Language: UR
جماعت احمدیہ ایک عالمگیر جماعت ہے، اس میں ہر جگہ، ہر ملک اور ہر قوم کے افراد شامل ہیں۔ اس کتاب میں مذکور محترم عبدالستار حاجی ابراہیم صاحب کا تعلق میمن قوم سے تھا جنہیں حضر ت مصلح موعود ؓ کے دست مبارک پراحمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔ برادری کی شدید مخالفت کے باوجود ثابت قدم رہے اور اولاد کے حق میں ثبات قدم کی دعائیں کیں۔ جوخدا کے گھر میں قبول ٹھہریں۔ اس کتاب میں درج واقعات گو کہانی کے عنوان کے تحت ہیں لیکن سبق آموز بھی ہیں اور حیرت انگیز بھی۔
ہماری کہانی (محترم عبدالستار حاجی ابراہیم مروم کا ذکر خیر )
اپنے والدین کے نام رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا دبنی اسرائیل : ۲۵) ترجمہ : (اسے) میرے رب ! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی.عبدالستار حاجی ابراهیم مرحوم
ہماری کہانی
نام کتاب ہماری کہانی
پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ صد سالہ جنین تشکر کے مبارک موقع پر کو کتب شائع کرنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے.جماعت احمدیہ ایک عالمگیر جماعت ہے.اس میں ہر جگہ ، ہر ملک اور ہر قوم کے افراد شامل ہیں مین قوم کے دو اشخاص حضرت مسیح موعود کے رفقائے کرام میں شامل تھے.ایک حضرت سیٹھ اللہ رکھا صاحب اور دوسرے حضرت سیٹھ اسمعیل آدم.اس برادری کے تیسرے بزرگ جنہیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی محترم عبد الستار حاجی ابراہیم تھے جنہوں نے حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر احمدیت قبول کی برادری کی شدید مخالفت کے باوجود ثابت قدم رہے.اور اولاد کے حق میں بھی ثبات قدم کی دعائیں کیں.خدا تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور ان کی وفات کے بعد خواتین خانہ کو صبرو رضنا ، جرات و بہادری اور توکل علی اللہ کی قابل تحسین تو فیق عطا فرمائی.جس کے طفیل وہ برکتیں حاصل کیں جو مردان خدا کا نصیب ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا تسلسل نسلاً بعد نسل قائم و دائم رکھے.اپنے خاندان کی ایمان افروز کہانی عزیزہ امتہ الباری ناصر نے دوبارہ تحریر کیا.نے اپنے انداز میں لکھی جیسے میں احسن خدمات سرانجام دے رہی ہیں.الہ تعالیٰ ان رفیقات عمل کو جزا ہائے خیر عطافرمائے
آمین اور قارئین کو یک نمونہ پرمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ ہم ہیں.(مربی سلسلہ ) کے لئے دعا گو ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں مخلصانہ تعاون کے لئے اجر عظیم سے نوازتا رہے.آمین.
بسم الله الرحم الحمير عرض حال اللہ تعالیٰ کا ہے انتہا کرم ہے کہ میرے والد محترم عبد الستار حاجی ابراہیم کو اس نے اپنے فضل سے ان خوش قسمت لوگوں کی طرح چنا میں نے حضرت مسیح موعود کو مانے کی سعادت پائی.کچھی میں جیسی کٹر قوم سے مقابلہ کی توفیق علی اور آخری لمحہ تک ثابت قدم رہنا نصیب ہوا.ان کی انتہائی درد آمیز راتوں کی دعاؤں سے نہ صرف ہم کو احمدیت ملی بلکہ ہماری نسلوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے.یہ صرف اور صرف پروردگار کا کرم ہے.بابا کے حالات زندگی کا تحریر میں آنا بھی الہی منشاء کے تحت ہے ورنہ ہمیں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ مجھ ناچیز سے اللہ تعالیٰ یہ کام لے گا.البتہ آپا رابعہ مرحومہ کی یہ خواہش تھی.انہوں نے کچھ آغاز بھی کیا تھا مگر زندگی نے وفانہ کی.بابا کے خطوط کو ہم سب بہنوں نے ہیرے جواہرات سے بڑھ کر عزیز رکھا.مجھے کس طرح تحریک ہوئی احمدیہ ہال جانے کی.یہ سنیئے...میرے مرحوم شوہر مجھے بہت چاہتے تھے.جماعت کے کام سے جاتا ہوتا.وہ خود اپنی گاڑی میں لاتے لے جاتے ہیں راستے سے بالکل نا واقف رہی.ان کی وفات کے بعد گھر سے نکلنے کی ہمت نہ ہوتی بچوں کے ساتھ کہیں جاتی مگر اپنی اپنی جگہ مصروف بچوں کے ساتھ وقت کہاں ہوتا.جماعت میں کہیں جانے کی محرومی سے دل بہت تریتا ایک خلش ، ایک چھین ہر وقت رہتی.ایک دن بہت درد سے دعا کی اور سوچا کہ تم کن والدین کی بیٹی ہو.ہمت کرو.اگر شوہر نہیں ہے تو زندگی تو گزارتی ہے، اکیلی گھر سے نکلی اور محمد صاحب کی قبر پرچا کہ
ان کے حق میں بہت دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے ہمت طلب کی اسکے بعد راستہ پوچھتے پوچھتے احمدیہ ہال پہنچی.اور صدر صاحبہ سے درخواست کی کہ جماعت کی خدمت کا کہ کچھ موقع دیں.آپا سلیمہ صاحبہ نے شعبہ اشاعت میں بھیجا.یہاں آپا باری صاحبہ اور آپا خورشید صاحبہ کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے سیلز سیکشن میں کام کرنے کا موقع مل رہا ہے.یہ بھی اللہ کا احسان ہے ورنہ میں تو بہت نا اہل ہوں اور اپنے اوپر کوئی اعتماد بھی نہیں تھا.کتاب لکھنے کی تحریک ایک خواب سے ہوئی.دیکھا کہ بابا اپنی قبر میں اٹھ کر بیٹھے ہیں.ہمیں کہتی ہوں بابا آپ کی تو حضرت مسیح موعود سے ملاقات ہوتی ہو گی نا! میرا ان کو سلام پہنچا دیجئے گا.انہوں نے کچھ جواب دیا جو سمجھ نہ سکی.بعد میں جب یہ کتاب لکھنے کی صورت بنی تو تعبیر سمجھ میں آئی کہ قبر میں اٹھ کر بیٹھنا اُن کی یاد کا زندہ ہونا اور ران کے ذکر کا ازدیاد ایمان کا باعث بننا ہے.آپا باری نے دو تین دفعہ کہا کہ آپ جس طرح کا مرضی لکھ دیں بالکل گھبرائیں نہیں.بابا کی قربانیوں سے مجھے قرآن کریم کی ایک آیت یاد آتی ہے جس کا مضمون اس طرح ہے.خدا تعالیٰ کا فروں سے پوچھے گا کہ تم نے کیوں نبی کو ٹھکرایا تو وہ کہیں گے کہ ہمیں علم نہ تھا.پھر انہیں کی قوم کے بعض لوگ دکھائے گا کہ یہ بھی تو تمہاری طرح انسان تھے....خدا کرے کہ میرے بابا ان مثالی لوگوں میں شامل ہوں.ہمارے بابا کی قربانیوں کی بدولت ہمیں یہ عظیم نعمت ملی.میری اتنی جان کی ثابت قدمی بھی قابل رشک ہے.اب میرے خاندان کے بہت سارے بلکہ تین حصہ لوگ جن کا ذکر آچکا ہے موت کی آغوش میں آچکے ہیں.میں بھی آجکل بیمار ہوں.خدا کرے بقیہ زندگی مقبول خدمت دین میں گذرے انجام بخیر ہور میں دعا گو ہوں اور دعا کی درخواست کرتی ہو ان کے لئے جنہوں نے اس کے لکھنے میں میری مدد کی.اللہ تعالیٰ ہماری بخشش فرمائے.
بسم الله الرحمن الرحيمة اتاں، بابا بہن بھائی.گھر آنگن.سکھیاں.سہیلیاں.پیڑوں پر جھولے.کیریاں اور کچے امرود توڑنا ، اور شرارتیں.بچپن کی بے فکری اور لا ابالی پن.یہی کل کائنات تھی جو آنگن سے گلی اور محلے کے چند مانوس گھروں تک محدود تھی.ماں کی نرم گود بہت گرم اور میٹھی تھی.مگر ہر پک اختیاط کرتی ہوئی نگا ہوں میں وہ ان لکھا آئین تھا جس پر عمل کرنا لازمی تھا.بابا کے گھر میں آجانے سے یہی دستور عمل زیادہ سختی سے لاگو ہو جاتا.قدم قدم بڑھتا ہوا شعور اردگرد کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ جان لینے پر اکساتا.رشتہ داروں کے سلوک میں شیر بینی اور تلخی کا احساس ہونے لگا.اماں کی خدمت گزاری کی عادت پہلا نقش تھا جو دل پر جما.میری کہانی کے اصل کردار میرے بابا اور اماں ہیں.اس لئے کچھ تعارف کروا دوں پھر بات آگے بڑھاؤں.کوئی پانچ چھ سو سال پہلے کی بات ہے.ہمارے آباؤ اجداد جو ہندو تھے.سندھ سے یاترا کی غرض سے عشقہ آئے بھیفہ میں کسی بزرگ ولی کی تبلیغ سے اسلام قبول کیا اور کچھ کے علاقے میں آباد ہو گئے مومن مقامی زبان میں میمن ، ہو گیا اور یہ خاندان کچھی میمن کہلانے لگے.اس وقت کچھ علاقے پر ہندو راجہ کی حکمرانی تھی.اسلام قبول کر کے یہیں کے ہو رہے اور کراچی، بمبئی ، مدراس اور بنگلور وغیرہ شہروں میں پھیل گئے.مختلف شہروں میں بس جانے کے باوجود آپس میں تعلق رکھا.اور مضبوط جماعتی تنظیم قائم کرلی.مہر شہر کا ایک صدر ہوتا تھا.خط و کتابت سے اہم مشورے
کئے جاتے.تنظیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی جماعت کے بچوں کی تعلیم کا خیال رکھے.بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کرے.شادی بیاہ پر طے شدہ رسوم کی پابندی کرائی جاتی.غریب لوگ جہیز میں دو.امیر صرف پانچ ہوئے دیتے.حق مہر صرف پانچ روپے مقرر کیا جاتا.طلاق دینا معیوب اور تقریباً ممنوع تھا.اگر ایسی نوبت آجائے تو تنظیم مطلقہ کے نان نفقہ کا خرج دلاتی.اگر کوئی مرد کچھی میمن جماعت سے باہر شادی کر لیتا تو اس کی اولاد کو بہتر کہا جاتا.جبکہ آپس کی شادی میں اولاد چوکھا " کہلاتی.دونوں کی سماجی حیثیت میں بڑا فرق ہوتا تھا.بتر لوگوں کو آگے رشتوں میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا.زبان اور لباس بہت مختلف تھا.مرد شیروانی، کھلے پائنچے کا پاجامہ اور ٹوپی پہنتے جبکہ عورتیں زری کے کام والا لمب کرتا اور چوڑے زری کے کام کے پاجامے پہنتیں.میرے والد عبد الستار حاجی ابراہیم کلکتہ، شیشہ گلی میں پیدا ہوئے صحیح تاریخ اور وقت محفوظ رکھنے کا رواج نہ تھا.والدین بچپن میں فوت ہو گئے تھے.دادا دادی نے پالا تھا.انہی کی روایت کے مطابق ۲۱ مارچ شده مطابق ۱۹؍ رجب المرجب ساده تاریخ ولادت بنتی ہے.ہمارا بہت بڑا خاندان تھا.بابا تعلیم یافتہ تھے.چار زبانیں سیکھی تھیں.ذہین تھے اور تجارت میں طبعاً بہت مشاق تھے محنتی تھے.حلال کی کمائی ایمان تھا.اللہ پاک نے بہت برکت اور بہت عززت دی تھی.وہ ایک شوگر مل میں جنرل مینجر تھے اور جب گھر میں ان کے مرتبے کا ذکر چلتا تو اکثر یہ سننے میں آتا کہ ان کے ماتحت چار انگریز بھی کام کرتے تھے.ایک ہی فرم میں ہیں پچیس سال
9 محنت سے کام کرنے سے ان کی نیک شہرت ہر طرف پھیل گئی مقبول شخصیت تھے.بابا کی شادی محترم صالح محمد داؤد صاحب کی بیٹی رضیہ بیگم سے ہوئی جو رشتہ میں بابا کے پھوپھی زاد بھائی کی اکلوتی بیٹی تھیں.میرے ننھال میں ٹھیٹھ اسلامی شرفاء کا ماحول تھا میری نانی مصاحبہ کا نام مریم بائی المعروف بہ مکیہ بائی بنت حاجی عبد اللہ حاجی عبد الواحد تھا.میری اماں بابا سے تیرہ سال چھوٹی تھیں میرے بابا کی جوانی کے متعلق اتاں بتائیں کہ بہت امیر تھے.شوقین بلکہ رنگین مزاج تھے.خوش خوراک بھی بہت تھے.جادا میں قیام تھا.ہیرے جواہرات کی خریداری ان کا مشغلہ تھا.میری اماں کو بہت زیورات خرید کر دیتے.پھوپھی جان اور چا زاد بہن کو ایک طرح کا تحفہ دیتے.ٹھاٹھ کا یہ عالم تھا کہ سب سے قیمتی سامان خرید تے گھر پر آسائش تھا.گاڑی تھی جس میں فون لگا تھا بسفر جس بھی ذریعے سے کریں فرسٹ کلاس ہوتا.۲ اگست شاہ کو میری سب سے بڑی بہن عائشہ پیدا ہوئیں.پھر اللہ پاک نے ۲۴ اپریل ہ کو جاوا میں پیاری بہن رابعہ عنایت فرمائیں.اور آپا رابعہ کے چھ سال بعد ۲۷ اگست ئہ کو خاکسار پیدا ہوئی رفیعہ نام رکھا گیا.میری چھوٹی بہن ریحانہ ۲۳ مئی ۹۳ہ کو پیدا ہوئی.میں پانچ چھ سال کی تھی جب بابا کی پوسٹنگ بہار کے ضلع موتی پور میں ہوگئی.موتی پور میں بھی بابا کا بڑا وقار اور دیگر یہ تھا اور ہر آسائش تھی مگر وہ سارے خاندان کو اکٹھا رکھنا چاہتے تھے.اس لئے عالی شان مکان گاڑی، نوکر چاکر کی سب سہولتیں چھوڑ کر کلکتہ میں کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کر لی گبہ پرور تھے.بزرگوں کی خدمت احسن رنگ میں کرتے جین خاتون کو ہم دادی کہتے تھے وہ ہماری اصلی دادی نہیں تھیں بلکہ بابا کی سنگی 1914
1- چھی تھیں جن کے سارے خاندان کو گھر کے افراد بنالیا.ایک چچا تھے سادہ اور غریب مزاج کے.بابا سے بہت محبت کرتے تھے بابا نے چچیوں ، پھوپھیوں وغیرہ کو امی کے چچا کے پاس ملک پور کی بڑی حویلی میں ان کی سرپرستی میں رکھا اور خود کلکتہ آگئے کلکتہ میں مین جماعت کے صدر یونس سیٹھ صاحب کی بہت بڑی کو ٹھی تھی جس کے چار حصے تھے تین حصوں میں وہ خود رہائش پذیر تھے.ایک حصہ بابا کو ان کی شرافت کی وجہ سے کرایہ پر دے دیا اور یہ بہت ہی اچھا ہوا کیونکہ خاندان میں بابا کے علاوہ ایک چچا ہی مرد تھے باقی سب خواتین تھیں.پھوپھیاں بہت پیار کرنے والی تھیں.بابا کے ایک دوست تھے چھبیل داس اور ان کے چھوٹے بھائی مدن لال تھے.چھبیل داس صاحب نے مدن لال کو ہمارے بابا کے سپرد کر دیا تھا.ان کی حیثیت بھی گھر میں بچوں جیسی تھی.امی جان پردہ کرتی تھیں وہ گھر میں آواز دے کر آتا.امی اوٹ میں ہو جاتیں.وہ سارے گھر میں بچوں کے ساتھ کھیلتا.بے تکلفی کا عالم یہ تھا کہ فریج میں رکھی ہوئی ڈشیں بھی صاف کر جاتا.گوشت اسے بہت مرغوب تھا.امی کہیں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتیں تو عام رہائش کے انداز میں بہت زیادہ فرق ہونے کے باوجود بڑے اخلاق سے ملتیں منکسر المزاج تھیں.رشتہ دار بھی بہت عزت و تکریم کرتے.خاندان کلکتہ میں منتقل ہو چکا تھا.اس طرف سے بے فکری تھی لیکن بابا کو ملازمت میں اتار چڑھاؤ کا سامنا رہا.ان نتھک محنت کی وجہ سے مل کا مالک سیٹھ عبدالرحیم عثمان عزت تو کرتا تھا مگر حقوق کی ادائیگی میں ڈنڈی مار جاتا جس سے بد دلی ہوتی.ایک اور مسئلہ کھڑا ہوا کہ میمن قوم کے ہی ایک اور سیٹھ سلیمان احمد کی ذاتی مل تھی.وہ کسی دوسرے کو جمنے کے مواقع نہ دیتا.بابا
کو اکھاڑنے کی اس نے بہت کوشش کی.حتی کہ جان پر بھی حملہ کیا.مگر بابا اپنی وفاداری سے باز نہ آئے تو اس نے ایک اور ترکیب کی اور بھاری رشوت پیش کی.اس زمانے کے دو لاکھ روپے کا اندازہ اب نہیں ہو سکتا.وہ پوٹلی لے کر آئے اور کہا کہ ہم نے ہر کوشش کر لی مگر آپ کمال کے ڈھیٹ ہیں.اب یہ آخری صورت ہے.اس نے بد اخلاقی کی مار ماری تھی مگر بابا کی اخلاق کی مار جیت گئی.بابا نے کہا."آپ پوٹلی اٹھا لیں تو ہم آج سے دوست ہیں ، یہ تو ایک واقعہ تھا اس طرح کی کئی اور باتوں سے مل کی آمدنی کم ہو گئی تو مالک سیٹھ نے بے رخی اختیا کر لی.بابا نے ملازمت چھوڑ کر چائے کافی کا کاروبار شروع کیا جس میں کافی ترقی ہوئی.بابا سے شوگر مل کے مالک سیٹھ عبد الرحیم عثمان نے بڑی معذر کی اور بہت وعدے وعید کئے کہ اب ہم ضلع موتی پور میں نئی شوگر مل لگانا چاہتے ہیں.آپ کام جانتے ہیں آپ ہی کام سنبھالیں.بابا کے پاس کوئی ملازمت نہیں تھی اس لئے کچھ سوچ کر حامی بھر لی.اس دفعہ یہ مل سیٹھ عبد الرحیم عثمان صاحب اور سیٹھ عبد اللہ ہارون صاحب کی شراکت میں بنی تھی سیٹھ عبد اللہ ہارون صاحب بابا کے رشتہ کے خالو بھی تھے.لہذا بابا نے کام شروع کیا.۲۵ اپریل لہ میں بابا کو ایک صدمہ دیکھنا پڑا.بابا کے والد یعنی ہمارے دادا حاجی ابا محمد عثمان وفات پاگئے.ان کی عمر سو سال تھی.بابا کام سے جاوا گئے ہوئے تھے دادا جان کو بابا سے بے حد پیار تھا.ہرلمحہ باب کو یاد کرتے.وفات کے وقت بھی ان کی آنکھیں دروازے پر تھیں اور ہاتھ دعا کے لئے اٹھے تھے.دادا جان کے متعلق ایک بات مجھے یاد ہے.ان کی عادت تھی کہ وہ روزانہ بکرے کی دو آنکھیں سیخ پر بھنوا کر کھاتے تھے.ٹھیک گیارہ بجے یہ سیخ آتی.ہم بیچے آنکھیں بند کر کے کمرے سے بھاگ جاتے.اتنا علم ہے کہ دادا جان کی بنیائی آخری لمحہ تک ٹھیک رہی مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسکی وجہ یہی
۱۲ آنکھ غوری تھی بہت بچپن کی باتوں میں سے ایک اور بات ذہن پر نقش ہے بابا ہم کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے تھے بلکہ بات کو اس طرح سمجھاتے کہ ذہن نشین ہو جاتی.ایک روز بابا اخبار پڑھ رہے تھے.ہم کسی تقریب سے آئے تھے پھوپھی جان اور باجی آپس میں باتیں کر رہی تھیں کہ فلاں نے اپنے کپڑوں کی قیمت بہت بڑھا چڑھا کر بتائی سراسر غلط بیانی سے کام لیا جبکہ ہم اصلی قیمت سب کو بتا دیتے ہیں.کیوں نہ ہم بھی بڑھا کر بتایا کریں.بابا نے بڑے پیار سے دونوں کو بلایا اور کہا.بیٹا ان لوگوں نے معمولی کپڑوں کی قیمت تو بڑھا دی مگر تم نے غور نہیں کیا کہ اپنی قیمت خلط کی نظروں میں گرادی" اس طرح کی نصائح تھیں کہ آج جب میں پلٹ کر اپنی زندگی پر نظر ڈال رہی ہوں تو اور برائیاں تو نظر آ رہی ہیں مگر جھوٹ کا کہیں شائبہ بھی نہیں ملتا.اللہ پاک ہمیشہ محفوظ ہی رکھے آمین.1ء میں بہار کا قیامت خیز زلزلہ آیا.زلزلے کے جھٹکے کلکتہ میں بھی محسوس ہوئے مگر ہمارے بابا اس وقت موتی پور میں تھے اور وہاں شدید زلزلہ آیا تھا.ستائیسواں (۲۷) روزہ تھا.بابا نے بتایا کہ وہ اپنے مکان میں تھے.غسل کر کے باہر آئے تو زلزلہ محسوس ہوا.اوپر کی منزل سے نیچے کود گئے اور اسی لمحہ سب مکان کسی کھلونے کی طرح زمین پر آرہے.خدا تعالیٰ نے بابا کی جان بچائی بلکہ مل بھی بچائی.موتی پور میں گیارہ ملیں تباہ ہو گئیں صرف بابا کی شوگر مل بچ گئی.بابا نے تباہی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے.حو صلے والے جاندار آدمی تھے.اللہ تعالیٰ نے خود کو سنبھالے رکھنے کی ہمت دی.زمین نے اپنا رہا نہ کھول کر بہت سا حصہ زمین مکانوں اور مکینوں سمیت ہڑپ کر لیا.کہیں سے چشمے
۱۳ ابلنے لگے کہیں پرانے تناور درخت جڑوں سے اکھڑ کر اڑنے لگے گھڑ گھڑا ہٹ کا کان پھاڑتا ہوا ہنیتناک شورِ قیامت اور لوگوں کی خوفزدہ چیخیں، افراتفری کا عالم تھا کچھ ہوش و حواس درست ہوئے تو بابا نے زمین پر خیمہ لگایا اور بیٹھ رہے.لوگوں نے مشورہ دیا کہ یہاں سے نکل جائیں.بابا کا جواب تھا.مالکوں نے مل میرے حوالے کی تھی میں اس طرح کیسے چھوڑ کر جاسکتا ہے.عید کا دن تھا.ہمیں کچھ خبر نہ تھی بابا کس حال میں ہیں.اتنے میں اختبار آیا جس میں لکھا تھا کہ بہار کی گیارہ ملیں تباہ ہو گئیں.صرف سیٹھ عبد الرحیم عثمان صاحب کلکتہ والے کی شوگر مل بچ گئی وہ ایک خیمہ میں فروکش ہیں یا ہر سے امداد بھیجوائی جا رہی ہے.یہ عید اس طرح منائی گئی کہ سب خاندان والے اور سیٹھ یونس عثمان صاحب کے اہلِ خاندان جمع ہو کر اور رو رو کر دعائیں کرتے رہے انہوں نے بڑی ہمدردی اور پیار کا سلوک کیا.بابا کو علم نہیں تھا کہ ہمیں ان کے بچ جانے کی خبر مل گئی ہے.پندرہ دنوں کے بعد ورکروں کو بلا کر مشورہ کیا کہ کس طرح گھر والوں اور سیٹھ عبد الرحیم صاحب تک اطلاع پہنچائی جائے.جان جوکھوں کا کام ہے.کوئی سٹرک کوئی سواری ریل گاڑی میسر آنا مشکل ہے.اسی فکر میں تھے کہ ایک چالیس سالہ شخص اور ان کے بیٹے نے اپنی خدمات پیش کر دیں.سفر کی صورت یہ نکالی کہ سائیکل کے پیچھے ایک تختہ لکڑی کا باندھ لیا اور کھانے پینے کا کچھ سامان لیا.جہاں رستہ کی ناہمواری یا پانی آجانے سے دشواری ہوتی تختہ رکھ کر نکل جاتے.کسی کسی جگہ ٹرین بھی مل جاتی جو رینگ رینگ کر چلتی.اس جانفشانی سے سفر کرتے ہوئے وہ موتی پور پہنچے اور بابا کا رفعہ امی جان کو دیا.بابا نے لکھا تھا:.دو رفیہ میں زندہ ہوں.سلامت ہوں خیمہ میں دن گزار رہا ہوں.
