Hamara Aaqa

Hamara Aaqa

ہمارا آقا ﷺ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی
بچوں کے لئے

مکرم شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے ہمارا آقاﷺ کے عنوان سے نبی کریم ﷺ کی سیرۃ کے واقعات نہایت خوبصورتی کے ساتھ چھوٹے بچوں کے لئے مرتب کئے تھے۔ جسے لجنہ اماء اللہ پاکستان نے صدسالہ خلافت جوبلی کے موقع پر ٹائپ کرواکر شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں مختلف عناوین کے تحت سیرت کے واقعات آسان اور دلچسپ انداز میں تحریر کئے گئے ہیں۔


Book Content

Page 1

بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی ہمارا آقا

Page 2

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی ہمارا آقا صلى الله علوم

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے کہ صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی کے مبارک موقعہ پر لجنہ اماء اللہ پاکستان کو سيرة آنحضرت ﷺ پر بچوں کے لئے کتاب ہمارا آقا ع کی اشاعت کی توفیق مل رہی ہے.شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب نے اس میں ہمارے آقا ﷺ کی سیرۃ کے واقعات نہایت خوبصورتی سے بیان فرمائے ہیں.خاکساران کے پوتے خالد پانی پتی صاحب کی شکر گزار ہے کہ انہوں نے ہمیں اس کی دوبارہ اشاعت کے اختیارات دے دیئے.خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.آمین

Page 4

فہرست مضامین ہمارا آقا“ عنوان سخت امتحان صفحہ نمبر 1 4 7 11 14 15 16 19 21 23 الله الله دین 26 31 بیقرار ماں غیبی چشمه بیٹے کی قربانی دنیا کی پہلی مسجد عجیب دعا انوکھی منت عظیم الشان خواب خواب کی تعبیر قوم کا تعجب کھایا ہوا بھو سا قیم کی دائی 1 2 3 4 5 6 7 8 10 11 12

Page 5

35 35 37 4 43 46 46 50 60 13 14 15 16 17 18 19 عنوان برکت کی پوٹ ننھے بہادر سلام! فرشتوں کا نزول ماں کی جدائی دادا کا انتقال مُقدس لڑکے کی پہلی دعا معصوم بچے کا ارادہ بچے کا پہلا سفر جہالت کا کرشمہ نوجوان کا حلف صادق اور امین مال دار عورت بیاه 52 55 58 67 26 71 74 76 81 59 85 20 21 22 23 24 25 26 2 2 2 2 2 N 27 جاں نثار بیوی چادر کے کونے

Page 6

Page 7

ہمارا آقا ع پیارے بچو! بسم اللہ الرحمن الرحیم (1) سخت امتحان آج سے چار ہزار برس پہلے دنیا میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا.براعظم ایشیا کے شمال مغربی کونے پر ایک ملک ہے جسے شام کہتے ہیں.اُس میں خدا کے ایک بہت بڑے پیغمبر رہا کرتے تھے، جن کا نام ابراہیم علیہ السلام تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام بوڑھے ہو گئے مگر اُن کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی.اس پر انہوں نے خدا سے گڑ گڑا کر فرزند کے لئے دعا مانگی.اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا سن لی اور چھیاسی برس کی عمر میں اُن کے ہاں ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا.بیٹے کا نام انہوں نے اسمعیل رکھا جس کے معنی ہیں 'خدا نے (دعا) سُن لی.مگر اسمعیل علیہ السلام پیدا ہونے کے تھوڑے ہی دنوں بعد خدا نے اُن کے باپ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کا سخت امتحان لینا چاہا.اللہ تعالی نے فرمایا: " ابراہیم ! جاؤ بچے اور اُس کی ماں کو عرب 66 کے لق و دق ریگستان میں چھوڑ آؤ.“

Page 8

ہمارا آقا ع 2 بڑے ارمانوں اور دعاؤں کے بعد بڑھاپے میں اولاد پیدا ہوئی تھی.اُسے ایک ویرانے میں چھوڑ آنے کے معنی یہ تھے کہ وہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہو جائے.بیوی بادشاہ مصر کی لڑکی تھی.نہایت ناز و نعمت سے محلوں میں پلی ہوئی.اُسے سنسان بیابان میں تنہا چھوڑ دینے کا مطلب یہ تھا کہ دو ہی دنوں میں اُس کا خاتمہ ہو جائے.اگر چہ یہ خطرے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں گزرے مگر بیٹے کی محبت اور بیوی کی الفت پر خدا کا عشق غالب آیا.پانی کا ایک مشکیزہ اور کچھ کھجوریں ساتھ لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کا حکم پورا کرنے کے لئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے.شہزادی ہاجرہ اپنے معصوم بچے کو چھاتی سے چمٹائے ساتھ تھی.چلتے چلتے جب یہ چھوٹا سا قافلہ اُس ویران وادی میں پہنچا جہاں آج شہر مکہ آباد ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹھہر گئے.مشکیزہ کو زمین پر رکھا.کھجوروں کی تھیلی بیوی کے ہاتھ میں دی.ننھے بچے کو آبدیدہ آنکھوں سے پیار کیا اور واپس مڑ گئے.بیوی چلائی اور درد بھرے الفاظ میں کہنے لگی:." آپ کہاں جارہے ہیں؟ اور ہمیں کس پر چھوڑ چلے ؟ تھوڑی دیر میں کوئی بھیڑ یا آئے گا

Page 9

ہمارا آقا ع اور ہم دونوں کو پھاڑ کھائے گا.“ 3 مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہ تو پیچھے مڑ کر دیکھا اور نہ بات کا جواب دیا.مایوس ہو کر شہزادی نے پکار کر کہا: " اچھا اگر جاتے ہو تو جاؤ مگر اتنا تو بتاتے جاؤ کیا تم ہمیں یہاں خدا کے حکم سے چھوڑے جار ہے ہو یا کسی منظمی کی وجہ سے؟“ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیچھے مڑ کر دیکھا.اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا رہی تھیں اور آواز هدت غم سے بیٹھ گئی تھی.بول تو نہ سکے ،مگر اشارے سے کہا: ”ہاں !“ اس پر شہزادی بولی :.” پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا.جاؤ شوق سے جاؤ ! ہاجرہ تھا.یہی شہزادی میرے آقا علیہ السلام ) کی جدہ ماجدہ تھی ، جن کا نام

Page 10

ہمارا آقاعل الله (2) بیقرار ماں شوہر کے چلے جانے کے بعد بے کس شہزادی نے سوچنا شروع کیا کہ اس کھلے آسمان کے نیچے اور اس چٹیل زمین کے اوپر اس معصوم جان کے ساتھ زندگی کس طرح کٹے گی ؟ یہاں نہ کوئی درخت نظر آتا ہے جس کے سایہ میں کچھ دیر بیٹھ جاؤں.نہ گھاس پھونس کا کہیں پتہ ہے جس کی جھونپڑی بنا کر اپنے لال کو دھوپ سے بچاؤں.اُس نے حسرت کے ساتھ اردگرد کی خشک پہاڑیوں کو دیکھا اور خاموش ہو گئی.شہزادی نے اپنے لخت جگر کو جوشا و مصر کا نواسہ اور پیغمبر شام کا بیٹا تھا.پتھریلی زمین پر لٹا دیا.نیچے نہ کوئی بوریا تھا نہ کپڑا.اور سوچنے لگی ، اب کیا ہوگا ؟ تین چار دن کے بعد جب مشکیزہ کا پانی ختم ہو گیا تو نھا معصوم مارے پیاس کے زمین پر تڑپنے لگا.اُس کے ہونٹوں پر پڑیاں جم گئیں.اور شدت پیاس سے اُس کی زبان باہر نکلنے لگی.ماں کا دل اس درد ناک نظارہ سے پاش پاش ہو گیا.مگر وہ پانی کہاں سے لائے جو اپنے لال کے منہ میں چُھوائے ! یہ خیال کر کے کہ اب بچہ کوئی دم کا مہمان ہے.ماں کے چہرے پر

Page 11

ہمارا آقا ع ہوائیاں اُڑنے لگیں.5 اُس نے پانی کی تلاش میں انتہائی حسرت کے ساتھ چاروں طرف نظر دوڑائی مگر پانی عنقا تھا.مامتا کی ماری ماں بڑی بیقراری کے ساتھ سامنے کی پہاڑی پر چڑھ گئی کہ شاید وہیں سے کہیں پانی کا کوئی چشمہ نظر آ جائے لیکن بے سود! وہ وہاں سے اُتری اور اُس کے بالمقابل دوسری پہاڑی پر چڑھ کہ پانی ڈھونڈ نے لگی مگر یہاں بھی اُسے ناکامی ہوئی.اتنے میں شہزادی کو خیال آیا کہ بچہ پیاس سے تڑپ تڑپ کر کہیں مر نہ گیا ہو.اس خیال کے آتے ہی وہ بڑی بے چینی کے ساتھ پہاڑی سے اتری اور دوڑ کر بچے کو گود میں اُٹھا کر چھاتی سے لگالیا.بچہ ابھی تک زندہ تھا مگر پیاس کے مارے نہایت نڈھال ہو رہا تھا.امید پر دُنیا قائم ہے ، ماں نے سوچا.لاؤ ایک مرتبہ اور پہاڑی پر چڑھ کر دیکھوں.شاید پانی کا کچھ سراغ لگ سکے.ہوتا تو ملتا.وہ پھر دوبارہ پہاڑی پر چڑھی اور دور تک دیکھتی رہی مگر پانی کہیں مایوس اور دل شکستہ ہو کر شہزادی پہاڑی سے اُتر آئی مگر دل نہ مانا اور خیال کرنے لگی کہ لاؤ دوسری پہاڑی پر بھی دوبارہ چڑھ کر قسمت آزمائی

Page 12

ہمارا آقا عدل کروں.مگر پانی کہاں تھا ؟“ 6 اسی طرح شہزادی نے دونوں پہاڑیوں کے جن کے نام صفا اور مروہ ہیں سات چکر لگائے.ہر مرتبہ آتی اور اپنے لختِ جگر کو دیکھ جاتی اور پھر بڑی بے قراری کے ساتھ پانی کی تلاش میں پہاڑی پر چڑھ جاتی.یہی مقدس بچہ میرے آقا (ﷺ) کا جد امجد تھا.جس کا نام اسمعیل (علیہ السلام) تھا.

Page 13

ہمارا آقاعل الله 7 (۵) غیبی چشمه ساتویں دفعہ جب ماں اپنے بچے کی خیریت دریافت کرنے آئی.تو اس نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ جہاں بچہ پیاس کے مارے ایڑیاں رگڑ رہا ہے.وہاں کچھ کچھ نمی نظر آتی ہے اور اُس نمی میں پانی جھلک رہا ہے.مسرت اور تعجب کے انتہائی جذبات کے ساتھ بڑی پھرتی سے شہزادی آگے بڑھی اور بچے کا پاؤں آہستہ سے ہٹا کر ہاتھوں سے زمین گریدنے لگی.نکلنے لگا.اُس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب مٹی ہٹاتے ہی زمین میں سے پانی جوں جوں شہزادی مٹی ہٹاتی.پانی زور سے نکلتا یہاں تک کہ زمین پر بہنے لگا.انبساط کے مارے مایوس ماں کی باچھیں کھل گئیں.اس نے دوڑ کر بچے کو گود میں اُٹھایا اور چلو میں پانی لے کر اسے پلایا.تب کہیں بچے کی جان میں جان آئی اور اُس نے اپنی کٹورا سی آنکھیں کھول دیں.جنھیں دیکھ کر شہزادی فرط مسرت سے بے خود ہوگئی.اور بے اختیا ر خدا کے

Page 14

ہمارا آقا عال 8 حضور سجدے میں گر پڑی جس نے اپنی قدرت سے اس پتھریلی زمین میں چشمہ پیدا کر دیا تھا.پانی اب بھی بہہ رہا تھا اور اس کی نکاسی میں برابر زیادتی ہوتی جارہی تھی.شہزادی نے یہ دیکھا تو جلدی جلدی آس پاس سے پتھر اکٹھے کئے اور چشمے کے چاروں طرف ایک ڈول بنا دی تا کہ بہہ کر پانی ضائع نہ ہو جائے.پانی بہت جلد پتھروں کے کناروں تک آ گیا.اور ایک حوض سا بن گیا.عرب میں پانی بہت ہی کم تھا.مختلف قبیلے اپنے ڈیرے خیمے لیے سارے ملک میں ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر پھرتے رہتے تھے.جہاں پانی دیکھتے وہیں جیسے لگا کر اتر پڑتے ، جب تک پانی رہتا، وہ بھی وہاں پڑے رہتے ، جب خشک ہو جاتا تو اپنے خیمے اکھاڑ دوسرے چشمے کی تلاش میں آگے روانہ ہو جاتے.یہاں بھی یہی ہوا.ایک قبیلہ جس کا نام جرہم تھا.اتفاق سے ادھر سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ چٹیل اور پتھریلی وادی میں ایک چشمہ جاری ہے اور ایک عورت بچے کو گود میں لئے وہاں بیٹھی ہے.پانی کو دیکھ کر قبیلے والوں کا دل للچایا ، انہوں نے کہا :.” نیک

Page 15

ہمارا آقاعل الله 9 خاتون ! اس ویران وادی میں آپ اکیلی کس طرح اپنی زندگی بسر کرتی ہوں گی؟ آپ کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں ؟ " شہزادی نے جواب دیا: ” میں مصر کی رہنے والی ہوں اور شام سے آئی ہوں.مجھے میرے شوہر خدا کے حکم سے یہاں چھوڑ گئے ہیں.میرے بچے کے لئے اللہ تعالی نے محض اپنی قدرت سے اس جنگل میں یہ چشمہ جاری کر دیا ہے.“ یہ سن کر قبیلے والوں نے کہا.” اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس چشمہ کے آس پاس آباد ہو جائیں.ہمیں پانی مل جائے گا اور آپ کا اکیل بین دور ہو جائے گا.“ اللہ تعالیٰ کے اس عجیب انتظام کو دیکھ کر شہزادی حیران رہ گئی مگر اُس نے بہت ہی خود دارانہ لہجہ میں جواب دیا : کہ بے شک آباد ہو جائیں میرا کوئی ہرج نہیں ، لیکن میں چونکہ چشمہ کی مالک ہوں ، اس لئے شرط یہ ہے کہ پانی کے معاوضہ میں آپ لوگ میری اور میرے بچے کی ضروریات خوردونوش کا خیال رکھیں گے اور یہ بچہ بڑا ہو کر آپ کا سردار ہو.میں تمہیں بتائے دیتی ہوں کہ یہ معمولی لڑکا نہیں بلکہ شاہ مصر کا نواسہ اور ابراہیم (علیالسلام) پیغمبر کا بیٹتا ہے.“ قبیلے والوں نے بڑی ہی خوشی اور احسان مندی کے ساتھ یہ

Page 16

ہمارا آقا ع 10 دونوں شرطیں مان لیں اور وہاں آباد ہو گئے.اس طرح شہر مکہ کی بنیاد پڑی جو آج تمام دنیا کے مسلمانوں کا مذہبی مرکز ہے.چشمہ بھی موجود ہے اگر چہ اُس کا پانی نیچے اتر کر اب کنوئیں کی شکل میں تبدیل ہو چکا ہے جس کا نام زمزم ہے.بعض واقعات عام نظر میں معمولی ہوتے ہیں.مگر اُن کا اثر اکثر اوقات نہایت عظیم الشان ہوتا ہے.حضرت ہاجر و ( علیها السلام ) کے اسی واقعہ کو دیکھ لو.اُن کا پہاڑیوں کے درمیان دوڑ نا بظاہر ایک معمولی بات تھی مگر یہی واقعہ بعد میں ایک یادگار بن گیا.چنانچہ آج بھی جب ہزاروں لاکھوں مسلمان مکہ معظمہ میں حج کے لئے جمع ہوتے ہیں تو حج کے دوسرے ارکان کے ساتھ صفا اور مروہ کے درمیان بھی ضرور دوڑتے ہیں.بعد کے ایام میں ان ہی تاریخی پہاڑیوں میں سے ایک پر چڑھ کر میرے آقاﷺ نے سب سے پہلے اعلانِ نبوت فرمایا تھا.

Page 17

ہمارا آقا ع 11 (1) بیٹے کی قربانی جب حضرت اسمعیل علیہ السلام مکہ کی کھلی ہوا میں پرورش پاکر جوان ہو گئے تو اُن کے مقدس باپ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ نے دوبارہ امتحان لینا چاہا.یہ امتحان پہلے سے بھی سخت تھا.خدا نے خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ اور اپنے بیٹے کو چھری سے ذبح کر ڈالو دُنیا میں ایسا کب ہوا ؟ اور آسمان نے ایسا نظارہ کب دیکھا ؟ کہ کسی بوڑھے باپ نے اپنے ہاتھ سے اپنے جوان بیٹے کا گلا کاٹا ہو؟ یہ تو ایسی بات ہے کہ اس کے صرف خیال ہی سے آدمی کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.مگر حضرت ابراہیم خدا کے سچے عاشق تھے وہ خواب دیکھتے ہی چھری لے کر سفر پر روانہ ہو گئے.جب مکہ میں پہنچے تو سعادت مند اور لائق فرزند نے بڑے شوق اور ادب کے ساتھ باپ کی آؤ بھگت کی.حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو الگ لے گئے اور اس سے کہنے لگے :." مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ تجھے ذبح کر ڈالوں ، بول تیری کیا مرضی ہے؟“

Page 18

ہمارا آقا ما 12 اسمعیل علیہ السلام آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے.ایک لحظہ تامل کئے بغیر انہوں نے جواب دیا ”میرے محترم باپ ! جو کچھ حکم دیا گیا ہے اُسے فوراً بجالائیں.مجھے آپ انشاء اللہ صابر اور فرمانبردار پائیں گے.“ باپ بیٹا دونوں جنگل میں چلے گئے پندرہ برس کا نوجوان لڑکا زمین پر لیٹ گیا اور سو برس کا بوڑھا باپ چھری لے کر اُسے اپنے رب پر قربان کر دینے کے لئے تیار ہو گیا.آسمان و زمین اس دلدوز نظارہ سے کانپ اٹھے اور فرشتوں نے اس عجیب منظر کو نہایت حیرت سے دیکھنا شروع کیا.دنیا کی تمام تاریخیں پڑھ جاؤ تمہیں تاریخ عالم کا کوئی بھی واقعہ ایسا حیران کن نظر نہیں آئے گا.باپ کا دل کس طرح گوارا کر سکتا تھا کہ خود اپنے ہاتھ سے اپنے نور نظر کا گلا کاٹے.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام عشق خداوندی میں اتنے مد ہوش تھے کہ انہیں احساس ہی نہ ہوا کہ میں کیا کر نے لگا ہوں.انہوں نے چھری اُٹھائی اور بیٹے کے گلے پر رکھ دی.فوراً آسمان کے دروازے کھلے اور خدائی آواز یہ کہتی ہوئی سنائی دی ابراہیم ! ہمارا مقصد تیرے بیٹے کی قربانی نہیں تھا بلکہ ہم اس رنگ

Page 19

ہمارا آقا ع 13 میں تیری محبت اور وفا کا امتحان لینا چاہتے تھے.تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا اور امتحان میں پورا اترا.جا! آج سے ہم نے تجھے قوموں کا امام بنا یا.تو ہماری رضا کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کرنے پر تیار ہو گیا.ہم اس کے عوض میں تجھے اتنی اولا د عطا فرما ئیں گے کہ زمین پر ریت کے ذرے اور آسمان پر ستارے گنے جائیں گے مگر تیری نسل نہیں گئی جائے گی.اپنے فرمانبرداروں کو ہم ایسا ہی انعام دیا کرتے ہیں اپنے خدا کا یہ پیغام سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹے کی چھاتی پر سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے شکر گذاری کے طور پر ایک مینڈھا ذبح کر دیا.بقر عید کی قربانی کا حکم اسی واقعہ کو تازہ رکھنے کے لئے دیا گیا ہے.

Page 20

ہمارا آقا ع 14 (6) دنیا کی پہلی مسجد ب ابراہیم علیہ السلام اور اسمعیل علیہ السلام دونوں خدا کی محبت او اُس کی تابعداری میں ثابت قدم ثابت ہوئے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اب تم دونوں میری عبادت کے لئے مکہ میں ایک مسجد بناؤ.میں اسے اتنی برکت دوں گا کہ لوگ مشرق اور مغرب سے اُس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے.“ دونوں باپ بیٹوں نے خدائی حکم کی تعمیل میں خود اپنے ہاتھوں سے مسجد بنائی مگر یہ مسجد اتنی سادہ تھی کہ نہ اس کی چھت تھی ، نہ کواڑ نہ چوکھٹ، صرف ایک معمولی سی چار دیواری تھی 9 ہاتھ اونچی 32 ہاتھ لمبی اور 22 ہاتھ چوڑی ، بیچ کا فرش بھی پختہ نہیں تھا.یہ وہی مسجد ہے جو آج خانہ کعبہ کے نام سے مشہور ہے.خدا نے حسب وعدہ اس کو اتنی برکت دی کہ یہ آج چودہ سو برس سے مسلمانوں کا قبلہ ہے.تمام دنیا کے مسلمان اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور ہر سال ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف حصوں سے آکر اس کا حج کرتے ہیں.

Page 21

ہمارا آقا ع 15 (6) عجیب دُعا جب خدا کے حکم کی تعمیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو انہوں نے بڑے ہی خلوص اور نہایت ہی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی کہ:.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايتِكَ وَيُعَلِمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یعنی اے ہمارے پروردگار ! ان مکتے والوں میں اپنا ایک رسول بھیج.جو اُن پر تیری آیتیں پڑھے اور اُن کو دانائی اور حکمت کی باتیں سکھائے اور اُن کے دلوں کو پاک کرے.اے خدا ! تو بڑی قدرتوں والا اور صاحب تدبیر ہے.ی عظیم الشان تاریخی دعا ڈھائی ہزار برس کے بعد اپنی پوری شان سے اُس وقت قبول ہوئی.جب ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ملے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل سے سرزمین مکہ میں پیدا ہوئے اور دنیا حضور اللہ کے نور سے جگمگا اٹھی.

Page 22

ہمارا آقاعل الله 16 (7) انوکھی منت عرب میں قریش کی قوم سب سے زیادہ معزز تھی اور قریش میں بنی ہاشم کا قبیلہ سب سے زیادہ شریف سمجھا جاتا تھا.عبدالمطلب بن ہاشم اس قبیلہ کے رئیس اور مکہ کے سردار تھے.کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے تمام عرب ان کی عزت کرتا تھا.عبد المطلب نے ایک دفعہ ایسی عجیب وغریب منت مانی کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے.آج تک شاید کسی نے نہ مانی ہوگی.اُنہوں نے کہا کہ اگر میرے ہاں دس بیٹے پیدا ہوئے اور سارے میرے سامنے جوان بھی ہو گئے تو میں اُن میں سے ایک بیٹے کو خدا کے نام پر قربان کر دوں گا.اللہ تعالیٰ کی قدرت عجیب ہے کہ اُن کے ہاں دس بیٹے پیدا ہوئے اور دسوں ہی اُن کی زندگی میں جوان ہو گئے.منت مانتے وقت تو عبدالمطلب کو کچھ بھی خیال نہ تھا.مگر جب اُسے پورا کرنے کا وقت آیا تو وہ بڑے سٹ پٹائے.لیکن آدمی بات کے بچے اور دل کے پکے تھے.سارے بیٹوں کو خانہ کعبہ میں لے گئے تا کہ حسب وعدہ اُن میں سے ایک کو قربان کر دیں.

Page 23

ہمارا آقا ع 17 کعبہ میں پہنچ کر انہوں نے قرعہ ڈالا تو وہ اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے عبد اللہ کے نام نکلا.جن کی عمر اگر چہ ابھی صرف 17 برس کی تھی.مگر سارے بیٹوں میں سب سے زیادہ لائق اور نیک تھے.علاوہ ازیں صورت شکل کے لحاظ سے بھی اپنے بھائیوں سے بہتر تھے.اس وجہ سے عبد المطلب کو ان سے بہت محبت تھی.ویسے بھی چھوٹی اولاد سے عام طور پر والدین کو زیادہ محبت ہوا ہی کرتی ہے.اس لئے جب عبد اللہ کے نام کا قرعہ نکلا تو عبد المطلب قدرنا بہت گھبرائے مگر بہر حال اُنہوں نے منت پوری کرنی چاہی.اتنے میں قریش کے بہت سے آدمی کعبہ میں جمع ہو گئے.اور جب انہوں نے یہ قصہ سنا تو عبدالمطلب سے کہنے لگے ”ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ اتنا لائق نوجوان اس طرح موت کی نیند سلا دیا جائے.آپ یہ کام کریں کہ دس اونٹوں پر اور عبد اللہ پر قرعہ ڈالیں.اگر قر عہ اونٹوں کے نام نکل آیا تو انہیں ذبح کر ڈالیں.چنانچہ دوسری دفعہ قرعہ ڈالا گیا.مگر اُس وقت بھی وہ عبداللہ ہی کے نام نکلا.لوگوں نے پھر کہا کہ اچھا اب میں اونٹوں اور عبد اللہ کا قرعہ ڈالو.لیکن اس مرتبہ بھی قرعہ میں عبد اللہ ہی کا نام آیا.قوم کے بار بار اصرار سے عبد المطلب دس دس اونٹ زیادہ کر کے

Page 24

ہمارا آقا ع 18 قرعہ ڈالتے رہے مگر ہر بار قرعہ عبد اللہ کے نام ہی نکلتا رہا.آخر جب تعداد ایک سو اونٹوں تک پہنچ گئی.اُس وقت قرعہ اونٹوں کے نام نکلا.یہ دیکھ کر عبد المطلب نہایت خوش ہوئے.مگر انہوں نے مزید اطمینان کے لئے دوبارہ قرعہ ڈالا.اُس وقت بھی وہ اونٹوں ہی کے نام نکلا.اس کے بعد اُنہوں نے انتہائی مسرت کے ساتھ عبداللہ پر ایک سواونٹ قربان کر دیئے.یہی عبداللہ ہمارے حضرت محمد ﷺ کے والد تھے.

Page 25

ہمارا آقاعل الله 19 (۵) عظیم الشان خواب جتنے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں.اُن میں سب سے زیادہ روشن اور خوبصورت سیارہ زہرہ ہے.اسی ستارے کے نام پر عرب کے ایک قبیلہ کا نام بنی زہرہ تھا.یہ قبیلہ مکہ میں آباد تھا اور قریش کے معزز قبائل میں شمار ہوتا تھا.وہب بن عبد مناف اس قبیلہ کے ایک نمایاں شخص تھے.انہی وہب کی ایک بیٹی تھی.بہت ہی نیک ، سلیقہ شعار اور خوش مزاج جب یہ بڑی ہوئی تو اس کی شادی قبیلہ بنی ہاشم میں سردار قریش عبد المطلب کے فرزند جلیل عبداللہ سے ہوگئی جن کا ذکر تم ابھی پڑھ چکے ہو.ابھی شادی کو صرف تین ہی دن گزرے تھے کہ شوہر تجارت کے لئے شام چلا گیا.اور واپسی میں جس وقت مدینہ میں پہنچا تو نہایت شدید بیمار ہو گیا اور تھوڑے دنوں کے بعد وہیں اُس کا انتقال ہو گیا.جب یہ منحوس خبر مکہ میں بیوی نے سنی تو مارے غم کے بیچاری کا ئیرا حال ہوا.ہر وقت شوہر کے غم میں آنسو بہاتی اور اسے یاد کر کر کے روتی رہتی تھی.

