Hamara Ghar Hamari Jannat

Hamara Ghar Hamari Jannat

ہمارا گھر ہماری جنت

خوش و خرم عائلی زندگی گزارنے کے راہنما اصول
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اخلاقیات

Book Content

Page 1

ہمارا گھر ہماری جنت شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

ہمارا گھر ہماری جنت : خوش و خرم عائلی زندگی گزارنے کے راہنما اصول) تالیف عطاء الوحید باجوہ

Page 3

نام کتاب مصنف ہمارا گھر ہماری جنت عطاء الوحید باجوہ اشاعت اول قادیان اپریل 2017 تعداد مطبع ناشر 1000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر واشاعت قادیان 143516 ضلع گورداسپور.پنجاب.انڈیا

Page 4

عرض ناشر خوش و خرم عائلی زندگی گزارنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے رہنما اصول قرآن مجید کے مکمل ضابطہ حیات کی صورت میں دئے ہیں کہ جن پر عمل کر کے انسان عائلی اور معاشرتی زندگی کو جنت نظیر بنا سکتا ہے اور اسکا عملی نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک و پاکیزہ حیات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اس کی مثالیں صحابہ کرام اور اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپکے خلفاء کرام کی زندگیوں میں نظر آتی ہیں مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب نے اپنے اس کتابچہ میں اسکی چیدہ چیدہ بعض مثالیں تحریر کی ہیں جسے پہلی بار مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے شائع کیا ہے.نظارت نشر و اشاعت قادیان انڈیا اسی کتابچہ کو بعض درستیوں کے ساتھ پہلی بار سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور اسکی اشاعت کے سلسلہ میں تعاون کرنے والے افراد کو جزائے خیر عطا فرمائے.اور ہم سب کو عائلی زندگی کا مثالی نمونہ بنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 5

جنت نظیر گھر ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا گھر امن وسکون اور محبت و پیار کا گہوارہ ہو.جہاں نفرتوں تلخیوں اور کدورتوں کی بدبودار ہواؤں کی جگہ محبتوں اور خوشیوں کی معطر اور خوشبودار فضا ئیں ہر سو پھیلی ہوں.ہمارے دین نے گھر کو جنت نظیر بنانے اور خوش و خرم عائلی زندگی گزارنے کے نہایت پیارے راہنما اصول بیان فرمائے ہیں.ان اصولوں پر چل کر انسان اپنے گھر کو خوشحال صحت مند اور جنت نظیر بنا سکتا ہے.زیر نظر کتاب میں خوش و خرم عائلی زندگی سے متعلق ایمان افروز اور روح پرور واقعات جمع کئے گئے ہیں.آئیے ان واقعات کو اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ بنائیں اور ان سنہری اصولوں پر چلیں تا کہ ہمارے گھر کا ہر فرد فخر سے یہ کہہ سکے کہ ہمارا گھر ہماری جنت ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو عائلی زندگی سے متعلق مثالی نمونہ بنے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)

Page 6

پیش لفظ اگر ہم اپنے ماحول میں اردگرد بسنے والے گھروں کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ جن گھروں میں میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض ادا کرنے والے ہیں ان گھروں میں پیار اور محبت کی فضاء قائم ہے.ان کے مکین سکون والی مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایک ” جنت نظیر گھر کا نمونہ پیش کر رہے ہیں.اس کے برعکس جن گھروں میں میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے نہیں ہیں.وہ گھر تلخیوں ، کدورتوں، اور نفرتوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں.زیر نظر کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ، صحابہ کرام اور خلفاء سلسلہ کے عائلی زندگی سے متعلق 40 سے زائد قابل تقلید واقعات کو جمع کیا گیا ہے.یہ واقعات مثالی عائلی زندگی کے لیے مشعل راہ ہیں.آئیے ! ان واقعات کو پڑھیں اور اپنے گھروں کو جنت نظیر بنائیں.یہ کتاب مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب نے ترتیب دی ہے خدا تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ( آمین ).یہ اس کتاب کی پہلی اشاعت ہے.خاکسار اس کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں جملہ معاونین کا تہہ دل سے شکر گزار ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء

Page 7

دنیا میں انسان مختلف رشتوں کے بندھن میں بندھا ہوا ہے جو تمام خدا تعالیٰ کے قائم کردہ ہیں.صرف ایک رشتہ خدا تعالیٰ نے انسان کی اپنی ، والدین یا عزیز واقارب کی پسند یا نا پسند پر چھوڑا ہے اور وہ رشتہ ہے میاں بیوی کا.جس طرح انسان دوسرے رشتوں کا پاس رکھتا ہے اس سے بڑھ کر چاہیے کہ اس رشتہ کا پاس رکھے کیونکہ یہ اس کا اپنا انتخاب ہے.خدا تعالیٰ بھی قرآن پاک میں بار ہا اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ مثالی سلوک رکھنا چاہیے چنانچہ فرمایا:.عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:20) ترجمہ : ''ان ( یعنی اپنی بیویوں) سے حسن سلوک سے پیش آؤ.“ ہمارے معاشرے میں ایک غلط نہی ہے کہ مرد کو قرآن مجید میں قوام قرار دیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خاوند کا کام رعب ڈالنا ہی ہے.جبکہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رسول کریم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، صحابہ کرام اور خلفاء احمدیت کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے کہ قوام کا مطلب کیا ہے؟ قرآن مجید نے حقوق کے حوالے سے مرد اور عورت کو برابر قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا:.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (البقرة: 229) ترجمہ : ” جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.ہر انسان کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کے گھر کا ماحول ہر اعتبار سے بہت اچھا ہو ، امن ،سکون اور محبت کا گہوارہ ہو.دنیا میں ہر چیز حاصل کرنے کے لئے کچھ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے.پس اس خواہش کی تکمیل کے لئے بھی ضروری ہے کہ کچھ قیمت ادا کی جائے اور وہ قیمت ہے، جذبات کی قربانی، صبر و حوصلہ ، حسن ظن حسن سلوک، ادا ئیگی حقوق اور فرائض کی بجا آوری.پس گھر میں جنت نظیر معاشرہ کے قیام کے لئے خاوند کی بحیثیت قوام زیادہ ذمہ داری 1

Page 8

ٹھہرتی ہے اور اسے زیادہ قربانی بھی دینی پڑتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں.قرآن شریف میں لکھا ہے.عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.(النساء:۲۰) گراب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں.ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیج الرسن ( یعنی آزاد ) کر دیا ہے.دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا.بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیج الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا اور کنیز کوں اور بہائم سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں.یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی دوسری پہن لی.یہ بڑی خطر ناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل نامرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو مطالعہ کرو تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے باوجود یکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ بھی آپ سمسایا ہی تم کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے.( ملفوظات جلد دوم صفحه 387) 2

Page 9

آپ مزید فرماتے ہیں:.ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور در حقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں“.پھر فرمایا:.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 307) عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعا نہیں کی مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (البقرة :۲۲۰) کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں.گالیاں دیتے ہیں.حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں.چاہیئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے“.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 300 تا 301) ”سب سے زیادہ بنی نوع انسان کے ساتھ بھلائی کرنے والا وہی ہوسکتا ہے جو پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرے مگر جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتاؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے.کیونکہ خدا نے آدم کو پیدا کر کے سب سے پہلے 3

Page 10

آدم کی محبت کا مصداق اس کی بیوی کو ہی بنایا ہے.پس جو شخص اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا یا اس کی خود بیوی ہی نہیں وہ کامل انسان ہونے کے مرتبہ سے گرا ہوا ہے اور شفاعت کی دوشرطوں میں سے ایک شرط اس سے مفقود ہے اس لئے اگر عصمت اس میں پائی بھی جائے تب بھی وہ شفاعت کرنے کے لائق نہیں لیکن جو شخص کوئی بیوی نکاح میں لاتا ہے.وہ اپنے لئے بنی نوع کی ہمدردی کی بنیاد ڈالتا ہے.“ ( ریویو آف ریلیجنز اُردو مئی 1902 ءجلد 1 نمبر 5 صفحہ 179 تا180) حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :."جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب ( یعنی رشتہ داروں) سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“.☆☆☆ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19)

Page 11

واقعات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو قرآن مجید میں اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو آنحضور کی سنت کی اتباع کرو.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر شعبہ میں اسوہ حسنہ ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں“.مندرجہ ذیل واقعات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر اس پہلو سے روشنی ڈالتے ہیں اور عائلی زندگی میں ایک جنت نظیر معاشرہ کے قیام کے لئے دعوت تقلید و عمل دیتے ہیں :.حضرت خدیجہ کی گواہی حضرت خدیجہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قریبا پندرہ برس کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد پہلی وحی کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاشرت کے بارے میں جو گواہی دی وہ یہ تھی.”خدا تعالیٰ کبھی آپ کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے ہیں، بوجھ اٹھاتے ہیں اور جو نیکیاں معدوم ہو چکی ہیں انہیں زندہ کرتے ہیں اور مہمان نواز ہیں، ضروریات حقہ میں امداد کرتے ہیں.حضرت عائشہ کی گواہی (بخاری کتاب بدء الوحی) حضرت عائشہ کی شہادت گھر یلو زندگی کے بارہ میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 5

Page 12

تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم.عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے.نیز آپ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا نہ بھی کسی خادم کو مارا.گھر کے کام کاج میں مدد کرنا (شمائل ترمذی باب ما جاء فی خلق رسول اللہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپ سنی لیا ایم گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا بلا وا آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے جاتے.(بخاری کتاب الادب باب كيف يكون الرجل فى اهله) کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کیا کرتے تھے.فرمانے لگیں آپ تمام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے.کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے تھے بکری کا دودھ خود دوہ لیتے تھے اور ذاتی کام خود کر لیا کرتے تھے.(مسند احمد بن حنبل) اسی طرح بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑے خود سی لیتے تھے، جو تے ٹانک لیا کرتے تھے اور گھر کا ڈول وغیرہ خود مرمت کر لیتے تھے.(مسند احمد بن حنبل رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دیے یا جگائے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرمالیتے.(مسلم کتاب الاشربه باب اکرام الضيف

Page 13

بیوی کی دلجوئی کا ایک انداز حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک سفر میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوڑ میں مقابلہ کیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آگے بڑھ گئیں.لیکن ایک اور موقع پر جب کہ وہ کچھ فربہ ہوگئی تھیں.پھر دوڑ کا مقابلہ ہوا.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! اس مقابلہ کا بدلہ اُتر گیا.دعوت طعام میں شرکت (ابو داؤد كتاب الجهاد فى السبق على الرجل) ایک ایرانی باشندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمسایہ تھا، جو سالن بہت عمدہ پکا تا تھا.اس نے ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا اور آپ کو دعوت دینے آیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تھی.وہ اس وقت پاس ہی تھیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ کیا یہ بھی ساتھ آجائیں.اس نے غالبا تکلف اور زیادہ اہتمام کرنے کے اندیشے سے نفی میں جواب دیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر میں بھی نہیں آتا.تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ بلانے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا میری بیوی بھی ساتھ آئے گی.اس نے پھر نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت میں جانے سے معذرت کر دی.وہ چلا گیا، تھوڑی دیر بعد پھر آ کر گھر آنے کی دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا وہی سوال دہرایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی آجائیں ؟ تو اس مرتبہ اس نے حامی بھر لی.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں اس ایرانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر کھانا تناول فرمایا.(مسلم کتاب الاشربه) 7