۱۴ فکر مند مت ہونا.اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو.سیٹھ صاحب آجائیں تو مل ان کے حوالے کر کے نکلوں گا " عبد الستار دادی اماں نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر اس پیغا مبر کو دعائیں دیں.ہم سب بے حد ممنون ہو رہے تھے.یہ پُر عزم و حوصلہ پیغامبر ایک احمدی تھے.جن کا نام سید نورالحسن صاحب تھا.ہماری شکر گزاری پر وہ انکسار سے جواب دیتے ہم تو سیٹھ صاحب کو اس قدر چاہتے ہیں کہ ان کے لئے جان بھی حاضر ہے.امی نے اپنی خیریت کی اطلاع بھجوائی.پھر ہمیں علم ہوا کہ بابا جان بہت بیمار ہو گئے ہیں.ان کو ہارٹ کا پرابلم تھا.امی جان مجھے لے کر چھا کے ساتھ موتی پور پہنچ گئیں.میرے تو عیش ہو گئے.میں سات سال کی تھی.امی تیمار داری میں مصروف رہتیں اور میں خوب کھیلتی.وہاں ہر طرح کے خوشی کے سامان تھے.پڑوس میں سید نورالحسن صاحب کی فیملی رہتی تھی.وہ بابا کے ماتحت تھے مگر آپس میں دوستانہ ماحول تھا.بابا نے تین ماہ کی چھٹی لی اور ہم سب کلکتہ آگئے.بابا اپنی خدمات کی وجہ سے علاج کے خرچ اور پنشن کا حق رکھتے تھے مگر اچانک اطلاع ملی کہ بابا کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے اور کسی قسم کا کوئی فنڈ نہیں دیا گیا حالانکہ مل کے ایک مالک سیٹھ عبداللہ ہارون صاحب رشتہ میں بابا کے خالو تھے.بیماری میں یہ جھٹکا لگا مگر اس میں اللہ پاک کی حکمت تھی.وہ قادر و توانا خدا ان کو دنیا دی سہاروں سے بے نیاز کر کے اپنا بنانا چاہتا تھا.اس لاچاری میں میری امی نے بڑی وفاداری سے بابا کی خدمت کی.میری امی بہت دانا عورت تھیں میرے نھیال کے حالات بھی عجیب تھے.نانا عیاش آدمی تھے.گھر میں سکون نہ تھا.داماد سے بھی نبھا کر نہ رکھی.لہذا امی بہت کم نانا نانی کے گھر جا سکتیں.امی کے ایک چا تھے بہت پارسا پر ہیز گار تھے.دیہات میں بہت زمینیں تھیں.حویلی نما
۱۵ گھر میں رہتے.ہم بھی چھٹیوں میں وہاں جاتے تو بڑا لطف آنا چھا کا نام نورمحمد داؤد تھا بابا جب جادا میں تھے تو ان کا انتقال ہو گیا تھا.پانچ لڑکے اور ایک لڑکی پسماندگان میں تھے.بابا تو ان کی سرپرستی بھی قبول کرنے کے لئے تیار تھے مگر پاسپورٹ وغیرہ کا مسئلہ ہو گیا.بچوں کے خالو نے بڑے لڑکے کو اپنی فرم میں ملازمت دے دی اور اپنی منجھلی بیٹی سے رشتہ بھی کر دیا.تین کو علی گڑھ کالج بھیج دیا اور سب سے چھوٹے بیٹے نور محمد کو پھو پھی اپنے ساتھ لے گئی.یہ سب کردار ہماری داستان میں شامل ہیں اس لئے ذکر کر دیا.بات ہو رہی تھی بابا جان کی بیماری اور بے روند گاری کی.امی نے جب بابا کو پریشان دیکھا تو اپنا زیور کا صندوق لا کر بابا کے آگے رکھ دیا.اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی.ایک ایک زیور بکتا رہا اور سارے کنبے کا خرچ چاہتا رہا.کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ اس پریشانی کے وقت کس طرح گزارا ہوا.ایسے حالات تھے " جب بہن کی شادی عظیم بھائی سے ہوئی.بابا کی پریشانی میں ان کے واقف کار ان کا حال پوچھنے آتے.ان میں کچھ احباب احمدی بھی تھے.بابا کی شریف مزاجی اور مطالعے کے شوق سے واقف تھے.انہیں محسنوں نے کتابوں کی شکل میں روحانی خزائن سے ہمارا گھر بھر دیا.بابا تقریباً ہر وقت مطالعہ کرتے.پھر لمبی لمبی نمازیں پڑھتے.ان کی کیفیت بدل گئی تھی.امی کبھی خرچ کا مطالبہ کرتیں تو کہتے سب کا رازقی خدا ہے اس سے مانگو.سجدہ میں مانگو وہی دے گا.خود بھی دعاؤں میں مصروف رہتے.بابا کا انہماک دیکھ کر لاہوری جماعت کے کسی شخص نے بھی بابا کو کتا ہیں دیں.بابا نے استخارہ کیا تو دیکھا کہ دو طرف نماز با جماعت ہو رہی ہے ایک جماعت کے تمام افراد نماز پڑھتے پڑھتے سو گئے اور دوسری جماعت نے بڑی عمدگی سے
14 نماز پڑھی.خواب ہی میں بابا نے کسی سے پوچھا کہ یہ کونسی جماعتیں ہیں تو جواب ملا جو سو گئے وہ لاہوری ہیں.جنہوں نے پوری نماز پڑھی وہ احمدی ہیں ان کا ایک خلیفہ بھی ہے.بابا کا شرح صدر ہو چکا تھا.احمدی احباب سے تعلقات میں اضافہ ہو رہا تھا دنیا کمانے کا ہوش نہیں تھا.دگرگوں حالات دیکھ کر رشتہ دار کنارہ کرنے لگے.یہ ایک طرح سے اللہ پاک کی طرف سے سبکدوشی کا سامان تھا.خدا تعالیٰ کے فضل داحسان سے سچائی کا سورج طلوع ہو چکا تھا.بابا نے دل سے احمدیت قبول کر لی تھی.دادی اور پھوپھی کے سامنے دانستہ اظہار نہ کیا تھا.امی اور بہنوں کو سمجھاتے.میری عمر نو سال تھی مگر میں سب سمجھتی تھی.ہماری دادی آپا رابعہ سے بہشتی زیور قصص الانبیاء وغیرہ پڑھوا کر سنتیں جن میں ذکر ہوتا کہ امام مہدی تشریف لائیں گے اور حضرت عیسی نزول فرمائیں گے.یہ سب چودھویں صدی میں ہوگا.آپا رابعہ بے چین ہو کر سوچتیں کہ ان کو بتادیا جائے کہ موعود مسیح و مهدی تشریف لاچکے ہیں مگر بابا کی مصلحت کے پہرے ہونٹوں کو بند رکھنے پر مجبور کرتے.بابا کا اُٹھنا بیٹھنا ایک حکیم صاحب کے ساتھ تھا جو نیچے کی منزل میں مطب کرتے تھے.ان کا نام حکیم زکریا تھا.بوقت وفات انہوں نے بابا سے وعدہ لیا کہ ان کی بیویوں اور بچوں کی ہر طرح سرپرستی کریں گے اور ہر معاملے میں رہنمائی کریں گے.ان کی وفات کے بعد بابا نے ایک حکیم غلام ذکریا صاحب سے رابطہ کیا اور وہ مطب چلانے لگے.مرحوم کے لڑکے بھی سعادت مند تھے.بابا کی بہت عزت کرتے تھے.بابا نے اُن سے احمدیت کا تعارف کروایا.چند دنوں میں انہوں نے بھی احمدیت قبول کر لی.پھر بابا نے خاندان کے افراد کو ایک کمرے میں بلا کر ہدایت دینی شروع کی کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا.تہجد
16 ہوتی ، نمازیں ہو نہیں ، اور خوب رو رو کر دعائیں ہوتیں.اللہ پاک نے فضل کیا اور سب نے احمدیت قبول کر لی.ابھی تک یہ بات گھر کے افراد تک تھی.ہوا یہ کہ ہمارے گھر کے سامنے عمومی لائبریری میں 'الفضل ، آتا تھا.اس میں میرے بابا کی قبولیت احمدیت کی خبر ممین قوم کے کچھ افراد نے پڑھ لی.ہم جس مکان میں رہتے تھے اس کے باقی تین حصوں میں تین بھائی رہتے تھے جو مالک مکان تھے اور قوم کے سردارہ بھی تھے.ہماری مفلسی اور بابا کی بیماری سے واقف بھی تھے.بڑے بھائی یونس عثمان صاحب اپنی بیوی کے ساتھ حج پر گئے ہوئے تھے.دوسرے بھائی عبدالکریم جو اُن کے بھتیجے تھے شریر النفس تھے.وہ سب معلومات جمع کر رہے تھے اور اپنے بھائی کا انتظار کر رہے تھے.یونس عثمان صاحب سے بابا کے بہت اچھے مراسم تھے.لڑکیوں کے رشتوں میں بہت مدد کی تھی.حج کے موقعہ پر بابا کی صحت اور اولاد نرینہ کے لئے دعا مانگ کر آئے تھے.آپا رابعہ کو تو اپنی بیٹی کی طرح چاہتے تھے حتی کہ اپنی وصیت میں آپا رابعہ کا حصہ رکھا تھا.شادی کے اخراجات کے لئے الگ رقم رکھی تھی.جب وہ حج سے واپس آئے سب میمن جماعت کے لوگ استقبال کرنے پہنچے.جہاز سے اترتے ہی بابا پر نظر پڑی تو سب سے پہلے ان سے تپاک سے ملے اور خیریت دریافت کی عبدالکریم اور اس کے ہم خیالوں کو یہ بات ناگوار گزری جس کو بابا نے بھانپ لیا.گھر آئے تو نفل پڑھے اور امی سے کہا " مجھے سب کے تیور اچھے نہیں لگتے.دعا کرو کہ دنیاوی پیار کے رشتہ کے آگے کمزور نہ پڑ جاؤں اور یہ سر صرف خدائے قادر و توانا کے آگے ہی جھکے " بابا نے ان حالات سے احمدی دوستوں کو باخبر رکھا.کلکتہ کا مشہور علاقہ
۱۸ بڑی مسجد زکریا اسٹریٹ میمن جماعت کا تھا.ان کے قریب احمدیوں کی دکانیں تھیں.صدیق بانی صاحب ، مولوی سلیم صاحب اور مفتی شمس الدین صاحب احباب سے بابا کا رابطہ تھا.مجھے یاد ہے ان سے 'الفضل' اور کتابیں لانے اور واپس دے کر آنے کا کام میں ہی کرتی تھی کیونکہ بابا کو بیماری کی وجہ سے پلنگ سے اٹھنے اور گھر سے نکلنے کی اجازت نہ ہوتی.بابا میمن جماعت میں تیسرے شخص تھے جنہوں نے احمدیت قبول کی تھی.دو رفیق مسیح تھے ایک محترم سیٹھ اللہ رکھا صاحب مدراس کے دوسرے محترم سیٹھ اسماعیل آدم حساب یونس عثمان صاحب اگلے ہی دن ہمارے گھر آئے.غصے سے بھڑکتی آگ بنے ہوئے.اس کو زعم تھا کہ میرے آگے پھلا حاجی عبدالستار کس طرح بول سکے گا مگر حاجی عبد الستار کے پیکر میں ایک مجبور بیمار انسان کی روح نہیں خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کا جوش و جذبہ حلول کر چکا تھا.یونس عثمان نے متکبرانہ اندازہ میں سوال کیا." سُنا ہے تم قادیانی ہو گئے ہو " " آپ نے درست سنا ہے.بابا نے جواب دیا " تم کو اس کفر سے تو یہ کرنا ہو گی ورنہ جماعت سے نکال دیا جائیگا.“ یونس عثمان نے کہا." آپ دو منٹ دیں میں وضاحت کروں گا “ بابا نے مصالحانہ طریق سے کہا.وہ ہرگز نہیں.تم تو بہ کر دیا میرا مکان خالی کرو.سارہ اور عائشہ کو طلاق اور ذکیہ کی منگنی توڑ دی جائے گی" پھر دادی کو بلایا اور کہا.آپ اپنا بوریا بستر باندھ کر ہمارے گھر آجائیں ورنہ سارہ کے ساتھ رحمت
۱۹ کو بھی طلاق دلوائی جائے گی اور اس کے شوہر کو نوکری سے نکال دیا جائیگا یونس عثمان نے سارے فیصلے ایک ساتھ سنا دیئے.دادی نے کہا دو میں اپنے بیٹے کو کیوں چھوڑ دوں کبھی ماں بیٹا بھی جدا ہوئے ہیں.ساری عمر اس نے جسے پیار سے سنبھالا ہے." تو پھر ایک ہی صورت ہے اسے کہو نئے دین سے تو بہ کرے “ دادی بیچاری اس لازوال نشے سے بالکل ناواقف تھیں جس سے ان کا بیٹا بیسر منور تھا ایک دم پاؤں پڑنے لگیں اور منت سماجت کرنے لگیں.تو بہ کر لو بیٹا ورنہ میری بیٹیوں کا کیا ہوگا.اس بڑھاپے میں تم سے الگ نہ رہ سکوں گی.بابا نے بڑے پیار سے سمجھایا کہ میں یہ دین نہیں چھوڑ سکتا.آپ اگر میرا ساتھ نہیں دے سکتیں تو میں صبر کر لوں گا.اسی طرح رحمت بائی اس کا شوہر اور بچے جو بھی میرا ساتھ نہ دے سکے گائیں برداشت کر لوں گا.فی الحال مجھے کچھ وقت سوچنے کا دیں.یونس عثمان صاحب کے گھرانے کے سب بچوں سے میری دوستی تھی اور دھم و معما چوکڑی مچائے رہتے.اس سارے واقعے سے ہمارے کھیلنے میں کوئی فرق نہ پڑا.سوائے اس کے کہ میں اپنے گھر کی کیفیت کو دیکھ سمجھدار ہوگئی تھی.وہ سب نادان بچی سمجھ کر سب پروگرام بناتے اور سمجھتے کہ میں بھلا کیا سمجھوں گی مگر مجھے سمجھ مخفی اور میں سب کھڑی آکر اماں کو سناتی.امی کے آنسو بہہ رہے ہوتے مگر میں آتی تو اماں توجہ سے بات کو سنتیں جس سے مجھے احساس ہوا کہ میں کوئی اہم کام کر رہی ہوں.پھر میری بوا کو بھی منع کر دیا کہ ہماری خدمت نہ کرے.نوکر بھی آپس میں باتیں کرتے کہ ان کے گھر اب کام نہیں کرنا.پھر وہ رات آئی جو ہمیشہ آنکھوں میں جاگتی رہتی ہے.بابا نے ہم کو کمرے میں
جمع کیا.اور اس طرح سمجھایا کہ ہماری آزمائش کا وقت آگیا ہے.میں یہاں رہا تو وہ ہر وقت طلاق کی دھمکیاں دیں گے اور سب کا سکون غارت کریں گئے ہیں عارضی طور پر تم لوگوں کو چھوڑ کر جا رہا ہوں.اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا.میری نصیحت ہے.صرف جائے نمازہ پر اللہ سے فریاد کرنا.وہ رازق ہے تمہیں رزق مہیا کرے گا.طلاق وغیرہ کے کسی کاغذ پر دستخط نہ کرنا.بچوں کا خیال رکھنا.میں عظیم بھائی کے پتہ پر اطلاع دیتا رہوں گا.بابا نے مدن لال سے کچھ رقم.ادھار لی.احمد کبیر نے باقی انتظام کیا اور وہ بابا جن کو دل کی تکلیف تھی خاموشی سے اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر ٹرین سے روانہ ہو گئے.میرے بچپن کی انمٹ یادوں میں ایک یہ بھی ہے کہ ادھرادھر جائزہ لے کر کہ نوکر چاکر سامنے نہیں، ابا کو سیڑھی سے آثار نا تھا.اب میں پہلے بابا جان کے پہلی منزل پر پہنچنے کے بارے میں بتا دوں پھر کہوں گی ہم پر کیا گزری.میری سارہ پھوپھی کی شادی لکھنو میں ہوئی تھی.شادی کے بعد وہ پہلی دفعہ کلکتہ آنے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک بابا لکھنو ان کے گھر پہنچے گئے.وہ بہت خوش ہوئے.پھوپھا کو کسی کام سے کلکتہ آنا تھا.ان کے ہاتھ بابا جان نے خط بھیجا.پھوپھا نے خفیہ آکر دادی کو خیریت بنائی اور خط بھی دیا.یہ خط جذبہ ایمانی سے بھر پور ہے اس لئے درج ہے: رقیه ! ونجينهُ وأَهْلَهُ مِنَ الكَرْبِ العَظِيمِ اور ہم نے اسکو اور اُسکے اہل کو مصیبت عظمی سے نجات دیدی آج صبح کو پہلی مرتبہ قرآن شریف کھولنے پر سب سے پہلے جس آیت پر نظر پڑی دہ اوپر میں لکھی ہے اور میرا تو دین ایمان اسلام مذہب مشرب جو کچھ ہے وہ
۲۱ یہی زندہ کلام الہی ہے جس سے میں ہر وقت باتیں کرتا ہوں اور مجھے میری ہر بات کا جواب ملتا ہے اور میرا پورا یقین ہے کہ یہ جواب سچا ہے اور ایسا ہی ہے.ہاں یہ ممکن ہے کہ بظاہر تم لوگوں کو ابھی نظر نہ آیا ہو اور کچھ دیر لگے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اس پر تم لوگوں کو اطمینان ہو جانا چاہیئے.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کو بہ مرا یہی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب قوم بادشاہ وقت اور باپ نے تکلیف دی تو یہ کہ کر روانہ ہو گئے اِن ذاهب الى رَبِّي سَيَهْدِينِ یعنی میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں وہی مجھے ہدایت دے گا.میں نے اس پر عمل کیا ہے.اللہ تعالیٰ ایک ایسے جلیل القدر پیغمبر کی نقل کرنے کے صدقے میں میرے گناہوں کو بخش دے.اب نیچے کی آیتوں پر پوری طرح غور کرو.انَّ الَّذِينَ تَوَهُمُ الْمَلَئِكَةُ ظَالِمِي اَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا نا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ اَرْمِنَ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَا جِرُ وا فِيهَا النار (۹۸) فَأُولَبِكَ مَا وَهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيراً لا یعنی جب گناہ گاروں کی روح فرشتے قبض کر رہے ہوں گے تو کہیں گے کہ تمہارا کیا حال ہے وہ کہیں گے ہم ملک میں کمزور سمجھے جاتے تھے.وہ جواب دیں گے کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے پس ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ رہنے کے لحاظ سے بہت ہی بری جگہ ہے یا یہ تو حکم ہے میرے لئے جس پر میں عمل کر رہا ہوں.تم لوگوں کے لئے جو حکم ہے وہ بھی سن لو الا المُسْتَضْعَفينَ مِنَ التِي جَالِ وَالنِّسَاءِ وَالوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ جَلةً
۲۲ وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلاً : فأولاكَ عَلَى اللَّهُ اَنْ يَعْفُو عَنْهُمْ وَ حانَ اللهُ عَفُوا غَفُورًاه (النساء 99) یعنی سوائے ان لوگوں کے جو ضعیف رو اور مجبور ہیں مردوں میں سے اور عورتیں اور بچے جو اس کی استطاعت اور طاقت نہیں رکھتے کہ ایسا حیلہ اور حرکت کر سکیں تو قریب ہے کہ ایسی مجبوریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے اور اللہ تو بہت ہی بڑا زبر دست معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے.دوسری آیت کے مطابق تم لوگ کہوگے کہ ہمیں بھی تو بیمار کمزور اور مریض تھا مگر اب نیچے کی آیت پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ میرے دین اور دنیا کی بہتری کا ہے اس کا فائدہ کیوں نہ اٹھاؤں کیونکہ میرا تو اس کے ایک ایک لفظ پر ایمان ہے.وَمَنْ يُهَاجِرُ فى سَبِيلِ اللهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرغَمَا كَثيراً وَسَعَةً وَمِنْ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرَا اِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدركه الموت فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللهِ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِيماً (النساء (١٠) یعنی جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرتا ہے تو زمین میں بہت کشادگی ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ بہت رزق کشادہ کر دے گا اور جو شخص اپنے گھر کو اور وطن کو چھوڑ کر اللہ اور رسول کے واسطے ہجرت کرتا ہے اور اس کے درمیان میں اس کو موت آ جاوے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے.مذکورہ ہاں آیتوں کو بار بار پڑھو سمجھو غور کرو پھر پڑھو، جو شخص بھی پڑھے اور غور کرے اس کا ایک ایک لفظ صحیح ہے جس میں فرق نہیں ہے سب سے بڑی فکر جو تم لوگوں کو ہوگی وہ یہ کہ میں کہاں ہوں کیسا ہوں.میری صحت کیسی ہے.سنو ! میں جہاں کہیں بھی ہوں اچھا ہوں، تندرست ہوں زندہ ہوں اور تم لوگوں کو یہ
۲۳ خط لکھ رہا ہوں جو انشاء اللہ کسی نہ کسی طرح تم لوگوں کو پہونچے ہیں جائے گا لمنا اس بات کا اطمینان رکھنا چاہیے کہ میں اپنی صحت کی حتی الامکان حفاظت کرتا رہوں گا.سب سے بڑا محافظ اللہ تعالیٰ ہے.دوسری بات یہ ہے کہ میری سفر کی پہلی منزل الحمد للہ بہت کامیاب رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بہت اطمینان کر دیا ہے جس سے امید ہے کہ انشاء اللہ یہ سفر دین و دنیا ہر لحاظ سے کامیاب رہے گا.تم لوگ مجھے مجبور کر رہے تھے مگر یہ اگر کوئی دنیا کا معاملہ ہوتا تو میں غلط یا صحیح جو کچھ بھی ہوتا اپنا سر جھکا دیتا مگر افسوس کہ یہ میرے دین اور ایمان کا معاملہ ہے اور اب مجھے بہت جلد اس بڑی عدالت میں جاتا ہے جہاں نہ رقیہ میرے کام آئے گی نہ عائشہ نہ زکیہ نہ رابعہ نہ ریحانہ نہ خوشی بھائی نہ کوئی اور مجھے خود کو پیٹنا ہو گا تو اس معاملہ میں تو اب یہ سر صرف ایک ذات واحد القہار کے آگے جھکے گا.تم لوگوں میں سے ہر ایک عاقل و بالغ ہے اور اسی طرح ہر ایک کو اپنی اپنی جوابدہی کرنی ہے.جو سمجھ اللہ دیو سے کرو اور اگر اپنی کم علمی کی وجہ سے - کچھ غلطی بھی ہوگی تو اللہ تعالیٰ کوئی دیوبندی، بریلوی حنفی علماء کی طرح ظالم نہیں ہے.وہ کہتا ہے LOGAN TO GET اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيئ کہ ہم جس کو چاہتے ہیں عذاب دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں بخشتے ہیں اور ہمارے تمام صفات میں رحمت ہی سب سے زیادہ وسیع ہے اور ہر چیز پر حاوی ہے.یونس بھائی میرے محسن ہیں.میرے پاس ان کے لئے صرف دعا کے سوا کچھ بھی نہیں ہے یہ وقت گذر جائے گا اور کبھی ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا موقعہ آئیگا اور اللہ تعالیٰ وہ وقت بہت جلد لائے کہ یہ سوچنے لگیں کہ کیا اللہ تعالیٰ ان باتوں سے ط (البقره: ۲۸۷) |
۲۴ خوش ہو سکتا ہے کہ بھائی کو بھائی سے جدا کیا جائے بہن کو بھائی سے جدا کیا جاوے ماں کو بیٹی سے جدا کیا جاوے چھوٹے چھوٹے بچوں کو رلایا جاوے کھپایا جائے، مریضوں کو مرض میں تکلیف دیا جائے ایسا مریض جو زندگی کے باقی دن گن گن کر گزار رہا ہو اس کے ساتھ یہ سلوک ہو کہ وہ ایسی حالت میں اس سفر پر مجبور ہو ، تنگدست ہو ، بیکس ہو پھر اتنا ہی نہیں بلکہ یہ فرق کی تلاش میں جہاں جہاں جائے اس کے پیچھے جاسوس لگے ہوں دیہ فعل مجھے یقین ہے کہ یونس بھائی کا نہیں ہے مگر دوسروں نے ایسا کیا ہے) لڑکیوں کی نسبت تڑا دی جائے شوہروں سے بیویوں کو طلاق دلا دی جائے اور یہ سب کس لئے کہ چند عقائد بدل دیے جائیں اور توبہ کر لی جائے مگر یونس بھائی جیسا سمجھدار اور عقلمند آدمی اگر غور کرے تو سمجھ سکتا ہے کہ کبھی بھی دنیا میں جبر سے کسی کے عقائد بدلے جا سکتے ہیں کبھی دنیا کی ہسٹری میں ایسا ہوا ہے.اگر میرے جیسا مریضین اس سفر میں مرجائے تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ خون کس کس کی گردن پر ہوگا.کاش یونس بھائی اس میں اپنا ہاتھ نہ رنگے اور یہ ثواب قتل مزند کا مولویوں اور علماء کیلئے چھوڑ دیتے.کاش وہ مجھ سے آدھ گھنٹہ بات کر لیتے.بہر حال میں ان کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہدایت دیوے اور میرے مولیٰ کریم نے جو کچھ مجھے دکھایا ہے وہ ان ظاہر پرست مولویوں کو تو کیا نظر آئے گا مگر میرے محسن کو وہ دکھا دے.مهاجر فی سبیل اللہ.گناہ گار - عبد الستار ہمارے ساتھ یہ ہوا کہ یونس عثمان صاحب کی بیگم جس کا اتھی سے دوستانہ تھا ملنے آئیں تو ان کو خبر ہوگئی کہ بابا نا معلوم منزل کے لئے گھر سے جاچکے ہیں زبر دست طوفان آیا.میمن جماعت کے بڑوں کے فیصلے کے مطابق ہمیں جماعت سے نکال
۲۵ دیا گیا.دودھ والا ، ڈبل روٹی والا تک ہمارے گھر نہیں آسکتے تھے.بائیکاٹ کا عام اعلان ہو گیا.اس مشکل وقت میں صرف دو خواتین ملنے آئیں.ایک غریب عورت خالہ زینب اور دوسری اتنی کی چچا زاد بہن فاطمہ.ان کی ساس جن کو خاندان بھر میں بڑی اماں کہا جاتا تھا، نے کہا کہ میں فاطمہ کو زندگی میں بہن سے کیسے جلا کر دوں.اور فاطمہ کے شوہر علی خالو کو بلا کر دھمکایا گیا کہ تم کو بھی اس کی سزا دی جائے گی.ایک ماموں ہادی نے بھی تعلق رکھا.ماموں ہادی اور ان کے سب بھائیوں نے بہت محبت دی.یہ امی کے چچازاد بھائی تھے.جبکہ امتی کے ایک ماموں اور خالوؤں نے بدترین طریق سے مخالفت کی.نانا کو امی سے بے تعلق بارہ سال گزر گئے تھے.نہ کوئی ملاقات نہ کوئی خط و کتابت.انہوں نے سیٹھ یونس سے رابطہ کیا اور کلکتہ آگئے.مجھے یاد ہے کہ میں بھی ہادی ماموں کے ساتھ اسٹیشن پر انہیں لینے گئی تھی.باپ بیٹی کے ملنے کا منظر بھی مجھے یاد ہے.سب کا رو رو کر برا حال ہوا.نانا نے سیٹھ یونس سے مل کر پہلے سے بھی بڑھ کر بابا جان کی مخالفت شروع کر دی.ان کی نان یہاں آکر ٹوٹی کہ نکاح ختم ہو گیا.فوراً طلاق دلوائی جائے.نان نفقہ کا ذمہ دار یکیں ہوں گا.بڑی بہن عائشہ آپا کے شوہر عظیم بھائی کے پاس بھی سیٹھ کے کارندے گئے کہ عائشہ کو طلاق دے دو.وہ قادیانی ہو گئی ہے.عظیم بھائی نے جواب دیا.در آپ کو کیا.وہ قادیانی ہو گئی ہے تو میں عیسائی ہو جاتا ہوں.بات ختم آپ جائیں یہ عظیم بھائی کو دین مذہب کا پتہ نہ تھا.صرف بابا کی مظلومیت کی وجہ سے ہمدہ دی ہو گئی تھی.غرضیکہ طلاق پر طلاق کے مطالبے ہو رہے تھے.بابا کو حالات کا علم ہو رہا تھا.انہوں نے ایک خط امتی کو لکھا تا کہ تسلی رہے.اور نانا کو اپنے پاس لکھنو بلایا.بابا نے لکھا تھا :
۲۶ لکھنو 4 مٹی کہ رقیه تمہارا اور مٹی کا خط کل پہنچا تمہارے والد سے جو گفتگو ہوئی اس کے نتیجہ میں تم بہت پریشان ہو درست ہے.ان کے سامنے جو چیزیں پیش کی گئی ہیں اور جس طرح معاملہ کی صورت کو رکھا گیا ہے اس کا تو بیشک وہی نتیجہ ہے مگر تم کو معلوم ہے کہ تین بمبئی جانا چاہتا تھا اگر میں پہلے وہاں گیا ہوتا تو معاملہ کی صورت دوسری ہوتی کیونکہ دیکھو پہلے یہاں آنے کا اور محمد سے گفتگو کرنے کا بھی بہت اچھا نتیجہ نکلار محمد کی باتوں کو تم لوگ سمجھتے نہیں اور خواہ مخواہ پریشان ہوئے وہ تو ہماری طرفداری میں سب سے لڑنے مرنے کو بھی تیار تھا مگر میں نے منع کیا.محمد اور سارہ میں محبت بھی اچھی ہے.عظیم ہی کی طرح معاملہ ہے.اس کی طرف سے بالکل اطمینان رکھو.کوئی بات نہیں ہے ہاں اگر مجھ سے ملاقات نہ ہوتی اور کلکتہ گیا ہوتا تو معلوم نہیں کیا صورت ہوتی.بہر حال اب سب خیر ہے.چاچی کو پوری طرح اطمینان دلا دیتا تمہارے والد کو بھی میں نے مصلحت سے بلایا ہے دو تین روز میں ان سے گفتگو کرونگا اور کوشش کروں گا کہ معاملہ کی بہترین اور آسان صورت پیدا کر دوں حقیقی نتیجہ تو اللہ کے اختیار میں ہے.میں نے اپنا سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے.وہ میرا وکیل ہے اور جو شخص اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہے وہ اس کا کا رسانہ ہوتا ہے اور وہی اس کا بہترین وکیل.لیکن ایسے آدمی کا امتحان بھی بہت سخت ہوتا ہے.میرے امتحان کا دور ہے.دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس میں کامیاب کرے اور ثبات سے برداشت کرنے کی ضرورت ہے.اگر تم لوگوں میں ہمت ہوتی اور میرے کہنے کے مطابق خاموشی سے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے تو اتنے درجہ پر بھی معاملہ نہ جاتا مگر
۲۷ برداشت نہ کر سکے اور میں نے تم لوگوں کی آسانی کی راہ نکال دی.اب تو تم کو خاموشی سے دیکھنا چاہیئے.آخر میں بھی انسان ہوں کچھ سوچتا ہوں اللہ مجھے کچھ سمجھا رہا ہے اس کے مطابق کوشش کرتا ہوں.تم لوگ اللہ پر بھروسہ رکھو اور دعا کرتے رہو.سب کچھ خیر ہوگا.لوگوں کی باتیں سن سن کر یہ فیصلہ کر لینا کہ ہاں بس ایسا ہی ہوگا بہت غلط ہے کیا خدا مر گیا ہے یا بزدل ہو گیا ہے یا اپنی خدائی اس نے اوپروں کے حوالے کر دی ہے.یقین رکھو کہ آخر کار غالب خدا ہی رہے گا.اللہ کے خلاف انہوں نے جنگ کیا ہے اللہ خوب موقعہ دیتا ہے کہ جس کو جو کچھ کرنا ہے کر لے پھر وہ اپنا جلال دکھلائے گا تم لوگوں کا کام ہے کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ سے دعائیں کرو اور ہیت جو تم لوگوں کے دلوں میں گھس گئی ہے اس کو نکال ڈالو اور سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر دو وہی بہترین کارساز ہے.تمہارے والد کا رنگ تمہارے خود کے لکھنے کے مطابق بھی بُرا نہیں ہے.مجھے امید ہے کہ ان سے گفتگو کرنے کا بہت اچھا نتیجہ نکلے گا کیونکہ میں نے کچھ اسکیم سوچ رکھی ہے اگر اس کے مطابق انہوں نے عمل کیا تو معاملہ کی صورت بالکل بدل جائے گی.اگر خدانخواستہ وہ اسکیم جو ہر ایک کی بہتری کے لئے ہے ان کی سمجھ میں نہ آئی تو پھر اور دوسری صورتی بھی ہیں جن پر عمل کیا جائے گا.بہر حال ان سے گفتگو کرنے کے نتیجہ میں کچھ نہ کچھ صورت نکل آئے گی.میرے دل میں پورا اطمینان ہے انشاء اللہ اللہ تعالے بہتر صورت پیدا کر دے گا.نہ طلاق ہوگی نہ خلع ہوگا نہ بچے چھوٹیں گے نہ کچھ ہوگا اور اگر میری اسکیم کامیاب نہ بھی ہو اور شاید مصلحتاً ایسا کرنا پڑے تو بھی تم نہ گھبراؤ.تم کو اور مجھے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی جدا نہیں کر سکتا.یا پھر میرا وقت آجائے اور موت چلا کر دے تو انشاء اللہ العزیز وہاں جلد ملیں گے.تمہارے دماغ میں صرف ایک بات ہے کہ میں تم لوگوں کی طرح اقرار کر لوں تو سب درست ہو جائے گا لیکن
۲۸ یہ غلط ہے.میرا تعلق خدا سے ٹوٹنے کے بعد دنیا بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی اس میں فائدہ کے بدلے نقصان دنیاوی بہت ہے جو میں خط میں سمجھا نہیں سکتا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا بھی گئی اور دین بھی اب تم سے اخیر میں میں یہ کہتا ہوں کہ تم لوگ گھبراہٹ پریشانی اور ہیبت دل سے نکال ڈالو اور پورے اطمینان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے دعا کرو.وہ بہتر صورت پیدا کر دے گا.اس پر بھروسہ رکھو.عبد الستار امی ابھی جوان تھیں.گھر میں بوڑھی دادی ، نو عمر بچیاں اور ایک لڑکا تحفا ی شدید ترین مخالف کے مکان میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہ رہے تھے.بابا جان کے لکھنے پر چھوٹا سا مکان تلاش کرنے نکلیں.میمن قوم میں عور تیں زیادہ باہر نہیں نکلتیں.پردہ بھی سخت تھا.ہوا یہ کہ جہاں بھی امی مکان کی تلاش میں پہنچتیں سیٹھ کے کا رند سے منع کر دیتے کہ یہ قادیانی ہے اس کو مکان نہیں دینا.دوسری حرکت یہ کہ اپنا مکان خالی کرنے کے نوٹس پر نوٹس دینے لگے شیشہ گلی میں ایک مکان دیکھا.انہوں نے قادیانی ہونے پر تو اعتراض نہ کیا ان کو ترو د تھا تو یہ کہ بابا کو ہارٹ کی بیماری ہے کرایہ کون دے گا.مایوس ہو کر واپس آنے والے تھے کہ مالک مرکان کی والدہ نے بٹھا کر کچھ تواضع کی.باتیں چل نکلیں تو بہت سی قربتیں اور جاننے والوں کے آپس میں مراسم نکلے.ہمارے اٹھنے تک وہ ہمیں مکان دینے کا فیصلہ کر چکے تھے.ساتھ رہے تو خلوص بڑھتا رہا.اور ہر آنے والا دن پہلے سے بہتر ہوتا گیا.وہاں منتقل ہو کر محسوس ہوا جیسے آزادی میں سانس لیا ہے.کوئی محل سے چوسر سے پر آکر خوش نہیں ہوتا مگر ہم کو یہ جگہ بہت اچھی لگی.بابا کے سفر کی اگلی منزل قادیات
۲۹ تھی.قادیان سے مرسلہ خطوط اس زمانے کی ساری کیفیات کھول کر بیان کرتے ہیں.ان قادیان مورخہ ۲۰ مئی که میں لکھنو سے اتوار کے روز چلا.راستہ میں سہارنپور ایک روز ٹھر کے کل دوپہر کو الحمد للہ دار الامان میں پہنچ گیا ہوں.فالحمدللہ علی ذلک.اللہ تعالی نے یہ تمنا پوری کر دی مگر یہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب سندھ تشریف لے گئے ہیں.ہفتہ عشرہ میں واپس آئیں گے.یہاں پہنچ کر اب بغیر زیارت کئے ہوئے اور دعا کرائے ہوئے واپس نہیں جا سکتا.لہذا ان کے آنے تک ٹھہرنا ضروری ہے اور بھروں گا.میں یہاں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور وہ اپنے مہمان کی پوری خبر گیری کرتا ہے.تم فکر نہ کرنا.میں کلکتہ کی بہ نسبت بہت اچھی طرح ہوں میری ضرورت کا سارا سامان ہر جگہ اللہ تعالیٰ خود ہی کرتا ہے وہ اس ناچیز یہ بہت مہربان ہے.ان کے آنے کے بعد کہاں جاؤں گا اور کیا ہوگا یہ صرف اللہ ہی کو معلوم ہے ابھی کوئی پروگرام نہیں ہے مگر اللہ پر بھروسہ ہے کہ جو ہوگا اچھا ہوگا.ابھی ابھی تمہارے دو خط تاریخ پندرہ اور سترہ کے لکھنو سے سارہ نے بھیج دیتے ہیں.ہاں ٹھیک ہے تمہارے والد اگر چاہتے تو کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا تھا.خیر اللہ ہدایت دے اس میں شک نہیں کہ سب ایک طرف ہیں اور ظلم دستم میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں گے مگر تم کو معلوم ہے کہ اللہ دوسری طرف ہے اور وہ ان کے ہر مجمع میں موجود ہے اور یہ اپنا داؤ کر رہے ہیں اور وہ اپنا داؤ کر رہا ہے.
۳۰ میری زندگی اور موت کا سوال بالکل علیحدہ ہے مگر غالب ہر حال میں اللہ ہی رہیگا.سے ہونے دو سارے زمانہ کو ادھر ہونے دو.میر اور ہر حال میں صبر رکھو اسی پر بھروسہ رکھو.وہ بڑا کارساز ہے اور ابھی ان لوگوں سے میل رکھو.ان سے بگاڑ نہ کرو.جیسے وہ لوگ کہیں ویسا کرو مگر اللہ تعالیٰ کے آگے سر جھکاؤ راتوں کو گڑ گڑاؤ اور صبر طلب کرو.یہ ابتلا ہے.آزمائش ہے.کسوٹی ہے اس سے چھوٹ نہیں سکتے.میں نے اپنے آپ کو بالکل اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر دیا ہے جو اس کو منظور ہوگا اور جو کچھ وہ مجھ سے کرائے گا کروں گا.وہ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح باطل ہو گیا ہے.جھک مارتے ہیں جھک مارنے دو.تم کہتی ہو کہ ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئے.بے شک اگر میں مرگیا تو ہونا ہی ہے.اگر خدا نے زندہ رکھا تو وہ صورت بھی پیدا کرے گا جو تم لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا.میرا اور بھروسہ رکھو اور دعا کرتے رہو اور اپنی طبیعت میں اطمینان پیدا کرد صحت کو خراب نہ کرو کیونکہ بچوں کے لئے ابھی تم کو زندہ رہنا ضروری ہے.پندرہ روز کا ٹائم لیا ہے اور جواب تیار کر رہا ہوں اور جواب کے ساتھ اتمام حجت بھی ہوگا.پھر اللہ کو جو منظور ہوگا وہ ہو گا.اس پر شاکر رہنا اور غیب سے اس کی مدد کا انتظار کرتے رہنا بچوں کو سب کو دعا سلام اور پیار تم خود صبر کرو اور بچوں کو صبر کی تلقین کرو اور اللہ سے توبہ استغفار کرتے رہو اور اس مصیبت عظمی پر صبر کرو اور صبر کا اجر ضائع نہیں ہوتا.دنیا چند روزہ ہے.گناه گار عبد الستار
۳۱ از قادیان مورخه ۲۳ مئی که رقیہ تمہارا ۱۸ مٹی کا خط پہونچا کیفیت معلوم ہوئی حضرت صاحب ہ مٹی کو رات کو تشریف لائیں گے.ملاقات اور مشورہ کے بعد میں اپنا فیصلہ لکھوں گا.یا پھر جو اللہ تعالیٰ سمجھائے گا کروں گا اور جو کچھ اللہ تعالے کو منظور ہوگا ہوگا.اس پر بھروسہ رکھو.جو کچھ ہوگا بہتر ہوگا وہ اس طرح اجر کو ضائع نہیں کرتا.مجھ پر ابتلاء اور امتحان ہے.دعا کرو اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے.دنیا چند روزہ ہے اس کی تکالیف اور مشکلات کے لئے صبر اور انتقات کی ضرورت ہے.بظا ہر سب کچھ مشکل اور مشکل ہی نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے آگے کچھ بھی مشکل نہیں ہے.رقیہ.میں نے جو کچھ دیکھا جو کچھ سمجھا، جو کچھ جانا اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بتایا اس میں جو ایک کسر تھی وہ یہاں پہنچا کر دکھایا اس کے تعلق میں تو اللہ تعالٰی کا صرف شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ اس عاجز سیاہ کا ر بندہ پر کیسا مہربان ہے اور میری تمناؤں کو کس کس طرح پوری کر رہا ہے.افسوس کہ میں اس کا بیان نہیں کر سکتا تو پھر آگے بھی رہی بہتر کرنے والا ہے ضرورت ان مشکلات پر صبر تو رہی اور استقامت کی ہے.خدا تم لوگوں کو صبر اور ہمت عطا کرے.ظاہر حالات کو نہ دیکھو.اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لو اور خاموشی سے تماشا دیکھو تو بہتر ہے.صرف اس پر نظر رکھو اور اس کی مدد کا انتظار.حاجی صاحب وغیرہ کی باتوں پر خیال نہ کرو.یہ سب میری دنیا سے کیا واقف ہیں ؟ہ خموشی سے ہر بات کو سنو اور اللہ کے کام پر نظر رکھو.تم کو میری صحت کی بہت فکر ہے اس کو چھور دور میں اللہ تعالیٰ کا مہمان
۳۲ ہوں وہ میرے سب کام انجام دے رہا ہے.میری صحت بہت بہتر ہے آب ہوا اچھی ہے.ان باتوں سے بے پرواہ ہو کر اللہ سے دعا کرو صرف رسمی دعاؤں سے کام نہیں چلتا.راتوں کو اٹھو.دعا کرو اور خرافات اور فکروں اور پریشانیوں کو چھوڑ دو.میرا آخری فیصلہ بھی جس قسم کا بھی ہو اس کو پورے سکون اور اطمینان سے دیکھنا اور اللہ پر بھروسہ رکھتا جس طرح میں نے تم سب کو اس کے حوالے کیا ہے تم بھی مجھے اس کے حوالے کر دو وہ بڑا کارساز ہے اور جو حالات سامنے پیش آویں اس وقت جو مناسب معلوم ہو کرنا.بلکہ خلع کے واسطے انکار کرنا اور جواب دینا کہ ہم دو میں سے ایک کی موت کا انتظار کرو.تمہارے والد وعدہ کر گئے ہیں کہ ضلع پر مجبور نہیں کریں گے.۱۲ مٹی کا تصادم والا واقعہ میں لکھ نہیں سکتا مگر لکھنو میں سارہ کو معلوم ہے وہ کیا تھا اور کس طرح تھا.وہ آئے گی تو اس سے معلوم کرنا میں اچھا ہوں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے تم سب کے لئے میں دعا کرتا ہوں.میں اکیلا نہیں یہاں بہت بڑے بڑے دعا کرنے والے دعا کرتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوگی اطمینان رکھو.بچوں کو دعا سلام اور پیار اور ان کا پیدا کرنے والا محافظ ان کو پیار کرنا ہے اور کرے گا اور حفاظت کرے گا.عبد الستار بابا نے 4 مئی کو ڈائری میں اپنا ایک خواب لکھا ہے.ود مردہ کو نہلانے کا تختہ لایا گیا ہے.پھر گرم پانی مردہ کو نہلانے کو دو آدمی لائے.میں نے پوچھا کیس کو نہلایا جائے گا ، کہا تم کو، میں نے حیرت سے پوچھا.مجھے کہا.ہاں تم کو 66 رب اغفر وارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِين
۳۳ ۲۹ مٹی کی ڈائری میں تحریر ہے.وأقوضُ أَمْرِى إِلَى اللهِ وَاللهُ يَصِيرُ بِالْعِبَادِ اے خدا اسے چارہ ساز ہر دل اندوہ گیں اسے پناہ عاجزاں آمرزگار مذنبیں از کریم این بنده خود را به بخششها نوانه واں جدا افتادگان را از ترجمها به بیس ہر آن کارے کہ گردد از دعائے محو جانا نے نہ شمشیر سے کند آل کار نے بادسے نہ بارانے عجب دارد اثر دستے کہ دست عاشقش باشد بگر داند جہانے را ز بر کارے گریا نے راز اگر جنبد لب مردے زہر آن ستمگردان خدا از آسمان پیدا کن بہر نوع ساما نے دستی بیعت بر دست خلیفة المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد هاب بمقام قادیان المورخہ ۱۴ ربیع الاول ۳ ہجری مطابق ۲۸ مئی ۶اء بروز جمعہ بعد العصر رَبَّنَا آمَنَا فَالْنَا مَعَ الشَّهِدِين مرید پیر مغانم زمن مرنج اسے شیخ چرا که وعده تو کردی و او بجا آورد
۳۴ از قادیان المورخہ ۳۰ مئی که رقیہ.حضرت صاحب آتو گئے ہیں.سرسری گفتگو بھی ہوئی مگر فرصت بہت کم ہونے کی وجہ سے ابھی مفصل گفتگو اور مشورہ کا وقت نہیں ملا ہے.انشاء اللہ دو ایک روز میں ہو جائے گی اس کے بعد ہی کچھ فیصلہ ہو سکے گا اور اسی وجہ سے میں کچھ جواب تمہارے والد کو بھی نہیں لکھ سکا اور جب تک حضرت صاحب سے مشورہ نہ کر لوں لکھنا نہیں چاہتا.اس مٹی کو تو جواب ان کو پہنچ نہیں سکتا.شاید پانچ جون تک پہنچے.بہر حال جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا ہوگا اور انشاء اللہ بہتر ہو گا.یہیں اس کے دروازہ پر پڑا ہوا ہوں تم بے فکری اور اطمینان سے بیٹھ کر دیکھو کہ کیا ہوتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور بھی امتحان منظور ہے تو وہ بھی ہو.یہیں ہر حال رامنی برضا ہوں.یہ ممکن ہے کہ حضرت صاب سے گفتگو ہونے کے بعد مجھے کچھ اور دن یہاں رہنے کا حکم ہو تو ٹھہر جاؤں گا.بہت با برکت جگہ ہے.آب و ہوا بھی بہت اچھی ہے اور مجھے موافق ہے اور میری صحت یہاں بہت اچھی ہے.اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں وہ مفت میں مجھے کھانا بھی کھلا دیتا ہے اور میری سب ضرور میں بھی مہیا کر دیتا ہے.تم بے فکر رہو ئیں بھی تم لوگوں کی کچھ زیادہ فکر نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ تمہاری فکر کرتا ہے وہ کرے گا.اگر کچھ دن قیام کا حکم ہوگا تو پھر ڈائرکٹ لکھنا C/o Post Maste Qadian Dist Gordas hur Punjab.