Page 26

ہمارا آقا ع 20 عرب میں عورت بیوہ ہو جاتی تو خود ہی دوسرا خاوند کر لیتی تھی.مگر اس لڑکی کو اپنے شوہر سے اتنی محبت تھی کہ اس نے ارادہ کر لیا.کہ اب ساری عمر دوسری شادی نہیں کروں گی اور باقی کی ساری زندگی اپنے شوہر کی یاد میں گزار دوں گی.اب اُس کا کام ہر وقت گریہ و زاری اور آہ و بکا تھا.نہ اُسے کھانا اچھا لگتا تھا نہ پینا ، نہ وہ کپڑے بدلتی تھی ، نہ کنگھی چوٹی کرتی تھی فلم کی تصویر پنی ہر وقت بیٹھی رہتی تھی.اسی طرح کئی مہینے گزر گئے.مگر لڑکی کے رنج میں کمی نہ آئی.ایک روز اُس نے خواب میں دیکھا جیسے تمام عالم میں گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے.نہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دیتا ہے، نہ کچھ نظر آتا ہے.یکا یک اُس کے سینے سے ایک نہایت ہی چمکتا ہوا نور نکلا.جو پھیلتا رہا اور بڑھتا رہا یہاں تک کہ ہر جگہ چھا گیا اور دنیا کا کونا کونا جگمگا اُٹھا.بھولی بھالی لڑکی کچھ بھی نہ سمجھ سکی کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہوئی ؟ مگر ہاں اُسے اپنے رنج و غم میں کچھ سکون سا ضرور محسوس ہوا.جانتے ہو یہ لڑکی کون تھی ؟ ہیں.اس کا نام آمنہ تھا اور یہی ہمارے حضور علی کی والدہ محترمہ

Page 27

ہمارا آقاعل الله 21 ) خواب کی تعبیر اُس غم نصیب عورت کو اس دنیا میں کیا خوشی حاصل ہوسکتی ہے.جو صرف چند دن کی بیاہی بیوہ ہو گئی ہو.جہان اُس کے لئے تاریک اور زندگی اُس کے لئے قید خانہ تھی.آخر خدائے پاک نے عرش سے اُس کے رنج وغم کو دیکھا اور نہایت شفقت کے ساتھ اُس پر اتنی مہربانی فرمائی کہ دنیا میں نہ اُس سے پہلے کسی عورت پر اتنا کرم ہوا، اور نہ اُس کے بعد قیامت تک کسی خاتون پر ہوگا.یعنی اُس کو خدا کے فرشتے کے ذریعے اُس بیٹے کی بشارت دی جو ایک دن تمام اولین اور آخرین کا فخر اور کل بنی آدم کا روحانی سردار ہونے والا تھا.لڑکی کی خوشی و مسرت کی انتہا نہ رہی.جب پیر کے دن اُس کے ایک لڑکا پیدا ہوا.بچہ کیا تھا چاند کا ایک ٹکڑا تھا جو آسمان سے ٹوٹ کر آمنہ کی گود میں آپڑا تھا.بچے کو دیکھ کر ماں کا دل باغ باغ ہو گیا.اُس نے بڑی محبت سے اُسے اٹھایا ، پیار کیا اور چھاتی سے لگالیا.بچے کے وجود میں اُسے دُنیا جہان کی خوشیاں جھلکتی ہوئی نظر آرہی تھیں.وہ اس کے مرحوم شوہر کی زندو یاد گار تھا.فورالڑ کے کے دادا کو خبر کی گئی.وہ آئے تو پوتے کو دیکھ کر ان کو

Page 28

ہمارا آقا ع 22 اپنے مرحوم بیٹے کی یاد آ گئی.اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.آمنہ نے لڑکے کو دادا کی گود میں دیا اور کہنے لگیں کہ ” میں نے اس کی پیدائش سے پہلے یہ خواب دیکھا تھا کہ میرے اندر سے ایک نور نکلا اور ساری دنیا میں پھیل گیا دادا نے جواب دیا اس خواب کی تعبیر یہ بچہ ہے" یہ عظیم الشان بچہ بڑا ہو کر تمام دنیا کا روحانی سردار بنا اور نسل انسانی کی نجات کا باعث ہوا.کیونکہ اُس کے نور سے کفر کی ظلمت دور ہوئی اور تو حید کی روشنی سے تمام دُنیا جگمگا اٹھی.

Page 29

ہمارا آقاعل الله 23 (10) قوم کا تعجب عبد المطلب بوڑھے ہو گئے تھے مگر آج تک انہوں نے ایسا حسین وجمیل بچہ نہیں دیکھا تھا.وہ اُن کی گود میں ایک چھوٹا سا فرشتہ معلوم ہوتا تھا.بچے کو گود میں لئے ہوئے عبد المطلب کہے میں چلے گئے تا کہ وہاں اُس کی عمر و اقبال کے لئے دعا کریں.کعبہ میں اُس وقت قریش کے معزز لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے.بچے کی شکل دیکھ کر سب حیران رہ گئے.اور اپنے سردار کو مبارک باد دینے لگے پھر پوچھا آپ نے پوتے کا نام کیا رکھا ہے؟“ عبد المطلب نے کہا : ” میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے.“ یہ عجیب اور انوکھا نام سُن کر قریش کے بُت پرست لوگ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے.اُن کے لئے یہ نام بالکل نیا تھا.آخر ایک آدمی نے ذرا جرات کر کے کہا:.”ہمارے معزز سردار! آپ نے اپنے ہونے کا یہ کیا نام رکھا؟ کسی بت کے نام پر کوئی اچھا سا نام رکھا ہوتا.“ سردار قریش مسکرائے اور فرمانے لگے:.” میری بڑی خواہش ہے کہ میرا یہ پیارا بیٹا دنیا بھر کی ستائش کا

Page 30

ہمارا آقا ع 24 مستحق ہو ہر قسم کی بھلائی اور خوبی اس میں پائی جائے اور ہر شخص اس کی تعریف اور توصیف کرے.اسی لئے میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے اور اُس کی ماں نے بھی کچھ ایسا ہی سا خواب دیکھا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑا ہو کر بہت بڑا آدمی بنے گا.ی تھی ہمارے آقا ﷺ کی پیدائش ! الله دنیا میں کسی انسان کی تمنا اور آرز واتنی عمدگی اور ایسی خوبی کے ساتھ کبھی پوری نہ ہوئی ہوگی جیسی عبد المطلب کی ہوئی.چنانچہ دیکھ لو ! آج تک ہر حیثیت سے کسی شخص کی تعریف اتنی نہیں کی تھی جتنی آنحضرت ﷺ کی کی گئی.آپ ﷺ کو اگر چہ چودہ سو برس کے قریب و چکے ہیں مگر اس طویل عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں آپ کی تعریف و توصیف دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں نہ ہوئی ہو.عرش پر خدا، آسمانوں پر فرشتے اور زمین پر انسان آنحضرت ﷺ کی برابر تعریف کرتے رہتے ہیں.ہر مسلمان پر لازم ہے کہ پانچ وقت نمازوں صلى الله میں اپنے آقا میلے پر درود بھیجے.زبان سے تعریف کرنے کے علاوہ آپ علیہ کے منہ سے نکلے ہوئے مقدس کلمات ( یعنی حدیثوں) کو جمع اور مرتب کرنے میں سینکڑوں علماء نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور بڑے موٹے موٹے مجموعے احادیث کےلکھ

Page 31

ہمارا آقا عمال 25 کر ہمارے لئے چھوڑ گئے.دنیا میں آج کروڑوں انسان آنحضرت ملے.کے ان کلمات طیبات پر عمل کرنا اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے، اس وقت تک کسی بڑے سے بڑے آدمی کی باتیں اس طرح قلمبند نہیں ہو ئیں.صلى الله پھر دیکھو! ہر زمانہ میں اور ہر زبان میں ہمارے آقاﷺ کی اتنی بکثرت سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں کہ حدہ شمار سے باہر ہیں.دنیا کی ابتدا سے لے کر آج تک کسی انسان کی اس قدر زیادہ سوانح عمریاں نہیں لکھی گئیں.ے کوئی بتلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے غرض دنیا کے کسی بادی، کسی رسول ، کسی پیغمبر ، کسی رہنما، کسی لیڈر اور کسی ریفارمر کی اتنی تعریف نہیں ہوئی جتنی ہمارے حضرت محمد ﷺ کی ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی.

Page 32

ہمارا آقاعل الله 26 (11) کھایا ہوا بھوسا جس سال ہمارے آقا حضرت محمدعلی پیدا ہوئے اُسی سال مکہ کی سرزمین میں حضور ﷺ کی ولادت سے 70 دن پہلے ایک بڑا ہولناک واقعہ ہوا.جس سے قریب تھا کہ کہنے کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی اور اتنی خوں ریزی ہوتی کہ سارا شہر ویران ہو جاتا مگر خدا نے ہمارے آقاعلی ہے کی برکت سے سب کو بچالیا.ہوا یہ کہ عرب کے جنوب مغربی علاقہ کے ایک حصہ کا نام یمن ہے جو بحر قلزم کے کنارے پر واقع ہے.سمندر کے دوسرے سرے پر جیش کا ملک ہے.جسے آج کل ابی سینیا کہتے ہیں.اُس وقت جبش کا بادشاہ عیسائی تھا اور ان کا علاقہ اس کے ماتحت تھا یمن کے عیسائی گورنر کا نام ابر ہہ تھا.اُس نے جب دیکھا کہ یمن سے ہر سال سینکڑوں عرب حج کرنے مکہ کو جاتے ہیں تو اُسے بہت ناگوار گزرا.اُس نے اُن کو روکنے کی یہ تدبیر کی کہ دارالسلطنت صنعاء میں بڑے اہتمام سے ایک عالیشان گرجا بنوایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ بجائے اتنی دور جانے کے پاس کے پاس اس گرجا کا طواف کرلیا کریں.عرب کے لوگوں کو بھلا یہ بات کس طرح گوارا ہو سکتی تھی کہ کعبہ

Page 33

ہمارا آقا ع 27 کے مقابلہ میں وہ ایک گرجا کی تعظیم کریں.وہ اس کا طواف تو کیا کرتے ! یہ کام کیا کہ چپکے چپکے جا کر اُس میں جگہ جگہ نجاست ڈال دی اور پھر وہاں سے بھاگ آئے.عربوں کی اس حرکت پر ابرہہ کے غصہ کی انتہا نہ رہی.اس نے ایک زبر دست فوج جمع کی اور ساٹھ ہزار سپاہ کے ساتھ مکہ پر حملہ کر دیا تا کہ گر جا کی جنگ کے بدلہ میں کعبہ کو ڈھا کر زمین کے برابر کر دے.ابر ہہ جب مکہ کے قریب پہنچا تو عبد المطلب کے کچھ اونٹ شہر سے باہر میدان میں چر رہے تھے، لشکریوں نے اُن کو پکڑ لیا..عبد المطلب کو اس کی خبر ہوئی تو وہ ابر ہہ کے پاس گئے.جو نہی ابرہہ نے سُنا کہ سردار قریش میرے پاس آ رہے ہیں تو وہ بڑا ہی خوش ہوا اور اُس نے سمجھا کہ غالباً اطاعت کا اقرار کرنے اور یہ التجا کرنے آرہے ہیں کہ کعبے کو نہ ڈھایا جائے اور ہمارے قصور کو معاف کر دیا جائے.اُس نے اُن کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور عزت سے اپنے پاس بٹھایا.مزاج پوچھے اور پھر دریافت کیا کہ کیسے تشریف لانا ہوا؟ عبدالمطلب نے کہا ” میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں، کہ آپ کے فوجیوں نے میرے اونٹ پکڑ لیے ہیں.وہ مہربانی

Page 34

ہمارا آقا ع 66 فرما کر واپس کروادیں.“ وو 28 ابرہہ نے حیرت سے سردار قریش کی طرف دیکھا اور کہنے لگا:.اونٹ تو آپ لے جائیں مگر آپ کا نام سُن کر اور آپ کی صورت دیکھ کر جو قد ر آپ کی میرے دل میں پیدا ہوئی تھی.وہ آپ کی اس درخواست سے بالکل جاتی رہی.آپ کو اپنے کعبہ کا تو کچھ خیال نہ ہوا جس کے ڈھانے اور گرانے کے لئے میں اتنا بڑ الشکر لے کر آیا ہوں کہ اگر سارے عرب کے باشندے بھی مل کر اُس کا مقابلہ کریں تو ایک بھی سلامت بیچ کر نہ جائے.مگر کعبہ کی بجائے آپ کو اپنے چند اونٹوں کی فکر ہوئی.ایسی سطحی بات سردار قریش کے منہ سے نہیں نکلنی چاہئیے تھی.عبدالمطلب بڑی بے پروائی سے منسے اور فرمانے لگے آنا رَبُّ الإبل وَلِلبَيْتِ رَبِّ يَمْنَعُ یعنی میں اونٹوں کا مالک ہوں پس اُن کے چھڑانے کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں.اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ اپنے گھر کی حفاظت خود کرے گا.اُس کے لئے مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.“ ابر ہہ نے طیش میں آکر کہا :.”اچھا میں دیکھوں گا کہ کعبہ کا مالک کعبہ کو میرے ہاتھ سے کس طرح بچاتا ہے ! عبد المطلب بولے ” جی ہاں آپ بھی دیکھئے گا اور ہم بھی دیکھیں

Page 35

ہمارا آقا ع گے.یہ کہا اور اٹھ کر چلے آئے.29 ایر بہہ نے فورا فوج کو تیاری کا حکم دیا اور مکہ پر حملہ کر دیا.مگر فوراً ہی اس پر خدا کا غضب نازل ہوا اور اس کا سارالشکر بری طرح ہلاک ہو گیا.مرنے والوں کی لاشوں سے سارا میدان بھر گیا اور کوئی ان کی لاشوں کو اٹھانے والا ہی نہ رہا.قرآن کریم نے اس سارے واقعہ کو صرف چند لفظوں میں ایسی خوبی ، متانت اور عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے که فصاحت حیران رہ گئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.أَلَمْ تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الفِيْل اَلَمْ يَجْعَلُه كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيل وَ أَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْراً أَبابيل ٥ تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِيلِهِ فَجَعَلَهُمْ كَعَصب ما گوله یعنی اے مخاطب ! کیا تو نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ تیرے پروردگار نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ کیا اُس نے ان کے عزم و ارادہ کو خاک میں نہیں ملا دیا ؟ خدا نے ان پر ٹھنڈ کے جھنڈ پرندوں کے بھیجے جو اُن کو پتھر کی کنکریوں سے مارتے تھے.پس کر دیا ان کو کھائے ہوئے بھوسہ کی مانند 66 سردار لشکر ابرہہ کو سب سے زیادہ سزا ملی یعنی اس کے جسم کی کھال

Page 36

ہمارا آقا ع 30 جگہ جگہ سے گل کر جھڑنے لگی جس کی شدید تکلیف وہ برداشت نہ کر سکا اور در دو کرب سے چیختا چلا تا جہنم کو روانہ ہو گیا.خدا کی لاٹھی بے آواز نہیں ہوتی مگر جس پر پڑتی ہے زور سے پڑتی ہے کہ دونوں جہان میں اس کا بالکل بیڑا غرق کر کے رکھ دیتی ہے.

Page 37

ہمارا آقاعل الله 31 10 یتیم کی دائی (12) عرب میں دستور تھا کہ دیہات سے ہر چھٹے مہینے عورتیں شہروں میں آتیں اور شرفاء کے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے اور پرورش کرنے کے لئے گاؤں میں لے جایا کرتی تھیں.اس سے ان عورتوں کو تو یہ فائدہ ہوتا کہ ان کی روزی کا معقول سامان ہو جا تا.کیونکہ بچوں کے والدین اُن کو اس خدمت کا بہت معقول معاوضہ دیتے تھے.ماں باپ کو یہ فائدہ ہو تا کہ اُن کے ننھے بچے دیہات کی کھلی ہوا میں پرورش پا کر خوب مستعد تندرست اور چست و چالاک ہو جاتے.اسی دستور کے موافق آنحضرت علی کی پیدائش کے وقت بھی بنو سعد کی عورتیں مکہ میں شرفاء کے بچوں کو لینے آئیں اور ہر ایک عورت نے جلدی جلدی امیر امیر بچوں کو سنبھال لیا.مگر آمنہ کے لال عمل کی طرف کسی نے توجہ بھی نہ کی.کیونکہ ایک تو یتیم بچہ تھا اور یتیم بچہ عرب میں منحوس سمجھا جاتا تھا.دوسرے غریب ماں کے پاس کھلائی کو دینے کیلئے کچھ نہ تھا.اس لئے کس امید پر کوئی عورت یہاں آتی اور بچے کے لئے درخواست کرتی.جب آمنہ نے سنا کہ دیہات سے عورتیں بچوں کو لینے آئی ہیں.تو وہ خیال کرنے لگی کہ اگر اس وقت بچے کا باپ زندہ ہوتا ، یا

Page 38

ہمارا آقاعل الله 32 میں مالدار ہوتی تو کوئی عورت میرے بچے کو بھی لینے آتی.لیکن یہاں دونوں چیزیں نہ تھیں.ناچار غریب بیوہ آو کھینچ کر اور دل مسوس کر رہ گئی.انہی عورتوں میں حلیمہ نامی ایک دائی تھی.بے چاری غریب بھی تھی اور کمزور بھی.اُس کو بہت دوڑ دھوپ کے باوجود کوئی بچہ نہ ملاوہ بڑی حسرت کے ساتھ اپنی ساتھی عورتوں کو تک رہی تھی جن کے پاس بڑے بڑے امیروں کے بچے تھے.غریب حلیمہ بچہ نہ ملنے پر غمگین تھی.مگر قسمت سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی اور فرشتے آسمان سے جھانک کر کہہ رہے تھے کہ :.علیمہ ! تجھے بچہ نہیں بلکہ بنی نوع انسان کا سردار اور اقلیم 66 روحانیت کا تاجدار ملنے والا ہے.ذرا صبر تو کر “ جب حلیمہ کو با وجود سخت کوشش کے کوئی بچہ نہ ملا تو اس نے بہت ہی مایوس ہو کر اپنے شوہر سے کہا کہ اگر تم کہو تو میں جا کر آمنہ کے بچے ہی کو لے آؤں؟ اگر چہ وہ یتیم ہے اور اُس کی ماں کے پاس دینے دلانے کو بھی کچھ نہیں.لیکن اگر میں کسی بچے کو نہ لے گئی تو میرے ساتھ کی دوسری عورتیں میرا مذاق اڑائیں گی اور مجھے طعنے دیں گی.اس لئے بے کار سے بیگار بھلی.بولو! تمہاری کیا رائے ہے؟ شوہر کا نام حارث تھا.سُن کر کہنے لگا ” مجبوراً یہی کرنا پڑے گا.

Page 39

ہمارا آقا ع 33 لا چاری پر بت سے بھاری قبیلے میں آخر عزت بھی تو رکھنی ہی ہے“ میاں بیوی کی اس گفتگو کے بعد حلیمہ آمنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی.” میں آپ کے بچے کو لینے آئی ہوں.اگر آپ دے دیں تو لے جاؤں آمنہ نے جواب دیا:.”ہاں لے جاؤ ، مگر میں تمہاری خدمت کا معاوضہ کہاں سے دوں گی ؟ کیونکہ نہ بچے کا باپ زندہ ہے اور نہ میں امیر ہوں." علیمہ نے کہا : ” میں اس خیال سے نہیں آئی صرف بچے کو لینے آئی ہوں.“ ماں بولی: - " تمہارا شکر یہ الیکن آخر ہر شخص بدلہ کی امید میں ہی دوسرے کا کام کرتا ہے“ حلیمہ نے جواب دیا ” نہیں مجھے بدلہ اور معاوضہ کی خواہش نہیں میں صرف بچہ چاہتی ہوں“ یہ کہہ کر نہا یت اصرار سے بچے کو لے گئی.حلیمہ ! تجھے کیا خبر تھی کہ جس غریب اور یتیم بچہ کو تو لے جارہی ہے.وہ تیرے لئے مکہ کے تمام امیر کبیر بچوں سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوگا حلیمہ خود کہتی ہے کہ محمد علے کو لے جاتے ہی ہماری تنگدستی ،غربت اور مفلوک الحالی ، آرام د وراحت اور خوش حالی سے بدل گئی.ہماری کمزور اور

Page 40

ہمارا آقا 34 سست رفتار اونٹنی قبیلے کی ساری اونٹنیوں سے زیادہ چاق و چوبند ہوگئی اور ہماری بکریاں خاندان کی سب بکریوں سے زیادہ دودھ دینے لگیں.اگر چہ شروع میں حلیمہ بہت ہی بے دلی کے ساتھ مجبوراً بچہ کو اس کی ماں سے لائی تھی.مگر آج اپنے انتخاب پر پھولی نہیں سماتی تھی.

Page 41

ہمارا آقاعل الله 35 (13) برکت کی پوٹ ننھا معصوم بچہ حلیمہ کی گود میں پرورش پاتا رہا.اور حلیمہ اسے دیکھ دیکھ کر نہال ہوتی رہی کیونکہ محض اُس کے دم سے اُس کا گھر برکت کی پوٹ بن گیا تھا.دو برس آنکھ جھپکتے میں گزر گئے اور حسب دستور وہ وقت آ پہنچا جب عام طور پر بچوں کو عورتیں واپس مکہ میں لا کر اُن کے ماں باپ کے سپرد کر دیتی تھیں.اب تو میاں بیوی بڑے گھبرائے نہ بچے کو قاعدہ کے مطابق رکھ سکتے ہیں، نہ کسی طرح اُن کا دل چاہتا تھا کہ ایسا با برکت بچہ اُن کے ہاں سے جائے کیونکہ انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ بچہ گھر کی ساری برکت بھی اپنے ساتھ ہی لے جائے گا.علاوہ ازیں بچے سے محبت بھی اتنی ہو گئی تھی کہ حلیمہ کا دل کسی طرح بھی اُسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا.مگر دستور سے مجبور تھی ، ناچار بچے کو لے کر مکہ میں آئی اور آمنہ سے بڑی عاجزی کیساتھ کہنے لگی کہ میں آپ کا بچہ تو لے آئی ہوں لیکن اس سے اتنی محبت ہو چکی ہے کہ کسی طرح بھی اُس سے جُدا ہونے کو جی نہیں چاہتا.اگر آپ اتنی مہربانی کریں کہ کچھ دنوں اور

Page 42

ہمارا آقا ع 36 اسے میرے پاس رہنے دیں تو میں اس عنایت کے لیے آپ کی بہت ممنون ہوں گی.ویسے میرا کچھ زور نہیں ، بچہ آپ کا ہے اور آپ کو مبارک رہے.اتفاق سے اُن دنوں مکہ کی آب و ہوا کچھ خراب تھی اور حلیمہ کا بے حد اصرار بھی تھا.اس لئے دونوں باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے آمنہ نے فرمایا " تم نے اتنے دنوں محبت کے ساتھ اس کی پرورش کی ہے.میں تمہارا دل میلا کرنا نہیں چاہتی.اچھا تھوڑے دنوں کے لئے اور لے جاؤ.آج کل ویسے بھی مکہ کی آب و ہوا خراب ہو رہی ہے.میں نہیں چاہتی کہ بچہ اس وقت یہاں رہے.66 حلیمہ کو ایسا معلوم ہوا جیسے ایک عظیم الشان خزانہ آمنہ نے اسے بخش دیا اور وو بڑی خوش خوش اپنے گاؤں کو لوٹ گئی.

Page 43

ہمارا آقاعل الله 37 (10) ننھے بہادر ! سلام صلى الله آنحضرت نے دائی حلیمہ کے ہاں پرورش پا رہے تھے.جب پانچ برس کے ہوئے تو گاؤں کے دوسرے بچوں کے ساتھ بکریاں چرانے کے لئے جنگل میں جانے لگے.صبح کو جاتے اور شام کو بکریاں لے کر واپس چلے آتے.روز اسی طرح ہوتا.ایک دن حسب معمول گاؤں کے بچے جنگل میں بکریاں چرار ہے تھے.یکا یک ڈاکو آن پڑے جن کی خوفناک شکلیں اور چمکدار تلوار میں دیکھ کر سارے بچے بدحواسی کے ساتھ گاؤں کی طرف بھاگے.صرف ایک بچہ ایسا تھا جو ذرا نہ ڈرا ، نہ بھا گا اور چپ چاپ اپنی جگہ کھڑا رہا.صلى الله محمد علیہ اسی بچے کا نام تھا.لٹیرے اور ڈا کو ایک چھوٹے بچے کی موجودگی کا کیا خیال کرتے ؟ انہوں نے بکریاں اکٹھی کیں اور چلنے لگے.وو معا ننھا بچہ آگے بڑھا اور ڈاکوؤں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا : یہ بکریاں گاؤں والوں نے ہمارے ساتھ جنگل میں بھیجی تھیں.اگر تم لوگ ان کو لے جانا چاہتے ہو تو پہلے چل کر گاؤں والوں سے پوچھ لو.پھر لے جانا.“

Page 44

ہمارا آقا ع 38 ڈاکوؤں کو ننھے بچے کی ان بھولی باتوں پر بے اختیار ہنسی آگئی.انہوں نے بچے کو کچھ نہ کہا اور بکریاں لے کر چلنے لگے.جب بچے نے دیکھا کہ ڈاکوؤں نے میری بات نہیں مانی اور بکریاں لیے جارہے ہیں تو ننھا معصوم پھرتی کے ساتھ آگے بڑھا اور بکریوں کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا.ڈاکوؤں نے کم سن بچے کی اس جرات کو تعجب کے ساتھ دیکھا اور کہا: ” ہٹ جا اور ہمیں بکریاں لے جانے دے!“ 66 نہیں ! کبھی نہیں ! مجھے مارڈالو اور بکریاں لے جاؤ.جب تک میں زندہ ہوں بکریاں یہاں سے نہیں جائیں گی." بچے کا جواب تھا.ڈا کو حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے.اتنا چھوٹا سا کمزور بچہ اور اتنا دلیر! نہایت تعجب کے ساتھ قزاقوں کا سردار آگے بڑھا، بچے کو پیار کیا اور شفقت کے ساتھ پوچھا:.”میاں تم کس کے لڑکے ہو؟“ بچے نے جواب دیا.” عبد المطلب کا سارے عرب میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو عبد المطلب کے نام سے واقف نہ ہو.سنتے ہی ڈاکو بولا :.

Page 45

ہمارا آقا ع 39 ” بے شک سردار قریش کے لڑکے کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہئیے.ننھے بہادر ! میں تمہاری دلیری کی قدر کرتا ہوں.اور محض تمہارے لئے بکریوں کو چھوڑتا ہوں.تمہاری پیشانی کا نور کہہ رہا ہے کہ جب تم بڑے ہو گے تو نہ صرف بنو ہاشم بلکہ سارا عرب تمہاری ذات پر فخر کرے گا.تمہارا نام کیا ہے؟“ وو محمد (ع) محمد ! محمد ﷺ ! کیسا عجیب اور کتنا پیارا نام ہے! ڈاکو ( ع ) نے مزے لیتے ہوئے کہا."اچھا ننھے بہادر اسلام یہ کہتے ہوئے ڈاکو رخصت ہو گئے.

