Hamari Taleem

Hamari Taleem

ہماری تعلیم

مقدس بانیء سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کا خلاصہ
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
احمدیت یعنی حقیقی اسلام

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف کشتی نوح میں فرمایا کہ ’’واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرارکرنا کچھ چیز نہیں ہےجب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو، پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ میرے اس گھر میں داخل ہوجاتا ہے جس کی نسبت خداتعالیٰ کے کلام میں یہ وعدہ ہے کہ انی احافظ کل من فی الداریعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہےمیں اس کو بچاؤں گا۔۔۔۔ وہ لوگ بھی جو میری پوری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں۔‘‘ جیسا کہ نام سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے دنیا میں ہر طرف منہ کھولے طوفان آفات و مصائب سے محفوظ و محصون رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم اور نگرانی میں ایک مضبوط کشتی تیار فرمائی جو آپ کی پاکیزہ، آفاقی اور فطری تعلیم ہے۔ اس مختصر کتابچہ میں کشتی نوح (مطبوعہ روحانی خزائن جلد: 19) سے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریر کا وہ حصہ شائع کیا گیا ہے جو آپ کی تعلیم پر مشتمل ہے۔ اس میں اصل مخاطب تو آپ کے متبعین اور پیروکار ہیں لیکن وہ لوگ جو تاحال اس احمدیت کی موجب نجات کشتی پر سوار ہونے سے محروم چلے آرہے ہیں ان کےلئے بھی دعوت فکر ہے کہ اس زمانہ کے امام ہمام علیہ السلام نے کونسی تعلیم پیش کی ہے؟ کیا وہ قرآن کریم وسنت رسولﷺ کے عین مطابق ہے؟  کیا اس تعلیم کی موجودہ زمانہ کو ضرورت ہے؟ کیا مادی دنیا اپنی روزمرہ زندگیوں  میں اس اعلیٰ اور ناگزیر معیارکے باہمی برتاؤ و بنیادی اخلاق عالیہ دکھانے سے دور نہیں جاپڑی ہے؟  یقینا یہ ایک زندگی بخش کلام ہے اور اس میں طبعی  سلاست  اور روانی اس قدر ہے کہ انسان جملوں کے جملے بغیر رکے ازبریاد کرکے پڑھتا اوردہراتا چلا جاتا ہے ، بلاشبہ مہدی آخر زمان نے مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لئے اس تعلیم کو بیان کرکےنابغہ روزگار ضرب المثل اعلیٰ پایہ کے ادبی اوردل و دماغ پر گہرااثر چھوڑنے والے فقرےعطافرمائے ہیں۔


Book Content

Page 1

ہماری تعلیم مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کا خلاصہ خود آپ کے اپنے الفاظ میں ماخوذ از کتاب کشتی نوح مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی انی سلسلہ احمدیہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD Hamaari Ta'leem (Urdu) Extracts from Kashti-e-Nuh By: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad The Promised Messiah and Mahdi, peace be Present Urdu Edition: UK 2021 upon him O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Limited Unit 3, Bourne Mill Business Park Guildford Road Farnham, Surrey GU9 9PS United Kingdom Printed in UK at: Raqeem Press Farnham, Surrey, GU9 9PS For further information, please visit: www.alislam.org ISBN: 978184880 1394 10987654321

Page 3

پیش لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف کشتی نوح میں احباب جماعت کو اس زمانہ کے خطرناک طوفان ضلالت سے محفوظ رہنے کی تلقین فرمائی، نیز آپ نے اپنی تعلیمات و نصائح کا خلاصہ بھی رقم فرما کر ہم سب کو ان نیک راہوں پر چلنے کی نصیحت فرمائی جو ابدی نجات اور رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ ہیں.طاعون کا نشان جو اللہ تعالی کی طرف سے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی صداقت کے نشان کے طور پر ظاہر ہوا تھا اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کے لئے حضور علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اس رسالہ میں نصائح فرمائی ہیں جن پر عمل کر کے ان تباہیوں اور مصائب سے بچا جاسکتا ہے.یہ ایک ایسی تعلیم ہے جو ہر زمانہ میں ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور اس پر عمل کر کے نجات حاصل کی جاسکتی ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے دکشتی نوح میں درج ان تعلیمات و نصائح کو ہماری تعلیم ، کے عنوان سے طبع کر وایا تھا اور اب تک اس کی مختلف زبانوں میں بکثرت طباعت ہو چکی ہے.احباب جماعت کو اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت نیز تبلیغی لحاظ سے بھی اس رسالہ کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنیف مارچ ۲۰۲۱ء

Page 4

دوستو ! اک نظر خدا کے لئے اس زمانہ میں جب کہ ہمارے مادی ماحول نے اکثر لوگوں کے دلوں پر کئی قسم کے تاریکی کے پر دے ڈال رکھے ہیں اور وہ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی سچی ایمانی کیفیت سے محروم اور توحید کے حقیقی تصور سے نا آشنا ہیں میرے دل میں یہ تحریک ہوئی ہے کہ میں ایسے لوگوں کے لئے جو سچائی کے طالب ہیں مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی اس تعلیم کا خلاصہ پیش کروں جو حضور نے اپنی مشہور تصنیف کشتی نوح میں اس زمانہ کے خطرناک طوفان ضلالت سے محفوظ رہنے کے لئے تحریر فرمائی ہے.اس کتاب میں اصل خطاب تو جماعت احمدیہ سے ہے مگر ضمنا کئی حصوں میں دوسرے مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے اور بہر حال یہ وہ شمع ہدایت ہے جس سے ہر مسلمان بلکہ ہر انسان جو سچائی اور روحانیت کی تڑپ رکھتا ہے اپنے دل کا بجھا ہو اچراغ روشن کر سکتا ہے.یہ خلاصہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں ہے اس لئے وہ ان تمام برکات اور فیوض سے معمور ہے جو ایک پاک اور خدارسیدہ انسان کے دل پر آسمان سے نازل ہوتے ہیں.دوستو پڑھو اور فائدہ اٹھاؤ اور پھر پڑھو اور فائدہ اٹھاؤ.خاکسار مرزا بشیر احمد آف قادیان.حال ربوہ

