Haqeeqat-eNamaz

Haqeeqat-eNamaz

حقیقتِ نماز

از فرمودات و تحریرات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام
Author: Other Authors

Language: UR

UR
عبادات

Book Content

Page 1

سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالی کو دیکھتے ہو." ( حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) حقیقت نماز از فرمودات و تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) مؤلّفه مقصود احمد علوی

Page 2

Page 3

سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو 66 کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو “ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) حقیقت نماز از فرمودات و تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) مؤلّفه مقصود احمد علوی

Page 4

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں نام کتاب حقیقت نماز مؤلف : مقصود احمد علوی سن اشاعت $2023 تعداد ایک ہزار (1000) سر ورق وڈیزائننگ : شاہد محمود لے آؤٹ، کمپوزنگ شاہد محمود : مقصود احمد علوی ناشر اشاعت بمعاونت مود و داحمد علوی ،سعود احمد علوی مشہود احمد علوی،مظفر احمد

Page 5

نمبر شمار عرض حال 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 فهرست عناوین عنوان صفحہ پیش لفظ نماز کی فرضیت، اہمیت اور التزام.نماز باجماعت کامقصداورحکمت اوقات نماز کی حکمت ارکان نماز کی حکمت اقام الصلوۃ کا مفہوم.اقام الصلوۃ میں کوشش کا ثواب.اقام الصلوۃ سے اگلا درجہ نماز اور دعا نماز اصل میں ایک دُعا ہے صلوۃ اور دُعا میں فرق.قبولیت دعا کے اوقات نماز کے اندر اپنی زبان میں دُعامانگنا نماز اور دُعا کے بارے میں نہایت جامع ارشادات 7 11 15 26 29 35 40 40 46 49 49 55 56 57 64

Page 6

نمبر شمار 16 17 18 19 20 21 22 23 له اه اه 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 مضمون روح اور راستی والی نماز پڑھنے کا طریق حقیقی نماز کا مغز اور روح حضور قلب، حظ اور سُرور کی کیفیت حالت خشوع اور سوز و گداز کی فلاسفی فضائل و برکات نماز.ذکر الہی اور قرب الہی کا ذریعہ اطمینان قلب کا ذریعہ معراج کے مراتب تک پہنچنے کا ذریعہ.پاک تبدیلی اور حقیقی نیکی کے حصول کا ذریعہ.بدیوں کو دور کرنے کا ذریعہ نماز میں حضورِ قلب اور لذت کے نہ ہونے کا علاج رد کی جانے والی نمازیں متفرق اہم امور.اپنی زبان میں نماز پڑھنا.رکوع و سجود میں قرآنی دُعا پڑھنا جمع بین الصلوا تین مہدی کی علامت نماز کے بعد تسبیح.غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی وجہ صفحہ 72 85 85 89 109 109 110 111 112 115 119 127 135 135 136 136 139 141

Page 7

عرض حال حقیقت نماز اسلامی عبادات میں نماز کو خصوصی حیثیت حاصل ہے.اس کی یہاں تک اہمیت ہے کہ اسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے.چنانچہ آنحضرت علی نے فرمایا : الصلوةُ عماد الدین یعنی نماز دین کا ستون ہے.اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے.ارکانِ اسلام میں سے روزہ ، زکوۃ اور حج تو ایک مسلمان کے حالات سے مشروط ہیں اور یہ سب پر یکساں فرض نہیں لیکن نما ز ہر بالغ اور عاقل مسلمان پر دن میں پانچ دفعہ ادا کرنی فرض ہے.قرآن شریف میں ارکانِ اسلام میں سے سب سے زیادہ قیام نماز کے التزام کی تاکید پائی جاتی ہے.ایک طرف تو نماز حقوق اللہ کے حوالے سے اہم عبادت ہونے کی وجہ سے قرب الہی کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ دوسری طرف معاشرتی زندگی میں حقوق العباد کے حوالے سے قرآنی اصول اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السيّاتِ (ہود ۱۱۵) یعنی یقینا نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں، کے تحت انسان کے اندر سے فحشاء اور منکرات کو دور کر کے نیکیوں میں ترقی کرنے کا باعث ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرُ.(العنکبوت ۴۶) یعنی نماز بے حیائی اور ہر نا پسندیدہ بات سے روکتی ہے.اب ظاہر ہے کہ جب انسان برائیوں سے رکے گا اور نیکیوں میں ترقی کرے گا تو اس سے وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے والا قرار پائے گا.نماز کے بارے میں ان حقائق ، اہمیت اور فوائد کے تناظر میں جب ہم اسلامی دنیا میں نیکی اور اخلاقی اقدار کے معیار کو بادی النظر سے بھی دیکھیں تو اس پہلو سے گراوٹ اور پستی کی ایک افسوسناک اور دل ہلا دینے والی صورتِ حال سامنے آتی ہے.بہت سے لوگ 7

Page 8

حقیقت نماز باقاعدگی سے پنجوقتہ نمازیں ادا کرتے ہیں اور ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشانات بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق مخلوق خدا کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے اُن کے اخلاق کی حالت بہت ہی نا گفتہ بہ ہوتی ہے.سوال یہ ہے کہ اس اختلاف اور تفاوت کی کیا وجہ ہے؟ نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان اور آنحضرت علی کے ارشادات میں تو کسی قسم کا کوئی شک نہیں.وہ تو اسی طرح ہی سچ ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے.اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ ایسے لوگ نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور وہ محض رسم اور عادت کے طور پر نمازیں پڑھتے ہیں نہ کہ روح اور راستی کے ساتھ اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی ایسی نمازیں نہ تو اُن سے بدیاں دور کرنے کا باعث ہوتی ہیں اور نہ ہی اُن کے اخلاق بہتر ہوتے ہیں.امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز کی حقیقت کے بارے میں اپنے فرمودات اور تحریرات میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اس حوالے سے ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے جن سے کہ مسلمانوں کی اکثریت ناواقف محض ہے.آپ نے نہایت وضاحت سے بتایا ہے کہ وہ کونسی نماز ہے جو انسان کو برائیوں اور سیات سے بچاتی ہے اور وہ کیسے ادا کی جاتی ہے.آپ نے اوقات نماز اور ارکانِ نماز کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے اور اقام الصلوۃ کے حقیقی مفہوم نماز کے مغز، رُوح اور کیفیت کے حصول کی طرف بھی راہنمائی کی ہے.آپ نے نماز کو عبادت کے علاوہ بہترین دعا بھی قرار دیا ہے جس میں ایک مخصوص طریق سے اپنے خالق و مالک کی تسبیح وتحمید بیان کرنے کے بعد نہایت درجہ عاجزی، انکساری، رقت اور اضطراب کے ساتھ انسان اپنی مناجات پیش کرتا ہے.آپ نے نماز میں حالت خشوع اور لذت کا ایسا روح پرور اور دلکش فلسفہ پیش کیا ہے کہ اسے پڑھ کر 00 8

Page 9

حقیقت نماز انسان کا دل و دماغ روشن ہو جاتا ہے.اسی طرح آپ نے یہ راز کی بات بھی بیان فرمائی ہے کہ نماز میں قرآنِ کریم، ادعیہ ماثورہ اور تسبیحات کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو.آپ نے قرآنِ کریم کی روشنی میں نماز کے فضائل و برکات بتاتے ہوئے جہاں نماز کو قرب الہی ، تزکیہ نفس اور بدیوں سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے وہاں آپ نے ایسی نمازوں کی بھی نشاندہی کی ہے جورڈ کی جانے والی ہوتی ہیں اور وہ پڑھنے والے کے منہ پر ماری جاتی ہیں اور اس کیلئے ویل اور لعنت کا باعث بنتی ہیں.خاکسار پورے وثوق اور یقین محکم کے ساتھ سمجھتا ہے کہ نماز کے بارے میں آپ علیہ الصلوة والسلام کے یہ فرمودات اور آپ کی تحریرات اُن روحانی خزائن میں سے ایک انمول خزانہ ہے جن کے بارے میں احادیث میں ذکر ہے کہ جب امام مہدی ظاہر ہونگے تو وہ خزانے بانٹیں گے اور لوگ اُن کے لینے سے انکار کریں گے.بلاشبہ آپ کے بیان فرمودہ الفاظ وہ بیش قیمت روحانی ہیرے اور جواہرات ہیں جو ہزاروں سالوں سے مدفون تھے.ضرورت اس امر کی ہے کہ بالخصوص ہم احمدی جو آپ کو ماننے والے ہیں ان خزائن سے اپنی جھولیاں بھریں ، ان کی قدر و قیمت کو پہچانیں اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مالا مال ہو جائیں.اسلام میں نماز کی اہمیت کے پیش نظر خاکسار کے نزدیک یہ ایک نہایت اہم اور ضروری موضوع ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ اس حوالے سے ہم اِس انمول روحانی خزانے میں بھرے ہوئے حقائق و معارف کی روشنی میں اپنی نمازوں کا جائزہ لیں.اس خزانے کی تفاصیل آپ کی کتب اور ملفوظات میں مختلف مقامات پر مرقوم ہیں.خاکسار سمجھتا ہے کہ یہ سب کی سب ہم میں سے بہت سے افراد کی نظروں سے نہیں گزری ہونگی.اس 9

Page 10

حقیقت نماز لئے خاکسار نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور ملفوظات میں سے انہیں تلاش کر کے اور مختلف عناوین کے تحت یکجائی صورت میں مرتب کر کے کے نام سے ایک کتاب کی شکل دی ہے.اس کام کی تیاری کے لئے خاکسار نے حضور علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات سے متعلقہ صفحات کو کاپی کر کے الگ الگ سیٹ بنائے.اُن میں سے نماز کے بارے میں اقتباسات کو مار کر سے نشان زد کرنے میں خاکسار کی بھانجی عزیزہ خولہ عالیہ خان نے مدد کی.ان اقتباسات کی ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ میں محترمہ نرگس ظفر بھٹی صاحبہ نے خاکسار کی مدد کی.اس کے بعد انہیں مختلف عناوین کے تحت مرتب کرنے کا کام خاکسار نے خود کیا ہے.ٹائٹل پیج سمیت کتاب کی گرافکس اور ڈیزائننگ کا کام محترم شاہدمحمودصاحب سابق نائب صدر صف دوم مجلس انصاراللہ جرمنی نے سرانجام دیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ خاکسار کی مدد کرنے والی دونوں خواتین اور محترم شاہد محمود صاحب کو اس کی بہترین جزاء عطا کرے.آمین دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خاکسار کی یہ کاوش قبول کرے اور نماز کی حقیقت کے بارے میں حضرت اقدس امام الزماں اور مہدی دوراں علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ پاکیزہ کلمات ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث بنیں.آمین خاکسار مقصود احمد علوی 25 دسمبر 2022 10

Page 11

پیش لفظ صداقت احمد مربی سلسله مبلغ انچارج جرمنی حقیقت نماز اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اُسے اعلیٰ درجے کی ظاہری اور باطنی صلاحیتیوں اور استعدادوں سے نوازا جنہیں صیقل کر کے ہر انسان اخلاقی اور روحانی طور پر ترقی کرسکتا ہے.اس ترقی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وضع کردہ قواعد وضوابط کی پابندی کی جائے اور یہ وہ چیز ہے جو انسان کو دیگر تمام جانداروں سے ممتاز کرتی ہے.اسی لئے قرآنِ پاک میں انسان کی روحانی اور جسمانی پیدائش کے مراتب ستہ کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خالقیت کو بہترین قرار دیتے ہوئے فرمایا : فَتَبرَكَ اللهُ اَحسَنُ الْخَلِقِينَ (سورة المؤمنون ۵ ) ظاہر ہے کہ خالق ہی اپنی تخلیق کردہ چیز میں موجود طاقتوں اور استعدادوں سے نہ صرف واقف ہوتا ہے بلکہ وہی بہتر جانتا ہے کہ ان صلاحیتیوں میں نکھار پیدا کرنے اور اُن سے بہتر رنگ میں کام لینے کیلئے کن باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جو انسان کا خالق و مالک ہے انسان کی فطری صلاحتیوں کی تہذیب اور ترقی کیلئے اپنے نبیوں کی معرفت ایسے اصول اور ضوابط بتائے جن پر عمل پیرا ہو کر وہ جہاں ایک پُرامن اور پرسکون معاشرتی زندگی بسر کر سکتا ہے وہاں وہ روحانی ترقی کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی کا قرب بھی حاصل کر سکتا ہے.ان اصولوں اور قواعد و ضوابط کو مذہبی اصطلاح میں شریعت کہتے ہیں.11

Page 12

حقیقت نماز اسلامی تعلیمات اور اس کے اصول انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہیں.جہاں اُن میں مخلوقِ خدا کے حقوق کے حوالے سے تفصیلی ہدایات پائی جاتی ہیں وہاں اللہ تعالی کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی مکمل راہنمائی موجود ہے.اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق ان دونوں قسم کے حقوق کی ادائیگی کرنا ہی دراصل بندگی کہلاتا ہے اور یہی انسان کی پیدائش کا مقصد قرار دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ - (الذريات (۵۷) ترجمہ: اور میں نے جن وانس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں.عبادت یہی ہے کہ اعلیٰ ہستی کے احکامات کے تابع رہا جائے اور اُس کی اطاعت کرتے ہوئے اُس سے تعلق میں سرگرمی دکھائی جائے اور اُس کی حمد وثنا کرتے ہوئے اُس کی مہر بانیوں اور احسانوں کو یاد کر کے اُس کا شکریہ بجالایا جائے.انسان کا ہر نیک اور صالح عمل چاہے وہ حقوق العباد کے حوالے سے ہو یا حقوق اللہ سے تعلق رکھتا ہو ، عبادت کہلاتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے خالق و مالک کی ہدایات کے مطابق اور اُس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے کیا جائے.مختصر یہ کہ اسلامی شریعت کے احکامات کی بنیاد حقوق اللہ اور حقوق العباد پر قائم ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق خدا کے حقوق کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ ان کی کماحقہ ادائیگی پر انسانی معاشرتی زندگی کے امن کا دارومدار ہے.دوسری طرف اس حقیقت کا بھی ہمیں ادراک ہونا چاہئے کہ وہ ہستی جس نے انسان کو پیدا کیا ، اُسے اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا اور کائنات کی ہر چیز کو اُس کیلئے مسخر کر دیا، اُس کے حقوق کی ادائیگی تو 12

Page 13

حقیقت نماز انسان کو بدرجہ اولیٰ بہتر اور احسن طریق سے کرنی چاہئے.حقوق اللہ میں صلوۃ یعنی نما ز سب سے اول درجے پر ہے اور قرآن و حدیث کے مطابق اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے.اسی لئے تو ایک مسلمان پر اس کی ادائیگی دن میں پانچ مرتبہ فرض کی گئی ہے جبکہ دیگر عبادات روزہ ، زکوۃ اور حج سال میں ایک مرتبہ اور وہ بھی چند مخصوص ایام میں ہر ایک کے حالات سے مشروط ہیں.نماز کی تو اتنی اہمیت ہے کہ اسے دین اسلام کا ستون اور ایک مومن کی معراج قرار دیا گیا ہے.دراصل یہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوتا ہے اور انسان کو ہر طرح کے اخلاقی اور روحانی مراتب بھی حاصل ہوتے ہیں.نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر امام الزمان اور مہدی دوراں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ملفوظات اور کتب میں اس کے مختلف پہلوؤں پر منفر درنگ میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے.بلا شبہ یہ ایک ایسا روحانی خزانہ ہے جس کی نظیر تلاش کرنا سعی لاحاصل ہے.آپ نے نماز کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس اہم امر کی طرف راہنمائی کی ہے کہ یہ ہمارے پیدا کرنے والے کا حق ہے.اس لئے اسے خوب سنوار کر اور جسم و روح کے باہم اشتراک سے کمال درجے کی عاجزی و انکساری ، حضور قلب خشوع و خضوع اور سوز و گداز سے ایسے رنگ میں ادا کرنا چاہئے کہ اس کے اثرات نماز پڑھنے والے کے اخلاق و کردار پر نظر آنے لگیں.محترم مقصود احمد علوی صاحب تربیتی موضوعات پر مضامین لکھتے رہتے ہیں.ان کی تحریر سادہ ، عام فہم اور مدلل ہونے کی وجہ سے قاری کے لئے کشش اور دلچسپی کا باعث بنتی ہے.قبل ازیں ان کی چار کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں معاشرتی زندگی کے تربیتی 13

Page 14

حقیقت نماز مسائل کے حوالے سے قرآن و حدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے احمدیت کی روشنی میں نہایت مفید مواد پیش کیا گیا ہے.زیر نظر کتاب حقیقت نماز میں انہوں نے نماز کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمودات اور تحریرات کو عناوین کے تحت یکجائی صورت میں مرتب کیا ہے.ایک ایسا مجموعہ ہے جس کی ہم میں سے ہر ایک کو ضرورت ہے تا کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان پاکیزہ ارشادات کی روشنی میں اپنی نمازوں کا جائزہ لے کر ان کا معیار بہتر کرنے اور انہیں رُوح اور راستی کے ساتھ ادا کر کے ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.مقصود احمد علوی صاحب کی اس کاوش کو بھی اللہ تعالیٰ قبول کرے، ان کے علم وعرفان میں برکت عطا کرے اور افراد جماعت کو اس مجموعے سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.آمین.خاکسار خادم سلسلہ عالیہ احمدیہ صداقت احمد مبلغ انچارج جرمنی 14 الله

Page 15

حقیقت نماز بسم اللہ الرحمن الرحیم نماز کی فرضیت ،اہمیت اور التزام نماز پڑھ نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کبھی ہے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 549 مطبوعہ 2021ء) ” جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19 مطبوعہ 2021ء) نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو.بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں.وہ یاد رکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں.یہاں تک کہ پیغمبروں تک کو معاف نہیں ہوئیں.ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی.اُنہوں نے نماز کی معافی چاہی.آپ امام نے فرمایا کہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں.اس لئے اس بات کو خوب یا درکھو اور اللہ تعالیٰ کے احکام " کے مطابق اپنے عمل کرلو.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ 172 مطبوعہ 2010ء) لکھا ہے کہ آنحضرت علی کے زمانہ میں ایک قوم مسلمان ہوئی اور انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف کر دی جاوے.مگر آپ 15

Page 16

حقیقت نماز نے اُن کو یہی فرمایا کہ دیکھو جس مذہب میں خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں وہ مذہب ہی کچھ نہیں.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 614 مطبوعہ 2010ء) ”نماز خدا کا حق ہے اُسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ بر تو.وفا اور صدق کا خیال رکھو.اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 592-591 مطبوعہ 2010ء) ملے.فرمایا: ایک شخص نے عرض کی کہ میرے لیے دعا کریں کہ نماز کی تو فیق اور استقامت ”حقیقت میں جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے وہ ایمان کو چھوڑتا ہے.اس سے خدا کے ساتھ تعلقات میں فرق آجاتا ہے.اِس طرف سے فرق آیا تو معا اُس طرف سے بھی فرق آجاتا ہے.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 236-235 مطبوعہ 2010ء) نماز میں پکے رہو.جو مسلمان ہو کر نماز نہیں ادا کرتا ہے وہ بے ایمان ہے.اگر وہ نماز ادا نہیں کرتا تو بتلاؤ ایک ہندو میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ زمینداروں کا دستور ہے کہ ذرا ذرا سے عذر پر نماز چھوڑ دیتے ہیں.کپڑے کا بہانہ کرتے ہیں.( حاشیہ میں درج ہے : اس جگہ البدر میں جو لفظ ہے وہ ٹھیک پڑھا نہیں جاتا.احکم میں یہ فقرہ واضح ہے جو یہ ہے.کپڑوں کے میلا ہونے کا عذر کر دیتے ہیں.لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس اور کپڑے نہ ہوں تو اسی میں نماز پڑھ لے اور جب دوسرا کپڑا مل جاوے تو اس کو بدل دے.اسی طرح اگر غسل کرنے کی ضرورت ہو اور بیمار ہو تو تیم کر لے.خدا نے ہر ایک قسم کی آسانی کر دی ہے تا کہ قیامت میں کسی کو عذر نہ ہو.16

Page 17

حقیقت نماز اب ہم مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ شطرنج گنجفہ وغیرہ بیہودہ باتوں میں وقت گزارتے ہیں.ان کو یہ خیال تک نہیں آتا کہ ہم ایک گھنٹہ نماز میں گزار دیں گے تو کیا حرج ہوگا؟ سچے آدمی کو خدا مصیبت سے بچاتا ہے.اگر پتھر بھی برسیں تو بھی اُسے ضرور بچاوے گا.اگر وہ ایسا نہ کرے تو سچے اور جھوٹے میں کیا فرق ہوسکتا ہے؟ لیکن یاد رکھو کہ صرف ٹکریں مارنے سے خدا راضی نہیں ہوتا.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 138 مطبوعہ 2010ء) ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور نماز کے متعلق ہمیں کیا حکم ہے؟ فرمایا : نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت لیم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں.مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز ونیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گر جانا.اس سے اپنی حاجات کا مانگنا، یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے.اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلانا پھر اس سے مانگنا ، پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے.اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتا 17

Page 18

حقیقت نماز رہے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگار ہو کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جا سکتا ہے.اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر مجھے راضی کریں.خدا تعالیٰ کی محبت اسی کا خوف اسی کی یاد میں دل لگارہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے.پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا؟ وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سورہنا.یہ تو دین ہر گز نہیں.یہ سیرت کفار ہے بلکہ جودم غافل وہ دم کا فر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے.چنانچہ قرآن شریف میں بے فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُ وَالِي وَلَا تَكْفُرُونِ ( سورة البقره ۱۵۳ ) یعنی اے میرے بندو! تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو اور میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نام کفر ہے.پس جو دم غافل وہ دم کا فروالی بات صاف ہے.یہ پانچ وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں اور نہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگا رہنا چاہیے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہیے.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت اسی کی یاد میں غرق ہونا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے اور خدا تعالیٰ پر کسی طرح کی امید اور بھروسہ کرنے کا حق رکھ سکتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 189-188 مطبوعہ 2010ء ) 18

Page 19

حقیقت نماز علی گڑھ کے ایک طالب علم نے اپنی حالت کا ذکر کیا کہ نماز میں سستی ہو جاتی ہے اور میرے ہم مجلسوں نے اس پر اعتراض کیا اور ان کے اعتراض نے مجھے بہت کچھ متاثر کیا ہے اس لیے حضور کوئی علاج اس سستی کا بتائیں.فرمایا : ”جب تک خوف الہی دل پر طاری نہ ہو گناہ دور ہو نہیں سکتا اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں تک موقعہ ملے ملاقات کرتے رہو.ہم تو اپنی جماعت کو قبر کے سر پر رکھنا چاہتے ہیں کہ قبر ہر وقت مد نظر ہو لیکن جو اس وقت نہیں سمجھے گا وہ آخر خدا تعالیٰ کے قہری نشان سے سمجھے گا.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 396 مطبوعہ 2010ء) تزکیہ دل میں ہوتا ہے.بغیر اس کے کچھ نہیں بنتا.حالانکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے گھر میں اس قدر التزام نماز کا ہے کہ جب پہلا بشیر پیدا ہوا تھا.اس کی شکل مبارک سے بہت ملتی تھی.وہ بیمار ہوا اور شدت سے اس کو بخار چڑھا ہوا تھا یہاں تک کہ اس کی حالت نازک ہو گئی.اس وقت نماز کا وقت ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نماز پڑھ لوں.ابھی نماز ہی پڑھتے تھے کہ بچہ فوت ہو گیا.نماز سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا کہ کیا حال ہے.میں نے کہا کہ اس کا تو انتقال ہو گیا.اس وقت میں نے دیکھا کہ انہوں نے بڑی شرح صدر کے ساتھ کہا انَّا لِلهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (البقره ۱۵۷) اُسی وقت میرے دل میں ڈالا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو نہیں اٹھائے گا جب تک اس بچہ کا بدلہ نہ دے لے.چنانچہ اس کے فوت ہونے کے قریباً چالیس دن بعد محمود پیدا ہوا.اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بچے پیدا ہوئے.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 393-392 مطبوعہ 2010ء) 19

Page 20

حقیقت نماز علاوہ ازیں دو حصے اور بھی ہیں جن کو مد نظر رکھنا صادق اخلاص مند کا کام ہونا چاہئے.اُن میں سے ایک عقائد صحیحہ کا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم بالا ای میل کے ذریعے بدوں مشقت و محنت کے دکھائی ہے.وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانہ میں دکھائی گئی ہے بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے اُن اعمالِ صالحہ کو بجالاؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کر دعا مانگو کہ وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمالِ صالحہ کی توفیق بخشے.حصہ عبادات میں صوم ، صلوۃ وزکوۃ وغیرہ امور شامل ہیں.اب خیال کرو کہ مثلاً نماز ہی ہے یہ دنیا میں آئی ہے لیکن دنیا سے نہیں آئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قُرَّةُ عَيْنِى فِي الصَّلوة “ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 95-94 مطبوعہ 2010ء) 66 ترک نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جھکتا ہے تو روح اور دل کی طاقتیں اس درخت کی طرح ( جس کی شاخیں ابتداء ایک طرف کردی جاویں اور اُس طرف جھک کر پرورش پالیں ) ادھر ہی جھکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیدا ہو کر اسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے، جیسے وہ شاخیں.پھر دوسری طرف مر نہیں سکتا.اسی طرح پر وہ دل اور روح دن بدن خدا تعالیٰ سے ڈور ہوتی جاتی ہے.پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے.اسی لیے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری 20

Page 21

حقیقت نماز چیز ہے تا کہ اولاوہ ایک عادت راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو.پھر رفتہ رفتہ وہ وقت خود آجاتا ہے جبکہ انقطاع کلی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذت کا وارث ہو جاتا ہے.میں اس امر کو پھر تاکید سے کہتا ہوں.افسوس ہے کہ مجھے وہ لفظ نہیں ملے جس میں غیر اللہ کی طرف رُجوع کرنے کی برائیاں بیان کرسکوں.لوگوں کے پاس جا کرمنت خوشامد کرتے ہیں.یہ بات خدا تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے.پس وہ اس سے ہٹتا اور اُسے دُور پھینک دیتا ہے.میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں.گو یہ امر اس طرح پر نہیں ہے مگر سمجھ میں خوب آسکتا ہے کہ جیسے ایک مرد غیور کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مرد ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بسا اوقات ایسی وارداتیں ہو جاتی ہیں.ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کا ہے.عبودیت اور دعا خاص اسی ذات کے مد مقابل ہیں.وہ پسند نہیں کر سکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جاوے یا پکارا جاوے.پس خوب یادرکھو! اور پھر یا درکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور توحید کچھ ہی کہو کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے.اس وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اُس میں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو.“ ( ملفوظات جلد اول صفحه 107-106 مطبوعہ (2010ء) ”بے شک اصل اور سچ یونہی ہے.جبتک انسان کامل توحید پر کار بند نہیں ہوتا، اُس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی.اور پھر میں اصل ذکر کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ نماز کی لذت اور شرور اُسے حاصل نہیں ہوسکتا.مدار اسی بات پر ہے کہ 21