Page 46

ہمارا آقاعل الله 40 (10) فرشتوں کا نزول اس قصہ کے تھوڑے دنوں بعد ایک اور عجیب واقعہ پیش آیا.معمول کے موافق ایک روز تھا محمد دے گاؤں کے بچوں کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل میں گیا ہوا تھا.کہ ناگاہ دو آدمی سفید براق لباس پہنے آئے ان کی صورتیں بڑی نورانی اور دلکش تھیں.آتے ہی دونوں آدمیوں نے دوسرے لڑکوں کو تو کچھ نہ کہا.مگر نھے محمد ﷺ کو پکڑ لیا.اور اس کو زمین پر لٹا کر ایک تیز بخنجر سے اُس کا سینہ چاک کیا اور اُس دل میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی.بعد ازاں دل کو باہر نکال کر ایک طشت میں رکھ دیا اور نہایت شفاف پانی سے اُسے دھو یا دھوتے دھوتے جب دل موتی کی طرح چمکنے لگا تو اُسے سینے کے اندر رکھ کر جوڑ دیا اور واپس چلے گئے.گاؤں کے بچوں اور حلیمہ کے لڑکے عبداللہ نے جو یہ واقعہ دیکھا تو مارے خوف کے اُن کا برا حال ہوا.ہانپتے کانپتے گاؤں میں پہنچے اور حلیمہ سے جا کر کہا بڑا غضب ہو گیا.جنگل میں ہم اپنے قریشی بھائی محمد مال اللہ کے ساتھ بکریاں چرا رہے تھے کہ یک دفعہ ہی پہاڑ کے ایک دڑے میں سے دو نہایت خوبصورت آدمی ہماری طرف آئے ہم نے ان کی خوشنما داڑھیوں

Page 47

ہمارا آقا 41 پاکیزہ شکل وصورت اور لمبے لمبے چوغوں سے اُن کو بہت بزرگ اور نیک آدمی سمجھا ، مگر آہ وہ نہایت ظالم اور قصائی ثابت ہوئے انہوں نے آتے ہی ہمارے قریشی بھائی کو پکڑ لیا اور ایک لمبے چھرے سے اس کا پیٹ پھاڑ دیا.ہم اتنا دیکھتے ہی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے کہ کہیں ہم کو بھی پکڑ کر ذبح نہ کر ڈالیں.نہ معلوم ہمارے آنے کے بعد کیا معاملہ ہوا ؟ یہ روح فرسا خبر سُن کر حلیمہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور اس کی پریشانی کی حد نہ رہی.اُس وقت اُس کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی.اُفتاں و خیزاں میدان میں پہنچی.وہاں صلى الله دیکھا تو اُس کا نتھا محمد می تے اکیلا کھڑا تھا.حلیمہ نے دوڑ کر معصوم بچے کو چھاتی سے لگالیا.پیشانی چومی اور.کہنے لگی :.”میرے پیارے بیٹے ! کیا بات ہوئی ؟“ بچے نے جو کچھ گزرا تھا حلیمہ کو سنادیا.حلیمہ نے سوچا کہ نہ کہیں خون گرا ہوا دکھائی دیتا ہے.نہ پانی پڑا ہوا کہیں نظر آتا ہے.نہ کہیں آدمیوں کے قدموں کے نشانات زمین پر معلوم ہوتے ہیں.نہ جو چیز انہیں نے باہر نکال کر پھینکی تھی وہ موجود ہے.نہ سینے پر کوئی زخم یا نشان ہے.ہو نہ ہو کسی جن یا بھوت کا سایہ بچے پر ہو گیا ہے.اگر کوئی واقعہ ہو گیا تو میں اُس کی ماں کو کیا منہ دکھاؤں گی؟

Page 48

ہمارا آقا ع وو 42 اس کے بعد حلیمہ نھے بچے کو اپنے ساتھ گھر لے آئی اور اپنے شوہر سے کہا: ” میرا تو اس وقت کلیجہ دیل رہا ہے.سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہوا ؟ لیکن بظاہر مجھے آثار کچھ اچھے نظر نہیں آتے.مناسب یہی ہے کہ بچے کو فورا اس کی والدہ کے پاس پہنچادیا جائے.اس کی جدائی بے شک ہم پر شاق گزرے گی لیکن اگر بچہ ضائع ہو گیا تو پھر کیا ہوگا ؟“ شوہر نے کہا: ”ہاں مجھے تمہاری رائے سے اتفاق ہے.آج ہی 66 اسے لے جا کر اس کی ماں کے سپر د کر آؤ.“ حلیمہ نے بچے کو ساتھ لیا اور مکۃ لا کر اُن کی والدہ کے حوالے کر دیا.حضرت آمنہ نے واقعہ پو چھا تو حلیمہ نے کہا : ” مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بچے پر کسی جن کا اثر ہو گیا ہے.‘“ حضرت آمنہ مسکرائیں اور فرمانے لگیں :.ایسا خیال نہ کرو، میرا بچہ ہرگز ضائع نہ ہوگا ، بلکہ بڑی شان والا انسان ثابت ہوگا.میں نے اُس کی پیدائش کے وقت بڑے عجیب عجیب خواب دیکھے ہیں" تاریخ میں یہ قصہ واقعہ شق صدر کے نام سے مشہور ہے.یہ تھا میرے آقاعدہ کا سب سے پہلا کشف جو ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ وہ ساتھ کے دوسرے بچوں کو بھی نظر آیا.

Page 49

ہمارا آقاعل الله 43 (16) ماں کی جدائی اب تھا معصوم اپنی ماں کے پاس رہنے لگا شاید ہی کسی ماں کو اپنے بیٹے سے اتنی محبت ہوگی جتنی آمنہ کو اپنے یتیم بچے سے تھی.مگر مرحوم شوہر کی موت کا صدمہ بھی ایسا نہ تھا جو کسی وقت اُن کے دل سے دور ہوتا ہو.جب بھی یتیم بچے پر نظر پڑتی ، بے اختیار اس کے والد یاد آ جاتے اور طبیعت بے چین ہو جاتی.ایک دن جب شوہر کی یاد نے بہت ہی ستایا تو حضرت آمنہ نے ارادہ کیا کہ لاؤمدینہ چل کر اُن کی قبر ہی کی زیارت کر آؤں.شاید اسی سے دل کو کچھ ڈھارس ہو.چنانچہ وہ اپنے لخت جگر کو ساتھ لے کر مدینہ گئیں اور وہاں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ایک مہینے تک رہیں.مدینہ کے قیام میں اُن کا یہ روزانہ کا معمول تھا کہ شوہر کی قبر پر جاتیں اور دیر تک وہاں بیٹھی رہتیں.ایک مہینے تک مدینہ میں رہنے کے بعد انہوں نے واپس آنا چاہا اُن کو زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا.ایک قافلہ مکہ آ رہا تھا، اُس کے ساتھ حضرت آمنہ بھی اپنے بیٹے کو لے کر روانہ ہو گئیں.

Page 50

ہمارا آقا ع 44 مدینہ سے روانہ ہوکر جس وقت قافلہ مقام ابواء پر پہنچا تو دفعتاً حضرت آمنہ بیمار ہو گئیں اور ایسی بیمار ہو ئیں کہ اُن کو اپنی زندگی کی آس نہ رہی.جب آمنہ کو محسوس ہوا کہ میرا آخری وقت آلگا تو بڑی حسرت کے ساتھ انہوں نے اپنے لخت جگر کی طرف دیکھا.چھوٹا معصوم بچہ غم کی تصویر بنا سامنے کھڑا تھا.ماں نے اشارہ سے بلا یا دوڑ کر چھاتی سے چمٹ گیا.ماں کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے.ذرا خیال تو کرو.کتنا دردانگیز یہ نظارہ تھا.ماں سینکڑوں امنگوں اور ہزاروں تمناؤں کو ساتھ لے کر دنیا سے جارہی ہے.نہ معلوم کیا کیا خیالات اُس کے دل میں گزر رہے ہیں.اپنے معصوم لال کو اس لق و دق صحرا میں بے یارو مددگار چھوڑے جانے کا صدمہ اس کی روح کو تڑپا رہا ہے.یہ دیکھ کر کہ اس ہولناک وادی میں چھ برس کی جان کس طرح زندہ رہے گی اور میرے بعد اس پر کیا بیتے گی.اُس کا دل پاش پاش ہو رہا ہے.مگر موت نہ کسی کی امنگوں کی پرواہ کرتی ہے نہ حسرتوں کی.وہ نہ بادشاہوں کو چھوڑتی ہے نہ فقیروں کو ، نہ امیروں سے رعایت کرتی ہے نہ غریبوں سے.تھوڑی دیر بعد آمنہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہو گئیں اور

Page 51

ہمارا آقا ع 45 اپنے لال کو اکیلا جنگل میں چھوڑ گئیں.کتنا رقت خیز تھا یہ وقت کہ ماں کی نعش پر اس کا لاڈلا بچہ حیران پریشان کھڑا ہے.آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں اور دل غم ورنج سے بھرا ہوا ہے.وہ سوچ رہا ہے کہ یہ کیا ہو گیا ؟ اور میں اب کہاں جاؤں؟ باپ پیدا ہونے سے پہلے ہی چلا گیا.ماں 6 سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئی.یہ تھا ہمارے آقا ﷺ کا بچپن ! قافلہ والوں نے غریب الوطن کود ہیں جنگل میں دفن کر دیا اور یتیم بچہ کو مکہ لاکر اُس کے دادا کے حوالے کر دیا.

Page 52

ہمارا آقاعل الله 46 (17) دادا کا انتقال عبد المطلب کے اگر چہ گیارہ بارہ لڑکے تھے مگر اُن کو سب سے زیادہ محبت اپنے معصوم اور یتیم پوتے سے تھی.اپنے ساتھ کھلاتے ، اپنے ساتھ سلاتے اور ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے ، چونکہ قریش کے سردار اور نہایت با وقار بزرگ تھے.اس لئے کعبہ کے اندر قالین بچھا کر بیٹھتے تھے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ قالین پر اُن کے ساتھ بیٹھ سکے.مگر ان کا یتیم پوتا قالین پر بلا تکلف دادا کے پاس جا بیٹھتا.ایک آدھ مرتبہ کسی نے ٹو کا تو عبدالمطلب نے فرمایا:.اسے کچھ نہ کہو، یہ تو میرے پاس ہی بیٹھے گا.“ مگر افسوس ! دادا کی الفت و شفقت کا زیادہ مزہ پوتے کو اٹھانا نصیب نہ ہوا.ابھی دو برس بھی نہ گزرے تھے کہ ان کو پیغام اجل آگیا.جب سردار قریش نے دیکھا کہ اب مرنے لگا ہوں تو اُن کو یہ فکر ہوئی کہ میرے بعد اس معصوم بچے کا کیا بنے گا.جس کی عمر ابھی صرف آٹھ سال کی ہے.کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھائے گا ؟ اور کس طرح اس بے چارگی کے عالم میں اپنی زندگی گزارے گا ؟ اس لیے انہوں نے چاہا کہ اپنے بیٹوں میں سے کسی کو اس کا سر پرست اور نگران مقرر کر دیں.

Page 53

ہمارا آقاعل الله 47 انہوں نے اپنے سارے بیٹوں کوطلب کیا اور وہ سب آکر بیمار باپ کے سامنے بیٹھ گئے.اب عبد المطلب اپنے پوتے سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے.”میرے پیارے بیٹے ! میں نے جہاں تک میرے امکان میں تھا، تمہاری اچھی طرح پرورش کی اور ہر طرح تمہارے آرام کا خیال رکھا.میری بڑی خواہش یہ ہے کہ تم دنیا میں نہایت مشہور انسان بنو اور تمام جہان تمہارے کارناموں کی تعریف کرے.جب تم پیدا ہوئے تھے تو میں نے اسی خیال سے تمہارا نام محمد مہ رکھا تھا.میری تمنا تھی کہ میں اپنی زندگی میں تمہارا عروج دیکھ لیتا ، مگر افسوس ! یہ خوشی میری تقدیر میں نہ تھی ، میں اب مرنے لگا ہوں اور اپنی اس آرزو کو اپنے ساتھ قبر میں لے جاؤں گا.تمہارے سارے چا اس وقت تمہارے سامنے بیٹھے ہیں، میرے بعد تم جس کے ہاں رہنا چا ہو، اُس کے پاس چلے جاؤ ، آئندہ کے لیے وہی تمہارا نگران اور سر پرست ہوگا.دادا کی یہ تقریر سُن کر پوتے کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ، مگر چارہ کار کیا تھا، رقت بھرے دل کے ساتھ سارے چچاؤں کو دیکھا اور پھر ابو طالب کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے.ابو طالب نے بڑی محبت کے ساتھ بھیج کو پیار کیا اور اپنی گود میں

Page 54

ہمارا آقاعل الله بٹھا لیا.48 عبدالمطلب نے یہ دیکھا تو فرمانے لگے:.”ابو طالب ! میں اپنی یہ زندہ نشانی تمہارے سپر دکرتا ہوں.اس کو اپنے مرحوم بھائی کی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھنا اور اس کی دلجوئی میں کسی طرح کی کمی نہ کرنا.باپ کو اس نے نہیں دیکھا ، ماں کی محبت کا مزہ اس نے زیادہ دن تک نہیں اٹھایا.غرض دنیا کی کوئی راحت اس نے نہیں پائی اور تیم صدمات سے اس کا دل شیشے سے بھی زیادہ نازک ہو گیا ہے.دیکھنا کہیں اس شیشے کو ٹھیس نہ لگ جائے.تم میرے سامنے اقرار کرو کہ اپنے یتیم اور بے کس بھیجے کی پوری حفاظت کرو گے اور اُس سے ہمیشہ نہایت محبت اور اُلفت سے پیش آؤ گے اور اپنے بیٹوں سے زیادہ اس کا خیال رکھو گے.سعادت مند بیٹے نے نہایت ہی صدق دلی کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حتی الامکان نگہداشت کا اقرار کیا.آنے والے زمانہ نے بتلا دیا کہ جو وعدہ حضرت ابو طالب نے اپنے والد سے کیا اس سے بہت زیادہ کر کے دکھا دیا.ابو طالب ! ہمارے سر تیری تعظیم و تکریم میں جھک جاتے ہیں.جب ہم دیکھتے ہیں کہ تو نے ہمارے پیارے آقا کی ایسی بے نظیر

Page 55

ہمارا آقا عدل 49 پرورش کی کہ اس سے زیادہ خیال میں نہیں آتی.اس موقع پر یہ لطیفہ بیان کرنے کے قابل ہے کہ جب عبد المطلب نے پوتے کی کفالت کے لئے اپنے بیٹوں کو جمع کیا تو سب سے زیادہ ابولہب کو اس بات کی خواہش تھی کہ یتیم بھتیجا میرے پاس رہے.کیونکہ صلى الله اس کو آپ علیہ سے بہت محبت تھی اور جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تھے.تو مے علی اُس نے خوش ہو کر اُس لونڈی کو آزاد کر دیا تھا جو بھتیجے کی ولادت کی خوش خبری اُس کے پاس لائی تھی.زمانہ کی نیرنگیاں عجیب ہیں.اسی چچا کو جب بھتیجے نے اپنی نبوت کی خوش خبری سنائی تو محبت کرنے والا پچا بدترین دشمن ہوا.فَاعْتَبِرُوا يَا أُوْلِي الْأَبْصَارِ

Page 56

ہمارا آقاعل الله 50 (10) مقدس لڑکے کی پہلی دعا اب یتیم بچہ اپنے چچا کے پاس رہنے لگا.چچانے فی الحقیقت اپنے بچوں سے زیادہ اُس کی دلجوئی کی.ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے.جہاں تک اُن سے بنتا اس کے آرام و راحت کا خیال رکھتے اور کوئی بات کبھی اس کی مرضی کے خلاف نہ کرتے.بھتیجے کی عادتیں ایسی اعلیٰ درجہ کی اور اتنی پاکیزہ تھیں کہ ابو طالب دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے تھے.اُن کو نہ صرف بھتیجے سے محبت تھی بلکہ اُن کے دل میں اُس کی بزرگی کا بھی سکہ بیٹھا ہوا تھا.چنانچہ کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ مکہ میں سخت قحط پڑا کیونکہ بارش نہ ہوئی تھی اور ایک قطرہ بھی آسمان سے نہ برسا تھا.مکہ والے نہایت پریشان ہوئے کہ کیا کریں.ابوطالب نے اس موقع پر اپنے بھتیجے سے کہا کہ :.”میاں لوگ پانی کے بغیر بے حد مضطرب ہیں.تمہارا دل معصوم اور زبان پاک ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری زندگی بڑی عجیب زندگی ہے.شہر والوں کو ساتھ لے جاؤ اور جنگل میں جا کر پانی کے لئے خدا سے دعا مانگو.“

Page 57

ہمارا آقا ع 51 بھیجے نے کہا: ”چا ! میں کیا اور میری دعا کیا ؟ یہ کام تو بڑے اور بزرگ آدمیوں کا ہے، میں تو ابھی بچہ ہی ہوں.مگر آپ کے علم کی تعمیل سے مجھے انکار نہیں.چلیے میں دعا مانگتا ہوں.کیا عجب کہ خدا مجھ کمزور کی 66 دعائن لے اور قحط دور ہو جائے.“ چنانچہ اہلِ مکہ کے سارے معزز اصحاب کے ہمراہ ہمارا ننھا آقا عے جنگل میں گیا اور سارے مجمع کے آگے کھڑے ہو کر اُس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھ دعا کے لیے آسمان کی طرف اٹھا دیئے.بادلوں کے فرشتے شاید اس بات کے منتظر ہی بیٹھے تھے.دعا مانجھتے ہی اتنی بارش ہوئی کہ قحط کی ساری تکلیف دور ہوگئی اور مکہ والوں کے سُوکھے دھانوں میں پانی پڑ گیا.قریش کو آج پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اُن میں ایک مقدس لڑکا موجود ہے.ی تھی اس مقدس لڑکے کی پہلی دعا.

Page 58

ہمارا آقاعل الله 52 62 (10) معصوم بچے کا ارادہ ایک چھوٹا بچہ جس کی عمر مشکل سے نو دس برس کی ہو گی.ایک لڑکے کے ساتھ مکہ سے باہر پہاڑی میدانوں میں بکریاں چرایا کرتا تھا.شہر کی حالت یہ تھی وہاں روزانہ مختلف گھروں میں قصہ خوانی کی مجلسیں اور شعر و سخن کی محفلیں نہایت زور شور سے منعقد ہوتی تھیں.جن میں بزرگوں کی کہانیاں اور اُن کی بہادری ، دلاوری اور شجاعت کی داستانیں بڑے رنگین الفاظ میں بیان کی جاتی تھیں اور شعر وسخن کی داد دی جاتی تھی.لوگ ذوق و شوق کے ساتھ ان محفلوں میں شریک ہوتے تھے.اور سارا وقت شراب خوری ، عیش وعشرت اور ہا و ہو میں گزار دیتے تھے.چھوٹے بچے کو یہ سب کچھ معلوم تھا ہمگر وہ ابھی تک ان میں سے کسی محفل میں شریک نہیں ہوا تھا.لیکن آخر وہ بچہ تھا اور انسان کا بچہ تھا.اس کے زمانہ کے سارے لوگ اسی آب و ہوا میں پرورش پا کر جوان ہوئے تھے.ہر ایک پر یہی نشہ سوار تھا ، پھر خود اس کے پہلو میں بھی دل تھا.جس میں بچپن کے جذبات شوق اور امنگیں مچل رہی تھیں.چھوٹے بچے نے سوچا کہ لاؤ کیوں نہ میں بھی تھوڑی دیر کے لئے

Page 59

ہمارا آقا 53 کسی ایسی محفل کا لطف اٹھاؤں؟ ذرا دیکھ تو آؤں ان مجلسوں میں ہوتا کیا ہے؟ یہ سوچ کر چھوٹے بچے نے اپنے ساتھی سے کہا:." دوست ! میرا دل آج شہر کی مجلس دیکھنے کو چاہ رہا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ان بکریوں کا کیا کروں جو چُرانے کے لیے میرے سپرد کی گئی ہیں؟ میری سمجھ میں ایک بات آئی ہے.اگر تم میری بکریوں کی حفاظت کا وعدہ کرو تو میں ذرا کی ذرا شہر جا کر ان مجالس کا لطف اٹھا آؤں.اس کے بدلے کل تم شہر ہو آنا.میں تمہاری بکریوں کی حفاظت کروں گا.“ ساتھی نے بات مان لی اور چھوٹا بچہ شہر کے سیر تماشے میں شریک ہونے کے لیے خوشی خوشی روانہ ہو گیا.مگر ا بھی شہر میں داخل نہیں ہوا تھا کہ شہر کے کنارے پر اُسے ایک مکان میں کچھ آدمی جمع نظر آئے.بچہ نے کسی سے پوچھا: ” یہاں کہا ہورہا ہے؟“ لوگوں نے کہا:.ایک شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟“ چھوٹا بچہ بغیر کسی خیال کے گھر کے اندر چلا گیا.وہاں فرش بچھا ہوا تھا اور لوگ دولہا کے آنے کے منتظر بیٹھے تھے.بچہ بھی فرش پر بیٹھ گیا.اس کے بیٹھتے ہی خدا نے ہواؤں کے فرشتے کو حکم دیا کہ ایسی ملکی اور ٹھنڈی ہوا چلا ؤ کہ بچے کو نیند آ جائے.

Page 60

ہمارا آقا ع 54 حکم کی تعمیل میں فوراً ہوا چلنے لگی اور بچہ فرش پر لیٹ کر سو گیا.جب اُس کی آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی اور سورج سامنے کی پہاڑی میں غروب ہو رہا تھا.بچہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور بکریوں کی فکر میں جلدی جلدی جنگل کو چلا گیا.تجربہ نا کامیاب ہوا.بچے نے سوچا ، آج تو نیند آ گئی اور کسی محفل میں شریک نہ ہو سکا اچھا پھر کسی روز سہی.ایک اور دن جبکہ موسم بہت خوشگوار تھا.چھوٹے بچے نے بکریاں اپنے ساتھی کو سو نہیں اور خود شہر کو چل دیا.مگر اس روز کچھ ایسا ہی اتفاق پیش آیا اور چھوٹا بچہ کسی محفل میں شریک نہ ہو سکا.اس کے بعد اُس لڑکے کو اس قسم کی محفلوں سے کچھ نفرت کی ہوگئی اور اُس نے پھر کبھی ان میں شمولیت کا ارادہ نہیں کیا.جانتے ہو یہ چھوٹا بچہ کون تھا.یہ تھا میرا پیارا آقا محمد مصطفی علی اللہ

Page 61

ہمارا آقاعل الله 55 55 (20) بچے کا پہلا سفر قریش کی ساری قوم تجارت پیشہ تھی.ہر سال ان کے تجارتی قافلے شام، عراق ، فلسطین اور مصر تک جایا کرتے تھے اور دوسری طرف ہندوستان سے لے کر چین تک کے ممالک سے اُن کے تجارتی تعلقات قائم تھے.جو چیزیں دوسرے ملکوں میں ہوتیں وہ خرید لاتے جو اپنی چیزیں لے جاتے وہ دوسرے ملکوں میں بیچ آتے.تجارت میں قریش کو ایک بڑی آسانی یہ تھی کہ اگر چہ عرب میں اُس وقت عام طور پر لوٹ مار کی گرم بازاری تھی.افراد چھوڑ قافلے تک بھی ڈاکوؤں ، رہزنوں اور لٹیروں سے امن میں نہ تھے.جو بھی ہتھے چڑھ جاتا اُسےلوٹ لیتے.جو مقابلہ سے پیش آتا فوراً اُس کا صفایا کر کے رکھ دیتے اُن کو نہ لوٹ مار سے کچھ شرم تھی، نہ قتل وغارت سے کچھ عار.غرض ے وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے درندے ہوں جنگل کے بے باک جیسے مگر قریش چونکہ کعبہ کے متولی تھے اور کعبہ کی تعظیم عرب کا ہر شخص کرتا تھا.اس لئے قریش کا سارے عرب کے لوگوں میں خاص ادب تھا اور اسی احترام کا نتیجہ تھا کہ قریش کے تجارتی قافلے صحراؤں کو عبور

Page 62

ہمارا آقا عال 56 کرتے ، جنگلوں میں سفر کرتے ، وادیوں میں پھرتے اور بیابانوں میں سے گزرتے تھے.مگر انہیں کوئی کچھ نہ کہتا تھا.وہ امن واطمینان کے ساتھ مال تجارت سے لدے پھندے سے بیرونی ملکوں میں جاتے اور وہاں سے مال لا کر مکہ میں آتے.خیریت سے جاتے اور خیریت سے چلے آتے تھے.اُس مار دھاڑ اور لوٹ کھسوٹ کے پُر آشوب زمانہ میں یہ امن ہزار غنیمت تھا.ابو طالب بھی اسی قوم کے ایک معزز فرد تھے اور اکثر تجارت کے لئے قافلہ کے ساتھ شام جایا کرتے تھے.اپنے والد کے انتقال کے بعد جب اُن کو شام کا تجارتی سفر پیش آیا تو اُس وقت اُن کے بھتیجے کی عمر دس برس کی تھی.ابو طالب کو اگر چہ بھتیجے سے کمال درجہ محبت تھی اور وہ ان کو اپنے سے جدا کرنا نہیں چاہتے تھے.مگر راستہ دشوار اور منزل کٹھن تھی اور بھتیجے کی ذراسی تکلیف بھی چا کو گوارا نہ تھی.اس لیے انہوں نے چاہا کہ بھتیجے کوگھر پر ہی چھوڑ جائیں اور اس کے دوسرے چھاؤں کو اس کی حفاظت اور خبر گیری کی تاکید کر جائیں.چنانچہ سفر کی تیاریاں ہوتی رہیں سامان بندھتار ہا اور یہ سب کچھ نھے بچے کے سامنے ہوتا رہا مگر وہ کچھ نہ بولا اور چُپ رہا.

Page 63

ہمارا آقا ع 57 جب روانگی کا وقت آیا اور ابوطالب اونٹ پر چڑھ کر جانے لگے تو بھیجے نے آگے بڑھ کر اوٹ کی تکمیل پکڑ لی اور بڑے ہی درد بھرے لہجہ میں کہا:.چچا! آپ تو جار ہے ہیں مگر مجھے کس پر چھوڑ چلے ؟“ یہ کہتے کہتے بچے کے آنسو نکل آئے.یہ الفاظ نہیں تیر تھے جو بھتیجے کے منہ سے نکلے اور چچا کے دل میں پیوست ہو گئے.ابو طالب کا جی بھتیجے کی بے کسی پر کٹ گیا فوراً اونٹ کو بٹھایا اور اُتر کر بھتیجے کو چھاتی سے لگالیا، پیار کیا اور فرمانے لگے : نہیں بیٹا ! رومت، میں تجھے رنجیدہ نہیں دیکھ سکتا ، چل میرے ساتھ ہی چل“ یہ کہہ کر بھیجے کو اونٹ پر اپنے آگے بٹھا لیا اور شام روانہ ہو گئے یہ تھا میرے آقا علی کا پہلا سفر.

Page 64

ہمارا آقاعل الله 58 (21) جہالت کا کرشمہ عرب کے لوگوں کی فطرت میں یہ بات داخل تھی کہ ہر وقت دنگا فساد، مارکٹائی اور قتل و غارت میں مشغول رہتے تھے.ذراسی بات پر فوراً تلوار میں کھینچ لیتے اور جدال و قتال کے لئے آستینیں چڑھا لیتے تھے.اُن کی عجیب و غریب جہالت کا ایک دلچسپ واقعہ سنو اور اُن کی حماقت پر ہنسو! مکہ سے تین دن کے راستے پر مقام عکاظ میں ہر سال ایک مشہور میلہ لگا کرتا تھا جس میں سارے ملک سے لوگ جمع ہوتے.لین دین اور خرید وفروخت بھی خوب ہوتی اور بڑے بڑے خطیب ، بڑے بڑے شاعر بڑے بڑے ادیب بھی اپنے کمالات کا اظہار کرتے.نہایت پُر زور قصائد پڑھے جاتے اور زبر دست علمی مقابلے ہوتے تھے.پھر بڑے بڑے نقاد فیصلہ کرنے بیٹھتے اور جس شاعر کا قصیدہ سب سے اعلیٰ اور بہتر قرار پاتا اُسے لکھ کر بڑے فخر سے کعبہ میں لڑکا دیا جاتا.ایسے ایسے سات قصیدے کعبہ میں آویزاں تھے جنہیں سبعہ معلقہ کہتے ہیں.اس عکاظ میں حیرہ کا بادشاہ نعمان بن منذ را پنا مال فروخت کرنے کے لیے بھیجا کرتا تھا.لیکن اسے یہ مال بڑی حفاظت کے ساتھ بھیجنا پڑتا تھا.کیونکہ راہ میں لٹنے کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا.

Page 65

ہمارا آقا ع 59 ایک سال جب اُس نے عکاظ میں مال بھیجنا چاہا تو دربار میں بیٹھ کر کہنے لگا:." میرے مال کی حفاظت کا ذمہ کون شخص لیتا ہے؟" اُس وقت اُس کے دربار میں بنی کنانہ کا ایک آدمی براض بن قیس موجود تھا.یہ شخص بڑا فسادی ، عیار، چالاک اور مکار واقع ہوا تھا.بادشاہ کے پوچھنے پر کھڑا ہو کر کہنے لگا." حضور اپنی کنانہ کی طرف سے تو میں اس مال کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں.“ نعمان نے کہا ”مجھے بنو کنانہ اور بنی قیس دونوں سے خطرہ ہے.کیا کوئی ایسا شخص میرے دربار میں موجود ہے جو دونوں قبیلوں سے میرے مال کی حفاظت کا ذمہ لے؟“ فوراً ایک سردار عروہ بن عتبہ کھڑا ہو گیا.یہ بنی قیس سے تھا.” میں دونوں قبیلوں سے آپ کے مال کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں.“ ہے؟ اس پر طیش میں بھر کر بر اض نے کہا: ” کیا بنی کنانہ کا بھی تو ذمہ لیتا عروہ بولا :.او کتے ! بکواس نہ کر، میں نہ صرف دونوں قبیلوں 66 سے بلکہ تمام جہان کے آدمیوں سے اس مال کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں.“ مارے غصہ کے براض دیوانہ ہو گیا.مگر اُس نے بادشاہ کے حضور میں کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور خاموش ہو گیا.