Page 5

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ہماری تعلیم واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کے کلام میں یہ وعدہ ہے انِّي أَحَافِظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا.اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بودو باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں.پیروی کرنے کے لئے یہ باتیں ہیں کہ وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادر اور قیوم اور خالق الکل خدا ہے جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے.نہ وہ کسی کا بیٹانہ کوئی اس کا بیٹا.وہ دکھ اُٹھانے اور صلیب پر چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے.وہ ایسا ہے کہ باوجو د دور ہونے کے نزدیک ہے اور باوجود نزدیک ہونے کے وہ دور ہے اور باوجود ایک ہونے کے اس کی تجلیات الگ الگ ہیں.انسان کی طرف سے جب ایک نئے رنگ کی تبدیلی ظہور میں آوے تو اس کے لئے وہ ایک نیا خدا بن جاتا ہے اور ایک نئی تجلی کے ساتھ اس سے

Page 6

ہماری تعلیم معاملہ کرتا ہے اور انسان بقدر اپنی تبدیلی کے خدا میں بھی تبدیلی دیکھتا ہے مگر یہ نہیں کہ خدا میں کچھ تغیر آجاتا ہے بلکہ وہ ازل سے غیر متغیر اور کمال تام رکھتا ہے لیکن انسانی تغیرات کے وقت جب نیکی کی طرف انسان کے تغیر ہوتے ہیں تو خدا بھی ایک نئی تجلی سے اس پر ظاہر ہوتا ہے اور ہر ایک ترقی یافتہ حالت کے وقت جو انسان سے ظہور میں آتی ہے خدا تعالی کی قادرانہ تجلی بھی ایک ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے.وہ خارق عادت قدرت اُسی جگہ دکھلاتا ہے جہاں خارق عادت تبدیلی ظاہر ہوتی ہے.خوارق اور معجزات کی یہی جڑ ہے یہ خدا ہے جو ہمارے سلسلہ کی شرط ہے اس پر ایمان لا ؤ اور اپنے نفس پر اور اپنے آراموں پر اور اُس کے کل تعلقات پر اُس کو مقدم رکھو اور عملی طور پر بہادری کے ساتھ اس کی راہ میں صدق و وفاد کھلاؤ دنیا اپنے اسباب اور اپنے عزیزوں پر اس کو مقدم نہیں رکھتی مگر تم اُس کو مقدم رکھو تا تم آسمان پر اس کی جماعت لکھے جاؤ.رحمت کے نشان دکھلانا قدیم سے خدا کی عادت ہے.مگر تم اس حالت میں اس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے اور تمہاری مرضی اس کی مرضی اور تمہاری خواہشیں اس کی خواہشیں ہو جائیں اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت مراد یابی اور نامرادی میں اُس کے آستانہ پر پڑا رہے تا جو چاہے سو کرے اگر تم ایسا کرو گے تو تم میں وہ خدا ظاہر ہو گا جس نے مدت سے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے.کیا کوئی تم میں ہے جو اس پر عمل کرے اور اس کی رضا کا طالب ہو جائے اور اس کی قضاء و قدر پر ناراض نہ ہو سو تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے اور اُس کی توحید زمین پر پھیلانے کے 2

Page 7

لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اُس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کیلئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیئے ہیں بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ اور دنیا سے دل بر داشتہ رہو اور اُسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے.چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی اور جس 3

Page 8

پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیچ کنی کر جاتی ہے تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ اگر ایک ذرہ تیر گی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی.اور اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھو کہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو تا تم بخشے جاؤ.نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا.کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی.تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں.خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے.بد کار خدا کا 4

Page 9

قرب حاصل نہیں کر سکتا، متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا، ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا، خائن اُس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گڑوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دور ہے ہر ایک ناپاک دل اس سے بے خبر ہے وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گاوہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا.وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سر گرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے.تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو.تم سچ سچ اُس کے ہو جاؤ.تاوہ بھی تمہارا ہو جاوے.دنیا ہر اروں بلاؤں کی جگہ ہے جن میں سے ایک طاعون بھی ہے سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ مارو تاوہ یہ بلائیں تم سے دور رکھے کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو.تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر اُن پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہو گا جو خدا کا ارادہ ہو گا اگر کوئی طاقت رکھے تو تو کل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے 5

Page 10

قرآن کو عزت دینے والے آسمان پر عزت پائیں گے اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے نجات یافتہ کون ہے ؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اُس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح

Page 11

لا روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ موسیٰ نے وہ متاع پائی جس کو قرون اولیٰ کھو چکے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ متاع پائی جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر مشیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر.اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودہویں صدی میں ظاہر ہوا جیسا کہ مسیح ابن مریم موسی کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا.بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا جب کہ مسلمانوں کا وہی حال تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت یہودیوں کا حال تھا سو وہ میں ہی ہوں خداجو چاہتا ہے کرتا ہے نادان ہے وہ جو اُس سے لڑے اور جاہل ہے وہ جو اس کے مقابل پر یہ اعتراض کرے کہ یوں نہیں بلکہ یوں چاہئے تھا...اے وہ لو گو جو میری جماعت میں ہو ! سواے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.سو اپنی پہنچ وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے الفاتحہ، ۷،۶:۱ 7

Page 12

روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو ز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے نیکی کو سنوار کر ادا کر و اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو یقینا یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا.ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے سو خبر دار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دیئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ.سو ان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو.تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.ہر ایک جو تم میں سست ہو جائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا در حقیقت موجود ہے اگر چہ سب اُسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اُس شخص کو چن لیتا ہے 8

Page 13

جو اُس کو چلتا ہے وہ اُس کے پاس آجاتا ہے جو اُس کے پاس جاتا ہے جو اُس کو عزت دیتا ہے وہ اس کو بھی عزت دیتا ہے.تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجاؤ کہ وہ تمہیں قبول کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اُس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمد یت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے...اور تم یقینا سمجھو کہ عیسی بن مریم فوت ہو گیا ہے اور کشمیر سرینگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اس کے مر جانے کی خبر دی ہے...اور میں حضرت عیسی علیہ السلام کی شان کا منکر نہیں گو خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے لیکن تاہم میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا...9

Page 14

کون میری جماعت میں ہے اور کون نہیں؟ ان سب باتوں کے بعد پھر میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا.دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہو تا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ.خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز وعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑ تاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سے اور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بد اثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو 10 10

Page 15

نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو نص اپنی اہلیہ اور اُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنی ادنی خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اُس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص امو معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے طیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک زانی، فاسق، شرابی ، خونی، چور ، قمار باز، خائن، مر تشی، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعل ساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی.ہر ایک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے وہ اُس برکت کو ہر گز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے کیا ہی خوش 11