Page 14

اہلیہ کی دلداری حدیث میں آتا ہے کہ ایک حبشی عورت نے نذر مانی کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے بخیریت واپس تشریف لائے تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی اور گاؤں گی.اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی اور گانا شروع کیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش مبارک پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی ٹھوڑی رکھ کر دیکھنے لگیں.حضور بار بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے اما شبعت یعنی کیا تم سیر نہیں ہو ئیں ، کیا تم سیر نہیں ہوئیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کہتی ابھی نہیں اور میں اس لئے نفی میں جواب دیتی تھی تا کہ میں دیکھ سکوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری کتنی دلداری فرماتے ہیں.عادلانہ فیصلہ (ترمزی ابواب المناقب مناقب عمر الله) ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کھیر یا حلوا بنایا جو حضرت سودہ کو پسند نہیں آیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کھانے کے لئے اصرار کیا مگر وہ نہ مانیں.حضرت عائشہ کو کیا سو بھی کہ وہ مالیدہ حضرت سودہ کے منہ پر لیپ کر دیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر محفوظ بھی ہوئے مگر یہ عادلانہ فیصلہ فرمایا کہ حضرت سودہ" کو بدلہ لینے کا پورا حق ہے اور یہ چاہیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے منہ پر وہی مالیدہ مل سکتی ہیں.حضرت سودہ نے بدلہ لیتے ہوئے مالیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے منہ پرمل دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر مسکراتے رہے.(مجمع الزوائد جلد 4 صفحہ 316 بیروت) 8

Page 15

بیویوں میں عدل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں میں عدل قائم رکھتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جنگوں میں جاتے ہوئے بیویوں میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لئے قرعہ اندازی فرماتے تھے اور جس کا قرعہ نکلتا اس کو ہمراہ لے جاتے تھے.(بخاری کتاب الجھاد) گڑیوں سے کھیلنا حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں :.میں اپنی شادی کے بعد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گڑیاں کھیلا کرتی تھی.میری کچھ سہیلیاں میرے ساتھ کھیلنے آتی تھیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاتے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب سے بھاگ جاتیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری خاطر ان کو اکٹھا کر کے واپس گھر لے آتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتی رہتیں.کہانیاں سنانا (بخاری کتاب الادب باب الانبساط الى الناس) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کو کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیرہ عورتوں کی کہانی بھی سنائی ، جنہوں نے ایک دوسرے کو اپنے خاوندوں کے کچے چٹھے خوب کھول کر سنائے ، مگر ایک عورت ام زرعہ جسے کہانی کے مطابق اس کے خاوند ابوزرعہ نے بعد میں طلاق دے کر اور شادی کر لی تھی.اس نے اپنے خاوند کی جی بھر کر تعریف کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میری اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی مثال ابو زرعہ کی سی ہے.تم میری ام زرعہ ہو اور میں تمہارا ابو زرعہ ہوں.مگر فرق یہ ہے 9

Page 16

کہ ابوزرعہ نے ام زرعہ کو طلاق دے دی تھی.میں تمہیں طلاق ہرگز نہ دوں گا.(بخاری کتاب النکاح باب حسن المعاشرة مع الاهل) جنگی کرتب دکھانا ایک عید کے موقع پر اہل حبشہ مسجد نبوی کے وسیع دالان میں جنگی کرتب دکھا رہے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کیا تم بھی یہ کرتب دیکھنا پسند کروگی اور پھر ان کی خواہش پر انہیں اپنے پیچھے کھڑا کر لیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑی رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار کے ساتھ رخسار ملا کر یہ کھیل دیکھتی رہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بوجھ سہارے کھڑے رہے.یہاں تک کہ میں خود تھک گئی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اچھا کافی ہے.حضرت صفیہؓ کی گواہی (بخاری کتاب العیدین باب الحراب ولدارق) حضرت صفیہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے تھیں ان کا بیان ہے کہ چونکہ جنگ خیبر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ میرے باپ اور شوہر مارے گئے تھے اس لئے میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے انتہائی نفرت تھی.مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایسا سلوک فرمایا کہ میرے دل کی سب کدورت جاتی رہی.حضرت صفیہ بیان فرماتی ہیں کہ خیبر سے ہم رات کے وقت چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیا مجھے اونگھ آگئی اور سر پالان کی لکڑی سے جاٹکرا یا.حضور صلی 10

Page 17

اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیار سے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھ دیا اور فرمانے لگے.اے لڑکی ! اے حسی کی بیٹی ذرا احتیاط ، ذرا اپنا خیال رکھو.پھر رات کو جب ایک جگہ پڑاؤ کیا تو وہاں میرے ساتھ بہت بہت محبت بھری باتیں کیں.فرمانے لگے دیکھو تمہارا باپ میرے خلاف تمام عرب کو کھینچ لایا تھا اور ہم پر حملہ کرنے میں پہل اس نے کی تھی اور یہ سلوک ہم سے روا رکھا تھا جس کی بناء پر مجبورا تیری قوم کے ساتھ ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا جس پر میں معذرت خواہ ہوں.مگر تم خود جانتی ہو کہ یہ سب کچھ ہمیں مجبورا اور جوابا کرنا پڑا ہے.حضرت صفیہ فرماتی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے دل میں ایسی رچ بس چکی تھی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہ رہا.(مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 15) کمال عفو ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گھر میں آنحضرت صیا تھا یہ تم سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا جان حضرت ابوبکر تشریف لائے.یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے کہ خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابوبکر کی متوقع سزا سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بچا لیا.جب حضرت ابوبکر چلے گئے تو رسول کریم ملایم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ازراہ تفنن فرمانے لگے.دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا ؟ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابوبکر دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت مسلا السلام کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہنسی خوشی باتیں کر رہی تھیں.حضرت 11

Page 18

ابوبکر کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو.(ابو داؤد کتاب الادب باب ما جاء فى المزاح) مردوں کے معاملات میں عورتوں کی مداخلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت حفصہ بنت عمر" کچھ تیز طبیعت تھیں.ایک دفعہ حضرت عمر کی بیوی نے ان کو کوئی مشورہ دینا چاہا تو آپ سخت خفا ہوئے کہ مردوں کے معاملات میں عورتوں کی مداخلت کے کیا معنی؟ تب آپ کی بیوی کہنے لگیں کہ آپ کی اپنی بیٹی حفصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے بولتی ہے اور ان کو جواب دیتی ہے.یہاں تک کہ بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارا سارا دن ان سے ناراض رہتے ہیں.حضرت عمر فورا اپنی بیٹی کے گھر پہنچے اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ تمہارے آگے سے بولنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ سارا دن ناراض رہتے ہیں.انہوں نے عرض کیا کہ ہاں بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے.آپ نے فرمایا یا درکھو عائشہ رضی اللہ عنہا کی ریس کرتے ہوئے تم کسی دن اپنا نقصان نہ کر لینا.پھر یہی نصیحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی حضرت ام سلمہ کو بھی کرنے گئے.وہ بھی حضرت عمرؓ کی رشتہ دار تھیں.فرمانے لگیں.اے عمر اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھریلو معاملات میں بھی تم مداخلت کرنے لگے.کیا اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافی نہیں ہیں؟ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں خاموش ہو کر واپس لوٹا.یہ واقعہ جب آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم کو نا یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب محظوظ ہوئے.ایک دوسرے کو نیکی کی تحریک کرنا (بخاری کتاب التفسير) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں قیام عبادت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی.آپ صلی اللہ 12

Page 19

علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ بہت خوش قسمت ہیں وہ میاں بیوی جو ایک دوسرے کو نماز اور عبادت کے لئے بیدار کرتے ہوں اور اگر ایک نہ جاگے تو دوسرا اس پر پانی کے چھینٹے پھینک کر اسے جگائے.(ابن ماجه اقامة الصلوة) اپنے اہل خانہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی سلوک تھا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں که حضور رات کو نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور عبادت کرتے تھے جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے تم بھی دو رکعت ادا کر لو.(بخاری کتاب الصلوة خلف القائم) ✰✰✰ 13

Page 20

واقعات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لئے تیار رہتے تھے.انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنایا ہوا تھا، اسی لئے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں فرماتے تھے.میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے.صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی کے نمونوں کو بھی اپنے گھروں میں قائم کیا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں ان کے گھر جنت نظیر معاشرہ کی مثال بن گئے تھے جس کی چند جھلکیاں درج ذیل ہیں:.جنتی خاتون حضرت اُم ایمن کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بلند رتبہ اور بڑی قدر ومنزلت تھی.ان کے فضائل میں یہ بات کافی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمائی کہ جو جنتی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ ام ایمن سے شادی کر لے چنانچہ حضرت زید بن حارثہؓ نے ان سے شادی کر لی با وجود یہ کہ آپ کی زبان میں لکنت تھی.الطبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 362 باب تسمية النساء المسلمات البايعات) اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ خواہ بیوی میں کوئی ظاہری و جسمانی نقص ہی کیوں نہ ہو خاوند کو دین اور سیرت کے پہلو کو مقدم رکھنا چاہیے اور جنسی خوشی زندگی بسر کرنے کے لئے کوشاں رہنا چاہیے.صبر ورضا کی رات حضرت ام سلیم بنت ملحان نے اسلام قبول کر لیا لیکن آپ کے شوہر مالک بن نصر نے 14

Page 21

اسلام قبول نہ کیا.مالک کی وفات کے بعد حضرت ابوطلحہ نے آپ کو شادی کا پیغام بھیجا لیکن آپ اس وقت تک انکار کرتی رہیں جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو گئے.جب آپ مسلمان ہوئے تو اُم سلیم نے کہا میں آپ سے شادی کروں گی اور اسلام کے سوا اور کوئی مہر نہ لوں گی.(الطبقات جلد 8 صفحه 446) چنانچہ اسی حق مہر پر آپ کی شادی طے پا گئی.ان میاں بیوی میں محبت، ایمان ، یقین بڑھتا گیا.چنانچہ تاریخ میں مرقوم ہے کہ حضرت ابوطلحہ کا ایک بیٹا تھا جس کی کنیت ابو عمیر تھی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مذاقاً فرماتے ابو عمیر بلبل نے کیا کیا؟ ایک مرتبہ ابو عمیر بیمار ہوئے.ان کے والد گھر نہ تھے تو بچہ مرض سے وفات پا گیا.ام سلیم نے ان کے کفن وغیرہ کی تیاری کی اور کہا اس معاملہ کی خبر ابو طلحہ کو نہ پہنچاؤ.پھر رات کو ابوطلحہ آئے تو ان کے لئے خود کو سنوارا اور سنگھار کیا.پھر ابوطلحہ نے ابو عمیر کے بارہ میں پوچھا تو فرمانے لگیں وہ تو اپنی جگہ پر آرام سے ہے پھر شوہر کے لئے کھانا پیش کیا.صبح ام سلیم نے حضرت ابوطلحہ کو اس کی وفات کی خبر دی.حضرت ابوطلحہ نے انا للہ وانا الیہ راجعون اور اللہ کی بڑائی بیان کی اور فرمایا : خدا کی قسم میں تجھ کو صبر پر اپنے سے زیادہ غالب نہ ہونے دوں گا.چنانچہ جب صبح آپ کی ملاقات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی دونوں کے صبر کی تعریف فرمائی اور دعا دی.اللہ تعالیٰ نے اس صبر اور اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجہ میں دونوں کو خوب نوازا.دونوں کو بلند مقامات عطا فرمائے.عبد اللہ بن ابی طلحہ کے سات بچے ہوئے.ساتوں حفاظ قرآن تھے.(الاستیعاب جلد 4 صفحه 284 تا 285 کتاب الکنی) حضرت ام سلیم کے بارہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے کسی کی آہٹ سنی.پوچھا کون ہے؟ تو جواب آیا یہ غیمصا ملحان کی بیٹی انس بن مالک کی والدہ ماجدہ ہیں.التاج الجامع للأصول فى احاديث الرسول جلد 3 صفحه 386) 15

