسان کا باپ قرار دیا جاتا ہے.پس اس قدر قدیمی اور وحشی قبائل کے اندر ایک زبر دست غیر مرئی خدا کا خیال پایا جانا بتاتا ہے کہ آہستہ آہستہ خدا کا خیال نہیں پیدا ہو بلکہ الہامی طور پر آیا ہے.اہل یورپ کا اعتراض بعض لوگ اوپر کے بیان پر اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ تو مانا کہ ایک غیر مرئی قادر مطلق خدا کا خیال پرانی اور قدیمی اقوام میں پایا جاتا ہے مگر یہ کس طرح معلوم ہو کہ یہ خیال بھی ان قوموں میں پرانا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو خود وحشی قبائل میں الہام کا خیال موجود ہے پرانے سے پرانے قبائل کو لیا جائے وحشی سے وحشی قبائل کی روایات پر غور کیا جائے تو ان میں الہام کا خیال موجود ہے اور وہ یقین کرتی ہیں کہ ان کے پاس جو قانون ہے وہ خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے.پس یہ شہادت جوان اقوام کی ہے جو الہام یا عدم الہام کی حقیقت سے ناواقف ہے بتاتا ہے کہ یہ خیال کسی تدریجی ترقی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ الہام کے
ذریعہ سے قدیم زمانہ سے چلا آتا ہے.مثال کے طور پر ہم ویدوں کو لیتے ہیں.ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دین اور شریعت کے عالم بالا سے نازل ہونے کا خیال بہت پرانا ہے.آسٹریلیا کے وحشی قبائل دنیا کی قدیم ترین حالت کے نمائندے ہیں ان سے جب پوچھا جائے کہ وہ کیوں بعض رسوم کی پابندی کرتے ہیں تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ نر ٹیڈ ٹر نے ان کو ایسا ہی حکم دیا ہے یعنی خدا نے.امریکہ کے پرانے قبائل میں بھی یہ خیال موجود ہے کہ ان کے قوانین الہام کے ذریعہ سے بنے ہیں.یہ شہادتیں بتاتی ہیں کہ تدریجی ترقی سے یہ خیالات پیدا نہیں ہوئے بلکہ کسی ایک شخص کی معرفت جو اپنے آپ کو لہم قرار دیتا تھا مختلف قبائل میں پھیلے.لوگ ان اشخاص کو جھوٹا کہہ سکتے ہیں، فریبی کہہ سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خیالات تدریجی ترقی کا نتیجہ تھے در نہ یہ روایات قدیم وحشی قبائل میں نہ پائی جاتیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ آثار قدیمہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بہت سی قومیں جن میں اب مشرکانہ خیالات ہیں ابتداء میں ان میں ایک خدا کی پرستش تھی.چنانچہ میگز ایک محقق ہے اس نے چین کے متعلق تحقیقات کی ہے کہ گو وہاں ہر چیز کا الگ خدا مانتے ہیں آگ کا خدا، چولہے کا خدا، توے کا خدا غرضیکہ ہر چیز کا خدا الگ الگ ہے گویا ہندوستان سے بھی بڑھ کر شرک ہے کہ جہاں صرف ۳۳ کروڑ دیوتا سمجھا جاتا ہے لیکن پرانے زمانہ میں وہاں ایک ہی خدا کی پرستش کی جاتی تھی.اسی طرح بابل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے.بابل وہ شہر ہے جسے ہمارے ملک کے بچے بھی جانتے ہیں اور ہاروت ماروت کے قصے کی
۲۱ وجہ سے خوب مشہور ہے اس شہر کی تاریخ نہایت قدیم ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں پرانے زمانہ میں ایک خدا کا خیال موجود تھا.تیرا جوار تیسرا جواب یہ ہے کہ قدیم اقوام کے متعلق یہ کہنا کہ ممکن ہے ان میں ایک خدا کا خیال بعد میں پیدا ہو گیا ہو عقلاً غلط ہے کیونکہ یہ ایک ماناہو ا قاعدہ ہے کہ جو خیال کسی قوم میں بعد میں پیدا ہو اس کی عظمت زیادہ ہوتی ہے اور جو دیوتا بعد میں مانا جائے اس کی عبادت زیادہ ہوتی ہے اور یہ بات تمام قدیم اقوام کے حالات سے معلوم ہوتی ہے کہ ان میں ایک خدا کا خیال تو موجود ہے لیکن پرستش چھوٹے دیوتاؤں کی زیادہ ہے اگر یہ خیال درست ہے کہ تدریج سے ایک خدا کا خیال پیدا ہوا ہے تو چاہئے تھا کہ تمام اقوام میں ایک خدا کی پرستش زیادہ ہوتی اور چھوٹے دیوتا اگر باقی بھی رہتے تو محض روایت کے طور پر حقیقتا لوگوں کا ان سے لگاؤ نہ ہوتا مگر واقعہ اس کے بالکل برخلاف ہے.چھوٹے دیوتاؤں کی پرستش ہی قدیم قبائل کرتے ہیں اور خدا کی پرستش شاذ و نادر ہی کسی قبیلہ میں پائی جاتی ہے.پس یہ صورت حالات اس تدریجی ترقی والے مقولہ کو باطل کر دیتی ہے.پھر ایک اور ذریعہ بھی اس سوال کو حل کرنے کا ہے اور وہ موجودہ زمانے کے تغیرات سے استنباط ہے.اس عقیدہ کی بنیاد کہ خدا کے خیال نے تدریجی ترقی کی ہے اصل میں صرف اس خیال پر مبنی ہے کہ تمام چیزوں میں تدریجی ترقی یا ارتقاء پایا جاتا ہے اور اس سے انسانی دماغ مستثنیٰ نہیں.اب ہم اس اصل کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی حالت کو دیکھتے ہیں.دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ اسلام خالص تو حید پر مبنی تھا.اس کے ابتداء میں
ا ۲۲ شرک کا ایک شمہ بھی اس کی تعلیم میں شامل نہ تھا مگر آہستہ آہستہ اب اسلام کی کیا حالت پہنچ گئی ہے.کیا اب مسلمانوں میں قبر پرست، درخت پرست، جن پرست، بھوت پرست، ستارہ پرست لوگ نہیں پائے جاتے ؟ آخر وہ مسلمان کہلانے والے لوگ ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ سید عبد القادر جیلانی کے پاس ایک عورت آئی اور آکر کہا میرے بچے کے لئے دُعا کرو کہ صحت یاب ہو جائے.انہوں نے کہا دُعا کریں گے اور وہ چلی گئی لیکن وہ پھر آئی اور کہا میرالڑ کا تو مر گیا.اس پر انہوں نے عزرائیل کو بلایا.وہ آئے تو کہا میں نے جو کہا تھا اس لڑکے کی جان نہیں نکالنی.پھر کیوں نکالی؟ انہوں نے کہا مجھے ایسا ہی حکم تھا میں کیا کرتا.اس پر اسے پکڑنے لگے اور وہ بھا گا.عزرائیل آگے آگے اور یہ پیچھے پیچھے.گو یہ بعد میں اُڑے مگر عبد القادر تھے اس کے قریب پہنچ ہی گئے.وہ آسمان میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ انہوں نے پکڑ کر اس کی زنبیل چھین لی اور اس لڑکے کی روح ہی نہیں بلکہ اس دن کی ساری روحیں جو اس نے قبض کی تھیں چھوڑ دیں.وہ خدا کے پاس گیا اور جا کر رونے لگا کہ مجھ سے یہ جانیں نکالنے کا کام نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ سید عبد القادر نے مجھے ایک روح کے آزاد کرنے کو کہا تھا.میں نے آزاد نہ کی تو انہوں نے چھین کر سب روحیں ہی آزاد کر دیں.خدا نے یہ سنتے ہی کہا چپ چپ وہ کہیں یہ باتیں سن نہ لے.اگر وہ اگلی پچھلی ساری روحیں چھوڑ دے تو پھر ہم کیا کریں گے.اب بتاؤلا الہ الا اللہ پر جانیں قربان کرنے والوں کی نسل یہ اور اس قسم کی اور باتیں کر رہی ہے یا نہیں؟ اور کیا اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں میں پہلے شرک پایا جاتا تھا اور پھر خدا کا عقیدہ آیا اور اگر تاریخی طور پر ایک قوم ہمارے سامنے موجود ہے جو خالص
۲۳ توحید کے بلند مقام سے چل کر شرک کی تاریکیوں میں آگری تو کیوں نہ سمجھا جائے کہ پرانی اقوام جن میں شرک پایا جاتا ہے اسی طرح خالص توحید کے نقطہ سے شروع ہوئی تھیں مگر پھر تنزل اور جہالت کے زمانہ میں اصل تعلیم کو بھلا بیٹھیں.غرض عقلا اور نقلاً یہ ہرگز محال نہیں کہ خدا تعالیٰ کا خیال قدیم سے چلا آیا ہو بلکہ عقل اور نقل دونوں اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ خیال قدیم سے اور الہام کے ذریعہ سے دنیا میں چلا آیا ہے اور مشرکانہ خیالات بعد کے ہیں.پس منکرین خدا کا یہ اعتراض کہ اگر خدا تعالی واقعہ میں ہوتا تو ابتداء میں ایک خدا کا خیال ہوتا باطل ہے اور اس اعتراض کی بنیا د غلط واقعات پر رکھی گئی ہے.اگر خدا ہے تو دکھاؤ ان ابتدائی بحثوں کے بعد جب خدا تعالیٰ کے وجود کے متعلق فکر کرنے کی ضرورت ثابت ہو جاتی ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آتا تو منکرین خدا یہ کہ دیا کرتے ہیں کہ اچھا ہم ماننے کو تیار ہیں لیکن تم خدا ہمیں دکھا دو.چنانچہ پڑھے لکھے دہر یہ تک بھی یہی کہتے ہیں کہ لاؤ خدا دکھا دو پھر ہم مان لیں گے.اگر خدا ہے تو چاہئے تھا کہ آسمان سے آواز آتی کہ میرے بندو ا کٹھے ہو جاؤ میں تمہیں اپنا منہ دکھاتا ہوں.اگر صبح و شام اسی طرح ہوتا تو سب لوگ خدا کو مان لیتے.پس اگر خدا ہے تو دکھا دو ہم مان لیں گے.مجمل جواب اس کا مجمل جواب تو یہ ہے جو صوفیاء نے دیا ہے کہ وہ قریب ہے اور سب سے زیادہ
۲۴ قریب.اور وہ دُور ہے اور سب سے زیادہ دُور.اور بہت ہی قریب کی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی اور بہت دور کی بھی دکھائی نہیں دیتی.پس خدا تعالیٰ جو بندہ سے نہایت دور ہے بندہ اسے دیکھ نہیں سکتا.اور اسی طرح وہ بندہ سے اس قدر قریب ہے کہ حبل الورید سے بھی زیادہ قریب ہے اس لئے بھی نظر نہیں آتا.کیا کبھی کسی نے اپنی حبل الورید دیکھی ہے یا اگر کوئی پانی میں منہ ڈال لے تو اپنے آپ کو دیکھ سکتا ہے؟ پس ایک بات تو خدا کے متعلق ہم یہی کہتے ہیں کہ وہ چونکہ اتنا قریب ہے کہ حبل الورید سے بھی زیادہ قریب ہے اس لئے انسان اسے دیکھ نہیں سکتا.انہی دنوں ایک دوست نے سنایا کہ ایک شخص جرمنی وغیرہ سے ہو کر آیا ہمیں نماز پڑھتے دیکھ کر کہنے لگا اس قسم کی ورزش کا کیا فائدہ؟ اس کی بجائے کوئی اور معقول ورزش کر لیا کرو جس کا کچھ فائدہ بھی ہو.اسے کہا گیا یہ ورزش نہیں بلکہ عبادت ہے.اس نے کہا کس کی عبادت؟ کہا گیا خدا کی عبادت.اس نے کہا خدا کہاں ہے؟ اگر ہے تو دکھاؤ.حسین تو اپنے آپ کو دکھاتے ہیں.اگر خدا سب سے زیادہ حسین ہے تو کیوں چھپا ہوا ہے؟ اس دوست نے کہا کہ میں نے کاغذ پر اللہ لکھ کر دُور سے اسے دکھایا اس نے کہا کچھ نہیں نظر آتا.پھر اسے کہا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ بھی فرماتا ہے کہ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ - (ق: ۱۷) میں انسان سے اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور اس کاغذ کو اس کی آنکھوں کے بالکل قریب رکھ دیا اور کہا بتاؤ اب تمہیں کیا نظر آتا ہے اس نے کہا اب تو کچھ نہیں نظر آتا.اس پر اسے بتایا گیا کہ جب خدا اس سے بھی زیادہ قریب ہے تو وہ تمہیں ان آنکھوں سے کس طرح نظر آجائے.تو خدا کو دیکھنے کا مطالبہ کرنے والوں کو مجمل جواب تو یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ خدا قریب سے قریب اور بعید سے بعید ہے اس لئے ان دونوں وجہ سے نظر نہیں آتا.
۲۵ ہر چیز کے دیکھنے کا طریق الگ ہے اور اس کا حقیقی جواب یہ ہے کہ ہر چیز کے دیکھنے اور معلوم کرنے کا طریق الگ ہے اور یہ کہنا کہ دوسری چیزوں کی طرح ہی خدا بھی ہمیں دکھاؤ نہایت ہی بیہودہ اور خلاف عقل سوال ہے.ہم نے کب کہا ہے کہ خدا کوئی مادی چیز ہے جسے اور مادی چیزوں کی طرح دیکھا جاسکتا ہے.کہتے ہیں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا وہ بادشاہ کے پاس جا کر کہنے لگا میں نبی ہوں مجھے قبول کرو.بادشاہ نے کہا کس طرح معلوم ہو کہ تم نبی ہو.وزیر نے کہا یہ تو کوئی مشکل بات نہیں.ابھی اس کا فیصلہ ہو جاتا ہے.یہ کہہ کر اس نے اس مدعی نبوت کے سامنے ایک تالا رکھ دیا اور کہا اگر تم نبی ہو تو اسے کھول دو.اس نے کہا میں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے نہ کہ لوہار ہونے کا کہ تالہ کھولوں.یہی حال ان لوگوں کا ہے جو کہلاتے تو فلاسفر یعنی عقلمند ہیں مگر خدا کے متعلق اس قسم کا مطالبہ کرتے ہیں جس قسم کا وزیر نے مدعی نبوت سے کیا تھا.انہیں اتنا تو سمجھنا چاہئے کہ ہم آٹے کا خدا نہیں مانتے اور نہ پتھر کا خدا مانتے ہیں.اگر اس قسم کے خداؤں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو مندروں میں دیکھ لیں.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک وراء الورا کی ہستی مانتے ہیں.ہر چیز دیکھ کر نہیں مانی جاتی اور یہ صاف بات ہے کہ دُنیا کی ہر ایک چیز دیکھ کر ہی نہیں مانی جاتی.بلکہ اور طریقوں سے بھی مانی جاتی ہے.مادہ اشیاء میں سے بھی بعض کے وجود کا علم سونگھنے سے بعض کا چکھنے سے بعض کا ٹولنے سے بعض کا سننے سے معلوم ہوتا ہے.پس اگر کوئی کہے کہ گلاب
۲۶ کے پھول کی خوشبو مجھے دکھا دو یا لوہے کی سختی مجھے دکھا دو یا خوبصورت آواز دکھا دو.تو وہ شخص نہایت ہی نادان ہوگا اور جب مادی چیزوں میں سے بھی سب کی سب دیکھنے سے نہیں مانی جاتیں.تو پھر خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کہنا کہ ہم اسے دیکھے بغیر نہیں مانیں گے کس قدر نادانی ہے.علاوہ ازیں سب چیزیں حواسِ خمسہ سے بھی نہیں معلوم کی جا سکتیں.بعض قیاس سے بھی معلوم کی جاتی ہیں.ایسی چیز میں نہ سونگھی جاتی ہیں نہ چکھی جاتی ہیں نہ دیکھی جاتی ہیں نہ ٹولی جاتی ہیں نہ سنی جاتی ہیں.جیسے غصہ ہے.کس طرح پتہ لگتا ہے کہ فلاں میں غصہ ہے؟ کیا چھو کر پائن کر یا چکھ کر یا دیکھ کر یا سونگھ کر.ان پانچوں طریقوں میں سے کسی سے بھی اس کا پتہ نہیں لگایا جاسکتا.پھر کیونکر معلوم ہوتا ہے کہ غصہ کوئی چیز ہے اور لوگوں کو آیا کرتا ہے.اس طرح کہ انسان سمجھتا ہے کہ میں بھی آدمی ہوں اور دوسرے بھی آدمی ہیں پس وہ اپنے غصہ کی حالت کی کیفیات کو جب دوسروں کی ویسی ہی کیفیات سے ملا کر دیکھتا ہے تو سمجھ لیتا ہے کہ یہ چیز اوروں میں بھی پائی جاتی ہے اور جس وقت وہ کیفیات دوسرے میں دیکھتا ہے خیال کر لیتا ہے کہ اس وقت اس کو غصہ آیا ہوا ہے.اسی طرح اور کئی باتیں ہیں جو دوسرے کی کیفیت کو اپنے اوپر چسپاں کرنے سے معلوم ہوتی ہیں.مثلا درد ہے.نہ یہ چکھی جاتی ہے نہ سونگھی جاتی ہے نہ دیکھی جاتی ہے نہ چھوٹی جاتی ہے نہ سنی جاتی ہے.پھر کس طرح پتہ لگایا جاتا ہے کہ کسی شخص کو واقع میں درد ہے اور کس طرح ہے اس طرح کہ اپنے نفس پر وہ حالت گزری ہوئی ہوتی ہے اور اس کے آثار کا علم ہوتا ہے اس لئے جب کوئی کہتا ہے کہ مجھے فلاں جگہ درد ہے تو دوسرے انسان اس کی شکل اور حالت کو دیکھ کر درد کا حال معلوم کر لیتے ہیں اور اپنے تجربہ کی بناء پر جو تکلیف اسے ہورہی ہوتی ہے اس کا اندازہ کر لیتے ہیں.
۲۷ غرض بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا علم حواس خمسہ سے بھی نہیں ہو سکتا.ان چیزوں کی بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو قیاس سے معلوم ہوتی ہیں دوسری وہ جو اندرونی حسوں سے معلوم ہوتی ہیں.مثلاً غیر کا غصہ تو قیاس سے معلوم ہوسکتا ہے.لیکن اپنے آپ کو جب غصہ یا پیار آتا ہے تو اس کا پتہ قیاس سے نہیں لگایا جاتا اور نہ وہ سونگھنے ، دیکھنے، سننے اور چھونے سے معلوم ہوتا ہے بلکہ انسان کی اندرونی حسیں اسے محسوس کرتی ہیں.پھر بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے اثرات سے ان کو معلوم کرتے ہیں جیسے مقناطیس ہے اسے جب لوہے کے پاس رکھا جائے تو اسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اس سے ہم سمجھ لیتے ہیں کہ اس میں جذب کی طاقت ہے اور جب اس امر کا ہم بار بار تجربہ کر لیتے ہیں تو ہمیں اور بھی یقین ہو جاتا ہے اور اگر اس کے اثر کو ہم منتقل کر سکیں تو اس سے ہمارا یقین اور بھی بڑھ جاتا ہے.کیونکہ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ حقیقتا کوئی وجود رکھتی تھی جس کی وجہ سے منتقل بھی ہوگئی.اس طاقت مقناطیسی کو ہم دیکھ کر یا سونگھ کر یا چکھ کر یا چھو کر یا سن کر نہیں مانتے.بلکہ اس کے اثر کی وجہ سے مانتے ہیں.اس قسم کی اشیاء بھی لاکھوں کروڑوں ہیں اور کوئی عقلمند ان کا انکار نہیں کرتا.پس جبکہ دنیوی اور مادی اشیاء میں حواس خمسہ کے سوا اور ذرائع سے بھی انسان چیزوں کے وجود کا پتہ لگایا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ جو مادی نہیں اس کے متعلق یہ شرط کیونکر لگائی جا سکتی ہے کہ اسے دکھا دو یا حواس خمسہ کے ذریعہ سے اس کا ثبوت دو.ثبوت بیشک ہر دعوئی کے لئے ضروری ہے مگر وہ ثبوت دعویٰ کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ بے تعلق اور بے جوڑ.
۲۸ خدا تعالیٰ کی ذات خدا تعالیٰ کی ذات کیسی ہے؟ اس کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الانعام : ۱۰۴) ابصار علم کو بھی کہتے ہیں.اس لئے اس کا یہ مطلب ہوا کہ تم خدا کو ان ظاہری آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے علم اور فہم سے بھی نہیں دیکھ یا معلوم کر سکتے.مگر جب اللہ تعالیٰ خود تم پر اپنا اثر ڈالے تو جس طرح لوہے پر مقناطیس کا اثر پڑنے سے مقناطیس کا پتہ لگ سکتا ہے اسی طرح تم خدا کے اثر سے اس کو معلوم کر سکتے ہو.اس مرحلہ پر پہنچ کر منکرین خدا کا یہ سوال ہوتا ہے کہ اچھا جس طرح تم چاہو خدا کی ہستی کو ثابت کرو اور جو ثبوت اس کے ہونے کے ہو سکتے ہیں وہ دو.اس لئے اب وہ دلائل بیان کئے جاتے ہیں جن سے خدا کی ہستی ثابت ہوتی ہے.ہستی باری کی پہلی دلیل اس کے لئے پہلی دلیل تو ہم قبولیت عامہ کی لیتے ہیں یعنی یہ کہ خدا کا خیال ہر قوم میں پایا جاتا ہے اور خدا کے بڑے سے بڑے منکر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں کہ قبولیت عامہ بہت بڑی دلیل ہے.چنانچہ سپنسر سےجود ہریت کا بانی ہوا ہے.(اگر چہ اس نے اس کا دعویٰ نہیں کیا لیکن اس کی کتابوں پر دہریت کی بنیاد رکھی گئی ہے ) اس نے لکھا ہے کہ جس بات کو ساری دُنیا مانتی ہو وہ بالکل غلط نہیں ہو سکتی اس کی ضرور کچھ نہ کچھ حقیقت ہوتی ہے.پس جبکہ ہم ساری اقوام کو دیکھتے ہیں کہ ان میں خدا کا خیال پایا جاتا ہے جیسا کہ ابھی میں نے بتایا
۲۹ هستی باری تعالیٰ ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ خیال کہیں سے نکلا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس دلیل کو پیش کیا ہے.فرماتا ہے.اِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (الفاطر: ۲۵ ) کہ کوئی قوم دنیا کی ایسی نہیں جس میں میرے پکارنے والے نہیں پھر گئے اور یہ نہیں بتا گئے کہ میں ہوں.یہی ہر قوم میں پھرنے والے تھے جنہوں نے ان میں خدا کے ہونے کا خیال پھیلا یا.پس یہ قبولیت عامہ کی دلیل ہے.دہریت نے اس کے مقابلہ میں بڑے زور لگائے اور آج ہی نہیں بلکہ پہلے سے لگا رہی ہے مگر پھر بھی دہریت ہی مغلوب ہوتی رہی اور خدا کے ماننے والے ہمیشہ سے غالب ہوتے رہے.اور یہ بھی ثابت ہے کہ دہریے بھی مرتے وقت یہی کہتے رہے ہیں کہ ہم خدا کی ہستی کا انکار نہیں کرتے ممکن ہے کہ خدا ہو.چنانچہ ولایت میں ایک دہریے نے مرتے وقت بہت بڑی جائیداد اس بات کے لئے وقف کی کہ اس کے ذریعہ خدا کی ہستی پر بحث جاری رہے.منکرین خدا کے متعلق تو اس قسم کی باتیں ثابت ہیں مگر خدا کے ماننے والوں میں سے کبھی کسی نے مرتے وقت نہیں کہا کہ شاید خدا نہ ہو.حضرت مسیح موعود سنایا کرتے تھے کہ ہمارے ( ہمارے سے مراد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہیں ) ماموں میر محمد اسمعیل صاحب کے ساتھ ایک دہر یہ پڑھا کرتا تھا.ایک دفعہ زلزلہ جو آیا تو اس کے منہ سے بے اختیار رام رام نکل گیا.میر صاحب نے جب اس سے پوچھا کہ تم تو خدا کے منکر ہو پھر تم نے رام رام کیوں کہا؟ کہنے لگا غلطی ہو گئی یونہی منہ سے نکل گیا.مگر اصل بات یہ ہے کہ دہریے جہالت پر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ماننے والے علم پر اس لئے مرتے وقت یا خوف کے وقت وہ یہ یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے میں ہی غلطی پر ہوں.ورنہ اگر وہ علم پر ہوتا تو اس کی بجائے یہ ہوتا کہ مرتے وقت دہر یہ دوسروں کو کہتا کہ خدا کے
و ہم کو چھوڑ دو کوئی خدا نہیں مگر اس کے الٹ نظارے نظر آتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی ہستی کی یہ بہت زبر دست دلیل ہے کہ ہر قوم میں یہ خیال پایا جاتا ہے.ہر قوم میں خدا کا خیال ہونے پر اعتراض اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بیشک خدا کے ماننے کا عام خیال پایا جاتا ہے مگر کوئی دو خیال آپس میں متفق دکھا دو.ایک اگر کہتا ہے کہ ایک خدا ہے تو دوسرا کہتا ہے دو ہیں.تیسرا کہتا ہے تین ہیں، چوتھا کہتا ہے لاکھوں کروڑوں ہیں، پانچواں کہتا ہے ہر چیز خدا ہے، ایک وشنو اور شو کو خدا مانتے ہیں، دوسرے ایک ٹور کا اور ایک تاریکی کا خدا مانتے ہیں غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ یہ خیال یقین کی بناء پر نہیں بلکہ وہم ہے.جوا اس کے متعلق ہم کہتے ہیں.اس خیال کا وہ حصہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں وہ باطل ہے.مگر جس حصہ کو سارے کے سارے مان رہے ہیں وہ کیوں باطل قرار دیا جائے.سارے کے سارے یہ تو کہتے ہیں کہ خدا ہے سہی.اس کے آگے جو کچھ کہتے ہیں اس کے متعلق ہم کہیں گے کہ ان کی یہ تشریحیں غلط ہیں اور خدا ہے والا خیال درست ہے.جیسے ایک شخص کہے میں نے دس سوار دیکھے، دوسرا کہے میں نے ہیں دیکھے، تیسرا کہے میں نے پچھیں دیکھے تو کیا یہ کہیں گے کہ کسی نے ایک بھی سوار نہیں دیکھا.اگر انہوں نے قریب اور شرارت نہیں کی اور دھوکا بنا کر نہیں لائے تو یہی کہا جائے گا کہ سوار تو ضرور تھے آگے گننے اور اندازہ لگانے میں ان کو غلطی لگ گئی.اسی طرح دنیا کی مختلف
قوموں کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اگر ان کی شرارت نہیں اور وہ دھوکا نہیں دیتے تو بات یہی ہے کہ انہوں نے خدا کے متعلق دیکھا کچھ ضرور ہے مگر بھول جانے کی وجہ سے بعد میں کچھ سمجھنے لگ گئے ہیں.ورنہ یہ غیر ممکن ہے کہ ہزاروں تو میں سینکڑوں ملکوں میں رہنے والی جن میں سے بعض کو آپس میں ملنے کا بھی کبھی اتفاق نہیں ہو ا سب کی سب ایک زبان ہو کر اس امر کا اقرار کرنے لگیں کہ اس مخلوق کا ایک خالق ہے یہ اتفاق اور اتحاد بلاکسی قوی وجہ کے بالکل ناممکن ہے.ہستی باری کی دوسری دلیل دوسری دلیل جو خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق قرآن کریم نے دی ہے.یہ ہے قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ (الاخلاص: ۲) کہو خدا ہے اور ہے بھی ایک.اس آیت میں جو یہ دو دعوے کئے گئے ہیں کہ (۱) خدا ہے اور (۲) ایک ہے.ان میں سے پہلے کا ثبوت تو یہ دیا کہ اللہ الصمد اور دوسرے کے دو ثبوت دیئے کہ (۱) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ (۲) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ.شرک دو قسم کا ہے ایک تو یہ کہ کئی وجود خدا کی حیثیت رکھنے والے ہوں چاہے اس سے چھوٹے ہوں یا بڑے.دوسرے یہ کہ خدا کے سوا باقی ہوتو مخلوق ہی مگر اسے خدائی کا درجہ دیا گیا ہو تو ایک شرک فی الذات ہے اور دوسرا شرک فی الصفات.مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے تینوں امور کا ثبوت دیا ہے اوّل خدا کی ذات کا.دوسرے خدا کے واحد فی الذات ہونے کا.تیسرے واحد فی الصفات ہونے کا.چونکہ اس وقت میں اللہ تعالیٰ کے وجود کے متعلق بحث کر رہا ہوں اس لئے میں صرف اس آیت کو لیتا ہوں جس میں ہستی باری پر بحث ہے اور وہ اللهُ الصَّمَدُ کے الفاظ ہیں.یعنی خدا اپنی ذات میں کامل الاخلاص ۵،۴ الاخلاص ، د
۳۲ ہے.صمد کے معنی ہوتے ہیں کہ وہ کسی کا محتاج نہ ہو اور باقی چیز میں اس کی محتاج ہوں.اب اس حقیقت کو دنیا میں دیکھو کس طرح واضح طور پر ہر جگہ اس کا ثبوت ملتا ہے.دنیا کی کوئی چیز نہیں جو اپنی ذات میں کامل ہو.ہر چیز اپنے وجود کے لئے دوسری اشیاء کی محتاج ہے اور بغیر ان کے قائم نہیں رہ سکتی.خدا کے سوا ہر چیز دوسری کی محتاج ہے ELEMENTS کے باریک سے باریک ذرات کی طرف چلے جاؤ.ہر ایک ذرہ کا دوسرے ذرہ پر اثر پڑ رہا ہے.کہیں نور کا اثر ہورہا ہے.کہیں اینتھر کا اثر ہورہا ہے.انسان کامل چیز سمجھی جاتی ہے لیکن یہ پانی روٹی اور ہوا کا محتاج ہے.سورج ہے جو گیس کا محتاج ہے.اپنے حجم کو قائم رکھنے کے لئے دوسرے سیاروں سے مواد لینے کا محتاج ہے اور بیسیوں اشیاء کا محتاج ہے.زمین ہے تو وہ اپنے وجود کے قیام کے لئے کہیں دوسرے ستاروں کی کشش کی کہیں کرہ ہوا کی.ایتھر کی.نئے مادہ کی محتاج ہے.غرض کسی بڑی سے بڑی چیز کولیکر باریک در باریک کرتے جاؤ تو محتاج ہی محتاج ثابت ہوگی.پس جب ہر چیز جو ہمیں دُنیا میں نظر آتی ہے وہ اپنے وجود کے لئے دوسری اشیاء کی محتاج ہے اور یہ احتیاج بتا رہی ہے کہ دنیا کا کارخانہ اپنی ذات میں قائم نہیں بلکہ اس کا چلانے والا کوئی اور ہے کیونکہ محتاج الی الغیر چیز اپنی خالق آپ نہیں ہوسکتی نہ ہمیشہ سے ہو سکتی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ چیزوں کی یہ احتیاج موجودہ تحقیقات کی رو سے ہے جب تحقیقات مکمل ہو جائیں گی تو شاید ثابت ہو جائے کہ بحیثیت مجموعی دُنیا کسی کی محتاج نہیں.اول تو اس کا یہ جواب ہے کہ شاید نی تحقیق سے دنیا کی احتیاج اور بھی واضح ہو جائے اور اس
کے خالق کا وجود اور بھی زیادہ روشن ہو جائے.پس یہ کوئی اعتراض نہیں.اس وقت تک تحقیقات کے کئی دور بدلے ہیں مگر یہ مسئلہ زیادہ سے زیادہ قائم ہوا ہے کبھی اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہوئی.پس ہر جدید تحقیق کے بعد اس اصل کا اور بھی زیادہ پختہ ہو جانا ہی اس امر کا ثبوت ہے کہ آئندہ تحقیق اسے باطل نہیں کرے گی بلکہ ثابت کرے گی.لیکن اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ کوئی ایسا ذرہ معلوم ہو جائے جو اپنی ذات میں کامل ہو تو پھر بھی اس کے جوڑنے جاڑنے والے کی ضرورت رہے گی.لیکن درحقیقت یہ عقلاً محال ہے کہ کوئی ذرہ اپنی ذات میں کامل ہو بغیر بالا رادہ ہستی کے اور قادر مطلق وجود کے یہ طاقت کسی میں نہیں پائی جاسکتی.پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مادہ جسے اپنی ذات میں مکمل قرار دیا جائے اس کے لئے دوسری شکل اختیار کرنا ناممکن ہے.کیونکہ تغییر دوسری شے سے ملنے سے ہوتا ہے اور ملنے کی طاقت اس میں ہوتی ہے جو نا مکمل ہو.کامل تھے چونکہ تغیر قبول نہیں کرتی وہ کسی اور چیز سے حقیقی طور پر مل بھی نہیں سکتی.اس کا ملنا ایسا ہی ہو سکتا ہے جس طرح کہ کھانڈ کے ذرے آپس میں ملکر پھر کھانڈ کی کھانڈ ہی رہتے ہیں.پس اگر ایسا کوئی ذرہ فی الواقع ہے تو یہ دنیا اس سے پیدا ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ دنیا تو بے تعداد تغیرات کا مقام ہے.غرض کائنات عالم پر غور کرنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کی ہر چیز تغیر پذیر ہے اور اپنی ہستی کے قیام کے لئے دوسروں کی محتاج اس لئے کسی ایسی ہستی کا ماننا جو ان محتاج ہستیوں کو وجود میں لانے والی ہو اور ایک قانون کے ماتحت چلانے والی ہوضروری ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک مخفی طاقت سے یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ مخفی طاقت بالا رادہ ہے یا بلا ارادہ.اگر بلا ارادہ ہے تو وہ خود دوسری چیزوں سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ تمام
مسم طاقتیں دوسری چیزوں کی حرکت یا با ہمی ترکیب سے پیدا ہوتی ہیں اور اگر بالا رادہ ہے تو ہمارا دعویٰ ثابت ہے.ہم بھی تو ایسی ہی طاقت کو منوانا چاہتے ہیں.غرض کہ اللهُ الصَّمَدُ میں خدا تعالیٰ کے وجود کی ایک نہایت عجب دلیل دی گئی ہے.تیری دلیل مسئله ارتقاء وہ مسئلہ جو خدا کے وجود کے خلاف سب سے زیادہ پیش کیا جاتا ہے ارتقاء کا مسئلہ ہے.یعنی یہ دنیا جو ہمیں نظر آتی ہے پہلے دن سے اسی طرح نہیں چلی آئی بلکہ پہلے باریک ذرات تھے جو لاکھوں سال بعد ایک سے دو ہوئے ، دو سے تین ، پھر چار، پانچ حتی کہ اس طرح بڑھتے گئے.ادھر نباتات اور حیوانات میں اسی طرح آہستہ آہستہ ترقی ہوتی گئی.جو بہتر نسل تھی وہ اور زیادہ بہتر پیدا کرتی گئی حتی کے بندر بن گیا اور پھر اس سے اوپر بعض اور جانور اور پھر ان سے آدمی بنے.ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ بند ر سے انسان بنے مگر ہمیں قرآن کریم یہ ضرور بتاتا ہے کہ دنیا کی پیدائش تدریجی تغیر کے ساتھ ہوئی ہے.قرآن کریم اس تغیر کے متعلق جو کچھ بتاتا ہے اس کی مثال پہاڑوں سے دی جاسکتی ہے.پہاڑ کو جہاں بھی دیکھو گے اس کا ایک سلسلہ نظر آئے گا.پہلے چھوٹا ٹیلا آتا ہے پھر اس سے اونچا پھر اس سے اونچا اور جب اونچائی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو پھر چوٹیاں نیچی ہونی شروع ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اونچائی بہت کم ہو جاتی ہے.اس کے بعد پھر وہ اونچی ہونی شروع ہو جاتی ہیں پھر نیچی ہونے لگتی ہیں.حیوانات کی پیدائش میں بھی اس قسم کا ارتقاء ضرور ہوا ہے.یعنی قبض اور بسط کی تدریجی روئیں دنیا میں ضرور چلی ہیں.یہ نہیں کہ ایک ہی دن میں سب چیزیں پیدا ہو گئیں یا یہ کہ ایک ہی دن میں ایک ٹھے پیدا ہو
۳۵ گئی.سب چیزیں بھی تدریجا پیدا ہو ئیں اور ہر ایک چیز بھی آہستہ آہستہ ہی کامل ہوئی.پس یہ ٹھیک ہے کہ دُنیا میں زندگی کی مختلف روئیں چلی ہیں.پہلے چھوٹی پھر اس سے بڑی پھر اس سے بڑی.مگر یہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل روئیں تھیں.یہ نہیں تھا کہ ایک ہی روترقی کرتے کرتے مختلف شکلیں اختیار کر گئی.غرض پہلے نہایت ادنی قسم کی مخلوق بنی پھر اس سے اعلی بنی پھر اس سے اعلیٰ.مگر یہ ترقی الگ الگ ہوئی اور مستقل طور پر.اور یہ غلط ہے کہ ایک ہی ادنی حیوان سے ترقی کرتے کرتے تمام مخلوق بن گئی.بات یہ ہے کہ جب زمین اس قابل تھی کہ چھوٹے چھوٹے جاندار اس میں زندہ رہ سکیں اس وقت اس قسم کے جاندار اس میں پیدا ہوئے.جب زیادہ صفائی اس کی فضا میں پیدا ہوگئی تو زیادہ اعلیٰ قسم کے جاندار اس میں پیدا ہوئے یہاں تک کہ فضا بالکل صاف ہوگئی اور اس میں انسان جو سب سے اعلی جاندار تھا پیدا ہوا اور بالکل قرین قیاس ہے کہ انسان کی پیدائش کے بعد جس قسم کے جانداران سڑاندوں سے پیدا ہو سکتے تھے جو انسان ہی کی پیدائش کے بعد پیدا ہو سکتی تھیں انسان کی پیدائش کے بعد پیدا ہوئے.غرض آدمی بے شک ارتقاء کے اُصول کے ماتحت ہی پیدا ہوا ہے.مگر ہر جنس کا ارتقاء مستقل تھا نہ کہ ایک چیز دوسری سے پیدا ہوئی.لیکن یہ نہیں کہ بندر سے انسان بنے بلکہ یہ کہ انسان انسان سے ہی بنے اور بندر بندر سے اور کتے سکتے سے.مگر ہم کہتے ہیں خواہ کچھ مان لو اس ارتقاء کا مسئلہ سے دہریت باطل ہو جاتی ہے.کیوں؟ اس لئے کہ جو لوگ ادنیٰ جانوروں سے ترقی کر کے انسان کی پیدائش مانتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کچھ حیوانات پیدا ہوئے پھر انہوں نے ترقی کی اور اؤر پیدا ہوئے اور اس ترقی کے ساتھ ساتھ دماغ کی بھی ترقی ہوتی گئی حتی کہ اعلیٰ درجہ کا انسان پیدا ہو گیا.اس پر آکر جسمانی ترقی تو بند ہو گئی لیکن انسانی دماغ کی ترقی جاری ہے.ہم
۳۶ کہتے ہیں یہی خدا کے ہونے کا ثبوت ہے.کیونکہ اگر نیچر ہی سب چیزوں کے پیدا کرنے والی ہوتی خدا نہ ہوتا تو جسمانی ترقی بھی جاری رہتی اور انسان سے آگے کچھ اور بنتا.مگر یہ ظاہر ہے کہ جسمانی تغیر بند ہو گیا ہے.اور اس کے مقابلہ میں انسانی روح کو مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے کا سلسلہ جاری ہو گیا ہے.کون سی عقل اس امر کو تسلیم کر سکتی ہے کہ نیچر ایک مقصد قرار دیتی ہے اور اس مقصد کے حصول پر اپنا راستہ بدل دیتی ہے.انسان کی پیدائش پر ارتقاء جسمانی کا سلسلہ بند ہو جانا اور عقلی اور ذہنی ترقی کا سلسلہ رک نہ جانا بتاتا ہے کہ اس تمام ارتقاء کا بانی اور اس کا ملانے والا کوئی ایسا وجود ہے جس نے اس تمام دنیا کو ایک خاص غرض اور مقصد لے لئے پیدا کیا ہے.جب وہ مقصد پورا ہو گیا تو ارتقاء کی لہریں جو جاری تھیں اس نے بند کر دیں.اگر خدا تعالیٰ نہیں تو چاہئے تھا کہ انسان کی پیدائش کے بعد بھی برابر مخلوقات میں تبدیلی ہوتی رہتی اور نئے سے نئے حیوانات پیدا ہوتے رہتے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ حیوان پیدا ہو گیا جس کا ذہن اس قابل تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر جذب کر سکے اور روحانی ترقیات حاصل کر سکے تو ارتقاء کی لہر بالکل پلٹ گئی اور بجائے جسمانی ترقی کے خالص ذہنی ترقی شروع ہو گئی گو یا مقصود پورا ہو گیا اور اب جسمانی ارتقاء کی ضرورت نہ رہی جس کے ذریعہ سے ایک جنس سے دوسری جنس پیدا کی جائے.چنانچہ اس تغیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ معا انسان کے بچپن کا عرصہ غیر معمولی طور پر لمبا کر دیا گیا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض چونکہ علوم کا حصول ہے جو لمبی تربیت کو چاہتا ہے اس لئے اس کے بچپن کا زمانہ بھی لمبا بنایا گیا ہے تا وہ دیر تک ماں باپ کا محتاج رہے اور ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو اور ان کے علم اور تجربہ کو ان کی صحبت میں سیکھے اور ان کی تربیت سے فائدہ حاصل کرے.اگر انسان بندر سے ترقی کر کے ایک اندھی نیچر کے
سم قوانین کے ذریعہ سے بنا تھا تو کیا وجہ کہ بندر اور اس سے اوپر کے ترقی یافتہ جانوروں کے بچپن کا زمانہ جبکہ بہت ہی چھوٹا تھا اور پیدا ہوتے ہی چلنے کے قابل ہو جاتے تھے اور چھ سات ماہ میں اپنے بچاؤ اور حفاظت کا سامان مہیا کرنے کے قابل ہو جاتے تھے تو انسان کے لئے یہ نئی بات پیدا ہوئی کہ وہ چھ سات ماہ تک ایک قدم اُٹھانے کے قابل نہیں ہوتا.پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہے اور چودہ پندرہ سال تک ماں باپ کی مدد اور اعانت کا محتاج رہتا ہے.یہ بچپن کے زمانہ کی لمبائی ان مجبوریوں کی وجہ سے نہیں ہے جو ارتقاء کے مسئلہ کے لازمی نتیجہ میں ہو کہ ہم اسے اس کی طرف منسوب کر دیں بلکہ یہ اس علمی ترقی کی وجہ سے ہے جس کے لئے انسان میں مخفی قو تیں رکھی گئی ہیں.پس یہ امر ایک پالا رادہ قادر ہستی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے نہ کہ ارتقاء کی عام رو کی طرف.یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے دانت اس قسم کے اس لئے ہو گئے کہ اس کی غذاء مختلف قسم کی تھی.یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی دُم اس لئے نہیں رہی کہ وہ بیٹھنے کا عادی ہے ( گو یہ ایک بیہودہ دلیل ہے ) یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کی انگلیوں کی شکل اس لئے بدل گئی کہ وہ اس قسم کا کام نہیں کرتا تھا جو دوسرے جانوروں کو کرنا پڑتا ہے.مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا بچپن کا زمانہ لمبا کیوں ہو گیا کیونکہ یہ تغیر مادی اسباب کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ایک آئندہ پیش آنیوالے مقصد کے پورا کرنے کے لئے ہے اور آئندہ ضرورت کو اور پھر علمی ضرورت کو صرف بالا رادہ ہستی ہی پورا کر سکتی ہے.اس جگہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کا بچہ چونکہ دیر میں علوم سیکھتا ہے اور حیوان کا بچہ جلدی سیکھ لیتا ہے اس لئے انسان کی بچپن کی عمر لمبی ہوتی ہے اور حیوان کی چھوٹی کیونکہ اول تو یہ ارتقاء کے خلاف ہے.اگر ارتقاء کا مسئلہ درست ہے اور حیوان ہمیشہ ذہنی ترقی کی طرف قدم مارتا رہا ہے تو چاہئے کہ انسان کا بچہ جلدی سیکھے اور حیوان کا دیر میں.لیکن اگر
۳۸ اس وجہ کو فرضا درست بھی سمجھ لیا جائے تو بھی یہی ماننا پڑے گا کہ دُنیا کا پیدا کرنے والا ایک علیم و حکیم وجود ہے.کیونکہ نیچر اس امر کا فیصلہ کیا کر سکتی ہے کہ کون علم جلدی سیکھتا ہے اور کون دیر میں؟ یہ کام تو ایک پالا رادہ اور علیم و حکیم ہستی ہی کر سکتی ہے.دنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ اب میں پیدائش عالم کے متعلق قرآنی اصل بیان کرتا ہوں.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ یہ بتاتے ہوئے کہ دنیا کو اس نے کس طرح پیدا کیا فرماتا ہے.قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَغَ أَندَادًا ذلك رَبُّ الْعَلَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءَ لِلسَّائِلِينَ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانُ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ انْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ط فَقَضْهُنَّ سَبْعَ سَموتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (لحم السجدة : ١٠ تا ١٣ ) فرماتا ہے.ایک غالب اور علیم خدا جس کو پتہ تھا کہ وہ کیا کرنے لگا ہے اور کیا کرنا چاہئے اس نے اس دُنیا کو پیدا کیا.اے منکر و! تم تو اس خدا کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو وقتوں میں پیدا کیا ہے، اور تم اس کے شریک قرار دیتے ہو.وہ تو سب جہانوں کو آہستہ آہستہ نشو و نما دیکر کمال تک پہنچانے والا ہے اور اس نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بلند کئے.
یورپ کی تحقیقات کہتی ہیں کہ شروع میں پہاڑ نہیں تھے بعد میں بنے اور قرآن مجید بھی یہی کہتا ہے کہ خدا نے پہلے زمین بنائی پھر اس پر پہاڑ بنائے جو کہ زندگی کے لئے ضروری تھے.پھر فرماتا ہے وَبَرَكَ فِيها اور ہم نے اس زمین میں برکت دی.برکت کے معنی زیادتی، صلاحیت اور پاکیزگی کے ہوتے ہیں.پس اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے اس میں نہ ختم ہونے والے ذخیرے پیدا کئے اور اسے پاک کیا.گویا دو خو بیاں اس میں رکھیں ایک تو اس میں کثرت سے ایسے سامان پیدا کئے جو آئندہ استعمال ہونے والے تھے چنانچہ سمندروں کی خلق سے اور بعض اندرونی اور بیرونی تغیرات کے قوانین کے ذریعہ سے زمین کے ذخائر میں ایسی کثرت پیدا ہو گئی ہے کہ نہ پانی ختم ہوتا ہے نہ غذاء اور نہ دوسری ضروری اشیاء.دوسرے معنی برک کے پاکیزہ کر دینے کے ہیں.پس اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اسی وقت اس کی فضاء میں ایسی صفائی اور پاکیزگی پیدا کی گئی کہ جس کے ذریعہ سے اس میں جاندار اشیاء کار ہنا ممکن ہو گیا.اس کے بعد فرماتا ہے کہ ہم نے اس میں غذا ئیں پیدا کیں یعنی نباتات و حیوانات پیدا ہوئے جو بوجہ سانس پر زندہ رہنے کے جو کی صفائی کے محتاج تھے اور اس وقت تک پیدا نہیں کئے جاسکتے تھے جب تک کہ پہلے جو کی صفائی نہ ہو جائے اور فرماتا ہے کہ یہ سب کچھ چار اوقات میں ہوا.پھر وہ رُوحانی سلسلہ پیدا کیا گیا جو پیدائش کا موجب تھا اور جس کا مظہر انسان ہے اور اس میں انسان کی روحانی ترقیات کے سامان پیدا کئے گئے اور ان کی حفاظت کا انتظام کیا گیا.غرض قرآن کریم بتا تا ہے کہ دُنیا کے پیدا کرنے میں تدریجی ترقی کو مد نظر رکھا گیا
.م ہے پہلے آسمان ، زمین ، نباتات اور جانوروں کو پیدا کیا گیا.ان تمام تغیرات کے بعد جو لاکھوں کروڑوں سالوں میں ہوئے.انسانوں کو پیدا کیا گیا.اسی لئے فرشتوں نے کہا کہ بھیڑ ، بکری، گھوڑے، اونٹ وغیرہ تو فساد نہیں کرتے.انسان کہیں گھوڑے کی سواری کرے گا کہیں کسی سے کچھ کام لے گا اور کسی سے کچھ اور اس طرح فساد ہو گا.تو دلیل ارتقائی جس کو خدا کی ہستی کے رد میں پیش کیا جاتا ہے وہی خدا کی ہستی کا ایک بین اور روشن ثبوت ہے.چنانچہ ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَأَيْتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الجاثية : ۱۴) اے انسانو! سوچو تو کہ زمین اور آسمان کے درمیان جو چیزیں بھی ہیں یہ سب تمہارے نفع کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں.پھر اس امر پر غور کر کے کیا تم اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے کہ ایک بالا رادہ ہستی نے یہ سب کچھ ایک پہلے سے تجویز کردہ سکیم کے مطابق کیا ہے.منکرین خدا کے مسئلہ ارتقاء پر اعتراض جس رنگ میں منکرین خدا ارتقاء کو مانتے ہیں اس پر کئی اعتراض وارد ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ تم کہتے ہو کہ انسان کے پیدا ہو جانے کے بعد پھر کوئی تغیر نہیں ہوا، اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ کہتے ہیں تغیر کے لئے بڑے لمبے زمانہ کی ضرورت ہے اور انسان پر چونکہ ابھی اتنا زمانہ نہیں گزرا جو تغیر کے لئے ضروری ہے اس لئے اس میں تغیر نہیں ہوا.مگر ہم کہتے ہیں موجودہ زمانہ کٹ کر شروع ہوا ہے یا وہی چلا آ رہا ہے جو پہلے شروع ہوا تھا.اگر وہی چلا آرہا ہے تو اگر فرض کرو چھ ہزار سال کے بعد بندر انسان بن گئے تھے تو بندروں کے انسان
ام بننے کے زمانہ پر چھ ہزار سال گزرنے پر اب کیوں بندر انسان نہیں بنے ؟ اس کے مقابلہ میں ہم کہتے ہیں کہ انسان بننے کے بعد اس کی عقلی اور ذہنی ترقی ہوتی جارہی ہے اور جس قسم کا ارتقاء ہم تسلیم کرتے ہیں اس کے مطابق کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا.دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر کامل وجود پیدا ہو جانے کی وجہ سے ترقی رُک گئی ہے.تو ہم کہتے ہیں اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ سب حیوانات بدل کر کامل انسان بن گئے ہیں تو یہ غلط ہے.ہر قسم کے جانور اب تک موجود ہیں اس لئے وہ تغیر جاری رہنا چاہئے.اور اگر یہ کہا جائے کہ اب چونکہ بہتر مخلوق پیدا ہوگئی ہے اس لئے تغیر کی ضرورت نہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ضرورت نہیں کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ کسی بالا رادہ ہستی نے ایک مقصد کے لئے دنیا کو پیدا کیا تھا جب وہ مقصد پورا ہو گیا تو ایسے تغیرات جو اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری تھے انہیں ترک کر دیا گیا ہے اور یہی دلیل ہستی باری کو ثابت کرتی ہے.چوتھی دلیل سبب اور مسبب کی چوتھی دلیل کے متعلق سبب اور مسبب کی ہے جو عام طور پر استعمال کی جاتی ہے اور جسے ایک ان پڑھ آدمی بھی سمجھ سکتا ہے اس لئے بہت کارآمد ہے.کہتے ہیں کسی فلاسفر کو کوئی آن پڑھ زمیندارمل گیا وہ بدوی تھا فلاسفر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم خدا کو مانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں مانتا ہوں.فلاسفر نے کہا خدا کے ہونے کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا الْبَعْرَةُ تَدُلُّ عَلَى الْبَعِيرِ وَأَثَارُ الْأَقْدَامِ عَلَى السَّفِيرِ وَالسَّمَاءُ ذَاتُ الْبُرُوجِ وَالْأَرْضُ ذَاتُ الْفِجَاجِ كَيْفَ لَا تَدُلُّ عَلَى اللَّطِيفِ الْخَبِيْرِ جب جنگل میں مینگنی کو دیکھ کر اونٹ کا پتہ لگایا جاتا ہے اور پاؤں کے نشانات سے چلنے والے کا تو یہ ستاروں والا
آسمان اور یہ زمین جس میں راستے بنے ہوئے ہیں ان کو دیکھ کر کیوں نہ سمجھوں کہ خدا ہے؟ یہ دلیل جو ایک بدوی نے دی پہلے لوگوں کی عقل یہاں تک ہی پہنچی ہے.دنیا ایک بڑا مقام ہے جس کو پیدا کرنے والا کوئی ہونا چاہئے.یہ خیال ان کے لئے کافی تھا.یہ دلیل گو ہے تو صحیح مگر اس پر اعتراض بھی بہت سے پڑتے ہیں.لیکن چونکہ عام دلیل ہے اور حقیقتا صحیح ہے اس لئے قرآن کریم نے بھی اس دلیل کو لیا ہے.جیسا کہ آتا ہے آفي الله شَتْ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (ابراہیم :11 ) اے لوگو! کیا تمہیں اس خدا میں شک ہے جس نے آسمانوں اور اس زمین کو پیدا کیا ہے؟ گو یہ دلیل عام ہے لیکن تعجب ہے کہ سب سے زیادہ اس پر لوگ اعتراض جماتے ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ اعتراضوں کی کثرت کا موجب اس کا عام ہونا ہی ہو.پیدائش دنیا کے متعلق لوگوں کے خیال جن لوگوں نے حقیقت عالم پر غور کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ دنیا کو دیکھ کر خدا کی ہستی کا نتیجہ نکالنا درست نہیں.پہلے سب قسم کے خیالات کو لینا چاہئے جو دُنیا کے وجود میں آنے کے متعلق پیدا ہو سکتے ہیں پھر ان کا موازنہ کر کے نتیجہ نکالنا چاہئے.چنانچہ وہ کہتے ہیں دُنیا کی ابتداء کے متعلق تین خیال پیدا ہو سکتے ہیں..یہ کہ دنیا آپ ہی آپ ہمیشہ سے چلی آرہی ہے..یہ کہ دُنیا نے اپنے آپ کو آپ پیدا کیا.۳.یہ کہ کسی نے دُنیا کو پیدا کیا.پہلے خیال کے یہ معنی ہوئے کہ دُنیا کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں.ہمیشہ سے آپ ہی
سم سوم آپ چلی آرہی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ غیر محدود زمانہ کو ماننا پڑے گا اور یہ انسانی عقل کے لئے محال ہے کیونکہ غیر محدود محدود میں نہیں سما سکتا.دوسرا خیال کہ دنیا نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا یہ بھی انسانی دماغ میں نہیں آسکتا.کیونکہ اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ کسی مخفی ضرورت یا خواہش کے ماتحت ممکن الوجود نے وجود کا جامہ پہن لیا اور اس بات کا تسلیم کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس صورت میں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کوئی چیز طاقت خلق بالقوۃ رکھتی تھی پھر وہ بالفعل ظاہر ہوگئی اور اگر اس بات کو مانا جائے تو دوسوال پیدا ہو جاتے ہیں.پہلا سوال یہ کہ جو چیز اپنے اندر ظہور کی طاقت رکھتی تھی ، اگر وہ کوئی چیز تھی تو دنیا کی پیدائش کی حقیقت پھر بھی حل نہ ہوئی کیونکہ یہ سوال پھر بھی باقی رہے گا کہ وہ چیز کس طرح پیدا ہوئی؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مخفی ضرورت یا خواہش کے ماتحت اس نے آپ کو ظاہر کر دیا ، وہ ضرورت یا خواہش کس نے پیدا کی.اگر اس کا کوئی اور خالق تھا تو اسے کس نے پیدا کیا تھا اور اگر نہیں تھا تو وہ پیدا کیونکر ہوگئی.اگر کہو کہ آپ ہی آپ.تو پھر دُنیا کے متعلق ہی کیوں نہ مان لیا جائے کہ وہ آپ ہی آپ پیدا ہوگئی ہے.اگر کہیں کہ پہلی حالت عدم کی تھی نہ کہ وجود کی اس لئے اس کے پیدا کرنے سے سلسلہ سوالات نہیں چلتا تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اگر ظہور کی مخفی طاقت عدم میں تھی تو ماننا پڑے گا کہ عدم دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ عدم جس میں ظاہر ہونے کی قابلیت ہوتی ہے اور ایک وہ جس میں یہ قابلیت نہیں ہوتی.لیکن انسانی ذہن اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتا کیونکہ اگر جو چیز محض عدم ہو اس میں کوئی طاقت خواہ مخفی ہو خواہ ظاہری رہ نہیں سکتی.تیسرا خیال یہ ہے کہ دنیا کو کسی اور وجود نے پیدا کیا ہے اور یہی خیال مذہبی
بهام سهام لوگوں اور فلاسفروں کا ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا ایک صفت کی طرح ہے مگر یہ خیال بھی درست نہیں کیونکہ (۱) دُنیا صفت نہیں بلکہ اس میں ایک ارتقاء ہے.ایک چیز ہمیں نظر آتی ہے جو برابر ترقی کرتی جاتی ہے.پس اسے صفت قرار دینا بالکل غلط ہے صفت تو وہ تب ہوتی اگر یکدم بنتی.لیکن جبکہ وہ بعض قوانین کے مطابق ترقی کرتے کرتے اس حالت کو پہنچی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ آپ ہی آپ ہے.کسی اور ہستی کی پیدا کردہ نہیں ہے.(۲) پھر یہ سوال ہے کہ اس نے اس دنیا کو کس چیز سے پیدا کیا ہے.صناع لو ہے چاندی کی چیزیں تو بنا سکتا ہے مگر وہ لوہا، چاندی نہیں بنا سکتا.پھر اس دُنیا کو کس چیز سے بنایا؟ اگر مصالحہ پہلے سے موجود تھا تو پھر وہی اعتراض موجود ہے کہ وہ کیونکر بنا؟ اور اگر وہ آپ ہی آپ بنا ہوا تھا تو کیوں آپ ہی آپ بجڑ نہیں سکتا تھا اور اگر اسے کسی اور ہستی نے پیدا کیا ہے تو اسے عقل تسلیم نہیں کرتی.(۳) فضاء کو بھی مخلوق ماننا پڑے گا کیونکہ اگر مادہ بعد میں پیدا ہوا ہے تو ضرور ہے کہ خلا بھی بعد کی ہی تھے ہو اور جہات بھی بعد کی مخلوق ہوں.مگر خلا سے خکو اور جہات سے آزادی انسانی ذہن میں نہیں آسکتی.(۴) اسی طرح پھر یہ سوال بھی پیدا ہوگا کہ جس نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے اسے کس نے پیدا کیا ہے؟ (۵) پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ وہ محدود ہے کہ غیر محدود ہے.جس طرح کہ مادے کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے اور دونوں جوابوں میں سے کوئی جواب بھی دیا جائے ، اس پر ایک لمبا چکر سوالوں کا شروع ہو جائے گا.
۴۵ (1) پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ہستی غنی ہے.اگر غنی نہ مانیں گے تو اس کے سوا اور وجود ماننے پڑیں گے اور اگر ہم غنی مانیں گے تو پھر اسے اندرونی تغیرات سے بھی محفوظ ماننا پڑیگا اور اگر اسے تغیرات سے محفوظ مانا جائے گا تو یہ بھی ماننا پڑیگا کہ وہ دنیا کی علت العلل بھی نہیں ہے اور اس صورت میں اسے وجود کے تصور کی بھی کوئی حاجت نہ رہے گی.پس یہ خیال بھی غلط ہوا.لیکن چونکہ تینوں صورتیں جو دنیا کی پیدائش کے متعلق ممکن تھیں ناممکن ثابت ہو ئیں تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ان ذہن میں نہ آنے والی صورتوں میں سے ایک نہ ایک درست ہے.اور چونکہ جو اعتراض سب صورتوں میں پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ آپ ہی آپ کس طرح ہو گئیں.اس لئے باوجود اس اعتراض کے ایک نہ ایک صورت کو صحیح تسلیم کرنا ہوگا اور یہ مانا ہو گا کہ گو یہ اعتراض پڑتا ہے مگر دنیا موجود ہے اور اس کے وجود میں کچھ شک نہیں اس لئے باوجود اس اعتراض کے دنیا کی پیدائش مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی ایک صورت سے ہوئی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچ کر ہر ایک شخص کو یقین کرنا پڑے گا کہ وہ صورت اول ہی ہو سکتی ہے.یعنی یہ کہ دنیا آپ ہی آپ ہمیشہ سے چلی آتی ہے کیونکہ دوسری اور تیسری صورت میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی علت آپ ہی آپ کیونکر ہوگئی.پس جب آگے چل کر پھر اس سوال سے واسطہ پڑنا ہے تو کیوں نہ تسلیم کرلیں کہ دنیا ہی خود بخود پیدا ہوگئی ہے.پیدائش دنیا پر لوگوں کے خیالات پر بحث سب سے پہلے ان معترضین کے اس خیال کو میں رد کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کا خیال اسی سبب سے پیدا ہوا کہ دُنیا کا خالق دریافت کرنے کی ضرورت پیش آئی.خدا تعالیٰ کا وجود جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیا ہوں الہام سے پیدا ہوا.پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک
سوم طرف تو یہی معترضین کہتے ہیں کہ خدا کا خیال لمبے ارتقاء کے بعد پیدا ہوا ہے.پہلے تو انسانوں نے بعض چیزوں سے ڈر کر ان کے آگے ہاتھ جوڑنے شروع کئے تھے.آہستہ آہستہ خدا اور عبادت کا مسئلہ بن گیا اور دوسری طرف اس خیال کی ایک خالص فلسفیانہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ اس کا خیال دنیا کی پیدائش کے سوال کے حل نہ ہونے کے سبب سے پیدا ہوا.حالانکہ دونوں خیال متضاد ہیں.اب میں معترضین کے مقرر کردہ اصول کو لیتا ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ پہلی اور دوسری توجیہہ پر جو اعتراض کئے گئے ہیں ایک حد تک درست ہیں لیکن تیسری توجیہہ کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ محض ایک دھوکا ہے.کیونکہ جب کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کسی کی پیدا کردہ ہے تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ ایک مکان کی طرح بنائی گئی بلکہ اس سے مراد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک مادہ پیدا کیا اور اس میں ایک قانون کو جاری کیا تا کہ اس کے مطابق وہ ترقی کرے.پس ارتقاء ہرگز دُنیا کی پیدائش کے خیال کے مخالف نہیں بلکہ صانع کی نادر صنعت گری پر دلالت کرتا ہے اور ہر ٹکڑہ اس ارتقاء کا اپنے خالق پر دلالت کرتا ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی اور کو خالق ماننے کی صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ اس نے مادہ کہاں سے لیا؟ اس کا جواب میں آگے چل کر دوں گا.فی الحال اتنا کہنا کافی ہے کہ اگر خدا کو نہ مانا جائے تو بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مادہ کہاں سے آیا.پس جب یہ سوال دنیا کوخود بخود مان کر بھی باقی رہتا ہے تو پھر یہ خدا کے وجود کے لئے بطور شبہ کے پیدا نہیں کیا جا سکتا.رہا یہ سوال کہ فضاء کو کس نے پیدا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہمی وجود ہے جو ہمارے دماغ سے تعلق رکھتا ہے.خدا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا.فضاء اور جہات نسبتی امور
۴۷ ہیں اور ان کا تعلق یا مادہ سے ہے یا دماغ سے.پس ان کی بحث خدا تعالیٰ کے سوال میں آہی نہیں سکتی.اور یہ جو سوال ہے کہ خدا محمد ود ہے یا غیر محدود.یہ لغو سوال ہے کیونکہ اگر یہ مانیں کہ دنیا آپ ہی آپ ہے تو یہ سوال دنیا پر بھی پڑے گا کہ وہ محدود ہے کہ غیر محدود اور دونوں ممکن صورتوں میں سے کسی ایک کو ماننا مشکل ہوگا اور اس پر بہت سے اعتراض پڑیں گے.پس اگر دنیا کے آپ ہی آپ ہونے کی صورت میں بھی بلکہ قطع نظر اس کی ابتداء کے سوال کے اس کی موجودہ صورت میں بھی اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ وہ محدود ہے کہ غیر محدود.جو دونوں صورتیں ناممکن ہیں تو پھر یہی سوال اگر خدا تعالیٰ کو مان کر پڑے تو اس میں کیا حرج ہے.ہم کہیں گے کہ دُنیا کی پیدائش کی کوئی صورت بھی فرض کریں یہ اعتراض قائم رہتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ یہ اعتراض نہیں ہے بلکہ ایسا سوال ہے کہ جسے انسانی دماغ سمجھ ہی نہیں سکتا.یا یہ کہ وہ نقطہ نگاہ ابھی دریافت نہیں ہوا جس کی مدد سے اس سوال کو حل کیا جا سکے.اور ان دونوں صورتوں میں اس دُنیا کا خالق کسی وجود کو ماننا خلاف عقل نہیں کہلا سکتا.اب میں چوتھے سوال کو لیتا ہوں کہ اگر اس دنیا کو خدا نے پیدا کیا ہے تو پھر خدا کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال کہ خدا کو پیدا کرنے والا بھی کوئی ہونا چاہئے مادی تجربات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.حالانکہ جو چیز غیر مادی ہو اس کے متعلق ہم مادی قوانین کو جاری نہیں کر سکتے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایک مادی چیز کا قیاس دوسری مادی چیز پر بھی نہیں کیا جا سکتا.پس مادی چیز کا غیر مادی پر قیاس تو بالکل قیاس مع الفارق ہے.مثلاً پانی ہے اسے اگر گول برتن میں ڈالا جائے تو گول ہو جاتا ہے اور اگر چیٹے برتن میں ڈالا جائے تو چپٹا.اس پر
قیاس کر کے اگر کوئی کہے کہ لوہا کیوں اس طرح نہیں ہوتا تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ یہ قانون پانی کے لئے ہے لوہے کے لئے نہیں.یا اگر کوئی کہے کہ پانی اپنی ایک ہی شکل کیوں نہیں قائم رکھتا جس طرح لوہا رکھتا ہے تو اس سے بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ بات لو ہے سے تعلق رکھتی ہے پانی سے نہیں.پس جب ایک مادی چیز کا قیاس دوسری مادی چیز پر بھی نہیں کیا جا سکتا.تو ایک مادی چیز کو غیر مادی شئے پر کس طرح قیاس کر سکتے ہیں.چونکہ دنیا میں ہمیں کوئی چیز ایسی نظر نہیں آتی جو آپ ہی آپ ہو.اس لئے ہم سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی چیز آپ ہی آپ نہیں ہو سکتی لیکن جو اشیاء کہ مادی نہیں ہیں ان کے متعلق ہم کوئی ایسا قانون مادی اشیاء کی بناء پر نہیں بنا سکتے اور نہ ان کی کیفیت اور حقیقت ہمارے ذہن میں آسکتی ہے.اگر ہم یہ مانیں کہ دُنیا آپ ہی آپ بن گئی ہے تو اس پر یہ سوال بے شک پڑیگا کیونکہ مادہ کے متعلق ہمیں تجربہ سے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کے تغیرات یا اس کی پیدائش آپ ہی آپ نہیں ہوتے بلکہ سبب اور مسبب کا قانون اس پر حاوی ہے.پس ہم یہ ہرگز نہیں مان سکتے کہ مادہ آپ ہی آپ ہو گیا یا یہ کہ مادہ سے آپ ہی دنیا بن گئی.آخری اعتراض کہ اگر کوئی اس دنیا کا پیدا کرنے والا ہے تو وہ معنی ہونا چاہئے اور اگر غنی ہے تو وہ علت کیونکر بنا.یہ سوال جس طرح خدا کے وجود پر پڑتا ہے اسی طرح دنیا پر.کیونکہ اگر وہ محتاج ہے تو آپ ہی آپ کیونکر ہوئی ہے اور اگر فنی ہے تو اس میں تغیر کیونکر ہوا اور وہ اس شکل میں کس طرح بدل گئی اور اگر اس شکل کے باوجود دنیا کو آپ ہی آپ مانا جا سکتا ہے تو کیوں اس کا خالق ایک اور وجود کو نہیں مانا جاسکتا.
۴۹ دنیا کے بننے کا طریق نہ معلوم ہونے پر خدا کے ماننے کا فائدہ یہاں پہنچ کر منکرین اور پہلو بدلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اچھا چلو مان لیا کہ خدا ہے.مگر یہ بات کہ دنیا کس طرح بنی یہ توصل نہ ہوا.پھر خدا کے ماننے کا کیا فائدہ ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ا.یہ اعتراض پیدا ہی ایک غلط خیال سے ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تلاش اس لئے کی جاتی کہ تا معلوم ہو کہ دُنیا کیونکر پیدا ہوئی.حالانکہ یہ درست نہیں.۲.اگر یہ درست بھی ہو کہ خدا تعالیٰ کے وجود کی تلاش صرف اس وجہ سے تھی کہ تا دُنیا کی پیدائش کی حقیقت معلوم ہو جائے تو پھر ہم کہتے ہیں کہ وہ سوال حل نہ ہو ا تو نہ سہی ، ایک نئی حقیقت تو دنیا کو معلوم ہو گئی اور علم کی ترقی بہر حال مفید ہوتی ہے.اگر ایک سوال کے حل کرنے میں ہمیں ایک اور حقیقت معلوم ہو جائے تو کیا ہم اس حقیقت کو اس لئے ترک کر دیں گے کہ جس سوال کو ہم حل کر رہے تھے وہ حل نہیں ہوا.۳.جواب یہ ہے کہ ہم نے فرض کیا ہے کہ دنیا آپ ہی آپ آئی ہے.اس میں بھی تو یہ سوال حل نہ ہوا.اگر اب بھی نہ ہو تو کیا حرج ہے.۴.چوتھا جواب یہ ہے کہ انسان کو اسی علم کی ضرورت نہیں ہوتی کہ فلاں کام کس طرح ہوا بلکہ اس علم کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ فلاں کام کس نے کیا.پیشوں کے متعلق ہی دیکھ لو اگر ایک شخص خوبصورت چھڑی دیکھتا ہے تو وہ یہی سوال
نہیں کرتا کہ یہ کس طرح بنی بلکہ اکثر اوقات وہ یہ دریافت کرتا ہے کہ یہ کس نے بنائی ہے اور کہاں بنی ہے.اگر انسان کو ان دونوں سوالوں کا صحیح جواب مل جائے تو اول تو وہ بنانے والے کی قدر کر سکے گا.اور دوسرے اگر چھڑی خریدنا چاہے گا تو چھڑی خرید سکے گا.اسی طرح اگر یہ نہ معلوم ہو سکے کہ دنیا کیونکر بنی ہے اور یہی معلوم ہو جائے کہ کس نے بنائی تو بھی یہ علم بہت مفید ہوگا.کیونکہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس دنیا کو خدا نے پیدا کیا ہے تو اس سے کئی راستے فکر کے نئے کھل جائیں گے مثلاً : اول.یہ کہ اگر ہم کو معلوم ہو جائےکہ یہ دنیا خدا نے پیدا کی ہے تو ہم دیکھیں گے کہ آیا ہم اس سے کوئی فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں؟ نہیں.دوم.یہ کہ ہمیں جو تکالیف پہنچتی ہیں کیا اس کے ذریعہ ہم ان سے بچ سکتے ہیں یا سوم.یہ کہ اگر اس نے ہم کو پیدا کیا ہے تو کس لئے ؟ اور کس مقصد سے؟ تاکہ ہم اپنی پیدائش کی غرض اور مقصد کو پوار کرسکیں.چہارم.ممکن ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے سے ہمیں یہ بھی پتہ لگ جائے کہ دنیا کو اس نے کس طرح پیدا کیا ہے.کیونکہ کسی چیز کے بنانے والے سے تعلق رکھنے پر جو چیز اس نے بنائی ہو، اس کی حقیقت کا بھی پتہ لگ جاتا ہے.یہ چار ایسے عظیم الشان سوال ہیں کہ ان کے حل ہونے پر ہماری حالت کچھ سے کچھ بن سکتی ہے.پس یہ کہنا کہ خدا کے ماننے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے بالکل غلط اور باطل ہے.
