Language: UR
ایک عرب صاحب علم و فضل محمد بن احمد مکّی شعب عامر مکّہ معظّمہ کے رہنے والے تھے وہ ہندوستان کی سیاحت کر رہے تھے جب انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی خبر پہنچی وہ قادیان تشریف لائے اور حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت کی اور کچھ عرصہ قادیان میں آپ کی صحبت میں رہ کر مکّہ معظّمہ واپس پہنچے تو آپ نے ۲۰؍ محرم۱۳۱۱ھ مطابق ۴؍اگست۱۸۹۳ء حضورؑ کی طرف ایک خط لکھا۔ جس میں اپنے بخیریت مکّہ معظّمہ پہنچنے اور مختلف لوگوں سے حضورؑ کا ذکر کرنے اور ان کے مختلف تاثرات کے ذکر کے بعد یہ خوشخبری لکھی کہ میں نے اپنے دوست علی طائع کو جو شعب عامر کے رئیس اور تاجر ہیں حضورؑ کے دعویٰ سے مفصّل خبر دی تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں حضورؑ کی خدمت میں عرض کروں کہ حضورؑ اپنی کتابیں ان کے پتہ پر بھیجیں اور وہ انہیں شرفاء اور علمائے مکّہ مکرمہ میں تقسیم کریں گے۔ اس خط کے ملنے پر حضورؑ نے تبلیغ حق کا ایک غیبی سامان سمجھتے ہوئے رسالہ ‘حمامۃ البشری’ عربی زبان میں تصنیف فرمایا۔ یہ رسالہ حضورؑ نے ۱۸۹۳ء میں رقم فرمایا۔ لیکن اس کی اشاعت فروری۱۸۹۴ء میں ہوئی۔ اس رسالہ میں آپ نے اپنے دعویٰ مسیحیت اور اس کے دلائل خوب وضاحت سے لکھے اور خروج دجّال اور وفات مسیحؑ اور نزول مسیح اور ان سے متعلّقہ امور پر سیرکن بحث کی اور مکفرین علماء کی طرف سے آپ کے عقائد اور آپ کے دعویٰ پر جو اعتراضات کیے جاتے تھے ان کے تفصیلی جوابات دیے۔ اس عربی تصنیف کا اُردو زبان میں ترجمہ افادہٴ عام کے لئے شائع کیا گیا ہے۔ اس میں عربی متن اور اس کا اُردو ترجمہ بالمقابل دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔
اردو ترجمہ حمامة البشرى تصنیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
حَمَامَتَنا تَطِيْرُ بِرِيشِ شَوُقٍ وَفِي مِنْقَارِهَا تُحَفُ السَّلَامِ ہمارا کبوتر اپنی چونچ میں سلامتی کے تحفے لئے ہوئے شوق کے پروں کے ساتھ محو پرواز ہے سالة اللطيفة ا معارف القر.و دقائق پر یرنی معارف , المسماة اس کا نام حمامة البشرى طائر نوید ہے الى اهل مكة وصلحاء أم القرى جو کہ مکہ کے باسیوں اور صلحاء ام القریٰ کی طرف بھیجا گیا ہے د طبعت في مطبع المنشى غلام القادر الفصيح الـ الرجب ا الهجرية ال بالكوتي في الشهر رية المقدسة یہ کتاب مطبع منشی غلام قادر فصیح سیالکوٹی میں ماه مبارک رجب ۱۳۱۱ ہجری المقدسہ میں طبع ہوئی وطن النبي حَبِيبٍ رَبِي سرور کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن کی طرف و سیّد رُسُلِه خير الانام شهر المبارك ٹائٹل بار اول کا اردو ترجمہ
حمامة البشرى مع اردو ترجمه
نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود پیش لفظ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب حمامة البشرى کو عربی زبان میں تحریر فرمایا تھا.اس کتاب کے ابتدائی تمہیں صفحات کا اردو ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جولائی ۱۹۰۳ء میں صرف چارصدر کی تعداد میں شائع ہوا تھا.ان صفحات کا وہی ترجمہ اس ترجمہ میں شامل کیا گیا ہے.باقی صفحات کا ترجمہ مکرم محمد سعید صاحب انصاری نے کیا ہے.ان تراجم پر عربک بورڈ ربوہ نے نظر ثانی کی اور سہو کتابت کے مقامات کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اردو تر جمہ کی صحت کے سلسلہ میں گراں قدر کام کیا.اردو دان طبقہ کے لئے عربی متن کے مقابل پر اردو تر جمہ دے کر افادہ عام کے لئے شائع کیا جا رہا ہے.حمامۃ البشری کے ترجمہ پر نظر ثانی کے اجلاسات محترم سید عبدالحی شاہ صاحب مرحوم ناظر اشاعت وصدر عربک بورڈ ربوہ کی صدارت میں ہوئے.آپ کی وفات کے بعد
اللہ تعالیٰ ہماری یہ کوشش قبول فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خزائن سے فیض یاب ہونے والے احباب کے لئے اسے انتہائی مفید بنائے.
حمامة البشرى اردو ترجمه من عادى أولياء الرَّحمن فقد نبذ الإيمان بالمجان جس نے اولیاء الرحمن سے دشمنی کی تو اُس نے ایمان مفت میں کھو دیا.إنِّي قلت في بعض کتبی ان الله | میں نے اپنی کسی کتاب میں کہا تھا کہ اللہ اُن لوگوں يسلب إيمان قوم يعادون أولياء ، کے ایمان کو سلب کر لیتا ہے جو اُس کے اولیاء سے فسألني بعض الناس عن علل هذا عداوت رکھتے ہیں.اس پر بعض لوگوں نے مجھ سے اس السلب، وقال إنما الإيمان يتم سلب کی وجوہات کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ ایمان باتباع كتاب الله وسنن رسوله، فما تو اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی سنت کی پیروی ندرى أي ضرر للإيمان بعداوة سے مکمل ہو جاتا ہے اس لئے ہم سمجھ نہیں سکے کہ کسی أحد من المسلمين، بل نقول إنها مسلمان کی عداوت سے ایمان کا کیا نقصان ہے؟ بلکہ أقوال لا أصل لها وإن هى إلا وهم ہم کہتے ہیں کہ یہ بے بنیاد باتیں ہیں اور وہمیوں کا المتوهّمين.فاعلم أن هذا الرأی محض ایک وہم ہے.سو یاد رکھو کہ یہ ایک ناقص رائے رأى ركيك أنحف من المغازل، ہے جو تکلے کے دھاگے سے زیادہ باریک اور کبوتر کے وأضعف من الجوازل، وإنما نشأ بے بال و پر بچے سے زیادہ کمزور ہے اور ( یہ خیال) من قلة التدبر من طبع فَقَدَ در بالطبع ایسی قلت مدبر کی پیداوار ہے کہ جس سے اس کی الفكر الصحيح، واكب على الدنيا صحیح سوچ کا جو ہر مفقود ہو گیا ہواور (اس سوچ کامالک) بالقلب الشحيح، وكان من معارف حریص دل کے ساتھ اس دنیا پر اوندھے منہ گر چکا ہو اور وہ دینی معارف سے کلیہ غافل ہو گیا ہو.الدين من الغافلين.و الف کو
حمامة البشرى اردو ترجمه والأصل في هذا الباب أن بني اس موضوع میں اصل بات یہ ہے کہ تمام بنی آدم آدم کشخص واحدٍ بعضهم كالر اس شخص واحد کی طرح ہیں.اُن میں سے کوئی تو سر ، کوئی والقلب والكبد والمعدة والكلية دل کوئی ، جگر ، کوئی معدے، کوئی گردے اور کوئی وأعضاء التنفس، وهم سروات نوع اعضاء تنفس کی طرح ہے.اور وہ نوع انسان کے سردار الإنسان، وبعضهم كأعضاء أُخرى.فالذين جعلهم الله كالرأس أو القلب وغيرهما من الأعضاء الرئيسة، فجعلهم ہیں.اور ان میں سے کچھ دوسرے اعضاء کی طرح ہیں.پس وہ لوگ جن کو اللہ نے سریا دل اور دیگر اعضاء رئیسہ کی طرح بنایا ہے انہیں اللہ نے ہر اُس مدارًا لحياة كل من سُمّى إنسانًا، کے لئے جسے انسان کا نام دیا گیا ہے مدارِ حیات بنایا وكما أن الإنسان لا يعيش من غير وجود هذه الأعضاء ، فكذلك الناس ہے.اور جس طرح کوئی انسان ان اعضاء کے وجود کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح لوگ ان لا يعيشون بحياتهم الروحاني من غير وجود هؤلاء السادات من الرسل سرداروں یعنی رسولوں ، نبیوں ، صدیقوں ،محدثوں، والنبيين والصديقين والمحدثين شہیدوں اور صالحین کے وجود کے بغیر اپنی روحانی والشهداء والصالحين.فظهر من ههنا زندگی نہیں گزار سکتے.لہذا اس سے یہ ظاہر ہوا کہ أن الموت الروحاني هو مطرح بغض اولیاء کے بغض میں مبتلا ہونا ہی روحانی موت ہے.الأولياء ، فالذى اشتد بغضه ومماراته پس اس مقبول گروہ سے جس شخص کا بغض اور جھگڑا بهذه الطائفة المقبولة، وتواترت شدت اختیار کر جائے اور وہ اس محبوب گروہ سے مسلسل مباراته بتلك الفئة المحبوبة، وما مقابلہ کرے اور باز نہ آئے ، نہ تو بہ کرے اور نہ اس امتنع ومـا تـاب، وما دعا الله أن يتداركه، وما ترك السب واللعن کے تدارک کے لئے اللہ سے دعا کرے اور نہ ہی گالی گلوچ، لعن طعن اور جھگڑے کو ترک کرے.تو اس والطعن والخصومة، فآخر جزائه عند الله سلب الإيمان، وتركه فی کی آخری جزا اللہ کے ہاں سلپ ایمان اور اُسے حسد، نيران الحسد والفسق والعصيان فسق اور نافرمانی کی آگ میں چھوڑ دینا ہے.
حمامة البشرى اردو ترجمه حتى يلتحق برهط الشيطان، حتی کہ وہ شیطان کے گروہ میں شامل ہو جاتا.اور ويكون من الخاسرين والسرّ گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جاتا ہے اور راز اس في ذلك أن أولياء الله قوم میں یہ ہے کہ اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جن سے اللہ محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں.اُن کے اپنے رب سے بہت مضبوط تعلقات ہوتے يحبهم الله ويُحبونه ولهم.بربهم تعلقات قوية، وله إليهم ہیں اور اُن پر اس کی حیرت انگیز تو جہات اور لطیف توجهات عجيبة، وعنایات لطيفة عنایات ہوتی ہیں.اور اُن کے اور اللہ کے درمیان وبينهم وبين الله أسرار لا يعلمها ایسے راز ہوتے ہیں جنہیں صرف اُن کا محبوب ہی إِلَّا حِبُّهم، فيُحبهم الله حُبًّا عجيبًا، جان سکتا ہے.اس لئے اللہ اُن سے عجیب رنگ میں پیار کرتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے وہ اُن ويعادي من عاداهـم ويـوالـي کا دشمن بن جاتا ہے اور جوان کا دوست بن جاتا ہے اُن سے دوستی کرتا ہے.اور کوئی نہیں جانتا کہ أحبهم إلى تلك المرتبة، ولم أتم وہ ان سے اس حد تک کیوں پیار کرتا اور اُن کے لهم وظائف الوداد كلها، ولم لئے محبت کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اور وہ کیوں اس کے محبوب ہو جاتے ہیں؟ من والاهم، ولا يدرى أحدٌ لِم صاروا من المحبوبين.وقد جرت عادة الله تعالى أنه يُفيض یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ وہ ان کے قلوب الحق على قلوبهم، ويُجرى لطائف پر حق کا فیضان اور اُن کے دلوں میں لطیف علوم جاری العلوم في خواطرهم، ويطهر فكرتهم، فرماتا ہے.اُن کی سوچ کو پاک اور اُن کی حکمت کو ويُنقح حكمتهم، ويُعطى لهم علم تبصر جلا بخشتا ہے اور انہیں عواقب کو بغور دیکھنے اور ہلاکت العواقب، وانتقاء مواضع المعاطب، ويقود کی جگہوں سے بچنے کا علم عطا کیا جاتا ہے.اور وہ كل خير إليهم، ويطرد كل شر منهم هر خیر ان تک پہنچاتا اور ہر شر ان سے دور کرتا ہے.
حمامة البشرى اردو ترجمه ويُطلعهم علی معارف کتابه و علوم اور اُنہیں اپنی کتاب کے معارف اور اپنے نبی کے نبيه، ويربيهم من عنده، ويهديهم علوم سے اطلاع بخشتا ہے.اور خود اُن کی تربیت إلى صراطه، وينعم عليهم بنعماه فرماتا اور اپنی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے.اور الظاهرة والباطنة، ويحفظهم من انہیں اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازتا ہے مقامات مزلة الأقدام، ويجعلهم من اور ان کو لغزش کی جگہوں سے بچاتا ہے اور انہیں المحفوظين، ويجعلهم من حُماة محفوظ لوگوں میں سے بناتا ہے.انہیں اسلام کی حوزة الإسلام، ويشرح صدورهم مملکت کا پاسبان بنادیتا ہے.اور ان کے سینوں کو ويوجههم إلى حضرته التي هي کھولتا ہے اور انہیں اپنی ذات کی جانب متوجہ کرتا مبدأ الفيوض ، فيأتيهم الفيض فى ہے جو تمام فیوض کا مبدء ہے جس کے نتیجے میں انہیں كل يوم غضًا طريا، ويُنفَح في هر روز تازہ بتازہ فیض پہنچتا ہے اور اس فیضانِ الہی صدورهم من ذلك الفيض الإلهى سے اُن کے سینوں میں مختلف النوع روشنیاں پھوٹتی أنواع لوامع والناس يعملون ہیں.لوگ تو تکلفا نیکیاں کرتے ہیں، لیکن وہ الخيرات تطبعا، وهُمُ طباعًا، طبعاً انہیں بجالاتے ہیں.اُن سے اعمال صالحہ ولا تصدر الأعمال الصالحة منهم تکلف سے صادر نہیں ہوتے بلکہ اُن کی فطرت سلیمہ تكلّفا، بل تقتضيها فطرتهم السليمة اُن کا تقاضا کرتی ہے اور اس میں نیکی کے ارادے وتجرى فيها إرادات الصلاح جوش میں آئے ہوئے چشمہ کی طرح بہتے ہیں.كفوران العين، ولا يتكائدهم من انہیں پُر مشقت اعمال سے وہ کوفت نہیں ہوتی الأعمال الشاقة ما يتكائد غيرهم.جو دوسروں کو ہوتی ہے.خوف کے موقعوں پر تو تراهم كالجبال عند الأوجال انہیں پہاڑوں جیسا مضبوط پائے گا.خطرات کے وتتبين شجاعتهم عند تبين الأهوال ظاہر ہونے پر اُن کی شجاعت ظاہر ہوتی ہے.وہ يتحلون بمحاسن الأخلاق، محاسنِ اخلاق کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں
حمامة البشرى اردو ترجمه ويتخلون مما يسم بالأخلاق اور اخلاق کو مسموم کرنے والی باتوں سے الگ تھلگ يصبرون تحت مجاری الأقدار حُبًّا رہتے ہیں.وہ قضاء وقدر کے جاری ہونے پر ومواطأةً لا لتنوُّه الأقدار، ويطيعون ( خدا کی ) محبت اور اُس کی رضا سے موافقت کرتے ربهم بذل الـــروح واقتحام | ہوئے صبر کرتے ہیں نہ کہ اپنے اقتدار کی بلندی کے الأخطار، ابتغاء لمرضاة الله لا لئے.رضائے الہی کے حصول کے لئے وہ روح لارتفاع الأخطار.لا يريدون ملل قربان کرتے ہوئے اور خطرات میں پڑتے ہوئے اپنے رب کی اطاعت کرتے ہیں، نہ کہ قدر و منزلت الخلائق، ولا تجد فيهم سوء کی بلندی کے لئے.وہ لوگوں سے ( زیادہ) میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے.تو اُن کو بدطینت اور بدخلق الطبع وتوشين الخلائق.الراحمون المحسنون إلى عباد الله، مآل نہیں پائے گا.وہ اللہ کے بندوں پر رحم اور احسان الآمل وثمال اليتامى والأرامل.کرنے والے ہیں.وہ آس لگانے والوں کے لئے يبعدون عن كل كدُورَة وظلام وعن امیدگاہ اور یتیموں اور بیواؤں کے فریا درس ہیں.الهيئة الظلمانية، ويُملأون من وہ ہر کدورت ، تاریکی اور ظلماتی کیفیتوں سے دور الأنوار والجواهر الإيمانية، ويُصيَّر رہتے ہیں.وہ انوار اور ایمانی جو ہروں سے بھر دیئے صحن صدورهم مسعى للأوابد جاتے ہیں.اُن کے سینوں کا آنگن روحانی پرندوں الروحانية، ويـخـرون أمام الشدة كانشيمن بنادیا جاتا ہے.اور وہ آستانہ الہی پر گرتے کا الربانية، وتغرق أرواحهم في بحار ہیں اور اُن کی روحیں جناب الہی کے سمندروں میں حضرته ساجدين.ويخرجون سجدہ کرتے ہوئے غرق ہو جاتی ہیں.وہ (اپنے) من النفس والهواء والإرادة، ولا نفس اور خواہش اور ارادہ سے باہر آجاتے ہیں.يدرون النفس ولذاتِها، ويقلبهم وہ نفس اور اُس کی لذات کو نہیں جانتے.اللہ الله يمينا وشمالا حكمةً من عنده، اپنی حکمت سے اُنہیں دائیں بائیں پلٹاتا ہے ا يبدو أنه سهو من الناسخ، والصحيح يصم“ (الناشر) ل يبدو أنه سهو من الناسخ، والصحيح الهوى“(الناشر)
حمامة البشرى اردو ترجمه ويجدد لهم إرادات بعد فناء اور نفسانی خواہشات کے کامل طور پر فنا ہو جانے کے الإرادات النفسانية كلها.ثم بعد ان کے ارادوں کی تجدید کرتا ہے.پھر وہ اپنی يُرسلهم إلى عباده رحمة منه، رحمت سے انہیں اپنے بندوں کی طرف بھیجتا ہے.فيدعون الناس إلى الخير پس وہ لوگوں کو خیر و صلاح اور سعادت و کامرانی کی والصلاح، والسعادة والنجاح، طرف بلاتے ہیں.پس جو لوگ انہیں قبول کر لیتے فالذين يقبلونهم ويتبعونهم اور ان کی اتباع کرتے اور تمام اعمال، اقوال اور ويحذون حذوهم في كل أعمالهم حركات وسکنات میں اُن کے قدم بقدم چلتے ہیں وأقوالهم وحركاتهم وسكناتهم، اور اُن کے سایوں سے دور نہیں رہتے اور جن باتوں ولا يفارقون أظلالهم ولا يخرجون کا وہ انہیں حکم دیتے ہیں اُن سے باہر نہیں نکلتے تو وہ عما أمروهم، فينالون السعادة سعادت کو پالیتے ہیں اور خوش بختوں جیسی کامیابی ويفوزون فوز السعداء ، ويُرضون حاصل کر لیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کو راضی الله ورسوله ويكونون مُباركين.کر لیتے ہیں اور بابرکت وجود بن جاتے ہیں.فالحاصل أن خدمة هؤلاء الكرام حاصل کلام یہ کہ ان محترم بزرگوں کی خدمت عنوان السعادة، ومحبتهم استثمار | خوش بختی کی نشانی ہے اور ان سے محبت کرنا معرفت المعرفة، ومصافاتهم مُصافات الله کے پھل حاصل کرنا ہے.اور ان سے دوستی اللہ سے دوستی ہے اور ان کی تعریف و توصیف کی اشاعت وبث مدائحهم زمام الفلاح زمام فلاح ہے.اور اُن کے عیوب کی جستجو کرنا وتطلب مثالبهم من أمارات الطلاح بدبختی کی نشانیوں میں سے ہے اور اُن کے ہے وتتبع عيوبهم مدحض المحسنات نقائص کو تلاش کرنا نیکیوں کو تباہ کرنے والا.وتكلف كلفهم كفارة السيئآت اور اُن کی تکلیفیں اپنے سر لینابُرائیوں کا کفارہ ہے.فالذين ما انتظموا فى سمطهم، پس وہ لوگ جو اُن کی لڑی میں منسلک نہیں ہوئے
حمامة البشرى اردو ترجمه وما انخرطوا في جماعتهم، وما التحقوا اور اُن کی جماعت سے وابستہ نہیں ہوئے اور ان کے برهطهم، بل عادوهم و خالفوهم گروہ میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ان سے وتجاوزوا الحد في مقتهم عند عداوت رکھی اور اُن کی مخالفت کی اور بحث مباحثہ کے المخاصمات، وتَعدُّوا الأدب في وقت اُن سے ناراضگی رکھنے میں حد سے تجاوز کیا المكالمات، فأحبط الله عملهم، اور باہمی گفتگو میں حد ادب سے گزر گئے تو اللہ نے وأرداهم، وباء وابسخط من الله، اُن کے عمل کو ضائع کر دیا اور انہیں ہلاک کر دیا اور وہ ورجع إليهم نکال من الله وغضب اللہ کی ناراضگی لے کر لوٹے اور اللہ کی طرف سے من عنده، فنزع الله من قلوبهم كل عذاب اور غضب اُن پر وارد ہوا پس اللہ نے اُن کے حلاوة الإيمان ونور العرفان، وتركهم دلوں سے ایمان کی ہر حلاوت اور نور عرفان چھین في ظلمات خاسرين مخذولين.لیا اور انہیں تاریکیوں میں خائب و خاسر چھوڑ دیا.ثم اعلم أن كل ما قلنا هي علل پھر جان لو کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ سب روحانية لسلب ايمان المخالفين مخالفوں کے سلپ ایمان کی روحانی وجوہات ہیں اور وأما الأسباب الخارجية لخسرانهم جہاں تک اُن کے نقصان اُٹھانے اور اُن کے حق سے وبعدهم عن الحق، فهي أسباب دوری کے خارجی اسباب کا تعلق ہے تو یہ وہ اسباب أعدوها لهم من عند أنفسهم ہیں جو انہوں نے خود اپنی طرف سے اپنے لئے تیار کئے فهي أنهم يخالفون إمام الوقت ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ وہ امام وقت اور زمانے کے وخليفة الـزمــان فی کل قوله خلیفہ کے ہر قول اور فعل اور عقیدے کی مخالفت کرتے وفعله وعقيدته، مع أنه علی ہیں.جبکہ وہ حق پر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ الحق ومؤيد من الله تعالى، فكلما ہوتا ہے.پھر جب بھی وہ اس کی مخالفت کرتے اور يخالفونه ويتركون طريقه فيبعدون اس کے طریق کو چھوڑتے ہیں تو وہ سعادت اور عن طرق السعادة والصدق والصواب صدق وصواب کی راہوں سے دور ہو جاتے ہیں
حمامة البشرى اردو ترجمه ويطرحهم شقوتهم في فلوات اور اُن کی بدبختی انہیں نقصان اور ہلاکت کے الخسران والتباب فيصيرون ویرانوں میں پھینک دیتی ہے پس وہ ہلاک ہونے من الهالكين.والوں میں سے ہو جاتے ہیں.الله.ومن المعلوم أن الرجل الذي اور یہ بات واضح ہے کہ جو شخص بھی حق کی اور حق خالف الحق وخالف الذي يدعو کی طرف علی وجہ البصیرت بلانے والے شخص کی إلى الحق على بصيرة، فلا بد له أن مخالفت کرے گا تو وہ لازماً خطاؤں کے گڑھے میں يقع في هوة الخطايا، فإنه خالف گر جائے گا.کیونکہ اُس نے معصوم صائب الرائے المحفوظ المصيب المؤيَّد من اور مؤيد من اللہ کی مخالفت کی تھی.پھر یہ بھی واضح ثم معلوم أن المخالفة إذا ہے کہ جب مخالف اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے، تو اُس بلغت منتهاها، فتزيد شقاوة مخالف کی بد بختی کو دن بدن بڑھاتی جاتی ہے.اور المخالف يــومــا فيوما، فيكون وہ ہر اُس سچی بات اور حکمت اور صداقت کو جو حريصًا على ردّ كل كلمة الحق زمانے کے اُس امام کو عطا کی جاتی ہے اُسے رڈ والحكمة والصداقة التي أُعطيت کرنے پر حریص ہو جاتا ہے.بلکہ یہ کمال درجے لإمام الزمان، بل هذا هو النتيجة کے عناد کا ضروری اور لازمی نتیجہ ہوتا ہے، پس جب الضرورية اللازمة لكمال العناد عناد اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو معاند اپنے عناد کی فإن العناد إذا بلغ كماله فيجترء شدت کے باعث دن بدن مخالفت پر جرات دکھاتا المعاند لشدّة عناده يوما فيوما على ہے یہاں تک کہ وہ ایک دن ایسی عظیم مخالفت المخالفة حتى يقع يومًا في مخالفة میں مبتلا ہو جاتا ہے جو اُس کو ہلاک کر دیتی اور اُس عظيمة تُهلكه و تسلب ايمانه کے ایمان کو سلب کر لیتی ہے اور وہ بے یار و مددگار فيلحق بالمخذولين.ألا ترى أنك لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے.کیا تجھے معلوم نہیں کہ إذا اخترت طريقا على وجه البصيرة جب تو کسی راہ کو علی وجہ البصیرت اختیار کرتا ہے
حمامة البشرى ۹ اردو ترجمه طريقك مع أن فيه قطاع الطريق وتعلم أنه طريق مستقيم يوصلك اور تجھے یہ معلوم ہی ہے کہ وہ ایسی سیدھی راہ ہے جو إلى منزلك ودارك سالما تجھے تیری منزل اور تیرے گھر تک صحیح سلامت پہنچا دے گی اور تیرے اس سفر میں ایک ایسا بد بخت دشمن غانما، ومعك في سفرك عدو بھی شریک ہو جس کی تیرے ساتھ عداوت اُسے شقی، فحمله عداوتك على أن اس امر پر آمادہ کرے کہ وہ اپنے لئے کوئی دوسری يختار لنفسه طريقا آخر يُخالف راہ اختیار کرے جو تیری راہ کے برعکس ہے باوجود اس کے کہ اس ( راہ) میں ڈاکو، درندے اور وسباع وأفاعي و آفات أخرى، فلا سانپ اور دوسری آفات بھی ہوں.تو اس میں کوئی شك أنه ألقى نفسه إلى التهلكة، شک نہیں کہ اُس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال فإن هلك فما كان سبب هلا که لیا.پھر اگر وہ ہلاک ہو گیا تو اس کی ہلاکت کا سبب إلا مخالفتك، فتَدبَّرُ واتق الله محض تیری مخالفت ہی ہوگی.لہذا غور کر اور اللہ کا ولا تكن إلا مع الصادقين ولا تؤذ تقویٰ اختیار کر اورصرف اورصرف راستبازوں کے ساتھ ہو جا.اور کسی راست باز کو ایذا نہ دے اور صادقا ولا تُعِنِ الذي أبلى في نہ ہی اس کی مدد کر جس نے اُس سے لڑائی کرنے کی هیجائه، بل لا تكن من الذين جسارت کی بلکہ تو اس جنگ کے تماشائیوں میں بھی هم نظارة ذلك الحرب، و رضوا شامل نہ ہو جو نیزہ اور شمشیر زنی پر راضی ہو بالطعن والضرب، وأفاضوا فی گئے اور دلچسپی سے اُن باتوں کو سننے لگے جن میں سماع کـلـمـات فيها استخفافه، اس کا استخفاف تھا.اور تو تو بہ کرنے والے کے وتُب مع الذي تاب، فإن الصالحين ساتھ تو بہ کر، کیونکہ صالحین وہ لوگ ہیں کہ جب قوم إذا أراد الله نصرهم فيخلق من الله ان کی مدد کرنا چاہتا ہے تو اپنی جناب سے لدنه الأسباب ويُبدى العُجاب، اسباب پیدا فرما دیتا ہے اور عجائب ظاہر کرتا ہے
حمامة البشرى اردو ترجمه ويأتي المعادين من حیث اور وہ دشمنوں کے پاس وہاں سے آتا ہے جہاں سے اُن لا يـعـلـمـون، ولا يخزى عبادہ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا اور وہ اپنے پیارے المحبوبين.فأوصيك أن لا بندوں کو رسوا نہیں کرتا.پس میں تمہیں تاکید کرتا تمارهم، ولا تخالف قولهم بفهم ہوں کہ تو اُن سے مت جھگڑ اور کمز ور فہم اور خشک عقل أنحل و عقل أقحل، ولن تبلغ سے اُن کے قول کے خلاف نہ کر کیونکہ تو ان کے علم و فہم کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا خواہ تیرے پاس کتابوں کا أفهامهــم وعـلـومـهـم، ولـو كـان پہاڑ بھی ہو کیونکہ انہیں اپنے رب کی جناب سے علم و فہم عطا کیا جاتا ہے.اُن کے فہم روشن کئے جاتے عندك جبل من الكتب، فإنهم يُؤتون علمًا وفهما من لدن ربهم، ہیں اور اُن کی عقلوں کو جلا بخشی جاتی ہے اور ان وتُنوّر أفهامهم، وتُصفى عقولهم، کے حواس کو وسعت بخشی جاتی ہے اور اللہ کا ہاتھ انہیں وتوسع مداركهم، ويعصمهم يدُ ہر لغزش سے بچاتا ہے.بعض اوقات تو اُن کے رج الربّ من كلّ مزلة، وربما تسمع من مونہوں سے ایسے کلمات سنتا ہے جو تیرے نزدیک أفواههم كلمات هي عندك كلمات کلمات کفر اور ارتداد کی باتیں ہوتی ہیں لیکن اگر الكفر وأقوال الارتداد، وأما إذا تو اور تیرے جیسے دوسرے لوگ ان کی باتوں پر فكرت أنت وأمثالك في كلماتهم قلب سلیم اور آزاد رائے سے غور کریں اور تو اللہ بقلب سليم ورأى حر، ودعوت سے یہ دعا کرے کہ وہ تجھے فہم عطا فرمادے تو ( تجھے الله أن يفهمك، فإذا هي معارف یہ معلوم ہو جائے گا کہ ) وہ تو حکمت کے معارف الحكمة ولآلي المعرفة، فإن كنت اور معرفت کے موتی ہیں.پھر اگر تو سعادت مند سـعـيـدا فـتـقبلها بعدما فهمتها، وإن ہوگا تو تو انہیں سمجھنے کے بعد قبول کر لے گا اور كنت شقيا فتبقى على إنكارك اگر تو بد بخت ہوگا تو تو اپنے انکار پر قائم اور مصر وتجحد وتختار التكذيب لنفسك، رہے گا اور اپنے لئے تکذیب کو اختیار کر لے گا.
حمامة البشرى اردو ترجمه فتسفك دم إيـمـانـك بيديك، اور اس طرح تو خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ایمان کا وتلحق بالذين هم ضيعوا خون کرے گا اور تو اُن لوگوں میں شامل ہو جائے گا إيمانهم وهم يعلمون وما جنہوں نے جانتے بوجھتے اپنے ایمان کو ضائع کر دیا اور ہدایت یافتہ نہ ہوئے.كانوا مهتدين.يا مسكين! لا تعجل ولا تُكفِّرُ اے مسکین ! جلد بازی نہ کر اور ایک ایسے بندہ کو عبدا اصطفاه الله وتراه يصلّی کا فرنہ ٹھہرا جسے اللہ نے منتخب فرمالیا ہے، اور تو اسے ويصوم ويستقبل القبلة، وتجد فيه دیکھتا ہے کہ وہ نماز پڑھتا، روزے رکھتا اور قبلہ رو ہوتا سمت الصلحاء و اتباع السنة، ولا ہے اور تو اس میں صلحاء اور سنت کی پیروی کرنے تعجل على ما ادعى من الكمالات والوں کا انداز پائے گا، اور جن کمالات اور معارف کا وہ مدعی ہے ان کے انکار کرنے میں جلد بازی نہ والمعارف، فإن في الإسلام قومًا کر کیونکہ اسلام میں ایسے لوگ ہیں جنہیں اپنے ربّ يُؤتون حكمة روحانية من ربهم، لا کی طرف سے حکمت روحانی عطا کی جاتی ہے.ہر يفهم أقوالهم كل غبى و بليد.غمی اور کند ذہن اُن کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتا، اُن کی فراستهم قد أوتيت من الإصابة فراست اصابت سے ودیعت کی گئی ہے اور اُن کی وعقولهم فاقت عقول العصابة عقلیں پوری جماعت کی مظلوں پر فوقیت رکھتی ہیں وفهمهم يُفصح عن كلِّ مُعَمَّى اور اُن کا فہم ہر تھی کو سلجھادیتا ہے اور ان کا تیر ولا يطيش سهمهم في مرمى و ما نشانے سے خطا نہیں جاتا.شیطان اُن کو نقصان يضرهم شيطان فيتبعه الشهاب، نہیں پہنچا سکتا کیونکہ شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے وما يصل إليهم سهم وإن تخلو اور کوئی تیران تک نہیں پہنچتا خواہ ترکش خالی ہو الجِعابُ.يُؤتون من لطائف جائیں.انہیں عرفان کے بار یک دقائق عطا کئے العرفان، ولهم يد طولی فی البیان جاتے ہیں اور انہیں بیان میں ید طولی حاصل ہوتا ہے
حمامة البشرى ۱۲ اردو ترجمه وتعريضهم أدلُّ من تصريح اور اُن کا اشارہ غیروں کی تصریح سے بڑھ کر رہنمائی غيرهم، وكلامهم تتجلى في کرنے والا ہوتا ہے اور ان کا کلام مختلف رنگوں میں جلوہ گر ہوتا ہے اور ان کے دلوں کو فیض رسانی کا ملکہ الألوان، ويسمح خواطرهم للإفاضات، وهم أعمدة الدنيا عطا کیا جاتا ہے اور وہ دنیا اور دین کے ستون ہوتے ہیں اور مخلوق خدا کے لئے اُن کا وجود روح حیات وعُمد الدين، وللخلق وجودهم کی طرح ہوتا ہے.اور جو اُن سے عداوت رکھتا ہے كروح الحياة، ومن عاداهم فقد اللہ اس کے مقابلہ کے لئے میدان جنگ میں نکل بارزه الله للحرب، فتارة يأخذه آتا ہے پھر کبھی تو وہ اسے مہلت دیئے بغیر پکڑ لیتا ہے اور کبھی کچھ مدت تک مہلت دے دیتا ہے من غير إمهال، وتارة يؤجله أجلا اور اُس کی رسی دراز کر دیتا ہے یہاں تک کہ جب ويُرخى له طولا، حتى إذا جاء وقته اُس کا وقت آن پہنچتا ہے تو عذاب کی بجلی اس کی فيحرق كتبته صاعقه العذاب، جمع شدہ پونچی کو جلا ڈالتی ہے اور ا سے ایسا کر دیتی ويجعله كأن لم يكن من العائشين.ہے کہ گویا وہ کبھی زندوں میں تھا ہی نہیں ہیں -☆- نوٹ :.صفحہ ۱ تا ۱۲ کا ترجمہ مکرم محمد سعید صاحب انصاری کا کیا ہوا ہے.یہ ابتدائی تئیں صفحات میں شائع نہیں ہوا تھا.
حمامة البشرى ۱۳ اردو ترجمه وي بدالله الحالي بدالله الحالي يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اے زندہ اور قیوم خدا.تیری رحمت کی أَسْتَغِيثُ میں تجھ سے فریاد کرتا ہوں الحمد لله الذي علم بالقلم علم سب تعریفیں اُس خدا کے لئے ہیں جس نے قلم الإنسان ما لم يعلم، وبلغه إلى سے سکھلایا اور جو کچھ کہ انسان نہ جانتا تھا وہ اس کو مراتب العرفان واليقين والصلاة بتایا اور معرفت اور یقین کے مرتبہ تک پہنچایا اور اس والسلام على رسوله نبى أمي إمام کے رسول نبی امی پر صلوٰۃ اور سلام ہو جو کہ سب المعلمين من الأنبياء والمرسلين، انبياء اور مرسلین اور معلمین کا امام اور سب وحی ہے قط ނ وإمـام كــل مــن نـطـق عن الوحی بولنے والوں اور حکمت اور دین کے معارف کے و كتب علم الحكمة ومعارف لکھنے والوں کا پیشوا ہے.جس نے کہ نہ کبھی قلم کو الدين؛ الذى ما بَرَى القلم قط وما بنایا اور نہ اس کو قط لگایا اور نہ سختی کو ہاتھ لگایا اور نہ ، وما احتجر اللوح وما خط لکھا.خدا نے اس کو احسن تقویم میں پیدا کیا پس وخلقه الله في أحسن تقويم ففاق وہ سب مخلوقات سے فائق ہوا.اور اُس کے اصحابوں خلق العالمين، وأصحابه الهادین پر جو ہدایت یافتہ اور سیدھی راہ بتانے والے ہیں المهتدين، وآله الطيبين الطاهرین اور اس کے آل پاک پر.أما بعد فإنه قد وصل إلى مكتوب اس کے بعد واضح ہو کہ مکہ معظمہ سے (شرفها الله وعظمها) میرے پاس ایک خط پہنچا اور پڑھنے کے من مكة..شرفها الله وعظمها..فلما قرأته علمتُ أنه مكتوب كتبه بعض أحبائى من المبايعين بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ کسی میرے مرید کا ہے.
حمامة البشرى ۱۴ اردو ترجمه وعرفت أنه يريد لأعرف أهل مكة اور میں نے معلوم کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ مکہ والوں کو میں کچھ اپنے حالات بتاؤں.لیکن من بعض حالاتی.فما رضی قلبی میرا دل اس پر راضی نہ ہوا کہ میں ان کی بأن أكتب إليهم الأمر المجمل طرف مجمل اور پیچیدہ بات لکھوں بلکہ میں نے المطوى، بل أردت أن أبين بيانا چاہا کہ ایسا بیان لکھوں کہ جس سے ان کے دل تطمئن به قلوبهم، وتحصل لهم مطمئن ہو جا ئیں اور ان کو اچھی معرفت حاصل معرفة ويتقوى به رأیهم ووجدانهم ہو جائے.اور اس بیان سے ان کی رائے اور وفراستهم، فغلب هذا القصد على وجدان اور فراست قوی ہو جائے اور یہ ارادہ قلبي، ونفث في روعى أسرار لأهل میرے دل پر غلبہ پاتا رہا اور میرے دل میں اہل مکہ کے لئے کچھ اسرار ڈالے گئے یہاں مكة، حتى امتلأت نفسی و نسمتی تک کہ میرا نفس اور روح اُن سے پُر ہو گیا اور بها، وكتبتها في مكتوب وأرسلت میں نے ان کو ایک خط میں لکھ کر بھیج دیا.پھر إليهم، ثم بدا لي أن أرتبه بصورة مجھے یہ امر اچھا معلوم ہوا کہ اس کو بصورت رسالة وأشيعه في الناس بعد طبعه رساله مرتب کر کے بعد طبع لوگوں میں شائع کیا لينتفع به خلق، وليكون كسراج جائے تا کہ لوگ اس سے نفع اٹھا ئیں اور سچے منير للطالبين.فالآن نشرع في طالبوں کے لئے روشن چراغ کا کام د المقصود، ونكتب أولا المكتوب اب ہم اصل مقصد کو شروع کرتے ہیں اُس خط کو لکھتے ہیں جو اہل مکہ سے ہمارے الذي جاء من أهل مكة، ثم نكتب پاس آیا تھا پھر ہم اُس خط کو لکھیں گے جو ہم مكتوبا أرسلنا إليهم، وما توفيقنا إلا نے ان کی طرف بھیجا اور بجز اللہ کے ہمیں کوئی بالله الذى يتولى عباده، وهو توفیق دینے والا نہیں جو اپنے بندوں کا متوتی أرحم الراحمين.اور ارحم الراحمین ہے.
حمامة البشرى ۱۵ اردو ترجمه المكتوب الذى جاء من وو محط جونک (شرفها الله مكة شرفها الله وأعزّ أَهْلَهَا وأعزّ أَهْلَهَا) سے آیا بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللہ کے نام کے ساتھ جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بارحم کرنے والا ہے.نحمده ونصلى على رسوله ہم اس کی حمد کرتے ہیں اور اس کے معزز رسول الكريم.پر درود بھیجتے ہیں.سلام الله تعالى ورحمته وبركاته اللہ کے سلام اور رحمتیں اور برکتیں اور پاک وأزكى تحيته على حضرة جناب تحیات ہمارے ہادی مسیح الزمان مولانا حضرت مولانا وهــادينا ومسيح زمـاننــا غلام أحمد، كان الله تعالى في عونه، غلام احمد پر ہوں اور اللہ ہمیشہ ان کی مدد کرے.آمین یا رب العالمين.آمین یا رب العالمین.أمـا بـعـد، أعرفكم أني وصلت مكة اس کے بعد یہ گزارش ہے کہ میں مکہ میں بخیر بخير وعافية، وكلما جلست في وعافیت پہنچ گیا اور جب کبھی میں کسی مجلس میں مجلس أذكركم وأذكر قولكم، بیٹھتا ہوں.آپ کا اور آپ کے دعاوی کا جو وجميع الذى ادعيتموه من الآيات آپ نے آیات واحادیث کی بنا پر کئے ہیں تذکرہ والأحاديث، فصار الناس يتعجبون، والبعض منهم يُصدقون ويقولون کرتا ہوں.کچھ لوگ تعجب کرتے ہیں اور کچھ اللهم أرنا وجهه فى خير.ولما فرغنا تصدیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں من شهر الحج وهل علينا شهر اس کا بابرکت چہرہ دکھا اور جب ماہِ ذی الحجہ گزر عاشوراء ، مررت يوما من الأيام على واحـد مـن أصــحــابـنـا اسـمـه چکا اور محرم شروع ہوا تو میں ایک دن اپنے ایک علی طایع “، فجلست عنده، دوست علی طائع نامی سے ملا اور اُس کے پاس بیٹھا
حمامة البشرى ۱۶ اردو ترجمه فسـألـنـي عـن الهند وعن السفر تو [ اُس نے مجھ سے حالات سفر اور حالات ہند دریافت وأحواله، فأخبرتـه بـالذى حصل کئے تو میں نے سب حالات و واقعات سنا دیئے اور وأخبرته عن دعواكم، وفهمته علی آپ کے دعوی کی بھی اُس کو خبر دی اور اچھی طرح أحسن ما يكون، ففرح بذلك، اُس کو سمجھایا.چنانچہ وہ اس سے بہت خوش ہوا.اور وقلت له: هو رجل حلیم عظيم إذا میں نے اس کو یہ بھی کہا کہ وہ بڑے حلیم اور عظیم الشان رآه المؤمن يُصدق به.فالكلمات شخص ہیں جب مومن ان کو دیکھتا ہے تو ضروران التي فهمتها إياه طفق يذكرها عند کی تصدیق کرتا ہے.جو باتیں اُس کو سمجھائی تھیں كل أحد من الناس، وقال لی: متى اُس نے ہر ایک کے پاس اُن کا ذکر شروع کر دیا يجيء إلى مكة؟ قلت له : إذا أراد اور مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ کہ وہ مکہ میں کب آئیں الله سبحانه وتعالى يجيء إلى مكة گے.میں نے کہا کہ جب اللہ چاہے گا تو جلد شرفها الله تعالى عن قريب.والآن آجائیں گے.اور اب حضرت نے کچھ عربی کتابیں ألف كتبا عربية في إثبات دعواه اپنے دعویٰ کے اثبات میں لکھی ہیں جو یہاں بھیجنا يريد أن يرسلها إن شاء الله تعالى.ا چاہتے ہیں [ ان شاء اللہ تعالی ].یہ وہ باتیں هذا ما قلت لعلى طائع ثم لما أن ہیں جو علی طائع سے ہوئیں.پھر جب میں نے یہ أردت إرسال هذا الكتاب، قلت له خط روانہ کرنا چاہا تو میں نے کہا کہ میں حضور کی خدمت أنا أريد أن أرسل لـمولانا كتابا.میں یہ خط بھیجنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کہ خط میں یہ فقال لي: قل له في الكتاب يُعجل : بإرسال الكتب التي ألفها ويُعجل بھی عرض کر دو کہ اپنی مؤلفہ کتا ہیں جلد ارسال فرمائیں بالمجيء بنفسه إلى مكة.فقلت اور خود بھی مکہ میں تشریف لانے کی جلدی کریں.له حتى يأذن الله.وقلت له لولا میں نے اُس کو کہا کہ یہ اللہ کے اذن پر موقوف ہے مخافة الفتن ما تركت الكتب التي اور اگر فتنہ کا خوف نہ ہوتا تو میں حضور کی کتابوں کو کبھی ألفها مولانا وجئت بها.فقال لی نہ چھوڑتا بلکہ ضرور ساتھ لاتا.اس نے کہا کہ کیوں لم خفت؟ لو جئتَ بها لكان خيرا ڈر گئے.کاش تم اپنے ساتھ لاتے تو بہتر ہوتا.
حمامة البشرى ۱۷ اردو ترجمه ثم قال لي اكتب لمولانا يُرسل الكتب پھر اس نے کہا کہ حضور کی خدمت میں لکھ دو کہ على اسمى وأنا أقسمها وأُطلع عليها كتابيں میرے نام روانہ کر دیں.میں خود اُن کو تقسیم شريف مكة والعلماء وجميع الناس کروں گا اور شریف مکہ اور علماء اور سب لوگوں کو مطلع ولا أبالى من أحد وقال : أنا أعرف کروں گا.اور میں کسی کی پروا نہیں کرتا.اور [اس أن المؤمن إذا سمع ذكر هذا الرجل نے کہا میں جانتا ہوں] مومن جب اس شخص کا ذکر يفرح، والمنافق يغضب.وهذا الرجل سنتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور منافق ناراض ہوتا المذكور الذي اسمه على طائع ساكن ہے.یہ علی طالع جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے في شعب عامر، وهو رجل طيب من شعب عامر کا رہنے والا ہے اور اغنیاء میں سے ایک الأغنياء ، وصاحب بيوت وأملاك وتاجر عظيم.فأنتم أرسلوا الكتب اچھا شخص ہے اور بہت سے گھروں اور جائیدا دوالا باسمه وبهذا العنوان يصل إن شاء اور بڑا تاجر ہے.پس حضور اُسی کے نام پر کتابیں الله تعالى إلى مكة المشرفة، ويُسلَّم بھیج دیں اس پستہ پر.انشاء اللہ اسے مل جائیں گی.بيد على طابع تاجر الحشيش في مقام مکہ مشرفه بخدمت علی طالع تاجر حشیش حارة حارة الشعب، يعني شعب عامر.الشعب یعنی شعب عامر.وسـلـم مـنـا على مولانا نور الدين، اور مولانا نورالدین اور سید حکیم حسام الدین اور و علی مولانا السيد حکیم حسام الدین، سب چھوٹے بڑے بھائیوں پر اور خصوصاً فضل الدین وسلّم منا على كافة إخواننا، كل واحد اور اس کے بھانجے مولوی عبدالکریم کی خدمت منهم باسمه صغيرهم وكبيرهم، وخصوصا میں ہماری طرف سے سلام پہنچے اور ہم بیت الحرام فضل الدين وولد أخته مولانا عبد میں ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور خاص کر حضور الكريم، وإنا لهم من الداعين في بيت الله الحرام، وخُصَّ نفسك بألف سلام پر ہزاروں سلام ہوں.الراقم بذلك: أحقر عباد الله الصمد راقم احقر عباد اللہ الصمد.محمد بن احمد ساکن محمد بن أحمد، ساكن شعب عامر شعب عامر.۲۰ شهر عاشورا سنة ١٣١١هـ ۲۰ / محرم لا أى العشب أو العلف للحيوانات.(الناشر) DO
حمامة البشرى الجواب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۱۸ S جواب بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اردو ترجمه نحمده ونصلى على رسوله الكريم نحمده و نُصَلّى على رسولهِ الكَرِيم إلى المحب المخلص..حبّى بخدمت محب و مخلص محمد بن احمد مکی.في الله محمد بن أحمد المكي السلام عليكم ورحمة الله وبركاته السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته أما بعد فإنه قد وصلني کے بعد واضح ہو کہ آپ کا خط مجھے ملا اور میں مكتوبـك وقــرأته من أوله إلى نے اس کو اول سے آخر تک پڑھا اور جو امور آخره وسرنی کلما ذكرته في کہ آپ نے اپنے خط میں لکھے ہیں ان سے مكتوبك وشكرت الله على مجھے خوشی ہوئی اور آپ کے بخیر و عافیت اپنے أنك وصلت وطنك وبيتك وطن اور گھر پہنچنے پر اور اپنے احباب اور قریبی بالخير والعافية ولقيت الأحباب رشتہ داروں سے ملنے پر میں نے اللہ کا شکر کیا.وعشيرتك الأقربين.وأما ما اور جو کچھ کہ آپ نے جلیل القدر اور بزرگ ذكرت طرفًا من حُسن أخلاق سید علی طائع کے حسن اخلاق اور نیک سیرت السيد الجليل الكريم على طائع اور پسندیدہ اوصاف کا بیان کر کے اور ان کا وسيرته الحميدة وآثاره الجميلة میرے حالات کے سننے پر محبت اور حسن توجہ کا ومودته وحسن توجهه عند سماع اظہار فرمانے [ اور اس سے اُن کی مسرت] کا حالاتي، ومِن أنه سُرَّ بذلك، فأنا أشكرك على هذا وأشكر ذلك ذكر كيا ہے اس پر بھی میں آپ کا اور اُس سعید رشید الشريف السعيد الرشيد، وأسأل سیّد کا شکر بجالاتا ہوں اور میں آپ کے اور سید الله لك وله خيرًا وبركة وفضلا صاحب کے ہمیشہ تک جناب الہی سے خیر و برکت ورحمةً إلى يوم الدين.اور فضل اور رحمت کی استدعا کرتا ہوں.اور
حمامة البشرى ۱۹ اردو ترجمه وقد أُلقي في قلبي أنه رجل طيب میرے دل میں ڈال گیا ہے کہ وہ صالح اور پاک صالح وعسى أن ينفعنا في أمرنا آدمی ہے.امید ہے کہ ہمارے کام میں نافع ثابت ہو.ويُكمل الله لنا بعض شأننا بتوجهه اور ہمارے بعض کاموں کو اس کی توجہ اور حسن ارادت سے وحسن إرادته وعلى يده والله يدبّر أمور دينه كيف يشاء ويجعل من اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر کمیل کرے گا.اور اللہ جیسا چاہتا ہے اپنے [ دین کے] امور کی تدبیر کرتا ہے اور جس کو يشاء وسيلة لتكميل مهمات چاہتا ہے اسلامی مہمات کی تکمیل کا وسیلہ بنا دیتا ہے اور الإسلام ويجعل من يشاء لدينه من الخادمين.وفطنت بفراستی ان جسے چاہتا ہے اپنے دین کا سچا خادم بنا دیتا ہے.اور میں ذلك السعيد الذی ذکرت نے اپنی فراست سے معلوم کر لیا ہے کہ جس سعید آدمی کا محامده في مكتوبك رجل آپ نے اپنے خط میں ذکر کیا ہے اللہ کی راہ میں ایسا شجاع فی سبیل الله لا يخاف لومۃ بہادر ہے کہ اظہار حق اور [ اس کی] اشاعت اور تائید اور لائم عند إظهار الحق وإشاعته تقویت میں کسی ملامت کرنے والے [ کی ملامت] وتأييده وتشنيده، وقد جمع الله سے نہیں ڈرتا اور جوانمردی اور شجاعت اور انشراح صدر فيه سِيرًا محمودة وأخلاقًا فاضلة.اور سخاوت نفس اور زہدو تقویٰ کے [ ساتھ ساتھ ] اللہ تعالیٰ مع الفتوة والشجاعة وانشراح نے اُس میں سب صفات محمودہ اور اخلاق فاضلہ جمع کر الصدر وجود النفس والورع والتقوى دیئے ہیں اور اس پر اخلاص کی توفیق اور اجتہاد فی سبیل ومن عليه بتوفيق الإخلاص والاجتهاد في سبيل الله كما مَنَّ اللہ کے ساتھ ویسا ہی احسان کیا ہے جیسا کہ مال اور غنا عليه بإعطاء الثروة والغناء وجعلہ کے دینے سے اس پر احسان کیا ہے اور اس کو دنیا اور في الدنيا والآخرة من المنعمين.آخرت میں منعم بنا دیا ہے.وكذلك إذا أراد الله بعبد اور اللہ تعالیٰ کی یونہی عادت ہے کہ جب وہ کسی خيرا فيعطيه من لدنه قوة في بندہ کے لئے بہتری چاہتا ہے تو اپنی طرف سے الخيرات، وطاقة في الحسنات اس کو خیرات وحسنات کی طاقت دے دیتا ہے
حمامة البشرى اردو ترجمه ويجعل مِن سِيرِه القيام بمهمات اور مہمات دین کی خدمت اور احیاء ملت اسلام کا فکر الدين والفكر لإحياء الملة اور اُس کی کتابوں کی اشاعت اور ملعون شیطان کے وإشاعة كتبها، وتمزيق دساتير | دفتر کا پارہ پارہ کرنا اس کی عادت میں رکھ دیتا ہے.الشياطين الملعونين؛ فلا يخاف پس وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور اگر دین کی إلا الله، وإن ير خير الدين في أمر بہتری وہ اپنی جان کے خرچ کرنے میں اور خون من بذل روحه وإهراق دمه فيقوم بہانے میں دیکھتا ہے تو خوشی سے شہادت کے لئے مستبشرا للشهادة، فيعتصم کھڑا ہوتا ہے.اور اپنے فہم اور عقل اور قوت بدن بحبل الله جميعا من قوة بدنه [ اور دل] اور جوارح کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رہتی سے وقلبه وجوارحه وعقله وفهمه بچاؤ حاصل کرتا اور اُس کے عام ذرات خدا تعالیٰ کی وينهض كل ذراته لطاعة الله فرمانبرداری اور اُس کے اوامر کی پابندی میں لگ وانقياد أوامره، ولا يغفل عن ربه جاتے ہیں اور ایک پلک کے جھپکنے پر بھی اپنے مولیٰ طرفة عين، ويقف بالمرصاد فی سے غافل نہیں ہوتا اور ہر وقت گھات میں لگا رہتا كل حين.ويُشمّر الذيل لإفشاء ہے.اور وہ احکام الہی کے پھیلانے اور ان کے اعلاء أحكام الله وإعلائها وإن كان فيه كے لئے کمر ہمت باندھ کر بہادروں کی طرح نکلتا خطر عظيم أو عذاب الیم ہے اگر چہ اس میں بھاری خطرہ اور عذاب الیم کیوں نہ ويبارز كالفحول ولا يقربه أثر ہو.اور وہ بہادروں کی طرح میدانِ مقابلہ میں نکل الجبن والحؤول، ولا يتأخر کھڑا ہوتا ہے اور بزدلی اور بھاگنے کا اثر اس کے لخطب خَشَّی و خوفِ غَشَّی قریب بھی نہیں ہوتا اور نہ کسی ڈرنے والے امر سے وينص للدين ركاب الشرى، پیچھے ہتا ہے اور نہ کسی بیہوش کرنے والے خوف سے.ويجب لتأييده كل وعور و جبال اور دین کے لئے اپنی سواری کو تیار کرتا ہے اور سب على، ليرضى الله المولی پست مقاموں اور بلند پہاڑوں کو محض اللہ کی رضا کے ويدخل فـــي الـمحبـوبيـن لئے طے کرتا ہے تا کہ اُس کا محبوب بن جاوے.
حمامة البشرى ۲۱ اردو ترجمه وَإِنّى أرى أن أذكر لهذا الفتى اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اُس شریف جوان النجيب قليلا من حالاتی، و مما أنا کے لئے میں اپنے کچھ حالات بیان کروں اور اُس عليه من هداية ربي، وأكشف له ہدایت کو بھی جو کہ میں اپنے رب سے لایا ہوں.عمامن الله به على، وأعرفه من اور خدا نے جو کچھ مجھ پر احسان کیا ہے اُس پر کھول (۴) بعض سوانحی، لعله يزيد معرفة دوں اور اپنی سوانح بھی اُس کو کچھ کچھ بتا دوں تاکہ في أمري، ولعله يتفكر ويعلم ما میرے بارہ میں اُس کی معرفت بڑھ جاوے اور أراد الله ربّ العالمين.سوچنے سے اللہ کے ارادہ کو پالے.فاعلموا يا إخواننا رحمكم الله اے بھائیو اللہ تم پر رحمت کرے اور تمہاری حفاظت وحماكم وحفظكم أن الله اطلع کرے واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں على الأرض في هذا الزمان زمین کو دیکھا کہ کفر و شرک اور فسق و بدعات اور قسم فوجدها مملوة من الفسق والكفر قسم کے گناہوں اور نصاریٰ کے رنگارنگ فریبوں والشرك والبدعات وأنواع سے پُر ہے اور دیکھا کہ دلوں کی زمین خراب ہو گئی المعاصي ومكائد المتنصرين.ورأى أن أرض قلوب الناس قد ہے اور ہر ایک شہر اور گاؤں آباد تو ہیں لیکن ان کی فسدت، وكلّ قرية عامرة ومزارع صلاحیت کے کھیت بیکار پڑے ہیں اور بر و بحر پر صلاحها تعطلت، وغلبت الضلالة ضلالت غالب ہو گئی ہے اور فتنوں کی فوجیں ہر على كل برّ وبحر، وأفواج الفتن من طرف غلبه کر رہی ہیں اور نیکوں کی تاثیرات بہت کم كل جهة ظهرت، وقل أثر الصالحین ہو گئی ہیں اور دیکھا کہ لوگ بہت سے رڈی اور ورأى الناس أنهم قد مالوا إلى فاسد اعتقادوں پر مائل ہیں خدائے یگانہ کی طرف اعتقادات رديّة فاسدة، وعزوا ایسی باتیں منسوب کر رہے ہیں جن سے اس کا أمورا إلى حضرة الوتر سُبحانه يجب تنزيهه عنها.ورأى آن پاک اور منزہ ہونا واجب ہے.اور یہ بھی دیکھا النصارى جعلوا عبدا عاجزا إلها، کہ نصاری نے ایک عاجز بندہ کو خدا بنا رکھا ہے
حمامة البشرى ۲۲ اردو ترجمه وخرقوا لإثبات الألوهية دلائل من اور اُس کی خدائی کے اثبات کے واسطے اپنی خود التوراة والإنجيل بتأويلات منحوتة تراشيده تاویلوں کے ساتھ تورات وانجیل سے دلائل من عند أنفسهم، وصاروا في الأرض بھی گھڑ لئے ہیں اور زمین میں وہ مفسدوں کے سردار أئمة المفسدين.وقد أضلوا خلقا بن گئے ہیں اور بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ہے اور كثيرا، وارتبط بهم كل قلب فاسد ہر ایک فاسد دل کا ان سے ایسا رابطہ ہو گیا ہے کہ ارتباط ذراري الشيطان بالشيطان وجاء وا من لطائف حِيلهم بسحر مبين.يستجلبون الناس إلى دينهم جیسا کہ شیطان سے اُس کی ذریت کا اور وہ اپنے بار یک دربار یک حیلوں سے سحر کا کام لے رہے ہیں.قسم قسم کی بے نہایت تدبیروں سے اپنے دین کی بأنواع من التدابير التي لا نهاية لها فرغب إليهم كثير من عبدة الأوثان طرف لوگوں کو بھینچ رہے ہیں اور بت پرستوں اور وجهلاء المسلمين المحجوبین، مجوب اور جاہل مسلمانوں سے بہت لوگ اُن کی طرف وأذعن المرتدون لهم وصدقوا راغب ہو گئے ہیں.اور مرتد ان کے گرویدہ ہو کر مفترياتهم، وآمنوا بتمويهاتهم، ان کے افتراؤں کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کی و دخلوا في دينهم الباطل، ونزعوا ملمع باتوں پر ایمان لائے اور ان کے باطل دین میں عن أنفسهم ثياب دين الإسلام داخل ہو گئے ہیں اور اپنے جسم سے اسلام کا پاک جامہ وغشيهم الغي كالسيل المنهمر اتار دیا ہے اور کجروی نے سخت سیلاب کی مانند ان وأدركهم العطب كالوباء العام کو گھیرا ہوا ہے اور ہلاکت نے وباء عام کی طرح ان فهلكوا مع الهالكين.وما بقى قوم في کو لے لیا ہے اور مُردوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہو الهند ولا قبيلة في هذه الديار إلا دخل بعض منهم في دين التنصر إلا گئے ہیں اور ہند میں ایسی کوئی قوم اور قبیلہ نہیں ہے ما شاء الله وكانت هذه بلية عظمى جس میں سے کچھ لوگ الا ما شاء اللہ عیسائی نہ بنے على دين الإسلام ما سمع نظيرها ہوں.اور اسلام پر یہ ایسی عظیم الشان آفت ہے من قبل وما وُجِدَ مثلها في الأولين کہ جس کی کوئی نظیر پہلے زمانہ میں نہیں پائی گئی.
حمامة البشرى ۲۳ اردو ترجمه ولو فصلنا أنواع فتنتهم وأقسام اور اگر ہم ان کے رنگارنگ فتنوں اور عجیب در عجیب مكائدهم لرأيت أمرًا يهولك الاطلاع فریبوں کی تفصیل کریں تو تو ایسا امر دیکھے گا جس پر عليه، ولَـمُلئت خوفًا وحزنًا، اطلاع پا کر تو ڈر جائے اور تو خوف اور غم سے پُر ہو ولبكيت على مصائب المسلمين کر اسلام کے مصائب پر ضرور ہی روئے.ومــا كــان دليلهم على ألوهية ار مسیح کی خدائی پر بجز اس کے ان کے پاس اور کوئی المسيح إلا أنهم زعموا أنه خلق دلیل نہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ مسیح نے اپنی قدرت الخلق بقدرته، وأحيا الأموات سے بہت مخلوق کو پیدا کیا اور اپنی خدائی طاقت سے بألوهيته، وهو حى بجسمه العنصرى مردوں کو زندہ کیا اور وہ آسمان پر مع جسم عنصری على السماء ، قائم بنفسه مُقوّم لغيره، حتى وقائم اور دوسروں کے لئے قیوم ہے اور وہ وهو عين الربّ والربّ عينه، وحمل أحدهما على الآخر حمل المواطأة، بعینہ خدا ہے اور خدا بعینہ وہ ہے، جیسا کہ جب ایک چیز کے دو نام ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ یہ ہے اور وإنما التفاضل في الأمور الاعتبارية یہ وہ ہے اور ان دونوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ أزلي أبدى وما كان من الفانين.ويجوزون الله تنزّلاتِ في مظاهر صرف اعتباری ہے اور وہ ازلی ابدی اور غیر فانی ہے الأكوان، ثم يختصونها بجسم اور وہ قائل ہیں کہ خدا مادی جسموں میں اترتا ہے اور المسيح جهلا وحمقا، وليس عندهم پھر جہالت اور بیوقوفی سے کہتے ہیں کہ یہ نزول مسیح على هذا من دليل مبين.سے مختص ہے اور اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں.ويسبون رسول الله صلى الله اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں عليه وسلم ويشتمون وينحتون فی اور آپ کی عالی شان میں قسم قسم کے بہتان باندھتے شأنه بهتانات، ولا يتكلمون إلا ہیں اور آپ کی نسبت جب کوئی بات کریں بسبيل التعنيف والتهجين والتوهين گے تو تحقیر اور توہین کا طرز اختیار کریں گے
حمامة البشرى ۲۴ اردو ترجمه وألفوا في الرد على الإسلام اور کئی ہزار کتا ہیں اسلام کے رد میں اور رسول اللہ وتوهين رسول اللہ صلی الله علیه صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں تصنیف کیں اور وسلم ألوفا من الكتب وطبعوها چھاپ کر ملکوں میں شائع کیں اور ٹھیک شیطان وأشاعوها في البلاد، وتبعوا آثار لعین کے قدم بقدم چلے ہیں.اور جب ان کا فتنہ الابليس اللعين.فلما بلغت فتنهم اس حد تک پہنچ گیا اور بہت سی مخلوق کو گمراہ کر چکے إلى هذا المبلغ وأضلوا جبلا كثيرًا، تو خدائے رحیم کریم کی رحمت نے چاہا کہ اپنے اقتضت رحمة الله الرّحيم الكريم بندوں کا تدارک کرے اور کافروں کے فریبوں أن يتدارك عباده وينجيهم من سے ان کو نجات دے.تو اپنے بندوں میں سے كيد الكافرين فبعث عبدا من ایک بندہ کو مبعوث فرمایا تا کہ اُس کے دین کی تائید عباده ليؤيد دينه، ويجدد تلقينه، اور تجدید کرے اور اُس کی براہین کو دوبارہ روشن کر وينير براهينه، وينغر بساتينه، دے اور اس کے باغوں کو پانی دے اور اپنے وعدہ وينجز وعده ويُعزّ حبيبه وأمينه، کو پورا کرے.اور اپنے پیارے امین رسول کی ويجعل الأعداء من الخاسرين.عزت ظاہر کرے اور دشمنوں کو خائب و خاسر کر وخصني بعناياته، وأمرنى بالها ماته دے.اور [ اُس نے ] اپنی عنایات سے مجھے وربانى بتفضلاته، وأيدني مخصوص فرمایا اور اپنے الہامات سے مجھے مامور کیا بتأييدات متعالية عن طور العقل اور بڑے بڑے الطاف سے میری پرورش کی اور و آتـانـی مـن لـدنـه العلوم الإلهية فوق العقل تائیدوں سے میری تائید کی اور اپنے والمعارف والنكات وشفعها پاس سے الہی علوم اور معارف اور نکات دئے اور الآيات، ليتعاطى الناس منی کاس اس سے علاوہ بڑے بڑے معجزات اور نشان دیئے البصيرة واليقين.تا کہ لوگ بصیرت اور یقین کا پیالہ مجھ سے پئیں.فيا حسرة على قومى إنهم ماعرفوني میری قوم پر افسوس کہ انہوں نے مجھے نہ پہچانا
حمامة البشرى ۲۵ اردو ترجمه وكذبونی، وسبونی و کفرونی، ولعنونی اور میری تکذیب کی اور مجھے گالیاں دیں اور کافر کہا كما يلعن الكافرون فتصدی کل اور کافروں کی طرح مجھے لعنتی کہا.اور ان کا ہر ایک أحد منهم بالغلظة والفظاظة والغيظ سخت دلی اور یاوہ گوئی اور غیظ و غضب اور حمق سے والغضب والاستيشاط، ودرأنا کھڑا ہوا.اور ہم نے بھلائی سے بُرائی کو دور کیا بالحسنة السيئة، ولكنهم ما تجافوا لیکن وہ احمقانہ حرکت سے باز نہ آئے اور ناصح کی عن الاشتطاط، وما سمعوا قول ناصح، ونسوا وألغوا وعيد الله الذى بات نہ مانی اور اللہ کی اس وعید کو بھلا دیا جو مجرموں أعد لقوم مجرمين.وصدوا خلق الله کے لئے مقرر ہے اور اللہ کے راستہ سے اس کی عن سبيله، وأرادوا أن يطفئوا نور مخلوق کو روکا اور حق کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونکوں الحق بأفواههم، وقاموا فی کل طریق سے بجھانا چاہا اور جس راستہ کا میں نے قصد کیا اس عنیت، فلأجل شرورهم سئمت کی وہ روک بنے اور اُن کی شرارتوں کے سبب سے التكاليف وتعنّيتُ، ومع ذ م ذلك میں تکالیف سے تھک گیا اور باوجود اس کے میں خاطبتهم بألين القول وطريق الرفق دوستانہ طور پر ان کو نرم بات کہتا اور عمدہ وعظ کرتا رہا والموعظة الحسنة، ومهلتهم اور اُن کو مہلت دیتا اور صبر کے ساتھ اُن سے درگزر وعفوت عنهم صبرًا مني، فإنّهم کرتا رہا کیونکہ وہ حق کی چہکاروں اور دقیق معارف لا يرون مجـالـى الحق وظهوراته ولا يعرفون المعارف الدقيقة ومآخذها، اور اُن کے ماخذوں کو نہیں جانتے اور بجز سوئے ولا يقلبون جنوبهم إلا كالنائمين.ہوئے کی طرح اپنی کروٹ نہیں بدلتے.ويجادلونني في أسرار قبل أن اور اسرار میں نظر کرنے اور ان کی حقیقت ينظروا فيها ويُفتشوا حقيقتها، وقد کی تفتیش سے پہلے ہی مجھ سے جھگڑتے ہیں عجزوا أن يحتجوا على بوجه المعقول اور عقلی اور نقلی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہو والمنقول، وسقطوا علی کالجهلاء گئے ہیں اور جاہل بے عقلوں کی طرح مجھ پر والسفهاء ، وأرادوا أن يغلبوا ٹوٹ پڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ گالی گلوچ بالسب والشتم والتكفير والبهتان اور تکفیر اور بہتان سے غالب ہو جاویں.
حمامة البشرى ۲۶ اردو ترجمه وقفوا ما لم يكن لهم به علم جس بات کی حقیقت کو نہیں جانتے اُس کی پیروی وتركوا سبيل المتقين.وما تركوا کرتے اور متقیوں کی راہ ترک کرتے ہیں اور انہوں شيئا من سوء الظنّ وتركِ الأدب نے حق کی مخالفت میں بدظنی اور بے ادبی اور افترا کا والافتراء والقيام بمخالفة الحق کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور سوا جھوٹ کے نہ وما شهدوا إلا بِزُورٍ ، وما جادلوا إلا كوئى شہادت دی ہے اور نہ شیطانی فریبوں کے سواکسی بمكائد الشياطين.فلما اضطرمت اور بات کے ساتھ مقابلہ کیا.جبکہ اُن کے فساد کی نار الفساد بأيديهم، وانطلقت إلى آگ خوب شعلہ زن ہو گئی اور فتنوں کے دھوئیں کی دخان الفتن أرجلهم، سالتُ الله طرف چل پڑے تو پھر میں نے اپنے اللہ سے دعا کی ربي أن يُعينني من لدنه ويؤيدنى من کہ اے میرے رب تو اپنے پاس سے میری مدد کر عنده، وقلتُ ربنا افتح بيننا وبين [ اور میری تائید فرما] اور ہمارے اور ہماری قوم کے قومنا بالحق وأنت خير الفاتحين.درمیان سچا فیصلہ کر اور تو ہی اچھا فیصلہ کرنے والا ہے.فایدنی ربّي بآيات وأنار أمرى پھر تو خدا نے بڑے بڑے نشانوں سے میری تائید کی ببركات وأتم حجتـى عـلى اور بہت سی برکات کے ساتھ میری شان کو روشن کر دیا الطالبين، ولكنهم ما خلوا سبیلی اور طالبوں کے لئے اتمام حجت کر دیا لیکن مخالفوں نے وما كانوا منتهين.وجحدوا وقد میرے راستہ کو خالی نہ کیا اور نہ شرارت سے باز آئے.اور تبيـن الــرشــد مـن الغـى و حصحص ہدایت اور ضلالت میں امتیاز ہونے اور حق کے ظاہر الحق.فأعجبني إنكارهم وقساوة ہونے کے بعد بھی انہوں نے ہدایت سے انکار کیا اور ان قلوبهم، إنهم رأوا علامات صدقی کے انکار اور اس سخت دلی سے میں سخت متعجب ہوا کہ و آیات قبوليتي، وما رجعوا إلى انہوں نے میرے صدق اور قبولیت کے نشانات دیکھ الحق وما كانوا راجعين يا حسرة بھی لئے اور پھر بھی نہ تو حق کی طرف رجوع کیا اور نہ عليهما إنهم لا يفهمون حقيقة رجوع کی امید دلائی.ان پر افسوس کہ نہ تو وہ واقعات الواقعات، ولا يقبلون الآیات کی حقیقت سمجھتے ہیں اور نہ نشانوں کو قبول کرتے ہیں
حمامة البشرى ۲۷ اردو ترجمه بل يحتالون عند رؤيتها ويتعامون بلکہ ان کو دیکھ کر حیلہ بازی کرتے ہیں اور باوجود مع وجود الأبصار، ويفترون على آنکھیں رکھنے کے اندھے بنتے ہیں اور مجھ پر قسم قسم أشياء ويريدون أن يُطفئوانور کے افترا کرتے ہیں اور نور اسلام کو بجھانا چاہتے الإسلام، وصاروا ظهيرا للكافرين ہیں اور کفار کے مددگار بن گئے ہیں.اور حق تو وكان الحق واضحًا صريحًا مشرقا آفتاب کی مانند چمک رہا تھا لیکن ان کو عزت کے كالشمس، ولكن أخذتهم العزة خیال اور حسد اور بخل نے پکڑ لیا پس اللہ نے والحسد والبخل، فطبع الله على غشاوة ، فما استطاعوا أن يروا (اس کی سزا میں ) ان کے دلوں پر مہر کر دی اور قلوبهم، وجعل على أبصارهم ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا پس بیناؤں کی طرح حق کے دیکھنے کی طاقت ان سے چھن گئی الحقيقة كالمبصرين.إنهم شابهوا.وہ یہود کی مانند ہو گئے اور اعمال وافعال کی اور اليهود ونزلوا منازلهم بتوارد الأعمال والأفعال والنيات نیتوں کی مشابہت ہے ان کے مرتبہ پر جا والخواطر، ووقع هذا التوارد كما ٹھہرے اور یہ ایسی مشابہت ہے جیسے کہ ایک قدم يقع الحافر على الحافر، وما انتهوا دوسرے قدم پر واقع ہوتا ہے اور ہرگز باز نہ آئے بل يزيدون في كل حين.بلکہ وقتاً فوقتاً بڑھتے گئے.والذين مَنَّ الله عليهم بالهداية، اور جن لوگوں کو خدا نے ہدایت کی اور صدق و وأراهم نهج الصدق والصواب، صواب کا راستہ بتایا وہ حسن ظن سے مجھے دیکھتے فأولئك الذين ينظرون إلى بحسن ہیں اور نور قلب سے میرے بارہ میں فکر کرتے الظن، ويفكرون في أمرى بنور ہیں تو اُن کا نور میرے صدق کے حقائق کی ان القلب، فينبتهم نورهم بحقائق کو خبر دیتا ہے اور جو میں اُن کو کہتا ہوں وہ صدقي، ويقبلون ما أقول لهم، ولا قبول کرتے ہیں اور اُن بیوقوف جاہلوں سے يشابهون تلك السفهاء الجهلاء ، ويسلكون مسلك الأتقياء، مشابہ نہیں ہیں اور وہ متقیوں کی راہ چلتے ہیں
حمامة البشرى ۲۸ اردو ترجمه ويتبعون سبل السعداء ، ويأخذون اور سعیدوں کا اتباع کرتے ہیں اور صلحاء کا طریق أدب الصلحاء ، وقد أنزل الله اختیار کرتے ہیں اور خدا نے اپنے پاس سے اُن پر عليهم سكينة من عنده وجعلهم من سكينت نازل فرما کر ان کو یقین والوں سے بنا دیا المستيقنين.يتقون الله ويخافون ہے وہ تقویٰ کرتے اور خدا کے حضور سے ڈرتے مـقـامـه وليسوا كالذي يذر الآخرة ہیں اور اُن کی طرح نہیں ہیں جو آخرت کو چھوڑتے ويلغيها، ويحب العاجلة ويبتغيها، اور دنیا کو پسند کرتے اور چاہتے ہیں.اور صلحاء کے ويظلم الفئة الصالحة ويؤذيها گروه پر ظلم کرتے اور ان کو ایذا دیتے ہیں اور زمین ويسعى في الأرض ليفسد فيها ، میں فساد پھیلاتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے اور ويُضل أهلها ويُكفّر قومًا مؤمنين.مومنوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں.وإن أحبائى لمتقون جميعهم، ولكن اور میرے سب دوست متقی ہیں اور لیکن ان أقواهم بصيرةً وأكثرهم علمًا، وأفضلهم سب سے قوی بصیرت اور کثیر العلم اور زیادہ تر رفقا وحلمًا، وأكملهم إيمانا وسلما، زم اور علیم اور اکمل الایمان والا سلام اور سخت وأشدهم حبًّا ومعرفةً وخشيةً ويقينا محبت اور معرفت اور خشیت اور یقین اور ثبات وثباتا، رجل مبارك كريم تقى، عالم صالح فقيه محدث جلیل القدر والا ایک مبارک شخص بزرگ متقی عالم صالح فقیه حکیم حاذق عظيم الشأن، حاج اور جلیل القدر محدث اور عظیم الشان حاذق الحرمين حافظ القرآن القرشي حکیم حاجی الحرمین حافظ القرآن قوم کا قوما والفاروقی نسبًا، واسمه قریشی اور فاروقی نسب کا ہے جس کا نام نامی مع الشريف مع لقبه اللطيف: المولوى لقب گرامی مولوی حکیم نورالدین بھیروی ہے الحكيم نور الدين البهيروى ، اللہ تعالیٰ اس کو دین و دنیا میں بڑا اجر دے.اور أجزل الله مثوبته في الدنيا والدين.وهو أول رجال بايعوني صدقا صدق و صفا اور اخلاص اور محبت اور وفاداری وصفاء وإخلاصا ومحبة ووفاء میں میرے سب مریدوں سے وہ اول نمبر پر ہے
حمامة البشرى ۲۹ اردو ترجمه وهو رجل عجيب فی الانقطاع اور غیر اللہ سے انقطاع میں اور ایثار و خدمات دین والإيثار وخدمات الدين أنفق مالا میں وہ عجیب شخص ہے اس نے اعلاء کلمتہ اللہ کے كثيرا لإعلاء كلمة الإسلام بوجوه لئے مختلف وجوہات سے بہت مال خرچ کیا ہے اور شتي، وإني وجدته من المخلصين میں نے اس کو ان مخلصین سے پایا ہے جو ہر ایک الذين يؤثرون رضى الله سبحانه رضا پر اور ازواج اور اولاد پر اللہ کی رضا کو مقدم على كل رضاء ونساء وبنات رکھتے ہیں اور ہمیشہ اُس کی رضا چاہتے ہیں اور اُس وبنين.ووجدته من قوم يبتغون مرضاة الله ويجتهدون لرضوانه کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے مال اور جانیں ببذل أموالهم وأنفسهم، ويعيشون صرف کرتے ہیں اور ہر حال میں شکر گزاری سے في كل حال شاكرين.وإنه رجل زندگی بسر کرتے ہیں.اور وہ شخص رقیق القلب رقيق القلب نقی الطبع حليم كريم صاف طبع حلیم کریم اور جامع الخیرات بدن کے تعہد جامع لمآثر الخير كثير الانسلاخ اور اُس کی لذات سے بہت دور ہے بھلائی اور نیکی عن البدن ولذاته.لا يفوته موقع من كا موقع اس کے ہاتھ سے کبھی فوت نہیں ہوتا اور وہ مواقع البر، ولا موضع من مواضع چاہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین الحسنات، ويُحبّ أن يَسكُب دمه کے اعلا اور تائید میں پانی کی طرح اپنا خون بہا كماء في إعلاء دين رسول الله صلى دے اور اپنی جان کو بھی خاتم النبیین کی راہ میں الله عليه وسلم، ويتمنى أن تذهب صرف کرے.اور ہر ایک بھلائی کے پیچھے چلتے نفسه في تأیید سبیل خاتم النبيين، ويـقـفـو اثر كل خير، وينغمس فی ہیں اور مفسدوں کی بیخ کنی کے واسطے ہر ایک كل بحر لإجاحة فتن المتمردين.سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں.فأشكر الله على ما أعطانى كمثل هذا میں اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجہ الصديق الصدوق، الفاضل الجليل الباقر کا صدیق دیا جور است باز اور جلیل القدر فاضل ہے اور دقيق النظر عميق الفکر، المجاهد الله باریک بین اور نکتہ رس، اللہ کے لئے مجاہدہ کرنے والا
حمامة البشرى اردو ترجمه والمحب في الله بكمال إخلاص اور کمال اخلاص سے اُس کے لئے ایسی اعلیٰ درجہ کی ما سبقه أحد من المحبين وأشكر محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی محب اُس سے سبقت نہیں الله على ما أعطانى جماعة أخرى لے گیا.اور میں اللہ کا اس پر بھی شکر کرتا ہوں کہ من الأصدقاء الأتقياء من العلماء اُس نے اور راستبازوں اور متقیوں کی بھی مجھے والصلحاء العرفاء ، الذين رفعت جماعت دی ہے جو عالم ، صالح اور عارف ہیں کہ اُن الأستار عن عيونهم، ومُلئت کی آنکھوں سے حجاب اٹھائے گئے اور ان کے دلوں الصدق في قلوبهم ينظرون الحق میں سچائی بھر دی گئی ہے، حق کو دیکھنے اور پہچاننے ويعرفونه، ويسعون فی سبیل الله والے ہیں اور اللہ کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اور ولا يمشون كالعمين.وقد خُصُّوا اندھوں کی طرح نہیں چلتے اور حق کے افاضہ سے بإفاضة تهتان الحق و وابل العرفان معرفت کی بارش کے ساتھ مخصوص کئے گئے ہیں اور ورضعوا لدى لبانه، وأشربوا أن كو معرفت کا دودھ پلایا گیا ہے اور اُن کے دلوں في قلوبهم وجه الله وطرق میں اللہ کی رضا اور اس کی مغفرت کی راہوں کی محبت غفرانه، وشرح الله صدورهم پلائی گئی ہے اور ان کا شرح صدر کیا گیا ہے اور ان وفتح أعينهم و آذانهم، وسقاهم کی آنکھیں اور کان کھولے گئے ہیں اور ان کو وہ پیالہ پلایا گیا ہے جو عارفوں کو پلایا جاتا ہے.فمنهم الأخ المكرم العالم اور انہیں میں میرا ایک مکرم بھائی ہے جو بڑا عالم المحدّث الفقيه الجليل السيد محدث فقیہ ہے جن کا نام نامی سید مولوی محمد احسن المولوى محمد أَحْسَن ، كان الله ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک مقام میں اس کے ساتھ ہو اور كأس العارفين.معه في كل موطن، ونصره في ہر میدان میں اُس کی نصرت کرے.وہ مرد صالح الميادين.إنه رجل صالح تقى غيور للإسلام، هدم هيكل جهالة متقی اسلام کے لئے غیور ہے.اس نے اپنی تصانیف العلماء المخالفين بتأليفات لطيفة | سے مخالف علماء کی جہالت کی عمارت کو گرا دیا ہے
حمامة البشرى ۳۱ اردو ترجمه وأطفأ نارهم وجاء بنور مبین اور ان کی آگ کو بجھا دیا ہے اور کھلا نور لایا ہے.اور وأطفأ الفتن المتطائرة بماء معین فتنوں کے اڑتے ہوئے شعلوں کو صاف چشمہ کے ورزقه الله ذخيرة كثيرة من علوم پانی سے بجھا دیا ہے.اور خدا نے علوم دین اور الدين والآثار النبوية، وله بسطة احادیث نبویہ کا اس کو بڑا خزانہ دیا ہے اور احادیث کے عجيبة في فن الأحاديث وتنقيدها کھرا کرنے پر کھنے اور بعض کو بعض سے امتیاز دینے وتمييز بعضها من بعض، میں ان کو عجیب مہارت ہے.اور میدان مقابلہ والمخالف لا يمكث في ميدانه میں چشم زدن میں دشمن اُس سے بھاگ جاتا ہے طرفة عين، وهم مع تحريكات غيظهم وغضبهم وكثرة إمعانهم وخوضهم وشدة حرصهم على المناضلة يفرون منه كفرار الحمير ويعيش كالمساكين.اور باوجود یکہ مخالفوں کے غیظ و غضب کی تحریکات بھی بہت ہوتی ہیں اور مقابلہ پر سخت جھکے ہوئے اور حریص ہوتے ہیں لیکن پھر اس سے ایسے بھاگتے ہیں من الأسد، وإن هذا إلا تأييد الله جیسا کہ شیر سے گدھا اور یہ بجز الہی تائید کے نہیں جو الذي هو مؤيد الصادقين ومع ہمیشہ صادقوں کے شامل حال ہوتی ہے، اور باوجودان ذلك إنه زاهد متق كثير البكاء صفات کے وہ زاہد متقی اور اللہ کے خوف سے بہت من خوف الله يخاف مقام ربه رونے والا ہے اور خدا کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور مسکینوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.هذا ما أردت أن أقص عليك قليلا یہ وہ ہے جو میں نے اپنے احباب کے اخلاق کا کچھ من شمائل أحبائي، وما هذا إلا فضل حصہ آپ کے آگے بیان کرنا چاہا ہے اور یہ محض میرے ربي ورحمته.إنه كان بي حَفِيًّا من رب کا فضل اور اس کی رحمت ہے وہ بچپن اور جوانی كنتُ صغيرا ومذ أيفَعتُ، و تولانی میں مجھ پر مہربان رہا اور ہمیشہ میرا متولی رہا اور ہر وكفلني في كل أمرى.وكذلك ایک کام میں متکفل ہوا ہے اور اسی طرح اُس نے صرف إلى نفرا من العرب العرباء ، خالص عربوں سے چند اشخاص میرے پاس بھیج دیئے
حمامة البشرى ۳۲ اردو ترجمه فبايعوني بالصدق والصفاء.ورأيت جنہوں نے راستی اور صفائی سے میری بیعت کی فيهم نور الإخلاص، وسمة الصدق، اور میں اُن میں اخلاص کا نور اور سچائی کے نشان وحقيقة جامعة لأنواع السعادة، اور سعادت کی اقسام کے لئے ایک حقیقت جامعہ وكانوا متصفين بحسن المعرفة، بل بعضهم كانوا فائضين في العلم ملاحظہ کرتا ہوں اور وہ حسن معرفت سے موصوف تھے بلکہ بعض اُن میں سے علم وادب میں فاضل والأدب، وفي القوم من المشهورين.وألف بعضهم رسالة فی تصدیقی اور قوم میں مشہور تھے.اور بعض نے میری وتأييدى، ورَدَّ على الذين كانوا من تصديق و تائید میں رسالہ لکھا اور میرے منکروں المنكرين.ورأيت أنهم يميلون إلى كى تردید کی اور میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے محبت کی بالتودد والتحبب ولا يُشابهون بعض اور پیار رکھتے ہیں اور وہ [ بعض] ہندی علماء کی علماء الهند، ولا يُصرون على طرح نہیں ہیں اور سمجھنے کے بعد انکار پر اصرار الإنكار بعدما فهموا، فهذا هو السبب الذي حملني على تأليف نہیں کرتے.پس یہی سبب ہے کہ جس نے عربی بعض الرسائل العربية، وحشنى على رسالوں کی تالیف پر مجھے آمادہ کیا اور ان سعید دعوة تلك الشرفاء والمسعودين.شریفوں کی دعوت کرنے پر مجھے آمادہ کیا.وكنت أريد أن أرسل إليكم تلك اور میں چاہتا ہوں کہ یہ رسالے آپ لوگوں کے الرسائل، ولكني سمعت أن بعض عَمَلة پاس بھیجوں لیکن میں نے سنا ہے کہ سلطان کے السلطان يفتشون فى الطريق ويقرأون بعض ملازم راہ میں تفتیش کرتے اور کتابوں کو الكتب، ويحرفونها بادنى ظن پڑھتے ہیں اور ادنی گمان سے واپس کرتے ہیں.تلك رسالة المسماة "إيقاظ الناس" وہ ایقاظ الناس“ نامی ایک رسالہ ہے جس کو میرے فی سبیل اللہ ألـفـهـا حبـي فـي الله أول المبايعين إخلاصا دوست نے تصنیف کیا ہے جو اخلاص اور صدق میں بلا دشام سے وصدقا من بلاد الشام.السيد العالم پہلا بیعت کرنے والا ہے اور وہ مولوی سید محمد سعیدی الطرابلسی الشامی التقى.محمد سعيدي الطرابلسي الشامي النشار الحميداني، وقد ألحقتها بمكتوبى النشار الحمیدانی ہے میں نے اس رسالہ کو اپنے اس خط سے ملحق کر دیا هذا لينتفع بها كل فهيم من الناظرين.منه ہے تا کہ ہر ایک فہیم ناظر اس سے نفع اٹھائے.منہ
حمامة البشرى ۳۳ اردو ترجمه فأيها الأعزة! أنبتوني كيف أرسل اب آپ بتائیں کہ کس طور سے روانہ کروں اور وبأى تدبير تصل إليكم، وأنا كس تدبیر سے تمہارے پاس پہنچ سکتی ہیں اور أجتهد في مكاني لهذا المقصد میں یہاں بہت کوشش کرتا ہوں اور تجر بہ والوں وأشاور المجربين.وإني معكم يا سے مشورہ کرتا رہتا ہوں اور اے عرب کے شریفو ! نُجباء العرب بالقلب والروح، وإن میں دل و جان سے تمہارے ساتھ ہوں اور قد بشرنی فی العرب، میرے رب نے عرب کی نسبت مجھے بشارت وألهمنى أن أمونهم وأُريهم دى اور الہام کیا ہے کہ میں ان کی خبر گیری طريقهم وأصلح لهم شؤونهم، کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور ان کا حال وستجدونى فى هذا الأمر إن شاء درست کروں اور انشاء اللہ تم مجھے اس بارہ میں کامیاب پاؤ گے.الله من الفائزين.أيها الأعزة إن الرب تبارك وتعالى اے میرے پیارے دوستو تائید اسلام [ اور قد تجلى على لتأييد الإسلام و تجدیدہ اس کی تجدید] کے لئے خدا تعالیٰ مجھ پر خاص بأخص التجليات، ومنح على وابل تجلی سے چمکا ہے اور برکات کی بارشیں مجھ پر البركات، وأنعم على بأنواع الإنعامات برسائیں اور رنگا رنگ کے انعام مجھ پر کئے ہیں وبشرني في وقت عبوس للإسلام، اور اسلام کی تنگی کے وقت اور امت خیر الانام وعَيْش بؤس لامة خير الأنام کے تنگ عیش کے زمانہ میں خدا نے مجھے بہت بالتفضلات والفتوحات والتأييدات سے فضلوں اور فتوحات اور تائیدات کی بشارتیں فصبوتُ إلى إشراككم.يا مشعر دی ہیں.پس آپ لوگوں کو ان نعمتوں میں العرب.في هذه النعم، وكنتُ لهذا شریک کرنے کا مجھے بہت شوق پیدا ہوا اور اب اليوم من المتشوقين.فهل ترغبون تک مجھے یہی شوق ہے.تو کیا تمہیں بھی خواہش أن تلحقوا بي لله رب العالمين؟ ہے کہ اللہ کے لئے میرے ساتھ مل جاؤ.
حمامة البشرى ۳۴ اردو ترجمه وإن بعض علماء هذه الديار لم اور اس ملک کے کچھ علماء ہمیشہ میری آفتوں کے يزالوا يبتغون بی الغوائل، ويريدون طالب اور ایذا رسانی کے در پے ہیں اور میرے لئے بي السوء ويتربصون على الدوائر ، گردش ایام کے منتظر اور میری لغزشوں کے طلبگار ہیں ويتطلبون لى العثرات، ويكتبون اور تکفیر کے فتوے تیار کرتے رہتے ہیں اور میں اپنے فتاوى التكفيرات.وكنت أقول دل میں کہتا تھا اے اللہ آسمان وزمین کے پیدا کرنے في نفسي: اللهم فاطر السماوات والے غیب اور ظاہر کے جاننے والے اپنے بندوں والأرض، عالم الغيب والشهادة کے اختلافوں کا تو ہی فیصلہ کرنے والا ہے.اس پر خدا أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا نے بشارت دیتے ہوئے اپنے فضل سے مجھے الہام فيه يختلفون.فالهمنی ربی مبشِّرًا سے فرمایا کہ یقینا تو منصور ہے اور یہ بھی فرمایا اے بفضل من عنده وقال : " إنك من احمد اللہ نے تجھ میں برکت بھر دی ہے جب تو نے پھینکا المنصورين.“ وقال: " يَا أَحْمَدُ تھا تو تُو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا تا کہ تو اس بَارَكَ اللهُ فِيكَ، مَا رَمَيْتَ إِذْ قوم کو ڈرائے جن کے بڑوں کو نہیں ڈرایا گیا ] إِذْ رميتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى لِتُنْذِرَ قَوْمًا اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جاوے.اور فرمایا کہہ دے مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِیل کہ اگر یہ میرا افترا ہے تو اس کا بُرا بدلہ مجھے دیا جائے المجرمين.“ وقال : قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ گا.خداوہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین فَعَلَيَّ إِجْرَامِي.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ حق کے ساتھ اس لئے بھیجا تا کہ سب دینوں پر بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى غالب کر دے اور اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور الدِّينِ كُلِّهِ.لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ تیری طرف سے ہم خود ٹھٹھا کرنے والوں کے لئے وَإِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِين.وقال : کافی ہیں اور فرمایا تو اپنے رب کی طرف سے اعلیٰ درجہ أَنْتَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَّبِّكَ رَحْمَةً مِنْ کی شہادت کے ساتھ ہے [اس کی طرف سے رحمت عِندِهِ وَمَا أَنْتَ بِفَضْلِهِ مِن مَجَانِينَ کے طور پر ] اور تو اس کے فضل سے مجنون نہیں ہے.
حمامة البشرى ۳۵ اردو ترجمه " وَيُخَوِّفُونَكَ مِنْ دُونِهِ.إِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا.اور اللہ کے سوا تجھے اوروں سے ڈراتے ہیں ہم خود سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ، يَحْمَدُكَ اللهُ تیری نگرانی کرنے والے ہیں میں نے تیرا نام مِنْ عَرْشِهِ.وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ متوکل رکھا ہے اللہ اپنے عرش سے تیری تعریف وَلَا النَّصَارَى، وَيَمُكُرُونَ وَيَمْكُرُ کرتا ہے.اور یہود و نصاریٰ تجھ سے کبھی راضی نہ الله والله خَيْرُ الْمَاكِرِينَ “ فادخل ہوں گے اور تدبیریں کرتے رہیں گے اور اللہ بھی الله سبحانه في لفظ اليهود معشر علماء تدبیر کرے گا اور تدبیر کرنے میں اللہ سب سے الإسلام الذين تشابه الأمر عليهم بڑھ چڑھ کر ہے.پس خدا نے یہود کے لفظ میں كاليهود، وتشابهت القلوب و العادات ان علماء اسلام کو داخل فرمایا ہے کہ جن پر یہود کی والجذبات والكلمات من نوع المكائد طرح یہ امر مشتبہ ہو گیا ہے اور جن کے دل اور والبهتانات والافتراءات، وإن تلك عادات و جذبات اور فریب و بہتان اور افترا یہود العلماء قد أثبتوا هذا التشابه سے مشابہ ہو گئے ہیں اور ان علماء نے دیکھنے والوں على النظارة بأقوالهم وأعمالهم، پر اپنی مشابہت اپنی باتوں سے ثابت کی اور اعمال وانصرافهم واعتسافهم، وفرارهم من سے اور حق سے روگردانی کرنے سے اور تعصب ديانة الإسلام، ووصية خير الأنام اور بد دیانتی سے اور خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم صلى الله عليه و سلم وكونهم من کی وصیت سے فرار کرنے سے اور حدود سے تجاوز کرنے سے.المسرفين العادين.وكنت أظن بعد هذه التسمية أن اور میں اس نام کے رکھنے کے بعد بھی یہی خیال کرتا المسيح الموعود خارج، وما كنتُ تھا کہ مسیح موعود آنے والا ہے اور کبھی یہ گمان نہ کرتا تھا کہ وہ میں ہوں یہاں تک کہ خدا نے پوشیدہ بھید کو.أظن أنه أنا ، حتى ظهر السرّ المخفي الذي أخفاه الله على كثير من عباده ظاہر کر دیا جس کو ابتلا کے طور پر بہتوں پر پوشیدہ کر دیا ابتلاء من عنده، وسمــانــي ربـي عیسی ابن مريم في إلهام من عنده، تھا اور میرا نام اپنے الہام میں عیسی بن مریم رکھ دیا
حمامة البشرى ۳۶ { اردو ترجمه وقال: " يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اور فرمایا اے عیسی میں تجھے فوت کرنے والا ہوں وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور منکروں کے كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوُق بہتانوں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، إِنَّا متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب جَعَلْنَاكَ عِيسَى ابْن مَرْيَمَ وأَنْتَ رکھنے والا ہوں.ہم نے تجھ کو عیسی بن مریم بنا دیا تو مِنِّي بِمَنْزِلَةٍ لا يَعْلَمُهَا الْخَلْقُ وَأَنْتَ مجھ سے اُس مرتبہ پر ہے جس کو لوگ نہیں جانتے مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدِى، اور تو مجھ سے میری توحید اور یگانگی کی مانند ہے اور وَإِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ.“ اب تو ہمارے پاس مکین وا مین ہے.فهذا هو الدعوى الذي يجادلني پس یہ وہ دعوی ہے کہ جس میں میری قوم مجھ سے قومى فيه ويحسبوننی من جھگڑ رہی ہے اور مجھے مرتد جانتی ہے.اور پکار کر المرتدين.وتكلموا جهارًا، وما باتیں کرنے لگے اور حق کے ملہم کی کچھ عزت نہ کی رجوا لِمُلهِم الحق وقارًا، وقالوا إنه اور کہنے لگے کہ وہ کافر اور کذاب دجال ہے اور كافر كذاب دجال، وكادوا اگر حکام کی تلوار کا خوف نہ ہوتا تو مجھے قتل کر دیتے يقتلونني لولا خوف سيف الحكام اور ہر ایک چھوٹے بڑے کو میری اور میرے وحقوا كل صغير وكبير على احباب کی ایذا پر آمادہ کرتے ہیں اور ظالموں کی إيذائي وإيذاء أصدقائي، والله يعلم تطاول المعتدين.وبعزة الله دست درازی کو خدا خوب جانتا ہے.اور اللہ کی عزت و جلال کی مجھے قسم ہے کہ میں مومن مسلمان وجلاله ، إني مؤمن مسلم، وأؤمن بالله وكتبه ورسله وملائكته ہوں اللہ پر اور اُس کی کتابوں اور رسولوں اور ملائکہ والبعث بعد الموت، وبأن رسولنا پر اور موت کے بعد مبعوث ہونے پر ایمان لاتا محمد المصطفی صلی اللہ علیہ ہوں اور اس پر بھی ایمان لاتا ہوں کہ آنحضرت صلی پر و سلم أفضل الرسل وخاتم النبيين الله عليه وسلم افضل الرسل اور خاتم النبین ہیں.
حمامة البشرى ۳۷ اردو ترجمه وإن هؤلاء قد افتروا علی، وقالوا اور یہ لوگ افترا سے کہتے ہیں کہ میں نبوت کا مدعی إن هذا الرجل يدعى أنه نبى ويقول ہوں اور ابن مریم کے کے حق میں حقارت و استخفاف في شأن عيسى ابن مریم کلمات کے کلمات بولتا ہوں اور یہ بھی کہ میں کہتا ہوں کہ الاستخفاف، ويقول إنه تُوُفِّيَ ودُفن ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور زمین شام میں مدفون في أرض الشام، ولا يؤمن بمعجزاته ہے اور یہ کہ میں اُس کے معجزات پر اور خالق طیور ولا يؤمن بأنه خالق الطيور ومحيى اور مُردوں کو زندہ کرنے والا ہونے پر اور عالم الأموات وعالم الغيب وحى قائم إلى الآن في السماء ، ولا يؤمن بأن الله قد خصه وأُمَّه بالمعصومية التامة من مس الشيطان ومِن كل ما الغیب اور آسمان میں اب تک حتی و قائم ہونے پر ایمان نہیں رکھتا اور یہ بھی کہ میں اس پر ایمان نہیں لاتا کہ خاص مسیح اور اُس کی والدہ ہی کو مس شیطان هو من لوازم المس، ولا يُقر بأنهما اور اُس کے لوازم سے معصومیت تامہ خدا نے دی مخصوصان متفردان فی العصمة ہے اور میں اس کا اقرار نہیں کرتا کہ وہ دونوں اس المذكورة لا شريك لهما فيها أحد معصومیت میں متفرد ہیں اور دوسرا کوئی رسول یا نبی اس میں ان کا شریک نہیں ہے.من الرسل والنبيين.لحاشية وقالوا إن في حديث مسلم اور کہتے ہیں کہ مسلم وغیرہ صحاح کی حدیث میں عیسی اور ۸ وغيره من الصحاح.قد جاء ذكر عيسى دجال معہود کا کچھ ذکر ایسے طور پر ہوا ہے کہ جس سے صاف عليه السلام وذكر الدجال المعهود بنحو ظاہر ہوتا ہے کہ عیسی بن مریم قتل دجال کے واسطے اترے گا اور يظهر منه أن عيسى بن مريم ينزل لقتل دجال معہود ایک شخص یک چشم ہے جس کی دہنی آنکھ پھولے الدجال، والدجّالُ المعهود رجل أعورُ عين اليمني كأن عينه عنبة طافية، ومكتوب ہوئے انگور کے دانہ کی طرح ہے اور اس کی پیشانی پرک فر لکھا ہوا ہو گا اور اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہوں گی.بين عينيه ك ف ر ، وإنه يجيء معه بمثل پس جس کو وہ جنت کہے گا فی الحقیقت وہ دوزخ ہوگی الجنة والنار، فالتي يقول إنها الجنة هي النار، وهو ممسوح العين عليها ظفرة غليظة، اور وہ مٹی ہوئی آنکھ والا ہے اس پر موٹا سا ناخنہ ہو گا ناخنہ : آنکھ کی ایک بیماری جس میں سفیدی مائل گوشت آنکھ کے کوئے میں پیدا ہو جاتا ہے.(جامع اللغات شائع کردہ اردو سائنس بورڈ لاہور )
69 حمامة البشرى ۳۸ اردو ترجمه ويقولون إن هذا الرجل لا يؤمن اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نہ ملائکہ پر ایمان رکھتا ہے بالملائكة ونزولهم وصعودهم، اور نہ ان کے نزول وصعود پر اور اس کا یہ عقیدہ ہے کہ ويحسب الشمس والقمر والنجوم أجسام الملائكة، ولا يعتقد بأن شمس و قمر اور ستارے ملائکہ کے اجسام ہیں اور نہ یہ محمدا صلى الله عليه وسلم خاتم اعتقاد رکھتا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سب رسولوں کے الأنبياء ومنتهى المرسلين، لا نبى منتہی اور خاتم ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا.بعده وهو خاتم النبيين.فهذه كلها پس یہ سب کچھ ان کے افترا اور تحریفات ہیں.میرا مفتريات وتحریفات، سبحان ربی خدا پاک ہے.میں نے کبھی ایسی بات نہیں کہی [ یہ محض ماتكلمت مثل هذا، إن هو إلا كذب والله يعلم أنهم من الدجالين جھوٹ ہے].اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ دجال ہیں بقية الحاشية - وإنه شاب قطط خارج بقیہ حاشیہ.اور وہ جوان اور گھونگریالے بالوں والا ہے وہ خلة بين الشام والعراق، فعاث يمينا ریت کے ٹیلہ سے نکلے گا جو شام و عراق کے درمیان ہے وعاث شمالا، ولبته فی الأرض أربعون اور دائیں بائیں پھرے گا اور وہ زمین میں چالیس دن ٹھہرے يوما..يوم كسنة ويوم كشهر ويوم گا ایک دن سال کے برابر ہوگا اور ایک دن مہینہ کے برابر كجمعة، وسائر أيامه كأيام أهل الأرض، اور ایک دن جمعہ کے اور باقی دن معمولی دنوں کے برابر وإسراعه فى الأرض كغيث استدبرتہ ہوں گے.اور زمین کے اندر وہ ایسا تیز پھرے گا جیسا بادل الريحُ ويَأْمُرُ السَّمَاء فَتُمُطِرَ وَالْأَرْضَ کہ تیز ہوا اُس کو چلاتی ہے اور آسمان اُس کے حکم سے مینہ فتنبت، وتتبعه كنوز الأرض كيعاسيب برسائے گا اور زمین بھی اُس کے حکم سے اگائے گی اور شہد کی النخل، ويَدْعُو رَجُلا مُمْتَلِئًا شَبَابًا، لکھیوں کی طرح زمین کے خزانے اس کے پیچھے چلیں گے فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتين رمية اور وہ ایک پورے جو ان کو بلائے گا اور تلوار سے اُس کے دو الغرض، ثُمّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ ويَتَهَلَّلُ وَجُهُهُ ٹکڑے کر کے اُن کو تیر کی مار پر پھینک دے گا پھر اُس کو يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَالِكَ إِذْ بعث بلائے گا اور وہ خوش خوش ہنستا ہوا آ جائے گا.اسی اثنا میں الله المسيح ابن مَرْيَمَ، فينزل عِندَ المَنَارَةِ مسیح ابن مریم مبعوث ہوکر دمشق کے شرقی سفید منارہ کے البَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُ ودَتَيْنِ قریب اترے گا اور اُس نے دوز رد چادریں اوڑھی ہوں گی وَاضِعًا كفيـه عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، اور اپنی دونوں ہتھیلیاں دو ملائکہ کے بازوؤں پر رکھی ہوں گی لے سہؤا جمعہ کو جمعہ کے معنوں میں لیا گیا ہے، جبکہ یہاں ”یوم کجمعہ ، ایک دن ہفتہ کے برابر ہے، صحیح تر جمہ ہے.لغت عرب میں جُمُعَةٌ : أَسبوع یعنی ہفتہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.(ناشر)
حمامة البشرى ۳۹ اردو ترجمه ہو وقد سقطوا على وما أحاطوا اور وہ ایسے ہی مجھ پر ٹوٹ پڑے ہیں حالانکہ میری معارف أقوالى، وما فهموا حقائق باتوں کے معارف و حقائق کو نہیں سمجھا اور نہ اُن مقالي، وما بلغوا مِعشار ما قلنا، کے مطلب تک پہنچے ہیں.اور انہوں نے خیانت وخانــوا وحرّفوا البیان، ونحتوا کی ہے اور بیان کو بدل کر بہتان لگائے ہیں اور البهتان، ووقعوا في حيص بيص، وظنوا ادھر اُدھر کی باتوں میں پڑ گئے ہیں اور بدگمانی ظن السوء ، فتعسًا لتلك الظانين کرتے ہیں پس ہلاکت ہو ان بدظنوں کے لئے.بقية الحاشية - إِذَا طَأْطَا رَأْسَهُ قَطَرَ وإِذَا بقیه حاشیہ جب سر جھکائے گا تو قطرے گریں گے اور رَفَعَهُ تَحَدّرَ مِنْهُ مِثلُ جُمان كاللُّؤْلُو ، فلا جب اٹھائے گا تو موتیوں کی مانند قطرے نیچے گرتے يحل لكافر يَجِدُ مِن رِيحَ نَفْسِهِ إِلَّا مَاتَ، وئے معلوم ہوں گے پس جس کا فر کو اس کا سانس پہنچے گا ونَفَسُه ينتهى حيث ينتهى طرفه، فَيَطْلُبُهُ وہ مر جائے گا اور اس کا سانس حد بھر تک پہنچے گا پھر وہ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدَ، فَيَقْتُلَهُ.ثم يأتى دجال کی تلاش کرتا ہوا اس کو باب لد میں جاقتل کرے گا.الى عيسى قوم قد عصمهم الله منه، فيمسح پھر عیسی کے پاس وہ لوگ آئیں گے کہ جن کو خدا نے بچایا عن وجوههم، ويحدثهم بدرجاتهم في ہوگا اور وہ اُن کے منہ پونچھیں گے اور اُن کو جنت کے الجنة.فبينما هو كذلك إذ أوحى الله درجات کی خبر دیں گے پھر اسی اثنا میں خدا تعالیٰ عیسی پر [إلى] عيسى أني قد أخرجتُ عبادا لي وحی بھیجے گا کہ میں نے ایسے بندے نکالے ہیں جن سے لا يدانِ لأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ، فَحَرِّزُ عبادى إلى لڑنے کی کسی کو طاقت نہیں میرے بندوں کو طور پر لیجا کر الطور.وَيَبْعَثُ اللَّه يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ محفوظ رکھ اور خدا یا جوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر ایک بلندی وَهُمْ مِنْ كُلّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَيَمُرّ أوائلهم على بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةِ، فَيَشْرَبُونَ مَا سے اتریں گے پھر اُن کی پہلی جماعت بحیرہ طبریہ کے فيها، ويمر آخِرُهُمْ فَيَقُولُ لَقَدْ كَانَ پاس سے گزرے گی تو سب پانی پی جائے گی اور جب پچھلی بِهَذِهِ مَرَةً مَاءً ، ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنتَهُوا جماعت وہاں [سے] گزرے گی تو کہے گی کہ یہاں کبھی إلَى جَبَل الخمر ، وهو جبل بَيْتِ پانی ہوا کرتا تھا پھر وہ جبل خمر تک پہنچ جائیں گے اور وہ بیت المَقْدِسِ، فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِی المقدس میں ایک پہاڑ ہے پھر وہ کہیں گے کہ زمین والوں الْأَرْضِ هَلُمَّ فَلْتَقْتُلُ مَنْ فِي السَّمَاءِ کو تو ہم نے مار دیا ہے آؤ اب ہم آسمان والوں کو ماریں
حمامة البشرى اردو ترجمه كان خالق الطيور وكان خلقه كخلق والله يعلم أني ما قلت إلا ما قال الله تعالی اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے کبھی عمر بھر میں ولم أقل كلمة قط يخالفه وما مَسَّها ايسا كلمہ نہ بولا ہے اور نہ لکھا ہے جو قال اللہ کے قلمي في عمرى.وأما قولهم إن المسيح برخلاف ہو لیکن ان کا یہ کہنا کہ مسیح نے اللہ کی طرح الله تعالى بعينه وكان إحياؤه كإحياء الله پرندوں کو پیدا کیا ہے اور بعینہ اس کے احیا کی تعالى بعينه بلا تفاوت، وكان معصوما مانند مردوں کو زندہ کیا ہے بغیر کسی فرق کے اور تاما و محفوظا من مس الشيطان، وه مس شیطان سے اتم طور پر معصوم اور محفوظ تھا بقية الحاشية - فَيَرُمُونَ بِنُشَابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، بقیہ حاشیہ.چنانچہ وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے اور فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَابَهُمُ مخضوبةٌ دَمًا.خدا ان کے تیروں کو خون آلودہ کر کے واپس کرے گا اور عیسی وَيُحْصَرُ نبى الله وَأَصْحَابُهُ حتى يكونَ رَأْسُ الثور نبی اللہ اور اس کے اصحاب گھر جائیں گے یہاں تک کہ ہر لأحدهـم خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لأَحَدِكُمُ اليَومَ ایک ایک بیل کا سرسو اشرفی سے زیادہ پسند کرے گا پھر نبی فَيَرُغَبُ نبيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إلى الله، اللہ عیسی اور اس کے اصحاب خدا سے دعا کریں گے تو خدا اُن فيُرْسِلُ عَلَيْهِم النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ، فَيُصْبِحُونَ پر طاعون بھیجے گا کہ ان کی گردنوں میں گلٹی نکلے گی اور نفس فَرُسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ.ثم يَهْبِطُ نبی الله واحد کی طرح مرے پڑے ہوں گے پھر نبی اللہ عیسی اور اُس ا عِيسَى وَأصْحابُهُ إلى الأرض، فلا يَجِدُون فی کے اصحاب زمین پر اتر آویں گے لیکن ان کی بدبو اور گندگی الأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلا مَلَاهُ زَهَمُهُمْ وَنَننهم سے بالشت بھر بھی کوئی جگہ خالی نہ ہوگی پھر نبی اللہ عیسی اور اس فَيَرُغَبُ نبي الله عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللهِ، کے اصحاب مل کر دعا کریں گے تو خدا اونٹوں کی گردنوں کی فيُرْسِلُ اللهُ طَيْرًا كأَعْنَاقِ البُخْتِ فَتَحْمِلُهُمُ مانند پرند بھیجے گا جو اُن کو اٹھا کر جہاں خدا چاہے گا پھینک دیں فَتَطْرَحُهُم حيث شاء الله.وَيَسْتَوقِدُ المُسْلِمُونَ گے اور سات سال تک مسلمان ان کے تیر و کمان اور ترکش مِنْ قِيَهُمْ وَتُشَابِهِمْ وَجَعَابِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ.ثم جلاتے رہیں گے پھر خدا ایسی بارش برساوے گا جس کے يُرْسِلُ الله مَطَرًا لا يُكَنُ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلا وَبَرٍ، آگے کوئی خیمہ اور مٹی کا مکان نہ ٹھہر سکے گا یہاں تک کہ زمین فَيَغْسِلُ حَتى يَتْرُكهَا كَالزَّلَفَةِ.ثُمَّ يُقَالُ لِلارْضِ ایک حوض یا مصفا پتھر کی مانند ہو جائے گی.پھر زمین کو حکم ہوگا أنبتى ثَمَرَتَكِ وَرُدَّى بَرَكَتَكِ، فَيَوْمَئِذٍ کہ اب تو اپنے پھل نکال اور برکت والی ہو جا تو پھر اُن دنوں تَأْكُلُ العِصَابَةُ من الرُّمَّانَة وَيَسْتَفِلُونَ میں ایک انار کو بڑی جماعت کھا دے گی اور اس کے چھلکے کے يقحُفِهَا، وَيُبَارِكُ فِي الرِّسُلِ حَتَّى إِنّ اللفحة سایہ کے نیچے آرام کرے گی اور مویشی میں ایسی برکت ڈالی من الإبل لتكفـى الـفـامَ مِنَ النَّاسِ جائے گی کہ ایک دور جھیل اونٹنی ایک بڑی قوم کے لئے کافی ہوگی
حمامة البشرى ام اردو ترجمه وليس كمثله في هذه العصمة نبينا صلی اور اس معصومیت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (10) الله عليه وسلم، فهذا عندى ظلم و زور، بھی اس کے مثل نہیں سو یہ تو میرے نزدیک ظلم كبرت كلمة تخرج من أفواههم، وإنهم اور جھوٹ ہے ان کے منہ سے یہ کلمہ سخت مکروہ في هذه الكلمات من الكاذبين نکلا ہے اور یقیناً وہ ان باتوں میں جھوٹے ہیں..بقية الحاشية - واللقـحَة مِنَ الْبَقَرِ لتکفی بقیہ حاشیہ.اور دودھیل گائے متوسط خاندان کے لئے اور القبيلة من الناس، واللّقُحَة مِنَ الغَنَمِ لتكفی دو دھیل بکری ایک چھوٹے گھرانے کے لئے.پھر اسی اثنا میں الْفَخِذَ مِن الناس.فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَث خدا تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو ان کی بغلوں میں لگتے ہی الله ريحا طيبة، فتأخذهم تحت اباطهم سب مسلمانوں کی روحوں کو قبض کر لے گی اور شریر لوگ گدھوں فتقبض رُوحَ كُلّ مُؤْمِنٍ وكل مسلم ویبقی کی مانند آپس میں خلط ملط ہو جا ئیں گے پھر انہیں پر قیامت شِرارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمر قائم ہوگی.اور ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ مسیح دجال مشرق فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ.وجاء فی حدیث آخر ان کی طرف سے آئے گا اور مدینہ میں آنا چاہے گا یہاں تک کہ المسيح الدجال يأتى من قِبَلِ المشرقِ وهَمَّتْهُ وہ اُحد کے پیچھے جا اترے گا لیکن ملائکہ شام کی طرف اُس کا منہ المدينة حتى ينزلَ دُبُرَ أُحُدٍ، ثم تَصرِف الملائكة وجهه قِبَلَ الشَّام، وهنالك يَهْلِكُ ولا يدخل المدينة رعبه، لها يومئذ سبعة أبواب عـلـى كـل بــاب مـلـكان، ويمكث في الأرض أربعين سنة، ويخرج على حمار أقمر پھیر دیں گے اور وہاں ہی ہلاک ہو جائے گا اور مدینہ میں اس کا رعب نہ پڑے گا.اور اُن دنوں مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر ایک پر دو فرشتے ہوں گے اور زمین میں چالیس سال ٹھہرے گا اور وہ ایسے ابلق گدھے پر سوار ہو گا جس کے دونوں کانوں کے درمیان ستر باع (۴۰ اگز) کا ما بين أُذنيه سبعون باعًا.وينزل عيسى حَكَمًا عدلا، فليكسرن الصليب ويقتلنّ الخنزير ويضع فاصلہ ہوگا اور عیسی حکم عدل ہو کر اترے گا صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور لڑائی ترک کرے گا اور مضبوط اونٹنیاں الحرب.وليترَكُنَّ القِلاصُ فلا يُسعى عليها.ولا تزال طائفة من المسلمين يقاتلون علی ایسی ترک کی جائیں گی کہ ان سے کام نہ لیا جائے گا.اور ہمیشہ ایک جماعت مسلمانوں کی حق پر لڑتی رہے گی اور قیامت تک الحق ظاهرين إلى يوم القيامة.فينزل عيسى فيتزوج ويولد له.وجاء في أحاديث أخرى أن غالب رہے گی.پھر عیسی نازل ہوگا اور نکاح کرے گا پھر اُس کے الدجال كان موجودًا حيا في زمان رسول اللہ اولاد ہوگی اور اور حدیثوں میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ 11 صلى الله عليه وسلم وقد رآه تمیم الداری وسلم کے زمانہ میں دجال موجود تھا اور تمیم داری نے اسے دیکھا مهمة" سہو کتابت ہے.درست لفظ ”همته “.ہے.(ناشر)
حمامة البشرى ۴۲ اردو ترجمه وأما افتراؤهم على وظنُّهم كانى لا اور میری نسبت ان کا یہ افترا کرنا کہ میں گویا أؤمن بالملائكة، فما أقول فی جواب فرشتوں پر ایمان نہیں رکھتا پس میں ان فاسد هذه الظنون الفاسدة التي لا أصل لها بدگمانیوں کی نسبت جن کا کچھ اصل اور اثر نہیں ہے ولا أثر، غير أني أبتهل في حضرة بجز اس کے اور کچھ بھی نہیں کہتا کہ میں اپنے اللہ کے الله سبحانه وأقول رَبِّ الْعَنِّي إِنْ آگے ابتہال سے دعا کرتا ہوں کہ اے خدا اگر میں كنت قلت مثل هذا، وإلا فَالعَنِ نے یہ کہا ہے تو مجھ پر لعنت بھیج ورنہ ان مفتریوں پر المفترين الذين يفترون علی بغیر علم لعنت ہو تو جو بغیر علم کے مجھ پر افترا کرتے ہیں بقية الحاشية وحدث رسول اللہ صلی بقیہ حاشیہ.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے یوں قصہ الله عليه وسلم أنه ركب في سفينة بحرية بیان کیا کہ میں تم اور جذام کے قبیلوں کے تمھیں آدمیوں کے ساتھ مع ثلاثين رجلا من لخم وجذام، فلعب بهم ایک جہاز پر سوار ہوا اور برابر ایک ماہ تک موجوں میں چکر کھاتے الموج شهرا فى البحر، فأرفأوا إلى جزيرة رہے اس کے بعد مغرب کے قریب ایک جزیرہ میں اترے اور حيـن تـغـرب الشمس، فجلسوا في اقرب [ سفینہ کی چھوٹی کشتیوں] میں ہم سوار ہو کر ایک جزیرہ میں داخل ہوئے السفينة فدخلوا الجزيرة، فلقيتهم دابة تو وہاں ہمیں ایک جانور ملا جو بڑے گنجان اور بہت بالوں والا تھا أهـلـبُ كثير الشعر لا يدرون ما قبله مِن دُبُرہ اس کا آگا پیچھا بالوں کی کثرت سے ممتاز نہ ہوسکتا تھا ہم نے اُسے من كثرة الشعر.قالوا ويلكِ ما أنتِ؟ قالت کہا کہ تو ہلاک ہو تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں جناسہ أنا الجساسة.انـطـلـقـوا إلى هذا الرجل فی ہوں اس گرجا میں اُس مرد کے پاس جاؤ کہ وہ تمہارا بڑا مشتاق ہے الدير، فإنه إلى خبركم بالأشواق.قال لما جبکہ اُس نے ہمیں اُس شخص کا پتہ دیا تو ہم ڈرے کہ یہ کوئی شیطانہ سمت لنا رجلا فَرِقُنا منها أن تكون شيطانة.عورت نہ ہو.پھر ہم جلدی جلدی معبد میں (گرجا ) میں گئے تو قال فانطلقنا سراعًا حتى دخلنا الدير ، فإذا فيه وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ بڑا جسیم آدمی بندھا پڑا ہے کہ جس کی مثل ہم أعـظـم إنـسـان رأيـــاه قــط خَلْقًا وأشده وثاقة، نے کبھی نہیں دیکھی اور اُس کی مشکیں کس کر دونوں گھٹنوں اور ٹخنوں مجموعة يده إلى عنقه ما بين ركبتيه إلى كعبیه کے درمیان لوہے کی زنجیر سے جکڑا ہوا تھا.ہم نے اُسے کہا کہ تجھ بالحديد.قلنا ويلك ما أنت؟ قال قد قدرتم پر لعنت ہو تو کون ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ اب تم میری خبر کو تو على خبرى، فأخبروني ما أنتم؟ قالوا نحن أناس سن سکتے ہو پہلے تم اپنا پتہ دو.ہم نے کہا کہ ہم چند شخص ہیں جو جہاز ركبنا في سفينة بحرية، فلعب بنا البحر شهرا، پر سوار ہوئے تھے اور برابر ایک مہینہ تک گرداب میں پھنسے رہے
حمامة البشرى ۴۳ اردو ترجمه ويكفرون بغير الحق، ولا يتقون الله اور ناحق مجھے کافر کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے بقية الحاشية فدخلنا الجزيرة، فلقيتنا بقیہ حاشیہ.اور جب اس جزیرہ میں اترے تو ہمیں ایک بہت گنجان دآبةٌ أهلَبُ فقالت أنا الجساسة، اعمدوا إلى بالوں والا جانور ملا جو اپنا نام جساسہ بتلاتا تھا اُس نے کہا تم دیر هذا في الدير، فأقبلنا إليك سراعًا.فقال (گرجے) میں اُس شخص کے پاس جاؤ پھر ہم تیرے پاس آئے.أخبروني عن نخل بيسان هل تشمر؟ تو پھر اس نے کہا مجھے بتلاؤ کہ کیا بیسان کے باغ پھل لاتے ہیں؟ هذه الأخبار الغيبية تدل على أن هذا یہ اخبار بیچند وجوہ بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ الــحـديـث ليس من رسول الله صلی اللہ علیہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کے وسلم، لأنها يعارض القرآن ويُخالف محکمات کے معارض ہیں اور دجال آئندہ خبروں کو محكماته.وكيف يمكن أن يقدر الدجال کب بتا سکتا تھا جبکہ خدا نے اپنی محکم کتاب میں فرما دیا الخبيث على بيان الأنباء المستقبلة وقال الله تھا کہ خدا اپنے غیب پر بجز چنیدہ برگزیدہ رسول کے تعالى في كتابه المحكم: فَلَا يُظْهِرُ علی اور کسی کو اطلاع نہیں دیتا.پھر دجال نے کیونکر یہ غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ غیبی خبر صحیح اور واقعی طور پر بتلا دی اور دجال نے یہ فكيف أخبر الدجال عن الغيب خبرا واضحا کیوں کہا کہ لوگوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اس صحيحًا مطابقا للواقع؟ وكيف قال الدجّال أن اُمّی اور عربی نبی کی اتباع کریں کہ وہ صادق ہے.الخير للناس أن يُطيعوا هذا النبى الأمى العربي حالانکہ دجال کا فراورخدا کا نا فرمان ہے پس وہ کیونکر فإنه صادق، مع أن الدجال كافر لا يطيع الله، خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دے سکتا فكيف يأمر بإطاعة نبيه صلى الله علیه وسلم؟ ہے اور طرفہ تر یہ کہ وہ لوگوں کے خیال میں تو بجز اپنی ومع ذلك هو ليس بقائل بزعم القوم باله من ذات کے اور کسی خدا کا قائل نہیں ہے تو وہ یہ بات دون نفسه، فكيف قال: وإنى يوشك أن يؤذن کب کہہ سکتا ہے کہ عنقریب مجھے نکلنے کا حکم دیا جائے گا لي في الخروج فأخرج، بل إن هذا اللفظ يدل تو پھر میں نکلوں گا بلکہ یہ لفظ صاف دلالت کرتا ہے کہ على أنه لا يخرج من الدير إلا بإلهام الله تعالی وہ بجز الہام اور وحی الہی کے دیر ( گرجا ) سے نہ نکلے ووحيه، فيلزم من هذا أن يكون الدجّال أحدًا گا پس اس سے لازم آتا ہے کہ دجال بھی ایک نبی ہو من الأنبياء ، وقد تقرر عندهم أنه من أكابر حالا نکہ سب مانتے ہیں کہ وہ بڑا مفسد ہے پس سو چو اور المفسدين.فتفكر ولا تكن من الغافلين.منه.غفلت کو ترک کرو - هنه الجن: ۲۸،۲۷
حمامة البشرى ۴۴ اردو ترجمه اور وما كانوا خائفين.والأمر الحق أني ما اور حق تو یہ ہے کہ میں نے کوئی ایسی بات قلت قولا يُخالف عقيدة أهل السنة نہیں کہی جو دراصل اہل سنت کے عقیدہ کے حقيقة، وما جرى على لساني مثل برخلاف ہو اور نہ کبھی ایسے الفاظ زبان پر لایا تلك الألفاظ، وما خطر فی قلبی ہوں اور نہ کبھی ایسا خیال میرے دل میں گزرا شبيه هذه الافتراءات، ولكنهم ما ہے بلکہ انہوں نے قلتِ تدبر اور سوء فہم اور فهموا كلماتي من قلة التدبر، وسوء فسادِ قلب سے میری باتوں کو نہیں سمجھا او الفكر، وفساد القلب، وابتدر کل سرسری نظر سے میری تکفیر کے لئے ہر ایک واحد منهم إلى التكفير عجولا بادی جلدی سے آگے بڑھا، تو حاسدوں کو میں کیونکر الرأى، فكيف أهدى قوما حاسدين؟ ہدایت کرسکتا ہوں.ہاں میں نے یہ کہا ہے اور نعم..إني قلت وأقول : إن عيسى ابن اب بھی کہتا ہوں کہ عیسی بن مریم علیہ السلام مريم عليه السلام قد تُوفّى كما أخبرنا يقيناً فوت ہو گیا ہے جیسا کہ قرآن عظیم القرآن العظيم والرسول الكريم اور رسول کریم نے خبر دی ہے پس ہم خدا فكيف نرتاب في قول الله ورسوله؟ و رسول کی بات میں کس طرح شک کریں بقية الحاشية قلنا نعم.قال أما إنها بقیه حاشیہ ہم نے کہا ہاں.اُس نے کہا ایک وقت آنے والا ۱۲ توشك أن لا تشمر.قال أخبرونی ہے کہ وہ نہ پھلیں گے پھر اُس نے بحیرہ طبریہ کی بابت پوچھا کہ عن بحيرة الطبرية..هل فيها ماء ؟ قلنا کیا اُس میں پانی ہے تو ہم نے کہا کہ اُس میں بہت پانی ہے.هي كثيرة الماء ، قال إن ماءها يوشك اُس نے کہا کہ وہ عنقریب خشک ہو جائے گا.پھر اُس نے چشمہ أن يذهب.قال أخبروني عن عين زغر..زغر کی بابت پوچھا کہ اُس میں پانی ہے اور اُس کے ارد گرد کے هــل فـي الـعيـن مـاء ، وهل يزرع أهلها بماء لوگ اُس سے اپنے کھیت سیراب کرتے ہیں.ہم نے کہا ہاں الـعيـن؟ قـلـنـا نـعـم هـي كثيرة الماء وأهلها اُس میں پانی بکثرت ہے اور کھیت بھی سیراب ہوتے ہیں.يزرعون.قال أخبروني عن نبي الأميين پھر اُس نے کہا کہ اُمیوں کے نبی کا حال سناؤ کہ اُس نے کیا ما فعل؟ قلنا قد خرج من مكة ونزل يثرب کیا.ہم نے کہا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں چلا گیا.
