Language: UR
مؤرخہ ۲۸ ؍اگست ۲۰۲۰ء کو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یو کے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکم و عَدْل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تحریرات و ارشادات کی روشنی میں اہلِ بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان فرمایا اور محرّم کے ایام میں بالخصوص درود شریف کے ورد اور دیگر دعاؤں کی تحریک فرمائی۔
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبہ جمعہ سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفه اسبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده 28/ اگست 2020ء
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل Hakam and Adl: the One to Unify the Ummah Friday sermon of Hazrat Mirza Masroor Ahmad - Khalifatul-Masih Vaba Delivered on 28 August 2020 at Mubarak Mosque, Islamabad, Tilford, Surrey, UK First Published in the UK, 2021 O Islam International Publications Limited.Published by Islam International Publications Ltd.Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey, GU9 9PS, United Kingdom Printed in Great Britain at: Raqeem Press Farnham, Surrey, UK For more information please visit: www.alislam.org All rights reserved No part of this publication may be reproduced, stored in or introduced into a retrieval system, or transmitted, in any form or by any means (electronic, mechanical, photocopying, recording or otherwise), without the prior written permission of the publisher.ISBN: 978-1-84880-581-1 10 9 8 7 6 5 4 3 21
پیش لفظ مورخہ 28 اگست 2020 کو حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک، اسلام آباد ، ٹلفورڈ، یو کے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات وارشادات کی روشنی میں اہل بیت النبی صلی یکی اور خلفائے راشدین علیہم رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان فرمایا اور محرم کے ایام میں بالخصوص درود شریف کے درد اور دیگر دعاؤں کی تحریک فرمائی.احباب کے فائد ہ کے لئے یہ خطبہ جمعہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے تا کہ گھر کے اردو اور انگریزی دان دونوں اس سے فائدہ اٹھا سکیں.احباب کو چاہیے کہ نہ صرف خود حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس خطبہ جمعہ سے استفادہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی مطالعہ کی غرض سے دیں.خاکسار منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف مئی 2021
خطبہ جمعہ سید نا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ السیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرموده 28 اگست 2020ء بمطابق 28 / ظہور 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)، یوکے أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کوحکم اور عدل بنا کر بھیجا ہے.وہ حکم اور عدل جس نے اسلام کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں تمام مسلمانوں کو امت واحدہ بنانا تھا.جس نے مختلف مسالک اور فرقوں کی غلط تشریحات اور فروعی اختلافات کو دور کر کے امتِ واحدہ بنانا تھا.جس نے مسلمانوں کو ایک وحدت عطا کرنی تھی.1
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ پس آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہر فرقے میں سے وہ لوگ جنہوں نے سنجیدگی سے غور کیا، اسلام کے مختلف فرقوں کے اختلافات کے درد کو محسوس کیا انہوں نے علم، عقل اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور لاکھوں کی تعداد میں ہر سال یہ شامل ہوتے چلے جار ہے ہیں.پس جماعتِ احمد یہ کسی فرقہ یا مسلک کے فرق یا اختلاف نظریات اور تشریح و تفسیر پر قائم ہونے والی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخری زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعے قائم ہونے والی جماعت ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر انہی اختلافات کو جو شیعہ ، سنی کے درمیان ہیں یا کسی فرقے اور مسلک کے درمیان ہیں ختم کر کے امت واحدہ بنا ہے.مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کر کے ہم نے امتِ واحدہ بنانا ہے.اس کام کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.اسی کام کے لیے آپ نے جماعت کا قیام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا اور اس کام کے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما فرمایا کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع 2
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل کر و عَلى دِينِ وَاحِدٍ 166 خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ پس یہ کام جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپرد فرمایا ہے یہی کام آپ کے بعد خلافت سے جڑ کر ، اس کی بیعت میں آکر آپ کی قائم کر دہ جماعت کا ہے اور یہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ ایک سو تیس سال سے کر رہے ہیں یا جب سے خلافت کا نظام شروع ہوا تو ایک سو بارہ سال سے کر رہے ہیں.اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کام کیا.اور نہ صرف مسلمانوں کو قرآن کریم، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحیح احادیث زمانے کے امام اور حکم اور عدل کی عارفانہ تشریح کی روشنی میں بتارہے ہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم بتا کر انہیں دائرہ اسلام میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.پس مسیح موعود اور حکم و عدل کی جماعت اختلافات ختم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے اور باوجود مخالفتوں، مقدموں ، سختیوں اور گالیوں کے ہماری طرف سے ہر ایک کو امن اور سلامتی اور دعا کا ہی پیغام ہوتا ہے.یقینا ہم نے حق کو پھیلانے اور حق بات کہنے سے نہیں رکنا اور اس کے لیے قربانیاں بھی دے رہے ہیں.لڑائی اور گالم گلوچ نہ ہماری طرف سے پہلے کبھی ہوئی نہ ہو گی.الہبی جماعتوں کی مخالفتیں 3