Page 16

قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہر گز ضائع نہیں کئے جائیں گے ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا اُن کا وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے.احمق ہے وہ دشمن جو اُن کا قصد کرے کیونکہ وہ خدا کی گود میں ہیں اور خدا ان کی حمایت میں کون خدا پر ایمان لایا؟ صرف وہی جو ایسے ہیں.ایسا ہی وہ شخص بھی احمق ہے جو ایک بے باک گنہ گار اور بد باطن اور شریر النفس کے فکر میں ہے کیونکہ وہ خود ہلاک ہو گا جب سے خدا نے آسمان اور زمین کو بنایا کبھی ایسا اتفاق نہ ہوا کہ اس نے نیکوں کو تباہ اور ہلاک اور نیست و نابود کر دیا ہو بلکہ وہ اُن کے لئے بڑے بڑے کام دکھلا تارہا ہے اور اب بھی دکھلائے گا.ہمارا خد از بر دست قدرتوں کا مالک ہے وہ خدانہائت وفادار خدا ہے اور وفاداروں کے لئے اُس کے عجیب کام ظاہر ہوتے ہیں دنیا چاہتی ہے کہ ان کو کھا جائے اور ہر ایک دشمن ان پر دانت پیتا ہے مگر وہ جو ان کا دوست ہے ہر ایک ہلاکت کی جگہ سے ان کو بچاتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان کو فتح بخشتا ہے کیا ہی نیک طالع وہ شخص ہے جو اُس خدا کا دامن نہ چھوڑے.ہم اُس پر ایمان لائے ہم نے اُس کو شناخت کیا.تمام دنیا کا وہی خدا ہے جس نے میرے پر وحی نازل کی جس نے میرے لئے زبردست نشان دکھلائے جس نے مجھے اس زمانہ کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا اس کے سوا کوئی خدا نہیں نہ آسمان میں نہ زمین میں جو شخص اُس پر 12

Page 17

ایمان نہیں لاتا وہ سعادت سے محروم اور خذلان میں گرفتار ہے.ہم نے اپنے خدا کی آفتاب کی طرح روشن وحی پائی ہم نے اُسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے اُس کے سوا کوئی نہیں کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا.کیا ہی زبر دست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا سچ تو یہ ہے کہ اُس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اُس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے سو جب تم دعا کرو تو اُن جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں جس پر خدا کی کتاب کی مہر نہیں کیونکہ وہ مردود ہیں اُن کی دعائیں ہر گز قبول نہیں ہوں گی وہ اندھے ہیں نہ سو جاکھے وہ مردے ہیں نہ زندے خدا کے سامنے اپنا تراشیدہ قانون پیش کرتے ہیں اور اُس کی بے انتہا قدرتوں کی حد بست ٹھہراتے ہیں اور اُس کو کمزور سمجھتے ہیں سو ان سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ ان کی حالت ہے.لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیر اخد اہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہو گی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں اور ہماری گواہی رویت سے ہے نہ بطور قصہ کے.اُس شخص کی دعا کیونکر منظور ہو اور خود کیونکر اس کو بڑی مشکلات کے وقت جو اُس کے نزدیک قانون قدرت کے مخالف ہیں دعا کرنے کا حوصلہ پڑے جو خدا کو ہر ایک چیز پر قادر نہیں سمجھتا.مگر اے سعید انسان تو ایسا مت کر تیر اخد اوہ ہے جس نے بیشمار ستاروں کو بغیر ستون کے لٹکا دیا اور جس نے زمین و آسمان کو محض عدم سے پیدا کیا.کیا تو اُس پر بد ظنی رکھتا ہے کہ وہ تیرے کام میں عاجز آجائے گا بلکہ تیری ہی بد ظنی تجھے محروم رکھے گی ہمارے 13

Page 18

خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اُس کے صادق و فادار نہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا.پرو کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز ر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لایق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیر اب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس ڈف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تالوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.خدا ہماری تمام تدبیروں کا شہتیر ہے اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہوگے اور خد اتعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں.اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسادن نہ آتا کہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے 14

Page 19

ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مدد گار ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں.غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی.اور جیسے گیر اور کتے مردار کھاتے ہیں انہوں نے مردار پر دانت مارے وہ خدا سے بہت دُور جا پڑے انسانوں کی پرستش کی اور خنزیر کھایا اور شراب کو پانی کی طرح استعمال کیا اور حد سے زیادہ اسباب پر گرنے سے اور خدا سے قوت نہ مانگنے سے وہ مر گئے اور آسمانی روح اُن میں سے ایسی نکل گئی جیسا کہ ایک گھونسلے سے کبوتر پرواز کر جاتا ہے ان کے اندر دنیا پرستی کا جذام ہے جس نے ان کے تمام اندرونی اعضا کاٹ دیئے ہیں پس تم اس جذام سے ڈرو.میں تمہیں حد اعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ تم غیر قوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جاؤ اور اُس خدا کو فراموش کر دو جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے اگر تمہیں آنکھ ہو تو تمہیں نظر آجائے کہ خدا ہی خدا ہے اور سب بیچ ہے.تم نہ ہاتھ لمبا کر سکتے ہو اور نہ اکٹھا کر سکتے ہو مگر اُس کے اِذن سے.ایک مردہ اس پر ہنسی کرے گا مگر کاش اگر وہ مر جاتا تو اس ہنسی سے اس کے لئے بہتر تھا.15

Page 20

خبر دار ! غیر قوموں کی ریس مت کرو خبر دار !!! تم غیر قوموں کو دیکھ کر ان کی ریس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کر لی ہے آؤ ہم بھی انہیں کے قدم پر چلیں.سنو اور سمجھو کہ وہ اس خدا سے سخت بریگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے ان کا خدا کیا چیز ہے صرف ایک عاجز انسان اس لئے وہ غفلت میں چھوڑے گئے.میں تمہیں دنیا کے کسب اور حرفت سے نہیں روکتا مگر تم اُن لوگوں کے پیر ومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے لیکن نہ صرف خشک ہونٹوں سے بلکہ چاہئے کہ تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہو کہ ہر ایک برکت آسمان سے ہی اُترتی ہے تم راست باز اُس وقت بنو گے جبکہ تم ایسے ہو جاؤ کہ ہر ایک کام کے وقت ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرد کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے اپنے فضل سے مشکل کشائی فرماتب روح القدس تمہاری مدد کرے گی اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لئے کھولی جائے گی.اپنی جانوں پر رحم کرو اور جو لوگ خدا سے بکلی علاقہ توڑ چکے ہیں اور ہمہ تن اسباب پر گر گئے ہیں یہاں تک کہ طاقت مانگنے کے لئے وہ منہ سے انشاء اللہ بھی نہیں نکالتے اُن کے پیرومت بن جاؤ.خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں.نہیں بلکہ یکدفعہ گریں گی.16