۵۱ پانچویں دلیل.دلیل انتظامی اب میں پانچویں دلیل لیتا ہوں.پانچویں دلیل جس کو دلیل انتظامی کہنا چاہئے اور جو چوتھی دلیل کی ہی درحقیقت ایک ترقی یافتہ صورت ہے اور اس میں دُنیا کے وجود سے کسی خالق پر استدلال نہیں کیا جاتا بلکہ دنیا کے انتظام سے خالق پر استدلال کیا جاتا ہے.دُنیا کا انتظام پر ایک بہت زبردست دلیل ہے.بیشک کوئی شخص فرض کرے کہ زمین اتفاقاً پیدا ہو گئی.لیکن اس کا ئنات میں اکیلا ہی کتر نہیں اس کے علاوہ اور بھی کرے ہیں اور وہ سب الگ کام نہیں کر رہے بلکہ ایک قانون کے ماتحت اور تقسیم عمل کے ماتحت کام کر رہے ہیں.ایک چیز کے بغیر دوسری مکمل نہیں اور ایک کے کام میں دوسری دخل نہیں دیتی.یہ بھی فرض کر لو کہ انسان آپ ہی پیدا ہو گیا.مگر اس امر کو کس طرح فرض کر لیا جائے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی تمام عالم کو بھی اسی مناسبت پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ انسان کی ضروریات کو خواہ وہ کسقد رہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوں پورا کر رہا ہے.پھر جزئیات کولو.انسان کو پیدا کیا گیا.اس کے ساتھ ہی انسان کے ہاتھ ایسے ہیں جو لکھنے کی طاقت رکھتے ہیں.انسان کو ایسا دماغ ملا تھا جو علم کو محفوظ کرنے کا خواہشمند تھا.اسے ہاتھ بھی ایسے دیے گئے جو لکھنے کے لئے بہترین آلہ ہیں.اگر اتفاق سے انسان پیدا ہو گیا تھا تو چاہئے تھا کہ اسے دماغ تو وہ ملتا جو علم کے محفوظ رکھنے کا خواہش مند ہوتا مگر ہاتھ مثلاً ریچھ کے سے ہوتے.دماغی ترقی کے بالکل مناسب حال جسمانی بناوٹ اسی طرح بدلتی گئی ہے کہ اس کا طبعی بناوٹ کی ضرورت یا عدم ضرورت کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں.یہ محض اتفاق کیونکر کہلا سکتا ہے؟ اسی طرح مثلاً انسان کو آنکھیں ملی ہیں تو دوسری طرف دیکھو
۵۲ کروڑوں کروڑ میل پر سورج بھی پیدا کیا گیا ہے جس کی روشنی میں یہ آنکھوں سے کام لے.انسان کی پیدائش کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اسے اگر بیماری اور شفاء کا مورد بنایا گیا ہے تو ساتھ ہی سب بیماریوں کا علاج بھی مہیا کیا گیا ہے.آخر تمام عالم میں ایک نظام اور چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کو پورا کرنے کا سامان جو کروڑوں اشیاء کی پیدائش اور لاکھوں حالتوں میں واقعات کے مناسب بدل جانے والے قانون کو چاہتا تھا اتفاقا کس طرح ہو سکتا ہے.انسانی دماغ اس کو یاد کس طرح کر سکتا ہے کہ اس قدر وسیع نظام آپ ہی آپ اور اتفاق ہو گیا.یہ نظام بغیر کسی بالا رادہ ہستی اور وہ بھی بغیر کسی عالم الغیب اور قادر ہستی کے کسی صورت میں بھی نہیں ہوسکتا تھا.قرآن کریم نے اس دلیل کو بھی پیش کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تبرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ إِلَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفُوتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِن فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصْرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسیر ( الملک : ۲ تا ۵) وہ خدا جس کے ہاتھ میں سب بادشاہت ہے.بہت برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.جس نے موت و زندگی کو پیدا کیا ہے تا کہ وہ دیکھے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے اور وہ غالب اور بہت بخشنے والا ہے.وہ جس نے سات آسمان پیدا کئے جو ایک دوسرے کے مطابق کام کر رہے ہیں.تو خدا کی پیدا کردہ چیزوں میں کوئی رخنہ نہیں دیکھے گا.اس امر کو دیکھ اور پھر اپنی نظر کو پھر ا پھرا کر دیکھ.کیا تجھے کوئی بھی نقص نظر آتا ہے.( یعنی صحیح حاجت ہو اور اس کے پورا کرنے کا سامان نہ ہو ) پھر دوبارہ اپنی نظروں کو چکر دے مگر وہ پھر بھی نا کام اور تھک کر واپس آجائیں گی.
۵۳ یعنی کل کائنات عالم میں ایک ایسا نظام معلوم ہوتا ہے جس میں کوئی بھی نقص نہیں.ایک لمبا سلسلہ قوانین کا جاری ہے جو کہیں بھی ٹکراتا نہیں.کیا یہ آپ ہی آپ ہو سکتا ہے؟ نہیں بلکہ یہ نظام دلیل ہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جو بالا رادہ خالق ہے اور مالک ہے اور غالب ہے اور بخشنے والی ہے.پہلا اعتراض اس دلیل کے متعلق بعض اعتراض کئے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں اول بعض چیزوں کے متعلق تو انتظام پایا جاتا ہے مگر بعض میں نہیں.مثلاً یہ درخت جو جنگلوں میں اُگے ہوئے ہیں یا یہ جانور جو چلتے پھرتے ہیں اور یہ پرندے جواڑتے پھرتے ہیں، یہ انسان کے لئے کیا کر رہے ہیں.ان میں سے دو چار کھانے کے قابل ہیں.لیکن باقی لغو ہیں.سانپ بچھو اور ایسے ہی موذی جانور.زہر یلے درخت اور پودے کیا کرتے ہیں؟ ان کا انسان کے فائدہ کے لئے کوئی کام نہیں ہے.جوار اس اعتراض کا مفصل جواب تو صفات باری کے بیان میں آئے گا.یہاں مجمل طور پر بتا تا ہوں کہ ان جانوروں کی پیدائش میں بے انتظامی نہیں بلکہ یہ انسان کیلئے خزانے ہیں جو ضرورت کے وقت کام آتے ہیں اور یہ جانور وغیرہ جن کو لغو کہا جاتا ہے ضرورت پر بہت مفید ثابت ہوتے ہیں.مثلاً سانپ ہی ہے.اس کا زہر دوائیوں میں کام آتا ہے.اسی طرح بچھو سے دوائیاں بنتی ہیں اور کئی ایسی چیزیں ہیں جن کو پہلے لغو اور فضول سمجھا جاتا تھا
۵۴ مگر اب ان کو بہت مفید سمجھا جاتا ہے.بات یہ ہے کہ اس قسم کی چیزیں انسان کے لئے خزانے ہیں جن میں سے کوئی ہوا میں رکھ دیا گیا ہے کوئی سمندر میں کوئی زمین میں تاکہ انسان علمی ترقیاں کر کے انہیں حاصل کرے اور فائدہ اٹھائے.جو کچھ ان کے متعلق دریافت ہو چکا ہے وہ لاکھوں فوائد پر دلالت کرتا ہے، جو حال ابھی نہیں گھلا اسے ہم معلوم پر قیاس کر سکتے ہیں.دوسرا اعتراض دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہزار ہا بوٹیاں خشکی اور تری میں ایسی پیدا ہوتی ہیں جو یونہی تباہ ہو جاتی ہیں اور ہزار ہا جانور خشکی و تری میں ایسے پیدا ہوتے ہیں جو پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں.ان کا کوئی فائدہ نہیں یونہی ضائع ہو جاتے ہیں اگر کوئی خالق بالا رادہ ہوتا تو ان اشیاء کو یونہی ضائع ہونے دیتا؟ جوا ہم کہتے ہیں کہ یہ چیزیں انسان کی علمی اور ذہنی اور جسمانی اور روحانی ترقی کے لئے پیدا کی گئی ہیں ان کا اس طرح پیدا ہونا اور تباہ ہونا بھی تو انسان کی توجہ کو پھیرتا ہے پس فائدہ تو ہوا.گو براہ راست فائدہ نہ اُٹھایا گیا مگر یہ فائدہ اُٹھا نا تو انسان کا کام ہے.اگر وہ ان سے فائدہ نہیں اُٹھاتا تو یہ اس کا قصور ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ جس طرح ان چیزوں کی پیدائش میں حکمت ہے خدا معلوم ان کی اس طرح ہلاکت میں کیا کیا حکمتیں ہیں جن تک ابھی انسان کا دماغ نہیں پہنچا.آخر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی
۵۵ چیزیں جلا کر اور راکھ کر کے زیادہ مفید ہوتی ہیں.تیسرا جواب یہ ہے کہ بیشک بعض چیزیں انسان کے لئے ضائع ہو جاتی ہوں مگر خدا تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ کیونکر بولے جا سکتے ہیں.مرنے والے جانور یا سٹر جانے والی بوٹیاں انسان کے لئے تو ضائع ہو گئیں.کیا خدا کے لئے بھی ضائع ہو گئیں.کیا وہ بھی ان سے فائدہ اُٹھاتا تھا کہ اس کے لئے ضائع ہوئیں.دوسرے جب وہ ان اشیاء کا خالق ہے تو وہ جس حال میں ہوں وہ اس کے قبضہ میں ہیں وہ اس کے لئے ضائع ہو کس طرح سکتی ہیں؟ خدا کے ہاتھ سے نکل کر کوئی چیز کہاں جاسکتی ہے.ان چیزوں کی ہلاکت کی مثال تو یہ ہے کہ ایک مکان کی اینٹیں اکھیڑ لی جائیں.وہ مکان بیشک گر جائے گالیکن اینٹیں گھر میں ہی رہیں گی جو دوسرے مکان میں استعمال ہو جائیں گی.اسی طرح پیدا کرنا اور مارنا درحقیقت استعمال کے تغیر کا نام ہے.خدا تعالیٰ کے لئے مخلوق کا مرنا اور پیدا ہونا نہ حقیقتاً مرنا ہے نہ پیدا ہوتا ہے.تیسرا اعتراض اور جواب ایک اور بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ انسان جو پیدا ہوا اسے اس قسم کی انگلیاں اس لئے دی گئیں کہ وہ لکھ سکے یا اور جو اعضاء اسے دیئے گئے ہیں وہ اس لئے دیئے گئے کہ دوسری چیزوں سے فائدہ اُٹھا سکے بلکہ بات یہ ہے کہ انسان اس لئے ایسا پیدا ہؤا کہ ارتقاء کا دوسرا قدم ایسے ہی انسان پیدا کرنے کی طرف اُٹھ رہا تھا جیسے جس قسم کے برتن میں پانی ڈالا جائے ویسی ہی شکل اختیار کر لیتا ہے.ایک جانور کی لمبی گردن مثلاً اس لئے ہو گئی کہ اس کی غذاء اونچے درخت پر تھی.اسی طرح جانوروں کی کھالوں نے ویسے
۵۶ رنگ اختیار کر لئے جیسے کہ ان کے گردو پیش کے رنگ تھے یا جن رنگوں کی مدد سے وہ اپنے دشمنوں سے بچ سکتے تھے.غرض یہ مناسبت ضرورت سے پیدا ہوئی ہے اور مجبوری کا نتیجہ ہے نہ کہ پہلے سے فیصل شدہ قانون کا.اس کا جواب یہ ہے کہ آخر یہ بھی تو سوال ہے کہ یہ قانون کس نے پیدا کیا ہے کہ جو چیز جس رنگ میں زندہ رہ سکے اس قسم کے تغیر اپنے اندر پیدا کر سکتی ہے.یہ قانون بھی تو کسی بالا رادہ ہستی پر ہی دلالت کرتا ہے اندھی نیچر آپ ہی آپ اس قسم کا پیچیدہ قانون کس طرح تیار کر سکتی تھی ؟ چھٹی دلیل.دلیل اخلاقی اب میں چھٹی دلیل بیان کرتا ہوں.اسے دلیل اخلاقی کہنا چاہئے جس سے یہ مراد ہے کہ انسان کی اخلاقی طاقتیں بھی ایک خدا پر دلالت کرتی ہیں.انسان فطرتا نیکی کا خواہش مند اور اس کی طرف مائل ہے اور چاہتا ہے کہ اچھی باتیں اس میں پائی جائیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس دلیل کو اس طرح پیش فرمایا ہے لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوْامَةِ (القيامة : ۳) تمہارے یہ خیالات کہ کوئی محاسبہ کرنے والی ہستی موجود نہیں ہے، بالکل باطل ہیں.ہم اس کے ثبوت میں جزاء وسزا کے وقت کو اور خود انسان کے نفس لوامہ کو پیش کرتے ہیں.یعنی انسان کے اندر کی اس مخفی طاقت کو جو ہر برے فعل پر اندر سے ملامت کرتی ہے اور جب تک وہ بار بار گناہ کا مرتکب ہو کر اس کو مار نہیں دیتا وہ برابر ملامت کرتی رہتی ہے.بلکہ جب وہ بظاہر مری ہوئی ہوتی ہے تب بھی کبھی اس میں حرکت ہو جاتی ہے اور وہ انسان کو نیکی کی طرف کھینچتی ہے.اگر خدا نہیں ہے تو انسان کے اندر بدیوں سے رکنے کا احساس کیوں ہے.پھر تو انسان جو چاہے کرتا
۵۷ رہے.یہ نیکی بدی کی پہچان خدا نے بندے کے اندر اپنی ذات پر دلالت کرنے کے لئے ہی رکھی ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوهَا (الشمس :٩) ہم نے انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی نیکی بدی کی پہچان اس کے اندر رکھ دی ہے.اے.جے بلفور ایک بہت مشہور فلاسفر گزرا ہے.اس نے اسی دلیل کو لیا ہے وہ کہتا ہے کہ بعض ایسی چیزیں ہیں جن کو ہم خوبصورت سمجھتے ہیں اور خوبصورت چیزوں کے حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں.مگر پتہ نہیں کہ کیوں یہ خواہش انسانوں میں پائی جاتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور ہستی ہے جس نے انسانوں میں خواہش رکھی ہے.اس کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کی یہی ایک زبر دست دلیل ہے.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ مسیحی ہے اور مسیحی تعلیم کے مطابق تو انسان کی فطرت مسخ شدہ اور گندی ہے پھر نہ معلوم وہ اس سے خدا تعالیٰ کی ہستی پر کس طرح استدلال کرتا ہے.یہ دلیل تو ایک مسلمان پیش کر سکتا ہے جس کی الہامی کتاب میں یہ دلیل آج سے تیرہ سو سال پہلے بیان کی گئی ہے اور جس کی الہامی کتاب انسان کی فطرت کو پاکیزہ اور لا انتہاء تر قیات کے قابل قرار دیتی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے ایک چور سے پوچھا کہ چوری کا مال کھانا تمہیں برانہیں معلوم ہوتا ؟ اس نے کہا بُرا کیوں معلوم ہو.کیا ہم محنت کر کے نہیں لاتے؟ فرماتے تھے میں نے اس بات کو چھوڑ دیا اور اور باتیں کرنے لگ گیا.پھر جب میں نے سمجھا کہ اب یہ پہلی بات بھول گیا ہوگا.میں نے اس سے دریافت کیا.اور باتیں کرتے کرتے کہا چوری کتنے آدمی مل کر کرتے ہیں؟ اس نے کہا کم از کم چار پانچ ہوتے ہیں اور سنار کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو مال کو پگھلا دے اور اس کی شکل بدل
۵۸ دے.آپ نے کہا کیا تم مال سنار کو دیدیا کرتے ہو؟ اگر وہ اس میں سے کچھ مال کھا جائے تو کیا کرتے ہو؟ اس پر وہ بے اختیار ہو کر کہنے لگا کہ اگر سنار ہمارا مال کھا جائے تو ہم ایسے بے ایمان کو مارنہ دیں.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسانی کے اندر نیکی کا میلان اس طرح راسخ ہے کہ انسان خواہ کس قدر بھی بگڑ جائے وہ میلان اس کے اندر باقی رہتا ہے اور جب بھی کسی محترک کے ذریعہ سے یا نقطہ فکر کے بدل دینے سے اسے زندہ کیا جائے وہ زندہ ہو جاتا ہے اور نئی طاقت کے ساتھ ظاہر ہو جاتا ہے.پس فطرت میں برائی سے نفرت اور نیکی کی خواہش کا ہونا خدا کی ہستی کی بہت بڑی دلیل ہے.اعتراضات کا جواب اس دلیل پر بھی اعتراض کئے جاتے ہیں.مثلاً یہ کہ جن کو اخلاق کہا جاتا ہے وہ فطری اخلاق نہیں بلکہ ورثے کے طور پر کچھ باتیں ہیں.ہمارے ماں باپ نے تجربہ کر کے جن باتوں کو نقصان دہ پایا ان کو ہم بُرا سمجھتے ہیں اور جن کو مفید پایا ان کو اچھا.مثلاً چوری ہے انسان جانتا ہے کہ میں نے کسی کا مال چرا یا تو وہ بھی ہمارے مال کو چرالے گا اور اس سے خواہ مخواہ کی پریشانی ہی ہوگی اس لئے اس خوف سے جو انسان کے دل میں اس فعل کے نتائج کے متعلق پیدا ہوا یہ بات اسے اچھی نہ نظر آئی اور آہستہ آہستہ یہ خیال بطور ورثہ کے اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا چلا گیا.پس بدی سے نفرت در حقیقت اس تجربہ کا ورثہ ہے جو انسان کو اپنے آباء سے ملا ہے.اس کا فطرت انسانی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ کسی بالا ہستی نے یہ میلان انسان کے اندر رکھا ہے اور اس لئے یہ ہستی باری کا ثبوت نہیں کہلا سکتا.
۵۹ اعتراض پر اعتراض مگر اس اعتراض پر ہمارا یہ اعتراض ہے کہ تم کہتے ہو کہ یہ باتیں ماں باپ سے درشہ میں چلی آتی ہیں.مگر یہ بتاؤ کہ ماں باپ کے دل میں کس طرح سے یہ احساس پیدا ہوئے؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے تجربہ سے ان اخلاق کو معلوم کیا اور جن چیزوں نے نقصان دیا ان کو برا قرار دے دیا اور نفع دینے والی چیزوں کو اچھا اور اپنا نفع نقصان ہر شخص سمجھ سکتا ہے کسی کے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے.جن چیزوں کو اچھا کہا جاتا ہے وہ سب کی سب مفید ہیں اور جن کو بُرا کہا جاتا ہے وہ سب کی سب مضر.اگر نیکیاں ایسی باتیں ہوتیں کہ جن کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اور پھر لوگ انہیں کرتے تو کہتے خدا نے دل میں ڈالی ہیں.اور نقصان رساں چیزوں سے نقصان نہ ہوتا اور پھر ان سے لوگ بچتے تو سمجھتے خدا نے یہ سکھایا ہے مگر ایسا نہیں ہے.اس لئے یہ کہا جائے گا کہ لوگ اچھی باتوں کو ان کے فائدہ کی وجہ سے کرتے اور بُری باتوں کو ان کے نقصان کی وجہ سے چھوڑتے ہیں.گو اس کا حقیقی اصلی جواب تو اور ہے.مگر بوجہ طوالت میں اسے چھوڑتا ہوں اور صرف اس جواب پر اکتفا کرتا ہوں کہ بعض نیکیاں ایسی بھی ہیں کہ انسان کا ان کے کرنے میں بظاہر کوئی فائدہ نہیں نظر آتا مگر وہ کرتا ہے حتی کہ دہر یہ بھی کرتا ہے.مثلا یہ کہ ماں باپ بچے سے جو سلوک کرتے ہیں وہ اس کے بچپن میں ہی کر چکتے ہیں.مگر ایک دہر یہ بھی اس بات کا اعتراف کرے گا کہ ان کی عزت کرنی چاہئے.حالانکہ انسان کے لئے اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور اس کے خلاف کرنے کا اگر کوئی نقصان ہوسکتا ہے تو یہی کہ لوگ آئندہ بچوں کی پرورش کرنا چھوڑ دیں.مگر اس میں ان لوگوں کا کیا نقصان ہو گا جو جوان ہو چکے ہیں
۶۰ اور اپنا گھر بار رکھتے ہیں اور پھر یہ بھی غلط ہے کہ ماں باپ آئندہ بچوں کی پرورش کرنا چھوڑ دیں.وہ کبھی نہیں چھوڑ سکتے.کسی کو یہ کہ کر تو دیکھو کہ میاں تم بوڑھے ہو بچہ کے جوان ہونے تک مرجاؤ گے.پھر اس کی پرورش کرنے سے تمہیں کیا فائدہ؟ اسے چھوڑ دو.یہ کہنے پر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا کہتا ہے.غرض ماں باپ کی عزت وتوقیر کرنا ایسی نیکی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں نظر آتا.مگر اس کے نیکی ہونے کا کوئی انکار نہیں کرتا.اسی طرح ساری قوموں میں مردوں کا احترام ضروری سمجھا جاتا ہے مگر اس کا کیا فائدہ ہے ؟ اور اس سے کیا نفع ہو سکتا ہے؟ اگر مردہ کو سنتے کھا جائیں یا اسے ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے جا کر پھینک آئیں تو کیا ہو؟ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح پھینکنے سے سڑ کر بد بو پیدا ہو جائے گی.یہ ٹھیک ہے اور اس لئے دبانا ضروری ہے.مگر ہم کہتے ہیں اسے دبانے کے لئے بہت سے آدمی جمع ہو کر کیوں لے جاتے ہیں؟ رسی اس کے پاؤں میں باندھو اور گھسیٹ کر لے جاؤ.ایسا کیوں نہیں کیا جا تا اور مردے کو با احترام دفن کرنے میں کونسا فائدہ ہے؟ بظاہر اس میں کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ فطرت انسانی اس فعل کو پسند کرتی ہے اور مردے کی بے حرمتی اس پر شاق گزرتی ہے.غرض بہت سی نیکیاں ملتی ہیں جنہیں سب نیکیاں سمجھتے ہیں اور ان کو عمل میں لاتے ہیں حتی کہ دہریے بھی ان پر عمل کرتے ہیں لیکن ان میں بظاہر کوئی مادی فائدہ نہیں ہوتا صرف احساسات کا سوال ہوتا ہے.وطن کی خاطر لڑائی میں مرنا بھی ایسے ہی اخلاق میں سے ہے.سب دُنیا کے نزدیک یہ ایک قابل عزت بات سمجھی جاتی ہے.مگر ہم کہتے ہیں کیوں لوگ اپنی عزت و آبرو کے لئے مرنا اچھا سمجھتے ہیں؟ اور کیا کوئی ملک ہے جس میں
۶۱ اپنی عزت اپنی آبرو اپنے ملک کے لئے جان دینا اچھا نہیں سمجھا جاتا.مگر اس فعل سے جان دینے والے کو کیا نفع ہو سکتا ہے؟ جب اس نے جان دیدی تو اسے کیا فائدہ؟ مگر کیا با وجود اس حقیقت کے ایسے مواقع پر جہاں موت یقینی ہوتی ہے لوگ ملک و وطن کے لئے جان نہیں دیتے؟ حالانکہ وہ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ہمارے اس فعل سے ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچے گا.غرض ہر ملک ہر قوم میں یہ اور اسی قسم کی باتوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے.مگر ان کے ایسے فائدے نہیں ہیں جو کرنے والے کی ذات کو پہنچ سکیں.اس لئے معلوم ہوا کہ یہ فطرتی نیکیاں ہیں اور نیکی کی طرف میلان خدا نے ہی فطرت میں رکھا ہے.ساتویں دلیل.دلیل شہادت ساتویں دلیل اس بات کی کہ خدا ہے دلیل شہادت ہے اور دنیا میں سارے فی شہادت پر ہی ہوتے ہیں.شائد نانوے فیصدی فیصلے اس کے ذریعہ ہوتے ہوں گے نہ صرف مقدمات میں بلکہ تمام علوم میں.دنیا کا ہر شخص جس قدر باتیں جانتا ہے اور جس قدر باتوں کو وہ صحیح مانتا ہے ان کے متعلق دریافت کر کے دیکھ لو عالم سے عالم آدمی بھی ان میں سے ننانوے فیصدی کو صرف شہادت کی بناء پر تسلیم کرتا ہے نہ کہ اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر اور مشاہدہ پر.تمام علوم جو یقینی سمجھے جاتے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے علم طب ہو کہ علم ہیئت ، علم کیمیا ہو کہ علم انجینئر نگ تمام علوم کا بیشتر حصہ شہادت پر تسلیم کیا جاتا ہے.بعض لوگوں نے تجارب کئے ہوتے ہیں دوسرے ان کی تحقیق پر اپنے علم کی بنیاد رکھ دیتے ہیں.خود تجربہ کر کے نہیں دیکھتے.پس جب دُنیا میں ہر بات اور ہر علم کا فیصلہ
۶۲ شہادت پر ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہستی باری کے معاملہ میں یہ دلیل باطل سمجھی جائے.ہم مانتے ہیں کہ شہادت فی الواقع شہادت ہونی چاہئے یونہی سنی سنائی بات نہیں ہونی چاہئے.لیکن اگر شہادت کے اصول کے مطابق کوئی شہادت مل جائے تو پھر اسے ماننا پڑے گا.دلیل ہمیشہ شہادت ہوتی ہے نہ کہ عدم شہادت.اگر ایک بڑی جماعت سچے اور راست باز لوگوں کی ایک امر کے متعلق شہادت دے کہ انہوں نے اسے دیکھا یا موجود پایا ہے تو جو لوگ اپنی لاعلمی ظاہر کریں ان کا قول ان گواہوں کے مقابلہ پر ہرگز سنا نہیں جائے گا کیونکہ لاعلمی شہادت نہیں ہوتی اور ان شاہدوں کی شہادت کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا.خدا کی ہستی کی شہادت دینے والوں کی اعلیٰ زندگی اب ہم اس معیار کے مطابق ہستی باری کے سوال پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے موجود ہونے کی شہادت ہزاروں لاکھوں لوگ دیتے ہیں اور وہ لوگ بھی ایسے ہیں کہ ان سے بہتر چال چلن والا کوئی شخص نظر نہیں آتا.قرآن کریم اس دلیل شہادت کو ان الفاظ میں پیش کرتا ہے.فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس : ۱۷) یعنی اے رسول تو اپنے مخالفوں سے کہہ دے کہ میں نے تمہارے اندر عمر بسر کی ہے.پھر تم عقل نہیں کرتے اور میرے دعوی کو جھوٹا کہتے ہو.کیا اس لمبی عمر میں جو میں نے تم میں بسر کی ہے تم نے میری صداقت مشاہدہ نہیں کی ؟ اگر تم نے یہ دیکھا ہے کہ میں کسی حالت میں بھی جھوٹ نہیں بولتا تو اب یہ بات جو میں کہتا ہوں کہ مجھے خدا نے مبعوث کیا ہے تا کہ میں اس کی طرف تمہیں بلاؤں اس میں تم
۶۳ کیوں شک کرتے ہو.یہ کس طرح ممکن تھا کہ میں جو ہر خطرہ کو برداشت کر کے سچائی کو قائم رکھتا آیا ہوں اور جس کے چال چلن کی خوبی اور مضبوطی کا دوست دشمن معترف ہے یکدم اور ایک ہی رات میں اس قدر بگڑ گیا ہوں کہ اتنا بڑا جھوٹ میں نے بنالیا ہے کہ دُنیا کے خالق نے مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے.قرآن کریم میں ایک دوسرے نبی کے متعلق آتا ہے کہ اس وقت کے لوگ اس کی نسبت کہتے تھے يُصْلِحُ قَد كُنتَ فِيْنَا مَرْجُوا قَبْلَ هَذَا (هود: ۶۳) اے صالح ہمیں تو تم سے اس سے پہلے بڑی بڑی امیدیں تھیں.تم بہت اچھے تھے مگر اب تمہیں کیا ہو گیا.حضرت مسیح علیہ السلام بھی اپنے زمانہ کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ مجھ میں کوئی عیب تو پکڑو.غرض جس قدر انبیاء دُنیا میں گزرے ہیں وہ اپنے چال چلن اور صداقت کی معیت کی وجہ سے ایسے مقام پر تھے کہ ان کے دشمن بھی ان پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں پاتے تھے اور اسی طرح ان کے اتباع میں سے لاکھوں صاحب کشوف و الہام لوگ ہوئے ہیں کہ جن کا چال چلن بھی ہر قسم کے شبہ سے بالا تھا اور ان کی راستبازی کا اعتراف ان کے دشمن بھی کرتے تھے.حضرت موسیٰ کی پاک زندگی دیکھو فرعون حضرت موسیٰ کا کتنا سخت دشمن تھا مگر اس میں بھی یہ جرأت نہ تھی کہ ان پر جھوٹ کا الزام لگائے.اس نے یہ تو کہا کہ یہ پاگل ہو گیا ہے یونہی باتیں بناتا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکا کہ ان کا چال چلن خراب ہے حالانکہ وہ اس کے گھر میں پہلے تھے اگر ان میں کوئی خرابی ہوتی تو وہ ضرور بتاتا کہ ان میں یہ خرابی ہے.
۶ رسول کریم ﷺ کی پاک زندگی اسی طرح ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دیکھتے ہیں کہ آپ کے دشمنوں نے اقرار کیا کہ آپ صادق اور امین تھے اور آپ پر انہوں نے کوئی الزام نہ لگا یا بلکہ دشمن سے دشمن نے بھی آپ کی طہارت اور پاکیزگی کی شہادت دی.چنانچہ مکہ میں ایک مجلس ہوئی کہ باہر سے جب لوگ مکہ میں آئیں گے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق پوچھیں گے تو ان کو کیا جواب دیں گے سارے مل کر ایک جواب بنا لو تا کہ اختلاف نہ ہو.آگے ہی ہم بد نام ہو رہے ہیں کہ ایک کچھ کہتا ہے اور دوسرا کچھ کہتا ہے اس لئے حج پر جو لوگ آئیں گے انہیں کہنے کے لئے ایک بات کا فیصلہ کر لو اس پر ان میں سے ایک نے کہا یہ کہہ دینا کہ جھوٹ کی عادت ہے جو کچھ کہتا ہے سب جھوٹ ہے.یہ سن کر ایک شخص جس کا نام نصر بن حارث تھا کھڑا ہوا اور اس نے کہا یہ بات نہیں کہنی چاہئے اگر یہ کہو گے تو کوئی نہیں مانے گا اور لوگ جو ابا کہیں گے کہ كَانَ مُحَمَّدٌ فِيكُمْ غُلَامًا حَدَئًا اَرْضَاكُمْ فِيْكُمْ وَاَصْدَقَكُمْ حَدِيثًا وَأَعْظَمَكُمْ آمَا نَةً حَتَّى إِذَا رَنَيْتُمْ فِي صُدُغَيْهِ الشَّيْبَ وَجَاءَ كُمْ بِمَا جَاءَكُمْ قُلْتُمْ سَاحِرٌ لَا وَاللهِ مَا هُوَ بِسَاحِرٍ - محمد نے تم میں جوانی کی عمر بسر کی ہے اور اس وقت وہ تم سب سے زیادہ نیک عمل سمجھا جاتا تھا اور سب سے زیادہ سچا سمجھا جاتا تھا اور سب سے زیادہ امانت کا پابند تھا یہاں تک کہ جب اس کی کنپٹیوں میں سفید بال آگئے اور وہ تمہارے پاس وہ تعلیم لایا جو وہ لایا ہے تو تم کہنے لگ گئے کہ وہ جھوٹا ہے خدا کی قسم ان حالات میں وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا.چنانچہ اس شخص کے اس جواب پر سب نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور سیرت ابن ہشام جلد ۱، ۲ صفحه ۲۹۹ ،۳۰۰ موسسه علوم القرآن
۶۵ اس اعتراض کی بجائے اور بات سوچنے لگے.کیسی سچی بات تھی جو اس شخص نے پیش کی اگر پہلے کبھی رسول کریم کی طرف انہوں نے جھوٹ منسوب کیا ہوتا تو اب کوئی مان سکتا تھا.لیکن جب پہلے وہ ساری عمر آپ کو صادق کہتے رہے تھے تو پھر یکدم جھوٹ کے الزام کو کون سچا مان سکتا تھا.اسی طرح ہر قل نے جب ابوسفیان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا کہ انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو اس نے کہا آج تک تو نہیں بولا اور کہا کہ آج تک کا لفظ میں نے اس لئے لگایا تا کہ شبہ پڑ سکے کہ شاید آئندہ بولے.اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ پر چڑھ کر لوگوں کو بلایا اور جب وہ جمع ہو گئے تو فرمایا کیا اگر میں تمہیں کہوں کہ فلاں وادی میں ایک فوج جمع ہے جو تم پر حملہ کرنے والی ہے تو مان لو گے؟ انہوں نے کہا ہاں مان لیں گے حالانکہ مکہ والوں کی بے خبری میں اس قدر فوج اس قدر قریب جمع نہیں ہو سکتی تھی.پس ان لوگوں کا اس قسم کی بات بھی جو بظاہر ناممکن الوقوع ہو آپ کے منہ سے سن کر ماننے کے لئے تیار ہو جانا بتاتا ہے کہ آپ کی صداقت پر ان لوگوں کو اس قدر یقین تھا کہ وہ یہ ناممکن خیال کرتے تھے کہ آپ جھوٹ بول سکیں یا دھوکا دے سکیں.اس طبقہ اور اس درجہ کے لوگ ہیں جو اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے خدا سے الہام پایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے.یہ لوگ دنیا کے سب سے بڑے مصلح گزرے ہیں اور اپنے اخلاق کی خوبی اور مضبوطی کی وجہ سے انہوں نے لاکھوں آدمیوں کے دلوں پر اس طرح قبضہ کیا ہے کہ وہ لوگ اپنی جانیں اور اپنے مال ان کی راہ میں قربان کرنے کو بہترین نعمت خیال کرتے بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بله الوحى إلى رسول الله بخارى كتاب التفسير سورة اللهب آيت تبت يدا أبي لَهَبٍ
۶۶ تھے اور پھر دُنیا کے ذہنی ارتقاء میں جو اُن لوگوں نے یا ان کے اتباع نے حصہ لیا ہے اور کسی نے اس قدر حصہ نہیں لیا.پس ان لوگوں کی ایسی کھلی کھلی اور زبردست شہادت کی موجودگی میں کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے کہ ایک زبردست ہستی ہے جو اس دنیا کی خالق اور اس کی مالک ہے.اگر ایسی زبردست شہادت کو رد کیا جائے تو اصول شہادت کا بالکل ستیا ناس ہو جاتا ہے اور کوئی علم بھی دُنیا میں ثابت نہیں ہوسکتا اور عقل سلیم ہرگز تسلیم نہیں کرتی کہ معمولی معمولی شہادتوں کو تو قبول کیا جائے مگر اس قدر زبر دست شہادتوں کو رد کر دیا جائے.دلیل شہادت پر اعتراض اور اس کا جواب کہا جا سکتا ہے کہ کیا پتہ ہے کہ ان لوگوں نے فی الواقع ایسی شہادت دی ہے کہ کوئی خدا ہے جس نے انہیں مبعوث کیا ہے اور ان کے بعد لوگوں نے اپنے پاس سے بات بنا کر ان کی طرف منسوب نہیں کر دی.اس کا جواب اوّل تو یہ ہے کہ جس طرح ان کی شہادت تواتر سے پہنچتی ہے اور دنیا کی کوئی شہادت تواتر سے نہیں پہنچتی کروڑوں آدمی نسلاً بعد نسل اور ہزاروں کتب ان کی شہادت کو پیش کرتی چلی آئی ہیں.پس ان کی شہادت کے متعلق کسی قسم کا شبہ پیدا نہیں کیا جا سکتا.پھر یہ کہ شہادت کسی خاص زمانہ سے مختص نہیں ہے ہر زمانہ میں ایسے شاہد گزرے ہیں اور اس وقت بھی ایک شخص گزرا ہے جس نے اس شہادت کو تازہ کیا ہے اور اپنی راستبازانہ زندگی کے متعلق اس نے آریوں، ہندوؤں، مسلمانوں مسیحیوں سب قوموں کو چیلنج دیا لیکن کوئی قوم بھی باوجود اس کے کہ سب قوموں کے لوگ اس کے ارد گرد بستے تھے یہ نہ کہہ سکی کہ اس کی زندگی فی الواقع تقویٰ اور
راستبازی کا نمونہ نہ تھی.بلکہ اس کے خطرناک دشمنوں تک نے یہ شہادت دی کہ وہ اپنی راستبازی میں سارے زمانہ میں بے مثل تھا اور یہانتک اس کی صداقت اور راستبازی کے لوگ معترف تھے کہ مخالفین نے ان جھگڑوں میں جو اس کے خاندان کے ساتھ تھے تسلیم کر لیا کہ جو وہ کہہ دے ہم اسے مان لیں گے.یہ شخص حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود و مہدی معہود تھے.پس جبکہ ہر زمانہ میں اس قسم کے شاہد موجود ہیں تو اس شہادت میں کچھ بھی شک نہیں کیا جاسکتا.آٹھویں دلیل اب میں آٹھویں دلیل بیان کرتا ہوں.یہ ان دلیلوں سے جنہیں میں اب تک بیان کر چکا ہوں مختلف ہے اور اس دلیل سے ایک نیا سلسلہ دلائل کا شروع ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں اور پہلے سلسلہ دلائل میں یہ فرق ہے کہ پہلی دلیلوں میں تو ہستی باری کا ثبوت صرف عقلا ملتا تھا اور عقل اپنے فیصلہ میں بعض دفعہ غلطی بھی کر جاتی ہے اس دلیل سے سلسلہ دلائل مشاہدات سے تعلق رکھتا ہے جن میں غلطی ناممکن ہو جاتی ہے گو یہ ایک لمبا سلسلہ دلائل کا ہے مگر میں گنجائش کی قلت کی وجہ سے مختصر پیرایہ میں ایک ہی دلیل کی صورت میں اس سارے سلسلہ پر روشنی ڈالتا ہوں.یا د رکھنا چاہئے کہ خدا نے اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لئے ایک دو نہیں چار نہیں دس ہیں نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں دلیلیں رکھی ہیں.خدا تعالیٰ کی ہر صفت اس کی ہستی کا ثبوت ہے.ہم کہتے ہیں کہ خدا رحیم ، کریم ، قدیر، سمیع، بصیر ہے.پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ انسان سے بالا ایک ہستی ہے جو رحیم ہے اور رحم کرتی ہے.کریم ہے کرم کا سلوک کرتی ہے.ہماری ضروریات کو پورا کرتی ہے.دکھوں اور
۶۸ تکلیفوں کے وقت ہماری حفاظت کرتی ہے.عام قانون کے ذریعہ سے بھی اور خاص اسباب پیدا کر کے بھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ خدا ہے.مخالفین تو ہم سے خدا کی ہستی کی ایک دلیل پوچھتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اگر اس کی صفات کی جلوہ گری پر غور کر کے دیکھو تو اس کی ہستی کے لاکھوں ہزاروں ثبوت موجود ہیں.صفات الہی دہر یہ کہتے ہیں کہ جس طرح خدا موہوم ہے اس کی صفات بھی موہوم ہیں تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ کوئی علیم ہستی موجود ہے؟ کیا ثبوت ہے کہ کوئی سمیع ہستی موجود ہے؟ کیا ثبوت ہے کہ وہ ہستی لوگوں سے کلام کرتی ہے؟ کیا ثبوت ہے کہ وہ قدیر ہے؟ اس اعتراض کے جواب میں دو قسم کے امور پیش کئے جا سکتے ہیں.ایک تو وہ جو ساری دنیا کو نظر آتے ہیں اور ایک خاص دلائل ہیں جو ہر انسان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں.مثلاً عفو کی صفت ہے اس کا اثر وہی انسان محسوس کر سکتا ہے جس پر اس کا ظہور ہو اور بخشنے کی حالت کو وہ خود ہی محسوس کرے گا.مثلا تم کوئی گناہ کرتے ہو خدا چونکہ ستا ر ہے اس کے نتیجہ اور سزا سے تمہیں بچا لیتا ہے اور اس کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ جنہیں انسانی عقل نہیں پیدا کر سکتی.اس لئے معلوم ہوا کہ خدا ہے.ایسے امور انسان کے نفس کے اندر ہی پیدا ہو سکتے ہیں اور ان کو وہی سمجھ سکتا ہے.ہاں دوسری قسم کے امور کو سب لوگ مشاہدہ کر سکتے ہیں اور میں انہیں کو لیتا ہوں کیونکہ جو بات اپنے ہی ساتھ تعلق رکھتی ہے اس کے متعلق ذکر مفید نہیں ہو سکتا.اسے تو وہی سمجھ سکتا ہے جس سے وہ تعلق رکھے.
۶۹ خدا کی صفت عزیز کا ثبوت میں اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کو بطور مثال اس وقت پیش کرتا ہوں جن سے معلوم ہو گا کہ اس دنیا کے اوپر ایک ہستی ہے جس کے ارادہ کے ماتحت سب دنیا کا کارخانہ چل رہا ہے اور سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کو لیتا ہوں اگر یہ صفت اپنا کام کرتی ہوئی ثابت ہو جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ خدا ہے.عزیز کے معنی غالب کے ہیں اور اس صفت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيز (المجادلة : ۲۲) میں نے یہ مقرر کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ غالب ہوں گے.ادھر تو اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ میرے دین کی تائید کے لئے جو لوگ کھڑے کئے جائیں گے وہ ہمیشہ غالب رہیں گے اور دوسری طرف اس کی یہ سنت ہے کہ بادشاہوں اور طاقتور لوگوں کو نبی نہیں بناتا الا ماشاء اللہ بلکہ انہیں لوگوں میں سے نبی بناتا ہے جو ضعیف اور کمزور ہوتے ہیں جن کے پاس نہ کوئی فوج ہوتی ہے نہ ہتھیار نہ دولت ہوتی ہے نہ جتھا.ان کو بھیج کر ان کے ذریعہ دنیا کو مفتوح کراتا ہے اور اس طرح دکھا دیتا ہے کہ لاغْلِبَنَّ آنَا وَرُسُلِی بالکل درست اور صحیح ہے.جن حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کو فتح کیا ہے ان کو سامنے رکھ کر کون کہ سکتا ہے کہ خدا کی مدد کے سوا آپ کو یونہی غلبہ حاصل ہوسکتا تھا.آپ کے پاس نہ مال تھانہ دولت علم.آپ نہ پڑھے ہوئے تھے.مال کی یہ حالت تھی کہ ایک ایسی مالدار عورت سے آپ نے شادی کی جو نیک تھی اس نے اپنا مال آپ کو دیدیا اور آپ نے وہ بھی خدا کی راہ میں
صرف کر دیا.ایسے انسان کو خدا نے رسول بنا دیا اور رسول کے لئے یہ شرط رکھدی کہ لا غُلِبَنَ آنَا وَرُسُلِی کہ رسول ضرور ضرور غالب ہوگا.اگر خدا ہے تو ایسا ہی ہونا ضروری ہے.اب دیکھو دُنیا نے رسول کریم کے ساتھ کیا کیا.آپ کے خلاف سارے لوگوں نے زور مارے مگر کیا نتیجہ نکلا ان کی تمام کوششوں کا نتیجہ یہی نکلا کہ آپ نہایت شان کے ساتھ دس ہزار قد دسیوں سمیت مکہ میں پہنچے اور وہی سردار جو آپ پر اتنا ظلم کرتے تھے کہ جب آپ نماز کے لئے خانہ کعبہ میں جاتے تو آپ کو ڈانٹتے آپ پر میلا ڈالتے ، اس وقت یہ سب آپ کے رحم پر تھے.ایک دفعہ آپ پر اتنا ظلم کیا گیا کہ طائف والوں نے پتھر مار مار کر آپ کا جسم لہولہان کر دیا پھر آپ کے مریدوں کی یہ حالت تھی کہ ان کا بازاروں میں چلنا مشکل تھا.پس اس بے سروسامانی میں آپ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے کا دعویٰ کیا اور اعلان کر دیا کہ میں کامیاب ہو کر رہوں گا اور دُنیا پر غلبہ پاؤنگا.خدا تعالیٰ میری مدد کرے گا اور مجھے فتح دے گا.اگر قوم اس دعوی کو آسانی سے قبول کر لیتی تو کہا جاتا کہ جب قوم نے قبول کر لیا تو غلبہ میں کسی غیر معمولی اعانت کا ہاتھ کیوں سمجھا جائے مگر آپ کے ساتھ قوم نے محبت کا سلوک نہیں کیا، قبولیت کے ہاتھ آپ کی طرف نہیں بڑھائے.اطاعت کی گردن آپ کے آگے نہیں جھکائی بلکہ ساری کی ساری قوم آپ کے خلاف کھڑی ہوگئی اور معمولی مخالفت نہیں کی بلکہ مخالفت میں قوم نے سارا ہی زور خرچ کر دیا.قتل کرنے کی کوشش کی.ساتھیوں میں سے کئی کو شہید کر دیاحتی کہ صحابہ کو ملک سے نکلنا پڑا اور آخر میں خود آپ کو بھی ملک چھوڑ نا پڑا لیکن وہی شخص جسے چند سال پہلے صرف ایک ساتھی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں اپنے عزیز وطن کو چھوڑنا پڑا تھا چند سال بعد فاتحانہ حیثیت میں واپس آتا ہے اور آکر ان
ظالموں سے جنہوں نے انتہائی درجہ کے ظلم اس سے اور اس کے ساتھیوں سے کئے تھے پوچھتا ہے کہ بتاؤ تو میں تم سے کیا سلوک کروں ؟ اور جب وہ شرمندگی سے اس کے سامنے گردن ڈال دیتے ہیں تو فرماتا ہے جاؤ میں نے تم سب کو معاف کر دیا.کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اتفاقاً بعض کمزور لوگوں کو طاقت مل جاتی ہے مگر رسول کریم کے معاملہ میں فتح اور غلبہ اتفاق نہیں کہلا سکتا کیونکہ آپ نے اپنی کمزوری کی حالت میں پیشگوئی کر دی تھی کہ مجھے غلبہ ملے گا اور پھر اس دعوئی کے مطابق آپ کو غلبہ ملا اور پھر آپ کا غالب ہو کر اپنے دشمنوں کو معاف کر دینا بھی بتا تا ہے کہ ایک زبر دست طاقت پر آپ کو یقین تھا اور کامل یقین تھا کہ میرے غلبہ کو کوئی شکست سے بدل نہیں سکتا تبھی تو آپ نے ایسے خطرناک دشمنوں کو بلا شرط معاف کر دیا.اس قسم کے غلبہ کی مثال دنیا میں اور کہاں ملتی ہے؟ موجودہ زمانہ میں خدا کی صفت عزیز کا ثبوت پھر اسی زمانہ میں دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا.جن کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو اس وقت ہندوستان میں سے بارسوخ عالم تھے، کہا کہ میں نے ہی اس کو بڑھایا ہے اور میں ہی اسے تباہ کروں گا.مگر دیکھو کون مٹ گیا اور کون بڑھا.مولوی محمد حسین صاحب کا اب کوئی نام بھی نہیں لیتا حالانکہ یہی مولوی محمد حسین صاحب جب مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت سے قبل کہیں جاتے تھے تو لوگ سڑکوں پر جمع ہو جاتے تھے اور کھڑے ہو ہو کر تعظیم کرتے تھے.غرض انہوں نے مخالفت کی اور سب کو مخالفت کے لئے بھڑکا یا.شروع شروع میں گورنمنٹ بھی ناراض تھی کیونکہ آپ نے مہدی
۷۲ ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور مہدی کے متعلق مسلمانوں نے جو غلط خیال بنائے ہوئے تھے ان کی وجہ سے گورنمنٹ آپ پر بہت بدظن تھی.غرض ہر طرف سے آپ کی مخالفت ہوتی تھی.مولویوں نے اپنی طرف سے زور لگانے میں کسر نہ رکھی اور عوام نے اپنی طرف سے کمی نہ کی.مگر خدا تعالیٰ نے یہ کہہ رکھا تھا کہ لاغلِبَنَ آنَا وَرُسُلی میں اور میرے رسول ضرور غالب ہو کر رہیں گے پھر اس کلام کے ماتحت دیکھو لوگوں کی مخالفت کا کیا نتیجہ نکلا ؟ یہی ناں کہ بہت سے ایسے لوگ جو شروع میں آپ کو گالیاں دیتے تھے آج لاغْلِبَنَّ انَا وَرُسُلِی کی رسی میں بندھے ہوئے یہاں بیٹھے ہیں لوگوں نے حضرت مسیح موعود کو کیا کیا دُ کھ نہ دیئے.کیا کیا تکلیفیں نہ پہونچائیں آپ کے راستہ میں کیا کیا رکاوٹیں نہ ڈالیں ،مگر کیا کر لیا ؟ وہ جو غالب سمجھے جاتے تھے آخر مغلوب ہو گئے اور وہ جو بڑے سمجھے جاتے تھے چھوٹے ہو گئے اور اس طرح لاغلب انا ورسیلی کی پیشگوئی پوری ہوئی.تلوب پر قبضہ زیادہ مشکل اس موقعہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تلوار اور طاقت کے ذریعہ جسموں پر غلبہ حاصل کرنا اور بات ہے اور قلوب پر قبضہ کرنا اور بات.دلوں پر قبضہ کرنے کا کام نہایت مشکل کام ہے.کہتے ہیں ابن سینا کوئی مسئلہ بیان کر رہا تھا ایک شاگرد کو جو اس کی بات بہت پسند آئی تو جھوم کر کہنے لگا آپ تو محمد جیسے ہیں اگر چہ ابن سینا فلسفی تھا اور دین سے اسے تعلق نہ تھا مگر آخر مسلمان تھا اسے یہ بات بہت بڑی لگی.جہاں بیٹھے تھے اس کے قریب ہی ایک حوض تھا اور سردی کی وجہ سے یخ بن رہا تھا.تھوڑی دیر کے بعد ابن سینا نے اسی شاگرد سے کہا کہ اس حوض میں گو د جاؤ.شاگرد نے کہا کیا آپ پاگل ہو گئے
ہیں؟ اس قدر سردی پڑ رہی ہے اور اتنا ٹھنڈا پانی ہے اس میں گودنے سے تو میں فورا بیمار ہو جاؤں گا.اس پر ابن سینا نے کہا کہ کیا اسی برتے پر تو مجھے کہتا تھا کہ تو محمد جیسا ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہزاروں کو کہا آگ میں کود پڑو اور کسی نے نہ پوچھا کہ ایسا کیوں کہتے ہو، خوشی سے آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں قربان کر دیں اور تو میری اتنی سی بات نہیں مانتا اور باوجود اس کے مجھے حضور سے مشابہت دیتا ہے حالانکہ رسول کریم نے اپنی بات ان لوگوں سے منوائی جو آپ کے جانی دشمن تھے.غرض انبیاء با وجود بے سروسامانی کے غالب ہوتے ہیں اور ان کے دشمن تباہ.اب ہی دیکھ لو کہاں ہیں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور کہاں ہیں حضرت مسیح موعود کے دوسرے دشمن.ایک بڑا دشمن تمہارے سمجھانے کے لئے خدا نے رکھا ہوا ہے.مگر اس کی بھی باری آ جائے گی اور اس کا انجام ایسا عبرتناک ہوگا کہ مسیح موعود کے ماننے والے اسے بطور مثال کے پیش کیا کریں گے.کیا نبی نا کام بھی ہوتے ہیں اس سلسلہ کی اس پہلی دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم کہتے ہیں نبوت کا دعویٰ کرنے والے ناکام بھی ہوتے ہیں.مثلاً مسیح کو مخالفین نے پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا لیکن یہ ان کی ناکامی کی دلیل نہیں ہے بلکہ کامیابی کی ہے کیونکہ خدا نے انہیں بھٹی میں ڈال کر دکھا دیا کہ لاغلب انا وَرُسُلی سچ ہے.اگر حضرت مسیح صلیب پر وفات پا جاتے اور آپ کا سلسلہ تباہ ہو جاتا تو بیشک یہ دعویٰ غلط ہو جاتا مگر خدا نے آپ کو آگ میں ڈال کر اور پھر زندہ نکال کر دکھا دیا کہ خدا کے نبی پر کوئی غالب نہیں آسکتا.حضرت مسیح موعود نے بھی
لکھا ہے کہ: ظاہر ہو.کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے اگر انبیاء کی مخالفت نہ ہو تو لاغلب انا وَرُسُیلی کی شان اور شوکت کس طرح مفت تظلم سے خدا تعالی کی ہستی کا ثبوت کا ثب دوسری صفت جسے میں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں صفت تکلم ہے.اگر ایک ہستی انسان سے کلام بھی کرتی ہے اور اپنے عندیہ اور منشاء کو ظاہر بھی کرتی ہے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انسان سے بالا ہستی اور کوئی نہیں اور دنیا پر کوئی حکمران نہیں.قرآن کریم میں آتا ہے إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلِئِكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (لحم السجدۃ: ۳۱) جب مؤمن کہتے ہیں کہ خدا ہے اور اس پر استقامت دکھاتے ہیں تو ان پر خدا فرشتے بھیجتا ہے کہ جاؤ ان کو سناؤ کہ میں واقع میں ہوں تم کوئی خوف اور غم نہ کرو اور وہ جنت کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اس کی بشارت پا کر خوش و خرم ہو جاؤ.ہزاروں اور لاکھوں نبی ایسے ہوئے ہیں جن کو خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ میں ہوں اور ان کی جماعتوں میں بھی ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اور اب ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہے خود مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے اس کا تجربہ ہے.اب اگر کوئی مجھے سنائے کہ خدا نہیں تو میں کس طرح اس کی بات مان سکتا ہوں.میں تو تعجب سے اس کے منہ کو ہی دیکھوں گا کہ کیسی
۷۵ بیہودہ بات کہہ رہا ہے.اگر کوئی فلسفی کہے کہ زید نہیں ہے اور اس کے نہ ہونے کے دلائل بھی پیش کرے مگر زید سامنے بیٹھا ہو تو اس فلسفی کو پاگل ہی کہا جائے گا.اسی طرح جس نے خدا کی باتیں سنیں اسے اگر کوئی کہے کہ خدا نہیں ہے تو وہ اسے پاگل ہی سمجھے گا.پس ہزاروں نبیوں اور دوسرے لوگوں کو جو الہام ہوتے ہیں اور وہ خدا کی باتیں سنتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک زبردست ثبوت ہے.صفت تکلم پر اعتراض اور اس کا جواب اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ انسانوں سے بولتا اور کلام کرتا ہے تو پھر مذاہب میں اختلاف کیوں ہے؟ اگر خدا بولتا تو کسی کے کان میں کچھ اور کسی کے کان میں کچھ اور کیوں کہتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تو ایک ہی تعلیم ملاتی ہے.ہاں بعد میں لوگ چونکہ اس میں اپنی طرف سے باتیں ملا دیتے ہیں اس لئے اختلاف ہو جاتا ہے.جیسے قانون قدرت خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے مگر لوگ اس میں ہزاروں قسم کی باتیں اپنی طرف سے ملا دیتے ہیں.اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ساری باتیں جولوگ پیش کرتے ہیں قانون قدرت ہی ہے.مثلاً کوئی کہے کہ میں نے ایجاد کی ہے کہ لکڑی سے زندہ گھوڑا بنا لیتا ہوں یہ سن کر یہ نہیں کہا جائے گا کہ قانونِ قدرت غلط ہو گیا ہے بلکہ یہ کہا جائے گا کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ غلط ہے اور صیح یہی ہے جو قانون قدرت کے ماتحت ہے کہ لکڑی کا زندہ گھوڑا نہیں بن سکتا.
24 لپس وہ لوگ جو اپنی عقل سے باتیں بناتے اور پھر خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.ان کے عقلی ڈھکوسلوں کا الزام خدا تعالیٰ پر عائد نہیں ہو سکتا بلکہ ان کی عقلوں پر عائد ہوگا اور ایسے لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأقاويل لأخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (الحاقة : ۴۵ تا ۴۷) اگر کوئی اللہ کی طرف اپنے پاس سے بات بنا کر جانتے بوجھتے ہوئے منسوب کر دے گا تو وہ اس کی رگ جان کو کاٹ دے گا.اب کوئی خدا پر جھوٹا افتراء کر کے دیکھ لے.وہ لوگ جو خدا کے منکر ہیں وہی کھڑے ہو جائیں اور جان بوجھ کر ایسی باتیں بنا کر جنہیں وہ جانتے ہیں کہ خدا نے نہیں کہیں خدا کی طرف منسوب کریں کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں اور ہمیں ان کی اشاعت کے لئے مبعوث فرمایا ہے پھر اصرار سے اس دعوی کی اشاعت کریں پھر دیکھ لیں کیا نتیجہ ہوتا ہے.اختلاف زمانہ کی وجہ سے مذاہب میں اختلاف دوسرا جواب یہ ہے کہ مذاہب میں کچھ حصہ اختلاف کا زمانہ کی ضروریات کے ماتحت ہوتا ہے مگر دراصل وہ اختلاف نہیں کہلا سکتا.مثلاً طبیب ایک نسخہ لکھتا ہے مگر جب مریض کی حالت بدل جاتی ہے تو دوسرا لکھتا ہے.ان میں اختلاف نہیں کہا جا سکتا بلکہ ضرورت کے ماتحت جیسا مناسب تھا ویسا کیا گیا.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ طبیب کا کیا اعتبار کہ کبھی کچھ دیتا ہے کبھی کچھ بلکہ سب جانتے ہیں کہ مریض کی اندرونی تبدیلی کی وجہ سے نسخہ بدلا ہے.یہی حال دین کا ہے.جب بنی نوع انسان کی ذہنی حالت میں ارتقاء حاصل ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے نئی تعلیم ان کومل جاتی ہے.
خدا ایک مذہب کیلئے سب کو مجبور کیوں نہیں کرتا اس موقعہ پر یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ اچھا مان لیا کہ جو خدا پر جھوٹ باندھے اسے خدا ہلاک کر دیتا ہے لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ خدا جھوٹے مذاہب کے پیروؤں کو ہلاک نہیں کرتا ، جھوٹے مذاہب کے ماننے والوں کو مار دینا چاہئے تھا یا ان سب کو ایک مذہب کا پیرو بنا دینا چاہئے تھا.اس کا جواب خدا تعالیٰ نے آپ دیا ہے فرماتا ہے کو شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا اتْكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (المائدۃ: ۴۹) اگر ہم چاہتے تو سب کو مجبور کر کے ایک مذہب پر لے آتے.لیکن اگر اس طرح کرتے تو کسی کو ثواب نہ ملتا اور جو غرض لوگوں کے پیدا کرنے کی تھی وہ پوری نہ ہوتی.جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ تبھی پوری ہو سکتی ہے کہ وہ آزاد ہو.اس میں قبول کرنے کی اور رد کرنے کی دونوں قسم کی طاقتیں ہوں پس چونکہ سب لوگوں کو مجبور کر کے ایک مذہب پر لانا انسان کی پیدائش کی غرض کو بالکل باطل کر دیتا ہے اس لئے خدا ایسا نہیں کرتا.کے مذہب میں اختلاف یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اچھا مان لیا کہ اختلاف مذاہب کی یہ وجہ ہے مگر جو مذہب اپنے آپ کو سچا کہتا ہے اس میں بھی تو اختلاف ہے.مسلمانوں کو دیکھ لو کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ.اگر تم کہو کہ جس طرح پہلے دینوں میں لوگوں نے باتیں ملا دیں اسی طرح اس میں بھی ملا دی ہیں جس سے اختلاف ہو گیا ہے تو ہم کہتے ہیں خدا نے ایسا کلام
۷۸ کیوں نہ نازل کیا جس سے بندوں کو ٹھوکر نہ لگتی.خدا ایسا کلام کرتا کہ کوئی انسان اس کے متعلق ٹھوکر نہ کھاتا.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا کلام تو ایسا ہی ہوتا ہے جسے سارے انسان سمجھ سکتے ہیں لیکن بعض لوگ شرارت سے اور دھوکا دینے کے لئے اس سے کچھ کا کچھ مطلب نکالتے ہیں اور اس سے ان کی کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے.جیسا کہ اب آریہ کہتے ہیں کہ قرآن سے تناسخ ثابت ہوتا ہے روح و مادہ کی ازلیت ثابت ہوتی ہے اور ممکن ہے کچھ عرصہ کے بعد یہ بھی کہہ دیں کہ نعوذ باللہ قرآن میں نیوگ کی تعلیم بھی پائی جاتی ہے.ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کو کون روک سکتا ہے جو چاہتے ہیں کہتے جاتے ہیں.پھر اختلاف کا دروازہ کھلا رکھنے سے ایک مقصد انسانی دماغ کی نشوونما بھی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اِخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ * میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے آپ کے اس قول کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں کچھ باتیں محکمات کی قسم سے بیان کی ہیں اور کچھ متشابہات کی قسم سے.محکمات سے مراد یہ ہے کہ ان کے معنی گو ایک سے زیادہ کئے جائیں مگر وہ سب کے سب ایک رنگ میں رنگین ہوں اور متشابہات کا یہ مطلب ہے کہ ایسے الفاظ رکھے گئے ہیں جن کے متعدد معنی ہو سکتے ہیں اور بعض ان میں سے بظاہر مخالف نظر آتے ہیں مگر وہ حقیقتا مخالف نہیں یعنی گو یہ ممکن نہیں کہ ایک پر عمل کیا جائے تو دوسرے پر بھی عمل ہو سکے لیکن وہ دونوں معنی شریعت کی نص صریح کے مخالف نہ ہوں گے اور دونوں میں سے کسی پر عمل کرنا ایمان یا اسلام کے لئے نقصان دہ نہ ہوگا جیسے عورتوں کی عدت کے لئے قرآن کریم میں قرء کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی طہر کے بھی ہیں اور حیض کے بھی.مسلمانوں میں سے ایک کنز العمال جلد ۱۰ حدیث نمبر ۲۸۶۸۶ صفحه ۱۳۶ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء
جماعت طہر کے معنی کرتی ہے دوسری حیض کے گو بظاہر یہ دونوں معنی مخالف نظر آتے ہیں اور ایک ہی شخص ایک وقت میں دونوں پر عمل نہیں کر سکتا.مگر شریعت کی کسی نص کے دونوں ہی مخالف نہیں اور نہ ان میں سے کسی ایک پر عمل کرنے سے ایمان واسلام کو نقصان پہنچ سکتا ہے.اس اختلاف کے ذریعہ سے شریعت کی باریکیوں پر غور کرنے کی عادت پڑتی ہے.مختلف علوم جسمانی و روحانی کی جستجو کا خیال دل میں پیدا ہوتا ہے اور سب سے زیادہ یہ کہ شریعت کے مغز اور اس کے احکام کی حقیقت معلوم ہوتی ہے اور اس کے احکام میں سے جو قشر اور چھلکے کی حقیقت رکھتے ہیں انکی معرفت حاصل ہوتی ہے.جس طرح خدا تعالیٰ نے کا نہیں رکھی ہیں کہ جو کوشش کرے ان سے سونا چاندی نکال لے اسی طرح اس نے قرآن کو بنایا ہے اور یہ امر ایک خوبی اور خدائی کلام کی اعلیٰ صفت ہے نہ کہ کوئی نقص.میں نے دیکھا اور تجربہ سے معلوم کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ جو ایک چھوٹی سی صورت ہے اس کے معنی کبھی ختم نہیں ہوتے.پس اس سے خدا کے کلام پر اعتراض نہیں پڑتا بلکہ اس کی خوبی ظاہر ہوتی ہے.ہر شخص اپنی عقل اور اپنی ہمت کے مطابق معنی نکالتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھا تا اور دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے.پس جو اختلاف کہ ذاتی فوائد و اغراض کے ماتحت نہیں کئے جاتے یا جہالت یا قلت تدبر کی وجہ سے نہیں ہوتے وہ اصول میں سے نہیں بلکہ فروعات میں سے ہوتے ہیں اور امت کے لئے فائدہ کا باعث ہیں کیونکہ ان پر لوگوں کو غور وفکر کرنے کا موقع ملتا ہے.پھر قرآن کریم کی آیات کے ذومعانی ہونے کی یہ بھی وجہ ہے کہ یہی کتاب ادنی درجہ کے مؤمنوں کے لئے بھی ہے اور اعلیٰ درجہ کے مؤمنوں کے لئے بھی.معمولی لیاقت کے لوگوں کے لئے بھی اور اعلیٰ روحانی مقامات پر پہنچنے
۸۰ والوں کے لئے بھی.پس الفاظ ایسے رکھے گئے ہیں کہ ہر علم کا آدمی اس سے اپنے درجہ کے مطابق مستفیض ہو سکے اور اس کا کوئی حصہ بھی کسی جماعت کے لئے بے فائدہ یا نا قابل فہم نہ ہو.یہی چھوٹی سی کتاب ہے جسے ایک معمولی سے معمولی مؤمن بھی پڑھتا تھا اور رسول کریم بھی.اگر یہ خوبی نہ ہوتی تو یا اس معمولی مؤمن کی سمجھ کے قابل بات اس میں نہ ہوتی یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو زیادہ کرنے والی بات کوئی نہ ہوتی.گویا کلام ایک ہی ہے الفاظ ایک ہی ہیں لیکن ان کو ایسے رنگ میں جوڑا گیا ہے کہ جتنی جتنی کسی کی سمجھ اور عقل ہو اس کے مطابق وہ ان سے معنی نکال لے اور اس کلام کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں کم درجہ کی عقل والوں کی سمجھ میں آنے والی باتیں نہیں ہیں اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ادنی درجہ کے لوگوں کے متعلق تعلیم ہے اعلیٰ رُوحانی درجہ رکھنے والے ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے بلکہ اس کا ہر ہر لفظ دونوں جماعتوں کے لئے ہے.ہر اختلاف رحمت نہیں اس پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ مانا کہ اختلاف رحمت ہوتا ہے مگر اسلام میں ایسے جھگڑے اور اختلاف بھی تو ہیں جو رحمت کا موجب نہیں بلکہ دُکھ کا موجب ہیں.مثلاً اونچی اور نیچی آمین کہنے پر ایک دوسرے کو پتھر بھی مارتے ہیں ، مقدمے بھی چلتے ہیں.پھر یہ اختلاف رحمت کس طرح ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک جب انسان گندے ہو جائیں تو ان کی ایسی ہی حالت ہو جاتی ہے کہ فروعی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں مگر جب کبھی مسلمانوں کی ایسی حالت
Al ہوتی رہی ہے تو خدا تعالیٰ کسی انسان کو بھیج دیتا رہا ہے جو ان کو حقیقت کی طرف لاتا رہا ہے.چنانچہ مسلمان اس زمانہ میں بھی ایسی باتوں پر لڑنے جھگڑنے لگے اور نہ سمجھا کہ اس قسم کا اختلاف رحمت نہیں بلکہ عذاب اور دُکھ کا موجب ہے تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بھیج دیا اور آپ نے ایک فقرہ میں ان سب جھگڑوں کو حل کر دیا.چنانچہ دیکھ لو ہماری جماعت میں ان امور پر کوئی اختلاف نہیں غرض بعض باتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک صورت ادنی درجہ والوں کے لئے ہے ایک اعلیٰ درجہ والوں کے لئے.اور بعض ایسی ہیں جن کی دونوں صورتیں درست ہیں.مثلاً آمین اونچی کہنی بھی جائز ہے اور نیچی بھی.ہاتھ اوپر باندھے جائیں یا نیچے دونوں طرح جائز ہے.اس طرح سب باتوں کا فیصلہ ہو گیا اور کوئی جھگڑا نہ رہا.مشاہدہ کی دلیل پر اعتراض اور اس کا جواب میں نے جو یہ بتایا ہے کہ جس انسان کو خدا کا مشاہدہ ہو جائے خدا کا کلام سنے وہ کس طرح انکار کر سکتا ہے کہ خدا نہیں ہے.اس پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ مشاہدہ کی دلیل ہر جگہ درست طور پر نہیں چل سکتی.مثلاً شعبدہ باز بظاہر روپیہ بنا کر دکھا دیتا ہے دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اس نے روپیہ بنا دیا ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا کہ اس نے کسی منتر سے روپیہ بنایا ہو اسی طرح کیوں نہ سمجھا جائے کہ اس مشاہدہ میں بھی کوئی دھوکا ہی ہوتا ہو انسان خیال کرتا ہو کہ اسے مشاہدہ یا مکالمہ حاصل ہوا ہے اور فی الواقع کچھ بھی نہ ہو.
AN هستی باری تعالیٰ ہم کہتے ہیں مشاہدے دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن میں غلطی لگ سکتی ہے دوسرا وہ جن میں غلطی لگنے کا امکان نہیں ہوتا.ایک مشاہدہ تو یہ ہے کہ مثلا کوئی شخص دور سے ایک شکل دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ فلاں شخص ہے لیکن ایک اور شخص اسے ملتا ہے جو بتاتا ہے کہ وہ اس شخص کو کسی اور جگہ پر دیکھ کر آیا ہے اس وقت اس شخص کی بات قبول کی جاتی ہے جو قریب سے دیکھ کر آیا ہے اور اس کی رد کر دی جاتی ہے جس نے دور سے دیکھا تھا.اس لئے نہیں کہ مشاہدہ مشتبہ شئے ہے بلکہ اس لئے کہ خود مشاہدوں کے مختلف درجے ہیں اور پہلے شخص کے مشاہدہ کے مقابلہ میں دوسرے شخص کا قریب کا مشاہدہ جب پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پہلے مشاہدہ میں غلطی لگ گئی تھی لیکن ایک مشاہدہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً ایک شخص مجھ سے باتیں کرے اور اس وقت لوگ بھی موجود ہوں اور وہ بھی اس امر پر شاہد ہوں کہ ہاں فی الواقع اس نے مجھ سے باتیں کی ہیں اس کے بعد کوئی شخص مجھے آکر کہے کہ میں نے تو اسے لاہور میں دیکھا ہے.تو اس صورت میں مجھے اپنے مشاہدہ کے متعلق کوئی شبہ نہ ہوگا بلکہ میں اس شخص کی نسبت یہی یقین کروں گا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے یا غلطی خوردہ ہے.اسی طرح شعبدہ باز اگر اپنی ہتھیلی پر روپیہ بنانے کی بجائے میری تھیلی پر روپیہ بنائے تو اس کے رو پیر بنانے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ تو اپنی ہی تھیلی پر روپیہ بناتا ہے جس کی نسبت یقین کیا جا سکتا ہے کہ اس نے کسی نہ کسی جگہ روپیہ چھپا کر رکھا ہو اہوگا پس شعبدہ باز کی شعبدہ بازی مشاہدہ نہیں کہلا سکتی مگر خدا کے کلام میں ایسا شبہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ تو پر شوکت آواز میں یا من وراء حجاب تعبیر طلب خوابوں کے ذریعہ سے ایک نہیں دو نہیں، سینکڑوں بندوں سے کلام کرتا ہے.