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ بھی ہوتی ہیں اور ان کو ظلم بھی سہنے پڑتے ہیں لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطافرماتا ہے.ہم دعا بھی کرتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ کوشش بھی کرتے رہیں گے کہ زمانہ کے امام کے پیغام کو ہر مذہب اور ہر ملک کے لوگوں میں پھیلاتے رہیں لیکن عامتہ المسلمین اور سنجیدہ طبع اور حق کے متلاشی اور فتنہ و فساد ختم کرنے کی خواہش رکھنے والے صاحب علم اور عقل لوگوں سے بھی میں کہتا ہوں کہ اس بات پر غور کریں.ابتدا کی چند دہائیوں کے علاوہ شروع سے ہی مسلمان اختلافات میں مبتلا ہو کر سینکڑوں سال سے اپنی وحدت اور اکائی کو کمزور کرتے چلے آرہے ہیں.آج کل ہم محرم کے مہینہ سے گزر رہے ہیں جو اسلامی سال کے کیلنڈر کا پہلا مہینے ہے.انگریزی سال کے شروع ہونے پر ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ اسلامی سال کے شروع ہونے پر کئی مسلمان ملکوں میں اس فرقہ واریت کی وجہ سے قتل و غارت گری ہوتی ہے.وہ دین جو امن اور سلامتی کی اعلیٰ ترین تعلیم دینے والا دین ہے کیوں اس کے ماننے والے اپنے سال کا آغاز فتنہ وفساد اور قتل و غارت گری سے کرتے ہیں ؟ ہمیں سوچنا چاہیے.ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا چاہیے.ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح ہم مسلمانوں کو امتِ واحدہ بنا کر ان فسادوں 4
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ اور دہشت گردیوں کو ختم کر سکتے ہیں ؟ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے آقا و مطاع حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اسلام کی ابتدا کی ترقی کے بعد ایک فیج اعوج کے زمانے کی خبر دی تھی تو پھر یہ خوشی کی خبر بھی دی تھی کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی.وہی معاملہ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف ہوا تھاوہی معاملہ آخری زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کے بعد مسلمانوں کو امتِ واحدہ بنانے کا ذریعہ بھی بن جائے گا.مسلمانوں کی ترقی اور اکائی کا ایک روشن نشان بن جائے گا.پس جب حالات بتارہے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہ نشانیاں جو قرآن و حدیث سے پتہ چلتی ہیں پوری ہو رہی ہیں یا ہو گئی ہیں تو کیوں نہ ہم اس حکم اور عدل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی تلاش کریں جو شیعہ سنی اور مختلف فرقوں اور مسلکوں کے اختلافات کو ختم کر کے ہمیں ایک بنانے والا ہے.ان اندھے نام نہاد علماء کی تقلید نہ کریں جو خود بھی ڈوب رہے ہیں اور اپنے ساتھ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو بھی ڈبونے کی کوشش کر رہے ہیں.دیکھیں جب وہ نشانیاں پوری ہوگئیں جن میں قرآن اور حدیث سے پتہ چلتا ہے تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون ہے ، اسے تلاش کرنے کی 5
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ضرورت ہے.وہ کون ہے جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کاذریعہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا کیا گیا ہے.کسی کو کھڑا ہو نا چاہیے.ہم احمدی کہتے ہیں کہ وہ بانی جماعتِ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں جن کے سپر د اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا کام کیا ہے یا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کروا رہا ہے یا کروائے گا جنہوں نے جھگڑوں اور فسادوں کو امن و سلامتی میں بدلنا ہے.پس ہم میں اگر عقل ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم محرم کو صرف افسوس کرنے یا پھر اپنے بعضوں اور کینوں اور عصوں کو نکالنے کا مہینہ نہ بنائیں، صرف اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ ایک دوسرے سے محبت اور پیار کا مہینہ بنائیں.اس حقیقی تعلیم پر چلیں جو اسلام کی تعلیم ہے.اس رہ نما کے پیچھے چلیں جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل کا مقام دیا ہے تبھی ہم حقیقی مسلمان کہلا سکتے ہیں.تبھی ہم دنیا کو اپنے پیچھے چلا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ ایک عالم کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ : ”میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے.مجھے ایک سماوی آدمی مانو پھر یہ سارے جھگڑے 6