Page 21

* اور احتمال ہے کہ اُن سے کئی خون بھی ہو جائیں.اسی طرح تمہاری تدابیر بغیر خدا کی مدد کے قائم نہیں رہ سکتیں اگر تم اس سے مدد نہیں مانگو گے اور اس سے طاقت مانگنا اپنا اصول نہیں ٹھہر آؤ گے تو تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو گی.آخر بڑی حسرت سے مرو گے.یہ مت خیال کرو کہ پھر دوسری قومیں کیونکر کامیاب ہو رہی ہیں حالانکہ وہ اُس خدا کو جانتی بھی نہیں جو تمہارا کامل اور قادر خدا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ وہ خدا کو چھوڑنے کی وجہ سے دنیا کے امتحان میں ڈالی گئی ہیں خدا کا امتحان کبھی اس رنگ میں ہوتا ہے کہ جو شخص اُسے چھوڑتا ہے اور دنیا کی مستیوں اور لذتوں سے دل لگاتا ہے اور دنیا کی دولتوں کا خواہشمند ہوتا ہے تو دنیا کے دروازے اس پر کھولے جاتے ہیں اور دین کے رو سے وہ نر ا مفلس اور ننگا ہوتا ہے اور آخر دنیا کے خیالات میں ہی مر تا اور ابدی جہنم میں ڈالا جاتا ہے اور کبھی اس رنگ میں بھی امتحان ہو تا ہے کہ دنیا سے بھی نامر اور کھا جاتا ہے مگر مؤخر الذکر امتحان ایسا خطر ناک نہیں جیسا کہ پہلا کیونکہ پہلے امتحان والا زیادہ مغرور ہوتا ہے بہر حال یہ دونوں فریق مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہیں.سچی خوش حالی کا سر چشمہ خدا ہے پس جبکہ اس حي وقیوم خدا سے یہ لوگ بے خبر ہیں بلکہ لا پروا ہیں اور اس سے منہ پھیر رہے ہیں تو سچی خوشحالی اُن کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے دوسری جگہ تصریح فرمائی ہے ابدی سے مراد اس جگہ لمبازمانہ ہے.(مرتب) 17

Page 22

مبار کی ہو اُس انسان کو جو اس راز کو سمجھ لے اور ہلاک ہو گیاوہ شخص جس نے اس راز کو نہیں سمجھا.اسی طرح تمہیں چاہئے کہ اس دنیا کے فلسفیوں کی پیروی مت کرو اور ان کو عزت کی نگہ سے مت دیکھو کہ یہ سب نادانیاں ہیں سچا فلسفہ وہ ہے جو خدا نے تمہیں اپنی کلام میں سکھلایا ہے ہلاک ہو گئے وہ لوگ جو اس دنیوی فلسفہ کے عاشق ہیں اور کامیاب ہیں وہ لوگ جنہوں نے سچے علم اور فلسفہ کو خدا کی کتاب میں ڈھونڈا.نادانی کی راہیں کیوں اختیار کرتے ہو کیا تم خدا کو وہ باتیں سکھلاؤ گے جو اُسے معلوم نہیں.کیا تم اندھوں کے پیچھے دوڑتے ہو کہ وہ تمہیں راہ دکھلاویں.اے نادانو! وہ جو خود اندھا ہے وہ تمہیں کیا راہ دکھائے گا بلکہ سچا فلسفہ روح القدس سے حاصل ہو تا ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے تم روح کے وسیلہ سے ان پاک علوم تک پہنچائے جاؤ گے جن تک غیروں کی رسائی نہیں اگر صدق سے مانگو تو آخر تم اُسے پاؤ گے.تب سمجھو گے کہ یہی علم ہے جو دل کو تازگی اور زندگی بخشتا ہے اور یقین کے مینار تک پہنچادیتا ہے وہ جو خود مردار خوار ہے وہ کہاں سے تمہارے لئے پاک غذ الائے گا.وہ جو خود اندھا ہے وہ کیونکر تمہیں دکھاوے گا.ہر ایک پاک حکمت آسمان سے آتی ہے پس تم زمینی لوگوں سے کیا ڈھونڈتے ہو جن کی روحیں آسمان کی طرف جاتی ہیں وہی حکمت کے وارث ہیں جن کو خود تسلی نہیں وہ کیونکر تمہیں تسلی دے سکتے ہیں مگر پہلے دلی پاکیزگی ضروری ہے پہلے صدق وصفا ضروری ہے پھر بعد اس کے یہ سب کچھ تمہیں ملے گا.18

Page 23

وحی کا دروازہ اب بھی کھلا ہے یہ خیال مت کرو کہ خدا کی وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے اور روح القدس اب اتر نہیں سکتا بلکہ پہلے زمانوں میں ہی اُتر چکا.اور میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر یک دروازہ بند ہو جاتا ہے مگر روح القدس کے اترنے کا کبھی دروازہ بند نہیں ہو تا تم اپنے دلوں کے دروازے کھول دو تا وہ ان میں داخل ہو تم اُس آفتاب سے خود اپنے تئیں دور ڈالتے ہو جبکہ اُس شعاع کے داخل ہونے کی کھڑکی کو بند کرتے ہو.اے نادان اٹھ اور اس کھڑ کی کو کھول دے تب آفتاب خود بخود تیرے اندر داخل ہو جائے گا جبکہ خدا نے دنیا کے فیضوں کی راہیں اس زمانہ میں تم پر بند نہیں کیں بلکہ زیادہ کیں تو کیا تمہارا ظن ہے کہ آسمان کے فیوض کی راہیں جن کی اس وقت تمہیں بہت ضرورت تھی وہ تم پر اُس نے بند کر دی ہیں ہر گز نہیں بلکہ بہت صفائی سے وہ دروازہ کھولا گیا ہے.اب جب کہ خدا نے اپنی تعلیم کے موافق جو سورہ فاتحہ میں سکھلائی گئی گذشتہ تمام نعمتوں کا تم پر دروازہ کھول دیا ہے تو تم کیوں ان کے لینے سے انکار کرتے ہو اس چشمہ کے پیاسے بنو کہ پانی خود بخود آجائے گا اس دودھ کے لئے تم بچہ کی طرح رونا شروع کرو کہ دودھ پستان سے خود بخود اتر آئے گا.رحم کے لایق بنو تا تم پر رحم کیا جائے اضطراب دکھلاؤ تا تسلی پاؤ بار بار چلاؤ تا ایک ہاتھ تمہیں پکڑ لے کیا ہی دشوار گزار وہ راہ ہے جو خدا کی راہ ہے.پر اُن کے لئے آسان کی جاتی ہے جو مرنے کی نیت سے اس اتھاہ گڑھے میں پڑتے ہیں...مبارک وہ جو خدا کے لئے اپنے نفس سے 19