۳۵ بچوں کو پیار کرنا.دعائیں خوب کرتے رہنا.پچھلی رات کی دعائیں خصوصاً.عبد الستار شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ احمدی بھائیوں سے آڑے وقت میں مدد کیوں نہ لی.خدا تعالیٰ نے ہمیں مفلسی میں بھی سہارا دیئے رکھا.ہماری خود داری اور عزت نفس قائم رکھی اور ہم صرف اپنے مولا کریم کے سہار سے حالات سے لڑتے رہے.ان حالات میں بھی امتی چندے کے کچھ پیسے میرے ہاتھ ان احمدیوں تک بھیجوا دیتیں جن کی دوکانوں پر جا کر میں کتا ہیں اور الفضل لاتی تھی.جون ساء میں بابا نے اپنے خسر کو ان کی تمام ترہ زیادتیوں کے باوجود بڑے احترام سے خط لکھا تا کہ بیوی کو طلاق دینے والا مسئلہ آسانی سے حل ہو جائے.اس کے ساتھ ہی یونس عثمان سیٹھ صاحب کو بھی ایک طویل مکتوب لکھا.یہ مکتوب بابا کے اللہ پر توکل اور معاملہ فہمی پر دلالت کرتا ہے.۱۹۳۷ ۳۰ جون شه میرے محترم بزرگ السلام عليكم ورحمة الله اپنے وعدے کے مطابق مجھے اپنا آخری فیصلہ دینے کا وقت آگیا وہ میں نے لکھ دیا ہے.میں اپنے اوپر ایک ذمہ داری محسوس کر رہا ہوں کہ فیصلہ کے بعد میں اتمام حجت بھی کر لوں اور پھر آپ لوگوں کا اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دوں کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اور یہ اتمام حجت صرف آپ کے لئے نہیں بلکہ میرے محسن اور مرتی یونس بھائی کے لئے بھی ہے جو ساری قوم کے پریسیڈنٹ اور اس وقت سوشل بائیکاٹ کے لیڈر ہیں، لہذا ان کو بھی پڑھا دیجئے.اور
۳۶ پھر ان کو جو مناسب معلوم ہو پھر کریں.چونکہ یہ فیصلہ پورے خاندان پر اثر انداز ہے اور ساری قوم کی عاقبت کا معاملہ ہے اس لئے اس کو سرسری طور سے پڑھ کر ٹال دینا آپ کو اللہ تعالیٰ کے آگے ملزم شہر سے گا اس لئے اس پر پوری طرح غور و فکر کرنے کے بعد جو مناسب معلوم ہو کریں.آپ نے مجھ سے لکھنو میں فرمایا تھا کہ ہم لوگ مجبور ہیں علماء حنفی سنت الجماعت کے فیصلہ کے مطابق عمل کرتے ہیں.اس کے متعلق مجھے عرض کرنا ہے کہ اگر یہی معیار حق و باطل کا ہے تو اس قدر فرقہ اسلام میں ہیں وہ سب کے سب اپنے علماء کے پیرو ہیں اور سب ہی اپنے آپ کو حق پر اور دوسرے کو باطل قرار دیتے ہیں تو پھر کیا اپنے اپنے علماء کی پیروی کا نام حق ہے ؟ اگر یہی درست ہے تو پھر سب حق پر ہیں تو پھر یہ سر پھٹوں کیوں ہے ؟ اگر کہا جائے کہ ہم لوگوں کو یہی کرنا چاہیے کہ جہاں پیدا ہوئے وہیں رہیں تو پھر حق و باطل کا کوئی معیار نہیں رہتا.یہودی عیسائی ہندو سب ہی اپنے علماء کی پیروی کرتے ہیں پھر یہ سب جہنم میں کیوں جائیں گے اور پھر رسالت نبوت وغیرہ یہ سب ایک بیکار چیز ہو جائے گی.معیار ہے اور ضرور ہے اور ہمارے لئے تو سب سے بہتر ایک ہی معیار ہے کہ خان تَنَازَعْتُمْ فِي شَى فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرسول کہ اگر تم میں کوئی تنازعہ ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹو نہ کہ علماء کی طرف اللہ تعالیٰ ابنی اسرائیل کو ملزم کرتا ہوا.کہتا ہے کہ اتَّخَذُو احْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ ارُبا با مِّن دُونِ اللَّهُ که (النساء (4) نے (توبه : ۳۱)
۳۷ کہ انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں مددگار پکڑ رکھا ہے.ان پر غضب نازل کرنے کے وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بتائی ہے اور پھر ہم کو کہتا ہے لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عبرة الأولى الا الباب - بنی اسرائیل کے وہ علماء ہی تھے جنہوں نے حضرت عیسی کے خلاف کفر اور الحاد کے فتوے لکھے اور ان کو صلیب پر مار ڈالنے کی کوشش کی اور انہی کے فتاوی نے بنی اسرائیل کو حق سے روکا اور پھر اپنی مہود اور نصاری کے علماء کے فتاوی پر چلنے والے رسول اکرم روحی فداہ پر ایمان لانے سے محروم رہ گئے اور یہی حضرات ہیں جنہوں نے اسلام کے بڑے بڑے بزرگان دین کو تکلیفیں دیں اور خوب خوب فتوے لکھے.اللہ تعالیٰ کا حکم آپ سن چکے اب رسولِ اکرم کا فرمان ان کے متعلق سنئے : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب اسلام میں کچھ باقی نہ رہے گا سوائے رسم کے مسجدیں آبا د نظر آئیں گی مگر ہدایت سے کو ری.ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے اور انہی سے فتنے اٹھیں گے اور انہیں میں واپس لوٹیں گے.اور سینیئے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ البتہ ضرور آئے گا میری امت پر زمانہ جس طرح بنی اسرائیل پر آیا اور ان کے قدم بقدم چلیں گے.یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی کوئی ہو گا جو ایسا کریگا اور بنی اسرائیل کے ۷۲ فرقے ہوں گے اور میری امت کے تہتر فرقہ
۳۸ ہوں گے جن میں سے سوائے ایک کے باقی سب جہنمی ہوں گے.پوچھا گیا کہ جنتی کی کیا علامت ہونگے.آپ نے فرمایا مَا اَنَا عَلَيْهِ واضحا بی یعنی جو میرے اور میرے اصحاب کے راستہ پر ہو گا.ہر فرقہ کے علماء کہتے ہیں ہم ہی جنتی ہیں باقی سب جہنمی.تو اب ہر شخص جس میں استطاعت اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو وہ تحقیق کرے اور جس کو اللہ تعالیٰ کے آگے حاضر ہونے کا یقین ہو اس کا فرض ہے کہ وہ تلاش کرے کہ کیا صحیح ہے.لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو اتنا علم نہیں ہے.ہم نہیں جانتے کیسے تلاش کریں.یہ بالکل غلط سمجھا گیا ہے.ہر گز ایسا نہیں ہے.آپ کو جتنا علم اور جتنی عقل دی گئی.تا ہے وہ کافی ہے اور زیادہ ہے یہ اللہ تعالیٰ پر تہمت ہے کہ وہ علم اور عقل تو نہیں دیتا پھر جہنم میں بھی ڈال دیتا ہے.البتہ وہ ان علماء کا مذہب ہے جو بہت پیچیدہ ہے اور جس کے چکر سے کوئی شخص قیامت تک نکل نہیں سکتا اور اس کا سارا دارو مدار اقوال الرجال پر ہے.اسلام اللہ تعالیٰ کا مذہب ہے اور بہت صاف سیدھا ہے اور اس میں کوئی کبھی نہیں.الدین کیسر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جھوٹا نہیں.کیا دنیوی معاملات میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کو اپنی نظر سے دیکھنے اور جانچنے پر اصرار نہیں کرتے.کیا اپنے کاروباری معاملات میں بڑی سے بڑی پیچیدگیاں نہیں سلجھاتے.بڑی سے بڑی مشکلات حل نہیں کرتے پھر کیا آپ کا نفس گواہی دیتا ہے کہ آپ کا یہ جواب اللہ تعالیٰ کے آگے اس کے روبرو چل جائے گا کہ ہم میں علم اور استطاعت نہیں تھی.سنیئے آپ کے اس جواب کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے پہلے سے
۳۹ قرآن کریم میں دے رکھا ہے.یہ کہ تم سمجھتے ضرور تھے بلکہ سرکش اور باغی تھے اور ہم سے ملنے کی تمہیں امید نہیں تھی.“ اسے کاش کہ اس کا کلام جزدانوں سے نکل کر سینوں میں داخل ہو جاتا.اور علماء کی باتوں پر نہ چلتے.بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کو بنی اسرائیل کی طرح تکالیف دی گئیں.کسی کو گالی دی گئی کسی کو قتل کیا گیا.کسی کو قید کیا گیا.کسی کی مشکیں کسی گئیں کسی پر کفر کے فتوے لکھے گئے.اور اس طرح انبیاء بنی اسرائیل کی پوری مشابہت ہوئی کہ یہ خود ساختہ حشرات الارض ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے صریح حکم ولا تكونوا من المشركين 0 من الذين فرقودينهم وكانو شيعاً کل حزب بمالديهم فرحون (ردم ۲۳:۳۲) کے ٹھیک ضد میں دین کے ٹکڑے ٹکرے کر ڈالے اور اب صرف کفر کے فتوے اور لوگوں کی بیویوں پر طلاق لئے پھرتے ہیں کیا یہی لوگ ما اَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابی ہیں ؟ فتد بروایا اولی الابصار - آپ نے فرمایا تھا کہ قرآن مجمل ہے اور حدیثیں اس کی تفصیل ہیں بیشک یہی کچھ سمجھا کہ قرآن کریم کو جزدانوں میں بند کرایا گیا مگر ان دو میں سے کون سچا ہے ؟ اللہ رب العالمین یا علماء مہود صفت ؟ انغير الله ابْتَنى حَكَما وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيَّاكُمُ الكَتَبَ مُفَصَّلاً ( العام : (١١) كتب فُصِّلَتْ أَيْتُهُ قُرَانًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُوْنَ لا ر حم السجدة : ٤) بتائیے کس کو جھوٹا کہے گا ؟ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ
۴۰ مین ہے وَنَزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لكل شيءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ و لبشرى للمسلمين - اوپر یہ تفصیل اور بیان کس کے لئے ہے کیا علماء کے لئے ؟ کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی اور مطالب بہت پیچیدہ ہیں بغیر حدیث کے تفسیر اقوال الرجال کے سمجھ نہیں سکتے.وَلَقَد يسرنا القُرآنَ لِلذِّكَرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (م (۳۳) الْحَمْدُ للهِ الَّذِى اَنْزَلَ عَلى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا (الكهف ) قرآنا عربياً غير ذى عوج (الزمر:۲۹) ہم کس کی بات مانیں اللہ واحد القہار کی یا ان علماء کی ؟ وہ کس کی پیروی کا حکم دیتا ہے.سینیئے وهذا كتب أَنْزَلْنَاهُ مُبرَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَالْقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون وَانَّ هَذَا صِرَ الى مستقيما نا تبعوه وَلاَ تَتَّبعوا السبل فتفرق بكُمْ عَن سبیل ہے (الانعام: ۱۵۴) کیا یہ پیشگوئی پوری ہوگئی یا نہیں.اس کو چھوڑ کر تفریق ہو گئی یا نہیں؟ الذين اتهم الكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَق تِلَاوَتِهِ أُولِيكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ تَكْفُر بِهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْخَرون (البقره: ۱۲۲) تلكَ أَيتُ اللَّهِ تَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبَايَ حديث بَعْدَ اللهِ وَايَتِهِ يُؤْمِنُونَ (الحاشيه ) أَفَغَيْرُ اللهِ ابْتَغِى حَكَما وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلارَ الانعام.(۱۵) اِنَّ فِي ذلِكَ لِذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبُ أَوَ الْقِى السَّمْعَ وَهُوَ شَهيد رق: ٣٨) يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمْ بُرْهَانَ مِنْ رَبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُوراً مبيناً فَالَّذِينَ
امَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيدٌ خِلَهُمْ فِي رَحْمَةٍ منْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطَاً مُسْتَقِيماً ايته وليتذكر أولو الألباب (ص : ٣٠) اس کے خلاف بزعم خود ایک بہت بڑی دلیل پیش کر دی جاتی ہے کہ بتاؤ قرآن میں پانچ وقت کی نماز کی تفصیل کہاں ہے.تفصیل وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ تفصیل کہتا ہے اور یہ جسے تفصیل کہتے ہیں.یہ جو سوال کرتے ہیں اس کا تعلق لَقَدْ كَانَ لَكُمْ في رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب : ۲۲) سے ہے جو تواتر اور سنت سے ثابت ہے.یہ سوال اصل دھوکہ دینے کو کیا جاتا ہے.حدیثیں شارح ہیں نہ کہ تفصیل اور اطیعوالرسول کے ماتحت صحیح حدیث جہاں بھی ملے قابل عمل ہے مگر یہ یاد رہے کہ حدیثوں کا بیان کرنے والا خود فرما گیا ہے میری کوئی حدیث قرآن کے خلاف ہو ہی نہیں سکتی اور اگر کوئی ایسی ہو تو وہ رڈ اور باطل ہے.پھر یہ بھی معلوم ہے کہ حدیثیں ڈیڑھ سو برس بعد جمع کی گئی ہیں.پھر یہ بھی معلوم ہے کہ لاکھوں جھوٹی حدیثیں وضع کی گئی تھیں جن میں سے بہت کچھ انسانی کوششوں نے چھان کر کے چھانٹی ہیں مگر پھر بھی وہ قرآن پاک پر حکم نہیں ہو سکتیں جس کی حفاظت کا وعدہ قیامت تک کے لئے کیا گیا ہے.مگر حدیثوں کی حفاظت کا وعدہ نہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے نہ رسول نے.ہاں البتہ چند جھوٹی سچی حدیثوں پر یہ سر پھٹول اور فرقہ بندی ہے جس سے منع کیا گیا تھا.غضب خدا اللہ اور اس کا رسول تو یہ کہے کہ قرآن کو پڑھو اس کو
۴۲ سمجھو.اس پر تدبر کرو.اسے ہر وقت پڑھو، صبح پڑھو، شام پڑھو ہر نماز میں لازم کر دیا ہے کہ ایک حصہ ضرور پڑھو.یہیں تم کو تفرقہ اور گمراہی سے بچائے گی اس کو پکڑے رہو تو صراط مستقیم پاؤ گے ہدایت اور اس کی رحمت اور فضل پاؤ گے اور اس کے خلاف علماء فرمائیں گے کہ ہرگز نہیں اسے اٹھا کر رکھ دو.پڑھو نہیں سمجھو نہیں دیکھو نہیں بغیر حدیث اور تغییر اقوال الرجال کے پڑھو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے.اور ایسے ہی نام نہاد علماء کے لئے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ ان الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ ما تَنَاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنْهُمُ اللهُ وَيَلْعَنهُم الله عنونَ (البقره: ۱۶۰) کاش ایک ہی مرتبہ آپ اس کو جانچنے کے واسطے قرآن پڑھتے اور اس پر تدبیر کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں یا نہیں.اللہ کا بیان سچا ہے یا ان علماء کا.ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ مخاطب کون ہیں.ہم آپ یا علماء قرآن پاک میں يَا أَيُّهَا النبی اور یا ایها الرَّسُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ يَا أَهْلَ الكتاب ہے یا پھر يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمنوا ہے.کہیں ایک جگہ بھی یا ایها العلماء نہیں ہے تو پھر کیا اس یا جبروت دربار میں یہ جواب بن پڑے گا کہ ہم علماء کی پیروی کرتے ہیں جس کے لئے اس نے منع کیا تھا ؟ کیا ہم اس طرح چھوٹ جائیں گے ؟ کیا وہ خدا یہ نہیں پوچھے گا کہ ہم نے تم کو کیا حکم دیا تھا ؟ اگر اس پر بھی سمجھ نہ آئے اور آپ ان کی پیروی میں ہی نجات سمجھتے ہیں تو اچھی بات ہے پھر اس پر دوسروں کو بھی مجبور کرنا اور
۴۳ امام وقت کی حیثیت اختیار کرنا کسی حد تک حق بجانب ہیں اس کو بھی سوچ لیجئے اور پھر وہ جس بات کی پیروی کرتے ہیں اور آپ پیروی کرتے ہیں اس پر بھی غور کر لیجئے.کیا عقل سلیم بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی ایسا خدا ہے جو اس کے ایک عاجز بندے کو ستانے اور تنگ کرنے سے خوش ہوتا ہے جو کچھ آپ لوگوں نے کیا.(1) ایک ایسا شخص جو موت کے بستر پر زندگی کے دن گن رہا ہو اس کو تنگ کیا جائے کہ وہ ہجرت پر مجبور ہو اور بیکسی وغریب الوطنی کی موت ہو (۲) اس کو اس کی رفیقہ حیات کی رفاقت سے ایسے حال میں محروم کیا جائے جب ساری زندگی کے نچوڑ کا وقت ہو.(۳) اس کو اس کے چھوٹے بیچوں سے علیحدہ کر دیا جائے اور ان کی سرپرستی سے محروم کر دیا جائے (۴) اس کی بیوی پر طلاق کے فتوے لگائے جائیں اور ان کو جبراً علیحد کر دیا جائے دھی اس کی بیوی اور بچوں کو آئندہ پوری زندگی کے لئے روتا کلپنا چھوڑ دیا جائے اور زندگی ہی میں مردہ تصور کرنے پر مجبور کیا جائے.اور یہ سب کیا آپ اس کو نوش کرنے کے لئے کرتے ہیں ؟ اور یہ سب کسی گناہ کی سزا ہیں.اس کی کہ میں کہتا ہوں اللہ ایک ہے اور نبئی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم انبیین ہیں.قرآن خدائے پاک کا کلام ہے.سنت قابل عمل اور صحیح حدیثی قابل اطاعت ہیں أمَنتُ باللهِ ومَلئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
۴۴ والقدر خيره وشره من الله تعالى وَالْبَعْثِ بَعْدِ الموت میں سے ہر ہر لفظ پر ایمان ہے.حسب قوت عمل بھی ہے.اہل سنت جماعت کے لحاظ سے بھی زیادہ کسی کو پوچھنے کا کسی کو بھی حق نہیں.اور نہ میں نے کفر کیا ہے نہ ارتداد کیا ہے.میں نے امر بالمعروف کی بیعت کی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی کچھ وقعت ہے سینٹے اس وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنَّار النساءه (۹۵) رسول اکرم نے مومنوں کی تعریف کی ہے کہ جو میری طرح قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ مسلم ہے.حضرت علی نے فرمایا کہ مَنْ قَالَ لا إله الا الله فَهُوَ مُسلم اور پھر حدیث میں ہے کہ جس کو تم کافر کہو وہ اللہ کی نظر میں کافر نہ ہو تو کفر کہنے والے پر لوٹے گا یعنے کہنے والا تو یقینا کا فر ہو جائے گا لیکن مومن کو ایذا دینے والے کے لئے.اللہ واحد القہار کا فرمان سن لیجئے وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْ فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْنَانَا وَ انْمَا مُّبِينًا - ( الاحراب : ۵۹) پھر اس پر بھی غور فرما لیجئے.یہ حرکات سوشل بائیکاٹ وغیرہ کے اور اس طرح تنگ کرنے کے.کیا مخالفین نے انبیا علیہم السلام کے ساتھ کیا تھا اور بنو ہاشم کے مخالفین نے کیا تھا یا مومنین کے مخالفین نے کیا تھا.یقین جانئے کہ یہ زندگی بہت جلد ختم ہونے والی ہے اور ہم سب کو ایک بڑی با جبروت عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں یقینا کوئی فتواے.کوئی دنیوی مصلحت - صرف زبان سے لا الہ الا الله
۴۵ مُحمد رسُولُ اللهِ کہ دینا کام نہیں آئیگا.بلکہ ستائے ہوئے مطلوبین کا ہر ہر آنسو جو گرے گا وہ ایک ایک دریا ہو گا جیسے عبور کرتا ہوگا لہذا خوب اچھی طرح اپنے نفس کا محاسبہ کر لیں کہ جو کچھ آپ نے کیا اور کر رہے ہیں اس کا آپ کو کہاں تک حق ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو کب اور کہاں تک یہ منصب عطا کیا ہے اور یہ بھی کہ کیا اس میں میری مجبوری اور کمزوری اور پریشان حالی کا بھی کچھ حصہ ہے یا صرف اللہ کو خوش کرنے کے لئے ہی کر رہے ہیں.کاش کہ یہ معاملہ آپ نے ان علماء کے لئے چھوڑ دیا ہوتا اور ان کو فتو ے اور قتل مرند کا ثواب لینے دیتے میرے خون سے اپنا ہاتھ نہ رنگنے اور اتنی بڑی خوفناک ذمہ داری اپنے سر نہ لیتے ہیں نے لکھنو میں یہ عرض کیا تھا کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں جس کا جی چاہے مجھ سے تعلق رکھے جس کا جی نہ چاہیے نہ رکھے مگر اس کو آپ نے قبول نہ کیا تھا تو پھر اس کو میں صریح ظلم کے سوا کسی چیز سے تعبیر نہیں کر سکتا اور اپنا اور ان لوگوں کا معاملہ اس حاکم حقیقی کے حوالے کرتا ہوں وَهُوَ خَيْرُ الفاصلين.رہا یہ معاملہ جس کا جواب دینا ہے اس کے متعلق دوبارہ عرض ہے کہ میں اپنے عقیدہ پر الحمد للہ قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے استقامت عطا فرمائے اور اسی پر موت دے قُل يُقَومِ اعملوا على مكانتكم إلى عَامِلُ فَسَوْنَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدار انه لا يَفْلِحُ الظَّالِمُونَ (الانعام: ۱۳۶) اور اس پر عمل کیا ہے وَمَنْ يُّهَاجر فی سبیل اللہ اور میں اپنی بیوی اور بچوں کو ان کے پیدا کرنے والے کے حوالے کرتا ہوں وہی ان کا کار ساز
۴۶ اے خدا اے چارہ سازی پر لایا نہ ہیں.اسے پناہ عاجزان آمرزگار نہیں از کرم این بنده خود را به بخشش بانواز - ویں جدا افتادگان را از ترجمہا ہیں دوسری بات ذکیہ کی شادی کی اجازت ہے جس کے متعلق عرض ہے موجودہ حالت میں ہیجان و اضطراب بہت زیادہ ہے اور جدائی کے صدمات بہت زیادہ ہیں.ایسی حالت میں جلدی مناسب نہیں ہے.جب طبیعتوں میں سکون پیدا ہو گا دیکھا جائے گا.رقیہ کو اختیار ہے کہ جب مناسب معلوم ہو کردے.اصل اختیار اور مرضی تو خود عاقل و بالغ لڑکی پر ہے.آپ نے لکھنو میں فرمایا کہ تمہاری ذات سے کسی کو دشمنی نہیں ہے بلکہ اس چیز کو صرف رو کنا ہے.مجھے تسلیم ہے.میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میری ذات سے دشمنی نہیں ہے مگر جس چیز کو روکنے کی ساٹھ برس سے ساری دنیا کوشش کر چکی ہے اور کامیاب نہیں ہوئی وہ بڑھ رہی ہے اور ساری دنیا کے ہر ہر گوشہ میں پھیل رہی ہے اس میں آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور کسی چیز کو روکنے کی اور جس کے پھلے بڑے کے متعلق آپ خود نہیں جانتے اور گفتگو کرنا چاہتے ہیں نہ کچھ سنا چاہتے ہیں صرف علماء کے فتوے پر دار و مدار ہے.خیر اچھی بات ہے آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں.مگر کم از کم خدا کے لئے یہ تو سوچ لیجئے کہ کہیں غلط فہمی کی وجہ سے آپ اللہ کے راستہ سے تو نہیں روک رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ تو نہیں کر رہے ہیں جس میں کامیابی تو ہرگز نہیں ہوگی اور بڑے سخت مواخذہ کا باعث ہوگا.یاد رہے کہ مخالفت دوسری چیز ہے اور یہ بہت ہی خطرناک منزل ہے.علماء نے مرزا صاحب پر کفر کے فتوے لگائے اور ان کی پیروی سے اور بیعت سے میں کافر ہوگیا.مگر اسے اللہ کے بندو! کبھی یہ بھی اپنے علماء سے
۴۷ پوچھا کہ معاذاللہ وہ کافرہم سے کہتا کیا ہے.یہی نا کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَمِنو بِاللهِ وَرَسُولِ ہے اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ امَةِ رَسُولاً اَنِ اعْبُدُ والله وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (النحل : ۲۷) اور تمام انبیاء کی سنت کے مطابق فَاتَّقُو اللهَ وَاطِيْعُون.یہی آواز ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے تیرہ سو برس بعد حضرت مسیح ناصری نے اٹھائی تھی.پھر یہی آواز ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو برس بعد ان کے ایک غلام غلام احمد نے اٹھائی اور اسی طرح راتاً اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِداً كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رسولاً (المزرتل (14) کی پوری مشابہت ہوگئی.گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم اور اگر میں نے کچھ گناہ کیا ہے تو سب سے بڑا گناہ گار اس معاملہ میں وہ ہے جس کی حدیث دار قطنی میں ہے کہ اِن لِمَهْدِينَا آيَتَيْن لَمْ تکونا منذ خلق السمواتِ وَالْأَرْضِ يَنكَسِفُ القَمَرُ لِاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رمَضَان وتتكيف الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ جو میں پورا ہوا.پھر صرف اتنا ہی نہیں.ہمارے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ آئے تو اسے میرا سلام پہنچانا.سبحان اللہ.قادیانی قرآن کا ترجمہ تو غلط کرتے ہیں مگر کیا آسمان پر چڑھ کر چاند اور سورج کو گرہن بھی لگا سکتے ہیں.اے کاش آپ اپنا وقت ضلع ، طلاق اور تجدید نکاح وغیرہ میں ضائع کرنے کے بدلے نیک نیتی سے وَالَّذِيْنَ جَاهِدُوا فِينَا لَنمريم سبنا پر عمل کر کے اجر عظیم کے مستحق ہوتے.مجھے خود کو باوجود ان تکالیف کے کسی سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے امتحان
۴۸ میں ڈالا ہے میں اس پر صابر ہوں اور اسی سے اجر کا طالب.میری زندگی اور موت کا بھی کوئی سوال نہیں ہے جہاں مقدر ہوگی ، ہوگی مگر صرف میری تمنا اور دعا ہے جس طرح آج سے ساڑھے پانچ سو برس پہلے ہماری قوم کو اسلام لانے کی توفیق دی اسی طرح آج بھی توفیق عطا کر اور اس میں اگر اس نے مجھے اس درخت کے بیج بن کر مٹی کے لئے چن لیا ہے تو آپ کو اور میرے محسن مرتی یونس بھائی کو السابقون الاولون میں داخل کر دے آمین.کیا آپ مہربانی فرما کر قوم کے ہر فرد کو اور جو سوشل بائیکاٹ میں شریک ہیں یہ اتمام حجت سنا دیں گئے تاکہ ہر شخص اپنا معاملہ جو اللہ تعالیٰ سے ہے اس میں خود فیصلہ کرے یا سب کی ذمہ داری آپ لینے کو تیار ہیں از قادیان المورته ۸ رجون شله فقط مہاجر فی سبیل اللہ گناہ گار عبدالستار رقیہ.میں نے آج بذریعہ رجسٹری تمہارے والد کو اپنا آخری فیصلہ لکھ دیا ہے اور وہ حسب ذیل ہے.میرے محترم بزرگ.مجھے افسوس ہے کہ جواب میں دیر ہوئی اور آپ کو بہت انتظار کرنا پڑا مگر مجھ کو میری تحقیقات میں جو ایک کسر تھی وہ یہاں آگر نظروں سے دیکھنے اور جانچنے سے پوری ہوگئی اور میں نے معاملات پر بہت اچھی طرح غور اور فکر کر لیا ہے اور آپ کی تین باتوں کا جواب حب ذیل ہے.
۴۹ (1) میں اپنی رائے اور اپنے عقیدہ پر پوری طرح مضبوطی سے قائم ہوں اور اس سے ذرہ بھر ہٹنے کو تیار نہیں.(۲) چونکہ آپ کے فتادی میرے لئے قابل تسلیم نہیں ہیں.میں اپنی بیوی اور بچوں کے حقوق سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں.بہر حال وہ میری بیوی اور بچے ہیں جب تک میں زندہ ہوں خواہ میرے عقائد سے ان کو اتفاق ہو یا اختلاف موت صرف ایک موت ہی ہے جو ان تعلقات کو ختم کر سکتی ہے (۳) ذکیہ کی شادی کے لئے آپ نے اجازت طلب کی محنتی مگر افسوس ہے کہ موجو دہ حالات میں میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.بیوی اور بچوں کو میں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر کے چلا تھا اور آج بھی اسی رازق العباد کے حوالہ کرتا ہوں.وہی ان کی حفاظت اور کفالت کرے گا.اور اپنے خزانہ غیب سے رزق عطا کرے گا.اس درمیان میں ان کی اس تکلیف و مصیبت میں.اس دو طرفہ کشمکش میں جو بھی ان سے ہمدردی کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے پاس اجر عظیم کا استحق ہوگا اور جو بھی ان کی اس بے کسی اور مجبوری میں اپنے کسی قول سے فعل سے عمل سے زبان سے ان کا دل دکھائے گا اس کو ڈرنا چاہیے کہ مظلوم کی آہ خالی نہیں جاتی.گناه گار عبد الستار یہ ہے میرا قطعی اور آخری فیصلہ جس پر اللہ تعالیٰ مجھے قائم رکھے اور میں نے اپنا منہ اس کی طرف کر لیا ہے.میرے لئے بیشک بہت سخت ابتلا ہے مگر الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے صحیح فیصلہ کی توفیق دے دی.رقیہ
۵۰ تم نے سنا ہے پل صراط کا نام جو بال سے باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے.آڑمیں تمہیں دکھاؤں کہ وہ پل صراط اسی دنیا میں موجود ہے جس میں لڑکھڑایا تو گیا.نمبرا.ایک کے معنی ہیں کہ میں اللہ واحد القہار کی خدائی کو تسلیم کرلوں یا یونس عثمان کی خدائی کو تو میں نے فیصلہ کیا کہ اللہ کی نمبر ۲ کے معنی ہیں کہ تمہارے والد نے کہا ہے کہ میں ان کو اپنے پاس رکھوں گا اور کما کے کھلاؤں گا.اور زکیہ کی شادی کر دوں گا بشرطیکہ میں یہ فیصلہ کر دوں کہ میرے تعلقات میری بیوی اور بچوں کے ساتھ قطعی نہ رہیں نہ ظاہر نہ باطن نہ خط نہ کتابت نہ تو ئیں کوئی خرچ بھیجوں.اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو تسلیم کر کے تمہارے والد کی رزاقیت تسلیم کرلوں اور اللہ رازق العباد کو چھوڑ دوں.تو میں بھی مرنے والا ہوں.تمہارے والد یونس عثمان بھائی اور سب مرنے والے ہیں.پھر تم کو تمہارے بچوں کو اور تمہارے بچوں کے بچوں کو کون کھلائے گا.لہذا مجھے ان کی رزاقیت سے انکار ہے اور میں نے ایک ایسے رزاق کی طرف منہ کر لیا ہے اور بھروسہ کر لیا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور جو سب کو بغیر کسی شرط کے رزق پہنچاتا رہا ہے اور پہنچائے گا.لہذا کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کے حقوق سے دستبردار ہو جاو.نمبر ۳ - کو بھی اسی طرح سمجھو ایسے حالات میں یہ شادی کیا شادی ہوگی اور اس کی کس کو خوشی ہوگی.
