Language: UR
حقائق بائبل اور مسیحیت ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
حقائق بائیبل اور تالیف مولوی بُرہان احمد ظفر درانی ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
حقائق بائیبل اور مسیحیت مولوی بر ہان احمد ظفر د رانی جولائی 1997ء $2001 : $2013 : 1000 : : : : نام کتاب مرتبہ سن اشاعت با راول سن اشاعت بار دوم سن اشاعت با رسوم تعداد طبع سوم شائع کردہ مطبع : : نظارت نشر و اشاعت ،صدر انجمن احمد یہ قادیان ضلع گورداسپور- پنجاب 143516 -انڈیا فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN-81-7912-043-0 نوٹ :- اس کتاب میں بائیبل کے تمام تر حوالے کتاب مقدس طبع زیر اہتمام برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی پنجاب آگزیری لاہور بار هفتم ۱۹۰۸ ء مطبوعہ مشن سٹیم پریس لود یا نہ وائیلی برادرز سے دیئے گئے ہیں.HAQAIQ E BIBLE AUR MASIHIYYAT (IN URDU)
بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ انا عیسائیت دُنیا کے ایک بہت بڑے حصہ میں پھیلی ہوئی ہے اگر چہ ان میں بھی کئی فرقے ہیں لیکن بنیادی طور پر تمام فرقے بائیبل ہی کو اپنی مذہبی کتاب تسلیم کرتے ہیں.بائیبل کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عیسائیت کے عمومی عقائد بائیبل کی تعلیم کے خلاف دکھائی دیتے ہیں البتہ پولوس رسول کے بیانات جو عہد نامہ جدید میں درج ہیں مروجہ عیسائیت کے قریب تر ہیں گویا کہ موجودہ عیسائیت پولوس رسول کی مرہون منت ہے.مولوی برہان احمد صاحب ظفر درانی نے اس کتاب میں بائیبل کی بیان کردہ تعلیمات کی روشنی میں مسیحیت کے عام عقائد کا موازنہ پیش کیا ہے اور بائیبل کے ماننے والوں کو بائیبل کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروایا ہے.عام طور پر عیسائیت کے بارے میں جتنی بھی کتب لکھی گئی ہیں اُن میں الزامی جوابات کا رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے یا پھر دیگر مذہبی کتب سے تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے ایک گونہ حملہ کی صورت دکھائی دیتی ہے.لیکن اس کتاب میں موصوف نے بائیل ہی سے میسحیت کو مثبت رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے.نظارت نشر واشاعت اس کتاب کو شائع کر رہی ہے.امید ہے کہ یہ مختصری کتاب بہتوں کی آنکھیں کھولنے اور حقیقی مذہب سے روشناس کروانے میں مد دومعاون ثابت ہوگی.ناظر نشر واشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان
حقائق بائیبل اور مسیحیت فہرس نمبر شمار عناوین صفحه 1 پیش لفظ - > = ۱۸ ۳۲ ۳۶ ۳۹ ۵۴ ۶۲ 22 ۸۸ 1++ ابتدائیہ توحید بمقابل تثلیث (باپ بیٹا روح القدس ) ابن اللہ یا ابن آدم مسیح اور کفارہ مسیح اور دُعا یونس نبی کا نشان کیا مسیح صلیب پر فوت ہو گئے؟ 9 حضرت مسیح علیہ السلام کا مقدس کفن مسیح بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کے لئے 11 ۱۳ حضرت مسیح کشمیر میں جب کامل آئے گا تو ناقص جاتا رہے گا ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا
ابتدائیہ مذاہب عالم کی الہامی کتاب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تمام مذاہب کی کتب میں توحید کی بنیادی تعلیم موجود ہے.یہ الگ بات ہے کہ اُن مذاہب پر چلنے والے توحید کے اصل مضمون کو سمجھتے ہیں یا نہیں یا پھر ایسے بھی ہیں کہ مذاہب کے پیروکاروں نے اس کی اصل کو تبدیل کر کے دنیا والوں کے سامنے ایک نئے رنگ کا نظریہ پیش کر دیا خواہ اس کی بنیاد بھی ان کی مذہبی کتب میں موجود نہ ہو.اس لحاظ سے تمام مذاہب کے ماننے والے اس بات پر تو یقین رکھتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور اس کے سوا اور کوئی نہیں.لیکن عملی طور پر وہ اس کے برعکس نظر آتے ہیں.کوئی پتھر میں خدا کا متلاشی دکھائی دیتا ہے اور کوئی مورتی میں.کوئی سورج کو خدا کا عکس بیان کرتا ہے تو کوئی چاند کو.کوئی خدا کی مخلوق میں سے اُس کے وجود کو ڈھونڈھنے کی بے سود کوشش کرتا ہے.اور کوئی فانی اور وفات یافتہ کو خدا کے بالمقابل اپنا معین و مددگار سمجھتا ہے.مذاہب عالم پر غور کرنے سے ہمارے سامنے چار ایسے مذہب آتے ہیں جو کل عالم میں شہرت رکھتے ہیں.خواہ ایک نام رکھتے ہوئے آپسی اختلاف کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے فرقوں میں بٹ کر کئی نظر آتے ہوں یہ مذاہب اس طرح سے شمار کئے جاتے ہیں.(۱) یہودیت (۲) عیسائیت (۳) اسلام (۴) ہندوازم
یہودیت کی بنیادی مذہبی کتاب تو رات ہے جس میں بہت سے انبیاء کی تعلیم موجود ہے اس لحاظ سے یہ اہل کتاب بھی کہلاتے ہیں.کیونکہ اپنی مذہبی کتاب کو یہودی الہی نوشتہ تسلیم کرتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک کے انبیاء کو ماننا ان کے بنیادی عقائد میں شامل ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودی قبول نہیں کرتے.یہود کا کہنا ہے کہ ہماری کتاب میں یہ لکھا موجود ہے کہ ایلیا آسمان پر چلا گیا ہے اور سچے مسیح سے قبل ایلیا آسمان سے اترے گا.: جیسا کہ لکھا ہے " اور ایسا ہوا کہ جونہی وہ دونوں بڑھتے اور باتیں کرتے چلے جاتے تھے تو دیکھا کہ ایک آتشی رتھ اور آتشی گھوڑوں نے درمیان آکے اُن دونوں کو جدا کر دیا اور ایلیاء بگولے میں ہو کے آسمان پر جاتا رہا.“ (۲- سلاطین باب ۲ - آیت ۱۱) ان کے عقیدہ کے مطابق چونکہ ایلیا ظاہری طور پر آسمان سے نہیں اُتر ا اس لئے اُنہوں نے مسیح ناصری کو قبول نہیں کیا.چنانچہ آج بھی یہود اسی انتظار میں ہیں کہ ایلیا آسمان سے اُترے اور اُن کی بادشاہت قائم کرے عیسائیت حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کو قبول کرنے والے عیسائی کہلاتے ہیں اور جس مذہب پر اپنے آپ کو گامزن قرار دیتے ہیں وہ عیسائیت ہے.عیسائی توریت پر بھی ایمان رکھتے ہیں جس کو عہد نامہ قدیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور عہد نامہ جدید پر بھی ایمان لاتے ہیں جس کو مسیح کی انجیل کہا جاتا ہے.ان دونوں کے مجموعہ کا نام بائیل رکھا گیا ہے.
حقائق بالمیل اور مسیحیت عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ توریت میں ایلیا کے آسمان سے اترنے کی جو پیشگوئی ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ واقعی ایلیا آسمان سے ظاہری طور پر اُترے گا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایلیا کی مانند ایک مصلح آئے گا جس کو آسمانی تائید حاصل ہوگی اور اس پیشگوئی کا مصداق یوحنا کو قرار دیتے ہیں جو کہ مسیح سے قبل آئے تھے.جیسا کہ لکھا ہے کہ :- " اُس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ پھر فقہیہ یہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیا کا پہلے آنا ضروری ہے.اُس نے جواب میں کہا.ایلیا البتہ آئے گا اور سب کچھ بحال کرے گا.لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیا تو آچکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا.بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا.اس طرح ابن آدم بھی اُن کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے گا.تب شاگرد سمجھ گئے کہ اُس نے ہم سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے.“ (متی باب ۱۷ آیت ۱۰ تا ۱۳) اس لحاظ سے عیسائی ملا کی نبی کو پیشگوئی کے مطابق آنے والے ایلیا کو بھی تسلیم کرتے ہیں جو کہ یوحنا کی صورت میں ظاہر ہوئے اور مسیح کو بھی مانتے ہیں جن کا آنا ایلیا کے بعد لکھا ہے.اس لحاظ سے عیسائی بائیل کو اپنی مذہبی کتاب اور شریعت تسلیم کرتے ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام پر ابتداء میں ایمان لانے والے موحدین تھے اور اُسی توحید کے عقیدہ پر قائم تھے جو حضرت عیسی علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق تھا.لیکن بعد میں آنے والوں نے اعتقادی اور عملی طور پر توحید کے بنیادی عقیدہ کو چھوڑ کر تثلیث کے عقیدہ کو اپنا لیا ہے اور باپ بیٹا.روح القدس کو تثلیث مقدس Holy Trinity مان کر ایک تین اور تین ایک کی ناقابل فہم منطق کو پھیلانے میں مصروف ہیں.دیکھنا یہ ہے کہ کیا بائیل عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید توحید کی تعلیم پیش کرتے ہیں یا تثلیث کی.اس لحاظ سے ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے.
توحید - بمقابل تثلیث (باپ بیٹا - روح القدس) بائبل کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نئے اور پرانے عہد نامہ میں ایک خدا کی ہی تعلیم پائی جاتی ہے اور خدا کو ایک ہی قراردیا گیا ہے.مثلاً لکھا ہے کہ " یہ سب تجھی کو دکھایا گیا تا کہ تو جانے کہ خداوند وہی خدا ہے اور اُس کے سوا کوئی نہیں ہے.“ -: اسی طرح لکھا ہے :- (استثناء باب ۴ آیت ۳۵) وو " پس آج کے دن جان اور اپنے دل میں غور کر کہ خداوند وہی خدا ہے جو او پر آسمان میں ہے اور نیچے زمین میں ہے اور کہ اُس کے سوا کوئی نہیں.“ نیز لکھا ہے :- (استثناء باب ۴ آیت ۳۹) سوٹو اے خداوند خدا بزرگ ہے اور اس لئے کہ کوئی تیری مانند نہیں اور 66 تیرے سوا جہاں تک ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے کوئی خدا نہیں.“ لکھا ہے :- (سموایل باب ۷ آیت ۲۲) " میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں میرے سوا کوئی خدا نہیں.میں نے تیری کمر باندھی اگر چہ تو نے مجھے نہ پہنچانا.“ اسی طرح عہد نامہ جدید میں لکھا ہے کہ :- (یسعیاہ باب ۴۵ آیت ۵)
” یسوع نے جواب دیا کہ اوّل یہ ہے.اےاسرائیل ٹن.خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے.اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ.اسی طرح لکھا ہے کہ :- (مرقس باب ۱۲ آیت ۳۰،۲۹) " تم جو ایک دوسرے سے عزبات چاہتے ہو وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے.کیونکر ایمان لا سکتے ہو؟ (یوحنا باب ۵ آیت ۴۴) نیز لکھا ہے :- ”چنانچہ میں نے سیر کرتے اور تمہارے معبودوں پر غور کرتے وقت ایک ایسی قربان گاہ بھی پائی جس پر لکھا تھا کہ نا معلوم خدا کے لئے.پس جس کو تم بغیر معلوم کئے پوجتے ہو میں تم کو اسی کی خبر دیتا ہوں جس خدا نے دنیا اور اس کی ساری چیزوں کو پیدا کیا وہ آسمان اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا.نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے.اور اس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی اور اُن کی میعادوں اور سکونت کی حدیں مقرر کیں.تا کہ خدا کو ڈھونڈیں شاید کہ ٹول کر اسے پائیں ہر چند کہ وہ ہم میں کسی سے دُور نہیں.“ اعمال باب ۱۷ آیت ۲۳ تا ۲۷) الغرض بائیبل میں ایک خدا کی عبادت کرنے ایک خدا کو ماننے کی ہی بات کی گئی ہے جبکہ یسوع کے ماننے والے بائیبل کے اس عقیدہ کے بالکل برعکس لوگوں کے سامنے تین خداؤں کا تصور پیش کرتے ہیں.ہو سکتا ہے بائیمیل کے ماننے والوں کو جس بات نے مغالطہ میں ڈالا وہ بائیل میں درج لفظ ” بیٹا ہو.حالانکہ بیٹا کا لفظ بائیل میں ایک
محاورہ کے طور پر استعمال ہوا ہے.ایک جگہ نہیں بلکہ بائیبل میں متعد دجگہ بیٹے کا لفظ آیا ہے اور یہ ایک پیار کا اظہار ہے.عام بول چال میں بھی لوگ غیر سے محبت کے اظہار کے طور پر بیٹے کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ بیٹا کا لفظ صلبی مرد اولاد کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کو بھی محبت کی بناء پر بیٹا کہا جائے وہ صلبی بیٹا نہیں بن جاتا.پھر بائیل جگہ جگہ اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ خدا ایک ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں تو پھر حقیقی بیٹے کا تصور بھی ممکن نہیں.اگر باپ سے بیٹا ہوسکتا ہے تو پھر لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ بیٹا کسی وقت باپ بھی بن جائے کہ وہ ایک اور بیٹے کو جنم دے.اس لئے خدا کا بیٹا ہونا عقل کے خلاف بھی ہے.اگر یسوع کو بیٹے کا لفظ خدا کا حقیقی بیٹا بنا سکتا ہے تو پھر بائیبل میں جس جس کے لئے خدا نے بیٹے کا لفظ استعمال کیا ہے وہ سب بھی حقیقی بیٹے کہلائیں گے.اگر دوسرے حقیقی بیٹے نہیں بن سکتے تو پھر یسوع کو بھی خدا کا حقیقی بیٹا نہیں کہا جا سکتا.چنانچہ بائیبل میں لکھا ہے کہ :- وو " تب تو فرعون کو یوں کہیو کہ خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا ہے.“ خروج باب ۴ آیت ۲۲) خدا تعالیٰ نے اس جگہ اسرائیل کو اپنا بیٹا بیان کیا ہے بلکہ لکھا ہے کہ میرا پلوٹھا ہے یعنی پہلا بیٹا ہے لیکن کوئی بھی عیسائی اسرائیل کو خدا کا بیٹا تسلیم نہیں کرتا.اسی طرح حضرت داؤدعلیہ السلام کے بارے میں آیا ہے کہ :- " میں حکم کو آشکارہ کروں گا کہ خداوند نے میرے حق میں فرمایا ہے کہ تو میرا بیٹا ہے میں آج کے دن تیرا باپ ہوا.اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے :- (زبور باب ۲ آیت ۷ )
وو حقائق بائیل اور مسیحیت دیکھ تجھ سے ایک بیٹا پیدا ہوگا وہ صاحب صلح ہوگا اور میں اُسے اُس کی چاروں طرف کے سارے دشمنوں سے صلح دونگا کہ سلیمان اُس کا نام ہوگا اور امن و آرام میں اُس کے دنوں میں اسرائیل کو بخشونگا.وہی میرے نام کیلئے ایک گھر بنائے گاوہ میرا بیٹا ہوگا اور میں اس کا باپ ہونگا.“ ا - تواریخ باب ۲۲ آیت (۱۰۹) اس جگہ حضرت اسرائیل کو خدا نے اپنا بیٹا بیان کیا ہے.اسی طرح حضرت داؤد کے بارے میں ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ :- " میں اُسے اپنا پلوٹھا بھی ٹھہراؤں گا.اور زمین کے بادشاہوں سے بالا اسی طرح نئے عہد نامے میں لکھا ہے کہ :- (زبور باب ۸۹ آیت ۲۷) مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے.“ (متی باب ۵ آیت ۹) اس آیت میں تمام صلح کروانے والوں کو یعنی قاضیوں کو خدا کے بیٹے قرار دیا گیا ہے بالکل یہی مضمون عہد نامہ قدیم میں بھی موجود ہے لکھا ہے کہ : -: وہ نہیں جانتے اور وہ سمجھیں گے نہیں وہ اندھیرے میں چلتے ہیں.زمین کی ساری بنیا دیں جنبش کرتی ہیں میں نے تو کہا کہ تم الہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو.“ ( زبور باب ۸۲ آیت ۶،۵) اس آیت میں تمام لوگوں کو خدا کے فرزند کہا گیا ہے.بلکہ رومیوں کے حوالہ نے خدا کے بیٹوں کی ساری حقیقت کھول دی ہے لکھا کہ : -: اس لئے کہ جتنے خدا کے رُوح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں.“ (رومیوں باب ۸ آیت (۱۴) اس حوالے نے تو بیٹے اور خدا کی حقیقت کو خوب کھول کر بیان کر دیا ہے.اور ساری دنیا پر یہ بات آشکار کر دی ہے کہ خدا کا بیٹا ہونا کیا ہے اور خدا کے بیٹے کون ہیں اور خدا کتنے
ہیں.لکھا ہے :- یسوع نے اُس سے کہا مجھے نہ چھو کیونکہ میں اب تک باپ کے پاس اُوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جاکر اُن سے کہہ کہ میں اپنے باپ اور تمہارے باپ کے اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس او پر جاتا ہوں.“ (یوحنا باب ۲۰ آیت ۱۷) حضرت مسیح نے اپنے باپ کو سب کا باپ فرمایا ہے گویا کہ میت خود جس کے بیٹے ہیں اُن کے بھائی بھی اُسی کے بیٹے ہیں اور مسیح کا خدا باقیوں کا بھی خدا ہے.ان حوالہ جات سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ بائیل کی تعلیم کی رُو سے خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی حقیقی بیٹا نہیں اسی طرح حضرت مسیح کو جن معنوں میں بیٹا کہا گیا ہے اُن معنوں میں صراط مستقیم پر چلنے والے تمام خدا کے بیٹے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ہم حضرت مسیح کے متعلق اور خدا کے متعلق وہ عقیدہ رکھیں جو بائیبل کا عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی بیٹا نہیں.اور بالکل یہی عقیدہ اسلام کا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :- قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ ، اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدُ : وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَده الاخلاص آیت ۲ تا ۵) یعنی ( ہم ہر زمانہ کے مسلمان کو حکم دیتے ہیں کہ تو ( دوسرے لوگوں سے ) کہتا چلا جا کہ (اصل) بات یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے.اللہ وہ (ہستی) ہے جس کے سب محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں) نہ اُس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے.اور (اس کی صفات میں ) اُس کا کوئی بھی شریک کا رنہیں.لیس ہمارا یہ فرض بن جاتا ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اور اس کا کوئی بیٹا نہیں اُس کا کوئی باپ نہیں اور وہ تمام چیزوں پر قادر ہے اور اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں.اسی بات پر ایمان رکھنا ہماری نجات کے لئے ضروری ہے.
اسی طرح یسعیاہ میں لکھا ہے کہ :- ” تم میرے گواہ ہو.خداوند فرماتا ہے اور میرا بندہ بھی جسے میں نے برگزیدہ کیا تا کہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاؤ اور سمجھو کہ میں وہی ہوں مجھ سے آگے کوئی خدا نہ بنا اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا.“ (یسعیاہ باب ۴۳ آیت (۱۰) پس ایک ایسے خدا کا عقیدہ رکھنا جس کا نہ کوئی باپ ہو اور نہ کوئی بیٹا، بائیل کی صحیح تعلیم کا منشاء ہے اگر اس کے برعکس کوئی عقیدہ رکھتا ہے تو وہ بائیبل کی تعلیم کے برخلاف ہے اُسے اپنے عقیدہ کی اصلاح کر کے توحید پر قائم ہونا ضروری ہے.ابن اللہ یا ابن آدم ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کی طرف ضرور منسوب کرتا ہے اور جس کی طرف وہ اپنے آپ کو منسوب کرے وہی اُس کا نسب قرار پاتا ہے.زید کا بیٹا زید ہی کو اپنا باپ قرار دے گا.اگر کوئی اُسے کہے کہ تو زید کا بیٹا نہیں بلکہ عمر کا ہے تو وہ اس کو قبول نہیں کرتا.ہر بیٹا اپنے باپ کی طرف منسوب ہو کر اپنے لئے عزت کا مقام پاتا ہے اور اگر کوئی اس کا نسب تبدیل کرے تو اُسے غصہ آتا ہے اور ہر جگہ اس بات کی اصلاح کرتا پھرتا ہے.اس جگہ بھی ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا مسیح نے بھی اپنا نسب بیان کیا ہے اور پھرا اپنا نسب کس کی طرف پھیرا ہے.مسیح نے اپنے آپ کو بار بار جس کی طرف منسوب کیا ہے لازما وہی مسیح کا نسب ہوگا اور اگر کوئی اُس کے برعکس اُس کا نسب کسی اور طرف منسوب کرتا ہے تو یہ ایک ظلم ہوگا اور انتہام ہوگا جو اس پر لگایا جاتا ہے.اس بات کا جائزہ بھی ہم بائبل کی
سے لیتے ہیں.بائبل میں مسیح کا نسب نامہ یوں درج ہے :- " جب یسوع خود تعلیم دینے لگا تو برس تیں ایک کا تھا اور ( جیسا کہ سمجھا جاتا تھا ) یوسف کا بیٹا تھا اور وہ عیلی کا...اور وہ انوش کا اور وہ شیت کا اور وہ آدم کا اور وہ خدا کا تھا“ (لوقا باب ۳ آیت ۲۳-۳۸) میں نے درمیان کا نسب نامہ چھوڑ دیا ہے شروع اور آخر کا نوٹ کیا ہے آیت نمبر ۲۳ میں لکھا ہے کہ میخ یوسف کا بیٹا تھا.(جیسا کہ سمجھا جاتا ہے ) کے الفاظ بریکٹ میں رکھ کر یہ بات صاف ظاہر کر دی گئی ہے کہ یہ الفاظ بائبل کے نہیں ہیں بلکہ اس کا ترجمہ کرنے والے نے شامل کئے ہیں اس لئے بریکٹ میں رکھا گیا ہے.بائبل تو مسیح کو یوسف کا بیٹا تسلیم کرتی ہے اور پھر آگے یوسف کا نسب نامہ آدم تک بیان کرتی ہے اور آدم کو خدا کا بیٹا قرار دیتی ہے.بات صاف ظاہر ہے کہ اگر آدم کو خدا کا حقیقی بیٹا مانا جائے تو پھر مسیح تک جو بھی آدم کی اولاد سے پیدا ہوئے سب خدا کے حقیقی بیٹے پوتے پڑپوتے کہلائے اور مسیح بھی پڑپوتا لکڑ پوتا تو ہوسکتا ہے لیکن بیٹا نہیں کیونکہ دُنیا والوں نے ایسے ہی قانون بنائے ہیں.اور ایک مسیحی بھی ایسا نہیں ہے جو کہ آدم کو خدا کا بیٹا تسلیم کرتا ہو.پس اگر آدم مسیحی حضرات کے نزدیک خدا کا بیٹا نہیں تو پھر مسیح جس کو بائبل آدم کی نسل سے بیان کرتی ہے کس طرح خدا کا بیٹا ٹھہر سکتا ہے.اسی طرح ایک دوسری جگہ اس طرح لکھا ہے کہ :- " یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابراہیم کا نسب نامہ (متی بابا آیت ا)
نیز لکھا ہے :- دو اور یعقوب سے یوسف پیدا ہوا یہ اُس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے." ( متی بابا آیت ۱۶) اس جگہ بھی بائبل ایک طرف مسیح کو ابن داؤد بیان کرتی ہے اور دوسری طرف ابن مریم.اور یہی مسیح کا اصل نسب نامہ ہے جو بائبل بیان کرتی ہے.یہ الگ بات ہے کہ قرآن کریم مسیح کو یوسف کا بیٹا تسلیم کرتا ہے یا نہیں اس وقت میں تو بائبل کی بات کر رہا ہوں جہاں تک ہمارے عقیدہ کا سوال ہے تو ہم مسیح کو قرآنی تعلیم کے مطابق بغیر باپ کے تسلیم کرتے ہیں اور حقیقی بات تو یہ ہے کہ اگر مسیح کے بطور نشان بغیر باپ کے پیدا ہونے کی شہادت قرآن کریم نہ دیتا تو پھر مسیح کی جائز پیدائش کے متعلق بھی مسیحی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے.یہ قرآن ہی ہے جس نے مسیح کی پیدائش کو ایک نشان قرار دے کر اُس کی والدہ حضرت مریم علیھا السلام کی عصمت اور پاکدامنی کی حفاظت فرمائی ہے ورنہ بائبل تو خود مسیح کو یوسف کا بیٹا قرار دیتی ہے جو واقعات کے لحاظ سے درست ثابت نہیں ہوتا.بائبل کے مطالعہ سے ایک بات اور نظر میں آتی ہے کہ حضرت مسیح نے بھی اپنے آپ کو کبھی بھی خدا کا حقیقی بیٹا نہیں بیان کیا بلکہ آپ نے مثال دے کر یہود پر یہ بات صاف کر دی کہ میں اُسی طرح خدا کا بیٹا ہوں جس طرح تمہاری شریعت میں یہ لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو.اس تعلق سے لکھا ہے کہ :- " یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھر اٹھائے.یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں اُن میں سے کس کام کے سبب مجھے سنگسار کرتے ہو.یہودیوں نے اُسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب نہیں بلکہ کفر کے سبب تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اس لئے کہ تو
۱۴ آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو.جب کہ اُس نے اُنہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور کتاب مقدس کا باطل ہو ناممکن نہیں.آیا تم اُس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دُنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے اس لئے کہ میں نے کہا میں خدا کا بیٹا ہوں.“ ( یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۱ تا ۳۶) جبکہ زبور میں اللہ کے بارے میں یوں درج ہے کہ : -: " وہ نہیں جانتے اور وہ سمجھیں گے نہیں وہ اندھیرے میں چلتے ہیں.زمین کی ساری بنیاد میں جنبش کرتی ہیں.میں نے تم سے کہا کہ تم الہ ہو.اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو.“ (زبور باب ۸۲ آیت ۶،۵) پس مسیح نے اگر اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا بھی ہے تو وہ انہیں معنوں میں جن معنوں میں پہلی شریعت میں جن لوگوں پر خدا کا کلام آیا اُن کو خدا کہا گیا ہے اور زبور میں یہ بات موجود ہے.پھر یہ فرمانا کہ ” اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو خدا کے بیٹوں کی حقیقت کو آشکار کر دیتا ہے.بائبل کے مطالعہ سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح کے شاگرد جو سیخ کی زندگی میں آپ کے ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے وہ بھی مسیح و خدا کا حقیقی بیا تسلیم نہیں کرتے تھے اگر وہ مسیح کی زندگی ہی میں مسیح کو خدا کا حقیقی بیٹا مانتے ہوتے تو پھر ضرور وہ مسیح کے سامنے بھی وچھے جانے پر اس بات کا اظہار کرتے لیکن ایسا دکھائی نہیں دیتا البتہ یہ بات بعد میں آنے والوں نے ضرور پیش کرنی شروع کر دی جو کہ بائبل کی تعلیم کے صریح خلاف تھی اور ہے.بائبل میں لکھا ہے کہ :-
