Language: UR
اس کتاب میں حمد و مناجات کے موضوع پر احمدی شعراء کے کلام میں انتخاب یکجا کردیاگیا ہے۔ یوں دنیا کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک اور روشن دلیل سامنے آتی ہے کہ آپ ؑ نے ہستی باری تعالیٰ، صفا ت اور ذات باری تعالیٰ پر اس قدر عمدہ، اعلیٰ اور گہرا لٹریچر پیدا فرمایاکہ آپ کے ماننے والوں میں یہ اساسی موضوع رواں ہوگیا۔ اس کتاب میں مواد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شروع کرکے مختلف شخصیات کے لحاظ سے پیش کیا گیاہے اور کتاب کے دوسرے حصہ میں شعراء کے کلام کو ناموں کے لحاظ سے حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ جبکہ آخری حصہ احمدی شاعرات کے کلام کو لئے ہوئے ہے۔
حمد و مناجات
2 نام کتاب حمد و مناجات
3 اظہار تشکر کے انتہائی شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنے والدین کی طرف سے صدقہ جاریہ کے طور پر اس کتاب کا خرچ ادا کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی طرف سے تحفہ میں ملنے والی طلائی چوڑیاں لجنہ کے سپر د کر دیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کو اعلیٰ علیین میں مقامِ قرب عطا فرمائے اور آپ کے خاندان کو نسل در نسل اپنی رضا کی راہیں نصیب فرمائے.آمین اللھم آمین.”میرے والد محترم محمد بخش میر صاحب 1898 ء میں پیدا ہوئے نیک مزاج، سعادتمند اور ذہین تھے میٹرک میں پنجاب بھر میں اول آئے تھے اعلی تعلیم حاصل کر کے وکیل بنے 1922ء میں اپنے ماموں محترم محمد ابراہیم میر صاحب آف ڈسکہ کی تحریک پر احمدیت قبول کی.جماعت سے انتہائی گہری وابستگی تھی.عملاً دین کو دنیا پر مقدم رکھتے 35 برس تک پہلے گوجرانوالہ اور پھر ضلع گوجرانوالہ کے امیر جماعت رہے لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کے دوران بھی حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر صدارت کے فرائض انجام دیتے رہے.گوجرانوالہ کی وکلاء بار کے صدر تھے کشمیر کے لئے قابل قدر خدمات کا موقع ملا.70 برس کی عمر میں فالج کا حملہ ہوا معذوری کی سی حالت میں بھی حضرت خلیفہ اسیح ثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ کوئی جماعتی خدمت کا کام عنایت فرمائیں آپ نے فرمایا کہ آپ جماعت کے لئے دعائیں کریں.چنانچہ دل و جان سے احمدیت کی ترقی کے لئے دعائیں کرتے ہوئے 1981ء میں انتقال فرمایا بہشتی مقبرے میں مدفون ہیں.
میری والدہ محترمہ سردار بیگم صاحبہ میرے بچپن میں فوت ہوگئی تھیں پیارے ابا جان کے سایہ عاطفت میں زندگی گزاری.گھر کا ماحول خدمت دین سے معمور تھا ہماری بھا بھی محترمہ صادقہ میر صاحبہ ضلع گوجرانوالہ کی صدر تھیں خاکسار کو بھی اٹھارہ سال لجنہ اماءاللہ کی خدمت کی توفیق ملی ہے.دعا ہے کی صحت و زندگی میں برکت ہو.وہ اللہ تعالیٰ سے راضی رہیں اور اللہ تعالیٰ اُن سے راضی رہے آمین.
5 پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بے حساب شکر ہے کہ لجنہ اماءا جشن صد ساله تشکر کے بابرکت موقعہ پر بنائے ہوئے اپنے منصوبہ پر استقامت سے عمل پیرا ہے.زیر نظر کتاب اس سلسلہ کی بیاسی 82 ویں پیشکش ہے.یہ ایک ایسا خصوصی فضل واحسانِ الہی ہے کہ ہر لمحہ دل حمد وثنا کے ترانے گاتا ہے.ہم نے حمد و مناجات کے موضوع پر احمدی شعراء کے کلام میں سے انتخاب یکجا کر دیا ہے تا کہ سب ہمارے ساتھ ایک لئے میں حمد الہی کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ اسلام دینِ حق کی نشاۃ ثانیہ میں زندہ خدا کا تعارف کروانے کے لئے تشریف لائے تھے.احمدی شعراء نے آپ کی آواز میں آواز ملا کر بیانگ بالا دف بجا کر ہستی باری تعالیٰ کی منادی کی ہے.دلوں کا گد از اور روحوں کا سرور ایک ایک شعر سے چھلک رہا ہے.میری سادگی دیکھ کیا چاہتی ہوں تجھی سے تجھے مانگنا چاہتی ہوں محبت بھی رحمت بھی بخشش بھی تیری میں ہر آن تیری رضا چاہتی ہوں مرے خانہ دل میں بس تو ہی تو ہو میں رحمت کی تیری ردا چاہتی ہوں
عرض حال حمد و مناجات کی اس کاوش کو خاکسار اپنی اور شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کراچی کی جانب سے اپنے اس محسن، مشفق اور محبوب آقا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نام کرتی ہے.پیارے آقا نے قدم قدم پر ہماری راہنمائی کی.پاؤں پاؤں چلنا سکھایا اُنہی کی دعاؤں کے پھلوں میں سے ایک پھل یہ حمد و مناجات ہے، الحمد للہ.تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ کا یہ پاک بندہ بچپن میں بھی ہستی باری تعالیٰ کی تلاش میں تھا.جب ایک بزرگ کے فرمانے پر کہ ”میاں کیا انعام لو گے.دس گیارہ سالہ بچے کا بے ساختہ جواب تھا اللہ.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ عروج کے زمانہ میں احمدیت کا یہ سپہ سالار مسیح محمدی کا جھنڈا ہاتھوں میں اُٹھائے ہر طرح کے مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھ رہا ہے.سر جھکا یا بھی تو اپنے مولا کہ حضور.میں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے میں تیرا ہوں تو میرا خدا میرا خدا ہے سارا عالم گواہ ہے.آپ سرتا پا عشق خدا اور عشق رسول میں فنا تھے.جب بھی جذب کے اس رنگ میں ڈوبے ہوئے آپکوسنا اور دیکھا تو بے اختیار ہمارے دل بھی گنگنانے لگتے کہ و تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک جس سے ہے شورِ محبت عاشقان زار کا آپ کی پیاری بیٹی فائزہ نے آپ کی یاد میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ
8 آپ کی زندگی کا نچوڑ آپ کی خدا سے محبت تھی جس کا اظہار آپ نے اپنی بیٹی سے یوں فرمایا کہ میں نے زندگی میں کچھ نہیں کیا مگر میں نے اپنے اللہ سے بہت محبت کی ہے جب آپ یہ کہہ رہے تھے تو آپ کی آنکھیں اُسی محبت کے آنسوؤں سے نم تھیں بیٹی حیرت سے دیکھ رہی تھی کہ یہ وجود کیسے خدا کی محبت میں پکھل کر بالکل بے نفس ہو چکا ہے.کاش خدا ہمارے دل اور ہماری روح کو بھی اسی محبت کی طرف کھینچ لے جو ہماری زندگی کا اصل مقصد ہے.انسان کی تمام خوبیاں اور صفات اسی محبت کے پانے سے زندہ ہوتی ہیں.خدا کرے کہ ہم آپ کے نقش قدم پر چل سکیں.جنھوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو ہماری بہتری اور خدا کی محبت کو قائم کرنے کے لئے وقف کر دیا تھا.آمین دور دوم میں شعراء کرام کے کلام کو ناموں کے لحاظ سے حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے.امید ہے ہر شاعر کے دل کی حمدیہ کیفیت کو قارئین بھی اپنے دلی جذبات کی گہرائیوں سے محسوس کریں گے انشاء اللہ.آخر میں خاکسار تہہ دل سے شکر گزار ہے آپا سلیمہ میر صاحبہ کی جن کی بھر پور حوصلہ افزا دعائیں ساتھ ساتھ شامل رہیں اور میری عزیز بہن امتہ الباری ناصر صاحبہ جن کی معاونت شعراء کا کلام اکٹھا کرنے نیز پروف ریڈنگ کی محنت طلب مشقت میں ہر وقت شامل رہی.جزاھم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ ہماری اشاعت کی ساری ٹیم کو اپنی صدر لجنہ امتہ الحفیظ محمود بھٹی صاحبہ کی زیر قیادت مقبول خدمت دین کی توفیق بخشے.آمین
صفحہ 22.23 24 فهرست مضامين نمبر شمار نام مضمون تبرکات 1- حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود ( آپ پر سلامتی ہو ) کس قدر ظاہر ہے تُو رأس مَبْدَاءُ الْأَنْوَار کا.حمد حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی تجھے حمد و نازیبا ہے پیارے..اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار حمد وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو -2 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ( خدا آپ سے راضی رہے ) ا ہے دستِ قبلہ نما لا الہ الا اللہ مہ میرے مولا مری بگڑی کے بنانے والے خُدا سے چاہیئے ہے کو لگانی.میری رات دن بس یہی اک صدا ہے.3 - حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث ( رحمہ اللہ تعالی) زندہ خدا سے دل جو لگاتے تو خوب تھا..-4 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفہ اصیح الرابع ( رحمہ اللہ تعالیٰ) حمید تو مرے دل کی شش جہات بنے.اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے.26 27.29 30.2228 29 32 33 34.
35 37 38 39 39 40 41 42 44.45 46 50 51 10 ہے کیا موج تھی جب دل نے جسے نام خدا کے 5- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ( خدا آپ سے راضی رہے) میری سجدہ گاہ کو لوٹ لو میری جبیں کو لوٹ لو.-6- حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ( خدا آپ سے راضی رہے) اے خدا مجھ کوتو دُنیا میں مزا آتا نہیں...-7- حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ ( خدا آپ سے راضی رہے) میرے مولا مرے ولی ونصیر عمال مولا مرے قدیر مرے کبریا مرے.اے محسن و محبوب خدا اے مرے پیارے.کیا التجا کروں کہ مجسم دُعا ہوں میں.8- محترمہ سیدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ میری سادگی دیکھ کیا چاہتی ہوں.دورِ اوّل 9 - حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ( خدا آپ سے راضی رہے ) اے آنکہ میرے واقف اسرار ہو تم ہی علاج درد دل تم ہو.ہمارے دلر با تم ہو خدائے من، خدائے من، دوائے من ، شفائے من 10 - حضرت میر ناصر نواب صاحب ( خدا آپ سے راضی رہے) میں نہیں مانگتا کہ تو زردے.خدا کی حمد ہے انساں پہ لازم.
53 54 55 56 58.59 60.61 63.64.65.66.11 جمع میں مشکلات میں ہوں مشکل کشا تو ہی ہے.11 - حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ( خدا آپ سے راضی رہے) اے میرے محسن اے میرے خدا.ا کر وہ عمل کہ جس کی جزا میں خدا ملے 12 - حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی ( خدا آپ سے راضی رہے) حمید پناہ درکار ہے مجھ کو خدا کی.13- حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی ہ بہت جاسر کو پڑکا در دغم سے 14- حضرت مولانہ ذوالفقار علی خان گوہر خواب میں اک بار پھر اپنی جھلک دکھائیے 15 - حضرت مولوی محمد نواب خانصاحب ثاقب میرزاخانی حمد اپنا دیوانہ بنالے اے مرے مولا مجھے.ح کیا خوب ہے اے خدا خدائی تیری.16 - جناب سید حسین ذوقی صاحب اے کہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى.17- جناب ظہور الدین اکمل صاحب بڑھ چلا حد سے مرافسق و فجو راے مولیٰ نہ تڑپ خیال بت میں تو خدا کا یار ہو جا 18- جناب چوہدری نعمت اللہ خانصاحب گوہر میں شکر کس زباں سے تیرا کروں خدایا..
67.68 69 70.72 74 75 76 77 12 19- جناب حسن رہتاسی صاحب جس طرح پہلے تھا اس کا لطف و احساں اب بھی ہے.20- جناب حکیم خلیل احمد مونگری تیری ذات پاک ہے اے خدا تیری شان جل جلاله.21 - جناب حافظ سلیم احمد اٹاوی اے خدا اے خالق کون و مکاں 22 جناب قیس مینائی نجیب آبادی ہ انس و جاں آئینہ وکون و مکاں آئینہ دور دوم -23 احسن : جناب سید احسن اسماعیل صدیقی صاحب اے میرے مولا مرے مشکل گشا ! -24- اختر : جناب عبدالسلام اختر صاحب میری نگاہوں سے چھپنے والے ترا بسیرا ہے کس چمن میں..25 ارشد : جناب ماسٹر ضیا الدین ارشد صاحب شہید اے خدا تیرے لئے ہر حمد اور توصیف ہے.-26 اسلام : جناب عبد السلام اسلام صاحب ریگ زاروں، چاند تاروں ، لالہ زاروں، میں وہی.27- اسماعیل : جناب محمد اسماعیل صاحب محمد وثنائے خدائے تعالیٰ
78 79 80 81 82 83 84.85.86 88 13 28 اشرف : جناب محمد شفیع اشرف صاحب رواں ہے تری حمد کا میرے پیارے مرے لب 29- اصغر : جناب محمود مجیب اصغر صاحب اے خدا کیا نہیں دیا تو نے.30 - اعجاز : جناب سعید احمد اعجاز صاحب حمد حمد تیرے ہی واسطے ہے 31 - افضل : جناب مرزا محمد افضل صاحب آؤ اس دلربا کی بات کریں.32- امجد : جناب یعقوب امجد صاحب تو صاحب مہر وعطا، میں بندۂ سہو و خطا.-33 انصاری : جناب مولانا محمد سعید انصاری صاحب ی ترانے حمد کے میں گا رہا ہوں.34- آدم : جناب آدم چغتائی صاحب ملتا ہے اُسی در سے محبت کا اشارا.35 بسمل : جناب آفتاب احمد بنتل صاحب پڑا تھا ایک دن سجدہ میں میں اپنا ٹھکائے سر.36- بشر : جناب خواجہ بشیر احمد صاحب میرے اللہ کبھی اکیلا مجھے مت چھوڑ.-37 تقسم : جناب عبدالرشید تبسم صاحب ید الہی ہر طرف جلووں سے اک محشر بپا کر دے.
89.89 90.91 22 92 14 -38 تنویر : جناب روشن دین تنویر صاحب گنہ گار ہوں یا الہ بخش دے.ہم نے زندہ خدا کو جانا ہے.-39 تسنیم : جناب میر اللہ بخش تسنیم صاحب ملجا خدا تعالی مادی خدا تعالیٰ.-40 ثاقب : جناب ثاقب زیروی صاحب راز بقائے زندگی کیا ہے مجھے بتا بھی دے.-41- جمیل : جناب جمیل الرحمان جمیل صاحب تو نورارض و سما ہے، وحید و کامل ہے.-42 حمیدی : جناب اکبر حمیدی صاحب پروردگارا، پروردگارا 43 خادم : جناب کپتان ملک خادم حسین خان صاحب الہی ہر جگہ روشن ہے جلوہ تیری قدرت کا.44 - خلیق : جناب خلیق بن فائق صاحب خداوند نہیں تیرا کوئی ثانی زمانے میں 45 راشد : جناب عطا المجیب راشد صاحب تو تو ہر بات پہ قادر ہے شفا کے مالک! 46- رشید : جناب رشید قیصرانی صاحب مجھے کیا خبر کہ وہ ذکر تھا، وہ نماز تھی کہ سلام تھا.نپتے ہوئے صحرا میں کبھی صحنِ چمن میں 93.94 95.96.96 97 97 98
99 66 100.101 102.103 104.105 106.107 108.109 110 15 -47 سلیم : جناب سلیم شاہجہاں پوری صاحب دل کو رنگ خدا نمائی دوں.48- سیفی : جناب نور محمد نسیم سیفی صاحب اک چاند ستاروں ہی کے تو چہروں پہ نہیں ہے تیری دمک ہر شے کی زباں پر تری تحمید وثنا ہے 49- شاد : جناب ابراہیم شاد صاحب حملہ ہے میرا نور نظر لا الہ الا اللہ میرے گناہ بخش میرا مہرباں ہے تو 50 شاکر : جناب شیخ رحمت اللہ شاکر صاحب ہے خدائے ذوالمنن ہی کارساز و کردگار.-51 شبیر : جناب چوھدری شبیر احمد صاحب کون و مکاں سے آتی ہے ہر دم یہی صدا.ی اے مالک ہر دو سرا.52 شمس : جناب مولانا جلال الدین صاحب مشمس : ہ اگر وہ ہمیں اپنا جلوہ دکھا ئیں.53- شوق : جناب عبدالحمید خان شوق صاحب خدائے دو جہاں کا نام صبح و شام لیتا ہوں -54 صديق : جناب محمد صدیق امرتسری صاحب الہی بشر سے بشر دوبدو ہے.55 - صوتی : جناب محمد الحق صوفی صاحب بڑا مہرباں ہے ہمارا خدا.
111 112 113.114 115.117.118 119 120 121 122 16 کس قدر ظاہر ہے قدرت تیری پروردگار..56- ظفر : جناب صابر ظفر صاحب میرے خدا کوئی ایسا خیال برتر دے.57 ظفر : جناب مبارک احمد ظفر صاحب یہ سب دکھ اور سکھ کی گھڑیوں میں تجھ کو ہی پکارا مولی بس 58- ظفر : جناب مولاناظفرمحمد ظفر صاحب وہ پاک ہستی وہ ذات والا.دوائے در د جگر لا الہ الا اللہ -59- ظفر : جناب راجہ نذیر احمد ظفر صاحب فریب نظر عالم رنگ و بو ہے.60 عابد : جناب حافظ غلام محمدعبید اللہ عابد صاحب عا میکدہ حیات ہے حسنِ کائنات ہے 61 - عاجز : جناب سیدا در لیس احمد عاجز کرمانی صاحب جب بھی نافذ حکم رب گن فکاں ہو جائے گا.62- عبدالرحیم : جناب عبدالرحیم راٹھور صاحب بہت ہی پیارا خدا ہے ہمارا 63 - علیم : جناب عبید اللہ علیم صاحب گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے.64 - عنایت : جناب چوھدری عنایت اللہ صاحب احمدی تیرے صدقے تیرے قرباں پیارے مولیٰ
123 124.125 126 127.128 129 130.131 132.133 17 65- قمر : جناب شمشاداحمد قمر صاحب و اے خدا اے مالک ارض و سما.-66- مبشر : جناب مبشر خورشید صاحب کچھ ایسے ابر کرم کا نزول ہو جائے.67 - مبشر : جناب ضیاء اللہ مبشر صاحب ہوا دست محبت کا اشارا ہم کو مولی بس.68- مبشر : جناب مبشر احمد راجیکی صاحب کون مشکل کشا ہے تیرے سوا.-69- مختصر : جناب سیٹھ محد معین الدین صاحب محشر اے تیرے قلب صاف میں کون و مکاں کی وسعتیں.70 - محمود : جناب اکرم محمود صاحب اک لحظہ میں حالات کی تصویر بدل جائے.71 - محمود : جناب ڈاکٹر محمودالحسن صاحب دل میں جب انکی محبت کا شرر ہوتا ہے -72 محمود : جناب سید محمود احمد صاحب مجھے آزما کے پیارے میرا حوصلہ نہ دیکھو.-73 - مصلح : جناب مصلح الدین راجیکی صاحب حمد وہ جانِ عالم نہاں بھی ہو کر نگاہ دل سے نہاں نہیں ہے ملتی اس کو زیست تیری بارگاہ میں.-74 مضطر : جناب چوہدری محمد علی صاحب مضطر اس کی سمت ہے نہ حد.
134 135.137.138.139 140.141 142.143 144.146.147 18 روح کے جھروکوں سے اذنِ خود نمائی دے.75- مظہر : جناب محمد احمد مظہر صاحب د ہر ذرہ میں نمایاں نور کمال تیرا.-76 منصور : جناب منصور احمد شاہد صاحب اٹاوی ثم لکھنوی پھولوں میں تیری خوشبو تاروں میں نور تیرا.-77 منور : جناب میاں منور احمد درویش صاحب ہیں جو کچھ بھی مانگنا ہے وہ خدا سے مانگ 78 - منیب : جناب احمد منیب صاحب دل کے درد نے کر دی مولیٰ - 79 - نادر : جناب نادر قریشی صاحب د در محبوب خدا پر ہو رسائی میری.80 - ناصر : جناب سید محمد الیاس ناصر دہلوی صاحب تری حمد وثنا میں پھر رواں ہے اب قلم میرا.81- نسیم : جناب افتخار احمد نسیم صاحب آنسوؤں کی پھر کوئی برسات لے کر آ گیا.82 نصیر : جناب نصیر احمد خان صاحب تازگی جسم کو دے جاں کو توانائی دے.-83 نصیر : جناب شیخ نصیر الدین صاحب ہاتھ اُٹھتے ہیں جب دعا کے لئے ے تجھ کو ہر دم پکاروں گا میرے خدا 84 - ہادی : جناب محمد ہادی صاحب کہیں بھی فضا ایسی پائی نہیں ہے.