Page 24

جنگ کرتے ہیں اور بد بخت وہ جو اپنے نفس کے لئے خدا سے جنگ کر رہے ہیں اور اس سے موافقت نہیں کرتے جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہر گز داخل نہیں ہو گا سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ کیونکہ ایک ذرہ بدی کا بھی قابل پاداش ہے وقت تھوڑا ہے اور کار عمر نا پیدا تیز قدم اُٹھاؤ جو شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیان کاری کا موجب ہو یاسب گندی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو.ا.قرآن کا ارفع مقام میں نے سنا ہے کہ بعض تم سے حدیث کو بکلی نہیں مانتے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سخت غلطی کرتے ہیں میں نے یہ تعلیم نہیں دی کہ ایسا کرو بلکہ میر امذ ہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں.سب سے اول قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے...اسی طرح قرآن میں منع کیا گیا ہے کہ بجز خدا کے تم کسی چیز کی عبادت کرو نہ انسان کی نہ حیوان کی نہ سورج کی نہ چاند کی اور نہ کسی اور ستارہ کی اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی.سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات ۷۰۰ سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ 20

Page 25

نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي القُرآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کر وجو تمہیں دی گئی.یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں بیچ ہیں...قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھا گو.بجز قرآن کس کتاب نے اپنی ابتدا میں ہی اپنے پڑھنے والوں کو یہ دعا سکھلائی اور یہ امید دی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاط 21

Page 26

الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ہمیں اپنی اُن نعمتوں کی راہ دکھلا جو پہلوں کو دکھلائی گئی.جو نبی اور رسول اور صدیق اور شہید اور صالح تھے پس اپنی ہمتیں بلند کر لو اور قرآن کی دعوت کو ر مت کرو کہ وہ تمہیں وہ نعمتیں دینا چاہتا ہے جو پہلوں کو دی تھیں...بلکہ خدا کا تمہاری نسبت اِن سے زیادہ فیض رسانی کا ارادہ ہے خدا نے اُن کے روحانی جسمانی متاع و مال کا تمہیں وارث بنایا مگر تمہار اوارث کوئی دوسرا نہ ہو گا جب تک کہ قیامت آ جاوے خدا تمہیں نعمت وحی اور الہام اور مکالمات اور مخاطبات الہیہ سے ہر گز محروم نہیں رکھے گا وہ تم پر وہ سب نعمتیں پوری کرے گا جو پہلوں کو دی گئیں لیکن جو شخص گستاخی کی راہ سے خدا پر جھوٹ باندھے گا اور کہے گا کہ خدا کی وحی میرے پر نازل ہوئی حالانکہ نہیں نازل ہوئی اور یا کہے گا کہ مجھے شرف مکالمات اور مخاطبات الہیہ کا نصیب ہوا حالانکہ نہیں نصیب ہوا تو میں خدا اور اس کے ملائکہ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ ہلاک کیا جائے گا کیونکہ اُس نے اپنے خالق پر جھوٹ باندھا اور فریب کیا...۲.سنت کا تشریحی مقام دوسر ا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سنت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں الفاتحہ، ۷،۶:۱ 22

Page 27

ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر لیکن سنت نے سب کچھ کھول دیا ہے یہ دھو کہ نہ لگے کہ سنت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سو ڈیڑھ سو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنت کا ہے خدا اور رسول کی ذمہ داری کا فرض صرف دو امر تھے اور وہ یہ کہ خدا نے قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دی یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ خدا کی کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا یہ کہنا بیجا ہے کہ یہ حل کرنا حدیث پر موقوف تھا کیونکہ حدیث کے وجود سے پہلے اسلام زمین پر قائم ہو چکا تھا کیا جب تک حدیثیں جمع نہ ہوئی تھیں لوگ نماز نہ پڑھتے تھے یا زکوۃ نہ دیتے تھے یا حج نہ کرتے تھے یا حلال و حرام سے واقف نہ تھے.۳.حدیث کا تائید کی مقام ہاں تیسر ا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اسلام کے تاریخی اور اخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سنت کی خادم ہے جن لوگوں کو ادب قرآن نہیں دیا گیا وہ اس موقعہ پر حدیث کو قاضی قرآن کہتے ہیں جیسا کہ یہودیوں نے اپنی حدیثوں کی نسبت 23

Page 28

کہا مگر ہم حدیث کو خادم قرآن اور خادم سنت قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آقا کی شوکت خادموں کے ہونے سے بڑھتی ہے قرآن خدا کا قول ہے اور سنت رسول اللہ کا فعل اور حدیث سنت کے لئے ایک تائیدی گواہ ہے.نعوذ باللہ یہ کہنا غلط ہے کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے اگر قرآن پر کوئی قاضی ہے تو وہ خود قرآن ہے.حدیث جو ایک ظنی مرتبہ پر ہے قرآن کی ہر گز قاضی نہیں ہو سکتی صرف ثبوت موید کے رنگ میں ہے قرآن اور سنت نے اصل کام سب کر دکھایا ہے اور حدیث صرف تائیدی گواہ ہے حدیث قرآن پر کیسے قاضی ہو سکتی ہے قرآن اور سنت اس زمانہ میں ہدایت کر رہے تھے جب کہ اس مصنوعی قاضی کا نام و نشان نہ تھا یہ مت کہو کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے بلکہ یہ کہو کہ حدیث قرآن اور سنت کے لئے تائیدی گواہ ہے البتہ سنت ایک ایسی چیز ہے جو قرآن کا منشاء ظاہر کرتی ہے اور سنت سے وہ راہ مراد ہے جس راہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر صحابہ کو ڈال دیا تھا سنت اُن باتوں کا نام نہیں ہے جو سو ڈیڑھ سو برس بعد کتابوں میں لکھی گئیں بلکہ ان باتوں کا نام حدیث ہے اور سنت اس عملی نمونہ کا نام ہے جو نیک مسلمانوں کی عملی حالت میں ابتد ا سے چلا آیا ہے جس پر ہزار ہا مسلمانوں کو لگایا گیا.ہاں حدیث بھی اگر چہ اکثر حصہ اُس کا ظن کے مرتبہ پر ہے مگر بشرط عدم تعارض قرآن و سنت تمسک کے لائق ہے اور مؤید قرآن وسنت ہے اور بہت سے اسلامی مسائل کا ذخیرہ اس کے اندر موجود ہے.پس حدیث کا قدر نہ کرنا گویا ایک عضو اسلام کا کاٹ دینا ہے ہاں اگر ایک ایسی حدیث ہو جو قرآن اور سنت کے نقیض ہو اور نیز ایسی حدیث کی نقیض ہو جو قرآن کے مطابق 24

