Language: UR
حکایات شیریں کا یہ مجموعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان مبارک ملفوظات سے ماخوذ ہے جو آپ علیہ السلام نے وقتا ًفوقتاً اپنی روح پرور مجالس میں بیان فرمایا کرتے تھے۔ یہ نہایت پُر حکمت اور سبق آموز واقعات شستہ اور سادہ زبان میں انتہائی دلنشین انداز میں بیان ہوئے ہیں اور ان کا مطالعہ بچوں اور بڑوں سب کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔ یہ دلچسپ واقعات اصلاح نفس کے لئے بہت مؤثر ثابت ہوئے ہیں اور اس مختصر کتابچہ کا مطالعہ کرنے والوں کے دل میں اصل ملفوظات پڑھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ یہاں قریباً 3 درجن واقعات و حکایات کو باحوالہ پیش کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وسعت مطالعہ اور سادہ و دلکش انداز تربیت کی جھلکیاں پیش کردی گئی ہیں۔
حکایات فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی
حکایات شیرین بیان فرمودة حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ عالیہ احمید
نام کتاب حکایات شیری چار روپے طبع اول ایک ہزار تعداد محمود انور خوشنویس کتابت الفهرست نی کا بدلہ خدا کے مقربون کا شیوہ دشمن مرے تے خوشی نہ کوئیے صرف انسان نیکی اختیار کر سکتا ہے شیخ سعدی کے دوست گرد دنیا کی خاطر عداوت کیا کرنی.خدا کے بندوں پہ رقم پوستی کی حکایت حق دوستی ایک طوطے کی کہانی قلوب میں عظمت ڈالنی خدا کا کام ہے مرنے کے وقت ریا کاری ہمارا نقاره طاعون کے ٹیکہ کا حال بہرہ اور مریض اپنے آپ کو بیچ دو.اندھے اور گنجے کی کہانی ایک بزرگ در چور کی کہانی راء عبادت نہیں کر سکے صلا पो से ने ने सेने से से से से दो दो दो डोचे मेसे से थे الله ١٨
=Q یاد کرنا اور کمر بے گنے کو محلی میں تبدیلی ممکن ہے ایک پرندے کی مہمان نوازی بدی نہ کرنے کا احسان نقلی فقیر کی عزت تواضع طبیب کی مشکل یہودی کے اسلام لانے کا رافعہ ذره سی نیکی کا بدلہ وفاداری کا سبق کہتے سے سیکھو کیمیا کے لائٹ کے نقصانات جیتک خدا نہ دکھائے امیروں کا حال نیکی ضائع نہیں ہوتی محبت کی نظر اور عداوت کی نظر کا فرق دو میں سے ایک ہے نہیں ہنر مندی کا اعلیٰ ترین نمونہ خدا کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا مولوی صاحب کا وعظ اور عمل مام ص ۳۲ ۳۵ أحمد ۲۵ ۲۹ پیش لفظ از محترم مولانا سید عبدالمی شاہ صاحب ناظر اشاعت لٹریچرو تصنیف صدر المرض احمدیہ - ریوه - حکایات شیرین کا یہ مجموعہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ان مبارک ملفوظات سے ماخوذ ہے.جو حضور وقتاً فوقتاً اپنی روح پرور مجالس میں بیان فرمایا کرتے تھے.یہ پر حکمت اور سبق آموز واقعات شستہ اور سادہ زبان میں انتہائی دلنشین انداز میں بیان ہوئے ہیں.اور ان کا مطالعہ بچوں بڑوں سب کے لیے یکساں طور پر مفید ہے.یہ دلچسپ واقعات اصلاح نفس کیلئے بہت موثر ثابت ہوئے ہیں.اور پڑھنے والے کے دل میں حضور کے اصل ملفوظات پڑھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ مرتب کو جزاء خیر دے.
انتساب عزیزہ نصرت خلیل کے نام جس نے وار اپریل ۱۹۸۶ء کو وفات پائی خاکسار اس کی وفات کے وقت پاس بیٹھا یہ کتاب مرتب کر رہا تھا.نیکی کا بدلہ ہمیں اس خدا تعالیٰ کی ہی پرستش کرنی چاہیے جو کہ ذرہ سے کام کا بھی اجر دیتا ہے.......ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمین آدمی پہاڑ میں پھنس گئے تھے.وہ اس طرح کہ انہوں نے پہاڑ کی غار میں ٹھکانہ لیا تھا.جبکہ ایک پتھر سامنے سے آگرا اور راستہ بند کر نیا.تب ان تینوں نے کہا کہ اب تو نیک کام ہی بچائیں گے چنانچہ ایک نے کہا کہ ایک دفعہ میں نے مزدور لگائے تھے.مزدوری کے وقت ان میں سے ایک کہیں چلا گیا.میں نے بہت ڈھونڈا آخر نہ ملا تو میں نے اس کی مزدوری سے ایک بکری خریدی اور اس طرح چند سال تک ایک بڑا گلہ ہو گیا.پھر وہ آیا اس نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ آپ کی مزدوری کی تھی.اگر آپ دیں تو عین مہربانی ہوگی میں نے اس کا تمام مال اس کے سپرد کر دیا.اے اللہ ! اگر تجھے میرا یہ نیک عمل پسند ہے تو میری مشکل آسان کر.اتنے میں تھوڑا پتھر اونچا ہو گیا پھر دوسرے نے اپنا قصہ بیان کیا اور پھر بولا کہ اے اللہ ! اگر میری یہ نیکی تجھے پسند ہے تو میری مشکل آسان کرے.پتھر ذرا اور اونچا ہو گیا.پھر تیسرے نے کہا کہ میری ماں بوڑھی سختی ایک رات کو اس نے
بانی طلب ب کیا میں جب پانی لایا تو وہ سوچکی تھی.میں نے اس کو نہ اٹھایا کہ کہیں اس کو تکلیف نہ ہو.اور وہ پانی لیے تمام رات کھڑا رہا.صبح ابھی تو اسے دے دیا.اے اللہ ! اگر تجھے میری یہ نیکی پسند ہے تو مشکل کو دور کر.پھر اس قدر بہتر اونچا ہو گیا کہ وہ سب نکل گئے اس طرح پر اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو نیکی کا بدلہ دے دیا.( ملفوظات جلد ششم صفحه ۲۶-۲۷) خدا کے مقربوں کا شیوہ مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستان میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو تکتے نے کاٹا گھر آیا تو گھروالوں نے دیکھا کہ اسے کتنے نے کاٹ کھایا ہے.ایک مبھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی.وہ پولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا.اس نے جواب دیا.بیٹی انسان سے کتنین نہیں ہوتا اس طرح سے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرنے نہیں تو وہی کین کی مثال صادق آئے گی خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں.بہت بری طرح سنتا یا گیا مگر ان کو اعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ کا ہی خطاب ہوا ( ملفوظات جلد اوّل صفحه ۱۰۳) دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے اگر دشمن مر بھی جاوے تو کیا اور زندہ رہے تو کیا نفع و نقصان کا پہنچانا خدا تعالیٰ کے قبضہ اور اختیار میں ہے.کوئی شخص کسی کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا.سعدی نے گلستان میں ایک حکایت لکھی ہے کہ نوشیرواں بادشاہ کے پاس کوئی شخص خوشجری لے کر گیا کہ تیرا فلاں وقسمن مارا گیا ہے اور اس کا ملک اور قلعہ ہمارے قبضہ میں آگیا ہے.نوشیرواں نے اس کا کیا اچھا جواب دیا.مرا بمرگ عدو جائے شادمانی نیست که زندگانی ما نیز جاودانی نیست ر ملفوظات جلد اوّل صفحه ۳۵۹) صرف انسان یکی اختیار کر سکتا ہے انسان کی بچپن کی حالت اس بات پر دلالت کرتی بے کرے گا.ٹر بیل وغیرہ جانور رت ہی کی طرح انسان بھی پیدا ہوتا ہے.صرف انسان کی فطرت میں ایک نیک بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کر نیکی کو اختیار کرتا ہے اور یہ صفت انسان میں ہی ہوتی ہے کیونکہ بہائم میں
تعلیم کا مادہ نہیں ہوتا.سعدی نے بھی ایک قصہ نظم میں لکھی ہے کہ ایک گدھے کو ایک بیوقوف تعلیم دیتا تھا اور اس پر شب و روز محنت کرتا.ایک حکیم نے اسے کہا اے بوقوف تو یہ کیا کرتا ہے اور کیوں اپنا وقت اور مغتر بے فائدہ گنواتا ہے ؟ یعنی گدھا تو انسان نہ ہو گا تو تبھی کہیں گدھا نہ بن جادے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۲۶۶) شیخ سعدی کے دوشاگرد عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چائیے جب پہلے کم از که جانش دن رو رو کر دنا کی ہو.شیخ سعدی کے دو شاگرد تھے.ایک ان میں سے حقائق بیان کیا کرتا تھا.دوسرا جلا بھنا کرنا تھا آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جاتا ہے اور حسد کرتا ہے.شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے دلہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تو نے غیبت کی.غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا.جب تک رحم ، دعا ، ستاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو ( ملفوظات جاه هفتم صفحه ۷۹) دنیا کی خاطر عداوت کیا کرتی دنیا اور اس کا اسباب کیا بستی رکھتا ہے کہ اس کی خاطر تم کسی سے ا عداوت رکھو.شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے کیا عمدہ واقعہ بیان کیا ہے کہ دو شخص آپس میں سخت عداوت رکھتے تھے.ایسا کہ وہ اس بات کو بھی ناگوار رکھتے تھے کہ ہر دو ایک آسمان کے نیچے ہیں.ان میں سے ایک قضائے کا ر فوت ہو گیا.اس سے دوسرے کو بہت خوشی ہوئی.ایک روز اس کی قبر پر گیا اور اس کو اکھاڑ ڈالا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا نازک جسم خاک آلود ہے اور کیڑے اس کو کھا رہے ہیں.ایسی حالت میں دیکھ کر دنیا کے انجامہ کا نظارہ اس کی آنکھوں کے آگے پھر گیا اور سخت رقت طاری ہوئی اور انبار دیا کہ اس کی قبر کی مٹی کو تر کر دیا اور پھر اس کی قبر کو درست کرا کر اس پر لکھوایا مکن شادمانی برگ کسے کہ دہرت پس از وٹے نماند کیسے ( ملفوظات جلد نہم ص۲۱) اس پر
۱۲ خدا کے بنڈل پر رحم شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو ناروا کی بیماری تھی.اس نے کہا کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ کریم مجھے شفا بختے تو میں نے جواب دیا کہ آپ کے جیل خانہ میں ہزاروں بے گناہ قید ہوں گے ان کی بد دعاؤں کے مقابلہ میں میری دعا کب سنی جا سکتی ہے.تب اس نے قیدیوں کو رہا کر دیا اور پھر وہ تندرست ہو گیا.غرض خدا کے بندوں پر اگر رحم کیا جائے تو خدا بھی رقم کرتا ہے.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۳۶۹) پوستی کی حکایت مجھے ایک پوستی کی کایت یاد آئی.وہ یہ ہے کہ ایک پوستی کے پاس ایک ٹوٹا تھا.اور اس میں ایک سوراخ تھا یہ سب رفع حاجت کو نباتا.اس سے پیشتر کہ وہ فارغ ہو کہ طہارت کر لے.سارا پانی لوٹ سے نکل جاتا تھا آخر کئی دن کی سوچ اور فکر کے بعد اس نے یہ تجویز نکالی کہ پہلے طہارت ہی کر لیا کریں اور اپنی اس تجویز پر بہت ہی خوش ہوا.اسی قسم کا نکتہ اور نسخہ ان کو ملا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۷۷) حق دوستی سعرية چهری...ایک بری صفت ہے لیکن اگر اپنے دوستوں کی چیند بلا اجازت استعمال کر لی جاوے تو معیوب نہیں (بشرطیکہ دوست ہوں) دو شخصوں میں باہمی دوستی کمال درجہ کی تھی اور ایک دوسرے کا محسن تھا.اتفاقاً ایک شخص سفر پر گیا.دوسرا اس کے بعد اس.کے گھر میں آیا اور اس کی کنیز سے دریافت کیا کہ میرا دوست کہاں ہے اس نے کہا کہ سفر کو گیا ہے پھر اس نے پوچھا کہ اس کے روپیہ والے صندوق کی چابی تیرے پاس ہے ؟ کینتر نے کہا کہ میرے پاس ہے.اس نے کنیز سے وہ صندوق منگوا کر چابی لی اور خود کھول کر کچھ روپے اس میں سے ے گیا جب صاحب خانہ سفر سے واپس آیا تو کنیز نے کہا کہ آپ کا دوست گھر میں آیا تھا.یہ سن کر صاحب خانہ کا رنگ زرد ہو گیا اور اس نے پوچھا کہ کیا کہتا تھا.کنیز نے کہا کہ اس نے مجھ سے صندوق اور چابی منگوا کر خود آپ کا روپیہ والا صندوق کھولا اور اس میں سے رو پیر نکال کر نے گیا.پھر تو وہ صاحب خانہ اس کنیز یہ اس قدر خوش ہوا کہ بہت