148 150.151 153 153.154.158 159.160.160.161 19 85- يوسف : جناب قاضی محمد یوسف صاحب تیری درگاہ میں یارب ہے ہر دم التجا میری شاعرات 86- محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ مد ہوئی سجدہ ریز جوئیں تو زمین نے دی دُہائی.کرتے ہیں اسی کی حمد وثنا.87- محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ وہ نور اَرض و سموات قادر و قیوم تراش کر زمین کے سارے جنگلات سے قلم 88 - محترمہ ارشاد عرشی صاحبہ میں تیری ہوگئی سارے کی ساری.89 - محترمہ اصغری نورالحق صاحبه میرے پیارے خدا میرے پیارے خدا اتنا کرم ہو یا رب جب جان تن سے نکلے.90 - محترمہ امۃ الرشید بدر صاحبہ ہیں حمد سبھی کرتے یاں ارض و سما تیری.یہ مہر و ماہ اس کے ستارے اسی کے ہیں 91 - محترمه احمدی بیگم صاحبہ اے خدائے ذوالمنن اے شافی مطلق خدا
162.163 164 165...166.167.167 168.169 170.171.20 92- محترمہ بشری ربانی ایم اے صاحبہ دنیا میں کون شخص ہے جس کا خدا نہیں.93- محترمہ رفعت شہناز صاحبہ د الہی دعا کا ثمر چاہئے.94 - محترمہ شاہدہ صاحبہ حمد کیا اور امتحاں ہے ابھی اس جفا کے بعد 95- محترمہ صائمہ امینہ صاحبہ آج میرے دل میں ہے بس تیری چاہ اے کر دگار 96- محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ جہاں جہاں بھی جگہ ملی ہے.وہیں پہ سر کو جھکایا یا رب حمد سے لبریز دل ہیں.دل کھنکتے جام ہیں دنیا میں کوئی مجھ سا گنہگار نہ ہوگا !.97 - محترمہ فریحہ ظہور صاحبہ یہ درد کا کانٹا جو میرے دل میں پچھا ہے.98 مترمه سیده منصوره حنا صاحبه وہ سب کی دُعاؤں کو سنتا ہے آشنا ہے بہت و9- محترمہ نصرت تنویر صاحبه ياذا الجمال ! ارفع و اعلیٰ تمہی تو ہو.100 - محترمہ وسیمه قدسیه صاحبه اے خدائے عظیم اے ستار
21 تبركات
22 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود (آپ پر سلامتی ہو) کس قدر ظاہر ہے تو راس مُبْدَاءُ الا ثوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے گلن ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمالِ یار کا اس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ٹرک یا تا تار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں و ہی رہ ہے ترے دیدار کا چشمہ خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشا ہے تیری چمکار کا تو نے خود رُوحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اُس سے ہے شورِ محبت عاشقانِ زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے کھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ ء دشوار کا خوبرو یوں میں ملاحت ہے تیرے اُس حسن کی ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اُس تیرے گلزار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافرودیندار کا ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا تیرے ملنے کے لئے ہم مل گئے ہیں خاک میں تا مگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا ایک دم بھی گل نہیں پڑتی مجھے تیرے ہوا جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر وں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا ( در یمین صفحه 8)
23 2 حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی، نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ، غیر اس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں مرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے پاک، پاک قدرت عظمت ہے اس کی عظمت لرزاں ہیں اہلِ قُربت کروبیوں پہ ہیبت ہے عام اس کی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہیں اُس کی صنعت اُس سے کرو محبت غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اُس کی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي جو کچھ ہمیں ہے راحت سب اس کی جود و منت اس سے ہے دل کی بیعت دل میں ہے اس کی عظمت بہتر ہے اس کی طاعت ، طاعت میں ہے سعادت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سب کا وہی سہارا رحمت ہے آشکارا ہم کو وہی پیارا دلبر وہی ہمارا اُس بن نہیں گزارا، غیر اُس کے جھوٹ سارا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یارب ہے تیرا احساں میں تیرے در پہ قرباں تو نے دیا ہے ایماں تو ہر زماں نگہباں تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم و رحماں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي کیوں کر ہوشکر تیرا، تیرا ہے جو ہے میرا تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي
24 اے قادر و توانا آفات سے بچانا ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا غیروں سے دل غنی ہے جب سے ہے مجھ کو جانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي فکروں سے دل کو میں ہے جاں درد سے قریں ہے جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے ہر غم سے دور رکھنا تو ربّ عالمیں ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اس دل میں تیرا گھر ہے تیری طرف نظر ہے تجھ سے میں ہوں منور میرا تو تو قمر ہے تجھ پر میرا توکل ڈر پر تیرے یہ سر ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ( در شین صفحه 37) 31 مجھے حمد و ثنا زیبا ہے پیارے کہ تو نے کام سب میرے سنوارے ہیں وہ سب جیسے ستارے ترے احساں مرے سر پر ہیں بھارے گڑھے میں تو نے سب دشمن اُتارے ہمارے کردئے اونچے منارے مقابل پر میرے یہ لوگ ہارے کہاں مرتے تھے پر تو نے ہی مارے شریروں پر پڑے اُن کے شرارے نہ اُن سے رُک سکے مقصد ہمارے انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی فسجان الذى اختری الاعادی ہوئے ہم تیرے اے قادر توانا تیرے در کے ہوئے اور تجھ کو مانا ہمیں بس ہے تیری درگہ یہ آنا مصیبت سے ہمیں ہر دم بچانا
25 کہ تیرا نام ہے غفار و هادی فسجان الذى اخری الاعادی مجھے دُنیا میں ہے کس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا تو پھر سے کس قدر اُس کو سہارا ہے کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی فسجان الذي اخری الاعادی مجھے سب زور و قدرت ہے خدایا تجھے پایا ہر اک مطلب ہر اک عاشق نے ہے اک بُت بنایا ہمارے دل میں کو پایا دلبر سمایا وہی آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں رَبُّ البرايا ہوا ظاہر وہ مجھ بالا یا دی پر فسجان الذى اخری الاعادی مجھے اُس یار سے پیوند جاں ہے وہی جنت وہی دارالاماں ہے بیاں اُس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے یہ کیا احسان ہیں تیرے میرے ہادی فسجان الذى اختری الاعادي تری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اُس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے یہ کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فسجان الذي اختری الاعادی تیرے کوچے میں رکن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے مجھ کو پاؤں
26 محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خُودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سُناؤں میں اس آندھی کو اب کیوں کر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دُنیائے مادی فسجان الذى اختری الاعادی کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے جو مرتا ہے وہی زندوں میں جاوے جو جلتا ہے وہی مُردے چلا دے ثمر ہے دور کا کب غیر کھاوے چلو اوپر کو وہ نہ آوے نیچے نہاں اندر نہاں ہے کون لاوے فريق عشق موتی اُٹھاوے 60 وہ ہ دیکھے نیستی، رحمت دکھاوے خودی اور خود روی کب اُس کو بھاوے مجھے تو نے دولت اے خدا دی فسجان الذى اختری الاعادی ( در مشین صفحه 60) اے خدا اے کار ساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پر وردگار کس طرح تیرا کروں اے ذوالمن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار بد گمانوں سے بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ کر دیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار
27 نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو مجھ میں ہے تیرے بن دیکھانہیں کوئی بھی یار غم گسار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو ھمار آسماں میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اس میں وہ کیا نہیں سورج پہ غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اس یار سا نہیں واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں (درین صفحه 149) سب خیر ہے اسی میں کہ اُس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اُسی کو یارو بتوں میں وفا نہیں اس جائے پُر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بستاں سرا نہیں ( در شین صفحه 186)
28 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد مرزابش ( خدا آپ سے راضی رہے ) 1 ہے دست قبلہ نما لا اله الا الله ہے دردِ دِل کی دوا لا إِلهَ إِلَّا الله کسی کی چشم فسوں ساز نے کیا جادو تو دل سے نکلی صدا لا إِلهَ إِلَّا الله جو پھونکا جائے گا کانوں میں دل کے مُردوں کے کرے گا حشر بپا لا اله الا الله قریب تھا کہ میں اگر جاؤں بارِ عصیاں سے بنا ہے لیک عصا لا اله الا الله رگرہ نہیں رہی باقی کوئی مرے دل کی ہوا ہے عقده گشا لا اله الا الله عقیده ثنویت ہو یا کہ ہو تثلیث ہے كذب بحث و خطا لا إلهَ إِلَّا الله ہے گاتی نغمہ توحید نے نیستاں میں ہے کہتی بادِ صبا لا اله الا الله ترا تو دل ہے صنم خانہ پھر تجھے کیا نفع اگر زباں سے کہا لا الہ الا اللہ حضور حضرت دیاں شفاعت نادم کرے گا روز جزا لا اله الا الله زمیں سے ظلمتِ شرک ایک دم میں ہوگی دُور ہوا جو جلوہ نما لا اله الا الله ہزاروں ہوں گے کہیں لیک قابل اُلفت وہی ہے میرا پیا لا الہ الا الله نہ دھوکا کھا ئیو ناداں کہ شش جہات میں بس وہی ہے چہرہ نما لا اله الا الله چھپی نہیں کبھی رہ سکتی وہ جگہ جس نے ہے مجھ کو قتل کیا لا الہ الا اللہ بروز حشر سبھی تیرا ساتھ چھوڑیں گے کرے گا ایک وفا لا اله الا الله ہزاروں بلکہ ہیں لاکھوں علاج روحانی مگر ہے روح شفا لا اله الا الله گلدستہ احمدیہ حصہ دوم 15 فروری 1920ء)
29 2 - پر میرے مولا مری بگڑی کے بنانے والے میرے پیارے مجھے فتنوں سے بچانے والے جلوہ دکھلا مجھے او چہرہ چھپانے والے! رحم کر مُجھ پر، او منہ پھیر کے جانے والے! میں تو بدنام ہوں جس دم سے ہوا ہوں عاشق کہہ لیں جو دل میں ہو الزام لگانے والے تشنہ لب ہوں بڑی مدت سے خدا شاہد ہے بھر دے اک جام تو کوثر کے لگانے والے ڈالتا جا نظر مہر بھی اس غمگیں نظر قہر سے مٹی میں ملانے والے کبھی تو جلوہ بے پردہ سے ٹھنڈک پہنچا سینہ و دل میں مرے آگ لگانے والے مجھ کو تیری ہی قسم کیا یہ وفا داری ہے دوستی کر کے مجھے دل سے کھلانے والے کیا نہیں آنکھوں میں کچھ بھی کروٹ باقی مجھ مصیبت زدہ کو آنکھیں دکھانے والے ڈھونڈتی ہیں مگر آنکھیں نہیں پاتیں اُن کو ہیں کہاں وہ مجھے روتے کو ہنسانے والے ساتھ ہی چھوڑ دیا سب نے شب ظلمت میں ایک آنسو ہیں لگی دِل کی بجھانے والے تا قیامت رہے جاری یہ سخاوت تیری او مرے گنج معارف کے لگانے والے رہ گئے منہ ہی تیرا دیکھتے وقت رحلت ہم پسینہ کی جگہ خون بہانے والے ہو نہ مجھ کو بھی خوشی دونوں جہانوں میں نصیب کوچہ یار کے رستہ کے پھلانے والے ہم تو ہیں صبح و مسا رنج اُٹھانے والے کوئی ہونگے کہ جو ہیں عیش منانے والے مجھ سے بڑھ کر ہے مرا فکر تجھے دامن گیر تیرے قُربان مرا بوجھ اُٹھانے والے 3 ( کلام محمود ) خدا سے چاہیے ہے کو لگانی کہ سب فانی ہیں پر وہ غیر فانی
30 وہی ہے راحت و آرام دل کا اُسی سے روح کو ہے شاد مانی وہی ہے چارہ آلام ظاہر وہی تسکیں ده درد نہانی سپر بنتا ہے وہ ہر ناتواں کی وہی کرتا ہے اس کی پاسبانی بچاتا ہے ہر اک آفت سے ان کو ٹلاتا ہے جسے اُس پاک سے رشتہ نہیں ہے زمینی ہے اُسی کو پاکے سب کچھ ہم نے پایا کھلا ہے ہم نہیں بلائے وہ ناگہانی آسمانی یہ راز نهانی خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَوْفَى الْأَمَانِي اخبار الحکم جلد 5، 12 جولائی 1911ء) 4 مری رات دن بس یہی اک صدا ہے کہ اس عالم کون کا اک خدا ہے اُسی نے ہے پیدا کیااس جہاں کو ستاروں کو سورج کو اور آسماں کو وہ ہے ایک اُس کا نہیں کوئی ہمسر وہ مالک ہے سب کا وہ حاکم ہے سب پر نہ ہے باپ اُس کا نہ ہے کوئی بیٹا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا نہیں اُس کو حاجت کوئی بیویوں کی ضرورت نہیں اُسکو کچھ ساتھیوں کی ہر اک چیز پر اُس کو قدرت ہے حاصل ہر کام کی اس کو طاقت ہے حاصل پہاڑوں کو اُس نے ہی اُونچا کیا ہے سمندر کو اُس نے ہی پانی دیا ہے یہ دریا جو چاروں طرف بہہ رہے ہیں اُسی نے تو قدرت سے پیدا کئے ہیں سمندر کی مچھلی ہوا کے پرندے گھریلو چرندے بنوں کے درندے سبھی کو وہی رزق پہنچا رہا ہے ہراک اپنے مطلب کی شئے کھا رہا ہے
31 ہر اک شے کو روزی وہ دیتا ہے ہر دم خزانے کبھی اسکے ہوتے نہیں کم وہ زندہ ہے اور زندگی بخشتا ہے وہ قائم ہے ہر ایک کا آسرا ہے کوئی شے نظر سے نہیں اس کی مخفی بڑی سے بڑی ہو کہ چھوٹی سے چھوٹی دلوں کی چھپی بات بھی جانتا ہے بدوں اور نیکوں کو پہچانتا ہے وہ دیتا ہے بندوں کو اپنے ہدایت دکھا تا ہے ہاتھوں پہ اُن کے کرامت ہے فریاد مظلوم کی سُننے والا صداقت کا کرتا ہے وہ بول بالا گناہوں کو بخشش سے ہے ڈھانپ دیتا غریبوں کو رحمت سے ہے تھام لیتا یہی رات دن اب تو میری صدا ہے یہ میرا خُدا ہے یہ میرا خُدا ہے اخبار الفضل جلد 29، یکم جنوری 1941ء)
32 حضرت ،صاحبزادہ مرزا ناصراحمدخلیفة المسح الثالث (رحمہ اللہ تعالیٰ) زندہ خدا سے دل جو لگاتے تو خوب تھا مردہ بتوں سے جان چھڑاتے تو خوب تھا قصے کہانیاں نہ سناتے تو خوب تھا زنده نشان کوئی دکھاتے تو خوب تھا اپنے تئیں جو آپ ہی مسلم کہا تو کیا مسلم بناکے خود کو دکھاتے تو خوب تھا تبلیغ دین میں لگا دیتے زندگی بے فائدہ نہ وقت گنواتے تو خوب تھا دنیا کی کھیل کود میں ناصر پڑے ہو کیوں یادِ خدا میں دل جو لگاتے تو خوب تھا
33 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع (رحمہ اللہ تعالیٰ) 1 تو میرے دل کی شش جہات بنے اک نئی میری کائنات بنے جو تیرا ہے لاکھ ہو میرا جو میرا بنے تو بات بنے ذات جس کا تو ہو اُسی کی ذات بنے سچ ہے مجھ سے منقطع ہر عالم رنگ و بو کے گل بوٹے! خواب ٹھہرے، توہمات بنے سادہ باتوں کا بھی ملا نہ جواب یہ شب سوالات مظلمات بنے کیسے پیمانہ صفات بنے! و روز و ماه و سال تمام ہوئی میزان ہفتہ کب آغاز؟ کیسے دن رات سات سات بنے؟ عالم حیرتی کے مندر میں کبھی بت مظہر صفات بنے کبھی مخلوق ہو گئی ہمہ اوست آتش و آب ، عین ذات بنے کتنے نعرے تعلیات بنے منصور چڑھ گئے سر دار مردمی بنے؟ مٹے گے بار؟ کتنے لات اُجڑے کتنے لات بنے کتنے محمود آئے، کتنی بار سومنات اُجڑے سومنات بنے جو کھنڈر تھے محل بنائے گئے کتنے محلوں کے کھنڈرات بنے عالم بے ثبات میں شب و روز آج کی جیت گل کی مات بنے ترے منہ کے سنگ سہانے بول دل کے بھاری معاملات بنے بے قرار گزرا دن بہت ہے ہے آ میرے چاند میری رات بنے المحمر اب صد سالہ جشن تشکر نمبر، مرتب لجنہ کراچی 1989ء)
34 2 اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے جوت اک پریت کی ہر دے میں جگانے والے سرمدی پریم کی آشاؤں کو دھیرے دھیرے مدھ بھرے سر میں مدھر گیت سنانے والے اے محبت کے امر دیپ جلانے والے پیار کرنے کی مجھے ریت سکھانے والے فُرقت میں کبھی اتنا رُلانے والے کبھی دلداری کے جھولوں میں جھلانے والے دیکھ کر دل کو نکلتا ہوا ہاتھوں سے کبھی رس بھری لوریاں دے دے کے سُلانے والے کیا ادا ہے مرے خالق ، مرے مالک ، مرے گھر چُھپ کے چوروں کی طرح رات کو آنے والے راہ گیروں کے بسیروں میں ٹھکانا کر کے بے ٹھکانوں کو بنا ڈالا ٹھکانے والے مُجھ سے بڑھ کر مری بخشش کے بہانوں کی تلاش کس نے دیکھے تھے کبھی ایسے بہانے والے تو تو ایسا نہیں محبوب کوئی اور ہوں گے وہ جو کہلاتے ہیں دل توڑ کے جانے والے تو تو ہر بار سر راہ سے پکٹ آتا ہے دل میں ہر سمت سے پل پل مرے آنے والے مجھ سے بھی تو کبھی کہہ رَاضِيَة مَرْضِيَّة رُوح بے تاب ہے رُوحوں کو بُلانے والے اس طرف بھی ہو کبھی کاشف اسرار، نگاہ ہم بھی ہیں ایک تمنا کے چھپانے والے اے میرے درد کو سینے میں بسانے والے اپنی پلکوں پہ مرے اشک سجانے والے خاک آلوده، پراگندہ، زبوں حالوں کو کھینچ کر قدموں سے زانو پہ بٹھانے والے میں کہاں اور کہاں حرف شکایت آقا ہاں یوں ہی ہول سے اُٹھتے ہیں ستانے والے ہو اجازت تو ترے پاؤں پہ سر رکھ کے کہوں کیا ہوئے دن تیری غیرت کے دکھانے والے یہ نہ ہو روتے ہی رہ جائیں تیرے در کے فقیر اور ہنس ہنس کے روانہ ہوں رُلانے والے ہم نہ ہونگے تو ہمیں کیا؟ کوئی گل کیا دیکھے آج دکھلا جو دکھانا ہے دکھانے والے وقت ہے وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت کون ہیں یہ تیری تحریر مٹانے والے چھین لے ان سے زمانے کی عناں، مالک وقت بنے پھرتے ہیں، کم اوقات، زمانے والے
35 چشم گردوں نے کبھی پھر نہیں دیکھے وہ لوگ آئے پہلے بھی تو تھے آئے نہ جانے والے رہا ہوں قدم مالک تقدیر کی چاپ آرہے ہیں مری بگردی کے بنانے والے کرو میاری! بس اب آئی تمہاری باری یوں ہی ایام پھرا کرتے ہیں باری باری ہم نے تو صبر و توگل سے گزاری باری ہاں مگر تم پہ بہت ہوگی یہ بھاری باری (جلسہ سالانہ یو کے 1984ء) 3 کیا موج تھی جب دل نے جیسے نام خدا کے اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں زما کے آہیں تھیں کہ تھیں ذکر کی گھنگھور گھٹائیں نالے تھے کہ تھے سیل رواں حمد وثنا کے سکھلا دیئے اسلوب بہت صبر ورضا کے اب اور نہ لمبے کریں دن کرب و بلا کے اُکسانے کی خاطر تیری غیرت تیرے بندے کیا مجھ سے دُعاما نگیں ستم گر کو سُنا کے رکھ لاج کچھ ان کی میرے ستار کہ یہ زخم جو دل میں چھپا رکھے ہیں پہلے ہیں حیا کے لاکھوں مرے پیارے تری راہوں کے مسافر پھرتے ہیں تیرے پیار کو سینوں میں بسا کے ہیں کتنے ہی پابند سلاسل وہ گنہگار نکلے تھے جو سینوں پہ ترا نام سجا کے میں اُن سے جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین دل منتظر اُس دن کا کہ ناچے انہیں پاکے عُشاق ترے جن کا قدم تھا قدم صدق جاں دے دی نبھاتے ہوئے پیمان وفا کے چھت اُڑ گئی سایہ نہ رہا کتنے سروں پر ارمانوں کے دن جاتے رہے پیٹھ دکھا کے اتنا تو کریں اُن کو بھی جا کر کبھی دیکھیں ایک ایک کو اپنا کہیں سینے سے لگا کے آداب محبت کے غلاموں کو سکھا کے کیا چھوڑ دیا کرتے ہیں دیوانہ بناکے؟ دیں مجھ کو اجازت کہ کبھی میں بھی تو روٹھوں لطف آپ بھی لیں رُوٹھے غلاموں کو منا کے