Page 22

حقیقت نماز جو تک میرے ارادے، نا پاک اور گندے منصوبے بقسم نہ ہوں، انانیت اور مشینی کا دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے ، خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیت کاملہ کے سکھانے کے لئے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو جاؤ اور ایسے کاربند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری رُوح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 108 مطبوعہ 2010ء) فرمایا : ”جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہو جاتے ہیں اور بارش کا وقت آجاتا ہے.ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارتِ ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے.نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے.جب انسان بندہ ہو کر لا پروائی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی معنی ہے.ہر ایک اُمت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے.ایمان کی جڑ بھی نماز ہے.بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے.اے نادانو ! خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ خدا تعالی تمہاری طرف توجہ کرے.خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں.نما ز ہزاروں خطاؤں کو دُور کر دیتی ہے اور ذریعۂ حصول قرب الہی ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 292 مطبوعہ 2010ء) 22

Page 23

حقیقت نماز ”میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مسلمان سُست ہو جاویں.اسلام کسی کوئست نہیں بناتا.اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں ، مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کے لئے اُن کا کوئی وقت بھی خالی نہ ہو.ہاں تجارت کے وقت پر تجارت کریں اور اللہ تعالیٰ کے خوف وخشیت کو اُس وقت بھی مد نظر رکھیں تا کہ وہ تجارت بھی اُن کی عبادت کا رنگ اختیار کرلے.نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں.ہر معاملہ میں کوئی ہو دین کو مقدم کریں.دنیا مقصود بالذات نہ ہو.اصل مقصود دین ہو.پھر دنیا کے کام بھی دین ہی کے ہوں گے.صحابہ کرام کو دیکھو کہ انہوں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کو نہیں چھوڑا.لڑائی اور تلوار کا وقت ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ محض اُس کے تصور سے ہی انسان گھبرا اٹھتا ہے.وہ وقت جبکہ جوش اور غضب کا وقت ہوتا ہے، ایسی حالت میں بھی وہ خدا سے غافل نہیں ہوئے.نمازوں کو نہیں چھوڑا.دعاؤں سے کام لیا.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 410 مطبوعہ 2010ء) اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں ہے.کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں.اور زکوۃ صاحب مال کو دینی پڑتی ہے.مگر نماز ہے کہ ہر ایک ( حیثیت کے آدمی ) کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے، اسے ہرگز ضائع نہ کریں.اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے.اُسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اُسی سیکنڈ میں.کیونکہ دوسرے دنیاوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں.اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور 23

Page 24

حقیقت نماز ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے.جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے.اسے اس امر پر یقین ہو کہ میں ایک سمیع، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے مہر آجاوے تو ابھی دے ا دیوے.بڑی تضرع سے دعا کرے.ناامید اور بدظن ہر گز نہ ہووے اور اگر اسی طرح کرے تو (اس راحت کو ) جلدی دیکھ لے گا.اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا.تو یہ طریق ہے جس پر کار بند ہونا چاہیے.مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لا پروا ہے.ایک بیٹا اگر باپ کی پروا نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 682-681 مطبوعہ 2010ء) پھر ان سب باتوں کے بعد فرمایا - وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوتِهِمْ يُحَافِظُونَ (المؤمنون (۱۰) یعنی ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور کبھی ناغہ نہیں کرتے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے.جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات ۵۷) غرض یا درکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شئے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جاتے ہیں اور سب بلائیں دُور ہوتی ہیں.مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے اور آستانہ احدیت پر 24

Page 25

حقیقت نماز گر کر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پگھلنے لگتا ہے.اور پھر یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ نماز کی حفاظت اس واسطے نہیں کی جاتی کہ خدا کو ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کو ہماری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں.وہ تو غنِی عَنِ الْعَالَمِینَ ہے.اس کو کسی کی حاجت نہیں.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ضرورت ہے اور یہ ایک راز کی بات ہے کہ انسان خود اپنی بھلائی چاہتا ہے اور اسی لئے وہ خدا سے مدد طلب کرتا ہے کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو جانا حقیقی بھلائی کا حاصل کر لینا ہے.ایسے شخص کی اگر تمام دنیا دشمن ہو جائے اور اُس کی ہلاکت کے در پے رہے تو اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور خدا تعالیٰ کو ایسے شخص کی خاطر اگر لاکھوں کروڑوں انسان بھی بلاک کرنے پڑیں تو کر دیتا ہے اور اس ایک کی بجائے لاکھوں کو فنا کر دیتا ہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403-402 مطبوعہ 2010ء) عربی سے ترجمہ : ناقل) واضح ہو کہ اُس عبادت کی حقیقت جسے اللہ تعالیٰ اپنے کرم و احسان سے قبول فرماتا ہے وہ در حقیقت چند امور پر مشتمل ہے ) یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کی بلند و بالا شان کو دیکھ کر مکمل فروتنی اختیار کرنا نیز اُس کی مہر بانیاں اور قسم قسم کے احسان دیکھ کر اس کی حمد و ثنا کرنا، اس کی ذات سے محبت رکھتے ہوئے اور اُس کی خوبیوں ، جمال اور نور کا تصور کرتے ہوئے اُسے ہر چیز پر ترجیح دینا اور اُس کی جنت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کو شیطانوں کے وسوسوں سے پاک کرنا.اور سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ انسان التزام کے ساتھ پانچوں نمازیں اُن کے اول وقت پر ادا کرنے اور فرض اور سنتوں کی ادائیگی پر مداومت رکھتا ہو اور حضور قلب ، ذوق ، شوق اور عبادت کی برکات کے حصول میں پوری طرح کوشاں رہے کیونکہ نماز ایک ایسی سواری 25

Page 26

حقیقت نماز ہے جو بندہ کو پروردگار عالم تک پہنچاتی ہے.اس کے ذریعہ (انسان ) ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں گھوڑوں کی پیٹھوں پر ( بیٹھ کر ) نہ پہنچ سکتا.اور نماز کا شکار ( ثمرات ) تیروں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا، اس کارا از قلموں سے ظاہر نہیں ہوسکتا ہے اور جس شخص نے اس طریق کو لازم پکڑا اُس نے حق اور حقیقت کو پالیا اور اس محبوب تک پہنچ گیا جو غیب کے پردوں میں ہے اور شک و شبہ سے نجات حاصل کر لی.پس تو دیکھے گا کہ اس کے دن روشن ہیں، اُس کی باتیں موتیوں کی مانند ہیں اور اُس کا چہرہ چودھویں کا چاند ہے.اُس کا مقام صدرنشینی ہے.جو شخص نماز میں اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی سے جھکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے 66 لئے بادشاہوں کو جھکا دیتا ہے اور اس مملوک بندہ کو مالک بنا دیتا ہے.“ دیتا اور اعجاز لمسیح.روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 167-165 مطبوعہ 2021ء) نماز باجماعت کا مقصد اور حکمت نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے.اور پھر اِس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں.وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.یہ خوب یا درکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے.پھر اسی وحدت کیلئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر 26

Page 27

حقیقت نماز سال کے بعد عید گاہ میں جمع ہوں.اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں.ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے.لیکچر لدھیانہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 282-281 مطبوعہ 2021ء) اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفس واحد کی طرح بنا دے.اس کا نام وحدت جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالت مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے.مذہب سے بھی یہی منشاء ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدت جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں.یہ نمازیں باجماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لیے ہیں تاکہ کل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لیے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اسے قوت دیوے.حتی کہ حج بھی اسی لیے ہے.اس وحدتِ جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اوّل یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں تا کہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انواریل ملا کر کمزوری کو دور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر انس پیدا ہو جاوے.تعارف بہت عمدہ شے ہے کیونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے.حتی کہ تعارف والا دشمن ایک نا آشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہو جاتا ہے.وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شے ہوتا ہے وہ تو ڈور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے.27

Page 28

حقیقت نماز پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے.اس لیے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں.آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جائیں گے.پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تا کہ تعارف اور انس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو.پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لیے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں.غرضیکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ آپس میں الفت اور اُنس ترقی پکڑے.افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اسلام کا فلسفہ کیسا لگا ہے.دنیوی حکام کی طرف سے جو احکام پیش ہوتے ہیں اُن میں تو انسان ہمیشہ کے لئے ڈھیلا ہوسکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے احکام میں ڈھیلا پن اور اس سے بکلی روگردانی کبھی ممکن ہی نہیں.کونسا ایسا مسلمان ہے جو کم از کم عیدین کی بھی نماز نہ ادا کرتا ہو.پس ان تمام اجتماعوں کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کے انوار دوسرے میں اثر کر کے اُسے قوت بخشیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 101-100 مطبوعہ 2010ء) 28 20

Page 29

حقیقت نماز اوقات نماز کی حکمت پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں؟ وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے.تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے.(۱) پہلے جبکہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا.یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تستی اور خوشحالی میں خلل ڈالا.سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا.اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوالِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے.(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو مثلاً جبکہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے.سو یہ حالت تمہاری اُس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نما ز عصر مقرر ہوئی.(۳) تیسرا تغیر تم پر اُس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلی امید منقطع ہو جاتی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام فردقراردادِ جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ 29

Page 30

حقیقت نماز تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں.اِس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے.(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلاتم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اُس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے.مثلاً جب کہ فرد قرارداد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنایا جاتا ہے اور قید کیلئے ایک پولیس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہو.سو یہ حالت اُس وقت سے مشابہ ہے جبکہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے.(۵) پھر جبکہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے.مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے.سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کیلئے ہیں.پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہاری اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظل ہیں.نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے.تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس 30

Page 31

حقیقت نماز قسم کے قضاء وقدر تمہارے لئے لائے گا.پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولا کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے.“ (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 70-69 مطبوعہ 2021ء) اور یہ بھی یاد رکھو کہ ہے جو پانچ وقت نماز کے لئے مقرر ہیں یہ کوئی تکلم اور جبر کے طور پر نہیں، بلکہ اگرغور کرو تو یہ دراصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آرقم الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمس ( بنی اسرائیل ۷۹ ) یعنی قائم کر نماز کو ڈلوک الشمس سے.اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام صلوۃ کو ڈلوک شمس سے لیا ہے.ڈلوک کے معنوں میں گو اختلاف ہے لیکن دو پہر کے ڈھلنے کے وقت کا نام ڈلوک ہے.اب ڈلوک سے لے کر پانچ نمازیں رکھ دیں.اس میں حکمت اور ستر کیا ہے؟ قانونِ قدرت دکھاتا ہے کہ روحانی تذلل اور انکسار کے مراتب بھی ڈلوک ہی سے شروع ہوتے ہیں اور پانچ ہی حالتیں آتی ہیں.پس یہ طبعی نما ز بھی اُس وقت سے شروع ہوتی ہے جب خون اور ہم و غم کے آثار شروع ہوتے ہیں.اُس وقت جبکہ انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو کس قدر تذلل اور انکساری کرتا ہے.اب اُس وقت اگر زلزلہ آوے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح پر سوچو کہ اگر مثلاً کسی شخص پر مالش ہو تو سمن یا وارنٹ آنے پر اُس کو معلوم ہوگا کہ فلاں دفعہ فوجداری یا دیوانی میں نائیش ہوئی ہے.اب بعد مطالعہ وارنٹ اُس کی حالت میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا کیونکہ وارنٹ یاسمن تک تو اُسے کچھ معلوم نہ تھا.اب خیال پیدا ہوا کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا کیا ہو؟ اس قسم کے ترڈ دات اور تفکرات سے جوز وال پیدا 31

Page 32

حقیقت نماز ہوتا ہے یہ وہی حالت ڈلوک ہے اور یہ پہلی حالت ہے جو نما ز ظہر کے قائم مقام ہے اور اس کی عکسی حالت نماز ظہر ہے.اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرہ عدالت میں کھڑا ہے.فریق مخالف اور عدالت کی طرف سے سوالات جرح ہو رہے ہیں اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے.یہ وہ حالت اور وقت ہے جو نماز عصر کا نمونہ ہے کیونکہ عصر گھوٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں.جب حالت اور بھی نازک ہو جاتی ہے اور فرد قرار دادِ جرم لگ جاتی ہے تو پاس اور نا اُمیدی بڑھتی ہے کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ سزا مل جاوے گی.یہ وہ وقت ہے جو مغرب کی نماز کا عکس ہے.پھر جب حکم سنایا گیا اور کہ کورٹ انسپکٹر کے حوالہ کیا گیا تو وہ روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی تصویر ہے.یہانتک کہ نماز کی صبح صادق ظاہر ہوئی.اور اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الانشراح ) کی حالت کا وقت آ گیا.تو روحانی نماز فجر کا وقت آگیا اور فجر کی نماز اس کی عکسی تصویر ہے.لنسٹیل یا 66 ( ملفوظات جلد اول صفحہ 95 مطبوعہ 2010ء ) نماز ایسی چیز ہے جو جامع حسنات ہے اور دافع سیات ہے.میں نے پہلے بھی کئی مرتبہ بیان کیا ہے کہ نماز کے جو پانچ وقت مقرر کئے ہیں اس میں ایک حقیقت اور حکمت ہے.نماز اس لئے ہے کہ جس عذاب شدید میں پڑنے والا مبتلا ہے وہ اس سے نجات پالیوے.اوقات نماز کیلئے لکھا ہے کہ وہ زوال کے وقت سے شروع ہوتی ہے.یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان غنی ہوتا ہے تو وہ طافی ہو جاتا ہے اور حدود اللہ سے نکل جاتا ہے لیکن جب اُس کو کوئی دکھ اور درد پہنچے تو پھر یہ فطرت دوسرے کی مدد چاہتا ہے اور اُس کی طرف متوجہ ہوتا ہے.پس جب اُس پر ابتدائے مصیبت ہو تو اُسی وقت 32

Page 33

حقیقت نماز سے گویا نماز شروع ہو جاتی ہے.مثلاً ایک شخص پر غیر متوقع گورنمنٹ کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گیا کہ فلاں امر کے متعلق تم اپنا جواب دو.یہ پہلا مرحلہ ہے جو مصیبت کا آغاز ہوا اور اس کے امن و سکون میں زوال شروع ہو گیا.یہ وقت ظہر کی نماز سے مشابہ ہے.( حاشیہ میں درج ہے : بدر میں یہ مضمون یوں بیان ہوا ہے : حالت اول زوال سے شروع ہوتی ہے.اس سے پہلے انسان اپنے آپ کو غنی سمجھتا ہے اور طاقتور جانتا ہے اور روز روشن کی طرح اُس کے تمام امور ایک جلوہ رکھتے ہیں اور اُن پر کوئی تاریکی نہیں ہوتی.وہ اپنے آپ کو غیر محتاج کی طرح خیال کرتا ہے اور ایک پوری راحت اور آرام کی صورت میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے.اچانک اُس پر ایک وقت آتا ہے کہ وہ زوال کے ساتھ ایک مشابہت رکھتا ہے.وہ ابتدائے مصیبت کا وقت ہوتا ہے اور دکھ ، درد اور محتاجی کا احساس شروع ہوتا ہے.قبل ازیں اُس کو معلوم نہ تھا کہ مجھ پر ایسا وقت آنے والا ہے.اچانک بیٹھے بیٹھے یہ حالت شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ گھر میں آرام سے بیٹھے ہوئے اچانک کسی کے پاس گورنمنٹ کی طرف سے وارنٹ آتا ہے اور کسی مجرم پر جواب طلبی کی جاتی ہے.یہ مصیبت کا پہلا مرحلہ ہے اور نماز ظہر کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے.چونکہ انسان کی راحت اور جمعیت میں ایک زوال آگیا ہے.) پھر بعد اس کے جب وہ عدالت میں حاضر ہوا اور بیانات ہونے کے بعد اُس پر فرد قرارداد جرم لگ گئی اور شہادت گزرگئی تو اس کی مصیبت اور کرب پہلے سے زیادہ بڑھ گیا.یہ گویا عصر کا وقت ہے.کیونکہ عصر کی نماز کا وہ وقت ہے جب سورج کی روشنی بہت ہی کم ہو جاوے.یہ عصر کا وقت اس پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کی عزت اور توقیر بہت 33

Page 34

حقیقت نماز گھٹ گئی ( حاشیہ میں درج ہے : اور اس کے نور کی روح کھینچ لی گئی ہے ) اور اب وہ مجرم قرار پا گیا.اس کے بعد مغرب کا وقت آتا ہے.یہ وہ وقت ہے جب آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور یہ اس وقت سے مشابہ ہے کہ جب حاکم نے اپنا آخری حکم اُسکے لئے سناد یا اور عشاء کا وقت اس سے مشابہ ہے کہ جب وہ جیل چلا جاوئے.( حاشیہ میں درج ہے : کیونکہ تمام روشنی جاتی رہی اور چاروں طرف سے اُس پر تاریکی چھا گئی اور وہ قید خانے میں پڑا ہے.) اور پھر فجر کا وقت ہے جب اُس کی رہائی ہو جاوے.(حاشیہ میں درج ہے : راس لمبی تاریکی کے بعد پھر فجر کا وقت آتا ہے جبکہ وہ قید خانہ سے رہائی پانے لگتا ہے اور دوبارہ اُس پر روشنی کا پر تو پڑتا ہے اور اس کے ارد گر دنور چمکتا ہے.یہ پانچ اوقات انسان کے حال پر لازم رکھے گئے ہیں اور ان پانچوں حالتوں کی یاد میں جو کہ اُس پر آنے والی ہیں وہ روزانہ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعائیں کرتا ہے کہ وہ ان مشکلات سے بچایا جاوے.) ان حالات کے ماتحت ایسے انسان کا در دوسوزش ہر آن بڑھتی جاوے گی.یہانتک کہ آخر اس کی سوزش و اضطراب اس کے لئے وہ وقت لے آوے کہ وہ نجات پا جاوے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 95-94 مطبوعہ 2010ء) 34

Page 35

حقیقت نماز ارکان نماز کی حکمت ”جب انسان قیام کرتا ہے تو وہ ایک ادب کا طریق اختیار کرتا ہے.ایک غلام جب اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ دست بستہ کھڑا ہوتا ہے.پھر رکوع بھی ادب ہے جو قیام سے بڑھ کر ہے اور سجدہ ادب کا انتہائی مقام ہے.جب انسان اپنے آپ کوفنا کی حالت میں ڈال دیتا ہے اس وقت سجدہ میں گر پڑتا ہے.افسوس اُن نادانوں اور دنیا پرستوں پر جو نماز کی ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور رکوع سجود پر اعتراض کرتے ہیں.یہ تو کمال درجہ کی خوبی کی باتیں ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان اس عالم سے حصہ نہ رکھتا ہو جہاں سے نماز آتی ہے.( حاشیہ میں درج ہے : کتابت کی غلطی سے عبارت نامکمل رہ گئی ہے.بدر میں یہ عبارت یوں درج ہے : جب تک کہ انسان اُس عالم میں سے حصہ نہ لے جس سے نماز اپنی حد تک پہنچتی ہے تب تک انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں.مگر جس شخص کا یقین خدا پر نہیں وہ نماز پر کس طرح یقین کر سکتا ہے.)...اور یہ جو پہلے میں نے بیان کیا ہے قیام رکوع اور سجود کے متعلق ، اس میں انسانی تضرع کی بیت کا نقشہ دکھایا گیا ہے.پہلے قیام کرتا ہے.جب اس پر ترقی کرتا ہے تو پھر رکوع کرتا ہے اور جب بالکل فنا ہو جاتا ہے تو پھر سجدہ میں گر پڑتا ہے.میں جو کچھ کہتا ہوں صرف تقلید اور رسم کے طور پر نہیں بلکہ اپنے تجربہ سے کہتا ہوں بلکہ ہر کوئی اس کو اس طرح پر پڑھ کر اور آزما کر دیکھ لے.( حاشیہ میں درج ہے : وہ بڑا بد قسمت ہے جو اس نسخہ کو آزما کر نہیں دیکھتا اور اس سے فائدہ حاصل نہیں کرتا.) اِس نسخہ کو ہمیشہ یادرکھو اور اس 35

Page 36

حقیقت نماز سے فائدہ اٹھاؤ کہ جب کوئی دکھ یا مصیبت پیش آسے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاؤ اور جو مصائب اور مشکلات ہوں اُن کو کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرو کیونکہ یقیناً خدا ہے اور وہی ہے جو ہر قسم کی مشکلات اور مصائب سے انسان کو نکالتا ہے.وہ پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے.اس کے سوا کوئی نہیں جو مددگار ہو سکے.بہت ہی ناقص ہیں وہ لوگ کہ جب اُن کو مشکلات پیش آتی ہیں تو وہ وکیل، طبیب یا اور لوگوں کی طرف تو رجوع کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا خانہ بالکل خالی چھوڑ دیتے ہیں.مومن وہ ہے جوسب سے اوّل خدا تعالیٰ کی طرف دوڑے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 96-94 مطبوعہ 2010ء) غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مُشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھودیتا ہے.اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے.اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کیلئے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کار کوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کیلئے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے تئیں بکھی کھو دیتی ہے اور اپنے نقش وجود کو مٹادیتی ہے.یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعتِ اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تاوہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے.جب تمہاری روح غمگین 36

Page 37

حقیقت نماز ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہوتو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے.ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے اور جب جسم کھلی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے.پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرت احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور رکوع اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں تو جب ہم اُن میں سے ایک چیز کو اٹھائیں گے تو اُس اٹھانے سے دوسری چیز کو بھی جو اس سے ملحق ہے کچھ حرکت پیدا ہوگی.لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو کہ رُوح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے.“ (لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 224-223 مطبوعہ 2021ء) ارکان نماز در اصل روحانی نشست و برخاست ہیں.انسان کو خدا تعالیٰ کے رُوبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمتگاران میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کو کس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمالِ آداب اور کمال تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یاداشت کے مقرر کر دیتے ہیں اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے.علاوہ ازیں باطنی طریق کے 37

Page 38

حقیقت نماز اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگر ظاہری طریق میں (جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے ) صرف نقال کی طرح نقلیں اُتاری جاویں اور اسے ایک بار گراں سمجھ کو اُتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے، تو تم ہی بتاؤ اس میں کیا لذت اور حظ آسکتا ہے؟ اور جب تک لذت اور سرور نہ آئے اُس کی حقیقت کیوں کر متحقق ہوگی اور یہ اس وقت ہوگا جبکہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلل تام ہو کر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے، رُوح بھی بولے.اُس وقت ایک سرور اور نور اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ 105-104 مطبوعہ 2010ء) عبادات کے دو حصے تھے.ایک وہ جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو ڈرنے کا حق ہے.خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو پاکیزگی کے چشمہ کی طرف لے جاتا ہے اور اُس کی رُوح گداز ہو کر الوہیت کی طرف بہتی ہے اور عبودیت کا حقیقی رنگ اُس میں پیدا ہو جاتا ہے.دوسرا حصہ عبادت کا یہ ہے کہ انسان خدا سے محبت کرے جو محبت کرنے کا حق ہے.اسی لئے فرمایا ہے : وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرہ ۱۶۶) اور دنیا کی ساری محبتوں کو غیر فانی اور آنی سمجھ کر حقیقی محبوب اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا جاوے.یہ دو حق ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نسبت انسان سے مانگتا ہے.ان دونوں قسم کے حقوق کے ادا کرنے کے لئے یوں تو ہر قسم کی عبادت اپنے اندر ایک رنگ رکھتی ہے، مگر اسلام نے دو مخصوص صورتیں عبادت کی اس کے لئے مقرر کی ہوئی ہیں.38

Page 39

حقیقت نماز خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر اُن کا جمع ہونا بھی محال نظر آتا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اُس سے محبت کیونکر کر سکتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے.جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اُسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی اور جس قدر محبت الہی میں ترقی کرے گا اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا.پس اسلام نے ان دونوں حقوق کو پورا کرنے کے لئے ایک صورت نماز کی رکھی جس میں خدا کے خوف کا پہلو رکھا ہے اور محبت کی حالت کے اظہار کے لئے حج رکھا ہے.خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل او اقرار عبودیت اس میں موجود ہے.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 225-224 مطبوعہ 2010ء) اور 39

Page 40

حقیقت نماز ا قام الصلوۃ کا مفہوم اقام الصلوۃ میں کوشش کا ثواب اس کے بعد متقی کی شان میں آیا ہے.وَيُقِيمُونَ الصَّلوة (البقرہ ۴) یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتا ہے.یہاں لفظ کھڑی کرنے کا آیا ہے.یہ بھی اس تکلف کی طرف اشارہ کرتا ہے جو متقی کا خاصہ ہے.یعنی جب وہ نماز شروع کرتا ہے تو طرح طرح کے وساوس کا اُسے مقابلہ ہوتا ہے جن کے باعث اُس کی نماز گویا بار بار گری پڑتی ہے، جس کو اس نے کھڑا کرنا ہے.جب اس نے اللہ اکبر کہا تو ایک ہجوم وساوس ہے جو اُس کے حضورِ قلب میں تفرق ڈال رہا ہے.وہ اُن سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے.پریشان ہوتا ہے.ہر چند حضور وذوق کے لیے لڑ تا مرتا ہے لیکن نماز جوگری پڑتی ہے بڑی جان گنی سے اُسے کھڑا کرنے کی فکر میں ہے.بار بار اتياكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہہ کر نماز کے قائم کرنے کے لئے دُعامانگتا ہے اور ایسے الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ہدایت چاہتا ہے جس سے اُس کی نماز کھڑی ہو جائے.ان وساوس کے مقابل میں متقی ایک بچہ کی طرح ہے، جو خدا کے آگے گڑ گڑاتا ہے.روتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف ۱۷۷) ہورہا ہوں.سو یہی وہ جنگ ہے جو متقی کو نماز میں نفس کے ساتھ کرنی ہوتی ہے اور اسی پر ثواب مترتب ہوگا.(ملفوظات جلد اول صفحہ 19-18 مطبوعہ 2010ء) 40