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبہ جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہوسکتی ہیں.جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گاوہی صحیح حدیث ہو گی.ورنہ شیعہ سنی کے جھگڑے آج تک دیکھو کب طے ہونے میں آتے ہیں.“ ابھی تک تو نہیں ہوئے.شیعہ اگر تبر کر تے ہیں.“ یعنی تین خلفاء کو برا بھلا کہتے ہیں.ان کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں.” تو بعض ایسے بھی ہیں.“ دوسروں میں سے ”جو حضرت علی کرام اللہ وجھہ کی نسبت کہتے ہیں: بر خلافت دلش کسے مائل لیک بُو بکر شُدُ دَرمیان حائل“ کہ خلافت پر اس کا دل بہت مائل تھا لیکن ابو بکر اس میں حائل ہو گیا یعنی کہ ان کی خواہش تھی.فرماتے ہیں کہ ”مگر میں کہتا ہوں کہ جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کر مجھ میں ہو کر نہیں دیکھتے یہ حق پر ہر گز نہیں پہنچ سکتے.اگر ان لوگوں کو اور یقین نہیں تو اتنا تو ہو نا چاہیے کہ آخر مرنا ہے اور مرنے کے بعد گند سے تو کبھی نجات نہیں ا 7
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ہوسکتی.آخر مرنا ہے اور مرنے کے بعد گند سے تو کبھی نجات نہیں ہوسکتی.”سب وشتم جب ایک شریف آدمی کے نزدیک پسندیدہ چیز نہیں ہے تو پھر خدائے قدوس کے حضور عبادت کب ہوسکتی ہے؟“ انسان اسی طرح غلط کام کر رہا ہے ، ظلم کر رہا ہے تو اس کی عبادت تو پھر اللہ کے حضور عبادت نہیں کہلا سکتی.اسی لیے فرمایا ”اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ میرے پاس آؤ، میری سنو تا کہ تمہیں حق نظر آوے.میں تو سار ا ہی چولہ اتارنا چاہتا ہوں.سچی توبہ کر کے مومن بن جاؤ.“ یہ جو بناوٹوں کا اور غلط عقائد کا چولہ پہنا ہوا ہے اس کو اتار و.سچی تو بہ کر و تبھی مومن بن سکتے ہو.پھر جس امام کے تم منتظر ہو میں کہتا ہوں وہ میں ہوں اس کا ثبوت مجھ سے لو.2 پس یہ ہے وہ حقیقت جس سے دین کا صحیح ادراک ہو سکتا ہے کہ آپس کے لڑائی جھگڑوں، اناؤں کو ختم کر کے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں.اس سے دعا کریں.حقیقی توبہ کریں اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اپنے دل کو ہر ملونی سے صاف کر کے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکا جائے پھر اللہ تعالی صحیح رہنمائی فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلفائے راشدین کے مرتبہ و مقام اور بزرگی کو اس طرح بیان فرمایا ہے.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں: 8
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ئیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر ، عمر ، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو.وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی 366 ہوئی تھیں.“ پس یہ مقام ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں کہ حقیقی مومن اور مسلمان بننے کے لیے ان چاروں خلفاء کو اپنے لیے اسوہ بنانا ہو گا.جب یہ ہو تو پھر کہاں فرقہ اور کہاں مسلک؟ اس کی کیا بحث رہ جاتی ہے ؟ پس جماعتِ احمدیہ کا تو یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب ہمارے لیے نمونہ ہیں اور جب یہ عقیدہ ہو تو کیا جماعت احمد یہ ہی ایک ایسی جماعت نہیں رہ جاتی جو مسلمانوں کے درمیان تفریق ختم کر کے ان میں وحدت پیدا کرنے والی جماعت ہے.چاروں خلفائے راشدین کا ایک مقام اور مرتبہ ہے.ہر ایک کے مقام و مرتبہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف جگہوں پر بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے.ہر ایک کے اس مقام کو پہچاننے کے لیے میں بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں تا کہ نئے آنے والوں اور نوجوانوں کو بھی سمجھ آجائے کہ ہمار ا مسلک کیا ہے.کیا ہم یقین کرتے ہیں.کیا ہمار ا عقیدہ ہے.9
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اُس زمانے میں بھی مسیلمہ نے یعنی ابتدا میں حضرت ابو بکر کے زمانے میں مسیلمہ نے اباحت کے رنگ میں لوگوں کو جمع کر رکھا تھا.غلط قسم کی تشریحیں کر کے ، غلط باتوں کو جائز قرار دے کر صرف لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا.فرمایا کہ ایسے وقت میں حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو انسان خیال کر سکتا ہے کہ کس قدر مشکلات پید ا ہوئی ہوں گی.اگر وہ قوی دل نہ ہو تا یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ اس کے ایمان میں نہ ہوتا تو بہت ہی مشکل پڑتی اور گھبرا جاتا لیکن صدیق نبی کا ہم سایہ تھا.ہم ، سایہ یعنی اس کا سایہ پڑ رہا تھا.آپ کے اخلاق کا اثر اس پر پڑا ہوا تھا اور دل نوریقین سے بھرا ہوا تھا.اس لیے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی نظیر ملنی مشکل ہے.ان کی زندگی اسلام کی زندگی تھی.یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر کسی لمبی بحث کی حاجت ہی نہیں.اس زمانہ کے حالات پڑھ لو اور پھر جو اسلام کی خدمت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کی ہے اس کا اندازہ کر لو.میں سچ کہتا ہوں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کے لیے آدم ثانی ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے 10
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ بعد ابو بکر کاوجود نہ ہوتا تو اسلام بھی نہ ہوتا.یعنی دشمن کے حملوں سے بچانے کے لیے، شریعت کو محفوظ کرنے کے لیے اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو ہی کھڑا کیا تھا اور آپ نے اسلام کے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص تربیت اور خاص تعلق کی وجہ سے زندگی بخشی اور دشمن کے حملے کو ناکام و نامراد کیا.فرمایا کہ ابو بکر صدیق کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا.اپنی قوت ایمانی سے گل باغیوں کو سزادی اور امن کو قائم کر دیا.اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے فرمایا اور وعدہ کیا تھا کہ میں سچے خلیفہ پر امن کو قائم کروں گا.یہ پیشگوئی حضرت صدیق کی خلافت پر پوری ہوئی اور آسمان نے اور زمین نے عملی طور پر شہادت دے دی.پس یہ صدیق کی تعریف ہے کہ اس میں صدق اس مرتبہ اور کمال کا ہونا چاہیے.4 پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے اوصاف اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے.یہاں تک کہ بعض اوقات ان کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا 11