36 لیکن مجھے زیبا نہیں شکوے میرے مالک یہ مجھ سے خطا ہو گئی اوقات بُھلا کے دیوانہ ہوں دیوانہ بُرا مان نہ جانا صدقے میری جاں آپ کی ہر ایک ادا کے سنیئے تو سہی پگلا ہے دل، پگلے کی باتیں ناراض بھی ہوتا ہے کوئی دل کو لگا کے ٹھہریں تو ذرا، دیکھیں ، خفا ہی تو نہ ہو جائیں جانا ہے تو کچھ درس تو دیں صبر ورضا کے جو چاہیں کریں صرف نگہ ہم سے نہ پھیریں جو کرنا ہے کر گزریں مگر اپنا بتا کے فطرت میں نہیں تیری غلامی کے سوا کچھ نوکر ہیں اڑن سے تیرے چاکر ہیں سدا کے اس بار جب آپ آئیں تو پھر جاکے تو دیکھیں کر گزروں گا کچھ.اب کے ذرا دیکھیں تو جائے (1986)
37 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) میری سجدہ گاہ کو لوٹ لو میری جبیں کو لوٹ لو میرے عمل کو لوٹ لو اور میرے دیں کو لوٹ لو میری حیات وموت کا مالک ہو کوئی غیر کیوں تم میری ہاں کولوٹ لو، میری نہیں کوٹوٹ لو رنج و طرب مرا سبھی بس ہو تمہارے واسطے روح سرور کوٹ لو قلب حزیں کو لوٹ لو نانِ جویں کے ماسوا دل کو مرے ہوس نہیں چا ہو تو اے جاں آفریں نان جویں کو لوٹ لو جب جاں تمہاری ہو چکی تو جسم کا جھگڑا ہی کیا مرا آسمان تو کٹ چکا اب تم زمیں کو لوٹ لو گھر بار یہ میرا نہیں اور میں بھی کوئی غیر ہوں؟ اے مالک کون و مکاں آؤ مکیں کو لوٹ لو (الفضل 13 اکتوبر 1948ء)
38 حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب مرزاشه (اللہ آپ سے راضی ہو ) اے خدا مجھ کو تو دُنیا میں مزا آتا نہیں اس جہاں کا کوئی بھی منظر مجھے بھاتا نہیں ہر طرف کفر و فساد و افترا ہے موجزن ہائے کیوں...اپنی شان دِکھلاتا نہیں ہو ضلالت کی ترقی اور فنا کی دیکھ کر یہ حال مجھ سے تو رہا نہیں جاتا جس کو دیکھو کفر پر اور دہریت پہ ہے فدا دینِ حق کا آج کل کوئی بھی غم کھاتا نہیں جان دیتا ہے زمانہ اب فجور وفستق پر حق کا کوئی چاہنے والا نظر آتا نہیں ہر جگہ ادیانِ باطل ہیں اُڑاتے بیرتیں کیا ہوا کیوں پر چیم لہراتا نہیں کفر منزل آوج کی طے کر رہا ہے رات دن تجھ سے اے...کیوں آگے بڑھا جاتا نہیں کیا خفا ہم سے ہے یا خود دین سے بیزار ہے اے خُدا مجھ کو بھی کیا...اب بھاتا نہیں کیا ارادہ ہے ترا کو کر دے فنا یا کوئی اس دین کے قابل نظر آتا نہیں جان و مال و عزت و جاہ و حشم قربان ہیں کیا ہوا گر احمدی...بھی کہلاتا نہیں عہد کرتے ہیں کے ہم ہر چیز سے تیار ہیں ظلم اب...پر ہم سے سہا جاتا نہیں جان و دل حاضر ہیں تری راہ میں پراے خدا بے مدد ان نیم جانوں سے لڑا جاتا نہیں چاہتے ہو تم اگر......پھر پھولے پھلے چھوڑ دو وہ راگ جس کو آسماں گاتا نہیں
39 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (اللہ آپ سے راضی ہو ) 1 میرے مولا میرے ولی و نصیر میرے آقا میرے عزیز و اے مجیب الدعا سمیع و بصیر قادر و مقتدر قدير و خبير دل کی حالت کے جاننے والے اپنے بندوں کی ماننے والے آے ودور و رؤف رَبِّ رحیم اے غفور، اے میرے عفو و حلیم لطف کر بخش دے خطاؤں کو ٹال دے، دور کر بلاؤں کو شافی و کافی و حفیظ و سلام مالک و خالق الخلق، ربي رقی الا على می و ذوالجلال و الاکرام قیوم، محيي الموتى واسطه کو تیری قدرت کا واسطه کو تیری رحمت کا اپنے نام کریم کا صدقہ اپنے فضل عظیم کا صدقہ کو تیرا ہی واسطہ پیارے میرے پیاروں کو دے شفا پیارے (آمین) 2 الفضل 24 فروری 1949ء) مولا میرے قدیر مرے کبریا مرے پیارے مرے حبیب مرے دل با مرے بار گنہ بلا ہے مرے سر سے ٹال دو جس راہ سے تم ملو مجھے اس رہ پہ ڈال دو
40 اک نور خاص میرے دل و جاں کو بخش دو میرے گناہ ظاہر و پنہاں کو بخش دو بس اک نظر سے عقدہ و دل کھول جائیے دل لیجئے مرا مجھے اپنا بنائیے ہے قابلِ طلب کوئی دُنیا میں اور چیز؟ تم جانتے ہوتم سے سوا کون ہے عزیز؟ دونوں جہاں میں مایہ راحت تمہیں تو ہو جو تُم سے مانگتا ہوں وہ دولت تمہیں تو ہو (الفضل 9 مارچ 1940ء) 31 اے محسن و محبوب خدا اے مرے پیارے اے قوت جاں اے دل محزوں کے سہارے اے شاہ جہاں نورِ زماں خالقِ باری ہر نعمت کونین تیرے نام پہ واری یارا نہیں پاتی ہے زباں شکر وثنا کا احسان سے بندوں کو دیا اذن دُعا کا کیا کرتے جو حاصل یہ وسیلہ بھی نہ ہوتا یہ آپ سے دو باتوں کا حیلہ بھی نہ ہوتا تسکین دل و راحتِ جاں مل ہی نہ سکتی آلام زمانہ سے اماں مل ہی نہ سکتی پروا نہیں باقی نہ ہو بے شک کوئی چارا کافی ہے ترے دامنِ رحمت کا سہارا مایوس کبھی تیرے سوالی نہیں پھرتے بندے تری درگاہ سے خالی نہیں پھرتے مالک ہے جو تو چاہے تو مُردوں کو چلا دے اے قادر مطلق مرے پیاروں کو شفا دے ہر آن ترا حکم تو چل سکتا ہے مولے وقت آ بھی گیا ہو تو وہ مل سکتا ہے مولے تقدیر یہی ہے تو یہ تقدیر بدل دے تو مالک تحریر ہے ”تحریر بدل دے؛ (آمین) (الفضل 3 مارچ 1949ء)
41 4 کیا التجا کروں کہ مجسم دُعا ہوں میں سرتا بہ پا سوال ہوں سائل نہیں ہوں میں میری خطائیں سب ترے غفراں نے ڈھانپ لیں اب بھی نگاہ لطف کے قابل نہیں ہوں میں؟ وحشت مری نہیں ابھی ہم پایہ جنوں اہل خرد پہ بار ہوں عاقل نہیں ہوں میں میرا کوئی نہیں ہے ٹھکانا تیرے سوا تیرے سوا کسی کے بھی قابل نہیں ہوں میں مٹتی ہوئی خودی نے پکارا کہ اے خُدا! آجا کہ تیری راہ میں حائل نہیں ہوں میں یہ راگ دل کا راز ہے سن درد آشنا کچھ ہمنوائے شور عنادل نہیں ہوں میں ( در عدن)
42 محترمه سیده صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبه میری سادگی دیکھ کیا چاہتی ہوں تجھے مانگنا چاہتی ہوں تجھی چھپاؤں میں کیوں راز اُلفت کا اپنی میں باب محبت گھلا چاہتی ہوں میرے ساز دل کو نہ چھیڑو، نہ چھیڑو میں اک نغمہ نو بھرا چاہتی ہوں محبت بھی ، رحمت بھی ، بخشش بھی تیری میں ہر آن تیری رضا چاہتی ہوں اطاعت میں اس کی سبھی کچھ ہی کھو کر میں مالک کا بس آسرا چاہتی ہوں میرے خانہ دل میں بس تو ہی تو ہو میں رحمت کی تیری رداء چاہتی ہوں (مصباح اپریل مئی 1987ء)
43 دورِ اوّل
44 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) (1) دعا اے آنکہ میرے واقف اسرار ہو تم ہی دلبر تم ہی نگار تم ہی یار ہو تم ہی کوئی نہیں جو رنج و الم سے کرے رہا یاں دل شکن بہت ہیں پہ دلدار ہو تم ہی دروازہ اور کوئی بھی آتا نہیں نظر جاؤں میں کس طرف کو جو بیزار ہو تم ہی تم سا کسی میں حسن گلو سوز ہے کہاں عالم کی ساری گرمی بازار ہو تم ہی لینے کا اس متاع کے کس کو ہے حوصلہ لے دے کے میرے دل کے خریدار ہو تم ہی اعمال ہیں نہ مال نہ کوئی شفیع ہے اب بات تب بنے جو مددگار ہو تم ہی تم سے نہ گر کہوں تو کہوں کس سے جا کے اور اچھا ہوں یا بُرا میری سرکار ہو تم ہی اب لاج میری آپ کے ہاتھوں میں ہے فقط ستار ہو تم ہی میرے غفار ہو تم ہی درماندہ رہ گیا ہوں غضب تو یہی ہوا کیجئے مدد! کہ چارہ آزار ہو تم ہی یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم مجو نالہ جرس کارواں رہے الفضل 2 فروری 1943ء)
45 2 علاج درد دل تم ہو، ہمارے دلربا تم ہو تمہارا مدعا ہم ہیں، ہمارا مدعا تم ہو مری خوشبو، مرا نغمہ، میرے دل کی غذا تم ہو مری لذت، مری راحت ، مری جنت ،شہا تم ہو میرے دلبر، مرے دلدار، گنج بے بہا تم ہو صنم تو سب ہی ناقص ہیں فقط کامل خدا تم ہو مرے ہر درد کی ، دکھ کی ، مصیبت کی، دوا تم ہو رجا تم ہو، غنا تم ہو، شفا تم ہو، رضا تم ہو جفا میں ہوں ، وفاتم ہو ، دعا میں ہوں ، عطا تم ہو طلب میں ہوں ،سخا تم ہو، غرض میرے پیا تم ہو مرادن تم سے جگمگ ہے، مرے شب تم سے ہے جھم جھم میرے شمس الضحی تم ہو، مرے بذر الڈ جا تم ہو بجھائی کچھ نہیں دیتا، تمہارا گر نہ ہو جلوہ کہ دل کی روشنی تم ہو، اور آنکھوں کی ضیا تم ہو ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لاعلمی وہ علام الغیوب اور واقفِ سر و خفا تم ہو بہت صیقل کیا ہم نے جلا دیتے رہے ہر دم کہ تا اس دل کے آئینے میں میرے رونما تم ہو کہاں جائیں؟ کدھر دوڑیں کے پوچھیں کہاں پہنچیں بھٹکوں کو سنبھالو، ہادی راہِ ہدی تم ہو تم ہی مخفی ہو ہرئے میں تم ہی ظاہر ہو ہرئے میں ازل کی ابتدا تم ہو، ابد کی انتہا تم ہو اگست پشت آدم میں کہا تھا جس کو وہ میں تھا سنا قول ملی جس نے وہ میرے ربنا تم ہو تباہی سے بچا کر گود میں اپنی مجھے لے لو کہ فانی ہے یہ سب دنیا، بس اک روح بقا تم ہو میں شاکر گر ہوں نعمت کا، تو صابر بھی مصیبت پر کہ اُلفت کی جزا تم ہو، محبت کی سزا تم ہو ہر اک خوبی میری فیض خداوندی کا پر تو ہے خرد، حکمت، بصیرت ، معرفت، ذہن رسا تم ہو میر ا ہر جا کہ ئے بینم، رخ جاناں نظر آید حیات جسم، نور روح، عالم کی ضیا تم ہو لگایا عشق ہم سے خود تو پھر ہم بھی لگے مرنے تمہارے مُجدا ہم تھے، ہمارے منتہا تم ہو
46 عنایت کی نظر ہو کچھ کہ اپنی ہے حقیقت کیا تمہاری خاک پا ہم ہیں، ہماری کیمیا تم ہو بھنور میں میری کشتی ہے بچا لوغرق ہونے سے حوالے یہ خدا کے ہے اب اس کے ناخدا تم ہو شب تاریک و بیم موج و گردا بے چنیں ہائل مصائب خواہ کتنے ہوں ہمارا آسرا تم ہو ہر اک ذرے میں جلوہ دیکھ کر کہتی ہیں یہ آنکھیں تم ہی تم ہو، تم ہی تم ہو، خدا جانے کہ کیا تم ہو نہ تم اس ہاتھ کو چھوڑو، نہ ہم چھوڑیں گے یہ دامن غلام میرزا ہم ہیں خدا ئے میرزا تم ہو الی بخش دو میری خطائیں میری تقصیریں کہ غفار الذنوب اور ماحی جرم و خطا تم ہو منا جاتیں تو لاکھوں تھیں مگر اک جنبش سر سے پسند اس کو کیا جس نے وہ میرے کبریا تم ہو 31 دعائے من خدائے من خدائے من، دوائے من شفائے من قبائے من ردائے من، رجائے من ضیائے من قبول گن، دُعائے من، دُعائے من ندائے من ندائے من نوائے من، نوائے من صدائے من میں بندہ ہوں ترا غریب، تُو ہے مرا خدا عجیب میں دُور ہوں تو ہے قریب ہمیں مانگتا ہوں اے مُجیب تو ہی دوا، تو ہی طبیب، تو ہی مُحِب تو ہی حبیب خدائے من خدائے من، قبول گن دُعائے من
47 زمین و آسماں کا نور، مکان و لامکاں سے دُور ہمہ صفت، ہمہ سُرور، خدائے ذوالجلال طور قبول کر دُعا ضرور، میرے خدا، میرے غفور خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من معاف کر سزا مری، گناہ میرے جفا میری قبول کر دُعا مری، صدا و التجا میری کہ بخشا نہیں کوئی، ترے سوا خطا مِری خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من ہماری تو پکار سُن، صدائے اشکبار سُن نوائے بیقرار سُن، ندائے اضطرار سُن دُعائے شرمسار سُن، اے میرے غمگسار سُن خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من گناہ سے ہم کو دُور رکھ، دلوں کو پرز نور رکھ نشے میں اپنے چور رکھ، ہمیشہ پر سرور رکھ نظر کرم کی ہم پہ تو ، ضرور رکھ، ضرور رکھ خدائے من خدائے من، قبول گن دُعائے من پڑھیں کلام حق بشوق، عبادتوں میں آئے ذوق اُتار غفلتوں کے طوق، اُڑیں فضا میں فوق فوق یہ مسجدیں ہیں تیرے گھر ، ہم ان میں جائیں جوق جوق خدائے من خدائے من، قبول گن دُعائے من ترقیاں مدام دے، مسرتوں کا جام دے نجات کا پیام دے، ے، گشوف دے، کلام دے
48 حیات دے، دوام دے، فلاح دے، مرام دے خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من ہدائتیں، کرامتیں، حکومتیں، خلافتیں شہادتیں، صداقتیں ہوتیں ولایتیں بصیرتیں، ورایتیں، لیاقتیں، سعادتیں ملیں ہمیں خدائے من، قبول گن دُعائے من بلندیاں خیال کی ترقیاں کمال کی تجلیاں جمال کی فراخیاں نوال کی بڑھوتیاں عیال کی، شجاعتیں رجال کی بده به ما، خدائے من، قبول کن دُعائے من دوائے دل شفائے دل، جلائے دِل، صفائے دل وفائے دِل، سخائے دل، ہدائے دل، ضیائے دل مرابده، خدائے دل، مُراد و مدعائے دل خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من فنون دے، علوم دے، فتوح دے، رقوم دے جو نسل بالعموم دے، وہ مہر و مہ، ، نجوم دے نئے مبائعین کا، ہر ایک جا ہجوم دے خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من نوا، صدا، دعا، بكا، حيا، وفا، غنا، سخا عطا، جزا، هدی، تھی، فنا، بقا، لقا، رضا مرے خدا، مرے خدا، بده ه بما، بده بما خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من
49 تیرے وہ دیں کی خدمتیں، تیری وہ خاص برکتیں تری عجیب نصرتیں، تری لذیذ نعمتیں تری لطیف جنتیں، غرض تیری محبتیں نصیب ہوں خدائے من، قبول گن دُعائے من الہی عفو و مغفرت، خدایا قرب و معرفت مناسبت مشابهت مکالمت مخاطبت مطابقت موانست، ملیں ہمیں بعافیت خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من یہ قلب پرامید ہے، مسرتیں ہیں، عید ہے بشارت و نوید ہے، کہ خاتمہ سعید ہے نہیں یہ کچھ عجب، کہ تو، حمید ہے، مجید ہے خدائے من خدائے من، قبول گن دُعائے من بیا بیا نگار من، نگه نگہ، بہار من پینه پینه، حصار من، مدد مدد، اے یار من بہشتی مقبرہ بنائے گن مزار من خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من درود مصطفی سلام ہو، صلواۃ مرزا مقتدا (ایده) ہو، دعا ہر جو اپنا کارساز ہو آشنا ہو ہے، تو کل اُس خدا پر ہو خدائے من، خدائے من، قبول گن دُعائے من آمین (الفضل 12 / مارچ 1943ء)
50 حضرت میر ناصر نواب صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) 1 میں نہیں مانگتا کہ تو زر دے فضل اینا تو اے خدا کردے جس سے باطل خیال ہوں سب دور اس قدر اینا مجھ کو تو ڈر دے دل وہ دے جس میں ہو تیری اُلفت سرکشی سے بری ہو وہ سر دے تجھ تلک جن سے اُڑ کے میں پہنچوں اس قدر تیز تر مجھے پر دے خلق پر مجھ کو اے مرے مولا رحم و شفقت مثال مادر دے میں فرشتہ بنوں محال ہے یہ مجھ کو انسانیت کے جوہر دے میرے ناصر تو میری نصرت کر نیک تو مجھ کو یار و یاور دے تو بھی خارج کرے نہ جس سے کبھی عیش وعشرت کا مجھ کو وہ گھر دے دشمنوں کو کرے ہلاک و تباہ ایسا اک تیز مجھ کو خنجر دے ایسے خنجر میں یہ بھی ہو تاثیر دل کے زخموں کو مندمل کر دے راہ میں تیری جو ہیں سر بسجود خاک پا اُن کی مجھ کو تو کردے ناصر بے نوا ہے تیرا فقیر جھولی اس کی تو فضل سے بھر دے ( بدر قادیان 12 راگست 1909ء)
51 2 خدا کی حمد ہے انساں په لازم ہے اس کا شکر انس و جاں پہ لازم ادائے حمد ہو کیوں کر زباں سے زباں ایسی کوئی لائے کہاں سے خدا کے فضل سے ہوتے ہیں سب کام کہ بے گنتی ہیں اسکے ہم پہ انعام زمین و آسماں اس نے بنائے ملائک اور بشر اُن میں بسائے اُسی نے مہر و ماہ کو روشنی دی بنائی اُس نے گردش روز و شب کی بنائے آسماں میں اُس نے تارے دکھائے خوشنما اُس نے نظارے کروڑوں ہیں جہاں میں کارخانے پڑے لٹتے ہیں یاں لاکھوں خزانے اسی کا ہے یہاں سب کو سہارا بغیر اُس کے نہیں دم بھر گزارا زمیں میں سیم و زر اُس نے دبایا پہاڑوں میں جواہر کو چھپایا ہزاروں جانور اُس نے بنائے پروں والے ، دو پائے ، چار پائے درختوں سے کیا دنیا کو سر سبز پرندوں کو دئے ہیں اُس نے پر سبز وہی دنیا برساتا ہے بادل وہی کرتا ہے پیدا پھول اور پھل ہمیں ہر دم درختوں میں لگاتا ہے وہ میوے کھلاتا ہے وہ میوے ہے وہی بالوں میں دانے بجز اسکے یہ حکمت کون جانے لگاتا بنایا اُس نے کیسا پاک پانی کہ ہے موقوف جس پر زندگانی ہوا کیا اُس نے پاکیزہ بنائی کہ جس سے زندگی دُنیا نے پائی اُسی نے آگ کو پیدا کیا ہے ہمیں سامان عشرت سب دیا ہے سمندر اور پہاڑ اُس نے بنائے که خلقت فائدہ اُن سے اُٹھائے
52 اُسی نے ہم کو مٹی سے بنایا عدم سے وہ ہمیں ہستی میں لایا اُسی نے روح پیدا کی ہماری اسی نے جسم کی حالت سنواری اُسی نے ہم پر رحمت کی نظر کی اُسی نے ہم کو اپنی معرفت دی اُسی نے ہم کو عقل و ہوش بخشے اُسی نے ہم کو چشم و گوش بخشے کیا اُس نے ہمیں شنوا و بینا جڑا آنکھوں کے حلقوں میں نگینہ بنائے دست و پا موزوں و چالاک عطا کی ہم کو اُس نے صورتِ پاک اُسی نے یہ لب و دنداں بنائے عجب یا قوت اور موتی لگائے بنائی اُس نے چہرہ یہ عجب ناک نہ ہو اک ناک تو عزت نہیں خاک دئے اُس نے ہمیں کام و دہاں خوب اسی نے ہم کو بخشی ہے زباں خوب زباں اپنے کرم سے اُس نے کھولی سکھائی ہے اُسی نے ہم کو بولی ہمیں اس نے دیئے ہیں سخت بازو بنایا ہے اُسی نے ہم کو خوش رُو قد رعنا عطا اس نے کیا ہے تناسب اُس نے اعضا کو دیا ہے اسی نے ماں کی چھاتی میں دیا دودھ کرم سے یا عمل سے ہے لیا دودھ؟ بلا شک ہے وہی ہم کو جلاتا سدا وہ ہے کھلاتا اور پلاتا ہے خبر گیراں ہمارا ہے چارا ہمیشہ مریضوں کا وہی کرتا وہی ہے جسم جسم اور جاں کا محافظ ہمیشہ ہے وہ انساں کا محافظ نگہباں ہے زمین و آسماں کا بلا شرکت ہے وہ مالک جہاں کا نہ نہ بیٹا ہے نہ باوا ہے بھائی اکیلا کر رہا ہے وہ خدائی
3 | 53 میں مشکلات میں ہوں مشکل گشا تو ہی ہے محتاج ہوں میں ترا حاجت روا تو ہی ہے دُکھ درد ہیں ہزاروں رکس کس کا نام لوں میں بندہ ہوں میں تو عاجز میرا خُدا تو ہی ہے نیچے رسول تیرے سچی تری کتابیں سب گمرہوں کا لیکن اک راہ نماتو ہی ہے صد ہا طبیب حاذق لاکھوں ہی ہیں کتابیں لیکن مرے پیارے دل کی دوا تو ہی ہے کچھ بھی ہمیں تو آتا تجھ بن نظر نہیں ہے پوشیدہ بھی تو ہی ہے اور بر ملا تو ہی ہے تیرے سوا نہیں ہے دلدار کوئی ہر گز قربان جس پر دل ہو وہ دلربا تو ہی ہے ہو باپ یا کہ ماں ہو بیوی ہو یا کہ بیٹا! ہیں چار دن کے ساتھی لیکن سدا تو ہی ہے جو تیرے پاس آیا ، اس نے ہی لطف پایا گل بے وفا ہے دُنیا اک با وفا تو ہی ہے جس نے نہ تجھ کو دیکھا بیشک ہے وہ تو اندھا آنکھوں کا نور تو ہی دل کی ضیا تو ہی ہے نیکوں کو نیک رستہ دکھلا رہا ہے تو ہی ہاں فتنہ جو کی خاطر بس فتنہ زا تو ہی ہے جس جس ادا پہ ہوتے فر باں ہیں سب رنگیلے میں تیرے منہ کے صدقے وہ خوش ادا تو ہی ہے
54 حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی (اللہ آپ سے راضی ہو ) 1 اے میرے محسن اے میرے خدا اک ہوں ناکارہ میں بندہ تیرا پر گناہوں سے ہوں اور غفلت سے سر میرا اٹھ نہ سکے خجالت سے ظلم پر ظلم ہوا مجھ سدا تو نے انعام انعام کیا دیکھے عصیاں عصیاں تو نے کئے احساں احساں تو نے انتہا ہے نہ تری رحمت کی پرده پوشی کی ہمیشہ میری متمتع کیا ہر نعمت سے بار بار گن نہیں سکتا ہوں میں احسان تیرے رحم کر اب بھی تو نالائق تیرا بندہ ہوں میں عاجز مضطر پر جس قدر مجھ سے ہوئی بے باکی ناسپاسی ہوئی مجھے سے جتنی فضل سے کر تو معاف اے مولا تیری رحمت کا بڑا ہے دریا دے چاره رہائی مرے اس غم سے مجھے گر ہے نه کوئی جو تیرے (حیات قدسی جلد سوم صفحہ 13)
2 IN 55 کر وہ عمل کہ جس کی جزا میں خدا ملے ہمت بلند کر کہ یہی مدعا ملے گر مل گیا خدا تجھے سب کچھ ہی مل گیا باقی وہ کیا رہے گا جو رب العلمی ملے گر ذوقِ دید و وصل خدا چاہیے تجھے کوشش سے کر دُعا تجھے عشق خُدا ملے جب تک کسی کو بھوک نہ ہو اور پیاس ہو کھانا لذیذ بھی ہو نہ اُس کو مزا ملے ہر اک مرض کے واسطے خالق ہے خود دوا اے کاش اس علاج سے تجھ کو شفا ملے دُنیا بدل رہی ہے تغیر سے روز وشب جو بے بدل ہے کاش وہ عین البقاء ملے جو کچھ بغیر حق کے ہے باطل ہے جانِ من طالب تو حق کا بن کہ تجھے حق نُما ملے عالم ہے مثلِ آئینہ ربّ جہان کا جب آئینہ ہو صاف تو عکس صفا ملے ہے واجب الوجود ازل سے ابد تلک ممکن بھی ہے وجوب نما گر ہدا ملے دنیا میں یہ نظام شریعت بھی راز ہے قدرت کا ہر نظام بھی اس سے ہی آملے خلاصہ سبھی کائنات کا ہے سرِ کائنات جو عقدہ کشا ملے انسان ہے اک دائرہ کی شکل میں ہستی کا دور ہے جیسے کہ سر قدس سے قدوس آملے قدسی درخت ہستی اقدس کا ہے ثمر نقطہ انتہا سے ہی ہر ابتدا ملے