Page 29

ہے یا مثلاً ایک ایسی حدیث ہو جو صحیح بخاری کے مخالف ہے تو وہ حدیث قبول کے لائق نہیں ہو گی کیونکہ اس کے قبول کرنے سے قرآن کو اور اُن تمام احادیث کو جو قرآن کے موافق ہیں رڈ کرنا پڑتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ کوئی پر ہیز گار اس پر جرات نہیں کرے گا کہ ایسی حدیث پر عقیدہ رکھے کہ وہ قرآن اور سنت کے برخلاف اور ایسی حدیثوں کے مخالف ہے جو قرآن کے مطابق ہیں بہر حال احادیث کا قدر کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں اور جب تک قرآن اور سنت ان کی تکذیب نہ کرے تم بھی ان کی تکذیب نہ کرو بلکہ چاہئے کہ احادیث نبویہ پر ایسے کاربند ہو کہ کوئی حرکت نہ کرو اور نہ کوئی سکون اور نہ کوئی فعل کرو اور نہ ترک فعل.مگر اس کی تائید میں تمہارے پاس کوئی حدیث ہو لیکن اگر (۱) کوئی ایسی حدیث ہو جو قرآن شریف کے بیان کردہ قصص سے صریح مخالف ہے تو اس کی تطبیق کے لئے فکر کرو شائد وہ تعارض تمہاری ہی غلطی ہو اور اگر کسی طرح وہ تعارض دور نہ ہو تو ایسی حدیث کو پھینک دو کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہیں ہے (۲) اور اگر کوئی حدیث ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو اس حدیث کو قبول کر لو کیونکہ قرآن اس کا مصدق ہے.(۳) اور اگر کوئی ایسی حدیث ہے جو کسی پیشگوئی پر مشتمل ہے مگر محد ثین کے نزدیک وہ ضعیف ہے اور تمہارے زمانہ میں یا پہلے اس سے اس حدیث کی پیشگوئی سچی نکلی ہے تو اس حدیث کو سچی سمجھو اور ایسے محدثوں اور راویوں کو مخطی اور کاذب خیال کرو جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف اور موضوع قرار دیا ہو ایسی حدیثیں صدہا ہیں جن 25

Page 30

میں پیشگوئیاں ہیں اور اکثر ان میں سے محدثین کے نزدیک مجروح یا موضوع یا ضعیف ہیں پس اگر کوئی حدیث اُن میں سے پوری ہو جائے اور تم یہ کہہ کر ٹال دو کہ ہم اس کو نہیں مانتے کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے یا کوئی راوی اس کا متدین نہیں ہے تو اس صورت میں تمہاری خود بے ایمانی ہوگی کہ ایسی حدیث کو رد کر دو جس کا سچا ہونا خدا نے ظاہر کر دیا.خیال کرو کہ اگر ایسی حدیث ہزار ہو اور محدثین کے نزدیک ضعیف ار پیشگوئی اس کی سچی نکلے تو کیا تم ان حدیثوں کو ضعیف قرار دے کر اسلام کے ہزار ثبوت کو ضائع کر دو گے پس اس صورت میں تم اسلام کے دشمن ٹھہر وگے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ پس سچی پیشگوئی بجز سچے رسول کے کس کی طرف منسوب ہو سکتی ہے کیا ایسے موقعہ پر یہ کہنا مناسب حالت ایمانداری نہیں ہے کہ صحیح حدیث کو ضعیف کہنے میں کسی محدث نے غلطی کھائی اور یا یہ کہنا مناسب ہے کہ جھوٹی حدیث کو سچی کر کے خدا نے غلطی کھائی.(۴) اور اگر ایک حدیث ضعیف درجہ کی بھی ہو بشر طیکہ وہ قرآن اور سنت اور ایسی احادیث کے مخالف نہیں جو قرآن کے موافق ہیں تو اس حدیث پر عمل کرو.لیکن بڑی احتیاط سے حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ بہت سی احادیث موضوعہ بھی ہیں جنہوں نے اسلام میں فتنہ ڈالا ہے ہر ایک فرقہ اپنے عقیدہ کے موافق حدیث رکھتا ہے یہاں تک کہ نماز جیسے یقینی اور متواتر فریضہ کو احادیث کے تفرقہ نے مختلف الجن، ۷۲ :۲۸،۲۷ 26

Page 31

صورتوں میں کر دیا ہے کوئی آمین بالجہر کرتا ہے کوئی پوشیدہ کوئی خلف امام فاتحہ پڑھتا ہے کوئی اس پڑھنے کو مفسد نماز جانتا ہے کوئی سینہ پر ہاتھ باندھتا ہے کوئی ناف پر اصل وجہ اس اختلاف کی احادیث ہی ہیں كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ “ورنہ سنت نے ایک ہی طریق بتلایا تھا پھر روایات کے تداخل نے اس طریق کو جنبش دے دی...گناہ سے رہائی پانے کا طریقہ صرف یقین کامل ہے اے خدا کے طالب بند و ! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے.یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو.کیا تم جذبات نفس سے بغیر یقینی تجلی کے رُک سکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پاسکتے ہو.کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو.کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کر اسکے کیا مریم کا بیٹا عیسی ایسا ہے کہ اس کا مصنوعی خون گناہ سے چھڑائے گا.اے عیسائیو ایسا جھوٹ مت بولو.جس سے زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے یسوع خود اپنی نجات کے لئے یقین کا محتاج تھا اور اُس نے یقین کیا اور نجات پائی.افسوس ہے اُن عیسائیوں پر جو یہ کہہ کر مخلوق کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم نے مسیح کے خون سے گناہ سے نجات پائی ہے حالانکہ وہ سر سے پیر تک گناہ میں غرق ہیں وہ نہیں جانتے کہ اُن کا کون خدا ہے بلکہ المؤمنون ، ۵۴:۲۳ 27