Page 22

حضرت ام سلیم بنت ملحان نے بھی شادی کے لئے دین کے پہلو کو مقدم رکھا اور دونوں میاں بیوی نے اپنے لخت جگر کی وفات پر جس صبر کا مظاہرہ کیا اور مسابقت کی روح کا نمونہ دکھایا وہ بے مثال ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی خدا سے خبر پا کر تعریف فرمائی.خاتون نے اپنے خاوند کا خیال کرتے ہوئے کہ سفر سے تھکے آئے ہیں لخت جگر کی وفات پر ساری رات انہیں نہ بتا یا کہ وہ آرام کرلیں اور غیر معمولی حو صلے کا مظاہرہ کیا اسی طرح یہ موقع ایسا تھا کہ خاوند ایسے موقع پر سیخ پا بھی ہوسکتا تھا کہ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا اور مجھے بتایا تک نہیں لیکن حضرت ابوطلحہ نے قطعا کوئی ایسی بات نہ کی بلکہ صبر و استقامت میں اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ شریک ہو گئے اور ایک ایسا جملہ کہا جس سے دونوں میں مسابقت کی روح پیدا ہو گئی.حسین طرز عمل حضرت زینب بنت ابی معاویہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی تھیں.آپ فرماتی ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود جب کسی حاجت سے تشریف لاتے تو دروازے پر رک کر کھانستے تا اطلاع ہو جائے اور اچانک نہ آئیں کہ کوئی بات آپ کو ناگوار گزرے.اسی طرح ایک بار تشریف لائے تو کھانسنے لگے.میرے پاس ایک بڑھیا تھی جو ایک بیماری سے جھاڑ پھونک کر رہی تھی میں نے اس کو فور اچار پائی کے نیچے چھپا دیا.جب آپ کو اس جھاڑ پھونک کا علم ہو گیا تو آپ نے سمجھایا کہ یہ طریق درست نہیں اور شرک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاء یابی کے لئے بتائی ہوئی دعا سکھائی.(سنن ابی داؤد جلد 4 صفحہ 13 باب في تعليق التمائم) یہ ایک بہت حسین اور مفید طرز عمل ہے جو ہمیں اس واقعہ میں ملتا ہے کہ خاوند جب گھر آئے تو اسے گھر چوروں کی طرح داخل نہ ہونا چاہئے بلکہ کسی طریق سے پہلے مطلع کرنا 16

Page 23

چاہیے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنت ہے.یہ ممکن نہیں کہ ایک انسان میں سو فیصد عادات دوسرے کے موافق ہوں.ایسا کرنے سے گھر میں ناچاقی کی صورتحال سے بچا جاسکتا ہے اور اگر خاوند کوئی ایسی بات دیکھے بھی تو اس کا فرض ہے کہ پیار محبت سے اس مسئلہ کو اپنے بیوی بچوں پر واضح کرے اور سمجھائے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہیے اگر اس کی ایک بات اسے نا پسند ہے تو دوسری بات پسندیدہ ہو سکتی ہے.( یعنی بیوی سے تعلق اس کی خوبیوں پر نظر رکھتے ہوئے رکھنا چاہیے ) (مسلم کتاب النکاح) انگریزی محاورہ ہے.DO NOT SPY ON YOUR WIFE کہ اگر خوشحال زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو اپنی بیوی کی کمزوری کی ٹوہ میں نہ لگے رہو.قرآن کریم نے بھی جس کی بد عادت سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے.شوہر کی اطاعت کرنے والی بیوی کا اجر حضرت اسماء بنت یزید انصاریہؓ زوجہ حضرت ابوسعید انصاری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عورتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے عرض کی : (اے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ نے آپ کو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے ہم ایمان لے آئیں اور آپ کی اتباع اور پیروی کی اور ہم عورتوں کی جماعت پردوں میں بند گھریلو کام کرنے والی ، مردوں کی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ، ان کے بچوں کو اٹھانے والی ہیں.مردوں کو جمعہ، نماز اور جنازوں میں حاضری کی بناء پر فضیلت دی گئی جبکہ وہ جہاد کے لئے نکلتے ہیں تو ہم ان کے اموال کی حفاظت اور ان کے بچوں کی تربیت کرتی ہیں تو کیا ہم اجر میں ان کے شریک 17

Page 24

ہوں گی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو متوجہ کیا اور فرمایا کیا تم نے اس سے بہتر کسی عورت کو دین کا مسئلہ پوچھتے دیکھا ہے؟ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نہیں سمجھتے تھے کہ عورت بھی اس بات کی طرف راہنمائی پکڑ سکتی ہے.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء سے فرمایا : واپس جاؤ اور اپنے پیچھے عورتوں کو بتلا دو کہ تم میں ہر ایک کا اپنے شوہر کی اطاعت کرنا اور اس کی رضا کو تلاش کرنا اور اس کی موافقت میں اتباع کرنا ( درجہ و ثواب میں ) ان تمام باتوں کے برابر کر دے گا جو تم نے مردوں کے متعلق ذکر کی ہیں.اسلام میں پہلا ضلع (الاستيعاب جلد 4 صفحه 350) حضرت حبیبہ بنت سہل انصاریہ کی شادی حضرت ثابت بن قیس سے ہوئی.لیکن یہ تعلق قائم نہ رہ سکا.چنانچہ جب حضرت حبیبہ نے خیال کیا کہ اب یہ تعلق مزید قائم نہیں رہ سکتا تو آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا.یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت پر اس کے دین اور اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی.لیکن میں اسلام میں کفر ( ناشکری ) کو نا پسند کرتی ہوں اور میں اس کے بغض کی بھی طاقت نہیں رکھتی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا تم اس کو اس کا باغ لوٹا سکتی ہو؟ عرض کیا جی ہاں.تو آپ نے باغ لوٹا دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور اسلام میں یہ پہلا ضلع تھا.(بخاری کتاب الطلاق باب الخلع و كيف الطلاق فيه) اسلام میں ہونے والا یہ پہلا خلع بھی ہمارے لئے راہنما ہے کہ یہ میاں بیوی الگ بھی ہو رہے ہیں تو یہ طریق اختیار نہیں کر رہے کہ ایک دوسرے پر گندا چھال رہے ہوں اور الزام تراشی 18

Page 25

کر رہے ہوں بلکہ ایک دوسرے کی عصمت و عزت کا پاس رکھ رہے ہیں.میانہ روی کی تعلیم حضرت خولہ بنت حکیم بھی عظیم صحابیات میں سے تھیں.آپ کے خاوند حضرت عثمان بن مظعون تھے.حضرت خولہ کا امہات المومنین کے پاس آنا جانا تھا.ایک دفعہ حاضر ہو ئیں تو حالت بری تھی.ازواج مطہرات نے وجہ دریافت کی کہ کیا بات ہے آپ کے خاوند تو بہت مالدار ہیں پھر یہ حال کیوں؟ جو ابا عرض کیا ہمیں ان سے کیا تعلق ان کی رات عبادت میں کٹتی ہے اور دن روزہ میں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم ہوا تو انہیں نصیحت فرمائی:.(عثمان ) ایسا مت کر بے شک تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے اور تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے اور تیرے گھر والوں کا تجھ پر حق ہے.لہذا نماز پڑھ اور سوجا اور کبھی روزہ رکھ کبھی چھوڑ.چنانچہ اس کے بعد حضرت خولہ امہات المومنین کی خدمت میں بڑی اچھی حالت میں بن سنور کر آتیں جیسے کوئی دلہن ہوتی ہے.الطبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 211) ایک بیوی کا اپنے خاوند پر رشک حضرت فاطمہ بنت قیس کو ان کے خاوند ابو عمر و بن حفص بن مغیرہ نے طلاق دے دی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مشورہ دیا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کر لیں.آپ نے عرض کی میں اس کو نا پسند کرتی ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا چنانچہ آپ نے ان سے شادی کر لی چنانچہ فرماتی ہیں:.اللہ تعالیٰ نے واقعی میرے لئے ان میں بہت سی بھلائیاں رکھ دیں اور میں اسامہ پر رشک 19

Page 26

کرنے لگی.حضرت فاطمہ بنت قیس کے بطن سے حضرت اسامہ کے تین بچے زید، جبیر اور عائشہ پیدا ہوئے ان کو کہا جاتا تھا بنو الحب یعنی محبت کی اولاد.(سنن أبی داؤد جلد 2 صفحہ 416 تا 417 باب فى نفقة المبتوتة) خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو لیکن خدا تعالیٰ اس میں تمہارے لئے بھلائی رکھ دے.یہ منظر ہمیں اس واقعہ میں نظر آتا ہے کہ بظاہر نا پسند کی شادی اتنی با برکت ثابت ہوتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہونے والی اولا د محبت کی اولاد کہلاتی ہے.☆☆☆ 20 20

Page 27

واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت کا آئینہ اور عکس ہیں اور آپ کے حالات و واقعات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی کامل اتباع نظر آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین پر جو احسان فرمایا ہے اس کی تجدید عملی اور علمی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہوئی ہے.اس بات کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے.ایک گواہی محترمہ صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کو جتنے لوگوں نے بھی قریب سے دیکھا مثلاً حضرت اماں جان کے دونوں بھائی ، آپ کی اولاد، بہوئیں اور خادمائیں وغیرہ سب کا یہ کہنا ہے کہ دونوں عام میاں بیوی کی طرح نہ تھے.آپ دونوں میں کبھی آپس میں جھگڑا نہ ہوتا.کسی بات پر لڑائی نہ ہوتی.اُدھر حضور حضرت اماں جان کی ہر بات مانتے اور پیار اور احسان کا سلوک کرتے تو ادھر حضرت اماں جان بھی حضور کی چھوٹی سے چھوٹی پسند نا پسند کا خیال رکھتیں.کھانا بھی اکثر خود پکاتیں یا پھر سامنے بیٹھ کر اپنی نگرانی میں پکواتیں.آپ کے دوسرے کاموں میں بھی اس طرح آپ کا ہاتھ بٹاتیں جیسے کوئی دوست اپنے دوست کا کام کر رہا ہے.حضور حضرت اماں جان کو تم کہہ کر بلاتے اور اردو زبان جو کہ اماں جان کی زبان تھی اس میں بات کرتے.کبھی کبھی پنجابی بھی بول لیا کرتے.حضرت اماں جان بھی آپ کو عزت سے حضور یا حضرت صاحب کہ کر بلایا کرتیں.غرض یہ جوڑا بے مثال تھا اور آپس کی محبت ایسی تھی 21