56 حضرت سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (اللہ آپ سے راضی ہو ) پناه در کار ہے مجھ کو خدا کی نہ شیطان الرجیم بے حیا کی بھروسہ ہے فقط نام خدا کا بڑا جو مہرباں ہے رحم والا بحمد آنکه نام پاک صفت اک یہ کہ رب العالمیں رَبُّ ہے اک مخلوق سے بالا ترین ہے الله صفات اپنی میں ہے وہ ذات یکتا ہر پھر اک رحمان پیارا نام اُس کا ہے جاری جس سے فیض عام اس کا رحیم بندگانِ بندگان مخلصیں ہے پناہ اس کو سوا اُس کے نہیں ہے وہی مالک ہے بس روز جزا کا کرے گا فیصلہ ما و شما کا ہے بندگی اللہ ہمارے ترے مسکین بندے ہم ہیں سارے تجھے مدد کر تو ہماری رب ہم کو اعلیٰ تو خود کردے ہمارا بول بالا براہِ راست رحمان عطا کر تو ہمیں فضل فراواں ترے بندے جو ہیں مخلوق رحیما عطا جن انہیں کی راہ پر ہم کو چلا تو انہیں منعم ہوئی تیری کریما علیهم میں ملا تو غضب جن پر ترا اے مالک آیا ہلاکت اور مصیبت میں پھنسایا جو بیٹھے چھوڑ ہیں راہِ صفا کو ہوئے گمراہ جو بھولے بدی کو ہمیں اُنکی روش سے تو بچانا اُنکی راه چلانا سکھایا تو نے خود ہے اس دُعا کو تو منظور کر اس التجا کو پر ہم
57 نہیں طاقت سوا تیرے کسی میں کہ کام آوے کسی کی بے کسی میں ہیں بیکس تو ہمارے کام آنا ہمارے کام خود تو ہی بنانا ہیں بیچارے تو خود کر چارہ سازی ترے بندے ہیں کر بندہ نوازی ہمارے کام میں تو یار ہو جا جو ہو جا تو بیڑا خدا تو تری ہے خدائی ہے تری درگاه پار ہو جا کرے بندوں کی تو حاجت روائی نہیں جاتا یہاں سے کوئی خالی درگاه عالی ہے عمل میں ہم بھلے ہیں یا بُرے ہیں غرض جو کچھ کہ ہیں بندے ترے ہیں بروں کو نیک کرنا کام ترا بڑا زمین و آسماں کا تو خالق ہے ہے بڑا ہے نام تیرا ہر اک مخلوق کا تو ہی ہے رازق ہر اک جاں تجھ سے اے جانِ جہاں ہے تو رب لعالمیں ہے مہر باں ہے ہو تجھ سے نیستی کا ہست کرنا پھر ہستی کا بند تری ہر شئے ہے اور تجھ سے ہے پیدا و بست کرنا عالم کئے تو نے ہویدا ہر اک شے تجھ سے پر تجھ سی نہیں ترا ثانی نہیں ہے بنانا اس کو اور اس کو گرانا یوں ہی چلتا ہے ترا کارخانه ممکن کہیں ہے الحکم نمبر 54، جلد 7، 10 اکتوبر 1908ء)
58 حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی بہت جا سر کو پیڑکا درد غم ނ بہت جا خاک چھانی غم الم ނ بہت جا داغ سینوں کے دکھائے بہت جا اشک رو رو کے بہائے مگر تجھ بن پایا کوئی ایسا جو مطلب میرا پر لائے خدایا اب محروم ہو کر سب جگہ سے گرا ہوں سرنگوں میں در ترے بن کون پکڑے ہاتھ میرا ترے بن کون دیوے ساتھ میرا ترے مگر مشکل ہے مطلب میرے دل کا کہ روشن تجھ ہے سب حال میرا فقط اک عشق تیرا چاہتا ہوں تجھے تجھ خدایا چاہتا ہوں (الفضل نومبر 2003ء)
59 حضرت مولانا ذوالفقار علی خان گوہر خواب میں اک بار پھر اپنی جھلک دکھائیے پرده ظلمت خودی دل سے مرے اٹھائیے لب پہ ہیں آہ و زاریاں دل میں ہیں بیقراریاں آئیے آئیے ضرور صبر و قرار لائیے وہ بھی ہے کوئی زندگی جس میں سکونِ دل نہ ہو غم سے نجات دیجیئے آ کے مجھے جلائیے میں ہوں ضعیف و نا تواں بارِ گنہ سے نیم جاں اے میری جانِ آرزو آکے مجھے بچائیے آپ نے راہِ عشق میں ہم کو کھڑا تو کر دیا آبلہ پائی کا علاج بہر خدا بتائیے ہائے یہ جانِ خستگی، ہائے یہ دل شکستگی جلوہ رُخ دکھا کے آپ آگے ہمیں بڑھائیے موت قدم قدم پہ ہے صبر و رضا کی راہ میں زندگی دوام کی راہ ہمیں دکھائیے دہریت اور شرک میں ہوگئی مبتلا زمیں فق و کجور ظلم کو دہر سے اب مٹائے كذب و دغا و جور ہے، خود غرضی کا دور ہے وضع جہاں کچھ اور ہے درسِ وفا پڑھائیے گوہر خستہ جان و دل آتش غم سے مضمحل سینہ سے اب لگائیے دل کی لگی بجھائیے
60 حضرت مولوی محمد نواب خانصاحب ثاقب میرزاخانی مالیر کوٹلوی 1 اپنا دیوانہ بنالے اے مرے مولا مجھے آ کہیں جلدی دکھا دے چہرہ زیبا مجھے ماسوا کی حسن و خوبی دل میں گھر کرتی نہیں دل سے بھاتا ہے تری خوبی کا بس نقشہ مجھے تری خوبی تری یکتائی تری رنگیں صفات محو الفت کر گیا مولا ترا کیا کیا مجھے کھو چکا ہوں میں تیری الفت میں سب عقل وشعور میں بہت خوش ہوں بنالے اپنا دیوانہ مجھے تو ہی تو ہے تجھ سوا ہے کون پیارے دلربا بیچ آتی ہے نظر دُنیا و مافیھا مجھے تو نے دے رکھی ہے جسکو دولت ایمان و دیں کیوں رہے باقی بھلا دل میں کوئی شکوہ مجھے تیرے ملنے کے سوا دل میں کوئی حسرت نہیں کیوں ستائے دل کو حسرت کا کوئی کانٹا مجھے تُو نے خود مجھ کو بڑھایا تو نے دی اولاد نیک تو نے گھر مرا بسایا دے کے اک کنبہ مجھے
61 تو ہی اُنکا ہے سہارا تو ہی اُنکا ہے کفیل مجھ کو کیا غم ہے جو تجھ سا مل گیا آقا مجھے جتنے دنیا میں بنے پھرتے ہیں آقائے جہاں ڈال ان جھوٹے خداؤں سے نہ تو پالا مجھے تیرے در پہ جھک چکا اب تو سر عجز و نیاز اب تری رزاقیوں پہ ہے بڑا دعوی مجھے میرے مولا میرے مالک تو ہے اک سچا خُدا لاج ہے مجھ کو خدائی کی نہ کر جھوٹا مجھے میرے سارے کام میرے گھر کے سارے انتظام پورے کر کے کردے بے فکر اے شہ والا مجھے تیرا ہو کر ہاتھ پھیلاؤں کسی کے سامنے در پہ بیگانے کے بھیجے کرکے تو اپنا مجھے؟ درد دل کہنے کو آج آیا ہوں میں تیرے حضور بندہ پرور اپنے بندوں کا نہ کر بندہ مجھے 2 کیا خوب ہے اے خدا خدائی تیری ہے حسن ہی حسن خود نمائی تیری جس دل میں درد نہیں تیری الفت کا وہ دل ہی نہیں خدا دہائی تیری
62 دل میں پایا تجھے عشاق نے جو یا ہوکر جس نے دیکھا ہے تجھے دیکھا ہے تیرا ہو کر روشنی دیده یعقوب نے پائی تجھ سے تو ہے، پایا جسے یوسف نے زلیخا ہو کر تاب نظارہ کہاں اُن میں سرِ طور رہی آرنی کہتے ہوئے پہنچے جو موسے ہوکر تیرے غم میں ہے عجب لذت جاوید اُسے کیا کرے گا یہ دل غمزدہ اچھا ہوکر تجھ پہ مرتے ہیں جو ہیں زندہ و جاوید وہی کیا جلائے گا انہیں کوئی مسیحا ہوکر تجھ پہ خوبانِ جہاں جان فدا کرتے ہیں جان و دل چھینتے ہیں گوستم آرا ہو کر تو رفیق دلِ مضطر تو انیس دلِ زار ہم نے جانا یہ تیرے نام پہ شیدا ہو کر حسن و خوبی میں تو یکتا ہے خدو خال میں ایک حسن و خوبی میں دکھا دے کوئی تجھ سا ہوکر لا مکاں کہتے ہیں تجھ کو عجب بات ہے یہ خانہ دل میں تو بیٹھا ہے خود آرا ہوکر اپنے بیگانہ سے بیگانہ وبے مہر ہوں میں بندہ و بت تیرے کوچہ کا شناسا ہوکر تو ہو اور آئینہ دل وہ ترا حسن تمام دیده شوق رہے محو تماشا ہو کر آج پھر بزم حضوری میں وہی شعر و سخن ثاقب آئے ہیں یہاں بندہ شیدا ہو کر
63 جناب سید حسین ذوقی صاحب (حیدر آباد دکن) اے کہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى اے کہ رَحْمَانِ رَبِّيَ الْأَعْلَى میرے اللہ اے میرے الله بندے بے شک ہیں سب ترے اللہ سب کا رحمان ہے رحیم ہے تو سب کا مالک ہے تو کریم ہے تو سب کا خالق ہے سب کا تو مختار سب کا ستار سب کا ہے غفار کام سب کے نکالنے والا تو ہے فکروں کو ٹالنے والا جان مُردوں میں ڈالنے والا اور زندوں کو پالنے والا وحده لا شریک تیری ذات آپ اپنی مثال تیری صفات تو ہی مشکل گشا ہمارا ہے تیری ہی ذات کا سہارا ہے میرے غفار اے مرے ستار میں ہوں مجبور اور تو مختار به ہزاراں ادب میرے مولی بخش اور میری پردہ پوشی کر تیری درگاہ میں یہی ہے دُعا ے ستار اے مرے داور میرے کر نہ تو مجھ کو غیر کا محتاج گر رہوں تو رہوں ترا محتاج دور ہر دل بیر ہو جائے عاقبت بھی بخیر جائے
64 جناب ظہور الدین اکمل صاحب 1 بڑھ چلا حد سے مرافق و کچھ راے مولیٰ کر رہا ہوں میں قصور پر قصوراے مولیٰ تو نے انعام پہ انعام کیئے ہیں مجھ پر سب سے بڑھ کے تو ہے مہدی کا ظہور اے مولیٰ میں پشیماں ہوں بڑا اپنی غلط کاری پر بخش دے مجھ سے ہوئے جتنے قصور اے مولیٰ اور مرے قلب میں وہ نور ہدایت بھر دے جس سے بن جاؤں میں اک عبد شکوراے مولیٰ رات دن تیری عبادت میں ہی مشغول رہوں اور مقبول بنوں تیرے حضور اے مولیٰ پھر اسی خاک میں ہو مسکن و مدفن میرا جس کے ہر ذرہ میں ہے طور کا نوراے مولیٰ اپنے محمود کی شوکت کو نمایاں کر دے سلسلہ میں ہو ترقی کا وجود اے مولیٰ اک بجوں ہو ہمیں کے پھیلانے کا پھونکیں توحید کا ہر وادی میں صور اے مولیٰ خواب غفلت کے جو ماتے ہیں وہ جاگیں جلدی مُردے زندہ ہوں جو ہیں سخت کفوراے مولیٰ اک نبی پاک مسیحائے زماں کے صدقے سُن لے اکمل کی دُعائیں تو ضرور اے مولیٰ
65 2 نہ تڑپ خیال بت میں تو خدا کا یار ہو جا تیرا پیار ہو اسی سے، سے، اُسی ثار ہوجا نہ خزاں کی کچھ غمی ہو.نہ بہار کی خوشی ہو کسی گل کی یاد میں تو میری جان خار ہو جا در یار تک رسائی، ابھی تک نہیں جو پائی وہ تو ملا کے اپنی ہستی ہمہ تن غبار ہو جا ہ طریق میں بتاؤں کہ ہو دین کی اشاعت تو نمونہ بن کے اچھا، ہمہ اشتہار ہو جا جو کرے گا تو تواضع تو عُروج یا ہی لے گا دل داغدار لے کر، مہ نور بار ہو جا کسی کام کی نہیں ہے تری ہو شیاری اکمل کسی مصطبہ میں جاکر ابھی بادہ خوار ہوجا (بدر 19 اکتوبر 1911ء)
66 جناب چوہدری نعمت اللہ خانصاحب گوہر میں شکر کس زباں سے تیرا کروں خدایا اپنے کرم سے تو نے مجھے بنایا قرآن مجھ کو بخشا ، ایمان مجھ کو بخشا عرفان اپنا بخشا نور بدی دکھایا پھیلی ہوئی جہاں میں جب چار سو تھی ظلمت تیرے نبی نے آکر پیغام حق سُنایا انوار دیں سے یکسر عالم ہوا منور مردہ زمیں کو آب رحمت سے پھر جگایا دنیا و دیں کے انعام اتنے ملے جہاں کو جن کا نظیر ڈھونڈے سے بھی نظر نہ آیا ادنی غلام اس کے کرتے ہیں بادشاہی کس قدر تخت اس کا اونچا گیا بچھایا آئے ائمہ دیں سب دور مشکلیں کیں حملوں سے دشمنوں کے اسلام کو بچایا تادیں کی شان و شوکت آگے سے ہو فزوں تر وعدے کو پورا کرنے تیرا مسیح آیا آواز صور گونجی، محشر کا شور اُٹھا سوتے ہوؤں نے خواب غفلت سے سر اٹھایا کچھ اس طرح سے چپکا وہ چودھویں کا مہتاب عالم تمام اس کی کرنوں سے جگمگایا اب تک سرور اُسکا باقی ہے میرے دل میں وحدت کا جام پیارے ساقی نے جو پلایا اے میرے رب اکبر! اے میرے بندہ پرور! فضل و کرم کا تیرے کس نے ہے انت پایا و گوہر کو بھی بھی عطا ہو درگہ میں باریابی جس نے یہ نغمہ تیری حمد و ثنا میں گایا
67 جناب حسن رہتاسی صاحب جس طرح پہلے تھا اُس کا لطف و احساں اب بھی ہے جبيها رب العالمیں تھا اور رحماں اب بھی ہے جس قدر ظاہر تھا پہلے اتنا ہی ظاہر ہے آج جتنا پنہاں تھا نظر سے اتنا پنہاں اب بھی ہے گو نگاه سرسری قاصر ہے اس کی دید سے نَحْنُ أَقْرَبُ کی صداسنتی رگ جاں اب بھی ہے ہم سے پہلے جس قدر انعام اگلوں پر ہوئے تا ابد جاری ہیں وہ ہمومن کا ایماں اب بھی ہے وَالزِينَ جَاهَدُوفينا ہیں زیرِ موهبت میرے دعوے کی موید نص قرآں اب بھی ہے لَيْسَ الْإِنْسَانَ إِلَّا مَاسُعی سننے کے بعد تجھ کو ناحق کسی و وہبی کا خلجاں اب بھی ہے ہستی بے عیب پر طعن تلـون الـحَذَرُ کیا موحد کچھ حریص شرک پنہاں اب بھی بخل کا الزام جس پر تھا پرانا افتراء ہے اُس سراپا حمد پر ویسا ہی بہتاں اب بھی ہے اُس کی رحمت سے جو تھا نومید ہراک عہد میں ابتداء سے تھا وہ شیطاں اور شیطاں اب بھی ہے الفضل قادیان 3 جنوری 1931ء)
68 جناب حکیم خلیل احمد مونگری تیری ذات پاک ہے اے خدا تیری شان جل جلالہ تیرے فضل کی نہیں انتہا تیری شان جل جلالہ تیرا حسن ليس مثاله، ترا ملک لیس زواله نہیں تُجھ سا کوئی بھی دوسرا تیری شان جل جلالہ تیرے قبضہ میں ہے فنا بقا ہے ترے لئے دائمی بقا ہے ہر اک شے موردِ فنا تیری شان جل جلاله تیرا جلوہ ہر جا ہے چھا رہا جانے کس جگہ تو ہے خود چھپا تیرا بھید کوئی نہ پاسکا تیری شان جل جلالہ تو ہے خالق ہر انس و جاں سب ہیں تیرے بندہ ناتواں کہاں ان کا تیرا مقابلہ تیری شان جل جلالہ تو ثمر ہے نخلِ بلند کا میرا ہاتھ کونہ و نارسا ہاں تو خود ہی شاخ لِقاء جھکا تیری شان جل جلالہ تو مرا خدا ہے تو خود ہی آتو جمال اپنا مجھے دکھا تو سکون دل مجھے کر عطا تیری شان جل جلالہ تیری حمد میں ہوں غزل سرا تو قبول فرما مرے خدا یہ مرا ترانہ شکریہ تیری شان جل جلاله تو شکور ہے تو غفور ہے تو رحیم ہے تو کریم ہے ہے خلیل عاصی و پُر خطا تیری شان جل جلالہ
69 جناب حافظ سلیم احمد اناوی اے خدا اے خالق کون و مکاں حمد کے قابل نہیں میری زباں شکر تیرا کرسکوں کیونکر ادا میں بشر ہوں تو خدائے دو جہاں تو نے یہ سارا جہاں پیدا کیا جن و انسان و زمین و آسماں میں ضعیف و عاجز و بے علم ہوں تو ہے قہار و قدیر و غیب داں ہے غفار و میں سراپا ہوں گنہگار اے خدا تو تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے کوئی بات تو علا کون نام و رحیم و مہرباں خبیر و رازداں سب کو تو مطلوب ہے جانِ جہاں جس کو نہیں تیری تلاش ہے درد دل کس سے کہوں اے کبریا کس کو میں اپنی سناؤں داستاں کون ہے تیرے سوا فریاد رس تیرا در میں چھوڑ کر جاؤں کہاں دور ہوکر پھر بھی تو نزدیک ہے ذات ہے تیری مکین لامکاں مشکلیں فضل آسان کر مولا مری کر اے چارہ بے چارگاں
70 جناب قیس مینائی نجیب آبادی انس و جاں آئینه و کون و مکاں آئینہ ہستی ذات کے ہیں دونوں جہاں آئینہ جوہر آئینہ عقل کو دی لاکھ جلاء نہ ہوا پر نہ ہوا سر نہاں آئینہ نکہ عشق نے دی رخش جنوں کو مہمیز ہو گئے مجھے پہ مرے وہم و گماں آئینہ منعکس عالم گن بھی ہے دورنِ سینہ جڑ دیا اے مرے اللہ کہاں آئینہ واعظ شعلہ بیاں کیا سر منبر چمکا آتشکده پارسیاں آئینہ سنگ آئینہ دل پر جو کسی نے مارا ہوگئی ذہن پر تصویر بتاں آئینہ پھول اک مارا کسی آئینہ رو نے جو مجھے ہو گیا دل پہ مرے باغ جناں آئینہ ہوا جبکہ ہو بر سر آشفتہ سراں آئینہ غرق غیرت نہ ہو کیوں کشمکش موت وحیات آئینہ دیکھ رہا تھا کوئی آئینہ جمال عشق انگیز ہوا دشمن جاں آئینہ غصہ میں آئینہ دیکھا کسی شعلہ رو نے بن گیا اک جبل شعلہ نشاں آئینہ خاک سمجھیں گے قوانین الہی کے رموز ہو سکا جن میں بینائی کے افکار و تخیل روشن قیس مینائی کا اندازِ بیاں آئینہ نہ آئین جہاں آئینہ
71 دور دوم
72 جناب سید احسن اسماعیل صدیقی صاحب اے میرے مولا مرے مشکل گشا ! صدقہ عالی جناب مصطف اپنی رحمت کا کوئی جلوہ دکھا اے زمینوں آسمانوں کے خدا حالِ دل اپنا کروں کیسے بیاں میرے مولیٰ تجھ پہ ہے سب کچھ عیاں اک تری رحمت کا بس ہے آسرا اے زمینوں آسمانوں کے خدا اے خدا میرے وطن کی خیر ہو اس پھلے پھولے چمن کی خیر ہو اے زمینوں آسمانوں کے خدا تندی باد حوادث سے کوندتی ہیں بادلوں میں بجلیاں جن کی زد میں ہے یہ مرا آشیاں اپنی قدرت کا کوئی جلوہ دکھا اے زمینوں آسمانوں کے خدا قوم کو نورِ بصیرت بخش دے پاک دل اور پاک سیرت بخش دے أسوة حسنه کو اپنانا سکھا اے زمینوں آسمانوں کے خدا دیکھتا ہوں پھر وطن میں وہ سماں جیسے پھر سر پر ہو کوئی امتحاں اپنی رحمت کا کوئی جلوہ دکھا اے زمینوں آسمانوں کے خدا دین احمد کے پرستاروں کی خیر ان جیالوں اور جیداروں کی خیر نور کی شمعیں رہیں روشن سدا اے زمین و آسمانوں کے خدا اُٹھ رہی ہیں آج سوئے آسماں آه مظلوماں نگاہ بے کساں کس قدر دل سوز ہے آہ و بکا اے زمین و آسمانوں کے خدا
73 زخیم و پیہم سے جگر ہیں داغ داغ پھر بھی روشن ہیں محبت کے چراغ کون دے گا ان وفاؤں کا صلہ اے زمین و آسمانوں کے خدا تہ وطن یه مرکز عشق و وفا یہ وطن چشمه آب بقا اس کو استحکام و قوت کر عطا اے زمین و آسمانوں کے خدا آنکھ تر ہے لب آہ سرد ہے دل میں ملک و قوم کا اک درد ہے احسن محزوں کی اب سن لے دُعا اے زمین و آسمانوں کے خدا الفضل ربوہ 4/اکتوبر 1984ء)
74 جناب عبدالسلام اختر صاحب میری نگاہوں سے چھپنے والے ترا بسیرا ہے کس چمن میں خموش پھولوں کی بزم میں یا خنک ستاروں کی انجمن میں تیری مشیت سے خارصحرا گلوں کے انداز پارہا ہے یہ تیری حکمت کہ ٹٹ کے کوئی سکوں کی بنسی بجارہا ہے یہ تیری قدرت کے خشک ذروں میں تیری طلعت سے نور آیا میں کیا کہوں تیرا نام لے لے کے مجھ کو کتنا سرور آیا ملاحتیں حسن کو عطا کیں تو عشق کے دل کو بندگی دی تیرے تبسم نے ماہ و انجم کے زرد چہروں کو روشنی دی تیرے کرشمے ہیں خشک و تر میں تری تحلی ہے بحر و بر میں شرر شرر میں حجر حجر میں، ثمر ثمر میں، نظر نظر میں اگرچہ اپنی حقیقوں سے نگاہ خود آشنا نہیں ہے مگر میں یہ جانتا ہوں دنیا میں کوئی تیرے سوا نہیں ہے (مصباح جون 1960ء)
75 جناب ماسٹر ضیاالدین ارشد صاحب شہید اے خدا تیرے لئے ہر حمد اور توصیف ہے وہ زباں لائیں کہاں سے جو کرے تیری ثنا پالنے والا شجر و انس اور ہر جان کا تیری قدرت ہے عیاں ہر برگ ہر گل سے سدا چاند پانی آگ سورج تو نے بے محنت دیا رزق بھی بے حد ملا جب کام ہے ان سے لیا راستہ ایسا بتا تو ہم کو اے پرور دگار جس پہ چل کر فضل اور انعام ہو حاصل تیرا مت چلیں ہم ایسی راہ پرجس سے ہو ناراض تو راستہ وہ گم نہ ہو جس سے ملے تیری رضا تا قیامت ارشد ناچیز کی ہے یہ دُعا چشمه علم و ہنر سے کر ہمیں بھی کچھ عطا
76 جناب عبد السلام اسلام صاحب ریگ زاروں، چاند تاروں، لالہ زاروں، میں وہی مرغزاروں، کوہساروں، آبشاروں میں وہی رنگارنگ کے بھیس میں ہے حسن قدرت کی نمود موسم باراں میں، پت جھڑ میں، بہاروں میں وہی ٹکٹکی باندھے ہوئے ہے چشم نرگس میں وہ کون؟ کرتا ہے چشمک زنی ہر فجر تاروں میں وہی ہے وہی سیمیں بدن مضمر شپ مہتاب میں لالہ رخ بن کر شفق کے لالہ زاروں میں وہی شورش و ہنگامہ خیزی ہر دیار و شہر میں اور چپ سادھے کھڑا ہے کوہساروں میں وہی دست شفقت پھیرتا ہے کون مادر کی طرح صور فاقہ مستی اور محنت ہاں ن تسکیں تیموں ، بے سہاروں میں وہی بندہ مزدور میں بشکل امتحاں سرمایا داروں میں وہی ہے تخیل میں، تصور میں وہ اڑتا گھومتا درد کی تاثیر شاعر کے اشاروں میں وہی خندہ زن ہے پھول میں پہنے ہوئے رنگیں قبا نالہ زن بلبل کی صورت شاخساروں میں وہی ہے وہی اسلام کے نغموں میں مانند سرور سوز کی صورت ہے سازِ دل کے تاروں میں وہی
77 جناب محمد اسماعیل صاحب بحمد و ثنائے خدائے تعالیٰ بجود و عطائے خدائے تعالیٰ ہمیشہ سے ارض و سماء کررہے ہیں بیاں کبریائے خدائے تعالیٰ عبادت کے لائق کہیں بھی جہاں میں نہیں ماسوائے خدائے تعالیٰ ستاروں میں شمس و قمر میں نمایاں ہے نور و ضیائے خدائے تعالیٰ طلب پر بھی اور ہن طلب بھی ہو یدا ہے دست سخائے خدائے تعالیٰ ہے عالم کے ذرہ ذرہ میں پنہاں ہوائے لقائے خدائے تعالیٰ ضیا پاش غفلت کی تاریکیوں میں ملائک بھی کرتے ہیں اپنی رضا پر مقدم رضائے خدائے تعالیٰ بڑے سے بڑے قہر مانوں کے سر پر ہے دست قضائے خدائے تعالیٰ عقوبت کے ہوتے بھی سنتے نہیں ہیں صدائے عصائے خدائے تعالیٰ ہے شمع ہدائے خدائے تعالیٰ عتاب و عقوبت میں بھی کار فرما ہے دست شفائے خدائے تعالیٰ مقام ندائے کبھی تین و زیتون و سینا بنے تھے خدائے تعالیٰ یہی حشر تک نشر کرتا رہے گا ہر سو لوائے خدائے تعالیٰ سدا کارواں اپنی منزل کو پہنچے ببانگ درائے خدائے تعالیٰ