Page 41

حقیقت نماز اسی طرح يُقِيمُونَ الصَّلوةَ میں لوازم الصلوۃ معراج ہے.اور یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق شروع ہوتا ہے.مکاشفات اور رویاء صالحہ آتے ہیں.لوگوں سے انقطاع ہوتا جاتا ہے اور خدا کی طرف ایک تعلق پیدا ہونے لگتا ہے.یہاں تک کہ تنبثل تام ہو کر خدا میں جاملتا ہے.صلی جلنے کو کہتے ہیں.جیسے کباب بھونا جاتا ہے.اسی طرح نماز میں سوزش لازمی ہے.جب تک دل پریاں نہ ہو نماز میں لذت اور سرور پیدا نہیں ہوتا.اور اصل تو یہ ہے کہ نمازی اپنے بچے معنوں میں اسی وقت ہوتی ہے.نماز میں شرط ہے کہ وہ جمیع شرائط ادا ہو.جب تک وہ ادا نہ ہو وہ نماز نہیں ہے اور نہ وہ کیفیت جو صلواۃ میں میل نماز کی ہے حاصل ہوتی ہے.یاد رکھو صلوٰۃ میں حال اور قال دونوں کا جمع ہونا ضروری ہے.بعض وقت اعلام تصویری ہوتا ہے.ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے جس سے دیکھنے والے کو پتہ ملتا ہے کہ اُس کا منشاء یہ ہے.ایسا ہی صلوۃ میں منشائے الہی کی تصویر ہے.نماز میں جیسے زبان سے کچھ پڑھا جاتا ہے ویسے ہی اعضاء وجوارح کی حرکات سے کچھ دکھایا بھی جاتا ہے.جب انسان کھڑا ہوتا ہے اور تحمید وسیع کرتا ہے، اس کا نام قیام رکھا گیا ہے.اب ہر ایک شخص جانتا ہے کہ حمد وثناء کے مناسب حال قیام ہی ہے.بادشاہوں کے سامنے جب قصائد سنائے جاتے ہیں تو آخر کھڑے ہو کر ہی پیش کرتے ہیں.تو ادھر ظاہری طور پر قیام رکھا گیا ہے 41

Page 42

حقیقت نماز اور اُدھر زبان سے حمد و ثناء بھی رکھی ہے.مطلب اس کا یہی ہے کہ روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو.حمد ایک بات پر قائم ہو کر کی جاتی ہے.جوشخص مصدق ہو کر کسی کی تعریف کرتا ہے تو ایک رائے پر قائم ہو جاتا ہے.اس الحمد للہ کہنے والے کے واسطے یہ ضروری ہوا کہ وہ بچے طور پر الحمدللہ اسی وقت کہ سکتا ہے کہ پورے طور پر اس کو یقین ہو جائے کہ جمیع اقسام محامد کے اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.جب یہ بات دل میں انشراح کے ساتھ پیدا ہوگئی تو یہ روحانی قیام ہے کیونکہ دل اس پر قائم ہو جاتا ہے اور پھر سمجھا جاتا ہے کہ وہ کھڑا ہے.حال کے موافق کھڑا ہو گیا، تا کہ روحانی قیام نصیب ہو.پھر رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّي العَظِیم کہتا ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی کی عظمت مان لیتے ہیں تو اُس کے حضور جھکتے ہیں.عظمت کا تقاضا ہے کہ اُس کیلئے رکوع کرے.پس سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیمِ زبان سے کہا اور حال سے جھکنا دکھایا.یہ اُس قول کے ساتھ حال دکھایا.پھر تیسرا قول ہے سُبْحَانَ رَبِّي الأعلى - أعلى افعك تفضیل ہے.یہ بالذات سجدہ کو چاہتا ہے.اس لئے اُس کے ساتھ حالی تصویر سجدہ میں گرنا ہے.اس اقرار کے مناسب حال ہیئت فی الفور اختیار کر لی.اِس قال کے تین حال جسمانی ہیں.ایک تصویر اس کے آگے پیش کی گئی ہر ایک قسم کا قیام بھی کیا گیا ہے.زبان جو جسم کا ٹکڑا ہے اُس نے بھی کہا اور وہ شامل ہوگئی.42

Page 43

حقیقت نماز تیسری چیز اور ہے.وہ اگر شامل نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی.وہ کیا ہے؟ وہ قلب ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ قلب کا قیام ہو.اور اللہ تعالیٰ اس پر نظر کر کے دیکھے کہ در حقیقت وہ حمد بھی کرتا ہے اور کھڑا بھی ہے اور روح بھی کھڑا ہوا حمد کرتا ہے.جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی کھڑا ہے اور جب سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیمِ کہتا ہے تو دیکھے کہ اتنا ہی نہیں کہ صرف عظمت کا اقرار ہی کیا ہے، نہیں بلکہ ساتھ ہی جھکا بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی روح بھی جھک گیا ہے.پھر تیسری نظر میں خدا کے حضور سجدہ میں گرا ہے.اس کی عکو شان کو ملاحظہ میں لا کر اُس کے ساتھ ہی دیکھے کہ رُوح بھی الوہیت کے آستانہ پر گری ہوئی ہے.غرض یہ حالت جب تک پیدا نہ ہو لے، اُس وقت تک مطمن نہ ہو.کیونکہ يُقِيمُونَ الصلوة کے معنی یہی ہیں.اگر یہ سوال ہو کہ یہ حالت پیدا کیونکر ہو تو اس کا جواب اتنا ہی ہے کہ نماز پر مداومت کی جائے اور وساوس اور شبہات سے پریشان نہ ہو.ابتدائی حالت میں شکوک وشبہات سے ایک جنگ ضرور ہوتی ہے.اس کا علاج یہی ہے کہ نہ تھکنے والے استقلال اور صبر کے ساتھ لگا ر ہے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتا ر ہے.آخر وہ حالت پیدا 66 ہو جاتی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.یہ تقوی عملی کا ایک جزو ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 289-287 مطبوعہ 2010ء) اسی طرح انسانی سعی اور کوشش نماز کے ادا کرنے میں اِس سے زیادہ کیا کرسکتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے پاک اور صاف ہو کر اور نفی خطرات کر کے نماز ادا کریں اور کوشش کریں کہ نماز ایک گری ہوئی حالت میں نہ رہے اور اس کے جس قدر ارکان حمد وثنا 43

Page 44

حقیقت نماز حضرت عزت اور توبہ و استغفار اور دعا اور درود ہیں وہ دلی جوش سے صادر ہوں لیکن یہ تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ ایک فوق العادت محبت ذاتی اور خشوع ذاتی اور محویت سے بھرا ہوا ذوق وشوق اور ہر ایک کدورت سے خالی حضور اُس کی نماز میں پیدا ہو جائے گویا وہ خدا کو دیکھ لے اور ظاہر ہے کہ جب تک نماز میں یہ کیفیت پیدا نہ ہو وہ نقصان سے خالی نہیں.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ متقی وہ ہیں جو نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور کھڑی وہی چیز کی جاتی ہے جو گرنے کیلئے مستعد ہے.پس آیت يُقيمُونَ الصَّلوة کے یہ معنی ہیں کہ جہاں تک اُن سے ہوسکتا ہے نماز کو قائم کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں اور تکلف اور مجاہدات سے کام لیتے ہیں مگر انسانی کوششیں بغیر خدا تعالیٰ کے فضل کے بیکار ہیں.اس لئے اُس کریم ورحیم نے فرمایا ھدًی لِلْمُتَّقِینَ یعنی جہاں تک ممکن ہو وہ تقویٰ کی راہ سے نماز کی اقامت میں کوشش کریں.پھر اگر وہ میرے کلام پر ایمان لاتے ہیں تو میں اُن کو فقط انہی کی کوشش اور سعی پر نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں آپ اُن کی دستگیری کروں گا.تب اُن کی نماز ایک اور رنگ پکڑ جائے گی اور ایک اور کیفیت اُن میں پیدا ہو جائے گی جو اُن کے خیال و گمان میں بھی نہیں تھی.یہ فضل محض اس لئے ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور جہاں تک اُن سے ہو سکا اُس کے احکام کے مطابق عمل میں مشغول رہے.غرض نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدر طبعی جوش اور ذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میسر آجائے کہ انسان کی آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے دیکھنے کے لئے کھل جائے اور ایک خارق عادت کیفیت مشاہدہ جمال باری کی میسر آجائے جولذاتِ 44

Page 45

حقیقت نماز روحانیہ سے سراسر معمور ہو اور دنیوی رذایل اور انواع و اقسام کے معاصی قولی اور فعلی اور بصری اور سماعی سے دل کو متنفر کر دے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ “ ( ہود ۱۱۵) (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 139-138 مطبوعہ 2021ء) اور پھر نماز کو کھڑی کرتے ہیں.یعنی نماز میں ابھی پورا سرور اور ذوق پیدا نہیں ہوتا ، تا ہم بے لطفی اور بے ذوقی اور وساوس میں ہی نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ تجھ پر یا تجھ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اُس پر ایمان لاتے ہیں.ی متقی کے ابتدائی مدارج ہیں اور صفات ہیں...اسی طرح پر نماز کے متعلق ابتدائی حالت تو یہی ہوگی جو یہاں بیان کی کہ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں یعنی نماز گویا گری پڑتی ہے.گرنے سے مراد یہ ہے کہ اُس میں ذوق اور لذت نہیں.بے ذوقی اور وساوس کا سلسلہ ہے.اس لئے اس میں وہ کشش اور جذب نہیں کہ انسان جیسے بھوک پیاس سے بیقرار ہو کر کھانے اور پانی کے لئے دوڑتا ہے اسی طرح پر نماز کے لئے دیوانہ وار دوڑے لیکن جب وہ ہدایت پاتا ہے تو پھر یہ صورت نہیں رہے گی.اُس میں ایک ذوق پیدا ہو جائے گا.وساوس کا سلسلہ ختم ہو کر اطمینان اور سکینت کا رنگ شروع ہو گا.کہتے ہیں کسی شخص کی کوئی چیز گم ہوگئی تو اُس نے کہا کہ ذرا ٹھہر جاؤ نماز میں یاد آجائے گی.یہ نماز کاملوں کی نہیں ہوا کرتی کیونکہ اس میں تو شیطان انہیں وسوسہ 45

Page 46

حقیقت نماز ڈالتا ہے لیکن جب کامل کا درجہ ملے گا تو ہر وقت نماز میں ہی رہے گا اور ہزاروں روپیہ کی تجارت اور مفاد بھی اُس میں کوئی حرج اور روک نہیں ڈال سکتا.اسی طرح پر باقی جو کیفیتیں ہیں وہ نرے قال کے رنگ میں نہ ہوں گی، اُن میں حالی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور غیب سے شہود پر پہنچ جائے گا.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 123-122 مطبوعہ 2010ء) اقامت صلوۃ سے اگلا درجہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز میں وساوس کو فی الفور دُور کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ کی منشاء کچھ اور ہے.کیا خدا نہیں جانتا؟ حضرت شیخ عبد القادر گیلانی ( رحمتہ اللہ علیہ ) کا قول ہے کہ ثواب اس وقت تک ہے جب تک مجاہدات ہیں اور جب مجاہدات ختم ہوئے ، تو ثواب ساقط ہوجاتا ہے.گو یا صوم وصلوٰۃ اُس وقت تک اعمال ہیں جب تک ایک جدو جہد سے وساوس کا مقابلہ ہے لیکن جب اُن میں ایک اعلیٰ درجہ پیدا ہو گیا اور صاحب صوم وصلوۃ تقویٰ کے تکلف سے بچ کر صلاحیت سے رنگین ہو گیا تو اب صوم وصلوٰۃ اعمال نہیں رہے.اس موقعہ پر انہوں نے سوال کیا کہ کیا اب نماز معاف ہو جاتی ہے؟ کیونکہ ثواب تو اُس وقت تھا، جس وقت تک تکلف کرنا پڑتا تھا.سو بات یہ ہے کہ نماز اب عمل نہیں بلکہ ایک انعام ہے.یہ نماز اس کی ایک غذا ہے جو اس کے لیے قرة العین ہے یہ گویا نقد بہشت ہے.“ ،، ( ملفوظات جلد اول صفحہ 19-18 مطبوعہ 2010ء) 46

Page 47

حقیقت نماز متقی کی دوسری صفت یہ ہے.یقیمُونَ الصَّلوةَ یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں.متقی سے جیسا ہوسکتا ہے نماز کھڑی کرتا ہے یعنی کبھی اس کی نما ز گر پڑتی ہے پھر اسے کھڑا کرتا ہے.یعنی متقی خدا تعالیٰ سے ڈرا کرتا ہے اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے.اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں حارج ہوتے ہیں اور نماز کو گرا دیتے ہیں لیکن یہ نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے.کبھی نماز گرتی ہے مگر یہ پھر اسے کھڑا کرتا ہے اور یہی حالت اس کی رہتی ہے کہ وہ تکلف اور کوشش سے بار بار اپنی نماز کو کھڑا کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کرتا ہے.اس کی ہدایت کیا ہوتی ہے.اس وقت بجاۓ يُقِيمُونَ الصَّلوة کے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اس کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس غیب کے ذریعہ انہیں وہ مقام عطا کرتا ہے جس کی نسبت فرمایا ہے کہ بعض آدمی ایسے کامل ہو جاتے ہیں کہ نماز ان کے لیے بمنزلہ غذا ہو جاتی ہے اور نماز میں ان کو وہ لذت اور ذوق عطا کیا جاتا ہے جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اُسے پیتا ہے اور خوب سیر ہو کر حظ حاصل کرتا ہے یا سخت بھوک کی حالت ہو اور اُسے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا خوش ذائقہ کھانا مل جاوے جس کو کھا کر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے.یہی حالت پھر نماز میں ہو جاتی ہے.وہ نماز اس کے لیے ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب اور اضطراب محسوس کرتا ہے لیکن نماز کے ادا کرنے سے اس کے دل میں ایک خاص سرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جس کو ہر شخص نہیں پا سکتا اور نہ الفاظ میں یہ لذت بیان ہوسکتی ہے اور انسان ترقی کر کے ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اُسے ذاتی محبت ہو 47

Page 48

حقیقت نماز جاتی ہے اور اس کو نماز کے کھڑے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی.اس لئے کہ وہ نماز اُس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے.اس میں ایک طبعی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوتی ہے.انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ اُس کی محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی کا رنگ رکھتی ہے.اس میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی.جس طرح پر حیوانات اور دوسرے انسان اپنے ماکولات اور مشروبات اور دوسری شہوات میں لذت اٹھاتے ہیں اُس سے بہت بڑھ چڑھ کر وہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے.اس لئے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے.نما ز ساری ترقیوں کی جڑ اور زمینہ ہے.اسی لئے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اللہ، راست باز، ابدال، قطب گذرے ہیں.اُنہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کئے؟ اسی نماز کے ذریعہ سے.خود آنحضرت صل العلم فرماتے ہیں قُرةُ عَيْني في الصلوۃ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کے لئے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنے آنحضرت ملال کے اس ارشاد کے ہیں.پس کشاکش نفس سے انسان نجات پا کر اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 605-604 مطبوعہ 2010ء) 48

Page 49

حقیقت نماز نماز اصل میں ایک دعا ہے نماز اور دعا ”نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے،مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں.نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے.اس کے غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا تسبیح اور تہلیل میں مصروف رہے بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 101 مطبوعہ 2010ء) پھر نماز کیا ہے؟ یہ ایک دعا ہے جس میں پورا درد اور سوزش ہو.اسی لئے اس کا نام صلوۃ ہے.کیونکہ سوزش اور فرقت اور درد سے طلب کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بدا را دوں اور برے جذبات کو اندر سے دور کرے اور پاک محبت اس کی جگہ اپنے فیض عام کے ماتحت پیدا کر دے.صلوة کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نرے الفاظ اور دعا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک سوزش، رقت اور درد ساتھ ہو.خدا تعالیٰ کسی دعا کو نہیں سنتا جب تک دعا کرنے والا موت تک نہ پہنچ جاوے.دعا مانگنا ایک مشکل امر ہے اور لوگ اس کی حقیقت سے محض ناواقف ہیں.بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت فلاں امر کے لئے دعا کی تھی مگر اُس کا اثر نہ ہوا اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ سے بدظنی 49

Page 50

حقیقت نماز کرتے ہیں اور مایوس ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں.وہ نہیں جانتے کہ جب تک دعا کے لوازم ساتھ نہ ہوں وہ دعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.دعا کے لوازم میں سے یہ ہے کہ دل پگھل جاوے اور روح پانی کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرے اور ایک کرب اور اضطراب اس میں پیدا ہو اور ساتھ ہی انسان بے صبر اور جلد باز نہ ہو بلکہ صبر اور استقامت کے ساتھ دعا میں لگا ر ہے.پھر توقع کی جاتی ہے کہ وہ دعا قبول ہوگی.نماز بڑی اعلیٰ درجہ کی دعا ہے مگر افسوس لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہی سمجھتے ہیں کہ رسمی طور پر قیام رکوع سجود کر لیا اور چند فقرے طوطے کی طرح رٹ لئے خواہ اُسے سمجھیں یا نہ سمجھیں.ایک اور افسوسناک امر پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے ہی مسلمان نماز کی حقیقت سے ناواقف تھے اور اس پر توجہ نہیں کرتے تھے.اس پر بہت سے فرقے ایسے پیدا ہو گئے جنہوں نے نماز کی پابندیوں کو اڑا کر اس کی جگہ چند وظیفے اور ورد قرار دے دئیے.کوئی نوشاہی ہے.کوئی چشتی ہے.کوئی کچھ ہے کوئی کچھ.یہ لوگ اندورنی طور پر اسلام اور احکام الہی پر حملہ کرتے ہیں اور شریعت کی پابندیوں کو توڑ کر ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں.یقین یا درکھو کہ ہمیں اور ہر ایک طالب حق کو نماز ایسی نعمت کے ہوتے ہوئے کسی اور بدعت کی ضرورت نہیں ہے.آنحضرت علایم جب کسی تکلیف یا ابتلاء کو دیکھتے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور ہمارا اپنا اور اُن راستبازوں کا جو پہلے ہو گزرے ہیں، ان سب کا تجربہ ہے کہ نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 94-93 مطبوعہ 2010ء) 50

Page 51

حقیقت نماز نماز انسان کا تعویذ ہے.پانچ وقت دُعا کا موقعہ ملتا ہے.کوئی دعا توسنی جائے گی.اس لیے نماز کو بہت سنوار کر پڑھنا چاہیے اور مجھے یہی بہت عزیز ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 396 مطبوعہ 2010ء) ” نماز کیا چیز ہے.نماز دراصل رب العزۃ سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے.جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی.اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا.جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزا آتا ہے اسی طرح پھر گر یہ وبکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہو جائے گی.اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تا کہ صحت حاصل ہو اسی طرح بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں.اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے.کہ اے اللہ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں.میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا.اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے.تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے.تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں.جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئیگا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کر دے گی.“ (ملفوظات جلد دوم صفحه 616-615 مطبوعہ 2010ء) " 51

Page 52

حقیقت نماز سوایسا ہی علمی تجارب کے ذریعہ سے ہر ایک عارف کو ماننا پڑا ہے کہ دعا کا قبولیت کے ساتھ ایک رشتہ ہے.ہم اس راز کو معقولی طور پر دوسروں کے دلوں میں بٹھا سکیں یا نہ بٹھا سکیں مگر کروڑ بار استبازوں کے تجارب نے اور خود ہمارے تجربہ نے اس مخفی حقیقت کو ہمیں دکھلا دیا ہے کہ ہمارا دعا کرنا ایک قوت مقناطیسی رکھتا ہے اور فضل اور رحمت الہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے.نماز کا مغز اور روح بھی دعا ہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے.جب ہم اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ ) کہتے ہیں تو اس دعا کے ذریعہ سے اس نور کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے اترتا اور دلوں کو یقین اور محبت سے منور کرتا ہے.“ ایام الصلح - روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 241-240 مطبوعہ 2021ء)...یہ سورۃ فاتحہ کا خلاصہ مطلب ہے جس کو پانچ وقت مسلمان نماز میں پڑھتے ہیں بلکہ در اصل اسی دعا کا نام نماز ہے اور جب تک انسان اس دعا کو درددل کے ساتھ خدا کے حضور میں کھڑے ہو کر نہ پڑھے اور اس سے وہ عقدہ کشائی نہ چاہے جس عقدہ کشائی کیلئے یہ دعا سکھلائی گئی ہے تب تک اُس نے نماز نہیں پڑھی.“ اسم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 419 مطبوعہ 2021ء) خدا تعالیٰ بڑا کریم ہے.اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا.اس لیے تم کو چاہئے کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو.ہر ایک نماز میں دعا کے لیے کئی مواقع ہیں.رکوع، قیام ، قعدہ ، سجدہ وغیرہ.پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے.فجر، ظہر، عصر، شام اور عشاء.ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں.یہ سب دعا ہی کے لیے مواقع ہیں.52

Page 53

حقیقت نماز نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت کے عین مطابق ہے.مثلا ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بے قرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے.الوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا.جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اُس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گر یہ کو چاہتا ہے.اس لئے اُس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ 234 مطبوعہ 2010ء) ”انسان کی زاہدانہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے.وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے، امن میں رہتا ہے.جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے.اسی طرح پر نماز میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور گڑ گڑانے والا اپنے آپ کو ربوبیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے.یادرکھو اُس نے ایمان کا حظ نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی.نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے.بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگیں مارتی ہے ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کرتے ہیں، حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لیے ملا تھا اُس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد کرنے میں گزار دیتے ہیں اور حضورِ الہی سے نکل کر دعا مانگتے ہیں.نماز میں دعا مانگو.نماز کو دعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو.53

Page 54

حقیقت نماز فاتحہ، فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں.مومن کو مومن اور کافر کو کافر بنا دیتی ہے.یعنی دونوں میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی ، سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے.اس لئے سورۃ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہئے اور اس دعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے.انسان کو واجب ہے کہ وہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بناوے اور جیسے ایک فقیر اور سائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے اسی طرح سے چاہئے کہ پوری تفرع اور ابتہال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرے.پس جب تک نماز میں تضرع سے کام نہ لے اور دعا کے لئے نماز کو ذریعہ قرار نہ دے نماز میں لذت کہاں ؟“ ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ : ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 402 مطبوعہ 2010ء) نماز اصل میں دعا ہے.نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے.اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لیے تیار رہے، کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے.ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اُٹھاتا ہوں.مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں.میں بہت رحم کرتا ہوں.بیکسوں کی امداد کرتا ہوں.لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے.اس کے پاس سے گذرتا ہے اور اس کی ندا کی پروا نہیں کرتا نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا.یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست 54

Page 55

حقیقت نماز کرے.قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے، کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے.“ ،، ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 54 مطبوعہ 2010ء) استغفار کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا تعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اور ملے.اسی کی تحصیل کے لیے پنجگانہ نماز بھی ہے تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے.جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تفرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پاسکتا ہے.وہ لوگ بہت بیوقوف ہیں جو ڈوری ڈالنے والی تاریکی کا علاج نہیں کرتے.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 97 مطبوعہ 2010ء) عمار اصل میں ایک دعا ہے جو سکھائے ہوئے طریقہ سے مانگی جاتی ہے.یعنی کبھی کھڑے ہونا پڑتا ہے، کبھی جھکنا اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا ہے اور جو اصلیت کو نہیں سمجھتاوہ " پوست پر ہاتھ مارتا ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 335 مطبوعہ 2010ء) صلوۃ اور دعا میں فرق فرمایا: ”ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوۃ میں اور دعا میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ الصلوةُ هِيَ الدُّعَاءُ الصَّلَوةُ مُخُ الْعِبَادَةِ یعنی نماز ہی دعا ہے.نماز عبادت کا مغز ہے.جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لیے ہو تو اس 55

Page 56

حقیقت نماز کا نام صلوۃ نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے اور ادب انکسار تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کو نا معقول باتوں سے ہٹاتی ہے.اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الہی کو حاصل کرے.اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے.یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہو جاتے ہیں.خاص کر خامی اور کج پنے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں.صلوٰۃ کا لفظ پُر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے.ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہیے.جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کا نام صلوۃ ہوتا ہے.“ قبولیت دعا کے اوقات ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 284-283 مطبوعہ 2010ء) شیخ رحمت اللہ صاحب کو فرمایا کہ: ہم آپ کے واسطے دعا کرتے ہیں آپ بھی اس وقت دعا کیا کریں.ایک تو رات کے تین بجے تہجد کے واسطے خوب وقت ہوتا ہے.کوئی کیسا ہی ہو تین بجے اُٹھنے میں اس کے لیے حرج نہیں اور دوسرا جب اچھی طرح سورج چمک اُٹھے تو اس وقت ہم 56

Page 57

حقیقت نماز سبیت الدعا میں بیٹھتے ہیں.یہ دونوں وقت قبولیت کے ہیں.نماز میں تکلیف نہیں.سادگی کے ساتھ اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرے.“ نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنا وو ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 283 مطبوعہ 2010ء) یہ ضروری بات نہیں ہے کہ دعائیں عربی زبان میں کی جاویں.چونکہ اصل غرض نماز کی تضرع اور ابتہال ہے، اس لئے چاہیئے کہ اپنی مادری زبان میں ہی کرے.انسان کو اپنی مادری زبان سے ایک خاص انس ہوتا ہے اور پھر وہ اس پر قادر ہوتا ہے.دوسری زبان سے خواہ اس میں کس قدر بھی دخل اور مہارت کامل ہو، ایک قسم کی اجنبیت باقی رہتی ہے.اس لئے چاہئے کہ اپنی مادری زبان میں ہی دعائیں مانگے.(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 402 مطبوعہ 2010ء) فرمایا: ”نماز کے اندر ہی اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو.سجدہ میں ، بیٹھ کر ، رکوع میں کھڑے ہو کر، ہر مقام پر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرو.بیشک پنجابی زبان میں دعائیں کرو.جن لوگوں کی زبان عربی نہیں اور عربی سمجھ نہیں سکتے اُن کے واسطے ضروری ہے کہ نماز کے اندر ہی قرآن شریف پڑھنے اور مسنون دعائیں عربی میں پڑھنے کے بعد اپنی زبان میں بھی خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے اور عربی دعاؤں کا اور قرآن شریف کا بھی ترجمہ سیکھ لینا چاہئے.نماز کو صرف جنتر منتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ اس کے معانی اور حقیقت سے معرفت حاصل کرو.خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے تو ہم کو معاف کر اور دنیا اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا.57