" جب وہ تنہائی میں دُعا مانگ رہا تھا اور شاگر داس کے پاس تھے تو ایسا ہوا کہ اُس نے اُن سے پوچھا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب میں کہا یوحنا بپتسمہ دینے والا اور بعض ایلیا کہتے ہیں اور بعض یہ کہ قدیم نبیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے.اُس نے اُن سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو؟ پطرس نے جواب میں کہا کہ خدا کا مسیح.اُس نے اُن کو تاکید کر کے حکم دیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا اور کہا ضرور ہے کہ ابن آدم بہت دُکھ اُٹھائے.(لوقا باب ۹ آیت ۱۸ تا ۲۲) شاگردوں سے زیادہ استاد کو کون جان سکتا ہے مسیح نے جب لوگوں کے خیالات پوچھے تو کچھ اور تھے اور شاگردوں کا خیال پوچھا تو وہ اور تھا جواب دیا کہ خدا کا مسیح.یہ نہیں کہا کہ خدا کا بیٹا.اور پھر ساتھ ہی مسیح نے اپنا نسب نامہ یوں بیان کر دیا کہ ضرور ہے کہ ابن آدم بہت دُکھ اُٹھائے مسیح نے فورا پطرس کی بات کی تصدیق کر دی اور اپنے آپ کو ابن آدم قرار دیا.اگر آپ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا مانتے ہوتے تو پھر ضرور آپ شاگردوں کی غلط فہمی کو دور کرتے لیکن آپ نے اُن کی بات کو کہ خدا کا مسیح درست تسلیم کر کے اپنے آپ کو ابن آدم ہی قرار دیا.حضرت مسیح ہمیشہ ہی اپنے آپ کو ابن آدم قرار دیتے رہے یعنی آدم کا بیٹا.ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ بائبل میں متعدد مقام پر اپنے آپ کو ابن آدم قرار دیا ہے جیسا کہ دوسری جگہوں پر لکھا ہے کہ " یسوع نے اُس سے کہا کہ لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے.مگر ابن آدم کے لئے سردھرنے کی بھی جگہ نہیں“ لکھا ہے :- (متی باب ۸ آیت ۲۰)
دو لیکن اس لئے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کوزمین پر گناہوں کے معاف کرنے کا اختیار ہے ( اس نے مفلوج سے کہا ) اُٹھ اپنی چار پائی اُٹھا اور اپنے گھر چلا جا.“ (متی باب ۹ آیت ۶) لکھا ہے :- " ابن آدم کھاتا پیتا آیا.“ (متی باب ۱۱ آیت ۱۹) لکھا ہے :- دو لیکن اگر تم اس کے معنی جانتے کہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں تو بے قصوروں کو قصور وار نہ ٹھہراتے کیونکہ ابن آدم سبت کا مالک ہے.“ نیز لکھا ہے :- وو (متی باب ۱۲ آیت ۷، ۸) " کیونکہ جیسے یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.“ ( متی باب ۱۲ آیت ۴۰) لکھا ہے :- لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیا تو آپکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا.اسی طرح ابن آدم بھی اُن کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے گا.“ اسی طرح لکھا ہے کہ :- دو (متی باب ۱۷ آیت ۱۲ ) اور جب وہ گلیل میں رہتے تھے تو یسوع نے اُن سے کہا کہ ابن آدم آدمیوں کے ہاتھ میں حوالے کیا جائے گا.“ (متی باب ۱۷ آیت ۲۲)
لکھا ہے :- اور اُس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اُس وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی.“ نیز لکھا ہے :- متی باب ۲۴ آیت ۳۰) ابن آدم تو جیسا اُس کے حق میں لکھا ہے جاتا ہی ہے لیکن اُس آدمی پر افسوس ہے جس کے وسیلے سے ابن آدم پکڑایا جاتا ہے اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا ہوتا.“ متی باب ۲۶ آیت ۲۴) اتنا ہی نہیں بلکہ مسیح نے خدا کا بیٹا ہونے سے انکار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ابن آدم ہی کہا ہے.لکھا ہے :- مگر مسیح چپکا رہا سردار کا بہن نے اس سے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے.یسوع نے اُس سے کہا تو نے خود کہہ دیا.بلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے.“ متی باب ۲۶ آیت ۶۳، ۶۴) قارئین ! میں نے صرف مستی سے ہی چند حوالے آپ کے سامنے مسیح کے نسب نامہ کے پیش کئے ہیں جبکہ بائبل ایسے حوالوں سے بھری پڑی ہے تو اب سوچیں اور غور کریں کہ اس قدر تکرار کے ساتھ ابن آدم ابن آدم کہنے سے مسیح ابن اللہ کیسے ہو سکتے ہیں.پس اصل نسب وہی کہلائے گا جو خود پیش کیا جائے اور بائبل جابجا مسیح کے ابن آدم ہونے کی شہادت دیتی ہے.ان حوالوں کے ہوتے ہوئے مسیح کسی صورت میں بھی ابن اللہ نہیں کہلا
۱۸ سکتے بلکہ آپ حقیقی طور پر ابن آدم ہی ہیں اور یہی بائبل کا عقیدہ ہے.اور اگر کسی جگہ خدا کا بیٹا کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہ انہیں معنوں میں آئے گا جن معنوں میں بائبل دوسرے لوگوں کو بھی خدا کا بیٹا تسلیم کرتی اور بیان کرتی ہے جس کے حوالے اس سے پہلے آپ پڑھ چکے ہیں.مسیح اور کفارہ بائبل کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جب جنت میں تھے تو اُنہوں نے اُس درخت کا پھل کھایا تھا جس کا پھل کھانے سے انہیں منع کیا گیا تھا جس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے اُن سے ناراضگی کا اظہار کیا اور حوا اور آدم کو جنت سے نکال دیا اور سزا بھی سنائی جیسا کہ لکھا ہے کہ :- وو اور سانپ میدان کے سب جانوروں سے جنہیں خداوند خدا نے بنایا تھا ہوشیار تھا.اور اُس نے عورت سے کہا کیا یہ سچ ہے کہ خدا نے کہا کہ باغ کے ہر درخت سے نہ کھانا عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل ہم تو کھاتے ہیں.مگر اُس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خدا نے کہا کہ تم اس سے نہ کھانا اور نہ اُسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مرجاؤ.تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے.بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی.اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے ہوؤ گے اور عورت نے جوں
۱۹ دیکھا کہ وہ درخت کھانے میں اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور عقل بخشنے میں خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے خصم کو بھی دیا.اور اُس نے کھایا.تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہوا کہ ہم نگے ہیں.اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کے اپنے لئے لنگیاں بنائیں.“ ( پیدائش باب ۳ آیت ا تا۷ ) حضرت مسیح پر ایمان لانے والوں کا کہنا ہے کہ آدم جو کہ پہلا انسان تھا اس نے ایک گناہ کیا کہ اُس پھل سے کھایا جس سے کھانا منع کیا گیا تھا.اس کا یہ گناہ ورثہ میں نسل انسانی میں چل پڑا.اس پر خدا نے یہ چاہا تھا کہ وہ اس گناہ سے نسل انسانی کو نجات بخشے تب اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے یسوع کو بن باپ پیدا کر کے دنیا میں بھیجا.تب اُس بیٹے نے تمام نسل انسانی کا گناہ اپنے سر پر لیتے ہوئے اپنے آپ کو صلیبی قربانی کے لئے پیش کر دیا.عیسی کے ماننے والے یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ مسیح اُن تمام لوگوں کے گناہوں کا کفارہ پیش کر گئے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں.یہ بات بڑی ہی خوش آئند ہے کہ لوگوں کے گناہ بنا کوئی تکلیف اُٹھائے معاف ہو جائیں اور پھر سزا سے بھی بچ جائیں ایسا انسان بڑا ہی خوش نصیب ہے کہ اس کا شمار نجات یافتہ لوگوں میں ہو.لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کیا بائبل کی تعلیم عیسائیت کے اس عقیدہ کی تائید کرتی ہے اگر تائید موجود ہو تو اس کا اثر بھی ظاہر ہوگا اگر اثر ظاہر نہیں ہوتا اور بجائے تائید کے تردید کرتی ہو تو پھر اس کو فرضی عقیدہ خیال کر کے خوش خیالیوں سے باہر آنا ضروری ہے.جہاں تک کہ خدا کا بیٹا ہونے کا سوال تھا اس کا جواب تو پہلے گزر چکا ہے کہ یسوع بہر حال خدا کا بیٹا نہیں.جہاں تک یسوع کے صلیب پر مرنے اور کفارہ کی بات ہے تو اس تعلق سے بائبل کا مطالعہ کرنے سے ایسی آیات ملتی ہیں جن کا مضمون اس طرح ہے کہ کوئی جان
کسی دوسری جان کا بوجھ نہ اُٹھائے گی.جیسا کہ لکھا ہے :- وو وہ جان جو گناہ کرتی ہے سو ہی مرے گی.بیٹا باپ کی بدکاری کا بوجھ نہیں ٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کی بدکاری کا بوجھ اُٹھائے گا.صادق کی صداقت اسی پر ہوگی اور شریر کی شرارت اُسی پر پڑے گی.“ اسی طرح لکھا ہے کہ :- (حزقی ایل باب ۱۸ آیت ۲۰) اولاد کے بدلے باپ دادے مارے نہ جائیں نہ باپ دادوں کے بدلے اولا قتل کی جائے ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب مارا جائے گا.“ (استثناء باب ۲۴ آیت ۱۶) بائبل کی یہ بات نہایت درجہ عدل اور انصاف پر مبنی ہے اور ہر شخص اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے.چھوٹی سے چھوٹی عقل رکھنے والا انسان بھی اس اصول کو جانتا ہے کہ جو گناہ کرے گا اس کی سزا اُسی کو دی جائے گی یہ کبھی نہیں ہوتا کہ باپ گناہ کرے تو سزا بیٹے کو دی جائے.زید قتل کرے تو عمر کو پھانسی ہو.یہ بھی کبھی نہیں ہوتا کہ عزیز کھانا کھائے تو نذیر کا پیٹ بھرے.اس لحاظ سے کفارہ کی تردید خود بائبل کی تعلیم سے ثابت ہے.اور ایک بچہ بھی اور کم عقل رکھنے والا بھی اس کو ر ڈ کر دے گا.قرآن کریم بھی اس بائبل کی تعلیم کو اس طرح سے بیان کرتا ہے کہ :- وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى ج (الانعام آیت ۱۶۵) یعنی ہر ایک نفس جو کچھ کماتا ہے اسکا ( وبال) اس پر پڑتا ہے.اور کوئی بوجھ 66 اُٹھانے والی ( ہستی ) دوسری ( ہستی ) کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی.“ پس یہ بات شرعی لحاظ سے بھی اور عقلی لحاظ سے بھی اور انسانی فطرت کے لحاظ سے بھی
حقائق بالمیل اور مسیحیت درست اور انصاف پر مبنی ہے کہ کوئی شخص کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور باپ کے بدلے بیٹے کو پھانسی نہیں دی جاسکتی.کفارہ کے مسئلہ پر مسیح کے ماننے والوں کی طرف سے یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے کہ خدا نے بنی آدم پر رحم کھاتے ہوئے اُن کے ورثہ میں چلے آنے والے گناہ کو اپنے بیٹے کی قربانی سے دُور کیا ہے.مضمون کے شروع میں باپ بیٹے کی حقیقت واضح کر دی گئی ہے جہاں تک کسی کی قربانی کسی دوسرے کے گناہ کو دور کرنے کے لئے ممد و معاون ہونے کی بات ہے تو ایسا ممکن نہیں کیونکہ حزقی ایل میں اس کی تردید موجود ہے تیسری بات صرف قربانی ہے کہ مسیح کو صلیب دیا جانا قربانی ہے یا نہیں؟ سب سے اول بات تو یہ ہے کہ صلیب پر مرنے والے کو بائبل کیا کہتی ہے دیکھیں لکھا ہے :- وو اور اگر کسی نے کچھ ایسا گناہ کیا ہوجس سے اُس کا قتل واجب ہو اور وہ مارا جائے اور تو اُسے درخت میں لٹکائے تو اُس کی لاش رات بھر درخت پر لٹکی نہ رہے بلکہ تو اُسی دن اُسے گاڑ دے کیونکہ وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے خدا کا ملعون ہے اس لئے چاہئے کہ تیری زمین جس کا وارث خداوند تیرا خدا تجھ کوکرتا ہے نا پاک نہ کی جائے.“ (استثناء باب ۲۱ آیت ۲۳،۲۲) بائبل کے بیان کے مطابق پھانسی دیا جانے والا لعنتی ہے اس لئے بائبل نے مسیح کے متعلق لکھا ہے کہ :- وو د مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے.“ (گلیوں باب ۳ آیت ۱۳) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مسیح صلیب پر مر گئے تھے تو پھر بائبل کے قول کے
۲۲ مطابق لعنتی ہوئے.پس جو شخص خود لعنتی ہو تو وہ دوسروں کو لعنت سے کیونکر چھڑ سکتا ہے.یہ الگ بات ہے کہ بائبل کے کہنے کے مطابق مسیح صلیب پر مرے یا نہیں وہ لعنتی ہوئے یا نہیں یہ بحث آگے آئے گی.اس جگہ صرف اس بات کی وضاحت کرنا مقصود ہے کہ صلیب پر مرنے والا بہر حال بائبل کے قول کے مطابق لعنتی ہے اور مسیحی دنیا یہ یقین کرتی ہے کہ مسیح صلیب پر مر گئے تھے اس لئے گلیوں نے انہیں لعنتی بھی قرار دیا.پس جو شخص لعنتی ہو وہ کسی صورت میں بھی دوسرے کو لعنت سے نہیں چھڑا سکتا.مسیح پر ایمان لانے والے جو اُس کی صلیبی موت کے قائل ہیں وہ مسیح کی صلیبی موت کو قربانی خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسیح نے یہی تو قربانی کی ہے کہ نسل آدم میں چلے آنے والے گناہ سے بنی آدم کو چھڑانے کی خاطر اپنی قربانی پیش کی اور دوسروں کو لعنت سے چھڑانے کے لئے خود لعنتی ہوا.یا درکھنا چاہئے کہ ہر قربانی کے لئے دلی رضامندی کا ہونا ضروری ہوا کرتا ہے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا مسیح نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا تھا اور بخوشی اس قربانی کے لئے تیار تھے؟ اگر تو مسیح نے اپنے آپ کو اپنی رضامندی سے صلیب پر چڑھا دینے کے لئے پیش کر دیا ہو تو پھر لازما یہ بنی آدم کے لئے اُن کی ایک قربانی ہوگی لیکن اگر اُنہوں نے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا بلکہ زبردستی پکڑ کر اُن کو صلیب پر لٹکایا گیا ہے تو پھر یہ واقعہ ظلم کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے قربانی نہیں کہلا سکتا.اس بات کا جائزہ لینے کے لئے جب ہم بائبل پر غور کرتے ہیں کہ مسیح کو صلیب اُن کی اپنی رضامندی سے دی گئی تھی یا پھر انہیں زبر دستی صلیب پر چڑھایا گیا تھا تو ہم یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ : " پھر تھوڑا آگے بڑھا اور منہ کے بل گر کر یہ دُعا مانگی.اے میرے باپ ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے.تاہم جیسا میں چاہتا ہوں ویسا نہیں بلکہ جیسا تو
چاہتا ہے ویسا ہی ہو.“ ۲۳ (متی باب ۲۶ آیت ۳۹) مسیح کی اگر یہی دلی خواہش ہوتی کہ میں بنی آدم کی خاطر اپنے آپ کو قربان کردوں تا کہ بنی آدم گناہ سے نجات پائیں تو یہ بات کبھی نہ کرتے کہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے پھر دیکھنے والی یہ بات بھی ہے کہ کیا مسیح کی یہ دُعاسنی بھی گئی کہ نہیں ؟ اس بات کا بھی بعد میں جائزہ لیا جائے گا.بہر صورت یہ آیت اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ مسیح صلیب پر چڑھنے کے لئے راضی نہ تھے بلکہ وہ تو یہ دُعا کرتے تھے کہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے.اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ : -: " اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا ایلی.ايلى لِمَا سَبَقْتَنِي ؟ یعنی اے میرے خدا ! اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.“ اس آیت میں مسیح اپنے خدا سے فریاد کر رہے ہیں اور مضطر ہونے کی حالت میں اپنے آپ کو ہر طرح سے بے بس پا کر خدا کو پکار رہے تھے.پس جو کام سیخ کی رضامندی سے ہو ہی نہیں رہا وہ قربانی کیونکر کہلا سکتی ہے.اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ :- اور اُن سے کہا.میری جان نہایت غمگین ہے.یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے.تم یہاں ٹھہرو اور جاگتے رہو.اور وہ تھوڑا آگے بڑھا اور زمین پر گر کے دُعا مانگنے لگا کہ اگر ہو سکے تو یہ گھڑی مجھ پر سے مل جائے.“ (مرقس باب ۱۴ آیت ۳۵،۳۴) مسیح کا اس گھڑی کے ٹل جانے کے لئے دُعا کرنا متی ، مرقس لوقا سے ثابت ہے.
۲۴ جب مسیح اس گھڑی کے ٹل جانے کے لئے بار بار دُعا کرتے ہیں تو پھر اس بات میں ذرہ برابر بھی شک باقی نہیں رہتا کہ مسیح صلیب پر چڑھنا اور مرنا نہیں چاہتے تھے.ایک طرف مسیح کا بار بار دعا کرنا ثابت ہے تو دوسری طرف بائبل میں لکھا ہے کہ :- وو یسوع نے جواب میں اُن سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر ایمان رکھو اور شک نہ کرو.تو نہ صرف وہ کرو گے جو انجیر کے درخت کے ساتھ ہوا بلکہ اگر اس پہاڑ سے بھی کہو گے کہ تو اُکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑ تو یہ ہو جائے گا اور جو کچھ دُعا میں ایمان کے ساتھ مانگو گے وہ سب تمہیں ملے گا.“ (متی باب ۲۱ آیت ۲۱، ۲۲) اس طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ :- اس وقت شاگردوں نے یسوع کے پاس آکر کہا کہ ہم اس کو کیوں نہ نکال سکے اُس نے اُن سے کہا.اپنے ایمان کی کمی کے سبب کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا.اور وہ چلا جائے گا.اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہوگی.“ (متی باب ۱۷ آیت ۲۰،۱۹) ہر دو حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسیح کو دُعا پر کامل یقین تھا اور وہ اپنے شاگردوں کے سامنے اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ اگر ایمان کے ساتھ دُعا کی جائے تو وہ ضرور سنی جاتی ہے لیکن اگر ایمان کے بغیر دُعا ہو تو وہ قبول نہیں ہوتی.اس سے پہلے کے حوالوں میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ مسیح دُعا کرتے رہے کہ اے میرے خدا مجھ سے یہ پیالہ ٹال دے.اب اگر تو مسیح کی دُعا نہیں سنی گئی تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسیح کی دُعا ایمان سے خالی تھی اور جو شخص خود ایمان سے خالی ہو وہ دوسروں کو کس طرح ایمان بخش سکتا ہے.وہ مسیحی جو مسیح کو مصلوب مانتے ہیں اُن کے نزدیک مسیح کی یہ دُعا کہ یہ پیالہ مجھ سے
۲۵ ٹال دے نہیں سنی گئی تبھی تو مسیح مصلوب ہوئے.لیکن ہمیں یہ یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا که مسیح ایمان سے خالی ہوں اور اُن کی دُعانہ سنی گئی ہو.آپ کی دُعا ایمان سے پر تھی اور وہ سُنی بھی گئی اس کا ثبوت آئندہ صفحات میں پیش کریں گے.پس بائبل کی تعلیم کے لحاظ سے جو صلیبی موت خوشی سے نہ ہوئی بلکہ اس موت سے بچنے کے لئے مسیح دعا کرتے رہے اور روتے رہے وہ باقی بنی آدم کے لئے خدا کی طرف سے بیٹے کی قربانی اور کفارہ کس طرح ہوسکتی ہے؟ جبکہ بائبل کی تعلیم کی رُو سے کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ نہیں اُٹھا سکتا.اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بائبل کی تعلیم کفارہ کے اصول کو ر ڈ کرتی ہے.اور قرآن کریم بھی یہی فرماتا ہے : لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (البقره آیت ۲۸۷) یعنی جو شخص کوئی اچھا کام کرے تو اس کا اجر اُسی کو ملے گا اور اگر کسی نے برائی کی تو اس کا وبال اُسی پر ہوگا.پس یہی وہ تعلیم ہے جو انصاف پر بھی مبنی ہے اور پھر فطرت انسانی کے بھی عین مطابق ہے.کفارہ کی ایجاد سے قبل کے لوگوں کا موروثی گناہ کس طرح بخشا جائے گا اس جگہ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدم کا کیا ہوا گنا ہ ورثہ کے طور پر اُس کی اولاد میں چل پڑا تھا تو پھر مسیح کے آنے سے پہلے والے لوگوں کی نجات کا ذریعہ کیا ٹھہرے
گا.کیا وہ سب لوگ جو مسیح کی قربانی سے قبل پیدا ہوئے اور وفات پاگئے وہ سب گناہ گار ہی مرے؟ اور سزا کے مستوجب ٹھہرے ! اگر اس کا جواب ہاں میں ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے خود ہی ان کو گناہ گار رکھا کہ اُن کی نجات کے لئے خدا نے پہلے ہی اپنے بیٹے کو بھیج کر اُن کو گناہ سے نجات نہ دی.اس لحاظ سے چونکہ انسان خدا ہی کے ہاتھوں مجبور تھا تو پھر بائبل کے خدا کو بھی یہ حق حاصل نہیں رہتا کہ وہ خود ہی مجبور کرے اور پھر اس کو اس کی سزا بھی دے.جبکہ یہ بات بھی انصاف کا خون کرنے والی اور حق سے نا انصافی پر مبنی ہوگی.اس جگہ اگر ہم عام انسانوں کو چھوڑ دیں اور صرف انبیاء کی بات کریں خاص طور پر اُن انبیاء کی جن کا ذکر بائبل کرتی ہے تو کیا اُن کی نجات بھی مسیح کے خون پر منحصر ہے مسیحی غور کریں کہ حضرت ابراہیم جو کہ سب نبیوں کے باپ کہلاتے ہیں اُن کی نجات کیسے ہوگی.ہوگی بھی کہ نہیں ؟ اسی طرح داؤد.یعقوب موسی و دیگر انبیاء کا کیا ہوگا.کیا اُن کی نیکی جس کی تصدیق خود بائبل کرتی ہے ان کے کسی کام آئے گی یا نہیں آیا پھر وہ بھی مسیح کے خون سے بخشے جائیں گے؟ یہ تو انبیاء تھے اس کے علاوہ بائبل اوروں کو بھی نیک بتاتی ہے کیا اُن کی نیکی اُن کے کام آئے گی یا نہیں؟ جیسا کہ لکھا ہے :- وو " یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کے زمانے میں ابتیاہ کے فریق میں سے زکریا نام ایک کا بہن تھا.اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام ایشیع تھا.اور وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سارے حکموں اور قانونوں پر بے عیب چلنے والے تھے.“ (لوقا بابا آیت ۶،۵) کیا ان کی راستبازی اور خدا کے سارے حکموں پر اور قانونوں پر بے عیب چلنا اُن کی نجات کا ذریعہ ہو سکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ بائبل کی تعلیم راستباز کو نجات یافتہ مانتی ہے تو پھر ان راستبازوں کو کسی کفارہ کی کیا ضرورت ہے.؟ اسی طرح بائبل میں ایک جگہ لکھا ہے کہ : -: " میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا
۲۷ بپتسمہ دینے والے سے کوئی بڑا نہیں ہوا.لیکن جو آسمان کی بادشاہت میں چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے.“ متی باب ۱۱ آیت ۱۱) ( یہی حوالہ لوقا باب ۷ آیت ۲۸ میں درج ہے) اس آیت میں حضرت مسیح نے خود فرمایا ہے کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کا مقام سب سے بڑا ہے جب یہ بات ظاہر ہے کہ مسیح بھی تو عورت سے پیدا ہوئے تو بقول مسیح بحوالہ بائبل یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسیح سے یوحنا کا مقام بڑا ہے.اب مسیحی بتائیں کہ کیا یوحنا کو مسیح کی قربانی بصورت کفارہ کی ضرورت ہے؟ اگر پھر بھی کہا جائے کہ ضرورت ہے تو پھر بتائیں کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سب سے بڑا ہونا (مسیح سے بھی ) اُس کو کیا فائدہ دیتا ہے اور پھر کیا یہ بات انصاف اور حق پر مبنی ہے؟ اسی طرح لکھا ہے کہ :- " مگر فرشتے نے اس سے کہا اے ذکر یا خوف نہ کر کیونکہ تیری دُعا ئیں سُن لی گئی اور تیری بیوی ایشیع تیرے لئے بیٹا جنے گی تو اس کا نام یوحنا رکھنا.اور تجھے خوشی و خرمی ہوگی.اور بہت سے لوگ اُس کی پیدائش سے خوش ہونگے.کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگا اور ہر گزئے نہ کوئی اور شراب پیئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے رُوح القدس سے بھر جائے گا.“ (لوقا باب ۱ آیت ۱۳ تا ۱۵) اس آیت میں یوحنا کو بزرگ کہا گیا ہے نہ صرف بزرگ بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ ہی سے رُوح القدس سے بھر جائے گا.ایسا شخص جو بزرگ بھی ہو اور روح القدس سے بھرا ہوا بھی ہو اُس کو کسی کفارہ کی کیا ضرورت.؟ اگر کہا جائے کہ پھر بھی ضرورت ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے مسیح رُوح القدس سے پیدا ہوئے اور یوحنا بھی روح القدس سے بھرے ہوئے تھے تو پھر ان دونوں میں کیا فرق باقی رہا جبکہ مسیح یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ عورت سے پیدا ہونے والوں میں ان کا مقام سب سے بڑا ہے اور مسیح بھی عورت سے پیدا ہوئے تو پھر کیا یوحنا کا مقام مسیح کے مقام سے نہ بڑھ گیا ؟ تو پھر ان کو کفارہ
کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ : -: ۲۸ وو " جب میں کلام کرنے لگا تو رُوح القدس اُن پر اس طرح نازل ہوا جس طرح شروع میں ہم پر نازل ہوا تھا اور مجھے خداوند کی وہ بات یاد آئی جو اس نے کہی تھی کہ یوحنانے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم رُوح القدس سے بپتسمہ پاؤ گے.“ (اعمال باب ۱۱ آیت ۱۵، ۱۶) پطرس کا یہ بیان کہ ہم پر بھی شروع میں روح القدس نازل ہوا تھا اور جب میں اُن لوگوں سے بات کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ اُن پر بھی روح القدس نازل ہوا.مسیح کے بے گناہ ہونے کا ثبوت مسیحی یہ دیتے ہیں کہ اُن پر روح القدس نازل ہوتا تھا.اب دیکھیں بائبل کہتی ہے کہ پطرس پر بھی اور پطرس کی موجودگی میں دوسرے لوگوں پر بھی روح القدس نازل ہوا جب عام انسانوں پر روح القدس نازل ہوتا ہے تو پھر مسیح پر روح القدس کے نزول کی وجہ سے کیا خصوصیت باقی رہتی ہے اور پھر جن پر روح القدس نازل ہوان کو کفارہ کی کیا ضرورت رہی؟ اسی طرح سے اعمال باب ۲ آیت ۳- ۴ میں بھی لکھا ہے کہ :- وو اور وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے.“ گویا کہ روح القدس عام انسانوں اور مسیح کے شاگردوں پر بھی نازل ہوتا تھا.جس پر روح القدس نازل ہونے لگے اُس کو کفارہ کی کیا ضرورت رہتی ہے؟ کیا کفارہ قبول ہوا ؟ مسیحی دنیا جس کی بنیاد کفارہ کے عقیدہ پر ہے.ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ میسیج کی صلیبی موت پر ایمان لانے اور اس کے کفارہ کو مان لینے سے کیا کوئی