حمامة البشرى ۴۵ اردو ترجمه وكيف نؤثر عليه أقوالا أخرى؟ اور ان کی باتوں پر اور باتوں کو کیسے ترجیح دیں.کیا أأختار الضلالة بعدما هداني الله ؟ اللہ کی ہدایت کے بعد بھی میں ضلالت کو اختیار کر سکتا والقرآن حَكَمْ عَدُلٌ بيني وبين ہوں.اور میرے اور مخالفوں کے درمیان قرآن ہی المخالفين، وبأتی حدیث بعد اللہ فیصلہ کن ہے.اور اللہ اور اُس کی آیات کے بعد اور و آياته يؤمنون؟ ألم يكف لهم ما قال کس بات پر ایمان لاویں گے.کیا قول خداوندی رب الـعـالـمـيـن؟ ولكنهم ما يقبلون اُن کے لئے کافی نہیں ہے.لیکن وہ قرآن کی شهادة القرآن، ويتكنون على أقاويل شہادت کو قبول نہیں کرتے اور اور باتوں پر اعتماد أخرى التي لا يدرون حقیقتها فلیت کرتے ہیں کہ جن کی حقیقت نہیں سمجھتے.کاش مجھ 19 شعرى..إلى أي أمر يدعونني؟ کو علم ہوتا کہ وہ مجھے کس بات کی طرف بلاتے ہیں.بقية الحاشية قال: أقاتله العرب؟ قلنا نعم.بقیہ حاشیہ.اس پر اُس نے پوچھا کہ کیا عرب اُس سے لڑے قال: كيف صنع بهم ؟ فأخبرناه أنه قد ظهر ہیں.ہم نے کہا ہاں.پھر اُس نے کہا تو پھر اُن سے کیا معاملہ على من يليه من العرب وأطاعوه.قال: أما إن ہوا.ہم نے کہا کہ وہ عرب پر غالب ہو گئے اور وہ لوگ آپ کی ذلك خير لهم أن يطيعوه.وإنى مخبرکم اطاعت میں آگئے.تو پھر اُس نے کہا کہ ان کے لئے یہی بہتر عنى..إنى أنا المسيح، وإنى يوشك أن ہے کہ سب ان کی اطاعت کریں اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ مسیح يؤذن لي في الخروج، فأخرج فأسير فى دجال میں ہوں اور مجھ کو عنقریب باہر نکلنے کی اجازت مل جائے الأرض، فلا أدع قرية إلا أهبطها في أربعین گی اور میں نکل کر روئے زمین پر پھروں گا اور چالیس دن کے ليلة غير مكة وطيبة هـمـا مـحـرمتان على اندر اندر بجز مکہ مدینہ کے سب بستیوں میں اتروں گا اور وہ دو كلتاهما كلما أردت أن أدخل واحدا منهما مقام مجھ پر حرام ہوں گے اور میں ان میں داخل ہونے کا قصد استقبلنى ملك بيده السيف صلنا يصدّنی کروں گا تو فرشتہ تلوار نکال کر اور سامنے آ کر مجھے روک دے گا عنها، وإن على كل نقب منها ملائكة اور اُن کے ہر ایک سوراخ پر فرشتے نگہبان ہوں گے.پھر يحرسونها.ثم قال رسول الله صلی الله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبر دار ہوکر سنو!وہ بحر شام یا عليـه و سـلـم ألا إنه في بحر الشام أو بحر بحرین میں ہے.نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف سے نکلے گا اور اليمن لا بل من قبل المشرق ما هو، وأوما اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا.اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے.بيده إلى المشرق.رواه مسلم.
حمامة البشرى ۴۶ र اردو ترجمه أيدعونني إلى الجهل والعمى بعدما کیا میرے بصیر ہونے کے بعد مجھے جہالت اور كنت من المتبصرين؟ والله إنی علی نابینائی کی طرف بلاتے ہیں.اللہ کی قسم میں بصيرة من ربّي، وعندى شهادات اپنے رب کی طرف سے پوری بصیرت پر ہوں من الله وكتابه وإلهامه وكشفه، فهل اور خدا اور اُس کی کتابوں اور اُس کے الہام و من طالب يأخذ سهم رشده منی کشف سے بڑی شہادتیں ہیں.کیا کوئی طالب ويأبى دواعي البخل والحسد، حق ہے جو مجھ سے اپنی ہدایت کا حصہ لے اور بخل ويقبل الحق كالمستر شدین؟ ولا [ اور حسد] سے دورر ہے اور سیدھے راہ کے تلاش أظن أحدا من العاملين العالمین کرنے والوں کی طرح حق کو قبول کرے.اور المتقين أن يُقدّم غير القرآن علی میں تو کسی عالم با عمل پر بدگمانی نہیں کر سکتا کہ وہ القرآن، أو يضع القرآن تحت غیر قرآن کو قرآن پر مقدم کرے اور باوجود حديث مع وجود التعارض بينهما تعارض کے قرآن کو حدیث کے نیچے ڈال دے بقية الحاشية أقول هذا ما جاء في بقیہ حاشیہ.میں کہتا ہوں کہ یہ وہ امور ہیں جو اختلاف اور الأحاديث مع اختلافات وتناقضات فذهب وَهُل تناقض کے ساتھ احادیث میں آئے ہیں پس بعض بلکہ اکثر بعض الناس بل أكثرهم إلى أن تلك الأخبار اسی طرف گئے ہیں کہ ان سے ظاہری معنے مراد ہیں.اور حق والآثار محمولة على ظواهرها، والحق أنهم قد یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خطا کی ہے اور یہ خدا تعالی کی طرف سے صابر مومنوں اور جلد باز مکذبوں کے امتیاز کے واسطے أخطأوا خطأ كبيرا، وكان هذا ابتلاءا من الله تعالى ليعلم الصابرين المؤمنين منهم والمكذبين ایک ابتلاء تھا.اور تجھ کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی اپنے نبیوں المستعجلين.وأنت تعلم أن الله تعالى قد يُوحى اور رسولوں کی طرف مجاز اور استعارہ اور تمثیل کے پیرایہ میں إلى أنبيــائــه ورســلــه فـــي حـلـل الـمجـازات وحی کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں اس والاستعارات والتمثيلات، ونظائره كثيرة في وحى خيــر الرسل صلى الله عليه وسلم منها ما کے نظائر بکثرت موجود ہیں.منجملہ اُن کے ایک انس کی جاء في حديث أنس قال قال رسول الله صلعم حدیث ہے.وہ بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رأيتُ ذات ليلة فيما يرى النائم كأنا في دار عقبہ نے فرمایا کہ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ہم عقبہ بن رافع ابن رافع، فأتينا برطب من رطب بن طاب کی حویلی میں ہیں اور ابن طاب کی کھجور میں ہمیں دی گئی ہیں
حمامة البشرى ۴۷ اردو ترجمه ويرضى له أن يتبع احاد الآثار اور اپنے لئے پسند کرے کہ اُن آثار کا متبع ہو کر جو ويترك بينات القرآن، ويؤثر احاد ہیں قرآن کے بینات کو ترک کرے اور شک الشك على اليقين، ويختار کو یقین پر ترجیح دے اور عارف ہونے کے بعد الجهل بعد ما كان من العارفين.جہالت کو اختیار کرے.بقية الحاشية فأولتُ أن الرفعة لنا فی الدنیا بقیہ حاشیہ تو میں نے تعبیر کی کہ دنیا میں ہمارے لئے رفعت ہے والعافية في الآخرة، وأن ديننا قد طاب.ومنها ما اور آخرت میں عافیت ہے اور ہمارا دین طیب ہو گیا ہے.اور جاء في حديث أبي موسى قال قال رسول الله الا الله منجملہ اُن کے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث ہے اُس نے کہا کہ فرمایا ل رأيت في رؤیای آنی هززت سيفا فانقطع رسول اللہ صلعم نے کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں نے تلوار نکالی صدره، فإذا هو ما أُصيب من المؤمنين يوم أحد، ثم هززته أخرى فعاد أحسن ما كان، فإذا ہے اور اس کی دھار ٹوٹ گئی ہے تو اُس کی تعبیر وہ مومن ہیں جو اُحد هو ما جاء الله به من الفتح واجتماع المؤمنين.کے دن شہید ہوئے.پھر میں نے دوبارہ نکالی تو پہلے کی بہ نسبت فانظر كيف رأى رسول الله صلى الله علیہ وسلم بہت عمدہ ہو گئی تو اس کی تعبیر فتح اور مومنوں کا اجتماع تھا.پس دیکھ الكيفيات الروحانية في الصور الجسمانية ولا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معانی روحانیہ کو کیسا جسمانی صور يخفى عليك أن رؤيا الأنبياء وحتی، فثبت من میں دیکھا ہے اور تجھ پر مخفی نہیں ہے کہ انبیاء کی خواہیں وحی ہوتی ههنا أن وحى الأنبياء قد يكون من نوع المجاز والاستعارة ، وقد أوّلَ رسولُ الله الله مثل ہیں.پس اس سے ثابت ہوا کہ انبیا کی وحی کبھی مجاز اور استعارہ کی قسم سے ہوتی ہے اور اس وحی کی تاویل کی مانند آنحضرت کی اور ذلك الوحى، وتأويلاته كثيرة كما في رؤية بہت سی تاویلیں ہیں کہ سونے کے کنگنوں اور قمیص اور گائے وغیرہ سوار الذهب والقميص والبقر وغيرها من الرؤيا التي هي مشهورة في القوم، فلا حاجة کو خواب میں دیکھا اور یہ خوا ہیں قوم میں مشہور ہیں تمہارے آگے إلى أن نقص عليك.وقد رأى رسول الله بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلى الله عليه وسلم في رؤيا أخرى الدجال نے ایک اور خواب میں دجال کو دیکھا کہ دو شخصوں کے کاندھوں پر المسيح واضعا يديه على منكبى رجلين يطوف ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرتا ہے.پس اگر (اس) بالبيت.فلوحملنا تلك الوحى على الظاهر لوجب وحی کو ہم ظاہر پر محمول کریں تو لازم آوے گا کہ دجال مومن مسلمان ہو کیونکہ بیت اللہ کا طواف اہل اسلام کے شعار سے أن يكون الدجال مسلمًا مؤمنا لأن الطواف من شعائر المسلمين.ثم إن هذه الأحاديث تدلّ على أن الدجال كان موجودا في زمان النبي ہے.پھر یہ احادیث صاف بتاتی ہیں کہ دجال نبی صلی اللہ علیہ صلى الله عليه وسلم وقد رآه تمیم الداری، وسلم کے زمانہ میں موجود تھا اور تمیم داری نے اُس کو دیکھا بھی تھا
حمامة البشرى ۴۸ اردو ترجمه وإن المسلمين وعلماء هم اور سب مسلمان اور علماء راسخین یہی حکم کئے گئے الراسخين كانوا قد أمروا أن يتبعوا تھے کہ بینات کی پیروی کریں اور شبہات کو ترک کریں البينات، ويجتنبوا الشبهات، وكانوا يعلمون أن البينات أحق أن تتبع.وإنما اور وہ جانتے ہیں کہ بینات ہی اتباع کے لائق ہیں البينات هي المعاني التي قد انكشفت اور بینات ہی وہ معانی ہیں جو عقلِ سلیم کے آگے وتبينت عند العقل السليم، وتواترت کھلے اور واضح ہیں اور قرآن میں متواتر طور في القرآن العظيم، ووُجدت أقرب پر آئے اور فہم [ مستقیم] سے نزدیک تر اور تناقض من الفهم المستقيم، وأبعد عن آفات التناقض وأدخل في سنة الله والقانون سے بعید تر ہیں اور سنت اللہ اور قدیم قانون قدرت القديم، وأجلى وأظهر من معان أخرى.میں داخل اور [ دیگر] معانی سے روشن تر ہیں.بقية الحاشية وزعم القوم أنه يخرج فی بقیہ حاشیہ.اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں نکلے گا اور ہر ١٤ آخر الزمان، ولا يدع قرية إلا يدخلها، بستی میں داخل ہوگا اور سب بلاد پر غالب ہو جائے گا.اور سوائے ويتملك ويتسلط على البلاد كلها، ولا تبقى في زمانه أرض إلا يأخذها غير مكة مکہ مدینہ کے اور سب زمین لے لے گا.لیکن اور حدیثیں ان قصوں وطيبة.ولكن الأحاديث الأخرى تعارضها کی تکذیب کرتی ہیں.پہلے تو تدبر اور انصاف سے مسلم کی حدیث وتكذب هذه القصص.فانظر أولا تدبّرًا وإنصافا في حديث مسلم.عن جابر قال پر نظر کر جو جابر سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے وفات سے سـمـعـت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ایک مہینے پہلے آنحضرت کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ تم مجھ سے قبل أن يموت بشهر تَسْأَلُونِي عَنِ السَّاعَةِ؟ قیامت کی بابت پوچھتے ہو اسکا علم تو اللہ کو ہی ہے اور میں حلفاً کہتا وَإِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ، وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ يَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةٍ سَنَةٍ وهي حية يومئذ.ہوں کہ اس وقت روئے زمین پر جو لوگ زندہ ہیں صدی کے گزرنے تک ان میں سے ایک جی بھی ہرگز زندہ نہ رہے گا.وعن ابن مسعود لا يأتى مائة سنة وعلى اور ابن مسعود سے مروی ہے کہ صدی کے گزرنے الأرض نفس منفوسة اليوم.رواه مسلم تک موجودہ لوگوں سے روئے زمین پر کوئی بھی نہ ہو وهكذا ذكر البخاري في صحيحه، گا اور بخاری نے بھی اپنی صحیح میں ایسا ہی ذکر کیا ہے والمضمون واحد لا حاجة إلى الإعادة.اور چونکہ مضمون واحد ہے اعادہ کی ضرورت نہیں.
حمامة البشرى ۴۹ اردو ترجمه ثم ذهلت هذه الطائفة تلك الضابطة پھر یہ گروہ اس مبارک ضابطہ کو ایسے بھولے گویا المباركة كأنهم لا يعلمون شيئا وكأنهم وہ اس سے بے علم اور جاہل تھے اور میں یقیناً من الجاهلين.وَإنِّي أرى أنهم لا يعتقدون جانتا ہوں کہ وہ قرآن کو زندہ کلام اور سچا امام بأن القرآن كلام حى، وإمام صادق اور حق کا نگہبان اور معیار کامل نہیں جانتے بلکہ ومهيمن، و معيار كامل، بل يحقرونه | اس کی حقارت کرتے ہیں اور حدیثوں کے ۱۲ ويضعونه تحت أقدام الأحاديث قدموں کے نیچے ڈالتے ہیں اور احادیث کو ويجعلون الأحاديث قاضية عليها قرآن پر قاضی مقرر کرتے ہیں اس سے پہلے کہ من قبل أن يُفتشوا الآثار حق تفتيشها، وہ اس کی تفتیش کر لیتے [ جیسا کہ تفتیش کا حق ويثبتوا موازنة القطعيات بالقطعیات تھا اور قطعیات کا قطعیات سے موازنہ کر لیتے بقية الحاشية - فوجب من هذا على كل مؤمن بقیہ حاشیہ.پس اس سے ہر ایک مومن پر لازم ہے کہ وہ اس أن يؤمن بموت الدجال بعد المائة من زمان رسول پر ایمان لاوے کہ آنحضرت کے زمانہ کے بعد صدی کے الله صلى الله عليه وسلم، وإلا فكيف يمكن اندر اندر دجال ضرور مرگیا ہے.کیونکہ آنحضرت کے ایسے التخلف فيما قال رسول الله صلى الله علیه وسلم ارشاد کا کب خلاف ہوسکتا ہے جو وحی الہی سے اور مؤکد بہ بـوحـي مـن الله تعالى مؤكدًا بقسمه؟ والقسم حلف ہو.اور قسم صاف بتاتی ہے کہ یہ خبر ظاہری معنوں پر يدل على أن الخبر محمول علی الظاهر لا تأویل محمول ہے نہ اس میں کوئی تاویل ہے اور نہ استثناء ہے ورنہ فيه ولا استثناء ، وإلا فأي فائدة كانت فی ذکر قسم میں کون سا فائدہ ہے.پس محققوں اور تفتیش کرنے القسم؟ فتدبَّرُ كالمفتشين المحققين.وأما والوں کی طرح خوب سوچ سمجھ لے اور ان دو حدیثوں میں تطبيق هذين الحديثين فلا يمكن إلا بعد تأويل بجز اس کے تطبیق ممکن ہی نہیں کہ دجال والی حدیث کو از فقسم حديث الدجال وجعله من قبيل الاستعارات استعارات قرار دے کر اس میں تاویل کی جاوے [ پس ہم فنقول إن حديث خروج الدجال يدلّ علی کہتے ہیں کہ خروج دجال کی حدیث نصاریٰ کے ایک خروج طائفة الكذابين في آخر الزمان من قوم کذاب گروہ کے اخیر زمانہ میں نکلنے پر دلالت کرتی ہے اور النصارى، وفي الحديث إشارة إلى أنهم يُشابهون حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دھوکوں اور آباء هم المتقدمين في مكرهم وخديعتهم وأنواع فریبوں اور قسم قسم کے فتنوں اور لوگوں کے گمراہ کرنے کی فتنهم وحرصهم على إضلال الناس كأنهم هم إلا حرص میں وہ اپنے آباء واجداد کے ایسے مشابہ ہوں گے کہ أن آباء هم كانوا مقيدين بالسلاسل و الأغلال، گویا یہ اب وہی ہیں جو طوقوں اور زنجیروں میں مقید تھے
حمامة البشرى اردو ترجمه بل هم يأمرون تحكما ويقولون ظلمًا بلکہ وہ تو جبر اور ظلم سے حکم دیتے ہیں کہ ان الأحاديث بجميع صورها الظنية احادیث اپنی سب ظنی اور شکی صورتوں کے والشكيّة أحق قبولا من القرآن وحاكمة ساتھ قرآن کی نسبت قبول کرنے کے زیادہ عليه.وإن هو إلا ظلم وزور تكاد لائق ہیں اور وہ قرآن پر حاکم ہیں اور یہ ایسا السماوات يتفطرن منه.ولا يوجد فى ظلم اور جھوٹ ہے کہ قریب ہے کہ آسمان اس القرآن وحدیث رسول اللہ صلی اللہ سے پھٹ جائیں اور قرآن اور حدیث میں عليه وسلم إيماض إلى ذلك، ولا ان بہتانوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں پایا إيماء إلى هذه البهتانات، بل جاتا.بلکہ صحابہ ہر حالت میں قرآن کو مقدم الصحابة كانوا يقدمون القرآن فی کرتے تھے اور کسی ایسی حدیث سے اس کو کل حال ولا يتركونه لأثر من الاحاد ترک نہ کرتے تھے جو احاد کی قسم سے ہے.☆ ۱۵ بقية الحاشية ولكن هؤلاء يخرجون من بقیہ حاشیہ.لیکن قیدوں سے نکل آئے ہیں اور خدا نے ان ذلك السجن، ويضع الله عنهم أغلالهم، کے طوقوں کو دور کر دیا ہے اور وہ نکلنے کے بعد دائیں بائیں فيعيشون يمينا وشمالا ويفسدون فی پھریں گے اور زمین میں فساد کریں گے اور ان کا خروج الأرض، وكان خروجهم بلاء عظيما لأهل مخلوق کے لئے بلاء عظیم ہو گا.پس جس طرح کہ تمیم داری الأرضين.فـكـمـا أن تميما رأى الدجال فی نے آنحضرت کے زمانہ میں سچی اور کشفی رویا میں دجال کو زمان النبي صلى الله عليه وسلم بالرؤية دیکھا تھا جو عالم مثال کی قسم سے تھا کہ اس کے ہاتھ الكشفية الصادقة التي كانت من قبيل عالم شانوں تک باندھے ہوئے دونوں گھٹنوں اور ٹخنوں کے المثال..مجموعة يده إلى عنقه ما بين درمیان زنجیر سے جکڑا ہوا معبد میں پڑا ہوا ہے نصاریٰ ركبتيه إلى كعبيــه بــالـحـديد في الدير، کی حالت بھی اسلام کے اقبال کے زمانہ میں ایسی تھی کہ فكذلك كانت النصارى في زمن إقبال الإسـلام مـقـهـوريـن مـغـلـوبيـن غلت أيديهم وہ مغلوب اور مقہور اور دست و پا بستہ اپنے گر جاؤں میں قاعدين في الدير، ثم أخرجوا بعد المائتين بیٹھے ہوئے تھے پھر بارھویں صدی کے بعد وہ نکالے گئے والألف ووضع الله عنهم الأغلال والسلاسل اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی زنجیریں اور طوق اتار دیئے انظروا حديث معاذ الذي فيه وصيّة حمد معاذ کی اس حدیث پر بھی غور کرو جس میں رسول اللہ صلی اللہ رسول الله صلى الله عليه وسلم لمعاذ منه علیہ وسلم کی وصیت ہے.منہ
حمامة البشرى ۵۱ اردو ترجمه ألا ترى إلى الصديقة أُمّ المؤمنين كيا أم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کیا اُمّ رضی الله عنها كيف أوّل تو نہیں دیکھتا کہ اس نے قرآن کی وجہ سے الأحاديث للقرآن وما أوّل القرآن احادیث کی کیسی تاویلیں کی ہیں اور للأحاديث، وما التفتت إلى حديث احادیث کی وجہ سے قرآن کی تاویل نہیں کی بعد وجود المعارضة بينه اور جب کوئی حدیث قرآن کی معارض ہوتی وبين القرآن.وكانت فقيهة ہے تو اس حدیث کی طرف التفات نہیں کی فاضلة موفقة حبيبة نبينا صلى اللہ اور وہ بڑی فقیہ فاضلہ اور توفیق یا فتہ اور نبی صلی عليه وسلم وكانوا يرجعون إليها الله عليه وسلم کی پیاری تھیں اور ہر ایک دقیق في كل مسألة دقت مآخذها مسئله اصحاب اُن سے دریافت کیا کرتے تھے بقية الحاشية وخلع عليهم خلعة العلوم بقیہ حاشیہ اور ان کو سفلی علوم کے خلعت پہنا دیئے اور یہ الأرضية ابتلاء من عنده، فأشاعوا الفتن اللہ کی طرف سے آزمائش تھی پھر تو انہوں نے دل کھول کر في الأرض بأيدى مبسوطة، وكان قدرًا دنیا میں فتنے پھیلائے اور یہ خدا کی طرف سے مقدر تھا اور مقدورًا من رب العالمين وإلى خروجهم انہیں کے خروج کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ إشارة في حديث الآيات بعد المائتين، يعنى نشان دو صدیوں یعنی بارہ سو برس کے گزرنے کے بعد بعد المائة والألف، وإشارة إلى نزول ہوں گے اور اسی میں نزول مسیح کی طرف اشارہ ہے جو المسيح الذي هو مـفـحم المفسدين.ثم مفسدوں کو ساکت کرنے والا ہے.پھر جب ہم کلام الہی بعد ذلك إذا نظرنا إلى كلام الله تعالى پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کو بھی احادیث دجال کے ظاہری فوجدناه أيضًا مخالفا لظواهر أحاديثِ معنوں کے مخالف پاتے ہیں اور اس میں کوئی ضعیف سا خروج الدجال، ومـا وجـدنـا فـيـه احتمالا ضعيفا وإشارةً وهمية إلى ذلك، بل هو اشاره یا وهمی سا احتمال بھی ان معنوں کا نہیں پاتے بلکہ وہ يجوح هذه الخيالات بالاستيصال التام.ألم تو ان خیالات کی پوری پوری بیخ کنی کرتا ہے.کیا طالب يكف لطالب قوله تعالى وَجَاعِلُ الَّذِينَ حق کے لئے خدا کا یہ قول کافی نہیں ہے کہ میں تیرے اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِم تا بعد اروں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا ال عمران : ۵۶
حمامة البشرى ۵۲ اردو ترجمه وإن كنت في شك فاقرأ البخاری اور اگر تجھے شک ہے تو تدبر سے بخاری کو تدبرًا، فستجد تلك القصص فى پڑھ تو جا بجا ان قصوں کو پائے گا.پس ان علماء أكثر مقاماته.فما حال هؤلاء أنهم لا کو کیا ہوا کہ وہ قرآن کو بجز سوئے ہوئے يقرأون القرآن إلا كالغافلين غافلوں کی طرز کے نہیں پڑھتے اور اس کو النائمين، ولا يفهمونه حق فهمه، بل پورے طور پر نہیں سمجھتے بلکہ قرآن تو اُن کے القرآن لا يجاوز حناجرهم، ولا حلقوں سے نہیں اترتا اور نہ وہ اس کی اتباع يتبعونه ولا يبتغون نوره، بل يحملونه کرتے ہیں اور نہ اس کے نور کو چاہتے ہیں بلکہ جنازہ على هيئة الجنائز، ولا ينظرون کی شکل پر اس کو اٹھاتے ہیں اور استفادہ اور ١٣ إليه بنية الاستفادة و أخذ العلوم علوم اور معارف حاصل کرنے کی نیت سے اس پر والمعارف، كانهم في شك عظيم نظر نہیں ڈالتے گویا کہ ان کو اس میں بڑا شک ہے بقية الحاشية ولا يخفى على المتدبر أن بقیہ حاشیہ.اور سوچنے والے پر مخفی نہیں ہے کہ یہ آیت هذه الآية دليل قطعي على أن المسلمين اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ مسلمان اور نصاریٰ قیامت والنصارى يرثون الأرض ويتملكون أهلها إلى تک زمین کے وارث رہیں گے کیونکہ مسلمان تو مسیح يوم القيامة، لأن المسلمين اتبعوا المسيح اتباعًا حقيقيا، والنصارى اتبعوه اتباعا کے حقیقی متبع ہیں اور نصاریٰ ادعائی رنگ میں متبع ہیں اور ادعائيا.وقد وقع في الخارج كما قال الله واقعہ میں بھی خدا کے ارشاد کے مطابق پایا گیا ہے کیونکہ تعالى، وكانت الكرة الأولى للمسلمين في زمین پر غالب ہونے کی نوبت پہلے مسلمانوں کو ملی اور اس غلبتهم على الأرض، ثم في زماننا هذا غلبت النصارى ونسلوا من كل حدب.فوقع كما زمانہ میں اب نصاری غالب ہو گئے ہیں اور ہر ایک أخبر عنه في الآية الكريمة، فالآية تحكم أن بلندی سے اُترتے ہیں جیسا کہ آیت کریمہ میں صاف التملك والغلبة محدود في المسلمين پایا جاتا ہے کہ قیامت تک اب غلبہ مسلمانوں اور والنصارى إلى يوم القيامة، والدجّال المعهود نصاری میں محدود ہے اور مسلمانوں کا خیالی دجال نہ تو المتصوّر في أذهان المسلمين لا يكون على عقيدة النصارى ولا على عقيدة أهل الإسلام نصاری کے عقیدہ پر ہو گا اور نہ اہلِ اسلام کے مذہب پر.
حمامة البشرى ۵۳ اردو ترجمه ولا يرون حياته وبركاته وإشراقاته، اور اس کی زندگی اور برکات کی چمکاروں کو نہیں ولا يقدرونه حق قدره، ولا يدرون ما دیکھتے اور نہ اس کی پوری قدر کرتے ہیں اور نہ اس شأنه وما برهانه، وينبذون صحف کی شان کو جانتے ہیں اور نہ اس کے برہان کو اور الله وراء ظهورهم، ويُكبّون على الله کی کتاب کو پیٹھ کے پیچھے پھینکتے ہیں اور حدیث حديث ضعيف ولو يعارض القرآن ضعیف پر گرتے ہیں اگر چہ وہ قرآن کے معارض ہی کیوں نہ ہو اور رکنے سے باز نہیں آتے.وما كانوا من المنتهين.بقية الحاشية بل هـو بـزعـمهـم يخرج بقیہ حاشیہ.بلکہ وہ تو ان کے خیال میں خدائی کا مدعی ہوگا بادعاء الألوهية ويقول إنى إله من دون الله، اور کہے گا کہ میں ہی خدا ہوں اور سوائے مکہ مدینہ کے ويغلب أمره على الأرض كلها غير مكة وطيبة، فهذا يُخالف نص القرآن الكريم لأن القرآن، كما ذكرت آنفًا، قد وعد لمتبعى عيسى ابن سب روئے زمین پر غالب ہو جائے گا.پس یہ نص قرآنی کے صریح مخالف ہے کیونکہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کے متبعین مريم عليه السلام وعدًا مؤكدًا بالدوام وقال وَجَاعِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا سے پختہ اور دائی عہد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ”تیرے إلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ.ومعلوم أن الدجّال الذی اتباع کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا ينتظره قومُنا هو بزعمهم ليس من متبعى اور ظاہر ہے کہ ہماری قوم کا منتظر دجال تو ان کے خیال عيسى عليه السلام ولا يؤمن بالمسیح میں بھی نہ عیسی علیہ السلام کا متبع ہوگا اور نہ اُن پر اور نہ اُن ولا بـإنـجـيـلـه ومـا ذهـب أحد من علماء کی انجیل پر ایمان لاوے گا اور کوئی [ مسلمانوں کا ] عالم المسلمين إلى أنـه يـؤمـن بـعيسى ابن اس طرف نہیں گیا کہ وہ مسیح پر ایمان لا دے گا بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ وہ کہے گا کہ میں خود خدا ہوں اور نہ خدا پر ایمان مريم، بل يـقـولـون إنه يقول إني أنا الله، ولا يؤمن بالله ولا بأحد من الأنبياء ، فالقرآن لا يجوز له موضع قدم في زمان لاوے گا اور نہ کسی نبی پر.پس قرآن مجید تو اس کے لئے کسی من الأزمنة، بل يخبر عن غلبة المسلمين زمانہ میں بھی قدم رکھنے کی جگہ نہیں دیتا بلکہ یہی بتا تا ہے أو غلبة النصارى إلى يوم القيامة.کہ قیامت تک یا مسلمان غالب ہوں گے یا نصاری.ال عمران : ۵۶
حمامة البشرى ۵۴ اردو ترجمه ووالله ما قلتُ قولا في وفاة المسيح اور بخدا میں نے مسیح کی وفات اور عدم وَعَدمِ نُزُوله وقيامى مقامه إلا بعد نزول اور اپنے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں الإلهام المتواتر المتتابع النازل كالوابل کبھی کوئی بات نہیں کی مگر جبکہ بارش کی طرح وبعد مكاشفات صريحة بيئة منيرة متواتر الہامات ہوئے اور طلوع صبح کی مانند كفلق الصبح، وبعد عرض الإلهام على کھلے کھلے مکاشفات دکھلائے گئے اور الہاموں القرآن الكريم والأحاديث الصحيحة کو قرآن اور احادیث [ نبویہ ] صحیحہ سے ملا کر النبوية، وبعد استخارات و تضرعات دیکھا گیا اور استخارے کئے گئے اور عاجزی سے وابتهالات في حضرة رب العالمين.رب العالمین کی بارگاہ میں دعائیں کی گئیں.بقية الحاشية - فأى دليل يكون أوضح من بقیہ حاشیہ.پس فرضی دجال کے ابطال اور اس کے هذا على إبطال وجود الدجّال المفروض قائلوں کے کذب کے اثبات کے لئے اس سے بڑھ کر وعلى ثبوت كذب قول القائلين؟ وانت تعلم اور کون سی واضح دلیل چاہئے.اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ أن القرآن يقيني قطعي وليس كمثله حدیث قرآن ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ تو اتر اور حفظ وعصمت میں في التواتر وحفظ الحق و عصمته، فافهم ان ہرگز حدیث اس کے مشابہ نہیں ہو سکتی اگر تو طالب حق ہے تو سمجھ لے.كنت من الطالبين.وأما قول بعض العلماء أن الدجال يكون اور بعض علماء کا یہ کہنا کہ دجال یہودی ہو گا یہ پہلی بات من قوم اليهود..فهـذا الـقـول أعجب من سے بھی زیادہ تعجب انگیز ہے.کیا وہ قرآن کی یہ آیت القول الأول ، لا يقرأون في القرآن آية نہیں پڑھتے کہ ان پر ذلت اور خواری کا سکہ لگایا گیا ہے.ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَةُ وَالْمَسْكَنَةُ فالذين ضرب الله عليهم إلى يوم القيامة كل ذلة، : وأخبر في كتابه الـكـامـل المحكم أن اليهود پس جن یہود پر کہ خدا نے قیامت تک کامل ذلّت مسلط کر دی ہے اور اپنی کامل اور محکم کتاب میں بتا دیا ہے کہ وہ ہمیشہ کسی اور بادشاہ کے نیچے ذلیل اور خوار رہیں يعيشون دائما تحت ملك من الملوك صاغرين مقهورين ولا يكون لهم مُلك إلى الأبد گے اور کبھی اُن کا ملک نہ ہوگا ان سے وہ دجال کہاں كيف يخرج منهم الدجال ويملك الأرض كلها؟ | پیدا ہو سکتا ہے جو سب روئے زمین کا مالک ہو جاوے.البقرة: ٦٢
اردو ترجمه حمامة البشرى ثم ما استعجلت في أمرى هذا، بل أخرتُه پھر بھی میں نے جلدی نہیں کی بلکہ دس سال إلى عشر سنة، بل زدت عليها وكنت سے بھی زیادہ تاخیر کی اور خدا کے کھلے کھلے لحكم واضح وأمر صريح من المنتظرين حکم کا منتظر رہا اور اس زمانہ میں میں وكنت صنفتُ كتابًا في تلك الأيام التي نے براہین احمدیہ نام [سے] ایک کتاب مضت عليها عشر سنة، وسميتها تصنيف كى جس کو اب دس سال ہو گئے اور البراهين، وكتبت فيها بعض إلهاماتی اس میں میں نے اپنے وہ الہام بھی درج من قبل تأليف ذلك کئے ہیں جو اس کی تصنیف سے پہلے ہو چکے الكتاب وكانت من جملتها هذا الإلهام تھے اور منجملہ اُن کے یہ الہام بھی درج ہے أعنى: " يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کہ اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ اپنی طرف اٹھاؤں گا اور منکروں کے اتہاموں كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ سے تجھے پاک کروں گا اور تیرے تابعداروں الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ القِيامَةِ.وإن کو مخالفوں پر قیامت تک غالب کروں گا“ الله قد سمانى فى هذا عیسی اور اللہ نے اس میں میرا نام عیسی رکھا ہے.(۱۴) التي بقية الحاشية - ألا إن كلمات الله صادقة لا بقیہ حاشیہ.اصل بات تو یہ ہے کہ خدا کی باتیں کچی اور اٹل ہیں تبديل لها، ولكن القوم ما علموا معانی الأحادیث لیکن ہماری قوم نے احادیث کے معنے پورے طور پر نہیں سمجھے اور وما فهموها حق فهمها، والله يمن على من يشاء خدا جس پر اپنا فضل کرتا ہے اس کو وہ باتیں جتادیتا ہے جو اوروں من عباده فيفهمه ما لم يُفهم أحدًا من العالمين.پر پوشیدہ رکھتا ہے.وسمعت أن بعضهم ينظرون لفظ النزول اور میں نے سنا ہے کہ بعضے جب قصہ نزول مسیح میں في قصة نزول المسيح، ويعجز عن درك نزول کا لفظ دیکھتے ہیں اور اس نکتہ کے سمجھنے سے ان کے هذه النكتة فهمهم، وتضمحل طبائعهم فہم عاجز آ جاتے ہیں اور اس سے ان کی طبیعتیں پڑ مردہ وتـلـغـب أفكارهم، فيحسبون بآرائهم ہو جاتی ہیں اور ان کی فکر میں بہک جاتی ہیں تو اپنی سطحی رائے سے خیال کر لیتے ہیں کہ مسیح آسمان سے اترے گا السطحية أن عيسى ابن مريم ينزل من ا السماء
حمامة البشرى ۵۶ اردو ترجمه ومن جملتها إلهام آخر اور منجملہ ان کے ایک اور الہام بھی درج خاطبنی ربى فيه وقال: ہے جس میں مجھے اللہ مخاطب کر کے کہتا ہے إني خلقتك من جوهر ،عیسی کہ میں نے تجھ کو عیسی کے جوہر سے پیدا وإنك وعيسى من جوهر واحد کیا ہے اور تو اور عیسی ایک ہی جو ہر سے و كشيء واحد ومن جملتها اور ایک ہی شے کی مانند ہو.اور ایک اور إلهام سمى فيه كل من خالفنى من الهام درج ہے جس میں میرے مخالفین العلماء ” اليهود والنصارى“.علماء کو یہود اور نصاریٰ کہا گیا ہے." بقية الحاشية ولا يرون أن القرآن قد بقیہ حاشیہ.اور یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن نے مختلف مقامات اختار لفظ النزول في مقامات شتی و قال پر نزول کا لفظ اختیار کیا ہے مثلاً فرمایا ہے کہ ”ہم نے لوہا أَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ نازل کیا.اور ہم نے تمہارے لئے چار پائے نازل و أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ لِبَاسًا - ومعلوم أن الحديد لا ينزل من السماء بل يتكوّن کئے.“ اور ”ہم نے تمہارے لئے لباس نازل کیا.اور ظاہر ہے کہ لوہا آسمان سے نہیں اتر تا بلکہ کانوں سے نکلتا في المعادن، وكذلك يتــولـد الحميـر مـن الـحـمـيـر والـخـيـل من الخيل، وما رأی ہے اور گدھا گدھی سے اور گھوڑا گھوڑی سے پیدا ہوتا ہے أحد من الناس أن هذه الحيوانات تنزل اور کسی نے نہیں دیکھا کہ یہ حیوانات آسمان سے اُترتے ہوں.اور لباس روئی ، اون اور چمڑوں اور ریشم وغیرہ من السماء ، وكذلك الألبسة تتخذ من القطن والصوف والجلود والحرير سے بنائے جاتے ہیں اور یہ سب اشیاء ہوتی تو زمین میں وهذه الأشياء كلها تكون في الأرض ولـكـن بـحكـم ربّ السماوات، ولو اجتمع ہیں لیکن [ ربّ السماوات ] خدا کے حکم سے.اور اگر سب أهل الأرض جميـعـا عـلـى أن يـخـلـقـوا مخلوقات چاہے کہ اپنی قوت اور تدبیر سے یہ اشیاء پیدا هذه الأشياء بقوتهم وتدبيرهـم لـم کرے تو کبھی نہیں کر سکتے پس گویا کہ سب آسمان سے يستطيـعـوا أبدًا، فكأنها نزلت من السماء.وقد قال الله تعالى إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا اُترے ہیں اور پھر خدا نے فرما دیا ہے کہ سب اشیاء کا ہمارے ہی (۱۸) عِنْدَنَا خَزَابِتُهُ وَمَا تُنَزِلَة إِلا بِقَدَرٍ معلوم پاس خزانہ ہے اور ہم ان کو ایک خاص اندازہ سے اُتارتے ہیں مَّعْلُومٍ الحديد : ٢٦ الزمر : ۷ الاعراف: ۲۷ الحجر : ٢٢
حمامة البشرى ۵۷ اردو ترجمه ثم ما أُلهمتُ إلى عشر سنة بمثل هذه پھر دس سال تک ایسا کوئی الہام نہ ہوا اور مجھے الإلهامات، وما كنت أدرى أنى أؤمر ہرگز معلوم نہ تھا کہ اس قدر لمبی مدت کے بعد میں بعد هذه المدة الطويلة وأُسمَّى مسيحا مامور کیا جاؤں گا.اور خدا کی طرف سے میرا موعودًا من الله تعالى، بل كنتُ خِلْتُ نام مسیح موعود رکھا جاوے گا بلکہ جیسا کہ قوم أن المسيح نازل من السماء كما هو کے خیال میں گڑا ہوا ہے میں بھی خیال کرتا مركوز في مدارك القوم، ولكنى كنت تھا کہ مسیح آسمان سے اترے گا.ہاں میں أقول في نفسى تعجبا : إن الله لم سمانى متعجب ہو کر اپنے دل میں کہتا تھا کہ خدا نے عيسى ابن مريم في إلهامه المتواتر اپنے متواتر الہاموں میں میرا نام عیسی بن المتتابع، ولم قال إنك وإنه من جوهر مريم كيوں رکھا ہے اور کیوں کہا ہے کہ تو اور وہ واحد، ولم سمى المخالفين اليهود ایک ہی جو ہر سے ہو اور میرے مخالفوں کو والنصارى ؟ فظهرت على معانى تلك یہود اور نصاری سے نامزد کیا ہے پھر دس سال الإلهامات والإشارات بعد عشر سنة کے بعد ان الہاموں کے معنے مجھ پر کھلے جبکہ وبعد إشاعة البراهين في ألوف من یہ الہام بہت سے اہلِ اسلام اور مشرکوں میں شائع الناس، وبعد إشاعة هذه الإلهامات فی کئے گئے اور براہین میں بھی چھپ کر ہزار ہا لوگوں خلق كثير من المسلمين والمشركين میں پھیلائے گئے.بقية الحاشية - فكل شيء منزّل من السماء بقیہ حاشیہ.پس سب اشیاء ایک خاص انداز سے بذریعہ بقدر معلوم بتوسط علل وأسباب أرضية ارضی اور سماوی علل و اسباب کے آسمان سے اُترتی ہیں جیسا وسماوية اقتضتها حكمة اللہ تعالی کہ اس کی حکمت چاہتی ہے پس بڑی برکتوں والا ہے اللہ جو فتبارك الله أحسن الخالقين.بہترین خالق ہے.وللنزول معنى آخر وهو الارتحال من مكان اور نزول کے ایک اور معنی بھی ہیں یعنی ایک جگہ سے سفر کر والنزول في مكان آخر كما جاء في حديث کے دوسرے مقام میں اُترنا جیسا کہ مسلم کی حدیث میں آیا مسلم أن المسيح الدجال ينزل دُبُرَ أحد ہے کہ دجال اُحد پہاڑ کے پیچھے اُترے گا اور عیسی سفید وعيسى ينزل عند المنارة البيضاء شرقی دمشق منارہ کے پاس اُترے گا جو دمشق کے شرقی طرف ہو گا
حمامة البشرى ۵۸ اردو ترجمه ،، فاسألوا الذين يظنون أنه افتراء پس جو لوگ بدظنی سے کہتے ہیں کہ یہ خود ساختہ منحوت أهذه علامات المفترين؟ وكانوا افترا ہے اُن سے یہ تو پوچھو کہ یہ مفتریوں کی يقرأون من قبل كتابي "البراهين علامتیں ہیں.اور جو باتیں اب میں نے مفصل ويجدون فيه مجملا كل ما قلت في کہی ہیں ان کو مجمل طور پر پہلے سے میری کتاب هذه الأيام مفصلا، وكانوا يحبون براہین میں پڑھتے تھے اور اس کتاب سے پیار ذلك الكتاب ويصدقون إلهامات کرتے تھے اور مذکورہ الہاموں کی تصدیق کرتے مذكورة ولا يُعرضون كالمنکرین تھے اور منکرین کی طرح اعراض نہ کرتے تھے بقية الحاشية ـ والـعـجـب مـن القوم أنهم بقیہ حاشیہ.اور پھر اس قوم پر سخت تعجب ہے کہ نزول مسیح يفهمون من نزول عيسى نزوله من السماء سے یہی خیال کرتی ہے کہ وہ آسمان سے اترے گا اور ويزيدون لفظ "السماء" من عندهم، ولا تجد آسمان کا لفظ اپنی طرف سے ایزاد دیتے ہیں اور کسی صحیح أثرا منه في حديث.وأما ما ذكر في قصة نزول حدیث میں اس کا کوئی اثر و نشان نہیں اور نزول مسیح کے عيسى أنه ينزل واضعًا كَفَّيه على جناحی قصہ میں جو یہ آیا ہے کہ وہ ملائکہ کے کاندھوں پر ہاتھ الملائكة، فليس هذا اللفظ دليلا على نزوله رکھے ہوئے اترے گا تو اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ من السماء ، وقد جاء مثل هذا اللفظ في آسمان سے اترے گا کیونکہ طالب علموں کے فضائل کے فضائل الذي يخرج من بيته لطلبِ علم الدین، بارہ میں بھی حدیث میں ایسا ہی آیا ہے جبکہ وہ علم دین کی وكذلك نظائره كثيرة في الأحاديث، ولو لم طلب میں گھر سے نکلتے ہیں اور اس کی حدیثوں میں بہت يكن خوف طول المكتوب لذكرتُ كلها بل نظیریں ہیں اور اگر خط لمبے ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں الحق الذي كشف الله على أمر يقبله كل سب کو تحریر کرتا بلکہ حق وہ.سب کو تحریر کرتا بلکہ حق وہ ہے جو خدا نے مجھ پر منکشف مؤمن طالب الحق، ولا يأبى إلا الذى لا يتخذ فرمایا ہے اور ہر ایک طالب حق مومن اس کو قبول کر سکتا سبيل المهتدين، وهو أن نزول المسيح عند ہے ہاں جو ہدایت کی راہ سے منکر ہو.وہ اس سے بھی انکار المنارة البيضاء شرقي دمشق واضعًا كَفَّیه علی کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ملائکہ کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے أجنحة ملكين إشارة إلى شيوع أمره في بلاد ہوئے سپید منارہ کے پاس دمشق کے شرقی جانب میں مسیح کے الشام خالصًا من العلل السماوية، منزّها عن اترنے سے یہ مراد ہے کہ اُس کی بات محض سماوی اسباب سے دخل الأسباب الأرضية، وعن دخل سلطانها ملک شام میں پھیل جاوے گی اور اُس میں زمینی اسباب اور ودولتها وعساكرها وأفواجها ومس تدابیرها، بادشاہت اور لشکر اور فوج اور تدابیر کا کچھ بھی دخل نہیں ہو گا.
حمامة البشرى ۵۹ اردو ترجمه فلما جاء میقات ربي، وأُمرت اور جبکہ خدا کا مقرر شدہ وقت آگیا اور جس نام لأصدع بما سُمّيت في الكتاب سے کہ کتاب مذکور میں میں نامزد کیا گیا تھا اس کے المذكور انقلبوا منكرين مکفرین ساتھ کھڑا ہونے کا مجھے حکم دیا گیا تو منکر و مکفر بن ۱۵ كأنهم سمعوا كلمة غريبة أو كر اعراض کر گئے گویا کہ انہوں نے عجیب بات سنی جاء هم ذكرٌ مُحدث وكأنهم ما ہے [یا ان کے پاس نئی بات آئی ہے.] اور جو کچھ كانوا مطلعين على ما كتبت في براہین میں میں نے لکھا تھا گویا اس پر ان کو کچھ بھی البراهين“.ولو كانوا عاقلين اطلاع نہ تھی.اور اگر وہ عقلمند اور منصف اور حق کے مـنــصـفـيــن طالبين للحق مفتشين طالب اور حقیقت کے تفتیش کرنے والے ہوتے تو للحقيقة لتفكروا في قول قد كُتِبَ ضرور اس بات میں فکر کرتے جو پہلے سے براہین میں من قبل وطبع وأشيع في زمان مكتوب و مطبوع ہو کر اس زمانہ میں شائع ہو چکی ما كان أثر هذه الدعاوى فيه تھی کہ جس میں ان دعاوی کا کچھ اثر اور نشان نہ تھا بقية الحاشية بـل يـعـلـو أمره بحماية الله بقیہ حاشیہ.بلکہ وہ اللہ کی حمایت اور آسمانی لشکر کے ساتھ غالب ہو وجنده السماوية، كأنه نزل على أجنحة جاوے گا گویا کہ وہ ملائکہ کے پروں پر اترا ہے اور دجال زمینی حیلوں اور من گھڑت تدبیروں اور ان فریبوں کے ساتھ نکلے گا جو وقتاً فوقتاً الأرضية والتدابير المنحوتة من عند نفسه، والتلبيسات التي تجدّد في كل حين.تجدید کی جاتی ہیں.وإني سمعت أن بعض علماء هذه الديار يقولون اور میں نے سنا ہے کہ اس ملک کے بعض علماء کہتے ہیں 19 إن جملة: يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ مؤخرة من جملة کہ جملہ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ جَملہ رَافِعُكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمَقدَّمة من جملة " وَمُطَهَّرُكَ مِنَ إِلَيَّ سے موخر ہے اور وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا الَّذِينَ كَفَرُوا ومن جملة وَجَاعِلُ الَّذِينَ اور وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ سے پہلے ہے لیکن اے میرے بھائی تم ولكن أنت تعلم يا أخى أن هذا التأويل باطل جانتے ہو کہ یہ تاویل بالبداہت باطل ہے اس لئے کہ بالبداهة ومستنكر جدًا، لأنّ الأمر لو كان كذلك الوجب أن يموت المسيح بعد الرفع وقبل هذه اگر ایسا ہوتا تو لازم تھا کہ مسیح رفع کے بعد اور ان واقعات الواقعات التي ذكرها القرآن بعد ذكر الرفع سے پہلے مرتا جو رفع کے بعد قرآن نے ذکر کئے ہیں.الملائكة وأما الدجال فيخرج بالحيل
حمامة البشرى ۶۰ اردو ترجمه ولتفكروا فی سوانح عمری اور میری سوانح میں بھی فکر کرتے کہ میں اس ولقد لبثت فيهم عُمُرًا من قبل سے پہلے بہت سی عمر اُن میں گزار چکا ہوں بقية الحاشية يعني قبل تطهير ذيله من بهتانات بقیہ حاشیہ.یعنی یہود کے بہتانوں سے ان کو پا کد امن کرنے اور اليهود وقبل جعل متبعيه الغالبين على الذين تابعداروں کو مخالفوں پر غالب کرنے سے پہلے مرتے اور وہ اعتقاد كفروا، وهم يعتقدون بأن المسيح ما مات إلى هذا رکھتے ہیں کہ مسیح اب تک نہیں مرا اور یہ سب وعدے پورے ہو چکے الزمان، وقد تمت هذه المواعيد كلها و وقعت ہیں پس ان کی عقلوں پر تعجب ہے کہ وہ اپنے اعتقاد کے خلاف بأسرها.فالعجب من عقلهم لم يقولون على کیوں کہتے ہیں حالانکہ وہ سب متفق ہیں کہ مسیح فقط رفع کے بعد نہ خلاف ما يعتقدون، وقد اتفقوا على ان المسبح مرے گا بلکہ خاتم النبیین کی بعثت کے ساتھ جب یہود کے بہتانوں لا يموت بعد الرفع فقط بل بعد الرفع وبعد تطہیر سے وہ پاک کیا جائے گا اور اُس کے متبع اُس کے منکروں پر غالب ہو ذيله من بهتانات اليهود ببعث خاتم النبيين وبعد جاویں گے پھر وہ مرے گا.پس اس بنا پر ان پر لازم آتا ہے کہ وہ یہ غلبة متبعيه على الذين كفروا، فعلى هذا يلزمهم اعتقاد کریں کہ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کا جملہ وجاعل الذين أن يعتقدوا بأن جملة يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيامة سے مؤخر ہے مؤخرة من جملة وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ پس ان پر لازم آتا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ آیت کی ترتیب اصل میں یوں الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيامَةِ فلزمهم أن يقولوا تھی کہ اے عیسی میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور یہود کے إن ترتيب الآيات كان في الأصل هكذا..أعنى بہتانوں سے پاک کرنے والا ہوں اور پھر تیرے تابعداروں کو يا عيسى إني رافعك إلى ومطهرك من الذين تیرے مخالفوں پر قیامت تک غالب کرنے والا ہوں.پھر قیامت كفروا وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا إلى يوم القيامة، ثم بعد القيامة منزلك من السماء کے بعد آسمان سے تجھ کو اُتارنے والا ہوں اور اس کے بعد پھر تجھے مارنے والا ہوں.پس اپنی من گھڑت سے آیات کی تحریف کرنے ثم متوفيك.فلا سبيل لهم إلى تحريف هذه الآيات اور تقدیم و تاخیر کرنے سے ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ یہ وتقديمها وتأخيرها من عند أنفسهم إلا أن يقولوا تسلیم نہ کریں کہ مسیح قیامت کے بعد آسمان سے اتریں گے اور إن المسيح لا ينزل ولا يموت إلا بعد يوم القيامة وهذا خُلف.فيا حسرة عليهم! لم يحرفون قیامت ہی کے بعد مریں گے اور یہ صریح باطل ہے.پس ان پر كلم الله عن مواضعها مع عجزهم عن وضعها افسوس کہ جب كلمات الہی کو دوسری جگہ پر رکھنے سے عاجز ہیں تو ان کو ۲۰ في موضع آخر؟ وذلك من إعجازات القرآن اپنے محل سے کیوں بدلتے ہیں.پس قرآن کے معجزات میں سے أن محرف آياته لا يستطيع أن يُحرف ويُبدل ایک یہ بھی ہے کہ کوئی محرف اس کی تحریف نہیں کر سکتا کیونکہ جب ترتيبـه الـمـحـكـم المرضع الأبلغ، فينكشف وہ اس کی محکم مُرقع اور بلیغ ترتیب کو بدلے گا تو علماء رائفین تو در کنار كذبه على النساء والصبيان فضلا عن العلماء عورتوں اور بچوں پر بھی اس کا جھوٹ ظاہر ہو جاوے گا.پس پاک الراسخين، فسبحان من أنزل القرآن بإعجاز مبين.ہے وہ خدا کہ جس نے قرآن کو بین اعجاز کے ساتھ اتارا ہے
حمامة البشرى ۶۱ اردو ترجمه ولتفكروا في رأس المأة وضرورة اور صدی کے سر اور اللہ و رسول کے وعدہ کے المجدد بما وعد الله ورسوله مطابق مجدد کی ضرورت میں بھی فکر کرتے بقية الحاشية ـ والـعـجـب من قومنا أنهم بقیہ حاشیہ.اور ہماری قوم پر تعجب ہے کہ وہ بخاری وغیرہ كانوا يقرأون فى البخاري وغيره من میں پڑھتے تھے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے ہوگا اور الصحاح أن المسيح الموعود من هذه الأمة انہیں میں سے ان کا امام ہوگا پھر طرفہ یہ کہ آنحضرت صلی وإمامهم منهم، ولا يجيء نبى بعد رسول اللہ اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی رسول بھی نہیں آ سکتا کیونکہ وہ صلى الله عليه وسلم وهو خاتم النبيين، وما خاتم النبیین ہیں اور قرآن کی تکمیل کے بعد اس کو کوئی كان لأحد أن ينسخ القرآن بعد تكميله، ثم منسوخ بھی نہیں کر سکتا.لیکن انہوں نے جو کچھ پڑھا سیکھا نسوا كل ما علموا وعرفوا واعتقدوا وضلوا اور مانا ہوا تھا سب بھلا دیا اور خود بھی گمراہ ہوئے اور بہت سے جاہلوں کو بھی گمراہ کیا.وأضلوا كثيرًا من الجاهلين.وأما الاختلافـات التـي تـوجــد فـي هـذه اور ان احادیث میں جو اختلاف ہے اس کی تفصیل اس الأحاديث فلا يخفى على مَهَرَةِ الفنّ تفصيلها، فن کے ماہروں پر پوشیدہ نہیں ہے اور ہم نے کچھ کچھ اپنے وقد ذكـرنـا شـطـرا منها في رسالتنا الإزالة، رسالہ ازالہ اوہام میں بیان کیا ہے.طالب حق کو چاہئے کہ فليرجع الطالب إليها.وقد جاء فی حدیث ان اُس کا مطالعہ کرے اور بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح اور المسيح والمهدى يجيئان في زمن واحد، وجاء مہدی ایک ہی زمانہ میں آویں گے اور بعض میں ہے کہ في حديث آخر أنه لا مهدى إلا عيسى، وجاء عیسی کے سوا اور کوئی مہدی نہیں ہے اور بعض میں آیا ہے کہ في حديث أن المسيح والمهدى يتلاقيان مسیح اور مہدی ملاقات کریں گے اور خلافت کے بارہ میں ويشاور المهدى المسيح في مهمات الخلافة، مہدی مسیح سے مشورہ لیں گے اور ان دونوں کا ایک ہی ويكون زمانهما زمانًا واحدًا.وفي حديث آخر زمانہ ہوگا اور بعض میں یوں آیا ہے کہ مہدی تو اس اُمت أن المهدى يُبعث في وسط قرون هذه الأمة کے درمیانی زمانہ میں آوے گا اور مسیح اس کے آخر میں والمسيح ينزل في آخرها، وفي حديث من آئے گا اور حدیث بخاری میں آیا ہے کہ میسج حکم عدل ہو کر البخارى أن المسيح يجيء حكمًا عدلا فيكسر آئے گا اور صلیب کو توڑے گا یعنی صلیب پرستوں کے غلبہ الصليب..يعني يجيء في وقت غلبة عبدة کے وقت آئے گا اور صلیب کی شوکت کو توڑے گا.اور الصليب فيكسر شوكة الصليب ويقتل خنازير نصاری کے خنزیروں کو قتل کرے گا.اور دوسری حدیث میں النصارى.وفي حديث آخر أنه يجيء في وقت آیا ہے کہ جب دجال روئے زمین پر غالب ہو جاوے گا تو غلبة الدجال على وجه الأرض فيقتله بحربته تب آوے گا، اور اُس کو اپنے حربہ کے ساتھ قتل کرے گا.
حمامة البشرى ۶۲ اردو ترجمه ولتفكروا في مفاسد الزمان و بدعاتها، اور پھر زمانہ کے مفاسد اور بدعات کو اور ہر ایک ونسل النصارى من كل حدب بلندی سے نصاری ( کی ذریت ) کے اترنے کو سوچتے بقية الحاشية - فاعلم أن هذا المقام مقام بقیہ حاشیہ.پس جان لے کہ ناظرین کے لئے حیرت اور حيرة وتعجب للناظرين.وتفصيله ان مجی تعجب کا مقام ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ صلیب نصاریٰ المسيح لكسر صليب النصارى وقتل کی توڑنی اور ان کے خنزیروں کے قتل کرنے کے واسطے مسیح ۲۱ کی خنازيرهم يشهد بصوت عال على أن المسيح کا آنا بآواز بلند شہادت دیتا ہے کہ مسیح موعود اُس وقت الموعود لا يجيء إلا في وقت غلبة النصاری آوے گا کہ جب نصاری روئے زمین پر غالب اور مسلط على وجه الأرض وتسلطهم عليها وشیوع ہو جاویں گے اور صلیبی مذہب اپنی پوری شوکت اور کامل المذهب الصليبي في جميع أقطار العالم قوت اور سلطنت اور دولت کی حمایت کے ساتھ اقطار عائم بالشوكة التامة والقوة الـكـامـلـة وحماية میں پھیل جاوے گا.پھر جب ہم خروج دجال کی حدیثوں السلطنة والدولة.ثم إذا نظرنا إلى أحاديث پر نظر ڈالتے ہیں تو ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اُس خروج الدجال فنجد فيها كان المسيح لا وقت نازل ہوگا کہ دقبال روئے زمین پر غالب ہو اور اگر ينزل إلا في وقت غلبة الدجّال على وجه ہم تسلیم کر لیویں کہ [ روئے زمین پر ] غلبہ نصاری کے الأرض، وإنا إذا صدقنا حديث مجيء المسيح وقت مسیح کے آنے کی حدیث صحیح ہے اور ہم مان لیو میں کہ عند تسلط النصارى على وجه الأرض صلیب کے توڑنے اور ان کے [مذہب کی] شوکت کے واعتقدنا بأنه يجىء لكسر صليب النصارى استیصال کے واسطے آوے گا تو اس سے ضرور لازم آتا واستيصال شوكة مذهبهم، فيلزم من ذلك أن ہے کہ ہم اُس حدیث کی تکذیب کریں جو بتاتی ہے کہ وہ نكذب حديثا آخر الذي يدلّ على أن المسيح يأتي لقتل الدجال عند غلبته على وجه الأرض دجال کے قتل کے لئے آوے گا جبکہ وہ سوائے مکہ مدینہ کے كلها غير مكة وطيبة، فإن تسلُّط الدجّال علی سب روئے زمین پر غالب ہو جاوے گا کیونکہ دجال کا سب وجه الأرض كلها وتسلط النصارى على وجه روئے زمین پر مسلط ہونا اور اُسی زمانہ میں نصاری کا بھی الأرض كلها في زمان واحد نقيضان سب روئے زمین پر مسلط ہونا یہ دونوں متخالف اور نقیض ہیں متخالفان، ومعلوم أن النقيضين لا يجتمعان فی اور ظاہر ہے کہ دونوں نقیض نہ تو ایک وقت میں جمع ہوسکتی ہیں وقت واحد ولا يرتفعان فثبت بالضرورة ان اور نہ دونوں رفع ہو سکتی ہیں.پس بالبداہت ثابت ہوا کہ من هذين الخبرين خبر حق وخبر باطل ثم إذا ان دونوں حدیثوں میں سے ایک حق ہے اور ایک باطل ہے.نظرنا إلى الواقعات الموجودة فوجدنا حكومة پھر جب ہم موجودہ واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں النصارى قد أحاطت كالدائرة على أهل الأرضین کہ دائرہ کی مانند نصاری کی حکومت اہلِ زمین پر محیط ہو گئی ہے
حمامة البشرى ۶۳ اردو ترجمه فيا حسرة عليهم ! إنهم ظنوا ظن پس اُن پر افسوس ہے کہ انہوں نے بغیر سوچنے السوء بغير فكر وتحقيق وإمعان اور تحقیق کرنے اور باریک بینی کے بدظنی کی بقية الحاشية - ونرى أن السلاطين كلهم بقیہ حاشیہ.اور ہم دیکھتے ہیں کہ سب بادشاہ ان کے يرتعدون من هولهم، وقد ظهرت على قلوبهم خوف سے کانپتے ہیں اور خوف سے ان کے دلوں پر سکتہ خوف وانحجام واعتقدوا بأنهم عليهم غالبون.کا سا عالم ہو گیا ہے اور ان کو یقین ہو گیا ہے کہ یہ لوگ ولكنا لا نرى من الدجال الموهوم المتصور فی ہم پر غالب ہیں لیکن قوم کے وہمی اور خیالی دجال سے خيالات الـقـوم أثرا ولا علامة، ونرى أن فتن ہم کوئی علامت اور نشان نہیں پاتے اور ہم یہ بھی دیکھتے النصارى قد تكاثرت وامتلأت الأرض من ہیں کہ نصاریٰ کے فتنے بہت ہو گئے ہیں اور زمین ان کے ۲۲ مكائدهم فهذا دليل واضح على ان المعنی فریبوں سے پُر ہو گئی ہے تو یہ اس کی واضح دلیل ہے کہ مسیح الصحيح نزول المسيح عند غلبة النصاري على کا نزول نصاری کے غلبہ کے وقت ہوگا اور ان متعارض أهل الأرض، ولا سبيل إلى تطبيق هذه الأحاديث حدیثوں کی تطبیق کا بجز اس کے اور کوئی سبیل ہی نہیں کہ المتعارضة إلا أن نقول أن قسيسى النصارى هم نصاری کے علماء ہی بے شک دجال معبود ہیں اور ہم پر الدجال المعهود، ووجب علينا أن نفسر واجب ہے کہ ہم حدیثوں کی تفسیر ایسی کریں جیسے کہ وہ الأحاديث بنحو ظهرت معانيها في الخارج، فإن واقعہ میں ظاہر ہوئے ہیں کیونکہ جن احادیث کا ہم نے الأحاديث التي ذكرناها آنفًا كان بعضها قائدًا ابھی ذکر کیا ہے ان میں سے بعض تو اس طرف کھینچتی ہیں إلى أن المسيح ينزل عند شوكة النصارى کہ نصاری کے تسلط اور ان کی صلیب کی شوکت کے وشوكة صليبهم وتسلطهم فى الأرض، وكان وقت مسیح اترے گا اور بعض اس طرف کھینچتی ہیں کہ خروج بعضها قائدًا إلى أنه لا ينزل إلا في وقت خروج دجال اور اس کے تمام زمین پر مسلط ہونے کے وقت الدجال وتسلطه على وجه الأرض كلها، فراینا اترے گا.پس ہم نے پہلی قسم کی حدیثوں کے آثار تو آثار القائد الأول ووجدناها واقعة فی زماننا، دیکھ لئے اور ان کو اس زمانہ میں صادق پایا ہے اور ہم ونرى أن أخبار شوكة الصليب قد تمت ووقع نے صلیبی شوکتوں کی خبروں کو واقع ہوتے دیکھ لیا جیسا كلها كما أخبر عنها رسول الله صلی اللہ علیہ کہ آنحضرت نے خبر دی تھی یہاں تک کہ ہم نے اپنی وسلم حتى رأيناها بأعيننا، وأما القائد الذي كان آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور خروج دجال کی حدیثیں جو مخالفًا لها ومعارضًا لمعانيها، أعنى حديث خروج ان کے مخالف اور معارض ہیں ان کا کچھ اثر اب تک ظاہر الدجال فما ظهر أثر منه، فالذي ظهر من نہیں ہوا پس دو معنوں میں سے جو ظاہر ہو گئی ہیں وہی حق ہیں المعنيين هو الحق، والذى ما ظهر من المعنيين اور جو ان میں سے ظاہر نہیں ہوئی وہ باطل ہیں کہ جن میں هو الباطل الذي أخطأ فيه نظر المتفكرين.سمجھنے والوں کی نظر نے خطا کھائی ہے.
حمامة البشرى ۶۴ اردو ترجمه وما كان لهم أن يتكلموا في المؤمن اور ان کے لئے جائز نہ تھا کہ ایک مومن میں إلا بحسن الظن، وما كان لهم أن يجز حسن ظن کے بات کرتے اور مجھ پر يسارعوا على مجترئين.وما حملهم ظلم کرنے میں جلد بازی کرتے.پس یہی على الإنكار إلا استعجالهم وسوء جلد بازی اور بدظنی اور بخل اور عناد اور ظنهم وبخلهم وعنادهم وقلة تدبّرهم، قلت تدبر ان کے انکار کے سبب ہیں.پس فيا حسرةً على الحاسدين والمعاندین افسوس ہے ان حاسدوں اور معاندوں اور والظانين ظن السوء والسالقين بدظنوں اور بد گوؤں پر.بقية الحاشية ومن الاختلافات العظيمة بقیہ حاشیہ.اور [ اس سلسلہ میں آنے والی] حدیثوں میں في أحاديث هذا الباب أن بعض الأحادیث ایک بھاری اختلاف یہ بھی ہے کہ بعض تو بتاتی ہیں کہ مسیح يدل على أن المسيح لا يأتي إلا تابعا ومطيعا مہدی کا تابع اور مطیع ہو کر آوے گا کیونکہ سب امام للمهدى، فإن الأئمة من قريش والمسيح قریش ہونے چاہئیں اور مسیح قریشی نہیں ہے.پس یہ ليس من قريش، فلا يجوز أن يستخلفه الله جائز نہیں کہ خدا اس کو خلیفہ اس اُمت کا بنائے اور بعض لهذه الأمة، وبعضها يدل على أن المسيح (احادیث) بتاتی ہیں کہ مسیح حکم عدل امام اور خلیفہ اللہ يأتي حَكَمًا عَدْلًا وإمامًا وخليفة من الله ہو کر آوے گا اور سب معاملہ اس کے اختیار میں ہوگا تعالى، وكل الأمر يكون في يديه، ولا يتبع اور بجز اس وحی کی جو چالیس برس تک اس پر نازل أحدا إلا وحتى الله الذى ينزل عليه إلى ہوتی رہے گی اور کسی کا اتباع نہ کرے گا اور اس وحی أربعين سنة، فينســخ بـوحيه بعض أحكام سے قرآن کے بعض احکام منسوخ کر دے گا اور کچھ الفرقان ويزيد بـعـضـا ويختم الله به النبوة زیادہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ نبوت اور وحی اس پر ختم کرے (۲۳) والوحـي ويجعله خاتم النبيين.ومع هذا گا اور اس کو خاتم النبیین بناوے گا اور اس کے ساتھ یہ بھی يقولون إن وحيه لا يُعارض وحتى القرآن کہتے ہیں کہ اس کی وحی قرآن کی وحی کے معارض نہ ہوگی ويصلي المسيح كما يصلى المسلمون، ويصوم اور وہ مسلمانوں کی طرح صلوٰۃ وصوم ادا کرے گا.لیکن كما يصومون، ولكنهم عند هذا القول ينسون وہ یہ کہتے ہوئے اپنی پہلی بات کو بھول جاتے ہیں جس میں قولهم الأول الذى قد صرّح فيه أن المسیح اس بات کی تصریح موجود ہے کہ وہ قرآن کے کچھ احکام ينسخ بعض أحكام الفرقان، فيضع الجزية، منسوخ کر دے گا چنانچہ جزیہ موقوف کر دے گا جس کو وما وضع القرآن الجزية قط حتى تم وكمل قرآن نے موقوف نہیں کیا یہاں تک کہ وہ کامل ہو گیا
حمامة البشرى اردو ترجمه اد وأما ما قلت في وفاة المسيح اور جو کچھ میں نے وفات مسیح کی بابت کہا ہے فما كان لي أن أقول من عند وہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ میں نے نفسي، بل اتبعث قول الله تعالیٰ اللہ کے قول کا اتباع کیا ہے اور اس کے اُس وآمنت بما قال الله تعالی عزّ وجل فرموده پر ایمان لایا ہوں کہ اے عیسی میں تجھے لعينى إِلى تَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ اِلَى ماروں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور منکروں وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ کے بہتانوں سے تجھے پاک کروں گا اور تیرے اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا الى يَوْمِ القِيمة تابعین کو مخالفین پر قیامت تک غلبہ دوں گا.بقية الحاشية ونزل آية الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ بقیہ حاشیہ.اور یہ آیت بھی نازل ہو گئی کہ ” آج ہم نے تمہارا لَكُمْ دِينَكُمْ وكذلك قالوا إن المسيح دین کامل کر دیا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مسیح خنزیر کو قتل کرے گا يقتل الخنزير، وما نرى في القرآن حكمًا حالانکہ قرآن میں لوگوں کے خنزیروں کے قتل کرنے کا کہیں لقتل خنازير أهل الأرض، بل منع من تضییع حکم نہیں بلکہ قرآن میں ذمیوں کے اموال کو ضائع کرنے اور أموال الدميين ونهب أملاكهم بعد أن أعطوا ان کی املاک چھینے کی ممانعت آئی ہے جبکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کریں.الجزية صاغرين.والعجب أن هذه الـعـلـمـاء آمنوا بأن الله اور ان علماء پر سخت تعجب ہے کہ یہ ایمان لاتے ہیں کہ مسیح پر تـعـالـى يـوحـى إلى المسيح إلى أربعين سنة چالیس برس تک اللہ تعالیٰ وحی نازل کرتا رہے گا حالانکہ پہلے اس وكانوا يـعـتـقــدون مــن قبل بأن وحی النبوة قد بات کے معتقد تھے کہ وحی نبوت ختم ہو چکی ہے پس ان پر افسوس انقطع فيا حسرة عليهم إنهم يعلمون مضار کہ اپنے عقائد کے ضرروں کو خوب جانتے ہیں اور پھر بھی ان کو عقائدهم ثم لا يتركونها وأراهم كالنائمين.ترک نہیں کرتے اور میں ان کو سویا ہوا خیال کرتا ہوں اور اس وأعجبني أنهم يجمعون في عقائدهم اختلافات بات نے مجھے سخت تعجب میں ڈال رکھا ہے کہ انہوں نے اپنے عجيبة ولا ينظر أحد منهم إلى هذه التناقضات.عقائد میں عجیب اختلاف جمع کر رکھے ہیں اور ان میں سے کوئی يؤمنون بعقيدة ثم يرجعون ويؤمنون بھی ان تناقضوں پر نظر نہیں کرتا کبھی ایک عقیدہ پر ایمان لاتے بعقيدة أخــراى تخالف الأولى و تعارضها، ہیں پھر اس کے مخالف و معارض ایک اور عقیدہ تسلیم کر لیتے ہیں ال عمران : ۵۶ المائدة : ۴
حمامة البشرى اردو ترجمه فانظر كيف شهد الله على وفاته فى دیکھ خدا نے اپنی روشن کتاب میں اس کی كتابه المبين او معلوم أن الرفع وتطهير وفات پر کیسی شہادت دی ہے اور ظاہر ہے کہ ذيل المسيح من إلزامات اليهود مسیح کا رفع اور اس کے دامن کا یہود کے 14 وبهتاناتهم، وغلبة أهل الحق وضرب الزاموں اور بہتانوں سے پاک کرنا اور اہلِ الذلة على اليهود، وجعلهم مغلوبين حق کا غلبہ اور یہود پر ذلت کا چھا جانا اور مقهورين تحت النصارى والمسلمین نصاری اور مسلمانوں کے نیچے مغلوب و مقہور ہونا بقية الحاشية - مثلا..إنهم يؤمنون باليقين بقیہ حاشیہ.مثلاً وہ کامل یقین اور ایمان رکھتے ہیں التام أن المسيح يأتي حَكَمًا عَدُلا، والناسُ کہ مسیح حکم اور عدل ہو کر آوے گا اور لوگ اس کو اپنا يحكمونه ويرفعون إليه مشاجراتهم، ويجعله حکم بناویں گے اور اپنے مقدمات ان کے پاس لے الله خليفة في الأرض، ثم يقولون إن عيسى جاویں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں خلیفہ ينزل تابعا للمهدى، والحَكَمُ العَدْلُ هو بنا وے گا پھر کہتے ہیں کہ عیسی مہدی کا تابع ہوگا اور المهدى لا عيسى الذي ليس من قریش حکم و عدل مہدی ہوگا نہ عیسیٰ جو قریشی نہیں ہے.اور ويقولون إن هذا الأمر من الواقعات الحقة.یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ واقعی اور حق بات ہے کہ مسیح ۲۴..أن عيسى ينزل عند غلبة النصارى واستيلائهم نصاری کے غلبہ اور استیلاء اور ہر ایک بلندی سے ان على وجه الأرض، ونسلهم من كل حدب، کے اترنے کے وقت نازل ہوگا اور ان کی صلیب کو فيكسر صليبهم ويقتـل خـنـازيــرهم، ثم توڑے گا اور ان کے خنزیروں کو قتل کرے گا اور پھر يرجعون ويقولون إن المسيح لا ينزل إلا خود ہی کہتے ہیں کہ مسیح خروج دجال کے وقت آوے عند خروج الدجال، ويقولون إن الدجّال گا اور کہتے ہیں کہ نہ تو دجال نصاری کی انجیلوں پر ليس من الذين اتبعوا أناجيل النصارى وآمنوا ایمان رکھے گا اور نہ ان کے انبیاء اور ان کی کتابوں بأنبيائهم و كتبهم و ديانتهم، بل هو رجل لا اور [ ان کے مذہب پر ایمان رکھے گا بلکہ وہ نہ عیسی کا يتبع عيسى ولا يؤمن بنبي من الأنبياء ، بل اتباع کرے گا اور نہ کسی اور نبی کا متبع ہو گا اور خدائی يخرج بادعاء الألوهية، ويملك الأرض کے دعویٰ کے ساتھ نکلے گا اور سوائے مکہ مدینہ کے كلها غير مكة وطيبة، ويقول إنى أنا الله رب تمام روئے زمین کا مالک بن جائے گا اور وہ کہے گا العالمين.فانظر كيف يسلكون مسلک کہ میں ہی خدا اور رب العالمین ہوں.پس دیکھ کہ کیونکر السكارى، ولا يثبتون على قول، ومالهم نشیوں کی طرح چلتے ہیں اور نہ کسی بات پر اور نہ کسی عقیدہ على عقيدة من قرار، ولا يتدبرون كالعاقلين پر ثابت رہتے ہیں اور عقلمندوں کی طرح تدبر نہیں کرتے
حمامة البشرى ۶۷ اردو ترجمه لقد وقعت هذه الأنباء والمواعيد كلها یہ سب وعدے اپنی ترتیب اور صورت پر وتمت وظهرت، وما وقعت إلا علی پورے اور ظاہر ہو چکے ہیں.اور ان کے صورتها وترتيبها، وقد انقضت مدة طويلة ظهور پر لمبا زمانہ گزر چکا ہے.پس کوئی عاقل على ظهورها ووقوعها، فكيف يعتقد بالغ جو عقل سلیم اور فہم مستقیم رکھتا ہو کب باور عاقل بالغ ذو عقل سلیم وفهم مستقیم کر سکتا ہے کہ توفی کا وعدہ جو آیت موصوفہ کی بأن خبر التوفّي الذي قُدِّمَ على هذه ترتیب میں سب وعدوں سے اول ہے وہ الأخبار في ترتيب الآية الموصوفة هو اب تک واقع نہ ہو اور عیسی بن مریم اس غير واقع إلى وقتنا هذا، وما مات عیسی زمانہ تک بھی نہ مرے جو اس کی امت کی ابن مريم إلى هذا الزمان الذي فسد ضلالتوں سے فاسد ہو چکا ہے بلکہ کسی بضلالات أُمته، بل يموت بعد نزوله في غير معلوم وقت میں نازل ہونے کے بعد وقت غير معلوم ولا يخفى سخافة هذا مرے گا اور سوچنے والوں پر اس رائے کا الرأى على المتفكرين.ضعف اور فساد پوشیدہ نہیں.بقية الحاشية - وإنى أرى أن الله سلب بقیہ حاشیہ.اور میں یقین کرتا ہوں کہ ان کی قوت عنهم قوة الفيصلة، ونزع منهم طاقة الآراء فیصلہ اور صحیح رائے کی طاقت خدا نے چھین لی ہے اور الصحيحة، وتركهم في ظلمات الغي کج روی کی ظلمت میں حیران چھوڑ دیا ہے اور اس کا یہ هائمين.والسر في ذلك أنه ما رآهم حرياً بھید ہے کہ خدا نے دیکھا کہ یہ الہی اسرار کے لائق نہیں بالأسرار الإلهية، ورأى رؤوسهم خالية من رہے اور ان کے سر ادراک اور سمجھ کی قوت سے خالی القوى المدركة الفاطنة ، فنزَع منهم حلل ہو گئے ہیں تو ان سے انسانیت کا لباس اتار لیا اور الإنسانية، وردَّهم إلى صور البهائم والسباع چارپایوں اور درندوں اور سانپوں کی شکل میں بدل دیا والأفاعي، وألحقهم بالسافلين.اور سفلی مخلوقات سے ملا دیا.والذين أوتوا أُكُل المعارف غضًا طرِيَّا، اور جولوگ معارف کی تازہ غذا دیئے جاتے ہیں اور نیچے ورزقوا من العلوم الصادقة حظا وافراء فما جهلوا علوم سے وافر حصہ دیئے گئے ہیں تو وہ سیدھے راہ اور پاک الطريق، وما نسوا المشرب، وأصابوا في فهم مشرب کو نہیں بھولے اور وہ آیات کے فہم میں مصیب رہے آيات الله، وما ضاع من أيديهم علم الروحانيين.اور روحانیوں کے علم اُن کے ہاتھوں سے ضائع نہیں ہوئے
حمامة البشرى ۶۸ اردو ترجمه والقائلون بحياة المسيح لما رأوا اور مسیح کی حیات کے قائلوں نے جب أن الآية الموصوفة تبيّن وفاته بتصريح دیکھا کہ آیت موصوفہ اس کی وفات کو بتفریح لا يمكن إخفاءه، جعلوا يؤولونها بیان کرتی ہے کہ جس کا اخفا ممکن نہیں تو بتأويلات ركيكة واهية، وقالوا إن ضعيف اور رکیک تاویلیں کرنے لگے اور کہتے لفظ التوفّى في آية يَا عِيسَى إِنِّی ہیں کہ آیت يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ مُتَوَفِّيكَ كان مؤخَّرًا فى الحقيقة من میں لفظ توفی فی الحقیقت ان سب واقعات كل هذه الواقعات، یعنی من رفع سے مؤخر تھا یعنی عیسی کے رفع اور آنحضرت عيسى وتطهيره من البهتانات ببعث کی بعثت کے ساتھ بہتانوں سے ان کی تطہیر النبي المصدّق وغلبة المسلمین علی کرنے اور یہود پر مسلمانوں کے غالب اليهود وجعل اليهود من السافلين ہونے اور ان کے مغلوب ہونے سے مؤخر ہے بقية الحاشية - وذلك فضل الله يؤتيه من بقیہ حاشیہ یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے اور يشاء ، يضل من يشاء ويهدي من يشاء إلى جس کو چاہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہے نا پیدا کنارسمندر کی بحر لا سـاحـل لـه والله يعلم حيث يجعل طرف سیدھی راہ بتاتا ہے اور اللہ اپنے فضل کے محل کو بخوبی جانتا ہے فضله، ولا يخفى عليه قلب ولا شاكلة، وقد اور اس پر کوئی دل اور طبیعت پوشیدہ نہیں اور اسی نے لوگوں کو پیدا کیا خلق الناس وهو يعلم حقيقة العالمين.ہے اور تمام عالم کی حقیقت بخوبی جانتا ہے.ولنرجع إلى ذكر الأحاديث فنقول إن الذين اور ہم پھر حدیثوں کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ جنہوں ۲۵ حملوا أنباء ها المستقبلة على معانيها الظاهرة مع نے باوجود قرآن کے معارض ہونے پر بھی پیشگوئیوں کے تعارضها بالقرآن، فقد أخطأوا خطاً كبيرًا، وكان ظاہری معنے لئے ہیں انہوں نے بھاری خطا کی ہے اور اس کا یہی سببه استغراقهم فى الآثار والذهول عن كلام الله سبب تھا کہ وہ حدیثوں میں مستغرق ہو گئے اور کلام الہی کو بھول تعالى، فصارت أنظارهم مغمورة في الأخبار، گئے پس ان کی نظریں حدیثوں میں دب گئیں اور انہیں کے کھرا وأفكارهم مبذولة في تنقيدها وتمييزها، وأنفدوا کرنے اور امتیاز کرنے میں اپنے ذہن خرچ کر دیئے اور اپنی أعمارهم فيها، وأضلوا أنفسهم في سككها، وما عمریں انہیں میں ختم کر دیں اور اپنی جانوں کو انہیں کے کو چوں التفتوا إلى صحف الله واستنباط مسائلها فبقی میں گم کر دیا اور خدائی صحیفوں کی طرف التفات بھی نہ کیا اور نہ ان سے الفرقان كالمستتر من أعينهم، وبقيت أسرارہ استنباط مسائل کیا.پس قرآن ان کی آنکھوں سے پوشیدہ رہا اور كالدرر المكنونة أو الخزائن المدفونة، اس کے اسرار در مکنون اور خزانہ مدفون کی طرح ان سے چھپے رہے
حمامة البشرى ۶۹ اردو ترجمه ولكن الله قدم لفظ المتوفى" على لفظ لیکن خدا نے نظم کلام کے واسطے مضطر ہو رافعك وعلى لفظ ”مطهرك وغيرها کر اس کو مقدم کر دیا ہے اور با وجود اس مع حذف بعض الفقرات الضرورية رعاية کے کچھ ضروری فقرے حذف کر دیئے لصفاء نظم الكلام كالمضطرين.وكان ہیں اور چونکہ رعایت نظم کے لئے مضطر اللفظ المذكور يعني إِنِّي مُتَوَفِّيكَ في ہو کر خدا نے لفظ تو فی کو مقدم کیا ہے جو آخر ألفاظ الآية، فوضعه الله في أوّلها اضطرارا لرعاية النظم المحكم، وكان الله دراصل مؤخر تھا لہذا اس تقدیم و تاخیر میں خدا معذور ہے.کیونکہ اضطرار کی في هذا التأخير والتقديم من المعذورين وجہ سے الفاظ غیرمحل میں رکھے ہیں اور فلأجل هذا الاضطرار وضع الألفاظ في غير مواضعها وجعل القرآن عضين.والآية قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے اور یہ آیت بزعمهم كانت في الأصل على هذه کریمہ اُن کے خیال میں درحقیقت یوں تھی الصورة: يا عيسى إنّى رافعك إلى اے عیسیٰ میں تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا بقية الحاشية ـ ما عرفوها وما رعوها حق بقیہ حاشیہ.اور نہ ان کو جانا اور نہ ان کی پوری رعایت کی رعايتها، وأكبوا على كتب أخری اور اور کتابوں پر اعراض کرنے والوں کی طرح جھکے رہے كالمعرضين.ولو أنهم توجهوا إلى القرآن اور اگر اس کی طرف متوجہ ہوتے تو اللہ کریم ان پر ہر ایک لكشف الله عليهم سِرَّ كل حقيقة ونجاهم حقیقت کا ستر کھولدیتا اور شبہات کے جنگل بیابان سے ان کو من برارى الشبهات، ولكنهم ما شاؤوا ان نجات دیتا لیکن انہوں نے نورانی بننا نہ چاہا اور اندھے پن ينوروا واختاروا العمى وعادوا قوما کو پسند کر لیا اور نورانی لوگوں کے دشمن بن گئے پس ان کی منورين.فمن أعظم خطيّاتهم أنهم لم يفهموا بڑی خطاؤں سے یہ ہے کہ انہوں نے مسیح موعود کی حقیقت حقيقة المسيح الموعود الذي أُخبروا عنه، نہ سمجھی کہ جس کی ان کو خبر دی گئی تھی اور کہنے لگے کہ عیسی بن وقالوا إن عيسى بن مريم عليه السلام ينزل من مریم علیہ السلام آسمان سے اتریں گے حالانکہ وہ قرآن میں پڑھتے السماء ، وقد كانوا يقرأون في القرآن أنه توفی تھے کہ وہ مرکز اپنے ان بھائیوں سے جا ملا ہے کہ جو اس سے ولحق بإخوانه الذين خلوا من قبله، فنسوا ما پہلے وفات پاچکے تھے.پس وہ جو کچھ جانتے تھے اسے بھول بیٹھے كانوا يعلمون واتبعوا ما قيل بعد المئتين، اور جو دو صدیوں کے بعد باتیں کہی گئیں تھیں ان کے متبع بنے
حمامة البشرى اردو ترجمه ومطهرك من الذين كفروا، اور تجھ کو منکروں کے بہتانوں سے پاک کروں گا بقية الحاشية - ونبذوا آيات الله وراء بقیہ حاشیہ.اور اللہ کی آیتوں کو ایسا پس پشت ڈال دیا ظهورهم كأنهم ما وجدوا في القرآن أثرا من گویا قرآن میں مسیح کی وفات کا کچھ پتہ و نشان نہیں پایا أخبار وفاة المسيح وكأنهم كانوا من گویا کہ وہ اُس سے بالکل بے خبر ہیں.اور جب ان کو کہا الغافلين.وإذا قيل لهم أن الله قد أخبر عن جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی آیات محکمات میں مسیح کی وفاة المسيح في آياته المحكمات وقال : وفات کی خبر دی ہے چنانچہ فرمایا "اے عیسی میں تجھے وفات يُعِيسَى إِلَى مُتَوَفِّيكَ ، وقال حكاية عنه دینے والا ہوں اور پھر عیسی سے بطور حکایت بیان کیا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبٌ عَهِمُ وقال کہ "اے خدا جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی اُن کا وَمَا مُحَمَّدُ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ نگہبان تھا اور فرمایا ” محمد تو ایک رسول ہے اور اس سے الرُّسُل قالوا نؤمن بقصص القرآن پہلے سب رسول گزر گئے ہیں.تو کہتے ہیں کہ ہم قرآن والأحاديث قاضيـة عـلـيـه وعلى قصصه.کے قصوں پر ایمان تو لاتے ہیں لیکن قرآن پر اور اس کے فانظر كيف يتركون القرآن مع كونهم قصوں پر حدیث قاضی اور حاکم ہے.دیکھو تو سہی مسلمان کہلا کر قرآن کو کیسا ترک کرتے ہیں.من المسلمين.عَلَيْهِمْ عائشة والعجب منهم أنهم يظنون أن الأحاديث ان پر تعجب ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ حدیثیں تشهد على نزول المسيح من السماء مع أن شہادت دیتی ہیں کہ مسیح آسمان سے اترے گا حالانکہ رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر غير رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار ہا مسیح کی وفات کی مرة عن وفاة المسيح، فقال في حديث كما خبر دی ہے.چنانچہ طبرانی اور مستدرک میں حضرت جاء في الطبراني وا والمستدرك عن.عائشہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اپنے مرض موت میں فاطمہ کو فرمایا کہ جبرئیل في مرضه الذي تُوُقِّى فيه لفاطمة إن جبرائيل ہر سال میں ایک دفعہ میرے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتا كان يعارضني القرآن كل عام مرة، وإنه تھا اور اس سال میں دو دفعہ کیا ہے اور اس نے مجھے عارضى بالقرآن العام مرتين، وأخبرني أنه لم خبر دی ہے کہ ہر ایک نبی اپنے سے پہلے نبی کی نصف يكن نبي إلا عاش نصف الذي قبله، وأخبرني عمر پاتا ہے اور اُس نے مجھے بتایا ہے کہ عیسی ایک سو أن عيسى ابن مريم عاش عشرين ومائة میں سال زندہ رہا ہے پس میں خیال کرتا ہوں کہ ساتھ سنة، فلا أراني إلا ذاهبا على رأس الستين.سال کے سر پر میں اس جہان سے رحلت کر جاؤں گا.ال عمران: ۵۶ المائدة : ١١٨ ال عمران : ۱۴۵
حمامة البشرى اے اردو ترجمه وجاعل الذين اتبعوك فوق الذین اور تیرے متبعین کو مخالفوں پر قیامت تک غلبہ دوں كفروا إلى يوم القيامة، ثم منزلك گا پھر آسمان سے تجھے اتاروں گا پھر اس کے بعد من السماء ثم متوفيك.فانظر كيف تجھے وفات دوں گا.پس دیکھو کہ کس طرح کلام يبدلون كلام الله ويحرفون الکلم عن الہی کو بدلتے ہیں اور اس کے کلمات کو اپنی اپنی جگہ مواضعها، وليس عندهم من برهان سے ہٹاتے ہیں اور اس پر اُن کے پاس کوئی دلیل على هذا إن يتبعون إلا أهواء هم نہیں ہے.اپنی خواہشوں کا اتباع کرتے ہیں بقية الحاشية واعلموا أيها الإخوان أن هذا بقیه حاشیہ - بھائیو یقین کر لو کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور الحديث صحيح ورجاله ثقات وله طرق، وهو اس کے سب راوی ثقہ اور معتبر ہیں اور اس کی بہت سی يدل بـدلالة صريحة على موت المسيح.ولا سندیں ہیں اور یہ صریح طور پر میچ کی وفات کی شہادت دیتی يُقال إن الرفع هو الموت، فإنّ الموت عبارة عن ہے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ رفع بھی تو موت ہے کیونکہ موت تو خروج الروح عن الجسم العنصري، فإن کان یہ ہے کہ جسم عنصری سے روح نکل جاوے.پس اگر مسیح جسم المسيح رفـع بجسمه العنصرى فهو حى إلى عنصری کے ساتھ اٹھایا گیا ہے تو پھر وہ اب تک زندہ ہے اور الآن، فلو فرض حياة المسيح إلى هذه الأيام للزم اگر مسیح کو اس قدر لمبے زمانہ تک زندہ مانا جاوے تو لازم آتا أن يكون نبينا حيا إلى نصف هذه المدة، وهذا ہے کہ آنحضرت اس زمانہ طویل کے نصف تک زندہ ہوں باطل فاسأل العادين.وكذلك أخبر رسول الله اور یہ بالکل باطل ہے پس حساب دانوں سے پوچھ لے.صلى الله عليه وسلم عن موت عيسى عليه السلام اسی طرح ایک اور حدیث میں آنحضرت نے مسیح کی وفات في حديث آخر وقال إذا سألني ربي عن فساد اُمتی کی خبر دی ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ جب میرا خدا میری امت ولا فاقول في جوابه فلما توقيتنى كنت أنت الرقيب کے فساد کی بابت مجھ سے دریافت فرمائے گا تو میں عرض عليهم، كما قال العبد الصالح من قبلی یعنی کروں گا کہ جب تو نے مجھے مار دیا تو پھر تو ہی ان پر نگہبان ۲۷ عيسى عليه السلام.فانظر كيف أشار إلى وفاة تھا جیسا کہ عبد صالح یعنی عیسی نے مجھ سے پہلے عرض کی تھی.المسيح بحيث استعمل لنفسه جملة فَلَمَّا تَوَفَّيْتى دیکھو آنحضرت نے مسیح کی وفات کی طرف کیا ہی عجیب كما استعمله المسيح لنفسه وأنت تعلم أن رسول اشارہ کیا ہے کہ اپنی ذات مبارکہ کے واسطے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کا الله صلى الله عليه وسلم قد تُوفّى وقبره جملہ ایسا ہی استعمال فرمایا ہے جیسا کہ مسیح نے اپنے لئے المبارك موجود في المدينة.فانكشف معنی استعمال کیا تھا.اور تم جانتے ہو کہ آنحضرت تو وفات پاگئے التوفّى بجعل رسول الله صلى الله علیه وسلم ہیں اور آپ کی قبر مبارک مدینہ طیبہ میں موجود ہے پس جبکہ واقعة المسيح وواقعة نفسه واقعةً واحدة، آنحضرت نے مسیح کے واقعہ کو اپنے واقعہ سے مشابہ اور متحد کر دیا ہے
حمامة البشرى ۷۲ اردو ترجمه وما كان لهم أن يتكلموا في القرآن إلا حالانکہ ان کے لئے مناسب نہ تھا کہ قرآن میں خائفين.وأنت تعلم أن الله مُنزَّه عن کلام کرتے لیکن ڈرتے ڈرتے.اور تم جانتے ہو هذه الاضطرارات، و کلامه کله مُرتب کہ اللہ ایسے اضطراروں سے پاک ہے اور اس کے كالجواهرات، والتكلم في شأنه بمثل سب كلام جواہرات کی طرح مرتب ہیں.اور اُس ذلك جهالة عظيمة، وسفاهة شنيعة کی شان میں ایسی بات کہنی بڑی جہالت اور وما يقع في هذه الوساوس إلا الذي بیوقوفی ہے اور ایسے وسوسوں میں بجز ایسے شخص کے نسى قدرة الله تعالی وقوته و حوله، کوئی بھی نہیں پڑتا کہ جو اُس کی قدرت اور طاقت واحتقره وما قدره حق قدره، وما عرف اور حفظ کو بھلا دے اور حقیر خیال کرے اور اس کی شأن كلامه، بل اجترأ وألحق كلام الله پوری قدر نہ کرے اور اس کی کلام کی شان.جاہل ہو اور اس کو شاعروں کے کلام سے ملا دے.بكلام الشاعرين.بقية الحاشية - وظهر أن معنى التوفّى فى آية فَلَمَّا بقیہ حاشیہ تو اس سے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي میں توفّی کے معنے توفيتي الإماتة لا غيرها من المعانى المنحوتة التی بخوبی کھل گئے کہ بجز موت کے اور معنے نہیں اور جو معنی من گھڑت بنائے لا أصل لها في لغة العرب فإن رسول الله صلى الله جاتے ہیں لغت عرب میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے پس رسول اللہ اللہ عليه وسلم قد مات، ولو كان معناه الرفع إلى السماء وفات پاگئے ہیں اور اگر جسم زندہ آسمان پر اٹھایا جانا اس کے معنے ہوتے حيا مع الجسم العنصرى كما هو زعم القوم لرفع تو جیسا قوم نے سمجھا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ آنحضرت یہ بھی [ صلى الله الا الله إذا نبينا إلى السماء حيا مع الجسم العنصري مع جسم عنصری زنده آسمان پر اٹھائے جاتے کیونکہ آپ نے اپنی ذات فإنه جعل نفسه شريك عيسى عليه السلام في لفظ مبارکہ کو عیسی کے ساتھ لفظ تو قی میں شریک کیا ہے جو آیت فَلَمَّا التوفي الذي يوجد في آية فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كما جاء في تَوَفَّيْتَنِی میں ہے جیسا کہ بخاری کی حدیث میں آیا ہے.اور اگر ہم اپنی حديث البخارى.ولوجعلنا من عند أنفسنا للمسيح طرف سے مسیح کے لئے آیت میں کوئی خاص معنے لے لیویں اور کہیں کہ آنحضرت کے حق میں توفی کے معنے وفات ہیں اور عیسی کے حق میں اس معنى خاصا في هذه الآية وقلنا إن التوفي في حق صلى الله رسولنا له هو الوفاة، ولكن في حق عيسى عليه السلام أريد منه الرفع مع الجسم العنصري لا کے معنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جانے کے ہیں اور یہ معنی عیسی سے مختص ہیں اور دوسرا کوئی ان میں شریک نہیں ہے تو یہ سخت ظلم اور شريك له في هذا المعنى، فهذا ظلم وزور وخيانة شنيعة، وترجيح بلا مرجّح، واستخفاف جھوٹ اور انتہائی بد نما خیانت اور ترجیح بلا مر ج ہے اور آنحضرت ما في شأن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وادعاء کی شان عالی کا استخفاف ہے اور یہ ایک دعوی ہے جس پر نہ کوئی روشن بلا دليل واضح وحجة ساطعة وبرهان مبین دلیل ہے اورنہ کوئی چمکتی ہوئی حجت ہے.اور نہ کوئی بین شہادت ہے.
حمامة البشرى ۷۳ اردو ترجمه و كيف يجوز لأحد من المسلمین اور کسی مسلمان کے لئے کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ (۱۸) أن يتكلم بمثل هذا، ويبدل كلام الله وہ ایسی بات منہ پر لا وے اور اللہ کے کلام کو اپنی من تلقاء نفسه، ويُحرّفه عن موضعه طرف سے بدلے اور خدا اور رسول سے اُس من غير سند من الله ورسوله؟ الیست کے پاس کوئی سند نہ ہو اور کلمات الہیہ کو ان کے لعنة الله على المحرفين؟ ولو كانوا محل سے ادھر اُدھر کرے؟ کیا تحریف کرنے على الحق فلم لا يأتون ببرهان علی والوں پر خدا کی لعنت نہیں ہے اور اگر وہ حق پر هذا التحريف من آية أو حديث أو قول ہیں تو کیوں اس تحریف پر کوئی آیت یا حدیث یا صحابي أو رأى إمام مجتهد إن قول صحابى یا قول امام دلیل کے طور پر پیش نہیں كانوا من الصادقين وكيف نقبل کرتے.اگر سچے ہوتے تو ضرور پیش کرتے.تحريفاتهم التي لا دليل عليها من اور ہم کیونکر ایسی تحریفوں کو قبول کر لیں جن پر الكتاب والسنة ولا نجدها إلا قرآن اور حدیث سے کوئی دلیل نہیں اور ہم ان کتحريف اليهود من تلبيس كو بعینہا ان تحریفوں کی مانند پاتے ہیں جو الشياطين.وأما السلف الصالح شیطان کے دھوکے سے یہود نے کی تھیں.اور فما تكلموا في هذه المسألة تفصيلا سلف صالحین نے اس مسئلہ میں مفصل کچھ نہیں کہا بقية الحاشية - ويقولون إن يأجوج وماجوج بقیہ حاشیہ.اور جو کہتے ہیں کہ مسیح کے زمانہ میں یا جوج يخرجون في زمن المسيح، وينسلون من کل ماجوج نکلیں گے اور ہر ایک بلندی سے اتریں گے اور حَدَب، ويملكون الأرض كلها كما ورد في تمام زمین کے مالک ہو جاویں گے جیسا کہ قرآن عظیم ۲۸ القرآن العظيم، فهذا حق لا تجادلهم فيه.میں آیا ہے.پس یہ حق ہے ہم اس کی مخالفت نہیں کرتے ويقولون إن المسيح لا يُحاربهم بل يدعو عليهم، اور وہ کہتے ہیں کہ مسیح ان سے لڑے گا نہیں بلکہ ان پر فيموتون كلهم بدعائه بدودٍ تتولّد في رقابهم، بددعا کرے گا اور اس سے ان کے گلے میں کیڑا پیدا ہو وهذا أيـضـا حـق وليس عندنا إلا التسليم.گا جس سے وہ سب مر جائیں گے یہ بھی حق ہے ہم اس کو بھی ولـكـنهـم أخـطـأوا فـيـمـا قـالوا إن يأجوج تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس میں غلطی کی ہے کہ یا جوج ومأجوج يموتون في زمن عيسى كلهم ماجوج سب کے سب [ عیسی کے زمانہ میں] مر جاویں گے
حمامة البشرى ۷۴ اردو ترجمه بل آمنوا مجملا بأن المسيح عيسى بلکہ اجمالی رنگ میں ایمان لاتے تھے کہ میسیج مر گیا بن مريم قد توفى كما ورد في القرآن ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے اور اس پر کہ و آمنوا بمجدّد يأتى من هذه الأمة في آخری زمانہ میں جبکہ نصاری روئے زمین پر آخر الزمان عند غلبة النصاری علی غالب ہو جاویں گے تو اسی اُمت میں سے ایک وجه الأرض اسمه عیسی بن مریم مجدد آئے گا جس کا نام عیسی بن مریم ہو گا بقية الحاشية ـ فإن يأجوج ومأجوج هم بقیہ حاشیہ.کیونکہ یا جوج ماجوج سے مراد وہ نصاری ہیں النصارى من الروس والأقوام البرطانية وقد جو روس اور برطانیہ قوموں سے ہیں اور خدا نے خبر دے أخبر الله تعالى عن وجود النصارى واليهود إلى دی ہے کہ یہود و نصاری قیامت تک رہیں گے چنانچہ فرمایا يوم القيامة وقال: فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ ہے کہ " ہم نے قیامت تک ان میں مخالفت ڈال دی ☆ شارية وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِمَة فكيف يموتون ہے.پس قیامت سے پہلے وہ سب کے سب کس طرح مر كلهم قبل يوم القيامة؟ فلو أردنا من الإماتة سکتے ہیں.پس اگر موت سے جسمانی موت مراد ہو تو حدیث الإماتة الجسمانية لخالف الحديث القرآن وعارضه، فإن القرآن يخبرنا عن قرآن کے معارض ہو جاتی ہے کیونکہ قرآن تو بتا تا ہے کہ بقائهم وبقاء نسلهم إلى يوم القيامة، وہ [ اور ان دونوں کی نسلیں] قیامت تک باقی رہیں گے الا حاشية: لا يُقال إن هذا التفسير خلاف حاشیہ:.یہ نہ کہا جاوے کہ یہ تفسیر اجماع کے خلاف الإجماع وأن القوم قد اتفقوا على أنهم قوم لا ہے قوم نے اس پر اتفاق کیا ہوا ہے کہ یا جوج ماجوج يشابهون خَلق الإنسان، ولهم آذان طويلة، انسانوں کے مشابہ نہیں ہیں اور اُن کے لمبے لمبے کان لأنهم قد اتفقوا على أن يأجوج ومأجوج قوم ہیں اس لئے کہ قوم نے اس پر اتفاق کیا ہوا ہے کہ وہ محصورون في الإقليم الرابع، وهم أزيد نسلا چوتھی اقلیم میں محصور ہیں اور ہر ایک قوم سے وہ تعداد وعددًا من كل قوم، وهذا باطل بالبداهة، لانا اور نسل میں زیادہ ہیں اور یہ بالبداہت باطل ہے کیونکہ لا نرى في الإقليم الرابع أثرا منهم ولا من ہم چوتھی اقلیم میں ان کا اور ان کے شہروں اور لشکروں کا بلادهم ومدنهم وعساكرهم مع أن عمارات کچھ نام و نشان نہیں پاتے حالانکہ زمین کی کل آبادیاں الأرض قد ظهرت كلها.فالروايات في هذا ظاہر ہو چکی ہیں.پس اس باب میں سب روایتیں باطل الباب باطلة كلها، فقس عليها روایات مثلها، ہیں.پس اُن پر اُن کی مثل اور روایتوں کو بھی قیاس کر وكُن من المحققين منه لے اور محقق بن جا.منه ل المآئدة: ۱۵
حمامة البشرى ۷۵ اردو ترجمه وفوضوا تفصيل هذه الحقيقة إلى اور اس کی تفصیل کو انہوں نے خدا تعالیٰ کے سپرد الله تعالى، وما دخلوا في تفاصيله قبل کیا اور واقع ہونے سے پہلے اس کی تفصیل کے الوقوع، وكذلك كانت سيرتهم في پیچھے نہیں پڑے جیسا کہ آئندہ زمانہ کی پیشگوئیوں الأنباء المستقبلة كما هي سُنّة میں اُن کی عادت تھی اور سب صالحین کی یہی الصالحين.فخلف من بعدهم خَلْفٌ عادت ہے.پھر ان کے بعد ایسی ذریّت آئی أضاعوا سنتهم وتركوا سيرتهم، جنہوں نے ان کی عادت اور سیرت کو ضائع کر دیا بقية الحاشية بل يشير إلى أن السماوات بقیہ حاشیہ.بلکہ قرآن تو اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ يتـفـطــن عليهم وتقوم القيامة علی اشرار هم آسمان انہیں پر ٹوٹیں گے اور قیامت انہیں شریروں پر الباقين.ومن ههنا ظهر أن الجملة بضع قائم ہوگی اور یہاں سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ بخاری کے الجزية ، التي جاء في بعض نسخ البخاری بعض نسخوں میں جو یہ جملہ پایا جاتا ہے کہ وہ جزیہ ترک ۲۹ ليست بصحيحة، والصحيح أن المسيح يضع کر دے گا یہ میچ نہیں ہے اور صحیح وہ ہے جو اور نسخوں میں الحرب ولا يحارب النصارى كما جاء فی آیا ہے کہ مسیح حرب ترک کر دے گا [ اور نصاریٰ سے نسخ أخرى.ووجه عدم صحتها ظاهر، وهو جنگ نہیں کرے گا اور اس کے عدم صحت کی وجہ ظاہر انا لو فرضنا أن المسيح يحارب النصاریٰ علی ہے اس لئے کہ اگر ہم فرض کر لیں کہ مسیح نصاری - شرط قبول الإسلام ولا يقبل الجزية أصلا بل قبول اسلام کی شرط پر لڑے گا اور ہر گز جز یہ قبول نہ يــدعـو إلـى الإسلام، وإن قبلوا وإلا فيقتلهم کرے گا بلکہ ان کو اسلام کی طرف بلائے گا پس اگر وہ فلزم على تقدير صحة هذا المعنى استيصال قبول کر لیں گے تو بہتر ورنہ ان کو قتل کر دے گا تو اس الـنــصــاراى بالكلية من وجه الأرض..إما من سے لازم آئے گا کہ روئے زمین سے نصاریٰ کا بالکل سبب إسلامهم وإما من سبب قتلهم، وهذا استیصال ہو جاوے کچھ تو مسلمان ہونے سے اور کچھ قتل المعنى يُعارض القرآن الكريم، فإنه أخبر عن سے اور یہ قرآن کے معارض ہے کیونکہ اس نے بتا دیا بقاء وجودهم إلى يوم القيامة، فثبت من هذا ہے کہ قیامت تک وہ موجود رہیں گے.اس تحقیق سے التحقيق أن جملة "يضع الجزية "التي توجد ثابت ہوا کہ بخاری کے بعض نسخوں میں جو آیا ہے کہ وہ في بعض نسخ البخارى ليست بصحيحة، وقد جزیہ ترک کر دے گا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ کا تبوں کی غلطی ۲۹ فسدت وحرفت من نسخ الناسخين.سے خراب اور مبدل ہوا ہے.سے
حمامة البشرى ۷۶ اردو ترجمه وأولوا قول الله ورسوله إلى ما اور قال اللہ اور قال الرسول کی اپنی خواہشوں اشتهت أنفسهم، ثم أصروا عليه کے مطابق تاویلیں کر دیں اور پھر ایسا اصرار كأنهم عرفوا أسرار الله یقینا کیا گویا کہ خدائی اسرار کو انہوں نے یقیناً وكأنهم كانوا من المستيقنين جان لیا اور ان کو پورا یقین حاصل ہے.بقية الحاشية - ومع ذلك ظهر من هذا بقیہ حاشیہ.اس تحقیق سے ان حدیثوں کا بطلان بھی التحقيق بطلان أحاديث يوجد فيها ذكر كمثله ثابت ہو گیا کہ جن میں ایسی جنگوں کا ذکر ہے اور چونکہ من المحاربات والغزوات، فإن القرآن محفوظ قرآن اللہ کی حفاظت اور عصمت سے محفوظ ہے لہذا جو بحفاظة الله وعصمته، فالحديث الذي يُعارض حدیث اس کے قصوں کے معارض ہو وہ ہرگز قبولیت کے قصصه لا يُقبَل أبدًا ولو كان ألف كمثل تلك لائق نہیں اگر چہ بخاری وغیرہ کتابوں میں ایسی ہزاروں الأحاديث في البخاري أو غيره من کتب حدیثیں کیوں نہ ہوں.اور ہمارا یہ قول کہ یا جوج ماجوج المحدثين.وأما قولنا إن يأجوج ومأجوج من نصاری سے ہیں اور کوئی اور قوم نہیں تو یہ بھی نصوص قرآنیہ النصارى لا قوم آخرون فثابت بالنصوص سے ثابت ہے.اس لئے کہ قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ القرآنية، لأن القرآن الكريم قد ذكر غلبتهم وہ تمام روئے زمین پر غالب ہوں گی اور ہر ایک بلندی گی” على وجه الأرض وقال مِنْ كُلِّ حَدَبٍ سے اُتریں گی.یعنی زمین میں ہر ایک رفعت کو حاصل يَنْسِلُونَ يعنى يملكون كلّ رفعة فى الأرض، کریں گے اور معززوں کو ذلیل کر دیں گے اور سب ويجعلون أعزّة أهلها أذلة ويبتلعون كل حكومة حکومتوں اور ریاستوں اور سلطنتوں اور دولتوں کو اس بڑی ورياسة وسلطنة ودولة ابتلاع الحوت العظیم مچھلی کی مانند نگل جاویں گے جو چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو نگل الصغار.وإنا نرى بأعيننا أنهم كذلك يفعلون جاتی ہے اور ہما را چشم دید ہے کہ وہ ایسا ہی کر رہے ہیں و اضمحلت رياسات المسلمین، وتطرّق اور مسلمانوں کی ریاستیں پڑ مردہ ہو گئی ہیں اور ان کی الضعف في دولتهم وقوتهم وشوكتهم، ویرون دولت و شوکت میں ضعف آگیا ہے اور عیسائی سلاطین کو سلاطين النصارى كالسباع حولهم، ولا يبيتون اپنے اردگرد درندوں کی مانند دیکھتے ہیں اور ڈرتے إلا خائفين.وقد ثبت من النصوص القوية ڈرتے رات کاٹتے ہیں اور قرآن کے قومی اور قطعی نصوص القطعية القرآنية أن كأس السلطنة والغلبة علی سے ثابت ہو گیا ہے کہ سلطنت اور غلبہ کا پیالہ قیامت وجه الأرض تدور بين النصارى والمسلمين، تک نصاری اور مسلمانوں ہی کے درمیان چلتا رہے گا الانبياء: ۹۷
حمامة البشرى LL اردو ترجمه ألم يعلموا أن الله صرّح فی القرآن کیا وہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن العظيم بأن المتنصرين ما أشركوا میں تصریح کر دی ہے کہ نصاری مسیح کی وما ضلوا إلا بعد وفاة المسيح كما وفات کے بعد ہی مشرک بنے ہیں جیسا کہ يُفهم من آية ﴿فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنى كُنتَ اس آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَني...سے سمجھا أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ فلو لم جاتا ہے.پس جبکہ تو نے مجھے مار دیا تو پھر تو 19 يُتَوَفَّ المسيح إلى هذا الزمان للزم ہی ان کا نگہبان تھا.پس اگر مسیح نے اب من هذا أن يكون المتنصرون على تك وفات نہیں پائی تو لازم آئے گا کہ الحق إلى هذا الوقت ويكونوا نصارى اب تک حق پر ہیں اور مومن اور موحد بھی ہیں.مؤمنين موحدين.بقية الحاشية - ولا تتجاوزهم أبدا إلى يوم بقیه حاشیہ اور کبھی ان سے باہر نہ جاوے گا جیسا کہ القيامة، كما قال الله تعالى وَجَاعِلُ الَّذِينَ خداوند کریم نے فرمایا ہے کہ ” میں تیرے تا بعد اروں اتَّبَعُوْتَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا.“ القيمة ومعلوم أن المتبعين للمسيح في الحقيقة اور ظاہر ہے کہ مسیح کے حقیقی متبع مسلمان ہیں اور ادعائی المسلمون، والمتبعين بالادعاء النصارى، والآية اور مجازی نصاریٰ ہیں اور آیت نفس اتباع کی طرف تشير إلى الاتباع فقط حقيقيًّا كان أو ادّعائيا.اشارہ کرتی ہے خواہ وہ حقیقی ہو یا ادعائی.اور حق یہ والحق أن الاتباع الحقيقي عسير جدا ولو ہے کہ حقیقی اتباع بہت مشکل ہے خواہ اتباع کا مدعی كان مدعى الاتباع ملكا من المسلمين المؤمنين، فإن اتباع الأنبياء على وجه الحقيقة مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ انبیاء کی حقیقی اور کامل اتباع کچھ آسان امر نہیں ہے.پس یہ سب والكمال ليس بهين، فكل من الملوك يتبع بادشاہ حضرت عیسی کے صرف دعوی کی حد تک متبع ہیں عیسی عليه السلام باتباع ادعــائـى اگر چہ اس میں حقیقت کی بھی کچھ بُو ہو، الا ماشاء اللہ.وإن كانت فيه رائحة من الحقيقة إلا ما شاء الله.نعم قد سبق المسلمون في الاتباع ہاں مسلمان اعتقادی اتباع میں اوروں پر سبقت لے الاعتقادي وفهموا تعليم المسيح كما هو هو گئے ہیں اور انہوں نے ٹھیک ٹھیک مسیح کی تعلیم کو سمجھا ہے المائدة : ١١٨ ال عمران : ۵۶
حمامة البشرى ZA اردو ترجمه يا حسرة عليهم لم لا يتفكرون ان پر افسوس یہ کیوں ان آیتوں میں فکر في هذه الآيات؟ أليس فيهم رجل نہیں کرتے کیا ان میں کوئی بھی رشید اور رشيد وفهيم وأمين؟ وأنت تعلم أن فہیم اور امین نہیں ہے.اور تم بخوبی جانتے آية ﴿ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَني قد دلّت بدلالة صريحة واضحة بينة على أن ضلالة ہو کہ بڑی وضاحت سے یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ نصاریٰ کا گمراہ ہونا اور ایک النصارى واتخاذهم العبد إلها مشروطة بوفاة عيسى عليه السلام بندہ کو خدا بنانا مسیح کی وفات سے مشروط ہے بقية الحاشية وهم ورثائه في عقائد بقیہ حاشیہ.اور مسیح کی وفات کے بعد بھی وہ ان کے عقائد التوحيد بعد وفاته، وأما النصارى فضلوا توحید کے وارث ٹھہرے ہیں اور نصاریٰ تو بہت بڑی گمراہی ضلالا كبيرا، وليــس فـي يـدهـم إلا ادعاء میں پڑ گئے ہیں اور بجز ادعا کے ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں.فقط.انظر إلى ضلالتهم وفسادهم..أنهم ان کی گمراہی اور خرابی کو دیکھو تو سہی کہ وہ مانتے ہیں کہ میسی قد آمنوا بأن عيسى عليه السلام كان يأكل کھانا کھاتا اور پانی پیتا تھا اور بہت دفعہ بیماریوں اور دردوں الطعام ويشرب الماء ، وربما ابتلى بامراض میں مبتلا ہوا تھا اور اس پر ہم اور غم اور خوف اور قالق اور کرب اور وأوجاع، وربما غلب عليه الهم والخوف بھوک اور پیاس غالب آتی تھی اور وہ غیب دان نہ تھا اور وہ کہا والقلق والكرب والجوع والعطش، وكان لا کرتا تھا کہ میں ایک بندہ ہوں بجز توفیق الہی کے مجھے میں کوئی يعلم الغيب، وكان يقول إني عبد ليس في چیز نہیں ہے اور وہ پکڑا گیا اور صلیب دیا گیا اور مرگیا اور نفسى خير إلا بتوفيق الله، وأنه أخذ وصلب أُخِذَ وَصْلِبَ ومات، وهو مع ذالك في زعمهم إله وابنُ إله.قاتلهم الله ! إنهم يعتقدون بأنه إنسان وأخذه الموت، ولا يبرئونه من ضعف باوجود اس کے پھر بھی وہ اپنے زعم میں اُس کو خدا اور ابن خدا جانتے ہیں.ان کو خدا کی مار! وہ یہ اعتقادر کھتے ہیں کہ وہ ایک انسان اور نبی تھا اس میں سہو اور خطا اور ضعف اور جہل تھا اور ونبي، فيه سهو وخطأ وضعف وجهل، موت نے اس کو پکڑا اور وہ اس کو ضعف اور بھول چوک اور وذهول ونسيان، ثم يقولون إنه هو الله نسیان سے بری نہیں مانتے اور پھر بھی کہتے ہیں کہ وہ خدا تھا فتـعـــا لـقـوم كافرين.ولكنهم ما قالوا إنا پس حیف ہے ان کافروں پر.لیکن وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم عیسی نحن بريئون من عيسى ولا نتبعه، بل آمنوا سے بری ہیں اور ہم اس کا اتباع نہیں کرتے بلکہ وہ اُن کی نبوت بنبوته وكتابه، وآمنوا بأنبياء بني إسرائيل اور کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور بنی اسرائیل کے نبیوں اور وكتبهم، وآمنوا بالملائكة والجنة والنار، اُن کی کتابوں اور ملائکہ اور جنت و دوزخ پر ایمان لاتے ہیں
حمامة البشرى ۷۹ اردو ترجمه ولا ينكره إلا من عائد الحق اور اس سے وہی انکار کر سکتا ہے جو اپنی بے تمیزی سے حق وہی بسوء تميزه واستعمل المكابرة کادشمن ہو اور [ اپنی جہالت اور نا مجھی سے ] مکابرہ اور والتحـكـم بـجـهـلـه وحمقه، وأبي حلم كو استعمال میں لائے اور دیدہ دانستہ ہدایت یاب متعمدا من أن يكون من المهتدین ہونے سے انکار کرے.اور جب ان کو کہا جاتا ہے جس وإذا قيل لهم آمنوا بما صرح الله طرح کهہ خدا نے اپنی کتاب میں کھلے طور پر بیان کیا في كتابه من وفاة المسيح وضلالة ہے کہ مسیح فوت ہو گیا اور اُن کی وفات کے بعد نصاری النصارى بعد وفاته لا في زمن حياته، گمراہ ہوئے نہ اُن کی حین حیات میں ، تم بھی مان لو بقية الحاشية - فهذا هو السبب الذي أدخلهم بقيه حاشیہ.اسی سبب سے خدا نے ان کو گمراہ متبعین میں الـلـه فـي المتبعين الضالين، وبشرهم بغلبة على داخل کیا ہے اور مسلمانوں کی طرح ان کو بھی غلبہ کی الأرض كما بشّر المسلمين.فالحاصل أن هذه بشارت دی ہے.خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت یعنی وَجَاعِلُ الَّذِين...الخ.صریح دلیل ہے [ اور واضح الآية..يعنى وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ دليل برہان ہے] کہ روئے زمین پر غلبہ اور قوت وشوکت صريح وبرهان واضح على أن القوة والغلبة اور کامل اور اعلیٰ درجہ کا تسلط قوم نصاری اور مسلمانوں والشوكة والتسلط الكامل الفائق على وجه الأرض لا يجاوز هذين القومين النصارى سے باہر نہ جاوے گا اور حکومت تامہ قیامت تک انہیں والمسلمين، وتداول الحكومة التامة بينهم کے ہاتھوں میں پھرے گی اور کسی اور کو اس سے حصہ نہ إلى يوم القيامة، ولا يكون لغيرهم حظا منها، بل ملے گا بلکہ ان کے دشمنوں پر ذلت اور مسکنت مسلط کی تُضرب على أعدائهم الذلة والمسكنة، ويذوبون جاوے گی اور وہ دن بدن پکھلتے جاویں گے یہاں يومًا فيوما حتى يكونوا كالفانين.فإذا كان تک کہ فنا شدہ قوم کی مانند ہو جاویں گے پس جب آیت کا یہ مطلب ہے تو واجب ہے کہ حکومت اور قوت والقوة متداولة بين هذين القومين إلى الدوام ہمیشہ انہیں دو قوموں میں پھرے اور انہیں سے مختص الأمر كذلك فوجب أن تكون الحكومة ومخصوصة بها، فلزم بناءً على هذا أن يكون يأجوج ومأجوج إما من المسلمين وإما من رہے اور اس بنا پر ضروری ہے کہ یاجوج ماجوج یا تو المتنصرين.ولكنهم قوم مفسدون بطالون مسلمانوں سے ہوں یا نصاری سے لیکن یا جوج ماجوج ایک فكيف يجوز أن يكونوا من أهل الإسلام؟ مفسد باطل پرست قوم ہے لہذا وہ اہلِ اسلام سے نہیں ہو سکتی.ال عمران : ۵۶ ۳۱
حمامة البشرى ۸۰ اردو ترجمه قالوا أنـؤمـن بـمـعـانـي تخالف تو کہتے ہیں کیا ہم ایسے معنی مان لیں جو الأحاديث؟ وقد كانوا يعلمون احادیث کے مخالف ہیں اور حال یہ ہے کہ الناس أن الخبر الواحد يُرَدُّ پہلے خود لوگوں کو پڑھایا کرتے تھے کہ خبر واحد بمعارضة كتاب الله، فنسوا جب کتاب اللہ کے معارض ہو تو وہ خبر واحد رڈ ما ذكروا الناس وانقلبوا إلى کی جاتی ہے.جولوگوں کو سناتے تھے اب خود الجهل بعد ما كانوا عالمین بھول گئے اور عالم ہونے کے بعد جاہل ہو گئے.بقية الحاشية - فتقرر بالقطع أنهم يكونون بقیہ حاشیہ.پس یقیناً ثابت ہوا کہ وہ قوم نصاری سے ہیں من النصارى وعلى دين النصارى.وقد جاء اور دین نصاری پر ہیں.اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ في حديث مسلم أن المسيح لا يُحارب مسیح یا جوج ماجوج سے نہ لڑے گا اور بخاری میں ہے کہ مسیح يأجوج ومأجوج، وجاء في البخاري أنه يضع جنگ ترک کر دے گا یعنی نصاری سے جنگ نہ کرے گا.الحرب يعنى لا يُحارب النصاری فثبت ان پس ثابت ہو گیا کہ نصاری ہی یا جوج ماجوج ہیں اور مسیح يأجوج ومأجوج هم النصارى، وثبت أن موعود اُن سے نہ لڑے گا بلکہ تنگی کے وقت خدا سے نصرت المسيح الموعود لا يُحاربهم، بل يسأل الله مانگے گا جو اچھی مدد کر نے والا ہے.اور یہاں سے ثابت نُصرته في ساعة العسر وهو خيرا الناصرین ہو گیا کہ مسیح موعود نصاری کے [ روئے زمین پر ] غلبہ کے وثبت من ههنا أن المسيح الموعود يأتى عند وقت آئے گا اور جس طرح کہ وہ فساد کے لئے نرمی کے دروازہ غلبة النصارى على وجه الأرض، و يدخل من سے داخل ہوئے ہیں اسی طرح مسیح موعود اصلاح کے لئے نرمی باب الرفق للإصلاح كما دخلوها للإفساد کے دروازہ سے داخل ہوگا اور چونکہ انہوں نے دین کے لئے ولا يرفع السيف عليهم لأنهم ما رفعوه للدين، تلوار نہیں اٹھائی الہذا مسیح بھی تلوار نہ اٹھائے گا اور حکمت اور ويجادلهم بالحكمة والموعظة الحسنة، ولا اچھے وعظ کے ساتھ ان سے لڑے گا اور [ تلوار سے نہیں بلکہ ] يقتل الغافلين المعتدين.حجت سے غافلوں اور ظالموں کو قتل کرے گا.وأما ما جاء في حديث مسلم أن نُشّاب اور جو مسلم کی حدیث میں آیا ہے کہ مسلمان یا جوج يأجوج وماجوج وقسيّهم تُحرق كالوقود ماجوج کے تیروں اور کمانوں کو ایندھن کی طرح جلا ويستوقدها المسلمون، فهذا تحريف آخر دیں گے یہ ایک اور تحریف ہے کیونکہ تیر و کمان تو فنا ہو في الحديث، فإن القسي والسهام قد انعدمت گئے ہیں اور ان کا وقت گزر گیا اور ان کے بدلے وذهب وقتها وقامت الأسلحة النارية مقامها، آتشی اسلحہ آگئے.اگر تو چاہے تو قبول کر یا منکروں کی فتقبَّلُ إن شئتَ أو أعرِضُ كالمنكرين.منه طرح اعراض کر.منہ
حمامة البشرى اردو ترجمه وما نجد في حديثٍ ذِكْر رفع المسیح اور ہم کسی حدیث میں نہیں پاتے کہ مسیح زندہ حيا بجسمه العنصري، بل نجد ذكر بجسم عنصری آسمان پر اٹھایا گیا ہے بلکہ بخاری وفاة المسيح في البخاري والطبرانی اور طبرانی و غیر هما میں مسیح کی موت ہی کا ذکر وغيرهما من كتب الحدیث، فليرجع إلی پاتے ہیں.اور جس کو شک ہے وہ ان کتابوں تلك الكتب من كان من المرتابين.کا مطالعہ کرے.وأما ذكر نزول عيسى ابن مريم اور جو عیسی بن مریم کے نزول کا ذکر ہے پس فما كان لمؤمن أن يحمل هذا كسى مومن کے لئے جائز نہیں کہ احادیث میں کسی الاسم المذكور فی الأحادیث علی اس نام کو ظاہر پر محمول کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے ظاهر معناه، لأنه يخالف قول اللہ اس قول کے خلاف ہے کہ ہم نے محمد کو کسی مرد کا (۲۰) عزّوجلّ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ باپ نہیں بنایا ہاں وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے رِجَالِكُمْ وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ خاتم ہیں.“ کیا تو نہیں جانتا کہ اس محسن رب النَّبِينَ الا تعلم أن الرب الرحيم نے ہمارے نبی ﷺ کا نام خاتم الانبیا ء رکھا الـمـتـفـضـل سمی نبینا صلى الله ہے اور کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا اور آنحضرت عليه وسلم خاتم الأنبياء بغير نے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس استثناء، وفسره نبينا في قوله لا کی تفسیر یہ کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں نَبِيَّ بَعْدِی ببیان واضح للطالبین؟ ہے اور اگر ہم آنحضرت کے بعد کسی نبی کا ولو جوزنا ظهور نبی بعد نبینا ا ظہور جائز رکھیں تو یہ لازم آتا ہے کہ وحی لجوزنا انفتاح باب وحی النبوة نبوت کے دروازہ کا انفتاح بھی بند ہونے بعد تغليقها، وهذا خُلُف كما كے بعد جائز خیال کریں اور یہ باطل ہے کے لا يخفى على المسلمين وكيف جیسا کہ مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں.اور یجیء نبی بعد رسولنا صلعم آنحضرت کے بعد کوئی نبی کیونکر آوے ل الاحزاب : ۴۱ صلى الله
حمامة البشرى ۸۲ اردو ترجمه ہو وقد انقطع الوحى بعد وفاته وختم حالانکہ آپ کی وفات کے بعد وحی نبوت من منقطع الله به النبيين أنعتقد بأن عيسى الذى گئی ہے اور آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا ہے.أُنزِلَ عليه الإنجيل هو خاتم الأنبياء، كيا ہم اعتقاد کرلیں کہ ہمارے نبی خاتم الانبیاء نہیں لا رسولنا صلى الله عليه وسلم أنعتقد بلکہ عیسی جو صاحب انجیل ہے وہ خاتم الانبیاء ہے یا أن ابن مريم يأتي وينسخ بعض ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ ابن مریم آکر قرآن کے بعض أحكام القرآن ويزيد بعضا، فلا يقبل احکام کو منسوخ اور کچھ زیادہ کرے گا اور نہ جزیہ الجزية ولا يضع الحرب، وقد أمر لے گا اور نہ جنگ چھوڑے گا حالانکہ اللہ کا ارشاد الله بأخذها وأمر بوضع الحرب ہے کہ جزیہ لے لو اور جزیہ لینے کے بعد جنگ چھوڑ بعد أخذ الجزية؟ ألا تقرأ آية دو.کیا تو یہ آیت يُعْطُوا الْجِزْيَةَ...نہیں يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَ هُمْ صَغِرُونَ پڑھتا کہ ذلت کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جزیہ فكيف ينسخ المسيح محکمات دیویں.پس قرآن کے محکمات کو کیونکر مسیح منسوخ الفرقان؟ وكيف يتصرف فی الکتاب کرے گا اور کتاب عزیز میں کیونکر تصرف کر کے العزيز ويطمس بعض أحكامه بعد کچھ احکام کو تکمیل کے بعد مٹا دے گا.میں تعجب تكميلها؟ فأعجبني أنهم يجعلون کرتا ہوں کہ وہ کیونکر فرقان کے بعض احکام کا مسیح المسيح ناسخ بعض أحكام الفرقان کو ناسخ بناتے ہیں اور اس آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ ولا ينظرون إلى آية الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کو نہیں دیکھتے کہ آج میں نے لَكُمْ دِينَكُم ولا يتفكرون أنه لو كانت تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کر دیا ہے.اور لتكميل دين الإسلام حالة منتظرة يُرجى وہ فکر نہیں کرتے.اگر دین اسلام کی تکمیل کے لئے ظهورها بعد انقضاء ألوف من كوئى حالت منتظرہ ہوتی جو کئی ہزار سال کے (۲۱) السنوات، لفسد معنی اکمال الدین گزرنے کے بعد اُس کے ظہور کی امید ہو سکتی والفراغ من كماله بانزال القرآن تو قرآن کے ساتھ اکمال دین ہونا فاسد ہو جاتا ل التوبة: ٢٩ المائدة :
حمامة البشرى ۸۳ اردو ترجمه ولكان قول الله عز وجل الْيَوْمَ اور خدا کا یہ کہنا کہ آج میں نے تمہارے أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم مِن نوع الكذب دین کو تمہارے لئے کامل کر دیا ہے.جھوٹ وخلاف الواقعة، بل كان الواجب في اور خلاف واقعہ ہو جاتا بلکہ اس صورت میں هذه الصورة أن يقول الرب تبارك تو واجب تھا کہ یوں کہتا کہ میں نے محمد صلی وتعالى إنى ما أنزلتُ هذا القرآن كاملا على محمد صلی الله علیه و سلم بل سأنزلُ بعض آياته على عيسى بن مريم اللہ علیہ وسلم پر قرآن کو کامل نہیں اتارا بلکہ آخر زمانہ میں عیسی بن مریم پر اس کی کچھ في آخر الزمان، فيومئذ يكمل آيات اتاروں گا پس اس دن قرآن کامل القرآن وما كمل إلى هذا الحين.ہوگا اور ابھی کامل نہیں.وأنت تعلم أن هذا القول فاسد اور تم جانتے ہو کہ یہ بات بالبداہت بالبداهة، ولا يظن كمثل هذا إلا الذي فاسد ہے اور ایسا گمان وہی کر سکتا ہے جو هو من أكابر المعتدين.نعم، يوجد بڑا ظالم ہو.ہاں بعض احادیث میں عیسیٰ في بعض الأحاديث لفظ نزول بن مریم کے نزول کا لفظ پایا جاتا ہے لیکن عيسى بن مريم، ولكن لن تجد فی کسی حدیث میں یہ نہیں پاؤ گے کہ اس کا حديث ذكر نزوله من السماء ، بل نزول آسمان سے ہو گا بلکہ قرآن میں اس ذكر وفاته موجود في القرآن، وما کی وفات کا ذکر موجود ہے اور جائز نہیں جاز أن يكون هذا التوفّى بعد کہ یہ وفات نزول کے بعد ہو کیونکہ جن النزول، لأن الفتن التي أشير إليها فتنوں كى طرف آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی میں في آية فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنى إنما هاجت اشارہ ہے اُن کا روئے زمین پر ظہور اور وظهرت على وجه الأرض من مدة غلبہ تو ایک لمبے زمانہ سے ہو چکا ہے اور طويلة، وتمت كلمة ربك كما قال جیسا خدا نے فرمایا ایسا ہی پورا ہو چکا ہے المائدة :
حمامة البشرى ۸۴ اردو ترجمه وترى النصارى ينحتون لهم إلها اور تو دیکھ رہا ہے کہ نصاری نے اپنے لئے ایک وابــن إلــه، وكذلك تدل آية يا خدا اور ا بن خدا گھڑ لیا ہے اور آیت یا عیسی عِيسَى إِنَّى مُتَوَفِّيكَ على أن إِنِّي مُتَوَفِّيك“ بھی صریح دلالت کر رہی ہے عيسى قد توفّى وكان الله خليفة له که عیسی فوت ہو گیا ہے اور قیامت تک اللہ اُس إلى يوم القيامة، فكيف يمكن نزوله کا خلیفہ ہے.پس مرنے کے بعد اُن کا نزول بعد الموت وقد قال الله تعالی کیونکر ہو سکتا ہے حالانکہ خدا نے فرما دیا ہے کہ فَيُمْسِكَ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ " جس پر اللہ موت کا حکم لگا دے اُس کو روک ۲۲ وقـــــــال : وَحَرُمُ عَلى قَرْيَةٍ رکھتا ہے.‘ اور فرمایا ”جس گاؤں کو ہم ہلاک أَهْلَكْتُهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ولا کرتے ہیں اُس پر لوٹنا حرام ہے.“ اور کسی يوجد في حديث أن عيسى يجيء حدیث میں نہیں آیا کہ عیسی بعد وفات کے بعد وفاته ويخرج جسمه من القبر آئے گا اور اس کا جسم قبر سے نکلے گا.جو جسم والجسم الذي دفن فی القبر کيف کہ قبر میں مدفون ہوا وہ آسمان سے کیا نازل ينزل من السماء ؟ فهذه القرائن ہوگا.پس یہ قرائن صحیح طور پر بتاتے ہیں کہ دالة على أن للنزول معنی آخر ، نزول کے کوئی اور معنی ہیں ورنہ تو پھر کیونکر وإلا فكيف يمكن أن يُخبر الله أولا ممکن ہے کہ خدا پہلے تو خبر دے کہ مسیح نے بوفاة المسيح ويخبر بأنه خليفته وفات پائی اور اُس کی وفات کے بعد خدا خود بعد وفاته، وبأنه متمم أغراضه بعده اُس کا خلیفہ اور اُس کی اغراض کا پورا کرنے وجاعل أتباعه فوق الذين كفروا والا اور اُن کے اتباع کو قیامت تک مخالفوں إلى يوم القيامة بإرسال رسوله پر غالب رکھنے والا ہے آنحضرت کے مبعوث الكريم الله و یا ارسال عباد محدثین کرنے اور محدثوں اور مہموں کے بھیجنے کے ملهمين الذين يُصدقون المسيح ساتھ کہ مسیح کی تصدیق کرتے رہیں گے.الزمر : ۴۳ الانبياء : ٩٦
حمامة البشرى ۸۵ اردو ترجمه ثم يرجع فيناقض قوله الأول ويقول پھر اس پہلے قول کے مخالف یہ کہہ دے کہ اُس إنه لم يمت بل هو نازل من السماء؟ نے وفات نہیں پائی بلکہ آسمان سے اتر نے فکانه نیسی قوله السابق ونسی والا ہے گویا کہ وہ اپنی پہلی بات اور آیات آياته.ولكنك لن تجد اختلافا فی کو بھول گیا لیکن اُس کا کلام تو اختلاف كلامه، فلا تنسب إليه أقوالا قد سے پاک ہے پس تم اُس کی طرف ایسے قول وقعت في غاية الضد والتناقض، ہرگز منسوب نہ کرو جو غایت درجہ کے متناقض ووجب علينا أن نصرف مثل هذه اور متضاد ہیں اور ہم پر واجب ہے کہ اگر الكلمات عن الظاهر، ولو بالفرض والتقدیر ایسے اقوال حدیثوں میں كانت موجودة فيی حدیث بالفرض موجود ہوں تو ہم اُن کو ظاہر سے پھیر کر اُن والتقدير، ونرجع إلى تأويل کی ایسی تاویل کریں جو قرآن کے خلاف نہ يوافق القرآن.فانظر كيف بين الله ہو.اب دیکھ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تعالى وفاة المسيح في كتابه، ثم مسیح کی وفات کو کس طرح بیان فرمایا ہے پھر انظر هل يكون من البيان والشرح سوچ کہ اس سے بڑھ کر اور کیا شرح اور والإيضاح والتصريح أكثر من هذا؟ الضاح اور تصریح ہو.پھر دیکھو خدا نے یہ ثم انظر أنه عزّ اسمه ما قال نہیں فرمایا کہ میں آسمان کی طرف تجھے رافعك إلى السماء ، بل قال اٹھاؤں گا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اپنی طرف رَافِعُكَ إِلَيَّ “ وقوله رَافِعُكَ اٹھاؤں گا اور یہ خدا کے اس قول کے إِلَيَّ يُشابه قولَه ارْجِعِى إلى مشابہ ہے کہ ”اے مطمئنہ نفس اپنے رب کی رَبَّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً وما طرف راضی اور پسندیدہ لوٹ آی.“ اور اس معنى هذا إلا الوفاة، فاستيقظ وکن کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہیں ہیں.۲۳ پس بیدار ہوکر سو چو.من المتدبرين.الفجر : ٢٩ 66
حمامة البشرى ۸۶ اردو ترجمه أيها العزيز ! كيف نقبل عقيدة اے میرے پیارے بتاؤ تو سہی کہ ایسے عقیدہ کو يخالف نصوص القرآن ويعارض ہم کیونکر قبول کر سکتے ہیں جو نصوص قرآنیہ اور بيانه، ولا دليـل مـعـه ولا سبيل قرآن کے بیان کے مخالف اور معارض ہو اور نہ اس کا کوئی سبیل ہو اور نہ اس کے ساتھ کوئی دلیل ہو إليه، ولا يأتون بحجة عليه ولا اور نہ ہی وہ کوئی حجت روشن پیش کرتے ہوں.میں برهان ساطع، وأظن أنك تفهم إذا أنصفت وفكرت، وقد كتبتُ كل امید کرتا ہوں کہ اگر آپ نے انصاف سے سوچا تو ذلك في كتبى مع الدلائل، وأكره التطويل في مكتوبى هذا فإنه يوجب الملال، فاقتصرت على ما سمجھ جاویں گے اور میں نے اپنی کتابوں میں یہ سب کچھ دلائل کے ساتھ درج کیا ہوا ہے اور اس خط میں طول دینا میں پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ ملال کا باعث ہوتا ہے اس لئے اتنے پر ہی کفایت کی گئی كتبت.ومن يدرس كتاب الله حق دراسته فأتيقن أن يصل إلى أعلى الله اور میں یقین کرتا ہوں کہ جو شخص قرآن کو اچھی طرح پڑھے گا وہ اس امر میں یقین کے اعلیٰ مراتب اليقين في هذه الأمر، ويتفق مراتب پر پہنچ جاوے گا اور اُس کی رائے میری رأيه بـرایـی ويُكشف بین یدیہ رائے کے متفق ہو جاوے گی اور جو کچھ میں نے کہا كلُّ ما قلته.فتدبَّرُ، أنـارا ہے اُس پر کھل جاوے گا.پس تم ضرور سوچو خدا عقلك وجعلك من المستيقنين تمہاری عقل کو روشن کرے اور یقین مرحمت وينبغي لك رحمك الله.أن فرماوے.اللہ آپ پر رحمت کرے، آپ کے لئے تقدم الـقـرآن وتـعـظـم آياته، فإنه مناسب ہے کہ قرآن کی تعظیم کریں اور اس کو مقدم یقینی، وكل آية قطعية متواترة، کریں کہ وہ یقینی ہے اور اس کی ہر ایک آیت قطعی وما مسته أيدى الناس، وما اختلط اور متواتر ہے اور اس کو انسانی ہاتھوں نے نہیں به شیء من أقوال بنی آدم چھوا اور اس کے ساتھ کوئی انسانی بات نہیں ملی
حمامة البشرى ۸۷ اردو ترجمه سوچ.اور وإنه كلام رباني لا شك فيه، وإنه اور وہ یقیناً کلامِ الہی ہے اور اس کی آیتیں یقیناً آيات إلهية لا ريب فيها.وأما خدائى آیات ہیں.اور حدیث کا حال تو جانتا الأحاديث فأنت تعلم أن كلها احاد ہے کہ بجز اس قلیل مقدار کے جو نادر کی مانند ہے إلا الـقـدر القليل الذي هو كالنادر، سب کی سب احاد ہیں.پس اس میں پاک فتفكر في هذا بطهارة النفس وصحة نفس اور صحیح نیست اور سلیم دل لے کر سوچ.اور النية وسلامة القلب، وأدعو ان میں بھی تیرے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اپنے يؤيدك الله بالهامه، ويهب لك الہام سے تیری تائید کرے اور تجھے باریک نظر لطف النظر ودقة الفكر، ويكون اور دقیقہ رس فکر دے اور تیری تائید میں رہے معك ويجعلك من العارفين.اور تجھے عارف بناوے.وأما إيمان قومنا وعلمائنا اور ہماری قوم اور علماء کے جو ملائکہ وغیرہ کی (۲۴) بالملائكة وغيرها من العقائد نسبت عقائد ہیں ہم اُن عقائد میں اُن سے فلسنا نجادلهم فيه ولا نخطيهم في نہیں جھگڑتے اور اُن کو خطا پر نہیں سمجھتے ہیں ذلك، وليس في هذه العقائد بلکہ ہم ان عقائد کو تسلیم کرتے ہیں.ہاں مسیح کے عندنا إلا التسليم، وإنما نحن آسمان سے نازل ہونے میں ہم ضرور ان مناظرون في أمر نزول المسيح من سے مناظرہ کرتے ہیں اور ہم تسلیم نہیں کرتے السماء ، ولا نُسلّم أنه ثابت من که یه قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور یہ الكتاب والسنّة، وإن كان ثابتا فلا اگر یہ ثابت ہوتا تو نہ ہمارے اور نہ کسی اور ينبغي لنا ولا لأحد أن يأبى ويمتعض کے لئے جائز تھا کہ اس کے قبول کرنے سے من قبوله، فإنه لا يفر من قبول الحق انکار کرے کیونکہ حق سے کوئی انکار نہیں کرتا إلا ظالم معتد لا يُحب الصداقة، مگر ایسا ظالم جو صداقت کا دشمن ہو یا ایسا أو ضال جاهل لا يعرف قدرها گمراه جاہل جو صداقت کا ناقدرشناس ہو.