۱۵ ہی پھولا اور صرف اس صلہ میں کہ اس نے اس کے دوست کا کہا مان لیا اس کو ناراض نہیں کیا اس کنیز کو اس نے آزاد کر دیا اور کہا کہ اس نیک کام کے اجر میں جو کہ تجھ سے ہوا ہے کہ میں آج سہی تجھ کو آزاد کرتا ہوں ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۲۶۸) ایک طوطے کی کہانی صوفی کہتے ہیں کہ ایک شخص کو جو خدا تعالی سے ملنا چاہے ضروری ہے کہ وہ باب الموت سے گزرے مثنوی میں اس مقام کے بیان کرتے ہیں ایک قصہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک طوطا تھا.جب وہ شخص سفر کو چلا تو اس نے طوطے سے پوچھا کہ تو کبھی کچھ کہہ.طوطے نے کہا اگر تو فلاں من مقام پر گزرے تو ایک بڑا درخت ملے گا اس پر بہت سے طوطے ہوں گے ان کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ تم بڑے خوش نصیب ہو کہ کھلی ہوا میں آزادانہ زندگی بسر کرتے ہو اور ایک میں بے نصیب ہوں کہ قید میں ہوں.وہ شخص جب اس درخت کے پاس پہنچا تو اس نے طوطوں کو وہ پیغام پہنچایا.ان میں سے ایک طوطی درخت سے گرا اور پھڑ پھڑک کر جان دے دی.اس کو یہ واقعہ دیکھ کر کمال افسوس ہوا کہ اس کے ذریعہ سے ایک جان ہلاک ہوئی.مگر سوائے صبر کے کیا چارہ تھا.جب سفر سے وہ واپس آیا تو اس نے طوطی کو سارا واقعہ سنایا اور اظہار غم کیا.یہ سنتے ہی وہ طوطا بھی جو پنجرہ میں تھا پھڑ کا اور پھڑک پھڑک کر جان دے دی یہ واقعہ دیکھ کر اس شخص کو اور بھی افسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ سے دو خون ہو تے آخر اس نے طوطا کو پنجرے سے نکال کر باہر پھینک دیا تو وہ طوطا جو پنجرہ سے مردہ سمجھ کر پھینک دیا تھا اڑا کر دیوار پر جا بیٹھا اور کہنے لگا در اصل نہ وہ طوطا مرا تھا اور نہ نہیں.میں نے تو اس سے راہ پوچھی تھی کہ اس قید سے آزادی کیسے حاصل ہو.سو اس نے مجھے بتایا کہ آزادی تو مر کہ حاصل ہوتی ہے.پس میں نے کبھی موت اختیار کی تو آزاد ہو گیا.پس یہ سچی بات ہے کہ نفس امارہ کی تاروں میں جو...جکڑا ہوا یہ ہے اس سے رہائی بغیر موت کے ممکن ہی نہیں.( ملفوظات جلد ششم صفحه ۹۶ ) قلوب میں عظمت ڈالتی خدا کا کام ہے علماء دین کے واسطے ظاہری بلندی چاہتی عیب میں داخل ہے.قلوب میں عظمت ڈالنی انسانی ہاتھ کہ کام نہیں ہے.یہ ایک کشش ہوتی ہے جو کہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہوتی ہے.ہم کیا کہ رہے ہیں جو ہزارہا آدمی گھنٹے پہلے آتے ہیں.یہ سب خدا تعالی کی کشش ہے.ان لوگوں کی
14 14 علمیت اور حکمت اور دانائی ان کے کچھ کام نہ آئی.شنوی میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک شخص دولتمند تھے مگر بے چارے کی عقل کم تھی.وہ کہیں جانے لگا اس نے گدھے پر بوری میں ایک طرف جواہر ڈالے اور وزن کو برا بہ کرنے کے واسطے ایک طرف اتنی ہی ریت ڈال دی.آگے چلتے چلتے اسے ایک شخص دانشمند کیا مگر کپڑے پھٹے ہوئے بھوک کا مارا ہوا ، مربہ پکڑی نہیں.اس نے اس کو مشورہ دیا کہ تو نے ان جواہرات کو نصف نصف کیوں نہ دونوں طرف ڈالا.اب ناحق جانور کو تکلیف دے رہا ہے.اس نے جواب دیا کہ میں تیری عقل نہیں برتنا.تیری عقل کے ساتھ نحوست ہے.بلکہ میں تجھ بد بخت کا مشورہ تبھی قبول نہیں کرتا.) ملفوظات جلد پنجم صفحه ۳۸۴) مرنے کے وقت ریا کاری جب تک انسان سچا مومن نہیں بنتا اس کے نیکی کے کام خواہ کیسے ہی عظیم انسان ہوں لیکن وہ ریا کاری کے مجمع سے خالی نہیں ہوتے......خواجہ صاحب نے ایک نقل بیان کی منفی اور خود میں نے بھی اس قصہ کو پڑھا ہے کہ سر فلپ سڈنی ملکہ الز ہیتھ کے زمانہ میں قلعہ زلفن ملک ہالینڈ کے محاصرہ میں جب زخمی ہوا تو اس وقت عین نزع کی تلخی اور شدت پیاس کے وقت جب اس کیلئے ایک پیالہ پانی کا جو وہاں بہت کمیاب تھا مہیا کیا گیا.تو اس کے پاس ایک اور زخمی سپاہی تھا.جو نہایت پیاسا تھا وہ سر قلب سڈنی کی طرف حسرت اور طمع کے ساتھ دیکھنے لگا.سڈنی نے اس کی یہ خواہش دیکھ کر پانی کا وہ پیالہ خود نہ پیا بلکہ بطور انتیار یہ کہہ کر اس سپاہی کو دے دیا کہ " تیری ضرورت مجھ سے زیادہ ہے " مرنے کے وقت بھی لوگ ریا کاری سے نہیں رکھتے.ایسے کام اکثر ریا کاروں سے ہو جاتے ہیں جو اپنے آپ کو اخلاق فاضلہ والے انسان ثابت کرنا یا دکھانا چاہتے ہیں.w ہمارا نقاره ر ملفوظات جلد اوّل صفحه ۲۱۳ ) " اعداء کا وجود ہمارا نقارہ ہے.یہ انہیں کی مہربانی ہے کہ تبلیغ کرتے رہتے ہیں.مثنوی میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ ایک چور ایک مکان کو نقب لگا رہا تھا ایک شخص نے اوپر سے دیکھ کر کہا کہ کیا کرتا ہے.چور نے کہا کہ نقارہ بجا رہا ہوں.اس شخص نے کہا آواز تو نہیں.آئی چور نے جواب دیا کہ اس نقارہ کی آواز صبح کو سنائی دیوے گی اور ہر ایک سنے گا ایسے ہی یہ لوگ شور مچاتے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں تو لوگوں کو خبر ہوتی رہتی ہے ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۳۷۲)