78 جناب محمد شفیع اشرف صاحب رواں ہے تری حمد کا میرے پیارے مرے لب پہ صاف اور شفاف دھارا تری ذات ہے سب جہانوں کی والی تری ذات ہے بے کسوں کا سہارا تصدق تری شانِ رحمانیت کے بخشا ہے خود تو نے اُلفت کا جذبہ وگرنہ کہاں میں کہاں ذات تری، ترا یہ بھی احساں ہے پرور دگارا ہجوم تجلی سے پُر نور کردے مرے خانہ دل کی تاریکیوں کو سر طور عشق ومحبت ہمیشہ مجھے خلوتوں میں ہے میں نے پکارا بدل دے مری ظلمتِ شام غم کو کبھی نور صبح مسرت میں مولا میں فر باں تری جلوہ سامانیوں کے محبت کا کوئی دکھادے نظارا تجھے واسطہ ہے تری احدیت کا مجھے واقف رمز توحید کر دے ملا دے جو ہے نقش باطل دوئی کامن وتو کے پردے ہوں سب پارا پارا ضلالت کی تاریکوں سے بچا کر مجھے راہ حق پر چلاتا چلا چل مجھے اپنے عشاق کے ساتھ کر دے چمکتا رہے میری قسمت کا تارا نگاہ کرم ہو کبھی اس طرف بھی ، ادھر بھی کبھی گوشه چشم رحمت بڑی دیر سے تیرے در پہ کھڑا ہے اشرف ترا بے کس و بے سہارا
79 جناب محمود مجیب اصغرصاحب اے خدا کیا نہیں دیا تو نے مانگے بن مانگے بھی دیا تو نے لاکھ دینوں کا ایک دینا ہے دل کو درد آشنا دیا تو نے قلب میرا سدا ہے حمد سرا مجھ کو نطق ثنا دیا تو نے روشنی کے لئے خداوندا شمس کا ہے دیا دیا تو نے تیرا محبوب ہے محمد پاک سارے عالم کی رہ نمائی کو فیض تیرا ہمیشہ جاری ہے ره مستقیم دکھلائی ہے ابتلاء میں رہا قدم ثابت اس کو صدق و صفا دیا تو نے خاتم الانبیاء دیا تو نے مهدی آخر زماں دیا تو نے ہم کو انعام ہے دیا تو نے اس کے ایماں کو دی چلا تو نے شکر واجب ہر ایک سانس ہے ٹھیک بسمل ہے کہا تو نے ( جذبات دل)
80 50 جناب سعید احمد اعجاز صاحب حمد تیرے ہی واسطے ہے اے جہانوں کے پالنے والے تو ہے رحمن تو رحیم بھی ہے رحم سینوں میں ڈالنے والے مالک یوم دیں ہے نام تیرا میری محنت کا اجر؟ کام تیرا! ہم عبادت تری ہی کرتے ہیں ہم اعانت تجھی سے مانگتے ہیں مستقیم ہم کو دکھا! ہم ہدایت تجھی سے مانگتے ہیں تو ره راه ان خوش نصیب لوگوں کی جن کو بخشی ہیں رحمتیں تو نے جن پہ تو نے کیا ہے اپنا فضل جن پہ بھیجیں ہیں رحمتیں تو نے زینهار ان کا راستہ نہ دکھا جن یہ نازل ہوا ہے تیرا غضب راہ سے ہٹ کے جو ہوئے گمراہ جن سے ناراض تو ہوا یارب التجا قبول فرما لے ہاں ! دعا قبول فرمالے الفضل لا ہور 20 فروری 1952ء)
81 جناب مرز امحمد افضل صاحب مربی سلسلہ ( کینیڈا) آؤ اس دلربا کی بات کریں بزرگ و برتر خدا کی بات کریں جس کے احساں ہیں سارے عالم پر ایسے اکبر خدا کی بات کریں ہر گھڑی ہم سے پیار کرتا ہے ایسے دلبر خدا کی بات کریں سارے عیبوں جس کا ہر ایسے بر کام گن ہو جائے تر خدا کی بات کریں جو مزہ ہے ایسے اطہر خدا کی بات کریں گفتگوی عبث کو ترک کریں بہتر خدا کی بات کریں ہے جس نے احمد کی معرفت بخشی ایسے رہبر خدا کی بات کریں
82 جناب یعقوب امجد صاحب تو صاحب مہر و عطا ، میں بندہ سہو و خطا لاریب تو ہے کبریا ، بے شک تو ہے رب الوریٰ میں کس لئے بے چین ہوں تو جانتا ہے بالیقین ارض و سما کی وسعتیں تیرے لیے زیر نگیں جرم و و گناہ کے بوجھ سے اُٹھتے نہیں میرے قدم تو ہادی و رہبر مرا ، مری راہ میں لاکھوں صنم تیرے نور سے روشن رہیں، میری منزلوں کے فاصلے تیری رہ پر چلتے رہیں ، میری آرزو کے قافلے اے خالق ہر دو سرا ، تری شان عم نواله کشکول تو بھر دے مرا ، اے صاحب جود و سخا! تو بادشاہ بحروبر ، میں ہوں تیرے در کا گدا میری مشکلیں آسان کر ، تیری ذات ہے مشکل کشا (الفضل 25 جولائی 2003ء)
83 جناب مولانامحمد سعید انصاری صاحب ترانے حمد کے میں گا رہا ہوں اور اپنی روح کو گرما رہا ہوں میں تیری ذات میں کھو کر خدایا بہت کچھ اپنے اندر پا رہا ہوں میری تشنہ لبی کی لاج رکھنا کہ میخانے میں تیرے آرہا ہوں مرا ساقی بھی میرے ساتھ ہوگا خموں خم لنڈھانے جا رہا ہوں سہارا دیجئے ، دیکھو گرا میں کہا ٹھہرو ذرا، میں آ رہا ہوں“ مجھے میری ان کی باتیں ہیں تمہیں کیا؟ وہ میں انہیں لپٹا رہا ہوں تیری عزت کی خاطر مر مٹوں گا تیرے سر کی قسم میں کھا رہا ہوں
84 ملتا ہے اُسی جناب آدم چغتائی صاحب در سے محبت کا اشارا کعبے کی زیارت ہو کہ طیبہ کا نظارا اس باب عطا سے کہ جو وا رہتا ہے ہر آن خالی نہیں جاتا کوئی تقدیر کا مارا اوہام کے بت ہوں کہ ہوں پتھر کے خداوند دیتے نہیں انسان کو اک پل کا سہارا غافل جو کرے دین سے دولت نہیں اچھی ہے ایسی تجارت میں خسارا ہی خسارا کر نیک عمل وقت کی مہلت ہے بہت کم آتا نہیں انسان زمانے میں دوبارا اس شخص کی کشتی کو بھلا خوف ہو کس کا جس شخص کی کشتی کو ملے تیرا سہارا جب تو نے ہی اُلفت کی نظر پھیر لی ہم سے پھر تو ہی بتا کیسے ہو آدم کا گزارا
85 جناب آفتاب احمد بنتل صاحب پڑا تھا ایک دن سجدہ میں میں اپنا جھکائے سر یکا یک یہ کہا دل نے خدا سے یہ دعائیں کر کلی جیسی چٹک یارب فسردہ دل میں پیدا کر تراوت آپ جنت کی سی میری رگل میں پیدا کر نیم شیم.خُلد کے جھونکوں سے دل مسرور تو کردے خُلد کی موجوں سے سر مخمور تو کردے مجھے توفیق دے یارب کروں خدمت ترے دیں کی اکھاڑوں جڑ میں تثلیث و گناہ و بغض اور کیں کی گناہوں سے سراسر پاک کردے زندگی میری نجل کر اب نہ.ہے حد سے بڑھی شرمندگی میری تمنا ہے کہ جھنڈا گاڑدوں اسلام کا ہر جا خدایا اس ارادہ کو عمل کا جامہ تو پہنا الہی معنی ترو بتل کے دل میں ڈال کہ وہ دل سے نکالے الفت دنیا و جان و و مال
86 جناب خواجہ بشیر احمد صاحب میرے اللہ ، کبھی اکیلا مجھے مت چھوڑ آفتیں روز زمانے کی ڈراتی ہیں مجھے تجھ سے نزدیک نہ ہو جاؤں ستاتی ہیں مجھے اور رہ رہ کہ تری راہ دکھاتی ہیں مجھے میرے اللہ، کبھی مجھ کو اکیلا مت چھوڑ چھوڑ مت مجھ کو اکیلا، میرے اللہ کبھی تو نے خوشیوں میں میرا ساتھ دیا ہے پیارے اور مصیبت میں عطا صبر کیا ہے پیارے چاک داماں کو مرے تو نے سیا ہے پیارے میرے اللہ، کبھی مجھ کو اکیلا مت چھوڑ چھوڑ مت مجھ کو اکیلا، میرے اللہ کبھی ہے مری موت جدا ہونا تیری ہستی سے یہی پستی مجھے دور رکھ اس پستی سے ہے تیرے میخانے میں رونق ہو میری ہستی سے میرے اللہ کبھی مجھ کو، اکیلا مت چھوڑ چھوڑ مت مجھ کو اکیلا، میرے اللہ کبھی
87 میرا ہر عزم و اراده تیری قدرت کے نثار میرے سب رنج و محن تیری محبت کے نثار میرے جذبات محبت تیری رحمت کے نثار میرے اللہ، کبھی مجھ کو اکیلا مت چھوڑ چھوڑ مت مجھ کو اکیلا، میرے اللہ کبھی جب تجھے ڈھونڈھوں تو پاؤں میں رگِ جاں کے قریب جب ملے تو تو ملے سوزشِ پنہاں کے قریب میرے اللہ، کبھی مجھ کو اکیلا مت چھوڑ چھوڑ مت مجھ کو اکیلا، میرے اللہ کبھی
88 جناب عبدالرشید تبسم صاحب الہی ہر طرف جلووں سے اک محشر بپا کر دے میری آوارہ نظروں کو حقیقت آشنا کر دے جہاں کو دے وہ ذوق خود نمائی جس طرف دیکھوں ہر اک ذرہ وفور شوق سے آغوش وا کر دے نہیں خواہش کہ بحر بے کراں بن کر اچھل جاؤں میں دریا ہوں مجھے تو شوکت دریا عطا کر دے سکونِ دل پیام موت ہے اہلِ محبت کو مجھے اک اضطراب جاوداں یا رب عطا کر دے حقیقت میں مرا دل ایک مُشتِ خاک ہے لیکن جو تو چاہے تو اس کو اک نظر میں کیمیا کر دے بھٹکتے پھر رہے ہیں اہلِ دل کوئے محبت میں میرے ہر داغ دل کو مشعل راہ وفا کر دے ترا بندہ ہوں مجھ کو غیر کا سائل نہ بنے دے مجھے اپنے کرم سے بے نیاز ماسوا کر دے رہے چارہ گروں کو عمر بھر احساس ناکامی میرے درد محبت کو یکسر لا دوا کر دے گر اس پر نام غیر آئے تو جل جائے زباں میری خیال غیر کو دل کے لئے تیر قضا کر دے بنا بیٹھا ہوں اپنا آشیاں اک شاخ نازک پر اسے طوفانِ برق و باد سے نا آشنا کر دے تری درگاہ میں وہ آیا ہے اک آرزو لے کر تبسم کو الہی کامیاب مدعا کر دے
89 جناب روشن دین تنویر صاحب گنہ گار ہوں یا الہ بخش دے مرے جرم مرے گنہ بخش دے نہیں ہے پنہ کوئی تیرے سوا مجھے دے تو اپنی پسند بخش دے جو آواز تیری سنیں کان دے جو دیکھیں تجھے وہ نگاہ بخش دے پئیں رات دن جام پر جام ہم محمد کا پھر میکدہ بخش دے چلیں جس پر یا رب تیرے منعمیں مجھے بھی وہی سیدھی رہ بخش دے ہے تنویر تیرے گرا کا گدا کہ ہے تو ہی شاہوں کا شہ بخش دے ( الفضل 2 / مارچ 1942ء) 2 ہم نے زندہ خدا کو جانا ہے جانا پہچانا ہے تو مانا ہے جانتے ہیں کہاں کہاں ہے مکیں ہم کو معلوم ٹھکانا ہر ہے اس کی بخشش ہے علم و عرفاں بھی عقل مکڑی کا تانا بانا ہے ل کہتا ہے آپ وہ انالموجود جس نے سمجھا وہی تو دانا ہے دل نکال تو تنویر كعبة اللہ اگر بنانا ہے
90 جناب میر اللہ بخش تسنیم صاحب معبود ملجا خدا تعالیٰ ماوی خدا تعالیٰ کوئین میں ہے سب کا مولی خدا تعالی ہے دیکھنے کے قابل وہ آدمی جہاں میں جس آدمی نے تجھ کو دیکھا خدا تعالیٰ تیری ہدایتوں سے ہم بے نصیب رہتے تو خود نه گر دکھاتا رستہ خدا تعالیٰ بے چون و بے چگوں ہے بے رنگ و بے نشاں تو ہمسر نہیں ہے کوئی تیرا خدا تعالیٰ خالی نہ کوئی لوٹا محتاج تیرے در سے حاجت روا ہے تو ہی.سب کا خدا تعالیٰ جن و بشر ملائک محتاج ہیں اسی کے دونوں جہاں گداگر داتا خدا تعالیٰ ہر حال میں ہمیشہ پوجیں گے ہم اسی کو ہمارا سچا خدا تعالیٰ ہے مشکل میں دوست اپنے سب کر گئے کنارا لیکن نہ تو نے ہم کو چھوڑا خدا تعالیٰ فریادرس جہاں میں کوئی نہیں ہے تجھ پن ہے تو ہی ہر کسی کی سنتا خدا تعالیٰ یارب تجھی کو ہر دم ہم مانگتے ہیں تجھ سے بس تو ہی مدعا ہے اپنا خدا تعالیٰ ہر ایک ناخدا سے مایوس ہو چکے ہیں اب تو ہی پار کردے بیڑا خدا تعالیٰ ہر شے ہے فی الحقیقت مردہ بدست زندہ تجھ بن نہیں ہے کوئی زندہ خدا تعالیٰ ہم خاک پابنے ہیں اس مرد حق نما کے جو بن گیا جہاں میں تیرا خدا تعالیٰ سے واسطہ کیا تسنیم بے نوا کو غیروں اس کو تو آسرا ہے تیرا خدا تعالیٰ (مصباح جون 1960ء)
91 جناب ثاقب زیروی صاحب راز بقائے زندگی کیا ہے مجھے بتا بھی دے جینے کا ولولہ بھی دے مرنے کا حوصلہ بھی دے عرصہ روزگار میں اُلجھا ہوا ہوں ذات سے اے میرے بادي ازل مجھ کو میرا پتا بھی دے محفلِ ہست و بود ہے کس کے لئے بھی ہوئی محفلِ ہست و بود کا سر نہاں بتا بھی دے تیری نوازشات سے قلب ہے مطمئن مگر مجھ کو تو اپنے عشق کی دولت بے بہا بھی دے طور بھی ایک امتحان دار بھی ایک امتحان ختم بھی کر یہ سلسلہ جلوہ رُخ دکھا بھی دے سوئی ہوئی ہے زندگی، کھوئی ہوئی ہے زندگی خواب زدہ حیات کو خواب سے تو جگا بھی دے کا سٹہ شوق لے کے تو آیا ہے ان کے رو برو آنکھوں سے التجا بھی کر دل انھیں صدا بھی دے ظلمت غم میں تا بہ کے کوئی رہے گا مبتلا تاروں بھری حیات کا رستہ اُسے دیکھا بھی دے غم بخشش و عفو کا چمن جس سے بہار خیز ہو مجھ سے گناہ گار کو ایسی کوئی سزا بھی دے محفل کا ئنات سے ٹوٹے بھی حلقہ محمود برابط صبح و شام کو نغمہ دل گشا بھی دے یوں ہی رہے تمام عمر درد وفا کا سلسلہ ثاقب خستہ حال کو وہ غم دیر پا بھی دے
92 جناب جمیل الرحمان جمیل صاحب (ہالینڈ) ہے تو نور ارض و سما ہے ، وحید و و کامل رہ حیات بھی تو اور تو ہی منزل ہے پناہ مانگ کہ تجھ سے میں حمد کرتا ہوں تیری بتوں حال ہے تو بلا تو بلا سے عرض کرتا ہوں مرتا ہوں نگینے جڑ جاؤں زمیں پھٹے تو کہیں شرم سے میں گڑ جاؤں بہت ہی شعبدہ بازی میں کرکے طاق مجھے ہلاک کردے نہ اک دن مرا نفاق مجھے عطا ہو حق سے اگر معرفت سنبھل جاؤں میں بے شمر سہی شاید یوں پھول پھل جاؤں تو خشک پیٹر کو جب چاہے سبز و تازہ کرے وہ وو ایک " گن : 66 پہ ہے موقف جو ارادہ کرے غلام احمد مرسل کو با صفا کردے با تو اپنے نور مولی ایاغ دل بھر دے ( ز میں جب آنکھ کھولے گی )
پروردگارا 6 93 جناب اکبر حمیدی صاحب پرور دگارا تیرا سہارا 6 تیرا سہارا ڈوبے ہوئے کو ڈوبے ہوئے کو تو نے اُبھارا ، تو نے اُبھارا بگڑے ہوئے کو ، بگڑے ہوئے کو تو نے سنوارا ، تو نے سنوارا الجھے ہوئے کو ، اُلجھے ہوئے کو تو نے نکھارا ، تو نے نکھارا سجدوں کا مرکز ، سجدوں کا مرکز تیرا دوارا 6 تیرا دوارا ہر شے میں دیکھا، ہر شے میں دیکھا تیرا نظاره تیرا نظاره خوشیوں کا سورج ، خوشیوں کا سورج چمکے ہمیشہ ، چمکے ہمیشہ مشکل کشائی ، مشکل گشائی ہو آشکارا 6 6 ہو آشکارا قسمت کا تارا ، قسمت کا تارا ہو اک اشارا ، ہو اک اشارا فضلوں کی بارش ،فضلوں کی بارش رحمت کا دھارا ، رحمت کا دھارا تیرے ہوئے ہم ، تیرے ہوئے ہم تو ہے ہمارا ، تو ہے ہمارا تجھ پر فدا ہو ، تجھ پر فدا ہو سب کچھ ہمارا سب کچھ ہمارا تو سب سے بڑھ کر تو سب سے بڑھ کر تو سب سے پیارا ، تو سب سے پیارا تجھ بن نہ ہوگا ، تجھ بن نہ ہو گا اپنا گزارا لطف و کرم ہو ، لطف و کرم ہو پروردگارا پروردگارا 6 اپنا گزارا (لاہور 20 اکتوبر 1975ء)
94 جناب کپتان ملک خادم حسین خان صاحب الہی ہر جگہ روشن ہے جلوہ تیری قدرت کا رواں ہے چار سو دریا ترے فیضانِ رحمت کا نگاه لطف دشمن یکساں تری ہر دوست ہے نہیں ملتا کبھی موقع کسی کو بھی شکایت کا تو شاہوں کو گدا کردے ہے سب کچھ تیری قدرت میں گداؤں کو تو دے رتبہ جہاں کی بادشاہت کا عیاں ہیں شش جہت میں ایک لفظ گن کی تاثیریں نمایاں ہر طرف ہے اک کرشمہ تیری قدرت کا فنا اس سعی لاحاصل میں لاکھوں ہو گئے لیکن کھلا عقده ہ کسی پر بھی نہ اب تک تیری حکمت کا جبکہ ظاہر و باطن کا تو واقف مرے مولا تو خادم کیوں بتائے حال تجھ کو اپنی وحشت کا
95 جناب خلیق بن فائق صاحب خداوندا نہیں تیرا کوئی ثانی زمانے میں یہاں ہر چیز ہے تیرے سوا فانی زمانے میں تیری تسبیح اور تحمید ہے وردِ زباں سب کی بڑا ہی لطف ہے وحدانیت کے گیت گانے میں اشارہ کر کے تو نے گن“ کا سب کچھ بنا ڈالا کمی کوئی نہ چھوڑی تو نے اپنے کارخانے میں ملائک جن و انسان حور و غلماں سب کئے پیدا نہ تھی کوئی بھی دشواری تجھے دُنیا بنانے میں زمین و آسماں، سورج، مه و انجم، سبھی موسم کئی انواع کے پھل پھول بخشے دل لبھانے میں تیری طاعت میں سب ہی دست بستہ ہوگئے حاضر ہوئی نہ ہچکچاہٹ کوئی بھی سر کو جھکانے میں ترے منکر تری شانِ کریمی پر ہوئے حاسد نگاہ قلب کے اندھے بھٹکتے ہیں زمانے میں زباں اقرار گر کرتی نہیں دل مانتے تو ہیں مزہ ملتا ہے ان کو کیا صداقت کے چھپانے میں خلیق عاصی کی جو بھی ہو خطااب معاف کردیجو کمی کیا ہے مرے مولیٰ کے بخشش کے خزانے میں
96 جناب عطاءالمجیب راشد صاحب تو تو ہر بات پہ قادر ہے شفا کے مالک! دست قدرت کا ہے مرہون 66 سارا عالم تیرے اک گن “ پہ ہے موقوف جہاں کی تقدیر تیرے اک حکم سے مٹ جاتے ہیں سب کرب والم تو رگِ جاں سے بھی اثرب، ہے تری ذات سمیع تو تو سن لیتا ہے مضطر کی دعائیں ہر دم تیرا فرماں ہے، پکارو! میں سنوں گا تم کو واسطه تیری بشارت کا ہے وعدے کی قسم میرا محسن ، میرا محبوب ہے بیمار بہت شافی و کافی مرے اللہ تری نظر کرم! بخش دے عمر خضر، اور شفائے کامل سر بسجدہ تری چوکھٹ ہوں اے فیض اتم کتنے کشکول دھرے ہیں ترے پیارے کے لئے ہیں ہر اک دیس میں عشاق کی آنکھیں پرنم تیرے پن کون بھرے گا ہمارے کاسے! تو ہی ہے جس کا در فیض کھلا ہے ہر دم (الفضل 17 اکتوبر 2002ء)
97 جناب رشید قیصرانی صاحب راولپنڈی 1 مجھے کیا خبر کہ وہ ذکر تھا، وہ نماز تھی کہ سلام تھا مرا اشک اشک تھا مقتدی، تیرا حرف حرف امام تھا ترے رُخ کا تھا وہی طنطنہ ، مری دید کا وہی بانکپن کہ بس ایک عالم کیف تھا ، نہ سجود تھا نہ قیام تھا میں ورائے جسم تیری تلاش میں تھا مگن ، مجھے کیا خبر کہ ہر ایک ریزہ تن میں بھی تیری جلوتوں کا نظام تھا مجھے رت جگوں کی صلیب پر زر خواب جس نے عطا کیا وہی سحر ، سحر مبین تھا ، وہی حرف ، حرف دوام تھا مجھے عرش و فرش کی کیا خبر ، مجھے تو ملا تھا جہاں جہاں و ہی آسماں تھی مری زمیں ،وہی فرش عرش مقام تھا مرے دسترس میں جو آ گیا ، ترے حُسن کا کوئی وہی سلطنت میرے حرف کی وہی تاجدار کلام تھا تیرے گنج لب سے رواں دواں، وہ جو ایک سیل حروف تھا اُسے لہر لہر سمیٹنا اسی کملی والے کا کام تھا زاویه
98 2 پیتے ہوئے صحرا میں کبھی صحن چمن میں ڈھونڈا ہے تجھے ہم نے کبھی کوہ و دمن میں تنہائی ءِ شب میں کبھی غوغائے سحر میں دیکھی ہے تیری راہ ہر اک راہ گزر میں خوابوں کے دھندلکوں میں تجھے یاد کیا ہے جب آنکھ کھلی ہے تو تیرا نام لیا ہے ہر صبح تیرے فکر کے ہنگام میں چھوٹی ہر شام کی آغوش تری یاد سے بھر دی ہر شاخ گلستاں کو تیرے گیت سنائے ہر دشت میں ڈھونڈھے ہیں تیری زُلف کے سائے ہر درد کا اپنے پہ ہی الزام لیا ہے لطف ہر تیرے نام ریت اُن کی عجب، مُجرم ہمارے بھی عجب تھے منسوب کیا ہے اور شہر ستم گر کے تقاضے بھی عجب تھے کہتے تھے کہ سر اپنا نہ اُٹھا کر نہ چلیں ہم سینوں ترا نام سجا کر نہ چلیں ہم یہ مجرم تھا اپنا کہ سر عام کہا ہے تو سب سے بڑا ،س سے بڑا ہے
99 جناب سلیم شاہجہاں پوری صاحب دل کو رنگ خدا نمائی دوں ہر طرف میں ہی میں دکھائی دوں تو ہی معبود تو ہی مسجود یہی کہتا ہوا سنائی دوں ہے تیری توحید کے الاپوں راگ دل کو ہر شرک سے رہائی دوں شائبہ بھی دوئی کا جس میں نہ ہو تیری وحدت کو وہ اکائی دوں دل میں اُبھرے جو تیرا نقش جمیل نقد جاں بہر رونمائی دوں مجھ کو حاصل ہے اب مقامِ فنا خود کو بھی کس طرح دکھائی دوں فکر آزاد ، دل بھی آواره کس کو الزام نا رسائی دوں کون مشکل گشا ہے تیرے سوا بس تیرے نام کی دُہائی دوں فاش کردوں خودی کا راز سلیم نفس کو اذن خود نمائی دوں
100 جناب نور محمد نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل 1 اک چاند ستاروں ہی کے تو چہروں پہ نہیں ہے تیری دمک اک لالہ و گل کے دامن تک محدود نہیں ہے تیری مہک اک طور پر جانے والے نے تو پائی نہیں ہے تیری جھلک ہر چیز پہ تیری ہستی کا ہے پر تو حسنِ نور بیاں ہر ذرہ عالم تیرے ہی جلووں سے ہے معمور یہاں بھیگی بھیگی برساتیں یہ شوخ بہاروں کی دنیا شام کی خوں آلودہ شفق یہ صبح کے تاروں کی دنیا یہ برق تبسم کی لہریں یہ مست نظاروں کی دنیا تیری ہی درخشانی رونق سے ہے ہر بزم ہستی پر پر تیری ہی ضیا ہے نور فشاں ہر ایک بلندی پستی دریا کے مچلتے سینے پر مہتاب کی کرنوں کا منظر یہ مٹتی ہوئی تاریکی شب یہ کھلتا ہوا سا نور سحر یہ نکھرا نکھرا رنگ چمن صدراحت دل، تسکین نظر تیری ہی تجلی خانہ سے چھن چھن کے یہ کرنیں آتی ہیں ہر ایک دھند لکے کو ارشاد رنگ و بو، فرماتی ہیں
101 ہر سمت فضائے رنگیں میں تنویر کا دھارا بہتا ہے ہر شے کی زبانِ حال پہ تیرا ہی افسانہ رہتا ہے آنکھیں کچھ دل سے کہتی ہیں دل آنکھوں سے کچھ کہتا ہے تیری ہی تمنا کا گویا چپ چاپ سا اک اظہار ہے یہ ہے آنکھ سے پوشیدہ جلوے اُلفت کا تیری اقرار ہے یہ ( الفضل 30 اپریل 1950 ء) 2 IN ہر شے کی زباں پر تری تحمید و ثنا ہے ہر بات سے ظاہر ہے کہ تو سب کا خدا ہے بھٹکی ہوئی روحوں کی نظر محو تجسس ہر قافلہء شوق تیری رہ میں کھڑا ہے ہر شام سے ملتا ہے پتہ نور سحر کا ہر صبح درخشاں تیرے چہرے کی ضیا ہے ہر غم میں جھلکتا ہے تیرا جوشِ محبت ہر ایک مسرت تیری رحمت کی قبا ہے ہر سینہء ظلمت میں کئی چاند ہیں پنہاں ہر چاند میں اک نور کا طوفان بپا ہے ہر برگ گل تر میں تقاضا ہے بقا کا ہر قطرہ شبنم ہے مائل بہ فنا ہے تثلیث کو یہ فکر کہ ہے " فہم سے بالا توحید کو یہ فخر کہ فطرت کی صدا ہے تو میری رگِ جاں سے بھی نزدیک ہے لیکن گا ہے مجھے دوری کا بھی احساس ہوا ہے ہر بات کو ملتی ہے چلا تیری نظر سے یہ رُوحِ سخن تیری ہی اک خاص عطا ہے ہر چیز تری راہ میں قربان ہے مولا جو کچھ بھی میرے پاس ہے تجھ سے ہی ملا ہے الفرقان سالنامه نومبر 1969ء)