۲۵ حمامة البشرى ۸۸ اردو ترجمه وأما إن كان غير ثابت فلا ينبغى اور اگر یہ غیر ثا بت ہے پھر تو کسی نیک انسان لصالح أن يختاره لنفسه، فکیف کے واسطے اس قدر بھی جائز نہیں کہ وہ اس يدعو إليه رجلا يمشى على صراط کو اپنے لئے اختیار کرے ، صراط مستقیم پر مستقیم، وكيف يحسبــــه مـن چلنے والے کو اس کی طرف بلانا یا اس کو الكافرين وإن أمر الدين أمر جلیل کافر سمجھنا تو درکنار.اور دین کا معاملہ جو الخطب عظیم القدر ، لا ينبغي عظیم الشان چیز ہے اس میں تو کسی کے لئے لأحد أن يستعجل فيه، بل اللازم جلد بازی جائز نہیں بلکہ ہر ایک مومن مسلمان الواجب علی کل مسلم مؤمن ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے اندر سے بخل اور تکبر يطرح من بينه البخل والشحناء، کو دور کر کے عاجزی اور تضرع سے گڑ گڑا ويدعو الله ويسأله بالتضرعات ويسأله بالتضرعات کے خدا تعالیٰ سے ہدایت چاہے کیونکہ اس والابتهالات هدايته من لدنه، ومن کے سوا کوئی ہدایت نہیں کر سکتا اور وہ اچھا ہادی يهدى إلا الله وهو أحسن الهادين؟ ہے.اور جو اچھی طرح قرآن میں تدبر اور ومن نظر فی القرآن، وفكر فی باریک نظر سے غور کرے گا اس پر بخوبی ظاہر الفرقان بالتدبر والإمعان، فيظهر ہو جائے گا کہ یہ سب ان علماء کے نفس کا دھوکا عليه كل ما سولت للعلماء أنفسهم ہے اور وہ تکبر میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور وقد عتوا عُتوا كبيرا، وعاندوا الحق انہوں نے حق کے معاند ہو کر جھوٹ کو شائع کیا وأشاعوا كذبا وزورا، وإن الحق ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر حق کو زمینوں کے نیچے يعلو ولو دفنوه تحت الأرضين.دفن کریں تب بھی وہ ضرور بلند ہو جائے گا.ولندع الآن ذكر هؤلاء ونأخذ في اب ہم ان کے ذکر کو چھوڑ کر مکر رطور پر اپنے ذكر ادعائنا مكررا لينظر المنصفون دعوے کا ذکر کرتے ہیں تا کہ منصف سمجھ لیں هل يجب عليهم قبول ذلك أو ردہ، کہ اس کا قبول کرنا ضروری ہے یا رڈ کرنا.
حمامة البشرى ۸۹ اردو ترجمه فنقول إن ديننا هذا الذي اسمه پس ہم کہتے ہیں کہ خدا نے نہیں چاہا کہ ہمارے الإسلام ما أراد الله أن يتركه شدی دین اسلام کو مہمل چھوڑ دے اور دشمنوں کے وما أراد أن يُبطله ويخربه من أيدى ہاتھوں سے اس کو باطل اور خراب کراوے بلکہ الأعداء ، بل قال وهو أصدق اس نے فرمایا اور وہ بات کہنے میں سب سے بڑھ الصادقين: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ کر سچا ہے کہ اللہ نے تم میں سے اُن پکے امَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے جو اچھے اعمال بجا لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَرْضِ كَمَا لاویں گے کہ ضرور ان کو اسی طرز پر زمین میں اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وقال: خلیفہ بنا دے گا کہ جس طرح پہلوں کو بنایا ہے اور إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ فرمایا ”ہم نے ہی قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی و قال : وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا اس کی حفاظت کریں گئے اور فرمایا ”رسول کے يَلْحَقُوْابِهِمْ " وقال : ثُلَةٌ مِّنَ شاگرد اخیر زمانہ کے بھی کچھ لوگ ہیں جو اصحابوں الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ" فهذه سے ابھی نہیں ملے اور فرمایا کہ ایک گروہ پہلوں كلها مواعيد صادقة لتأييد الإسلام سے اور ایک گروہ پچھلوں سے.پس اسلام کی عند ظهور الفتن وغلبة المعاصی تائید کے لئے یہ سب کچھ وعدے ہیں فتنوں کے والآثام، وأى فتن أكبر من هذه الفتن ظہور اور گناہوں کے غلبہ کے وقت اور جو فتنے کہ التي ظهرت على وجه الأرض؟ اس وقت روئے زمین پر ظاہر ہو رہے ہیں ان وإن النصارى قد دخلوا على الناس سے کون سا بڑا فتنہ ہے اور نصاری لطیف دروازہ من باب لطيف، وسحروا أعين سے لوگوں پر داخل ہوئے ہیں اور اپنے باریک در الناس وقلوبهم و آذانهم بالمكائد باریک فریبوں سے لوگوں کی آنکھوں اور کانوں التي هي دقيقة المآخذ، وأضلوا اور دلوں کو سحر زدہ کر دیا ہے اور بہت سی مخلوق کو خلقًا كثيرًا وجاء وا بسحر مبين.گمراہ کر دیا ہے اور کھلے سحر کا کام کیا ہے.النور: ۵۶ الحجر: ١٠ الجمعة: الواقعة: ۴۰، ۴۱
حمامة البشرى اردو ترجمه ثم اعلم أن للمسيح الموعود كما پھر جاننا چاہئے کہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے مسیح جاء في الأحاديث ثلاث علامات: موعود کے لئے تین علامات ہیں:.الأول : أنه يجيء عند غلبة النصارى اول یہ کہ وہ اُس وقت آئے گا کہ جب نصاری وعند غلبة مكائدهم و شدة جهدهم اور ان کے فریب غلبہ پا جاویں گے اور وہ عیسوی (٢٦) الإشاعة مذهب التنصر، فيأتي وينزل مذہب کے پھیلانے میں سخت کوشش کریں گے.فيهم ويكسر صليبهم ويقتل خنازير هم مسیح اُس وقت اُن میں اُترے گا اور اُن کی صلیب ولا يغزو ولا يحارب، بل كل ذلك کو توڑے گا اور ان کے خنزیروں کو قتل کرے گا اور يفعل بالقوة السماوية، والطاقة جنگ و جہاد نہیں کرے گا بلکہ یہ سب آسمانی اور الروحانية، والأسلحة الفلكية، ويضع روحانی طاقت [ اور آسمانی اسلحہ] کے ساتھ کرے گا الحرب ويظهر كالمساكين.اور جنگ ترک کر کے مسکینوں کی طرح ظاہر ہوگا.والثاني: أنه يتزوج، وذلك إيماء اور دوسری یہ علامت ہے کہ وہ نکاح کرے گا اور إلى آية يظهر عند تزوجه من ید یہ ایک بڑے نشان کی طرف اشارہ ہے جو اُس کے القدرة وإرادة حضرة الوتر، وقد نکاح کے وقت خدائے یگانہ کے ارادہ اور یدِ قُدرت ذكرناها مفصلا فی کتابنا التبلیغ سے ظاہر ہوگا اور میں نے اپنی دو کتابوں تبلیغ اور تحفہ والتحفة، وأثبتنا فيهما أن هذه الآية ميں اس كا مفصل ذکر کیا ہے اور ثابت کر کے دکھا دیا سيظهر على يدى، ولولا هذه الآية ہے کہ یہ نشان عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا لما كان سبب معقول لذكر هذه اور اگر یہ نشان نہ ہوتا تو نکاح کو علامت قرار دینے العلامة، فإن التزوج ليس من أمور کا کوئی معقول سبب نہ ہوتا کیونکہ شادی کرنی نادر نادرة متعسرة، لكي يُقال إنه لا يقدر اور مشکل کام نہیں ہے تا کہ یہ کہا جاوے کہ بجز بچے عليه كاذب إلا المسيح الصادق مسیح کے جو رب العالمین کی طرف سے آوے گا الذي جاء من رب العالمین اور کوئی کاذب مسیح شادی کرنے پر قادر نہ ہوگا
حمامة البشرى ۹۱ اردو ترجمه بل التزوج أمر عام يقدر عليه كل بلکہ شادی تو ایسی چیز ہے جو ہر ایک مالدار کر رجل ذى مال وثروة حتى الكافر سکتا ہے خواہ وہ کافر اور فاسق ہی کیوں نہ ہو والفاسق، فضلا من أن يكون نبي يا ولی میں محدود ہونا تو در کنار.پس ثابت محدودا في نبي أو ولی فثبت أنه ہوا کہ یہ ایک عظیم الشان نشان کی طرف إشارة إلى آية عظيمة يظهر عند اشارہ ہے جو اُس کی شادی کے وقت ظاہر تزوجه، وقد فصلناها في كتابنا ہوگا اور ہم نے اپنی کتاب میں اس کو مفصل بیان کیا ہے.للناظرين.الثالث: أنه يولد له، وهذا أيضًا اور تیسری علامت یہ ہے کہ اُس کا بیٹا ہوگا اور یہ كلام إيماضي كمثل قوله يتزوج بھی نکاح کی طرح اس بات کی طرف اشارہ کرتی وفيه إشارة إلى أنه يولد له ولد ہے کہ اس کا ایک صالح بیٹا ہو گا جس کے کمالات صالح يُضاهي كمالاته، وإلا فما اس کے کمالات کے مشابہ ہوں گے اور اگر یہ مراد التخصيص فى الأولاد فقط؟ نہ ہو تو پھر نفس اولاد میں تو مسیح موعود کی کوئی أ وجود الأولاد أمر مستبعد فی خصوصیت نہیں ہے.کیا مسیح کے سوا کسی اور کے (۲۷) غير المسيح؟ بل يوجد في كل لئے اولاد کا ہونا کوئی مشکل امر ہے بلکہ وہ ہر ایک قوم، وكاذب و صادق فهذه علامات قوم اور بچے اور جھوٹے کے لئے پائی جاتی ہے.للمسيح الصادق أنبأ بها خير پس یہ مسیح کی علامات ہیں جن کی مخبر صادق نے خبر المنبتين، وهى كلها صدقت في دی ہے اور یہ سب کی سب مجھ پر صادق آتی ہیں.نفسي، وهذه من علامات يُعرف اور انہیں علامات سے میری صداقت معلوم ہوسکتی بها صدقى.ومن علامات أخرى ہے اور میری صداقت کی علامات سے یہ بھی ہے کہ أن الله تعالى أظهر على يدى بعض میرے ہاتھ سے بہت معجزات ظاہر ہوئے ہیں اور آيات و أنبأني أخبارا قبل وقوعها، قبل از وقت بہت سے غیبوں پر مجھے مطلع کیا گیا ہے
حمامة البشرى ۹۲ اردو ترجمه وقد استجاب كثيرا من أدعيتي، اور میری بہت سی دعا ئیں قبول ہوئی ہیں اور ہر ونصرني في كل موطن، وقد فتحت ایک میدان میں خدا نے میری مدد کی ہے اور على أبواب إلهاماته وأنا يومئذ ابن میں چالیس سال کا تھا کہ الہام کا دروازہ مجھ پر أربعين، فما تركني، وما ودعنى، وما کھولا گیا اور مجھے نہ ترک کیا اور نہ ضائع کیا بلکہ أضاعني، بل خصصنی بالتحدیث اپنے مکالمہ سے ممتاز فرمایا اور نصاری پر اتمام والمكالمة، وأمرني لأتم حجته على حجت کرنے کے لئے مجھے مامور کیا اور اگر قوم المتنصرين.ولو كان عيسى حیا کے خیال کے مطابق عیسی دوسرے آسمان پر بجسده العنصري في السماء الثانية عصری جسم کے ساتھ زندہ ہوتا تو واجب تھا کہ كما هو زعم قومى، فكان الواجب اس وقت اُترتا کیونکہ نصاری کے فریبوں.أن ينزل في هذا الوقت، فإن الأمم تو میں ہلاک ہو رہی ہیں اور مفاسد اپنے منتہی قد هلكت بمكائد النصارى، وبلغت تک پہنچے ہوئے ہیں.پس باوجود لوگوں کے المفاسد منتهاها، والقعود علی گمراہ ہو جانے اور اُس کی اُمت کے فسادوں السماوات مع ضلالة أهل الأرض کے پھر بھی آسمان پر بیٹھے رہنا عجیب بات ہے.وفسادِ أُمته شيء عجيب، وما نعلم اور ہم نہیں جانتے کہ اس بیٹھے رہنے اور عمر ضائع ما الفائدة في هذا القعود وإضاعة کرنے میں کون سا فائدہ ہے اور شان خداوندی العمر.وما كان الله ليضيع عمره فی سے بعید ہے کہ آسمان کے کسی گوشہ میں اُس کی زاوية السماوات وقد رأى أمته قد عمر کو ضائع کر دے اور خود دیکھ رہا ہو کہ اس کی وقعت في هوة الهلاك، وأفسدت في أمّت ہلاکت کے گڑھے میں پڑی ہوئی ہے اور الأرض أكثر مما أفسد الدجالون من پہلے دجالوں سے بڑھ چڑھ کر زمین میں فساد کر قبل، ولا نظير لهم في إشاعة الكذب رہی ہے اور آدم سے لے کر اس وقت تک ان کے والشرك من آدم إلى هذا الوقت جھوٹ اور شرک کے پھیلانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی..
حمامة البشرى ۹۳ اردو ترجمه ألا ترى أن موسى علیه السلام لما کیا تو نے نہیں دیکھا کہ جب موسیٰ نے خدا سے کلم ربه على طور سينين کوہِ طور پر کلام کیا اور اُس کے جانے کے بعد ۲۸ واتخذت أُمته من بعده عجلا اُس کی قوم نے گوسالہ کی پرستش شروع کر دی جو جسدا له خوار، كيف أنبأ الله مكروه آواز کرنے والا جسم تھا تو خدا نے ان موسى بهذه الواقعات كلها، وقال سب واقعات کی موسیٰ کو کس طرح خبر دی اور ارجع إلى قومك بقدم العجلة، فرمایا کہ جلد قوم کی طرف جا کہ وہ گوسالہ پرستی فإنهم قد هلكوا باتخاذ العجل سے ہلاک ہو گئی ہے پس موسی غضب اور تأسف إلها، فرجع موسی غضبان أسفًا، کی حالت میں واپس ہوا اور اپنے بھائی کی وأخذ بلحية أخيه، ووقع ما تقرأ فى داڑھی پکڑ لی اور وہ واقعات پیش آئے جو تو القرآن، وما كان فتنةُ العجل أشدَّ قرآن میں پڑھتا ہے اور گوسالہ کا فتنہ نصاریٰ من فتنة المتنصرين.کے فتنہ سے سخت نہ تھا.وأنت تعلم أن فتنة النصارى اور تو اچھی طرح جانتا ہے کہ نصاریٰ کا فتنہ مع شدة أهــو الـهـا وكثرة ضلالها با وجود سخت خوفناک ہونے اور ضلالت ناک وغلبتها على وجه الأرض كلها ، قد ہونے اور سب روئے زمین پر پھیل جانے کے امتدت ومكثت إلى ألفين من سنة وفات مسیح سے لے کر دو ہزار تک ممتد ہوا اور ٹھہرا وفاة المسيح، ولكن ما نزل عیسی رہا اور عیسی اس وقت تک نہیں اترا کہ جس کی إلى هذا الوقت الذي أخبر عنه أهل سب اهل کشف نے خبر دی تھی اور اُس کے الكشف كلّهم، وما نرى آثار اُترنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے.پس یہ نزوله، فهذه أمور لا نرى جوابها وہ باتیں ہیں کہ ان علماء کے پاس ان کا کوئی جواب عند هذه العلماء وقد رأوا ہمیں نظر نہیں آتا اور طرفہ یہ کہ مجھ سے بہت منی آیات فلم يلتفتوا إلى ذلك، نشان دیکھ چکے اور ان کی طرف کچھ التفات نہ کیا
حمامة البشرى ۹۴ اردو ترجمه وقالوا استدراج أو رمل، وبهتوا لشدة اور کہنے لگے کہ یہ استدراج یا رمل ہے اور سخت تعجب إعجابهم، وجحدوا بها واستيقنتها کے سبب سے حیران ہو گئے ہیں اور ان کے دل تو یقین أنفسهم ظلما وعلوا، وكان لها من قلوبھم کر گئے ہیں لیکن ظلم اور تکبر سے انکار کر رہے ہیں اور مكان، وفي أعينهم قدر، ولكنهم كذبوا ان کے دلوں اور آنکھوں میں [ان کی] عظمت ہے حسدا من عند أنفسهم، فنعوذ بالله لیکن اپنے ذاتی اور بے وجہ حسد سے تکذیب کرتے من الحاسدين.وتركوا الحق المبين ہیں.پس ہم اللہ کے پاس حاسدوں سے پناہ مانگتے واعتصموا بأقاويل ضعيفة ألا يتدبرون ہیں اور انہوں نے حق صریح سے انکار کیا ہے اور أن الله ما رأى واقعة من معظمات ضعيف باتوں سے تمسک کیا ہے.کیا نہیں سوچتے کہ الواقعات الآتية إلا ذكرها في القرآن جو کوئی بڑا واقعہ آنے والا ہے قرآن میں خدا تعالیٰ نے فكيف ترك واقعة نزول المسيح ضرور ہی اُس کا ذکر کیا ہے.پس کیوں نزول مسیح کے مع عظمة شأنها وغلوّ عجائبها ولم واقعه کو ترک کر دیا باوجود یکہ وہ بہت عظیم الشان اور تركها إن كانت حقا وقد ذكر قصة عجائبات پر مشتمل تھا.پس اگر وہ حق ہوتا تو خدا اس کو ٢٩ يوسف وقال : نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ کیوں ترک کرتا حالانکہ اس نے یوسف کا قصہ بیان اَحْسَنَ الْقَصَصِ و ذكر قصة کیا.اور فرمایا کہ ہم تیرے آگے اچھا قصہ بیان کرتے أصحاب الكهف قال : كَانُوا مِن ہیں.اور اصحاب کہف کا قصہ بیان کیا اور فرمایا کہ وہ التِنَا عَجَبًا، ولكن لم يذكر شيئا ہمارے عجیب نشانوں سے تھے.لیکن مسیح کی نسبت من ذكر نزول عيسى من السماء من بجز وفات کے اس کے آسمان سے نازل ہونے کا غير ذكر الوفاة، فلو كان النزول حقا ہرگز ذکر تک نہیں کیا.پس اگر نزول حق ہوتا تو قرآن لما ترك القرآنُ هذه القصّة، ولذكَرَها اس کو ہرگز ترک نہ کرتا بلکہ ضرور اس کو ایک بڑی لمبی في سورة طويلة، ولجعلها أحسن من سورة میں بیان کرتا اور اس کو سب قصوں سے احسن كل قصة، لأن عجائبها مخصوصة بها قرار دیتا کیونکہ اس کے عجائبات اس سے مخصوص ہیں يوسف : ۴ الكهف : ١٠
حمامة البشرى ۹۵ اردو ترجمه ولا نظير لها في قصص أخرى، ولجعلها اور اس کی نظیر کسی اور قصہ میں ہرگز نہیں ہے اور آية لأمة آخر الزمان فهذا هو الدليل آخر زمانہ کی امت کے واسطے اس کو ایک بڑا الصريح على أن هذه الألفاظ غير نشان بنا تا.پس یہ صریح دلیل ہے کہ ان الفاظ محمولة على الحقيقة، والمراد منها في سے حقیقی معنے مراد نہیں ہیں اور احادیث میں الأحاديث مجدد عظيم يأتي على قدم ان سے ایک عظیم الشان مجد دمراد ہے جو صحیح المسيح ويكون نظيره ومثيله، وأطلق کے قدم پر ہوگا اور اُس کا نظیر اور مثیل ہوگا اور اسم المسيح عليه كما يُطلق اسم مسیح کا نام اس پر بولا جائے گا جیسا کہ عالم البعض على البعض فى عالم الرؤيا رؤیا میں ایک پر دوسرے کا نام بولا جاتا ہے وهذه سُنّة جارية في الوحي والرؤیا اور وحی اور رویا میں یہ سنت ہمیشہ سے جاری وتجد نظيرها بكثرة في كتب الأحاديث ہے اور کتب احادیث اور کتب تعبیر میں ان وكتب تأويل الرؤيا، فالمراد منه کی کثرت سے نظائر پائے جاتے ہیں.پس مثيل يكون للمسیح کوجوده، وینزل اس سے مراد ایک مثیل ہے جو شدت مشابہت بمنزلة ذاته من شدّة المماثلة، ويخرج کے سبب سے بعینہ مسیح ہو گا اور وہ نصاریٰ کے عند غلبة النصارى، ويتم علی یدہ غلبہ کے وقت ظاہر ہوگا اور اس کے ہاتھ پر اللہ حجة الله، ويعلى كلمة الإسلام کی حجت پوری ہو گی اور اسلام کا بول بالا ويُظهر الدين على الأديان كلها کرے گا اور دلائل کے ساتھ اسلام کو سب بالحجج والبراهين ومع ذلك نجد دینوں پر غالب کرے گا اور با وجود اس کے ہم في القرآن أن في آخر الزمان تغلب قرآن میں بھی پاتے ہیں کہ اخیر زمانہ میں روئے النصارى على وجه الأرض، وينسلون زمین پر نصاری غالب ہو جاویں گے اور ہر ایک من كل حدب، ويهيجون الفتن بلندی سے اُتریں گے اور بہت سے فتنے پھیلائیں ويصولون على الإسلام بمكائدهم گے اور اپنے فریبوں سے اسلام پر حملے کریں گے
حمامة البشرى ۹۶ اردو ترجمه ويجلبون عليه رَجِلَهم وخَيْلَهم، ولا اور اپنے پیدلوں اور سواروں کے ساتھ اسلام پر يتركون من كيد في إطفاء نور الإسلام چڑھائی کریں گے اور نوراسلام کے بجھانے میں فعند ذلك ينظر الرب الكريم إلى كسى مكر كو فروگزاشت نہ کریں گے.پس ایسے (٣٠) هذه الأمة المرحومة الضعيفة التى وقت میں خدائے کریم اس ضعیف امت مرحومہ لا حول لها ولا قوة، فينفخ في الصور، پر نظر عنایت کرے گا کہ جس کا کوئی بچاؤ اور کوئی ويُعلم أحدا منهم من عنده علما و عقلا، طاقت نہیں.پس وہ نفخ صور کرے گا اور ويُعطى له آيات، ويُنزله منزلة عیسی اُن میں سے ایک کو علم و دانش سکھلا دے گا اور بن مريم، فينير الحق ويُبطل کید اس کو بہت سے نشان عنایت کرے گا اور اس کو الخائنين.وأما إقامته فی مقام عیسی عیسی بن مریم کی مانند بنا کر حق کو روشن اور وتسميته باسمه فله وجهين: الأول: خیانت پیشہ لوگوں کے منصو بہ کو باطل کرے گا اور أن المجدد لا يأتي إلا بمناسبة حال اس کا مسیح کے قائم مقام ہونا اور اس کا ہم نام ہونا قوم يريد الله أن يتم حجته علیه دو وجہ سے ہے.اوّل یہ کہ ہر ایک مجدد اس قوم فلما كانت الأعداء قوم النصاری کے مناسب حال آتا ہے کہ جس پر خدائے علیم اقتضت الحكمة الإلهية أن يُسمّى حجت پوری کرنی چاہتا ہے پس چونکہ دشمن قوم المجدّد مسيحا والقـانـي أن نصاری تھی تو اس لئے حکمت الہیہ نے چاہا کہ المـجـدد لا يأتى إلا على قدم نبى اس مجد د کا نام مسیح رکھا جاوے اور دوسری وجہ یہ يشابه زمانُ المجدد زمانه، فهنا قد ہے کہ ہر ایک مجدد کسی ایسے نبی کے قدم پر آتا شابه زمان قومنا بزمان المسیح ہے کہ جس کے زمانہ سے اُس کا زمانہ مشابہ ہو اور فإن عيسى علیه السلام قد جاء فی ہماری قوم کا زمانہ مسیح کے زمانہ سے مشابہ ہے کیونکہ وقت ما بقيت فيه رياسة اليهود مسیح ایسے وقت میں آیا تھا کہ یہود میں سلطنت وتملكت السلطنة الرومية عليهم، نہیں رہی تھی اور رومی سلطنت اُن پر قابض تھی
حمامة البشرى ۹۷ اردو ترجمه ☆ ومع ذلك جاء في وقت قد فسدت اور نیز اُس زمانہ میں علماء یہود کے دل خراب قلوب علماء اليهود، و زاغت آراؤهم اور ٹیڑھے ہو گئے تھے اور فریب اور فسق و وكثرت فيهم المكائد والفسق والفجور فجور اور محبت دنیا اور خست اور سفاہت اور وحبّ الدنيا والخسة والسفاهة والنفاق نفاق اور جدال اور باقی رہی اخلاق اُن والجدال، وغير ذلك من الأخلاق میں بکثرت پھیل گئے تھے اور ہماری قوم کا الردية، وكذلك كان حال قومنا في حال بھی اس وقت میں ٹھیک ایسا ہی تھا پس هذا الوقت، فاقتضت حكمة إلهية أن حكمت الہیہ نے چاہا کہ موافقوں اور مخالفوں تسمى المجدد عیسی ابن مریم رعایة کی رعایت سے اس مجدد کا نام عیسی بن مریم لحالات المخالفين والموافقين رکھا جاوے.وقالوا إن المسيح ينزل من اور انہوں نے کہا کہ مسیح آسمان سے نازل ہوگا.السماء ويقتل الدجال ويُحارب دجال کو قتل کرے گا اور عیسائیوں سے جنگ کرے النصارى، فهذه الآراء كلها قد گا.یہ تمام آراء سوچ کے بگاڑ اور حضرت خاتم ۳۱ نشأت من سوء الفهم وقلة التدبر النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں قلتِ في كلمات خاتم النبيين.وأما تدبر سے پیدا ہوئی ہیں.اور رہی آسمان سے نزول النزول من السماء فقد فهمت کی بات تو تو اس کی حقیقت کو سمجھ چکا ہے اور میں حقیقته، وقد بينت لك أن نے پوری وضاحت کے ساتھ تجھ پر واضح کر دیا ہے النزول من السماء لا يثبت من آسمان سے نزول نہ تو قرآن عظیم سے ثابت القرآن العظيم، ولا من حدیث ہوتا ہے اور نہ ہی نبی کریم ﷺ کی کسی حدیث النبي الكريم والعجب منهم أنهم سے.اور اُن پر حیرانگی تو یہ ہے کہ وہ ایمان يؤمنون بأن الله أنزل فی القرآن رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بعض ایسی آيات فيها ذكر وفاة المسيح، آیتیں نازل کی ہیں جن میں وفات مسیح کا ذکر ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ۲۷ جولائی ۱۹۰۳ء میں جو ترجمہ شائع ہوا تھا وہ یہاں تک تھا.اس سے آگے مکرم محمد سعید صاحب انصاری کا ترجمہ ہے جس کی نظر ثانی عربک بورڈ ربوہ نے کی ہے.(ناشر)
حمامة البشرى ۹۸ اردو ترجمه ثم يظنون أنه حتى جالس فی پھر وہ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ وہ دوسرے آسمان السماء الثانية مع ابن خالته يحيى پر اپنے خالہ زاد بھائی شہید نبی سچی کے ساتھ الـنـبـي الشهيد.على نبينا وعليهم زندہ بیٹھے ہیں.اللہ کی ہمارے نبی اور اُن السلام.ولا يتفكرون ولا ينظرون سب پر سلامتی ہو.اور وہ غور و فکر نہیں کرتے إلى أن يحيى قد قتل ولحق كتيكي علیہ السلام تو قتل ہوئے اور مُردوں سے بالموتى، فكيف جمع الله جاملے پھر اللہ نے زندے کو مُردے کے ساتھ الحي بالميت ؟ وما للموتى کیسے جمع کر دیا ؟ مُردوں کا زندوں سے بھلا والأحياء ؟ فالعجب كل العجب آپس میں کیا تعلق؟ تعجب کی انتہا ہے کہ یہ لوگ أنهم يـجـمـعـون فـي عقائدهم اپنے عقائد میں بہت سے اختلاف جمع اختلافات كثيرة، ولا يتنبهون علی کر دیتے ہیں اور اس پر متنبہ نہیں ہوتے اور نہ ذلك، ولا يتقون الأقوال ان رڈی اور متناقض اقوال سے اجتناب کرتے المتهافتة المتناقضة، ويتكلمون ہیں.اور وہ نشہ میں مست لوگوں یا مجنونوں کی كالسكارى أو كالمجانين.طرح باتیں کرتے ہیں.وما نجد في أقوال المفسرين ہم مفسرین کے اقوال میں نہیں پاتے کہ أنهم اتفقوا في أمر حياة عيسى وہ حیات عیسی کے بارے میں متفق بل لهم في هذه المسألة اختلافات ہیں.بلکہ اس مسئلہ میں ان کے اندر بہت كثيرة فذهب بعضهم أنه قد سے اختلافات ہیں.ان میں سے بعض مات ثم أُحيى ولكن هذا تو اس طرف گئے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے پھر قولهم بأفواههم، وما أتوا وہ زندہ کئے گئے لیکن یہ سب اُن کے منہ کی بدليل على الحياة بعد الموت من باتیں ہیں.وہ نصوص قرآنیہ یا حدیثیہ سے النصوص القرآنية أو الحديثية كوئى دليل حیات بعد الموت کی نہیں لائے.
حمامة البشرى ۹۹ اردو ترجمه وبعضهم ذهب إلى أنه صعد اور ان میں سے بعض (مفسرین ) اس طرف گئے بجسمه العنصري إلى السماء ہیں کہ وہ موت سے پہلے اپنے مادی جسم کے ساتھ قبل الموت، فخالف بیان آسمان کی طرف چڑھ گئے ہیں.پس انہوں نے (۳۲) القرآن في قوله من غير حجة ولا اپنے اس قول میں بغیر کسی حجت اور برہان اور بغیر برهان، ولا دليل شاف ولا سلطان کسی تسلی بخش اور کھلی واضح دلیل کے قرآن کریم مبين.فالحاصل أنهم نطقوا کے بیان کی مخالفت کی ہے.پس حاصل کلام یہ کہ انہوں نے اس معاملہ میں اپنے اپنے خیال کے مطابق اس طرح گفتگو کی ہے جیسے وادی میں کوئی في أمره بحسب ظنهم كهائم واد، وما اتفقوا على رأي واحد بے مقصد سر گرداں شخص ہو.اور وہ اس کے آسمان في أمر صعوده، وما استطاعوا پر جانے کے بارے میں کسی ایک رائے پر متفق أن يأتوا بآية أو حديث أو نہیں ہوئے اور وہ مادی جسم کے ساتھ آسمان پر قول صحابي على صحة عقيدة چڑھ جانے کے عقیدے کی صحت پر کوئی آیت یا الصعود بالجسم العنصري.حدیث یا کسی صحابی کا قول پیش نہیں کر سکے.پھر وہ ثم انصرفوا قبل إثبات هذا اُس عظیم اصول کو ثابت کرنے سے پہلے نزول الأصل العظيم إلى عقيدة النزول کے عقیدے کی طرف پھر گئے اور اُن کی سمجھ میں یہ وما عرفوا أن النزول فرع نہ آیا که نزول صعود کی فرع ہے.اور ( نزول ) کا للصعود، وثبوته فرع لثبوته، ثبوت (صعود ) کے ثبوت کے لئے بطور فرع ہے و إذا ثبت أن القرآن لا اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن حضرت عیسی کے يصدق صعود عیسی بجسمه مادی جسم کے ساتھ آسمان پر جانے کی تصدیق العنصرى، بل يخالفه ويُبيّن نہیں کرتا بلکہ اس کی مخالفت کرتا ہے اور اس کی وفاته في كثير من آیاته وفات کو اپنی بہت سی آیات میں بیان کرتا ہے.
حمامة البشرى اردو ترجمه فتارةً يقول يُمِينَى إِلى مُتَوَفِّيكَ، پس کبھی فرماتا ہے کہ يُعِينَى إِنِّي مُتَوَقِيكَ لے وتارة يشير إلى وفاته بقوله: فلنا اور کبھی وہ اپنے اس قول سے اس کی وفات کی ا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ طرف اشارہ کرتا ہے کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ وتارة يقول : مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ کے اور کبھی فرماتا ہے کہ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أى ماتوا مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ كلهم ولو لم نختَرُ هذا المعنى في الرُّسُلُ یعنی وہ سب کے سب فوت ہوچکے هذه الآية المؤخرة يبطل الاستدلال ہیں.اگر ہم اس آخری آیت میں اس معنی کو اختیار المطلوب) فكيف نترك القرآن نہ کریں تو مطلوبہ استدلال باطل ہو جاتا ہے ) پس ہم وشهاداته وأى شهادة أكبر من قرآن اور اس کی شہادتوں کو کیسے ترک کر دیں.شهادة الكتاب العزيز الذى لا اور کون سی شہادت اس کتاب عزیز کی شہادت سے يأتيه الباطل من بين يديه ولا من بڑھ کر ہوسکتی ہے کہ باطل جس کے نہ آگے سے آ سکتا خلفه؟ فهل تريد أصلحك الله ہے اور نہ اس کے پیچھے سے.اللہ تیرا بھلا کرے کیا دليلا أوضــح مـن هـذا فـالأنسب تو اس سے زیادہ واضح کوئی اور دلیل چاہتا ہے؟ سو والأولى أن يُعرض غيرُ القرآن على زیادہ مناسب اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ غیر قرآن کو القرآن، ولو كان حدیث رسول قرآن پر پیش کیا جائے.خواہ وہ رسول اللہ صلی اللہ الله صلی اللہ علیہ وسلم او علیہ وسلم کی حدیث یا کسی ولی کا کشف یا کسی قطب كشف ولي، أو إلهام قُطب، فإنّ کا الہام ہی کیوں نہ ہو کیونکہ قرآن ایسی کتاب القرآن كتاب قد كفل الله صحته ہے جس کی صحت کی خود اللہ نے ضمانت دی ہے لے اے عیسی یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں.(ال عمران:۵۶) پس جب تو نے مجھے وفات دے دی ، فقط ایک تو ہی ان پر نگران رہا.(المائدۃ: ۱۱۸) محمد ع تو محض ایک رسول ہے اور ان سے پہلے رسول فوت ہو چکے ہیں.(ال عمران:۱۴۵)
حمامة البشرى 1+1 اردو ترجمه وقال: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا اور اُس نے فرمایا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ لَهُ لَحفِظُونَ ، وإنه لا يتغير بتغيرات وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ اور یہ زمانوں کے تغیر الأزمنة ومرور القرون الكثيرة، اور بہت سی صدیوں کے گزر جانے سے بھی ولا ينقص منه حرف ولا تزيد نہیں بدلتا.اور نہ اس میں سے کوئی حرف کم عليه نقطة، ولا تمسه ایدی ہو سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی نقطہ زیادہ ہوسکتا ہے المخلوق، ولا يُخالطه قول اور نہ مخلوق کے ہاتھ اسے چھو سکتے ہیں اور نہ ہی آدمیوں کا کوئی قول اس میں شامل ہو سکتا ہے.الآدميين.ومع ذلك لا شك أن القرآن مزید برآن قرآن بلا شبہ وحی متلو ہے.اور پورے وحی متلو، وكله متواتر ،قطعی کا پورا یہاں تک کہ نقطے اور حروف بھی قطعی متواتر حتى النقاط والحروف، وأنزله الله ہیں.اور اللہ نے اسے کمال اہتمام کے ساتھ فرشتوں کی حفاظت میں نازل فرمایا ہے.پھر اس باهتمام شديد كامل بحراسة الله عليه وسلم دقيقة من الاهتمامات في أمره، وداوم على أن يكتب أمـام عـيـنـه آيةً آيةً كما کے بارے میں تمام قسم کے اہتمام کرنے میں نبی الملائكة.ثم ما ترك النبي صلى کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک ایک آیت جیسے وہ ( قرآن ) نازل ہوتا رہا، لکھنے پر مداومت فرمائی.یہاں تک کہ آپ نے اسے كان ينزل حتى جمع كله، ورتب مکمل طور پر جمع فرمایا اور بنفس نفیس آیات الآيات وجمعها بنفسه النفيسة کو ترتیب دیا اور انہیں جمع کیا اور نماز میں اور وكان يداوم على قراءته في الصلاة نماز سے باہر اس کی تلاوت پر مداومت فرمائی.وغيرها، حتى ارتحل من دار الدنیا یہاں تک کہ آپ دنیا سے رحلت فرما گئے.ے یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اُتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.(الحجر:۱۰)
حمامة البشرى ۱۰۲ اردو ترجمه ولـحـق بــالـرفيـق الأعلى، ولاقی اور اپنے رفیق اعلیٰ اور محبوب رب العالمین محبوبه رب العالمين.سے جاملے.ثم بعد ذلك قام الخليفة الأول پھر اس کے بعد خلیفہ اول حضرت ابوبکر أبو بكر الصديق رضي الله عنه صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی تمام سورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ترتیب لتعهد جميع سوره بترتيب سمع من النبي صلى الله عليه کے مطابق جمع کرنے کا اہتمام فرمایا.پھر ( حضرت ) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد وسلم، ثم بعد الصديق الأكبر اللہ نے خلیفہ ثالث ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) وفق الله الخليفة الثالث فجمع کو توفیق عطا فرمائی.تو آپ نے لغت قریش القرآن على قراءة واحدة بحسب کے مطابق قرآن کو ایک قراءت پر جمع کیا اور لغة قريش وأشاعه في البلاد اُسے تمام ملکوں میں پھیلا دیا.اور اس کے ومع ذلك كان الصحابة كلهم ساتھ ساتھ تمام صحابہ (کرام) قرآن کو يقرأون القرآن كالحفاظ، وكان حافظوں کی طرح پڑھتے تھے اور اس (قرآن) كثير منه في صدور المؤمنین کا بیشتر حصہ مومنون کے سینوں میں (محفوظ) وكانوا يقرأونه في الصلاة وخارجها، تھا اور وہ اُسے نماز میں اور نماز سے باہر پڑھتے بل كانوا بعضهم حافظ القرآن رہتے تھے.بلکہ اُن میں سے بعض تو پورے كله، وكانوا يتلونه فی آناء قرآن کے حافظ تھے اور وہ رات اور دن کی الليل والنهار، وكانوا على گھڑیوں میں اس کی تلاوت کرتے تھے اور اس کی تلاوت پر مداومت اختیار کرتے تھے.فتفكر أيها العبد الصالح، أين پس اے صالح بندے ! غور کر، کہ یہ حصل هذا المقام الأعلى والأسنى اعلى و ارفع مقام زمانوں میں سے کسی لحديث في زمان من الأزمنة زمانہ میں حدیث کو کہاں حاصل ہوا ؟ تلاوته مداومين.
حمامة البشرى ۱۰۳ اردو ترجمه ☆ وإن الأحاديث كلها احاد وما جبکہ احادیث سب کی سب احاد ہیں اور رسول اللہ (۳۳) توجه رسول اللہ صلی اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جمع کرنے اور انہیں وسلم إلى جمعها وكتابتها، ولا ضبط تحریر میں لانے کی جانب کوئی توجہ نہیں فرمائی صحابته الكرام، وما كفلها الله و ما اور نہ ہی آپ کے صحابہ کرام نے اور نہ ہی اللہ نے ضمن وما وعد لعصمتها و حفاظتھا ان کا ذمہ لیا اور نہ ہی ضمانت دی ، اور نہ ہی قرآن كوعده لحفاظة القرآن.ومع کی حفاظت کے وعدہ کی طرح ان کی عصمت اور ذلك كتبت الأحاديث بعد زمان حفاظت کا وعدہ فرمایا.علاوہ ازیں احادیث طويل، وبـعـد قـرون من وفاة نبينا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صدیوں صلى الله عليه وسلم.ومع ذلك بعد ایک لمبے عرصہ کے بعد جمع کی گئیں.اور پھر یہ يوجد في بعضها اختلاف کثیر بات بھی ہے کہ ان میں سے بعض میں بہت وتناقض عسير، فهذا هو السبب اختلاف اور شدید تناقض پایا جاتا ہے.چنانچہ یہی الذي جعل هذه الأمّة فرقة فرقة، وه سبب ہے جس نے اس امت کو فرقہ فرقہ بنا دیا.ا حاشية: اعلم..أرشدك الله..أن لا حاشیہ: اللہ تجھے ہدایت دے، تجھے معلوم ہو کہ امام بخاری الامام البخاري مع شدة اهتمامه فی تصحیح احادیث کی تصیح اور اُن میں تطبیق پیدا کرنے اور ان کی تنقید اور ان الأحاديث وتوفيقها و تنقيدها وتفتيش کے راویوں کی جانچ پڑتال کرنے میں کمال اہتمام کے باوجود رواتها عجز عن رفع التناقض الذى اس تناقض کو مرتے دم تک دور کرنے سے عاجز رہے جو اُن کی يوجد في احاديث صــحـيـحـه حتـى صحیح ( بخاری ) کی احادیث میں پایا جاتا ہے.پھر کسی دوسرے تُوفّـي ثـم مـا كان لأحد أن يتدارك ما فاته کے لئے یہ ممکن نہ ہوا کہ جو کام اُن سے رہ گیا تھا وہ اُس کی تلافی ألا تنظر إلى أحاديث المعراج كيف يوجد فيها کرتا.کیا تو معراج کی روایات کو نہیں دیکھتا کہ اُن میں کیسے کیسے اختلافات عظيمة، حتى ان بعضهم ذهب الى عظیم اختلافات پائے جاتے ہیں.یہاں تک کہ بعض لوگ اس أن المعراج كان في اليقظة، وبعضهم طرف گئے ہیں کہ معراج بیداری میں ہوا تھا.اور بعض اس ذهب الى أنه كانت رؤيا صالحة، فتدبر طرف گئے ہیں کہ وہ ایک رویائے صالحہ تھی.پس غور وتد بر کر ولا تكن من النائمين.منه اور سونے والوں میں سے نہ ہو.منہ
حمامة البشرى ۱۰۴ اردو ترجمه فبعضهم حنفى، وبعضهم ،شافعی، پس اُن میں سے بعض حنفی ، بعض شافعی، وبعضهم مالكي، وبعضهم حنبلی بعض مالکی اور بعض حنبلی ہیں.اگر احادیث ولو كانت الأحاديث متفقة متفقہ اور با ہم موافق ہوتیں تو لوگ ان میں متوافقة لما اختلف الناس فيها وما کبھی اختلاف نہ کرتے اور نہ فرقوں میں افترقوا، ولكنهم وجدوا الأحاديث بٹتے لیکن اُنہوں نے احادیث کو ایک بعضها يُخالف بعضا، فأخذ كل دوسرے سے مختلف پایا پس ان میں سے ہر واحد حديثًا باجتهاد وفوَّض الأمر (فرقے ) نے اپنے اجتہاد کے مطابق کسی إلى الله، ففريق ذهب إلى حديث کو لے لیا.اور معاملے کو اللہ کے سپرد رفع اليدين في الصلاة والتأمین کر دیا.ایک فریق تو نماز میں رفع یدین اور بالجهر وقرائة الفاتحة خلف آمین بالجهر اور امام کے پیچھے سورہ فاتحہ الإمام، وفريق آخر خالفه فی پڑھنے کی طرف چلا گیا اور دوسرے فریق اجتهاده، وكل منهما يستدل نے اپنے اجتہاد میں اُس کی مخالفت کی.ہر بحديث، فكذلك في ألوف من دو فريق حديث سے ہی استدلال کرتے الأحاديث يوجد اختلاف ہیں.اسی طرح ہزار ہا احادیث میں مسالک المذاهب.فالأحاديث التي متنزلة کا اختلاف پایا جاتا ہے.پس ایسی احادیث من مراتب التواتر والقطعية جو تواتر قطعیت اور یقین کے مرتبہ سے واليقين، ولا تخلو من الاختلافات گری ہوں اور اختلافات، تناقضات اور والتناقضات والأضداد..كيف اضداد سے خالی نہ ہوں، انہیں ہم قرآن نحسبها قاضية على القرآن پر قاضی کیونکر سمجھ سکتے ہیں؟ کیا یہ ہیں أهذه علامات القُضاة فتفكروا قاضیوں کی علامات؟ پس غور کرو اگر تم إن كنتم متفكرين.غور کرنے والے ہو.
حمامة البشرى ۱۰۵ اردو ترجمه وإنا لا ننظر إلى الأحاديث بنظر اور ہم احادیث کو استخفاف اور توہین کی نظر سے الاستخفاف والتوهين، بل نحن نہیں دیکھتے.بلکہ ہم ان ائمہ محدثین کے شکر گزار نشكر أئمة المحدثين ونحمدهم ہیں اور ان کی مساعی کی تعریف کرتے ہیں.بلاشبہ على سعيهم، ولا شك أن للأحاديث احادیث کی عظیم شان ہے اور وہ تواریخ اسلام اور شأنا عظيما، وهي حاملة لتواريخ بيشتر مسائل دینیہ اور اس کی جزئیات کی حامل الإسلام ولأكثر مسائل الدین ہیں.ہم ان کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور انہیں و وجزئياته، وتعظمها ونعزها ونقبلها بسروچشم قبول کرتے ہیں لیکن ہم انہیں کتاب اللہ بالرأس والعين، ولكنا لا نقدمها على (قرآن) پر جو امام اور مہیمن ہے مقدم نہیں كتاب الله الإمام المهيمن، وإذا کرتے.اور جب قرآن اور حدیث میں کسی قصے تخالف الحديث والفرقان فی أمر من کے بارہ میں باہم اختلاف ہو جائے تو ہم جن القصص فتشهد الثَّقَلينِ أنا مع وانس کو گواہ ٹھہراتے ہیں کہ ہم قرآن کے ساتھ الفرقان ولا نبالی طعن الطاعنين ہیں اور ہم طعنہ زنوں کے طعن کی پرواہ نہیں کرتے ونعلم أن الخير كله والسلامة كلها اور ہم جانتے ہیں کہ تمام تر بھلائی اور تمام تر سلامتی في جعل القرآن معيارا لمثل هذه قرآن کو اس قسم کی احادیث کے لئے معیار بنانے الأخبار، فالقانون الصحيح العاصم میں ہے پس خطا سے بچانے والا صحیح قانون یہی من الخطاء أن نعرض كل قصة على ہے کہ ہم ہر قصے کو قرآن پر پیش کریں.پھر اگر اس القرآن، فإن كان ذكرها في القرآن کا یا اس سے ملتے جلتے اور مشابہ امر کا ذکر قرآن أو ذكـر أمــر يُشاكلها ويُشابهها میں موجود ہو تو وہ قبول کر لیا جائے گا اور اُس فيُقبل ويؤمن به ويُعتقد عليه، وإن پرایمان لایا جائے گا اور اُس پر اعتقاد رکھا جائے لم يوجد شبیه فی القرآن، لا فی گا.اور اگر قرآن میں اس کی مثل نہ پائی جائے نہ هذه الأمة ولا فى أمم أخرى ، اس امت میں اور نہ دوسری امتوں کے ذکر میں.
حمامة البشرى 1+7 اردو ترجمه بـل يـوجـد فيـه شـيء يعارضه، فمن بلکہ کوئی ایسی چیز پائی جاتی ہو جو اس کے معارض ہے الواجب أن لا يُقبل مثل هذه تو پھر لازم ہے کہ اس قسم کے قصوں کو صرف تاویلی القصص إلا في زى التأويل فانظرُ پیرایہ میں ہی قبول کیا جائے پس تو (خطا سے) اقتداء لهذا القانون العاصم الذي بچانے والے اس قانون کی جو رسول اللہ صلی اللہ بلغنا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچا ہے پیروی کرتے ہوئے عليه وسلم، هل تجد لقصة صعود دیکھ کہ کیا تو مادی جسم کے ساتھ مسیح کے (آسمان المسيح مع جسمه العنصری پر چڑھنے اور دوفرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ولـقـصـة نزوله من السماء واضعا ہوئے اُس کے آسمان سے اترنے کے قصوں کی كفيه على جناحى الملكين أصلا بنیاد یا نشان یا اس قصے کے مشابہ کوئی قصہ قرآن أو أثرا في القرآن أو قصة مما میں پاتا ہے؟ بلکہ قرآن اس دنیا میں اس قسم کے يشابه هذه القصة بل القرآن يُنزه افعال سے اللہ کی شان کو منزہ قرار دیتا ہے اور فرماتا شأن الله.عن مثل تلك الأفعال في ہے کہ قُل سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا هذه الدنيا ويقول : قُلْ سُبْحَانَ بَشَرًا رَّسُولاً لے اور وہ (قرآن) نزول کے قصے رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً کا اعلانیہ مخالف ہے.چنانچہ اُس نے اُن بشارتوں وإنه خالف قصة النزول جهرًا کا ذکر کیا ہے جن میں اُس نے اپنے مرتب اور بحيث ذكر بشاراتِ بشر بها المسيح مُرَبَّع کلام میں مسیح کو بشارتیں دی ہیں.پس في كلامه المرتب المرضع، فبلغ یہ کلام اللہ کے قول إِنِّي مُتَوَفِّيكَ سے قول الكلام من قوله : إِنِّى مُتَوَفِّيكَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ تک ہے.اور اس میں نہ تو اُس إلى قوله: يَوْمِ الْقِيَامَةِ ، وما ذكر فيه نے مسیح کے آسمان پر چڑھنے کے قصے کا کوئی قصة صعود المسيح ولا نزوله، ذکر کیا ہے اور نہ ہی اُس کے اُترنے کا.لے تو یہ اعلان کر دے کہ میرارب (ایسا کرنے ) سے پاک ہے.میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.(بنی اسرائیل:۹۴)
حمامة البشرى 1+2 اردو ترجمه ولو كانت صحيحة لذكرها فی اگر یہ بات درست ہوتی تو ان بشارات کے ضمن ضمن هذه البشارات، فهذا دلیل میں اُس کا ضرور ذکر کرتا پس یہ اس امر کی واضح واضح على أن الفرقان ما صدق دلیل ہے کہ قرآن نے ان قصوں کی تصدیق نہیں تلك القصص، بل كذبها لذکره کی بلکہ اُس نے مسیح کے لئے قیامت تک کے ۳۴ المواعيد والتبشيرات للمسيح إلى وعدوں اور بشارتوں کا ذکر کر کے اور اس قصہ کو يوم القيامة، وتركه تلك القصة چھوڑ کر اُن کی تکذیب کی ہے.اور اس میں حق ہے.اور وفي ذلك وجوه شافية للطالبين.کے طالبوں کے لئے تسلی بخش وجوہات ہیں.واعلم أن القرآن لا يجوز لأحد تو جان لے کہ قرآن کسی کے لئے یہ جائز قرار أن يرقى في السماوات بجسمه نہیں دیتا کہ وہ اپنے مادی جسم کے ساتھ آسمان العنصري ويبقى فيها حيًّا إلى يوم پر چڑھ جائے.اور (پھر ) قیامت تک اُس میں زندہ رہے.اور تجھے یہ معلوم ہے کہ قریش کے القيامة.وأنت تعلم أن طائفة من ایک گروہ نے کچھ مطالبات اپنی طرف سے قریش اقترحوا سؤالات من عند گھڑ کر پیش کئے تھے.اُن میں سے ایک یہ تھا أنفسهم، فكان منها أنهم قالوا کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لرسول الله صلى الله عليه وسلم: کہا کہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب إنا لا نؤمن بك حتى ترقى في تک کہ تو آسمان پر نہ چڑھ جائے.اُن کے السماء ، فنزل في جوابهم جواب میں یہ آیت نازل ہوئی قُلْ سُبحَات رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرِّ ارَّ سُولًا اور بَشَرًازَ سُولًا وأنت تعلم أن تو جانتا ہے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولنا صلعم أفضل الرسل وخاتمهم تمام رسولوں سے افضل اور اُن کے خاتم ہیں قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا لے تو یہ اعلان کر دے کہ میرا رب ( ایسا کرنے ) سے پاک ہے.میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.(بنی اسرائیل:۹۴)
حمامة البشرى ۱۰۸ اردو ترجمه وأحبهم إلى الله، فالأمر اور اُن میں سے اللہ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں.الذي لم يجز لــه..فكيف اس لئے جو بات آپ کے لئے جائز نہ تھی وہ کسی دوسرے يجوز لغیرہ فتدبـریـا أخـی..کے لئے کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ پس اے برادر من! أيدك الله بإلهام مبين.غور کر.اللہ واضح الہام سے تیری تائید فرمائے.وأما معراج رسولنا صلى الله رہی بات ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عليه وسلم فكان أمرا إعجازيًا من کے معراج کی تو وہ ایک اعجازی معاملہ عالم اليقظة الروحانية اللطيفة تھا.جو کامل لطیف روحانی بیداری کے عالم الكاملة، فقد عرج رسول اللہ میں تھا.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عائم صلى الله عليه وسلم بجسمه إلى بیداری میں اپنے جسم کے ساتھ آسمان کی السماء وهو يقظان لا شك فيه طرف لے جایا گیا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ولا ريب، ولكن مع ذلك ما فقد ليكن بایں ہمہ آپ کا جسم چار پائی سے غائب جسمه من السرير كما شهد عليه نہیں ہوا تھا جیسا کہ آپ کی بعض ازواج بعض أزواجه رضى الله عنهن رضى الله عنهن نے اس پر شہادت دی.وكذلك كثير من الصحابة ہے.اور اسی طرح بہت سے صحابہ نے بھی.فأنت تعلم وتفهم أن قصة پس تو جانتا اور سمجھتا ہے کہ معراج کا واقعہ ایک المعراج شيء آخر لا يضاهيه الگ نوعیت کا ہے جس سے عیسی علیہ السلام کے قصة صعود عیسی علیہ السّلام آسمان کی طرف صعود فرمائے جانے کا قصہ کوئی إلى السماء ، وإن كنت تشك مشابہت نہیں رکھتا اور اگر تجھے اس بارے فيه فارجع إلى البخاری میں کوئی شک ہو تو بخاری کی طرف رجوع کر.وما أظن أن تبقى بعده من مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد تو شک کرنے والوں میں سے نہیں ہو گا.المرتابين.
حمامة البشرى ۱۰۹ اردو ترجمه وأما قوله تعالى في قصة إدريس اور جہاں تک (حضرت) ادریس کے قصے میں وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا فاتفق | اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّال المحققون من العلماء أن المراد تو محقق علماء نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ یہاں من الرفع ههنا هو الإماتة بالإكرام رفع سے مراد عزت کے ساتھ وفات دینا اور ورفع الدرجات، والدليل على درجات کا بلند کرنا ہے.اور اس پر دلیل یہ ہے کہ ذلك أن لكل إنسان موت مُقدّر اللہ تعالیٰ کے فرمان كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ کی رو لقوله تعالى: كُلِّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ ولا سے ہرانسان کے لئے موت مقدر ہے.اور خدا تعالیٰ يجوز الموت في السماوات لقوله كے ارشاد وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ ے کی رو سے آسمانوں تعالى: وَفِيهَا نُعِيدُكُم، ولا نجد فی میں موت کا جواز نہیں ہے اور ہم قرآن میں القرآن ذكر نزول إدريس وموته ( حضرت ) اور لیس کے نزول اور اُن کی وفات اور ان ودفنه في الأرض، فثبت بالضرورة کے زمین میں مدفون ہونے کا ذکر نہیں پاتے.پس أن المراد من الرفع الموت.فحاصل قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ رفع سے مراد موت الكلام أن كل ما يخالف القرآن ہے.خلاصہ کلام یہ کہ ہر وہ بات جو قرآن کے مخالف ويعارض قصصه فهى أباطيل اور اُس کے بیان کردہ) قصوں کے معارض ہو وہ وأكاذيب، وإنّما هو تقولُ المفترين باطل، جھوٹ اور مفتریوں کی من گھڑت باتیں ہیں.ثم اعلم..أيدك الله تعالى..أن اللہ تیری مدد کرے، تجھے یہ معلوم ہو کہ مسیح کے عقيدة نزول المسيح من السماء مع عدم آسمان سے نزول کا عقیدہ نصوص قرآنیہ سے عدم ثبوته من النصوص القرآنية ومخالفة ثبوت اور اس ( عقیدہ) میں قرآن کی مخالفت کی القرآن فيها، يضر عقائد التوحيد وجہ سے توحید کے عقائد کو نقصان پہنچاتا ہے.ے اور ہم نے اس کا ایک بلند مقام کی طرف رفع کیا تھا.(مریم:۵۸) کے ہر چیز جو اس پر ہے فانی ہے.(الرحمن: ۲۷ سے اور اُسی میں ہم تمہیں لوٹا دیں گے.(طه:۵۶)
حمامة البشرى 11+ اردو ترجمه ویربی عقائد قوم أهلكوا اور اُس قوم کے عقائد کو تقویت دیتا ہے جنہوں نے الناس بمثل هذه القصص، فإنه ان جیسے قصوں سے لوگوں کو ہلاک کیا.پس اگر یہ إن كان هذا هو الأمر الـحـق..بات في الواقعہ کچی ہوتی کہ عیسی اپنے انبیاء أن عيسى لم يمت کا خوانہ بھائیوں کی طرح فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ آسمان من الأنبياء ، بل هو حتی موجود میں زندہ موجود ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ وہ في السماء ، ومع ذلك كان اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے کی طرح پرندے پیدا يخلق الطيور كمثل خلق کرتے تھے.اور رب العالمین کے زندہ کرنے کی الله، ويُحيى الأموات كإحياء طرح وہ مُردوں کو زندہ کرتے تھے.تو اس سے رب الـعـالـمـيــن، فأى ابتلاء أعظم بڑھ کر ان لوگوں کے لئے اور کون سا ابتلا ہوگا من هذا للذين يدعون إلى جنہیں اس زمانہ میں مسیح کی خدائی کی طرف دعوت ربوبية المسيح في هذا الزمان دی جاتی ہے جس (زمانہ ) میں ہر طرف نصاریٰ الذي تتموج فيه فتن النصاری کے فتنے موجزن ہیں.اور وہ (عیسائی لوگ ) اپنے من كل جهة، ويجاهدون بأموالهم مالوں کے ساتھ اور تمام قسم کی فریب کاریوں کے وجميع مكائدهم ليضلوا الناس ساتھ بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو گمراہ ويجعلوهم من المتنصرين کریں اور انہیں عیسائی بنالیں.ثم اعلموا..أيها الأعزة..أن حياة رسولنا پھر اے عزیز و! یہ جان لو کہ ہمارے رسول صلى الله عليه و سلم ثابت بالنصوص صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نصوص حدیثیہ سے ثابت (۳۵) الحديثية، وقد قال رسول الله صلى الله ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عليه وسلم إني لا أُترك ميتا في قبری میں اپنی قبر میں تین یا چالیس دن تک مُردہ إلى ثلاثة أيام أو أربعين باختلاف نہیں رہوں گا باختلاف روایت بلکہ میں زندہ کیا الرواية، بل أحيا وأُرفع إلى السماء جاؤں گا اور آسمان کی طرف اُٹھایا جاؤں گا.
حمامة البشرى اردو ترجمه وأنت تعلم أن جسمه العنصری اور تو جانتا ہے کہ آپ کا جسد خا کی مدینہ میں مدفون مدفون في المدينة، فما معنى هذا ہے.پھر اس حدیث کے اور کیا معنی ہو سکتے ہیں الحديث إلا الحياة الروحاني سوائے اُس روحانی زندگی اور روحانی رفع کے جو والرفع الروحاني الذي هو سُنّة الله الله کی سنت اپنے اصفیاء ( چنیدہ بندوں) کے ساتھ بأصفيائه بعدما توفاهم؟ كما قال انہیں وفات دینے کے بعد قائم ہے.جیسا کہ عز وجل يايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَيِئَةُ خدا عزوجل نے فرمایا ہے کہ یا يَّتُهَا النَّفْسُ از جعى إلى رَبَّكِ ، وما معنى قول : الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ - اور قول ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ إِلَّا المعنى الذى ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ کے وہی معنی ہیں جو قول يُفهم من قول : رَافِعُكَ إِلَيَّ، فإن رَافِعُكَ إِلَی سے سمجھے جاتے ہیں کیونکہ رجوع الرجوع إلى الله راضية مرضية إلى الله رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة “اور ”رَفَعَ إِلَى والرفع إلى الله أمر واحد، وقد الله “ ایک ہی بات ہیں.اور یہ اللہ تعالیٰ جرت عادة الله تعالى أنه يرفع إليه كى سنت جاریہ ہے کہ وہ اپنے نیک عباده الصالحين بعد موتهم ويؤويهم بندوں کو اُن کی وفات کے بعد اپنی طرف اُٹھاتا في السماوات بحسب مراتبهم ہے.اور انہیں ان کے حسب مراتب آسمانوں ولأجل ذلك لـقـي نبينا صلى الله | میں مقام دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی صلی عليه وسلم كل نبی خلا من قبله في اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں اپنے سے پہلے ليلة المعراج في السماوات، فوجد گزرے ہوئے ہر نبی سے آسمانوں میں ملاقات آدم في السماء الدنيا، ووجد عیسی فرمائی.چنانچہ آپ نے آدم کو پہلے آسمان میں، وابن خالته يحيى في السماء الثانية، عيسی اور ان کے خالہ زاد بھائی سختی کو دوسرے ووجد موسى في السماء الخامسة.| آسمان میں اور موٹی کو پانچویں آسمان میں پایا.لے اے نفس مطمئنہ ! تو اپنے رب کی طرف لوٹ جا.( الفجر : ۲۹،۲۸)
حمامة البشرى ۱۱۲ اردو ترجمه غافلين.وهذه الأحاديث صحيحة تجدها | اور یہ سب حدیثیں صحیح ہیں تو انہیں بخاری اور دیگر في البخاري وغيره من الصحاح صحاح میں پاتا ہے.پھر وہ لوگ جو حق کے خواہاں ثم الذين لا يريدون الحق يتعامون نہیں وہ اندھے بن جاتے ہیں اور تمام انبیاء کے وينسون رفع الأنبياء كلهم رفع کو بھول جاتے ہیں.اور (صرف) عیسی کی ويصرون على حياة عيسى ورفعه حیات اور اُن کے رفع پر اصرار کرتے ہیں.ويقرأون حديث المعراج ثم وہ حدیث معراج پڑھتے ہیں پھر اُسے بھول ينسونه، ويضيعون أعمارهم جاتے ہیں.اور اپنی عمریں غفلت میں ضائع کر دیتے ہیں.أعيسى حى ومات المصطفى کیا عیسی زندہ اور ( محمد ) مصطفی فوت ہو گئے؟ تلك إذا قسمة ضيزى! اعدلوا هو یہ تو ایک غیر منصفانہ تقسیم ہے.عدل کرو کہ وہ أقرب للتقوى وإذا ثبت أن الأنبياء تقویٰ کے قریب تر ہے اور جب یہ ثابت ہو گیا كلهم أحياء في السماوات فاتى کہ جملہ انبیاء آسمانوں میں زندہ ہیں تو پھر مسیح کی خصوصية ثابتة لحياة المسيح أهو حيات کی کون سی خصوصیت ثابت ہوتی ہے.کیا يأكل ويشرب وهم لا ياكلون ولا وہی کھاتا پیتا ہے اور وہ کھاتے پیتے نہیں؟ بلکہ يشربون؟ بل حياة كليم الله ثابت بنص کلیم اللہ کی حیات تو نص قرآن کریم سے القرآن الكريم..ألا تقرأ في القرآن ثابت ہے کیا تو قرآن میں اللہ تعالیٰ عزّ وجلّ ما قال الله تعالى عز وجل: فَلَا تَكُن کا فرمان فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَ ملے نہیں في مِرْيَةٍ مِنْ القَابِ ، وأنت تعلم أن هذه پڑھتا اور تو جانتا ہے کہ یہ آیت (حضرت) الآية نزلت في موسی، فھی دلیل موسی کے بارے میں اُتری ہے.پس یہ موسیٰ صريح على حياة موسى عليه السلام علیہ السلام کی زندگی پر ایک واضح دلیل ہے.کہ تو اُس کی ملاقات کے بارہ میں شک نہ کر.(السجدۃ: ۲۴)
حمامة البشرى ۱۱۳ اردو ترجمه لأنه لقى رسول اللہ صلی اللہ علیہ کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے وسلم، والأموات لا يلاقون الأحياء اور مردے زندوں سے نہیں ملتے اور تو اس قسم کی ولا تجد مثل هذه الآيات في شأن آيات عیسی علیہ السلام کی شان میں نہیں پائے گا.عيسى عليه السلام، نعم جاء ذکر ہاں البتہ اُن کی وفات کا ذکر متفرق مقامات پر آیا وفاته في مقامات ،ششی، فتدبر فإن ہے.پس تدبر کر، کیونکہ اللہ تدبر کرنے والوں الله يحب المتدبّرين.کو پسند فرماتا ہے.ولعلك تقول: لم ذكر الله اور شاید تو یہ کہے کہ پھر اللہ نے عیسی علیہ السلام کے تعالى قصة رفع عیسی علیه السلام رفع کا قصہ خصوصیت سے کیوں بیان فرمایا ہے اور بالخصوصية، وكذلك قصة اسى طرح اُن کے صلیب پر نہ مرنے کا ذکر قرآن نفى صلبه في القرآن وأتى سر میں کیوں کیا ہے.اور ان دونوں باتوں کے ذکر ومصلحة في ذكرهما وأى حاجة میں کون سا راز اور مصلحت ہے اور اس کے بیان اشتدت لهذا البيان فاعلم أن علماء کرنے کے لئے کون سی اشد ضرورت پیش آگئی اليهود وفقهاء هم غضب الله تھی.سو مجھے جاننا چاہئے کہ یہودیوں کے علماء اور عليهم كانوا ظانين ظن السوء فی اُن کے فقیہ اللہ کا غضب اُن پر نازل ہو ، وہ عیسی شان عیسی علیه السلام وكانوا علیہ السلام کی شان میں بدگمانی کرتے تھے اور کہتے يقولون إنه مفترى كذاب، وكان تھے کہ (نعوذ باللہ ) وہ مفتری اور کذاب ہیں اور مكتوبا في التوراة أن المتنبى تورات میں لکھا ہے کہ جھوٹا نبی صلیب دیا جاتا ہے الكاذب يُصلب ويُلعَن ولا يُرفع اور وہ ملعون ہوتا ہے اور سچے نبیوں کی طرح اُس إلى الله تعالى كالأنبياء الصادقين كا رفع اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا.اس لئے فأرادوا أن يصلبوا المسيح ليثبتوا انہوں نے مسیح کو صلیب پر مارنا چاہا تا کہ احکامِ كذبه بحسب أحكام التوراة تورات کے مطابق وہ اُن کا جھوٹا ہونا ثابت کریں
حمامة البشرى ۱۱۴ اردو ترجمه وليبينوا للناس أنه ملعون اور لوگوں پر یہ واضح کریں کہ وہ ملعون اور کذاب كذاب ولا يُرفع إلى الله..قاتلهم ہیں اور اُن کا رفع اللہ کی طرف نہیں ہوگا.اللہ ان الله ولعنهم..كيف احتالوا فی (یہود کو ہلاک کرے اور اُن پر لعنت کرے کہ کس نبى من المقربين فسعو الصلبه طرح انہوں نے (اللہ کے ) ایک مقرب نبی کی نسبت وبذلواله كل كيد ومكر لعله يہ منصوبہ بنایا.انہیں صلیب پر مارنے کی پوری يُصلب ويحصل لهم حجة کوشش کی اور اُن کے لئے ہر مکروہ تدبیر بروئے کار على كذبه و عدم رفعه بكتاب لائے کہ کسی طرح انہیں صلیب پر مار دیا جائے اور الله التوراة، فبشر الله عيسى عليه اس طرح اُن کے جھوٹا ہونے اور اُن کے عدم رفع السلام قائلا: يَا عِيسَى إِنِّی کے بارے میں اللہ کی کتاب تو راہ سے انہیں ایک مُتَوَفِّيكَ يـعـنـى مُميتك دليل حاصل ہو.پس اللہ نے عیسی علیہ السلام کو یہ حتف أنفك، وَرَافِعُكَ إِلَى کہتے ہوئے بشارت دی (يَا عِيسَى إِنِّي يعني رافعك إلى حضرة القرب مُتَوَفِّيكَ ) یعنی میں تجھے طبعی موت دوں گا.كالأنبياء الأصدقاء ، ولستَ وَرَافِعُكَ اِلَی یعنی بچے انبیاء کی طرح میں اپنے بنعمة الله من الملعونين حضور قرب میں تجھے جگہ دوں گا.اور اللہ کی نعمت (٣٦) والكذابين.فهذه مواعيد تسلية کے طفیل تو ملعون اور کذاب لوگوں میں سے نہیں من الرب الكريم لعیسی علیہ ہے.پس یہ وعدے رب کریم کی طرف سے عیسی السلام ورد على اليهود، وقول عليه السلام کی تسلی اور یہودیوں کی تردید کے لئے مبشر بأن الله لا يهدی کید تھے.اور یہ خوشخبری تھی کہ اللہ خیانت کرنے والوں الخائنين.والرفع..كما علمت کی تدبیر کو کامیاب نہیں کرتا اور جیسا کہ تجھے ابھی آنفا..ليس مخصوصا بعیسی علیه علم ہوا ہے کہ رفع صرف عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ السلام، والأنبياء كلهم قد رفعوا مخصوص نہیں بلکہ سب انبیاء کا ہی رفع ہوا ہے
حمامة البشرى ۱۱۵ اردو ترجمه وكان مقعدهم عند مليك اور اُن کا مقام قدرت رکھنے والے بادشاہ کے مقتدر، وقد وجد نبينا صلی الله پاس ہے.اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر عليه و سلم كل نبي مرفوعا إلى نبی کو کسی نہ کسی آسمان پر رفع کیا ہوا پایا.بلکہ بعض سماء من السماوات، بل وجد بعض انبیاء کو تو عیسی علیہ السلام سے بھی ارفع پایا.اور الأنبياء أرفع من عيسى عليه السلام آیت وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ " میں ایک اور وفي آية: وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ بھی اشارہ موجود ہے اور وہ یہ کہ عیسائیوں نے یہ إشارة أخرى، وهو أن النصارى زعموا خیال کیا کہ گناہوں سے انہیں پاک کرنے کی أن عيسى صلب لأجل تطهيرهم خاطر عيسى صليب دیا گیا اور یہ یقین کر لیا کہ گویا من المعاصي، وظنوا كأنه حمل صلیب کے بعد اُس نے ان کے سب گناہ اپنی بـعـد الـصـلـب جميع ذنوبهم علی جان پر لے لئے.اور وہ اُن کے لئے کفارہ ہیں نفسه، وهو كفارة لهم ومطهرهم اور تمام گناہوں اور خطاؤں سے انہیں پاک | من جميع المعاصي والخطيئات کرنے والے ہیں.پس صلیب کی نفی میں ہے ففى نفى الصلب رد على النصاری عیسائیوں کا رڈ اور کفارہ کے عقیدہ کا توڑ وهدم لعقيدة الكفّارة، ومع ذلك اور اس کے ساتھ ساتھ یہودیوں کا رڈ اور اُن کے رد على اليهود واستيصال لكيدهم اُس ناپاک) منصوبے کی بیخ کنی کرنا ہے جو الذي احتالوا اعتصاما بالتوراة، انہوں نے تورات سے اخذ کرتے ہوئے کیا.اور وإظهارا لبرية عیسی علیه السلام نیز اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی ان اقوام کے من بهتان تلك الأقوام.فهذا هو بہتانوں سے بریت کا اظہار ہے.پس یہی وہ سبب السبب الذی ذکر اللہ قصہ ہے جس کی بناء پر اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ صلب عيسي في القرآن و كَذَّبَه صلیب کو قرآن میں بیان فرمایا اور اُسے جھٹلایا.ے اور وہ یقینا اسے قتل نہیں کر سکے اور نہ اسے صلیب دے (کرمار) سکے.(النساء: ۱۵۸)
حمامة البشرى اردو ترجمه وإلا فما كان فائدة في ذكره، ورنہ اُس کے ذکر کرنے سے کیا فائدہ تھا.اور وكم من نبي قتلوا فی سبیل اللہ کتنے ہی ایسے نبی ہیں جو اللہ کی راہ میں قتل کئے وما جاء ذكر قتلهم في القرآن گئے لیکن قرآن میں اُن کے قتل کا ذکر نہیں آیا.فخُذُ منى هذه النكتة وكن پس یہ نکتہ مجھ سے لے لو اور تصدیق کرنے والوں من المصدقين.میں شامل ہو جا.وربما يختلج في قلبك أن شاید یہ بات تیرے دل میں کھٹکے کہ رسول اللہ رسول الله صلى الله علیه وسلم لم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کی آمد کے ذکر کے اختار لفظ النزول عند ذکر مجیء وقت ہر جگہ نزول کا لفظ کیوں اختیار فرمایا اور بعثت المسيح الموعود في كل مقام اور ارسال اور دیگر الفاظ کو کیوں ترک کیا؟ پس وترك لفظ البعث و الارسال وغیر جاننا چاہیئے کہ اس میں ایک بہت بڑا راز ہے جس ذلك.فاعلم أن فيه سر عظیم قد کی طرف قرآن نے متفرق مقامات میں اشارہ أشار إليه القرآن فی مقامات شتی کیا ہے.اور وہ یہ کہ اللہ کے انبیاء علیہم السلام اپنی وهو أن أنبياء الله عليهم السلام وفات کے بعد، اس عالم سے منقطع ہوکر اللہ کی يُرفعون إلى الله بعد وفاتهم طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور انہیں اس ترک کردہ منقطعين من هذا العالم، لا يكون عالم کے لئے کوئی ھم و غم نہیں ہوتا، بلکہ وہ خوشی لهم اهتمام ولا فکر لعالم ترکوه، خوشی اپنے رب سے جا ملتے ہیں اور تمام قدرتوں بل يصلون ربهم فرحين، ويقعدون کے مالک خدا کے پاس آرام و آسائش کے ساتھ عـنـد مـليـك مقتدر بطيب العيش شاداں و فرحاں بیٹھ جاتے ہیں اور واصل باللہ والـحـبـور والسرور، ويلحقون لوگوں کے گروہ میں مل جاتے ہیں.اور کبھی بالواصلين.وقد يتفق أن أمةَ أحد یوں بھی اتفاق ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک منهم تُفسد إفسادًا عظيمًا في الأرض (نبی) کی امت زمین میں فساد عظیم برپا کرتی
حمامة البشرى ۱۱۷ اردو ترجمه ويرجعون إلى جاهلية أُولى اور اپنی پہلی حالت جاہلیت بلکہ اس سے بھی قبیح تر بل إلى أقبح و أشنع منها، اور بدتر حالت کی طرف لوٹ جاتی ہے.جس پر فير تعد النبي المتبوع بسماع متبوع نبی، اللہ تعالیٰ سے یہ خبر سن کر کانپ اُٹھتا هذا الخبر عن الله تعالى، ويدركه ہے اور اسے رنج و غم اور اضطراب لاحق ہو جاتا ہے هم وغم واضطراب، ويقصد اور وہ چاہتا ہے کہ زمین پر نازل ہو کر اپنی امت کی أن ينزل إلى الأرض ويُصلح أمته، اصلاح کرے لیکن وہ اس کی طرف کوئی راہ نہیں پاتا کیونکہ پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ یہ فرما فلا يجد سبيلا إليه لما سبق قول الله تعالى: أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ چکا ہے کہ أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ے پس اللہ تعالیٰ زمین پر اُس (نبی) کا ایک مثیل پیدا کرتا ہے اور اُس کے ارادوں کو اُس نبی کے ارادے اور اُس فالله يجعل له مثيلا في الأرض ويجعل إراداته في إراداته کی تو جہات کو اُس نبی کی تو جہات بنا دیتا ہے اور وتوجهاته في توجهاته، ويجعلهما اُنہیں ایک ہی شے بنادیتا ہے گویا کہ وہ دونوں كشيء واحد كأنهما من جوهر ایک ہی جوہر سے ہیں.اور اُس (نبی) کی واحد، ويُنزل روحانيته على روحانيت اُس کے مثیل پر نازل کرتا ہے جس روحانيته، فيظهر المثيل بشأن کے نتیجے میں وہ مثیل عین اُسی شان اور اُنہی وأخلاق وصـفـات كان الممثل به اخلاق وصفات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جن سے يوصف بها.فهذا هو الوجه الذى اُس کا ممثل نبی متصف تھا.پس یہی وہ وجہ أختيـر لــه لـفـظ النزول لیدل علی ہے جس کے باعث نزول کا لفظ اختیار کیا گیا أن المسيح الموعود يجيء علی تاکہ وہ اس بات پر دلالت کرے کہ مسیح موعود قدم المسيح الأصلـى كـأنه هو اصلی مسیح کے قدم پر آئے گا گویا کہ وہ وہی ہے.وہ واپس نہیں لوٹیں گے.(الانبیاء : ۹۶)
حمامة البشرى ۱۱۸ اردو ترجمه فمعنى لفظ النزول الذي جاء فی بخاری میں جو نزول کا لفظ آیا ہے اُس کے معنی یہ البخاري أن المسيح الآتى ينزل ہیں کہ آنے والا مسیح بمنزلہ حقیقی مسیح نازل ہوگا پھر منزلة المسيح الحقيقى.ومع ذلك چونکہ مفسد اور گمراہ کرنے والا دجال طرح طرح لما كان الدجال المفسد المضل کے فریبوں، حیلوں اور سفلی زمینی فنون کے ساتھ خارجا من الأرض بأنواع المكائد زمین سے ظاہر ہونے والا تھا اس لئے اس والحيل والفنون الأرضية السفلية مناسبت سے زمین سے ظاہر ہونے والے أُختير لفظ النزول للمسيح الموعود (وقال) کے بالمقابل مسیح موعود کے لئے بھی مناسبة ومحاذاة للخارج الأرضى، یہی نزول کا لفظ اختیار کیا گیا اور اس میں اشارہ وإشارةً إلى أن الدجال يُهيج فتنته من ہے کہ دجال سفلی تدابیر اور زمینی حیلوں سے الجيل الأرضية والمكائد السفلية، اپنے فتنے کو بھڑکائے گا اور مسیح موعود کوئی زمینی والمسيح الموعود لا يأتي بشيء من چيز از قسم شمشیر یا تیر یا نیزہ نہیں لائے گا بلکہ وہ الأرض من سيف أو سهم أو رمح بل آسمانی اسلحہ کے ساتھ آئے گا اور فرشتوں کے يأتي بالأسلحة الفلكية، وينزل على پروں پر سوار ہو کر ) نازل ہوگا.اُس کے ٣٧ أجنحة الملائكة، لا يكون معه شيء ساتھ کوئی مادی اسباب نہیں ہوں گے اور اُس کی من الأسباب الأرضية، ويؤيد بآيات تائید آسمانی آیات اور برکات کے ساتھ کی السماء وبركاتها، فكانه ملک جائے گی.گویا وہ ایک فرشتہ ہے جو زمینی نزل من السماء لإهلاك العفريت عفریت کو ہلاک کرنے اور اُس کے شر کے شعلے الأرضى وإطفاء شعلة شرورہ کو بجھانے کے لئے آسمان سے نازل ہوا ہے.☆ الحاشية: قد جاء في بعض الأحاديث أن حاشیہ:.بعض احادیث میں آیا ہے کہ دجال نوع انسان الدجال لا يكون من نوع الإنس بل إنما هو میں سے نہیں ہوگا.بلکہ وہ شیطان ہوگا جو آخری زمانہ میں اپنے شيطان يوسوس في صدور تابعیه فی آخر الزمان، متبعین کے سینوں میں وسوسے پیدا کرے گا اور اُس کے پیروکار اُس فتوابعه يكونون مظاهره ومظهر إرادته منه کے اور اُس کے ارادے کے مظہر ہوں گے.منہ
حمامة البشرى ۱۱۹ اردو ترجمه واعلم أن لفظ النزول تبشیر جاننا چاہئے کہ نزول کا لفظ مسلمانوں کے لئے سماوى للمسلمين لئلا ينقطع آسمانی بشارت ہے تا کہ مصائب کے نزول رجاؤهم في زمان تُصب عليهم اور زمینی تدابیر اور مادی ذرائع کی قلت کے المصائب، وتقل الحيل الأرضية زمانے میں اُن کی اُمید منقطع نہ ہو جائے.نیز والوسائل السفلية، وترتعد قلوبهم نصاریٰ کے غلبہ، ان کی حکومت اور اُن کی برؤية غلبة النصاری و دولتهم زبر دست قوت اور اُن کے ائمہ دین کی فریب وشدة قوتهم، وقوة مكائد أئمة کاریوں کی طاقت کو دیکھ کر اُن کے دل لرز نہ دينهم الذين هم الدجال الأكبر جائیں.وہ ائمہ دین جو معہود دجال اکبر اور المعهود، والمظهر الأتم شیطان کے مظہر اتم ہیں اور جن کی مثل اور اُن للشيطان، لم ير مثلهم ومثل کے مکروفریب کی نظیر تمام جہانوں میں نہیں پائی جاتی.مكائدهم في العالمين.فبشر الله المسلمين المستضعفين پس اللہ نے آخری زمانے کے کمزور مسلمانوں کو في آخر الزمان وقال إنكم إذا رأيتم بشارت دی اور فرمایا کہ جب تم یہ دیکھو کہ عیسائی أن أئمة دين النصارى قد غلبوا على مذہب کے ائمہ روئے زمین پر غالب آگئے وجه الأرض، وأهلكوا أهلها بأنواع ہیں اور اُنہوں نے اپنی طرح طرح کی تدابیر مكائدهم وحيلهم وعلومهم، وجذبهم اور حیلوں اور اپنے علوم اور لوگوں کے دلوں کو اپنی قلوب الناس إليهم، ورفقهم ولين طرف کھینچ کر اور اپنے دھیمے مزاج اور نرم گوئی قولهم، ومداراتهم التي بطريق النفاق، اور منافقانہ خاطر مدارات کی راہ سے اور کئی واستعمالهم ضروبا من الحيل، وتأليف الـقـلـوب بالتعليم والأموال والنساء طرح کے خیلے استعمال کر کے اور تعلیم ، اموال ، والمناصب والمداواة والتشويقات عورتوں، عہدوں ، علاج معالجے، ترغیبات،
حمامة البشرى ۱۲۰ اردو ترجمه والأماني والخداع، وإراءة حكومة امیدوں اور فریب سے تالیف قلوب کر کے اور دنیا الدنيا وسلطانها، ومواعید کی حکومت اور اُس کا غلبہ دکھا کر اور اپنی حکومت القرب من دولتهم والتعزز کے قرب اور اپنے امراء سلطنت کے درباروں عند أمرائهم، ووجدتم أنهم ميں عزت کے وعدے دے کر روئے زمین پر بسنے قد أحاطوا على البلاد كلها والوں کو تباہ کر دیا ہے اور تم نے انہیں تمام ملکوں کا وأفسدوا فسادًا كبيـر بـسـحـر احاطہ کئے ہوئے پایا اور اپنی باتوں کا جادو جگا کر كلماتهم وعجائب تلبيساتهم، اور تلیس کے عجوبے دکھا کر اور اپنے ارضی فنون وفنونهم الأرضية التي بلغت کے ذریعہ جو اپنی انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں، بہت منتهاها، فلا تخافوا ولا تحزنوا، بڑا فساد برپا کر دیا ہے، پس نہ تم ڈرو اور نہ ہی غم فإنا نرى ضعفکم و کسلکم کرو، کیونکہ ہم موجودہ وقت میں تمہارے ضعف في دينكم وقلة علمکم اور دینی امور میں تمہاری کا ہلی اور تمہارے علم تمہاری وعقلكم و همتكم ومالکم عقل، تمہاری ہمت، تمہارے مال اور کم تدبیری وقلة حيلكم في تلك الأيام کو خوب جانتے ہیں.اور ہم جانتے ہیں کہ تم ونرى أنكم صرتم قوما کمزور قوم بن چکے ہو.اس لئے ہم ان ایام مستضعفين، فتُنزّل في تلك میں اپنی جناب سے آسمان سے نصرت نازل الأيام نصرةً من عندنا من السماء کریں گے اور اپنی طرف سے ایک بندہ مبعوث وعبدا من لدنا، ویأتیکم کریں گے.اور خالصہ ہمارے ہاتھوں اور مددنــا مـن الـعــش خــالـصـا من ہمارے نفخ سے تمہارے پاس ہماری مددعرش أيدينا و من نفخنا، لا يُخالطه سے آئے گی جس میں زمینی اسباب میں سے کسی سبب من أسباب الأرض، فتم کی آمیزش نہ ہوگی.سو (اس طریق سے ) ہم حجة ديننا علی الظالمین ظالموں پر اپنے دین کی حجت تمام کریں گے.
حمامة البشرى ۱۲۱ اردو ترجمه وقد أشير في بعض الأحاديث أن اور بعض احادیث میں اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیح المسيح الموعود والدجّال المعهود موعود اور دجال معہود دونوں بلا د شرقیہ میں سے کسی يظهران في بعض البلاد المشرقية، یعنی مُلک یعنی مُلک ہند میں ظاہر ہوں گے پھر مسیح في ملك الهند، ثم يُسافر المسیح موعود یا اُس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین الموعود أو خليفة من خلفائه إلى أرض دمشق كى جانب سفر کرے گا.پس یہ مفہوم ہے اُس دمشق، فهذا معنى القول الذى جاء قول کا جو ( صحیح ) مسلم کی حدیث میں وارد ہوا کہ فی حدیث مسلم أن عيسى ينزل عند عیسی دمشق کے منارہ کے پاس نازل ہوگا.کیونکہ منارة دمشق، فإن النزيل هو المسافر نزيل أس مسافر کو کہتے ہیں جو کسی دوسرے ملک الوارد من ملك آخر وفي الحديث سے وارد ہو.اور حدیث میں یعنی لفظ مشرق يعنى لفظ المشرق..إشارة إلى أنه میں اشارہ ہے کہ وہ کسی مشرقی ملک یعنی مُلک ہند يسير إلى مدينة دمشق من بعض سے دمشق شہر کی طرف سفر کرے گا.اور میرے دل البلاد المشرقية وهو ملك الهند میں ڈالا گیا ہے کہ دمشق کے منارہ کے پاس عیسی وقد أُلقي في قلبي أن قول عیسی کے نزول والے قول میں اُن کے ظہور کے زمانہ کی عند المنارة دمشق، إشارة إلى زمان طرف اشارہ ہے کیونکہ اُس کے حروف کے اعداد ظهوره، فإن أعداد حروفه تدل علی اس سن ہجری پر دلالت کرتے ہیں جس میں اللہ السنة الهجرية التي بعثني الله فيه نے مجھے مبعوث فرمایا ہے.اور منارہ کے لفظ کا ذکر واختار ذكر لفظ المنارة إشارة إلى اختیار کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ سرزمین أن أرض دمشق تنير و تشرق بدعوات دمشق مختلف انواع کی بدعات سے تاریک ہو جانے المسيح الموعود بعد ما أظلمت بأنواع کے بعد مسیح موعود کی دعاؤں کے طفیل منور اور البدعات، وأنت تعلم أن أرض روشن ہو جائے گی.اور تجھے معلوم ہے کہ دمشق کی دمشق كانت منبع فتن المتنصرين.سرزمین نصاری کے فتنوں کا منبع تھی.
حمامة البشرى ۱۲۲ اردو ترجمه وتفصيله كما رأيناه في أناجيل اور اس کی تفصیل جیسا کہ ہم نے نصاریٰ کی النصارى أن يُولُص الذى كان أوّل انا جیل میں مشاہدہ کیا ہے یہ ہے کہ پولوس رجل أفسد دين النصارى وأضلهم، وہ پہلا شخص تھا جس نے نصاریٰ کے دین وأجاح أصولهم، ومكر مكرًا کو بگاڑا، انہیں گمراہ کیا، اُن کے اصولوں کی بیخ كبارًا، وسار إلى دمشق و افتری من کنی کی اور بڑی مکاری سے کام لیا.اور دمشق کی عند نفسه قصة طويلة ليعرضها طرف گیا اور اپنی طرف سے ایک طویل قصہ على بعض سادات النصارى الذين گھڑا تا کہ وہ اُسے عیسائیوں کے بعض اُن كانوا غافلين من مكائده، و كانوا سرکردہ لوگوں کے سامنے پیش کرے جو اُس کی سفهاء بادى الرأى ذوى الآراء سازشوں سے غافل تھے اور بے وقوف سادہ السطحية والعقول الناقصة لوح ہی آراء رکھنے والے ،ضعیف اور ناقص ۳۸ الضعيفة، سريع الإيمان بالخرافات العقل، خرافات منقولہ اور روایت شدہ عجائبات المنقولة والعجائبات المروية، ولو پر جلد ایمان لانے والے تھے.خواہ اُنہیں نقل كان ناقلها وراويها امراً کذاب کرنے والا اور انہیں روایت کرنے والا انتہائی مفسدا، فلقى بولص في دمشق دروغ گو اور فسادی شخص ہی ہو.پس پولوس دمشق رجلا منهم الذى كان اسمه أنانيا، میں اُن میں سے ایک شخص سے ملا.جس کا نام وكان أولهم غباوة وسريع الميل انا نیا تھا جواول درجہ کا گند ذہن اور اِس قسم کی إلى مثل هذه المزخرفات، فقال ملمع باتوں کی طرف جلد مائل ہونے والا تھا.يا سيدي إني رأيت كشفًا عجيبا..اُس نے کہا کہ اے میرے آقا ! میں نے ایک أني كنت أسير مع جملة فرسان عجیب کشف دیکھا کہ میں ایک گھڑ سوار إلى جهة من الجهات، وكنت جماعت کے ساتھ کسی طرف جارہا ہوں.من أشد الأعداء لدین المسیح اور میں دین مسیح کے اشد دشمنوں میں سے تھا
حمامة البشرى ۱۲۳ اردو ترجمه أروح وأغدو في هذا الفكر، اور میں شب و روز اسی فکر میں رہتا تھا کہ مسیح مجھ پر فنزل على المسيح و نادانی من نازل ہوا اور اس نے روشنی میں سے مجھے پکارا میں الضوء ، وسمعت صوته و عرفته، نے اُس کی آواز سنی اور میں نے اسے پہچان لیا.فقال لم تؤذيني يا بولص؟ أتطيق پھر اُس نے کہا اے پولوس! تو مجھے کیوں تکلیف أن تضرب يدك على رمح دیتا ہے؟ کیا تو آہنی نیزے پر اپنا ہاتھ مار سکتا ہے؟ الحديد فزجرني وخوفنی حتی پھر اُس نے مجھے ڈانٹا اور ڈرایا یہاں تک کہ خفت وارتعدت، فقلت: یا ربّی میں ڈر گیا اور لرز گیا اور میں نے کہا، اے میرے إني تبت مما فعلت فأمُرُ ما رب! میں اپنے کئے پر تائب ہوتا ہوں مجھے حکم أفعل بعد ذلك.فأمرني وقال : دیکھیئے کہ میں اس کے بعد کیا کروں؟ اس پر آپ نے سر إلى مدينة دمشق، وابحث مجھے یہ حکم دیتے ہوئے کہا کہ دمشق شہر کی طرف جا فيها عن رجل اسمه أنانيا، واقصص اور انا نیا نام کے آدمی کی وہاں تلاش کر اور اُس کے عليه هذه القصة، فهو يعرفك سامنے یہ سارا ماجرا بیان کر.پس وہ تجھے بتائے گا جو ما يكون عملك فالحمد للہ تجھے کرتا ہے.پس الحمد للہ کہ میں نے آپ کو پالیا اور أني وجدتك ورأيتك على ميں نے آپ میں وہی صفات مشاہدہ کیں جو میرے صفات عرفنى بها ربّى المسيح رب مسیح نے مجھے بتائی تھیں.پھر ان پر فریب تمہیدی ثم قال بعد تمهيد هذه المكائد کلمات کے بعد یہ کہا کہ اے میرے آقا! میں يا سيدي إني برئ من دین یہودیوں کے دین سے بیزار ہوں.آپ مجھے عیسائیت اليهود، فأدخلني في الملة کی ملتِ مقدسہ میں داخل کر لیجیے میں آپ کے المقدسة النصرانية، فإنّي جنتك پاس ایک مومن کی حیثیت سے اور مسیح کی طرف مؤمنا ومبشرا من المسیح سے خوشخبری دینے والا بن کر آیا ہوں.چنانچہ يد أنانيا، (پولوس) نے انانیا کے ہاتھ پر عیسائیت قبول کرلی فتنصرء ى
حمامة البشرى ۱۲۴ اردو ترجمه وأجــابــه أنــانيــا في كل ما طلبہ اور اس کے جواب میں انا نیا نے اُس کا مطالبہ وعظمه وأشاع هذه القصة في پورا کیا اور اُسے عزت بخشی اور دمشق شہر میں اس مدينة دمشق.فأوّلُ أَرضِ غُرِسَ افسانے کی خوب اشاعت کی.پس سب سے فيه شجرة ربوبية المسيح هى پہلى سرزمین جس میں ربوبیت مسیح کا پودا لگایا گیا مدينة دمشق، وغرس بولص فيها وہ دمشق کا شہر ہے.اور پولوس نے اس میں یہ هذه الأشجار الخبيثة وأهلك اشجارِ خبيثہ لگائے.اور اس کے باشندوں کو أهلها، فالنصارى كلهم أشجار ہلاک کیا.پس سب کے سب عیسائی پولوس کے بذر بولص الذي بذره في دمشق، اُس پیج سے پیدا ہونے والے درخت ہیں جو فأراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ اُس نے دمشق میں بویا تھا.پس رسول اللہ صلی وسلم أن يذكر مدينة دمشق في نبا اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ مسیح موعود کی پیشگوئی المسيح الموعود تنبيها إلى أن میں دمشق کے شہر کا ذکر کریں تا کہ آپ اس بات تلك الأرض كانت مبدأ للفساد پر متنبہ کریں کہ یہ سرزمین فساد کا سر چشمہ اور ومنبعا أولا لفتن التنصر و لجعل عیسائیت کے فتنوں اور بندے کو خدا قرار دینے کا اولین منبع ہے.العبد إلها.ثم سيصل عبد مُوَحَدٌ إِليه في پھر یہ پیشگوئی ہے کہ آخری زمانے میں توحید آخر الزمان لإشاعة التوحيد كما کا ایک پرستار بندہ توحید کی اشاعت کی خاطر وصل بولص لإشاعة الشرك یہاں (دمشق میں ) پہنچے گا.جیسے پولوس اپنے نفس والكفر والخبث، تلبیسا من عند کی دھوکا دہی سے شرک، کفر اور حُبت پھیلانے نفسه، ليكون له مكانًا في أعين کے لئے وہاں پہنچا تاکہ عیسائیوں کی نگاہ میں النصارى فالحاصل أن دمشق کان اُسے ایک مقام حاصل ہو جائے.خلاصہ کلام یہ أصلا ومنبعا لفتن المتنصرين کہ دمشق عیسائیوں کے فتنوں کی جڑ اور منبع تھا
حمامة البشرى ۱۲۵ اردو ترجمه و كان مبدأ الفساد ومبدأ كيد اور فساد اور فریب کاروں کی فریب کاری کا آغاز الكائدين.فبشّر الله لعباده أن فتنة تھا.پس اللہ نے اپنے بندوں کو بشارت دی کہ ألوهية المسيح تُجاح وتُزال من الوہیت مسیح کے فتنہ کو جڑ سے اکھیڑ دیا جائے وجه الأرض كلها حتى من دمشق گا.اور وہ تمام روئے زمین سے حتی کہ دمشق سے بھی الذي كان مبدؤها و منبعها، وينتهي جو ان فتنوں کا مبدء اور منبع تھا، مٹا دیا جائے گا.كمال التوحيد إليه كما ابتدأت اور کامل توحید یہاں پہنچے گی جس طرح کہ یہاں الفتن منه وهذا فعل الله و عجیب سے فتنوں کا آغاز ہوا تھا.یہ اللہ کا فعل ہے اور اُن في أعين الذين لا يؤمنون بعجائب لوگوں کی نگاہ میں عجیب ہے جو ارحم الراحمین کی رحمت کے عجائبات پر ایمان نہیں رکھتے.وأما قتل الدجال الذي هو من رہی قتل دجال کی بات جو مسیح کی علامات میں رحمة أرحم الراحمين.علامات المسيح..فاعلموا أيها سے ایک ہے.تو اے عزیز و! اس بارے میں الأعزة أيدكم الله.أن لفظ الدجال اللہ تمہاری مدد فرمائے ، یہ یاد رکھو کہ دجال کا لفظ ليس اسم أحد سماه أبواه به کسی ایک شخص کا نام نہیں جو اُس کے والدین نے بل هو في اللغة فئة عظيمة رکھا ہو بلکہ وہ از روئے لُغت ایک بڑا گروہ ہے يقطعون نواحى الأرض سيرا، جو زمین کے کناروں تک سفر کرے گا اور باطل پر ويُغطون الحق على الباطل ویرونه حق کا پردہ ڈالے گا اور وہ اسے خالص اور کھرے كالحق الخالص المحض، حق کی طرح دکھائے گا اور وہ (دجالی گروہ) وينجسون وجه الأرض بالتمويهات روئے زمین کو ملمع سازیوں اور فریب کاریوں سے والتلبيسات، ويفوقون مكرًا نا پاک کردے گا.اور وہ مکروفریب میں ہر مکار وكیدا كلّ مكار و کائد، وتعم اور فریبی پر بازی لے جائے گا اور اُس کی الأرضَ كلها بلياتهم وآفاتهم بلائیں اور آفات ساری زمین کو ڈھانپ لیں گی
حمامة البشرى ۱۲۶ اردو ترجمه ولو كان المراد من لفظ اور اگر دجال کے لفظ سے کوئی خاص شخص مراد ہوتا تو الدجال رجلا خاصا لبين النبي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس شخص کا نام ضرور بیان صلى الله عليه وسلم اسم ذلك فرماتے جسے دجال کا لقب دیا گیا.یعنی وہ نام جو اُس الرجل الذي لقب بالدجّال ، أعنی کے والدین نے اُس کا رکھا.اور پھر حضور اُس کے الاسم الذي سماه والداه والدین کے اسماء بھی بیان فرماتے لیکن حضور نے اُس وبين اسم والديه، ولكن لم يُبين کے والد اور والدہ کے نام کی کوئی وضاحت وصراحت ولم يصرح اسم أبيه وأمه.فوجب نہیں فرمائی.لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم خود اپنی طرف سے علينا أن لا ننحت من عند أنفسنا کوئی خاص شخص تجویز نہ کریں بلکہ ہم لغت عرب دیکھیں رجلا خاصا، بل ننظر في لسان اور اُن معنوں کو مقدم کریں جن کی طرف قریش العرب، ونقدم معنى يهدى إليه لغة کی زبان ہماری رہنمائی کرتی ہے.پھر جب اُس ۳۹) قريش، فإذا ثبت معناه أنه (رجال) کے معنی ثابت ہو جائیں کہ وہ مکاروں کا گروہ فئة الكائدين فوجب بضرورۃ ہے.تو اس لفظ کے معنی کے التزام کی ضرورت کے التزام معنى اللفظ أن نقر بأنه ساتھ یہ لازم ہو گیا کہ ہم اس امر کا اقرار کریں کہ وہ فئة عظيمة فــاقـوا مـكـرا وكيدا (رجال) ایک بڑا گر وہ ہے جو کر وفریب اور تلبیس میں وتلبيسا أهل زمانهم، ونجسوا اپنے ہم عصروں پر بازی لے گیا.اور انہوں نے اپنے الأرض كلها بخيالاتهم الفاسدة ثم فاسد خیالات سے تمام زمین کو نا پاک کر دیا.پھر جب إذا رجعنا إلى القرآن و نظرنا فيه..ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے اور اس میں غور کرتے هل هو يبين ذکر رجل خاص ہیں کہ کیا اس نے دجال نامی کسی خاص شخص کا ذکر کیا مسمى دجّالا، فلا نجد فيه منه ہے تو اس میں اس کا نہ کوئی نشان اور نہ ہی اس کی طرف أثرًا ولا إليه إشارة، مع أنه كفَل ذِكْرَ اشارہ پاتے ہیں.حالانکہ ان بڑے بڑے واقعات جن واقعات عظيمة لها دخل فی الدین کا دین میں داخل ہے، کو بیان کرنے کا وہ ضامن ہے.
حمامة البشرى ۱۲۷ اردو ترجمه وقال: مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ وہ فرماتا ہے کہ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ ، وقال في مقامات كثيرة إن شَيْءٍ نیز اور بہت سے مقامات میں اُس نے فرمایا في القرآن تفصيل كلّ شيء، ولكن ہے کہ قرآن میں ہر چیز کی تفصیل پائی جاتی ہے.لیکن ہم لا نجد في القرآن ذكر الدجّال الذى قرآن میں اُس دجال کا ذکر جو لوگوں کے خیال میں ایک هـو فـرد خاص بزعم القوم إجمالا، خاص فرد ہے تفصیلی تو در کنار اجمالی بھی کہیں نہیں پاتے.فضلا عن التفصيلات.نعم إنا نرى أن ہاں البتہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے صراحت کے ساتھ القرآن قد ذكر صريحا فئة مفسدة دین میں فساد کرنے والے ایک گروہ کا ذکر کیا ہے في الدين، وذكر أن في آخر الزمان يكون اور اُس نے ذکر کیا ہے کہ آخری زمانے میں ایک قوما مكارين مفسدين، ينسلون من كل قوم مکاروں اور مفسدوں کی ہوگی جو بڑی تیزی سے حدب، ويهيجون الفتن في الأرض بلندیوں کو پھاندتے ہوئے آئیں گے اور وہ سمندر کی كأمواج البحار، فتلك هي الفئة التي موجوں کی طرح زمین میں فتنے بپا کریں گے.پس یہی سُمّيت في الأحاديث دجّالا.والله يعلم وہ گروہ ہے جس کا نام احادیث میں دجال رکھا گیا ہے.أن هذا الأمر حق وظهرت العلامات اور اللہ جانتا ہے کہ یہ بات حق ہے.اور ساری علامات كلها.ألا ترى أنهم أشاعوا الكفر ظاہر ہو چکی ہیں.کیا تو نہیں دیکھتا کہ انہوں نے کفر اور والشرك أكثر مما أشاع الكفار كلّهم شرک کو اس سے کہیں زیادہ پھیلایا جو آدم سے لے کر زیادہ جو من وقت آدم إلى هذا الوقت والأماكن اب تک تمام کفار نے پھیلایا تھا.اور جن جگہوں التي مروا بها وتسلّطوا عليها فقد میں سے وہ گزرے اور اُن پر اپنا تسلط جمایا.بذروا فيها بذر الكذب والفتنة وہاں اُنہوں نے مردار دنیا کے لئے اور اُس کے والفساد والتنازعات على جيفة الدنيا اموال، اراضی ،عمارتوں اور اُس کی سرداریوں کے وأموالها وأراضيها وعماراتها وإماراتها.لئے جھوٹ اور فتنہ وفساد اور تنازعات کا بیج بو دیا.لے ہم نے قرآن میں کوئی چیز بھی نظر انداز نہیں کی.(الانعام: ۳۹)
حمامة البشرى ۱۲۸ اردو ترجمه وقـد هـيـجـوا بعض الناس علی بعض اور عجیب باریک دربار یک حیلوں اور جھگڑوں بلطائف الحيل والتدابير الموقعة فی میں مبتلا کرنے والی تدبیروں سے لوگوں کو ایک المجادلات، وقد أشاعوا الفسق والإلحاد دوسرے کے خلاف بھڑکایا اور اُنہوں نے والزندقة، وعلموا أهل الدنيا سِيرًا دجّالية فسق، الحاد اور بے دینی کی اشاعت کی.اور وفتنا لطيفة، وما بقيت الأمانة في هذه انہوں نے اہل دنیا کو دجالی خصائل اور گہرے الديار ولا الديانة ولا الصدق ولا الوفاء فتنے سکھائے.اور ان ملکوں میں امانت، دیانت، ولا العهد ولا الحياء ولا فكر الآخرة سچائی، وفا،عہد،حیا اور فکر آخرت باقی نہ رہی.إلا ما شاء الله.إلا ما شاء ربّ العالمين.يتوادون للدنيا، ويتباغضون وہ دنیا کی خاطر ایک دوسرے سے موڈت رکھتے للدنيا، ويلاقون للدنيا، ويفارقون اور دنیا ہی کی خاطر ایک دوسرے سے بغض رکھتے للدنيا، ولا يستبشرون إلا بذکر ہیں اور دنیا کے لئے آپس میں ملتے اور دنیا کے لئے الدنيا وزخارفها وفيهم لصوص جدا ہوتے ہیں.اور وہ صرف دنیا اور اُس کی آرائشوں وخداعون وغاصبون يتمنون موت کے ذکر سے خوش ہوتے ہیں.اُن میں چور اور الشركاء بل موت الآباء لمتاع دھو کے باز اور غاصب ہیں.وہ دنیا کے تھوڑے سے قليل من الدنيا وعرضها، وأراهم فائدے اور اس کی عزت کی خاطر اپنے شریکوں کی تو من موتهم غافلين والحاصل ان کیا بلکہ اپنے آباء کی موت کی تمنا کرتے ہیں.اور قوم النصارى قوم قوى الهمة في میں انہیں دیکھتا ہوں کہ وہ اپنی موت سے غافل إشاعة الفتن والضلالات، وإلقاء ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ عیسائی قوم فتنوں اور طرح طرح التفرقة في الأقوام والقبائل، شدید کی گمراہی پھیلانے اور دوسری اقوام اور قبائل میں الهيبة صاحب البطش و صاحب الدولة پھوٹ ڈالنے میں بڑی باہمت، بارعب سخت گیر، والمال الجزيل، مبدأ الفتن كلها صاحب دولت، بڑی مالدار اور تمام فتنوں کا منبع ہے،
حمامة البشرى ۱۲۹ اردو ترجمه لا يأمنهم قريب ولا بعيد وجدوا نزدیک اور دور کا کوئی شخص اُن سے محفوظ نہیں.أهل هذه الديار كعصفور، فنتفوا اُنہوں نے ان علاقوں کے باشندوں کو ایک چڑیا من ريشهم وأكلوا من لحمهم کی طرح پایا اور اُن کے پرنوچ لئے.اور اُن وتركوهم في مكاره الدنیا کا گوشت کھایا اور انہیں دنیا کے مصائب و شدائد وشدائدها، وجعلوهم كانفسهم میں چھوڑ دیا اور انہیں اپنی طرح گمراہ اور گمراہ ضالين ومضلين.کرنے والا بنا دیا.وقد تعسّرت عليهم تجاراتهم اور اُن پر اُن کی تجارتیں ، بازار اور کمائیاں تنگ وسوقهم و كسبهم، ونهبت إيمانهم ہوگئیں.اور گمراہیوں کی آندھیوں نے اُن کا ایمان رياح الضلالات، وقد ضلّ أحداثهم چھین لیا اور طوفان عظیم کی طرح ان موجزن فتنوں ونساؤهم وذراريهم من هذه الفتن سے اُن کے نوخیز جوان اور اُن کی عورتیں اور اُن الهائجة كالطوفان العظيم.وتنصر کی اولادیں گمراہ ہوگئیں.اور سادات قوم میں خلق كثير من سادات القوم ومن سے اور مشائخ، علماء اور اُمراء کی اولا دوں میں سے أولاد مشائخهم وعلمائهم وأمرائهم بہت سے عیسائی ہو گئے.ان میں سے بعض ان فبعضهم ارتدوا طمعا في أموالهم (عیسائیوں) کے اموال کے لالچ میں اور بعض ان وبعضهم طمعا فى نسائهم، وبعضهم كى عورتوں کی حرص میں اور بعض شراب اور فسق طمعا في الخمر وطرق الفسق و فجور کی رغبت میں اور انتہا کو پہنچنے والی مسیحی آزادی والحرية النصرانية التي قد بلغت کے شوق میں مرتد ہوگئے.اور ان میں سے کچھ.إلى الغاية، وبعضهم من الترغیب فی لوگ دنیاوی حکومت اور اُس کے غلبے اور اُس حكومة الدنيا وسلطانها و مناصبها کے عہدوں اور اس کی لذتوں اور اُس کی شہوانی ولذاتها وشهواتها.وأما الذين رغبتوں کے باعث مرتد ہو گئے.اور جن لوگوں کی حماهم فضل الله و عنایت اللہ کے فضل اور اس کی عنایت نے حفاظت فرمائی
حمامة البشرى ۱۳۰ اردو ترجمه فأبرياء منهم، وقليل ما هم فهذه وه اُن سے بری ہیں لیکن وہ تعداد میں بہت تھوڑے مصيبة عظيمة على الإسلام ہیں.پس اسلام پر یہ بہت بڑی مصیبت اور ایک وداهية يرتعد منه روح الكرام ولا ایسی آفت ہے جس سے معززین کی روح کانپ ٢٠ تخلص منها إلا بعناية تنزل من اُٹھتی ہے اور آسمان سے نازل ہونے والی عنایت السماء ، لأن همم المسلمين قد کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں.کیونکہ مسلمانوں کی تقاصرت، والمصائب عليهم قد ہمتیں پست ہو گئی ہیں اور اُن پر مصائب کا نزول ہو نزلت، والـمـعــاصی قد کثرت، چکا ہے اور گناہوں کی کثرت ہوگئی ہے.وہ دنیا اور أكبـوا عـلــى الدنيا وزخارفها، اُس کی آرائشوں پر اوندھے منہ گر گئے ہیں.اور وأكثرهم هلكوا مع الهالكين.فلا اُن میں سے بیشتر ہلاک ہونے والوں کے ساتھ تكن من الممتـرین فی کون ہلاک ہو گئے ہیں.پس تو نصاریٰ کے معہود دجال النصارى دجالا معهودًا ومظهرًا ہونے اور شیطان کا مظہر عظیم ہونے میں شک عظيمًا للشيطان.وانظر إلى فتنتهم کرنے والا نہ بن اور تو اُن کے فتنوں اور اُن کی وسحرهم وتسخيرهم المياة والأدخنة فریب کاریوں کی طرف اور پانیوں اور دُخانی والجبال والبـحـار والأنهار، ایجادات اور پہاڑوں اور سمندروں اور دریاؤں وإخراجهم خزائن الأرض کو مسخر کرنے اور اُن کے زمین کے خزانے نکالنے ومكائدهم وإضلالاتهم، هل تجد اور اُن کے مکر وفریب اور گمراہ کرنے کی طرف دیکھ، نظيرهم في الأولين والآخرين.کیا تو اولین اور آخرین میں اُن کی کوئی نظیر پاتا ہے؟ وأما قول بعض علماء الإسلام إن جہاں تک بعض علماء اسلام کے اس قول کا تعلق ہے المسيح الموعود يُحارب النصارى، که مسیح موعود عیسائیوں سے لڑائی کرے گا اور اُن کے قتل ولا يرضى إلا بقتلهم أو إسلامهم، کرنے یا اُن کے اسلام لانے کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں فهذا افتراء علی کتاب الله ورسوله ہوگا تو یہ اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول پر افترا ہے.
حمامة البشرى ۱۳۱ اردو ترجمه فإنا إذا نظرنا الصحاح بنظر الإمعان کیونکہ جب ہم صحاح ستہ کو بنظر غائر دیکھتے ہیں تو ان فما وجدنا أثره فيها، ونعلم مستيقنا میں ہم اس کا کوئی نشان نہیں پاتے.اور ہم یہ پورے أن العلماء قد اخطأوا فى فهم تلك یقین سے جانتے ہیں کہ علماء نے ان احادیث کے الأحاديث، ووضعوا الألفاظ فی غیر سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور انہوں نے ان الفاظ موضعها.ألم يعلموا أن القرآن لا كو بے محل رکھا ہے.کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ قرآن يصدق هذا البيان..والبخارى الذى اس بیان کی تصدیق نہیں کرتا.اور بخاری جو کتاب هو أصح الكتب بعد كتاب الله الله ( قرآن ) کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے وہ يكذبه بالبيان الصريح وقد جاء بیان صریح سے اسے جھٹلاتی ہے.بلکہ اس بارے میں فيه حديث ذكر فيه أن عيسى يضع ایک حدیث آئی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ عیسی لڑائی الحرب، فهذه إشارة صريحة إلى كو موقوف کر دے گا.پس یہ اس بات کا واضح اشارہ أنه لا يحارب بالسيف والسنان ہے کہ وہ شمشیر وسنان سے نہیں لڑے گا.اللہ تم پر رحم ثم أنصفوا رحمكم الله أن النصاری فرمائے ، انصاف سے کام لو کہ عیسائی اپنے دین کی لا يحاربون المسلمين لإشاعة اشاعت کے لئے ہمارے اس زمانے میں مسلمانوں دينهم في زماننا هذا، ولا يصدونهم سے جنگ نہیں کر رہے اور نہ ہی اپنے زور بازو سے الله بأيديهم، فكيف يجوز انہیں اللہ کے دین سے روک رہے ہیں.پس كونهم ممنوعين.للمسلمين أن يحاربوهم مع مسلمانوں کے لئے کیونکر جائز ہوگا کہ وہ منع کئے جانے کے باوجود اُن سے جنگ کریں.بل الدولة البرطانية محسنة إلى بلكه دولت برطانیہ مسلمانوں کی محسن ہے.اور المسلمين، والملكة المكرمة التي نحن ملکہ مکرمہ جس کی ہم رعایا ہیں وہ اپنے دل رعايا لها يرجح الإسلام في باطنها علی میں اسلام کو دوسرے مذاہب پر ترجیح دیتی ملل أخرى، بل سمعنا أزيد من هذا، ہے.بلکہ ہم نے تو اس سے بھی بڑھ کرسنا ہے
حمامة البشرى ۱۳۲ اردو ترجمه ولكن لا نرى أن نذكرها لیکن ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ اُس کا ذکر کریں.فالحاصل أنها كريمة، وألقى سوحاصل كلام یہ کہ وہ ( ملکہ ) کریم النفس ہے اور اللہ الله في قلبها حب الإسلام نے اُس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی ہے.فلهذا السبب جعلها الله اس وجہ سے اللہ نے اُسے مسلمانوں کا اس حد تک مواسية للمسلمين، حتى ہمدرد بنایا کہ وہ یہ پسند کرتی ہے کہ اس کے ( زیر تسلط ) إنها تحب أن يُشاع الإسلام علاقوں میں اسلام کی اشاعت ہو اور وہ ہماری زبان في بلادها، وتقرأ بعض کتب کی بعض کتا میں ایک مسلمان سے پڑھتی ہے جسے لساننا من مسلم آواه عندها، اُس نے اپنے ہاں ٹھہرایا ہوا ہے اور وہ اپنے مغربی وسرت بشيوع ديننا في بلادها ممالک میں ہمارے دین کی اشاعت سے خوش ہے.المغربية، بل أسلمت طائفة بلکہ اُس کے دارالحکومت کے ایک قریبی علاقہ میں من قومها في بلدة قريبة من دار اس کی قوم کے ایک گروہ نے اسلام قبول کر لیا ہے.دولتها، فرحمتهم وأحسنت پس اُس نے اُن پر مہربانی کی اور ان پر احسان فرمایا إليهم، وأشاعت كتبهم في أقاربها، اور اپنے اقرباء میں ان کی کتب کی اشاعت کی اور وہ وتريد أن تؤوى بعضهم في أعزة چاہتی ہے کہ ان میں سے بعض کو اپنے معزز امراء میں أمرائها، وأمرتهم أن يعمروا شامل کرے.اس نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اپنی مساجد لعبادتهم ويعبدوا عبادت کے لئے مسجد میں تعمیر کریں.اور امن کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کریں.ربهم آمنين.ونحن نعيش تحت ظلّهـا اور ہم اس ( ملکہ) کے زیر سایہ امن و عافیت بالأمن والعافية والحرية اور پوری آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے التامة نصلی و نصوم، ونأمر ہیں.ہم نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں اور بالمعروف وننهي عن المنكر، نیکی کا حکم دیتے اور بُری باتوں سے روکتے ہیں.
حمامة البشرى ۱۳۳ اردو ترجمه ونردّ على النصارى كيف نشاء اور جیسا ہم چاہیں عیسائیوں کے عقیدہ کارڈ ولا مانع ولا حارج ولا مزاحم کرتے ہیں.اور اس میں کوئی مانع ، حارج اور وهذا كله من حسن نيتها مزاحم نہیں ہوتا.اور یہ سب کچھ اُن کی نیک نیتی، وصفاء قلبها و كمال عدلها دل کی صفائی اور کمال عدل کا نتیجہ ہے.اور بخدا اگر ہم شاہانِ اسلام کے ممالک کی طرف ہجرت ووالله لو هاجرنا إلى بلاد کر جائیں، تو اس سے بڑھ کر امن اور راحت نہ ملوك الإسلام لما رأينا أمــــا وراحة أزيد من هذا.وقد أحسنت إلينا وإلى آبائنا بآلاء دیکھیں گے.اور اس (ملکہ) نے ہم پر اور ہمارے آباء واجداد پر کئی طرح کی نعمتوں کے ساتھ احسانات کئے ہیں.اور ہمیں طاقت نہیں کہ ہم ان لا نستطيع شكرها ومن أعظم کا شکر ادا کر سکیں.اور اُس کے احسانات میں سے الإحسانات أنها وأمراء ها لا ایک بڑا احسان یہ ہے کہ وہ خود اور اُس کے اُمراء يداخلون في ديننا مثقال ذرة ہمارے دین میں ذرہ بھر مداخلت نہیں کرتے ولا يمنعنا أحد منهم من فرائضنا اور ان میں سے کوئی بھی ہمیں اپنے فرائض ،سنن وسنننا ونوافلنا وردنا علی اور نوافل کی ادائیگی سے نہیں روکتا اور نہ ہمیں اُن مذهب قومهم، ولا يبخلون کے قومی مذہب کی تردید کرنے سے کوئی منع في الـنـعـمـاء الدنيوية، وإنهم کرتا ہے.اور وہ دنیوی نعمتوں میں بخل نہیں کرتے لمن العادلين.اور وہ عدل کرنے والوں میں سے ہیں.فلا يجوز عندى أن يسلك رعايا اس لئے میرے نزدیک یہ جائز نہیں کہ الهند من المسلمين مسلك البغاوة ہندوستان کی مسلم رعایا بغاوت کی راہ پر چلے وأن يرفعوا على هذه الدولة المحسنة اور اس محسن سلطنت پر اپنی تلوار میں اُٹھائے سيوفهم، أو يعينوا أحدًا في هذا الأمر، يا اس معاملے میں کسی اور کی اعانت کرے
حمامة البشرى ۱۳۴ اردو ترجمه ويعاونوا على شر أحد من المخالفین اور کسی مخالف سے قول، فعل، اشارہ یا مال یا مفسدانہ بالقول أو الفعل أو الإشارة أو تدابیر کے ذریعہ کسی شرارت میں تعاون کرے.المال أو التدابير المفسدة، بل بلکہ یہ سارے امور قطعی طور پر حرام ہیں.اور جس هذه الأمور حرام قطعی، ومن نے ان امور ممنوعہ ) کا ارادہ کیا تو اُس نے أرادها فـقـد عـصـی الله ورسوله الله اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی.اور وہ وضل ضلالا مبينا.بل الشكر کھلا کھلا گمراہ ہو گیا.بلکہ شکر واجب ہے.اور جو واجب..ومن لم يشكر الناس لم لوگوں کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں يشكر الله و إيذاء المحسن شر کرتا.محسن کو اذیت دینا شرارت اور خباثت ہے وخبث وخروج من طريق الإنصاف اور انصاف اور اسلامی دیانت کے طریق سے والديانة الإسلامية، والله لا يُحب نکل جاتا ہے.اور اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں المعتدين.نعم إن علماء النصاری کو پسند نہیں کرتا.ہاں البتہ عیسائیوں کے علماء يفسدون في الأرض باتخاذهم ایک بندے کو معبود بنا کر اور اپنے طاغوت کی العبد إلها ودعوتهم إلى طاغوتهم طرف بلاکر اور عیسائی مذہب کی تمام اکناف وإشاعتهم مذهب التنصر في الأكناف واطراف اور دور ونزدیک اشاعت کر کے زمین والأقطار والقريب والبعيد، ولكن میں فساد برپا کرتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک لا شك أن ذيل هذه الدولة منزّه نہیں کہ اس حکومت کا دامن اس قسم کے امور عن مثل هذه الأمور وتحريكاتھا، اور اُن کی تحریکات سے پاک ہے.اور میں یہ وما أظن أن أحدا من عقلائهم يعتقد گمان نہیں کرتا کہ ان کے اہلِ دانش میں سے بأن عيسى إله في الحقيقة، بل کوئی اعتقاد رکھتا ہو کہ عیسی فی الحقیقت معبود ہے يضحكون على مثل هذه الاعتقادات بلکہ وہ اس قسم کے اعتقادات پر ہنستے ہیں.اور ويميلون إلى الإسلام يوما فيوما.روز بروز اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں.