اه میں نہیں جانتا کہ میرے اس فیصلہ کا تم پر کیا اثر ہوگا تمہیں پسند ہے یا نہیں بہر حال یہ میرا معاملہ میرے اللہ کے ساتھ ہے.میں اب کسی دنیا دی مصلحت کی پرواہ نہیں کرتا.تمہیں اگر یہ پسند نہ ہو اور اس کے نتیجہ میں تکلیف اور مصیبت جو آئے گی اس کو برداشت کرنے کی طاقت اگر ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو اور جو بھی مشکلات آدیں اس پر صبر کرو اور اگر تمہیں پسند ہو تو پھر جو تم لوگوں کو مناسب معلوم ہو وہ کرو.مجھے اس میں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا.جو کچھ بھی تم مصلحت سمجھ کر کرو گی اس کے مجھے کوئی رنج نہیں ہوگا.دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے.اس جواب کے بعد جو مشکلات آئیں گی وہ میں جانتا ہوں اور خوب سمجھ رہا ہوں مگر اللہ غالب ہے اور غالب رہے گا بشرطیکہ صبر اور استقلال ہو.تمہارے والد بغیر کسی شرط کے یا ضلع اور علیحدگی پر مجبور کرنے کے بغیر کچھ سلوک تم سے کرنا چاہیں تو یہ حق ہے تمہارے باپ کا اور یہ حق ہے تمہارا اس میں کوئی ہرج نہیں ہے مگر اگر اول شرائط کے ماتحت کرنا چاہیں تو پھر تم خود سوچ لو کہ قبول کرنا یا نہیں.اس ضلع کے معاملہ میں تمہارا جواب یہ ہونا چاہیے کہ ابھی تو وہ ہے نہیں.جب زندہ رہے گا اور آئے گا اس وقت یہ سوال پیدا ہوگا.لہذا خلع کے بدلے اس کی موت کی خبر کا انتظار کیجئے اور یہی وعدہ وہ مجھ سے لکھنو میں کر گئے ہیں کہ مجبور نہیں کریں گے.تم کو شاید یہ خیال ہو کہ ایسا سخت اور کھرا جواب دینے کی وجہ یہ ہوگی کہ میں نے کوئی اچھا انتظام کر لیا ہے مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے.کوئی کام کاج کا کسی طرح کا کوئی انتظام نہیں بلکہ یک گونہ مایوسی ہے صرف
۵۲ اللہ پر بھروسہ ہے اور بڑے بڑے بزرگان دین اور اللہ والوں کی دعا ہے جو دیر میں رنگ لائے گی یہ میرا ایمان ہے بشرطیکہ استقلال اور میر ہو.اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ رکاوٹیں ہو رہی ہیں کہ میں ابھی تک یہاں سے نکل نہیں سکا.اتفاق سے حضرت صاحب کی طبیعت آنے کے تیسرے دن سے ہی بہت خراب ہو رہی تھی ابھی تک پوری طرح افاقہ نہیں ہوا ہے اور پھر تین چار روز سے ذرا ئیں بھی سست ہو گیا ہوں.آنتوں کی تھوڑی تکلیف ہے مگر کوئی ایسی بات نہیں.حضرت صاحب کے خاص ڈاکٹر سے علاج ہے.دو ایک روز میں ٹھیک ہو جائے گی.میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کب تک رہنا ہوگا اور کہاں جاتا ہوگا.یہ اللہ عالم الغیب کو علم ہے.یہاں اس وقت گرمی بہت سخت ہے ۱۱۵ ۱۱۷ ڈگری پر رہتی ہے جو ذرا طبیعت کے موافق نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ نے سب کچھ برداشت کی طاقت دے دی ہے اور وہی سب کا نگہبان ہے اور اگر یقین کامل ہے تو وہ امتحان میں کامیاب اور آسان کرے گا.تم کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت ہاجرہ اور بڑھاپے کے اکلوتے فرزند کو بیابان میں چھوڑنے کا حکم دیتا ہے وہ عاشق صادق اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے.پھر جب وہ لڑکا دوڑنے کے قابل ہوتا ہے تو بوڑھے نوے برس کے باپ کو حکم ہوتا ہے کہ ہماری محبت کا دعوی ہے تو اس لڑکے کو ہماری نظر کے سامنے ذبح کر دو.وہ عاشق صادق اس امتحان میں بھی کامیاب ہوتا ہے.پھر اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کیا دیتا ہے.ساری دنیا کو چھوڑ کر صرف اس کی اولاد میں نبوت اور پیغمبری مخصوص کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ کذالک بخری المحسنین اور قیامت تک اس کا ذکر اور اس پر درودجاری رہتا ہے
۵۳ کیا اس میں تم لوگوں کے لئے کوئی عبرت ہے ؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک ہر طرح کی مصیبت برداشت کر کے ہجرت کرتے ہیں.ایک رفیق صادق ساتھ ہے پھر کیا ہوتا ہے.چند سالوں کے بعد دس ہزار قد دیویں کے ساتھ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوتا ہے.کیا اس میں کوئی سبنتی ہے ؟ راہ میں کانٹے ضرور ہیں.مصائب اور ابتلاء ہیں اس کے بغیر کوئی جنت میں آسانی سے کو دجائے یہ ممکن نہیں.ہاں البتہ بیوقوفوں کی خیالی جنت میں وہ مزور ہے مگر آنکھ بند ہوتے ہی پتہ لگ جائے گا.اس کے بعد ہر روز جو کچھ گزرے وہ اسی طرح تم لکھا کرو میں جہاں ہوں گا پہنچ جائے گا...اللہ تعالیٰ جامع المتفرقین ہے اس سے دعا کرتے رہو اور خوب عاجزی اور سوز و گداز سے راتوں کو دعا مانگو تو وہ پھر انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد پوری کامیابی کا مرانی اور نتحمندی اور خیریت و عافیت کے ساتھ ملا دے گا اور رزق کی راہیں کشادہ کر دے گا.ہر معاملہ میں اپنا وسیلہ صرف خدا ہی کو بناؤ اسی کے ہو رہو تو وہ ضائع نہیں کرے گا.اگر سوشل بائیکاٹ وہ پھر کریں تو جس سے بھی تمہاری بات ہو صاف کہہ دیا کہ ہم تو اللہ کے بھروسہ بیٹھے ہیں.وہی ہمارا کارساز ہے جس کو یونس عثمان کی خدائی منظور ہو اور اس کا بندہ ہو وہ ادھر ہو جائے یہ صرف دوسروں کو نہیں بلکہ اب چاچی کو رحمت کو اور تمہارے بھائیوں کو بھی یہی کہنا.اب ضرورت کمزوری کی نہیں ہے مصلحت مضبوطی میں ہے تم اس کو سمجھو اور ڈرو نہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور تماشہ دیکھوں تمہارے والد بغیر کسی شرط کے تم کو کچھ دینا چاہیں تو وہ تم کو دودھ سے زیادہ حلال ہے لے لینا مگر کسی شرط کے ساتھ نہیں.
۵۴ تمہارے والد کی باتوں کو لکھنو میں میں بڑی حیرت سے سن رہا تھا کہ یا اللہ دنیا اور دنیا کے کپڑے کس قدر گری ہوئی حالت میں ہیں کہ باپ اپنی بیٹی سے کہنا ہے کہ تم کو خلع لینا ہی ہو گا اور داماد سے کہے کہ تم اس کا وعدہ کرد کہ تم ظاہر باطن کسی طرح کا کوئی تعلق نہ رکھو نہ خط لکھو.نہ کلکتہ آنے پر بھی کوئی ملاقات کی کوشش کرو مختصر یہ کہ تم اب اسی حالت میں مرجاؤ اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہ کرو تو پھر میں بیٹی اور بیٹی کے بچوں کو پالوں گا.يا للعَحَب يَا الْعَجَب یونس بھائی اور ان کے حواری بھی شاید اسی خیال میں ہوں کہ اچھا ہوا اب وہ مر ہی جائے تو یہ قصہ ختم ہو جائے مگر کیا ان کی یہ امیدیں پوری ہو جائیں گی ؟ اللہ بہتر جانتا ہے کہ غیب کا علم اسی کو ہے مگر مجھے تو کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بارہ مئی کو ٹال کر کسی مصلحت سے میری عمر بڑھا دی ہے.بہر حال میرا بھروسہ اسی پر ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے.زکیہ اور رابعہ کو پوری تسلی اور اطمینان دلانا اور کہتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقین رکھو کہ بہت بہتری کے لئے ہو رہا ہے اور گھٹا ٹوپ اندھیرے اور طوفان میں سے پھر روشن آفتاب نکل آئے گا مگر معاملہ اللہ تعالیٰ سے رکھو.حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیز مصر بننے سے پہلے بھائیوں کے ہاتھ سے اندھے کنویں میں گرنا اور غلام بن کر بکنا ضروری تھا ورنہ ہرگز وہ مصر نہ پہنچتے.جو بات آج تم کو بے عزتی اور خفت کی معلوم ہوتی ہے وہی چیز در اصل آگے چل کر عزت بنتی ہے.رفیعہ اور ریحانہ کو پیار کرنا.باجی کو کہنا کہ اللہ پر بھروسہ رکھے.رحمت کو دعا کہنا عائشہ اور عظیم کو بھی.ہادی سے کہنا کہ اطمینان رکھو کہ گھروں کا بنانا اور بگاڑ نا صرف اللہ کے اختیار میں ہے نہ کسی اور کے بنائے
۵۵ بگاڑے نہیں بگڑتے بنتے.طبیعت میں بہت کشمکش تھی کیل فیصلہ کن جواب لکھ دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سکون قلب عطا کر دیا ہے تو اب میں نے عائشہ ذکیہ رابعہ رفیعہ ریحانہ عظیم رحمت اور چاچی کو سب کو یاد کیا ہے.تم کو یہ فکر کیوں ہے کہ میرے پاس اب باقی کتنے روپیہ ہیں.ہیں ان روپوں کو گنتا نہیں نہ ان پر میرا دارو مدار ہے.مجھے تو ایک ایسا خزانہ معلوم ہو گیا ہے کہ اس میں سے جس وقت جتنی ضرورت ہوگی ملے گا اور کبھی ختم نہیں ہوگا.اس طرف سے بالکل بے فکر رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کر دیگا تیم لوگ اپنی طبیعت میں اطمینان پیدا کرو.اللہ بڑا کار سانہ ہے.گنا ہو گا.عبدالستار از قادیان امور خر سوار جون سه رقیه - میرا فیصلہ آج پانچ روز ہوئے تمہارے والد کے نام جا چکا ہے تم کو معلوم ہو گیا ہو گا خواہ وہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے.میرا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور وہ بالکل صاف ہے.میں منافق نہیں بنا چاہتا.مجھے یقین ہے کہ میں حق پر ہوں تو پھر ساری دنیا کی مخالفت کی مجھے پرواہ نہیں ہے.دوسری بات جو تمہارے والد نے پیش کی تھی وہ یہ کہ میں بالکل قطع تعلق کرلوں تو وہ میری بیوی اور بچوں کی ذمہ داری لیں گے اور ان کی شادیاں وغیرہ کر دیں گے یہی ایک جگہ ہے جہاں انسان بروی اور بچوں کی محبت میں شرک کر بیٹھتا ہے اور یہی ایک چیز تھی جس کو سوچنے اور سمجھتے ہیں
۵۶ اور جواب دینے میں اس قدر دیر لگی اور یہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آخر کار صحیح فیصلہ کی توفیق عطا کی کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے دوکانداری منظور نہیں ہے اور میں کسی دوسرے کی رزاقیت اور ربوبیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں بھی مر جاؤں گا اور دوسرے بھی سب فانی انسان ہیں پھر اس کے بعد میرے بچوں کی اور بیوی کی پرورش کون کرے گا لہذا میں صرف اس زندہ حی و قیوم خدا کے حوالہ کرتا ہوں جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور اپنی بیوی اور بچوں کی جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر عائد کی ہے اس سے میں دست بردار ہونے کو تیار نہیں یا اَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَاراً ( الحريم ) که اسے ایمان والو تم اپنے آپ کو اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ.اس حکم کے ماتحت بھی یہ میری ذمہ داری ہے نہ کہ کسی اور کی ہیں اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرتا ہوں کہ وہ مجھے ان ذمہ داریوں کے پورا کرنے کی توفیق دے.البتہ موت کے ساتھ ساری ذمہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں تو جس کو بھی یہ بات پسند نہ ہو وہ میری موت کا انتظار کرے.اسی طرح سے میں ذکیہ کی شادی کی اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ اب مجھے اس معاملہ میں بہت کچھ سوچنا ہے.بہت ممکن ہے کہ تم کو ضلع کے لئے مجبور کیا جائے مگر میں یقین سے کہتا ہوں کہ اور بہت سی بے معنی اور لغو حرکات جیسے طلاق اور تجدید نکاح وغیرہ کی کی گئیں اسی طرح کی یہ ایک لغو حرکت ہو گی.نتیجہ کے لحاظ سے نہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ کوئی چیز ہے اور نہ حکومت کا قانون اس کو روا رکھتا ہے.یہ چند جبہ پوش اخوان الشیاطین کا دلچسپ مشغلہ ہے جو اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں اور جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو برس پیشتر شر مَنْ تَحْتَ أَديمِ السَّمَاء یعنی آسمان کے نیچے بدترین مخلوق کا خطاب دیا ہوا ہے.میری نظر میں ایک رومی کا غذ کے ٹکڑے کے برابر بھی ان فتووں
۵۷ کی قیمت نہیں ہے کجا کہ میں تسلیم کروں جس شخص کو خدا نے آنکھیں دی ہوں ، دل دیا ہو دماغ دیا ہو وہ پھر بھی اپنی آنکھیں بند کر کے اگر ان کے پیچھے چلتا ہو تو چلا کرے ہیں کے اس کے لئے تیار نہیں ہوں.اب اگر اس کی وجہ سے پھر تم لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچانے کی کوشش کی جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو.صبر سے برداشت کرد.دن رات عاجزانہ دعاؤں اور توبہ و استغفار کا ذریعہ اختیار کرو.اللہ تعالیٰ بہت جلد فیصلہ کر دے گا.مگر ہیں ان خیالی تکالیف کے لئے اپنا ایمان نہیں بیچنا چاہتا.بچے سب اچھے ہوں گے میں سب کے لئے دُعا کرتا ہوں اور اس وقت میرے پاس ہے بھی یہی کچھ.اللہ تعالے تم لوگوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے.گناہ گار از قادیان امور تحصه ۱۶ رجون شه عبد الستار رقیہ.تمہارا ۱۲ جون کا خط پہنچا.الحمد لله رب العالمین کہ میرا فیصلہ صحیح ثابت ہوا.اور مجھے سب سے زیادہ اطمینان اس بات کا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اب تمہارے دل سے ڈر اور ہیبت اور گھبراہٹ کو ہٹا کر یک گونہ سکون عطا کیا ہے یہ تمہاری تحریر سے ثابت ہوتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کرم سے صحیح فیصلہ کی توفیق عطا فرمائی اور اس قدر تکلیف جو پہلے تم لوگوں کو ہوئی وہ بھی صرف تم لوگوں کی اپنی خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے ہوئی.کاش کہ میرے کہنے کے مطابق تم لوگ پہلے دن سے مضبوطی اور استقلال سے قائم رہ کر تماشہ دیکھتے.رقیہ کیا تم کو اب بھی اس میں اللہ تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ نظر نہیں آتا کہ وہ باوجود ان لوگوں کی جاہ و ثروت، عزت، اثر رسوخ اور پوری قوم کی متفقہ قوت کے ایک عاجز درمانده
OA ضعیف مریض مجبور انسان کے مقابلہ میں بے دست دیا ہو گئے ہیں ان کا ہر قدم غلط اٹھا اور خود ان کو شرمندہ کر گیا.ان کی ساری تدبیریں بیکار ہو گئیں.ان کی لغو حرکات خود ان کو ان کے دل میں شرمندہ کر رہی ہیں.مجھے ڈرانے والے خود ڈر گئے ان کے دل کمزور ہو گئے ان کے بازو شل ہو گئے ان کی ہمتیں پست ہو گئیں مجھے میری بیوی بچوں سے علیحدہ کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں اور ان کو معلوم ہو گیا کہ اس نحیف لاغرجسم کے اندر ایک ناقابل تسخیر روح ہے جو روٹی کی لالچ اور دولت کے رعب سے مغلوب نہیں ہو سکتی.وہ بھی بیچارے مجبور ہیں کہ ہمیشہ ان کو پیٹ کے کتوں سے سابقہ پڑا ہے اور وہ ٹکڑوں کے لالچ میں ان کی ناک پکڑ کر کھایا کرتے تھے مگر کسی اللہ کے بندہ سے سابقہ نہیں پڑا تھا.عبدالرزاق صاحب نے فرمایا تھا کہ زبر دستی اس کو اس کے بیوی بچیوں سے علیحدہ کر دیا جائے.کہو کہ ابھی اور اپنی قوت آزمائی کر لیں.رقیہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو عجیب عجیب طریقہ سے رزق پہنچائے گا.اس کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا.ہرگز ہرگز کسی انسان کو اپنا رازق نہ سمجھو.غیر اللہ کا خوف، غیر اللہ سے طمع دونوں باتوں کو دل سے نکال ڈالو.خالص اللہ کے بندہ بن جاؤ وہ تمہارا ہو جائے گا.بچوں کی قسمت پر بیوقوف افسوس کرتے ہیں.کیا اللہ تعالیٰ نے بچوں کی قسمتوں کا فیصلہ ان کے ذمہ کر دیا ہے.کیا تقدیر الہی کو ان کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے.یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر میرا رعب غالب کر دیا ہے.وہ اب کوئی شرارت نہیں کر سکتے تم لوگ صبر اور سکون کے ساتھ اللہ کی مدد طلب کرو اور عاجزانہ دعاؤں میں مشغول رہو....ایسی جماعت کے ساتھ میں پہلے بھی کب تھا اور اب بھی مجھے کو نسی محبت اس جماعت سے ہے مگر وہ مجھے ذلت کے ساتھ نکالنے میں انشاء اللہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے.اب جو وقت جاتا ہے اس میں مجھے امید ہے کہ لوگ زیادہ محبت کے ساتھ تمہاری طرف رجوع کریں گے میری
۵۹ موت اور حیات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور مجھے اس بارگاہ ایزدی میں امید ہے کہ وہ مجھے زندہ رکھے گا تو عزت کے ساتھ اور موت دے گا تو عزت کے ساتھ اور میرے بعد بھی وہ میرے بیوی بچوں کو عزت اور راحت کی زندگی دے گا بشرطیکہ وہ ان عارضی مشکلات سے گھبرا کر اللہ سے تعلق نہ توڑ ڈالیں.اب تم مجھے کچھ دن خط نہ لکھنا کیونکہ میرا رادہ اواز تک یہاں سے روانہ ہونے کا ہے کچھ قطعی فیصلہ نہیں ہے مگر زیادہ خیال نمبئی کا ہے اس کے علاوہ تمہارے خط سے نوری کی کوشش کا حال معلوم ہوا.اس لئے بھی نبی کا زیادہ خیال ہوتا ہے.بھٹی میں حسین بھائی لال جی سے ملوں گا.اور نوری کو میں انشاء اللہ کل ایک خط لکھوں گا اور اس درمیان میں تم ہادی یا محمد کے ذریعہ نوری سے کہلا بھیجا کہ وہ ضرور کوشش کرے اور حسین بھائی کو خط لکھے.بہر حال جہاں بھی جانا ہو گا میں تم کو لکھ دوں گا مگر اب جو خطوط تم لکھ چکی ہو وہ تو مجھے مل ہی جائیں گے اس کے بعد میرا دوسرا پتہ ملنے تک خط نہ لکھنا.خلع وغیرہ کا کہیں تو از کار قطعی کردینیا تمہار والد ہیں تو بھی اچھا اور جانا چاہیں تو جانے دیا.اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں سے ملانے کا ایک عجیب ذریعہ پیدا کر دیا تھا وہ پورا ہوگیا.کرسی میز اور پنکھا وغیرہ جو زیادہ غیر ضروری چیز چھوٹے مکان میں نہ لے جا سکو اس کو کچھ تجویز کر کے فروخت کر دیا.اگر آدم بھائی لینا چاہیں تو کرائے کے قرض میں اتنی رقم وضع ہو جائے گی....میری طبیعت اب اچھی ہے کچھ فکر نہ کرنا.امید ہے کہ تم سب اچھی طرح ہوں گے کیں زیادہ فکر نہیں کرتا.اللہ تعالے تم لوگوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ہیں دن رات دعا کرتا رہتا ہوں یہاں میرا یہی شغل ہے اور سب خیریت ہے.تم لوگ بھی دعا کرتے رہنا وہ جامع المتفر تین اپنے فضل وکرم سے فتح و کامرانی اور فارغ البالی کے ساتھ ہم سب کو پھر جمع کر دے گا انشاء اللہ تعالیٰ خاکسار عبد الستار
از قادیان المورته ۲۲ جون که رقیہ ! یہ جگہ قادیان ایسی ہے کہ اگر تم لوگوں کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوتی تو زندگی کے باقی ایام میں بڑے اطمینان اور یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کرتا اور یہ ذمہ داری میں اس وقت بڑی آسانی سے والد پر پھینک کر علیحدہ ہو سکتا تھا مگر کیا ایسی عبادت اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہو سکتی ہے ہرگز نہیں ہیں جب تک زندہ ہوں اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا نہیں چاہتا.میرا بھروسہ اللہ کی ذات پر ہے وہی بہترین کارساز ہے کوشش کئے جاؤنگا.نتائج اس کے اختیار میں ہیں.جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ ابتلاء میرے لئے لازمی چیز ہے.اللہ تعالیٰ کا قانون ہے اور وہ قانون بدلتا نہیں ہے.تم لوگ جس کو مصیبت عظمیٰ سمجھ رہے ہو ئیں اس کو اللہ تعالیٰ کی عنایات سمجھ رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے اور یہ کیسی مقصدہ کی تیاری ہے اور اس کے بغیر وہ مقاصد پورے ہو ہی نہیں سکتے.یوں اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.سب کچھ ہو سکتا ہے مگر دعا میں یقین اور صبر اور شکر یہ ضروری باتیں ہیں ان کو نہ بھولو کبھی نا امیدی اور مایوسی کا دل میں گذر نہ ہونے دو.اگرچہ سالہا سال گذر جائیں.پچھلی راتیں بہت قبولیت رکھتی ہیں.کوشش کرو کہ اس وقت تنہائی میں اپنے دل کو اس طرف لگاؤ.دنیا کے بکھیرے گم کرد قبولیت دعا میں تقویٰ بہت ضروری ہے اور تقویٰ کے لئے ضرورت ہے کہ جھوٹ، غیبت ، غصہ، انتظام سے بالکل ہاتھ اٹھا لو بغیر اللہ کا خوف اور غیر اللہ سے طمع یہ دو چیزیں یا شکل نکل جانی چاہئیں.خدا ہی سے ڈرو.اور اسی پر بھروسہ رکھو.اسی پر توکل کردو.تم سچی نیت سے وفاداری کرد تو یقینا وہ تمہارا ہو جائے گا اور غیب سے ایسے ایسے ذرائع سے تم لوگوں کو رزق پہنچائیگا
41 کہ جہاں سے گمان بھی نہیں ہو گا مگر اگر تم نے کمزور مخلوق کی طرف رزق کے لئے ہاتھ پھیلایا یا دل میں طمع رکھی تو اکثر تو نا امید ہی ہونا پڑتا ہے اور انسانوں کا احسان لینے کے بعد جو کچھ نتیجہ ہوتا ہے اس کا کچھ تجربہ تو ہو ہی گیا ہے.پھر یہ کہ صرف اللہ ہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہتا ہے اور تھکتا نہیں نہ کبھی اس کا خزانہ ختم ہوتا ہے تو اسی سے مانگو وہی پورا کر سکتا ہے امید رکھتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تم سب اچھی طرح سے ہو.اس سے زیادہ میری فکر بیکار ہے.میں نے جس کے حوالہ کیا ہے وہی تم لوگوں کا محافظ ہے جو کوئی مجھے پوچھے اس کو میرا سلام پہنچا دیا.گناه گار عبدالستار سیٹھ یونس عثمان کے نام میرے محسن و میر سے مرتی ! چونکہ گجراتی زبان میرے مطالب ادا کرنے کے لئے موزوں نہیں ہے اس لئے اردو میں یہ خط لکھ رہا ہوں.میں نے جو کچھ کیا اور مجھ پر جو کچھ گزری اور میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا مجھے نہ رنج ہے نہ افسوس نہ شکایت نہ غصہ نہ انتظام کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے الحمد للہ ان سفلی جذبات سے نکال کر اس سے بہتر چیزیں میرے دل میں بھر دی ہیں اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے بندوں سے محبت اور ان کے لئے دعا اور یہی جذبہ ہے جو مجھے یہ خط لکھنے پر مجبور کر رہا ہے خصوصاً اس سے کہ آپ میرے محسن ہیں حقیقی معاوضہ تو آپ کی
۶۲ نیت کے مطابق آپ کو اللہ تعالیٰ دے گا مگر هَلْ جَزَاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانِ.کے ماتحت میں جو کچھ کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر وقت دل سے اور زبان سے چند باتیں آپ کو بتا دوں تاکہ غلط فہمی کی وجہ سے جو نقصانات آپ کو نادانستہ پہنچ رہا ہے اس سے آپ بچ جائیں اور وہ نیکیاں جو آپ نے کی ہیں دھل نہ جائیں.اس تمہید سے شاید آپ کو یہ خیال ہو گا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کے متعلق (APOLOGY) کے طور پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں یا پھر عقائد کی بحث حاشا و کلا ہرگز میرا یہ مقصود نہیں مگر صرف اس قدر اپیل کرتا ہوں کہ اس تحریر کو آپ غصہ اور عجلت سے علیحدہ ہو کر پڑھیں اور اس پر چند لمحمد خالی الذہن ہو کر غور اور فکر کر میں اس کے بعد بھی اگر آپ کا ضمیر آپ کو یہ مشورہ دے کہ آپ نے جو کچھ کیا صحیح کیا اور جو کچھ کرتے جا رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں تو پھر میرا اور آپ کا دونوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے.وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے لیکن اگر آپ کا نفس آپ کو یہ فیصلہ دے کہ میرے معاملہ میں آپ کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ کچھ زیادتی ہوگئی ہے تو اس چند روزہ دنیا کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ سے درست کر لیں.یہ ممکن ہے کہ ذیل کی تحریر میں کچھ الفاظ ایسے آجائیں جو ادب کے خلاف ہوں با ا تو میں معافی چاہتا ہوں میرا مطلب ہر گز بے ادبی نہیں بلکہ اظہایہ واقعہ ہو گا.(1) آپ سے جو میری مختصر گفتگو ہوئی تھی اس میں آپ نے میری کوئی بات سننے سے انکار کیا تھا یہ آپ کی مرضی تھی آپ کا اختیار تھا.اس میں میرا کوئی زور نہیں تھا.مگر اس دوران آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ تمہاری عاقبت کا معاملہ ہے مجھے اس سے کچھ بحث نہیں.اس پر آپ قائم نہ رہے اور اس کے فوراً بعد ہی آپ نے پارٹ لینا شروع کر دیا.(۲) آپ نے فرمایا تھا کہ ابا میاں میرے پاس آیا تھا.وہ لڑکے کی نسبت توڑنا چاہتا
۶۳ ہے.میں نے اس کو جواب دیا کہ میں کچھ نہیں جانتا ہوں تم جماعت کی اجازت لو اور توڑ دوئیں کوئی مشورہ نہیں دوں گا.مگر آپ اس پر بھی قائم نہیں رہے اور اس کے فوراً بعد ہی کار روائی شروع کر دی اور معاملہ کو وہاں تک پہنچایا کہ خطرناک حد تک پہنچ گیا.(۳) کچھی مین جماعت کے صدر ہونے کی حیثیت سے آپ نے جماعت کے لوگوں کو بلا کر مجھے جماعت سے خارج کرنے کی تجویز کی حالانکہ جماعت کا کوئی ایسا قانون نہیں نہ جماعت کے کسی فرد کو اس کا اختیار ہے نہ بمبئی کلکتہ مدراس بنگلور کراچی کسی جگہ کوئی ایسی مثال موجود ہے حالانکہ میرے پاس دلیلیں موجود ہیں کہ بہبی مدراس بنگلور میں مین ہے اور ابھی موجود ہیں جو جماعت احمدیہ قادیان سے تعلق رکھتے ہیں اور جماعت کو ان کے نکالنے کا کوئی حق نہیں کلکتہ میں تو ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو خدا رسول اور مذہب ہی سے منکر ہیں.ان میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کو پوچھا جائے جو پنجوقتہ نماز کے بھی قائل نہیں اور غالباً اعلانیہ اس کا اقرار بھی کرتے ہیں......(۴، شاید جماعت سے خارج کرنے کا بھی آپ کو علم تھا اس کے علاوہ اپنے متعلق تو آپ کو اختیار تھا لیکن مین جماعت کے تمام افراد کو بلا بلا کر بائیکاٹ کرنے کی تحریک آپ نے کی میرے تمام قریبی رشتہ داروں کا آنا جانا ملنا ملانا آپ نے بند کرایا.بھائی کو بھائی سے بہن کو بھائی سے ماں کو بیٹی سے بیویوں کو شوہروں سے آپ نے علیحدہ کرایا.نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اتنا تنگ کیا گیا کہ اپنی بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچوں سے جدا ہونا پڑا (۵) یہ سب کچھ میرے ساتھ ایسی حالت میں کیا گیا اور یہ جانتے ہوئے آپ نے کیا کہ میں موت کے بستر پر زندگی کے دن گن رہا ہوں اور ڈاکٹر نے یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ آئندہ اگر مجھے باہر نکلنے کی مجبوری ہو تو ایک آدمی میرے ساتھ رہے.یعنی ہر وقت ہارٹ فیل ہو جانے کا خطرہ ہے.
۶۴ (4) یہ سب کچھ آپ نے یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ میں تنگدست ہوں مگر میرے وہ تمام راستے بھی بند کر دئیے جہاں سے میں قرض لا کر بچوں کو پورا کرتا یہ بہت خطرناک حد ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی روزی بند کرنے کی کوشش کی گئی.(۷) اس کے بعد آپ نے کچھی مین جماعت کے صدر کی حد سے آگے بڑھ کر مذہبی خلیفہ کی حیثیت اختیار کرلی اور علماء اور مولویوں کو بلا کر میرے متعلق فتوے لئے اور اس کے بعد میری بہن اور بیٹی کے لئے طلاق کا فیصلہ صادر فرمایا.(۸) جب سرب طرف سے یہ سب کچھ ہو رہا تھا.میں نے فیصلہ کیا مجھے سرب سے پہلے جو چیز کرنی چاہئیے کہ بستر اور ڈاکٹر پر لعنت بھیج کر اللہ تعالیٰ سے قوت طلب کرو اور بچوں کے لئے رزق تلاش کرنے لگ جاؤں لیکن اس کوشش میں ہیں جہاں جہاں گیا اور جس آدمی سے ملتا وہاں اس آدمی کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور میرے روزی کے راستے بند کئے گئے.آپ نے میری بہن رحمت بی بی سے فرمایا کہ تم اور تمہارا شوہر اگر ان لوگوں سے ملنا نہیں چھوڑو گے تو تم جہاں کام کر رہے ہو وہ چھڑا دیا جائے گا.اور تم لوگوں سے بھی وہی سلوک ہوگا جو اُن سے ہوگا اور بھی باتیں ہیں جو بہت طویل ہیں.(۹) میری بیوی اور بچوں کو اس قدر ڈرایا گیا کہ میں نے جو ان کی گریہ زاری اور خراب حالت دیکھی وہ میری موت کے لئے کافی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے جو زبردست قوت عطا کی ہے اس نے مجھے زندہ تو رکھا ہے اور بہر حال مقررہ وقت تک زندہ رہوں گا مگر یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر تھی.لہذا جو کچھ بھی تھی میں نے اپنے پیار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں بیوی بچوں کو اللہ تعالی کے حوالے کر کے ہجرت کی ٹھانی اور اپنے وطن کو خیر باد کہہ دیا.اللہ بھلا کرے بیچارے مدن لعل کا.پرانی دوستی کام آگئی اور چلتے وقت اس
۶۵ نے مدد کر دی.آئندہ اللہ تعالی سامان پیدا کرے گا.یہ حقیقت میرے چلنے کے وقت تک اس کے بعد میری بیوی اور بچوں پر کیا گزری وہی عالم الغیب جانتا ہے.میں نے اسی کے حوالے کیا ہے وہی ان کا کار ساز ہے.اب جو اصل بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس پر آپ غور فرمائیے.اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر فرمائیے وہ بصیرت عطا کرے گا.یہ چیزیں دوسروں کیلئے نہیں بلکہ اپنے نفس کی بہتری کے لئے ہیں.سوچیے اور اپنی ضمیر سے فیصلہ پو چھٹے.(1) کیا یہ سب کچھ آپ نے اس لئے نہیں کیا تھا کہ آپ نے کچھ احسانات مجھ پر کئے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان احسانات کو آپ نے ضائع نہیں کر دیا ؟ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہ کرے بلکہ اس کے پر لے آپ کو ہدایت کا راستہ دکھا دے.(4) کیا آپ نے یہ سب کچھ اس لئے نہیں کیا کہ مجھے موت کے بستر پر تنگدست مجبور اور لاچار پایا اور خیال کیا کہ اس کو مرضی پر چلنے کے سوا نجات ہی نہیں ہے ؟ اگر آپ کا نفس گواہی دے کہ ہاں ایسا تھا تو آپ اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ سے صاف کر لیجیے.(۳) کیا آپ نے سب کچھ اس لئے نہیں کیا تھا کہ میرے بیوی بچے مجھے گھبرا کر پریشان کریں گے اور ان کی گریہ و زاری مجھ سے دیکھی نہیں جائے گی اور میں مجبور ہوکر اللہ کے سوا آپ کے پاؤں پر کروں گا کیا یہ دوسرے الفاظ میں انا ربکم الاعلی نہیں ؟ (۴) کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو ثروت عطا کی ہے اور جماعت کا صدر بنایا ہے اور اثر و رسوخ عطا کیا ہے اس کا آپ نے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا.کیا ئیں آپ کی جگہ اور آپ میری جگہ ہوتے تو جو کچھ آپ نے کیا وہی کرتے اور کر سکتے ؟ دہ ، کیا اگر عبد الرحیم عثمان یا کوئی اور ہوتا تو آپ یہی کچھ کرتے جو آپنے میرے ساتھ کیا اور کیا کامیاب ہوتے ؟
44 یہ تو چند اک مثالیں ہیں جن سے آپ جیسا عقلمند اور سمجھدار آدمی بہت کچھ قیاس کر سکتا ہے.میں جانتا ہوں کہ جواب میں آپ یہی فرمائیں گے کہ آپ کا مقصد صرف اصلاح تھا.آپ کو مجھ سے اور میرے بچوں سے بہت محبت ہے یہ بالکل ٹھیک ہے مجھے اس کا اقرار ہے لیکن اب آپ کو معلوم ہو چکا ہوگا کہ اس لاغر نحیف کمزوری، خاموش طبع مریضی ، تنگدست انسان کے جسم کے اندر ایک سچائی کی ناقابل تسخیر روح ہے.(۱) غرض کہ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسروں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور میرے رزق کے راستے بند کرنے کی اور مجھے ذلیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی.(۲) آپ نے مجھ سے گفتگو سے انکار کر کے سمجھوتے کی تمام راہیں بند کر دیں.(۳) مجبوراً مجھے یہ سفر اختیار کرنا پڑا جس سے شاید نہیں بلکہ یقینی یہ صورت پیدا ہو گئی کہ ہمیشہ کے لئے میں اپنے بیوی بچوں سے جدا ہو گیا اور اس مرض الموت میں رفیقہ حیات کی خدمت سے محروم ہو گیا.دام، میری صحت کی جو حالت ہے اس سے شاید آپ کا دل بھی گواہی دے رہا ہوگا.اب میرانہ زندہ آنا محال ہے.مرنے کے دن تو میں گن ہی رہا تھا.مرنا تو ہر حال ایک دن ہے ہی مگر اس سفر میں مجھے موت آئی اور میں غریب الوطن مرا تو کیا آپ کا دل یہ گواہی نہیں دے گا کہ میرے خون کی کچھ ذمہ داری آپ پر بھی ہوگی آپ شاید اس طرح اپنے دل کی تسلی کرلیں گے کہ آپ تو اصلاح کے لئے کر رہے تھے.میں نے حماقت کی اور چل پڑا جس کے آپ ذمہ دار نہیں ہیں.مجھے گویا آپ کے آگے ہتھیار ڈال دینا چاہیے تھا اور احمدیت سے رجوع کر لینا تھا پھر سب کچھ درست ہو جاتا.