19 ١٨ طاعون کے ٹیکہ کا حال طاعون سے بچنے کیلئے ٹیکہ لگانے کا ذکر ہورہا تھا حضرت نواب محمد علی خانصاحب نے کہا کہ ٹیکہ بھی کہاں تک لگے گا اس پر حضرت اقدس نے ہنس کر فرمایا وہی مثال ہے جس کا ذکر مثنوی میں لکھا ہے کہ ایک شخص کی ہاں بد کار تھی.اس نے اسے مار ڈالا.لوگوں نے کہا ماں کو کیوں مار ڈالا ؟ اس کے دوستوں کو مارنا تھا.اس نے جواب دیا کہ ایک کو مار تا دو کو مارتا آخر کنتوں کو مارتا اس لیے اسے ہی مارنا مناسب تھا.یہی حال ٹیکہ کا ( ملفوظات جلد چہارم صفحه (۸۰) ہے.بہرہ اور مریض جب ہم انسان کو مہذب دیکھتے ہیں تو کیوں اس کی جڑ تہذیب نہ بتائیں کیا خدا تعالیٰ کو پہلا عمدہ نمونہ دکھانا چاہیے تھا یا خراب اور اول الدن درد کا مصداق.خدا نے برا بنایا تھا اور پھر گھس کر گھس گھس کر خود عمدہ بن گیا.خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی اور تو میں ہے توہین اور اس کی تو وہی مثال ہے جو مثنوی میں ایک بہرہ کی حکایت لکھی ☐ ) ( ) ہے کہ وہ کسی بیمار کی عیادت کو گیا اور خود ہی تجویز کر لیا کہ پہلے مزاج پوچھوں گا وہ کہے گا اچھا ہے میں کہوں گا الحمد للہ اورپھر میں پوچھوں گا آپ کیا کھاتے نہیں تو وہ چونکہ بیمار ہے یہی کہے گا کہ مونگ کی دال کھاتا ہوں میں کہوں گا بہت اچھا اور پھر پوچھوں گا طبیب کون ہے وہ کہے گا فلاں ہے میں کہوں کا خوب ہے دست شفا ہے لیکن جب وہاں گئے تو بہرہ مریض سے آپ کا مزاج کیسا ہے ؟ مریض : مر رہا ہوں.بہرہ : الحمد لله بہرہ (مریض سے، آپ کی غذا کیا ہے ؟ مریض : خون جگر بہرہ : بہت اچھی غذا ہے.بہرہ (مریض سے): طبیب کون ہے ؟ مریض : ملک الموت بہرہ ، طبیب اچھا ہے دست شفا ہے.ان لوگوں کی بھی کچھ ایسی حالت ہے.د ملفوظات جلد سوم صفحه ۴۱۷-۴۱۸)
۲۰ اپنے آپکو بیچ دو حضرت موسی علیہ السلام کو ایک نوجوان نے کہا کہ مجھے جانوروں کی بولیاں آ جائیں تو میں ان سے عبرت حاصل کر لیا کروں.موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ عبرت اور بیداری خدا کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اس خیال کو چھوڑ دو.اس میں خطرہ ہے.مگر حضرت موسیٰ کے منع کرنے سے اس کو اور بھی شوق پیدا ہوا.اور بڑی التجا کی حضرت موسی نے کہا کہ اس شخص کو شیطان نے غریب دیا ہے اگر اس کو سکھاتا ہوں تو اس کو نقصان ہوگا.ورنہ اسے بدگمانی ہوگی.حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کہا اچھا اسے سکھا دو.غرض حضرت موسیٰ نے اس کو کتے اور مرغ کی زبان سے واقف کر دیا.دوسرے دن تجربہ کیلئے اس نے کتنے اور مرغ کی آواز کی طرف توجہ کی.لونڈی نے دستر خوان جو جھاڑا تورات کے بچے ہوئے ٹکڑے اس میں سے گرے مرغ نے جھٹ وہ اٹھا کہ کھا لیے کتے نے اس کو کہا تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا تو تو دانے وغیرہ کھا سکتا ہے میں نہیں کھا سکتا ہوں مرغ نے اس کو کہا تو غم نہ کر تجھ کو تو ان ٹکڑوں سے بہتر ملنے والا ہے.خواجہ صاحب کا گھوڑا مر جائے گاوہ گوشت سوائے کتوں کے اور کس کے کام آئے گا.اس نوجوان نے جب اس مکالمہ کو سنا تو جھٹ اس نے گھوڑا بیچ دیا اور اس نقصان سے وہ بچ گیا ( ہے دوسرے دن پھر ایسا ہی اتفاق ہوا.مرغ نے وہ ٹکڑے کھا لے اور کہتے پھر سوال و جواب ہوا تو مرغ نے کہا کہ گھوڑا تو بے شک مر گیا.مگر دوسری جگہ جا کر کیونکہ اس نے بیچ دیا تھا.خیر کوئی فکر کی بات نہیں اب کل اونٹ مر جائے گا اور تمہاری عید ہو جائے گی.اس شخص نے اونٹ کو بھی بیچ دیا.تیسرے دن پھر دونوں میں وہی مکالمہ ہوا اور کتے نے اس کو الزام دیا.مگر مرغ نے پھر وہی جواب دیا کہ اونٹ بھی اس نے بیچ دیا ہے اور وہ دوسری جگہ جا کر فوت ہو گیا ہے.خیر کوئی بات نہیں اب کی اس کا غلام ہر جائے گا.تو اس کی وفات پر کتوں اور عزیزوں کوتان ملیں گئے.اس شخص نے غلام کو بھی بیچ دیا.اب وہ مرغ اس کتے کے سامنے چوتھے دن بہت ہی شرمندہ ہوا.مرغ نے کہا یہ مت خیال کہ کہ میں نے جھوٹ کہا جو کچھ میں نے خبر دی تھی وہ بالکل درست تھی.ہماری قوم تو بڑی راستباز ہے اور وقت کی نگران ہے اگر ہم کو بند بھی کیا ہوا ہو تب بھی ٹھیک وقت پر ہم اذان دیتے ہیں خیر جو کچھ بھی ہو گیا ہو گیا اب کل یہ خود مرے گا اور خوب تمہاری عید ہوگی.اگر یہ شخص گھوڑے یا اونٹ یا غلام کی پرواہ نہ کرتا تو آپ بچ جاتا.مگر اس نے مال کی پروا کی اور اپنی جان کی پرواہ نہ کی.درویش جو ریاضت کرتے ہیں اس ریاضت سے انکی روحانی زندگی بڑھتی ہے.عرض اس مرغ نے نہایت عمدہ رنگ میں اس مضمون پر بحث کی میں اس اور بتایا کہ کس طرح انسان بلاؤں سے بچ سکتا ہے.اس شخص نے چونکہ
۲۳ ۲۲ پروا نہیں کی اب یہ خود مرتا ہے.خواجہ یہ سن کر ڈرا اور بھاگتا ہوا حضرت موسی کے پاس آیا حضرت موسی نے کہا کہ اب تو اپنے آپ کو بیچ کر اگر بچ سکتا ہے تو تجربہ کرے.اپنے نقصان مال کو تو تو نے دوسروں کے نقصان مال پر ڈالا.اور آپ بچتا گیا مگر اب کیا چارہ ہے.اب تو اس سے تو بچ سکتا نہیں بہتر ہے کہ تو اپنے ایمان کو درست کر.اگر تو ایماندار فوت ہوا تو مرے گا نہیں بلکہ زندہ ہی رہے گا.مومن دراصل سرتا نہیں زندہ رہتا ہے.عرض آخر وہ ایمان لایا اور اس طرح پہ روحانی موت سے بچ گیا " دسیرة مسیح موعود جلد اول (۵۱لمته ۱۵۲) اندھے اور گنجے کی کہانی ہے ایک گنجا اور ایک اندھا تھا.خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر گنے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تو کیا چاہتا ہے تو کہنے نے کہا کہ میرے روشن ہوگئیں اور مال و دولت بھی مل گیا.پھر وہی فرشتہ گنجے اور اند ھے کی آزمائش کے لیے خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک فقیر کے بھیس میں آیا اور گنجے کے پاس جا کر سوال کیا.گنجے نے ترش روی سے جواب دیا اور جھڑک دیا اور کہا کہ چل تیرے جیسے بہت فقیر پھرتے ہیں.فرشتہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھر دیا اور پھر وہ گنجے کا گنجا ہی ہو گیا اور سب مال و دولت جاتا رہا اور پھر ویسا ہی تنگ حال ہو گیا.پھر وہی فرشتہ فقیر کی شکل میں اندھے کے پاس آیا جو اب بڑا دولتمند اور بینا ہو گیا تھا.اور سوال کیا.اس نے کہا کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے اور اس کا مال ہے تم ہے ہو.