۲۹ فائدہ بھی ہوا ؟ اور جس غرض کے لئے کفارہ دیا گیا تھا کیا وہ غرض پوری بھی ہوئی یا نہیں؟ پادری صاحبان سے بات کرتے وقت جب ہم اس مقام پر پہنچتے ہیں تو اُن کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ کفارہ کا فائدہ اُس کو ہوگا جو ایمان لائے گا اور جو ایمان نہیں لاتا اس کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.پادری صاحب کی یہ بات بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے جو کھائے گا اُسی کا پیٹ بھرے گا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں کھاؤں اور پیٹ دوسرے کا بھرے.چاہے پادری صاحبان کی یہ بات اُن کے اپنے عقیدہ کفارہ کے الٹ ہی جاتی ہے کہ مسیح صلیب پر مریں اور نجات دوسروں کی ہو.لیکن ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ ٹھیک ہے جو ایمان لائے گا کفارہ اُسی کو فائدہ دے گا.سوال صرف اتنا ہے کہ کیا واقعی ایمان لے آنے سے فائدہ ہوا؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کفارہ کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے کہ ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آدم نے ایک گناہ کیا تھا خدا نے اُسے ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا لیکن اُس نے خدا کے حکم کو توڑتے ہوئے اُس کا پھل کھایا.اور یہ گناہ آدم کی نسل میں چل پڑا.خدا نے چاہا کہ وہ گناہ بنی آدم سے ختم ہو جائے تب اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجا کہ وہ اس گناہ کا کفارہ کرے اور اس گناہ سے لوگوں کو نجات دے.اس پر مسیح نے تمام بنی آدم کے گناہوں کو اپنے سر لیا اور خود لعنتی بن کر دوسروں کو لعنت سے بچایا.یہ وہ عقیدہ ہے جس پر مسیحیت قائم ہے.سب سے پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آدم نے آخر کون سا گناہ کیا تھا اور اس کی سزا کیا مقرر ہوئی لکھا ہے کہ :- ” اور سانپ میدان کے سب جانوروں سے جنہیں خداوند خدا نے بنایا تھا ہوشیار تھا.اور اُس نے عورت سے کہا کیا یہ سچ ہے کہ خدا نے کہا کہ باغ کے ہر درخت سے نہ کھانا.عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل ہم تو کھاتے ہیں.مگر اس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خدا نے کہا کہ تم اس سے نہ کھانا اور نہ اُسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مرجاؤ.تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم
ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے ہوؤ گے.اور عورت نے جوں دیکھا کہ وہ درخت کھانے میں اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور عقل بخشنے میں خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے خصم کو بھی دیا.اور اُس نے کھایا.تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہوا کہ ہم ننگے ہیں.“ ( پیدائش باب ۳ آیت ۱ تا ۷ ) آدم کا یہ گناہ تھا جو اُس نے کیا لیکن آدم سے یہ گناہ عورت حوا نے کروایا تھا بہر حال حوا اور آدم سے یہ گناہ سرزد ہوا کہ اُنہوں نے سانپ کے بہکاوے میں آکر اُس درخت سے کھایا جس سے کھانے سے انہیں منع کیا گیا تھا.جب آدم اور حوا سے یہ غلطی سرزد ہوگئی اور خدا کو اس کا علم ہوا تو خدا تعالیٰ نے اس غلطی پر آدم حوا اور سانپ کو سزا دی وہ سزا بائبل میں اس طرح درج ہے لکھا ہے کہ :- اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا اس واسطے کہ تو نے یہ کیا ہے تو سب مواشیوں اور میدان کے سب جانوروں سے ملعون ہوا.تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور عمر بھر خاک کھائے گا.اور میں تیرے اور عورت کے اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان دشمنی ڈالوں گا وہ تیرے سر کو کچلے گی اور تو اس کی ایڑی کو کاٹے گا.اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے حمل میں تیرے درد کو بہت بڑھاؤں گا اور درد سے تو لڑ کے جنے گی.اور اپنے مخصم کی طرف تیرا شوق ہوگا اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا.اور آدم سے کہا اس واسطے کہ تو نے اپنی جورو کی بات سنی اور اُس درخت سے کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم کیا کہ اُس سے مت کھانا زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی.اور تکلیف کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس سے کھائے گا.اور وہ تیرے لئے کاٹنے اور اونکٹارے اُگائے گی اور تو کھیت کی نبات کھائے گا.اور تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں پھر نہ جائے کہ تو اُس سے نکالا گیا ہے.کہ تو خاک ہے اور پھر خاک میں جائے گا.“ پیدائش باب ۳ آیت ۱۴ تا ۱۹)
حقائق بالمیل اور مسیحیت آدم نے جو گناہ کیا تھا اُس کی سزا یہ دی گئی جو او پر بیان ہوئی ہے سانپ کو الگ سزا عنائی حوا کو الگ اور آدم کو الگ.مسیحی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح اس گناہ سے نجات دلانے آئے تھے جو آدم سے سرزد ہوا تھا.اب جبکہ بقول مسیحیت مسیح ان گناہوں کا کفارہ کر گئے تو لازمی بات ہے کہ اس گناہ کی سزا بھی ختم ہو جانی چاہئے.مسیحی کہتے ہیں سزا اس کی ختم ہوگی جو ایمان لائے.مسیحی تو سب ایمان لائے ہیں میں کہتا ہوں کہ اگر مسیح کی صلیبی موت نے اُن کو گناہ سے نجات دے دی ہے تو پھر ایک عورت ایسی دکھا دیں جس کو کفارہ نے فائدہ پہنچایا ہو اور گناہ کی سزا کا کفارہ ہو جانے کے بعد اور ایمان لانے کے بعد اُس کی سزا دُور ہوگئی ہو اور وہ درد کے بغیر بچے پیدا کرتی ہو.اور بنا درد کے اُس نے لڑکے جنے شروع کر دیئے ہوں اور پھر وہ کون سی عورت ہے جو اپنے خصم کی طرف شوق نہ رکھتی ہو.پھر وہ کون سا مسیحی مرد ہے جو تکلیف کے ساتھ نہ کھاتا ہو اور زمین کی نبات نہ کھا تا ہو.کوئی ایک بھی مسیحی ایسا نہیں جس نے مسیح کے صلیب پر مرجانے کے بعد کفارہ کی صورت میں سزا کی معافی کے بدلے زمین کی نبات کھانی چھوڑ دی ہو.اور وہ منہ پسینے کی نہ کھا تا ہو.آج بھی سانپ پیٹ کے بل چلتا ہے اور خاک کھاتا ہے آج بھی عورت کی نسل کے ساتھ سانپ کی دشمنی قائم ہے سانپ کاتا ہے اور لوگ مرتے ہیں.اب دیکھیں اگر مسیح کے صلیب پر مرنے سے گناہ کا کفارہ ہو گیا تو پھر سزا کیوں معاف نہیں ہوئی ؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسیح کا صلیب پر مرنا اور پھر اُس کے خون کا بہنا کسی بھی انسان کے کام نہیں آیا.اور نہ ہی کفارہ ہوا اور نہ ہی کفارہ قبول ہوا.اب دیکھیں بائبل ہی ہر لحاظ سے اور ہر جانب سے کفارہ کا رڈ کرتی ہے تو پھر اپنے ہی خیال سے ایک عقیدہ بنالینا انسان کو کس طرح فائدہ دے سکتا ہے.بس اس پر تو یہی مصرعہ صادق آتا ہے کہ.دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
پس کفارہ کا عقیدہ رکھنا عقل اور بائبل کی تعلیمات اور فعلی شہادت کے لحاظ سے محض ایک مفروضہ اور فطرت کے لئے ناقابل قبول عقیدہ ہے.مسیح اور دُعا دُعا اپنے اندر اثر رکھتی ہے اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا.پھر جس قدر کوئی خدا کا زیادہ پیارا ہو اُس کی دُعا بھی زیادہ قبول کی جاتی ہے.یہ عقیدہ کہ دُعائیں سنی جاتی ہیں تمام مذاہب کے ماننے والوں کا مسلمہ عقیدہ ہے.چنانچہ اس بات کو پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : " یسوع نے جواب میں اُن سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر ایمان رکھو اور شک نہ کرو.تو نہ صرف وہ کرو گے جو انجیر کے درخت کے ساتھ ہوا بلکہ اگر اس پہاڑ سے بھی کہو کہ تُو اُکھڑ جا اور سمندر میں جا پڑ تو یہ ہو جائے گا اور جو کچھ دُعا میں ایمان کے ساتھ مانگو گے وہ سب تمہیں ملے گا.“ (متی باب ۲۱ آیت ۲۱، ۲۲) اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ ایمان کے ساتھ مانگی ہوئی دُعا ضرور قبول ہوتی ہے.اور قرآن بھی اور دیگر مذہبی کتب بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں.بائبل کے مطالعہ سے ایک بات کا ہمیں علم ہوتا ہے کہ مسیح نے بھی مشکل گھڑی میں دُعائیں کی ہیں اور ضرور ہے کہ وہ سُنی بھی گئی ہونگی اور پھر بائبل اس کی گواہی بھی دیتی ہے کہ ضرور سنی جاتی ہیں.حضرت مسیح نے ایک مشکل وقت میں خاص دُعا کی نہ صرف خود کی بلکہ ا پنے
۳۳ شاگردوں کو بھی آپ بار بار دُعا کے لئے کہتے رہے اور یہ ایک ایسے موقعہ کی دُعا ہے کہ اس قدر الحاح کے ساتھ آپ نے اور کسی معاملہ میں اس قدر زور سے دُعا نہیں کی اگر کوئی مسیحی اس دُعا کے بالمقابل کسی اور موقعہ کی دُعا میں اس سے زیادہ شدت اور زور اور الحاح اور درد دکھائے گا تو وہ انعام کا مستحق ہوگا.حضرت مسیح پر یہ مشکل گھڑی صلیب پر چڑھائے جانے کی گھڑی تھی اور آپ اس صلیبی موت سے بچنے کے لئے بار بار دعا کرتے تھے.جیسا کہ لکھا ہے کہ :- اس وقت یسوع اُن کے ساتھ گستمنے نام ایک جگہ میں آیا اور اپنے شاگردوں سے کہا کہ یہیں بیٹھے رہنا جب تک کہ میں وہاں جا کر دُعا مانگوں.اور پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لیکر غمگین اور بے قرار ہونے لگا.اُس وقت اُس نے اُن سے کہا.میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے.تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو.پھر تھوڑا آگے بڑھا اور منہ کے بل گر کر یہ دُعا مانگی.اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے.تاہم جیسا میں چاہتا ہوں ویسا نہیں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہی ہو.پھر شاگردوں کے پاس آکر انہیں سوتے پایا اور پطرس سے کہا کیوں تم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے.جاگو اور دُعا مانگو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو.روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے.پھر دوبارہ اُس نے جا کر یہ دعا مانگی.اے میرے باپ اگر یہ میرے پنے بغیر نہیں مل سکتا تو تیری مرضی پوری ہو.اور آکر انہیں پھر سوتے پایا.کیونکہ اُن کی آنکھیں نیند سے بھری ہوئی تھیں.اور انہیں چھوڑ کر پھر چلا گیا اور وہی بات پھر کہہ کر تیسری بار دعا مانگی.تب شاگردوں کے پاس آکر اُن سے کہا.اب سوئے رہو اور آرام کرو.دیکھو وقت آپہنچا ہے اور ابن آدم گنہ گاروں کے ہاتھ میں حوالہ کیا جاتا ہے.اُٹھو چلیں دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پہنچا ہے“ متی باب ۲۶ آیت ۳۶ تا ۴۶)
بالکل اسی مضمون کی آیات اور ایسی ہی درد بھری دُعاؤں والی آیات مرقس باب ۱۴ : آیت ۳۲ تا ۴۲ میں درج ہیں.جبکہ لوقا میں یوں لکھا ہے کہ " پھر وہ نکل کر اپنے دستور کے موافق زیتون کے پہاڑ کو گیا اور شاگرد اُس کے پیچھے ہو لئے.اور اُس جگہ پہنچ کر اُس نے اُن سے کہا.دُعا مانگو کہ آزمائش میں نہ پڑو اور وہ اُن سے بمشکل الگ ہو کر کوئی پتھر کے لیے آگے بڑھا اور گھٹنے ٹیک کر یوں دُعا مانگنے لگا کہ.اے باپ اگر تو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹالے تاہم میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو.اور آسمان سے ایک فرشتہ اس کو دکھائی دیا وہ اُسے تقویت دیتا تھا پھر وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو کر اور بھی دل سوزی سے دُعامانگنے لگا اور اُس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہوکر زمین پر ٹپکتا تھا.جب دُعا سے اُٹھ کر شاگردوں کے پاس آیا تو انہیں غم کے مارے سوتے پایا اور اُن سے کہا تم سوتے کیوں ہو.اُٹھ کر دُعا مانگو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو (لوقا باب ۲۲ آیت ۳۹ تا ۴۶) قارئین ! اس دُعا کے بعد جو کہ مسیح نے کی اور بائبل اس کا ذکر کرتی ہے.کوئی مسیحی ایسا ہے جو یہ کہے کہ مسیح میں ایمان نہیں تھا اور وہ شک سے بھرا ہوا تھا کہ اس کی دُعا جو اس قدر درد کے ساتھ اور بار بار کی گئی نہ سنی گئی ہو.ہاں کوئی اور یہ ایمان رکھے تو رکھے لیکن ہمیں تو اس بات میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کی دُعا ایمان اور یقین سے بھری ہوئی تھی.اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی دُعا ضرور سنی بھی گئی اور قبول بھی ہوئی مسیحی تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح کی یہ دعا ر ڈ کر دی گئی اس لئے آپ صلیب پر مرے لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ سیخ پر ایک بدنما داغ ہے اور اس کی شان کو گرانے والی بات ہے کہ آپ کی دُعا قبول نہ ہوئی.ہم کہتے ہیں کہ ہمارے مسیح کی جواللہ کا پیارا تھا اس کی دُعاسنی گئی اور اس کے نتیجہ میں جو مسیح نے یہ کہا تھا کہ ” تاہم میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو خدا نے اپنی اور مسیح یعنی ہر دو کی مرضی کو جو ایک ہو چکی تھی پورا کیا اور اس ابتلاء سے حضرت مسیح کو بچایا جو آپ کے مخالفین آپ کو صلیب پر مار کر لعنتی بنادینا چاہتے تھے.
قرآن کریم بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے کہ : وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ -: یعنی اُنہوں نے بھی ایک تدبیر کی (یعنی مار دینے کی ) اور خدا نے بھی ایک تدبیر کی (یعنی بچانے کی ) اور خدا بہتر تد بیر کرنے والا ہے.جبکہ خود بائیل بھی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ حضرت مسیح کی دُعاسنی گئی لکھا ہے کہ : اُس نے اپنی بشریت کے دنوں میں زورزور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اُسی سے دُعائیں اور التجائیں کیں جو اُس کو موت سے بچا سکتا تھا اور خدا ترسی کے سبب اُس کی سُنی گئی.“ ( عبرانیوں باب ۵ آیت ۷) پس وہ لوگ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ مسیح کی دُعا ایمان اور یقین سے پر تھی تو اس کا ئناجانا ضروری تھا تو وہ جان لیں کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے بلکہ خدا نے اُن کی دُعاسنی اور اُن کو بچایا.اور اگر کوئی یہ یقین رکھتا ہے کہ مسیح صلیب پر مر گئے تھے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسیح کی دُعا نہیں سنی گئی اور وہ سنی اس لئے نہیں جاسکتی تھی کہ وہ ایمان سے خالی اور شک سے پڑ تھی.اگر مسیح کی دعا ہی ایمان سے خالی ہوتو پھر وہ دوسروں کو ایمان کس طرح دے سکتا ہے.اس بات کا فیصلہ قارئین خود کریں کہ وہ مسیح کو ایمان والا تسلیم کرتے ہیں یا پھر ایمان سے خالی کہ جس کی دُعاسنی ہی نہیں جاسکتی اور نہ ہی سنی گئی.اس بات کی شہادت ہم آگے دیں گے کہ آپ یقینی طور پر ایمان سے پر تھے اور خدا نے آپ کو بچایا اور جیسا آپ نے پہلے سے پیشگوئی کی تھی ویسے ہی وہ پوری ہوئی.
یونس نبی کا نشان اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسیح نے بہت سے نشان دکھائے ایسا ہونا بھی ضروری تھا کیونکہ خدا کے نبی اپنی صداقت کو پیش کرنے کے لئے الہی بشارتوں کے مطابق پیشگوئیاں کرتے اور نشان دکھاتے ہیں.اُن کی پیشگوئیوں کا پورا ہونا اُن کی صداقت کا ز بر دست نشان ہوتا ہے.بچے اور جھوٹے میں پیشگوئیاں امتیاز پیدا کرتی ہیں.خدا اپنے پیاروں کی زبان پر جب کوئی بات جاری کرتا ہے تو پھر اسے وہ ضرور پورا کرتا ہے.حضرت مسیح نے اپنی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے ایک نشان دکھائے جانے کا وعدہ فرمایا تھا اور یہی وہ نشان ہے جو خدا کے فضل سے آپ نے دکھا کر اپنی صداقت پر مہر ثبت کی اور خدا نے آپ کا سچا ہونا دُنیا والوں پر ظاہر کر دیا.وہ نشان کیا تھا وہ یوناہ نبی کا نشان تھا جس کے بارے میں بائبل میں لکھا ہے کہ :- اس پر بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں اس سے کہا.اَے اُستاد ! ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں.اسنے جواب دے کر اُن سے کہا کہ اس زمانے کے بڑے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان اُن کو نہ دیا جائے گا.کیونکہ جیسے یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.متی باب ۱۲ آیت ۳۸ تا ۴۰) ایک اور جگہ لکھا ہے کہ :-
۳۷ اس زمانے کے بُرے اور زنا کارلوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یونس کے نشان کے سوا کوئی اور نشان اُن کو نہ دیا جائے گا.اور وہ اُنہیں چھوڑ کر چلا گیا.“ متی باب ۱۶ آیت (۴) ایسا ہی حوالہ لوقا باب ۱۱ آیت ۲۹، ۳۰ میں درج ہے.بائبل کے ان حوالوں کو دیکھ کر یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ مسیح نے آئندہ کے لئے جو نشان دکھانا تھا وہ صرف یونس نبی کا ہی نشان تھا کیونکہ مسیح نے صاف فرمایا ہے کہ یونس کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.اب دیکھنا یہ ہے کہ یونس نبی کا نشان کیا ہے؟ حضرت یونس کو خدا تعالیٰ نے نینوہ والوں کی طرف بھیجا کہ وہ اُن کی ہدایت کرے لیکن جب اُن لوگوں نے انکار کیا تو یونس اُن کو چھوڑ کر کسی اور طرف چل دیئے ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانے کے درمیان سمندری سفر تھا جب آپ جہاز میں سوار ہوئے تو سمندر میں طوفان آ گیا.اس پر جہاز والے گھبرا گئے پھر انہوں نے قرعہ ڈال کر یہ دیکھنا چاہا کہ کس کے سبب سے یہ طوفان آیا ہے تو اس میں حضرت یونس کا نام نکل آیا اس پر اُن لوگوں نے حضرت یونس کو سمندر میں پھینک دیا.لکھا ہے کہ : وو " پر خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقر رکر رکھی تھی کہ یوناہ کو نگل جائے اور یوناہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا.تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے دُعا مانگی اور کہا کہ.میں نے اپنی بپت میں خداوند کو پکارا اور اُس نے میری سُنی ہاں میں پاتال کے بطن میں سے چلا یا اور تو نے میری آواز سنی کیونکہ تو ہی نے مجھے گہراؤ میں سمندر کے درمیان ڈالا.......اور خداوند نے مچھلی کو کہا اور اُس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا.“ یوناه بابا آیت ۷ ا باب ۲ آیت ۱ تا ۳ و ۱۰) بائبل کے ماننے والے یونس نبی کے اس نشان سے بخوبی واقف ہیں اور ہر شخص یہ
جانتا ہے کہ حضرت یونس کو جب سمندر میں ڈالا گیا تھا اور مچھلی نے آپ کو نگلا تھا تو آپ زندہ تھے.اور تمام مسیحی اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ حضرت یونس کو جب مچھلی نے نگل لیا تو اس کے پیٹ میں بھی آپ زندہ ہی رہے.اس بات کا ثبوت خود بائبل ہی دیتی ہے جیسا کہ لکھا ہے :- " تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے دعا مانگی.“ دُعا زندہ ہی مانگتا ہے آپ پیٹ میں زندہ تھے اس لئے آپ خدا کو پکارتے رہے اور دُعا کرتے رہے.پھر تین دن رات کے بعد جب مچھلی نے خدا کے حکم سے آپ کو خشکی پر اگلا تو اس وقت بھی آپ زندہ ہی تھے.الغرض تمام مسیحی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ گئے زندہ ہی رہے او زندہ ہی نکلے.اور بائبل اسی نشان کو یونس نبی کا نشان مانتی ہے.حضرت مسیح نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ جس طرح یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ گئے اور زندہ رہے اور زندہ نکلے تھے اسی طرح میں بھی زمین کے پیٹ میں زندہ داخل ہونگا زندہ رہوں گا اوزندہ نکلوں گا.پس وہ لوگ جو یہ یقین کرتے ہیں کہ مسیح صلیب پر مر گئے تھے اور مردہ حالت میں تین دن رات قبر نما کمرے میں رہے اور پھر زندہ ہوکر باہر نکلے اُن کے نزد یک بائبل میں پیش کیا جانے والا نشان جھوٹا ثابت ہوگا کیونکہ یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ گئے تھے اور سیخ مرکز تو یہ نشان جھوٹا ہوا.اسی طرح جو لوگ یہ یقین کرتے ہیں کہ مسیح زمین کے پیٹ میں تین دن رات مرے رہے اُن کے نزدیک بھی مسیح کا یہ نشان جھوٹا ثابت ہوگا کیونکہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات زندہ ہی رہے تھے.جب ہر دو باتیں جھوٹ ثابت ہوں تو تیسری خود بخود جھوٹی ہو جاتی ہے کیونکہ یونس نبی مر کر زندہ نہ
۳۹ ہوئے تھے بلکہ زندہ ہی تھے اور زندہ ہی نکلے تھے لیکن میسیج مر گئے اور پھر زندہ ہوئے.اس لحاظ سے پوری پیشگوئی ہی جھوٹی ہو جاتی ہے.جبکہ مسیح کا یہ کہنا ہے کہ نشان مانگنے والوں کو صرف یہی ایک نشان دکھا یا جائے گا.اب جب یہ نشان ہی جھوٹا نکلا تو پھر مسیح کے سچا ہونے پر کون سی دلیل باقی رہ جاتی ہے.کیا مسیح صلیب پر فوت ہو گئے؟ قارئین ! خدا کی طرف سے آنے والے کبھی جھوٹے نہیں ہوتے اور خدا اُن کی باتوں کو سچا کر دکھاتا ہے ہمارے نزدیک مسیح سچے تھے اور جو نشان اُنہوں نے دکھانے کا وعدہ کیا تھا وہ آپ نے خدا کے فضل سے اُسی طرح دکھایا.اور آپ صلیب سے زندہ اُتر کر زمین کے پیٹ میں زندہ ہی داخل ہوئے اور تین دن رات زندہ ہی رہے اور زندہ ہی باہر نکلے.اس جگہ میں بائبل سے آپ کے صلیب سے زندہ اتر نے اور زندہ زمین کے پیٹ میں داخل ہونے اور پھر زندہ ہی رہنے اور زندہ ہی نکلنے کے ثبوت پیش کرتا ہوں.اور یہ بھی بتا تا ہوں کہ خدا نے آپ کی دُعا کو ئنا جو ایمان سے پر تھی اور اُس کو قبول کیا اور وہ موت کا پیالہ خدا نے آپ سے ٹال دیا جس کی آپ بار بار خدا سے دُعا کرتے تھے.اور یہی آپ کے سچا ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے.چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ :- وو پس جب وہ اکٹھے ہوئے تو پیلاطس نے اُن سے کہا تم کسے چاہتے ہو کہ میں تمہاری خاطر چھوڑ دوں؟ برابا کو یا لیسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے.کیونکہ اُسے معلوم تھا
کہ اُنہوں نے اُس کو حسد سے پکڑوایا ہے.اور جب وہ تخت عدالت پر بیٹھا ہوا تھا تو اُس کی بیوی نے اُسے کہلا بھیجا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ.کیونکہ میں نے آج خواب میں اس کے سبب سے بہت دکھ اُٹھایا ہے.لیکن سردار کاہنوں اور بزرگوں نے لوگوں کو اُبھارا کہ برابا کو مانگ لیں اور یسوع کو ہلاک کرائیں.حاکم نے ان سے کہا ان دونوں میں سے کس کو چاہتے ہو کہ تمہاری خاطر چھوڑ دوں؟ وہ بولے برابا کو پیلاطس نے ان سے کہا.پھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے کیا کروں؟ سب نے کہا کہ اُس کو صلیب دی جائے.اُس نے کہا.کیوں اُس نے کیا بُرائی کی ہے؟ مگر وہ اور بھی چلا چلا کر بولے کہ اُس کو صلیب دی جائے.جب پیلاطس نے دیکھا کہ کچھ بن نہیں پڑتا بلکہ الٹا بلوا ہوتا جاتا ہے تو پانی لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا میں اس راستباز کے خون سے بری ہوں تم جانو.“ متی باب ۲۷ آیت ۱۷ تا ۲۴) نیز دیکھیں.لوقا باب ۲۳ آیت ۲۰ کہ :- " مگر پیلاطس نے یسوع کے چھوڑنے کے ارادے سے پھر ان سے کہا لیکن وہ چلا کر بولے کہ اس کو صلیب دے صلیب.“ سب سے پہلی بات بائبل سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ پیلاطس مسیح کو راستباز خیال کرتا تھا اس لئے وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کو صلیب دی جائے.جبکہ اُس کی بیوی نے بھی یہ کہا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ کیونکہ میں نے آج خواب میں اس کے سبب سے بہت دُکھ اُٹھایا ہے.اس لئے وہ بھی چاہتی تھی کہ مسیح صلیب پر نہ چڑھائے جائیں.لیکن بلوائیوں کے سامنے جب پیلاطس مجبور ہو گیا تو پھر اُس نے اپنی بریت کا اعلان اس طرح کیا کہ پانی منگوا کر اپنے ہاتھ دھوئے.اور کہا کہ میں اس راستباز کے خون سے بری ہوں.پیلاطس حاکم تھا وہ بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ مسیح صلیب پر مر جائیں اور نہ ہی ان کی بیوی
چاہتی تھی.پیلاطس نے باوجود اس کے کہ مسیح کو یہود کے حوالے کر دیا لیکن اس کے لئے ایک پلان یہ بنایا کہ مسیح کو ایسے وقت میں صلیب دی جائے کہ وہ زیادہ دیر صلیب پر نہ رہنے پائیں.اس زمانہ میں صلیب اس طرح دی جاتی تھی کہ ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونک کر لٹکا دیا جاتا تھا اور آدمی لٹکے لٹکے بھوک پیاس سے مرجاتا تھا اور پھر اُسے صلیب سے اُتار کر اُس کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں.لیکن پیلاطس نے ایسا پلان بنایا کہ ایک تو بہت کم وقت تک صلیب پر رہیں اور پھر اُن کی ہڈیاں بھی نہ توڑی جائیں.بائبل میں لکھا ہے کہ : وو اور پہر دن چڑھا تھا جب اُنہوں نے اُس کو صلیب پر چڑھایا.“ ( مرقس باب ۱۵ آیت ۲۵) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جمعہ والے دن مسیح کو صلیب پر لٹکا یا گیا تھا اور ان کے صلیب پر لٹکائے جانے کا وقت بائبل سے ثابت ہے کہ پہر دن گزر چکا تھا اور دو پہر آگئی تھی.اور پھر یہ بھی بائبل سے ثابت ہے کہ مسیح کو جب صلیب پر لٹکایا گیا تھا تو سارے ملک میں اندھیرا چھا گیا تھا اور آندھی آئی تھی اس حوالہ سے بھی مسیح کے صلیب پر لٹکائے جانے کے وقت کی تعیین ہو جاتی ہے جیسا کہ لکھا ہے :- ' دوپہر سے لیکر تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا “ ( متی باب ۲۷ آیت ۴۵) دوسری بات یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کو جن دنوں صلیب دی گئی تھی وہ سردی کے دن تھے جیسا کہ لکھا ہے : نوکر اور پیادے جاڑے کے سبب سے کوئلے دہکا کر کھڑے تاپ رہے تھے اور پطرس بھی اُن کے ساتھ کھڑا تاپ رہا تھا “ ( یوحنا باب ۱۸ آیت ۱۸) یہ بات تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ مسیح کو جن دنوں صلیب پر لٹکایا گیا تھا وہ دن سردی