102 جناب ابراہیم شاد صاحب (شیخو پوره) 1 ہے میرا نور نظر لا إِلهَ إِلَّا الله دوائے درد جگر لا اله الا الله خدا کے فضل و کرم کے طفیل کا موجب فتح و ظفر لا اله الا الله ہے وہی ہے ہیں جتنے نسخے بھی بہر مریض روحانی سے زود اثر لا إِلهَ إِلَّا الله جہاں سے کفر کو یکسر مٹا دیا جس نے وہی ہے خیر بشر لا اله الا الله مٹایا شرک کی ظلمت کو جس نے عالم سے وہی ہے شمس و قمر لا اله الا اللہ وہ حسنِ یارِ ازل لوٹ لے گا دل میرا نہیں تھی مجھ کو خبر لا الہ الا اللہ دکھایا جس نے محمد کو عرش سے جلوہ نورِ سحر لا إِلهَ إِلَّا الله ہے تیرا دل رہن ہوائے نفسانی زبان پر ہے مگر لا اله الا اللہ بچایا وار سے ابلیس کے مجھے جس نے وہی ہے میری سپر لا اله الا اللہ تھیں انتظار میں جس کے کھلی ہوئی آنکھیں وہ نور آیا نظر لا إِلهَ إِلَّا الله شار جان ہو تجھ پر ہے آرزو میری شفیع نوع بشر لا إله إلا الله بڑھے گا دینِ محمد زمیں کے کونوں تک یہ ہے قضاء و قدر لا إِلهَ إِلَّا الله ہے ذکر مثبت و منفی میں زندگی اپنی ادھر محمد ادھر لا اله الا الله سکھایا شاد کو جس نے یہ نغمہ وحدت وہی ہے میرا خضر لا اله الا الله الفضل لا ہور 15 جون 1949ء)
103 2 میرے گناہ بخش میرا مہر باں ہے ہر دو جہاں میں ایک میرا آستاں ہے تو پڑتی نہیں ہے کل مجھے تیرے سوا کہیں مجھ سے نہ منہ چھپا کہ میرا دلستاں ہے تو جلوہ ہے تیرے حسن کا جب ہر جگہ عیاں پھر پردہ ہائے غیب میں کیونکر نہاں ہے تو جاؤں میں تیرے در کو بھلا چھوڑ کر کہاں حاجت روا ہے مالک ہر دو جہاں ہے تُو تیرے وجود کا ہمیں اتنا ملانشاں لاکھوں نشان ہوتے ہوئے بے نشاں ہے تو پایا نہ قدرتوں کا تیری ہم نے انتہا مجھ کو دریا ہے قدرتوں کا مگر بے کراں ہے تو ہے حادثات نے پامال کردیا جلد آمدد کو یاور بے چارگاں ہے پردہ نہ چاک کیجیو میرے عیوب کا میدانِ حشر میں، کہ میرا رازداں ہے تو نفس دنی کی قید میں آیا ہوا ہوں میں مجھ کو چھڑائیو کہ میرا پاسباں ہے ہے بیقرار شاد تیری دید کے لئے اس جانِ ناتوان کی روح رواں ہے تو (مصباح)
104 جناب شیخ رحمت اللہ شاکر صاحب ہے خدائے دوالمین ہی کارساز و کردگار دَر اُسی کا کھٹکھٹا ہر حال میں اُس کو پکار وسعتیں اس کے بیاں الفاظ کر سکتے نہیں اس کی رحمت کا سمندر تو ہے نا پیدا کنار اس کے آگے گڑ گڑا آنسو بہا فریاد کر یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار ناؤ ہے کمزور اور بادِ مخالف تند و تیز اس کی رحمت سے مگر ساحل سے ہوگی ہم کنار وہ اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر آج ہیں دنیا کے ہر گوشے میں اسکے جانثار بن گئی نازک سی کو نیل ایک بار آور درخت اسکی پامالی کو گو طوفان اٹھے بار بار موسم گل کا سماں ہر وقت اس گلشن میں ہے پھول تازہ اس میں کھلتے ہیں خزاں ہو یا بہار ابتدا سے آج تک زوروں پہ ہے باد سموم با وجود اسکے وہ ہے سرسبز اور بابرگ و بار اس کی شاخیں چار سو عالم میں ہیں سایہ فگن ڈالی ڈالی دے رہی ہے خوش نما شیر میں ثمار جاگزیں اس کی جڑیں ہیں سارے شرق و غرب میں سوچ، انسان کا ہے یا خدائی کاروبار (الفضل 9 دسمبر 1997ء)
105 جناب چوھدری شبیر احمد صاحب ہر دم از کارخ عالم آوا زیست که یکش بانی و بنا سا زیست ( در سیمین فارسی ) ترجمہ: یہ نظام عالم اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس جہان کا کوئی بانی اور صانع ہے.1 کون و مکاں سے آتی ہے ہر دم یہی صدا صانع کوئی ضرور ہے اس کائنات کا بنیاد ہی بتاتی و نہار اور مہ و سال کا نظام معمار کے وجود تعمیر دلیل ہے ہے بانی کا مرتبہ لیل اک ذره حقیر ہوتی کرتا ہے ہم کو قادر مطلق سے آشنا تا نیر فلک ہے ایک ذات پر ہی شئی کی انتہاء بادل کی گھن گرج ہو یا نغمہ نسیم کا تسبیح کا طریق ہے گویا جدا شادابی چمن سے عیاں ہے سے عیاں ہے کسی کا ہاتھ جدا اس کا جمال وحسن ہے اک عکس یار کا
106 کشتی کو پانیوں میں رواں دیکھ کر زباں کہتی ہے اس کو کوئی چلاتا ہے کب تک رہے گا ضد و تعصب میں فلسفی ناخدا سمت ہیں شواہ.خلاق دوسرا ہر شبیر پر ہے نورِ بصیرت سے جس کا دل حاصل ہے اس کو لذت دیدار دلربا 2 اے مالک ہر دو سرا اے مہر باں مشکل کشا بے تاب ہو کر ہے اٹھا تیری طرف دعا شافی مطلق خدا جان جہاں کو دے شفا سُن کر یہ غم افزا خبر ہیں مضطرب قلب و جگر بیمار ہے رشک قمر تیرا ہی ہے بس آسرا اے شافی مطلق خدا جہاں کو دے شفا جان اے خالق کون و مکاں سن لے دعائے بیکساں اے شافی مطلق جان بخشش کے بحر بے کراں ہر دل کی ہے یہ التجا خدا جہاں کو دے شفا (الفضل 13 نومبر 2002ء)
107 مسرت جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس اگر وہ ہمیں اپنا جلوہ دکھائیں خوشی سے نہ جامے میں پھولے سائیں سے پہلو میں انکو بٹھائیں کریں ان سے باتیں گلے سے لگائیں بنیں ایک دونوں مقام لقا میں اثر دل سے نقش دوئی کا مٹائیں محبت کے عالم میں یک رنگ ہو کر من و تو کے یہ سارے جھگڑے پکائیں محبت کی کو جب لگائی ہے دل میں تو پھر جلوہء حسن و صورت دکھائیں بہر حال ہم ان سے راضی رہیں گے ستائیں وہ جتنا بھی چاہیں ستائیں خوشی سے اٹھا ئیں گے ہم ناز ان کے اور ان کی اداؤں کی لیں گے بلائیں روش شمس کی کر رہی ہے یہ ایماء رہ عشق میں تیز گامی دکھائیں الفضل لا ہور 12 جنوری 1952ء)
108 جناب عبدالحمید خان شوق صاحب خدائے دو جہاں کا نام صبح و شام لیتا ہوں ہر لحظہ زباں سے اور و سے اور قلم سے کام لیتا ہوں نماز و روزه و تسبیح سے ہے واسطہ میرا دعاؤں سے خدائی نصرتیں ہر گام لیتا ہوں زمانے کے مصائب جس گھڑی مجھ کو ڈراتے ہیں میں انکے دامن حفظ و اماں کو تھام لیتا ہوں میں جلتی آگ میں بھی انکی خاطر کود پڑتا ہوں اسی تن سوز آتش میں دلی آرام لیتا ہوں خدا کی بارگاہ میں مجھ کو سجدہ ریزیاں حاصل وقارِ عشق خدا کی مغفرت کا بادہء گلفام لیتا ہوں و الفت کیلئے خاموش رہتا ہوں جنوں انگیزیاں اپنے جگر پر تھام لیتا ہوں خوشا دور دور ناصر دین ہے میں ”ناصر“ سے نشان نصرت لیتا ہوں نگاه لطف ساقی نے وہ دولت شوق بخشی ہے بہت کچھ التفات چرخ نیلی فام لیتا ہوں (الفضل 6 جولائی 1967ء)
109 جناب محمد صدیق امرتسری صاحب سابق مبلغ مغربی افریقہ جنگجو ہے البی بشر سے بشر دو بڈو ہے نہ جانے وہ کیوں اس قدر : نگہہ تو ہی کر ہم پہ رحم و کرم کی کہ بندوں پہ رحم و کرم تیری خو ہے نہیں کوئی معبود تجھ بن جہاں میں شہنشاہِ ارض و سماوات تو ہر اک شے میں رخشندہ ہے تیرا یہ تو تبھی سے یہ بزم جہاں ہے مشکو ہے ودیعت ہوا جنہیں عشق تیرا شب و روز ان کو تری جستجو ہے ہے ہیں پھر ابتلاؤں کے دن اہلِ حق پر سپر بے بسوں، بے نواؤں کی تو ہے تیرے ان گنت جلوے دیکھے ہیں ہم نے ہیں ہم نے عیاں تیری جبروت بھی کو بگو دل و جان محو شکیب و دعا ہیں لبوں پر تیرا قول لا طلب ہے تیری خاص رحمت کی اب پھر ای جستجو میں نگہہ چار سو ہے ہے نطوا ہے (الفضل 14 مئی 1984ء)
110 جناب محمد الحق صوفی صاحب 1 بڑا مہر باں ہے ہمارا خدا وہی حافظ و ناصر و رہنما ہے وہی ہر گھڑی اپنا دلدار ہے وہی ہر مصیبت میں غمخوار اسی کا کرم ہے جو ہم زندہ ہیں اور اقوام عالم میں تابندہ ہیں ہوئے ہم غلام مسیح زماں بسا اپنے قدموں میں سارا جہاں لئے اپنے سینوں میں قرآں کا نور گئے ساری دنیا میں ہم دور دور دیا سب کو پیغام...کا نا مانگا کوئی اجر اس کام کا کہ خود خدمت دیں ہے نعمت بڑی ہے واجب کریں شکر ہم ہر گھڑی کرو خدمت دین تم شوق سے بڑھاؤ قدم اس میں تم ذوق سے تساہل کرو تم نہ غفلت کبھی کہ ہیں یہ ہلاکت کی راہیں سبھی دُعا ہے یہ صوفی ناچیز کی نہ دنیا میں باقی رہے تیرگی یہ سارا جہاں صاف و شفاف ہو ہر اک شخص کا دل سدا صاف ہو دل و جال محمد پہ قربان ہو خدا خود ہمارا نگهبان ہو
2 IN 111 کس قدر ظاہر ہے قدرت تیری اے پروردگار ذرہ ذرہ سے عیاں ہیں راز حکمت ނ ہے شمار دنیا منور ہوگئی اور اسی خورشید سے پیدا ہوئے لیل و نہار خوبرویوں میں ملاحت ہے تیرے ہی حسن کی ان کی صنعت اور خلقت ہیں تیرا اک شاہکار تو نے بخشا ہے بشر کو خود ہی اک ذوق سلیم اس جہان آب و رگل میں جو ہے اس کا افتخار لذت اوراک کا ہے ذوق پر ہی انحصار یہ نہ ہو حاصل جسے وہ ہے سراسر بے وقار تیرے ہی احساں سے ہے صوتی کاسب علم و ہنر گر نہ ہوتا تیرا احساں رکن میں تھا اس کا شمار
112 جناب صابر ظفر صاحب میرے خدا کوئی ایسا خیال بر تر دے جو میری روح کو بے انت درد سے بھر دے میں تیری یاد کو دل کی گرہ میں باندھ رکھوں یہ خوف ہے کہ تغافل کہیں نہ گم کردے دکھائی کچھ نہیں دیتا مجھے اندھیرے میں جو آنکھیں دی ہیں تو پر نور کوئی منظر دے نہ آگے کوئی ہے بازار اور نہ بات کوئی یہ نرم گرم جو سودا ہے طئے یہیں کردے اٹھائے پھرتے ہیں ڈولی کہار کب سے ظفر خدارا روک انھیں اور مجھے مرا گھر دے
113 جناب مبارک احمد ظفر صاحب سب دکھ اور سکھ کی گھڑیوں میں تجھ کو ہی پکارا مولی بس ہم دکھیاروں پر لطف کرو، کوئی درد کا چارا مولی بس سب دید کے خالی جام ہوئے کہیں مار نہ دے ہمیں تشنہ لبی اب ہجر زدوں پہ رحم کرو ، دے وصل کا یارامولی بس ہم ترس گئے اک بوند کو ترے کرم کی ہو برسات وہی پھر موڑ دے اپنے فضلوں کا اسطرف کو دھارا مولی بس کشکول ہے اپنے ہاتھوں میں اور اشک بھرے ہیں آنکھوں میں منظر کیسا منظر ہے پُر درد سارا مولی بس تری رحمت کی خیرات اگر مل جائے جو خاک نشینوں کو ناجیز فقیروں کا اس پر ہو جائے گزارا مولی بس کر دور ہر اک بیماری و دکھ ، دے عمر خضر مرے مرشد کو تقدیر وہ جس سے ٹل جائے ہو ایک اشارہ مولی بس گو دکھ کی رات گھنیری ہے پر تجھ سے آس یہ میری ہے اک بار افق پہ پھر چمکے وہی چاند ستارا مولا بس (خالد فروری 2003ء)
114 جناب مولانا ظفر محمد ظفر صاحب وہ عدم سے جس نے ہمیں نکالا پاک ہستی وہ ذات والا حقیر ہم، وہ بزرگ و بالا ذلیل ہم وہ اجل و اعلیٰ ادب کے لائق ہے ذات اس کی ہے نام اس کا خدا تعالیٰ وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر 6 مقام اس کا خرد سے بالا گمان عاجز قیاس قاصر قریب بھی ہے بھی ہے عجیب ہے وہ خدا تعالیٰ نہاں ہے پردوں میں ذات اس کی عیاں ہیں لیکن صفات اس کی نہ چھیٹر غافل تو بات اس کی تجھے تو ہم نے ہے مار ڈالا پوچھ جا کر نگاه مومن کہاں نہیں ہے خدا تعالیٰ وہ گلستاں میں مہک رہا ہے کلی کلی میں چہک رہا ہے وہ مہر و مہ میں چمک رہا ہے اسی کے پر تو سے ہے اُجالا نظر ہے اپنی حجاب اپنا عیاں ہے ورنہ خدا تعالیٰ
115 شریک اسکا نہ کوئی ہمسر نبی ولی سب اسی کے چاکر جھکائیے سر اُسی کے در پر جو لم یزل ہے ولم يزالا عالم رنگ و ہے فانی ہے جاودانی خدا تعالیٰ وہ جس نے خیر الانام بھیجا سلام بھیجا پیام بھیجا اس نے ہم میں امام بھیجا اسی نے پھر وقت پر سنبھالا رحیم و رحماں ہے ذات اس کی کریم يل وہ خدا تعالیٰ 2 دوائے درد جگر لا اله الا الله شفائ قلب و نظر لا اله الا الله یہ آب و دانہ تو ہے جسم عصری کے لئے غذائے روح بشر لا اله الا الله زبان حال سے ہر آن دے رہے ہیں ندا نجوم و شمس و قمر لا اله الا الله کوئی سُنے نہ سُنے کاش تیرا دل تو سُنے صدائے شام و سحر لا اله الا الله زباں سے تو نے کہا بھی تو اس سے کیا حاصل نہیں ہے دل میں اگر لا الہ الا اللہ
116 زہے نصیب کہ ہے آج ہاتھ میں اپنے بوائے فتح و ظفر لا اله الا الله نہ زادِ راہ کی ضرورت نہ خطرہ رہزن مرا رفیق سفر لا اله الا اللہ سوا خدا کے کسی سے کوئی امید نہ رکھ کبھی کسی سے نہ ڈر لا اله الا الله کوئی کسی کا زمانے میں کارساز نہیں پدر ہو یا کہ پسر لا اله الا الله کمال ٹرک سے ملتی ہے یاں مُراد ظفر تو ما و من سے گزر لا الہ الا الله
117 جناب راجہ نذیر احمد ظفر صاحب ہے فریب نظر عالم رنگ و بو ہے جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو فروزاں تیرا نور ہے مہر و مہ میں درخشاں ستاروں میں خود تو ہی تو ہے عنادل میں چرچا ترے حسن کا ہے گلوں میں تیری نگہت و رنگ و بو ہے غضب سے تزلزل پہاڑوں میں بر پا کرم سے گلستاں میں ذوقِ نمو ہے ترے حسن سے تانا بانا جہاں کا تیری قدرتوں کا یہ سب تارو پو ہے کیا اپنی فطرت پر بندوں کو پیدا صفت ہے وہ تیری جو بندے کی خو ہے تحتی تری ہر زمان و مکاں میں ظفر جس طرف رُخ کرے قبلہ رُو ہے میں احباب تیری محبت کے مظہر تیرے قہر کی اک علامت غدو ہے محمد کے صدقے نظر وہ ملی ہے که جلوہ ترا شش جہت چار سُو ہے تیرے خوف سے میری توبہ ہے قائم جہاں بھی ہوں میں تو مرے رو برو ہے شہادت یہ دیتی ہے ہر دم خدائی تو قریہ بہ قریہ ہے اور کو بکو ہے ملی مخلصی دہر کی باو ہو بسا روح میں جب سے باہو کا ہو ہے ہے قریں تر رگِ جاں سے بھی تو ہے لیکن عجب ہے کہ پھر بھی تری جستجو تو نزدیک ہوکر بھی ہے دور اتنا کہ پیم تری دید کی آرزو ہے حقیقت کی مئے سے ہوں سرشار ہر دم مجازی مرا گرچه جام و سبو ہے حجازی ترانے عجم کی زباں میں ظفر گارہا ہے عجب خوش گلو ہے
118 جناب حافظ غلام محمد عبید اللہ عابد صاحب میکده حیات ہے ان کی جو بھی بات ہے“ کائنات معجزات ل زندگی اداس ہے رنج و غم برات ہے ہے JJ بزم جو اٹھا پا گیا نجات ہے بحر کنار ہیں حیات ہے امتیاز رنگ و بو دار بے ثبات میں کون؟ کیا؟ یہ ذات پات ہے باثبات مل مل مل رہے اید! وہ گی تا جو دل میں گر خدا نہیں زندگی خدا کی ذات ہے ممات ہے فرط غم کے با وجود دل اُسی کے ہات ہے جنون کی عقل کی یہ گھات ہے فکر کر کس کی جستجو میں آج گردش جا غم حیات حیات ہے بھول جا مدھ بھری سی رات ہے آرزوئے زندگی ایک التفات ہے انقباض و انبساط تیرے بس کی بات ہے
119 جناب سید ادریس احمد عاجز کرمانی صاحب ، بھی نافذ حکم رپ کن فکاں ہو جائے گا فضل سے اس کے دگر رنگ جہاں ہو جائے گا رنج و غم کی رات اندھیری سر بسر کٹ جائے گی مہر فرحت چرخ پر جلوہ کناں ہو جائے گا ہے دُعاؤں پر ہی اپنی زندگی کا انحصار بس اسی سے مہرباں رب یگاں ہو جائے گا درد دل سے جو دعا مانگیں وہ ہوتی ہے قبول خشک صحرا بھی برنگ گلستاں ہو جائے گا گرید پیہم ہمارا رنگ لائے گا ضرور برق سے محفوظ اپنا آشیاں ہو جائے گا قدرت حق سے نہیں ہے بات یہ ہرگز بعید قطرة ناچیز بحر بے کراں ہو جائے گا آرہا ہے اب دبے پاؤں انوکھا انقلاب جانب کعبه رخ دورِ زماں ہو جائے گا بالیقیں ہو کر رہے گا پرچم باطل نگوں دور دورہ حق کا زیر آسماں ہو جائے گا گردش دور زماں وہ وقت اب لانے کو ہے فاتح مکہ جہاں کا حکمراں ہو جائے گا عاجز عاصی جب ہوگی نگاہ لطف حق روز محشر اس وا باب جناں ہو جائے گا
120 جناب عبدالرحیم راٹھور صاحب بہت ہی پیارا خدا ہے ہمارا وہی ہے ہمیشہ ہمارا سہارا اسی نے ہمیں زندگی بخش دی ہے ہے کتنا ہی پیارا وہ خالق ہمارا ہمیں نعمتیں اس نے دی ہیں بہت سی ه محسن وہ ہے داتا ہے رازق ہمارا روشن ستارا یہ شمس و قمر بھی اسی نے بنائے اسی کا نشاں ہے وہ وہی چاند میں رات بھر ہے چمکتا اسی کا ہے سورج میں ہر اک شرارا سمندر کی مچھلی ہوا کے پرندے بنوں کے چرندے جہاں کے درندے اسی نے یہ سب حکم گن سے بنائے زمیں آسماں ہو کہ ہو سنگ و خارا دعائیں وہ سنتا ہے بندوں کی ہر دم مگر مانگ لینے کا ہے کس کو یارا بھلا کوئی مایوس لوٹا کبھی بھی؟ وہ جس نے اسے پاک دل سے پکارا وہ شاه رو عالم محمد ہمارا دھارا نبیاء عرب بھی اسی نے ہے بھیجا ہے فیض محمد ہمیشہ سے جاری ہمیشہ ہی جاری رہے گا وہ ختم الرسل ہیں خدا کی قسم ہے بہر جا یہی نعرہ ہم نے ہے مارا سلام ان یہ لاکھوں بہر جا بہر دم بصد آرزو خاک پا نے پکارا ( تشحیذ الاذهان ستمبر 1978ء)
121 جناب عبید اللہ علیم صاحب گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے اندھیرے میں اجالا دھوپ میں سایہ فقط تو گدائے دہر کا کیا ہے اگر یہ در نہیں وہ ہے ہے تیرے در کے فقیروں کی تو گل دنیا فقط تو ہے تو ہی دیتا ہے نشہ اپنے مظلوموں کو جینے کا ہر اک ظالم کا نشہ توڑنے والا فقط تو ہے وہی دنیا وہی اک سلسلہ ہے تیرے لوگوں کا کوئی ہو کر بلا اس دیں کا رکھوالا فقط تو ہواؤں کے مقابل بجھ ہی جاتے ہیں دیئے آخر ہے مگر جس کے دیئے جلتے رہیں ایسا فقط تو ہے عجب ہو جائے یہ دنیا اگر کھل جائے انساں پر کہ اس ویراں سرائے کا دیا تنہا فقط تو ہے ہر اک بے چارگی میں بے بسی میں اپنی رحمت کا جو دل پر ہاتھ رکھتا ہے خدا وندا فقط تو میرے حرف و بیاں میں آنسوؤں میں آبگینوں میں جو سب چہروں سے روشن تر ہے وہ چہرہ فقط تو ہے ہے
122 جناب چوھدری عنایت اللہ صاحب احمدی تیرے صدقے تیرے قربان پیارے مولیٰ تیرے ان گنت ہیں احسان پیارے مولیٰ کہہ کے گن تو نے ہی پیدا کیا اس عالم کو زندگی اور تناسب دیا اس عالم کو یہ سمندر ، یہ ہوا، ساری زمیں سارے سماء اپنے محبوب کی خاطر انھیں پیدا ہے کیا چاند سورج کو، ستاروں کو سجایا تو نے اپنی مخلوق کی خدمت میں لگایا تو نے ابھی پیدا نہ ہوئے تھے کہ غذا تھی موجود سانس لینے کے لئے تازہ ہوا تھی موجود بادل آتے ہیں ہمیں پانی پلانے کے لئے فصلیں اُگتی ہے ہمیں کھانا کھلانے کے لئے احمد کی کون ہے؟ احسانوں کا کرلے جو شمار ہے کرم تیرا ہی انسانوں میں ہے اپنا شمار جسم خاکی کے لئے تو نے فتا رکھی ہے روح انساں کے لئے تو نے بقاء رکھی ہے انبیاء تو نے ہی بھیجے تھے زمانے کے لئے روح انساں کو تباہی سے بچانے کے لئے مصطفی پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت نور سے جس کے ملی روح کو پوری راحت (مصباح ستمبر 1993ء)
123 جناب شمشاد احمد قمر صاحب (گلبرگ لاہور ) اے خدا اے مالک ارض و سما اے مرے پیارے مری جاں کی پناہ تو مرا محبوب ہے تو ہی بتا یاد تیری دل سے ہو کیسے جدا نام سے تیرے جلا پاتا ہوں میں تو نہ ہو گر ساتھ گھبراتا ہوں میں دل مرا بیتاب ہے رہنے لگا جانے کس غم میں ہے یہ بہنے لگا کون ہوں کیا ہوں بتا سکتا نہیں بات دل کی لب پہ لاسکتا نہیں دور ہوں آقا سے مدت ہو ہو گئی جانے کیوں قسمت ہے مری کھو گئی نہ رہا وہ آسماں نہ وہ زمیں بات اب دل کو کوئی بھائی نہیں صبر کی طاقت نہیں مجھ میں رہی کیسے بیتے گی جدائی کی گھڑی دل ہے دیوانہ ہوا جاتا مرا بھیج دے واپس مرے محبوب کو ہوگا کب دیدار بچھڑے یار کا ہو دل مہجور کو کچھ تستی امتحاں کی ہوچکی اب انتہا اک نشاں قدرت اپنی پھر دکھا ( تشخيذ الذھان جون 1985ء)
124 جناب مبشر خورشید صاحب کچھ ایسے ایک کرم کا نزول ہو جائے دلوں سے صاف گناہوں کی دھول ہو جائے تیری رضا کا ہمیں گرحصول ہو جائے ہر ایک لذت دنیا فضول ہمارے دل کی کلی کھل کے پھول ہو جائے ہو جائے میری دعا یہ خدایا قبول ہو جائے ہر ایک بات میں دنیا پہ دیں مقدم ہو زندگی کا ہماری اصول ہو جائے اشک آنکھ سے ٹپکیں اگر تیری خاطر تو ان کا بڑھ کے ستاروں سے مول ہو جائے ہر آن جس کو ہو تائید ایزدی کا یقیں وہ قلب کیسے ہے ممکن ملول ہو جائے جلا سکے گی جہنم کی آگ کیا خورشید بروز حشر جو قرب رسول ہو جائے (الفضل 3 ستمبر 1966ء)