4< مگر میرے محسن ومرتی اصلاح کس چیز کی جس کے متعلق آپ خود کچھ نہیں جانتے بلکہ علماء حنفی سنت و الجماعت فیصلوں پر آپ کا دارو مدار ہے اور مجھے ان کے فتووں کی حقیقت معلوم ہے پھر میری اصلاح ان کے فتووں سے کیسے ہو سکتی ہے.دوسری صورت جو آپ نے جبر سے کام لینا کا رستہ اختیار کیا تھا.کیا دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے کہ جبر سے کسی کے عقائد بدلے گئے ہوں.آپ کی مرضی آپ ان علماء کے پیچھے چلئے اور ان کو صحیح سمجھئے آپ کو اختیار ہے اور اسی میں آپ اپنی نجات سمجھیئے.مگر یہ حق کہاں سے آپ کو پہنچ گیا کہ دوسروں کو بھی آپ اس کیلئے مجبور کریں جو کہ اتخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهَا لَهُمْ أَرْبَا مِن دُو الله توبه (۱۳) کی دارننگ کا خیال کرتے ہوئے فرقوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيعَاً - (الانعام : ١٩٠) والوں سے الگ ہو کر اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اللہ سے کرے.کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ آپ کی رائے کے مطابق اگر میں چلوں تو آپ اسکی گارنٹی کر سکتے ہیں کہ مجھے دوزخ سے بچا کر آپ جنت میں لے جائیں گے.یا یہ علماء اس کی گارنٹی کر سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں کر سکتے.اگر وہ کریں بھی تو یہ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں صاف صاف فرماتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ہرگز ہرگز وہاں کسی کا بوجھ نہیں اٹھایا جائے گا پھر یہ سب کچھ آپ نے کس لئے کیا ؟ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے بغیر سمجھے بوجھے بڑی بڑی ذمہ داری اٹھالی.کاش یہ قصہ آپ ان علماء کے لئے ہی چھوڑ دیتے اور ان کو ہی فتوے لکھنے دیتے آپ اس میں اپنا ہاتھ نہ رنگتے اور اتنی بھاری ذمہ داریاں نہ اٹھاتے قبل مرند کا ثواب انہی کو لینے دیتے.جن بیچاروں کو مرتد کے معنے بھی معلوم نہیں مرتد تو وہ ہوتا ہے جو اسلام میں داخل ہو کر پھر اپنے پرانے مذہب پر جاتا ہے نہ کہ وہ جو اسلام کے لفظاً ومعناً ہر ہر حکم کو قابل عمل سمجھتا ہو اور اس سے ایک قدم آگے
۶۸ بڑھ کر چودہ سو برس کی اللہ اور اس کے رسول کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ کر تصدیق کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اور قرآن پاک کا اور زیادہ مومن مصدق ہوتا ہے.میں مرتد نہیں ہوا بلکہ آپ جو کچھ مجھ سے کروانا چاہتے ہیں وہ مرتد بنانا چاہتے ہیں.نکاح کسی کا بھی نہیں ٹوٹا.نہ میرا نہ میری بہن کا نہ میری بیٹی کا نہ طلاق ہوئی ہے نکاح نام ہے ایجاب و قبول کا مہر کا اور وہ صرف شوہر کی یا بیوی کی دو ہیں سے کسی ایک کی نارضامندی سے طلاق لی یادی جا سکتی ہے.اس کے علاوہ دنیا کے دس کروڑ مولوی بھی چاہیں تو قتہ سے لکھا کریں نہ نکاح ٹوٹتا ہے نہ طلاق ہوتی ہے اور شوہر اور بیوی دونوں راضی ہیں.میری اس تحریر کو خوب غور سے پڑھیئے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وہ کچھ دکھا دے جو اس نے مجھے دکھایا ہے.آمین مهاجر فی سبیل اللہ گناہ گار عبد الستار بابا ۳۰ جون کو قادیان سے روانہ ہو کر پہلی جولائی 1915ء کو بمبئی پہنچے.بھٹی سکندر آباد ہوتے ہوئے ۳۱ - اگست کو کلکتہ پہنچے.اگرچہ ہمیں پہلے سے اطلاع تھی تاہم ایک طویل صبر آزما جدائی کے بعد ایک دن اچانک بابا کی آواز کان میں آئی.رفیعہ.رفیعہ.بابا آگئے.بابا آگئے.ایک خوشی کی لہر کی طرح گھر میں یہ خبر پھیل گئی.وہ دن آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے.ان کی شکل پُر وقار اور پر نور تھی.وہ قادیان رہ کر آئے تھے حضرت مسیح موعود کے مزار پر دعا کرے کے آئے تھے.خلیفہ وقت سے شرف ملاقات حاصل کر کے کوٹے تھے.ایسے بے نظیر انعام لے کر آئے تھے جن کی قدر آج بھی پہلے سے زیادہ معلوم ہوتی ہے.
49 میں بھاگ کر بابا سے لپٹ گئی.بابا ایک کمرے میں ہمیں قادیان کے احوال سنا رہے تھے تو دوسرے کمرے میں نانا اپنا بوریا بستر سمیٹ رہے تھے.بمشکل واسطے دے کر انہیں روکا کہ شدید بیماری میں نہ جائیں.رُک گئے اور یہ نظارہ دیکھنے لگے کہ کس طرح ایک شخص خدا کے حضور رونا اور گڑ گڑاتا ہے.دونوں کا کمرہ ایک ہی تھا.اس کمرے میں احمدیت کی تبلیغ ہوتی.زور دار پر دلائل گفتگو ہوتی اور احباب بہت متاثر ہو کر جاتے.ایک نوجوان لڑکا جو دُور کا رشتہ دار بھی تھا سماعت و گویائی سے محروم تھا.رنگون میں گونگوں پیروں کے سکول میں تعلیم پائی تھی اور الیکٹریکل انجینئر نگ تک تعلیم پائی تھی.کتب لے کر جاتا اور جہاں کوئی سوال ذہن میں آنا آکر بابا سے دریافت کرتا.اس کا قلبی اطمینان ہو گیا اور اس نے احمدیت قبول کر لی.کافر قرار دینے والے کے لئے یہ نظارے ہی کافی جواب تھے میمن جماعت کے لوگ بھی کبھی کبھی آس پاس میں خیریت پوچھنے آتے کہ کب ہم بالکل بے بس ہو کر ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے.بابا نے کچھ حصص (SHARES) خرید سے ہوئے تھے ان سے معمولی سی رقم مل رہی تھی مگر بابا کی بیماری بڑھ جانے کی وجہ سے وقت ہوتی تھی.وہ کسمپرسی کے دن بڑی دعاؤں میں گذرے.بابا ایک ایک کا نام لے کر دعائیں کرتے.یہ وہ خزانے تھے جو وہ ہمارے نام خدا تعالیٰ کے بنک میں جمع کروا رہے تھے اس وقت بعض باتیں ہماری سمجھ سے بالا تر تھیں.اب بابا کے خطوط پڑھتی ہوں تو حیران رہ جاتی ہوں.کس قسم کا خدا تعالیٰ پر تو کل تھا کہ کبھی مایوسی قریب نہیں آئی تھی اور خدا تعالیٰ کا سلوک کس قدر پیار بھرا تھا.بیوی کے نام نجی خطوط میں بھی اسی محبوب از لی و ابدی سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا ذکر رہتا.
از بمبئی المورخہ ۱۷ جولائی شید رقیہ.تمہارے ۱۲ جولائی اور ۱۷ جولائی کے دو خط مجھے پہنچے.کیفیت معلوم ہوئی سب سے پہلے تو میں تم کو تمہارے خواب کے متعلق مبارکباد دیتا ہوں کہ بہت اچھا خواب ہے اس کی تعبیر بہت اچھی ہے.یہ مبشر خواب ہے یعنی بشارت دینے والا.دیکھو پہلے تو جہاز کا سفر، یہ تم کو معلوم ہے کہ بہت اچھا ہوا کرتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ تم کو انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ ایک لڑکا عطا کرے گا.تم کو معلوم ہے کہ ریحانہ کے وقت میں تم کو نام دیا گیا تھا کہ عطاء اللہ رکھنا نام مردانہ ہے مگر لڑ کی پیدا ہوئی مگر اسکے تم کو نام بتایا گیا ہے مریم رکھنا جو زنانہ نام ہے اور یہ لڑکے کی بشارت ہے مگر صرف اتنا ہی نہیں اس لفظ مریم کے اندر بہت سے راز ہیں جو افسوس ہے کہ میں خطہ میں تم کو سمجھا نہیں سکتا.قرآن شریف میں سورہ تحریم کے آخر میں چند آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں کی مثال مریم سے دی ہے.اس پر غور کرتے سے بہت سے اسرار کھلتے ہیں تم لوگوں کو اتنی فرصت اور سمجھ کہاں کہ اس پر غور کرو مگر میں مختصر میں چند موٹی باتیں سمجھاتا ہوں.تصوف میں صفت مریمی ایک کیفیت ہے اور وہ کیفیت کامل مومن متقی پاکبانہ کی ہے لہذا تم کو ایک کامل مومن منتقی پاکباز صالح بلکہ ولی لڑکے کی بشارت ہے اور مریمی صفت پر اگر وہ قائم رہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس میں نفخ روح کرتا ہے کہ وہ کامل اور بڑے درجہ کا ولی اللہ ہوتا ہے جیسے خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ اور تم کو معلوم ہے کہ اس زمانہ میں میری دعائیں کیا تھیں اور کلکتہ سے نکلنے کے بعد سے آج تک اور خصوصاً قادیان میں میں نے اس کے متعلق بہت دعائیں کی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ناچیز کی دعاؤں کو قبول فرما لیا ہے مگر یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کا غلام نہیں ہے وہ کسی کے ظن اور قیاس کی پرواہ نہیں کرتا.ضروری بات ہے کہ اللہ تعالی سے برابر سلسلہ وار
ا6 تضرع اور زاری کے ساتھ دعا جاری رکھی جائے اور اپنا تعلق اس کے ساتھ قائم رکھا جائے ورنہ ان بشارات کو اگر ہم لوگ اس کو ناراض کر دیں تو واپس نہ لے لے بہذا خون کا مقام ہے.اب رہا تھوڑی سی تکلیف پیدائش کے وقت، تو یاد رکھو کہ ایسی بے بہا چیز کے حاصل کرنے میں کچھ نہ کچھ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے مگر چونکہ ہم لوگ کمزور انسان ہیں لہذا ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہو کہ مولیٰ کریم تو بغیر تکلیف کے بھی یہ عطا کر سکتا ہے.ہم کمزور انسان ہیں تو ہم پر رحم کر اور اپنے فضل و کرم سے آسان کردے اور آسانی اور خیریت اور عافیت کے ساتھ یہ نعمت غیر مترقبہ ہم کو عطا کرتا کہ ہم تیرا اور زیادہ شکر ادا کریں.رقیہ.یاد رکھو اور سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑی عنایت کی ہے.اس معاملہ میں شکوک وشبہات میں نہ پڑنا بلکہ اللہتعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھنا.دنیا میں صرف پیٹ بھرنا ہی مقصود نہیں ہے بلکہ اس سے بڑے مقاصد ہیں اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہیے اور خدا سے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے وہ دنیا دی معاملات بھی ٹھیک کر دے گا اور ایسے ایسے طریقوں سے کرے گا کہ حیرت زدہ رہ جائیں گے بشرط یہ ہے کہ اس سے تعلق نہ توڑے.تمہارا دوسرا خواب تو ظاہر ہی ہے اور صحیح ہے.رقیہ.ان رویا وغیرہ کا سلسلہ جو میرے ساتھ چلا ہے وہ سب کچھ میں لکھ تو نہیں سکتا مگر میں خود حیرت زدہ ہوں کہ اس حقیر نا چیز ذلیل گنہگار انسان پر اللہ تعالیٰ کی کیا کیا عنایات ہوئی ہیں اور وہ مجھے کس طرح چلا رہا ہے اور مجھے کیا کیا بشارات دی ہیں جو بیان سے باہر ہیں.بظاہر کام کاج کا ابھی کچھ بندوبست نہیں ہوا ہے مگر ہر چیز کا وقت مقرر ہے اور انشاء اللہ سب کچھ اپنے وقت پر پورا ہوگا.یہ سب باتیں تو انشاء اللہ جب اللہ مجھے اپنے بچھڑے ہوؤں سے ملائے گا کروں گا.اللہ پر بھروسہ رکھو وہ ہم لوگوں کو ضائع نہیں کریگا اور اس درمیان میں بھی رزق عجیب عجیب طریقہ سے عطا کرے گا.کیا تم کو کبھی گمان
۷۲ بھی تھا کہ تمہارا باپ ایسے موقعہ پر پہنچ جائے گا اور خرچ دے گا.پھر یہ کہ ان کی شرط تھی کہ میں طلاق دے دوں اور علیحدگی اختیار کر لوں تب وہ کریں گے مگر میں نے بہت بے دردی سے ان کی شرط کو ٹھکرایا اس کے باوجود وہ کچھ نہیں کر سکتے.بمبئی جانا چاہتے ہیں مگر اللہ کا حکم ہے کہ نہیں جا سکتے.ان کو کس طرح باندھ رکھا ہے.یہ سب کچھ کیا تم کو نظر نہیں آتا.کیا اس کی تہ میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہیں نظر آنا مگر ہاں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس یہ امر فیصل شدہ ہے کہ میں اور وہ ایک جگہ نہیں رہ سکتے.شاید میں آؤں جب ہی وہ جاسکیں.لہذا اللہ سے اپنا تعلق قائم رکھو اور اس رستی کو خوب مضبوط پکڑو کسی انسان پر بھروسہ نہ رکھو بلکہ اسی رازق العباد سے معاملہ رکھو.از بیٹی المورخہ ۲۷ جولائی کہ میرے محترم بزرگ غریب الوطن عبد الستار میں نے اپنا ذاتی فیصلہ قادیان سے آپ کو لکھ دیا اور وہ آپ کو پہنچ چکا ہے اس کے بعد سے برا ہر گھر کے خطوط سے آپ لوگوں کی خیریت معلوم ہوتی رہتی ہے اور اس کے بعد میرے حالات بھی میں برابر لکھتا رہا ہوں جو آپ کو گھر سے معلوم ہوتے رہے ہوں گے.آج خصوصاً آپ کو مخاطب کرنے کی جو ضرورت مجھے پیش آئی ہے وہ نہایت اہم اور بہت ضروری ہے جو میں ذیل میں بیان کر رہا ہوں اور اس کے لئے میں آپ سے بہت ادب کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ مہربانی فرما کر اس خط کو اول سے آخر تک پوری طرح آہستگی اور اطمینان کے ساتھ پڑھیے اور اس پر پوری طرح ٹھنڈے دل سے غور کیجئے اور خوب غور کیجئے اور چونکہ یہ معاملہ ایک پورے خاندان پر اثر انداز ہے اس لئے خوب سوچ
۷۳ سمجھ کر قدم اٹھانا مناسب ہوگا اور وہ حسب ذیل ہے.ئیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہوں اور اب تک اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے اور اب اس ہی مقصد سے میں سکندر آباد جا رہا ہوں.شاید اللہ تعالیٰ وہاں کوئی صورت پیدا کر دے یا پھر اس کے بعد جہاں کہیں بھی کوئی امید ہوگی اس کی کوشش کروں گا مگر میرا کام ہو یا نہ ہو چونکہ میرے بیوی بچے کلکتہ میں ہیں مجھے کلکتہ آنا ہوگا.یہ تو میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ کب آنا ہوگا بنگر اللہ تعالیٰ نے اگر زندہ رکھا تو بہر حال آنا ہوگا.آپ اس وقت کلکتہ میں ہیں اور بچوں کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں.آپ کی صحت کے متعلق مجھے برابر خبریں ملتی رہتی ہیں اور ئیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء علی عطا کرے اس کے علاوہ آپ کی ضعیفی کا لحاظ کرتے ہوئے یہ ضروری اور نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ اب کلکتہ میں ہی بچوں کے پاس بیٹھیں اور ضرورت ہے اور وقت ہے کہ آپ کی خدمت کی جائے مگر جو گفتگو آپ سے لکھنو میں ہوئی تھی اس کو جب سوچتا ہوں تو میری روح کو بہت صدمہ پہنچتا ہے کہ سالہا سال کی غلط فہمی اور اختلاف کے بعد جب یہ وقت آیا کہ صلح و صفائی کے بعد ہم کو آپ بزرگ کی خدمت کا موقعہ ملے تو اس وقت ایک نئی غلط فہمی پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ آپ کے لکھنو کے بیان کے مطابق یہ ہوتا ہے کہ میرے آنے پر آپ وہاں سے علیحدہ ہو جائیں گے یہ بہت ہی افسوسناک اور حسرت آمیز بات ہے کہ جب ہم لوگوں میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے پھر بھی صرف دوسروں کی غلط فہمی یا چند مولویوں کے فتوے ہمیں زبر دستی دور کر دیں یہ واقعی بہت افسوسناک واقعہ ہو گا.آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے معاملات ہوتے ہیں جو کچھ دن کے شور و نشر کے بعد ختم ہو جاتے ہیں پھر کچھ بھی نہیں ہوتا.علاوہ اس کے جو مقصد اس شور و شر کا تھا کہ مجھے اس طریقہ سے اپنی راہ سے ہٹا دیا جائے
۷۴ وہ آپ جانتے ہیں کہ پورا نہیں ہوا اور نہ کبھی ہو گا.دوسری بات یہ کہ مجھے مولویوں کے فتووں کی بنا پر اپنی بیوی بچوں سے علیحدہ ہو جانے کی کوشش بھی پوری نہیں ہوئی اور نہ دنیا کی کوئی قوت مجھے علیحدہ کر سکتی ہے سوائے موت کے یا پھر اگر اللہ تعالیٰ ایسا چاہے اور وہ کچھ اور اسباب پیدا کر کے ہم کو علیحدہ کر دے پھر کیا وجہ ہے کہ آپ اور میں ایک جگہ نہ رہ سکیں یا آپ اپنے بچوں کے پاس نہ رہ سکیں یا ان سے اپنی خدمت جو آپ کا حق ہے نہ لے سکیں.میں آپ اور بچے سب اس کی وجہ سے تکلیف اٹھائیں اور فتویٰ دینے والے مولوی اور مخالفت کرنے والے سب اپنے اپنے گھر خوش رہیں اور اس کی بنا صرف اور صرف غلط فہمی پر ہو لہذا میں اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے چند باتیں لکھ رہا ہوں جس کو مہربانی کر کے اطمینان سے پڑھ لیں اور اس پر خوب غور و فکر کر لیں.آپ کو شاید یہ خیال ہوگا طریقہ میں نے آپ کو تبلیغ کرنے کا نکالا ہے حاشا و کلا ہر گز یہ مقصود نہیں ہے تبلیغ زبردستی نہیں ہوتی.آپ جب مجھے خوشی سے موقعہ دیں گے تو میں ضرور تبلیغ کر دنگا اور اپنا نقطہ نظر بتاؤں گا.مگر اس خط میں ہرگز یہ مقصود نہیں ہے بلکہ بد قسمتی سے ان مولویوں کی وجہ سے جو غلط فہمی ہے اس کو میں صرف حنفی سنت جماعت کے نقطۂ نظر سے صاف کرنے کی کوشش کرتا ہوں اس پر خدا کے لئے غور فرمائیے : آپ نے مجھ سے لکھنو میں فرمایا تھا کہ ہم لوگ مجبور ہیں علماء حنفی سنت و الجماعت کے فیصلوں کے مطابق عمل کرتے ہیں.اس کے متعلق مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ علماء حنفی سنت و الجماعت سب کے سب اس پر متفق نہیں ہیں اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے تو کہا جائے گا کہ اگر یہی معیار حق و باطل کا ہو تو جو اس قدر فرقہ اسلام میں ہیں وہ سب کے سب اپنے علماء کے پیر د ہیں اور سب ہی اپنے آپ کو حق پر اور دوسرے کو غلط اور اکثروں کو کافر قرار دیتے ہیں تو پھر کیا
۷۵ اپنے اپنے علماء کی پیروی کا نام حتی ہے ؟ اگر یہی درست ہو پھر سب کے سب حق پر میں پھر یہ سر پھٹول کیوں ہے.اگر کہا جائے کہ ہم لوگوں کو یہی کرنا چاہئیے کہ جو جہاں پیدا ہوا ہے وہیں رہے تو پھر حق اور باطل کا کوئی معیار ہی نہیں رہتا.یہودی عیسائی ہندو سب کے سب اپنے اپنے علماء اور مشائخ کی پیروی کرتے ہیں یہ سب جہنم میں کیوں جائیں گے اور پھر رسالت نبوت وغیرہ سب ایک بیکار چیز ہے کیونکہ کوئی کسی کی نہ سنے.معیار ہے اور ضرور ہے اور ہمارے لئے تو ایک ہنی معیار ہے اور وہ سب سے بہتر معیار ہے اور وہ ایک ہی معیار ہے کہ خان تنازعتم فی شئ فَرِّدُوهُ إِلَى اللهِ والرَّسُول (النساء : 4) کہ اگر تم میں کوئی تنازعہ ہو تو اللہ اور اس کے رسول کے طرف لوٹو نہ کہ علماء کی طرف اللہ تعالی بنی اسرائیل کو ملزم کرتا ہوا کہتا ہے کہ اتَّخَذُوا احْبَارَهُمْ وَرُهْبَا لَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ الله (التوبه : ۳۱) کہ انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ارباب پکڑ رکھا ہے.اوپر غضب نازل کرنے کے وجوہات میں سے ایک یہ بھی وجہ بتائی ہے اور پھر ہم کو کہتا ہے لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِم عبرة لاولی لا کباب وہ بنی اسرائیل کے علماء ہی تھے جنہوں نے حضرت عیسی کے خلاف کفر و الحاد کے فتوے لکھے اور ان کو صلیب.پر مار ڈالنے کی کوشش کی اور ان ہی کے فتاویٰ نے بنی اسرائیل کو حق سے روکا.اور پھر انہی یہود و نصاریٰ کے علماء کے فتووں پر چلنے والے رسول اکرم روحی فداہ پر ایمان لانے سے محروم رہ گئے.ایمان اپنی کو نصیب ہوا جو ان فتاری سے بھاگے اور اپنی قوم اور علماء کی طرف سے دکھ اور سختی اٹھاتے رہے اور پھر اسلام کے اندر بھی یہی حضرات ہیں جنہوں نے اسلام کے بڑے بڑے بزرگان دین کو تکلیفیں دیں اور خوب خوب فتوے لکھے.اللہ کا حکم سن چکے اب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ان کے حق میں سن لیجیے.عَنْ عَلَى قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى اللہ علیہ وسلم - يُشَكُ
24 اَنْ يَّاتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانُ لا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرآن الأَرسمهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ حَرَابٌ مِنَ الْهُدَى عَلَمَا هُمْ شَرٌّ مَّنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّماءِ وَمِنْ عِندَهُمْ تَخْرَجَ الْفِتْنَة وَ فيهم تعود (مشكوة كتاب العلم) فرما یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب ہے کہ ایسانہمانہ انسانوں پر آئے گا کہ اسلام میں سے کچھ باقی نہیں رہے گا سوائے اس کے نام کے اور قرآن سے کچھ باقی نہیں رہے گا سوائے اسم کے ان کی مساجد آراستہ ہوں گی مگر ہدایت سے کوری.ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے انہیں سے فتنہ اٹھیں گے اور ان ہی میں واپس لوٹیں گے.غور کیجئے.کیا اس کا ایک ایک حرف پورا نہیں ہو رہا ہے کیا اس سید الانبیاء کی پیشینگوٹی کا ایک حرف بھی غلط ہو سکتا ہے اس کے بعد اور سنیئے عَنْ عَبْدِ اللهِ بن عمر قَالَ قَالَ رَسُول الله ل الله علیہ سلم لیا تین علَى امَّتِي زَمَانِ كَمَا أَتَى عَلَى ابنى اسرائيل حَذْوَ النَّعَل بِالنَّحْل حَتَّى اِنْ كَانَ مِنْهُمْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَة لَكَانَ في امتى من يصنع ذالك وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَت على اثنين وَ سَبْعِيْن مِلَّةَ كُلَّهُمْ فِى النَّار الاملة واحدة ( ترمذی کتاب الایمان ) فرمایا رسول اکرم نے البتہ ضرور آئے گا میری امت پر نہ مانہ جس طرح بنی اسرائیل پر آیا کہ ان کے قدم بقدم چلیں گے یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا ہو گا جو ایسا کرے گا اور بنی اسرائیل کے ۷۲ فرقہ ہو گئے اور میری امت کے ۷۳ فرقہ ہو جائیں گے جن میں سے سوائے ایک کے باقی سب جہنمی ہوں گے.پوچھا گیا کہ جنتی کی کیا علامت ہوگی اور اس کو کس طرح شناخت کیا جائے قربان جائیے اس رسول عربی کے کتنا مختصر اور جامع جملہ کتنا صات اور سیدھا فرمایا مَا أَنَا عَلَيْهِ وَاَصْحابی کہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریق
22 پر ہوگا.ہر فرقہ کے علماء کہتے ہیں کہ ہم جنتی ہیں باقی سب جہنمی تو اب پھر ہر شخص کا جس میں استطاعت ہو جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اور جس کے پاس ایمان کی کوئی قیمت بھی ہو اور جس کو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے کا یقین بھی ہو فرض ہو جاتا ہے کہ وہ تلاش کرے کہ کیا صحیح ہے ؟ کہا جاتا ہے کہ ہم کو اتنا علم نہیں ہم نہیں جانتے کیسے تلاش کریں یہ بالکل غلط سمجھایا سمجھایا گیا ہے.یہم کو جتنا علم اور جتنی عقل دی گئی ہے وہ کافی سے زیادہ ہے.یہ اللہ تعالیٰ پر تہمت ہے کہ علم اور عقل اور استطاعت دی نہیں اور پھر جہنم میں ال کر عذاب دیتا ہے.البتہ وہ ان علماء کا مذہب ہے جو بہت پیچیدہ ہے اور جس کے چکر سے کوئی شخص قیامت تک نکل نہیں سکتا اور اس کا سارا دارو مدار چند خود ساختہ عقائد اور اقوال الرجال پر ہے.اسلام اللہ تعالیٰ کا مذہب ہے جو بہت صاف سیدھا اور آسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ دینا قیما اور وَلَقَدْ بَسَرْنَا الْقُرآن اور اس کا رسول الدين بسر کہتا ہے.یہ فرمان جھوٹے نہیں ہیں.کیا ہم لوگ اپنے دنیوی معاملات میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کو اپنی نظر سے دیکھنے اور جانچنے پر اصرار نہیں کرتے کیا اپنے کاروباری معاملات میں چند پیسوں کا حساب بھی کسی کے صرف کہنے سننے پر چھوڑتے ہیں اور کیا کاروبار میں بڑی بڑی پیچیدگیاں نہیں سلجھاتے بڑی بڑی مشکلات حل نہیں کرتے اور اگر کوئی مقدمہ آپڑتا ہے تو رات دن اس کے پیچھے پڑ کر قانونی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ہم کہیں اپنی بے بضاعتی اور کم سمجھی کا افرار نہیں کرتے پھر کیا واقعی آپ کا نفس گواہی دیتا ہے کہ آپ کا یہ جواب اللہ تعالے کے دربار میں چل جائے گا کہ ہم میں علم اور استطاعت نہیں تھی.ہمارے اس جواب کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے سے دے رکھا ہے کہ نہیں بلکہ تم سرکش اور باغی تھے اور ہم سے ملنے کا تمہیں یقین نہیں تھا.اے کاش کہ اس کا
<A کلام جزدانوں سے نکل کر ہمارے سینوں میں داخل ہو جاتا.کہا جاتا ہے کہ حدیث علماء امتى كانبياء بني اسرائيل کے لحاظ سے یہ ٹھیکہ ان کا ہے.بے شک مگر یہ ان ہی علماء کا ذکر ہے جن کو بنی اسرائیل کی طرح تکالیف دی گئیں کسی کو گالی دی گئی.کسی کو قتل کیا گیا.کسی کو قید کیا گیا.کسی کی مشکیں کئی گئیں اور کسی کی اونٹ پر تشہیر کی گئی.کسی پر کفر و الحاد کے فتوے لگائے گئے اس طرح انبیاء بنی اسرائیل کے ساتھ پوری مشابہت ہوئی.کیونکہ انہوں نے اپنے انبیاء کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا.نہ کہ یہ خود ساختہ حشرات الارض کا بر عکس بند نام زنگی کا فور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے صریح اور صاف حکم وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِين فرقوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (روم :۳۳) یعنی تم ہرگز ان مشرکین کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور ایک ایک ٹکڑے کے طرفدار ہو گئے اور ہر ایک فرقہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر شاداں ہے.اس حکم کے ٹھیک ہند ہی ٹھیک اسی طرح دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور اب صرف کفر کے فتو سے اور لوگوں کے بیویوں پر طلاق نامے لئے پھرتے ہیں.کیا یہی لوگ مَا أَنَا عَلَيْهِ وآسمانی ہیں تند تروا کا يا أولى الألياب.آپ نے لکھنو میں فرمایا تھا کہ قرآن مجمل ہے اور حدیثیں اس کی تفصیل ہیں بے شک یہی کچھ سمجھا کر قرآن کریم کو جزدانوں میں بند کرا دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پاک کی زبان سے قرآن کریم میں کہلاتا ہے وَقَالَ الرسول يا رَبِّ إِن قَوْمِي اتَّخَذُ وَالهُذَ الْقُرْآنِ مَهْجُوراً (الفرقان : ۳۱) اب ذرا غور فرمائیے کہ ان دو میں سے کون سچا ہے.اللہ رب العالمین یا یہ علماءمیں سوفت وَكُلَّ شَى فَقَتَلْنَاهُ تَفْضِيلاً - أَفَغَيْرِ اللَّهِ ابْنَغِى حَكَما وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ
29 الكتاب مفصلاً (الانعام : ۱۱۵ ) الرا كتب أحكِمَتْ اينة ثم فصلت مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِير (هود: ۲ ) كتب فقلَتْ الله قرانًا عَرَبيَّاً لقَوْمٍ يَعْلَمُون (حم) : م ) بنائیے کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ بہت مبین بھی ہے.وَنَزَلْنَا عَلَيْكَ الكِتب تبيَانَا بِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ (النحل : ۹۰) اور پھر یہ تفصیل اور تبیان کس کے لئے ہیں.کیا علماء کے لئے.یاد رہے کہ المسلمین ہے.کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی اور مطالب بہت پیچیدہ ہیں بغیر حدیث بغیر تفسیر اور بغیر اقوال الرجال کے سمجھ نہیں سکتے.اب سنیئے وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرِ القمر: ٢٣) اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا (الكيف ٢٤) تُرانَا عَرَبِيَّا غَيْرَ ذِي عِوَج (الزمر: ۲۹) ہم کس کی بات مانیں اللہ واحد القہار کی یا علماء شر من تحت اديم السماء کی جن کی ہر بات اللہ کے صریح حکم کے خلاف ہے اور پھر وہ کس کی پیروی کا حکم دیتا ہے اور کس کی پیروی سے منع کرتا ہے.سنیئے کس کی پیروی کا حکم ہے.وهذا كتب أَنْزَلْنَاهُ مُبْرَك فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون (الانعام : ۱۵۶) وَأَنَّ هَذَا صِرَاطَى مُسْتَقِيمَا فَاتَّبَعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبیلِهِ (الانعام : ۱۵۴) کیا یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ نہیں.اس کو چھوڑ کر تفریق ہوئی یا نہیں الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الكِتَبَ يَتْلُونَهُ حق تلاوته أو ليكَ بُو مِنونَ بِهِ وَمَنْ تَكْفُرْ بِهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْخَاسرون (البقره: ۱۲۲ ) تلك ایت اللَّهِ تَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِاالْحَقِّ فَيَاتِي حَدِيثٍ بعد اللهِ وَايَتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاثیه : (( أَفَغَيْرَ اللَّهِ ابْتَغَى حَكَمَا وَ هُوَ الَّذِى انزل الكم الكتب مفصلاً (الانعام : ۱۱۵) إِنَّ فِي ذَالِكَ لِذِكْرَى لِمَن كَانَ لهُ قَلْبُ اَوْ الْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيد (ق : (۳۸) يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ
A.جَاءَكُمْ بُرْمانَ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُوراً مبينا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا باللهِ وَاعْتَهُمُوا بِهِ نَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِ لَهُمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مستقيما ( النساء : (۱۷۵ (144) كتُبُ أَنْزَلْتُهُ إِلَيْكَ مُبْرَك لِيَدَ بُرُوا اتِهِ وَلِيَتَذَكَرَ اُولُوا الْأَلْبَابِ (ص : ۳۰) اس کے بر خلاف بزنیم خود یہ سوال پیش کر دیا جاتا ہے کہ پانچ وقت کی نماز کی تفصیل اس میں کہاں ہے.تفصیل وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ تفصیل کہتا ہے اور یہ جسے تفصیل کہتے ہیں وہ تفصیل نہیں بلکہ يَبْغُونَهَا عِوَجًا ہے.یہ سوال دراصل دھوکہ دینے کو کیا جاتا ہے ورنہ ہر ایک نماز فرائض سنن نوافل سب کچھ اس کے اندر ہے اور یہ سوال جو کرتے ہیں اس کا تعلق لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ اُسوہ حسنہ سے ہے جو تو اتر اور سنت سے ثابت ہے.حدیثیں دراصل شارح ہیں نہ کہ تفصیل اور اطیعوالرسول کے ماتحت صحیح حدیث جہاں بھی ملے قابل عمل ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ حدیثوں کا مالک یہ بھی کہہ گیا ہے کہ میری کوئی حدیث قرآن کے خلاف ہو نہیں سکتی اور اگر ایسی ہو تو وہ میری نہیں کرتا اور باطل ہے.پھر یہ بھی معلوم ہے کہ حدیشی ڈیڑھ سو برس کے بعد جمع کی گئیں ہیں.پھر یہ بھی معلوم ہے کہ لاکھوں حدیثیں وصنع کی گئی تھیں جن میں سے بہت کچھ انسانی کوششوں نے چھان بین کر کے چھانٹی ہیں مگر پھر بھی وہ قرآن کریم پر حکم نہیں ہو سکتیں جس کی حفاظت کا وعدہ قیامت تک کیلئے اللہ تعالیٰ نے کیا ہے مگر حدیثوں کی حفاظت کا وعدہ نہ تو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے نہ اس کے رسول نے.ہاں البتہ چند چھوٹی سچی حدیثوں پر یہ سر پھٹول اور فرقہ بندی ہے جس سے منع کیا گیا تھا.اب جن کی پیروی کی مجبوری آپ بتا تے ہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم سن لیجئے.اِذَنَبَرا الَّذِينَ اتَّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَارُ الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُو لَوَان
Al لنا كرة فَتَبَراً مِنْهُمْ كَمَا تَبَرُ وا مِنَّا (النفره ، ۱۶۸۱۶۷) او یہ مولوی آپ جواب دیں گے قیامت کے روز قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ وَمَا كَانَ لَنَا عَيْتُكُمْ مِنْ سُلْطَان بَل كُنتُمْ قَوْماً طَعِيْنِ فَحَيَّ عَلَنَا قَوْلُ رَبَّنَا إِنَّا لَدَاثِقُون فَاغْوِيتَكُمْ إِنَّا كُنَّا غوين (الصفت : ۳۳،۳۰) غضب خدا کا اللہ اور اس کا رسول تو یہ کہے کہ اس کو پڑھو اس کو سمجھو اس پر تدبر کرد.اسے ہر وقت پڑھو صبح پڑھو شام پڑھو فجر پڑھو.ہر نماز میں ایک حصہ قرآن کا پڑھنا لازم کر دیا ہے.یہی تم کو تفرقہ سے بچائے گی یہی تم کو گمراہی سے بچائے گی.اسی کو پکڑے رہو تو صراط مستقیم پاؤ گے، ہدایت پاؤ گے اس کی رحمت اور فضل پاؤ گے اور اس کے خلاف یہ علماء فرما دیں کہ ہر گز نہیں یہ بر ہمنوں کی طرح ہمارا ٹھیکہ ہے تم پڑھو نہیں سمجھو نہیں دیکھو نہیں.پڑھو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے اور ایسے ہی علماء شَرُّ مَنْ تَحْتَ أدِيمِ السّماء کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيْتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيْنَاهُ لِلنَّاسِ فِي الكتب أولئِكَ يَلْعَنُهُمُ الله وَيَلْعَتُهُمُ اللَّاعِنُونَ (البقره: ۱۶۰) کاش ایک ہی مرتبہ آپ اس کو جانچنے کے واسطے شروع سے آخر تک تدبر سے پڑھ جاتے تو سب کچھ معلوم ہو جاتا کہ اللہ کیا حکم دیتا ہے.یہ کیا کہتے ہیں اور یہ جو فرمنی خیالات ہم نے بنا رکھے ہیں کہ علماء کے فیصلہ سے ہم محفوظ ہو گئے ہیں یا نہیں.ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالے کے مخاطب کون ہیں ؟ ہم آپ یا یہ علماء ؟ سارے قرآن میں یا تو یہ ہے کہ یا اَيُّهَا النَّبِيُّ - يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ - يَا أَيُّهَا النَّاسُ يَا أَهل الكتب اور یا ایھا الذین آمنوا کہیں ایک جگہ بھی یہ نہیں کہ یا ایها العلماء بلکہ وہ توسیم کو یہ کہتا ہے.اَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَ شَفَتَيْنِ وَهَدَينَهُ التَّجْدَيْنِ (البلد : 119) کیا ہم نے اسے دو آنکھیں نہیں دی تھیں اور زبان اور دو ہونٹ اور پھر
۸۲ افراط و تفریط کے دونوں رخ نہیں بتا دئیے تھے.اب خوب غور کر کے یہ بتائیے کہ ہم لوگوں کو اس باجبروت عدالت میں یہ جواب بن پڑے گا کہ ہم علماء کی پیروی کرتے تھے اور وہ یہ فتویٰ دیتے تھے ؟ اور کیا ہم اس جواب سے چھوٹ جائیں گے ؟ کیا وہ نہیں پوچھے گا کہ ہم نے تم کو کیا حکم دیا تھا ؟ اس وقت ہماری جو حالت ہوگی اور حسرت ہے جو کچھ کہیں گے اس کا کتنا عمدہ نقشہ وہ عالم الغیب بیان کرتا ہے يَوْمَ تُقَلَّبُ وجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ بِلَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولاً وَقَالُوا رَنا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السبيلاً (الاحزاب : ۶۷ و ۶۸) که حب ان کے چہرے آگ کی طرف پھیر سے جائیں گے تو کہیں گے اے کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی.افسوس ہم نے اپنے سرداروں کی اور بڑوں کی اطلات کی جنہوں نے ہم کو راستہ سے بہکا دیا.پھر یہ بھی سوچ لیجیے کہ میرے ساتھ جو کچھ کیا گیا اور جو کچھ کر رہے ہیں اس کو عقل سلیم بھی جائز رکھتی ہے اور یہ سب کسی گناہ کی سزا ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ ایک ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم البنین ہیں.قرآن اللہ کا نہ ندہ کلام ہے سنت پر عمل ہے.صحیح حدیثیں قابل عمل ہیں امنت بالله وَمَلَئِكته وكتبه وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِم مِنَ الله تعالى والبعث بعد الموت میں سے ہر ہر لفظ پر ایمان ہے حسب قوت معمل بھی ہے جنفی سنت جماعت علماء سے پوچھٹے کہ کیا اس سے زیادہ کسی کو مجھ سے پوچھنے کا حق بھی ہے ؟ احمدیت نہ تو اسلام اور صحیح اسلام کے سوا کوئی مذہب ہے نہ تو میں نے تبدیل مذہب کیا ہے نہ میں نے کسی چیز کا کفر کیا ہے نہ ارتداد کیا ہے.میں الحمد للہ مومن ہوں مسلم ہوں اور میں نے امر بالمعروف کی بیعت کی ہے.سیسے اللہ تعالیٰ مسلمان کسی کو کہتا ہے.وَلا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلمَ لَسْتَ مُؤْمِناً (النساء : ۹۵) اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف سنیئے کہ جو تمہاری طرح تمہارے
۸۳ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ مسلمان ہے.حضرت علی فرماتے ہیں کہ مَنْ قَالَ ANANTON TO DANNEL AND ALAWATAN ANLA اور پھر حدیث صحیح ہے کہ جس کو تم کافر کہو گے فهو اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں کافر نہ ہوا تو کہنے والا یقیناً کافر ہوگا.افسوس اور صد ہزار افسوس ہے کہ مولویوں کے چکر میں آپ جیسا سمجھ دار آدمی پڑ جائے اور کہے کہ ہاں طلاق ہوگئی.ذرا ان مولوی صاحبان سے یہ تو پو چھٹے کہ جس کتاب سے آپ طلاق کا فتویٰ صادر فرماتے ہیں اسی کتاب سے کیا تارک الصلواۃ کی بیوری پر طلاق نہیں ہو جاتی.پھر صرف ہماری ہی قوم میں کتنے ہیں جن کی بیویاں نکاح میں قائم ہیں ؟ برائے خدا جو قومی اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کئے ہیں ان سے کام لیجئے اور سو پھٹے کہ کدھر جا رہے ہیں ؟ اللہ اور اس کے رسول کے چودہ سو برس کی پیشین گوئیوں کو نیک نیتی سے جانچنے پر کھنے اور خوب تحقیق کرنے کے بعد میں نے اگر ان کے دعوں کو صحیح تسلیم کیا جس میں مجھے تو ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی شک نہیں مگر بفرض محال اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ آدمی وہ نہیں ہے تو پھر یہ ایک اجتہادی غلطی سے زیادہ کچھ نہیں ہے.مگر ان غریب مولویوں کے پاس ہے ہی کیا سوائے کفر اور الحاد اور طلاق کے فتووں کے اور ان بے چاروں کا مبلغ علم ہی سوچے کہ نہ ان کو تو راہ کا علم ہے نہ انجیل کا نہ تاریخ عالم سے کچھ تعلق ہے نہ تاریخ اسلام سے نہ قرآن سے کچھ تعلق ہے بلکہ قرآن سے تو ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیطان لاحول سے.ہاں اختلافی حدیثیں اور اقوال الرجال سر پھٹول کے لئے پڑھایا جاتا ہے اور آٹھ سو برس پہلے کی بوسیدہ یونانی منطق اور فلاسفی جس میں لکھا ہے کہ زمین چٹائی کی طرح بچھی ہوئی ہے اور ستارے آسمان میں قندیل کی طرح لٹک رہے ہیں اس کے خلاف جو کہے وہ کافر اور پھر یہ مولوی کس قسم کے لوگ ہیں یہ بھی سن لیجئے کہ دنیا میں جو لڑ کا کسی مصرف کا نہ ہو جس میں پانچ روپیہ بھی مزدوری کمانے کی قابلیت نہ ہو وہ ہندوستان کی
کسی مسجد کے حجرہ میں بند کر دیا جائے اور سات برسن تک فَعَلَا فَعَلُوا فَعَلْتُم فَعَلْنَا کرنے کے بعد چند اخلاقی حدیثیں اور اقوال الرجال لے کر اس بھو کی فوج کے اندر ایک کا اضافہ کر دے.مجھے افسوس ہے کہ بے جا طوالت سے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں نگر میں مجبور ہوں کہ آپ کو پہلی اور آخری مرتبہ جو کچھ کہنا ہے کہہ دوں تاکہ کوئی غلط قدم اٹھانے سے پہلے آپ اس کے ہر پہلو پر غور و فکر کرنیں تاکہ بعد میں اس کا افسوس نہ رہے اور کاش یہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے اور ان کے فتوے پیٹ کر ان کے حوالہ کر دیں اور ہم لوگوں کے گھر کا امن چین قائم رہے.آپ نے لکھنو میں فرمایا تھا کہ تمہاری ذات کے ساتھ کسی کو دشمنی نہیں ہے بلکہ اس فتنہ کو روکنا ہے.مجھے یہ بالکل تسلیم ہے کہ میری ذات سے کسی کو دشمنی نہیں ہے مگر جس چیز کو روکنے کی ساٹھ برس سے ساری دنیا کو ششیں کر چکی ہے وہ نہیں لرکا بڑھ رہا ہے اور دنیا کے ہر ہر گوشہ میں پہنچ گیا اس میں آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور کس چیز کو روکنے کی جس کے متعلق آپ کچھ جانے کا دعوی نہیں کرتے نہ کچھ سننا چاہتے ہیں.علماء کے فتووں پر دارو مدار ہے.بہت اچھا آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں مگر کم از کم یہ تو سوچ لیجئے کہ غلط فہمی کی وجہ سے آپ اللہ کے راستہ کو تو نہیں روک رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ کرنے میں آپ ان مولویوں کے ہتیار تو نہیں بن گئے ہیں جس میں کامیابی تو ہونی نہیں مگر جو بڑے سخت مواخذہ کا باعث ہوگا.یاد رہے کہ خاموش رہنا دوسری بات ہے اور ڈائریکٹ مخالفت چیزے دیگر اور یہ بہت ہی خطرناک منزل ہے پھر علاوہ اس کے یہ کہ ہماری قوم میں اس کی روک تھام وہ بھی ہوتی نہیں.آپ بائیکاٹ کر چکے اس کے بعد بھی میں جہاں ہوئی یہی کر رہا ہوں اور جہاں ہوں گا یہی کروں گا حق بات کہنے سے مجھے کوئی دنیا کی قوت روک نہیں سکتی اس کا تجربہ ہو چکا اور اگر اور بھی کچھ تجربہ
۸۵ کرنا ہو تو کر لیں.نتیجہ ایک ہی نکلے گا.میں وہاں سے رزق کی تلاش میں نکل آیا در نہ کیا آپ کا خیال ہے کہ میرا ملنا ملانا بند کیا جا سکے گا ؟ کیا میرا رزق بند کیا جاسکے گا.ہاں اپنے اپنے اعمال میں جس کو بائیں طرف جتنا اضافہ کرنا ہو کر سکے گا.علماء نے مرزا صاحب پر کفر کے فتوے ان کے دعاوی کی وجہ سے لگائے اور اُن کی بیعت سے میں کافر اور مرتد ہو گیا مگر برائے خدا اپنے علماء سے یہ بھی تو پوچھتے کہ اسے اللہ کے بند و معاذ اللہ وہ کافر اس قدر غلط دعوی کر کے ہم کو کہنا کیا چاہتا ہے یہی ناکہ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا أَمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِ ہے اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق کہ لَقَدْ بَعَثْنَاني كُلّ أُمَّة رَسُولاً ان اعبدوالله واجتنبو الطاغو اور تمام انبیاء کی سنت کے مطابق فَاتَّقُو اللهَ وَأَطِيعُون اور پھر ساری دنیا کی تمام قوموں کو قرآنِ کریم کی طرف اور محمد رسول للہ صل العملی موم کی غلامی کی طرف دعوت دے رہا ہے یا کچھ اور مسلمان اور علماء کو یہ کہتا ہے کہ یہ ٹھگائی کا دھندا چھوڑ دو اور قرآن کی طرف آؤ یا کچھ اور ؟ گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم اس پر بھی میں آپ کو اپنے عقیدہ پر نہیں بلاتا.اگر آپ کی سمجھ میں نہیں آتا نہ سہی مگر کم از کم آپ اپنے آپ کو ان خطرناک ذمہ داریوں سے علیحدہ کر لیجئے تاکہ اگر کہیں حق دوسری طرف ہو تو بڑے سخت مواخذہ سے آپ بچ جائیں.میں خدائے وحدہ لا شریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس خط کے لکھنے کا کوئی مقصد سوائے اس کے نہیں کہ اس قسم کی غلط فہمی کی وجہ سے میرے آنے سے آپ گھر چھوڑ جاویں اور اس ضعیفی اور خرابی صحت کے وقت آپ بھی تکلیف میں پڑیں اور ہم کو بھی بہت حسرت و افسوس ہو اور ایسے وقت میں ہم لوگ خدمت سے محروم رہیں.ور نہ ہرگز ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ خدانخواستہ میں چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ کوئی نرمی کی جائے یا ئیں سوشل بائیکاٹ سے ڈرتا ہوں یا اس کا خیال ہے کہ کوئی
۸۶ ہم کو روزی دے سکے گا بلکہ یہ سب معاملات اللہ کے حوالہ ہیں.میری عمر پچاس سال کے قریب ہوئی.اس درمیان میں ایک روز بھی اس نے بھوکا نہیں رکھا تو اب بھی نہیں رکھے گا ہاں کم بیش یہ اس کے اختیار میں ہے.جماعت میں سے مجھے خارج نہیں کر سکتا قبرستان کا میرا حق کوئی چھین نہیں.رہی نماز جنازہ وہ اس مٹی کے ڈھیر کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں یہ وہ لوگ اللہ کے پاس ذمہ دار ہوں گے بچوں کی قسمت کوئی بنا نہیں سکتا.صرف یہ عرض ہے کہ ان مولویوں کے چکر میں ہم اپنے آپ کو تباہ نہ کر لیں.پہلے سے خط لکھنے کا یہ مقصد ہے کہ آپ کو کافی وقت غور و فکر کا ہے اور آپ سوچ سمجھ کر اس کے متعلق فیصلہ کریں.میں آپ کو علی وجہ البصیرہ پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ حنفی سنت و الجماعت کے لحاظ سے بھی کوئی طلاق وغیرہ نہیں ہوتی پورا اطمینان رکھیئے.نہامام ابوحنیفہ کو اس سے کوئی تعلق ہے نہ سنتِ رسول یہ ہے نہ اجماع امت ہے کچھ بھی نہیں ہے.من از تحقیق می گفتم تو خودم فکر کن بار خود از بهرامروز است اودانا و شیار دعا گو عبد السمارة اس اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی دعاؤں کا ثمر ہمارا بھائی محمود العارف یکم جنوری حوالہ کو پیدا ہوا.ہم بہت خوش تھے.مجھے یاد ہے میری امی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی.بابا نے مجھے بلایا اور کہا رفیعہ بیٹا یہ سونے کی چوڑی جو تمہارے ہاتھ میں ہے آج مجھے دے دو.اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین چیز دے.ریحانہ میری گود میں تھی.میں نے ریحانہ کو اتارا اور چوڑی اتار کر بابا جان کو دے دی ہمیں خوش تھی کہ امتی کی دوا اطلاق کا کچھ ہو سکے گا.
۸۷ انہیں دنوں مجھے سخاوت سکول میں داخل کر داد دیا گیا.گھر میں پڑھائی کروا کر پوچھتی میں داخل کیا تھا.ہمارے گھر کے حالات ایسے نہ تھے کہ پڑھائی کا خرچ چل سکے.اس کے لئے میرے چھوٹے سے دماغ نے ایک ترکیب سوچی ہیں اپنے پاس ربر، پنسل ، رولر وغیرہ زائد رکھتی.سب کو علم ہوتا گیا.جس کو ضرورت پڑتی.مجھے سے خرید لیتا.اس طرح کچھ نہ کچھ پیسے میرے پاس جمع ہو جاتے جس سے نہیں دیتی.بابا کی دواؤں کے لئے اب کچھ نہ بچا تھا.نانا بھی شدید بیمار تھے.نانا کی طبیعت شدید خراب ہوگئی تو بابا سے کہا مجھے کلمہ پڑھواؤ اور کلمہ پڑھتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کر دی.نانا وہ شخص تھے جو بیٹی کو طلاق دلوانے پر بضد تھے کہ ہم اس کی اور بچیوں کی خود کفالت کریں گے ہمارے بابا اور امی کو خدمت کا موقعہ دے کر رخصت ہو گئے.ہادی ماموں، ان کے خالو اور خسر محمد الیاس صاحب مہمن جماعات میں بڑے مقبول اور تعلیم یافتہ تھے اور اس لحاظ سے بھی منفرد تھے کہ ہماری مخالفت نہیں کی تھی.ہادی ماموں نے غیر احمدیوں کے دستور کے مطابق ہمارے گھر میں ہی چالیسویں کا انتظام کیا.جس میں برادری والوں کو آنا پڑا.خالہ کی بڑی بیٹی رابعہ یونس عثمان سیٹھ کے بھتیجے عبدالکریم سے بیاہی ہوئی تھی جو بہت مخالف تھے مگر رابعہ اس وقت بھی نہیں آئیں.صرف یونس عثمان اور عبدالکریم صاحب برادری کے ساتھ آئے.وہ بھی عورتوں کی طرف نہیں آئے.الیاس صاحب کے بیٹے نوری صاحب سے بابا کے ان کی علم دوستی کی وجہ سے اچھے مراسم تھے.ان کی بیٹیاں اچھی صفات کی مالک تھیں اور بڑا پیار کرتی تھیں.بابا کی بیماری اور تنگدستی دونوں میں برابر اضافہ ہو رہا تھا.یونس عثمان منا نے پھر ایک کو سطل کی اپنی پرانی ملازمہ کے ہاتھ ایک کتاب بھیجی جو کسی جرمن ڈاکٹر کی لکھی ہوئی تھی وہ اس وقت کلکتہ آیا ہوا تھا.اس کا دعویٰ تھا کہ وہ انگور
AA کے انجیکشن کے ساتھ شرطیہ علاج کر سکتا ہے.صحت یاب ہونے پر دس ہزار روپے ادا کریں.بابا نے خوش اسلوبی سے منع کر دیا.سوچا کہ جب خود علاج کروانے کے قابل نہیں ہوں تو کیا فائدہ کسی کا احسان لوں.زندگی اور موت خدا کے ہاتھ ہے.بابا کو خود یہ اندازہ تھا کہ وہ زیادہ نہیں جی سکیں گے.عارف کو گلے لگاتے، بہت پیار کرتے.امی سے کہتے.رقیہ اس کا بہت خیال رکھنا، ایک دن امتی کو پرانے کاغذات میں سے کچھ ایسے کا غذات ملے جن میں بابا سے بہنوں کے کچھ قرضہ لینے کا تحریری ثبوت تھا.اتنی نے کہا کیوں نہ ہم اس ضرورت کے وقت ان سے تقاضا کریں.بابا نے کاغذ ہاتھ میں لے کر دیکھا اور فوراً پھاڑ دیا.امی سے کہا قرض واپس تو ملے گا نہیں.اپنا ثواب کیوں ضائع کروں.بابا انتہائی مجبوری میں خدا کے آگے ہی جھکتے تھے اور اسی سے اپنی ہر فریاد اور ہر دکھ بیان کرتے.ایک دن امی جان مجھے ساتھ لے کر خاندان کے ایک بہی خواہ ڈاکٹر ظفر صاحب کے پاس گئیں اور کہا کہ آپ ہی آکر کوئی انجیکشن وغیرہ دیں.ڈاکٹر صاحب زار و قطار رونے لگے اور کہا " اب میں کیا کروں گا جا کر.میں اپنے دوست کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا.ہم بہت ہی مایوسی کی حالت میں دعائیں پڑھتے ہوئے واپس آرہے تھے.ابھی سیڑھی نہ چڑھے تھے کہ ایک مانوس سی شخصیت ہاتھ میں ڈاکٹری بیگ لئے نظر آئی.جان پہچان تھی.وہ کبھی فیملی ڈاکٹر رہے تھے پھر لندن سے اعلیٰ تعلیم لے کر واپس آئے تھے.اس نے پوچھا "مستر ستار ! آپ یہاں کہاں ؟ اس نے ہمارے اچھے زمانے دیکھے تھے.اس طرح پوچھنے پر امی جان کی آنکھوں میں آنسو آگئے.بابا کی بیماری کی بابت بتایا.وہ بڑی خوش اخلاقی سے بغیر فیس لیئے بابا کو دیکھنے کے لئے آنے لگے.ایک دن ایسا بھی آیا کہ امتی کے پاس صرف ایک چوٹی تھی.اور باجی عائشہ کے سسرال والے بھی آگئے.اس سے کسی نہ کسی طرح اُن
کی خاطر تواضح کر کے بیٹی تھیں اور مہمان ابھی گھر پر ہی تھے کہ کوئی صاحب بابا سے ملنے کے لئے آئے.ان کے جانے کے بعد بابا نے ہمیں بلایا اور نوٹوں کی بارش سی کر کے گلو گیر آواز میں بتایا کہ پرانے مالک کا بیٹا آیا تھا کہ حکومت نے انکم ٹیکس کا کچھ روپیہ لوٹایا تھا وہ کافی عرصے سے ان کے پاس پڑا تھا.بابا جان نے کہا تھا خدا کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا.ہم کمزور بندے ہیں مگر وہ پیارا خدا اپنا پیار بڑھانے کی خاطر ہمارا صبر آزماتا ہے تاکہ ہم زیادہ جھکیں پھر زیادہ لطف اندوز ہوں.یہ ہمار لئے خدا تعالیٰ نے اس وقت تک روکے رکھا جب آخری چونی بھی ختم ہوگئی.یہ جہان توفانی ہے.مخمل کے گدے پر سوئیں یا ٹاٹ پر نیند تو سب کو آئے گی سورج بھی سب کے لئے ایک ہی زاویہ سے طلوع ہوگا.بادشاہ ہو یا گداگر مسیح موعود کو ماننے والوں کی تربیت کے سامان ہوتے رہتے ہیں.شکر ہے اس قادر و توانا کا کہ ہم مسیح کی جماعت میں ہیں.اسے خدا ! تو ہمیشہ ہم پر کرم کی نگاہ رکھنا.جب یہ رقم غیب سے آئی.بابا مقروض تھے.بابا نے قرض ادا کر دیا اور کچھ مزودی اخراجات کئے.اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی.بابا اس کے بعد دو ماہ زندہ رہے اللہ تعالیٰ انہیں مقروض نہیں اٹھانا چاہتا تھا.بابا بے حد کمزور ہو گئے.امی جان نے جی جان سے خدمت کی.ایک دن روشنی گل تھی.امی جان بابا کی پائنتی پر لیٹی تھیں کہ بابا نے زور سے دعلیکم السلام کہا.کوئی آیا تھا نہ گیا.امی نے اُسے خواب سمجھا.بابا جان نے بتایا کہ کمرے کے دروازے پر ایک پر نور سفید ریش شخص نے آکر مجھے سلام کہا اور میں نے اس کے سلام کا جواب دیا.اس بزرگ شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی اور میرے قریب بستر پر آکر بیٹھ گئے میں نے معذرت کے ساتھ پوچھا کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں.کہا میں وہ شخص ہوں جو صالح محمد داؤد کی وفات سے تین روزہ پیشتر آیا تھا.یہ خواب سنا کر امی سے کہا.رقیہ ایسا لگتا
9.ہے ہمارے اب تمین روز باقی ہیں.اس سے تیسرے دن احمدی احباب سلیم صاحب اور شمس الدین صاحب عیادت کے لئے تشریف لائے تو بابا جان نے اپنا کشف سنایا اور بہت دعائیں پڑھیں.وہ آمین کہتے رہے.پھر ڈاکٹر سرکارنے انجیکشن لگایا جو جسم نے قبول نہ کیا.جس دن بابا فوت ہوئے میں سکول نہ جا سکی.دل کی کیفیت عجیب تھی.باجی عائشہ کا خیریت معلوم کرنے کے لئے فون آیا تو بابا نے کہلا دیا.میری فکر نہ کرو.اپنے سسرال والوں کی خاطر تواضع کرد.دوپہر کے کھانے کا وقت آیا تو ہمیں نہ بر دستی کھانے کیلئے بھیج دیا.دعائیں دیتے رہے صبر کی تلقین کرتے رہے.ہم دستر خوان پر تھے جب آیا رابعہ پہلے اٹھ کر بابا جان کے پاس پہنچیں تو وہ آخری سانس لے رہے تھے نہیں گیارہ سال کی تھی.بے اختیاری میں منہ سے نکلا.بابا.بابا ہم نیم ہو گئے پلٹ کر میری طرف دیکھا.امی نے نبض پر ہاتھ رکھا ہوا تھا.سب ارد گرد جمع تھے.تھوڑا آپ زمزم پلایا گیا.اللہ کا بلاوا اپنے صابر شاکر بہادر بندے کیلئے آچکا تھا.ریحانہ معصوم حیران ہو ہو کر پوچھ رہی تھی میرے بابا جان کو کیا ہو گیا ہے اسے کیا خبر تھی کہ بابا جس سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اس نے اپنے پاس بلا لیا ہے.وہ پوری دفا کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.ہم نے انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعون پڑھا اور ان کے اوپر چادر ڈال دی.یہ سانحہ ۱۳ ۱۹۳۹ ء مطابق ۲۲ ذوالحجہ (۳۵ را بروز دوشنبہ دوپہر کے ڈیڑھ بجے - لا فروری پیش آیا.چند لفظوں کے لئے میں نے سوچا یہ عظیم شخص میں کو الوداع کہنے کے لئے صرف اس کی بیوی پیچھے ، ایک مہین اور پڑوسی ملول کھڑے ہیں کیسی دنیا کے سفر پر جاتے تو جہاز کے ڈیک پر آدھا حصہ ان کے چاہنے والوں کا ہوتا تھا گرم جوشی گوداع
۹۱ کہتے مگر احمدیت کے راستے پر چلنے والے کا ساتھ نہ دیا.بابا نے پڑوسیوں کو احمدی جماعت کے لوگوں کے فون نمبر دیے تھے تاکہ وقت آجائے تو اطلاع کر دی جائے.امی جان کو بھی کہا تھا کہ میمن مسجد میں جنازہ اور میمنوں کے قبرستان میں تدفین ضروری نہیں ہے.یہ لوگ شرارت کریں گے اپنی اپنے غم کے باوجود ہوشیار تھیں.عظیم بھیا ، ہادی ماموں اور علی خالو نے زندگی میں ساتھ دیا تھا ابھی بھی وہی کام کر رہے تھے میمن جماعت کے لوگ بھی جمع ہو گئے غنڈے قسم کے لوگ بڑی میمن مسجد کے باہر جمع ہو گئے.احمدی احباب بھی جمع ہو گئے اور پوچھنے لگے کیا تردد ہے.جنازہ اٹھانے دیں.یونس عثمان اور عبدالکریم بھی آئے.اور اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ بابا جان کے پاؤں کی طرف کھڑے ہوئے.یہ بھی مسیح پاک کا اعجاز تھا.ان کی نماز جنازہ احمدی احباب نے مین قبرستان میں پڑھی اور غائبانہ نماز جنازہ کلکتہ کی مسجد میں پڑھی گئی اور قادیان میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے نماز جنازہ غائب پڑھائی.الحمد للہ علی ذلک.اللہ کے کام دیکھئے ان دنوں ممین قوم میں یکے بعد دیگرے ۵۲ وفاتیں ہوئیں.بڑی اماں نے اپنے کانوں سے سنا.لوگ کتنے تھے عبدالستارہ قادیانی کی بددعاتو نہیں لگی.بابا کی ڈائری میں تحریر وصیت درج ذیل ہے :- وصیت منجانب عابر عبد الستار كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الموت جب وہ وقت آجائے جس کے آنے میں ذرہ بھی شبہ نہیں اور جو آہی کے رہے گا جس کا وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بندہ کو اس کے متعلق کچھ نیاد سے اور جس قانون میں کوئی استثناء
۹۲ نہیں ہے.تو اس وقت اور اس کے بعد کے لئے چند ہدایات :- (۱) موت کے بعد فوراً ہی جماعت احمدیہ کو خبر بھجوا دی جائے کہ علاوہ دستور کے مطابق تمام انتظامات اور مسجد میں نماز جنازہ کے احمدی جماعت قبرستان ہیں وفن سے پہلے میری جنازہ کی نماز پڑھیں اور پھر اپنے طور پر فاتحہ اور دعا کا انتظام کریں جس کا خرچ ضرورت کے مطابق دیا جاوے.احمدیہ جماعت کو خبر حکیم غلام زکریا کی معرفت دی جا سکتی ہے.دوسرا پتہ یہ ہے :- اسماعیل برادرس کمپنی شوز مرچنٹ نمبر ۱۵۰ رو ڈ گول کو ٹٹی کے پاس.تیسرا پتہ یہ ہے :- دی گلوب نیشنل تیسری جوتے کی دکان سراج بلڈنگ کے نیچے (۲) حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو خط سے اطلاع دی جائے اور دعائے مغفرت کی درخواست دی جائے.پتہ یہ ہے.مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب میرے قادر و قیوم خدا نے بابا کا انجام بخیر کیا.ایک شخص جس نے برادری کی شدید مخالفت اور دُکھ صرف خدا کی خاطر سہے تھے اپنے خاندان کو خدا کے بھرو سے چھوڑ گیا.ان حالات نے امی جان کو بھی احمدیت اور با با کے نام کی لاج رکھنے کا حوصلہ دیا.توقع کے عین مطابق امی کو پیغام آنے لگے کہ توبہ کرلو تو ہم سہارا بنتے ہیں ورنہ بچیوں کا ساتھ ہے.آپ اکیلی حالات کا مقابلہ کیسے کریں گی.
۹۳ ست امی جان نے سوچا.میں اکیلی کہاں ہوں میرے ساتھ تو اللہ پاک ہے سجدے میں فریاد کی اور اسی سے مدد مانگی.اللہ پاک نے دل میں ڈالا کہ شربت ، اچار چنی بنا کر بیچو.چنانچہ امی نے یہی کام شروع کر دیا.سب نہیں کام کرتیں کہیں دیگچا چڑھا ہے تو کہیں مسالے صاف ہو رہے ہیں.بہت جلد مانگ بڑھنے لگی.دوکانوں پر بھی مال جانے لگا.اخراجات کا مسئلہ حل ہو گیا.یہ ایک طرح سے پوری میمن جماعت سے ٹکر لینے والی بات تھی.تنہا بیوہ عورت بغیر ان کے آگے جھکے اپنا گزارا چلا رہی تھی.احمدی احباب بھی کبھی کبھی عظیم بھیا سے ہمارے حالات کے بارے میں پوچھتے مگر ہماری خود داری کی راج سے کبھی براہ راست ہمیں کسی نے مدد نہیں پہنچائی.بابا کی وفات کے وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمیں کبھی پیٹ بھر کے کھانا بھی نصیب ہوگا.یہ صرف مسیح موعود کی جماعت میں شمولیت کی برکت تھی.اس نے ہمیں عربتِ نفس کے ساتھ سہارا دیا.مجھے یاد ہے آیا رابعہ بہت نیک اور ہمت والی تھیں محنت بھی بہت کرتیں اور دُعا بھی بہت کرتیں.انہی دنوں شدید بیمار ہوگئیں مگر خدا تعالیٰ نے معجزانہ طور پر نٹی زندگی عطا فرما دی.ایک دن نیم بے ہوشی میں ایک نظارہ دیکھا کہ بابا نے آکر خوب پیار کیا اور جھک کر کہا تم اچھی ہو جاؤ گی گھبراؤ نہیں اور جس کام کو تم لوگوں نے شروع کیا ہے انشاء اللہ ایک سال کے اندر اتنا نفع ہوگا.بابا نے خواب میں جو رقم بتائی تھی امی نے نوٹ کر لی.ٹھیک ایک سال کے بعد حساب کیا تو ٹھیک اتنی ہی رقم کا منافع ہوا تھا جو بابا نے خواب میں بتائی تھی.احمد للہ.اس وقت آیا رابعہ سترہ سال کی تھیں.ریحانہ اتنی چھوٹی تھی کہ باپ کی وفات کا شعور نہ تھا.اکثر پوچھیتی بابا جان کب آئیں گے ؟ اور عارف تو گودوں میں کھیلتا تھا.