۴۲ کے تھے اور سردی کے دنوں میں دن چھوٹے اور راتیں بڑی ہوتی ہیں.اس لحاظ سے اگر دو پہر کا وقت مسیح کو صلیب پر چڑھانے کا قرار پائے تو وہ وقت کم سے کم دواڑھائی بجے کا بنتا ہے کیونکہ انگریزی بائبل میں لکھا ہے :- And it was the third hour, and they crucified him (Mark15-25) یعنی بعد دو پہر تیسرے پہر میں اُن کو صلیب دی گئی اور تیسرا پہر دو بجے کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے.اس لحاظ سے مسیح دو پہر سے تیسرے پہر تک صلیب پر رہے اور سردی کے دنوں میں دن شام کو پانچ ساڑھے پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھ بجے غروب ہوتا ہے اس طرح مسیح کا صلیب پر لٹکے رہنے کا وقت اڑھائی سے تین گھنٹے بنتا ہے.کیونکہ آندھی کی وجہ سے اندھیر ابھی چھایا ہوا تھا.اس لئے لکھا ہے کہ :- وو " پس چونکہ تیاری کا دن تھا یہودیوں نے پلاٹس سے درخواست کی کہ اُن کی ٹانگیں توڑ دی جائیں اور لاشیں اتار لی جائیں تا کہ سبت کے دن صلیب پر نہ رہیں کیونکہ وہ سبت ایک خاص دن تھا.“ (یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱) ایک جگہ لکھا ہے شام کی طرح کا اندھیرا بھی ہو گیا تھا اور سورج کی روشنی جلد جاتی رہی تھی لکھا ہے :- " پھر دو پہر کے قریب سے تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا.اور سورج کی روشنی جاتی رہی اور مقدس کا پردہ بیچ میں سے پھٹ گیا.“ (لوقا باب ۲۳ آیت ۴۵،۴۴) ان حوالوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کو شام کے وقت ہی صلیب سے اُتار لیا گیا تھا تا کہ سبت کا دن شروع ہونے سے یہود گناہ گار نہ ٹھہریں کیونکہ سبت کے دن کسی کو صلیب پر رکھنا جائز نہ تھا.اور سبت کا دن شام پڑنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے.اس
۴۳ طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسیح صلیب پر تین گھنٹے سے زیادہ نہیں رہے تھے اور آج بار بار کے تجربہ کے بعد یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ کوئی بھی آدمی ہاتھوں اور پیروں میں صرف کیل ٹھونک دینے سے تین چار گھنٹے میں نہیں مرتا.اور یہ عام بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ کوئی بھی آدمی صرف ہاتھ پیر میں کیل ٹھونک دینے سے کیسے مرسکتا ہے.اس لئے یہ بات ممکنات میں سے نہیں کہ میسیج صرف کیل ٹھونک کر لٹکائے جانے سے مر گئے ہوں.جبکہ اس واقعہ صلیب کے درمیان اور بعد میں بعض اور باتیں بھی پیش آئیں جو کہ اُن کے زندہ صلیب سے اُترنے کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں.اُن کو بھی میں اس جگہ درج کرنا ضروری خیال کرتا ہوں.بائبل میں لکھا ہے : وو اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا ایلی ايلى لما سبقتنى.یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.جو وہاں کھڑے تھے اُن میں سے بعض نے سُن کر کہا.یہ ایلیا کو پکارتا ہے.اور فورا اُن میں سے ایک شخص دوڑا اور اسفنج لے کر سر کے میں ڈبویا اور سر کنڈے پر رکھ کر اُسے پسا یا.مگر باقیوں نے کہا ٹھہر جاؤ.دیکھیں تو ایلیا اسے بچانے آتا ہے یا نہیں.پھر یسوع بڑی آواز سے چلایا اور جان دے دی.“ متی باب ۲۷ آیت ۴۶ تا ۵۰) متی کے اس حوالے سے یہ ثابت ہے کہ مسیح کو جب صلیب پر لٹکنے سے زیادہ تکلیف کا احساس ہوا تو آپ اُونچی آواز سے چلائے اس پر ایک شخص نے ہر کہ میں اسفنج کو ڈبو کر آپ کو چسا یا.پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا یہود صلیب پر لٹکنے والوں کو سرکہ بساتے تھے؟ ایسا کسی جگہ سے ثابت نہیں.اگر مسیح کو سر کہ پسا یا گیا تو پھر اُن کے ساتھ دو اور بھی چور صلیب پر لٹکائے گئے تھے اُن کو سر کہ کیوں نہ چسا یا گیا.؟
۴۴ اس طرح سر کہ ایک ایسی چیز ہے جس کے استعمال سے کوئی آدمی فوری مر نہیں سکتا.لکھا ہے کہ مسیح کو جب سر کہ چسا یا گیا تو وہ بڑی آواز سے چلائے اور جان دے دی.یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی ہر کہ چوسنے سے مرجائے.لیکن اس کی حقیقت کچھ اس طرح سے دکھائی دیتی ہے کہ اصل میں وہ چیز جس میں اسفنج ڈبویا گیا تھا وہ سر کہ نہیں تھا بلکہ وہ ایک ایسی دوائی تھی جس کے سونگھنے سے آدمی بے ہوش ہو جاتا ہے.جس طرح آج کل ایسے مریضوں کو جو تکلیف برداشت نہیں کر سکتے معالج کلوروفارم سنگھا کر بے ہوش کر دیتے ہیں تا کہ تکلیف کا احساس ختم ہو جائے.اور جب بھی کسی شخص کو کلور و فارم سنگھا دیا جائے خواہ وہ کتنا ہی چلا رہا ہو اور تکلیف سے تڑپ رہا ہو فورا بے ہوش ہو کر مردہ حالت میں نظر آئے گا.بالکل ایسا ہی مسیح سے ہوا.وہ شخص جس نے آپ کو اسفنج چسا یا غیر نہیں بلکہ آپ ہی کے ہمدردوں میں سے تھا اور یہ انتظام پہلے ہی کر رکھا گیا تھا کہ جب بھی موقعہ ہاتھ آئے آپ کی تکلیف کو کم کرنے کے لئے آپ کو بے ہوش کر دیا جائے.پس جیسے ہی آپ درد کی وجہ سے چلائے اور ایلی ایلی لما سبقتنی کی آواز بلند کی تو آپ کو وہ دوائی جس کو بائبل سرکہ کہتی ہے سنگھا کر یا چسا کر آپ کو بے ہوش کر دیا گیا.یہ وہ دوسرا حربہ تھا جو آپ کو صلیب سے زندہ بچانے کے لئے استعمال کیا گیا کہ آپ کو بے ہوش کر کے دوسروں کے نزدیک مُردہ بنادیا گیا جبکہ آپ زندہ تھے.ایسا کرنا اسلئے بھی ضروری تھا کہ آپ کو کم سے کم وقت تک صلیب پر رکھنا مقصود تھا تا کہ آپ دوسروں کے نزدیک مُردہ ہو کر جلد صلیب سے اُتار لئے جائیں.تیسری شہادت اُن کے صلیب سے زندہ اُتارے جانے کی پیلاطس کی حیرانگی ہے کہ جب اُسے یہ اطلاع دی گئی کہ میسیج مر چکے ہیں تو وہ حیران ہوئے جیسا کہ لکھا ہے کہ " جب شام ہو گئی تو اس لئے کہ تیاری کا دن تھا جو سبت سے ایک دن پہلے ہوتا ہے آرمتیہ کا رہنے والا یوسف آیا جو عزت دار مشیر اور خود بھی خدا کی بادشاہت کا منتظر تھا.اور جرات سے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی.اور پیلاطس -:
نے تعجب کیا کہ وہ ایسا جلد مر گیا.اور صوبہ دار کو بلا کر اُس سے پوچھا کہ اُس کو مرے ہوئے دیر ہوگئی.جب صوبہ دار سے حال معلوم کر لیا تو لاش یوسف کو دلا دی.“ ( مرقس باب ۲۵ آیت ۴۲ تا ۴۵) اس حوالہ سے دو باتیں سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ یوسف پیلاطس کا مشیر تھا اور عززت دار بھی اس طرح وہ خدا کی بادشاہت کا منتظر یعنی مسیح کے مددگاروں میں سے تھا لا زمی بات ہے کہ پیلاطس کے ساتھ مسیح کے معاملہ میں مشورہ میں شامل ہوگا.اور اسی کے مشورہ سے سارا معاملہ طے پایا ہوگا.دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ جب یوسف نے پیلاطس سے لاش مانگی تو پیلاطس نے تعجب کیا کہ وہ ایسا جلد مر گیا.اس کا اظہار تعجب مسیح کے جلد مر جانے پر اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس قدر جلد مرجاتا.پھر اس کا ایسا کہنا اس لئے بھی ضروری نظر آتا ہے کہ تاوہ درباریوں پر اس بات کا اثر چھوڑے کہ میخ مر گیا ہے جبکہ اس نے اس بات کو اور مضبوط کرنے کے لئے صوبہ دار کو بلا کر بھی پوچھا اور اس نے گواہی بھی دی.جب کسی پروگرام کے تحت کسی کو بچانا مقصود ہو کہ وہ لوگوں کے نزدیک مربھی جائے اور حقیقت میں مرنے بھی نہ دیا جائے تو ایسی باتیں کرنی ہی ہوتی ہیں کہ دوسرے سننے والے ان باتوں پر یقین کر لیں.اور اس جگہ یہ سب باتیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی نظر آتی ہیں کہ (۱) پیلاطس کی بیوی کو خواب کا آنا.(۲) پیلاطس کا اُسے چھوڑ دینے کا ارادہ کرنا.(۳) مجبوری ہونے پر اُن یہود کے سامنے اپنے ہاتھ دھونا (۴) سبت سے ایک دن پہلے صلیب کا حکم صادر کرنا (۵) پھر بعد دو پہر مسیح کو صلیب دینا (۶) شام ہونے سے پہلے اُسے اُتار کر لاش دینا (۷) سر کہ چسا کر اُسے بے ہوش کر دینا (۸) موت کی خبر آنے پر اظہار تعجب کرنا (۹) صوبہ دار کو گواہ ٹھہرالینا (۱۰) یوسف کا مشیر خاص ہونا.(۱۱) یوسف کے سپر دلاش کا کرنا.یہ سب باتیں اسبات کی شہادت دیتی ہیں کہ مسیح کو زندہ رکھے جانے کا پروگرام بنایا
گیا تھا اس طرح کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی بچ جائے.مسیح کے صلیب سے زندہ اُتر آنے کی شہادت جو بڑی اہم ہے اور بائبل میں درج ہے وہ یہ ہے کہ : " پس چونکہ تیاری کا دن تھا.یہودیوں نے پیلاطس سے درخواست کی کہ اُن کی ٹانگیں توڑ دی جائیں اور لاشیں اُتار لی جائیں تاکہ سبت کے دن صلیب پر نہ رہیں.کیونکہ وہ سبت ایک خاص دن تھا.پس سپاہیوں نے آکر پہلے اور دوسرے شخص کی ٹانگیں توڑ دیں جو اُسی کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے.لیکن جب اُنہوں نے یسوع کے پاس آکر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑیں.مگر اُن میں سے ایک سپاہی نے بھالے سے اُس کی پہلی چھیدی اور فی الفور اس سے خون اور پانی بہہ نکلا.جس نے یہ دیکھا ہے اُسی نے گواہی دی ہے اور اُس کی گواہی سچی ہے اور وہ جانتا ہے کہ سچ کہتا ہے تا کہ تم بھی ایمان لاؤ.“ (یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۵) اس حوالہ سے چوتھی شہادت مسیح کے زندہ صلیب سے اترنے کی یہ ثابت ہے کہ مسیح کی ہڈیاں نہ توڑی گئی تھیں.دوسرے دو آدمیوں کی تو ٹانگیں توڑی گئیں تھیں کیونکہ اُن کے خیال میں وہ زندہ تھے اور ان کا زندہ ہونا اس بات سے ثابت ہے کہ جب اُنہوں نے یسوع کے پاس آکر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑی گئیں.گویا کہ جو مر جاتا تھا اس کی ٹانگیں نہ توڑی جاتی تھیں میسیج چونکہ ان کے نزدیک مرچکے تھے اس لئے اُن کی ٹانگیں نہ توڑیں.جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ دونوں آدمی جو مسیح کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے وہ زندہ تھے تو پھر اس عرصہ میں مسیح کیسے مر سکتے تھے یہ بات ہماری پہلی بات کو تقویت دیتی ہے کہ چونکہ مسیح اس چیز کے سونگھنے یا چوسنے سے بے ہوش ہو چکے ہوئے تھے جبکہ دوسرے دونوں کو وہ چیز جو مسیح کو سونگھائی یا چوسائی گئی تھی نہ سونگھائی گئی اور نہ ہی چوسائی گئی ، اس لئے وہ صلیب پر رہنے کے وقت تک ہوش ہی میں تھے جس پر ان کو
۴۷ زندہ کہنا اور ماننا ضروری تھا.ماحصل یہ ہوا کہ جب دوسرے دونوں زندہ تھے تو مسیح بھی لازما زندہ ہی تھے لیکن وہ بے ہوش تھے پھر دوسروں کی تو ٹانگیں توڑی گئیں لیکن مسیح کی ٹانگیں نہ توڑی گئی تھیں.پانچویں شہادت مسیح کے صلیب سے زندہ اُترنے کی جو مندرجہ بالا حوالہ سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کو جب صلیب سے اُتارا جانے لگا تو ایک سپاہی نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے خون اور پانی بہہ نکلا.بات یہ ہے کہ گزشتہ حوالہ میں یہ آچکا ہے کہ صوبہ دار نے گواہی دی کہ اُس کو مرے ہوئے دیر ہوگئی.اگر مرے ہوئے دیر ہوگئی ہو اور مسیح واقعی مر چکے ہوں تو پھر ان کے جسم سے خون نہیں نکلنا چاہئے تھا.کیونکہ مردہ جسم سے خون نہیں نکلا کرتا.مسیح علیہ السلام کے جسم سے جہاں سے اُن کو چھیدا گیا تھا وہاں سے خون کا نکلنا اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ آپ بے ہوش تھے اور زندہ تھے.چھٹی شہادت جو آپ کے زندہ صلیب سے اتر نے کی ہے اس کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ :- دوسرے دن جو تیاری کے بعد کا دن تھا سردار کاہنوں اور فریسیوں نے پیلاطس کے پاس جمع ہو کر کہا.خداوند ہمیں یاد ہے کہ اُس دھو کے باز نے جیتے جی کہا تھا کہ میں تین دن کے بعد جی اُٹھوں گا پس حکم دے کہ تیسرے دن تک قبر کی حفاظت کی جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے شاگرد آکر اُسے چرا لے جائیں اور لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا تو یہ پچھلا دھوکا پہلے سے بھی بڑا ہو گا.“ متی باب ۲۷ آیت ۶۲ تا ۶۴) یہود کو بھی اس بات کا شک تھا کہ مسیح زندہ ہیں.اس لئے اُنہوں نے پیلاطس سے اس بات کی درخواست کی کہ وہ اس کی قبر پر پہرہ بٹھا دیں اور خیال رکھے جانے کا انتظام کرے لیکن پیلاطس نے ان کی درخواست کو قبول نہیں کیا یہ بھی اس بات کی شہادت ہے کہ مسیح زندہ
تھے جبکہ وہ صلیب سے اُتارے گئے تھے.ساتویں شہادت جو مسیح علیہ السلام کے صلیب سے زندہ اترنے کی ہے اس کے تعلق سے بائبل میں لکھا ہے کہ :- "یوسف نے لاش کو لیکر صاف مہین چادر میں لپیٹا اور اپنی نئی قبر میں رکھ دیا جو اس نے چٹان میں کھدوائی تھی اور ایک بڑا پتھر قبر کے منہ پر لڑھکا کے چلا گیا اور مریم مگد لینی اور دوسری مریم وہاں قبر کے سامنے بیٹھی تھیں ( متی باب ۲۷ آیت ۵۹ تا ۶۱) مسیح علیہ السلام کو واقعہ صلیب کے بعد عام قبرستان میں دفن نہیں کیا گیا بلکہ اُس کے لئے ایک نئی قبر قبرستان میں کھود کر بنائی گئی تھی.وہ قبر بھی ایسی تھی کہ اس میں آدمی داخل ہو سکتے تھے.اور پھر اس کی قبر ایسی جگہ بنائی گئی تھی کہ کوئی نہ جانے کہ مسیح کو یہاں رکھا گیا ہے اور اس قبر کے منہ پر جو کہ ایک غار نما کمرہ تھا ایک بڑا پتھر رکھ دیا تا کہ مسیح کے جسم کے رکھے جانے کے مقام کا کسی کو علم نہ ہو سکے.اتنا ہی نہیں بلکہ وہ قبر جومسیح کے لئے بنائی گئی تھی وہ اتنی بڑی تھی کہ اس میں تین چار آدمی اکٹھے داخل ہو سکتے تھے جیسا کہ لکھا ہے کہ :- ” جب اُنہوں نے نگاہ کی تو دیکھا کہ پتھر لڑھکا ہوا ہے کیونکہ وہ بہت ہی بڑا تھا اور قبر کے اندر جاکر انہوں نے ایک جوان کو سفید جامہ پہنے ہوئے دہنی طرف بیٹھے دیکھا اور نہایت حیران ہوئیں.(مرقس باب ۱۶ آیت ۵،۴) یہ قبر میں جانے والی مریم مگر لینی.اور یعقوب کی ماں مریم اور سلو مے تھیں.جن کا اسی باب کی آیت نمبر 1 میں ذکر ہے.اب دیکھیں کہ اگر مسیح وفات ہی پاچکے تھے تو پھر اُنہیں چھپانے کی کیا ضرورت تھی اور پھر اُن کو ایک کھلے کمرے میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی جس میں اور لوگ بھی داخل ہوسکیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ چونکہ مسیح زندہ تھے اور زندہ
۴۹ آدمی کو سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے آپ کو ایسی کھلی جگہ پر رکھا گیا تھا.اور چھپا کر اس لئے رکھا گیا تھا کہ کہیں یہود کو اس بات کا علم نہ ہو جائے کہ مسیح زندہ ہیں اور وہ پھر کوئی کارروائی نہ کریں.آٹھویں شہادت حضرت مسیح کو جب صلیب سے اُتارا گیا تو آپ کو اس قبر نما کمرے میں رکھنے سے قبل خوشبودار چیز میں لگائی گئیں اور باریک کپڑے میں لپیٹا گیا لکھا ہے کہ :- " پس اُنہوں نے یسوع کی لاش لے کر اُ سے سوتی کپڑے میں خوشبودار چیزوں کے ساتھ کفنایا جس طرح یہودیوں میں دفن کرنے کا دستور ہے.“ (یوحنا باب ۱۹ آیت ۴۰) آپ گزشتہ حوالوں میں پڑھ چکے ہیں کہ "یوسف نے لاش کو لیکر صاف مہین چادر میں لپیٹا ، پہلی بات تو یہ ہے کہ لاش کو باریک اور مہین چادر میں کفنانے کا رواج نہیں بلکہ زخمی لوگوں کو باریک اور مہین کپڑے میں لپیٹا جاتا ہے.آج بھی مرہم پٹی کے لئے باریک کپڑا ہی استعمال کیا جاتا ہے جو کہ ڈاکٹری اصول کے عین مطابق ہے.مسیح کو اصل میں مرہم پٹی کی گئی تھی اُن زخموں پر جو اُن کے جسم پر ہو گئے تھے اس لئے مہین چادر استعمال میں لائی گئی.اور خوشبودار چیزیں جو اس وقت آپ کو لگائی گئی تھیں وہ ایسی دوائیاں تھیں جو زخم کو اچھا کرتی ہیں.اگر کوئی اس مندرجہ بالا حوالہ کے لحاظ سے یہ کہے کہ یہود میں ایسا ہی رواج تھا کہ مُردوں کو خوشبو دار چیزیں لگایا کرتے تھے تو اُن کی یہ دلیل اس حوالہ سے غلط ثابت ہوتی ہے جو یہ ہے کہ -: " جب سبت کا دن گزر گیا تو مریم مگد لینی اور یعقوب کی ماں مریم اور سلومے نے خوشبودار چیزیں مول لیں تا کہ آکر اس پر ملیں وہ ہفتے کے پہلے دن بہت
سویرے جب سورج نکلا ہی تھا قبر پر آئیں.اور آپس میں کہتی تھیں کہ ہمارے لئے پتھر کو قبر کے منہ پر سے کون لڑھکائے گا ؟.“ ( مرقس باب ۱۶ آیت ۱ تا ۳) یہود میں کوئی ایسا رواج نہ تھا کہ وہ اپنے مردوں کو تیسرے دن اُکھاڑ کر پھر اُن پر خوشبودار چیزیں ملتے ہوں اور یہ رواج آج بھی موجود نہیں تو پھر کیا ضرورت پیش آئی تھی کہ مسیح کو تیسرے دن خوشبو دار چیزیں ملی جائیں جو کہ مریم مگد لینی ، مریم ، اور سلومے بازار سے خرید کر لائی تھیں.اصل بات یہ ہے کہ یہی عورتیں قبر کے پاس بیٹھی پہرہ دیتی تھیں ان کو بھی اس بات کا علم تھا کہ میسیج زندہ ہیں اور تیسرے دن اُن کی مرہم پٹی تبدیل کرنی تھی اس لئے یہ چیزیں دوبارہ بازار سے خرید کر لائی گئی تھیں اور یہ مسیح علیہ السلام کے زندہ ہونے کی نویں دلیل بنتی ہے.نویں دلیل جیسا کہ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ مسیح کو صلیب پر ہی بے ہوش کر دیا گیا تھا اور جب آپ بے ہوش ہوئے تو وہ شام کا وقت تھا.آپ ایک رات اور ایک دن اور دوسری رات کا کچھ حصہ بے ہوش رہے.اس کے بعد آپ کو ہوش آ گیا.اور آپ اس قبر نما کمرے سے باہر نکل گئے.ایک عام مریض جس کو ایسے سخت صدمات پہنچے ہوں جب اُس کو تیز قسم کا کلوروفارم سنگھا دیا جائے تو ممکن نہیں کہ وہ اس سے پہلے ہوش میں آجائے.یا بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض کو یکے بعد دیگرے بے ہوشی کا ڈوز دیا جاتا ہے تا کہ وہ تکلیف سے محفوظ رہے میں نے بعض مریض ایسے بھی دیکھے ہیں جو خود مطالبہ کر کے بے ہوشی کا ٹیکہ یا دوائی پیتے ہیں تا کہ اُن کو تکلیف کا احساس نہ ہو.ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا بھی انتظام کیا ہو لیکن یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ تیز بے ہوش آور دوائی سے بے ہوش ہوا آدمی
۵۱ تیسرے دن جس سے مراد اٹھائیس سے لیکر چھتیس گھنٹے کا وقت بنتا ہے ہوش میں آجاتا ہے.ایسے ہی حضرت مسیح علیہ السلام ہوش میں آکر قبر سے باہر نکل گئے جو کہ ایک کمرہ نما قبرتھی.دسویں شہادت حضرت مسیح علیہ السلام جب رات کے اندھیرے میں اپنے حواریوں سے ملے تو وہ ڈرے اور ان کو خیال آیا کہ شاید یہ روح ہے جو کہ ہمارے سامنے آگئی ہے کیونکہ سوائے چند کے باقی یہی یقین کر گئے تھے کہ مسیح صلیب پر مر گئے ہیں.اور ایسا یقین کرنے والوں میں اول نمبر پر وہ تھے جنہوں نے مسیح کو پکڑوایا تھا یا وہ تھے جولعنت کر کے تھوک کر اور قرعہ اندازی کر کے کپڑے لیکر چلے گئے تھے اس لئے اُن کو خوف ہوا کہ یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں اُن کو بالکل یقین نہ ہوا لکھا ہے کہ : وو -: وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یسوع آپ اُن کے بیچ میں آکھڑا ہوا اور اُن سے کہا تمہاری سلامتی ہو.مگر اُنہوں نے گھبرا کر اور خوف کھا کر یہ سمجھا کہ کسی رُوح کو دیکھتے ہیں.اُس نے اُن سے کہا کہ تم کیوں گھبراتے ہو؟ اور کس واسطے تمہارے دل میں شک پیدا ہوتے ہیں.میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں ہی ہوں.مجھے چھو کر دیکھو کیونکہ رُوح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو.اور یہ کہہ کر اُس نے انہیں اپنے ہاتھ اور پاؤں دکھائے.جب مارے خوشی کے ان کو یقین نہ آیا اور تعجب کرتے تھے تو اُس نے اُن سے کہا کیا یہاں تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اُنہوں نے اُسے بھنی ہوئی مچھلی کا قبلہ دیا اُس نے لیکر اُن کے رُوبرو کھایا.“ (لوقا باب ۲۴ آیت ۳۶ تا ۴۳) اس حوالہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حواریوں نے جس وجود کو دیکھا وہ مسیح کا وجود تھا اور جسم تھا صرف روح نہ تھی کیونکہ مسیح نے انہیں اپنے ہاتھوں پیروں کے نشان دکھائے
۵۲ جو زخمی تھے.پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ حواریوں کو ملنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز کا مطالبہ کیا وہ یہ تھا کہ ”یہاں تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟‘ اس پر حواریوں نے مسیح کو بھٹی مچھلی کا قتلہ دیا جو کہ مسیح نے ان کے سامنے کھایا.مُردہ آدمی کو بھوک کا کوئی احساس نہیں ہوتا مسیح چونکہ دو دن سے بھوکے تھے بے ہوشی کی وجہ سے اُنہوں نے کچھ نہ کھایا تھا اس لئے آپ نے سب سے پہلے اپنی بھوک کو مٹانے کے لئے کچھ کھانے کو مانگا اور مسیح نے اُن کے سامنے اسے کھا کر یہ بتایا کہ میں بھوکا بھی ہوں اور پھر انسانی وجود میں بھی.مسیح کا بھو کا ہونا اور سب سے پہلے کھانے کے لئے مانگنا یہ بھی اُن کے صلیب سے زنده اتر کر تین دن رات بے ہوش رہنے کی دلیل ہے.گیارہویں دلیل مسیح علیہ السلام کے زندہ ہونے اور پھر اُسی وجود میں جو کہ انسانی تھا اور زخمی تھا اور بے ہوشی سے ہوش میں آ گیا تھا اس کی دلیل بائبل میں اس طرح درج ہے کہ : وو " باقی شاگرد اُس سے کہنے لگے ہم نے خداوند کو دیکھا ہے مگر اُس نے اُن سے کہا کہ جب تک میں اُس کے ہاتھوں میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لوں اور میخوں کے سوراخوں میں اپنی انگلی نہ ڈال لوں اور اپنا ہاتھ اس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہرگز یقین نہ کروں گا.آٹھ روز کے بعد جب اُس کے شاگرد پھر اندر تھے اور تھو ما ان کے ساتھ تھا اور دروازے بند تھے تو یسوع آیا اور بیچ میں کھڑا ہو کر بولا تمہاری سلامتی ہو.پھر اُس نے تھوما سے کہا کہ اپنی انگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پہلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ.تھو مانے جواب میں اُس سے کہا اے میرے خداوند اے میرے خدا یسوع نے اُس سے کہا تو تو مجھے دیکھ کر ایمان لایا ہے مبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لائے.“
(یوحنا باب ۲۰ آیت ۲۵ تا ۲۹) تھو ما حواری کو بالکل یقین نہ تھا کہ مسیح زندہ بچ گئے ہوں اس لئے اس نے حواریوں کی باتوں کو سن کر بھی یقین نہ کیا کہ وہ زندہ ہیں اُن کو یہ شک گزرا کہ ہوسکتا ہے اس جیسا کوئی دیکھا ہو یا اس کی روح دیکھی ہو اس لئے اس نے کہا کہ میں انگلی سوراخ میں ڈال کر دیکھوں گا پھر اعتقاد کروں گا مسیح نے تھوما کو یہی یقین دلانے کے لئے کہا کہ میرے سوراخ میں اور پہلی میں ہاتھ ڈال تا کہ اعتقاد ہو.یہ حوالہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلیب سے زندہ اُترے اور جو وجود تھوما کو ملا اور اُس کو اپنے زخم دکھائے وہ وہی مسیح تھے جو بے ہوشی سے ہوش میں آگئے تھے.ہم نے گزشتہ بحث میں یہ ثابت کیا ہے کہ مسیح جب صلیب سے اُتارے گئے اور قبر نما کمرے میں جب اُن کو رکھا گیا تو وہ زندہ تھے اور پھر آپ اُس قبر میں تین دن رات زندہ ہی رہے اور پھر زندہ ہی نکلے ہمارے ان دلائل کے پڑھنے کے باوجود بھی اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ مسیح صلیب پر مر کر زمین کے پیٹ میں گئے تھے اور تین رات دن مرے ہی رہے پھر زندہ ہو کر باہر آئے تھے وہ مسیح علیہ السلام کے اس نشان کو جھٹلانے والا ہے جو آپ نے دکھانے کا وعدہ کیا تھا.اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسیح نے جو ایک نشان دکھانے کا وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا نہ کر سکے.اس طرح آپ جھوٹے ٹھہرتے ہیں نعوذ باللہ.پس اس موازنہ سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے.جو حضرت مسیح کو صلیب پر مار کر مردہ قبر میں داخل کرتے اور تین دن بعد زندہ نکالتے ہیں وہ حضرت مسیح کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں اور جو حضرت مسیح کے صلیب سے زندہ اُترنے اور زندہ قبر میں داخل ہونے اور پھر زندہ باہر نکلنے کی سچائی پر یقین رکھتے ہیں وہی دراصل حضرت مسیح کو سچا ثابت کر رہے ہیں.