125 جناب ضیاء اللہ مبشر صاحب وو ہوا دست محبت کا اشارا ہم کو ” مولی بس فرشتوں نے فلک سے ہے پکارا ہم کو ” مولی بس عدد نے پھینک ڈالا تھا ہمیں بحر مصائب میں ملا الفت کی لہروں میں کنارا ہم کو مولی بس سفینہ جب کبھی اپنا گھرا طوفان ظلمت میں اسی کو ناخدا ہم نے پکارا ہم کو مولی بس سنو اے غیر کی شہ پر عداوت میں فنا لوگو! مبارک تم کو غیروں کا سہارا ہم کو مولی بس ہمیں بے شک بناؤ تم ہدف جوروستم کا ہی نہ چھینو بس خدا ہم سے خدارا ہم کو مولی بس اسی کی راہ میں ہر شے لٹانا، دین ہے اپنا که مال و جان و عزت سے ہے پیارا ہم کو مولا بس ہمیں تاریک رستوں نے ضیاء منزل عطا کی ہے ظلمت میں روشن تر ستارا ہم کو مولی بس ره ہمارا نور یزدانی بجھا پاؤ، بجھا دیکھو تمہی پر مکر الٹے گا تمہارا ہم کو مولی بس ( الفضل 21 اگست 2004 ء)
126 جناب مبشر احمد راجیکی صاحب مشکل کشا ہے تیرے سوا کون کون مضطر نواز ہے تجھ کون حاجت روا ہے تیرے سوا بن کون راحت فزا ہے تیرے سوا کون منزل رساں ہے تیرے بغیر کون جادہ نما ہے تیرے سوا کس کی عادت ہے لطف فرمائی کس کا شیوا عطا ہے تیرے سوا کس کے در پر کروں جبیں سائی کس کو سجدہ روا ہے تیرے سوا کون تیرا ہے بندہ ناچیز کون میرا خدا ہے تیرے سوا جس کے لب پر ”نہیں“ نہیں آتی کون جانِ حیا ہے تیرے سوا کس نے دامن بھرا ہے تیرے بغیر کس نے جامہ دیا ہے تیرے سوا روپ میں جو دیا میں یکتا ہو کون ایسا پیا ہے تیرے سوا بھی اٹھا قدم مبشر کا کون بڑھ کر ملا ہے تیرے سوا (انصار اللہ ستمبر 1985ء)
127 جناب سیٹھ محد معین الدین صاحب محشر (حیدرآباد) اے تیرے قلب صاف میں کون و مکاں کی وسعتیں اے تیرے فیضِ عام سے شاہ و گدا ہیں شاد کام اے تیرا حسن بے مثال، نور خدائے لایزال اے تیرا جلوہ جمال شعله طور کا پیام زندگی تیرا پیام سرمدی چاره درد تیری نوائے لطف سے زخم نہاں کا التیام جو تیرے فیض سے ہوئے راہ و فا میں گام زن کار گر حیات میں ہو گئے فائز المرام جن کے دلوں کو بخش دی علم و یقیں کی روشنی ان کی نظر یہ کھل گیا راز حقیقت دوام محشر خستہ جاں بھی ہے تیرے کرم کا منتظر فيض عمیم سے ترے قلب ونظر ہو شاد کام
128 جناب اکرم محمود صاحب اک لحظہ میں حالات کی تصویر بدل جائے تو چاہے تو چاہے تو مولا تیری تقدیر بدل جائے تو پانی میں بنا دیتا ہے رستہ ہو اذن تو پھر آگ کی تاثیر بدل جائے اس رات تو ہر خواب پہ دھڑکا سا لگا.ہے اس رات تو ہر خواب کی تعبیر بدل جائے دے حکم فرشتوں کو میرے شافی و کافی بر عکس اگر ہے تو وہ تحریر بدل جائے ہر خوف پہ تو امن عطا کرتا رہا ہے ممکن نہیں اس دور میں تفسیر بدل جائے (الفضل 11 نومبر 2000ء)
129 جناب ڈاکٹر محمودالحسن صاحب (ایمن آبادی) دل میں جب انکی محبت کا شرر ہوتا ہے ذره خاک بھی صد رشک قمر ہوتا ہے کیا کہوں کتنی بلندی پہ گزر جاتا ہے جب تیرے در پہ جھکایا ہوا سر ہوتا ہے چشم عاشق میں جو ہوتا ہے لگن کا آنسو نہ ستارہ کوئی ایسا نہ گہر ہوتا ہے پھول ہو جاتے ہیں سب شرم سے پانی پانی صبح جب ان کا گلستاں سے گزر ہوتا ہے لوگ کرتے ہیں اُسے آہ! جفا سے تعبیر جب کرم ان کا اندازی دیگر ہوتا ہے زندگی کاش وہ بن جائے صدف کہ جس میں عشق کا خاص درخشندہ گہر ہوتا ہے
130 جناب سید محمود احمد صاحب مجھے آزما کے پیارے میرا حوصلہ نہ دیکھو مجھے دل میں تم بسالو دیکھو بھلا نہ دیکھو میں فقیر ہوں ازل سے تیری ذات با صفا کا مجھے جام بھر کے دے دو میرا حوصلہ نہ دیکھو جو تیری بقا کی خاطر مجھے جستجو لگی ہے اسے تم قبول کرلو میرا دل جلا نہ دیکھو میں بھٹک رہا ہوں کب سے اسی وادی بناں میں مجھے آکے خود اٹھا لو کم حوصلہ نہ دیکھو حصار نا شناساں مجھے ہر طرف سے گھیرے مجھے تم پند میں لے لو میرا مسئلہ نہ دیکھو تیرے پیار کی ہی خاطر میرے پیارے مر رہے ہیں تمہیں آکے اب صلہ دو دل مبتلا : دیکھو ம் اس دور بے اماں میں ہر علم ہو رہا ہے اس کی سزا دو اب مرحلہ نہ دیکھو تیرے پیار کے سفر میں اک میں ہی پا پیادہ میری دوریاں مٹا دو فاصلہ نہ دیکھو (الفضل 26 مئی 1999ء)
131 جناب مصلح الدین راجیکی صاحب 1 ہے وہ جانِ عالم نہاں بھی ہوکر نگاہِ دل سے نہاں نہیں قدم قدم پر عیاں ہے لیکن قدم قدم پر عیاں نہیں ہے وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے ظاہر وہی ہے باطن کوئی بھی ہستی نہیں ہے ایسی وہ جس کی روح رواں نہیں ہے یہ اپنی اپنی نظر ہے ورنہ اسی زماں میں اسی مکاں میں کئی ہیں ایسے بھی طور جن کا کسی کو وہم و گماں نہیں ہے ہے نہ سرفرازی سے کوئی مطلب نہ سرفروشی سے کوئی خطرہ رہ محبت کے رہرووں کو خیال سودوزیاں نہیں کبھی ستانا کبھی رلانا کبھی کسی کا لہو بہانا! ذرا تو سوچواے چیرہ دستو! کہ کیا غریبوں میں جاں نہیں ہے یہ کس نے تم کو بتا دیا ہے کہ اس ستم کی سزا نہ ہوگی زمیں یہ اب وہ زمیں نہیں ہے کہ آسماں آسماں نہیں ہے ( الفرقان مئی 1964ء)
132 2 ہے اس کو زیست تیری بارگاہ میں دونوں جہاں کو چھوڑ دے جو لا الہ میں یہ بھی ہے میری چشم بصیرت کا اک گناہ دیکھا جو میں نے آپ کو خورشید و ماہ میں طور و حرا میں جس کے تقاضوں سے باریاب وہ دل نہیں تو کچھ بھی نہیں جلوہ گاہ میں روز بلی میں جب میں اسیر الست ہوں پھر کیا مضائقہ ہے تمہیں رسم و راہ میں (مصباح دسمبر 1950ء)
133 جناب چوہدری محمد علی صاحب 1 اس کی یکه اور و تنہا ہے نه حد وہ محتاج ہیں لا کا ہے اثبات قُلْ هُوَ الله اَحَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ اس کی ذات ہے محمد وہ اس کی نفی ہے نه رو اس کے در کے ہیں فقیر چھوٹے بڑے نیک و بد کون ہے اس کے سوا معتبر اور مستند حرف صوت و لفظ اس کے زیر و زبر ، مد و شد سارے انقلاب اس کے سب جذر اور سارے مد ہر حساب اس کا حساب ہر عدد اس کا عدد وقت ہے اس کا غلام اس کے ازل اور ابد عقل اس کے خال و خد عشق اس کا معجزہ وہ ہے و خبیر اے مری جاں کی الغياث و میں ہوں ناداں نابلد المدد
134 2 روح کے جھروکوں سے اذن خود نمائی دے مجھ کو بھی تماشا کر، آپ بھی دکھائی دے اشک ہوں تو گرتے ہی ٹوٹ کر بکھر جاؤں شور میرے گرنے کا دور تک سنائی دے تو نے درد دل دے کر میری سرفرازی کی اب اے درد کے داتا درد سے رہائی دے لخت لخت ہو کر میں منتشر نہ ہو جاؤں ایک ذات کے مالک ذات کی اکائی دے پور پور تنہائی، انگ انگ سناٹا جس طرف نظر اٹھے، آئینہ دکھائی دے بولنے کی ہمت دے بے صدا مکانوں کو اب تو بے زبانوں کو اذن لب کشائی دے یا نه کھٹکھٹا نے دے اور کوئی دروازہ یا نہ ہم فقیروں کو کاسہ گدائی مضطر اپنی بے نگاہی پر عرق عرق ہوں روح بھی ہے شرمندہ جسم بھی دہائی دے دے الفضل 23 جنوری 2003ء)
135 جناب محمد احمد مظہر صاحب ہر ذرہ میں نمایاں نور کمال تیرا ہر قطرے میں ہے پنہاں بحر زلال تیرا ہو چاند یا کہ سورج سیارہ ہو کہ ثاقب یہ انتظام عالم ہے طوف و ذکر جاری ہر ماہ و سال تیرا ربط و ضبط با هم رستہ بتا رہا ہے اے ذوالجلال تیرا الست تیرے یوں تجھ سے قول ہارے مشھر جواب پر تھا گویا سوال تیرا گرد گماں میں گم ہے سب عقل کی تگ ودو ہوتا ہے یعنی پیدا اک احتمال تیرا ادراک برق یا کی تجھ تک نہیں رسائی تڑپا رہا ہے دل کو شوق وصال تیرا وحی پیمبری نے ظاہر کیا وگرنہ پاتے پتا کہاں سے اے بے مثال تیرا ہوتی نہیں معطل تیری صفت کوئی جب کیونکر ہو مہر بر لب حسنِ مقال تیرا
136 میر محمدی میں اور ماہ احمدی میں واں ہے جلال تیرا یاں ہے جمال تیرا رو دہریت کی ہر سُو دنیا میں چل رہی تھی لیتا تھا نام کوئی بس خال خال تیرا اسلام کی دوبارہ کی تو نے آبیاری چمکا وہ زنده پامال ہو رہا تھا نونہال تیرا برق ہو کر کڑکا وہ رعد بن کر برسا گرج گرج کر امر نوال تیرا نشان آیا زنده خدا دکھایا ہر دل میں پھر بٹھایا نقش خیال تیرا وہ نفخ صور جس سے جاگ اُٹھے سب مذاہب ہر اک ہو رہا ہے جویائے حال تیرا پر تو نگن نہ ہووے جب تک وہ بدر کامل ہو نا تمام مظہر کسب کمال تیرا (الفضل 6 اگست 1925ء)
137 جناب منصور احمد شاہد صاحب اٹاوی ثم لکھنوی پھولوں میں تیری خوشبو تاروں میں نور تیرا ہر چیز سے عیاں ہے یا رب سجدہ گہہ ملائک تو نے مجھے بنایا تیرا تجھ کو ہے ناز مجھ مجھ کو غرور تیرا اے واحد و یگانه اے قادر و توانا ثانی کوئی نہیں ہے نزدیک و دور تیرا تیری تجلیوں کے جلوے کہاں نہیں ہیں مہرو و شفق میں رقصاں ہے نور تیرا شعور تیرا جوہر کا یہ جگر ہے یا ہے نظام شمسی ہر ذرہ دے رہا ہے یارب مرجع حقیقتوں کا منبع صداقتوں کا قرآں ہے یا الہی منہاج نور تیرا حاضر ہے تیرے در پر منتظر کرم کا شاہد کو بھی عطا ہو یا ربّ حضور تیرا مصلح جولائی 1996ء)
138 جناب میاں منور احمد درویش صاحب جو کچھ بھی مانگنا ہے وہ خدا سے مانگ عجز و نیاز اور نفس کشی کی ادا سے مانگ تو سر تا پا سوال ہے بکر عطا سے مانگ سوز و جگر سے درد سے آہ رسا سے مانگ نادان کیا ملے گا تجھے دنیا سے مانگ کر گر مانگنا سے تجھ کو تو حاجت روا سے مانگ تو تو طلب طلب ہے اور وہ ہے عطا عطا منبع جودو سخا سے مانگ العطا سے نعم درویش اس کے فضل کی کچھ انتہا نہیں بس انتہائے فضل و کرم ہی خدا سے مانگ
139 جناب احمد منیب صاحب دل کے درد نے کر دی مولی پیلی چاند کی وردی مولی اشک نے سجدوں کی برکھا میں ہم نے تو دھرتی جل تھل کر دی مولی جھولی پھیلائی نے جھولی بھر دی مولی کامل، عاجل صحت دے دے خیر ہووے ولیر وی مولی آنکھ مری دیدار کے قابل کر دے میرے دردی مولی ( الفضل نومبر 2002 ء )
140 جناب نادر قریشی صاحب ر محبوب خدا پر ہو ہو رسائی میری کسی طور غم دل رہائی میری جب بھی مشکل کی گھڑی میں ہے پکارا تجھ کو تیری رحمت سے ہوئی عقدہ کشائی میری لوگ کانٹے ہی بچھاتے رہے رستے میں مرے تو نے ہر موڑ پہ کی راہنمائی میری تیرے انداز کرم کی کوئی حد ہے نہ حساب بخش دیجے نظر آئے جو برائی میری آستیوں کے مرے داغ مٹا دے یارب تو نے ہر بگڑی ہوئی بات بنائی میری فخر ہے مجھ کو ملی فخر دو عالم کی جھلک عمر بھر کی ہے یہی ایک کمائی میری تیرے محبوب پہ یارب مرا ہر ذرہ ثار دین و دنیا کی اسی میں ہے بھلائی میری کیا ہے مل جائے مجھے منزلِ مقصودِ حیات ہو قبول در حق ناصیه سائی میری میرا انداز جنوں اور فزوں ہو یارب کام آجائے مرے آبلہ پائی میری الفضل 19 جنوری 1989ء)
141 جناب سید محمد الیاس ناصر دہلوی صاحب تری حمد و ثنا میں پھر رواں ہے اب قلم میرا کہاں تو اور کہاں یہ خامنہ عاجز رقم میرا ازل سے ہے ابد تک رحمتوں کا سلسلہ جاری کہاں تک اب یہ لکھے گا دل عاجز رقم میرا ترا قرآن کعبہ ہے محبت اور رحمت کا اسی کے گردگھوموں گا ہے جیتک دم میں دم میرا جہاں ہر جھکنے والے سر کوملتی ہے سرافرازی اُسی درگاہ میں ہوگا سر تسلیم خم میرا سرمو ہٹ نہیں سکتا قدم راہ اطاعت سے تیرے دین مبیں کی آن پر نکلے گا دم میرا مجھے جو کچھ ملا ہے تری رحمت کا کرشمہ ہے ترقی پر ترے ہی لطف سے ہے ہر قدم میرا یقیناً یہ ترے الطاف پیہم کا کرشمہ ہے بہ ایں الائشِ دامن بھی قائم ہے بھرم میرا الہی فضل سے اپنے دکھا یثرب کی وہ گلیاں کہ جن گلیوں میں پھرتا تھا کبھی شاہ اہم میرا ملے گی آنکھ کیونکر حشر میں اُس شاہ خوباں سے یہی ہے فکر میری کرب میرا اور غم میرا خطاؤں کے سوا دامن میں میرے کچھ نہیں ناصر رہے گا حشر میں قائم بھلا کیونکر بھرم میرا ( کلام ناصر )
142 جناب افتخار احمد نسیم صاحب آنسوؤں کی پھر کوئی برسات لے کر آ گیا ہاں ترے کوچے میں آدھی رات لے کر آ گیا آہ وزاری کس قدر ہے آستانے پر ترے دیکھ کیسی بے بسی ہے اک دوانے پر ترے مانگنے کا وصف تو مجھ میں نہیں میرے خدا دے رہی ہے تیری رحمت پھر بھی مجھ کو حوصلہ بن تیرے کوئی نہیں ہے دیکھ میرے چارہ ساز جانتا ہے تو خدایا میرے دل کا راز راز بخش دے میری خطائیں سن لے مری التجا منتظر رحمت کا ہوں تیری مرے حاجت روا میں ہوں تیرا، تو ہے میرا، جانتا ہے ہر کوئی تیرے در سے ہی مرادیں مانگتا ہے ہر کوئی کون میرا ہے جہاں میں بجز ترے میرے خدا کس سے مانگوں میں شفا کی بھیک پھر تیرے سوا مانگنے آیا شفا میں اپنے پیارے کیلئے تو شفا دے دے اے شافی اپنے پیارے کیلئے شافی مطلق شفا دے سارے پیاروں کو مرے اور سکون دل عطا کرغم کے ماروں کو مرے اب نسیم بے نوا کی بس یہی ہے اک دعا تو شفاؤں کا ہے مالک کر عطا ان کو شفا (الفضل 16 نومبر 2002ء)
143 جناب نصیر احمد خان صاحب تازگی جسم کو دے جاں کو توانائی دے مضطرب دل کو میرے صبر و و شکیبائی دے اے زمیں سے گل صد رنگ اُگانے والے تودہ خاک ہوں تو صورت و زیبائی دے فکر بالیدہ عطا کر مری ہر سوچ بدل گنگ ہے میری زباں طاقتِ گویائی دے دہر میں پامال ہوں سبزہ کی طرح کر سر افراز مجھے سرو کی رعنائی دے زخم تیرے در پڑا ہوں کب مرہم لطف کو تو اذن پذیرائی دے (رود چناب)
144 جناب شیخ نصیر الدین صاحب 1 ہاتھ اُٹھتے ہیں جب دعا کے لئے دل سنورتا ہے جب خدا کے لئے سوچتا ہوں کہ اس سے کیا مانگوں عمر مانگوں یا ارتقا مانگوں آبرو علم جلا مانگوں رزق آسودگی غنا مانگوں اپنے امراض شفا مانگوں اپنے دکھ کی درد دوا مانگوں وصل مانگوں یا حوصلہ مانگوں دل کی تسکین کی فضا مانگوں کس کو چھوڑوں میں اور کیسے مانگوں؟ کتنی مدت کے واسطے مانگوں؟ ان میں ہر چیز مٹنے والی ہے ہر قدم پر بھٹکن والی ہے
145 کوئی بھی مرحله طے ہوگا فائده اس کا بکے ہوگا جب نہ دل ہوگا اور نہ جاں ہوگی روح کیا جانے پھر کہاں ہوگی جدا ہوگا میرا کیا ان ہاں نظر اک شہ پڑتی ہے گوشتہ دل میں جو دیکھتی ہے ترے در واسطه ہوگا روح ނ برق طور کا رشتہ اپنے خالق نور کا رشته روزه قیام کے دوران کاش مل جائے دولت ایمان کاش اس ہی اکتفا کرلوں اس امید کو ہرا کرلوں اس ނ احمد یہی سوال کرو اپنے حاصل کو لازوال کرو سوا محبت کے کچھ نہ مانگوں گا اے خدا تجھ
146 2 تجھ کو ہر دم پکاروں گا میرے خدا میرے پیارے خدا میرے پیارے خدا میں پکاروں بتا کس کو تیرے سوا مجھ کو تو نے ہی آخر ہے پیدا کیا تیرے در کے سوا زندگی میں وو میں تو ہر موڑ ہے تجھ کو دونگا صدا کیا 66 میری آنکھوں میں آ اپنا جلوہ دکھا تو کرے خاک میں مجھ کو بے دست و پا تب بھی خوش ہوں کہ ہے اس میں تیری رضا لوگ کہتے رہیں مجھ کو پاگل بتا! تجھ کو ایسی پکاروں سے ملتا ہے کیا؟ کچھ ملے نہ ملے ہے مجھے اس سے کیا میں تو ہر موڑ تجھ کو دونگا صدا میرے پیارے خدا اپنا رستہ دکھا!
147 جناب محمد ہادی صاحب کہیں بھی فضا ایسی پائی نہیں ہے جہاں تیری قدرت نمائی ہے زمیں سے فلک تک، فلک سے بھی آگے سوائے خدا کی ، خدائی نہیں ہے تیرے جیسا جلوہ اُجاگر نہیں ہے تیرے جیسی صورت سمائی نہیں ہے تو اطراف عالم میں پھیلا ہوا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہے تو خالق اشیائے ادنیٰ و اعلیٰ کوئی چیز کم تر بنائی نہیں ہے تو ازلی و ابدی یکتا خُدا ہے ہمیں اس سے نا آشنائی نہیں ہے تو معبود ہے تیری درگاہ سے ہٹ کر جیں ہم نے اپنی جھکائی نہیں تو زندہ تھا زندہ ہے زندہ رہے گا تیری زندگی انتہائی نہیں ہے منزہ ہے ہر عیب سے تو.نظر نے کبھی ایسی ہستی دکھائی نہیں ہے تیرے با لمقابل جو آیا تو اُس نے کوئی تیری خوبی مٹائی نہیں ہے اُسے کیا خبر ہو کہ تُو بولتا ہے کہ جس نے یہ بات آزمائی نہیں ہے ہے تو جامع ہے دُنیا کی سب طاقتوں کا کوئی اور طاقت یوں چھائی نہیں ہے ہادی نگاہ کرم اس طرف بھی ورنہ مشکل کشائی نہیں ہے (مصباح)
148 جناب قاضی محمد یوسف صاحب تیری درگاہ میں یارب ہے ہر دم التجا میری کہ اپنے فضل و احساں سے مجھے بخشیں خطا میری میری روح ہوگئی روگی خطا اور سہو و عصیاں سے تیرے ہاتھوں میں ہے یارب دوا میری شفا میری تیرے فضل و کرم سے بن گیا مئی سے سونا میں تیری گن سے ہوئی آغاز تعمیر بنا میری تیرے فضل و عطا نے میری ہر دم دستگیری کی تیرے احساں سے خوش گزری ہے ہر صبح و مسا میری میرے حستاد ساعی ہیں کہ میرا تن کریں عُمر یاں حیلے بہانے سے یہ چھن جائے ردا میری ہے میرا حافظ میرا حامی میرا ناصر تو ہی تو یہ حاسد کیا بگاڑیں گے سبھی مل کہ بھلا میری میں بندہ ہوں تو آقا ہے میں تابع ہوں تو مولا ہے تری مرضی کے تابع ہے خدا وندا رضا میری نہ عالم ہوں نہ شاعر ہوں نہ دعوی ہے کسی فن کا مگر دل میں تڑپ ہے یہ وہ سمجھیں مدعا میری تیرے دربار میں یوسف کی یارب آرزو یہ ہے کہ اپنے فضل واحساں سے ہمیشہ سن دُعا میری (مصباح اگست 1961ء)
149 شاعرات
150 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ 1 ہوئی سجدہ ریز میں جو تو ز میں نے دی دُہائی که مرا خراب کر دی تو به سجده ریائی مجھے گود میں اٹھا یا، مجھے سینے سے لگایا مرے کام آگئی ہے یہ مری شکستہ پائی تجھے کیا خبر ہے زاہد ! اسے کیا پسند آئے؟ میری حالت ندامت! ترا فخر پارسائی یہ تری صلوٰۃ وجہ نہ بچی کسی نظر میں تجھے کر رہا ہے رسوا ترا شوق خود نمائی تری محفلوں کا واعظ ! وہی رنگ ہے پرانا وہی تیری کم نگا ہی ، وہی تیری کج ادائی نہ یہاں ہی پوچھ تیری ، نہ وہاں مقام تیرا نہ خدائی معترف ہے ،نہ خُدا سے آشنائی یہ حیات وموت کیا ہے ، یہی گردش زمانہ یہی عارضی سی فخر بت ، یہی عارضی جدائی اسے کاش نہ خبر ہو کہ مالِ زیست کیا ہے بڑے شوق و آرزو سے جو کلی ہے مسکرائی تیری رحمتوں کا مالک ! مجھے چاہئے سہارا ہے یہ وقت کسمپرسی ہے یہ دور نارسائی یہ مکین پستیوں کے بڑا ناز کر رہے ہیں مرے مہرباں ! دکھا دے ذرا شانِ کبریائی تری غیرتوں کا طالب ، تری نعمتوں کا عادی ترے سامنے پڑا ہے مرا کاسہ گدائی جو دیا ترا کرم ہے نہیں مجھ میں بات کوئی نه طریق خوش کلامی، نہ ادائے دلر بائی ہیں ترے حضور حاضر یہ ندامتوں کے تحفے میری زندگی کا حاصل، مری عُمر کی کمائی (مصباح نومبر 1984ء)
151 2 کرتے ہیں اسی کی حمد و ثنا یہ شمس و قمر یہ ارض و سما گلشن، وادی، صحرا، دریا ہر ایک اسی کا مدح سرا جو کچھ بھی ملا اس سے ہی ملا حق اس کا بھلا ہو کیسے ادا ہر چیز سے بڑھ کراس کی رضا بس لا ہے صبر و رضا کا مطلب کیا الم الا الله وہ حسن مجسم نُور ازل وہ زندہ حقیقت ٹھوس اٹل ہر شے کی حقیقت پل دو پل آیا جو یہاں وہ چل سو چل باقی اگر تو ہے نام خُدا بس لا اله الا الله کانوں کی سماعت کب کی نوا ہاتھوں کی سکت قدموں کی پنا آنکھوں کی صفاء ذہنوں کی جلا ادراک کی قوت فہم و ذکا یہ حسن طلب یه ذوق دعا عرض تمنا، طرز ادا ہر شے ہے اُسی کی جود و عطا وہ رحمت گل میں صرف خطا ہر درد کا درماں روح شفاء کیا؟ لا الم الا الله پھولوں کی مہک بلبل کی نوا سورج کی کرن تاروں کی ضیاء قریہ قریہ، کوچه کوچه جنگل جنگل صحرا صحرا
152 وادی وادی 6 ہرشے میں وہی ہے جلوہ نما دریا دریا بس لا اله الا الله ملجاء بھی وہی ماوی بھی وہی آقا بھی وہی مولی بھی وہی رحمن وہی ارحم بھی وہی نعمت بھی وہی منعم بھی وہی عادل بھی وہی حاکم بھی وہی رازق بھی وہی قاسم بھی وہی وارث بھی وہی رافع بھی وہی باسط بھی وہی واسع بھی وہی اول بھی وہی آخر بھی وہی اندر بھی وہی باہر بھی وہی نیچے بھی وہی او پر بھی وہی باطن بھی وہی ظاہر بھی وہی منزل بھی وہی رہبر بھی وہی مرکز بھی وہی محور بھی وہی غالب بھی وہی قادر بھی وہی اعلیٰ بھی وہی اکبر بھی وہی قدوس وہی بے عیب وہی معبود وہی لاریب وہی کثرت بھی وہی واحد بھی وہی نگران وہی شاہد بھی وہی رب ارض و افلاک وہی معبود شہر لولاک وہی قیوم وہی ہشیار وہی غم آئے تو ہے غمخوار وہی غقار وہی ستار وہی ہم جیسوں کا پردہ دار وہی پھر اور کہوں کیا اس کے سوا بس لا الم الا الله (مصباح اگست 1987ء)