حمامة البشرى ۱۳۵ اردو ترجمه بل إنا نرى أنّ في دار دولة الملكة بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ملکہ مکرمہ کے دارالحکومت میں المكرّمة قد هبت رياح نفحات اسلام کی معطر ہوائیں چل رہی ہیں اور ہم لوگوں کو ہر الإسلام، ونرى الناس يدخلون فيه سال اس میں فوج در فوج داخل ہوتے ہوئے دیکھتے أفواجًا في كل سنة، ويردّون علی ہیں.اور پوری آزادی سے وہ عیسائیوں کا رڈ کرتے النصارى بالحرية التامة.وأن أمراء ها ہیں.اور اُس (ملکہ ) کے وہ اُمراء (حکام) جنہیں ملک الذين أُرسلوا إلى ديار الهند لنظمها ہندوستان میں اُس کا نظم ونسق چلانے کے لئے بھیجا ونسقها لا يظلمون الناس كظلم جاتا ہے وہ جابروں کے ظلم و ستم کی طرح لوگوں پر ظلم نہیں الجبارين، ولا يستعجلون فی فصل ڈھاتے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی القضايا، وينظرون إلى رعاياهم سے کام نہیں لیتے اور وہ اپنی رعایا سے یکساں سلوک بعين واحدة، ولا يظلمون الناس کرتے ہیں اور لوگوں پر ظلم نہیں کرتے.اور ہر قوم اُن ويعيش كل قوم تحتهم آمنين کے زیر نگیں پر امن زندگی بسر کرتی ہے.والذين من القسيسين يدعون إلى اور پادریوں میں سے جو لوگ انجیل اور اُس الإنجيل وتعاليمه الباطلة المحرفة کی باطل اور محرف تعلیمات کی طرف دعوت دیتے فهم لا يظلموننا بأيدينا، ولا يرفعون ہیں وہ بھی اپنے ہاتھوں سے ہم پر ظلم نہیں کرتے السيف علينا، ولا يقتلون لمذهبهم اور ہم پر تلوار نہیں اُٹھاتے اور اپنے مذہب کی خاطر قومنا، ولا يسبون ذرارينا، ولا ينهبون ہماری قوم سے نہیں لڑتے اور نہ ہماری اولا د کو قید أموالنا، بل يصل شرهم إلينا من طريق کرتے ہیں اور نہ ہمارے مال چھینتے ہیں.بلکہ التأليفات المفسدة، والتقريرات اُن کا شرہم تک (اُن کی ) فتنہ خیز تالیفات، المضلة، وتوهين سيدنا ونبينا اور گمراہ کن تقریروں اور ہمارے سید اور ہمارے صلى الله عليه وسلم والردّ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین اور فرقان کریم على الفرقان الكريم وتعليمه اور اُس کی تعلیم کو رڈ کرتے ہوئے پہنچتا ہے.☆ بأيدينا سہو کتابت ہے درست بایدیھم“ ہے.(ناشر)
حمامة البشرى ۱۳۶ اردو ترجمه والدولة البرطانية لا تعينهم في اور حکومت برطانیہ کسی بھی معاملے میں ان أمر من الأمور، ولا ترجحهم علی (پادریوں کی مدد نہیں کرتی اور نہ ہی انہیں المسلمين، بل نرى أن هذه الدولة مسلمانوں پر ترجیح دیتی ہے.بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ العادلة قد أعطت كل قوم حرية اس عادل حکومت نے ہر قوم کو پوری آزادی دے تامة، وأجازتهم إلى حد القانون رکھی ہے.اور قانون کی حد تک انہیں اجازت دی فيفـعـل النـاس برعاية قانونهم ما ہے.پس لوگ ان کے قانون کی رعایت رکھتے يشاء ون، ويرد کل مذهب علی ہوئے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں.اور ہر مذہب مذهب آخر، وتجرى المناظرات دوسرے مذہب کا رڈ کرتا ہے.اور ان علاقوں میں في هذه الديار كامواج البحار، مناظرے سمندر کی موجوں کی طرح جاری وساری والدولة لا تداخل فيهم وتتركهم ہیں.اور حکومت ان میں مداخلت نہیں کرتی اور وہ مجادلين.ثم لم أزل أتحدق في انہیں بحث مباحثہ کرنے دیتی ہے.پھر میں نے اس هذا السر الغامض..أعنى فى آن پوشیدہ راز کو ہمیشہ بنظر غائر دیکھا ہے.یعنی اس الله تعالى لِمَ لَمْ يُرسل المسيح امر کو کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو شمشیر و سنان الموعود بالسيف والسنان، بل دے کر نہیں بھیجا.بلکہ اُسے نرمی ، فروتنی، تواضع ، أمره للرفق والغربة والتواضع ولین نرم گفتاری اور حکمت کے ساتھ بحث کرنے اور القول والمجادلة بالحكمة والمداراة مدارات اختیار کرنے اور حسن بیان کا رویہ اپنانے وحسن البيان، بل منعه أن يزيد علی کا حکم دیا ہے.بلکہ اُس نے منع فرمایا کہ اس پر وہ کوئی ذلك، فكنتُ أُفكر في هذا حتى اور اضافہ کرے.پس میں اس پر سوچ و بچار کرتا رہا كشف الله على هذا السر، فعلمت یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ راز منکشف أن الله تبارك وتعالى لا يُرسل فرمایا اور میں نے یہ جان لیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی مصلحًا..رسولا كان أو مجددًا مصلح كو ، خواہ اُس کی حیثیت رسول کی ہو یا مجدد کی ،
حمامة البشرى ۱۳۷ اردو ترجمه إلا بإصلاحات اقتضتها صرف اُن اصلاحات کے ساتھ ہی مبعوث فرماتا كوائف مفاسد الزمان وأهل ہے جن کا تقاضا زمانہ اور اہل ارض کے مفاسد کی الأرضين.کیفیات کرتی ہوں.فقد يتفق أن الناس مع شركهم کبھی ایسا اتفاق بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے شرک وفساد عقيدتهم يكونون قوما اور فساد عقیدہ کے ساتھ ساتھ جابروں ، حدود سے جبارين معتدين فاسقين، يظلمون تجاوز کرنے والوں اور فاسقوں کی قوم بن جاتے الضعفاء ويُعادون أهل الحق عداوة ہیں.وہ کمزوروں پر ظلم کرتے اور اہل حق سے ایسی دشمنی منجرة إلى القتل والنهب والسبی، کرتے ہیں جو قتل ، لوٹ گھسوٹ اور قیدی بنانے کی ويسفكون دماء هم وينهبون حد تک جا پہنچی ہے اور وہ اُن کا خون بہاتے ، اموال أموالهم، ويسبون ذراريهم، ويعثون لوٹتے اور اُن کی اولادوں کو قیدی بنا لیتے ہیں، اور في الأرض مفسدين.ويعطيهم الله زمین میں مفسد بن کر فساد بپا کرتے پھرتے ہیں.ابتلاء من عنده قوةً في الجسم، اللہ انہیں اپنی جناب سے آزمائش کی غرض سے وكثرة في المال، وإمارة في جسماني قوت، مال کی کثرت اور زمین میں حکومت الأرض، فيكفرون نعم الله، ولا عطا فرماتا ہے.پھر وہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری يتوجهون إلى وعظ واعظ، ولا کرتے ہیں.اور کسی واعظ کے وعظ اور کسی پکار نے نداء مناد، ولا إلى أسرار حكمة والے كى بكار اور داناؤں کے منہ سے نکلنے والے تخرج من أفواه الحكماء ، بل اسرار حکمت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ ان کے عندهم جواب كلّها السيف او پاس سب کا ایک ہی جواب شمشیر وسنان ہوتا ہے.الرمح، ويعيشون كالأنعام أو وہ چوپایوں اور مدہوشوں جیسی زندگی بسر کرتے كالسكارى، ولهم قلوب لا يفقهون ہیں.اُن کے دل تو ہیں مگر وہ اُن کے ذریعہ سمجھتے بها، ولهم آذان لا يسمعون بها، نہیں.اُن کے کان ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں
حمامة البشرى ۱۳۸ اردو ترجمه (٢٢) ولهم أعين لا يبصرون بها، اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں.ويتكبرون بما أعطاهم الله الله نے انہیں جو ملک ، ریاست اور مال و ثروت من ملك ورياسة ومال وثروة، عطا فر مایا ہے وہ اس کی وجہ سے تکبر کرتے ہیں.وہ ويؤذون الذين يدخلون فی دین اللہ کے دین میں داخل ہونے والوں کو اذیت الله وكادوا يقتلونهم، ويصدون دیتے اور انہیں قتل کرنے کے درپے رہتے ہیں.عن سبيل الله مستکبرین اور تکبر کرتے ہوئے اللہ کی راہ سے روکتے ہیں.ويتعامــون بـعـد رؤية الآیات اور نشانات کے دیکھنے اور دلائل کا مشاہدہ کرنے ومشاهدة البيئات، وقد تمت عليهم کے بعد بھی اندھے بن جاتے ہیں.اللہ کی حجت حجة الله فلا يبالونها، بل اُن پر تمام ہو چکی ہے پھر بھی وہ اس کی پرواہ يزيدون في الظلم والعصبية نہیں کرتے.بلکہ ظلم، عصبیت اور جاہلیت کے وحمية الجاهلية والقساوة وإيذاء جوش ، سنگدلی اور مبلغین کی ایذا رسانی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.فيغضب الله غضبا شديدا على پس اللہ ایسی اقوام سے سخت ناراض ہوتا ہے اور تلك الأقوام، ويريد أن يفك چاہتا ہے کہ اُن کے نظام کا شیرازہ بکھیر دے اور نظامهم، ويجعل أعزّتهم أذلة، ان کے معززین کو ذلیل کر دے اور اُن پر زمین ويُنزل عليهم عذابًا من الأرض أو سے یا آسمان سے عذاب نازل کر دے یا السماء ، أو يجعلهم شِيَعًا ليذيق انہیں گروہوں میں تقسیم کر دے تا کہ وہ انہیں ایک المبلّغين.من ނ بعضهم بأس بعض، ويأمر رسوله دوسرے کی جنگ کی مزہ چکھائے اور وہ (اللہ ) ليؤدبهم بالسيف والسنان، اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ کہ وہ شمشیر و سنان کے ويستخلص المسلمين منهم ذریعہ ان کی تأدیب کرے اور مسلمانوں کو اُن کے ویکسر هامة الظالمین چنگل سے رہائی بخشے اور ظالموں کی کھوپڑی توڑے.
حمامة البشرى ۱۳۹ اردو ترجمه فيقتل الرسول المأمور پس مامور رسول ایک ہیبت ناک جنگ لڑتا ہے قتلا مهيبا، ويُثخن فی اور زمین میں کچھ ایسے عجیب انداز سے خون الأرض إثخانا ،عجیبا، حتی بہاتا ہے کہ متکبر کمزور ہو جاتے ہیں اور کمزور قوت يضعف المستكبرون ويتقوی حاصل کر لیتے ہیں اور اللہ اُن کے خوف کو امن میں المستضعفون، ويُبدلهم الله من تبدیل کر دیتا ہے.پھر وہ پورے اطمینان سے اُس بعد خوفهم أمنًا، فيعبدونه کی عبادت کرتے ہیں اور اُس کے دین میں امن مطمئنين، ويدخلون فی دینه کے ساتھ داخل ہوتے ہیں.اور اگر تو اس قسم کے آمنين.وإن تطلب نظير هذا النوع فساد كى نظير طلب کرے، تو وہ تجھے کلیم اللہ (موسی) من الفساد فتجد في زمان کلیم اور خاتم النبيين (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ الله وخاتم النبيين.وسلم) کے زمانے میں ملے گی.وقد يتفق أن الناس يضيّعون اور کبھی ایسا اتفاق بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے دينهم و ديانتهم، ولكنهم لا يقاتلون دین اور اپنی دیانت کو ضائع کر دیتے ہیں لیکن وہ أنبياء الله ومرسلیه للدين، ولا دین کے لئے اللہ کے انبیاء اور اُس کے فرستادوں يفسدون في الأرض بالسیف سے لڑتے نہیں نہ ہی شمشیر وسنان کے ذریعہ زمین والسنان، بل بتقارير المُضلَّةِ میں فساد کرتے ہیں.بلکہ گمراہ کن تقاریر اور کج وزيع البيان، ولا يريدون ان بیانی سے فساد کرتے ہیں.اور وہ شعار اسلام يُبطلوا شعائر الإسلام بالرماح کا بطلان نیزوں اور تیروں کے ذریعہ نہیں بلکہ والسهام، بل بالمكائد وسحر مکاریوں اور سحر بیانی کے ذریعہ کرنا چاہتے الكلام، ولا يؤذون طالب الحق إذا ہیں.اور وہ کسی طالب حق کو جب وہ حق قبول أراد أن يقبل الحق، وكذلك کرنے کا ارادہ کرے، ایذا نہیں دیتے اور وہ ایسا يفعلون لوجه من الوجهين: دو وجوہات میں سے کسی ایک وجہ سے کرتے ہیں.
حمامة البشرى ۱۴۰ اردو ترجمه أحد هما إذا كانت تلك الأقوام اُن میں سے ایک (وجہ ) یہ ہے کہ جب وہ اقوام الذين أُرسل إليهم رسول جن کی طرف کوئی رسول یا محدث بھیجا جاتا ہے أو مُـحـدث ضـعـفـاء غير قادرين کمزور ہوں اور وہ کسی کو ایذا پہنچانے پر قدرت على إيذاء أحد، فلا يظلمون نہ رکھتی ہوں تو ظلم کی طاقت نہ رکھنے اور گرفت، المرسلين لعدم قدرة الظلم وفقدان قتل اور خون بہانے کے اسباب نہ رکھنے کی وجہ أسباب البطش والقتل والسفك سے وہ رسولوں پر ظلم نہیں کرتے.اور اللہ جانتا الله أنهم مع خبث نفسهم ہے کہ وہ خبث باطن اور فریب کاریوں کی فراوانی ويــرى وكثرة مـكـائـدهـم لا يستطيعون کے باوجود کسی کو ایذا دینے اور کسی مصلح پر ظلم کرنے أن يؤذوا أحدًا ويظلموا کی طاقت نہیں رکھتے.اور وہ دیکھتا ہے کہ وہ کمزور مصلحا، ويرى أنهم مستضعفون اور مغلوب ہیں.اور کبھی اس کمزوری کی وجہ اُن مغلوبون.وقد يكون سبب کے وہ تنازعات ہوتے ہیں جو اُن میں پیدا ہو هذا الضعف مشاجرات وقعت جاتے ہیں اور وہ ( تنازعے) اُن کی طاقت بينهم وسلبت طاقتهم، وقد سلب کر لیتے ہیں.اور کبھی اس کی وجہ کسی دوسری يكون سببه استيلاء قوم آخرین قوم کا (اُن پر غلبہ ہوتا ہے ے اور کبھی وقد يجتمعان فیزیدان عجزا دونوں باتیں جمع ہو جاتی ہیں جو اُن کی بے بسی وضعفا.وثانيهما: إذا كانت اور کمزوری میں اضافہ کر دیتی ہیں.ان دو تلك الأقوام مُهذبين مع میں سے دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ قومیں كونهم ملوكا وسلاطين، فلا ملوک سلاطین ہوتے ہوئے بھی مہذب ہوتی يمنعون رُسُلَ الله من دعواتهم ہیں تو وہ اللہ کے رسولوں کو اُن کی تبلیغ سے نہیں ولا يظلمون ولا يؤذون، بل روکتیں اور نہ ظلم کرتی ہیں اور نہ دکھ دیتی ہیں تكون حكومتهم حكومة الأمن بلکہ ان کی حکومت پر امن حکومت ہوتی ہے.
حمامة البشرى ۱۴۱ اردو ترجمه يتركون الناس منعمين.ولا يعثون في الأرض ظالمین وہ زمین میں ظالم، سفاک اور اللہ کی راہوں.سفاكين، صادين عن سبل الله، ولا روکنے والے بن کر نہیں پھرتے.اور نہ ہی وہ باطل کی يسلون السيوف لإشاعة الباطل اشاعت کے لئے حد سے تجاوز کرنے والوں کی طرح كالمعتدين، بل یکیدون تلواریں سونتے ہیں بلکہ وہ مکر و فریب کرتے ہیں ويمكرون ويدعون الناس إلى اور لوگوں کو اپنے دین کی طرف لطیف حیلوں - دينهم بلطائف الحيل، ويفسدون بلاتے ہیں.وہ دلوں میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں اور النفوس ولا يؤذون الأجسام، بل جسموں کو ایذا نہیں دیتے.بلکہ وہ لوگوں کو پُر تعیش زندگی گزارتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں.وإن تطلب نظير هذا النوع من اگر تو اقوام میں اس قسم کی نظیر تلاش کرے تو تُو الأقوام فتجد فی زمان عیسی وہ ( نظیر ) عیسی علیہ السلام کے زمانے میں عليه السلام لأن عيسى أُرسل پائے گا.کیونکہ (حضرت ) عیسی ایک ایسی إلى قوم قد مزقوا كل ممزق من قوم کی طرف بھیجے گئے تھے جو اُن کی تشریف قبل مجينه، وضربت عليهم آوری سے قبل پارہ پارہ کر دی گئی تھی اور اُن الذلة والمسكنة، واضمحلت پر ذلت اور مسکنت کی مار ماری گئی تھی اور ان کی رياساتهم وبـطـلـت إماراتهم، رياستين مضمحل ہو چکی تھیں اور حکومتیں مٹ چکی وكانت الدولة الرومية لا تداخل تھیں اور رومی سلطنت یہودیوں کے دین في دين اليهود، فما رأى عیسی میں مداخلت نہیں کرتی تھی.اس لئے عیسیٰ علیہ عليه السلام أن يُقاتلهم، لأن السلام نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ وہ اُن سے المرسلين يدعون بالرفق والحلم لڑیں کیونکہ رسول (ہمیشہ) نرمی ، حلم اور رحمت والرحمة، ولا يرفعون السيف إلا سے دعوت دیا کرتے ہیں اور وہ صرف اُن لوگوں على الذين يرفعون عليهم، پر تلوار اُٹھاتے ہیں جواُن پر تلوار اُٹھائیں
حمامة البشرى ۱۴۲ اردو ترجمه ويصلحون فساد العقل بالعقل، اور وہ عقل کے بگاڑ کی عقل کے ساتھ اور تلوار (٢٣) وفساد السيف بالسيف، ويداوون کے فساد کی تلوار کے ساتھ اصلاح کرتے ہیں.كل مرض كما يليق وینبغی اور وہ ہر مرض کا مناسب حال علاج کرتے ہیں السيف بالسيف والكلام یعنی تلوار کا (علاج) تلوار سے اور کلام کا کلام بالكلام، ولا يحبون أن يكونوا سے اور وہ پسند نہیں کرتے کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والے بنیں.من المعتدين.لإشاعة دينهم، بل يشيعون دينهم بالمكائد والحيل العقلية وتأليف الكتب المضلة المغلطة، وكذلك أُرسـلـت مــجـدّدًا اسی طرح مجھے آخری زمانہ کے لئے مجدد اور محدث محدقا لآخر الزمان، ووجدت بنا کر بھیجا گیا ہے.اور میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ أعـداء دين الإسلام لا يقاتلون دين اسلام کے دشمن مسلمانوں سے دین کی خاطر المسلمين للدين، وما سلوا نہیں لڑتے.اور انہوں نے اپنے دین کی اشاعت کے لئے نہ تو تلوار میں سونتی ہیں اور نہ نیزے تانے سيوفا وما قوموا رماحا ہیں.بلکہ وہ اپنے دین کی اشاعت چالبازیوں، عقلی حیلوں اور گمراہ کن غلطی میں مبتلا کرنے والی کتابوں کی تالیف کے ذریعہ کرتے ہیں.اور وہ تدبیریں کرتے ہیں اور اللہ بھی تدبیر کرتا ہے اور اللہ تد بیر کرنے والوں میں سب سے بہتر تد بیر کرنے والا ہے، پس یہ اللہ کی شان سے بعید ہے کہ وہ اُن پر أن يسل عليهم السيف، وكيف تلوار سونتے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ ایسی قوم کو قتل يقتل الله قوما لا يبارزون بالسيوف کرے جو تلواروں سے مقابلے کے لئے نہیں بل يطلبون الدلائل كالفيلسوف؟ نکلتی.بلکہ ایک فلسفی کی طرح دلائل طلب کرتی ہے.ومع ذلك إنهم قوم غافلون اور اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ یہ غافل قوم ہے ويمكرون ويمكر الله والله خير الماكرين.فما كان الله
حمامة البشرى ۱۴۳ اردو ترجمه جاء وا من أقصى البلاد لا يعرفون جو دور دراز ملکوں سے آئی ہے اور وہ قرآن کے شيئًا من حقائق القرآن وأنواره حقائق اور اُس کے انوار اور اُس کے لطائف اور ولطائفه ودقائقه، وقد نشأوا دقائق میں سے کچھ بھی نہیں جانتے.ان لوگوں نے في الديار البعيدة من الإسلام، فلما اسلام سے دور کے علاقوں میں پرورش پائی ہے.لاقوا المسلمين ووردوا فی دیارنا اس لئے جب وہ مسلمانوں سے ملے اور ہمارے وجدوا المسلمين في أنواع الظلام ملک میں وارد ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کو من الآثام، فقست قلوبهم برؤية گناہوں کے طرح طرح کے اندھیروں میں پایا.المبتدعين، وكانوا من كلام الله پس ان بدعتیوں کو دیکھ کر ان کے دل سخت ہو گئے.غافلين.وما آذونا وما قتلونا وما اور وہ کلام الہی سے غافل تھے.اور انہوں نے نہ تو سعوا في الأرض سفاكين.فلا ہمیں دکھ دیا ، نہ ہمیں قتل کیا اور نہ ہی زمین میں کوئی يرضى عقل سلیم و فهم مستقیم سفا کا نہ کوشش کی.پس کوئی عقل سلیم اور فہم مستقیم یہ أن ندفع الحسنة بالسيئة، ونؤذى پسند نہیں کرے گی کہ ہم نیکی کا بدلہ بدی سے دیں اور قـومـا أحسنوا إلينا، ونرفع السيف اُس قوم کو دکھ دیں جنہوں نے ہم پر احسان کیا.اور على أعناقهم قبل أن نتم الحجة اُن کی گردنوں پر تلوار اٹھا ئیں قبل اس کے کہ ہم اُن على قلوبهم، وقبل أن نسكتهم كے قلوب پر حجت تمام کریں اور قبل اس کے کہ ہم عقلی بالبراهين العقلية والآيات دلائل اور آسمانی نشانوں سے انہیں ساکت کریں السماوية، وقبل أن يظهر أنهم اور قبل اس کے کہ یہ بات ظاہر ہو جائے کہ اُنہوں عصوا عمدا بعد ما رأوا الآیات نے نشانات دیکھنے اور ہدایت کے گمراہی سے واضح وبعد ما تبين الرشد من الغی فلو طور پر ممتاز ہو جانے کے بعد عمد انا فرمانی کی.پس نترك الرحم والرفق والمدارات اگر ہم رحم، نرمی اور حسن معاملگی چھوڑ دیں اور ونقوم عليهم سفاکین جبّارین، سفاک اور جابر بن کر اُن پر اُٹھ کھڑے ہوں
حمامة البشرى ۱۴۴ اردو ترجمه فلا يكون ذنب أكبر منه، وإذا كنا تو اس سے بڑا کوئی گناہ نہ ہوگا اور اس صورت أخبث الظالمين.میں ہم خبیث ترین ظالم ہوں گے.فهذا هو السبب الذي أرسلني پس اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح کے قدم الله تعالى على قدم المسيح فإنه پر بھیجا ہے کیونکہ اُس نے میرے زمانہ کو اُس کے رای زمانی کزمانه و قوما کقومه، زمانے کی طرح اور اس قوم کو اُس کی قوم کی مانند دیکھا ورأى النعل طابق بالنعل، فأرسلنی اور انہیں ایک دوسرے کا ایسا مشابہ پایا جیسے ایک جوتا قبل عذاب من السماء لأنذر قوما دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے.چنانچہ اُس نے ما أنذر آباؤهم ولتستبين سبيل آسمانی عذاب سے پہلے مجھے بھیجا تا کہ میں اس قوم المجرمين.وأنت ترى أن أكثر كو ڈراؤں جن کے آباء واجداد کو نہیں ڈرایا گیا.المسلمین اتبعوا شهواتهم، اور تاکہ مجرموں کی راہ واضح ہو جائے.اور تو دیکھتا وأضاعوا الصوم والصلاة، وقست ہے کہ اکثر مسلمان اپنی خواہشات کے تابع ہو گئے قلوبهم، وفسدت طبائعهم، وما ہیں اور انہوں نے نماز روزہ ضائع کر دیا ہے بقى فيهم إلا اسم الإسلام ورسم اور ان کے دل سخت اور طبائع بگڑ گئی ہیں اور ان الدخول في المساجد، ولا يعلمون میں صرف اسلام کا نام اور مساجد میں داخل ہونے ما الإخلاص وما الذوق وما الشوق کی رسم باقی ہے.اور وہ نہیں جانتے کہ اخلاص کیا وكثير منهم يزنون ويشربون الخمر چیز ہے اور ذوق وشوق کیا چیز.اور ان میں سے ويكذبون، ويحبون المال حبا جما، بہت سے زنا کرتے ، شراب پیتے ، جھوٹ بولتے ويعملون السيئات، ويؤثرون اور مال سے بے پناہ محبت کرتے ہیں.اور وہ البدعات على هدى رسول الله صلی بدیاں کرتے اور بدعات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ الله عليه وسلم، فكيف الكافرون وسلم کی ہدایت پر مقدم رکھتے ہیں.پھر غافل الغافلون الذين لا يعلمون شيئا کافروں کا کیا حال ہوگا کہ جو کچھ جانتے ہی نہیں.
حمامة البشرى ۱۴۵ اردو ترجمه ولا يعقلون، ولا يتكلمون إلا اور نہ عقل رکھتے ہیں اور وہ صرف خوابیدہ شخص کے كغطيط النائم، وما يدرون ما سبل خراٹوں کی مانند کلام کرتے ہیں.وہ نہیں جانتے الإسلام وما البراهين! فظهر من کہ اسلام کی راہیں کیا ہیں اور دلائل کیا چیز ؟ لہذا ههنا أن العقيدة التي استحكمت اس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ عقیدہ جو عوام کے دلوں في قلوب العوام ان المهدی میں راسخ ہو چکا ہے کہ مہدی اور مسیح دونوں آخری والمسيح يظهران فی آخر الزمان زمانے میں ظاہر ہوں گے اور ہر اُس شخص سے ويقتلان كل من لم یسلم لیس لڑیں گے جو مسلمان نہ ہوگا اس کی کوئی حقیقت بشيء ، و بل إنه لخطأ مبين.نہیں بلکہ یہ ایک کھلی غلطی ہے.أيفتى العقل السليم أن الله الذي کیا عقل سلیم فتویٰ دیتی ہے کہ اللہ جو رحیم وکریم هو الرحيم والكريم، يأخذ الغافلين ہے وہ غافلوں کا اُن کی غفلت کی حالت میں في غفلتهم، ويُهلكهم بالسيف أو مواخذہ کرے گا اور اُن کو تلوار یا آسمانی عذاب سے عذاب السماء ، ولَمَّا يفهموا بلاک کر دے گا.جبکہ ابھی تک اُنہوں نے اسلام کی حقيقة الإسلام وبراهينه ولم حقیقت اور اُس کے براہین کو سمجھا ہی نہیں.اور نہ يعلموا ما الإيمان ولا الدين؟ ثم إذا ہی انہیں یہ معلوم ہے کہ ایمان اور دین کیا ہے؟ پھر كان مدار الرحم والشفقة إزالة آفة جب رحم اور شفقت کا مدار اُس آفت کا ازالہ کرنا ہے قد أحاطت وكثرت، فكيف يجوز جس نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور بڑھ چکی ہے تو پھر قلم علاج مفاسد الأقلام بالسيوف کے مفاسد کا علاج تلواروں اور تیروں سے کرنا کیسے والسهام بل هذا إقرار صریح جائز ہو سکتا ہے.بلکہ یہ تو اس امر کا صریح اقرار ہے (۴۴ بأننا لا نقدر على الجواب، وليس کہ ہم جواب کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ کہ ہمارے عندنا جواب الأدلة المضلة إلا پاس اُن گمراہ کن دلائل کا جواب سوائے کاٹنے والی ضرب السيف البتار وقتل الكفار تلوار کی ضرب اور کافروں کے قتل کے سوا کچھ نہیں.
حمامة البشرى ۱۴۶ اردو ترجمه وكيف يطمئن قلب المعترض تو پھر شک کرنے والے بے خبر معترض کا دل الشاك الغافل بضرب من السيف تلوار کی ضرب یا کوڑے یا نیزے اور تیر کے أو السوط أو جرح من الرمح زخم سے کیسے مطمئن ہوسکتا ہے؟ بلکہ یہ تمام والسهم، بل هذه الأفعال كلها امور تو شک کرنے والوں کے شک میں تزيد ريب المرتابين.اضافہ کر دیں گے.ثم جحدوا مع استيقان القلب وقاموا على ضلالاتهم مبصرين ثم اعلم أن غضب الله پھر تجھے علم ہونا چاہئے کہ اللہ کا غضب ليس كغضب الإنسان، وهو انسان کے غضب کی مانند نہیں.اور اللہ صرف لا يتوجه إلا إلى قوم قد تمت اُس قوم کی طرف رُخ فرماتا ہے جس پر حجت الحجّة عليهم، وأزيلت شكوكهم، تمام ہو چکی ہو اور اُن کے شکوک کا ازالہ کیا جا چکا ہو اور اُن کے شبہات دور کر دیئے گئے و دفعت شبهاتهم ورأوا الآيات ہوں اور اُنہوں نے نشانات دیکھ لئے ہوں پھر دل کے یقین کے باوجود انہوں نے انکار کر دیا ہو اور جانتے بوجھتے ہوئے اپنی گمراہیوں پرڈٹ گئے ہوں، اور ہمارے (ان) بھائیوں پر تعجب ہے کہ یہ جانتے ہیں کہ على قوم إلا بعد إتمام الحجة اللہ کا عذاب کسی قوم پر صرف اتمام حجت کے ثم يتكلمون بمثل هذه الكلمات.بعد ہی نازل ہوتا ہے پھر بھی اس قسم کی باتیں والعجب الآخر أنهم ينتظرون کرتے ہیں اور دوسرا تعجب یہ ہے کہ وہ مہدی المهدى مع أنهم يقرأون کا انتظار کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ في صحيح ابن ماجة والمستدرك ابن ماجہ کی صحیح میں اور مستدرک میں حدیث حديث : لا مَهْدِى إِلَّا عِيسَى، لَا مَهْدِى إِلَّا عِیسی ( یعنی عیسی ہی مہدی ہیں) والعجب من إخواننا أنهم يعلمون أن عذاب الله لا ينزل
حمامة البشرى ۱۴۷ اردو ترجمه كأنهم ليسوا بعالمين.ويعلمون أن الصحیحین قد تر کا پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ صحیحین نے مہدی کے ذكره لضعف أحاديث سمعت فی بارہ میں مروی احادیث کے ضعف کے باعث اس أمره، ويعلمون أن أحاديث ظهور کا ذکر چھوڑ دیا ہے.اور وہ جانتے ہیں کہ ظہور مہدی المهدى كلها ضعيفة مجروحة ، بل کی تمام احادیث ضعیف اور مجروح ہیں بلکہ ان بعضها موضوعة، ما ثبت منها میں سے بعض موضوع ہیں جن سے کچھ ثابت شيء، ثم يُصرون على مجينه نہیں ہوتا.لیکن پھر بھی وہ اُس کی آمد پر اصرار کرتے ہیں گویا انہیں علم ہی نہیں ہے.وأما الاختلافات التي وقعت في رہے وہ اختلافات جونزول مسیح کی پیشگوئی خبر نزول المسیح، فالأصل فی میں واقع ہوئے ہیں.تو اس سلسلہ میں بنیادی هذا الباب أن الأخبار المستقبلة بات یہ ہے کہ اس دنیا سے متعلق مستقبل کی المتعلقة بالدنيا لا تخلو عن پیشگوئیاں ابتلا سے خالی نہیں ہوتیں.اور یوں الابتلاء ، وكذلك يريد الله منها بھی جب اللہ ان کے ذریعہ ایک قوم کو آزمانا اور فتنة قوم واصطفاء قوم، فيجعل فی دوسری قوم کو برگزیدہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس قسم کی مثل هذه الأخبار استعارات پیشگوئیوں میں استعارات اور مجازات رکھ دیتا ومجازات، ويُدقق مأخذها ہے.اور ان کے ماخذ کو اُن لوگوں کی آزمائش ويجعلها غامضة دقيقة فتنة للذین کے لئے جو رسولوں کی تکذیب اور جلد بازوں کی يكذبون المرسلين، ويظنون ظن طرح بدظنی کرتے ہیں ، دقیق اور مخفی اور باریک السوء كالمستعجلين.ألا ترى إلى بنادیتا ہے.کیا تو یہود کی طرف نہیں دیکھتا کہ کس اليهود كيف شقوا في ردّ الرسول طرح وہ اُس سچے رسول کا انکار کر کے بد بخت الصادق الذي جاء كطلوع الشمس ہو گئے جو طلوع آفتاب کی طرح ظاہر ہوا جبکہ مع وجود خبر مجيئه في كتبهم.اُس کی آمد کی خبر اُن کی کتابوں میں موجود تھی.
حمامة البشرى ۱۴۸ اردو ترجمه ولو شاء الله لكتب في التوراة كل اور اگر اللہ چاہتا تو تو رات میں وہ سب کچھ لکھ دیتا جو ما يهديهم إلى صراط مستقیم راہِ راست کی طرف اُن کی رہنمائی کرتا.اور ضرور انہیں ولأخبرهم عن اسم خاتم الأنبياء حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی، صلى الله علیه و سلم وعن اسم آپ کے والد کا نام، آپ کے شہر کا نام اور آپ کے والده واسم بلدته و زمان ظهوره زمانہ ظہور اور آپ کے صحابہ کے اسماء اور آپ کے و اسم صحابته و اسم دار هجرته | دارالہجرت کا نام بتادیتا.اور پوری صراحت کے ساتھ ولـكتـب صــريــحـا أنه يأتى من بنى تحرير فرما دیتا کہ وہ بنی اسماعیل میں سے آئے إسماعيل، ولكن ما فعل الله گا.لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ تورات میں اُس كذلك بل كتب في التوراة أنه نے لکھ دیا کہ وہ تم میں سے تمہارے بھائیوں يكون منكم من إخوانكم، فمالت میں سے ہوگا.پس یہود کی آراء کا اس طرف جھکاؤ آراء اليهود إلى أن نبی آخر الزمان ہو گیا کہ نبی آخر زمان بنی اسرائیل میں سے ہوگا.يكون من بني إسرائيل، ووقعوا من اور وہ اس مجمل لفظ کی وجہ سے ایک بہت بڑے ابتلا هذا اللفظ المجمل فی ابتلاء عظیم میں پڑ گئے.پس جن لوگوں نے پورے طور پر غور نہ کیا فهلك الذين ما نظروا حق النظر، وہ ہلاک ہو گئے اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ وظنوا أن يخرج النبي من قومهم (موعود ) نبی ان کی قوم اور انہی کے مُلک سے ظاہر و من بلادهم، وكذبوا خاتم النبيين.ہوگا اور اُنہوں نے خاتم النبیین کی تکذیب کر دی.واعلم أن هذه السنّة ليست من اور تو جان لے کہ یہ طریق ظلم کی قسم میں سے قبيل الظلم بل من جميل إحسانات نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے اپنے نیک بندوں پر على عباده الصالحين احسانات جمیلہ میں سے ہے.کیونکہ وہ ان لأنهم يُبتلون عند الأنباء النظرية دقيق نظری خبروں کے وقت اپنے رب کی طرف الدقيقة بابتلاء دقیق من ربھم سے ایک لطیف ابتلا سے آزمائے جاتے ہیں.الله
حمامة البشرى ۱۴۹ اردو ترجمه ثم يعرفون بنور عقلهم و لطافة پھر وہ اپنی عقل کے نور اور اپنی فراست کی لطافت فراستهم الصراط المستقیم سے سیدھی راہ کو پہچان جاتے ہیں جس پر اُن کے فيتحقق لهم الأجر عند ربهم لئے ان کے رب کی طرف سے اجر متحقق ہو جاتا ويرفع الله درجاتهم، ويميّز هم ہے.اور اللہ اُن کے درجات بلند کر دیتا ہے اور من غيرهم ويُلحقهم بالواصلين.اُنہیں اُن کے غیر سے ممتاز کر دیتا ہے اور اُنہیں ولو كان الخبر مشتملا على واصل باللہ لوگوں سے ملا دیتا ہے.اور اگر وہ خبر انکشاف تام و علامات بديهة مکمل انکشاف اور واضح بدیہی علامات پر مشتمل واضحة لـجـاوز الأمر من حد ہوتی تو پھر معاملہ ایمان کی حد سے آگے تجاوز الإيمان، ولأقرّ به المفسد المعاند کر جاتا اور ایک مفسد معاند اُس (خبر ) کا اُسی كما أقر به المؤمن المطيع طرح اقرار کر لیتا ہے جیسے ایک مطیع مومن.اور وما بقى على وجه الأرض أحد روئے زمین پر منکروں میں سے کوئی ایک بھی من المنكرين.ألا ترى أن باقی نہ رہتا.کیا تو نہیں دیکھتا کہ تمام مذاہب أهل الملل والنحل كلهم ومسالک کے افراد اپنے بہت سے باہمی مع اختلافاتهم الكثيرة لا يختلفون اختلافات کے باوجود اس بات میں اختلاف نہیں (۴۵ في أن الليل مظلم والنهار منير کرتے کہ رات تاریک ہوتی ہے اور دن روشن.وأن الواحد نصف الاثنين، وأن اور یہ کہ ایک، دو کا نصف ہوتا ہے اور یہ کہ ہر انسان لكل إنسان لسان وأذنين، وأنف کی ایک زبان ، دوکان، ایک ناک اور دو آنکھیں وعينين، ولكن الله ما جعل ہوتی ہیں لیکن اللہ نے ایمانیات کو بدیہیات میں الإيمانيات من البديهيات، ولو سے نہیں بنایا.اوراگر وہ ایسا کرتا تو ثواب جعل لضاع الثواب وبطل العمل ضائع ہو جاتا اور عمل باطل.پس تو غور و فکر کر کیونکہ فتفكر فإن الله يهدى المتفكرين الله غور وفکر کرنے والوں کی رہنمائی فرماتا ہے.
حمامة البشرى ۱۵۰ اردو ترجمه ومـن كـان عـالـمـا صالحًا مجتهدا اور جو شخص عالم ، صالح اور حق کی جستجو میں پوری کوشش فـي طـلـب الـحـق ينور الله قلبه، کرنے والا ہو گا اللہ اس کے دل کو منور کر دے گا اور ويريه طريقه، ويعطيه فراسة اُسے اپنی راہ دکھائے گا.اور اپنی جناب سے فراست من عنده، وإن الله لا يضيع عطا کرے گا.اور یقینا اللہ اپنے اعمال کو عمدگی سے أجر المحسنين.والذين كفروني بجالانے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کیا کرتا.اور جن ولعنوني ما تدبّروا فی کتاب لوگوں نے میری تکفیر کی اور مجھ پر لعنت کی اُنہوں نے الله حق التدبر، وظنوا ظن السوء ، کتاب اللہ پر پورا تد برنہیں کیا اور بدظنی سے کام لیا.وماتفكروا في أنفسهم أن اور اُنہوں نے خود اپنی ذات میں غور نہیں کیا کہ کوئی الـعـاقـل لا يختار السوء والضلالة عقل مند اپنے نفس کے لئے برائی اور گمراہی کو اختیار لنفسه، ولا يفتری علی الله نہیں کرتا اور اللہ پر افتراء نہیں کرتا.پھر وہ کس طرح وكيف يختار طريقا و يعلم أن ایسی راہ اختیار کر سکتا ہے جس کے متعلق اُسے معلوم فيه هلاكه وأى شيء يحمله ہے کہ اُس میں اُس کی ہلاکت ہے اور وہ کون سی چیز على ذلك الوبال مع علمه ہے جو اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ وہ دنیا أنه طريق الخسران في الدنیا اور آخرت میں خسارے کی راہ ہے اُسے اس وبال پر والآخرة ولا يخفى على أعدائی آمادہ کرتی ہے؟ میرے دشمنوں پر مخفی نہیں کہ میں وہ أني امر قد نفد عمری فی تأیید شخص ہوں کہ جس کی ساری عمر دین کی تائید میں صرف الدين حتى جاء ني الشيب من ہوئی یہاں تک کہ مجھ پر جوانی سے بڑھاپا آ گیا.پھر الشباب، فكيف يظن عاقل أن کوئی صاحب عقل یہ کیسے گمان کر سکتا ہے کہ میں أختار الكفر والإلحاد في كبر سنّی اپنے اس بڑھاپے میں اور اپنی جسمانی کمزوری ووهن جسمی و قربى من القبر اور قبر کے قریب ہونے کے وقت کفر والحاد کو اختیار سبحان ربي! إن هذا إلا ظلم مبین کروں گا.سبحان ربی ! یہ تو کھلا کھلا اظلم ہی ہے.
حمامة البشرى ۱۵۱ اردو ترجمه وها أنا برىء من ،بهتانهم وما اور میں وہ ہوں جو اُن کے بہتان سے بری ہوں.أجد عند النظر فی عقائدی من میں اپنے عقائد پر نگاہ ڈالتے ہوئے اس میں وہم کا سريان الوهم بهذا، والله يعلم ما شائبہ تک نہیں پاتا.اور جو میرے دل اور اُن کے في قلبي وقلوبهم، وتوكلت عليه.دل میں ہے اُسے اللہ خوب جانتا ہے اور میں نے وما حمل عقلاء هم على مخالفتی اسی پر توکل کیا ہے.اور اُن کے اہل دانش کو میری إلا حب الدنيا وناموسها، والحسد مخالفت پر صرف دنیا کی محبت اور اُس کی عزت نے آمادہ الذي لا ينفك من أكثر العلماء کیا ہے اور اس حسد نے انہیں اُکسایا ہے جو اکثر علماء إلا من حفظه الله برحمته وقد کی ذات کا جزوِ لا يَنْفَكَ ہے.سوائے اُس کے جرت عادة أكثر العلماء هكذا جسے اللہ اپنی رحمت سے محفوظ رکھے.اور اکثر علماء کی أنهم إذا رأوا رجلا يقــول قــولا اس طرح عادت چلی آئی ہے کہ جب وہ کسی شخص کو فوق أفهامهم فلا يتفكرون فيه، اپنے فہم سے بالا بات کہتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اس ولا يسألون القائل ليبين لهم پر غور نہیں کرتے.اور نہ وہ کہنے والے سے کچھ پوچھتے حقيقته، بل يشتعلون بمجرد السماع ہیں تا کہ وہ اُن پر اُس کی حقیقت واضح کرے بلکہ محض ويكفرونه في أول مجلس، ويلعنونه سن کر ہی بھڑک اُٹھتے ہیں اور پہلی نشست میں ہی اُس ويكثرون القول فيه، وكادوا ان کی تکفیر کر دیتے ہیں اور اُس پر لعنت ڈالتے ہیں اور اُس يقتلوه مشتعلین.وقال اللہ کے متعلق بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں اور قریب ہے عزوجل : يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا که مشتعل ہو کر اسے قتل کر دیں.اللہ عز و جل نے يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوابِ فرمایا ہے کہ "يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا كَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ، والأمر الحق الذى يعلمه الله اور سچی بات وہی ہے جسے اللہ جانتا ہے.يَسْتَهْزِءُونَ.ے اے حسرت بندوں پر ! کہ ایسا کوئی نبی نہیں آتا جس سے وہ ٹھٹھا نہ کریں.(بیس: ۳۱)
حمامة البشرى ۱۵۲ اردو ترجمه أن المسلمين كانوا في هذا اس زمانے میں مسلمان چڑیوں کے بچوں کی طرح الزمــان كـأفراخ العصافير ما ہیں جو روحانی بلوغت کو نہیں پہنچے.اور وہ اپنے بلغوا أشدهم الروحانية، آشیانوں، بسیروں اور گھونسلوں سے گر گئے ہیں.رسقطوا من أكنانهم و پس اللہ نے ارادہ فرمایا کہ وہ انہیں میرے پروں أوكارهم وأعشاشهم، فأراد کے نیچے جمع کرے اور انہیں ایمان کی حلاوت اور الله أن يجمعهم تحت جناحی خدائے رحمن کی محبت کی لذت عطا فرمائے اور ويذيقهم حلاوة الإيمان، ولذة اُنہیں عارفوں میں سے بنائے پس وہ جو صاحب نس الرحمن، ويجعلهم عقل ہے اور نجات کا طالب ہے اُسے چاہئے کہ وہ مــن الــعــارفـيـن.فمن کان میری طرف آنے میں جلدی کرے.میری طرف عاقلا طالبا للنجاة فليبادر إلى وہی شخص تیزی سے آئے گا جو اللہ سے ڈرتا ہے اور ولا يُبادر إلى إلا الذي يخاف دنیا اور اُس کے اموال اور اُس کی عزت و ناموس کو الله وينبذ الدنيا من أیدیه اپنے ہاتھوں سے پرے پھینک دیتا ہے اور آخرت وعرضها وناموسها، ويبادر کے لئے جلدی کرتا ہے اور وہ اپنے نفس کے لئے إلى الآخرة، ويرتضى لنفسه كل هر لعن طعن، دشمنوں کی باتیں، پیاروں کی جدائی لعن وطعن، وأقوال الأعداء وهجر اور گالیاں دینے والوں کی گالیوں کو بطیب خاطر الأحباء ، وسبّ السّابين.التنبيه قبول کر لیتا ہے.انتباه اعلم يا أخى..أراك الله من عنده اے میرے بھائی ! اللہ تجھے اپنی جناب سے سیدھی طرق الصواب.ان الذين يعتقدون راہیں دکھائے، تجھے جان لینا چاہئے کہ جو لوگ نزول عيسى عليه السلام وصعوده حضرت عیسی علیہ السلام کے جسد خاکی کے ساتھ آسمان بجسمه العنصري إلى السماء کی طرف صعود اور پھر نزول پر اعتقاد رکھتے ہیں.
حمامة البشرى ۱۵۳ اردو ترجمه قد يستدلون على حياته بقوله وہ اُن کے زندہ ہونے پر اللہ کے اس قول سے تعالى: وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا استدلال کرتے ہیں کہ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ والله يعلم إِلَّا لَيُؤْ مِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ اور اللہ جانتا ہے کہ أنهم خاطئون في هذا الاستدلال وہ ایسا استدلال کرنے میں غلطی خوردہ ہیں.اور وإن هم إلا يظنون، ويُضلون وہ محض گمان سے کام لے رہے ہیں.اور لوگوں الناس بغير علم، ثم ينهضون کو بغیر علم کے گمراہ کرتے ہیں.پھر وہ تلوار کی لإيذاء أهل الحق بألسنة حداد طرح کاٹنے والی زبانوں سے اہلِ حق کو اذیت ولا يخافون الله ويسمون المؤمنين پہنچانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں.اور كافرين.إنما مثلهم كمثل اللہ سے نہیں ڈرتے.اور مومنوں کا نام کافر قوم اتخذوا مسجد اضرارًا رکھتے ہیں.اُن کی مثال اس قوم کی طرح ہے ﴿۴۶﴾ وكفرًا وتفريقا بين المؤمنين.جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور وأنـت تـعـلـم أنـا لو فرضنا أن مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی خاطر ایک اليهود كلهم يؤمنون بعیسی مسجد بنائی.اور تو جانتا ہے کہ اگر ہم بالفرض یہ ليه السلام قبل موته تسلیم کرلیں کہ تمام یہودی عیسی علیہ السلام کی كمـا فـهـمـوا مــن هـذه الآية | وفات سے قبل اُن پر ایمان لے آئیں گے جیسا للزم المحال الصريح من کہ وہ اس آیت سے سمجھتے ہیں تو ایسے معنی کرنے هذا المعنى، وللزم أن يبقى سے واضح مشکل پیش آئے گی.اور یقینی بنى إسرائيل كلهم إلى نزول طور پر یہ بھی لازم آئے گا کہ تمام بنی اسرائیل عيسى عليه السلام أحياء سالمين نزول عیسی علیہ السلام تک زندہ اور صحیح سالم رہیں.لے اور اہل کتاب میں سے کوئی (فریق نہیں مگر اس کی موت سے پہلے یقیناً اس (مسیح) پر ایمان لے آئے گا.(النساء: ۱۶۰)
حمامة البشرى ۱۵۴ اردو ترجمه لأن أمر إيمان اليهود كلهم لا يتم کیونکہ تمام یہود کے ایمان کا معاملہ صرف حیاتِ بحياة المسيح فقط، بل يجب لإتمامه مسیح کے ساتھ پورا نہیں ہوتا بلکہ اس کے پورا کر نے حياة كفار بني إسرائيل كلهم من أوّل کے لئے بنی اسرائیل کے تمام کفار کا اول زمانے الزمان إلى يوم القيامة، ومع ذلك سے روز قیامت تک زندہ رہنا لا زم آئے گا.اور يجب حياة المسيح إلى يوم الدين.اس کے ساتھ ساتھ روز جزاء سزا تک مسیح کا زندہ ومعلوم أن كثيرا من اليهود قد رہنا بھی ضروری ہے.اور یہ بات ظاہر ہے کہ بیشتر ماتوا و دفنوا ولم يؤمنوا بعیسی یہود مر چکے اور دفن ہو چکے اور وہ عیسیٰ علیہ السلام عليه السلام، فكيف يستقيم أن پر ایمان نہیں لائے.پس یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا يُقال أن اليهود كلهم يؤمنون ہے کہ تمام یہودی مسیح پر ان کی وفات سے قبل ایمان بالمسيح قبل موته؟ فلا شك أن لے آئیں گے؟ لہذا بلاشبہ یہ معنی بالبداہت باطل هذا المعنی بدیهی البطلان و ظاهر ہیں اور ان کا بگاڑ ظاہر وباہر ہے اور اُس کے صحیح الفساد ولا سبيل إلى صحته، ہونے کی کوئی گنجائش نہیں.اس لئے اگر تو فتفكر إن كنت من المتفكرين.ثم غور و فکر کرنے والوں میں سے ہے تو غور کر.پھر إذا نظرنا نظرا آخر وتأملنا في جب ہم دوبارہ اس پر نظر ڈالتے ہیں.اور اُن قولهم وعقيدتهم و اتفاق ندوتھم کے قول ، عقیدے اور اُن کے اس باہمی اتفاق پر على أن الموجودین فی زمان نزول گہرا غور کرتے ہیں کہ جو لوگ مسیح کے نزول کے المسيح يدخلون في دين الإسلام وقت موجود ہوں گے وہ سب کے سب دینِ كلهم ولا تبقى نفس واحدة اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور اُن میں سے منهـم مـنـكـرة للإسلام، وتهلك كوئى شخص بھی اسلام کا منکر نہیں رہے گا اور اسلام الملل كلها إلا الإسلام، فما وجدنا كے سوا تمام ملتیں ہلاک ہو جا ئیں گی ، پس ہم نے هذه العقيدة موافقة لتعليم القرآن، اس عقیدے کو قرآن کی تعلیم کے موافق نہیں پایا
حمامة البشرى ۱۵۵ اردو ترجمه بل وجدناها مخالفة لقول ربّ بلکہ اسے رب العالمین کے قول کے مخالف پایا العالمين؛ فإن القرآن يعلم بتعليم واضح ہے.کیونکہ قرآن واضح تعلیم دیتا ہے اور بآواز ويشهد بصوت عال على أن اليهود بلند شہادت دیتا ہے کہ یہودی اور عیسائی روز والنصارى يبقون إلى يوم القيامة قيامت تک باقی رہیں گے.جیسا کہ اللہ عزوجل كما قال عز وجل: فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ نے فرمایا: فَاغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ إِلَى يَوْمِ القِيمة ے اور ظاہر ہے کہ عداوت اور ومعلوم أن وجود العداوة والبغضاء بغض کا وجود عنا دا اور بغض رکھنے والوں کے وجود کی فرع لوجود المعاندين والمباغضين، ایک فرع ہے اور یہ اُن کے وجود کے بعد ہی متحقق ولا يتحقق إلا بعد وجودهم.ولقد وصلنا لهم القول وقلنا غير مرة ہوسکتا ہے.اور ہم نے یہ بات اُن سے لگا تار کہی اور ایک سے زائد مرتبہ کہی تاکہ وہ نصیحت حاصل لعلهم يتذكرون أو يكونون من کریں یا وہ ڈرنے والوں میں سے ہو جائیں.ہم الخائفين.فكيف نؤمن بأن أهل یہ بات کیسے مان لیں کہ تمام ملتوں کے لوگ کسی الملل كلّها تهلك في وقت من الأوقات أنـكـفـر بـآیات کتاب وقت ہلاک ہو جائیں گے.کیا ہم کتاب مبین کی مبين وقد قال الله تعالى: وَالْقَيْنَا آیات کا انکار کردیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ فرمایا ہے : کہ وَالْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء الْقِيمَةِ، وقال: وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ نیز فرمایا: کہ وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ پس ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک باہمی دشمنی اور بغض مقدر کر دیئے ہیں.(المائدۃ: ۱۵) اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ڈال دیئے ہیں.(المائدۃ:۶۵) ے اور میں ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا دست کرنے والا ہوں.(ال عمران: ۵۶)
حمامة البشرى ۱۵۶ اردو ترجمه ومعلوم أن كون اليهود مغلوبین اور ظاہر ہے کہ روز قیامت تک یہودیوں کا مغلوب ہونا إلى يوم القيامة يقتضى وجودهم قیامت کے دن تک اُن کے وجود، اُن کی بقاء اور اُن وبقاء هم وكفرهم إلى يوم الدين کے کفر کا تقاضا کرتا ہے.اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ومعلوم أن كلّ ما يُعارض أخبار ہر وہ بات جو قرآن کی بتائی ہوئی خبروں کے معارض القرآن ويُخالفه فهو كذب صريح اور مخالف ہو وہ کذب صریح ہے.اور وہ اصدق وليس من أحاديث أصدق الصادقين (ع) کی احادیث میں سے نہیں.تمام الصادقين.بل المراد من هلاك ملتوں کے ہلاک ہونے سے مراد دراصل اُن کا دلائل الملل كلها هلاكهم بالبينة، ولا سے ہلاک ہونا ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شك أنه من هلك من البينة فقد دلیل سے ہلاک ہوا وہ حقیقۂ ہلاک ہوا.اور جس نے هلك، ومن أتم الحجة على أحد كسى پر حجت تمام کی تو گویا اُس نے اُسے ہلاک ہی فقد أهلكه، فتفكر كالمتوسّمين.کر دیا.پس تو اہل فراست کی طرح غور و فکر کر.واعلم أن حديث هلاك الملل اور تو جان لے کہ تمام ملتوں کے ہلاک صحيح، ولـكـن أخـطـأ العلماء ہونے والی حدیث صحیح ہے مگر علماء نے اسے في فهمه، وما فهموا من هلاك سمجھنے میں غلطی کھائی ہے.اُنہوں نے اہلِ أهل الأديان فهو ليس بصحيح، ادیان کے ہلاک ہونے کا جو مفہوم سمجھا ہے بل الـمـعـنـى الصحيح هو الذي وہ صحیح نہیں.بلکہ اس کے صحیح معنی وہ ہیں يشير إليـــه الـقـرآن في آية: جن کی طرف قرآن نے آیت هُوَ الَّذِي هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ عَلَى الدِّينِ كُله لے میں اشارہ فرمایا ہے.لے وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے دین (کے ہر شعبہ ) پر کلیۂ غالب کردے.(الصف:۱۰)
حمامة البشرى ۱۵۷ اردو ترجمه فقد أشار في هذه الآية إلى غلبة پس اس آیت میں قرآن نے ہر مذہب اور دین دين الإسلام على كل مذهب پردین اسلام کے غلبہ کی جانب اشارہ کیا ہے.اور ودين.وأنت تعلم أن دينا إذا صار تو جانتا ہے کہ جب کوئی دین مغلوب اور زیر نگیں ہو مغلوبًا مقهورا فهو نوع من هلاك جائے تو یہ اُس دین کے ماننے والوں کی واضح أهله بسلطان مبين.فثبت من هذا دليل کے ساتھ ایک طرح کی ہلاکت ہوتی ہے.التحقيق أن تأويل آية قَبْلَ مَوْتِه پس اس تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ آیت قَبْلَ مَوْتِهِ بنحو ذَكَرَه العلماء تأویل فاسد کی جو تاویل علماء نے کی ہے وہ فاسد تاویل ہے وقد بلغك كلام ربّ العالمين.اور اب تو تجھ تک رب العالمین کا کلام پہنچ چکا ہے.وأما ما رُوي في البخاري عن اور جہاں تک بخاری میں حضرت ابوھریرہ سے ۲۷ 6 أبي هريرة رضى الله عنه في هذا اس سلسلہ میں روایت کا تعلق ہے تو تو اُسے قابل الباب، فلا تحسبه شيئا يتوجه توجه چیز خیال نہ کر.جبکہ ہمارے پاس کتاب اللہ إليه، وعندنا کتاب الله فلا ہے.اس لئے تو اُس کے علاوہ کسی اور سے ہدایت تطلب الهدى من غيره، فترجع طلب نہ کر، کیونکہ اس صورت میں تو ناکام لوٹے بالخيبة ولن تكون من المهتدين گا.اور تو ہرگز ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہو قال صاحب التفسير المظهری گا.تفسیر مظہری کے مصنف نے کہا ہے کہ ابوھریرہ إن أبا هريرة صحابي جليل القدر جليل القدر صحابی تھے لیکن اُنہوں نے اس تاویل ولكنه أخطأ في هذا التأويل، میں غلطی کھائی ہے.اور نفسِ حدیث میں کوئی ایسی ولا يوجد في حديث ما يؤيد بات نہیں جو اُن کے خیال کی تائید کرتی ہو.اور اس زعمه، ولا نرى مستفادًا من آیت سے جو انہوں نے سمجھا ہے ہمارے نزدیک الآية ما فهمه، فلا شك أنه خالفوه اس آیت سے مستنبط نہیں ہے.اس لئے بلاشبہ اُنہوں نے واضح حق کی مخالفت کی ہے.الحق المبين.
حمامة البشرى ۱۵۸ اردو ترجمه وما ثبت أن ماخذ قوله من مشكاة اور یہ ثابت نہیں ہوا کہ ان کے قول کا ماخذ مشکوۃ النبوة والسنة المطهرة، بل هو نبوت اور سُنتِ مطہرہ ہے بلکہ وہ ایک سطحی رائے رأى سطحي، وكان رضي الله عنه الله عنه ہے اور آپ نے اپنے بعض اجتہادات میں اکثر كثير الخطأ في بعض اجتهاداته غلطی کھائی ہے.جس طرح کہ آپ کی خطا اُس كما ثبت خطأه فی حدیث ذکره حدیث میں ثابت ہے جس کا امام بخاری نے اپنی البخاري في صحیحه، قال حدثنی صحیح میں ذکر کیا ہے.وہ فرماتے ہیں کہ: مجھے عبدالله بن محمد قال حدثنا عبد الله بن محمد نے کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے عبد الرزاق قال أخبرنا معمر عن بیان کیا کہ مجھے معمر نے زہری کے واسطہ سے بتایا الزهري عن سعيد بن مسيب عن أبى كه سعيد بن مسیب نے حضرت ابوہریرہ سے هريرة قال ان النبی صلی اللہ علیہ روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ وسلم قال: ما من مولود يولد إلا علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر والشيطان يمسه حين يولد، فيستهل شیطان اسے پیدائش کے وقت چھوتا ہے.اور وہ صارخا من مس الشيطان إياه إلَّا مريم شيطان کے اس چھونے سے چیخ اُٹھتا ہے.وابنها، يقول أبو هريرة واقرأوا إن سوائے مریم اور اُن کے بیٹے کے.ابوھریرہ کہتے شتم: وَ إِنِّي أَعِيْدُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا ہیں کہ اگر تم چاہو تو تم آیت وَ إِنِّي أَعِيْنُهَا بِكَ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ هذا ما زعم وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ پڑھو.یہ ہے جو أبو هريرة، ولكن الذي اغترف ابوھریرہ نے سمجھا لیکن وہ شخص جس نے کلام اللہ کے شيئا مـن بـحـر کـلام الله فيعلم سمندر سے چلو بھر بھی لیا ہوتو وہ بالبداہت جانتا ہے بالبداهة أن هذا الزعم فاسد، ويعلم أن كه يه خيال فاسد ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ابوھریرہ أبا هريرة استعجل في هذا الرأي، وما نے اس رائے میں جلد بازی کی ہے.اور اُنہوں نے أرصد نفسه لشهادة بيِّئاتِ القرآن قرآنی بینات کی گواہی کو گہری نظر سے نہیں دیکھا ے اور میں اسے اور اس کی اولا د کو مردود شیطان کے حملہ) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں.(آل عمران: ۳۷)
حمامة البشرى ۱۵۹ اردو ترجمه ألم يعلم أن الله تعالى جعل نبينا کیا انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے أوّل المعصومين وقد طعن نبی ﷺ کو اوول المعصومین قرار دیا ہے.اور الزمخشري في معنى هذا الحديث زمخشری نے اس حدیث کے مفہوم کی نسبت طعن وتوقف في صحته، وكيف يجوز کرتے ہوئے اس کی صحت کے بارے میں تو قف أن نـخــص ابن مریم وأُمه فی کیا ہے.اور یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ہم ابن مریم العصمة من مس الشيطان وقد قال اور ان کی والدہ کے مس شیطان سے محفوظ رہنے الله تعالى: إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ کی تخصیص کریں جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عَلَيْهِمْ سُلْطن.وقال : سَلَمُ اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن لا يز عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ فرمایا سَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا.وما معنى السلام وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا لے اور لفظ السَّلام کے معنی إلَّا الحفظ والعصمة، وقال: اِلَّا حفاظت اور عصمت کے ہی ہیں.نیز فرمایا إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ، فلا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ " اور یہ حدیث يصح هذا الـحـديـث إلا أن نريد صرف اسی صورت میں صحیح ہوسکتی ہے جب ہم من ابن مريم وأُمه معنى عاما، ابن مریم اور ان کی والدہ سے عمومیت کا مفہوم ونقول إن كـل تـقـى ونقى كان ليں.اور یہ کہیں کہ ہر متقی اور پاکباز جوان في صفتهما فهو ابن مريم وأمه، دونوں کی صفات اپنے اندر رکھتا ہو وہ ابن مریم وإليه أشار الزمخشری رحمہ اور اُن کی والدہ ہے.اور اسی کی جانب زمخشری الله.ولا يستبعد هذا التأويل نے اشارہ کیا ہے.اور یہ تاویل دور از قیاس نہیں.یقیناً (جو) میرے بندے (ہیں) ان پر تجھے کوئی غلبہ نصیب نہ ہوگا.(الحجر: ۴۳) سلامتی ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے گا اور جس دن اسے دوبارہ زندہ کر کے اُٹھایا جائے گا.(مریم:۱۶) سوائے ان میں سے تیرے مخلص بندوں کے.(الحجر: ۴۱)
حمامة البشرى 17.اردو ترجمه فإن الأنبياء قد يتكلمون في خلل کیونکہ انبیاء مجاز اور استعاروں کے لبادہ میں المجازات والاستعارات، ومثل کلام کرتے ہیں.اور اس قسم کی مثالیں ذلك كثير فی کلام سیدنا ہمارے آقا ومولا خاتم النبیین کے کلام میں ومولانا خاتم النبيين، ومن هذا كثرت سے ہیں.چنانچہ اس بارے میں الباب قوله صلى الله عليه وسلم إن آپ کا قول ہے کہ عیسی ابن مریم تم میں ضرور عيسى ابن مريم لينزلن فیکم نازل ہوں گے.یعنی اُن کی صفات رکھنے يعنى يُبعث رجل منكم على صفته والا ایک شخص تم میں مبعوث ہوگا اور وہ عیسی کا فينزل منزلة عيسى فما فهم قائم مقام ہو گا.لیکن اکثر لوگ ان دو أكثر الناس معنى هذين الحديثين، حدیثوں کے معنی نہیں سمجھے.اور اُنہوں نے واعتقدوا أن عيسى الذى كان نبيًّا عقيدہ بنالیا کہ عیسی جو بنی اسرائیل کا ایک نبی من بني إسرائيل ينزل من السماء تھا وہی آسمان سے نازل ہوگا.حالانکہ یہ ایک وإن هذا إلا خطأ مبين.واضح غلطی ہے.، ثم القرينة الثانية على خطأ أبى هريرة قَبْلَ مَوْتِه والی آیت کے بارے میں ابوھریرہ في آية: " قَبْلَ مَوْتِهِ “ ما جاء في قراءة کی غلطی پر دوسرا قرینہ اُبی بن کعب کی قراءت أبي بن كعب أعنى : مَوْتِهِمُ ، فإنه يقرأ يعنى مَوْتِهِم “ میں ہے.کیونکہ وہ اس طرح پڑھا هكذا: وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ کرتے تھے.وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِمُ فثبت من هذه القراءة بِه قَبْلَ مَوْتِهِمْ.پس اس قراءت سے ثابت ہو گیا أن ضمير لفظ موته لا يرجع إلى عيسى كـ لفظ موتہ میں ضمیر و عیسیٰ علیہ السلام کی عليه السلام، بل يرجع إلى أهل طرف راجع نہیں بلکہ اہل کتاب کی طرف راجع ہے.الكتاب.فإلى أى ثبوتِ حاجةٌ بعد پس اُبی بن کعب کی قراءت کے بعد طالبان حق قراء ة أُبي بن كعب لقوم طالبين.کے لئے اور کس ثبوت کی ضرورت ہے؟
حمامة البشرى ۱۶۱ اردو ترجمه ثم مع ذلك قد اختلف أهل پھر اس کے ساتھ مفسرین نے بھی توبہ کی ضمیر التفسير في مرجع ضمیر بہ کے مرجع کے متعلق اختلاف کیا ہے.ان میں فقال بعضهم إن هذا الضمیر سے بعض نے یہ کہا ہے کہ آیت لَيُؤْمِنَنَّ بِہ میں الذي يوجد في آية ليؤمنن بہ جو ضمیر پائی جاتی ہے وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ (۳۸) راجع إلى نبینا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع ہے اور یہ قول تمام اقوال وسلم، وهذا أرجح الأقوال وقال سے مُرَجّح ہے.اور اُن (مفسرین) میں سے بعضهم إنه راجع إلى الفرقان، بعض نے کہا ہے کہ یہ ضمیر فرقانِ حمید کی طرف وقال بعضهم إنه راجع إلى راجع ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا مرجع اللہ الله تعالى، وقيل إنه راجع تعالیٰ ہے.اور بعض نے اس ضمیر کو عیسیٰ علیہ إلى عيسى، وهذا قول ضعيف ما السلام کی طرف پھیرا ہے اور یہ قول ضعیف ہے التـفـت إليه أحد من المحققين جس کی طرف محققین میں سے کسی نے توجہ نہیں فيا حسرة على أعدائنا المخالفین کی.پس افسوس ہے ہمارے مخالف دشمنوں پر کہ إنهم يتركون القرآن وبيناته، وہ قرآن اور اُس کی بینات کو چھوڑتے ہیں.بلکہ بل قلوبهم في غمرة من هذا ان کے دل اس کے متعلق غفلت میں ہیں.وہ ويقولون بإخوانهم إنا نتبع اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر یہ کہتے ہیں کہ ہم أخبار رسول الله صلى الله عليه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی اتباع سلم، وليسوا بمتبعین، بل کرتے ہیں جبکہ وہ اتباع کرنے والے نہیں يتركون أقوالا ثابتة من رسول ہیں.بلکہ وہ اُن اقوال کو ترک کر دیتے ہیں جو الله صلى الله عليه وسلم، ويبدلون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں.وہ الخبيث بالطيب، ويكتمون الحق طیب سے خبیث بدل لیتے ہیں اور معرفت رکھتے ہوئے حق کو چھپاتے ہیں.وكانوا عارفين.
حمامة البشرى ۱۶۲ اردو ترجمه إنمـا مثلهم كمثل سبع اعتاد اُن کی مثال اس درندے کی سی ہے جو مُردار أكل الميتة، فلا يتوجه إلى کھانے کا عادی ہو اور وہ پھلوں اور اُن جیسی الأغذية اللطيفة النظيفة من دوسرى لطيف و نظیف غذاؤں کی طرف متوجہ الثمرات وسواها، ويسعی فی نہیں ہوتا اور جنگلوں میں مُردار کی خاطر بھاگتا البراري لها ويحتفـر القبور پھرتا ہے اور قبریں کھودتا ہے اور وہ گدھے، ويطلب كل جيفة من حمار کتے اور سؤر کی قسم کا ہر مردار تلاش کرتا ہے پس أو كلب أو خنزير، فإن وجدها اگر وہ اسے مل جائے تو وہ اس سے بہت خوش فيكون بها أصفی فرحًا ہوتا اور خوب اتراتا ہے اور دھتکارنے والوں وأوفى مرحا، ولا يفارقها کے دھتکارنے پر بھی اُس (مُردار ) سے الگ بطرد الطاردين.الا يعلمون نہیں ہوتا.کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ لفظ تو فی جو أن لفظ التوفــى الـذي يـوجـد قرآن میں موجود ہے اُسے اللہ نے اُن وفات في القرآن قد استعمله الله یافتگان کے لئے استعمال کیا ہے جو اس سے پہلے للموتى الذين خلوا من قبله گزر چکے ہیں یا اُس کے بعد وفات پاگئے.کیا أو ماتوا من بعده أو لم يكف شهادة رب العالمین کی شہادت کافی نہیں؟ کیا ان کے رب العالمين؟ أو لم يكف لهم ما لئے وہ ( معنی ) کافی نہیں جس کے عرب آج اعتاده العرب إلى هذا الوقت وإذا تك عادی ہیں.(اب بھی ) کسی ان پڑھ جاہل قيل لجاهل أُمّى من العرب عرب سے جب کہا جائے کہ تُوُفِّيَ فُلانٌ تو وہ أن الفلاني توفّى فيعرف أنه مات جان جائے گا کہ وہ شخص مر گیا ہے، پس غور کرو فانظر، أما ترى هذه المحاورة کیا تمہیں اُن (عربوں) میں یہ محاورہ مروّج جارية فيهم ثم انظر أنهم كيف نظر نہیں آتا؟ پھر دیکھو کہ وہ کس طرح اعراض کرتے ہوئے فرار ہو گئے.فروا معرضين..
حمامة البشرى ۱۶۳ اردو ترجمه وقال بعضهم أن آية: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آیت فَلَمَّا حق ولا شك أنها يدل على وفاة | تَوَفَّيْتَنِی برحق ہے اور بلا شبہ عیسی علیہ السلام کی عيسى عليه السلام بدلالة قطعية، وفات پر قطعی الدلالت ہے.وہ یقیناً وفات پاچکے وإنه مات وإنّا نؤمن به، وكتبُ ہیں اور ہمارا اس پر ایمان ہے.اور تفسیر کی کتابیں التفسير مملوة من هذا البيان، ولكنه اس بیان سے بھری پڑی ہیں.لیکن عیسی علیہ السلام عليه السلام ما بقى ميتا بل بُعث حیا مرے نہیں رہے بلکہ وہ تین دن کے بعد یا سات بعد ثلاثة أيام أو سبع ساعات، ثم گھنٹے بعد جی اُٹھے.بعد ازاں وہ بجسده العنصری رفع إلى السماء بجسده العنصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے.اور پھر وہ آخری ثم ينزل فی آخر الزمان على الأرضِ زمانے میں زمین پر نازل ہوں گے اور چالیس ويمكث أربعين سنة، ثم يموت مرة سال تک رہیں گے پھر دوبارہ وفات پائیں گے ثانية ويُدفن في أرض المدينة في قبر اور سرزمین مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دفن کئے جائیں گے.اُن کے کلام کا فـحـاصــل كلامهم أن للخلق كلهم خلاصہ یہ ہے کہ تمام مخلوق کے لئے تو صرف ایک موت واحد وللمسيح موتین موت ہے لیکن مسیح کے لئے دو موتیں.لیکن جب ولكنا إذا نظرنا في كتاب الله ہم اللہ سبحانہ کی کتاب قرآن میں نظر ڈالتے ہیں تو سبحانه فوجدنا هذا القول مخالفا اس قول کو نصوص بینہ کے مخالف پاتے ہیں کیا تو لنصوصه البينة.ألا ترى أن الله نہیں دیکھتا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب تبارك وتعالى قال في كتابه المحكم محکم میں ایک ایسے مومن کے بارے میں حکائیڈ حكاية عن مؤمن مُغْبطًا نفسه بما بیان فرمایا ہے جو اللہ کے اُسے جنت میں ابدی أعطاه الله من الخُلد فى الجنة زندگی عطا کرنے اور بغیر موت کے عزت کے مقام والإقامة في دار الكرامة بلا موت میں مقیم کرنے پر اپنے آپ پر رشک کرتا ہے.مَوْتُ وَاحِدٌ غالباً سہو کتابت ہے درست مَوْتًا وَاحِدًا “ ہے.(ناشر)
حمامة البشرى ۱۶۴ اردو ترجمه أَفَمَا نَحْنُ بِمَيَّتِينَ - إِلَّا مَوْتَتَنَا أَفَمَا نَحْنُ بِمَيَّتِينَ - إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولى الأولى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ - وَمَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ ـ إِنَّ هَذَا لَهُوَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - الْفَوْزُ الْعَظِيمُ فانظر أيها العزيز..كيف أشار عزیز من! اس بات پر غور کر کہ کس طرح اللہ الله تعالى إلى امتناع الموت الثاني تعالیٰ نے پہلی موت کے بعد دوسری موت کے بعد الموتة الأولى، وبشرنا امتناع کی جانب اشارہ فرمایا ہے اور موت کے بالخلود في العالم الثاني بعد ہمیں دوسرے جہاں میں ہمیشہ رہنے کی بعد الموت، فلا تكن من بشارت دی ہے.اس لئے تو انکار کرنے المنكرين.وأنت تعلم أن الهمزة والوں میں سے نہ بن.اور تو جانتا ہے کہ في جملة: أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ أَفَمَانَحْنُ بِمَيِّتِيْن “ کے جملے میں ہمزہ للاستفهام التقريرى، وفيها استفهام تقریری کے لئے ہے اور اس میں تعجب معنى التعجب، والفاء ههنا للعطف کے معنی پائے جاتے ہیں.اور حرف فا“ على محذوف، أى: أنحنُ یہاں محذوف پر عطف ہے.یعنی یہ کہ کیا ہم مخلدون مُنعمون مع قلة أعمالنا اپنے اعمال کی بے بضاعتی کے باوجود جنت کی وما نحن بميتين.واعلم ان نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے اور ہم مریں گے هذا سؤال من أهل الجنة نہیں؟ اور تجھے یہ معلوم ہو کہ یہ سوال جنتیوں حين يسمعون قول الله تعالی کا اُس وقت ہوگا جب وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنیں كُلُوا وَاشْرَبُوا هَيَّنَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ، گے کہ كُلُوا وَاشْرَبُوْا هَيْئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ لے پس کیا ہم مرنے والے نہیں تھے، سوائے ہماری پہلی موت کے اور ہمیں ہرگز عذاب نہیں دیا جائے گا.یقیناً یہی (ایمان لانے والے کی ) ایک بہت بڑی کامیابی ہے.(الصافات: ۵۹ تا ۶۱) کھاؤ اور مزے لے کر پیو.کیونکہ یہ انعام تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے.(المرسلات : ۴۴)
حمامة البشرى ۱۶۵ اردو ترجمه كما روى عن ابن عباس فی تفسیر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول هَنِيئًا کی تفسیر میں قوله تعالى: هَنِيئًا، فعند ذلك حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایسے موقع يقولون أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ إِلَّا پروه (جنتی) کہیں گے کہ أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ مَوْتَتَنَا الأولى واعلم أن قولهم | إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولى اور یاد رکھو کہ اُن (۴۹) هذا يكون على طريقة الابتهاج والسرور جنتیوں کا یہ قول انبساط اور سرور کے طور پر ہوگا.ثم اعلم أن الاستثناء ههنا مفرغ پھر جان لو کہ یہاں یہ استثناء متصل ہے اور بعض وقيل منقطع بمعنى لكن وفی کے نزدیک یہ استثناء منقطع بمعنی لکن ہے.اور كل حال يثبت من هذه الآية ہر حال میں اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ أن أهل الجنة يُبشرون بالدوام جنتیوں کو دوام اور خلود کی بشارت دی جائے والخلد ويبشرون بأن لهم لا موت گی.نیز انہیں یہ بھی بشارت دی جائے گی کہ اُن إلا موتتهم الأولى.وهذا دليل کے لئے پہلی موت کے علاوہ اور کوئی موت صريح على أن الله ما جعل نہیں.اور یہ واضح دلیل ہے کہ اللہ نے جنتیوں لأهل الجنة موتين، بل بشرھم کے لئے دو موتیں نہیں بنا ئیں بلکہ اُس نے اُنہیں بالحياة الأبدية بعد الموت الذى اس موت کے بعد جو ہر شخص کے لئے مقدر ہے قد قدر لكل رجل.وقال في آخر حیات ابدی کی بشارت دی ہے اور اس آیت کے آخر هذه الآية: إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ میں اُس نے فرمایا ہے کہ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ، فأشار إلى أن دوام الحياة العَظِيم کے اُس نے یہ اشارہ کیا ہے کہ نعمتوں، وعدم الموت مع نعيم وسرور خوشیوں اور مسرتوں سے معمور حیات ابدی اور وحبـور مـن التـفـضـلات العظيمة.عدم موت (اس کے ) عظیم فضلوں میں سے ہے.لے پس کیا ہم مرنے والے نہیں تھے، سوائے ہماری پہلی موت کے.(الصافات: ۵۹، ۶۰) سے یقیناً یہی (ایمان لانے والے کی ) ایک بہت بڑی کامیابی ہے.(الصافات: ۶۱)
حمامة البشرى ۱۶۶ اردو ترجمه اور فإذا تقرر هذا فكيف يتصور | پس جب یہ بات محکم طور پر ثابت ہوگئی تو پھر ويُظَنُّ أن نبيا كمثل عيسى..یہ کیسے تصور اور خیال کیا جا سکتا ہے کہ عیسی مع كونه من المقربين..محروم جیسا نبی مقربین کی صف میں شامل ہونے کے من هذا التفضل العظيم؟ وكيف باوجود اس فضل عظیم سے محروم ہو؟ اور کیسے يُتصَوَّرُ أن الله يُخلف وعده تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ اللہ اپنے وعدے کی ويرده إلى الدنيا و آلامها خلاف ورزی کرے اور اُسے دنیا اور اس کے وآفاتها ومصائبها و شدائدها آلام و آفات اور مصائب و شدائد اور تلخیوں کی ومراراتها، ثم يُميته مرةً ثانية، طرف واپس بھیجے اور پھر اُسے دوبارہ موت سبحانه هذا بهتان عظيم.وما دے.سُبْحَانَ اللہ یہ بہتان عظیم ہے.كان لأحد أن يعود لمثله اور کوئی شخص جو مومن ہو اُس کے یہ شایان شان بعدما اطلع على خطئه إن نہیں کہ وہ غلطی پر اطلاع پانے کے بعد بھی اُس كان من المؤمنين.کا اِعادہ کرے.وإن الأنبياء لا يُنقلون من اور انبیاء اس دنیا سے دارالآخرت کی طرف هذه الدنيا إلى دار الآخرة إلا بعد منتقل نہیں کئے جاتے مگر اُن پیغامات کی تکمیل تکمیل رسالات قد أُرسلوا کے بعد جن کی تبلیغ کے لئے وہ مبعوث کئے لتبليغها، ولكلّ بُرهةٍ من الزمان جاتے ہیں اور ہر زمانے کو (اپنے وقت کے ) نبی مناسبة بوجود نبی، فيُرسل کے وجود سے مناسبت ہوتی ہے.اس لئے ہر نبی كل نبي برعاية المناسبات اُسی مناسبت کی رعایت سے بھیجا جاتا ہے اور وإلى هذا إشارة في قوله تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ میں اسی طرف اشارہ ہے.لے بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتم ہے.(الاحزاب: ۴۱ )
حمامة البشرى ۱۶۷ اردو ترجمه فلو لم یکن لرسولنا صلی الله علیه پس اگر ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور وسلم وكتاب الله القرآن مناسبة كتاب اللهہ قرآن کو سب آئندہ زمانوں اور ان میں لجميع الأزمنة الآتية وأهلها رہنے والوں سے بلحاظ علاج معالجہ مناسبت نہ ہوتی علاجًا ومداواة..لما أُرسل ذلك تويه عظيم نبی کریم ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) النبي العظيم الكريم لإصلاحهم اُن کے علاج اور اصلاح کے لئے قیامت کے دن ومداواتهم للدوام إلى يوم القيامة.تک کے لئے مبعوث نہ کئے جاتے پس ہمیں فلا حاجة لنا إلى نبى بعد محمد محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت علیه و سلم ، وقد أحاطت نہیں.کیونکہ آپ کی برکات تمام زمانوں پر محیط بركاته كل أزمنة، وفيوضه واردةً ہیں.اور آپ کے فیوض تمام اولیاء، اقطاب على قلوب الأولياء والأقطاب اور محدثین کے قلوب پر وارد ہوتے ہیں بلکہ تمام مخلوق والمحدثین، بل علی الخلق كلهم پر بھی اگر چہ انہیں اس بات کا علم نہ ہو کہ یہ فیضان وإن لم يعلموا أنها فائضة منه، فله حضور ﷺ ہی کی طرف سے جاری ہیں.پس یہ صلی المنة العظمى على الناس أجمعين.آپ کا تمام لوگوں پر احسانِ عظیم ہے.والذين كثر عليهم فيضان اور وہ لوگ جن پر اس رسول اُمی نبی کے العلوم والمعارف من هذا النبي علوم اور معارف کا فراوانی سے فیضان ہوا الرسول الأمى، فمنهم قوم توجهوا ہے تو ان میں سے کچھ لوگوں نے تو کتاب اللہ إلى كتاب الله والتدبر فيه اور اُس میں تدبر اور اُس کے دقائق سے استنباط و استنباط دقائقه، وقوم آخرون کی جانب توجہ کی ہے.اور کچھ دوسرے لوگ كانت همتهم أخذ العلوم من الله ہیں جن کی تگ و دو اللہ تبارک و تعالیٰ سے علوم تبارك وتعالى، فهم الحکماء کے حصول میں رہی.تو اصل میں یہی لوگ المحدثون أهل الحكمة الربانية.دانش مند، محدث اور ربانی حکمت کے وارث ہیں
حمامة البشرى ۱۶۸ اردو ترجمه وكل يأخذون من تلك العين اور سب اسی مبارک چشمہ سے لیتے ہیں اور اری المباركة، ويُرَبون من فيوضه إلى تا روز قيامت اس کے فیوض سے پرورش پاتے.خوه يوم الدين وإلى هذا أشار الله عزّ رہیں گے.اور اسی کی جانب اللہ عز و جل نے اپنے و جلّ في قوله وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا قول وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ میں يَلْحَقُوا بِهِمُ یعنی يُزگی النبی اشارہ فرمایا ہے.یعنی نبی کریم اپنی امت کے الكريم آخرين من أمته بتوجهاته آخرین کا اپنی باطنی تو جہات کے ذریعہ اُسی طرح الباطنية كما كان يُزگی صحابته، تزکیہ کریں گے جیسے آپ صحابہ کا تزکیہ فرمایا کرتے فتفكر في هذه الآية واستعذ باللہ تھے.پس تو اس آیت پر غور کر اور ہر جلد باز کے شر من شر كل مستعجل ولو کان سے اللہ کی پناہ مانگ خواہ اُس (جلد باز ) کو تیرے عندك له كرامة وعزازة أو كان ہاں کتنی ہی عزت و توقیر حاصل ہو یا وہ تیرے بہت من عشيرتك الأقربين.ولن تجد ہی قریبی رشتہ داروں میں سے ہو.اور تو زمین میں في الأرض أحدا من الصالحين أن کوئی ایسا صالح نہیں پائے گا جو مرشد سے جدا ہو يتبدى مرشدًا وما تفوق من كاس جائے اور نبی ﷺ کے جام سے ایک گھونٹ بھی نہ النبي صلى الله علیه و سلم.فدَعُ ہے.اس لئے تو حضور کے سوا کسی اور کی طرف عنك الالتفات إلى غيره نبيًّا كان التفات نہ کر خواہ وہ نبی ہو یا مرسل.اور تجھ پر لازم أو من المرسلين.وعليك ان ہے کہ جو کچھ تجھے کہا گیا ہے اُسے قبول کر.اور تقبل ما قيل، وتتحامي القال قیل و قال سے اجتناب کر اور یہ جان لے کہ والقيل، واعلم أنه خاتم الأنبياء ، آپ خاتم الانبیاء ہیں.اور آپ کے آفتاب ولا يطلع بعد شمسه إلا نجم عالمتاب کے بعد اُن متبعین کے ہی ستارے طلوع التابعين الذين يستفيضون من نورہ ہو سکتے ہیں جو آپ کے نور سے مستفیض ہوں.لے اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اُسے مبعوث کیا ہے ) جو ابھی اُن سے نہیں ملے.(الجمعة: ۴)
حمامة البشرى ۱۶۹ اردو ترجمه هو منبع الأنوار، وكاد يحل نوره آپ منبع انوار ہیں اور قریب ہے کہ آپ کا نورمنکر قوم کے آنگن میں اُتر آئے.بساحة قوم منكرين.ثم نرجع إلـى كـلـمـاتنا الأولى اب ہم پھر اپنے پہلے کلام کی طرف لوٹتے ہیں (۵۰) ونقول إن الآية التي ذكرناها آنها.اور کہتے ہیں کہ جس آیت کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے.أعنى قوله تعالى "إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى" یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمانِ إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى - قد استدل بها الخليفة الأوّل جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے أبو بكر الصديق رضى الله عنه إذا وفات پائی اور لوگوں نے آپ کی وفات کے توفي رسول اللہ صلی اللہ علیہ بارے میں اختلاف کیا تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر وسلم واختلف الناس في وفاته، صدیق نے اس آیت سے استدلال فرمایا.اور وقال عمر ما مات رسول اللہ صلی حضرت عمرؓ نے یہاں تک فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ الله عليه وسلم بموت حقيقى، بل عليه وسلم حقیقی طور پر فوت نہیں ہوئے بلکہ آپ دوبارہ يأتي مرة ثانية في الدنيا ويقطع دنیا میں تشریف لائیں گے اور منافقوں کے ناک أنوف المنافقين وأيديهم و آذانهم، اور ان کے ہاتھ اور کان کاٹیں گے.اس پر حضرت فأنكره الصديق ومنعه من ذلك، ابوبکر صدیق نے انہیں اس بات سے روکا اور منع ثم بادر إلى بيت عائشة رضى اللہ فرمایا.پھر آپ تیزی سے حضرت عائشہ کے گھر عنها وأتى رسول الله صلى الله تشریف لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عليه وسلم، و كان ميتا على نعش مبارک کے پاس گئے جو بستر پر تھی پھر آپ نے الفراش، فنزع عن وجهه الرداء حضور ﷺ کے چہرے سے چادر ہٹائی اور آپ کو وقبله وبكي، وقال: إنك چوما، رو پڑے اور فرمایا ” آپ زندہ ہونے اور وفات پا طيب حيا وميتا، لن يجمع الله جانے دونوں حالتوں) میں پاکیزہ ہیں.اللہ آپ پر عليك الموتين إلا موتتك الأولى.آپ کی پہلی موت کے سوا دو موتیں جمع نہیں کرے گا.“ الله
حمامة البشرى ۱۷۰ اردو ترجمه فرد بذلك القول قول عمر اس طرح آپ نے اس قول کے ساتھ عمر وكان مأخذ قوله قوله تعالى إلَّا کے قول کی تردید فرما دی اور آپ کے قول مَوْتَتَنَا الأولى.وكانت لأبى كا ماخذ الله تعالیٰ کی آیت إِلَّا مَوْتَتَنَا بکر رضی الله عنه مناسبة عجيبة الأولىی ہی تھی.اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بدقائق القرآن و رموزه و اسراره کوقرآنی دقائق اور اُس کے رموز و اسرار و ومعارفه، وكان له ملكة كاملة في معارف سے ایک عجیب مناسبت تھی اور آپ استنباط المسائل من القرآن کو قرآن کریم سے مسائل کے استنباط میں کامل الكريم، فلذلك هُدِى قلبه إلى ملکہ حاصل تھا.پس اسی وجہ سے آپ کے دل الحق وفهم أن الرجوع إلى الدنيا كى حق کی طرف رہنمائی کی گئی.اور آ موتة ثانية، وهي لا يجوز على سمجھ گئے کہ دنیا کی طرف واپسی دوسری أهل الجنة بدليل قوله تعالی موت ہے اور یہ جنتیوں کے لئے جائز نہیں اور حكاية عن أهلها " إِلَّا مَوْتَتَنَا دلیل اس کی اللہ کا وہ قول ہے جو اُس نے الأولى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِيْنَ» جنتوں کے منہ سے إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأَوْلَى وَمَا فإن رجوع أهل الجنة إلى نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ " کہلوایا.کیونکہ اہل جنت الدنيـا ثــم مــوتهم و ورود آلام کا دنیا کی طرف لوٹنا، پھر اُن کا مرنا اور جان کنی السكرات والأمراض عليهم نوع اور بیماریوں کی تکالیف کا ان پر وارد ہونا یہ ایک قسم من التعذيب، وقد نجی الله اياهم کا عذاب ہے.جبکہ اللہ نے انہیں ہر عذاب سے من كـل عـذاب، و آواهـم عـنـده نجات دی ہے اور انہیں اُن کے دارالآخرت کی بإعطاء كل حبور وسرور من طرف منتقل کرنے کے دن سے ہی ہر آسائش و يوم انتقالهم إلى الدار الآخرة سرور عطا کر کے اپنے حضور پناہ دی ہے.لے سوائے ہماری پہلی موت کے اور ہمیں ہر گز عذاب نہیں دیا جائے گا.(الصافات: ۶۰)
حمامة البشرى اردو ترجمه فكيف يمكن أن يرجعوا إلى دار پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دوبارہ دکھوں کے گھر کی التعذيبات مرة ثانية فهذا معنی قول طرف لوٹیں.پس جنتیوں کے قول وَمَا نَحْنُ أهل الجنة «وَمَا نَحْنُ مُعَذِّبِينَ مُعَذِّبِينَ کے یہ معنی ہیں.فحاصل الكلام..أن أبا بكر الصديق خلاصہ کلام یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اس رد بهذه الآية قول عمر رضی الله آیت کے ساتھ حضرت عمرؓ کے قول کی تردید عنه.ثم ما اكتفى على ذلك بل فرمائی.پھر اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ نے قصد المسجد وانطلق معه رهط من مسجد کا رخ کیا اور صحابہ کی ایک جماعت آپ کے الصحابة، فجاء وصعد المنبر، وجمع ساتھ گئی.تب آپ آئے اور ممبر پھر کھڑے ہوئے حوله كل من كان موجودا من أصحاب اور آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ان تمام صحابہ کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ثم موجود تھے اپنے گرد جمع کر لیا.پھر آپ نے اللہ کی أثنى على الله وصلی علی رسولہ ثناء کی اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود صلى الله عليه وسلم وقال: أيها بھیجا اور فرمایا: اے لوگو! جان لو کہ رسول اللہ صلی الناس..اعلموا أن رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں.پس جو کوئی محمد صلی الله عليه وسلم قد تُوفّى، فمن كان اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے تو اُسے یہ جان يعبد محمدا الا بالله فليعلم أنه قد لینا چاہئے کہ آپ وفات پاگئے ہیں.اور جو اللہ کی مات، ومن كان يعبد الله فإنه حتى لا عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے اور اُس پر موت يموت، ثم قرأ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول نہیں آئے گی.پھر آپ نے وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَايِنَ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِن ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمُ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ پڑھا.لے حضرت محمد علیہ محض ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں پس کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کئے گئے تو تم دین اسلام کو چھوڑ دو گے.(ال عمران: ۱۴۵)
حمامة البشرى ۱۷۲ اردو ترجمه فاستدل بهذه الآية على موت پھر اس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسول الله صلی الله علیه وسلم وفات پر اس بناء پر استدلال فرمایا کہ تمام انبیاء بناءً على أن الأنبياء كلهم قد ماتوا وفات پاگئے ہیں.جب صحابہ نے (حضرت فلما سمع الصحابة قول الصديق ابوبكر صديق رضی اللہ عنہ کا یہ قول سنا تو کسی ایک رضى الله عنه ما رد أحد على قوله صحابی نے بھی آپ کے اس قول کی تردید نہ کی وما قال أحد له: أيها الرجل.إنك اور نہ ہی کسی نے یہ کہا کہ اے شخص! تو نے جھوٹ كذبت أو أخطأت في استدلالك بولا ہے یا تو نے اپنے استدلال میں غلطی کی ہے.أو ذكرت استدلالا ناقصا وما یا تو نے ناقص استدلال پیش کیا ہے اور تو صائب الرائے لوگوں میں سے نہیں.كنت من المصيبين.فلو كانوا معتقدين بأن عيسى پس اگر وہ اس بات پر اعتقاد رکھنے والے ہوتے حى إلى ذلك الزمان لردّوا کہ عیسی علیہ السلام اب تک زندہ ہیں تو وہ على أبى بكر ، وقالوا كيف (حضرت ابوبکر کی تردید کرتے اور کہتے کہ آپ اس تفهم من هذه الآية موت الأنبياء آیت سے تمام انبیاء کے وفات پانے کا مفہوم کیسے لے كلهم الا تعلم ان عیسی قد رہے ہیں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ عیسی تو آسمان کی رفع إلى السماء حيًّا ويأتي في طرف زندہ اُٹھالئے گئے ہیں اور وہ آخری زمانے آخر الزمان؟ فإذا كان عیسی میں آئیں گے؟ پس جب عیسی دوسری دفعہ دنیا راجعا إلى الدنيا مرة ثانية وأنت میں آنے والے ہیں اور آپ کا اس پر ایمان بھی تؤمن به، فأى حرج ومضايقة ہے تو پھر اس میں کیا حرج اور مضائقہ ہے کہ في أن يأتينا رسولنا صلى الله عليه ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے پاس ه وسلم أيضًا كما زعمه عمر..(دوبارہ) تشریف لائیں جیسا کہ (حضرت) عمر نے الذي يجرى الحق على لسانه، خیال کیا ہے.جن کی زبان پر حق جاری ہوتا ہے
حمامة البشرى ۱۷۳ اردو ترجمه وله شأن عظیم فی الرأى الصائب، اور جنہیں صائب رائے ہونے میں عظیم الشان ولـرأيــه مـوافـقة بأحكام القرآن مرتبه حاصل ہے اور جن کی رائے کئی موقعوں پر في مواضع، ومع ذلك هو مُلهم احكام قرآنی کے عین مطابق ہوئی ہے، مزید برآں ومن المحدثين وإن وفاة نبينا یہ کہ وہ لہم اور محدثین میں سے ہیں.اور ہمارے صلى الله عليه و سلم للمسلمين نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بلاشبہ مسلمانوں مصيبة ما أصيبوا بمثله..فلیس کے لئے ایک ایسی مصیبت تھی کہ اُس جیسی مصیبت من العجب أن يرجع نبينا صلي ان پر کبھی نہیں ٹوٹی.پس جائے تعجب نہیں کہ ہمارے الله عليه وسلم إلى الدنيا، نبی صلی اللہ علیہ سلم دنیا میں واپس لوٹیں.بلکہ آپ بل رجوعه إلى الدنيا أحق کا واپس لوٹنا تو مسیح کے واپس لوٹنے سے کہیں زیادہ وأولى وأنفع من رجوع المسيح ،درست ، مناسب اور مفید اور منفعت بخش وحاجة المسلمين إلى وجودہ اور آپ کے وجو د مبارک کی ضرورت مسلمانوں المبارك أشد وأزيد من حاجتهم كو مسیح کے وجود کی ضرورت سے کہیں شدید اور إلى وجود المسيح.لكنهم ما زیادہ ہے.لیکن انہوں نے ان الفاظ میں حضرت ردوا على الصديق بهذه الكلمات ابوبکر صدیق کی تردید نہیں کی.بلکہ وہ سب خاموش بل سكتوا كلهم ونبذوا من أيديهم ہو گئے.اور انہوں نے اپنے ہاتھ میں سے انکار سهام الإنكار، وقبلوا قوله، کے تیر پھینک دیئے اور آپ کی بات قبول کی اور وبكوا وقالوا إنا لله وإنا إليه رو پڑے اور ” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون “ کہا اور راجعون.ونظروا إلى موت الأنبياء و تمام انبیاء کی وفات پر تدبر کرتے ہوئے اس كلهم واطمأنوا بها، فإنهم بات سے سے مطمئن ہو گئے کہ وہ سب وفات پاچکے ہے.ماتوا كلهم وما كان أحد منهم ہیں اور اُن میں سے کوئی ایک بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے.من الخالدين.
حمامة البشرى ۱۷۴ اردو ترجمه وإذا ثبت أن رجوع أهل الجنة اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ جنتیوں کا اور اُن والذين قعدوا عند مليك مقتدر لوگوں کا جو مليك مقتدر (خدا) کے پاس مسرت بحبور وسرور ممنوع، وخروجهم اور سرور کے ساتھ بیٹھے ہیں ( دنیا میں ) لوٹنا ممنوع من نعيمهم ولذاتهم يُخالف وعد ہے اور اُن کا اپنی نعمتوں اور لذتوں سے باہر نکلنا الله، فكيف يجوز العاقل المؤمن اللہ کے وعدہ کے خلاف ہے تو پھر ایک صاحب أن المسيح عليه السلام محروم | عقل مومن یہ کیسے جائز قرار دے سکتا ہے کہ مسیح من هذا الفوز العظيم، ولكل عليه السلام اس عظیم کامیابی سے محروم ہیں اور ہر بشر موت وله موتان؟ أليس هذا بشر کے لئے تو ایک موت ہے اور اُس کے لئے مما يخالف نصوص القرآن؟ دو موتیں.کیا یہ عقیدہ قرآنی نصوص کے مخالف فتدبِّرُ وسَلِ اللَّهَ يَهَبُ لك فهم نہیں؟ اس لئے سوچ اور اللہ سے دعا کر کہ وہ تجھے المتدبرين.وقد قال الله تعالى في تدبر کرنے والوں جیسا فہم عطا فرمائے.اور اللہ مقاماتٍ أخرى وَمَا هُم مِّنْهَا تعالیٰ نے دوسرے مقامات پر فرمایا ہے کہ : وما بِمُخْرَجِينَ وقال: فَيُمْسِكُ هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ اور فرمایا کہ: فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ ، وقال : الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ نیز فرمایا کہ : حَرام حَرُم عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ " يَرْجِعُونَ.فانظر أيها العزيز اكيف نترك پس اے عزیز! سوچ ، ہم اس واضح صداقت کو هذا الحق الصريح بناءً على خیالات محض کمزور خیالات اور فاسد گمانوں کی بناء پر کیسے واهية و تحكمات فاسدة فتفکرُ ترک کردیں.پس سوچ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر، واتق الله، إن الله يحب المتقين.کیونکہ اللہ تعالیٰ تقویٰ شعار لوگوں کو پسند فرماتا ہے.لے اور نہ وہ ان (جنتوں) سے کبھی نکالے جائیں گے.(الحجر:۴۹) سے پس جس روح کے متعلق اُس نے موت کا فیصلہ کر لیا ہو وہ اُسے روک لیتا ہے.(الزمر : ۴۳) قطعا لا زم ہے کسی بہتی کے لئے جسے ہم نے ہلاک کر دیا ہو کہ وہ لوگ پھر لوٹ کر نہیں آئیں گے.(الانبیاء:۹۶)
حمامة البشرى ۱۷۵ اردو ترجمه وربما يختلج في قلبك أن رجوع | شاید تیرے دل میں یہ کھٹکے کہ جنت میں داخل الموتى إلى الدنيا بعد دخولهم في الجنة ہونے کے بعد تو مُردوں کا دنیا کی طرف لوٹنا ممنوع ممنوع، ولكن أى حرج في رجوع كان ہے.لیکن جنت میں داخل ہونے سے پہلے اُن کے قبل دخول الجنة فاعلم أن آیات لوٹنے میں کیا حرج ہے.پس تو جان لے کہ قرآن کی القرآن كلها تدل على أن الميت لا جملہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مُردہ قطعاً يرجع إلى الدنيا أصلا، سواء كان في دنیا کی طرف نہیں لوٹے گا.خواہ وہ جنت میں ہو یا الجنة أو في جهنم أو خارجا منهما، وقد جہنم میں یا ان دونوں سے باہر.اور ہم نے ابھی قرأنا عليك آنها آية فَيُمْسِكُ تمہارے سامنے آیت فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ.و أَنَّهُمْ عَلَيْهَا الْمَوْتَ اور أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ کے پڑھی لا يَرْجِعُونَ.ولا شك أن هذه الآيات ہے.اور اس میں شک نہیں کہ یہ آیات بالصراحت تدل بدلالة صريحة على أن الذاهبين اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس دنیا سے جانے من هذه الدنيا لا يرجعون إليها أبدا والے اس کی طرف کبھی بھی حقیقی طور پر واپس نہیں بالرجوع الحقيقي.وأعنى من الرجوع آئیں گے.حقیقی واپسی سے میری مراد مُردوں کا اپنی الحقيقى رجوع الموتى إلى الدنيا بجميع تمام خواہشات اور اُن کے لوازمات کے ساتھ اور شهواتها ولوازمها، ومع كسب الأعمال بُرے بھلے اعمال کرنے اور اپنے کمائے ہوئے من خير وشر، ومع استحقاق الأجر على اعمال پر اجر کے استحقاق کے ساتھ واپس آنا ہے.ما كسبوا، ومع ذلك أعنى من الرجوع مزید برآں اس حقیقی واپسی سے میری مراد مر دوں الحقيقى لحوق الموتى بالذين فارقوهم کا اُن لوگوں سے ملنا ہے جنہیں وہ چھوڑ کر چلے من الآباء والأبناء والإخوان والأزواج گئے.یعنی باپ دادے، بیٹے، بھائی، بیویاں اور شوہر والعشيرة الذين هم موجودون فی الدنیا، اور خاندان کے وہ تمام افراد جو دنیا میں موجود ہیں.ے پس جس روح کے متعلق اُس نے موت کا فیصلہ کر لیا ہو وہ اُسے روک لیتا ہے.(الزمر:۴۳) ہے کہ وہ لوگ پھر لوٹ کر نہیں آئیں گے.(الانبیاء:۹۶)
حمامة البشرى ۱۷۶ اردو ترجمه وكذلك رجوعهم إلى أموالهم التي اور اسى طرح اُن کا اپنے اموال کی طرف جو اُنہوں كانوا اقترفواها، ومساكنهم التي نے کمائے اور اُن گھروں کی طرف جو اُنہوں نے كانوا بنوها، وزروعهم التي كانوا تعمیر کئے اور اُن کھیتیوں کی طرف جو اُنہوں نے زرعوها، وخزائنهم التي كانوا جمعوها.بوئیں اور اُن خزانوں کی طرف جو اُنہوں نے جمع کئے رجوع مراد ہے.پھر حقیقی رجوع کی شرائط میں ثم من شرائط الرجوع الحقيقى أن یہ بھی داخل ہے کہ وہ دنیا میں ویسے ہی زندگی بسر يعيشوا في الدنيا كما كانوا يعيشون کریں جیسے وہ پہلے بسر کیا کرتے تھے.اور اگر وہ من قبل، ويتزوجوا إن كانوا إلى شادی کے ضرورتمند ہیں تو شادی بھی کریں.نیز یہ کہ اگر وہ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائیں النكاح محتاجين، وأن يؤمنوا بالله ورسوله فيُقبل إيمانهم ولا يُنظر تو اُن کا ایمان قبول کر لیا جائے اور اُن کے اُس إلى كفرهم الذي ماتوا عليه، بل کفر کی طرف توجہ نہ کی جائے جس پر ان کی ينفعهم إيمانهم بعد رجوعهم إلى وفات ہوئی.بلکہ دنیا میں واپس آجانے اور مومن الدنيا وكونهم من المؤمنين.ولكنا بن جانے کے بعد اُن کا ایمان انہیں نفع لانجد في القرآن شيئا من دے لیکن ہم ان وعدوں میں سے کوئی بھی هذه المواعيد، ولاسورةً ذكرت قرآن میں نہیں پاتے اور نہ کوئی ایسی سورت ہی فيها هذه المسائل، بل نجد ما موجود پاتے ہیں جس میں ان مسائل کا ذکر کیا يخالفه كما قال الله تعالى إِنَّ گیا ہو.بلکہ اس کے برعکس پاتے ہیں.جیسا کہ (۵۲) الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَمَا تُوْا وَهُمْ كُفَّارُ الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا أو ليك عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَكَةِ وَمَا تُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَيْكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَلِدِينَ فِيهَا.وَالْمَلَكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَلِدِينَ فِيهَا 山 لے یقینا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے.یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی.اس لعنت میں وہ ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے ہوں گے.(البقرۃ:۱۶۳۱۶۲)
حمامة البشرى ۱۷۷ اردو ترجمه يخفى على المتفقهين.فانظر كيف وعد الله للكافرين لعنة پس غور کر کہ اللہ نے کس طرح کافروں کے لئے أبدية، فلو رجعوا إلى الدنيا وآمنوا ابدى لعنت کا وعدہ فرمایا ہے.جیسا کہ اس آیت کا بكتبه ورسله لوجب أن لا يُقبل صحیح منطوق ہے، پھر اگر وہ دنیا کی طرف لوٹیں اور عنهم إيمانهم، ولا يُنزع عنهم الله کی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لائیں تو لازم اللعنة الموعودة إلى الأبد كما هو ہے کہ اُن سے اُن کا ایمان قبول نہ کیا جائے اور منطوق الآية.وأنت تعلم أن هذا ابدالآباد تک وہ موعودہ لعنت اُن سے ہٹائی نہ الأمر يخالف هدايات القرآن كما لا جائے.اور تو جانتا ہے کہ یہ بات قرآنی ارشادات کے خلاف ہے.جیسا کہ اہل فہم پر مخفی نہیں.وأما إحياء الموتى من دون هذه ہاں البتہ مُردوں کا اُن لوازم کے بغیر جن کا ہم اللوازم التي ذكرناها، أو إماتة نے ذکر کیا ہے زندہ ہونا یا زندوں کا ایک گھڑی بھر الأحياء لساعة واحدة ثم إحياؤهم کے لئے مار دینا اور پھر اُن کا بلا توقف زندہ کیا جانا من غير توقف كما نجد بيانه فی جیسا کہ ہم قرآن کریم کے واقعات میں اُن کا بیان قصص القرآن الكريم فهو أمر پاتے ہیں تو وہ ایک الگ بات ہے اور اللہ تعالیٰ آخر، وسر من أسرار اللہ تعالی کے اسرار میں سے ایک بستر ہے اور اس میں نہ تو حقیقی ولا توجد فيه آثار الحياة الحقیقی زندگی کے آثار اور نہ ہی حقیقی موت کی علامات پائی ولا علامات الموت الحقیقی، بل جاتی ہیں.بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے هو من آيات الله تعالى و إعجازات اور اُس کے بعض انبیاء کے معجزات میں سے ہے.بعض أنبيائه، نؤمن به وإن لم نعلم ہمارا اس پر ایمان ہے اگر چہ ہم اس کی حقیقت سے حقيقته، ولكنا لا نسميه إحياء نا واقف ہیں لیکن ہم اس کا نام نہ تو حقیقی زندگی حقيقيًا ولا إماتة حقيقية.فإن رجلا رکھتے ہیں اور نہ ہی حقیقی موت.مثلاً اگر ایک شخص مثلا أُحيي بعد ألف سنة باعجاز نبی کسی نبی کے معجزہ سے ایک ہزار سال بعد زندہ ہو
حمامة البشرى ۱۷۸ اردو ترجمه أُميت بلا توقف، وما رجع إلى پھر اسے بلا توقف مار دیا جائے اور وہ اپنے گھر واپس بيته، وما عاد إلى أهله وإلى نہ آئے اور نہ ہی اپنے اہل وعیال کی طرف اور دنیاوی شهوات الدنيا و لذاتها، وما كان له خواہشات اور لذات کی جانب لوٹے.اور اُسے یہ خِيَرةٌ مِن أن تُرَدَّ إليه زوجه وأمواله اختيار حاصل نہ ہو کہ اُس کی بیوی اور اُس کے اموال وكل ما ملكت يمينه من ورثاء اور اس کی مملوکہ تمام اشیاء دوسرے ورثاء سے لے کر آخرين، بل ما مَسَّ شيئا منها ومات اُسے لوٹائی جائیں بلکہ اُس نے ان (مذکورہ) چیزوں بلا مكث ولحق بالميتين، فلا میں سے کسی ایک چیز کو چھوا تک نہ ہو اور وہ بلا تو قف نسمى مثل هذه الإحياء إحياء مر گیا ہو اور مُردوں سے جاملا ہو تو ہم ایسے زندہ ہونے حقيقيا، بل نسميه آية من آيات كا نام حقیقی احیاء نہیں رکھ سکتے.بلکہ ہم اسے اللہ تعالیٰ الله تعالى ونفوض حقیقته إلى کے نشانات میں سے ایک نشان کہیں گے اور اس کی حقیقت رب العالمین کے سپرد کر دیں گے.ولا شك أن إحياء الموتى اور بے شک مُردوں کا زندہ کرنا اور انہیں دنیا وإرسالهم إلى الدنيـا يـقـلـب کی طرف بھیجنا کتاب اللہ کو الٹا کے رکھ دے گا كتاب الله بل يُثبت أنه ناقص بلکہ یہ ثابت کرے گا کہ وہ ناقص ہے، اور لوگوں کے دین و دنیا کے لئے بے حد موجب فتنہ ہوگا اور ويوجب فتنا كثيرة في دين الناس فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ دین کا فتنہ ہوتا ہے.مثلاً ایک عورت نے ایک خاوند سے نکاح کیا ربّ العالمين.ودنياهم، وأكبرها فتن الدين.مثلا كانت امرأة نكحث زوجا اور وہ مر گیا.پھر اُس نے ایک دوسرے خاوند فتوقي، فنکحت زوجا آخر سے شادی کر لی ،مگر وہ بھی وفات پا گیا.پھر اُس فتوقي، فنكحت ثالثا فتُوفَّی نے تیسرے سے شادی کی اور وہ بھی چل بسا.فأحياهم الله تعالی فی وقت واحد، پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو بیک وقت زندہ کر دیا
حمامة البشرى 129 اردو ترجمه فاختصموا فيها بعولتها، وادعى اور وہ خاوند اس (عورت) کے بارے میں جھگڑنے لگے كل واحد منهم أنها زوجته ، فمَن اور اُن میں سے ہر ایک نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اُس کی أحق منهم في كتاب الله الذی بیوی ہے.تو کتاب اللہ جو اپنے احکام اور حدود میں أكمل أحكامه وحدوده؟ وكيف اکمل ہے اُس کی رو سے ان میں سے کون اس عورت يحكم فيهم القاضي؟ وكيف کا زیادہ حقدار ہوگا قاضی اُن کے مابین کیسے فیصلہ يحكم في أموالهم وأملاكهم کرے گا اور اُن کے اموال ، ان کی املاک اور و بيوتهم من كتاب الله أتؤخذ من گھروں کے متعلق کتاب اللہ سے کیسے فیصلہ کرے الورثاء وترد إلى الموتی الذین گا؟ کیا یہ ورثاء سے واپس لے کر اُن مُردوں کو صاروا من الأحياء بينوا توجروا، واپس کر دیئے جائیں گے جوزندہ ہو گئے ؟ اگر تم اللہ إن كنتم على قول الله ورسوله کے فرمان اور اُس کے رسول کے ارشاد سے پوری واقفیت رکھتے ہو تو وضاحت کرو، اجر پاؤ گے.وكذلك الإماتة التي كانت لساعة اور اسی طرح وہ موت جو گھڑی دوگھڑی کی ہو اور أو ساعتين ثم أُحْيى الميت، فليست پھر مُرده زندهہ کر دیا جائے تو ایسی موت حقیقی موت نہیں إماتة حقيقية بل آية من آيات الله ہوگی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نشانات میں سے ایک تعالى، ولا يعلم حقيقته إلا هو.وأنت نشان ہوگا.اور اس کی حقیقت بجز اُس اللہ کے کوئی تعلم أن الله ما وعد بحشر الموتی اور نہیں جانتا.اور تو جانتا ہے کہ مردوں کو زندہ کرنے في القرآن إلا وعدا واحدا وهو كے متعلق قرآن میں اللہ کا صرف ایک ہی وعدہ ہے الذي يظهر عند يوم القيامة، وأخبر جو روز قیامت ظاہر ہوگا.اور اُس نے قیامت کے عن عدم رجوع الموتى قبل يوم دن سے پہلے مُردوں کے واپس نہ لوٹنے کی خبر دی القيامة، فنحن نؤمن بما أخبر وننزہ ہے.اس لئے ہم اس خبر پر ایمان لاتے ہیں اور القرآن عن الاختلافات و التناقضات قرآن کو اختلافات اور تناقضات سے منزہ سمجھتے ہیں مطلعين.
حمامة البشرى ۱۸۰ اردو ترجمه ونؤمن بآية فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى | اور آیت فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ، ونؤمن بآية وَ مَا عَلَيْهَا الْمَوْتَ اور آیت وَ مَا هُمْ مِّنْهَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ.بِمُخْرَجِيْنَ کے پر ایمان لاتے ہیں.وإنا لا نقول أن أهل الجنة اور ہم یہ نہیں کہتے کہ جنتی، دار الآخرت کی طرف بعد انتقالهم إلى دار الآخرة منتقل ہونے کے بعد جنت سے کہیں دور جگہ پر يحبسون في مكان بعيد من الجنة تا روز قيامت محبوس کر دیئے جاتے ہیں اور یہ کہ إلى يوم القيامة، ولا يدخل الجنة قیامت سے پہلے صرف شہید لوگ ہی جنت میں قبل القيامة إلَّا الشهداء ، كلا داخل ہوں گے، نہیں ایسا ہرگز نہیں.بلکہ ہمارے بل الأنبياء عندنا أوّل الداخلين نزدیک انبیاء سب سے پہلے داخل ہونے والے أيظن المؤمن الذي يُحب الله ہوں گے.کیا ایسا مومن جو اللہ اور اس کے رسول (۵۳) ورسوله أن النبيين والصديقين سے محبت رکھتا ہے وہ ایسا گمان کر سکتا ہے کہ نبی اور يُبعدون عن الجنة إلى يوم البعث صديق تالیوم البعث جنت سے دور رکھے جائیں ولا يجدون منها رائحة، وأما گے اور اُس کی خوشبو تک نہ پاسکیں گے اور صرف الشهداء فيدخلونها من غير مکث شہید ہی بلا توقف ابدالآباد تک رہنے کے لئے جنت میں داخل ہوں گے.خالدين فاعلم يا أخى أن هذه العقيدة رديئة پس اے میرے بھائی! جان لے کہ یہ عقیدہ رڈی، فاسدة، ومملوءة من سوء الأدب فاسد اور بے ادبی سے پُر ہے.کیا تو نے فرمودہ أما قرأت ما قال رسول الله صلى الله رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں پڑھا کہ ”جنت میری عليه وسلم إن الجنة تحت قبرى وقال قبر کے نیچے ہے.نیز آپ نے فرمایا کہ ” مومن إن قبر المؤمن روضة من روضات الجنة کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے.“ ے جس روح کے متعلق اُس نے موت کا فیصلہ کر لیا ہو وہ اُسے روک لیتا ہے.(الزمر: ۴۳) ے اور نہ وہ ان ( جنتوں) سے کبھی نکالے جائیں گے.(الحجر: ۴۹)
حمامة البشرى ۱۸۱ اردو ترجمه وقال عز وجل في كتابه المحكم يانيتها اور الله عز و جل نے اپنی محکم کتاب (قرآن) النَّفْسُ الْمُظَمَينَةُ ارْجِعِى إلى میں فرمایا ہے کہ يَآيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَجِنَّةُ - رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ.فَادْخُلِي فِي ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي.وقال في فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِی نیز دوسری جگہ مقام آخر: قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ.فرمایا قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ لیے اور اسی طرح اُس وقص علينا قصة رجل مات نے ایک ایسے شخص کا قصہ ہمارے لئے بیان کیا ودخل الجنة، وكان له صاحب فی ہے جو مر گیا تھا اور جنت میں داخل ہو گیا تھا اور الدنيا فاسق، فمات صاحبه أيضًا دنیا میں اُس کا ایک فاسق دوست تھا اور وہ دوست ودخل النار، فذكر الذي دخل بھی مر گیا اور دوزخ میں داخل ہو گیا.تو جنت الجنة قصة صاحبه عند أصحاب میں داخل ہونے والے شخص نے اپنے ساتھی کا الجنة و قَالَ هَلْ اَنْتُم مُّطَّلِعُونَ.قصہ جنتیوں کے پاس بیان کیا اور قَالَ هَلْ أَنْتُمْ فَاطَّلَعَ فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ مُّطَّلِعُوْنَ - فَاطَّلَعَ فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ - قَالَ تَاللهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ.وَلَوْلَا قَالَ تَاللهِ اِنْ كنتَ لَتُرْدِينِ.وَلَوْلَا نِعْمَةُ نِعْمَةُ رَبِّى لَكُنتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ.رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ وأنت تعلم أن هذه القصة تدلّ اور تو جانتا ہے کہ یہ قصہ بالصراحت اس امر بدلالة صريحة على أن المؤمنين پر دلالت کرتا ہے کہ مومن اپنی موت کے يدخلون الجنة بعد موتهم من غير مكث بعد بلا توقف جنت میں داخل ہوں گے.لے اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف لوٹ جا، راضی رہتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے.پس میرے بندوں میں داخل ہو جا.اور میری جنت میں داخل ہو جا.(الفجر: ۲۸ تا ۳۱) (اسے) کہا گیا کہ جنت میں داخل ہو جا.(یاس: ۲۷) سے کہا کہ کیا تم جھانکو گے.پھر اُس نے خود دوزخ میں جھانکا تو اُس نے (اپنے اُس ساتھی کو ) دوزخ میں پڑا دیکھا.تو اُسے کہنے لگا بخدا تو تو مجھے بھی ہلاک کرنے ہی لگا تھا.اور اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں پڑنے والوں میں سے ہوتا.(الصافات: ۵۵ تا ۵۸)
حمامة البشرى ۱۸۲ اردو ترجمه ثم لا يُخرجون منها ويتنعمون فيها پھر وہ اُس سے نکالے نہیں جائیں گے.اور وہ خالـديـن.وكذلك يثبت من أس میں ہمیشہ آرام و آسائش سے رہتے چلے القرآن أن أهل جهنم يدخلونها بعد جائیں گے.اور اسی طرح قرآن سے ثابت ہوتا الموت من غير مکث کمالا ہے کہ دوزخی جہنم میں موت کے بعد بلا توقف يخفى على الذين يتدبرون في آية داخل ہوں گے.جیسا کہ یہ امراُن لوگوں پر مخفی نہیں فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ، وكما جو آيت فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ ے پر غور کرتے قال الله تعالی مِمَّا خَطیم ہیں.نیز جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ مِمَّا اغْرِقُوا فَأَدْخِلُوا نَارًا.وإن كنت خَطِيْتِهِم أُغْرِقُوا فَأَدْخِلُوا نَارًا اور اگر تو حدیث تطلب شاهدًا من الحديث فانظر سے کوئی گواہ چاہتا ہے تو معراج کی احادیث دیکھ.إلى أحاديث الـمـعـراج، فإن کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی النبي صلى الله علیه و سلم رأی رات جہنم کا نظارہ فرمایا اور اسی طرح جنت کو بھی جهنم في ليلة المعراج، وكذلك دیکھا.تو آپ نے جنت میں جنتیوں کو اور رأى الجنة، فرأى فى الجنة أهلها دوزخ میں دوزخیوں کو دیکھا کہ ایک فریق وفي جهنم أهلها فريقًا في النعيم ناز و نعم میں اور دوسرا فریق عذاب دیئے جانے وفريقا من المعذبين.والوں میں سے ہے.وإن قلت إن كتاب الله والأخبار اور اگر تو یہ کہے کہ کتاب اللہ اور اخبار صحیحہ اس الصحيحة شاهدةً على أن البعث بات پر گواہ ہیں کہ دوبارہ اُٹھایا جانا حق ہے اور میزان حق، والميزان حق، وسؤال الله حق ہے اور اللہ کا اپنے بندوں سے باز پرس کرنا عن عباده حق واقع لا شبهة فيه، الیسا حق ہے جو بلاشبہ وقوع پذیر ہونے والا ہے.لے تو اُس نے (اپنے اس ساتھی کو ) دوزخ میں پڑا دیکھا.(الصافات: ۵۶ ) کے وہ اپنی خطاؤں کے سبب غرق کئے گئے پھر آگ میں داخل کئے گئے.(نوح:۲۶)
حمامة البشرى ۱۸۳ اردو ترجمه ثم بعد كل هذه الواقعات یعنی بعد پھر ان تمام واقعات کے بعد یعنی حشر الاجساد، حساب حشر الأجساد والحساب ووزن الأعمال اور اعمال کے وزن کرنے کے بعد جنتی اپنے مقام يدخلون أهل الجنة مقام جنتهم، جنت میں اور دوزخی اپنے دوزخ کے مقام میں داخل ويدخلون أهل النار مقام نارهم، وإن ہوں گے.اور اگر یہ بات حق ہے تو پھر جنتیوں اور كان هذا هو الحق فكيف يمكن دخول دوزخیوں کا اپنے اپنے مقامات میں داخل ہونا کیسے أهل الجنة وأهل جهنم في مقامهم إلا ممکن ہو سکتا ہے جب تک کہ تمام اجساد کا حشر بعد حشر الأجساد ووزن الأعمال اور تمام اعمال کاوزن وغیرہ نہ ہو جائے جیسا کہ وغيرها كما تقرّر في عقائد المسلمین مسلمانوں کے عقائد سے ثابت ہے؟ تو ہمارا جواب قلنا لو حملنا ألفاظ تلك الآيات علی یہ ہے کہ اگر ہم ان آیات کے الفاظ کو ان کے ظاہر پر ظواهرها لاختل نظام کتاب الله وما محمول کریں تو کتاب اللہ کا نظام درہم برہم ہو جائے بقی توافق آیات الله، بل وجب فی هذه گا اور اللہ کی آیات میں موافقت باقی نہیں رہے الصورة أن نقر بأن القرآن مملو گی.بلکہ اس صورت میں یہ لازم آئے گا کہ ہم من الاختلافات والتناقضات و بعض اقرار کریں کہ قرآن اختلافات اور تناقضات سے آياته يُعارض بعضا ألا ترى الآيات بھرا پڑا ہے اور اس کی آیات ایک دوسری.التي تدلّ على دخول أهل الجنة معارض ہیں.کیا تو ان آیات کو نہیں دیکھتا جو وأهل جهنم في رياض الخلد و نیران جنتیوں اور دوزخیوں کے خُلد کے باغوں اور بھڑکتی السعير من غير مكث وتوقف فاعلم آگوں میں بلا توقف و تاخیر داخل ہونے پر دلالت أن في هذه الآيات لیست مخالفة کرتی ہیں؟ سو جان لے کہ ان آیات میں کوئی وليس المراد من الحساب ووزن اختلاف نہیں.اور حساب اعمال کے وزن کئے الأعمال وحشر الأجساد أن يخرج جانے اور اجساد کے حشر سے یہ مراد نہیں کہ جنتی اپنی أهل الجنة من جنتهم ومقام عزّتهم جنت اور اپنے عزت کے مقام سے نکالے جائیں،
حمامة البشرى ۱۸۴ اردو ترجمه (۵۴) وأنهم يؤخذون ويُحاسبون لعلهم اور اُن کا مواخذہ اور محاسبہ ہو کہ شاید وہ دوزخی ہیں كانوا من أهل النار، ويُخرج اور دوزخی اپنی دوزخ سے باہر نکالے جائیں اور اُن أهل النار من نارهم ويُنظر فی کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ شاید وہ جنتی أمرهم لعلهم كانوا من أهل الجنة ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو غیب جانتا ہے اور وہ لأن الـلـه تـعـالـى يـعـلـم الغيـب لوگوں کے ایمان اور اُن کے کفر کو اُن کی تخلیق سے بھی پہلے جانتا ہے اور اُس کا علم امور غیبیہ کے ويعلم إيمان الناس وكفرهم ادراک سے عاجز نہیں.بلکہ حساب اور میزان قبل أن يُخلَقوا، ولا يعجز علمه تو صاحب عزت لوگوں کے محاسن کے اظہار عن درك المغيبات، بل الحساب والميزان لإظهار مكارم المكرمين اور مفسدوں کے مفاسد دکھانے کے لئے ہوتے ہیں.اور بلا شبہ اصلاح کرنے والے اور معصیت وإراءة مفاسد المفسدين.ولا کا ارتکاب کرنے والے لوگ مرنے کے بعد شك أن أهل الصلاح وأهل بلا توقف، آنکھ جھپکتے ہی اپنے اعمال کا پھل دیکھ المعصية يرون ثمرات أعمالهم لیں گے.اور اُن کی جنت اور اُن کی دوزخ بعد الموت بغير مكث طرفة عين، جہاں بھی وہ ہوں گے اُن کے ساتھ ہوگی اور وہ وجنتهم ونارهم معهم حيثما كانوا، دونوں کسی وقت بھی اُن سے جدا نہیں ہوں گی.ولا تفارقانهما في آن.ألا تنظر إلى كيا تیری نگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ما قال رسول الله صلى الله فرمان کی طرف نہیں گئی کہ قبر جنت کے باغوں عليه وسلم إن القبر روضة من میں سے ایک باغ ہے یا آگ کے گڑھوں میں روضات الجنة أو حفرة من حفر النار، سے ایک گڑھا ہے.اور میت کو کبھی دفن کیا جاتا والميت قد يدفن وقد يُحرق وقد ہے، کبھی جلا دیا جاتا ہے، کبھی بھیٹر یا اُسے کھا جاتا ياكله الذئب وقد يغرق في البحر، ہے اور کبھی اُسے سمندر میں غرق کر دیا جاتا ہے
حمامة البشرى ۱۸۵ اردو ترجمه وفي كل صورة لا يفارقه روضة اور ہر صورت میں اُس کی جنت کا باغ یا اُس کی جنته أو حفره ناره.وقد ثبت آگ کا گڑھا اُس سے علیحدہ نہیں ہوتا.اور یہ بات أن كل مؤمن و کافر یعطی یقینی طور پر ثابت ہے کہ ہر مومن اور کافر کو اُس کی من جسم بعد موته، ويوضع موت کے بعد ایک جسم دیا جاتا ہے اور اُس کی جنته أو جهنمه في قبره، ثم إذا جنت یا اُس کا جہنم اُس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے.یا جاتا كان يوم القيامة فيبعث كل پھر جب روز قیامت ہوگا تو ہر میت کو ایک نئی بعثت ميت ببعث جدید ، ويحضرون میں اُٹھایا جائے گا اور اُنہیں اُن کے اعمال کے لوزن أعمالهم، وتمشى معهم وزن کے لئے حاضر کیا جائے گا اور اُن کی جنت جنتهم ونارهم ونورهم و غبارهم، اور اُن کے دوزخ ، اُن کا نور اور اُن کی غبار اُن کے ثم بعد حساب الأعمال والسؤال ساتھ چلیں گے.پھر اعمال کے حساب اور اظہار بطريق إظهار العزة أو إراءة عزت يا ذلت اور وبال دکھلانے کے طریق پر سوال الذلة والوبال، وبعد الوزن وغيرها کئے جانے کے بعد نیز اعمال وغیرہ کا وزن کرنے من الأمور التي نؤمن بها، کے بعد جن پر ہمارا ایمان ہے، اللہ کی رحمت تقتضى رحمة الله تعالى وغضبه اور اُس کا غضب نئی تجلیات کا تقاضا کرے گا.تب تجليات جديدة، فيُمثل الله اللہ تعالیٰ جنتیوں کی آنکھوں کے سامنے جنت الجنّة في أعين أهلها بصورة كواليسی صورت میں متمثل فرمائے گا کہ اُن کی ما رأتها أعينهم قط كما وعد آنکھوں نے کبھی اُس کا نظارہ نہ کیا ہوگا.جیسا کہ في كتابه للمسلمين، فيكون اُس نے اپنی کتاب میں مسلمانوں سے وعدہ لهم ذلك اليوم يوم المسرة العظمی کیا ہے.تب وہ دن اُن کے لئے بڑی مسرت والسعادة الكبرى، فيدخلونها اور عظیم سعادت کا دن ہوگا.پھر وہ اُس میں شاداں و فرحاں پُر امن داخل ہوں گے.فرحین آمنين.