۵۴ حضرت مسیح علیہ السلام کا مقدس کفن حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب سے اُتارنے کے بعد ایک بار یک اور صاف چادر اور یوسف نے لاش کو لیکر صاف مہین چادر میں لپیٹا.“ میں لپیٹا گیا تھا.جیسا کہ لکھا ہے : اسی طرح لکھا ہے کہ :- (متی باب ۲۷ آیت ۵۹) " اُس نے ایک مہین چادر مول لی.اور لاش کو اُتار کر اُس چادر میں کفنایا.“ اسی طرح لکھا ہے کہ : ( مرقس باب ۱۵ آیت ۴۶،۴۵) " اُس کو اُتار کر مہین چادر میں لپیٹا پھر ایک قبر کے اندر رکھ دیا جو چٹان میں کھو دی ہوئی تھی اور اس میں کوئی کبھی رکھا نہ گیا تھا.“ (لوقا باب ۲۳ آیت ۵۳) ان حوالوں سے ثابت ہے کہ آپ کو ایک بار یک چادر میں لپیٹا گیا تھا پھر ایسے حوالے بھی موجود ہیں کہ خوشبودار چیزیں لگا کر پھر آپ کو اس چادر میں لپیٹا گیا تھا.وہ خوشبودار چیزیں کیا تھیں ان کا ذکر بائبل میں تو تفصیل سے موجود نہیں یہاں تو صرف عود اور مر کا ذکر ہے لیکن طب کی کتب میں ایک مرہم کا ذکر اس طرح پر موجود ہے کہ یہ مرہم حضرت مسیح کے زخموں پر لگائی گئی تھی جس کا نام طب کی کتب میں مرہم عیسی ہے.اس مرہم میں تمام ایسی چیزیں پڑئی ہوئی ہیں جو خون کو بند کرتی اور زخم کو اچھا کرتی ہیں.اور لازمی بات ہے کہ
مسیح علیہ السلام کو صلیب سے اُتارنے کے بعد ایسی ہی دوا کی ضرورت تھی تا کہ آپ کا خون فوری طور پر رک بھی جائے اور زخم بھی اچھے ہوجائیں.پس کفن پر جو خوشبودار چیزیں لگانے کا ذکر بائبل میں ہے وہ یہی مرہم ہے.سب سے پہلی بات جو آج کی تحقیق سے سامنے آئی اور جس کا مسیح علیہ السلام کے واقعہ صلیب سے زندہ بچ جانے کے ساتھ گہرا تعلق ہے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ پڑھ آئے ہیں کہ مسیح کو واقعہ صلیب کے بعد ایک بار یک چادر میں کفن دیا گیا تھا.یہ مبارک کفن آج بھی ٹیورین شہر اٹلی میں موجود ہے اگر چہ کئی مرتبہ ضائع ہوتے ہوتے بچا ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ اس کفن کو جہاں بھی رکھا جاتا ہے وہاں آگ لگنے کے واقعات بہت ہوتے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ آگ اس کے ضائع کئے جانے کے کسی پلان کا کوئی حصہ ہو.کیونکہ اس مقدس کفن نے بڑی ہی حیرت انگیز باتیں عیسائی دنیا کے سامنے پیش کی ہیں اور عیسائی پادریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے.رومن کیتھولک پادری اور پوپ صاحب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہی وہ مقدس کفن ہے جو مسیح پر واقعہ صلیب کے بعد پیٹا گیا تھا اور اس میں سے ایک شخص کی تصویر کیمرا کی مدد سے ابھر کر آئی ہے جس کے لئے پوپ صاحب نہم کا کہنا ہے کہ اس تصویر کے بنانے میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہے THE HOLY SHROUD PUBLISHED IN) (U.S.A اس کفن کی تصویر لیکر جب اس کو انلارج کیا گیا تو اس سے ایک تصویر اُبھری پھر اس پر لگے نشانوں کا جائزہ لیا گیا جوخون کے دھتے ہیں تو محققین نے یہ انکشاف کیا کہ اس پر لگا خون اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مسیح کو جب اس کفن میں رکھا گیا تھا وہ زندہ تھے.کیونکہ زندہ جسم سے ہی اس قدر خون خارج ہوسکتا ہے جتنا اس کفن میں لگا ہوا ہے.یہ دونوں باتیں عیسائی دنیا میں تہلکہ مچادینے والی تھیں اور شاید اسی وجہ سے وہ لوگ
جنہیں اس کفن کی موجودگی اُن کی بنیادوں کو ہلا تا ہوا دکھاتی ہے اس کے ضائع کرنے کی کوشش میں ہیں ابھی کل مورخہ ۴/۹۷/ ۱۲ی زی نیوز کی خبر تھی کہ اُس محل کو آگ لگ گئی جس میں اس کفن کو رکھا گیا تھا لیکن اس آگ سے اس مقدس کفن کو بحفاظت باہر نکال لیا گیا.اس کفن کے ساتھ یہ واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ کئی مرتبہ ہوا ہے ایک مرتبہ اس کو تھوڑا سا نقصان بھی پہنچ چکا ہے.بہر حال اس میں ایک بڑا ہی اہم راز ہے جو مسیح کے زندہ صلیب سے اُترنے کا اس کفن میں پوشیدہ ہے.اس جگہ اس کفن کی مختصر تاریخ بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں.اس چادر کے بارے میں ایک بہت جامع اور مستند کتاب The Turin Shroud ہے جس کے مصنف جان ولسن نامی ایک فاضل محقق ہیں.انہوں نے لکھا ہے کہ یہ چادر ابتداء میں جناب مسیح کے خاندان کے قبضے میں رہی اس خاندان کا ایک فرد جوڑے تھیڈن (Jude Thhadden) یہ چادر ترکیہ کے جنوب مشرق میں واقع شہر ادیسہ (Edessa) لے گیا اس کے بعد ۵ء میں یہ چادر غائب ہو گئی اور قریباً پانچ سو سال تک غائب رہی.۵۲۲ بہ میں یہ چادر پھر ظاہر ہوتی ہے.یہ وقت وہ ہے جب ایرانی فوجیں ادیسہ نامی شہر پر حملہ کرتی ہیں.دشمن کی کثرت دیکھ کرادیسہ کے حکمرانوں کی ہدایت پر چادر کو فیصل شہر پر پھیلا دیا جاتا ہے.روایات اور اعتقاد کے مطابق اس چادر کی برکت سے ادیسہ کو فتح حاصل ہوتی ہے ایرانی فوجیں شکست خوردہ ہوکر پسپا ہو جاتی ہیں.اس واقعہ نے اس چادر کی تقدیس کے بارے میں بہت اضافہ کر دیا اور جن لوگوں کو اس کے حقیقی ہونے کا شبہ تھا ان کے بھی شبہات دور ہو گئے.دسویں صدی عیسوی میں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ چادر (ادیسہ ) کے اسلامی
۵۷ شہر میں موجود تھی.لیکن مسلمانوں کے پاس نہیں تھی بلکہ ادیسہ کے مسیحیوں کی تحویل میں تھی.اور اُن کے ایک مقدس گرجا میں محفوظ تھی.چنانچہ جان ولسن کی تحقیق کے مطابق چادر حاصل کرنے کے لئے بازنطینی عیسائی فوج نے ۹۴۴ء میں ادیسہ پر حملہ کر دیا لیکن ادیسه کے مسیحیوں نے چادر دینے سے انکار کر دیا مگر اس دوران میں کچھ مسلمان ( جن کی تعداد دو سو کے قریب تھی ) عیسائی فوج کے ہاتھ لگ گئے جنہیں اُس نے یرغمالی بنالیا.آخر ادیہ کی ترک حکومت نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو رہا کروانے اور اُن کی جانیں بچانے کی خاطر یہ چادر حملہ آور فوج کے حوالے کر دینی چاہئے.چنانچہ ادیسہ کے مسیحیوں سے درخواست کی گئی کہ وہ یہ چادر حملہ آور فوج کے سپرد کر دیں اس طرح یہ متبرک چادر قسطنطنیہ کے عیسائی حکمرانوں کے پاس پہنچ گئی.۱۲۰۴ء میں فرانس کی فوجوں نے قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا اس حملے میں بڑی سخت خون ریزی اور لوٹ مار ہوئی.اس لوٹ مار سے یہ چادر بھی محفوظ نہ رہی اور نوابان فرانس اسے لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے.حملہ آور فوج کے ایک جرنیل رابرٹ ڈی قلاری نے شہادت دی کہ جب اس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تو بلا چر نائی (Blacherni ) کی خانقاہ مریم میں اس نے یہ چادر دیکھی تھی.جنرل کے بقول ہر جمعہ کو اس کی نمائش کی جاتی تھی.یہاں تک تو کوئی بات تعجب انگیز نہیں.تعجب اس وقت ہوتا ہے اور انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے جب جنرل یہ گواہی دیتا ہے کہ اس چادر پر ہمارے خداوند یسوع مسیح کی تصویر بہت نمایاں نظر آتی تھی.قریبا ڈیڑھ سو سال کے بعد ۱۳۵۴ ء میں یہ چادر مشرقی فرانس کے شہر کری (Lirey) سے ظاہر ہوئی.جہاں فرانس کے ایک نواب جغیر ی ڈی چینی Jeoffrey De Charni) نے اس شہر کے کالج میں واقع گرجا میں محفوظ کر دیا تھا.چند دہائیوں کے بعد جیفیری کی پوتی مار گیورائیٹ ڈی
لا روچ Marguerite De Laroche) نے یہ چادر سوائے (Sovoe) کے نوابین کو بطور تحفہ دے دی.اب یہ مقدس چادر شہر چمبری (Chambery) کے گرجا میں محفوظ تھی.یہ گرجا شہر سوائے (Sovoe) کے ڈیوک کے محل میں واقع تھا.۱۵۳۲ء میں یہاں آگ بھڑک اُٹھی اور یہ گر جابری طرح تباہ ہو گیا البتہ یہ چادر جو چاندی کے صندوق میں بند تھی بچ گئی مگر تباہی سے مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکی.آگ کی شدت سے صندوق کی چاندی پگھل کر چادر پر گری اور اس کے بعض حصے جل گئے مگر خداوند تعالیٰ کی قدرت کہ وہ حصہ مکمل طور پر محفوظ رہا جس پر حضرت مسیح کی تصویر اُتر آئی تھی.اس اثناء میں ایک مسیحی فدائی نے جان پر کھیل کر اس صندوق کو جلتے ہوئے گر جا سے نکال لیا.اسے پانی میں ڈال دیا گیا (غالباً کسی حوض میں ) اس طرح آگ کی مانند گرم صندوق کی شدت ختم ہوگئی اور چادر ضائع ہونے سے بچ گئی.اس کے بعد ” ننوں“ کی ایک جماعت نے اس چادر کے جلے ہوئے حصوں کو رفو کیا.اب اس مقدس چادر کے لئے جسے کفن کی چادر بھی کہتے ہیں ایک عظیم الشان گر جا اٹلی کے شہر تورین (Turin) میں تعمیر کیا گیا.۱۴۹ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی اس گر جا کو (Chaple of Sindone) کے نام سے موسوم کیا گیا یعنی مقدس کفن کا گر جا اور اسی سال یعنی ۱۹۹۴ ء میں یہ چادر اس نئے گرجا میں منتقل کر دی گئی جو چارفٹ لمبی چوبی صندوق میں گزشتہ تین صدیوں سے محفوظ ہے صندوق چاندی کی شیٹوں سے مزین کیا گیا ہے.اس چادر کا مالک اٹلی کا شاہی خاندان تھا جس کے آخری معزول بادشاہ امبرٹو ثانی Umber To II) نے وصیت کر دی تھی کہ ان کے انتقال کے بعد یہ مقدس چادر پاپائے اعظم ( پوپ ) کے سپر د کر دی جائے وہی اس کی حفاظت و نگرانی کریں گے چنانچہ کم و بیش ایک صدی سے پاپائے روم اس چادر کے
۵۹ کسٹوڈین ہیں اُن کی اجازت کے بغیر کوئی شخص اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا.(بحوالہ مسیح کی گمشدہ زندگی صفحه ۴۲ تا ۴ ۴ مؤلف پیام شاہجہانپوری مطبوعه اداره تاریخ و تحقیق این ۲۳ عوامی فلیٹس ریواز گارڈن لاہور ۱۹۹۲ء) حضرت مسیح علیہ السلام کو جس وقت صلیب دی گئی تھی اس وقت ان کی عمر ۳۳ سال کی بتائی جاتی ہے جو کہ جوانی کا زمانہ ہے اس لئے لازمی بات ہے کہ جب مسیح کو واقعہ صلیب کے بعد اس بار یک چادر میں لپیٹا گیا تو اس پر اگر کوئی نقش اُبھرتا تو وہ ایک جوان کی شبیہ ہی ہوتی.۱۸۹۵ء میں جب یہ چادر اٹلی کے معزول حکمران شاہ امبرٹو ثانی کے قبضے میں تھی تو بادشاہ کی اجازت سے اس کا دیدار عام کروایا گیا اور دُور ونزدیک سے ہزاروں مسیحی اس کی زیارت کرنے کے لئے اٹلی آئے.یہ وہ زمانہ ہے جب فوٹوگرافی کا فن اور کیمرہ نیا نیا ایجاد ہوا تھا.چنانچہ اٹلی کے ایک شوقیہ فوٹوگرافرمسٹرسیکنڈ و پیا (Secondo Pia) نے جو پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل تھے اس چادر کی تصویر اُتار لی.اس وقت تک فوٹو گرافی ابتدائی مرحلے میں تھی اور تصویر اُتارنے کیلئے بکس نما کیمرے استعمال ہوتے تھے.سیلو لائڈ کی فلم بھی ایجاد نہیں ہوئی تھی بلکہ شیشے کی پلیٹ سے یہ کام لیا جا تا تھا.فوٹوگرافر سیکنڈ و پیا تصویر اتار کر جب ڈارک روم میں گیا اور اس پلیٹ کو کیمیائی محلول میں ڈال کر نکالا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی.کیونکہ اس پلیٹ پر حضرت مسیح کی سیدھی تصویر ابھر آئی تھی جسے مثبت (Positive) کہتے ہیں.یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ تصویر کشی کی دنیا کا حیرت انگیز اور ناممکن الوقوع واقعہ تھا جواب وقوع میں آچکا تھا.اس کفن کی حیرت انگیز بات صرف یہ نہ تھی کہ اس میں سے مسیح کی مثبت تصویر ابھری تھی بلکہ اس کفن نے اور بھی بہت سے حیرت انگیز انکشاف کئے ہیں.سب سے بڑا
انکشاف جو اس مقدس کفن سے ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کفن میں بہت سا خون لگا ہوا ہے اور وہ جگہیں جو زخمی جسم کے ساتھ لگی تھیں بہت زیادہ خون آلود ہیں.ہاتھوں اور پیروں کے زخموں سے نکلنے والا خون صاف دکھائی دیتا ہے.اور اس کپڑے کو دیکھ کر یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ مسیح کو اس کپڑے میں کس طرح لٹایا گیا تھا.بائیل میں آیا ہے کہ مسیح کو جب صلیب سے اُتارا جانے لگا تو ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر اُس کی پہلی چھید دی جس میں سے خون اور پانی فی الفور بہہ نکلا.اس کپڑے پر وہ پسلی کا چھیدا ہوا نشان بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے جو کہ مسیح کے دائیں طرف پانچویں اور چھٹی پسلی کے درمیان ہوا تھا اور اس میں سے کافی مقدار میں خون نکلا ہے.سائنسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ اس کپڑے میں لگے خون کو دیکھ کر یہ بات یقین کی حد تک جا پہنچتی ہے کہ جب مسیح کو اس کپڑے میں لپیٹا گیا تھاوہ زندہ تھے کیونکہ دل حرکت کر رہا تھا اور خون اس کی حرکت کی وجہ سے باہر آتا رہا اور اس کپڑے پر کافی مقدار میں لگا.اس طرح پوپ نہم نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ کفن کے کپڑے سے ظاہر ہونے والی تصویر کے بنانے میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہے.پھر مسیح علیہ السلام کی چونکہ ہڈیاں نہیں توڑی گئی تھیں.اس لحاظ سے اس کفن پر سر کی طرف خون کے نشان ہیں چونکہ کانٹوں کا تاج رکھنے سے سر زخمی تھا یا پھر ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکنے سے زخم ہوئے تھے اور سب سے اہم نشان آپ کی پہلی چھیدنے کی جگہ کا ہے.کفن پر ان زخموں سے نکلنے والے خون کے صرف نشان ہی نہیں بلکہ ان زخموں سے اس مقدار میں خون بہہ گیا کہ وہ باریک بار یک اور موٹی لکیریں بنا گیا ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ان زخموں سے خون کا بہنا کافی عرصہ تک جاری رہا تا وقت کہ آپ کے زخموں پر لگائی گئی دوا نے اس خون کے
بہاؤ کو روک نہ دیا.کثرت سے خون کا بہہ جانا آپ کے زندہ ہونے اور پھر اُن نشانوں کو دیکھ کر جو اس کفن پر لگے خاص طور پر پسلی کی جگہ سے نکلے خون کے نشان کو دیکھ کر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کفن مسیح کا ہی تھا جو کہ آج تک مقدس کفن کے طور پر پوپ پال کے پاس اٹلی کے ٹورین شہر میں موجود ہے.مصوروں اور سائنسدانوں کی ان شہادتوں کے بعد کہ یہ کفن مسیح ہی کا ہے اور اس میں سے مثبت تصویر ابھری ہے اور خون کے بہنے والے نشان اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ مسیح کو جب اس کفن میں لپیٹا گیا تھا وہ زندہ تھے تو مسیحی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا کیونکہ مسیح کا صلیب سے زندہ بچ کر اتر نا اُن کے عقیدہ کفارہ کے بالکل خلاف تھا.اس لئے چر چوں نے اس کفن کے بارے میں شک کا اظہار کرنا شروع کر دیا کہ یہ اصلی کفن نہیں ہے لیکن حیرت ہے کہ تقریبا دو ہزار سال سے مقدس کہلائے جانے والے کفن کو آج اپنے غلط عقیدہ کو درست بنائے رکھنے کی غرض سے جھٹلایا جارہا ہے.آج بھی سائنس دان اس بات کے لئے تیار ہیں کہ اس کفن کے ٹیسٹ کئے جائیں لیکن دوسری طرف چرچ اس کام کے لئے بھی تیار نہیں بلکہ ایک نے لکھا ہے کہ :- ” اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ اس تجزیے کی خاطر مسیحیوں کی اس متبرک ترین یادگار کو تباہ کر دیا جائے.اور اگر اس سائنسی تجزیے نے ثابت کر دیا کہ یہ چادر اصلی ہے جس میں واقعی حضرت مسیح کو لپیٹا گیا تھا تو اس کے ایک ٹکڑے کو کاٹ کر ضائع کرنا اس مقدس یاد گار کی بے ادبی کرنے کے مترادف ہوگا.“ (SAGA OF THE SHROUD ENDED BY EARNE SA HAUSER, PUBLISHED IN READERS DIGEST, NOV.1989 AD.AND JESUS LIVED IN INDIA BY HOLGER KERSTEN, P.133) پس اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ مسیح علیہ السلام نے یونس نبی کا
۶۲ نشان بڑی شان سے دکھایا ہے کہ آپ قبر میں زندہ ہی گئے تھے اور زندہ ہی رہے تھے اور زندہ ہی نکلے تھے اور یہ کفن اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے.پس وہ لوگ جو مسیح کے قبر میں زندہ رہنے کی بات کا انکار کرتے ہیں وہ مسیح کی صداقت کے منکر ہیں اور آپ کے سچے پیروکار نہیں کہلا سکتے.ایمانداری یہی ہے کہ مسیح کے یونس نبی کے نشان کو دکھانے کے واقعہ کو اسی طرح تسلیم کریں جس طرح آپ نے دکھانے کا وعدہ کیا تھا اور اُسی طرح آپ نے یہ نشان دکھایا.مسیح بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کے لئے بائبل کے مطالعہ سے ایک بات یہ سامنے آتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے کاموں میں سے ایک خاص کام کی طرف لوگوں کو بار بار متوجہ کرتے ہیں.اُن کا بار بار یہ کہنا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے لئے بھیجا گیا ہوں کسی ایک خاص مقصد کو بیان کرتا ہے.جیسا کہ لکھا ہے :- اُس نے جواب میں کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.“ متی باب ۱۵ آیت ۲۴)
اسی بات پر بس نہیں جو آپ نے بار بار دہرائی بلکہ آپ نے اپنے شاگردوں کو نصیحت بھی یہی کی کہ وہ بھی بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کریں اور اُن میں کام کریں جیسا کہ لکھا ہے :- اُن بارہ کو یسوع نے بھیجا اور انہیں حکم دے کے کہا کہ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا.“ (متی باب ۱۰ آیت ۶،۵) تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے فلسطین میں آباد تھے اُن پر بخت نصر بادشاہ نے حملہ کیا تو ان بارہ قبیلوں میں سے ۱۰ قبیلے فلسطین کو چھوڑ کر کسی اور طرف چلے گئے تھے اور صرف دو قبیلے ہی فلسطین میں آبادرہ گئے تھے.حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے کام میں جس خاص بات کو بیان کیا اور اپنے شاگردوں کو جس بات کی تلقین کی وہ یہی تھی کہ وہ اُن گم شدہ قبائل کی تلاش کریں اور اُن میں میرا پیغام پہنچائیں.حضرت مسیح نے بھی اس بات کو بیان فرمایا اور شاگردوں کو بھی اس کام کی تلقین کی.حضرت مسیح کی یہ بات کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے کہ آپ ضرور اُن کی تلاش کریں گے اور اُن میں کام کریں گے.اگر آپ نے اپنی زندگی میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اپنے مشن میں ناکام رہے کہ جس بات کو آپ بار بار بیان کرتے اور شاگردوں کو تلقین کرتے تھے اُس میں آپ فیل ہو گئے آپ کی صداقت کا نشان تو یہ بنتا ہے کہ آپ نے اُن کو تلاش بھی کیا ہو اور اُن میں کام کر کے کامیابی بھی حاصل کی ہو.آئیے ! بائبل اور تاریخ کی رُو سے جائزہ لیتے ہیں کہ آپ اپنی بعثت کے مقصد
۶۴ میں کامیاب ہو سکے یا نہیں آپ یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ مسیح زندہ ہونے کی صورت میں قبر سے باہر آ گئے تھے اور آپ کا جسم وہی تھا جو صلیب پر چڑھایا گیا جس میں سے خون نکلا پھر بے ہوش رہا اور ہوش میں آکر اپنے شاگردوں کو ملے.یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کسی پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اُس سے بچ جائے تو پھر وہ اپنے آپ کو چھپاتا ہے کہ تا پھر نہ پکڑا جا کر کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے.آپ جب ہوش میں آکر قبر سے باہر آگئے تو آپ کی یہی حالت تھی کہ آپ لوگوں سے چھپتے تھے اور لوگوں کو بھی اس بات سے منع کرتے تھے کہ وہ کسی کے سامنے اس بات کا ذکر نہ کریں اور یہ ایک بشری تقاضا ہی نہیں بلکہ مومنانہ فراست اور حکمت کا بھی یہی تقاضا تھا.آپ کے خوف کھانے اور ڈرنے اور دوسروں کے سامنے ذکر نہ کرنے کی تلقین کرنے کے بعض حوالے اس جگہ درج کرتا ہوں بائبل میں لکھا ہے کہ : -: " یسوع نے اُس سے کہا مریم ! وہ پھر کر اُس سے عبرانی زبان میں بولی ربونی ! اے استاد! “ (یوحنا باب ۲۰ آیت (۱۶) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مریم قبر پر آئیں تو مسیح کو وہاں نہ پا کر ایک شخص کو باغبان سمجھ کر یہ پوچھا کہ تم کو پتا ہے کہ مسیح کہاں ہیں اس پر آپ نے جب بات کی تو مریم نے آپ کو پہچان لیا.جو کہ آپ کے پوشیدہ ہونے کی بین دلیل ہے کہ آپ کے ظاہر سے مریم بھی آپ کو نہ پہچان سکیں.اسی طرح لکھا ہے کہ :- دو ان باتوں کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو طبر یاس کی جھیل کے کنارے شاگردوں پر ظاہر کیا اور اس طرح ظاہر کیا.“ (یوحنا باب ۲۱ آیت۱)
لکھا ہے کہ :- " یسوع نے اُن سے کہا آؤ کھانا کھالو اور شاگردوں میں سے کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اُس سے پوچھتا کہ تو کون ہے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خداوند ہی ہے.“ (یوحنا باب ۲۱ آیت (۱۲) ان دونوں حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اول تو مسیح عام لوگوں میں اور عام جگہوں پر نہ گھوما کرتے تھے بلکہ پوشیدہ رہتے تھے اس لئے لکھا ہے کہ پھر اپنے آپ کو طبر یاس کی جھیل کے کنارے ظاہر کیا.اگر آپ عوام الناس ہی میں رہتے تو پھر ایسی بات نہ ہوتی اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ چھپ چھپ کر زندگی گزار رہے تھے پھر دوسری بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ آپ اپنا حلیہ بھی تبدیل کر کے رکھتے تھے تا کہ عوام آپ کو پہچان نہ لیں اور صرف شاگر دہی آپ کو جان سکیں.اس طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ :- " جب وہ اُن کے ساتھ کھانے بیٹھا تو ایسا ہوا کہ اُس نے روٹی لیکر برکت چاہی اور توڑ کر ان کو دینے لگا.اس پر اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہوں نے اُس کو پہچان لیا اور وہ اُن کی نظر سے غائب ہو گیا.(لوقا باب ۲۴ آیت ۳۱،۳۰) اس میں بھی یہی مضمون ہے کہ آپ اپنا حلیہ ایسا بنا کر رہتے تھے کہ عام لوگوں سے نہ پانے جائیں اس جگہ بھی آپ کی پہچان آپ کے چہرے سے نہیں ہو سکی بلکہ برکت دینے کے معجزے سے ہوئی.اس طرح لکھا ہے کہ وو -: اس کے بعد وہ دوسری صورت میں ان میں سے دو کو جب وہ دہات کی طرف پیدل جا رہے تھے دکھائی دیا.( مرقس باب ۱۶ آیت ۱۲) اس حوالہ میں دیکھیں بات کس طرح کھل گئی ہے کہ آپ اگر لوگوں کو نظر آتے تھے تو
۶۶ دوسری صورت میں گویا کہ آپ نے یقینی طور پر اپنا حلیہ تبدیل کیا ہوا تھا تبھی تو دوسری صورت میں نظر آتے تھے.اور یہ بات اُوپر کے سب حوالوں کی تشریح کو درست ثابت کرتی ہے.اس طرح بائیل ایک اور شہادت پیش کرتی ہے کہ :- " جب وہ تنہائی میں دُعا مانگ رہا تھا اور شاگرد اس کے پاس تھے تو ایسا ہوا کہ اُس نے اُن سے پوچھا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں انہوں نے جواب میں کہا یوحنا بپتسمہ دینے والا اور بعض ایلیا کہتے ہیں اور بعض یہ کہ قدیم نبیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے.اس نے اُن سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو؟ پطرس نے جواب میں کہا کہ خدا کا مسیح.اُس نے اُن کو تاکید کر کے حکم دیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا.(لوقا باب ۹ آیت ۱۸ تا ۲۲) اس حوالہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے اپنا حلیہ تبدیل کیا ہوا تھا اس لئے لوگوں کی آراء مختلف تھیں لیکن پطرس جو کہ آپ کو اچھی طرح جانتا تھا اُس نے آپ کو یہی کہا کہ میں تو آپ کو خدا کا مسیح کہتا ہوں چونکہ پطرس کی بات سے سب شاگردوں پر یہ بات عام ہوگئی تھی اس لئے آپ نے اُن کو یہ تاکید کر کے حکم دے دیا کہ وہ یہ بات کسی سے نہ کہیں کہ میں مسیح ہوں.اس طرح آپ نے لوگوں پر اس راز کے افشاں نہ کرنے اور نہ ہونے کی تاکید کی اس بات سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ نے واقعہ صلیب کے بعد اپنا حلیہ تبدیل کر لیا تھا.اور بائبل خود بھی ” دوسری صورت کی نشان دہی اسی حوالہ کے ساتھ کرتی ہے.حضرت مسیح کے پوشیدہ طور پر رہنے اور ویرانہ میں رہنے کی بھی شہادتیں بائبل میں موجود ہیں لکھا ہے کہ :-
۶۷ دو لیکن وہ باہر جا کر بہت چرچا کرنے لگا اور اس بات کو ایسا مشہور کیا کہ یسوع شہر میں پھر ظاہرا داخل نہ ہو سکا بلکہ باہر ویران مقاموں میں رہا اور لوگ چاروں طرف سے اُس کے پاس آتے تھے.“ ( مرقس بابا آیت ۴۵) حضرت مسیح نے جس کو ڑھی کو اچھا کیا تھا اسکو تاکید کی تھی کہ ”خبر دار کسی سے کچھ نہ کہنا“ (مرقس ۱ آیت (۴۴) لیکن اس نے چرچا کر دیا.یہ بات اس حقیقت کی شہادت ہے کہ مسیح اپنے آپ کو چھپارہے تھے.لیکن جب آپ کا چر چاز یادہ ہو گیا تو پھر آپ ظاہرا شہر میں داخل نہ ہوتے تھے گویا چھپ کر آیا کرتے تھے.اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ :- " جب دن بہت ڈھل گیا اُس کے شاگرد اس کے پاس آکر کہنے لگے یہ جگہ ویران ہے اور دن بہت ڈھل گیا ہے.انہیں رخصت کرتا کہ وہ چاروں طرف کی بستیوں اور گاؤں میں جا کر اپنے لئے کچھ کھانے کو مول لیں.“ ( مرقس باب ۶ آیت ۳۶،۳۵) ان تمام حوالوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح اپنے آپ کو چھپا رہے تھے.ویرانوں میں رہتے تھے اور اگر شہروں کی طرف جاتے بھی تو چھپ کر ، ظاہرا نہیں جاتے تھے پھر اُنہوں نے اپنا حلیہ بھی تبدیل کر لیا تھا تا کہ وہ پہچانے نہ جائیں حتی کہ آپ کے شاگرد بھی آپ کو آسانی سے نہ پہچان پاتے تھے.یہ سب باتیں حضرت مسیح کے اس ڈر کو ظاہر کرتی ہیں کہ کہیں پھر نہ پکڑا جا کر تکلیف دیا جاؤں.اور بعثت کے مقصد کے حصول میں ناکام رہوں.اس لئے آپ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف چلے جاتے اور دوسرے سے تیسرے کی طرف.جبکہ واقعہ صلیب سے قبل آپ عام لوگوں میں جاتے عبادت خانوں میں جا کر تبلیغ کرتے لوگوں کو اکٹھا کرتے اور کا ہنوں کے ساتھ مناظرہ ومباحثہ کرتے تھے لیکن واقعہ صلیب کے بعد آپ نے یہ سب
۶۸ کام بند کر دیئے تھے.آپ کا یہی طریق تھا کہ جہاں بھی آپ کی شہرت ہونے لگتی آپ اس جگہ کو چھوڑ کر آگے نکل جاتے کیونکہ آپ کا اصل مقصد ہی یہ تھا کہ آپ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کریں اور اُن میں تبلیغ کا کام کریں.اس لئے آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف اُن کی تلاش میں نکل جاتے تھے.گزشتہ بحث سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح صلیب سے زندہ اُتار لئے گئے تھے اور پھر بے ہوشی سے ہوش میں آکر اپنے شاگردوں کو بھی ملتے رہے اس کے آگے بائبل یہ بیان کرتی ہے کہ پھر مسیح آسمان پر چلے گئے.اگر تو یہ بات درست ہے کہ آپ آسمان پر چلے گئے تھے تو پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجے جانے والی بات جھوٹ ہو جاتی ہے اور نبی جھوٹ نہیں بولتا جیسا کہ یونس کے نشان سے بھی ثابت ہو گیا ہے تو پھر لازما یہ بات ہے کہ آپ بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں کسی اور طرف نکل گئے تھے چونکہ اس معاملہ میں بائبل خاموش ہے اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تاریخی واقعات کی طرف رجوع کریں اس کی ابتداء بائبل ہی سے کرتے ہیں لکھا ہے کہ :- اور جلد جا کر اس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا ہے.اور دیکھو وہ تم سے پہلے گلیل کو جاتا ہے وہاں تم اُسے دیکھو گے.دیکھو میں نے تم سے کہہ دیا.....اس پر یسوع نے اُن سے کہا.ڈرو نہیں.جاؤ میرے بھائیوں کو خبر دو تا کہ گلیل کو چلے جائیں وہاں مجھے دیکھیں گے.‘ ( متی باب ۲۸ آیت ۱۰۷) اسی طرح آگے لکھا ہے کہ :- وو اور گیارہ شاگر دلیل کے اُس پہاڑ پر گئے جو یسوع نے اُن کے لئے مقرر