اس پر پھر اللہ تعالیٰ نے اندھے کو اور بھی مال و دولت دیا" نتیجہ : پس اسے عزیز بچو ! تم بھی یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر کرو اور اس کی قدر کرو اور سوالی کو جھڑ کی نہ دو.خیرات کرنا اچھی بات ہے اور سوالی کو دینا چاہیے اس سے خدا خوش ہوتا ہے اور نعمت زیادہ کرتا ہے.(سیرۃ مسیح موعود جلد اول صفحه (۱۵۵) سر کے بال ہو جاویں اور مال و دولت ہو جاوے.چنانچہ فرشتہ نے گئے ایک بزرگ اور چور کی کہانی کے سر پہ ہاتھ پھیرا تو خدا کی قدرت سے اس کے سر پہ بال بھی نکل آئے اور مال و دولت اور نوکر چاکر بھی مل گئے.پھر اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تو کیا چاہتا ہے.اندھے نے کہا کہ میری آنکھیں روشن ہو جاویں تو میں ٹکریں کھانا نہ پھروں اور روپیہ پیسہ بھی مل جاوے تو کسی کا محتاج نہ رہوں.فرشتہ نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ ایک بزرگ کہیں سفر میں جارہے تھے اور ایک جنگل میں ان کا گزر ہوا جہاں ایک چور رہتا تھا اور جو ہر آنے جانے والے مسافر کو لوٹ لیا کرتا تھا.اپنی عادت کے موافق اس بزرگ کو بھی لوٹنے لگا.بزرگ
۲۵ ۲۴ موصوف نے فرمایا وَفي السَّمَاءِ رِزْقَكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ تمہارا رزق آسمان پر موجود ہے.تم خدا یہ بھروسہ کرو اور تقوی اختیار کرو چوری امراء عبادت نہیں کر سکتے چھوڑ دو.خدا تعالیٰ خود تمہاری ضرورتوں کو پورا کر دے گا.چور کے دل پر اثر ہوا.اس نے بزرگ موصوف کو چھوڑ دیا اور ان کی بات پر عمل کیا.یہاں تک کہ اسے سونے چاندی کے برتنوں میں عمدہ عمدہ کھانے ملنے لگے وہ کھانے کھا کر برتنوں کو جھونپڑی کے باہر پھینک دیتا.اتفاقاً پھر دی بزرگ کبھی ادھر سے گزرے تو اس چور نے جواب بڑا نیک بخت اور منتقی ہو گیا تھا.اس بزرگ سے ساری کیفیت بیان کی اور کہا کہ مجھے اور آیت بتلاؤ تو بزرگ موصوف نے فرمایا کہ فی السماء والارض انه الحق.یہ پاک الفاظ سن کر اس پیر الیسا اللہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اس کے دل پر بیٹھ گئی پھر تڑپ اٹھا اور اسی میں جان دیدی دل پیس اسے عزیز تم نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے سے کیا گیا نعمتیں ملتی ہیں اور تقوی اختیار کرنے سے کیسی دولت ملتی ہے.غور کر کے دیکھو وہ خدا تعالیٰ جو زمین و آسمان کے رہنے والوں کی پرورش کرتا ہے.کیا اس کے ہونے میں کوئی شک و شبہ ہو سکتا ہے.وہ پاک اور سچا خدا ہی ہے جو ہم تم سب کو پالتا پوستا ہے.پس خدا ہی سے ڈرو.اسی پر بھروسہ کرو اور نیکی اختیار کرو " اسيرة مسیح موعود جلد اول ص۱۵۶ - نه کوئی شخص نواب تھا.صبح کو نماز کے لیے نہیں اٹھتا تھا.ایک موادی نے اسے وعظ سنایا.اس پر نواب نے اپنے تادم کو کہا کہ مجھ کو صبح کو اٹھا دینا.خادم نے دو تین مرتبہ اس کو جگایا.جب ایک مرتبہ جگایا تو اس نے دوسری طرف کروٹ بدل لی.جب دوبارہ اس طرف ہو کر جگایا پھر اور طرف ہو گیا.جب تیسری مرتبہ جگایا تو اس نے اٹھ کر اس کو خوب مارا اور کہا کم بخت جب ایک مرتبہ نہیں اٹھا تو تجھے معلوم نہ ہو کہ ابھی نہ اٹھوں گا پھر کیوں جگایا ؟ اور اتنا مارا کہ وہ بے چارہ بیہوش نہ ہو گیا.آپ ہی تو مولوی سے وعظ سن کر اس کو کہا تھا کہ مجھ کو اٹھا دینا.پھر جب اس نے جگایا تو اس بے چارے کی شامت آگئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کے پاس بہت سا حصہ جاگیر کا ہوتا ہے وہ ایسے غافل ہو جاتے ہیں کہ حق اللہ کا ان کو خیال نہیں آتا.امراء میں بہت ساحقہ تکبر کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے عبادت نہیں کر سکتے الملفوظات جلد مت کر (ملفوظ تبلدیہ یار کویاد کرنا اورگن گن کر جو شخص اللہ تعالیٰ کو بیچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے اسے شمار
۳۷ سے کیا کام وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا.ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے پھر رہا ہے.اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے.اس نے کہا میں اپنے یار کو بیاد کرتا ہوں.عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گن گن کر ؟ تم نے سمجھا ہے بالکل درست ہے مگر میں نے قوت مجاہدہ سے اپنے.اخلاق کی اصلاح کرلی ہے اس پر قلاطون نے ملاقات کی اجازت دے دی پس خلق ایسی شے ہے جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے.! ملفوظات جلد مفتم صد ۱۳۹ ہو در حقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرتا ہو تو پھر گرنے ایک پرندے کی مہمان نوازی گن کر کیا یا د کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الہی کثرت سے نہ ہو.وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا.) ملفوظات جلد هفتم صفحه ۱۹ ) خلق میں تبدیلی ممکن ہے ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا.اور اس کے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے تو اول اس کا حیر بیان کرو اس حلیہ کے ذریعہ وہ اس کے اخلاق کا حال معلوم کرکے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا ورنہ رد کر دیتا.ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا دربان نے اطلاع دی.اس کے نقوش کا حال سن کر افلاطون نے ملاقات - انکار کر دیا.اس پر اس شخص نے کہلا بھیجا کہ افلاطون سے کہہ دو کہ تو کچھ ایک پرندے کی مہمان نوازی پر ایک حکایت ہے کہ ایک درخت کے نیچے ایک مسافر کو رات آگئی جنگل کا ویرانہ اور سردی کا موسم.درخت کے اور یہ ایک پرندے کا آشیانہ تھا.نرومادہ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ یہ ریب الوطن آج ہمارا مہمان ہے اور سردی زدہ ہے اس کے واسطے ہم کیا کریں ؟ سوچ کر ان میں یہ صلاح قرار پائی کہ ہم اپنا آشیا نہ توڑ کر نیچے پھینک دیں اور وہ اس کو بلا کر آگ تا پے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ بھوکا ہے اس کے واسطے کیا دعوت تیار کی جائے اور تو کوئی چیز موجود نہ تھی.ان دونوں نے اپنے آپ کو نیچے اس آگ میں گرا دیا تا کہ ان کے گوشت کا کباب ان کے مہمان کے واسطے رات کا کھانا ہو جائے اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کی ایک نظیر قائم کی.د ملفوظات جلد شتم صفحه ۲۸۲)