۸۳ کیا خدا کا مشاہدہ کر نیوالوں کے حواس غلطی تو نہیں کرتے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ خدا کے مشاہدہ کا اعلان کرتے ہیں ممکن ہے ان کے حواس کی غلطی ہو اور وہ پاگل ہوں یا دھوکا خوردہ مگر ہم کہتے ہیں یہ کیسا پاگل پن ہے کہ اس قسم کے کلام پانے والے سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ ایک زبر دست ہستی ہے جو ہم سے کلام کرتی ہے کبھی پاگلوں میں بھی اس قسم کا اتفاق ہوا کرتا ہے؟ پاگل تو دو بھی ایک بات نہیں کہتے کجا یہ کہ سینکڑوں و ہزاروں لوگ ایسی بات کہیں ان میں سے کتنوں کے متعلق کہو گے کہ ان کے دماغ خراب ہو گئے اس لئے یہ شبہ بالکل غلط ہے.صفت مجیب خدا کی ہستی کا ثبوت تیسری مثال کے طور پر میں خدا تعالیٰ کی صفت مجیب کو بیان کرتا ہوں.جس قدر لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے کے مدعی گزرے ہیں سب کہتے چلے آئے ہیں کہ خدا مجیب ہے دُعاؤں کو قبول کرتا ہے.اب اگر تجربہ سے ثابت ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ کوئی دُعاؤں کو قبول کرنے والی ہستی موجود ہے تو خدا تعالیٰ کے وجود میں کوئی شبہ نہیں رہتا بلکہ اس امر میں بھی کہ وہ سمیع اور مجیب ہے.سمیع تو اس طرح کہ بندہ کہتا ہے اور وہ سنتا ہے اور مجیب اس طرح کہ بندہ کی عرض قبول کرتا ہے.اس صفت کے ثبوت کے طور پر میں دُعاؤں کی قبولیت کو پیش کرتا ہوں.کس کس رنگ میں انسان دُعا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کس کس طرح اس کے لئے ناممکن کو ممکن کر کے دکھا دیتا ہے.یہ
ایک ایسا حیرت انگیز مشاہدہ ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کا انکار ایک قسم کا جنون ہی معلوم دیتا ہے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کی قبولیت کے ایسے نشان دیکھے ہیں کہ ان کے دیکھنے کے بعد خدا تعالیٰ کے وجود میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا پھر خود اپنی ذات میں بھی اس نشان کا مشاہدہ کیا ہے اور بارہا حیرت انگیز ذرائع سے دعاؤں کو قبول ہوتے دیکھا ہے.نواب محمد علی خان صاحب کے صاحبزادے میاں عبد الرحیم خان صاحب کے واقعہ کو ہی دیکھ لو وہ ایک دفعہ ایسے بیمار ہوئے کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اب یہ بچ نہیں سکتے.حضرت صاحب نے دُعا کی کہ خدا یا اگر اس کی موت آ چکی ہے تو میں اس کی شفاعت کرتا ہوں تب خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر اس کی شفاعت کر سکے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ بات سن کر مجھ پر استقدر رُعب طاری ہوا کہ گو یا جسم میں سے جان نکل گئی اور میں ایک مردے کی طرح جا پڑا اور پھر الہام ہوا کہ اچھا تم کو اجازت دی جاتی ہے چنانچہ آپ نے پھر دُعا کی اور وہ قبول ہوگئی.آپ نے اسی وقت باہر نکل کر یہ بات لوگوں کو سنا دی اور میاں عبدالرحیم خان جن کی نسبت ڈاکٹر اور حکیم کہہ چکے تھے کہ اب ان کی آخری گھڑیاں ہیں اسی وقت سے اچھے ہونے لگ گئے اور اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں اور اس وقت ولایت تعلیم کے لئے گئے ہوئے ہیں.( نظر ثانی کے وقت وہ خدا کے فضل سے بیرسٹری کے امتحان میں کامیاب ہو چکے ہیں ).غرض دُعا ئیں ایسے رنگ میں قبول ہوتی ہیں کہ جو امور ناممکنات میں سے سمجھے جاتے ہیں؟ ماننا پڑتا ہے کہ کسی بالا ہستی کی قضاء کے ماتحت ان کی قبولیت وقوع میں آتی ہے.تذکره صفحه ۴۹۶،۴۹۵ایڈیشن چهارم
۸۵ قبولیت دعا پر اعتراض اور اس کا جواب دُعاؤں کی قبولیت کے متعلق یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہم یہ کیوں نہ سمجھیں کہ جن باتوں کو دعاؤں کی قبولیت کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے وہ اتفاق ہو جاتی ہیں ہم کہتے ہیں یہ اعتراض معقول ہے.بعض غیر معمولی واقعات اتفاقا بھی ہو جایا کرتے ہیں لیکن دُعاؤں کی قبولیت کے ساتھ بعض امور متعلق ہیں جن کی موجودگی میں نہیں کہہ سکتے کہ جو نتائج پیدا ہوئے ہیں وہ اتفاقاً ہوئے ہیں اول تو یہ کہ دُعاؤں کے ساتھ ساتھ واقعات میں تبدیلی ہوتی جاتی ہے جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تبدیلی اتفاقی نہیں بلکہ کسی ارادہ کے ماتحت ہو رہی ہے.دوسرے یہ کہ ایسے امور بھی دعاؤں کے ذریعہ سے پورے ہوتے ہیں کہ بغیر دُعا کے اتفاقاً بھی وہ نہیں ہوتے.تیسرے یہ کہ اس کثرت سے دُعاؤں کے ذریعہ سے غیر معمولی حالات پیدا ہوتے ہیں کہ اس کثرت کی موجودگی میں اتفاق کا لفظ بولا ہی نہیں جاسکتا.چوتھے یہ کہ دعا کرنے والے کو بسا اوقات قبل از وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہوگئی ہے خواہ بذریعہ الہام خواہ بطور القاء کہ اس قبل از وقت علم کے بعد اس کا نام اتفاق رکھنا بالکل درست نہیں.غرض قبولیت دعا کے نظارے ایسے طور پر دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں اتفاق کا شبہ تک بھی پیدا نہیں ہوسکتا.صفت حفیظ خدا کی ہستی کا ثبوت چوتھی مثال میں خدا تعالیٰ کی صفت حفیظ کی پیش کرتا ہوں.تمام نبیوں نے شہادت دی ہے کہ خدا حفیظ ہے.اب آؤ دیکھیں کہ کیا کوئی حفیظ ہستی ہے جو قانون قدرت کے
AY علاوہ حفاظت کرتی ہے.اگر کوئی ایسی ہستی ثابت ہو جائے تو ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ موجود ہے.میں اس صفت کے ثبوت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو پیش کرتا ہوں.مکہ والوں نے آپ کو مارنا چاہا خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر اطلاع دی اور فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ آپ وہاں سے روانہ ہو گئے لیکن بعض مصالح کی وجہ سے راستہ میں ٹھہر نا پڑا.قریب کے پہاڑ کی ایک غار میں جس کا منہ چند فٹ مربع ہے اور جسے غار ثور کہتے ہیں آپ ٹھہر گئے مکہ والے تلاش کرتے کرتے اس جگہ تک جا پہنچے.عربوں میں کھوج لگانے کا علم بڑا یقینی تھا اور یہ ان کے لئے ضروری تھا کیونکہ وہ جنگی لوگ تھے اگر اس کے ذریعہ اپنے دشمنوں کا پتہ نہ لگا یا کرتے تو تباہ ہو جاتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں بھی کھو جی لگائے گئے اور وہی پتہ لگاتے ہوئے اس غار تک مکہ والوں کو لے آئے وہاں آکر انہوں نے کہا کہ یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) یہاں ہے یا پھر آسمان پر چڑھ گیا ہے اس سے آگے نہیں گیا.جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو نیچے آپ بھی سن رہے تھے.حضرت ابوبکر کو ڈر پیدا ہوا کہ میں اکیلا کیا کر سکوں گا ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ خدا کے رسول کو پکڑ لیں لیکن جس شخص سے متعلق آپ ڈر رہے تھے اور جو شخص حقیقتا مکہ والوں کو مطلوب تھا وہ اس خوف کے وقت میں فرماتا ہے لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا.غم نہ کھا خدا ہمارے ساتھ ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ کھوجی جن کی بات پر ان لوگوں کو بہت ہی یقین ہوتا تھا وہ کہتے ہیں کہ آپ اس جگہ آئے ہیں مگر کوئی آگے بڑھ کر غار کے اندر نہیں جھانکتا اور یہ کہہ کر کہ یہاں ان کا ہونا ناممکن ہے سب لوگ واپس چلے جاتے ہیں.میں جب مکہ گیا تھا تو اس غار کو دیکھنے کے لئے بھی گیا تھا لیکن او پر چڑھتے ہوئے بخاری کتاب التفسیر باب ثانی اثنین اذهما في الغار + دلائل النبوة اللبيب بقى جلد ۲ صفحه ۴۷۸ مطبوعہ بیروت
۸۷ میرا سانس پھول گیا اور میں وہاں تک نہ جا سکا دوسرے آدمی کو بھیجا کہ جا کر دیکھ آئے.اس نے آکر بتایا کہ اس غار کا منہ اچھا چوڑا ہے ایک چارپائی کے قریب ہے لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ ہر اک بات اس کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ آپ اس غار میں ہیں اور وہ لوگ اس قدر جوش سے آپ کی تلاش میں آئے تھے مگر با وجود آپ کی گرفتاری کی دلی خواہش کے اور واقعات کے آپ کے وہاں موجود ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے ان کو اس قدر توفیق نہ ملی کہ ذرا جھک کر غار میں دیکھ لیتے.ان کے سامنے کوئی توپ نہیں تھی جس کا انہیں ڈر ہوسکتا تھا نہ کوئی اور روک اور مشکل تھی.لیکن ان میں سے کوئی بھی غار کو نہیں دیکھتا اور سارے واپس چلے جاتے ہیں.آپ کے ان الله معنا کہنے کے بعد ان لوگوں کا اس طرح خائب و خاسر چلے جانا کیا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک زبر دست طاقت کی حفاظت میں تھے.ایک مثال حفاظت الہی کی میں حضرت مسیح موعود کی زندگی میں سے بھی پیش کرتا ہوں.کنورسین صاحب جو لاء کالج لاہور کے پرنسپل ہیں ان کے والد صاحب سے حضرت صاحب کو بڑا تعلق تھا حتی کہ حضرت مسیح موعود کو بھی روپیہ کی ضرورت ہوتی تو بعض دفعہ ان سے قرض بھی لے لیا کرتے تھے ان کو بھی حضرت صاحب سے بڑا اخلاص تھا.جہلم کے مقدمہ میں انہوں نے اپنے بیٹے کو تار دی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے وکالت کریں.اس اخلاص کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایام جوانی میں جب وہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع چند اور دوستوں کے سیالکوٹ میں اکٹھے رہتے تھے حضرت مسیح موعود کے کئی نشانات دیکھے تھے.چنانچہ ان نشانات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک رات آپ
٨٨ دوستوں سمیت سور ہے تھے کہ آپ کی آنکھ کھلی اور دل میں ڈالا گیا کہ مکان خطرہ میں ہے آپ نے سب دوستوں کو جگایا اور کہا کہ مکان خطرہ میں ہے اس میں سے نکل چلنا چاہئے.سب دوستوں نے نیند کی وجہ سے پرواہ نہ کی اور یہ کہ کر سو گئے کہ آپ کو وہم ہو گیا ہے مگر آپ کا احساس برابر ترقی کرتا چلا گیا آخر آپ نے پھر انکو جگایا اور توجہ دلائی کہ چھت میں سے چرچراہٹ کی آواز آتی ہے مکان کو خالی کر دینا چاہئے انہوں نے کہا معمولی بات ہے ایسی آواز بعض جگہ لکڑی میں کیڑا لگ جانے سے آیا ہی کرتی ہے.آپ ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہیں مگر آپ نے اصرار کر کے کہا کہ اچھا آپ لوگ میری بات مان کر ہی نکل چلیں آخر مجبور ہو کر وہ لوگ نکلنے پر رضامند ہوئے.حضرت صاحب کو چونکہ یقین تھا که خدا میری حفاظت کے لئے مکان کے گرنے کو روکے ہوئے ہے.اس لئے آپ نے انہیں کہا کہ پہلے تم نکلو پیچھے میں نکلوں گا.جب وہ نکل گئے اور بعد میں حضرت صاحب نکلے تو آپ نے ابھی ایک ہی قدم سیڑھی پر رکھا تھا کہ چھت گر گئی.دیکھو آپ انجنیئر نہ تھے کہ چھت کی حالت کو دیکھ کر سمجھ لیا ہو کہ گرنے والی ہے نہ چھت کی حالت اس قسم کی تھی نہ آواز ایسی تھی کہ ہر اک شخص اندازہ لگا سکے کہ یہ گرنے کو تیار ہے.علاوہ ازیں جب تک آپ اصرار کر کے لوگوں کو اُٹھاتے رہے اس وقت تک چھت اپنی جگہ پر قائم رہی اور جب تک آپ نہ نکل گئے تب تک بھی نہ گری مگر جو نہی کہ آپ نے پاؤں اُٹھایا چھت زمین پر آگری.یہ امر ثابت کرتا ہے کہ یہ بات کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اس مکان کو حفیظ ہستی اس وقت تک روکے رہی جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی حفاظت اس کے مدنظر تھی اس مکان سے نہ نکل آئے.پس صفت حفیظ کا وجود ایک بالا رادہ ہستی پر شاہد ہے اور اس کا ایک زندہ گواہ ہے.
۸۹ صفت القیت خدا کی ہستی کا ثبوت پانچویں مثال کے طور پر میں صفت خلق کو بیان کرتا ہوں.یہ بات واضح ہے کہ اگر تمام تخلیق کے علاوہ جو دنیا میں ایک مقررہ قاعدہ کے ماتحت ہو رہی ہے ایک خاص تخلیق بھی ثابت ہو جائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی قدرت میں ہے کہ جو چاہے پیدا کرے اور یہ خدا تعالیٰ کے موجود ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہوگا.اس صفت کے ثبوت کے طور پر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.آپ ایک دفعہ کہیں جارہے تھے کہ آپ کے ساتھیوں کے پاس جو پانی تھاوہ ختم ہو گیا.اتنے میں آپ نے دیکھا کہ ایک عورت پانی لئے جارہی ہے.آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہاں سے پانی کتنے فاصلہ پر ہے؟ اس نے کہا تین منزل پر چونکہ ایک لشکر آپ کے ساتھ تھا اور پانی ختم ہو چکا تھا آپ نے اس سے پانی کا مشکیزہ لے لیا اور اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر لوگوں کو پانی دے دیا اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت دی کہ سب کی ضرورت بھی پوری ہوگئی اور اس عورت کے لئے بھی پانی بیچ رہا یہ ایک زبر دست نشان صفت خالقیت کے ثبوت میں ہے اور اس واقعہ کے بچے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب اس واقعہ کو اس کی قوم نے معلوم کیا تو وہ سب کی سب مسلمان ہو گئی.ایک ایسا واقعہ جس پر قوم کی قوم مذہب تبدیل کرلے.راویوں کے ذہن کی بناوٹ نہیں کہلا سکتا.اگر کوئی کہے کہ یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں بنا لیا گیا ہے تو میں کہتا ہوں کہ اس قسم کی تازہ مثالیں بھی موجود ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود کا ہی ایک واقعہ ہے جس کے گواہ بھی زندہ موجود ہیں اور وہ یہ کہ حضرت حب ایک دفعہ سوئے ہوئے تھے.مولوی عبد اللہ صاحب سنوری آپ کے پاؤں دبا بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام
۹۰ رہے تھے.انہوں نے پاؤں دباتے دباتے دیکھا کہ کوئی تیلی تیلی چیز آپ کے پاؤں پر گری ہے.ہاتھ لگا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ گیلا سرخ رنگ ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں حیران ہوا کہ یہ کیا چیز ہے اور یہ خیال کر کے کہ شاید چھپکلی وغیرہ کا خون ہو میں نے چھت کی طرف جو دیکھا تو وہ بالکل صاف تھی اور اس پر چھپکلی کا کوئی نشان نہ تھا پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ٹوپی کو دیکھا تو اس پر بھی کچھ چھینٹے تھے حضرت مسیح موعود اس وقت کسی قدر بیدار ہوئے اور آنکھیں کھولیں تو آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میں نے دیکھا کہ آپ کے گرتے پر بھی کئی چھینٹے ویسے ہی سُرخ رنگ کے پڑے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا کہ یه نشان تازہ بتازہ پڑے ہیں یہ کیسے ہیں؟ پہلے تو آپ نے فرمایا کسی طرح نشان پڑ گئے ہوں گے.مگر جب میں نے زور دیا کہ حضور یہ تو میرے دیکھتے ہوئے پڑے ہیں اور تازہ ہیں تو پھر آپ نے سنایا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بطور جج کے بیٹھا ہے اور میں ریڈر کے طور پر سامنے کھڑا ہوں اور کچھ کاغذات دستخطوں کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں.اللہ تعالی نے سرخی کی دوات میں قلم ڈبوئی اور قلم کو چھڑ کا جس کے چھینٹے میرے کپڑوں پر گرے اور اس کا اثر ظاہر میں بھی ظاہر ہو گیا یہ خواب تفصیل سے آپ کی کتب میں موجود ہے.اب دیکھو یہ خلق ہے یا نہیں؟ وہ سرخی اگر خدا نے پیدا نہیں کی تھی تو کہاں سے آئی تھی؟ غرض اب بھی صفت خلق کے ماتحت نشان دکھائے جا رہے ہیں مگر اس کے نظائر مؤمنوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں.خود میرا اپنا ایک مشاہدہ ہے.ایک دفعہ میں سورہا تھا میں نے سوتے سوتے دیکھا کہ میرے منہ میں مشک ڈالی گئی ہے.جب میں اُٹھا تو منہ سے مشک کی خوشبو آ رہی تھی میں نے سمجھا شاید خواب کا اثر ہے اور گھر والوں کو کہا کہ میرا منہ سونگھو انہوں نے بھی بتایا مفہوما تذکرہ صفحہ ۱۲۶- ۱۲۷ ایڈیشن چہارم
۹۱ کہ مشک کی خوشبو آتی ہے.یہ ایک قسم کی نئی پیدائش ہی تھی جو خدا کی صفت خالقیت کے ماتحت ہوئی.شاید بعض لوگ کہیں کہ اس قسم کی باتیں خدا کے ماننے والے ہی کہتے ہیں ان کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ماننے والوں کی باتیں بھی مانی ہی پڑتی ہیں.اگر راستباز سمجھدار آدمی جن کو جھوٹ بول کر کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہوا ایسے امور کی شہادت دیں تو کیا وجہ ہے کہ ان کی شہادت کو قبول نہ کیا جائے اور اس قسم کی شہادتیں مؤمن ہی دے سکتے ہیں کیونکہ ایسے واضح نشانات مؤمنوں کو ہی دکھائے جاتے ہیں کیونکہ اگر نہ ماننے والوں کو بھی ایسے نشانات دکھائے جائیں تو پھر ان کا ایمان لانا کوئی خوبی نہیں رہ سکتا اور ان کا ایمان بے فائدہ ہو جاتا ہے.سورج کو دیکھ کر اسے ماننے پر کسی انعام کا انسان امید وار نہیں ہوسکتا.اسی طرح ایسے شواہد غیر مؤمن دیکھیں تو ان کے ایمان بے نفع ہو جائیں پس یہ نظارے ایمان کے بعد ہی دکھائے جاتے ہیں.صفت شافی کی شہادت چھٹی مثال کے طور پر میں خدا تعالیٰ کی صفت شفاء کو پیش کرتا ہوں.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ بعض مریض ایسے طریق پر اچھے ہوتے ہیں جو طبعی طریقوں کے علاوہ ہیں یا ایسے مریض اچھے ہوتے ہیں جو عام طور پر اچھے نہیں ہو سکتے تو ماننا پڑیگا کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جس کے اختیار میں شفاء ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے اس اختیار کو استعمال بھی کرتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر شفاء بعض مریضوں کوملتی ہے بغیر اس کے کہ طبعی ذرائع استعمال ہوں یا ان
۹۴ موقعوں پر شفاء ملتی ہے کہ جب طبعی ذرائع مفید نہیں ہوا کرتے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات میں سے اس قسم کی شفاء کی ایک مثال جنگ خیبر کے وقت ملتی ہے.خیبر کی جنگ کے دوران میں ایک دن آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ خیبر کی فتح اس شخص کے لئے مقدر ہے جس کے ہاتھ میں میں جھنڈا دونگا.حضرت عمررؓ فرماتے ہیں جب وہ وقت آیا تو میں نے گردن اونچی کر کر کے دیکھنا شروع کیا کہ شاید مجھے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھنڈا دیں مگر آپ نے انہیں اس کام کے لئے مقرر نہ فرمایا.اتنے میں حضرت علی آئے اور ان کی آنکھیں سخت دُکھ رہی تھیں آپ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور آنکھیں فوڑا اچھی ہو گئیں اور آپ نے ان کے ہاتھ میں جھنڈا دیکر خیبر کی فتح کا کام ان کے سپر د کیا.( بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے سارے واقعات چونکہ محفوظ نہیں.اس لئے اس قسم کی زیادہ مثالیں اب نہیں مل سکتیں ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ سینکڑوں ہزاروں مثالیں آپ کی زندگی میں مل سکتی ہوں گی.مگر حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جبکہ دہریت کا بہت زور ہے اور اس کے توڑنے کے لئے آسمانی نشانوں کی حد درجہ کی ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے بہت سے نشانات اس قسم کے دکھائے ہیں جن پر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کا قیاس کر سکتے ہیں.مثال کے طور پر میں ایک صاحب عبد الکریم نامی کا واقعہ پیش کرتا ہوں.وہ قادیان میں سکول میں پڑھا کرتے تھے انہیں اتفاقاً باؤلے کتے نے کاٹ کھایا اس پر انہیں علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا اور علاج ان کا بظاہر کامیاب رہا لیکن واپس آنے کے کچھ دن بعد انہیں بیماری کا دورہ ہو گیا.جس پر کسولی تار دی گئی کہ کوئی علاج بتایا جائے ؟ مگر جواب آیا: "NOTHING CAN BE DONE FOR ABDUL KARIM"
۹۳ افسوس ہے کہ عبد الکریم کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود کو ان کی بیماری کی اطلاع دی گئی چونکہ سلسلہ کی ابتداء تھی اور یہ صاحب بہت دور دراز سے علاقہ حیدر آباد دکن کے ایک گاؤں سے بغرض تعلیم آئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت ہمدردی پیدا ہوئی اور آپ نے ان کی شفاء کے لئے خاص طور پر دُعا فرمائی اور فرمایا کہ اس قدر دور سے یہ آئے ہیں جی نہیں چاہتا کہ اس طرح ان کی موت ہو.اس دعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دورہ ہو جانے کے بعد شفاء دیدی.حالانکہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اس قسم کے مریض کو کبھی شفاء نہیں ملی.میرے ایک عزیز ڈاکٹر ہیں انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ ہستی باری پر ایک دوسرے طالب علم سے گفتگو کر رہے تھے دوران گفتگو میں انہوں نے یہی واقعہ بطور شہادت کے پیش کیا.اس طالب علم نے کہا کہ ایسے مریض بچ سکتے ہیں یہ کوئی عجیب بات نہیں وہ کہتے ہیں کہ اتفاقاً اسی دن کالج میں پروفیسر کا لیکچر سگ گزیدہ کی حالت پر تھا.جب پروفیسر لیکچر کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے اس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اس مرض کا علاج دورہ ہونے سے پہلے کرنا چاہئے اور بہت جلد اس طرف توجہ کرنی چاہئے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بات کو واضح کرانے کے لئے کہا کہ جناب بعض لوگ کہتے ہیں کہ دورہ پڑ جانے کے بعد بھی مریض اچھا ہو سکتا ہے.اس پر پروفیسر نے جھڑک کر کہا کہ کبھی نہیں جو کہتا ہے وہ بیوقوف ہے.غرض یہ ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا ہے مگر حضرت مسیح موعود کی دُعا سے اللہ تعالیٰ نے میاں عبد الکریم کو شفاء دی اور وہ خدا کے فضل سے اب تک زندہ ہیں.پس ثابت ہوا کہ اس طبعی قانون کے اوپر ایک ہستی حاکم ہے جس تمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۸۱٬۴۸۰
۹۴۴ کے ہاتھ میں شفاء دینے کی طاقت ہے.صفت عالم الغيب ساتویں مثال کے طور پر میں صفت عالم الغیب کو پیش کرتا ہوں.اس میں کیا شک ہے کہ اگر انسان کو بلا ظاہری تدابیر کے ایسے علوم پر آگاہی حاصل ہونے لگے جن کا جاننا انسان کے لئے ناممکن ہے تو ماننا پڑے گا کہ ایک عالم الغیب خدا موجود ہے.جس کی طرف سے اپنے خاص بندوں کو خاص علم دیا جا تا ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کیوں نہ مانا جائے کہ ایسے لوگوں کو علم غیب معلوم کرنے کا کوئی طریق معلوم ہو گیا ہے وہ اسی طریق کے ذریعہ سے علم غیب معلوم کر کے ایک و ہمیں خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر یہی بات ہوتی کہ ان لوگوں کو کوئی خاص طریق معلوم ہو گیا ہوتا تو وہ کیوں اس کے ذریعہ سے اپنی بڑائی نہ منواتے اور کیوں خواہ مخواہ اس علم کو کسی اور ہستی کی طرف منسوب کرتے اور ساتھ ہی اپنی کمزوری اور اس کی طاقت کا اظہار کرتے رہتے اور اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں پیچ اور ذلیل قرار دیتے.دیکھو مشہور موجد ایڈیسن جب کوئی ایجاد کرتا ہے تو کیا وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے کسی جن نے یا بالا طاقت نے یہ بات بتائی ہے یا جو اور موجد ہیں وہ کبھی ایسا کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں شخص نے یہ ایجاد کر کے دی ہے بلکہ موجد تو یہی کہتے ہیں کہ ہم نے خود ایجاد کی ہے اس لئے ہماری قدر کرو لیکن علم غیب کے ظاہر کرنے والے تو سب کے سب کہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں خدا ہی ہمیں سب کچھ بتا تا ہے اور اس کے کہنے کے مطابق ہم کہتے ہیں.
۹۵ دوسرے یہ کہ اگر یہ ان کا کسی علم ہوتا تو وہ اپنی اولاد کو آگے یہ علم کیوں نہ سکھا جاتے مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ ان کی اولا د اکثر اوقات ان کی طرح خدا سے غیب پانے والی نہیں ہوتی یا اس حد تک نہیں ہوتی.پس یہ اعتراض بالکل وہم اور بیہودہ ہے.اب میں علم غیب کی چند مثالیں پیش کر کے بتاتا ہوں کہ کس طرح ان سے ایک عالم الغیب ہستی کا ثبوت ملتا ہے.پہلی مثال تو حضرت مسیح موعود کی وہ پیشگوئی ہے جو آپ نے جنگ عظیم کے متعلق فرمائی.جنگ سے نو سال پہلے آپ نے یہ خبر شائع کر دی تھی کہ ایک عالمگیر تباہی دُنیا میں آنے والی ہے جس میں زار روس تباہ ہوگا اور سخت تکلیف اور دُکھ دیکھے گا.اس پیشگوئی میں بہت کی پیشگوئیاں مخفی ہیں.اول یہ کہ ایک عظیم الشان جنگ ہونے والی ہے جو عالمگیر ہوگی.دوسرے یہ کہ زار روس اس وقت تک باوجود ملک میں عام بغاوتوں کے پائے جانے کے اپنی ملک کی حکومت پر قابض رہے گا.تیسرے یہ کہ اس عالمگیر جنگ میں زار روس بھی حصہ لے گا.چوتھے یہ کہ اس کے دوران میں ایسے سامان پیدا ہوں گے کہ اس کی حکومت جاتی رہے گی.پانچویں یہ کہ وہ اس وقت مارا نہیں جائے گا بلکہ زندہ رہے گا اور اپنی مصیبت اور ذلت کو دیکھے گا جو معمولی نہ ہوگی بلکہ کامل ذلت ہوگی.اب دیکھو کہ نو سال کے بعد جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت بھی ہو چکے تھے یہ پیشگوئی کس زور سے پوری ہوئی.ایک ایک بات اسی طرح واقع میں آئی جس طرح کہ آپ نے بیان فرمائی تھی.یہ کیسا زبردست نشان ہے.اگر کوئی ذرا بھی سوچے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ نشان ایک علیم ہستی کے وجود پر زبردست شہادت ہے.روس کے بادشاہ کی کتنی بڑی طاقت تھی مگر اچانک ایسے حالات پیدا ہو گئے اور وہ اس طرح ذلیل ہوا کہ پتھر سے پتھر دل کو اس کے حالات سُن کر رحم آ جاتا ہے.جب وہ معزول ہوا اس وقت وہ خود فوج کی کمانڈ
۹۶ کر رہا تھا.اسے دار السلطنت سے تارگئی کہ پیچھے ملک میں فساد ہو گیا ہے اس نے جواب دیا کہ لوگوں کو سمجھاؤ گورنر نے تار دی کہ لوگ سمجھانے سے نہیں باز آتے.اس نے جواب میں تار دی کہ سختی کرو اس پر گورنر کی تار آئی کہ سختی سے اور بھی جوش بڑھ رہا ہے.اس پر زار نے جواب دیا کہ اچھا میں خود آتا ہوں.راستہ میں پھر تار ملی کہ فساد بڑھ رہا ہے.زار نے جوابًا پہلے گورنر کو بدل کر دوسرے گورنر کے مقرر کئے جانے کی ہدایت بھیجی.ابھی راستہ میں ہی تھا کہ اور تار لی کہ حالت بہت نازک ہو گئی ہے اور آپ کا آنا مناسب نہیں مگر اس نے جواب دیا کہ نہیں میں آؤں گا.ابھی تھوڑی ہی دور ریل چلی تھی کہ پھر تار ملی کہ بغاوت عام ہو گئی ہے مگر اس وقت بھی اسے یہی خیال تھا کہ میں جا کر سب کو سیدھا کرلوں گا اور اس نے ریل کو آگے لے جانے کا حکم دیا ابھی دو چار گھنٹے کا سفر طے کیا تھا کہ ایک سٹیشن پر اس کی ریل ٹھہرالی گئی اور نئی حکومت کی طرف سے اس کی گرفتاری کے وارنٹ لیکر لوگ آپہنچے اور اسے گرفتار کر لیا وہ ایک زبر دست بادشاہ کی حیثیت میں ریل پر چڑھا تھا.ہاں ایسے زبر دست بادشاہ کی حیثیت میں کہ انگریزی حکومت بھی باوجود اپنی وسعت کے اس سے ڈرتی تھی لیکن ابھی اس کا سفر ختم نہ ہوا تھا کہ اسی گاڑی میں ایک معمولی قیدی کی حیثیت میں قید کیا گیا.اس کے بعد اسے جس طرح دُکھ دیئے گئے وہ نہایت ہی درد ناک ہیں غنڈوں نے اس کے سامنے اس کی لڑکیوں سے زنا بالجبر کیا اور اس کو مجبور کر کے یہ حرکات دکھاتے رہے اس سے اندازہ کرلو کہ زار کا حال کیسا حال زار ہوا اور کس طرح حضرت مسیح موعود کی یہ پیشگوئی کہ زار بھی ہو گا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار ہیبت ناک طور سے پوری ہوئی.اس صفت کے متعلق ایک چھوٹا سا تجربہ اپنا بھی سنا دیتا ہوں.ہماری جماعت کے ایک ڈاکٹر ہیں ان سے متعلق خبر آئی کہ وہ بصرہ کی طرف مارے گئے ہیں.اس خبر کے آنے تذکره صفحه ۵۴۰ ایڈیشن چہارم
۹۷ کے چند روز ہی پہلے ان کے والد اور والدہ قادیان بغرض ملاقات آئے تھے.میں نے ان کو دیکھا کہ وہ بہت ہی ضعیف تھے.جس وقت میں نے یہ خبر سنی میری آنکھوں کے سامنے ان کے ضعف کا نقشہ کھینچ گیا اور ساتھ ہی یہ خیال گزرا کہ ڈاکٹر صاحب ان کے اکلوتے بیٹے ہیں ( گو بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے اور بھی بیٹے تھے ) اور میرے دل کو اس غم کا خیال کر کے جو اُن کو پہنچا ہو گا سخت تکلیف ہوئی اور بار بار میرے دل میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ کاش وہ نہ مرے ہوں.گو بظاہر یہ خیال بیوقوفی کا ہومگر میں سمجھتا ہوں الہی تحریک کے ماتحت اور دعا کرانے کی غرض سے تھا.خیر جب میں رات کو سو یا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ تین دن ہوئے ہیں کہ وہ زندہ ہو گئے ہیں.میں نے دوسرے دن کھانے کے وقت اپنے بعض عزیزوں کو یہ خواب سنائی میرے چھوٹے بھائی نے کہ جن کی ڈاکٹر صاحب کے ایک رشتہ کے بھائی سے دوستی تھی اور جو قادیان میں رہتے ہیں.اس خواب کا ذکر کر دیا.انہوں نے اپنے گھر اطلاع کر دی اس کے جواب میں ان کو خط ملا کہ ان کی خواب پوری ہو گئی ہے.عراق سے اطلاع آ گئی ہے کہ ان کی موت کے متعلق غلطی لگی تھی ان کو بدھ پکڑ کر لے گئے تھے اور غلطی سے یہ خیال کر لیا گیا کہ وہ مارے گئے ہیں لیکن بعد میں ایک موقع ملنے پر وہ بھاگ کر خیریت سے واپس آگئے ہیں.اس قسم کا ایک اور ذاتی تجربہ میں بیان کرتا ہوں.گزشتہ سال کے سفر کشمیر میں میں نے دیکھا کہ ایروپلین AEROPLANE کے ذریعہ میرے پاس ایک خط آیا ہے.میں نے یہ خواب دوستوں کو سنائی اور پھر خود بھول گیا.چند ہی دن بعد ایک خط آیا جس پر لکھا تھا BY AIRFORCE اور اسے دیکھ کر میاں عبد السلام صاحب حضرت خلیفہ اول کے صاحبزادے نے وہ رؤیا یاد دلائی.
۹۸ یہ تو خدا تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کی مثالیں ہیں.اس کے سوا اقتداری علم بھی ہستی باری کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے.اقتداری علم کی بڑی مثال خود قرآن کریم ہے.اس کے متعلق دعویٰ ہے کہ کوئی ایسا کلام بنا کر نہیں لا سکتا بلکہ اس جیسی تین آیات بھی بنا کر پیش نہیں کر سکتا.قرآن کریم انہیں الفاظ میں ہے جن کو سب استعمال کرتے ہیں اور عربی بولنے والے لوگوں میں اسلام کے دشمن بھی ہیں اور خود مذہب کے دشمن بھی ہیں.دہریے بھی ہیں مگر اب تک کسی میں یہ طاقت نہیں ہوئی کہ قرآن کریم کے اس دعویٰ کو رد کر سکے.دوسری مثال حضرت مسیح موعود کی عربی کتب ہیں.آپ نے بھی ان کے بے مثل ہونے کا دعوی کیا ہے اور چیلنج دیا ہے کہ کوئی ان کا جواب بنا سکتا ہے تو بنا کر دکھائے باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود بھی تھے اور آپ کے دشمن بڑے بڑے علماء عجم کے علاوہ علمائے عرب بھی تھے مگر سب لوگ آپ کی غلطیاں نکالنے کا دعویٰ تو کرتے رہے مگر آپ کی کتب کی مثل لانے کیلئے سامنے نہ آئے.پچھلے دنوں یہاں پروفیسر مارگولیتھ صاحب آئے تھے وہ انگریزوں میں سے عربی کے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں.ان سے میری منجزات پر گفتگو ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ کیا قرآن والا معجزہ اب بھی دکھایا جا سکتا ہے یہ عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے پکڑ کر ان کے منہ سے اس معجزہ کا مطالبہ کروایا جو حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر ظاہر ہو چکا تھا.میں نے کہا ہاں اس زمانہ میں بھی دکھایا جاسکتا ہے بلکہ دکھایا گیا ہے.میں نے حضرت مسیح موعود کی کتاب الہدیٰ اس کے سامنے رکھدی اور کہا اس کی نظیر لانے والے کے لئے حضرت صاحب نے ہیں ہزار کا انعام رکھا ہے اور میں یہ اقر ارلکھ دیتا ہوں کہ جو اس کی مثل لے آئے گا اسے میں یہ انعام دے دوں گا اس پر وہ خاموش ہو گیا.یہ چند مثالیں میں نے خدا کی صفات کی دی ہیں.ان سے پتہ لگتا ہے کہ خدا کی ہر
۹۹ صفت اس کی ہستی کی دلیل ہے.پس خدا کو ثابت کرنے کے لئے نہ فلسفہ کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی.جب کوئی پوچھے کہ خدا کی ہستی کا کیا ثبوت ہے تو اس وقت خدا کی جو صفت بھی بندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی سامنے آئے وہ پیش کر دی جائے.اس کے مقابلہ میں کوئی نہ ٹھہر سکے گا.خدا تعالیٰ کے کم از کم ننانوے نام ہیں.اس لئے ننانوے ہی صفات ہوئیں اور ان میں سے ہر ایک خدا کی ہستی کی دلیل ہے.صفات پر اعتراض اور اس کا جواب ان دلائل کے بیان کرنے کے بعد میں چندان اعتراضات کا جواب دیتا ہوں جو صفات الہیہ پر منکرین ہستی باری کیا کرتے ہیں.ان میں سے بعض صفات باری کا ذکرسن کر کہا کرتے ہیں کہ ہم لمبی اور پرانی بحثوں میں نہیں پڑتے تم کم از کم ہمیں تین باتوں کا مشاہدہ کرا دو.یعنی اول خدا کے علم کا، دوسرے خدا کی قدرت کا، تیسرے خدا کی خلق کا.اگر خدا کو علم ہے تو یہ کتاب پڑی ہے اس کو پڑھ دے اگر قدرت ہے تو یہ تنکا پڑا ہے اسے اُٹھالے.اگر خالق ہے تو یہ مٹی کا ڈلہ پڑا ہے اس سے کچھ بنا کر دکھا دے.جب حضرت صاحب نے یہ دعویٰ کیا کہ خدا مجھ پر علم غیب ظاہر کرتا ہے تو ایک پادری نے اسی قسم کا سوال کیا تھا.اس نے کہا کہ میں چند سوال لکھ کر بند کر کے رکھ دوں گا آپ خدا سے پڑھوا کر بتا دیں کہ کیا سوال ہیں؟ حضرت صاحب نے اس کے جواب میں فرمایا.چلو ہم تمہاری یہی بات مان لیتے ہیں.بشرطیکہ عیسائیوں کی ایک جماعت اقرار کرے کہ صحیح جواب ملنے پر وہ مسلمان ہو جائیں گے ورنہ خدا تماشہ نہیں کرتا کہ لوگوں کی مرضی کے مطابق جس طرح وہ کہیں نشان دکھا تارہے.
غرض منکرین یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو اس کے علم کی ، قدرت کی اور خلق کی تازہ بتازہ مثالیں جس قسم کی ہم کہتے ہیں دکھا دو.جوا اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک سوال کی دو غرضیں ہوتی ہیں.سوال یا تو اپنے علم کی زیادتی کیلئے کیا جاتا ہے یا دوسرے کے علم کا امتحان لینے کے لئے اور اس کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جس سے سوال کیا جائے اس کی جو حیثیت ہو اسی کے مطابق سوال کیا جائے مثلاً اگر ایک سپاہی کو ایک لففینٹ ملے اور وہ سپاہی اس سے کچھ دریافت کرنا چاہے تو وہ اس طرح نہیں کرے گا کہ اسے کان سے پکڑ کر کہے کہ بتاؤ فلاں بات کس طرح ہے؟ بلکہ سارے آداب کو مد نظر رکھ کر اس سے بات کرے گا.غرض جو اپنے سے بالا ہو اس سے سوال کرنے کے اور آداب ہوتے ہیں اور جو متر ہو اس کے آداب اور ہوتے ہیں اور جو لوگ خدا تعالیٰ کے وجود کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ اسے ایک طالب علم یا امیدوار ملازمت کی حیثیت میں نہیں پیش کرتے کہ ممتحن یا ملازم رکھنے والے اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہیں اور جو چاہیں اس سے پوچھیں.وہ بادشاہ ہے سب بادشاہوں کا مالک ہے آتا ہے حاکم ہے خالق ہے محسن ہے ہمارا ذرہ ذرہ اس کی پیدائش ہے.اگر ایک شخص اس کی ذات عالی کے متعلق بطور فرض کے بھی سوال کرے تو اسے مد نظر رکھنا ہو گا کہ وہ کس ہستی سے متعلق سوال کر رہا ہے.ذرا غور کرو کہ اگر کوئی کہے کہ میں سپر نٹنڈنٹ پولیس ہوں یا ڈ پٹی کمشنر ہوں تو کیا لوگ یہ کیا کرتے ہیں کہ اپنی مرضی کے سوالات بنا کر اس کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو حل کرو.تب ہم تمہیں افسر پولیس یا ڈ پٹی کمشنر مانیں گے.دُنیا میں کوئی شخص بھی حکام کی حقیقت معلوم
1+1 کرنے کے لئے ایسا نہیں کرتا بلکہ اگر شک ہو تو ان سے ثبوت طلب کرتے ہیں آگے ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جس رنگ میں چاہیں ثبوت دیں.اگر وہ ثبوت ان کے دعوی کو ثابت کرنے والا ہو تو لوگوں کو مانا پڑتا ہے خواہ وہ اس رنگ کا نہ ہو جس رنگ کا ثبوت کہ لوگ چاہتے تھے.اسی طرح کیا کوئی شاگرد یہ بھی کہا کرتا ہے کہ میں استاد کا امتحان پہلے لے لوں پھر سمجھوں گا کہ وہ میرا استاد بننے کے قابل ہے یا نہیں.جب وہ اس سے پڑھے گا اسے خود ہی اس کی قابلیت یا جہالت کا علم ہو جائے گا یا بادشاہ کی مثال لو اگر کسی بادشاہ کے متعلق کوئی سوال مثلاً یہی ہو کہ وہ گھوڑے کی سواری جانتا ہے یا نہیں تو کیا منکر اس سوال کو اس طرح حل کرے گا کہ کہے گا کہ فلاں گھوڑے پر چڑھ کر فلاں گلی میں سے گزرے تب میں مانوں گا کہ وہ سوار ہے یا یہ کرے گا کہ اگر بادشاہ سے پوچھ سکتا ہے تو اس سے پوچھ لے گا کہ کیا آپ سواری اچھی جانتے ہیں؟ پوچھ بھی نہیں سکتا تو جو اس کے مقرب ہیں ان سے دریافت کرے گا اور اگر یہ بھی طاقت نہیں تو ایسے موقع کا منتظر رہے گا جب وہ سوار ہو کر نکلے اور یہ اس کی سواری کا اندازہ کر سکے اگر ایسا شخص بادشاہ کے پاس جا کر اس قسم کا سوال کریگا کہ چل کر امتحان دو تو یقیناً یہ سزا پائے گا.پس خدا تعالیٰ چونکہ ہمارے ماتحت نہیں بلکہ ہم اس کے ماتحت ہیں اور وہ سب پر غالب اور سب کا حاکم ہے اس لئے اس کا پتہ لگانے کے لئے یہ کہنا درست نہیں کہ جس طرح ہم کہیں اس طرح کر دے تو ہم مانیں گے.بلکہ خدا کے انبیاء سے اس کی ہستی کے متعلق دریافت کرنا چاہئے جو خدا تعالیٰ کو اس کی شان کے مطابق تمام آداب کو مد نظر رکھ کر اس کا پتہ لگاتے ہیں یا خود خدا تعالیٰ کی شان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا پتہ لگانا چاہئے اور خدا تعالیٰ جو ثبوت پیش کرے اگر وہ ثبوت کی حد تک پہنچ جائے تو اسے قبول کرنا چاہیے نہ کہ یہ کہنا چاہئے کہ جس طرح ہم خود چاہیں اس طرح خدا کر دے.
اگر کہا جائے کہ بادشاہ کی مثال درست نہیں کیونکہ بادشاہ آدمی ہی ہوتا ہے اور وہ انسان کی ہر ایک خواہش کو پورا نہیں کر سکتا لیکن خدا تعالیٰ تو پورا کر سکتا ہے پھر اس کے متعلق کیوں نہ یہ کہیں کہ جس طرح ہم چاہتے ہیں اسی طرح وہ اپنی ہستی کا ثبوت دے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ بادشاہ اس لئے لوگوں کے مطالبات کے مطابق اپنا امتحان نہیں دیتا کہ اس کا وقت خرچ ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسے اپنے عہدہ کے خلاف سمجھتا ہے.پس خدا تعالیٰ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے کس طرح ان مطالبات کو قبول کر سکتا ہے.دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ اگر انسان کی خواہش کو پورا کر کے ہی خدا کی ہستی کا ثبوت دیا جا سکتا ہے تو پھر در حقیقت خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا.فرض کرو دو شخص سندر سنگھ اور آتما سنگھ ہوں اور ان میں مقدمہ ہو.ان میں سے ہر ایک کہے کہ میرے نزد یک خدا کی ہستی کا ثبوت یہ ہوسکتا ہے کہ اس مقدمہ میں میں جیت جاؤں اور میں صرف اسی صورت میں اسے مان سکتا ہوں تو خدا تعالیٰ کس کے مطالبہ کو پورا کرے اگر ایک کے مطالبہ کو پورا کرے تو دوسرا نہ مانے گا یا مثلاً گزشتہ جنگ میں ہی جرمن کہتے کہ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو ہم اسے مان لیں گے.ادھر انگریز کہتے کہ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو ہم اسے مان لیں گے.اب فتح تو ایک فریق کو ہی ہوسکتی تھی.اس لئے دوسرا فریق انکار پر قائم رہتا.پس اس طرح اگر خدا کا ثبوت طلب کرنا درست ہو تو کم سے کم آدھی دنیا کے لئے تو ہدایت کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا.چور کہتے اگر ہمیں چوری میں کامیابی نہ ہوئی تو ہم سمجھیں گے کہ خدا کوئی نہیں.ادھر مال والے کہتے اگر ہماری چوری ہوئی تو ہم خدا کے وجود کے ہرگز قائل نہ ہوں گے.اگر کوئی خدا ہے تو اسے چاہئے کہ ہمارے اموال کی حفاظت کرے.یہی حال دوسری باتوں میں ہوتا اور اس طرح قانون قدرت بالکل تباہ ہو جاتا.
اگر کہو کہ خدا کسی ایک کو ہی اس طرح ثبوت دے دیتا تو باقی لوگ مان لیتے ، ہم کہتے ہیں اگر یہ بات ہے تو کیا وجہ ہے کہ جو ثبوت خدا تعالیٰ نے دیئے ہیں تم ان کے یقینی ہونے کے با وجود ان کو نہیں مانتے.اگر تمہاراحق ہے کہ جو تمہارے مطالبے کے سوا ثبوت دیئے جائیں انہیں رد کر دو تو کیوں یہی حق دوسروں کو حاصل نہیں اور اگر سب کو یہی حق حاصل ہو تو نتیجہ وہی نکلے گا جو اوپر بیان ہو چکا ہے اور بجائے ایمان کی ترقی کے بے دینی اور کفر ترقی کرے گا.خدا کو ماننے والوں کے اخلاق غرض خدا تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ ہوسکتا ہے مگر اس کے منشاء کے ماتحت ہو سکتا ہے.یہ ہمارا حق نہیں کہ ہم ان نشانات کی تعیین کریں جن کے ذریعہ سے وہ اپنی چہرہ نمائی کرے.ایک اور اعتراض بھی خدا تعالیٰ کی ہستی پر کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کو ماننے والے کہتے ہیں کہ خدا کے ماننے سے اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں مگر اس کے برخلاف دیکھا یہ جاتا ہے کہ سب سے بدتر اخلاق خدا کو ماننے والوں کے ہوتے ہیں.یورپ کے دہریے بھی اور ایشیاء کے دہریے بھی یہی اعتراض کرتے ہیں.ہندوستان والے کہتے ہیں کہ خدا کو زیادہ ماننے والے مسلمان ہیں.اگر جیل خانوں میں جا کر دیکھو تو سب سے زیادہ مسلمان ہی قیدی نظر آئیں گے.اس طرح ہندو اور مسیحی بھی خدا کو مانتے ہیں ان کی بھی کافی تعداد جیل خانوں میں سڑ رہی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اخلاق کی خرابی خدا کے ماننے کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کو نہ مانے کا نتیجہ ہے.کسی شخص کا صرف منہ سے کہنا کہ میں خدا کو مانتا ہوں مفید نہیں ہوسکتا.
کیا کو نین کو نین منہ سے کہنے سے بخار اتر جاتا ہے؟ اگر نہیں تو صرف منہ سے یہ کہنے سے کہ خدا کو مانتا ہوں کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ پھر ہم کہتے ہیں ہندوستان کے دہریے دیو سماجی ہیں.وہ یوں بھی کہتے ہیں اور ٹریکٹوں میں بھی لکھتے ہیں کہ ان کی سماج میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں ان میں جرم کم ہوتے ہیں.اگر ان کے اس دعوی کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی ہم کہتے ہیں کہ اس تعریف کے دیوسا جی مستحق نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ دیو سماجی بنانے سے پہلے ایک فارم پر کراتے ہیں جس پر داخل ہونے والا اقرار کرتا ہے کہ فلاں فلاں عیب سے پر ہیز کرتا ہوں جس کے یہ معنی ہیں کہ ان کی سماج میں اسی شخص کو داخل کیا جاتا ہے کہ جس میں بعض گناہ جو زیادہ نمایاں ہیں پہلے ہی سے نہ ہوں.پس ان کے گروہ کی اس میں کیا خوبی ہوئی کیا دوسری جماعتوں میں خوبیوں والے آدمی نہیں پائے جاتے.اگر وہ جماعتیں بھی اپنے معیوب آدمیوں کو باہر نکال دیں تو کیا وہ دیو سماج سے ہزاروں گنے بڑھ کر پاک وصاف لوگ نہیں دکھا سکتیں.دیو سماجیوں کا دعوی ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی فوجی افسر دعویٰ کرے کہ دیکھو ہمارا فوجی انتظام کیسا اعلیٰ ہے کہ اس میں جو آتا ہے اس کی چھاتی چوڑی ہو جاتی ہے قد لمبا ہو جاتا ہے حالانکہ حق یہ ہے کہ فوج میں لیتے ہی ایسے شخص کو ہیں جو اچھے قد کا ہو اور اس کا سینہ چوڑا ہو اور یہ حالت فوج کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ ان حالات کے آدمیوں کو لینے کی وجہ سے فوج کو یہ خوبی حاصل ہوتی ہے.یا مثلاً کوئی ہسپتال میں جائے اور جا کر مریضوں کو دیکھے اور کہے یہ اچھا ہسپتال ہے جس میں کانے لنگڑے لولے بیمار پڑے ہیں.حالانکہ ہسپتال بنایا ہی ایسے لوگوں کے لئے جاتا ہے جو بیمار ہوں.پس ہم کہتے ہیں یہ دیو سماج کی تعلیم کا اثر اور خوبی نہیں اگر اس
۱۰۵ میں عیب کر نیوالے کم ہوتے ہیں.کیونکہ اس میں داخل وہی کیا جاتا ہے جس کے متعلق اطمینان کر لیا جاتا ہے کہ وہ عیب چھوڑ چکا ہے پس دیو سماج کوئی مذہب نہیں کہ جس کا کام کمزوروں کی اصلاح ہوتا ہے بلکہ ایک کلب ہے کہ جس کا کام ایک خاص قسم کے لوگوں کو جمع کرنا ہوتا ہے.نبی کی مثال تو ڈاکٹر کی ہوتی ہے وہ بیماروں کی اصلاح کرنے کے لئے آتا ہے.اس کے ہسپتال میں مریضوں کا ہونا ضروری ہے جو آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ سے شفاء پاتے ہیں اور وہ سوائے اس صورت کے کہ بیمار اس سے علاج کرانے سے انکار کرے کسی کو دھتکارتا نہیں.پھر یہ بھی غلط ہے کہ دیوسا جیوں میں عیب نہیں ہوتے.پیچھے جب ان میں جھگڑے پیدا ہوئے تو ایک دوسرے کے متعلق حتی کہ بانی دیو سماج کے متعلق بھی ایسی ایسی گندی باتیں لکھی گئیں کہ شریف آدمی ان کو پڑھ بھی نہیں سکتا.یہی حال یورپ کے دہریوں کا ہے.چنانچہ امریکہ کی ایک دہر یہ اخبار کی ایڈیٹرلکھتی ہے کہ میں اس وقت تک اٹھارہ آدمیوں سے بلا نکاح تعلق پیدا کر چکی ہوں اور مجھے تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا حالانکہ یہ وہ فعل ہے کہ جسے دہر یہ بھی بُرا سمجھتے ہیں.کیا خدا کے ماننے سے اعلیٰ اخلاق کا معیار گر جاتا ہے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا کے ماننے سے اخلاق کا معیار گر جاتا ہے کیونکہ خدا کو ماننے والا نیکی اس لئے کرتا ہے کہ خدا سے کچھ اُمید رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر میں نے نیکی کی تو خدا مجھے انعام دے گا.لیکن خدا کو نہ مانے والا نیکی کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے نہ کہ کسی لالچ کی وجہ سے.اسی طرح خدا کو ماننے والا خدا کے ڈر کی وجہ سے بُرائی کو چھوڑتا ہے
1+4 لیکن نہ ماننے والا برائی کو برائی سمجھ کر چھوڑتا ہے اور نیکی کو نیکی سمجھ کر کرنا اور برائی کو برائی سمجھ کر چھوڑنا بہ نسبت لالچ سے نیکی کرنے اور ڈر سے برائی کو چھوڑنے کے بہت اعلیٰ ہے.ہم کہتے ہیں نیکی کی حقیقی تعریف یہ ہے کہ وہ اس عمل یا خیال کا نام ہے جو ایک کامل اور بے عیب ذات سے مشابہت پیدا کرتا ہو اور بدی اس فعل یا خیال کا نام ہے جو اس کامل اور بے عیب ذات کی پسندیدگی یا فعل کے خلاف ہو.اس کامل نمونہ کی مشابہت یا مخالفت کو مدنظر ر کھے بغیر نیکی کی کوئی تعریف ہو ہی نہیں سکتی.اگر ایسا کامل نمونہ ہی موجود نہیں ہے تو پھر نیکی بدی کی مکمل تعریف بھی ناممکن ہے.نیکی کیا ہے؟ جو لوگ خدا تعالیٰ کے ماننے والے نہیں یا جو لوگ خدا تعالیٰ کے وجود کو معرض بحث میں لانے کے بغیر اخلاق کی بحث کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں وہ نیکی کی تعریف میں اختلاف رکھتے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ نیکی وہ عمل ہے کہ جس سے سب سے زیادہ خوشی حاصل ہو اور جو انہیں حالات میں اتنی خوشی نہ پیدا کرے وہ بدی.دوسرے کہتے ہیں کہ خوشی کے کیا معنی ہیں؟ ایک شخص ڈاکہ مارتا ہے وہ اسی پر خوش ہوتا ہے مگر ڈاکہ ڈالنا نیکی نہیں.اس لئے نیکی کی یہ تعریف درست نہیں.اس کی اصل تعریف یہ ہے کہ جس بات سے سب سے زیادہ نفع پہنچے وہ نیکی ہے اور انہیں حالات میں جن امور میں کم نفع پہنچے یا نقصان پہنچے وہ بدی ہے.مگر اس پر یہ سوال پڑتا ہے کہ کس کو نفع پہنچے ؟ اگر دوسروں کو تو جب کوئی مال
1+2 ٹوٹنے لگے تو کیا اسے روکنا نہیں چاہئے بلکہ کہنا چاہئے کہ جس قدر لے جاسکتے ہو لے جاؤ کیونکہ مال سے اس کو فائدہ پہنچے گا اور یہ نیکی ہے.اس پر کہتے ہیں نیکی وہ ہے جس سے اپنی ذات کو زیادہ نفع پہنچے اور بدی وہ ہے جس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچے.مگر اس تعریف سے تو وہی اعتراض منکرین خدا پر عائد ہو گیا جو وہ خدا کو ماننے والوں پر کرتے تھے.کیونکہ ان کا اعتراض تو یہی تھا کہ خدا کو ماننے والے نیکی لالچ کی وجہ سے کرتے ہیں.لیکن اگر نیکی کی یہ تعریف ہے کہ جس سے اپنی ذات کو سب سے زیادہ خوشی یا نفع پہنچے تو پھر ایک دہر یہ بھی تو نیکی کی خاطر نہیں بلکہ خوشی اور نفع کی خاطر کرتا ہے پس اگر خدا کو ماننے والا نیکی خدا کی خوشی کی خاطر کرتا ہے یا بدی سے اس کی سزا سے ڈر کر بچتا ہے تو اس پر اعتراض کیوں ہو؟ بعض یورپ کے فلاسفر نیکی کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ نیکی ایک فرض کا نام ہے مگر یہ تعریف بھی ان کے کام نہیں آسکتی.کیونکہ فرض وہ چیز ہے جسے کوئی دوسرا وجود ہمارے لئے مقرر کر دیتا ہے.اگر نیکی کو فرض قرار دیا گیا تو فرض مقرر کر نے والے وجود کو بھی ماننا پڑے گا.غرض منکرین خدا کا یہ دعوئی کہ ان کے کاموں کا مقصد خدا پرستوں سے اعلیٰ ہے کیونکہ وہ نیکی نیکی کی خاطر کرتے ہیں، ایک دھوکا ہے ایک فریب ہے کیونکہ وہ خدا کو چھوڑ کر مجبور ہیں کہ نیکی کی تعریف یہ کریں کہ جس سے اپنی ذات کو سب سے زیادہ خوشی ہو یا فائدہ ہو اور اسی تعریف کے ماتحت وہ لالچ کے الزام سے بچتے نہیں بلکہ اور بھی زیادہ اس الزام کے نیچے آجاتے ہیں ان کے تمام کام اپنے ذاتی نفع اور ذاتی فائدہ کے لئے ہوتے ہیں.
۱۰۸ نیکی بدی کے متعلق مؤمن کا معتام دوسرا اور حقیقی جواب دہریوں کے اعتراض کا یہ ہے کہ تم نے مؤمن کے کاموں کا جو مقصد قرار دیا ہے وہ فرضی ہے.پہلے تم نے فرضی طور پر ایک بات بنائی ہے اور پھر اسے مؤمن کی طرف منسوب کر دیا ہے.یہ کس وجہ سے فرض کر لیا گیا ہے کہ ایک خدا کو ماننے والا دل سے تو یہ چاہتا ہے کہ بدی کرے مگر خدا کے خوف سے بدی نہیں کرتا یا یہ کہ وہ دل سے تو چاہتا ہے کہ نیکی کے کام نہ کرے مگر لالچ کی وجہ سے نیک کام کرتا ہے.ایک بچے مؤمن پر یہ انتہام ہے.وہ اس مقام سے بہت بالا ہوتا ہے وہ اس لئے نیکی نہیں کرتا یا بدی سے اجتناب نہیں کرتا کہ خدا دیکھتا ہے اس سے انعام ملے گا یا وہ سزا دیگا بلکہ اس لئے نیکی کرتا اور بدی سے بچتا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے یونہی کہتا ہے.پس چونکہ وہ خدا تعالیٰ کا ماننے والا ہے وہ اس کے حکم کو بجالانا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے قطع نظر اس کے کہ کسی جزاء کی اُمید یا سزا کا خوف اس کے دل میں ہو.تیسرا جواب یہ ہے کہ نیکی کرنے پر ثواب کو اور بدی کرنے پر عتاب کو مد نظر رکھنا تو ہمارے مذہب میں نہایت ہی ادنی بات سمجھی جاتی ہے.اگر کوئی مؤمن یہ کہے کہ میں نمازیں اس لئے پڑھتا ہوں کہ ان کے بدلے میں جنت ملے گی تو یہ تو ایک قسم کا شرک ہو جائے گا اور اسلام کی روح کے خلاف ہوگا.مؤمن تو اس لئے نیکی کرتا اور بدی سے بچتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ نیکی اپنی ذات میں حسن رکھتی ہے اور بدی عیب.اور عبادات کی قسم کی نیکیاں وہ اس لئے کرتا ہے کہ اس پر خدا تعالیٰ کے بہت سے احسانات ہیں.وہ نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ جنت ملے گی یا روزہ اس لئے نہیں رکھتا کہ دوزخ کا اسے ڈر ہوتا ہے بلکہ
1+9 وہ خدا تعالیٰ کی جو عبادت بھی کرتا ہے وہ اس لئے کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا اور اپنی صفت ربوبیت اور رحمانیت کے ماتحت اس پر احسان کئے.گویا مؤمن کو آئندہ کی لالچ مد نظر نہیں ہوتی بلکہ پچھلے احسانوں اور انعاموں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرنا مقصود ہوتا ہے.نماز میں مؤمن کیا کہتا ہے؟ یہی ناں کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّين ان آیات میں دیکھ لو کہ اکثر حصہ پچھلے انعامات کے شکریہ کے متعلق ہی ہے اور آئندہ کا ذکر صرف اختصار کے ساتھ آیا ہے.پس مؤمن کی عبادات بطور شکر یہ ہوتی ہیں نہ بغرض لانچ.اور شکر گزاری کو دنیا کی کوئی قوم بھی برا نہیں کہتی بلکہ سب ہی اسے مستحسن فعل سمجھتے ہیں.باقی رہا یہ سوال کہ مذاہب میں نیک کاموں کے بدلہ میں ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے سواس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا معاملہ اس کے اختیار میں ہے.اس کے بدلہ دینے کے یہ معنی نہیں کہ مؤمن اس بدلہ کے لئے یہ کام کرتا ہے ایک دوست دوسرے دوست کو ملنے جاتا ہے تو وہ اس کی خاطر کرتا ہے اور سب ہی جانتے ہیں کہ جب دوست دوست کے پاس جائے گا تو اس کی خاطر بھی ہو گی مگر کوئی نہیں کہتا کہ دوست اس لئے دوست سے ملنے گیا تھا کہ تا اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے جائیں.اس کا جانا محبت کی وجہ سے تھا اور دوسرے کا اس کی خاطر کرنا بھی اپنی محبت کے تقاضے سے تھا.مکمل نیکی خدا کو ماننے والا ہی کر سکتا ہے چوتھا جواب یہ ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو نیکی کے جس درجہ تک خدا کو مانے والا پہنچ سکتا ہے دوسرا انسان پہنچ ہی نہیں سکتا نہ دوسرا کوئی شخص ان تمام اقسام کی الفاتحة ۲ تا ۴
11+ نیکیوں کو سمجھ سکتا ہے جو ایک خدا پرست کرتا ہے اس لئے کہ کئی نیکیاں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے میں کرنے والے کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ ماں باپ سے نیک سلوک کرنا بچے کے لئے کسی رنگ میں بھی مفید نہیں ہو سکتا.پس ان کے آرام کے لئے تکلیف اُٹھانا یا ان پر مال خرچ کرنا ایک دہریہ کے لئے بدی ہونا چاہیئے اور وہ روپیہ جو اُن پر خرچ کیا جاتا ہے اس کا اپنی ذات پر خرچ کرنا نیکی ہونا چاہئے لیکن دہر یہ عملاً ایسا نہیں کرتا وہ بھی ماں باپ سے نیک سلوک کرتا ہے حالانکہ عقلاً یہ کام صرف خدا کا ماننے والا کر سکتا ہے.کیونکہ وہ شکر گزاری کو نیکی سمجھتا ہے اور شکر گزاری صرف خدا کو مان کر ہی نیکی کہلا سکتی ہے.اس کے علاوہ اور بہت سی نیکیاں ہیں جو صرف اسی تعریف کے ماتحت نیکی کہلا سکتی ہیں کہ ایک کامل وجود ہے جو اپنے حسن میں بے مثل ہے.اس کی مشابہت پیدا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے ورنہ فائدہ اور خوشی کے لحاظ سے وہ نیکیاں نہیں کہلا سکتیں اور جس قدر نیکیاں کہ جان کی قربانیاں یا ساری عمر کے آرام کی قربانیاں چاہتی ہیں وہ سب اسی تعریف کے ماتحت نیکیاں کہلاسکتی ہیں.پس خدا پرست ہی کے لئے موقع ہے کہ وہ کامل نیک ہو سکے.جو خدا کو نہیں مانتا اگر وہ اپنے دعوئی کے مطابق عمل کرے تو اس کے لئے نیک بننے کی کوئی صورت ہی نہیں.مگر عجیب بات ہے کہ د ہر یہ خدا کے ماننے والوں کے اخلاق پر تو اعتراض کر جاتا ہے مگر جہاں اس کی تعریف نیکی کی رہ جاتی ہے وہاں وہ اپنے دعوئی کے خلاف خدا کو ماننے والے کی تعریف کے مطابق نیکی کر کے اپنی ضمیر کو خاموش کرنا چاہتا ہے گو اس کا عمل اس کے دعوی کو رد کر رہا ہوتا ہے.