Page 66

ہمارا آقا ع 60 چونکہ عروہ نے مالِ تجارت کا ذمہ لیا تھا.اس لیے نعمان نے مال اُس کے حوالے کیا اور وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہو گیا.براض بھی اس کے پیچھے دربار سے نکلا اور اس تاک میں رہا کہ موقع لگے تو عروہ کا قصہ پاک کردوں.دونوں کا سفر ساتھ ساتھ جاری رہا.خیبر کے قریب پہنچ کر وادی تیمن کی تنہائی میں بڑاض نے فال دیکھی کہ عروہ کوقتل کر ڈالنا چاہیے یا نہیں؟ وہ فال دیکھ ہی رہا تھا کہ اتفاقاً عروہ آدھمکا اور پوچھنے لگا:." کیا کر رہے ہو؟“ بر اض نے جواب دیا : ” فال دیکھ رہا ہوں کہ تجھے اس دنیا سے چلتا کر دوں یا نہیں ؟ بول تیری کیا مرضی ہے فال دیکھوں یا نہیں ؟“ عروہ نے بے پروائی کے ساتھ ہنس کر کہا : ”بھلا تیری کیا مجال ہے کہ میری طرف ٹیڑھی نگاہ سے بھی دیکھ سکے؟“ اس پر براض نے ادھر ادھر دیکھ کر تلوار نکالی اور بڑی پھرتی کے ساتھ عروہ کے پیٹ میں بھونک دی.فوراً ہی اس قتل کی خبر مقتول کے آدمیوں کو ہوگئی.وہ قاتل کے پیچھے دوڑے مگر براض خیبر کی طرف فرار ہو چکا تھا.

Page 67

ہمارا آقا ع 61 اب دو آدمی اسد بن جوین اور مسادر بن مالک اس کے تعاقب میں روانہ ہوئے کہ جہاں پائیں اُسے عروہ کے قصاص میں مار ڈالیں.مگر بد قسمتی یہ ہوئی کہ دونوں آدمی براض کی شکل سے نا آشنا تھے لیکن انہوں نے خیال کیا کہ آخر وہ میر ہی گیا ہے.ہم خیبر چل کر اُس کا پتہ نشان پوچھ لیں گے اور پھر موقع پر پہنچ کر اُسے مارڈالیں گے.جب یہ دونوں خیبر پہنچے تو اتفاقاً جو آدمی سب سے پہلے ان کو ملا ، وہ کم بخت بر اض ہی تھا.انہوں نے براض سے پوچھا : ”میاں کیا تمہیں بڑاض کا بھی پتا ہے؟ وہ آج ہی کل میں یہاں آیا ہے.“ کام ہے؟ تراض نے کہا : ہاں کیوں نہیں، پتا تو ہے لیکن تم کو اس سے کیا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آدمی بے وقوف بھی پرلے درجے کے تھے جھٹ کہنے لگے کہ وہ ہمارے سردار کو مار آیا ہے.لہذا ہم اُسے مارنے آئے ہیں.اب تو براض چوکتا ہوا.مگر اُس نے گھبراہٹ کو دبا کر بظاہر نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ ”بے شک براض خبیث ہے ہی اس قابل کہ ایک ہی وار میں جہنم واصل کردیا جائے.کمبخت سے ایک زمانہ نالاں ہے

Page 68

ہمارا آقا ع 62 آپ دونوں میرے ساتھ چلیں اور میرے ہاں قیام فرما ئیں ، میں آپ کو خود وہاں تک لے چلوں گا جہاں براض رہتا ہے اور اس کے قتل کرنے 66 میں آپ کی امداد کروں گا.“ آنے والے حادثہ سے بے خبر ، دونوں براض کے ساتھ ہو لیے اور دل میں خوش تھے کہ بڑی آسانی سے کام بن گیا.براض اُن کو اپنے گھر لے گیا اور اُن کے قیام اور طعام کا انتظام کیا.اُن کے انٹوں کو بھی علیحدہ باندھ کر چارہ وغیرہ دے دیا.غرض اُن کی خوب آؤ بھگت کی.ایک دن تو خاطر تواضع میں گزارا دوسرے دن کہنے لگا : ” تم - دونوں میں سے جو نسبتاً زیادہ بہادر ہو اور جس کی تلوار بھی خوب تیز ہو وہ میرے ساتھ چلے تا کہ میں اُسے براض کا پتہ بتاؤں اور اُسے وہاں لے چلوں جہاں وہ بد بخت چھپا ہوا ہے.اس پر مسادر بولا کہ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں، یہ اسد یہیں رہے گا اور اونٹوں کی رکھوالی کرتا رہے گا.مسادر کو ساتھ لے کر براض شہر سے نکلا اور کھنڈروں میں سے ہوتا ہوا ایک مقام پر پہنچ کر رک گیا اور مساور سے کہنے لگا اس سامنے والے کھنڈر میں براض رہتا ہے.تم یہاں ٹھہرو میں دیکھ آؤں کہ موجود ہے یا نہیں ؟“

Page 69

ہمارا آقا ع 63 اس کے بعد مسادر کو اکیلا چھوڑ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر میں واپس آکر کہنے لگا کہ ہاں وہ موجود ہے اور اس وقت خوش قسمتی سے اُس کے قتل کا بہت عمدہ موقع ہے کیونکہ وہ بے خبر پڑا سورہا ہے.ایک ہی وار میں اُس کا سر تن سے جدا ہو سکتا ہے.ذرا مجھے اپنی تلوار دکھا دو تا کہ میں دیکھے لوں کہ وہ کیسی کاٹ کرتی ہے؟“ نا دان اور بھولے بھالے مسادر نے تلوار براض کے ہاتھ میں دے دی.تلوار لیتے ہی براض نے جھپٹ کر مسادر پر وار کیا اور جس طرح یکی اچانک کبوتر پر آپڑتی ہے.اسی طرح اُس نے مسادر پر حملہ کر کے اُس کا خاتمہ کر دیا.اس کام سے فارغ ہو کر اُس نے مساور کی لاش اور اُس کی تلوار کو تو و ہیں پتھروں میں چھپادیا اور خود اس کے دوسرے ساتھی اسد کے پاس آیا اور اُس سے کہنے لگا: ” میں نے تیرے ساتھی سے زیادہ ڈرپوک اور بز دل آدمی اس وقت تک کوئی نہیں دیکھا ، میں اُسے براض کے گھر لے گیا.وہ اس وقت سور ہا تھا.میں نے اُس سے کہا ”دیکھتا کیا ہے؟ تلوار کے ایک وار میں اُسے ہمیشہ کی نیند سلا دے.مگر اس سے کچھ بھی ، نہ ہو سکا، اب میں تجھے لینے آیا کے لیے ہوں.چل ، تا کہ تینوں مل کر 66 براض کا خاتمہ کر دیں.“

Page 70

ہمارا آقا ع 64 اسد اس کے ساتھ ہولیا اور اُس کا بھی وہی انجام ہوا، جو اس کے ساتھی کا ہو چکا تھا.گیا.اس کام سے فارغ ہو کر براض اونٹوں کو لے کر مکہ معظمہ روانہ ہو قریش اس وقت عکاظ کے میلے میں گئے ہوئے تھے.راستہ ہی میں اُس نے ایک آدمی کے ہاتھ قریش کو کہلا بھیجا کہ میں نے عروہ کو قتل کر ڈالا ہے.غالب گمان ہے کہ اُس کا بدلہ بنی قیس تم سے لینا چاہیں گے.اس لیے ذرا ہوشیار رہنا.“ یہ پیغام براض نے قریش کو بدیں وجہ بھیجا تھا کہ براض کی قوم یعنی بنی کنانہ اور قریش ایک دوسرے کے عزیز اور دوست تھے اور عرب میں عام رواج تھا کہ دشمن کے دوست کو بھی اپنا دشمن ہی سمجھتے اور اگر اصلی دشمن پر بس نہ چلتا تو دشمن کے دوست کی قوم پر حملہ کر کے جسے چاہتے مار ڈالتے.قریش کو جب براض کا یہ پیغام پہنچا تو وہ جلدی جلدی اپنے آدمیوں کو عکاظ میں سے سمیٹ کر مکہ کو روانہ ہو گئے لیکن اتنی دیر میں بنی قیس کو عروہ کے قتل کی خبر مل چکی تھی.وہ دوڑے کہ قریش میں سے جتنے آدمی مل سکیں فور اعروہ کے قصاص میں قتل کر ڈالیں.

Page 71

ہمارا آقا ع 65 مگر اتنے میں قریش بھاگ کر خانہ کعبہ میں پناہ لے چکے تھے.جو شخص خانہ کعبہ چلا جا تا ،عرب اُسے نہیں مارتے تھے.اس لیے بنی قیس اُلٹے لوٹ گئے ،مگر یہ کہتے آئے کہ عروہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا.اگلے سال عکاظ کے میلے پر ہم سے لڑنے کے لیے تیار رہو.اب تو قریش کو مجبوراً جنگ کی تیاری کرنی پڑی.چنانچہ دونوں طرف سے پورا سال جنگ کی تیاری میں گذر گیا.جب دوسرا سال شروع ہوا، تو بنی تھیں، بنی ہوازن کو ساتھ لے کر لڑنے کے لئے آ موجود ہوئے.یہ مہینہ ایسا تھا کہ عرب اس مہینے میں لڑائی بھڑائی بند رکھتے تھے.مگر بنی قیس نے اس کی پرواہ نہ کی اور جنگ کے لئے کیل کانٹے سے لیس ہو کر آگئے.قریش مجبوراً میدان میں نکلے، ہر فریق جوش و خروش سے بھرا ہوا تھا.بڑے بڑے سرداروں نے حلف اٹھائے کہ لڑ کر مارے جائیں گے ، مگر قدم پیچھے نہیں ہٹا ئیں گے.تھوڑی دیر کے بعد جنگ شروع ہوگئی.بڑے گھمسان کا رن پڑا.اور نعمان بن منذر کے دربار میں معمولی سی جھڑپ بڑا خطرناک رنگ لائی.اتنا کشت وخون ہوا کہ خدا کی پناہ.یہ لڑائی جاہلیت کی لڑائیوں میں بڑی خوں ریز جنگ تھی اور تاریخ

Page 72

ہمارا آقا ع 66 میں حرب فجار کے نام سے مشہور ہے.جب دونوں طرف کے بہادر لڑتے لڑتے تھک گئے اور ہزاروں آدمیوں کا صفایا ہو چکا ،تب بنی قیس کو اپنی ہار ماننی پڑی.وہ عروہ کے قصاص سے دست بردار ہوئے اور قریش کی فتح ہوئی.مگر صلح اس بات پر ہوئی کہ دونوں طرف کے جتنے آدمی قتل ہوئے ہیں، ان کو الگ الگ شمار کیا جائے.جس قبیلے نے دوسرے قبیلے کے زیادہ آدمی مارے ہوں ، وہ زائد آدمیوں کو خون بہا ادا کرے.جب مردہ شماری ہوئی تو معلوم ہوا کہ قریش نے بنو قیس کے بیس آدمی زیاد قتل کیے ہیں.لہذا قریش کو میں مقتولوں کا خون بہا ادا کرنا پڑا.اس کے بعد دونوں فریق ٹھنڈے ٹھنڈے گھر کو سدھارے.اس جنگ کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ابو طالب کا مقدس بھتیجا بھی قریش کے ساتھ تھا.اُس وقت اس کی عمر چودہ، پندرہ برس یا بعض روایات کے بموجب انیس ، بیس سال کی تھی مگر اس بات پر سب تذکرہ نویس متفق ہیں کہ مقدس لڑکے نے اپنے ہاتھ سے کسی شخص کو قتل نہیں کیا ، نہ کسی پر تلوار اٹھائی ،صرف میدانِ جنگ میں اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا کر لا دیا کرتے تھے.یہ تھی پہلی جنگ جس میں ہمارے آقا ﷺ نے شرکت کی.

Page 73

ہمارا آقاعل الله 67 (22) نوجوان کا حلف اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب قوم کے لوگ ظلم و جبر اور قتل و غارت کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو پھر انہی میں سے بعض ایسے اشخاص پیدا ہو جاتے ہیں جو ظلم کو روکنا اور قتل غارت کو بند کرنا چاہتے ہیں، تا کہ دنیا کو کچھ آرام وسکون میسر آئے.بالکل یہی حال عرب کا ہوا.وہ لوگ صدیوں اس حال میں مبتلا رہے کہ دوسروں کا مال مار لیتے.کمزور کا حق دبا لیتے اور قتل و غارت کر کے اپنا پیٹ بھر لیتے.جب یہ حالت انتہا کو پہنچ گئی تو پھر انہی میں سے بعض نیک دل اور شریف طبع لوگوں کو خیال آیا کہ یہ تو بڑا غضب ہے.پوری قوم تباہی اور ہلاکت کے گڑھے میں گری جارہی ہے.جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ ہورہا ہے.قوی ضعیف کو کھائے جارہا ہے اور کمزور طاقتور کے نیچے دیا ہوا ہے.آپس کی آئے دن کی خانہ جنگیوں اور لوٹ مار سے سینکڑوں گھرانے بتا د ہو گئے اور ہزاروں بچے یتیم ہو کے رہ گئے ہیں.اس طرح تو ایک دن سارا ملک تباہ ہو جائے گا.لاؤ کوئی ایسی تد بیر کریں کہ لوگوں کو اس ظلم و زیادتی اور جبر وسختی کی زندگی سے امن ملے.چنانچہ بعض ذی اثر

Page 74

ہمارا آقا ع 68 اور با اقتدار سردار جن کے نام فضیل بن حارث، فضیل بن وداعہ اور مفضل بن فضالہ وغیرہ تھے.ایک جگہ جمع ہوئے اور باہم ایک معاہدہ کیا ، جس میں اس بات پر حلف اٹھائے کہ آج سے یہ سفا کی، ظلم اور زیادتی بند کی جائے.جو شخص اپنے سے کمزور پر ظلم کرے اُسے طاقت سے روک دیا جائے ، جو مظلوم ہو اُس کی مدد کی جائے ، جس کا حق نا حق چھینا گیا ہو اس کا حق دلوایا جائے ، جو شخص لوگوں پر ظلم وستم کرتا ہوا سے مکہ سے نکال دیا جائے.چونکہ ان حلف اٹھانے والوں میں اکثر کا نام فضل پر تھا اس لیے اس واقعہ کا نام خَلْفَ الْفُضُول رکھا گیا اور یہ تاریخ میں اسی نام سے مشہور ہے.چونکہ اس معاہدہ میں مکہ کے تمام بڑے بڑے سردار شریک تھے اور اُنہوں نے بڑے جوش کے ساتھ حلف اٹھائے تھے، اس لئے شہر کے مظلوم اور بیکس اور کمزور لوگوں کو تو قع ہو گئی کہ اب ہمیں زبر دستوں کے چنگل سے نجات مل جائے گی.لیکن عرب کی حالت اتنی گندی اور اس قدر خراب ہو چکی تھی اور طبیعتیں اتنی پست اور ذہنی ہیں ایسی مسخ ہو چکی تھیں کہ یہ معاہدہ پانی کا بلبلہ ثابت ہوا اور تھوڑے دنوں بعد نہ کسی کو معاہدہ یاد رہا، نہا اپنے حلف کا خیال

Page 75

ہمارا آقا ع 69 رہا.سب کچھ طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا.بات لوگوں کو بھول گئی اور مدتوں بھولی رہی.جب حرب تجار میں بہت سے لوگ لڑ کر کٹ مرے تو پھر باسی کڑھی میں ابال آیا اور قریش کے بعض معززین نے چاہا کہ حلف الفضول کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور نئے سرے سے مظلوم کی حمایت اور کمزور کی امانت پر لوگوں سے حلف لیے جائیں.اس تجویز کو پیش کرنے والے زبیر بن عبد المطلب تھے.مکہ میں عبد اللہ بن جدعان اُس وقت سب سے زیادہ بوڑھا، سب سے زیادہ بزرگ اور سب سے زیادہ معزز مانا جاتا تھا.اسی کے مکان پر قریش کے سرداروں کا یہ تاریخی اجتماع ہوا.جلسہ میں بنی ہاشم بنی عبدالمطلب ، بنی اسد، بنی زہرہ اور بنی تیم شریک تھے.بڑی پُر جوش اور ولولہ انگیز تقریروں کے بعد سب حاضرین نے حلف اٹھایا کہ آئندہ ہم ظالم کو ظلم سے روکیں گے اور حقدار کو اس کا حق ولا ئیں گے اور مظلوم کی اعانت کریں گے.بڑے بوڑھوں اور قوم کے سرداروں کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا بھی اس جلسہ میں موجود تھا اور اُس نے بھی حلف اٹھایا.مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا.یعنی جو حشر پہلے جلسہ کا

Page 76

ہمارا آقا عدل 70 ہوا تھا ، وہی اس کا بھی ہوا.کچھ ہی دنوں کے بعد بڑے بوڑھے بھول گئے کہ ہم نے کیا وعدہ کیا اور کیا معاہدہ کیا تھا؟ لیکن اُس نوجوان کو اپنا عہد خوب اچھی طرح یاد رہا اور اپنی ساری عمر اس نے اس وعدہ کو پورا کرنے میں وقف کر دی.جب تک زندہ رہا تن من دھن سے مظلوموں کی اعانت اور بے کسوں کی ہمدردی کرتا رہا.جب دُنیا سے سدھارا تو اپنے پیچھے اپنے ایسے ہزاروں جاں نثار خادم چھوڑ گیا.جنہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین مظلوم کی حمایت کو بنالیا اور جب کبھی وقت پڑا یا موقع پیش آیا تو معمولی گنوار انسان کے مقابلہ میں انہوں نے بادشاہوں کا بھی لحاظ نہیں کیا.یہی نوجوان ہمارا آقا عدہ تھا.

Page 77

ہمارا آقا ع 71 (20) صادق اور امین جوں جوں اس نوجوان کی عمر بڑھتی جاتی تھی توں توں اس کی نیکی اور پر ہیز گاری میں ترقی ہوتی رہتی تھی.کبھی کسی نے اس لڑکے کو کوئی لغو کام کرتے نہیں دیکھا.نہ کبھی کسی نے اُس کی زبان سے کوئی جھوٹ بات سُنی.اس کا معاملہ ہمیشہ نہایت کھرا ہوتا اور جب وہ کسی سے سودا کرتا تو بڑی نرمی اور خوش اسلوبی سے کرتا.رفتہ رفتہ اُس کی امانت ، دیانت اور سچائی کا شہرہ سارے مکہ میں ہو گیا اور سب لوگ خود بخود اس کو صادق اور امین کہہ کر پکارنے لگے.اُسکی نیکی کی وجہ سے ہر شخص اس کی عزت کرتا اور بڑے بوڑھوں کے دلوں میں بھی اس کی بڑی قدر و منزلت تھی.بڑے ہو کر اس لڑکے نے تجارت کا شغل اختیار کیا جو اُس کا آبائی پیشہ تھا مگر تجارت کے لئے اُس کے پاس روپیہ نہ تھا.اس لئے اس نے دوسرے لوگوں کی شراکت میں یہ کام شروع کیا اور مالِ تجارت لے کر شام ، بصری ، بحرین اور یمن وغیرہ کا سفر کرنے لگا.اُس زمانہ میں جو جو آدمی اس نوجوان کے ساتھ تجارت میں شریک رہے.اُن کو بھی معاملہ میں اُس سے ذرا بھی شکایت پیدا نہیں ہوئی ، نہ کبھی کسی شریک کو اس نوجوان کی امانت اور دیانت پر طلبہ ہوا.

Page 78

ہمارا آقا ع 72 ایک دفعہ ایک شخص نے جس کا نام عبد اللہ تھا.اس نوجوان سے کوئی تجارتی معاملہ کرنا چاہا.اس کے متعلق باہم گفتگو کرتے کرتے اُسے کوئی کام یاد آیا.کہنے لگا: ” آپ یہیں ٹھہریں ، میں ذرا ایک ضروری کام ہو آؤں تو پھر آپ سے باقی معاملہ طے کروں گا.“ نوجوان نے کہا اچھا میں تمہارا انتظار کروں گا.“ وہ آدمی چلا گیا اور جا کر بھول گیا کہ میں ایک نو جوان تاجر کو ٹھہرا آیا ہوں.اتفاق سے تین دن کے بعد اُس کا اُدھر سے گذر ہوا تو اس شریف انسان کو اُس نے اُسی جگہ پایا جہاں چھوڑ گیا تھا.اُسے فوراً اپنا وعدہ یاد آیا اور کہنے لگا معاف کرنا آپ کو نہایت سخت تکلیف ہوئی ، دراصل میں بالکل بھول گیا تھا.اس پر نوجوان نے بڑی نرمی سے صرف اتنا فرمایا کہ میں یہاں تین دن سے تمہارا منتظر ہوں.صادق اور امین کے خطابات قوم نے میرے آقا عے کو اس وقت دیئے تھے ، جب وہ جوان تھا.یہ دونوں خطاب وَ لَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُراً مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ کے دعوے کی روشن دلیل تھے.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے بعد آنحضرت علیہ نے

Page 79

ہمارا آقا ع 73 اپنی قوم سے فرمایا کہ ” میں نے تم میں ایک لمبی عمر گزاری ہے کیا اُسوقت میری پاکی ، میری نیکی ، میری سچائی اور میری دیانت کے متعلق تم میں سے کسی کو کوئی طیبہ ہوا ؟ تو جب میں نے اپنی جوانی ایسی پاکیزگی اور سچائی کے ساتھ تمہارے اندر گزاری ، تو کیا اب میں بوڑھا ہو کر خدا پر جھوٹ بولوں گا.کیا تم میں اتنی معمولی بات کے سمجھنے کی بھی عقل نہیں ؟ اگر قوم آپ کو سچا اور راستباز نہ بجھتی تو 'صادق‘ کا خطاب کیوں دیتی ؟ اور اگر آپ کو دیانتداری اور امانت میں کامل نہ جانتی تو امین کے نام سے کیوں پکارتی ؟

Page 80

ہمارا آقاعل الله 74 (24) مالدار عورت مکہ میں ایک نہایت عالی خاندان اور بڑی دولتمند عورت رہتی تھی.اُس کا نام خدیجہ تھا.تمام شہر میں اس کی بڑی عزت تھی اور عرب تھی اورعر.میں اُس سے زیادہ امیر کوئی اور نہ تھا.ع وہ بہت بڑی تاجر تھی اور اپنا مال لوگوں کو دے کر مصر، شام اور یمن وغیرہ بھیجا کرتی تھی تا کہ وہ اُسے اُن ملکوں میں فروخت کر آئیں.خدیجہ نے جب تجارت میں نو جوان محمد ﷺ کی مہارت ، معاملہ میں دیانتداری اور کاروبار میں خوش اسلوبی کی تعریف سنی تو اُن کو بلایا اور کہا کہ ” میں چاہتی ہوں کہ آپ میرا مال لے کر تجارت کے لئے شام جائیں.مال کی فروخت پر جس قدر معاوضہ میں عام طور پر دوسروں کو دیا کرتی ہوں ، آپ کو اس سے دو گنا دوں گی اور سفر میں آپ کی خدمت کے لئے اپنے ایک غلام کو بھی ساتھ بھیج دوں گی.“ ہمارے نوجوان تاجر نے اس بات کو منظور فرمالیا اور میسرہ نام ایک غلام کے ساتھ مالِ تجارت لے کر شام کو روانہ ہو گیا.جب محمد سے بھری پہنچے جو عرب کے شمال اور شام کے جنوب میں ایک شہر ہے تو سارا مال بہت جلدی و ہیں فروخت ہو گیا اور فروخت بھی

Page 81

ہمارا آقا ع 75 ہوا بڑے نفع سے.اب آپ کو آگے جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ لہذا و ہیں سے واپس لوٹ آئے.پائی پائی کا حساب خدیجہ کو سمجھایا اور اپنا معاوضہ لے کر گھر چلے گئے.میسرہ غلام سے خدیجہ نے پوچھا کہ " کہو سفر میں کیسی گذری اور تیرے ساتھ ہاشمی نو جوان کا سلوک کیسا رہا؟“ غلام نے جواب دیا ”میری مالکہ ! یہ تو بڑا ہی عجیب و غریب انسان ثابت ہوا.اتنا خوش گفتار ایسا با اخلاق ، اس درجہ راستباز اور اس قدر دیانتدار نو جوان میں نے آج تک نہیں دیکھا.میرے ساتھ اس کا سلوک بالکل بھائیوں جیسا رہا.بجائے اس کے کہ میں اُس کی خدمت کرتا ، الٹا وہی میرے کام کر دیا کرتا تھا.غرض آدمی کا ہے کو ہے.بنا بنایا فرشتہ ہے!“

Page 82

0 بیا 76 (25) ہمارا آقاعل الله خدیجہ جتنی دولت مند اور امیر کبیر تھیں اتنی ہی عالی ظرف اور پاکباز تھیں.اپنی نیکی و پارسائی اور اپنے پاکیزہ اخلاق کے باعث سارے مکہ میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں.یہ بیوہ تھیں اور اس سے پہلے ان کے دوخاوندوں کا انتقال ہو چکا تھا اور انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اب کوئی شادی نہیں کروں گی.خدیجہ کے اعلیٰ کیرکٹر ، اُن کے اخلاق فاضلہ ، اُن کی پسندیدہ عادات کے باعث مکہ کے بڑے بڑے معزز سردار اُن سے نکاح کی درخواست کر چکے تھے مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا.لیکن نو جوان صلى الله محمد اللہ کی لیاقت ، آپ مے کی شرافت اور آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کو دیکھ کر اور اپنے غلام میسرہ سے آپ ﷺ کی تعریف سن کر انہوں نے خود آپ ﷺ سے نکاح کی درخواست کی اور اس غرض کے لئے اپنی سب سے قابل اعتماد لونڈی کو جس کا نام نفیسہ تھا.آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا.نفیسہ باتوں باتوں میں آپ ملے سے کہنے لگی کہ "میاں جتنی عمر آر ! آپ ع کی ہے، اس عمر میں تو لوگ کئی کئی بچوں کے باپ ہو جاتے ہیں،

Page 83

ہمارا آقا ع 77 مگر آپ مے نے اب تک اپنی شادی بھی نہیں کرائی.شادی کے متعلق آپ کا کیا ارادہ ہے؟ نوجوان نے جواب دیا :.بات یہ ہے کہ میں غریب آدمی ہوں اور میری آمدنی قلیل ہے.ظاہر ہے کہ اس حالت میں کون مجھے اپنی بیٹی دے گا ؟ اور پھر یہ بھی ہے کہ اگر میں نکاح کرلوں تو بیوی کے اخراجات کہاں سے پورے کروں ؟ جبکہ میرے اکیلے کا خرچ مشکل سے پورا ہوتا ہے.نفیسہ نے کہا :.واہ ! یہ بھی کوئی عذر ہے.آپ کسی دولتمند عورت سے شادی کر لیں.اُس کا آپ پر کوئی بار نہیں پڑے گا." نوجوان ہاشمی ہنسا اور کہنے لگا:.یہ تم نے خوب کہی مجھ جیسے غریب آدمی کو کوئی امیر اپنی بیٹی کیوں دے گا ؟ دُنیا کا عام دستور ہے کہ امیر لوگ 66 امیروں ہی کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دیا کرتے ہیں.“ پھر؟ نفیسہ بولی: "اگر کوئی امیر عورت خود آپ سے شادی کرنا چاہے تو نو جوان نے تعجب سے پوچھا:.ایسی کون امیر عورت ہوگی جو مجھ جیسے غریب آدمی سے شادی کرنا چاہے گی ؟ نفیسہ نے جواب دیا :.”میری مالکہ خدیجہ آپ سے نکاح کی

Page 84

ہمارا آقا ع 78 خواہش مند ہیں اور انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے.بشرطیکہ آپ بھی رضا مند ہوں“ نوجوان نے قدرے تامل سے کہا:.” میری اس معاملہ میں کیا رائے ہوسکتی ہے یہ بات تو میرے چا سے پو چھنی چاہیے جن کے پاس میں رہتا ہوں اور جو میرے سر پرست ہیں.صلى الله نفیسہ نے یہ سن کر کہا:." جب تک خود آپ ﷺ کی اپنی مرضی نہ ہو، اُس وقت تک ابو طالب سے پوچھنا یا کہنا بیکار ہے.“ نوجوان نے کہا : نہیں یہ بات نہیں.اگر چھا کو یہ رشتہ منظور ہو تو پھر مجھے انکار نہیں ہوگا.“ صلى الله نفیسہ کہنے لگی :.تو پھر آپ علیہ خود ہی اپنے چا سے اُن کی ” مرضی دریافت کر لیں.میں پھر کسی وقت آگر آپ سے اس کے متعلق پوچھ لوں گی.“ نفیسہ کے جانے کے بعد نو جوان بھیجے نے اپنے پچا سے اس قصہ کا ذکر کیا ، تو وہ کہنے لگے کہ اگر خدیجہ کی خود خواہش ہے تو بے شک کرلو.خدیجہ کوئی غیر نہیں.رشتہ میں تمہاری چچیری بہن لگتی ہے.ابو طالب کے علاوہ اپنے دوسرے چچاؤں سے بھی نوجوان نے صلاح لی.سب کی یہی رائے ہوئی کہ رشتہ بہت مناسب اور نہایت اچھا ہے.