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ تھا اور ان کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے.دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہو تا.تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو وہ ย عمر ہے.566 پھر ایک جگہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کا ذکر کرتے ہوئے مجموعی طور پر آپ نے فرمایا کہ: ”میرے رب نے مجھ پر یہ ظاہر کیا ہے کہ صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم ) نیکو کار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چن لیا اور جو خدائے رحمان کی عنایات سے خاص کیے گئے اور اکثر صاحبانِ معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی.انہوں نے بزرگ و برتر خدا کی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے.ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسم گرما کی دو پہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پروانہ کی بلکہ نوخیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محو خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ رب العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا.ان کے اعمال میں خوشبو اور ان 12
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان کی نیکیوں کی گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ان کی باد نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں.یہ جو بہت سارے حوالے ہیں ان میں سے جو میں پڑھ رہا ہوں ”ستر الخلافہ “ کے ہیں.یہ عربی کی کتاب ہے.عربی ترجمہ کرنے والے فی الحال تو شاید فوری طور پر اس معیار کا ترجمہ نہیں کر سکیں گے جب دوبارہ repeat ہو تو اصل کتاب سے یہ حوالے لے کر ترجمہ کر دیں.حضرت علی کے محاسن اور آپ کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ شعار ، پاک باطن اور ان لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے ہاں سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں اور آپ قوم کے برگزیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے.آپ خدائے غالب کے شیر ، خدائے مہربان کے جوانمرد، سخی، پاک دل تھے.آپ ایسے منفرد بہادر تھے جو 13
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ میدانِ جنگ میں اپنی جگہ نہیں چھوڑتے خواہ ان کے مقابلے میں دشمنوں کی ایک فوج ہو.آپ نے ساری عمر تنگ دستی میں بسر کی اور نوع انسانی کے مقام زُہد کی انتہا تک پہنچے.آپ مال و دولت عطا کر نے، لوگوں کے ہم و غم دور کرنے اور یتیموں، مسکینوں اور ہمسایوں کی خبر گیری کرنے میں اول درجہ کے مرد تھے.آپ نے جنگوں میں طرح طرح کے بہادری کے جوہر دکھائے تھے.تیر اور تلوار کی جنگ میں آپ سے حیرت انگیز واقعات ظاہر ہوتے تھے.اس کے ساتھ ساتھ آپ نہایت شیریں بیان اور فصیح اللسان بھی تھے.آپ کا بیان دلوں کی گہرائی میں اتر جاتا اور اس سے ذہنوں کے زنگ صاف ہو جاتے اور برہان کے نور سے اس کا چہرہ دمک جاتا.آپ قسما قسم کے انداز بیان پر قادر تھے اور جو آپ سے ان میں مقابلہ کرتا تو اسے ایک مغلوب شخص کی طرح آپ سے معذرت کرنا پڑتی.آپ ہر خوبی میں اور بلاغت و فصاحت کے طریقوں میں کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو اس نے بے حیائی کا طریق اختیار کیا.“ پھر حضرت علیؓ کے مقام اور خلافت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: 14
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ”اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ حضرت علی متلاشیان (حق) کی امید گاہ اور سخیوں کا بے مثال نمونہ اور بندگانِ (خدا) کے لیے حجۃ اللہ تھے.نیز اپنے زمانے کے لوگوں میں بہترین انسان اور ملکوں کو روشن کرنے کے لیے اللہ کے نور تھے لیکن آپ کی خلافت کا دور امن و امان کا زمانہ نہ تھا بلکہ فتنوں اور ظلم و تعدی کی تند ہواؤں کا زمانہ تھا.عوام الناس آپ کی اور ابن ابی سفیان کی خلافت کے بارے میں اختلاف کرتے تھے اور ان دونوں کی طرف حیرت زدہ شخص کی طرح ٹکٹکی لگائے بیٹھے تھے اور بعض لوگ ان دونوں کو آسمان کے فرقد نامی دوستاروں کی مانند تصور کرتے تھے اور دونوں کو درجہ میں ہم پلہ سمجھتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ حق (علی) مرتضیٰ کے ساتھ تھا اور جس نے آپ کے دور میں آپ سے جنگ کی تو اس نے بغاوت اور سرکشی کی.پھر چاروں خلفائے راشدین کی اسلام اور قرآن کی حفاظت اور اس امانت کا حق ادا کرنے کے مقام کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت 15