اونی کے لئے اعلیٰ کی قربانی خدا تعالیٰ کے منکرین اللہ تعالیٰ کے وجود کے خلاف ایک یہ اعتراض بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ہوتا تو ہمیں یہ بات نہ نظر آتی کہ اعلیٰ چیزیں ادنی پر قربان کی جاتی ہیں جیسے مچھر اور طاعون کے کیڑے ہیں کہ ان کی پرورش انسان کی قربانی پر ہو رہی ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کی تدبیر کسی بالا رادہ ہستی کے حکم کے ماتحت نہیں ہو رہی.اس بات کی تفصیل کہ مچھر اور ٹڈی وغیرہ کیوں پیدا کئے گئے ہیں.تو میں آگے بیان کروں گا.فی الحال اس سوال کا جواب دیتا ہوں جو ادنی پر اعلیٰ کے قربان ہونے کے متعلق کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کا نظام اور انسان کے پیدا کرنے کی غرض اسی طرح پوری ہو سکتی تھی کہ انسان مرتا اور یہ چیزیں انسان کے مارنے کے ذرائع میں سے بعض ذریعے ہیں.پس چونکہ انسان کا مرنا اس کی ترقیات کیلئے ضروری تھا اس لئے بعض ذرائع اس کی موت کے لئے پیدا کئے جانے بھی ضروری تھے.پس ان کیڑوں کے ذریعہ سے ادنی پر اعلیٰ قربان نہیں ہورہا بلکہ اعلیٰ کو اعلیٰ مقام پر لے جایا جاتا ہے.قرآن میں دہریت کا کیوں رو نہیں دہر یہ لوگ مذاہب پر ایک اور بھی سوال کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر خدا ہے تو اسے سب سے پہلے دہریت کا رڈ اپنی کتب میں کرنا چاہئے تھا مگر سب کُتب یت کے متعلق خاموش ہیں حالانکہ مذہب کا سب سے بڑا دشمن یہ مسئلہ ہے.پس
١١٢ مذہبی کتب کی خاموشی ثابت کرتی ہے کہ چونکہ یہ کتب انسانوں نے بنائی ہیں اور ان کے زمانہ میں دہریت کے عقائد رائج نہ تھے وہ ان کا جواب دینے کی کوشش بھی نہیں کر سکے ورنہ جو مسئلہ سب سے بڑا ہے اسے بالکل نظر انداز کس طرح کیا جا سکتا تھا.قرآن (کریم) جو سب سے آخری کتاب کہی جاتی ہے وہ بھی اس مسئلہ میں بالکل خاموش ہے حالانکہ شرک کے رد میں اس میں بہت زور لگایا گیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسے علاقہ میں رہتے تھے جہاں دہریت کو ماننے والا کوئی نہ تھا اس لئے اس کے متعلق انہوں نے کوئی ذکر نہیں کیا اور شرک کے متعلق بہت کچھ بیان کر دیا کیونکہ ان کے چاروں طرف مشرک ہی مشرک تھے.دوسرے مذاہب سے مجھے اس وقت سرو کار نہیں.اسلام کے متعلق یہ اعتراض غلط ہے.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دہریت کے متعلق علم تھا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جبکہ لوگ کہیں گے دنیا کو کس نے بنایا؟ جب اسے بتایا جائے گا کہ خدا نے تو وہ پوچھے گا کہ خدا کوکس نے بنایا ہے؟ اور یہی وہ سوال ہے جو دہریت کے بانی سپنسر نے اپنی کتاب میں اُٹھایا ہے.پس اس حدیث میں صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے دہریت سے متعلق علم دیا ہو ا تھا حالانکہ عرب دہریوں سے خالی تھا.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں اس اعتراض کو صاف لفظوں میں کیوں نہیں اُٹھایا گیا.یہ بات ظاہر ہے کہ اگر قرآن کریم انسانی طاقت سے بالا ثابت ہو جائے تو علاوہ اس کے کہ یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۸۲
سے ہیں یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ خدا بھی ضرور ہے پس قرآن کریم کی سچائی ثابت ہو جانے کے ساتھ دہریت کا بالکل خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس صورت میں اس کا ایک ایک لفظ دہریت کا رد بن جاتا ہے.پس دہریت کا سوال کوئی مستقل سوال نہیں ہے.کلام الہی کے سوال کے حل ہونے کے ساتھ یہ خودحل ہو جاتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے ثابت کر دینے کے بعد کلام الہی کا سوال حل کرنا پھر بھی باقی رہ جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے وہی طریق اختیار کیا جس سے کہ دوسوال ایک دم حل ہو جاتے تھے یعنی قرآن کریم کے ایک بالا ہستی کی طرف سے نازل ہونے کا ثبوت دید یا اور اس ثبوت میں دہریت کا جواب خود بخود آ گیا.پس یہ کہنا کہ شرک کا رد قرآن کریم میں زیادہ ہے بالکل غلط ہے.شرک کے رد میں تو خاص خاص آیتیں ہیں اور دہریت کے رد میں قرآن کریم کی ہر آیت ہے اور جب ہر آیت قرآن دہریت کا رد ہے تو الگ ذکر کی کیا ضرورت تھی ؟ لیکن حق یہ ہے کہ قرآن کریم میں دہریت کے رد کے دلائل الگ بھی بیان ہیں جیسا کہ شروع مضمون میں ہم نے بیان کیا ہے کہ گوان کا نام کوئی نہیں رکھا گیا کیونکہ دہریئے خود اپنا نام کوئی تجویز نہیں کرتے.خدا تعالیٰ کی ہستی کو مان لینے کے بعد کی حالت کا ثبوت دینے اور اس کے متعلق جو اعتراض کئے جاتے ہیں ان کو دور کرنے کے بعد ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جو مقام حیرت کہلاتا ہے کیونکہ کسی شخص پر یہ ثابت ہو جائے کہ میرا پیدا کرنے والا کوئی موجود ہے تو اس کے دل میں قدرتاً یہ سوال پیدا
ہوتا ہے کہ وہ کون ہے، کیسا ہے، میرا اس سے کیا تعلق ہے؟ اور مجھے اس سے کس طرح معاملہ کرنا چاہئے ؟ غرض بیسیوں سوالات اور خواہشات معادل میں پیدا ہو جاتی ہیں اور ان سوالات کے جواب دیئے بغیر کا مضمون مکمل نہیں ہوسکتا.پس اب میں ان سوالات کو جو خدا تعالیٰ کو مان کر انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا کم سے کم ان میں سے بڑے بڑے سوالات کو لیکر ایک ایک کر کے جواب دیتا ہوں.مخداتعالی کا نام جب انسان کسی چیز کا علم حاصل کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کا نام معلوم کرنے ، کی اس کے دل میں خواہش ہوتی ہے.پس میں اسی سوال کو پہلے لیتا ہوں کہ کیا خدا کا کوئی ذاتی نام بھی ہے انسانی فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ انسان بلا نام کے کسی چیز کو اپنے ذہن میں لانے سے بہت حد تک قاصر رہتا ہے مگر عجیب بات ہے کہ سوائے اسلام کے اور کسی مذہب میں خدا کا ذاتی نام کوئی نہیں.نہ یہودیوں میں، نہ عیسائیوں میں، نہ بدھوں میں، نہ ہندوؤں میں، نہ زرتشتیوں میں، نہ کسی اور مذہب میں.صرف صفاتی نام ہیں جیسے ہندوؤں میں پر ما تما“ کا لفظ ہے.یعنی بڑی آتما.پرم ایشور یعنی بڑا ایشور.ان ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو بھی وہ دنیا کا ہی ایک حصہ قرار دیتے ہیں جو گو بڑا ہے مگر دنیا سے کوئی الگ چیز نہیں.اسی طرح زرتشتیوں میں جو نام ہیں وہ بھی صفاتی نام ہیں یعنی ان کے معنی ہوتے ہیں اور خدا کے متعلق وہ اسی قدر دلالت کرتے ہیں جو کچھ ان کے معنوں سے پایا جاتا ہے.مسیحیوں میں بھی کوئی نام نہیں سب صفاتی نام ہیں.یہودیوں میں خدا کو یہودا کہتے ہیں.تحقیقات سے ثابت ہوا
۱۱۵ ہے کہ اس نام کے بھی معنی ہیں.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ یہووا یہوی سے نکلا ہے.جس کے معنی ہیں گرنے والا اور اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہستی جو انسان پر نازل ہو.مگر اس سے صرف خدا تعالیٰ کے متکلم یا نزول کی صفت معلوم ہوتی ہے اس لئے یہ اسم ذات نہ ہوا.بلکہ اسم صفت ہوا.میرے نزدیک یہووا یا ہو ہے یعنی ”اے وہ جو ہے گویا نام کا پتہ نہیں.اور جس طرح کوئی ایسا شخص دور فاصلہ پر جارہا ہو جس کا نام معلوم نہ ہومگر اسے مخاطب کرنے کی ضرورت ہو تو کہا جاتا ہے، ارے ٹھہر جاؤ.اسی طرح یہ نام ارے کا قائم مقام ہے اور اس میں صرف اس امر پر دلالت ہے کہ وہ واجب الوجود ہے اس سے زیادہ اور کسی صفت پر اس سے دلالت نہیں ہوتی.اسلام سے پہلے کسی کو خدا کا اسم ذات نہیں بتایا گیا اصل بات یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کسی قوم کو خدا کا اہم ذات بنا یا ہی نہیں گیا اور اس میں ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا اسم ذات اس کی ساری صفات کو اپنے اندر رکھتا ہے اور ساری صفات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے امت محمدیہ پر ہی ظاہر ہوئیں اس لئے اور کسی پر خدا تعالیٰ نے اپنا ذاتی نام ظاہر نہ کیا.یہودیوں میں خدا کے نام کی عزت یہودی یہووا نام کا بڑا ادب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیشہ اور ہر ایک کو یہ نام نہیں لینا چاہئے کیونکہ اس طرح اس کی بے ادبی ہوتی ہے اس وجہ سے صرف ان کے علماء ہی یہ نام لیتے تھے اور اس کا صحیح تلفظ انہی کو آتا تھا اور ان کا دعوی تھا کہ کوئی دوسرا یہ نام لے تو
117 اس پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اور جو شخص بغیر با قاعدہ مولوی ہونے کے یہودا کا نام لے تو اس کے مرنے پر اس کا جنازہ وہ نہیں پڑھتے ( یعنی مرنے پر جو رسوم ادا کی جاتی ہیں ور نہ اسلامی جنازہ ان میں نہیں ہوتا ) اور اسے برکت نہ دیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کی نجات نہ ہوگی.علماء بھی اگر اس نام کو لوگوں کے سامنے لیتے تو بگاڑ کر لیتے تا کہ گناہ نہ ہو.اس نام کے متعلق ان کا اس قدر اختفاء کرنا ہی اس امر کا موجب ہوا کہ مصریوں نے بڑی کوشش سے اس نام کو دریافت کیا اور یہ خیال کر کے کہ اس نام کی برکت سے یہودیوں نے ہم پر فتح پائی تھی اس نام کو اپنے جادوں میں داخل کر لیا چنانچہ مصری جادوں میں یہووا کا نام ضرور لیا جاتا تھا.اسلام میں خدا کا اسم ذار 66 مسلمانوں نے بھی اسی قسم کا دھوکا کھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان میں عام خیال پھیلا ہوا ہے کہ خدا کا ایک نام ایسا ہے کہ عام لوگوں کے سامنے وہ نہیں لیا جاتا بلکہ صرف خاص خاص علماء کو اس کا علم ہے اور وہ اسے لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور خدا کا حکم بھی یہی ہے کہ اسے ہر اک پر ظاہر نہ کیا جائے ، اسے مسلمان ” اسم اعظم پکارتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پیر صاحب کی خدمت کر کے وہ نام حاصل ہوتا ہے اور جسے وہ نام حاصل ہو گیا اسے گویا سب کچھ مل گیا.حالانکہ بات یہ ہے کہ یہودیوں کو تو کوئی نام ہی نہیں بتایا گیا تھا.جو نام انہیں بتائے گئے تھے وہ یہووا سمیت صفاتی نام تھے اور ہمیں جو اسم اعظم دیا گیا ہے وہ اتنا ظاہر ہے کہ اسے کوئی چھپا ہی نہیں سکتا وہ نام ہے اللہ.یہ چھپانے والا نام نہیں بلکہ ظاہر کرنے والا نام ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ بلند آواز سے
112 اذان میں اور نمازوں میں اللہ اکبر کہو.غرض اسلام میں ہی اللہ تعالیٰ کا اسم ذات پایا جاتا ہے اور وہ اللہ کا لفظ ہے.اللہ کا لفظ نہ مرتب ہے نہ مشتق نہ اس کے کوئی معنے ہیں یہ صرف اور صرف نام ہے.بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ لا الہ سے ہمزہ حذف ہوکر اللہ کا لفظ بن گیا ہے بالکل غلطی کرتے ہیں اس لئے کہ لا الہ کا لفظ تو ہر معبود کے متعلق خواہ جھوٹا ہو یا سچا ہو جس کا ذکر ہورہا ہو بولا جا سکتا ہے لیکن عرب لوگ اللہ کا لفظ کبھی بھی خدا کے سوا کسی اور معبود کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے.اگر اللہ لا الہ سے بنا ہے تو وہ بتوں پر اس لفظ کو کیوں نہ استعمال کرتے.دوسرے قرآن کریم میں اس لفظ کو ہمیشہ اسم ذات کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور صفات کو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ اسے قرآن کریم اسم ذات قرار دیتا ہے نہ کہ اسم صفت.۳.عربی کا قاعدہ ہے کہ جس لفظ کے شروع میں ال تعریف کا ہو اگر اس کو پکارا جائے تو اس کے پہلے حرف ندا کے بعد آئیکا کا لفظ بڑھاتے ہیں.لیکن اللہ کو پکارتے ہوئے یا آیا اللہ نہیں کہتے بلکہ یا اللہ کہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے لفظ میں ال تعریف کا نہیں ہے بلکہ خود لفظ کا حصہ ہے.اللہ کیا ہے؟ نام معلوم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذات جس کا نام اللہ ہے وہ کیا ہے؟ گویا اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ یا ہوا کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا نام ہمیں معلوم ہو گیا ہے.اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ ہے کیا ؟
۱۱۸ اللہ تعالیٰ کے متعلق اہلِ یورپ کا خیال سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کے متعلق ان اہل یورپ کے خیالات کو بیان کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ کے وجود کے قائل ہیں.ایک خیال یہ ہے کہ خدا ہے تو سہی لیکن اس نے دنیا کو پیدا کر کے چھوڑ دیا ہے اب اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہم اس قسم کا کوئی نمونہ نہیں دیکھتے کہ خدا اب بھی کچھ پیدا کرتا ہو اس لئے معلوم ہو ا کہ اب کچھ کرنے سے وہ معطل ہو گیا ہے اور اس لئے مخلوق کا عملا اب اس سے کوئی تعلق نہیں ہے.دوسرا خیال یہ ہے کہ دُنیا کے انتظام کے لحاظ سے تو خدا بیشک معطل ہی ہے لیکن وہ اپنے آپ کو اخلاقی ہدایت کے ذریعہ سے ظاہر کرتا رہتا ہے یعنی لوگوں کے دلوں میں نیک خیال ڈالتا رہتا ہے.ان لوگوں کی یہ بھی بڑی مہربانی ہے کہ اتنا وجود تو خدا تعالیٰ کا تسلیم کرتے ہیں.آئندہ کے متعلق ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ چونکہ اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور دنیا میں بھیجا ہے اس لئے اگر اس کے احکام کی تعمیل نہ کی جائے گی تو سزا دے گا.بعض کہتے ہیں خدا کا سزا سے کیا تعلق؟ کیا ہماری یہ مہربانی کم ہے کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ اس نے ہمیں پیدا کیا اگر ہم اس کے دن بین احکام نہیں مانتے تو سزا کیسی ؟ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے جو احکام مانتے ہیں ان کا انعام دے گا اور جو نہیں مانتے ان کی سزا نہیں دے گا.یورپ کے ایک فلاسفرسل نے صرف انعام دینے والے اصل پر بڑا از ور دیا ہے.بعض لوگوں نے اس کے سزا کی نفی پر بہت ہی زور دینے کی یہ وجہ لکھی ہے کہ اس کے اعصاب بہت تیز تھے اور وہ درد بہت زیادہ محسوس کرتا تھا اس لئے اس کی طبیعت اس امر کو مان ہی
119 نہیں سکتی تھی کہ خدا عذاب بھی دے سکتا ہے.پس اس نے بدی کی سزا کا تو انکار کر دیا اور نیکی کے انعام کو قائم رکھا.مسیحیوں کا خدا کے متعلق خیال اب میں مختلف مذاہب کے پیش کردہ خیالات کو ایک ایک کر کے لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کے متعلق کیا تعلیم دیتے ہیں اور اس بارے میں ان کی تعلیم کہاں تک درست یا غلط ہے.چونکہ اس وقت مسیحیت کا غلبہ ہے پہلے میں اسی مذہب کے خیالات کو بیان کرتا ہوں.مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ ایک خدا کی تین شاخیں ہیں (۱) خدا باپ (۲) خدا بیٹا (۳) خدا روح القدس اور پھر یہ تینوں مل کر ایک بھی ہیں.پھر صفات کے متعلق ان کا خیال یہ ہے کہ خدا کی خاص صفات میں سے ایک صفت عدل کی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر وہ عادل نہ ہو تو ظالم قرار پائے گا.لیکن ظالم ہونا خدا کے لئے محال ہے پس اس کے عدل میں کسی صورت میں فرق نہیں آسکتا.اب چونکہ دنیا میں عموما اور مسیحی دنیا میں خصوصا گناہوں کا سلسلہ نظر آتا ہے جسے دیکھتے ہوئے نجات بالکل ناممکن نظر آتی ہے کیونکہ اپنے عمل سے انسان نجات نہیں پاسکتا اور خدا کا عدل چاہتا ہے کہ گناہ کی سزا دے پس نجات کی صورت وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ خدا نے جب دیکھا کہ میرا عدل بنی نوع انسان کی نجات کی راہ میں روک ہے تو اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو انسان کی شکل میں دنیا میں بھیجا تا کہ وہ لوگوں کے گناہ اُٹھا لے.چنانچہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے ہی تھے جو انسانی شکل میں ظاہر ہوئے اور باوجود بے گناہ ہونے کے بنی نوع انسان کے گناہ اُٹھا کر صلیب پر لٹکائے گئے.اب جو کوئی ان کے اس طرح کفارہ ہونے پر ایمان لائے وہ
۱۲۰ نجات پا جائے گا کیونکہ مسیح اس کا کفارہ ہو گئے ہیں اور اب بغیر اس کے کہ خدا کے عدل میں فرق آئے وہ لوگوں کو نجات دے سکتے ہیں.عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق خدا پر اعتراض مگر اس عقیدہ کے مطابق خدا پر کئی الزام عائد ہوتے ہیں.گو زبان سے خدا کو رحیم رحیم کہیں لیکن اگر اس کے متعلق یہ مانیں جو عیسائی کہتے ہیں تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ گناہ کرنے کے بعد خواہ کوئی کتنی التجائیں کرے ناک رگڑے خدا اس کی درخواست کو رڈ کر دے گا کیونکہ وہ اس کا گناہ معاف نہیں کر سکتا.اب اگر خدا رحیم ہے اور ہم سے زیادہ رحیم تو جب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی ہمارا قصور کر کے ہم سے رحم کی التجا کرتا ہے تو ہم اسے معاف کر دیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا معاف نہیں کرتا.یہ کہنا کہ اس سے اس کے عدل میں فرق آتا ہے بالکل باطل ہے کیونکہ جب ہم کسی کو معاف کر دیتے ہیں تو کیا ہماری نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ ہم عادل نہیں ہیں.اگر باوجو د رحم کے ہم عادل کے عادل ہی رہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ اگر رحم کرے تو وہ عادل نہیں رہتا.مسیحیت کو سب سے زیادہ اس بات پر ناز ہے کہ اس میں خدا کو باپ قرار دیا گیا ہے.کیا باپ اپنے بچوں سے ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جو سیحی کہتے ہیں کہ خدا بنی نوع انسان سے کرتا ہے خواہ وہ کس قدر بھی تو بہ کیوں نہ کریں وہ ان کے قصور معاف نہیں کرتا.مسیحی یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیوی باپ بوجہ کم علمی اور جہالت کے ایسا کرتے ہیں ورنہ اگر وہ عدل کو مہِ نظر رکھیں تو اپنے بچوں کا قصور بغیر کفارہ کے معاف نہ کریں کیونکہ خود مسیح علیہ السلام نے انجیل میں خدا کو باپ سے تمثیل دے کر انسان سے سلوک کی مندرجہ ذیل حکایت کے
۱۲۱ ذریعہ سے کیفیت بیان کی ہے.د کسی شخص کے دو بیٹے تھے.ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا کہ اے باپ مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دے.اس نے اپنا مال متاع انہیں بانٹ دیا اور بہت دن نہ گزرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دور دراز ملک کو روانہ ہوا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اُڑا دیا اور جب سب خرچ کر چکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا.پھر اس ملک کے ایک باشندے کے ہاں جا پڑا.اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سور چرانے بھیجا اور اسے آرزو تھی کہ جو پھلیاں سور کھاتے تھے، انہیں سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا.پھر اس نے ہوش میں آکر کہا کہ میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی افراط سے ملتی ہے اور میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں.میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں مجھے اپنے مزدوروں جیسا کر لے.پس وہ اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا.وہ ابھی دُور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اس کو گلے لگالیا اور بوسے لئے.بیٹے نے اس سے کہا کہ اے باپ میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا.اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں.باپ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ اچھے سے اچھاجامہ جلد نکال کر اسے پہناؤ اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ اور پہلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تا کہ ہم کھا کر خوشی منائیں.کیونکہ میرا یہ بیٹا مُردہ تھا اب زندہ ہوا.کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.پس وہ خوشی مانے لگے لیکن اس
کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا جب وہ آکر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سنی اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے کہا تیرا بھائی آگیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے.اس لئے کہ اسے بھلا چنگا پایا.وہ غصے ہو ا اور اندر جانا نہ چاہا.مگر اس کا باپ باہر جا کے اسے منانے لگا.اس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برس سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی.مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی منا تا لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اُڑا دیا تو اس کے لئے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا.اس نے اس سے کہا بیٹا تو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے لیکن خوشی منانی اور شادماں ہونا مناسب تھا.کیونکہ تیرا یہ بھائی مردہ تھا اب زندہ ہو ا کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.“ ( لوقا باب ۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۰۶ء) اس تمثیل سے حضرت مسیح نے یہ بتایا ہے کہ خدا کو بھی بندہ سے ایسا ہی پیار اور محبت ہے اور جو بندہ گناہ کر کے پچھتاتا ہو ا خدا کے پاس آتا ہے اس پر اسی طرح رحم کرتا ہے جس طرح باپ اپنے بیٹے پر.مگر یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح" تو خدا تعالیٰ کے بندوں سے تعلق کو اوپر کی تمثیل سے واضح کر کے اسے بہترین عفو کر نے والا قرار دیتے ہیں مگر مسیحی اسے ایسا ظالم قرار دیتے ہیں کہ خواہ کوئی کتنی ہی التجا کرے وہ اسے معاف ہی نہیں کرتا.کیا اس باپ نے جس کی حضرت مسیح نے تمثیل دی ہے اپنے آنے والے بیٹے کو پہلے مارا اور پھر معاف کیا تھا یا اس کی ندامت کو قبول کر کے بغیر کسی سزا کے معاف کر دیا تھا اور اس کے
آنے پر خوش ہوا تھا.اگر اس کے آنے پر باپ نے کہا ہوتا کہ پیٹھ تنگی کرتا کہ پہلے تمہیں سزا دے لوں اور پھر چھوڑ دوں گا.یا یہ کہ پہلے بڑے بیٹے کو بلا کر کفارہ کے طور پر کوڑے مارے ہوتے پھر چھوٹے کو معاف کیا ہوتا.تب تو کہہ سکتے تھے کہ کفارہ کا خیال درست ہے مگر ایسا نہیں ہوا حضرت مسیح نے اس تمثیل کے ذریعہ سے درحقیقت کفارہ کے مسئلہ کو جڑ سے اکھیڑ دیا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح" کو الہام کے ذریعہ سے پتہ لگ گیا تھا کہ ان کے ماننے والے اس قسم کا عقیدہ بنالیں گے.اس لئے انہوں نے اس تمثیل کے ذریعہ سے اس زہر کا ازالہ کر دیا.مسیحیوں کا خدا تعالیٰ کے متعلق جو عقیدہ ہے اس میں یہ بھی نقص ہے کہ وہ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے تھے اور دوسری طرف یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ موت کا شکار ہوئے اور بعض کے نزدیک وہ لوگوں کے گناہوں کے سبب سے تین دن تک جہنم میں بھی رہے اور سزا پاتے رہے گویا خدا نعوذ باللہ جہنم کی سزا تین دن تک بھگتارہا اور یہ عقیدہ ایسا ہے کہ اس کا نقص خود ہی ظاہر ہے.اس پر کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.زرتشتیوں کا خدا کے متعلق خیال مسیحیوں کے بعد میں زرتشتیوں کے عقائد کو لیتا ہوں.ان لوگوں کا خدا تعالیٰ کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ اس سے صرف ٹور آتا ہے تکلیف اور دُکھ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آسکتا اور اس لئے وہ خدا کے مقابلہ میں ایک اور طاقت بھی مانتے ہیں جس سے ظلمت اور گناہ اور دُکھ پیدا ہوتا ہے اور دُنیا میں جس قدر تغیرات ہوتے ہیں ان کے نزدیک وہ سب انہی دوبالا ہستیوں کی جنگوں کے نتیجہ میں ہوتے ہیں کبھی ایک غالب آجاتا ہے کبھی دوسرا.
۱۲۴ لیکن آخری زمانہ کی نسبت انکا خیال ہے کہ اس میں نیکی کی طاقت بدی کی طاقت پر غالب آجائے گی اور شیطان جسے وہ اہرمن کہتے ہیں اس کا سر کچلا جائے گا.اس عقیدہ پر اعتراض اس عقیدہ پر بھی بہت سے اعتراضات وارد ہوتے ہیں.مثلاً یہ کہ اس طرح شیطان خدا کی ذات میں شریک ہوا اور بجائے ایک خدا کے دو خدا ہوئے جس عقیدہ کو زرتشتی خود بھی نا پسند کرتے ہیں.اس پر ان کے بعض محقق کہتے ہیں کہ اصل میں خدا ایک اور بھی بالا ہستی ہے اس نے دو طاقتیں ایک نیکی کی اور دوسری بدی کی پیدا کی ہیں مگر اس عقیدہ پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر ظلمت خدا ہی کی طرف منسوب ہوئی.کیونکہ اگر خدا نے شیطان کو پیدا کر کے پھر اس سے ظلمتیں پیدا کرا ئیں تو گویا خدا نے خود ہی ظلمتیں پیدا کیں.دوسرا نقص اس عقیدہ میں یہ ہے کہ جن چیزوں کو نقصان رساں سمجھ کر شیطان کی مخلوق قرار دیا جاتا ہے ان کے بھی فوائد معلوم ہورہے ہیں اور وہ بھی مفید ثابت ہو رہی ہیں.اندھیرے کو ہی لے لو.اب اگر اندھیرا نہ ہوتا تو صحت افزا نیند نہ ہوتی کیونکہ طب سے ثابت ہوتا ہے کہ اندھیرے کی نیند روشنی کی نیند سے اعلی ہوتی ہے اور زیادہ مفید ہوتی ہے.کئی ترکاریاں اور سبزیاں اندھیرے میں نشو ونما پاتی ہیں.ہر وقت کی روشنی سے آنکھوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے، اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں تو اگر یہ درست ہے کہ اندھیرے کا پیدا کرنے والا شیطان ہے تو یہ بھی ماننا پڑیگا کہ خدا نے دنیا کو نامکمل پیدا کیا تھا شیطان کی مہربانی سے وہ مکمل ہوئی.
۱۲۵ ہندوؤں کا خدا کے متعلق خیال دنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہندو ہے.ان کے عقائد میں بھی خدا تعالیٰ کے متعلق بعض ایسی تعلیمیں ہیں جو خدا تعالیٰ کو ناقص ثابت کرتی ہیں یا یہ کہ و تعلیمیں عقل کے خلاف ہیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا دنیا میں اوتار لیتا ہے اور مخلوق کا جنم لیتا ہے اور یہ عقیدہ ان میں ایسی بری صورت میں پیش کیا جاتا ہے کہ یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں کہ خدا نے جانوروں میں سے سوکر اور مگر مچھ کا بھی جنم لیا ہے.اگر یہ لوگ غور کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ خدا کے جنم لینے کے یہ معنی ہیں کہ وہ محدود ہے پھر مگر مچھ اور سور کی شکل میں اس کا ظاہر ہونا تو اور بھی حقارت پیدا کرنے والا ہے اور اس عقیدہ سے بجائے خدا تعالیٰ کی عظمت ثابت ہونے کے اس کی ہتک ہوتی ہے.اسی طرح ہندوؤں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور بہت سے دیوتا ہیں جنکو کارخانہ عالم کے چلانے میں بہت کچھ دخل حاصل ہے.چنانچہ تین تو بڑے بڑے مظاہر تسلیم کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک تو پیدا کرنے والا ہے جسے برہما کہتے ہیں اور ایک رزق دینے والا جسے شو کہتے ہیں اور ایک مارنے والا جسے وشنو کہتے ہیں.اس عقیدہ کی وجہ سے ان میں سے اکثر لوگ وشکو اور شو کی تو پوجا کرتے ہیں مگر برہما کی کوئی پو جا نہیں کرتا کیونکہ خیال کرتے ہیں کہ اس نے تو جو کچھ کرنا تھا کر چکا اب آئندہ تو رزق دینے والے اور مارنے والے سے ہی کام پڑنا ہے اس لئے انہی کی پوجا کرنی چاہئے.اس کے متعلق ایک لطیفہ بھی بیان کیا جاتا ہے.کہتے ہیں کوئی راجہ تھا اس کے ہاں لڑکا نہ ہوتا تھا.وہ برہما کی پرستش کرتا رہا جس کے نتیجہ میں لڑکا پیدا ہو گیا.پھر اس نے اس کو
۱۲۶ چھوڑ دیا کہ اب اس کی کیا ضرورت ہے، اب مارنے والے کی پرستش کرنی چاہئے تا کہ بیٹا زندہ رہے.اس نے اس طرح کیا لیکن جب وہ لڑکا جوان ہوا تو اس نے کہا جس نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ مجھے پیدا کیا اس کی پرستش کرنی چاہئے اور وہ برہما کی پرستش میں لگ گیا اس پر باپ اس سے ناراض ہو گیا اور اس کا غصہ بڑھتے بڑھتے اس قدر تیز ہو گیا کہ اس نے مارنے والے پر میشور سے کہا کہ میرے لڑکے کو مار دے چنانچہ وشنو نے اس لڑکے کو مار دیا مگر برہما نے کہا اس لڑکے نے میری خاطر جان دی ہے اس لئے اسے پھر پیدا کر دینا چاہئے.اس نے اسے پھر پیدا کر دیا اور اسی طرح یہ جنگ جاری رہی.اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس جنگ کا خاتمہ کس طرح ہؤا اور صلح کس طرح سے ہوئی.آریوں کا خدا کے متعلق خیال آریہ لوگ گو ہندوؤں میں سے نکلے ہیں لیکن چونکہ انہوں نے اپنے عقائد میں بہت کچھ فرق کر لیا ہے اس لئے میں ان کا الگ ذکر کرتا ہوں.ان لوگوں کے عقیدہ میں بھی بہت کچھ کمزوریاں ہیں.یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو پیدا نہیں کیا بلکہ دنیا کے ذرات اور ارواح خود بخود ہیں خدا نے صرف جوڑ دیا ہے اور سب صفات اقتداری کے وہ منکر ہیں.ان کے نزدیک خدا نہ رازق ہے نہ خالق نہ حفیظ.اور جو صورت وہ خدا کی پیش کرتے ہیں اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ اگر خدا مر بھی جائے تو بھی دنیا کا کوئی چنداں حرج نہیں.خدا ر ہے یا نہ رہے ہم ضرور رہیں گے یہ خیال بھی ایسا ہے کہ اسے عقل انسانی تسلیم نہیں کر سکتی.
۱۲۷ اسلام خدا کے متعلق کیا کہتا ہے؟ ان سب مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کیا کہتا ہے؟ چونکہ اس سوال پر روشنی ڈالنا میرا مقصود ہے اس لئے اس کے متعلق میں تفصیل سے بیان کروں گا.سب سے پہلے میں اسلام کی تعلیم خدا کے متعلق خلاصہ بیان کرتا ہوں.اسلام کہتا ہے کہ ایک بالا ہستی جامع جمیع صفات موجود ہے وہ قائم بالذات ہے.اپنے وجود میں کامل ہے ، دوسروں کا محتاج نہیں ، محدود نہیں ، جس طرح آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر ہے ، جگہ اسے بند نہیں کر سکتی ، جہات اس پر تصرف نہیں رکھتیں ، زمانہ اس پر حکومت نہیں کر سکتا ، وہ با وجود دور ہونے کے نزدیک ہے اور باوجو د نز دیک ہونے کے دور ہے، اسے کسی نے نہیں بنایا مگر جو کچھ بھی موجود ہے اس کا بنایا ہؤا ہے ، وہ سب سے بالا ہے اور سب کچھ اس کے قبضہ و تصرف میں ہے، اس کی مرضی کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، وہ بادشاہ ہے ، وہ مالک ہے، وہ ہدایت دینے والا ہے ، حفاظت کرنے والا ہے اور عزت وذلت اسی کے اختیار میں ہے.وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اور ہر ایک بات کو جانتا ہے.مگر وہ سننے اور دیکھنے اور جاننے کے لئے ہماری طرح آلات کا محتاج نہیں.جو کچھ دُنیا میں نظر آتا ہے سب اسی کی صفات کا ظہور ہے، وہ ہے اور ہمیشہ رہے گا.اس نے دنیا کو خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دنیا اس مقصد کو پورا کرے اس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ خود دنیا کا فائدہ اور اس کی ترقی ہے.
۱۲۸ کیا خدا کی کوئی صورت شکل ہے؟ خدا تعالیٰ کے متعلق یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کی کوئی صورت شکل بھی ہے اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ اس کی کوئی صورت شکل نہیں.صورت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ایک جسم ہے جو مختلف حصے رکھتا ہے اور ہر ایک حصہ کی ایک حد بندی ہے مگر خداسب حد بندیوں اور سب تقسیموں سے پاک ہے اس لئے اس کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی صورت صرف مادی اشیاء کے لئے ہوتی ہے بلکہ ان میں سے بھی کثیف مادی اشیاء کی.خدا کوئی جسم نہیں رکھتا بلکہ جسموں اور مادے کا خالق ہے.حدیث میں خدا کی صورت بتانے کا کیا مطلب ہے؟ اس بیان پر سوال ہو سکتا ہے کہ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی صورت ہے ان احادیث کا کیا مطلب ہے؟ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے غلام کو مار رہا ہے.اس پر آپ نے فرما یا اِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۴۴ ۲۵۱، ۳۱۵) کہ آدم کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا.پس چاہئے کہ اس کی صورت کا ادب اور احترام کرو.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی صورت ہے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیوں فرماتے کہ آدم کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے تم اس کی صورت کا ادب اور احترام کرو.یا د رکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے دو معنی
۱۲۹ ہیں.ایک تو یہ ہے کہ صورت کے معنی عربی میں وصف اور صفت کے بھی آتے ہیں.اس لئے اِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ کے یہ معنی ہوئے کہ خدا نے آدم کو اپنی صفات پر پیدا کیا ہے.جیسے فرما یا عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (البقرة : ٣٢) یعنی خدا نے اپنی وہ ساری صفات جو بندوں سے تعلق رکھتی ہیں آدم کو سکھا ئیں.یعنی انسان کو خدا نے ایسا دماغ دیا کہ جو اس کی صفات کو جلوہ گر کر سکے.وہ شخص چونکہ اپنے غلام کے منہ پر مار رہا تھا اور ممکن تھا کہ اس کے دماغ کو صدمہ پہنچے اس لئے رسول کریم نے اسے فرمایا کہ اس طرح نہ مارو اور جس سے وہ غرض جس کے لئے انسان بنایا گیا ہے وہ باطل ہو جائے گی.چنانچہ دوسری حدیثوں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم نے فرما یا منہ پر نہیں مارنا چاہئے.وجہ یہ کہ دماغ مرکز ہے ساری صفات کا اور اس کو صدمہ پہنچنے سے صفات کا ظہور رک جاتا ہے.اس لئے رسول کریم نے فرمایا خدا کی صفات کا ادب کرو.خدا نے انسان کا دماغ اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس کی صفات اخذ کرے.مگر تم منہ پر مارتے ہو جس سے خطرہ ہوتا ہے کہ دماغ کو جو اس کے بالکل قریب ہے صدمہ پہنچ جائے اور انسان کی عقل کو نقصان پہنچ جائے جس سے وہ اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کرنے سے ہی محروم ہو جائے.اس حدیث کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں علی صُورَتِهِ سے مراد عَلَى صُورَةِ الْإِنْسَانِ ہو.یعنی آدم کو اس کے مناسب حال شکل پر پیدا کیا.اس صورت میں اس حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ چونکہ وہ زور سے مار رہا تھا اس لئے ممکن تھا کہ غلام کا کوئی عضو ٹوٹ جاتا.اس پر رسول کریم نے فرمایا خدا نے تو اسکو اس کے مناسب حال شکل دی تھی کیا مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۲۴
اب تم اس کو درست کرنے لگے ہو؟ گویا تعریضا فرمایا کہ اس طرح مار کر ایک بے کس آدمی کی شکل بگاڑ دینے کے یہ معنی ہوں گے کہ خدا تعالیٰ سے تو اس کی شکل کے بنانے میں غلطی ہوگئی تھی اب تم اس غلطی کی اصلاح کرنے لگے ہو؟ اس صورت میں یہ زجر کا کلام ہے اور اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ خدا کی کوئی صورت اور شکل ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے.کیا خدا کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے؟ اب شاید کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ جب وہ ایسی وراء الوریٰ ہستی ہے کہ جس کا کوئی پتہ ہی نہیں لگ سکتا تو پھر ہم اسے کس طرح سمجھ سکتے ہیں اور کیونکر اس کے وجود کو ذہن میں لا سکتے اور اس کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی ذات اور حقیقت کو کوئی نہیں پاسکتا کیونکہ جس چیز کی حقیقت کو کوئی پالیتا ہے اس کو بنا بھی لیتا ہے اور ہمارا خدا کی حقیقت کو پالینے کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم اسے بنا بھی سکتے ہیں.مثلاً گھڑی ہے اس کے متعلق اگر کامل علم ہو اس کے پرزوں کی ساخت کا بھی اور ان کی ترکیب کا بھی اور اس سامان کا بھی جس سے وہ بنتی ہے اور جس طرح وہ بنتی ہے تو پھر اس کا بنانا بھی ہمارے لئے بالکل ممکن ہوگا.اسی طرح خدا تعالیٰ کی حقیقت کو سمجھ لینے اور پالینے کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم ایک ویسا ہی خدا بنا بھی سکیں.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کو سمجھنا تو الگ رہا ہم اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھ سکتے اور اس بات کو بچے بھی جانتے ہیں.چنانچہ بچے ایک کھیل کھیلا کرتے ہیں.جس میں ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ مجھ کو پکڑو جب دوسرا اس کے کسی عضو کو ہاتھ لگا تا ہے تو وہ کہتا ہے کہ
تم نے مجھے تو نہیں پکڑا میرے ہاتھ کو پکڑا ہے یا پاؤں کو پکڑا ہے یا سر کو پکڑا ہے.اس کھیل کا بھی درحقیقت یہی مطلب ہے کہ انسان کی حقیقت بھی پوشیدہ ہے صرف چند آثار ظاہر ہیں.سارے فلاسفر اس بات کی تعیین کرتے کرتے مر گئے کہ میں کیا چیز ہے؟ مگر وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے.پس جب انسان اپنے آپ کا پتہ نہیں لگا سکتے تو خدا کا پتہ کیا لگا ئیں گے.حدیث میں آتا ہے كُلُكُمْ فِي ذَاتِ اللہ محمقی کہ خدا کی ذات کے متعلق تم سارے بالکل حیران پریشان ہو اس کی ذات تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی.سب حقیقت میں مخفی ہوتی ہیں انسان کے اس شک کو دور کرنے کے لئے کہ اگر میں خدا کو نہیں سمجھ سکتا اور اس کی حقیقت معلوم نہیں کر سکتا تو اس کے ماننے کا کیا فائدہ؟ خدا تعالیٰ نے ساری ہی حقیقتوں کو مخفی کر دیا ہے.چھوٹی سے چھوٹی چیز کی حقیقت کو بھی ہم نہیں معلوم کر سکتے.ایک میز کو لے لو ہم اس کی چوڑائی لمبائی اور رنگ دیکھتے ہیں مگر کیا لمبائی چوڑائی اور رنگ کو میز کہتے ہیں؟ ہم ان چیزوں کو دیکھ کر ایک عرفان ایک وقوف اپنے ذہن میں پاتے ہیں اور وہ میز ہوتی ہے.یا مثلاً کوئی شخص دوسرے کو اپنا بیٹا کہتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ کیا اس لئے کہ وہ اتنا اونچا اور اس رنگ کا ہے.نہیں بلکہ اس کیفیت کی وجہ سے جو اس کے ذہن میں پیدا ہوتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو دُور کرنے کے لئے کہ اگر خدا کی ذات مخفی ہی رہتی ہے تو کیا پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ ہے اور کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے، سب چیزوں کی حقیقت کو مخفی کر دیا ہے.
۱۳۲ خدا کی ہستی کا پتہ کس طرح لگتا ہے؟ اب سوال ہوگا کہ پھر اس وراء الوری ہستی کا پتہ کس طرح لگے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کل بتایا تھا اس کا پتہ الہام سے لگتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام : ۱۰۴) تم خدا تک نہیں پہنچ سکتے مگر اس پر گھبراؤ نہیں ہم خود تمہارے پاس آئیں گے.ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے ایک دفعہ ان کے پاس بادشاہ کا پروانہ آیا کہ جلدی آ کر ہمیں فلاں جگہ پر ملو.اس پر ان کے دوست گھبرائے کہ کیا سبب ہے کہ بادشاہ نے اس طرح انہیں بلوایا ہے اور انہوں نے چاہا کہ وہ ابھی ٹھہریں پہلے وہ پتہ لے لیں کہ کیا بات ہے.مگر وہ چل پڑے.شام کے قریب سخت بارش آئی اور اندھیرا ہو گیا اور وہ ایک جھونپڑی میں جو جنگل میں تھی پناہ لینے پر مجبور ہوئے وہاں جا کر انہوں نے صاحب مکان سے رات بسر کرنے کی اجازت طلب کی.جو شخص اندر تھا اس نے کہا آجاؤ.وہ اندر آ گئے تو دیکھا ایک اپانچ لیٹا ہے جب اس کو انہوں نے اپنا پتہ بتایا کہ میں فلاں ہوں تو وہ رو پڑا کہ میں مدت سے دعائیں کر رہا تھا کہ خدا مجھے آپ کی زیارت کرائے معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ آپ کو میرے لئے ہی لایا ہے.وہ رات بھر وہاں رہے.صبح دوسرا ہر کارہ آ گیا کہ آپ کو اب آنے کی ضرورت نہیں رہی واپس چلے جائیں اس سے ان کو اور بھی یقین ہو گیا کہ یہ ایک الہی تدبیر تھی.جس طرح وہ اپانی جو چلنے پھرنے سے مجبور تھا اس بزرگ تک پہنچ گیا تھا.اسی طرح ہم خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے معاملہ میں اپاہجوں سے بھی بدتر ہیں، خدا تعالیٰ تک پہنچ
سکتے ہیں.یعنی وہ خود ہم تک آئے اور اپنے وجود کو ہم پر ظاہر فرمائے اور وہ ایسا ہی کرتا ہے اور اپنی ملاقات کے پیاسوں کو خود آکر اپنے شربت دیدار سے سیراب کرتا ہے.خدا کی معرفت کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا علم تو ہمیں الہام کے ذریعہ سے ہو جائے گا لیکن اس کی معرفت ہمیں کس ذریعہ سے حاصل ہوسکتی ہے.کیونکہ خالی علم اس تعلق کے لئے کافی نہیں جو خالق اور مخلوق کے درمیان ہونا چاہئے.اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کی معرفت کامل حاصل کرنے کے تین طریق ہیں.ایک تو یہ ہے کہ اس چیز کو پکڑ کر سامنے کر دیا جائے اور دوسرا آدمی اسے خوب اچھی طرح ٹٹول ٹال کر دیکھ لے اور اس کی پوری معرفت پیدا کر لے.مثلاً ایک شخص کا نام سیف اللہ ہو.جس نے اسکو نہ دیکھا ہو وہ اگر اس کی معرفت حاصل کرنا چاہے تو سیف اللہ کو پکڑ کر اس کے سامنے کر دیں گے کہ وہ یہ شخص ہے.دوسرا طریق یہ ہے کہ اس چیز کی بناوٹ کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا جائے مثلاً کسی ملک میں میز اور کرسی کا اگر رواج نہ ہو اور اسی ملک کے لوگ برسبیل تذکرہ میز و کرسی کا نام سنیں تو ان کو واقف کرنے کے لئے یہ ذریعہ اختیار کیا جائے گا کہ میز اور کرسی کی شکل اور بناوٹ اور ان کا کام تفصیل سے ان کو بتا دیا جائے گا اور اس سے ایک اندازہ انکے ذہن میں میز اور گرسی کی نسبت پیدا ہو جائے گا.تیسرا طریق یہ ہے کہ جو اُن چیزوں کے متعلق استعمال کیا جاتا ہے جو مرئی نہیں ہیں یہ ہے کہ ان کی صفات کے ذریعہ سے ان کی معرفت کرائی جاتی ہے.مثلاً نور ہے یہ ایسی چیز نہیں
م ۱۳ کہ اس کی بناوٹ بیان کر سکیں.اس لئے ایک اندھے کے سامنے اس کی صفات ہی بیان کی جائیں گی.اس کے ذریعہ سے آنکھ بغیر ٹو لنے کے معلوم کر لیتی ہے کہ کسی چیز کی لمبائی کیا ہے چوڑائی کیا ہے اور اونچائی کیا ہے.رنگ کی کیفیت اندھا سمجھ نہیں سکتا اس بیان سے اندھا کچھ نہ کچھ اندازہ کر لے گا.اسی طرح اور کئی چیزیں ہیں کہ جن کی صفات بیان کرنے سے ان کا پتہ لگا یا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی شناخت بھی اس طریق سے ہوتی ہے.وہ صفات ہی کے ذریعہ سے انسان کے سامنے آتا ہے اور صفات ہی کے ذریعہ سے انسان اسے پہچان سکتا ہے.کیا خدا ایک ہی ہے یا ایک سے زیادہ خدا ہیں؟ جب سے تاریخ عالم کا پتہ چلتا ہے یہ سوال بنی نوع انسان کے سامنے رہا ہے کہ کیا خدا ایک ہی ہے یا ایک سے زیادہ ہستیاں ہماری اطاعت و فرمانبرداری کی مستحق ہیں؟ اس سوال کا جواب اسلام نے نہایت واضح اور زور دار الفاظ میں یہ دیا ہے کہ خدا صرف ایک ہے اور کوئی ہستی اس کی شریک نہیں.بلکہ عقلاً بھی ایسی ہستی ایک ہی ہو سکتی ہے دو نہیں ہوسکتیں.یہ بالکل ناممکن ہے اور ہماری عقل ہی نہیں سمجھ سکتی کہ دو محیط کل ہستیاں ہوں.دوکا لفظ ہی حد بندی پر دلالت کرتا ہے اور حد بندی کے ساتھ اس غیر محدود قوت کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو خدا کے خیال کے ساتھ لازم و ملزوم ہے.پس خدا ایک ہی ہو سکتا ہے ، دوخدانہیں ہو سکتے.
۱۳۵ شرک کیا چیز ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ غیر مرئی ہے تو اس کا شریک بنانے یا سمجھنے سے کیا مراد ہے؟ یہ بھی ایک ایسا سوال ہے جو ہمیشہ سے لوگوں کو حیرت و پریشانی میں ڈالتا رہا ہے وہ لوگ جو بڑے زور سے ایک خدا کے قائل ہوتے ہیں بعض دوسرے لوگ ان کی نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ مشرک ہیں اور اگر ہم ان کی حالت پر غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر بعض ایسی باتیں ضرور پائی جاتی ہیں جن کو دل اندر سے برا سمجھتا ہے.یادرکھنا چاہئے کہ شرک کا مسئلہ ایسا سیدھا سادہ نہیں ہے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے بلکہ نہایت باریک مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر قو میں جو بظاہر شرک کی مخالف ہیں عملا شرک میں مبتلاء پائی جاتی ہیں اور اس کا سبب یہی ہے کہ وہ شرک کی حقیقت سمجھنے سے قاصر رہی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ شرک کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے بلکہ مختلف نقطہ نگاہ سے اس مرض کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے.جب تک اسے ایک تعریف کے اندر لانے کی کوشش ہوتی رہے گی اس وقت تک یہ مسئلہ عُقدي لا ينعل رہے گا.میرے نزدیک اسے سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل تقسیم بہت مفید ہوسکتی ہے.اول یہ خیال کرنا کہ ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں جو یکساں طاقتیں رکھتی ہیں اور سب کی سب دنیا کی حاکم اور سردار ہیں، یہ شرک فی الذات ہے.دوسرے یہ خیال کرنا کہ دنیا کی مدبر ہستیاں ایک سے زیادہ ہیں جن میں کمالات تقسیم ہیں.کسی میں کوئی کمال ہے اور کسی میں کوئی.یہ شرک ہے اور یہ بھی درحقیقت شرک فی الذات ہی ہے.
IPY تیسرے وہ اعمال جو مختلف قوموں میں عاجزی اور انکساری کے لئے اختیار کئے گئے ہیں ان میں سے جو حد درجہ کے انتہائی عاجزی کے اعمال ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اور کے لئے کرنا شرک ہے.مثلاً سجدہ ہے انتہائی تذلیل اور ادب کا ذریعہ یہی ہے کہ سجدہ کیا جائے.اس سے بڑھ کر اور کوئی طریق نہیں کیونکہ اس میں انسان اپنے آپ کو گویا خاک میں ملا دیتا ہے اس سے بڑھ کر تذلیل کا ذریعہ انسانی عقل تجویز ہی نہیں کر سکتی.پس یہ عمل صرف خدا کے لئے ہی کرنا چاہئے اور کسی کے لئے نہیں کرنا چاہئے تا خدا تعالیٰ میں اور دوسرے وجودوں میں امتیاز قائم رہے.اس خصوصیت کی نسبت یہ خیال کر لینا چاہتے کہ جس قدر اعمال انکسار اور تذلل کے تھے خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق کہا کہ ان میں سے ایک میرے لئے رکھ دو اور باقی بیشک اوروں کے لئے استعمال کرو.یہ نہیں ہوسکتا کہ وہی میرے لئے اور وہی دوسروں کے لئے کیونکہ یہ میری شان کے خلاف ہے اس لئے میرے لئے ایک عمل کو علیحدہ کر دو اگر وہ عمل اوروں کے لئے کرو گے تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ تم ان کو بھی میرے برابر قرار دیتے ہو.سجدہ کے علاوہ مختلف اقوام میں مختلف حرکات بدن انتہائی تذلل کے لئے سمجھی گئی ہیں جیسے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، رکوع، دوزانو ہوکر بیٹھنا، ان سب کو خدا تعالیٰ نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے اور عبادت الہی کا حصہ بنا دیا ہے.پس یہ عمل اب اور کسی کے لئے کرنے جائز نہیں ہیں اور شرک میں داخل ہیں.شرک کی چوتھی قسم چوتھی قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب ظاہری کے متعلق یہ سمجھے کہ ان سے میری سب ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کے تصرف کا خیال دل سے مٹادے اور یہ خیال
کرے کہ صرف مادی اسباب ہی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں مثلاً اگر کوئی سمجھے کہ روٹی کھانے سے ضرور پیٹ بھر جائے گا اور خدا تعالیٰ کی قضاء کا اب اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے تو یہ شرک ہوگا یا جو کپڑا پہنے اس کے متعلق سمجھے کہ یہ ضرور سردی سے بچائے گا تو یہ بھی شرک ہوگا.یا کوئی سامان مہیا کرے اور سمجھے کہ اس کے ذریعہ ضرور میرا کام ہو جائے گا یہ بھی شرک ہے ہاں اگر یہ خیال کرے کہ ان سامانوں میں خدا نے یہ طاقت رکھی ہے اور اس کے فعل اور ارادے کے ماتحت ان کے نتائج پیدا ہوں گے تو یہ شرک نہیں ہوگا.پس شرک کی ایک قسم یہ ہے کہ آخری تصرف جو خدا کو دینا چاہئے وہ اسباب کو دیدے.اس شرک کے اندر بھی یہی حقیقت مخفی ہے کہ انتہائی مقام تصرف کا خدا سے لیکر اور چیزوں کو دیدیا ہے.شرک کی پانچویں قسم پانچویں قسم شرک کی یہ ہے کہ خدا کی وہ مخصوص صفات جو اس نے بندوں کو نہیں دیں جیسے مردہ کو زندہ کرنا یا کوئی چیز پیدا کرنا.یا یہ کہ خدا نے کہا ہے میں ازلی ہوں اور میرے سوا کوئی از لی نہیں.یا یہ بتایا ہے کہ میں فنا سے محفوظ ہوں جبکہ دوسرے سب فنا کا شکار ہیں ایسے سب امور میں خدا تعالیٰ کی خصوصیت کو مٹا دینا اور ان صفات میں کسی اور کو شریک کر دینا خواہ اس عقیدہ کی بناء پر کہ خدا نے اپنی مرضی اور اپنے اذن کے ساتھ یہ صفات یا ان کا کچھ حصہ کسی خاص شخص کو دیدیا ہے، شرک ہے.اس شرک میں افسوس ہے کہ اب مسلمان بھی مبتلاء ہیں حالانکہ یہ بہت کھلا اور ظاہر شرک ہے.مسلمانوں کا عام طور پر یہ خیال ہے کہ حضرت عیسی ابھی تک زندہ ہیں حالانکہ ہر انسان کے لئے فنا ہے اور فنا سے
صرف خدا کی ذات محفوظ ہے اور غیر طبعی زندگی اور وہ بھی ایسی کہ اس میں نہ کھانا ہے نہ پینا نہ حوائج انسانی کا پورا کرنا در حقیقت ابدیت کا ہی دوسرا نام ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ ایک دفعہ تو ضرور ہی ایک انسان کو ماردیتا ہے.پھر خواہ ابدی زندگی ہی دے دے.یہ بھی ایک وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس دُنیا میں جنت نہیں بنائی تاکہ لوگوں کو ایسے آدمی دیکھ کر جو موت سے محفوظ ہوں خدا تعالیٰ کی ابدیت کی حقیقت میں شبہ نہ پیدا ہو جائے.شرک کی چھٹی قسم چھٹی قسم شرک کی یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے اور یہ سمجھے کہ کسی شخص یا کسی چیز نے بلا ان اسباب کے استعمال کرنے کے جو خدا تعالیٰ نے کسی خاص کام کے لئے مقرر کئے ہیں اپنی ذاتی اور خاص طاقت کے ذریعہ سے اس کام کو کر دیا ہے مثلاً خدا تعالیٰ نے آگ کو جلانے کے لئے پیدا کیا ہے.اب اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ کسی شخص نے بلا آگ اور بلا ایسے ہی دوسرے ذرائع کے استعمال کرنے کے اپنی ذاتی طاقت سے آگ لگا دی اور قانون قدرت کو گو یا توڑ دیا یہ شرک ہے لیکن اس میں مسمریزم وغیرہ شامل نہیں کیونکہ یہ طاقتیں خود قانون قدرت کے اندر ہیں اور کسی شخص کے ذاتی کمالات نہیں بلکہ سب لوگوں میں موجود ہیں اور قانون قدرت کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.پس جو جو کام اس قسم کی طاقتوں کے ذریعہ سے ہو سکتے ہیں جیسے اعصاب کی جس کو مار دینا.بے ہوش کر دینا.جسم کو سخت کر دینا وغیرہ ان پر یقین لانا شرک نہیں کہلائے گا.پس جو اسباب خدا نے کسی چیز کے ہونے کے لئے رکھے ہیں ان کے بغیر خیال کرنا
۱۳۹ کہ کوئی شخص اپنے زور سے کام کر دے گا بغیر اس کے کہ یہ سمجھے کہ وہ دعا کر کے خدا سے وہ کام کرا دے گا یہ شرک ہے.شرک کی ساتویں قسم ساتویں یہ سمجھنا کہ خدا کو کسی بندہ سے ایسی محبت ہے کہ ہر ایک بات اس کی مان لیتا ہے یہ بھی شرک ہے کیونکہ اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ بندہ خدائی طاقتیں رکھتا ہے.ہر ایک بات جو وہ کہتا ہے قبول ہو جاتی ہے.یہ ضروری نہیں کہ ایسے آدمی کو خدا سمجھا جائے.اگر اسے خدا کا غلام بھی سمجھا جائے مگر اس کی نسبت یہ خیال کیا جائے کہ اس سے خدا کو ایسی محبت ہے کہ اس کی ہر ایک بات قبول کر لیتا ہے یہ شرک ہے.سارے پیر فقیر جن کے متعلق لوگ ایسا خیال رکھتے ہیں اس کے اندر آ جاتے ہیں.ہماری جماعت کو بھی ایسے خیالات سے بچنا چاہئے.بعض لوگوں کو میں دیکھتا ہوں بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں یا لکھ دیتے ہیں کہ اگر آپ دعا کریں گے تو وہ ضرور قبول ہوگی.خدا تعالی بادشاہ ہے کسی کا غلام نہیں، اس قسم کے کلمات سے اللہ تعالیٰ کی بہتک ہوتی ہے اور شرک پیدا ہوتا ہے میں تو کیا چیز ہوں جن لوگوں کے قدموں کی خاک کے برابر بھی میں نہیں ، یہ رتبہ ان کو بھی حاصل نہ تھا.شرک کی آٹھویں قسم آٹھویں قسم شرک کی یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے خدا کے قانونِ قدرت نے کسی کام کے کرنے کے لئے کوئی طاقت نہیں دی اس کے متعلق خیال کر لیا جائے کہ وہ فلاں کام کر لے گی.جیسے مثلا خُدا نے مُردہ کو طاقت نہیں دی کہ اس دنیا میں کوئی تصرف
۱۴۰ کر سکے اب اگر کوئی کسی مُردہ کو جا کر کسی تصرف کے لئے کہتا ہے تو شرک کرتا ہے.اس طرح بتوں ، دریاؤں، سمندروں، سورج، چاند وغیرہ چیزوں سے دُعائیں کرنا اور کرانا بھی شرک ہے.شرک کی نویں قسم نویں قسم شرک کی یہ ہے کہ ایسے اعمال جو مشرکانہ رسوم کا نشان ہیں گواب شرک کی مشابہت نہیں رکھتے ان کا بلا ضرورت طبعی ارتکاب کرے.مثلاً ایک شخص کسی قبر پر جا کر نہ دعا کرے نہ کرائے ، نہ صاحب قبر کو خدا سمجھے لیکن وہاں دیا جلا کر رکھ آئے تو یہ فعل بھی شرک کے اندر آ جائے گا.کیونکہ یہ عمل پہلے زمانہ کے مشرکانہ اعمال کا بقیہ ہے.وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ مردے قبروں پر واپس آتے ہیں اور جن لوگوں کی نسبت معلوم کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کی قبروں کا احترام کیا ہے ان کے کام کر دیتے ہیں اس لئے لوگ قبروں پر دیئے یا اور بعض چیزیں رکھ آتے تھے ان یادگاروں کو تازہ رکھنا بھی چونکہ شرک کی مدد کرنا ہے اس لئے شرک میں ہی داخل ہے.درختوں پر رسیاں وغیرہ باندھنی یا قبروں پر پردے چڑہانے ،ٹونے کرنے ، یہ سب امور اس قسم کے شرک میں شامل ہیں اور سب اسلام کے نزدیک قطعی طور پر حرام ہیں.میں نے جو یہ لکھا ہے کہ بلا ضرورت طبعی ایسے کام کر نے منع ہیں ، اس سے مراد یہ ہے کہ مثلاً کہیں جا رہے تھے اندھیرا ہو گیا اور کسی مقبرہ میں ٹھہر گئے ایسی صورت میں یہ نہیں کہ وہاں اندھیرے میں ہی بیٹھا ر ہے بلکہ اگر روشنی کا سامان کر سکتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ دیا جلا لے.
شرک کی دسویں قسم ۱۴۱ دسویں قسم شرک کی یہ ہے کہ خواہ عمل نہ ہو مگر دل میں محبت ادب خوف اور اُمید کے جذبات خدا کی نسبت اوروں سے زیادہ رکھتا ہو یا خدا کے برابر رکھتا ہو.ان دن قسموں کے باہر کسی قسم کا شرک میرے نزدیک نہیں بچتا.واللہ اعلم بالصواب.جہاں تک میں سمجھتا ہوں سب اقسام شرک کی ان دنل قسموں میں آجاتی ہیں.مجھے ساری عمر اس بات کی جستجو اور تلاش رہی ہے کہ شرک کیا ہے؟ لوگ کہتے ہیں یہ موٹی بات ہے.مگر میں طالب علمی کے زمانہ میں اسے سمجھنا چاہتا تھا اور سمجھ نہیں سکتا تھا.یہ جانتا تھا کہ یہ بات شرک ہے اور یہ نہیں لیکن ایسی تعریف نہیں ملتی تھی کہ جس کے اندر شرک کی سب اقسام آجائیں اور ایسی بات داخل نہ ہو جو شرک نہ ہو.آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ شرک کی ایک تعریف کرنا ہی غلطی ہے جس طرح خدا تعالیٰ کے وجود کا تصور کبھی ذات کے لحاظ سے ہوتا ہے کبھی ان صفات کے لحاظ سے جن میں مخلوق کو کسی قسم کی بھی قدرت نہیں دی گئی کبھی ان صفات کے لحاظ سے جن میں بظاہر بندے بھی شریک ہوتے ہیں اس لئے سب امور کو مد نظر رکھ کر شرک کی مختلف اقسام کی تعریف الگ الگ ہی کرنی چاہئے.شرک کارد شرک کی تعریف بیان کرنے کے بعد میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ مشرکانہ خیال کا رد کس طرح کیا جائے؟ میں نے اس سوال پر بھی غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ سوال بھی نہایت پیچیدہ ہے میرے نزدیک عوام الناس اس کے متعلق فلسفیانہ اور باریک
۱۴۲ بحثوں کو سمجھ نہیں سکتے اور چونکہ لوگ فلسفیانہ بحثوں میں ہی اکثر پڑ جاتے ہیں اس لئے عوام الناس کو چنداں فائدہ نہیں ہوتا.شرک کے مقابلہ کا اصل طریق فطرت انسانی سے اپیل ہے خدا تعالیٰ نے شرک کے خلاف انسان کی فطرت میں مادہ رکھا ہے اور اس کے پاس اپیل رائیگاں نہیں جاتی.ایک مشرک آدمی سے بھی بجائے فلسفیانہ بحث کرنے کے اگر اس کی عقل اور ضمیر سے اپیل کرتے ہوئے اس کی توجہ کو اس طرف پھیرا جائے تو وہ بہت جلد حق کی طرف رجوع کرتا ہے.قرآن کریم نے اسی طریق پر زیادہ زور دیا ہے بجائے اس پر بحث کرنے کے کہ خدا کا شریک ہو سکتا ہے یا نہیں.لوگوں کو یہ توجہ دلائی ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے دوسروں کو اس کے برابر قرار نہ دو اور پھر ان چیزوں کی کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن کو لوگ خدا کا شریک قرار دیتے تھے اور اس طرح لوگوں کی صحیح فطرت کو اُکسایا ہے جس کا اثر یہ ہوا کہ ملک کا ملک شرک کو چھوڑ کر توحید کی طرف لوٹ آیا.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک قانون قدرت بنایا ہے اور جو طاقتیں کسی کو دینی تھیں وہ دے دی ہیں.ان سے الگ جو کام انسان کرنا چاہتا ہے اس کے کرنے کی طاقت خدا نے اپنے قبضہ میں رکھی ہے تا کہ اس کی طرف انسان کی توجہ ہو.اگر سب کچھ انسان خود کر لیں تو اس کی طرف کون توجہ کرے.پس خدا تعالیٰ نے قانونِ قدرت بنا دیا اور پھر یہ فیصلہ کر دیا کہ اگر کوئی اس میں فرق کرنا چاہے تو وہ مجھ سے دُعا کرے اس کے بدلنے کی طاقت میں کسی اور کو نہیں دوں گا.پس صرف ایک ذریعہ دعا کا انسان کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے اور دُعا صرف خدا تعالیٰ سے کی جاسکتی ہے اور کسی سے نہیں.
۱۳ دوسرے سے دعا کرانا اگر کوئی کہے کہ پھر دوسرے سے دُعا کرانا بھی ناجائز ہونا چاہئے یہ کیوں جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی اجازت دینے میں ایک حکمت مخفی ہے.اگر یہ حکمت نہ ہوتی تو دوسرے سے دعا کرانا بھی شرک ہوتا اور وہ یہ ہے کہ اکثر انسان کمزور ہوتے ہیں وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے اور ان کے لئے کسی نمونے کی ضرورت ہوتی ہے اگر نمونہ نہ ہو تو ان کا خدا تک پہنچنا مشکل ہو جائے.پس خدا تعالیٰ نے دُعا کی قبولیت کے مدارج مقرر کر دیئے ہیں تا کہ لوگ صحبت صالح کی جستجو کریں اور بدصحبت سے اجتناب کریں کیونکہ یہ قدرتی بات ہے کہ جب کوئی شخص دیکھے گا کہ ایک شخص کی دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے تو اس کی طرف توجہ کرے گا اور اس کی صحبت کو قبول کرے گا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اعمال میں درستی پیدا ہونے لگے گی.دوسرے دعا کرانے والا کبھی یہ فرض نہیں کرتا کہ اس شخص کو خدا تعالیٰ نے کوئی طاقت دیدی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی دُعا کو بوجہ اس کی نیکی کے خدا زیادہ سنتا ہے.مگر یہ ضرور شرط ہے کہ جس سے انسان دُعا کرائے اس کے متعلق یہ خیال ہر گز نہ کرے کہ اس کی سب دُعا ئیں اللہ تعالی سنتا ہے اگر ایسا سمجھے گا تو وہ مشرک ہو جائیگا.خدا تعالیٰ کے استغناء کو اسے ضرور مد نظر رکھنا چاہئے.نمردہ سے دعا کرانا شرک ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر دوسرے سے دُعا کرانا شرک نہیں اور ادھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مردے سنتے ہیں اور احادیث سے بھی یہ امر ثابت ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مردوں سے
م ۱۴ دعا کرانا شرک ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان امور کے لئے کسی زندہ سے التجا کرنا بھی شرک ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں اور طبعی قانون سے بالا ہیں.پس مُردے سے کیونکر جائز ہوسکتا تھا زندہ سے انسان دُعا کرتا نہیں بلکہ اس سے دُعا کراتا ہے.اگر کہا جائے کہ مُردے سے دُعا کرانا تو پھر شرک نہ ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مردے گو سنتے ہیں مگر ان کا سننا خدا تعالیٰ کے خاص حکم کے ماتحت ہوتا ہے وہ انسانوں کی طرح ہر ایک بات جو اُن کی قبر پر کہی جائے نہیں سنتے.ہاں ان کی رُوح کو اپنے دنیوی عزیزوں سے ایک تعلق پیدا کرانے کے لئے بعض امور ان کو سنائے جاتے ہیں.پس ایسے وجودوں سے دعا کرانے کی خواہش کرنا جن کا ہر ایک بات سننا بھی یقینی نہیں بلکہ خدا کے خاص حکم کے ماتحت ان کو باتیں سنائی جاتی ہیں اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے، اتنی دیر انسان خدا سے ہی کیوں دعا نہ کرے.ہاں اگر کشف یا وحی سے کسی انسان کو کسی مردہ بزرگ کی زیارت کرائی جائے اور اس پر منکشف ہو جائے کہ اسے اس کے لئے دُعا یا شفاعت کی توفیق دی جائے گی اور وہ اس سے دُعا کے لئے کہے تو یہ جائز ہوگا بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہوگی جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بار یک روحانی علم دیا گیا ہے.اگر یہ حالت نہ ہو تو جو شخص اس خیال سے مُردہ سے دُعا کراتا ہے کہ وہ ضرور اس کی باتیں سن رہا ہے اور ضرور دعا کرے گا اور ضرور اسکی سنی جائیگی وہ مشرک ہے اور مشرکانہ فعل کرتا ہے اور جو شخص سمجھتا ہے کہ طبعی قانون کے ماتحت رہے یہ اور دنیا میں ہیں خدا کا خاص فعل ان کو دنیا کی آوازیں سنا سکتا ہے اور خدا کی خاص اجازت سے ہی یہ دُعا کر سکتے ہیں اور خدا چاہے تو ان کی سُنے اور چاہے تو نہ سنے تو ایسے شخص کا مردہ سے دعا کی خواہش کرنا شرک نہ ہوگا.ہاں بسا اوقات ایک عبث فعل اور
۱۴۵ وقت کا ضائع کرنا ہوگا اور بسا اوقات مکروہ ہوگا اور بسا اوقات ناجائز ہوگا گوشرک کی حد تک نہ پہنچے کیونکہ دوسرے سے دُعا کرانے کی اصل حکمت صحبت صالح کی طرف توجہ دلانا ہے.اگر مردوں سے دُعا کرانے کا دروازہ کھلا ہو تو زندوں سے دُعا کرانے کا رواج اور اس طرح صحبت صالح سے فائدہ اُٹھانے کا رواج بہت کم ہو جائے گا اور اس سے دنیا کی روحانی ترقی کو نقصان پہنچے گا.میرے نزدیک زندہ سے دعا کرانے کا فائدہ خواہ وہ وفات یافتہ سے بہت ہی کم درجہ پر کیوں نہ ہو بہت زیادہ ہو گا (بشرطیکہ یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مُردہ سے دُعا کرانے کا اس موقع پر اسے کوئی فائدہ ہوا ہے ).مردہ سے دُعا کرانے کا جو استثناء میں نے بیان کیا ہے اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے.آپ کو بعض کشوف کے ذریعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح " ناصری سے ملایا گیا اور ان سے دعا کی خواہش کرائی گئی جسے آپ نے اپنی بعض تحریروں میں اور نظموں میں بیان کیا ہے اور جاہل اور نادان خشک ملاؤں نے اس پر اعتراض کیا ہے.کیا شرک بخشا نہیں جائے گا جبکہ میں نے اس امر پر خاص زور دیا ہے کہ شرک ایک نہایت باریک سوال ہے تو یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ایسے باریک سوال پر اس قدر سخت گرفت کیوں رکھی ہے کہ وہ بخشا ہی نہیں جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ شرک با وجود تو بہ کے نہیں بخشا جائے گا.کوئی گناہ بھی ایسا نہیں کہ جو تو بہ سے بخشا نہ جائے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک نہیں بخشا جائے گا تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ بعض گناہ ایسے ہیں جو بعض
۱۴۶ نیکیوں کے مقابلہ پر آکر انسان کی روحانی ترقیات میں روک نہیں بنتے پس باوجود ان کے انسان نجات پا جائے گا مگر شرک ان گناہوں میں سے نہیں ہے.اگر ایک انسان مشرک ہو تو خواہ دوسرے اعمال اس کے کسقد ربھی اچھے کیوں نہ ہوں اسے اپنی روحانی پاکیزگی کے لئے جد و جہد کرنی پڑے گی اور ایسے حالات میں سے گزرنا پڑیگا جن میں سے گزرے بغیر روح اگلے جہان میں اپنی امراض کو دور نہیں کر سکے گی اور پھر یہ بھی بات ہے کہ یہ حکم شرک جلی کے لئے ہے نہ کہ شرک خفی کے لئے.شرک خفی کے متعلق اس کی نیت اور کوشش کو دیکھا جائے گا.شرک کے خلاف قرآن کا طریق شرک کے خلاف لوگ چونکہ غلط بحثوں میں پڑ جاتے ہیں اس لئے ان کی بحثوں کا نتیجه قطعی نہیں نکلتا مگر جیسا کہ میں مختصراً اوپر ذکر کر آیا ہوں اس مسئلہ کے متعلق بحث زیادہ تر تفصیلی کرنی چاہئے.مثلاً بجائے اس پر بحث کرنے کے کہ سجدہ کرنا چاہئے یا نہیں اس پر بحث کرے کہ وہ کونسا وجود ہے جو سجدہ کا مستحق ہے اس کو ہمارے سامنے پیش کرو.قرآن کریم نے اس طریق کو اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے مشرک کا ناطقہ اس طرح بند ہو گیا ہے کہ اب موحد کے سامنے اس کی زبان نہیں کھل سکتی.مثال کے طور پر میں مندرجہ ذیل آیات کو پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءِ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَنٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلهِ ۖ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إيَّاهُ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيْمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.(یوسف: ۴۱) یعنی تم لوگ سوائے چند ناموں کے جو تم نے اور تمہارے آباء نے آپ ہی رکھ لئے ہیں اور کسی کی عبادت نہیں کرتے خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق کوئی دلیل نہیں نازل کی.اپنی طاقتیں دینے
۱۴۷ کا اختیار خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے نہ کہ تمہارے اختیار میں پھر ان کو کس نے طاقتیں دیدیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے سب انبیاء تو یہی تعلیم دیتے چلے آئے ہیں کہ اس کی پرستش کرو.یہی سیدھا اور پکا طریق ہے لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہم یہ بحث نہیں کرتے کہ خدا کے سوا کوئی پرستش کے قابل ہے یا نہیں ہمیں یہ بتا دو کہ کیا جن جن بھوں کی تم پوجا کرتے ہو ان میں خدا کی طاقت آگئی ہے اگر یہ ثابت کر دو کہ وہ بیٹے دینے کی طاقت رکھتے ہیں، انسانوں کے دُکھ دور کر سکتے ہیں تو ان کے معبود ماننے میں کیا عذر ہوسکتا ہے؟ لیکن اگر ان میں کچھ بھی طاقت نہیں تو وہ معبود کیسے اور ان کی پرستش کیسی؟ فرماتا ہے مشرکوں سے یہی پوچھو کہ جن کو تم خدا کا شریک بناتے ہو ان کے خدا ہونے کی دلیل پیش کرو جب خدائی کے اختیار خدا ہی دے سکتا ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا یله - (یوسف:۴۱) سب اختیار میرے ہی پاس ہیں تو ان کے پاس کچھ نہ ہوا مگر تم کہتے ہو کہ وہ یہ بات کرتے ہیں یہ کام کرتے ہیں اس لئے ثبوت دو کہ واقع میں ان میں بعض خدائی طاقتیں ہیں؟ ایک اور جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُونِهِ (لقمن : ۱۲) خدا کی مخلوق ظاہر ہی ہے اگر ان میں بھی کچھ طاقت ہے جن کو تم معبود بناتے ہو تو دکھاؤ انہوں نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ کہاں ہے؟ شاید اس موقع پر کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے سامنے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور یوسف علیہ السلام کو ان کے والد نے سجدہ کیا تھا.اگر غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنا نا جائز ہے تو پھر ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سجدہ کے معنی اطاعت کے بھی ہیں.فرشتوں سے کہا گیا تھا کہ آدم کی
۱۴۸ اطاعت کرو اور حضرت یوسف کے متعلق جو آیت ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ یوسف کی ترقی دیکھ کر اور ان کو سلامت پا کر ان کے والد نے شکریہ کے طور پر خدا کو سجدہ کیا نہ یہ کہ یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا.شرک کی سخت ناپسندیدگی کی وجہ اب میں یہ بتا تا ہوں کہ شرک کو اتنا نا پسند کیوں کیا گیا ہے؟ کہ سارے قرآن میں اس پر نفرت کا اظہار کیا گیا ہے.اوّل یہ کہ خدا کا شریک بنانے سے اس کی غیرت بھڑکتی ہے اور وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی شان کسی اور کو دی جائے اور غیرت بھی اعلیٰ صفات میں سے ہے اور اس کا پایا جانا خدا تعالیٰ کے کامل الصفات ہونے پر دلالت کرتا ہے نہ کہ نقص پر.دوم بندوں پر رحم اور مہربانی بھی شرک سے روکنے کا باعث ہے اگر لوگ خدا کے سوا اور معبودوں پر بھی یقین رکھیں گے تو اکثر کم ہمتی کی وجہ سے ( تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں) کہہ دیں گے کہ ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے چھوٹے خداؤں کو خوش کر لیا.اس سے آگے جا کر کیا کرنا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی عبادت سے جو روحانی ترقیات کے لئے ضروری ہے، محروم ہو جائیں گے.پس لوگوں کو ہلاکت سے بچانے کے لئے شرک کے دُور کرنے کی طرف اللہ تعالیٰ دوسرے امور کی نسبت زیادہ توجہ فرماتا ہے.سوم یہ کہ جو امور معبودان باطلہ میں تسلیم کئے جاتے ہیں اگر فی الواقع خدا کے سوا اور وجودوں میں پائے جائیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان حجاب اور پردے پیدا کر چھوڑے ہیں حالانکہ بنی نوع انسان کو پیدا ہی قرب الہی
۱۴۹ کے حصول کے لئے کیا گیا ہے پس شرک کی وجہ سے چونکہ محبت الہی کم ہو جاتی ہے اور پیدائش کی غرض پوشیدہ ہو جاتی ہے.یوں معلوم ہوتا ہے گو یا اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان روک پیدا کرنی چاہتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس غلط عقیدہ کو مٹا کر انسان کے دل میں اپنی کامل محبت پیدا کرنی چاہتا ہے جو بلا توحید پر ایمان لانے کے ہو ہی نہیں سکتا.چوتھے یہ کہ شرک سے جھوٹ ، جہالت اور بزدلی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے ان گناہوں میں مبتلاء ہوں اس لئے وہ اس ناپاکی کو دور فرماتا ہے.جھوٹ شرک میں یہ ہے کہ جو طاقتیں خدا نے کسی کو نہیں دیں ان کی نسبت کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں شخص یا چیز میں وہ موجود ہیں.جہالت اس لئے کہ جن چیزوں کو خدا تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے اور خدمت کے لئے بھیجا ہے انہیں وہ اپنا افسر اور حاکم سمجھ کر ان سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو جاتا ہے اور ایسے ذرائع سے ان سے نفع حاصل کرنا چاہتا ہے جس طریق سے وہ نفع حاصل نہیں کر سکتا اور بزدلی اس لئے کہ جن وجودوں سے اسے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں جن سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا وہ ان سے کانپتا اور لز رتا ہے.حق یہ ہے کہ شرک انسان کا نقطہ نگاہ بہت ہی محدود کر دیتا ہے اور اس کی ہمت کو گرا دیتا ہے اور اس کے مقصد کو ادنی کر دیتا ہے.مشرک انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ براه راست خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا اور اسے کسی واسطہ کی ضرورت ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور انسان کے درمیان کوئی واسطہ نہیں رکھا وہ سب انسانوں سے یکساں محبت کرتا ہے.ہاں اگر ان کے اعمال میں فرق ہو تو بیشک وہ اعمال کے لحاظ سے تعلق میں بیشک فرق کرتا ہے لیکن بلحاظ بندہ ہونے کے کافر اور مؤمن سے اس کا یکساں سلوک
۱۵۰ ہے اور سب کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں جو چاہے اس کے قرب کی تلاش کرے.وہ نہیں چاہتا کہ انسان اور اس کے درمیان کوئی واسطہ بن کر کھڑا ہو خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو بلکہ یہ چاہتا ہے کہ انسان خود اس کے سامنے آئے.اب دیکھو کہ کوئی بادشاہ اپنی رعایا سے چاہے کہ وہ خود اس سے بات کریں مگر وہ دوسروں سے جا کر کہیں کہ تم ہمارا کام کر دو ہم بادشاہ کے پاس نہیں جاتے تو کیا وہ پسند کرے گا ؟ یہ خیال غلط ہے کہ بادشاہ سب سے تعلق نہیں رکھ سکتے آخر ان کے نائب مقرر ہوتے ہیں کیونکہ بادشاہ انسان ہوتا ہے اور اس کی طاقتیں محدود ہوتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کی طاقتیں محدود نہیں ہیں.بادشاہ کے لئے سب سے تعلق رکھنا ممکن نہیں مگر خدا تعالیٰ کی طاقت اور قدرت میں ہے کہ وہ سب سے براہ راست تعلق رکھے اور وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے اور بندے کے درمیان کوئی حجاب بنے کیونکہ اس نے انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ اس کا قرب حاصل کرے.دیکھو تو حید پر ایمان لا کر انسان کی نظر کسقدر وسیع ہو جاتی ہے.اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اس کا تعلق براہ راست خدا تعالیٰ سے ہوا سے خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے کسی شفیع کی ضرورت نہیں نہ کسی نبی کی نہ کسی ولی کی.نبیوں کی اطاعت کی وجہ اس موقع پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو نبیوں کی اطاعت کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اطاعت اور چیز ہے اور وسیلہ ڈھونڈنا اور شئے ہے.اطاعت تو یہ ہے کہ جس رستے پر وہ چلتے ہیں ہم بھی اس راستہ پر چلیں یا متفقہ عمل کے لئے اس نظام کی
۱۵۱ پابندی کریں جسے وہ مقرر کرتے ہیں.مگر وسیلہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی شخص کو اس لئے پیدا کرے یا اس عہدہ پر مقرر کرے کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اندر نہ آسکے یا یہ کہ اپنے بعض اختیار اسے دیدے تا وہ بھی خدا کی بعض صفات کے ذریعہ سے دنیا میں تصرف کرے.نبیوں کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک واقف راہ ایسے شخص کو جو کسی مقام کا رستہ نہ جانتا ہو اپنے ساتھ لے جا کر راستہ دکھا دے.دُنیا کا کوئی شخص نہ کہے گا کہ یہ راستہ دکھانے والا شخص درمیانی وسیلہ ہے.وہ راہنما کہلا سکتا ہے، رہبر کہلاسکتا ہے، استاد کہلا سکتا ہے مگر وہ درمیانی ہرگز نہیں ہے.وہ خدا تعالیٰ کی طاقتوں پر متصرف نہیں ہے.رسول لوگوں کو بلانے آتا ہے نہ کہ ان کے سامنے دروازہ بند کر کے کھڑے ہو جانے کے لئے.خلفاء کا تعلق بھی انبیاء سے یہی ہوتا ہے وہ انبیاء کی تعلیم پر لوگوں کو مل کرانے اور نظام قائم کرنے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ نبیوں اور لوگوں کے درمیان روک ہوتے ہیں.یہ نکتہ تھا جس کو بیان کرتے ہوئے حضرت احمد سر ہندی رحمتہ اللہ علیہ کے منہ سے نکل گیا تھا کہ پنجه در پنجه خدا دارم من چه پروائے مصطفی دارم ایسے نیک انسان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کریگا.ان کا دوسرا کلام ہرگز اس امر کی تصدیق نہیں کرتا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے ادب تھے جو کچھ انہوں نے کہا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے ملنے کا راستہ سب کے لئے کھلا چھوڑا ہے اس غرض کے لئے کسی وسیلے کی اسے ضرورت نہیں خواہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ ہوں اور اس میں کیا شک ہے کہ انسان کو قرب الہی کے حصول کے لئے کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں گونمونے اور رہنما کی اسے ضرورت ہے.