Page 32

زندگی تو غفلت آمیز ہے شراب کی مستی اُن کے دماغ میں ہے مگر وہ پاک مستی جو آسمان سے اترتی ہے اُس سے وہ بے خبر ہیں اور جو زندگی خدا کے ساتھ ہوتی ہے اور جو پاک زندگی کے نتائج ہوتے ہیں وہ اُس سے بے نصیب ہیں پس تم یادرکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آسکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے.مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے.مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پاگئے ہیں کیونکہ وہی گناہ سے نجات پائیں گے.مبارک تم جب کہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہو گا.گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کوہ آتش افشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسان کو معدوم کر رہی ہے پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو یا صدق د وفا کا اُس سے تعلق توڑ سکو.اے وے لو گو جو نیکی اور راستبازی کے لئے بلائے گئے ہو تم یقینا سمجھو کہ خدا کی کشش اُس وقت تم میں پیدا ہو گی اور اُسی وقت تم گناہ کے مکر وہ داغ سے پاک کئے جاؤ گے جبکہ تمہارے دل یقین سے بھر جائیں گے شائد تم کہو گے کہ ہمیں یقین حاصل ہے سو یاد رہے کہ یہ تمہیں دھوکا لگا ہوا ہے یقین تمہیں ہر گز حاصل نہیں کیونکہ اُس 28

Page 33

کے لوازم حاصل نہیں وجہ یہ کہ تم گناہ سے باز نہیں آتے تم ایسا قدم آگے نہیں اُٹھاتے جو اُٹھانا چاہئے تم ایسے طور سے نہیں ڈرتے جو ڈرنا چاہئے خود سوچ لو کہ جس کو یقین ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ اس سوراخ میں کب ہاتھ ڈالتا ہے اور جس کو یقین ہے کہ اس کے کھانے میں زہر ہے وہ اس کھانے کو کب کھاتا ہے اور جو یقینی طور پر دیکھ رہا ہے کہ اس فلاں بن میں ایک ہزار خونخوار شیر ہے اُس کا قدم کیونکر بے احتیاطی اور غفلت سے اُس بن کی طرف اُٹھ سکتا ہے.سو تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں اور تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں کیونکر گناہ پر دلیری کر سکتی ہیں اگر تمہیں خدا اور جزا سزا پر یقین ہے گناہ یقین پر غالب نہیں ہو سکتا اور جب کہ تم بھسم کرنے اور کھا جانے والی آگ کو دیکھ رہے ہو تو کیونکر اُس آگ میں اپنے تیں ڈال سکتے ہو اور یقین کی دیوار میں آسمان تک ہیں شیطان اُن پر چڑھ نہیں سکتا..ہر ایک جو پاک ہو وہ یقین سے پاک ہوا.یقین دکھ اُٹھانے کی قوت دیتا ہے یہاں تک کہ ایک بادشاہ کو تخت سے اُتارتا ہے اور فقیری جامہ پہناتا ہے.یقین ہر ایک دکھ کو سہل کر دیتا ہے یقین خدا کو دکھاتا ہے ہر ایک کفارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک فدیہ باطل ہے.اور ہر ایک پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے وہ چیز جو گناہ سے چھڑاتی اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں سے بھی صدق اور ثبات میں آگے بڑھا دیتی ہے وہ یقین ہے ہر ایک مذہب جو یقین کا سامان پیش نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جو یقینی وسائل سے خدا کو دکھا نہیں سکتا وہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جس میں بجز پرانے قصوں کے اور کچھ نہیں وہ جھوٹا ہے.29

Page 34

قصوں پر راضی مت ہو ؟ خدا جیسے پہلے تھا وہ اب بھی ہے اور اس کی قدر تیں جیسی پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں اور اُس کا نشان دکھلانے پر جیسا کہ پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہوتے ہو وہ مذہب ہلاک شدہ ہے جس کے معجزات صرف قصے ہیں جس کی پیشگوئیاں صرف قصے ہیں اور وہ جماعت ہلاک شدہ ہے جس پر خدا نازل نہیں ہوا اور جو یقین کے ذریعہ سے خدا کے ہاتھ سے پاک نہیں ہوئی.جس طرح انسان نفسانی لذات کا سامان دیکھ کر اُن کی طرف کھینچا جاتا ہے اسی طرح انسان جب روحانی لذات یقین کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے تو وہ خدا کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کا حسن اس کو ایسا مست کر دیتا ہے کہ دوسری تمام چیزیں اُس کو سر اسر رڈی دکھائی دیتی ہیں اور انسان اُسی وقت گناہ سے مخلصی پاتا ہے جب کہ وہ خدا اور اس کے جبروت اور جزا سزا پر یقینی طور پر اطلاع پاتا ہے ہر ایک بیباکی کی جڑھ بے خبری ہے جو شخص خدا کی یقینی معرفت سے کوئی حصہ لیتا ہے وہ بیباک نہیں رہ سکتا.اگر گھر کا مالک جانتا ہے کہ ایک پر زور سیلاب نے اس کے گھر کی طرف رخ کیا ہے اور یا اس کے گھر کے ارد گرد آگ لگ چکی ہے اور صرف ایک ذرہ سی جگہ باقی ہے تو وہ اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا.تو پھر تم خدا کی جزا سزا کے یقین کا دعویٰ کر کے کیونکر اپنی خطرناک حالتوں پر ٹھہر رہے ہو سو تم آنکھیں کھولو اور خدا کے اُس قانون کو دیکھو جو تمام دنیا میں پایا جاتا ہے چوہے مت بنو جو نیچے کی طرف جاتے ہیں بلکہ بلند پرواز کبوتر بنو جو آسمان کے فضا کو اپنے لئے پسند کرتا 30

Page 35

ہے.تم تو بہ کی بیعت کر کے پھر گناہ پر قائم نہ رہو اور سانپ کی طرح مت بنو جو کھال اُتار کر پھر بھی ساپ ہی رہتا ہے موت کو یاد رکھو کہ وہ تمہارے نزدیک آتی جاتی ہے اور تم اُس سے بے خبر ہو.کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے.پاک ہونے کا ذریعہ وہ نماز ہے جو تطرح سے ادا کی جائے مگر تم اس نعمت کو کیونکر پاسکو اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو نماز کیا چیز ہے وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضر عانہ ادا کر لیا کروتا ہو کہ تمہارے دلوں پر اُس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو...نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضاءو البقره، ۴۶:۲ 31

Page 36

قدر تمہارے لئے لائے گا پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے.اے امیر و اور اے دولتمندو! اے امیر و اور بادشاہو! اور دولتمند و! آپ لوگوں میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو خدا سے ڈرتے اور اس کی تمام راہوں میں راستباز ہیں.اکثر ایسے ہیں کہ دنیا کے ملک اور دنیا کے املاک سے دل لگاتے ہیں اور پھر اسی میں عمر بسر کر لیتے ہیں اور موت کو یاد نہیں رکھتے.ہر ایک امیر جو نماز نہیں پڑھتا اور خدا سے لا پروا ہے اُس کے تمام نوکروں چاکروں کا گناہ اس کی گردن پر ہے.ہر ایک امیر جو شراب پیتا ہے اُس کی گردن پر ان لوگوں کا بھی گناہ ہے جو اس کے ماتحت ہو کر شراب میں شریک ہیں.عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ.تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجا، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سو تم اس سے بچو.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں اور آخرت کا عذاب الگ ہے.پر ہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ.حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ بد خلق اور بے مہر ہونا لعنتی 32