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین“ یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے.ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے 966 لیے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے.پھر ان چاروں خلفاء کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ”خدا کی قسم وہ ایسے لوگ ہیں جو خیر الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی خاطر موت کے میدانوں میں ڈٹ گئے اور اللہ کی خاطر انہوں نے اپنے باپوں اور بیٹیوں کو چھوڑ دیا اور انہیں تیز دھار تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اپنے پیاروں سے جنگ کی اور ان کے سر قلم کیے اور اللہ کی راہ میں اپنے نفیس اموال اور جانیں نثار کیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اعمال کی قلت پر روتے اور سخت نادم تھے.“ کوئی فخر نہیں تھا کہ ہم نے کوئی نیک عمل کیا ہے.اور ان کی آنکھ نے بھر پور نیند کامزہ نہیں لیا.“ کبھی نیند بھر کے نہیں سوئے ” مگر بہت قلیل جو آرام کے لحاظ سے 16
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ نفس کا لازمی حق ہے اور وہ نعمتوں کے دلدادہ نہیں تھے.پس تم کیسے خیال کرتے ہو کہ وہ ظلم کرتے تھے.مال غصب کرتے تھے.عدل نہیں کرتے تھے اور جو ر دستم کرتے تھے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ نفسانی خواہشات سے باہر آچکے تھے اور وہ ہمیشہ آستانہ الہی پر گرے رہتے تھے اور وہ فنا فی اللہ لوگ تھے.10 پس یہ ادراک ہے جو ان چاروں خلفاء کے مقام و مرتبہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیا اور یہی وہ مقام ہے جب ہر مسلمان ان بزرگوں کو دے گا تو حقیقی مسلمان کہلائے گا اور آپس کے اختلافات کو ختم کر کے امتِ واحدہ کا حصہ بنے گاور نہ ہمارے اختلافات اسلام کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے، ہاں دشمن ان سے ضرور فائدہ اٹھائے گا اور وہ فائدہ اٹھا رہا ہے.آج کل ہم یہی دیکھ رہے ہیں.پس اسلام کی اگر کوئی خدمت اس زمانے میں ہوسکتی ہے ، اسلام کی حفاظت کی اگر خواہش ہے تو پھر اس جری اللہ کے ساتھ جڑ کر ہی ہوسکتی ہے جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے بھیجا ہے.جیسا کہ میں نے کہا آج کل ہم محرم کے مہینے سے گزر رہے ہیں.کل یا پرسوں دس محرم بھی ہے جس میں حضرت حسین کی شہادت کے حوالے سے شیعہ 17
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں.یقیناً یہ ایک ظالمانہ فعل تھا جس طرح حضرت حسین کو شہید کیا گیا.جب ان جذبات کا اظہار شیعہ حضرات کرتے ہیں یا عام حالات میں بھی شیعہ حضرات کے حضرت حسین کے بارہ میں، حضرت علی کے بارے میں جو جذبات ہیں تو عموماً ہمارے بارے میں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے یا آپ کی جماعت نے خاندان نبوت کے مقام کو نہیں پہچانا.اس غلط نہی کو جماعت احمد یہ ہمیشہ دور کرنے کی کوشش بھی کرتی رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت علی کے بارے میں جو فرمایا ہے اور ابھی میں نے کچھ حوالے پیش بھی کیے ہیں.اس سے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہ ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ باقی تین خلفاء بھی برحق تھے.بہر حال اس وقت میں اس حوالے سے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور فرمودات کے حوالے سے بھی کچھ بیان کروں گا کہ آپ کی نظر میں خاندانِ نبوت کا کیا مقام تھا اور اس بارے میں آپ نے جماعت کو کیا نصیحت فرمائی ہے.18
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ”ستر الخلافہ میں حضرت علیؓ اور خاندان نبوت کے بارے میں یہ تحریر فرمایا ہے.حضرت علی کے بارے میں فرمایا کہ آپ لاچاروں کی غم خواریوں کی جانب ترغیب دلاتے اور قناعت کرنے والوں اور خستہ حالوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے.آپ اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ فرقانِ حمید کے جام معرفت نوش کرنے میں سابقین میں سے تھے.قرآن کریم کی معرفت بھی آپ کو حاصل تھی اور اس میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور آپ کو قرآنی و قائق کے اور اک میں ایک عجیب فہم عطا کیا گیا تھا.فرمایا کہ میں نے عالم بیداری میں انہیں دیکھا یعنی حضرت علیؓ سے عالم بیداری میں، کشفی حالت میں نہ کہ نیند میں ملاقات ہوئی.پھر اسی حالت میں آپ نے یعنی حضرت علیؓ نے خدائے علام الغیوب کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے اور یہ اب آپ کو دی جاتی ہے.پس آپ کو اس عطا پر مبارک ہو.جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی اور میں نے صاحب قدرت عطا کرنے والے اللہ کا شکر ادا کیا اور میں نے آپ کو یعنی حضرت علی کو خلق میں متناسب اور خُلق میں پختہ اور متواضع، منکسر المزاج، تاباں اور منور 19
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ پایا اور میں یہ حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت و الفت سے ملے اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپ مجھے اور میرے عقیدے کو جانتے ہیں اور میں اپنے مسلک اور مشرب میں شیعوں سے جو اختلاف رکھتا ہوں وہ اسے بھی جانتے ہیں لیکن آپ نے کسی بھی قسم کی ناپسندیدگی یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی مجھ سے پہلو تہی کی بلکہ وہ مجھے ملے اور مخلص محبین کی طرح مجھ سے محبت کی اور انہوں نے سچے صاف دل رکھنے والے لوگوں کی طرح محبت کا اظہار فرمایا اور آپ کے ساتھ حسین بلکہ حسن اور حسین دونوں اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک نہایت خوبرو، صالحہ، جلیلۃ القدر، بابرکت، پاکباز ، لائق تعظیم، باوقار ، ظاہر و باہر نورِ مجسم جو ان خاتون بھی تھیں جنہیں میں نے غم سے بھرا ہوا پایا لیکن وہ اسے چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ حضرت فاطمتہ الزہرا نہیں.آپ میرے پاس تشریف لائیں اور میں لیٹا ہو ا تھا.پس آپ بیٹھ گئیں اور آپ نے میرا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور شفقت کا اظہار فرمایا اور میں نے دیکھا کہ وہ میرے کسی غم کی وجہ سے غم زدہ اور رنجیدہ ہیں.اور فرمایا کہ بچوں کی تکلیف کے وقت ماؤں کی طرح شفقت و محبت اور بے چینی کا اظہار فرما رہی ہیں.20