Page 85

ہمارا آقا ع 79 شام کو نفیسہ پھر آئی اور پوچھنے لگی: " کہئے ! آپ نے اپنے چچا سے پوچھا تھا ؟ نوجوان نے کہا : ہاں میں نے اُن سے ذکر کیا تھا وہ راضی ہیں “ نفیسہ خوش ہوکر بولی: 'بڑا اچھا ہوا اب یہ مبارک تقریب جلد عمل میں آجانی چاہیے کیونکہ نیک کام میں دبیر مناسب نہیں.“ نوجوان نے کہا : ” میں اس کا بھی اپنے چچا سے ذکر کروں گا.جیسا کچھ وہ جواب دیں گے، یا جب وہ کرنا چاہیں گے ، اس سے تمہیں مطلع کر دوں گا؟“ تھوڑے دنوں میں سارے معاملات طے ہو گئے محمد ﷺ اپنے چچاؤں اور اکابرین قریش کے ساتھ خدیجہ کے مکان پر تشریف لے گئے.پانچ سو درہم مہر مقرر ہوا.ابو طالب نے نکاح پڑھا، اور دونوں کی شادی ہوگئی.خدیجہ ! تجھ پر ہزاروں سلام.تو وہ خوش نصیب اور مقدس خاتون ہے جس کو میرے آقا ﷺ کی سب سے پہلی بیوی بنے کا شرف حاصل ہوا.خدیجہ اور محمد مدینے کی یہ شادی پاکیزگی اور طہارت کی بہترین مثال تھی.کیونکہ نکاح کے وقت خدیجہ کی عمر 40 سال کی اور اُن کے شوہر کی 25 سال کی تھی.خدیجہ نے یہ خیال نہ کیا کہ میں ایک غریب آدمی سے شادی کر کے قوم اور قبیلے میں اپنی سبکی کرا رہی ہوں.اُنہوں نے صرف

Page 86

ہمارا آقا ع 80 شوہر کے پاکیزہ اخلاق کو دیکھا.دوسری طرف نوجوان محمد اللہ نے اس امر کا لحاظ نہ کیا کہ میں جوان ہو کر قریباً بوڑھی عورت سے کیوں نکاح کروں؟ انہوں نے صرف بیوی کی شرافت نفس کو دیکھا.دونوں کے حسن نیت کے نتیجہ میں یہ شادی انتہائی طور پر بابرکت ثابت ہوئی.

Page 87

ہمارا آقاعل الله 81 (26) جاثار بیوی نکاح کے وقت خدیجہ کے نزدیک اُن کے شوہر ایک عام نیک اور صالح انسان تھے اور چونکہ خدیجہ خود نہایت شریف الطبع ، نیک طینت اور عفیفہ خاتون تھیں اس لئے انہوں نے اپنے شوہر کو امراء کے طبقے میں سے منتخب نہیں کیا، جو بالعموم سینکڑوں عیوب کا مجموعہ اور ہزاروں برائیوں کا مخزن ہوتے ہیں.بلکہ انہوں نے ایسے انسان کو اپنے لئے پسند کیا.جس کے پاس اگر چہ درہم و دینار کی فراوانی نہ تھی مگر نیکی اور پر ہیز گاری کی دولت سے مالا مال تھا.جس کی دیانتداری اور معاملہ منہمی کا خود اُن کو ذاتی طور پر تجربہ ہو چکا تھا.مگر یہ سب کچھ نو جوان شوہر کے اخلاق فاضلہ کا صرف بیرونی حصہ تھا.جو باطنی فضائل و محامد اُس کی ذات میں پنہاں تھے، اُن کا خدیجہ کو پتہ نہ تھا.اب جبکہ ایک جگہ اور ایک ساتھ رہنا ہوا تو خد بچہ کو کچھ کچھ علم اس بات کا ہوا کہ اس کا محترم اور مقدس شو ہر کیسی عجیب و غریب شخصیت اور کیسے عدیم المثال اخلاق کا مالک ہے.خدیجہ کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ عرب کے تاریک ذرات سے بھی ایسا ماہ کامل اُٹھ سکتا ہے جس کی روشنی ، وقت آئے گا کہ تمام دنیا میں پھیل جائے گی.خدیجہ کی خوش قسمتی کی قسم کھانی چاہئے جسے اللہ تعالیٰ نے

Page 88

ہمارا آقا ع 82 محض اپنے فضل سے چھپر پھاڑ کر یہ بیش بہا دولت دی.شادی کے بعد جب خدیجہ پر اپنے شوہر کے باطنی کمالات ظاہر ہوئے تو انہیں تجربہ ہوا کہ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسے اعلیٰ اور ایسے بے نظیر اخلاق کا مالک نہیں جیسے میرے شو ہر محمد میں لاتے ہیں.یہ معلوم کرنے کے بعد خدیجہ محسوس کرتی تھیں کہ میں دنیا میں سب سے خوش قسمت عورت ہوں اور وہ واقعی ایسی ہی تھیں.الله آپ ﷺ کی سیرة و عادات کو بہت قریب سے دیکھ کر خدیجہ اپنے نہایت واجب التعظیم شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری میں کھو گئیں اور انہوں نے ایسا شاندار اور پاکیزہ نمونہ اپنی محبت والفت کا دکھایا جو دنیا بھر کی نیک خواتین کے لئے اسوۂ حسنہ ہے.خدیجہ حق الیقین کے ساتھ اس واقعی حقیقت تک پہنچ گئیں کہ لندن میں شاید کچھ کھوٹ ہو ، مگر میرے پیارے شوہر میں کوئی عیب نہیں.وہ گناہ اور معاصی سے اتنا ہی دور ہے جیسے مشرق سے مغرب.خدیجہ تمام مکہ میں سب سے زیادہ مالدار عورت تھیں.شادی کے بعد جب اُن کو خوب اچھی طرح اپنے شوہر کی خوبیوں کا اندازہ ہو گیا تو انہوں نے اپنا سارا مال و منال اور اپنا تمام روپیہ پیسہ نکال کر اپنے رفیق حیات کے قدموں میں ڈال دیا اور عرض کی کہ اب یہ سب کچھ آپ

Page 89

ہمارا آقا ع 83 کے حوالے ہے، جس طرح چاہیں خرچ کریں.اگر نو جوان محمد اللہ عیش و عشرت کے دلدادہ ہوتے یا مال و دولت کے لالچ میں آپ ﷺ نے خدیجہ سے شادی کی ہوتی تو آپ نے کے لئے نہایت عمد و موقع تھا کہ اس روپے سے خوب عیش کرتے.ناچ رنگ کے جلسے منعقد کرتے ، شراب کے دور چلتے ، اعلیٰ درجہ کی پوشاکیں پہنتے ، الله نفیس نفیس کھانے پکواتے لونڈی غلاموں کی ایک فوج آپ مال لے کے پاس ہوتی جو دن رات آپ ﷺ کی خدمت کرتی ، اور آپ سے بادشاہوں کی طرح نہایت شان و شوکت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے.الله مگر ان باتوں کے برخلاف آپ ﷺ نے وہ سارا مال جو وفا شعار بیوی نے آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا قیموں کی امداد ، غریبوں کی اعانت، بیواؤں کی خبر گیری اور بیماروں کی ہمدردی میں خرچ کر دیا.مہمان کی آؤ بھگت خوب کرتے.مسافر کی خاطر تواضع کا خاص خیال صلى الله رکھتے.کوئی سوالی آپ ﷺ کے در سے خالی نہ جاتا ، نگوں کو کپڑا دیتے ، بھوکوں کو روٹی کھلاتے ، قرض داروں کا قرض ادا کرتے ،مظلوم غلاموں کو اُن کے ظالم آقاؤں سے خرید کر آزاد کراتے اور حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرتے تھے.مگر آپ ﷺ کی خود اپنی زندگی نہایت سادہ اور نہایت بے تکلف اور نہایت معمولی تھی.نہ اعلیٰ درجہ کا کھانا کھاتے ، نہ

Page 90

ہمارا آقا 84 بیش قیمت پوشاکیں پہنتے ، نہ غلاموں سے اپنی خدمت کرواتے اور نہ امیرانہ شان سے رہتے.تمام اہلِ مکہ کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک نہایت ہمدردانہ تھا.ہر شخص کے کام آتے اور ہر شخص کی مدد کرتے تھے.اگر کبھی دو آدمیوں میں جھگڑا ہو جاتا تو آپ نہایت نرمی اور محبت کے ساتھ دونوں کو سمجھاتے اور آپس میں صلح کروا دیتے تھے.آپ مے کی دیانت اور امانت پر اس درجہ لوگوں کو یقین تھا کہ اپنی امانتیں آپ ﷺ کے پاس لا کر رکھتے اور بالکل بے فکر ہو کر دور دراز ملکوں میں تجارت کے لئے چلے جاتے.کیا مجال جو کسی کی امانت میں کبھی ایک پیسہ کا بھی فرق پڑا ہو.لوگ اپنے معاملات میں آپ اللہ کو ثالث مقرر کرتے تو آپ ملے ہمیشہ نہایت عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے اور کبھی کسی کی بے جا طرف داری نہ کرتے.خدیجہ ان محامد کو دیکھتیں اور دل ہی دل میں خوش ہوتی تھیں کہ خدا نے مجھے کیسا بے نظیر شوہر دیا ہے جو ہزاروں میں ایک اور لاکھوں میں فرد ہے.ان کو اپنے فرشتہ صفت شوہر سے محبت نہیں عشق تھا اور یہ عشق آخر وقت تک برابر ترقی کرتا چلا گیا.یہاں تک کہ موت نے ان کو اپنے محبوب ﷺ سے جدا کر دیا.

Page 91

ہمارا آقاعل الله 85 (2) چادر کے کونے ایک سال مکہ میں سیلاب آیا.جس نے خانہ کعبہ کی دیواروں کو بہت نقصان پہنچایا اور وہ گرنے کے قریب ہو گئیں.چونکہ قریش کعبہ کو بہت مقدس سمجھتے تھے.اس لیے انہوں نے ارادہ کیا کہ اُسے ڈھاکر دوبارہ مضبوط طریقہ سے بنا ئیں مگر ساتھ ہی اُن کو یہ بھی اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ اس کے ڈھانے کی وجہ سے ہم پر کوئی مصیبت آجائے.اس لیے کسی کو اُس کے ڈھانے کی جرات نہ ہوئی.ولید بن مغیرہ ( حضرت خالد سیف اللہ کا باپ ) قریش کا ایک معز ز سر دار تھا.مگر بہت بوڑھا پھونس ہو کر مرنے کے قریب ہو گیا تھا.اُس نے سوچا کہ قبر میں پاؤں لٹکائے تو بیٹھا ہی ہوں.لاؤ میں کعبہ کو ڈھانا شروع کروں.اگر مر گیا تو کل نہ مرا آج مر جاؤں گا.فرق کیا پڑے گا لیکن اگر بچ گیا تو قوم سمجھ لے گی کہ اُس کے ڈھانے کی وجہ سے کوئی عذاب نہیں آسکتا.یہ سوچ کر اُس نے کدال اٹھائی اور خانہ کعبہ کو ڈھانا شروع کر دیا.شام تک ڈھاتا رہا اور قوم دیکھتی رہی.اُس رات مکہ کے سارے باشندے جاگتے رہے اور منتظر رہے

Page 92

ہمارا آقا ع 86 کہ اب ولید پر اس گستاخی اور بے ادبی کی وجہ سے خدا کا غضب نازل ہوتا ہے.مگر جب صبح کو دیکھا تو بوڑھا ولید خاصا بھلا چنگا صحن کعبہ میں کھڑا مسکرا رہا تھا.تجربہ کامیاب رہا اور قریش کعبہ کو ڈھانے لگے.جب سارا ڈھا چکے تو دوبارہ تعمیر شروع ہوئی.قریش کے ہر ایک قبیلے نے اس نیک کام میں حصے لینے کو اپنی سعادت سمجھا اور بجائے معماروں کے قوم کے بڑے بڑے معزز سردار پتھر ڈھونے اور عمارت بنانے میں مصروف ہو گئے.وگئے.معززین قریش کے ساتھ وہ ہاشمی نوجوان بھی شریک تعمیر تھا جسے آگے چل کر افضل الرسل، خیر البشر اور خاتم النبین ہونا تھا.کام پورے اطمینان سے ہو رہا تھا اور قریش کے تمام معززین نہایت ذوق و شوق سے اس میں حصہ لے رہے تھے کہ یکا یک اس زور سے ایک ایٹم بم گرا کہ قریب تھا کہ مکہ کی ساری آبادی اُس کی لپیٹ میں آکر ہلاک ہو جائے اور کعبہ کی دیوار میں مُردوں کے خون سے رنگین ہو جائیں.ہوا یہ کہ فجر اسود ایک مقدس پتھر تھا.جو دیوار کعبہ میں لگا ہوا تھا.جب اُسے اُس کی اصلی جگہ رکھنے کا وقت آیا تو ہر قوم کے سردار نے کہا کہ

Page 93

ہمارا آقا ع 87 میں اس متبرک پتھر کو اُس کی جگہ پر نصب کروں گا اور کسی کی مجال نہیں جو اس شرف کو مجھ سے چھین سکے.بس پھر کیا تھا.آن کی آن میں سارے مکہ میں آگ لگ گئی.ہر قبیلہ شیر کی مانند بھر گیا.اینٹ گارا اور پھر پھینک کر لوگوں نے تلواریں سنبھال لیں اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے.پیالوں میں انسانی خون بھرے گئے اور اُس میں انگلیاں ڈبو کر قسمیں کھائی گئیں کہ یا اپنا حق لیں گے یا ہمارا بچہ بچہ کٹ مرے گا ؟ کعبہ کی تاریخ میں ایسا ہولناک واقعہ کبھی پیش نہیں آیا تھا.آج شہر کے ہر شخص کو چشم تصور سے مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہتی ہوئی اور اُن میں انسانی لاشیں تیرتی ہوئی نظر آ رہی تھیں.ایک تلوار ہوا میں بلند ہونے کی دی تھی.فورا ہی ذرا سی دیر میں سارے ملکہ کی صفائی ہو جاتی اور کوئی شخص بھی باقی نہ رہتا.اس نہایت خطرناک صورت حال کو دیکھ کر بعض بڑے بوڑھوں نے آپس میں صلح صفائی کرانے کی کوشش کی ، لیکن کوئی قبیلہ بھی اپنا حق چھوڑنے کو تیار نہ ہوا.میانوں میں تلواریں باہر نکلنے کے لئے تڑپ رہی تھیں اور ترکشوں میں تیرا ایک دوسرے کا سینہ چھیدنے کے لئے بے چین تھے.یہ جھگڑا چار دن تک ہوتا رہا مگر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا.

Page 94

ہمارا آقا عدل 88 چوتھے دن ایک معزز سردار ابو امیہ بن مغیرہ نے بہت سوچنے کے بعد سرداران قریش کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح نہایت سویرے جو شخص خانہ کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہو.وہ اس جھگڑے کا جو فیصلہ کر دے سب لوگ اُسے بلا چون و چرا قبول کر لیں.، منظور ”منظور ہر طرف سے آوازیں آئیں اور کل صبح کے 6 انتظار میں ہر شخص نے بے چینی میں گھڑیاں گنتی شروع کیں.صبح کو سب سے پہلے جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہوا.اتفاق سے وہ سردار قریش کا پوتا ، آمنہ کا لال ، عبداللہ کا لخت جگر اور خدیجہ کا شوہر تھا.لوگوں کے چہرے محمد ﷺ کو دیکھتے ہی فرط مسرت سے روشن ہو گئے.ہر شخص خوشی سے چلایا : ” یہ صادق ہے ، یہ امین ہے ، ہمیں اس کا فیصلہ منظور ہے.“ ہاشمی اپنے ایک آدمی کا یہ اعزاز دیکھ کر فخر سے پھولے نہ سمائے.فر بنو ہاشم آگے بڑھا ، اپنے جسم پر سے چادر اتاری ،صحن کعبہ میں اسے بچھایا، اور حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے اس پر رکھ دیا.اس کے بعد تمام سرداروں سے فرمایا کہ آپ صاحبان چادر کے کونوں کو پکڑ کر اٹھا ئیں.اپنے نو جوان ثالث کے ارشاد کی تعمیل میں سردارانِ قریش نے

Page 95

ہمارا آقا ع 89 نہایت ذوق وشوق سے چادر کے کونوں کو پکڑ کر اوپر اٹھایا.نو جوان ثالث نے فرمایا: ”ابھی اور ، ابھی اور “ اور سرداران قریش چادر اوپر اٹھاتے رہے.جب چادر دیوار کے اُس مقام تک پہنچ گئی.جہاں پتھر کو نصب کرنا تھا.تو ہونے والے رحمۃ اللعالمین ﷺ نے اپنے دست مبارک سے پتھر کو اٹھایا اور اُس کی جگہ پر رکھ دیا.اس طرح اس نوجوان کی دور اندیشی عقلمندی اور صلح کل پالیسی کی بدولت ایک منٹ میں اُس عظیم الشان فتنہ کی آگ بجھ گئی ، جس کی لپیٹ سے سارا مکہ بھسم ہو کر رہ جاتا.کعبہ کی دیوار میں اُسی طرح کھڑی رہتیں اور حجر اسود بھی اُسی طرح زمین پر پڑا رہتا.مگر مکہ کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچتا.یہ تھا میرے آقا ﷺ کا سب سے پہلا پبلک فیصلہ.

Page 96

ہمارا آقا ع 90 (20) وفادار غلام اور مہربان آقاعلی عرب میں قزاقوں کا شیوہ تھا کہ شریفوں کے بچوں کو پکڑ کر لے جاتے اور غلام بنا کر بیچ ڈالتے.یمن کے قبیلہ قزاعہ کے ایک معزز شخص حارث کے ساتھ بھی بہکی سانحہ گزرا.یہ شخص عیسائی تھا.اُس کا لڑکا زید نہایت ہی نیک اور فرمانبردار بچہ تھا.صورت بہت پیاری اور عادتیں بڑی پسندیدہ تھیں.ابھی صرف آٹھ سال کا تھا کہ ماں کے ساتھ ایک سفر پر گیا.راہ میں ڈاکوؤں نے قافلہ پر حملہ کیا اور دوسرے بچوں کے ساتھ زید کو بھی پکڑ کر لے گئے.اُن خبیثوں کا تو پیشہ یہی تھا.اُن بچوں کو لا کر بازار عکاظ میں بیچ ڈالا.مکہ کے ایک رئیس حکیم بن حزام نے جو حضرت خدیجہ کے بھیجے تھے.اُن میں سے تین چارلڑ کے خرید لئے.زید انہی میں سے ایک تھا.چونکہ یہ دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ ہوشیار معلوم ہو تا تھا اس لیے ڈاکوؤں نے اس کے چار سو درہم وصول کئے.حکیم بن حزام بچوں کو اپنے ساتھ گھر لے آئے.کچھ دن بعد ایک روز جو خد بچہ اُن کے ہاں گئیں تو وہ کہنے لگے.” پھوپھی امیں نے دو چار جوخدیجہ.” دن ہوئے کچھ غلام خریدے ہیں.اُن میں سے ایک آپ کی نذر کرنا چاہتا

Page 97

ہمارا آقا ع 66 ہوں ، آپ پسند کر لیں.“ 91 خدیجہ نے زید کو پسند کر لیا اور گھر لے آئیں.بچہ شائستہ اور مہذب تھا.خدیجہ نے اپنے واجب الاحترام شوہر سے کہا:."یہ تو آپ کے لائق ہے، میری طرف سے قبول کیجئے.“ زید اب محمد اللہ کا غلام تھا.زید کی گم شدگی کے بعد اُس کے ماں باپ کا اُس کے فراق میں بُرا حال ہوا.دن رات اس کے غم میں روتے اور ہر وقت اُن کی آنکھوں سے آنسو بہتے.باپ کو اپنے پیارے بیٹے سے بڑی محبت تھی.اس لیے اُس کی جدائی کا صدمہ غم نصیب باپ کے لئے نا قابل برداشت ہو گیا.اپنے دل کی بھڑاس اُس نے اشعار میں نکالی جن کا ترجمہ یہ ہے:.اے زید! میری آنکھیں تیرے غم میں اشکبار ہیں اور اُن سے آنسوؤں کی لڑی بہو رہی ہے.لیکن مجھے معلوم نہیں کہ تو زندہ ہے یا مر گیا ؟ زید اہم تجھے کہاں تلاش کریں؟ نہ معلوم تو سمندر میں ڈوب گیا ؟ یا زمین نے تجھے نگل لیا ؟ کاش ! مجھے پتہ لگ جاتا کہ اس دُنیا میں تجھ سے ملاقات ہو سکے گی یا نہیں؟ ہر روز جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کی گول ٹکیہ میں مجھے تو بیٹھا

Page 98

ہمارا آقا عدل 92 ہوا نظر آتا ہے اور جب ڈوبنے لگتا ہے تو میں دُور اُفق کی سنہری شفق میں تیری تصویر دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہوں.ہر شب کو جب چاند نکلتا ہے تو اُسے دیکھتے ہی میں تجھے یاد کر کے تڑپ جاتا ہوں اور جب اندھیری رات میں آسمان پر ستارے چمکتے ہیں تو میں تیرے تصور میں کھو جاتا ہوں.جب سرد ہوا چلتی ہے تو تیری جدائی میں وہ میرے دل پر تیرین کر لگتی ہے اور جب گرم ہوا کا جھونکا آتا ہے تو وہ میرے قلب میں تیری یاد کا شعلہ بھڑکا دیتا ہے.میں اونٹ پر بیٹھ کر دنیا بھر کا چکر لگاؤں گا اور ہر ملک کے کونے کونے میں تجھے ڈھونڈوں گا.شاید تو کہیں مل جائے.اگر میری بدقسمتی سے تیرا سراغ نہ ملا تو میں تیری جستجو میں اپنی زندگی قربان کر دوں گا اور جب تیری تلاش کرتے کرتے مرنے لگوں گا تو قیس ، عمر ، یزید ، جبلہ کو وصیت کر جاؤں گا کہ وہ اپنی زندگیاں تجھے تلاش کرنے میں ختم کر دیں.“ 6 جو آدمی حارث سے ملتا ، وہ اس سے پوچھتا تم نے کہیں میرا بیٹا دیکھا ہے؟ اُس کا چہرا ایسا ہے جیسے بنگلے کا ہے.جب سنتا کہ کوئی قافلہ کسی دوسرے شہر کو جارہا ہے تو وہ اُس کے آدمیوں کے پاس جاتا اور اُن سے کہتا

Page 99

ہمارا آقا ع 93 اگر تمہیں کہیں میرا بیٹا ملے تو اسے اپنے ساتھ لے آنا.وہ آٹھ برس کا بھولا بھالا شریف بچہ ہے.اُس کی صورت دلکش ہے اور آواز لطیف ! غرض کئی سال اس طرح گزر گئے مگر یوسف گم گشتہ کا پتہ نہ لگا.ناگاہ امید کی ایک شعاع نظر آئی.بنی کلب کے بعض لوگوں نے حج سے واپس جا کر زید کے باپ سے بیان کیا کہ تمہارا بیٹا مکہ میں ایک شخص محمد م ا للہ نامی کا غلام ہے.کوئی اُس کے ہاتھ بیچ گیا ہوگا.ہم تمہارے بیٹے سے ملے تھے وہ نہایت خوش و خرم اور آرام سے ہے.اس کا آقا اسے بہت اچھی طرح رکھتا ہے.ہم نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ زید کا آقا سردار قریش عبد المطلب کا پوتا ہے اور بڑا ہی عالی ظرف ، نیک دل ، ملنسار، اور خلیق آدمی ہے.مکہ میں ہم جس سے بھی ملے.اُس نے محمد ﷺ کی تعریف کی.ساری قوم نے اسے امین اور صادق کا خطاب دے رکھا ہے.اگر چہ یہ شخص ابھی بالکل نوجوان سے مگر ملکہ کا ہر آدمی اس الله کی عزت کرتا ہے.ہمیں یقین ہے کہ اگر تم مکہ جا کر زید کے متعلق محمد اے سے کہو گے تو وہ ضرور تم کو تمہارا بیٹا واپس کر دے گا.سوکھے دھانوں میں پانی پڑ گیا.مسرت کا چراغ روشن ہو گیا اور مایوسی کی گھٹائیں چھوٹ گئیں.باپ اور چا بہت سارو پیہ ساتھ لے کر مکہ کو روانہ ہو گئے یہاں پہنچے تو تلاش کرتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں

Page 100

ہمارا آقا عدل حاضر ہوئے اور کہنے لگے :.94 ”اے سردار قریش کے فرزند ! اے بنو ہاشم کے چشم و چراغ ! اے شریف و نجیب اور معزز نوجوان ! ہم یہاں نووارد ہیں اور کل ہی آکر اترے ہیں.وطن میں بھی اور یہاں پہنچ کر بھی ہم نے تیرے اخلاقِ کریمانہ اور تیری عادات حسنہ کی بہت تعریفیں سنی ہیں.ہم تجھ سے بھیک مانگنے آئے ہیں اور تیری شرافت نفس سے امید ہے کہ تو ہمیں مایوس نہیں لوٹائے گا.واقعہ یہ ہے کہ ہم یمن کے رہنے والے ہیں.ہمارا ایک لڑکا تھا زید نام.ڈاکو اُسے پکڑ کے لے آئے اور سُنا ہے کہ تیرے ہاتھ بیچ ڈالا.اے کریم النفس انسان ! ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ مہربانی کر کے اُسے ہمارے حوالے کر دے.اور اس کے بدلہ میں جس قدر روپیہ چاہے ہم سے لے لے.ہم بلا تامل ادا کر دیں گے اور ہمیشہ تیرے احسان کے شکر 66 گزار رہیں گے.“ زید کے باپ کی یہ تقریر سن کر آپ اللہ کچھ فکر مند سے ہو گئے.در اصل زید سے آپ مے کو اتنی محبت ہو گئی تھی کہ آپ نے اسے اپنے سے جد ا کرنا نہیں چاہتے تھے.دوسری طرف آپ ﷺ کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ لڑکے کو اپنے ماں باپ سے چھڑا کر زبردستی اپنے پاس رکھا جائے اس لیے آپ نے سوچنے لگے کہ کیا جواب دوں؟

Page 101

ہمارا آقا ع 95 آپ مے کو مذبذب دیکھ کر بڑی بے چینی کے ساتھ حارث نے کہا:.”اے سردار قریش کے عالی قدر فرزند ! ہم تجھے تیرے ذی وقار آباؤ اجداد کا واسطہ دے کر التجا کرتے ہیں کہ ہمارے حال پر رحم کر اور ہمارے لڑکے کو ہمارے ساتھ کر دے.کاش ! تجھے اس بات کا احساس ہوتا کہ والدین کا اپنے بچے کی جدائی سے کیسا بُرا حال ہوتا ہے اور اگر اُن کا بچہ کھویا جائے تو وہ اس کے فراق میں کتنے بے چین اور بے قرار ہوتے ہیں ؟ تو یقین کر کہ ہم نے یہ سارا زمانہ روروکر کاٹا ہے.“ سردار قریش کے عالی قدر فرزند نے جواب دیا ”یہ بات نہیں مجھے اُس صدمہ کا پورا پورا احساس ہے جو آپ کو اپنے بچے سے جدا ہونے پر ہوا ہوگا.آپ ﷺ کا بچہ بے شک میرے پاس ہے لیکن بات یہ ہے کہ چند دن اکٹھے رہنے کی وجہ سے مجھے زید سے ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اب اُس سے جُدا ہونے میں تکلیف ہوتی ہے.کیا مفاہمت کی کوئی اور صورت نہیں ہوسکتی؟ آپ علیہ کی اس گفتگو سے دونوں بھائیوں نے یہ سمجھا کہ ہاشمی سردار زادہ ہمارے بچے کو اپنی غلامی سے آزاد کرنا نہیں چاہتا اور بہانے بنا کر بات کو ٹال دینا چا ہتا ہے.یہ سوچتے ہوئے بہت ہی مایوس ہو کر حارث نے کہا ” مفاہمت