حمامة البشرى ۱۸۶ اردو ترجمه وكذلك تمثل جهنـم فــي اور اسی طرح جہنم دوزخیوں کی نگاہوں میں متمثل أعين أهلها، ويُريها فی ہوگی اور وہ انہیں جہنم ایسی صورت میں دکھائے گا کہ اُس کا دیکھنا اُنہیں دکھ دے گا اور وہ اُس کے صورة يفجعهم رؤيتها، ويسمعون تغيظها وزفيرها وشهيقها، جوش مارنے اور اُس کے بھڑکنے کی آواز سنیں گے ويحسبون أنهم ما رأوا اوروہ گمان کریں گے کہ انہوں نے اس جیسی چیز نہ کبھی پہلے دیکھی اور نہ اُس میں داخل ہوئے.سو یہ مثلها من قبل وما دخلوها فيكون لهم ذلك اليوم يوم دن اُن کے لئے بڑی گھبراہٹ کا دن ہوگا.اور (بے شک اللہ کے لئے ان اقدار و اسرار اور الفزع الأكبر.وللـه مـجـالـي كثيرة في أقداره وأسراره وحكمه، فلا تعجبوا من مجالی الله وادعوا الله يلهمكم طرق المهتدين.وكلّ ذلك مكتوب حکمتوں میں بہت سے جلوے ہیں اس لئے تم اللہ کے ان جلووں پر تعجب مت کرو اور اللہ سے دعامانگو کہ وہ تمہیں ہدایت یافتوں کی راہوں کا الہام کرے.اور یہ سب کچھ اللہ کے کلام میں لکھا ہوا ہے.ہم نے اپنی طرف سے ایک حرف بھی نہیں في كـلام الـلـه ومـا كتبنا حرفًا لکھا اور نہ ہی ہم نے تحریف کی اور نہ ہی افترا کیا.من عندنا، وما حرّفنا وما افترينا اور جو شخص قرآن کو جھٹلائے تو وہ ہلاک ہوگا.ومن كذب القرآن فهو هالك، اور جس نے اس راہ کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کی و من اختار سبيلا غيره فيتَب تو وہ تباہ ہو جائے گا اور آسمان اپنی کچلیوں سے وتأكله السماء بأنيابها.اُسے کھا جائے گا.پس تو اللہ کی کتاب کو مضبوطی فاستمسك بكتاب الله ولا سے پکڑ اور اس کے غیر کی طرف مت جھک، ورنہ تركن إلى غيره فتضل، وحسبنا تو گمراہ ہو جائے گا.اور اگر ہم مومن ہیں تو کتاب كتاب الله إن كنا مؤمنين.اللہ ہمارے لئے کافی ہے.
حمامة البشرى IAZ اردو ترجمه ويكفي لك في شأن كتاب اور کتاب اللہ کی شان کی نسبت جو اللہ نے اُس کی اللــه مــا أثـنـي الـلـه عـلـيـه تعریف و توصیف فرمائی وہی تیرے لئے کافی ہے.وقال : مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ اُس نے فرمایا کہ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ شَيْءٍ ، فِيهِ تَفْصِيلُ كُلّ شَيْءٍ ، وما اور یہ کہ اس میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے.اور جو مسلم جاء في حدیث مسلم عن زید بن کی حدیث میں زید ابن ارقم سے مروی ہے کہ رسول أرقم قال : قام رسول اللہ صلی الله الله صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان عليه وسلم يوما فينا خطيبًا بماء غديرتم پر ہمارے درمیان خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے.يُدعى خُما بين مكة والمدينة، آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور وعظ ونصیحت کی اور فحمد الله و أثنى عليه، و وعظ پھر فرمایا: اما بعد، اے لوگو! غور سے سنو، میں ایک بشر وذكر، ثم قال: أما بعد..ألا ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا پیامبر (ملک الموت) يا أيها الناس! إنما أنا بشر میرے پاس آئے اور میں اُسے لبیک کہوں.اور يوشك أن يأتيني رسول ربی میں تم میں دو نہایت گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا فأجيب، وأنا تارك فيكم ہوں.ان میں سے پہلی کتاب اللہ (قرآن) ہے الثَّقَلين، أولهما كتاب الله فيه جس میں ہدایت اور نور ہے.پس تم اللہ کی کتاب کو الهدى والنور ، فخذوا بكتاب مضبوطی سے تھام لو اور اس کی تعلیمات پر عمل کرو.الله واستمسكوا به.فحث علی چنانچہ آپ نے کتاب اللہ کے لئے تحریص و ترغیب كتاب الله ورغب فيه، ثم دلائی.پھر فرمایا: اور (دوسرے) میرے اہل بیت ہیں.قال: وأهل بیتی، اذكركم الله فی میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا أهل بيتي.وكتاب الله هو حبل ہوں.اور (یاد رکھو) کہ اللہ کی کتاب ہی حبل اللہ الله، من اتبعه كان على الهدى ہے.جس نے اس کی پیروی کی تو وہ ہدایت پر ہے لے ہم نے کتاب میں کوئی چیز بھی نظر انداز نہیں کی.(الانعام:۳۹)
حمامة البشرى ۱۸۸ اردو ترجمه و مـــن تـــرکـــه کــان عــلــى | اور جس نے اُسے چھوڑا تو وہ گمراہی پر ہے.پس الضلالة فانظر كيف رغب غور کر کہ کس طرح آنحضور نے اس (قرآن) کی ترغیب دلائی ہے اور اُس نے اُسے ڈرایا ہے جس فيه وخوف من تركه معرضا نے قرآن کو اس طور پر اعراض کرتے ہوئے چھوڑا عنه بحيث أخذ غيره الذى کہ اُس نے وہ لیا جو اس کے معارض ہے.پس تو يعارضه فاعلم أن القرآن إمام جان لے کہ قرآن امام اور نور ہے اور وہ حق کی ونور، ويهدى إلى الحق، وأنه طرف رہنمائی کرتا ہے اور یقیناوہ ربّ العالمین کی طرف سے اُتارا گیا ہے.تنزيل ربّ العالمين.والذين يؤثرون الأحاديث على اور جولوگ احادیث کو کتاب اللہ پر ترجیح دیتے ہیں، كتاب الله هم ينسون عظمة كتاب وہ کتاب اللہ کی عظمت کو فراموش کر دیتے ہیں اور اُس الله ولا يتبعونه إلا قليلا، ويريدون کی کم ہی پیروی کرتے ہیں.اور چاہتے ہیں کہ احادیث (۵۵) أن يجعلوا مقام الأحاديث أرفع من کے مقام کو کتاب اللہ کے مقام سے برتر قرار دیں.اللہ مقام کتاب الله، ولا يخافون الله وہ اللہ سے نہیں ڈرتے اور نہ پرواہ کرتے ہیں اور نہ ولا يبالون ولا يتقون.ويقولون إنا ہی تقویٰ اختیار کرتے ہیں.اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ألفينا على هذا آباء نا، ولو كانوا اپنے آباء و اجداد کو اسی مسلک پر پایا ہے.خواہ اُن آباؤهم من الغافلين المتعصبين.لا یخفی کے آباء واجداد غافل اور متعصب ہی ہوں.اُن میں الله المعوقون منهم والخادعون سے روکنے والے اور دھوکا دینے والے اللہ سے مخفی الذين يقولون للغافلين الأميين هَلُمَّ نہیں جو بھولے بھالے نا خواندہ لوگوں سے کہتے ہیں إلينا إنا كنا مهتدين، وإن هؤلاء کہ ہماری طرف آجاؤ کیونکہ ہم ہدایت یافتہ ہیں لمن الكافرين.أيجعلون قصص حالانکہ یہی کافروں میں سے ہیں.کیا وہ احادیث الأحاديث كقصص کتاب الله؟ کے واقعات کو قرآنی واقعات جیسا قرار دیتے ہیں؟ على
حمامة البشرى ۱۸۹ اردو ترجمه المسؤولين.لا يستوون عند الله و بای حدیث جو اللہ کے نزدیک برابر نہیں.تو اللہ اور اُس کے وبأي بعد الله وآياته يؤمنون إن كانوا نشانوں کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے اگر وہ مؤمنين.أم حسبوا أن يرضى عنهم مومن ہیں.کیا اُنہوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ اُن کا ربهم بالأحاديث وما يُسألون عن رب اُن سے احادیث کے ساتھ راضی ہو جائے گا ترك كلام الله كَلَّا بل إنهم من اور کلام اللہ کوترک کرنے پر اُن سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی؟ ایسی بات نہیں بلکہ اُن سے باز پرس ضرور ہوگی.وكم من دلائل أقمت على اور کتنے ہی دلائل ہیں جو میں نے اس مسئلہ پر هذه المسألة في كتبى، وأسروا اپنی کتابوں میں پیش کئے ہیں اور جب انہوں نے الندامة لما رأوا أنها الحق دیکھا کہ یہ مبنی برحق ہیں تو انہوں نے اپنی ندامت ولكن ما رجعوا وما كانوا راجعین کو چھپایا.مگر رجوع نہ کیا اور وہ رجوع کرنے اعلم أيها العزيز أن مدار النجاة والے ہی نہ تھے.عزیز من ! یہ جان لے کہ نجات تعليم القرآن، ولا يدخل كامدار قرآن کی تعلیم ہے اور کوئی شخص جنت یا جہنم أحد الجنة أو النار إلا من میں داخل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ جسے قرآن أدخلــه الـقـرآن، ولا يبقى في داخل کرے اور کوئی شخص آگ میں پڑا نہ رہے گا النار إلَّا من قد حبسه کتاب مگر وہی جسے کتاب اللہ روکے رکھے.اس لئے تم الله، فاعتصموا بكتاب فيه اس کتاب کو مضبوطی سے تھام لو اسی میں تمہاری نجاتكم وقوموا الله قانتين.وقد نجات ہے اور اللہ کے لئے فرمانبردار ہو کر کھڑے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ ہو جاؤ.اور رسول اللہ ﷺ اپنی آخری وصیت وسلم في آخر وصاياه التي تُوفّی میں جس کے بعد آپ وفات پاگئے فرمایا : تم اللہ بعدها خذوا بكتاب الله کی کتاب کو تھا مو اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو واستمسكوا به، وأوصى بكتاب الله اور آپ نے کتاب اللہ کے متعلق تاکیدی حکم دیا.
حمامة البشرى ۱۹۰ اردو ترجمه وهذا الكتاب الذى هدى الله به اور یہ کتاب وہی ہے کہ جس کے ذریعہ اللہ نے رسولكـم فـخُذوا به تهتدوا ما تمہارے رسول کی رہنمائی فرمائی.پس تم اسے عندنا شيء إلا كتاب الله، فخذوا تھا موتو ہدایت پا جاؤ گے.ہمارے پاس کتاب اللہ بكتاب الله حسبکم القرآن ما کے سوا اور کچھ نہیں پس تم کتاب اللہ کو پکڑو.قرآن كان من شرط لیس فی کتاب الله تمہارے لئے کافی ہے.کوئی بھی ایسی شرط جو فهو باطل.قضاء الله أحق.حسبنا کتاب اللہ میں موجود نہیں وہ باطل ہے.اللہ کا كتاب الله.انظروا صحیح فیصلہ ہی سب سے بہتر ہے.اللہ کی کتاب ہمارے لئے البخاری و مسلم، فإن هذه کافی ہے.صحیح بخاری اور مسلم پر نگاہ ڈالو کیونکہ یہ الأحاديث كلها موجودة فيهما، سب کی سب احادیث ان دونوں میں موجود ہیں.وقال صاحب "التلويح": إنما خبر التلويح کے مصنف کہتے ہیں کہ کتاب اللہ کے الواحد يُرد من معارضة الكتاب مخالف ہونے کی صورت میں خبر احا درد کی جائے گی.واتفق أهل الحق على أن كتاب الله اہل حق نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ کتاب اللہ مقدم على كل قول، فإنّه كتاب ہر قول پر مقدم ہے کیونکہ وہ ایسی کتاب ہے جس کی أُحكمت آياته، لا يأتيه الباطل من آیات ایسی محکم ہیں کہ باطل نہ اس کے آگے سے بين يديه ولا من خلفه، وقد حفظه آسکتا ہے اور نہ اُس کے پیچھے سے.اور اللہ نے الله وعصمه، و ما مسه أيدى اس کی حفاظت فرمائی اور اسے محفوظ رکھا.اور لوگوں الناس، وما اختلط فيه شيء من کی دست بردنے اسے چھوا تک نہیں اور مخلوقات أقوال المخلوقين.کے اقوال کی اس میں ذرہ بھر بھی آمیزش نہیں.ولنرجع إلى بياننا الأوّل اب ہم اپنے پہلے بیان کی طرف لوٹتے ہیں فنقول إن القرآن كما منع من اور یہ کہتے ہیں کہ جس طرح قرآن نے جنتیوں رجوع أهل الجنة إلى الدنيا كو دنیا کی طرف واپس لوٹنے کی ممانعت کی ہے التلويح “ سے مراد التلويح على التوضيح‘ ہے.مصنفہ سعد الدین مسعود بن عمر التفتازانی ( متوفی ۷۹۳ھ).(ناشر)
حمامة البشرى ۱۹۱ اردو ترجمه كذلك منع من رجوع أهل النار اسی طرح دوزخیوں کو بھی اس کی طرف واپس إليها، فقال: وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوالَو لوٹنے کی ممانعت کی ہے.چنانچہ فرمایا: وَقَالَ اَن لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاً مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَتَتَبَرَّا مِنْهُمْ كَمَا مِنَّا - كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ تَبَرَّءُ وَامِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَاهُمُ بِخْرِجِيْنَ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخْرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ مِنَ النار.ثم قال فی مقام آخر پھر دوسری جگہ فرمایا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلات پھر لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلا.ثم قال فی ایک اور مقام پر فرمایا يُرِيدُونَ أَنْ يَخْرُجُوا مقام آخر يُرِيدُونَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخْرِجِينَ مِنْهَا ، پھر اُس نے مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخْرِجِينَ مِنْهَا.ثم ایک اور جگہ پر فرمایا: فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً قال في مقام آخر فَلَا يَسْتَطِيعُونَ وَلَا إلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ " اب تجھے یہ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ بخوبی معلوم ہو گیا ہے کہ اہل جنت اور اصل جہنم وقد علمت آنفا أن أهل الجنة والسعير اپنے اپنے مقام میں اپنے مرنے کے بعد يدخلون مقاميهما بعد موتهم من غير بلا توقف داخل ہوں گے اور قیامت کا انتظار مكث ولا ينظرون القيامة، وقال رسول نہ کریں گے.اور آنحضرت ﷺ کا فرمان الله الله : من مات فقد قامت قیامت ہے کہ ”جو مر گیا، تو اس کی قیامت قائم ہوگئی.“ ے اور وہ لوگ جنہوں نے پیروی کی کہیں گے کاش! ہمیں ایک اور موقع ملتا تو ہم ان سے بیزاری کا اظہار کرتے جس طرح انہوں نے ہم سے بیزاری کا اظہار کیا ہے.اسی طرح اللہ انہیں اُن کے اعمال اُن پر حسرتیں بنا کر دکھائے گا اور وہ (اس) آگ سے نکل نہیں سکیں گے.(البقرۃ:۱۶۸) ے وہ کبھی ان (جنتوں) سے جدا ہونا نہیں چاہیں گے.(الکھف: ۱۰۹) سے وہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں جبکہ وہ ہر گز اُس سے نکل نہ سکیں گے.(المائدۃ:۳۸) پس وہ وصیت کرنے کی بھی توفیق نہ پائیں گے اور نہ اپنے اہل کی طرف لوٹ سکیں گے.(یٹس: ۵۱)
حمامة البشرى ۱۹۲ اردو ترجمه ولولا كان الإنعام والإيلام و اصلا اور اگر انعام اور دکھ پانا میت کو محض اپنی موت کے إلى الميت بمجرد موته فما معنی ساتھ ہی پہنچنے والا نہ ہوتا تو پھر اس کے حق میں قيام القيامة في حقه؟ وإذا أقررنا قیامت کے قائم ہونے کے کیا معنی؟ اور جب ہم نے بأن الميت يُعذِّب أو يُنعم عليه بعد يا اقرار کر لیا کہ میت کو موت کے بعد بلا توقف عذاب یہ الموت من غير توقف، فقد لزمنا دیا جائے گا یا اس پر انعام کیا جائے گا تو پھر ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ ہم یہ اقرار کریں کہ جہنم کا عذاب اور أن تقر بأن عذاب جهنم وإنعام جنت کا انعام مجرد واقعہ موت کے ساتھ بلا توقف ظاہر الجنّة يبدو بمجرد واقعة الموت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ احادیث میں آیا ہے کہ من غير مكث، ولأجل ذلك جاء ” مومنوں کی سب سے کم تر نعمت قبر میں یہ ہوگی کہ في الأحاديث أن أدنى نعيم جنت ان کے قریب کر دی جائے گی اور جنت کے المؤمنين في القبر أن الجنّة تُزلف لهم، وتُفتح له غرفة من غرفاتها، فيأتيهم في كل وقت بالا خانوں میں سے ایک بالا خانہ ان کے لئے کھولا جائے گا.جس کے نتیجہ میں انہیں ہر وقت اس بالاخانہ سے جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آئے گی اور (۵۶) روحُ الجنة وريحــانـهـا من هذه قبر میں کافر کا سب سے کم تر عذاب یہ ہوگا کہ جہنم الغرفة، وان أدنى عذاب الكافر اس کے سامنے نمایاں طور پر ظاہر ہو جائے گی اور اس في القبر أن تُبرز الجحيم له وتفتح کا ایک گڑھا اس کے لئے کھول دیا جائے گا.جس له حفرة منها، فيأتيه في كل وقت کے نتیجہ میں اُسے ہر وقت اس گڑھے سے آگ لظى النار من تلك الحفرة.ويوسع كے شعلے آئیں گے.اور اللہ اپنے فضل اور وسیع الله للمؤمنين بفضله ورحمته رحمت سے اپنے مومن بندوں کے لئے جنت کے الوسيعة غرفة الجنة من خيرات أس بالا خانہ کو کشادہ کرتا جائے گا ( ان کی ) جاری جارية وباقيات صالحات ترکها رہنے والی نیکیوں اور باقیات الصالحات کی وجہ المؤمن لنفسه في الدنیا سے جنہیں مومن نے اپنے لئے دنیا میں چھوڑا.
حمامة البشرى ۱۹۳ اردو ترجمه أو من دعاء أبنائه وإخوانه الصالحین یا اپنی نیک اولا د اور صالح بھائیوں کی دعا کی وجہ فيزيد الغرفة يوما فيوما حتى يصير سے اس طرح وہ بالا خانہ دن بدن اتنا بڑھتا جائے قبـر الـمـؤمـن روضة من روضات گا کہ مومن کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک الجنة.فانظر إلى هذه الأحاديث باغ بن جائے گی.پس ان احادیث پر غور کر کہ كيف يبين رسول الله صلى الله علیه رسول اللہ علیہ کس طرح کھول کر بیان فرمار ہے وسلم، ثم انظر إلى الذين يقولون ہیں.پھر ان لوگوں کی طرف دیکھ جو اپنے بھائیوں لإخوانهم إنا نحن المؤمنون بالقرآن سے کہتے ہیں کہ ہم قرآن اور رسول اللہ علیہ کی وأحاديث رسول الله صلى الله علیه احادیث پر ایمان لاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ وسلم، ومع ذلك يُصرون على أن اس بات پر اصرار بھی کرتے ہیں کہ جنت میں الدخول في الجنة مخصوص داخل ہونا صرف شہیدوں کے ساتھ مخصوص ہے اور بالشهداء ، والذين هم غيرهم من ان کے ماسوا جو دوسرے لوگ ہیں.یعنی انبیاء، الأنبياء والصديقين حتى سیّدنا صدیق ، یہاں تک کہ ہمارے سید و مولا ( محمد ) المصطفى صلى الله عليه وسلم فهم مصطفیٰ لے بھی جنت سے دور رکھے جائیں مبعدون عن الجنة لا يصل إليهم گے، اُن تک جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو نہیں روحها وريحانها، وما كان لهم أن پہنچے گی.اور وہ قیامت کے بعد ہی اس میں داخل يدخلوها إلَّا بعد يوم القيامة فتَعُسًا ہو سکیں گے.ستیا ناس ہو ان کا اور ان کے اقوال لهم ولأقوالهم! ما اتقوا الله وفضلوا کا.انہوں نے اللہ کا تقویٰ اختیار نہ کیا اور شہداء الشهداء على خاتم النبيين.ثم لا كو ( حضرت ) خاتم النبین پر فضیلت دی.پھر تجھ يخفى عليك أن الموتى بعد پر یہ بات مخفی نہیں کہ فوت شدہ لوگوں کو ان کی وفاتهم لا يُحبسون معطلين، بل وفات کے بعد بے کا ررو کے نہیں رکھا جاتا.بلکہ يكونون إما في نعيم وإما في عذاب وہ یا تو نعمتوں میں ہوتے ہیں یا پھر عذاب میں.
حمامة البشرى ۱۹۴ اردو ترجمه وما هذا إلا الجنة والنار، فتدبر اور یہ جنت اور جہنم ہی ہے لہذا تدبر کرنے والوں ☆ مع المتدبرين.کے ساتھ تو بھی تدبر کریمی الحاشية - اعلم أن وفاة عيسى علیه السلام کہے تو جان لے کہ عیسی علیہ السلام کی وفات قطعی اور یقینی نصوص ثابت بالنصوص القطعية اليقينية، وإن تطلب الثبوت سے ثابت ہے اور اگر تو اس کا ثبوت قرآن سے چاہتا ہے تو (وہ من القرآن فتجد فيه آية يُعيسى انى ثبوت تو آيت يعنى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اور آیت متوفيك، وآية فَلَمَّاتَوَفَّيْتَنِي، وآية | فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي اور آیت كَانَا يَا كُنِ الطَعَامَ " اور كانا يأكلن الطعام، وآية وَمَا مَحَمَّدٌ آیت وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ الرُّسُلُ ، اور آیت فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ : وآية فِيهَا تَحيونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ.وهذه میں پائے گا.اور یہ آخری آیت اپنے منطوق کے ساتھ الآية الأخيرة تدل بمنطوقها على أن بنی یہ دلالت کرتی ہے کہ بنی آدم خاص طور پر زمین میں آدم يحيون في الأرض خاصة ولا يصعدون زندہ رہیں گے اور وہ اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان إلى السماء بجسمهم العنصري، لأن لفظ کی طرف صعود نہیں کریں گے کیونکہ فِيْهَا کا لفظ جو تَحْيَونَ فيها الذي هـو مـقـدم عـلــى لفظ تَحْيَونَ کے لفظ سے مقدم ہے وہ زندگی کی تخصیص کو زمین کے يوجب تخصيص الحياة بالأرض ويُقيّد بهاء ساتھ وابستہ کرتا اور اس کے ساتھ مقید کرتا ہے الحاشية تحت الحاشية - وأما حاشیه در حاشیہ.جہاں تک عیسی علیہ السلام کی وفات ثبوت وفاة عيسى عليه السلام من قول کا رسول اللہ ﷺ کے قول سے ثبوت ہے تو تجھ پر یہ اس رسول الله صلى الله عليه وسلم فينكشف وقت منکشف ہو گا.جب تو بخاری کی اس حدیث پر غور کرے عليك إذا تدبّرت في حديث البخاري الذي جاء في تفسير آية فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى.گا جو آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی تفسیر میں وارد ہوئی ہے اے عیسی یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں.(ال عمران: ۵۶) ، پس جب تو نے مجھے وفات دے دی.(المائدة: ۱۱۸) سے وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.(المائدة: ۷۶) محمد نہیں ہے مگر ایک رسول یقیناً اُس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں.(ال عمران: ۱۴۵) ۵ تم اسی (زمین) میں جیو گے اور اسی میں مرو گے.(الاعراف: ۲۶)
حمامة البشرى ۱۹۵ اردو ترجمه هذا ما ذكرنا من نصوص القرآن یہ وہ ذکر ہے جو ہم نے مسیح کی وفات اور اُن کے على وفاة المسيح و علی نفی مادی جسم کے ساتھ آسمان پر نہ جانے اور اُن کے صعوده مع الجسم العنصری دنیا کی طرف رجوع نہ کرنے کے بارے میں ☆ ونفي رجوعه إلى الدنيا و أما نصوص قرآنیہ سے کیا ہے اور جہاں تک احادیث الأحاديث النبوية فلن تجد فيها أثرًا نبويه كا تعلق ہے تو تو ان میں مسیح کے مادی جسم کے من رفع المسيح بجسمه العنصری، ساتھ اٹھائے جانے کا کوئی نشان نہیں پائے گا.الحاشية قال بعض الناس الذي لا علم عنده حاشیہ.کسی بے علم شخص نے کہا ہے کہ آیت وَمَا (۵۲ وط إن آية وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شَيْه قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ اور لَهُمْ وآية بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ دليل على آيت بَلْ زَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ مسیح کے مادی جسم أن المسيح رفع حيا بجسمه العنصري.کے ساتھ زندہ اٹھائے جانے پر دلیل ہے.بقية الحاشية صفحه ١٩۴_ وفيه رد على الذين بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.اور اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ يقولون لم لا يجوز أن يُرفع أحد بجسمه العنصری کسی شخص کا خا کی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھایا جانا اور اس میں إلى السماء ويحيا فيها إلى مدة أرادها الله ؟ اللہ کی منشا کے مطابق ایک مدت تک زندہ رہنا کیوں جائز نہیں؟ بقية الحاشية تحت الحاشية والبخارى بقیہ حاشیہ در حاشیہ اور امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب ذكر هذا الحديث في كتاب التفسير ليشير التفسیر میں اس لئے بیان کیا ہے کہ وہ یہ اشارہ کریں کہ رسول إلى أن قول رسول الله صلى الله عليه وسلم اللہ ﷺ کا قول اور (پھر) حضور کا آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کا اپنی واستعماله آية فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنى لنفسه كما ذات کے لئے استعمال کرنا ، جیسا کہ عیسی علیہ السلام نے اسے استعمـل عيسى لنفسه نوع من التفسير، اپنے لئے استعمال کیا ہے یہ تفسیر کی ایک قسم ہے اور اسی لئے ولأجل ذلك أيـد البخارى هذا التفسير امام بخاری نے اس تفسیر کی تائید ا بن عباس کے قول سے کی ہے بقول ابن عباس مُتَوَقِيكَ مُمِيتُكَ.والبخارى يعنى مُتَوَقِيكَ مُمِيتُكَ اور (یوں ) امام بخاری نے اس أشار إلى مذهبه المختار بهذا الاجتهاد.اجتہاد کے ساتھ اپنے اختیار کردہ مسلک کی طرف اشارہ کیا ہے.ے اور وہ یقینا اسے قتل نہیں کر سکے اور نہ اسے صلیب دے (کرمار) سکے لیکن ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا.(النساء: ۱۵۸) ے بلکہ اللہ نے اپنی طرف اس کا رفع کر لیا.(النساء:۱۵۹)
حمامة البشرى ١٩٦ اردو ترجمه وتجد في كل مقام ذِكْر وفاته اور تو ہر جگہ اس کی وفات کا ذکر پائے گا.بقية الحاشية صفحه ۱۹۵ - هذا قوله بقیه حاشیہ صفحہ ۱۹۵.یہ اس (بے علم ) شخص کا قول اور واستدلاله، ولكن لو كان هذا الرجل مُطلعا استدلال ہے.لیکن اگر اس شخص کو اس آیت کے شان نزول سے على شأن نزول هذه الآية لرجع من قوله، بل آگہی ہوتی تو وہ ضرور اپنے قول سے رجوع کر لیتا.بلکہ ایسے ما التفت إلى معنى يخالف طريق المعقول معنی کی طرف متوجہ ہی نہ ہوتا جو معقولی اور منقولی دونوں طریق والمنقول، وما تكلم بالفضول، وكان من کے خلاف ہے اور فضول کلام نہ کرتا اور شرمساروں میں سے المتندمين.فاسمع أيها العزيز! إن اليهود كانوا ہو جاتا.پس اے عزیز ! سن کہ یہودی تو راہ میں یہ پڑھتے يقرأون في التوراة أن الكاذب في دعوى النبوة تھے کہ نبوت کے دعویٰ میں دروغکوئی کرنے والا شخص قتل کیا يُقتل، وإن الذي صُلب فهو ملعون لا يُرفع إلى جاتا ہے اور جو صلیب دیا جائے تو وہ ملعون ہوتا ہے اور اس کا الله.وكانت عقيدتهم مستحكمة على ذلك، اللہ کی طرف رفع نہیں ہوتا اور ان کا اس پر پختہ عقیدہ تھا.بقية الحاشية صفحه ١٩٣ـ والـعـجب منهم بقیه حاشیہ صفحہ ۱۹۴.اور تعجب ہے ان پر کہ وہ ہم پر افتراء کرتے أنهم يفترون علينا ويحسبون كانا ترکنا ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ گویا ہم نے مسیح کے مادی جسم کے النصوص القرآنية في رفع المسيح بجسمه ساتھ اٹھائے جانے کے بارے میں نصوص قرآنیہ کو ترک کر دیا العنصري، فليتدبر العاقل ههنا..أنحن ہے ایک عقلمند کو یہاں غور کرنا چاہئے کہ کیا قرآن اور اس کی نصوص تركنا القرآن ونصوصه في هذه العقيدة أم کو اس عقیدے میں ہم نے چھوڑا ہے یا وہ چھوڑنے والے هم كانوا تاركين؟ وقالوا إن الله عزوجل ہیں؟ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ عز و جل نے بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ قال بَل رَّفَعَهُ اللهُ، ويحتجون بهذه الآية اليه ) کے الفاظ ) فرمائے ہیں.اور وہ اس آیت سے صحیح کے جسم على رفع جسم المسيح، ولا يتدبرون ان کے اٹھائے جانے پر دلیل پکڑتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر یہ الأمر لو كان كذالك لتعارض الآيتان...معاملہ ایسا ہی ہوتا تو لازماً (ان) دو آیتوں میں تعارض پیدا ہو جاتا.بقية الحاشية تحت الحاشية فالحاصل أن بقیہ حاشیہ در حاشیہ.حاصل کلام یہ کہ لفظ توفی ایسا لفظ نہیں لفظ " توقى" ليس كلفظ يُفسّره أحد برأيه، بل جس کی تفسیر کوئی شخص اپنی رائے سے کر سکے.بلکہ اس کا تَوَفَّى أوّل مفسره القرآن من حيث إنه ذكر هذا اللفظ پہلا مفسر قرآن ہے اور وہ اس طور پر کہ اس نے اس لفظ في كل مقامه بمعنى الإمانة وقبض الروح، والمفسر کا استعمال ہر جگہ وفات دینے اور قبض روح کے معنوں الثاني رسولُ الله صلى الله عليه و سلم میں کیا ہے اور دوسرے مفسر رسول اللہ ﷺ ہیں.1
حمامة البشرى ۱۹۷ اردو ترجمه كما ذكرنا قليلا منها ولا جیسا کہ ہم نے ان میں سے تھوڑا سا ذکر حاجة إلى الإعادة.و ما نجد کیا ہے.جس کے دوہرانے کی ضرورت نہیں في حديث معنى التوفّى رفع اور ہم حدیث میں توفی کے معنے کسی شخص کا جسم رجل إلى السماء مع جسمه، کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جانا نہیں پاتے.بقية الحاشية صفحه ۱۹۵ - ثم شبه لهم بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۵.پھر اللہ کی طرف سے بطور ابتلاء وہ (مسیح) ابتلاء من عند الله كأنهم صلبوا المسیح انہیں ایک مصلوب کے مشابہ دکھائے گئے گویا انہوں نے مسیح ابن مریم ابـن مـريـم وقـتـلـوه فـحـسـبـوه ملعونا غیر کو صلیب دے دیا اور انہیں قتل کر دیا.اس طرح انہوں نے انہیں ملعون مرفوع، ورتبوا الشكل هكذا المسيح ابن اور غیر مرفوع خیال کیا اور انہوں نے اس طرح منطقی شکل ترتیب مریم مصلوب، وكل مصلوب ملعون دی کہ مسیح ابن مریم مصلوب ہیں اور ہر مصلوب ملعون ہوتا ہے بقية الحاشية صـفـحـه ١٩۴ـ أعنى آية بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.یعنی آیت بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وآية فِيهَا تَحْيَوْنَ.اور آیت فِيْهَا تَحْيَوْنَ میں اور تو جانتا ہے کہ قرآن وأنت تعلم أن القرآن منزّه عن التعارض تعارض اور تضاد سے پاک ہے اور اللہ تعالی نے (خود) والتخالف، وقال الله تعالى وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ فرمایا ہے کہ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ، فاشار فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا.پس اس آیت میں اس نے في هذه الآية أن الاختلاف لا يوجد في القرآن اشارہ فرمایا ہے کہ قرآن میں کوئی بھی اختلاف نہیں پایا جاتا بقية الحاشية تحت الحاشية والمفسر بقیہ حاشیہ در حاشیہ.اور تیسرے مفسر ابوبکر الثالث أبو بكر الصديق رضي الله عنه، والمفسر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور چوتھے مفسر ا بن عباس الرابع ابن عباس رضي الله عنه، والمفسر رضی اللہ عنہ ہیں اور پانچویں مفسر تابعین کی الخامس جماعة من التابعين، والمفسر السادس الإمام البخاري في صحيحه جماعت ہے اور چھٹے مفسر صحیح بخاری میں امام بخاری والمفسر السابع إمام المحدثين ابن القيم ہیں اور ساتویں مفسر امام المحدثین ابن قیم ہیں.L بلکہ اللہ نے اپنی طرف اس کا رفع کر لیا.(النساء: ۱۵۹) تم اسی (زمین) میں جیو گے.(الاعراف: ۲۶) ے اور اگر وہ ( قرآن ) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے.(النساء:۸۳)
حمامة البشرى ۱۹۸ اردو ترجمه بل جاء في البخاري عن ابن بلکہ بخاری میں تو ابن عباس سے آیت عباس في تفسير آية يَا عِيسَى يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کی تفسیر میں إِنِّي مُتَوَفِّيكَ.مُمِيْتُكَ، مُتَوَفِّيكَ کے معنی مُمِيتُكَ کے آئے ہیں.بقية الحاشية صـفـحـه ۱۹۵ولیس بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۵.مرفوع نہیں ہوتا ، لہذا ان کے بـمـرفـوع، فثبت عندهم من الشكل الأول نزدیک اس شکل اوّل سے جس کا نتیجہ بالکل واضح ہے الذى هو بين الإنتاج أن عيسى (نعوذ بالله) یہ ثابت ہے کہ عیسی ( نعوذ باللہ ) ملعون ہیں اور مرفوع ملعون وليس بمرفوع.فأراد الله أن يزيل ( الی اللہ ) نہیں ہیں.پس اللہ نے اس وہم کے ازالے هذا الوهم ويبرء عيسى من هذا البهتان اور عیسیٰ کی اس بہتان سے بریت کا ارادہ فرمایا.بقية الحاشية صفحه ۱۹۴ ـ وهو كتاب بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.کیونکہ وہ ( قرآن ) اللہ کی کتاب ہے الله وشأنه أرفع من هذا، وإذا ثبت أن اور اس کی شان اس سے بہت ارفع ہے.اور جب ثابت ہو كتاب اللـه مــنــزه عن الاختلافات فوجب گیا کہ اللہ کی کتاب اختلافات سے پاک ہے تو پھر ہم پر علينا أن لا نختار فی تفسیرہ طریقا یوجب لازم ہے کہ ہم اس کی تفسیر میں کوئی ایسا طریق اختیار نہ التعارض والتناقض، وما كان لليهود غرض کریں جو تعارض اور تناقض کو لازم ٹھہراتا ہو.ان کے جسم وبحث في رفع جســمــه أو عدم رفعه، کے رفع یا عدم رفع سے یہود کو کوئی غرض اور بحث نہ تھی.بقية الحاشية تحت الحاشية.بل إنه بقیہ حاشیہ در حاشیہ.بلکہ انہوں نے تو اپنی کتاب مدارج كتب في كتابه مدارج السالكين: لو كان السالکین میں تحریر کیا ہے کہ اگر موسیٰ اور عیسی علیہما السلام نوسى وعيسى حيين لكانا من أتباع نبينا زندہ ہوتے تو وہ دونوں ہمارے نبی ﷺ کے متبعین میں صلى الله عليه وسلم وأشار إلى الحديث سے ہوتے.اور (اپنے اس قول میں ) انہوں نے النبوى، والمفسر الثامن محدث وقته ولی حدیث نبوی کی طرف اشارہ کیا ہے اور آٹھویں مفسر الله الدهلوى، فإنه فسّر معنى يَا عِيسَی إِنِّی اپنے زمانے کے محدث ولی اللہ دہلوی ہیں.کیونکہ آپ مُتَوَفِّيكَ في كتابه ” الفوز الكبير وقال نے اپنی کتاب الفوز الکبیر میں يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ متوفيك مميتك.ومع ذلك قد ذهب حزب کی تفسیر کی ہے اور فرمایا کہ مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ اور اس کے كثير من الأولين والآخرين إلى هذا المعنى، ساتھ اولین و آخرین کا ایک گروہ کثیر ان معنوں کی طرف گیا ہے "
حمامة البشرى ۱۹۹ اردو ترجمه وما خالفه في هذا التفسير أحد من اور اس تفسیر میں آنحضرت ﷺ کے صحابہ أصحاب رسول الله صل اللہ علیہ وسلم میں سے کسی نے ابن عباس کی مخالفت نہیں کی.بقية الحاشية صفحه ۱۹۵ - فقال ما بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۵ - پس فرمایا کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبَهَ لَهُمْ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.وحاصل کلام إِلَيْهِ.اور اللہ تعالی کے اس کلام کا خلاصہ یہ ہے تعالى أن شأن عيسى منزّه عن الصلب کہ عیسی کی شان صلیب دیئے جانے اور اس نتیجہ سے والنتيجة التي هي الملعونية وعدم الرفع، جس سے ملعونیت اور عدم رفع نکلتا ہے منزہ ہے.بقية الحاشية صفحه ١٩۴_ فلا بد من أن نفسر بقیه حاشیه صفحه ۱۹۴.لہذا ضروری ہے کہ ہم آیت بل رفعه الله الرفع في آية بَل رَّفَعَهُ الله بالرفع الروحاني كما اليه میں رفع کی تغییر روحانی رفع سے کریں جیسا کہ آیت هو مفهوم آية ارجعي إلى رَبِّكِ رَاضِيَةً اِرْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ کا مفہوم ہے مرْضِيَّةً ، فإن الرجوع إلى الله تعالى راضية کیونکہ اللہ کی طرف رَاضِيَةً مُرْضِيَّة لوٹنا اور اس کی طرف رفع یہ مرضية والرفع إليه أمر واحد لا فرق بينهما معنى دونوں ایک ہی چیز ہیں ان میں معنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں.بقية الحاشية تحت الحاشية وقد بقیہ حاشیہ در حاشیہ.اور سب نے اتفاق کیا ہے کہ اس آیت میں اتفقوا على أن معنى التوفّى فى هذه الآية هو تَوَفّی کے معنے صرف اور صرف وفات دینے کے ہیں.پھر جن کے الإماتة لا غير.ثم الذين في قلوبهم مرض لا دلوں میں بیماری ہے وہ نہ تو اللہ کے قول کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی يبالون قول الله ولا تفسیر رسوله ولا ما اس کے رسول کی تغییر کی اور نہ ہی اس تفسیر کی جو آپ کے صحابہؓ نے فسره صحابته ولا أقوال التابعين والأئمة فرمائی اور نہ ہی تابعین، ائمہ اور محدثین کے اقوال کی پرواہ کرتے والمحدثين.فلا تعلم كيف نقبل معناهم ہیں.پس ہم نہیں جانتے کہ ہم ان کے وہ معنے کیسے قبول کریں جن پر الذي لا دليل عليه من بيان الله و تفسیر اللہ کے بیان اور اُس کے رسول کی تفسیر سے کوئی دلیل نہیں ، اور ہم اس رسوله، وأين نفر من الرشد الذي قد تبيّن ؟ ہدایت سے کہاں بھاگ کر جائیں جو بالکل ظاہر وباہر ہے؟ کیا ہم أنترك الله ورسوله لقول قوم ضالين؟ منه اللہ اور اس کے رسول کو ایک گمراہ قوم کے قول کی خاطر چھوڑ دیں ؟ منه لے اور وہ یقیناً اسے قتل نہیں کر سکے اور نہ اسے صلیب دے کر مار ) سکے لیکن ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا.(النساء: ۱۵۸) بلکہ اللہ نے اپنی طرف اس کا رفع کر لیا.(النساء:۱۵۹) سے اپنے رب کی طرف کوٹ آ، اس حال میں کہ تو اُسے ) پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی ہے.(الفجر : ۲۹)
حمامة البشرى ۲۰۰ اردو ترجمه فإذا تحقق أن معنى التوفّى الوفاة پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ توفی کے معنی لا غيره فلا يُقال إن إماتة المسيح وفات کے ہیں.کچھ اور نہیں تو پھر یہ نہیں کہا التي رويت عن ابن عباس وعد جائے گا کہ مسیح کی موت، ابن عباس کی روایت ر واقع إلى هذا الوقت کے مطابق ایسا وعدہ ہے جو اس وقت تک واقع بل یقع فی آخر الزمان نہیں ہوا.بلکہ وہ آخری زمانے میں واقع ہوگا بقية الحاشية صفحه ۱۹۵ بل هو مات بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۵.بلکہ آپ نے طبعی وفات پائی اور آپ کا حتف أنفه، ورفع إلى الله كما يُرفع اللہ کی طرف اسی طرح رفع ہوا جیسے مقربین کا رفع ہوتا ہے.اور المقربون وما كان من الملعونين.وهذا هو آپ ملعونوں میں سے نہیں ہیں.اور یہی وہ سبب ہے جس السبب الذى ذكر الله تعالى لأجله قصة کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عیسی کے صلیب نہ دیئے جانے کا عدم صلب عيسى، وبرأه مما قالوا والا ذکر کیا اور انہیں ان کے اقوال سے بری قرار دیا.ورنہ وہ فأى ضرورة كانت داعية إلى ذكر هذه کون سی ضرورت تھی جو اس قصہ کے بیان کرنے کا سبب بنی.الـقـصـة، وما كان موت القتل نقصا لأنبيائه قتل کے ذریعہ مرنا ( اللہ ) کے انبیاء کے لئے کوئی نقص اور وكسرًا لشأنهم وعزتهم، وكأين من النبيين ان کی کسر شان نہیں اور نہ ہی یہ اُن کی عزت کے منافی ہے قتلوا في سبيل الله كيحيى علیه السلام اور کتنے ہی نبی ایسے ہیں جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے.جیسے وأبيه، فتفكِّرُ واطلب صراط المهتدين ولا يحي علیہ السلام اور اُن کے والد.پس غور کر اور ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ طلب کر اور گمراہوں کے ساتھ مت بیٹھ.منہ تجلس مع الغاوين.منه بقية الحاشية صفحه ١٩۴ ـ ثم انظر بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.لہذا دیکھ اور غور کر.اللہ تجھے وتدبر..وهبك الله من عنده قوة الفيصلة، اپنی جناب سے قوت فیصلہ کی توفیق دے.اصل نزاع إن النزاع كان في الرفع الروحاني لا في الرفع روحانی رفع میں تھا نہ کہ جسمانی رفع میں.کیونکہ الجسماني، فإن اليهود كانوا منکرين من رفع یہودی عیسی کے اس طور پر رفع الی اللہ کے منکر تھے وب عيسى إلى الله كما يُرفَعُ المطهرون المقربون جس طور پر دوسرے پاکباز مقرب نبیوں کا رفع کیا جاتا من النبيين، وكانوا يصرون (لعنهم الله علی ہے اور وہ (یہودی ، اللہ ان پر لعنت کرے ) اس پر أن عيسى عليه السلام من الملعونين لا من مصر تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام ملعونوں میں سے تھے.اور المرفوعين، كما أنهم يقولون إلى هذه الأيام.مرفوع الی اللہ نہ تھے.جیسا کہ وہ آج تک کہہ رہے ہیں
حمامة البشرى ۲۰۱ اردو ترجمه لأن المواعيد التي ذكرت في کیونکہ وہ وعدے جن کا اس آیت میں بالترتیب هذه الآية بالترتيب قد وقعت ذکر ہوا ہے وہ (وعدے) وقوع پذیر ہو چکے ہیں وتمت كلها على ترتيبها اور وہ سارے کے سارے اُسی ترتیب سے پورے الذي يوجد في تلك الآية ہوئے ہیں جو اس آیت میں پائی جاتی ہے.بقية الحاشية صفحه ۱۹۴ـ وكانوا يستدلون بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.اور وہ (غضب اللہ علیہم ) ان کے غضب الله عـلـيـهـم ) على ملعونيته عليه مصلوب ہونے سے اُن علیہ السلام کے ملعون ہونے پر استدلال السلام من مصلوبيته، فإن المصلوب ملعون کرتے تھے.کیونکہ ان کے دین کی رو سے مصلوب ملعون غير مرفوع في دينهم كما جاء في التوراة ہوتا ہے ، مرفوع نہیں ہوتا.جیسا کہ تو رات کی کتاب في كتاب الاستثناء.فأراد الله تعالى أن استثناء میں آیا ہے.سو اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے يُبرء نبيه عيسى من هذا البهتان الذي بُنی نبی عیسی کو اس بہتان سے بری قرار دے جو توراۃ کی ایک على آية التوراة وواقعة الصلب، فإن التوراة آیت اور واقعہ صلیب کی بناء پر لگایا گیا تھا.کیونکہ توراۃ يجعل المصلوب ملعونا غير مرفوع إذا كان مصلوب کو ملعون قرار دیتی ہے، مرفوع نہیں.جب وہ يدعى النبوة ثم مع ذلك كان قتل وصلب نبوت کا دعویدار ہو اور مزید برآں وہ قتل کیا گیا ہو اور فقال عزّ وجل لذبّ بهتانهم عن عيسى صلیب دیا گیا ہو.پس اللہ عزوجل نے عیسی سے ان کا مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ بَلْ أَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ بہتان دور کرنے کے لئے فرمایا : مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ.يعنى الصلب الذي يستلزم الملعونية وعَدْمَ بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ لا یعنی صلیب دیا جانا جوتو راہ کے حکم الرفع من حكم التوراة ليس بصحیح، بل رفع کی رو سے ملعونیت اور عدم رفع کو مستلزم ہے درست نہیں.الله عيسى إليه، يعنی إذا لم يثبت الصلب بلکہ اللہ نے عیسی کو اپنے حضور رفعت بخشی مطلب یہ کہ جب والقتل لم يثبت الملعونية وعدم الرفع، فثبت صلیب دیا جانا اور قتل کیا جانا ثابت نہ ہوا تو ملعون ہونا اور الرفع الروحاني كالأنبياء الصادقين وهو عدم رفع بھی ثابت نہ ہوا.پس صادق انبیاء کی طرح (ان المطلوب.هذه حقيقة هذه القصة، وما كان کا روحانی رفع ثابت ہو گیا اور یہی مقصود ہے.یہ ہے ههنا جدال ونزاع في الرفع الجسماني، وما ساری حقیقت اس قصے کی.یہاں جھگڑا اور نزاع جسمانی كان هذا الأمر تحت بحث اليهود اصلا رفع کا نہ تھا اور نہ ہی یہ معاملہ دراصل یہود کے زیر بحث تھا.کا لے وہ یقیناً اسے قتل نہیں کر سکے اور نہ اسے صلیب دے( کرمار) سکے.بلکہ اللہ نے اپنی طرف اس کا رفع کرلیا.(النساء: ۱۵۹،۱۵۸)
حمامة البشرى اردو ترجمه ووعد التوقـــى مقدم عليها اور توفی کا وعدہ ترتیب کے لحاظ سے ان سب في الترتيب.وأنــت تـعـلـم أن ( وعدوں) پر مقدم ہے اور تو جانتا ہے کہ وعد رَافِعُكَ إِلَى قد وقع رَافِعُكَ إِلَی“ کا وعدہ وقوع پذیر ہو چکا ہے بقية الحاشية صفحه ۱۹۴ـ وما كان غرضهم بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.نہ ان کی کوئی غرض اس سے متعلق تھی.بلکہ متعلقا به، بل علماء اليهود كانوا يمكرون یہودی علماء مسیح کی تکذیب اور تکفیر کے لئے منصوبے بنارہے تھے اور لـتـكـذيــب الـمـسـيـح وتكفيره، ويُفتشون آپ کی تکذیب اور تکفیر کے لئے شرعی حیلہ ڈھونڈ رہے تھے.پس لتكذيبه وتكفيره حيلةً شرعية، فبدا لهم أن ان کو خیال آیا کہ آپ کو صلیب دے دیں.تا کہ وہ آپ کا ملعون يصلبوه ليثبتـوا مـلـعـونيـه و عدم رفعہ ہوتا اور دیگر انبیاء صادقین کی طرح آپ کے روحانی رفع کا تورات الروحاني كالأنبياء الصادقين بنص التوراة کی نص سے عدم وقوع ثابت کریں تا کہ کتاب اللہ کے بعد کسی کے لئلا يكون حجة لأحد بعد كتاب الله لئے حجت نہ رہے.پس انہوں نے اپنے خیال میں انہیں صلیب فصلبوه بزعمهم، وفرحوا بأنهم أثبتوا دے دیا اور وہ خوش ہو گئے کہ انہوں نے آپ کی ملعونیت اور عدم مـلـعـونيـتـه وعدم رفعه بالتوراة، ولكن الله رفع کو تو رات سے ثابت کر دیا.لیکن اللہ نے آپ کو ان کی نـجـاه مـن حـيـلـهـم وقتلهم، فأخبر عن هذه سازشوں اور قتل کرنے سے بچا لیا سو اس نے اس قصے کے متعلق القصة في كتابه الذي أنزل بعد الإنجيل اپنی اس کتاب میں خبر دی جو انجیل کے بعد بطور حکم عدل نازل حَكَمًا عَدْلًا ومُبيِّنًا لظلم كلّ قوم وإيذائهم ہوئی اور جو ہر قوم کے ظلم ، ایذا رسانی اور مکرو فریب کو کھول کر بیان مکروفریب وكيدهم ومُكذِّبًا للكافرين.فكأنه يقول يا کرنے والی اور کافروں کو جھٹلانے والی ہے.گویا کہ وہ فرما رہا حزب المـاكـريـن يــا أعـداء الـصـدق ہے کہ اے مکاروں کے گروہ! اے راستی اور راستبازوں کے والصادقين لم تقولون إنا قتلنا المسيح ابن دشمنو! تم یہ کیوں کہتے ہو کہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل کیا اور صلیب مريم وصلبنا وأثبتنا أنه ملعون غير مرفوع؟ دے دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ آپ ملعون ہیں اور غیر مرفوع ہیں.فأخبركم أيها القوم الخبيثون أنكم پس اے خبیث لوگو! میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ نہ تو تم لوگوں نے مـا قـتـلـتـمـوه وما صلبتموه ولكن شبه لكم اسے قتل کیا اور نہ انہیں صلیب پر مارا لیکن تم پر معاملہ مشتبہ کر دیا تم وأنتم تعلمون في أنفسكم انكم ما قتلتموہ گیا اور تم اپنے دلوں میں خوب جانتے ہو کہ تم نے انہیں یقینا قتل يقينا بل نجاه الله من مكركم ورزقہ نہیں کیا.بلکہ اللہ نے انہیں تمہاری سازش سے نجات بخشی اور الرفع الروحاني الذي كنتم لا تريدون له انہیں وہ روحانی رفع عطا کیا جو تم ان کے لئے نہیں چاہتے تھے
حمامة البشرى اردو ترجمه وهكذا وعد: مطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ اور اسی طرح مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا كَفَرُوا وقع وتم ببعث نبينا کا وعدہ بھی وقوع پذیر ہو چکا ہے اور ہمارے صلى الله صلى الله علیه و سلم ، وقد شهد نبی ﷺ کی بعثت کے ساتھ پورا ہو گیا ہے اور القرآن على أن المسيح وأمه قرآن نے گواہی دی ہے کہ مسیح اور اُن کی مبرء ان مما قالت اليهود، والدہ دونوں یہودیوں کے الزامات سے بری ہیں بقية الحاشية صفحه ١٩۴- وتمكرون لئلا بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.اور تم سازش کرتے رہے کہ اسے یہ مقام حاصل يحصل له ذلك الـمـقـام، فقد حصل له نہ ہو.پس یقیناً انہیں وہ مقام حاصل ہو گیا اور اللہ نے ان کا رفع فرمایا ورفعه الله وكان الله عزيزا حكيما.وهذا اور اللہ غالب حکمت والا ہے اور خدائی قول ” عَزِيزًا حَكِيمًا “ القول..يعنى قوله تعالى عَزِيزًا حَكِيمًا..اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت بخشتا ہے إشارة إلى أن الله يُعزّ من يشاء ، ويحفظ اور اپنے چنیدہ بندوں کی عزت کی اپنی بار یک دربار یک اور لطیف عزة أصفيائه بحكمته الدقيقة البالغة حکمت کے ساتھ ایسی حفاظت کرتا ہے کہ کسی سازش کرنے والے کی اللطيفة، لا يضـرهــا مكر ماكر كما ما کوئی سازش اسے نقصان نہیں پہنچاسکتی جیسا کہ یہودیوں کی سازش نے أضـر عـزّة عيسـى مـكـر اليهود، بل أعزه عیسی کی عزت کو نقصان نہیں پہنچایا.بلکہ (اللہ نے ) آپ کو عزت اور ورفعه ودمر الماكرين.رفعت بخشی اور سازش کرنے والوں کو تباہ و برباد کر دیا.فاعلم أيها العزيز هذا تفسير قوله تعالى پس اے عزیز ! جان لے کہ اللہ تعالیٰ کے قول : بَلْ رَّفَعَهُ بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ، ولكن لا يقبله قومنا اللهُ إِلَيْهِ كى یہ تفسیر ہے.لیکن ہماری قوم اسے قبول نہیں ويُحرفون كلام الله ولا يتدبرون فی شان کرتی.اور وہ اللہ کے کلام میں تحریف کرتے ہیں اور اس کی نزوله، ويمشون على الأرض مستكبرين.شان نزول میں تدبر نہیں کرتے اور زمین پر تکبر کرتے وإذا قيل لهم إن الله ورسوله قد شهدا على ہوئے چلتے ہیں اور جب ان سے یہ کہا جائے کہ اللہ اور اس وفاة المسيح وكذلك شهدوا عليه أكابر کے رسول نے مسیح کی وفات پر شہادت دی ہے اور اسی المؤمنين من الصحابة والتابعين وأئمة طرح صحابہ اور تابعین اور ائمہ محدثین میں سے اکا بر مومنوں المحدثين، فكان آخر جوابهم أن الله نے شہادت دی ہے تو ان کا آخری جواب یہ ہوتا ہے کہ اللہ قـادر عـلـى أن يحييه بعد وفاته مرة أخرى، ان کی وفات کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے.لے اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے.( آل عمران: ۵۶ )
حمامة البشرى ۲۰۴ اردو ترجمه فقال مَا المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ اور فرمایا کہ مَا المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمه وَأُمه صِدِّيقَةٌ ، و قال وَجِيها صديقة ل نیز فرمایا که فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ ، فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ اور اسی وَجِيها وكذا تم وعد وَجَاعِلُ الَّذِينَ طرح یه وعده وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا، وقد فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا ت بھی پورا ہوا اور جس وقع كما وعد، وما نرى اليهود إلا طرح وعدہ تھا اسی طرح وقوع پذیر ہوا اور ہم یہودیوں کو مغلوب اور مقہور ہی دیکھتے ہیں.مغلوبين ومقهورين.بقية الحاشية صفحه ۱۹۴ ولا يتفكرون بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.اور وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ أن قدرة الله تعالى لا يتعلق بما يُخالف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ان امور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جو اس مواعيده الصادقة، وقد قال فيمست کے سچے وعدوں کے خلاف ہوں جبکہ اس نے فرما دیا ہے کہ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ ، وقال فَيُمْسِكَ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ نیز فرمایا وَمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ، وقال كه وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ نیز فرمایا که لَا يَذُوقُوْنَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ لَا يَذُوقُوْنَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الأولى الأولى، ولا شك أنه من مات من اور اس میں شک نہیں کہ صلحاء میں سے جس نے وفات پائی تو الصلحاء فإنه نال حظا من الجنة وحُرّم عليه اس نے جنت سے حصہ پا لیا.اور اس پر دوسری موت حرام ہو گئی.الموتة الثانية، فكيف يجوز أن يُرَدَّ عیسی پھر یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ عیسی دنیا میں واپس لوٹائے جائیں إلى الدنيا ويُخرج من حظ الجنّة ونعيمها اور جنت کی لذات اور نعمتوں سے باہر نکال دیئے جائیں لے مسیح ابن مریم تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے سب رسول وفات پاچکے ہیں اور ان کی والدہ راستباز تھیں.(المائدۃ:۷۶ ) دنیا اور آخرت میں صاحب وجاہت اور مقربوں میں سے ہوگا.(آل عمران: (۴۶) سے کہ میں تیری پیروی کرنے والوں کو انکار کرنے والوں پر غالب کروں گا.(ال عمران: ۵۶) پھر وہ روح کو جس کی موت کا اس نے فیصلہ کر دیا ہوتا ہے روک لیتا ہے.(الزمر : ۴۳) ھے اور وہ اس میں سے نکلنے والے نہیں ہیں.(ال عمران: ۵۶) وہ اس میں پہلی موت کے علاوہ کسی اور موت کا مزہ نہیں چکھیں گے.(الدخان:۵۷)
حمامة البشرى ۲۰۵ اردو ترجمه وأنت تـعـلـم أن في ترتيب هذه اور تو جانتا ہے کہ اس آیت کی ترتیب میں الآية كـانـت هــذه الـمـواعيد كلها سارے وعدے توفّی کے وعدے کے بعد ہیں اور بعد وعد التوفي، وكان وعد تَوَفّى كا وعدہ ان سب ( وعدوں ) پر مقدم ہے اور التوفّى مقدمًا على كلها، وقد اتفق قوم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ تمام القوم على أنها وقعت بترتيب وعدے اسی ترتیب سے واقع ہوئے ہیں جو اس يوجد في الآية، فلو فرضنا أن لفظ آیت میں پائی جاتی ہے.پس اگر ہم فرض کر التوفى مؤخر من لفظ الرفع للزمنا لیں کہ لفظ توفی لفظ رفع کے بعد آیا ہے تو ہم پر أن نقر بأن عيسی علیه السلام قد لازم ہوگا کہ ہم اقرار کریں کہ عیسی علیہ السلام توفّى بعد الرفع وقبل وقوع رفع کے بعد اور باقی وعدوں کے وقوع پذیر المواعيد الباقية، وهذا مما لا ہونے سے پہلے وفات پاگئے اور یہ بات ایسی ہے يعتقد به أحد من المخالفین کہ مخالفوں میں سے کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا.بقية الحاشية صفحه ١٩۴- أو يُسَد عليه بقیہ حاشیہ صفحہ ۱۹۴.اور ان پر اس (جنت) کا بالا خانه مسدود غرفتها ثم يُتوَفَّى مرة ثانية؟ مع أن الآية ہو جائے.پھر وہ دوسری دفعہ وفات پائیں.جبکہ پہلی آیت، یعنی المتقدمة..أعنى لا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلا آيت لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الْأولى داى الْمَوْتَةَ الأُولَى تدل على دوام الحياة وعدم زندگی اور موت کا مزہ نہ چکھنے پر دلالت کرتی ہے اور اسی کی طرف ذوق الموت.وإلى هذا يُشير الاستثناء ( قاعده) استثناء منقطع اشارہ کرتا ہے.کیونکہ یہ عموم کی حفاظت الـمـنـقـطـع، فإنه جرى مجرى التأکید کے لئے بطور تاکید اور نص استعمال ہوا ہے.اور اس نے عام کی والتنصيص على حفظ العموم وجعل النفی نفی اول کو بمنزلہ ایسی نص کے قرار دیا ہے.جس میں قطعی طور پر الأول العام بمنزلة النص الذي لا يتطرق کوئی استثناء راہ نہیں پاتا.کیونکہ اگر افراد میں سے کسی فرد کا إليه استثناء البتة، إذ لو تطرّق إليه استثناء استثناء اس میں راہ پا جائے تو اس سے استثناء منقطع کی بجائے اس فرد من أفراد لكان أولى بذكره من العدول کا ذکر کرنا زیادہ مناسب ہو گا.پس تو اس بات کو اچھی طرح عنه إلى الاستثناء المنقطع، فاحفظه فإنه من ذہن نشین کر لے کیونکہ یہ ان اسرار میں سے ہے جو تحقیق کرنے أسرار مفيدة للمحققين منه والوں کے لئے مفید ہیں.منہ الدخان: ۵۷
حمامة البشرى ۲۰۶ اردو ترجمه (۵۷) ولو قلنا إن لفظ التوفّى مؤخر من اور اگر ہم کہیں کہ لفظ تَوَفِي، وَمُطَهَّرُكَ مِنَ جملة وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوا کے جملے سے مؤخر ہے اور اس وعدے و مقدم من وعد وقع فی ترتیب سے مقدم ہے جو آیت کی ترتیب میں اس کے بعد الآية بعدها، للزمنا أن نقر بأن وفاة واقع ہے تو پھر ہم پر لازم ہوگا کہ ہم اقرار کریں کہ عیسی عیسی علیه السلام كان بعد نبينا صلی علیہ السلام کی وفات بلا توقف ہمارے نبی ﷺ کے الله عليه و سلم من غير مكث قبل بعد اور اُن کے متبعین کے اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل غلبة أتباعه على أعدائهم، وهذا کر لینے سے قبل (واقع ) ہوئی.اور ان لوگوں کے باطل أيضا بزعم القوم، فإنهم قد خیال میں یہ بھی باطل ہے کیونکہ انہوں نے یہ عقیدہ اعتقدوا أن المسيح لا يموت إلا اپنایا ہے کہ مسیح سب ملتوں کے ہلاک ہونے کے بعد هلاك الملل كلها.فلو رجعنا بعد ہی وفات پائیں گے.لہذا اگر ہم ان سب من هذه الأقوال كلها وقلنا إن اقوال سے رجوع کرلیں اور یہ کہیں کہ مسیح اس غلبہ المسيح لا يموت إلا بعد تكميل وعد کے وعدے کی تکمیل کے بعد ہی وفات پائیں گے الغلبة الممتدة إلى يوم القيامة كما جو قیامت کے دن تک ممتد ہے جیسا کہ آیت صرحت آية وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ نے وضاحت کی ، تو پھر لازماً للزمنا أن نقر بأن المسيح لا يموت ہمیں یہ اقرار کرنا ہوگا کہ مسیح قیامت کے دن إلا بعد يوم القيامة، فإن الوعد کے بعد ہی وفات پائیں گے.کیونکہ یہ وعدہ قد امتد إلى يوم القيامة، ولا يمكن قيامت کے دن تک ممتد ہے.اور مسیح کا | نزول المسيح إلا بعد وقوعه نزول اس وعدے کے پورے اور مکمل طور پر على الوجه الأتم والأكمل، وقوع پذیر ہونے کے بعد ہی ممکن لے اور ( میں ) تیرے پیرو کاروں کو منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا.(ال عمران : ۵۶ ) ہے.
حمامة البشرى ۲۰۷ اردو ترجمه فما نجد له موضع قدم فی کتاب پس ہم اس کے لئے اللہ کی کتاب میں کوئی گنجائش الله إلَّا بعد يوم الحشر على طريق نہیں پاتے مگر حشر کے دن کے بعد ہی فرض محال کے فرض المحال وليت شعری..إن طور پر.اے کاش میں یہ جان لیتا کہ ہمارے دشمن أعداء نا يقولون بأفواههم إن لفظ جو اپنے مونہوں سے یہ تو کہتے ہیں کہ مُتَوَفِّيكَ مُتَوَفِّيكَ في آية يَا عِيسَى إِنِّي کا لفظ آیت يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں مُتَوَفِّيكَ مؤخر في الحقيقة، وليس در حقیقت مؤخر ہے اور یہ جگہ اس کی حقیقی جگہ هذا الموضع موضعه، ولكنهم لا نہیں ہے لیکن وہ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ اگر ہم اس يُنبئوننا بأن لو نرفع هذا اللفظ من لفظ کو اِس موجودہ جگہ سے اُٹھا لیں تو پھر اُسے هذا المقام فأين نضعه، أنسقطه من کہاں رکھیں؟ کیا ہم اسے تحریف کرنے والوں کی كتاب الله كالمحرفين.طرح کتاب اللہ سے ساقط کردیں.والذين يقولون إن لفظ التوفّى اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ لفظ توفی لفظ رفع مؤخر من لفظ الرفع ومقدم علی مواعید سے مؤخر ہے اور دوسرے وعدوں سے مقدّم، أخرى، فيضحك العاقل من قولهم، تو ایک عقل مند انسان اُن کی اس بات پر ہنسے ويتعجب من حمقهم.ألا يعلمون أن گا.اور اُن کی حماقت پر تعجب کرے گا.کیا انہیں هذا القول خلاف ما يعتقدون في یہ معلوم نہیں کہ یہ قول وفات مسیح کے مزعومہ وقت وقت وفاة المسيح بزعمهم؟ وإنا کے بارہ میں جو اُن کا عقیدہ ہے اُس کے خلاف ذكرنا آنفًا أنهم يعتقدون أن وعد ہے.اور ہم نے ابھی ذکر کیا ہے کہ وہ یہ عقیدہ التوقى لا يظهر ولا يقع إلا بعد رکھتے ہیں کہ توفی کا وعدہ تمام ملتوں کی ہلاکت هلاك أهل الملل كلها، فلزمهم أن کے بعد ہی ظاہر اور وقوع پذیر ہوگا.پس اُن پر یہ يعتقدوا أن لفظ التوفّى مؤخر من لازم ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھیںکہ لفظ توفی اس دوسرے هذا الوعد الآخر لا من الرفع فقط، وعدے سے بھی مؤخر ہے نہ کہ صرف رفع سے.
حمامة البشرى ۲۰۸ اردو ترجمه فإن التأخر الوضعي يتبع التأخر کیونکہ جیسا کہ غور وفکر کرنے والوں پر یہ امرمخفی نہیں الطبعي، كمالا يخفى على المتفكرين کہ تا خر وضعی تا خرطبعی کے تابع ہوتا ہے.پھر یہ ہمارا ثم ما كان لنا أن نؤخّر من عند أنفسنا حق نہیں ہے کہ ہم اللہ اور اُس کے رسول کی سند کے ما قدم الله تعالى في كتابه المحكم بغیر محض اپنی طرف سے اُس کو مؤخر کر دیں جسے اللہ من غير سند من الله ورسوله، وما هذا تعالٰی نے اپنی محکم کتاب میں مقدم کیا ہے، اور یہ إلا التحريف الذي لعن الله لأجله وہی تحریف ہے جس کی وجہ سے اللہ نے یہودیوں اليهود؛ فاتقوه ولا تقلبوا آیات اللہ پر لعنت کی.پس تم اُس سے ڈرو.اور اگر تمہیں خوف بعد ترتيبها إن كنتم خائفين.وقد علمتم (خدا) ہے تو اللہ کی آیات کی جو تر تیب ہے اُسے نہ أن آية فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنى شاهدة أخرى بدلو.اور تمہیں معلوم ہے کہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي على وفاة عيسى عليه السلام، فإن عیسی علیہ السلام کی وفات پر ایک اور گواہ ہے.رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي استعمل لنفسه جملة فلما توقيتني کے جملہ کو بغیر کسی تغیر و تبدل اور بغیر کسی ایسی تفسیر من غير تغییر و تبدیل ومن غیر کے جو اس تفسیر کے اصل کے مخالف ہو، خود اپنی تفسير يُخالف أصل التفسير، وكان ذات کے لئے استعمال فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی رسول الله صلى الله علیه وسلم اللہ علیہ وسلم قرآن کے معانی اور اُس کے رموز و أعلم الناس بمعانی القرآن ورموزه اسرار کو سب لوگوں سے زیادہ جانتے تھے.پس اگر وأسراره.فلو كان معنى التوفّى فى اس آیت میں توفی کے معنی جسم کا زندہ آسمان کی هذه الآية رفع الجسم حيا إلى طرف اُٹھایا جانا ہوتے تو آپ اپنی ذات کو کبھی السماء، لما جعل نفسه مصداق اس آیت کا مصداق قرار نہ دیتے.لیکن آپ نے هذه الآية، ولكنه نسب هذه الآية إلى تو اس آیت کو اپنی ذات کی طرف اسی طرح منسوب نفسه كما هي نُسبت إلى المسيح | فرمایا ہے جیسا کہ یہ مسیح کی طرف منسوب ہے.ل "تأخر وضعی یعنی خود ساخته تأخر سے تا خرطبیعی یعنی فطرتی تأخر (ناشر)
حمامة البشرى ۲۰۹ اردو ترجمه فهذا أول دليل على أن لفظ پس یہ اس بات پر پہلی دلیل ہے کہ اس آیت تَوَفَّيَتَني في هذه الآية بمعنى أمَتَنى ميں لفظ تَوَفَّيْتَنِي کے معنی اَمَتْنِی (یعنی مجھے فهذا هو السبب الذي استدل موت دے دی) کے ہیں.پس یہ وہ سبب ہے البخاري في صحيحه على وفاة (جس کی وجہ سے ) امام بخاری نے اپنی صحیح میں المسيح بهذه الآية، واكد هذا اس آیت سے وفات مسیح پر استدلال کیا ہے اور المعنى بقول ابن عباس مُتَوَفِّيكَ ان معنوں کو ابنِ عباس کے قول : مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ.فأي دليل أوضح من هذا مُمِيتُكَ کے ساتھ مضبوط کیا ہے.پس حق کے على موت عیسی علیہ السلام متلاشیوں کے لئے عیسی علیہ السلام کی موت پر لقوم طالبين؟ وقد بين الله في هذه اس سے زیادہ واضح دلیل اور کون سی ہوسکتی الآية وقت وفاة المسيح فكأنه قال ہے؟ اللہ نے اس آیت میں مسیح کی وفات کا أيها الناس، إذا رأيتم أن النصارى وقت واضح کر دیا ہے.گویا کہ اُس نے یہ فرمایا اتخذوا عيسى إلها، وأفسدوا کہ اے لوگو! جب تم دیکھو کہ عیسائیوں نے عیسی مذهبهم، فاعلموا أن عيسى قد کو معبود بنالیا ہے اور انہوں نے اپنا مذہب بگاڑ مات.فانظر كيف اتضح لیا ہے تو جان لو کہ یقینا عیسی فوت ہو گئے ہیں.وانكشف مَعْنَى التَّوَفِّى بتفسير پس دیکھ ! کہ توفی کے معنی رسول اللہ صلی اللہ (۵۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کی تفسیر اور پھر ابن عباس کی تفسیر سے کس ثم بتفسير ابن عباس، وانظر كيف طرح واضح اور کھل کر سامنے آگئے.نیز دیکھ کہ ثبت وقوع موته من قبل فساد کس طرح اُن کی موت کا ، عیسائیوں کے مذهب النصارى واتخاذهم عیسی مذہب کے بگڑنے اور عیسی کو معبود بنا لینے سے إلها و أنت تعلم أنا إذا فرضنا قبل واقع ہونا ثابت ہو گیا.اور تو جانتا ہے أن عيسى حتى إلى هذا الوقت کہ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ عیسی اب تک زندہ ہیں
حمامة البشرى ۲۱۰ اردو ترجمه فلزمنا أن نقر بأن مذهب تو یہ ہم پر لازم آئے گا کہ ہم اقرار کریں کہ النصارى صحيح خالص إلى عیسائیوں کا مذہب اس وقت تک درست اور هذا الزمان، ما اختلط به خالص ہے اس میں شرک کی کوئی آمیزش نہیں شيء من الشرك، فتفكرُ وسَل ہوئی.پس خود سوچ اور غور و فکر کرنے والوں سے دریافت کر.المتفكرين.قال بعض المستعجلين إن لفظ بعض جلد بازوں نے کہا ہے کہ قرآن میں التوفّى“ قد جاء في القرآن بمعنی توفی کا لفظ سُلانے کے معنوں میں بھی الإنامة أيضًا، كما قال الله تعالى تو آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللهُ يَتَوَفَّى الأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَا ، وكما قال في مَنَامِهَا نیز جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے الله تعالى وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّكُمْ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضَى أَجَلُّ مُّسَمًّى.يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى.پس تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات فاعلم أن الله تعالى ما أراد في هذه میں لفظ توفی سے صرف وفات دینے اور الآيات من لفظ التوفّى إلَّا الإمانة وقبض قبض روح کے معنی ہی مراد لئے ہیں.الروح، فلأجل ذلك أقام القرائن سو اسی وجہ سے اُس نے قرینے قائم فرمائے وقال وَالَّتِي لَمْ تَمْتُ فِي مَنَامِهَا ، اور فرمایا وَالَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَا یعنی جو يعنى والتي لم تمت بموت حقیقی جان حقیقی موت نہیں مرتی اُسے اللہ اُس يتوفاه الله في منامها بموت مجازی.کی نیند کے وقت مجازی موت دیتا ہے.اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جو مری نہیں ہوتیں (انہیں) ان کی نیند کی حالت میں ( قبض کرتا ہے).( الزمر:۴۳) ے اور وہی ہے جو تمہیں رات کو ( بصورت نیند ) وفات دیتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے جو تم دن کے وقت کر چکے ہو پھر وہ تمہیں اُس میں (یعنی دن کے وقت ) اُٹھا دیتا ہے تا کہ (تمہاری) اجل مسٹمی پوری کی جائے.(الانعام:۶۱ )
حمامة البشرى ۲۱۱ اردو ترجمه فانظر كيف أشار في هذه الآية پس دیکھ ! کہ کس طرح اُس نے اس آیت میں إلى أن قبض الروح في النوم به اشاره فرمایا ہے کہ نیند کی حالت میں قبض روح موت مجازی.فذگر لفظ التوفی ایک مجازی موت ہے.اس لئے اُس نے اس ههنا بإقامة قرينة المنام جگہ توفی کا لفظ نیند کا قرینہ قائم کر کے بیان کیا تنبيها على أن لفظ التوفّى ههنا ہے.یہ آگاہ کرنے کے لئے کہ اس جگہ توفی قد نُقل من المعنى الحقيقى إلى کا لفظ اپنے حقیقی معنوں سے مجازی معنوں کی المعنى المجازى، وإشارةً إلى طرف منتقل کیا گیا ہے اور یہ اس امر کی طرف أن معنى لفظ التوفّى حقيقة هو اشارہ ہے کہ لفظ توفی کے معنی حقیقی موت ہی الموت لا غيره.وكذلك أقام کے ہیں.اس کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں.اور اس قرينة قوله ثُمَّ يَبْعَثُكُمُ وقرينة طرح اُس نے ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ کہہ کر ایک قرینہ الليل في آية أخرى..أعنى آية قائم کیا ہے.اور ایک دوسری آیت میں اللیل هُوَ الَّذِى يَتَوَفَّكُمْ بِالَّيْلِ..الخ، (رات) کا قرینہ قائم کیا گیا ہے.یعنی آیت تنبيها على أن لفظ التوفّى هُوَ الَّذِي يَتَوَقْكُمْ بِالَّيْلِ الخ میں.یہ ههنا ليس بمعنى الإنامة بتانے کے لئے کہ یہاں تو فی کا لفظ سُلانے کے بل المقصود الإماتة، والبعث معنوں میں نہیں.بلکہ در حقیقت اس سے مقصود بعد الإماتة ليكون دليلا على موت اور موت کے بعد کی بعثت ہے تاکہ بعث يوم الدين.جزا وسزا کے روز کی بعثت پر دلیل ہو.فلأجل ذلك ذكر بعث يوم پس اسی وجہ سے اُس نے قیامت کے روز القيامة بــعــد هــذه الآية اُٹھائے جانے کا ذکر اس آیت کے بعد کیا وقال ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ اور فرمایا کہ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ! ا وہی ہے جو تمہیں رات کو (بصورت نیند ) وفات دیتا ہے.(الانعام: ۶۱) یعنی پھر اُسی کی طرف تمہارا لوٹنا ہے.(الانعام: ۶۱)
حمامة البشرى ۲۱۲ اردو ترجمه ليجعل هذا الموت المجازی تاکہ وہ اس مجازی موت اور مجازی اُٹھائے والبـعـث الـمـجـازی دلیلا علی جانے کو حقیقی موت اور حقیقی اُٹھائے جانے پر الموت الحقیقی و البعث الحقیقی دلیل ٹھہرائے.پس تو اس یاددہانی کے بعد ظالم فلا تقعد بعد الذكرى مع قوم کے ساتھ نہ بیٹھ.کیا تو دیکھتا نہیں کہ اُس القوم الظالمين.ألا تنظر كيف نے تَوَفِّی کے ذکر کے بعد کس طرح لفظ بعث ذكر لفظ البعث بعد ذکر کا ذکر کیا.اور فرمایا ( کہ پھر وہ تمہیں اس میں التوفى وقال ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ اُٹھائے گا ) اور ظاہر ہے کہ سونے والوں کے ومعلوم أن للنائمين يُستعمل لئے ایقاظ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ لفظ الإيقاظ لا لفظ البعث بعث کا لفظ.پس اگر توفی کے لفظ سے مراد فلو كان مرادا من لفظ التوفّى یہاں سُلانا ہوتا تو وہ ضرور یہ فرما تا کہ اللہ ایسا ههنا الإنامة لقال هو الذى ہے جو تمہیں رات کو سلا تا ہے اور وہ جانتا ہے کہ يتـوفـاكـم بالليل ويعلم ما جرحتم تم دن میں کیا کرتے ہو پھر وہ تمہیں اس میں بالنهار ثم يوقظكم فيه، ولكنه بیدار رکھتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ثم يوقظکم تعالى ما قال ثم يوقظكم فيه فيه کے الفاظ نہیں فرمائے بلکہ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ بل قال ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ.فأى فرمايا.پس اس سے زیادہ واضح دلیل اور کون دليل أوضح من هذا فإن البعث کسی ہو سکتی ہے؟ پس لفظ بعث کا تعلق مُردوں يتعلق بالموتى لا بالنائمين.سے ہے نہ کہ سونے والوں سے.ومثل هذه الاستعارة كثير في اور اس جیسے استعارے قرآن کریم میں القرآن كما قال عزوجل اِعْلَمُوا بہت ہیں.جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا: انَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.ے یاد رکھو کہ اللہ زمین کو اس کی موت کے بعد ضر ور زندہ کرتا ہے.(الحدید: ۱۸)
حمامة البشرى ۲۱۳ اردو ترجمه فلا يقال إن لفظ يُحْيِي اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لفظ يُحْيِي یہاں ههنا بمعنى يُنبت من حيث لغت کے لحاظ سے يُنْبِتُ کے معنوں میں آیا اللغة، بل هو استعارة، والمقصود ہے بلکہ وہ ایک استعارہ ہے.اور اس سے منه تشبيه الإنبات بالإحياء، مقصود انبات (اُگانے) کو احیاء (زندہ کرنے) لِيُستَدَلَّ به على بعث الموتی کے ساتھ تشبیہ دینا ہے.تا کہ وہ اس سے مُردوں وكما قال : فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْلَى کے اُٹھائے جانے پر استدلال کرے.نیز اسی اَبْصَارَهُمْ ، فلا يُقال إن لفظ طرح اللہ عزوجل نے فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْلَى أَصَمَّهُمُ وَ أَعْمَى بمعنى أَبْصَارَهُم ل فرمایا ہے.لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا من حيث اللغة كـ أَصَمَّهُمُ وَأَعْمٰی کے الفاظ کے معنی لغت کی بل هي استعارة، والمقصود منها رو سے انہیں گمراہ کرنے کے ہیں.بلکہ یہ ایک تشبيه الضالين المعرضين استعارہ ہے جس سے مراد اعراض کرنے والے بالصم والعمى.فلا تطمَعُ گمراہوں کو بہروں اور اندھوں کے ساتھ تشبیہ ولا تتعب نفسك فى آن دیتا ہے.پس نہ تو تو طمع کر اور نہ ہی تو اپنے آپ تجعل معنى التوفي الإنامة کو اس مشقت میں ڈال کہ تو لغت کی رو سے توفی من حيث اللغة، فإنه إن كان كے معنى سُلانے کے کرے.کیونکہ اگر ایسا کرنا کے ذلك هــو الــحــق فــلــزمـك درست ہوتا تو تجھ پر یہ لازم آتا کہ تو اقرار کرے کہ أن تقر بأن لفظ يُحْيِي آيت يُخي الْأَرْضَ میں لفظ يُحْيِي (٥٩) في آية يُحْيِ الْأَرْضَ بمعنى كے معنى يُنْبِتُ (اُگانے) کے ہیں.پھر تو (ان ينبت، ثم تثبتها من كتب اللغة معنوں کو لغت کی کتابوں سے ثابت بھی کرتا.ے اور اس نے انہیں بہرہ کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا.(محمد: ۲۴) وہ زمین کو زندہ کرتا ہے.(الروم: ۲۰)
حمامة البشرى ۲۱۴ اردو ترجمه وتلحق بقوم صادقين.وكذلك إن أصررت على هذا اسی طرح اگر تو اس مفہوم پر اصرار کرے تو تجھ پر یہ اقرار فلزمك أن تقر بأن لفظ فَأَصَمَّهُمُ لازم ہوگا کہ لفظ أَصَمَّهُمُ اور لفظ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمُ ولفظ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمُ بمعنى ضرور لفظ أَضَلَّهُمُ اور أَبْعَدَهُمْ عَنِ الْحَقِّ وَأَزَاغَ أضلهم وأبعدهم عن الحق وأزاغ قُلُوبَهُم لے کے معنی میں ہے پھر یہ معنی لغت عرب کی قلوبهم، ثم تُرينا من كتب لغة کتابوں سے بھی ہمیں دکھانا ہوگا.لیکن ایسا کرنا العرب هذه المعنى، وأين لك تیرے بس میں کہاں؟ لہذا تو ایسی سوچ کی پیروی نہ هذا؟ فلا تتبع الفكر المشوب کر جس میں وہم کی آمیزش ہے.تیرے لئے اس بالوهم، ولا بد أن تقبل ما ثبت کے سوا چارہ نہیں کہ تو اس ثابت شدہ حقیقت کو قبول کرلے اور راستبازوں کے ساتھ شامل ہو جائے.واعلم أنك لن تجد أثرا من هذه اور اگر تو صاحب بصیرت ہے تو تجھے معلوم ہونا المعاني التي تتخیل فی بادی النظر فی چاہئے کہ ان معانی کا کوئی ایسا نشان حقیقی طور پر الآيات المتقدمة في كتاب من كتب عربی زبان کی کسی کتاب میں تجھے ہر گز نہیں ملے لسان الـعـرب عـلـى وجه الحقيقة گا جو بادی النظر میں متذکرہ بالا آیات سے ذہن والقرآن مملوء من هذه النظائر إن كنت میں اُبھرتے ہیں.جبکہ قرآن ان نظائر سے بھرا پڑا من الناظرين.وقد تقرر عند القوم أن ہے.یہ امر ثابت شدہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک المعنى الحقيقي هو الذي كثرت حقیقی معنی وہی ہوتے ہیں جن کا کسی جگہ بغیر قرینہ استعماله في موضع من غير أن يُقام قائم کرنے کے کثرت سے استعمال ہوتا ہو.اس القرينة عليه، فعليك أن تنظر القرآن لئے تجھ پر یہ فرض ہے کہ تو قرآن پر گہرے تدبر کی نظر تدبرا ليتبين لك أن استعمال لفظ ڈالے تا کہ تجھ پر یہ ظاہر ہو جائے کہ لفظ توفی کا التوفى مطلقا من غير إقامة قرينة ما مطلق استعمال بغیر قرینہ قائم کرنے کے قرآن کریم جاء في القرآن إلا في معنى الإماتة، میں صرف موت دینے کے معنوں میں ہی آیا ہے.ے یعنی انہیں حق سے دور کر دیا اور ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا.
حمامة البشرى ۲۱۵ اردو ترجمه من الصادقين.ولن تجد فــي حـديـث أو في | نیز کسی حدیث میں یاکسی شاعر کے شعر میں شعر شاعر..إذا نسب التوفی بھی تو یہ ہرگز نہ پائے گا کہ جب تَوَفّی کا لفظ إلى الله تعالى وكان الإنسان اللہ کی طرف منسوب ہو اور انسان مفعول به هو مفعولا به معنی آخر من تو اس کے معنی موت دینے کے سوا کوئی اور غير الإمانة، فأخرج لنا وخُذ ہوں.پس اگر تو سچا ہے تو اس کی کوئی مثال منا ما وعدنا من الإنعام إن كنت پیش کر اور ہم سے وہ انعام حاصل کر جس کا ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے.والذين قالوا إن لفظ اور جن لوگوں نے یہ کہا کہ آیت يَا عِیسَی اِنِّی مُتَوَفِّيكَ في آية يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں لفظ مُتَوَفِّيكَ کے معنی اِنِّي مُتَوَفِّيكَ بمعنى إِنِّي مُنِيمُكَ مُنِيمُكَ ( یعنی میں تجھے سُلانے والا ہوں) ما كان خطؤهم خطأ واحدا، ہیں.تو اُنہوں نے ایک غلطی نہیں کی بلکہ اُنہوں بل جمعوا أنواع العشرات فی نے اپنے قول میں کئی قسم کی لغزشیں جمع کر دی قولهم وتركوا تفسیر رسول الله ہیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلى الله عليه وسلم، وهو تفسیر کو چھوڑ دیا ہے.حالانکہ حضور خیرالبشر ہیں خير البشر وكان تكلمه بالروح اور آپ کا کلام فرمانا رحمانی روح سے تھا اور الرحمانی، و كان قوله خيرا من آپ کا قول تمام اقوال سے بہتر تھا.اور آپ أقوال كلها، وقد أحاطت كلماته كے كلمات (طیبه ) ذوق، وجدان، علم، عرفان طرق الذوق والوجدان والعلم اور نور کے تمام پہلوؤں پر محیط ہیں جو خدائے والعرفان والنور الذي أعطى له رحمان کی طرف سے آپ کو عطا کئے گئے تھے.من الرحمن، وتركوا ما قال ابن اور اُنہوں نے مُتَوَفِّيكَ کے معنوں کے بارہ عباس في معنى مُتَوَفِّيكَ، میں ابن عباس کے قول کو ( بھی ) چھوڑ دیا ہے.
حمامة البشرى ۲۱۶ اردو ترجمه من المهتدين.وما نظروا إلى القرآن و طریق اور اُنہوں نے قرآن اور اُس کے اس لفظ کو استعمال استعماله في هذا اللفظ ، و ورودہ کرنے کے طریق اور قرآن میں اس لفظ کے تواتر کے فيه بمعنى الإمانة بالتواتر والتتابع، ساتھ موت دینے کے معنوں میں وارد ہونے پر غور نہیں فضلوا وأضلوا وما كانوا کیا.اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا.اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے.ثم إذا فرضنا أن التوفّى بمعنی پھر اگر ہم فرض کریں کہ توفی کا لفظ سُلانے الإنامة، فما نرى أن ينفعهم هذا كے معنوں میں ہے تو ہم ان معنوں کو اُن کے لئے المعنى مثقال ذرة، فإن النوم مراد ذرہ بھر مفید نہیں دیکھتے کیونکہ نیند، روح اور جسم من قبض الروح وتعطل حواس کے باہمی تعلق کے باقی رہنے کے باوجود حواسِ الجسم مع بقاء تعلَّق بين الروح جسم کے معطل ہونے اور قبض روح سے عبارت والجسد، فمن أين يثبت من هذا أن ہے.پھر اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ اللہ نے الله قبض جسم المسيح؟ ألا تنظر مسیح کے جسم کو قبض کر لیا؟ کیا تو اللہ کی قدیم سنت إلى سُنّة الله القديمة فإنه کی طرف نگاہ نہیں ڈالتا کہ وہ نیند کی حالت میں يقبض الأرواح في حالة النوم ويترك روحوں كو قبض کر لیتا ہے اور جسموں کو زمین پر رہنے الأجسام على الأرض.فمن أين دیتا ہے.پھر تجھے کہاں سے یہ معلوم ہوا کہ علمت أن لفظ مُتَوَفِّيكَ مُشْعِرٌ مُتَوَفِّيكَ کا لفظ جسم کے اُٹھائے جانے کو ظاہر برفع الجسد؟ والخلق ينامون كلهم کرتا ہے؟ حالانکہ سب مخلوق سوتی ہے لیکن اللہ ان ولكن لا يقبض الله جسم احد میں سے کسی کے جسم کو قبض نہیں کرتا.پس تو تحلم منهم.فاترك التحكم والمكابرة، اور ہٹ دھرمی چھوڑ دے اور ایمان اور دیانت سے وانظر إيمانا وديانة لينفخ الله في غور و فکر کرتا کہ اللہ تیرے دل میں (اپنی) روح روعك ويجعلك من العارفين پھونکے اور تجھے عارفوں میں سے بنادے.
حمامة البشرى ۲۱۷ اردو ترجمه وعلى تقدير فرض هذا المعنى اور اس معنی کے فرض کر لینے سے ایک اور خرابی یلزم فساد آخر، وهو أن لفظ التوفّى بھى لازم آتی ہے اور وہ یہ کہ اس آیت میں توفی في هذه الآية وعد مُحدَث من الله کا لفظ ان دوسرے وعدوں کی طرح جن کا اللہ نے تعالى كمواعيد أخرى التي ذكرها اس آیت میں ذکر کیا ہے ایک جدید وعدہ ہے.اور الله فيها، ولو كان هذا المعنى هو الحق اگر بالفرض) یہ معنے ہی درست ہوں تو اس سے فيلزم منه أن يكون نوم المسيح عند یہ لازم آئے گا کہ رفع کے وقت مسیح کی نیند وہ پہلا الرفع أول أمر ورد عليه في عمره، امر ہوگا جو اُن کی زندگی میں وارد ہوا اور پھر یہ بھی ويلزمهم أن يعتقدوا أن عيسى عليه ان پر لازم آئے گا کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ عیسیٰ علیہ السلام كان لا ينام قبل الرفع قط، فإن السلام رفع سے پہلے کبھی بھی نہیں سوتے تھے.الأمر الذي قد وقع عليه في حياته غیر پس وہ امر جو اُن (مسیح) کی زندگی میں کئی بار مرة..كيف يمكن أن يذكره الله في واقع ہوا یہ کیسے ممکن ہے کہ اُس کا جدید نئے مواعيد جديدة محدثة فإن وعد الشيء وعدوں کے ساتھ اللہ ذکر فرمائے.کیونکہ کسی چیز يدلّ على عدم وجود الشيء قبل کا وعدہ کرنا وعدے سے قبل اُس چیز کے عدم وجود الوعد، وإلا فيلزم تحصيل حاصل پر دلالت کیا کرتا ہے ورنہ تحصیل حاصل لا زم آئے وهو فعل لغو لا يليق بشان الله گی.اور یہ لغو فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے تعالى، ووجب أن يُنزَّه عنه وعد رب شایان نہیں.اور ضروری ہے کہ ربّ العالمین العالمين.ثم لو كان هذا المعنى هو كا وعدہ اس سے پاک ہو.پھراگر (بالفرض) یہ الصحيح..فما تقول في آية فَلَنا معنی بھی صحیح ہوں تو فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنْتَ تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ے کی نسبت تو کیا کہے گا؟ کیا تو أتظن أن النصارى اتخذوا المسیح یہ خیال کرتا ہے کہ عیسائیوں نے مسیح کو اُن کی نیند إلها بعد نومه لا بعد وفاته کے بعد معبود بنایا تھا نہ کہ اُن کی وفات کے بعد.لے پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو اس وقت تو ہی ان کا نگہبان اور محافظ اور نگران تھا.(المآئدۃ: ۱۱۸)
حمامة البشرى ۲۱۸ اردو ترجمه وتظن أن المسيح ما نام قط في عمرہ اور تو یہ خیال کرتا ہے کہ مسیح اپنی زندگی میں کبھی إلا في وقت ضلالة النصارى..ولم نہیں سویا تھا سوائے عیسائیوں کی گمراہی کے وقت تذق عـيـنــه طعم النوم قط إلا عند میں.اور صرف رفع کے وقت ہی اُس کی آنکھوں الرفع وكان قبل الرفع مستيقظا نے نیند کا مزہ چکھا تھا.اور رفع سے پہلے وہ ہمیشہ دائما؟ فانظر منصفًا..ايستقيم هذا جاگتے رہے.پس انصاف سے دیکھ ! کیا یہ المعنى في هذا الموضع ويحصل منه معنی اس جگہ درست ہیں اور کیا اس سے قلب کو ثلج القلب وسكينة الروح واطمئنان برودت، روح کو تسکین اور باطن کو تشفی حاصل الباطن؟ وأنت تعلم أنه مستبعد جدا ہوسکتی ہے؟ اور تو جانتا ہے کہ ( یہ معنی حقیقت سے ) وفاسد بالبداهة، وما كان أن يُصلحه بہت دور اور بالبداہت فاسد ہیں.اور تاویل تأويل المؤولين فهذه غفلة شديدة کرنے والوں کی کوئی تاویل بھی اس کی اصلاح من العلماء المكفّرين حيث حكموا نہیں کر سکتی.پس یہ ملکفر علماء کی سخت غفلت ہے کہ على المعنى الفاسد بالصلاح، اُنہوں نے ان فاسد معنوں کو درست قرار دیا.سو اگر تم سنے والے ہوتو سنو.ثم مع ذلك قد جاء في البخاري پھر اس کے ساتھ ہی ( صحیح ) بخاری میں توفی کے عن ابن عباس رضی اللہ عنہ فی معنوں کی ( حضرت ) ابن عباس رضی اللہ عنہ کی واضح معنى التوفى شرح واضح فقال تشریح آئی ہے.آپ نے مُتَوَفِّيكَ ( کے معنی) مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ، وتبعه سائر مُمِيتُكَ کئے ہیں اور سب صحابہ اور تابعین اور تبع الصحبة والتابعين ومن تبعهم، ولم تابعین نے بھی آپ کی پیروی کی ہے.اور اُن میں يشذ أحد منهم بخلاف، فای دلیل سے کسی ایک نے بھی اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی يكون أوضح من هذا إن كان رجل اختیار نہیں کی.اگر کوئی انسان متلاشیان حق میں سے ہو تو اس سے واضح دلیل اور کون سی ہوسکتی ہے.فاسمعوا إن كنتم سامعين.من الطالبين؟
حمامة البشرى ۲۱۹ اردو ترجمه وقد ذكرت آنفا أنا لو فرضنا اور میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ اگر ہم تنزل کے على سبيل التنزل وقلنا إن التوفى طور پر فرض کر لیں اور یہ کہیں کہ توفی کا لفظ یہاں ههنا..أعنى في آية يَا عِيسَى إِنِّى یعنی آیت يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں مُتَوَفِّيكَ بمعنى الإنامة..لكانت سُلانے کے معنوں میں آیا ہے تو یہ واقعہ ایک دوسرا هذه الواقعة واقعة أخرى، ولا ينفع واقعہ ہوگا.اور اس سے استدلال کرنا مخالف قوم الاستدلال بها قوما مخالفين فإن کے لئے فائدہ مند نہ ہوگا.کیونکہ مخالفوں کا مطلوب المخالفين من خبطهم أن مقصد اپنی بے بصیرتی کی وجہ سے یہ ہے کہ وہ يثبتوا رفع المسيح مع جسمه مسیح کا جسم عنصری کے ساتھ رفع ثابت کریں العنصري، ولكن لا يحصل هذا ليكن ان معنوں سے یہ مطلب حاصل نہیں ہوتا المطلوب من هذا المعنى، بل بلکہ اس کے برعکس مطلب حاصل ہوتا ہے.يحصل ما يُخالفه ؛ فإن معنی کیونکہ اس صورت میں اس آیت کے معنی کچھ الآية في هذه الصورة يكون هكذا یوں ہوں گے کہ اے عیسی ! میں تیری روح يا عيسى إنّى قابض روحك وتارك قبض کرنے والا ہوں اور تیرے جسم کو زمین پر ، جسدك على الأرض مع بقاء جسم اور روح کے درمیان تعلق رکھتے ہوئے، علاقة بين الجسد والروح چھوڑنے والا ہوں.کیونکہ نیند قبض روح اور فإن النوم عبارة عن قبض الروح جسم کے باوجود ان دونوں کے باہمی تعلق کے وترك الجسد مع بقاء علاقتهما پورے طور پر باقی رہنے کے چھوڑ دینے سے على وجه تام فانظر..أنى يحصل عبارت ہے.پس غور کر کہ بھلا ان معنوں مطلوب المخالفين من هذا سے مخالفوں کا مطلب کیسے حاصل ہوسکتا ہے.المعنى؟ وأين يثبت منه رفع جسد اور اس سے عیسی علیہ السلام کے جسم کا آسمان عیسی علیه السلام إلى السماء کی طرف اُٹھایا جانا کہاں ثابت ہوتا ہے؟
حمامة البشرى ۲۲۰ اردو ترجمه بل الأمر بقي على حاله مع حمل بلکہ توفی کے معنوں کو غیر محل پر محمول کرنے کے مـعـنـى التوفّى على غير محله ولا باوجود یہ معاملہ جوں کا توں رہتا ہے.اور اس میں شك أن كل منصف يفهم قولنا کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہر منصف مزاج شخص ہماری هذا وينتفع به إلا الذي لم يبق اس بات کو سمجھے گا اور اس سے فائدہ اُٹھائے گا بجز إنصافه على صرافته، واختلطت به اس شخص کے جس کا انصاف اپنی جانچ پرکھ پر قائم ظلمة التعصب و دخان الحقد، فلا نہیں رہتا اور جس کے ساتھ تعصب کی تاریکی اور ينفع الدلائل والبراهين قوما کینے کا دھواں گھل مل گیا ہو.ایسی صورت میں متعصب لوگوں کو دلائل اور براہین کچھ فائدہ نہیں دیتے.ثم إن دققت النظر في هذه الآية پھر اگر تو اس آیت کو باریک بینی سے دیکھے اور متعصبين.وتـحـمـلـهـا عـلـى أحسن وجوهها اسے اُس کے حسین ترین زاویوں اور معنوں پر محمول ومعانيها، فلا يخفى عليك أن كرے، تو تجھ پر یہ امرمخفی نہیں رہے گا کہ اس ( آیت) مفهومها وسياق عبارتهايدل کا مفہوم اور سیاق عبارت وفات مسیح پر دلالت کرتے على وفاة المسيح كما يدل عليه ہیں جیسا کہ اُس کا منطوق وفات مسیح پر دلالت منطوقها، فإن الله قد ذکر بعد قوله کرتا ہے.کیونکہ اللہ نے اپنے قول يُعِيسَى إِنِّي يُعِينِّى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى کے بعد ایسے إلى كلماتٍ فيها تسلية للمسيح كلمات كا ذکر فرمایا ہے جن میں مسیح کے لئے تسلی اور کا وتبشير له وإخبار عن أيام فتح اُن کے لئے خوشخبری ہے اور اُن کے متبعین کے زمانہ متبعيه وغلبتهم على أعدائهم بعد فتح اور اُن کے وفات پا جانے کے بعد اُن کے اپنے وفاته؛ وهذا دليل واضح على ان دشمنوں پر غلبہ پانے کی خبر ہے اور یہ اس امر کی واضح موت عيسى علیه السلام کان قبل نصر دلیل ہے کہ عیسی علیہ السلام کی موت نصرت الہی من الله وقبل غلبة كان ينتظرها اور اس غلبہ سے پہلے ہے جس کے وہ منتظر تھے لے اے عیسی ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں.(ال عمران :۵۶)
حمامة البشرى ۲۲۱ اردو ترجمه (۲۱) ويسأل الله فتحه والأصل في اور اللہ سے اپنی فتح کے لئے دعا کر رہے تھے.اور هذا الباب أن الله قد فطر أنبياءه اس باب میں اصل یہ ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء کی على أنهم يحبون أن تعلى فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ پسند کرتے ہیں كلمة الحق على أيديهم، ويُجمع کہ اُن کے ہاتھوں کلمہ حق بلند ہو اور اُن کے ذریعہ شمل أمتهم بهم أمام أعينهم، خود اُن کی آنکھوں کے سامنے اُمت کی شیرازہ بندی ۶۱ ) ويريدون أن تهلك الملل ہو.اور وہ چاہتے ہیں کہ دین حق کے علاوہ تمام كلها إلا الحق، وكذلك ملتیں ہلاک ہو جائیں اور ان کے ساتھ اسی طرح جرت عادة الله تعالی بهم کی اللہ تعالیٰ کی سنت جاری ہے کیونکہ وہ اُنہیں فإنه قد يُريهم غلبتهم وفتحهم ان کا غلبہ اور فتح اور اُن کے دشمنوں کی ذلّت وذلة أعدائهم ولا يتوفاهم دکھاتا ہے اور فتح مبین کے بعد ہی اُنہیں وفات دیتا إلا بعد الفتح المبين ونظیر ہے.اور اس کی نظیر ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذلك سوانح رسولنا صلی کے حالات زندگی ہیں.چنانچہ جب اللہ نے الله عليه وسلم، فإن الله لما دیکھا کہ کفار اُس کے رسول کی تکذیب کرتے رأى أن الكفار يكذبون رسوله ہیں اور اللہ کی وحی سے کھیلتے اور استہزاء کرتے ہیں ويتلاعبون بوحى الله ويستهزؤون اور ایذا پہنچاتے ہیں تو اُس نے اپنے نبی کی تائید ويؤذون..فايد نبيه ونصره فرمائی اور اُس کی مدد کی اور جس نے بھی اُس سے وأخزى كل من عاداه وأهلكه دشمنی کی اُسے ذلیل وخوار کیا اور ہلاک کر دیا.حتى ماز الخبيث من الطيب، یہاں تک کہ خبیث طیب سے ممیز ہو گیا.اور اُس وأرى نبيه أن الناس يدخلون نے اپنے نبی کو یہ نظارہ دکھا دیا کہ لوگ اللہ کے دین في دين الله أفواجا، وأراه أن میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں اور اُسے یہ الحق قد حق وأن الباطل قد بطل، نظارہ بھی دکھایا کہ حق ثابت ہو گیا اور باطل مٹ گیا
حمامة البشرى ۲۲۲ اردو ترجمه وتبين الرشد من الغى وظهرت ذلة نیز یہ کہ ہدایت گمراہی سے نمایاں ہو گئی اور مفسدوں کی ذلّت کھل کر سامنے آگئی.المفسدين.وقد تقتضى حكمة الله اور کبھی اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اُس کی مصلحتوں کے تعالی و دقائق مصالحه أنه دقائق تقاضا کرتے ہیں کہ وہ کسی نبی کو اُس کی فتح اور يتوفى نبيا قبل مجيء أيام اُس کے اقبال کے دن آنے سے پہلے ہی وفات فتـــحــــه وإقبــالــــه، فلا یتوفاہ دے، پس وہ اُسے حزین و مایوس حالت میں وفات حزينا يائساء بل يبشرہ نہیں دیتا بلکہ وہ اُسے اُس کی وفات کے بعد اُس بتبشيــــرات متوالية متتابعة کے متبعین کے غلبہ کی متواتر اور لگا تار بشارتیں دیتا بغلبة متبعيه بعد وفاته، ليطمئن ہے تا کہ اُن سے اُس کا دل مطمئن ہو اور وہ غمزدہ نہ بها قلبه، ولکی لا یحزن ولکی ہو اور تا وہ اپنے رب کی طرف دکھی دل کے ساتھ نہ لا يرجع إلى ربــه بقلب الیم کوٹے بلکہ وہ اس جہاں سے سکینت سے اور شاداں بل ينتقل من هذا العالم و فرحاں اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساتھ رحلت بسكينة وسرور وحبور وقرة عين فرمائے.اور اللہ کی بشارتوں اور اُس کے سچے ولا يبقى له هم بعد تبشیر الله وعدوں کے بعد اُس کے لئے کوئی غم باقی نہیں رہتا.ومواعيده الصادقة، ويذهب اور وہ اپنے رب کی طرف خوش و خرم اور کسی حزن و ملال إلى ربه فرحان غیر حزین کے بغیر چلا جاتا ہے اور اسی طرح عیسی علیہ السلام کا فكذلك كان أمر عیسی علیہ معاملہ ہے.چنانچہ انہوں نے اپنی حین حیات میں السلام فإنه ما رأى غلبة في زمن غلبہ نہ دیکھا اور جب اُن کی وفات کا دن قریب آیا تو حياته، واقترب يوم وفاته فبشره اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی وفات کے بعد متبعین الله تعالى بغلبة متبعيه بعد موته كو ( ملنے والے) غلبہ کی بشارت دی اور ان کو ان کی وما بشره بِغَلَبَتِهِ فی ایام حیاته زندگی میں غلبہ حاصل ہونے کی بشارت نہیں دی.
حمامة البشرى ۲۲۳ اردو ترجمه فارجع إلى الآية المتقدمة ودقق پس تو سابقہ آیت کی طرف رجوع کر اور اس پر النظر فيها..هل ترى فى هذا باریک بینی سے غور کر.کیا تجھے اِن معنوں میں کوئی المعنى من فتور؟ فكأنه قال في خامی دکھائی دیتی ہے؟ گویا کہ اُس نے اس آیت هذه الآية يا عيسى إني متوفيك میں فرمایا ہے کہ اے عیسی ! میں تجھے تیری کامیابی قبل أن ترى ظفرك وفتحك اور تیری فتح اور تیرے غلبہ دیکھنے سے پہلے وفات وغلبتك، وإني معطيك مقام دوں گا اور یہودیوں کے گمان کے خلاف تجھے العزة والرفع والقرب على خلاف عزت، رفعت اور قرب کا مقام عطا کروں گا.پس زعم اليهود، فلا تبتئس بما تموت تو اپنا غلبہ دیکھنے سے قبل فوت ہونے پر دل گرفتہ نہ قبل رؤية غلبتك، ولا تخش علی ہو اور اپنے متبعین کی کمزوری اور دشمنوں کی کثرت ضعف متبعيك وكثرة أعدائك، سے نہ ڈر.اس لئے کہ تیرے بعد میں (خود) تیرا فإني خليفتك بعدك، فأمزق جانشین ہوں گا اور تیرے دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے أعداء ك كل ممزق، واستأصلهم کردوں گا اور انہیں ہمیشہ کے لئے جڑ سے اُکھاڑ للأبد، وأجعل الذين اتبعوك دوں گا اور تیرے متبعین کو اور تیری خلافت کے تسلیم وتصدوا لخلافتك فوق الذین کرنے والوں کو کافروں پر تا روز قیامت غالب كفروا إلى يوم القيامة، هذا تفسیر رکھوں گا.یہ ہے وہ تفسیر جو سب سے بہتر بیان کرنے والے (اللہ ) نے بیان فرمائی.ولو كان عيسى نازلا من السماء في اور اگر عیسی نے کسی وقت آسمان سے نازل ہونا ہوتا وقت من الأوقات لما قال كذلك، تو وہ اس طرح نہ فرما تا بلکہ وہ یہ فرما تا کہ اے عیسی ! بل قال یا عیسیٰ لا تخف ولا تحزن تو خوف اور غم نہ کر کیونکہ ہم تجھے ماریں گے نہیں بلکہ فإنّا لا نميتك بل نرفعك حيا إلى تجھے زندہ آسمان کی طرف اُٹھا لیں گے.پھر اس السماء ، ثم إنا ننزلك إلى الأرض کے بعد ہم تجھے زمین کی طرف نازل کریں گے ما قال أحسن القائلين.
حمامة البشرى ۲۲۴ اردو ترجمه ونردّك إلى أمتك، ونجعلك اور تجھے تیری اُمت کی طرف لوٹائیں گے.اور تجھے غالبـا عـلـى أعدائك، ثم نجعل تیرے دشمنوں پر غالب کریں گے.پھر ہم تیری متبعيك غالبين عليهم إلى يوم پیروی کرنے والوں کو اُن پر تا روز قیامت غالب القيامة، فلا تحسب نفسك من رکھیں گے.پس تو اپنے آپ کو مغلوب ہونے المغلوبين.ولكن الله ما وعد له أن والوں میں سے مت سمجھ.لیکن اللہ نے آپ سے يُنزله من السماء ، ثم يجعله غالباً یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ آپ کو آسمان سے نازل کرے على أعدائه، بل وعد له أن يجعل گا اور پھر آپ کو آپ کے دشمنوں پر غالب کرے متبعيـه غـالبيــن علی الکافرین إلی گا.بلکہ اُس نے آپ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ يوم القيامة، ففعل كما وعد ومضى آپ کے متبعین کو کافروں پر تا روز قیامت غالب عليه قرون كثيرة.وأما النزول رکھے گا.پھر اُس نے وہی کیا جس کا اُس نے وعدہ فشيء لا ترى أثره إلى هذا الوقت فرمایا تھا.اور اس پر بہت سی صدیاں گزر گئیں.فتفكر..لم ما نزل مع أن عمر جہاں تک نزول کا تعلق ہے تو وہ ایسی چیز ہے جس الدنيا قد بلغ إلى آخر الزمان كانشان آج تک تو نہیں دیکھ رہا.پس تو سوچ کہ وہ فالسر الكاشف لهذا الإشكال کیوں نازل نہیں ہوا؟ جبکہ دنیا کی عمر بھی اب آخری هو أن النزول ما كان داخلا زمانے کو پہنچ گئی ہے.پس اس اشکال کو دور کرنے في مواعيد الله بل كان من والا راز یہ ہے کہ (ظاہری) نزول اللہ کے وعدوں مفتريات الطبائع الزائغة والأفكار میں داخل نہ تھا بلکہ وہ کج طبیعتوں اور خطا کار المخطئة، فما خرج من زاوية سوچوں کا افترا تھا پس وہ عدم کے زاویے سے العدم م لأنه ما كان من الله باہر نہ آیا کیونکہ وہ (وعدہ) اللہ کی جانب سے نہ تعالى، والمواعيد التي كانت من تھا.ہاں البتہ وہ وعدے جواللہ کی طرف سے الله تعالى ظهرت كلها وتمت تھے وہ سب کے سب ظاہر اور پورے ہوئے.
حمامة البشرى ۲۲۵ اردو ترجمه ألا ترى أن الله تعالی کیف بعث کیا تو نہیں دیکھتا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ رسولا أُمّيا بعد عیسی ليُصدق کے بعد ایک امی رسول مبعوث فرمایا تا کہ وہ اپنے وعده، أعنى قوله: وَمُطَهَّرُكَ مِنَ وعده یعنی ارشادِ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ الَّذِينَ كَفَرُوا، ثم كيف جعل متبعی كَفَرُوا کو سچا کر دکھائے.پھر کس طرح اُس نے عیسی علیه السلام غالبین علی عیسی علیہ السلام کے متبعین کو یہودیوں پر غالب اليهود لـيــصــدق وعدہ وَجَاعِلُ کیا.تا کہ وہ اپنے وعدے وَجَاعِلُ الَّذِينَ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ..الخ.فلو كان اتَّبَعُوكَ..الخ کو سچا کر دکھائے.پس اگر نزول وعد النزول جُزْءًا من هذه كا وعدہ بھی ان وعدوں کا ایک جز ہوتا تو وہ بھی ان کا المواعيد لظهر معها، فانظر وعدوں کے ساتھ ظاہر ہو جاتا.پس غور کر کہ دوسرے أين غاب وانعدم وعد النزول اجزاء کے ظہور کے باوجو دنزول کا وعدہ کہاں غائب مع ظهور أجزاء أخرى.فو اور معدوم ہو گیا ؟ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے الذي نفسي بيده ان هذا الذى قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے جو بات قلت هو الحق، وأما عقيدة النزول کہی ہے وہ بالکل سچ ہے.اور نزول کا عقیدہ ان فليس من أجزاء هذه المواعيد وعدوں کے اجزا میں سے نہیں.اور نہ اسے ان وما ذُكر معها في القرآن، بل ( وعدوں) کے ساتھ قرآن میں بیان کیا گیا ہے.لا يوجد أثر منه في كتاب الله بلکہ اس کا کوئی نشان تک کتاب اللہ میں نہیں پایا وإن هو إلا وهم المتوهمین جاتا.اور یہ صرف وہم کرنے والوں کا وہم ہے.فلما تبين الحق فلاتر الحق پس جب حق ظاہر ہو گیا تو تو حق کو حقارت اور بعين الاحتقار والازدراء ، واتق استخفاف کی نگاہ سے مت دیکھ اور اللہ سے ڈر اور الله وكن من المتورعين.ولا پرہیز گاروں میں سے ہو جا.اور تو قرآن میں تجد في القرآن إشارة إلى حياته أس كى حیات کا کوئی اشارہ تک نہ پائے گا.ے اور کافروں کے الزامات) سے تجھے پاک کروں گا.(آل عمران: ۵۶)
حمامة البشرى ۲۲۶ اردو ترجمه بل القرآن يخبر عن وفاته بعد بلكه قرآن اُن کے بھر پور جوانی گزار نے اور ما ترعرع وتكلّم كهلا، وبُعث اُدھیڑ عمر میں کلام کرنے اور مبعوث ہوکر اللہ کے پیغامات پہنچانے اور منکروں پر حجت تمام کرنے وبلغ رسالات الله وأتم حـ على المنكرين.حجته کے بعد ان کی وفات کی خبر دیتا ہے.فأيها الناس! لا تكتموا شهادات پس اے لوگو! تم حق کی گواہیوں کو اُن کے ظاہر الحق في وقت تبیینها، ولا کرنے کے وقت مت چھپاؤ اور زمین میں فساد نہ کرو تفسدوا في الأرض، وتوادّوا اور باہم پیار سے رہو اور ایک دوسرے سے بغض نہ ولا تباغضوا، وأتَمِرُوا بينكم رکھو اور نیکی کے بارے میں باہمی مشورہ کرلیا کرو.في المعروف ولا تعاصوا، واتبعوا اور نا فرمانی نہ کرو اور حق کی پیروی کرو اور حد سے تجاوز الحق ولا تعتدوا، وفكروا فی نہ کرو.اور اپنے نفسوں میں غور کرو اور جلد بازی نہ أنفسكم ولا تعجلوا، وإني کرو.میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں جو تمہارا رب أذكركم الله ربكم فاتقوه إن ہے.پس اُس سے ڈرو اگر تم مومن ہو.اور جان لو کہ كنتم مؤمنين واعلموا أن الله جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم کہتے ہوا سے اللہ جانتا يعلم ما تكتمون وما تقولون ہے.کوئی پوشیدہ چیز اس پر مخفی نہیں.پس جس نے ولا يخفى عليه خافية، فالذی اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور اُس کی نافرمانی کی عتا عن أمر ربه وعصاه فسوف تو عنقریب وہ اُسے سخت عذاب سے دو چار کرے گا يُريه عذابا نكرًا، ويحاسبه اور اُس کا سخت محاسبہ کرے گا.اور اُس کے کرتوت کا حسابًا شديدًا، ويذيقه وبال امرہ مزہ اُسے چکھائے گا اور اسے ہلاک ہونے والوں ويُدخله في الهالكين.میں داخل کرے گا.لا يقال إن الجملة الآتية في الآية یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مذکورہ بالا آیت کا بعد المتقدمة..يعنى وَرَافِعُكَ إِلَيَّ والا جملہ یعنی وَرَافِعُكَ إِلَيَّ نیند کے بعد يدلّ على رفع الجسد بعد الإنامة جسم کے اُٹھائے جانے پر دلالت کرتا ہے.
حمامة البشرى ۲۲۷ اردو ترجمه فإنه لما ثبت و تحقق أن معنى کیونکہ جب یہ بات ثابت اور متحقق ہو گئی کہ التوفي قبض الروح فقط لا قبض توفی کے معنی صرف قبض روح کے ہیں نہ الجسم، ثبت من ههنا أن الرفع كه قبض جسم کے تو اس سے ثابت ہوا کہ يتعلق بالروح لا بالجسم، فإن الله رفع کا تعلق روح سے ہے، جسم سے نہیں.لا يرفع إلا الشيء الذي قبضه، پس اللہ تعالیٰ رفع نہیں کرتا مگر اُسی چیز ومعلوم أن الله لا يقبض الأجسام کا جس کو اُس نے قبض کر لیا ہو.اور ظاہر وہ بل يقبض الأرواح فقط.وأنت ہے کہ اللہ جسموں کو قبض نہیں کرتا بلکہ تعلم أن القرآن يشهد على هذا في صرف روحوں کو قبض کرتا ہے.اور تو جانتا كل مواضعه، ولن تجد فی القرآن ہے کہ قرآن تمام مقامات پر اس کی گواہی دیتا ہے لفظًا من ألفاظ التوفّى الذى كان اور تو قرآن میں توفّی کے الفاظ میں سے معناه رفع الجسم مع الروح کوئی لفظ ایسا نہیں پائے گا جس کے معنی وكذلك جرت عادة الله تعالى روح کے ساتھ جسم کے اٹھائے جانے کے ہوں.من يوم خلق آدم إلى هذا اليوم، اور اسی طرح آدم کی پیدائش کے دن سے لے کر فإنه يقبض الأرواح ويترك آج تک یہی اللہ تعالیٰ کی سنت جاری ہے الأجسام مطروحة على الأرض أو كه وه روحوں کو قبض کرتا ہے اور جسموں کو السرر أو الفُرش فالشيء الذي ما زمین یا چار پائیوں یا بستروں میں پڑا ہوا قبضه الله تعالى..كيف يُرفع إليه؟ چھوڑ دیتا ہے.لہذا وہ چیز جسے اللہ نے قبض نہ فإن القبض شرط ضروری للرفع.کیا ہو اُس کا اُس کی طرف رفع کیسے ہوگا؟ ثم إذا تفحصنا عن ألفاظ التوفّی فی کیونکہ رفع کے لئے قبض (روح) ضروری شرط القرآن فوجدناها في خمسة ہے.پھر جب ہم قرآن میں توفی کے الفاظ وعشرين موضعا من مواضعه تلاش کرتے ہیں تو ہم چھپیں جگہ یہ لفظ پاتے ہیں.
حمامة البشرى ۲۲۸ اردو ترجمه ولكن الله لم يستعمله في موضع إلا لیکن اللہ نے کسی ایک جگہ بھی اسے قبض روح بمعنى قبض الروح.فانظر القرآن من کے سوا کسی اور معنی میں استعمال نہیں کیا.پس أوله إلى آخره.هل تجد فيه معنی تو قرآن کو اُس کے اوّل سے لے کر آخر تک يخالف هذا البيان؟ وانظر في قوله دیکھ.کیا تو اس میں اس بیان کے خلاف کوئی تعَالَى رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا اور معنی پاتا ہے.نیز اللہ کے قول رَبَّنَا أَفْرِغْ مُسْلِمِينَ، وفي قوله تعالى عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ل پر غور کر اور تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ ، وفي قوله تعالى وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ، وفي قوله تعالى وَلكِنْ أَعْبُدُ اللهَ الَّذِي يَتَوَفُكُمْ ، وفي قوله تعالى (اسی طرح) اللہ کے قول تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصُّلِحِينَ اور اللہ تعالیٰ کے قول وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ اور اللہ تعالیٰ کے قول وَلكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي اور اللہ تعالیٰ کے قول حَتَّی يَتَوَفكُم حَتَّى يَتَوَفُهَنَ الْمَوْتُ، وفي قوله ــى إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّهُنَّ الْمَوْتُ اور اللہ تعالیٰ کے قول إِذَا الى جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ اور قرآن میں يتوفونه ، وفى أقوال أخرى.وتأمل في هذه الألفاظ..أعنى آنے والے دیگر اقوال میں.اور توفی کے التوفى..هل تجد معناه الإماتة الفاظ پر غور کر.کیا تو ان آیات میں اس کے معنی في هذه الآيات أو معانى أخرى؟ موت دینے کے پاتا ہے یا اور دوسرے معانی ؟ ل اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے.(الاعراف: ۱۲۷) مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرہ میں شامل کر.(یوسف: ۱۰۲) ے اور اگر ہم تجھے اس ( انذار ) میں سے کچھ دکھا دیں جس سے ہم انہیں ڈرایا کرتے تھے یا تجھے وفات دیدیں.(یونس : ۴۷) لیکن میں اُسی اللہ کی عبادت کروں گا جو تمہیں وفات دیتا ہے.(یونس: ۱۰۵) یہاں تک کہ ان کو موت آجائے.(النساء : ۱۶) جب ہمارے ایلچی اُن کے پاس پہنچیں گے انہیں وفات دیتے ہوئے.(الاعراف: ۳۸)
حمامة البشرى ۲۲۹ اردو ترجمه وأما نظائره في الصحاح الستة جہاں تک صحاح ستہ اور دیگر ( کتب ) حدیث اور وأحاديث أخرى وكلام الشعراء شعراء (عرب) کے کلام میں اس کی نظائر کا تعلق فلا تُحصى كثرةً، ففكّرُ ولا تكن ہے تو وہ بے شمار ہیں.لہذا تو غور وفکر کر اور انکار من المستنكرين.وينبغي أن کرنے والوں میں سے نہ بن اور تجھے چاہئے کہ تحتاط في فكرك ولا تجيب اپنے فکر میں احتیاط کر اور جلد بازوں کی طرح جواب نے كالمستعجلين.واعلموا أن الذين نہ دے.اور جان لو کہ جن لوگوں نے ہمارے اس خالفوا بياننا هذا وقالوا إن التوفّى بیان کی مخالفت کی اور یہ کہا کہ آیت یعنی في آية يُعنى إِلى مُتَوَفِّيكَ إِلَى مُتَوَفِّيكَ اور آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي وفى آية فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي إنّما جاء میں توفی کا لفظ جسم کے ساتھ اُٹھائے جانے کے ۶۳ بمعنى الرفع مع الجسد، فهو قول معنوں میں آیا ہے.تو یہ ایسا قول ہے کہ جس پر کوئی لا دليل عليه، وما نصوا على دلیل نہیں.اور اُنہوں نے اس پر کوئی نص پیش ذلك، وما استدلوا بمحاورة کلام نہیں کی.اور نہ ہی کلام اللہ کے محاورے، رسول الله وتفسير رسوله أو أصحابه أو الله صلى اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی تفسیر شهادة أحد من أهل اللسان، فلا يا ابل زبان میں سے کسی کی شہادت سے استدلال شك أنه تحكم محض كما هو نہیں کیا.پس یہ بلاشبہ محض تحکم ہے جیسا کہ متعصب لوگوں کی عادت ہے.عادة المتعصبين.وإذا ثبت أن لفظ التوفي في اور جب یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا القرآن فی کل مواضعها ما که قرآن میں ہر جگہ توفی کا لفظ وفات جاء إلا للإماتة وقبض الروح دینے اور قبض روح کے معنوں میں ہی آیا ہے.اے عیسی یقینا میں تجھے وفات دینے والا ہوں.(ال عمران: ۵۶) ے پس جب تو نے مجھے وفات دی.(المائدۃ: ۱۱۸)
حمامة البشرى ۲۳۰ اردو ترجمه فما ظنك في هذا اللفظ التوفّى الذى تو تمہارا اِس توفی کے لفظ کے بارے میں جاء في آية: يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کیا خیال ہے جو يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ أ هو عندك مثل هذه الألفاظ التي کی آیت میں وارد ہوا ہے.کیا یہ تمہارے تجدها في القرآن بمعنى الإماتة نزدیک انہی الفاظ کی طرح ہے جنہیں وقبض الروح بالتواتر والتتابع في تو قرآن میں متواتر اور مسلسل ہر جگہ موت كل موضع من مواضعه؟ أم له معنی دینے اور قبض روح کے معنوں میں پاتا ہے مخصوص الذى لا يوجد في القرآن یا اس کے کوئی ایسے مخصوص معنی ہیں جن کی نظیر مثله ولا في حديث ولا في قول نہ قرآن وحدیث ، نہ ہی کسی صحابی کے قول، نہ صحابي، ولا في كلمات بلغاء بلغاء عرب اور اُن کے متقدمین اور متاخرین العرب وشعرائهم من الأولين إلى شعراء کے کلام میں پائی جاتی ہے.پس اگر الآخرين؟ فإن كنت تظن أن لهذا تو یہ خیال کرتا ہے کہ جو معنے علماء نے لفظ المعنى الذي نحته العلماء في لفظ مُتَوَفِّيكَ کے بے فائدہ اور ر کیک تکلفات مُتَوَفِّيكَ بالتكلفات الباردة سے تراش لئے ہیں اُس کی کوئی اور مثالیں الركيكة أمثالا أخرى في لسان عربی زبان ، قرآن مجید اور رسول اللہ علیہ کی العرب والقرآن المجيد و أحادیث احادیث میں پائی جاتی ہیں تو تو انہیں پیش کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تو بچوں میں سے ہے.اور اگر تو انہیں پیش فأت بها إن كنت من الصادقين.وإن نہ کر سکے اور تم ہر گز پیش نہ کر سکو گے تو پھر اُس لم تأتوا بها ولن تأتوا بها فاتقوا الله الله سے ڈرو جس کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے.الذى إليه تُرجعون ثم تُسألون عما پھر تم سے تمہارے علم اور عمل کی نسبت سوال کیا تعلمون وتعملون، والله يعلم ما فی جائے گا.اور اللہ اُسے جانتا ہے جو تمام جہانوں کے سینوں میں ہے.صدور العالمين.