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ اس پر گند اذہن مولوی جو ہیں یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ آپ نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ نے میرا سر اپنی ران پر رکھ لیا.بچے سے ایک ماں کی محبت کا اظہار جو ہوتا ہے یہ تو اس کا بیان ہو رہا ہے لیکن ان گندے ذہنوں کو کیا کہے کوئی.اور عامتہ المسلمین ان کی باتیں سن کے سمجھتے ہیں کہ حضرت فاطمتہ الزہرا کی نعوذ باللہ ہتک کر دی حالانکہ آگے جاکے اس کی مزید وضاحت بھی ہو جائے گی کہ آپ فرما رہے ہیں کہ کس طرح آپ ایک ماں کا سلوک مجھ سے کر رہی ہیں.بہر حال پھر آپ فرماتے ہیں پھر مجھے بتایا گیا کہ دین کے تعلق میں ان کے نزدیک یعنی حضرت فاطمہ کے نزدیک میری حیثیت بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں خیال آیا کہ ان کا غمگین ہونا اس امر پر کنایہ ہے جو میں قوم، اہل وطن اور دشمنوں سے ظلم دیکھوں گا.اس بات پر حضرت فاطمہ غمگین تھیں کہ میرے بیٹے کو یہ ظلم دیکھنا پڑے گا.پھر حسن اور حسین دونوں میرے پاس آئے اور بھائیوں کی طرح مجھ سے محبت کا اظہار کرنے لگے اور ہمدردوں کی طرح مجھے ملے.اور یہ کشف بیداری کے کشفوں میں سے تھا.اس پر کئی سال گزر چکے ہیں اور مجھے حضرت علی اور حضرت حسین کے ساتھ ایک لطیف مناسبت ہے اور اس مناسبت کی حقیقت کو مشرق 21
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ومغرب کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا اور میں حضرت علی اور آپ کے دونوں بیٹیوں سے محبت کرتا ہوں اور جو اُن سے عداوت رکھے اُس سے میں عداوت رکھتا ہوں اور بایں ہمہ میں جور و جفا کرنے والوں میں سے نہیں اور یہ میرے لیے ممکن نہیں کہ میں اس سے اعراض کروں جو اللہ نے مجھ پر منکشف فرمایا اور نہ ہی میں حد سے تجاوز کرنے والوں سے ہوں.11 پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” میں نے اس قصیدہ میں جو “ میں نے ”امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا 66 ہے یا حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے یہ انسانی کار روائی نہیں.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے.”خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسی جیسے راستباز پر بد زبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید مَـنْ عَــادَ وَلِیایی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے.پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا 22 1266 ہے.
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ یہ حدیث کا جو حوالہ آپ نے دیا اس سے مراد ہے جس نے میرے ولی سے دشمنی کی مَنْ عَادَلِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ 13 کہ جس نے میرے ولی سے دشمنی اختیار کی تو میں نے اس کے ساتھ اعلانِ جنگ کر دیا.کسی سے جب محبت کا اظہار ہوتا ہے اور محبت کا یہ اظہار جب ذاتی مجلس میں ہو جہاں اور کوئی نہ ہو تو وہ محبت کا اظہار دل کی آواز ہوتی ہے.ویسے تو پاک آدمی کا، جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ مقام دیا ہے ہر لفظ ہی دل کی آواز ہے لیکن معترض کے لیے یہ جاننا چاہیے کہ گھر میں بیٹھے ہوئے آپ کا کیا اظہار تھا.آپ نے صرف تحریرات میں یا فرمودات میں یا مجالس میں حضرت امام حسین کا ذکر بیان نہیں فرمایا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے محبت کا اظہار ظاہری طور پر نہیں کیا بلکہ گھر یلو مجلس میں بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی ان جذبات کا اظہار کیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی آل و اولاد اور آپ کے صحابہ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی.چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود اپنے باغ میں 23
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا.”آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں.“ پھر آپ نے بڑے درد ناک اند از میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے.آپ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے.اس درد ناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا ” یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم کے نواسے پر کر وایا.مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا.اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا اور یہ سب کچھ رسولِ پاک کے عشق کی وجہ سے تھا.“14 اس بارے میں خود حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ بھی ایک جگہ اسی واقعہ کو بیان فرماتی ہیں کیونکہ ان کے ساتھ یہ ہوا تھا.کہتی ہیں: آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.میں اور مبارک نے ایک کچھوا 24