Page 58

حقیقت نماز آجکل لوگ جلدی جلدی نماز کو ختم کرتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں مانگنے بیٹھتے ہیں.یہ بدعت ہے.جس نماز میں تضرع نہیں، خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں، خدا تعالیٰ سے رقت کے ساتھ دعا نہیں وہ نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی نماز ہے...دیکھو بخیل سے بھی انسان مانگتا رہتا ہے تو وہ بھی کسی نہ کسی وقت کچھ دے دیتا ہے اور رحم کھاتا ہے.خدا تعالیٰ تو خود حکم دیتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور میں تمہیں دوں گا.جب کبھی کسی امر کے واسطے دعا کی ضرورت ہوتی تو رسول اللہ صلی کا یہی طریق تھا کہ آپ وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جاتے اور نماز کے اندر دعا کرتے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحه 45-44 مطبوعہ 2010ء) نماز کے اندر اپنی زبان میں دعا مانگنی چاہئے کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے.سورۃ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ اسی طرح عربی زبان میں پڑھنا چاہئے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہئے اور اس کے بعد مقررہ دعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہیئے اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دعائیں مانگنی چاہئیں تا کہ حضورِ دل پیدا ہو جاوے.کیونکہ جس نماز میں حضورِ دل نہیں وہ نماز نہیں.آجکل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھونگے دار پڑھ لیتے ہیں.جلدی جلدی نماز کو ادا کر لیتے ہیں جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے.پھر پیچھے سے لمبی لمبی دعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں.یہ بدعت ہے.حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پھر دعا کی جاوے.نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں.نماز خود دعا ہے.دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دعائیں مانگنی چاہئیں.58

Page 59

حقیقت نماز نماز کے اندر ہر موقعہ پر دعا کی جاسکتی ہے.رکوع میں بعد تسبیح، سجدہ میں بعد تسبیح ، التحیات کے بعد، کھڑے ہو کر رکوع کے بعد بہت دعائیں کرو تا کہ مالا مال ہو جاؤ.چاہئے کہ دعا کے واسطے روح پانی کی طرح بہہ جاوے.ایسی دعا دل کو پاک وصاف کر دیتی ہے.یہ دعا میسر آوے تو پھر خواہ انسان چار پہر تک دعا میں کھڑا رہے.گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگنی چاہئیں.دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہو جاتی ہے.بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.یہ غلط خیال ہے.ایسے لوگوں کی نما ز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 55-54 مطبوعہ 2010ء) یہ بھی یا درکھو دعا اپنی زبان میں بھی کر سکتے ہو بلکہ چاہئے کہ مسنون ادعیہ کے بعد اپنی زبان میں آدمی دعا کرے کیونکہ اس زبان میں وہ پورے طور پر اپنے خیالات اور حالات کا اظہار کر سکتا ہے.اس زبان میں وہ قادر ہوتا ہے.دعا نماز کا مغز اور روح ہے اور رسمی نماز جب تک اس میں روح نہ ہو کچھ نہیں اور روح کے پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گریہ و بکا اور خشوع و خضوع ہو اور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حالت کو بخوبی بیان کرے اور ایک اضطراب اور قلق اس کے دل میں ہو اور یہ بات اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اپنی زبان میں انسان اپنے مطالب کو پیش نہ کرے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 4 مطبوعہ 2010ء) 59

Page 60

حقیقت نماز...میں تو یہاں تک بھی کہتا ہوں کہ اس بات سے مت رکو کہ نماز میں اپنی زبان میں دعائیں کرو.بیشک اُردو میں، پنجابی میں، انگریزی میں، جو جس کی زبان ہو اسی میں دعا کرلے.مگر ہاں یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی طرح پڑھو.اس میں اپنی طرف سے کچھ دخل مت دو.اِس کو اسی طرح پڑھو اور معنے سمجھنے کی کوشش کرو.اسی طرح ماثورہ دعاؤں کا بھی اسی زبان میں التزام رکھو.قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد جو چاہو خدا تعالیٰ سے مانگو اور جس زبان میں چاہو مانگو.وہ سب زبانیں جانتا ہے، سنتا ہے قبول کرتا ہے.اگر تم اپنی نماز کو با حلاوت اور پُر ذوق بنانا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ اپنی زبان میں کچھ نہ کچھ دعائیں کرو مگر اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نمازیں تو ٹکریں مار کر پوری کر لی جاتی ہیں پھر لگتے ہیں دعائیں کرنے.نماز تو ایک ناحق کا ٹیکس ہوتا ہے.اگر کچھ اخلاص ہوتا ہے تو نماز کے بعد میں ہوتا ہے.یہ نہیں سمجھتے کہ نماز خود دعا کا نام ہے جو بڑے عجز، انکسار، خلوص اور اضطراب سے مانگی جاتی ہے.بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی صرف دعاہی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھولنے کا پہلا مرحلہ دعا ہی ہے.“ نے فرمایا.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 661-660 مطبوعہ 2010ء) سوال ہوا کہ آیا نماز میں اپنی زبان میں دعامانگنا جائز ہے.حضرت اقدس علیہ السلام ”سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں.چاہئے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے نماز کے اندر دعائیں مانگے کیونکہ اس کا اثر دل پر پڑتا ہے تا کہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو.60

Page 61

حقیقت نماز کلام الہی کو ضرور عربی میں پڑھو اور اس کے معنی یاد رکھو اور دعا بے شک اپنی زبان میں مانگو.جولوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں کرتے ہیں، وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.دعا کا وقت نماز ہے.نماز میں بہت دعائیں مانگو.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 509 مطبوعہ 2010ء) کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے.مگر تم اس نعمت کو کیونکر پاسکو.اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرہ ۴۶) یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو.نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ اُن کی نماز اور اُن کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں.لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے، باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کروتا ہو کہ تمہارے دلوں پر اُس عجز و نیا ز کا کچھ اثر ہو.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 69-68 مطبوعہ 2021ء) قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کوسنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو.اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو، بلکہ اُس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو.نماز کو اُسی طرح پڑھو ، جس طرح رُسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے.البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی 61

Page 62

حقیقت نماز زبان میں بے شک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو.اس میں کوئی حرج نہیں ہے.اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی.آج کل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے.نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں.نما زتو بہت جلد جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دُعا کے لیے بیٹھے رہتے ہیں.نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے.نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہوسکتا ہے.ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے.اسے کیا فائدہ.ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے تم کو جو دعائیں کرنی ہوں، نماز میں کرلیا کرو اور پورے آداب الدعا کوملحوظ رکھو.( ملفوظات جلد دوم صفحه 191 مطبوعہ 2010ء) غرض ظنون فاسده والا انسان ناقص الخلقت ہوتا ہے.چونکہ اس کے پاس صرف رسمی اُمور ہوتے ہیں اس لیے نہ اس کا دین درست ہوتا ہے نہ دنیا.ایسے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نماز کے مطالب سے نا آشنا ہوتے ہیں اور ہر گز نہیں سمجھتے کہ کیا کر رہے ہیں.نماز میں تو ٹھو نگے مارتے ہیں لیکن نماز کے بعد دعا میں گھنٹہ گھنٹہ گزار دیتے ہیں.تعجب کی بات ہے کہ نماز جو اصل دعا کے لئے ہے اور جس کا مغز ہی دعا ہے اس میں وہ کوئی دعا نہیں کرتے.نماز کے ارکان بجائے خود دعا کے لیے محرک ہوتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 393 مطبوعہ 2010ء) سوال ہوا کہ نماز کے بعد دعا کرنا یہ سنت اسلام میں ہے یا نہیں؟ فرمایا : 62

Page 63

حقیقت نماز ہم انکار نہیں کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی ہو گی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کر کے گلے سے اُتارتے ہیں.پھر دعاؤں میں اس کے بعد اس قدر خشوع خضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دومیل تک نکل جاوے.بعض لوگ اس سے تنگ بھی آ جاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے.خشوع خضوع اصل جز و تو نماز کی ہے.وہ اس میں نہیں کیا جاتا اور نہ اس میں دعا مانگتے ہیں.اس طرح سے وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں.انسان نماز کے اندر ہی ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگ سکتا ہے.“ ،، ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 265-264 مطبوعہ 2010ء) پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو.اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے.نماز کا مزا نہیں آتا ہے جب تک حضور نہ ہو اور حضور قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو.عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آجائے کہ کیا پڑھتا ہے.اس لیے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لیے جوش اور اضطراب پیدا ہوسکتا ہے مگر اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ نماز کو اپنی زبان ہی میں پڑھو.نہیں میرا یہ مطلب ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو.ورنہ نماز کے ان الفاظ میں خدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے.نماز دعا ہی کا نام ہے.اس لیے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر ہو ( حاشیہ میں درج ہے : ”البدر میں مزید فقرہ ہے.اور تمام کام تمہارے اس کی مرضی کے موافق ہوں) اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو.نیک انسان بنو اور ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو.“ 66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 435-434 مطبوعہ 2010ء) 63

Page 64

حقیقت نماز میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ جس طرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے.اُن کی نماز میں اس قدر بھی رقت اور لذت نہیں ہوتی جس قدر نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں.کاش یہ لوگ اپنی دعائیں نماز میں ہی کرتے.شاید اُن کی نمازوں میں حضور اور لذت پیدا ہو جاتی.اس لیے میں حکماً آپ کو کہتا ہوں کہ سر دست آپ بالکل نماز کے بعد دعا نہ کریں.اور وہ لذت اور حضور جو دعا کے لیے رکھا ہے، دعاؤں کو نماز میں کرنے سے پیدا کریں.میرا مطلب یہ نہیں کہ نماز کے بعد دعا کرنی منع ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذت اور حضور پیدا نہ ہو نماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذت کو مت گنواؤ.ہاں جب یہ حضور پیدا ہو جاوے تو کوئی حرج نہیں.سو بہتر ہے نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو.جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہر گز غیر زبان میں پیدا نہیں ہوسکتا.سونمازوں میں قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی ضرورتوں کو برنگ دعا اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے آگے پیش کرو تا کہ آہستہ آہستہ تم کو حلاوت پیدا ہو جائے.سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جا تا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے.ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دور کر دے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے “ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 30-29 مطبوعہ 2010ء) نماز اور دعا کے بارے میں نہایت جامع ارشادات نمازوں میں دعائیں اور درود ہیں.یہ عربی زبان میں ہیں مگر تم پر حرام نہیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگا کرو، ورنہ ترقی نہ ہوگی.خدا کا حکم ہے کہ نماز وہ 64

Page 65

حقیقت نماز ہے جس میں تضرع اور حضور قلب ہو.ایسے ہی لوگوں کے گناہ دُور ہوتے ہیں.چنانچہ فرمایا انَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ - هود ۱۱۵) یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں.یہاں حسنات کے معنے نماز کے ہیں اور حضور اور تضرع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوتا ہے.پس کبھی کبھی ضرور اپنی زبان میں دعا کیا کرو اور بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے.جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجاوے تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہو جاوے گا.اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراط مستقیم تلاش کرو اور دعا کرو کہ یا الہی میں تیرا گنہگار بندہ ہوں اور اُفتادہ ہوں، میری رہنمائی کر.ادنی اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے.بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آجاوے گی.پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا جو بے مثل کریم ہے کیوں نہ پائے ؟ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پالیتا ہے.نماز کا دوسرا نام دعا بھی ہے جیسے فرمایا اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ - ( مومن ۶۱ ) پھر فرمایا وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَلَى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.(البقره ۱۸۷) جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے.پس میں بہت ہی قریب ہوں.میں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے.بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں.پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا.اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے.وہ شخص تو تمہاری آواز سن کر تم کو جواب دے گا مگر جب وہ دور 65

Page 66

حقیقت نماز سے جواب دے گا تو تم بہ باعث بہرہ پن کے سن نہیں سکو گے.پس جوں جوں تمہارے درمیانی پر دے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جاوے گی تو تم ضرور آواز کو سنو گے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 176-175 مطبوعہ 2010ء) مولوی سیدمحمودشاہ صاحب نے جو سہارنپور سے تشریف لائے ہوئے ہیں حضرت اقدس امام علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور جب آپ نماز مغرب سے فارغ ہو کر شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے یہ عرض کیا کہ میں نے آج تحفہ گولڑویہ اور کشتی نوح کے بعض مقامات پڑھے ہیں.میں ایک امر جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں.اگر چہ وہ فروعی ہے لیکن پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز دعا مانگتے ہیں لیکن یہاں نوافل تو خیر دعا بعد نماز نہیں مانگتے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: م صل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیں.اور صلوٰۃ بجائے خود دعا ہی ہے.بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندوستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں.گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے.اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے جس میں کراہت پائی جاتی ہے حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق، انس اور سرور بڑھتا ہے مگر جس طریق پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے.میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں بلکہ حضورِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو.عام طور پر یہ - 66

Page 67

حقیقت نماز حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لئے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں؛ حالانکہ نماز کا ( جو مومن کی معراج ہے ) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لئے اُمُّ الْأَدْعِيَهُ، اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ دعا مانگی جاتی ہے.انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک اقام الصلوۃ نہ کرے.آقِیمُوا الصَّلوةَ اِس لئے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے مگر جو شخص اقام الصلوة کرتے ہیں تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں.نما ز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اسے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی.اور وہ فارغ ہی نہیں ہو سکتا.ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے.اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اسے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا.مومن کو ہمیشہ اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں مگر نماز کے بعد جو دعاؤں کا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے.بعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں کہ آدھ میل کا سفر ایک آدمی کر سکتا ہے.میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کو سنوارو یہ بھی دعا ہے.کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں.کوئی اثر روحانیت اور خشوع وخضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا.اس کا یہی سبب ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے.ایسی 67

Page 68

حقیقت نماز نمازوں کے لیے ویل آیا ہے.دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جوہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لیے اسے پھینک دینا چاہیے.ہر گز نہیں.اول اس جوہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوں کو بھی سنبھالے.اس لیے نماز کوسنوار سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھے.سائل : الحمد شریف میشک دعا ہے مگر جن کو عربی کا علم نہیں.ان کو تو دعا مانگنی چاہیے.حضرت اقدس : ہم نے اپنی جماعت کو کہا ہوا ہے کہ طوطے کی طرح مت پڑھو.سوائے قرآن شریف کے جو رب جلیل کا کلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھیں، نماز با برکت نہ ہوگی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو.اس لیے ہر شخص کو جو عربی زبان نہیں جانتا ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعاؤں کو پیش کرے اور رکوع میں سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے.ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں.اس لیے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نماز کے اندر اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں.اور ہم بھی کر لیتے ہیں اگر چہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں مگر مادری زبان کے ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتا ہے.اس لیے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو بارگاہ ربّ العزۃ میں عرض کرنا چاہیے.میں نے بار ہا سمجھایا ہے کہ نماز کا تعہد کر وجس سے حضور اور ذوق پیدا ہو.فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں.باقی نوافل اور سنن کو جیسا چاہو طول دو.اور چاہیے کہ اس میں گریہ و بکا ہو، تاکہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے.نماز ایسی شے ہے کہ سیات کو دور کر دیتی ہے.جیسے فرمایازان الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ (هود ۱۱۵) نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے.68

Page 69

حقیقت نماز حسنات سے مراد نماز ہے.مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکا رسمجھا جاتا ہے کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہیں ہوتا.نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا.آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے.دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پاس جاتا ہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے اگر دس بیس دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے.پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہود نہیں ہوتا.میرا تو یہ مذہب ہے که اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر قلب ہو جاتی ہے.مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نماز پڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور و بدنیا اور سفلی زندگی میں نگونسار ہیں.اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے.اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے طبیعتیں دو قسم کی ہیں.ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں.جیسے اگر ہندو کا کسی مسلمان کے ساتھ کپڑا بھی چھو جائے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتا ہے؛ حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کر گیا.زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیں.اور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں.جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعا نہیں مانگتے بلکہ نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں.یہ بدعت نہیں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ادعیہ عربی میں سکھائی تھیں جو اُن لوگوں کی اپنی مادری زبان تھی.اسی لئے ان کی ترقیات جلدی ہوئیں لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلا تو وہ ترقی نہ رہی.اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم و عادت کے طور پر رہ گئے.ان کے نیچے 69

Page 70

حقیقت نماز جو حقیقت اور مغز تھا وہ نکل گیا.اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے.یادرکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز.صلوۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں.یہ قرب کی کنجی ہے.اسی سے کشوف ہوتے ہیں.اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں.یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں.ہم دعاؤں سے انکار نہیں کرتے.بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دعاؤں کی قبولیت پر ایمان ہے.جبکہ خدا تعالیٰ نے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن ۶۱ ) فرمایا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھہرایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے.آپ سے التزام ثابت نہیں ہے.اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی.تقاضائے وقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعا کر لی.اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپ کا سارا ہی وقت دعاؤں میں گزرتا تھا.لیکن نماز خاص خزینہ دعاؤں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے.اس لیے اس کا فرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کرے اور اس کی طرف توجہ نہ کرے کیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہیے.اگر کوئی شخص ذوق اور حضورِ قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو پھر خارج نماز بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے.ہم تقدیم نماز کی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض ہے.مگر لوگ آج کل نماز کی قدر نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بہت بعد ہو گیا.مومن کے لیے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینان قلب پاتا ہے، کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اپنی عبودیت کا اقرار، استغفار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 70

Page 71

حقیقت نماز پر درود.غرض وہ سب امور جو روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں موجود ہیں.ہمارے دل میں اس کے متعلق بہت سی باتیں ہیں جن کو الفاظ پورے طور پر ادا نہیں کر سکتے.بعض سمجھ لیتے ہیں اور بعض رہ جاتے ہیں.مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تھکتے نہیں.کہتے جاتے ہیں.جو سعید ہوتے ہیں اور جن کو فراست دی گئی ہے وہ سمجھ لیتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 348-345 مطبوعہ 2010ء) 71

Page 72

حقیقت نماز روح اور راستی والی نماز پڑھنے کا طریق اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسانہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کرتے ہوا ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھوڈالو.تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیا جائے.“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 549 مطبوعہ 2021ء) سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سواپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو.“ کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15 مطبوعہ 2021ء) سیالکوٹ کے ضلع کا ایک نمبر دار تھا.اس نے بیعت کرنے کے بعد پوچھا کہ حضورا اپنی زبان مبارک سے کوئی وظیفہ بتادیں.فرمایا کہ : ”نمازوں کو سنوار کر پڑھو کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے اور اسی 66 میں ساری لذات اور خزانے بھرے ہوئے ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 106 مطبوعہ 2010ء) 72

Page 73

حقیقت نماز ایک شخص نے سوال کیا کہ نماز میں کھڑے ہو کر اللہ جل شانہ کا کس طرح کا نقشہ پیش نظر ہونا چاہئے؟ حضرت اقدس نے فرمایا: موٹی بات ہے.قرآن شریف میں لکھا ہے اُدْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ (الاعراف ۳۰) اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے اور اُس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے.چاہئے کہ اخلاص ہو.احسان ہو اور اُس کی طرف ایسا رجوع ہو کہ بس وہی ایک رب اور حقیقی کارساز ہے.عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اُسی کی عظمت اور اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے.ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا تعالیٰ سے بہت مانگے اور بہت توبہ استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیۂ نفس ہو جاوے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو جاوے اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے اور یہ سارا سورہ فاتحہ میں ہی آ جاتا ہے.دیکھو اياكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين ( الفاتحہ ۵ ) میں اپنی کمزوریوں کا اظہار کیا گیا ہے اور امداد کے لئے خدا تعالیٰ سے ہی درخواست کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت طلب کی گئی ہے اور پھر اس کے بعد نبیوں اور رسولوں کی راہ پر چلنے کی دعامانگی گئی ہے اور ان انعامات کو حاصل کرنے کے لئے درخواست کی گئی ہے جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے اس دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اور جو انہی کی اتباع اور انہی کے طریقہ پر چلنے 73

Page 74

حقیقت نماز سے حاصل ہو سکتے ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا مانگی گئی ہے کہ اُن لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے تیرے رسولوں اور نبیوں کا انکار کیا اور شوخی اور شرارت سے کام لیا اور اسی جہان میں ہی اُن پر غضب نازل ہوایا جنہوں نے دنیا کو ہی اپنا اصلی مقصود سمجھ لیا اور راہِ راست کو چھوڑ دیا.اور اصلی مقصد نماز کا تو دعا ہی ہے اور اس غرض سے دعا کرنی چاہئے کہ اخلاص پیدا ہو اور خدا تعالیٰ سے کامل محبت ہو اور معصیت سے جو بہت بُری بلا ہے اور نامہ اعمال کو سیاہ کرتی ہے طبعی نفرت ہو اور تزکیۂ نفس اور روح القدس کی تائید ہو.دنیا کی سب چیزوں جاہ وجلال، مال و دولت، عزت و عظمت سے خدا مقدم ہو اور وہی سب سے عزیز اور پیارا ہو اور اس کے سوائے جو شخص دوسرے قصے کہانیوں کے پیچھے لگا ہوا ہے جن کا کتاب اللہ میں ذکر تک نہیں وہ گرا ہوا ہے اور محض جھوٹا ہے.نماز اصل میں ایک دعا ہے جو سکھائے ہوئے طریقہ سے مانگی جاتی ہے.یعنی کبھی کھڑے ہونا پڑتا ہے، کبھی جھکنا اور کبھی 66 سجدہ کرنا پڑتا ہے اور جو اصلیت کو نہیں سمجھتا وہ پوست پر ہاتھ مارتا ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 335-334 مطبوعہ 2010ء) نماز پڑھو اور تدبر سے پڑھو اور ادعیہ ماثورہ کے بعد اپنی زبان میں دعائیں مانگنی مطلق حرام نہیں ہے.جب گدازش ہو تو سمجھو کہ مجھے موقعہ دیا گیا ہے اس وقت کثرت سے مانگو.اس قدر مانگو کہ اس نکتہ تک پہنچو کہ جس سے رقت پیدا ہو جاوے.یہ بات اختیاری نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کی طرف سے ترشحات ہوتے ہیں.اس کو چہ میں اول انسان کو تکلیف ہوتی ہے مگر ایک دفعہ چاشنی معلوم ہوگی تو پھر سمجھے گا.جب اجنبیت جاتی رہے گی 74

Page 75

حقیقت نماز اور نظارہ قدرت الہی دیکھ لے گا تو پھر پیچھا نہ چھوڑے گا.قاعدہ کی بات ہے کہ تجربہ میں جب ایک دفعہ ایک بات تھوڑی سی آجاوے تو تحقیقات کی طرف انسان کی طبیعت میلان کرتی ہے.اصل میں سب لذات خدا تعالیٰ کی محبت میں ہیں.ملعون لوگ ( یعنی جو خدا سے دُور ہیں ) جو زندگی بسر کرتے ہیں وہ کیا زندگی ہے.بادشاہ اور سلاطین کی کیا زندگیاں ہیں مثل بہائم کے ہیں.جب انسان مومن ہوتا ہے تو خود ان سے نفرت کرتا ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 631 مطبوعہ 2010ء) اللہ تعالی نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دیئے ہیں.سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے چنانچہ اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِلى آخره یعنی دعا سے پہلے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی جاوے.جس سے اللہ تعالیٰ کے لیے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو، اس لیے فرمایا.الحمد للہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں.رب العلمین.سب کو پیدا کرنے والا اور پالنے والا.الرحمن.جو بلاعمل اور بن مانگے دینے والا ہے.الرّحِیم پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.ہر بدلہ اُسی کے ہاتھ میں ہے نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے.پورا اور کامل موحد تب ہی ہوتا ہے ، جب اللہ تعالی کو مالک یوم الدین تسلیم کرتا ہے.دیکھو حکام کے سامنے جا کر ان کو سب کچھ تسلیم کر 75

Page 76

حقیقت نماز لینا یہ گناہ ہے اور اس سے شرک لازم آتا ہے.اس لحاظ سے کہ اللہ تعالی نے اُن کو حاکم بنایا ہے.اُن کی اطاعت ضروری ہے، مگر اُن کو خدا ہر گز نہ بناؤ.انسان کا حق انسان کو خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو.پھر یہ کہو.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہم کو سیدھی راہ دیکھا.یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیے اور وہ نبیوں، صدیقوں ،شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے.اس دعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے.ان لوگوں کی راہ سے بچا ، جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے.غرض یہ مختصر طور پر سورہ فاتحہ کا ترجمہ ہے.اسی طرح پر سمجھ سمجھ کر ساری نماز کا ترجمہ پڑھ لو اور پھر اسی مطلب کو سمجھ کر نماز پڑھو.طرح طرح کے حرف رٹ لینے سے کچھ فائدہ نہیں.یہ یقینا سمجھو کہ آدمی میں سچی تو حید آہی نہیں سکتی ، جب تک وہ نماز کو طوطے کی طرح پڑھتا ہے.روح پر وہ اثر نہیں پڑتا اور ٹھو کر نہیں لگتی جو اس کو کمال کے درجہ تک پہنچاتی ہے.عقیدہ بھی یہی رکھو کہ خدا.تعالیٰ کا کوئی ثانی اور بد نہیں ہے اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کر کے دکھاؤ.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 192-191 مطبوعہ 2010ء) ”خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شئے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مد نظر رکھتے ہیں.اسی لئے سورۃ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ الْحَمْدُ للهِ رَبّ العلمين - یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا.الرّحمٰنِ 76

Page 77

حقیقت نماز یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والا.الرّحِیمِ یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمرات حسنہ مرتب کرنے والا ہے.مُلِكِ يَوْمِ الدّین.جزا سزا اُسی کے ہاتھ میں ہے.چاہیے رکھے چاہے مارے.اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اس دنیا کی بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے.جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اُسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ رب ہے.رحمن ہے.رحیم ہے.اُسے غائب مانتا چلا آرہا ہے.اور پھر اُسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے.اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے.ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے.پھر آگے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ یعنی اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا اور وہ وہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں.پھر غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ.نہ ان لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا.اور وَلَا الضَّالِّينَ.اور نہ اُن کی جو دور جا پڑے ہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَم سے کل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے.مثلاً ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتا ہے تو جب تک اسے ایک صراط مستقیم ہاتھ نہ آوے علاج نہیں کر سکتا.اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ ور علم کی ایک صراط مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آجاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہو جاتا ہے.اس مقام پر ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ انبیاء کو اس دعا کی کیوں ضرورت تھی.وہ تو پیشتر ہی صراط مستقیم پر ہوتے ہیں.تَلْمِيذُ الرَّحمٰنِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: 77

Page 78

حقیقت نماز وہ یہ دعا ترقی مراتب اور درجات کے لئے کرتے ہیں بلکہ بیراهدِنَا الصِّراط الْمُسْتَقِيمَ تو آخرت میں مومن بھی مانگیں گے کیونکہ جیسے اللہ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اُس کے درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے.( حاشیہ میں درج ہے : احکم میں یہ عبارت یوں ہے : چونکہ اللہ تعالیٰ غیر محدود ہے اس کے فیضان وفضل بھی غیر منقطع ہیں.اس لئے وہ ان غیر محدود فضلوں کے حاصل کرنے کے لئے اس دعا کو مانگتے تھے.)‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 680-679 مطبوعہ 2010ء) نماز اس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کر لے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مرنے کے لیے تیار ہو جائے.جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی اور سچے اخلاص اور وفاداری کا نمونہ نہیں دکھلاتا اس وقت تک اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال 66 بے اثر ہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 501 مطبوعہ 2010ء) ”ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا.جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں.لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں 78