۲۹ " بدی نہ کرنے کا احسان نقلی فقیر کی عزت مجھے ایک مثال کسی نے سنائی تھی اور وہ صحیح ہے کہتے ہیں ایک شخص کہتے ہیں کہ ایک گیر چالیس سال تک ایک جگہ آگ پر بیٹھا رہا اور اس نے کسی کی دعوت کی اور بڑے تکلف سے اس کی تواضع کی.جب وہ کھانے کی کی پرستش میں مصروف رہا.چالیس سال کے بعد جب وہ اٹھا تو لوگ اس سے فراغت پا چکا تو اس سے نہایت عجز و انکسار سے میزبان نے کہا کے پاؤں کی مٹی آنکھ میں ڈالتے تھے تو ان کی آنکھ کی بیماری اچھی ہو جاتی کہ میں آپ کی شان کے موافق حق دعوت ادا نہیں کر سکا.آپ مجھے معاف فرما ئیں تھی.اس بات کو دیکھ کر ایک صوفی گھیرایا.اور اس نے سوچا کہ جھوٹے مہمان نے سمجھا کہ گویا اس طرح پیر احسان جتاتا ہے.اس نے کہا میں کو یہ کرامت کس طرح سے مل گئی اور وہ اپنی حالت میں مذبذب ہو گیا سایز نے بھی آپ کے ساتھ بڑی نیکی کی ہے.اسے تم یاد نہیں رکھتے.اس اس پر طائف کی آواز اسے پہنچی جس نے کہا تو کیوں گھر آتا ہے سوچ کر نے کہا وہ کون سی نیکی ہے ؟ تو کہا کہ جب تم مہمانداری میں مصروف جب جھوٹے اور گمراہ کی محنت کو خدا تعالیٰ نے ضائع نہیں کیا تو جو نیچا تھے تو میں تمہارے گھر کو آگ لگا سکتا تھا.مگر میں نے کس قدر احسان اس کی طرف جائے گا اس کا کیا درجہ ہوگا ؟ اور اس کو کس قدر انعام کیا ہے کہ آگ نہیں لگائی یہ بدی کی مثال ہے گویا آگ لگا کر خطر ناک نقصان ( مفوظات تبلد نهم ص ۲۲۷۰۲۷) نہیں کیا.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدی نہ کرنے کا احسان جتاتے ہیں.ایسے لوگ حیوانات کی طرح ہیں.اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر وہی لوگ ہیں جو باری سے پر ہیز کر کے ناز نہیں کرتے بلکہ نیکی کر کے بھی کچھ نہیں „ سما ( ملفوظات جلد هشتم صفحه ۳۷۸) ملے گا.تواضع تو اصنع اور مسکنت عمدہ شے ہے جو شخص باو نبود محتاج ہونے کے تکبر کرتا ہے وہ کبھی مراد کو نہیں پاسکتا اس کو چاہیے کہ عاجزی اختیار کرے کہتے ہیں کہ جالینوس حکیم ایک بادشاہ کے پاس ملازم تھا.بادشاہ کی عادت تھی کہ ایسی روی چیزیں کھایا کرتا تھا جس سے جالینوس کو
۳۱ یقین تھا کہ بادشاہ کو تبزام ہو جائے گا چنانچہ وہ ہمیشہ بادشاہ کو روکتا تھا مگر بادشاہ باز نہ آتا تھا.اس سے تنگ آکر جالینوس وہاں سے بھاگ کر اپنے وطن کو چلا گیا.کچھ عرصہ کے بعد بادشاہ کے بدن پر جذام کے آثار نمودار ہوئے تب بادشاہ نے اپنی غلطی کو سمجھا اور اس نے انکسار اختیار کیا اور اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھایا اور خود فقیرانہ لباس یہودی کے اسلام لانے کا واقعہ ایک یہودی کا قصہ ہے جو کہ ایک بڑا طبیب گزرا ہے اور جس کا نام ابوالخیر تھا.کہ ایک دفعہ ایک کوچہ میں سے گزر رہا تھا.جبکہ اس نے پہن کر وہاں سے چل نکار اور بائیوں کے پاس پہنچا اور جالیوں نے سکو یا اور اد شاہ کی ایک شخص کو یہ پڑھتے ہوئے سنا کہ احسب الناس الآیند.اگر چہ وہ تمد تواضع اسے پسند آئی اور پورے زور سے اس کے علاج میں مصروف ہوا تب خدا تعالیٰ نے اسے شفاء دی.- ( ملفوظات جلد نهم صفحہ ۲۸۷) طبیب کی شکل اگر طبیب سے غلطی ہوگئی ہے یا کامیابی نہں ہوسکی تو پھر کیا ہوا.اس کا کام تو صرف ہمدردی کرنا تھا تقدیر کا مقابلہ نہ کرنا تھا.ایک طبیب کا ذکر ہے کہ وہ قبرستان کو جاتے وقت برقع پہن لیا کرتے تھے کسی نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں طبیب نے جواب دیا کہ یہ سب آدمی میری دوائیوں سے ہی ہلاک ہوئے تھے.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۳۴۰) یہودی تھا اس نے آیت کو سن کر اپنے ہا تھوں سے ایک دیوار پر ٹھیک لگالی اور سر جھکا کر رونے لگا.جب روچکا تو اپنے گھر آیا اور جب وہ سو گیا تو اس نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہوں نے آکر فرمایا کہ اے ابوالخیر تعجب ہے کہ تیرے جیسا فضل و کمال والا انسان مسلمان نہ ہو.صبح جب اٹھا تو اس نے تمام شہر میں اعلان کر دیا کہ میں آج مذہب اسلام قبول کرتا ہوں ( ملفوظات جلد نهم صفحه ۲۰۱ ) ذره سی نیکی کا بدلہ ایک یہودی نے کسی شخص کو کہا کہ میں تجھے جادو سکھلا دوں گا.شرط یہ ہے کہ تو کوئی بھلائی نہ کرے جب دنوں کی تعداد پوری ہو گئی اور جادو نہ سیکھ سکا تو یہودی نے کہا تو نے ان دنوں میں تو