حمامة البشرى ۲۳۱ اردو ترجمه وبوجه الله وعزته..إني قرأت اللہ کی ذات اور اس کی عزت کی قسم ! میں نے كتاب الله آية آيةً وتدبرت فيه، ثم كتاب اللہ کو آیت آیت پڑھا.اور اس میں خوب قرأت كتب الحدیث بنظر عمیق تدبر کیا.پھر میں نے حدیث کی کتابیں بنظر عمیق وتدبرت فيها، فما وجدت لفظ پڑھیں اور اُن میں بھی خوب غور کیا لیکن میں نے التوقي في القرآن ولا فی نہ تو قرآن میں اور نہ ہی احادیث میں لفظ توفی کو الأحاديث (إذا كان الله فاعله اس طور پر پایا ہے کہ (جب اُس کا فاعل اللہ ہو وأحد من الناس مفعولا به إلا اور اُس کا مفعول به کوئی انسان ہو) تو اُس بمعنى الإماتة وقبض الروح.ومن کے معنی موت دینے اور قبض روح کے سوا کچھ اور يُثبت خلاف تحقیقی هذا فله الف ہوں اور جو شخص میری اس تحقیق کے خلاف ثابت من الدراهم المروجة إنعاما منی کرے تو اُسے ہزار روپیہ رائج الوقت میری طرف كذلك وعدتُ في كتبي التي سے بطور انعام ہے.ایسا وعدہ میں اپنی مطبوعہ طبعتها وأشعتها للمنكرين وللذين اور مشتہرہ کتابوں میں ہمنکروں اور اُن لوگوں کے يظنون أن لفظ التوفّى لا يختص سامنے کر چکا ہوں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ توفی بقبض الروح والإماتة عند کا لفظ جب اللہ اپنے بندوں میں سے کسی کے استعمال الله لعبد من عبادہ بل جاء لئے استعمال کرے تو وہ قبض روح اور موت دینے بمعنى عام في الأحادیث و کتاب کے لئے مخصوص نہیں بلکہ وہ احادیث اور ربّ ربّ العالمين.العالمین کی کتاب میں عام معنوں میں آیا ہے.والحق أن لفظ التوفّى إذا جاء في اور حق بات یہ ہے کہ جب توفی کا لفظ کسی كلام وكان فاعله الله، والمفعول به کلام میں آئے اور اُس کا فاعل اللہ ہو اور أحد من بني آدم صريحًا أو إشارة، مثلا مفعول به صراحت یا اشارۂ بنی آدم میں سے کوئی إذا كان الكلام هكذا توقى الله زيدا، ہو مثلاً کلام اس طرح ہو کہ تَوَفَّى الله زَيْدًا
حمامة البشرى ۲۳۲ اردو ترجمه من المتدبرين.أو توقى الله بكرا، أو تُوفّى ( یعنی اللہ نے زید کو وفات دی ) یا تَوَفَّى الله خالد، فلا يكون معناه في لسان بَكْرًا (اللہ نے بکر کو وفات دی ) یا تُوُفِّيَ خَالِدٌ الـعــرب إلا الإماتة والإهلاك (خالد كو وفات دی گئی ) تو اس کے معنی عربی زبان ولن تجد ما يُخالفه فی کلام میں صرف مارنے اور ہلاک کرنے کے ہوں گے.الله ولا في کلام رسوله ولا اور اس کے خلاف تو اللہ کے کلام، رسول اللہ کے في كلام أحد من شعراء العرب كلام، عرب کے شعراء میں سے کسی شاعر اور اُن ونوابغهم.فانظر إلى كل جهة کے تبحر علماء کے کلام میں اس کے برعکس کوئی معنے نہ هل صدقنا في قولنا هذا أم كنا پائے گا.سو ہر طرف نگاہ ڈال کیا ہم اپنی اس بات من الكاذبين.وقد أطنبنا فی میں سچے ہیں یا جھوٹوں میں ہیں.اور ہم نے اپنا تقريرنا هذا ليتدبّر من كان موقف پوری تفصیل سے بیان کر دیا ہے تا کہ جو تدبر کرنے والے ہوں وہ تدبر کریں.والـعـجـب مـن بـعـض الجهلاء حیرت ہے جاہلوں پر کہ جب اُنہوں نے ہم سے أنهم إذا سمعوا منا هذه الحجة ہماری اس دلیل کو نا تو انہوں نے ہدایت کی جستجو کرنے فماقبلوها كالمسترشدین والوں کی طرح اُسے قبول نہ کیا بلکہ مخالفت کرتے بل نهضوا معارضين، وقرأوا آية ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے.اور اپنی طرف سے (ہماری تُمَّ تَوَى كُل نَفْسٍ ، ونحوها دليل كے) توڑ کے طور پر آیت ثمَّ ثُوَ فى كُل نقضًا منهم، ولم يعلموا من حمقهم نفيس اور کچھ دوسری اسی قسم کی آیتیں پڑھیں لیکن وشدة جهلهم أن هذه الآيات التي اُنہوں نے اپنی حماقت اور شدت جہالت کی وجہ سے يقرأون ردا علینا هی کلها نہ سمجھا کہ یہ تمام آیات جو وہ ہماری تردید میں پڑھتے من باب التفعيل لا من باب ہیں وہ سب کی سب باب تفعیل سے ہیں نہ کہ التفعّل الذي هو محل النزاع بابِ تَفَعُل سے جو اس وقت محل نزاع ہے.ے پھر ہر نفس کو پورا پورا دیا جائے گا.(ال عمران: ۱۶۲)
حمامة البشرى ۲۳۳ اردو ترجمه فانظر كيف يسعون هؤلاء پس دیکھ کہ وہ کس طرح ہر طرف نور حق کو بجھانے إلى كل جهة ليطفئوا نور الحق کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں.پھر دیکھ ! کہ وہ کس ۲۴ متكبرين.ثم انظر كيف ينقلبون خائبين.طرح ناکام لوٹتے ہیں اور کتنی ہی قرآنی آیات وكأين من آية في القرآن يقرأونها ہیں جنہیں وہ پڑھتے ہیں، پھر حالت غفلت میں ثم يمرون عليها غافلين، وأبطرَهم ان پر سے گزر جاتے ہیں.اور اُن کی کثرت نے كثرتهم فيظلمون الضعفاء انہیں خودسر کر دیا ہے.اس لئے وہ تکبر سے کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں.واعلم..حماك الله وحفظك اور جان لے ! اللہ تیری حمایت و حفاظت فرمائے ور درن اوزارك..أن اور تیرے گناہوں کی میل دھو دے.مخالفین کے للمخالفين اعتراضات أخرى قد کچھ اور اعتراضات بھی ہیں جو اُن کے سوء فہم نشأت من سوء فهمهم وقلة اور قلت تدبّر کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں.اس تدبرهم، فأردنا أن نكتبها في كتابنا لئے ہم نے یہ ارادہ کیا ہے کہ ہم ان اعتراضات کو هذا مع جوابها لينتفع بها كل من ان کے جوابات کے ساتھ اپنی اس کتاب میں كان رشيدا من الناس ، مصطفى، لکھیں تا کہ لوگوں میں سے ہر عقل مند برگزیدہ اور مبراً من دنس التعصب وكان من تعقب کی میل سے پاک اور طالب حق شخص اس سے نفع حاصل کرے.الطالبين.فمنها أنهم يقولون إن پس ان اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتے الملائكة ينزلون إلى الأرض ہیں کہ فرشتے زمین کی طرف اس طرح اُترتے كنزول الإنسان من جبل إلى ہیں جس طرح انسان پہاڑ سے نشیب کی طرف حضيض، فيبعُدون عن مقرهم اُترتا ہے.پس وہ اپنے مقر سے دور ہو جاتے ہیں
حمامة البشرى ۲۳۴ اردو ترجمه ويتركون مقاماتهم خالية اور اپنے مقامات کو اُس وقت تک خالی چھوڑ دیتے إلى أن يرجعوا إليها صاعدين ہیں جب تک کہ وہ صعود کرتے ہوئے اُن کی هذه عقيدتهم التي يبينون، طرف واپس نہ لوٹ جائیں.یہ ہے اُن کا عقیدہ وإنا لا نقبلها ونقول إنهم جوده بیان کرتے ہیں اور ہم اسے تسلیم نہیں کرتے ليسوا فيها علی الحق فاشتد اور ہم کہتے ہیں کہ وہ اس عقیدہ میں حق پر نہیں.پس غيظهم وقالوا إن هؤلاء خرجوا ان كا غیظ و غضب شدید ہو جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ من عقائد أهل السنة والجماعة، يه لوگ اہل سنت والجماعت کے عقائد سے نکل گئے بل كفروا وارتدوا، فقاموا ہیں بلکہ کافر و مرتد ہو گئے ہیں چنانچہ وہ ہم پر اعتراض کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں.علينا معترضين.وأما الجواب فاعلم أنهم جہاں تک جواب کا تعلق ہے تو تو جان لے کہ قد أخطأوا إذ قاسوا الملائكة ان لوگوں نے فرشتوں کو انسانوں پر قیاس کر کے بالناس، ولا يخفى على الذي غلطی کی ہے.اور اُس شخص پر جس کی تخلیق آزادی خُلق من طينة الحرية، وتفوّق کی مٹی سے ہوئی ہو اور جسے یقینی درایت کے دودھ در الدراية اليقينية، أن الملائكة پینے کا شرف حاصل ہوا ہو، یہ امر مخفی نہیں کہ فرشتے لا يشابهون الناس في صفة قطعاً کسی صفت میں بھی انسانوں سے مشابہت من الصفات أصلا، ولم يقم دلیل نہیں رکھتے ، نیز کتاب اللہ (قرآن) سنت اور من الكتاب ولا السُنّة ولا الإجماع اجماع کی رو سے اس امر پر کوئی بھی دلیل قائم نہیں على أنّهم إذا نزلوا إلى ہوئی کہ جب وہ (فرشتے) زمین پر اترتے ہیں تو الأرض فيتركون السماوات وہ آسمانوں کو ، اُس شہر کی طرح خالی چھوڑ دیتے خالية كبلدة خرجت أهلها منها ہیں جس کے مکین اُس سے نکل گئے ہوں اور وہ اپنی ويقصدون الناس بشق الأنفس، جان جوکھوں میں ڈال کر لوگوں کا قصد کرتے ہیں
حمامة البشرى ۲۳۵ اردو ترجمه ويصلون الأرض بعد مكابدة اور وہ سفروں کی تکالیف ، مسافت کی دوری کے دکھ الأسفار وآلام بُعدِ الشقة ومتاعبها اور اس کی تھکان اور اس کی سختیوں اور ہر قسم کی محنت وشدائدها، ومعاناة كل مشقة ومشقت برداشت کر کے زمین تک پہنچتے ہیں بلکہ وجهد، بـل القرآن الكريم يبين أن قرآن کریم یہ کھول کر بیان کرتا ہے کہ فرشتے اپنی الملائكة يشابهون بصفاتهم صفات میں اللہ تعالیٰ کی صفات سے مشابہت صفات الله تعالى كما قال عز وجل رکھتے ہیں جیسا کہ خدائے عزوجل نے فرمایا وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكَ صَفًّا صَفًّا، "وَجَاءَ رَبِّكَ وَالْمَلَكَ صَفًّا صَفًّا، پس دیکھ، فانظر رزقك الله دقائق المعرفة أنه الله تجھے نکات معرفت عطا کرے کہ کس طرح تعالى كيف أشار في هذه الآية إلى أن الله تعالى نے اس آیت میں یہ اشارہ کیا ہے کہ مـجـيـئـه ومـجـيء الملائكة ونزوله اُس کا آنا اور فرشتوں کا آنا اور اُس کانزول ونزول الملائكة متحد فى الحقيقة اور فرشتوں کا نزول حقیقت اور کیفیت میں ایک والكيفية.ولا حاجة إلى أن نذكرك ہے اور اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم تجھے اللہ ما ثبت من نزول الله تعالی من کا رات کے تیسرے پہر عرش سے نزول جو العرش في الثلث الآخر من الليل ثابت شدہ ہے یاد دلائیں کیونکہ تو اُسے جانتا فإنك تعرفه، ومع ذلك ما أظن أن ہے.اس کے باوجود میں یہ خیال نہیں کرتا کہ تحمل ذلك النزول على النزول تو اس نزول کو جسمانی نزول پر محمول کرتا ہو الجسماني وتعتقد أن الله تعالى إذا گا.اور تو یہ عقیدہ رکھتا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ جب ما نزل إلى السماء الدنيا فبقى سَماءُ الدُّنيا کی طرف اُترتا ہے تو عرش اُس کے العرش خاليا من وجوده فاعلم أن وجود سے خالی رہ جاتا ہے.لہذا تو یہ جان لے نزول الملائكة كمثل نزول الله کہ فرشتوں کا نزول اللہ کے نزول کی مانند لے اور تیرارب آئے گا اور صف بہ صف فرشتے بھی.(الفجر :۲۳) ہے
حمامة البشرى ۲۳۶ اردو ترجمه كما تشير إليه الآيات المتقدمة، والله جيسا كه مذكورۃ الصدر آیات اس کی جانب اشارہ کرتی أدخل وجود الملائكة في الإيمانيات ہیں.اور اللہ نے فرشتوں کے وجود کو ایمانیات میں داخل کیا ہے جیسے اُس نے اپنی ذات کو ان میں داخل كما أدخل فيها نفسه وقال وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ کیا ہے اور فرمایا ہے ” وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِينَ ،، الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتُبِ وَالنَّبِينَ ، وقال وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبَّكَ إِلَّا هُوَ نیز فرمایا لَهُ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ل پس اُس نے تمام لوگوں پر یہ واضح کر دیا ہے کہ.فبين للناس أن حقيقة الملائكة فرشتوں کی حقیقت اور اُن کی صفات کی حقیقت عقل وحقيقة صفاتهم متعالية عن طور کی حدود سے بالا ہے اور اس (حقیقت) کو صرف اللہ العقل، ولا يعلمها أحد إلا الله، فلا ہی جانتا ہے.پس تم اللہ اور اُس کے فرشتوں کے تضربوا الله ولا لملائكته الأمثال لئے مثالیں بیان نہ کرو اور اُس کی جناب میں وأتوه مسلمين.فرمانبرداری کرتے ہوئے حاضر ہو جاؤ.وأنت تعلم أن كل مسلم اور تو جانتا ہے کہ ہر مسلمان مومن یہ عقیدہ مؤمن يعتقد أن الله ينزل إلى رکھتا ہے کہ اللہ تعالی عرش پر موجود اور متمکن السماء الدنيا في الثلث الآخر من ہونے کے باوجود رات کے آخری ثلث میں (۱۵) الليل مع وجوده و استوائه على سماء الد نیا پر نازل ہوتا ہے پھر بھی اس عقیدے العرش، ولا يتوجه إليه لومُ لائم کی وجہ سے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت ولا طعن طاعن لأجل هذه العقيدة اور طعن کرنے والے کا طعن اُس کی طرف رُخ بل المسلمون قد اتفقوا عليها نہیں کرتا، بلکہ تمام مسلمان اس پر متفق ہیں.اور وما حاجهم أحد من المؤمنين.مومنوں میں سے کسی نے اُن سے جھگڑا نہیں کیا.لے بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر.(البقرۃ: ۱۷۸) ے اور تیرے رب کے لشکروں کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی.(المدثر :۳۲)
حمامة البشرى ۲۳۷ اردو ترجمه فكذلك الملائكة ينزلون إلى بس اسی طرح فرشتے اپنے مقررہ مقامات میں الأرض مع قرارهم و ثباتهم فى ثبات و قرار کے باوجود زمین کی طرف نازل ہوتے مقامات معلومة، وهذا سر من ہیں.اور یہ اُس کی قدرت کے اسرار میں سے ایک أسرار قـدرتـه، ولولا الأسرار لما ستر ہے.اور اگر یہ اسرار نہ ہوتے تو رب قھار کی غرف الربّ القهار.ومقامات شناخت نہ ہوسکتی.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ الملائكة في السماوات ثابتة لا فرشتوں کے آسمانوں میں مقامات مقرر ہیں جیسا ريب فيها كما قال عزّ وجلّ حكاية كـ الله عزوجل نے ان کی طرف سے حکای عنهم وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُوم کہا ہے کہ وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُوم اور ومانرى في القرآن آية تشير ہم قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں پاتے جو اشارہ إلى أنهم يتركون مقاماتهم کرتی ہو کہ وہ (فرشتے) کسی وقت اپنے ان في وقت من الأوقات، بل القرآن مقامات کو چھوڑ دیتے ہیں.بلکہ قرآن یہ اشارہ يُشير إلى أنهم لا يتركون کرتا ہے کہ وہ اپنے ان مقامات کو نہیں چھوڑتے مقاماتهم التي ثبتهم الله عليها، جن پر اللہ نے انہیں متمکن فرمایا ہے.اس کے ہے.اس ومع ذلك ينزلون إلى الأرض باوجود وہ زمین کی طرف نازل ہوتے ہیں.اور اللہ ويدركون أهلها بإذن الله تعالیٰ کے اذن سے اہلِ زمین تک پہنچتے ہیں تعالى، ويتبرزون في برزاتٍ اور بہت سی شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں.کبھی وہ كثيرة، فتارة يتمثلون للأنبياء في انبياء کے لئے بنی آدم کی صورت میں متمثل ہوتے صور بنی آدم، ومرة يتراء ون ہیں اور کبھی وہ نور کی مانند جلوہ گر ہوتے ہیں.كالنور، وكرّةً يراهم أهل الكشف اور کبھی اہلِ کشف انہیں بچوں کے رنگ میں كالأطفال وأخرى كالأمارد، دیکھتے ہیں اور کبھی نوخیز جوانوں کی صورت میں.لے اور (فرشتے کہیں گے کہ) ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک معلوم مقام مقرر ہے..(الصفت: ۱۶۵)
حمامة البشرى ۲۳۸ اردو ترجمه ويخلق لهم الله في الأرض أجسادا اور اللہ اپنی محیط گل لطیف قدرت سے اُن کے اصلی جديدة غير أجسادهم الأصلية بقدرته جسموں کے علاوہ اُن کے لئے زمین پر نئے جسم پیدا اللطيفة المحيطة، ومع ذلك تكون فرماتا ہے اور اس کے ساتھ آسمان میں بھی اُن کے لئے لهم أجساد في السماء ، وهم لا جسم ہیں اور وہ اپنے سماوی اجسام سے علیحدہ نہیں ہوتے يفارقون أجسادهم السماوية، ولا اور نہ وہ اپنے مقامات کو چھوڑتے ہیں اور انبیاء اور وہ يبرحون مقاماتهم، ويجيئون الأنبياء تمام جن كى طرف انہیں بھیجا جائے وہ فرشتے آتے ہیں وكل من أُرسلوا إليه مع أنهم لا يتركون جبکہ وہ اپنے اپنے مقامات کو بھی نہیں چھوڑتے.اور المقامات.وهذا سر من أسرار الله یہ اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے.اس لئے فلا تعجب منه، ألم تعلم أن الله على تو اس پر تعجب نہ کر.کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز كل شيء قدير، فلا تكن من المكذبين پر قدرت رکھتا ہے.پس تو مکذبین سے نہ بن.وانظر إلى الملائكة..كيف اور فرشتوں کی طرف دیکھ کس طرح اللہ نے انہیں جعلهم الله كجوارحه، وجعلهم اپنے جوارح کی طرح بنایا ہے اور تمام امور میں اور وسائط قدره فى الأمور ولكن ہر امر میں اپنی كُن فَيَكُونِيَّت کے لئے انہیں اپنی فَيَكُونِيَّتِهِ (وهذا لفظ مركب من قضا و قدر کا واسطہ بنایا ہے.( یہ لفظ كُن فَيَكُونُ سے كن فيكون (۱۲) في كل أمر ، مرکب ہے).( یہ فرشتے ) اپنی اپنی جگہ پر رہتے ينفخون في الصور على مكانتهم، ہوئے ہی نفخ صور کرتے ہیں اور جن لوگوں ويبلغون صيحتهم إلى من يشاء ون تک چاہتے ہیں اپنی آواز پہنچا دیتے ہیں.اور اُن ولا يعجز أحد منهم عن ان میں سے کوئی اس بات سے عاجز نہیں ہوتا کہ وہ ہر يدرك كل من في المشارق ایک تک جو مشارق ومغارب میں ہے آنکھ جھپکنے یا والمغارب في طرفة عين أو في أقل اس سے بھی کم وقت میں پہنچ جائے اور اُس کا کوئی منها، ولا يشغله شأن عن شأن ایک کام دوسرے کام میں حائل نہیں ہوسکتا.
حمامة البشرى ۲۳۹ اردو ترجمه فانظروا مثلا إلى ملك الموت الذي مثل ملك الموت کی طرف دیکھو جو لوگوں پر وكل بالناس كيف يقبض كل نفس فی مقرر کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح وقت مقدر میں ہر الوقت المقدر، وإن كان أحد من الذين جان قبض کرتا ہے خواہ ایک ہی وقت میں اُن مرنے يتَوَفَّون في آن واحد في أقصى المشرق والوں میں سے ایک شخص مشرق کے انتہائی کنارے والآخر في منتهى بلاد المغرب.فلو میں اور دوسرا شخص مغربی علاقوں کے آخری كانت سلسلة هذا النظام الإلهي موقوفة کنارے میں رہتا ہو.پس اگر نظام الہی کا یہ سلسلہ على نقل خطوات الملائكة من فرشتوں کے آسمان سے زمین کی طرف اور پھر السماء إلى الأرض، ثم من بلدة إلى ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک.بلدة، ومن مُلكِ إلى مُلكِ، لفسد دوسرے ملک کی طرف قدم اُٹھا کر جانے پر موقوف هذا النظام الأمرى، ولتطرّق حرج ہوتا تو حُكم الھی کا نظام تہ و بالا ہو جاتا اور اللہ عظيم في أمور قضاء الله وقدره، کے قضاء وقدر کے معاملات میں عظیم حرج راہ ولما كان لملك عند انتقاله من پالیتا.اور کسی فرشتے کے لئے ایک جگہ سے دوسری مكان إلى مكان أن يأمن إضاعة جگہ منتقل ہونے میں یہ ممکن نہ ہوتا کہ وہ ضیاع وقت الوقت وفوت الأمر المقصود، ولَوَرَدَ کرنے اور امر مقصود کے فوت ہو جانے سے محفوظ في وقت من الأوقات مورد العتاب رہے.اور وہ کسی نہ کسی وقت ضرور مور دعتاب بھی ولارهِقَ في يوم من الأيام بعتبة رب ہوتا اور کسی نہ کسی دن بر وقت کام نہ کرنے کی سے دور.الأرباب لأجل ما فاته فعلُ الأمر علی پاداش میں وہ رَبُّ الأَرْبَاب کی چوکھٹ سے دو وقته، ولأخذ بأنواع العقاب.وأنت پھینک دیا جاتا اور اُسے طرح طرح کی سزائیں تعلم أن شأن الملائكة منزّة عن ملتیں.اور تو جانتا ہے کہ فرشتوں کی شان اس هذا، وهم يفعلون من غير مُكث سے پاک ہے.اور وہ ہر کام بلا توقف کرتے وفعلهم فعل الله من غير تفاوت ہیں اور اُن کا فعل بلا تفاوت اللہ کا فعل ہوتا ہے.
حمامة البشرى ۲۴۰ اردو ترجمه فتدبر ولا تكن من الغافلين پس تو غور کر اور غافلوں میں سے نہ ہو ئیں ههنا سؤال ينشأ طبعا في كل فهم * یہاں طبیعی طور پر فہم سلیم رکھنے والے شخص کے دل میں ایک.سليم، وهو أن الملائكة..هل يستطيعون سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرشتے کوئی کام جس کا انہیں حکم دیا جائے أن يفعلوا ما أمروا في مقدار وقت لا يكتفى اتنے وقت میں کر سکتے ہیں یا نہیں جو انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لانتقالهم من مكان إلى مكان، بل يمضى منتقل ہونے کے لئے کافی نہ ہو.بلکہ وہ اُن کے اپنے مقام پر کھڑا قبل أن يقوموا من مقامهم أو لا ؟ فإن قیل فی ہونے سے پہلے پہلے ختم ہو جائے؟ پس اگر اس کے جواب میں یہ کہا پہلے جوابه أنهم يستطيعون، فالنزول عبث وداخل جائے کہ وہ (اس کی) طاقت رکھتے ہیں تو پھر نزول عبث اور تضیع في تضيع الأوقات، بل هو من أمارة العجز اوقات میں داخل ہوگا بلکہ وہ عجز کی علامت ہوگا.بلکہ دراصل وہ بل الحق إنه نوع من العصيان والغفلة، ومن نا فرمانی اور غفلت کی قسم بن جائے گا.اور جس نے جان بوجھ کر غفل متعمدا فقد عصى.فإن قيل أنهم لا غفلت کی تو اُس نے نافرمانی کی.اور اگر یہ کہا جاوے کہ وہ يستطيعون..فهذا يوجب أن ينتظر اللـه (فرشتے) طاقت نہیں رکھتے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالى مطلوبه إلى مدة نزول الملائكة إلى فرشتوں کے زمین پر اترنے کی مدت تک اپنے مطلوب کی انتظار الأرض، ولا يخفى فساد هذا القول علی میں رہے اور اس بات کی خرابی نظمندوں سے مخفی نہیں.پس یقیناً اللہ العقلاء ، فإن نقص الانتظار علی اللہ محال کے لئے انتظار کرنا ایک ایسا نقص ہے جو محال ہے اور یہ میچ نہیں کہ ولا يصح عليه أن يتطرق في إرادته حرج وفی اس کے ارادے میں کوئی روک رہ پا سکے.اور اُس کی مشیت میں مشيئته توقف، ويأتي عليه زمان كالمنتظرين.توقف ہو.اور اُس پر کوئی زمانہ انتظار کرنے والوں کی طرح وارد فإن الوقت مقدار غير قار، فلا شك ان ہو.پس وقت نہ ٹھہر نے والی مقدار ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت النزول غير جزء الذي كان هو وقت نزول کا وقت، قیام کے وقت اور خدائے علم کے کلام سننے کے المقام وسماع الكلام من الله العلام، وأنت وقت کے علاوہ وقت ہے.اور تو جانتا ہے کہ اُس کی شان یہ ہے کہ تعلم أنما أمره إذا أراد شيئا فإنما يقول له جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اُسے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہونے كن فيكون.أتحسبون أن ملائكة الله كانوا لگتی ہے.کیا تم خیال کرتے ہو کہ اللہ کے فرشتے سلیمان کے ساتھی أقل همة وقوة من صاحب سليمان الذي ما سے بھی کم ہمت اور کم طاقت رکھتے ہیں جو نہ تو اُن کے دربار سے قام من مجلسه وما نُقل إلى مكان وأتى اُٹھا اور نہ اُس نے نقل مکانی کی مگر سلیمان کی آنکھ کے جھپکنے سے بعرش بلقيس قبل أن يرتد طرف سليمان؟ پہلے ہی بلقیس کے تخت کو لا حاضر کیا.پس غور کر کیونکہ عاقل را اشارہ فتدبّر، والإشارة مكتفية للعاقلين.منه کافی است - منه
حمامة البشرى ۲۴۱ اردو ترجمه ثم تدبر..نصرك الله ورزقك پھر غور کر، اللہ تیری نصرت فرمائے اور معارف الإقبال على المعارف.أن الملائكة کی طرف توجہ کرنا تجھے نصیب کرے.یقیناً جسم أعظم جسـمـا مـن كل مافی کے اعتبار سے فرشتے آسمانوں اور زمین میں السماوات والأرض كما ثبت من موجود ہر چیز سے بڑے ہیں.جیسا کہ قرآن النصوص القرآنية والحديثية، فلا وحدیث کی نصوص سے ثابت ہے.پس اس میں شك أنه لـو نـزل أحد منهم إلى كوئى شک نہیں کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے قومی الأرض بجسمه العظيم القوی اور عظیم جسم کے ساتھ زمین پر نازل ہو تو وہ تمام لغشى الأقاليم كلّها، وأهلك اقالیم کو ڈھانپ لے.اور ان میں بسنے والوں أهلها، وما وسعته الأرض فالحق کو ہلاک کر دے اور پھر بھی وہ زمین میں سمانہ أنهم ينزلون كنزول تمثلى، ولا سکے.پس حق یہ ہے کہ اُن کا نزول تمثل کی تنزل أجسامهم الأصلية من صورت میں ہوتا ہے اور اُن کے اصل جسم ۲۶ السماوات، ولكن الله يخلق آسمانوں سے نہیں اتر تے.بلکہ اللہ اُن کے لئے لهم أجسادًا أخرى على الأرض زمین پر دوسرے جسم پیدا کر دیتا ہے جو زمین میں بحيث تسعها الأرض، وتقتضيها سما سکیں.جس قدر میں اُن فرشتوں کی تخلیق کا المعدات الخارجية بقدر تدركه خارجی وسائل تقاضا کریں جسے دیکھنے والوں کی أبصار المبصرين.آنکھیں دیکھ لیں.ففكر في قولنا هذا كما هو شرط پس تو ہماری اس بات پر غور کر جیسے غور کرنے کا حق الفكر ولا تعجل، بل تكلف للفهم ہے اور جلد بازی سے کام نہ لے بلکہ سمجھنے کے لئے کچھ اور لبة، وانظر كلامي هذا بنظر دیر زحمت اُٹھا اور میرے اس کلام کو ایک مرتبہ انصاف الإنصاف كرة، وتفتش حقیقة کی نگاہ سے دیکھ اور ایک بار میری بات کی حقیقت كلمتي مرّةً، واستمع عنى نفثتى تارةً کی چھان بین کر اور ایک دفعہ مجھ سے میرا کلام سن.
حمامة البشرى ۲۴۲ اردو ترجمه ثم لك الخيار من بعد، وبيدك پھر اس کے بعد تجھے اختیار ہے اور اسے قبول کرنا یا القبول والردّ و حاصل قولنا أن نہ کرنا تیرے ہاتھ میں ہے.اور ہمارے کلام کا الملائكة قد خُلقوا حاملين للقدرة خلاصہ یہ ہے کہ فرشتے ابدی الہی قدرت کو اُٹھانے الأبدية الإلهية، منزهين عن التعب کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.وہ تھکاوٹ ، ماندگی واللغب والمشقة، ولا يجوز عليهم اور مشقت سے منزہ ہیں.سفر کی مشقت، مراحل مشقة السفر وتعب طي المراحل طے کرنے کی تھکان، منازل اور مقاصد تک جان کو والوصول إلى المنازل والمقاصد تکلیف میں ڈال کر اور وقت صرف کر کے پہنچنا بشق الأنفس وصرف الأوقات اُن کے لئے درست نہیں.کیونکہ وہ (فرشتے) اللہ فإنهم بمنزلة جوارح الله لإتمام کی اغراض کو محض ارادہ کرنے سے، بلا توقف پورا أغراضه بمجرد إرادته من غیر کرنے کے لئے بمنزلہ اس کے اعضاء کے ہیں.مكث، فلو كان نزولهم و صعودهم اور اگر ان کا نزول اور صعود انسانی صعود اور على طرز صعود الإنسان ونزوله نزول کی طرز پر ہوتا تو آسمانی حکومت کا نظام لاختل نظام ملكوت السماوات درہم برہم ہوجاتا اور جو کچھ ان (ارض وسماء) وفسد كل ما فيهما، ولعاد كل هذا میں ہے وہ تمام تر بگڑ جاتا.اور یہ سارا نقص اللہ النقص إلى الله الذى أقامهم مقامه کی طرف منسوب ہوتا جس نے ان کور بوبیت في المهمات الربوبية والخالقية اور خالقیت اور دیگر صفات کی مہمات میں اپنا وغيرهما، فإنهم مدبّرات أمره، قائم مقام بنایا ہے.پس وہ اُس کے ہر کام کے والحافظون من لدنه على كل شيء، منتظم اور اُس کی طرف سے ہر چیز پر نگران ہیں وإنما أمرهم إذا أرادوا شيئا فيكون اور اُن کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ الشيء المقصود من غير توقف کریں تو وہ مقصود چیز بلا توقف ہو جاتی ہے.فأنّى ههنا السفر؟ وأين طيّ المراحل پس کہاں یہ سفر اور کہاں مراحل طے کرنے
حمامة البشرى ۲۴۳ اردو ترجمه وترك المقامات والنزول إلى اور مقامات چھوڑنے اور وقت خرچ کر کے زمین کی الأرض بصرف وقت؟ فلا تُمارِ فی طرف نازل ہونے کا سوال؟ پس اس بارے میں هذا ولا تَسْتَفْتِ الذين اعتراهم تو جھگڑا نہ کر اور اُن لوگوں سے فتویٰ نہ مانگ جنہیں محجوبين.جنون التعصب فكانوا بجنونهم تعصب کا جنون لاحق ہو گیا ہے اور اُن کے جنون کی وجہ سے اُن کی عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے.وقد ثبت من رسول الله صلى الله ملائکہ کے عدم نزول کے بارہ میں ہمارے عليه وسلم ما يؤيد قولنا هذا من اس قول کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عدم نزول الملائكة، كما جاء عن سے بھی ہوتی ہے.جیسا کہ (حضرت ) عائشہ عائشة رضي الله عنها، قالت قال رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ما فی علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان پر ایک قدم کی السماء موضع قدم إلا عليه ملك بھی ایسی جگہ خالی نہیں جس میں کوئی فرشتہ ساجد أو قائم، وذلك قول الملائكة ساجد يا قائم نہ ہو.اور ملائکہ کا یہ قول ہے.یا وَمَا مِنَا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُومٌ.وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُومٌ ،، فاعلم..رحمك الله..أن هذا اللہ تجھ پر رحم فرمائے ، جان لے کہ یہ قطعی دليل قطعي على أن الملائكة لا دلیل ہے کہ فرشتے اپنی جگہ نہیں چھوڑتے.يتركون مقاماتهم، وإلا فكيف ورنہ یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ يصح أن يُقال إنه لا يوجد فى آسمان میں قدم بھر جگہ بھی ایسی پائی نہیں السماء موضع قدم إلا عليه ملك جاتی جس پر کوئی فرشتہ نہ ہو.پھر (بتاؤ وكيف تبقى هذه الصورة عند کہ فرشتوں کے زمین پر نازل ہوتے نزول الملائكة إلى الأرض وقت یہ صورت کس طرح قائم رہ سکتی ہے؟ ے اور (فرشتے کہیں گے کہ ) ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک معلوم مقام مقرر ہے.(الصفت: ۱۲۵)
حمامة البشرى ۲۴۴ اردو ترجمه ألا تعتقدون أن لجبرئيل جسم يملا كيا تم یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ جبرئیل کا ایک جسم المشرق والمغرب فإذا نزل جبرائیل ہے جو مشرق اور مغرب کو پر کر دیتا ہے.پس جب بذلك الجسم العظيم إلى الأرض جبرئيل اِس عظیم جسم کے ساتھ زمین پر نازل ہوئے وبقيت السماء خالية منه، ففَكِّرُ فی اور آسمان ان سے خالی ہو گیا تو اس خالی جگہ کے مقدار خالي وتذكر حديث موضع متعلق غور کر ، نیز قدم بھر والی حدیث کو یا دکر قدم ، وكن من المتندمين.اور شرمسار ہو.ثم إذا فكرت في سورة ليلة القدر پھر جب توليلة القدر والی سورۃ پر غور کرے گا تو فيكون لك ندامة وحسرة أزيد من تجھے اس سے بھی بڑھ کر ندامت اور حسرت ہوگی کیونکہ هذا، فإن الله عزّ وجلّ يقول في هذه الله عز وجل اس سورۃ میں بیان فرماتا ہے کہ فرشتے السورة أن الملائكة والروح تنزلون اور رُوح (الأمين ) اس رات اپنے رب کے اذن سے في تلك الليلة بإذن ربهم، ويمكثون نازل ہوتے ہیں.اور طلوع فجر تک زمین میں ٹھہرتے في الأرض إلى مطلع الفجر، فإذا نزلت ہیں.پس جب تمام کے تمام فرشتے اس رات زمین الملائكة كلهم في تلك الليلة إلى پر اتر آئے تو پھر تیرے اس عقیدے کی بناء پر یہ لازم الأرض فلزم بناءً على اعتقادك ان آئے گا کہ اُن کے نزول کے بعد سارے کا سارا تبقى السماء كلها خالية بعد نزولهم آسمان خالی ہو جائے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ موضع وهذا كما تقدم في حديث موضع قدم والی حدیث میں پہلے گزر چکا ہے.پس تو اپنا قدم قدم، فلا تنقل قدمت إلى الضلالة واضح گمراہی کی جانب مت اُٹھا اور تو خوب جانتا البديهة وأنت تعلم أن الرشد قد ہے کہ ہدایت گمراہی کے مقابلہ میں واضح ہوگئی ہے.تبين من الغي، ولن تستطيع أن تخرج اور تو کوئی ایسی حدیث نکال کر ہمارے سامنے پیش لنا حديثاً دالا على أن السماء تبقى خالية نہیں کر سکتا جو یہ ثابت کرے کہ فرشتوں کے زمین بعد نزول الملائكة إلى الأرض پر نازل ہونے کے بعد آسمان خالی رہ جاتا ہے.
حمامة البشرى ۲۴۵ اردو ترجمه في الضالين.فلا تجترء على الله ورسوله پس اللہ اور اُس کے رسول کے خلاف نہ کر اور اُس ولا تقف ما ليس لك به علم کے پیچھے مت پڑ جس کا تجھے کوئی علم نہیں.ورنہ فتقعد ملومًا مخذولا وتدخل تو ملامت کا نشانہ بن بیٹھے گا اور نصرت الہی سے محروم اور گمراہوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گا.إن الـــذيـــن يــطـلبــون سـبــل یقینا وہ لوگ جو اللہ کی راہوں کے طالب ہیں، وہ ۲۷ الله لا يُصرون على ما قالوا اپنے قول و فعل پر اصرار نہیں کرتے.اور جب وہ یہ أو فعلوا، وإذا رأوا أنهم قد دیکھتے ہیں کہ وہ بھٹک گئے ہیں تو استغفار کرتے ضلوا فرجعوا إلى الحق ہوئے حق کی طرف لوٹ آتے ہیں.تب تو اُن کی مستغفرين، هنالك ترى أعينهم آنکھوں کو آنسو بہاتے ہوئے دیکھے گا ( وہ یہ دعا تفيض من الدمـع ربنا اغفر لنا کر رہے ہوں گے ) کہ اے ہمارے ربّ! تو إنا كنا خاطئين، فيغفر لهم ربهم ہمیں بخش دے، ہم واقعی خطا کار تھے.تب اُن ويتوب عليهم رحمة وفضلا، كارب انہیں بخش دیتا ہے اور اُن پر اپنی رحمت والله يحب التوابين ويحب اور فضل کے ساتھ رجوع فرماتا ہے اور اللہ تو بہ المتطهرين.واعلم أن الله کرنے والوں اور پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ورسوله الذى أُوتى جوامع ہے.جان لے کہ اللہ اور اُس کا وہ رسول جسے الكلم كثيرا ما يستعملان جوامع الکلم عطا کئے گئے ہیں کلام میں استعارات في الكلام، فيغلط بکثرت استعارات استعمال کرتے ہیں اور جو فيها رجل لا يـنـظـر حق النظر، شخص پورا غور نہیں کرتا وہ ان کے (سمجھنے ) میں والذي يفسرها قبل وقتها غلطی کر جاتا ہے.اور جو ان کی قبل از وقت تفسیر ويعتقد أنها محمولة علی کرتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ (استعارات) الظاهر وما هى محمولة عليه، ظاہر پر محمول ہیں، حالانکہ وہ ظاہر پر محمول نہیں ہیں،
حمامة البشرى ۲۴۶ اردو ترجمه ولكنه يُخطى لدخله قبل لیکن وہ قبل از وقت دخل اندازی کی وجہ سے غلطی وقت الـدخـل فيـصـر على خطئه کر بیٹھتا ہے اور اپنی غلطی پر اصرار کرتا ہے یا اُس أو تدركه عناية الله فيكون کو اللہ کا کرم آلیتا ہے تو وہ صاحب بصیرت لوگوں من المبصرين.میں سے ہو جاتا ہے.وقد جرت عادة الله تعالى أنه قد اللہ تعالیٰ کی یہ سُنتِ جاریہ ہے کہ اُس کی آئندہ يكون في أنبائه المستقبلة ومعارفه پیش خبریوں اور اُس کے لطیف و دقیق معارف میں جو الدقيقة اللطيفة المزينة استعارات سے مزین ہوتے ہیں، بعض ایسے اجزاء بالاستعارات أجزاء تُبلى بها ہوتے ہیں جن سے لوگ آزمائش میں ڈالے جاتے الناس، فالذين يكون في قلوبھم ہیں.پھر وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے، مرض فيزيدهم الله مرضا تو اللہ ان کو ان ابتلاؤں کی وجہ سے بیماری میں بڑھا بتلك الابتلاءات، فيستعجلون دیتا ہے.پس وہ جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور اللہ ويكذبون كلام الله..أو يكذبون کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں یا وہ از راہ ظلم و تکبر اُس الذي رزقه الله علمه ظلما شخص کو جھٹلاتے ہیں جسے اللہ نے اپنا علم عطا فرمایا ہوتا وعُلُوا ولا يتدبرون خائفین ہے اور وہ ڈرتے ہوئے غور نہیں کرتے.پھر جب ثم إذا ظهرت براءته وأنارت اُس کی بریت ظاہر ہو جاتی ہے اور اُس کی دلیل حجته، فيرجعون إليه متندمين روشن ہو جاتی ہے تو وہ شرمسار ہوکر اس کی طرف أو يموتون في هوة التعصب، لوٹتے ہیں یا وہ تعصب کے گڑھے میں گر کر مر جاتے ويستغنى الله والله غنی ہیں.اور اللہ ( اُن سے ) مستغنی ہو جاتا ہے اور اللہ تمام عن العالمين.وأما من أوتى جہانوں سے بے نیاز ہے.ہاں البتہ وہ شخص جسے اللہ فراسة من عند الله ونور من کی بارگاہ سے فراست اور اُس کی جناب سے نور عطا لدنــه، فيـمـهـر فـي العلم الإلهي | کیا جاتا ہے وہ علم الہی میں مہارت حاصل کر لیتا ہے
حمامة البشرى ۲۴۷ اردو ترجمه ويعرف الحقيقة، وينظر اور حقیقت پہچان لیتا ہے.اور اللہ کے نور کے بنور الله، ويرزقه الله إصابة ساتھ دیکھتا ہے اور اللہ اسے محفوظ لوگوں جیسی المحفوظين.اصابت رائے عطا کرتا ہے.ولنرجع إلى كلامنا الأوّل فنقول اب ہم اپنے پہلے کلام کی طرف رجوع کرتے إن الله تبارك و تعالى قال فی ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی محکم كتابه المحكم اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا کتاب (قرآن) میں فرمایا ہے اِنْ كُلُّ نَفْسٍ عَلَيْهَا حَافِظ ، فلمّا كانت الملائكة ثَمَّا عَلَيْهَا حَافِظ پس جب فرشتے تمام | حافظين لنفوس النجوم والشمس ستاروں سورج، چاند ، افلاک، عرش نیز ہر اس چیز والقمر والأفلاك والعرش و کل کے وجود کے محافظ ہیں جو زمین میں ہے، تو یہ ما في الأرض، لزم أن لا يفارقوا ما لازم آیا کہ وہ اپنی زیر حفاظت چیز سے لمحہ بھر کے يحفظونه طرفة عين، فانظر كيف لئے بھی جدا نہ ہوں.پس غور کر کہ اس بات سے ظهر من هذا الأمر الحق، وبطل ما حق کیسے کھل گیا اور ان (فرشتوں) کے اپنے زعم الـزاعمون من نزولهم اصلی اجسام کے ساتھ نزول اور صعود کا عقیدہ وصعودهم بأجسامهم الأصلية.رکھنے والوں کا خیال باطل ہو گیا.پس اُس دقیقہ فلا مفر إلى سبيل من قبول دقيقة معرفت کے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں المعرفة التي كتبناها..أعنى أن جسے ہم نے تحریر کیا ہے یعنی یہ کہ فرشتے حقیقی الملائكة لا ينزلون بنزول حقیقی طور پر نازل نہیں ہوتے اور وہ سفر کی صعوبتوں ولا يرون وعشاء السفر، بل إذا سے دو چار نہیں ہوتے.بلکہ جب اللہ انہیں عالم أراد الله إراء تهم في الناسوت ناسوت میں دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو اُن فيخلق لهم وجودا تمثليا في الأرض، کا ایک تمثلی وجود زمین میں پیدا کر دیتا ے کوئی (ایک) جان بھی نہیں جس پر کوئی محافظ نہ ہو.( الطارق: ۵) ہے.
حمامة البشرى ۲۴۸ اردو ترجمه فتــراهــم الـعـيـن التـي تسرح في اس طرح انہیں وہ آنکھ دیکھ لیتی ہے جو کشف کے روضات الكشف.ولو لم يكن باغوں میں محو خرام ہوتی ہے.اور اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ كذلك للزم أن يرى الملائكة لازم آتا کہ ارواح کے قبض کرنے اور دیگر مہمات الناس كلهم عند نزولهم إلى انجام دینے کے موقع پر سب لوگ ان فرشتوں کو الأرض لقبض الأرواح وغيرها من زمین پر اترتے وقت دیکھتے اور یہ بھی لازم آتا کہ المهمّات، وللزم أن يرى مَلَكَ مثلاً ملك الموت کو ہر وہ شخص دیکھتا جس کے قریبی الموت مثلا كلُّ من تُوُفِّيَ أحدٌ من رشتے داروں، بھائی بندوں، قبیلے والوں،اولاد، أقاربه وممن يؤاخيه ومن عشيرته قوم اور دوستوں میں سے کوئی اُس کی آنکھوں کے وعقبه وقومه وأصدقائه أمام عينه، سامنے مرتا.پس اگر فرشتوں کا جسم دوسرے فإن جســم الــمــلائـكة جسم وجودوں کے اجسام کی طرح ہو تو اُن کے نزول کے كأجسام أخرى، فلا وجه لعدم وقت اپنے اصلی جسم کے ساتھ ان کے دکھائی نہ دینے رؤيتهم مع نزولهم بأجسامهم کی کوئی وجہ نہیں بنتی.اور تو جانتا ہے کہ بہت سے الأصلية.وأنت تعلم أن خَلقًا كثيرا لوگ ہماری آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں.پس ہم يموتون أمام أعيننا فلا نرى عند اُن کے نزع اور موت کی غشی کے وقت اُن فرشتوں نزعهم وغمرة موتهم الملائكة کو نہیں دیکھتے جو اُن کی روح قبض کرتے ہیں.التي تَوفَّتهم، وما نسمع ما يسألون اور نہ ہم وہ سنتے ہیں جو وہ مردوں سے پوچھتے اور جو الموتى وما يكلمونهم.فالحق أن وہ اُن سے کلام کرتے ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ یہ هذا الأمر وأمثاله من عالم المثال اور اس جیسے دیگر امور عالم مثال میں سے ہیں جس الذي ما أراد الله كشف كُنهه علی کی حقیقت کو اللہ نے عقول اور آنکھوں پر ظاہر کرنے العقول والأعين وأما نظائر عالم کا ارادہ نہیں کیا.ہاں البتہ عالم مثال کی نظائر بہت المثال فكثيرة ومنها نزول الملائكة، سکی ہیں.اور ان میں سے ایک ملائکہ کا نزول ہے
حمامة البشرى ۲۴۹ اردو ترجمه ومنها ما جاء في الأحاديث أن اور ایک وہ ہے جو احادیث میں آئی ہے کہ مومن کی قبـر الـمـؤمـن روضة من روضات | قبر جنت کے باغات میں سے ایک باغ یا دوزخ الجنة أو حفرة من حفر النار کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے.اور ان مثالوں ومنها ما جاء فی بعض الأحادیث میں ایک یہ بھی ہے جو ایک حدیث میں آیا ہے کہ أن الله يكشف لـمؤمن غرفة إِنَّ اللهَ يَكْشِفُ لِلْمُؤْمِنِ غُرْفَةً إِلَى الْجَنَّةِ 66 إلى الجنة في قبره، ويكشف فِى قَبْرِهِ وَيَكْشِفُ لِلْكَافِرِ غُرْفَةً إِلى جَهَنَّمَ “ لكافر غرفة إلى جهنم، ولكنا یعنی اللہ مومن کے لئے اُس کی قبر میں جنت کی طرف ربـمـا نـزور القبور أو نحفر أرضها ایک کھڑکی کھولے گا اور کافر کے لئے ایک کھڑ کی فلا نرى غرفة إلى الجنة أو جہنم کی طرف کھولے گا لیکن بسا اوقات ہم قبروں إلى جهنم، ولا نرى فيها شجرة کی زیارت کرتے ہیں یا اُن کی زمین کھودتے ہیں واحدة فضلا عن الروضات، ولا جمرة تو جنت یا جہنم کی طرف کوئی کھڑ کی نہیں دیکھتے اور من النار فضلا عن النيران الموقدة باغات تو کجا ہم اُن میں ایک درخت تک نہیں دیکھتے.المحرقة، ولا نرى هناك ميتا اور اسی طرح بھڑکتی ہوئی جلانے والی آگ تو در کنار قاعدا عائشا بعد الموت، ہم آگ کا کوئی انگارہ بھی نہیں دیکھتے.اور نہ ہی ہم كما أخبر عن قعود الموتى وہاں کسی مُردہ کو اُس کے مرنے کے بعد زندہ بیٹھا وحياتهم عند السؤال والجواب هواد.ہوا دیکھتے ہیں.جیسا کہ سوال و جواب کے وقت بل نرى ميتا مُکفِّنا قد مُردوں کے بیٹھنے اور ان کی زندگی کے متعلق خبر دی أكلت الأرض لـحـمــه و كفنه گئی ہے بلکہ کفنائی گئی میت دیکھتے ہیں جس کے وقد جاء في الأحاديث آن گوشت اور کفن کو مٹی نے کھالیا ہے.نیز احادیث الشهداء يُرزقون من ثمرة الجنات میں یہ بھی تو آیا ہے کہ شہداء کو جنت کے پھل، و ألبانها و شرابها الطهور، دودھ اور شراب طہور میں سے رزق دیا جاتا ہے.۶۸
حمامة البشرى ۲۵۰ اردو ترجمه ولكنا لا نرى في قبورهم..التي لیکن ہم اُن کی قبروں میں جو جنت کے باغات هي روضة من روضات الجنة..من سے میں ایک باغ ہیں، کوئی پھل یا کوئی خوشبودار ثمرة أو ريحان أو من قدح اللبن أو پودا یا دودھ کا پیالہ یا شراب کا کوئی جام نہیں كأس خمر.وربما لا ندفن الموتى دیکھتے اور بعض اوقات ہم مُردوں کو کئی دنوں تک إلى أيام فلا نرى مجيء الملائكة دفن نہیں کرتے.مگر ہم اُن کے پاس فرشتوں کا آنا عندهم ولا ذهابهم وقد أخبر الله جاتا نہیں دیکھتے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تعالى في كتابه أن الملائكة یہ خبر دی ہے کہ فرشتے کفار کے منہ پرطمانچے يضربون وجوه الكفار، ولكنا لا مارتے ہیں لیکن ہم نہ تو کسی مارنے والے فرشتے نرای ملكًا ضاربًا ولا أثر الضرب کو دیکھتے ہیں اور نہ اُس کی مار کے نشان کو اور نہ ہی ولا نسمع صراخ المضروبين.مارکھانے والوں کی چیخ و پکار سنتے ہیں.وقد جاء في بعض الأحاديث أن اور بعض احادیث میں آیا ہے کہ جب کوئی دودھ الطفل الرضيع إذا مات قبل تکمیل پیتا بچہ زمانہ رضاعت کی تکمیل سے قبل مر جائے أيام الرضاعة فتتم أيامها في القبر، تو اس کے دودھ پینے کی مدت کو قبر میں پورا کیا جاتا ولكنا لا نرى مُرضِعًا قاعدة في ہے، لیکن ہم اس کی دودھ پلانے والی کوقبر میں بیٹھے القبر، ولا طفلا يمص لبنها وقد ہوئے نہیں دیکھتے اور نہ ہی بچے کو اُس کا دودھ چوستے جاء في بعض الآثار أن قبر المؤمن ہوئے پاتے ہیں.اور بعض آثار میں آیا ہے کہ مومن يوشع عليه بمقدار كذا وكذا، کی قبر اتنی اتنی حد تک وسیع کر دی جاتی ہے لیکن ہم ولكنا لا نرى أثرا من ذلك اس توسیع کا کہیں نشان نہیں دیکھتے بلکہ ہم کسی فرق التوسيع، بل نراه كقبر کافر من کے بغیر وسعت اور تنگی میں اُسے کافر کی قبر کی طرح ہی غير تفاوت سعة وضيق، فكيف دیکھتے ہیں.پس ہم اس کی حقیقت کا کیسے دعویٰ ندعى الحقيقة ولا نرى آثارها؟ کر سکتے ہیں جبکہ ہم اُس کے آثار بھی نہیں دیکھتے.
حمامة البشرى ۲۵۱ اردو ترجمه وكذلك قيل إن الشهداء أحياء اسی طرح کہا گیا ہے کہ شہید زندہ ہیں اور وہ کھاتے يأكلون ويشربون ولكنا لا نرى پیتے ہیں لیکن ہم نہیں دیکھتے کہ وہ لوگوں سے أنهم لاقوا الناس كالأحياء ووثبوا زندوں کی طرح ملے ہوں.اور وہ اپنی قبروں سے من قبورهم و رجعوا إلى دورهم چھلانگ لگا کر باہر آئے ہوں اور اپنے گھروں فلو كانت هذه الأمور.أعنى نزول کو واپس لوٹ آئے ہوں.پس اگر یہ امور یعنی الملائكة، وتوسيع قبور المؤمنين فرشتوں کا نزول ، مومنوں کی قبروں کا وسیع کئے جانا ووجود الجنّات فيها، وقعود اور ان میں باغات کا موجود ہونا اور مُردوں کا الموتى في القبور أحياء، وغيرها قبروں میں زندہ ہو کر بیٹھنا اور کچھ دوسرے اُمور التي يوجد ذكرها في القرآن جن کا ذکر قرآن اور احادیث میں پایا جاتا ہے والأحاديث.من الأمور الحقيقية حقيقى اور حسی امور ہوتے جن کا تعلق اس عالم سے الحسية التي هي من هذا العالم لا ہے نہ کہ عالم مثال سے تو ہم اس کو دیکھتے جیسے ہم من عالم المثال..لرأيناه كما نرى أن دوسری اشیاء کو دیکھتے ہیں جو اس دنیا میں پائی أشياء أخرى التي توجد في هذه جاتی ہیں.اور تو جانتا ہے کہ ہم میں سے کوئی ان الدنيا.وأنت تعلم أن أحدا منا لا واقعات کو اُس آنکھ سے نہیں دیکھتا جس کے ساتھ يرى هذه الواقعات بعین یری بھا وہ اس عالم کی اشیاء کو دیکھتا ہے.کیونکہ ہم اس أشياء هذا العالم، فإنا نرى أشجار دنیا کے درخت اور اُس کے باغوں کو دور سے هذا الـعـالـم وبساتينها عن بعيد، دیکھ لیتے ہیں اور ہم اُن کے پھل اُن کی ٹہنیوں ونرى ثمراتها معلقة بأغصانها، ولكنا سے لٹکے ہوئے دیکھتے ہیں.لیکن جب ہم شہداء إذا كشفنا قبر شهید من الشهداء میں سے کسی شہید کی قبر کھولتے ہیں تو اُس میں اُن فلا نجد فيها أثرًا منها، وقد آمنا كا كوئی نشان نہیں پاتے حالانکہ ہمارا ایمان ہے کہ بأن قبورهم أو دعت لفائف النعيم، ان کی قبروں کو تہ در تہ نعمتیں ودیعت کی گئی ہیں
حمامة البشرى ۲۵۲ اردو ترجمه وصيخت بالطيب العميم، وسيق اور انہیں دور دور تک پھیلنے والی خوشبو سے معطر إليها شرب من تسنیم، وأريج کیا گیا ہے اور اُن تک تسنیم کا پانی اور باد نسیم کی نسيم، وفيها روضة من روضات خوشبودار پیٹیں لائی گئیں اور اُن میں جنت کے الجنّة، وكأس من كأس اللبن باغات میں سے ایک باغ بھی ہے اور دودھ اور والخمر، ولكنا ما شاهدنا شيئا شراب کے پیالوں سے ایک پیالہ ہے لیکن ہم نے منها بأعيننا، ولا تحسسناه بحاسة ان میں سے کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا أخرى، فلم نجد بدا من تأويل، اور نہ کسی دوسری جس سے اُسے محسوس کیا، لہذا فقلنا إن هذه الأمور كلها تاویل کے سوا ہمارے لئے کوئی چارہ نہیں.اس أعني نزول الملائكة ونزول لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ سب امور یعنی فرشتوں کا الجنة وغيرها متشابهة يشابه نزول، جنت کا نزول اور دیگر امور متشابہ ہیں جو بعضها بعضا، ولا شك أن ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اور اس لها حقيقة واحدة من غير اختلاف میں شک نہیں کہ بغیر کسی اختلاف اور تفاوت کے وتفاوت، ولا شك أن هذه ان کی حقیقت ایک ہی ہے اور بیشک یہ سب واقعات الواقعات كلها منسلکة فی ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، پس تو سلك واحد فتبصر تسترخ بصیرت سے کام لے تو معترضوں کے تیروں سے من سهام المعترضين، ولا تركن امن میں آجائے گا.اور تو اُن لوگوں کی جانب إلى الذين ظلموا واكتسوا مائل نہ ہو جنہوں نے ظلم کیا اور ہدایت کے گمراہی ثوب الذل والخطأ بعد ما تبین سے ممیز ہو جانے کے بعد ذلّت اور خطا کا جامہ الرشد من الغي، واتبع قولا قد پہن لیا.اور اُس قول کی پیروی کر جو پوری طرح انكشف كل الانكشاف ومزّق منکشف ہو چکا ہے اور جاہلوں کی تقلید کے کپڑے رقعة تقليد الجهلاء شَذَرَ مَذَرَ ، کو تار تار کر دے اور اس کی دھجیاں بکھیر دے.
حمامة البشرى ۲۵۳ اردو ترجمه ولا تبـال أعدل أحد أو عَدَرَ، اور پرواہ نہ کر کہ کوئی ملامت کرتا ہے یا معذور وكن من الذين يقومون للہ گردانتا ہے اور اُن لوگوں میں سے ہو جا جو اللہ کے 19 حضور کامل فرمانبردار ہوتے ہیں.قانتين.ނ ولا بد لك أن تؤمن وتعتقد اور تیرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ أن نزول الملائكة، وحياة الموتی تو ایمان لائے اور عقیدہ رکھے کہ فرشتوں کا في قبورهم، وقعودهم في نزول اور مُردوں کا اپنی قبروں میں زندہ ہونا أجداثهم، ووجود الجنة والسعیر اور اپنی قبروں میں بیٹھنا اور وہاں جنت اور فيها، ليس من واقعـات هذا دوزخ کا وجود اس عالم کے واقعات میں سے العالم ولا من مدرکات هذه نہیں اور نہ ہی وہ ان حواس سے محسوس ہو الحواس، بل هي من عالم آخر، سکتے ہیں بلکہ اُن کا تعلق اُخروی دنیا.ولا ينبغي لأحد أن يحملها ہے.اور کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ على واقـعـات هـذا الـعـالـم أو ان کو اس عالم کے واقعات پر محمول کرے یا اس يقيس عليه حقائق تلك العالم دنیا کے حقائق کو اس پر قیاس کرے بلکہ یہ امور بل هي أمور متعالية عن طور ایسے ہیں جو اس عالم کے طور طریق اور اس هذا العالم ومُدركاته، کے محسوسات سے بالاتر ہیں.اور ان کی ولا يـعـلـم كُنهَهَا إلا الله فلا حقیقت کو صرف اللہ ہی جانتا ہے لہذا تو ان کے تضرب لها الأمثال ولا تكن لئے مثالیں بیان نہ کر اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہو.من المعتدين.وأنــت تـعـلـم أن الله تعالى ما قال اور تُو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب في كتابه إن الملائكة يشابهون میں یہ نہیں فرمایا کہ فرشتے اپنے نزول و الناس في صعودهم ونزولهم صعود میں انسانوں سے مشابہت رکھتے ہیں.
حمامة البشرى ۲۵۴ اردو ترجمه بل أشار في كثير من مقامات بلکہ اُس نے اپنی محکم کتاب میں بہت سے كتابه المحكم إلى أن نزول مقامات پر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ فرشتوں کا الملائكة وصعودهم كنزوله تعالى نزول وصعود اللہ کے نزول وصعود کی طرح ہے وصعوده ولا يخفى عليك أن الله اور یہ امر تجھ پر مخفی نہیں کہ اللہ تعالیٰ رات کے تعالى ينزل فى الثلث الأخير من آخری پہر،سماء الدنیا پر نزول فرما ہوتا ہے لیکن یہ الليل إلى السماء الدنيا، فلا يقال نہیں کہا جاسکتا کہ اُس کے نزول کے وقت عرش إن العرش يبقى خاليا عند نزوله خالی رہتا ہے.اور اسی طرح اللہ نے اپنی کتاب وكذلك أشار الله في كتابه إلى میں بادلوں کے سائے میں مقرب فرشتوں کی نزوله في ظلل من الغمام مع معیت میں اپنے نزول کی جانب اشارہ فرمایا ہے.الملائكة المقربين، فإذا حل الله پس جب اللہ اپنے سب فرشتوں کے ساتھ زمین الأرض مع جميع ملائكته..فإن كان پر اتر آیا.پھر اگر یہ نزول جسمانی نزول کی طرح ہو هذا النزول كنزول الأجسام فلا بد تو تب لازمی ہے کہ تو یہ عقیدہ رکھے کہ عرش اور لك أن تعتقد أن العرش والسماوات آسمان اُس دن خالی رہ جاتے ہیں.اور اُن میں تبقى خالية يومئذ..ليس فيها نہ خدائے رحمان ہوتا ہے اور نہ اُس کے فرشتے.الرحمن ولا ملائكته فاذكر ان پس اگر تو نصیحت حاصل کرنے والوں میں سے ہے فَادَّكِرُ كنت من الـمـدكـرين، وأحسن تو نصیحت حاصل کر.اور جو کچھ ہم نے کہا ہے اُس النظر إلى ما قلنا، واستعد لقبول پر اچھی طرح غورکر اور اگر تو طالب حق ہے المعارف إن كنت من الطالبين.تو معارف کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جا.أفتظن أن السماء لا تبقى على کیا تو خیال کرتا ہے کہ آسمان ایک حالت ا حالة واحدة..فقد تكون مملوّة پر نہیں رہتا.کبھی تو وہ فرشتوں سے اتنا بھرا من الملائكة..مكتظة بحفلهم، ہوتا ہے کہ اس میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی
حمامة البشرى ۲۵۵ اردو ترجمه كرجال متقين.وقد تكون كمواضع خالية ليس اور کبھی وہ ایسی خالی جگہوں کی طرح ہوتا ہے جن أحد فيها؟ فإن كنت تصدق هذه میں کوئی بھی نہیں ہوتا.پس اگر تو اس باطل عقیدے العقيدة الباطلة وتصرّ على نزول کی تصدیق کرتا ہے اور فرشتوں کے اپنے جسموں الملائكة بأجسامهم، فعليك أن سميت نازل ہونے پر اصرار کرتا ہے تو تجھ پر لازم تثبيتها من النصوص القرآنية أو ہے کہ تو اسے قرآن اور حدیث کی نصوص سے الحديثية كما ادعيتها أو تتوب ثابت کرے جیسا کہ تو اس کا دعویدار ہے یا پھر تقوی شعار مردوں کی طرح توبہ کرلے.وقد جاء في بعض الأحاديث أن اور بعض احادیث میں آیا ہے کہ جبریل علیہ جبرائيل عليه السلام مکث على السلام عیسی علیہ السلام کے ساتھ زمین پر تھیں الأرض مع عيسى عليه السلام إلى سال تک ٹھہرے رہے اور وہ ان سے کسی وقت ثلاثين سنة ما فارقه فى وقت بھی جدا نہ ہوئے اور کچھ دوسری احادیث میں وجاء في أحاديث أخرى أنه لا آیا ہے کہ وہ آسمان میں ہوتے ہوئے ہی وحی کا يلقى الوحي إلا حال كونه في القاء کرتا ہے اور اپنے رب کی جناب سے وحی السماء ، ويلقى الوحى من لدن ربّه پاتا ہے.اور پھر دوسروں کو اس سے مطلع کرتا ثم يُطلع عليه آخرين.فهذه مصيبة ہے.پس یہ تجھ پر ایک اور مصیبت ہے اور توان أخرى عليك، ولن تقدر علی احادیث میں تطبیق اور ان میں موافقت پیدا تطبيق هذه الأحاديث وتوفيقها.کرنے پر قدرت نہ پائے گا.وربما يختلج في قلبك وهم اور اکثر تیرے دل میں وہم کھٹکے گا اور تو کہہ اُٹھے وتقول إني لست قائلا بخلو گا کہ میں فرشتوں کے نازل ہونے کے بعد آسمانوں السماوات بعد نزول الملائكة کے خالی ہونے کا قائل نہیں اور اس پر تجھ سے فيقال لك إنك تنسى عقيدتك يہ کہا جائے گا کہ تو اپنے عقیدے کو بھول رہا ہے
حمامة البشرى ۲۵۶ اردو ترجمه ألست تعتقد أن الملائكة ينزلون کیا تیرا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ فرشتے حقیقی نزول بنزول حقيقي؟ فلزمك من هذا کے ساتھ اُترتے ہیں.لہذا اس سے تجھ پر یہ أن تقول إنهم ينزلون بأجسامهم لازم آیا کہ تو کہے کہ وہ اپنے اصلی جسموں کے الأصلية، وأنت تعلم أن نزولهم ساتھ نازل ہوتے ہیں.اور تو جانتا ہے کہ ان کا بأجسامهم الأصلية يستلزم خُلو اپنے اصلی جسموں کے ساتھ نزول اس بات کو السماوات بعد النزول.وإن كنت مستلزم ہے کہ آسمان اُن کے نزول کے بعد خالی تعتقد أن الملائكة لا ينزلون ہوں اور اگر تیرا یہ عقیدہ ہے کہ فرشتے اپنے اصلی بأجسامهم الأصلية بل يخلق الله اجسام کے ساتھ نازل نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ لهم في الأرض أجساما أخرى التي اُن کے لئے زمین میں دوسرے اجسام لا تُدرك ولا تُرى، فهذا هو پیدا کرتا ہے جن کا نہ تو ادراک ہوسکتا ہے اور نہ وہ مذهبنا.ولكنك إذا أصررت دیکھے جا سکتے ہیں تو ہمارا مذہب بھی یہی ہے لیکن على نزولهم بأجسامهم الأصلية | اگر تو ان کے اصلی اجسام کے ساتھ اُن کے نزول فهذا قول يُخالف القرآن العظیم، پر اصرار کرے تو یہ اعتقاد قرآن عظیم کے مخالف ٠ لأن القرآن يُدخل وجود الملائكة ہے.کیونکہ قرآن فرشتوں کے وجود کو ایمانیات في الإيمانيات ويجعل لهم میں داخل کرتا ہے.اور اُن کے لئے آسمانوں مقامات معلومة في السماء میں مقررہ مقامات کا تعین فرماتا ہے.یعنی وہ أعنى المقامات التي أقامهم الله مقامات جن پر اللہ نے انہیں مقرر کیا ہے اور وہ عليها، ولا يذكر أنهم يتركون يذكر نہیں فرماتا کہ وہ کسی وقت اپنے مقامات کو مقاماتهم في حين من الأحيان چھوڑ دیتے ہیں.جہاں تک اُن کے نزول کے وأما ذكر نزولهم فهو كذكر ذکر کا تعلق ہے تو وہ اللہ کے نزول کے ذکر جیسا نزول الله، لا تفاوت بينهما، ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی تفاوت نہیں.
حمامة البشرى فم قاعدا كالفارغين.۲۵۷ اردو ترجمه الصافون، ومنهم پس ان میں سے بعض صف باندھنے والے ہیں، المسبحون، ومنهم الراكعون کچھ تسبیح کرنے والے ہیں.اور کچھ رکوع کرنے ومنهم الســـاجــدون، ومنهم والے اور کچھ سجدہ کرنے والے ہیں اور کچھ قیام القائمون كما أشار إليه کرنے والے ہیں.جیسا کہ اس کی طرف قرآن القرآن، وليس أحد منهم نے اشارہ کیا ہے اور ان (فرشتوں) میں سے کوئی بھی بے کارلوگوں کی طرح بیٹھنے والا نہیں.فإذا نزل أحد منهم بجسمه العنصري پس ان میں سے جب کوئی اپنے مادی جسم کے ساتھ فلزم أن يترك مقامه خاليًا ويخرج نازل ہو تو لازم آئے گا کہ وہ اپنی جگہ کو خالی چھوڑ آئے اور من صفه، ويبعد عن مقام تسبيحه أو اپنی صف سے باہر نکل جائے اور اپنے مقام تیج یار کوع ركوعه أو سجدته الذي أقامه الله علیه یا سجدہ سے دور ہو جائے جس پر اللہ نے اُسے قائم فرمایا وينزل إلى الأرض كالمسافرين، وما ہے اور مسافروں کی طرح زمین پر نازل ہو.اور ہم قرآن نرى في القرآن أثرًا من هذا التعليم، بل میں اس تعلیم کا کوئی شائبہ تک نہیں دیکھتے.بلکہ اللہ نے جعل الله نزول الملائكة كنزول فرشتوں کے نزول کو اپنی ذات کے نزول کی طرح نفسه، وجعل مجيئهم كمجيء ذاته.اور اُن کی آمد کو اپنی ذات کی آمد کی طرح قرار دیا ہے.ألا تنظر إلى هذه الآية..أعنى قوله كيا تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف نہیں دیکھتا تعالى وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكَ صَفًّا صَفًّا، وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكَ صَفًّا صَفًّا اور الله عز وجل وقوله عزّ وجلّ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا ان کے قول هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي يَأْتِيَهُمُ اللهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَكَةُ ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَيْكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ، وَإِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُے کی طرف نہیں دیکھتا؟ لے اور تیرا رب آئے گا اور صف بہ صف فرشتے بھی.(الفجر :۲۳) ے کیا وہ محض یہ انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ بادلوں کے سایوں میں اُن کے پاس آئے اور فرشتے بھی اور معاملہ نپٹا دیا جائے اور اللہ ہی کی طرف تمام امور لوٹائے جاتے ہیں.(البقرۃ: ۲۱۱)
حمامة البشرى ۲۵۸ اردو ترجمه وههنا نكتة أخرى..وهى أن الله اور یہاں ایک اور نکتہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ جب إذا نزل إلى الأرض مع ملائكته فلا اپنے فرشتوں کے ساتھ زمین کی طرف نزول فرماتا ہے بد من أن ينزل الملائكة كلهم، تو ضروری ہے کہ تمام کے تمام فرشتے بھی اُتریں فإن الملائكة جند الله فلا يجوز کیونکہ فرشتے اللہ کی فوج ہیں.اس لئے جائز نہیں أن يتخلف أحد منهم عند نزول کہ ان میں سے کوئی رب العرش کے زمین پر نزول ربّ العرش إلى الأرض، فإذا تقرر فرمانے کے وقت پیچھے رہ جائے.اور جب یہ هذا فيلزم منه أن تبقى كل سماء ثابت ہو گیا تو اس سے یہ بھی لازم آیا کہ عرش سے من العرش إلى السماء الدنيا خالية لے کر سماء الدنیا تک ہر آسمان اللہ تعالیٰ کے زمین عند نزول الله تعالى على الأرض پر نزول فرما ہوتے وقت خالی ہوجائے.نہ اُس ليس فيها رب رحیم رب العرش میں رب رحیم اور رب العرش ہوا اور نہ فرشتوں میں ولا ملك من الملائكة، واللازم سے کوئی فرشتہ اور جیسا کہ غور وفکر کرنے والوں پر یہ باطل فالملزوم مثله كما لا يخفى مخفی نہیں کہ (جب ) لازم باطل ہو تو ملزوم بھی ویسے ہی (باطل ) ہوگا.ثم إذا فرضنا أن في الأرض مثلا پھر اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ مثلاً زمین میں مائة ألف من الأنبياء ، بعضهم فی ایک لاکھ انبیاء ہیں.جن میں سے بعض مشرق المشرق وبعضهم في المغرب میں ہیں اور بعض مغرب میں ہیں بعض جنوب وبعضهم في نواحی الجنوب کے نواح میں اور بعض شمال کے انتہائی وبعضهم في أقصى بلاد الشمال دور مقامات میں ہیں.اور اللہ تعالیٰ جبرائیل وأمر الله تعالى لجبرائیل ان کو یہ حکم دے کہ وہ ان سب کی طرف ایک يُوحى إليهم كلهم في آن واحد لا ہی وقت میں وحی کرے.اور اُن میں سے يتاخر منه أحد ولا يتقدم؛ کوئی ایک بھی وحی پانے میں آگے پیچھے نہ ہو على المتفكرين.
حمامة البشرى ۲۵۹ اردو ترجمه أو إذا فرضنا أن الله أمر مَلَك يا اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ اللہ نے ملک الموت الموت أن يتوفى مائة ألف من كو يہ حکم دیا کہ وہ ایک لاکھ لوگوں کو جن میں سے الرجال الذين بعضهم في بعض مشرق میں رہتے ہیں اور بعض مغرب میں المشرق وبعضهم في المغرب پلک جھپکنے کی مدت میں مار دے اور اس میں في طرفة عين، لا يقدم ولا يؤخر ، تقدیم و تاخیر نہ ہو.( تو ایسی صورت میں ) تمہارا فما ظنك أن جبرائيل أو ملك كيا خيال ہے کہ جبرائیل یا ملک الموت اس سے الموت يعجز عن ذلك أو يقدر عاجز رہیں گے یا وہ مشرق میں ہوتے ہوئے على إتمام أمر المغرب مع كونه مغرب والے حکم کو پورا کرنے پر قادر ہوں گے؟ في المشرق، فإن كان قادرا، پس اگر وہ اس بات پر قادر ہیں تو پھر اسی طرح وہ فكذلك يقدر أن لا ينزل من اس بات پر بھی قادر ہیں کہ وہ آسمان سے نہ السماء ويفعل كل ما يشاء أتريل لیکن اُترنے والوں کی طرح جیسا چاہے کام کر دکھا ئیں.كالنازلين و مثل آخر نستفسرك جوابه..اور ایک اور مثال میں ہم تجھ سے جواب کا استفسار وهو أن ملك الموت حل بلدة کرتے ہیں اور وہ یہ کہ کسی وباء کے ایام میں ملک الموت عظيمة من البلاد المشرقية في مشرقی ممالک کے کسی بڑے شہر میں اس غرض سے أيـام الـوبـاء ليقبض أرواح سكان اترا کہ وہ اس شہر کے رہنے والوں کی روحوں کو قبض تلك البلدة، فاشتدت الضرورة کرے پھر اس کی اس شہر میں دوماہ تک قیام کی لقيامه فيها إلى الشهرين بما كثرت سخت ضرورت پڑ گئی کیونکہ اُس میں موت کے فيها واقعات الموت مسلسلة واقعات زیادہ متواتر اور مسلسل تھے.اور وہ ابھی متواترة، وما فرغ من قبض نفس إلا ایک روح کے قبض کرنے سے فارغ نہیں ہوتا تھا وجاء وقت قبض نفس أخرى که دوسری روح کے قبض کرنے کا وقت آ جاتا.
حمامة البشرى اردو ترجمه فحبَسه هذه السلسلة المتوالية یوں اس متواتر اور لگا تار سلسلہ نے اس شہر میں المتتابعة فيها، وما كان أن اُسے روک لیا اور وہ وہاں سے اُس وقت تک يتحاماها قبل أن يتوفى أهلها، عليحدہ نہیں ہو سکتا تھا جب تک وہ وہاں کے رہنے فمكث فيها إلى أن تمادی المُقام والوں کو نہ مارلے.پس وہ اس (شہر) میں ٹھہرا وامتدت الأيام إلى الشهرين، فما بال رہا یہاں تک کہ قیام لمبا ہو گیا اور عرصہ دو مہینوں قوم قد جاء أجلهم في تلك الأيام تک ممتد ہو گیا.پس اُس قوم کا کیا حال ہو گا جن في البلاد المغربية، وما قدر ملک کی موت کا وقت اُن دنوں میں مغربی ممالک میں الموت على أن يصلهم علی ہو گیا ہو اور ملک الموت نے اُن کے مقررہ وقت وقتهم، أهـم يـمـوتـون من غير ان پر اُن تک پہنچنے کی قدرت نہ پائی ہو.کیا وہ روحوں ا يحضر هم قابض الأرواح أو تطيش کے قبض کرنے والے فرشتے کے اُن تک پہنچے بغیر سهام منایــاهـم بينوا إن كنتم وہ مر جائیں گے، یا اُن کی موتوں کے تیر خطا جائیں صادقين.لا يُقال إن ملك الموت گے، اگر تم سچے ہو تو کھول کر بیان کرو.یہ نہیں قادر على أن يقبض نفوس کہا جا سکتا کہ ملک الموت مشرق میں قیام کرنے المغربيين مع كونه مقيما فی کے باوجود مغرب میں رہنے والے نفوس کی روح المشرق..لأنا نقول إنه لو كان قبض کرنے پر قادر ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ اگر وہ قادرًا على مثل تلك الأفعال لما ایسے افعال پر قادر ہے تو وہ آسمان سے نازل اضطر إلى النزول من السماء وما ہونے پر کیوں مجبور ہوا.حالانکہ وہ زمینوں میں ہوا.كان محتاجًا إلى سير الأرضين.پھرنے کا محتاج نہیں.وإذا قبلتم وسلمتم أن ملكا من اور جب تم نے قبول کر لیا اور تسلیم کر لیا کہ الملائكة يتصرّف علی کل وجه فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ کسی ملک میں ہوتے الأرض مع كونه في بلدة من البلاد، ہوئے تمام روئے زمین پر تصرف کرسکتا ہے
حمامة البشرى ۲۶۱ اردو ترجمه ولا يشغله شان عن شأن، ويتوفى اور کوئی صورتِ حال اس کو کسی دوسرے کام سے المشرقي في المشرق مع كونه في روک نہیں سکتی اور وہ مغرب میں ہوتے ہوئے کسی المغرب، فأتى حرج في ذلك أن بھی مشرقی کو مشرق میں وفات دے سکتا ہے تو اس تقول إن الملائكة مع كونهم في میں کیا حرج ہوگا کہ تو کہے کہ فرشتے آسمان میں السماء يتصرفون في الأرض بإذن ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے اذن سے زمین الله تعالى فأى ضرورة اشتدت میں تصرف کرتے ہیں اور اُن کے نزول کی کون سی لنزولهم مع كونهم قادرين على أن الى شدید ضرورت پڑ گئی ہے جبکہ وہ زمین پر کسی يتصرفوا في سكان مكان مع كونهم جگہ ہوتے ہوئے دوسری جگہ کے رہنے والوں میں في مكان آخر من الأرضين.تصرف کرنے پر قادر ہیں.وإن كنت تطلب منا من مثل اگر تو ہم سے کسی ایسی مثال کا مطالبہ کرتا ہے ینکشف به عليك مذهبنا فاعلم کہ جس سے تجھ پر ہمارا مذ ہب منکشف ہو جائے أنه أمر أرفع وأبعد عن ضرب تو خوب جان لے کہ یہ امر مثالوں کے بیان الأمثال، وقد يقال تقريباً لا تحقیقا کرنے سے بہت بلند و بالا ہے.حقیقتا تو نہیں إن مثل نزول الملائكة إلى الأرض البته تقريباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ فرشتوں کے زمین كمثل نجوم السماء..تنطبع پر اترنے کی مثال آسمانی ستاروں کی مانند ہے أشكالها في البحار والأنهار جن کی شکلیں سمندروں، دریاؤں، تالابوں اور والحياض والمرايا التي قابلتها ، آئینوں میں منعکس ہیں جو اُن کے سامنے والحق أن أمر النزول أمر متعالی ہوتے ہیں.اور حق یہ ہے کہ نزول کا معاملہ عقل عن طور العقل وضرب الأمثال کی حد اور مثالوں کے بیان سے بالاتر ہے.وإن هو إلا خلـق جـدیـد مـن اور یہ تو اُس قادر خدا کی طرف سے ایک نئی القادر الذي هو بكل خلق عليم | پيدائش ہے جو ہر تخلیق کو خوب جاننے والا ہے
حمامة البشرى ۲۶۲ اردو ترجمه ولا تدرك الأبصار كنة حكمه اور جس کی حکمتوں کی حقیقت اور اس کے مخفی وكوائف أسراره فتشبیه نزول بھیدوں کے حالات کا آنکھیں ادراک نہیں کر الملائكة بنزول الناس حمق سکتیں.لہذا فرشتوں کے نزول کوانسانوں کے وضلالة، والإنكار منه إلحاد نزول سے تشبیہ دینا حماقت اور گمراہی ہے اور اس و زندقة، وقبول معنی یلیق سے انکار الحاد اور بے دینی ہے اور ایسے معنی قبول بشأن الملائكة الذين هم کرنا جوان فرشتوں کی شان کے لائق ہوں جو اللہ كجوارح الله معرفة تامة وصراط کے اعضاء کی مانند ہیں، معرفت تامہ اور صراطِ مستقيم، رزقها الله لنا ولجميع مستقیم ہے.اللہ ہمیں اور اپنے نیک بندوں کو یہ عباده الصالحين.(معرفت تامہ اور صراط مستقیم ) عطا کرے.وهذا من أحسن العبارات عن اور یہ نزول کے معنوں کی نہایت خوبصورت تعبیر معنى النزول الذي تشابه علی ہے جو اکثر لوگوں پر مشتبہ ہوگئی ہے.پس شکر گزار أكثر الناس، فخُذُها منى شاكرا ہو کر تو (اس تعبیر ) کو مجھ سے حاصل کر کیونکہ یہ اُن فإنها من علوم نفثها الله في روعی علوم میں سے ہے جو اللہ نے میرے دل میں و شرح بها صدري، وإنها هي ڈالے ہیں اور جن پر مجھے شرح صدر عطا کیا ہے السكينة التي تنطق علی لسان اور یہ وہی سکینت ہے جو محد ثین کی زبان پر جاری المحدثين حين يحتاج الخلق ہوتی ہے.جب لوگ اپنے اوہام کے ازالہ کے إلى إزالة أوهامهم، فتفكَّرُ ولا تحد محتاج ہوتے ہیں پس غور کر اور اس سے روگردانی نہ منه إن كنت تطلب سبل الیقین کر اگر تو یقین کی راہوں کا متلاشی ہے.اللہ نے وقد جعلني الله إمامًا لحل تلك ان گہرے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لئے الغوامض، وإن كانت طبیعتی مجھے امام بنایا ہے.اگر چہ میری طبیعت امامت تأبى الإمامة وتأنف منها، سے انقباض محسوس کرتی اور اسے ناپسند کرتی ہے
حمامة البشرى ۲۶۳ اردو ترجمه ولـكـنـه فـعـل كـذلك فضلا من | لیکن اُس نے اپنی جناب سے فضل کرتے ہوئے لدنه ليحسن إلى مَن كُذِّبَ ایسا کیا تا کہ وہ اُس شخص پر احسان فرمائے جس کی ولُعِنَ وكُفر، ويُحسن إلى تکذیب کی گئی اور جس پر لعنت کی گئی اور جسے کا فرکہا خَلقه، وليرى الأعداء أنهم گیا اور تا اپنی مخلوق پر احسان کرے اور وہ دشمنوں كانوا كاذبين مخدوعين، وليرزق کو یہ دکھلاوے کہ وہ جھوٹے اور فریب خوردہ ہیں أبناء الزمان علوما اقتضت اور تا وہ اہل زمانہ کو وہ علوم عطا کرے جن کے طبائعهم كشفها، والله يفعل انکشاف کا تقاضا اُن کی طبائع کرتی ہیں اور اللہ جو ما يشاء، ما كان للناس ان چاہتا ہے کرتا ہے.لوگوں کو یہ حق نہیں کہ وہ اس يسألوه عما فعل وهم من کے کام کے بارے میں اُس سے سوال کریں جبکہ المسؤولين..وہ خود جوابدہ ہیں.ووالذي نفسي بيده..إنـــه اور قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری نظر إلى فقبلني، وأحسن إلى جان ہے کہ اُس نے مجھے دیکھا اور مجھے قبول کیا.ورباني، وأعطانى من لدنه مجھ پر احسان کیا اور میری پرورش کی اور مجھے اپنی فهـمـا سـليـمـا وعقلا مستقيما جناب سے فہیم سلیم اور عقل مستقیم عطا کی اور کتنے وكم من نور قذف فی قلبی ہی نور ہیں جو اُس نے میرے دل میں ڈالے جن فعرفت من القرآن ما لا یعرف کے باعث میں نے قرآن سے وہ کچھ جان لیا جو غیری، و دركت منه ما لا يُدرك میرے غیر نہیں جانتے اور میں نے اس سے وہ کچھ مخالفی، ووصلت في فهمه إلى پایا جو میرے مخالف نہیں پاتے اور میں اس کے مرتبة تتقاصر عنها أفهام أكثر سمجھنے میں اس مرتبہ پر پہنچ گیا جس سے اکثر لوگوں الناس، وإن هذا إلا إحسانه كے فہم قاصر رہتے ہیں.اور یہ اُس کا سراسر احسان وهو خير المحسنين.ہے اور وہ سب سے بہتر احسان کرنے والا ہے.
حمامة البشرى ۲۶۴ اردو ترجمه و من اعتراضاتهم أنهم إذا قرأوا اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ كتابي التوضيح، ووجدوا فيه جب انہوں نے میری کتاب توضیح مرام پڑھی مكتوبا أن للشمس والقمر اور انہوں نے اس میں یہ لکھا ہوا پایا کہ سورج، والنجوم تأثیرات يُربى الله بها چاند اور ستاروں کی ایسی تاثیرات ہیں جن کے كل ما يوجد في الأرضين..ساتھ اللہ ہر اُس چیز کی پرورش فرماتا ہے جو زمین فاعترضوا على وقالوا إن هذه العقيدة میں پائی جاتی ہے تو انہوں نے مجھ پر اعتراض کیا عقيدة فاسدة يتخالف ما جاء فی اور کہا کہ یہ عقیدہ فاسد عقیدہ ہے اور احادیث میں الأحاديث فيا حسرة عليهم إنهم جو آیا ہے اس کے مخالف ہے.پس ہائے افسوس ما فهموا معنى الأحاديث، وما اُن پر کہ اُنہوں نے نہ تو احادیث کے معنی سمجھے اور پر فهموا معنى قولى وقاموا نہ ہی میرے قول کے معنی سمجھے اور جلد بازی اور مستعجلين ظانين ظن السوء ، وما بدظنی کرتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور جیسا استفسروا معنی کلماتی منی کہ نیک لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے اُنہوں نے میرے كدأب أهل الصلاح، بل امتلاوا کلمات کے معنے مجھ سے دریافت نہ کئے بلکہ وہ غضبًا وغيظًا، وردوا علی غیظ وغضب سے بھر گئے اور اُنہوں نے میری وكفرونى وأطالوا الألسنة، وقللوا تردید کی.مجھے کافر کہا اور زبان درازی کی اور الانظار و أروا خبثهم و هتار هم و ما غور و فکر نہ کیا اور اپنا محبت اور حماقت دکھائی.هتكوا إلا أستارهم، وما كانوا على اور اُنہوں نے اپنی ہی پردہ دری کی اور وہ اپنی جہالت پر متنبہ نہ ہوئے.جهلهم متنبهين.فاعلموا يا أولى الأبصار الرامقة پس اے گہری نگاہ رکھنے والو اور عمدہ بصیرت والبصائر الرائقة، أنا ما كتبنا في كتاب شيئا والو جان لو کہ ہم نے کتاب میں کوئی ایسی چیز يُخالف النصوص القرآنية أو الحديثية، تحریر نہیں کی جو نصوص قرآنیہ یا حدیثیہ کے خلاف ہو
حمامة البشرى ۲۶۵ اردو ترجمه وما تفوهنا به يوما من الدهر، وقد اور نہ ہم نے کبھی بھی ایسی بات کہی اور اللہ نے ہمیں أعاذنا الله من مثل ذلك، ولكنهم ایسی باتوں سے اپنی پناہ میں رکھا ہے.لیکن وہ ہیں يعترضون قبل أن يفهموا، کہ سمجھنے سے پہلے ہی اعتراض کرتے اور قبل اس ويحسبونـنـا ضالين قبل أن يكونوا کے کہ وہ ہدایت پانے والے ہوں وہ ہمیں گمراہ مهتدين.والله يعلم.ونُشهد تصور کرتے ہیں.اور اللہ جانتا ہے اور ہم جن و الثَّقَلِينِ أنا لا نعتقد أن أحدًا من انس کو بطور گواہ پیش کرتے ہیں کہ ہم یہ عقیدہ نہیں الشمس والقمر والنجوم فاعل رکھتے کہ سورج، چاند اور ستاروں میں سے کوئی ایک مستقل في فعله ومؤثر بذاته، أو له بھی اپنے فعل میں مستقلا آزاد اور ذاتی طور پر مؤثر اختيار في إفاضة التأثيرات أو له ہے یا اسے افاضہ تاثیرات میں کوئی اختیار ہے یا دخل إرادي في ايصال الأنوار انوار کے پہنچانے اور بارشوں کو برسانے اور ابدان، وإنزال الأمطار وتربية الأبدان اجسام اور ثمرات کی نشوونما میں انہیں بالا رادہ کوئی والأجسام والثمرات ولا نعتقد أن دخل ہے.اور نہ ہی ہمارا ( یہ ) عقیدہ ہے کہ ان أحدا من تلك الأجرام النورانية نورانی اجرام میں سے کوئی حمد ، شکر اور عبادات کا يستحق الحمد والشكر والعبادة على اپنی فیض رسانی کی وجہ سے مستحق ہے یا اُس کا اہلِ إفاضته، أو له منة وإحسان على أهل زمين پر ذرہ بھر احسان ہے.یا وہ لوگوں کی دعاؤں الأرض مثقال ذرة، أو هو يسمع کو سنتا ہے اور تعریف کرنے والوں سے خوش ہوتا دعاء الناس ويرضى عن الحامدین ہے.اور جس نے ان باتوں میں سے کوئی بات ومن عزا إلينا أمرًا من هذه الأمور ہماری طرف منسوب کی تو اُس نے ہم پر ظلم کیا.اور فقد ظلمنا، والله يعلم أنه مفتر اللہ جانتا ہے کہ وہ مفتری، کذاب اور بے حیائی كذاب، ومُجاهِرٌ بالقحة والفِرية، کرنے والا اور افتراء کرنے والا ہے اور دھوکا بازوں ويتبع سبل الخادعين.کے راستوں پر قدم مارنے والا ہے.
حمامة البشرى ۲۶۶ اردو ترجمه بل نؤمن ونعتقد أن الله أحد بلکہ ہم ایمان لاتے اور اعتقادر کھتے ہیں کہ اللہ صمد، لا شريك له في ذاته ولا فی اکیلا ہے، بے نیاز ہے، اُس کی ذات اور اُس کی جميع صفاته، لا في السماوات ولا تمام صفات میں اُس کا کوئی شریک نہیں، نہ في الأرضين.ومن أشرك بالله آسمانوں میں اور نہ زمینوں میں.اور جس نے شيئًا من أشياء السماء أو الأرض فهو آسمان يا زمین کی کسی شے کو اللہ کا شریک ٹھہرایا تو كافر مرتد عندنا، ومُفارِقٌ لدین وہ ہمارے نزدیک کافر، مرتد اور دینِ اسلام سے الإسلام، وداخل في المشركين.الگ ہونے والا ہے اور مشرکوں میں داخل ہے.ومع ذلك إنا نعتقد أن اور اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں خواص الأشياء حق، وفيها کہ اشیاء کے خواص ایک حقیقت ہیں اور ان میں تأثيرات بإذن العليم الحكيم أس عليم وحکیم خدا کے اذن سے جس نے کوئی الذي ما خلق شيئا باطلا چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی ، تأثیرات ہیں.اور ہم ونرى أن في كل شيء خاصية ہر چیز میں کوئی خاصیت اور اثر پاتے ہیں جو وأثرًا أودعه الله، حتى البعوضة الله نے اُسے ودیعت فرمایا ہے.یہاں تک کہ والذباب والقمل والدود مچھر بکھی ، جوؤں اور کیڑوں اور ان سے بھی کمتر وما دونها، فكيف نظن ان چیزوں میں.پس ہم کیسے یقین کریں کہ خلق الشمس والقمر والنجوم هی سورج، چاند اور ستاروں کی پیدائش ان اشیاء أدنى من هذه الأشياء وما فی سے بھی کمتر ہے.اور ان کی طبائع میں کوئی طبائعها مـن خـاصـة ونفع للناس خاصیت اور لوگوں کا فائدہ نہیں اور یہ سب بے حقیقت وإنما هي باطلة الحقيقة، وخلقها محض ہیں.اور انہیں اللہ نے بے فائدہ اور رڈی الله كأشياء عبث و رَدّيّ ما اشیاء کی طرح پیدا کیا ہے اور اللہ نے ان میں أودعها الله منفعة عظيمة لعبادہ اپنے بندوں کے لئے کوئی بڑا فائدہ نہیں رکھا
حمامة البشرى ۲۶۷ اردو ترجمه إلا القليل الذي يقوم مقامه سوائے اس تھوڑے سے فائدے کے جس کی كثير من الأشياء ، كما أنت تزعم قائم مقامی بہت سی اشیاء کرسکتی ہیں.جیسا کہ في خلق النجوم وتقول إنها تو ستاروں کی تخلیق کے بارے میں خیال علامات هادية للمسافرين کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مسافروں کے لئے وأنت تعلم أن الناس قد صنعوا رہنمائی کرنے والی علامات ہیں.اور تو جانتا وعملوا لأنفسهم لأسفار برهم ہے کہ لوگوں نے اپنے واسطے اپنے بڑی اور وبحرهم طرقا أخرى أغنتهم بحرى سفروں کے لئے اور طریقے بھی بنائے عن النجوم، بل ما بقی لھم اور اپنائے ہیں.جنہوں نے انہیں ستاروں حاجة إلى هذه العلامات أصلا سے بے نیاز کر دیا ہے.بلکہ انہیں ان ثم إذا أنصفت فوجب عليك أن علامات کی بالکل کوئی حاجت نہیں رہی.پھر تقول إن الناس لا يحتاجون إلى جب تو انصاف سے کام لے تو تجھ پر ضروری النجوم كلها ليتخذوها علامات ہوگا کہ تو یہ کہے کہ لوگ سوائے چند ستاروں عند أسفارهم إلا إلى كواكب كے باقی تمام ستاروں کے محتاج نہیں کہ وہ معدودة، وأما النجوم التي كثرت انہیں اپنے سفروں کے دوران علامات قرار عدتها في السماء حتى إنكم دیں اور وہ ستارے جن کی آسمان میں اتنی ۷۳ لا تستطيعون أن تعدوها..فأى كثير تعداد ہے کہ جنہیں تم گن نہیں سکتے.ان حاجة للمسافرين إليها بينوا كى مسافروں کو کیا ضرورت ہے؟ اگر تم اپنے کی کو توجروا إن كنتم لـدعـواكـم دعوی کو وضاحت سے بیان کر سکتے ہوتو بیان مبينين، و إن لم تبينوا ولن کرو تا اجر پاؤ.اور اگر تم نے بیان نہ کیا اور تم تبينوا فاتقوا الله الذی ہرگز بیان نہ کر سکو گے تو اُس اللہ سے ڈرو جو باطل والوں کو پسند نہیں کرتا.لا يُحب المبطلين.
حمامة البشرى ۲۶۸ اردو ترجمه وكيف تظن أن الله خلق النجوم پھر تو کیسے خیال کرتا ہے کہ اللہ نے ستاروں کو باطلة الحقيقة وما خلق فيها تأثيرات بے حقیقت پیدا کیا ہے اور ان میں تاثیرات عجیبہ عجيبة وإنا نرى خواصا وتأثيرات فی نہیں رکھیں.حالانکہ ہم اُس کی ادنی مخلوقات میں بھی أدنى مخلوقاته..وكيف نعتقد أن خواص اور تاثیرات مشاہدہ کرتے ہیں.پھر ہم کیسے الله الذى وشح تلك الأجرام یہ عقیدہ رکھ سکتے ہیں کہ جس اللہ نے ان اجرام کو بالأنوار الظاهرة، وزينها بالصور ظاہری انوار دیئے اور انہیں روشن، چمکدار اور دلفریب المنيرة المشرقة المعجبة، لم يلتفت صورتوں سے مزین کیا ہے.اُس نے اُن کے باطن إلى أن يودع بواطنها أنوارا أخرى..میں ودیعت کئے ہوئے دیگر انوار یعنی تأثیرات کی أعنى تأثيرات مما ينفع الناس؟ وقد طرف التفات نہ فرمایا ہو.جولوگوں کو فائدہ دیں.سخر الشمس والقمر والنجوم اور اُس نے سورج، چاند اور ستاروں کو لوگوں کے للناس، وأشار إلى أن كل منها خُلق لئے مسخر کیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ ان میں سے لمصالح العباد، وإلى أن وجود ہر ایک کو بندوں کے مصالح کے لئے پیدا کیا گیا تلك الأجرام من أعظم إحساناته ہے اور یہ کہ ان اجرام کا وجود اُس کے عظیم وتفضلاته.وإنه لم يذكر تأثيرات احسانات وعنایات میں سے ہے اور یہ بھی کہ اُس بعض الأشياء فی کتابه المحکم نے بعض چیزوں کی تاثیرات کو اپنی محکم کتاب میں وأنها قد ثبتت عند أولى التجارب بیان نہیں کیا اور اہل تجربہ کے نزدیک یہ بات ثابت فما لنا أن لا نقر بتأثيرات أشياء قد ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان اشیاء کی تاثیرات کا ذكرها الله تعالى في القرآن اقرار نہ کریں جن کا اللہ نے قرآن عظیم میں ذکر العظيم، بل فضلها على أكثر النعماء فرمایا ہے بلکہ انہیں اکثر نعمتوں پر فضیلت دی ہے وحث عباده على أن يُفكروا فی اور اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ آسمانوں اور خلق السماوات والأرض و آياتها زمین کی پیدائش اور اُن کے نشانات پر غور کریں.
حمامة البشرى ۲۶۹ اردو ترجمه وقال إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ اور اُس نے فرمایا:.اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَتٍ لِأُولِي لأولِي الْأَلْبَابِ.والحق أن الالباب اور حق یہ ہے کہ سورج، چاند اور تأثيرات الشمس والقمر والنجوم ستاروں کی تاثیرات ایسی چیزیں ہیں جنہیں مخلوق شيء يراه الخلق في كل وقت وحين، ہر وقت اور ہر آن دیکھتی ہے اور ان سے انکار کرنے ولا سبيل إلى إنكارها.مثلا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں.مثلاً موسموں اور اُن کی حالتوں کا الفصول وطبائعها، وخصوصية كل اختلاف اور ہر موسم کا مخصوص امراض، معروف نباتات فصل بأمراض مخصوصة و نباتات اور مشہور کیڑے مکوڑوں کے ساتھ خاص ہونا ایسی معروفة وحشرات مشهورة..شيء چیز ہے جسے تو جانتا ہے.اس لئے اس کی تفصیل کی تعرفه فلا حاجة إلى تفصيلها.وأنت ضرورت نہیں.اور تو جانتا ہے کہ جب سورج طلوع تعلم أنه إذا طلعت الشمس وفاضت ہو اور روشنیاں پھیلیں تو بلاشبہ اس وقت نباتات، الأنوار فلا شك لهذا الوقت تأثیر جمادات اور حیوانات میں خاص اثر ہوتا ہے.(اور) في النباتات والجمادات والحيوانات، پھر جب دن ڈھلنے اور غروب ہونے کے قریب ہو ثم إذا هرم النهار وكاد جُرف اليوم تو اس وقت میں اور طرح کی تأثیرات ہیں.حاصل ينهار، ففي ذلك الوقت تأثيرات أخرى كلام یہ کہ سورج کے بعد اور اس کے قرب کا درختوں، والحاصل أن لبعد الشمس وقربها أثراً پھلوں پتھروں اور بنی آدم کے مزاجوں میں نمایاں اثر جليا وتأثيرات قوية فى الأشجار اور قوی تأثیرات ہوتی ہیں.اور اس کے سوا کوئی والأثمار والأحجار وأمزجة بنى آدم چارہ نہیں کہ ہم ان کا اقرار کریں.ورنہ ہم ان ولا بد من أن نقرّ بها و إلا فأين نفر من محسوس ہونے والے بدیہی علوم سے کہاں بھاگ علوم حسّية بديهة ثابتة عند كل قوم سکتے ہیں جو ہر قوم کے نزدیک ثابت شدہ ہیں.ے یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحب عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں.( ال عمران:۱۹۱)
حمامة البشرى ۲۷۰ اردو ترجمه وكم من خواص القمر يعلمها اور چاند کی کتنی خاصیتیں ہیں جنہیں دہقان اور الدهاقين وأرباب الفلاحة، فيا حسرة زراعت پیشہ لوگ جانتے ہیں.وائے حسرت اُن على الذين يقولون إنا نحن العلماء ثم لوگوں پر جو دعوئی تو یہ کرتے ہیں کہ ہم علماء ہیں لیکن يتكلمون كأرذل الجاهلين.پھر وہ رذیل جاہلوں کی طرح باتیں کرتے ہیں.وقد اتفق الحكماء على أن اور حکماء اس بات پر متفق ہیں کہ لوگوں کی سب أعدل أصناف الناس سگان خط سے زیادہ معتدل صنف خط استواء میں رہنے الاستواء، وما هذا إلا لتأثير خاص والے لوگ ہیں اور کوئی خاص تاثیر ہی اُن کی صحت يكون سببا لكمال صحتهم وزيادة کامل اور اُن کے فہم اور فراست کی برتری کا سبب فهمهم وحزمهم.ولا شك ان ہے.اور بلاشبہ یہ امر جسی ، بدیہی اور نظر آنے هذا مـن الـعـلــوم الحسّيّة البديهة والے علوم میں سے ہے.اوراس (حقیقت) المرئية، ولا يُعرض عنه إلا الذى سے صرف وہی شخص اعراض کر سکتا ہے جسے دلائل لا يحظى بسراج الحجة ويزيغ وبراہین کا چراغ نصیب نہیں ہوا.اور وہ رستے عن المحجة، فتعسًا للمعرضين سے ہٹ گیا ہے.پس اعراض کرنے والوں پر وقد تقرر في ديننا أن بعض ہلاکت ہو.اور ہمارے دین میں یہ امر مسلّم ہے کہ الأوقات مباركة تُجاب فيها بعض اوقات بابرکت ہوتے ہیں جن میں دعائیں الدعوات، وتُسمع فيها قبول ہوتیں اور تضرعات سُنی جاتی ہیں.جیسے التضرعات..كليلة القدر وثلث شب قدر اور رات کا آخری تیسرا حصہ.اور محققین الأخير من الليل.وقال المحققون نے کہا ہے کہ ان اوقات میں جن میں نماز کا إن في الأوقات التي عُنيت للصلاة التزام واہتمام معین ہے مخفی برکات ہیں.پس اسی برکات مخفية فلذلك خصها الله لئے اللہ نے انہیں عبادات کے لئے مخصوص کیا ہے.للعبادات، فمن حافظ عليها الہذا جس شخص نے ان (اوقات) کی حفاظت کی
حمامة البشرى ۲۷۱ اردو ترجمه وقضى كل صلاة بحضور القلب اور ہر نماز کو حضور قلب کے ساتھ اُس کے وقت پر ادا في وقتها فلا شك أنه يُعطى کیا تو بلالحبہ اُسے اُس کی برکات عطا کی جائیں گی بـركـاتـهـا ويُصيبه حظ منها، وينال اور وہ اُن میں سے حصہ پائے گا اور مطلوبہ سعادت سعادة مطلوبة ويُنجى من بنس حاصل کرے گا اور وہ بُرے ساتھی سے نجات پائے (۷۴ القرين.فتأمل هذا الموضع حق گا.پس اس مقام پر غور کر جس طرح غور کرنے التأمل فإنه موضع عظيم.ومن جد کا حق ہے کیونکہ یہ بڑی عظمت والا مقام ہے.اور في الطلب وجاهد فتقارنه العناية جس نے کسی چیز کی تلاش میں کوشش اور محنت کی تو والتوفيق والاجتباء ، ويعصمه الله عنایت الہی، توفیق اور پسندیدگی اُس کی قرین ہوگی من الخذلان ويجعله من اور اللہ اُسے ہر رُسوائی سے بچالے گا اور اُسے توفیق پانے والوں میں سے بنادے گا.الموفقين.وإذا عرفت هذا..فإن كنت ذا قلب اور جب تجھے یہ عرفان حاصل ہو گیا تو اگر تُو سليم فقد عرفت الحقيقة، وزالت قلب سلیم بھی رکھتا ہے تو تو اس حقیقت سے عنك شكوك كثيرة و شبهات آگاہ ہو جائے گا اور تجھ سے اس سلسلہ میں بہت في هذا الباب، وانجابت غشاوة سے شکوک وشبہات زائل ہو جائیں گے اور الاسترابة، وبانت أمارة الحق، شکوک وشبہات کا پردہ چاک ہو جائے گا اور حق وكشف عنك الغمي، وهديت كى علامت ظاہر ہو جائے گی اور تجھ سے اندھیرے إلى نور اليقين.وإن كنت چھٹ جائیں گے.اور تو نوریقین کی طرف لا يكفيك هذا، وتجد فی ہدایت پائے گا.اور اگر تجھے اتنا کافی نہ ہو اور تو نفسك طلب الزيادة في الإيضاح اپنے نفس میں زیادہ وضاحت اور فصاحت کی والإفصاح، فاعلم أن القرآن قد طلب پائے.تو پھر یہ جان لے کہ قرآن نے صرح بهذا في غير موضع اس کی متعدد مقامات پر تصریح فرما دی ہے.
حمامة البشرى ۲۷۲ اردو ترجمه.كقوله عزّ وجل فَقَالَ لَهَا جیسا کہ خدائے عزوجل نے فرمایا: فَقَالَ وَلِلْأَرْضِ انْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَهَا وَ لِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْكَرْهًا قَالَتَا قَالَتَا أَتَيْنَا طَابِعِيْنَ فَقَضْهُنَّ سَبْعَ آتَيْنَا طَابِعِيْنَ.فَقَضُهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ فِي سَمَوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِى كُل يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءِ أَمْرَهَال نیز فرمایا سَمَاء أَمْرَهَا.وكقوله يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ نیز فرمايا يُدَبِرُ بَيْنَهُنَّ وكقوله يُدَيْرُ الْأَمْرَ مِنَ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ یہ ساری السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ، فهذه الآيات كلها آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حکیم علیم اور رحیم تدل على أن الله الحكيم العلیم الرحیم وکریم اور فضل فرمانے والے اللہ نے آسمانوں اور الكريم المتفضل خلق السماوات والأرض زمین کوئر و مادہ کی صورت میں تخلیق فرمایا اور اُس کی كذكر وأنثى، واقتضت حكمته أن حکمت نے تقاضا کیا کہ وہ ان دونوں کو مؤثرہ اور يجمعهما من حيث الفعل والانفعال متاثرہ صورت میں جمع کرے اور ان دونوں میں ويجعل بعضهما مؤثرا فى بعض، وهذا سے بعض کو بعض میں مؤثر کرے.اور یہ معنی اللہ معنى قوله فَقَالَ لَهَا وَ لِلْأَرْضِ کے قول فَقَالَ لَهَا وَ لِلْأَرْضِ انْتِيَا کے ہیں.انتيا.ففكر في هذه الآية حق الفكر، پس تو اس آیت پر خوب غور کر ! اور اللہ کی ذات ولا تفرط في جنب الله، وقم لكسب کے بارے میں افراط سے کام نہ لے.اور وفات الحسنات وتلافی الهفوات قبل سے پہلے نیکیاں کمانے اور لغزشوں کی تلافی کے الوفاة، ولا تكن من الغافلين.لئے اُٹھ کھڑا ہو اور غافلوں میں سے نہ ہو.لے اُس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یا مجبوراً چلے آؤ اُن دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں.پس اُس نے ان کو دو زمانوں میں سات آسمانوں کی صورت میں تقسیم کر دیا اور ہر آسمان کے قوانین اس میں وحی کئے.(حم السجدۃ: ۱۳۱۲) ے (اس کا ) حکم اُن کے درمیان بکثرت اترتا ہے.(الطلاق: ۱۳) ے وہ فیصلے کو تدبیر کے ساتھ آسمان سے زمین کی طرف اُتارتا ہے.(السجدۃ:۶)
حمامة البشرى ۲۷۳ اردو ترجمه ثم انظر أنه تعالى قال في مقام پھر اس پر بھی غور کر کہ اللہ تعالیٰ نے ایک آخر قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا ، دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ وقال أَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ وَاَنْزَلَ لِبَامَّالی نیز فرمایا اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ، ومعلوم أن هذه وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ سے اور ظاہر ہے کہ یہ الأشياء لا تنزل من السماء فما اشیاء آسمان سے نازل نہیں ہوتیں.اس لئے اللہ کا عزاها الله إليها إلا إشارة إلى أن ان ( اشياء ) کو آسمان کی طرف منسوب کرنا صرف العلة الأولى من العلل التي قدر الله اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان اشیاء کی پیدائش تعالى لخلق تلك الأشياء وتولدها اور اُن کے تولد اور تکوین کی علتوں میں سے عِلتِ وتكونها تأثيرات فلكية وشمسية أولى جسے اللہ نے مقدر فرمایا وہ فلکی ہنسی ، قمری وقمرية ونجومية، وأشار عزّ وجلّ اور نجومی تأثیرات ہیں.اور اللہ عزوجل نے ان في هذه الآيات إلى أن الأرض آیات میں اشارہ کیا ہے کہ زمین ایک عورت کی كامرأة والسماء كبعلها، ولا تتم طرح اور آسمان اُس کے خاوند کی طرح ہے.اور فعـل احــدهـمـا إلا بالأخرى، ان دونوں میں سے کسی ایک کا فعل دوسرے سے فزوجهما حكمة من عنده وكان مل کر ہی پورا ہوسکتا ہے.پس اس نے اپنی حکمت الله عليمًا حكيمًا.سے ان دونوں کا جوڑا بنایا اوراللہ علم وحکیم ہے.فتدبَّرُ في هذه الآيات بنظر عميق پس تو ان آیات میں گہری نظر کے ساتھ غور کر اور وكرّر النظر فيها، واعلم أن هذا بار باران میں نگاہ ڈال اور جان لے کہ یہ مقام اُس المـوضـع من أجل المواضع لمن شخص کے لئے سب سے بڑا مقام ہے جس نے اس کی حققه وفهمه و نظره بدقة النظر تحقیق کی اور اُسے سمجھا اور اسے باریک بینی سے دیکھا.ے یقیناً ہم نے تم پر لباس اُتارا ہے.(الاعراف: ۲۷) ے اور اس نے تمہارے لئے چوپائے نازل کئے.(الزمر: ۷) ے ہم نے لوہا اُتارا.(الحدید: ۲۶)
حمامة البشرى ۲۷۴ اردو ترجمه ويؤيد هذه الآيات قوله تعالى ان آیات کی تائید اللہ تعالی کا یہ فرمان کرتا ہے کہ فَلَا أُقْسِمُ بِمَوقِعِ النُّجُومِ.وأنت فَلَا أُقْسِمُ بِمَوقِعِ النُّجُومِ.اور تو جانتا ہے تفهم أن في هذا القول إشارة إلى كه اس قول میں اس طرف اشارہ ہے کہ ستاروں أن للنجوم ومواقعها دخل اور اُن کے ٹوٹنے کے مواقع کا نبوت کے زمانہ لتحسس زمان النبوة ونزول اور وحی کے نزول کے ادراک میں خاص دخل الوحي، ولأجل ذلك قيل إن ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ بعض ستارے نبیوں بعض النجوم لا يطلع إلا فى وقت میں سے کسی نبی کے ظہور کے وقت ہی طلوع ظهور نبي من الأنبياء.فطوبى ہوتے ہیں.پس مبارک ہو اُس شخص کے لئے للذي يفهم إشارات الله ثم يقبلها جو اللہ کے اشاروں کو سمجھتا ہے اور پھر متقیوں کی كالتقاة ، ولا يصول كالذي هو طرح انہیں قبول کرتا ہے.اور اُس شخص کی خليع الرسن ومديد الوسن ومن طرح حملہ نہیں کرتا جو بے لگام، مادر پدر آزاد، نافرمان اور متکبروں میں سے ہو.العصاة ومن المتكبرين.وإن كنت ما سمعت من قبل بيانا اگر تو نے ہمارے اس بیان سے پہلے کوئی اس جیسا واضحا كمثل بياننا هذا..فلا واضح بیان نہ سُنا ہو تو اس پر تعجب نہ کر.کیونکہ ہر میدان تعجب من ذلك، فإن لكل موطن کے اپنے بطل جلیل ہوتے ہیں اور ہر وقت کا اپنا رجال، ولكل وقتِ مقال، وإن الله لا موضوع كلام ہوتا ہے اور اللہ لطیف معارف کا نزول ينزل دقائق المعارف ولا يبسطها كل اور ان کا شرح وبسط سے بیان صرف ان کی ضرورت ۷۵ البسط إلا في وقت ضرورتها.وكم من کے وقت ہی کرتا ہے.اور کتنی ہی لطیف با تیں اور لطائف ونكات تخفى من أهل زمان نکات ہیں جو اہلِ زمانہ سے مخفی رہتے ہیں.پھر ثم يأتي وقت إظهارها في زمان آخر ، دوسرے زمانے میں ان کے اظہار کا وقت آتا ہے.ے پس میں ضرور ستاروں کے جھرمٹوں کو گواہ کے طور پر پیش کرتا ہوں.(الواقعة: ۷۶ )
حمامة البشرى ۲۷۵ اردو ترجمه فيبعث الله مجددا في ذلك تب اللہ اس وقت کسی مجددکو مبعوث فرماتا ہے اور الوقت، وينطق محدَّث الوقت وہ محدث وقت ان نکات کو بیان کرتا ہے اور بتلك النكات، فیفصل مجملات حالاتِ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق ان مجملات اقتضت حالة الزمان تفصيلها، کی تفصیل خوب کھول کر پیش کرتا ہے اور اُس کی زبان وتلقى على لسانه معارف پر کتاب اللہ کے وہ معارف جاری کئے جاتے ہیں کتاب الله التي قد جاء وقت جن کے کھول کر بیان کرنے کا وقت آ جاتا ہے اور تبينها، فيُبيِّنُها للناس علی وہ اُنہیں لوگوں کے لئے علی وجہ البصیرت وجه البصيرة بجاش متين فيقبله مضبوط دل کے ساتھ بیان کرتا ہے پھر دنیا سے الذي رَكَنَ من الدنيا إلى الله، خدا کی طرف مائل ہونے والا شخص اُسے قبول ويُعرض عنه الجاهل لغباوته کرلیتا ہے اور جاہل اپنی کند ذہنی اور بدبختی کے وغلبة شقاوته، فاتق الله وكُن غلبہ کی وجہ سے اُس سے اپنا رخ پھیر لیتا ہے.پس اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور نیکیوں میں سے ہو جا.من الصالحين.واعلم أن كثيرا من العلماء الراسخين اور جان لے کہ اکثر راسخ علماء مذکورہ بالا ذهبوا إلى ما ذهبنا في تفسير هذه آیات کی تفسیر میں اُسی طرف گئے ہیں جس الآيات المتقدمة، وكانوا يعتقدون أن طرف ہم گئے ہیں اور وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ في الشمس والقمر والنجوم سورج ، چاند اور ستاروں میں تاثیرات ہیں تأثيرات خلقها الله لمصالح عباده، جنہیں اللہ نے اپنے بندوں کی مصلحتوں کے كما قال الرازي فی تفسیره الكبير لئے پیدا کیا ہے.جیسا کہ امام رازی نے وهو هذا." فإن الشمس سلطان اپنی تفسیر کبیر میں یہ کہا ہے کہ سورج دن النهار، والقمر سلطان الليل ولولا کا بادشاہ اور چاند رات کا بادشاہ ہے.اور الشمس لما حصلت الفصول الأربعة، اگر سورج نہ ہوتا تو چار موسم حاصل نہ ہوتے "
حمامة البشرى اردو ترجمه ولولاها لاختلت مصالح العالم اور اگر یہ موسم نہ ہوتے تو دنیا کے کاروبار کلیۂ مختل بالكلية.وقد ذكرنا منافع الشمس ہو جاتے اور ہم نے آفتاب و ماہتاب کے فوائد والقمر بالاستقصاء في أوّل اس کتاب کے شروع میں پوری تحقیق کے ساتھ هذا الكتاب.“ 66 بیان کر دیئے ہیں.“ تم كلامه، فتفكر فيه ولا تمر بها امام رازی کا کلام پورا ہوا.پس تو اس بارے میں غور کر اور خوابیدہ لوگوں کی طرح ( پاس سے ) كالنائمين.گزرنہ جا.وقال صاحب حجة الله البالغة حجَّةُ اللہ البالغہ“ کے مصنف (حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی) فرماتے ہیں کہ :.أما الأنواء والنجوم فلا يبعد أن جہاں تک علم انواء اور علم نجوم کا تعلق ہے تو یہ بعید يكون لهما حقيقة، فإن الشرع إنما نہیں کہ ان دونوں کی کوئی حقیقت ہو کیونکہ شریعت نے أتى بالنهي عن الاشتغال به لا نفى صرف ان میں مشغول ہونے سے منع کیا ہے قطعی حقیقت الـحـقـيـقـة البتة.وإنما توارث من کی نفی نہیں کی.سلف صالح سے یہی بات متوارث چلی السلف الصالح ترك الاشتغال به آتی ہے کہ ان علوم میں انہماک کو ترک کیا جائے اور وذم المشتغلين وعدم القبول ان میں منہمک لوگوں کی مذمت کی گئی ہے اور ان تاثیرات بتلك التأثيرات لا القولُ بالعدم کو قبول نہ کرنا ثابت ہے نہ یہ کہ ان کی اصلیت کا کلیۂ أصلا وإن منها ما يلحق البديهات انکار کیونکہ ان میں سے بعض تأثیرات ایسی ہیں الأولية كاختلاف الفصول جو بنیادی بدیہیات میں سے ہیں جیسے سورج باختلاف أحوال الشمس والقمر اور چاند کے حالات کے اختلاف سے موسموں کا ونحو ذلك، ومنها ما يدل عليه بدلنا وغیرہ اور ان میں سے بعض باتیں ایسی ہیں الحدس والتجربة والرصد..جن پر فراست، تجربہ اور مشاہدہ دلالت کرتے ہیں
حمامة البشرى ۲۷۷ اردو ترجمه كمثل ما تدل هذه علی جیسا کہ یہ علوم زنجبیل ( سونٹھ ) کی حرارت اور حرارة الزنجبيل وبرودة الكافور.کافور کی بُرُودَت پر دلالت کرتے ہیں.اور یہ بعید ولا يبعد أن يكون تأثیرها نہیں کہ ان کی تأثیر دو طرح سے ہو.ایک صورت على وجهين..وجة يُشبه الطبائع، طبائع سے مشابہ ہو.پس جس طرح کہ ہر نوع کی فكما أن لكل نوع طبائع مختصة تأثيرات ہوتی ہیں.جو اس نوع کے ساتھ مختص به من الحر والبرد و اليبوسة ہوتی ہیں.جیسے گرم اور سرد ہونا اور خشک اور تر ہونا والرطوبة، بها يتمسك في وغیرہ.ان میں سے ( موزوں ترکو ) بیماریوں کے دفع الأمراض..فكذلك علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.اسی طرح للأفلاك والكواكب طبائع افلاک اور ستاروں کی تأثیرات اور خاصیتیں وخواص كحر الشمس ورطوبة ہیں.جیسے سورج کی حرارت اور چاند کی القمر، فإذا جاء ذلك الكوكب رطوبت.پس جب وہ ستارہ اپنی جگہ پر آجاتا ہے في محلّه ظهرت قوته في الأرض تو اُس کی قوت ( کی تاثیرات) زمین پر ظاہر ألا تعلم أن المرارة إنما اختصت ہو جاتی ہے.کیا تو نہیں جانتا کہ عورتوں کی بعادات النساء وأخلاقهن بشيء عادات و اخلاق میں پائی جانے والی تختی ایک ایسی يرجع إلى طبيعتها..وإن چیز سے مختص ہے جو ان ستاروں کی تأثیرات خَفِــي إدراكها، والرجل سے تعلق رکھتی ہے اگر چہ اس کا ادراک مخفی ہی ہو إنما اختص بالجرأة والجهورية اور مرد سے بہادری رعب دبدبہ اوران سے ملتی ونحوهما لمعنى فى مزاجه، فلا جلتی (خصوصیات ) کا اُن کے مزاج پر اثر ہوتا تنكر أن يكون لحلول قوی ہے.اس لئے تو اس امر سے انکار نہ کر کہ جس طرح الزهرة والمريخ بالأرض أثر ان طبائع خفیہ کا اثر ہوتا ہے اُسی طرح زُہرہ اور كأثر هذه الطبائع الخفية مريخ كى تأثیرات کا زمین پر حلول کا اثر ہوتا ہے.
حمامة البشرى ۲۷۸ اردو ترجمه وثانيهما وجة يُشبه قوةً روحانية اور ان میں دوسرا پہلو ایسی قوت روحانیہ سے مشابہ مشتركة مع الطبيعة، وذلك ہے جس کا فطرت سے اشتراک ہے اور یہ اُس مثل قوة نفسانية في الجنين من قوت نفسانیہ کے مشابہ ہے جو جنین میں اُس کی ماں قِبَل أُمّه وأبيه.والمواليد اور اُس کے باپ کی طرف سے پائی جاتی ہے.اور بالنسبة إلى السماوات والأرضين مواليد (یعنی نباتات، حیوانات، جمادات) کو كالجنين بالنسبة إلى أبيه آسمانوں اور زمین سے وہی نسبت ہے جو جنین وأمه، فتلك القوة تهيء العالم کو اپنے ماں اور باپ سے ہوتی ہے.پس یہ قوت لفيضان صورة حيوانية ثم إنسانية.(پہلے تو ) عالم کو حیوانی صورت اور پھر انسانی ولحلول تلك القوى بحسب صورت کے فیضان کے لئے تیار کرتی ہے اور فلکی الاتصالات الفلكية أنواع، ولكل اتصالات کے لحاظ سے ان تأثیرات کا حلول کئی نوع خواص، فأمعن قوم فی طرح سے ہوتا ہے اور ہر نوع کے لئے خواص هذا العلم فـحـصـل لهـم عـلـم ہیں.پس ایک قوم نے اس علم میں غور و خوض کیا النجوم..يتعرفون به الوقائع تو انہیں علم نجوم حاصل ہو گیا.جس کے ذریعہ وہ الآتية.غير أن القضاء إذا آئندہ کے واقعات سے واقف ہو جاتے ہیں.لیکن انعقد على خلافه جعل جب قضاء وقد ر اس کے خلاف مقرر ہو جاتی ہے تو قوة الكواكب متصورةً بصورة ستاروں کی تأثیر کو ایک دوسری صورت میں ظاہر أخرى قريبة من تلك الصورة، كردیتی ہے.جواس پہلی صورت کے قریب تر وأتم الله قضاءه من غير ان ہوتی ہے.اور اللہ اپنی قضاء وقدر کو مکمل کرتا ہے ينخرم نظام الكواكب فی بغیر اس کے کہ ستاروں کے خواص کے نظام میں خواصها." تم كلامه، رحمه الله.کوئی خلل واقع ہو.“ یہاں حجتہ اللہ البالغہ کے مصنف کا کلام ختم ہوا.
حمامة البشرى ۲۷۹ اردو ترجمه فانظر أيها العزيز..كان الله پس اے عزیز! غور کر.اللہ تیرے ساتھ ہو کہ معك..إن هذا القائل بتأثير ستاروں كى تأثیرات کا قائل یہ شخص علماء ہند میں النجوم عالم ربانی من علماء سے ایک عالم ربانی ہے جو اپنے زمانے کا مجدد الهند، وكان هو مجدد زمانہ تھا.جس کے فضائل اس ملک میں ظاہر وباہر ہیں وفضائله متبيّنة في هذه الديار اور وہ بڑوں اور چھوٹوں کی نگاہ میں امام ہے اور وهو إمام في أعين الكبار والصغار، مومنوں میں سے کوئی بھی ان کی بلندشان میں ولا يختلف في عُلو شأنه أحد من اختلاف نہیں رکھتا.پس ہلاکت ہے اُن لوگوں المؤمنين فويل للذين يطيلون کے لئے جو ایک بے حیا، بے باک شخص کی طرح لسنهم لتكفير المسلمین کالوقاح اپنی زبانیں مسلمانوں کی تکفیر کے لئے دراز المتسلطة، ولا يتفكرون فى کرتے ہیں.اور اپنے ائمہ کے ارشادات پر غور كلمات أئمتهم، ويريدون أن نہیں کرتے اور وہ چاہتے ہیں کہ کافروں کی يزيدوا الكفار ويُقللوا أهل تعداد کو زیادہ اور مسلمانوں کی تعداد کو کم کریں اور الإسلام، ويريدون أن يُلْقُوا الأمةَ خواہش رکھتے ہیں کہ امت مسلمہ کو سخت فتنے میں في فتنة صماء يكفر بعضهم بعضا، ڈال دیں کہ بعض بعض کو کا فرقرار دیتے ہیں اور ويبيعون الإيمان لفضالة المأكل اپنے ایمانوں کو دستر خوان کے پس خوردہ ٹکڑوں وثمالة المنهل، ويسقطون اور گھاٹ کے بچے کھچے پانی کی خاطر بیچ دیتے كالذباب علی قیح و مُخاط ہیں اور پیپ، رینٹھ اور لوگوں کے پاخانے پر وبراز الناس، ويتركون وردًا لکھیوں کی طرح گرتے ہیں اور گلاب، ریحان، وريحانا و مسكًا وعنبرا وأنهارَ مُشک عنبر اور صاف پانی کی نہروں کو ترک ماء معين.ثم اعلم أن الفاضل کرتے ہیں.پھر یہ بھی جان لے کہ جس فاضل الذي كتبنا قليلا من كلامه شخص کے کلام کا تھوڑا سا حصہ ہم نے لکھا ہے.
حمامة البشرى ۲۸۰ اردو ترجمه وهي هذه قال في ”فیوض الحرمين أزيد من | اُس نے ( کتاب فیوض الحرمین میں اس سے بھی هذا، فلنذكر قليلا من عباراته التی زیادہ لکھا ہے پس ہم اُس کی عبارتوں کا تھوڑا سا حصہ فيها بيان تأثير النجوم والأفلاك، جو ستاروں اور افلاک کی تأثیرات سے تعلق رکھتا ہے یہاں بیان کرتے ہیں.اور وہ عبارتیں یہ ہیں:.ربما لم يكن الرجل شريفا في بسا اوقات ایک شخص اپنی اصل میں اعلیٰ استعدادوں الأصل، ولكنه وُلِد في زمان تقضى كا حامل نہیں ہوتا لیکن وہ ایسے زمانے میں پیدا ہوتا کا الاتصالات الفلكية يومئذ نباهة ہے کہ اُس وقت فلکی اتصالات اس کی شرافت نسب نسبه وأرى أن ذلك بنوع کا تقاضا کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس امتزاج زُحل مع الشمس وقت ہوتا ہے جب زُحل کا سورج اور مشتری کے والمشترى، بحيث يكون الزحل ساتھ ایک لحاظ سے امتزاج ہو اور اس امتزاج کی مرآة ونور الشمس والمشتری صورت یہ ہوتی ہے کہ زُحل کی حیثیت ایک آئینے منعكسا فيه، فحينئذ يكون..والله کی ہو اور سورج اور مُشتری کا نور اس میں منعکس ہو أعلم..براعة النسب والنباهة من رہا ہو.پس اس کی وجہ سے اُس وقت نسب اور أجله.ويكون ذلك الاتصال شرافت کا کمال پیدا ہوتا ہے.واللہ اعلم.اور یہ بحيث ينحفظ فى صورته المُفاضة اتصال اس طرح ہوتا ہے کہ اس اتصال کا اثر اس حُكم هذا الاتصال كما ينحفظ فی کی عطا کی جانے والی صورت پر اس طرح محفوظ ہو الأولاد أشكال الوالدين جاتا ہے جس طرح اولاد میں والدین کے نقوش وتخاطيطهما، وهذا الرجل ليس له اور خد و خال آجاتے ہیں حالانکہ اس مولود کو شرف موروثی طور پر حاصل نہیں ہوتا.“ شرق موروث.ثم قال فـي مـقـام آخر من كتابه پھر انہوں نے اپنی کتاب ”فیوض الحرمین میں ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ :."الفيوض“
حمامة البشرى ۲۸۱ اردو ترجمه هاك ما فهمني ربّى..اس بارے میں میرے رب نے جو مجھے سمجھایا أنه يجيء من مدد السماء ہے وہ یہ ہے کہ پہلے آسمان کی مدد سے نقول ، باہمی الأولى تقول وتوسطات وزی، روابط اور لباس کا نزول ہوتا ہے اور دوسرے ومـــن السـماء الثانية قواعد آسمان میں منضبط قواعد ہیں جو لکھے جاتے اور تحریر منضبطة، فتكتب وتُسطر میں لائے جاتے ہیں اور جنہیں سیکھا جاتا ہے وتعلم وتؤثر كابرا عن كابر اور وہ نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں.اور وہ سینوں وتوقر بها الصدور وتُملأ به میں ڈالے جاتے ہیں اور جن سے صحیفے پر کئے جاتے ہیں.اور تیسرے آسمان سے قدرتی رنگ الصحف، ومن السماء الثالثة آتا ہے جو (انسان) کی طبیعت بن جاتا ہے وتميل إليه الطبائع وتهيج لون طبعی، فتصير طبيعته اور طبائع اس کی طرف مائل ہوتی ہیں اور اس کے لئے اپنی حمیت کی وجہ سے جوش مارتی ہیں.پس وہ ها حمية منهم فيـحـمـونـهـا اس کی حفاظت کرتے اور مدد کرتے ہیں.اور اس وينصرونها ويناضلون دونها، کے لئے برسر پیکار رہتے ہیں.اور اس سے ایسی ويحبونها كحب الأموال والأولاد محبت کرتے ہیں جیسے وہ اموال، اولاد اور نفوس والأنفس.و من السماء الرابعة سے محبت کرتے ہیں.اور چوتھے آسمان سے غلبة وقوة وتسخير، فيكون مسخَّرًا غلبه قوت اور تسخیر نازل ہوتی ہیں جن کی وجہ لهـا أكــابــر الـنـاس وأصاغر هم سے لوگوں کے سب چھوٹے بڑے اور ان کے علماؤهم وأمراؤهم، ومن علماء وامراء اُس کے لئے مسخر کر دیئے جاتے السماء الخامسة نكاية وشدّة ہیں.اور پانچویں آسمان سے تکلیف اور سختی فلن ترى منکرالها إلا وقد نازل ہوتی ہیں اور تو دیکھے گا کہ اس کا ہرمنکر امتحن بـالـمـحن، وابتلى بالبلايا مصائب میں گرفتار اور دکھوں میں مبتلا کیا جاتا ہے.