Page 37

زندگی ہے.حد سے زیادہ خدا یا اس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پروا ہو نا لعنتی زندگی ہے.ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ ایک فقیر بلکہ اس سے زیادہ.پس کیا بد قسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بکلی خد ا سے منہ پھیر لیتا ہے اور خدا کے حرام کو ایسی بیباکی سے استعمال کرتا ہے کہ گویا وہ حرام اس کے لئے حلال ہے غصہ کی حالت میں دیوانوں کی طرح کسی کو گالی کسی کو زخمی اور کسی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور شہوات کے جوش میں بے حیائی کے طریقوں کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے سو وہ سچی خوشحالی کو نہیں پائے گا یہاں تک کہ مرے گا.اے عزیز و تم تھوڑے دنوں کے لئے دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت کچھ گزر چکی سو اپنے مولیٰ کو ناراض مت کرو ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبر دست ہو اگر تم سے ناراض ہو تو وہ تمہیں تباہ کر سکتی ہے پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر تم بچ سکتے ہو اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا.اور وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا اور دشمن جو تمہاری جان کے درپے ہے تم پر قابو نہیں پائے گاور نہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں اور تم دشمنوں سے ڈر کر یا اور آفات میں مبتلا ہو کر بیقراری سے زندگی بسر کرو گے اور تمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم اور غصہ کے ساتھ گزریں گے خدا اُن لوگوں کی پناہ ہو جاتا ہے جو اُس کے ساتھ ہو جاتے ہیں سو خدا کی طرف آجاؤ اور ہر ایک مخالفت اُس کی چھوڑ دو اور اُس کے فرائض میں سستی نہ کرو اور اُس کے بندوں پر زبان سے یا 33

Page 38

ہاتھ سے ظلم مت کرو اور آسمانی قہر اور غضب سے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات کی ہے.اے علمائے اسلام ! اے علمائے اسلام میری تکذیب میں جلدی مت کرو کہ بہت اسرار ایسے ہوتے ہیں کہ انسان جلدی سے سمجھ نہیں سکتا.بات کو سن کر اسی وقت رد کرنے کے لئے تیار مت ہو جاؤ کہ یہ تقویٰ کا طریق نہیں ہے اگر تم میں بعض غلطیاں نہ ہو تیں اور اگر تم نے بعض احادیث کے اُلٹے معنی نہ سمجھے ہوتے تو مسیح موعود کا جو حکم ہے آنا ہی لغو تھا...جس کام کے لئے آپ لوگوں کے عقیدوں کے موافق مسیح ابن مریم آسمان سے آئے گا یعنی یہ کہ مہدی سے مل کر لوگوں کو جبر مسلمان کرنے کے لئے جنگ کرے گا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کو بدنام کرتا ہے قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ مذہب کے لئے جبر درست ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتا ہے لا إِكْرَاهَ في الدين یعنی دین میں جبر نہیں ہے پھر مسیح ابن مریم کو جبر کا اختیار کیونکر دیا جائے گا...سارا قرآن بار بار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ جن لوگوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبر آشائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ : البقره، ۲۵۷:۲ 34

Page 39

ا.یا تو بطور سزا تھیں یعنی اُن لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا b کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ “ یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کر رہے ہیں بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے.اور یا ۲.وہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلام کو شائع ہونے سے جبر اروکتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری (لڑائی کی جاتی تھی) یا ۳.ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی.بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی اس قدر بر داشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی پھر یہ عیسی مسیح اور مہدی صاحب کیسے ہوں گے جو آتے ہی لوگوں کو قتل کرناشروع کر دیں گے...** المج، ۴۰:۲۲ 35

Page 40

ملک کے گدی نشین اور پیر زادے ایسا ہی اس ملک کے گدی نشین اور پیر زادے دین سے ایسے بے تعلق اور اپنی بدعات میں ایسے دن رات مشغول ہیں کہ اُن کو اسلام کی مشکلات اور آفات کی کچھ بھی خبر نہیں.ان کی مجالس میں اگر جاؤ تو بجائے قرآن شریف اور کتب حدیث کے طرح طرح کے تنبورے اور سارنگیاں اور ڈھولکیاں اور قوال وغیرہ اسباب بدعات نظر آئیں گے اور پھر باوجود اس کے مسلمانوں کے پیشوا ہونے کا دعویٰ اور اتباع نبوی کی لاف زنی اور بعض ان میں سے عورتوں کا لباس پہنتے ہیں اور ہاتھوں میں مہندی لگاتے ہیں اور چوڑیاں پہنتے ہیں اور قرآن شریف کی نسبت اشعار پڑھنا اپنی مجلسوں میں پسند کرتے ہیں.یہ ایسے پرانے زنگار ہیں جو خیال میں نہیں آسکتا کہ دور ہو سکیں تا ہم خدا ئے تعالیٰ اپنی قدرتیں دکھائے گا اور اسلام کا حامی ہو گا...ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ میں خدا سے پیار کرتا ہوں.مگر خدا سے پیار وہ کرتا ہے جس کا پیار آسمانی گواہی سے ثابت ہو.اور ہر ایک کہتا ہے کہ میرا مذ ہب سچا ہے مگر سچا مذہب اس شخص کا ہے جس کو اسی دنیا میں نور ملتا ہے.اور ہر ایک کہتا ہے کہ مجھے نجات ملے گی مگر اس قول میں سچا وہ شخص ہے جو اسی دنیا میں نجات کے انوار دیکھتا ہے.سو تم کوشش کرو کہ خدا کے پیارے ہو جاؤ تا تم ہر ایک آفت سے بچائے جاؤ...36

Page 41

عزیز وا یہ دین کی خدمت کا وقت ہے عزیز و! یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا...تم ایسے برگزیدہ نبی کے تابع ہو کر کیوں ہمت ہارتے ہو تم اپنے وہ نمونے دکھلاؤ جو فرشتے بھی آسمان پر تمہارے صدق و صفا سے حیران ہو جائیں اور تم پر درود بھیجیں...اب میں ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ تعلیم میری تمہارے لئے مفید ہو اور تمہارے اندر ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ زمین کے تم ستارے بن جاؤ اور زمین اُس نور سے روشن ہو جو تمہارے رب سے تمہیں ملے.آمین ثم آمین.37

Page 41