Page 28

جو عام دیکھنے میں نہیں آتی.ایک بار جب حضرت اماں جان نماز پڑھنے لگیں تو نیت باندھنے سے پہلے آپ نے حضرت اقدس سے کہا کہ :.اُٹھالے میں ہمیشہ یہ دعا کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے آپ سے پہلے یہ سن کر حضور نے فرمایا: جاؤں.“ ”اور میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ کر اور ایسا ہی ہوا حضرت اماں جان سے چوالیس سال پہلے آپ کی وفات ہو گئی.(سیرت حضرت اماں جان ، شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان صفحہ 8-9) ایک نیک بخت عورت کے تاثرات ہیں:.حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہندوستان میں ایک نامی گرامی سجادہ نشین ہیں.لاکھ سے زیادہ ان کے مرید ہیں اور خدا کے قرب کا انہیں دعویٰ بھی بڑا ہے.ان کے بہت ہی قریب متعلقین سے ایک نیک بخت عورت کو کچھ مدت سے ہمارے حضرت کے اندرون خانہ میں رہنے کا شرف حاصل ہے.وہ حضرت اقدس کے گھر میں فرشتوں کی طرح رہنا ، نہ کسی سے نوک ٹوک ، نہ چھیڑ چھاڑ ، جو کچھ کہا گیا اس طرح مانتے ہیں جیسے ایک واجب الاطاعت مطاع کے امر سے انحراف نہیں کیا جاتا.ان باتوں کو دیکھ کر وہ حیران ہو جاتیں اور بار ہا تعجب سے کہہ چکی ہیں کہ ہمارے حضرت شاہ صاحب کا حال تو سراسر اس کے خلاف ہے.وہ جب باہر سے زنانہ میں آتے ہیں.ایک ہنگامہ رستخیز 22

Page 29

(یعنی قیامت) بر پا ہو جاتا ہے.اس لڑکے کو گھور، اس خادمہ سے خفا، اس بچہ کو مار، بیوی سے تکرار ہورہی ہے کہ نمک کھانے میں کیوں زیادہ یا کم ہو گیا.یہ برتن یہاں کیوں رکھا ہے اور وہ چیز وہاں کیوں دھری ہے.تم کیسی پھوہڑ بد مذاق اور بے سلیقہ عورت ہو اور کبھی جو کھانا طبع عالی کے حسب پسند نہ ہو تو آگے کے برتن کو دیوار سے بیچ دیتے ہیں اور بس ایک کہرام گھر میں بچ جاتا ہے.عورتیں بلک بلک کر خدا سے دعا کرتی ہیں کہ شاہ صاحب باہر ہی رونق افروز رہیں.اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اسوہ ہے کہ اگر کبھی کوئی خاص فرمائش کی ہے کہ وہ چیز ہمارے لئے تیار کر دو اور عین اس وقت کسی ضعف یا عارضہ کا مقتضاء تھا کہ وہ چیز لازما تیار ہی ہوتی اور اس کے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایا اور کبھی کبھی جو لکھنے یا تو جہ الی اللہ سے نزول کیا ہے تو یاد آ گیا ہے کہ کھانا کھانا ہے اور منتظر ہیں کہ وہ چیز آتی ہے.آخر وقت اس کھانے کا گزر گیا اور شام کے کھانے کا وقت آ گیا ہے.اس پر بھی کوئی گرفت نہیں اور جو نرمی سے پوچھا ہے اور عذر کیا گیا ہے کہ دھیان نہیں رہا تو مسکرا کر الگ ہو گئے.( سیرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 402 تا 403، مرتبه شیخ محمد احمد عرفانی و حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی) دلجوئی کا حسین انداز حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں:.میں پہلے پہل جب دہلی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت ( مسیح موعود علیہ السلام ) کو گڑ والے چاول بہت پسند ہیں.میں نے بڑے شوق سے ان کے پکانے کا انتظام کیا.تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا.وہ بالکل راب بن گئے.جب دیچی چو لہے سے اُتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہو گئے.ادھر کھانے کا وقت ہو گیا تھا.حیران تھی کہ اب کیا کروں.اتنے میں حضرت صاحب آگئے.میرے 23 23

Page 30

چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا.آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا: پھر فرمایا:.کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے.“ نہیں یہ تو بہت مزیدار ہیں.میری پسند کے مطابق پچکے ہیں.ایسے ہی زیادہ گڑ والے تو مجھے پسند ہیں.یہ تو بہت اچھے ہیں“.اور پھر بہت خوش ہو کر کھائے.حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کو اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہو گیا.مشورہ کو اہمیت دینا (سیرت حضرت اماں جان مصنفہ صاحبزادی امتہ الشکور صاحبه صفحه 7-6) ایک دفعہ دار امسیح کے اس حصہ میں جہاں حضور ر ہتے تھے وہاں ایک صحن ہے جس کی ایک کھڑ کی جنوب کی طرف محلہ کوچہ بندی میں کھلتی ہے.گرمیوں میں رات کو حضور اور آپ کے سب گھر والے اس صحن میں سویا کرتے تھے لیکن برسات کے موسم میں جب بارش ہوتی تو مشکل یہ پڑ جاتی کہ ساری چار پائیاں اُٹھا کر کمروں میں لے جانی پڑتیں.اس واسطے حضرت اماں جان نے یہ مشورہ دیا کہ اس صحن کے ایک حصہ پر چھت ڈال دی جائے.یعنی برآمدہ سا بنا دیا جائے تاکہ بارش ہونے پر چار پائیاں اس کے اندر کی جاسکیں.حضور نے حکم فرما دیا کہ ایسا ہی کیا جائے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور چند دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم نے اعتراض کیا کہ ایسا نہ کریں صحن کی شکل خراب ہو جائے گی ، خوبصورتی ختم ہو جائے گی لیکن آپ نے سب کی باتیں سن کر فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن چونکہ میری بیوی خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور میرے ان بیٹوں کی ماں ہے جن کے متعلق خدا نے مجھے بشارتیں دی ہیں اس لئے میں اس کی ہر بات مانتا ہوں.یہ برآمدہ بننا چاہیے.سیرت حضرت اماں جان صفحہ 7 تا 8) 24 24

Page 31

صبر وتحمل حضرت مولانا عبدالکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں :.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو سخت در دسر ہو رہا تھا اور میں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا اور پاس حد سے زیادہ شور وغل بر پا تھا.میں نے عرض کیا جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی.فرمایا ہاں اگر چپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے.میں نے عرض کیا تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے.فرمایا آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں.میں تو کہہ نہیں سکتا.بڑی بڑی سخت بیماریوں میں الگ ایک کوٹھری میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں کہ گو یا مزہ میں سورہے ہیں.کسی کا گلہ نہیں کہ تو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا اور تو نے ہمیں پانی نہیں دیا اور تو نے ہماری خدمت نہیں کی.(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 275، از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب) بیوی کے حقوق حضرت (اماں جان) پر جب کبھی بیماری کا حملہ ہوتا تو آپ ہر طرح آپ کی ہمدردی اور خدمت کرنا ضروری سمجھتے تھے اور اپنے عمل سے آپ نے یہ تعلیم ہم سب کو دی کہ بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں؟ جس طرح پر وہ ہماری خدمت کرتی ہے عند الضرورت وہ مستحق ہے کہ ہم اسی قسم کا سلوک اس سے کریں.چنانچہ آپ علیہ السلام علاج اور توجہ الی اللہ ہی میں مصروف نہ رہتے بلکہ بعض اوقات حضرت (اماں جان ) کو دباتے بھی تا کہ آپ کو تسلی اور سکون ملے.( سیرت حضرت مسیح موعود صفحہ 285 تا286 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب) 25

Page 32

گھر کے ہر کونے میں روشنی رہنے لگی سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم میں تحریر ہے کہ:.حضرت اماں جان خود اپنا ایک واقعہ سنایا کرتی تھیں کہ جب وہ نئی نئی قادیان آئیں تو انہیں روشنی میں سونے کی عادت تھی.جب آپ سو جاتیں تو حضور روشنی بجھا دیتے.پھر آپ کی آنکھ کھلتی تو آپ اندھیرا دیکھ کر گھبرا اٹھتیں اور حضرت صاحب دوبارہ روشنی کر دیتے.آخر حضور کو ہی روشنی میں سونے کی عادت پڑ گئی.پھر تو یوں ہوا کہ گھر کے ہر کونے میں روشنی رہنے لگی ، سیڑھیاں کیا غسل خانہ کیا، کمرہ کیا، صحن کیا، سب جگہ روشنی کی جاتی اور اس کے لئے ایک خاص خادم رکھا گیا.کبھی کبھار حضرت اماں جان محبت سے حضور کو یاد دلایا کرتیں کہ:.آپ کو وہ وقت یاد ہے جب آپ روشنی میں سونہ سکتے تھے اور اب گھر کے کونے کونے میں روشنی نہ ہو تو آپ کو نیند نہیں آتی.حضرت صاحب یہ بات سن کر ہمیشہ خوشی سے مسکرا اٹھتے.( سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صفحہ 7 تا 8) ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے ایک دفعہ منشی عبد الحق صاحب لاہوری پنشنر نے (جو پہلے آپ علیہ السلام سے بڑی محبت عبدالحق اور حسن ظن رکھتے تھے ،مگر بعد میں الگ ہو گئے ) آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) سے آپ کی بیماری کی تکلیف پوچھی اور پھر کہا.آپ کا کام نازک ہے اور آپ کے سر پر بھاری بوجھ ہے.آپ کو چاہیے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال رکھا کریں اور ایک خاص مقوی غذ الا زما آپ کیلئے ہر روز تیار ہونی چاہیے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: ”ہاں یہ بات تو درست ہے 26

Page 33

اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے، مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں مصروف رہتی ہیں کہ اور باتوں کو چنداں پروا نہیں کرتیں.اس پر منشی عبد الحق صاحب نے کہا کہ ”اجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے.میرا یہ خیال ہے کہ میں کھانے پینے کے لئے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ناممکن ہے کہ میرا حکم مل جائے اور میرے کھانے کے اہتمام میں سر موفرق آجائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لیں گے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے خیال کیا کہ یہ بات میرے محبوب آقا کے حق میں مفید ہے،اس لئے بغیر سوچے سمجھے اس کی تائید کر دی.حضرت اقدس نے حضرت مولانا کی طرف دیکھا اور تبسم سے فرمایا : ”ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پرہیز کرنا چاہیے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بڑے ذکی الحس تھے وہ فرماتے ہیں: ”بس 66 خدا ہی جانتا ہے کہ میں اس مجمع میں کس قدر شرمندہ ہوا اور مجھے سخت افسوس ہوا.“ ) سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اوّل صفحہ 60 تا62) ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے.حضور اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا :.”ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے“ حضور بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا:.” میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بائیں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع کے ساتھ نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے“.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 307) 27

Page 34

صبر و برداشت کا مظاہرہ محمود چار ایک برس کا تھا.حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا.پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں.سر اُٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کیا ہو رہا ہے اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کوکسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا.حضرت کو سیاق عبارت کے ملانے کیلئے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی.اس سے پوچھتے ہیں خاموش، اس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے آخر ایک بچہ بول اُٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیے.عورتیں، بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور انگشت بدندان که اب کیا ہوگا اور در حقیقت عادیا ان سب کو علی قدر مراتب بری حالت اور مکر وہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں: ”خوب ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے“.) سیرت حضرت مسیح موعود صفحه 106 از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب) میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں حضرت خلیفہ امسیح الاول نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی سفر میں تھے.اسٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی.آپ بیوی صاحبہ ( حضرت اماں جان ) کے ساتھ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے.یہ دیکھ کر مولوی عبد الکریم صاحب جنکی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی 28