Page 102

ہمارا آقا 96 کیسی اور صورت کے کیا معنی؟ ہماری تو عقل کچھ کام نہیں کرتی ، آپ ہی بتلائیں کہ کیا شکل ہوسکتی ہے؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میرے خیال میں ایک بات آئی ہے.بشر طیکہ آپ کو بھی منظور ہو.وہ یہ کہ اس معاملہ کے متعلق خود زید سے پوچھ لیا جائے.اگر وہ آپ کے ہمراہ جانا چاہے تو بے شک چلا جائے.میں ہر گز اُس کے بدلہ میں کوئی رقم آپ سے نہیں لوں گا.آپ کو اپنا بچہ مبارک رہے لیکن اگر وہ آپ کے ساتھ جانے کی بجائے میرے پاس رہنے کو پسند کرے تو پھر آپ سے التجا کروں گا کہ اگر آپ چاہیں تو اُسے چھوڑ جائیں.اور اس بات سے بالکل مطمئن رہیں کہ آپ کے لڑکے کو جب تک میں زندہ ہوں یہاں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی.لیکن اگر آپ کو یہ بات منظور نہ ہو تو پھر میں جبر کرنا ہر گز نہیں چاہتا ، آپ شوق کے ساتھ بچے کو اپنے ساتھ لے جائیں.“ دنیا میں ایسا کونسا غلام ہو گا جس کی آرزو یہ نہ ہو کہ اُسے آزادی مل جائے ؟ اور زمین پر ایسا کونسا بیٹا ہوگا جو ماں باپ کے پاس رہنے کی نسبت غیر آدمی کے ساتھ رہنے کو ترجیح دے.کیونکہ ظاہر ہے جو آرام اور عیش اولا د کو ماں باپ کے ہاں حاصل ہوتا ہے.وہ کہیں اور ہرگز نہیں مل سکتا اور جتنی محبت والفت بیٹے سے والدین کر سکتے ہیں اتنی اور

Page 103

ہمارا آقا کوئی شخص نہیں کرسکتا.97 یہ خیال کرتے ہوئے باپ اور چا دونوں بڑی خوشی سے نو جوان آقا کی پیش کردہ تجویز پر راضی ہو گئے اور کہنے لگے.” آپ نے یہ بات بالکل ٹھیک اور درست کہی.ہمیں منظور اور قبول ہے.بے شک زید سے پوچھ لیا جائے.اگر وہ آپ کے پاس رہنا چاہے تو پھر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا.لیکن آپ اپنی بات پر قائم رہیں.کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں انکار کر دیں.وعدہ خلافی آل غالب کے شایان شان نہیں." اس بات پر نوجوان سردار زادہ بجائے ناراض ہونے کے مسکرایا اور فرمایا: - " مجھے آج تک کبھی اس بات کا وہم بھی نہیں آیا کہ میں کوئی وعدہ کر کے اُسے پورا نہ کروں یا کوئی اقرار کر کے اس سے پھر جاؤں.آپ اطمینان رکھیں میں بہر حال اپنی بات پر قائم رہوں گا.زید کہیں کھیلنے گیا ہوا ہے.آ جائے تو آپ اُس سے دریافت فرمالیں.“ 66 یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں زید ہنستا ہوا باہر سے آیا اور گھر کے اندر جانے لگا مگر اُس کے آقا نے آواز دی ”میاں زید ! ادھر آؤ یہ سن کر زید پلٹا اور اچانک اپنے سامنے باپ اور پچا کو دیکھ کر ششدر رہ گیا.آقا نے فرمایا: ” زیدان دونوں آدمیوں کو پہچانتے ہو؟“

Page 104

ہمارا آقا ع 98 زید نے کہا: ”جی ہاں ! یہ میرے والد ہیں.یہ میرے چچا ہیں.یہ کہتے کہتے چھوٹا بچہ دوڑ کر باپ سے لپٹ گیا اور باپ نے بڑی محبت کے ساتھ سینے سے لگا لیا.چچانے بھی پیار کیا.اب آقا نے پوچھا :.زید ! یہ دونوں تمہیں لینے آئے ہیں.بولو تمہاری کیا مرضی ہے؟ آیا میرے پاس رہنا چاہتے ہو یا ان کے ساتھ جانا چاہتے ہو؟“ باپ اور چچا نہایت اشتیاق کے ساتھ زید کے چہرہ کی طرف دیکھنے لگے کہ دیکھیں زید کیا کہتا ہے.مگر باپ اور چچا کی حیرت کی انتہا نہ رہی ، جب زید نے بالکل خلاف توقع جواب دیا." میں آپ ہی کے پاس رہوں گا میں اپنے گھر واپس جانا نہیں چاہتا اور ہرگز نہیں جاؤں گا.“ اس پر بڑے تعجب کے ساتھ باپ نے کہا:.66 زید کیا تو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو تیری عقل پر ہزار افسوس ! زید نے جواب دیا: ہاں ہاں میں محمد لالے کی غلامی پر آزادی کو ہزار مرتبہ ترجیح دیتا ہوں.جو فضائل اور محاسن میں نے اپنے محترم آقا ﷺ کے وجود میں دیکھے ہیں.انہوں نے نہ صرف میرے جسم کو بلکہ میری روح کو بھی ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنا لیا ہے.میں اپنے آقا ﷺ کا

Page 105

ہمارا آقا عدل ساتھ اب مر کر ہی چھوڑوں گا.“ 99 آقا نے غلام کی وفاداری کا یہ ولولہ انگیز مظاہرہ دیکھا تو فرط شفقت سے اُس کا ہاتھ پکڑا اور خانہ کعبہ میں لے گئے.باپ اور چچا ساتھ تھے.کعبہ میں اُس وقت قریش کے چند معزز لوگ بیٹھے باتیں کر رہے الله تھے.اُن کے سامنے پہنچ کر نو جوان آقا ﷺ نے فرمایا :.وو جو صاحبان اس وقت یہاں موجود ہیں.وہ اس بات کے گواہ ر ہیں کہ میں آج سے زید کو آزاد کرتا اور اپنا بیٹا بنا تا ہوں.یہ میرا وارث ہو گا اور میں اس کا وارث ہوں گا.“ باپ اور چچا پاس کھڑے تھے.اُن کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کوئی لڑکا اپنے والدین کو چھوڑ کر غیر شخص کی غلامی پر فخر کر سکتا ہے اور کوئی آقا اپنے غلام سے اس قدر رحم اور ایسی شفقت کا برتاؤ کرسکتا ہے.دونوں بھائیوں کے لئے ایک طرف عقیدت و محبت اور دوسری طرف ہمدردی و شفقت کا یہ نظارہ بڑا عجیب وغریب تھا، وہ حیران ہو گئے اور سمجھ نہ سکے کہ دنیا میں ایسے آقا اور ایسے غلام بھی ہو سکتے ہیں تا ہم جب انہوں نے دیکھا کہ لڑکا کسی صورت سے بھی اُن کے ساتھ جانے پر رضا

Page 106

ہمارا آقا 100 مند نہیں تو مجبورا اسے چھوڑ کر واپس چلے گئے.زید نے جو کہا تھا اُسے پوری طرح نبھایا.یہاں تک کہ آخر اپنے آقاعلہ کے اوپر قربان ہو کر اپنی صداقت اور وفاداری پر مہر تصدیق ثبت کر گیا.خدا کی ہزاروں رحمتیں اُس پر ہوں.صلى الله یہ تھا آنحضرت علیہ کا سب سے پہلا غلام ! اس غلام کے متعلق صدیق اکبر کی بیٹی ام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت زید زندہ ہو تا تو صلى الله آنحضرت ﷺ اپنے بعد اسے اپنا جانشین بنا جاتے.حضرت زید کے شرف ، بزرگی اور عظمت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ حضور ﷺ کے تمام صحابہ میں سے صرف حضرت زید ایسے صحابی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے.

Page 107

ہمارا آقا ع 101 صلى الله (20) آفتاب رسالت ﷺ کا طلوع الله اب آفتاب رسالت عملہ طلوع ہونے کو ہے اور کفر کی تاریکی کے دور ہونے کا وقت آگیا ہے.دنیا جو گناہ کی نجاست میں غرق تھی.اب نئی زندگی اختیار کرنے کو ہے.شیطانی طاقتیں اور طاغوتی قوتیں ملیا میٹ ہونے والی ہیں اور خدا کی بادشاہت جیسی آسمان پر ہے ویسی ہی زمین پر بھی قائم ہونے والی ہے.دُنیا جو ظلم و ستم اور طغیان و عصیان سے بھر گئی ہے.اب عدل و انصاف اور ایمان و یقین سے معمور ہونے والی ہے.ظلمت اور تیرگی کے بادل جو تمام عالم پر چھائے ہوئے ہیں.اب چھٹ جانے کو ہیں.رحمت کا پانی جو وقت کا منتظر تھا.اب برس کر تمام مردہ زمین کو سیراب کرنے والا ہے.ہر طرف جو فساد کی آگ بھڑک رہی ہے.اب وہ امن وسکون کے قالب میں تبدیل ہونے والی ہے.سختی و درشتی جس کا دنیا بھر میں عمل دخل تھا اب نیست و نابود ہونے والی ہے.زیر دستوں پر ظلم صلى الله اور کمزوروں پر ستم اب ختم ہونے والا ہے.دنیا کا بادی میں ہے، عالم کا رہبر ﷺ اور دونوں جہانوں کا سردار ہے ، خدائی دربار سے نبوت کی صلى الله پاک خلعت پہن کر باہر نکلنے والا ہے.بد اخلاقی ، بدطینتی اور فسق و فجور جو شیطان کا طرہ افتخار ہیں اب مٹ جانے والے ہیں اور اُن کی بجائے

Page 108

ہمارا آقا ع 102 خلوص ، محبت اور یگانگت کا دور دورہ ہونے والا ہے.خدائے ذوالجلال کا چہرو اب نظر آنے کو ہے.شیطان اپنا لعنتی منہ چھپا کر بھاگنے کی تیاریاں کر رہا ہے.بے دینی اور شرک کی لعنت سے دنیا پاک ہونے والی ہے.پرہیز گاری اور توحید اور علم و عرفان کی روشنیوں سے عالم منور ہونے والا ہے.اس لیے ضروری ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ جس وقت ہمارا آقا یہ کفر کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے وحی الہی کی مشعل لے کر کھڑا ہوا.تو دنیا اس وقت ہر قسم کے گنا ہوں اور ہر طرح کے فسق و فجور میں کس بری طرح مبتلا تھی ؟ اخلاقی اور مذہبی حالت کس درجہ گری ہوئی تھی ؟ فضول اور لایعنی رسموں کی کتنی بہتات تھی؟ تو ہمات اور وہمیات کا کیسا جال پھیلا ہوا تھا ؟ معمولی باتوں پر کٹ مرنے اور چھوٹے چھوٹے امور پر برسوں لڑتے رہنے کا کتنا لا متناہی سلسلہ جاری تھا ؟ اور اس کے بعد اُس رحمتہ اللعالمین ﷺ نے آکر دنیا کی کایا کیسی پلٹ دی.اس بیان کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ ے گر بنو دے بالمقابل روئے مکروہ سیاہ کس چه دانستے جمال شاہد گلفام را

Page 109

ہمارا آقاعل الله 103 (20) جنوں کا سردار خدا کے گھر میں کعبہ کو حضرت ابرا ہیم اور حضرت اسمعیل نے صرف خدا کی عبادت کے لئے بنایا تھا.لیکن بعد میں اُن کی اولا د گمراہ ہوگئی اور خدا کی پرستش چھوڑ کر بچوں کو پوجنے لگی.اس ضلالت میں یہ لوگ اس قدر بڑھے کہ خود خانہ کعبہ میں بت لا کر رکھ دیے اور اُن کی پوجا پاٹ کرنے لگے.ان بتوں کی تعداد آہستہ آہستہ زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی.یہاں تک کہ تین سو ساٹھ تک پہنچ گئی.خدا کی پناہ! شاید دُنیا کے کسی بت خانہ میں اتنے بت نہ ہوں گے جتنے خدا کے اس گھر میں رکھے ہوئے تھے.کعبے کے ان خداؤں کا سردار مبل تھا.یہ بت خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا.اسی کم بخت سے عرب میں بُت پرستی کا رواج شروع ہوا تھا.جس کی کہانی حسب ذیل ہے:.مکنہ کا مقتدر رئیس او کعبہ کا متولی قبیلہ کو الہ کا ایک شخص عمرو بن تھی تھا.یہ ایک مربتہ سخت بیمار ہو گیا.ہر چند علاج معالجے کیے لیکن صحت نہ ہوئی.کسی نے اُسے بتایا کہ ملک شام کے مقام تاب میں ایک چشمہ ہے.اگر اس کے پانی سے نہاؤ تو تمہارا مرض دور ہو جائے گا.چنانچہ عمرو وہاں گیا اور چشمہ کے پانی سے غسل کر کے تندرست ہو گیا.

Page 110

ہمارا آقا ع 104 تاب کے قیام کے دوران میں اُس نے گاؤں کے باشندوں کو دیکھا کہ بیٹوں کو پوج رہے اور اُن کے آگے سجدے کر رہے ہیں.عمرو کے لیے یہ بات بالکل نئی تھی.یہ تماشہ دیکھ کر اُسے بڑی حیرت ہوئی اور اس نے تعجب سے پوچھا کہ: ”بھئی تم انہیں کیوں سجدہ کر رہے ہو؟ اور یہ کون ہیں؟" تاب والوں نے جواب دیا کہ میاں تمہیں اتنا بھی پتہ نہیں ؟ سیہ تو بے انتہا مفید وجود ہیں.یہ ہماری ہر ضرورت کو پورا کرتے اور ہماری ہر حاجت کو برلاتے ہیں.یہ ظاہر میں تو پتھر نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں بڑی طاقتوں والے ہیں.جب ضرورت ہوتی ہے بارش برسا دیتے ہیں، جب حاجت ہوتی ہے دھوپ نکال دیتے ہیں ، ہمارے دشمنوں کو پامال کرتے ہیں ، ہمارے دوستوں کو نہال کرتے ہیں ، ہمیں راحت ، آرام اور خوشی بخشتے ہیں، بیماری سے شفاء اور قرض سے نجات دیتے ہیں.غرض ہم اُن سے جو التجا کریں وہ اسے پوری کرتے ہیں.“ عمرو بن تھی نے جو یہ لچھے دار بیان سُنا تو اپنی بیوقوفی کی ترنگ میں بے اختیار اُن سے کہنے لگا:." جب یہ بات ہے تو تم لوگ بڑے مزے میں ہو.اگر تم مہربانی کر کے ان میں سے ایک بہت مجھے بھی دے دو تو میں اس کو اپنے وطن میں

Page 111

ہمارا آقا ع 105 لے جاؤں.تمہارا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا.مگر ہم لوگوں کو بڑی آسانی ہو جائے گی.تاب کے لوگوں نے یہ سُن کر اسے ایک بُت دے دیا.یہی بمبل تھا جسے عمرو نے لا کر خانہ کعبہ کی چھت پر رکھ دیا اور سارے عرب میں گھر گھر پھر کر لوگوں کو اُس کے پوجنے کی ترغیب دینے لگا.چونکه مشخص نہایت با اثر ، بڑا فیاض اور بہت تھی تھا اور لوگ اُس کے زیر باراحسان تھے.اس لیے اُنہوں نے اُس کا کہنا مان لیا اور بتوں کو پوجنے لگے.رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کعبہ بُت پرستوں کا تیر تھ بن گیا.

Page 112

ہمارا آقاعل الله 106 (31) پتھروں کے پرستار جب مکہ میں بت پرستی شروع ہوئی تو چونکہ کعبہ تمام عرب کا مذہبی مرکز تھا اور ہر شخص کے دل میں کعبہ کا ادب اور اُس کی تعظیم تھی اس لیے آہستہ آہستہ سارے عرب میں بت پرستی پھیل گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر قبیلے کا ، ہر خاندان کا ، ہر گھرانے کا، بلکہ ہر شخص کا خدا علیحدہ بن یہ سارے خدا پتھر کے ان گھڑ ٹکڑے یا بے ڈھنگے تراشے ہوئے بہت تھے.جب کوئی شخص سفر پر جاتا تو اپنے ساتھ تین پتھر لے جاتا.راستے میں جہاں قیام کرتا اُن پتھروں کا چولہا بنا کر کھانا پکا تا اور کھا پی کر جب فارغ ہو جاتا تو انہی میں سے ایک پتھر اٹھا تا اور اُس کے آگے سجدے میں گر پڑتا.مگر یہ پتھر ساتھ لے جانے کا قصہ درمیانی زمانہ کا تھا.جب بُت پرستی اُن کی رگ رگ میں ساگئی تو پھر اس کی بھی ضرورت نہ رہی.سفر میں جہاں پڑاؤ ڈالتے وہیں سے ایک پتھر اٹھا لیتے اور اُسے اپنا خدا بنا لیتے.ویسے بھی احتیاطاً ہر ایک کی جیب میں ایک پتھر رہتا تھا.راہ چلتے میں جس وقت دل چاہا نکال کر اُس کی ہو جا کر لی اور پھر اُسے جیب میں ڈال لیا.

Page 113

ہمارا آقا ع 107 مگر تماشہ یہ تھا کہ باوجو د بت پرستی کے اس عشق کے جب اُنہیں غصہ آتا تھا تو اپنے خداؤں کو بُرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتے تھے.امراء القیس ایک بہت مشہور شاعر تھا.اُس کے باپ کو کسی نے قتل کر دیا.اُس نے اپنے بُت کے سامنے جا کر فال لی کہ مجھے باپ کے قاتل سے بدلہ لینا چاہیے یا نہیں ؟ بد قسمتی سے فال میں نکلا کہ قصاص نہیں لینا چاہیئے.شاعر کو غصہ تو بہت آیا.مگر اُس نے خیال کیا کہ شاید فال لینے میں غلطی ہوگئی.بھلابت ایسی نا انصافی کا حکم کس طرح دے سکتا ہے؟ اس لیے دوبارہ فال لی.مگر پھر بھی فال میں یہی نکلا کہ بدلہ نہیں لینا چاہیئے.اب تو شاعر کے غیظ غضب کی حد نہ رہی اُس نے نہایت طیش میں آکر اپنے خدا پر تھوک دیا اور کہنے لگا: " کم بخت ! اگر تیرا باپ مارا جاتا تو پھر میں دیکھتا کہ تو کس طرح قصاص نہ لیتا؟“ ایک آدمی کا اونٹ کچھ بیمار تھا.وہ اُسے اپنے بُت کے پاس لے گیا اور اُس سے التجا کرنے لگا کہ اسے تندرست کر دے.اُس بُت کا نام سعد تھا.اتفاقاً بُت کو دیکھتے ہی اونٹ بدک کر بھاگا اور آن کی آن میں نظروں سے غائب ہو گیا.اس پر اعرابی بڑے غصے میں بھر کر بولا : " او بد نصیب بہت ! یہ تو نے کیا حرکت کی ؟ جتلا! اب میں کیا کروں اور کہاں سے اپنے اونٹ کو

Page 114

ہمارا آقا ع 108 ڈھونڈ کر لاؤں ؟ تجھے سعد کس نے بنایا ؟ تو تو بر امنحوس ہے 66 یہ کہا اور بڑی نفرت کے ساتھ بُت کے چہرہ پر زور سے ایک پتھر دے مارا جس سے اُس کی ناک ٹوٹ گئی.جہاں یہ بات تھی کہ عرب اپنے خداؤں پر ناراض ہو لیتے تھے.وہاں اُن کو اپنے ان بے جان معبودوں سے عقیدت اور محبت بھی بہت تھی.روز مرہ دیکھتے کہ کتنا آیا اور ٹانگ اٹھا کر بٹ کے او پر موت گیا.مگر اس سے اُن کی خوش اعتقادی میں ذرا فرق نہ آتا تھا.بارہا ایسا ہوا کہ کسی نے کچھ کھانا بطور نذر لا کر بُت کے آگے رکھا.ابھی وہ اپنی جگہ سے بٹا بھی نہیں تھا کہ کوئی کتا موقع پر پہنچ گیا.مال نقیمت کو اطمینان کے ساتھ کھٹ کیا اور دُم ہلاتا ہوا چل دیا.وہ شخص کھڑا دیکھتا رہا مگر اُس کی عقیدت اپنے خدا سے کم نہیں ہوئی.عمرو بن جموع ایک شخص تھا.اُس نے لکڑی کا ایک ہٹ اپنے گھر میں بنارکھا تھا.تاکہ ضرورت کے وقت کہیں با ہر نہ جانا پڑے اور گھر ہی میں پوجا پاٹ سے فراغت ہو جایا کرے.اُس کے پڑوس میں دو آدمی معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرہ رہا کرتے تھے.جب عمرو کہیں باہر جاتا.وہ دونوں چھپ کر آتے اور بت کو اُٹھا کر سنڈ اس میں پھینک دیتے.عمرو بن جموع آتا ، بت کی توہین کرنے والے کو بُرا بھلا کہتا ، پھر کمال خلوص کے

Page 115

ہمارا آقا ع 109 ساتھ بُت کو نجاست میں سے نکالتا، پانی سے دھوتا، کپڑے سے پونچھتا اور خوشبو لگا کر اپنی جگہ رکھ دیتا.یہ تماشہ روز اسی طرح ہوتا لیکن نہ وہ دونوں پڑوسی اپنی شرارت سے باز آئے ، نہ اس بے چارے کے دل میں اپنے بُت کی طرف سے کوئی بد عقیدگی پیدا نہ ہوئی.محبت کے ساتھ بُھوں کا خوف بھی اُن کے دلوں میں بہت بیٹھا ہوا تھا.ایک لڑکے کو اُس کی ماں نے کچھ دودھ ، تھوڑا سا مکھن اور ذرا سا پنیر دیا کہ جاہمارے معبودوں پر چڑھا آ.خالص دودھ ، تازہ مکھن اور عمدہ پنیر کو دیکھ کر لڑکے کا دل بہت للچایا اور بے اختیار اُس کا جی چاہا کہ دودھ، مکھن اور پنیر سب خود چٹ کر جائے اور ماں سے جا کر کہہ دے کہ چڑھا آیا.مگر پھر خیال آیا کہ اگر بھوں نے اس گستاخی پر ناراض ہو کر میری گردن تو ڑ ڈالی تو کیا کروں گا ؟ اس مشکل کا کوئی حل لڑکے کی سمجھ میں نہ آیا.اس لیے ناچار اور جبراً قبر دودھ مکھن اور پنیر کے پیالے لے جا کر بتوں کے آگے رکھ دیئے.اگر چہ منہ میں پانی بھرتا رہا.ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ ایک کتا آیا.اُس نے دودھ پی لیا اور مکھن اور پنیر کھالیا پھر ان بچوں پر پیشاب کر دیا.فارغ ہونے کے بعد

Page 116

ہمارا آقا ع جدھر سے آیا تھا ، اُدھر ہی چل دیا.110 ایک مرتبہ بڑے مزے کا تماشا ایک بُت کے ساتھ ہوا.اُس بُبت کا نام حیس تھا اور یہ سارے کا سارا کھجوروں کا بنا ہوا تھا.جب کبھی شہر میں کوئی تقریب ہوتی تو لوگ کھجور میں لالا کر وہاں جمع کرتے جاتے رفتہ رفتہ وہ کھجوروں کا بہت بڑا ڈھیر بن گیا.جس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی میں روز بروز زیادتی ہوتی جاتی تھی.عین اس وقت جبکہ حیس دن دونا اور رات چوگنا موٹا ہوتا اور پھیلتا جارہا تھا، ایک ایسا سانحہ پیش آیا ، جس نے غریب کی زندگی ہی کا خاتمہ کر کے رکھ دیا.واقعہ یہ ہوا کہ ایک سال عرب میں شدید قحط پڑا.لوگوں نے اپنے اپنے معبودوں سے قحط دور کرنے اور بارش کے ہونے کی بہت دعائیں مانگیں مگر نہ بارش ہوئی اور نہ تھے دور ہوا.جب بھوک کے مارے لوگ بہت ہی مجبور ہو گئے تو قوم کے بڑے بوڑھوں نے باہم مشورہ کر کے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کی تدبیر یہ سوچی کہ سب کے سب اپنے معبود پر ٹوٹ پڑے اور جس کے حصہ میں جس قدر کھجوریں آئیں چٹ کر گیا.اس طرح تھوڑی دیر میں بہت کا نام ونشان مٹ گیا اور زمین صاف نکل آئی.