۶۹ کیا تھا اور اُسے دیکھ کر سجدہ کیا.مگر بعض نے شک کیا.“ (متی باب ۲۸ آیت ۱۶، ۱۷) حضرت مسیح نے اپنی شہرت کو دیکھتے ہوئے اپنے شاگردوں کو گلیل کے ایک پہاڑ پر جمع کیا تا کہ وہاں اُن سے علیحدگی میں ملاقات کی جائے اور شاگردوں نے مسیح کو وہاں پا کر سجدہ کیا اس حالت میں کیا ہوا؟ لکھا ہے کہ :- وو ” جب وہ اُنہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اُن سے جدا ہو گیا اور آسمان پر اُٹھایا گیا اور وہ اُس کو سجدہ کر کے بڑی خوشی سے یروشلم کو لوٹ گئے." اسی طرح لکھا ہے کہ :- (لوقا باب ۲۴ آیت ۵۲،۵۱) ' یہ کہہ کر وہ اُن کے دیکھتے دیکھتے او پر اُٹھا لیا گیا اور بدلی نے اُسے اُن کی نظروں سے چھپا لیا اور اُس کے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے تو دیکھو دومردسفید پوشاک پہنے اُن کے پاس آ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اے کمیلی مرد و تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اسی طرح پھر آجائے گا جس طرح تم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے.تب وہ اس پہاڑ سے جو زیتون کا کہلاتا ہے اور یروشلم کے نزدیک سبت کی منزل کے فاصلے پر ہے یروشلم کو پھرے.“ (اعمال بابا آیت ۹ تا ۱۲ ) ان حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو ایک پہاڑ کے پاس بلایا تھا اور ان ہی حوالوں میں ایک عقدہ ہے اگر وہ کھل جائے تو پھر مسیح کے آسمان پر جانے کی بات بھی کھل جاتی ہے کہ آیا آپ آسمان پر گئے یا پھر کہیں اور ؟ جہاں تک کسی کے آسمان پر جانے کی بات ہے تو یہ ناممکن ہے کہ کوئی انسان آسمان پر چلا جائے اور ہم گزشتہ حوالوں سے یہ ثابت کر آئے ہیں کہ آپ انسان تھے نہ خدا تھے نہ خدا
کے بیٹے اور خود حضرت مسیح نے بھی کسی کے آسمان پر جانے اور آنے کی تفسیر کرتے ہوئے یوحنا کی آمد کو اس طرح بیان کیا ہے کہ :- " اُس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ پھر فقیہ یہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیا کا پہلے آنا ضروری ہے؟ اس نے جواب میں کہا ایلیا البتہ آئے گا اور سب کچھ بحال کرے گا.لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیا تو آپکا اور اُنہوں نے اُس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا اسی طرح ابن آدم بھی اُن کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے گا تب شاگرد سمجھ گئے کہ اُس نے ہم سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے.“ متی باب ۱۷ آیت ۱۰ تا ۱۳) تمام مسیحی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت الیاس نبی بگولے میں بیٹھ کر آسمان پر چلے گئے تھے اور وہ حضرت مسیح سے قبل آسمان سے اتریں گے پھر مسیح پیدا ہونگے.اور یہود نے حضرت مسیح کا انکار ہی اس لئے کیا تھا کہ اُن کے نزدیک ایلیا آسمان سے نہ آئے تھے.لیکن حضرت مسیح نے یوحنا کے متعلق فرمایا کہ یہ ایلیا ہیں جبکہ آپ آسمان سے نہ آئے تھے اسی لئے ایک اور جگہ حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ " آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اس کے جو آسمان سے اترا یعنی ابن آدم جو -: آسمان میں ہے.“ جبکہ حاشیہ میں لکھا ہے کہ :- (یوحنا باب ۳ آیت ۱۳) ” جو آسمان میں ہے ندارد “ یعنی ایسا ہو ہی نہیں سکتا.اس سے بات صاف ہو جاتی ہے کہ کسی انسان کا آسمان پر جانا اور وہاں سے آنا یہ ممکن ہی نہیں بلکہ خلاف عقل بھی ہے اور خود بائبیل بھی اس کی گواہی دیتی ہے کہ کوئی آسمان پر
نہیں جا سکتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میچ ہی کہیں کہ کوئی آسمان پر نہیں جاسکتا اور خود آسمان پر چلے جائیں جبکہ آپ حضرت مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور اسی زمین پر پیدا ہوئے تھے.اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح کی شہرت دن بدن زیادہ ہوتی جاتی تھی آپ یہود کے ڈر سے بھیس بدل بدل کر رہ رہے تھے تو آپ نے چاہا کہ آپ کسی طرف خاموشی سے نکل جائیں اس طرح کہ کسی کے علم میں بھی نہ ہو اور ان قبائل کو تلاش کریں جو بخت نصر کے حملہ سے بکھر گئے تھے اور جن کے متعلق آپ بار بار کہتے تھے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہوں.حضرت مسیح علیہ السلام کو جن دنوں صلیب دی گئی وہ سردی کے دن تھے اس کی خود بائبل شہادت دیتی ہے اور مسیحی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دن سردی ہی کے تھے لکھا ہے کہ :- نوکر اور پیادے جاڑے کے سبب سے کوئلے دھکا کر کھڑے تاپ رہے تھے.اور پطرس بھی اُنکے ساتھ کھڑا تاپ رہا تھا.“ (یوحنا باب ۱۸ آیت ۱۸) اس بات سے تمام وہ لوگ واقف ہیں جو سرد علاقوں کے رہنے والے یا سرد علاقوں میں جانے والے ہیں کہ سردی کے دنوں میں کہر بہت پڑتی ہے اور اپنی کثرت کی بنا پر بادل کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اس قدر گہری ہوتی ہے کہ قریب کا آدمی بھی دکھائی نہیں دیتا.پھر پہاڑ کے دامن میں کہر بہت ہی زیادہ ہوتی ہے.اوپر کے حوالوں سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں کو ملاقات کے لئے پہاڑ پر بلا یا تھا.ایسی صورت میں جب کبر پڑی ہوئی ہو اور کوئی آدمی پہاڑ پر چڑھ رہا ہو تو دیکھنے والے کو ایسا ہی دکھائی دے گا کہ گویا وہ بادل میں ہو کر آسمان پر جاتا ہے.اور پھر کچھ ہی دوری طے کرنے پر کہر آدمی کو
حقائق بالمیل اور مسیحیت دوسروں کی نظر سے اوجھل کر دیتی ہے.حضرت مسیح چونکہ اپنے شاگردوں سے ملاقات کر کے وہاں سے کسی غیر معروف جگہ کی طرف ہجرت کرنا چاہتے تھے.اس لئے انہوں نے ایک تو شاگردوں کو پہاڑ پر بلایا اور پھر کہر کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے پہاڑ پر چڑھے اور کہر میں اوجھل ہو گئے جس سے دیکھنے والوں کو یہی نظر آیا کہ آپ آسمان پر چلے گئے ہیں.پھر دیکھا جائے تو ایک شخص کے اچانک غائب ہونے پر بھی یہ جملہ بولا جاتا ہے کہ ایسا غائب ہوا کہ نا معلوم اس کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا.ان تمام شہادتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسیح آسمان پر نہیں گئے بلکہ آپ نے شاگردوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کسی نامعلوم جگہ کی طرف جہاں بنی اسرائیل آباد تھے ہجرت فرمائی تھی.اس بات کی صداقت کو میں اگلے صفحات میں بیان کروں گا.کسی بھی قوم کا نسب یا تو اس کی محفوظ تاریخ سے جانا جاتا ہے یا پھر اس کی نسبت کو جاننے کے لئے اُن کے طور طریق رہن سہن اور نین نقش نیز عادات و خصائل کو دیکھا جاتا ہے اور یہ قومیت کی ایک خاص پہچان ہوا کرتی ہے.یہ تو ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فلسطین (یروشلم) پر بخت نصر کے حملہ کے بعد بنی اسرائیل کے دس قبیلے وہاں سے بھاگ گئے تھے اور کسی دوسری جگہ اُنہوں نے بود و باش اختیار کر لی تھی.تاریخ سے ہمیں بعض قبیلوں کا علم حاصل ہوتا ہے جو بنی اسرائیل تھے.جو کہ حسب ذیل ہیں.ایک مغربی محقق و مصنف سرائے برنس (SIR.A.BURNES) نے افغانوں کی تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کس نسل سے تعلق رکھتے تھے.اس نے افغانوں کی روایات کے مطابق یہ لکھا ہے کہ اُن کا کہنا ہے کہ بابل کا ایک بادشاہ اُن کے اکابر کو ارض مقدس ( فلسطین) سے گرفتار کر کے لایا تھا اور ان کو کابل کے شمال مغرب میں غور (Ghore) مقام پر بسا دیا تھا.اس طرح اُنہوں نے
ثابت کیا ہے کہ یہ لوگ بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں.اور بہت سے سیاحوں کا کہنا ہے ان کے خد وخال طور طریق سب یہود سے ملتے ہیں.یہ لوگ الگ رہتے ہیں اور دوسری قوم کے ساتھ شامل نہیں ہوتے.ایک اور بڑا مغربی مؤرخ جارج مور (GEORGE MOOR) لکھتا ہے کہ : " یہ رائے قائم کرنے کی بہت سی معقول وجوہ موجود ہیں کہ افغانستان حتی کہ بخارا کے بہت سے باشندے اسرائیلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں.ان کے چہرے اسرائیلی خاندانوں سے بہت مشابہ ہوتے ہیں.“ -: خود ایک یہودی مبلغ ڈاکٹر وولف (DR.WOLFF) کو کہنا پڑا کہ :- میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ یوسف زئی علاقے اور علاقہ خیبر میں آباد قبائل کے افراد اپنے چہرے مہرے کے لحاظ سے بالکل یہودیوں سے مشابہ تھے.“ اس طرح ایک اور مغربی مورخ مور کروفٹ (MOOR CROFT) کا مشاہدہ ہے علاقہ خیبر کے لوگ دراز قامت ہوتے ہیں اور اُن کے چہروں کے نقوش بالکل یہودیوں جیسے ہوتے ہیں.“ بحوالہ مسیح کی گمشدہ زندگی صفحہ ۸۶-۸۷ مؤلف پیام شاہجہانپوری مطبوعه اداره تاریخ تحقیق این ۲۳ عوامی فیلٹس ریوازگارڈن لا ہورا پریل ۱۹۹۲ء) اسی طرح پشتو زبان کی جڑ عبرانی لغت میں ملتی ہے.اور ایک ممتاز مؤرخ جو کہ خود بھی پختون ہیں لکھتے ہیں کہ : -: 66 اسلام سے قبل افغان حضرت موسیٰ کی تو رات پڑھتے تھے.“ تاریخ یوسف زئی افغان صفحہ نمبر ۷۷۹،۷۸۰ ، مؤلف اللہ بخش یوسفی) اسی طرح مشہور سیاح مسٹر برنیئر (BERNIER) نے اپنے سفر نامے ( TRAVEL
۷۴ IN THE MOGHAL EMPIRE) میں لکھا ہے کہ :- " غالباً (اسرائیلی) قوم کے لوگ ( چین کے علاقہ ) پیکن میں بھی پائے جاتے ہیں یہ لوگ حضرت موسی کے مذہب پر عمل کرتے ہیں اور تو رات نیز اس سلسلے کی بعض دیگر کتب ان کی زیر مطالعہ رہتی ہیں.“ (THE TRAVEL IN THE MOGHAL EMPIRE BY MR.BERNIER PUBLISHERS ARCHIBALD CONSLABLE- LONDON 1891) اسی طرح ٹیکسلا میں بھی اسرائیلی نسل کے آثار موجود ہیں پھر ہندوستان میں مدراس اور مالا بار کے علاقہ میں پھر ممبئی میں بھی یہود آباد ہیں ان کو کالے یہودی کہا جاتا ہے.حضرت مسیح کے مشہور حواری تھو ما مسیح کو تلاش کرتے اور لوگوں میں تبلیغ کرتے اسی علاقہ میں فوت ہوئے تھے اور اُن کی قبر میلا پورم میں موجود ہے اور آج بھی مسیحی اُن کی قبر کی زیارت کو عظیم جانتے ہیں.چنانچہ ایک ممتاز مغربی محقق ڈاکٹر این ایچ گاڈ بے (Dr.Allen H.Godbey) لکھتے ہیں کہ :- ہندوستان میں بھی بمبئی اور کو چین کے علاقہ میں جو کالے یہودی پائے جاتے ہیں انہی کے کچھ گر وہ ہندوستان کے مغربی ساحل پر بھی آباد ہیں اور زمانہ قبل مسیح سے آباد ہیں.(THE LOST TRIBES, AMYTH CHAPTER XII DUKE, UNIVERSITY PRESS 1980 BY DR.ALLEN H.GODBEY AND "JESUS IN ROME" P.85) -: حضرت مسیح کے اس قول کو پھر پڑھیں کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.“ اس بات کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ آپ فلسطین کے یہود کو چھوڑ کر اور اپنے حواریوں کو وہاں چھوڑ کر خاموشی سے ان کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں نکلتے بخت نصر کے حملہ سے اکثر
۷۵ قبیلے اسی جانب ہجرت کر آئے تھے اس لئے آپ بھی اسی طرف ان کی تلاش میں نکلے اور تھوما حواری کا بھی اسی طرف کو نکلنا اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے جس کی قبر مدراس (ہندوستان ) میں ہے.اس جگہ سب سے اہم بات یہ بیان کرنے کے لائق ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کی شہادت اسلام کی کتاب قرآن کریم نے دی تھی جس کے بیچ ہونے کی شہادتیں اس کتاب میں بائبل سے پیش کی گئی ہیں.ایسی ہی ایک اور شہادت قرآن کریم میں اُن کے ہجرت کر جانے والے علاقہ کے تعلق سے پیش ہے اس تعلق سے خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے که وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةَ ايَةً وَاوَيْنَهُمَا إِلَى رَبِّوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (المومنون آیت:۵۱) یعنی اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو ایک نشان بنایا اور ہم نے اُن دونوں کو ایک اُونچی جگہ پر پناہ دی جو ٹھہر نے کے قابل اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی.حضرت مسیح علیہ السلام اور اُن کی والدہ کے متعلق قرآن کریم کا یہ اشارہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے.اور بے مثل بھی.کہ ایک چھوٹی سی آیت بہت بڑے راز کو کھولنے والی ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے ابن مریم اور ان کی والدہ کو ایک اونچی اور چشموں والی جگہ پناہ دی ہے.پناہ اُس کو دی جاتی ہے جس کی جان کو خطرہ ہو.میسیج کو یہود سے ہر وقت خطرہ لگا رہتا تھا اس لئے پناہ کا لفظ استعمال فرمایا اور ساتھ ہی بتایا کہ پناہ اس جگہ دی ہے جو اُونچی اور ٹھہرنے کے قابل بہتے ہوئے پانیوں والی ہے.ذرا غور کریں اور تلاش کریں کہ سب سے اونچی اور جہاں کثرت سے چشمے بھی ہوں اور ٹھہر نے کے قابل بھی ہو کون سی جگہ ہے؟ تو معلوم ہو کہ کشمیر وہ علاقہ ہے جو سب سے اُونچا اور ٹھہرنے کے قابل اور سب سے
زیادہ چشموں والا ہے اب ہم کشمیر کے متعلق بھی کچھ غور کرتے ہیں کہ اس جگہ کون لوگ آباد ہیں کیا مسیح ان میں آئے تھے؟.بڑی عجیب بات ہے کہ اس علاقہ کشمیر کا سفر کرنے والے محققوں اور سیاحوں نے پہلی نظر ہی میں ان کو اسرائیلی نسل قرار دیا.ان کا طرز زندگی ، شرخ و سپید رنگ اور تیکھے خدوخال ، ان کا لباس اور طرز بود و باش ، ہر لحاظ سے اسرائیلیوں سے ملتے ہیں اور ہر کوئی دیکھنے والا ان کو پہلی نظر میں ہی اسرائیلی نسل کہتا ہے.چنانچہ ایک مغربی اسکالر اور سیاح جارج فاسٹر -: (GEORGE FORSTER) لکھتا ہے کہ کشمیریوں کے ملک میں جاکر اور انہیں پہلی دفعہ دیکھ کر ان کے لباس ، ان کے خدوخال کی بناوٹ اور ان کے کھانوں کی اقسام کا مشاہدہ کر کے میں یوں محسوس کرنے لگا کہ گویا کہ یہودیوں کی قوم میں آگیا ہوں.“ TO FORSTER (LETTERS ON A JOURNEY FROM BENGAL GEORGE BY ENGLAND PUBLISHED BY FOULDER LONDON 1908) و کشمیر میں ایک مقام عیش کے نام سے موسوم ہے جو کہ سرینگر سے ۴۷ یل کے فاصلہ پر ہے وہاں حضرت زین الدین ولی کا روضہ ہے اس میں ایک عصا موجود ہے کشمیریوں کا کہنا ہے کہ یہ عصائے موسیٰ ہے.کہتے ہیں کہ یہ عصا حضرت میر سید علی ہمدانی نے شیخ العالم شیخ نور الدین صاحب کو عطا کیا تھا جن کا روضہ چرار شریف میں ہے اور انہوں نے یہ عصا حضرت زین الدین ولی کو بخشا تھا اور تب سے اس درگاہ میں ہے جب بھی کوئی آفت یا بیماری گاؤں میں پھوٹتی ہے تو اس عصا کو باہر نکالتے ہیں تو بیماری ختم ہو جاتی ہے.( بحوالہ حضرت عیسی علیہ السلام اور عیسائیت مصنفہ ڈاکٹر عزیز احمد عزیز کاشمیری صفحہ ۷۲، ۷۳) اس طرح سے کوہ سلیمانی کے تعلق سے کشمیر کی تاریخ میں ذکر ہے اور اس پر بنے مندر کا آرٹ مکمل طور پر یہودی آرٹ کا آئینہ دار ہے کشمیری زبان میں اکثر الفاظ عبرانی کے
22 استعمال ہوتے ہیں اور بہت سے قریب تر ہیں جیسا کہ کسی کو آواز دینے کے لئے کشمیری میں ہا تو یا اتو کالفظ استعمال ہوتا ہے تو عبرانی میں اتوہ ہے.کشمیری میں چادر کوژا در کہتے ہیں اور عبرانی میں اور اس طرح پار کرنے کو کشمیری میں عپور کہتے ہیں تو عبرانی میں عبر کہتے ہیں.پھونکنے کے لئے کشمیری میں فو کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو عبرانی میں فاہ فو الغرض سینکڑوں الفاظ آپس میں ملتے ہیں یا پھر قریب تر ہیں.اور یہ سب اس بات کی علامتیں ہیں کہ کشمیری حقیقتا اسرائیلی النسل ہیں.پس حضرت عیسی علیہ السلام انہیں کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تلاش کرتے ہوئے ان تک پہنچے تھے.اور پھر انہیں میں آپ نے بودوباش اختیار کر لی.پس آپ کا سفر جو آپ نے ان کھوئی ہوئی بھیٹروں کے لئے اختیار کیا تھا وہ ایران افغانستان اور پنجاب کا تھا آپ اسی راستہ سے ہوتے ہوئے کشمیر میں تشریف لائے تھے اور ان بنی اسرائیلیوں کی اصلاح کا کام کیا.حضرت مسیح کشمیر میں مسیحی حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح صلیب پر مر کر ہمارے لئے کفارہ ہوئے جیسا کہ آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں.اسی طرح مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح صلیب پر چڑھائے ہی نہیں گئے بلکہ اُن کو خدا الجسم عصری زندہ آسمان پر لے گیا.اور وہ آخری زمانہ.میں نازل ہونگے.جس طرح گزشتہ صفحات میں بائیبل کی روشنی میں مسیح کی صلیبی موت
سے نجات کو بیان کیا گیا ہے اور مسیحی دُنیا کے عقیدہ کو باطل قرار دیا ہے اسی طرح ہی مسلمانوں کا عقیدہ بھی قرآن کریم ، احادیث و تاریخ کے لحاظ سے باطل ٹھہرتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام واقعہ صلیب سے بچ جانے کے بعد ہندوستان کی طرف تشریف لائے تھے اس خیال کو اس زمانہ میں سب سے پہلے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے پیش فرمایا تھا اور اس سلسلہ میں آپ نے مسیح ہندوستان میں نامی ایک کتاب تصنیف فرمائی جس میں وہ تمام تر شہادتیں پیش کی گئیں جو کہ مسیح کے صلیب سے زندہ اُترنے اور پھر ہجرت کر کے ہندوستان کی طرف آنے اور کشمیر میں وفات پانے کے سلسلہ میں ہیں.آپ فرماتے ہیں :- سو میں اس کتاب میں یہ ثابت کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی امید رکھنی چاہئے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے.بلکہ وہ ایک سو بیس برس کی عمر پا کر سری نگر کشمیر میں فوت ہو گئے اور سری نگر محلہ خانیار میں اُن کی قبر ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تصنیف کے بعد بہت سے محققین نے اس عنوان پر قلم اُٹھایا.حضرت مسیح کے سفر کشمیر اور قبرمسیح پر جس قدر بھی کتب لکھی گئیں اُن سب کی بنیاد یہی کتاب مسیح ہندوستان میں بنی.بائبل مسیح کی صلیبی زندگی کے بعد کے واقعات کے بارے میں خاموش ہے اس لئے بائبل سے ہٹ کر تاریخ اور دیگر مذاہب کی کتب سے چند شہادتیں پیش کرتا ہوں جو کہ مسیح کے کشمیر میں آنے اور پھر کشمیر ہی میں وفات پا کر دفن ہونے کے تعلق سے ملتی ہیں.سب سے پہلی شہادت تو وہ ہے جو آپ قرآن کریم کے حوالے سے گزشتہ صفحات
میں پڑھ آئے ہیں کہ ہم نے مسیح ابن مریم اور اُن کی والدہ کو ایک اونچی اور چشموں والی اور ٹھہر نے کے قابل جگہ پر پناہ دی ہے.اور کشمیر وہ علاقہ ہے جوسب سے اُونچا ہونے کے ساتھ ساتھ چشموں والا اور ٹھہرنے کے قابل بھی ہے اور یہی وہ آیت ہے جس نے مسیح کے کشمیر میں آنے کے راز کوکھولا ہے.کشمیر کی سب سے پہلی تاریخ فارسی زبان میں جناب مولا ندری نے لکھی تھی یہ تاریخ ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے یعنی تاریخ کا قلمی نسخہ ہے.اس میں مسیح کا ذکر اس طرح درج ہے کہ :- ترجمہ " راجہ اکھ کے معزول ہونے کے بعد اُس کا بیٹا راجہ گو پانند گوپادت) حکمران ہوا.اس کے عہد حکومت میں بہت سے مندر تعمیر ہوئے کوہِ سلیمان کی چوٹی پر ایک شکستہ گنبد تھا.راجہ نے اس کی تعمیر کیلئے اپنے وزیروں میں سے ایک شخص سلیمان نامی کو جو فارس سے آیا تھا مقر ر کیا.ہندوؤں نے اعتراض کیا کہ یہ میچھ ہے.اس وقت حضرت یوز آسف بیت المقدس سے وادی اقدس (کشمیر) کی جانب مرفوع ہوئے اور آپ نے پیغمبری کا دعوی کیا.شب و روز عبادت الہی میں مشغول تھے.اور تقویٰ و پارسائی کے اعلی درجہ کو پہنچ کر خود کو اہل کشمیر کی رسالت کے لئے مبعوث قرار دیا.اور دعوت خلائق میں مشغول تھے.چونکہ خطہ کشمیر کے اکثر لوگ آنحضرت (یوز آسف) کے عقیدت مند تھے راجہ گو یادت نے ہندوؤں کا اعتراض اُن کے سامنے پیش کیا اور آنحضرت کے حکم سے سلیمان نے جسے ہندوؤں نے سندیمان کا دیا ہے گنبد مذکور کی تکمیل کی.۵۴؛ تھا.اس نے گنبد کی سیڑھی پر لکھا کہ اس وقت یوز آسف نے دعوی پیغمبری کیا ہے.اور دوسری سیڑھی کے پتھر پر لکھا کہ آپ بنی اسرائیل کے پیغمبر یسوع ہیں.(مصنف کہتا ہے ) کہ میں نے ہندوؤں کی کتاب میں دیکھا ہے کہ آنحضرت (یوز آسف) بعینہ حضرت عیسی روح اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ تھے.اور آپ نے یوز آسف کا نام بھی اختیار کیا ہوا تھا.والعلم عند اللہ.آپ نے اپنی عمر اسی جگہ بسر کی اور وفات کے بعد
محلہ انز مرہ (سرینگر ) میں دفن ہوئے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت کے روضہ سے انوار نبوت جلوہ گر ہوتے ہیں راجہ گو پادت نے ساٹھ سال دو ماہ حکومت کرنے کے بعد انتقال کیا.تاریخ کشمیر قلمی صفحہ ۱۶۹ حوالہ حضرت مسیح مشرق میں صفحہ ۲۹-۳۰ مطبوعہ نظارت دعوت وتبلیغ قادیان جنوری ۱۹۷۷ء) اسی طرح ہندوؤں کی مذہبی کتاب بھوشیہ مہا پر ان ہے اس کی کئی جلدیں ہیں اس میں بھی مسیح کا تذکرہ موجود ہے لکھا ہے کہ :- ایک دن راجہ شالباہن ہمالیہ پہاڑ کے ایک ملک میں گیا وہاں اُس نے سا کا قوم کے ایک راجہ کو دین مقام پر دیکھا وہ خوبصورت رنگ کا تھا.سفید کپڑے پہنے تھے.شالباہن نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میں یوسا شافت (یوز آسف) ہوں ایک کنواری کے بطن سے میری پیدائش ہوئی (راجہ شالباہن کے حیران ہونے پر ) اس نے کہا میں نے جو کہا ہے سچ کہا ہے اور میں مذہب کو پاک وصاف کرنے کے لئے آیا ہوں.راجہ نے اُس سے پوچھا.آپ کون سا مذ ہب رکھتے ہیں.؟ اس نے جواب دیا : کے راجہ ! جب صداقت معدوم ہوگئی اور ملیچھیوں کے ملک میں حدود شریعت قائم نہ رہے تو میں وہاں مبعوث ہوا.میرے کام کے ذریعہ جب گنہگاروں اور ظالموں کو تکلیف پہنچی تو ان کے ہاتھوں سے میں نے بھی تکلیفیں اُٹھا ئیں راجہ نے اس سے پھر پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ اسنے جواب دیا.میرا مذہب محبت ، صداقت اور تزکیہ قلوب پر مبنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میرا نام عیسی مسیح رکھا گیا.اس کے بعد راجہ آداب و تسلیمات بجالایا اور واپس ہوا.“ بھوشیہ مہا پر ان صفحه ۲۸۰ پرت ۳، ادھیائے ۲ شلوک ۲۱ تا ۳۱) ان دونوں قدیم حوالوں سے مسیح کے کشمیر میں آنے اور یہیں پر اپنی زندگی گزارنے کا
ΔΙ ثبوت ملتا ہے اس بات میں تو کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ مسیح کشمیر میں آئے اور یہاں ہی وفات پائی اور اپنی کھوئی ہوئی بھیٹروں کی اصلاح کا کام کیا.بائیبل میں ایسی ہی دُور دراز کی بھیڑوں کو تلاش کر کے اُن میں تبلیغ کا کام کرنے کا حوالہ دکھائی دیتا ہے لکھا ہے کہ :- وو ” اور میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانے کی نہیں مجھے اُن کا بھی لانا ضروری ہے اور وہ میری آواز سنیں گی پھر ایک ہی گلہ ہوگا اور ایک ہی چرواہا ہوگا.“ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶) پس یہ کشمیر کے بنی اسرائیل تھے جو کہ وہ بھیڑیں تھیں جو فلسطین کے بھیڑ خانہ کی نہ تھیں.آپ نے اُن کو تلاش کیا اور انہوں نے آپ کی آواز کوٹنا اور آپ اُن کے چرواہے ٹھہرے.حضرت مسیح علیہ السلام جس قدر سفر کرتے پیدل ہی کیا کرتے تھے اسی مناسبت سے آپ کا نام مسیح رکھا گیا.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :- " حضرت عیسی علیہ السلام کا نام مسیح اس واسطے رکھا گیا کہ وہ سیاحت بہت کرتے تھے.ایک پشمی طاقیہ ان کے سر پر ہوتا تھا اور ایک پشمی گرتہ پہنے رہتے تھے.اور ایک عصا ہاتھ میں ہوتا تھا.اور ہمیشہ ملک بہ ملک اور شہر بہ شہر پھرتے تھے.اور جہاں رات پڑ جاتی وہیں رہ جاتے تھے.جنگل کی سبزی کھاتے تھے اور جنگل کا پانی پیتے اور پیادہ سیر کرتے تھے.ایک دفعہ سیاحت کے زمانہ میں اُن کے رفیقوں نے اُن کے لئے ایک گھوڑا خریدا اور ایک دن سواری کی مگر چونکہ گھوڑے کے آب و دانہ اور چارے کا بندوبست نہ ہو سکا اس لئے اُس کو واپس کر دیا.وہ اپنے ملک سے سفر کر کے نصیبین میں پہنچے جو ان کے وطن سے کئی سوکوس کے فاصلہ پر تھا.اور آپ
۸۲ کے ساتھ چند حواری بھی تھے.آپ نے حواریوں کو تبلیغ کے لئے شہر میں بھیجا مگر اس شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی نسبت غلط اور خلاف واقعہ خبریں پہنچی ہوئی تھیں اس لئے اس شہر کے حاکم نے حواریوں کو گرفتار کر لیا.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کو بلایا.آپ نے اعجازی برکت سے بعض بیماروں کو اچھا کیا اور بھی کئی معجزات دکھلائے اس لئے نصیبین کے ملک کا بادشاہ مع تمام لشکر اور باشندوں کے آپ پر ایمان لے آیا.اور نزول مائدہ کا قصہ جو قرآن شریف میں ہے وہ واقعہ بھی ایام سیاحت کا ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۶۶) تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بہت سے واقعات حضرت مسیح اور حضرت بدھ کے آپس میں ملتے جلتے ہیں حالانکہ بدھ کا زمانہ حضرت مسیح کے زمانہ سے پہلے کا ہے.لیکن بدھ کی جو بھی تاریخ جمع کی گئی ہے وہ مسیح کی آمد کے بعد ہی ہوئی ہے پھر مسیح چونکہ ہندوستان میں آگئے تھے اور خاص اُس علاقہ میں آپ نے رہائش رکھی جو کہ حضرت بدھ کے ماننے والوں کے قریب تر کا علاقہ تھا.اس طرح جس زمانہ میں حضرت مسیح کی تاریخ لکھی گئی اُسی دوران حضرت بدھ کی تاریخ بھی جمع کی گئی اس لئے ہر دو کی تاریخوں میں بہت سے واقعات مشترک ہیں.بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت مسیح نے جو بھی پایا وہ حضرت بدھ کی تعلیمات سے حاصل کیا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے ان کی تعلیمات میں یکسانیت کی وجہ ہی صرف یہ بنی ہے کہ ہر دو بزرگوں کی تاریخ مرتب کئے جانے کا زمانہ ایک ہے اور پھر رہائشی علاقہ کے قریب ہونے کی بنا پر ان کے واقعات ایک دوسرے سے جکڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.اس کے متعلق بھی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :-