Page 35

میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جائے.مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں.ناچار مولوی عبد الکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں.حضرت صاحب نے فرمایا جاؤ جی میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں.خدا تعالیٰ کی خاطر ناراضگی (سيرة المهدی جلد اوّل صفحہ 56) حضرت عبد الرحیم درد صاحب ایم.اے نے ایک دفعہ مرزا سلطان احمد صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی حالات و واقعات کے متعلق دریافت کرتے ہوئے پوچھا کیا حضرت صاحب کبھی کسی پر ناراض بھی ہوتے تھے؟ مرزا صاحب نے جواب دیا کہ ان کی ناراضگی بھی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی.(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ، جلد اول صفحہ 200) ☆☆☆ 29 29

Page 36

واقعات صحابہ رضوان اللہ علیہم صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام دور آخرین میں وہ جماعت ہیں جنہوں نے مسیح پاک علیہ السلام کی صحبت طیبہ سے براہ راست فیض حاصل کیا.یہ جماعت بھی اپنے آقا کے رنگ میں رنگین نظر آتی ہے.چنانچہ اس کی چند جھلکیاں ان کی عائلی زندگی سے پیش ہیں:.حسن سلوک حیات شریف میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی سیرت طیبہ کے تذکرہ میں تحریر ہے کہ:.مکرم نیک محمد خان صاحب فرماتے ہیں کہ جنگ عظیم کے بعد انفلوائنزا پھیلا تو آپ بھی بیمار ہو گئے اور بوزینب صاحبہ (اہلیہ حضرت صاحبزادہ صاحب) بھی.مجھے پتہ چلا میں گیا تو برآمدہ کے ساتھ مجھے ڈیرہ لگانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ بو صاحبہ کی دوائی کا جب وقت ہو تو مجھے آہستہ آہستہ اٹھا دیا کرو.میں اٹھ کر ان کو دوائی پلا دیا کروں گا.بیمار دوائی سے کچھ بچتا ہی ہے.خان صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا آپ نہایت شفقت ادب اور محبت سے دوائی پلاتے.میں نے بُو صاحبہ سے آپ کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا تو فرمانے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.خَيْرُ كُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ.باوفا بیوی کے اوصاف حیات شریف ( غیر مطبوعہ ) صفحه 205) حضرت میر ناصر نواب صاحب کی بیوی کا نام سیدہ بیگم تھا.حضرت میر صاحب نے اپنی بیوی کی وہ تمام صفات گنوائی ہیں جو ایک باوفا عورت میں ہونی چاہئیں.آپ فرماتے ہیں:.اس بابرکت بیوی نے جس سے میرا پالا پڑا تھا.مجھے بہت ہی آرام دیا اور نہایت ہی وفا 30

Page 37

داری سے میرے ساتھ اوقات بسری کی اور ہمیشہ مجھے نیک صلاح دیتی رہی اور کبھی بے جا مجھ پر دباؤ نہیں ڈالا اور نہ مجھ کو میری طاقت سے بڑھ کر تکلیف دی.میرے بچوں کو بہت ہی شفقت اور جانفشانی سے پالا.نہ کبھی بچوں کو کو سانہ مارا اللہ تعالیٰ اسے دین و دنیا میں سرخرور کھے اور بعد انتقال جنت الفردوس عنایت فرما دے.بہر حال عسر ویسر میں میرا ساتھ دیا.جس کو میں نے مانا.اس نے اس کو مانا.جس کو میں نے پیر مانا اس نے بھی اس سے بلا تامل بیعت کی.چنانچہ عبد اللہ صاحب غزنوی کی میرے ساتھ بیعت کی.نیز مرزا صاحب کو جب میں نے تسلیم کیا تو اس نے بھی مان لیا.ایسی بیویاں بھی دنیا میں کم میسر آتی ہیں“.مقدس اور مثالی جوڑا (حیات ناصر صفحہ 5 تا 6) اگر چہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی عمر میں 27 سال کا فرق تھا، اس کے باوجود حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی عقل سمجھ ، متانت ، محبت ، وفا اور سیرت کے قدر دان تھے.وہ جانتے تھے کہ یہ مقدس باپ کی مبارک بیٹی ہیں، چنانچہ آپ سے نکاح ہونے کے بعد حضرت نواب صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں:.یہ وہ فضل اور احسان اللہ کا ہے اگر میں اپنی پیشانی کو شکر کے سجدے کرتے کرتے گھاؤں تو بھی خدا تعالیٰ کے شکر سے عہدہ برآنہیں ہو سکتا.میرے جیسے نابکار اور اس کے ساتھ یہ نور.یہ خدا کا خاص رحم اور فضل ہے.اے خدا! اے میرے پیارے مولیٰ ! اب تو نے اپنے مرسل کا مجھ کو داماد بنایا ہے اور اس کے لخت جگر سے میراتعلق کیا ہے تو مجھ کو بھی نور بنادے کہ اس قابل ہوسکوں.31

Page 38

پھر ایک جگہ آپ اپنی ڈائری میں بیگم صاحبہ کے بارے میں لکھتے ہیں:.پھر صورت کے لحاظ سے....اور روحانی لحاظ سے بھی حالت معزز ہے اور سیرت کے لحاظ سے کس باپ کی بیٹی ہیں.بس نہایت پیارا انداز اور عجیب دلکش طبیعت ہے.محبت کرنے والی بیوی ہیں پھر مجھ کو کیوں نہ محبوب ہوں.“ نور کا ٹکڑا (اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 253) حضرت نواب عبداللہ خان صاحب تحریر فرماتے ہیں:.اب میں یہاں آکر اپنی بیوی حضرت دخت کرام امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ذکر نہ کروں تو نہایت ناشکری اور ظلم ہوگا.یہ نور کا ٹکڑا حضرت مسیح موعود کا جگر گوشہ جو کہ میرے پہلو کی زینت بنا ہوا ہے.کس خدمت اور کس نیکی کے عوض مجھے حاصل ہوا ہے.اس بات کو سوچ کر میں ورطۂ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتا ہوں.....اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو دے کر مجھے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچادیا.اس مہر و وفا کی مجسم نے جب میری بیماری کی اطلاع راولپنڈی میں پائی تو نہایت درجہ پریشانی کی حالت میں فور الاہور پہنچیں.یہ میری بیماری کی پہلی رات تھی اور ساری رات موٹر پر ان کو رہنا پڑا.صبح چار بجے کے قریب لاہور پہنچیں...پھر اس قدر تند ہی اور جانفشانی سے میری خدمت میں لگ گئیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ کوئی دوسری عورت اس قدر محبت اور پیار کے جذبہ سے اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہو......ان ایام میں ملازموں کے علاوہ عزیز رشتہ دار میری خدمت میں لگے ہوئے تھے.میں اس بیماری میں اپنے آپ کو اس قدر خوش نصیب اور خوش بخت لوگوں میں متصور کرتا تھا جس کا آپ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے.(حضرت نواب عبداللہ خان صاحب شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان صفحہ 16-15) 32

Page 39

حضرت نواب عبداللہ خان صاحب نے اپنی وصیت میں اپنے بچوں کو نصیحت فرمائی کہ:.” میری دعاؤں اور نیک خواہشوں کا وہی بچہ حقدار ہوگا جو اپنی ماں کی خدمت کو جزوایمان اور فرض قرار دے....پس جو بچے میرے بعد ان کو خوش رکھیں گے اور ان کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ان کے ساتھ میری دعائیں اور نیک آرزوئیں ہوں گی.جو بچے ان کو ناراض کریں گے وہ میری روح کو دکھ دیں گے.میں ان سے دور وہ مجھ سے دور ہوں گے.“ (اصحاب احمد جلد 12 صفحہ 95 تا 96) عدل و میزان حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے بارہ میں تحریر ہے کہ :.حضرت میر صاحب کی دو بیگمات تھیں.آپ کی پہلی بیگم حضرت شوکت سلطان صاحبہ تھیں، اور دوسری بیگم حضرت امتہ اللطیف صاحبہ تھیں.آپ کی تمام اولاد آپ کی دوسری بیگم سے تھی.یہ حضرت میر صاحب کی تربیت کا اثر تھا کہ دونوں بیویوں میں کبھی ساری عمر کوئی نا چاقی نہیں ہوئی.بلکہ دونوں کے درمیان حقیقی بہنوں سے بڑھ کر محبت اور تعاون کا تعلق تھا.حضرت میر صاحب نے جو دونوں بیگمات کے درمیان عدل اور میزان قائم فرمایا تھا ، وہ آپ کی اپنی شخصیت کے میزان کا آئینہ دار ہے.آپ کے بچے اپنی بڑی والدہ کو اچھی اماں اور اپنی حقیقی والدہ کو ” اماں کہتے.آپ کی اولا دکو بڑے ہونے کے بعد پتہ چلا کہ ان کو جنم دینے والی والدہ کون سی ہیں.حضرت میر صاحب کی تربیت کا ایسا اثر تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بھی، دونوں بیگمات اسی طرح اکٹھی رہیں اور اپنی وفات تک اکٹھی رہیں.بچے بھی دونوں ماؤں سے آخر تک برابر وابستہ رہے.( حضرت میر محمد اسماعیل صاحب تصنیف سید حمید اللہ نصرت پاشا ( غیر مطبوعہ ) صفحہ 80 تا81) 33 33

Page 40

محبت والاسلوک حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب کے بارہ میں ذکر ملتا ہے کہ:.حضرت پیر صاحب کا بھی اپنے گھر والوں ، خاص کر اپنی اہلیہ سے بہت ہی محبت والا سلوک تھا.حضرت پیر صاحب گھر کے کام کاج اکثر خود کیا کرتے تھے.آپ خود ہی گھر میں جھاڑو دے دیا کرتے تھے اور خود ہی برتن بھی دھو لیتے تھے.دوسری اہلیہ چونکہ بہت چھوٹی تھیں اس لئے بعض دفعہ کھانا بنانا بھول جاتی تھیں.لیکن صاحبزادہ صاحب کا رویہ ان سے بہت ہی اچھا ہوتا تھا.جب کبھی بھی ایسا ہوا کہ کھانا بنانا بھول گئیں تو رونے لگ جاتیں، اس پر پیر صاحب ان کو تسلی دیتے اور فرماتے ”میں نے بند لا کر کھا لیا ہے اگر تمہیں بھوک لگی ہے تو لا دیتا ہوں“.( حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب صفحہ 29 شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان) اولاد سے حسن سلوک حضرت ملک مولا بخش صاحب نے 1900ء میں بیعت کی.آپ کے بارہ میں ملک سعید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ملک صاحب اپنے بچوں کے مطالبات پورا کرنے بلکہ کھانے، پینے اور پہننے میں بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور اپنے سے اچھا پہناتے اور کھلاتے تھے.آخرِ مُوا أَوْلَادَكُمْ کے مطابق نہایت عزت سے ہمارے ساتھ گفتگو کرتے اور ہمیشہ ہمارے لئے ” آپ کا لفظ استعمال کرتے اور اس میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے.دوسری طرف غناء کا یہ حال تھا کہ ہم سے کچھ مطالبہ کرنے کو نا مناسب سمجھتے تھے.اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ 65) 34