153 محتر مہ امۃ الباری ناصر صاحبہ 1 وہ نور ارض و سموات قادر و قیوم وہ کبریاء ہے سزاوار ہے خدائی اُسے وہ میرے حال پریشاں سے خوب واقف ہے ہزار پر دوں میں دیتا ہے سب دکھائی اُسے عجیب کیف دعا ہے کہ کچھ نہ مانگ سکوں میں چُپ رہوں بھی تو دیتا ہے سب سُنائی اُسے جو اُس کی یاد میں مچلیں ہیں گوہر نایاب کہ خوب بھاتی ہے اشکوں کی پارسائی اُسے سدا رہی ہوں شرابور ایک رحمت میں میں آنسووں کے سوا کچھ بھی دے نہ پائی اُسے فقط اُسی توقع مہربانی کی ہے ޏ دکھن کلیجے کی سجدے میں سب بتائی اُسے (خالد مئی 1990ء) IN 2 تراش کر زمین کے سارے جنگلات سے قلم میں چاہتی ہوں ربّ ذوالجلال کی مدح لکھوں سمندروں کے پانیوں کو روشنائی جان کر ہے آرزو خدائے با کمال کی مدح لکھوں اگر یہ کم پڑے تو کر کے بار بار یہ عمل ورق ورق پر حسن بے مثال کی مدح لکھوں ہزار مرتبہ پلٹ کے عرصۂ حیات لوں جنم جنم صفات با کمال کی مدح لکھوں وہ دیکھے میری آنکھوں میں تو اپنی ہی طلب ملے میں اس قدر خدائے ذوالجلال کی مدح لکھوں ہے اعتراف عجز اپنے دا من شعور کا سمجھ سکوں تو حُسنِ باکمال کی مدح لکھوں ”خدا کی قدرتوں کا حصر دعوی ہے خدائی کا ا جنون ہو تو عالی المتعال کی مدح لکھوں
154 محتر مدارشاد عرشی ملک صاحبه اسلام آباد بہت بیزار ہوں کارِ جہاں سے نہیں اس بحر کا کوئی کنارہ تری دنیا بڑی رنگین ہو گی، مگر لگتا نہیں اب دل ہمارا بنا تیرے گزارے ہیں زمانے نہیں دوری تری پر اب گوارا تو مجھ میں نور کی صورت میں اُتر جا، وگرنہ زندگی کیا ہے خسارہ تری خاطر فنا ہو جاوں پہلے پھر اس کے بعد جی اٹھوں دوبارہ میں تیری ہو گئی سارے کی ساری، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا مجھے خالص اطاعت بخش دے تو ، مجھے ذوق عبادت بخش دے تو ترے ہر حکم پر میں سر جھکا دوں، کچھ ایسی نرم فطرت بخش دے تو کیوں نکلے کبھی میرے لبوں سے کہ جی کہنے کی عادت بخش دے تو اگر طاغوت آجائے مقا بل مجھے بے مثل ہمت بخش دے تو چراغاں آندھیوں میں بھی کروں میں، اندھیرے ہوں تو بن جاؤں شرارا میں تیری ہو گئی سارے کی ساری ، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا محبت جو مرے دل میں بھری ہے، بہت انمول ہے نایاب ہے یہ یہ چشم نم یہ ٹوٹا دل دھرا ہے، مری پونجی میرا اسباب ہے یہ سر تسلیم خم ہر آن کرنا، وفا کا اولیس آداب ہے یہ تیری راہوں میں اپنی خاک اُڑانا، کتاب عاشقی کا باب ہے یہ لکیر اک روشنی کی چھوڑ جاؤں اگر چہ میں ہوں اک ٹوٹا ستارہ میں تیری ہو گئی سارے کی ساری تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا
155 لہو بن کے رگوں میں دوڑتا ہے، تو مجھ میں سانس کی صورت بسا ہے مری پہچان میرا مان ہے تو ، ترا ہی نام ماتھے پر لکھا ہے سفر بھی تو مرا عزم سفر بھی تو میرا ولولہ ہے حوصلہ ہے ترے ہی پیار کی ہے گونج مجھ میں مرے شعروں میں تو خود بولتا ہے زباں سے کیفیت کیسے بیاں ہو ، مرے چہرے سے سب ہے آشکارا میں تیری ہو گئی سارے کی ساری تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا مجھے اپنی رفاقت بخش دے تو ، مجھے سجدوں کی دولت بخش دے تو نہ روکھی ہوں کبھی میری نمازیں ، محبت کی حلاوت بخش دے تو مجھے اتنی کرامت بخش دے تو ، وفا پر استقامت بخش دے تو تمنا آخری میری یہی ہے، مجھے اپنی محبت بخش دے تو ترے ہی فضل پر نظریں لگی ہیں گنا ہوں کا جلا دے گوشوارہ میں تیری ہو گئی سارے کی ساری ، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا سرور بے کراں میں گھر گئی میں، تری چاہت کا جب پہنا لبادہ تری جانب ہے اب پرواز میری کہ تو ہے میری منزل میرا جادہ ترے ہوتے جگہ دے غیر کو بھی نہیں ہے دل مرا اتنا کشادہ تجھے جانا تو تجھ میں کھو گئی میں ہمیشہ سے تھی میں شفاف و سادہ کبھی گزرا نہ تھا اپنی نظر سے کتاب زندگی کا یہ شمارہ میں تیری ہوگئی سارے کی ساری تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا قباتو نے محبت کی جو بخشی ، ہے مجھ کم ظرف کے قد سے زیادہ ترے در کی گدائی مجھ کو بھائی ،شہنشا ہی کی مسند سے زیادہ
156 چھپائے سے نہیں اب عشق چھپتا اچانک بڑھ گیا حد سے زیادہ مری حالت ہے اب اس شخص جیسی کہ جو بدنام ہو بد سے زیادہ نہ خود بیٹھے نہ مجھ کو بیٹھنے دے کچھ ایسا بھر گیا اس دل میں پارہ میں تیری ہو گئی سارے کی ساری، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا کبھی فرصت سے آکر دیکھ لینا کہ کیا حالت ترے بیمار کی ہے نظر کی جوت بجھتی جا رہی ہے مگر اک آرزو دیدار کی ہے میں اپنے حال پر راضی بہت ہوں کہ اب مرضی یہی سرکار کی ہے مرے باطن میں جتنی روشنی ہے یہ سب رونق مرے دلدار کی ہے ہر اک منظر کی تو روح رواں ہے نظر بھی تو ہے اور تو ہی نظارہ میں تیری ہو گئی سارے کی ساری، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا ترا دیدار ہو دونوں جہاں میں بصیرت اور بصارت بخش دے تو تری ہی سمت میرا ہر سفر ہو مرے جذبوں کو حدت بخش دے تو ہو تیرا ذکر تو دل با ادب ہو وہ اُلفت وہ مودت بخش دے تو اتر جائیں مرے اشعار دل میں مجھے ایسی فصاحت بخش دے تو ترے ہی منہ کا اب بھوکا ہے ہر دم اداس و غمزدہ یہ دل ہمارا میں تیری ہو گئی سارے کی ساری، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا مری ہستی کے ہر ذرے میں آجا ، تو مجھ میں روشنی بن کر سما جا بچا لے مجھ کو سفلی لذتوں سے تو نفسانی اسیری سے چھڑا جا ملا دے دفعتاً جو تجھ سے پیارے وہ راہ مختصر مجھ کو بتا جا میں اک مزدور تو اجرت ہے میری پسینہ سوکھنے سے قبل آجا نہ کرنا صبر کی تلقین مجھ کو نہیں ہے صبر کا اب مجھ میں یارا میں تیری ہوگئی سارے کی ساری ، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا
157 محبت ہے تری کرب مسلسل ، مگر اس کرب میں بھی لڑتیں ہیں تصور میں ملاقاتیں ہیں تجھ سے یہی ہم عاشقوں کی لذتیں ہیں دلا سے ہیں ترکی جانب سے ہر پل گوچپ رہنے کی تجھ کو عادتیں ہیں مٹا کے اپنی ہستی تجھ کو پالوں سلگتے دل کی بس یہ حسرتیں ہیں تو میری خاک میں تاثیر رکھ دے ، تو میرا نام رکھ دے خاکسارہ میں تیری ہو گئی سارے کی ساری ، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا ہر اک غم کی بہت آؤ بھگت کی یہی تھا میرا طرز میزبانی میں بچپن میں بہت کھیلی ہوں ان سے مجھے ہر درد نے دی ہے نشانی میرے مولا کا یہ بھی اک کرم ہے ، مری طاقت بنادی ناتوانی“ سکتی چیخ ہے یہ شاعری بھی ، جسے کہتی ہے دنیا خوش بیانی حسیں لفظوں کے پہنا کر لبادے سکتی شیخ کو میں نے سنوارا میں تیری ہوگئی سارے کی ساری تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا سنادی بے جھجک محفل میں میں نے، خود اپنے غم کی تفصیلی کہانی الم جو اپنے دل پہ گزرا لکھ دیا ہے نہیں آئیں مجھے باتیں چھپانی اُداسی مجھ پہ اب رچ بس گئی ہے یہی میری سہیلی ہے پرانی کبھی عرشی ملک تھا نام میرا پر اب کہتے ہیں سب جھلی نمانی میری دیوانگی کو معاف کرنا، نہیں دیوانگی بن اب گزارا میں تیری ہو گئی سارے کی ساری ، تو اب ہو جا مرا سارے کا سارا
158 محترمه اصغری نور الحق صاحبه 1 میرے پیارے خدا میرے پیارے خدا ہوں تیرے نام پر میرے پیارے خدا میری آنکھوں میں آ میرے دل میں سما تو بھی بن جا میرا مجھ کو اپنا بنا میری عاجز کی زاری کوسُن لے ذرا میرے پیارے خدا میرے پیارے خدا تیرے فضلوں کا ہو شکر کیسے ادا مجھ گنہگار کو ہے ترا آسرا تیرے احسان ہیں مجھ بے انتہا تو عطا ہی عطا میں خطا ہی خطا اپنی رحمت کی وا کردے اب تو ردا میرے پیارے خدا میرے پیارے خدا تیرے در سے نہیں کوئی خالی پھرا تیرے در پر برابر ہیں شاہ و گدا میں بھی عاجز غریب اور ہوں بے نوا میری جھولی بھی رحمت سے بھر دے ذرا کاسئہ دل ہے تیرے ہی در پہ دھرا میرے پیارے خدا میرے پیارے خدا تو غفور الرحیم اور یمن ہے تو ہے سبحان تیری بڑی شان ہے تیری ہی ذات پر میرا ایمان ہے میرے ایماں کے درجوں کو ہر دم بڑھا میری ہر سانس نے نام تیرا لیا میرے پیارے خدا میرے پیارے خدا میرے آقا کو عمر خضر کر عطا ہو خلافت تیری نظر اے خدا عمر وصحت بھی دے نظر بد سے بچا نصرت حق رہے ساتھ اسکے سدا ان کے سائے تلے ہو ترقی عطا میرے پیارے خدا میرے پیارے خدا
159 2 اتنا کرم ہو یا رب جب جان تن سے نکلے اس دم میری زباں سے تیرا نام من سے نکلے کوئی کٹھن گھڑی جو اس وقت مجھ یہ آئے کر دینا اس کو آساں جب جان تن سے نکلے کر دینا مجھ پہ یارب روح القدس کی چھاؤں جب سانس لب پہ آئے اور جان تن سے نکلے پہنچانا ان لبوں تک اک جامِ آب کوثر لب سوکھ جائیں جس دم اور جان تن سے نکلے سب اس جہاں کے رشتے جب ساتھ چھوڑ دیں گے ہوں ساتھ پاک روحیں جب جان تن سے نکلے آنکھوں کی پتلیاں جب بے نور ہوں بالآخر دیدار ہو نبی کا جب جان تن سے نکلے چلنے لگیں یکا یک فردوس کی ہوائیں رک جائے بادِ صر صر جب جان تن سے نکلے امید ہے یہ مجھ کو بس تیری رحمتوں سے اولاد متقی ہو جب جان تن سے نکلے ہونٹوں پہ میرے اس دم دیدار کی خوشی میں ہلکی سی اک ہنسی ہو جب جان تن سے نکلے
160 محترمہ امۃ الرشید بدر صاحبه ہیں حمد سبھی کرتے یاں ارض وسما تیری توفیق ملے یارب کریں ہم بھی ثنا تیری محتاج ترے ہر دم ہر سانس تترا احساس ہر جاں کی بقا پر ہے رحمت کی ردا تیری ہیں حُسن ترے بکھرے ہر وادی و گلشن میں پھولوں میں مہک تیری تاروں میں ضیا تیری ہو موسم گل یا کہ ہو زردی خزاؤں کی ہر رنگ نرالا ہے ہر پیاری ادا تیری یہ قوسِ قزح کے رنگ دکھلائیں تری شوخی ہے رعد ہنسی تیری رفتار ہوا تیری ہر نقص سے بالا ہے تو ارفع و اعلیٰ ہے بالا ہے مکاں سے تو پر دل میں ہے جا تیری گر ایک قدم چل کے کوئی آئے تجھے ملنے.تو سو قدم آتا ہے لاثانی وفا تیری 2 (مصباح اکتوبر 1996ء) یہ مہر و ماہ اس کے ستارے اسی کے ہیں یہ جھلملاتے نور کے دھارے اسی کے ہیں پھولوں میں حسن ، تازگی ، خوشبو اسی کی ہے قوس قزح میں رنگ یہ سارے اُسی کے ہیں کھینچی ہے اسکے ہاتھ نے تصویر کائنات چاروں طرف حسین نظارے اسی کے ہیں آبادیوں کو اس نے ہی بخشا ہے حسن زیست گلیاں ،نگر، یہ محن، چوبارے، اُسی کے ہیں ہر آن اپنے ڈھنگ بدلتا رہے ہے دل اس میں یہ سارے عکس اتارے اسی کے ہیں باقی ہے وہ، قیوم ہے اور لازوال ہر شے میں نیستی کے اشارے اسی کے ہیں ہر مضطرب کی حاجت روائی وہی کرے لاچار بے بسوں کو سہارے اسی کے ہیں (الفضل 16 جنوری 2004ء)
161 محترمه احمدی بیگم صاحبه اے خدائے ذوالمنن اے شافی مطلق خدا آئے ہیں در پر ترے ہے عاجزانہ التجا ہاتھ ہیں اٹھے ہوئے تیری طرف مولا کریم اور سر سجدوں میں ہیں رکھے ہوئے، مولا کریم آج ہم ہیں مضمحل اور دل ہیں مرجھائے ہوئے بھیک ہم ہیں مانگتے در پر ترے آئے ہوئے خدمت دین متیں کا تو نے سونپا جس کو کام مستعد ہو کر بجا لاتا رہا با اہتمام ہاتھ میں ہم ہاتھ دے کر اس کے ساتھ آگے بڑھے ہر کٹھن منزل کو طے کرتے ہوئے آگے بڑہے ان دنوں بیمار ہے یہ تیرا عاشق اے خدا تو شفاؤں کا ہے مالک دے اسے کامل شفا دن ہو یا کہ رات ہو ہم مانگتے ہیں یہ دعا اے خدا آب اک نمونہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے حاصل اے مرے رب الوریٰ اے مرے رب الوری، ہاں اے مرے رب الوری ( مصباح اکتوبر 1996ء)
162 محترمہ بشری ربانی ایم اے صاحبہ (لاہور) دُنیا میں کون شخص ہے جس کا خدا نہیں دنیا میں کوئی شخص بھی بے آسرا نہیں ممکن نہیں تھا اس میں سجاتی میں صورتیں ”دل تو خدا کا گھر سے کوئی بت کدا نہیں، ہے جب سے خفا ہیں وہ ہے خفا ساری کائنات مات ہوئی کہ زیست میں کوئی مزا نہیں تھک تھک گئی ہوں جھیل کہ غم ہائے روز گار دل کی پکار پھر بھی ہے میں غم زدہ نہیں زادِ سفر دفا فقط راہِ عشق میں ہے کافی اے ہم سفر یہاں ناز و ادا نہیں مژگاں اُٹھا کے اُس نے مجھے عزم نو دیا سب جھوٹ ہے کہ یار میں خوئے عطا نہیں جس پر نگاہ اس نے کی وہ مست ہو گیا پھر کیا اگر آنکھ اس کی میکدہ نہیں موسم بدلتے دیکھ کے یہ آگیا یقین ! حالات جو بھی ہوں انہیں رہنا صدا نہیں آمد ہے انقلاب کی رہائی حزیں کس کوچے کس دیار میں شورش بپا نہیں (الفضل 21 رمئی 1989ء)
163 محتر مہ رفعت شہناز صاحبہ محبت کی بس اک نظر چاہئے الہی دعا کا ثمر چاہئے اجالا کرے جو دل و جان پر ضیا بار ایسا قمر چاہئے مٹا اپنے فضلوں سے یاس و الم چھٹے رات غم کی، سحر چاہئے بجز تیری نصرت میں کیسے کہوں بلاؤں سے مجھ کو مفر چاہئے حنا رنگ گلشن جو چاہے کوئی وفاؤں کا پیہم اثر چاہئے گلہ کیوں زمانے کا کرتے پھرو خود اپنے عمل کی خبر چاہئے کھلے باب رحمت بلا دور ہو دعاؤں کا ایسا ہنر چاہئے عطا ہو جہاں روز و شب بے حساب گدا کو تو ایسا ہی در چاہیئے چاہئے میں کمزور بندہ ہوں، پر از خطا عطا ہو عفو ، در گزر دکھا اپنی شان کریمی کا رنگ تیری جنت میں اچھا سا گھر چاہئے محبت کی بس اک نظر چاہئے الہی دعا کا چاہئے ( الفضل 24 دسمبر 2003ء)
164 محترمہ شاہدہ صاحبہ (لاہور) کیا اور امتحاں ہے ابھی اس جفا کے بعد اب تو ہوا کا موڑ دے رُخ اس گھٹا کے بعد ہیں عکس تیرے حُسن کا خورشید و ماہتاب تجھ کو بھی کاش دیکھ سکوں اس دعا کے بعد ہر موت ہے قبول مجھے تو اگر ملے مانگوں نہ پھر بہشت بھی میں اس فنا کے بعد یا رب یہی ہے شاہدہ کی ایک التجا تیری رضا ملے اسے ہر اک قضا کے بعد (مصباح اکتوبر 1988ء)
165 محترمہ صائمہ امینہ صاحبہ آج میرے دل میں ہے بس تیری چاہ اے کر دگار اے میرے یار یگانہ اے میرے پروردگار تیری ہستی خیر ہے ورنہ یہ دنیا کچھ نہیں نه عنایات زمانہ نہ صنم کا اعتبار دل میں تیری یاد ہے آنکھوں سے آنسو ہیں رواں اور ان جذبات پر میرا نہیں کچھ اختیار تیرے دم سے آج میں اور بن ترے میں کچھ نہیں جان ہے بس تو ہی میری، ہے تو ہی میرا قرار اے مرے ہادی بتا کہ شکر ہو کیونکر تیرا جبکہ تیرے فضل اور احساں ہیں مجھ پر بے شمار
166 محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ 1 جہاں جہاں بھی جگہ ملی ہے.وہیں پہ سر کو جھکایا یارب رہی عبادت کو تیری حاضر.نماز پھر بھی قضا ء ہے میری!! سبق جو پاسِ وفا کا تُو نے مجھے سکھایا تھا روزِ اوّل! اُسی گھڑی تیرے در سے لپٹی نہ چھوڑی چوکھٹ وفا ہے میری!! نہیں مجھے شوق خود نمائی مگر میں ہوں تیرے پاس ہر دم! جو تجھ سے چہرہ کبھی چھپایا جفا نہیں ہے حیا ہے میری! اگر میری آنکھ بند دیکھو تو مت سمجھنا کہ سو رہی ہوں میں دل کی آنکھوں سے حمد کہتی ہوں جان لو یہ ادا ہے میری مجھے بُرا لوگ گر سمجھتے ہیں چاہے سمجھیں نہیں ہے پروا میرا خدا مجھ سے خوش ہے گر تو فضول آہ وبکا ہے میری تو میری اُنگلی پکڑ کے مجھ کو یہاں تلک لے کے آگیا ہے! اگر زمانے یہ کان دھر کے گروں تو پھر یہ سزا ہے میری اگر میں روؤں تو تیری خاطر اگر ہنسوں تو تیری خوشی کو یہی تو ہے میرے دل کی خواہش یہی تو بس التجا ہے میری
167 2 حمد سے لبریز دل ہیں، دل کھنکتے جام ہیں دل بھی اور جان و جگر بھی بس خدا کے نام ہیں دل کے اندر مسجدیں ہیں منبر ومحراب ہیں فتح ونصرت کے دسکتے جھلملاتے خواب ہیں دل کہ جس میں خواہشیں ہیں رتجگوں کے نور کی صاف اور روشن ہے دل جیسے تجلّی طور کی! رتجگوں کے ان حوالوں سے یہ دل روتا ہے آج دامنِ دل گریہ وزاری سے پھر دھوتا ہے آج درد سے خالی نہیں ہے دل کہ ٹھکرائے کوئی اور تیرے در سے خالی ہاتھ نہ جائے کوئی آنکھ سے موتی ڈھلک کر آگئے تارے بنے عرش کے تارے بنے تو اسطرح کہنے لگے جھانک کر دیکھا بھی ہے شہر تمنا میں کبھی !؟ تم ذرا اُترے بھی ہو بحر تمنا میں کبھی؟ فاقہ مستی فقر و درویشی غریبی کا مزہ کیا تمہیں معلوم ہے عشق حقیقی کا مزا (مصباح نومبر 1984ء) 31 دنیا میں کوئی مجھ سا گنہگار نہ ہو گا! شرمندہ کوئی مجھ سا خطا کار نہ ہو گا! رحمت کی کوئی آج گھٹا چھائے تو جی لوں اک ابر کرم مجھ پہ برس جائے تو جی ٹوں! صحرا ہے کہ وادی کوئی بے آب و گیاہ ہے؟ پڑھئے نہ مرا نامہ اعمال سیاہ ہے بس ایک فقط میں نے اگر کام کیا ہے! ہر سانس میں بس تیرا، فقط نام لیا ہے کی ہے تیرے بندوں کی فقط تھوڑی سی خدمت شائد کہ اسی بات پر بدلے میری قسمت! اس سر پہ ہر اک آئی بلا ٹالئے مولا! اب مجھ پہ بُرا وقت نہ کچھ ڈالئے مولا! تھوڑا ہی سہی مجھ پہ کرم کیجئے مولا! بخشش کا کوئی جام مجھے دیجئے مولا! (مصباح نومبر 1984ء)
168 محترمہ فریحہ ظہور صاحبہ یہ درد کا کانٹا جو میرے دل میں پچھا ہے مرہم ہے کوئی اس کا تو بس میرا خدا ہے اُس سے کوئی پردہ نہیں کیا اُس سے چھپا ہے وہ روح کے اندر بھی کہیں جھانک رہا ہے آیا ہے زمانہ جو کبھی درد , الم کا مشکل جو پڑی پیار مرا اور بڑھا ہے سر میرا بھی کٹ جائے حسین ابن علی سا اب لب پہ فقط ایک شہادت کی دعا ہے خود ہاتھ ހނ پنے میرا کردار سنوارا میرا تو وجوداس کے ہی سانچے میں ڈھلا ہے جو راہ لئے جاتی ہے قربت میں خدا کی اس راہ پر چل کر نہ کوئی پیچھے ہٹا ہے اس خوں میں گھلی جاتی ہے قرآں کی حلاوت فرمان تیرا روح میں یوں گونج رہا ہے زندگی جینا کوئی مشکل نہیں لیکن دوری ہے جو تجھ سے تو بڑی سخت سزا ہے اک بار جو قدموں میں مجھے اپنے جگہ دے سر پھر نہ اٹھاؤں گا یہ تا عمر جھکا ہے
169 محترمه سیده منصوره حنا صاحبه (ربوہ) وہ سب کی دُعاؤں کو سنتا ہے آشنا ہے بہت چھپا ہے سینوں میں کیا کچھ یہ جانتا ہے بہت ہر ایک پکارنے والے کی وہ ہی سنتا ہے مجھے تو اُس کے گرم ہی کا آسرا ہے بہت نہیں ہے اس کے سوا کوئی مونس و ہمدم کہ مہرباں ہے وہی اور جانتا ہے بہت جو اُس کے در کے گدا ہیں انہیں یقین ہے کہ ملے گا جو بھی اُسی در سے اور ملا ہے بہت یہ راز دل کروں افشاں کسی یہ کیوں جبکہ مجھے یقین ہے کہ وہ ذوالمجد و العطا ہے بہت کسی بھی غیر کے آگے یہ ہاتھ کیوں پھیلیں سبھی تو اُس نے دیا ہے اور دیا ہے بہت اُسی کے فضل و کرم پہ مجھے بھروسہ ہے مرے لئے تو جتا بس مرا خدا ہے بہت
بار 170 محترمہ نصرت تنویر صاحبه (ربوہ) یا ذوالجمال ارفع و اعلیٰ تمہی تو ہو یا ذوالجلال برتر و بالا تمہی تو ہو تیرہ شمی میں کفر و ضلالت کی بالیقین نور الہ ! میرا اُجالا تمہی تو ہو کیوں پیش غیر اپنے مصائب کروں بیاں میری مصیبتوں کا مداوا تمہی تو ہو میرا کوئی نہیں ہے سہارا تیرے سوا ༤༢ میرا تو یا الہی! ٹھکانہ تمہی تو ہو پہ مرے آپڑا مگر عفو و کرم کا بیکراں دریا تمہی تو ہو
171 محترمه وسیمه قدسیه صاحبه ( کینیڈا) خدائے مالک الملک ستار میرے پالن ہار تیرے در جھکے ہوئے گنہگار اے رحیم غفار بخش دے تو حسین و جمیل ہے ریب تیری صناعی بھی تو ہے تیرے در پر کھڑی ہوں مہر به لب بے عیب ایک تو ہی تو جانتا ہے غیب میرے دل کو تیری آرزو ہے مجھے تیرے لطف کی جستجو تجھے ڈھونڈتی رہی گو به تو ہی ہر میرے روبرو