۳۲ نے ضرور کوئی بھلائی کی ہے جس کی وجہ سے تو نے جادو نہیں سیکھا اس نے کہا کہ میں نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ راستہ میں سے کانٹا اٹھایا.اس نے کہا بس یہی تو ہے جس کی وجہ سے تو جادو نہ سیکھ سکا.تب وہ بولا خدا تعالیٰ کی بڑی مہربانیاں ہیں کہ اس نے ذرہ سی نیکی کے بدلہ بڑے بھاری گناہ سے بچا لیا.( ملفوظات جلد ششم ص ۲۶) وفاداری کا سبق کتے سے سیکھو مصلت لکھا ہے کہ ایک یہودی مشرف بہ اسلام ہوا.کچھ دن بعد جو میبد کا سامنا ہوا اور بھوکا مرنے لگا اور فاقے پر فاقہ آنے لگا.تو کسی ں چھوڑتا تو اسے خیال گزرا کہ شاید تین حصے اس کے ہوں اور ایک حصہ میرا ہو.اس لیے اس نے ایک روٹی اور ڈال دی مگر کتا وہ روٹی کھا کر بھی واپس نہ گیا.تب اسے کتے پر غصہ آیا اور کہا تو تو بڑا بد ذات ہے مانگ کر نہیں چار روٹیاں لایا تھا مگر ان میں سے تین کھا کر بھی تو پیچھا نہیں چھوڑتا.خدا تعالیٰ نے اس وقت کتنے کو بولنے کیلئے زبان دے دی تب کتے نے جواب دیا کہ میں بدذات نہیں ہوں.میں خواہ کتنے فاقے اٹھاؤں مگر مالک کے سوائے دوسرے گھر یہ نہیں جاتا.بدذات تو تو ہے جو دو تین فاقے اٹھا کر ہی کا مر کے گھر مانگنے کیلئے آگیا.تب وہ مسلمان یہ جواب سن کر اپنی حالت پر بہت پشیمان ہوا.( ملفوظات جلد نهم صفحه ۴ ) یہودی کے مکان پر بھیک مانگنے کیلئے گیا.یہودی نے اس نو مسلم کو کیمیا کے لالچ کے نقصانات پر بھیک.کو چار روٹیاں دیں.جبہ، وہ روٹیاں لے کر جارہا تھا تو ایک کتا بھی اس کے پیچھے ہو لیا.اس شخص نے یہ خیال کرکے کہ شاید ان رویوں میں سے کتنے تھا بھی کچھ حصہ ہے.ایک روٹی کہتے کے آگے پھینک دی.اور آگے چل دیا ، کناس روٹی کو جلدی جلدی کھا کر پھر پیچھے پیچھے ہو لیا.تب اس نے خیال کیا کہ شاید ان روٹیوں میں سے نصف حصہ کتنے کا ہو.تب اس نے ایک اور روٹی کتنے کے آگے پھینک دی.مگر کتا اس کو بھی کھا کر پیچھے پیچھے چل دیا، پھر اس نے جب معلوم کیا کہ کتاب پیچھا بہت سے لوگ کیمیائی فکر میں لگے رہتے ہیں اور غم کو ضائع کرتے ہیں اور بجائے اس کے کہ کچھ حاصل کریں جو کچھ پاس ہوتا ہے اس کو بھی کھو دیتے ہیں.ایک شخص بٹالہ کا رہنے والا تھا جو کہ کسی قدر غربت سے گزارہ کرتا تھا اور اس نے جو مکان رہائش کے لیے بنایا تھا اس کے باہر کی ایک ایک اینٹ تو یکی سختی اور باقی اندر سے کچا تھا.ایک دن اسے ایک فقیر ملا جو بہت وظیفہ پڑھتا رہتا تھا اور ظاہرا نہایت
۳۵ ۳۷ وہ شخص جب کسی تمام کیلئے گورداسپور گیا تو اسے وہاں معلوم ہوا کہ وہی شخص کسی اور کو دھوکا دے گیا ہے اور وہاں آگ جل رہی ہے.پیس اس نے ان کو بھی سمجھادیا کہ مجھ کو بھی لوٹ کر لے گیا ہے اور وہاں بھی بنڈیا کھولنے پر اینٹ پتھر ہی تکلے ( ملفوظات جلد دهم صفحه ۱۹۳ (۱۹) جبتک خدانہ دکھائے نیک معلوم ہوتا تھا بوجہ اس کے ظاہری ورد و وظائف کے وہ سادہ لوح تجھے لوٹ کر لے گیا اور جب ہنڈیا کھولی تو اس میں سے روڑے نکلے چنانچہ آدمی اس کے ساتھ بہت بیٹھتا اور تعلق رکھتا تھا.کچھ مدت کے بعد اس فقیہ نے بڑی سنجیدگی سے اس آدمی سے پوچھا کہ تم نے یہ مکان اس طرح پر کیوں بنایا ہے کیوں نہیں سارا پختہ بنا لیتے اس نے جواب دیا کہ نہیں غریب ہوں اس پر فقیر نے کہا روپے کی کیا بات ہے اور اتنا کہ کر خاموش ہو گیا اس ذو معنے جواب پر اس شخص کو کچھ خیال پیدا ہوا اور اس نے پوچھا کہ کیا تم کچھ کیمیا جانتے ہو.اس نے کہا کہ ہاں استاد صاحب جانتے تھے اور بہت اصرار کے بعد مان لیا کہ مجھ کو بھی آتا ہے.پر میں کسی کو بتاتا نہیں چونکہ تم بہت پیچھے پڑے ہو اس لیے کچھ تم کو بتا دیتا ہوں اور یہ کہہ کر اس کو گھر کا زیور اٹھا کرنے کی ترغیب دی اور کچھ مدت تک باہر میدان میں جاکر وظیفہ پڑھتا رہا.ایک دن زیور نے کہ ہنڈیا میں ر نے کر ہنڈیا میں رکھنے لگا مگر کسی طرح اس زیور کو تو چرا لیا اور اس کی جگہ اینٹیں اور روڑے بھر دیئے اور خود وظیفہ کے بہانے باہر چلا گیا اور جاتے وقت کہا گیا کہ اس ہنڈیا کو بہت سے اُپلوں میں رکھ کر آگ دو مگر دیکھنا کیا نہ اتارنا بلکہ جب تک میں نہ آؤں اسے ہا تھو نہ لگانا.اس نے اس کے کہنے کے مطابق ہنڈیا کو خوب آگ دی اور اس قدر دھواں ہوا کہ ہمسائے اکٹھے ہو گئے اور دروازہ کھلوا کر اندر گئے اور جب اس سے پوچھنے پر معلوم کیا کہ کیمیا بن رہا ہے تو انہوں نے اس شخص کو سمجھایا کہ وہ اس...انبیاء وغیرہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے ہوتے ہیں.جتک خدا نہ دیکھا ہے کوئی ان کو دیکھ نہیں سکتا.......کہتے نہیں سلطان محمود ایک راجہ کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گیا وہ راجہ کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہ کر آخر کار اپنے مذہب اور اسلام کا مقابلہ کر کے مسلمان ہو گیا الگ خیمہ ہیں رہا کرتا تھا.ایک دن وہ بیٹھا ہوا رو رہا تھا کہ خیمہ کے پاس سے محمود گزرا.اس نے رونے کی آواز سنی - اندر آیا.پوچھا کہ اگر وطن یاد آیا ہے تو میں وہیں کا راجہ بنا کر بھیج دیتا ہوں.اس نے کہا کہ اب مجھے دنیا کی ہوس کوئی نہیں.اس وقت مجھے یہ خیال آیا ہے کہ قیامت کے دن اگر یہ سوال ہوا کہ تو کیسا مسلمان ہے کہ جب تک محمود نے چڑھائی نہ کی اور وہ گرفتار کر کے تجھ کو نہ لایا تو مسلمان نہ ہوا.کیا اچھا ہوتا کہ مجھے اسوقت ابتدار میں سمجھ آجاتی کہ اسلام سچا مذہب ہے ( ملفوظات جلد پنجم ۲۰-۴۰۵)