Page 79

حقیقت نماز بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے.وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا.اس لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَن يَنَالَ اللہ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الج ۳۸) یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے.حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ مغز چاہتا ہے.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جولوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیازمندی اور عبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں.اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں.روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے.مثلاً اگر ایک شخص تکلف سے رونا چاہے تو آخر اس کو رونا آہی جائے گا.اور ایسا ہی جو تکلف سے ہنسنا چاہیے اسے ہنسی آہی جاتی ہے.اسی طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں.مثلاً کھڑا ہونا یار کوع کرنا.اس کے ساتھ ہی روح پر بھی اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم میں نیازمندی کی حالت دکھاتا ہے.اسی قدر روح میں پیدا ہوتی ہے.اگر چہ خدا نرے سجدہ کو قبول نہیں کرتا.مگر سجدہ کو روح کے ساتھ ایک تعلق ہے.اس لئے نماز میں آخری مقام سجدہ کا ہے.جب انسان نیازمندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے.جانوروں تک میں بھی یہ حالت مشاہدہ کی جاتی ہے.کتے 79

Page 80

حقیقت نماز بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آ کر اس کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دیتے ہیں.اور اپنی محبت کے تعلق کا اظہار سجدہ کی صورت میں کرتے ہیں.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو روح کے ساتھ خاص تعلق ہے.ایسا ہی روح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہوتا ہے.جب روح غمناک ہو تو جسم پر بھی اس کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور آنسو اور کا پز مردگی ظاہر ہوتی ہے.اگر روح اور جسم کا باہم تعلق نہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دوران خون بھی قلب کا ایک کام ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ قلب آبپاشی جسم کے لئے ایک انجن ہے.اس کے بسط اور قبض سے سب کچھ ہوتا ہے.غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں.روح میں جب عاجزی پیدا ہو جاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیازمندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہئے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو.اگر چہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے.مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہو جاتا ہے اور واقعی روح میں وہ نیازمندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 697-696 مطبوعہ 2010ء) یہ مت خیال کرو کہ جو نما ز کا حق تھا ہم نے ادا کر لیا یا دعا کا جو حق تھا وہ ہم نے پورا کیا.ہر گز نہیں.دعا اور نماز کے حق کا ادا کرنا چھوٹی بات نہیں.یہ تو ایک موت اپنے اوپر وارد کرنی ہے.نماز اس بات کا نام ہے کہ جب انسان اسے ادا کرتا ہو تو یہ محسوس 80

Page 81

حقیقت نماز کرے کہ اس جہان سے دوسرے جہان میں پہنچ گیا ہوں.بہت سے لوگ ہیں جو کہ اللہ تعالی پر الزام لگاتے ہیں اور اپنے آپ کو بری خیال کر کے کہتے ہیں کہ ہم نے تو نما ز بھی پڑھی اور دعا بھی کی ہے مگر قبول نہیں ہوتی.یہ ان لوگوں کا اپنا قصور ہوتا ہے.نماز اور دعا میں جب تک انسان غفلت اور کسل سے خالی نہ ہو تو وہ قبولیت کے قابل نہیں ہوا کرتی.اگر انسان ایک ایسا کھانا کھائے جو کہ بظاہر تو میٹھا ہے مگر اس کے اندر زہر ملی ہوئی ہے تو مٹھاس سے وہ زہر معلوم تو نہ ہوگا مگر پیشتر اس کے کہ مٹھاس اپنا اثر کرے زہر پہلے ہی اثر کر کے کام تمام کر دے گا.یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بھری ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ غفلت اپنا اثر پہلے کر جاتی ہے.یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بالکل مطیع ہو اور پھر اس کی دعا قبول نہ ہو.ہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے مقررہ شرائط کو کامل طور پر ادا کرے.جیسے ایک انسان اگر ڈور بین سے دُور کی شے نزدیک دیکھنا چاہے تو جب تک وہ دُوربین کے آلہ کو ٹھیک ترتیب پر نہ رکھے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.یہی حال نماز اور دعا کا ہے.اسی طرح ہر ایک کام کی شرط ہے.جب وہ کامل طور پر ادا ہو تو اس سے فائدہ ہوا کرتا ہے.اگر کسی کو پیاس لگی ہو اور پانی اس کے پاس بہت سا موجود ہے مگر وہ پئے نہ تو فائدہ نہیں اُٹھا سکتا یا اگر اس میں سے ایک دو قطرہ پئے تو کیا ہوگا ؟ پوری مقدار پینے سے ہی فائدہ ہوگا.غرضیکہ ہر ایک کام کے واسطے خدا تعالیٰ نے ایک حد مقرر کی ہے.جب وہ اس حد پر پہنچتا ہے تو بابرکت ہوتا ہے اور جو کام اس حد تک نہ پہنچیں تو وہ اچھے نہیں کہلاتے اور نہ ان میں برکت ہوتی ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 232-231 مطبوعہ 2010ء) 81

Page 82

حقیقت نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں اس قدر روتے اور قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم ہو جاتا.صحابہ نے عرض کی کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے تمام گناہ بخش دیئے ہیں پھر اس قدر مشقت اور رونے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا : کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 53 مطبوعہ 2010ء) ”نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے.خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے.نماز اس لئے نہیں کہ ٹکریں ماری جاویں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگے مارلیں.بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں.یہ کچھ نہیں.نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اُس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرتب صورت کا نام نماز ہے.اُس کی نما ز ہر گز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مد نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا.پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو.کھڑے ہو تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتادے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اُس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لئے دعا کرو.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 184 مطبوعہ 2010ء) سو تم نمازوں کو سنوارو اور خدا تعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب کرو.اس کی نواہی سے بچے رہو.اس کے ذکر اور یا د میں لگے رہو.دعا کا سلسلہ ہر وقت جاری 82

Page 83

حقیقت نماز رکھو.اپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع و سجود میں دعا کا موقعہ ہے دعا کرو اور غفلت کی نماز کو ترک کر دو.رسمی نماز کچھ ثمرات مترتب نہیں لاتی اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے.نما ز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع اور حضور قلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ وزاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سے ادا کی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو.اگر ایسانہ ہو سکے تو کم از کم یہ تو ہو کہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے.اس طرح کمال ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نماز ادا کرو.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 177-176 مطبوعہ 2010ء) نماز ایسے ادا نہ کرو جیسے مرغی دانے کے لیے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوز و گداز سے ادا کرو اور دعائیں بہت کیا کرو.نماز مشکلات کی کنجی ہے.ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بھی بہت دعا کیا کرو تا اس سے سوز و گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوز و گداز نہ ہوا سے ترک مت کرو کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے.چاہئے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو.اگر جسمانی طور پر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لیے ویسے ہی کھڑا ہو.اگر جھکو تو دل بھی ویسے ہی جھکے.اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے.دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ دور ہونے شروع ہو جاویں گے.معرفت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے.جیسے جو شخص سم الفار، سانپ اور شیر کو بلاک کرنے والا جانتا ہے تو وہ اُن کے نزدیک نہیں جاتا.ایسے جب تم کو 83

Page 84

حقیقت نماز معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکو گے.اس کے لیے ضروری ہے کہ یقین بڑھاؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤ گے.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 590-589 مطبوعہ 2010ء) 66 84

Page 85

حقیقی نماز کا مغز اور روح حضور قلب، حظ اور سُرور کی کیفیت މމ حقیقت نماز صلی جلنے کو کہتے ہیں.جیسے کباب بھونا جاتا ہے.اسی طرح نماز میں سوزش لازمی ہے.جب تک دل بریاں نہ ہو نماز میں لذت اور سرور پیدا نہیں ہوتا.اور اصل تو یہ ہے کہ نماز ہی اپنے سچے معنوں میں اُسی وقت ہوتی ہے.نماز میں شرط ہے کہ وہ جمیع شرائط ادا ہو.جب تک وہ ادا نہ ہو وہ نماز نہیں ہے اور نہ وہ کیفیت جو صلوۃ میں میل نماز کی ہے حاصل ہوتی ہے.“ (ملفوظات جلداول صفحہ 287 مطبوعہ2010ء) 66 نماز وہ ہے جس میں دعا کا مزہ آجاوے.خدا تعالیٰ کے حضور میں ایسی توجہ سے کھڑے ہو جاؤ کہ رقت طاری ہو جائے.جیسے کہ کوئی شخص کسی خوفناک مقدمہ میں گرفتار ہوتا ہے اور اس کے واسطے قید یا پھانسی کا فتویٰ لگنے والا ہوتا ہے.اس کی حالت حاکم کے سامنے کیا ہوتی ہے.ایسے ہی خوفزدہ دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے...نماز وہی اصلی ہے جس میں مزا آ جاوے.ایسی ہی نماز کے ذریعہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ نماز ہے جس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.نماز مومن کے واسطے ترقی کا ذریعہ ہے.اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّيَاتِ (ھود ۱۱۵) نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں." (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 45 مطبوعہ 2010ء) 85

Page 86

حقیقت نماز صلوۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الہی اور خوف الہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ماسوی اللہ کو جلا دینے کا نام ہے اور اس حالت کا نام ہے کہ صرف خدا ہی خدا اُس کی نظر میں رہ جاوے اور انسان اس حالت تک ترقی کر جاوے کہ خدا کے بلانے سے بولے اور خدا کے چلانے سے چلے.اس کی کل حرکات اور سکنات ، اس کا فعل اور ترک فعل سب اللہ ہی کی مرضی کے مطابق ہو جاوے.خودی دور ہو جاوے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 590 مطبوعہ 2010ء) دیکھو یہ جو نما ز پڑھی جاتی ہے اس میں بھی ایک طرح کا اضطراب ہے.کبھی کھڑا ہونا پڑتا ہے، کبھی رکوع کرنا پڑتا ہے اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا ہے اور پھر طرح طرح کی احتیاطیں کرنی پڑتی ہیں.مطلب یہی ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لئے دکھ اور مصیبت کو برداشت کرنا سیکھے ورنہ ایک جگہ بیٹھ کر بھی تو خدا تعالیٰ کی یاد ہوسکتی تھی پر خدا تعالیٰ نے ایسا منظور نہیں کیا.صلوۃ کا لفظ ہی سوزش پر دلالت کرتا ہے.جب تک انسان کے دل میں ایک قسم کا قلق اور اضطراب پیدا نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنے آرام کو نہ چھوڑے تب تک کچھ بھی نہیں.ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ فطرتاً اس قسم کے ہوتے ہیں جو ان باتوں پر پورے نہیں اتر سکتے اور پیدائشی طور پر ہی اُن میں ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جو وہ ان امور میں استقلال نہیں دکھا سکتے مگر تا ہم بھی تو بہ اور استغفار بہت کرنا چاہئے کہ کہیں ہم اُن میں ہی شامل نہ ہو جاویں جو دین سے بالکل بے پرواہ ہوتے ہیں اور اپنا مقصود بالذات دنیا کو ہی سمجھتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 331 مطبوعہ 2010ء) 86

Page 87

حقیقت نماز اللہ تعالیٰ کے نزدیک ولی اللہ اور صاحب برکات وہی شخص ہے جس کو یہ جوش حاصل ہو جائے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کا جلال ظاہر ہو.نماز میں جو سُبحَانَ رَبِّي الْعَظِيمِ اور سُبْحَانَ رَبِّي الأغلى کہا جاتا ہے.وہ بھی خدا تعالیٰ کے جلال کے ظاہر ہونے کی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عظمت ہو جس کی نظیر نہ ہو.نماز میں تسبیح و تقدیس کرتے ہوئے یہی حالت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے ترغیب دی ہے کہ طبعاً جوش کے ساتھ اپنے کاموں سے اور اپنی کوششوں سے دکھا دے کہ اُس کی عظمت کے برخلاف کوئی شے مجھ پر غالب نہیں آسکتی.یہ بڑی عبادت ہے.جولوگ اس کی مرضی کے مطابق جوش رکھتے ہیں.وہی مؤید کہلاتے ہیں اور وہی برکتیں پاتے ہیں.جولوگ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور تقدیس کے لئے جوش نہیں رکھتے اُن کی نمازیں جھوٹی ہیں اور ان کے سجدے بیکار ہیں.جب تک خدا تعالیٰ کے لیے جوش نہ ہو یہ سجدے صرف منتر جنتر ٹھہریں گے جن کے ذریعہ سے یہ بہشت کو لینا چاہتا ہے.یادرکھو کوئی جسمانی بات جس کے ساتھ کیفیت نہ ہو، فائدہ مند نہیں ہو سکتی.جیسا کہ اللہ تعالی کو قربانی کے گوشت نہیں پہنچتے ایسا ہی تمہارے رکوع اور سجود بھی نہیں پہنچتے ، جب تک اُن کے ساتھ کیفیت نہ ہو.اللہ تعالیٰ کیفیت کو چاہتا ہے اور اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کی عزت اور عظمت کے لئے جوش رکھتے ہیں.جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ایک بار یک راہ سے گزرتے ہیں اور کوئی دوسر اشخص ان کے ساتھ نہیں جاسکتا.جب تک کیفیت نہ ہو انسان ترقی نہیں کرسکتا.گویا خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ جب تک اس کے لئے جوش نہ ہو کوئی لذت نہیں دے گا.87

Page 88

حقیقت نماز ہر ایک آدمی کے ساتھ ایک تمنا ہوتی ہے لیکن کوئی شخص مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ ساری تمناؤں پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو مقدم نہ کرلے.ولی قریبی اور دوست کو کہتے ہیں.جو دوست چاہتا ہے، وہی یہ چاہتا ہے.تب یہ ولی کہلاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذريات ۵۷).انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے جوش رکھے.تب وہ اپنے ابنائے جنس سے بڑھ جائے گا اور خدا تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے بن جائے گا.مُردوں میں سے نہیں ہونا چاہئے کہ مردہ کے منہ میں ایک شئے ایک طرف سے ڈالی جاتی ہے تو دوسری طرف سے نکل آتی ہے.اسی طرح شقاوت کی حالت میں کوئی اچھی چیز اندر نہیں جاسکتی.یاد رکھو کہ کوئی عبادت اور صدقہ قبول نہیں ہوتا جبتک کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ذاتی جوش نہ ہو.جس کے ساتھ کوئی ملونی ذاتی فوائد اور منافع کی نہ ہو اور ایسا جوش ہو کہ خود بھی نہ جان سکے کہ یہ جوش مجھ میں کیوں ہے.بہت ضرورت ہے کہ ایسے لوگ بکثرت پیدا ہوں، مگر سوائے اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے کچھ نہیں ہوسکتا.“ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 263-262 مطبوعہ 2010ء) فرمایا : روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوز و گداز پیدا ہوتا ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جوگیوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے اس میں کوئی شامل نہیں.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 293-292 مطبوعہ 2010ء) 88

Page 89

حقیقت نماز حالت خشوع اور سوز و گداز کی فلاسفی تفصیل اس کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اِس سورۃ کے ابتداء میں جو سورۃ المؤمنون ہے...اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ کیونکر انسان مراتب ستہ کو طے کر کے جو اُس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اپنے کمال روحانی اور جسمانی کو یہ چاہتا ہے.سوخدا نے دونوں قسم کی ترقیات کو چھ چھ مرتبہ پر تقسیم کیا ہے اور مرتبہ ششم کو کمال ترقی کا مرتبہ قرار دیا ہے اور یہ مطابقت روحانی اور جسمانی وجود کی ترقیات کی ایسے خارقِ عادت طور پر دکھلائی ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے کبھی کسی انسان کے ذہن نے اس تکیہ معرفت کی طرف سبقت نہیں کی.اور اگر کوئی دعویٰ کرے کہ سبقت کی ہے تو بار ثبوت اُس کی گردن پر ہوگا کہ یہ پاک فلاسفی کسی انسان کی کتاب میں سے دکھلاوے اور یہ یادر ہے کہ وہ ایسا ہرگز ثابت نہیں کر سکے گا.پس بدیہی طور پر یہ معجزہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے وہ عمیق مناسبت جو روحانی اور جسمانی وجود کی اُن ترقیات میں ہے جو وجو د کامل کے مرتبہ تک پیش آتی ہیں ان آیات مبارکہ میں ظاہر کر دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ظاہری اور باطنی صنعت ایک ہی ہاتھ سے ظہور پذیر ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے...اب ہم روحانی مراتب سنتہ کا ذیل میں ذکر کرتے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.(۱) قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمُ خَاشِعُوْنَ (٢) وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ الْغَوِ مُعْرِضُونَ (۳) وَالَّذِينَ هُمْ للزكوة فَاعِلُونَ (٢) وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَفِظُونَ...(٥) وَالَّذِيْنَ 89

Page 90

حقیقت نماز هُمْ لِآمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ (٦) وَالَّذِيْنِ هُمْ عَلَى صَلَوتِهِمْ يُحَافِظُونَ اور ان کے مقابل جسمانی ترقیات کے مراتب بھی چھ قرار دیتے ہیں جیسا کہ وہ ان آیات کے بعد فرماتا ہے.(۱) ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِيْن (٢) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَة (٣) فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَة (٤) فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عظما (۵) فَكَسَوْنَا الْعِظُمَ لَحْمًا (1) ثُمَّ انْشَأْنُهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں ظاہر ہے کہ پہلا مرتبہ روحانی ترقی کا یہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ یعنی وہ مومن نجات پاگئے جو اپنی نماز اور یاد الہی میں خشوع اور فروتنی اختیار کرتے ہیں اور رقت اور گدازش سے ذکر الہی میں مشغول ہوتے ہیں.اس کے مقابل پر پہلا مرتبہ جسمانی نشو ونما کا جو اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے یعنی تم جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينِ.یعنی پھر ہم نے انسان کو نطفہ بنایا اور وہ نطفہ ایک محفوظ جگہ میں رکھا.سوخدا تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے بعد پہلا مرتبہ انسانی وجود کا جسمانی رنگ میں نطفہ کو قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ نطفہ ایک ایسا تخم ہے جو اجمالی طور پر مجموعہ اُن تمام قومی اور صفات اور اعضاء اندرونی و بیرونی اور تمام نقش ونگار کا ہوتا ہے جو پانچویں درجہ پر مفصل طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں اور چھٹے درجہ پر اتم اور اکمل طور پر اُن کا ظہور ہوتا ہے.( حاشیہ : درجات سے مراد وہ درجے ہیں جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں.پانچواں درجہ وہ ہے 90

Page 91

حقیقت نماز جب قدرت صانع مطلق سے انسانی قالب تمام و کمال رحم میں تیار ہو جاتا ہے اور ہڈیوں پر ایک خوشنما گوشت چڑھ جاتا ہے اور چھٹا درجہ وہ ہے جب اُس قالب میں جان پڑ جاتی ہے.اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے انسان کے روحانی وجود کا پہلا مرتبہ حالت خشوع اور عجز و نیاز اور سوز و گداز ہے اور درحقیقت وہ بھی اجمالی طور پر مجموعہ ان تمام امور کا ہے جو بعد میں کھلے طور پر انسان کے روحانی وجود میں نمایاں ہوتے ہیں.) اور باایں ہمہ نطفہ باقی تمام درجات سے زیادہ تر معرض خطر میں ہے کیونکہ ابھی وہ اس تخم کی طرح ہے جس نے ہنوز زمین سے کوئی تعلق نہیں پکڑا اور ابھی وہ رحم کی کشش سے بہرہ ور نہیں ہوا...جیسا کہ تخم بعض اوقات پتھریلی زمین پر پڑ کر ضائع ہو جاتا ہے.اور ممکن ہے کہ وہ نطفہ بذاتہا ناقص ہو یعنی اپنے اندر ہی کچھ نقص رکھتا ہو اور قابل نشو ونما نہ ہو اور یہ استعداد اس میں نہ ہو کہ رحم اُس کو اپنی طرف جذب کرلے اور صرف ایک مردہ کی طرح ہوجس میں کچھ حرکت نہ ہو.جیسا کہ ایک بوسیدہ خم زمین میں بویا جائے اور گوز میں عمدہ ہومگر تا ہم تم بوجہ اپنے ذاتی نقص کے قابل نشوونما نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ بعض اور عوارض کی وجہ سے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں نطفہ رحم میں تعلق پذیر نہ ہو سکے اور رحم اس کو اپنی کشش سے محروم رکھے.جیسا که تخم بعض اوقات پیروں کے نیچے کچلا جاتا ہے یا پرندے اُس کو چُگ جاتے ہیں یا کسی اور حادثہ سے تلف ہو جاتا ہے.یہی صفات مومن کے روحانی وجود کے اوّل مرتبہ کے ہیں اور اوّل مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقت اور سوز و گداز کی حالت ہے جو نما ز اور یاد الہی میں مومن کو 91

Page 92

حقیقت نماز میٹر آتی ہے.یعنی گدازش اور رقت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا.اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کر کے خدائے عز وجل کی طرف دل کو جھکانا جیسا کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے قد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ.یعنی وہ مومن مراد پاگئے جو اپنی نماز میں اور ہر ایک طور کی یاد الہی میں فروتنی اور عجز ونیا ز اختیار کرتے ہیں اور رقت اور سوز و گداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں.یہ خشوع کی حالت جس کی تعریف کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے روحانی وجود کی طیاری کیلئے پہلا مرتبہ ہے یا یوں کہو کہ وہ پہلا تخم ہے جو عبودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ اجمالی طور پر ان تمام قومی اور صفات اور اعضاء اور تمام نقش و نگار اور حسن و جمال اور خط و خال اور شمائل روحانیہ پر مشتمل ہے جو پانچویں اور چھٹے درجہ میں انسان کامل کے لئے نمودار طور پر ظاہر ہوتے اور اپنے دلکش پیرایہ میں تجلی فرماتے ہیں.( حاشیہ : پانچواں درجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.یعنی وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رُعُونَ.اور چھٹا درجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی وَالَّذِيْنِ هُمْ عَلَى صَلَوَتِهِمْ يُحَافِظُونَ.اور یہ پانچواں درجہ جسمانی درجات کے پنجم درجہ کے مقابل پر ہوتا ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے یعنی فَكَسَوْنَا الْعِظمَ لَحْمًا.اور چھٹا درجہ جسمانی درجات کے ششم درجہ کے مقابل پر پڑا ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے ثُمَّ انْشَأْنُهُ خَلْقًا آخَرَ ) اور چونکہ وہ نطفہ کی طرح روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے.اِس لئے وہ آیت قرآنی میں نطفہ کی طرح پہلے مرتبہ پر رکھا 92

Page 93

حقیقت نماز گیا ہے اور نطفہ کے مقابل پر دکھلایا گیا ہے تا وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے اور نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قومی اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں.اور جیسا کہ نطفہ اُس وقت تک معرض خطر میں ہے جب تک کہ رحم سے تعلق نہ پکڑے، ایسا ہی روحانی وجود کی یہ ابتدائی حالت یعنی خشوع کی حالت اُس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑ لے.یادر ہے کہ جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے جیسا کہ جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیض رحمانیت سے ظہور میں آیا لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے.یہی سنت اللہ بنی آدم کے لئے جاری ہے.پس جب کہ انسان نماز اور یاد الہی میں خشوع کی حالت اختیار کرتا ہے تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لئے مستعد بناتا ہے.سونطفہ میں اور روحانی وجود کے پہلے مرتبہ میں جو حالت خشوع ہے صرف فرق یہ ہے کہ نطفہ رحم کی کشش کا محتاج ہوتا ہے اور یہ رحیم کی کشش کی طرف احتیاج رکھتا ہے اور جیسا کہ نطفہ کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحم کی کشش سے پہلے ہی ضائع ہو جائے ، ایسا ہی روحانی وجود کے پہلے مرتبہ کے لئے یعنی حالت خشوع کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحیم کی کشش اور تعلق سے پہلے ہی برباد ہو جائے.جیسا کہ بہت سے لوگ ابتدائی حالت میں اپنی نمازوں میں روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور خدا کی محبت میں طرح طرح کی دیوانگی ظاہر کرتے ہیں اور طرح طرح کی عاشقانہ حالت دکھلاتے ہیں اور چونکہ اُس ذات ذوالفضل سے جس کا نام 93

Page 94

حقیقت نماز رحیم ہے کوئی تعلق پیدا نہیں ہوتا اور نہ اس کی خاص تجلی کے جذبہ سے اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں اِس لئے اُن کا وہ تمام سوز و گداز اور تمام وہ حالت خشوع بے بنیاد ہوتی ہے اور بسا اوقات اُن کا قدم پھسل جاتا ہے یہاں تک کہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا پڑتے ہیں.پس یہ عجیب دلچسپ مطابقت ہے کہ جیسا کہ نطفہ جسمانی وجود کا اول مرتبہ ہے اور جب تک رحم کی کشش اُس کی دستگیری نہ کرے وہ کچھ چیز ہی نہیں ایسا ہی حالت خشوع روحانی وجود کا اول مرتبہ ہے اور جب تک رحیم خدا کی کشش اسکی دستگیری نہ کرے وہ حالت خشوع کچھ بھی چیز نہیں.اسی لئے ہزار ہا ایسے لوگوں کو پاؤ گے کہ اپنی عمر کے کسی حصہ میں یاد الہی اور نماز میں حالت خشوع سے لذت اٹھاتے اور وجد کرتے اور روتے تھے اور پھر کسی ایسی لعنت نے اُن کو پکڑ لیا کہ یک مرتبہ نفسانی امور کی طرف گر گئے اور دنیا اور دنیا کی خواہشوں کے جذبات سے وہ تمام حالت کھو بیٹھے.یہ نہایت خوف کا مقام ہے کہ اکثر وہ حالت خشوع رحیمیت کے تعلق سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے اور قبل اس کے کہ رحیم خدا کی کشش اس میں کچھ کام کرے وہ حالت بر باد اور نابود ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں وہ حالت جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے اُس نطفہ سے مشابہت رکھتی ہے کہ جو رحم سے تعلق پکڑنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے.غرض روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو حالت خشوع ہے اور جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ جو نطفہ ہے باہم اس بات میں تشابہ رکھتے ہیں کہ جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ یعنی نطفہ بغیر کشش رحم کے پیچ ہے اور روحانی وجود کا پہلا مرتبہ یعنی حالت خشوع بغیر جذب رحیم کے بیچ اور جیسا کہ دنیا میں ہزا با نطفے تباہ ہوتے ہیں اور نطفہ ہونے کی حالت میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں اور رحم سے تعلق نہیں پکڑتے ، ایسا ہی دنیا میں 94