۱۵۲ انسان کو پیدا کرنے کی غرض غرض بندہ کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ اپنی صفات کی اس پر جلوہ گری کرے جیسے آئینہ بناتے ہیں تا کہ اس میں اپنا عکس دیکھا جائے اگر کوئی اس پر عکس نہ پڑنے دے تو اس شخص پر کس قدر غصہ آتا ہے اسی طرح خدا اور بندہ کے درمیان اگر کچھ حائل ہو تو اسے خدا نا پسند کرتا ہے.بچپن میں میں نے ایک رؤیا دیکھی تھی کہ میں ایک جگہ لیکچر دے رہا ہوں اور یہ بیان کر رہا ہوں کہ خدا بندہ کے ساتھ اسی طرح تعلق رکھتا ہے جیسے انسان آئینہ سے پھر کہتا ہوں کہ دیکھو اگر ایک شخص کا آئینہ خراب ہو جائے اور وہ اس میں چہرہ دیکھنا چاہے مگر چہرہ نظر نہ آئے تو وہ کیا کرے گا یہی کہ وہ اسے زور سے اُٹھا کر زمین پر دے مارے گا اور اسے چکنا چور کر دے گا اور اس وقت میں نے اپنے ہاتھ میں ایک آئینہ دیکھا جسے زور سے زمین پر دے مارا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے ٹوٹنے کی زور سے آواز آئی.میری اس خواب کی یہی تعبیر تھی کہ بندہ کا دل اللہ تعالیٰ کا آئینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات جلوہ گر ہوتی ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے اور بندے کے درمیان خود کسی کو کھڑا کرے اگر کوئی خود آکھڑا ہو تو خدا تعالیٰ اسے سخت نا پسند کرتا ہے.نبی کی اطاعت کا حکم دینے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کو کہیں کہ آئینہ صاف کر دو اور شرک جو وسیلہ قرار دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی آئینہ پر گرد ڈال دے یا اسے سیاہ کر دے.ہم لوگ آئینہ ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صاف کر کے خدا کے سامنے کرنے والے ہیں کیونکہ انہوں نے خاص قربانی اور خاص اطاعت سے اس طریق کو
۱۵۳ معلوم کر لیا ہے جس سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے.وہ ہمیں راستہ بتاتے ہیں اور ہم ان کے پیچھے چلتے ہیں لیکن شرک ایک روک ہے جو خدا اور بندہ کے درمیان حائل ہو جاتی ہے.صفات الہیہ کیا ہیں؟ شرک کا ذکر کرنے کے بعد میں اب صفات الہیہ کا ذکر کرتا ہوں.پہلا سوال یہ ہے کہ صفات الہیہ کیا ہیں.صفات الہیہ وہ اسماء ہیں کہ جن کے ذریعہ سے بندے اور خدا تعالیٰ کا تعلق بتایا جاتا ہے یا خدا تعالیٰ کے مقام تنزیہی یا نزول کی کیفیت بتائی جاتی ہے یعنی وہ اپنی ذات میں کیا کمال رکھتا ہے اور بندوں سے کس طرح معاملہ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ اللهُ الَّذِئ لَا إلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَثِرُ سُبْحَانَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوَّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْلى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحشر : ۲۵،۲۴) وہ اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں بادشاہ ہے، پاک ہے، سلامتی کا سرچشمہ ہے، امن دینے والا ہے، محافظ ہے، غالب ہے، نقصان کی اصلاح کرنے والا ہے، بلند مرتبہ ہے، اللہ پاک ہے ان کے مشرکانہ خیالات سے ، وہ اللہ ہے خالق ، شکل بنانے والا، صورتیں دینے والا اس کے اندر تمام اچھی صفات پائی جاتی ہیں اور وہ غالب ہے اور حکمت والا ہے.یہ وہ نام ہیں جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ بندوں سے تعلق رکھتا ہے یا جن کے ذریعہ تمہارے لئے اپنے قرب کا سامان پیدا کرتا ہے یا جن کے ذریعہ بندہ کو اپنے سے جدا ثابت کرتا ہے.نام عربی میں صفت کے لئے بھی آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے جو نام قرآن اور احادیث میں آئے ہیں ان سے مراد صفات ہی ہیں اور ان میں سے موٹے موٹے نام یہ
۱۵۴ ہیں.قدوس.سلام.مؤمن مہیمن - عزیز.جبار.متکبر.خالق.باری.مصور - حکیم.علیم.رزاق.سمیح.بصیر.حفیظ.کریم.محی.قیوم.رؤف.رحیم غنی صمد و دود.ان ناموں کے بتانے کی غرض یہ ہے کہ بندہ ان ناموں کے ذریعہ سے معلوم کر سکے کہ وہ خدا سے کس کس طرح تعلق پیدا کر سکتا ہے.خدا کے لئے نام تجویز کرنا اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خدا نے کہا ہے کہ میرے اچھے نام ہیں تو کیا ہم خود بھی کوئی اچھا نام دیکھ کر خدا کی طرف منسوب کر دیا کریں؟ میرے نزدیک ایسا نہیں کرنا چاہئے.وجہ یہ کہ اس میں بڑی بڑی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلِلهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْلَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاعراف:۱۸۱) تمام صفات حسنه خدا کی ہیں پس تم ان کے ساتھ اسے پکار و اور ان لوگوں کو جو خدا تعالیٰ کے ناموں کے بارہ میں اپنی طرف سے باتیں بنا لیتے ہیں تم انکو چھوڑ دو.چونکہ انسان جب خود عقل سے صفات الہیہ پر غور کرتا ہے تو کچھ کا کچھ بنالیتا ہے اس لئے اس طرح کرنا ٹھیک نہیں.ہاں اگر کوئی شخص جوش محبت میں ایسا کر بیٹھے تو ہم اسے بڑا بھی نہیں کہیں گے.جیسے مثنوی والے نے ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک گڈریا کہہ رہا تھا کہ اگر خدا مجھے مل جائے تو میں اس کی جوئیں نکالوں، اسے دودھ پلاؤں، اس کے پاؤں دباؤں.حضرت موسیٰ نے پاس سے گزرتے ہوئے جب یہ سنا تو اسے ڈانٹا کہ اس طرح نہ کہو.خدا تعالیٰ نے حضرت موسی کو فر ما یا تم نے اس کا دل کیوں توڑا.اس کا اسی قدر علم تھا یہ اپنے علم
۱۵۵ کے مطابق اظہار محبت کر رہا تھا لیکن اگر یہی خیال جو جوش محبت میں گڈریا ظاہر کر رہا تھا اس کا عقیدہ بن جاتا اور دوسرے لوگ بھی اس کو سیکھتے تو خدا تعالیٰ کے متعلق کیسا بھڑا خیال دنیا میں باقی رہ جاتا.چنانچہ ہندوؤں میں اسی قسم کے خیالات نے بڑی ابتری پھیلائی ہوئی ہے.وہ کہتے ہیں کہ جب پرمیشور سوتا ہے تو کچھی اس کے پاؤں سہلاتی ہے.چونکہ ان کو دولت سے بہت محبت ہے اس لئے انہوں نے سمجھا کہ پر میشور کی بھی یہی حالت ہوگی اس لئے انہوں نے سب سے بڑی عظمت خدا کی یہی سمجھی کہ جب وہ سوتا ہوگا تو بچھی جسے وہ دولت کی دیوی سمجھتے ہیں پر میشور کے پاس آتی اور اس کے پاؤں سہلاتی ہوگی.اس طرح عیسائیوں کے عجیب و غریب خیالات ہیں.آج کل ان میں رواج ہے کہ لوگوں کو مذہب کی طرف توجہ دلانے کے لئے نا تک دکھاتے ہیں.ایک قصہ مشہور ہے جس میں یہ نقشہ کھینچا جاتا ہے کہ یسوع کو صلیب پر چڑھانے لگے ہیں ایک دوسرا کمرہ ہے جس میں خدا سو رہا ہے ایک شخص جاتا ہے اور جا کر دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کہتا ہے کہ باپ اُٹھ بیٹا صلیب پر چڑھنے لگا ہے اس پر خدا آنکھیں ملتا ہوا اٹھتا ہے اور کہتا ہے میری روح کو شیطان ہی لے جائے اگر مجھے اس بات کا پتہ لگا ہو.پس پسندیدہ طریق یہی ہے کہ اپنی طرف سے خدا کے متعلق کوئی بات نہ تجویز کی جائے.جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ (الانعام :۹۲) اپنی طرف سے خدا کے متعلق باتیں بنانے والے کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں.جیسے عیسائیوں نے اسے عادل بنایا اور پھر کہ دیا کہ وہ رحم نہیں کر سکتا دیکھو وہ کہاں سے کہاں نکل گئے تو خدا تعالیٰ کے اسماء وہی درست ہو سکتے ہیں جو خدا نے خود بتائے ہیں.
۱۵۶ مخدا کے کسی فعل سے بھی نام نہیں بنانا چاہئے ایک اور سوال ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اچھا ہم اپنی عقل سے تو خدا کا کوئی نام تجویز نہ کریں لیکن جو باتیں خدا نے اپنی طرف خود منسوب کی ہیں ان سے نام بنالیں تو کیا حرج ہے؟ میرے نزدیک اس طرح بھی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ کا فعل شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے.لیکن نام میں وہ بات نہیں ہو سکتی جیسے آتا ہے يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا اور دوسری جگہ فرما دیا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَسِقِين (البقرۃ: ۲۷) اب اگر کوئی خدا کو یا مضلی کر کے مخاطب کرے تو یہ درست نہیں ہوگا.کیونکہ یضل کا فعل ایک شرط کے ساتھ استعمال ہوا ہے جو نام سے ظاہر نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ کے نام وہی ہو سکتے ہیں جو اس نے خود بتائے ہیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں یا پھر مسیح موعود نے بتائے ہیں کیونکہ خدا کے رسول اپنے پاس سے نام نہیں تجویز کرتے بلکہ الہام الہی سے ان کو ان پر مطلع کیا جاتا ہے.صفات الہیہ کی اقسام اب میں یہ بتا تا ہوں کہ صفات الہیہ چار قسم کی ہیں.اول وہ جن میں خدا کی قدرتوں کا ذکر ہے اور یہ چار قسم کی ہیں اوّل وہ جو بدء سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ان میں خدا اور مخلوق کے تعلق کی ابتداء کا اظہار کیا ہے یعنی اس کی پیدائش اس کا وجود میں لانا وغیرہ ابتدائی جیسے مادہ کو پیدا کیا.دوسری جو ایصال خیر سے تعلق
۱۵۷ رکھتی ہیں جیسے رحیم.رحمن وغیرہ.تیسری جو دفع شر سے تعلق رکھتی ہیں جیسے حفیظ، مہیمن وغیرہ.چوتھی وہ جو نافرمانی پر سزا دینے کے متعلق ہیں.دوسری قسم کی صفات وہ ہیں جن سے خدا تعالیٰ اپنا منزه عن العيوب ہونا بیان کرتا ہے جیسے یہ کہ وہ نہ کسی کا بیٹا ہے، نہ باپ نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ سوتا ہے.ان صفات میں زیادہ تر ان خیالات کا دفع مد نظر ہوتا ہے جو لوگوں میں خدا تعالیٰ کے متعلق رائج ہوتے ہیں اور غلط ہوتے ہیں یا جن کو انسان اپنے پر قیاس کر کے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر سکتا ہے.تیسری قسم کی صفات وہ ہیں جن میں خدا تعالیٰ اپنے ذاتی حسن کو بیان کرتا ہے.چوتھی قسم کی صفات وہ ہیں جن میں خدا تعالیٰ اپنے وراء الورٹی ہونے کو بیان کرتا ہے.جیسے صفت احد ہے کہ وہ اس کے کامل طور پر ایک ہونے پر دلالت کرتی ہے کسی دوسرے وجود کے خیال کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دیتی.کیا خدا کی صفات انسانی صفات جیسی ہیں؟ اس جگہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سے بہت سی ہیں جو انسان میں بھی پائی جاتی ہیں.جیسے مثلاً کہتے ہیں کہ خدا محبت کرتا ہے اسی طرح بندہ بھی محبت کرتا ہے تو کیا اس کی محبت ہماری محبت جیسی ہی ہوتی ہے یا جب کہتے ہیں کہ وہ سنتا ہے تو کیا ہماری طرح ہی سنتا ہے یا جب کہتے ہیں کہ وہ بولتا ہے تو کیا ہماری طرح بولتا ہے؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جو صفتیں ہم خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے
۱۵۸ ہیں.ان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صفات جیسی ہم میں پائی جاتی ہیں ویسی ہی خدا میں بھی ہیں بلکہ ان کے ذریعہ سے صرف اس قدر سمجھانا مقصود ہوتا ہے کہ جس طرح مثلاً آنکھوں یا کانوں کے ذریعہ سے ہمیں آواز یا صورت و شکل یا حرکت کا علم ہو جایا کرتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کو بھی آواز و صورت و شکل یا حرکت کا علم ہوتا ہے.یا یہ کہ جس طرح انسان اپنے ارادہ کو زبان سے ظاہر کر سکتا ہے خدا تعالیٰ بھی اپنا ارادہ ظاہر کرتا ہے.اس سے زیادہ مشابہت خدا تعالیٰ اور بندوں کی صفات میں نہیں ہوتی اور اس سے ہر گز یہ مراد نہیں ہوتی کہ جن آلات سے بندہ کام لیتا ہے خدا بھی لیتا ہے یا یہ کہ جو کیفیات بندے کے اندر پائی جاتی ہیں وہی نعوذ باللہ خدا تعالیٰ میں بھی پائی جاتی ہیں.مثلاً غضب میں انسان کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ اس کے خون میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ دل اور دماغ کی طرف چڑھتا ہے مگر خدا کے متعلق جب یہ آتا ہے کہ جب اس نے مثلاً یہود پر غضب کیا تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ خدا کا بھی جسم ہے اور اس کے جسم میں خون جوش میں آگیا ہے بلکہ اس صفت کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس طرح غضب ہماری بہت سخت ناپسندیدگی پر دلالت کرتا ہے خدا تعالیٰ بھی بعض انسانی افعال کو نا پسند کرتا ہے اور ان کے مرتکبین سے بعض قسم کے تعلقات توڑ دیتا ہے.یا مثلاً محبت کا جذبہ ہے اس جذبہ کے ساتھ بھی انسان کے خون میں جوش پیدا ہو جاتا ہے مگر اس کے ساتھ تنافر نہیں بلکہ رغبت پیدا ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ کے لئے جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہوتے بلکہ صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ جس طرح ہمیں جس سے محبت ہو اس سے ہم اچھا سلوک کرتے اور اسے دُکھوں اور بدیوں سے بچاتے ہیں اور آرام پہنچاتے ہیں، خدا تعالیٰ بعض اشخاص کے اخلاص اور محبت کی وجہ سے ان سے اسی طرح کا معاملہ کرتا ہے.
۱۵۹ اس سے معلوم ہوا کہ ان صفات کے ماتحت جو کام ہم کرتے ہیں وہی خدا بھی کرتا ہے لیکن کیفیت میں اختلاف ہے گو یا ظہور صفات میں تو اشتراک ہے لیکن وجو دصفات میں اشتراک نہیں گویا با وجود لفظی مشارکت کے اللہ تعالیٰ اپنی ہر صفت کے لحاظ سے بھی لیس كَمِثْلِه شَي (الشوری: ۱۲) ہے اور لفظی مشابہت صرف بندوں کو سمجھانے کے لئے قبول کر لی گئی ہے.صفات کے متعلق ایک یہ بھی سوال ہے کہ کیا وہ ہمیشہ ظاہر ہوتی رہتی ہیں یا کسی خاص زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات معطل نہیں ہوتیں مؤمنوں کو بشارت ہو کہ یہ کھڑ کی اب بھی کھلی ہے اور یہ دروازہ اب بھی بند نہیں.خدا کی صفات غیر محدود ہیں صفات الہیہ کے متعلق یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسقد ر نام قرآن کریم یا احادیث میں آچکے ہیں، خدا تعالیٰ کی صفات اسی قدر ہیں یا اور بھی ہیں؟ اس کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات بھی اسی طرح غیر محدود ہیں جس طرح کہ اس کی ذات غیر محدود ہے اور ہمیں قرآن اور حدیث میں جو صفات الہیہ بتائی گئی ہیں وہ صفات ہیں کہ جو اس دُنیا میں انسان سے تعلق رکھتی ہیں انکے علاوہ اور ایسی صفات ہوسکتی ہیں جو ملائکہ سے تعلق رکھتی ہیں یا ہم سے تعلق تو رکھتی ہیں لیکن بہشت میں اور اس دنیا کی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ان کو ہم یہاں سمجھ سکتے تھے.
۱۶۰ خدا کی اور صفات ہونے کا ثبوت کوئی کہے یہ تو خیال ہی ہے ہمیں کس طرح یقین ہو سکتا ہے کہ خدا کی اور صفات بھی ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ جس سے خدا کی ان صفات کا پتہ لگا جو ہمیں معلوم ہیں اسی سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خدا کی اور صفات بھی ہیں اور وہ ذات بابرکات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے آپ کی ایک دُعا ہے اللهُم إلى....اسْتَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُولِئِكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ انْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَداً مِنْ خَلْقِكَ أَوِ اسْتَأْ ثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عندك ( مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۱ صفحه ۴۵۲- ناشر دار الفکر بیروت ایڈیشن دوم ۹۷۵ء) اے خدا میں تجھ سے دُعا مانگتا ہوں ان ناموں کے ذریعہ سے جو تو نے آپ اپنے لئے تجویز فرمائے ہیں، یا جو نام کہ تو نے اپنے کلام میں نازل فرمائے ہیں ، یا جو تو نے اپنی کسی مخلوق کو سکھائے ہیں، یا جو تو نے اپنی ذات میں ہی مخفی رکھے اور کسی کو ان کا علم نہیں دیا.کتنی لمبی صفات چلی گئیں اور کتنی زبر دست دُعا ہے اور یہ اسی کے ذہن میں آسکتی ہے جسے معرفت کامل حاصل ہو.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے ان ناموں سے بھی جو معلوم نہیں ان سے فائدہ اُٹھالیا ہے اور ان کا واسطہ دیکر خدا تعالیٰ سے دُعا مانگی ہے.اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نام یعنی صفات اور بھی ہیں جو ہم کو معلوم نہیں اور ہم کو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہ تھے اور نہ کسی اور مخلوق کو معلوم ہیں.ہمیں جو خدا کی صفات معلوم ہیں یہ صرف وہ ہیں جو ہمارے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.ان سے زیادہ ہمارے ساتھ اس دنیا میں تعلق رکھنے والی صفات نہیں ورنہ اگر ایک بھی
ایسی صفت باقی ہے جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہمیں معلوم نہیں تو خاتم النبیین ابھی آنے والا ہے.مگر خاتم النبیین چونکہ آ گیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی وہ تمام صفات جو اس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں وہ سب اس نے بیان کر دی ہیں.مسلمانوں کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کی ننانوے صفات ہیں جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر انہوں نے ایک حدیث سے دھوکا کھایا ہے جس کا مطلب اور ہے.درحقیقت اس دنیا میں تعلق رکھنے والی صفات بھی بہت سی ہیں جن میں سے بعض ظاہر الفاظ میں اور بعض اشارات میں کلام الہی میں بیان ہوئی ہیں.مدت وجود اس جگہ ایک اور بات بھی میں بیان کرنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت احدیت اور خالقیت یعنی خدا کا ایک ہونا اور کوئی شریک نہ ہونا اور خالق ہونا ان امور کو مد نظر رکھ کر بعض لوگوں نے بعض شبہات پیدا کئے ہیں.وہ خیال کرتے ہیں اور افسوس کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض اس خیال میں مبتلاء ہو گئے ہیں کہ خدا کا ایک ہونا اس کی صفات کے لحاظ سے یا الوہیت کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ہر طریق سے ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں خدا ہی خدا ہے اور کچھ نہیں ان کے اس خیال کو فلسفہ کے اس مسئلہ سے بھی تقویت مل گئی ہے کہ مادہ مادہ سے ہی پیدا ہوسکتا ہے جو چیز نہ ہو وہ وجود میں نہیں آسکتی چونکہ وحدت وجود کا خیال ہمارے ملک میں عام ہے خصوصا فقراء اکثر اس مرض میں مبتلاء ہیں اس لئے اس خیال کی بے ہودگی کو خوب سمجھ لینا چاہئے.جہاں بھی فقیر ہمارے ملک میں پائے جائیں وہاں ان کا فقرہ اللہ ہی اللہ ہے اور سب کچھ اللہ ہی ہے بھی سنائی دے گا.وہ
کہتے ہیں جب خدا ایک ہے تو اگر کوئی دوسرا وجود مانا جائے تو دو ہو گئے اور خدا کی یکتائی باقی نہ رہی.مخلوق کی مثال وہ دریا سے دیتے ہیں جس پر حباب تیر رہے ہوں جس طرح وہ حباب الگ وجود نظر آتے ہیں مگر در حقیقت الگ وجود نہیں ہوتے اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ گو مختلف شکلیں نظر آتی ہیں مگر در حقیقت خدا کے سوا کچھ نہیں ہے جس طرح حباب پانی کی ہی ایک شکل ہے اسی طرح دنیا میں جو کچھ ہے یہ بھی خدا ہی کی ایک شکل ہے مگر اس قسم کی مثالیں بالکل باطل ہیں.مثلاً یہی حباب والی مثال لے لو.حباب کیا ہے؟ پانی میں ہوا داخل ہو کر حباب بن گیا اسی طرح مخلوق کی مثال حباب کی سی ہے تو یہاں بھی خدا کے سوا کوئی اور وجود ماننا پڑے گا جو ہوا کی طرح خدا میں داخل ہو کر اس کی مختلف شکلیں بنا دیتا ہے.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ تِلْكَ الْخُرَافَاتِ بہر حال ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ در اصل چیز ایک ہی ہے آگے اس کی شکلیں مختلف ہیں اس کے لئے انہوں نے مذہبی دلیلیں بھی بنا رکھی ہیں مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ لا إله إلَّا اللہ کے معنے ہیں خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں ہزاروں لاکھوں وجودوں کی عبادت کی جاتی ہے تو کیا کلمہ شریفہ میں یہ دعویٰ جھوٹا کیا گیا ہے کہ خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں، پس کلمہ شریفہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے سوا جن چیزوں کی پرستش کی جاتی ہے وہ بھی خدا کا ہی جزو ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ جس کی بھی پرستش کرو آخر پرستش تو اللہ کی ہی ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی اور وجود ہی نہیں جب اس کے سوا کوئی اور وجود ہی نہیں تو اس کے سوا کوئی معبود بھی نہیں.قرآن کریم کی آیت اَجَعَلَ الْأَلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا.(ص:۶) سے بھی یہ لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ خدا کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ کہتے ہیں کہ کفار نے کلمہ شریفہ کے معنے
۱۶۳ یہی سمجھے ہیں کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ خدا کا غیر نہیں ہیں بلکہ خدا کا جزو ہیں تبھی وہ کہتے ہیں کہ اس نے تو اتنے معبودوں کو ایک ہی معبود بنادیا اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ کفار جو عربی کے ماہر تھے کلمہ شریفہ کے یہی معنے سمجھتے ہیں اور قرآن کریم نے اس کا رد بھی نہیں کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو معنے انہوں نے کلمہ شریفہ کی طرف منسوب کئے ہیں ان کو صحیح تسلیم کر لیا گیا ہے.تیسری دلیل یہ لوگ آیت نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ.(ق: ۱۷) سے پیش کرتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم رگ جان سے بھی انسان کے زیادہ قریب ہیں.اب یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر وجود درگ جان سے زیادہ قریب ہے.پس اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم خدا کا جزو ہیں کیونکہ وجود مطلق وجود مقید سے زیادہ قریب ہوتا ہے.چوتھی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ (الحدید: ۴) پس جب خدا ہی اول ہے وہی آخر وہی اندر وہی باہر تو اور کیا چیز باقی رہی؟ ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں آیا ہے لِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (الرعد: ۱۶) زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے خدا کو ہی سجدہ کر رہا ہے.اب اگر خدا کے سواد نیا میں کچھ اور بھی ہے تو پھر یہ غلط بات ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اور وجودوں کو بھی سجدہ کرتے ہیں.اگر بت خدا نہیں تو معلوم ہوا کہ خدا کے سوا اور کو بھی سجدہ کیا جاتا ہے اور یہ آیت درست نہیں رہتی اس لئے معلوم ہوا کہ وہ بھی خدا ہی ہیں.اگر کہا جائے کہ اگر یہ درست ہے تو پھر شرک کیا چیز ہے اور کیوں لوگوں کو دوسری
۱۶۴ چیزوں کے آگے سجدہ کرنے سے روکا جاتا ہے تو وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ سب کچھ خدا ہی ہے پھر بھی بعض مظاہر کی پرستش شرک ہی کہلائے گی.کیونکہ جولوگ بتوں کو سجدہ کرتے ہیں وہ انہیں خدا سمجھ کر نہیں کرتے.بلکہ خدا کے قائم مقام سمجھ کر کرتے ہیں.پس چونکہ وہ یہ خیال کرتے ہوئے ان کو سجدہ کرتے ہیں کہ یہ خدا نہیں ہیں اس لئے ان کا یہ فعل شرک ہے.ہر چیز کو اللہ کہنے والوں کے دلائل کا رد اب میں ان لوگوں کے دلائل کا رد بیان کرتا ہوں.اول لا إلهَ إِلَّا الله کے وہ معنے جو یہ لوگ کرتے ہیں بالکل غلط ہیں.الہ کے معنی انہوں نے زبردستی سے کر لئے ہیں اور پھر ان پر اپنے دعویٰ کی بنیا درکھ دی ہے حالانکہ عربی میں اس لفظ کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ کوئی معبود ہو سچا ہو یا جھوٹا دوسرے یہ کہ وہ معبود جو سچا ہو جھوٹا نہ ہو.قرآن کریم میں ان دونوں معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے مگر انہوں نے یہ معنی لے لئے ہیں کہ کوئی جھوٹا معبود بھی نہیں حالانکہ جب قرآن کریم میں دوسری جگہوں پر صاف بیان ہے کہ لوگ خدا کے سوا اور معبودوں کی پرستش کرتے ہیں تو اللہ کے معنے بچے معبود کے سوا جائز ہی نہیں کیونکہ صحیح معنی وہی ہوتے ہیں جو بولنے والے کے منشاء کے مطابق ہوں.اب جو اللہ تعالیٰ دوسری جگہوں میں صاف الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ اس کے سوا بھی لوگ دوسروں کی پوجا کرتے ہیں تو لا إلهَ إِلَّا الله کے یہ معنی نہیں کئے جاسکتے کہ اس کے سوانہ کوئی جھوٹا معبود ہے نہ سچا بلکہ اس کے یہی معنے کئے جائیں گے کہ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور ان معنوں سے ہرگز وحدت وجود کا مسئلہ نہیں نکلتا.اب کوئی کہے کہ جب اس لفظ کے دو معنی تھے تو وہی کیوں نہ مانے جا ئیں جو وحدت
۱۶۵ هستی باری تعالیٰ وجودی کرتے ہیں اور کیا اس طرح وہ کلمہ جس پر اسلام کی ساری بنیاد ہے مشتبہ نہیں ہو جاتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک لفظ کے مختلف معنی دیکھ کر ہر جگہ پر اس کے تمام معنوں کو استعمال کرنا درست نہیں ہوتا آخر قرآن کریم عربی زبان میں ہے اس زبان کے قواعد کے مطابق ہم فیصلہ کریں گے اور یہ بات کہ ہر لفظ کے ہر معنی ہر جملے میں استعمال نہیں ہوتے.عربی زبان سے ہی خاص نہیں سب زبانوں کا یہ قاعدہ ہے کہ لفظ کے خواہ کتنے ہی معنے ہوں جب وہ عبارت میں آجائے تو اس کے وہی معنے کئے جاتے ہیں جو اس فقرے کے مضمون سے یا اس کتاب کی دوسری جگہوں کے مفہوم سے نکلتے ہوں نہ کہ تمام معنے جو اس لفظ کے لغت میں نکلتے ہوں.اب چونکہ یہ ثابت ہے کہ قرآن کریم اس کا بار بار ذکر فرماتا ہے کہ مشرک خدا کے سوا اوروں کی پوجا کرتے ہیں تو جب وہ یہ فرماتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو ان دوسری آیتوں سے ملا کر اس کے یہی معنی ہوں گے کہ خدا کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور جب دوسری عبارتوں سے مل کر کلمہ کے معنی واضح ہو جاتے ہیں تو شک وشبہ کا سوال اُٹھ گیا.دوسری آیت یعنی أَجَعَلَ الْأَلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا.(ص:۶) کے بھی وہ معنے نہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں بلکہ یہ ہیں کہ اس نے سارے معبودانِ باطلہ کو مٹا کر ان کی جگہ ایک معبود قرار دیدیا ہے یہاں جعل بمعنی قرار دینا ہے ورنہ اگر لفظی معنی ہی لئے جائیں گے تو یہ ہو گا کہ ان کو کوٹ کوٹ کر ایک بنالیا ہے.لیکن یہ معنے نہ وہ لیتے ہیں اور نہ ہم اس لئے جعل کے یہی معنے ہونگے کہ بہت سے معبود تھے ان سب کو مٹا کر اس نے ایک قرار دے دیا.اب رہی تیسری آیت نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ.(ق: ۱۷ ) اس کے جو معنی همه اوست والے کرتے ہیں وہ بنتے ہی نہیں.وہ کہتے ہیں مقید سے مطلق زیادہ قریب ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کس کے زیادہ قریب ہوتا ہے مقید کی اپنی ذات کی نسبت مطلق
۱۶۶ اس کے زیادہ قریب کیونکر ہو سکتا ہے.پس جب غیر کوئی ہے ہی نہیں تو مطلق و مقید کی بحث یہاں پیدا ہوتی ہی نہیں.مقید و مطلق تو غیر کو فرض کر کے بنتے ہیں جب چیز ہی ایک ہے تو مقید کو قید کس نے کیا؟ یہ ساری آیت یوں ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ - (ق: ۱۷ ) اور یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہمیں پتہ ہے کہ اس کے دل میں شبہات پیدا ہوتے ہیں کہ میں کیا کروں اور کیا نہ کروں.مگر اسے معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے اسے پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ہم حَبْلِ الْوَرِيدِ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہیں.حبل الورید کے معنی اس رگ کے ہیں جو دل سے دماغ کی طرف خون پہنچاتی ہے اور طب سے پتہ لگتا ہے کہ دماغ کبھی کام نہیں کر سکتا جب تک اسے خون نہ پہنچے تو گویا د ماغ کا کام بھی رگ جان کی امداد پر منحصر ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زندگی کے ساتھ خیالات اور خیالات کے ساتھ وساوس لگے ہوئے ہیں اور بیشک یہ انسان کے راستہ میں روک بنتے ہیں مگر رگ جان سے بھی ہم انسان کے زیادہ قریب ہیں کہ رگ جان کئے تو مرتے مرتے انسان کو پھر بھی چند سکنڈ لگیں گے لیکن ہماری مدد بند ہو تو انسان کی تباہی پر کوئی وقت بھی نہ لگے.پس کیوں انسان ایسے وساوس اور شبہات کے وقتوں میں ہماری طرف توجہ نہیں کرتا کہ ہم اس کے وسوسوں کو اور شہوں کو دور کریں.کیا وہ باوجود اس کے کہ اس کا ذرہ ذرہ ہمارے قبضہ میں ہے یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے وساوس کا علاج ہمارے پاس نہیں؟ حالانکہ وساوس و خیالات زندگی کا ایک شعبہ ہیں اور زندگی خود ہمارے ذریعہ سے ہے پس اس کی مشکلات کو حل کرنا بھی ہمارے ہی اختیار میں ہے.
۱۶۷ غرض حَبْلِ الْوَرِيدِ اس جگہ انسان کی زندگی کے سہارے کے معنی میں آیا ہے.مگر اس کے غلط معنے لے کر کچھ کا کچھ بنا دیا گیا ہے.اور یہ جو اُن کی دلیل ہے کہ هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ (الحديد: ۴) وہی شروع ہے اور وہی آخر اور وہی اندر ہے اور وہی باہر ہے.اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ سب جگہ خدا ہی خدا ہے یہ دلیل بھی بالکل غلط ہے کیونکہ اول اور آخر اور ظاہر اور باطن چاروں الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کچھ اور بھی ہے اگر غیر کوئی ہے ہی نہیں تو پھر اوّل کہنے اور آخر کہنے کی کیا ضرورت تھی اور ظاہر کہنے اور باطن کہنے کی کیا ضرورت تھی پھر تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ وہی وہ ہے اور کچھ نہیں.اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ محیط ہے.یہ نہیں کہ سب کچھ اللہ ہی اللہ ہے.اندر اور باہر کے الفاظ بھی اول اور آخر کے الفاظ بھی احاطہ پر دلالت کرتے ہیں.پس یہ آیت یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے ساتھ تمام چیزوں کا احاطہ کیا ہوا ہے.آیت لله يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (الرعد: ۱۶) کے معنے یہ ہیں کہ ہر چیز خدا کی فرمانبرداری کر رہی ہے.سجدہ کے اصل معنی فرمانبرداری کے ہیں اور زمین پر سر رکھنے کے معنے مجاز بنتے ہیں اور فرمانبرداری کے لحاظ سے کوئی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے باہر ہے؟ دنیا کا ایک ایک ذرہ خدا کی فرمانبرداری کر رہا ہے.مثلاً زبان ہے اسے اگر میٹھا دو گے تو میٹھا چکھے گی اگر کروا دو گے تو کروا چکھے گی یہ الگ بات ہے کہ وہ خدا کا انکار کر دے.مگر جو کام خدا نے اس کا مقر رکیا ہے اسے نہیں چھوڑ سکتی اور اس میں نافرمانی نہیں کر سکتی.باقی رہا یہ کہ انسان خدا کی نافرمانی بھی کرتا ہے سوسوال یہ ہے کہ کس جگہ نافرمانی کرتا ہے وہیں جہاں خدا نے اسے مقتدرت دیگر امتحان کی غرض
۱۶۸ سے آزاد چھوڑ دیا ہے پس جس امر میں خدا تعالیٰ نے خود انسان کو مقدرت دیگر امتحان کے طور پر آزاد کیا ہے، انسان کی اس نافرمانی کی وجہ سے ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ کوئی چیز خدا کی فرمانبرداری سے باہر ہے کیا ابو جہل اور فرعون خدا کے بنائے ہوئے قانونِ قدرت کی فرمانبرداری کرتے تھے کہ نہیں؟ اگر کرتے تھے تو سب خدا کے فرمانبردار ہیں.یہ لوگ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ جب خدا ہی سنتا اور دیکھتا ہے تو معلوم ہوا کہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے.کیونکہ سنتے اور دیکھتے ہم بھی ہیں.اگر ہم خدا نہیں تو یہ آیت غلط ہو جاتی ہے.حالانکہ اس آیت سے بھی یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کیونکہ جو چیز کسی کی دی ہوئی ہو وہ دراصل اس کی ہوتی ہے پس جب نظر خدا کی دی ہوئی ہے جس سے ہم دیکھتے ہیں اور سننے کی طاقت بھی اس کی دی ہوئی ہے جس سے ہم سنتے ہیں تو خدا ہی سنتا اور دیکھتا ہے.تائیدی آیات قرآنی پھر اسکے مقابلہ میں ہم دوسری آیات دیکھتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سب باتیں غلط ہیں خدا تعالیٰ اپنی ہستی کے متعلق فرماتا ہے لیس گیفله شنی کہ اس جیسی کوئی اور ہستی نہیں کوئی چیز خدا کے مشابہ نہیں.ہم کہتے ہیں اگر کوئی چیز ہی دنیا میں نہیں بلکہ سب کچھ خدا ہی خدا ہے تو لَيْسَ كَمِثْلِه شنی (الشوری:۱۲) کا کیا مطلب ہوا؟ وحدت الوجود والے کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز نہیں سب کچھ ایک ہی ہے ہم کہتے ہیں جب ایک ہی ہے تو یہ کہنے کا کیا مطلب کہ خدا جیسی کوئی چیز نہیں.
دوسری آیت یہ ہے فَإِنَّهُمْ عَدُولِى إِلَّا رَبَّ الْعَلَمِينَ (الشعراء: ۷۸) خدا کے سوا جو معبود سمجھے جاتے ہیں وہ سب میرے دشمن ہیں کیونکہ میں ان کا مخالف ہوں.اب اگر معبودان باطلہ بھی واقعہ میں اللہ تھے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ مقید شکل میں تو وہ دشمن ہیں اور مطلق میں دوست مگر یہ معنے بالبداہت باطل ہیں.تیسری آیت جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے سوا بھی اور چیزیں ہیں یہ ہے قُل أَفَغَيْرَ اللهِ تَأْمُرُونى أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (الزمر: ۶۵) اے جاہلو! کیا تم خدا کے سوا دوسری چیزوں کی عبادت کے لئے مجھے کہتے ہو؟ اس آیت میں ان وجودوں کو جنہیں بت پرست پوجتے تھے غیر اللہ کہا گیا ہے.چوتھی آیت یہ ہے لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوّاً بِغَيْرِ عِلْمٍ - (الانعام : ۱۰۹) کہ ان معبودوں کو جن کی یہ خدا کے سوا پرستش کرتے ہیں گالیاں نہ دو ورنہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کو دشمنی کے جذبات کے ماتحت جہالت و نادانی سے گالیاں دینے لگ جائیں گے.اب ہم پوچھتے ہیں اگر وہ بھی خدا ہی ہیں تو مِن دُونِ اللہ کیوں کہا؟ اور اگر کہو کہ چونکہ مشرک ان کو مِن دُونِ اللہ کہتے تھے اس لئے ان کو ان کے عقیدہ کے ماتحت مِنْ دُونِ اللہ کہا گیا ہے تو پھر یہ سوال ہے کہ بہت اچھا مِن دُونِ اللہ تو ان لوگوں کے عقیدہ کی وجہ سے کہا مگر پھر یہ کیوں فرمایا کہ ان معبودوں کو گالیاں نہ دو ورنہ وہ خدا کو گالیاں دینے لگ جائیں گے یہ کیوں نہ کہا کہ ان معبودوں کو گالیاں نہ دو کیونکہ وہ بھی در حقیقت خداہی ہیں گو یہ نادان مشرک ان کو من دُونِ اللہ سمجھ کر ان کی پرستش کر رہے ہیں کیونکہ خدا کے کسی حصہ کو اس لئے گالی دینا منع نہیں کہ کوئی مطلق خدا کو گالی دینے لگے گا بلکہ اس لئے منع ہے کہ وہ خدا ہے.
12+ کیا ہر چیز کو خدا ماننے والوں کا ایمان کامل ہوتا ہے؟ پھر وہ کہتے ہیں کہ سوائے ہمارے کسی کو ایمان کامل حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ ایمان بغیر لقاء سے مکمل نہیں ہوسکتا مگر تم خدا کو وراء الورٹی کہہ کر اس کا ایسا نقشہ کھینچتے ہو کہ اس کا تصور نہیں آ سکتا مگر ہم اس کو محسوسات اور مشہودات میں دیکھتے ہیں اس لئے ہمارا ایمان کامل ہے.ہم کہتے ہیں اگر اس طرح تمہارا ایمان کامل ہوتا ہے تو تم سے زیادہ بت پرست کامل ایمان رکھتے ہیں کہ وہ عین چیز کو سامنے رکھ کر اس کی عبادت شروع کرتے ہیں اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خدا کا تصور قائم کرنے کے لئے اس طرح کرتے ہیں.اگر کہو کہ وہ غیر اللہ سمجھتے ہیں اس لئے ان کا فعل جائز نہیں تو ہم کہتے ہیں کہ تم عین اللہ سمجھ کر ان چیزوں کی پرستش کیوں نہیں کرتے تا کہ لقاء زیادہ کامل ہو جائے.دوسرا جواب یہ ہے کہ ایمان کے لئے تصور کی ضرورت نہیں.تصور کے معنے تو صورت کو ذہن میں لانے کے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کوئی صورت نہیں اور اگر اس کے معنی صفات کو یاد کر نا کرو تو جو وحدت وجود کے قائل ہیں وہ بھی اس قسم کا تصور کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں اور یہ تصور حضور قلب کے لئے کافی ہوتا ہے.دیکھو بجلی نظر نہیں آتی اب بجلی کا لفظ جب بولتے ہیں تو اس کے ظہور ہمارے ذہن میں آجاتے ہیں مگر کیا ان ظہوروں کا ذہن میں آنا کافی نہیں ہوتا ؟ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ تصور کا لفظ ان لوگوں کی ایجاد ہے.خدا تعالیٰ نے کہاں کہا
ہے کہ مجھے تصور میں لاؤ.خدا نے تو یہ کہا ہے کہ مجھے جانو اور میری معرفت حاصل کرو، میرا علم حاصل کرو اور یہ اس کی صفات سے ہوسکتا ہے.تیسرا جواب یہ ہے کہ معرفت کے مختلف ذرائع ہیں کبھی کسی چیز کی معرفت تصور سے ہوتی ہے کبھی اس کے آثار کے تصور سے کبھی مشابہ کیفیات کے تصور سے جیسے اپنے غصے پر قیاس کر کے ہم دوسروں کے غصہ کو سمجھ جاتے ہیں اور کبھی معرفت قبل از وقت سنی ہوئی تعریف کو یاد کر کے حاصل ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کی معرفت بھی پچھلے تین ذرائع سے ہوتی ہے.بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت جو کچھ بندہ کو معلوم ہوتا ہے اور اس پر جو ایمان اسے حاصل ہوتا ہے اس کی وجہ سے اس کا ذکر آتے ہی صفات الہیہ کی یاد اس کے دل میں ایسا ہیجان پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچتا ہو محسوس کرتا ہے اگر کسی شخص سے کوئی پوچھے کہ اللہ کون ہے؟ تو وہ یہی کرے گا کہ اس کی صفات گن دے.کہہ دے کہ وہ رحمن ہے رحیم ہے رؤف ہے خالق ہے مالک ہے.اس سے معلوم ہو ا کہ اس کی ذات کا صحیح تصوّر اس کی صفات ہی کے ذریعہ سے ہوتا ہے کیونکہ بندہ کو اس سے تعلق اس کی صفات ہی کے ذریعہ سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دوسری اشیاء کو دیکھ کر اصل خیال انہی کا ہو گا نہ کہ خدا کا.ہم کس طرح تسلیم کر لیں کہ رحمن کے لفظ پر غور کر کے یا خدا کی رحمت کے نشانوں پر غور کر کے تو ہمارے دل میں حقیقی جذبہ محبت پیدا نہ ہولیکن کدو دیکھ کر بجائے کدو کے خیال کے خدا تعالیٰ کا خیال پیدا ہو جائے.
۱۷۲ کیا ہر چیز کوخدا نہ ماننے سے رویت الہی نہیں ہو سکتی؟ وحدت وجود کے قائل یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ہر چیز کو خدا نہ مانا جائے تو پھر رؤیت الہی کا انکار ہو جائے گا کیونکہ وحدت شہود کے عقیدہ کی رُو سے رؤیت محال ہے حالانکہ رؤیت الہی کے سب آئمہ معتقد ہیں.مگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خیال بالکل باطل ہے رؤیت کا اس عقیدہ سے کچھ بھی تعلق نہیں باوجود خدا تعالیٰ کی ذات کو وراء الورٹی ماننے کے پھر بھی رؤیت ممکن ہے اور ہوتی ہے.رویت یا قلبی ہوتی ہے یا صفات الہی کی جلوہ گرمی کو دیکھ کر یا اس کی صفات کو اپنے اندر جذب کر کے ہوتی ہے اور ان سب صورتوں میں ہرگز یہ ضروری نہیں کہ ہر ذرہ کو خدا سمجھا جائے.اگر کہا جائے کہ وحدت الوجود والوں کی رؤیت اعلی ہوگی کیونکہ قلب سے بھی اور آنکھ سے بھی تو میں کہتا ہوں کہ یہ بھی ایک وسوسہ ہے کیونکہ اگر دنیا کو دیکھ کر خدا کی رؤیت ہو جاتی ہے تو اس میں کمال کیا ہے یہ رویت تو چوروں اور ڈاکووں کو بھی ہوتی ہے کیا دیدار الہی ایسی حقیر چیز ہے کہ دل میں یہ خیال کر لینا کہ سب کچھ خدا ہے ہمارے لئے کافی ہوتا ہے.بس پھر دنیا کی ہر چیز کو دیکھ کر ہمیں رؤیت الہی ہوتی رہتی ہے.وحدت الوجود کا مسئلہ کہاں سے پیدا ہوا؟ اب میں اس سوال کے متعلق بتانا چاہتا ہوں کہ یہ مسئلہ پیدا کہاں سے ہوا ہے.اصل بات یہ ہے کہ باقی تو سب ڈھکوسلے ہیں.یہ شبہ فلسفہ کے اس مسئلہ کی وجہ سے ہوا ہے
۱۷۳ کہ نیست سے ہست کیونکر ہو گیا ؟ جو لوگ اس سوال کا جواب نہ دے سکے انہوں نے اس طریق کو اختیار کر لیا کہ دنیا میں سب کچھ خدا ہی خدا ہے اور یہ عقیدہ بنا کر انہوں نے صوفیاء کے کلام کے اس قسم کے فقرات کو آڑ بنالیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے سب خدا ہی خدا ہے اور سب کچھ خدا کا ہی جلوہ ہے حالانکہ محی الدین ابن عربی ” جن کو اس خیال کا بانی قرار دیا جاتا ہے ان کی کتب میں بھی غیر اللہ کے الفاظ آئے ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس طرح اس مسئلہ کے قائل نہ تھے.دراصل یہ دھوکا ہے جو صوفیاء کے کلام کے متعلق دیا جاتا ہے کیونکہ جس اعلیٰ درجہ کے صوفی کے کلام کو بھی دیکھا جائے یہی معلوم ہوگا کہ اس قسم کا کلام تشبیہی ہوتا ہے ورنہ در اصل بات یہی ہے کہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ خدا اور ہے اور ہم اور.وحدت شہود کا عقیدہ وحدت وجود کے مقابلہ میں وحدت شہود کا عقیدہ ہے اس عقیدے کو ماننے والے کئی فرقوں میں منقسم ہیں اول وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ خدا اور ہے اور مخلوق اور ہے اور خدا مجسم ہے محدود ہے عرش پر بیٹھا ہے وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو ایسا ماننے میں حرج ہی کیا ہے؟ اگر پوچھا جائے کہ کیا خدا کے بھی ہاتھ پاؤں ہیں؟ تو کہتے ہیں ہاں ہیں.مگر انسانوں کی نسبت اعلیٰ درجہ کے ہیں.ان کا خیال ہے کہ خدا مجسم ہے اور ان کو مجسمیہ کہتے ہیں.دوسر ارو (۲) ایک اور لوگ ہیں جو اہلحدیث کہلاتے ہیں یا وہ جو علوم کو زیادہ تر ظاہر کی
۱۷ طرف لے گئے ہیں وہ کہتے ہیں خدا وراء الوریٰ ہستی ہے جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے اور دنیا اس سے علیحدہ چیز ہے.لیکن باوجود وراء الورٹی ہونے کے ہم کہتے ہیں کہ وہ عرش پر بیٹھا ہے اس کے ہاتھ بھی ہیں اور پاؤں بھی ہیں گو ہم اسے مجسم نہیں مانتے لیکن ہم جائز نہیں سمجھتے کہ جو صفات اس کی قرآن کریم میں آئی ہیں یا حدیثوں میں مروی ہیں ان کی کوئی تاویل کی جائے.تیر امرته تیسرا فرقہ وہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ وراء الوریٰ ہے ہم اس کے متعلق صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ وہ مخلوق سے بالکل الگ ہے اور یہ کہ اس کی صفات مخلوق کی صفات سے اور طرح کی ہیں ہاتھ وغیرہ کے جو لفظ استعمال ہوئے ہیں یہ سب تشبیہات ہیں.مخلوق کیا ہے اس کی نسبت بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے ہم نہیں جانتے کہ کس طرح پیدا کیا ہے.میرے نزدیک عوام الناس کے لئے اس سے زیادہ محفوظ عقیدہ نہیں ہو سکتا.چوست فرق رت چونکہ تیسرے فرقہ کا جو عقیدہ بتایا گیا ہے گو اپنے ایمان کے لئے کافی ہو سکتا ہے مگر مخالفوں کے حملوں کے جواب میں کچھ نہ کچھ جواب اثباتی پہلو سے بھی دینا پڑتا ہے اس لئے محققین نے پیدائش عالم کے متعلق اور زیادہ وضاحت کی ہے اور آخر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عدم کے آئینہ پر اپنی صفات کا انعکاس ڈالا اور اس سے مخلوق پیدا ہوئی.اس گروہ نے بہت حد تک الحاد کوڈ ور کیا ہے مگر اس پر بھی یہ اعتراض پڑتا ہے کہ انعکاس کس چیز
۱۷۵ پر ہوتا ہے.عدم کوئی چیز نہیں جس پر انعکاس ہو.اس عقیدہ کے پیش کرنے والے بڑے پائے کے لوگ ہیں.معلوم ہوتا ہے ان پر حقیقت کھلی ہے مگر یا اسے بیان نہیں کر سکے یا اسے استعارہ میں مخفی کر دیا ہے.پانچواں عقیده پانچواں عقیدہ یہ ہے کہ دنیا خدا کا غیر ہے لیکن اس کی غیر یت اس قسم کی نہیں جس قسم کی کہ انسانی ذہن میں آیا کرتی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہے یہ خدا تعالیٰ کے علم اور اس کے ارادہ سے پیدا ہوا ہے نہ نیست سے ہوا ہے کہ نیست کوئی چیز نہیں اور نہ ہست سے ہوا ہے کہ خدا کے سوا اور کوئی چیز قائم بالذات نہیں بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس قسم کی چیز جو اس کے علم میں تھی ظاہر ہو جائے پس اس کی قضاء نے اسے متمثل کر دیا پس جو کچھ بھی دنیا میں ہے یہ سب متمثلات ہیں جو علم الہی کے مطابق قضاء الہی سے ظاہر ہوئے.باقی رہی پوری کیفیت سو کوئی چیز جب تک غیر حادث نہ ہوا اپنی پوری کیفیت کو سمجھ ہی نہیں سکتی پس انسان کا یہ خیال کہ وہ اس حقیقت کو پوری طرح پا لے گا ایک خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی.پہلے عدم بہت پھر مخلوق پیدا ہوئی اصل میں سارے شبہات اس بات سے پیدا ہوتے ہیں کہ عدم سے وجود کس طرح ہو جاتا ہے.مگر کہیں قرآن کریم میں یہ نہیں لکھا کہ عدم سے وجود ہو گیا.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ چیز میں نہ تھیں اور پھر پیدا ہو گئیں.عدم سے پیدا ہو گئیں.ہوا ایک فقرہ ہے جس سے دھوکا
124 لگتا ہے حالانکہ جولوگ واقف ہیں وہ کبھی اس کے یہ معنی نہیں لیتے کہ عدم سے گھڑ کر وجود بنا بلکہ ان کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ پہلے نہ تھیں پھر ہو گئیں.آریہ مذہب بھی اس دھو کے کا شکار ہو رہا ہے کہ جب مادہ نہیں تھا تو خدا نے مخلوق کو پیدا کس طرح کیا ؟ اس لئے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مادہ کو پیدا نہیں کیا مگر یہ استدلال بالکل غلط ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کا بندوں کی صفات پر قیاس کرنا ہی غلط ہے.کوئی انسان بغیر آنکھ کے نہیں دیکھ سکتا.خدا تعالیٰ بغیر آنکھوں کے دیکھ سکتا ہے.کوئی چیز دنیا میں مادہ کے بغیر نہیں بن سکتی.خدا تعالیٰ کی نسبت آریہ بھی مانتے ہیں کہ بغیر مادہ کے ہے.ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ جب کوئی چیز کہیں رکھی ہوئی ہو تو وہ دوسری چیزوں کی راہ میں روک ہوتی ہے اور ان کے دائرہ کو محدود کر دیتی ہے.مگر باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے سواروح اور مادہ کو بھی آریہ مانتے ہیں پھر خدا تعالیٰ کو محدود نہیں مانتے.ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے متعلق ہم ان قوانین کو جاری نہیں کر سکتے جو مادہ اور روح کی حالتوں پر قیاس کر کے ہماری عقل تجویز کرتی ہے.جب یہ بات ہے تو یہ کس دلیل سے کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ مادہ کو پیدا نہیں کر سکتا.اگر اس کی ذات ہماری عقلوں سے بالا ہے تو ہماری عقلوں کے ماتحت اس کے لئے قانون کس طرح بیان کئے جاسکتے ہیں.خدا تعالی مادہ کا خالق ہے یہ بات کہ خدا تعالیٰ مادہ کا خالق ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ انسانی قواعد اور انسانی طاقتوں کو مد نظر رکھ کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے اور طریق ہیں اور میرے نزدیک وہ ایسے سہل ہیں کہ ان پڑھ آدمی بھی ان کے ذریعہ سے حق کو معلوم کر سکتے
ہیں.دیکھو جب کبھی کسی کھیت کی مینڈھ کے متعلق جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے ایک کہتا ہے ا میری زمین کی اس جگہ پر حد ہے.اور دوسرا کہتا ہے یہاں نہیں وہاں ہے تو اس کے فیصلہ کے لئے حدود برآری کرایا کرتے ہیں.یہاں بھی مادہ کے متعلق جھگڑا پیدا ہو گیا کہ یہ آپ ہی آپ ہمیشہ سے ہے یا خدا نے اسے پیدا کیا ہے اس کے متعلق بھی حدود برآری کرانے کی ضرورت ہے اور اس طریق کے اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو حدود برآری کے وقت استعمال کیا جاتا ہے.زمین کی حدود برآری کے لئے یہی کرتے ہیں کہ ایک مستقل جگہ منتخب کرتے ہیں جو بدلنے والی نہ ہو مثلاً پرانا کنواں یا پرانا درخت.کاغذات میں اس کی جو جائے وقوع درج ہو گی اسے اصل قرار دے کر حدود برآری کریں گے اس کنویں یا درخت کے آگے جس قدر زمین سرکاری کاغذات میں لکھی ہو اس کے مطابق ناپ لیں گے پھر جس قدر زمین کسی کے قبضہ میں ثابت ہوا سے دے دیں گے.اسی طرح صفات باری کے متعلق ہم غور کر سکتے ہیں یعنی ایسے امور کو لیکر جو مسلمہ ہیں ہم غور کریں کہ وہ مختلف فیہ مسئلہ کی کس شق کی تائید کرتے ہیں.جس خیال اور رائے کی مسلمہ اُمور تائید کریں وہی تسلیم کرنی ہوگی کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ جس رائے کی دوسرے امور تائید کریں وہ غلط ہو اور جس کی دوسرے امور تردید کریں وہ صحیح ہو.یہ اسی طرح ناممکن ہے کہ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ مختلف درختوں سے پیمائش کے بعد جو جگہ کھیت کی ثابت ہو وہ غلط ہو اور محض خیالی اور وہی مقام درست ہو.اس مسئلہ میں جن مقامات کو ہم حدود برآری کے لئے چن سکتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی دوسری صفات ہیں اگر خدا تعالیٰ کی وہ صفات جن کے متعلق آریہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس
IZA کے اندر پائی جاتی ہیں وہ اس امر کی تائید کریں کہ خدا تعالی مادہ کا خالق ہے تو پھر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ مادہ کا خالق ہے لیکن اگر وہ اس خیال کو رد کریں تو ماننا پڑے گا کہ وہ مادہ کا خالق نہیں ہے.خدا کی صفت علیم مادہ کے مخلوق ہونے پر دلالت کرتی ہے میں ان صفات میں سے جو میرے نزدیک اس سوال پر روشنی ڈالتی ہیں خدا تعالیٰ کی صفت علیم کو سب سے پہلے پیش کرتا ہوں.آریہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کو اس طرح علیم مانتے ہیں جس طرح کہ ہم مانتے ہیں.وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو ہر اک بات کا علم ہے اور اس کا علم کامل ہے.پس خدا تعالیٰ کے خالق مادہ ہونے کے سوال کی صحیح حد برآری کرنے کے لئے علم کامل ایسی صفت ہے جس پر کامل طور پر یقین کیا جا سکتا ہے.کیونکہ دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں کہ یہ غیر متبدل مقام ہے اس کے حقیقی ہونے میں کوئی شبہ نہیں.اب اگر غور سے کام لیا جائے تو علم کامل کے معنے یہ ہیں کہ جس چیز کی نسبت علم کامل ہو اس کے بنانے کی بھی قابلیت ہو.چنانچہ سینکڑوں چیزیں جو پہلے طبعی قوانین کے ماتحت دنیا میں پیدا ہوتی تھیں ان کے متعلق یورپ والوں نے علم کامل حاصل کر کے ان کو بنانا شروع کر دیا ہے.نیل جسے پہلے بویا جاتا تھا جرمن والے اب اسے بنا رہے ہیں.عطر جو پہلے پھولوں سے بنائے جاتے تھے جرمن میں اب ان میں سے اکثر کیمیائی ترکیبوں سے بنائے جاتے ہیں کیونکہ خوشبو جن ترکیبوں سے پیدا ہوتی ہے وہ جرمن والوں کو معلوم ہو گئی ہے وہ مختلف ادویہ کو ملا کر جس پھول کی خوشبو چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں.اسی طرح اور بہت
129 سی چیزیں ہیں جواب مصنوعی بننے لگ گئی ہیں.جیسے ریشم وغیرہ غرض ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو کسی چیز کا کامل علم ہو وہ اس کے بنانے پر بھی قادر ہوتا ہے اس بات کے ثابت ہو جانے کے بعد اس میں کوئی بھی شبہ نہیں رہتا کہ اگر خدا تعالیٰ کو علم کامل ہے تو یقینا وہ مادہ کے بنانے پر بھی قادر ہے اور اگر وہ مادے کے بنانے پر قادر نہیں تو اس کا علم بھی کامل نہیں پس صفت علم جو ہمارے اور آریوں کی مسلمہ ہے وہ اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کو مادہ پیدا کرنے پر قادر ہونا چاہئے.صفت مالکیت سے مادہ کے مخلوق ہونے کا ثبوت اب بھی اگر کسی کی تسلی نہ ہو تو پھر کسی اور صفت کو مستقل قرار دیکر پیمائش شروع کی جا سکتی ہے.میں اس غرض کے لئے خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کو لیتا ہوں.اس صفت کو ہم بھی مانتے ہیں اور فریق مخالف بھی.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ملکیت کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ ملکیت یا تو اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ کوئی شخص ورثہ سے کوئی چیز حاصل کرتا ہے یا کوئی اسے دیتا ہے یا وہ خریدتا ہے یا خود بناتا ہے یہی چار ذریعے ملکیت کے ہیں یعنی ورثہ، تحفہ، خرید اور خلق یا صنعت.خدا تعالیٰ جو مالک کہلاتا ہے تو کس لحاظ سے آیا اسے مادہ ورثہ میں ملا ہے یا اسے کسی نے تحفہ دیا ہے یا اس نے خریدا ہے یا بنایا ہے.آریہ لوگ بھی اس امر کو تسلیم نہیں کرتے کہ پہلے تین ذریعوں سے خدا کو مادہ پر ملکیت حاصل ہوتی ہے اس لئے اگر وہ مالک ہے تو ماننا پڑے گا کہ اسے ملکیت پیدا کرنے کے سبب سے حاصل ہوئی ہے اور اگر یہ ثابت
۱۸۰ نہیں ہے تو خدا تعالی مادہ کا مالک نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ غاصب ہے.خدا تعالیٰ کی دیگر صفات سے مادہ کے مخلوق ہونے کا ثبوت اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات لے کر جب اس مسئلہ کو حل کیا جائے تو آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مادہ مخلوق ہے مثلاً خدا قادر ہے.آر یہ لوگ بھی خدا کو قادر مانتے ہیں اور ہم بھی لیکن اگر خدا مادہ کو پیدا نہیں کر سکتا تو اس کی قدرت کامل نہ ہوئی وہ کہتے ہیں کہ روح و مادہ کا جوڑ نا خدا کی قدرت ہے مگر ان کا بنانا اس سے بھی اعلیٰ قدرت ہے اس لئے یہی درست ہے کہ خدا نے مادہ پیدا کیا پھر وہ کہتے ہیں کہ خدا مہربان اور رحیم ہے ہم بھی یہ مانتے ہیں مگر ہم پوچھتے ہیں اگر خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں تو اس کا کیا حق ہے کہ روح اور مادے کو کسی سبب سے سزا دے جب وہ اپنے وجود میں اس کے محتاج ہی نہیں تو خدا تعالیٰ کا یہ بھی حق نہیں کہ ان کے لئے کوئی قانون بنائے اور جب اس کا یہ حق نہیں کہ ان کے لئے کوئی قانون بنائے تو اسے یہ بھی حق نہیں کہ اس قانون کے توڑنے پر انہیں کوئی سزا دے.جوڑنے جاڑنے سے ہرگز سزا دینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہو جاتا کیونکہ سزا کا حق تو بادشاہت سے حاصل ہوتا ہے اور وہ اسے حاصل نہیں کیونکہ نہ اس نے روح و مادہ کو پیدا کیا نہ انہوں نے اپنا اختیار اس کے ہاتھ میں دیا.غرض روح و مادہ کو اگر مخلوق نہ مانا جائے تو خدا تعالیٰ رحیم نہیں بلکہ ظالم قرار پاتا ہے لیکن چونکہ آریہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا رحیم ہے اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ خدا تعالی مادہ کا خالق ہے.
IAL ان چاروں حدود سے مادہ کا مخلوق ہونا ثابت ہو گیا.اب بھی اگر کوئی کہے کہ خدا نے مادہ کو پیدا نہیں کیا تو یہی کہیں گے کہ یہ خیال تمہاری سمجھ کے قصور سے پیدا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی بعض صفات پر اعتراضات اور ان کے جواب اب میں چند موٹے موٹے اعتراضات جو صفات الہیہ پر کئے جاتے ہیں انہیں لے کر ان کے جواب دیتا ہوں.یہ اعتراضات زیادہ تر دہریوں کی طرف سے کئے جاتے ہیں اور بعض فلسفیوں کی طرف سے جو گو خدا کے قائل ہیں مگر قادر وقدیر خدا کو ماننے سے گھبراتے ہیں.خدا تعالیٰ کی صفات رحمت پر اعتراض پہلا اور اصولی سوال خدا تعالیٰ کی صفات رحمت پر ہے.کہا جاتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ واقع میں انہی صفات رحمت کا مالک ہے جو اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں تو کیا سبب ہے کہ دنیا میں قسم قسم کی بلائیں اور تکالیف نظر آتی ہیں.کیا وجہ ہے کہ اس نے شیر چیتے سانپ اور اسی قسم کے اور موذی جانور پیدا کئے ہیں؟ اہل یورپ کا جواب یورپ والے تو اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ خدا کو جو کچھ مل سکا اس سے جو بہتر صورت بنی وہ اس نے بنا دی.اس میں اس کا کیا قصور ہے.جیسا مادہ تھا ویسی چیز بنا
IAM دی.مادہ کا پیدا کرنا اس کے اختیار میں نہ تھا اس لئے اس نے جو اچھی سے اچھی صورت ہو سکتی تھی وہ بنادی.گویا ان لوگوں نے اس اعتراض کو دور کرنے کے لئے خدا تعالی کی قدرت کا ہی انکار کر دیا ہے.بعض اہلِ یورپ یہ جواب دیتے ہیں کہ ان بحثوں میں پڑنا فضول ہے.واقع یہ ہے کہ خدا کا رحم قانون قدرت میں نظر آتا ہے اسی طرح شیر و چیتے بھی نظر آتے ہیں.یہ واقعات سب کے سامنے ہیں وجہ دریافت کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں.اہلِ ہند کا جواب اہلِ ہند نے اس سوال کو اس طرح حل کیا ہے کہ خدا نے شیر چیتے یونہی نہیں بنائے.جن روحوں سے قصور ہو گئے ، ان کو بطور سزا کے ایسے جانور بنا دیا.اس سے خدا کے عدل اور رحم پر کوئی حرف نہیں آتا.کیونکہ ہر ایک چیز اپنے اپنے اعمال کی وجہ سے اچھی اور بُری بنی ہے.اگر شیر بکری کو کھاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلے جنم میں بکری نے شیر کو کھایا ہوگا یا کوئی اور قصور کیا ہوگا.گویا یورپ والوں اور ہندوؤں نے یہ مان لیا ہے کہ مخلوق میں ظلم نظر آرہا ہے.آگے یورپ والوں نے کہہ دیا کہ خدا مجبور تھا جو کچھ اس سے بن سکا وہ اس نے بنا دیا اور یہاں کے لوگوں نے کہہ دیا خدا کیا کرتا بندوں نے خود جو کچھ کیا اس کا بدلہ پارہے ہیں.حقیقی جواب ا اس کا جواب اول تو یہ ہے کہ دنیا میں دیکھو کوئی رقم بھی نظر آتا ہے یا سب علم ہی ظلم
۱۸۳ ہے؟ اگر رحم نظر آتا ہے تو معلوم ہوا کہ خدا رحیم ہے باقی اگر ایسی چیزیں ہیں جو رحم کے نیچے نہیں آتیں تو ان کے متعلق یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کا ہمیں علم نہیں کہ رحم کے نیچے کس طرح آتی ہیں؟ کیونکہ دوسری صفات سے خدا کا رحیم ہونا ثابت ہے اور جن سے ثابت نہیں ان سے معلوم کرنا باقی ہے اور عدم علم سے عدم شئے لازم نہیں آتی.دوسرا جواب یہ ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن میں دیا ہے وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَيْرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِن شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبَّهِمْ يُحْشَرُونَ.(الانعام : ۳۹) خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم ہی تو مخلوق نہیں ہو اور بھی مخلوق ہے جس طرح تمہارے پیدا کرنے میں حکمت ہے اسی طرح ان کے پیدا کرنے میں بھی حکمت ہے اگر تمہارے لئے ان کو مسخر کر دیا گیا ہے تو ان کے مسخر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا کوئی مستقل وجود نہیں بلکہ ان کے وجود سے بھی بعض خدا کی صفات کا ظہور ہو رہا ہے.تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ بعض چیزیں مفید نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ہمیں ان کے فائدے معلوم نہیں ہوتے اس لئے ان کو نقصان رساں سمجھتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر ایک چیز تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کی ہے اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ بعض چیزیں صرف ضرر رساں ہیں.دنیا کی کون سی چیز ہے جس کا صرف نفع ہی ہوتا ہے مگر باوجود
۱۸۴ اس کے بعض چیزوں کو اچھا کہا جاتا ہے یہ ضرر رساں جانور بھی اپنے اندر فائدے رکھتے ہیں.سانپ کا زہر بیسیوں بیماریوں میں مفید ہے.شیر کی چربی بیسیوں بیماریوں میں مفید ہے اسی طرح اور بہت سے موذی جانور ہیں جن کے بہت سے فوائد دریافت ہوئے ہیں اور ابھی اکثر حصہ پوشیدہ ہے ابھی علوم چونکہ ابتدائی حالت میں ہیں اس لئے ان کی بناء پر یہ کہنا کہ فلاں چیز مصر ہے درست نہیں.بہت سی چیزیں پہلے بے فائدہ سمجھی جاتی تھیں اب مفید ثابت ہورہی ہیں اسی طرح کئی چیزیں پہلے موذی خیال کی جاتی تھیں اب ان کے فوائد ظاہر ہورہے ہیں.پس اپنے ناقص علم کی وجہ سے ان چیزوں کی نسبت کہنا کہ یہ صرف مضر ہیں درست نہیں.چوھت جواب یہ ہے کہ خدا تعالی رحیم ہے مگر اپنے خزانوں کو حکمت کے ماتحت تقسیم کرتا ہے اور اس بناء پر کوئی عقلمند اس کی نسبت اعتراض نہیں کر سکتا.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں شخص ظالم ہے کیونکہ اس نے مجھے دس روپے دیئے ہیں نٹو نہیں دیئے حالانکہ اس کے گھر میں روپے موجود تھے ہرگز نہیں کیونکہ اس کا دس روپے دینا اس کی رحیمی پر دال ہے نہ کہ ظلم پر.اسی طرح خدا تعالیٰ نے چیزوں میں بعض فوائد رکھے ہیں اور بعض مضر تیں.مضرتوں سے علیحدہ رہو اور جتنے فوائد دیئے ہیں ان کو رحم سمجھ کر ان سے فائدہ اُٹھاؤ.کوئی فقیر نہیں کہے گا کہ فلاں شخص ظالم ہے کیونکہ اس نے مجھے ۸ آنے دیئے ہیں روپیہ نہیں دیا.دینے والے کا رحم ان آٹھ آنوں سے ظاہر ہوتا ہے جو اس نے دیئے ہیں لیکن اس کا ظلم ہرگز اس ہزار روپیہ سے ظاہر نہیں ہوتا جو اس نے نہیں دیا.