Page 117

ہمارا آقاعل الله 111 (32) وحشت کے کرشمے عرب کے لوگ حد درجہ کے بُت پرست تو تھے ہی مگر اس کے ساتھ ہی وحشی ، ضدی ، جاہل اور فسادی بھی ایسے تھے کہ دنیا میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے.بہت ہی معمولی باتوں پر اُن میں سالہا سال تک خون ریز جنگیں ہوتی رہتی تھیں جن میں قبیلے کے قبیلے کٹ مرتے اور ہزاروں آدمیوں کا صفایا ہو جاتا تھا.ان خوفناک جنگوں کے اسباب اکثر اوقات اس درجہ مضحکہ خیز ہوتے تھے کہ پڑھ کر اُن کی بے عقلی اور جہالت پر بے اختیار جنسی آتی ہے مثلا :.(1) ایک مرتبہ ایک آدمی کا اونٹ چرتے چرتے ایک شخص کے کھیت میں چلا گیا.اُس وقت کھیت کی رکھوالی اتفاق سے ایک عورت کر رہی تھی.اُس نے اونٹ کو مار کر کھیت سے باہر نکال دیا.اونٹ کا مالک اتنی سی بات پر غصہ میں بھرا ہوا آیا اور عورت کو بری طرح مار کر سخت زخمی کر دیا.عورت نے اپنے لوگوں کو آواز دی.اونٹ والے نے اپنے قبیلے کو بلایا.چلیے دونوں طرف سے تلواریں کھینچی گئیں اور لڑائی ہونے لگی.اس جنگ کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا رہا.کچھ قبائل ادھر شامل ہو گئے.کچھ خاندان اُدھر

Page 118

Page 119

Page 120

Page 121

ہمارا آقا ع 115 کا خدا نہیں بلکہ میرا بھی پروردگار ہے.مجھے پر اتنی مہربانی کر کہ اسی برس کے اندر مجھے اس ذلیل گتے پر غلبہ عطا فرما، تا کہ میں اس کی منحوس لاش اٹھا کر گیدڑوں کے لئے جنگل میں پھینک آؤں.“ تم خود سوچ سکتے ہو کہ یہ فضول تو تو میں میں بعد میں کتنے عد میں کتے آدمیوں کے قتل کا باعث ہوئی ہوگی ؟ (5) بحیر ایک شخص تھا.بازار عکاظ میں کھڑا ہوا میلے کی سیر دیکھ رہا تھا کہ سامنے سے قعنب نامی ایک آدمی آگیا.بخیر نے اس سے پو چھا." قعنب ! تیری وہ گھوڑی کیا ہوئی جس کا نام بیضا تھا ؟ قعنب نے جواب دیا " ہوتی کہاں.میرے پاس ہے مگر تجھے اس سے کیا؟ تو کیوں پوچھتا ہے؟“ بخیر نے کہا : ” میں اس لئے پوچھتا ہوں کہ یہ تیری صبا رفتار گھوڑی ہی تھی جس کی بدولت تو اُس روز میرے ہاتھ سے بچ گیا ورنہ اب تک کبھی کا عدم آباد روانہ ہو چکا ہوتا.قعنب بولا : " کیا بکواس لگا رکھی ہے؟ میرا تیرا مقابلہ کب ہوا ؟ اور کب میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر فرار ہوا؟ بالکل جھوٹ ، غلط اور محض

Page 122

ہمارا آقا ع 116 66 بہتان ، دور ہو یہاں سے شیطان.“ اس پر دونوں نے دعا مانگی کہ " اے ہبل ! ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ، بے ایمان اور کذاب ہو وہ سچے کے ہاتھ سے مارا جائے“ اس کے بعد دونوں جدا ہو گئے.اگر چہ اُن کے درمیان پہلے کوئی دشمنی اور مخالفت نہ تھی.مگر آج سے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے.اور بالآخر قعنب نے بحیر کو مار ڈالا.(6) ینی طے کے قبائل میں با ہم کٹا چھنی رہا کرتی تھی.حارث بن جبلہ غسانی نے بیچ میں پڑ کر صلح کروا دی.تھوڑے دن تو ذرا سکون رہا.پھر کار بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرائی تو یکا تک بغیر کسی خاص شکایت کے بنو جد یلہ نے بنو غوث پر حملہ کر دیا.عدیلہ کا سردار جس کا نام اسبع تھا لڑائی میں مارا گیا.تو ایک شخص مصعب نامی نے اُس کے دونوں کان کاٹ کر اپنے دونوں جوتوں میں پیوند کے طور پر لگا لیے اور ایک شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ:." ہم اپنے جوتے تمہارے کانوں سے سیا کرتے ہیں اور تمہاری کھوپڑیوں میں شراب بھر کر مزے سے نوش کرتے ہیں.“

Page 123

117 (7) ہمارا آقاعل الله بنی ظفر کا ایک شخص رایج نام اونٹ خرید کر اپنے علاقہ کو لے جایا کرتا تھا.ایک دفعہ اسی طرح جار ہا تھا کہ بنی نجار کے ایک شخص کے پاس سے گزرا جو اپنی جھونپڑی کے باہر بیٹھا ہوا تھا.ربیع کو دیکھ کر کہنے لگا : " کہو بھئی تم کون ہو؟ کہاں سے آ رہے ہو؟ کہاں جار ہے ہو؟“ ریچ نے کہا نہیں بتاتے اور توہو چھنے والا کون ہوتا ہے؟ اور یہ بتلا کہ تو نے یہ کیوں پوچھا کہ تم کہاں جار ہے ہو؟ اور یہ بھی بتلا کہ تجھے یہ پوچھنے کا کیا حق تھا ؟ یہ کہہ کر ایک ہی وار میں اُس کا سراڑا دیا.اس کے نتیجے میں بنوظفر اور بنو نجار میں وہ زور شور کی جنگ ہوئی کہ خدا دے اور بندہ لے.(8) ذیل کا واقعہ عربوں کی جہات کا شاہکار ہے.سینے اور اُن کی درندگی پر تعجب کیجئے :.بیٹھے بیٹھے ایک روز خبر نہیں کیا خیال آیا کہ بنی بیاضہ کے سردار عمر و بن نعمان نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ جس جگہ رہتے ہو، یہ ہرگز آدمیوں کے رہنے کے قابل نہیں ہے.پانی کی یہاں قلت ،گھاس کی یہاں کمی ، اناج کا یہاں فقدان ،کھیتی یہاں ندارو ، آب و ہوا یہاں کی خراب ،غرض

Page 124

ہمارا آقا ع 118 پورا علاقہ خاصا جہنم ہے.لیکن اس کے بالمقابل بنی نضیر اور بنی قریظہ کی آبادیاں نہایت سرسبز و شاداب ہیں ، آب و ہوا بھی اچھی ہے.پانی بھی مل جاتا ہے اور مویشی کے لئے چارہ بھی دستیاب ہو جاتا ہے.پس کیا وجہ ہے کہ وہ تو آرام سے رہیں اور ہم مصیبت نہیں.ہرگز وہ لوگ کسی بات میں ہم سے بہتر نہیں ہیں.لہذا ان زمینوں پر اُن کا کیا حق ہے؟ انہیں فوراً کہلا کر بھیجا جائے کہ یا تو اپنی تمام زمینیں ہمارے حوالے کردو ورنہ تمہارے چالیس لڑکے جو ہمارے ہاں آئے ہوئے ہیں سب کو پکڑ کر مار ڈالا جائے گا.جب یہ انوکھا پیغام بنی قریضہ اور بنی نضیر کے پاس پہنچا تو وہ ہنگا بنگا رہ گئے کہ یہ کیا ہو گیا.بچوں کی سلامتی کی خاطر انہوں نے اس بات کا ارادہ کر لیا کہ وطن چھوڑ کر کہیں نکل جائیں اور اپنی جائیدادیں بنی بیاضہ کے سپرد کر کے جہاں سینگ سما ئیں چلے جائیں.وہ جلا وطنی کی تیاریاں کر ہی رہے تھے کہ ایک شخص کعب بن اسد نے انہیں یہ پٹی پڑھائی کہ بچوں کا کیا ہے پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں.مگر گیا ملک پھر ہاتھ نہیں آسکتا.اس لئے بچوں کو قتل ہو جانے دو مگر ملک نہ چھوڑو.

Page 125

ہمارا آقا ع 119 قبیلے والوں کو یہ سیدھی سی بات سمجھ میں آگئی اور انہوں نے بنی بیاضہ کو کہلا بھیجا کہ " بچوں کو بے شک مار ڈالو، ہم ملک نہیں چھوڑیں گے 66 جب بنی نضیر اور بنو قریضہ کا جواب بنی بیاضہ کے پاس پہنچا تو ظالم عمر و بن نعمان نے اُن کے بے گناہ بچوں کو پکڑا اور سب کو نہایت بے رحمی کے ساتھ ذبح کر ڈالا.اس پر دونوں فریقوں میں بڑی زبر دست اور خوں ریز جنگ ہوئی جس میں ہزاروں کھیت رہے.(9) شرارت اور بیہودگی اُن کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی جس کا مظاہر و ہر موقع پر ہوتا رہتا تھا.بڑے بڑے ہولناک فتنے اُن کی شرارت سے پیدا ہوتے رہتے تھے.مگر وہ اپنی کرتوتوں سے باز نہیں آتے تھے.مثلاً ایک واقعہ سنیے:.حاطب بن قیس ایک شخص تھا.اُس کے پاس بنی تعلیہ کا ایک آدمی مہمان آیا.حاطب اپنے مہمان کو لے کر ایک بازار میں گیا جس کا نام سوق ینی قیطاع تھا.وہاں اُس وقت ایک بڑا شریر اور فسادی شخص پھر رہا تھا.یزید بن حارث اس کا نام تھا.

Page 126

ہمارا آقا عدل 120 یزید اس مہمان کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ کوئی اجنبی آدمی ہے.شرارت جو سو جبھی تو ایک یہودی سے کہنے لگا کہ اگر تو اس اجنبی مسافر کی کمر میں زور سے ایک لات مار دے تو میں تجھے ابھی اپنی چادر دے دوں گا.یہودی تیار ہو گیا.مگر اُس نے اپنی اجرت پیکنگی مانگی.اس پر یزید نے اپنے بدن پر سے چادر اُتار کر اُس کے حوالے کی اور کہا "لے اب تماشا دکھا.“ یہودی تیار ہو کر بہت آہستہ آہستہ اس کے پیچھے گیا اور موقع دیکھ کر اُس کے ایک لات اتنے زور سے ماری کہ غریب مہمان اوندھے منہ گرتے گرتے بچا.جب لوگوں نے تماشا دیکھا تو ہنسنے اور ٹھٹھے مارنے لگے.اُن کو تفریح کا اچھا خاصا موقع ہاتھ آگیا.مہمان نے لات کھا کر اپنے میزبان کو مدد کے لئے پکارا.وہ آیا تو مہمان کی زبانی واقعہ سن کر نہایت غضبناک ہوا اور مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیا.تلوار اُٹھائی اور یہودی کی کھوپڑی اُڑا دی.یزید کو یہودی کے مارے جانے کی خبر ہوئی تو وہ دوڑا ہوا آیا کہ حاطب کا کام تمام کر دے اور تلوار لے کر اُس پر جھپٹا، مگر وہ بیچ کر نکل گیا.اتفاقاً اُس کے خیمہ میں بنی معاویہ کا ایک شخص بیٹھا ہوا تھا.یزید

Page 127

ہمارا آقا ع 121 جب حاطب کو ڈھونڈتا ہوا اُس کے خیمہ میں گیا تو اُس شخص کو وہاں بیٹھا ہوا دیکھ کر کہنے لگا کہ اگر حاطب بھاگ گیا تو کیا ہوا.اُس کا بدلہ اس شخص سے کیوں نہ لیا جائے جو اُس کے خیمہ میں بیٹھا ہے اور اس وقت اُس کا قائمقام ہے.حالانکہ بنی معاویہ کے اس شخص کو پتہ بھی نہیں تھا کہ کیا قصہ ہوا؟ مگر یزید نے غصہ میں آکر فوراً اس پر حملہ کر دیا.ایک سیکنڈ کے بعد اُس بے گناہ کی لاش فرش خاک پر تڑپ رہی تھی.اس پر اوس اور خزرج کے قبائل کے درمیان اس زور شور کی جنگ ہوئی کہ خدا کی پناہ ! لڑائی کے دوران میں بعض لوگوں نے با ہم مسلح کروانی چاہی اور یہ بھی کہا کہ دونوں فریقوں کا جو مالی اور جانی نقصان ہوا ہے، اُس کا تاوان اور معاوضہ ہم ادا کر دیں گے.مگر قبیلہ اوس کے سردار عمرو بن نعمان اور خزرج کے رئیس حفیر بن سماک نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا.جب دونوں طرف کے ہزاروں آدمی قتل ہو چکے ، بہت سی عورتیں بیوہ ہو چکیں سینکڑوں بچے یتیم ہو چکے ، تب جا کر کہیں لڑائی تھی.جاہلیت کی تاریخ میں یہ لڑائی جنگ حاطب کے نام سے مشہور ہے غرض یونہی روز ہوتی تھی تکرار اُن میں یونہی چلتی رہتی تھی تلوار اُن میں

Page 128

ہمارا آقا ع 122 (30) اخلاق کا جنازہ جہالت کے کندھے پر عربوں کی بُت پرستی اور اُن کی وحشت کی داستانیں تو سن چکے ، اب اُن کی جہالت کی حکایتیں بھی سنو! اخلاقی حالت اُن کی بدترین تھی.جو عادت تھی نہایت نامعقول ، جو رسم تھی بہت بے ہودہ، پڑھنا لکھنا عیب جانتے اور اسے غلاموں کا کام سمجھتے تھے.جاہل رہنے پر فخر کرتے اور لکھے پڑھے آدمیوں کو حقیر جانتے تھے.شرفاء اور معزز لوگوں کے نزدیک اس سے زیادہ ذلیل بات اور کوئی نہ تھی کہ اُن کا کوئی فردولکھنا پڑھنا جانتا ہو.نہ معلوم کیا شوق چرایا کہ جاہلیت میں حضرت عمرؓ نے بہت خفیہ طور پر کسی غلام سے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا.مگر اس بات کو مخفی رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی شخص کو اس کا پتہ نہ لگے.انہی ایام کا ذکر ہے کہ اتفاقاً ایک روز اُن کا ایک دوست اُن کے پاس آیا جو اُن کے اس عیب سے واقف تھا.اور آتے ہی کہنے لگا کہ میں اس وقت تمہارے پاس ایک بہت ہی ضروری کام کے لیے آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے فلاں شخص کے نام جو میٹر ب میں رہتا ہے.ایک خط لکھ دو ، قافلہ جارہا ہے، میں ایک آدمی کے ہاتھ اُسے یہ خط بھیج دوں گا.

Page 129

ہمارا آقا ع 123 عمر کہنے لگے :.پاگل ہوا ہے، میں بھلا ایسا کام کر سکتا ہوں؟ اگر تیرا محط لکھ دوں تو میری جان آفت میں آجائے اور ساری قوم میں تلو بن کر رہ جاؤں گا.جاؤ چلتے پھرتے نظر آؤ.“ دوست نے کہا: "میاں خبر ہی کے ہو گی کہ تم نے لکھا یا کسی غلام نے لکھ بھی دو.میری ضرورت رفع ہو جائے گی.تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا 66 وو عمر نے جواب دیا:.نہ بھائی ! یہ بڑا خطرناک کام ہے.میں ہرگز اس جھمیلے میں پڑنے کے لئے تیار نہیں.اگر ذرا بھی کسی کے کان میں بھنک پڑ گئی تو میری سخت بدنامی ہوگی اور میں شہر میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا.بھلا کہیں لکھنا پڑھنا شریف آدمیوں کا کام ہے؟ دوست نے خوشامد نہ لہجے میں کہا: ”میاں ! لکھ بھی دو.اگر اشد 66 ضرورت نہ ہوتی تو میں اس قدر اصرار نہ کرتا." عمر نے کہا:."اچھا خیر ! تم اصرار کرتے ہو تو لکھ دیتا ہوں.بشرطیکہ تم اس بات کا پختہ وعدہ کرو کہ ہر گز کسی سے یہ بات نہ کہو گے کہ یہ خط عمر نے لکھا ہے، کیونکہ اگر کسی کو ذرا بھی پتہ لگ گیا تو مفت میں بدنامی ہو جائے گی.66 دوست نے ہیل کی قسم کھا کر پکا وعدہ کیا.جب عمر نے مخط لکھا.

Page 130

ہمارا آقا ع 124 اُن کی درندگی کی حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ بڑی آزادی اور بے باکی کے ساتھ ڈاکے مارتے اور مسافروں کو لو ٹنے اور قتل کرتے تھے.غضب یہ تھا کہ اس سفا کی اور بہیمیت پر قطعاً نہ شرماتے بلکہ اپنے اشعار میں فخریہ اس لوٹ مار کا اظہار کرتے تھے.قتل و غارت سے پہلے آزادانہ جلسے کر کے اس بات کا مشورہ کرتے کہ کہاں ڈاکہ ڈالنا چاہئیے ؟ کس قبیلہ کو لوٹنا چاہئیے ؟ اور کس ذریعہ سے مال مویشی حاصل کرنے چاہئیں؟ اُن کی اس حالت کا نقشہ مولانا حالی نے ان الفاظ میں کھینچا ہے.چلن اُن کے جتنے تھے سب وحشیانہ ہر ایک ٹوٹ اور مار میں تھا یگانہ فسادوں میں کہتا تھا اُن کا زمانہ نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے درندے ہوں جنگل کے بیباک جیسے شیخی گھمنڈ اور تعلی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے.انتہا یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی قبروں پر چلے جاتے اور لوگوں سے کہتے کہ: "دیکھو! یہ ہمارے فلاں بزرگ کی قبر ہے.جو نہایت بہادر اور بڑا دلاور تھا.اگر تمہارے ہاں بھی کوئی ایسا عالی قدر انسان ہوا ہو تو اُس کی قبر بتاؤ.ور نہ شرم سے منہ نہ دکھاؤ اور چلو بھر پانی میں ڈوب مرو“

Page 131

ہمارا آقا ع 125 جب اس طرح سے وہ لوگوں کو چیلنج دیتے تو پھر ان کو بھی غصہ آتا اور با ہم خوب سر پھٹول ، لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہوتا.بے حیائی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ بر ہنہ کعبہ طواف کرتے اور کہا کرتے تھے کہ جب ماں کے پیٹ سے بغیر کپڑوں کے پیدا ہوئے ہیں تو بر ہنہ طواف کرنے میں کیا ہرجہ ہے؟ بے شرمی کی انتہا یہ تھی کہ ایک عورت اکٹھے دس دس خاوند کر لیتی تھی اور جب چاہے اپنے سب شوہروں کو یا دو تین کو طلاق بھی دے دیتی تھی.اسی طرح مرد بھی مختار تھے کہ جس قدر چاہیں بیویاں کر لیں.چنانچہ غیلان بن سلمہ نامی ایک شخص کے دس بیویاں تھیں.مرد اکثر اپنے دوستوں سے اپنی بیویاں بدل بھی لیا کرتے تھے.ایک نہایت ہی شرم ناک رسم اُن میں یہ پھیلی ہوئی تھی کہ اگر باپ کی کئی بیویاں ہوتیں اور باپ کا انتقال ہو جاتا تو اپنی اصلی ماں کو چھوڑ کر سوتیلی ماؤں میں سے جس سے چاہتے نکاح کر لیتے.دوسگی بہنوں سے بھی ایک ساتھ نکاح کر لینے میں کوئی ہرج نہ سمجھتے تھے.جب کسی عورت کا خاوند مر جاتا تو وہ ایک سال تک عدت میں رہتی عدت گزارنے کی صورت نہایت عجیب و غریب تھی.پرانے ، میلے اور بد بودار کپڑے پہن کر اپنے مکان کی سب سے تاریک کوٹھڑی میں

Page 132

ہمارا آقا ع 126 جس کی چھت بہت نیچی ہوتی ، بیٹھ جاتی.اس عرصہ میں نہ نہاتی ، نہ کپڑے بدلتی ، نہ ناخن کٹواتی اور نہ خوشبو لگاتی.جب اس حالت میں ایک سال گزر چکتا تو ایک گدھا اُس کے پاس لایا جاتا جس سے وہ اپنا جسم اچھی طرح رگڑتی ، اس کے بعد اونٹ کی مینگنیاں لائی جاتیں ، عورت کھڑی ہو کر اپنے ہاتھ پھیلا دیتی اور وہ مینگنیاں اُس کی ہتھیلیوں پر رکھ دی جاتیں ، عورت وہ مینگنیاں اپنے کندھوں کے اوپر سے اپنے پیچھے پھینک دیتی.اس عمل کے ساتھ عدت ختم ہو جاتی.ماں باپ کا ترکہ اُن کے ہاں صرف اُن جوان لڑکوں کو ملتا جو لوٹ مار میں خوب چاق و چوبند ہوتے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے.عورتوں ،لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کو ورثہ سے محروم رکھتے اور انہیں کچھ نہ دیتے.سود لینے اور سود در سود وصول کرنے میں یہودیوں اور بیٹوں کے بھی کان کاٹتے تھے.شراب اس قدر کثرت کے ساتھ پیتے تھے کہ اتنی زیادتی کے ساتھ ہم پانی بھی نہیں پیتے.بخیل سے بخیل اور کنجوس سے کنجوس شراب پینے میں اپنا مال بے دریغ لٹا تا تھا اور اُس پر فخر کرتا تھا.شراب کی محفلیں جگہ جگہ بڑے زور شور سے منعقد ہوتیں اور اُن میں خُم کے کم بڑی آزادی سے

Page 133

ہمارا آقا ع 127 لنڈھائے جاتے.انتہا یہ ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کی قبروں پر بھی شراب چھڑک کر محبت کا اظہار کرتے تھے.قبروں پر شراب چھڑ کنے کے علاوہ ان کو اونٹوں اور گھوڑوں کے خون سے بھی تر رکھتے تھے.جوا کھیلنا اُن کے نزدیک نہایت مقدس اور بڑا متبرک مشغلہ تھا.جو آدمی جو اُ نہیں کھیلتا تھا اُسے ذلیل سمجھتے اور بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے.جو نہ کھیلنے والے کی برادری اور قبیلے میں کوئی وقعت نہیں ہوتی تھی اور ایسا آدمی سب جگہ بدنام ہو جاتا تھا.جوا کھیلنے میں مال تو الگ رہا، بیویاں تک ہار دیتے تھے.جب کوئی شخص مرنے لگتا تو اپنی لاش پر نوحہ اور ماتم کرنے کی وصیت کر جایا کرتا تھا.چنانچہ اُس کے انتقال کے بعد خاندان کی ساری عورتیں اُس کے مکان میں جمع ہوتیں ، اپنے سر کے بال کھول ڈالتیں ، اور سر میں راکھ بھر کر ماتم کرنے بیٹھ جاتیں اور اتنے زور شور کے ساتھ سیاپا ڈالتیں کہ محلہ گونج اُٹھتا.ماتم کرتے وقت اپنے منہ پر طمانچے مارتیں ، گریبان پھاڑ ڈالتیں ، جو عورتیں بہت قریبی رشتہ دار ہوتیں وہ اپنا سر بھی منڈوا دیتی تھیں.جب جنازہ اٹھتا تو ساتھ جانے کے لئے نوحہ کرنے والی عورتیں اُجرت پر بلوائی جاتیں اور سارے خاندان والے مرد وعورت ننگے پاؤں

Page 134

ہمارا آقا ع میت کے پیچھے پیچھے چلتے.128 جب مُردے کو دفن کر کے آتے تو بڑی شان اور نہایت اہتمام کے ساتھ اُس کا نتیجہ ، دسواں بیسواں ، چالیسواں ، چھ ماہی ، اور برسی کرتے.میت اگر کسی سخی اور مشہور آدمی کی ہوتی تو دفن کے بعد ایک اونٹنی اس کی قبر پر باندھ دیتے.اس کا طریقہ یہ تھا کہ قبر کے پاس ہی اتنا بڑا ایک گڑھا کھودتے جس میں اونٹنی کھڑی ہو سکتی.اس کے بعد اُس اونٹنی کو گڑھے میں اس طرح کھڑا کرتے کہ اُس کی گردن خوب مروڑ کر دُم کی طرف کر دیتے اور چاروں پاؤں اور گردن رسیوں سے اچھی طرح جکڑ دیتے.پھر اس کو اسی حالت میں چھوڑ کر گھر چلے آتے.نہ اُسے کھانے کو دیتے ، نہ پینے کو.یہاں تک کہ وہ بیچاری کھڑی کھڑی اور بندھی بندھی ہلاک ہو جاتی.

Page 135

ہمارا آقاعل الله 129 (34) خوفناک نظارہ عرب ویسے ہی بدترین رسومات کا گہوارہ تھا.مگر سب سے زیادہ ظالمانہ اور وحشیانہ رسم عرب کے اکثر قبیلوں میں لڑکیوں کو مار ڈالنے کی تھی.یہ رواج اتنا ہولناک اور درد انگیز تھا کہ اُس کا حال پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان لوگوں کی بے رحمی اور سلا کی پر حیرت ہوتی ہے.لڑکیوں کو مارنے کے مختلف طریقے تھے.عام قاعدہ یہ تھا کہ جب لڑ کی پانچ ، چھ برس کی ہو جاتی تو ایک روز باپ جا کر جنگل میں ایک بڑا سا گڑھا کھود آتا.پھر لڑکی کو نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہناتا ، بنا تا سنوارتا ، بال درست کرتا ، خوشبوئیں لگاتا ، اور اپنے ساتھ جنگل میں لے جاتا تھا.وہاں اُسے گڑھے کے کنارے پر کھڑا کر کے کہتا کہ ” نیچے دیکھ کیا نظر آتا ہے؟‘، جب وہ نیچے دیکھتی تو باپ اُسے زور سے دھکا دے دیتا اور اوپر سے مٹی ڈال کر گڑھے کو برابر کر دیتا.بعض لوگ اسی طرح لڑکی کو پہنا اُڑھا کر پہاڑ کی چوٹی پر لے جاتے اور وہاں سے ننھی سی جان کو نیچے لڑھکا دیتے.بعض آدمی لڑکی کی کمر میں پتھر باندھ کر اُسے کسی چشمے میں ڈبو

Page 136

ہمارا آقا ما 130 دیتے.بعض ایسے بھی تھے کہ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اُسے جنگل میں لے جا کر زندہ گاڑ آتے تھے اور بعض جو جنگل میں لے جا کر لڑکی کو مارنا نہیں چاہتے تھے وہ یہ کام کرتے کہ ماں سے کہتے کہ بچی کا سر اور ٹانگیں دونوں ہاتھوں سے پکڑ لے.پھر خود چھری لے کر اُسے ذبح کر ڈالتے اور صحن میں گڑھا کھودکر دبا دیتے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ یہ نہایت ظالمانہ کام خود ماں انجام دیتی تھی.اسکے متعلق مولانا حالی فرماتے ہیں.جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر تو خوف شماتت سے بے رحم مادر تیور پھرے دیکھتی جب تھی شوہر کے کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اُس کو جا کر وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی ایک مرتبہ ایک شخص جو مسلمان ہو گیا تھا.آنحضرت ع کہنے لگا کہ :." حضور ! ہماری نجات اور بخشش کس طرح ہوگی ؟ ہم نے تو مسلمان ہونے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بڑے بڑے گناہ کیے ہیں.میری ایک بچی تھی، نہایت پیاری صورت کی اور بڑی بھولی بھالی ، مجھے پر

Page 137

ہمارا آقا عدل 131 اپنی جان فدا کرتی اور ہر وقت میرے آگے پیچھے پھرا کرتی تھی.جب میں گھر آتا دوڑ کر مجھ سے لپٹ جاتی کبھی میری گود میں لیٹ جاتی کبھی میرے کندھوں پر چڑھ جاتی ، باتیں ایسی میٹھی میٹھی کرتی کہ غیروں کو بھی اُس پر پیار آتا.جب وہ چھ برس کی ہوگئی تو ایک روز میں نے اُسے نئے کپڑے پہنائے.جن کو پہن کر وہ چین کی ایک بڑی سی گڑیا معلوم ہونے لگی.میں نے کہا: ”چل میرے ساتھ “ اس پر وہ ہنستی ہوئی خوشی خوشی میرے ساتھ ہوئی ، میں اسے ایک کنوئیں پر لے گیا اور جب اُسے اُس میں دھکا دینے لگا تو وہ کہنے لگی کہ " ہیں ابا جان ! کیا کرتے ہو؟ میں گر پڑوں گی.میں نے اس کی پرواہ نہ کی اور زور سے اسے دھکا دے دیا.وہ کنوئیں میں گر پڑی اور فورا مرگئی.66 صلى اللهعهم یہ درد ناک قصہ سن کر آنحضرت ﷺ اتنا روئے کہ حضور ﷺ کی ساری ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی.الله اسی طرح اپنی لڑکی کا واقعہ ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے یہ بیان کیا کہ ” ابھی میری لڑکی دو ہی برس کی تھی کہ میں نے اُسے زندہ دفن کرنا چاہا میں اُسے جنگل میں لے گیا اور جب گڑھا کھود کر اُس میں اُسے دبانا چاہا تو بچی نے میرا دامن اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے پکڑ لیا، میں نے جھٹکا دے کر اپنا دامن چھڑالیا اور جلدی جلدی گڑھے میں مٹی بھر دی جب و

Page 138

ہمارا آقا ع 132 تک میں زمین برابر کرتا رہا.اُس وقت تک گڑھے میں سے آپی آپی کی آوازیں آتی رہیں.“ یہ ستیا ناسی رسم عرب میں اس طرح جاری ہوئی کہ بنی تمیم کا قبیلہ حیرہ کا بادشاہ نعمان بن منذر کا تابع تھا اور اُسے خراج دیا کرتا تھا مگر بعد میں اُس نے سرکشی اختیار کی اور خراج دینا بند کر دیا.نعمان نے اپنے بھائی کو کچھ فوج دے کر اس قبیلے کی سرکوبی کے لیے بھیجا وہ آیا اور قبیلے کی بہت سی بھیڑ بکریاں کچھ اونٹ اور بہت سی عورتیں پکڑ کر لے گیا.بعد میں تھیلے والے اپنے فعل پر پشیمان ہوئے.اور نعمان کے پاس عفو تقصیر کے لئے اپنے سرداروں کو بھیجا انہوں نے آکر اپنے قصور کی معافی چاہی اور آئندہ کے لیے مطیع رہنے کا وعدہ کیا.جب نعمان نے اُن کو معاف کر دیا.تو انہوں نے اپنے مویشی کی واپسی اور اپنی عورتوں کی رہائی کی درخواست کی.نعمان نے مویشی وغیرہ تو واپس کر دیئے.مگر عورتوں کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ جو عورت اپنی خوشی سے واپس جانا چا ہے.وہ چلی جائے اور جو نہ جانا چاہے اُس پر جبر نہ کیا جائے ، وہ یہیں رہے گی.انہی عورتوں میں قیس بن عاصم نامی ایک شخص کی لڑکی بھی تھی.قیس نے اُس کے شوہر کو اُسے لینے کے لئے بھیجا تو اُس نے واپس آنے سے انکار کر دیا اور جو آدمی اسے قید کر کے لے گیا تھا اُسی کے پاس رہنا چاہا.