Page 95

حقیقت نماز ہزار ہا خشوع کی حالتیں ایسی ہیں کہ رحیم خدا سے تعلق نہیں پکڑتیں اور ضائع ہو جاتی ہیں.ہزار ہا جاہل اپنے چند روزہ خشوع اور وجد اور گریہ وزاری پر خوش ہو کر خیال کرتے ہیں کہ ہم ولی ہو گئے ،غوث ہو گئے ، قطب ہو گئے اور ابدال میں داخل ہو گئے اور خدا رسیدہ ہو گئے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں ہنوز ایک نطفہ ہے.ابھی تو نام خدا ہے غنچہ صبا تو چھو بھی نہیں گئی ہے.افسوس کہ انہیں خام خیالیوں سے ایک دنیا بلاک گئی.اور یادر ہے کہ یہ روحانی حالت کا پہلا مرتبہ جو حالت خشوع ہے طرح طرح کے اسباب سے ضائع ہوسکتا ہے جیسا کہ نطفہ جو جسمانی حالت کا پہلا مرتبہ ہے انواع اقسام کے حوادث سے تلف ہوسکتا ہے.منجملہ ان کے ذاتی نقص بھی ہے.مثلاً اس خشوع میں کوئی مشرکانہ ملونی ہے یا کسی بدعت کی آمیزش ہے یا اور لغویات کا ساتھ اشتراک ہے.مثلا نفسانی خواہشیں اور نفسانی ناپاک جذبات بجائے خود زور مار رہے ہیں یا سفلی تعلقات نے دل کو پکڑ رکھا ہے یا جیفہ دنیا کی لغو خواہشوں نے زیر کر دیا ہے.پس ان تمام نا پاک عوارض کے ساتھ حالت خشوع اس لائق نہیں ٹھہرتی کہ رحیم خدا اُس سے تعلق پکڑ جائے جیسا کہ اُس نطفہ سے رحم تعلق نہیں پکڑ سکتا جو اپنے اندر کسی قسم کا نقص رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہندو جوگیوں کی حالت خشوع اور عیسائی پادریوں کی حالت انکسار ان کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور گو وہ سوز و گداز میں اس قدر ترقی کریں کہ اپنے جسم کو بھی ساتھ ہی استخوان بے پوست کر دیں تب بھی رحیم خدا اُن سے تعلق نہیں کرتا کیونکہ اُن کی حالت خشوع میں ایک ذاتی نقص ہے اور ایسا ہی وہ بدعتی فقیر اسلام کے جو قرآن شریف کی پیروی چھوڑ کر ہزاروں بدعات میں مبتلا ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ بھنگ چرس اور شراب پینے سے بھی شرم نہیں کرتے اور دوسرے فسق و فجور بھی 95

Page 96

حقیقت نماز اُن کے لئے شیر مادر ہوتے ہیں.چونکہ وہ ایسی حالت رکھتے ہیں کہ رحیم خدا سے اور اُس کے تعلق سے کچھ مناسبت نہیں رکھتے بلکہ رحیم خدا کے نزدیک وہ تمام حالتیں مکروہ ہیں اس لئے وہ باوجود اپنے طور کے وجد اور رقص اور اشعار خوانی اور سرود وغیرہ کے رحیم خدا کے تعلق سے سخت بے نصیب ہوتے ہیں اور اُس نطفہ کی طرح ہوتے ہیں جو آتشک کی بیماری یا جذام کے عارضہ سے جل جائے اور اس قابل نہ رہے کہ رحم اس سے تعلق پکڑ سکے.پس رحم اور رحیم کا تعلق یا عدم تعلق ایک ہی بنا پر ہے.صرف روحانی اور جسمانی عوارض کا فرق ہے.اور جیسا کہ نطفہ بعض اپنے ذاتی عوارض کی رُو سے اس لائق نہیں رہتا کہ رحم اس سے تعلق پکڑ سکے اور اُس کو اپنی طرف کھینچ سکے ایسا ہی حالت خشوع جو نطفہ کے درجہ پر ہے بعض اپنے عوارض ذاتیہ کی وجہ سے جیسے تکبر اور عجب اور ریا یا اور کسی قسم کی ضلالت کی وجہ سے یا شرک سے اس لائق نہیں رہتی کہ رحیم خدا اُس سے تعلق پکڑ سکے.پس نطفہ کی طرح تمام فضیلت روحانی وجود کے اول مرتبہ کی جو حالت خشوع ہے رحیم خدا کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا کرنے سے وابستہ ہے جیسا کہ تمام فضیلت نطفہ کی رحم کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے وابستہ ہے.پس اگر اس حالت خشوع کو اُس رحیم خدا کے ساتھ حقیقی تعلق نہیں اور نہ حقیقی تعلق پیدا ہوسکتا ہے تو وہ حالت اُس گندے نطفہ کی طرح ہے جس کو رحم کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا نہیں ہوسکتا.اور یاد رکھنا چاہئے کہ نماز اور یاد الہی میں جو کبھی انسان کو حالتِ خشوع میٹر آتی ہے اور وجد اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے یا لذت محسوس ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے...( حاشیہ : ابتدائی حالت میں خشوع اور رقت کے ساتھ ہر طرح کے لغو کام جمع ہو سکتے ہیں.جیسا کہ بچہ میں 96

Page 97

حقیقت نماز رونے کی عادت بہت ہوتی ہے اور بات بات میں ڈر جاتا اور خشوع اور انکسار اختیار کرتا ہے مگر با ایں ہمہ بچپن کے زمانہ میں طبعاً انسان بہت سے لغویات میں مبتلا ہوتا ہے اور سب سے پہلے لغو باتوں اور لغو کاموں کی طرف ہی رغبت کرتا ہے اور اکثر لغوحرکات اورلغوطور پر کودنا اور اچھلنا ہی اُس کو پسند آتا ہے جس میں بسا اوقات اپنے جسم کو بھی کوئی صدمہ پہنچا دیتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی کی راہ میں فطرتاً پہلے لغویات ہی آتے ہیں اور بغیر اس مرتبہ کے طے کرنے کے دوسرے مرتبہ تک وہ پہنچ ہی نہیں سکتا.پس طبعاً پہلا زینہ بلوغ کا بچپن کے لغویات سے پر ہیز کرنا ہے.سو اس سے ثابت ہے کہ سب سے پہلا تعلق انسانی سرشت کولغویات سے ہی ہوتا ہے.)...یعنی کسی شخص میں نما ز اور یاد الہی کی حالت میں خشوع اور سوز و گداز اور گریہ وزاری پیدا ہونالازمی طور پر اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس شخص کو خدا سے تعلق بھی ہے.ممکن ہے کہ یہ سب حالات کسی شخص میں موجود ہوں مگر ابھی اُس کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہ ہو.جیسا کہ مشاہدہ صریحہ اس بات پر گواہ ہے کہ بہت سے لوگ پند و نصیحت کی مجلسوں اور وعظ و تذکیر کی محفلوں یا نماز اور یاد الہی کی حالت میں خوب روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور سوز و گداز ظاہر کرتے ہیں اور آنسو اُن کے رخساروں پر پانی کی طرح رواں ہو جاتے ہیں بلکہ بعض کا رونا تو منہ پر رکھا ہوا ہوتا ہے.ایک بات سنی اور وہیں رو دیا.مگر تا ہم لغویات سے وہ کنارہ کش نہیں ہوتے اور بہت سے لغو کام اور لغو باتیں اور لغوسیر و تماشے اُن کے گلے کا ہار ہو جاتے ہیں.جن سے سمجھا جاتا ہے کہ کچھ بھی اُن کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کچھ اُن کے دلوں میں ہے.پس یہ عجیب تماشا ہے کہ ایسے گندے نفسوں کے ساتھ بھی خشوع اور 97

Page 98

حقیقت نماز سوز و گداز کی حالت جمع ہو جاتی ہے.اور یہ عبرت کا مقام ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مجرد خشوع اور گریہ وزاری کہ جو بغیر ترک لغویات ہو کچھ فخر کرنے کی جگہ نہیں اور نہ یہ قرب الہی اور تعلق باللہ کی کوئی علامت ہے.بہت سے ایسے فقیر میں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے اُن کے آنسو گرنے شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں لیکن میں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص میں نے بڑے مگار بلکہ دنیا داروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں.اور بعض کوئیں نے ایسے خبیث طبع اور بددیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے ان کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع و خضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے که کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں.ہاں کسی زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ نیک بندوں کی علامت تھی مگر اب تو اکثر یہ پیرا یہ مگاروں اور فریب دہ لوگوں کا ہو گیا ہے.سبز کپڑے، بال سر کے لیے، ہاتھ میں تسبیح، آنکھوں سے دمبدم آنسو جاری ، لبوں میں کچھ حرکت گویا ہر وقت ذکر الہی زبان پر جاری ہے اور ساتھ اس کے بدعت کی پابندی.یہ علامتیں اپنے فقر کی ظاہر کرتے ہیں.مگر دل مجذوم محبت الہی سے محروم.الا ماشاء اللہ.راستبا زلوگ میری اس تحریر سے مستثنی ہیں.جن کی ہر ایک بات بطور جوش اور حال کے ہوتی ہے نہ بطور تکلف اور قال کے.بہر حال یہ تو ثابت ہے کہ گریہ وزاری اور خشوع 98

Page 99

حقیقت نماز اور خضوع نیک بندوں کے لئے کوئی مخصوص علامت نہیں بلکہ یہ بھی انسان کے اندر ایک قوت ہے جو محل اور بے محل دونوں صورتوں میں حرکت کرتی ہے.انسان بعض اوقات ایک فرضی قصہ پڑھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ فرضی اور ایک ناول کی قسم ہے مگر تا ہم جب اُس کے ایک دردناک موقعہ پر پہنچتا ہے تو اس کا دل اپنے قابو سے نکل جاتا ہے اور بے اختیار آنسو جاری ہوتے ہیں جو تھمتے نہیں.ایسے دردناک قصے یہاں تک مؤثر پائے گئے ہیں کہ بعض وقت خود ایک انسان ایک پُر سوز قصہ بیان کرنا شروع کرتا ہے اور جب بیان کرتے کرتے اُس کے ایک پُر درد موقعہ پر پہنچتا ہے تو آپ ہی چشم پر آب ہو جاتا ہے اور اس کی آواز بھی ایک رونے والے شخص کے رنگ میں ہو جاتی ہے.آخر اس کا رونا اچھل پڑتا ہے اور جورونے کے اندر ایک قسم کی سرور اور لذت ہے وہ اُس کو حاصل ہو جاتی ہے اور اُس کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ جس بنا پر وہ روتا ہے وہ بنا ہی غلط اور ایک فرضی قصہ ہے.پس کیوں اور کیا وجہ کہ ایسا ہوتا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ سوز و گداز اور گریہ وزاری کی قوت جوانسان کے اندرموجود ہے اُس کو ایک واقعہ کے صحیح یا غلط ہونے سے کچھ کام نہیں بلکہ جب اُس کے لئے ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو اُس قوت کو حرکت دینے کے قابل ہوتے ہیں تو خواہ مخواہ وہ رقت حرکت میں آجاتی ہے اور ایک قسم کا سرور اور لذت ایسے انسان کو پہنچ جاتا ہے گو وہ مومن ہو یا کافر.اسی وجہ سے غیر مشروع مجالس میں بھی جو طرح طرح کی بدعات پر مشتمل ہوتی ہیں بے قید لوگ جو فقیروں کے لباس میں اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں مختلف قسم کی کافیوں اور شعروں کے سننے اور سرود کی تاثیر سے رقص اور وجد اور گریہ وزاری شروع کر دیتے ہیں اور اپنے رنگ میں لذت اٹھاتے ہیں.اور خیال 99

Page 100

حقیقت نماز کرتے ہیں کہ ہم خدا کومل گئے ہیں.مگر یہ لذت اُس لذت سے مشابہ ہے جو ایک زانی کو حرامکار عورت سے ہوتی ہے....پس وہ لذت سوز وگداز کی ایک لذت حلال ہوتی ہے مگر کبھی خشوع اور سوز و گداز اور اُس کی لذت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش اور بتوں اور دیویوں کی پوجا میں بھی حاصل ہوتی ہے مگر وہ لذت حرامکاری کے جماع سے مشابہ ہوتی ہے.غرض مجرد خشوع اور سوز و گداز اور گریہ وزاری اور اس کی لذتیں تعلق باللہ کو مستلزم نہیں بلکہ جیسا کہ بہت سے ایسے نطفے ہیں جو ضائع جاتے ہیں اور رحم اُن کو قبول نہیں کرتا ایسا ہی بہت سے خشوع اور تضرع اور زاری ہیں جو محض آنکھوں کو کھونا ہے اور رحیم خدا اُن کو قبول نہیں کرتا.غرض حالت خشوع کو جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے نطفہ ہونے کی حالت سے جو جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے ایک کھلی کھلی مشابہت ہے جس کو ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور یہ مشابہت کوئی معمولی امر نہیں ہے بلکہ صانع قدیم جل شانہ کے خاص ارادہ سے اِن دونوں میں اکمل اور اتم مشابہت ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں بھی لکھا گیا ہے کہ دوسرے جہان میں بھی یہ دونوں لڑتیں ہوں گی مگر مشابہت میں اس قدر ترقی کر جائیں گی کہ ایک ہی ہو جائیں گی.یعنی اس جہان میں جو ایک شخص اپنی بیوی سے محبت اور اختلاط کرے گا وہ اس بات میں فرق نہیں کر سکے گا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت اور اختلاط کرتا ہے یا محبت الہیہ کے دریائے بے پایاں میں غرق ہے اور واصلانِ حضرت عزت پر اسی جہان میں یہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو اہل دنیا اور مجوبوں کے لئے ایک امر فوق الفہم ہے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 197-185 مطبوعہ 2021ء) 100

Page 101

حقیقت نماز نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے ، مگر لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں.نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدا تعالیٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے.اُس کے غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا تسبیح اور تہلیل میں مصروف رہے بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے.مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ آج کل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے.اس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہو رہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہیے وہ مزہ نہیں آتا.دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں لذت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو.جس طرح پر ایک مریض ایک عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ چیز کا مزہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ اُسے تلخ یا پھیکا سمجھتا ہے، اسی طرح وہ لوگ جو عبادات الہی میں حظ اور لذت نہیں پاتے اُن کو اپنی بیماری کا فکر کرنا چاہئے.کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی لذت نہ رکھی ہو.اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عبادت کیلئے پیدا کیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس عبادت میں اُس کیلئے لذت اور سُرور نہ ہو.لذت اور سُرور تو ہے مگر اس سے حظ اٹھانے والا بھی تو ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذریات ۵۷) اب انسان جبکہ عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سرور بھی درجہ غایت کا رکھا ہو.اس بات کو ہم اپنے روز مرہ کے مشاہدہ اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں.مثلاً دیکھو اناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لئے پیدا ہوئی ہیں تو کیا اُن سے وہ ایک لذت اور حظ نہیں پاتا ہے؟ کیا 101

Page 102

حقیقت نماز اس ذائقہ ، مزے اور احساس کے لئے اُس کے منہ میں زبان موجود نہیں؟ کیا وہ خوبصورت اشیاء دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات، حیوانات ہوں یا انسان، حظ نہیں پاتا؟ کیا دل خوش کن اور سریلی آوازوں سے اُس کے کان محظوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اور بھی اِس امر کے اثبات کے لئے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے عورت اور مرد کو جوڑا پیدا کیا اور مرد کو رغبت دی ہے.اب اس میں زبردستی نہیں کی، بلکہ ایک لذت بھی دکھلائی ہے.اگر محض توالد و تناسل ہی مقصود بالذات ہوتا تو مطلب پورا نہ ہو سکتا.عورت اور مرد کی برہنگی کی حالت میں اُن کی غیرت قبول نہ کرتی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق پیدا کریں.مگر اس میں اُن کے لئے ایک حظ ہے اور ایک لذت ہے.یہ حظ اور لذت اس درجہ تک پہنچتی ہے کہ بعض کو تاہ اندیش انسان اولاد کی بھی پرواہ اور خیال نہیں کرتے بلکہ اُن کو صرف حظ ہی سے کام اور غرض ہے.خدا تعالیٰ کی علت غائی بندوں کا پیدا کرنا تھا اور اس سبب کے لئے ایک تعلق عورت مرد میں قائم کیا اور ضمناً اس میں ایک حظ رکھ دیا جو اکثر نادانوں کے لئے مقصود بالذات ہو گیا ہے.اسی طرح سے خوب سمجھ لو کہ عبادت بھی کوئی بوجھ اور ٹیکس نہیں.اس میں بھی ایک لذت اور سرور ہے اور یہ لذت اور سرور دنیا کی تمام لذتوں اور تمام حظوظ نفس سے بالا تر اور بلند ہے.جیسے عورت اور مرد کے باہمی تعلقات میں ایک لذت ہے اور اس سے وہی بہرہ مند ہوسکتا ہے جومرد اپنے قومی صحیحہ رکھتا ہے.ایک نامرد اور محنت وہ حفظ نہیں پاسکتا اور جیسے ایک مریض کسی عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کی لذت سے محروم ہے اسی طرح پر ہاں ٹھیک ایسا ہی وہ کمبخت انسان ہے جو عبادت الہی سے لذت نہیں پاسکتا.102

Page 103

حقیقت نماز عورت اور مرد کا جوڑا تو باطل اور عارضی جوڑا ہے.میں کہتا ہوں حقیقی ، ابدی اور لذت مجسم جو جوڑ ہے وہ انسان اور خدا تعالیٰ کا ہے.مجھے سخت اضطراب ہوتا اور کبھی کبھی یہ رنج میری جان کو کھانے لگتا ہے کہ ایک دن اگر کسی کو روٹی یا کھانے کا مزا نہ آئے تو طبیب کے پاس جا تا اور کیسی کیسی منتیں اور خوشامد میں کرتا ہے.روپیہ خرچ کرتا، دکھ اٹھاتا ہے کہ وہ مزا حاصل ہو.وہ نامرد جو اپنی بیوی سے لذت حاصل نہیں کر سکتا بعض اوقات گھبرا گھبرا کر خود کشی کے ارادے تک پہنچ جاتا اور اکثر موتیں اس قسم کی ہو جاتی ہیں.مگر آہ ! وہ مریض دل ، وہ نامراد کیوں کوشش نہیں کرتا جس کو عبادت میں لذت نہیں آتی ؟ اُس کی جان کیوں غم سے نڈھال نہیں ہو جاتی ؟ دنیا اور اس کی خوشیوں کے لئے کیا کچھ کرتا ہے مگر ابدی اور حقیقی راحتوں کی وہ پیاس اور تڑپ نہیں پاتا.کس قدر بے نصیب ہے! کیسا ہی محروم ہے! عارضی اور فانی لذتوں کے علاج تلاش کرتا ہے اور پالیتا ہے.کیا ہوسکتا ہے کہ مستقل اور ابدی لذت کے علاج نہ ہوں؟ ہیں اور ضرور ہیں.مگر تلاش حق میں مستقل اور پو یہ قدم درکار ہیں.قرآنِ کریم میں ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے صالحین کی مثال عورتوں سے دی ہے.اس میں بھی ستر اور بھید ہے.ایمان لانے والوں کو مریم اور آسیہ سے مثال دی ہے.یعنی خدا تعالیٰ مشرکین میں سے مومنوں کو پیدا کرتا ہے.بہر حال عورتوں سے مثال دینے میں دراصل ایک لطیف راز کا اظہار ہے.یعنی جس طرح عورت اور مرد کا باہم تعلق ہوتا ہے اسی طرح پر عبودیت اور ربوبیت کا رشتہ ہے.اگر عورت اور مرد کی باہم موافقت ہو اور ایک دوسرے پر فریفتہ ہو تو وہ جوڑا ایک مبارک اور مفید جوڑا ہوتا ہے ورنہ نظام خانگی بگڑ جاتا ہے اور مقصود بالذات حاصل نہیں ہوتا ہے.مرد اور جگہ خراب ہوتا ہے صد با 103

Page 104

حقیقت نماز قسم کی بیماریاں لے آتا ہے.آتشک سے مجذوم ہو کر دنیا میں ہی محروم ہو جاتا ہے.اور اگر اولا د ہو بھی جاوے تو کئی پشت تک یہ سلسلہ برابر چلا جاتا ہے اور ادھر عورت بے حیائی کرتی پھرتی ہے اور عزت و آبرو کو ڈبو کر بھی سچی راحت حاصل نہیں کر سکتی.غرض اس جوڑے سے الگ ہو کر کس قدر بد نتائج اور فتنے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح انسان روحانی جوڑے سے الگ ہو کر مجذوم اور مخذول ہو جاتا ہے.دنیاوی جوڑے سے زیادہ رنج و مصائب کا نشانہ بنتا ہے.جیسا کہ عورت اور مرد کے جوڑے سے ایک قسم کی بقا کے لیے حفظ ہے.اسی طرح عبودیت اور ربوبیت کے جوڑے میں ایک ابدی بقاء کے لیے حظ موجود ہے.صوفی کہتے ہیں جس کو یہ حظ نصیب ہو جاوے وہ دنیا و مافیہا کے تمام حظوظ سے بڑھ کر ترجیح رکھتا ہے.اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اس کو معلوم ہو جاوے تو اس میں ہی فنا ہو جاوےلیکن مشکل تو یہ ہے کہ دنیا میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس راز کو نہیں سمجھا اور اُن کی نماز میں صرف ٹکڑیں ہیں اور او پرے دل کے ساتھ ایک قسم کی قبض اور تنگی سے صرف نشست و برخاست کے طور پر ہوتی ہیں.مجھے اور بھی افسوس ہوتا ہے ، جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ صرف اس لیے نمازیں پڑھتے ہیں کہ وہ دنیا میں معتبر اور قابلِ عزت سمجھے جاویں اور پھر اس نماز سے یہ بات ان کو حاصل ہو جاتی ہے یعنی وہ نمازی اور پر ہیز گار کہلاتے ہیں.پھر اُن کو کیوں یہ کھا جانے والا غم نہیں لگتا کہ جب جھوٹ موٹ اور بیدل کی نماز کو یہ مرتبہ حاصل ہوسکتا ہے تو کیوں ایک سچے عابد بننے سے ان کو عزت نہ ملے گی اور کیسی عزت ملے گی.104

Page 105

حقیقت نماز غرض میں دیکھتا ہوں کہ لوگ نمازوں میں غافل اور ست اس لیے ہوتے ہیں کہ اُن کو اس لذت اور سرور سے اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے اور بڑی بھاری وجہ اس کی یہی ہے.پھر شہروں اور گاؤں میں تو اور بھی سستی اور غفلت ہوتی ہے.سو پچاسواں حصہ بھی تو پوری مستعدی اور سچی محبت سے اپنے مولا حقیقی کے حضور سر نہیں جھکاتا.پھر سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ اُن کو اس لذت کی اطلاع نہیں اور نہ کبھی انہوں نے اس مزہ کو چکھا.اور مذاہب میں ایسے احکام نہیں ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور مؤذن اذان دے دیتا ہے.پھر وہ سننا بھی نہیں چاہتے ، گویا اُن کے دل دکھتے ہیں یہ لوگ بہت ہی قابل رحم ہیں.بعض لوگ یہاں بھی ایسے ہیں کہ ان کی دکانیں دیکھو تو مسجدوں کے نیچے ہیں مگر کبھی جا کر کھڑے بھی تو نہیں ہوتے.پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہیے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں.نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھا دے.کھایا ہوا یا درہتا ہے.دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یادرہتا ہے اور پھر اگر کسی بد شکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت بہ اعتبار اس کے مجسم ہو کر سامنے آجاتی ہے.ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہوتو کچھ یاد نہیں رہتا.اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اٹھ کر سردی میں وضو کر کے خواب راحت چھوڑ کر کئی قسم کی آسائشوں کو کھو کر پڑھنی پڑتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے، وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا.اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو.میں دیکھتا ہوں کہ 105

Page 106

حقیقت نماز ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا ، تو وہ پے در پے پیالے پیتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے.دانشمند اور بزرگ انسان اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے اور پڑھتا جاوے.یہاں تک کہ اُس کو سرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے، جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذات ہوتا ہے.اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اُسی سرور کا حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو کہ وہ لذت حاصل ہو تو میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقیناً وہ لذت حاصل ہو جاوے گی.پھر نماز پڑھتے وقت اُن مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اس سے ہوتے ہیں اور احسان پیشِ نظر رہے.اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ (ھود ۱۱۵) نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو کہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے، وہ نصیب کرے.یہ جو فرمایا ہے.انّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ (هود ۱۱۵) یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے نما ز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ.وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں.اُن کی روح مردہ ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا الصلوۃ کا لفظ نہیں رکھا.باوجود یکہ معنے وہی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نما ز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر 106

Page 107

حقیقت نماز ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے.وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کوڈ ور کرتی ہے.نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے.نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے....میں اس کو اور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدر مراتب طے کر کے انسان ہوتا ہے یعنی کہاں نطفہ، بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ.پھر نطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ، پھر جوان، بوڑھا.غرض ان تمام عالموں میں جو اُس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اُس کے ذہن میں کھنچا رہے.تو بھی وہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ ربوبیت کے مدِ مقابل میں اپنی عبودیت کا ڈال دے.غرض مدعا یہ ہے کہ نماز میں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے.جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جور بوبیت کا ذاتی تقاضہ ہے نہ ڈال دے، اُس کا فیضان اور پر تو اُس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلی درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے.اس مقام پر انسان کی رُوح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اور ماسوی اللہ سے اُسے انقطاع تام ہو جاتا ہے.اس وقت خدایتعالی کی محبت اُس پر گرتی ہے.اس اتصال کے وقت ان دو جوشوں سے، جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف عبودیت کا جوش ہوتا ہے، ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی 107

Page 108

حقیقت نماز ہے.اس کا نام صلوۃ ہے.پس یہی وہ صلوۃ ہے جو سیقات کو جسم کر جاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستہ کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے اور ہر قسم کے خس و خاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خار و خس سے جو اس کی راہ میں ہوتی ہیں، آگاہ کر کے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جبکہ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر (سورۃ العنکبوت ۴۶) کا اطلاق اس پر ہوتا ہے.کیونکر اُس کے ہاتھ میں نہیں اُس کے دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہوا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلل ، کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے.پھر گناہ کا خیال اُسے کیوں کر آسکتا ہے اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا.فحشاء کی طرف اس کی نظر اٹھ ہی نہیں سکتی.غرض ایک ایسی لذت، ایسا سرور حاصل ہوتا ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اُسے کیوں کر بیان کروں..نماز اور تو حید کچھ ہی کہو کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے، اس وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اُس میں نیستی اور تذلیل کی رُوح اور حنیف دل نہ ہو.سنو! وہ دعا جس کے لئے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْلَكُمْ (المومن ۶۱ ) فرمایا ہے اِس کے لئے یہی سچی روح مطلوب ہے.اگر اس میں تضرع اور خشوع میں حقیقی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.“ (ملفوظات جلداول صفحه 107-101 مطبوعہ 2010ء) 66 108