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ پکڑا.آپ کو دکھلانے کے لیے لائے.آپ نے اس کو تو نظر انداز کیا اور پھر فرمایا کہ آؤ میں تمہیں محترم کی کہانی سناؤں.پھر کہتی ہیں ہم دونوں پاس بیٹھ گئے.یہ ماہ محرم کا پہلا عشرہ تھا.آپ نے شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کے واقعات سنانا شروع کیے.فرمایا وہ ہمارے نبی کریم کے نواسے تھے.ان کو منافقوں نے، ظالموں نے بھوکا پیاسا کر بلا کے میدان میں شہید کر دیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرمارہی ہیں کہ پھر فرمایا اس دن آسمان سرخ ہو گیا تھا.چالیس روز کے اندر قاتلوں، ظالموں کو خدا تعالیٰ کے غضب نے پکڑ لیا.کوئی کوڑھی ہو کر مرا.کسی پر کوئی عذاب آیا اور کسی پر کوئی.یزید کے ذکر پر ، یزید پلید فرماتے تھے.کافی لمبے واقعات آپ نے سنائے.حالت یہ تھی کہ آپ پر رقت طاری تھی.آنسو بہنے لگتے تھے جن کو اپنی انگشت شہادت سے پونچھتے جاتے تھے.15 اس ظلم کی داستان کو جب انسان سنتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.جب دشمن نے غلبہ پا لیا تو لکھا ہے کہ حضرت امام حسین نے اپنے گھوڑے کا رخ دریائے فرات کی طرف کیا یا کرنے کی کوشش کی تو آپ کا راستہ روک لیا گیا.ایک شخص نے آپ کو تیر مارا جو آپ کی ٹھوڑی کے اوپر آکے لگا بڑا گہراز خم ہو گیا.25
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ پھر حملہ آوروں نے مزید حملے کیے اور آپ کو شہید کر دیا.راوی بیان کرتا ہے کہ میں نے شہادت سے قبل آپ کو یہ کہتے سنا کہ اللہ کی قسم ! میرے بعد بندگان خدا میں سے کسی بھی ایسے بندے کو قتل نہیں کرو گے جس کے قتل پر میرے محل سے زیادہ خدا تعالیٰ تم پر ناراض ہو.پھر حضرت امام حسین نے فرمایا کہ واللہ ! مجھے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ذلیل کر کے مجھ پر کرم کرے گا اور پھر میرا انتقام تم سے اس طرح لے گا کہ تم حیران رہ جاؤ گے.ان ظالموں نے آپ سے اور آپ کے خاندان سے کیا سلوک کیا.شہید کیا اور شہید کرنے کے بعد پھر خیموں کو لوٹا.عورتوں کے سروں سے چادریں اتاریں.شہید کرنے کے بعد ان کے کمانڈر نے بلایا کہ حضرت امام حسین کی نعش لٹائی ہوئی ہے اس نعش پر سے کون گھوڑوں سمیت گزرے گا اور دس گھوڑے تیار ہوئے اور ان کو گزار کر نعش کو پامال کیا گیا.آپ کی کمر کی ہڈیوں کو اور پسلیوں کو چکنا چور کر دیا گیا.ایک روایت کے مطابق آپ کے جسم پر تینتیس زخم نیزے اور تینتالیس زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم اس کے علاوہ تھے.پھر آپ کا سر کاٹ کر گورنر کے پاس بھیجا گیا اور اس نے پیسر کوفے میں نصب کروایا.16 26
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ظلم کی انتہا ہے! کوئی خبیث ترین دشمن بھی اس طرح نہ کرے.یہ تو مختصر میں نے بیان کیا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمار ہے تھے تو اس وقت اس واقعہ پر غم سے آپ کے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی.پس کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ خاندانِ نبوت سے محبت نہیں کرتے یا اس کا ادراک نہیں رکھتے بلکہ ایک موقعے پر جب آپ کو ایک موقع پہ پتہ لگا کہ کسی نے حضرت امام حسین کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کیے ہیں آپ نے سختی سے جماعت کو بھی نصیحت فرمائی.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ: 66 واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ سے “ جو پوٹل کار ڈ ہوتا ہے اس کے ذریعے سے ” مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کے طرف منسوب کرتے ہیں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین "بوجہ اس کے کہ اس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی باغی تھا اور یزید حق پر تھا.“ آپ نے فرمایا ”لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین.مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گزرتا 27
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے ورد تبرے اور لعن وطعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لیے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بد زبانی کے مقابل پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتا ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں.بہر حال میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے.مومن بنا کوئی امر سہل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمنا 17 مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی بار یک اور تنگ راہوں کو خدا تعالیٰ کے لیے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کنسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے 28
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ ہیں لیکن بد نصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں.دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلا شبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتد ا کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں.دنیا کی آنکھ وہ شناخت نہیں کرسکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اُس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین سے بھی محبت 29