Page 41

شکر گزار بیوی حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی کے بارہ میں ذکر ملتا ہے کہ :.منشی صاحب کی شادی محترمہ رانی صاحب دختر شمس الدین صاحب قوم شیخ سکنہ سیالکوٹ شہر سے اندازاً1887ء میں ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب 1904ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تو موصوفہ کو حضور کی زیارت کا موقع ملا.جب منشی صاحب ستمبر 1900ء میں قادیان سے بیعت کر کے واپس سیالکوٹ پہنچے تھے تو اسی وقت ان کی بیعت کا بھی خط لکھوا دیا تھا.آپ خاوند کی بہت فرمانبردار تھیں بلکہ بوقت وفات انہوں نے بچوں کو بھی وصیت کی کہ اپنے والد کا خاص خیال رکھنا اور اس نعمت کی قدر کرنا، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں لیکن میں ان کی قدر پہچانتی ہوں.اہل بیت سے قابل تحسین سلوک حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب کے بارہ میں تحریر ہے کہ :.اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ 197) آپ کی اہلی زندگی بہت ہی پرسکون تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو پوتے اور پڑنوا سے تک ولا دیکھنے کا موقعہ نصیب کیا.آپ کا سلوک اپنے اہل بیت سے قابل تحسین تھا.ان کا ہر طرح خیال رکھتے حتی کہ اگر رات کو گھر میں کبھی دیر سے آنا ہوتا تو انہیں بیدار کر کے کسی کام کی تکلیف نہ دیتے.( اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ 212) 35

Page 42

حضرت خلیفہ المسح الاول ایک حسین طرز عمل (رضی اللہ عنہ ) حضرت خلیفہ امسیح الا قول فرماتے ہیں:.میں نے جب سے شادیاں کی ہیں آج تک اپنی کسی بیوی کا کوئی صندوق کبھی ایک مرتبہ بھی کھول کر نہیں دیکھا.نعمتوں کی قدر (مرقاة الیقین صفحہ 210) آپ مزید فرماتے ہیں:.میرے بہت سے لڑکے مرے.جب کوئی لڑکا مرتا تو میں یہی سمجھتا کہ اس میں کوئی نقص ہوگا.خدا تعالیٰ اس سے بہتر بدلہ دے گا.خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے مایوس ہونا تو کافروں کا کام ہے.خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی جب قدر نہیں کی جاتی تو وہ نعمتیں چھن جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جاتی ہی نہیں مگر ناشکری سے.جب نعمت چلی جائے تو آدمی مایوس نہ ہو.میرے بچے جب مرے تو میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ اگر تم مرتے تب بھی یہ تم سے جدا ہو جاتے.36 (مرقاة اليقين صفحہ 211)

Page 43

حضرت خلیفہ المسیح الثانی بیوی بچوں کا خیال رکھنا (رضی اللہ عنہ ) محترمہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحب بنت لمصلح الموعود تحریر فرماتی ہیں:.آپ کے جماعتی کام اس قدر بڑھے ہوئے تھے اور آپ اتنے عدیم الفرصت تھے کہ آپ کے لئے بچوں کی طرف توجہ دینا بظاہر ناممکن تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کی پہلے سے دی ہوئی بشارتوں کے مطابق آپ میں غیر معمولی صلاحیتیں اور عام انسانوں سے بڑھ کر کام کرنے کی طاقت پائی جاتی تھی.اس لئے آپ جماعتی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں اور بچوں کا بھی پورا پورا خیال رکھتے تھے.اہل خانہ سے سلوک (ماہنامہ خالد سید نا مصلح موعود نمبر جون، جولائی 2008ء صفحہ 161) حضرت سید ہ بشری بیگم صاحبہ (مہر آپا) حرم حضرت خلیفہ المسیح الثانی آپ کی سیرت سے عائلی زندگی پر روشنی ڈالنے والے واقعات تحریر فرماتی ہیں کہ :.ڈلہوزی برف باری کے بعد ہم لوگ حضرت صاحب کی معیت میں ذرا تفریح کے لئے باہر نکلے.میں نے آپ سے کہا چلیں برف میں دوڑ لگاتے ہیں.دیکھیں کون آگے نکلتا ہے.چنانچہ ہم تینوں ( حضرت صاحب، خاکسار اور چھوٹی آپا) نے دوڑ لگائی.میں سب سے آگے نکل گئی.میرے بعد آپ کا نمبر تھا.خوب ہنسے اور محفوظ ہوئے.پارٹیشن کے بعد ہم سندھ 37

Page 44

کے سفر پر گئے ایک دن سیر کے لئے باغ ( ناصر آباد ) جارہے تھے وہ باغ خاصا بڑا ہے اور با پردہ ہے.چہل قدمی کے دوران میں نے آپ سے کہا کہ چلیں گھاس پر دوڑ لگا ئیں.آپ مسکرائے اور پھر ساتھ دوڑنے کے لئے تیار ہو گئے اب جو ہم دونوں نے دوڑ لگائی تو میں آپ سے چار پانچ گز پیچھے رہ گئی.آپ کھکھلا کر ہنسے اور فرمایا کہ لو بھئی ابد دل ہونے کی کوئی بات نہیں یہ ڈلہوزی برف کی دوڑ کا بدلہ ہے.جب تم جیت گئی تھیں آج ہم جیتے اور گھر پہنچ کر سب کو بتایا " کہ آج یہ دوڑ میں ہارگئیں.اہلیہ کی تیمارداری گرمی کے دنوں میں ایک دفعہ بخار سے میں بیمار ہوگئی ایک دن ٹمپر بچر 105 تک پہنچ گیا اور ہذیان شروع ہو گیا آپ کو کسی طرح پتہ چلا اس گرمی کی شدت میں آپ جلدی سے اوپر میرے پاس آئے آپ ایسی شدید گھبراہٹ میں نیچے اترے کہ پاؤں میں سلیپر تک نہ پہنے اور نہ گرمی کی پرواہ کی.ڈاکٹر صاحب کو بلایا اور اس وقت تک میرے پاس سے چلے نہیں گئے جب تک پانی پٹی وغیرہ سے بخار کم نہیں ہو گیا.اس دوران ہو میو پیتھک ادویات وقفہ کے ساتھ اپنے ہاتھ سے مجھے دیتے رہے.کام میں مدد کرنا گرمی ہی کے دن تھے رات تقریبا ایک دو بجے اچانک بارش آگئی بارش بھی خاصی موسلا دھار.ہم لوگ بصد مشکل اٹھے اور سامان لپیٹنے لگے میرا اصرار تھا کہ آپ جلدی کمرہ میں چلے جائیں میں بستر وغیرہ لے آتی ہوں آپ مصر تھے کہ میں تمہارے ساتھ یہ تمام کام کروں گا.میں نے چاہا آپ کی تکلیف کے خیال سے کہ نیچے گھنٹی کر کے لڑکی کو مدد کے لئے بلاؤں لیکن 38

Page 45

آپ نے فرمایا نہیں یہ کام کرنے والے اس وقت سو رہے ہوں گے.یہ آرام ہی کریں.تمہارے ساتھ کام میں کروں گا.مجھے ڈر تھا کہ آپ اس کیچڑ میں کہیں لیس نہ ہو جائیں.گاؤٹ کی تکلیف رہا کرتی تھی اور مجھے یہ ڈرتھا کہ اگر خدانخواستہ آپ پھسلے تو پاؤں کی ہڈی کو کوئی ضرب نہ آجائے.لیکن آپ نے ایک نہ مانی.تمام بستر اور سامان میرے ساتھ اٹھا لیا.سر سے پاؤں تک ہم بھیگے چھت پر کیچڑ کا یہ حال تھا کہ آخر میں ہم دونوں ایک دوسرے کو سپورٹ کر کے کمرے تک پہنچے اس کے بعد ہی چھت پر فرش لگا اور برساتی بنوانے کا آرڈر دیا گیا.ازواج سے حسن سلوک آپ کی ازواج بھی بیک وقت چارر ہیں.کیا مجال جو کسی بیوی کو ذرہ بھر شکایت کا موقع آپ کی ذات سے پیدا ہوا ہو.یا ازواج ہی کو کبھی اس قسم کی باہمی تلخی سے دو چار ہونا پڑا ہو.ہر بیوی آپ سے اپنی جگہ اس قدر خوش اور مطمئن کہ شاید ہی کسی کی بیوی فی زمانہ اپنے خاوند سے خوش رہ سکتی ہے.حضور نے انصاف کا ترازو اس قدر خوبصورتی سے پکڑا کہ خودسوچ کر حیرت ہوتی ہے.غور کرنے اور دیکھنے سے یہ بات کہے بغیر رہا نہیں جاتا کہ حضور نے اپنی چاروں بیویوں کا انفرادی طور پر اور مجموعی طور پر اس قدر خیال رکھا کہ ہر بیوی کے دماغ کے رگ وریشہ میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ جو تعلق حضور کو مجھ سے ہے وہ کسی اور سے کیا ہوگا.اپنے اپنے گھروں میں اپنی جگہ تمام خوش مطمئن ہیں.یہ کیوں؟ اس لئے کہ حضور نے ہر بیوی کو اس کے حقوق دیے کہ کیا کوئی دے گا.ہر بیوی کا خیال اس حد تک رکھا کہ ہر بیوی اپنے عزیزوں (میکے والوں ) تک کو بھول کر حضور ہی کی ذات میں کھو کر رہ گئیں.بیویوں کی خوشی میں، بیویوں کے غم اور دکھ درد میں بیویوں کی بیماری اور پریشانی میں باوجود غیر معمولی دینی مصروفیات اور سلسلہ کی 39

Page 46

ذمہ داریوں کے آپ ہر وقت ہر موقع پر شریک ہوئے اور ان کی اس قدر خوبصورت طریق سے دلداریاں کیں کہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے....اخراجات دینے کے لحاظ سے بھی آپ نے ایسا انصاف قائم رکھا کہ اس میں کسی کی رعایت نہ رکھی سب کے ساتھ ایک سا برتاؤ اور ایک سا سلوک کیا.سیر و تفریح کروانا آپ سیر و تفریح کو پسند فرماتے ہیں.نہ صرف اپنے لئے بلکہ اس میں کافی خوشی محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی ازواج آپ کی سیر و تفریح میں حصہ لیں.بوٹنگ ، شوٹنگ اور رائڈنگ کے لئے ہمیں اپنے ساتھ لے جا کر سکھاتے.قادیان میں راجپورہ وغیرہ میں ساتھ لے جا کر خود شکار کرتے اور ہمیں سکھاتے.سندھ کے سفر میں رائڈنگ سکھاتے.پکنک کا انتظام کرتے.ان تمام مشاغل میں پردے کا اہتمام اور احترام وہی ہوتا جو ہونا چاہیے.بیوی کی ادنیٰ سے ادنیٰ خواہش کو بھی کبھی رد نہیں کرتے.ہمیشہ اسکی جائز خوشی اور خواہش کو پورا کرنے میں انتہائی خوشی محسوس کی.ایک دفعہ میں نے بے ساختگی میں کہیں کہ دیا کہ جب سے قادیان آئی ہوں میں نے برف نہیں دیکھی.برف گرتے دیکھنے کو دل چاہتا ہے.میں نے یہ بات سرسری کی.لیکن آپ نے اپنے دل میں اس بات کو رکھ لیا.جو نہی سردیوں میں برف باری کا موسم آیا.آپ ہمیں ڈلہوزی لے گئے اور جا کر برف دکھائی.سسرالی عزیزوں سے سلوک آپ نہ صرف بیویوں کا خیال رکھتے ہیں.بلکہ ہر بیوی کے عزیزوں کا خیال بھی ، اسی محبت، اسی خلوص ، اسی قربانی سے کرتے ہیں کہ اس کے متعلق اگر وضاحت کی جائے تو اس کے 40