۳۷ امیروں کا حال " امیروں کا تو یہ حال ہے کہ پنکھا چل رہا ہے.آرام سے بیٹھے ہیں خدمتگار چائے لایا ہے اگر اس میں ذرا سا بھی قصور ہے خواہ میٹھا ہی کم یا زیادہ ہے تو غصہ سے بھر جاتے ہیں خدمت گار پر ناراض ہوتے ہیں بہت غصہ ہو تو مارنے لگ جاتے ہیں.....حالانکہ جیسے وہ خدمتگار انسان ہے اور اس سے غلطی اور بھول ہو سکتی ہے.ویسے ہی وہ (امیر) کبھی انسان ہے......مجھے ایک بات یاد آئی ہے کہ ہارون الرشید کی ایک کنیز تھی.ایک دن اس نے بادشاہ کا بستر جو کیا تو اسے گد گدا اور ملائم اور پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا پا کر اس کے دل میں آیا کہ میں بھی لیٹ کر دیکھوں تو سہی اس میں کیا آرام حاصل ہوتا ہے.وہ لیٹی تو اسے نیند آگئی.جب بادشاہ آیا تو اسے سوتا پا کر ناراض ہوا اور تازیانہ کی سزا دی.وہ کنیز روتی بھی جاتی اور سہنستی تھی جاتی.بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ روتی تو اس لیے ہوں کہ ضربوں سے درد ہوتی ہے اور مہنتی اس لیے ہوں کہ میں چند لمحہ اس پر سوئی تو مجھے یہ سرالی اور جو اس پر ہمیشہ سوتے ہیں ان کو خدا معلوم کس قدر عذاب بھگتنا پڑے گا.) ملفوظات جلد هفتم مث ) محبت کی نظر اور عداوت کی نظر کا فرق سلطان محمود سے ایک بزرگ نے کہا کہ جو کوئی مجھ کو ایک دفعہ دیکھ لیونے اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جاتی ہے.محمود نے کہا یہ کلام تمہارا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہے.ان کو کفار ابو لہب ، ابو جہل وغیرہ نے دیکھا تھا ان پر دوزخ کی آگ کیوں حرام نہ ہوئی اس بزرگ نے کہا ایسے بادشاہ کیا آپکو علمہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ينظرون اليك وهم لا ببصرون اگر دیکھا اور جھوٹا کا ذب سمجھا تو کہاں دیکھا ؟.دیکھنے والا اگر محبت اور اعتقاد کی نظر سے دیکھتا ہے تو ضرور اثر ہو جاتا ہے اور جو عداوت اور دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے ایمان حاصل نہیں ہوا کرتا " ( ملفوظات جلد ششم صدا) دو میں سے ایک ہے نہیں ایک نقل مشہور ہے کہ کسی عورت کی دو لڑکیاں تھیں ایک سیٹ میں بیاہی ہوئی تھی اور دوسری بانگر ایں اور وہ یہ ہمیشہ یہ سوچتی رہتی تھی کہ دو میں سے ایک ہے نہیں اگر بارش زیادہ ہو گئی تو بیٹ والی نہیں اور اگر نہ ہوئی تو با نگر والی نہیں یہی حال حکم کے آنے پر ہونا چاہیئے (ملفوظات الیتیم ملی
۳۹ ۳۸ ہنرمندی کا اعلیٰ ترین نمونہ ایک بادشاہ نے ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے کا دیگر سے کہا کہ تم اپنے ہنر اور کمال کا مجھے نمونہ دکھاؤ اور نمونہ بھی ایسا نمونہ ہو کہ اس سے زیادہ تمہاری طاقت میں نہ ہو گویا اپنے انتہائی کمال کا نمونہ ہمارے سامنے پیش کرو اور پھر اس بادشاہ نے دودستر اعلیٰ درجہ کے کاریگر سے کہا کہ تم بھی اپنے کمال کا اعلی ترین نمونہ بنا کر پیش کرو اور ان دونوں کے درمیان اس بادشاہ نے ایک حجاب حائل کر دیا.کاریگر منبر اول تے ایک دیوار بنائی اور اس کو نقش و نگار سے اتنا آراستہ کیا کہ بس حد کر دی اور اعلی ترین انسانی کمال کا نمونہ تیار کیا.اور دوسرے کا ریگر نے ایک دیوار بنائی مگر اس کے اوپر کوئی نقش و نگار نہیں کیے لیکن اس کو ایسا صاف کیا اور چمکایا کہ ایک صفا شیشے سے بھی اپنے مستقل میں وہ بڑھ گئی.پھر بادشاہ نے پہلے کا نگیر سے کہا کہ اپنا نمونہ پیش کرو.چنانچہ اس نے وہ نقش و نگار سے مزین دیوار پیش کی اور سب دیکھنے والے اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے.پھر بادشاہ نے دوسرے کا ریگر سے کہا کہ اب تم اپنے کمال کا نمونہ پیش کرو.اس نے عرض کیا کہ حضور یہ حجاب درمیان سے اٹھا دیا جاوے.چنانچہ بادشاہ نے اسے اٹھوا دیا تو لوگوں نے دیکھا کہ بعینہ اسی قسم کی دیوار جو پہلے کا ریگر نے تیار کی تھی دوسری طرف بھی کھڑی ہے کیونکہ درمیانی حجاب اٹھ جانے سے اس دیوار سب نقش و نگار بغیر کسی فرق کے اس دوسری دیوار پر ظاہر ہو گئے کیا بهم دسیرۃ المہدی جلدا صفحه ۲۹۱ ۲۹۲۷) خدا کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا ہمیں اس خدا کی ہی پرستش کرنی چاہیے جو کہ ذرا سے کام کا بھی ابر دیتا ہے.خدا وہ ہے کہ انسان اگر کسی کو پانی کا گھونٹ بھی دیتا ہے تو وہ اس کا بھی بدلہ دیتا ہے دیکھو ایک عورت جنگل میں جارہی تھی رستہ ہیں اس نے ایک پیاسے کتے کو دیکھا اس نے اپنے بالوں کا رستہ بنا کر کنویں سے پانی کھینچ کر اس کتنے کو چلایا جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کو قبول کر لیا ہے وہ اس کے تمام گناہ بخش دے گا.اگر چہ وہ تمام عمر فاسقہ رہی ہے.( ملفوظات جلد ششم (۲) مولوی صاحب کا وعظ اور عمل مولویوں کی طرف دیکھو کہ دوسروں کو وعظ کرتے اور آپ کچھ عمل نہیں کرتے اسی لیے اب ان کا کسی قسم کا اعتبار نہیں رہا ہے.ایک مولوی کا ذکر ہے کہ اس نے ایک مسجد کا بہانہ کر کے ایک لاکھ روپیہ جمع کیا.ایک جگہ وہ وعظ کر رہا تھا.سامعین میں اس کی بیوی بھی موجود تھی.صدقہ و خیرات اور مغفرت کا وعظ اس نے کیا.اس کے
وعظ سے متاثر ہو کر ایک عورت نے اپنی پازیب اتار کر اس کو چندہ میں دیے دی.جس پر مولوی صاحب نے کہا اسے نیک عورت کیا تو چاہتی ہے کہ تیرا دوسرا پاؤں روزخ میں جلے ؟ یہ سن کر اس نے فی الفور دوسری پازیب بھی اتار کر اسے دے رہی.مولوی صاحب کی بیوی بھی اس وعظ میں موجود تھی اس کا اس پر بھی بڑا اثر ہوا اور جب مولوی صاحب گھر میں آئے تو دیکھا کہ ان کی عورت روتی ہے اور اس نے اپنا سارا زیور مولوی صاحب کو دے دیا کہ اسے مسجد میں لگا دو مولوی صاحب نے کہا کہ تو کیوں ایسا روتی ہے یہ تو صرف پندہ کی تجویز تھی اور کچھ نہ تھا.یہ باتیں سنانے کی ہوتی ہیں کرنے کی نہیں ہو تیں اور کہا کہ اگر ایسا کام ہم نہ کریں تو گزارہ نہیں ہوتا.انہیں کے متعلق یہ مضرب المثل ہے : و اعطاں کی حلوہ بر محراب و منبر می کنند چوں بخلوت سے روند آن کار دیگرے مے کنند - د یہ واقعہ ملفوظات جلد ششم ص ۲۶۵ - ۲۶۴ اور جلد پنجم ص ۳۱ تفاصیل کے فرق سے درج ہے.یہاں پر اس واقعے کی تفاصیل کو یکجا کر دیا گیا ہے ،