۱۸۵ پانچواں جواب یہ کہ مضرتوں کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بنایا ہے تا ظاہر فرمائے کہ کون سے لوگ ناشکرے ہیں پس مضرتوں کا یہ بھی فائدہ ہے کہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ کس کی محبت خودغرضانہ ہے اور کس کا تعلق مخلصانہ کئی لوگ ہوتے ہیں جو آرام اور آسائش میں تو خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں لیکن تکلیف پر شور مچا دیتے ہیں.لیکن ایسے بھی ہوتے ہیں جو تکلیف کے وقت بھی خدا کو نہیں بھولتے اور دراصل یہی خدا کے پیارے اور محبوب ہوتے ہیں.حضرت لقمان کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ گرفتار ہو کر کسی کے پاس پک گئے مگر جس مالک کے پاس گئے وہ ان سے بہت اچھا سلوک کرتا تھا.ایک دن اس کے پاس بے فصل کا خربوزہ تحفہ آیا اس نے اس میں سے ایک پھانک کاٹ کر انہیں کھانے کے لئے دی جسے انہوں نے بہت ہی مزے سے کھایا.اس نے یہ خیال کر کے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خربوزہ انہیں بہت پسند آیا ہے ایک پھانک کاٹ کر اور دی وہ بھی انہوں نے خوب مزے سے کھائی اس نے ایک پھانک اور دی اور اس کے بعد خودشوق سے ایک پھانک کا ٹکڑا منہ میں ڈالا لیکن اسے وہ خربوزہ ایسا بد مزہ معلوم ہوا کہ فورا قے آگئی.اس نے حضرت لقمان سے پوچھا کہ ایسا کر وا خربوزہ تم مزے لے لے کر کیوں کھاتے رہے؟ کیوں نہ مجھے بتایا کہ میں بار بار پھانکیں کاٹ کر تمہیں دیتا رہا.انہوں نے کہا اسی ہاتھ سے میں نے کثرت سے میٹھی چیزیں کھائی ہیں اگر ایک چیز کڑوی بھی مل گئی تو کیا حرج تھا.کیا میں ایسا ناشکر گزار تھا کہ اتنی میٹھی چیزیں کھانے کے بعد ایک کڑوی چیز ملنے پر شور مچادیتا؟ غرخ شکر گزاری کا پتہ مضرتوں سے ہی لگتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مضر تیں بھی
TAY پیدا کی ہیں تا کہ اس نے بندوں پر جو احسان کئے ہیں ان کے ذریعہ سے دیکھے کہ بندے ان احسانات کی کیا قدر کرتے ہیں اور ان میں سے کون سے شکر کے جذبہ کو قائم رکھتے اور کون شور مچادیتے ہیں.چھٹا جواب یہ ہے کہ موذی اشیاء کو خدا تعالیٰ نے اس لئے بنایا ہے کہ انسانی فطرت اونی حالت میں ڈر کی محتاج ہے اور خدا کی طرف لانے کے لئے مصیبتیں آتی ہیں تا کہ ان کے ڈر کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو.جیسے ایک چھوٹا بچہ کہیں جانے لگے اور اسے ادھر اُدھر سے ڈرایا جائے تو سیدھا جاتا ہے اور کسی گڑھے وغیرہ میں گرنے سے محفوظ رہتا ہے یا اس طرح کہ جب کوئی جانور ٹیڑھا جا رہا ہو اور اسے ادھر اُدھر جانے سے ڈنڈے کے ذریعہ روک دیا جائے تو سیدھا جاتا ہے.مگر وہ اشیاء بھی ایک قسم کے ڈنڈے ہیں جو انسانوں کو سیدھا چلانے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اگر یہ نہ ہوں تو اکثر لوگ جو سیدھے چلتے ہیں ٹیٹر ھے رستہ پر نکل جائیں.اگر کہا جائے کہ اچھا ڈر پیدا کیا ہے کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری.اگر کسی کو شیر کھا جائے یا بیمار مر جائے تو اس کو ڈرانے نے کیا فائدہ دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی پر شیر نے یا بیماری نے ایسا حملہ کیا کہ وہ مر گیا تو اگر اس حملہ کے وقت اس نے ڈر کر اپنے گناہوں سے توبہ کر لی تو وہ خدا کے انعام کے نیچے آ گیا اور اگر اس وقت بھی وہ اپنی شرارت پر مستقل رہا تو پھر ضروری تھا کہ اس کو سز املتی.اس پر شکوہ کیسا؟ پھر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں ادنی چیز اعلیٰ کے لئے قربان ہوتی ہے.اگر اس کے
IAZ مرنے سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو جائے تو پھر کیا ہوا اگر وہ مر گیا، اس کے مرنے پر کئی دوسرے بچ جاتے ہیں.ساتواں جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کو خدا نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ رحیم ہی نہیں بلکہ شدید العقاب بھی ہے.جو شریر ہوتے ہیں وہ ان کو ان چیزوں کے ذریعہ سزا دیتا ہے.اگر بھیٹر یا نہ پیدا ہوتا تو وہ شخص جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شرارت کرنے پر بھیڑیے نے چیرا کس طرح یہ سزا پاتا؟ اگر طاعون نہ ہوتی تو سیح موعود کے مخالفوں پر کس طرح عذاب آتا ؟ پس جس طرح خدا تعالیٰ کی رحیمیت کی صفت چاہتی ہے کہ بندوں پر جلوہ کرے اور انہیں آرام و آسائش پہنچائے.اسی طرح اس کی شدید العقاب کی صفت کا جلوہ ہونا بھی ضروری تھا اور وہ اسی قسم کی چیزوں کے ذریعہ ظاہر ہوسکتی ہے جنہیں نقصان رساں سمجھا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی اس صفت پر اعتراض کرنے والوں کی حالت ایسی ہی ہے جیسے شتر مُرغ کے متعلق ایک مثال بنی ہوئی ہے کہ اسے کسی نے کہا تھا کہ تو مرغ ہو کر اُڑتا کیوں نہیں؟ کہنے لگا احمق کبھی اونٹ بھی اُڑا کرتے ہیں؟ اس نے کہا اگر تجھے اونٹ ہونے کا دعویٰ ہے تو آ پھر ہم تجھ پر بوجھ لادیں.کہنے لگا کبھی پرندے پر بھی کسی نے بوجھ لادا ہے؟ وہ اڑنے کے وقت اونٹ بن گیا اور بوجھ لادنے کے وقت پرندہ.یہی مثال ان لوگوں کی ہے.اگر خدا تعالیٰ میں رحم ہی رحم ہوتا تو کہتے اس میں سزا دینے کی طاقت کیوں نہیں ہے اور جب کہ اس میں سزا دینے کی طاقت بھی ہے تو کہتے ہیں یہ کیوں ہے؟
آٹھواں جواب IAA یہ ہے کہ جب انسان عسر یسر سے گزرتے وقت صبر و استقامت سے کام لیتا ہے تو اس پر ترقی کے دروازے کھولے جاتے ہیں کیونکہ تمام ترقیات کے پانے کا ذریعہ نگی اور مشکلات ہی ہیں اور جو انسان ان میں سے کامیابی کے ساتھ گزرتا ہے وہی خدا کا قرب پا سکتا ہے.پس اگر مشکلات نہ ہوتیں تو گویا انسان کو پیدا ہی نہ کیا جاتا کیونکہ اگر تکلیفیں نہ ہوتیں اور ان میں انسان نہ پڑتا تو اس کو خدا کے انعام کس طرح ملتے اور جس غرض کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے وہ کس طرح پوری ہوتی.دیکھو سکولوں میں لڑکوں کو دوڑاتے ہیں اگر کوئی لڑکا نہ دوڑے تو اس کے لئے انعام کیسا ؟ دوڑنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے مگر جو دوڑتا ہے اس کو انعام ملتا ہے اور تکلیف کے مطابق ہی ملتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا قرب جیسا بڑا انعام ہے ویسی ہی بڑی اس کے لئے تکالیف بھی ہیں.پھر کہتے ہیں جو لوگ اس طرح مرتے ہیں ان کے رشتہ دار کیا کہتے ہوں گے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں.یا تو خدا کو ماننے والے یا نہ ماننے والے.ماننے والے تو کہیں گے کہ خدا کے قانون قدرت کے ماتحت اپنے عمل کے مطابق یا خدا کی خاص حکمت کے ماتحت مرنے والے نے جان دی ہے اور جو نہیں مانتے انہوں نے جب خدا کو مانا ہی نہیں تو انہوں نے کیا کہنا ہے وہ اپنے ذہنی قانون قدرت کو گالیاں دیتے ہوں گے.دیگر اشیاء کے پیدا کرنے کی وجہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ مخلوق تو وہ ہے جو ذی روح ہے ان کے متعلق تم نے کہہ لیا کہ اس
۱۸۹ کی اپنی جدا گانہ ہستی بھی ہے لیکن بجلی وغیرہ نقصان رساں چیزیں کیوں پیدا کی گئیں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی چیزیں بھی خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت پیدا ہوئی ہیں اور ہمیشہ سے موجود ہیں یہ نہیں ہوتا کہ جب کسی پر بجلی گرنی ہوتی ہے اس وقت اسے پیدا کر کے بھیجتا ہے اس نے ایک قانون بنا دیا ہے اس قانون کے خلاف جو چلتا ہے وہ ہلاک ہوتا ہے.پھر ایسی چیزوں میں فائدے بھی ہوتے ہیں بلکہ ان کا فائدہ زیادہ ہے اور نقصان کم ہے.مثلاً طبعی طور پر جو دلوں کو ڈرانے والی چیزیں ہیں ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک زلزلہ ہے مگر یہی زلزلہ ہے جس کے ذریعہ سے دنیا قابل رہائش بنی ہے اور اب بھی اس کے ذریعہ سے تغیرات پیدا ہو رہے ہیں جن میں سے بعض کو سائنس دان سمجھتے ہیں اور بعض ابھی ان پر بھی مخفی ہیں.در حقیقت زلزلہ دنیا کی زندگی کولمبا کرنے کے لئے آتا ہے اور اس کے ذریعہ سے انسان کے لئے ضروری اشیاء کے خزینے پیدا کرنے یا انہیں محفوظ رکھنے کا سامان پیدا کیا جاتا ہے.انبیاء کے وقت اس لئے زلزلے آتے ہیں کہ دنیا کے قیام کی صورت پیدا ہو.اسی طرح اگر کسی پر بجلی گرتی ہے تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ایسا شخص ایک عام قانون کی زد میں آگیا ہے اگر وہ مؤمن ہے تو اس کو اس کا بدلہ آخرت میں مل جائے گا اور اگر کافر ہے تو اس کو اس کے اعمال کی سزائل گئی.مگر یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ بجلی سے اگر ایک آدمی مرتا ہے تو لاکھوں کی جان بچتی ہے کیونکہ بجلیوں کے ذریعہ سے ہزاروں قسم کے زہر اور زہر یلے جرمز * مرتے ہیں.اس بجلی سے روشنی لی جاتی ہے، ریلیں چلائی جاتی ہیں، کارخانے چلائے جاتے ہیں، لاکھوں آدمی ان بجلی کے کارخانوں میں ملازمت کر کے روٹی کماتے اور زندگی بسر کرتے ہیں، پھر ہزاروں بیماریوں سے لوگ اس کے ذریعہ شفاء پاتے ہیں کئی بیماریاں اس کے ذریعہ دور ہو جاتی ہیں.اس کی موتیں ان لوگوں کو نظر آتی ہیں مگر اس کے زندگی بخش اثر نظر نہیں آتے GERMS
۱۹۰ هستی باری تعالیٰ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اعتراض کرنے سے غرض ہے، احقاق حق سے غرض نہیں.بیماریاں کیا ہیں اور کیوں ہیں؟ دہریے یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا بجلی ، زلزلہ وغیرہ میں اور موذی جانوروں میں تو حکمتیں ہیں مگر بیماریاں کیوں پیدا کی گئی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ بیماری کیا چیز ہے؟ اول جب کسی جگہ زائد فضلہ جمع ہو جائے تو اس کا نام بیماری ہے دوسرے انسان کا جسم کچھ چیزوں سے مل کر بنا ہے ان میں سے اگر کوئی چیز اپنی مقدار کے لحاظ سے کم ہو جائے تو یہ بیماری ہے.تیسرے بیرونی چیزوں کے اثرات انسان پر پڑتے ہیں.مثلاً انسان کھاتا ہے،سانس لیتا ہے، سونگھتا ہے، پیتا ہے، اس کے جسم کا فعل کبھی تیز ہوجاتا ہے کبھی ست اسی کا نام بیماری ہے.فضلہ کی زیادتی سے بیماری اب ہم ان کے متعلق الگ الگ بحث کرتے ہیں فضلہ کی پیدائش کیوں اور کس طرح ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پانی یا روٹی زیادہ کھا پی لے یا کوئی ایسی چیز کھالے کہ جس کو معدہ ہضم نہ کر سکتا ہو اور سدا بن جائے.جیسے گھر کی نالی میں جب کوئی اینٹ روڑا آجاتا ہے تو پانی باہر نہیں نکل سکتا اسی طرح پیٹ میں کوئی ایسی چیز ڈال لی گئی جو پھنس گئی.اب بیماری کے نہ ہونے کے کیا معنی ہوئے کیا یہی نہیں کہ اس کے جسم میں کبھی بھی فضلہ جمع نہ ہوتا جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ انسان خواہ کس قدر بھی کھا جاتا اسے بیچ جانا چاہئے تھا.اب اس قانون کے ماتحت دنیا کو چلا کر دیکھو تو کس قدر جلد اس پر تباہی آجاتی
191 ہے.اب تو یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک حد تک کھا کر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ گو منہ کو مزا آ رہا ہے لیکن انجام کار اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا اور جسم میں بیماری پیدا ہو جائے گی لیکن اگر زیادہ کھانے سے بیمار نہ ہوتا تو ایک ہی شخص سینکڑوں آدمیوں کا کھانا کھا جاتا اور پھر بھی سیر نہ ہوتا.یا پھر یہ تجویز کی جاسکتی کہ انسان کچھ کھاتا پیتا ہی نہ جس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہر قسم کے تغیر سے محفوظ ہوتا اور گویا خدا ہوتا پھر ایسے انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہوتا ؟ مگر اس کے علاوہ بھی میں کہتا ہوں کہ اس حالت کو فرض کر کے ذرا انسانوں سے یہ پوچھ کر تو دیکھو کہ اگر تمہیں سب میٹھی کھٹی نمکین چیزیں کھانے سے روک دیا جائے اور پھر تمہیں کوئی بیماری نہ ہو تو کیا اسے پسند کرو گے؟ اس کا جواب وہ یہی دیں گے کہ یہ تو خود ایک بیماری ہے اس میں مبتلاء ہونا کون پسند کرے گا.یہ تو ایسی بات ہے جیسے ایک ایسا شخص جو ناک کے ذریعہ بو کو بھی سونگھ سکے اور بد بوکو بھی اس کو کہا جائے کہ آؤ تمہاری سونگھنے کی قوت ضائع کر دی جائے تا کہ نہ تم خوشبوسونگھ سکو اور نہ بد بو وہ آدمی خوش نہیں ہوگا بلکہ اسے گالی سمجھ کر لڑنے پر آمادہ ہو جائے گا.اور اگر یہ کہا جائے کہ زیادہ کھانے کی کسی کو توفیق ہی نہ ملتی.جب کوئی شخص ایک یا دو یا تین یا چار روٹیاں حسب استعداد کھالیتا تو فرشتہ آجاتا اور آکر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور کہ دیتا کہ بس اب نہ کھانا ورنہ فضلہ پیدا ہو کر بیمار ہو جاؤ گے.مگر اس طرح تو گویا خدا ہی ان کے پاس آجا تا اور انسان کے لئے امتحان کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہتی اور اس کی پیدائش کی غرض باطل ہو جاتی، اس کے دائیں اور بائیں فرشتے ہوتے جو ہر وقت اسے ٹوکتے رہتے کہ یہ نہ کھانا وہ نہ کھانا اتنا نہ کھاؤ اتنا کھاؤ.فرض کرو ایک چیز آدمی کو کھانی مناسب نہ ہوتی.مثلاً یہی فرض کر لو کہ ایک شخص کے لئے کدو مضر ہوتا جب وہ بازار سے خرید تا حجھٹ ایک فرشتہ آتا
۱۹۲ اور اس سے چھین کر دکاندار کو واپس کرتا اور اس سے پیسے چھین کر اسے لا کر دیتا.غرض یہ عجیب قسم کا کھیل بن جاتا جس سے انسان کی پیدائش کی غرض بالکل ہی باطل ہو جاتی.معترض کہتے ہیں کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ معدہ ہی ایسا بنادیا جاتا کہ جس قدر انسان کے جسم کے لئے ضرورت ہوتی اتنی چیز جذب کر لیتا اور باقی نکال دیتا لیکن اس کا مطلب یہ ہوا کہ معدہ کے اندر بھی ایک دماغ بنایا جاتا جو موجودہ دماغ سے بھی اعلیٰ ہوتا اور اسے پوری طرح طلب کا علم بھی ہوتا کہ جو چیز مضر ہوتی فوڑا اسے نکال کر باہر پھینک دیتا.مگر کیا اس سے انسان کی انسانیت کچھ باقی رہ جاتی کیا وہ ایک مکمل مشین نہ بن جاتا جس کا اس کے اعمال پر کچھ بھی تصرف نہ ہوتا اور جب اس کا اس کے اعمال پر تصرف نہ ہوتا تو وہ ترقیات کا مستحق کس طرح بنتا اور پھر کیا جو چیز مضر معدہ میں جاتی اس کا نکال کر پھینک دینا خود ایک تکلیف دہ عمل اور بیماری نہ کہلاتا.خارجی اثرات سے بیماری پھر بیماری خارجی اثرات سے پیدا ہوتی ہے.مثلاً سردی لگ جاتی ہے جس سے کبھی گردوں میں درد ہو جاتی ہے یا کوئی اور تکلیف پیدا ہو جاتی ہے اس لئے بیماری نہ ہونے کے یہ معنی ہوئے کہ کوئی اثر انسان محسوس نہ کرتا نہ اسے سردی لگتی نہ گرمی.گویا ایک نئی قسم کا انسان ہو تا گرم گرم روٹی اور ٹھنڈا پانی اس کے لئے کوئی حقیقت نہ رکھتا.گرم لحاف اور پہاڑوں کی خوش کن ٹھنڈی ہوا اس کے لئے بے حقیقت ہوتی کیونکہ اس پر سردی گرمی کا کوئی اثر نہ ہو سکتا.اب کسی سے دریافت کردو کہ آیا وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اسے کبھی کوئی بیماری نہ ہو اور اس کی ساری حسیں ماری جائیں یا حسوں کا باقی رہنا اور بیماری کا امکان پسند کرتا ہے؟
۱۹۳ پھر زبان ناک وغیرہ کی جو حستیں ہیں ان کا غلط استعمال بیماری پیدا کرتا ہے.زبان کا مزا بعض دفعہ طاقت سے زیادہ کھانے کا موجب ہوتا ہے.بیماری کے اسباب کے مٹانے کے یہ معنی ہیں کہ زبان کا مزا باطل کر دیا جائے مٹی اور شکر انسان کے منہ میں یکساں معلوم ہوں کڑوا اور میٹھا دونوں اس کے لئے برابر ہوں.وہ انسان جو بیماری کا شکار ہوتا ہے اس سے پوچھ کر دیکھو تو کیا وہ موجودہ حالت پسند کرتا ہے یا اس قسم کی حالت کو جود ہر یہ تجویز کرتے ہیں.پھر بیماری کا باعث جسم کی وہ جس ہے جس سے وہ تختی اور نرمی کو محسوس کرتا ہے یا انسان کے جسم کی نرمی ہے جس سے وہ اپنی ذات میں آرام محسوس کرتا ہے اس نرم جسم پر اگر زور سے چوٹ لگے تو وہ زخمی بھی ہوگا.بیماری کے اسباب کے مٹانے کے ایک یہ معنی بھی ہوں گے کہ ان جنسوں کو مٹا دیا جائے مگر ان کو مٹا کر دیکھو کیا نتیجہ نکلے گا.اپنے عزیزوں کو ہاتھ لگائے گا اور ان کے جسم کو پتھر کی طرح سخت پائے گا بلکہ اپنے جسم میں جس نہ ہوگی اور کچھ محسوس ہی نہیں کرے گا جس طرح فالج زدہ کے جسم کو کوئی چیز چھوتی ہے اور وہ کچھ محسوس نہیں کرتا کیا کوئی شخص بھی اس حالت کو پسند کرے گا؟ دنیا کے بہت سے لطف اور بہت سی دلبستگیاں چھونے کی جس سے ہیں اور اپنے جسم کی نرمی میں ہیں.اب اگر بیماری کو دور کرنے کے لئے اس جس کو اور اس نرمی کو دور کر دیا جائے تو بیشک درد اور زخم تو مٹ جائے گا مگر انسان کا کیا باقی رہے گا؟ وہ ایک پتھر ہوگا جو نہ اپنے جسم کے آرام کو محسوس کر سکے گا نہ دوسروں سے چھونے کا کوئی لطف اسے حاصل ہو سکے گا بلکہ ایسے شخص کو کوئی اُٹھا کر بھی لے جائے تو اسے کچھ معلوم نہ ہو گا.اس نقشہ کو کھینچ کر اپنے دل میں دیکھ لو کہ سردی گرمی کا احساس مٹ جائے ، گرمی
۱۹۴ سردی کا موسم یکساں ہو جائے ، ٹھنڈے پانی اور گرم پانی کا احساس باقی نہ رہے، میٹھا، کڑوا، سلونا کوئی مزا محسوس نہ ہو سختی نرمی کا کچھ پتہ نہ لگے، جسم لوہے کی طرح سخت ہو، خوشبو اور بدبو کا امتیاز باقی نہ رہے اور اس کے نتیجہ میں بیماری بھی پیدا نہ ہو تو کیا اس زندگی کو دُنیا خود بیماری کہے گی یا نعمت سمجھے گی؟ کسی عقلمند انسان کے سامنے اس تجویز کو پیش کر کے دیکھو وہ اسے جنون قرار دے گا.خواہ لاکھ اسے سمجھاؤ کہ اس طرح بیماری کا دروازہ بند ہو جائے گا وہ کبھی تسلیم نہ کرے گا اور یہی کہے گا کہ بیماری تو کبھی کبھی اور کسی کسی کو آتی ہے مگر تمہاری تجویز سے تو ہر شخص کے لئے زندگی کا ہی دروازہ بند ہو جائے گا یہی حسیں تو روزانہ میرے کام آتی ہیں اور میری زندگی کے دلچسپ بنانے کا موجب ہیں.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے زندگی کو دلچسپ بنانے کے لئے انسان کو یہ حسیں دی ہیں.ان کے استعمال میں جب انسان غلطی کر بیٹھتا ہے تو بیمار ہو جاتا ہے اور بیماری اسی طرح اڑائی جاسکتی ہے کہ یا یہ حسیں اُڑا دی جائیں یا پھر انسان کا اپنا ارادہ ہی باقی نہ رہے وہ اپنے ہر کام میں مجبور ہو.ثانی الذکر صورت کے اختیار کرنے سے انسان کی پیدائش کی غرض باطل ہو جاتی ہے اور اوّل الذکر صورت اختیار کرنے کو خود انسان ہی پسند نہ کرے گا.پس وہی طریق سب سے مناسب ہے جو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.ہر کام میں تکلیف ہوتی ہے اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ تکلیف تو دنیا کے سارے پیشوں میں ہی ہوتی ہے.زمیندار ایک کھیت تیار کرتا ہے تو کیا یو نہی کر لیتا ہے؟ ہل چلاتے وقت بیسیوں چکر کا تا ہے، سردی گرمی کی تکلیف برداشت کرتا ہے، اس کے بیوی بچے الگ
۱۹۵ محنت میں شریک ہو کر تکلیف اُٹھاتے ہیں.پس یہی نہیں کہ بیماری سے ہی انسان کو تکلیف ہوتی ہے بلکہ کھانے پینے کا انتظام کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے اس لئے اگر تکلیفوں کو دور کرنے سے ہی خدا تعالیٰ کی صفات رحمت کا پتہ چل سکتا ہے تو یہ بھی سوال ہونا چاہئے کہ سب پیشے موقوف کئے جائیں سب محنتیں اُڑا دی جائیں.اب علم حاصل کرنے کے لئے برسوں محنت کرنی اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، ہونا یہ چاہئے کہ ادھر بچہ پیدا ہو ادھر سارے علوم کے خزانے اس پر کھل جائیں.اب زمیندار کو فصل تیار کرنے میں تکلیف ہوتی ہے مگر چاہئے یہ کہ آپ ہی غلہ آگے، آپ ہی گھر میں آجائے ، آپ ہی آپ روٹی پکے.اسی طرح کپڑوں کی تیاری میں تکلیف ہوتی ہے چاہئے یہ کہ آپ ہی کپڑا تیار ہو، آپ ہی آپ لباس سیئے جائیں.غرض کہ جس چیز کی ضرورت ہو وہ آپ ہی آپ ہو جائے.تمام کاروبار بند ہو جائیں اور سب پیشے موقوف ہوں نہ لو ہار رہے نہ ترکھان، نہ دھوبی رہے نہ درزی، نہ ڈاک والے رہیں نہ ریل والے کوئی بھی نہ رہے.گویا جس طرح پرانے زمانہ میں ایدی خانے ہوتے تھے (جن کا نام برعکس تھا کیونکہ ان میں ایسے لوگ رکھے جاتے جو بے ہاتھ ہوتے ) ساری دنیا ہی ایدی خانہ بن جائے.سب لوگ چار پائیوں پر پڑے ہوئے ہوں، نہ چلنے کی تکلیف نہ اٹھنے کی ضرورت، نہ کوئی ہاتھ ہلائے نہ پاؤں، سب کام آپ ہی آپ ہوں.سب ترقیاں بند ہو جائیں، سب مقابلے روک دیئے جائیں یہ دنیا ہے جو تکلیفوں کے سلسلے کے بند ہونے کے خواہشمند پیدا کرنی چاہتے ہیں.اگر موت نہ ہوتی اب میں ایک اور پہلوکو لیتا ہوں اور وہ یہ کہ مرنے سے جو تکلیف ہوتی ہے اسے اُڑا
۱۹۶ کر دیکھو کیا صورت بنتی ہے.اگر نئی نسلیں تو پیدا ہوتی رہیں لیکن کسی پر موت نہ آئے تو ایک ہزار سال کے عرصہ میں ہی دنیا پر تل دھرنے کی جگہ نہ رہے اور نہ غذا ہی کافی ملے اور یہی لوگ جو ان امور کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کے رحم پر اعتراض کرتے ہیں خدا تعالیٰ کو برا بھلا کہنے لگ جائیں کہ ہمارے باپ دادوں کو دفع بھی نہیں کرتا کہ کہیں گھر خالی ہوں اور ہم اپنے سر چھپائیں اور روٹی پیٹ بھر کر کھانے کو ملے.پھر میں کہتا ہوں اگر دُنیا کی موجودہ حالت فی الواقع تکلیف دہ ہے تو خود کشی کا دروازہ کھلا ہے کیوں ایسے معترض یا دوسرے لوگ خود کشی نہیں کر لیتے ؟ مگر کس قدر لوگ ہیں جو اس فعل پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور جو اس فعل کے مرتکب ہوتے بھی ہیں تو انہیں دنیا کیا کہتی ہے؟ یہیں نہ کہ وہ عارضی طور پر پاگل ہو گئے تھے اگر فی الواقع یہ دنیا تکلیف ہی کی جگہ ہے تو خود کشی کرنے والے پاگل نہیں بلکہ سب سے زیادہ عقلمند ہیں جو ایک منٹ میں اپنی تکلیفوں کا خاتمہ کر لیتے ہیں.پس خود کشی نہ کرنے اور خود کشی کرنے والوں کو پاگل سمجھنے سے معلوم ہوا کہ باوجود ان شبہات کے یہ معترض بھی یہی چاہتے ہیں کہ اور جیئیں مگر جب دل کی یہ حالت ہے تو پھر اعتراض کیوں کرتے ہیں؟ غرض یہ سب باتیں انسان کے لئے ضروری ہیں اور ان پر اعتراض کرنا لغویت ہے یہ نہ تو اس لئے ہیں کہ خدا کی طاقت محدود ہے اور نہ تناسخ ان کا موجب ہے بلکہ ان سب میں خدا تعالیٰ نے حکمتیں رکھی ہیں.صائب پر افسوس کیوں کیا جاتا ہے؟ بیان پر معترضین ایک اور اعتراض کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر یہ درست ہے کہ
۱۹۷ یہ سب امور حکمت پر مبنی ہیں اور ان کے بغیر دنیا کا گزارہ نہیں ہوسکتا تھا تو پھر جب کسی گھر میں ماتم ہو جاتا ہے تو گھر والے خوشی کیوں نہیں مناتے اور تکلیف کیوں محسوس کرتے ہیں؟ اسی طرح جب کوئی بیمار ہو جائے تو خوش کیوں نہیں ہوتے رنج کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ بیماری سے تکلیف نہیں ہوتی بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر بیماری کے اسباب کو مٹا دیا جاتا تو پھر جو کچھ ہوتا وہ تکلیف دہ ہوتا.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ جو شخص بیمار ہوتا ہے اسے آرام ملتا ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا قانون بنایا جاتا جس سے بیماری دور ہو جاتی تو وہ یا تو انسان کو محض مجبور بنا دیتا اور یہ نہیں ہوسکتا تھا اور یا پھر اس کی حسوں کو باطل کر دیتا جو بیماری کی نسبت ہزار ہا درجے زیادہ نا قابل برداشت ہوتا.پس ان ترقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو موجودہ قانون کی وجہ سے انسان کے سامنے ہیں بیماریاں تکلیف وغیرہ سب ایک رحمت ہیں یا رحمت سے بھاگنے کی سزا پس ان کے باوجود خدا تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت پر کوئی اعتراض نہیں پڑسکتا.مصائب پر افسوس کیوں کیا جاتا ہے؟ یا درکھنا چاہئے کہ مصائب تین قسم کے ہوتے ہیں.قسم اول کے مصائب وہ ہوتے ہیں جو احکام شریعت کے رد کرنے یا ان کی بے قدری کرنے کے سبب سے نازل ہوتے ہیں.دوسری قسم کے مصائب وہ ہیں کہ جو قانون قدرت کے توڑنے کے سبب سے آتے ہیں جیسے مثلاً ایک شخص کے معدہ میں تین چپاتیاں پچانے کی طاقت ہے مگر وہ چار کھاتا ہے اور بیمار ہو جاتا ہے.تیسری قسم کے مصائب وہ ہیں جو اتفاقاً پیش آجاتے ہیں ایک شخص کا
۱۹۸ قصور کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ اتفاقاً اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں خدا تعالیٰ کی قہری تجلی نازل ہو رہی ہے تو یہ بھی اس میں مبتلاء ہو جاتا ہے جیسے مثلاً کوئی شخص راستہ پر جارہا تھا پہلو کے مکان کی دیوار گری اور وہ نیچے آکر مر گیا.ان تینوں قسم کی تکلیفوں کو الگ الگ معلوم کرنا انسان کے لئے عام طور پر مشکل ہے اس لئے ایک خشیت اللہ رکھنے والے دل کا پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ مصیبت کو اپنے اعمال کا نتیجہ سمجھے اور آئندہ نتائج سے خائف ہو.پس ایک یہ باعث بھی مصائب پر افسوس کرنے کا ہے.دوسرے یہ امر بھی قابل غور ہے کہ تکلیف کا احساس ایک علیحدہ بات ہے اور اس کو حکمت کے ماتحت سمجھنا علیحدہ بات ہے.دیکھو جب ڈاکٹر کسی کی بیمار آنکھ میں دوائی ڈالتا ہے تو یہ اچھی بات ہوتی ہے یا بری؟ اس بات کو کوئی بری نہیں کہہ سکتا لیکن دوائی لگاتے وقت بیمار درد کی وجہ سے شور مچایا کرتا ہے یا ہنس ہنس کر یہ کہا کرتا ہے کہ آہا ہا اس کا نتیجہ بہت اچھا ہوگا.انسانی تکلیف کے متعلق یہ اعتراض تو تب صحیح مانا جائے کہ اگر وہ تکلیف دہ امور جن کا نتیجہ یقیناً دہریوں کے نزدیک بھی اچھا ہوتا ہے ان پر وہ خوش ہوا کریں مثلاً جب ڈاکٹر کسی کا موتیا کاٹ کر نکالے تو وہ خوشی سے ہنستا جائے کہ اس کا نتیجہ بہت اچھا ہوگا تو نتیجہ پر خوش ہونا اور بات ہوتی ہے اور درمیانی تکلیف پر افسوس کرنا اور.ہم درمیانی تکلیف پر افسوس کرتے ہیں نہ کہ نتیجہ پر.حیوانات کو کیوں تکلیف دی جاتی ہے؟ اب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ خدا جانوروں کو کیوں تکلیف دیتا ہے؟ چھپکلیاں بھنگے.وغیرہ کھا جاتی ہیں.بکری کو شیر کھا لیتا ہے.ان جانوروں کو تکلیف دینے کی کیا وجہ ہے؟ اور
۱۹۹ ان کو اس کی کیا جزاء ملے گی؟ انسان بکری کا گوشت کھا کر مزہ حاصل کرتا ہے لیکن بکری کو اس تکلیف کے بدلے کیا ملا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا.اس عالم کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کے حکم میں لگا ہوا ہے اور اس کے حکم کے ماتحت کام کر رہا ہے اور ہر ذرہ اجر کا مستحق ہے.اس لئے نہیں کہ وہ اس کا حق دار ہے بلکہ اس لئے کہ خدا نے اس کا حق مقرر کر دیا ہے وہ حق دار تو نہیں مگر اسے حق مل رہا ہے.دیکھو وہی ذرہ جو ایک بکری میں ہو اس بکری کے ذبح ہونے پر اگر وہ ذرہ ایک بہت بڑے مصلح یا نفع رساں وجود کے جسم کا حصہ بن جائے تو کیا یہ اس کا انعام نہیں اور کیا وہ اس ذریعہ سے ایک بلند مقام پر نہیں پہنچ گیا ؟ ہر چیز کو بدلا ملے گا قانون قدرت ہمیں بتاتا ہے کہ ہر چیز کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ مل رہا ہے سروائیول آف دی فٹسٹ یا بقائے انسب کا قانون صاف بتا رہا ہے کہ ہر چیز اپنا بدلہ پارہی ہے خواہ گھانس کی پتی ہی کیوں نہ ہو.ہاں بدلے اپنی اپنی حالت کے مطابق ہوتے ہیں.انسانی جس چونکہ سب دوسری چیزوں سے ترقی یافتہ ہے انسان کا بدلہ بھی دائگی اور ابدی ہے دوسری چیزوں کی حسیں چونکہ بالکل محدود ہیں اس لئے ان کے بدلے بھی محدود ہیں گو بدلے ہیں ضرور.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَيْرٍ يطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ - (الانعام :۳۹) زمین پر چلنے یا رینگنے والے جانور یا ہوا میں اُڑنے والے پرندے سب کے سب تمہاری طرح کی امتیں ہیں جو تمہاری
۲۰۰ طرح ایک جنس.ہم نے اپنے فیصلہ میں کسی قسم کی بھی کمی نہیں کی پھر یہ سب ایک دن اپنے رب کے حضور میں پیش کئے جائیں گے.کسی وضاحت سے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے سوا دوسرے حیوان بھی اپنے فرائض کی ادائیگی پر بدلے پائیں گے.ہاں وہ بدلہ ان کی اپنی جنس کی طاقتوں کے مطابق ہوگا نہ انسان کی طرح کا.پس یہ غلط ہے کہ انسان کو اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا اور ان چیزوں کو نہیں ملے گا سب کو ملے گا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر ایک بکری نے دوسری بکری کا سینگ تو ڑا تو قیامت کے دن دوسری سے خدا تعالیٰ کہے گا کہ تو اس کا سینگ توڑ.تو کوئی روح ایسی نہیں ہوسکتی جو جزاء نہ پائے ہاں جیسی جیسی روح ہوگی ویسی ویسی اس کو جزاء ملے گی.ہمیں سب کی تفصیلوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں.غرض کوئی ایسی شئے نہیں جو بدلہ نہ پائے گی لیکن انسان چونکہ کامل ہے اس لئے یہ ابدی نجات پائے گا اور دوسری چیزیں کامل نہیں اس لئے ان کو ابدی زندگی نہیں ملے گی.دیکھو جو انسان مارا جاتا ہے اس کا اس کی بیوی بچوں پر کیسا اثر پڑتا ہے مگر بکری ماری جائے تو اس کے بچے کو پروا بھی نہیں ہوتی اور اگر غم ہوتا بھی ہے تو صرف چند دن کا پھر انسان پر شریعت کی پابندیاں ہوتی ہیں مگر وہ دوسرے جانوروں پر نہیں ہوتیں.مخلوق کا پیدا کرنا خدا کے غنی کے خلاف نہیں صفات رحمت کے علاوہ خدا تعالیٰ کی صفت غناء پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے اور وہ یہ که اگر خدا غنی ہے تو اس نے مخلوق کو پیدا کیوں کیا ؟ کیا وہ محتاج ہے کہ اسے مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت پیش آئی ؟ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۳۵
۲۰۱ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک فقیر کسی سبھی کو کہہ سکتا ہے کہ اگر میں نہ ہوتا تو تُو سخاوت نہ کر سکتا اس لئے تو میرا محتاج ہے تو ایک بندہ بھی خدا کو کہہ سکتا ہے کہ خدا میرا محتاج ہے.مگر کبھی کسی نے نہ سنا ہو گا کہ کسی فقیر نے کہا ہو کہ فلاں سخی محتاج تھا جس سے میں نے آٹھ آنے یا چار آنے لئے اور تب جا کر اسکی احتیاج پوری ہوئی.تعجب ہے کہ ایک شخص آٹھ آنے یا چار آنے لیکر تو کہتا ہے کہ یہ امر میری احتیاج پر دلالت کرتا ہے نہ دینے والے کی احتیاج پر مگر خدا کے متعلق انسان زمین و آسمان اور ان کے اندر جو چیزیں ہیں ان کو لیکر کہتا ہے کہ خدا میرا محتاج ہے میں نہ ہوتا تو یہ چیزیں کون استعمال کرتا ؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ احتیاج اس چیز کی ہوتی ہے جو مستقل حیثیت رکھتی ہے اور جو ہماری اپنی صفت کا ظہور ہو وہ احتیاج نہیں کہلاتا.مثلاً یہ احتیاج ہے کہ ایک ہمارا کام بغیر کسی اور شخص کی مدد کے نہیں ہو سکتا لیکن اپنی کسی صفت کا اظہار احتیاج نہیں ہے بلکہ اسے قدرت کہتے ہیں چونکہ خدا تعالیٰ کسی غیر چیز کی مدد نہیں چاہتا وہ محتاج نہیں کہلا سکتا وہ تو اپنی قدرت سے ایک عالم کو پیدا کرتا ہے پس وہ محتاج نہیں بلکہ مقتدرہوا اور اس نے ایک چیز پیدا کی اور اسے چن لیا اور اسے بزرگی دی.خدا تعالی کی قدرت پر اعتراض اور اس کا جواب خدا تعالیٰ کی صفت قدرت پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر وہ قادر مطلق ہے تو اتنی دیر میں کیوں پیدا کرتا ہے؟ خصوصاً یہ اعتراض زمین و آسمان کی پیدائش پر کیا جاتا ہے جس کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ خدا نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا.
زمین و آسمان کتنے عرصہ میں بنے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمہاری غلطی ہے کہ آسمان اور زمین چھ دن میں بنے.یوم کے معنے دن کے نہیں بلکہ وقت کے ہوتے ہیں.چونکہ دن وقت کا پیمانہ ہے اس لئے دن کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ زمین و آسمان لاکھوں کروڑوں سال میں بنے کیونکہ موجودہ علوم اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں.اس پر غالباً کہا جائے گا کہ اس طرح تو اعتراض اور بھی مضبوط ہو گیا کیونکہ تم کہتے ہو کہ زمین و آسمان لاکھوں کروڑوں سال میں بنے ہیں.پہلا جواب اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ کسی واقعہ کی موجودگی میں جس کی حکمت سمجھ میں نہ آئے واقع پر اعتراض نہیں ہو سکتا.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ خدا تعالیٰ ہے اور اس نے اس دنیا کو بنایا ہے تو اس کا قادر ہونا تو ثابت ہو گیا باقی رہا یہ سوال کہ کیوں نہ اس نے ایک ہی منٹ میں بلکہ اس سے بھی کم میں دنیا کو پیدا کر دیا تو اس کی نسبت یہ کہا جائے گا کہ اس سے اس کی قدرت پر اعتراض نہیں پڑسکتازیادہ سے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ اس امر کی حکمت ہماری سمجھ میں نہیں آتی.دوسرا جوار دوسرا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے صرف زمین و آسمان کو ہی آہستہ آہستہ پیدا نہیں
کیا بلکہ وہ اس دُنیا کی سب چیزوں کو اسی طرح پیدا کرتا ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ ہر چیز اپنی ارد گرد کی چیزوں سے مناسبت حاصل کر سکے تاکہ تمام چیزیں اس سے مل کر کام کر سکیں.پس چیزوں کا آپس میں لگاؤ اور انس پیدا کرنے کے لئے اس نے ایسا کیا ہے.خدا تعالی تو قادر تھا کہ فورا کوئی چیز پیدا کر دیتا مگر ہمیں ضرورت تھی کہ آہستہ آہستہ پیدائش ہو تا کہ ہم ایک دوسرے کو جذب کر سکیں.جس طرح اگر اسپنج کو جلدی پانی میں سے نکال لیا جائے تو وہ اچھی طرح گیلا بھی نہیں ہوتا پانی جذب کرنے کے لئے کچھ دیر پانی میں رکھے رہنے کا محتاج ہے یا جیسے ماش کی دال بھیگنے کے لئے دیر تک پانی میں رہنے کی محتاج ہے پس یہ ویر خدا تعالیٰ کے ضعف کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے ضعف کے سبب سے ہے.تیسرا جواب تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر اس کی قدرت فورا پیدا کر دینے کا تقاضا کرتی ہے تو چاہئے تھا کہ ہر ایک چیز ہی فوڑا پیدا ہو جاتی مگر ذرا دنیا میں اس قانون کو جاری کر کے دیکھ لو دُنیا کیا بن جاتی ہے.اس قانون کے ماتحت بچہ کو نو ماہ کے بعد پیدا نہ ہونا چاہئے بلکہ فورا پیدا ہو جانا چاہئے.سوچو تو سہی اس کا کیا نتیجہ نکلے گا سردی کا موسم ہو آدھی رات کا وقت ہو ایک غریب آدمی کی بے خبری میں یکدم بچہ پیدا ہو جائے اس وقت وہ کہاں سے اس کے لئے کپڑا مہیا کر سکے گا پھر اگر مضبوط آدمی ہوا اور اس نے پھر ایسا ہی فعل کیا جس سے بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو اس وقت ایک اور بچہ پیدا ہو جائے گا اور اگر تیسری دفعہ پھر وہی فعل اس سے ہوا تو تیسرا بچہ پیدا ہو جائے گا اس طرح ایک ایک رات میں بعض لوگوں کے کئی کئی بچے پیدا ہونے ممکن ہوں گے اور صبح ہوتے ہوتے ایک بڑے کنبے کی پرورش کا بوجھ سر پر
۲۰۴ هستی باری تعالیٰ پڑ جائیگا.خود ہی اندازہ کر لو کہ اس قانون کے ماتحت ایک سال میں یہ تعداد کہاں تک پہنچ سکتی ہے.ایسی حالت ہوتی تو عورت مرد آپس کے تعلقات سے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہ ہم اس کے قریب نہ جائیں گے.پھر ایک بچہ پیدا ہونے پر عورت کو اس قدر تکلیف ہوتی ہے کہ اس کا بُرا حال ہو جاتا ہے اور ولایت میں تو عورتیں رحم ہی نکلوا دیتی ہیں تا کہ بچہ پیدا ہونے کی تکلیف نہ برداشت کرنی پڑے.لیکن اگر ایک ہی وقت میں پے در پے بچے پیدا ہو سکتے تو نہ معلوم وہ کیا کرتیں.شادی کا ہی نام نہ لیتیں یا پھر ایک ایک مرد کو کئی کئی سو عورتیں کرنے کی اجازت ہوتی.اگر خدا آہستہ نہ بڑھاتا پھر آہستہ پیدا کرنے والا اعتراض آہستہ بڑھانے پر بھی پڑتا ہے کہ آہستہ آہستہ کیوں خدا بڑھاتا ہے.اس طرح بھی نہ ہو بلکہ ادھر بچہ پیدا ہوا ادھر یکدم بڑا ہو گیا.مگر اس طرح ایک اور مصیبت شروع ہو جائیگی.بچہ کے پیدا ہونے پر جوں توں کر کے ماں نے جلدی سے اس کے اندازہ کا گرتا سیا کہ سردی سے مر نہ جائے لیکن جب وہ پہنانے لگی تو کیا دیکھتی ہے کہ وہ پانچ چھ سال کا بن گیا ہے پھر وہ سات آٹھ سال کے بچہ کے اندازہ کا کپڑا سی کر لائی مگر دیکھا کہ وہ تو داڑھی والا مرد بنا بیٹھا ہے.غرض فوڑا پیدائش اور بڑھنے کی وجہ سے دنیا میں ایک ایسی آفت آجائے کہ یہی لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کانوں کو ہاتھ لگا ئیں اور کہہ اٹھیں کہ ہم نے خدا کی قدرت دیکھ لی اور ہم اعتراضوں سے باز آئے.
۲۰۵ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی شخص باغ میں گیا اور جا کر دیکھا کہ زمین پر پھیلی ہوئی بیلوں کو تو بڑے بڑے پھل لگے ہوئے ہیں اور بڑے بڑے اونچے درختوں کو چھوٹے چھوٹے.اس نے کہا لوگ تو کہتے ہیں اللہ میاں بڑا دانا ہے.مگر اس نے یہ کیا کیا ہوا ہے.انہیں خیالات میں وہ ایک آم کے درخت کے نیچے سو گیا.اوپر سے ایک آم اس پر گرا اور وہ اُٹھ کر کہنے لگا اللہ میاں مجھے تیری اس حکمت کی سمجھ آگئی اگر مجھ پر کدو گر تا تو میرا کام ہی تمام ہو جاتا.تو نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے میری گستاخی تھی جو میں نے اعتراض کیا.غرض خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر اعتراض کرنے والے اول درجہ کے جاہل ہوتے ہیں اور نادانی سے اس ذات پر اعتراض کرتے ہیں جو اُن کو پیدا کرنے والی ہے اور جس کے مقابلہ میں وہ لکھی جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے.خدا کی بادی صفت پر اعتراض اور اس کا جواب پھر کہا جاتا ہے کہ خدا کی ہادی صفت نے کیا کیا.زیادہ دنیا تو گمراہی کی طرف جا رہی ہے.اگر اس اعتراض کا یہ مطلب ہے کہ خدا کسی کو برے کام کیوں کرنے دیتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ خدا لوگوں پر جبر کیوں نہیں کرتا ؟ گو یا جب کوئی شراب پینے جائے تو اسے روک دے لیکن اگر یہ حالت ہو تو پھر کوئی انعام کا کس طرح مستحق ہو.بات یہ ہے کہ اس قسم کے معترض اعتراض کرتے ہوئے پھول جاتے ہیں کہ دنیا کو خدا نے کیوں پیدا کیا ہے.اس بات کو بھلا کر اعتراض کرتے ہیں یا پا گلا نہ طور پر اعتراض کرتے ہیں.دُنیا کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسانوں کو انعام اور ترقیاں دے لیکن اگر جبر ہوتا
۲۰۶ تو انعام دینا غلط ہوتا.پس خدا تعالیٰ نے انعام دینے کے لئے انسان کو نیکی اور بدی کا علم دیگر اسے قدرت دے دی ہے اور بتا دیا کہ یہ کام کرو گے تو انعام ملے گا اور یہ نہ کرو گے تو سزا اور یہ صاف بات ہے کہ انعام پانیوالے تھوڑے ہی ہوتے ہیں سارے نہیں ہوا کرتے.دیکھو یہ جو یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں ان میں تیس پینتیس فیصدی طلباء پاس ہوتے ہیں اگر کوئی کہے کہ ان کا کیا فائدہ ہے؟ تو اس کے جاہل ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے.مگر ان یو نیورسٹیوں کے کام کا نتیجہ تو بہت ادنیٰ ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے وہ بہت شاندار ہے اس لئے اس کا امتحان بھی بہت سخت ہے.خدا نے امتحان آسان رکھا ہے اگر کہا جائے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء تھا کہ انعام دے تو امتحان آسان رکھنا چاہئے تھا.اس کا یہ جواب ہے کہ اس سے زیادہ کیا آسان ہو سکتا ہے کہ اکثر نیکیاں خدا تعالیٰ نے وہی رکھی ہیں جن میں انسان کا اپنا فائدہ ہے.ان کو نہ کرنا تو ایسا ہی ہے جیسا کسی کو کہا جائے کہ تم اپنے گھر کو لیپ پوت چھوڑ نا مگر وہ ایسا نہ کرے اور کہے کہ اتنا سخت کام ہے اور مزدوری دیتے نہیں تو میں کیوں کروں.دیکھو خدا تعالیٰ کہتا ہے چوری نہ کرو اب اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اس کا کسے نقصان ہے خدا تعالیٰ کو یا خود سے؟ یا خدا تعالیٰ کہتا ہے جھوٹ نہ بولو اب اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو خدا تعالیٰ کا کیا نقصان خود اس کا اعتبار نہیں رہتا.اسی طرح جس قدر سوالات خدا نے اس امتحان میں پاس ہونے کے لئے دیئے ہیں وہ انسان کے ہی فائدہ کے لئے ہیں اور چند ایک ایسے بھی ہیں جو بظاہر انسان کے دنیوی یا اخلاقی
۲۰۷ فائدہ کے نظر نہیں آتے جیسے نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ کے احکام ہیں مگر در حقیقت ان میں بھی انسان کا ہی فائدہ مد نظر ہے.جیسا کہ نماز کے متعلق آتا ہے إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ - (العنکبوت: ۴۶) که نماز برائیوں اور بدیوں سے روکتی ہے.سو اگر سوچا جائے تو خدا تعالیٰ نے امتحان اس طرح کا لیا ہے کہ اپنے دروازہ پر روغن مل دینا، چھت پر مٹی ڈال دینا، اپنے کپڑے دھونا، کھانا دیکھ کر کھانا تا کہ اس میں مٹی وغیرہ نہ ہو، سردی کے وقت آگ جلانا تا کہ تمہاری صحت خراب نہ ہو اور پھر پوچھے کہ کیا تم نے یہ کام کر لئے ہیں؟ اور جنہوں نے کئے ہوں انہیں جنت میں داخل کر دے اس سے زیادہ آسان اور کیا امتحان ہو سکتا ہے؟ اس سے آسان تو پھر یہی ہو سکتا ہے کہ کہہ دیا جائے جو مرضی ہو کر و تمہیں جنت میں داخل کر دیا جائے گا.کیا خدا کی بعض صفات بعض سے افضل ہیں؟ صفات الہیہ کے متعلق یہ بھی ایک سوال ہو سکتا ہے کہ کیا خدا کی بعض صفات بعض سے افضل ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ افضل نہیں ہوتیں بلکہ ہر ایک کے الگ الگ دائرے ہوتے ہیں اور وہ ایک انتظام کے ماتحت ہوتی ہیں.ہاں کبھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض بعض سے وسیع ہوتی ہیں.یعنی بعض کا ظہور زیادہ وسیع ہوتا ہے بعض کی نسبت جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رحمتِی وَسِعَتْ كُل تھی کہ میری رحمت ہر ایک چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے.یعنی مخلوق پر صفات غضبیہ کی نسبت صفات رحمت کا ظہور زیادہ ہوتا ہے.پس ہم صفات کے لئے لفظ وسعت کا استعمال کرتے ہیں فضیلت کا نہیں کیونکہ ایک صفت کو دوسری سے افضل کہنا بے ادبی ہے.الاعراف: ۱۵۷
۲۰۸ کیا خدا کی صفات ایک دوسری کے متضاد ہوسکتی ہیں؟ پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات ایک دوسری کے متضاد ہیں تو ان کا عمل کس طرح ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک وجود میں دو باتوں کا پایا جانا تضاد نہیں ہوتا.تضاد تو یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک چیز آجائے تو دوسری نہ ہو سکے اور یہ بات خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق نہیں کہی جاسکتی.کہا جاتا ہے کہ اگر خدا رحیم ہے تو پھر شدید العقاب کیونکر ہو سکتا ہے؟ اگر رحیم ہے تو وہ شدید العقاب نہیں ہو سکتا اور اگر شدید العقاب ہے تو رحیم نہیں ہوسکتا.ہم کہتے ہیں کہ اس اعتراض کے اُٹھانے والے اپنے متعلق ہی غور کریں.اگر کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص رحم دل ہے لیکن دوسرا شخص جواب دے کہ نہیں وہ رحم دل نہیں کل میں نے اسے اپنے لڑکے کو مارتے دیکھا تھا تو کیا یہ بات صحیح تسلیم کی جائے گی ؟ ہرگز نہیں کیونکہ وہ رحم کے موقع پر خم کرتا ہے اور سزا کی ضرورت کے وقت سزا دیتا ہے.اسی طرح خدا تعالے کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر وہ شدید العقاب ہے تو رحیم نہیں ہوسکتا اور اگر رحیم ہے تو شدید العقاب نہیں ہوسکتا.کیونکہ وہ رحم کے موقع پر رحم کرتا ہے اور سزا کے موقع پر سزا دیتا ہے اور سزا کے موقع پر یعنی جہاں سزا سے اس شخص کی اصلاح مدنظر ہو جسے سزا دی گئی ہے.سزا کا دینا ہر گز رحم کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ رحم ہی کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے.اس جگہ ایک اور اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ انسان میں رحم اور غضب الگ الگ موقعوں پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن خدا میں تو تم ایک ہی وقت میں ساری باتیں
۲۰۹ مانتے ہو تمہارے نزدیک خدا کے حکم سے ایک ہی وقت ایک کے ہاں بیٹا پیدا ہو رہا ہے اور اسی لمحہ میں دوسرے کے ہاں موت واقع ہورہی ہے.ادھر نبی پر وہ برکتیں نازل کرتا ہے اور دوسری طرف اس وقت کافروں پر لعنت ڈال رہا ہوتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ محدود وجود کے اعمال محدود ہوتے ہیں انسان ایک وقت میں دو باتوں پر غور نہیں کر سکتا لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ غیر محدود طاقتیں رکھتا ہے.وہ جس طرح ایک ہی وقت میں ساری دنیا کے کاموں کو معلوم کر لیتا ہے اسی طرح ایک ہی وقت میں اس کی صفت رحم اور صفت شدید العقاب کام کر رہی ہوتی ہیں.انسان کی طاقتوں پر خدا کی قدرتوں کا قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَئ ہے.تمام صفات الہیہ کا ظہور کس طرح ہوتا ہے؟ یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ خدا تعالیٰ کی مختلف صفات ایک وقت میں کس طرح جاری ہوتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت ایسی بھی ہے جو بعض اصول کے مطابق بعض صفات کو جاری کرتی ہے اور بعض کو بند کرتی ہے.یہ صفت بعض آیات قرآن کریم سے بھی مستنبط ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات سے بھی معلوم ہوتی ہے اور اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے متعلق شافی کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ شافی ہے.جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن
۲۱۰ کریم میں نقل ہے کہ فَهُوَ يَشْفِيْنِ.(الشعراء : ۸۱) حضرت مسیح موعود پر خدا کی ایک خاص صفت کا اظہار حضرت مرزا صاحب بھی چونکہ نبی تھے اور آپ نے لکھا ہے کہ نبی غوامض بیان کرنے کے لئے آتے ہیں یعنی مخفی امور نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں.تو آپ بھی چونکہ نبی تھے اس لئے ضروری تھا کہ غوامض بیان کرتے.انہی میں سے ایک بات یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالی کی کئی صفتیں ایسی بیان کی ہیں جو خدا تعالیٰ نے آپ پر کھولی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ خدا کی صفات میں سے ایک صفت ایسی بھی ہے جو مختلف صفات کی حد بندیوں کو ظاہر کرتی ہے.اس صفت پر حضرت مسیح موعود کا مندرجہ ذیل الہام دلالت کرتا ہے.ابي مَعَ الرَّسُوْلِ أَقْوَمُ وَأَفْطِرُ وَ أَصُوْمُ “ ( تذکرہ صفحہ ۴۹۰ ایڈیشن چہارم) اب نہ اُفطِرُ کا لفظ قرآن کریم میں خدا کے لئے آیا ہے اور نہ آصوم کا.اور جس طرح انسان کے لئے خدا کا کوئی اہم بنانا ناجائز ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف کوئی تشیی فعل منسوب کرنا بھی نا جائز ہے.مگر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو خود آپ کے الہام میں اُفْطِرُ وَ أَصُوم کے الفاظ استعمال کر کے بتایا ہے کہ اس کی صفات میں افطار وصوم کی مشابہ ایک صفت ہے جو صفات کے عمل کو جاری کرنے یا بند کرنے کا کام کرتی ہے اُفطِرُ سے مراد یہ ہے کہ میں اپنی صفت کو جاری ہونے کا حکم دیتا ہوں اور آصومہ کا یہ مفہوم ہے کہ میں اپنی صفت کے ظہور کو روک دیتا ہوں.
۲۱۱ حضرت مسیح موعود کے ایک الہام کا مطلب لوگ اس الہام پر اعتراض کرتے ہیں کیونکہ اس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ میں روزہ رکھتا ہوں اور روزہ کھولا کرتا ہوں اور لغوی معنے یہ ہیں کہ میں رُکتا ہوں اور روک کو دور کرنے کے وقت کو پاتا ہوں مگر مراد یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ میں بعض صفات کو روک دیتا ہوں اور دوسرا وقت ایسا آتا ہے کہ میں انہیں جاری کرتا ہوں.پس معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت ایسی ہے جو دوسری صفات سے کام لیتی ہے بعض کو آگے پیچھے کرتی ہے بعض کو روکتی ہے اور بعض کو جاری کرتی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر اس الہام کا یہی مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ ایک وقت اپنی صفات کو روکتا اور پھر جاری کرتا ہے تو پھر اُفطِرُ اور آصوم کیوں کہا؟ یہ کیوں نہ کہدیا کہ میں صفات کو روکتا بھی ہوں اور کھولتا بھی ہوں.الہام مسیح موعود کے پر حکمت الفاظ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتیں وسیع معنے رکھتی ہیں اور میں رُکتا ہوں اور کھولتا ہوں کہنے میں وہ لطف نہ ہوتا جو اُفَطِرُ وَ اَصُومُ میں ہے.یہ الفاظ کہہ کر خدا تعالیٰ نے اپنے فعل کو روزہ دار کے فعل سے تشبیہ دی ہے اور تین موٹی موٹی باتیں ہیں جو روزہ دار میں پائی جاتی ہیں.اول یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے رکتا ہے جو اس کے قبضہ اور اختیار میں ہوتی ہیں.مثلاً کھانا ہوتا ہے مگر وہ نہیں کھاتا.گویا وہ احتیاج کے طور پر نہیں رکتا بلکہ با وجود قدرت کے اپنی مرضی سے رکتا ہے اسی طرح جب افطار کرتا ہے تو
۲۱۲ هستی باری تعالیٰ بُھوک یا پیاس کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اپنے ارادے کے ماتحت اور اپنی خوشی سے ایسا کرتا ہے.گویا اس مشابہت سے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بعض صفات جن کو خدا تعالیٰ روکتا ہے اپنی مرضی سے روکتا ہے نہ بوجہ احتیاج کے اور بعض صفات جن کو کھولتا ہے ان کو بھی اپنی مرضی سے کھولتا ہے نہ کہ بسبب احتیاج کے.دوسرے اس مشابہت سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ خالی رکنا اندرونی تکان کے سبب سے بھی ہو سکتا ہے یعنی گو بیرونی مجبوری کوئی نہ ہو لیکن اپنے نفس میں تکان پیدا ہو جائے جیسے آدمی کا کھاتے کھاتے پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے لیکن روزہ دار اس لئے کھانے سے نہیں رکتا کہ وہ کھا نہیں سکتا یا اس میں کھانے کی طاقت نہیں رہتی بلکہ اپنی مرضی سے رُکتا ہے.سو اس مشابہت سے بتایا کہ خدا تعالیٰ تھک کر اپنی صفات کو نہیں چھوڑتا اور نہ اس میں نئی طاقت آجاتی ہے تو ان کو جاری کرتا ہے بلکہ اپنی مرضی سے اور اپنی خاص حکمت سے صفات کو جاری کرتا یا روکتا ہے.تیسری بات اس مشابہت سے یہ بتائی ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات قہر یہ ہمیشہ روحانی تاریکی کے وقت جاری ہوتی ہیں ( کیونکہ یہ الہام صفات قہر یہ کے متعلق ہے ) اور یہ صفات روحانی صفائی پیدا ہونے پر روک لی جاتی ہیں کیونکہ صوم یعنی رکنے کا وقت ٹور کے شروع ہونے سے شروع ہوتا ہے اور افطار ظلمت کے شروع ہونے سے.تو گویا اس مشابہت کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود کو اس الہام میں عذاب کے متعلق بتایا گیا کہ جب نیکی اور تقویٰ ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ عذاب دینے کی صفات کو روک دیتا ہے اور جب ظلمت اور تاریکی پھیل جاتی ہے، لوگ
گناہوں اور بدکاریوں میں بکثرت مبتلاء ہو جاتے ہیں تو ان صفات کو چھوڑ دیتا ہے تا کہ لوگ تباہ و برباد ہوں.اب دیکھو کتنی وسیع اور پر حکمت تعلیم اس میں بیان کی گئی ہے کہ جب نو ر جاری ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ عذاب کی صفتوں کو روک دیتا ہے اور جب بدی پھیل جاتی ہے تو ان کو کہہ دیتا ہے کہ اب تمہارا دور جاری ہو جائے.الهام مسیح موعود کے ایک اور معنے پھر خدا کی صفت خلق قائم مقام نور ہے اور عدم قائم مقام ظلمت.چنانچہ عربی میں خلق کو فلق بھی کہتے ہیں اور فلق کے معنے پو پھٹنے کے ہیں.گو یا مخلوق بھی نور ہوتی ہے اور عدم کیا ہوتا ہے؟ کچھ نہ ہونا.اب ہونا تو روشنی ہوئی اور نہ ہونا اندھیرا.اس لئے اُفطِرُو اصُوْمُ کے یہ معنی ہوئے کہ خدا کی بعض صفات ایسی ہیں جو عدم کے وقت جاری ہوتی ہیں اور بعض وجود کے وقت جیسے کہتے ہیں اب مادہ کو خدا کیوں نہیں پیدا کرتا اسی لئے کہ جب عدم تھا تو خدا تعالیٰ کی مادہ کو پیدا کرنے کی صفت جاری ہوگئی اور جب وجود میں آگیا تو اب مخلوق کے قائم رکھنے کی صفات جاری ہو گئیں.تو یہ کتنا بڑا اعلم ہے جو حضرت مسیح موعود کے اس الہام سے ظاہر ہوا.اب دشمن اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا خدا بھی کھانا کھاتا ہے کہ اس نے چھوڑ دیا.ہم کہتے ہیں معترض نادان ہیں جو خدا کے کلام کے معارف نہیں جانتے.خدا تعالیٰ نے ایسا علم حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دیا ہے اور آپ نے وہ غوامض بیان فرمائے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں کسی نے نہیں بیان کئے.یہ ایک ہی الہام
۲۱۴ دیکھ لو کتنے وسیع مضمون اس میں بیان کئے گئے ہیں.خدا کی صفات کس طرح جاری ہوتی ہیں؟ اب یہ بات رہ گئی کہ خدا کی صفات کس طرح جاری ہوتی ہیں.اس کے متعلق پر تو یہ یادرکھنا چاہئے کہ بندوں سے خدا تعالیٰ کی جو صفات تعلق رکھتی ہیں ان میں خدا نے رحمت کا وسیع دائرہ کھینچا ہے چنانچہ فرماتا ہے رخمینی وسعت كُل تمنی ، میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے تو اس صفت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ سب کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ سب صفات کے ظہور پر غالب ہوتی ہے حتی کہ خدا تعالیٰ کے علم پر بھی رحمت ہی غالب ہے.شاید اس بات پر تعجب ہو کہ خدا تعالیٰ کے علم پر رحمت کس طرح غالب ہے.مگر اس کا پستہ اس سے لگتا ہے کہ مبشرات خدا تعالیٰ کی طرف سے زیادہ آتے ہیں اور منذرات کم حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر مندر رویا زیادہ آئیں تو شیطانی ہوتی ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مندر رویا نہیں آتیں کیونکہ ایسی خواہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آتی تھیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جسے ڈراؤنی خوا میں ہی آتی رہیں وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس شخص کو متواتر سلسلہ الہامات کا جاری ہو اس میں مبشرات کا پہلو غالب ہوتا ہے کیونکہ متواتر الہام خدا کے پیاروں کو ہی ہو سکتے ہیں اور جو پیارے ہوں وہ عذاب کی نسبت انعام کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ کا علم جو بندوں سے تعلق رکھتا ہے اس پر بھی اس کی رحمت وسیع ہوتی ہے اور دنیاوی علوم کے انکشاف میں بھی صفت رحمت ہی وسیع ہے کیونکہ جو علوم دریافت ہوتے ہیں ان میں رحمت کا پہلو غضب کے پہلو پر غالب ہوتا ہے.
۲۱۵ خدا کی صفت رحمت کی وسعت یہ وسعت کئی طریق پر ہوتی ہے ایک تو اس طرح کہ انسان گناہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.کئی قسم کی بد پر ہیزیاں انسان کرتا ہے مگر اکثر ان کے نتائج سے بچ جاتا ہے اور کبھی پھنس بھی جاتا ہے.دوسرے اس طرح کہ خدا تعالی گناہوں کی سزا میں جس کا وہ کسی وجہ سے مستحق ہوتا ہے کمی کر دیتا ہے اور جس قدر سزا دی جاتی ہے اس میں بھی رحمت غالب رہتی ہے تو سز ا جو شدید العقاب صفت کے ماتحت ہوتی ہے اس پر بھی رحمت ہی محیط ہے گویا سب سے بڑا دائرہ رحمت کا ہے اور اس کا ایک درجہ تو یہ ہے کہ سزا بالکل معاف کرا دیتی ہے.دوسرا یہ کہ سزا کم کرا دیتی ہے اور تیسرا یہ ہے کہ اگر سزا ملے تو آخر میں بند کرا دے گی.جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دن دوزخ میں سے سب لوگ نکال لئے جائیں گے اور ہوا دوزخ کے دروازے کھٹکھٹائے گی دوسرے اس صفت کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ گناہوں سے بچنے کے سامان پیدا کرتا رہتا ہے، نبی بھیجتا ہے، مجد د آتے ہیں، مأمور مقرر ہوتے ہیں اور پھر مشکلات اور مصائب آتے ہیں تاکہ بندہ کی توجہ خدا کی طرف پھیریں.چوتھے اس طرح کہ جب خدا تعالیٰ کسی کے متعلق کسی سزا کا حکم دیتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی دوسری صفات رحمت نہیں روکی جاتیں بلکہ مختلف صفات اپنے اپنے حلقہ میں کام کرتی رہتی ہیں.ایک دوسری کے راستہ میں روک نہیں ہوتی.مثلاً اگر کسی پر خدا تعالے کی ناراضگی ہو اور جس رنگ کا اس نے قصور کیا ہے اس کے مطابق کوئی صفت رحمت اس کنز العمال جلد نمبر ۱۴ صفحه ۵۲۷ روایت نمبر ۳۹۵۰۶ الطبعة الاولى مطبعة الغربية حلب هكاء
۲۱۶ سے روک لی جائے تو یہ نہیں کیا جائے گا کہ دوسری صفات رحمت کو بھی اس سے روک دیا جائے.وہ پہلے کی طرح اس شخص کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں فائدہ پہنچاتی رہیں گی.یہ خدا تعالیٰ کا فعل انسانی افعال سے بالکل مختلف ہے.کسی انسان کا کوئی نوکر جس کو اس نے ہزار روپیہ خرچ کرنے کے لئے دیا ہو اس میں کچھ خیانت کرلے تو وہ اس کو نوکری سے ہٹا دے گا پھر اسی پر بس نہ کرے گا بلکہ اس سے بولنا بھی ترک کر دے گا اور سارے تعلقات قطع کر لے گا.اس کے برخلاف خدا تعالیٰ کسی گناہ کی وجہ سے کسی صفت رحمت کو روک لیتا ہے تو باقی رحمت کی صفات کو بند نہیں کر دیتا بلکہ ان کو بھی جاری رکھتا ہے.مثلاً نبی کے مخالفوں کے متعلق ادھر تو صفت شدید الانتقام جاری ہوگی کہ جو اس کا شدید مخالف ہے اسے مار دو مگر ادھر خدا تعالیٰ کی صفت ستاری بھی اپنا عمل کر رہی ہوگی.اس کے دل میں جو کچھ گند ہوتا ہے اس کو ظاہر نہیں کیا جائے گا لوگوں کو اس کے پوشیدہ در پوشیدہ گناہ نہیں بتلائے جائیں گے.اگر بیماری کا حکم ہوا ہے تو جائدادیں برابر محفوظ رہیں گی رزق ملتا رہے گا پھر مرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کی محی کی صفت جاری ہوگی اس کو زندہ کیا جائے گا اور اصلاح کی صفت جاری ہوگی جہنم کے علاج کے ذریعہ سے اس کی روحانی بیمارویوں کو دور کیا جائے گا.غرض خدا تعالیٰ کی صفات کے جاری ہونے کا اور قاعدہ ہے.ہمارا تو یہ حال ہوتا ہے کہ اگر کسی سے محبت ہوئی تو ہر رنگ میں محبت ہی کی جاتی ہے اور اگر ناراضگی ہوئی تو ہر رنگ میں ناراضگی ظاہر کی جاتی ہے مگر خدا تعالیٰ اگر اپنی ایک صفت کو انسان کی کسی غلطی سے روکتا ہے تو باقی صفات کو جاری رکھتا ہے.غرض خدا کی صفات کا دائرہ مقرر ہے اور وہ اپنے اپنے دائرہ میں کام کرتی ہیں اور ان میں رخمینی وسعت كل منی کا نظارہ نظر آتا ہے.مثلاً ایک کافر ہے جو اچھا بھلا ہے.اس کے گناہوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے کہ اسے
۲۱۷ پاگل کر دو اور اسے پاگل کر دیا جاتا ہے.اگر ہمارا اتنا اختیار ہو تو ایسے شخص کا گلا ہی گھونٹ دیں اور اسے مار دیں مگر ادھر خدا تعالیٰ کی صفت شدید العقاب کہہ رہی ہوتی ہے کہ اسے پاگل کر دو مگر ادھر خدا تعالیٰ کی صفت رزاقی کہہ رہی ہوتی ہے کہ یہ ہمارا بندہ ہے اس کو رزق دو.اسی طرح خدا تعالیٰ کی اور صفات بھی جاری ہوتی ہیں.خدا کی صفات کے متعلق ایک اور متانون دوسرے خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کے لئے یہ بھی قانون ہے کہ وہ اس قانون کی تائید کرتی ہیں جو قانونِ قدرت کہلاتا ہے اس قانون کے ماتحت انسان کے اعمال یا دُنیا کے تغیرات جو رنگ اختیار کر لیتے ہیں اس کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی رہتی ہیں.گویا اس طرح وہ انسانی اعمال یا طبعی تغیرات کی مددگار ہو جاتی ہیں جیسا جیسا عمل ہواس کے مطابق نتیجہ نکلتا چلا جاتا ہے.قرآن کریم میں اس قاعدے کے متعلق فرمایا ہے کہ حلا تمد هُؤُلَاءِ وَهُؤُلاءِ (بنی اسرائیل : ۲۱) ہر شخص جس قسم کی کوشش کرتا ہے اس کے مطابق ہم قطع نظر اس کے کہ وہ مومن ہے کہ کافر نتائج نکالتے رہتے ہیں.خدا کی صفات کے دو چگر تیسرا قاعدہ ظہور صفات کے متعلق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات دو دائروں میں کام کرتی ہیں جس طرح زمین کی دوحرکتیں ہیں ایک اپنے اردگرد اور ایک سورج کے گرد اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات کا ایک تو ایسا اثر ہے جو ہر وقت ہوتا رہتا ہے سوائے اس کے کہ احدیت کے مقابلہ میں آئے اگر اس کے مقابلہ میں آئے تو فورا بند ہو جاتا ہے.