Page 47

لئے بہت بڑی ضخیم کتاب کی ضرورت ہے.میں مختصر ا ہی بیان کروں گی.خود بیوی کے ایک ایک عزیز کا پوچھیں گے.ان کی خوشی و غمی میں پورے اہتمام اور انہماک سے حصہ لیں گے.بیویوں کے ضرورتمند عزیزوں کا اتنا خیال کہ بعض اوقات بیویوں کو اس بات پر ناراضگی کا اظہار کرتے کہ میرے فلاں کو تکلیف تھی تم نے مجھے کیوں نہ بتایا( بیوی کے عزیز کو آپ نے کبھی بیوی کا عزیز نہیں سمجھا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تمہارے فلاں عزیز بلکہ ہمیشہ میرا فلاں عزیز فرمایا کرتے ہیں) اور پھر ان کی ضروریات کو اس طرح پورا کرتے ہیں کہ بڑے سے بڑا فیاض بھی حضور کی فیاضی اور دریا دلی کے سامنے بیچ ہو کر رہ جاتا ہے.اس قدر محبت و پیار اور فیاضانہ سلوک کرنے کے بعد کیا مجال جو کبھی آپ نے کبھی اشارہ یا کنایہ اپنے اس رویہ کا ذکر بھی کیا ہو.اب میاں بیوی کا معاملہ واحد ہوتا ہے.کبھی تخلیے میں بھی انسان بے تکلفی میں اظہار کر دیتا ہے.نہیں ہرگز نہیں.اس قدر لمبا عرصہ گزارنے پر بھی مجھے کبھی کوئی ایسی مثال ڈھونڈے نہیں ملی.(ماہنامہ خالد جون، جولائی 2008 صفحہ 131 تا 136) 41

Page 48

حضرت خلیفہ المسیح الثالث (رحمہ اللہ تعالیٰ) سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ بیان فرماتی ہیں:.بحیثیت بیوی میں دل کی گہرائی سے اس بات کی گواہی اپنے ذاتی تجربہ کی روشنی میں دیتی ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر بھر پور عمل فرمایا.بسا اوقات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج کے ساتھ حسن سلوک کا کوئی واقعہ پڑھتی ہوں تو معا اس سے ملتا جلتا واقعہ مجھے حضور کی محبت و شفقت کا یاد آ جاتا ہے.(ماہنامہ مصباح جون، جولائی 2008ء صفحہ 289) خوبیوں کی قدر دانی جب خاوند اتنا خیال رکھنے والا تھا تو اللہ تعالیٰ نے بیوی بھی فدائی اور جا نثار عطا فرمائی.حضور سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ”حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ میں خدا داد فراست تھی.علم سے شغف تھا.میں سمجھتا ہوں ! تاثر ہے میرا! کہ میری حفاظت کے لئے اپنا یہ طریق بنالیا تھا کہ جب تک میں سو نہ جاؤں رات کو آپ نہیں سوتی تھیں کتاب پڑھتی رہتی تھیں اور جب میں اپنی بہتی بجھا کر لیٹ جاتا تو پھر دومنٹ کے بعد بتی بجھا کر لیٹ جاتی تھیں.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات پر حضور نے حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کے اوصاف 42

Page 49

حمیدہ کا تذکرہ نہایت شاندار الفاظ میں فرمایا:.”بغیر بات کئے ساری ذمہ داریاں جو میرے نفس کی تھیں وہ آپ سنبھال لیں ، اس حد تک کہ وٹامنز خود نکال کر دیتی تھیں.کبھی میں خود نکالنے کی کوشش کروں تو ناراض ہو جاتیں کہ یہ میرا کام ہے کیوں آپ نے کیا ؟ مطلب یہ تھا کہ یہ دو منٹ بھی خود اس کام پر کیوں خرچ کئے جو دوسرے اہم جماعتی کام ہیں ان پر خرچ کریں.مجھے ہر قسم کے ذاتی فکروں سے آزاد کر کے سارے اوقات کو احباب کی فکروں میں لگانے کے لئے موقع میسر کر دیا.قابل رشک سلوک حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ فرماتی ہیں کہ :.(ماہنامہ مصباح جون، جولائی 2008 صفحہ 59) حضور کے ساتھ میرا تعلق بیوی کی حیثیت سے اگر چہ بظاہر صرف دو ماہ کے قلیل عرصہ تک رہا لیکن یہ تعلق اس قدر گہرا، اس قدر مضبوط ، اس قدر پیار سے بھر پور اور اتنا بے تکلف تھا کہ بیسیوں سال پرانے رشتے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے....حضور کا حسن سلوک اپنے اہل خانہ کے ساتھ قابل رشک حد تک خوبصورت تھا.مجھے وہ الفاظ نہیں ملتے جن سے اس کا نقشہ کھینچ سکوں.بس اتنا کہہ سکتی ہوں کہ چاروں طرف پیار ہی پیار تھا.شفقت ہی شفقت تھی اور اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا.اتنا گہرا اور شدید پیار اور اتنی شفقت کہ عام انسان تو اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا.بسا اوقات میں خود حیران رہ جاتی تھی.آپ مزید فرماتی ہیں:.میری تربیت کا ہر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی خیال رہتا.لیکن ہر بات اتنے پیار اور نرم انداز سے کہتے کہ مجھے برا محسوس نہ ہوتا.جذبات کا خیال بڑی باریکی سے رکھتے.بعض اوقات میں نے وہ بات محسوس نہیں بھی کی ہوتی تھی لیکن حضور کو اس کا احساس ہوتا کہ شاید اس نے محسوس کیا ہو اور 43

Page 50

خود ہی اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے.زندگی کے ہر پہلو پر جب میں نظر ڈالتی ہوں تو یہی محسوس کرتی ہوں کہ حضور اس کے لئے میری کسی نا کسی رنگ میں ضرور راہنمائی فرما گئے ہیں.شروع شروع میں جب میں نے گھر والوں سے اور دیگر لوگوں سے ملنا جلنا شروع کیا تو حضور نے مجھے نصیحت فرمائی کہ دیکھو تکبر نہیں کرنا لیکن وقار سے رہنا (ماہنامہ مصباح جون جولائی 2008 صفحہ 62) عمولی تکلیف کا بہت زیادہ احساس حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ حضور کی محبتوں اور شفقتوں کا مزید تذکرہ ان الفاظ میں کرتی ہیں.معمولی سی تکلیف اور دکھ کا بہت زیادہ احساس فرماتے اور خیال کرتے.ایک دفعہ رات کے وقت بیٹھے ڈاک دیکھ رہے تھے.میری طبیعت تھوڑی سی خراب ہوئی.معدہ میں جلن تھی میں نے کوئی خاص پرواہ نہیں کی.ایسے ہی بیٹھے بیٹھے ذکر کیا تو حضور فورا اٹھے اور مجھے ہو میو پیتھی دوا دی.دس دس منٹ بعد تین خوراکیں دیں اور چہرے پر فکر کا تاثر تھوڑی تھوڑی دیر بعد دریافت فرماتے اب ٹھیک ہو.میں حیران تھی نصف گھنٹے میں بالکل ٹھیک ہو گئی.طبیعت میں حلم اور نرمی بہت تھی کسی کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے.مجھ سے بھی فرماتے ”میں تمہاری آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتا.مجھے ٹائفائیڈ کا ٹیکا لگوانا تھا.کوئی خاص تکلیف والی بات تو نہ تھی لیکن آپ نے جس طرح خیال اور محبت سے خود بازو پکڑ کر ٹیکہ لگوایا وہ میرے لئے اس وقت باعث حیرت تھا اور اب اس کی یاد باعث فرحت ہے.غرض یہ کہ آپ کی محبتوں اور شفقتوں کا تذکرہ کہاں تک کیا جائے.زندگی کے ہر پہلو میں آپ صرف اس بات کا خیال رکھتے کہ ہر کام قرآن کریم کے حکموں کے مطابق ہو.(ماہنامہ مصباح جون ، جولائی 2008ء صفحہ 62) ✰✰✰ 44

Page 51

حضرت خلیفہ مسیح الرابع محبت کا ایک انداز (رحمہ اللہ تعالی) صاحبزادی شوکت جہاں اپنے ابا جان حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے بارہ خلیفۃالمسیح کے میں بتاتی ہیں:.بچپن کی بڑی ہی پر لطف یادیں ہیں.کس کس کا ذکر کروں ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ بھی چلتی.ہم بہنیں ابھی بہت ہی کم عمر تھیں کہ ایک دن ابا جان دفتر سے واپس آئے اور کہنے لگے آؤ تمہیں جادو کا کرتب دکھا ئیں.بتاؤ کون سی مٹھائی کھانے کو تمہارا جی چاہتا ہے اور یہ مٹھائی تمہیں کس جگہ پر رکھی ملے.میں نے فورا جواب دیا.کہ میرا دل تو پیلے رنگ کی ایک مٹھائی کھانے کو چاہ رہا ہے اور اگر وہ مجھے ایک خاص الماری میں پڑی ہوئی مل جائے تو کتنا مزہ آئے.میری چھوٹی بہن فائزہ بولی مجھے تو مٹھائی چاہیے جس میں شکر ہی شکر اور کریم ہی کریم ہو اور یہ مٹھائی مجھے ڈائٹنگ روم کی الماری کے تیسرے خانے میں رکھی ہوئی ملنی چاہیے.ابا جان نے ہوا میں باز و لہرا کر کہا.ٹھیک بالکل ٹھیک.تمہاری من کی مرادیں پوری ہو گئیں.جاؤ اور اپنی اپنی مقررہ جگہ پر سے مٹھائی اٹھا لو.یہ سنتے ہی ہم دونوں بہنیں تیر کی طرح سیدھی اپنی اپنی مقررہ جگہ کی طرف لپکیں.کیا دیکھتی ہیں کہ ہماری دل پسند مٹھائیاں ہماری بتائی ہوئی جگہوں پر پڑی ہیں.بس پھر کیا تھا ہم نے شور مچادیا اور اپنی سہیلیوں کو بڑے فخر سے بتایا کہ ہمارے ابا جان کو جادو آتا ہے.بڑی ہوئیں تو ہم نے ابا جان سے پوچھا کہ آپ نے یہ کارنامہ کیسے سرانجام دیا تھا؟ 45