۸۳ وو " اب سوچنے کا مقام ہے کہ اس قدر مشابہت بدھ میں اور حضرت مسیح میں کیوں پیدا ہوئی.اس مقام میں آریہ تو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح نے اس سفر کے وقت جبکہ ہندوستان کی طرف انہوں نے سفر کیا تھا بدھ مذہب کی باتوں کوٹن کر اور بدھ کے ایسے واقعات پر اطلاع پا کر اور پھر واپس اپنے وطن میں جا کر اسی کے موافق انجیل بنائی تھی.اور بدھ کے اخلاق میں سے چرا کر اخلاقی تعلیم لکھی تھی اور جیسا کہ بُدھ نے اپنے تئیں نو ر کہا اور علم کہا اور دوسرے خطاب اپنے نفس کے لئے مقرر کئے وہی تمام خطاب مسیح نے اپنی طرف منسوب کر دیے تھے.یہاں تک کہ وہ تمام قصہ بدھ کا جس میں وہ شیطان سے آزمایا گیا اپنا قصہ قرار دے دیا.لیکن یہ آریوں کی غلطی اور خیانت ہے.یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ سے پہلے ہندوستان کی طرف آئے تھے.اور نہ اس وقت کوئی ضرورت اس سفر کی پیش آئی تھی.بلکہ یہ ضرورت اس وقت پیش آئی جبکہ بلادِ شام کے یہودیوں نے حضرت مسیح کو قبول نہ کیا اور ان کو اپنے زعم میں صلیب دے دیا.جس سے خدا تعالیٰ کی بار یک حکمت عملی نے حضرت مسیح کو بچا لیا.تب وہ اس ملک کے یہودیوں کے ساتھ حق تبلیغ اور ہمدردی ختم کر چکے اور بباعث اُس بدی کے ان یہودیوں کے دل ایسے سخت ہو گئے کہ وہ اس لائق نہ رہے کہ سچائی کو قبول کریں.اس وقت حضرت مسیح نے خدا تعالیٰ سے یہ اطلاع پا کر کہ یہودیوں کے دس گم شدہ فرقے ہندوستان کی طرف آگئے ہیں ان ملکوں کی طرف قصد کیا.“ (روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۷۵) کچھ مدت قبل لندن سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کے مصنف مسٹر اوه ایم.برک (O.M.BURKE) نامی مسیحی سیاح نے یہ انکشاف کیا کہ افغانستان کے صوبہ ہرات میں ایک چھوٹا سا فرقہ ہے جو اپنے آپ کو عیسی ابن مریم ناصری کا شمیری کا پیروکار کہتا ہے.یہ لوگ عیسی ابن مریم کے پیروکار ہونے کے باوجود خود کو مسلمان بھی
کہتے ہیں.اور ہرات کے بہت سے دیہات میں ان کی آبادیاں ہیں.مگر ان کا مرکز شہر ہرات ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ زمانہ قدیم میں مشرقی ایران کے یورپی مبلغوں کے زیر اثر عیسائی ہو گئے تھے لیکن جب عربوں نے افغانستان فتح کیا تو مسلمان ہو گئے مگر اپنے پہلے مذہب اور جناب مسیح سے اپنی نسبت پر زور دیتے رہے ان لوگوں کے عقیدے کی رو سے حضرت مسیح صلیب پر وفات پانے سے محفوظ رہے اور لکھا ہے کہ :- صلیب سے اُترنے کے بعد ان کے دوستوں نے انہیں چھپا لیا اور وو ہندوستان کی طرف نقل مکانی کرنے میں اُن کی مدد کی یوز آسف ہی مسیح تھے.“ (AMONG THE DERVISHES BY O.M.BURKE, LONDON 1973P.12) تاریخ کی کتب میں کتنی ہی شہادتیں ہیں جو مسیح کے کشمیر میں آنے کے تعلق سے مو -: ہیں جیسا کہ اکمال الدین کتاب میں درج ہے کہ " پھر آپ نے سر زمین سولابط سے نقل مکانی کر کے کئی شہروں اور ملکوں کی سیاحت اختیار کی حتی کہ اُس زمین میں پہنچے جسے کشمیر کہا جاتا ہے.اس جگہ آپ مختلف مقامات پر گھومتے اور ٹھہرتے رہے اور پھر یہیں قیام کیا یہاں تک کہ آپ کی وفات کا وقت آگیا کہ اپنا جسم عنصری چھوڑ کر نور (خدا) کی طرف اُٹھائے جائیں.اپنی وفات سے قبل آپ نے اپنے ایک شاگرد کو جس کا نام باید تھا بلایا جو آپ کی خدمت اور دیکھ بھال کیا کرتا تھا.اور یہ شخص اپنے جملہ امور میں کامل اور طاق تھا.آپ نے اسے وصیت کرتے ہوئے فرمایا میرا دنیا سے اُٹھائے جانے کا وقت آگیا ہے پس تم اپنے فرائض کی نگہداشت کرو اور حق سے رُوگردانی نہ کر اور ہمیشہ ایثار اور قربانی کا طریق اختیار کرو.اس کے بعد آپ نے باید کو حکم دیا کہ وہ اُن کے لئے ایک جگہ تیار کرے.آپ نے اپنے پاؤں دراز کئے اور اپنا سر مغرب کی طرف کیا پھر مشرق کی طرف منہ، پھر اس کے بعد آپ نے جان جان آفریں کے سپرد کر دی.“ اکمال الدین المطبعة الحید ریه الخف صفحه ۶۰۰،۵۹۹)
۸۵ ان حوالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کشمیر میں آئے اور اسی جگہ آپ نے وفات پائی.کشمیر کی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ محلہ خانیار سرینگر میں جو مقبرہ ہے وہ حضرت مسیح کا ہے جس کو یوز آسف بھی کہا جاتا تھا جو کہ یسوع سے بگڑا ہوا یا پھر یسوع یوز آسف سے بگڑا ہوا معلوم ہوتا ہے.محلہ خانیار میں روضہ بل مقام پر ایک کمرے کے اندر دو قبریں ہیں جن پر لکڑی کا بڑا ہی نقش و نگار والا جنگلہ لگا ہوا ہے.ایک قبر بڑی ہے اور دوسری چھوٹی.اس کے نیچے تہہ خانہ ہے اصل قبر اسی میں موجود ہے.ان دونوں قبروں کا رُخ اُوپر کی طرف سے شمالاً جنوبا ہے لیکن تہ خانہ میں مسیح کی قبر یہودیوں کے دستور کے مطابق شرقا غربا بنی ہوئی ہے.اس کے ساتھ ہی اُو پر مسیح کی قبر کی طرف مسیح کے پیروں کے نشان ایک پتھر پر موجود ہیں.اُن کو دیکھنے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشان زخمی پیروں کے ہیں.چونکہ آپ کے پیر کیل ٹھونکنے کی وجہ سے زخمی ہو کر اپنے زخم کا نشان چھوڑ گئے تھے.اسی قبر کے پاس ہی ایک لکڑی کی لوح ہے جس پر یوز آسف کے مختصر حالات درج ہیں.اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کا قبرستان ہے اس میں بھی تمام قبریں شمالاً جنوبا بنی ہوئی ہیں صرف مسیح کی قبر ہی شرقا غربا نظر آتی ہے.پھر اسی پر بس نہیں بلکہ حضرت مریم کی قبر بھی کشمیر کے اس حصہ میں واقع ہے جو اس وقت پاکستان کے علاقہ میں ہے جس پہاڑ پر حضرت مریم کی قبر موجود ہے اس کو کوہ مری کے نام سے جانا جاتا ہے.کوہ کے معنی پہاڑ کے ہیں مری مریم کا مخفف ہے اس طرح اس علاقہ کا نام ہی حضرت مریم کے نام پر کوہ مری پڑا.
۸۶ کشمیر کی تاریخ اس بات کی بھی شہادت پیش کرتی ہے کہ حضرت مسیح نے کشمیر میں آکر نہ صرف رہائش اختیار کی بلکہ آپ نے شادی کی اور اولاد پیدا ہوئی.آج بھی آپ کے خاندان کے لوگ کشمیر میں موجود ہیں جو اپنی نسبت یوز آسف کی نسل سے بیان کرتے ہیں اور اس قبر کی بڑی عزت اور تکریم اُن کے دلوں میں موجود ہے.میں یہاں اور زیادہ کچھ نہ لکھتے ہوئے صرف یہ بتا تا ہوں کہ مسیح علیہ السلام کی دوسری زندگی جو آپ نے کشمیر میں بسر کی اس کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں تو حقیقت آپ پر واضح ہو جائے گی.نام کتاب مصنف ا مسیح ہندوستان میں (اُردو) حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ۲ چشمه مسیحی ( اردو ) حضرت عیسیٰ اور عیسائیت (اُردو) २ مسیح کا سفر زندگی (اُردو) ۵ مسیح کی گمشدہ زندگی (اُردو) حضرت مرز اغلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ڈاکٹر عزیز احمد عزیز کاشمیری پیام شاہجہانپوری پیام شاہجہانپوری مسیح مشرق میں (اُردو) شائع شدہ نظارت دعوت وتبلیغ قادیان حضرت مسیح کشمیر میں فوت ہوئے (اُردو) انڈریاس فالبر قیصر ( یہ کتاب انگریزی میں ہی شائع ہوئی تھی اس کا ترجمہ اُردو میں شائع ہوا ہے ) THE FIFTH GOSPEL ۹ کسر صلیب MYSTERIES OF KASHMIR | DAHAN LEVI FIDA HUSSAIN ممتاز احمد فاروقی (ستاره خدمت) MOHAMMAD HUSSAIN
BY MOULANA JALALUDDIN WHERE DID JESUS DIE? SHAMS " A MAN THAT IS CALLED JESUS T JESUS IN THE HEAVEN OR EARTH اس کے علاوہ کتنی ہی کتب ہیں جو مسیح کے وادی کشمیر میں آنے اور یہاں وفات پانے کا ذکر کرتی ہیں اُن تمام کا مطالعہ ایک نئی روشنی پیش کرتا ہے تحقیق کرنے والے ان کتب کا مطالعہ کر سکتے ہیں.پس یہ حقیقت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ صلیب کے بعد ہجرت کر کے بنی اسرائیل کو تلاش کرتے ہوئے وادی کشمیر میں آگئے تھے یہاں پر آکر آپ نے اپنے کام کو پورا کیا.ان تمام باتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ می نہ تو خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ آپ بھی ایک عام انسان تھے لیکن نبی تھے خدا سے آپ کا تعلق تھا اور لوگوں کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا تھا جب آپ نے اپنا کام مکمل کر لیا تو خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا بلانے والا ہے سب سے پیارا اے دل اُسی پہ جاں فدا کر
۸۸ جب کامل آئے گا تو ناقص جاتارہے گا جب سے دُنیا قائم ہوئی خدا تعالیٰ نے لوگوں کی اصلاح کے لئے ہر زمانہ میں نبی مبعوث کئے اور ہر آنے والا نبی گزشتہ انبیاء کی تعلیم کے اُس حصہ کو جو حقیقت پر مبنی باقی رہی تھی رائج کرتارہا اور خدا تعالیٰ سے نئے احکام حاصل کر کے لوگوں کی اصلاح کا کام کرتا رہا.پھر اسی پر بس نہیں بلکہ تمام انبیاء نے ایک کامل کے آنے کی پیشگوئی کی اور بتایا کہ ایک کامل آنے والا ہے جو کہ وہ سب کچھ کہے گا جواب تک تم نہیں جانتے.اسی طرح ہر آنے والے نبی نے ایک کامل نبی کی پیشگوئی کرتے ہوئے اس کے ذریعہ شریعت کے کامل ہونے کی پیشگوئی بھی فرمائی.پرانے عہد نامہ میں بہت سی پیشگوئیاں تھیں جو کہ مسیح کے حق میں پوری ہوئیں اور بہت سی ایسی بھی تھیں جو کہ آئندہ آنے والے کے حق میں پوری ہونی تھیں اور بہتوں نے اُن کو نہ سمجھ کر دھوکا بھی کھایا.اس جگہ میں بائبل کی ان پیشگوئیوں کو پیش کرتا ہوں جو کہ آنے والے کامل کے حق میں تھیں اور وہ پوری ہوئیں.اس جگہ حوالوں کو پیش کرنے سے پہلے میں اس بات کو پیش کر دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو مسیح کی حقیقی تعلیم کو پاگئے انہوں نے آنے والے کامل کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پایا اور اُسے قبول کیا لیکن جو اس حقیقی تعلیم سے واقف نہ تھے وہ یا تو اُن پیشگوئیوں کا مصداق حضرت مسیح کو قرار دیتے ہیں یا پھر انتظار میں بیٹھے
ہیں میں ان حوالوں کے ساتھ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرونگا کہ حقیقت میں اُن پیشگوئیوں کا مصداق کون ہے.نبوت کا ایک سلسلہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں جاری ہوا کیونکہ بائیبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے لئے دُعا کی تھی کہ نبوت کی نعمت کو میری نسل میں جاری کرنا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل دو ناموں سے جاری ہوئی ایک حضرت اسحاق " کی نسل جو بنی اسرائیل کہلائی اور دوسری حضرت اسماعیل کی نسل جو بنی اسماعیل کہلائی.خدا تعالیٰ نے دونوں نسلوں کو بہت بڑھایا اور برکت دی.اور دونوں میں نبوت جاری کرنے کا وعدہ کیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے صاحب شریعت نبی تھے آپ کی کتاب میں لکھا ہے کہ :- " اُس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے دہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت اُن کے لئے تھی (استثناء باب ۳۳ آیت ۲) یہ ایک پیشگوئی آنے والے کے متعلق بائیمیل میں موجود ہے اس میں تین باتیں بڑی اہم ہیں.(۱) فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.(۲) دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.(۳) اس کے دائیں ہاتھ میں آتشی شریعت تھی.بہت سے مسیحی اس پیشگوئی کا مصداق حضرت مسیح علیہ السلام کو قرار دیتے ہیں.حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے دس ہزار شاگرد کبھی بھی نہ ہوئے بلکہ بائیل کی شہادت ہے کہ صرف بارہ حواری تھے وہ بھی مصیبت کے وقت آپ کو چھوڑ گئے.پھر بائیبل میں کوئی ایسی شہادت نہیں کہ آپ فاران سے جلوہ گر ہوئے تھے.پھر آپ کی شریعت بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتی بلکہ جو بھی نئے عہد نامہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود
ہے وہ حواریوں اور بعد میں آنے والوں کے اقوال ہیں جو اُنہوں نے اپنی یادداشت کے مطابق اکٹھے کئے تھے.اس پیشگوئی کے مصداق اصل میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.بائیبل میں لکھا ہے کہ :- وو اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی ایک قوم پیدا کروں گا اس لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے.تب ابرہام نے صبح سویرے اُٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اور ہاجرہ کو اُس کے کاندھے پر دھر کر دی اور اُس لڑکے کو بھی اور اُسے رخصت کیا.وہ روانہ ہوئی اور بیرسبع کے بیابان میں بھٹکتی پھرتی تھی.اور جب مشک کا پانی چک گیا تب اس نے اُس لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا.اور آپ اُس کے سامنے ایک تیر کے لیئے پر دُور جا بیٹھی.کیونکہ اُس نے کہا میں لڑکے کا مرنا نہ دیکھوں سو وہ سامنے بیٹھی اور چلا چلا کر روئی.تب خدا نے اس لڑکے کی آواز سنی اور خدا کے فرشتے نے آسمان سے باجرہ کو پکارا اور اُس سے کہا کہ اے ہاجرہ تجھ کو کیا ہوا؟ مت ڈراس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سُنی.اُٹھ اور لڑکے کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا.پھر خدا نے اُس کی آنکھیں کھولیں اور اس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور جا کر اُس مشک کو پانی سے بھر لیا اور لڑکے کو پلایا.اور خدا اُس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا اور تیرانداز ہو گیا.اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اُس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی.“ پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۲۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کا تعلق سینا کے علاقہ سے تھا لیکن حضرت ہاجرہ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ جس جگہ چھوڑا اس جگہ آج مکہ آباد ہے اور اسی جگہ کو بائیمیل فاران کا علاقہ بیان کرتی ہے.اب بات صاف ہو جاتی ہے کہ فاران سے کون آیا.پھر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے وقت مکہ میں داخل ہوئے تو آپ مکہ
۹۱ کے پہاڑی علاقہ ہی سے مکہ میں داخل ہوئے تھے اس طرح یہ بات پوری ہوئی کہ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا اسی طرح تاریخ سے تھوڑی بھی واقفیت رکھنے والا جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے وقت مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ کے ساتھ دس ہزار صحابی تھے اس سے یہ بات پوری ہوئی کہ دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ آیا پھر مذہبی معلومات رکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ آپ ایک شریعت لیکر آئے جو قرآن کریم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اس سے یہ بات پوری ہوئی کہ اس کے دہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت اُن کے لئے تھی، کوئی بھی مسیحی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فاران سے ظاہر ہوئے تھے اور دس ہزار شاگردوں کے ساتھ آئے تھے اور بعثت کے ساتھ ہی آپ پر شریعت بھی نازل ہوئی تھی.پس حقائق یہی ثابت کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ پوری ہوئی ہے.اسی طرح بائیبل میں ایک جگہ لکھا ہے کہ :- وو خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی بر پا کرے گا تم اُس کی طرف کان دھر یو اس سب کی مانند جو تو نے خداوند اپنے خدا سے حورب میں مجمع کے دن مانگا اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ میں پھر دیکھوں تا کہ میں مر نہ جاؤں اور خداوند نے مجھے کہا کہ اُنہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا.میں ان کے لئے اُن کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پاکروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالونگا اور جو کچھ میں اُسے فرما ؤ نگا وہ اُن سے کہے گا.اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سُنے گا تو میں اُس کا حساب اُس سے لونگا.“ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵ تا ۱۹)
۹۲ بائیبل کی اس پیشگوئی میں آئندہ آنے والے کے متعلق خدا تعالیٰ حضرت موسی اور آپ کی اُمت کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میں سے تجھے سا ایک نبی بر پا کرونگا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا.اور یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موسی کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے اور بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل کہلاتے ہیں اس میں یہ واضح اشارہ موجود تھا کہ آئندہ آنے والا نبی بنی اسماعیل سے آئے گا.اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا“ سے مُراد یہ ہے کہ وہ صاحب شریعت ہوگا اور خدا کی باتوں کوٹن کر لوگوں کو بتائے گا.پھر فرمایا کہ ” خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی بر پا کرے گا یہ نہیں فرمایا کہ میرے بھائیوں میں میرے درمیان سے بلکہ فرمایا کہ تیرے بھائیوں میں تیرے درمیان سے آئے گا مگر وہ ہوگا میری مانند.حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت تھے اس لئے آنے والا لا زما صاحب شریعت اور بنی اسماعیل سے تیرے بھائیوں میں سے ہی ہوگا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاحب شریعت اور بنی اسماعیل میں سے تھے.اسی طرح بائبل میں ایک جگہ لکھا ہے کہ : ” ہمارے لئے ایک لڑکا تولّد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کاندھے پر ہوگی اور وہ اس نام سے کہلا تا ہے عجیب مشیر خدائے قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ.اس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لیکر ابد تک ہندو بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا رب الافواج کی غیوری یہ کرے گی.“ (یسعیاہ باب ۹ آیت ۷،۶) یسعیاہ باب ۷ آیت ۱۴ میں حضرت مسیح کے بارے میں پیشگوئی موجود ہے کہ کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی لیکن باب 9 میں ایک دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے
۹۳ کی پیشگوئی ہے جس کی خصوصیات الگ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مسیح میں موجود نہیں البتہ باب سے میں جو علامتیں بیان کی گئی ہیں وہ آپ میں پوری ہوئیں.لیکن باب ۹ کی پیشگوئی میں ہے کہ سلطنت اس کے کاندھے پر ہوگی.تمام عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح نے سلطنت حاصل نہیں کی بلکہ آپ تو بائیل کی بیان کردہ تاریخ کے مطابق ہر وقت ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے اس کے بالمقابل دنیا جانتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کرنے کے باوجود مکہ کو فتح کیا اور سارے علاقہ میں آپ کی سلطنت قائم ہوگئی تھی.دوسری خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ وہ سلامتی کا شاہزادہ.اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسیح علیہ السلام میں بھی ایک گونہ یہ خصوصیت پائی جاتی تھی لیکن اس کا مکمل عکس اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب کوئی مظلومیت سے حاکم بن جائے حاکم بن کر بھی سلامتی کا اعلان کرنا یہ اُس کے مکمل طور پر سلامتی کا شاہزادہ ہونے کی دلیل ہے.حضرت مسیح چونکہ حاکم ہوئے ہی نہیں بلکہ آپ نے بائبل کی بیان کردہ ساری زندگی محکومیت میں گزاری ہے اس لئے اس کا مکمل طور پر آپ کے وجود سے ظاہر ہونا ممکن نہیں.البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ والوں کے ظلم سہتے رہے پھر جب آپ حاکم ہوئے اور وقت آیا کہ ظالموں سے تمام بدلے لے لئے جائیں تو اُس وقت آپ نے تمام لوگوں کو معاف کر کے اپنا سلامتی کا شاہزادہ ہونا ثابت کر دیا.پھر آپ نے جس دین کو پیش کیا وہ اسلام ہے جس کے معنی ہی سلامتی کے ہیں.بائیل میں لکھا ہے کہ : " ایک اور تمثیل سنو! ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگوری باغ لگایا اور اس کے چاروں طرف احاطہ گھیرا اور اس میں ایک حوض کھودا اور برج بنایا.اور اُسے باغبانوں کو ٹھیکے پر دیکر پردیس چلا گیا.اور جب پھل کا موسم قریب آیا تو اُس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس اپنا پھل لینے کو بھیجا اور باغبانوں نے اُس کے
۹۴ نوکروں کو پکڑ کر کسی کو پیٹا اور کسی کوقتل کیا اور کسی کو سنگسار کیا.پھر اُس نے اور نوکروں کو بھیجا جو پہلوں سے زیادہ تھے.اور اُنہوں نے ان کے ساتھ بھی اُسی طرح کیا.آخر اُس نے اپنے بیٹے کو اُن کے پاس یہ کہ کر بھیجا کہ وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں گے.جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہا یہی وارث ہے.آؤ اسے قتل کر کے اس کی میراث پر قبضہ کر لیں.اور اُسے پکڑ کر باغ سے باہر نکالا اور قتل کر دیا.پس جب باغ کا مالک آئے گا تو اُن باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا اُنہوں نے اس سے کہا اُن بُرے آدمیوں کو بُری طرح ہلاک کرے گا.باغ کا ٹھیکہ اور باغبانوں کو دے گا جو موسم پر اُس کو پھل دیں.یسوع نے اُن سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رڈ کیا وہی کونے کےسرے کا پتھر ہوگا یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظروں میں عجیب ہے؟ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی.اور جو اس پتھر پر گرے گا اُس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا.“ متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۴) اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ :- " اور دنیا میں تیری قوم اسرائیل کی مانند ایک گروہ کون ہے کہ جس کے بچانے کو خدا آپ گیا تا کہ اُسے اپنی قوم بنائے اور اپنے لئے ایک نام حاصل کرے اور تمہارے لئے اور سر زمین کے لئے بڑے اور ہولناک معجزے اپنی اس گروہ کے آگے جسے تو نے مصر کی قوموں سے اور ان کے معبودوں سے رہائی بخشی ظاہر کرے.“ (۲ سموایل باب ۷ آیت ۲۳) اس تمثیل میں حضرت مسیح نے انبیاء کی تاریخ مختصر طور پر شروع سے لیکر آخر تک دہرائی ہے.اس میں انگورستان سے مُراد دُنیا ہے باغبانوں سے مراد بنی آدم نوع انسان ہیں مالک کے پھل لینے سے مراد نیکی تقویٰ اور خدا کی عبادت کرنا ہے.ملازموں سے مُراد خدا تعالیٰ کے انبیاء ہیں جو کہ وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں بیٹے سے مراد خود مسیح ہیں جو
۹۵ انبیاء کے ایک لمبے سلسلے کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئے.جن کو باغبانوں نے صلیب پر لٹکایا اس کے بعد لکھا ہے کہ اب مالک خود آئے گا وہ مالک گویا خدا ہے اور اس کی نشانی جو اس عظیم الشان وجود میں ظاہر ہونے والا تھا یہ تھی کہ ”جس پتھر کو معماروں نے رڈ کیا وہی کو نے کے سرے کا پتھر ہوگا یعنی حضرت اسماعیل کی اولا د جن کو بنو اسحاق ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے آئے اور رڈ کرتے آئے وہی جس کے بارے میں لکھا ہے کہ ” تیری قوم اسرائیل کی مانند ایک گروہ کون ہے دوسرا گروہ بنی اسماعیل کا ہے اسی میں سے وہ وجود 66 66 حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے جو کہ بنی اسرائیل کے مقابل پر حقارت کی نظر سے دیکھا جانے والا گر وہ تھا.-: اس عظیم الشان وجود کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی.اس طرح یہ نبوت کا انعام جو بنی اسرائیل میں جاری تھا دوسرے گروہ کو دے دیا گیا اور خدا کی بادشاہت پیشگوئی کے مطابق بنی اسرائیل سے لیکر بنی اسماعیل کو دے دی گئی.پھر یہ نشانی موجود ہے کہ 'اور جو اس پتھر پر گرے گا اُس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گئے چنانچہ قیصر و کسری کی زبر دست حکومتیں جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں کے بالمقابل آئیں تو وہ بھی پاش پاش ہو گئیں.پس اس تمثیل میں بیان کردہ پیشگوئی کے مصداق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا.اسی طرح ایک جگہ بائبل میں لکھا ہے کہ :- دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.“ متی باب ۲۳ آیت ۳۹،۳۸)
۹۶ اس میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ میرے چلے جانے کے بعد میرا دوبارہ آنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ نہ آئے جو خدا کے نام پر آتا ہے.گویا مسیح کی آمد ثانی کے درمیان ایک شخص کا خدا کے نام پر آنا ضروری ہے اور حضرت مسیح کے بعد جو وجود خدا کے نام پر کونے کا پتھر ثابت ہو اور بنو اسحاق کی نظروں میں حقیر جانا جانے والا خدا کا محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے جو ظاہر ہوا.اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ :- ” اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کا ہن اور لیوی یہ پوچھنے کو اُس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں اُنہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کیا تو ایلیا ہے؟ اُس نے کہا میں نہیں ہوں کیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں.“ (یوحنا باب ۱ آیت ۱۹ تا ۲۱) یوحنا سے جب سوال کئے گئے تو تین وجودوں کے بارے میں ان سے سوال کیا اور یوحنا نے جواب دیئے.سب سے پہلے پوچھا کہ کیا تو مسیح ہے؟ تو آپ نے انکار کیا کہ نہیں پھر سوال کیا کہ کیا تو ایلیا ہے؟ اس بات پر بھی آپ نے کہا کہ میں نہیں کہتا پھر تیسر اسوال کیا کہ کیا تو وہ نبی ہے؟ اس بات سے بھی آپ نے انکار کیا.یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ یہود میں تین وجودوں کا انتظار ہے.اول مسیح کا ، دوسرا ایلیا کا ، تیسرا وہ نبی کا.مسیحی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ میسیج بھی آگئے اور ایلیاء بھی ظہور فرما چکے لیکن ایک تیسرے وہ نبی کا آنا باقی ہے.یہ وہ نبی وہی ہے جس کے بارے میں خود مسیح نے بھی فرمایا ہے کہ :- مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر آتا ہے.“ ( متی ۲۳ آیت (۳۹) اسی طرح بائیل میں وہ نبی کی نشاندہی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵ تا ۱۸ تک کی آیات