۲۱۸ دوسرا چکر ان کا یہ ہے کہ انسان اپنے عمل سے جب ان کے اثر کو کھینچے تو ان کا اثر ظاہر ہوتا ہے ورنہ نہیں.آگے ان صفات کا کھینچنا دوطرح ہوتا ہے.ایک قانونِ قدرت کی مدد سے اور دوسرے بذریعہ دُعا.مثال پہلی بات کی یعنی صفات الہیہ کے بر وقت ظاہر ہونے کی یہ ہے کہ رزق خدا تعالیٰ ایک رنگ میں ہر وقت دے رہا ہے.انسان کے جسم کے ہر ایک ذرے کو اگر خون نہ ملے تو انسان مر جائے.اسی طرح ہوا انسان کے اندر جا رہی ہے جس سے خون صاف ہوتا ہے.ہر وقت خدا تعالیٰ کی صفات یہ ضرورت پوری کر رہی ہیں خواہ انسان سوتا ہو یا جاگتا، ہوش میں ہو یا بے ہوشی میں.اسی طرح ستر ہے ہر وقت ستر ہو رہا ہے.خدا تعالیٰ نے قانون رکھا ہے کہ انسان کے دماغ کا حال دوسرے کو معلوم نہ ہو.انسانی دماغ میں بیسیوں گندے خیال گزرتے ہیں اگر یہ صفت نہ ہوتی تو لوگ آپس میں ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے.کوئی کسی کو ملنے کے لئے جاتا مصافحہ کرتا اور اسے مارنے لگ جاتا کہ تمہارے دل میں میرے متعلق فلاں برا خیال آیا تھا.اسی طرح میاں بیوی کے دل میں ایک دوسرے کے متعلق کبھی کوئی برا خیال آتا تو وہ ایک دوسرے کو معلوم ہو جا تا اور ان کی محبت میں فرق آ جا تا.تو خدا تعالیٰ کی ستاری کی صفت بھی ہر وقت اپنا عمل کر رہی ہے.اسی طرح خدا تعالی کی غفاری کی صفت ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں برا بر گناہ ہو رہے ہیں کہیں جسمانی اور کہیں شرعی جس طرح کھانے میں کبھی بے احتیاطی ہو جاتی ہے اسی طرح انسانی جسم کے ذرات بھی غلطیاں کر جاتے ہیں بیماریوں کے کیڑے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں مگر ان بے اعتدالیوں میں سے اکثر کے اثر کو خدا تعالیٰ کی صفت رحمت آپ ہی آپ مٹاتی رہتی ہے.صحت پیدا کرنے والے اجزاء فورا بیماری
۲۱۹ کے اثرات کو مٹا دیتے ہیں.بیماری کے کیڑوں کے مقابلہ میں ان کو ہلاک کرنے والے کیڑے یا زہر پیدا کر دیئے جاتے ہیں.معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ خدا نے انسان پر کیا رحم کیا مگر طب سے پتہ لگتا ہے کہ ننانوے فیصدی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کی انسان کے اندر ہی اندر اصلاح ہو جاتی ہے تو ایک تو صفات الہیہ کا ظہور ہر آن میں ہو رہا ہے اور وہ کسی وقت معطل نہیں ہوتیں مثلاً خدا تعالیٰ سمیع ہے.اگر کوئی منہ سے دُعا نہیں کرتا تو اس کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ سے مدد کی التجا کر رہا ہوتا ہے پھر وہ مجیب ہے وہ ہر ایک عضو کی پکار کوسنتا ہے.دوسرا حصہ صفات کا یعنی جو بلانے سے ظاہر ہوتا ہے دو قسم کا ہے ایک وہ جس کی مدد قانون قدرت کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہے دوسرا وہ جس کی مدد قانون قدرت نہیں بلکہ قانونِ شریعت کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہے.قانونِ قدرت کے ذریعہ سے جن صفات کی مدد حاصل کی جاتی ہے ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی کھانا پکاتا ہے تو ضرور اس کا کھانا پک جائیگا.اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی ایک صفت تو ظاہر ہو گئی لیکن اس کا ظہور انسانی فعل کے نتیجہ میں ہوگا یا مثلاً ستاری کی صفت کو لے لو اس صفت کے ظہور کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک قانون بنا رکھا ہے اگر اس کے ماتحت کوئی شخص چوری بھی کرے گا تو بچ جائے گا.مثلاً اندھیرے میں چوری کرے اس امر کی احتیاط کرے کہ کوئی دیکھتا نہ ہولیکن اگر اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کی چوری ظاہر ہو جائے گی.اسی طرح خدا تعالیٰ کی غفاری کی صفت ہے اگر انسان بدی کے ساتھ نیکی کرتا رہے یا بد پر ہیزی کے ساتھ علاج کرتا رہے تو اس صفت کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور ایک حد تک بد نتائج سے انسان بچتارہتا ہے.
۲۲۰ دوسرا ظہور ان صفات کا شرعی ذرائع سے ہوتا ہے.جیسے مثلاً دُعا سے.دعا طبعی قانون کا جزء نہیں بلکہ شرعی قانون کا جزء ہے اور اس کے ذریعہ سے بھی خدا تعالیٰ کی وہ صفات جو خاص اوقات میں ظاہر ہوتی ہیں جلوہ گری کرتی ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ اس ذریعہ سے جس قدر صفات الہیہ کو متحرک کیا جا سکتا ہے اس قدر قانون طبعی کے ذریعہ سے بھی نہیں کیا جا سکتا.غرض خدا تعالیٰ کی صفات مختلف دائروں میں عمل کر رہی ہیں.اگر ان کو مد نظر نہ رکھا جائے تو صفات الہیہ کے ظہور کا مسئلہ مشتبہ ہو جاتا ہے.کیا خدا سے تعلق ہو سکتا ہے؟ خدا تعالیٰ کے متعلق ان معلومات کے حاصل ہونے کے بعد جو اوپر بیان کی گئی ہیں طبعا انسان کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے خدا سے میرا بھی کوئی تعلق پیدا ہو سکتا ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ ہاں ہو سکتا ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخلاق اللہ خدا کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اِنَّ اللهَ وتريُحِبُّ الْوِثر خدا وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے.پھر فرما يا ان الله.....جميل يُحِبُّ الْجَمَال کہ خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندہ کا خدا سے تعلق پیدا کرنا جائز رکھا گیا ہے اور طریق یہ بتایا ہے کہ انسان خدا کی صفات کو اپنے اندر لے اور اپنے اوپر منعکس کرے.اسی طرح ایک اور حدیث ہے جس سے تعلق پیدا کرنے کا پتہ لگتا ہے اور وہ یہ کہ ترمذی ابواب الوتر باب ماجاء ان الوترليس بخش مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۱۵۱
۲۲۱ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نانوے نام ہیں جو شخص ان کو یاد کرے وہ جنت میں جائے گا حفظ کے معنے محفوظ کرنے کے ہیں اور ضائع نہ کرنے کے.اس لئے حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جب انسان خدا کی صفت غفاری کا لفظ سنے تو اُسے ضائع نہ ہونے دے بلکہ اپنے اندر اس کے مفہوم کو پیدا کر لے.اسی طرح جب رحمن کی صفت سنے تو اس صفت کو اپنے اندر محفوظ کر لے ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو خدا کے ننانوے نام یاد کر لے وہ جنت میں چلا جائے گا کیونکہ اس طرح تو جنت ایک کھیل بن جاتا.پس حق یہی ہے کہ حفظ کے معنے محفوظ کر لینے اور باہر نہ نکلنے دینے کے ہیں اور اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان سبحان ، قدیر ، رحمن ، رحیم وغیرہ بن جائے اور وہ انسان جو اپنے اندر خدا تعالیٰ کی نانوے صفتیں پیدا کر لے گا وہ جنت میں نہ جائے گا تو پھر اور کون جائے گا.رؤیت الہی جب اس بات کا پتہ لگ جائے کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے تو عالم ہی بدل جاتا ہے.پہلے تو یہی سوال تھا کہ خدا ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو اس کی کیا صفات ہیں؟ جب صفات کا پتہ لگا تو ان پر غور کیا کہ ان کا ہم پر کیا اور کس طرح اثر پڑتا ہے؟ پھر جب معلوم ہوا کہ وہ نہایت وسیع ہیں اور پھر یہ معلوم ہوا کہ وہ صفات میرے اندر آ سکتی ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے تو اس مقام پر انسان کے خیالات میں عجیب تغیر پیدا ہو جائے گا.اس وقت اس کی حالت ایسی ہی سمجھ لو جیسے کسی بچہ کو شہر میں لے جائیں وہ ضرور کہے گا کہ میں یہ چیز بھی لے لوں اور یہ بھی لے لوں.بخاری کتاب التوحيد باب رانَ لِلهِ مِائَةَ اسمر الا وَاحِدَةً
۲۲۲ اسی طرح بندہ کا حال ہوگا جب مذکورہ بالا طاقتوں والا خدا ثابت ہو گیا تو اس کے دل میں طبعا خواہش ہوگی کہ میں اسے دیکھوں اور اس کا قرب حاصل کروں اور وہ ضرور سوال کرے گا کہ کیا رویتِ الہی حاصل ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں اس لئے کہ پچھلے علمائے روحانی میں اس کے متعلق اختلاف ہوا ہے.بعض کا خیال ہے کہ رؤیت الہی ناممکن ہے کیونکہ خد اور اء الوری ہے اور بندہ مادی ہستی ہے اس لئے نا ممکن ہے کہ بندہ خدا کو دیکھ سکے.بندہ بندہ ہے اور خدا خدا.پس رؤیت الہی بندہ کے لئے نہ اس دنیا میں ممکن ہے اور نہ اگلی دنیا میں کیونکہ وہاں بھی وہ بندہ ہی رہے گا پھر وہ کہتے ہیں کہ خدا کو خواب میں دیکھنا بھی ناممکن ہے اگر انسان خواب میں خدا کو دیکھ سکتا تو ان آنکھوں سے بھی دیکھ سکتا اس لئے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں خدا کو دیکھے تو شیطان دھوکا دینے کے لئے اسے دکھائی دیتا ہے.بعض کہتے ہیں کہ اس جہان میں انسان خدا کو نہیں دیکھ سکتا لیکن اگلے جہان میں دیکھ لے گا.۳.بعض کہتے ہیں کہ دونوں جہان میں خدا کو دیکھنا ممکن ہے یہاں بھی انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے اور اگلے جہان میں بھی دیکھے گا.رؤیت الہی سے مراد کیا ہے؟ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ دونوں جہان میں خدا کو دیکھنا ناممکن ہے ان کو ہم کہتے ہیں تمہارے اس خیال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ خدا وراء الوری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ رؤیت الہی سے مراد کیا ہے؟ آیا یہ کہ انسان خدا کی ذات پر محیط ہو جائے اگر یہ ہے تو
۲۲۳ ٹھیک ہے کہ اس طرح خدا کو کہیں بھی نہیں دیکھ سکتا.پھر رؤیت الہی سے یہ بھی مراد نہیں ہو سکتی کہ خدا تعالیٰ کی صورت نظر آئے کیونکہ جولوگ رؤیت کے قائل ہیں وہ خدا تعالیٰ کی کوئی صورت تسلیم نہیں کرتے ان کی مراد اگر رؤیت الہی سے کچھ ہے تو یہی کہ خدا تعالیٰ کی صفات تنزل اختیار کر کے تمثیلی صورت میں آتی اور انسان ان کا جلوہ دیکھتا ہے یا یہ کہ اپنے قلب میں انسان خدا تعالیٰ سے ایک ایسا روحانی اتصال پاتا ہے کہ اسے سوائے دیکھنے کے اور کسی چیز سے تشبیہ نہیں دے سکتا اور اس قسم کی رؤیت کو کوئی رد نہیں کر سکتا.اس طرح اور کئی چیزوں کو انسان دیکھ لیتے ہیں.مثلاً علم اور حیا شکل اختیار کر کے آجاتی ہیں اور ہم دیکھ لیتے ہیں حالانکہ علم اور حیا معانی ہیں اجسام نہیں.پس اگر خدا تعالیٰ کی بعض صفات اگر بطور تنزل بندے کے لئے متمثل ہوں یعنی تمثیلی زبان میں ان پر بندہ کو آگاہ کیا جائے تو یہ بات بندہ کے لئے اسی طرح مفید ہو گی جس طرح کسی وجود کا دیکھنا مفید ہو سکتا ہے اور قلب پر صفات الہیہ کی تحقیقی ہو تو یہ بھی ویسی ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مفید ہوگی.موٹی مثال ہے کلام اللہ نازل ہوتا ہے ہم اسے پڑھ جاتے ہیں اس کے بعد لفظ تو غائب ہو جاتے ہیں مگر ایک بات انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے پس معانی کا شکل اختیار کرنا کوئی بعید بات نہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات کو تصویری زبان میں دکھا دیا جانا بھی ناممکن ہے.حضرت موسی اور رویت الہی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اگلے جہان میں خدا کی رؤیت ہو سکے گی اس جہان میں نہیں
۲۲۴ ہو سکتی وہ مندرجہ ذیل آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرُ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّا وَخَرٌ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (الاعراف: ۱۴۴) وہ کہتے ہیں دیکھو قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت موسی خدا کے پاس گئے اور جا کر کہا اے خدا مجھے اپنا وجود دکھا اللہ نے کہا تو ہر گز نہیں دیکھے گا اور کہا کہ پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ ٹھہرا رہا تو تم بھی دیکھ لو گے لیکن جب پہاڑ پر بجلی گری اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو حضرت موسی بیہوش ہو گئے اور جب انہیں افاقہ ہوا تو کہا اے اللہ تو پاک ہے میں تو بہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا مؤمن بنتا ہوں.اس سے معلوم ہوا کہ رویت الہی ناممکن ہے کیونکہ حضرت موسی نے اس کی خواہش کی مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور وہ بیہوش ہو گئے.پہلا جواب اس کا یہ ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ رؤیت الہی نہیں ہوسکتی درست نہیں کیونکہ جواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ تو اس دُنیا میں نہیں دیکھ سکے گا بلکہ کہا گیا ہے کہ لن تراني تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا اب اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ رؤیت الہی ناممکن ہے تو پھر اگلے جہان میں بھی وہ ناممکن ہوگی اس لئے جولوگ اگلے جہان میں رؤیت کے قائل ہیں انہیں بھی اس آیت کی کوئی تو جیہ کرنی پڑے گی.دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت موسی جو خدا تعالیٰ کے نبی تھے کیا وہ یہ نہ سمجھ سکتے تھے کہ رؤیت الہی ممکن ہے یا نہیں اگر کوئی اور معمولی بات ہوتی تو اور بات تھی مگر یہ تو ایسا مسئلہ تھا کہ جس دن حضرت موسیٰ نے نبوت کا دعویٰ کیا اسی دن پتہ لگ جانا چاہئے تھا مگر معلوم ہوتا
۲۲۵ ہے کہ حضرت موسی کو پہلے رؤیت ہوئی تھی.چنانچہ آتا ہے وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى إِذْ را تارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُلُوا إِلى انَسْتُ نَارًا لَعَلَى اتِيْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى فَلَمَّا أَنهَا نُودِي يَمُوسَى إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طوّى وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى (طه: ۱۰ تا ۱۴) حضرت موسیٰ نبی ہونے سے قبل آرہے تھے کہ انہوں نے آگ کی روشنی دیکھی اور سمجھ گئے کہ یہ جلوہ الہی ہے کیونکہ اللہ تعالی کہتا ہے جب اس نے اس کو دیکھا تو اپنے اہل کو کہا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے یہ ایک کا لفظ بتا تا ہے کہ موسی جانتے تھے کہ یہ کشفی نظارہ ہے ورنہ وہ کہتے کہ وہ دیکھو آگ نظر آ رہی ہے اور جب کشفی نظارہ تھا تو اس سے مراد جلوہ الہی ہی ہوسکتا ہے اور آگے جو لفظ قبس وغیرہ کے استعمال کئے گئے ہیں وہ بھی حقیقی آگ پر دلالت نہیں کرتے کیونکہ جب کسی چیز کو کسی اور چیز سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اس کی صفات کو بھی اس کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ کسی کو شیر کہیں تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ شیر کی طرح تقریر کرتا ہے بلکہ یہ کہ شیر کی طرح چنگھاڑتا ہے.پس چونکہ جلوہ الہی کا نام آگ رکھا گیا تھا اس لئے آگے اس کے آثار وغیرہ کا نام بھی انگارہ رکھا گیا اور یہ جو حضرت موسیٰ نے کہا کہ میں لاتا ہوں یا ہدایت پا کر آتا ہوں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ حضرت موسیٰ نے اس وقت تک یہ نہیں سمجھا تھا کہ یہ جلوہ بنوت ہے یا جلوہ ولایت اس لئے انہوں نے اپنے اہل سے کہا کہ اگر وہ ہدایت نبوت ہوئی اور حکم ہوا کہ دوسروں کو بھی تعلیم دو تو تمہارے لئے بھی لاؤں گا اور اگر ہدایت ولایت ہوئی جو اپنے لئے ہوتی ہے تو میں خود ہدایت پا جاؤں گا.
۲۲۶ پس جب وہ وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ جلوہ الہی ہے اور کہا گیا کہ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ یعنی دنیاوی تعلقات چھوڑ دو.پس جب وہ وہاں جلوہ الہی دیکھ کر آئے تھے تو انہیں شک ہی کس طرح ہوسکتا تھا کہ رؤیت ہوسکتی ہے یا نہیں اور اگر کہا جائے کہ طور پر ان کی مراد رؤیت سے ذات کی رؤیت سے تھی تو یہ حضرت موسی" پر اتہام ہوگا کیونکہ وہ شخص جو فرعون سے لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کے وراء الوریٰ ہونے پر بحث کرتا رہا ہے کیا ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ یہ مطالبہ کرے کہ میں خدا تعالیٰ کی ذات کی حقیقی رؤیت کرنا چاہتا ہوں.ایسا سوال تو پاگل کے سوا کوئی نہیں کرسکتا.حضرت موسیٰ نے کس رؤیت کیلئے سوال کیا؟ اس پر سوال ہوتا ہے کہ پھر انہوں نے رؤیت کے لئے سوال کیوں کیا ؟ اگر کہا جائے کہ جس طرح اچھی چیز کو انسان بار بار دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح انہوں نے کیا تو کہتے ہیں کہ پھر یہاں کیوں بیہوش ہو گئے؟ پہلی دفعہ کیوں بیہوش نہ ہوئے تھے؟ میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس مقام پر حضرت موسی کو بتایا تھا کہ ہمارا ایک رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تیرا مثیل ہو کر مگر تجھ سے بہت اعلیٰ شان میں آئے گا اس خبر کو معلوم کر کے حضرت موسی کے دل میں طبعا یہ خواہش پیدا ہوئی کہ دیکھوں تو سہی اس پر خدا تعالیٰ کا کس رنگ میں جلوہ ہوگا اور انہوں نے خواہش کی کہ مجھے بھی جلوہ محمدی دکھایا جائے میں بھی تو دیکھوں کہ اس وقت آپ کس شان سے ظاہر ہوں گے؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا تو اس کے جلوہ کو برداشت نہیں کر سکے گا چنانچہ خدا تعالیٰ نے انکی خواہش تو پوری کر دی مگر وہ اسے برداشت نہ کر سکے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جلوہ کو
۲۲۷ برداشت کر لیا کیونکہ آپ کا وہ اصل مقام تھا.لیکن اگر یہ معنے بھی نہ کئے جائیں تب بھی رؤیت کا امکان ثابت ہے کیونکہ منکرین رؤیت مانتے ہیں کہ موسی کو خدا کی رؤیت سے غش آ گیا تھا تو ہم کہتے ہیں تم تو کہتے ہو رؤیت ناممکن ہے پھر ناممکن کو دیکھنے کا کیا مطلب؟ دیکھو یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ سورج کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا گئیں مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ علم کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا گئیں پس یغش والا لفظ بتاتا ہے کہ کوئی ایسی چیز تھی جسے انہوں نے دیکھا اور جب انہوں نے کچھ دیکھا تھا گو اس سے بیہوش ہی ہو گئے ہوں مگر یہ تو معلوم ہو گیا کہ اس کا دیکھنا انسانی طاقت میں ہے.پھر ہم کہتے ہیں اس آیت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ پر تعلی کی محفلی تو جبل پر کی ہے.پس جب خدا تعالی کی تخیلی اونی مخلوق پر آسکتی ہے اور وہ برداشت کر سکتی ہے تو انسان جو اعلیٰ مخلوق ہے اس پر کیوں نہ آئی اگر کہو کہ پہاڑ میں جو مخفی طاقتیں تھیں ان میں خدا ظاہر ہو ا تو پھر حضرت موسیٰ نے اس تجلی کو دیکھا کس طرح ؟ اگر کہا جائے کہ حضرت موسی زلزلہ سے ڈر گئے تھے تو ہم پوچھتے ہیں کیا مؤمن اور خاص کر نبی ایسے ہی بُز دل ہوتے ہیں اور اگر یہی بات تھی تو انہوں نے بیہوشی سے اُٹھ کر یہ کیوں کہا کہ انا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ وہ کس چیز پر ایمان لائے تھے؟ کیا اس بات پر کہ میں زلزلہ دیکھ کر ڈر گیا تھا.ان الفاظ کا یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اس رسول پر جس پر تیری اس شان سے جلی ہونے والی ہے سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسی کی نسبت آیا بھی ہے کہ فَأَمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ
۲۲۸ وہ تو ایمان لے آیا مگر تم نے تکبر کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی وجہ سے فرماتے ہیں کہ لَوْ كَانَ مُوسى وَعِيسَى حَيَّيْنِ مَا وَسِعَهُمَا إِلَّا إِتَّبَاعِي (اليواقيت والجواهر جلد نمبر ۲ صفحہ ۲۲) کہ اگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی زندہ ہوتے تو ان کو میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا.حضرت موسیٰ کی توبہ اور اگر کہا جائے کہ اگر اس کا یہ مطلب ہے تو حضرت موسیٰ کے تو بہ کرنے کے کیا معنے ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو معنے تم کرتے ہو اس پر بھی یہی اعتراض پڑتا ہے کیونکہ اگر اس کے معنی گناہ سے تو بہ کرنے کے ہیں تو انہوں نے کیا گناہ کیا تھا؟ اگر نظارہ کے دیکھنے کی درخواست کرنا گناہ ہوتا تو خدا تعالیٰ اسی وقت ڈانٹ دیتا جس طرح حضرت نوح نے جب اپنے بیٹے کے لئے دُعا کی تو خدا تعالیٰ نے ان کو روک دیا.تو چاہئے تھا کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی منع فرما دیتا کہ ایسی بات مت کہو نہ یہ کہ جس طرح انہوں نے چاہا اسی طرح کرنے لگ جاتا.پس تُبت اليك کے معنے گناہ سے تو بہ کرنے کے نہیں ہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اسے تمام صفات کے جامع خدا تیرا اتنا بڑا درجہ ہے کہ میں تیری طرف جھکتا ہوں اور اس رسول کا اول مؤمن ہوں.بعض احادیث کا مطلب رؤیت الہی کے منکر یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں کہ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ (عز وجل) حَتَّى يَمُوت کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کو نہ دیکھے گا جب تک مرنہ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۴۳۳
۲۲۹ جائے مگر ہم کہتے ہیں کہ اس رؤیت کے معنے وسیع نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت والی رؤیت بیان کرتے ہوئے اس کی نفی کی ہے کہ جب تک کسی پر موت نہ آ جائے وہ اس قسم کی رؤیت نہیں پاسکتا اور یہ ہم بھی مانتے ہیں.اسی طرح حدیث میں آتا ہے هَلْ رَبِّيْتَ رَبِّكَ فَقَالَ نُوْرٌ أَنِّی آرۂ یعنی لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو نور ہے میں اسے کس طرح دیکھ سکتا ہوں ہم اس حدیث سے بھی منکرین رؤیت استدلال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا دیکھنا ناممکن ہے.مگر یہ حدیث سائل کے سوال کے جواب میں ہے.ممکن ہے سائل نے خدا کی ذات کے متعلق پوچھا ہو کہ کیا آپ نے اس ذات کو دیکھا ہے یا نہیں؟ اور اس کا جواب دیا گیا کہ میں اسے کیا دیکھ سکتا ہوں.رؤیت الہی کے متعلق احادیث اب میں رؤیت کے دلائل بیان کرتا ہوں.قیامت میں رؤیت کے متعلق بہت سی احادیث میں ذکر آتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے لئے رویت کا امکان ثابت ہے.حدیث میں آتا ہے خَيْرُ الرُّؤْيَا أَن تَرَى رَبَّهُ فِي الْمَنَامِ أَوْ يَرَى أَبَوَيْهِ کہ اچھی خواب وہ ہے کہ انسان خدا کو یا ماں باپ کو خواب میں دیکھے جو نیک ہوں.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کو انسان دیکھ تو سکتے ہیں اور جب اور لوگ دیکھ سکتے ہیں تو موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں دیکھ سکتے.اسی طرح معبرین لکھتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں خدا کو دیکھے تو جنت میں جائے گا.خوابوں کی تعبیریں صلحاء کی خوابوں پر رکھی گئی ہیں.اگر یہ مسلم کتاب الايمان باب في قوله عليه السلام نُوْرٌ آئی آردُ وَفِي قَوْلِهِ رَأَيتُ نُورًا
۲۳۰ ٹھیک نہیں تو ان کو خوا میں کس طرح آئیں اور اگر خدا تعالیٰ کی رؤیت ناممکن ہے تو پھر علم تعبیر میں اسے بیان کیوں کیا گیا ہے؟ رؤیت کے مدارج غرض جو آیات یا روایات رؤیت الہی کے رد میں پیش کی جاتی ہیں ان کا وہ مطلب نہیں جو منکرین رؤیت سمجھتے ہیں اور دوسری آیات اور روایات ایسی ملتی ہیں جو رؤیت الہی کا امکان ثابت کرتی ہیں بلکہ خود ان آیات سے بھی جو رڈ میں پیش کی جاتی ہیں امکان بلکہ حدوث رؤیت ثابت ہوتا ہے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رؤیت الہی کے کئی درجے ہیں حتی کہ ایک ایسی ادنیٰ درجہ کی رؤیت بھی ہے کہ جو بظاہر مؤمن لیکن یہ باطن منافق ہوتا ہے اسے بھی ہو جاتی ہے اور اعلیٰ درجوں کے لحاظ سے اس کے اس قدر درجے ہیں جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتے.مختلف رؤیت الہی ذات کی رؤیت تو ایک ہی ہوتی ہے اور ایک ہی ہونی چاہئے لیکن صفات کی رؤیت مختلف ہوتی ہے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت خلیفہ اول نے بھی پہچانا اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بھی مگر حضرت خلیفہ اول کی رؤیت اور تھی اور مولوی عبد الکریم صاحب کی اور.پس خدا تعالیٰ کی رؤیت چونکہ صفاتی ہے اس لئے لازما اس کے بہت سے مدارج ہونے چاہئیں کیونکہ جب بھی صفات باری جلوہ گر ہوں گی اس شخص کے درجہ کے مطابق جلوہ گر ہوں گی جودیکھنے والا ہو گا جیسا جیسا کوئی شخص ہو گا ویسی ویسی
اس کو رویت حاصل ہوگی کیونکہ ہر چیز اپنی جنس کو دیکھ سکتی ہے غیر کو نہیں دیکھ سکتی.ہم چونکہ مادی ہیں اس لئے مادہ کو دیکھ سکتے ہیں جو ہر کو نہیں دیکھ سکتے پھر بعض ایسی چیزیں ہیں جو ہم سے زیادہ اعلیٰ مادہ سے بنی ہیں یا جن کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ مادی ہیں یا اور کوئی چیز ہیں بہر حال وہ ایسی چیزیں ہیں جو ہماری جنس کی نہیں ہیں ان کو ہم نہیں دیکھ سکتے تو جب تک ایک چیز کو دوسری سے جنسی مناسبت نہ ہو نہیں دیکھ سکتی.رؤیت الہی کے لئے بھی مناسبت ہوئی ضروری ہے اور اس مناسبت میں اختلاف بھی ضروری ہے کسی کو زیادہ ہوگی کسی کو کم اس لئے ہر ایک کو اس مناسبت کے مطابق رؤیت ہوگی جو اس میں پائی جائے گی اور خدا تعالیٰ اس مناسبت کے لحاظ سے تنزل کر کے اسے رؤیت کرائے گا.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص ایک اونچی جگہ کھڑا ہو اور مختلف قدوں والے لوگوں نے جو اس کے نیچے کھڑے ہوں اس سے مصافحہ کرنا ہو تو اس وقت اس شخص کو بڑے قد والوں کے لئے کم جھکنا پڑے گا اور چھوٹے قد والوں کے لئے زیادہ.اسی طرح رؤیت کے معاملہ میں جن لوگوں میں صفات الہیہ سے زیادہ مناسبت ہوگی ان کے لئے خدا تعالیٰ کو کم نیچے آنا پڑے گا اور جن میں کم ہوگی ان کے لئے زیادہ اور جتنا خدا زیادہ نیچے آئے گا اتنی ہی رؤیت ادنی ہوگی اور جتنا انسان اعلیٰ ہوگا اتنی ہی رؤیت اعلی ہوگی.رؤیت الہی کے مدارج کاعلو یہ رؤیت الہی کے مدارج ایسے اعلیٰ ہیں کہ انسان اس دُنیا میں انہیں طے نہیں کر سکتا بلکہ دائمی زندگی میں بھی طے نہیں کر سکتا.آریہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب انسان کے اعمال دائمی نہیں تو دائمی نجات کیونکر ہو سکتی ہے؟ ہم کہتے ہیں دائمی نجات خدا تعالیٰ کی
۲۳۲ ایک صفت دینا چاہتی ہے اور وہ صفت احدیت ہے اور صفت احدیت ظاہر نہیں ہوتی.اگر بندہ کچھ عرصہ کے بعد مر جاتا تو کہہ سکتا تھا کہ اگر میں اور زندہ رہتا تو خدا تعالیٰ کی حقیقت اور علم کو معلوم کر سکتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے دائمی نجات دے کر کہالے اب بھی تو میری حقیقت معلوم نہیں کر سکتا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَلَأُ الْأَعْلَى يَتْلُونَهُ كَمَا تَتْلُونَهُ * یہ مت سمجھو کہ تم خدا کو دریافت کر سکو گے ملاء اعلیٰ والے بھی اسی طرح اس کی دریافت میں لگے ہوئے ہیں جس طرح تم اس کی دریافت میں لگے ہوئے ہو مگر کوئی انتہائی درجہ کا قرب نہیں پاسکتا.جس طرح دوسرے لوگ اس جستجو میں لگے ہوئے ہیں اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی لگے ہوئے ہیں کہ خدا کی ساری صفات کو دیکھیں مگر جوں جوں کوشش کرتے ہیں اور زیادہ صفات نکلتی آتی ہیں اور وہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتیں اور نہ کسی ایک صفت کی سیر ہی ختم ہوتی ہے.غیر محدود انسانی ترقی مگر یہ ٹن کر کہ روایت کے مدارج لا انتہاء میں گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ہم خدا کی ذات کو نہیں دیکھ سکتے اور اس کے دیکھنے کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے بلکہ ہم نے اس کی صفات کو دیکھنا ہے اور ان کے غیر محدود ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ہماری ترقی بھی غیر محدود ہے اور ہم بہت بڑی ترقی کر سکتے ہیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص کو کوئی سونے کی کان مل جائے اور اسے کھودنے پر اسے معلوم ہو کہ اس کا سونا کبھی ختم ہی نہیں ہوگا تو یہ شخص افسردہ نہیں ہوگا بلکہ خوش ہو گا.اسی طرح خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کا کبھی طے نہ
۲۳۳ ہونا اور اس کی رؤیت کے مدارج کا کبھی ختم نہ ہونا ہمارے لئے حوصلہ شکن نہیں ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری ترقی غیر محدود ہے اور ہمارے لئے آگے ہی آگے بڑھنے کا سامان موجود ہے.اب میں ان رؤیتوں کے بعض وہ موٹے موٹے مدارج بیان کرتا ہوں جو حدیثوں سے معلوم ہوتے ہیں.رؤیت الہی کا پہلا درجہ ایک تو وہ درجہ ہے جس میں منافق بھی شامل ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کو جب حشر میں لوگ کھڑے کئے جائیں گے تو ان کو آواز آئے گی کہ صلیب کے متبع اس کے پیچھے اور بتوں کے پجاری بتوں کے پیچھے اور دوسرے مشرک جن جن کو خدا کا شریک مقرر کرتے تھے ان کے پیچھے چل پڑیں اور یہ چیزیں ان کے لئے متمثل کر کے لائی جائیں گی ان کے پجاری ان کے پیچھے چلے جائیں گے.ان کے جانے کے بعد مسلمان باقی رہ جائیں گے یعنی ساری اُمتوں کے مسلمان ان کے ساتھ منافق بھی ہوں گے تب خدا آئے گا اور ایسی شکل میں آئے گا کہ جسے بندے پہچانتے ہوں گے اور کہے گا کہ میں خدا ہوں میرے پیچھے آؤ وہ کہیں گے نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْكَ نَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْكَ اللَّهُ رَبُّنَا ہم تیرے پیچھے نہیں چلتے اور ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں پھر خدا تعالیٰ غائب ہو جائے گا اور کسی دوسری شکل میں جلوہ گری کرے گا اور کہے گا میرے پیچھے آؤ اس وقت وہ کہیں گے هذَا مَكَانَنَا حَتَّى نَرَى رَبَّنَا کہ ہم تیرے متبع نہیں اور ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے جب تک خدا تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں ترمذی ابواب صفة الجنة باب ما جاء في خلود أهل الجنة وَأَهْلِ النَّار
یہ ظاہر ہونے والا وجود بھی درحقیقت خدا تعالیٰ کی مستمثل صفات ہی ہوں گی اس لئے اس کا دیکھنا بھی خدا کا دیکھنا ہی ہے اور منافق اس رؤیت میں مؤمنوں کے شریک ہوں گے لیکن کا فر اس سے بھی محروم رہیں گے جس طرح منافقوں نے ظاہر میں اسلام کو دیکھا ہوتا ہے حقیقی طور پر نہیں دیکھا ہوتا اسی طرح جب خدا تعالیٰ اپنی اصلی صفات میں جلوہ گر نہیں ہوگا بلکہ اس کی صفات تنزل کا ایک نہایت ہی کثیف پر دہ اوڑھے ہوئے ہونگی جیسے کہ خواب میں بعض لوگ خدا تعالیٰ کو باپ کی شکل میں دیکھ لیتے ہیں اور جس کے متعلق کہ بندہ کو خیال بھی نہیں آسکے گا کہ یہ خدا کا جلوہ ہے.اس وقت تو منافق دو قسم کی تجلی دیکھ لیں گے مگر جب پھر اس کے بعد خدا آئیگا اور اعلیٰ تجلی کر کے کہے گا کہ سجدہ کرو اور سب اس کے آگے جھکیں گے تب منافقوں کی آنکھیں چندھیا جائیں گی اور وہ سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے مگر جھک نہ سکیں گے.تب ان کو کہا جائے گا کہ تم میرے لئے عبادت نہ کرتے تھے اس لئے آج حقیقی تجلی پر عبادت کی تو فیق چھینی گئی.اس وقت ان کو جہنم میں گرا دیا جائے گا چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يدعونَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَلِمُونَ (القلم : ۴۳، ۴۴) اس سے معلوم ہوا کہ رؤیت الہی کے دو مدارج تو ایسے ہیں کہ ان میں منافق بھی خدا کو دیکھ سکیں گے لیکن تیسری تجلی کی جو حقیقی تجلی تھی وہ برداشت نہ کر سکیں گے.
۲۳۵ خدا تعالیٰ کی رؤیت کے مختلف مدارج کا ثبوت حدیث سے پھر دوسری حالت کے متعلق آتا ہے کہ جب مؤمن جنت میں داخل ہو جائیں گے تو آواز آئے گی کہ خدا نے تم سے جتنے وعدے کئے تھے وہ سب پورے کر دیئے صرف ایک وعدہ باقی ہے.جنتی کہیں گے خدا نے تو ہم سے سارے وعدے پورے کر دیئے اور کیا باقی ہے؟ وہ کہے گا کہ میں نے اپنے آپ کو ابھی تمہیں دکھانا ہے یہ وعدہ باقی ہے حالانکہ تین دفعہ وہ پہلے دیکھ آئے تھے.اس سے معلوم ہوا کہ رؤیت کے اس قدر مدارج ہیں کہ بعض رؤیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے ادنی درجہ کی رؤیتیں رویت کہلانے کی بھی مستحق نہیں ہوتیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تین رؤیتوں کے بعد اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ابھی میرا رؤیت والا وعدہ پورا نہیں ہوا.رؤیت الہی کے حصول کا طریق اس دنیا میں رویت الہی کے حصول کا طریق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی جتنی زیادہ صفات انسان جمع کرے اتنا ہی زیادہ جلوہ دیکھتا ہے اور چونکہ مؤمن کا درجہ بڑھتا جاتا ہے اس لئے اس کی رؤیت بھی بڑھتی جاتی ہے اور جو رؤیت اگلے جہان میں ہونے والی ہے وہ بھی ترقی کرتی چلی جائیگی بعض کو تو اس دنیا کے ہفتہ کے عرصہ میں خدا تعالیٰ دوسرا جلوہ دکھائے گا یعنی بعض ایسے لوگ جنت میں ہوں گے کہ جن کی روحانیت صرف اس درجہ تک ترقی یافتہ ہوگی کہ وہ روحانی ترقی کا اگلا جہان ایک ہفتہ میں طے کر سکیں گے اس لئے ان کو ہر دوسری رؤیت ایک ہفتہ کے بعد ہوگی اور جو
۲۳۶ ان سے بڑھ کر ترقی یافتہ ہوں گے انہیں صبح بھی دیدار ہوگا اور شام کو بھی اور اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر صبح انہیں ایک روحانی درجہ حاصل تھا تو شام کو اور درجہ حاصل ہو گا اور اگلی صبح اور درجہ حاصل ہوگا.ممکن ہے کہ اس سے بڑے مدارج کے لوگ بھی ہوں جن کو اس سے بھی کم عرصہ روحانی ترقی کے حصول میں لگے لیکن حدیث سے اسی قدر معلوم ہوتا ہے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مدارج کے لحاظ سے مختلف رؤیتیں حاصل ہوتی ہیں اور جتنی روحانی طاقت زیادہ انسان یہاں پیدا کرے گا اتنی ہی جلدی وہاں رؤیت میں ترقی ہوگی اور کم از کم ایک ہفتہ کے اندر اس کی گویا نئی پیدائش ہوگی.اس کی روح اتنی ترقی کرے گی کہ نئی بن جائے گی اور اعلیٰ درجہ کے مؤمن تو بارہ بارہ گھنٹے میں ترقی کریں گے.دیکھو خدا تعالیٰ کے انبیاء کیسے لطیف اشارات سے استدلال کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مؤمن کو صبح بھی تجلی ہوگی اور شام کو بھی.اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم کسقدر وسیع تھا اور آپ کی نظر کہاں سے کہاں پہنچتی تھی.ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر تم خدا کی رؤیت چاہتے ہو تو صبح اور عصر کی نماز کی خوب پابندی کرو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استدلال کیا ہے کہ ان نمازوں کی وجہ سے ہی تجلی ہوگی کیونکہ خدا فعل پر نتیجہ مرتب کرتا ہے صبح کی نماز کے فعل پر صبح کی رؤیت اور عصر کی نماز کے فعل پر پچھلے پہر کی رؤیت ہو گی.بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى وُجُوهٌ يَوْمَينٍ نَّاهِرَةُ إلى ريْهَا نَاظِرَةٌ
۲۳۷ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صبح اور عصر کی نمازوں کی خوب پابندی کرو.اس کے یہ معنی نہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نمازوں کا خاص حکم دیا ہے اس لئے باقی چھوڑی بھی جاسکتی ہیں.ان نمازوں کے متعلق تاکید کرنے سے صرف یہ مراد ہے کہ چونکہ ان دونوں اوقات میں انسان کے پچھلے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے ان اوقات کی نماز کو باجماعت ادا کرنے کے لئے خاص تعہد کرنا چاہئے ورنہ یہ مراد نہیں کہ دوسری نمازوں کی اہمیت کم ہے.رؤیت الہی کا پہلا فائدہ کہ وہ خوبصورتی پیدا کرتی ہے ہر رؤیت انسان کے اندر تغیر پیدا کرتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وُجُوةٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلى رَيْهَا نَاظِرَةٌ - (القيامة : ۲۳، ۲۴) کہ اس دن خدا کے حضور میں حاضر ہونے والوں کے منہ بڑے خوبصورت ہوں گے کیوں؟ اس لئے کہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے.جب خدا کی تجلی سامنے ہوتی ہے تو اس کی بابرکت شعاعوں سے مؤمن بھی خوبصورت ہو جاتا ہے اور جب تجلی ہوتی ہے تو اس کا رُوح پر اثر پڑتا ہے اور روح یکدم ترقی کر کے اوپر کے درجہ پر پہنچ جاتی ہے.ہماری آج جو روح ہے آخرت میں یہ جسم ہوگی اور عالم برزخ میں نئی روح تیار ہوگی پھر وہ روح بھی ترقی مدارج کے ساتھ نئی روحانی پیدائش حاصل کرتی چلی جائے گی.غرض خدا تعالیٰ نے یہ طریق رکھا ہے کہ رؤیت کے نتیجہ میں خوبصورتی حاصل ہوتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جب خدا کی لوگوں پر تجلی ہوگی اور وہ واپس گھر جائیں گے تو گھر
والے کہیں گے کہ تمہاری شکلیں کیسے بدل گئیں ؟ وہ کہیں گے ہم حقدار تھے کہ ہماری شکلیں بدل کر خوبصورت ہو جاتیں کیونکہ ہم نے خدا کو دیکھا ہے.تو جن کو رویت الہی حاصل ہوتی ہے ان کی روحیں بدلتی جاتیں ہیں.اسی دنیا میں دیکھ لو جن کو خدا کی رؤیت ہوتی ہے ان کی روحیں کیسی اعلیٰ اور اور ہی طرح کی ہو جاتی ہیں اور نہ صرف ان کی روحیں اعلیٰ ہو جاتی ہیں بلکہ ان کے جسم پر بھی نور برستا اور ان کی نیکی ظاہر ہوتی ہے.خدا کا شکل اختیار کرنا شاید بعض کے دل میں خیال پیدا ہو کہ رؤیت الہی کی صورت یہ بتائی گئی ہے کہ خدا کی صفات متمثل ہو کر نظر آتی ہیں پس اصل چیز تو نہ دیکھی گئی پھر دیدار کے کیا معنے ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کی رؤیت بھی وہمی رؤیت نہیں ہوتی بلکہ حقیقی رؤیت ہوتی ہے اس لئے کہ غیر محدود ذات کی رؤیت اسی طرح ہو سکتی ہے.اصل غرض تو نتائج سے ہے اور رویت کے جو نتائج ہوا کرتے ہیں وہ اسی قسم کی رؤیت سے پورے ہو جاتے ہیں.اس کی مثال سورج کی سی ہے جسے آج تک کبھی کسی نے نہیں دیکھا.شاید بعض لوگ حیران ہوں گے کہ یہ کیا بات ہے؟ مگر حقیقت یہی ہے کہ اصل سورج کو کسی نے نہیں دیکھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح اور چیزوں کی رفتار پر وقت لگتا ہے اسی طرح روشنی کی رفتار پر بھی وقت لگتا ہے جس کا اندازہ فی سیکنڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا ہے.چونکہ سورج دنیا سے نو کروڑ میل کے فاصلہ پر ہے اس لئے
۲۳۹ هستی باری تعالیٰ سورج کی روشنی دنیا میں آٹھ منٹ کے قریب میں پہنچتی ہے اور چونکہ زمین چکر کھا رہی ہے اس لئے جس وقت سورج کی روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے اس وقت تک سورج اس جگہ سے آٹھ منٹ کا سفر آگے کی طرف طے کر چکا ہوتا ہے اور ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ سورج نہیں بلکہ اس کی آٹھ منٹ پہلے کی شعاعیں ہوتی ہیں اور جس جگہ سورج کو دیکھتے ہیں درحقیقت وہ وہاں بھی نہیں بلکہ اس سے قریبا سوا سو میل آگے ہوتا ہے کیونکہ اس عرصہ میں زمین سوا سو میل کے قریب چکر کھا چکی ہوتی ہے.اسی طرح جب ہم دیکھتے ہیں کہ سورج ڈوب رہا ہے تو اس سے سات منٹ پہلے سورج ڈوب چکا ہوتا ہے ہم اس عرصہ میں اس کی آٹھ منٹ پہلے کی شعاعیں دیکھتے رہتے ہیں جسے وہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور ہم انہیں سورج سمجھتے ہیں.پس کبھی حقیقی سورج کسی نے نہیں دیکھا اس کی شعاعیں آتی ہیں جو ایک مکی بناتی ہیں اور اتنے عرصہ میں سورج آگے نکل چکا ہوتا ہے.اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ حقیقی سورج کبھی کسی نے نہیں دیکھا اس لئے رؤیت کا کوئی فائدہ نہیں.باوجود اس کے کہ سورج ڈوب چکا ہوتا ہے مگر اس کی پیچھے چھوڑی ہوئی شعاعیں ہمیں روشنی دیتی ہیں اور ہم ان سے وہی فائدہ اُٹھاتے ہیں جو سورج سے.اسی طرح گو خدا تعالیٰ نظر نہیں آتا کیونکہ اس کی ذات غیر محدود ہے مگر ہم اس کی صفات کے تمثلات کو دیکھ کر ویسا ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں جو کسی ذات کے دیکھنے سے ہوا کرتا ہے سوائے شکل کی حد بندی کے اور خدا تعالیٰ شکل سے پاک ہے اس لئے اس کا کوئی نقصان نہیں.جب ہم ایسی محدود ذاتوں کا نظارہ بھی جو کہ بڑی ہوتی ہیں تمثیلی طور پر ہی کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی غیر محدود ذات کا نظارہ حقیقی طور سے کس طرح کر سکتے ہیں؟ چنانچہ سورج کو دیکھو وہ
۲۴۰ پچیس لاکھ میل لمبا چوڑا ہے لیکن ہمیں وہ بہت چھوٹا نظر آتا ہے کیونکہ ہماری آنکھ اس قدر بڑے جسم کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتی صرف ایک ٹکیا کے برابر نظر آتا ہے کیونکہ اس کے بعد کی وجہ سے اتنا ہی عکس ہماری آنکھ پر پڑتا ہے اور اس بات کو پرانے زمانے کے دیہاتی لوگ بھی جانتے تھے کہ سورج اس سے بڑا ہے جس قدر کہ ہمیں نظر آتا ہے.چنانچہ ان میں ایک مثل تھی کہ " تارا کھاری چند گھماں.سورج دا کچھ اوڑک ناں“ یعنی ستارے ایک بڑے ٹوکرے کے برابر ہوتے ہیں اور چاند دو سیکھے زمین کے برابر اور سورج اتنا بڑا ہے کہ اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا.گو یہ اندازہ غلط ہے مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانے زمانہ کا زمیندار طبقہ بھی اس امر کو سمجھتا تھا کہ دور کی چیزیں اور بڑی چیزیں اپنے فوکس اور ہماری آنکھ کے اندازہ کے مطابق ہی نظر آتی ہیں مگر باوجود اس کے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سورج کا دیکھنا غیر حقیقی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ، یہی حال رؤیت الہی کا ہے.رؤیت الہی کا دوسرا فائده دوسرا فائدہ رؤیت الہی کا یہ ہوتا ہے کہ جو صفت سامنے آتی ہے اس سے قلب میں تغیر پیدا ہوتا ہے.تعجب ہے خدا کے متعلق تو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی رؤیت کا کیا فائدہ؟ لیکن اگر ان کا کوئی عزیز جدا ہونے لگے تو اس کی تصویر اتر وا لیتے ہیں یا اگر کوئی مرا ہوا بچہ یا رشتہ دار خواب میں نظر آئے تو بہت ہی خوش ہوتے اور اس نظارے سے متاثر بھی ہوتے ہیں.اگر ان باتوں سے فائدہ ہوتا ہے تو خدا کی حقیقی جلوہ گری کیوں نہ فائدہ دے گی؟
۲۴۱ رؤیت الہی کا تیسرا فائدہ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ خدا کی تحیلی خارق عادت چیز ہوتی ہے.ہوتی تو ایسی ہے کہ بندہ دیکھ سکے مگر اس کے ساتھ ایسی تاثیر ہوتی ہے کہ وہ قلوب کو منور اور روشن کر دیتی ہے اور گویا مخفی اثرات کے ذریعہ سے قلوب کو صاف کر دیتی ہے.پس رویت حقیقی کے بعد انسان اپنے اخلاق اور اپنی روحانیت کے اندر ایک نہایت ہی عظیم الشان تغیر پاتا ہے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف جذب ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے جیسا کہ انبیاء واولیاء کا حال ہے.یہ نتائج صرف رؤیت سے ہی پیدا ہو سکتے ہیں.ہم خدا سے کس حد تک تعلق پیدا کر سکتے ہیں؟ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے ہم کس حد تک تعلق پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ سوال گوجستی باری تعالیٰ کی تحقیق کی ابتداء میں بھی پیدا ہوتا ہے مگر اس وقت اس کا باعث علمی تحقیق کا خیال ہوتا ہے مگر مذکورہ بالا تحقیق کے بعد دوبارہ یہی سوال انسان کے دل میں اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اب وہ عمل کے ساتھ خدا تک پہنچنا چاہتا ہے.اس مقام پر پہنچ کر گویا انسان کی ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ جیسے کسی کے سامنے زمین و آسمان کے خزانے کھول کر رکھ دیئے جائیں اور وہ پوچھے کہ ان سے کیا فائدہ حاصل کروں اور کہاں اور کس طرح خرچ کروں.پس اب ہم یہ بات حل کرتے ہیں کہ خدا کی صفات کے غیر محدود خزانوں سے ہم کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور کس طرح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟ اور ان کے ذریعہ سے اپنی روحانی حالت کو کس حد تک درست کر سکتے ہیں؟
۲۴۲ خدا تعالیٰ کی صفات کے گہرے علم سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ جس بندہ کو خدا کی صفات کا علم ہو خواہ وہ ایک حرف بھی نہ پڑھا ہوا ہو ، دنیا کا بڑے سے بڑا سائنسدان بھی اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہوتا.پس پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ ایسے شخص کے ہاتھ میں علم کا خزانہ آجا تا ہے جب تک کسی چیز کا پتہ نہ ہو تو اس کو استعمال کر نے کا خیال نہیں آتا.مثلاً اگر یہ معلوم نہ ہو کہ بخار کا کوئی علاج ہے تو انسان علاج کرانے کی کوشش ہی نہیں کرے گا.لیکن جب معلوم ہو جائے کہ علاج موجود ہے تو علاج کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی.تو خدا کی صفات کے خزانوں کے معلوم ہونے سے انسان کے خیالات ہی بدل جاتے ہیں.جس طرح ایک ایسا شخص جس کو معلوم ہو کہ اس کی بیماری کا علاج ہے وہ دوائی لے کر استعمال کرے گا جس سے صحتیاب ہو جائیگا لیکن جس کو علاج ہی معلوم نہیں وہ گھر بیٹھا رہے گا اور اسی بیماری سے جس کا علاج کرا کر صحتیاب ہو سکتا تھا مر جائے گا.جیسے پہاڑی اقوام میں ہوتا ہے ان کے بیمار یونہی معمولی بیماری سے مرجاتے ہیں کیونکہ کوئی علاج نہیں کرتے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات کا علم رکھنے والے کے لئے ہر وقت اپنی اصلاح اور روحانی ترقی کا دروازہ کھلا رہے گا لیکن جو ان صفات کا علم نہیں رکھتا وہ یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہے گا اور روحانی ترقی کی طرف اس کی توجہ نہیں ہو گی.دوسرا نفع یہ ہے کہ جب انسان خدا کا غیر محد ودجلوہ دیکھتے ہیں تو معلوم کر لیتے ہیں کہ علوم کا کوئی احاطہ نہیں بلکہ علوم غیر محدود ہیں اور کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ
م سلام سائنس یا حساب یا ڈاکٹری یا انجینئر نگ میں جتنی ترقی ہوئی تھی ہو چکی ہے بلکہ وہ سمجھے گا کہ چونکہ یہ علوم غیر محدود ہستی کی طرف سے آئے ہیں اس لئے ان کی ترقی بھی کبھی ختم نہ ہوگی.یہ سمجھ کر وہ کسی علم میں ترقی کرنے سے پیچھے نہ ہٹے گا.مسلمانوں نے غلطی کی ہے کہ یونانیوں کے پیچھے چل کر کہہ دیا کہ فلاں علم بھی ختم ہو گیا اور فلاں بھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا قدم ترقی کی طرف سے ہٹ گیا اور آخر جہالت پیدا ہونے لگ گئی جو ایک جگہ ٹھہر جانے کا لازمی نتیجہ ہے.اگر وہ خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے تو آج ہر علم کے سب سے بڑے عالم دنیا میں مسلمان ہی ہوتے.پس خدا تعالیٰ کی صفات کے سمجھنے سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ایسا انسان کسی علم کو محدود نہیں قرار دے سکتا.کوئی مسلمان علوم کو محدود نہیں مان سکتا اب میں اس امر کی مثالوں سے تشریح کرتا ہوں مثلاً بعض بیماریاں ایسی ہیں کہ ان کے علاج معلوم تھے اور بعض کے نہیں.اور آج سے پہلے بعض بیماریوں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ لاعلاج ہیں حالانکہ لاعلاج کا لفظ ایک بے ہودہ لفظ ہے کیونکہ اگر خدا قادر مطلق ہے تو کوئی بیماری لا علاج کس طرح ہوسکتی ہے ؟ ہاں اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ فلاں بیماری کا علاج ہمیں معلوم نہیں تو اور بات ہے ورنہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں بیماری کا کوئی علاج ہی نہیں تو وہ مشرک ہے وہ خدا کو قادر مطلق نہیں مانتا.آج تک بیماریوں کے متعلق لوگ لکھتے چلے آئے ہیں کہ لا علاج ہیں.لاعلاج ہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں یہ لوگ امی کہتے ہیں انہوں نے فرمایا
۲۴۴ مَا مِن دَاءٍ إِلَّا لَهُ دَوَاءُ إِلَّا الْمَوْتَ.کہ کوئی بیماری نہیں جس کا علاج نہ ہو.یہ آپ نے کیوں کہا؟ اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ خدا شافی ہے اس لئے سب بیماریوں کا علاج ہونا چاہئے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳ سو سال پہلے وہ نکتہ دریافت کر لیا جو یورپ نے آج بھی نہیں کیا.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت جبکہ طب کا علم نہایت محدود تھا فرماتے ہیں یہ نہ کہنا کہ فلاں بیماری کا کوئی علاج نہیں یہ بیوقوفی کی بات ہے، تم دریافت کرنے میں لگے رہو اس کا علاج ضرور نکل آئے گا.اگر خدا شافی ہے تو اس نے اس مرض کا علاج بھی ضرور قانون قدرت میں رکھا ہو گا تم کوشش کرو اور اسے تلاش کر لو.دیکھو شافی صفت کا علم رکھنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطۂ نگاہ اپنے ہمعصروں سے بلکہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کے نقطہ نگاہ سے بھی کسقدر بدل گیا.دوسرے لوگ تو یہ خیال کرتے تھے اور آپ کے بعد بھی اب تک یہی خیال کرتے رہے کہ جو باتیں ہمیں معلوم ہو چکی ہیں ان سے بڑی اور کیا ہو سکتی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے علم کی بنیاد صفات الہیہ کے علم پر تھی باوجوداقی ہونے کے فرماتے ہیں کہ یہ کہ دینا کہ اس مرض کا علاج نہیں بالکل غلط ہے.علاج ہر اک شے کا موجود ہے دریافت کرنا تمہارا کام ہے.آپ کے اس ارشاد کے مقابلہ پر علم کا دعویٰ رکھنے والوں کی مایوسی کہو یا تعلی کہو کس قدر حقیر کس قدر ذلیل اور کس قدر زشت و بدصورت معلوم ہوتی ہے.کجا علم کے دعوی کے باوجود یہ کہنا کہ گو دنیا کے آرام کے سب سامان میسر نہیں آتے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سامان پیدا ہی نہیں کئے گئے اور کجا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ کہ یہ کہنا کہ علم طب ختم ہو گیا ہے جہالت مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۲۷۸ پر حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں.تدَاوَوُا عِبَادَ اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُنْزِل دَاءَ إِلَّا انْزَلَ مَعَهُ شِفَاءٌ إِلَّا الْمَوْتَ وَالْهَرَمَ -
۲۴۵ ہے.ابھی تو ہر بیماری کا علاج نہیں نکلا حالانکہ ہر بیماری کا علاج اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.آپ کے مقابلہ پر دوسرے مدعیان علم کی حالت بالکل اس مینڈک کی حالت کی طرح معلوم ہوتی ہے جو کنویں کو ہی بہت بڑا سمجھتا ہے اور آپ کی حالت یوں معلوم ہوتی ہے کہ گویا سمندر بھی آنکھوں میں نہیں بچتا.لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک امریکن انگلستان میں آیا اور وہ ایک گاڑی پر بیٹھا.گاڑی والے نے اس سے پوچھا کیا امریکہ میں دریا ہوتے ہیں.وہ کہنے لگا ہاں ہوتے ہیں.گاڑی بان نے کہا بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں؟ اس نے کہا بڑے بڑے بھی ہوتے ہیں.امریکن نے تو امریکہ کا وہ دریا دیکھا ہوا تھا جو ساری دنیا کے دریاؤں سے بڑا ہے اور گاڑی بان نے صرف اپنے ملک کا دریا ٹیمز دیکھا ہوا تھا جو بڑی نہروں کے برابر ہے ) گاڑی بان نے ٹیمز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ کیا اتنا بڑا دریا بھی امریکہ میں کوئی ہے؟ امریکن نے جوابا دریافت کیا کہ تم دریا کے متعلق پوچھتے ہو یہ تو ایک نہر ہے اسے دریا کون کہہ سکتا ہے.اس پر گاڑی بان کو اس قدر اشتعال آیا کہ مسافر کو کہنے لگا کہ تو بالکل جھوٹا انسان ہے اب میں تجھ سے بات ہی نہیں کروں گا.اہل یورپ ایک محدود دائرہ میں یہی حالت ان لوگوں کی ہے جن کے دل میں صفات الہیہ نے گھر نہیں کیا ان کا دائرہ علم بہت محدود ہوتا ہے.یورپ والے علم علم کہتے ہیں لیکن وہ بھی کیسے محدود دائرہ میں گھرے ہوئے ہیں ذرا کوئی نئی بات نکال لیتے ہیں تو شور مچادیتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ خدا نہیں.گویا کہ اگر دنیا ایک جاہلانہ اصول پر چلتی ہے تو خدا ہے اور اگر اس کے کام میں
۲۴۶ کوئی نظام اور قاعدہ نظر آتا ہے تب کوئی خدا نہیں وہ نادان نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کا تو ہر فعل حکمت پر مبنی ہے اور اس کے بنائے ہوئے تمام قوانین مضبوط اور بار یک نظام پر مشتمل ہیں ابھی انہوں نے دریافت ہی کیا کیا ہے.مثلاً ان لوگوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ انسان بحیثیت ذات ایک مفرد وجود نہیں بلکہ انسانی جسم باریک ذرات سے بنا ہوا ہے جو خود اپنی اپنی زندگی رکھتے ہیں گویا یہ ذی حیات وجود کی بستی ہے اور پھر اس سے بڑھ کر انہوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ وہ ذرات جن سے انسان بنا ہے خود باریک ذرات سے مل کر بنے ہیں گویا وہ خود مرکب ہیں ان امور سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عالم وجود ایک قانون کے ماتحت بنا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اس کا بنانے والا کوئی نہیں.مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہ تو دو قدم مبدأ حیات کی طرف جا کر اس قدر پھول گئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان اور خدا کے درمیان ستر ہزار حجاب ہیں.یعنی کثیر التعداد واسطے در واسطے چلے جاتے ہیں تب کہیں جا کر امر محض تک پیدائش عالم کا سلسلہ پہنچتا ہے اس علم کے مقابلہ میں یورپ کی تحقیق کس قدر حقیر ٹھہرتی ہے بلکہ جہالت نظر آتی ہے.موت کے ذریعہ ترقی اہل مغرب کا ہر تحقیق پر یہ شور مچا دینا کہ انہوں نے پیدائش عالم کی گویا کہ وجہ دریافت کر لی ہے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ علم کو محدود سمجھتے ہیں ورنہ اگر وہ یہ سمجھیں کہ ابھی تو غیر محدود علوم پیچھے چھپے پڑے ہیں تو اس قدر خوش کیوں ہوں اور اترائیں کیوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپ کس طرح ایک صفت الہیہ پر قیاس کر کے علوم
۲۴۷ کے غیر محدود ہونے کا اندازہ لگا لیتے ہیں.مگر آپ نے ایک شرط ساتھ لگائی ہے اور وہ یہ کہ موت کا کوئی علاج نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ موت ترقی کے راستہ میں روک نہیں بلکہ ترقی کا ایک ذریعہ ہے.اس کے ذریعہ سے انسان ترقی کرتا ہے کیونکہ موت کے بعد ہی انسان ان وسیع قوتوں کو پاتا ہے کہ اس دنیا کی عمر بھر کی ترقی اُس دنیا کے گھنٹوں کی ترقی کے برابر نہیں اتر سکتی.خدا کی مخلوق کی وسعت قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا - (الكهف:۱۱۰) که اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے خدا تعالیٰ نے جو علوم بنائے ہیں انہیں لکھنا شروع کیا جائے تو سمند ر ختم ہو جائیں گے مگر یہ نہیں ہو گا کہ خدا کے بنائے ہوئے علوم ختم ہو جائیں.خدا کے منکر تو ایک ایک ذرہ پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے یہ بات معلوم کر لی اور یہ معلوم کر لی لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر تم تحقیقا تیں کر کر کے ان کو سمندر سے لکھتے جاؤ تو پھر بھی خدا کے خزانے ختم نہ ہوں گے یہ انسانی نقطۂ نگاہ کے مطابق غیر محدود ترقی علوم صفت واسع کے ماتحت ہے.پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ ہماری دنیا کی چیزیں تو ختم ہو جاتی ہیں.مثلاً کوئلہ ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ تک یہ ختم ہو جائے گا ؟ ہمارے ملک میں کوئلہ کے ختم ہونے کے نتائج کو اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا.مگر یورپ کے اکثر کام چونکہ اس کی مدد سے ہو رہے ہیں وہ اسے بہت بڑی مصیبت سمجھتا ہے غرض کہا جاتا ہے کہ اگر کوئلہ یا تیل ختم ہو
۲۴۸ جائے تو پھر دُنیا کیا کرے گی.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں خدا تعالیٰ کے متعلق آتا ہے کہ وہ کفایت کرنے والا ہے ( قرآن میں تو یہ صفت فعل کے طور پر استعمال ہوئی ہے لیکن رسول کریم نے اسم کے طور پر اسے استعمال کیا ہے یعنی خدا کا نام کافی بتایا ہے ) اب دیکھ لو اگر ایک چیز ختم ہونے لگتی ہے تو اس کی قائم مقام اور نکل آتی ہے کوئلہ ختم ہونے لگا تو تیل نکل آیا اب تیل کے ختم ہونے کا ڈر پیدا ہو اتو ایسی تحقیقا تیں ہورہی ہیں کہ سورج کی شعاعوں سے یہ کام لیا جائے تو دُنیا جب گھبرا اُٹھتی ہے کہ اب مرے اس وقت مؤمن ہنستے ہیں کہ یہ لوگ کیسے نادان ہیں خدا کوئی اور سامان ضرور کر یگا چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے.خدا کو قادر ماننے کا اثر در حقیقت صفات الہیہ کو ماننے والا انسان ایک وسیع پلیٹ فارم پر کھڑا ہوتا ہے اور ا ساری دنیا اس کی نظروں میں حقیر ہوتی ہے.مثلاً جو شخص خدا تعالیٰ کی صفت قدرت پر یقین رکھتا ہے وہ یہ بھی یقین رکھے گا کہ خدا نے ہر چیز کے اندازے اور قواعد مقرر کئے ہوئے ہیں یہ سمجھ کر وہ سارے بیہودہ ٹونے ٹوٹکوں سے بچ جائیگا کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ یہ باتیں کچھ اثر نہیں رکھتیں اور بیہودہ ہیں اس طرح وہ سارے شکوک اور شبہات سے پاک ہو جائے گا.خدا کو رب العالمین ماننے کا اثر اسی طرح خدا کی رب العالمین صفت ہے اس کے ماتحت ایک مؤمن اسی دُنیا کو سب کچھ نہیں مجھ سکتا بلکہ یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ یہ دنیا خدا کے ان گجت عالموں میں سے ایک عالم ہے اس کے سوا اور بھی عالم ہیں اور اس بناء پر مثلاً وہ یقین رکھے گا کہ علم بیت
۲۴۹ هستی باری تعالیٰ کی ترقی کبھی ختم نہیں ہو سکتی.چنانچہ علوم کی ترقی مؤمن کے اس عقیدہ کی تصدیق کر رہی ہے.لڑائی سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ دُنیا تین ہزار سال کی روشنی کے برابر لبی ہے یعنی اس قدر لمبی ہے جتنا عرصہ روشنی کی شعاع تین ہزار سال میں طے کر سکتی ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ روشنی کے بارہ ہزار سال سے بھی زیادہ دنیا کا طول ہے اور ابھی کون کہہ سکتا ہے کہ یہ تحقیق بھی غلط ثابت ہو کر اس سے بہت زیادہ لمبائی دنیا کی معلوم ہوگی.یہ امر بتانے کے بعد کہ صفات الہیہ کے علم سے انسان کو ذہنی طور پر کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ صفات الہیہ سے انسان عملی طور پر کیا فائدہ حاصل کر سکتا ہے؟ انسان دنیا میں خدا سے کیا کچھ حاصل کر سکتا ہے؟ انسان چاہتا ہے کہ اسے عزت حاصل ہو اور ادھر دیکھتا ہے کہ خدا کا ایک نام معزز ہے.اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ ادھر ادھر جانے کی کیا ضرورت ہے اس کو کیوں نہ کہوں کہ اے معرة ! مجھے عزت دے.پھر انسان کو رزق کی ضرورت ہوتی ہے اور خدا رازق ہے جو اس کی اس صفت سے واقف ہے وہ بجائے ادھر ادھر دھکے کھانے کے اسی کے حضور میں کہے گا کہ اے رزاق ! مجھے رزق دے.یا پھر کبھی ہم مصائب اور مشکلات میں مبتلاء ہوتے ہیں.خدا کی صفت كَاشِفَ السُّوءِ بھی ہے یعنی بدی کو مٹا دینے والا اس لئے ہم اسی سے کہیں گے کہ اے
۲۵۰ تکالیف کو دور کرنے والے اور مصائب کو مٹانے والے خدا ہمیں تکالیف سے بچالے.تو گویا ہماری مثال ایسی ہوگی کہ ہم ایک ایسے درخت کے نیچے بیٹھے ہیں جسے خوب پھل لگے ہوئے ہیں اور ہمارے ہاتھ میں ایک لمبا بانس ہے جب جی چاہتا ہے بانس کے ذریعہ پھل اتار لیتے ہیں.مثلاً کسی کو کوئی بیماری اور دُکھ ہو تو وہ شافی خدا کے سامنے اپنی درخواست کو پیش کرے گا اور کہے گا کہ تو جوشفاء دینے والا ہے مجھے شفاء عطا فرما.یا مثلاً بعض لوگوں کو اولاد کی ضرورت ہوتی ہے مگر دنیا میں کوئی شخص نہیں جو اولاد دے سکے.جب ایسا شخص ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے کہیں گے کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں خدا خالق ہے اسے کہو اے خالق ! مجھے بھی اولاد دے ! یہ صرف باتیں ہی نہیں بلکہ ایسا ہوتا رہتا ہے.یہیں ایک ہندو ہے اس کی شادی کو کئی سال ہو گئے تھے مگر اولاد نہ ہوتی تھی اس نے دعا کی کہ اے خدا! اگر مرزا صاحب بچے ہیں تو ان کے طفیل مجھے اولاد دے.میں سال تک اس کے اولاد نہ ہوئی تھی اس کے بعد اس کے اولاد ہو گئی.اسی طرح قریب ہی کے گاؤں کا ایک اور ہندو ہے جو ایک دفعہ جلسہ کے ایام میں بٹالہ سے قادیان آنے والی سڑک پر بیٹھ گیا تھا اور سب جلسہ پر آنے والوں کو رس بھی پلاتا تھا اور یہ بھی بتاتا تھا کہ مرزا صاحب کے صدقے مجھے خدا نے یہ بچہ دیا ہے.غرض خدا تعالیٰ چونکہ خالق ہے اس لئے جب دُنیا کے ڈاکٹر کسی بات سے جواب دے دیتے ہیں تو اس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اگر خدا ہی کی منشاء نہیں تو اور بات ہے ورنہ اس سے حاصل کرنے کا رستہ کھلا ہے.