Page 52

وہ مسکرائے اور فرمانے لگے یہ تو سیدھی سی بات تھی مجھے یہ تو پتہ تھا کہ تمہیں کون کون سی مٹھائی پسند ہے اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ تم اپنی قیمتی اشیاء کہاں کہاں رکھتی ہو.بس میں نے تمہاری پسندیدہ مٹھائیاں وہیں رکھ دیں اور اشاروں کنایوں سے تمہیں آمادہ کر لیا کہ تم ان جگہوں کا نام لو جہاں میں نے مٹھائیاں رکھی تھیں.اگر ہم کبھی ابا جان کو ہنسی مذاق میں چھیڑ تیں تو بڑے خوش ہوتے.ایک دفعہ یوں ہوا کہ میری بہن فائزہ نے سوائے ایک ٹافی کے ڈبے کی ساری ٹافیاں کھا لیں اور ان کی جگہ بالکل انہیں کی طرح کنکر لپیٹ کر انہیں اس صحیح سلامت اکلوتی ٹافی کے ہمراہ ڈبے میں رکھ کر ڈبہ ابا جان کی میز پر سجایا اور لگے ہاتھوں بڑا سا سوالیہ نشان بھی ڈبے پر لگا دیا.پھر اس راز کو ایک ایک کر کے سب سہیلیوں تک پہنچادیا اور خود بڑی بے تابی سے انتظار کرنے لگیں کہ دیکھئے اب ابا جان کیا کرتے ہیں.تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتی ہیں کہ ڈبہ اپنی اصل جگہ پر واپس رکھ دیا گیا ہے.لیکن اب کی بار اس کے ساتھ ایک پر چہ بھی منسلک تھا جس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے.” میں نے اپنے حصہ کی ایک ٹافی کھالی ہے.باقی ٹافیاں آپ کھالیں.“ غور سے دیکھا تو وہ اکلوتی ٹافی غائب تھی.ایک دلچسپ مزاح ایک مرد خدا صفحہ 213-211) مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ابا جان ایک مرتبہ گھنی اور لمبی قسم کی دو مصنوعی داڑھیاں اور ساتھ داڑھیاں چپکانے کا مسالہ بھی لائے.ان میں سے ایک داڑھی سفید تھی اور ایک سیاہ.ابا جان نے ایک داڑھی اُمی جان کو لگا دی اور دوسری ہماری بوڑھی انا کو.اور چہروں کو یوں 46

Page 53

رنگ دیا کہ پہچان ناممکن ہو گئی.دونوں کو سفید چادر میں اوڑھا دیں اور ہاتھوں میں لمبے لمبے عصائے پیری تھما دیے پھر یہ دونوں ریشائیل بزرگ اپنے عجیب وغریب سفر پر روانہ ہو گئے اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے دروازوں پر باری باری دستک دینا شروع کی.ابا جان اور میں ہم دونوں ان کے ساتھ ساتھ لیکن چھپ کر سائے کی طرح ان کا پیچھا کرتے رہے.سب سے پہلے (حضرت خلیفہ ثالث کی بڑی اور سن رسیدہ بہن کے دروازے کو جا کھٹکھٹایا.انہوں نے خود دروازہ کھولا.لیکن جب دیکھا کہ وہ عجیب الخلقت پیران تسمہ پا ایک جناتی زبان میں ان سے مخاطب ہیں تو جھٹ سے کواڑ بند کر دیے.مارے ہنسی کے ہمارا برا حال ہورہا تھا.ایک طرح کی ”قیامت صغری بر پا کرنے کے بعد یہ دونوں بوڑھے اگلے مکان پر جادھمکے.ابا جان اور میں بدستور دبے پاؤں ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے.اگلے مکان پر دستک دی گئی.اب کی بار پہلے سے بھی بڑھ کر دھما کہ خیز رد عمل ہوا.پھر کیا تھا ایک دروازے سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا دروازہ.ہوتے ہوتے ان کا پیدا کردہ شور و غوغا بھی نئی سے نئی بلندیوں کو چھونے لگا اور ان کی حرکات وسکنات بھی نئے سے نئے زاویوں سے روشناس ہوتی چلی گئیں اور ان میں نکھار آتا چلا گیا.عملی مذاق کا یہ سلسلہ رات گئے تک چلتا رہا یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے.اب ہم تھک چکے تھے اور ہمارے چھپنے کی چنداں ضرورت بھی نہیں تھی چنانچہ ہم سب مل کر ابا جان اور میں دونوں ان نام نہاد ” بوڑھوں کے ہمراہ دوبارہ گھر گئے لیکن ہمارے خاندان کے لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ حقیقت نہیں تھی بلکہ ایک عملی مذاق تھا.ایک مرد خدا صفحہ 216-215) ☆☆☆ 47

Page 54

حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بے غرض بھر پور تعاون حضرت سیدہ امته السبوح بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تحریر فرماتی ہیں:.حضور انور کی زندگی خلافت سے پہلے بھی خدمت دین کے لئے وقف تھی اور آپ کے شب و روز بھر پور دینی مصروفیات میں گزرتے.لیکن آپ اپنے دفتری معمولات کے ساتھ ساتھ گھر کے امور میں بھی دلچسپی لیتے اور بھر پور تعاون فرماتے.1977ء میں نصرت جہاں سکیم کے تحت بطور پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول تقرری ہوئی.جب ہم گھانا گئے اس وقت گھانا شدید Economic Crisis(اقتصادی بحران ) میں سے گزر رہا تھا.ملکی حالات بے حد خراب تھے.سب سے پہلی چیز جس نے حضور کے لئے میرے دل میں قدر پیدا کی کہ وہ کسی معاملہ میں بھی حضور نے کبھی Selfishness( خود غرضی نہیں دکھائی.ہمیشہ ہی باوجود اپنی دینی مصروفیات کے میرا اور بچوں کا اپنی طاقت کے مطابق خیال رکھا.بے تکلف زندگی میں بعض گھروں میں جب دیکھتی تھی کہ مردوں کے لئے ان کا حسب پسند الگ سالن اور گرم پھل کا بنتا اور خاص اہتمام ہوتا اور بیوی بچے بعد میں بچا ہوا کھانا کھاتے.جبکہ حضور انور کی طرف سے کبھی بھی اس قسم کا کوئی اظہار نہ ہوا اور نہ ہی ایسی خواہش یا مطالبہ.تو ایک طرف تو حضور کے لئے میرے دل میں قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا تو دوسری طرف مجھے بڑی حیرت اس بات پر ہوتی کہ زندگی وقف تو مرد نے کی ہے مگر خود تو گھریلو زندگی میں قربانی نہیں کرتے بلکہ الٹا بیوی بچوں سے 48

Page 55

قربانی مانگتے ہیں.گھر کے کام میں مدد کرنا گھانا میں ہمیشہ پانی کی قلت رہی.ہم نے باہر ٹینک رکھا ہوا تھا جس میں ٹینکر آ کر پانی ڈالتا تھا.اندر کچن اور غسل خانہ میں پلاسٹک کے بڑے ڈرم تھے.حضور صبح نماز کے بعد بالٹیوں سے پانی بھرتے.جتنا بھی ضروری کام ہوتا، مجھے یہ نہیں کہا کہ آج میں مصروف ہوں تم خود ہی بھر لو.جب کبھی بیمار ہوئی تو کھانا پکانے کی ذمہ داری خود سنبھالتے اور بچوں کو قرآن پاک پڑھانے میں میری پوری مدد فرماتے.بچوں کی بیماری کے دوران حضور ایدہ اللہ نے ہر طرح میری مدد فرمائی.میٹنگز کے دوران مردوں کے رش کی وجہ سے فیڈ رز وغیرہ خود ہی دھو کر دیتے کیونکہ کچن جانے کے لئے اکثر مردوں میں سے گزرنا پڑتا تھا.سفر میں بھی خیال رکھنا 1991ء میں ہمارا قادیان جانے کا پروگرام بنا تو میرے امی ابا کے علاوہ خالہ امتہ النصیر صاحبہ ( خالہ چھیرو) اور میری دادی مسز فرخندہ شاہ صاحبہ بھی ساتھ تھیں.عزیزم قاسم بھی ساتھ تھا.اس نے خالہ چھیرو اور دادی صاحبہ کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی.باقی ہم سب کی سفر کی ساری تیاری، سارا سامان پیک کرنا، بستر بند کرنا اور ہر قسم کی ضروریات کا خیال رکھنا.یہ سب کام حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بہت ہمت سے سنبھالا اور سفر و حضر میں میرے ساتھ سب بزرگوں کا بھی خوب خیال رکھا.سادہ گھر یلوطر به زندگی حضور کی طبیعت میں بہت نفاست مگر سادگی ہے.سادہ گھر یلوطر ز زندگی جوخلافت سے 49

Page 56

پہلے تھا اب بھی وہی ہے.اپنی روٹین میں فرق نہیں آنے دیا.آپ کھانے میں کبھی نقص نہیں نکالتے.رزق کا ضیاع بالکل پسند نہیں.حضور انور ایدہ اللہ کے خلیفہ بننے کے بعد کی بات ہے کہ ایک بار میری طبیعت بہت خراب تھی.سر درد کا شدید دورہ ہوا تھا تو حضور نے پہلے میرے لئے ناشتہ تیار کر کے مجھے دیا.پھر اپنا ناشتہ تیار کرنے کے بعد دفتر گئے.اب بھی باوجود بے انتہاء مصروف زندگی کے گلدانوں میں پھول لگانا، پودوں کی کانٹ چھانٹ کرنا، ایسے کام کر لیتے ہیں.(ماہنامہ تشخيذ الاذہان ستمبر اکتوبر 2008ء صفحہ 15 تا22) ارشاد حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آپ فرماتے ہیں :.آج کل دیکھیں ذرا ذراسی بات پر عورت پر ہاتھ اُٹھا لیا جاتا ہے.حالانکہ جہاں عورت کوسزا کی اجازت ہے وہاں بہت سی شرائط ہیں اپنی مرضی کی اجازت نہیں ہے.چند شرائط ہیں ان کے ساتھ یہ اجازت ہے اور شاید ہی کوئی احمدی عورت اس حد تک ہو کہ جہاں اس سزا کی ضرورت پڑے اس لئے بہانے تلاش کرنے کی بجائے مردا اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور عورتوں کے حقوق ادا کریں.“ (خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 448) اللہ تعالیٰ نے مرد کے قومی کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بنایا ہے اس لئے اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی عورت سے زیادہ ہیں اس سے ادا ئیگی حقوق کی زیادہ توقع کی جاتی ہے.عبادات میں بھی اس کو عورت کی نسبت زیادہ مواقع مہیا کئے گئے ہیں اور اس لئے اس کو گھر کے سر براہ کی حیثیت بھی حاصل ہے اور اسی وجہ سے اس پر بحیثیت باپ اس پر ذمہ داریاں ڈالی گئیں ہیں اور بہت سی ذمہ داریاں ہیں، چند ایک میں یہاں ذکر کروں گا اور ان ذمہ 50 50

Page 57

واریوں کو نبھانے کے لئے حکم دیا کہ تم نیکیوں پر قائم ہو.تقویٰ پر قائم ہو اور اپنے گھر والوں کو، اپنی بیویوں کو ، اپنی اولا د کو تقویٰ پر قائم رکھنے کے لئے نمونہ بنو اور اس کے لئے اپنے رب سے مدد مانگو، اس کے آگے روؤ ، گڑ گڑاؤ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے اللہ ان راستوں پر ہمیشہ چلا تارہ جو تیری رضا کے راستے ہیں کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہم بحیثیت گھر کے سربراہ کے، ایک خاوند کے اور ایک باپ کے، اپنے حقوق ادا نہ کرسکیں اور اس وجہ سے تیری ناراضگی کا موجب بنیں.تو جب انسان سچے دل سے یہ دعا مانگے اور اپنے عمل سے بھی اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ نہ ایسے گھروں کو برباد کرتا ہے، نہ ایسے خاوندوں کی بیویاں ان کے لئے دکھ کا باعث بنتی ہیں اور نہ ان کی اولادان کی بدنامی کا موجب بنتی ہے اور اس طرح گھر جنت کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے.“ خطبات مسر در جلد دوم صفحہ 444 تا 445) ✰✰✰ 51

Page 57