۹۷ سے کی گئی ہے کہ اُن کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پاکروں گا جس کی وضاحت آپ پہلے پڑھ چکے ہیں پس یہ وہ نبی وہی ہے جس نے ایلیاہ اور مسیح کے بعد اور بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے آنا تھا.حضرت مسیح کی اور موسی کی اور یوحنا کی یہ پیشگوئی بھی بڑی شان سے پوری ہوئی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مصداق ٹھہرے.اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے کہ : وو راستبازی کے بارے میں اس لئے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت کے بارے میں اس لئے کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے.مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا.“ وو ( یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۳) اس آیت میں حضرت مسیح اپنے آپ کو دنیا کا سردار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا ہے.اور یہ سب جانتے ہیں کہ یہود نے حضرت مسیح کو مجرم ٹھہرا کر آپ کو صلیب پر چڑھایا تھا.اس کے ساتھ ہی آپ نے ایک اور آنے والے کے متعلق پیشگوئی فرمائی ہے کہ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا توتم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا یہ سچائی کا رُوح کون ہے؟ یہ وہ نبی ہے جس کے بارے میں دوسری جگہوں پر بھی حوالے موجود ہیں.پھر دوسری بات یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا “ یہ وہی بات ہے جو استثناء میں پہلے سے پیشگوئی کے رنگ میں بیان کی گئی ہے کہ ”میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور اس بات کو پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں پس وہ تمام سچائی کی راہ دکھانے والے اور خدا سے سن کر بیان کرنے والے جس کے آئندہ آنے کے
۹۸ بارے میں حضرت مسیح پیشگوئی فرما رہے ہیں وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے.دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا.اسی طرح ایک جگہ بائبل میں لکھا ہے کہ :- اور اب میں نے تم سے اُس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا تا کہ جب ہو جائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اُس کا کچھ نہیں.“ (یوحنا باب ۱۴ آیت ۳۰،۲۹) اس پیشگوئی میں حضرت مسیح آئندہ آنے والے کو بھی دنیا کا سردار بیان کرتے ہیں لیکن ایک خصوصیت یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو اب دنیا کا سردار آتا ہے مجھ میں اس کا کچھ نہیں ہے گویا کہ اس کا مقام میرے مقام سے بہت بڑا ہے.اس بات کا مقابلہ گزشتہ صفحات میں بیان کردہ خصوصیات سے کیا جائے تو بات کھل جاتی ہے کہ وہ نبی ایسا ہے کہ جو اس پر گرے گا وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگا اور جس پر وہ گرے گا وہ بھی پیسا جائے گا جبکہ خود حضرت مسیح کا وجود ایسا تھا کہ جس کے بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ دنیا کا سردار مجرم ٹھہرایا گیا.پس اس جگہ حضرت مسیح جس آنے والے سردار کی بات کرتے ہیں اُس سے مراد بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے جو واقعی دنیا کا سردار بن کر ظاہر ہوا جس کے ذریعہ تمام انبیاء کی شریعت جمع ہوئی اور مکمل ہوئی.اسی طرح ایک اور مقام پر بائیل میں لکھا ہے کہ :- " محبت کو زوال نہیں نبوتیں ہوں تو موقوف ہو جائیں گی زبانیں ہوں تو جاتی رہیں گی.علم ہو تو مٹ جائے گا کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت نا تمام لیکن جب کامل آئے گا تو ناقص جاتارہے گا.“ (1 کرنتھیوں باب ۱۳ آیت ۸ تا ۱۰) دنیا کی اصلاح کے لئے جس قدر بھی نبی دنیا میں آئے وہ یا تو ایک ملک کے لئے یا
۹۹ ایک زمانہ کے لئے یا پھر ایک قوم کے لئے تھے اور کسی نبی نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ہم کامل ہیں اور ہماری شریعت کامل ہے بلکہ ہر نبی نے ایک آنے والے کامل نبی کے متعلق پیشگوئی کے رنگ میں بات کی.کسی مذہب کی بھی مذہبی کتاب اپنے آپ میں کامل ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی.اگر کوئی نبی کامل ہونے کی حیثیت سے آیا اور اُس نے دعویٰ کیا تو وہ صرف اور صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے متعلق خدا نے گواہی دی کہ آپ خاتم النبین ہیں اور تمام نبوتیں آپ پر تکمیل پاچکیں اور تمام نبوتوں کا کمال آپ نے حاصل کیا.اسی بات کو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي یعنی آج کے دن میں نے تمہارا دین تم پر مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی پس جو بائیبل کو مانتے ہیں اور ان انبیاء کو سچا تسلیم کرتے ہیں جنہوں نے یہ پیشگوئیاں کی ہیں تو اُن کے لئے لازمی ہے کہ اُن کو سچا بنانے کے لئے اس آنے والے وجود یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کریں اور اُس کو سچا تسلیم کریں تا کہ وہ پیشگوئیاں کرنے والے سچے ثابت ہوں ؎ جب کھل گئی سچائی پھر اُس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے
ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا“ دنیا میں دو قو میں ایسی ہیں جو یہ یقین رکھتی ہیں کہ آخری زمانہ میں مسیح دوبارہ تشریف لائیں گے ایک مسلمان اور دوسرے عیسائی.ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حضرت عیسی کو صلیب پر چڑھایا ہی نہیں گیا بلکہ انہیں خدا ایسے ہی اُٹھا کر زندہ آسمان پر لے گیا.اور آخری زمانہ میں نزول فرمائیں گے.اسی طرح عیسائیوں کا کہنا ہے کہ حضرت عیسی ی صلیب پر مر گئے تین دن کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے اور آخری زمانہ میں نزول کریں گے.حضرت مسیح نے آخری زمانہ کی بہت سی نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں کہ ابن آدم یعنی مسیح کے آنے سے قبل کیا کیا ہوگا اور اُس کا آنا کیسا ہوگا.بائبل میں لکھا ہے کہ :- کیونکہ اس وقت ایسی بڑی مصیبت ہوگی کہ دنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی.اور اگر وہ دن گھٹائے نہ جاتے تو کوئی بشر نہ بچتا مگر برگزیدوں کی خاطر وہ دن گھٹائے جائیں گے.اس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا.کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہونگے.اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں.دیکھو میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے.پس اگر وہ تم سے کہیں کہ دیکھو وہ بیابان میں ہے تو باہر نہ جانا.دیکھو وہ کوٹھریوں میں ہے تو یقین نہ کرنا.کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوندھ کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا.جہاں مردار ہے وہاں گدھ جمع ہو جائیں گے.اور فورا اُن دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا.اور چاند روشنی نہ دے گا.اور ستارے آسمان سے وو
1+1 گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی.اور اُس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا.اور اس وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں سے آتے دیکھیں گی.(متی باب ۲۴ آیت ۲۱ تا ۳۰) اسی طرح حضرت مسیح ایک جگہ اس طرح فرماتے ہیں :- " خبر دار کوئی تمہیں گمراہ نہ کر دے کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ سنو گے خبر دار گھبرا نہ جانا کیونکہ ان باتوں کا واقع ہوناضرور ہے.لیکن اس وقت خاتمہ نہ ہوگا.کیونکہ قوم پر قوم اور بادشاہت پر بادشاہت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے.لیکن یہ سب باتیں مصیبت کا شروع ہونگی اور بہت سے جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہونگے اور بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی.مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا اور بادشاہت کی اس خوشخبری کی منادی تمام دنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو اور اُس وقت خاتمہ ہوگا.“ متی باب ۲۴ آیت ۴ تا ۸ ، آیت ۱۱ تا ۱۴) جو مضمون متی میں بیان ہوا ہے بالکل اس سے ملتا جلتا مضمون مرقس باب ۱۳ میں موجود ہے وہاں بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے اسی طرح اُس میں لکھا ہے کہ :- وو اس طرح جب تم ان باتوں کو ہوتے دیکھو تو جان لو کہ وہ نزد یک بلکہ دروازے پر ہے.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی.آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں نہ ملیں گی.لیکن اُس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ.خبر دار جاگتے اور دُعا مانگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب آئے گا یہ اُس آدمی کا سا حال ہے جو پردیس گیا ہوا ہے اور اُس نے گھر چھوڑتے وقت اپنے
۱۰۲ نوکروں کو اختیار دیا یعنی ہر ایک کو اُس کا کام بتادیا اور دربان کو حکم دیا کہ جاگتارہ.پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ گھر کا مالک کب آئے گا.شام کو یا آدھی رات کو یا مرغ کے بانگ دیتے وقت یا صبح کو.ایسا نہ ہو کہ اچانک آکر وہ تم کو سوتا پائے اور جو میں تم سے کہتا ہوں وہی سب سے کہتا ہوں کہ جاگتے رہو.“ -: ( مرقس باب ۱۳ آیت ۲۹ تا۳۷) اسی طرح بائیل میں لکھا ہے کہ : تمہاری کمریں بندھی رہیں اور تمہارے چراغ جلتے رہیں اور تم اُن آدمیوں کی مانند ہو جو اپنے مالک کی راہ دیکھتے ہوں کہ وہ شادی میں سے کب لوٹے گا تا کہ جب وہ آکر دروازہ کھٹکھٹائے تو فورا اُس کے واسطے کھول دیں.مبارک ہیں وہ نوکر جن کا مالک آکر اُنہیں جاگتا پائے.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ کمر باندھ کر انہیں کھانا کھانے کو بٹھائے گا اور پاس آکر اُن کی خدمت کرے گا.اور اگر وہ رات کے دوسرے پہر میں یا تیسرے پہر میں آکر اُن کو ایسے حال میں پائے تو وہ نوکر مبارک ہیں لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور کس گھڑی آئے گا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب ہونے نہ دیتا.تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تمہیں گمان بھی نہ ہوگا ابن آدم آجائے گا.“ (لوقا باب ۱۲ آیت ۳۵ تا ۴۰) اس طرح سے اوپر کے منتی کے حوالہ کا مضمون جو مستی باب ۲۴ میں آیا ہے لوقا باب ۲۱ وو میں بھی درج ہے.جو اس میں زائد بات ہے وہ میں اس جگہ نوٹ کرتا ہوں لکھا ہے کہ پھر اُس نے اُن سے کہا کہ ہر قوم اور بادشاہت پر بادشاہت چڑھائی کرے گی اور بڑے بڑے بھونچال آئیں گے اور جابجا کال اور مری پڑے گی اور آسمان پر بڑی بڑی دہشت ناک باتیں اور نشانیاں ظاہر ہونگی.لیکن ان سب باتوں سے پہلے وہ میرے نام کے سبب تمہیں پکڑیں گے اور ستائیں گے اور عبادت خانوں کی عدالت کے حوالے کریں گے اور قید خانوں میں ڈلوائیں گے اور بادشاہوں اور :
حاکموں کے سامنے حاضر کریں گے اور یہ تمہارے گواہی دینے کا موقع ہوگا.پس اپنے دل میں ٹھان رکھو کہ ہم پہلے سے فکر نہ کریں گے کہ کیا جواب دیں.کیونکہ میں تمہیں ایسی زبان اور حکمت دوں گا کہ تمہارا کوئی مخالف سامنا کرنے یا خلاف کہنے کا مقدور نہ رکھے گا.اور تمہیں ماں باپ اور بھائی اور رشتہ دار اور دوست بھی پکڑوائیں گے بلکہ وہ تم میں سے بعض کو مروا ڈالیں گے.اور میرے نام کے سبب سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے لیکن تمہار اسر کا بال بھی بیکا نہ ہو گا اپنے صبر سے تم اپنی جانیں بچائے رکھو گے.....اور سورج اور چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہونگے اور زمین پر قوموں کو تکلیف ہوگی.کیونکہ سمندر اور اُس کی لہروں کے شور سے گھبرا جائیں گی.اور ڈر کے مارے اور زمین پر آنے والی بلاؤں کی راہ دیکھتے دیکھتے لوگوں کی جان میں جان نہ رہے گی.اس لئے کہ آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی اُس وقت لوگ ابن آدم کو قدرت اور بڑے جلال کے ساتھ بادل میں آتے دیکھیں گئے.....پس ہر وقت جاگتے اور دعا مانگتے رہو تا کہ تم کو اِن سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور ابن آدم کے حضور کھڑے ہونے کا مقدور ہو.“ (لوقا باب ۲۱ آیت ۱۰ تا ۱۹ ، ۲۵ تا ۷ ۲ و ۳۶) ان تمام حوالہ جات میں جنہیں آپ پڑھ چکے ہیں ایک موعود مسیح کی پیشگوئیاں موجود ہیں.اور اُس کی آمد استثناء باب ۱۸ میں بیان موعود کے بعد ہوگی جیسا کہ لکھا ہے کہ :- کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.“ وو (متی باب ۲۳ آیت ۳۹) پس اگر مسیحی دنیا کے نزدیک وہ خداوند کے نام پر آنے والا ابھی تک نہیں آیا جو دنیا کا سردار ٹھہرا اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا تو پھر اُن کا مسیح موعود کا انتظار کرنا فضول ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً ڈیڑھ سو سال گزر گیا اور عیسائی جگہ جگہ یہ لکھتے ہیں کہ
Jesus come soon کہ مسیح جلد آنے والے ہیں مگر اُن کے خیالوں میں بسا مسیح جو اُن کے نزدیک بادلوں میں ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے آسمان سے نہیں آئے.قارئین ! جو آسمانوں پر گیا ہی نہ ہو وہ آسمانوں سے آ کیسے سکتا ہے.یہاں آسمان پر جانے اور آنے کی مثال ایلیاہ نبی کے آسمان پر جانے اور پھر یوحنا کے رنگ میں واپس آنے سے دی جاسکتی ہے جبکہ بائیل میں لکھا ہے کہ حضرت الیاس بگولے میں بیٹھ کر آسمان پر چلے گئے تھے اور آج تک یہود اُن کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں اُن کے نزدیک نہ ایلیاہ آسمان سے اُترے ہیں اور نہ ہی مسیح پیدا ہوئے ہیں اگر مسیح کی دی گئی شہادت کو مسیحی قبول نہ کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مسیحی بھی اور مسلمان بھی یہود کی طرح آنے والے بچے مسیح کو قبول کرنے سے انکاری رہیں گے.حضرت مسیح کے بارے میں جو آسمان کے بادلوں کے ساتھ آنے کی بات ہے وہ ایک : خواب کی حالت ہے اور اس کی وضاحت دانی ایل نبی نے کی ہے لکھا ہے کہ میں نے رات کی رویتوں کے وسیلے دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدم زاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا.اور قدیم الایام تک پہنچا وہ اُسے اُس کے آگے لائے اور تسلط اور حشمت اور سلطنت اُسے دی گئی کہ سب قو میں اور اُمتیں اور مختلف زبان بولنے والے اُس کی خدمت گزاری کریں.اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت ایسی جو زائل نہ ہوگی.“ 66 ( دانی ایل باب ۷ آیت ۱۳ ، ۱۴) پس رات کی رویتوں کے وسیلے سے یہ بات دیکھی کہ آخری زمانہ قدیم الایام “ ایک شخص آسمان کے بادلوں میں آیا ہے.پس اگر کوئی خواب میں آسمانوں سے آتا کسی کو دیکھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو آسمانی تائید حاصل ہے.گویا کہ خدائی تائید حاصل ہے اسی لئے وہ غالب آئے گا اور آنے والے کے متعلق یہی لکھا ہے کہ :-
وو ۱۰۵ سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے لیکن تمہارا سر کا بال بھی بیکا نہ ہوگا.“ (لوقا ۲۱ آیت ۱۹) یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب خدا کی تائید اس کے ساتھ ہو.مسیح کی آمد ثانی کے بارہ میں درج ذیل حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے -(1) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مسیح موعود کی آمد سے قبل بہت سی پیشگوئیاں پوری ہونی تھیں جن کی تصدیق متی باب ۲۴ - مرقس باب ۱۳ میں موجود ہے اور کچھ لوقا باب ۲۱ میں موجود ہیں.کہ بڑی مصیبت کے دن ہوں گے.اور کئی جھوٹے دعویدار پیدا ہو جا ئیں گے.(۲) - دوسری بات بائیل سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ مسیح کی آمد ثانی کے ساتھ ہی اس کے بارے میں کی گئی پیشگوئیوں کی صداقت ظاہر ہونی شروع ہو جانی تھی.ایک پیشگوئی جو مسیح کی آمد ثانی پر آسمان پر ظاہر ہونی تھی اور جس کی شہادت تمام مذہبی کتب دیتی ہیں یہ ہے کہ :- اور فورا اُن دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے (متی باب ۲۴) اسی طرح یہ کہ :-
وو 1+4 اور سورج اور چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہو نگے اور زمین پر قوموں کو تکلیف ہوگی.“ (لوقا باب ۲۱) سب لوگ یہ جانتے ہیں کہ چاند اور سورج اُس وقت تاریک ہوتے ہیں جب انہیں گرہن لگتا ہے.یہ گرہن کا نشان مسیح کی صداقت کا آسمانی نشان قرآن، حدیث، بائیبل اور ہندوؤں کی کتب میں بھی ٹھہرایا گیا ہے.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا کہ مجھے خدا نے میسیج بنا کر بھیجا ہے تو یہ ایسا ہی دعویٰ تھا جیسا یوحنا نبی کا تھا جس کو ایلیاہ کا مثیل بنا کر بھیجا گیا تھا.اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والا مسیح ایک گمنام بستی میں سے ظاہر ہو گا جس کے متعلق خود مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیان بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار پس آپ کا اچانک اور گمنام جگہ سے دعوی کرنا بائیبل کی پیشگوئی کے عین مطابق تھا پھر آپ کے دعوئی کے بعد ۱۸۹۶ء میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینہ میں اور مقررہ دنوں میں گرہن ہو کر سورج اور چاند کے تاریک ہونے کا نشان پورا ہوا.اس پر مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا آسماں میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار (۳) تیسری بات جو سیخ کی صداقت کی بائیبل میں درج ہے وہ یہ ہے کہ جیسے بجلی پورب سے کوندھ کر پچھتم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا وو آنا ہوگا“ (متی باب ۲۴) اس سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں.ایک تو یہ کہ جس طرح بجلی اچانک چمکتی ہے اور کسی کو
1+2 علم نہیں ہوتا کہ کب اور کدھر چمکے گی اُسی طرح وہ ظاہر ہوگا جس کی شہادت اس طرح بھی بائیل میں ہے کہ :- پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ گھر کا مالک کب آئے گا شام کو یا آدھی رات کو یا مرغ کے بانگ دیتے وقت یا صبح کو ایسا نہ ہو کہ اچانک آکر وہ تم کو سوتا پائے اور جو میں تم سے کہتا ہوں وہی سب سے کہتا ہوں کہ جاگتے رہو.“ (مرقس باب ۱۳) پس آنے والا مسیح تو وقت پر اچانک آیا اور جو جاگتے تھے انہوں نے اُس کو قبول کیا اور جوسوتے تھے اُنہوں نے ابھی تک اُس کو نہ دیکھا.اور نہ مانالیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسیح کے آنے کا وقت یہی تھا اور لوگ منتظر بھی تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا (۴) چوتھی بات جو اس میں صداقت مسیح کی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا آنا پورب کی طرف سے ہوگا.جو کہ بجلی پورب سے کوندھ کر پیچھنم تک دکھائی دیتی ہے سے ظاہر ہے.پس حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام جو قادیان پنجاب میں پورب سے ظاہر ہوئے اور اُن کی زندگی ہی میں اُن کے نشان پچھتم والوں نے دیکھے اور الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کے باشندہ نے پچھم میں آپ کی صداقت کا نشان دکھا دیا.اور آر کے مقابل میں آپ ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا.(۵) - آپ کی صداقت کا پانچواں نشان جو بائیل میں درج ہے جس کے آپ مصداق ٹھہرے وہ یہ ہے کہ :-
۱۰۸ ” اور بڑے بڑے بھونچال آئیں گے اور جابجا کال اور مری پڑے گی (لوقا باب ۲۱) حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے جب دعوی مسیحیت فرمایا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور پوچھنے پر بتایا کہ یہ طاعون کے پودے ہیں اس طرح آپ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر مری پڑنے کی پیشگوئی فرمائی اس کے بعد ۱۸۹۷ء سے جو اس کا دورہ شروع ہوا کئی سال تک دنیا کو ہلاک کرتی رہی.اس کے ساتھ ہی آپ نے فرمایا تھا کہ یہ طاعون میری صداقت پر ایک نشان ٹھہرے گی کہ میرے گھر کی چاردیواری میں سے کوئی ہلاک نہ ہوگا.آپ نے فرمایا تو نے طاعون کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار اسی طرح آپ کی پیشگوئی کے مطابق جگہ جگہ بھونچال آئے.کانگڑا کا زلزلہ تاریخ میں بہت بڑا زلزلہ ہے.آپ نے زلزلوں کے متعلق فرمایا.پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ آنے کے دن زلزلہ کیا اس جہاں سے کوچ کر جانے کے دن اور جب یہ زلزلہ آ گیا تو فرمایا وہ جو ماہ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ تم یقیں سمجھو کہ وہ اک زجر سمجھانے کو ہے پس آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق اور بائیبل کی پیشگوئیوں کے مطابق ہر جگہ بڑے بڑے زلزلے آئے اور بائیبل کا نشان حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی صداقت پر پورا ہوا.اس طرح آپ ہی ان پیشگوئیوں کے مصداق ہوئے.
-(4) چھٹی بات یہ ہے کہ : 1+9 وو " وہ میرے نام کے سبب تمہیں پکڑیں گے اور ستائیں گے اور عبادت خانوں کی عدالت کے حوالے کریں گے“ (لوقا باب ۲۱) بڑی ہی حیرت انگیز پیشگوئی ہے جو مسیح نے بیان فرمائی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو اس کے فورا بعد اُن پر ایمان لانے والوں سے یہی کیا گیا.ایمان لانے والے احمدی افراد کو پکڑا گیا ستایا گیا اور عبادت خانوں کی عدالت میں پیش کیا گیا.یعنی مولویوں نے جو کہ عبادت خانوں کے حاکم کہلاتے ہیں ان کے خلاف فتوے دیئے اور ان کو دین سے خارج بتا کر اُن پر ظلم کئے گئے.اور آج بھی یہ سلسلہ مسیح کے ماننے والوں سے جاری ہے اور پاکستان اس کا سب سے اول نمونہ پیش کر رہا ہے.(۷) ساتویں دلیل صداقت کی یہ ہے کہ :- اور قید خانوں میں ڈلوائیں گے“ (لوقا باب ۲۱) آج بھی مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والے کئی لوگوں کو پاکستان کے قید خانوں میں ڈالا ہوا ہے اور بائبل کی اس پیشگوئی کو سیخ کی صداقت کے طور پر خدا پورا کر وار ہا ہے.آٹھویں دلیل یہ ہے کہ :- (V)- دو اور بادشاہوں اور حاکموں کے سامنے حاضر کریں گئے“ (لوقا باب ۲۱) ۱۹۵۳ء میں جب جماعت احمدیہ کے خلاف فساد برپا کیا گیا.تو اس وقت بھی اور ۱۹۷۴ء میں بھی جماعت احمدیہ کے خلفاء کو عدالتوں میں حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے پیش کیا گیا.آج بھی جماعت احمدیہ کے افراد کو صرف مسیح موعود پر ایمان لانے کی وجہ سے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.بلکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام پر مختلف مقدمات کروا کر حاکموں کے سامنے پیش کیا گیا.یہ
حاکموں کے سامنے پیش کرنے اور کروانے والے کون ہیں لکھا ہے :- اور تمہیں ماں باپ اور بھائی اور رشتہ دار اور دوست بھی پکڑوائیں گے بلکہ وہ تم میں سے بعض کو مروا ڈالیں گے اور میرے نام کے سبب سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے.“ (لوقا باب ۲۱) پس جماعت احمدیہ کے ساتھ یہی ہوتا ہے اپنے ہی پکڑواتے ہیں اور کتنے احمدی ہیں جو اس مسیح پر ایمان لانے کے جرم میں شہید کر دیئے گئے.اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور تھمنے میں نہیں آتا.یہ بھی حضرت مسیح موعود کی صداقت کی دلیل ہے جو آپ اور آپ کی جماعت پر صادق آتی ہے.-(9) ودو لکھا ہے کہ :- پس اپنے دل میں ٹھان رکھو کہ ہم پہلے سے فکر نہ کریں گے کہ کیا جواب دیں.کیونکہ میں تمہیں ایسی زبان اور حکمت دوں گا کہ تمہارا کوئی مخالف سامنا کرنے یا خلاف کہنے کا مقدور نہ رکھے گا.“ (لوقا باب ۲۱) حضرت مسیح کی یہ بات کس قدر سچی اور صداقت سے پُر ہے.آج جماعت احمدیہ کا ہر فرد خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا انپڑھ وہ بڑے سے بڑے عالموں فاضلوں پر غالب آجاتا ہے خدا نے اس کی زبان میں وہ تاثیر پیدا کی ہے اور حکمت ودیعت کی ہے کہ کوئی مخالف سامنا نہیں کر سکتا.بالکل یہی بات حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کے متعلق بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں : ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نوراپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا
منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائے گا.(روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹ دیکھیں مسیح ناصری کے قول اور مسیح محمدی علیہ السلام کے قول میں کس قدر مشابہت پائی جاتی ہے اور پھر خدا نے ان باتوں کو سیح موعود اور آپ کی جماعت میں کس طرح سچا ثابت کر کے دکھا دیا.(10) - دسویں بات جو ان پیشگوئیوں سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ :- اور میرے نام کے سبب سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے لیکن تمہارا سر کا بال بھی بیکا نہ ہوگا اپنے صبر سے تم اپنی جانیں بچائے رکھو گے.“ (لوقا باب ۲۱) آج جماعت احمد یہ ساری دنیا میں پھیل چکی ہے اس کے ساتھ ہی ساری دُنیا میں جماعت کی مخالفت کا دور دورہ ہے.اور یہ مخالفت صرف مسیح کے نام کے سبب ہے لیکن ان شدید مخالفتوں کے بعد بھی دنیا جماعت احمدیہ کا بال بیکا نہیں کرسکی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- وو جب انبیاء اور رسل آتے ہیں وہ ایک وقت تک صبر کرتے ہیں اور مخالفوں کی مخالفت جب انتہاء تک پہنچ جاتی ہے تو ایک وقت تو جہ نام سے اقبال علی اللہ کر کے فیصلہ چاہتے ہیں اور پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ.....پس ہم اپنے مخالفوں کی مخالفت کی کیا پرواہ کریں یہ مخالف نوبت بہ نوبت اپنے فرض منصبی کو سرانجام دیتے ہیں.ابتداء ان کی ہوتی ہے اور انجام متقیوں کا.“ (ملفوظات جلد ۳ صفحه ۲۱۵) ساری دُنیا یہ بات جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود کی آواز قادیان کی چھوٹی سی بستی سے اُٹھی جس کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اس آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ہندوستان بھر میں پھیلی اس کو اور شدت سے دبانے کی کوشش کی گئی تو یہ ساری دُنیا میں پھیل گئی.حکومتیں
مخالفت پر اُٹھیں مگر جماعت کا بال بھی بیکا نہ کر سکیں.پس حضرت مسیح کا یہ قول جماعت احمدیہ کے حق میں جس رنگ میں پورا ہوا صرف یہی مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کی صداقت کے لئے بطور دلیل کافی ہے.پس میں اپنے مسیحی بھائیوں سے یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ واقعی مسیح ابن مریم کے ماننے والے ہیں اور اس سے پیار کرنے والے ہیں تو آپ کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ اُن کو سچا ثابت کرنے کے لئے ان سچائیوں کو قبول کرو.اور وہ میسیج جس نے آنا تھا اپنے وقت پر آپکا اُس کو قبول کر کے مسیح اول کو سچا بنا ئیں.لیکن اگر آپ اس مسیح محمدی کو قبول نہیں کرتے تو پھر آپ مسیح اوّل کو بھی سچا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس کی باتیں پوری نہیں ہوئیں.ہاں جماعت احمد یہ ہی مسیح اول کو سچا اور خدا کی طرف سے آنے والا رسول مانتی ہے اور آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ایمان لاتی ہے.آمین.آخر میں دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو مسیح کا سچا پیروکار بنے کی توفیق عطا فرمائے.