Page 139

ہمارا آقا ع 133 جب باپ کو یہ حال معلوم ہوا تو اُسے لڑکی کی حالت پر نہایت سخت طیش آیا اور اُس نے قسم کھائی کہ آئندہ میرے ہاں جو بھی لڑکی پیدا ہو گی میں اُسے زندہ گاڑ دیا کروں گا.چنانچہ اس ظالم نے اپنی بارہ ، تیرہ لڑکیوں کو جو بعد میں پیدا ہو ئیں ، اسی طرح ہلاک کر ڈالا.اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ رسم بد پھیلتی گئی.یہاں تک کہ ملک عرب کے اکثر قبائل اس نجاست میں مبتلا ہو گئے.اف خدا کی پناہ! کتنا دلدوز ، کس قدر حسرتناک اور کیسا خوفناک وہ نظارہ ہوتا ہوگا ، جب باپ اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو اپنے ہاتھ سے گڑھا کھود کر زندہ دفن کرتا ہوگا ؟ یہ رسم روز روشن کی طرح اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ قساوت قلبی اور سنگ دلی اور بے رحمی میں عرب لوگ ساری دنیا سے بڑھے ہوئے تھے.

Page 140

ہمارا آقاعل الله 134 (35) مضحکہ خیز تو ہمات عربوں کے تو ہمات تخیلات ، شگون اور اعتقادات بھی بڑے عجیب اور دُنیا جہان سے نرالے تھے.مثلاً (1) جس سال مینہ نہ برستا اور بارش نہ ہوتی تو وہ یہ کام کرتے کہ چند گائیں لے کر ان کی دموں سے کچھ لکڑیاں باندھ دیتے اور پھر اُن کو آگ لگا دیتے.پھر اُن گائیوں کو پہاڑوں پر چڑھاتے اور وہاں پہنچ کر اپنے بتوں سے بارش کی دعا مانگتے.(2) اُن کا اعتقاد تھا کہ جب آدمی کو بھوک لگتی ہے تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کے پیٹ میں ایک سانپ مستقل طریقہ سے رہتا ہے.جس وقت وہ سانپ انسان کی پسلیوں اور اُس کے جگر کو کا تا ہے تو آدمی کو بھوک محسوس ہوتی ہے.(3) جب کسی شخص کے دماغ میں فرق آ جاتا ، اور وہ پاگل ہو جاتا تو عربوں کے اعتقاد کے موافق اُس پر خبیث روحوں کا سایہ ہو جاتا تھا.اس

Page 141

ہمارا آقا عدل 135 کا علاج وہ اس طرح کرتے کہ نہایت گندے اور غلیظ کپڑے یا بد بودار ہڈیاں اُس کے گلے میں باندھتے اور یقین کرتے کہ ان کے اثر سے نا پاک روح اس آدمی کو چھوڑ کر چلی جائے گی.(4) سانپوں کو جنوں کا دوست سمجھتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اگر سانپ کو جان سے مارا گیا تو جن اُس کا بدلہ ضرور لے گا.اس کا توڑ وہ اس طرح کرتے کہ سانپ کو مارتے ہی فورا گو بر میں چھپا دیتے.(5) جس عورت کے بچے ہو ہو کر مر جاتے.اُس کے علاج کے لیے ان کے ہاں یہ ٹوٹکا تھا کہ وہ عورت کسی مقتول کی لاش کو اپنے پاؤں سے روندے اُن کا اعتقاد تھا کہ ایسا کرنے سے اُس عورت کا یہ مرض دور ہو جائے گا.(6) جب اُن پر کوئی قومی دشمن حملہ کرتا اور اُس کے مقابلے کی طاقت وہ نہ رکھتے تو اُن کی عورتیں میدانِ جنگ میں جاکر دونوں لشکروں کے درمیان بیٹھ کر پیشاب کرتیں ، اُن کا اعتقاد تھا کہ ایسا کرنے سے جنگ پیشاب میں بہہ جائے گی اور صلح ہو کر جنگ کی آگ بجھ جائے گی.

Page 142

136 (7) ہمارا آقاعل الله جب کسی بدوی کے پاس خوش قسمتی سے ایک ہزار اونٹ ہو جاتے تو چونکہ یہ اُس وقت کے لحاظ سے بہت بڑی دولت تھی.لہذا نظر بد سے بچنے کے لیے وہ اپنے اونٹوں میں سے ایک کی ایک آنکھ پھوڑ دیتے.خواہ اُسے کتنی تکلیف ہوتی اور وہ درد کے مارے کتنا ہی چیختا چلا تا.جب اونٹوں کی یہ تعداد بدوی کے پاس ایک ہزار سے بڑھ جاتی تو پھر وہ اُس کی دوسری آنکھ بھی پھوڑ دیتا.اس طرح ایک اونٹ کو بیکار کر دینے سے اُن کے خیال میں سارے اونٹ نظر بد سے محفوظ ہو جاتے تھے.(8) جب کسی کو بخار ہو جاتا تو وہ یہ کام کرتا کہ ایک ڈورا لے کر کسی درخت سے باندھ آتا اور یہ اعتقاد رکھتا کہ جو کوئی اس ڈورے کو کھولے گا اسی کو میرا بخار چڑھ جائے گا اور میں تندرست ہو جاؤں گا.(9) سب سے زیادہ فسادانگیز اور تباہ کن اعتقاد اُن کا یہ تھا کہ جب کوئی آدمی کسی کے ہاتھ سے مارا جاتا ہے تو قتل ہونے والے کے سر میں سے ایک اتو نکلتا ہے ( جسے وہ لوگ ہامہ کہتے تھے ) یہ اتو جنگلوں میں انتقام انتقام پکارتا پھرتا تھا.

Page 143

ہمارا آقا عدل 137 اب مقتول کے رشتہ داروں کا فرض ہو جاتا تھا کہ وہ قاتل کو جہاں پا ئیں قصاص میں قتل کر ڈالیں.جب وہ اُسے قتل کر ڈالتے تھے تو پھر اُس قتل ہونے والے کے سر میں سے ہامہ نکلتا تھا اور بیابانوں میں انتقام انتقام کی صدالگا تا پھرتا تھا.جب اُس کے خاندان والے اُس کے بدلہ میں دوسرے قبیلے کے آدمی کو قتل کر دیتے تھے تو پھر اس کے سر سے اُتو پیدا ہوتا تھا اور وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے انتقام کی ہولناک آواز لگا تا تھا.غرض اسی طرح ہر قتل ہونے والے کے سر میں سے ہامہ نکلتا رہتا تھا اور صحراؤں میں پھر کر انتقام کا نعرہ لگا تا رہتا تھا.جس کا انتقام لے لیا جاتا تھا اس کا اُلو مر جاتا تھا اور جس کا قصاص نہیں لیا جاتا تھا یا نہیں لیا جاسکتا تھا اُس کا اُتو وادیوں میں مارا مارا پھرتا تھا اور انتقام انتقام پکارتا رہتا تھا.اس اعتقاد کا نتیجہ یہ تھا کہ قتل در قتل کا ایک لامتناہی سلسلہ پھیلتا چلا جاتا تھا اور انتقام کی آگ ہر قبیلہ میں برابر روشن رہتی تھی.جب کسی قبیلہ کے لوگوں کو بزدلی کا طعنہ دینا ہوتا تو کہا کرتے تھے کہ تم لوگ ہمارے سامنے کیا منہ لے کر بول سکتے ہو، تمہارے خاندان کے تو اتنے الو بھی ابھی تک ویرانوں میں پھر رہے ہیں، مطلب یہ ہے کہ تم اتنے بزدل ہو کہ اپنے مقتولوں کا انتقام بھی نہیں لے سکتے.

Page 144

ہمارا آقاعل الله 138 20 تاریکی میں روشنی (36) جو کچھ اوپر کے بیانوں میں تم نے پڑھا.یہ اُس کیفیت کا مختصر سا خاکہ ہے جو اُس وقت عرب کی تھی.نہ صرف عرب کی بلکہ ساری دنیا کی اُس زمانہ میں قریبا یہی حالت تھی.عرب کے ہمسایہ ملک ایران میں آتش پرستی زوروں پر تھی اور لوگ عیش وعشرت میں ڈوبے ہوئے ہر قسم کے فسق و فجور کے عادی بن چکے تھے.ہندوستان ایک کروڑ اسی لاکھ معبودوں کے قبضے میں بُری طرح پھنسا ہوا تھا اور اپنے سوا ساری دنیا کو پیچھے سمجھتا تھا.خود اُس کے اپنے ملک میں شودروں کی حالت کتوں سے بھی بدتر تھی.برہمن خُدا بنے بیٹھے تھے اور سارے ملک کو اپنی مخلوق سمجھتے تھے.چین کا وسیع اور عریض ملک سارے کا سارا عناصر پرستی میں مبتلا تھا.دیوتا بھی وہاں پوری شان سے براجمان تھے.باقی سارا ایشیا' تاریک براعظم کی حیثیت رکھتا تھا.جس میں لوگ جنگلیوں اور وحشیوں کی زندگی بسر کرتے تھے.یورپ میں اُس وقت صرف یونان اور روما کی سلطنتیں قابل ذکر

Page 145

ہمارا آقا 139 تھیں اور اُن کو اپنی قدیم تہذیب اور شائستگی پر فخر بھی تھا.مگر دونوں ملکوں پر اصنام پرستی کی گہری گھٹا چھائی ہوئی تھی.جہاں ہزاروں دیوتا صدیوں سے حکومت کر رہے تھے.باقی کا سارا براعظم خونخوار بھیڑیوں اور وحشی درندوں سے بھرا ہوا تھا.جو ہر طرف لوٹ مار کرتے پھرتے تھے.بھٹوں اور غاروں میں رہتے اور انسان کی کھوپڑیوں میں شراب پیا کرتے تھے.افریقہ میں صرف مصر ایسا ملک تھا.جہاں تہذیب و تمدن کے کچھ آثار نظر آتے تھے، مگر وہ بھی دیوتاؤں کی سرزمین تھی اور خدا کو وہاں بھی کوئی نہ جانتا تھا.امریکہ اور آسٹریلیا کے ممالک اُس وقت معدوم محض تھے اور کوئی بھی انہیں نہ جانتا تھا.مختصر یہ کہ دنیا کے پردے پر اُس وقت کوئی ملک بھی ایسا نہ تھا جہاں بیشمار دیوتاؤں کی پوجا نہ ہوتی ہو.جہاں گھر گھر بت رکھے ہوئے نہ ہوں اور جہاں ہر شخص کا معبود الگ نہ ہو.خدائے واحد کی پرستش کہیں بھی ب تھی.خدا کو قادر مطلق ، حتی و قیوم ، خالق و مالک اور واحد لاشریک سمجھنے والے اور خالص اُسی کی عبادت کرنے والے اُس وقت دنیا سے قطع نا پید تھے.خدا کہتے تھے مٹی ، آگ ، پانی کو ، ہواؤں کو پہاڑوں اور دریاؤں کو ، بجلی کو ، گھٹاؤں کو

Page 146

ہمارا آقا عدل 140 زمیں پر خاک ، پتھر اور شجر معبود تھے اُن کے فلک پر انجم و شمس و قمر معبود تھے اُن کے مُرادیں مانگتے تھے ہر وجودِ بے حقیقت سے نہ تھا محروم کوئی، حجز خدا، اُن کی عبادت سے جب کفر کی تاریکی انتہا کو پہنچ گئی.ہر طرف ضلالت کا اندھیرا چھا گیا اور ساری دنیا عناصر پرستی کے تباہ کن گڑھے میں جاپڑی.تو خدائے ذو الجلال والاکرام نے چاہا کہ اس کی مخلوق اس ہولناک دلدل سے نکلے اور اس طاقت اور عظمت والے خدا کو پہچانے.جو گل عالم کا حقیقی مالک اور خالق ہے.پس اُس نے اپنے بندوں پر کمال رحم فرما کر رحمتہ اللعالمین ہے کو بھیجا.جس نے آکر تاریکی اور ہر ظلمت کو دور کر دیا اور دنیا کو خدا کا چمکتا ہوا چہرہ پردہ اٹھا کر دکھا دیا ، جسے دیکھتے ہی سعید روحیں فورا سجدے میں گر پڑیں.میرے ہادی! میرے رہنما ! میرے آقا ! تجھ پر کروڑ وں سلام، میرا جسم اور میری روح تجھ پر قربان ، تو نے پیدا ہو کر انسانیت کی لاج رکھ لی.صلى الله

Page 147

ہمارا آقاعل الله 141 (37) مشترک غار دنیا کی اس گندی اور نا پاک حالت کو دیکھ کر ملتے کے نیک نفس اور پاک باطن محمد ﷺ کا دل نہایت غمگین ہوتا تھا اور بڑی تڑپ آپ سے کے دل میں اس بات کی پیدا ہوتی تھی کہ آدمی شیطانی کام نہ کریں اور نیک اور پاکباز زندگی اختیار کریں.ہزار سوچتے تھے مگر انہیں کوئی ایسا راستہ نہ ملتا تھا کہ دنیا کی اخلاقی حالت کی اصلاح ہو.آخر اُن کا دل اس پایوں بھری دنیا سے نفرت کرنے لگا اور انسان نما بھیڑیوں کی صحبت سے اُنہیں وحشت ہونے لگی.مکہ کے قریب تین میل کے فاصلہ پر کوہ حرا میں ایک غار تھا.پانچ الله چھ دن کا کھانا اکٹھا لے کر آپ کے اس غار میں چلے جاتے اور وہاں تنہائی اور سکون میں بیٹھ کر سوچتے کہ ایسی کیا تدابیر اختیار کی جائیں کہ قوم کی اصلاح ہو اور ان کی حالت درست ہو.صلى الله کبھی کبھی آپ ﷺ کی رفیق و مونس ، ہمدردو غمگسار اہلیہ بھی ساتھ آتیں اور دونوں میاں بیوی غار کی تاریکی میں قوم کے غم میں آنسو بہاتے ، اُس کی درستگی کے وسائل پر غور کرتے ، اس کے لئے دعائیں کرتے اور خدا کی یاد میں منہمک رہتے تھے.

Page 148

ہمارا آقا ع 142 مدت تک اسی طرح ہوتا رہا.مگر آپ ﷺ کی پریشانی اور غمگینی کم نہ ہوئی لیکن ہاں اس دوران میں آپ عاﷺ کو سچے خواب بہت آتے تھے.جواکثر فوراً پورے ہو جاتے تھے.یتھی نبوت کی ابتداء

Page 149

ہمارا آقاعل الله 143 (38) وحی کا فرشتہ ایک روز حسب معمول آ مع غار میں تشریف رکھتے تھے کہ یکا یک بجلی کی مانند ایک تیز روشنی نے آپ میلے کی آنکھوں کو چوندھیا دیا.آپ ﷺ نے نظر او پر اٹھائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑا عظیم الشان نورانی پیکر زمین و آسمان کے درمیان نور کے تخت پر متمکن ہے اور بڑی عظمت اور شوکت اس پیکر روحانی پر برس رہی ہے.یہ تھا آسمانی فرشتہ ! جو پہلی مرتبہ سرور عالم ﷺ پر خدا کی وحی لے کر آیا تھا.اس کا نام جبریل تھا جسے روح القدس بھی کہتے ہیں.آپ علیہ نے جبریل کو دیکھا اور حیران رہ گئے.صلى الله اب فرشتہ اپنے پر جلال تخت سے اترا ، اور آپ علیہ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا.فرشتہ کا چہرہ چمک رہا تھا اور اُس میں سے نور کی شعائیں نکل نکل کر تمام فضا کو منور کر رہی تھیں.فرشتہ نے کہا: ”محمد ! پڑھو آپ ﷺ نے ایک گھبراہٹ کے ساتھ فرمایا :.میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.“

Page 150

ہمارا آقا ع 144 یہ سن کر جبریل آگے بڑھا.آپ علیہ کو پکڑا اور سینے سے لگا لیا.پھر چھوڑ کر کہا: ”اب پڑھو صلى الله ” آپ ﷺ کا وہی جواب تھا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.“ ’اب پڑھو روح القدس نے دوبارہ آپ ﷺ کو چھاتی سے لگا کر بھینچا اور کہا آپ ﷺ نے وہی جواب دیا جو پہلے دومرتبہ دے چکے تھے.اس کے بعد خدا کے بھیجے ہوئے فرشتہ نے تیسری مرتبہ آپ علیہ کو اپنے سینے سے چمٹایا اور پھر چھوڑ کر کہا:.اقْرَءُ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِى خَلَقَ ٥ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَءُ وَرَبُّكَ الأكْرَمُ الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ٥ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمُ يَعْلَمُ 0 (یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھ ، اُس رب کا نام جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا اور انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے بنایا.تیرا پروردگار بڑی شان و عظمت والا ہے.اُسی نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور اُسے وہ باتیں بتا ئیں جن کا اُسے بالکل پتہ نہ تھا ) آپ مکہ فرشتہ کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ پڑھتے رہے اور اُس کے بعد فرشتہ غائب ہو گیا.یہ تھی پہلی وحی جو خدائے ذوالجلال کی جانب سے سے ہمارے آقاﷺ پر نازل ہوئی.

Page 151

ہمارا آقاعل الله 145 (20) غمگسار بیوی غار حرا کا واقعہ میرے آقا ﷺ کیلئے بالکل نیا اور نہایت حیران کن تھا.فرشتے کے بھینچنے اور دبانے سے آپ علیہ کو پسینہ آ گیا اور آپ علیہ بے حد گھبرا گئے حضور ے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کیا ہوا؟ اور کیا ہونے والا ہے؟ سخت پریشانی کی حالت میں غار سے نکلے.پہاڑ سے اترے اور جلدی جلدی گھر پہنچے.وفا شعار بیوی نے مقدس شوہر کی شکل دیکھی تو گھبرا گئی.فوراً اُٹھے کھڑی ہوئی اور کہنے لگی : ”میری جان آپ ﷺ پر قربان ! کیا ہوا ؟ نصیب دشمناں کیا کچھ طبیعت خراب ہے؟“ صلى الله صلى الله آنحضرت ﷺ اس وقت کانپ رہے تھے اور حضور ﷺ کا دل دھڑک رہا تھا.فرمانے لگے." زَمِّلُونِي رَسَلُونِي ( مجھے کپڑا اڑھا دو.مجھے پر چادر ڈال دو ) خدیجہ نے جلدی سے اپنے جسم پر سے چادر اتاری اور اپنے محبوب خاوند کواُڑھادی.پھر پاس بیٹھ کر بدن کو دبانے لگیں.صلى الله کچھ دیر یہی حالت رہی اور حضور ﷺ کی کپکیا ہٹ جاری رہی.و, جب قدرے سکون ہوا تو بیوی نے بڑے ہی ہمدردانہ لہجے میں پوچھا ” واقعہ

Page 152

ہمارا آقا ع 146 صلى الله کیا ہوا؟ اور کیوں آپ کے اس قدر مضطرب ہیں؟ آپ ﷺ کا دل اب بھی دھڑک رہا ہے.جلدی بتلائیے.میرا دل آپ میے کی حالت دیکھ کر بہت پریشان ہو رہا ہے؟“ حضور اللہ نے فرمایا : " خدیجہ ا جو کچھ میں نے دیکھا ہے اور جو 66 کچھ آج میرے ساتھ پیش آیا ہے.تم اس پر شاید ہی یقین کرو.“ خدیجہ بولیں ” میرے محترم شوہر ! فرمائیے کیا بات ہوئی.یقین کیوں نہ آئے گا ؟ آپ ﷺ نے آج تک کوئی ایسی بات نہیں کہی جس کا مجھے فوراً یقین نہ آ گیا ہو.صلى الله 66 حضور ع فرمانے لگے : ” آج جبکہ معمول کے موافق میں غار کے اندر بیٹھا ہوا عبادت میں مشغول تھا کہ ناگاہ میری آنکھوں کے آگے ایک بجلی سی چھپکی.میں نے نظر او پر اٹھائی تو آسمان و زمین کے درمیان ایک نورانی وجود کو معلق پایا.ابھی میں اُسے حیرت سے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ نیچے اترا اور تین مرتبہ مجھے اپنے سینے سے چمٹا کر چند کلمات تعلیم کیے جو مجھے ابھی تک یاد ہیں.اس کے بعد وہ یک دم غائب ہو گیا اور غار میں اندھیرا چھا گیا لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِى ( یعنی مجھے اپنی جان کا ڈر پیدا ہو گیا ہے ) ابھی حضور ملے ہیں تک پہنچے تھے کہ تنگسار بیوی جلدی سے بولیں:.نہیں نہیں !! ایسا خیال ہرگز نہ کریں.اللہ تعالی آپ مے کو بھی

Page 153

ہمارا آقا ما 147 ضائع نہیں کرے گا.آپ علی لوگوں کے ساتھ رحم و مروت سے پیش آتے ہیں اور نہایت صادق القول اور راستباز ہیں.غیروں کی مصیبت میں اُن کے کام آتے ہیں.اعلیٰ اخلاق جو دنیا سے نا پید ہو گئے تھے.وہ سارے کے صلى الله سارے آپ کے میں موجود ہیں.آپ سے بڑی فیاضی کے ساتھ مہمانوں کی خاطر مدارات کرتے ہیں اور ہر ایک نیک کام میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.بھلا ایسے صالح اور نیک انسان کو اللہ تعالیٰ کس طرح ضائع کر دے گا ؟ آپ ہرگز کچھ فکر نہ فرمائیں.“ باقی رہا یہ معاملہ جو آج آپ ﷺ کو پیش آیا.بے شک یہ عجیب اور حیرت انگیز ہے.مگر ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں.میں آپ ﷺ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے چلتی ہوں.وہ آسمانی کتابوں کا ماہر اور بڑا عالم فاضل شخص ہے.وہ ضرور اس کے متعلق ہماری تشفی کر دے گا اور بتلادے صلى الله گا کہ معاملہ کی حقیقت کیا ہے؟ آپ عالی گھبرائیں نہیں ، اٹھ کر کچھ کھا پی صلى الله لیں اور کچھ دیر آرام کر لیں.جب آپ ﷺ کی طبیعت کو ذرا سکون ہو جائے گا تو پھر ہم دونوں ورقہ کے پاس چلیں گے.

Page 154

ہمارا آقاعل الله 148 الله (40) پیغبر ﷺ کا تعجب جب آفتاب نکلنے کو ہوتا ہے تو پہلے بہت ہی ہلکی سی سفیدی افق مشرق پر نمودار ہوا کرتی ہے.یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اب رات کی تاریکی ختم ہوئی اور دنیا نور سے منور ہونے والی ہے.بالکل ٹھیک اسی طرح عرب کی سرزمین پر آفتاب ہدایت طلوع ہونے سے پہلے بت پرستی اور عناصر پرستی کی اندھیری رات جب ختم ہونے کو ہوئی تو بعض عقلمند اور ہوشمند بُت پرست خواب غفلت سے بیدار ہوئے.انہوں نے آنکھیں مل کر جو دیکھا تو اپنے ہزار ہا معبودوں کو بر اپتھر کا پایا، جو نہ بول سکتے تھے ، نہ سن سکتے تھے ، نہ حاجت روا تھے ، نہ مشکل کشا.اُن کی فطرت صحیحہ نے اُن کو یہ تو بتا دیا کہ یہ بت لاشے محض ہیں.مگر اُن کی عقل اُن کو حقیقی خدا کا راستہ نہ دکھا سکی.کیونکہ یہ راہ بغیر وحی والہام کی روشنی کے نظر نہیں آتی.وہ لوگ جنہوں نے بت پرستی کو بیزار ہو کر چھوڑا تھا.زیادہ نہیں تھے.صرف گنتی کے دو چار آدمی تھے اور بس.ایک زید بن عمر و تھے.ایک کو قیس بن صاعدہ کہتے تھے.اور ایک شخص کا نام عثمان بن حو بیرت تھا.مگر ان سب لوگوں میں سب سے زیادہ مشہور ورقہ بن نوفل تھے جو بت پرستی کو چھوڑ

Page 155

ہمارا آقا عمال 149 کر عیسائی ہو گئے تھے.یہ توریت، زبور اور انجیل کے عالم اور انبیاء گذشتہ کی پیشگوئیوں اور صحف سماوی کی تفسیروں سے بخوبی واقف تھے اور قریش میں بہت معزز حیثیت کے مالک تھے.انہی کے پاس خدیجہ اپنے شوہر کو لے گئیں اور کہنے لگیں کہ ” بھائی! آج تمہارے اس بھتیجے کے ساتھ ایک بڑا عجیب واقعہ پیش آیا تم ذرا اسے انہی کی زبانی سنو اور پھر بتاؤ کہ کیا ہوا.“ بوڑھے ورقہ نے کہا ”میاں سناؤ کیا قصہ ہوا؟“ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ”آج جب کہ میں غارِ حرا میں بیٹھا خدا کی دو یا د کر رہا تھا کہ میں نے ایک بہت عظیم الشان نورانی وجود کو دیکھا جو آسمان سے اتر کر آیا اور مجھے اپنے سینے سے لگا کر کہنے لگا کہ ” پڑھ اس کے بعد چند کھلے مجھے پڑھائے اور پھر فضائے آسمانی میں گم ہو گیا بس یہ واقعہ ہوا" ورقہ نے سارا قصہ غور سے سنا اور پھر پوچھنے لگا ” جو کلمات نورانی وجود نے تمہیں پڑھائے تھے وہ تم کو یاد ہیں؟" آنحضرت ﷺ نے جواب دیا ”ہاں خوب اچھی طرح یاد ہیں.“ اس کے بعد حضور یا ہو نے وہ ساری آیات ورقہ کو سنائی جو فرشتہ نے غار میں آپ میلے کو پڑھائی تھیں.ان آیات کو سن کر ورقہ کہنے لگا:.

Page 156

ہمارا آقا ع 150 صلى الله محمد عہ اتم اس زمانہ کے سب سے زیادہ خوش قسمت انسان ہو میں تمہیں نبوت اور رسالت کی مبارکباد دیتا ہوں.جو نورانی پیکر تمہیں دکھائی دیا تھا.یقیناً وہی فرشتہ تھا جو تم پہلے موسٹی پر نازل ہو چکا ہے اور جو کلمات اُس نے تمہیں تعلیم کیے.وہ خدا کی قسم خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں تھیں.اگر میں اُسوقت تک زندہ رہا.جب تم کو تمہاری قوم یہاں سے نکالے گی تو میں اس مصیبت کے وقت میں ضرور تمہاری مددکروں گا.کاش ! میں اُسوقت تک زندہ رہوں مگر بظاہر حالات امید نہیں کیونکہ میں بہت بوڑھا، نہایت ضعیف اور بے حد کمزور ہو چکا ہوں.ہاتھ پاؤں مشکل ہو چکے ہیں.بھارت نے.جواب دے دیا ہے.شاید برس چھ مہینے ہی میں مرجاؤں.ورقہ کی اس تقریر پر بہت ہی تعجب اور حیران ہو کر آنحضرت میں ہے نے اُس سے پوچھا:." مجھے میری قوم یہاں سے کیوں نکال دے گی ؟ میں نے تو کبھی کسی سے کوئی برائی نہیں کی.ہر ایک کا ہمدرد اور ہر شخص کا بہی خواہ ہوں.سب لوگ مجھ سے خوش ہیں.سارے مکہ میں ایک بھی ایسا نہیں جو میرا مخالف یا دشمن ہو.پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میری قوم مجھے کیوں میرے وطن سے نکال دے گی ؟ نہیں.ایسا نہیں ہوسکتا کبھی نہیں ہو سکتا میں نے قوم کا کیا بگاڑا ہے.جو وہ مجھے یہاں سے نکالے گی ؟“

Page 157

ہمارا آقا عدل 151 بوڑھا فاضل مسکرایا اور کہنے لگا.”ہونے والے مقدس نبی ! ابھی یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی.مگر واقعہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی انسان نے ایسی بات کہی جیسی تم کہہ رہے ہو.تو اُس کی قوم نے ضرور اُس سے دشمنی کی اور اُس کو سخت سے سخت تکلیفیں دیں.اور بالآخر اس کو اور اُس کے ماننے والوں کو وطن سے نکال دیا.اچھا! خدا تمہارا حافظ و ناصر ہو.اور تم کو دشمنوں کے شر سے بچائے.“ یہ تھا سرور عالم ﷺ کی نبوت اور رسالت کی تصدیق کرنے والا سب سے پہلا انسان.

Page 158

صلى الله من الوس (Hamara Aqa (PBUH) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 158