۹۴ میری آپیاز کتہ کی پہلی نسبت ہماری احمدیت قبول کرنے پر قائم نہ رہی تھی.دوسری نسبت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب کے لڑکے ہاشم صاحب سے طے ہوئی.وہ بڑے چاؤ سے شادی کر کے لے گئے حق مہر دستور کے مطابق دس روپے رکھا.صرف چار ماہ کے بعد طلاق دے دی ریستار خداند علی سب کی خطائیں معان کر دیں مگر ہماری دیکھی آیا پر پہاڑ آپڑا تھا.جس نے اسے نفسیاتی مرینہ بنا دیا.ہادی ماموں نے مصالحت کی کوشش کی اور موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمجھانے لگے دیکھو احمدیوں میں کیا رکھا ہے.ابھی بھی توبہ کرلو.خدا کا شکر ہے کہ امی نے ہر آن انش پر صبر کیا.آپا کو سانس کی تکلیف رہتی تھی.صدمے سے بہت بڑھ گئی.دوسری بہن آپا رابعہ کے لئے ہادی ماموں کے ذریعے نوری صاحب کے سالے یعنی بیوی کے بھائی عبد الرحیم یونس صاحب کا پیغام دیا.شادی پر بہت لوگ میمن جماعت کے آئے.بعد میں پتہ چلا کہ یونس عثمان صاحب اور یونس صاحب نے مل کر یہ مشہور کرا دیا تھا کہ رقیہ بیگم نے توبہ کرلی ہے.جب امی کو علم ہوا تو شدید ناراض ہوئیں میں نے پہلے کبھی امی کو اس قدر ناراض نہیں دیکھا تھا.ہادی ماموں سے اصرار کیا کہ دوبارہ اعلان کروائیں کہ ہم نے احمدیت سے تو یہ نہیں کی.بابا کی وفات کے ساتھ ایک ایسے شخص کی داستان ختم ہو گئی جو ایک باکل نئی جماعت میں احمدیت کے پیغام کا بانی ثابت ہوا.پھر اس کے خاندان پر کیا گذری اور کسی طرح اس بوڑھے پیڑ سے نئے پودے اُگے.اور باغ احمدیت کی بہار سے سرسبز ہوئے یہ ایک الگ اور ایمان افروز کہانی ہے اور اس کہانی کی جان میری ماں ہے سرداری کی حمایت سے محروم جوان بچیوں کا ساتھ.ذرائع آمدنی مفقود - ایک تنها بیوہ عورت کس طرح اللہ تعالیٰ پر توکل کے ساتھ چومکھی لڑائی لڑتی ہے اور سرخرو رہتی ہے.گزرے ماہ وسال کو
۹۵ ئیں چند فقروں میں لکھ جاؤں گی مگر ان دنوں جو صبح سے شام ہوتی اور شام سے صبح ہوتی اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.اس وقت خدا تعالیٰ کے قرب کا جو نظارہ دیکھا وہ رگ وپے میں رچ بس گیا.اگر امتی ہمت ہار دیتیں یا مسائل سے گھبرا کر کسی کی مدد قبول کر لیتیں تو یہ لذت کہاں سے ملتی.یہ احساس عزت نفس کہاں رہتا.ہماری نگاہیں ہمیشہ کے لئے جھک جاتیں.مجھے یقین ہے کہ جہاں بھی کوئی خدا کا نام لینے کے لئے دکھ دیا جاتا ہے.وہاں اللہ تعالیٰ قریب تر آکر دستگیری کرتا ہے.مگر جب یہ حالات خود پر گذر سے ہوں تو حلاوتِ ایمانی کا عالم کچھ اور ہی ہوتا ہے اور خدا پر ایمان میسج کی طرح دل میں گڑ جاتا ہے ہمیں ان حالات نے یہ دولت خوب کھل کر دی اور اس کے ساتھ صبر و شکر بھی عطا کیا.ہم نے میر کے میٹھے پھیل کی لذت ساری عمر لمحہ لمح محسوس کی ہے.19ء میں جرمن برٹش جنگ کی وجہ سے کلکتہ کی حالت خراب ہو گئی تو سب رشتہ دار بمبئی چلے گئے.امی جان نے ملک پور جانے کا فیصلہ کیا.شادید بمباری میں راتوں رات وہاں پہنچے.بڑی اماں کا خاندان بھی وہیں آگیا.خالہ کی نندوں سے ہم سب کی عمروں کی مناسبت تھی.رات کو خوب کھیلتے چاندنی میں گھاٹ کے اوپر بیٹھنے کے بڑے سے چبوترے پر تکیہ لگا کر بڑے بیٹھ جاتے اور ہم جگنوؤں کے پیچھے بھاگتے.بڑے پاندان سے پان لگا لگا کر کھاتے جبکہ ہم پیڑوں سے بیر اور فالسہ توڑتے.ناریل کا پانی پیتے تالاب میں نہاتے.خالہ کی دیورانی بھی بہت نفیس عورت تھیں.ایک طرف ہمارا با در چی خانہ ایک طرف آن کا.رات کو مالی لالٹین جلا کر دے جاتا.رات کے سناٹے میں گیدڑوں کی آواز میں ڈرائیں ٹرین کی آواز بھی آتی تھی.بمباری کی آواز پر سب کلمہ و درود پڑھتے ہم اس پر بھی بنتے رہتے.سارا خاندان محبت کرنے والا تھا.وہاں کسی بزرگ کی تعمیر
94 کروائی ہوئی بڑی سی مسجد تھی.کنواں بھی تھا جس کے اردگر دبارہ غسل خانے اور مسلمانوں کے سامنے کپڑے بدلنے کے کمرے تھے.اس مسجد میں جمعرات کو خاص مجمع ہوتا.سیمین قوم کے سب لوگ جمع ہوتے ہم اس وقت گھر پر ہی رہتے بور میں ماموں نے بہت دفعہ خواہش کی کہ گھر خالی ہے آکر رہو مگر امتی کو مناسب نہیں لگا.ایک تو عقیدے کا فرق دوسرے وہ لڑکیوں کو تعلیم دلانا چاہتی تھیں ئیں لکھتی رہی ہوں کہ ہمارا خاندان کٹر مخالف تھا.صرف ایک ہادی ماموں کسی حد تک ساتھ دے رہے تھے اور بڑی اماں نے پیار دیا تھا.میرے چوتھے ماموں داؤد اور ان کی بیوی مجھے بہت چاہتے تھے.ان کی خواہش پر میری شادی ان کے دیور، میر سے ماموں زاد، ہادی ماموں کے چھوٹے بھائی نور محمد صاحب سے طے ہوئی.بمبئی سے محمد صاحب کے بڑے بھائی داؤد بھیا اور مریم ہیں آئیں.میری امی اپنے ارحم الراحمین خدا کی انتہائی شکر گزار تھیں.یعنیب سے سامان اس کو کہتے ہیں.پھر امتی اپنی ددھیالی رشتہ داری کی وجہ سے بھی خوش تھیں.بڑی محنت و مشقت کے جوڑے ہوئے پیسے سے جہیز اور زیور کا ایک سیٹ تیار ہوا.مجھے ابھی بھی امی کا وہ ڈیہ یاد ہے جس میں وہ بچت کے پیسے جوڑ جوڑ کر رکھتیں.امتی کے پاس جاوے کے زمانے میں ہیرے کے کنگن کا بڑا خوبصورت ڈبہ تھا.ب کنگن نہ رہا تو یہ ڈبہ بطور غلہ استعمال ہونے لگا.پہلے بابا اس میں چندے کے پیسے ڈالتے تھے.پھر امتی نے ڈالنے شروع کئے.بابا کی زندگی میں آپا رابعہ نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس ڈبے میں سے سونے چاندی کا سیٹ نکل رہا ہے.ہوا بھی یہی کہ امتی جمع جوڑا نکالتیں اور ہمارے لئے کچھ بنادیتیں.اللہ پاک انہیں اجر عظیم عطا فرمائے.آمین..میں میں رخصت ہو کر الیاس صاحب کی محل نما حویلی میں گئی.
92 آپا رابعہ کا مکان بھی قریب تھا.اس گھر کے بڑے داماد یونس عثمان صاحب کے بیٹے عبد الکریم فرعون صفت انسان تھے.ان کو میرا اور آپا رابعہ کا سامنا خاندانی تقریبات اور تہواروں پر کرتا پڑتا جس سے وہ بر افروختہ ہو جاتے.باقی افرا نے بڑا پیار دیا.میری ہم عمر لڑکیاں سہیلیاں مل جل کر بڑا اچھا وقت گزار نہیں.بمبئی میں سہنی مون کا زمانہ زیادہ تر سیر و تفریح میں گزرا.ہر خوبصورت جگہ گئے مجھے خاص طور پر وہاں کا پھولوں کا زیور بہت یاد ہے.ہلکی ہلکی بارش میں بھی سیر کو نکل جاتے.واٹر پروف کوٹ پہن لیتے.نہ گرمی محسوس ہوتی تھی نہ بارش ہمیں روکتی تھی.نوری بھیا کی بیٹیوں کے ساتھ بیڈ منٹن اور کیرم بورڈ کھیلا جاتا.ایک دوسرے کو نٹنگ وغیرہ کے ڈیزائن بنائے جاتے.میری رخصتی کے بعد امی پر ریحانہ اور عارف کی تعلیم کی ذمہ داری تھی.دونوں کو اچھے معیار کے انگلش میڈیم اسکول میں ڈالا ہوا تھا.آپ زکیہ نفسیاتی مریضہ ہوگئی تھیں.سانس کی تکلیف تو تھی ہی ان کے علاج معالجے کا خرچ بھی تھا.اب اچار چینی کی فروخت سے ملنے والی رقم سے گزارا نہیں تھا ہم مل جبل کر جو کام مشکل سے کرتے تھے امی کی اکیلی جان کے لئے ناممکن ہو گیا تو امی نے وہ کام بند کر کے ساڑھیوں کے بارڈر پر زری نقے کا کام شروع کر دیا.ایک بارڈر بنانے پر تین مہینے لگ جاتے مگر رقم بہتر مل جاتی.نہ جانے کس کس نے اس عظیم عورت کے ہاتھوں کے لگے ایک ایک ٹانکے کے ساتھ نیکی ہوئی دعاؤں والے بارڈر کی ساڑھیاں پہنی ہوں گی جو میری ماں کی بینائی کا عرق تھیں مگر بچوں کو تعلیم کی روشنی سے منور کر رہی تھیں.ان دنوں بھی عظیم بھیا اور باجی عائشہ ہماری اور امی کی خبر گیری کرتے.صاحب حیثیت تھے.اُن کے آنے سے ہم عزت افزائی محسوس کرتے.ان کی ایک ہی بیٹی صبیحہ
۹۸ عارف سے دو سال چھوٹی تھی..جب بر صغیر کی تقسیم ہوئی ہمارا گھرانہ پاکستان کے حق میں جذباتی شدت سے محبت کرتا ہم امی کے گھر جمع ہوتے.آپا رابعہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اور میرا اس وقت ایک بیٹا ممتاز تھا.ہم سکول کے بچوں کی طرح پر جوش ہوتے.اپنی دنوں امتی شدید بیمار ہو گئیں اور بیماری بھی کیا بریسٹ کینسر میری بہادر ماں نے آپریشن اور بعد کا شعاعوں سے علاج بڑے صبر اور برداشت سے کرایا.اپنی ذمہ داریوں کے احساس سے وہ کافی نڈھال ہو جاتیں اور خدا تعالیٰ سے شفا مانگتیں.یہ سال بھی عجیب کشمکش کے تھے.جگہ جگہ فسادات کی خبریں ، ہندو مسلم قتل و غارت ، جائدا دیں لوٹنا ، آگ لگانا ہر وقت سننے میں آتا.جیس حویلی میں ہم رہتے تھے سب اسی میں جمع ہونے لگے.ایک ایک کمرہ سب کو مل گیا.مگر ساتھ ہی ساتھ پاکستان منتقل ہونے اور لڑکیوں کی شادیوں کا سلسلہ جاری رہا شاہ کا سال تھا جب آدم جی جھوٹ مل میں آگ لگی تعظیم بھیا اور باجی دریا کے راستے نکل کر بمشکل امی کے گھر پہنچے اور فور آڈھا کہ پاکستان چلے گئے.میں کلکتہ میں امی کے مکان میں منتقل ہو گئی.بڑے بھیا اور داؤد بھیا پچٹا گانگ چلے گئے.بے وطنی کی مصیبتیں ایک نہیں ہوتیں اور ایسی بھی نہیں ہوتیں جن کو بیان کیا جا سکے اور پھر مشکلات کے ذکر سے حاصل بھی کیا ہے صرف اتنا بتا دیتی ہوں کہ ریحانہ کا جمع جوڑا جہیز جو امتی سینے سے لگا کر لے گئی تھیں ایک رات چوروں نے بے ہوشی کی دوا کھلا کر سارا لوٹ لیا.پے در پے صدمات اور صحت کی کمزوری کی وجہ سے امی پر دوبارہ کینسر کا حملہ ہو گیا.نہیں ڈھا کہ پہنچی ریجانہ میٹرک کا امتحان دے رہی تھی.امی کے پاؤں کے پاس لالٹین کی روشنی نہیں پڑھتی اور امی کی ہر آواز پر ان کی خدمت کرتی.آپا زکیہ کی بیماری عروج پر تھی عارف
99 انا بھی انتہائی غم زدہ امی کی حالت کا اندازہ کر رہا تھا.زندگی سے لڑتی جھگڑا ئی عظیم خاتون نے بالآخر موت سے ہار مان لی.زبان پر کلمہ طیبہ تھا.14 نومبرا 19ء کو وہ مجسم شیا و وفا ، احمدیت کی خدائی اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.انا لہ وانا الیہ کا جنون با با اکثر دعا کیا کرتے یہ پروردگار! رقیہ سے مجھ کو جنت میں ملا دینا " امتی جب بھی یاد آتی ہیں دکھوں کے سمندر میں موجوں سے لڑتی با ہمت خاتون کا تصور آتا ہے.وفات سے پیشتر اقی اور باجی نے بڑی مبشر خواہیں دیکھی تھیں.اُن کے چہرے پر بڑا اطمینان تھا جیسے سکون کی نیند سوگئی ہوں.ہم سب کو اللہ کے سہارے چھوڑ کر قرار آ گیا ہو.ماں کا سایہ سر سے اٹھ جائے تو خدا تعالیٰ زیادہ یاد آنے لگتا ہے.میری سوچوں نے میری رہنمائی کی اور میں ان راستوں کا سوچنے لگی جن پر چلتے سے امتی کو اتنا ایمان نصیب ہوا تھا کہ وہ ہر مشکل پر صرف خدا کو پکارتیں.مجھے اپنے اندر سے یہ جواب ملا کہ یہ سب احمدیت کی برکت تھی ہیں نے اپنی باجی سے پوچھا...باجی بیت کا اقرار کیسے ہوتا ہے ؟ باجی نے کتابوں کے انبار سے کشتی نوح " نکالی.اور تاکید کی کہ اسے اطمینان سے سمجھ سمجھ کر پڑھتا.حسب ہدایت کشتی نوح بڑے غور سے پڑھی.مگر اعتراف کرتی ہوں کہ اچھی طرح سمجھ نہ سکی.باجی مجھے اور ریحانہ کو کم سمجھاتی رہتیں.میں نے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا اور ڈوب کے پڑھا فطری طور پر عبادت کی رغبت تھی.مستقل دعا کرتی کہ یا اللہ سیدھا راستہ دکھا یہی دن تھے جب خدا تعالیٰ نے مجھے پہلی بچی شاہین سے نوازا.شاہین دوماہ کی تھی جب ایک دن میں نے بیعت کا خط لکھا اور یاد داشت سے جس پتہ پر بابا احمدی بھائیوں کو خط لکھتے تھے ، لکھ کر ڈال دیا.چند دن گزرے تھے کہ نوکر
نے آکر بتایا.دو برقعہ والی عورتیں آئی ہیں کچھ جھکتے ہوئے بلا کر بٹھایا وہ بے تکلفی سے صوفہ پر تشریف فرما ہوئیں اور میرا ہی لکھا ہوا خط دکھا کر پوچھا." آپ ہی رفیعہ سلطانہ ہیں" میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا.ہمارے گھر تشریف لانے والی احمدی بہنیں تھیں.یہ محترم صدیق بانی صاحب کی اہلیہ آپا زبیدہ صاحبہ اور ان کی بھابھی تھیں.وہ ہمارے حالات سے اچھی طرح باخبر تھیں خوب کھل کر باتیں ہوئیں.انہوں نے مشورہ دیا کہ ابھی اور مطالعہ کروں.پھر بیعت کروں.انہوں نے رابطہ کا وعدہ کیا اور حسب وعدہ میرے گھر نور کا دریا بہنے لگا الفضل حضرت مسیح پاک کی کتب، ان کی بیٹی چپکے سے لا کر دے دیتی اور میں ایک دن میں پڑھ جاتی.کسی کو خبر نہ تھی میں کسی عالم سے گزر رہی ہوں.باجی عائشہ سے رابطہ تھا.خاکسار رفیعہ سلطانہ کچھ اہمیت نہیں رکھتی کہ اپنے قبول احمدیت کے واقعات قلمبند کروں اور قارئین کرام کا قیمتی وقت لوں مگر صرف اس خیال سے کہ بابا کی دعاؤں کا دھارا کہاں تک بہتا رہا.میں یہ حالات ضرور لکھوں گی کہ کس طرح ہم بہنوں اور پھر ہمارے شوہروں کو جو بابا کے درخت کی شاخیں ہیں احمدیت سے پیوستگی نصیب ہوئی میں نے ذکر کیا تھا کہ باجی عائشہ کو ہم سے زیادہ احمدیت کے عقائد کا علم تھا.بابا قبولیت احمدیت کے بعد اپنی حیات میں اکثر بیمار رہے حسیں حد تک وہ ہم میں ایمان کو راسخ کر سکے وہ بتاتے رہتے.عقائد اور دلائل کا علم مطالعہ سے ہوا.ایک دفعہ باجی کے نوکر کو ہسپتال داخل ہونا پڑا.اس نے وہاں سے باجی کو خط لکھوا کر ڈالا.باجی نے خط کھولا تو اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم - وعلى عبد المسیح الموعود لکھا تھا.باجی ہسپتال گئیں اور
١٠١ نوکر سے پوچھا " تم نے یہ خطا کن صاحب سے لکھوایا تھا ؟ " اس نے ایک بیٹڈ کی طرف اشارہ کر دیا.باجی فوراً ان سے ملیں.ایک دوسرے کا تعارف ہوا.جب انہیں یہ علم ہوا کہ باجی احمدی باپ کی بیٹی ہیں اور بے پردہ ہیں تو منتعجب ہو کر کہا: احمدی باپ کی بیٹی اور اس حال میں.پھر انہوں نے ایک مسجد کا پتہ دیا اور کچھ لٹریچر دیا.اس طرح باجی کے گھر کے دروازے احمدی لٹریچر کے لئے کھل گئے.قادر و توانا خدا نے بابا کی امانت کو ضائع ہونے سے بچا لیا.خدا تعالیٰ نے یہ معجزہ دکھایا کہ ہمیں احمدیت کی گود میں ڈالنے کا غیب سے سامان فرمایا.یہ بھی عجیب تصرف الہی تھا کہ باجی نے ڈھاکہ سے اور میں نے کلکتہ سے ایک ہی وقت میں بیعت کے خطوط لکھے.اب سینیٹے آپا رابعہ نے کیسے احمدیت قبول کی.قربان جاؤں مولا کریم کے یہاں بھی معجزہ ہی ہوا.ایک دن ان کے شوہر عبد الرحیم یونس صاحب نے آکر بتایا کہ ہمارے مکان کے پاس ایک بہت نورانی شکل کے بزرگ مولوی انور صاحب رہتے ہیں.ان کی بیوی کی بہن مسعودہ صاحبہ سے آپا رابعہ کی علیک سلیک ہوگئی.ایک اور خاتون جو پڑوس میں ملنے کے لئے آئی تھیں، نوک والا نقاب پہنے ہوئے تھیں.آیا رابعہ نے پوچھا.آپ احمدی ہیں.وہ نرائن گنج کے صدر جماعت احمدیہ کی بیگم تھیں.آپا رابعہ ان دونوں خواتین سے کتب اور الفضل لے کر پڑھتی رہیں مگر شوہر بہت سخت مزاج تھے حتی کہ ایک دفعہ جمعہ پر جانے کے قصور میں ہاتھ بھی چلایا.پھر یہ دستور ہو گیا.آپا صبر سے برداشت کرتیں.ایک دفعہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ طلاق کی دھمکی دے دی.آپ کو حضرت مسیح موعود کے عشق کے طفیل ہمت عطا ہوئی اور ان کو تبلیغ شروع کر دی عبد الکریم صاحب انور صاحب سے متاثر تھے کبھی بات سن لینے کبھی بگڑ
١٠٢ جاتے اور حضرت مسیح موعود کو گالیاں دیتے جس سے ہنگامہ کھڑا ہو جاتا.وہ گانے سننے کے شوقین اور آپا کو سخت نفرت.اتنا تھا کہ نماز کے پابند تھے اور عورتوں کی بے تحاش آزادی کو بھی ناپسند کرتے تھے اس طرح اندر اندر سے آپ کی باتیں مبیند بھی تھیں.آپا ہر وقت موقع محل دیکھ کر تبلیغ کرتیں.امنی جان کی وفات سے ہمارا اکلوتا بھائی عارف تعلیم جاری نہ رکھ سکا.انٹر تک تعلیم حاصل کر کے پاکستان ریڈیو ہاؤس میں ملازمت کر لی.وہیں ایک کمرے میں رہائش کا انتظام ہوگیا.ذکیہ آپا کو ہم نے نواب پور ڈھاکہ میں ایک اچھے خاندان کے ساتھ Paying guest رکھا.جس گھر میں عارف کو کمرہ ملا وہ ایک احمدی مختار صاحب کی ملکیت تھا.وہاں ایک اور احمدی لڑ کا خورشید سین بھی رہتا تھا.ایک رفیق میسج شیخ صاحب بھی رہتے تھے جو عارف کے لئے احمدیت کی تعلیم کا ذریعہ بنے رہے.خورشید حسین صاحب کے ایک بھائی ہمار خاندان میں واحد احمدی ہوئے.پھر خورشید حسین صاحب احمدی ہوئے.خورشید حسین صاحب سے بعد میں ریحانہ کی شادی ہوئی.آپا جو نشان پورا ہوتا خوب کھول کر بیان کرتیں اور اللہ پاک سے ڈرائیں.زمانہ کی حالت اور مہدی کی ضرورت بھی زیر بحث رہتی.اللہ پاک نے آیا رابعہ کی مدد کی.سیلاب آیا اور گھر نگ پانی آگیا تو دل پر خوف طاری ہوگیا کبھی کبھی جمعے پر جانے لگے.ایک رات خواب میں دیکھا.ایک بزرگ ہیں.ہاتھ میں چھڑی ہے اور ایک نظم پڑھ رہے ہیں جس کا شعر ہے " باب رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا جب تمہارا قادر مطلق خدا ہو جائے گا صبح اُٹھے تو شعر دہرا رہے تھے حالانکہ انہیں علم بھی نہیں تھا کہ یہ حضرت
۱۰۳ خلیفہ المسیح الثانی کا کلام ہے.پھر آپا سے کہا مجھے امام مہدی کی تصویر تو دکھاؤ.آپا خوفزدہ ہو گئیں کہ پھر گالیاں دیں گے مگر ان کی حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی جب تصویر دیکھ کر انہوں نے کہا یہی تو وہ بزرگ ہیں جن کو خواب میں دیکھا تھا.اور زار و قطار رونے لگے.اس کے بعد گالیاں دینا ختم کر دیا.آپ رابعہ کی دعائیں سنی گئیں جمعہ پر بھی جانے لگے.ایک دن جھیوٹ بروکر کی دکان پر بیٹھے تھے کہ ریڈیو پر اعلان ہوا جماعت احمدیہ کے سربراہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد پر چھری سے قاتلانہ حملہ ہوا ہے.وہیں سے انجمن دوڑے کہ کہیں مصلح موعود کی بیعت سے محروم نہ ہو جاؤں اور اس طرح ایک پتھر دل آپا رابعہ کے آنسوؤں سے موم ہوا الحمد للہ موم ہوا تو ایسا ریشم کا سانرم کہ ہر وقت دین کا پر چار.نظم اچھی کہتے تھے اور خوب سناتے تھے.آپا رابعہ نے ڈھاکہ میں احمد ہی بچوں کی تعلیم کے لئے کوشش کر کے ایک سکول شروع کیا اء میں اس سکول کی تعلیم کی ابتدا ہوئی.آپا رابعہ نے لجنہ کی بھی بہت خدمت کی.دس سال صدر رہیں.اس کے علاوہ بڑی اماں کے خاندان کو مسلسل دعوت الی اللہ دیتی رہیں.ایک دفعہ تو یہ بھی ہوا کہ پڑوس کی مخالف عورتیں بھی شامل ہوگئیں اور یات گستاخی تک پہنچ گئی خرافات بکنے کے بعد ایک عورت نے کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے کہا " اسے خدا اگر مہدی سچے ہیں تو اس گھر کی چھت گر جائے “ ستائیسویں دن محمد بھائی کو صبح ہارٹ اٹیک ہوا.اور آنا فانا ختم ہو گئے.سب لوگوں نے تسلیم کیا کہ واقعی چھت گر گئی مگر ہدایت تو اللہ کے حکم سے آتی ہے.آپا زکیہ کا کہنا تھا کہ وہ بابا کی زندگی میں ہی احمدی ہو گئی تھیں.کتابیں اور الفضل انہیں دکانوں سے منگوا کر پڑھنی تھیں جہاں سے بابا منگواتے تھے.ریحانہ اور آپا نہ کیہ کو مولوی سلیم صاحب
۱۰۴ کے گھر لے گئی اور اس طرح ہم پانچوں بہنیں با قاعدہ طور پر احمدیت میں داخیل ہو گئیں.الحمد للہ علی ذالک.عارف اکلوتا بھائی اس وقت چودہ سال کا تھا زیرتعلیم تعلم تھا.آپ از کنید کی پریشانی سب کو لاحق رہتی.بڑی صابرٹ کر بہن تھیں.احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے ہی بابا کے احمدی ہونے سے ہم ایک طرح پیدائشی احمدی تھے اور وہ جذبہ اور قوت جو احمدیوں کا طرہ امتیاز ہے ہم میں بھی تھی مگر حالات کی وجہ سے ہم خاموش احمدی تھے.اب جب علی الاعلان احمدی ہوئے تو دل میں کروٹیں لیتا یہ شوق بڑھنے لگا کہ ہم بھی احمدیت کی ترقی کے لئے کام کریں.ایک تو خود بخود لوگ ہمارے وجود سے متاثر ہونے لگے پھر اللہ پاک نے معاشی لحاظ سے بھی بہتر کر دیا اس طرح ہماری بات بھی سنی جانے لگی محمد صاحب کے بھائی عبد اللہ بھیا کا کھلنا پورٹ پر منتقل ہونے کے بعد کاروبار خوب ترقی کرنے لگا.ہم عبداللہ بھیا والے مکان میں چلے گئے.یہاں معمول تھا کہ اتوار کے اتوار سب رشتہ دار خضر پور میں جمع ہوتے جن میں شدید معاند عبدالکریم اور ان کی بیگم تھے.ایک دن کسی اعتراض کے جواب میں قرآن پاک منگوا کر حوالہ دیا تو بیگم عبد الکریم نے قرآن پاک اٹھا کر میز پر پٹخ دیا کہ یہ تو تمہارا قرآن مجید ہے اس پر بہت غیرت آئی خون کھول گیا مگر اندر ہی اندر خدا تعالیٰ نے طاقت دی اور میں نے بڑے ضبط او تحمل سے ، مگر بڑی قطعیت سے احمدیت کے حق میں دلائل دیئے.وہ سب لاجواب ہو گئے اور میرے میاں محمد صاحب بھی خوش ہوئے.اب ان کا وہ حربہ کام آیا کہ محمد صاحب سے میرا نکاح ختم ہو گیا.مگر محمد صاحب نے پرواہ نہ کی اور کچھ نہ کچھ احمدیت کا مطالعہ شروع کیا.عبدالکریم صاحب نے مخالفت کو گندا رخ دیا اور حضرت مسیح موعود کی ذات پر حملے کرنے لگے.ان کی زندگی کو بھی اور وفات کو بھی نشانہ بنایا.ایک روزہ دل ایسا جلا کہ منہ سے نکلا.
1.0 دیکھنا اس کی موت غسلخانہ میں ہوگی " یہ بات 1954ء میں میرے منہ سے " نکلی تھی مگر خدا کی شان کہ سترہ اٹھارہ سال بعد عبد الکریم صاحب کی وفات اس طرح ہوئی کہ غسلخانہ گئے.جب نہ نکلے تو دروازہ توڑا گیا اور اندر سے لاش نکلی سینکڑوں لوگوں کی زبان پر تھا.یونس عثمان کا بھتیجا عبد الکریم مسلمانہ میں بند مر گیا اور دروازہ اندر سے لاک ہونے کی وجہ سے بہت مشہوری ہوئی.فاعتبروا يا أولى الابصار.اب ہم کو فکر تھی کہ کسی طرح اپنے اپنے شوہروں کو بھی پر امن دائرہ احمدیت میں لانے کی کوشش کریں.1990ء تک جب میرا دوسرا بیٹا اعجاز احمد پیدا ہوا حالات کچھ اس طرح تھے کہ خاندان ہندوستان اور کاروبارکھلنا میں ہوتے کی وجہ سے محمد صاحب کا ایک پاؤں کھلنا میں ہوتا تو ایک کلکتہ ہیں.کھلنا میں کاروبار جم جانے سے بھیا وہاں عیش و عشرت میں کھو گئے اور ہمیں پاکستان لانے کی فکر نہ کی.میں نے ہمت کی اور باجی کو ڈھاکہ میں خط اور فون سے آمادہ کر لیا کہ ہم قادیان اور ربوہ کی مقدس بستیاں دیکھنے چلیں.اس طرح ہمارے شوہروں کو بھی احمدیت کی صداقت کا علم ہوگا.میں نے احمدی بھائیوں منشی شمس الدین صاحب اور سلیم صاحب سے فون پر گزارش کی کہ میرے شوہر کو آہستہ آہستہ پیار ومحبت کے تعلقات بڑھا کر احمدیت کی تعلیم دیں.احمدیت کے تعلقات حقیقی رشتوں سے بڑھ کر ہو گئے.ہمیں خدا تعالیٰ نے بہت پیار کرنے والے ساتھی دیئے محترمہ آپا نمیره بیگم صاجزادہ مرزا ظفر احمد صاحب، میجر اسماعیل صاحب نرائن گنج میں ابوالہاشم کی بیٹی مسعودہ صاحبہ ، بھائی النصر صاحب ، مومنہ آپا صاحبہ، آمنہ آپا صاحبہ اور بہت سی دوسری بہنیں جو دلداری کرتیں اور بہنا یا ہو گیا.شاہ میں باجی اور عظیم بھائی ربوہ گئے مگر میں نہ جاسکی.ربوہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی
1.4 سے ملاقات کا وقت لیا گیا.عظیم بھیا نے مصافحہ کے لئے حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے.پھر وہ ہاتھ تا حیات اس مقدس ہاتھ کے مس سے بیعت کا ہا تخذ بن گیا.ہے جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار عظیم بھیا نے ہمارا اس وقت ساتھ دیا تھا جب اور کوئی ہمارا حمائتی نہ تھا.بابا کی خدمت کر کے دعائیں لی تھیں پھر امی کی آخری وقت تک خدمت کی تھی.آیا زکیہ ریحانہ اور عارف کی سرپرستی باپ بن کر کی تھی عہد بہت بھی پوری دنا سے نبھایا.باجی اور بھیا کھلے بندوں دعوت الی اللہ کا کام کرتے تھے.اب وہ اس دنیا میں نہیں.خدا تعالیٰ ہمارے دل کی دعائیں قبول فرمائے اور انہیں اجریم بر عظیم عطا فرماتا چلا جائے.آمین.اگر میں باجی کے ساتھ ربوہ چلی جاتی تو بہت مشکل پیش آتی کیونکہ ہم احمدی تو تھے مگر کاروباری تعلقات میں مکس پارٹیاں اور دعوتیں چلتی تھیں باجی نے آکر جو نظارہ بنایا اس سے اپنی اصلاح کی طرف توجہ ہوئی جینا کانگ میں ہماری مسجد چوک بازار میں تھی.میں جمعہ وغیرہ میں ضرور جاتی سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب کے داماد محمودالحسن صاحب اور مریم صاحبہ بیگم داؤد کی مہر بانی کہ گاڑی بھیج دیتے.مسجد کے قریب بڑی اماں کا مکان تھا.وہاں جاتے اور خاندان کے افراد کو خوب دعوت الی اللہ دیتے.محمد صاحب سب جانتے تھے میرا جمعہ اور اجلاسوں میں جانا.چندہ دینا کسی چیز سے اختلاف نہ تھا.اختلاف تھا تو پردہ سے.بڑی سختی سے کہتے کہ تم کبھی سوچنا بھی نہیں کہ پردہ کرو گی.ایک یہ مسئلہ تھا.دوسرا مسئلہ کاروبار کا آپڑا کہ پاکستان میں کاروبار خوب ترقی پر تھا جبکہ کلکتہ می ماند پڑگیا.اس موقعہ پر مریم بہن نے سگی بہنوں سے بڑھ کر سلوک کیا اور بڑے بھیا کو سمجھایا
1.6 کہ ان کو بھی پاکستان بلالو مریم بہن نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا اس کی مثال نہیں ہے.الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا.اللہ پاک جزائے خیر عطا کرے آمین خاندان والوں نے سوچا ہوگا عزت ذلت ان کے ہاتخذ ہے مگر مولیٰ کریم نے ہم کو عزت بھی دی اور ان کو دکھایا بھی کہ جو خدا کی خاطر ذات دیئے جاتے میں انہیں خدا تعالیٰ کیسے اعزاز سے نوازتا ہے.مریم بہن کے توجہ دلانے سے کلکتہ میں الیاس صاحب کی کمپنی کی برانچ کا ڈائرکٹر محمد صاحب کو بنا دیا گیا.اس طرح مالی کشائش ہو گئی اور چٹا گانگ کے کرم فرماؤں میں وہاں کے کمشنر صاحب اور رحمت اللہ باجوہ صاحب ، انور کا ہوں صاحب ، ڈاکٹر حمید صاحب کی فیمیلیز نفتیں اللہ تعالیٰ کا ایک احسان یہ بھی ہوا کہ عبد الکریم صاحب کے بیٹوں کی دوستی جنرل اختر حسن ملک صاحب سے ہو گئی.اس طرح احمدیت میں اللہ پاک کی دی ہوئی عزت کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے.کے آغاز میں کلکتہ میں آئے دن ہندو مسلم فسادات ہونے کی وجہ سے مکان تبدیل کرنا پڑا.اب جو مکان ملاوہ پارک سرکس میں تھا.پارک، سرکس میں جماعت کی مسجد بھی تھی جس سے ہمیں بہت سہولت ہو گئی اور بچے بھی مسجد میں آنے جانے لگے.برقعہ پہنے پر بحث جاری رہتی.آپا زبیدہ صاحبہ کہیں دعا کرو اور صبر کرو.اللہ مدد کرے گا.چھوٹی بہن ریحانہ نے بی اے بی ٹی کر لیا.بغیر احمدیوں کے رشتے آئے مگر اس نے خود فیصلہ کیا کہ شادی ہوگی تو احمدیوں میں ہوگی چنانچہ اللہ پاک نے ہماری مدد کی اور احمدیوں کی معاونت سے خورشید حسین صاحب سے اس کی شادی ہوگئی.محمد صاحب کی کمپنی میں بڑے بڑے انقلاب آئے.سازشیں ہوئیں آپس
۱۰۸ میں تفرقے پڑے ہیں تو صرف خدا کے آگے جھکی رہتی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ڈھا کے لئے خط لکھتی رہی.جب خاندان میں جھگڑا ہے اور حق تلفیاں ہوں تو چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بڑھنے لگتی ہیں.سچ جھوٹ سرب مل جاتا ہے.ایسے ایسے تکلیف کے موقعے بھی آئے کہ تڑپ تڑپ کر خدا تعالیٰ سے مدد مانگی.مگر یہ سچ کا پاک ایمن چھوڑا نہ کسی اور کے آگے جھکے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ خود بریت کے سامان کئے.انہی دنوں بھیا شدید بیمار ہو گئے.اپنڈکس کا درد اٹھا تھا مگر شوگر کی وجہ سے پیچیدگی ہوگئی.بے ہوش ہو ہو جاتے.سارا خاندان جمع تھا.اس بے ہوشی میں بڑبڑاتے ہیں نے محمد کا خاندان کیوں چھوڑا.اس کا کیا بنے گا.اور اس دکھ میں بے چارے رخصت ہوئے.پانچ جنوری کو بھیا کی وفات ہوئی.پورٹ کے جہازوں کی کمپنی کے سربراہ تھے.لوگ ہجوم در ہجوم آرہے تھے جہاز چارٹر کر کے جنازہ چٹا گانگ لے کر گئے تو وہاں بھی ائر پورٹ پر حد نظر تک سری سر نظر آرہے تھے.ان کا دنیا سے جانا بھی عجیب عبرت انگیز منظر تھا.پہاڑ پر بہت بڑا محل بنوایا تھا.باغ لگوایا تھا.فرنیچر بن کر ابھی پہنچا نہیں تھا جس کا جرمنی سے فنشنگ کا سامان آیا تھا محل تک جانے والی سٹرک گھوم گھوم کر جاتی.وہ بھی نامکمل تھی کمپنی کی خدمت کرنے والوں کی قدر نہیں کی مگر خود رہنا نصیب نہ ہوا.الیاس صاحب اور اپنے نام پر بنا ہوا سفید ہاتھی پہاڑی پر رہ گیا.خود چلے گئے.دوسری طرف ان کے سب سے چھوٹے بھائی محمد صاحب کو اللہ نے یہ توفیق دی کہ اپنی کمائی سے چندہ دیں.کلکتہ کی مسجد میں کافی چندہ دیا.اس کا سنگِ بنیاد رکھتے وقت حضرت مرزا وسیم احمد صاحب قادیان سے آئے تھے ہمیں عید سے زیادہ خوشی ہوئی تھی.میرے بیٹے بھی شریک ہوئے تھے.یہ عجیب دن تھے آپا رابعہ کے گھر اکٹھے ہوتے.حضرت مسیح موعود کی باتیں ہوتیں بچے نظمیں یاد کرتے بھائی
1.9 عبد الرحیم یونس صاحب اپنی نظمیں سناتے.یہ روح پرور محفلیں دلی سکون عطا کرتیں جبکہ اُدھر دسواں، بیسواں ، چالیسواں ہو رہے تھے.بھیا کی وفات کے بعد جائداد اور کاروبار کے لئے جو میٹنگ ہوئی اس میں دشمن جان عبد الکریم صاب بھی تھے.پھر اللہ پاک نے دُعا کا موقع دیا.نوری صاحب میٹنگ میں تھے کہ اچانک دل کا دورہ پڑا اور دس منٹ میں انتقال ہو گیا.گھر میں کہرام مچا ہوا تھا.آج میٹنگ تو ہماری قسمت کے فیصلہ کے لئے ہو رہی تھی وہ تو پیچ ہی میں رہا.اتنے میں آپا رابعہ مجھے بلا کر ایک جگہ لے گئیں اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تمہارے لئے بہت دُعا کی تھی.مجھے سجدہ میں سامنے آلیس الله بكَانِ عَبدہ لکھا نظر آیا.وہیں میں نے لکھ دیا یہ دیکھو.اور ہر طرح اللہ قادر و توانا کی رحمت پر نظر یہ کھو.اس اثناء میں احمد بھائی (جو افسوس کے لئے کلکتہ سے آئے تھے کے بچے کو سر میں پتھر لگا.شدید چوٹ آئی.بچہ خون خون ہو گیا.میں نے الگ کھڑے ہو کر اللہ پاک سے دعا کی ہم نے سب معاف کیا.اس گھر کی سزائیں معاف کر دے شکر ہے بچہ بچ گیا.ہمیں تو ان کی سزا سے دلچسپی نہ تھی.ان کی ہدایت کی خواہش تھی اور اس کے لئے دُعا کر رہے تھے.محمد صاحب جہاز میں کام کرتے تھے تو ان کا ایک ماتحت تھا مظاہر حسین بہت محنتی اور وفادار.اسی وجہ سے محمد صاحب سے اس کی اچھی بنتی تھی.اس نے بہت ترقی کی اور کلکتہ میں ایک کمپنی خرید لی.افسوس کے لئے آئے اور محمد صاحب سے مدد کا وعدہ کیا.وہ دن عجیب خوف کے دن تھے ایسے لگتا تھا اللہ پاک ناراض ہو گیا ہے.چٹا گانگ میں ماسی ماں کا انتقال ہوا.ابوبکر دہو نوری صاحب کے بہنوئی تھے) قبرستان میں گر گئے اور شدید بیمار ہو گئے کمپنی کے مستقبل کے لئے سب بھائیوں کی میٹنگ ہوئی اور خسارے میں چلنے والی یہ کمپنی مظاہر حسین صاحب نے خرید لی.