Page 109

حقیقت نماز فضائل و برکات نماز ذکر الہی اور تقرب الہی کا ذریعہ صل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے تو اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے.جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اتنا ہی زیادہ تیزی کوشش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہوگا.سوخدا تعالیٰ تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بعد اور ڈوری بھی لمبی.پس جو شخص خدا تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے.جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا.اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اُسے دل کی تسکین آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے غافل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.وہ زمانہ جس میں نمازیں سنوار کر پڑھی جاتی تھیں غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا.ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا.جب سے اُسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں.درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے.ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے.ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کوحل اور آسان کر دیا ہوا ہوتا ہے.109

Page 110

حقیقت نماز نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے.التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اُس کی غرض کو اچھی طرح سنتا ہے.پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا ہے اور گزارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے.نمازی کا یہی حال ہے.خدا کے آگے سربسجود رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے.پھر آخر سچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کے جواب کے واسطے بولتا اور اس کو جواب دے کر تسلی دیتا ہے.بھلا یہ بحر حقیقی نماز کے ممکن ہے؟ ہر گز نہیں.اطمینانِ قلب کا ذریعہ سوال : بہترین وظیفہ کیا ہے؟ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 190-189 مطبوعہ 2010ء) جواب : ”نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے، استغفار ہے اور درودشریف.تمام وظائف اور اوراد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر قسم کے غم وہم ڈور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور اسی لیے فرمایا ہے الا بذکرِ اللهِ تَطْمَئِنَّ الْقُلُوبُ اطمينان وسكينتِ قلب کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.لوگوں نے قسم قسم کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرت 110

Page 111

حقیقت نماز صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مقابلہ میں بنا دی ہوئی ہے.مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں.ان وظائف اور اور اد میں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اوراد میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.میں نے مولوی صاحب سے سُنا ہے کہ بعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں.میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے.نماز ہی کوسنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لیے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو.اس سے تمہیں اطمنیانِ قلب حاصل ہو گا اور سب مشکلات خدا تعالیٰ چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نما ز یاد الہی کا ذریعہ ہے.اس لیے فرمایا ہے آرقیم الصّلوةَ لید گرمی (طه (۱۵) ‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 310 تا 311 مطبوعہ 2010ء) معراج کے مراتب تک پہنچنے کا ذریعہ یاد رکھو ہمارا طریق بعینہ وہی ہے جو آنحضرت علی اور صحابہ کرام کا تھا.آجکل فقراء نے کئی بدعتیں نکال لی ہیں.یہ چلے اور در دوظائف جو انہوں نے رائج کرلئے ہیں ہمیں ناپسند ہیں.اصل طریق اسلام قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنا اور جو کچھ اس میں ہے اُس پر عمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا اور دعائیں توجہ اور انابت الی اللہ سے کرتے 111

Page 112

حقیقت نماز رہنا.بس نماز ہی ایسی چیز ہے جو معراج کے مراتب تک پہنچا دیتی ہے.یہ ہے تو سب کچھ ہے.والسلام “ (ملفوظات جلد پنجم صفحه 432 مطبوعہ 2010ء) پاک تبدیلی اور حقیقی نیکی کے حصول کا ذریعہ اس میں شک نہیں کہ نماز میں برکات ہیں مگر وہ برکات ہر ایک کو نہیں مل سکتے نماز بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالی نماز پڑھاوے ورنہ وہ نماز نہیں نرا پوست ہے جو پڑھنے والے کے ہاتھ میں ہے.اس کو مغز سے کچھ واسطہ اور تعلق ہی نہیں.اسی طرح کلمہ بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالیٰ کلمہ پڑھوائے.جب تک نماز اور کلمہ پڑھنے میں آسمانی چشمہ سے گھونٹ نہ ملے تو کیا فائدہ؟ وہ نما ز جس میں حلاوت اور ذوق ہو اور خالق سے سچا تعلق قائم ہو کر پوری نیازمندی اور خشوع کا نمونہ ہو اس کے ساتھ ہی ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جس کو پڑھنے والا فوراً محسوس کر لیتا ہے کہ اب وہ وہ نہیں رہا جو چند سال پہلے تھا.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 597 مطبوعہ 2010ء) بات یہ ہے کہ جسے خدا تعالیٰ بھیجتا ہے اس کے اندر ایک تر باقی مادہ رکھا ہوا ہوتا ہے.پس جو شخص محبت اور اطاعت میں اُس کے ساتھ ترقی کرتا ہے تو اُس کے تریاقی مادہ کی وجہ سے اُس کے گناہ کی زہر دُور ہوتی ہے اور فیض کے ترشحات اُس پر گرنے لگتے ہیں.اُس کی نماز معمولی نماز نہیں ہوتی.یادرکھو کہ اگر موجودہ ٹکروں والی نماز ہزار برس بھی پڑھی جاوے تو ہر گز فائدہ نہ ہوگا.نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے.نماز کا حق ادا کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ میں مر گیا اور اس کی روح 112

Page 113

حقیقت نماز گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گر پڑی ہے.اگر طبیعت میں قبض اور بدمزگی ہو تو اس کے لیے بھی دعا ہی کرنی چاہیے کہ الہی تو ہی اُسے دُور کر اور لذت اور نور نازل فرما.جس گھر میں اس قسم کی نماز ہوگی وہ گھر کبھی تباہ نہ ہوگا.حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوح" کے وقت میں یہ نماز ہوتی تو وہ قوم کبھی تباہ نہ ہوتی.حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے روزہ بھی مشروط ہے.زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں.سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کا ہے.اس لیے جب تک پوری پوری نماز نہ ہوگی تو وہ برکات بھی نہ ہوں گی جو اس سے حاصل ہوتی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہوگا.اگر بھوک یا پیاس لگی ہو تو ایک لقمہ یا ایک گھونٹ سیری نہیں بخش سکتا.پوری خوراک ہوگی تو تسکین ہو گی.اسی طرح ناکارہ تقویٰ ہر گز کام نہ آوے گا.خدا تعالیٰ انہیں سے محبت کرتا ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں.آج تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ( آل عمران ۹۳ ) کے یہ معنے ہیں کہ سب سے عزیز شئے جان ہے اگر موقعہ ہو تو وہ بھی خدا کی راہ میں دیدی جاوے.نماز میں اپنے اوپر جو موت اختیار کرتا ہے وہ بھی بڑ کو پہنچتا ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 627 مطبوعہ 2010ء) نما ز خدا کا حق ہے اُسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو.وفا اور صدق کا خیال رکھو.اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو.وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے.نماز ہر گز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے.جو اُسے منحوس کہتے ہیں اُن کے اندر خود زہر ہے.جیسے بیمار کو شرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی اُن کو نماز کا مزا 113

Page 114

حقیقت نماز نہیں آتا.یہ دین کو درست کرتی ہے.اخلاق کو درست کرتی ہے.دنیا کو درست کرتی ہے.نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے.لذات جسمانی کے لئے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جو اسے ملتا ہے.قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے.ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.نماز خواہ مخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کور بوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے.اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے.جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر اُن کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے.ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.دروازہ بند کر کے دعا کرنی چاہیے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو.جو تعلق عبودیت کار بوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پُر ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی.جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے.اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیالیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمی ( بنی اسرائیل ۷۳ ) آئندہ کے سب وعدے اسی سے وابستہ ہیں.ان باتوں کو فرض جان کر ہم نے بتلا دیا ہے.“ ملفوظات جلد سوم صفحہ 592-591 مطبوعہ 2010ء) اور پھر میں اصل ذکر کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ نماز کی لذت اور سرور اُسے حاصل نہیں ہو سکتا.مدار اسی بات پر ہے کہ جب تک بُرے ارادے، ناپاک اور 114

Page 115

حقیقت نماز گندے منصوبے بھسم نہ ہوں.انانیت اور شیخی دُور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا.عبودیت کا ملہ کے سکھانے کے لیے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.میں تمہں پھر بتلاتا ہوں کہ اگر خدائے تعالیٰ سے سچا تعلق حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کاربند ہو جاؤ اور ایسے کار بند نہ ہو کہ نہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نما ز ہو جائیں.“ یدیوں کو دور کرنے کا ذریعہ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 32 مطبوعہ 2010ء) بعد اس کے سنو.دوسرا امر نماز ہے جس کی پابندی کے لئے بار بار قرآن شریف میں کہا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یا درکھو کہ اسی قرآن مجید میں ان مصلیوں پر لعنت کی ہے جو نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور اپنے بھائیوں سے بخل کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں سے محفوظ کر دے.انسان درد اور فرقت میں پڑا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب اُسے حاصل ہو جس سے وہ اطمینان اور سکینت اسے ملے جو نجات کا نتیجہ ہے مگر یہ بات اپنی کسی چالا کی یا خوبی سے نہیں مل سکتی.جب تک خدا نہ بلاوے یہ جا نہیں سکتا.جب تک وہ پاک نہ کرے یہ پاک نہیں ہوسکتا.(حاشیہ سے بحوالہ بدرجلد ۶ نمبر ۱.۲ صفحہ ۱۲ - 115

Page 116

حقیقت نماز طرح طرح کے طوق اور قسم قسم کے زنجیر انسان کی گردن میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بہتیرا چاہتا ہے کہ یہ دور ہو جاویں پر وہ دور نہیں ہوتے.) بہتیرے لوگ اس پر گواہ ہیں کہ بارہا یہ جوش طبیعتوں میں پیدا ہوتا ہے کہ فلاں گناہ دور ہو جاوے جس میں وہ مبتلا ہیں لیکن ہزار کوشش کریں دور نہیں ہوتا.باوجود یکہ نفس لوامہ ملامت کرتا ہے لیکن پھر بھی لغزش ہو جاتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ گناہ سے پاک کرنا خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے.اپنی طاقت سے کوئی نہیں ہوسکتا.ہاں یہ سچ ہے کہ اس کیلئے سعی کرناضروری امر ہے.غرض وہ اندر جو گناہوں سے بھرا ہوا ہے اور جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور قرب سے دور جا پڑا ہے اس کو پاک کرنے اور دور سے قریب کرنے کے لئے نماز ہے.اس ذریعہ سے ان بدیوں کو دور کیا جاتا ہے اور اس کی بجائے پاک جذبات بھر دیے جاتے ہیں.یہی سیر ہے جو کہا گیا ہے کہ نما ز بدیوں کو دور کرتی ہے یا نماز فحشاء یا منکر سے روکتی ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 93-92 مطبوعہ 2010ء) صلوۃ تزکیۂ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی مقلب کرتا ہے.تزکیۂ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ562-561 مطبوعہ 2010ء) نماز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے.نماز کی یہ صفت ہے کہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے.سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو اور اپنی نماز کوایسی بنانے کی 116

Page 117

حقیقت نماز کوشش کرو.نما ز نعمتوں کی جان ہے.اللہ تعالیٰ کے فیض راسی نماز کے ذریعہ سے آتے ہیں.سو اُس کو سنوار کر ادا کرو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو “ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 103 مطبوعہ 2010ء) ”نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہر گز نہ ہوگی.نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہر گز نہیں.نماز وہ شئے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوف ناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے.جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تفرع سے مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دُور ہوں.اسی قسم کی نما ز بابرکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یادن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفس امارہ کی شوخی کم ہوگئی ہے.جیسے اثر د ہا میں ایک سکیم قاتل ہے.اسی طرح نفس اٹارہ میں بھی سکیم قاتل ہوتا ہے اور جس نے اُسے پیدا کیا اُسی کے پاس اُس کا علاج 66 ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 96 مطبوعہ 2010ء) ایک صاحب نے اُٹھ کر عرض کی کہ جب تک حرام خوری وغیرہ نہ چھوڑے تب تک نماز کیا لذت دے اور کیسے پاک کرے.حضرت اقدس نے فرمایا: "إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيّات ( ہود ۱۱۵ ) بھلا جو اؤل ہی پاک ہو کر آیا اُسے پھر نماز کیا پاک کرے گی.117

Page 118

حقیقت نماز حدیث میں ہے کہ تم سب مردہ ہومگر جسے خدا زندہ کرے.تم سب بھو کے ہومگر جسے خدا کھلاوے.الخ.ایک طبیب کے پاس اگر انسان اول ہی صاف ستھرا اور مرض سے اچھا ہو کر آوے تو اُس نے طبابت کیا کرنی ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی غفوریت کیسے کام کرے.بندوں نے گناہ کرنے ہی ہیں تو اُس نے بخشنے ہی ہیں.ہاں ایک بات ضرور ہے کہ وہ گناہ نہ کریں جس میں سرکشی ہو ورنہ دوسرے گناہ جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں اگر ان سے بار بار خدا سے بذریعہ دعا تزکیہ چاہے گا تو اُسے قوت ملے گی.بلا قوت اللہ تعالیٰ کے ہر گز ممکن نہیں ہے کہ اُس کا تزکیہ نفس ہو اور اگر ایسی عادت رکھے کہ جو کچھ نفس نے چاہا اُس وقت کر لیا تو اسے کوئی قوت نہیں ملے گی.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 657 مطبوعہ 2010ء) نما ز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے.مگر...اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں لگا نہ رہے.اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہوسکتا.اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو.“ 66 ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403 مطبوعہ 2010ء) 118

Page 119

حقیقت نماز نماز میں حضور قلب اور لذت کے نہ ہونے کا علاج ایک شخص نے سوال کیا کہ جب میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو مجھے حضور قلب حاصل نہیں ہوتا.کیا اس صورت میں میری نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ:.انسان کی کوشش سے جو حضور قلب حاصل ہوسکتا ہے وہ یہی ہے کہ مسلمان وضو کرتا ہے.اپنے آپ کو کشان کشاں مسجد تک لے جاتا ہے.نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے.یہانتک انسان کی کوشش ہے.اس کے بعد حضور قلب کا عطا کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے.انسان اپنا کام کرتا ہے.خدا تعالیٰ بھی ایک وقت پر اپنی عطا نازل کرتا ہے.نماز میں بے حضوری کا علاج بھی نماز ہی ہے.نماز پڑھتے جاؤ.اس سے سب دروازے رحمت کے کھل جاویں گے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 66 مطبوعہ 2010ء) فرمایا کہ:.ایک نے عرض کی کہ نماز میں لذت کچھ نہیں آتی.حضرت اقدس علیہ السلام نے نماز نماز بھی ہو.نماز سے پیشتر ایمان شرط ہے.ایک ہندو اگر نماز پڑھے گا تو اسے کیا فائدہ ہوگا.جس کا ایمان قوی ہو گا وہ دیکھے گا کہ نماز میں کیسے لذت ہے اور اس 119

Page 120

حقیقت نماز سے اوّل معرفت ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے آتی ہے اور کچھ اس کی طینت سے آتی ہے.جو محمود فطرت والے مناسب حال اس کے فضل کے ہوتے ہیں اور اس کے اہل ہوتے ہیں انہیں پر فضل بھی کرتا ہے.ہاں یہ بھی لازم ہے کہ جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے ویسے ہی خدا کی راہ میں بھی کرے پنجابی میں ایک مثل ہے ”جو منگے سو مرر ہے مرے سو منگن جا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 630 مطبوعہ 2010ء) عرب صاحب نے عرض کیا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر دل نہیں ہوتا.فرمایا : "جب خدا کو پہچان لو گے تو پھر نمازی نماز میں رہو گے.دیکھو یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ خواہ کوئی ادنی سی بات ہو جب اس کو پسند آجاتی ہے تو پھر دل خواہ نخواہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے.اسی طرح پر جب انسان اللہ تعالیٰ کو شناخت کر لیتا ہے اور اس کے حسن و احسان کو پسند کرتا ہے تو دل بے اختیار ہو کر اسی کی طرف دوڑتا ہے اور بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہو جاتا ہے.اصل نماز وہی ہے جس میں خدا کو دیکھتا ہے.اس زندگی کا مزہ اسی دن آسکتا ہے جبکہ سب ذوق اور شوق سے بڑھ کر جو خوشی کے سامانوں میں مل سکتا ہے تمام لذت اور ذوق دعا ہی میں محسوس ہو.یاد رکھو کوئی آدمی کسی موت وحیات کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا خواہ رات کو موت آجاوے یا دن کو.جولوگ دنیا سے ایسا دل لگاتے ہیں کہ گویا کبھی مرنا ہی نہیں وہ اس دنیا سے نامراد جاتے ہیں.وہاں ان کے لئے خزانہ نہیں ہے جس سے وہ لذت اور خوشی حاصل کر سکیں.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 614 مطبوعہ 2010ء) 120

Page 121

حقیقت نماز سوال : کبھی نماز میں لذت آتی ہے اور کبھی وہ لذت جاتی رہتی ہے اس کا کیا علاج ہے؟ جواب : ”ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ اس لذت کے کھوئے جانے کو محسوس کرنے اور پھر اس کو حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے.جیسے چور آوے اور وہ مال اُڑا کر لے جاوے تو اس کا افسوس ہوتا ہے اور پھر انسان کوشش کرتا ہے کہ آئندہ اس خطرہ سے محفوظ رہے.اس لئے معمول سے زیادہ ہوشیاری اور مستعدی سے کام لیتا ہے.اسی طرح پر جو خبیث نماز کے ذوق اور انس کو لے گیا ہے تو اس سے کس قدر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے؟ اور کیوں نہ اس پر افسوس کیا جاوے؟ انسان جب یہ حالت دیکھے کہ اس کا انس و ذوق جاتا رہا ہے تو وہ بے فکر اور بے غم نہ ہو.نماز میں بے ذوقی کا پیدا ہونا ایک سارق کی چوری اور روحانی بیماری ہے.جیسے ایک مریض کے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ فی الفور علاج کی فکر کرتا ہے.اسی طرح پر جس کا روحانی مذاق بگڑ جاوے اس کو بہت جلد اصلاح کی فکر کرنی لازم ہے.یا درکھو انسان کے اندر ایک بڑا چشمہ لذت کا ہے.جب کوئی گناہ اس سے سرزد ہوتا ہے تو وہ چشمہ لذت مکڈ ر ہو جاتا ہے اور پھر لذت نہیں رہتی.مثلاً جب ناحق گالی دے دیتا ہے یا ادنی ادنی سی بات پر بد مزاج ہوکر بدزبانی کرتا ہے تو پھر ذوقِ نما ز جاتا رہتا ہے.اخلاقی قومی کو لذت میں بہت بڑا دخل ہے.جب انسانی قوی میں فرق آئے گا تو اس کے ساتھ ہی لذت میں بھی فرق آجاوے گا.پس جب کبھی ایسی حالت ہو کہ انس اور ذوق جو نماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے تو چاہیے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہو کر ہمت نہ ہارے بلکہ بڑی مستعدی کے ساتھ اس گمشدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے 121

Page 122

حقیقت نماز اور اس کا علاج ہے تو بہ، استغفار، تضرع.بے ذوقی سے ترک نماز نہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے.جیسے ایک نشہ باز کو جب نشہ نہیں آتا تو وہ نشہ کو چھوڑ نہیں دیتا بلکہ جام پر جام پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر اس کو لذت اور سرور آجاتا ہے.پس جس کو نماز میں بے ذوقی پیدا ہو اس کو کثرت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے اور تھکنا مناسب نہیں آخر اسی بے ذوقی میں ایک ذوق پیدا ہو جاوے گا.دیکھو پانی کے لیے کس قدر زمین کو کھودنا پڑتا ہے.جولوگ تھک جاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں.جو تھکتے نہیں وہ آخر نکال ہی لیتے ہیں.اس لیے اس ذوق کو حاصل کرنے کے لئے استغفار ، کثرت نماز و دعا، مستعدی اور صبر کی ضرورت 66 ہے.‘ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 310-309 مطبوعہ2010ء) سائل : دعا جب تک دل سے نہ اٹھے کیا فائدہ ہوگا؟ حضرت اقدس : میں اسی لئے تو کہتا ہوں کہ صبر کرنا چاہئے اور اس سے گھبرانا نہیں چاہئے.خواہ دل چاہے یا نہ چاہے.کشاں کشاں مسجد میں لے آؤ.کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ میں نماز پڑھتا ہوں مگر وساوس رہتے ہیں.اس نے کہا کہ تو نے ایک حصہ پر تو قبضہ کر لیا.دوسرا بھی حاصل ہو جائے گا.نماز پڑھنا بھی تو ایک فعل ہے.اس پر مداومت کرنے سے دوسرا بھی انشاء اللہ مل جائے گا.(ملفوظات جلد چہارم صفحه 241 مطبوعہ 2010ء) ایک شخص نے عرض کہ مجھے نماز میں لذت نہیں آتی.فرمایا کہ: 122

Page 123

حقیقت نماز موت کو یاد رکھو.یہی سب سے عمدہ نسخہ ہے.دنیا میں انسان جو گناہ کرتا ہے اس کی اصل جڑ یہی ہے کہ اس نے موت کو بھلا دیا ہے.جو شخص موت کو یادرکھتا ہے وہ دنیا کی باتوں میں بہت تسلی نہیں پاتا لیکن جو شخص موت کو بھلا دیتا ہے اس کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اس کے اندرطول امل پیدا ہوجاتا ہے.وہ لبی لمبی امیدوں کے منصوبے اپنے دل میں باندھتا ہے.دیکھنا چاہئے کہ جب کشتی میں کوئی بیٹھا ہو اور کشتی غرق ہونے لگے تو اُس وقت دل کی کیا حالت ہوتی ہے.کیا ایسے وقت میں انسان گناہگاری کے خیالات دل میں لاسکتا ہے؟ ایسا ہی زلزلہ اور طاعون کے وقت میں چونکہ موت سامنے آجاتی ہے اس واسطے گناہ نہیں کر سکتا اور نہ بدی کی طرف اپنے خیالات کو دوڑا سکتا ہے.پس اپنی موت کو یا درکھو.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 244-243 مطبوعہ 2010ء) سائل : حضور ! نمازیں پڑھتے ہیں مگر منہیات سے باز نہیں رہتے اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا ہے.حضرت اقدس: ”نمازوں کے نتائج اور اثر توتب پیدا ہوں جب نمازوں کو سمجھ کر پڑھو.بجز کلام الہی اور ادعیہ ماثورہ کے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اور پھر ساتھ ہی یہ بھی یا درکھو یہی ایک امر ہے جس کی بار بار تاکید کرتا ہوں کہ تھکو اور گھبراؤ نہیں.اگر استقلال اور صبر سے اس راہ کو اختیار کرو گے تو انشاء اللہ یقینا ایک نہ ایک دن کامیاب ہو جاؤ گے.ہاں یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی کو مقدم کرو اور دین کو دنیا پر ترجیح دو.جب تک انسان اپنے 123

Page 124

حقیقت نماز اندر دنیا کا کوئی حصہ بھی پاتا ہے وہ یادر کھے کہ ابھی وہ اس قابل نہیں کہ دین کا نام بھی لے...اور ایسا ہی نماز روزہ میں اگر دنیا کو کوئی حصہ دیتا ہے تو وہ نماز روزہ اُسے منزلِ مقصود تک نہیں لے جا سکتا بلکہ محض خدا کے لیے ہو جاوے.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام ۱۶۳) کا سچا مصداق ہوتب مسلمان کہلائے گا.ابراہیم کی طرح صادق اور وفادار ہونا چاہیے.جس طرح پر وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے پر آمادہ ہو گیا اسی طرح انسان ساری دنیا کی خواہشوں اور آرزوؤں کو جب تک قربان نہیں کر دیتا کچھ نہیں بنتا.میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اُس کو ایک جذبہ پیدا ہو جاوے اُس وقت اللہ تعالیٰ خود اس کا متکفل اور کارساز ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ پر کبھی بدظنی نہیں کرنی چاہیے.اگر نقص اور خرابی ہوگی تو ہم میں ہوگی.(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 243 مطبوعہ 2010ء) ایک شخص نے عرض کی کہ میرا دل آج کل ایسا ہو رہا ہے کہ نماز میں لذت اور رقت پیدا نہیں ہوتی اور نہایت سخت تکلیف میں رہتا ہوں.خواہ مخواہ شبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں اگر چہ ان کو بہت رڈ کرتا ہوں تاہم وساوس پیچھا نہیں چھوڑتے.فرمایا : یہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ انسان ایسے وساوس کا مغلوب نہیں ہوتا.یہ بھی ثواب کی حالت ہے.نفس کی تین حالتیں ہیں.ایک تو نفس اٹارہ ہے.نفس اٹارہ والے کو تو خبر ہی نہیں کہ بدی کیا شے ہے.دوسر انفس لوامہ ہے جو بدی کرتا ہے پر ہری پر ہمیشہ گھبراتا ہے اور شرمندہ ہوتا ہے اور تو یہ کرتا رہتا ہے.ایسا شخص نفس کا 124

Page 125

حقیقت نماز غلام نہیں ہے اور اس حالت میں ہونا ایک حد تک ضروری بھی ہے.اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس میں بڑے بڑے ثواب ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود بخود نور اور سکینت نازل کرتا ہے.خدا کی رحمت کا وقت آتا ہے اور ایک ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور وہ بات ہوا ہو جاتی ہے.انسان کو چاہیے کہ تھک نہ جاوے.سجدہ میں یا حی یا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْثُ بہت پڑھا کرولیکن یاد رکھو کہ جلد بازی خوفناک ہے.اسلام میں انسان کو بہادر بننا چاہیے.برسوں کی محنت ومشقت کے بعد آخر شیطان کے حملے کمزور ہو جاتے ہیں اور وہ بھاگ جاتا ہے.“ 66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 267 مطبوعہ 2010ء) ایک شخص نے سوال کیا مجھے نماز میں وساوس اور ادھر اُدھر کے خیالات بہت پیدا ہوتے ہیں.فرمایا : اس کی اصل جڑ امن اور غفلت ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کے عذاب سے غافل ہو کر امن میں ہو جاتا ہے تب وساوس ہوتے ہیں.دیکھو زلزلے کے وقت اور کشتی میں بیٹھ کر جب کشتی خوفناک مقام پر پہنچتی ہے سب اللہ اللہ کرتے ہیں اور کسی کے دل میں وساوس پیدا نہیں ہوتے.“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 284 مطبوعہ 2010ء) بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو نمازوں میں لذت نہیں آتی.مگر وہ نہیں جانتے کہ لذت اپنے اختیار میں نہیں ہے اور لذت کا معیار بھی الگ ہے.ایسا ہوتا ہے کہ ایک 125