حمامة البشرى ۲۸۲ اردو ترجمه ولعن وعوقب كأن من الغیب اور اُس پر لعنت کی جاتی ہے اور عذاب دیا جاتا ناصر الها.ومن السماء السادسة ہے.گویا غیب سے کوئی اس کی مدد کر رہا ہے اور هداية معظمة، فيكون سببا چھٹے آسمان سے عظمت والی ہدایت نازل ہوتی ہے لاهتدائهم و مثابة للناس جس کی وجہ سے وہ شخص اُن کی ہدایت کا سبب بن وہ إلى كمالهم.ومن السابعة جاتا ہے اور لوگوں کے کمالات کے لئے ان کا مرجع الشرق الدائم الذى كالندب بن جاتا ہے.اور ساتویں آسمان سے ایک دائمی شرف عطا ہوتا ہے.جو پتھر میں اُس نقش کی طرح في الحجر لا يزال حتى ہوتا ہے کہ جب تک پتھر کے جوڑ جوڑ الگ نہ کئے تُمزّع أوصاله وتُقطع جائیں اور اُس کے اجزاء کاٹے نہ جائیں وہ اُس میں أجزاؤه.فهذه أركان سبعة نلتم في الملأ الأعلى رہتا ہے.پس یہ سات ارکان ہیں جو ملا اعلیٰ میں آپس میں مل جاتے ہیں اور ایک متناسب جسم فيكون جسدا مسوى فيهم بن جاتا ہے.پھر مدتی اعظم (ان میں سے سب (۷۷) فيُنفَخ من التدلّى الأعظم جذب سے بڑی قوت مؤثرہ) کی طرف سے اُس جسم میں فيها بمنزلة الروح في الجسد جذب کی روح پھونکی جاتی ہے جو اس کے لئے فمن تلبس بتلك الأذكار وهى حثیت رکھتی ہے جو ایک انسانی جسم میں روح والأفكار، وتزين بذلك كى ہوتی ہے.پھر جو ان اذکار وافکار کالباس الزى شملته الرحمة الإلهية | زیب تن کر لیتا ہے اور اس سے آراستہ ہو جاتا ہے وأنتـــاه الــجــذب مــن فــوقـــه تو رحمت الہی اُسے ڈھانپ لیتی ہے تو اس کے ومن تحته ويمينه وشماله پاس اُوپر، نیچے، دائیں، بائیں سے اور ایسی جگہ ومن حيث لا يحتسب ثم يربى سے جس کا گمان بھی نہیں ہوسکتا جذب آتا ہے.پھر هذا الطفل سادات الملأ الأعلى، سردارانِ مَلا اعلی اس بچے کی تربیت کرتے ہیں.نلتم سہو کتابت ہے.درست لفظ ” تلتئم“ ہے.(ناشر)
حمامة البشرى ۲۸۳ اردو ترجمه ويخدمه الملأ السافل، فلا اور ملا أسفل اُس کی خدمت کرتے ہیں.اس طرح يزال يتقرر أمره ويزداد اُس کا معاملہ قرار پکڑتا جاتا ہے اور اُس کی شان بڑھتی شأنه، حتى يأتي أمر الله جاتی ہے.یہاں تک کہ اللہ کا امر اُس پر نازل ہوتا على ذلك.فهذه هي الطريقة ہے.پس یہی طریقت ہے، مذہب کے فروع اور وقس عليه المذهب في أصول کو تو اس پر قیاس کر لے.پس ہر وہ شخص جو الفروع والأصول.فكل دعوی کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے کوئی اور طریقہ یا من ادعى أن الله تعالى مسلک عطا کیا ہے اور وہ شخص جسے یہ طریق عطا کیا ہو أعطى طريقة أو مذهبًا ولم يكن وہ ایسا نہ ہو کہ جیسا ہم نے بیان کیا ہے تو ایسا شخص الذي أعطى كما وصفنا فقد عجز اپنے اس اعتقاد میں حقیقت حال سمجھنے سے عاجز رہا عن معرفة الأمر على ما هو عليه ہے.پھر ہر کوئی ایسا ہوتا بھی نہیں کہ اُس کے لئے ثم ليس كل أحد يُقضى له طریقت دیئے جانے کا فیصلہ کیا جائے اور اللہ کے بالطريقة، وليس عند الله جزاف پاس کسی چیز میں تخمینہ اور انداز نہیں بلکہ وہ ایسی قوم ولا تخمين في شيء من الأشياء کو عطا کرتا ہے جو مبارک اور پاکباز ہو اور اس میں بل إنما يعطى من جبل مباركا زكيا ساتوں آسمانوں اور ملا اعلى وأسفل کی امداد شامل فيه إمداد الأفلاك السبعة ہوتی ہے.اور وہ قوت مقتدرہ ( تذتي اعظم) کی ایک والملأ الأعلى والسافل، وله رحمة خاص رحمت ہوتی ہے اور کتنے ہی عظیم معرفت رکھنے خاصة من التدلى الأعظم.وكم من والے عارف ہیں یا مقام فنا میں انتہاء تک پہنچے ہوئے عارف عظيم المعرفة أو فاني باقي اور مقام بقا میں کمال درجہ رکھنے والے لیکن چونکہ شديد الفناء سابغ البقاء ليس ( ان کی جبلت ) مبارک اور پاک نہ تھی اس لئے انہیں بمبارك وزكي فلا يُعطاها.وكذلك يه نعمت عطا نہ ہوئی.اور اسی طرح اُس (رحمت لا يتعــاطـي حـفـظـهـا كـل أحد | خاصہ) کی حفاظت کے کام کاذمہ ہر شخص نہیں لیتا.
حمامة البشرى ۲۸۴ اردو ترجمه بل لكل أمر رجل خُلق بلکہ ہر کام کے لئے خاص آدمی ہوتا ہے جو اُس کام له ويُسرث جبلة لذلك کے لئے پیدا کیا جاتا ہے اور اسے اس کام کے وأما صورة ظهورها فنشأة أخرى کرنے کی جبلی استعداد دی جاتی.ہاں البتہ اُس وراء النشأة المتعارفة حقيقتها كے ظہور کی صورت معروف حقیقی پیدائش سے ☆.بـــركة فائضة في الأعراض | ماوراء ایک اور پیدائش ہے جس کی برکت اعراض و وافعال میں جاری رہتی ہے.والأفعال.“ تم كلامه رحمه الله مصنف کا کلام مکمل ہوا، اللہ اس پر رحم کرے.فإن كفّرت أحدًا بهذه اگر تو ان عقائد کی وجہ سے کسی کی تکفیر کرتا ہے تو العقائد فكفَرُه أولا ، فإن سب سے پہلے اس مصنف موصوف کی تکفیر کر کیونکہ فضیلت متقدمین کے لئے ہے.الفضل للمتقدمين.ومن اعتراضاتهم أنهم قالوا إن اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ هذا الرجل يحقر معجزاتِ وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص مسیح کے معجزات کی تحقیر المسيح ويستهزء بها ويقول إنها تضحیک کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ معجزات کچھ بھی ليست بشيء ، ولو أردت لاری نہیں.اور اگر میں چاہوں تو ان جیسا بلکہ ان سے مثلها بل أكبر منها، ولكني أكره بھی بڑا معجزہ دکھاتا لیکن میں اسے نا پسند کرتا ہوں ولا أتوجه إليها كالشائقين.اور شائقین کی طرح ان کی طرف توجہ نہیں کرتا.أما الجواب فاعلم أن المعجزة ليس اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ بندوں کا فعل من فعل العباد بل من أفعال الله تعالیٰ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے افعال میں سے ہے.اعراض “.یہ عرض کی جمع ہے.عرض وہ شے جو بذات خود قائم نہ ہو بلکہ دوسری چیز کی وجہ سے قائم ہو جیسے کپڑے پر رنگ یا کاغذ پر حروف.رنگ یا حروف کپڑے یا کاغذ کی وجہ سے قائم ہیں اس لئے عرض ہیں اور کپڑا اور کاغذ جو ہر.(عَرَض جو ہر کا نقیض ہے) (اردو لغت تاریخی اصول پر شائع کردہ (ترقی اردو بورڈ ) کراچی.جلد ۱۳.صفحہ ۳۶۸).
حمامة البشرى ۲۸۵ اردو ترجمه فما كان لرجل أن يقول أن أفعل کوئی شخص یہ کہنے کا مجاز نہیں کہ میں اپنے اختیار اور كذا وكذا باختيارى وإرادتي وما ارادے سے یہ یہ کام کروں گا.انسان جو اپنے يـفـعـل إنسان باختياره وإرادته اختیار، ارادے اور تدبیر سے کرتا ہے وہ انسانی وتدبيره فهو فعل من أفعال افعال میں سے ایک فعل ہے اور ہم اُس کا نام معجزہ الإنسان، ولا نسميه معجزة بل هو نہیں رکھتے بلکہ وہ ایک منصوبہ یا جادو ہے.پس مكيدة أو سحر.فافُهُمُ يا أخى..اے میرے بھائی! اللہ تعالیٰ تجھے رُشد میں زادك الله رشدا..اني ما قلت بڑھائے تو ذہن نشین کرلے میں نے ایسے نہیں كما فهم المستعجلون، بل قلتُ کہا جیسے جلد بازوں نے سمجھا ہے بلکہ میں نے ایک متکلّما بزى رجل محمدی مردمحمدی کے پیرائے میں اپنے آقا و مولا محمد مصطفیٰ نظرًا على فضل كان على سيدنا خاتم النبین پر جو فضل تھا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ محمدن المصطفى خاتم النبيين.بات کہی ہے.وما ضحكت على المسيح وما میں نے نہ تو مسیح علیہ السلام ) کی تضحیک کی اور استهزأت بمعجزاته، بل كان نہ ہی اُن کے معجزات سے استہزاء کیا ہے بلکہ میری مرادي من كلماتي كلها أنا أُوتينا ساری گفتگو کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایک کامل دین اور دينا كاملا ونبيًّا كاملا، ولا شك کامل نبی عطا کیا گیا ہے اور لا ریب یقینا ہم ہی أنا نحن خير أمة أخرجت للناس بہترین امت ہیں جولوگوں کے فائدے کے لئے فكم من كمال يوجد في الأنبياء پیدا کی گئی ہے.پس کتنے ہی کمال ہیں جو حقیقی طور بالإصالة، ويحصل لنا أفضلُ پر انبیاء میں پائے جاتے ہیں اور ( یہ کمال ) اس سے وأولى منه بالطريق الظلي، وهذا افضل و اعلیٰ شکل میں ظلی طور پر ہمیں حاصل ہیں.فضل الله يؤتيه من يشاء.ألا ترى إلى اور يہ اللہ کا فضل ہے.وہ جسے چاہتا ہے عطا کر دیتا منه قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.کیا تو رسول اللہ علیہ کے ارشاد پر غور نہیں کرتا
حمامة البشرى ۲۸۶ اردو ترجمه إذ قال : إن في الجنة مكانا لا يناله جب آپ نے فرمایا: کہ جنت میں ایک مکان ہے إلا رجل واحد وأرجو أن أكون جس تک صرف ایک ہی شخص پہنچے گا اور میں اُمید رکھتا أنا هو، فبكى رجل من سماع ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا.یہ بات سُن کر ایک شخص هذا الكلام وقال يا رسول اللہ روپڑا اور آپ سے عرض کی یارسول اللہ ﷺ ! میں صلى الله علیه وسلم لا أصبر آپ کی جدائی برداشت نہیں کر سکوں گا اور مجھ سے على فراقك، ولا استطيع أن یہ نہیں ہو سکے گا کہ آپ ﷺ کسی اور جگہ ہوں اور میں تكون في مكان وأنا في مكان بعيد آپ سے دور کسی اور جگہ پر آپ ﷺ کے روئے عنك محجوبا عن رؤية مبارک کے دیدار سے محروم ہوں.اس پر رسول ۷۸ وجهك، فقال له رسول الله صلی اللہ اللہ نے اُس سے فرمایا کہ تم میرے ساتھ اور الله عليه وسلم أنت تكون میرے ہی مکان میں ہوگے.پس دیکھ کہ کس معى وفي مكاني فانظر كيف فضله طرح (اللہ) نے اُسے اُن انبیاء پر فضیلت دے على الأنبياء الذين لا يجدون دى جو اس مکان کو نہیں پاسکیں گے.پھر اللہ تعالیٰ کے ذلك المكان.ثم انظر إلى قوله اس ارشاد اور دعا کو بھی پیش نظر رکھ جو اُس نے ہمیں تعالى ودعائه الذي علمنا سکھائی، یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لا پس الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ، فإنا ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم سب انبیاء کی پیروی أمرنا أن نقتدى الأنبياء كلهم کریں اور اللہ سے اُن (انبیاء) کے کمالات ونطلب من الله كمالاتهم، ولما طلب کریں.اور جبکہ انبیاء کے کمالات متفرق كانت كمالات الأنبياء كأجزاء اجزاء کی مانند ہیں اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے متفرقة وأمرنا أن نطلبها كلها کہ ہم ان سب ( کمالات) کو طلب کریں ے ہمیں سیدھے راستہ پر چلا، ان لوگوں کے راستہ پر جن پر تو نے انعام کیا.(الفاتحة: ۷،۶ )
حمامة البشرى ۲۸۷ اردو ترجمه..ونجمع مجموعة تلك الأجزاء اور ان تمام اجزاء کے مجموعہ کو اپنی ذات میں جمع في أنفسنا، فلزم أن يحصل لنا کریں تو یہ لازم ہے کہ ہمیں ظلی رنگ میں اور شيء بالظلية ومتابعة رسول الله رسول اللہ ﷺ کی متابعت میں وہ چیز حاصل ہو صلى الله عليه وسلم ما لم يحصل جائے جو دیگر انبیاء کو فرداً فرداً حاصل نہیں ہوئی.لفرد فرد من الأنبياء وقد اتفق اور علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ کبھی کوئی علماء الإسلام أنه قد يوجد فضيلة جزوى فضيلت غیر نبی میں ایسی بھی پائی جاتی ہے جو جزئية فی غیر نبی لا توجد فی نبی میں نہیں پائی جاتی.پھر تو ابن سیرین کے کلام نبي.ثم انظر إلى كلام ابن سیرین پر غور کر کہ جب اُن سے مہدی کے مرتبے کے حين سُئل عن مرتبة المهدى متعلق سوال کیا گیا اور پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے وقيل أهو كأبي بكر فی فضائله فضائل میں ابوبکر کی مانند ہوگا ؟ تو انہوں نے قال بل هو أفضل من بعض الأنبياء فرمايا: بلکہ وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہوگا.اس.وما اختلف اثنان من.علماء هذه اُمت کے علماء میں سے دو نے بھی اس بات میں الأمة في أن الفضائل الظلية التي اختلاف نہیں کیا کہ وہ ظلی فضائل جو اس امت توجد في هذه الأمة قد تفوق بعض میں پائے جاتے ہیں وہ کبھی کبھی اُن بعض الفضائل التي توجد في الأنبياء فضائل پر فوقیت لے جاتے ہیں جو دیگر انبیاء بالأصالة، ولذلك قيل إن الأنبياء میں اصالتا پائے جاتے ہیں ، اسی لئے کہا گیا ہے السابقين كانوا ينظرون إلى هذه كه سابق انبیاء اس اُمت کو رشک کی نگاہ سے الأمة بعين الغبطة، وتمنى أكثر هم دیکھتے تھے اور اُن میں سے بیشتر نے یہ تمنا کی کہ أن يكونوا منهم.فلو لم يكن في وہ اِس اُمت ) میں سے ہو جا ئیں.پس اگر هذه الأمة شيء من أنواع الفضائل اس امت میں فضائل کی اقسام سے کوئی ایسی چیز التي لم توجد في أنبياء بني إسرائيل نہ ہوتی جو بنی اسرائیل کے انبیاء میں نہ پائی گئی
حمامة البشرى ۲۸۸ اردو ترجمه فلم سألوا ربهم أن يجعلهم من هذه تو انہوں نے اپنے رب سے یہ سوال کیوں کیا کہ الأمة وأما كراهتنا من بعض وہ اُنہیں اِس اُمت سے بنا دے.جہاں تک مسیح معجزات المسيح فأمر حق کے بعض معجزات کو پسند نہ کرنے کی بات ہے تو یہ وكيف لا نكره أمورًا لا توجد درست بات ہے، ہم اُن اُمور کو کیسے پسند کر سکتے حلتها في شريعتنا مثلا..قد کُتب ہیں جو ہماری شریعت میں حلال نہیں ہیں.مثلاً في إنجيل يوحنا الإصحاح الثاني انجيل يوحنا کے دوسرے باب میں ہے کہ عیسی کو أن عيسى دعى مع أُمّه إلى العُرس آپ کی والدہ کے ساتھ ایک شادی میں مدعو کیا گیا وجعل الماء خمرًا من آنية ليشرب اور آپ نے ایک برتن کے پانی کو شراب بنادیا تا الناس منها.فانظر..كيف لا نكره که لوگ اس میں سے پئیں.سود یکھ کہ ہم اس قسم مثل هذه الآيات فإنا لا نشرب کے معجزات کو نا پسند کیوں نہ کریں کیونکہ نہ تو ہم الخمر، ولا نحسبه شيئا طيبا، شراب پیتے ہیں اور نہ ہی ہم اسے کوئی طیب شے فكيف نرضى بمثل هذه الآية؟ سمجھتے ہیں.پس ہم اس قسم کے معجزے پر کیسے وكم من أمور كانت من سنن راضی ہو جائیں؟ اور کتنے ہی ایسے امور ہیں جو الأنبياء ، ولكنا نكرهها ولا نرضى سنن انبیاء میں سے ہیں لیکن ہم انہیں ناپسند بها، فإن آدم صفی الله..كان کرتے ہیں.اور اُن پر راضی نہیں.آدم صفی اللہ يُزوّج بنته ابنه ونحن لا نحسب اپنی بیٹی کی شادی اپنے بیٹے سے کر دیتے تھے لیکن هذا العمل حسنًا طيبا في زماننا، ہم اپنے اس زمانے میں اس عمل کو اچھا اور طیب بل كُنا كارهين.خیال نہیں کرتے.بلکہ ہم اسے نا پسند کرتے ہیں.فلكل وقت حكم، ولكلّ پس ہر وقت کا الگ حکم اور ہر اُمت کا الگ أمة منهاج، وكذلك نكره أن طریق کار ہے.اور اسی طرح ہمیں یہ نا پسند ہے يكون لنا آية خَلق الطيور، کہ ہمارے لئے پرندے پیدا کرنے کا معجزہ ہو.
حمامة البشرى ۲۸۹ اردو ترجمه فإن الله ما أعطى رسولنا هذا کیونکہ اللہ نے ہمارے رسول ﷺ کو یہ معجزہ عطا الإعجاز، وما خلق نبينا ذبابة فضلا نہیں کیا.اور ہمارے نبی علیہ نے بڑا پرندہ پیدا عن أن يخلق طيرًا عظيمًا.وكان كرنا تو کجا ایک مکھی بھی پیدا نہیں کی.اور اس میں السر في ذلك إعلاء كلمة التوحيد راز اعلاء کلمہء توحید اور لوگوں کو ہر خطرے کی جگہ وتنسجية الناس من كل ما هو كان سے بچانا تھا.بلکہ کبھی اس قسم کا معجزہ) شرک کے محل الخطر، بل قد يكون كبذر بیج کی طرح ہو جاتا ہے.ہماری کتاب میں ہمارا الشرك.هذا ما كان مرادنا في كتابنا، مقصود یہی تھا.اور اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے.و إنما الأعمال بالنيات ، فتدبَّرُ ساعةً ، پس تو تھوڑی دیر کے لئے سوچ.شاید اللہ تجھے لعل الله يجعلك من المصدقين.تصدیق کرنے والوں میں سے بنادے.ومن اعتراضاتهم أنهم قالوا إن اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے هذا الرجل يحسب الملائكة کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص فرشتوں کو سورج، أرواح الشمس والقمر والنجوم چاند اور ستاروں کی ارواح خیال کرتا ہے.تو أما الجواب فاعلم أنهم قد أخطأوا اس کا جواب یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ اس في هذاء والله يعلم أني لا أجعل بارے میں غلطی خوردہ ہیں.اللہ جانتا ہے کہ أرواح النجوم ملائكة، بل أعلم من میں ستاروں کی ارواح کو فر شتے قرار نہیں دیتا ربي أن الملائكة مدبّرات للشمس بلکہ میرے رب نے مجھے یہ علم دیا ہے کہ فرشتے ، ۷۹ والقمر والنجوم وكلّ ما فى سورج، چاند، ستاروں اور آسمان اور زمین السماء والأرض، وقد قال الله میں موجود ہر چیز کی تدبیر کرنے والے ہیں.تعالى اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِن كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا حافظ، وقال فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا عَلَيْهَا حَافِظ نیز فرمایا فَالْمُدَبِرَاتِ أَمْرًا لے کوئی (ایک) جان بھی نہیں جس پر کوئی محافظ نہ ہو.(الطارق:۵) ے پھر ( قسم ہے ) کسی اہم کام کے منصوبے بنانے والیوں کی.(النازعات:۶)
حمامة البشرى ۲۹۰ اردو ترجمه ومثل تلك الآيات کثیر فی اور ان جیسی اور بہت سی آیات قرآن میں موجود القرآن، فطوبى للمتدبرين.ہیں.پس تدبر کرنے والے کے لئے خوشخبری ہو.ومن اعتراضات المکفرین مکفرین کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ أنهم قالوا إن هذا الرجل ادعى وہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے النبوة وقال إنّي من النبيين.أما اور کہتا ہے کہ میں نبیوں میں سے ہوں.اس کا الجواب فاعلم يا أخى أنى ما جواب یہ ہے کہ اے میرے بھائی ! تو جان لے کہ ادعيتُ النبوة وما قلت لهم إنى میں نے نہ تو نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی میں نبي، ولكن تعجلوا و أخطأوا نے انہیں کہا ہے کہ میں نبی ہوں.لیکن ان لوگوں في فهم قولی، و ما فگر واحق نے جلد بازی سے کام لیا اور میری بات سمجھنے میں غلطی الفكر بل اجترأوا على نحتِ بهتان کھائی ہے اور پوری طرح سے غور و فکر نہیں کیا.بلکہ مبين.وتراهم يسارعون إلى کھلی کھلی بہتان تراشی کی جرات کی.اور تو انہیں التكفير ويكفرون بعض المؤمنین دیکھتا ہے کہ وہ کفر کا فتویٰ لگانے میں جلدی کرتے ويخادعون البعض، ولا یخفی ہیں.بعض مومنوں کو کا فرقرار دیتے ہیں اور بعض کو على الله ما في صدور الظالمین دھوکا دیتے ہیں اور ظالموں کے سینوں میں جو کچھ ومنهم من يعجب الناس قوله بھی ہے وہ اللہ سے مخفی نہیں.اور ان میں سے کچھ ويُقسم بالله أنه على الحق ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کی بات لوگوں کو پسند آتی وهو أوّل المبطلين.يلبس ہے اور وہ اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ وہ حق پر ہے حالانکہ الحق بالباطل ويغطى الصدق وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے اور وہ حق کو باطل کے على الكذب، ويسعى سعى ساتھ ملاتا اور جھوٹ کو سچائی بنا کر پیش کرتا ہے اور العفاريت و ينجس وجه شیاطین جیسی حرکتیں کرتا ہے اور روئے زمین کو لمع الأرض بالتمويهات والتلبيسات، کاریوں اور حق و باطل کو گڈمڈ کر کے ناپاک کرتا ہے
حمامة البشرى ۲۹۱ اردو ترجمه ويفوق بمكره كل مگار، ثم يسمى اور اپنی فریب کاریوں میں ہر مکار پر فوقیت لے جاتا ہے اور پھر وہ صادقوں کو دجال کا نام دیتا ہے.الصادقين دجالين.و ماقلت للناس إلا ما اور میں نے لوگوں سے وہی کچھ کہا ہے جو میں نے كتبت في كتبى من أننى محدث اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے یعنی یہ کہ میں محدث ہوں ویکـلـمـنـی الله کما یکلم اور اللہ مجھ سے ویسے ہی ہمکلام ہوتا ہے جیسے وہ المحدثين والله يعلم أنه محدثوں سے ہمکلام ہوتا ہے.اور اللہ جانتا ہے کہ أعطاني هذه المرتبة، فكيف اُس نے مجھے یہ رتبہ عطا فرمایا ہے.پس میں اللہ کی أرد مـا أعـطـانـی الله ورزقنی من عطا اور جو اُس نے مجھے اپنے رزق سے دیا ہے اُسے اور رزق..أ أعرض عن فیض ربّ کیسے رڈ کر سکتا ہوں.کیا میں رب العالمین کے فیض العالمين وما كان لي أن أدعى سے منہ موڑ لوں؟ اور میرے لئے یہ جائز نہیں کہ میں النبوة وأخرج من الإسلام وألحق دعوی نبوت کروں اور اسلام سے خارج ہو جاؤں اور بقوم كافرين.وها إنني لا أصدق كا فرقوم سے جاملوں.اور سنو کہ میں اپنے الہامات إلهاما من إلهاماتي إلا بعد میں سے کسی الہام کی تصدیق نہیں کرتا جب تک کہ أن أعرضه على كتاب الله، وأعلم میں اسے کتاب اللہ پر پیش نہ کرلوں اور میں أنه كل ما يخالف القرآن فهو جانتا ہوں کہ ہر وہ بات جو قرآن کے مخالف ہو كذب وإلحاد وزندقة، فكيف جھوٹ ،الحاد اور بے دینی ہے.پھر میں مسلمان أدعى النبوة وأنا من المسلمين؟ ہوتے ہوئے کیسے نبوت کا دعویٰ کر سکتا ہوں.اور میں وأحمد الله على أنى ما وجدت اس بات پر اللہ کی حمد کرتا ہوں کہ میں نے اپنے إلهاما من إلهاماتي يخالف كتاب الہامات میں سے کسی الہام کو ایسا نہیں پایا جو الله، بل وجدت كلها موافق کتاب اللہ کے مخالف ہو بلکہ میں نے ان سب کو بكتاب رب العالمين.رب العالمین کی کتاب کے عین موافق پایا.
حمامة البشرى ۲۹۲ اردو ترجمه ومن الناس من يقول إن باب اور بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس امت پر الہام الإلهام مسدود على هذه الأمة کا دروازہ بند ہے.اُنہوں نے قرآن میں اس وما تدبر في القرآن حق التدبر، طرح تدبر نہیں کیا جیسا کہ تدبر کرنے کا حق ہے اور ومـا لـقــى الـمُلهمين.فاعلم أيها نہ وہ ملہموں سے ملے ہیں.اے دانا شخص تو جان الرشيد أن هذا القول باطل لے کہ یہ بات بالبداہت باطل ہے اور کتاب بالبداهة، ويخالف الكتاب والسنة الله ، سُنت اور صالح لوگوں کی شہادت کے مخالف وشهادات الصالحين.أما كتاب ہے.جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو تو قرآن الله..فأنت تقرأ في القرآن الکریم کریم میں متعدد ایسی آیات پڑھتا ہے جو ہمارے آیات تؤيد قولنا هذا، وقد أخبر اس قول کی تائید کرتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے اپنی الله تعالى في كتابه المحكم عن محکم کتاب میں بعض ان مردوں اور عورتوں کے بعض رجال ونساء كلّمهم ربهم متعلق خبر دی ہے جن سے اُن کے رب نے مکالمہ وخاطبهم وأمرهم ونهاهم، وما ومخاطبہ کیا.انہیں ( بعض امور کا ) حکم دیا اور بعض كانوا من الأنبياء ولا رسل رب باتوں سے روکا.حالانکہ وہ رب العالمین کے العالمين.ألا تقرأ فى القرآن وَلَا نبیوں اور رسولوں میں سے نہ تھے.کیا تو قرآن تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِى إِنَّارَآذُوهُ میں نہیں پڑھتا کہ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ.إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ فتدبَّرُ أيها المنصف العاقل كيف اے عقلمند منصف !غور کر کہ اُمتوں میں سے اس لا يجوز مكالمات الله ببعض رجال بہترین امت کے بعض مردوں کے ساتھ اللہ کے هذه الأمة التي هي خير الأمم وقد مكالمات کیوں جائز نہیں جبکہ اللہ نے تم سے پہلے گزری كلم الله نساء قوم خلوا من قبلکم ہوئی قوموں کی عورتوں کے ساتھ بھی کلام فرمایا ہے.لے کوئی خوف نہ کر اور کوئی غم نہ کھا ہم یقیناً اسے تیری طرف دوبارہ لانے والے ہیں اور اسے مرسلین میں سے (ایک رسول) بنانے والے ہیں.(القصص: ۸)
حمامة البشرى ۲۹۳ اردو ترجمه وقد أتاكم مثل الأولين اور تمہارے پاس گزشتہ لوگوں کی مثالیں موجود فإن كان بعض الناس في شك من ہیں.اگر کچھ لوگوں کو میرے الہام کے بارے ۸۰ إلهامي، وكان لهم عجب من ان میں شک ہے اور انہیں اس بات پر تعجب ہے يخاطب الله أحدا من هذه الأمة کہ اللہ اس امت کے کسی فرد کو بغیر اس کے کہ ويكلمه من غير أن يكون نبيا..فلم لا وہ نبی ہو ، مخاطبہ و مکالمہ کا شرف بخشے اگر وہ يحكمون القرآن فيما شجر بينهم؟ مومن ہیں تو پھر وہ کیوں اپنے با ہمی متنازعہ ولم لا يردّون الأمر إلى الله ورسوله فيه معاملے میں قرآن کو اپنا حکم نہیں بناتے إن كانوا مؤمنين وقد قال الله تعالى : اور اس معاملے کو کیوں اللہ اور اُس کے رسول لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيوةِ الدُّنْیا کی طرف نہیں لوٹاتے.حالانکہ اللہ تعالیٰ وقال إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا الله نے فرمایا ہے کہ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ الدُّنْيَاب نیز فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوْا رَبُّنَا الَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ الَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ أوليؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُوْنَ، تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَعُوْنَ لے اُن کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی خوشخبری ہے.(یونس :۶۵) سے یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے، پھر استقامت اختیار کی ، اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت ( کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو.ہم اس دنیوی زندگی میں تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرتے ہو.(حم السجدۃ: ۳۲،۳۱)
حمامة البشرى ۲۹۴ اردو ترجمه.وقال يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلى نيز فرمايا: يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ الثَّلَاقِ، مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ الخَلَاقِ نیز وہ فرماتا وقال وَيَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا، ہے کہ وَيَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا.نیز اس نے وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ به فرمایا کہ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ فالنور الذي هو الأمر الفارق بين ایک ایسا نور جو اللہ کے خاص بندوں اور خواص عباد الله و بین عباد آخرین دوسرے بندوں کے درمیان امر فارق ہے، وہ هو الإلهام والكشف والتحديث الهام، كشف، مکالمہ ومخاطبہ اور گہرے دقیق علوم وعلوم غامضة دقيقة تنزل على قلوب ہیں جو اللہ کی طرف سے خاص لوگوں کے دلوں الخواص من عند الله.وكذلك پر نازل ہوتے ہیں.اسی طرح اللہ عز و جل قال عزّوجلّ وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل نے فرمایا ہے کہ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ يَحْتَسِبُ.وأنت تعلم أن الذين يصلون اور تو جانتا ہے کہ وہ لوگ جو تقوی اور رب (کریم) مقامات الكمال من الاتقاء وخوف کی جدائی کے خوف میں انتہائی مقام تک پہنچ جاتے هجر الرب، لا يبقى لهم هم واهتمام ہیں، تو انہیں اس رزق کے فکر کا نہ کوئی غم ہوتا في فكر الرزق الذي هو حظ الجسم ہے اور نہ اس کی ضرورت باقی رہتی ہے جس أعنى الخُبز واللحم وأنواع الطعام سے جسم محظوظ ہوتا ہے.یعنی روٹی، گوشت اور والشراب والألبسة، بل ينهضون طرح طرح کے خورد ونوش اور ملبوسات، بلکہ وہ لاكتساب الأموال الروحانية، روحانی اموال کمانے کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں ے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنے امر سے روح کو اُتارتا ہے تا کہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرائے.(المؤمن: ۱۶) کے وہ تمہارے لئے ایک امتیازی نشان بنا دے گا.(الانفال:۳۰) اور تمہیں ایک نور عطا کرے گا جس کے ساتھ تم چلو گے.(الحدید: ۲۹) اور جو اللہ سے ڈرے اُس کے لئے وہ نجات کی کوئی راہ بنا دیتا ہے.اور وہ اُسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا.(الطلاق:۴۳)
حمامة البشرى ۲۹۵ اردو ترجمه ويجذب قلبهم وروحهم وشوقهم اور اُن کا دل اُن کی روح اور اُن کا شوق مولیٰ کریم إلى المولى، وإلى رزق يزيد لهم كى طرف اور اُس رزق کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے جو يقينًا ومعرفة ويدخلهم في أنہیں یقین اور معرفت میں آگے بڑھاتا ہے اور انہیں الواصلين.ولا يريدون الدنيا واصل باللہ لوگوں میں داخل کرتا ہے.اور وہ دنیا وشهواتها ولذاتها، وما كان أعظم اور اس كى شہوات ولذات کی خواہش نہیں کرتے.مراداتهم الدنيا ولا أن يأكلوا اور اُن کی سب سے بڑی مراد دنیا نہیں ہوتی.اور نہ ويشربوا ويتلفوا أعمارهم في یہ کہ وہ کھائیں، پئیں اور اپنی زندگیوں کو کھانا چبانے الخصم والقضم، ويعيشوا اور چٹخارے لینے میں ضائع کر دیں اور آسودہ حال كالمترفين.فالرزق الذي هو مُراد لوگوں کی طرح زندگی گزاریں.پس وہ رزق جو رجال أُولى التقوى إنما هو فيوض صاحب تقویٰ لوگوں کا مقصود و مطلوب ہوتا ہے.وہ الغيب من الكشف والإلهام صرف كشف، الہام اور مکالمہ ومخاطبہ کے غیبی فیوض والمخاطبات، ليبلغوا مراتب ہیں تا کہ وہ جملہ مراتب یقین تک رسائی حاصل کر ہو اليقين كلها، ويدخلوا فی عباد الله لیں.اور اللہ کے عارف بندوں میں داخل العارفين.فقد وعد الله لهم وقال جائیں.پس اللہ نے اُن سے وعدہ کیا ہے اور فرمایا مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا.ہے کہ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا.وَ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ، يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ ہے اور وہ لوگ جو وأما الذين يظنون أن الرزق منحصر یہ خیال کرتے ہیں کہ رزق جسمانی نعمتوں تک في التنعمات الجسمانية، فقد أخطأوا محدود ہے تو اُنہوں نے بہت بڑی غلطی کھائی ہے تو خطأ كبيرًا، وما تدبّروا في القرآن اور اُنہوں نے قرآن پر اس طرح غور نہیں کیا جیسے حق التدبر، وكانوا من الغافلين.غور کرنے کا حق ہے اور وہ غافلوں میں سے ہیں.ے جو اللہ سے ڈرے اُس کے لئے وہ نجات کی کوئی راہ بنا دیتا ہے.اور وہ اُسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا.(الطلاق: ۴۳)
حمامة البشرى ۲۹۶ اردو ترجمه وكذلك قوله تعالى إِذْ يُوحِى اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ اِذْيُوحی رَبُّكَ إِلَى الْمَلَكَةِ إِنِّي مَعَكُمْ فَتَتِتُوا رَبُّكَ إِلَى الْمَلَكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ الَّذِيْنَ آمَنُوا أى هاتوا قلوبهم امنواتے (یاد کرو) یعنی تم اُن کے دلوں تک پہنچو وألقوا فيها كلماتِ التثبیت، یعنی اور اُن میں ثابت قدمی کے کلمات القاء کر و یعنی تم قولوا لَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُواء ان سے کہو کہ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور کچھ اسی قسم وكمثله من كلمات تطمئن بھا کے اور کلمات کہو جن سے اُن کے دل مطمئن قلوبهم.فهذه الآيات كلها تدل على ہوں.پس یہ سب کی سب آیات دلالت کرتی ہیں أن الله قد يكلم أولياءه ويخاطبهم کہ اللہ اپنے اولیاء سے ہمکلام اور اُن سے مخاطب ليزداد يقينهم وبصيرتهم وليكونوا ہوتا ہے تا کہ اُن کا یقین اور اُن کی بصیرت بڑھے اور تا وہ مطمئن ہوجائیں.من المطمئنين.وكذلك علم الله عباده دعاء اهْدِنَا اور اسی طرح اللہ نے اپنے بندوں کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِيْنَ الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ، ومعلوم أن وَلَا الضَّالِينَ ے کی دعا سکھائی اور یہ معلوم من أنواع الهداية كشف وإلهام ہی ہے کہ کشف، الہام اور رویاء صالحہ، ورؤيا صالحة ومكالمات و مخاطبات مكالمات و مخاطبات اور محدثیت ہدایت کی وتحديث لينكشف بها غوامض القرآن قسمیں ہیں تا کہ ان کے ذریعہ قرآن کے اسرار ويزداد اليقين، بل لا معنى للإنعام منکشف ہوں اور یقین میں اضافہ ہو.بلکہ انعام من غير هذه الفيوض السماوية کے ان سماوی فیوض کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں (یاد کرو) جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں انہیں ثبات بخشو (الانفال:۱۳) سے ہمیں سیدھے راستہ پر چلا.اُن لوگوں کے راستہ پر جن پر تو نے انعام کیا جن پر غضب نہیں کیا گیا اور جو گراہ نہیں ہوئے.( الفاتحۃ:۷،۶ )
حمامة البشرى ۲۹۷ اردو ترجمه فإنهـا أصـل الـمـقـاصـد للسالكين | کیونکہ یہ سالکین کے اصل مقاصد ہیں جو چاہتے الذين يريدون أن تنكشف عليهم ہیں کہ اُن پر معرفت کے دقائق منکشف ہوں اور وہ دقائق المعرفة، ويعرفوا ربهم فى اس دنیا میں اپنے رب کو پہچان لیں اور محبت اور هذه الدنيا، ويزدادوا حُبًّا وإيمانا ایمان میں ترقی کریں اور دنیا سے ناطہ توڑ کر اپنے ويصلوا محبوبهم متبتلين.فلأجل محبوب کا وصال حاصل کریں.پس یہی وجہ ہے کہ ذلك..حتَّ الله عبادہ علی ان اللہ نے اپنے بندوں کو ترغیب دلائی کہ وہ اس کی يطلبوا هذا الإنعام من حضرته، فإنه بارگاہ سے یہ انعام مانگیں، کیونکہ وہ ان کے دلوں كان عليمًا بما في قلوبهم من میں موجود وصال، یقین اور معرفت کی پیاس کو عطش الوصال واليقين والمعرفة، خوب جانتا ہے اس لئے اللہ نے اُن پر رحم فرمایا اور فرحمهم وأمد كل معرفة للطالبين جستجو کرنے والوں کے لئے ہر طرح کی معرفت ثم أمرهم ليطلبوها في الصباح مہیا کی اور پھر انہیں حکم دیا کہ وہ اسے صبح و شام اور والمساء والليل والنهار، وما شب و روز طلب کریں.اور اُس نے یہ حکم انہیں أمرهم إلا بعد ما رضى بإعطاء هذه ان نعمتوں کے دینے پر راضی ہونے کے بعد ہی النعماء ، بل بعدما قدر لهم دیا.بلکہ اس کے بعد کہ اُس نے ان نعمتوں کا دیا جانا أن يُرزقوا منها، وبعدما جعلهم اُن کے لئے مقدر کر دیا اور بعد اس کے کہ انہیں ورثاء الأنبياء الذين أوتوا مِن قبلهم ان انبياء کا وارث بنایا جوان سے قبل اصالتا ہدایت كل نعمة الهداية على طریق کی ہر نعمت عطا کئے گئے تھے.پس دیکھ کہ اللہ نے الأصالة.فانظر كيف من الله ہم پر کس طرح احسان فرمایا ہے اور اُمّ الکتاب علينا..وأمرنا في أم الكتاب (سوره فاتحہ ) میں ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس میں لنطلب فيه هدايات الأنبياء كُلّها، انبياء كى سب ہدایات طلب کریں تا ہم پر اُن ليكشف علينا كل ما كشف عليهم، تمام باتوں کا انکشاف ہو جو اُن پر کھولی گئی تھیں.
حمامة البشرى ۲۹۸ اردو ترجمه أصدق الصادقين.ولكن بالا تباع والظلية، وعلى ليكن يہ اتباع سے اور ظلیت کے طور پر استعدادات لیکن یہ قدر ظروف الاستعدادات والهمم اور ہمتوں کے ظرف کے مطابق ہوگا.پس اگر ہم فكيف نرد نعمة الله التى ہدایت کے طالب ہیں تو ہم اللہ کی اُس نعمت کو کیسے أُعدت لنا إن كنا طلباء الهداية؟ رڈ کر سکتے ہیں جو ہمارے لئے مہیا فرمائی گئی؟ اور وكيف تنكرها بعد ما أُخبرنا عن اصدق الصادقین علیہ سے خبر پانے کے بعد ہم کس طرح اس کا انکار کر سکتے ہیں؟ وأما ما ثبت من سنة رسول الله اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے جو اس باب وآثاره في هذا الباب فاعلم أنه قال ميں رسول اللہ ﷺ کی سنت اور احادیث سے صلى الله علیه و سلم لقد كان ثابت ہے تو جان لو کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا فيمن كان قبلكم من بنی اسرائیل ہے کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے مرد رجال يكلمون من غير أن يكونوا پائے جاتے تھے جو نبی نہ ہوتے ہوئے (اللہ أنبياء ، فإن يك فى أمتى منهم أحد سے ہمکلام ہوتے تھے.پس اگر اُن میں سے فعمر.وقال قد كان فيما مضى کوئی میری اُمت میں ہو تو وہ عمر ہے.نیز فرمایا قبلكم من الأمم محدثون، وإنه إن کہ تم سے پہلی امتوں میں محدث پائے جاتے كان في أمتى هذه منهم فإنه تھے.اور اگر میری اس امت میں کوئی محدث ہے تو عمر بن الخطاب.وجاء في وہ عمر بن الخطاب ہیں.اور بخاری میں آیت البخاري في آية وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِيَّ إِلَّا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَنی یا کے متعلق ابن عباس إذَا تَمَنَّى الآية عن ابن عباس سے یہ روایت درج ہے کہ آپ اس آیت میں أنه كان يزيد فيه ولا مُحَدَّثِ » ، وَلَا مُحَدَّث “ کے الفاظ کا اضافہ کرتے تھے لے اور ہم نے تجھ سے پہلے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ نبی مگر جب بھی اس نے ( کوئی ) تمنا کی.(الحج:۵۳) "
حمامة البشرى ۲۹۹ اردو ترجمه يعنى يقرأ وما أرسلنا من قبلك من يعنى آپ اس آیت کو اس طرح پڑھا کرتے تھے وَمَا یعنی رسول ولا نبى ولا مـحـدث.وتجد أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي وَلَا هذا الذكر مفصلا في فتح الباري“.مُحَدَّث.اور تو اس کا تفصیلی ذکر فتح الباری میں فلا تُعرِضُ عن الحق بعدما جاء ك، پائے گا.پس تو حق کے آجانے کے بعد اس سے وتدبر مع المتدبرين.رُوگردانی نہ کر اور غور کرنے والوں کے ساتھ غور کر.وإني كتبت في بعض كتبى أنّ اور میں نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ مـقـام التـحـديـث أشد تشبها محدثیت کا مقام نبوت کے مقام کے ساتھ گہری بمقام النبوة، ولا فرق إلا فرق مشابہت رکھتا ہے اور ان میں سوائے قوت اور فعل القوة والفعل وما فهموا قولی کے اور کوئی فرق نہیں.لیکن لوگوں نے میری بات وقالوا إن هذا الرجل يدعى النبوة ، نہ کبھی اور کہنے لگے کہ یہ شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے والله يعلم أن قولهم هذا كذب اور اللہ جانتا ہے کہ اُن کی یہ بات سراسر جھوٹ ہے بحت لا يـمـازجــه شـيء من جس میں سچائی کا شائبہ تک نہیں اور نہ ہی کوئی الصدق، ولا أصل له أصلا، وما اصلیت ہے.اور انہوں نے یہ بہتان تراشی صرف نـحـتـوه إلا ليهيجوا الناس علی اس لئے کی ہے تا کہ مجھے کافر قرار دینے ، گالیاں التكفير والسب واللعن والطعن دینے اور لعن وطعن کرنے پر لوگوں کو بھڑ کا ئیں اور وينهضواهم للعناد والفساد، انہیں عناد اور فساد پر اُبھاریں اور مومنوں کے درمیان تفریق پیدا کریں.وإني والله أؤمن بالله الله کی قسم ! یقیناء میں اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان ورسوله، وأؤمن بـأنــه خـاتـم رکھتا ہوں اور میرا اس بات پر ایمان ہے کہ آپ النبيين.نعم، قلت إن أجزاء خاتم النبیین ہیں.ہاں البتہ میں نے یہ ضرور کہا ہے کہ نبوت النبوة توجد في التحديث كُلّها، کے سارے اجزاء محدثیت میں پائے جاتے ہیں.ويفرّقوا بين المؤمنين.
حمامة البشرى اردو ترجمه ولكن بالقوة لا بالفعل، فالمحدَّث لیکن بالقوة، نہ کہ بالفعل.پس محدّث نبی نبي بالقوة، ولو لم يكن سدُّ باب بالقوة ہے.اور اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوتا تو النبوة لكان نبيا بالفعل، وجاز على وه بالفعل نبی ہوتا.اور اس بناء پر ہمارا یہ کہنا هذا أن نقول النبي مُحدَّث على جائز ہے کہ نبی علی وجہ الکمال محدّث ہے کیونکہ وہ وجه الكمال، لأنه جامع لجميع ( نبي ) عَلَى وَجْهِ الْاتَمْ وَأَبْلَعْ محدّثیت کے (۸۲) كمالاته على الوجه الأتم الأبلغ تمام کمالات کا بالفعل جامع ہے.اور اسی طرح بالفعل، وكذلك جاز أن نقول إن ہمارے لئے یہ کہنا بھی جائز ہوا کہ اپنی استعدادِ المحدث نبی بناءً على استعداده باطنیہ کی بناء پر ہر محدث نبی ہے.یعنی محدث نبی الباطني أعنى أن المحدَّث نبى بالقوة ہے.اور نبوت کے تمام کمالات محد ثیت بالقوة، وكمالات النبوة جميعها میں مخفی و پوشیدہ ہیں.اور اُن کے بالفعل ظہور مخفيّة مضمرة في التحديث ، وما اور خروج کو نبوت کے دروازے کے بند ہونے حبس ظهورها وخروجها إلى نے ہی روک رکھا ہے.اور اسی کی طرف نبی الفعل إلا سد باب النبوة.وإلى كريم ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ ذلك أشار النبي صلى الله علیه فرمایا ہے لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ وسلم في قوله: " لو كان بَعْدِي عُمَر “ کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر نبي لكان عمر وما قال هذا ہوتا.اور حضور ﷺ کا یہ ارشاد صرف اس بناء " صلى الله إلا بناءً على أن عمر كان محدثا، پر ہے کہ (حضرت) عمر محدث تھے.پس فأشار إلى أن مادة النبوة وبذرها آپ ﷺ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا يكون موجودا في التحدیث ہے کہ نبوت کا مادہ اور اس کا بیج محد ثیت میں ولكن الله ما شاء أن يُخرجها موجود ہوتا ہے لیکن اللہ نے یہ نہ چاہا کہ وہ اسے من مكمن القوّة إلى حيّز الفعل مخفی قوت سے حَيَّزِ فعل کی طرف نکال کر لے آئے.
حمامة البشرى ۳۰۱ اردو ترجمه وإلى ذلك إشارة في قراءة ابن عباس اور اسی کی طرف ابن عباس کی قراءت وَمَا أَرْسَلْنَا وما أرسلنا من رسول ولا نبى ولا مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي وَلَا مُحَدَّثِ میں اشارہ محدث، فانظر كيف أُدخل الرسل ہے.پس غور کر کس طرح رسولوں اور نبیوں اور والنبيون والمحدثون في هذه القراءة محدّثوں کو اس قراءت میں ایک شان میں داخل کر في شأن واحد، وبين الله أن كلّهم لیا گیا ہے.اور اللہ نے واضح فرما دیا ہے کہ یہ سب من المحفوظين ومن المرسلين.کے سب محفوظ ہیں اور فرستادہ ہیں.ولا شك أن التحديث موهبة بے شک محد ثیت ایک خالص موہبت ہے جو مجردة لا تنال بكسب البتة..شانِ نبوت کی طرح محض کسب کے ذریعہ حاصل کماهو شأن النبوة، ويُكلّم نہیں ہوتی.اللہ محدثین سے اُسی طرح کلام الله المحدثین کما یکلّم کرتا ہے جس طرح وہ نبیوں سے کلام کرتا ہے يُكلّم النبيين، ويرسل المحدثین اور محدثوں کو اسی طرح مبعوث فرماتا ہے جس كما يرسل الرسل، ويشرب طرح وہ رسولوں کو مبعوث فرماتا ہے اور محدّث المحدث من عين يشرب اُس چشمے سے پیتا ہے جس سے نبی پیتا ہے.فيها النبي، فلا شك أنه نبی پس بلا شبہ وہ (محدث) نبی ہوتا اگر یہ دروازہ بند لولا سد الباب، وهذا هو السر نہ ہوتا.اور یہی وہ راز ہے جو رسول اللہ علی في أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے (حضرت) عمر فاروق کا نام محدَّث رکھا وسلم إذا سمـى الـفـاروق محدثا ہے.پس آپ علیہ نے اپنے (مذکورہ) قول ا فقفى على أثره قوله لو كان کے بعد فرمایا لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرٍ بعدى نبى لكان عمر، وما كان يعنى میرے علاوہ اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.هذا إلا إشارة إلى أن المحدث اور یہ اس بات ہی کی طرف اشارہ تھا کہ محدث يجمع كمالات النبوة في نفسه اپنی ذات میں کمالات نبوت جمع رکھتا ہے
حمامة البشرى ٣٠٢ اردو ترجمه ولا فرق إلَّا فرق الظاهر اور فرق صرف ( نبوت کے ) ظاہر اور باطن والباطن، والقوة والفعل.فالنبوة اور بالقوۃ اور بالفعل ہونے کا ہے.درحقیقت شجرة موجودة في الخارج مثمرة نبوت خارج میں موجود اپنی حد ( کمال ) کو پہنچا بالغة إلى حدها، والتحديث ہوا ایک بارآور درخت ہے اور محد ثیت ایک پیج كمثل بذر فيه يوجد في القوة کی طرح ہے جس میں بالقوۃ وہ سب کچھ موجود كلُّ ما يوجد في الشجر بالفعل ہے جو درخت میں بالفعل اور خارج میں وفي الخارج.وهذا مثال واضح پایا جاتا ہے اور یہ دین کے معارف کے طلبگاروں للذين يطلبون معارف الدین کے لئے ایک واضح مثال ہے اور اسی کی طرف وإلى هذا أشار رسول الله صلى رسول اللہ ﷺ نے عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ الله عليه وسلم في حديث علماء بَنِي إِسْرَائِيل “ (یعنی میری اُمت کے علماء بنی امتى كأنبياء بني إسرائيل ، اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں ) والی حدیث میں والمراد من العلماء المحدثون اشارہ فرمایا ہے اور علماء سے مراد محدث ہیں جنہیں الذين يُؤتون العلم من لدن ربهم اپنے رب کی طرف سے علم عطا کیا جاتا ہے.اور ويكونون من المكلمين.مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوتے ہیں.وقد استصعب الفرق بين بعض لوگوں کو محد ثیت اور نبوت کے درمیان فرق التحديث والنبوة على بعض کرنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے مگر حقیقت الناس، فالحق أن بينهما فرق یہی ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے تو بالقوۃ اور بالفعل القوة والفعل كما بيّنت آنها کا جیسا کہ میں نے ابھی درخت اور اُس کے بیج کی في مثال الشجرة وبذرها، فخُذُها مثال میں واضح کیا ہے.پس مجھ سے یہ ( نکتہ ) منى ولا تخف إلَّا الله، وادعو لے لے اور خدا کے سوا کسی سے نہ ڈر.اور میں اللہ الله أن تكون من العارفین سے دعا کرتا ہوں کہ تو عارفوں میں سے ہو جائے.
حمامة البشرى ٣٠٣ اردو ترجمه هذا ما قلنا في بعض كتبنا استنباطا یہی وہ بات ہے جو ہم نے احادیث نبویہ اور قرآنِ من الأحاديث النبوية والقرآن کریم سے استنباط کر کے اپنی بعض کتابوں میں بیان الكريم، وما قال بعض السلف فھو کی ہے.اور جو کچھ بعض علماء سلف نے کہا ہے وہ أكبر من هذا، ألا ترى إلى قول ابن اس سے کہیں بڑھ کر ہے.کیا تو ابن سیرین کے سيرين أنه ذكر المهدى عنده قول کو نہیں دیکھتا کہ اُن کے پاس مہدی کا ذکر کیا وسئل عنه هل هو أفضل من گیا اور اُس کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ (مہدی) أبي بكر فقال ما أبو بكر هو أفضلُ ابوبکر سے افضل ہوگا.تو اُنہوں نے فرمایا کہ ابوبکر من بعض النبيّين.کیا ، وہ تو بعض نبیوں سے بھی افضل ہوگا.هذا ما كتـب صـاحـب "فتح یہی بات ( تفسیر ) فتح البیان کے مصنف صدیق البيان صديق حسن فی کتابه حسن نے اپنی کتاب حجج الکرامہ میں تحریر الحجج، ومثله أقوال کی ہے.اور اسی طرح کے اور اقوال بھی ہیں.أخرى ولكنا نتركها خوفا لیکن ہم انہیں طوالت کے خوف سے چھوڑتے من الإطناب وعليك أن ہیں اور تجھ پر یہ لازم ہے کہ تو پورے انصاف تدقق النظر بالإنصاف الکامل کے ساتھ باریک نظر سے دیکھے تا تجھ پر اصل حقیقت ليتضح لك الحق الحقيق واضح ہو جائے اور تو کامیاب ہونے والوں میں وتكون من الفائزين.وقد سے ہو جائے.اور میں نے ہر وہ بات جو ۸۳ بينت لك كُلّ ما هو كلمة جلد بازوں کی نگاہ میں کلمہ کفر ہے تمہارے لئے الكفر في أعين المستعجلين، بیان کر دی ہے.لہذا غور کر کہ کہاں یہ بات فانظر..أين هذا وأين ادعاء اور کہاں دعوی نبوت؟ سواے برادر من ! تو یہ النبوة ؟ فلا تظن يا أخي أني قلت مت خیال کر کہ میں نے کوئی ایسی بات کہہ دی كلمة فيه رائحة ادعاء النبوة ہے جس میں دعوی نبوت کی کوئی بُو پائی جاتی ہو
حمامة البشرى ۳۰۴ اردو ترجمه كما فهم المتهوّرون فی ایمانی جیسا کہ میرے ایمان اور میری عزت پر دیدہ دلیری وعرضي، بل كُلّ ما قلت إنما سے حملہ کرنے والوں نے سمجھ رکھا ہے.بلکہ قلتها تبيين المعارف القرآن جب کبھی میں نے یہ بات کہی ہے تو صرف ودقائقه، وإنما الأعمال بالنيات معارف و دقائق قرآنیہ کی وضاحت کے لئے کہی ومعاذ الله أن أدعى النبوة بعدما ہے اور اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے.معاذ اللہ جعل الله نبينا وسيدنا محمد کہ میں نبوت کا دعویٰ کروں.بعد اس کے کہ المصطفى صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے ہمارے نبی سید و مولا محمد مصطفی مے کو خاتم الانبیاء بنایا ہے.خاتم النبيين.ن ومن اعتراضاتهم أنهم قالوا إن اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ المسيح الموعود لا يأتي إلا عند کہتے ہیں کہ مسیح موعود قیامت کے قریب اور اُس کی قُرب القيامة وظهور أماراتها الكبرى بڑی بڑی علامات کے ظہور کے وقت یعنی یا جوج يعنى ظهور يأجوج ومأجوج ، ودابة ماجوج اور دابتہ الارض اور اُس دجال کے ظہور کے الأرض، والدجّال الذي تسير معه وقت جس کے ساتھ ساتھ جنت اور دوزخ چلیں الجنة والنار، وطلوع الشمس من گے اور سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے مغربها، وما ظهر شيء من هذه وقت آئے گا، حالانکہ ان علامات میں سے کوئی العلامات..فمن اين جاء المسیح علامت بھی ابھی ظاہر نہیں ہوئی.تو پھر دیگر نشانات الموعود مع عدم مجیء آیات کے آئے بغیر مسیح موعود کہاں سے آ گیا اور اس پر أخرى؟ وكيف يطمئن القلب على دل کیسے مطمئن ہو سکتا ہے اور تشفی اور یقین کیسے هذا وكيف يحصل الثلج واليقين؟ حاصل ہوسکتا ہے؟ أما الجواب فـاعـلـم أن اس ( اعتراض) کا جواب یہ ہے کہ تو جان لے کہ هذه الأنباء قد تمت كلها، يہ تمام کی تمام پیش خبریاں اسی طرح پوری ہو گئیں
حمامة البشرى ۳۰۵ اردو ترجمه ووقعت كما كان في الآثار المنتقاة اور وقوع میں آگئیں جیسا کہ اہل ثقہ کی مدوّن و المدونة عن الثقات، ولكن الناس منتخب احادیث میں وہ موجود ہیں لیکن لوگوں نے ما عرفوها وكانوا غافلين.اُنہیں نہ پہنچانا اور غافل رہے.والكلام المفصل في ذلك أن اور اس بارے میں تفصیلی کلام یہ ہے کہ أمارات القيامة على قسمين: قیامت کی نشانیاں دو قسم کی ہیں.علامات صغریٰ الأمارات الصغرى، والأمارات اور علامات گبری.جہاں تک علامات صغریٰ الكبرى.أما الأمارات الصغرى فقد کا تعلق ہے تو وہ کبھی اپنی ظاہری شکل میں تبدو وتظهر على صورتها الظاهرة، ظاہر ہوتی ہیں اور کبھی ان کا وجود استعارات وقد تنكشف وجودها في حلل کے پیرائے میں منکشف ہوتا ہے.لیکن علاماتِ الاستعارات.ولكن الأمارات گبری اپنی ظاہری شکل میں بالکل ظاہر الكبرى فلا تظهر على صورتها نہیں ہوتیں.اور اُن کے لئے ضروری ہے کہ الظاهرة أصلا، ولا بُدَّ فيها أن تظهر في حلل الاستعارات والمجازات.والسر في هذا الأمر أن الساعة لا وہ استعارات اور مجازات کے لبادے میں ظاہر ہوں.اور اس معاملہ میں راز یہ ہے کہ قیامت اچانک آئے گی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ تأتى إلا بغتة كما قال الله تعالى نے فرمایا: يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ يَتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَرَى لَا يُجَلِّيْهَا مُرْسَهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَوتِ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيْكُمْ إِلَّا بَغُتَةُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيْكُمُ إِلَّا يَسْتَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا بَغْتَةً يَسْتَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ
حمامة البشرى لَا يَعْلَمُونَ.۳۰۶ لَا يَعْلَمُونَ اردو ترجمه وقال فی مقام آخر أَفَأَمِنُوا آن ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَفَأَمِنُوا تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللهِ أَوْ أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةً مِنْ عَذَابِ اللَّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ - قُلْ هَذِهِ يَشْعُرُونَ.قُلْ هُذِهِ سَبِيْلِي ادْعُوا سَبِيلِي ادْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَمَنِ اتَّبَعَنِي ( نیز سورۃ الانبیاء میں فرمایا کہ ) بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ رَدَّهَا رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنْظُرُونَ.وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ وقال كَذلِكَ سَلَكْنُهُ فِي قُلُوبِ نیز فرمایا كَذَلِكَ سَلَكْنَهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِيْنَ - الْمُجْرِمِينَ.لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهِ حَتَّى يَرَوْا لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْآلِيمَ.الْعَذَابَ الْأَلِيمَ ، فَيَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ فَيَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ لَا يَشْعُرُونَ.لے وہ تجھ سے قیامت سے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کب اُسے بپا ہوتا ہے تو کہ دے کہ اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے اسے اپنے وقت پر کوئی ظاہر نہیں کرے گا مگر وہی وہ آسمانوں اور زمین پر بھاری ہے وہ تم پر نہیں آئے گی مگر دفعہ وہ (اس کے بارہ میں ) تجھ سے اس طرح سوال کرتے ہیں گویا کہ تو اس کے متعلق سب کچھ جانتا ہے تو کہہ دے کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ ( یہ بات) نہیں جانتے.(الاعراف: ۱۸۸) ے پس کیا وہ اس بات سے امن میں ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے عذاب میں سے کوئی ڈھانپ دینے والی (مصیبت) آئے یا انقلاب کی ) گھڑی اچانک آ جائے جب کہ وہ (اس کا ) کوئی شعور نہ رکھتے ہوں.تو کہہ دے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں بصیرت پر ہوں اور وہ بھی جس نے میری پیروی کی.(یوسف: ۱۰۹،۱۰۸) ے بلکہ وہ ( گھڑی) اُن تک اچانک آئے گی اور انہیں مبہوت کر دے گی اور وہ اسے (اپنے سے ) پرے کر دینے کی طاقت نہیں رکھیں گے اور نہ ہی وہ مہلت دیئے جائیں گے.(الانبیاء: ۴۱) ے اسی طرح ہم نے مجرموں کے دلوں میں اس (بات) کو داخل کر دیا ہے.(کہ) وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں.پس وہ (عذاب) ان کی لاعلمی میں ان کے پاس اچانک آجائے گا.(الشعراء: ۲۰۱تا۲۰۳)
حمامة البشرى ۳۰۷ اردو ترجمه وقال هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ نیز فرمایا : هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ اَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ.تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ وقال وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا فِی نیز فرمایا: وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ أوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ.يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ يَوْمٍ عَقِيمٍ فثبت من قوله عزّوجلّ أعنى وَلَا پس اللہ عزوجل کے قول وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ سے یہ ثابت ہو گیا کہ شک أن العلامات القطعية المزيلة للمرية، وشبہ کو دور کرنے والے قطعی نشانات اور ظاہری والأمارات الظاهرة الناطقة الدالة ناطق نشانیاں جو قرب قیامت پر دلالت کرتی ہیں على قرب القيامة..لا تظهر أبدًا، کبھی ظاہر نہ ہوں گی.ہاں البتہ وہ نظری نشانات وإنما تظهر آيات نظریة التی ظاہر ہوں گے جو تاویلات کے محتاج ہوتے ہیں تحتاج إلى التأويلات، ولا تظهر اور وہ بھی صرف استعارات کے لبادہ میں ظاہر إِلَّا في حلل الاستعارات والا ہوتے ہیں.ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آسمان کے فكيف يمكن أن تنفتح أبواب دروازے کھل جائیں اور ان سے عیسی“ لوگوں کی السماء وينزل منها عیسی امام آنکھوں کے سامنے نازل ہوں اور اُن کے (۸۴) أعين الناس وفي يده حربة، وتنزل ہاتھ میں ایک برچھی ہو اور فرشتے اُن کے ساتھ الملائكة معه، وتنشق الأرض وتخرج نازل ہوں اور زمین پھٹ جائے اور اس میں منها دابة عجيبة تكلّم الناس سے ایک عجیب جانور نکلے جولوگوں سے یہ کہے لے کیا وہ اس کے سوا کچھ اور انتظار کر رہے ہیں کہ (قیامت کی گھڑی ان کے پاس اچانک اس طرح آجائے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے.(الزخرف: ۶۷) ے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہمیشہ اس کے متعلق شک میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ اچانک ان تک انقلاب کی گھڑی آپہنچے گی یا ایسے دن کا عذاب انہیں آئے گا جو خوشیوں سے عاری ہوگا.(الحج:۵۶)
حمامة البشرى ۳۰۸ اردو ترجمه أن الدين عند الله هو الإسلام، کہ اللہ کے نزدیک اصل دین اسلام ہی ہے.اور ويخرج يأجوج ومأجوج بصورهم ياجوج ماجوج اپنی عجیب شکلوں میں نکلیں اور اُن الغريبة وآذانهم الطويلة، ويخرج کے کان لمبے ہوں.اور دجال کا گدھا نکلے اور لوگ حمار الدجّال ويرى الناس بين أذنيه اُس کے دوکانوں کے درمیان ستر گز کا فاصلہ سبعون باعا، ويخرج الدجال ویری دیکھیں.اور دجال نکلے اور لوگ اُس کے ساتھ الناس الجنة والنار معه والخزائن التي جنت اور دوزخ دیکھیں اور اُن خزانوں کو دیکھیں تتبعه، وتطلع الشمس من مغربها جو اس (رجال) کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اور سورج كما أخبر عنها رسول اللہ صلی اللہ اپنے مغرب سے طلوع ہو ، جیسا کہ رسول اللہ ملے عليه وسلم، ويسمع الخلق أصواتا نے اُس کی نسبت خبر دی ہے.اور مخلوق آسمان متواترة عن السماء أن المهدى خليفة سے لگا تار یہ آوازیں سنیں کہ مہدی اللہ کا الله، ومع ذلك يبقى الشك خلیفہ ہے اور اس کے باوجود کافروں کے دلوں والشبهة في قلوب الكافرين.میں شک وشبہ باقی رہے.ولأجل ذلك كتبتُ في كتبى اور اسی وجہ سے میں نے اپنی کتابوں میں کئی غير مرة أن هذه كلها استعارات بارية تحریر کیا ہے کہ یہ سب کے سب استعارات وما أراد الله بها إلا ابتلاء الناس ہیں.اور ایسا کرنے میں اللہ کی منشاء صرف یہ ليعلم من يعرفها بنور القلب ومن ہے کہ وہ لوگوں کو آزمائے تا اُسے یہ معلوم ہو يكون من الضالين.ولو فرضنا كه كون أن کو نور قلب سے پہچانتا ہے اور کون أنها تظهر بصورها الظاهرة گمراہوں میں سے ہے اور اگر ہم یہ فرض کر لیں فلا شك أن من ثمراتها الضرورية كہ وه ( علامات) اپنی ظاہری شکل میں ظاہر أن يرتفع الشك والشبهة ہوں گی تو بلا شبہ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ تمام والــمــريـة مـن قلوب الناس كلهم لوگوں کے دلوں سے شک وشبہ اور وہم دور ہوگا
حمامة البشرى ۳۰۹ اردو ترجمه كما يرتفع في يوم القيامة، فإذا جیسا کہ قیامت کے دن دور ہوگا.پس جب تمام زالت الشكوك ورفعت الحجب شکوک کا ازالہ ہو گیا اور سب حجاب اُٹھ گئے تو پھر فأى فرق بقى بعد انكشاف هذه ان (موجود) دنوں میں اور قیامت کے دن میں العلامات المهيبة الغريبة في تلك ان ہولناک عجیب علامات کے انکشاف کے بعد الأيام وفي يوم القيامة؟ کون سا فرق باقی رہ گیا ؟ انظر إليها العاقل أنه إذا رأى اے صاحب عقل غور کر ! کہ جب لوگ ایک شخص الناس رجلا نازلا من السماء وفی کو آسمان سے نازل ہوتے ہوئے دیکھیں کہ اُس يده حربة ومعه ملائكة الذين كانوا کے ہاتھ میں ایک برچھی ہے اور اس کے ساتھ غائبين من بدء الدنيا و كان الناس ایسے فرشتے ہیں جو دنیا کے آغاز سے غائب تھے يشكون في وجودهم فنزلوا اور لوگ اُن کے وجود کے بارے میں شک کیا وشهدوا أن الرسول حق، وكذلك کرتے تھے پھر وہ (فرشتے) اُتریں اور یہ گواہی سمع الناس صوت الله من السماء دیں کہ یہ رسول سچا ہے اور اسی طرح لوگ آسمان أن المهدى خليفة الله، وقرأوا لفظ سے اللہ کی یہ آواز سنیں کہ مہدی اللہ کا خلیفہ ہے اور الكافر في جبهة الدجال، ورأوا وہ دجال کی پیشانی پر کافر کا لفظ ( لکھا ہوا) پڑھیں أن الشمس قد طلعت من المغرب، اور یہ دیکھیں کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گیا ہے، وانشقت الأرض وخرجت منها زمین پھٹ گئی ہے اور اُس سے وہ دآبتہ الارض نکل دابة الأرض التي قدمه في الأرض کر باہر آ گیا ہے جس کا پاؤں زمین پر اور سر آسمان ورأسه تمس السماء ، ووسمت کو چھورہا ہے اور اُس نے مومن اور کافر پر نشان المؤمن والكافر، وكتبتُ ما بین لگایا ہے اور اُس نے اُن کی آنکھوں کے درمیان عينهم مؤمن أو كافر، وشهدت مؤمن يا كافر ( کا لفظ ) لکھا ہے اور اُس نے بآوازِ بأعلى صوتها بأن الإسلام حق بلند اس بات کی گواہی دی ہے کہ اسلام سچا ہے
حمامة البشرى ۳۱۰ اردو ترجمه وحصحص الحق وبرق من کل اور سچائی واضح ہوگئی ہے اور ہر پہلو سے روشن ہوگئی جهة، وتبينت أنوار صدق الإسلام ہے اور اسلام کی صداقت کے انوار ایسے ظاہر حتى شهد البهائم والسباع ہو گئے ہیں کہ چوپایوں، درندوں اور بچھوؤں تک والعقارب علی صدقہ، فکیف نے اس کی صداقت کی گواہی دے دی ہے تو پھر يمكن أن يبقى كافر على وجه کیسے ممکن ہے کہ یہ عظیم نشانات دیکھنے کے بعد بھی الأرض بعد رؤية هذه الآيات کوئی کافر روئے زمین پر باقی رہ جائے یا اللہ اور العظيمة، أو يبقى شك في الله روز قیامت کے بارے میں کوئی شک باقی رہ وفي يوم الساعة؟ فإن العلوم جائے کیونکہ حتی بدیہی علوم ایسی چیز ہیں کہ جنہیں الحسية البديهة شيء يقبله كافر کافر اور مومن ہر دو قبول کرتے ہیں اور اس بارے ومؤمن، ولا يختلف فيه أحد من میں اُن لوگوں میں سے جنہیں انسانی قومی دیئے الذين أعطوا قوى الإنسانية؛ مثلا گئے ہیں کوئی ایک بھی اختلاف نہیں کرتا مثلاً جب إذا كان النهار موجودًا والشمس دن موجود ہو اور سورج نکلا ہوا ہو اور لوگ جاگ طالعة والناس مستيقظين فلا ینکرہ رہے ہوں تو کافروں اور مومنوں میں سے کوئی بھی أحد من الكافرين والمؤمنين.اس کا انکار نہیں کرے گا.سو اسی طرح جب تمام فكذلك إذا رفعت الحجب كلها حجاب اُٹھا دیئے جاویں اور گواہیاں تواتر سے وتواترت الشهادات، وتظاهرت ظاہر ہوں اور نشانات ایک دوسرے کو تقویت الآيات، وظهرت المخفیات پہنچائیں اور مخفی امور ظاہر ہو جائیں اور فرشتوں کا وتنزلت الملائكة، وسمعت نزول ہو جائے اور آسمانی آواز میں سنائی دیں تو أصوات السماء ، فأى تفاوُت (پھر بتاؤ کہ کون سا فرق ان دنوں اور قیامت بقيت بين تلك الأيام وبين يوم کے دن کے درمیان باقی رہ جائے گا اور منکرین القيامة، وأى مفرّ بقى للمنكرين؟ کے لئے کون سی جائے فرار باقی رہ جائے گی؟
حمامة البشرى ۳۱۱ اردو ترجمه فلزم من ذلك أن يُسلم الكفار لہذا اس سے یہ لازم آئے گا کہ ان دنوں میں كلهم في تلك الأيام، ولا يبقى سب كا فرمسلمان ہو جائیں اور اُنہیں قیامت لهم شك في الساعة؛ ولكن کے بارے میں کوئی شک باقی نہ رہے.لیکن القرآن قد قال غير مرة إن الكفار قرآن نے کئی بار کہا ہے کہ کافر تا روز قیامت يبقون على كفرهم إلى يوم القيامة، اپنے کفر پر قائم رہیں گے اور وہ قیامت کے ويبـقـون فــي مــريتهم وشكهم في بارے میں اُس وقت تک شک وشبہ میں پڑے الساعة حتى تأتيهم الساعة بغتة رہیں گے یہاں تک کہ وہ گھڑی ان پر اچانک وهم لا يشعرون.ولفظ البغتة" آجائے اور انہیں احساس تک نہ ہو.اور بَغْتَةً تدل بدلالة واضحة على أن كا لفظ واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ العلامات القطعية التي لا تبقى ایسی قطعی علامات جن کے بعد ظہور قیامت میں شك بعده ، على وقوع القيامة لا کوئی شک نہیں رہتا، کبھی ظاہر نہ ہوں گی.اور اللہ تظهر أبدا، ولا تجليها الله انہیں اس طور پر ظاہر نہیں کرے گا کہ تمام حجاب بحيث تُرفع الحجب كلها وتكون اُٹھ جائیں اور یہ علامات قیامت کو دیکھنے کے (۸۵) تلك الأمارات مرآة يقينية لرؤية لئے ایک یقینی آئینہ ہوں.بلکہ یہ معاملہ قیامت القيامة، بل يبقى الأمر نظريا إلى كے دن تک غیر واضح رہے گا اور تمام علامات ظاہر يوم القيامة، والأمارات تظهر كلها ہو جائیں گی.لیکن ایسے بدیہی امر کی طرح نہیں ولكن لا كالأمر البديهي الذي لا جس کے قبول کرنے سے کوئی مفر نہ ہو بلکہ اُن مفر من قبوله، بل كأمور ينتفع منها امور کی مانند جن سے عقلمند لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں العاقلون، ولا يمسها الجاهلون اور جنہیں جاہل متعصب لوگ چھو نہیں سکتے.لہذا المتعصبون، فتدبَّرُ فى هذا المقام تو اس مقام پر تدبر کر کیونکہ یہ تدبر کرنے والوں کے لئے بصیرت افروز ہے.فإنه تبصرة للمتدبرين.
حمامة البشرى ۳۱۲ اردو ترجمه وأنت تعلم أن هذه الأنباء كلها اور تو جانتا ہے کہ یہ سب پیشگوئیاں مثلاً دابتہ الارض كخروج دابة الأرض وياجوج کا خروج اور یا جوج ماجوج اور دیگر علامات کے ومأجوج وغيرها، قد اختلفت ظہور کے بارے میں روایات نے ان کی وضاحت الآثار في تبيينها، ولم تُبيَّن علی کے بیان کرنے میں باہم اختلاف کیا ہے اور اُن کی نهج واحد، حتى إن بعض الصحابة تشریح ایک طرز اور طریق پر نہیں کی.یہاں تک کہ زعموا أن دآبة الأرض على رضى بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ دابتہ الارض (حضرت) الله عنه، فقيل له إن الناس يظنون على رضی اللہ عنہ ہیں.چنانچہ حضرت علیؓ سے کہا گیا أنك أنت دابة الأرض، فقال ألا کہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ آپ دابتہ الارض تعلمون أنه إنسان ومعه لوازم بعض ہیں.تو اس پر انہوں نے کہا، کیا تم نہیں جانتے کہ الحيوانات، ولها وبر وریش وہ انسان ہے لیکن اس کے ساتھ بعض حیوانوں کے وشيء فيه كالطير، وشيء فيه لوازم ہوں گے.اس کی پشم اور پر ہوں گے اور كالسباع، وشيء فيه كالبهائم، اُس میں کچھ چیزیں پرندوں جیسی اور کچھ درندوں وهو يسعى كمثل فرس ضليع جیسی اور کچھ چو پاؤں جیسی ہوں گی.اور وہ تین بار ثلاث مرة ولم يخرج إلا أقل من ایک مضبوط گھوڑے کی طرح تیز بھاگے گا لیکن ثلثيه، وما أنا إلا إنسان بحث ليس اپنے دو تہائی سے کم ہی نکلے گا.جبکہ میں تو محض على جلدی وبر ولا ريش..فکیف ایک انسان ہوں.میری جلد پر نہ تو پیشم ہے اور نہ أكون دابة الأرض؟ وقال بعض ہی پر.پھر میں کیسے دابتہ الارض ہو سکتا ہوں؟ الناس إن دابة الأرض التى ذكره اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ دابتہ الارض جس القرآن هو اسم الجنس لا اسم کا قرآن میں ذکر ہے وہ اسم جنس ہے کسی ایک شخص معين، فإذا انشقت الأرض معين شخص کا نام نہیں.پس جب زمین پھٹ جائے فيخرج منه ألوف من دوآب الأرض گی تو اس سے ہزاروں دابتہ الارض نکلیں گے.
حمامة البشرى ۳۱۳ اردو ترجمه شمی کل واحد منها دآبة جن میں سے ہر ایک کو دابتہ الارض کے نام سے الأرض لهم صور كصور الإنسان موسوم کیا جائے گا.ان کی شکلیں انسانوں کی سی اور اُن وأبدان كأبدان السباع والكلاب کے بدن درندوں، کتوں اور چوپاؤں کے بدنوں والبهائم.وقيل إنها حيوان لها جیسے ہوں گے.اور کہا گیا ہے کہ وہ ایک حیوان عنق طويلة..يراها المغربي كما ہے جس کی گردن لمبی ہے جسے ایک مغرب میں يراه المشرقي، ولها مناقير رہنے والا شخص ویسے ہی دیکھے گا جیسے مشرق میں الطيور، وهـي حيوان أصوف رہنے والا شخص.اور اس کی پرندوں جیسی چونچیں ذاتُ زَغب وذات وبر وریش ہوں گی اور وہ اُون والا روئیں والا پیشمی اور بالوں وفيها من كل لون من ألوان والا حیوان ہوگا.اور اُس میں جانوروں کے رنگوں الدواب، ولها أربع قوائم میں سے ہر رنگ ہوگا.اُس کی چار ٹانگیں ہوں گی.وفيها من كل أُمَّةٍ سِيْمَى، اور اس میں ہر امت کا نشان ہوگا اور اس اُمت کے وسيمـاهـا مـن هـذه الأمة أنها لئے اس کا نشان یہ ہے کہ وہ لوگوں سے فصیح عربی تكلم الناس بلسان عربی مبین زبان میں کلام کرے گا.اور اُن سے اُنہیں کی تكلّمهم بكلامهم.هذا قول زبان میں کلام کرے گا.یہ حضرت ابن عباس کا ابن عباس.وجاء من أبى هريرة قول ہے اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ وہ أنها ذات عصب و ریش اعصاب اور پروں والا ہوگا اور اس میں ہر رنگ وأن فيها من كل لون، ما بين موجود ہوگا.اور اُس کے دو سینگوں کے درمیان قرنيها فرسخ للراكب المُجد.تیز رفتار سوار کے لئے ایک فرسخ کا فاصلہ ہوگا.اور وعن ابن عمر قال إنها زَغْباءُ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ نرم روئیں رکھنے ذات وبر وريش.وعن حذيفة والا پشمی اور بالوں والا ہوگا.اور حضرت حذیفہ قال إنها سَلَمَّعَةٌ ذات وبر و ریش بیان کرتے ہیں کہ وہ پیشم اور بالوں والا بھیڑیا ہے
حمامة البشرى ۳۱۴ اردو ترجمه لن يدركها طالب ولا يفوتها کوئی پکڑنے والا اُس تک پہنچ نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی هارب.وعن عمرو بن العاص قال بھاگنے والا اُس سے آگے نکل سکتا ہے.اور حضرت إنها حيوان طويل القامة، رأسه يبلغ عمرو بن العاص سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ السماء ويمسها ولم يخرج رجلاه در از قدحیوان ہے جس کا سر آسمان کو پہنچا ہوگا اور اُس من الأرض، وإنها لتخرج كجرى كے دونوں پاؤں زمین سے نہیں نکلیں گے.اور وہ الفرس ثلاثة أيام لم يخرج ثلثا گھوڑے کی طرح تین دن سرپٹ دوڑے گا.اور ایک وعن ابن زبير قال هى دابة رأسها تہائی بھی نہیں نکلے گا.اور حضرت ابن زبیر سے روایت كرأس البقر، وعينها كعین ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا جانور ہوگا جس کا سر الخنزير، وأذنها كأذن الفيل، گائے کے سرجیسا، آنکھیں سور کی آنکھوں جیسی ، کان وقرنها كقرن الأيل، وعنقها كعنق ہاتھی کے کان جیسے اور سینگ بارہ سنگے کے سینگ جیسے النعامة، وصدرها كصدر الأسد، اور اُس کی گردن شتر مرغ کی گردن جیسی اور اُس کا سینہ ولونها كلون النمر، وخاصرها شیر کے سینے جیسا اور اُس کا رنگ چیتے کے رنگ کی كخاصر السنور، و ذنبها كذنب طرح اور اُس کی کمربانی کی کمر جیسی اور اُس کی دُم بکرے المعيز، وأرجلها كقوائم الإبل، وما کی دم جیسی اور اُس کی ٹانگیں اُونٹ کی ٹانگوں کی طرح بين مفصليها اثنا عشر ذراعا وعن اور اُس کے ہر دو جوڑوں کے درمیان بارہ گز کا فاصلہ عاصم بن حبيب بن اصبھان ہوگا.اور عاصم بن حبیب بن اصبہان سے روایت قال رأيت عليا يقول إن دابة ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے (حضرت علیؓ کو یہ الأرض تـأكـل بـفيها و تتكلم من فرماتے ہوئے دیکھا کہ دابتہ الارض اپنے منہ سے کھائے گا إستها.وجاء في بعض الأحادیث اور اپنے سرین سے کلام کرے گا.اور بعض احادیث أنها تخرج ويكون معها عصا میں آیا ہے کہ وہ خروج کرے گا اور اُس کے ساتھ موسى و خاتم سليمان بن داؤد، موسیٰ کا عصا اور سلیمان ابن داؤد کی انگوٹھی ہوگی
حمامة البشرى ۳۱۵ اردو ترجمه وينادي بأعلى صوت أن اور وہ بآواز بلند منادی کرے گا کہ لوگ ہمارے الناس كانوا بآياتنا غافلین نشانوں سے لا پرواہ تھے.اور وہ مومن اور کافر پر وتسم المؤمن والكافر..أما نشان لگائے گا.پھر جو مومن ہوگا تو اُس کا چہرہ المؤمن فيبرق وجهه بعد الوسم نشان لگنے کے بعد روشن ستارے کی طرح دمک كالكوكب الدرى، وتكتب اُٹھے گا اور وہ دآبۃ (الارض) اُس کی دونوں (۸۶) الدابة ما بين عينيه لفظ المؤمن، آنکھوں کے درمیان لفظ مومن لکھے گا.اور جو کافر وأما الكافر فتكتب ما بين عينيه ہوگا تو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ کا فر لفظ الكافر كنقطة سوداء.وجاء سياه نقطے کی طرح لکھے گا.اور ایک روایت میں آیا في رواية أن لها صـوتـا عـال ہے کہ اُس کی آواز اتنی بلند ہے جسے مشرق و مغرب يسمعها كل من هو في الخافقین میں جو بھی ہے سُنے گا.اور وہ ابلیس کو قتل کرے گا وهي تقتل إبليس وتمزقه.وفى اور پارہ پارہ کردے گا.اور اُس کے خروج کی مواضع خروجها وأزمنة ظهورها جگہوں اور اس کے ظہور کے زمانوں میں عجیب اختلافات عجيبة تركنا ذكرها طرح کے اختلافات پائے جاتے ہیں.لیکن ہم اجتنابا من طول الكلام.وقالوا نے طول کلام سے اجتناب کرتے ہوئے اُس کا ذکر إنها تخرج فی زمان واحد من چھوڑ دیا ہے.اور لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اُس أمكنة متعددة..تخرج من أرض کا ایک زمانے میں متعدد جگہوں سے خروج ہو گا.مكة، وتخرج من أرض المدينة، وہ سرزمین مکہ سے بھی نکلے گا اور سرزمین مدینہ وتخرج من أرض اليمن، فیری سے بھی نمودار ہوگا اور یمن کی سرزمین سے بھی صورته في الأمكنة المختلفة بطور خروج کرے گا.پس وہ مختلف جگہوں میں خارق خرق العادة في الصور المثالية.عادت طور پر مثالی شکلوں میں اپنی صورت دکھائے فمن ههنا يثبت عالم المثال | گا.پس یہاں سے عالم مثال ثابت ہوتا ہے.
حمامة البشرى ۳۱۶ اردو ترجمه وأعجبني أن علماء نا قد جوزوا اور مجھے تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے علماء نے هذه الصور المثالية فى خروج دابۃ الارض کے خروج کے بارے میں ان مثالی دابة الأرض، وقالوا إن لها صورتوں کو جائز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تكون قدرة على كونها موجودة بیک وقت اُسے مشرق اور مغرب میں موجود في المشرق والمغرب في آن ہونے کی قدرت حاصل ہوگی.جبکہ وہ ایسی واحد، وهم لا يجوزون هذه قدرت کو فرشتوں کے لئے جائز قرار نہیں القدرة للملائكة، ويقولون إنهم دیتے اور کہتے ہیں کہ جب وہ (فرشتے) إذا نزلوا من السماء فلا بد من أن آسمان سے نازل ہوں تو ضروری ہے کہ تمام تبقى السماوات خالية منهم، وإن آسمان اُن سے خالی ہو جا ئیں.حالانکہ کھلی کھلی حماقت ہے.هذا إلا حمق مبين.هذا ما جاء في حال دابة یہ وہ بیان ہے جو دآبتہ الارض کے بارے میں الأرض في كتب الأحاديث مع كتب احادیث میں اختلافات اور تناقضات اختلافات وتناقضات حتی ان کے ساتھ آیا ہے.یہاں تک کہ اکثر صحابہ یہ أكثر الصحابة ظنوا أنه إنسان خیال کرنے لگے کہ وہ فقط انسان ہی ہے.اور فقط، ولأجل ذلك حسبوا أن اسی وجہ سے اُنہوں نے خیال کیا کہ (حضرت) عليا هو دابة الأرض.ومن أعجب على هى دابتہ الارض ہیں.اور سب سے عجیب العجائب أن بعض الأحاديث تدل تو یہ ہے کہ بعض احادیث دلالت کرتی ہیں کہ على أن دابة الأرض مؤمنة تؤيّد دابة الارض مومن ہوگا جو مومنوں کی تائید المؤمنين وتخزی الکافرین کرے گا اور کافروں کو ذلیل کرے گا.اور گواہی وتشهد أن دين الإسلام حق دے گا کہ دینِ اسلام حق ہے یہاں تک کہ وہ حتى إنها تقتل إبليس وتمزقه، ابلیس کو قتل کر کے اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.
حمامة البشرى ۳۱۷ اردو ترجمه وبعض الأحاديث يدل على اور بعض احادیث دلالت کرتی ہیں کہ وہ (دآستہ أنها امرأة كافرة خادمة للشيطان الارض ایک کا فرعورت ہے جو شیطان کی خادمہ وجساسة للدجال وليس فيها خير؛ اور دجال کی جاسوس ہے اور اُس میں کوئی نیکی فلا يمكن التوفيق بينهما إلا أن نہیں پائی جاتی.ان دونوں قسم کی احادیث میں نقول إن المراد من دابة الأرض مطابقت کا اس کے سوا کوئی امکان نہیں کہ ہم علماء السوء الذين يشهدون | یہ کہیں کہ دابتہ الارض سے مراد علماء سوء ہیں جو اپنے بأقوالهم أن الرسول حق والقرآن اقوال سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ رسول حق ہے اور حق، ثم يعملون الخبائث قرآن حق ہے لیکن پھر بھی وہ گندے کام کرتے ويخدمون الدجال، كان وجودهم ہیں.اور دجال کی خدمت کرتے ہیں.گویا اُن من الجزئين..جزء مع الإسلام کا وجود دو اجزا سے مرکب ہے.ایک جز اسلام وجزء مـع الكفر، أقوالهم كأقوال کے ساتھ ہے.اور دوسرا جز کفر کے ساتھ.اُن الـمـؤمـنـيـن، وأفـعـالـهـم کـافعال کے اقوال مومنوں کے اقوال کی مانند اور اُن کے الكافرين.فأخبر رسول اللہ صلی افعال کافروں کے افعال جیسے ہیں.پس یہی الله عليه وسلم عن أنهم وجہ سے کہ ) رسول اللہ ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی يكثرون في آخر الزمان، وسُموا که ( علماء سوء) آخری زمانے میں کثرت سے ہوں دابة الأرض لأنهم أخلدوا إلى گے.اور ان کا نام دآبۃ الارض رکھا گیا ہے کیونکہ الأرض، وما أرادوا أن يُرفعوا إلى وہ زمین کی جانب جھکے ہوئے ہوں گے اور نہیں السماء ، واطمأنوا بالدنیا چاہیں گے کہ انہیں آسمان کی طرف بلند کیا جائے اور وشهواتها، وما بقى لهم قلب وہ دنیا اور اُس کی شہوات پر مطمئن ہوں گے اور انسان كالإنسان، واجتمعت فيهم عادات جیسا دل اُن میں باقی نہیں رہے گا.اور درندوں، السباع والخنازير والكلاب سوروں اور کتوں کی عادات اُن میں جمع ہوں گی.
حمامة البشرى ۳۱۸ اردو ترجمه تراهم مستكبرين متبخترين كانهم انہیں تو متکبر اور خود پسند پائے گا.گویا کہ انہوں بلغوا السماء ومسوها، ولم نے آسمان تک پہنچ کر اُسے چھولیا ہے حالانکہ دنیا تخرج أرجلهم من الأرض من شدة كى طرف شدید جھکاؤ کی وجہ سے اُن کے پاؤں انتكاسهم إلى الدنيا، فهم كالذی زمین سے نکلے ہی نہیں.وہ اُس شخص کی طرح ہیں هدد أسره و کالمسجونين جس کی قیدیوں کی طرح مشکیں کسی گئی ہوں.وہ يكلمون الناس من الإست لا من لوگوں سے منہ کے ذریعہ نہیں بلکہ سُرین کے الأفواه، يعنى ولا تجد فى كلماتهم ذریعہ کلام کریں گے یعنی تو اُن کی گفتگو میں وہ طهارة وبركة واستقامة ونورانية پاکیزگی، برکت، استقامت اور نورانیت نہیں پائے گا جو نیکوں کی گفتگو میں ہوتی ہے.ككلمات الصالحين ۸۶ ـ قال قائل لو كان هذا هو الحق..أن.ایک شخص نے اعتراض کیا ہے کہ اگر یہی سچ ہے کہ دآبتہ دابة الأرض هي طائفة علماء هذا الزمان الارض اس زمانے کے علماء کا ایک گروہ ہی ہے تو پھر لازم فيلزم أن يكون تكفيرهم حقا وصدقا، فإن آئے گا کہ اُن کا کسی کو کا فرقرار دینا حق اور سچ ہو، کیونکہ دابتہ الارض من شأن دابة الأرض أنها تسم المؤمن کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ مومن اور کافر کو نشان لگائے گا والكافر، فمن جعله الدابةُ كافرا (يُشیر تو پھر جس شخص کو وہ دآپے الارض کا فر قرار دے.( معترض المعترض إلينا فعليكم أن تقروا بكفره کا اشارہ ہماری جانب ہے ) تو تم پر یہ لازم ہے کہ تم اُس کے فإن التكفير بمنزلة الوسم من دابة کفر کا اقرار کرو.( دابتہ الارض علماء کا ) کسی کو کافر قرار الأرض.فيُقال في جواب هذا المعترض دینا دابتہ الارض کے نشان لگانے کے مترادف ہے.پس إن المراد من الوسم إظهار كفر کافر اس معترض کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ نشان سے مراد وإيمان مؤمن، فهذا الإظهار على نوعين کافر کے کفر اور مومن کے ایمان کا اظہار ہے.پس یہ اظہار قد يكون بالأقوال وقد يكون بالأفعال دو قسم کا ہے.کبھی تو وہ اقوال کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی ونتائجها.وقد جرت سنة الله أنه افعال اور ان کے نتائج کے ساتھ ہوتا ہے.اور اللہ کی سنت قد يجعل الكافرين والفاسقين عله جاریہ ہے کہ کبھی تو وہ کافروں اور فاسقوں کو اپنے انبیا ءاور موجبة لظهور أنوار إيمان أنبيائه وأوليائه ، اولیاء کے انوار ایمان کے اظہار کا لازمی سبب بنا دیتا ہے.
حمامة البشرى ۳۱۹ اردو ترجمه ومن اعتراضاتهم ما قيل اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ إن بعض أجل مشائخهم قال ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے بڑے مشائخ إني رأيت رسول اللہ صلی میں سے ایک نے یہ کہا ہے کہ میں نے رسول الله عليه وسلم في المنام وسألته الله علیہ کو خواب میں دیکھا اور آپ سے اس عن هذا الرجل (يعني عن شخص (یعنی مولف کتاب ہذا) کے بارہ المؤلف) أهو كاذب أم صادق ؟ دریافت کیا کہ آیا وہ شخص کا ذب ہے یا صادق؟ بقية الحاشية ألا ترى إلى سيدنا ونبينا بقیہ حاشیہ کیا تو ہمارے آقا، ہمارے نبی حضرت محمد محمد المصطفى صلعم كيف كانت عداوة مصطفی ﷺ کی طرف نہیں دیکھتا کہ کس طرح ابو جہل اور اُس أبي جهل وأمثاله موجبة لإنارة صدقه وضیاء جیسے لوگوں کی عداوت آپ کے صدق کی تنویر اور آپ کے نور إيـمـانـه ولــو لـم يكن أبو جهل وإخوانه من ایمان کی ضیاء پاشی کا موجب بنی.اگر ابو جہل اور اُس کے الـمـعـــاديــن لـبـقـى كثير من أنوار الصدق دوسرے معاند بھائی بند نہ ہوتے تو صدق محمدی کے بہت سے المحمدى فى مكمن الاختفاء ، فإذا أراد انوار پردہ اختفاء میں رہ جاتے.پس جب اللہ نے ارادہ فرمایا الله أن يُظهر صدق نبيه صلعم بین الناس کہ وہ اپنے نبی ﷺ کے صدق کو لوگوں میں ظاہر کرے تو اُس فجعل له الحاسدين المعاندين المعادين في نے اس زمین میں ابو جہل اور دوسرے شریروں کو آپ علیہ کا الأرض كأبي جهل وشياطين آخرین ،حاسد معاند اور دشمن بنا دیا تو انہوں نے ہر طرح کے منصوبے فمكروا كل المكر وآذوا كل الإيذاء بنائے اور ہر طرح کی ایذا پہنچائی اور آسمان سے نازل ہونے وسعوا لإطفاء أنوار نزلت من السماء والے انوار کو بجھانے کی پوری کوشش کی.لیکن وہ اس سے عاجز فعجزوا عن ذلك، وجاء الحق وزهق رہے.اور حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.اور اللہ کا امر ظاہر الباطل، وظهر أمر الله ولو كانوا كارهين فجاز ہو گیا.گو وہ اُسے نا پسند کرتے تھے.اس لئے یہ کہنا جائز ہے کہ : 6 علی أن يُقال إن أبا جهل وأمثاله كانوا سببا لظهور ابو جہل اور اس جیسے دوسرے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صدق الــمــصــطــفـى وإيمانه الطيب و أنواره صدق ، آپ کے پاکیزہ ایمان اور آپ کے انوار عالیہ کو ظاہر العليا، فكذلك نقول إن دابة الأرض التي کرنے کا سبب بنے.پس اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ دابتہ هـي خـادمـة الـشـيـطـان..أعـنـى التي تتكلم الارض جو شیطان کی خادمہ ہے.یعنی جو مقعد سے بات کرتی بالإست لا بالفم كالصالحين من نوع الإنسان ہے، نہ کہ صالحین کی طرح منہ سے، جو نوع انسان میں سے ہیں.
حمامة البشرى ۳۲۰ اردو ترجمه فقال صادق و من عند الله، ولكن تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ سچا ہے اور اللہ کی الله يمازحه أما الجواب فاعلم أن طرف سے ہے.لیکن اللہ اُس سے ٹھٹھا کر رہا ہے.ذلك الشيخ قد أرسل إلى رسولین اس کا جواب یہ ہے کہ تو جان لے کہ اس بزرگ من عنده، كان اسم أحدهما نے اپنے دو قاصد میری طرف بھیجے.ان میں سے الخليفه عبد اللطيف، واسم الثانی ایک کا نام خلیفہ عبداللطیف اور دوسرے کا نام خلیفہ الخليفه عبد الله العرب، فجاء ا عبد اللہ عرب ہے.وہ میرے پاس فیروز پور مقام میں إلى فـي مـقـام فیروز فور وقالا قد آئے اور اُنہوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی طرف ہمارے أرسلنا إليك شيخنا صاحب العلم بزرگ صَاحِبُ الْعَلَم پیر جھنڈے والے نے یہ يقول إني رأيت رسول الله صلى کہہ کر بھیجا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی الله عليه وسلم و استفسرته فی زیارت کی اور میں نے حضور علیہ سے آپ کے أمرك وقلت بين لي يا رسول الله بارے میں استفسار کیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! أهو كاذب مفترى أم صادق ؟ مجھے بتائیے کہ کیا وہ جھوٹا مفتری ہے یا سچا؟ تو فقال رسول الله صلى الله علیه رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّهُ صَادِقٌ وَمِنْ وسلم إنه صادق ومن عند الله.عِندِ الله ، یعنی وہ سچا ہے اور منجانب اللہ ہے.اسم هذا الشيخ : پير صاحب العلم ہے.اس بزرگ کا نام پیر جھنڈے والا ہے اور وہ سندھ کے علاقے ويسكن في بعض بلاد السندھ.وسمعت کے رہنے والے ہیں.اور میں نے سُنا ہے کہ وہ اس علاقے کے أنه من مشاهير مشائخ تلك البلاد و جماعة مشہور مشائخ میں سے ہیں.اور اُن کے مریدوں کی جماعت ایک مبايعيه قريب من مئة ألف أو يزيدون منه لاکھ کے قریب بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے.منہ بقية الحاشية هي تسم المؤمن بمعنی بقیہ حاشیہ.جو مومن کو اس معنی میں نشان لگاتی ہے کہ وہ اُس أنهـا تـظـهـر أنــوار إيمانه كما أظهر أبو جهل (مومن) کے ایمان کے انوار کو ویسے ہی ظاہر کرتی ہے جیسے ابو جہل أنوار إيمان خاتم النبيين، فتفكر ولا تكن نے حضرت خاتم النبین ﷺ کے انوار ایمانیہ کو ظاہر کیا.پس غور کر اور پاگل دیوانوں کی طرح مت ہو.منہ كالمعتوه والمجانين.منه
حمامة البشرى ۳۲۱ اردو ترجمه من المطاوعين.فعرفت أنك على حق مبين تو میں نے پہچان لیا کہ آپ واضح حق پر ہیں.اور اس وبعد ذلك لا نشك في أمرك كے بعد ہم آپ کے بارے میں کوئی شک نہیں کرتے ولا نرتاب في شأنك، ونعمل اور نہ آپ کی شان میں ہمیں کوئی شبہ ہے.اور ہم كما تأمر ، فإن أمرتنا أن اذهبوا آپ کے حکم کے مطابق عمل کریں گے، اگر آپ ہمیں إلى بلاد الأمريكه فإنا نذهب حکم دیں کہ امریکہ کے علاقے میں چلے جاؤ، تو ہم إليها، وما تكون لنا خيرةً في وہاں چلے جائیں گے اور ہمیں اپنے معاملہ میں کوئی أمرنا، وستجدنا إن شاء الله اختیار نہ ہوگا اور انشاء اللہ آپ ہمیں بشاشت کے ساتھ اطاعت گزاروں میں پائیں گے.هذا ما قال رسولاه وكانا یہ وہ بات ہے جو اُس (بزرگ) کے دونوں من شرفاء القوم، بل الذى پیغام لانے والوں نے کہی اور یہ دونوں ہی اپنی قوم كان اسمه عبد الله العرب کے شرفاء میں سے ہیں.بلکہ وہ شخص جس کا نام هو من مشاهير التجار، ومن عبداللہ عرب ہے، مشہور تاجروں میں سے ہے.اللـه عـلـيـه بأموال كثيرة وباقیات اور اللہ نے اُسے کثرت اموال اور باقی رہنے صالحة، وأظن أنه رجل والے اعمال صالحہ سے نوازا ہے اور میرا خیال ہے صالح لا يكذب، وقد أنفق کہ وہ نیک آدمی ہے جھوٹ نہیں بولتا اور اُس نے مالا کثیرا فی سبیل اللہ اللہ کی راہ اور مہماتِ دینیہ میں بہت سا مال خرچ ومهمات الدین، وله هم کثیر کیا ہے اور اُسے اعلائے کلمہ اسلام کی بہت فکر ہے اور لإعلاء كلمة الإسلام، وما جاء نی اور وہ میرے پاس محض صدق قدم اور اخلاص کے إلا على قدم الصدق والإخلاص ، ساتھ آیا تھا اور وہ (دونوں) نہیں آئے جب تک وما جاء إلا بعدما أرسلهما کہ اُن کے شیخ نے ان کو (میرے پاس نہیں شيخهما، ففكر ديانةً وإنصافا بھیجا.پس تو دیانت اور انصاف کے ساتھ سوچ!
حمامة البشرى ۳۲۲ اردو ترجمه أ أرسلهما شيخهما من ديار بعيدة کہ کیا ان کے شیخ نے انہیں اتنے دور کے علاقے على تحمل مصارف السبیل سے راستے کے اخراجات اور موسم سرما میں سفر کی وتكاليف السفر في أيام الشتاء صعوبتیں اُٹھانے کے بعد اس لئے بھیجا تھا کہ وہ دونوں ليبلغامنه كلمة المزاح، ويؤذيا اُس (شیخ) کی طرف سے مزاح کی بات پہنچا ئیں على خلاف السنة أهل الصلاح ؟ اور وہ دونوں خلاف سنت نیکوکاروں کو ایذا دیں؟ وہ وإنهما حيان موجودان، والشيخ دونوں زندہ موجود ہیں اور شیخ صاحب بھی زندہ موجود حتى موجود فاسألهما وشيخهما ہیں.پس تو ان سے اور ان کے شیخ سے پوچھ لے إن كنت من المرتابين ومع اگر تو شک کرنے والوں میں سے ہے.علاوہ ازیں ذلك نسبة المزاح إلى الله اللہ تعالیٰ کی طرف مزاح کو منسوب کرنا ایک ایسی تعالى قول ترى حقيقته، وأنت بات ہے جس کی حقیقت کو تو خوب جانتا ہے اور تعلم أن المزاح نوع من الكذب، تجھے معلوم ہے کہ مزاح جھوٹ کی ایک قسم ہے ولا يصح عليه سبحانه الكذب، اور الله سُبْحَانَهُ تَعَالٰی کی طرف جھوٹ منسوب فإنه رجس ومن ال النقائص کرنا درست نہیں.کیونکہ جھوٹ پلید اور عیوب والنقائص كلها تستحیل علیہ میں سے ہے اور تمام عیوب ذاتا، عقلاً اور عرفاً تعالى ذاتا، عقلا وعُرفًا، وقد اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہیں.اور علماء کا اس بات اتفق العلماء على ان الله تعالی لا پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ نہیں بولتا اور وعدہ يكذب ولا يخلف المیعاد خلافی نہیں کرتا.جھوٹ بولنا اُس کے لئے محال والكذب عـلـيـه مُحال لما فيه من ہے کیونکہ جھوٹ میں بے بسی، جہالت اور أمارة العجز أو الجهل أو العبث بیہودگی کی علامت پائی جاتی ہے.اور پھر اس ولما فيه زيادة ونقص، ويتعالى الله میں کمی بیشی ہوتی ہے.اور اللہ تعالیٰ ان سب عن النقائص كلها وكل أنواعها.نقائص سے اور اُن کی ہرقسم کی انواع سے بالا ہے
حمامة البشرى ۳۲۳ اردو ترجمه وجواز الكذب في أخبارہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کی پیش خبریوں ، اُس کی وحی اور اُس ووحـيـه وإلهامه يُفضى إلى مفاسد کے الہام میں جھوٹ کا جواز بے حساب مفاسد کی لا تُحصى، قال فی شرح طرف لے جائے گا.صاحب شرح المواقف کہتے المواقف ويمتنع عليه الكذب ہیں کہ اللہ کی طرف جھوٹ کا منسوب کرنا بالاتفاق اتفاقا، ولو كان الله كاذبا لكان ممتنع ہے.اور اگر (بالفرض ) اللہ جھوٹا ہوتا تو اُس كذبه قديما إذ لا يقوم الحادث کا جھوٹ بالضرور قدیم سے ہوتا.جبکہ حادث، بذاته تعالى، فكيف يكون اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہو سکتا الكذب من صفاته القديمة وهو تو جھوٹ اُس کی صفات قدیمہ سے کیسے ہو گیا.جبکہ وہ اصدق الصادقین ہے.أصدق الصادقين.و من اعتراضاتهم أنهم قالوا اور اُن کے اعتراضوں میں سے ایک یہ ہے قد ثبت من القرآن أن عیسی کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن سے ثابت ہے کہ عليه السلام رفع إلى السماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقتول اور مصلوب غير مقتول ولا مصلوب ، وجاء ہوئے بغیر آسمان کی طرف رفع ہو چکا ہے اور ☆ في الأحاديث أنه سينزل احادیث میں آیا ہے کہ وہ عنقریب نازل ہوگا کہ الحاشية: - ولو كان عيسى راجعا حلا حاشیہ:.اگر عیسی رفع کے بعد دنیا کی طرف واپس إلى الدنيا بعد الرفع لقال رسول الله صلى | آنے والے ہوتے تو رسول اللہ لہ یوں فرماتے کہ الله عليه وسلم والله ليو شكن أن يرجع بخدا قریب ہے کہ وہ لوٹ آئے.لیکن آپ نے تو یہ ولكنه قال والله ليوشكن أن ينزل، فترك فرمایا ہے کہ بخدا قریب ہے کہ وہ نازل ہو.پس رسول الله صلى الله عليه وسلم لفظ رسول اللہ ﷺ کا رجوع کے لفظ کو ترک کرنا اور نزول الرجوع واختياره لفظ النزول دليل قوی کے لفظ کو اختیار فرمانا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ عیسی على أنه أراد من عيسى رجلا آخر ، لا عیسی سے آپ کی مراد کوئی اور شخص ہے.نہ کہ وہ عیسی ابن الذي هو نبي الله ابن مريم.منه الله مریم جو اللہ کے نبی ہیں.منہ
حمامة البشرى ۸۸ ۳۲۴ اردو ترجمه ويقتل الدجال، ويتزوج ويولد له، ثم اور وہ دجال کو قتل کرے گا اور شادی کرے گا اور يموت فيدفن في قبر رسول اللہ صلی اُس کی اولاد ہوگی.پھر وہ فوت ہوگا اور رسول اللہ الله عليه وسلم.وقد جاء في بعض ﷺ کی قبر میں دفن کیا جائے گا.اور بعض الأحاديث أنه لم يمت، وقد انعقد احادیث میں آیا ہے کہ وہ فوت نہیں ہوا اور جس الإجماع على مجيئه قبل موته فی زمان زمانہ میں اللہ مہدی کو مبعوث کرے گا اُس میں يبعث الله المهدى فيه، ويدعو على عیسیٰ کی قبل از موت آمد پر اجماع ہو چکا ہے اور وہ يأجوج ومأجوج فيموتون بدعائه، یا جوج اور ماجوج کے خلاف بد دعا کرے گا.تو وہ فكيف يمكن الإنكار من هذه الأحاديث أن كى بددعا سے مر جائیں گے.تو پھر ان التي اتفق عليها السلف والخلف احادیث کا کیسے انکار کیا جاسکتا ہے جن پر سلف والصحابة والتابعون والأئمة واكابر اور خلف، صحابہ، تابعین، ائمہ اور اکابر محدثین نے المحدثين؟ أما الجواب فاعلم أن اتفاق کیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ تو جان لے وفاة عيسى ثابت بالآيات التي ھی کہ عیسی (علیہ السلام) کی وفات قطعیۃ الدلالت قطعية الدلالة، لأن القرآن ما آیات سے ثابت ہے.کیونکہ قرآن نے لفظ استعمل لفظ التوفّى إلا للإماتة توفّى كو صرف موت دینے اور ہلاک کرنے کے کو والإهلاك، وصدق ذلك المعنى لئے ہی استعمال کیا ہے اور اس کے ان معنوں کی رسول الله صلى الله علیه وسلم رسول اللہ ﷺ نے بھی تصدیق فرمائی ہے.اور اس وشهد عليه رجل من الصحابة الذی پر صحابہ میں سے ایک ایسے شخص نے شہادت بھی دی كان أعلم بلغات قومه، و كان استنبط ہے جو اپنی قوم کی عام لغات کو سب سے زیادہ علم التفسير ووضعه، وكان له اليد جاننے والا تھا.جس نے علم تفسیر کا استنباط کیا اور الطولى والقدح المُعَلی فی تحقیق اُسے وضع کیا اور جسے عربی زبان کی تحقیق میں ید طولیٰ لسان العرب وكان من العارفین اور مہارت تامہ تھی اور وہ عارفوں میں سے تھا.
حمامة البشرى ۳۲۵ اردو ترجمه وأما شهادته فكما جاء في البخاري اُس کی شہادت جیسا کہ بخاری میں مذکور ہے اور متوفيك مميتك، وقال العينى شارح عينى شارح بخاری نے ابن ابی حاتم سے پوری سند البخارى رواه ابن أبي حاتم عن أبيه، کے ساتھ اس روایت کو حضرت ابن عباس تک قال حدثنا أبو صالح حدثنا معاوية عن پہنچایا ہے انہوں نے کہا کہ مُتَوَفِّيكَ : مُمِيْتُكَ على بن أبي طلحة عن ابن عباس قال ( يعنى مُتَوَفِّيكَ کے معنی مُمِيتُكَ کے ہیں) متوفيك مميتك.ثم اعلم أن ادعاء پھر تو یہ جان لے کہ (حضرت) عیسی کے مجسمہ الإجماع في عقيدة رفع عيسى حيا العنصری زندہ اُٹھائے جانے کے عقیدہ کے بارہ بجسمه العنصری باطل و کذب صریح میں اجماع کا دعوی باطل اور صریح جھوٹ ہے.قال ابن الأثير في كتابه الكامل إن ابن الاثیر نے اپنی کتاب الکامل میں کہا ہے کہ اہل أهل العلم قد اختلفوا في عیسی هل علم نے عیسی کے رفع کے بارے میں اختلاف کیا رفع قبل الموت أو بعده، فبعضهم ہے کہ آیا اُن کا رفع موت سے قبل ہوا یا بعد میں.ذهبوا إلى أنه رفع قبل الموت، پس اُن میں سے بعض اس طرف گئے ہیں کہ اُن وبعضهم ذهبوا إلى أنه مات إلى ثلاث كا رفع موت سے پہلے ہوا اور بعض اس طرف گئے ساعات أو سبع ساعات، وذهب ہیں کہ وہ تین گھنٹے یا سات گھنٹے تک مرے رہے.فريق من المعتزلة والجهمية أنه ما اور معتزلہ اور جہمیہ میں سے ایک فریق اس طرف رفع بجسمه العنصری بل مات و رفع گیا ہے کہ آپ کا رفع بجسمہ العنصر ی نہیں ہوا.بالرفع الروحاني، وما يكون نزوله إلا بلکہ وہ وفات پاگئے اور اُن کا رفع روحانی رفع ہوا.نزولا روحانيا كما كان الرفع اور اُن کا نزول بھی روحانی نزول ہوگا.جیسا کہ اُن روحانيا.وقد أثبت البخارى موته كا رفع روحانی تھا.اور بخاری نے اُن کی وفات في صحيحه بكتاب الله وحدیث کو اپنی صحیح میں کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی رسوله وقول بعض الصحابة.احادیث اور بعض صحابہ کے قول سے ثابت کیا ہے.
حمامة البشرى ۳۲۶ اردو ترجمه فأين ثبت الإجماع على رفعه حيا (پھر بتاؤ کہ ( تو اُن کے زندہ اُٹھائے جانے اور وعدم موته وكذلك ما اتفق اُن کے نہ مرنے پر اجماع کہاں ثابت ہوا.اور اسی المسلمون على دفنه في قبر رسول طرح مسلمان اُن کے رسول اللہ ﷺ کی قبر میں الله صلى الله علیه وسلم، وقال العینی دفن کئے جانے پر بھی متفق نہیں.اور عینی نے شرح في شرح البخاری قیل يُدفن فی بخاری میں کہا ہے کہ کہا گیا ہے کہ وہ ارض مقدسہ الأرض المقدسة وكذلك اختلِف میں دفن ہوں گے.اور اسی طرح اُن کے نزول کے في موضع نزوله، وفی حدیث ابن مقام کے متعلق بھی اختلاف ہے اور ابن عباس کی عباس قال سمعت رسول اللہ صلی حدیث میں ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله عليه وسلم يقول " ينزل أخى الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرا بھائی عیسی عیسی ابن مريم على جبل أفيق ابن مریم امام ، ہادی، حکم و عدل ہونے کی حالت إمامًا هاديًا حَكَمًا عادلا، بیدہ حربہ میں جبل افیق پر نازل ہوگا.اُس کے ہاتھ میں لقتل الدجال، وتضع الحرب دجال کو قتل کرنے کے لئے ایک برچھی ہوگی اور أوزارها.وأخرج نعيم بن حماد لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے گی.نعیم ابن حماد نے من طريق جبير بن نفير وشريح جُبير بن نفیر اور تشریح اور عمر ابن اسود اور کثیر ابن وعمر بن الأسود وكثير بن مرة مرہ کے طریق پر روایت کی ہے کہ لوگ کہتے ہیں قال قالوا إنما الدجال شیطان لا کہ دجال ہی شیطان ہے اس کے علاوہ اور کوئی غیره، یعنی یخرج فی آخر الزمان نہیں.یعنی وہ ( دجال ) آخری زمانے میں نکلے ويوسوس في صدور الناس ويقتله گا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرے گا المسيح بالحربة السماوية، یعنی اور مسیح اُسے آسمانی حربے یعنی نور کے ذریعے قتل بالنور والذين آمنوا من الصحابة کرے گا اور صحابہ میں سے جو اُن کے نزول پر ایمان بنزوله ما آمنوا إلا إجمالا، لائے تھے وہ صرف اجمالی طور پر ایمان لائے تھے.
حمامة البشرى ۳۲۷ اردو ترجمه والذين صرحوا في هذا الباب اور جنہوں نے اس باب میں صحابہ کے بعد زیادہ بعد الصحابة فقد أخطأوا، ولا وضاحت سے بات کی ہے تو انہوں نے غلطی کی يجب علينا أن نتبع آراء هم ہے اور ہم پر فرض نہیں کہ ہم اُن کی آراء کی پیروی هم رجال ونحن رجال ، وقد کریں.وہ بھی مرد تھے اور ہم بھی مرد ہیں.اور اللہ من الله علينا و کشف علینا نے ہم پر احسان کیا ہے اور اُس نے اپنے الہامات بإلهاماته ما لم يكشف عليهم، کے ذریعہ ہم پر وہ کچھ کھولا ہے جو اُن پر نہیں کھولا وهـذا فـضـل الله يؤتيه من يشاء گیا.اور یہ اللہ کا فضل ہے.وہ اپنے مومن بندوں من عباده المؤمنين.میں سے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے.وقد أشار الله تعالى في القرآن أن اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اشارہ فرمایا ہے کہ التوراة إمام يعنى فيه نظير كل واقعة يقع تو رات امام ہے.یعنی اس میں ہر اُس واقعے کی نظیر في هذه الأمة، ولذلك قال فَتَلُوا موجود ہے.جو اس امت میں وقوع پذیر ہوگا.اور یہی أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ، وجہ ہے کہ اُس نے فرمایا ہے فَتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ ولكنا لا نجد في التوراة نظير النزول إن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ے لیکن ہم تو راہ میں جسمانی الجسمانی، بل نجد نظیرا فيه للنزول نزول کی نظیر نہیں پاتے بلکہ اس میں ہم روحانی نزول کی الروحاني كما ذكرنا قصة نزول ايلياء نظیر پاتے ہیں.جیسا کہ ہم نے ایلیاء نبی کے نزول کا النبي، فتدبّر بقلب سليم أمين.ثم مع قصہ بیان کیا ہے.پس تو امین قلب سلیم کے ساتھ ذلك قد ثبت أن الواقعات الآتية التي تدبر کر.پھر اس کے ساتھ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آئندہ أخبر عنها رسول الله صلی اللہ علیہ کے واقعات جن کی خبر رسول اللہ ﷺ یا دوسرے وسلم أو غيره من الأنبياء ما وقعت انبیاء نے دی ہے وہ تمام کے تمام عین اُس ظاہری كلها بصورتها الظاهرة المرجوة، صورت میں واقع نہیں ہوئے جیسے کہ امید کی جاتی تھی.۸۹ ل پس اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے.(الانبیاء: ۸)
حمامة البشرى ۳۲۸ اردو ترجمه بل وقع بعضها على الظاهرة وبعضها بلکہ اُن میں سے بعض ظاہری شکل میں اور بعض تاویل على وجه التأويل.فإذا كان سُنة الله کی صورت میں واقع ہوئے پس جب اللہ کی سنت كذلك في ظهور الأنباء المستقبلة مستقبل کی خبروں کے ظہور کے بارہ میں یہ ہے تو اس فأي دليل على أن خبر نزول المسيح بات پر کون سی دلیل ہے کہ نزول مسیح کی خبر ظاہر پر محمول على الظاهر؟ ولِمَ لا يجوز أن محمول ہو اور اُس کا باطن پر محمول ہونا کیوں کر جائز نہ يكون محمولا على الباطن؟ بل إذا ہو.بلکہ جب ہم باریک نظر سے دیکھتے ہیں تو عقل دققنا النظر فيأمر العقل أن الأخبار یہی حکم دیتی ہے کہ وہ خبریں جو قیامت کے لئے بڑی التي هي أمارات كبرى للقيامة لا بد بڑی علامات ہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ لها أن لا تقع إلا في حلل الاستعارات، استعارات کے پیرائے میں واقع ہوں.قیامت تو فإن القيامة لا تأتى إلا بغتة، ولا يزول اچانک ہی آئے گی.اور شک کرنے والوں کا شک ريب المرتابين أبدًا حتى تأتيهم كما کبھی زائل نہ ہوگا.یہاں تک کہ وہ اُن کے پاس ثبت من نصوص القرآن.وأما إذا آجائے.جیسا کہ قرآنی نصوص سے ثابت ہے.جوزنا ظهور الأمارات الكبرى على اور اگر ہم بڑی بڑی علامات کے ظہور کو اُن کی ظاہری صورها الظاهرة..فلا تبقى الساعة صورتوں میں جائز قرار دیں تو منکروں کی نگاہ میں أمراظنيا في أعين المنكرين.قیامت ظنی امر نہیں رہے گا.پس واجب ہے کہ ہم فوجب أن نعتقد أن الأمارات یہ اعتقاد رکھیں کہ بڑی بڑی علامات اپنی ظاہری الكبرى لا تقع على صورها صورتوں پر واقع نہیں ہوں گی.اور اسی طرح نزول الظاهرة، وكذلك النزول نزول (مسیح) بھی روحانی نزول ہے جو ایک ایسے شخص کے روحانی بتوسط رجل يشابه فی توسط سے ہوگا جو مسیح کی صفات سے مشابہت رکھتا صفاته، كما فُسّر معنی نزول ایلیاء ہو جیسا کہ ایلیاء نبی کے نزول کے مفہوم کی تفسیر النبي من قبل في صحف النبيين صحفِ انبیاء میں پہلے کی گئی ہے.
حمامة البشرى ۳۲۹ اردو ترجمه وأما قولهم ان الأحاديث تشهد على اور رہا اُن کا یہ قول کہ احادیث گواہی دیتی ہیں أن عيسى يقتل الدجال بحربته که عیسی دجال کو اپنے حربے سے قتل کرے گا.فنحن لا نسلم أن الأحاديث تدل لیکن ہم تسلیم نہیں کرتے کہ احادیث اس پر عليها بالاتفاق، بل الحديث الذى بالاتفاق دلالت کرتی ہیں.بلکہ وہ حدیث جاء في البخاري في أمر عیسی یعنی جو بخاری میں عیسی کے بارے میں آئی ہے، یعنی قول رسول الله صلى الله علیه وسلم رسول اللہ ﷺ کا یہ قول کہ وہ لڑائی کو موقوف يضع الحرب، يدل بدلالة صريحة کرے گا واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ على أن عيسى لا يقتل الدجال بآلة | عیسی، دجال کو جنگی آلات میں سے کسی آلے سے من آلات الحرب، وكيف يأخذ قتل نہیں کرے گا.اور وہ اپنے ہاتھ میں اپنا حربہ حربته بيده مع أن رسول الله صلى کیسے پکڑ سکتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اُس الله عليه وسلم قال في حقه إنه يضع کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ وہ لڑائی کو موقوف الحرب فلا شك أن حربة قتل کر دے گا.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ دجال الدجال حربة روحانية منزلة من کو قتل کرنے کا حربہ آسمان سے نازل کیا جانے السماء كما يدل عليه حديث روى والا روحانی حربہ ہوگا جیسا کہ ابن عباس سے عن ابن عباس قال قال رسول الله مروی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ رسول صلى الله عليه وسلم ينزل أخى الله ﷺ نے فرمایا کہ میرا بھائی عیسی ابن مریم عيسى بن مريم على جبل أفيق جبل افیق پر بطور امام ، ہادی اور بطور حکم ، عدل إمامًا هاديًا حَكَما عادلا بیدہ حربہ نازل ہوگا.اُس کے ہاتھ میں ایک حربہ ہوگا يقتل به الدجال، فقد ظهر من هذا جس سے وہ دجال کو قتل کرے گا.پس اس الحديث أن الحربة سماوية لا أرضية، حدیث سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ حربہ آسمانی ہے نہ کہ فالقتل أمر روحانی لا جسمانی زمینی تو قتل بھی روحانی امر ہے نہ کہ جسمانی.
حمامة البشرى ۳۳۰ اردو ترجمه ثم لما كان الدجّال شیطان آخر پھر جب دجال آخری زمانے کا شیطان ہے جو الزمان يبسط ظل الضلالة على اپنے مظاہر پر گمراہی کا سایہ پھیلائے گا تو جسمانی مظاهره فما معنى القتل الجسماني؟ قتل کے کیا معنے ؟ اور انہوں نے بیان نہیں کیا کہ وما نقلوا أنه بعد قتله يُدفن أو دجال کو اُس کے قتل کے بعد دفن کیا جائے گا یا جلا يُحرق أو يُلقي في البحر أو يُطرح دیا جائے گا یا سمندر میں ڈال دیا جائے گا یا زمین پر في الأرض حتى تأكله الطير.فهذه پھینک دیا جائے گا یہاں تک کہ پرندے اُسے کھا كلها دلائل قاطعة على أن القتل جائیں.پس یہ تمام قطعی دلائل ہیں کہ قتل ( دجال) أمر روحانی واعلم أن حربة ایک روحانی امر ہے.اور جان لے کہ عیسی کا وہ حربہ عيسى الذى ينزل معه من السماء جو اُس کے ساتھ آسمان سے نازل ہوگا.وہ اُس إنما هو حربة نفسه التي يهلك كے سانس کا حربہ ہے جس سے ہر کافر ہلاک ہو جائے بها كل كافر ، فما لكم لا تتدبرون گا.تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم عقلمندوں کی طرح كالعاقلين؟ وقد علمتم أن الدجال تدبر نہیں کرتے.اور تم جان چکے ہو کہ دجال شيطان كما جاء في بعض الأحاديث، شیطان ہے جیسا کہ بعض احادیث میں آیا ہے.فحـربة قتل إبليس لا تكون إلا پس ابلیس کے قتل کا حربہ بجز روحانی حربہ کے حربة روحانية، فحدیث وضع الحرب اور کچھ نہیں.پس وضع حرب کی حدیث صحیح حدیث صحیح یوجد فی البخاری ہے جو بخاری میں پائی جاتی ہے.اور ہر وہ حدیث وكل ما يخالفه من الأحاديث فهو جو بخاری کے مخالف ہے یا تو اس میں (کسی مدسوس عليه أو مؤوّل، والذى راوی نے ) ملاوٹ کی ہے یا وہ تاویل شدہ ہے.يجادل في ذلك فقد نسي هذا اور جو اس بارے میں بحث کرتا ہے وہ اس الحديث الذي يوجد فى كتاب هو حدیث کو بھول گیا ہے جو اس کتاب میں پائی جاتی أصح الكتب بعد كتاب الله ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے.
حمامة البشرى ۳۳۱ اردو ترجمه وهذا هو الحق ولا يُنكره إلا اور یہی حق ہے اور اس کا انکار کوئی احمق غافل قباع غافل، فتدبر ولا تكن شخص ہی کر سکتا ہے.پس سوچ اور جلد بازوں من المستعجلين.میں سے نہ ہو.وأما أحاديث مجيء المهدى اور جہاں تک مہدی کی آمد سے متعلقہ احادیث فأنت تعلم أنها كلها ضعيفة كا تعلق ہے تو تو جانتا ہے کہ وہ سب کی سب ضعیف، مجروحة ويُخالف بعضها بعضا، مجروح ہیں اور ایک دوسری کی مخالف ہیں یہاں حتى جاء حديث فی ابن ماجه تک کہ ابن ماجہ اور اس کے علاوہ دوسری کتب میں ایک وغيره من الكتب أنه لا مهدى إلا حديث آئی ہے کہ لَا مَهْدِى إِلَّا عِيسَى ابْنُ عیسی ابن مريم فكيف يُتَّكَا مَرْيَم ، یعنی عیسی ابن مریم ہی مہدی ہوگا.پس کس على مثل هذه الأحاديث مع شدة طرح ان جیسی احادیث پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جن ۹۰ اختلافها وتناقضها وضعفها، میں شدت سے باہم اختلافات، تناقض اور ضعف والكلام في رجالها كثير كما لا پایا جاتا ہے اور ان کے راویوں پر بہت جرح ہوئی ہے جیسا کہ محدثین پر یہ بات مخفی نہیں.فالحاصل أن هذه الأحاديث كلها حاصل کلام یہ کہ یہ ساری احادیث اختلافات اور لا تخلو عن المعارضات والتناقضات تناقضات سے خالی نہیں.پس ان سب سے الگ فاعتزل كلها، ورُدَّ التنازعات رہ اور احادیث کے تنازعات کو قرآن کی طرف لوٹا الحديثية إلى القرآن، واجعله اور قرآن کو ان پر حاکم بنا، تا کہ تجھ پر رشد و ہدایت ظاہر حَكَمًا عليها ليتبين لك الرشد ہو.اور تو اُن لوگوں میں سے ہو جائے جو ہدایت وتكون من المسترشدين.فإن كنت یافتہ ہیں.لیکن اگر تو احادیث کو، ان کے تناقض اور تقبل الأحاديث مع شدة اختلافها اُن میں شدید اختلاف اور اُن کے یقین کے مرتبہ وتناقضها وتنزلها عن مرتبة اليقين، سے گرے ہوئے ہونے کے باوجود قبول کرتا ہے يخفى على المحدثين.
حمامة البشرى ۳۳۲ اردو ترجمه فكم من حرى أن تقبل القرآن تو تیرے لئے یہ کہیں زیادہ مناسب ہوگا کہ تو الـيـقـيـنـي القطعي الذي لا يأتيه قرآن کو قبول کرے جو ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ الباطل من بين يديه ولا من باطل نہ تو اُس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ اُس خلفه، إن كنت تريد أن تتبع کے پیچھے سے.اگر تو یقین کی راہوں کی پیروی کرنا سبل اليقين.چاہتا ہے.و من اعتراضاتهم أنهم قالوا إن هذا اور اُن کے اعتراضوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ الرجل لا يؤمن بأن المسيح كان کہتے ہیں کہ یہ شخص ایمان نہیں رکھتا کہ مسیح پرندوں خالق الطيور وكان محيى الأموات کا پیدا کرنے والا اور مر دوں کو زندہ کرنے والا اور وكان في العصمة مخصوصا متفردًا عصمت میں مخصوص و منفرداور مس شیطان سے محفوظا من مس الشيطان لا يشابهه محفوظ تھا.نیز اس وصف میں انبیاء میں سے کوئی في هذه الصفة أحد من النبيين.اُس سے مشابہ نہیں ہے.أما الجواب فاعلم أنّا اس (اعتراض) کا جواب یہ ہے کہ تو جان نؤمن بإحياء إعجازی لے کہ ہم (عیسی کے ) اعجازی احیاء اور اعجازی وخلق إعجازي، ولا نؤمن خلق پر ایمان لاتے ہیں.اور ہم اسے حقیقی احیاء بإحياء حقیقی و خلق حقیقی اور حقیقی خلق نہیں مانتے.جو اللہ کے زندہ كإحياء الله وخلق الله، ولو کرنے اور اللہ کے پیدا کرنے کے مشابہ ہو.اور كان كذلك لتشابه الخلق اگر ایسا ہوتا تو خلق اور احیاء میں مشابہت ہو جاتی والإحياء ، وقال الله سبحانه حالانکہ اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ فَيَكُونُ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ، وما طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ.اور یہ ہیں فرمایا کہ فَيَكُونُ حَيًّا قال فيكون حيا بإذن الله بأذن الله کہ وہ اللہ کے اذن سے زندہ ہو جاتا تھا.ے وہ اللہ کے حکم سے پرندہ (یعنی طیرِ روحانی) بن جائے گا.(ال عمران:۵۰)
حمامة البشرى ۳۳۳ اردو ترجمه وما قال فيصير طيرا بإذن الله اور نہ ہی یہ فرمایا ہے کہ فَيَصِيرُ طَيْرًا بِإِذْنِ وإن مثل طير عيسى كمثل الله ، یعنی وہ اللہ کے اذن سے پرندہ ہو جاتا ہے.عصا موسى، ظهرت كحية تسعى يقينا عیسی کے پرندے کی مثال موسی" کے عصا کی ولكن ما تركت للدوام سيرته مانند ہے جو ایک دوڑنے والے سانپ کی طرح الأولى.وكذلك قال المحققون ظاہر ہوا تھا لیکن اُس نے ہمیشہ کے لئے اپنی پہلی إن طير عيسى كان يطير أمام سیرت کو نہیں چھوڑا تھا.اور اسی طرح محققین نے أعين الناس وإذا غاب فکان کہا ہے کہ عیسی کا پرندہ لوگوں کی آنکھوں کے يسقط ويرجع إلى سيرته سامنے اُڑتا تھا اور جب وہ نظروں سے غائب ہو الأولى.فأين حصل له الحياة جاتا تو گر پڑتا اور پھر اپنی پہلی حالت میں لوٹ آتا الـحـقـيـقـي؟ وكذلك كان حقيقة تھا.پس اُسے حقیقی زندگی کہاں حاصل ہوئی؟ اور الإحياء.أعنى أنه ما رد إلى احياء کی حقیقت بھی کچھ ایسی ہی تھی یعنی اُس نے میت قط لوازم الحياة كلها ، بل مُردے کی طرف تمام لوازم حیات ہرگز نہیں كان يُرى جلوةً من حياة الميت لوٹائے.بلکہ مُردے کی زندگی کا جلوہ آپ کی بتأثير روحه الطيب، وكان الميت پاک روح کی تاثیر کی وجہ سے دکھائی دیتا تھا.اور حيا ما دام عیسی قائم علیه مُردہ اُس وقت تک زندہ رہتا تھا جب تک عیسی أو قاعدًا، فإذا ذهب فعاد اُس کے پاس کھڑے یا بیٹھے رہتے لیکن جب وہ الميت إلى حاله الأول ومات چلے جاتے تو مُردہ اپنی پہلی حالت میں لوٹ آتا فكان هذا إحياءً إعجازيا اور مر جاتا.پس یہ زندہ کرنا اعجازی تھا نہ کہ لا حقيقيا، والله يعلم أن هذا هو حقیقی اور اللہ جانتا ہے کہ یہی واقعاتی حقیقت الحقيقة الواقعة، ثم مازَجَها أغلاط ہے.اس میں لوگوں کی غلط بیانیوں کی آمیزش بيان الناس ، وزادوا فيها ما شاء وا ہوئی اور انہوں نے جو چاہا اس میں اضافہ کر دیا..