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہر مین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا ان کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے.1866 پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو کہیں کہ آل محمد سے محبت نہیں تھی.جس محبت کا ادراک آپ کو تھا وہ کسی اور کو نہیں ہوسکتا اور یہی آپ نے فرمایا بھی ہے.لیکن جہاں شیعہ غلو کی حد تک گئے ہیں وہاں ان کو حقیقت بھی آپ نے بتائی ہے اور جہاں سُستی غلط ہوئے وہاں انہیں بھی بتایا کہ اصلاح کرو.اور یہی حکم اور عدل کا کام ہے اور اسلام کی حقیقی تعلیم کے پھیلانے اور رائج کرنے کے اسی کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا لیکن اس کے باوجود یہ جو دونوں بڑے فرقے ہیں یہ احمدیوں کو ہی بُرا کہتے ہیں، ہمیں ہی ظلموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے صبر و استقامت سے اس کام کو جاری رکھنا ہے جو ہمارے سپر د ہے جس کے لیے ہم نے حضرت مسیح 30
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے کہ حقیقی اسلام کو دنیا میں پھیلائیں.اس نمونے کو سامنے رکھیں جو حضرت امام حسین نے ہمیں دکھایا.حضرت مصلح موعود نے اپنے ایک شعر میں فرمایا تھا کہ : وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں یہ کیا ہی ستاسو دا ہے دشمن کو تیر چلانے دو 19 پس ہماری قربانیاں تو ان شاء اللہ اس مرتبہ رائیگاں نہیں جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ مجھے جو حسین سے نسبت تو ہے لیکن نتیجہ وہ نہیں نکلے گا.اب جو اس دفعہ نتیجے ہیں وہ اس کے الٹ ہیں.کیونکہ اللہ تعالی نے یہی مقدر کیا ہے کہ کامیابی ملے.اس لیے اس دفعہ جو فتح ہے ، ظاہری فتح بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ، وہ حسینی صفات رکھنے والوں کی ہو گی اور دشمن ناکام و نامراد ہوں گے.پس اس کے لیے آج کل، خاص طور پر اس مہینے میں اور ہمیشہ بھی جبکہ دشمنی بھی آج کل خاص طور پر پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں پہ بھی اپنے عروج پر 31
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ اور زوروں پر ہے ہمیں چاہیے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں.درود شریف پڑھنے پر بہت زور دیں اور جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکیں گے اتنا ہی جلدی اللہ تعالیٰ ہمیں فتح نصیب کرے گا، کامیابی و کامرانی نصیب فرمائے گا.ان دنوں میں خاص طور پہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی دعا کریں.وہ مسلمان فرقے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر لگے ہوئے ہیں اور ان دنوں میں خاص طور پر جب دس محترم آتی ہے تو تاریخ ابھی تک تو یہی بتارہی ہے کہ کہیں نہ کہیں امام بارگاہوں پہ اور تعزیوں پہ یا مختلف جگہوں پہ حملے بھی ہوتے ہیں اور پھر کئی لوگوں کو شہید کیا جاتا ہے ، دین کے نام پر شہید کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ عقل دے اور کم از کم اس سال ایسی اطلاع کہیں سے کسی بھی ملک سے نہ ملے کہ جہاں مسلمانوں نے مسلمانوں کو مارا ہو اور یہ سلمان اس حقیقت کو بھی جلد پہچاننے والے ہوں کہ اسلام کی جو فتح اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے ہی کی ہے اور ان کو یہ سمجھ آجائے کہ ہماری کامیابی اب اسی میں ہے کہ زمانے کے امام اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آجائیں.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 18 ستمبر 2020، صفحہ 95 32
عَلَى دِيين واحِدٍ: حکم اور عدل حوالہ جات 1 تذکرہ ، ایڈیشن چہارم 2004، صفحہ 490.2 ملفوظات، جلد 2، ایڈیشن 2016، صفحہ 25.3 ملفوظات ، جلد 8 ، ایڈیشن 1984، صفحہ 260-261.خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰.4 ماخوذ از ملفوظات ، جلد 1 ایڈیشن 2016، صفحہ 380-381.ازالہ اوہام روحانی خزائن ، جلد 3 صفحہ 219 مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ 2008.سر الخلافہ ، روحانی خزائن جلد 8، صفحہ 326، مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ 2008.اردو ترجمہ صفحہ 25-26.7 ستر الخلافه ، روحانی خزائن جلد 8، صفحہ 358، مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ 2008.اردو ترجمہ صفحہ 108-110.ستر الخلافہ ، روحانی خزائن جلد 8، صفحہ 352 ، مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ 2008.اردو ترجمه صفحه 95-96 مکتوبات احمد ، جلد 2، صفحہ 151 ، مکتوب نمبر 2 بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب، مطبوعہ نظارت نشر و اشاعت قادیان 2008 10.ستر الخلافہ ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 328، مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹیڈ 2008.اردو ترجمہ صفحہ 32.33
عَلَى دِينِ وَاحِدٍ: حکم اور عدل خطبه جمعه بیان فرموده ۲۸ اگست ۲۰۲۰ 11.سر الخلافہ ، روحانی خزائن جلد 8 ، صفحہ 358-359، مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ ، 2008.اردو ترجمہ صفحہ 110-112- 12.اعجاز احمدی، ضمیمه نزول ،اسیج، روحانی خزائن جلد 19 ، صفحہ 149 ، مطبوعہ اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ 2008.13.صحیح البخاری ، کتاب الرقاق، باب التواضع ،حدیث 6502.14.سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ، صفحہ 31-32.15.ماخوذ از تحریرات مبارکه از حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ، صفحہ 222.16.تاریخ طبری جلد 4 ، صفحہ 253-257 اور 260، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2003.تاریخ اسلام حصہ دوم از اکبر شاہ نجیب آبادی ، صفحہ 76، نفیس اکیڈیمی، اردو بازار کراچی -1998 17.سورة الحجرات:15.18.مجموعه اشتہارات، جلد سوم ،صفحہ 374-376، اشتہار نمبر 272 تبلیغ الحق، مطبوعہ اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ 2008.19.کلام محمود ، صفحہ 218 ، نظارت نشر و اشاعت قادیان 2008.34