۱۱۰ جو اس کمپنی میں کبھی دو سو روپے کا ملازم تحفہ ہمیں اس موقع پر بھی دعاؤں کا خوب موقع ملا.ایک کمرے میں ہم باجماعت نماز ادا کرتے.آپا رابعہ ان دنوں قادیان جانے کے لئے کلکتہ آئی ہوئی تھیں.ہم سب فیصلے کے بہتر ہونے کے لئے دعا کرتے.خدا تعالیٰ نے ہمیشہ ساتھ دیا تھا.فیصلہ کے بعد سرب سے زیادہ جس کا مستقبل خطرہ میں تھا وہ محمد صاحب تھے.کیونکہ باقی سب بھائی پاکستان میں قدم جما چکے تھے.مگر ہوا یہ کہ سب کے جانے کے بعد جب ابو بکر صاحب کو یورپ روانہ کر کے واپس آئے تو مظاہر حسین صاحب کے حکم سے محمد صاحب کو بڑی گاڑی بھیجی گئی اور ملازم کو کہا گیا کہ ہماری گاڑی ورک شاپ پر دے آئے.اب محسوس ہوا کہ ہمارا خدا ہمارے کس قدر قریب ہے.کیسا معجزہ کیسا پیار کیسی مدد اس گناہگار کی قادر و توانا خدا نے کی کہ دنیا کے بندوں کو کبھی سمجھ نہیں آسکتی.ہم مادی آنکھوں سے جو کچھ دیکھتے ہیں اس سے لاکھوں گنا زیادہ دل کی آنکھوں سے نظر آرہا تھا.آج بھی خُدا کے قرب کی لذت محسوس ہو رہی ہے.کسمپرسی میں جب بندے ٹھکرا کر یہ سمجھیں کہ بندہ بے یارو مددگار ہو گیا ہے تو خدا تعالی پیار سے قریب آکر ہا تھ تھام لیتا ہے.محمد صاحب کے بھائیوں کا اس رقم پر بڑا جھگڑا ہوا جو کمپنی فروخت کر کے ملی تھی جبکہ محمد صاحب کا حصہ بہکا ہی نہیں تھا.وہ تو ہندوستان ہی میں تھے.کمپنی کے فروخت ہونے پر احمد صاحب کو علم ہوا کہ محمد صاحب کا حصہ فروخت ہوانہ نوکری گئی.بہت برا فروختہ ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے چھٹکارے کے لئے یہ سامان کیا.الحمد للہ 194ء میں ہم نے مولوی سلیم صاحب کے مشورہ سے قادیان اور ریوہ جانے کا پروگرام بنایا.مسرجن جن کے والد محترم سیٹھ عبداللہ الدین صاحب کا
۱۱۱ جنازہ قادیان آرہا تھا ہماری شریک سفر تھیں ہم قادیان کی مبارک سستی کی خاک پر آنکھیں بچھاتے حضرت میاں وسیم احمد صاحب کے ہاں پہنچے جن کے ہم مہمان تھے.ہمیں حضرت قمر الا نبیا ء کے مکان میں ٹھہرایا گیا.میں نے دعا کے ہر موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور محمد صاحب کے قبول احمدیت کے لئے دعا کی بزرگوں سے بھی درخواست کی سب نے تسلی دی کہ محمد صاحب انشاء اللہ ضرور احمدیت میں داخل ہوں گے.وہاں میری ملاقات محمود احمد قریشی صاحب اور ان کی بیگم آمنہ صاحبہ سے ہوئی.ان کے ساتھ لاہور اور پھر ربوہ پہنچے.اس سرزمین کے عشق میں بڑی دعائیں کی تھیں.حضرت چوہدری سر محمدظفر اللہ خاں صاحب کی کو بھی میں ٹھہرائے گئے جضرت خلیفہ المسیح الثانی ان دنوں علیل تھے.خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم نے اس ہستی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.پھر حضرت تمر الا نبیاء مرزا بشیر احمد صاحب سے ملاقات ہوئی اور میں نے پھر وہی دعا کی درخواست کی کہ محمد صاحب احمدی ہو جائیں.آپ نے تسلی دی اور فرمایا.جس نام کے آگے محمد اور پیچھے محمد ہے وہ ضائع نہیں ہو گا.“ خاندان مبارکہ کی مبارک خواتین سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.برفعہ میں نے وہاں منگوا کر کچھ وقت کے لئے پہن لیا تھا.ان دنوں ریحانہ ربوہ ہمیں میں جو نیٹر ماڈل سکول میں مس ستار کے نام سے کالج کی پرنسپل کے فرائض سر انجام دے رہی تھی.اس کی وجہ سے بھی ربوہ میں بہت عزت ملی.ریحانہ کو مبارک خاندان کے بہت سارے بچوں کو پڑھانے کا شرف حاصل ہوا.جب ریحانہ ربوہ سے رخصت ہوئی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے الیس الله بکاف عَبْدَہ کی انگوٹھی اپنے پاس جو ہیں گھنٹے رکھ کر دُعا کر کے تحفہ میں دی.تھی.ریحانہ کو یہ سعادت ملی کہ اس کے بابا جان عبد الستار صاحب جس مہنتی کے عاشق
۱۱۲ تھے ان کے قریب رہی.کبھی جواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ جن کو چھپ چھپ کے خط لکھتے تھے ان کی بستی میں رہیں گے.شاید پڑھنے والوں کو محسوس ہو کہ میری کہانی طویل ہوتی جارہی ہے مگر مجھے تو یہ بتانا مقصود ہے کہ بابا کی دعاؤں سے کس طرح خاندان احمدیت سے وابستہ ہوتا گیا اس لئے نہایت اختصار سے بات کو آگے بڑھا رہی ہوں اگر سب واقعات لکھنے لگوں تو یہ الف لیلی کبھی ختم نہ ہو.اب سینیئے ایک رات محمد صاحب نے صبح کے وقت خواب میں دیکھا کہ ہر طرف قیامت خیز آفات ہیں.وہ بھاگ رہے ہیں مگر کہیں پناہ نہیں ہے.اسی گھبراہٹ میں یکایک ایک سبز رنگ کا دروازہ سامنے آتا ہے محمد صاحب گھٹنے کے بل بیٹھ کر اس میں حضرت مسیح موعود کا نام لکھتے ہیں کہ دروازہ کھل جاتا ہے.دروازے کے دوسری طرف بڑی اماں کے بیٹے مرحوم محمد بھائی ہیں.اُن سے دریافت کرتے ہیں." آپ اس طرف ہیں.بتائیے کیا احمدیت پیجتی ہے ؟ محمد صاحب کو ان کا جواب تو سمجھ نہیں آیا.مگر وہ فقیروں کی طرح ان کو لے جاتے ہیں.مجھے تو خواب کا یہی مفہوم سمجھ میں آیا کہ اگر احمدیت کے دروازے میں داخل نہ ہوئے تو آفات کا مقابلہ ہوگا.اس خواب کے ساتھ ہی پاکستان منتقلی کے کا غذات میں رکاوٹ پڑنے لگی تو محمد صاحب کو خدا کا خوف محسوس ہوا.اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انہوں نے بیعت کا خط لکھ دیا اور اس میں سب بچوں کو بھی شامل کیا.مولوی سلیم صاحب ، شمس الدین صاحب اور آپا زبیدہ صاحبہ کے خاندان والوں نے مٹھائی منگوائی اور بہت خوشی کا اظہار کیا.الحمد للہ.194ء میں کلکتہ میں زبر دست فساد ہوا.آپا رابعہ بچوں کے ساتھ ہمارے گھر آئی ہوئی تھیں.ایک وقت تو فسادیوں نے پورے گھر کو گھیر لیا تھا جلتی تک
١١٣ جان آگئی منفی.اللہ پاک نے مدد کی اور وہاں سے چھپتے چھپاتے نکل کر جانیں بچیں.ان سب حالات کو دیکھ کر جون ۱۹۶۴ء میں منظاہر حسین صاحب نے کمپنی فروخت کردی.بیعت کی منظوری کا خط ۶۴ - ۷ - ۳۱ کو موصول ہوا.ہماری پاکستان جانے کی اپیل منظور ہوئی تو احمد بھائی نے آخری حربہ کے طور پر تنگ کرنے کی اسکیم بنائی اور ہر طرف مشہور کیا کہ محمد صاحب کو ان کے تو ہزار روپے ادا کرنے ہیں.انکم ٹیکس آفیسر کو بھی کہ دیا تا کہ کلیرنس نہ دے مگر خدا کے معجزہ نے مدد کی اور کلیرنس دے دی میں نے سارا سامان فروخت کیا.ملک پور میں والد کا مکان فروخت کیا اور چپکے چپکے تیاری کرلی.کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور معمولاً سب کام کرتے ہوئے خاموشی سے اٹھے اور ہوائی جہاز سے بحفاظت ڈھا کہ پاکستان پہنچ گئے.محمد صاحب کو کھلنا میں جاب ملا خوشی خوشی فرنیچر، پردوں کا آرڈر دینے لگے مگر میرا د معیان تو اس طرف لگا تھا کہ کہیں احمدیت کا قرب نصیب کرے.ایک ملال برابر بے چین رکھتا کہ پردہ کرنے کی کوئی صورت نہیں بنی تھی.آئے دن بڑی بڑی دعوتیں ہوتیں.میں نے تنگ آکر ڈھاکہ رہنے کا فیصلہ کیا.جماعت کے ساتھ وابستگی میتر آئی اور اس معاہدے پر پردہ کی اجازت مل گئی کہ جب محمد صاحب آئیں گے تو بغیر برقعہ اور باقی وقت برقعہ خیر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی دعاؤں سے یہ بھی میستر آیا.سات سال اسی طرح گزرے.میری بچی شاہین میری مشیر اور دوست متھی.بڑی سعید فطرت ، اطاعت گزار.ذہین اور نیک.سچے خواب دیکھتی.بڑا پٹیا CA کر رہا تھا.باہر سے گھر آکر بتاتا کہ بنگال کے حالات کا رخ علیحدگی کی طرف جا رہا ہے.یہاں سے نکل جانا چاہیئے.ہر وقت خطرات سر پر منڈلاتے رہتے.اچانک مجھے شدید بیماری کا سامنا کرنا پڑا.ڈاکٹروں کا خیال تھا بریسٹ کینسر ہے.مگر
۱۱۴ کینسر نہیں تھا.پھر بھی بڑا آپریشن کروانا پڑا.حالات کی سنگینی کی وجہ سے کنٹونمنٹ میں کرایہ کا گھر لیا.یہاں میجر منظور صاحب ان کی اہلیہ اور بیٹی زجانہ سے بہت دوستی ہوئی کافی رشتہ دار ہمارے یہاں جمع ہو گئے.احمد بھائی کے خاندان کو خود جا کر لائے.احمد بھائی کلکتہ میں ہی تھے.کراچی آئے تو محمد صاحب سے پاؤں پکڑ کر معافی مانگی ہمیں میجر منظور صاحب نے بروقت نوٹس دیا کہ فوراً کراچی چلے جائیں.آہستہ آہستہ سب رشتہ دار کراچی پہنچے.ہم ایک دفعہ پھر خالی ہاتھ تھے مگر اللہ پاک پر بھروسہ کی دولت ساتھ تھی.ایک بنگالی نوکر کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہوگی.آپا رابعہ کا نوکر تھا.کمرے میں باہر تالا ڈال دیا اور تختے کے نیچے چھپے رہے.اس طرح جانیں بچ گئیں.وہ بدھسٹ تھا.احمدی ہوا اور ہمارے خاندان کے فرد کی طرح رہتا تھا.احمدیوں میں شادی ہوئی.باجی عائشہ اور عظیم بھائی کا یہ ہوا کہ سقوط ڈھاکہ سے کچھ دن پہلے عظیم بھیا ہارٹ فیل سے وفات پاگئے.ان پر اللہ کا احسان ہوا کہ ربوہ لانے کے سامان عیب سے ہو گئے.باقاعدہ چندہ دیتے تھے اور بہت کچھ جماعت کو دینے کی وصیت کر رکھی تھی.ہمارے خاندان کے ایک فرد کو ریوہ میں تدفین نصیب ہوئی پہر ایسے موقع پر بابا اور اتاں کی قربانیاں بہت یاد آتیں.پھر ڈھا کہ خالی ہوا.ایسا صدمہ ہوا کہ بیان سے باہر ہے.کراچی میں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا.شاہین سینٹ جوزف کالج میں داخل ہوئی.اچانک بیمار ہوئی ہیں سال کی عمر تھی.پکی نمازی تھی.آخری نماز اس طرح پڑھی کہ گلوکوز لگا ہوا تھا.اس بچی کو موت کی طرف اشارہ کرنے والے خواب آرہے تھے.میں ان کی تعبیر شادی کی کرتی.شادی کی تیاری ہو رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصتی کا پیغام آگیا.وہ جنت کی حور رخصت ہوگئی.انا للہ
دار و انا الیه راجعون ، آیا نصیرہ بیگم صاحبہ نے اعلان کر دیا کہ سب رشتہ دار غیر احمدی ہیں اس لئے احمدی احباب جنازہ میں شامل ہوں.ہماری احمدی برادری ایسی کھڑی ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے آگے شکر کے لئے جبیں سجدہ ریز ہوگئی.کلکتہ اور قادیان میں غائبانہ نماز جنازہ ہوئی حضور پر نور نے خاص دعاؤں سے نوازا.اللہ کی رضا میں راضی ہیں : مستقل رہنا ہے لازم اسے بیشتر تجھ کو سدا رنج و غم یاس و الم فکر و بلا کے سامنے میرے آنسو خود نخود درج ذیل اشعار میں ڈھل گئے.دین کی خدمت رہی شاہین کے پیش نظر کی بزرگوں کی اطاعت دلنشیں انداز میں اب فضائے خلد میں پرواز ہے شاہین کی کرگئی کے فضل حق سے ایک ہی پرواز میں چند ماه بعد غمزده آیا زکیہ بھی رخصت ہوگئیں.بڑی دکھی زندگی گزاری.رائم المرض نفیس مسعود آباد کراچی میں انتقال ہوا.خاندان کے کچھ افراد جنگی قیدی ہو گئے تھے.اس لئے کسی کو جلدی کسی کو دیر سے اطلاع ملی....خاندان میں خوشی غمی کے مواقع تو آتے ہی رہے.آپا رابعہ کو دل کا عارضہ ہو گیا.ہماری آیا رابعہ نے بڑے سرد گرم حالات دیکھے مگر صبر وشکر سے گزارا کیا.ایک دفعہ انہوں نے مجھے بتایا کہ کراچی میں خرچ کی اتنی دقت تھی ۳۰۰ روپے ماہوا پر گزارہ تھا جس میں 9 روپے مکان کا کرایہ تھا.ایک موقع ایسا آیا کہ دکان والے نے ادھار بھی بند کر دیا.مہینے کی آخری تاریخیں تھیں.گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا.رو رو کر اللہ پاک سے دعا کی کہ رازق خدا آج ہم بھو کے سوئیں گے.
114 اتنے میں پڑوسن نے دیوار پر سے آواز دے کر کہا.آیا یہ دس روپے رکھ لو.پہلی کے بعد بازار جانا تو مجھے دو پیٹر لا دیا.وہ دس روپے اللہ پاک نے عطا کئے تھے.وہ فریادوں کو سننے والا ہے اور قدم قدم پر مدد فرماتا ہے.آج آپا رابعہ کی اولاد بہت اعزاز اور کشائش سے رہ رہی ہے.یہ سب ان کی قربانیوں کا پھل ہے.اللہ پاک کا خاص احسان کہ ہمارے اکلوتے بھائی عارف نے اعلیٰ تعلیم پائی.فلپس کمپنی میں اچھی نوکری مل گئی.اس کی شادی میں صبیحہ کی کوششوں کا دخل تھا.بفضل خدا نیک خاندان مل گیا.حضرت قدرت اللہ سنوری کے بیٹے محمود صاحب کی بیگم کی بھانجی چوہدری فتح محمد صاحب کی نواسی شمیم " سے اس کا رشتہ طے ہو گیا.شمیم کے پرنانا خود حکیم کرم الہی صاحب تین سو تیرہ رفقائے مسیح موعود میں سے تھے.آپا رابعہ کی بیٹی رضوانہ کی شادی ابوالہاشم خان صاحب کی بیٹی آمنہ آیا کے بیٹے ضیاء سے ہوئی.عارف کی شادی کے لئے محمد صاحب اور خاکسار کوئٹہ گئے اور بڑے اہتمام سے اپنے بابا کی نشانی کی شادی ولیمہ کیا.عارف نے بہت ترقی کی فلپس میں جنرل مینجر سیلز کی پوسٹ پر ہے.اب ماشاء اللہ تین بیٹے ہیں.دو امریکہ انجینئرنگ میں ماسٹرز کر رہے ہیں.اللہ پاک نے میرے بابا کی دعاؤں اور امی کے ساڑھیوں کے بارڈر کے ٹانکوں کی محنت کو بڑا رہ نگ لگایا.اگر روحوں کے رابطہ کی کوئی صورت ہو گی تو یقیناً خاندان پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے سے بہت خوش ہوں گے.میرا بیٹا اعجاز امریکہ میں سات سال پڑھ کر آیا.اور اچھا جاب مل گیا.باجی کا بیٹا امجد جنرل کے عہدے تک پہنچ گیا.بھائی عبد الکریم یونس صاحب کے گھر اور ریحانہ خورشید کے گھرانے میں سب نے وصیت کی.آپا رابعہ کا انتقال ہوا تو جنازہ
114 ربوہ لے کر گئے.یہ ہمارے خاندان کی پہلی خاتون تھیں جو بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے نماز جنازہ ادا کی.اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے یوسف کی شادی قادیان کے درویش محترم مولوی عمر علی صاحب کی بیٹی فریدہ سے ہوئی.اللہ تعالیٰ کی حکمت دیکھیں.اس کی مہربانی دیکھیں کہ بابا کی ساری اولاد نہ صرف احمدیت میں شامل ہوئی بلکہ مختلف قومیتوں میں گھل مل گئی.کوئی بنگالی سے بیاہی گئی تو کوئی پنجابی سے.اللہ تعالیٰ نے میمن وجود کو ختم کر کے احمدیت کی ترقی کے لئے کھا دینا دیا.بابا کی شبانہ دعاؤں کی قبولیت کا ہر آن جواب آرہا تھا.جو تکلیفیں اٹھانی پڑیں وہ ان راحتوں کے مقابل پر بیچے ہیں.احمدیت کی برکت ہر لمحہ شامل حال رہی.خدا تعالیٰ کا ایک احسان ہمارے خاندان کے نصیب میں یہ بھی آیا کہ اہ میں اسیرانِ راہِ مولیٰ میں عبد الرحیم یونس بھیا کو اسیری کی سعادت علی اکہتر سال کی عمر تھی اور الزامات میں اسرائیل میں فوجی ٹریننگ لینا بھی شامل تھا.تین سال مقدمہ چلا کراچی منٹل جیل میں ہے گھر والوں کو پولیس تنگ کرتی تھی اس لئے یہ ربوہ منتقل ہو گئے اور اب تک وہیں ہیں.۳۰ جون باید کو ہمیں ایک اور حادثے سے دوچار ہونا پڑا.ہماری محسن اہماری ماں کی طرح محبت کرنے والی.دکھ سکھ کی شریک باجی ڈھاکہ میں وفات پاگئیں.انا لِلهِ وَانَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - موصبہ تھیں.دُعا کی غرض سے بہشتی مقبرہ میں کتبہ لگا.آپا رابعہ کی قبر کے قریب جگہ ملی مسلہ میں میری طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی.محمد صاحب بڑی محنت سے علاج اور تیمارداری کرنے لگے.بقر عید کی تیاری اور لو بلڈ پریشر نے مجھے بالکل نڈھال کر دیا تھا.محمد صاحب نے مجھے چائے بنا کر پلائی.ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے فائل نکال رہی مخفی گھر میں میرے اور محمد صاحب کے علاوہ کوئی نہ تھا.فائل نکال کر لیٹی تو محمد صاحب پر نظر پڑی.زرد رنگ اور دل پر
۱۱۸ ہاتھ تھا.اتنے میں ممتاز داخل ہوا ہسپتال لے کر گئے گھبراہٹ کے عالم میں خُدا تعالیٰ کو یاد کیا اور فریاد کی کہ تو ہی ہمیشہ میرا سہارا رہا ہے اس عارضی سہارے کو قائم رکھنا مگر قضاء و قدر کے آگے میری دعائیں قبول نہ ہوئیں.تقدیر مبرم اپنا کام کر گئی انا للهِ وَرَانَا إِلَيْهِ رَاجِعُون جماعت اور غیر از جماعت میمن قوم کے بہت لوگ آئے.ان کی شرافت کی وجہ سے بہت لوگ ان کے گرویدہ تھے معصوم زندگی گزاری یعقیدے کے اختلاف کے باوجود ہر طرح کی معاونت دی پھر جب احمدی ہو گئے تو ہمیشہ تعاون کیا.لجنہ کا اجلاس ہو یا جلسہ خلیفہ المسح الثالت کے گیسٹ ہاؤس تشریف لانے پر ڈیوٹی ہوتی.لانے لے جانے کا سب کام بشا سے کیا بعض دفعہ لجنہ ہاں لے کر جاتے تو اس وقت تک نیچے بیٹھے رہتے جب تک میں فارغ نہ ہو لیتی.ان کے رشتہ داروں نے ساتھ چھوڑا تھا جو اللہ پاک نے کیسے کیسے بھائی دیئے.حضرت میاں ظفر احمد صاحب اور شریف پانی صاحب سے بھائیوں جیسا پیار ملا حضرت خلیفہ المسیح الثالث بڑی دلجوئی کرتے اور بہت پیار کا سلوک کرتے.اللہ پاک نسلی کے سامان یوں بھی کرتا کہ خوابوں میں پیاری ہستیاں ملتیں.اللہ پاک نے مجھے محمد صاحب کا اچھا انجام بھی دکھایا ہے.ان کی وفات سے پہلے کی بات ہے خواب میں دیکھا کہ حضرت صاحب میرے گھر تشریف لا رہے ہیں.کھڑکی سے گزر کر ڈرائنگ روم میں چلے گئے ہیں اور محمد صاحب کی کرسی پر تشریف فرما ہیں خواب میں ہی اپنی خوش قسمتی کا سوچ کر خوش ہوتی ہوں.پھر نظارہ بدل جاتا ہے.کھانے کے بین کی جگہ خالی تختہ رکھا ہے.کمرہ بھی خالی ہے.کچھ لجنہ کی عورتیں ہیں جن میں ریحانہ بھی ہے.اتنے میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ تشریف لاتی ہیں اور میرا منہ پکڑ کر خوب چومتی ہیں پھر باہر جاتی ہیں اور گاڑی میں بیٹھنے سے
۱۱۹ پہلے مجھے ایک چابی دے کر کہتی ہیں یہ منصور کی دوا پہنچ جائے گی یہ واپسی پر لجند سی عورتیں رشک سے میری طرف دیکھ کر کہتی ہیں کیسی خوش نصیبی ہے تمہاری تمہارے علاوہ کسی کی طرف توجہ ہی نہیں دی چھوٹی آپا نے ہمیں کہتی ہوں " میرا جہاد بھی تو بڑا ہے.ایک طرف غیر احمدی اور ایک طرف احمدیت برابر کا تعلق ہے " یہ خواب میں بھول گئی تھی مگر جب تختے پر محمد صاحب کا جنازہ رکھا گیا تو مجھے یہ سوچ کر تسلی ہوئی کہ اللہ پاک نے ایک طرح میری دلجوئی کی تھی اور مجھے یہ اطمینان دلایا تھا کہ یہ اس کا فیصلہ ہے جس کی رضا پر راضی رہنا میرا ایمان ہے.ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو شوہر کی چھتری کے نیچے زندگی گزار نے والی سب بہنیں جانتی ہوں گی کہ راستہ سے ناواقف تھی مگر گھر کے باہر کے کاموں کی ذمہ داری آپڑی تھی.گھر سے نکلی تو سب سے پہلے قبرستان گئی.شوہر کی قبر پر دعا کی پھر راستہ پوچھتے پوچھتے احمدیہ ہال پہنچی.آپا سلیمہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی سے عاجزانہ درخواست کی کہ مجھے لجنہ کا کوئی کام دیں نہیں دین کی خدمت کرنا چاہتی ہوں.مجھے شعبہ اشاعت میں سیلز کی ڈیوٹی مل گئی.ہر پیر کو ہاں جاتی ہوں اور کام کرتی ہوں 19ء کے شروع میں خواب دیکھا کہ بابا محترم قبر میں اٹھ کر بیٹھے ہیں.میں کہتی ہوں ! بابا آپ کی تو حضرت مسیح موعود سے ملاقات ہوتی ہو گی.آپ میرا اسلام انہیں پہنچا دیجئے " بابانے جو جواب دیا میں سمجھی نہیں.اور خواب کی تعبیر بھی نہیں سمجھی.پھر بابا کے حالات لکھنے شروع کئے تو تعبیر سمجھ آئی کہ قبر میں اٹھ کر بیٹھنا.اُن کا ذکر جاری ہونا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ کام لینا تھا.مجھے کوئی قابلیت نہیں ہے مگر خدا تعالیٰ میری مار کر رہا ہے اور یہ سطور لکھ رہی ہوں.مقصد صرف اپنے والدین کے لئے دعا
۱۲۰ کروانا اور نئی نسل کو بتانا ہے کہ احمدیت کی برکات حاصل کرنے کے لئے جان کی بازی لگا دیں.دُعا ہے کہ میرا انجام بھی بخیر ہو اور اس جہان سے اس وقت خدا تعالیٰ مجھے بلائے جب اس کی رضا کی نظر مجھ پر ہو.اے خُدا تو میری لاج رکھنا مجھ پر رحم کرنا.میرے وارثوں میں، نسلوں میں احمدیت قائم رکھنا.قارئین سے بھی میری گزارش ہے کہ وہ میرے والدین اور میرے خاندان کے لئے دُعا کریں.اے میری آنے والی نسلو ! احمدیت بہت قیمتی نعمت ہے.یہ دُہ خزانہ ہے جس کی حفاظت ضروری ہے جس طرح بابا نے یہ نعمت آپ تک پہنچائی آپ بھی اس کو آگے پہنچانے والے نہیں.اللہ تعالیٰ کے حقیقی پیار کو حاصل کریں.یہ ہماری ذات کی کوئی خوبی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اس نے ہمیں احمدیت سے نوازا.یہ خاص فضل ہے.عنایت ہے.محبت ہے.وفا ہے.پیار ہے.اے خدا ! میری تجھ سے یہ گزارش ہے کہ ہم سب کا انجام بخیر کر ادب جس طرح بابا کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا ہم پر بھی اپنا فضل نازل فرما.ہمارے گناہوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر کے اپنا بنتا ہے.اور ہمارے خلیفہ حضور کو اپنے خاص حفظ وامان میں رکھ اور اپنی محبت عطا کر اور ان کے ہر کام میں مددگار بن اور ہم کو اُن کی اطاعت کی توفیق دے.آمین! - خلافت ایک بیش بہا نعمت ہے.اُن کا قدر دان بنا.اے خدا ہم سب پر رحم کر.آمین اللهم آمین.خاکسار - رفیعه محمد
شجرہ نسب عبدالستار ابراہیم رقیه بیگم عائشہ اہلیہ عظیم میرا بی یہ محمدعلی چوہدری ریا ٹو جنرل مقیم بنگلہ دیش أخير محمد ابن حسنى المحمد مقیم امریکہ میر الحق (B.B.A) عظمی امجد سعدیہ رکیه استار راجہ اہلیہ عبد الرحیم نویس رضوانہ اہلیہ سلطان باسط متاز محمد سطوت ریحانہ اہلیہ خورش در B.A_B.Ed صدیق الرحیم تحسین وسف رحیم رفیعہ اہلیہ محمد اعجاز محمد شاہین مرحومه جنرل منخر امرین انشورنس کمپنی صدف اراده موزشید محمود العارف میریم اسعد
اسے خدا، اے چارہ ساز ہر دل اندونگیں اسے پناہ عاجزاں ، آمرزگار مُذ نہیں از کرم آس بنده خود را، بخشش با نواز وایس جدا افتادگان را، از ترخم بابہ ہیں اسے خدا اسے ہر غمگین دل کے چارہ گر.(درثمین) اسے عاجزوں کی پناہ اور اسے گناہ گاروں کو بخشنے والے اپنے کرم سے اپنے اس بندے کو بخشش سے نواز دے اور ان علیحدہ رہ جانے والوں پر نظر رحمت کر.(امین)