حمامة البشرى ۳۳۴ اردو ترجمه كما لا يخفى على من له شمة | جیسا کہ ہر ایسے شخص پر مخفی نہیں جسے ذرہ بھر بھی علم مـن الـعـلـم والبصيرة، فدقق النظر اور بصیرت حاصل ہے.پس آیتوں کے بطون اور في مطاوى الآيات ومعانيها اُن کے معانی معلوم کرنے میں باریک بینی سے کام ليكشف عنك الضلال والظلام لے تا کہ تجھ سے گمراہی اور ظلمتیں دور ہو جائیں وتكون من المتبصرين.اور تو صاحب بصیرت لوگوں میں سے ہو جائے.و من اعتراضاتهم أنهم قالوا إنّ اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے الله تعالى قد أخبر عن نزول کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرب قیامت کے المسيح عند قرب القيامة كما وقت مسیح کے نزول کی خبر دی ہے جیسا کہ اُس نے قال : وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ.فرمایا کہ وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ أما الجواب فاعلم أنه تعالى قال : اس کا جواب یہ ہے کہ تو جان لے کہ اللہ نے وَإِنَّهُ لَعِلم لِلسَّاعَةِ ، وما قال إنه وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ فرمایا ہے.إِنَّهُ سيكون علما للساعة، فالآية تدلّ على سَيَكُونُ علما لِلسَّاعَةِ نہیں فرمایا.پس یہ أنه علم للساعة من وجه كان حاصل آیت دلالت کرتی ہے کہ وہ ایک پہلو سے ساعت له بالفعل، لا أن يكون من بعد فی وقت کا نشان تھے جو انہیں بالفعل حاصل تھا.نہ کہ من الأوقات.والوجه الحاصل هو انہیں بعد کے کسی وقت میں حاصل ہونا تھا.اور وہ تولده من غير أب، والتفصيل في ذلك حاصل شدہ پہلو ان کی بن باپ پیدائش تھی.اور أن فرقة من اليهود أعنى الصدوقين اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ یہودیوں کا ایک كانوا كافرين بوجود القيامة، فرقہ یعنی صدوقتی قیامت کے وجود کے منکر تھے.فأخبرهم الله على لسان بعض أنبيائه پس اللہ نے انہیں بعض انبیاء کی زبان سے خبر دی أن ابنا من قومهم يولد من غير أب کہ اُن کی قوم سے ایک لڑکا بغیر باپ کے پیدا ہوگا.لے اور وہ آخری گھڑی کا علم بخشتا ہے.(الزخرف:۶۲)
حمامة البشرى ۳۳۵ اردو ترجمه وهذا يكون آيةً لهم اور وہ اُن کے لئے قیامت کے وجود پر ایک نشان على وجود القيامة، فإلى ہوگا.پس اُس نے آیت وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ ـا شــــــارفـــی آیة میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے.اور اسی طرح اس وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ، وكذلك آيت وَلِنَجْعَلَ آيَةً لِلنَّاسِلے میں بھی اشارہ للصدوقين.في آية وَلِنَجْعَلَةُ آيَةً لِلنَّاسِ، أى ہے یعنی ہم اسے لوگوں یعنی صدوقیوں کے لئے نشان بنا ئیں گے.وقال بعض المفسرين إنه ضمير اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وَانَّهُ لَعِلْم (91) إنه لعلم للساعة يرجع إلى القرآن لِلسَّاعَةِ میں ان کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی فإن القرآن أحيا خَلقًا كثيرا وبعثهم ہے.چنانچہ قرآن نے بہت سی مخلوق کو زندہ کیا من القبور، فهذا البعث الروحانی اور انہیں قبروں سے اُٹھایا ہے.پس یہ روحانی دليل على البعث الجسمانی، یعنی بعث دلیل ہے جسمانی بعث پر.یعنی قیامت على الساعة، كما في معالم پر.جیسا کہ معالم التنزیل وغیرہ میں ہے.التنزيل وغيره.فالحاصل أن آية پس حاصل کلام یہ ہے کہ آیت إِنَّهُ لَعِلْمٌ وإنه لعلم للساعة لا يدل على لِلسَّاعة نزول مسیح پر قطعا دلالت نہیں کرتی.نزول المسیح قط، بل يفحم بلکہ وہ منکروں کا منہ ایک موجود متحقق پختہ دلیل المنكرين بدلیل موجود ثابت سے بند کرتی ہے.اسی لئے اللہ نے فلا فلهذا قال : فَلا تَمُتَرُنَّ بِهَا، وَلا تَمُتَرُنَّ بِهَا فرمایا ہے.اور کسی ایسے قول کو يُقال مثل هذا القول لآية ما ثبت نشان نہیں کہا جاسکتا جس کا بعد ازاں وجود ہی وجودها بعد، وما رآها أحد من ثابت نہ ہو.اور جسے مخالفوں میں سے کسی نے بھی نہ دیکھا ہو.المخالفين.ا تا کہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشان بنا دیں.(مریم:۲۲)
حمامة البشرى ۳۳۶ اردو ترجمه ومن اعتراضاتهم أنهم قالوا إن كان اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ هذا هو المسيح الذى أرسل لکسر کہتے ہیں کہ اگر یہ وہی مسیح ہے جو صلیب توڑنے اور الصليب وقتل الخنازير فقد مضت سؤروں کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے تو اس عليه إحدى عشر سنة من رأس القرن پر صدی کے سر سے گیارہ سال گزر چکے ہیں.تو فأي صليب كسر، وأى خنزیر قتل کون سی صلیب توڑی گئی اور کون ساختز رقتل کیا ہے وأى جزية وضع، ومن ذا الذى دخل اور کونسا جزیہ موقوف کیا گیا ؟ اور کون ہے جس نے في الإسلام وترك سُبل الكافرين.کافروں کی راہوں کو چھوڑا اور اسلام میں داخل ہوا ؟ أما الجواب فاعلم أن الحق لا اس کا جواب یہ ہے کہ تو جان لے کہ حق یکدم يأتى دفعة بل يأتي تدريجا، وفی نہیں آیا کرتا بلکہ تدریجا آتا ہے.اور عینی (عمدۃ ނ العيني عن ابن عباس : يُقيم عيسى القارى فى شرح البخاری) میں ابن عباس تسع عشر سنة لا يكون أميرا ولا روایت ہے کہ عیسی اُنیس سال قیام کریں گے.وہ شرطيا ولا ملكًا.وقد مضت علی نہ تو امیر ہوں گے، نہ حاکم اور نہ ہی بادشاہ.اور رسول الله صلى الله علیه وسلم رسول اللہ ﷺ پر مکہ میں تیرہ سال کا عرصہ گزرا ثلاث عشر سنة في مكة وما لحق اور اس مدت میں آپ کے ساتھ کمزوروں کا به في هذه المدة إلا فئة قليلة من صرف ایک چھوٹا سا گروہ شامل ہوا تھا.اور تورات المساكين.وكان من بعض علاماته میں لکھی ہوئی حضور کی بعض علامات میں سے المكتوبة في التوراة فتح الروم روم، شام اور فارس کے علاقوں کا فتح ہونا تھا.والشام وبلاد فارس، فما عاينها ليکن يه ( فتوحات ) لوگوں نے آپ ﷺ کی زندگی یہ الناس في وقت حياته، وما تبعه میں نہیں دیکھیں اور نہ ہی قوموں اور ملکوں کے جموع كثيرة من كل قوم وملك بڑے بڑے گروہوں نے آپ ﷺ کی پیروی إلا بعد انتقاله إلى رفيقه الأعلی کی مگر آپ کے رفیق اعلیٰ سے جا ملنے کے بعد.
حمامة البشرى ۳۳۷ اردو ترجمه بل ما رأى في أوائل زمانه إلا بلکہ آپ علیہ نے اپنے اوائل زمانہ میں مصیبت مصيبة على مصيبة، والذين آمنوا پر مصیبت کے سوا کچھ نہ دیکھا.اور جو لوگ معه آذاهم القوم إيذاء كثيرا آپ ﷺ پر ایمان لاتے تھے انہیں بھی قوم نے وعيروهم وطردوهم وقالوا عليهم بہت اذیت دی اُن پر الزام تراشی کی ، انہیں كل كلمة شريرة كاذبين.وهكذا دھتکارا اور ان کے خلاف جھوٹ بولتے ہوئے ہر طردوا الأنبياء كلهم، ومستهم طرح كى شرانگیز باتیں کیں.اور اسی طرح تمام البأساء والضراء في أوائل زمانهم، انبیاء دھتکارے گئے اور اُن کو اُن کے زمانے کے فمضت على ذلك الابتلاء مدة اوائل میں دکھ اور تکلیفیں پہنچیں.اور اس ابتلا پر طويلة حتى قالوا متى نصر اللہ ایک طویل مدت گزر گئی.یہاں تک کہ وہ متی فهلك من كان من الهالكين نَصْرُ اللهِ پکار اٹھے.پھر یوں ہوا کہ ) جو ہلاک كما قال الله تعالی آم حَسِبْتُم ہونے والوں میں سے تھے وہ ہلاک ہو گئے.جیسا أن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمُ که الله تعالیٰ نے فرمایا ہے آم حَسِبْتُمْ أَنْ مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّهُمُ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِينَ الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَزُلْزِلُوا حَتَّى خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ زُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَتَى نَصْرُ اللهِ.فكذلك يريد مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللهِ پس اسی طرح اس أبناء هذا الزمان ليقتلوني أو زمانے کے لوگ چاہتے ہیں کہ مجھے قتل کریں یا يصلبوني أو يطرحوني في غيابة مجھے صلیب دیں یا مجھے کسی اندھے کنویں میں جب، ويدوسوا الصداقة بأرجلهم، ڈال دیں اور صداقت کو اپنے پاؤں تلے روند دیں.لے کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھی تک تم پر اُن لوگوں جیسے حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں انہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ ہلا کر رکھ دیئے گئے یہاں تک کہ رسول اور وہ جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی.(البقرۃ: ۲۱۵)
حمامة البشرى ۳۳۸ اردو ترجمه ويحرقوا الأشجار الخضرة اور سرسبز درختوں کو اُسی طرح جلا دیں جیسے خشک كما يُحرق الحشائش اليابسة گھاس کو جلا دیا جاتا ہے.پس اللہ کی ذات ہی ہے فالله المستعان على ما جس سے اُن کے مکروہ منصوبوں کے خلاف مدد يكيدون وهو خير الناصرين حاصل کی جاسکتی ہے.اور وہی بہتر مدد کرنے والا وأما نصره الذي ينكرونه ہے.البتہ اُس کی وہ مددجس کا وہ انکار کرتے ہیں تو فشیء سترى ما لا تسمع وہ ایک ایسی چیز ہے کہ عنقریب تو وہ کچھ دیکھے گا بل ظهرت علاماته فی جسے تو سنتا نہیں بلکہ اُس کی علامات دیکھنے والوں کی نگاہوں میں ظاہر ہو گئی ہیں.أعين الناظرين.ألا ترى أن الزمان كيف انقلب کیا تو نہیں دیکھتا کہ زمانہ کیسے توحید کی طرف إلى التوحيد..وكيف هبت رياح پلٹ گیا ہے.اور کس طرح اسلام کی ہوائیں الإسلام في بلاد المشركين مشرکوں کے ملکوں میں چل پڑی ہیں.اور کس طرح وكيف يدخلون في دین اللہ افواجا لوگ اللہ کے دین میں ہر ملک سے فوج در فوج في كل ملك؟ فما هذا إلا النور داخل ہو رہے ہیں.پس یہ وہی نور ہے جو آسمان الذي نزل من السماء مع الذي سے اُس شخص کے ساتھ نازل ہوا جو لوگوں کی أنزل لإصلاح الناس، فأي دليل اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا.اس سے واضح تر واضح من هذا إن كنت من دليل اور کون سی ہوسکتی ہے.اگر تو انصاف کرنے المُنصفين؟ يا مسكين.قُم والوں میں سے ہے.اے سادہ لوح اُٹھ اور آنکھ (۹۲) وافتح العين لتنظر كيف يُكسر کھول تا کہ تو دیکھے کہ آسمانی حربہ سے کس طرح الصليب ويُقتل الخنزير بحربة صليب توڑی جارہی ہے اور سور قتل کئے جارہے السماء.وأما قتل الناس بآلات ہیں؟ جہاں تک لوگوں کو اس دنیا کے آلات سے هذه الدنيا فليس بشيء عجيب قتل کرنے کا تعلق ہے تو یہ کوئی عجیب چیز نہیں.
حمامة البشرى ۳۳۹ اردو ترجمه سے نہ ہو.أليس الــمـلـوك يفعلون أيضا كيا بادشاہ ایسے نہیں کیا کرتے؟ پس تو اللہ ذلك؟ فتحسس حربة الله، ولا کے حربہ کو تلاش کر اور انکار کرنے والوں میں تكن من المنكرين.وقد ذكرتُ آنفا أن الدجال لا اور میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ دجال ہی شیطان ہو گا يكون إلا شيطانًا، فيوسوس فی صدور جو اُن لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے گا جو اس کی قوم تبعوه فيكونون عملته له، ويكون پیروی کریں گے.پس اس طرح وہ اُس کے لئے اُس فعلهم فعله، فينزل في هذا الزمان کے کارندے بن جائیں گے اور اُن کا فعل اُس (شیطان) المسيح الموعود بالحربة الملكية کا فعل ہو جائے گا.تب اس زمانے میں مسیح موعود ملکوتی السماوية، فيقتل ذلك الشيطان آسمانی حربے کے ساتھ نازل ہوگا.پھر وہ اس شیطان ويقتل خنازيره؛ وإلى هذا أشار القرآن کو قتل کرے گا اور اُس کے خنز میروں کو بھی قتل کرے في مقامات شتّى، وأشار إلى أنه يفتح گا.اور قرآن نے مختلف مقامات میں اس کی جانب في آخر الزمان.فالذين يتنزل اشارہ فرمایا ہے.نیز یہ بھی اشارہ فرمایا کہ وہ آخری الشيطان عليهم يعثون في الأرض زمانے میں فتح حاصل کرے گا.سوجن لوگوں پر شیطان مفسدين، وينسلون من كل حدب، نازل ہوگا وہ زمین میں فسادی بن کر خرابی پیدا کریں ثم يجمع الله عبادہ علی کلمۃ الحق گے.اور ہر بلندی کو پھاندیں گے.پھر اللہ اپنے بنفخ الصور السماوي، وكان ذلك بندوں کو کلمہ حق پر آسمانی پگل پھونک کر جمع فرمائے قدرًا مقدورًا من ربّ العالمين.گا.اور یہ ربّ العالمین کی طرف سے مقدر تقدیر ہے.وهذا سر من أسرار الله یہ اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز تعالى، وسُنّة من شننه..أنه اور اُس کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے کہ إذا أراد إصلاح الناس فى وقت جب وہ لوگوں کے دلوں پر شیطان کے تسلط تسلّط الشيطان علی قلوبھم کے وقت ان کی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے
حمامة البشرى ۳۴۰ اردو ترجمه فينزل روحه على قلب عبد من تو وہ اپنے روح القدس کو اپنے بندوں میں سے ایک عباده ومعه ملائكة، فيتنزل بندے کے دل پر نازل کرتا ہے اور اُس کے ساتھ فرشتے الملائكة في كل طرف فيوحون إلى ہوتے ہیں.پس فرشتے ہر طرف سے اُترتے ہیں اور عباده أن قوموا واقبلوا الحق وہ اُس کے بندوں کو یہ وحی کرتے ہیں کہ اُٹھو اور حق کو فيأتونهم ويعطونهم قوة لقبول الحق قبول کرو پھر وہ ان کے پاس آتے ہیں اور اُنہیں قبول وتحمل المصائب وما يظهر هذه حق اور مصائب برداشت کرنے کی قوت دیتے ہیں.اور التحريكات إلا عند ظهور رسول او اور یہ تحریکیں صرف کسی رسول، نبی یا محدث کے ظہور نبى أو محدث، ولكن الجاهلون ما کے وقت ہی ظاہر ہوتی ہیں.لیکن جاہل لوگ اس راز يعرفون هذا السر الذى تهب منه كو نہیں پہچانتے جس سے ہدایت کی ہوائیں چلتی ہیں رياح الهداية، ويغلطون فيه اور وہ اس کے بارے میں غلطی کھاتے اور انہیں ويسلكون مسلك الاتفاقات، ولا اتفاقات قرار دینے کی راہ اختیار کرتے ہیں.اور اس يتدبرون في أن الله قد جعل لكل میں تدبر نہیں کرتے کہ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک شيء سببا، ومـا مـن متحرك في سبب بنایا ہے.اور اس عالم گون و مکاں میں ہر الكون إلا وله مُحرك، أولئك متحرک چیز کے لئے کوئی محرک ہے.یہ وہی لوگ ہیں الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا جن کی کوشش اس دنیا کی زندگی میں اکارت گئی اور وہ ورضوا بخيالات سطحية وما كانوا سطحی خیالات پر خوش ہوئے اور تدبر کرنے والوں من المتدبرين.میں سے نہ ہوئے.والحق أن للملك لمة اور حقیقت یہ ہے کہ فرشتے کا بنی آدم کے دل بقلب بنی آدم وللشياطين لمة کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہوتا ہے اور شیطانوں کا فإذا أراد الله أن يبعث مصلحا بھی تعلق ہوتا ہے.پس جب اللہ کسی نبی یا رسول یا من رسول أو نبى أو محدث محدث کو بطور مصلح مبعوث کرنے کا ارادہ فرماتا ہے
حمامة البشرى ۳۴۱ اردو ترجمه فيقوى لمة الملك ويجعل تو وہ فرشتے کے تعلق کو تقویت دیتا ہے اور لوگوں استعدادات الناس قريبة لقبول کی استعدادوں کو قبول حق کے قریب کر دیتا ہے الحق، ويعطيهم لهم عقلا وفهما اور ان کو عقل فہم ، ہمت اور مصائب برداشت وهمة وقُوَّةَ تحمل المصائب ونور کرنے کی قوت اور فہم قرآن کا نور عطا فرماتا فهم القرآن ما كانت لهم قبل ہے، جو اس مصلح کے ظہور سے قبل انہیں میسر نہیں ظهور ذلك المصلح، فتصفی ہوتا.پس ذہن صاف ہو جاتے ہیں اور عقلیں الأذهان، وتتقوى العقول، وتعلو قوت پکڑتی ہیں.اور ہمتیں بلند ہو جاتی ہیں.الهمم، ويجد كل أحد كأنه أوقظ اور ہر ایک یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا اُسے اس من نومه، وكان نورا ينزل من کی نیند سے بیدار کر دیا گیا ہے اور اُس کے دل غيب على قلبه، وكان معلما قام پر غیب سے نور نازل ہو رہا ہے اور ایک معلم اُس بباطنه، ويكون الناس كأن الله بدل کے باطن میں کھڑا ہو گیا ہے اور لوگ ایسے ہو مزاجهم وطبيعتهم، وشحذ جاتے ہیں کہ گویا اللہ نے اُن کے مزاج اور أذهانهم وأفكارهم.فإذا ظهرت طبیعت کو بدل ڈالا ہے اور اُن کے اذہان وافکار واجتمعت هذه العلامات كلها کو تیز کر دیا ہے.پس جب یہ سب علامات ظاہر فتدل بدلالة قطعية على أن اور جمع ہو جائیں تو وہ اس بات کی قطعی دلیل ہوتی المجدد الأعظم قد ظهر، والنور ہیں کہ مجد داعظم ظاہر ہو گیا ہے اور نازل ہونے النازل قد نزل، وإلى هذا أشار والا نور نازل ہو چکا ہے.اور اسی کی جانب اللہ سبحانه في سورة القدر وقال انا سُبحانه وتعالیٰ نے سورۃ قدر میں اشارہ فرمایا ہے أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ.وَمَا آذربك اور کہا ہے کہ اِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَدْريكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرُ أَلْفِ شَهْرٍ.تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ مِنَ الْفِ شَهْرٍ - تَنَزَّلُ الْمَلَيْكَةُ وَالرُّوحُ
حمامة البشرى ۳۴۲ اردو ترجمه فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ.سَلَمُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ - سَلَمُ هِيَ حَتَّى هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ.وأنت تعلم أن مَطلَعِ الْفَجْرِ یے اور تو جانتا ہے کہ فرشتے اور الملائكة والروح لا ينزلون إلا بالحق، رُوح القدس صرف حق کے ساتھ ہی اُترتے ہیں وتعالى الله عن أن يُرسلهم عبثًا اور اللہ کی شان اس سے بلند ہے کہ وہ اُنہیں عبث وباطلا.فإرسال الروح ههنا إشارة اور بے فائدہ بھیجے.پس روح القدس کے بھیجنے إلى بعث نبي أو مرسل أو محدث سے یہاں کسی نبی یا مرسل یا محدث کی بعثت کی يُلقى ذلك الروح عليه، وإرسال طرف اشارہ ہے کہ یہ روح اس پر ڈالی جاتی ہے الملائكة إشارة إلى نزول ملائكة اور فرشتوں کے بھیجنے سے ایسے فرشتوں کے نزول يجذبون الناس إلى الحق والهداية كى طرف اشارہ ہے جو لوگوں کوحق ، ہدایت، (۹۳) والثبات والاستقامة، كما قال ثبات اور استقامت کی طرف مائل کرتے ہیں.الله تعالى في مقام آخر : اذْ يُوحى جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ رَبُّكَ إِلَى الْمَلَكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِتُوا إِذْ يُوحَى رَبُّكَ إِلَى الْمَلَكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَشَنِتُوا الَّذِينَ آمَنُوا، أى هاتوا قلوبهم الَّذِينَ آمَنُوا لے یعنی تم اُن کے دلوں میں اُتر و اور وحبّبوا إليهم الإيمان والثبات اُن کے لئے ایمان ، ثبات اور استقامت کو والاستقامة، فهذا فعل الملائكة إذا محبوب بنادو اور جب فرشتے اترتے ہیں تو اُن کا یہی نزلوا، ففى سورة القدر إشارة إلى فعل ہوتا ہے.پس سورہ قدر میں اس طرف أن الله تعالى قد وعد لهذه الأمة اشارہ ہے کہ اللہ نے اس امت سے وعدہ کیا ہے لے یقیناً ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے.اور تجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے.قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے.بکثرت نازل ہوتے ہیں اُس میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے ہر معاملہ میں.سلام ہے یہ (سلسلہ) طلوع فجر تک جاری رہتا ہے.(القدر:۶۲) (یاد کرو) جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں انہیں ثبات بخشو (الانفال: ۱۳)
حمامة البشرى ۳۴۳ اردو ترجمه أنه لا يضيعهم أبدا، بل إذا ما كہ وہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.بلکہ جب کہ وہ ضلوا وسقطوا فی ظلمات بھی وہ گمراہ ہو جائیں گے اور اندھیروں میں گر يأتي عليهم ليلة القدر، وينزل جائیں گے تو لیلتہ القدر اُن پر آئے گی اور روح الروح إلى الأرض، یعنی يلقيه القدس زمین کی طرف نازل ہوگا.یعنی اللہ اسے الله على من يشاء من عبادہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے گا نازل کرے ويبعثه مجددا، وينزل مع الروح گا.اور اُس (بندے کو ) مجدد بنا کر مبعوث کرے ملائكة يجذبون قلوب الناس إلی گا.اور روح القدس کے ساتھ ( دیگر ) فرشتوں الحق والهداية، فلا تنقطع کو بھی نازل کرے گا جو لوگوں کے دلوں کو حق اور هذه السلسلة إلى يوم القيامة.ہدایت کی طرف مائل کریں گے.پھر یہ سلسلہ روزِ فاطلبوا تجدوا، واقرعوا يفتح قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.لہذا تلاش کرو ، تو پالو لكم.وإن هذا الزمان زمان قد گے اور کھٹکھٹاؤ تو تمہارے لئے کھولا جائے گا.اور انفتحت فيه أبواب النعماء یہ زمانہ وہ ہے کہ جس میں جسمانی نعمتوں اور جدید الجسمانية والترقيات الجديدة، ترقیات کے دروازے کھل گئے ہیں.اور تم اپنی وترون نعما جديدة في ركوبكم سواریوں اور اپنے لباس میں اور اپنے تمدن کی ولباسكم وأنواع تمدُّنكم، وقد مختلف اقسام میں نئی نئی نعمتیں دیکھ رہے ہو.اور علم انكشف كثير من دقائق العلم طبعیات اور علم ریاضی اور خواص نفس کے بہت الطبعـي والـريـاضـي وخواص سے دقائق ظاہر ہوچکے ہیں.اور ہم دنیا والوں کو النفس، ونجد أبناء الدنيا في علوم جدیدہ میں اسی طرح پاتے ہیں کہ گویا وہ علومهم الجديدة كأنهم يصعدون آسمان كى طرف بلند ہورہے ہیں اور ایسی چیزیں إلى السماء ، ويرون أشياء تتحیر دیکھ رہے ہیں کہ جن سے عقلیں دنگ رہ جاتی فيها العقول، ويتأخر منها المنقول ہیں اور منقولی باتیں اس سے پیچھے رہ جاتی ہیں.
حمامة البشرى ۳۴۴ اردو ترجمه ونجد من كل طرف صنعة جديدة اور ہم ہر طرف نئی ایجادات اور نئے وفنونا جديدة وأعمالا معجبة فنون اور عجیب و دقیق کام واضح جادو کی دقيقة كسحر مبين.مانند دیکھتے ہیں.ولا نجد من هذه الصنائع اور ہم ان ایجادات کا کوئی نشان پہلے لوگوں میں أثرا في الأولين، كان الأرض نہیں پاتے.گویا زمین کسی اور زمین سے بدل گئی بدلت غير الأرض وإذا ثبت ہے.اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ روئے زمین أن فى الأرض أمــــواجـــا مـن میں علوم جدیدہ اور نئے نئے معارف موجزن علوم جديدة ومعارف جديدة ہیں.اور اللہ نے زمینی علوم کے پردوں کو اپنی وفتق الله حُجب العلوم قدرت سے چاک کر دیا ہے.تو پھر تو آسمان کے الأرضية من قدرته، فلم پھٹ جانے پر کیوں تعجب کرتا ہے.اور میرے تعجب من فتق السماء ؟ رب نے مجھے الہام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اِنَّ وألهمني ربّى وقال "إِنَّ السَّمَاوَاتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا والْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا، یعنی آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان فافهم هذا السر ولا تيأس من دونوں کو کھول دیا.پس تو اس راز کو سمجھ اور رب العالمین کی رحمت سے مایوس نہ ہو.مسكين روح رب العالمين.وأنت ترى أن أدنى المساكين اور تو دیکھ رہا ہے کہ اس زمانے کے ادنیٰ سے ادنیٰ في هذه الأيام تنعم بنعماء ما رآها ن شخص کو بھی وہ نعمتیں میسر ہیں جو اس کے أحد من آبــائــه بـل من الملوك باپ دادوں میں سے کسی نے بلکہ پہلے بادشا ہوں اور السابقين، ولا سليمان مع (حضرت) سلیمان نے بھی تمام شان و شوکت کے کـل مــجــده فـــإذا مــن اللــه باوجود نہیں دیکھی تھیں.پس جب اللہ نے اپنی مادی على عباده بنعمائه الجسمانية..نعمتوں کے ساتھ اپنے بندوں پر احسان فرمایا ہے.
حمامة البشرى ۳۴۵ اردو ترجمه فكيف تظنون أنه تركهم محرومین تو کیسے خیال کرتے ہو کہ اُس نے انہیں اپنی روحانی من نعمائه الروحانية؟ فتدبر فيما نعمتوں سے محروم رکھا ہوگا.پس تو اس میں خوب سردنا عليك واعتذِرُ إلى الله غور کر جو ہم نے تجھے تفصیل سے بتایا ہے اور اللہ اور وإلى أهل الحق إن كنت من اہل حق سے معذرت کر اگر تو پر ہیز گاروں میں سے المتورعين اصبروا أيها ہے.سواے جلد باز و ! صبر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا المستعجلون حتى يأتى الله بأمره.فیصلہ صادر فرمادے.تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اُن ما لكم لا ترون الفتن التي كثرت فتنوں کی طرف نہیں دیکھتے جو تم میں بکثرت ہیں اور فيكم، وما كان الله ليذر المؤمنين الله مومنوں کو اُن کے اس حال میں جس حال پر وہ على ما هم عليه حتى يميز الخبيث اب ہیں چھوڑنے والا نہیں ہے.یہاں تک کہ وہ من الطيب، فلا تيأسوا من أيام الله خبيث كو طيب سے ممتاز کر دے.پس تم ایام اللہ وهو أرحم الراحمين.کے آنے سے مایوس نہ ہو اور وہ ارحم الراحمین ہے.ومن اعتراضاتهم أنهم قالوا إن اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ الأولياء لا يدعون ويقولون نحن کہتے ہیں کہ اولیاء دعوی نہیں کیا کرتے اور نہ یہ کہتے كذا وكذا، بل أحوالهم و مسراهم ہیں کہ ہم یہ یہ ہیں.بلکہ ان کے احوال اور اُن کی تدل على كونهم أولياء ، فالذى ادعى چال ڈھال، خود اُن کے اولیاء ہونے پر دلالت کرتی فهو ليس ولی الله، بل لا شك أنه ہے.اس لئے ایسا شخص جو دعویٰ کرے وہ ولی اللہ نہیں من الكاذبين.أما الجواب فاعلم ہوتا بلکہ بلاشبہ جھوٹوں میں سے ہے.اس کا جواب أن السلف والخلف قد جوّزوا یہ ہے کہ تو جان لے کہ ( آئمہ ) سلف اور خلف نے إظهار الولاية تحديثًا لنعمة الله ولایت کے اظہار کو اللہ کی تحدیث نعمت کے طور پر وإن كتب الشيخ الجيلي والمجدد جائز قرار دیا ہے.اور شیخ (عبدالقادر جیلانی اور مجدد هندى مملوة من ذلك (احمد) سرہندی کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں.
حمامة البشرى ۳۴۶ اردو ترجمه وقال تعالى : وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبَّكَ اور اللہ تعالیٰ نے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيْثُ لا فَحَيْثُ وروى ابن جریر فی فرمایا ہے.نیز ابن جریر نے اپنی تفسیر میں ابویسرة تفسيره عن أبي يسرة غفارى أن غفاری سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام ) شکر الصحابة كانوا لا يحسبون الشكر صرف اظہار شکر کی شرط کے ساتھ ہی شکر تصور شكرًا إلا بشرط الإظهار، لأن الله کرتے تھے.کیونکہ ارشاد ربانی ہے کہ لین تعالى قال لَبِنْ شَكَرْتُمْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيد اور دیلمی نے (اپنی کتاب) إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ.وروی الدیلمی فی فردوس میں اور ابو نعیم نے (اپنی کتاب) حلیة الاولیاء ”الفردوس“ وأبو نعيم في الحلية“ میں روایت کی ہے کہ (حضرت) عمر بن خطاب أن عمر بن الخطاب رقى المنبر ممبر پر چڑھے اور فرمایا کہ سب تعریف اللہ کو زیبا وقال الحمد لله الذی صیرنی کم ہے جس نے مجھے ایسا بنایا کہ مجھ سے بڑھ کر (اس ليس فوقى أحد.فسأله الناس عن وقت کوئی دوسرا نہیں.اس پر لوگوں نے آپ ذلك القول، فقال ما قلتُ إلا سے اس قول کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے شكرًا لنعمة الله تعالى.وأما ما قال فرمایا کہ میں نے یہ نہیں کہا مگر اللہ تعالیٰ کی نعمت الله تعالى فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ ، کے شکر کے طور پر اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ففرق بين تزكية النفس كه فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ کے پس اپنے آپ کو وإظهار النعمة، وإن كانا مزکی ٹھہرانے اور اظہار نعمت کے درمیان فرق کر.مشابهين في الصورة.فإنك إذا اگر چہ یہ دونوں بظاہر صورت مشابہ ہیں.پس عزوت الكمال إلى نفسك جب تو کمال کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرے لے ہر ایک نعمت جو خدا سے تجھے پہنچے اس کا ذکر لوگوں کے پاس کر.(الضحی:۱۲) ہے اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں اپنی دی ہوئی نعمت کو زیادہ کروں گا اور بصورت کفر عذاب میرا سخت ہے.(ابراهیم: ۸) سے تم اپنے آپ کو مرگی مت کہو.(النجم:۳۳)
حمامة البشرى ۳۴۷ اردو ترجمه ورأيتك كانك شيء ، ونسيت اور اپنے تئیں کچھ سمجھنے لگے اور تو اس خالق کو بھول الخالق الذى مَنَّ عليك فهذا جائے جس نے تجھ پر احسان کیا.تو یہ خود کو مزکی تزكية النفس ، ولكنك إذا عزوت ٹھہرانا ہے لیکن جب تو اپنے کمال کو اپنے رب کی كمالك إلى ربك، ورأيت كل طرف منسوب کرے اور ہر نعمت کو اس کی طرف سے نعمة منه، وما رأيت نفسك عند سمجھے اور کمال کو دیکھتے وقت اپنے نفس کو نہ دیکھے بلکہ رؤية الكمال بل رأيت في كل ہر طرف اللہ کی طاقت اور قوت اور اُس کا احسان طرف حول الله وقوته ومنه اور فضل دیکھے اور اپنے آپ کو ایک ایسے مُردے کی وفضله، ووجدت نفسك كميت طرح سمجھے جو غسال کے ہاتھ میں ہو.اور تو (اپنے) في يد الغسال، وما أضفت إليها نفس كى طرف کوئی کمال منسوب نہ کرے تو یہ شيئا من الكمال، فهذا هو إظهار اظہار نعمت ہے.پس جن لوگوں کے دلوں میں بیماری النعمة.فالذين في قلوبهم مرض ہے وہ جلدی سے اعتراض کی طرف بھاگتے ہیں يسعون إلى الاعتراض مستعجلين، اور وہ شکرگزار ماموروں اور باطل پرست ریا کاروں ولا يفرقون بين الشاکرین کے درمیان فرق نہیں کرتے اور اس طرح ان دونوں المأمورين والمرائين البطالين (تزکیہ نفس اور اظہار نعمت) کے ایک جیسے ہونے کی ويلتبس عليهم الأمر من القرين.وجہ سے معاملہ اُن پر مشتبہ ہو جاتا ہے.اُن کے وهذا آخر كلامنا فی رد اعتراضات کے جواب میں یہ ہمارا آخری قول ہے اعتراضاتهم، والله يحكم بيننا اور اللہ ہمارے اور اُن کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور وبينهم، وهو خير الحاكمين.وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.واعلم أن لهم اعتراضات اور جان لے کہ اس کے علاوہ اُن کے بعض ركيكة غير ذلك، بل كل دقيقة اور رکیک اعتراضات بھی ہیں.بلکہ معرفت المعرفة في نظرهم محل اعتراض کا ہر نکتہ اُن کی نظر میں محل اعتراض ہے.
حمامة البشرى ۳۴۸ اردو ترجمه وقد فرغنا من ردّ اعتراضاتهم (اب) ہم اُن کے بڑے بڑے اعتراضات کے الكبيرة، وأما الاعتراضات جواب سے فارغ ہو گئے ہیں.رہے وہ چھوٹے الصغيرة الواهية فالكتاب نُزِّه چھوٹے اور بودے اعتراضات تو یہ کتاب ان سے عنها، وجاء الكتاب بفضل منزہ ہے.اور یہ کتاب اللہ کے فضل سے، جیسا الله کاملا شافيا كما ستراه که تو اسے باریک نظر سے پڑھنے کے بعد پائے إذا قرأتــه بتدقيـق الـنـظـر.وقد گا، ایک کامل اور تسلی بخش کتاب ہے.اور ہم نے سردنا في هذا الكتاب أدلة اس کتاب میں قطعی یقینی اور صحیح صحیح دلائل ، اللہ قطعية يقينية صحيحة من کی کتاب (قرآن) اور اُس کے رسول کی سنت كتاب الله وسنة رسوله سے تفصیل سے بیان کر دیئے ہیں.اور ہم نے وأتممنا الحجة على المخالفين مخالفوں پر اتمام حجت کر دی ہے.اور اللہ جانتا ہے والـلـه يـعـلـم أني ما انتصرت کہ میں اُن کے اعتراضات کی بیخ کنی کرنے میں لنفسي فی استیصال اعتراضاتهم اپنے نفس کے لئے انتقام نہیں لیا.اور میں ایسا ولست أن أعادى أحدا شخص نہیں کہ کسی سے اس وجہ سے دشمنی رکھوں کہ لما عادانی، ولیس لی عدو اُس نے میرے ساتھ دشمنی کی ہے.اور روئے فى الأرض إلا الذى هو زمین پر میرا دشمن صرف وہ ہے جو اللہ اور اُس کے عدو الله ورسوله، وإنما رسول کا دشمن ہے اور میرا انتقام انہی دونوں کے انتصارى لهما فما أسب السابين لئے ہے.اس لئے میں گالی دینے والوں کو گالی ولا ألعن اللاعنين، ولا أضيع نہیں دیتا اور نہ ہی لعنت کرنے والوں پر لعنت بھیجتا وقتى الذى هو أزكى وأنفس ہوں اور نہ ہی میں اپنا پاک قیمتی وقت ایسی بے فائدہ في أمور لا طائل تحتها، وأفوض باتوں میں ضائع کرتا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ أمرى إلى الله ربّ العالمين.رب العالمین کے سپردکرتا ہوں.
حمامة البشرى ۳۴۹ اردو ترجمه فإن كان ربي يخذلني فمن پس اگر میرا رب مجھے بے یارو مددگار چھوڑ دے تو ذا الذي يُعــزنــى و إن كان پھر کون ہے جو مجھے عزت دے سکتا ہے.اور اگر وہ يُعزّني فمن ذا الذي يخذلني مجھے عزت بخشے تو کون ہے جو مجھے نصرت سے محروم فكل أمرى في يد ربي.إن کر سکتا ہے.پس میرا ہر معاملہ میرے رب کے كان لــی عــنــدہ قدر فيهب | ہاتھ میں ہے.اگر اُس کی بارگاہ میں میری کوئی سترايمتد، و إلا فيتركني قدر و قیمت ہے تو وہ خود مجھے ایسی ڈھال عطا کرے گا جو بڑھتی جائے گی ورنہ وہ مجھے روسیاہ کر بوجه يسود، فلا أعلم غيره کے چھوڑے گا.لہذا میں اس کے سوا اور کسی کو نہیں أحد الذي يُهلكني أو كان جانتا جو مجھے ہلاک کرے یا میرا نجات دہندہ بنے.اور میں اُس کے فضل کا امیدوار ہوں اور وأنتظر نصرته، وهو ربي اُس کی نصرت کا منتظر.وہ میرا رب ہے اُس نے من عــلــى وأتـم عـلـى نـعـمـتـه مجھ پر احسان کیا اور مجھ پر اپنی نعمت تمام کی.يعلم ما في قلبي، وهو وہ میرے نہاں خانہ دل کو خوب جانتا ہے اور مين.وإنـــى سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا من المنجين وأرجو فضله وضعت في نفسي أن أموت ہے.اور میں نے اپنے دل میں تہیہ کر رکھا ہے على بابه، ولا أبرحها في کہ میں اُس کے در پر ہی مروں گا.فتح ہو یا كل حال من الفتح والهزيمة، شکست کسی بھی حالت میں اُس کو نہیں چھوڑوں تی یأتینی نصر منه و من گا.یہاں تک کہ اُس کی نصرت میرے پاس ينصر إلا الله، و هو نعم آ جائے.اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو مددکر المولى ونعم النصير.النصير سکتا ہے؟ اور وہ بہترین حامی اور بہترین مددگار و آذانی قومی و لعنونی ہے.میری قوم نے مجھے دکھ دیا، مجھ پر لعنت کی
حمامة البشرى ۳۵۰ اردو ترجمه و کفرونی وقالوا کافر اور مجھے کافر قرار دیا.اور انہوں نے کہا کہ وہ کافر دجال، وسمونى بأسماء يكرهون دجال ہے.اور جن ناموں کو وہ اپنے لئے نا پسند أن يُسموا بها، ولقبونی کرتے ہیں،انہوں نے مجھے وہ نام دیئے ہیں.ألقاب لا يحبّون أن اور مجھے وہ القاب دیئے جن القاب کو وہ اپنے لئے يلقبوا بها، وأكثروا القول پسند نہیں کرتے.اُنہوں نے میرے ایمان کے في إيماني وكانوا معتدین متعلق بہت سی باتیں کیں.اور وہ حد سے تجاوز فأفوض أمرى إلى الله کرنے والے تھے.پس میں اپنا معاملہ اللہ کے یعلم مافی قلبی ومافی سپرد کرتا ہوں.اور جو کچھ میرے دل میں ہے اور قلوبهم، ولا يخفى على الله جو اُن کے دلوں میں ہے وہ اُسے جانتا ہے.اللہ خافية.أليس الله بأعلم بما سے کوئی چیز مخفی نہیں کیا اللہ تمام جہانوں کے سینوں میں جو کچھ ہے اُس کو نہیں جانتا؟ ويا قوم..أذكركم بآيات الله.اے میری قوم میں تم کو اللہ کی آیات یاد دلاتا ہوں.في صدور العالمين.إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا أَنْ إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلى مَا فَعَلْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ نَدِمِينَ.تدِمِينَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ لے تمہارے پاس اگر کوئی بد کردار کوئی خبر لائے تو (اس کی) چھان بین کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر پشیمان ہونا پڑے.(الحجرات:۷) مومن تو بھائی بھائی ہی ہوتے ہیں پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو.(الحجرات: ۱۱)
حمامة البشرى ۳۵۱ اردو ترجمه وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ.وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ يَأَيُّهَا لا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمُ مِنْ قَوْمٍ (۹۵) قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَا وَلَا نِسَاءٍ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْ نِسَاءٍ عَلَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ بَعْدَ الْإِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَيكَ يَتُبْ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُوْنَ.يَأَيُّهَا الَّذِينَ هُمُ الظَّلِمُونَ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيْرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْهُ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ بعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ تَوَّابٌ رَّحِيمُ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ الْقَى إِلَيْكُمُ السَّلمَ السَّلَم لَسْتَ مُؤْمِنَّا.لَسْتَ مُؤْمِنا ے اور انصاف کرو.یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.(الحجرات: ۱۰) کے اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے.ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہو جا ئیں.اور نہ عورتیں عورتوں سے ( تمسخر کریں).ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو جائیں.اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو.ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بُری بات ہے.اور جس نے تو بہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں.اے لوگو جو ایمان لائے ہو!ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو.یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.اور تجسس نہ کیا کرو.اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے.کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.(الحجرات :۱۳۱۲) ے اور جو تم پر سلام بھیجے اس سے یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں ہے.(النساء: ۹۵)
حمامة البشرى ۳۵۲ اردو ترجمه وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ لِ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ اللهِ قَرِيْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ.وَهُوَ الَّذِي الْمُحْسِنِينَ وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِيحَ بُشْرًا بَيْنَ.يُرْسِلُ الرِّيحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَى رَحْمَتِهِ يَدَى رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَتْ سَحَابًا ثِقَالًا حَتَّى إِذَا وَقَدَّتْ سَحَابًا لِقَا لَّا سُقْنُهُ سُقْنُهُ لِبَلَدٍ مَّيْتٍ فَأَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا لِبَلَدٍ مَّيْتٍ فَأَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْلى بِه مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ الْمَوْلى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.وَالْبَلَدَ الطَّيِّبُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبَّثَ لَا يَخْرُجُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِاِذْنِ رَبِّهِ ۚ وَالَّذِي إِلَّا نَكِدا خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ لا وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمُ بِبَعْضٍر لے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ یقیناً متقیوں کے ساتھ ہے.(البقرۃ:۱۹۵) ے اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ اور اُسے خوف اور طبع کے ساتھ پکارتے رہو.یقینا اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب رہتی ہے.اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو خوشخبری دیتے ہوئے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادل اٹھا لیتی ہیں تو ہم اسے ایک مردہ علاقہ کی طرف ہانک لے جاتے ہیں.پھر اس سے ہم پانی اُتارتے ہیں اور اس (پانی) سے ہر قسم کے پھل اُگاتے ہیں.اسی طرح ہم مردوں کو ( زندہ کر کے ) نکالتے ہیں تا کہ تم نصیحت پکڑو.اور پاک ملک ( وہ ہوتا ہے کہ ) اس کا سبزہ اس کے رب کے اذن سے (پاک ہی ) نکلتا ہے اور جو ناپاک ہو (اس میں ) کچھ نہیں نکلتا مگر رڈی (چیز).(الاعراف: ۵۷تا۵۹) سے وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے دین (کے ہر شعبہ ) پر کلیۂ غالب کردے.(الصف:۱۰) لا
حمامة البشرى ۳۵۳ اردو ترجمه لفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ نَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَلَمِيْنَ عَلَى الْعَلَمِينَ.إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَل الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُونَ السَّيَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ السَّيَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَيكَ هو يبور.أُولَيكَ هُوَ يَبُورُ.إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي أَيْتِ اللَّهِ بِغَيْرِ إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي أَيَتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطن الهُمْ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا سُلْطَنٍ أَتُهُمْ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبر كبر قَاهُمْ بِبَالِغِيهِ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ قَاهُمْ بِبَالِغِيْهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ - تَخَلْقُ السَّمَوتِ الْبَصِيرَ - لَخَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ - وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ - وَمَا وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْلَى وَالْبَصِيرُ يَسْتَوِى الْأَعْلَى وَالْبَصِيرُ.فَفِرُ وا اِلَى اللهِ اِنّى لَكُمْ مِنْهُ فَفِرُّوا إِلَى اللهِ إِنِّي لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيرٌ مين - ندير مبين - لے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں بچانے کا سامان نہ کیا جا تا تو زمین ضرور فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ تمام جہانوں پر بہت فضل کرنے والا ہے.(البقرۃ: ۲۵۲) سے اُسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور وہ لوگ جو بری تدبیریں کرتے ہیں اُن کے لئے سخت عذاب ہے اور اُن کا مکر ضروراً کارت جائے گا.(فاطر: ۱۱) سے یقیناوہ لوگ جو اللہ کی آیات کے بارہ میں ایسی کسی قطعی دلیل کے بغیر جھگڑتے ہیں جو اُن کے پاس آئی ہو، اُن کے دلوں میں ایسی بڑائی کے سوا کچھ نہیں جسے وہ کبھی بھی پانہیں سکیں گے.پس اللہ کی پناہ مانگ.یقینا وہ ہی بہت سننے والا (اور ) گہری نظر رکھنے والا ہے.یقیناً آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے بڑھ کر ہے.لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں.اور اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے.(المؤمن: ۵۹۲۵۷) ے پس تیزی سے اللہ کی طرف دوڑو.یقیناً میں اُس کی طرف سے تمہیں ایک کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں.(الذاریات:۵۱)
حمامة البشرى ۳۵۴ اردو ترجمه وقد خصنى الله تعالى بآيات من اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی جناب سے نشانات سے عنده، وبارك فی قولی و نُطقی، خاص کیا ہے.اور اُس نے میرے قول اور نطق میں وجعل البركة في دُعائى، وأنزل برکت رکھ دی ہے، اور میری دعا میں برکت دی ہے الأنوار على أنفاسى و علی داری اور میری سانسوں میں اور میرے گھر اور اُس کے وجدران بيتي، وهو معى حيثما درودیوار پر انوار نازل فرمائے ہیں.وہ میرے ساتھ كنت، وأرسلني ليعلم المخالفون ہوتا ہے جہاں بھی میں ہوں.اور اُس نے مجھے بھیجا المعادون أن تلك النعم ثابتة في ہے تاکہ مخالف اور دشمن یہ جان لیں کہ یہ نعمتیں اسلام الإسلام، ولا حظ منها لغيرهم میں پائی جاتی ہیں.اور مسلمانوں کے سوا دوسروں وليعلموا كيف مرتبۃ المسلمین کے لئے ان میں سے کوئی حصہ نہیں.نیز وہ یہ بھی جان عند الله.فوالله إن هذا الأمر لیں کہ اللہ کے نزدیک مسلمانوں کا کیا مرتبہ ہے.صحیح حق، ومن يقصدني بقلب پس اللہ کی قسم کہ یہ امر صحیح اور حق ہے.اور جو کوئی سليم ونية صحيحة، ويأتيني قلب سلیم اور صحت نیت کے ساتھ میرا قصد کرے گا مستفيضا مستغيثا..فبإبتهالى اور میرے پاس فیض کا طالب ہو کر اور مدد مانگتے وبركة دعائى يُدرك ما طلبه ہوئے آئے گا.تو وہ میری تضرعات اور میری دعا کی ويفوز في كل أمر، إلا فى الذى برکت سے اپنا مطلوب پالے گا اور ہرا مر میں کامیاب جف القلم بكونه من قدر السوء.ہو جائے گا.سوائے اُس کے جس کے بارے میں وقد شرحت لك يا أخى قصتى برى تقدیر کے نافذ ہونے کا قلم چل چکا ہو.اے بھائی! هذه على غاية الاقتصار ، فانظر میں نے تیرے لئے اپنے احوال کو نہایت اختصار مکتوبی هذا بنظر الإمعان کے ساتھ بیان کر دیا ہے.پس تو میرے اس مکتوب کو واستعمل الإنصاف فيه، وإني لك گہری نظر سے دیکھا اور اس بارہ میں انصاف سے کام لے.یقیناً میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں.لمن الناصحين.
حمامة البشرى ۳۵۵ اردو ترجمه فخَفُ ممن هو أكبر من كل پس تو اُس سے ڈر جو تمام بڑوں سے بڑا ہے.كبير، وهو الملك الحقيقي الذي اور وہ حقیقی بادشاہ ہے جس کے چہرے کے نور سے أشرق بنور وجهه ما فی السماوات جو کچھ زمین اور آسمانوں میں ہے، چمک اُٹھا ہے.والأرض، ويرتعد الملائكة من اور اُس کے جاہ وجلال سے فرشتے کانپتے ہیں.سلطانه، ويهتز العرش من عظمته اور اُس کی عظمت سے عرش لرز جاتا ہے.اور اُس وقد أعد للمؤمنين الصالحين نعماء نے صالح مومنوں کے لئے ایسی ابدی نعمتیں تیار کی الأبد التي لا انقطاع لها، والحياة ہیں جو کبھی منقطع نہ ہوں گی.اور ایسی زندگی جس التي لا موت بعدها.وقد خصكم کے بعد کوئی موت نہیں.اور اے بیت الحرام کے الله يا جيران بيت الحرام بمزايا قریب بسنے والو! تمہیں اللہ نے بہت سی خوبیوں كثيرة ، وأعطاكم قلبا متقلبا مع کے ساتھ مخصوص کیا ہے.اور اپنی جناب سے الحق رحمة من عنده، فانظروا فی رحمت کے طور پر تمہیں ایسا دل دیا ہے جو حق کے أمرى يا معشر الكرام.وليس هذا ساتھ ڈھل جاتا ہے.پس اے معززین کے گروہ! الأمر من الأمور التي يُغفَلُ عنها، تم میرے معاملے میں غور کرو اور یہ معاملہ اُن ولا تدری نفس بای وقت تُدعى معاملوں میں سے نہیں جن سے تغافل برتا جائے إلى السماء.واعلموا أن هذه اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ کب آسمان کی طرف (۹۶) الأيام أيام الفتن، وزمان امواج سے بلاوا آ جائے اور یہ جان لو کہ یہ دن فتنوں المفاسد، وقد زلزلت الأرض زلزالا کے دن ہیں.اور یہ مفاسد کی موجوں کا زمانہ شديدا، وتكاثرت الآفات علی ہے.زمین پوری شدت سے ہلا دی گئی ہے اور الإسلام، فاذكروا عهد الله واتقوا اسلام پر آفتوں کا ایک ہجوم ہے.سو اللہ کے عہد أيام الطوفان والطغيان، واستمسكوا کو یاد کرو اور طوفان اور طغیانی کے ایام سے ڈرو بالعروة الوثقى التي لا انفصام لها، اور ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لو جوٹو ٹنے والا نہیں.
حمامة البشرى ۳۵۶ اردو ترجمه واطلبوا رضى الرب الكريم اور رب کریم کی رضا کے طلب گار ہو اور اُس واجعلوا بعد خوفه کل خوف کے خوف کے بعد ہر دوسرے خوف کو اپنے تحت أقدامكم.قدموں کے نیچے ڈال دو.ونسأل الله أن يوفقكم اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمہیں اپنی ويعطيكم من لدنه قوة، ويهبكم من جناب سے توفیق دے اور اپنی جناب سے تمہیں عنده إلهاما موقناً، ويعصمكم من قوت عطا کرے اور اپنی بارگاہ سے یقین پیدا الخطأ في النظر والاستعجال فی کرنے والا الہام عنایت کرے اور تحقیق میں غلطی إقامة الرأى وسوء الظن، ونسأله آن کرنے اور رائے قائم کرنے میں جلد بازی اور يدخلكم في ملكوته مع الأنبياء بدظنی سے محفوظ رکھے.اور ہم دعا کرتے ہیں کہ والرسل والصديقين والشهداء وہ اپنی بادشاہت میں تمہیں نبیوں، رسولوں، والصالحين، ونحن ننتظر صدیقوں ،شہیدوں اور صالحین میں داخل کرے.اور ہم جواب کے منتظر ہیں.الجواب.رب العالمين.وآخر دعوانا أن الحمد لله اور ہماری آخری پکار یہ ہے کہ ہر تعریف اللہ کو زیبا ہے جورب العالمین ہے.الراقــم الـمـفتـقـر إلـى اللـه خدائے صمد کی عنایات کا محتاج الراقم غلام احمد (اللہ الصَّمَدُ غلام أحمد عافاه الله وأيد اُسے اپنے حصار عافیت میں رکھے اور اُس کی تائید وقد كُتب في آخر الربيع الأول و نصرت فرمائے ) یہ (رسالہ) آخر ربیع الاول سنة ١٣١١ هـ من قاديان ضلع ۱۳۱۱ھ میں قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ہندوستان سے لکھا گیا.غورد اسفور من الهند، البنجاب
حمامة البشرى ۳۵۷ اردو ترجمه -- قَصِيدَةٌ لَطِيفَةٌ لِمُؤلّفِ هَذِهِ الرِّسَالَةِ فِي بَيَانِ مَفَاسِدِ الزَّمَانِ اس رسالہ کے مؤلف کا لطیف قصیدہ جو زمانہ کے مفاسد وَضُرُورَةِ رَجُلٍ يَهْدِى إِلَى طُرُقِ الرَّحْمَنِ اور خدائے رحمان کی راہوں کی طرف رہنمائی کرنے والے ایک شخص کی ضرورت وَنَعْتِ سَيّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَفَخْرِ الْإِنْسِ وَالْجَانِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور حضرت سید الانبیاء، فخر جن وانس صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کے بیان میں ہے.دُمُوعِى تَفِيضُ بِذِكْرِ فِتَنِ أَنْظُرُ وَإِنِّي أَرَى فِتَنا كَقَطْرٍ يَّمْطُرُ ان فتنوں کے ذکر سے جنہیں میں دیکھ رہا ہوں، میرے آنسو بہہ رہے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ فتنے اس بارش کی طرح ہیں جو برس رہی ہو.تَهُبُّ رِيَاحٌ عَاصِفَاتٌ مُبِيدَةٌ وَقَلَّ صَلَاحُ النَّاسِ وَالْغَى يَكْثُرُ تند اور مہلک ہوائیں چل رہی ہیں.لوگوں کی نیکی کم ہو گئی ہے اور گمراہی بڑھ رہی ہے.وَ قَدْ زُلْزِلَتْ اَرْضُ الْهُدَى زِلْزَالَهَا وَقَدْ كُذِرَتْ عَيْنُ التَّقَى وَتَكَدَّرُ اور ہدایت کی زمین پر سخت زلزلہ آ گیا ہے اور تقویٰ کا چشمہ مکدر ہو گیا ہے اور گدلا ہوتا جا رہا ہے.وَمَا كَانَ صَرُخٌ يَصْعَدَنَّ إِلَى الْعُلى وَمَا مِنْ دُعَاءِ يُسْمَعَنَّ وَيُنْصَرُ اور کوئی چیخ نہیں جو بلندی (آسمانوں ) کی طرف چڑھتی ہو اور نہ کوئی دعا ہے جو سنی جاتی اور نصرت پاتی ہو.فَلَمَّا طَغَى الْفِسْقُ الْمُبِيدُ بِسَيْلِهِ تَمَنَّيْتُ لَوْ كَانَ الْوَبَاءُ الْمُتَبرُ جب مہلک فسق اپنے سیلاب کے ساتھ طغیانی پر آ گیا تو میں نے آرزو کی.کاش تباہ گن وبا (نازل ) ہوتی.فَإِنَّ هَلَاكَ النَّاسِ عِنْدَ أُولِى النَّهَى اَحَبُّ وَ أَوْلَى مِنْ ضَلَالٍ يُخَسِرُ کیونکہ لوگوں کا ہلاک ہو جانا عقلمندوں کے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور بہتر ہے گھاٹے میں ڈالنے والی گمراہی.سے.عَلى جُدُرِ الْإِسْلَامِ نَزَلَتْ حَوَادِتْ وَذَاكَ بِسَيِّنَاتٍ تُدَاعُ وَتُنْشَرُ اسلام کی دیواروں پر حوادث نازل ہو چکے ہیں اور یہ ان برائیوں کی وجہ سے ہیں جو عام ہورہی ہیں اور پھیلائی جا رہی ہیں.وَ فِي كُلِّ طَرْفِ نَارُ فِتَنِ تَأَجَّجَتْ وَفِي كُلِّ ذَنْبٍ قَدْ تَرَاءَى التَّقَعُرُ ہر طرف فتنوں کی آگ بھڑک رہی ہے اور ہر گناہ میں گہرائی دکھائی دے رہی ہے.
حمامة البشرى ۳۵۸ اردو ترجمه وَ مِنْ كُلِّ جِهَةٍ كُلُّ ذِنْبِ وَنَمْرَةٍ يَعِيُتْ بِوَنُبِ وَالْعَقَارِبُ تَأْبَرُ اور ہر طرف سے ہر بھیڑیا اور چیتا حملے کے ذریعہ تباہی ڈال رہا ہے اور بچھو کاٹ رہے ہیں.وَعَيْنُ هِدَايَاتِ الْكِتَابِ تَكَدَّرَتْ بِهَا الْعِيْنُ وَالْأَرَامُ يَمْشِي وَيَعْبُرُ اور کتاب اللہ کی ہدایتوں کا چشمہ گدلا ہو گیا ہے.اس چشمے میں جنگلی گا ئیں اور ہرن چل اور گزر رہے ہیں.تَرَاءَتْ غَوَايَاتٌ كَرِيحٍ عَاصِفٍ وَاَرْخَى سُدُولَ الْغَيِّ لَيْلٌ مُكَذِرُ گمراہیاں تند ہوا کی طرح نظر آ رہی ہیں اور تاریکی پیدا کرنے والی رات نے گمراہی کے پردے لٹکا دیئے ہیں.وَلِلدِّينِ اطلالٌ أَرَاهَا كَلَاهِفٍ وَدَمُعِى بِذِكْرِ قُصُورِهِ يَتَحَدَّرُ اور دین کے صرف کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں جنہیں میں افسردہ شخص کی طرح دیکھ رہا ہوں اور میرے آنسو اس کے محلات کی یاد میں بہہ رہے ہیں.ارَى الْعَصْرَ مِنْ نَّوْمِ الْبَطَالَةِ نَائِمًا وَكُلُّ جَهُوْلٍ فِي الْهَوَى يَتَبَخْتَرُ میں زمانہ کو باطل پرستی کی نیند میں سویا ہوا دیکھ رہا ہوں اور ہر جاہل اپنی خواہشوں میں اتر آ رہا ہے.وَ لَيْلًا كَعَيْنِ الظَّبي غَابَتْ نُجُومُهُ وَدَاءً لِشِدَّتِهِ عَنِ الْمَوْتِ تُخْبِرُ اور میں ہرن کی آنکھ جیسی سیاہ رات کو دیکھ رہا ہوں کہ اس کے ستارے غائب ہو گئے ہیں.اور اس بیماری کو دیکھ رہا ہوں جو اپنی شدت کی وجہ سے موت کی خبر دے رہی ہے.نَسُوا نَهْجَ دِينِ اللَّهِ حُبُنًا وَّغَفَلَةً وَاَفْعَالُهُمْ بَغَى وَفِسْقٌ وَّ مَيْسِرُ انہوں نے دینِ الہی کا راستہ خبث اور غفلت سے بھلا دیا ہے اور ان کے افعال بغاوت، فسق اور جوا بازی ہیں.وَمَا هَمُّهُمْ إِلَّا لِحَظِ نُفُوسِهِمْ وَمَا جَهْدُهُمْ إِلَّا لِعَيْشِ يُوَفَّرُ اور ان کا سارا فکر صرف حظ نفوس کے لئے ہے اور ان کی ساری کوشش صرف عیش وعشرت کے لئے ہے جو بڑھائی جارہی ہے.وَقَدْ ضَيَّعُوا بِالْجَهْلِ لَبَنَا سَائِفًا وَلَمْ يَبْقَ فِي الْأَقْدَاحِ إِلَّا مَاضِرُ اور انہوں نے نادانی سے خوشگوار دودھ ضائع کر دیا ہے اور پیالوں میں صرف کھٹا دودھ باقی رہ گیا ہے.وَ رَكْبُ الْمَنَايَا قَدْ دَنَاهُمْ بِسَيْفِهِمْ وَهُمْ خَيْلُ شُحْ مَا دَنَاهُمْ تَحَسُّرُ اور موتوں کا قافلہ اپنی تلوار کے ساتھ ان کے قریب آ گیا ہے اور یہ لوگ حرص کے شاہسوار ہیں (اس پر ) افسوس ان کے قریب بھی نہیں پھٹکا.تَصِيدُهُمُ الدُّنْيَا بِعَظْمَةِ مَكْرِهَا فَيَاعَجَبًا مِنْهَا وَمِمَّا تَمُكُرُ اپنے عظیم مکر سے دنیا ان کا شکار کر رہی ہے پس اس دنیا پر تعجب ہے اور اس کے مکر پر بھی جو وہ کر رہی ہے.تُذَكَّرُ افَلَاسًا وَّجُوْعًا وَّفَاقَةٌ فَتَدْعُو إِلَى الْأَثَامِ مِمَّا تُذَكَّرُ وہ انہیں افلاس، بھوک اور فاقہ یاد دلاتی ہے پھر ان باتوں کو یاد دلانے سے انہیں گناہوں کی طرف دعوت دیتی ہے.
حمامة البشرى ۳۵۹ اردو ترجمه تُرِيدُ لِتُهْلِكَ فِي التَّغَافُلِ أَهْلَهَا وَقَدْ عُقِرَتْ هِمَمُ النِّعَامِ وَ تُعْقَرُ وہ چاہتی ہے کہ اہل دنیا کو غفلت میں ہی ہلاک کر دے اور کمینوں کی ہمتیں پست ہو چکی ہیں اور ان کی کونچیں کاٹی جارہی ہے.وَ الْهَتْ عَنِ الدِّينِ الْقَوِيمِ قُلُوبَهُمْ فَمَالُوا إِلى لَمَعَاتِهَا وَتَخَيَّرُوا اور دنیا نے ان کے دلوں کو بچے دین سے غافل کر دیا ہے پس وہ اس کی چمک دمک پر لٹو ہو کر اسی کے ہو رہے ہیں.تَقُودُ إِلى نَارِ اللَّظى وَجَنَاتُهَا وَلَمَعَاتُهَا تُصْبِي الْقُلُوبَ وَتَخْتِرُ اس کے رخسار شعلوں والی آگ کی طرف کھینچ کے لے جاتے ہیں اور اس کی چمک دمک دلوں کو مائل کرتی اور دھوکا دیتی ہے.وَتَدْعُو إِلَيْهَا كُلَّ مَنْ كَانَ هَالِكًا فَكُلٌّ مِّنَ الْاَحْدَاثِ يَدْنُو وَيَخْطِرُ اور اپنی طرف ہر اس شخص کو جو ہلاک ہونے والا ہو دعوت دیتی ہے.پس نو جوانوں میں سے ہر ایک اس کے قریب ہو رہا ہے اور جھوم رہا ہے.مِيْسُ كَبِكْرِ فِي نِقَابِ الْمَكَائِدِ وَتُبْدِى وَمِيْضًا كَاذِبًا وَّتُزَوِّرُ وہ (دنیا) کنواری کی طرح مکروں کے نقاب میں مٹک کر چلتی ہے.اور جھوٹی چمک دمک ظاہر کرتی ہے اور دھوکا دیتی ہے.وَ دَقَّتْ مَكَائِدُهَا فَلَمْ يُدْرَ سِرُّهَا لِمَا نَسَجَتُهَا مِنْ فُنُونٍ تُكَوِّرُ اور اس کے مکر باریک ہیں پس اس کا بھید نہیں جانا جاسکتا اس لئے کہ اس نے ان کا حال ایسی حیلہ سازیوں سے بنا ہے جنہیں وہ چھپارہی ہے.وَتَبْدُو كَتُرُسٍ فِي زَمَانٍ بِكَيْدِهَا وَفِي سَاعَةٍ أُخْرَى حُسَامٌ مُشَةً اور کبھی تو وہ اپنے فریب سے ڈھال کی طرح سامنے آتی ہے اور دوسری ہی گھڑی وہ کچھی ہوئی تلوار ہوتی ہے.وَعَيْنٌ لَّهَا تُصْبِي الْوَرى فَتَّانَةٌ وَلِقَتْلِ أَهْلِ الْفِسْقِ كَشْحٌ مُّخَصَّرُ اور اس کی فتنہ پرداز آنکھ مخلوق کو اپنی طرف مائل کرتی ہے اور فاسقوں فاجروں کے قتل کے لئے وہ دنیا پتلی کمر والی حسینہ ) ہے.عَجِبْتُ لِمَنْظَرِ ذَاتِ شَيْبٍ عَجُوزَةٍ أَنِيقٌ لِعَيْنِ النَّاظِرِينَ وَ أَزْهَرُ مجھے حیرت ہے اس عاجز بڑھیا کے منظر پر جو دیکھنے والوں کی نگاہ میں خوبصورت اور روشن جمال ہے.لَزِمُتُ اصْطِبَارًا إِذْ رَأَيْتُ جَمَالَهَا فَقُلْتُ اِلهى اَنْتَ كَهْفِي وَمَأْزَرُ میں نے صبر کولازم کر لیا جب میں نے اس کے جمال پر اطلاح پائی.میں نے کہا میرے خدا! تو ہی میر اطباء اور مادی ہے.فَصَيَّرَهَا رَبِّي لِنَفْسِي سُرِّيَّةٌ كَجَارِيَةٍ تُلقى بِطَوْعِ وَتُهجَرُ (١٠٠) سو میرے رب نے اسے میرے لئے لونڈی بنا دیا.ایسی لونڈی کی طرح جس سے وصال اور جدائی خود اپنی مرضی سے اختیار کی جاتی ہے.وَذَلِكَ فَضْلٌ مِنْ كَرِيمٍ وَمُحْسِنٍ وَيُعْطِي الْمُهَيْمِنُ مَنْ يَّشَاءُ وَيَحْجُرُ اور کریم اور محسن خدا کی طرف سے یہ ایک فضل ہے اور نگران خدا جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور (جس سے چاہتا ہے ) روک لیتا ہے.
حمامة البشرى اردو ترجمه وَقَدْ ضَاقَتِ الدُّنْيَا عَلَى عُشَّاقِهَا وَيَبْغُونَهَا عِشَقًا وَّ حُبًّا فَتُدْبِرُ اور دنیا اپنے عاشقوں پر تنگ ہو گئی ہے وہ اسے عشق اور محبت سے چاہتے ہیں تو وہ پیٹھ پھیر لیتی ہے.تَزَاحَمَتِ الطُّلابُ حَوْلَ لُحُومِهَا كَمِثْلِ كِلَابِ وَالْمَنَايَا تَسْخَرُ (اس کے ) طالب اس کے گوشت کے گرد ہجوم کر رہے ہیں کتوں کی مانند اور موتیں (ان پر ) ہنس رہی ہیں.وَ إِنَّ هَوَاهَا رَأْسُ كُلّ خَطِيئَةٍ فَخَفْ حُبَّهَا يَا أَيُّهَا الْمُتَبَصِرُ اس کا عشق ہر ایک خطا کی جڑ (منبع) ہے پس اس کی محبت سے ڈر.اے بصیرت رکھنے والے! وَقَدْ مَضَغَتُ أَنْيَابُهَا كُلَّ طَالِبٍ وَاَنْتَ أَثَارَتُهُمْ فَسَوْفَ تُكَسَّرُ بے شک اس کی کچلیوں نے ہر طالب کو چبا ڈالا ہے اور تو ان کا بقیہ ہے پس تو بھی جلد توڑ دیا جائے گا.عَلى كُلّ قَلْبٍ قَدْ أَحَاطَ ظَلَامُهَا سِوى قَلْبِ مَسْعُودٍ حَمَاهُ الْمُيَسِرُ ہر دل پر اس کی تاریکی نے احاطہ کر رکھا ہے سوائے خوش نصیب کے دل کے کہ جس کی حفاظت آسانی پیدا کرنے والے خدا نے کی ہو.إِذَا مَا رَأَيْتُ الْمُسْلِمِينَ كِلابَهَا فَفَاضَتْ دُمُوعُ الْعَيْنِ وَ الْقَلْبُ يَضْجَرُ جب میں نے مسلمانوں کو اس (دنیا) کے کتے پایا تو آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اس حال میں کہ دل گھبرا رہا تھا.(١٠) عَلَى فِسْقِهِمُ لَمَّا اطَّلَعْتُ وَ كَسُلِهِمُ بَكَيْتُ وَلَمْ أَصْبِرُ وَلَا أَتَصَبَّرُ جب میں نے ان کے فسق اور ستی پر اطلاع پائی تو میں رو پڑا اور صبر نہ کر سکا اور نہ صبر کی تاب رکھتا ہوں.اكَبُوا عَلَى الدُّنْيَا وَمَالُوُا إِلَى الْهَوَى وَقَدْ حَلَّ بَيْتَ الدِّينِ ذِئْبٌ مُدَمِّرُ وہ دنیا پر جھک گئے اور حرص و ہوا کی طرف مائل ہو گئے اس حال میں کہ دین کے گھر میں ایک تباہ کن بھیڑ یا اتر پڑا ہے.ارى ظُلُمَاتٍ لَيْتَنِي مِثْ قَبْلَهَا وَذُقْتُ كُنُوسَ الْمَوْتِ لَوْلَا أَنَوَّرُ میں تاریکیاں دیکھ رہا ہوں.کاش میں ان سے پہلے مر چکا ہوتا! اور میں موت کے پیالے چکھتا اگر میں منور نہ ہورہا ہوتا.فَسَادٌ كَطُوفَانٍ مُّبِيدٍ وَإِنَّنِي أَرَاهُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ أَوْ هُوَ أَكْثَرُ مہلک طوفان کی طرح ایک فساد برپا ہے اور بے شک میں اسے سمندر کی لہر کی طرح پاتا ہوں یا وہ اس سے بھی بڑا ہے.أرى كُلَّ مَفْتُونِ عَلَى الْمَوْتِ مُشْرِفًا وَكُلُّ ضَعِيْفٍ لَّا مَحَالَةَ يَعْثَرُ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر مبتلائے فتنہ موت کے کنارے پہنچ چکا ہے اور ہر ایک کمزور بالضرور ٹھوکر کھاتا ہے.فَأَنْقَضَ ظَهْرِى ضُعْفُهُمْ وَوَبَالُهُمْ وَمِنْ دُونِ رَبِّي مَنْ يُدَاوِى وَيَنْصُرُ پس ان کے ضعف اور وبال نے میری کمر توڑ دی ہے اور میرے رب کے سوا کون علاج کرے گا اور مدد دے گا؟
حمامة البشرى ۳۶۱ اردو ترجمه فَيَارَبِّ أَصْلِحُ حَالَ أُمَّةٍ سَيِّدِى وَعِنْدَكَ هَيْنٌ عِنْدَنَا مُتَعَسِّرُ اے میرے ربّ! میرے آقا کی امت کے حال کی اصلاح کر دے اور یہ تیرے لئے آسان ہے (اور ) ہمارے لئے مشکل ہے.وَلَيْسَ بِرَاقٍ قَبْلَ أَنْ تَأْخُذَنُ يَدًا وَلَيْسَ بِسَاقٍ قَبْلَ كَاسِ تُقَدِرُ اور کوئی بلندی پر نہیں جاسکتا پیشتر اس کے کہ تو اس کا ہاتھ پکڑے اور کوئی کسی کو کچھ پانہیں سکتا پیشتر اس پیالے کے جو ٹو مقدر کردے.وَقَدْ نُشِرَتْ ذَرَّاتُنَا مِنْ مَّصَائِبٍ وَمِتْنَا فَلَا تَذْكُرُ ذُنُوبًا تَنْظُرُ اور ہمارے ذرات مصائب کی وجہ سے منتشر کر دیئے گئے ہیں اور ہم مر چکے ہیں.پس ان گناہوں کو جو تو دیکھ رہا ہے نہ بیان کر.وَلَا تُخْرِجَنُ سَيْفًا طَوِيلًا لِقَتْلِنَا وَتُبْ وَاعْفُوَنُ يَارَبَّ قَوْمٍ صُغْرُوا اور ہمارے قتل کے لئے لمبی تلوار نہ نکال اور رجوع برحمت ہو اور معاف کر دے.اے ان لوگوں کے ربّ ! جو ذلیل کئے گئے.وَإِنْ تُهْلِكَنا يَارَبَّنَا بِذُنُوبِنَا فَتَفْنَى بِمَوْتِ الْخِزْيِ وَالْخَصْمُ يُبْطِرُ اور اگر تو اے ہمارے رب ہمارے گنا ہوں کی وجہ سے ہمیں ہلاک کرے گا تو ہم رسوائی کی موت سے فنا ہو جائیں گے اور دشمن فخر کرے گا.وَلَا اَبْرَحُ الْمِضْمَارَ حَتَّى تُعِيُنَنِى وَلَا بُدَّ لِي أَنْ أَهْلِكَنُ أَوْ أَظَفَّرُ اور میں میدان سے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ تو مجھے مدد دے اور ضروری ہے میرے لئے کہ میں ہلاک ہو جاؤں یا کامیاب کیا جاؤں.وَ إِنِّي أَرى أَنَّ الذُّنُوبَ كَبِيرَةٌ وَأَعْرِفُ مَعَهُ أَنَّ فَضْلَكَ أَكْبَرُ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ گناہ عظیم تر ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی جانتا ہوں کہ تیرا فضل عظیم ترین ہے.اِلهى اَغِتُنَا وَاسْقِنَا وَاحْمِ عِرْضَنَا بِسُلْطَانِكَ الْأَجْلَى وَ إِنَّكَ أَقْدَرُ اے میرے اللہ !ہماری فریاد رسی کر اور ہمیں سیراب کر اور ہماری عزت کی حفاظت کر اپنی بہت بڑی قوت سے.بے شک تو بڑی قدرت والا ہے.يَئِسُنَا مِنَ الْمَخْلُوقِ وَانْقَطَعَ الرَّجَا وَجِئْنَاكَ يَامَنْ يُعْلَمَنُ مَا يُضْمَرُ ہم مخلوق سے مایوس ہو گئے اور امید منقطع ہوگئی ہے اور ہم تیرے پاس آئے ہیں.اے وہ ہستی جو جانتی ہے اس امر کو جو دلوں میں پوشیدہ رکھا جاتا ہے.تَعَالَيْتَ يَا مَنْ لَّا تُحَاطُ كَمَالُهُ لَكَ الْحَمْدُ حَمَدًا لَّيْسَ يُحْصَى وَيُحْصَرُ تیری شان بلند ہے اے وہ ہستی جس کے کمال کا احاطہ نہیں ہو سکتا.تیری تعریف ایسی تعریف ہے جس کا شمار واحاطہ نہیں ہوسکتا.تَصَدَّقَ بِأَلْطَافٍ كَمَا أَنْتَ أَهْلُهَا وَأَدْرِكُ عِبَادًا لَّكَ كَمَا أَنْتَ أَقْدَرُ (۱۰۲) مہربانیوں سے نواز.جیسا کہ تیری شایانِ شان ہے اور دستگیری کراپنے بندوں کی جیسا کہ تو بڑی قدرت رکھنے والا ہے.فَخُذُ بِيَدِى يَارَتِ فِى كُلِّ مَوْطِنٍ وَأَيَّدْ غَرِيبًا يُلْعَنَنُ وَيُكَفَّرُ اے میرے رب ! ہر معرکہ میں میرا ہاتھ پکڑ اور اس بے یارو مددگار کی تائید فرما جو لعنت اور تکفیر کیا جا رہا ہے.
حمامة البشرى ۳۶۲ اردو ترجمه آتَيْتُكَ مِسْكِينًا وَّعَوْنُكَ أَعْظَمُ وَجِئْتُكَ عَطْشَانًا وَّ بَحْرُكَ أَزْخَرُ میں مسکین ہو کر تیرے حضور آیا ہوں اور تیری بد دسب سے بڑی ہے اور میں پیاسا ہو کر تیرے پاس آیا ہوں اور تیرا سمندر بہت موجزن ہے.قَدِ انْدَرَسَتْ آثَارُ دِينِ مُحَمَّدٍ فَأَشْكُوا إِلَيْكَ وَ أَنْتَ تَبْنِي وَتَعْمُرُ دین محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نشان مٹ چکے ہیں.پس میں تیرے حضور شکایت کرتا ہوں تو ہی تعمیر کرتا اور آباد کرتا ہے.أرى كُلَّ يَوْمٍ فِتْنَةٌ قَدْ مُدَدَتْ وَمُتْنَا وَ أَمْوَاتُ الْأَعَادِي بُعْثِرُوا میں ہر روز ایک فتنہ دیکھتا ہوں جو پھیلایا گیا ہے اور ہم تو مر گئے ہیں اور دشمنوں کے مُردے جی اٹھے ہیں.وَ قَدْ أَزْمَعُوا أَنْ يُزْعِجُوا سُبُلَ الْهُدَى وَكَمْ مِنْ أَرَاذِلَ مِنْ شَقَاهُمْ تَنَصَّرُوا اور انہوں نے عزم کر لیا ہے کہ ہدایت کے راستوں کو جڑ سے اکھیڑ دیں اور بہت سے کمینے اپنی بد بختی سے عیسائی ہو گئے ہیں.أرى كُلَّ مَحْجُوبِ لِدُنْيَاهُ بَاكِيًا فَمَنْ ذَا الَّذِي يَبْكِي لِدِينِ يُحَقَّرُ میں دین سے ہر بے بہرہ کو اپنی دنیا کے لئے رونے والا پاتا ہوں.پس کون ہے وہ جو روئے اس دین کے لئے جس کی تحقیر کی جارہی ہے.فَيَا نَاصِرَ الْإِسْلَامِ يَارَبَّ أَحْمَدَا اَعْتُنِي بِتَائِيدٍ فَإِنِّي مُدْخَرُ اے اسلام کے ناصر ! اے احمد کے ربّ ! تائید کے ساتھ میری فریاد رسی کر.میں تو ذلیل کیا گیا ہوں.اَ يَا رَبَّ مَنْ أَعْطَيْتَهُ كُلَّ دَرَجَةٍ وَشَأنَا بِرُؤْيَتِهِ الْوَرى تَتَحَيَّرُ اے اس رسول کے رب جسے تو نے ہر درجہ دیا ہے اور ایسی شان جسے دیکھ کر مخلوق حیران ہو رہی ہے.وَمَا زِلْتَ ذَا لُطْفِ وَّعَطْفٍ وَّرَحْمَةٍ وَمَا كُنْتُ مَحْرُوْمًا وَّكُنتُ أَوَقَرُ اور تو ہمیشہ لطف مہربانی اور رحمت کرنے والا رہا ہے اور میں کبھی بھی محروم نہیں رہا اور عزت ہی پاتا رہا ہوں.فَلَا تَجْعَلَنِى مُضْغَةٌ لِمُحَارِبِي وَأَنْتَ وَحِيدِي كُلَّ خَطْةٍ تَغْفِرُ سو مجھے لقمہ نہ بنا دینا مجھ سے لڑنے والے کا.تو میرا بیگانہ خدا ہے.تو ہر ایک خطا بخش دیتا ہے.وَأَنْتَ الْمُهَيْمِنُ مَرْجِعُ الْخَلْقِ كُلّهِمُ وَأَنتَ الْحَفِيظٌ تُعِيْنُنِي وَتُعَزِّرُ اور تو نگہبان خدا ہی تمام مخلوق کا مرجع ہے اور تو ہی محافظ ہے.تو میری مدد کرتا ہے اور ( مجھے ) عظمت دیتا ہے.(۱۰۳) وَمَا غَيْرُ بَابِ الرَّبِّ إِلَّا مَذَلَّةٌ وَمَا غَيْرُ نُورِ الرَّبِّ إِلَّا تَكَدُّرُ اور رب کے دروازے کے سوا تو صرف ذلّت ہی ذلت ہے اور رب کے نور کے سوا تو صرف ظلمت ہی ظلمت ہے.وَعُلِمتُ مِنْكَ حَقَائِقَ الدِّينِ وَالْهُدَى وَتَهْدِى بِفَضْلِكَ مَنْ تَرَى وَ تُنَوِّرُ اور مجھے تیری طرف سے دین و ہدایت کے حقائق سکھائے گئے ہیں.اور تو اپنے فضل سے ہدایت دیتا ہے جسے قابل دیکھتا ہے اور منور کرتا ہے.
حمامة البشرى ۳۶۳ اردو ترجمه إِذَا مَا بَدَا لِى أَنَّ عِلْمِی غَامِضٌ فَأَيْقَنُتُ أَنِّي عَنْ قَرِيبٍ سَأَكْفَرُ جب مجھے معلوم ہوا کہ میرا علم تو بہت گہرا ہے تو میں نے یقین کر لیا کہ میں جلد ہی کافر قرار دیا جا ؤں گا.فَسَلَّمْتُ بَعْدَ الْاهْتِدَاءِ بِفَضْلِهِ سَلَامَ الْوَدَاعِ عَلَى الَّذِي يَسْتَنْكِرُ پس میں نے اس کے فضل سے ہدایت پانے کے بعد الوداعی سلام کہہ دیا.سلام اس شخص کو جو ( مجھے ) نہیں پہچانتا.وَ إِنَّ الْهِدَايَةَ يَرْجِعَنُ نَحْوَ طَالِبٍ وَمَنْ غَضَّ عَيْنَى رُؤْيَةٍ أَيْنَ يُبْصِرُ اور یقیناً ہدایت طالب ہدایت کی طرف لوٹتی ہے.جس نے اپنے دیکھنے کی دونوں آنکھیں بند کر لیں وہ کہاں دیکھے گا.وَ وَاللَّهِ لَا يَشْقَى الَّذِي هُوَ يَطْلُبُ وَمَنْ جَدَّ فِي تَحْصِيلِ هَدْيِ سَيُنْصَرُ اور خدا کی قسم او شخص جو طالب (ہدایت) ہو بے نصیب نہیں ہوتا اور جوشخص ہدایت پانے کی کوشش کرتا ہے اس کی مددضرور کی جاتی ہے.وَ مَنْ كَانَ اَكْبَرُ هَمِّهِ جَلْبَ لَذَّةٍ وَحَقِّ مِّنَ الدُّنْيَا فَكَيْفَ يُطَهَّرُ اور جس کا بڑا مقصد لذت اور دنیا کی خوش نصیبی کا حصول ہو تو وہ کیسے پاک کیا جائے گا.أَمُكْفِرِ! مَهْلًا بَعْضَ هَذَا التَّحَكُم وَخَفْ قَهُوَ رَبِّ قَالَ لَا تَقْفُ فَاحْذَرُوا اے مجھے کا فرقراردینے والے! اس حکم کو قدرے چھوڑ دے اور ڈر اس رب کے قہر سے جس نے لا تقف کہا سو تم لوگ بھی ڈرو.وَإِنَّ ضِيَاءَ الدِّينِ قَدْ حَانَ وَقْتُهُ فَتَعُرِفْ شَجَرَتَنَا بِمَا هِيَ تُثْمِرُ اور یقینا دین کی روشنی کا وقت آ پہنچا ہے.تو پہچان لے گا ہمارے درخت کو ان پھلوں سے جو وہ دے گا.وَ يَا حَسَرَاتٍ مُّوْبِقَاتٍ عَلَى الَّذِي يُكَذِبُنِي مِنْ غَيْرِ عِلْمٍ وَيُكْفِرُ اور بہت سی ہلاکت خیز حسرتیں ہیں ایسے شخص پر جو بغیر علم کے میری تکذیب اور تکفیر کرتا ہے.وَمَا جِئْتُ قَوْمِي مِنْ دِيَارِ بَعِيدَةٍ وَقَدْ عَرَفُونِي قَبْلَهُ ثُمَّ انْكَرُوا اور میں اپنی قوم کے پاس دور کے ملکوں سے نہیں آیا حالانکہ وہ تو مجھے پہلے سے ہی جانتے تھے پھر (بھی) انہوں نے انکار کر دیا.وَ أَعْرَضَ عَنِّى كُلُّ مَنْ كَانَ صَاحِبِي وَأَفْرِدْتُ إِفْرَادَ الَّذِي هُوَ يُقْبَ اور مجھ سے ہر اس شخص نے جو میرا ساتھی تھا منہ پھیر لیا اور میں اس شخص کی طرح اکیلا چھوڑ دیا گیا ہوں جو قبر میں اکیلا داخل کیا جاتا ہے.تَمَنَّيْتُ أَنْ يُخْفى تَطَاوُلُ قَوْلِهِمْ وَهَلْ يَخْتَفِى مَا فِي الْمَجَالِسِ يُذْكَرُ ﴿١٠٣ میں نے خواہش کی کہ ان کی باتوں کی زیادتی مخفی رہے.اور کیا مخفی رہ سکتی ہیں وہ باتیں جو مجلسوں میں بیان کی جائیں؟ وَ يَعُوِى عَدُوّى مِثْلَ ذِئْبٍ مِنْ طَوَّى وَلَيْسَ لَهُ عِلْمٌ بِمَا هُوَ اذْكُرُ اور میرا دشمن بھیڑیے کی طرح دنیا کی بھوک کے مارے چلا رہا ہے اور اسے علم نہیں ہے ان باتوں کا جو میں بیان کر رہا ہوں.
حمامة البشرى ۳۶۴ اردو ترجمه وَمَا رُزِقَتْ عَيْنَاهُ مِنْ نَيْرِ الْعُلى فَاَخْلَدَ نَحْوَ الْأَرْضِ جَهْلًا وَّ يُنْكِرُ اور نہیں عطا کیا گیا اس کی آنکھوں کو کچھ بھی آسمانی آفتاب سے.سو وہ اپنی نادانی سے زمین سے جالگا اور انکار کر رہا ہے.أُولئِكَ قَوْمٌ ضَيَّعُوا أَمْرَ دِينِهِمْ وَخَانُوا الْعُهُودَ وَ زَيَّنُوا مَا زَوَّرُوا سید ولوگ ہیں جنہوں نے اپنے دین کے معاملہ کو ضائع کر دیا اور اپنے عہدوں میں خیانت کی اور اس چیز کو جو انہوں نے فریب سے گھڑی تھی آراستہ کر کے پیش کیا.وَ يَعْلَمُ رَبِّي سِرَّ قَلْبِي وَسِرَّهُمْ وَكُلُّ خَفِي عِندَهُ مُتَحَصِرُ اور میرا رب میرے دل کے بھید کو اور ان کے بھید کو جانتا ہے اور ہر مخفی چیز اس کے سامنے حاضر ہے.وَ لَوْ كُنتُ مَرْدُودَ الْمَلِيْكِ لَضَرَّنِي عَدَاوَةُ قَوْمٍ كَذَّبُونِي وَ كَفَرُوا اور اگر میں راندہ درگاہ الہی ہوتا تو ضرور ضرر پہنچاتی مجھے عداوت ان لوگوں کی جنہوں نے مجھے جھٹلایا اور تکفیر کی.وَهَمُوا بِتَكْفِيرِى وَقَامُوا لِلَعْنَتِي وَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ الْمُهَيْمِنَ يَنْظُرُ اور انہوں نے میری تکفیر کا قصد کیا اور مجھے لعنت کرنے کیلئے کھڑے ہوئے اور انہوں نے نہ جانا کہ یقیناً خدائے نگہبان سب کچھ دیکھ رہا ہے.إِذَا قِيلَ إِنَّكَ مُرْسَلٌ خِلْتُ انَّنِى دُعِيُتُ إِلَى أَمْرٍ عَلَى الْخَلْقِ يَعْسِرُ جب کہا گیا کہ تو رسول ہے تو میں نے خیال کیا کہ میں ایک ایسے امر کی طرف بلایا گیا ہوں جو مخلوق پر گراں گزرے گا.وَكُنتُ عَلَى نُورٍ فَزَاغُوا مِنَ الْعَمَى وَهَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَ رَجُلٌ يُبْصِرُ اور میں تو نور پر قائم تھا سو وہ اندھے پن سے ٹیڑھے ہو گئے اور کیا برابر ہوسکتا ہے اندھا اور وہ شخص جو دیکھ رہا ہے.وَمَا دِينَنَا إِلَّا هِدَايَةُ أَحْمَدَ فَيَالَيْتَ شِعْرِى مَا يَظُنُّ الْمُكَفِّرُ اور نہیں ہے ہمارا کوئی دین سوائے احمد کی ہدایت کے.کاش میں جانتا کہ کیا ہے وہ بات جسے ملٹر (دین و ہدایت ) گمان کر رہا ہے.وَقَدْ كُنتُ اَنْسَى كُلَّ جَوْرِ مُعَتِرِى وَلَكِنَّهُ جَوْرٌ كَبِيرٌ مُكَوِّرُ اور میں اپنے عیب لگانے والے کا ہر ظلم بھلا دیتا رہا ہوں.لیکن یہ تو ایک کئی گنا بڑا وَكَمْ مِّنْ دَلَائِلَ قَدْ كَتَبَتُ لِطَالِبِ يُفَكِّرُ فِيْهَا لَوْذَعِيٌّ مُدَبِّرُ اور بہت سے دلائل ہیں جو میں نے طالب حق کے لئے لکھے ہیں، ایک مدبر عالم ان میں سوچ سے کام لے گا.(۱۰۵) أَلَا أَيُّهَا الْمُتَكَبِّرُ الْمُتَشَدِّدُ تُرِيدُ هَوَانِي وَالْكَرِيمُ يُعَزِّرُ اے متکبّر تشدد کرنے والے! تو میری ذلت چاہتا ہے حالانکہ کریم خدا مجھے عظمت دے رہا ہے.وَإِذْ قُلْتُ إِنِّي مُسْلِمٌ قُلْتَ كَافِرٌ فَايْنَ التَّقَى يَا أَيُّهَا الْمُتَهَوِّرُ اور جب میں نے کہا میں مسلمان ہوں.تو نے کہا کافر ہے.تو کہاں چلا گیا تقوی؟ اے دلیری کرنے والے! ہے.
حمامة البشرى ۳۶۵ اردو ترجمه وَ بَعْدَ بَيَانِي أَيْنَ تَذْهَبُ مُنْكِرًا اَتَعْلَمُ يَا مِسْكِينُ مَا هُوَ مُضْمَرُ اور میرے بیان کے بعد تو انکار کرتا ہوا کہاں جائے گا؟ اے مسکین! کیا تو جانتا ہے اس امر کو جو پوشیدہ ہے؟ فَلَا تَتَجَرَّعُ أَيُّهَا الضَّالُ فِى الْهَوَى بِأَيدِيكَ كَأْسَ الْمَوْتِ مَالَكَ تُخْطِرُ اے حرص و ہوا میں گمراہ! تو گھونٹ گھونٹ مت پی اپنے ہاتھوں سے موت کا پیالہ جو تیرے لئے آ رہا ہے.وَإِنْ كُنتَ لَا تَخْشَى فَقُلْ لَسْتَ مُؤْمِنًا وَيَأْتِي زَمَانٌ تُسْتَلَنَّ وَتُخْبَرُ اور اگر تو ڈرتا نہیں تو ( مجھے ) کہتارہ کہ تو مومن نہیں اور ایک زمانہ آئے گا کہ تجھ سے ضرور پوچھا جائے گا اور تجھے پتہ لگ جائے گا.وَكُلُّ سَعِيدِ يَعْرِفَ الْحَقَّ قَلْبُهُ وَأَمَّا الشَّقِيُّ فَيَعْلَمَنُ حِيْنَ يَخْسَرُ اور ہر ایک سعید کا دل حق پہچان لیتا ہے اور جو بد بخت ہے سو وہ اس وقت جانے گا جب وہ خسارے میں پڑے گا.وَ إِنِّي تَرَكْتُ النَّفْسَ وَالْخَلْقَ وَالْهَوَى فَلَا السَّبُ يُؤْذِينِي وَلَا الْمَدْحُ يُبْطِرُ اور بے شک میں نے نفس کو مخلوق کو اور خواہشات کو چھوڑ دیا ہے سواب نہ گالی مجھے تکلیف دیتی ہے اور نہ مدرح مجھے فخر دلاتی ہے.وَ كَمُ مِّنْ عَدَةٍ بَعُدَ مَا اَكْمَلَ الْأَذَى أَتَانِي فَلَمُ أَصْعَرُ وَمَا كُنْتُ أَصْعَرُ وَكَمْ اور بہت سے دشمن ہیں کہ پورا دکھ دے لینے کے بعد میرے پاس آئے پس میں نے بے رخی نہ کی اور نہ ہی میں پہلے بے رخی کیا کرتا تھا.أحِنُّ إلى مَنْ لَّا يَحِنُّ مَحَبَّةٌ وَأَدْعُو لِمَنْ يَّدْعُو عَلَيَّ وَيَهْدِرُ میں تو محبت کی وجہ سے اس کی طرف بھی مائل ہوتا ہوں جو میری طرف مائل نہیں ہوتا اور میں اس کیلئے بھی دعا کرتا ہوں جو مجھ پر بددعا کرتا ہے اور بکواس کرتا ہے.خُذِ الرّفْقَ إِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْمَحَاسِنِ وَيَكْسِرُ رَبِّي رَأْسَ مَنْ يَتَكَبَّرُ تو نرمی اختیار کر کہ نرمی تمام خوبیوں کی جڑ ہے اور میرا رب اس شخص کا جو تکبر کرتا ہے سر توڑ دیتا ہے.عَجِبْتُ لِأَعْمَى لَا يُدَاوِى عُيُونَهُ وَمِنْ كُلِّ ذِي الْأَبْصَارِ يَلْوِى وَيَسْخَرُ میں اس اندھے پر تعجب کرتا ہوں جو اپنی آنکھوں کا علاج نہیں کرتا اور ہر آنکھوں والے سے منہ پھیرتا اور بنی کرتا ہے.اتنسى نَجَاسَاتٍ رَّضِيْتَ بِأَكُلِهَا وَتَدُمُ مَا هُوَ مُسْتَطَابٌ وَأَطْهَرُ کیا تو بھول گیا ہے ان نجاستوں کو جن کے کھانے پر تو راضی ہو گیا ہے؟ اور مذمت کر رہا ہے اس کی جو عمدہ اور بہت پاک ہے.مِينَ جَهَلايَا ابْنَ اوِى ثَعْلَبًا وَمَا أَنَا إِلَّا اللَّيْثُ لَوْ تَتَفَكَّرُ ﴿١٠٦) تُسَمِّينَ اے گیدڑ! تو نادانی سے میرا نام لومڑی رکھتا ہے حالانکہ میں تو ایک شیر ہوں اگر تو غور کرے.تَفِيضُ عُيُونُ الْعَارِفِينَ بِقَوْلِنَا وَلَكِنْ غَبِيٌّ يَضْحَكَنُ وَيُحَقِرُ ہماری باتوں سے عارفوں کی آنکھیں بہہ پڑتی ہیں لیکن نبی ہنستا ہے اور تحقیر کرتا ہے.
حمامة البشرى ۳۶۶ اردو ترجمه تُعَيِّرُنِي ظُلُمَا وَكِبْرًا وَّنَخْوَةٌ وَهَيْهَاتَ أَهْلُ الْحَقِّ كَيْفَ يُعَيَّرُ تو مجھے ظلم تکبر اور نخوت سے عیب لگاتا ہے اور یہ بات دور از عقل ہے.اہل حق پر کیسے عیب لگایا جا سکتا ہے.صَبَرُنَا عَلَى ظُلْمِ الْخَلَائِقِ كُلِّهَا وَتُبْنَا إِلَى الرَّبِّ الَّذِي هُوَ أَقْدَرُ ہم نے ساری مخلوق کے ظلم پر صبر کیا اور اس رب کی طرف متوجہ ہو گئے جو سب سے زیادہ قدرت رکھتا ہے.تَرَكْنَا الْقِلَى وَاللَّهُ كَافٍ لِصَادِقِ وَإِنَّ الصُّدُوقَ بِفَضْلِهِ يُتَخَيَّرُ ہم نے بغض و عداوت کو چھوڑ دیا اور اللہ صادق کے لئے کافی ہے اور بے شک صادق اس کے فضل سے مقبول ہوتا ہے.وَلَيْسَ الْفَتَى مَنْ يُقْتُلُ النَّاسَ سَيْفَهُ وَلَكِنَّهُ مَنْ يُظْلَمَنَّ وَيَصْبِرُ اور جواں مرد وہ نہیں جس کی تلوار لوگوں کو قتل کرے لیکن جواں مرد وہ ہے جو مظلوم ہو اور صبر کرے.اَرَى الظُّلُمَ يُبْقِي فِي الْخَرَاطِيمِ وَسْمَهُ وَأَمَّا عَلَامَاتُ الاذى فَتُغَيَّ میں ظلم کو ایسا دیکھتا ہوں کہ وہ ظالموں کی ناکوں پر اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے لیکن تکلیفوں کے نشانات (مظلوم سے ) مٹ جاتے ہیں.أتُكْفِرُنِي يَا أَيُّهَا الْمُسْتَعْجِلُ وَأَيَّ عَلَامَاتٍ تَرَى إِذْ تُكْفِرُ اے جلد باز! کیا تو میری تکفیر کرتا ہے اور (مجھ میں) کون سی باتیں تو پاتا ہے جب تکفیر کرتا ہے.وَ إِنَّ إِمَامَى سَيِّدُ الرُّسُلِ أَحْمَدُ رَضِيْنَاهُ مَتْبُوعًا وَّ رَبِّي يَنْظُرُ یقیناً میرا پیشوا تو سوالوں کا سردار احمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.ہم نے اس کو متبوع کے طور پر پسند کر لیا ہے اور میر ارب دیکھ رہا ہے.وَلَا شَكٌّ أَنَّ مُحَمَّدًا شَمْسُ الْهُدَى إِلَيْهِ رَغِبْنَا مُؤْمِنِينَ فَنَشْكُرُ بے شک محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کے آفتاب ہیں ہم نے اس کی طرف مومن ہو کر رغبت کی پس ہم شکر کرتے ہیں.لَهُ دَرَجَاتٌ فَوْقَ كُلَّ مَدَارِجِ لَهُ لَمَعَاتٌ لَا يَلِيْهَا تَصَرُّرُ آپ کے درجات تمام درجات سے بلند تر ہیں.آپ کی ایسی تجلیات ہیں کہ وہ تصویر میں نہیں آ سکتیں.أَ بَعْدَ نَبِيِّ اللَّهِ شَيْءٌ يَرُوقُنِي أَبَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ وَجُهُ مُنَوَّرُ کیا نبی اللہ کے بعد کوئی چیز مجھے اچھی لگ سکتی ہے کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور منور چہرہ بھی ہے؟ عَلَيْكَ سَلَامُ اللَّهِ يَا مَرْجَعَ الْوَرَى لِكُلِّ ظَلَامٍ نُورُ وَجْهِكَ نَيْرُ تجھ پر اللہ کا سلام ہے، اے مرجع خلائق! ہر تاریکی کے لئے تیرے چہرے کا نور ایک آفتاب ہے.وَيَحْمَدُكَ اللهُ الْوَحِيدُ وَجُنُدُهُ وَيُثْنِي عَلَيْكَ الصُّبْحُ إِذْ هُوَ يَجُشُرُ اور خدائے یکتا تیری تعریف کرتا ہے اور اس کا لشکر بھی.نیز صبح بھی تیری تعریف کرتی ہے جب وہ طلوع ہوتی ہے.
حمامة البشرى ۳۶۷ اردو ترجمه مَدَحْتُ اِمَامَ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّهُ لَارُفَعُ مِنْ مَّدْحِيْ وَأَعْلَى وَ اَكْبَرُ میں نے انبیاء کے امام کی مدح کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ میری مدح سے بالا اور اعلیٰ اور اکبر ہے.دَعُوا كُلَّ فَخْرِ لِلنَّبِيِّ مُحَمَّدٍ اَمَامَ جَلَالَةِ شَانِهِ الشَّمْسُ أَحْقَرُ ہر فخر کو نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ہی لئے رہنے دو.آپ کی جلالت شان کے سامنے تو سورج بھی بہت حقیر ہے.وَصَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا أَيُّهَا الْوَرَى وَذَرُوا لَهُ طُرُقَ التَّشَاجُرِ تُوْجَرُوا اور اے تمام لوگو! اس پر درود و سلام بھیجو اور اس کی خاطر جھگڑے کی راہیں چھوڑ دو کہ اجر پاؤ.وَ وَاللَّهِ إِنِّي قَدْ تَبِعْتُ مُحَمَّدًا وَفِي كُلّ أَن مِّنْ سَنَاهُ أَنَوَّرُ اور خدا کی قسم ! یقیناً میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ہے اور ہر لحظہ آپ کی روشنی سے ہی منور ہورہا ہوں.وَ فَوَّضَنِي رَبِّي إِلَى رَوُضِ فَيُضِهِ وَإِنِّى بِهِ أَجْنِي الْجَنَى وَ أُنضَّرُ مجھے میرے رب نے آپ کے فیض کے باغوں کے سپرد کر دیا ہے اور یقیناً میں آپ کے ذریعہ ہی پھل چنا اور تر و تازہ کیا جاتا ہوں.وَلِدِينِهِ فِي جَذْرِ قَلْبِي لَوْعَةٌ وَإِنَّ بَيَانِي عَنْ جَنَانِي يُخْبِرُ اور آپ کے دین کے لیے میرے دل کی گہرائی میں ایک تڑپ ہے.اور یقیناً میرابیان میرے دل کی حالت کی خبر دے رہا ہے.وَرِثْتُ عُلُومَ الْمُصْطَفَى فَاَخَذْتُهَا وَكَيْفَ اَرُدُّ عَطَاءَ رَبِّي وَ أَفْجُرُ میں مرد مصطفے کے علوم کا وارث ہوا سو میں نے ان کو لے لیا اور میں اپنے رب کی عطا کو کیسے رد کروں اور گنہگار بنوں.وَ كَيْفَ وَ لِلإِسْلَامِ قُمْتُ صَبَابَةً وَأَبْكِي لَهُ لَيْلًا نَّهَارًا وَ أَضْجَرُ اور یہ ہو کیسے سکتا ہے حالانکہ اسلام کی تائید کے لئے میں از راہ عشق کھڑا ہوں اور اسی کے لیے رات دن روتا ہوں اور کڑھتا ہوں.وَ عِنْدِي دُمُوعٌ قَدْ طَلَعْنَ الْمَاقِيَا وَعِنْدِي صُرَاحٌ مِثْلَ نَارٍ مُّسَمَّرُ اور میرے آنسو آنکھوں کے کونوں سے باہر آگئے اور میری چیخ و پکار بھڑکائی ہوئی آگ کی طرح ہے.تَضَوَّعَ إِيْمَانِي كَمِسْكِ خَالِصِ وَقَلْبِى مِنَ التَّوْحِيدِ بَيْتٌ مُعَطَّرُ میرا ایمان خالص کستوری کی طرح مہک پڑا ہے اور میرا دل توحید کی وجہ سے ایک معطر گھر بنا ہوا ہے.وَفِي كُلِّ أَن يَأْتِيَنُ مِنْ خَالِقِي غِذَائِي نَمِيرُ الْمَاءِ لَا يَتَغَيَّرُ (١٠٨) اور ہر لحظہ میرے پاس میرے خالق کی طرف سے میری غذا آ رہی ہے، جو ایسا خالص مصفا پانی ہے جو تغیر پذیر نہیں ہوتا.تُضِيءُ الظُّلامَ مَعَارِفِي عِنْدَ مَنْطِقِى وَقَوْلِى بِفَضْلِ اللَّهِ دُرِّ مُنَوَّرُ میری گفتگو کے وقت میرے معارف ظلمت کو روشنی سے بدل دیتے ہیں اور میرا اقول اللہ کے فضل سے روشن موتی ہے.
حمامة البشرى ۳۶۸ اردو ترجمه إِلَى مَنطِقِى يَرْنُو الْفَهِيْمُ تَعَشُّقًا وَيُزْعِجُ نُطْقِى كُلَّ وَهُم وَ يَجْذَرُ میری گفتگو کی طرف ہر فہیم عاشقانہ رنگ میں نظر جمائے رکھتا ہے اور میری گفتگو ہر وہم کو ہلادیتی ہے اور اس کی جڑا کھاڑ دیتی ہے.سَنَا بَرْقِ الْهَامِيُّ يُنِيرُ لَيَالِيًا وَكَشْفِي كَصُبْحِ لَيْسَ فِيهِ تَكَدُّرُ میرے الہام کی بجلی کی روشنی راتوں کو منور کر دیتی ہے اور میرا کشف صبح کی طرح ( روشن ہے ) اس میں کوئی کدورت نہیں.وَ إِنَّ كَلامِي مِثلَ سَيْفِ قَاطِعٌ وَإِنَّ بَيَانِي فِي الصُّحُورِ يُؤْثِرُ میرا کلام تلوار کی طرح کاٹ دینے والا ہے اور میرا بیان چٹانوں میں بھی اثر پیدا کر دینے والا ہے.حَفَرُتْ جِبَالَ النَّفْسِ مِنْ قُوَّةِ الْعُلى فَصَارَ فُؤَادِي مِثْلَ نَهْرٍ يُفَجَّرُ میں نے نفس کے پہاڑوں کو آسمانی قوت سے کھود ڈالا ہے سومیرا دل نہر کی طرح ہو گیا ہے جو کھود کر جاری کی جاتی ہے.وَادْعِيَتِى عِندَ الْوَغَى تَقْتُلُ الْعِدَا فَطُوبَى لِقَلْبٍ يَتَّقِيْهَا وَيَحْذَرُ اور میری دعائیں لڑائی کے وقت دشمنوں کو قتل کرتی ہیں.پس خوشخبری ہے اس دل کے لئے جو ان سے ڈرے اور بچے.وَأَذَانِى قَوْمِي بِسَتٍ وَلَعْنَةٍ وَكَمْ مِنْ لِسَانِ لَا يُضَاهِيهِ خَنْجَرُ اور میری قوم نے مجھے ایزادی ہے گالی دینے اور لعنت سے.اور بہت سی زبانیں ایسی ہیں گریتینجر بھی ان کی برابری نہیں کرتا.إِذَا مَا تَحَامَتُنِي مَشَاهِيرُ مِلَّتِي فَقُلْتُ احْسَأُوُا إِنَّ الْخَفَايَا سَتَظْهَرُ جب مجھ سے میری قوم کے سرکردہ لوگوں نے اجتناب کیا تو میں نے کہا دور ہو جاؤ.یقین مخفی با تیں عنقریب ظاہر ہو جائیں گی.فَرِيقٌ مِّنَ الْإِخْوَانِ لَا يُنْكِرُونَنِي وَحِزْبٌ يُكَذِّبُ كُلَّ قَوْلِي وَيَزُجُرُ بھائیوں میں سے ایک گروہ تو میرا انکار نہیں کرتا اور ایک گروہ میرے ہر قول کو جھٹلاتا اور جھڑکتا ہے.وَقَدْ زَاحَمُوا فِي كُلِّ اَمْرٍ اَرَدْتُهُ وَكُلِّ يُخَوِّفُنِي وَرَبِّي يُبَشِّرُ کا اور انہوں نے ہر کام میں جس کا میں نے ارادہ کیا روک ڈالی ہے اور ہر ایک مجھے ڈراتا ہے حالانکہ میرا رب مجھے بشارت دے رہا ہے.فَاقْسَمْتُ بِاللهِ الَّذِي جَلَّ شَانُهُ عَلَى أَنَّهُ يُخْزِى عَدُوّى وَ يَشْزِرُ سو میں نے اس اللہ کی قسم کھائی ہے جس کی شان بڑی ہے اس بات پر کہ وہ میرے دشمن کو رسوا کرے گا اور اس کو غضب کی نظر سے دیکھے گا.(19) وَمَا أَنَا عَنْ عَوْنِ الْمُعِيْنِ بِمُبْعَدٍ إِذَا اللَّيْلُ وَارَانِي فَنُورٌ يُنَوِّرُ اور میں مددگار خدا کی مدد سے دور نہیں.جب رات مجھے ڈھانپتی ہے تو ایک نور مجھے منور کرتا رہتا ہے.وَ قَدْ قَادَنِي رَبِّي إِلَى الرُّشْدِ وَالْهُدَى وَوَقَرَنِي مِنْ عِندِهِ فَأَوَقَرُ اور مجھے راہنمائی کر کے میرے رب نے رُشد و ہدایت تک پہنچادیا ہے.اور اس نے مجھے اپنی جناب سے اعزاز بخشا ہے سو میں عزت پارہا ہوں.
حمامة البشرى ۳۶۹ اردو ترجمه وَ إِنَّ كَرِيمِيُّ يُطْلِقُ الْكَفَّ بِالنَّدَى وَلِى مِنْ عَطَاءِ الرَّبِّ رِزْقٌ يُوَفَّرُ اور میرا کریم خدا سخاوت میں فراخ دست ہے اور مجھے رب کی عطا سے وافر حصہ مل رہا ہے.وَلَا زَالَ مَمْدُودًا عَلَيَّ ظِلَالُهُ وَنَعْمَاءُهُ كَفُرَتْ عَلَيَّ وَتَكْفُرُ مجھ پر اس کا سایہ ہمیشہ چھایا رہا ہے اور اس کی نعمت مجھ پر بکثرت ہو رہی ہے اور بڑھ رہی ہے.اَ كَانَ لَكُمْ عَجَبًا بِبَعْثِ مُجَدِدٍ هَلُمَّ انْظُرُوا فِتَنَ الزَّمَانِ وَفَكِّرُوا کیا ایک مجدد کی بعثت سے تمہیں تعجب ہو رہا ہے؟ آؤ زمانہ کے فتنے دیکھو اور سوچو.اَمَامَكَ يَا مَغْرُورُفِتَنْ مُحِيطَةٌ وَاَنْتَ تَسُبُّ الْمُؤْمِنِينَ وَتَهْجُرُ اے مغرور! تیرے سامنے گھیر لینے والے فتنے موجود ہیں اور تو مومنوں کو گالیاں دے رہا اور بکواس کر رہا ہے.فَهَذَا عَلَى الْإِسْلَامِ يَوْمُ الْمَصَائِبِ يُكَفِّرُ مِثْلِى وَالرِّيَاضُ حَبَوكَرُ یہ اسلام پر مصیبتوں کا زمانہ ہے کہ میرے جیسے کی تکفیر کی جا رہی ہے حالانکہ باغات ریگستان بن رہے ہیں.وَلِلْكُفْرِ اثَارٌ وَلِلدِّينِ مِثْلُهَا فَقُومُوا لِتَفْتِيُشِ الْعَلَامَاتِ وَ انْظُرُوا اور کفر کی بھی کچھ علامات ہیں اور اسی طرح دین کی بھی.پس ان علامتوں کی تلاش کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور غور کرو.اَ تَحْسَبُ أَنَّ اللهَ يُخْلِفُ وَعْدَهُ اَتَنُسَى الْمَوَاعِيدَ الَّتِي هِيَ أَظْهَرُ کیا تو خیال کرتا ہے کہ اللہ اپنے وعدہ کے خلاف کرے گا؟ کیا تو ان عذاب کی خبروں کو بھول رہا ہے جو کہ بہت ہی واضح ہیں.وَيَأْتِيكَ وَعْدُ اللهِ مِنْ حَيْثُ لَا تَرى فَتَعُرفُهُ عَيْنٌ تَحِدُّ وَ تُبْصِرُ اور تیرے پاس اللہ کا وعدہ آجائے گا اس طرف سے جسے تو نہیں جانتا.سواس کو تیز نگاہ پہچان لے گی اور دیکھ لے گی.وَقَدْ عَلِمَ الْأَعْدَاءُ انِى مُؤَيَّدٌ وَلَكِنَّهُمْ مِّنْ حِقْدِهِمْ قَدْ انْكَرُوا اور دشمنوں نے جان لیا ہے کہ میں تائید یافتہ ہوں لیکن انہوں نے اپنے کینے کی وجہ سے انکار کر دیا.اَلَا أَيُّهَا الْإِخْوَانُ بَشُوا وَأَبْشِرُوا هَنِيًّا لَّكُمْ عِيدٌ جَدِيدَ اكْبَرُ بھائیو! خوش ہو جاؤ اور خوشی مناؤ.مبارک ہو تمہارے لئے بہت بڑی نئی عید ہے.وَلَيْسَ لِعَضْبِ الْحَقِّ فِي الدَّهْرِ كَاسِرٌ وَمَا يَصْنَعُونَ مِنَ الْحَدِيدِ فَيُكْسَرُ ١١٠) اور حق کی تلوار کو زمانہ میں کوئی توڑنے والا نہیں اور جو کچھ وہ لوہے سے بنا رہے ہیں وہ توڑ دیا جائے گا.وَهَلْ جَائِزٌ سَبُّ الْمُؤَيَّدِ بَعْدَمَا اَتَتْ آيَةُ الْمَوْلَى وَ ظَهَرَ الْمُضْمَرُ کیا (خدا کے) تائید یافتہ کو گالی دینا جائز ہے بعد اس کے کہ مولی کا نشان آچکا ہو اور مخفی بات ظاہر ہو چکی ہو.ہے.
حمامة البشرى ۳۷۰ اردو ترجمه اااام وَفِي يَدِ رَبِّى كُلُّ عِزَوَّسُؤْدَدٍ وَغَزِيْزُهُ مِنْ كَيْدِكُمْ لَا يُحَقَّرُ اور میرے رب کے ہاتھ میں ہی ہر عزت اور سردائی ہے اور جو اس کا خاص بندہ ہے وہ تمہاری تدبیروں سے حقیر نہیں ہوسکتا.فَمَنْ ذَا يُعَادِينِي وَرَبِّى يُحِبُّنِي وَمَنْ ذَا يُرَادِيُنِي وَ رَبِّي مُعَزِّرُ پس کون ہے جو مجھ سے عداوت رکھے جب کہ میرا رب مجھ سے محبت کر رہا ہے اور کون ہے جو مجھ پر پتھر پھینکے جب کہ میرا رب میر امددگار ہے.لَنَا كُلَّ يَوْمٍ نُصْرَةٌ بَعْدَنُصْرَةٍ وَيَأْتِي الْحَبِيبُ مَقَامَنَا وَيُبَشِّرُ ہمیں ہر روز نصرت کے بعد نصرت مل رہی ہے اور ہمارا حبیب ہمارے پاس آتا ہے اور بشارت دیتا ہے.وَمَا أَنَا مِمَّنْ يَّمْنَعُ السَّيْفُ قَصْدَهُ فَكَيْفَ يُخَوِّفُنِي بِشَتُمٍ مُّكَفِّرُ اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں کہ تلوار اس کے ارادے کو روک سکے.پس تکفیر کرنے والا کس طرح مجھے گالیوں سے خوف دلا سکتا ہے.يَسُبُّ وَيَعْلَمُ أَنَّهُ يَتْرُكُ التَّقَى عَلى مِثْلِهِ الْوُفَّاظِ يَبْكِي الْمِنْبَرُ وہ گالی دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ تقویٰ چھوڑ رہا ہے.اس جیسے واعظوں پر ہی منبر روتا ہے.وَمَا إِنْ رَبَّيْنَا وَعُظَهُ غَيْرَفِتْنَةٍ وَمَا زَالَتِ الشَّحْنَاءُ تَنْمُرُ وَ تَكْفُرُ اور ہم نے اس کے وعظ کو فتنہ کے سوا کچھ نہ پایا اور دشمنی بڑھتی گئی اور بڑھ رہی ہے.وَكَفَّرَنِي حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيَصْلَى بِحُبِّ الْكُفْرِ نَارٌ ايُسَعَرُ اور اس نے میری تکفیر کی یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کفر کی محبت کی وجہ سے ضرور بھڑکتی آگ میں داخل ہو گا.عَجِبْتُ لَهُ لَا يَتْرُكَنَّ شُرُوْرَهُ وَذَكَرَهُ مِنْ كُلِّ نُصْحِ مُذَكِّرُ میں حیران ہوں کہ وہ اپنی شرارتوں کو نہیں چھوڑ رہا حالانکہ اسے نصیحت کرنے والے نے ہر قسم کی نصیحت کی ہے.وَ مِنْ عَجَبِ الأَيَّامِ انِى كَافِرٌ بِأَعْيُنِ رَجُلِ حَاسِدٍ بَلْ أَكْفَرُ اور یہ زمانہ کے حیران کن امور میں سے ہے کہ میں کافر ہوں ایک حاسد آدمی کی نگاہ میں بلکہ اکفر ہوں.وَ كَيْفَ أَخَافُ الْحَاسِدِينَ وَسَبَّهُمْ وَيَرْحَمُنِي رَبِّي وَيُؤْوِى وَيَنْصُرُ اور میں حاسدوں اور ان کے گالی دینے سے کس طرح ڈرسکتا ہوں جب کہ میرا رب مجھ پر رحم کر رہا ہے اور ( مجھے ) پناہ دے رہا ہے اور مدد دے رہا ہے.أُحِبُّ مَصَائِبَ سُبُلِ رَبِّي وَإِنَّهَا لَأَطْيَبُ لِي مِنْ كُلِّ عَيْشِ وَأَطْهَرُ اپنے رب کی راہوں کے مصائب سے میں محبت رکھتا ہوں اور وہ میرے لئے ہر زندگی سے زیادہ خوشگوار اور پاکیزہ ہیں.آيَا أَيُّهَا الْأَلْوَى كَسَبْعٍ تَغَيْظًا فَسَتَعْلَمَنُ فِي أَيِّ شَكْلٍ تُحْشَرُ اے درندے کی طرح غصہ کی حالت میں سخت دشمنی کرنے والے ! تو عنقریب جان لے گا کہ تو کس شکل میں اٹھایا جائے گا.
حمامة البشرى ۳۷۱ اردو ترجمه فَلا تَقْفُ مَالَا تَعْلَمَنْ أَسْرَارَهُ وَكَمْ مِّنْ عُلُومِ الْحَقِّ تُخْفَى وَ تُسْتَرُ پس نہ پیچھے پڑا اس بات کے جس کے بھید تو نہیں جانتا جب کہ کتنے ہی الہی علوم ہیں جو مخفی اور مستور رکھے جاتے ہیں.وَ جَهْلُكَ أَعْجَبَنِى وَطُولُ امْتِدَادِهِ وَإِنَّ الْفَتَى بَعْدَ الْجَهَالَةِ يَشْعُرُ اور تیری نادانی نے مجھے حیرانی میں ڈالا اور اس کے لمبے عرصہ تک بڑھ جانے نے بھی.حالانکہ یقیناً جوانمرد جہالت کے بعد شعور حاصل کر لیتا ہے.اَتُقْبِرُ حَيَّا مِثلَ مَيْتٍ خِيَانَةٌ وَيَعْلَمُ رَبِّي كُلَّمَا أَنتَ تَسْتُرُ کیا تو خیانت سے زندہ (سچائی) کو مردے کی طرح دفن کرتا ہے اور میرا رب خوب جانتا ہے ہر اس چیز کو جو کو چھپاتا ہے.الَامَ فَسَادُ الْقَلْبِ يَا تَارِكَ الْهُدَى اَلَامَ إِلى سُبُلِ الشَّقَاوَةِ تَسْفِرُ اے ہدایت کے تارک! کب تک دل کی خرابی (باقی رہے گی اور تو کب تک بد بختی کی راہوں کی طرف چلتا رہے گا؟ وَوَاللَّهِ إِنِّي مُؤْمِنٌ غَيْرُ كَافِرٍ وَأَيْنَ التَّقَى لَوْ كَانَ مِثْلِى يُفَجَّرُ اور خدا کی قسم! یقیناً میں مومن ہوں کافر نہیں.اور تقویٰ کہاں رہا اگر میرے جیسے آدمی کو فاجر ٹھہرایا گیا.فَيَا سَالِكِي سُبُلَ الشَّيَاطِينِ اتَّقُوا قَدِيرًا عَلِيمًا وَاحْذَرُوا وَتَذَكَّرُوا اے شیطانوں کی راہ پر چلنے والو! ڈرو قدیر علیم خدا سے اور بچو اور نصیحت حاصل کرو.وَ طُوبَى لِإِنْسَانِ تَيَقَّظَ وَانْتَهى وَخَافَ يَدَ الْمَوْلَى وَ سَيْفًا يُتَعْجِرُ اور خوشی ہے اس انسان کے لئے جو بیدار ہوا اور رک گیا اور مولیٰ کے ہاتھ سے ڈرا اور اس تلوار سے بھی جوخون بہاتی ہے.وَ وَاللَّهِ إِنِّي جِئْتُ مِنْهُ مُجَدِّدًا بِوَقْتٍ أَضَلَّ النَّاسَ غُولٌ مُّسَخّرُ اور خدا کی قسم ! یقیناً میں اس کی طرف سے مجد دہو کر آیا ہوں ایسے وقت میں کہ قابو کر لینے والے دیو نے لوگوں کو گمراہ کر دیا تھا.وَعَلَّمَنِي رَبِّى عُلُوْمَ كِتَابِهِ وَأُعْطِيتُ مِمَّا كَانَ يُخْفَى وَيُسْتَرُ مجھے میرے رب نے اپنی کتاب کے علوم سکھائے اور مجھے وہ علم دیا گیا جو مخفی اور مستور تھا.وَ اَسْرَارُ قُرآنِ مَّجِيدِ تَبَيَّنَتْ عَلَيَّ وَيَسَّرَ لِي عَلِيْمٌ مُّيَسِرُ اور قرآن مجید کے بھید مجھ پر ظاہر ہو گئے.آسانی پیدا کرنے والے خدائے علیم نے میرے لئے آسانی پیدا کر دی.كَانَ الْعَذَارَى بِالْوُجُوهِ الْمُنِيرَةِ خَرَجْنَ مِنَ الْكَهْفِ الَّذِي هُوَ مُقْعَرُ (۱۱۲) گویا کہ کنواری عورتیں چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ نکل پڑیں اس غار سے جو گہری تھی.أَلَا إِنَّمَا الأَيَّامُ رَجَعَتْ إِلَى الْهُدَى هَنِيئًا لَّكُمْ بَعْنِي فَبَشُوا وَابْشِرُوا سن لو! زمانہ ہدایت کی طرف لوٹ آیا.مبارک ہو تمہارے لئے میری بعثت.تم خوش ہو جاؤ اور خوشی مناؤ.
حمامة البشرى ۳۷۲ اردو ترجمه ہے.وَقَدِ اصْطَفَانِي خَالِقِي وَأَعَزَّنِي وَأَيَّدَنِي وَاخْتَارَنِي فَتَدَبَّرُوا اور میرے خالق نے مجھے برگزیدہ کیا ہے اور مجھے عزت دی اور میری تائید کی اور مجھے چن لیا سو تم غور کرو.وَ وَاللَّهِ مَا أَمْرِى عَلَيَّ بِغُمَّةٍ وَإِنِّي لَاعْرِفْ نُورَهُ لَا أُنْكِرُ اور اللہ کی قسم! میرا معاملہ مجھ پر مشتبہ نہیں اور یقیناً میں اس کے نور کو خوب پہچانتا ہوں، میں نا آشنا نہیں.إِذَا قَلَّ دِينُ الْمَرْءِ قَلَّ اتِّقَاءُهُ وَيَسْعَى إِلى طُرُقِ الشَّقَا وَيُزَوِّرُ جب انسان کی دینداری کم ہو جائے تو اس کا تقویٰ بھی کم ہو جاتا ہے اور وہ بدبختی کی راہوں کی طرف دوڑنے لگتا اور فریب سے کام لیتا ہے.وَ مَنْ ظَنَّ ظَنَّ السَّوْءِ بُخُلَا فَقَدْ هَوَى وَكُلُّ حَسُوْدٍ عِندَ ظَنَ يُتَبَّرُ اور جس نے بخل کی وجہ سے بدظنی کی تو وہ نیچے گر گیا اور بہت حسد کرنے والا ہر شخص بدظنی کرنے پر ہلاک کیا جاتا ہے.وَلَا يَعْلَمَنُ أَنَّ الْمَنَايَا قَرِيْبَةٌ إِذَا مَا تَجِيءُ الْوَقْتُ فَالْمَوْتُ يَحْضُرُ اور وہ نہیں جانتا کہ موتیں تو قریب ہیں اور جب وقت آ جاتا ہے تو موت حاضر ہو جاتی وَهَلْ نَافِعٌ وِرُدُ التَّنَدُّمِ بَعْدَمَا دَنَا وَقْتُ قَارِعَةٍ وَّ جَاءَ الْمُقَدَّرُ اور کیا ندامت کا وظیفہ نفع دے سکتا ہے بعد اس کے کہ موت کا وقت قریب ہو اور امر مقلد ر آ جائے.اَلَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا وَقَتَ مَوْتِكُمُ فَلَا تُلْهِكُمْ غُولٌ خَبِيتٌ مُخَسِرُ اے لوگو! اپنی موت کے وقت کو یاد کرو پس تمہیں خبیث نقصان رساں دیو غافل نہ کر دے.وَقَدْ ذَابَتِ الصَّفْوَاءُ مِنْ بَيْتِ عُمُرِكُمْ وَمَا بَقِيَ إِلَّا جَمْرَةٌ أَوْ أَصْغَرُ تمہاری عمر کے گھر کا بنیادی پتھر تو پکھل چکا ہے اور نہیں باقی رہ گئی مگر صرف ایک کنکری یا اس سے بھی کم تر.وَمِسَحُ الْحَمَامِ سَيَحْمِلَنُكَ عَلَى الْمَطَا وَأَنْتَ بِأَمْوَالٍ وَخَيْلٍ تَفْخَرُ اور موت کا تیز گھوڑا جلد تجھے اپنی پیٹھ پر سوار کر لے گا اور تو اپنے مالوں اور گھوڑوں پر فخر کر رہا ہے.أَلَا لَيْسَ غَيْرَ اللَّهِ شَيْءٌ مُدَوَّمٌ وَكُلُّ جَلِيسٍ مَّا خَلَا اللَّهَ يَهْجُرُ سنو! اللہ کے سوا کوئی شے ہمیشہ رہنے والی نہیں اور ہر ہم نشیں سوائے اللہ کے جدا ہونے والا ہے.تَذَكَّرُ دِمَاءَ الْعَارِفِينَ بِسُبُلِهِ اَلَمْ يَأْنِ أَنْ تَخْشَى أَ أَنْتَ مُحَرَّرُ خدا کی راہ میں عارفین کے بہنے والے خون کو یاد کر.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تو ڈرے؟ یا کیا تو آزاد ہے؟ وَإِنَّ وَ إِنَّ الْمَنَايَا سَابِحَاتٌ قَوِيَّةٌ أَثَرُنَ غُبَارًا عِندَ حُكْمِ يُصْدِرُ اور یقیناً موتیں تو تیز رو مضبوط گھوڑے ہیں جو حکم صادر ہونے کے وقت غبار اڑاتے ہیں.
حمامة البشرى ۳۷۳ اردو ترجمه وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّذِى هَدَانَا مَنَاهِجَ دِيْنِ حِزْبٍ طُهَرُوا اور ہماری آخری بات یہی ہے کہ تمام حمد اسی ذات کے لئے ہے جس نے ہمیں پاک گروہ کے دین کی راہوں کی راہنمائی کی.قد تم بمنه و كرمه خدا تعالیٰ کے احسان اور کرم سے یہ قصیدہ تمام ہوا.