۲۵۱ اسی طرح اگر کوئی دشمن ہے جو دین کے لئے مضر ہو اور اس کی موت دین کے لئے مفید ہو سکتی ہو یا طاعون یا اور بیماریوں کے کیڑے ہیں جو ہمارے لئے مضر ہوتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ مر جائیں تو ہم خدا تعالیٰ کی صفت ممیت سے کہیں گے کہ انہیں مار ڈال.یا کبھی کوئی چیز کالمردہ ہو اور ہمیں اس کی حیات مطلوب ہو تو ہم اس کے لئے خدا تعالیٰ سے اس طرح دُعا کریں گے کہ اے محیی ! اسے زندہ کر دے اور ہمارا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے موقعوں پر دُعا ئیں سنتا ہے اور بظاہر مردہ وجودوں کو زندہ کر دیتا ہے جیسے عبد الرحیم خان صاحب کی مثال موجود ہے کہ جب ڈاکٹروں نے جواب دید یا تو حضرت صاحب نے دُعا کی اور تندرست ہو گئے.پھر انسان سے گناہ ہو جاتے ہیں اور لوگ تو گھبرائیں گے کہ کس طرح ان کا اثر دور کریں لیکن ہم کہیں گے خدا غفار ہے اسے کہو وہ بخش دے گا.غرض ہر چیز کا خزانہ خدا تعالیٰ کے پاس موجود ہے کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کا خزانہ خدا کی صفات میں نہ مل سکتا ہو.پس خدا کی صفات کے علم کے ذریعہ سے انسان اپنی تمام ضروریات کو پوری کر سکتا ہے اور گویا صفات الہیہ ایسی نالیاں ہیں جو ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جاری ہیں اور ہمارا کام یہ ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہو وہ جس نالی سے ملے اس کے نیچے پیالہ لے جا کر رکھ دیں یعنی جس بات کی ضرورت ہو اس کے مطابق جو خدا تعالیٰ کی صفت ہے اس کو پکار ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَلِلهِ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الاعراف:۱۸۱) کہ خدا تعالیٰ کے اندر سب صفات حسنہ پائی جاتی ہیں اس لئے جو ضرورت تمہیں پیش آئے ان کے ذریعہ اس سے
۲۵۲ مانگو.اس آیت سے دُعا کرنے کا بھی یہ نکتہ معلوم ہو گیا کہ جو چیز مانگنی ہو اس کے مطابق جو صفت ہو اس کے ذریعہ سے مانگنی چاہئے.پس صفات کا بار یک علم دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہوتا ہے اور جو اس علم کا پتہ لگا لیتا ہے اس کی دُعا زیادہ قبول ہوتی ہے اور جو خدا تعالیٰ کی صفات کا سب سے زیادہ علم رکھے گا اس کی دُعائیں بھی سب سے زیادہ قبول ہوں گی.دعا کیلیے مناسب صفت کو کس طرح منتخب کرے؟ اگر یہ سوال کیا جائے کہ دُعا کے لئے صفات الہیہ کا انتخاب کس اصل پر ہونا چاہئے ؟ تو اس کا یہ جواب ہے کہ سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ مثلاً جو تکلیف ہے وہ کیوں ہے؟ اور پھر اس وجہ کو مد نظر رکھ کر جس صفت کے ذریعہ سے دعا کرنا مناسب ہوگا اس کے ذریعہ سے دُعا کی جائے گی.ظاہری علوم میں بھی اس کی مثال دیکھ لو.ایک شخص کے پیٹ میں درد ہوتی ہے تو اسے طبیب کسٹرائل دیتا ہے.ایک دوسرے کو پیپر منٹ.تیسرے کو قے کراتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ گو ہے تو سب کے پیٹ میں ہی در دلیکن سبب مختلف ہیں.اس طرح انسان کی تکالیف کئی اسباب سے ہوتی ہیں.مثلاً قرض کو لے لو کبھی قرض اس وجہ سے چڑھ جاتا ہے کہ انسان سے کوئی ایسا گناہ سر زد ہو جاتا ہے جس کی مناسب سزا اسے مالی تنگی کا پہنچنا ہوتی ہے کبھی اس کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ خدا دیکھتا ہے کہ اگر اس کو زیادہ مال دوں گا تو گمراہ ہو جائے گا.کبھی اس کی وجہ اس کی شستی ہوتی ہے یہ اس قدر آمد نہیں پیدا کرتا کہ سال کا خرچ چل سکے.یا مثلا کسی پر ذرائع آمد کے محدود ہونے کے سبب سے قرض ہو جائے گا.یہ چاروں
۲۵۳ باتیں خدا تعالیٰ کے الگ الگ اسموں کے نیچے آئیں گی اگر کمی آمد کی وجہ سے قرض ہو تو انسان کہے گا کہ اے باسط ! مجھے رزق میں فراخی دے تب خدا اسے رزق دے گا لیکن اگر اس کی سستی کے سبب سے اس کی آمدن کم ہے تو وہ یہ دُعا کرے گا کہ اے قیوم ! مجھے چستی عطا فرما اور اگر گناہ کے سبب سے مقروض ہے تو کہے گا کہ اے غفور ! مجھے بخش دے اور اگر اس سبب سے تنگی ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ شخص فراخی رزق کے ساتھ ایمان کو سنبھال نہیں سکتا تو اس طرح دعا کی جائے گی کہ اے ہادی! مجھے مضبوطی ایمان بخش.غرض صفات الہیہ کے ماتحت دعا کرنا ایک مستقل علم ہے اور میں نے صرف موٹی موٹی باتیں بطور مثال بتائی ہیں تا معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کی صفات ہمارے لئے نئے علوم بیان کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود کے متعلق صفات الہیہ کے نظارے حضرت مسیح موعود نے خدا کی صفات کا علم سیکھا اور ان کے اثر کے نظارے دکھائے.لوگوں نے آپ کا مقابلہ کیا اور آپ کو ہلاک کرنا چاہا حضرت صاحب نے ان کے مقابلہ کے لئے خدا تعالیٰ کی صفت قیوم سے مدد طلب کی اور مخالف نا کام رہے.پھر تکالیف پہنچانے کی کوشش کی اس کے لئے آپ نے حفیظ صفت کو بلایا اور آپ دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ رہے.علم کے متعلق مخالفوں نے آپ کو کہا کہ جاہل ہے عربی کا ایک صیغہ نہیں جانتا مگر آپ نے کہا مجھے پتہ ہے کہ علم کا خزانہ کہاں ہے میں وہاں سے علم لے آؤں گا.چنانچہ آپ نے خدا تعالیٰ کی صفت علیم کو پکارا اور آپ کو بے نظیر علم ،
۲۵۴ دیا گیا.آپ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ چالیس ہزار الفاظ کا مادہ ایک منٹ میں خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیا.پس دیکھو خدا کی صفات کا علم حاصل کر کے آپ کیا سے کیا بن گئے.گویا کہ آپ اس دُنیا کے آدمی ہی نہ رہے آسمانی عالم کے وجود ہو گئے.صفات الہیہ کا علم رکھنے والے کے نزدیک بادشاہ کی حقیقت جو کوئی اس علم کو حاصل کرتا ہے اس کی خاص حالت ہو جاتی ہے دیکھو ایک بادشاہ کی نسبت لوگ کہتے ہیں اس کا بڑا اقبال ہے مگر میں کہتا ہوں اس شخص کے مقابلہ میں اس کی کیا حقیقت ہے جسے صفات الہیہ کا علم حاصل ہو گیا.دنیوی بادشاہوں کے خزانے ختم ہو جاتے ہیں مگر یہ جس بادشاہ سے تعلق رکھتا ہے اس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.پھر ان بادشاہوں کو ایسی دقتیں پیش آ جاتی ہیں جن کا وہ کوئی علاج نہیں کر سکتے.چنانچہ جرمنی کے ایک قیصر کو خناق ہو گیا.بیسیوں ڈاکٹروں نے زور لگا یا مگر کچھ نہ کر سکے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو لوگ اس کے در پر گرنے والے ہیں وہ ایسی بیماریوں سے جو سخت تکلیف دہ ہوں یا ڈراؤنی ہوں محفوظ رہتے ہیں.یورپ کے اخبارات نے مذکورہ بالا قیصر کی وفات پر لکھا کہ بڑے بڑے ڈاکٹر تین دن تک ملک الموت سے جنگ کرتے رہے لیکن آخر کار ملک الموت کامیاب ہو گیا.یہ بادشاہ اس تکلیف سے مرا تھا کہ دیکھنے والے بیتاب ہو ہو جاتے تھے.مگر جس شخص سے اس کا تعلق ہو جس کے قبضہ میں ملک الموت ہے وہ کب اس قسم کے خطرات کی پرواہ کر سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نبی کی جان ملک الموت اس سے پوچھ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۳۴
۲۵۵ کر نکالتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر وفات کے وقت یہ الفاظ ت اللهُم بِالرّفِيقِ الأغلى اے خدا اب میں تجھ سے ملنا چاہتا ہوں.صفات الہیہ سے واقف کی حالت جس کو صفات الہیہ سے کام لینے کا طریق معلوم ہو جاتا ہے اس کے سامنے ساری دنیا بیچ ہو جاتی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کسی وجہ سے اس کے لئے اپنی ایک صفت جاری نہ کرے تو دوسری کھلی ہوتی ہے ادھر چلا جاتا ہے.مثلاً اگر اس پر موت آتی ہے اور خدا تعالیٰ استغناء کی وجہ سے اس کے لئے کئی صفت جاری نہیں کرتا اور مارڈالتا ہے تو اس کی ملک یوم الدین کی صفت بھی تو ہے اس لئے وہ دوسرے رنگ میں فائدہ اُٹھالیتا ہے.پس خدا تعالیٰ کا بندہ کبھی کسی بات سے نہیں گھبراتا ، اس کا رنج بھی خوشی کا پہلو رکھتا ہے اور خوشی بھی خوشی کا.اگر مرتا ہے تو بھی وہ خوش ہوتا ہے اور اگر زندہ رہتا ہے تو بھی خوش ہوتا ہے.اگر اس کا کسی سے جھگڑ ا فساد ہو جاتا ہے تو خدا کی صفت جبار کو بلاتا ہے کہ اے جبار! اس کی اصلاح کر دے اور خدا تعالیٰ اصلاح کر دیتا ہے اور پھر خواہ کسقد رد شمنی اور عداوت ہو خدا چونکہ ودود بھی ہے اس کے متعلق اس کے دشمنوں کے دل میں محبت پیدا کر دیتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الْفُتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ - (الانفال: ۶۴ ) کہ اگر تم دنیا کا سارا مال بھی خرچ دیتے تو لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا کیونکہ قلوب کا جوڑ نا اسی کا کام ہے.بخاری کتاب المغازی باب آخر ما تكلم به النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں.اللَّهُم الرَّفِيقَ الْأَعْلَى
مؤمن کے وزراء ۲۵۶ پس دیکھو مؤمن کی کتنی عظیم الشان حکومت ہوتی ہے.دنیاوی بادشاہ تو چھ سات وزیروں سے کام لیتے ہیں لیکن مؤمنوں کے کم از کم ننانوے وزراء تو ہو گئے کیونکہ نانوے صفات الہیہ جو عام طور پر مشہور ہیں یہ سب کی سب ان چیزوں کو جو اُن کے ماتحت ہیں مؤمن کی خدمت میں لگا دیتی ہیں اور اس کا بوجھ ساری دنیا پر بانٹ دیتی ہے.مثلاً کبھی مؤمن کی خواہش ہو کہ دُنیا کے کاموں سے فارغ ہو تو اس کے لئے خدا کی صفت وکیل ہے اسے کہے اے وکیل ! تو ہی میرے کام کر دے فوڑ اوہ صفت اپنے جلوہ سے دنیا میں ایسے سامان پیدا کر دیتی ہے کہ اس کے کام آپ ہی آپ ہو جاتے ہیں.چنانچہ انبیاء اور ان کے کئی اتباع دنیوی کاموں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں مگر خدا ان کے سارے کام پورے کرتا رہتا ہے.تیسر انفع یہ ہوتا ہے کہ ہم ان صفات کو اپنے اندر پیدا کر کے ترقی کر سکتے ہیں.یعنی پہلے درجہ میں تو انسان خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنی مدد کے لئے بلاتا ہے جب اس سے ترقی کرتا ہے تو پھر خود صفات الہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنے لگ جاتا ہے گویا خدا سے یہ نہیں چاہتا کہ اسے رزق دے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ رزاقیت دے، ربوبیت دے، ملکیت ، رحمانیت دے، خالقیت دے.اس حالت میں پہنچ کر انسان کے اخلاق اور ہی رنگ اختیار کر لیتے ہیں.وہ انسانوں میں رہتا ہے لیکن الگ ہی قسم کا انسان ہوتا ہے دشمن بھی اس کے اخلاق دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور ان کی خوبی مانتا ہے البتہ عداوت اور دشمنی کی وجہ سے یہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ بناوٹ کے طور پر کرتا ہے.
۲۵۷ غرض پہلے تو انسان خدا کی صفات کا ظہور مانگتا ہے لیکن پھر کہتا ہے کہ یہ صفات ہی دے دے.اب ساری صفات اس کے اندر پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور اب وہ ایسا شیشہ ہوتا ہے کہ جس پر خدا کا عکس پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور دُنیا اس کو دیکھتی ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا يَا قَمَرُ يَا شَمسُ اَنتَ منى وانا منك ( تذكره صفحه ۵۹۰،۵۸۸ ایڈیشن چہارم) گویا حضرت صاحب کو خدا نے کہا کہ تُو سورج ہے اور میں چاند ہوں اور میں سورج ہوں تو چاند ہے.حضرت مسیح موعود کے اس الہام کا مطلب اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مجھے نہ جانتے تھے تو نے بتایا کہ وہ ہے اس لئے کو سورج ہے پھر تو اصل میں روشن نہیں ہے میں نے اپنا پر تو تجھ پر ڈالا ہے تب تو روشن ہوا ہے اس لئے میں سورج ہوں اور تُو چاند ہے.اسی طرح بندہ خدا کی صفات کو لے کر خدا کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے غرض یہ تین قسم کے فوائد ہیں جو صفات الہیہ سے حاصل ہو سکتے ہیں.لقاء الہی اس کے بعد ایک اور درجہ ہے جسے لقاء کہتے ہیں، اس کے معنے ہیں خدامل گیا.لقاء کی تعریف کیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کے اندر شامل ہو جانا بلکہ یہ کہ خدا کی صفات جو جلوہ گری کریں ان کو اپنے اندر جذب کر لیتا.حضرت مسیح موعود نے اس کی لطیف مثال دی ہے.فرماتے ہیں لوہا لے کر آگ میں ڈالو تو اس کی پہلی حالت یہ ہوگی کہ
۲۵۸ معمولی گرم ہو گا اور زیادہ گرم کیا جائے گا تو جلانے کا کام کرے گا مگر اس کی شکل آگ کی سی نہیں ہوگی اس سے ترقی کریگا تو آگ کی طرح چمک پیدا ہو جائے گی.اسی طرح بندہ کا لقاء ہوتا ہے بندہ خدا میں محو ہوتے ہوتے اس حد کو پہنچ جاتا ہے کہ لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ بندہ نہیں خدا ہے چنانچہ بعض بندوں کو اسی وجہ سے خدا بنالیا گیا.رؤیت اور لقاء میں فرق اب میں بتاتا ہوں کہ رؤیت کیا ہے اور لقاء کیا ؟ اور ان میں کیا فرق ہے؟ اس لئے یہ یا درکھنا چاہئے کہ رؤیت تو عارضی ہوتی ہے یعنی اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا کا جلوہ دیکھ لیا اور لقاء کے معنے یہ ہیں کہ خدامل گیا اس کو پالیا یہ مستقل درجہ کا نام ہے اور اصل لقاء ہی ہے.رؤیت کے بعد لقاء کا مقام ہے اور جسے یہ مقام حاصل ہو گیا اسے ایک قسم کی رؤیت ہمیشہ ہی حاصل ہوتی رہتی ہے.لقاء الہی سے کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئے اب میں لقاء کا کچھ ذکر کرتا ہوں.مگر اس سے قبل یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ خدا سے ملنے میں مؤمن کو کبھی نا اُمید نہ ہونا چاہئے اس لئے کہ خدا تعالیٰ خود چاہتا ہے کہ بندہ اس سے ملے اگر یہ خواہش صرف ہماری طرف سے ہوتی تو اور بات تھی مگر اب تو یہ صورت ہے جس طرح کسی شاعر نے کہا ہے ملنے کا تب مزا ہے کہ دونوں ہوں بے قرار دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی!
۲۵۹ پس چونکہ خدا تعالیٰ خود بندہ کے لقاء کو چاہتا ہے اس لئے اس سے ناامید نہیں ہونا چاہئے.پہلی خطاؤں کی معافی لقاء کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان پہلے پچھلی صفائی کرے.اس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا آسان طریقہ بتایا ہے.ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آکر کہا حضور مجھ سے خطا ہوگئی ہے میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں زندہ ہے.اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا خالہ؟ کہا نہیں فرما یا کوئی اور رشتہ دار جو ہے اس کی خدمت کر دے.اس سے معلوم ہوا کہ ان رشتوں کا ادب اور خدمت کرنا خطاؤں کو معاف کراتا ہے.تین باتیں اس سے پہلے سوچے ایک یہ کہ نیت کرے اور اخلاص اس کے اندر ہو.دوسرے یہ کہ سستی اور غفلت ترک کرے.تیسرے یہ کہ بات کو سوچنے کی عادت ڈالے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو کامیاب نہ ہوگا.اگر کسی کی نیت نیک نہ ہو تو کوئی اسے نو کر نہیں رکھتا.اگر کوئی سست ہو تو بھی اسے کوئی نہیں رکھتا اور اگر بات کچھ کہی جائے اور سمجھے کچھ اور تو بھی نہیں رکھتا.پس تو بہ کے ساتھ یہ تینوں باتیں بھی ہونی ضروری ہیں اور جو لقائے الہی کے خواہشمند ہوں انہیں فورا یہ باتیں پیدا کرنی چاہئیں.خدا تک پہنچنے کا رستہ اس کے بعد میں لقاء کے متعلق مونا طریق بتاتا ہوں اور تفصیل کو چھوڑ دیتا ہوں
کیونکہ تفصیل کی گنجائش نہیں.یا درکھو کہ لقاء کا مطلب خدا تک پہنچنا ہے اور ” تک“ کا لفظ اسی وقت بولا جاتا ہے جبکہ درمیان راستہ ہو جسے ہم نے طے کرنا ہو پس ہمیں لقاء کے لئے راستہ تلاش کرنا پڑے گا جس پر چل کر ہم اس مقصد کو حاصل کر سکیں.چونکہ اس مقصد کو صرف قرآن کریم ہی پورا کر سکتا ہے اس لئے ہم اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون پر اس میں مکمل روشنی ڈالی گئی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الْحَمْدُ لِلهِ رَبّ العلمينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحه : ۲ تا ۶ ) ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ مؤمن اللہ تعالیٰ سے ایک راستہ کے دکھانے کی درخواست کرتا ہے پھر دوسری جگہ آتا ہے.صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (الاعراف: ۱۷) وہ راستہ مجھے دکھا جو تیری طرف سیدھا چلا آتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ میں جس راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی گئی ہے وہ وہی راستہ ہے جو سیدھا خدا تک پہنچتا ہے.اب یہ سوال ہے کہ وہ کون سا راستہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت : ۷۰ ) جولوگ ہماری ملاقات کے لئے کوشش کرتے ہیں ہم انہیں یقیناً اپنے تک پہنچنے کے راستے بتا دیتے ہیں.مگر ان سب راستوں سے ایک مکمل اور مجمل راستہ ہے جسے ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور وہ راستہ وہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے.عقل کہتی ہے جب خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی ہے تو پہلے راستہ بھی بتایا ہوگا تبھی اس کے بعد یہ دعا سکھائی کہ اب اس راستہ پر مجھے چلا.جب ہم سورۃ فاتحہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صاف طور پر
۲۶۱ ایک روحانی راستہ نظر آتا ہے اور وہ راستہ سورۃ فاتحہ میں بیان کردہ چار صفات الہیہ ہیں مگر راستہ کا لفظ بتاتا ہے کہ ان صفات کے حاصل کرنے میں ایک ترتیب ملحوظ ہے پہلے ایک صفت کو انسان حاصل کر سکتا ہے اس کے بعد دوسری کو پھر تیسری کو اور ہم تبھی اس راستہ پر چلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب ہمیں یہ بھی معلوم ہو جائے کہ کس ترتیب سے ان صفات کو اپنے اندر ہمیں پیدا کرنا چاہئے.اس سوال کو حل کرنے کے بعد ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ جب بندہ کی طرف آتا ہے تو وہ تنزل اور تشبیہ اختیار کرتا ہے ورنہ اس کی ذات وراء الورٹی ہے اور جب ایک اعلیٰ ہستی جو دراء الور کی ہو وہ محدود سے ملنے کے لئے آئے تو یقیناً وہ تدریجاً تشبیہ اور تنزل اختیار کرتی چلی جائے گی اس کے بغیر وہ اس سے کبھی مل نہیں سکے گی.پس صفات الهيه جتنی جتنی بندہ کے ساتھ تعلق زیادہ پیدا کرتی چلی جائیں گی وہ اسی قدر تنزل اور تشبیہ اختیار کرتی چلی جائیں گی اور اس کے مقابلہ میں بندہ جس قدر خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کریگا اسی قدر وہ مادیت کو چھوڑ کر وسعت اختیار کرتا چلا جائیگا.اس امر کو سمجھنے کے لئے یہ فرض کر لو کہ خدا تعالیٰ کے پاس جانے کا رستہ ایک بڑے دریا کی طرح ہے اس کا وہ نقطہ جدھر بندہ ہے اس کی مثال پہاڑ کی سی ہے اور وہ نقطہ جس طرف خدا تعالیٰ ہے اس کی مثال سمندر کی سی ہے.محدود اور چھوٹے نقطہ کی طرف دیکھو دریا چھوٹا ہوتا چلا جائے گا اور وسیع نقطہ کی طرف وسیع ہوتا چلا جائے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوگا کہ جہاں وسعت ہوگی وہاں زور کم ہوگا اور جہاں تنگی ہوگی وہاں زور ہو جائیگا اور شور بھی بڑھتا چلا جائے گا.یہی حال خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کا ہے وہ بھی جوں جوں اس نقطہ کے قریب ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے زیادہ وسیع ہوتی چلی جاتی ہیں اور ان کے اثر مخفی ہوتے چلے
۲۶۲ جاتے ہیں اور جوں جوں وہ بندوں کی طرف آتی ہیں ان کا دائرہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے اور ان کا ظہور زیادہ واضح ہوتا چلا جاتا ہے.دنیا میں تو ہم یہ قاعدہ دیکھتے ہیں کہ چھوٹی چیز بڑھ کر بڑی شکل اختیار کر لیتی ہے.جیسے بیچ درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے یہی حالت انسانی ترقی کی ہے.مگر خدا تعالیٰ کی صفات جب ظہور کریں گی تو چونکہ وہ تنزل اور تشبیہ اختیار کرتی ہیں اس لئے ان کا دائرہ تنگ ہوتا چلا جائے گا بالکل اسی طرح جس طرح دریا پہاڑ کی طرف چھوٹا ہوتا ہے یا جس طرح سورج کے لاکھوں میں انسانی آنکھ کی مناسبت سے ایک ٹکیا کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں.اس تمام قاعدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے راستہ کو دیکھیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کی صفات جب تنزیل اختیار کرتی ہیں تو جو اُن کی پہلی منزل ہوگی وہ بندہ کی آخری منزل ہوگی اور جو اُن کی آخری منزل ہوگی وہ بندہ کی پہلی منزل ہوگی کیونکہ بندہ نیچے سے اوپر جارہا ہے اور وہ اوپر سے نیچے کو آ رہی ہیں.اسی طرح یہ کہ خدا تعالیٰ کی صفات جب تنزیل اختیار کرتی ہیں تو ان کی پہلی منزل زیادہ وسیع ہوگی اور آخری سب سے تنگ.لیکن بندہ کی ترقی اس کے الٹ ہوگی اس کی پہلی منزل زیادہ محدود ہوگی اور آخری بہت زیادہ وسیع کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر رہا ہے.خدا کی بندہ کی طرف آنے کی منزلیں اس قاعدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سورۃ فاتحہ سے سیر فی اللہ کا راستہ نہایت آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے.اس سورۃ میں چار صفات الہیہ بیان ہوئی ہیں.رب العلمین، رحمن، رحیم ، ملک یوم الدین.پچھلے قاعدہ کے مطابق یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رب العلمین ان.
۲۶۳ چاروں صفات میں سے تشبیہ اور تنزل کا حصہ کم رکھتی ہے اور زیادہ وسیع ہے اس سے کم رحمانیت اس سے کم رحیمیت اس سے کم مالکیت یوم الدین.گویا جب اللہ تعالیٰ نے جو وراء الوریٰ ہے تنزیل اختیار کیا تو اس کی صفت رب العلمین ظاہر ہوئی جب اور تنزل کیا تو رحمانیت جب اور تنزیل کیا تو رحیمیت اور جب اور تنزیل کیا تو مالکیت یوم الدین کی صفت ظاہر ہوئی لیکن اس کے مقابلہ میں بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھائے گا تو وہ سب سے پہلے جس منزل پر پہنچے گا وہ مالکیت یوم الدین ہوگی اس کے بعد وہ رحیمیت اور اس کے بعد رحمانیت اور اس کے بعد ربوبیت عالمین کی منازل تک پہنچے گا گویا خدا تعالیٰ کی صفات کے تنزبل کی منازل کی پہلی منزل بندہ کے لئے آخری ہوگی اور ان کی آخری منزل بندہ کے لئے پہلی منزل ہوگی.دوسری بات مذکورہ بالا قاعدہ کی رو سے یہ معلوم ہوئی کہ ملک یوم الدین کی صفت مخفی ہے اس سے ظاہر رحیمیت کی اس سے ظاہر رحمانیت کی اور اس سے ظاہر ربوبیت کی.نت رب العلمین کا حلوہ غور کر کے دیکھ لورب العلمین کی صفت نہایت وسیع ہے وہ ساری دنیا سے تعلق رکھتی ہے.سورج، چاند جانور وغیرہ سب پر محیط ہے اور اسی وجہ سے زیادہ مخفی ہے.رب پیدا کرنے والے کو کہتے ہیں اور یہ صفت اتنی مخفی ہے کہ بعض اوقات لوگ کہہ دیتے ہیں کہ خدا نے کب کوئی چیز پیدا کی ہے اب پیدا کر کے دکھائے.پھر ربوبیت کی صفت کے ماتحت وہ میلان بھی ہے جو ماں باپ کے اندر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ماں باپ پرورش کرتے ہیں.تو گویا خدا کی ربوبیت یہ ہوئی کہ اس نے بندہ کو پیدا کیا ہے اور اس کے اندروہ طاقتیں
پیدا کی ہیں جن سے آگے انسان پیدا ہو سکے پھر جس طرح بچہ کو ماں باپ بڑھاتے ہیں کہ بڑا ہو کر ان کے کام آئے اسی طرح خدا تعالیٰ کرتا ہے.خدا نے انسان کو سمجھنے کی طاقتیں دیں ہیں تا کہ وہ ان کے ذریعہ سے اسے سمجھ سکے اور ان طاقتوں کے پیدا کرنے میں اس نے جبر سے کام لیا ہے یعنی انسان کا اختیار نہیں رکھا کہ وہ طاقتیں لے یا نہ لے بعینہ جس طرح ماں باپ بچے کو بچپن میں جبڑا تعلیم دیتے ہیں.اسی صفت کے ماتحت انسان کو انسانیت مطلقہ دی جاتی ہے.اگر خدا تعالیٰ جیزا یہ طاقتیں سب کو نہ دے تو سب انسان مکلف بھی نہ رہیں ہاں جب انسان کو سمجھ آتی ہے تو پھر یہ اس کے ارادہ پر منحصر ہے کہ وہ ان طاقتوں کو استعمال کرے یا نہ کرے جس طرح کہ ماں باپ بچے کو پڑھا دیتے ہیں آگے وہ اس علم سے کام لے یا نہ لے یہ اس کے ارادے پر منحصر ہے.چونکہ یہ صفت ہر ذرہ ذرہ سے تعلق رکھتی ہے اس لئے بوجہ اپنی وسعت کے اس قدر نمایاں نہیں اور انسان بھی اس کی طرف قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ بعض خدا تعالیٰ کو ماننے والے بھی کہہ اُٹھتے ہیں کہ کس نے کہا تھا کہ خدا ہمیں پیدا کرے.صفت رحمانیت اور رحیمیت کا جلوہ چونکہ ربوبیت کی صفت بہت مخفی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات نے اور تنزیل کیا اور صفت رحمانیت کا جلوہ دکھایا اور رحمانیت کے جلوہ میں ایسی چیزیں انسان کے لئے مہیا کیں کہ جن کی اسے ضرورت تھی.جیسے ہوا، سورج، چاند وغیرہ چونکہ یہ جلوہ زیادہ ظاہر ہے لوگ اس کی قدر نسبتا زیادہ کرتے ہیں اور یہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارے آرام کے لئے اسقدر سامان پیدا کیا ہے.مگر پھر بھی یہ صفت ایک حد تک
۲۶۵ مخفی ہی ہے کیونکہ اس کا تعلق انسانی اعمال سے نہیں ہوتا اس لئے اس کا تعلق افراد سے نہیں بلکہ جنس سے ہوتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے ایک اور منزل تیار کی اور وہ صفت رحیمیت ہے اس کے معنے ہیں کہ انسان کام کرے تو بدلا پائے جو کام نہ کرے وہ نہ پائے.اس صفت کے ماتحت خدا تعالیٰ کا تعلق افراد سے بھی قائم ہو گیا پس اس کا ظہور اور زیادہ واضح ہے.صفت مالکیت کا جلوہ پھر صفات الہیہ نے اس سے بھی تنزیل اختیار کیا اور مالک یوم الدین کے رنگ میں جلوہ کیا.ہر ایک انسان الگ الگ خدا کے حضور پیش ہوگا اس طرح خدا ہر ایک کے سامنے ہو گیا اور یہ صفت اتنی ظاہر ہوگی کہ جب قیامت کے دن لوگ خدا کے سامنے پیش ہوں گے تو نبی بھی کہیں گے نفسی نفسی ہر ایک کو اپنی اپنی فکر ہوگی، کسی اور کی فکر نہ ہوگی.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم فرماتے ہیں کہ جب ایسی حالت ہوگی تو لوگ کہیں گے نبیوں کے پاس چلو اس پر وہ آدم، نوح" ، اور موسیٰ کے پاس آئیں گے.مگر وہ نفسی نفسی کہیں گے پھر لوگ رسول کریم کے پاس آئیں گے اور آپ ان کی سفارش کریں گے اور یہ سفارش خدا کے وعدہ کے مطابق ہوگی نہ کہ اپنے زور سے تب لوگوں کا خطرہ دور ہوگا ہیں بندہ کا خدا تک پہنچنا اب جب بندہ اوپر چڑھے گا تو پہلے مالک کی صفت پر پہنچے گا.پھر رحیمیت پھر رحمانیت پھر ربوبیت کی صفت پر اور پھر خدا کو دیکھ لے گا.بخاری کتاب الانبیاء باب قول الله تعالی عزّ وجل ولقد ارسلنا نُوحًا إلى قومه
۲۶۶ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ بندہ کس طرح ان صفات کو اختیار کرے؟ اور یہ سوال نہایت اہم اور قابل توجہ ہے.پہلا جس قدر مضمون تھا وہ درحقیقت اس مضمون کے لئے بطور تمہید کے تھا.بندہ کا ملک یوم الدین بننا یا درکھنا چاہئے کہ بندہ سب سے پہلے ملک یوم الدین کی صفت کو حاصل کر سکتا ہے ملک یوم الدین کے معنی ہیں جزا و سزا کا فیصلہ کرنا اور حج بنا.اس کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ بندہ کے اندر جج بننے کی قابلیت ہے یا نہیں.سو ہم جب انسان کی قوتوں پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر بندہ ملک یوم الدین ہے اور وہ اس طرح کہ ہر انسان جب کسی کو کوئی کام کرتے دیکھتا ہے تو معا اس کے متعلق ایک رائے لگا لیتا ہے خواہ کوئی چھوٹا بچہ ہو یا بڑا معتمر انسان ، زمیندار ہو یا تعلیم یافتہ ، جب بھی کسی کو کوئی کام کرتے دیکھتا ہے تو اس پر رائے لگا لیتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں جج بنے کی قابلیت رکھی ہے خواہ کوئی ادنی ہو یا اعلیٰ پڑھا لکھا ہو یا آن پڑھ، اس کے اندر یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ جھی کرتا ہے.کبھی کسی کو نیک قرار دیتا ہے کسی کو بد، کسی کو شرارتی بناتا ہے، کسی کو بھلا مانس.یہ ممکن ہی نہیں کہ انسانی آنکھوں کے سامنے سے کوئی چیز گزرے یا کسی اور حسن کے ذریعہ سے کسی امر کا علم ہو اور اس کے متعلق انسان کوئی فیصلہ نہ کرے.پس ہر انسان حج ہے مگر یہ انسانی حالت مخفی ہے کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ دوسرا شخص اس پر حج بن رہا ہے جس طرح خدا کی رب العلمین والی صفت مخفی تھی اسی طرح بندہ کی مالکیت یوم الدین والی صفت مخفی ہوتی ہے.
یہ مالکیت ایسی ہے کہ اسے کوئی بادشاہ بھی نہیں چھین سکتا اور اس کا نام حریت ضمیر ہے.بادشاه مال چھین سکتے ہیں، جائدادیں چھین سکتے ہیں، وطن سے نکال سکتے ہیں لیکن با وجود اس کے اس جی کی صفت کو نہیں چھین سکتے.اگر پھانسی پر بھی چڑھا دیں گے تو اس وقت بھی پھانسی پر چڑھنے والے کا دماغ کام کر رہا ہوگا اور فیصلہ کر رہا ہوگا کہ یہ بادشاہ ظالم ہے یا انصاف کے ماتحت اسے پھانسی دے رہا ہے.یہ صفت در حقیقت خدا تعالیٰ کا ایک جلوہ ہے جو انسان میں پایا جاتا ہے.اب یہ تو معلوم ہو گیا کہ خدا نے انسان کو ملک یوم الدین بنانے کی طاقت اس میں رکھی ہے مگر اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات تو مؤمن وکا فرسب میں پائی جاتی ہے پس یہ سیر فی اللہ کا زینہ کس طرح بن سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ طاقت لقاء تو سب میں رکھی گئی ہے ہاں سیر کے لئے اس طاقت کو خاص طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور چونکہ لقائے الہی خدا تعالیٰ کی صفات کی مشابہت سے حاصل ہوتا ہے اس لئے سیر فی اللہ کے لئے ضروری ہوگا کہ سب سے پہلے انسان اس جی کی مخفی طاقت کو اسی طرح استعمال کرے جس طرح کہ خدا تعالیٰ اپنی صفت مالکیت کو استعمال کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی صفت ملک یوم الدین کس طرح عمل کرتی ہے؟ قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی صفت ملک یوم الدین کو مندرجہ ذیل اُصول کے مطابق استعمال فرماتا ہے.اول اصل اس صفت کے اجراء کے متعلق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہر چیز کے تمام پہلوؤں کو جان کر فیصلہ کرتا ہے، بے جانے کوئی
۲۶۸ فیصلہ نہیں کرتا.اب جو شخص خدا تعالیٰ کی اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہے اسے چاہئے کہ غور کرے کہ کیا وہ بھی اسی طرح کرتا ہے یا وہ جو نہی سنتا ہے کہ فلاں شخص نے چوری کی ہے تو کہہ دیتا ہے کہ تب تو وہ بہت بُرا ہے.لیکن خدا تعالیٰ اس طرح نہیں کرتا اس لئے خدا کی قضاء اور بندہ کی قضاء میں بہت بڑا فرق ہے.وہ سارے حالات معلوم کر کے فیصلہ کرتا ہے اور انسان یو نہی فیصلہ کرنے بیٹھ جاتا ہے.جس طرح روز مرہ ہر انسان فیصلہ کرنے لگ جاتا ہے سب مجسٹریٹ اسی طرح کرنے لگ جائیں تو دنیا میں اندھیر بچ جائے.کوئی کسی کے متعلق جا کر کہے کہ فلاں نے چوری کی ہے اور مجسٹریٹ سنتے ہی فورا اس شخص کو قید کر ڈالے تو کس قدر ظلم برپا ہو جائے.پس اپنے نفس میں سوچو کہ وہ قضاء جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے اس کو تم کس طرح استعمال کرتے ہو.اگر خدا تعالیٰ جس طرح اپنے حج ہونے کی صفت کو استعمال کرتا ہے اسی طرح نہیں کرتے تو اس کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتے اور اگر اس کی طرف قدم بڑھانا چاہتے ہو تو چاہئے کہ اپنے دماغ کے گوشوں میں بھی کسی کی نسبت بغیر تحقیق و تدقیق کوئی خیال نہ آنے دو جب تک پہلے کامل تحقیق نہ کرلو.جس کا قصور ہو اسی کو سزا دو دوسری اور تیسری خصوصیت خدا تعالیٰ کے فیصلہ میں یہ پائی جاتی ہے کہ جس کام کا جرم ہوتا ہے اور جس کے متعلق فیصلہ کرنا ہوتا ہے اسے دوسروں کے جرموں کی وجہ سے نہیں پکڑتا اور نہ دوسروں کو اس کی بجائے پکڑتا ہے.پس اس شخص کو جو خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کو اپنے اندر جلوہ گر کرنا چاہتا ہے سوچنا چاہئے کہ کیا وہ بھی اس طرح کرتا ہے کیا وہ اس طرح تو نہیں کرتا کہ جب اسے کسی شخص سے نفرت پیدا ہوتی ہے تو اس کے بھائی سے بھی
۲۶۹ نفرت کرنے لگ جاتا ہے.اسے یادرکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ جس کا قصور ہوتا ہے اسی کو سزا دیتا ہے.پس صفت مالکیت میں خدا تعالیٰ کے ساتھ مشابہت پیدا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس کی نسبت کوئی فیصلہ کرنا ہو اپنے فیصلہ کو اسی کی نسبت محد و در کھونہ کہ اس کی وجہ سے اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی برا سمجھو اور نہ یہ کرو کہ دوسروں کے جُرم کی وجہ سے اسے پکڑو.حرم کے مطابق سزا دو چوتھی خصوصیت خدا تعالیٰ کی قضاء میں یہ ہے کہ وہ جس قدر جرم کسی کا ہو اتنی ہی سزا دیتا ہے.سالک کو چاہئے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے یہ نہ ہو کہ مثلاً اسے کسی نے گالی دی اور وہ اس کے بدلہ میں یہ خواہش کرے کہ اگر بس چلے تو اسے مار دوں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرح اگر سزا دینی ہی پڑے یا رائے قائم کرنی ہو تو جرم کے مطابق ہی سزا دے یا رائے قائم کرے.فیصلہ کرتے وقت میزان رکھو پانچویں بات خدا تعالیٰ یہ کرتا ہے کہ جب فیصلہ کرتا ہے تو میزان رکھتا ہے یعنی یہ دیکھتا ہے کہ جرم تو کیا مگر کس حالت میں؟ ایک شخص نے چوری سے کسی کی روٹی کھائی یہ جرم ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے جرم کا فیصلہ کرتے وقت یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس نے کس حالت میں وہ روٹی کھائی ہے آیا دوسرے کے مال پر تصرف کرنے کے لئے یا یہ کہ وہ بھوک سے مجبور تھا اور اور کوئی ذریعہ پیٹ بھرنے کا اسے معلوم نہیں تھا.پس جو سالک ہو اُسے بھی چاہئے که اسی طرح کرے یہی نہ دیکھے کہ کسی نے کیا جرم کیا ہے بلکہ اس کے حالات اور مجبوریوں
۲۷۰ کو بھی دیکھے اور اندھا دھند فیصلہ نہ کرے.خدا تعالیٰ ہمیشہ ہر کمزوری کی وجہ کو مدنظر رکھتا ہے مثلاً ایک شخص جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود کا پتہ نہ ہو خدا کا قانون اسے کا فر تو قرار دے گا مگر خدا تعالٰی اسے اس وجہ سے سزا نہیں دے گا کیونکہ بوجہ علم نہ ہونے کے اس کے لئے ناممکن تھا کہ ایمان لا سکے.سفارش نہ سنو چھٹی بات خدا تعالیٰ یہ کرتا ہے کہ کسی کے خلاف کسی کی سفارش نہیں سنتا تمہارے لئے بھی ضروری ہے کہ کسی کے کہنے پر کسی کے متعلق فیصلہ نہ کرو تمہیں خود خدا نے بج بنایا ہے تم کسی کی کیوں سنو.ہر فیصلہ میں رحم کا پہلو غالب ہو ساتویں بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا امور کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنے کے باوجود خدا تعالیٰ جب فیصلہ کرتا ہے تو اس میں رحم کا پہلو غالب رہتا ہے.ذرا گنجائش نکل آئی جھٹ معاف کر دیا تمہیں بھی کسی کی برائی معلوم ہو جو ادنی اور معمولی ہو تو برائی کا فیصلہ ہی نہ کرو بلکہ اس کی نیکیوں کو دیکھ کر شی الوسع اس کی طرف نیکی منسوب کرو.صفت مالکیت پیدا کرنے کا نتیجہ یہ سات باتیں ہیں جن کا خیال خدا تعالیٰ صفت مالکیت کے اظہار کے وقت رکھتا ہے.اگر بندہ بھی ان کو مدنظر رکھے تو آہستہ آہستہ اس کے اندر صفت ملک یوم الدین قائم
۲۷۱ ہو جائے گی اور اسے خدا تعالیٰ سے ایک مشابہت حاصل ہو جائے گی.جب بندہ یہ استعداد پیدا کر لیتا ہے تو وہ مادہ کی طرح ہو جاتا ہے گویا اس میں ترقی کرنے کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس وقت خدا تعالیٰ کی صفت ملک یوم الدین جو اس درجہ کے آدمی کے لئے منبع فیض ہے اس پر اپنا پر تو ڈالتی ہے اور اس کی روح میں نئی طاقتیں پیدا کر دیتی ہے.حضرت مسیح موعود نے جو یہ لکھا ہے کہ میں پہلے مریم بنا اور پھر عیسی بنا اس کا یہی مطلب ہے کہ آپ کے اندر پہلے خدا تعالیٰ کی صفات کا اثر قبول کرنے کی قابلیت پیدا ہوئی بعد میں خدا تعالیٰ کے بالمقابل صفت کے اتصال سے نئی قوتیں حاصل ہوئیں جو عیسوی قوتوں سے مشابہ تھیں یا اس حالت کی مثال تیار شدہ زمین کی سمجھ لو.جب سالک کی حالت اس طرح کی ہو جاتی ہے تو خدا تعالیٰ کی ملک یوم الدین والی صفت اس پر اثر ڈالتی ہے بعینہ اسی طرح جس طرح مرد عورت ملتے ہیں یا زمین اور بیچ ملتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی صفات ایسی نہیں کہ وہ کسی پر پر تو ڈالیں اور نتیجہ نہ نکلے اس لئے جب ان کا ظہور ہوتا ہے تو انسان کے اندر ضرور ہی نئی طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے.یہ جو میں نے بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت اس پر جلوہ کرتی ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ جس طرح یہ لوگوں سے عفو کا معاملہ کرتا تھا خدا تعالیٰ بھی اس سے عفو کا معاملہ کرتا ہے اور چونکہ گناہ ہی ایک ایسی زنجیر ہے جو انسان کی روحانی ترقی کی رفتار کو سست کرتی رہتی ہے جب یہ زنجیر کھل جاتی ہے تو انسان کی روحانی ترقی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے.دنیا وی سفر میں تو یہ ہوتا ہے کہ پہلے لوگ تیز چلتے ہیں اور پھر جوں جوں تھکتے جاتے ہیں آہستہ چلنے لگتے ہیں مگر خدا کی منزلیں
۲۷۲ ایسی ہیں کہ پہلے انسان آہستہ چلتا ہے اور پھر تیز کیونکہ اسے ہر قدم پر نئی طاقت ملتی جاتی ہے.صفت مالکیت پیدا کرنے کا فائدہ اگر لوگ ملک یوم الدین کی صفت کو اپنے اندر پیدا کر لیں تو پھر سارے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں.لوگوں میں لڑائی اس لئے ہوتی ہے کہ وہ نجی کی طاقتوں کو غلط طور پر استعمال کرتے ہیں اگر انہیں صحیح طور پر استعمال کریں تو کبھی لڑائی نہ ہو.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر زیادہ اللہ ہوں تو فساد ہو جائے اور ادھر فرماتا ہے کہ بحر و بر میں فساد پیدا ہو گیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت زیادہ الہ بن گئے تھے یعنی لوگ خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کے ماتحت اپنی قضاء کو کرنے کی بجائے اس صفت کو مستقل طور پر استعمال کرنے لگ گئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی اور فساد پیدا ہو گیا.اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ فساد ہمیشہ خدا تعالیٰ کی صفات سے علیحدگی اور مستقل پالیسی اختیار کرنے سے پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح نے کہا ہے جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لئے بھی پسند نہ کرو.اگر کوئی یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کا مال چھائے تو اس کو بھی چاہئے کہ کسی کا نہ چھائے.اسلام نے بھی ایسی باتیں کہی ہیں مگر ادنی درجہ کے لوگوں کے لئے اور اعلیٰ لوگوں کے لئے یہ کہا ہے کہ یہ نہ دیکھو دوسرا کیا کرتا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ خدا کیا کرتا ہے جو کچھ خدا کرتا ہے وہی تم کرو خدا چونکہ غلطی نہیں کرتا اس لئے انسان جب اس کی اتباع کرے گا تو وہ بھی غلطی سے بچ جائے گا.
۲۷۳ بندہ کا درجہ رحیمیت پانا صفت مالکیت بیج کی طرح ہے اس سے اوپر رحیمیت کا درجہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کام سے بڑھ کر بدلا دینا.پہلے وہ سات باتیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں جو او پر بیان کی گئی ہیں اور یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ ان کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے نہ ان سے باہر جائیں گے نہ ان کو چھوڑیں گے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا سالک کے گناہ مٹاتا جائے گا اور اگر کوئی غلطی ہوگی تو اسے نظر انداز کر دے گا اور اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ اس کے دل میں بدی سے نفرت پیدا ہو جائے گی.اس کے بعد رحیمیت کی مشابہت میں یہ عادت پیدا کرنی چاہئے کہ ہر کام کرنے والے کو اس کے حق سے زیادہ دیا جائے.مثلاً ایک شخص کسی کا نوکر ہو وہ یہ فیصلہ کرے کہ میرا مالک جو تنخواہ مجھے دیتا ہے اور اس کے بدلے جتنے کام کی اُمید مجھ سے رکھتا ہے اس سے زیادہ کام میں کروں گا اور مالک یہ فیصلہ کرے کہ اس کام کی جتنی تنخواہ مقرر ہوئی ہے میں اس سے زیادہ سلوک ملازم سے کروں گا.اگر آقا اور نوکر دونوں ایسے ہوں کہ اس اصل پر چلیں تو یہ بھی ایک قسم کا مقابلہ ہوگا مگر کیسا عجیب مقابلہ ہو گا جو صلح اور امن پیدا کر دے گا.صحابہ میں اس قسم کے واقعات ہوتے تھے.ایک دفعہ ایک صحابی اپنا گھوڑا بیچنے کے لئے آئے اور ایک دوسرے صحابی اسے خرید نے لگے.گھوڑے کے مالک نے مثلاً دو ہزار درہم قیمت بتائی اور لینے والے نے تین ہزار درہم.بیچنے والا اس پر مُصر تھا کہ میں دو ہزار سے زیادہ نہ لوں گا کیونکہ میرا گھوڑا اس سے زیادہ قیمت کا نہیں ہے لیکن گھوڑ ا خریدنے والا کہتا تھا کہ میں تین ہزار سے کم نہ
۲۷۴ دوں گا کیونکہ یہ گھوڑا اس سے کم قیمت کا نہیں ہے.اگر ساری دنیا کے لوگوں کی یہی حالت ہو تو خیال کرو کہ دنیا کیسی خوبصورت بن جائے گی ؟ یا مثلاً ایک مزدور ہے جو سمجھتا ہے کہ اتنی مزدوری میں مجھے اتنا کام کرنا چاہئے وہ اس سے زیادہ کرے اور جس نے اسے لگایا ہو وہ مقررہ مزدوری سے کچھ زیادہ دیدے یہی اصول زندگی کے ہر شعبہ میں برتنے کی کوشش کی جائے.مگر سوال ہوسکتا ہے کہ ایک غریب شخص ہے وہ کیا کرے یا زمیندار ہے وہ کیا کرے؟ اس کے متعلق میں زمینداروں ہی کی مثال دیتا ہوں.مثلاً ایک زمیندار ہے جب وہ کھیت کاٹنے کے لئے لوگوں کو لگائے اور کہے کہ میں کاٹنے والوں کو اس اس قدر غلہ دوں گا اب اگر وہ اس غلہ سے زیادہ دے یا روٹی کھلا دے تو وہ گویا اس صفت پر عمل پیرا ہو جائیگا.یا مثلا گئے چھیلنے پر لگایا اور اس کے لئے مزدوری مقرر کی جو ادا کر دی گئی مگر چلتے وقت اسے بچوں کے لئے گنے دے دیئے یا رس دیدی ،شکر دیدی، یہ رحیمیت ہوگی.خواہ کتنی ہی تھوڑی چیز مزدوری سے زائد دی جائے وہ اس صفت کے ماتحت آئے گی.پس تم میں سے ہر شخص اس صفت کو استعمال کر سکتا ہے.اگر امیر ہے تو بدلا دینے میں زیادہ دے سکتا ہے اور اگر نوکر ہے تو کام کرنے میں زیادتی کر سکتا ہے.مگر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ کسی کے نوکر ہو سکتے ہیں نہ ان کے کوئی نوکر ہو سکتے ہیں.جیسے نابینا وغیرہ ان کی بھی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ جو اچھے کام کرنے والے لوگ ہیں انکی لوگوں میں قدر بڑھا ئیں.اس طرح کام کرنے والوں کا دل بڑھتا ہے اور وہ اور زیادہ اچھا کام کر سکتے ہیں.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی کا دل بڑھانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.لوگ اچھی رائے حاصل کرنے کے لئے بہت سا مال و دولت خرچ کر
۲۷۵ دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے ایک انگوٹھی بنوائی وہ اسے دوسری عورتوں کو دکھانے کی بہت کوشش کرتی رہی مگر کسی نے توجہ نہ کی.آخر اس نے اپنے مکان کو آگ لگا دی اور جب عورتیں افسوس کرنے کے لئے اس کے پاس آئیں اور پوچھا کچھ بچا بھی تو کہنے لگی اس انگوٹھی کے سوا اور کچھ نہیں بچا.ایک عورت نے پوچھا یہ تم نے کب بنوائی تھی؟ یہ تو بہت ہی خوبصورت ہے اس نے کہا اگر کوئی پہلے یہی بات کہہ دیتا میرا گھر کیوں جلتا.غرض صرف منہ کی بات بھی بڑا اثر رکھتی ہے.کسی کو ایک کام کرنے پر سور و پیہ دو لیکن ساتھ ہی اس کی مذمت کر دو تو اسے بھی خوشی نہ حاصل ہوگی یا چپ رہو تو بھی اس کا حوصلہ پست ہو جائے گا.پس جو قو میں خدا کی رحیمیت کو جذب کرنا چاہتی ہیں، ان کا کام ہے کہ خود رحیم بنیں، جو اُن کے کارکن ہوں ان کی قدر کریں ، ان کے کام کی تعریف کریں.زبان سے بدلا دینا معمولی بات نہیں ہوتی بلکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں مگر اس پر عمل کرنے میں کسی کا کچھ خرچ نہیں ہوتا.جو کوئی مفید کام کرتا ہے تمہارا فرض ہے کہ اس کی تعریف کرو.ہماری جماعت میں ابھی یہ بات پیدا نہیں ہوئی.ایک شخص ولایت میں دین کی خدمت کر رہا ہوتا ہے اس کی بیوی بچے یہاں پڑے ہوئے ہوتے ہیں جیسے تمہاری بیویوں کو خواہشات ہوتی ہیں اسی طرح اس کو بھی ہوتی ہے مگر اس کی بیوی تنہا سوتی اور تنہا ہی اُٹھتی ہے.اس کے بچے لاوارثوں کی طرح باپ کی محبت کو ترس رہے ہوتے ہیں کوئی ان کے پاس نہیں ہوتا.ادھر مبلغ اپنی جگہ پر تنہا ہوتا ہے وہ دین کا کام کر کے جب اپنے مکان میں جاتا ہے تو اسے یہ توقع نہیں ہوتی کہ مکان میں کوئی اس کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہوگا بلکہ اسے خود ہی آکر سب کچھ کرنا پڑتا ہے مگر لوگ ان باتوں کی ذرہ بھر بھی قدر نہیں کرتے
اور اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو عیب نکالنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.وہ عیب کو تو دیکھتے ہیں مگر خوبیوں کی طرف توجہ نہیں کرتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض کا رکن شست ہو جاتے ہیں.اگر حوصلہ بڑھایا جائے تو سب کا رکن کام کرنے لگ جائیں.پس جو کام کریں ان کی قدر کرنی چاہئے.میں خصوصا قادیان کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کام کرنے والوں کی قدر کی عادت ڈالو.لوگوں کی فکروں، ذمہ داریوں اور مشکلوں کو نہ دیکھنا اور اعتراض کرتے جانا صفت رحیمیت کے خلاف ہے.پس رحیمیت کو پیدا کرو اور اس کا استعمال ہر ایک شخص کر سکتا ہے، غریب سے غریب بھی کر سکتا ہے.خاص اپنے متعلق بھی اور عام بھی کہ جو اچھا کام کرتا ہے اس کی تعریف کر دی جائے.پھر علاوہ تعریف کے خدا کے ہاں اس کے لئے دُعا مانگو کہ وہ اچھا کام کر رہا ہے میرے پاس تو اسے دینے کیلئے کچھ نہیں اے خدا ! تُو ہی اپنے پاس سے اسے دے.غرض مزدور اپنے آقا کا زیادہ کام کرے اور آقا مزدور کو مزدوری سے زیادہ دے.پھر جو دین کا کام کرنے والے ہیں ان کے کام کی قدر کی جائے اور اس سے بھی بڑھ کر تعریف کی جائے جتنا کہ وہ کام کرتے ہیں.نیکی پر خوشی کا اظہار کیا جائے تب جا کر صفت رحیمیت سے مناسبت پیدا ہوتی ہے اور خدا سے تشابہ پیدا ہوتا ہے اور غیریت جاتی رہتی ہے اور جنس کو جنس سے تعلق ہو جاتا ہے اور یہ صفت خدا تعالیٰ کو انسان کی طرف کھینچتی ہے اور اس کی صفت رحیمیت انسان پر جلوہ کرتی ہے اور اس جلوہ کے ماتحت اس کا ثواب بہت زیادہ ہو جاتا ہے.وہ نماز ایک پڑھتا ہے تو ثواب ننو کا ہوتا ہے اور اس طرح وہ کہیں کا کہیں نکل جاتا ہے لیکن جو خود رحیم نہیں ہوتا وہ خواہ سارا دن نماز پڑھتا
۲۷۷ رہے وہ وہیں کا وہیں رہتا ہے.صرف اسی شخص کے حق میں کہ جو خو د رحیم بنتا ہے خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت جوش میں آتی ہے اور خدا تعالیٰ کہتا ہے میں بھی اسے بڑھ کر دوں اور ایسے شخص کو اعلیٰ مقام مل جاتا ہے لیکن جس کے اندر رحیمیت نہیں ہوتی وہ سارا سال نمازیں پڑھتار ہے تو بھی اسے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.مثلاً ایک روحانی مقام اگر پچاس سال کی نمازوں کے بعد ملتا ہو تو جو اپنے نفس میں رحیمیت پیدا نہیں کرتا وہ تو اگر ایک سال نمازیں پڑھے گا تو اس کا ایک ہی سال گزرے گا اور انچاس باقی رہیں گے لیکن وہ جس میں رحیمیت کی صفت ہوگی ایک سال نمازیں پڑھ کے پچاس سال کا ثواب حاصل کرے گا کیونکہ اس کے نفس کی رحیمیت خدا کی رحیمیت کو کھینچے گی اور خدا تعالیٰ کی رحیمیت کا تقاضا ہے کہ بندہ کے تھوڑے کام پر زیادہ بدلہ اور بار بار بدلہ دے.پس اس صفت کے ذریعہ سے انسان تھوڑے عرصہ میں بڑے بڑے در جے حاصل کر لیتا ہے.بندہ کا درجہ رحمانیت پانا جب خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت انسان کی صفت رحیمیت سے ملتی ہے تو اس میں اور نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ گویا پھر ایک رُوحانی جنم لیتا ہے اور رحمانیت کے مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے.رحمانیت کے معنی ہیں کہ کسی نے کچھ کام نہ بھی کیا ہو تو بھی اس سے نیک سلوک کرنا.جیسے خدا تعالیٰ نے سورج ، چاند، زمین، آسمان، ہوا، پانی پیدا کئے ہیں یہ انسان کے کسی عمل کے نتیجہ میں نہیں ہیں بلکہ اگر یہ نہ ہوتے تو انسان زندہ ہی نہیں رہ سکتا.بندہ کا تیسر ا مقام اسی صفت کا حصول ہے اور وہ اس طرح کہ یہ پہلے تو صرف ان لوگوں سے
۲۷۸ حُسنِ سلوک کرتا تھا جو اس کا کام کرتے تھے اب یہ کوشش کرتا ہے کہ جن سے اس کو کوئی بھی فائدہ نہیں ان سے بھی نیک سلوک کرے.اس صفت کا حصول بھی غریب امیر سب کے لئے ممکن ہے.قادیان میں ایک مخلص نابینا تھے حافظ معین الدین ان کا نام تھا.انہیں اتنا تو کل حاصل تھا کہ کسی کو کم ہی ہو گا غریب آدمی تھے.لنگر خانہ کی روٹی پر ان کا گزارہ تھا اور لوگ انہیں نا بینا سمجھ کر کبھی کبھی کچھ مدد کر دیتے تھے وہ باوجود نا بینا ہونے کے ادھر ادھر پستہ لگاتے رہتے تھے کہ کسی کے گھر فاقہ تو نہیں یا اور کوئی تکلیف تو نہیں؟ اور اگر کوئی تکلیف زدہ انہیں معلوم ہوتا تو اپنی روٹی لے جا کر اسے دے آتے.یا اگر ان کے پاس پیسے ہوتے تو وہ دے دیتے.ان کے اس قسم کے بہت سے واقعات مجھے معلوم ہیں.پس اس صفت کی مشابہت پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی مالدار ہی ہو غرباء بھی اپنے ذرائع کے مطابق رحمانیت کا جامہ پہن سکتے ہیں اور بغیر کسی چھلی خدمت کے صلہ یا آئندہ کی امید کے نیکی کر سکتے ہیں.مثلاً ایک شخص مدرسہ میں ملازم ہے اگر وہ کہے کہ میں اپنے سارے وقت کے پیسے ہی وصول کروں تو یہ رحمانیت نہیں ہوگی.جیسے مدرسہ والے عام طور پر کرتے ہیں کہ ملازمت کے وقت سے باہر بھی کسی غریب کو مفت نہیں پڑھا سکتے.رحمانیت یہ ہے کہ جبکہ اپنے وقت کے ایک حصہ میں وہ اپنی معیشت کا سامان پیدا کر لیتے ہیں تو دوسرے وقت میں وہ بعض غرباء کو بغیر صلہ کی امید کے نفع پہنچا دیں.ایک عالم اسی طریق پر اپنے علم کو خرچ کرے.ایک مالدار ا پنا مال خرچ کرے اور یہ سمجھے کہ میں تو ایک سوراخ کے طور پر ہوں جس میں سے خدا ہاتھ ڈال کر دوسرے لوگوں کو دے رہا ہے.جو لوگ اس مقام پر پہنچ جائیں ان پر خدا کا فیضان پھر تیسری بار نازل ہوتا ہے اور اس دفعہ خدا کی رحمانیت ان کے لئے ظاہر ہوتی ہے.
۲۷۹ بنده خدا کا مہمان گویا ایسے بندے خدا کے مہمان ہوتے ہیں اور وہ ہر منزل پر ان کا استقبال کرتا ہے.جب انسان مالکیت کی منزل پر ہوتا ہے تو خدا مالکیت کی شکل میں آتا ہے اور کہتا ہے آئے.جب رحیمیت کی منزل پر ہوتا ہے تو خدا رحیمیت کی شکل میں آتا ہے اور کہتا ہے آئے.جب انسان رحمانیت کی منزل پر ہوتا ہے تو اللہ جل جلالہ رحمانیت کی صورت میں آتا ہے اور فرماتا ہے آئیے.رحمانیت کا مقام ایک نہایت ہی وسیع مقام ہے.اس مقام پر کئی کئی باتیں انسان کو بتائی جاتی ہیں اور رحمانیت کے ساتھ جو ہدایت تعلق رکھتی ہے وہ سکھائی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الرَّحْمٰنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ (الرحمن:۳،۲) رحمن نے قرآن سکھایا ہے.یعنی کلام الہی کا نزول صفت رحمانیت سے تعلق رکھتا ہے.اس مقام والا پیچھے نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ نئے نئے اخلاق اسے سکھاتا ہے اور نئے نئے ترقی کے سامان اسے دیتا ہے.رب العالمین بننا صفت رحمانیت کو حاصل کرنے پر جب بندہ پر خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت جلوہ کرتی ہے تو اس میں پھر ایک نیا جوش پیدا ہوتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اور اوپر چڑھے اس وقت اس کے لئے اگلی منزل آسان ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ آؤ اب میں رب العالمین کی صفت کا بھی جلوہ گاہ بنوں.رب کا کام جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ماں باپ کے کام سے مشابہ ہوتا ہے.ماں باپ یہ نہیں کیا کرتے کہ دُودھ گھر میں رکھ
۲۸۰ دیں کہ بچہ آپ تلاش کر کے پی لے گا بلکہ وہ یہ کرتے ہیں کہ بچہ کو خود تعتمد دودھ پلاتے ہیں اور اگر وہ نہ پئے تو حیرا پلاتے ہیں.اسی طرح جب بندہ اس مقام پر آتا ہے تو لوگوں کے پیچھے پڑپڑ کر انہیں ہدایت منواتا ہے اور اسی پر کفایت نہیں کرتا کہ صرف وعظ کر دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آتا ہے کہ آپ ایک دفعہ طائف میں تشریف لے گئے وہاں کے لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے اور آپ واپس آگئے.آتے ہوئے رستہ میں ایک جگہ ستانے لگے باغ والے نے اپنے غلام کے ہاتھ کچھ میوہ آپ کے لئے بھیجا آپ نے میوہ کی طرف تو کم ہی توجہ کی اس غلام ہی کو تبلیغ کرنے لگ گئے اور آپ کا یہ ہمیشہ دستور تھا کہ جہاں مکہ کے لوگ جمع ہوتے آپ وہاں چلے جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے.حج کے لئے جو لوگ آتے ان کے خیموں میں تشریف لے جاتے اور انہیں تبلیغ کرتے اور اس طرح نہیں کہ کوئی مل گیا تو اسے تبلیغ کر دی بلکہ آپ تلاش کرتے پھرتے اور ڈھونڈ کر انہیں حق پہنچاتے جس طرح ماں باپ بچے کو تلاش کر کر کے کھلاتے پلاتے ہیں کہ بھوکا نہ رہ جائے.غرض اس صفت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے یہ معنے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو دُنیا کا باپ یا ماں فرض کرے اور لوگوں کے فائدے کا خود خیال رکھے اور خواہ لوگ اس کی بات نہ بھی مانیں تب بھی ان کے پیچھے پڑا رہے.جب انسان اپنے قلب کو ایسا بنالیتا ہے تو ایسے آدمی کو ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم اس سے کچھ لے سکتے ہیں ان پر وہ جبر بھی کر سکتا ہے اور سزائیں بھی دے لیتا ہے اور اسی طرح ان کی تربیت کرتا ہے اور ان کی اصلاح کرتا ہے.وہ کچھ لوگوں کو منتخب کر کے ان کو سکھاتا سیرت ابن ہشام عربی جلد نمبر ۲ صفحه ۶۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۸۱ ہے.جب وہ مرجاتا ہے تو جن کو اس نے سکھایا ہوتا ہے وہ دوسروں کو سکھاتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے اور وہ اسی نسل کا باپ نہیں ہوتا جس کو سکھاتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کا بھی باپ ہوتا ہے.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی ہمارے باپ ہیں جس طرح کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے باپ تھے.اس مقام کا انسان اپنی ہمدردی کو کسی مذہب کے آدمیوں سے محدود نہیں کرتا بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کا ہمدرد ہوتا ہے اور سب کا سچا خیر خواہ ہوتا ہے.رب العالمین کا کامل مظہر یہ وہ مقام ہے جس کے کامل اور اکمل مظہر محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم تھے اور آپ کے سوا اور کوئی نہیں.وجہ یہ ہے کہ رب العالمین کا کامل مظہر وہی ہوسکتا ہے جو پہلوں کی بھی تربیت کرے اور پچھلوں کی بھی اور یہ مقام سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کو حاصل نہیں.آپ ہی ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب آدم ابھی مٹی میں تھا اس وقت میں خاتم النبیین تھا یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس لئے پہلوں کی تربیت کرنے والے نہیں کہ آپ نے براہ راست ان کو سکھا یا بلکہ اس لئے کہ پہلے نبی اس لئے آئے تھے کہ لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نقطہ تک لے جائیں.پس رسول کریم ہی کامل طور پر رب العالمین کی صفت کے مظہر تھے اور یہی وہ درجہ ہے جس کا پانے والا الحمد کا مستحق ہوتا ہے اور اسی لئے رسول کریم کا نام محمد رکھا گیا کہ سب تعریفیں آپ میں جمع ہو گئیں اور یہ ناممکن تھا کہ بغیر محمد نام کے خاتم النبیین نبی ہوتا پس آپ کا نام بھی آپ کے خاتم النبیین ہونے پر دلالت کرتا ہے.مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۱۲۸،۱۲۷
۲۸۲ رب العالمین کا دوسر اقل مسیح موعود ہیں غرض رسول کریم صفات الہی کا کامل مظہر ہیں مگر مسیح موعود بھی بوجہ اس کے کہ وہ آپ کا کامل ظل ہے آپ کے ٹور کو حاصل کر کے ظلمی طور پر اس مقام کا مظہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا کہ مجھ پر ایمان لائے بغیر کوئی خدا تک نہیں پہنچ سکتا.گویا رسول کریم کی اتباع کا صحیح راستہ آپ کو ہی معلوم تھا اور کسی کو نہیں.آپ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے لوگوں کے لئے راہنما تھے کیونکہ مقام محمد سی کی ترقی کا آخری نقطہ آپ تھے اور درمیانی اولیاء امت محمدیہ کو آپ ہی کے نقطہ کی طرف لا رہے تھے اور آپ پہلی قوموں کے لئے اس لئے بھی تربیت کرنے والے ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر ہی اللہ تعالیٰ نے سب نبیوں کی پیشگوئیوں کو پورا کر کے ان کی سچائیوں کو ظاہر کیا اور آپ ہی کے ذریعہ سے سب دنیا کے نبیوں کی تصدیق کرائی اور تعصب قومی کو دور کرایا گیا آپ ہی نے کرشن اور رام چندر کی صداقت کو ظاہر کیا جس طرح کہ دوسرے نبیوں کی صداقت کو آپ نے ظاہر کیا.گو کہ اس وجہ سے آپ پر کفر کا فتوی بھی لگا لیکن جو کچھ ہے ظلی ہے ورنہ حقیقی طور پر جو شخص اگلوں پچھلوں پر روشنی ڈالتا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودہی ہے.جو شخص اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اس پر اس مقام کی نسبت سے رب العالمین کی صفت نازل ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ تب یہی عالمین قرار دیدیا جاتا ہے اور خدا اس کا رب ہو جاتا ہے.جو شخص اس سے تعلق کرتا ہے خدا تعالیٰ کی کامل ربوبیت کا وہی مستحق ہوتا ہے اور جو اس سے قطع تعلق کرے وہ گویا خدا کے عالموں میں سے نکل جاتا ہے یعنی اس کی کامل ربوبیت نہیں ہوتی اور اس نکتہ میں کفر اور اسلام کا راز مضمر ہے
۲۸۳ انتہائی مدارج گوئیں نے یہ بتایا ہے کہ اس صفت کے کامل مظہر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر یہ بات نہیں کہ اور کوئی اس کا مظہر نہیں ہے بلکہ حق یہ ہے کہ سب نبی ہی اس مقام پر پہنچے ہوئے ہیں ہاں سب کے درجے الگ الگ ہیں کوئی زیادہ پر جلال مظہر ہے کوئی کم.ان مدارج کو طے کرنے کا علم کس طرح ہو اب یہ بات رہی کہ کس طرح معلوم ہو کہ انسان نے ان مدارج کو طے کر لیا ؟ اس کے لئے یا درکھنا چاہئے کہ جس طرح مدرسہ میں پڑھنے والے طالب علموں کو اپنی جماعت سے اوپر کی جماعت میں ترقی تب ملتی ہے جب وہ اس جماعت کے مضامین کو جس میں وہ ہوں اچھی طرح یاد کر لیں اسی طرح وہی شخص اگلی صفت کی طرف ترقی کر سکتا ہے جبکہ وہ پچھلی صفت پر اچھی طرح عامل ہو جائے.مگر جس طرح طالب علم کی ترقی اس لئے نہیں روکی جاتی کہ اسے ایک ایک نقطہ کیوں یاد نہیں اسی طرح بندہ اگر ایک صفت سے اچھی طرح مناسبت پیدا کر لیتا ہے تو گو اس میں بعض کمزوریاں ابھی ہوں اسے اوپر کی صفت کے حصول کی طاقتیں مل جاتی ہیں اور قلیل غلطیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.اس موقع پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ پچھلے مضمون سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو مذکورہ بالا چاروں صفات پر باری باری عمل کرنا چاہیئے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو سیر کا طریق ہے کہ الگ الگ منزلیں بنائی گئی ہیں ورنہ یوں انسان کو ہر وقت ہی سب صفات کی مشابہت کی کوشش کرنی چاہئے ہاں ترقی کامل تبھی ہوگی اور اوپر کی صفات پر وہ
۲۸۴ تبھی پوری طرح کار بند ہو سکے گا جبکہ وہ نیچے کے درجہ کی صفات پر اچھی طرح عمل کرلے گا.نبی کی بددعا اور مباہلہ ایک اور سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جب نبی رب العالمین صفت کے مظہر ہوتے ہیں تو بد دعا یا مباہلہ کیوں کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی خود بخود ایسا کبھی نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایسا کرتے ہیں.جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم طائف میں گئے اور وہاں کے لوگوں نے آپ کو مارا اور آپ واپس آگئے تو پہاڑ کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا اگر حکم ہو تو پہاڑ اکھاڑ کر ان لوگوں پر گرا دوں مگر رسول کریم نے فرمایا نہیں اور آپ نے دُعا کی کہ یا اللہ ا قوم کو پتہ نہیں کہ میں کون ہوں اسی طرح کہا یا اللہ ان کو ہلاک نہ کر شاید ان کی اولا د مسلمان ہو جائے یا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بعض بد دعا ئیں تو کی ہیں مگر وہ سب خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت تھیں.مولوی عبد الکریم صاحب سناتے ہیں کہ رات کو ایک دن حضرت صاحب دعا مانگ رہے تھے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے عورت دردزہ سے رو رہی ہوتی ہے.جب میں نے غور سے سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی گریہ کی آواز آرہی تھی.وہ دن طاعون کے تھے آپ دعا فرمارہے تھے کہ الہی ! اگر ساری مخلوق مرگئی تو پھر تجھ پر ایمان کون لائے گا ؟ پس جب نبی کہتے ہیں کہ فلاں تباہ ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے حکم سے کہتے ہیں اور خدا کے حکم کے ماتحت بد دعا کرتے ہیں.پھر سوال ہوتا ہے کہ بددعا تو خدا کے حکم سے کرتے ہیں مگر مباہلہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اسکے لئے یا درکھنا چاہئے کہ مباہلہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ جس کو مباہلہ کے لئے بلایا جاتا ہے بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قال احد كم امين والملائكة فى السماء.....الخ
۲۸۵ وہ گمراہی میں حد سے زیادہ بڑھا ہوتا ہے اور یہ بات ربوبیت میں شامل ہے کہ ایک کی ہلاکت سے باقیوں کو بچایا جائے.جیسے ایک عضوا گر خراب ہو تو سارے جسم کو بچانے کے لئے اسے کاٹ دیا جاتا ہے.اور اس شبہ کا جواب کہ خدا تعالیٰ جورب العالمین ہے وہ کیوں بعض وقت بددعا کا حکم دیتا ہے، یہ ہے کہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ بعض دفعہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص گمراہی میں اسقدر بڑھ گیا ہے کہ اس کی دنیا کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اس کے اخروی عذاب کو لمبا کر رہی ہے اور واپس لوٹنے کا راستہ اس نے اپنے ہاتھ سے بالکل بند کر دیا ہے تب اس کی ربوبیت چاہتی ہے کہ اسے اس دنیا سے رخصت کر دے.تا اس کے گناہ اور زیادہ نہ ہو جائیں اور عرصہ عذاب لمبا نہ ہو جائے.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ = (1820-1903) SPENCER HERBERT اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جندا صفحہ ۷۳۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ (1848-1930) BALFOUR ARTHUR JAMES مشہور برطانوی فلاسفر و سیاستدان متعدد عہدوں پر فائز رہا.برٹش کنزرویٹو پارٹی میں ۵۰ سال تک اپنی پوزیشن برقرار رکھی.۱۹۰۲ء تا ۱۹۰۵ ء وزیر اعظم رہا.اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اعلان بالفور (۱۹۱۷ء) کے ذریعہ فلسطین کو یہود کا قومی وطن بنائے جانے کے مطالبہ کی حمایت کی.(دی نیوانسائیکلو پیڈیا برٹمینی کا جلد ا صفحہ ۷۵۷، ۷۵۸)