Page 126

حقیقت نماز شخص اشد درجہ کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذت ہی سمجھ لیتا ہے.دیکھوٹرانسوال ( اس وقت ٹرانسوال کی جنگ جاری تھی ( ایڈیٹر الحکم ) میں جولوگ لڑتے ہیں.باوجود یکہ اس میں جانیں جاتی ہیں.اور عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے ہیں.مگر قومی حمیت اور پاسداری ان کو ایک لذت اور سرور کے ساتھ موت کے منہ میں لے جارہی ہے.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 697 مطبوعہ 2010ء) 126

Page 127

حقیقت نماز رڈ کی جانے والی نمازیں جس نماز میں دل کہیں ہے اور خیال کسی طرف ہے اور منہ سے کچھ نکلتا ہے وہ ایک لعنت ہے جو آدمی کے منہ پر واپس ماری جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمُ سَاهُونَ (الماعون ۲،۵) لعنت ہے اُن پر جو اپنی نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 45 مطبوعہ 2010ء) صرف ظاہری اعمال سے جو رسم اور عادت کے رنگ میں کئے جاتے ہیں کچھ نہیں بنتا.اِس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں نماز کی تحقیر کرتا ہوں.وہ نماز جس کا ذکر قرآن میں ہے اور وہ معراج ہے.بھلا ان نمازیوں سے کوئی پوچھے تو سہی کہ ان کو سورہ فاتحہ کے معنے بھی آتے ہیں.پچاس پچاس برس کے نمازی ملیں گے مگر نماز کا مطلب اور حقیقت پوچھو تو اکثر بے خبر ہو نگے حالانکہ تمام دنیوی علوم ان علوم کے سامنے ہیچ ہیں.بایں دنیوی علوم کے واسطے تو جان توڑ محنت اور کوشش کی جاتی ہے اور اس طرف سے ایسی بے التفاتی ہے کہ اُسے جنتر منتر کی طرح پڑھ جاتے ہیں...نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں بلکہ ایسے نمازیوں پر تو خود خدا تعالیٰ نے لعنت اور ویل بھیجا ہے چہ جائیکہ اُن کی نماز کو قبولیت کا شرف حاصل ہو.وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ (الماعون (۵) خود 127

Page 128

حقیقت نماز خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.یہ اُن نمازیوں کے حق میں ہے جو نماز کی حقیقت سے اور اس کے مطالب سے بے خبر ہیں.صحابہ تو خود عربی زبان رکھتے تھے اور اس کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے.مگر ہمارے واسطے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی سمجھیں اور اپنی نماز میں اِس طرح حلاوت پیدا کریں.مگر ان لوگوں نے تو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ دوسرا نبی آ گیا ہے اور اُس نے گویا نماز کو منسوخ ہی کر دیا ہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 661-660 مطبوعہ 2010ء) آجکل اگر عمیق نظر سے اور غور سے دیکھا جاوے تو زبانی ایمان ہی کثرت سے نظر آوے گا.پس خدا کا یہی منشاء ہے کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جاوے.یہودی کیا توریت پر ایمان نہ لاتے تھے، قُربانیاں نہ کرتے تھے؟ مگر خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت بھیجی اور کہا کہ تم مومن نہیں ہو بلکہ بعض نمازیوں کی نماز پر بھی لعنت بھیجی ہے جہاں فرمایا ہے وَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون ۵-۶ ) یعنی لعنت ہے ایسے نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 590 مطبوعہ 2010ء) نماز اصل میں دعا کے لیے ہے کہ ہر ایک مقام پر دعا کرے لیکن جو شخص سویا ہوا نماز ادا کرتا ہے کہ اُسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں.جیسے دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ پچاس پچاس سال نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا حالانکہ نماز وہ شئے ہے کہ جس سے پانچ دن میں روحانیت حاصل ہو جاتی ہے.بعض نمازیوں پر خدا تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے جیسے فرماتا ہے.فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ (الماعون ۵) وَيْل 128

Page 129

حقیقت نماز کے معنی لعنت کے بھی ہوتے ہیں.پس چاہئے کہ ادائیگی نماز میں انسان سُست نہ ہو.اور نہ غافل ہو ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 457 تا 458 مطبوعہ 2010ء) نماز کی ظاہری صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے.اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے.جلدی گلے سے اتر جائے.بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دگنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نماز تو خود دعا ہے.جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دعا کرے اُس کی نماز ہی نہیں.چاہئے کہ اپنی نماز کو دعا سے مثل کھانے اور سرد پانی کے لذیذ اور مزیدار کرلو.ایسانہ ہو کہ اس پر ویل ہو.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 591 مطبوعہ 2010ء) یا درکھو اللہ تعالیٰ روح اور روحانیت پر نظر کرتا ہے.وہ ظاہری اعمال پر نگاہ نہیں کرتا.وہ اُن کی حقیقت اور اندرونی حالت کو دیکھتا ہے کہ ان کے اعمال کی تہہ میں خود غرضی اور نفسانیت ہے یا اللہ تعالیٰ کی سچی اطاعت اور اخلاص مگر انسان بعض وقت ظاہری اعمال کو دیکھ کر دھو کہ کھا جاتا ہے.جس کے ہاتھ میں تسبیح ہے یا وہ تہجد و اشراق پڑھتا ہے، بظاہر ابرار و اخیار کے کام کرتا ہے تو اس کو نیک سمجھ لیتا ہے مگر خدا تعالیٰ کو تو پوست پسند نہیں.( حاشیہ میں درج ہے : ایک انسان تو اس سے دھو کہ کھا سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ نہیں کھا سکتا کیونکہ اُس کی نظر پوست پر نہیں ہے.وہ تو روحانیت کو چاہتا ہے جو کہ مغز ہے نہ کہ قشر کو یہ پوست اور قشر ہے اللہ تعالی اس کو پسند نہیں کرتا اور کبھی راضی نہیں ہوتا جب تک 129

Page 130

حقیقت نماز وفاداری اور صدق نہ ہو.بے وفا آدمی کتے کی طرح ہے جو مردار دنیا پر گرے ہوئے ہوتے ہیں.وہ بظاہر نیک بھی نظر آتے ہوں لیکن افعال ذمیمہ ان میں پائے جاتے ہیں اور پوشیدہ بدچلنیاں اُن میں پائی جاتی ہیں.جو نمازیں ریا کاری سے بھری ہوئی ہوں ان نمازوں کو ہم کیا کریں اور ان سے کیا فائدہ؟ ( حاشیہ میں درج ہے : البدر میں ہے : ” اگر اُن کی آرزوئیں اور مراد میں پوری ہوتی رہیں تو وہ خدا کو مانتے رہیں گے اور اگر پوری نہ ہوں تو پھر اُس سے ناراض اور شکایت کا دفتر کھلا ہوا ہے.تو جن کی یہ حالت ہے اور اُن میں صدق وصفا نہیں ہے خدا اُن کی نمازوں کو کیا کرے.وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہر گز نمازی نہیں ہیں اور اُن کی نمازیں سوائے اس کے کہ زمین پر ٹکریں ماریں اور کچھ حکم نہیں رکھتیں.‘) ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 500-501 مطبوعہ 2010) دغا باز آدمی کی نماز قبول نہیں ہوتی.وہ اُس کے منہ پر ماری جاتی ہے کیونکہ وہ در اصل نماز نہیں پڑھتا بلکہ خدا تعالیٰ کو رشوت دینا چاہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کو اس سے نفرت ہوتی ہے کیونکہ وہ رشوت کو خود پسند نہیں کرتا.نماز کوئی ایسی ویسی شئے نہیں ہے بلکہ یہ وہ شئے ہے جس میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحہ (۶) جیسی دعا کی جاتی ہے.اس دعا میں بتلایا گیا ہے کہ جولوگ بُرے کام کرتے ہیں ان پر دنیا میں خدا تعالی کا غضب آتا ہے.الغرض اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہیے.جو کام ہوتا ہے اس کے ارادہ سے ہوتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 233-232 مطبوعہ 2003ء) مولانا محمد احسن صاحب نے فرمایا کہ وَلَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَأَنْتُم سكرى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ (النساء۴۰) سے ثابت ہے کہ انسان 130

Page 131

حقیقت نماز کو اپنے قول کا علم ضروری ہے اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ : جن لوگوں کو ساری عمر میں تعلَمُوا نصیب نہ ہو ان کی نماز ہی کیا ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 265 مطبوعہ 2010ء) جوشخص تقویٰ اختیار نہیں کرتا وہ معاصی میں غرق رہتا ہے اور بہت ساری رکاوٹیں اُس کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں.لکھا ہے کہ ایک ولی اللہ کسی شہر میں رہتے تھے.ان کی ہمسائگت میں ایک دنیادار بھی رہتا تھا.ولی ہر روز تہجد پڑھا کرتا تھا.ایک دفعہ دنیا دار کے دل میں خیال آیا کہ شخص جو ہر روز تہجد پڑھا کرتا ہے میں بھی تہجد پڑھوں.غرض یہی ارادہ ھم کر کے وہ ایک رات اُٹھا اور تہجد کی نماز پڑھی.اس کو تہجد پڑھنے سے اس قدر تکلیف ہوئی کہ کمر میں درد شروع ہو گیا.اس ولی اللہ کو خبر ملی کہ رات اُن کے دنیا دار ہمسایہ نے تہجد کی نماز پڑھی تھی تو اس کے سبب سے اس کی کمر میں درد ہونے لگا ہے.وہ عیادت کے لیے آیا اور اس سے حال پوچھا.دنیا دار نے کہا میں آپ کو دیکھا کرتا تھا کہ آپ ہر رات تہجد پڑھتے ہیں.میرے خیال میں بھی آیا کہ میں بھی تہجد پڑھوں.سو آج رات میں تہجد پڑھنے اٹھا اور یہ مصیبت مجھ پر آ گئی.اس نے جواب میں کہا کہ تجھے اس فضول سے کیا؟ پہلے چاہیے تھا کہ تو اپنے آپ کو صاف کرتا اور پھر تہجد کا ارادہ کرتا.اللہ تعالیٰ کی اجابت بھی متقین کے لیے ہے.چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اتما يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائده (۲۸) در حقیقت انسان جب تک تقویٰ اختیار نہ کرے اُس وقت تک اللہ تعالیٰ اُس کی طرف رجوع نہیں کرتا.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 43-42 مطبوعہ 2010ء) 131

Page 132

حقیقت نماز انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے.پس اس خیال کے واسطے اس کو امداد الہی کی بہت ضرورت ہے.اسی لیے پنجوقتہ نماز میں سورہ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا.اس میں ایاک نَعْبُدُ اور پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی ہر نیک کام میں قویٰ ، تدابیر، جدو جہد سے کام لیں.یہ اشارہ ہے نعبد کی طرف کیونکہ جو شخص نیری دعا کرتا اور جدو جہد نہیں کرتا وہ بہرہ یاب نہیں ہوتا.جیسے کسان بیج بو کر اگر جد و جہد نہ کرے تو پھل کا امیدوار کیسے بن سکتا ہے اور یہ سنت اللہ ہے.اگر بیج بو کر صرف دعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے.مثلاً دو کسان ہیں، ایک تو سخت محنت اور کلبہ رانی کرتا ہے یہ تو ضرور زیادہ کامیاب ہوگا.دوسرا کسان محنت نہیں کرتا یا کم کرتا ہے.اس کی پیداوار ہمیشہ ناقص رہے گی جس سے وہ شاید سرکاری محصول بھی ادا نہ کر سکے اور وہ ہمیشہ مفلس رہے گا.اسی طرح دینی کام بھی ہیں.انہیں میں منافق ، انہیں میں نکھے ، انہیں میں صالح ، انہیں میں ابدال، قطب، غوث بنتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک درجہ پاتے ہیں اور بعض چالیس چالیس برس سے نماز پڑھتے ہیں مگر ہنوز روز اول ہی ہے اور کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھیں روزوں سے کوئی فائدہ محسوس نہیں کرتے.بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بڑے متقی اور مدت کے نماز خواہ ہیں مگر ہمیں امداد الہی نہیں ملتی.اس کا سبب یہ ہے کہ رسمی اور تقلیدی عبادت کرتے ہیں.ترقی کا کبھی خیال نہیں.گناہوں کی جستجو ہی نہیں.سچی تو بہ کی طلب ہی نہیں.پس وہ پہلے قدم پر ہی رہتے ہیں.ایسے انسان بہائم سے کم نہیں.ایسی نمازیں خدا کی طرف سے ویل لاتی ہیں.نما ز تو وہ ہے جو اپنے ساتھ ترقی لے آوے.جیسے طبیب 132

Page 133

حقیقت نماز کے زیر علاج ایک بیمار ہے.ایک نسخہ وہ دس روز استعمال کرتا ہے.پھر اس سے اس کو روز بروز نقصان ہو رہا ہے.جب اتنے دنوں کے بعد فائدہ نہ ہو تو بیمار کو شک پڑ جاتا ہے کہ یہ نسخہ ضرور میرے مزاج کے موافق نہیں اور یہ بدلنا چاہیے.بس رسم اور رسمی عبادت ٹھیک نہیں.‘ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 175-174 مطبوعہ 2010ء) فرمایا : " ہر شخص اپنے دل میں جھانک کر دیکھے کہ دین و دنیا میں سے کس کا زیادہ غم اس کے دل پر غالب ہے اگر ہر وقت دل کا رخ دنیا کے امور کی طرف رہتا ہے تو اُسے بہت فکر کرنی چاہیے.اس لیے کہ کلمات الہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 304 مطبوعہ 2010ء) سویا درکھنا چاہیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہوگئی ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہو گئے ہیں.جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں اس وقت تک نری فکریں ہی ہیں.اس نما زیا روزہ سے کیا فائدہ ہوگا جبکہ اسی مسجد میں نماز پڑھی اور وہیں کسی دوسرے کی شکایت اور گلا کر دیا.یا رات کو چوری کر لی.کسی کے مال یا امانت میں خیانت کر لی.کسی کی شان پر جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے بخل یا حسد کی وجہ سے حملہ کر دیا.کسی کی آبرو پر حملہ کر دیا.غرض اس قسم کے عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا رہا توتم ہی بتاؤ.اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا؟ 133

Page 134

حقیقت نماز چاہئے تو یہ تھا کہ نماز کے ساتھ اسکی بدیاں اور وہ برائیاں جن میں وہ مبتلا تھا کم ہو جاتیں اور نماز اس کے لئے ایک عمدہ ذریعہ ہے.پس پہلی منزل اور مشکل اُس انسان کے لئے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ بُرے کاموں سے پرہیز کرے.اسی کا نام تقویٰ 66 ہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه 656 مطبوعہ 2010ء) یا درکھو یہ نما ز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی.لیکن اکثر لوگ جو نماز پڑھتے ہیں تو وہ نماز اُن پر لعنت بھیجتی ہے.( حاشیے سے : بدر میں ہے : ایک حدیث ہے کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن اُن کو لعنت کرتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک انسان عمل نہ کرے، دلی حضور نہ ہو تو گویا وہ عبادت سانپ کی خاصیت رکھتی ہے.دیکھنے میں خوبصورت اور خوشنما مگر بباطن دُکھ دینے والی زہر سے پُر.( جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ.( الماعون ۶،۵ ) یعنی لعنت ہے اُن نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403 مطبوعہ 2003ء) 134

Page 135

حقیقت نماز اپنی زبان میں نماز پڑھنا متفرق اہم امور نماز اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہئے.خدا تعالیٰ نے جس زبان میں قرآن شریف رکھا ہے اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے.ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذکار کے بیان کر سکتے ہیں، مگر اصل زبان کو ہر گز نہیں چھوڑ نا چاہیے.عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا پھل پایا.کچھ بھی باقی نہ رہا.“ فرمایا کہ ملفوظات جلد دوم صفحہ 216 مطبوعہ 2010ء) پھر سوال ہوا کہ اگر ساری نماز کو اپنی زبان میں پڑھ لیا جاوے تو کیا حرج ہے.خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی کی زبان میں پڑھنا چاہئے.اس میں بھی ایک برکت ہوتی ہے.خواہ فہم ہو یا نہ ہو اور ادعیہ ماثورہ بھی ویسے ہی پڑھے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلیں.یہ ایک محبت اور تعظیم کی نشانی ہے.باقی خواہ ساری رات دعا اپنی زبان میں کرتا رہے...عام لوگوں کی نما ز تو برائے نام ہوتی ہے.صرف نماز کو اثیر تے ہیں اور جب نماز پڑھ چکے تو پھر گھنٹوں تک دعا میں رجوع کرتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه 656 مطبوعہ 2010ء) 135

Page 136

حقیقت نماز سائل : ایک شخص نے رسالہ لکھا تھا کہ ساری نماز اپنی ہی زبان میں پڑھنی چاہیئے.حضرت اقدس : ”وہ اور طریق ہو گا جس سے ہم متفق نہیں.قرآن شریف بابرکت کتاب ہے اور رب جلیل کا کلام ہے.اس کو چھوڑ نا نہیں چاہیے.ہم نے تو ان لوگوں کے لئے دعاؤں کے واسطے کہا ہے جوانی ہیں اور پورے طور پر اپنے مقاصد عرض نہیں کر سکتے.ان کو چاہئے کہ اپنی زبان میں دعا کرلیں.“ رکوع و سجود میں قرآنی دعا پڑھنا ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 348 مطبوعہ 2010ء) مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی نے سوال کیا کہ رکوع و سجود میں قرآنی آیت یا دعا کا پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا : سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت چاہتا ہے.ماسوا اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 240 مطبوعہ 2010ء) 66 جمع بین الصلو تین مہدی کی علامت ہے اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ویسا ہی اس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے.فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے.136

Page 137

حقیقت نماز دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں.نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں.یہ بسبب بیماری کے اور تفسیر سورہ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایسا ہو رہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة کی حدیث بھی پوری ہو رہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہو گا اور وہ پیش امام سیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا.سواب ایسا ہی ہوتا ہے.جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے ، اُس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم علی نے پیار کے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اس کی خاطر ایسا ہوگا.چاہئے کہ ہم رسول کریم بیل ہی کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں، ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی کی پیشگوئیوں کو خفت کی نگاہ سے دیکھیں.خدا تعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کر دئیے کہ اتنے عرصہ سے نمازیں جمع ہو رہی ہیں ورنہ ایک دو دن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا.ہم حضرت رسول کریم علی العلیم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 446 مطبوعہ 2010ء) ”سب صاحبوں کو معلوم ہو کہ ایک مدت سے خدا جانے قریباً چھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے.میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نما ز جمع کی جاتی ہے، ایک نو وار دیا تو مرید کو ( جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے ) یہ شبہ گزرتا ہوگا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں 137

Page 138

حقیقت نماز گے.جیسے بعض غیر مقلد ذرا اکبر ہوا یا کسی عدالت میں جانا ہوا، تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذر بھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں اور نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتاً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موثونہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے ، اگر چہ شیعوں نے اور غیر مقلدوں نے اس پر بڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو اُن سے کوئی غرض نہیں.وہ صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں.سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر اُن سے کام لیتے ہیں اور مشکل کو موضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں.ہمارا یہ مدعا نہیں، بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہی رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو، تب بھی اُس پر عمل کر لینا چاہئے.اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں، تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم، القا اور الہام کے بدوں نہیں کرتا.بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں.جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس جمع صلواتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجمَعُ لَهُ الصَّلوةُ کی بھی ایک عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہورہی ہے...میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے القاء اور اشارہ سے کرتا ہوں.یہ پیشگوئی جو اس حدیث تُجمَعُ لَهُ لصَّلوة میں کی گئی ہے.یہ سیح موعود اور مہدی کی ایک علامت ہے یعنی وہ ایسی دینی خدمات اور کاموں میں مصروف ہوگا کہ اس کے لیے نماز جمع کی جاوے 138

Page 139

حقیقت نماز گی.اب یہ علامت جبکہ پوری ہوگئی اور ایسے واقعات پیش آگئے.پھر اس کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے.نہ کہ استہزاء اور انکار کے رنگ میں.“ نماز کے بعد تسبیح ملفوظات جلد دوم صفحہ 46-45 مطبوعہ 2010ء) ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر ۳۳ مرتبہ اللہ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے.اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انہوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے؛ حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقع کے ہوتی تھی.مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا.آپ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر.اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کر دیا جاوے.یہی نیکی ہے.ایسا نہیں.اسی طرح تسبیح کے متعلق بات ہے.قرآن شریف میں تو آیا ہے وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (انفال ۴۶) اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا کہ فلاح پاؤ.اب یہ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا نماز کے بعد ہی ہے تو ۳۳ مرتبہ تو کثیر 139

Page 140

حقیقت نماز کے اندر نہیں آتا پس یا درکھو کہ ۳۳ مرتبہ والی بات حسب مراحب ہے ، اور جو شخص اللہ ؛ ورنہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے، اُسے شمار سے کیا کام.وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا.ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی.اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے پھیر رہا ہے.اُس عورت نے اُس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے.اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں.عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گن گن کر ؟ در حقیقت یہ بات بالکل بگی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گن گن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الہی کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا.آنحضرت علی نے جو ۳۳ مرتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہوگی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا تو آپ نے اُسے فرما دیا کہ ۳۳ مرتبہ کر لیا کر.اور یہ تو سیع ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں.یہ مسئلہ بالکل غلط ہے.اگر کوئی شخص آنحضرت سلام کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا.وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے.انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات آپ علیم میرے گھر میں تھے.رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے آپ کو اپنے بستر پر نہ پایا.مجھے خیال گزرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے.چنانچہ میں نے سب گھروں التعليم 140

Page 141

حقیقت نماز میں دیکھا، مگر آپ کو نہ پایا.پھر میں باہر نکل تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں سجدت لك رُوحِي وَ جَنَانِي - اب بتاؤ کہ یہ مقام اور مرتبہ ۳۳ مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتا ہے، ہر گز نہیں.جب انسان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے.وہ ذکر الہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گن کر ذکر کرنا تو کلر سمجھتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اُسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے.کسی نے کہا ہے من کا منکا صاف کر.انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے.تب وہ کیفیت پیدا ہوگی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا.“ غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی وجہ کسی کے سوال پر فرمایا: ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 15-14 مطبوعہ 2010ء) مخالف کے پیچھے نماز بالکل نہیں ہوتی.پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے 141

Page 142

حقیقت نماز آدمی بخشا جاتا ہے.نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے.نماز میں دعا قبول ہوتی ہے.امام بطور وکیل کے ہوتا ہے.اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 523 مطبوعہ 2010ء) کسی نے سوال کیا کہ جولوگ آپ کے مرید نہیں.ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے؟ حضرت نے فرمایا: جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کر کے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے، رد کر دیا ہے.اور اس قدر نشانوں کی پروا نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں، اس سے لا پروا پڑے ہیں.ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا.اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے.انما يتقبل الله من المتقين (المائد ۲۸ ) خدا صرف منتقى لوگوں کی نما ز قبول کرتا ہے.اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں.“ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 449 مطبوعہ 2010ء) اپنی جماعت کا غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا.فرمایا: صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نمازمت پڑھو.بہتری اور نیکی اسی میں ہے.اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اِس جماعت کی ترقی کا موجب ہے.دیکھو دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن 142

Page 143

حقیقت نماز کو چارون منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لئے ہے.تم اگر ان میں رلے ملے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا.پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اُس میں ترقی ہوتی ہے.“ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 525 مطبوعہ 2010ء) سید عبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں.وہاں میں اُن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں.فرمایا : ”مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو “ عرب صاحب نے عرض کیا وہ لوگ حضور کے حالات سے واقف نہیں ہیں اور اُن کو تبلیغ نہیں ہوئی.فرمایا : ”ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر وہ مصدق ہوجائیں گے یا مکذب.“ عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے.فرمایا : ”تم خدا کے بنو.اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے ، اللہ تعالیٰ آپ اُس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے.(ملفوظات جلداول صفحہ 541 مطبوعہ 2010ء) 66 دو آدمیوں نے بیعت کی.ایک آدمی نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: 143

Page 144

حقیقت نماز مسلمان وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں.اگر ہم کا فرنہیں ہیں تو وہ گفرلوٹ کر ان پر پڑتا ہے.ن کو کافر کہنے والا خود کافر ہے.اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں.پھر اُن کے درمیان جو لوگ خاموش ہیں وہ بھی انہی میں شامل ہیں.اُن کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جو ہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 583 مطبوعہ 2010ء) ۱۷ مارچ ۱۹۰۸ کو ایک صاحب علاقہ بلوچستان نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا کہ ”آپ کا ایک مرید نور محمد نام میرا دلی دوست ہے.وہ بڑا نمازی ہے، نیکو کار ہے، سب اُس کی عزت کرتے ہیں.ہمہ صفت موصوف خلیق شخص ہے.دیندار ہے.اِس سے ہم کو آپ کے حالات معلوم ہوئے تو ہمارا عقیدہ یہ ہو گیا ہے کہ حضور بڑے ہی خیر خواہ امت محمدیہ ونڈاح جناب رسول مقبول و اصحاب کبار ہیں.آپ کو جو بُرے نام سے یاد کرے وہ خود بُرا ہے مگر باوجود ہمارے اس عقیدہ وخیال کے نور محمد مذکور ہمارے ساتھ باجماعت نماز نہیں پڑھتا اور نہ جمعہ پڑھتا ہے اور وجہ یہ بتلاتا ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے ہماری نما زنہیں ہوتی.آپ اس کو تاکید فرماویں کہ وہ ہمارے پیچھے نماز پڑھ لیا کرے تا کہ تفرقہ نہ پڑے کیونکہ ہم آپ کے حق میں بُرا نہیں کہتے.“ یہ اس خط کا اقتباس اور خلاصہ ہے.اس کے جواب میں اسی خط پر حضرت نے عاجز ( حاشیہ سے: یعنی حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ایڈیر بد ) کے نام تحریر فرمایا: 144

Page 145

حقیقت نماز ”جواب میں لکھ دیں کہ چونکہ عام طور پر اس ملک کے ملاں لوگوں نے اپنے تعصب کی وجہ سے ہمیں کافر ٹھہرایا ہے اور فتوے لکھے ہیں اور باقی لوگ اُن کے پیرو ہیں.پس اگر ایسے لوگ ہوں کہ وہ صفائی ثابت کرنے کے لئے اشتہار دے دیں کہ ہم ان مکفر مولویوں کے پیرو نہیں ہیں تو پھر اُن کے ساتھ نماز پڑھنا روا ہے ورنہ جوشخص مسلمانوں کو کافر کہے وہ آپ کا فر ہو جاتا ہے پھر اُس کے پیچھے نماز کیونکر پڑھیں.یہ تو شرع شریف کی رُو سے جائز نہیں ہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 478 مطبوعہ 2010ء) 145

Page 146

Page 147

Page 148

Page 148