Hafsa

Hafsa

حضرت حفصہ ؓ

اُمّ المؤمنین
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو ہلی أم المؤمنين حضرت حفصہ یعنی الله عنها لجنہ اماءاللہ

Page 2

أم المؤمنين حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لوصد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

اُم المؤمنین حضرت حفصہ فصہ رضی اللہ عنہا پیارے بچو! آج ہم اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کے حالات پڑھیں گے.حضرت حفصہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق کی صاحبزادی تھیں والد بزرگوار کی طرف سے ان کا سلسلہ نسب یہ ہے.حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن لوی بن فہر بن مالک.والدہ کا نام زینب بنت مطعون تھا جو مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون کی بہن تھیں اور خود بھی صحابیہ تھیں.والدہ کی طرف سے نسب نامہ یہ ہے زینب بنت مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ تصبح.آپ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے نجا عدی سے تھا جس کو مکہ میں اہم مقام حاصل تھا.حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کی ولادت تعمیر کعبہ کے وقت (یعنی 5 سال قبل از نبوت ) ہوئی تھی آپ نے اپنے والد حضرت عمر فاروق کے ساتھ ہی نبوت کے شروع میں اسلام قبول کیا.اس وقت آپ کی عمر پانچ یا چھ سال تھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ دس سال کی عمر میں مسلمان ہو ئیں.حضرت محمد مصطفی عمل سے ان کی شادی کا قصہ بہت ہی دلچسپ ہے.یہ واقعہ ہجرت کے تیسرے سال اور شعبان کے مہینہ کا ہے.حضرت

Page 5

حفصہ رضی اللہ عنھا کی جب پہلی شادی ہوئی اس وقت وہ صرف اٹھارہ سال کی تھیں.اُن کے شوہر کا نام ٹینس بن حذافہ تھا.یہ دونوں میاں بیوی 13 نبوی میں مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے پھر جب 2 ہجری میں جنگ بدر ہوئی تو خیس اس میں شامل تھے وہ بڑے مخلص صحابی تھے.جنگ بدر میں دشمن کے زہر میں بجھے ہوئے تیروں کو اپنے سینے پر روکتے رہے اور زخموں سے چور ہو گئے اسی حالت میں ان کو مدینہ واپس لایا گیا.ان زخموں کی تاب نہ لا کر کچھ عرصہ بعد وہ انتقال کر گئے.(1) حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا بیوہ ہوگئیں.کچھ عرصہ بعد جب حضرت عمرؓ کو اُن کی دوسری شادی کا خیال آیا تو ان کے دل میں حضرت عثمان بن عفان کا خیال آیا جو بہت نیک تھے عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ بیٹی کا باپ جا کر خود کسی سے کہے کہ میری بیٹی سے شادی کر لو مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا پیارا واقعہ ہونا تھا.ایسا ہوا کہ حضرت عمرؓ خود اپنے دوست حضرت عثمان بن عفان کے پاس گئے اور کہا کہ : ” میری بیٹی حفصہ اب بیوہ ہے آپ اگر پسند کریں تو اُس سے شادی کر لیں.“ حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں اس پر غور کروں گا.چند دن بعد جب ان سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت عثمان اس رشتہ پر راضی نہیں ہیں.حضرت عمر کو اس بات کا افسوس ہوا.وہ پھر سوچنے لگے کہ اب کس سے کہیں.

Page 6

اُنہیں ایک اور نیک شخص کا خیال آیا اور وہ حضرت عبد اللہ بن ابوقحافہ ( جو حضرت ابو بکر کے نام سے معروف ہیں ) کے پاس گئے اور یہی سوال دہرایا کہ میری بیٹی بیوہ ہو گئی ہے اگر آپ پسند کریں تو اُس سے شادی کر لیں.حضرت ابو بکر نے خاموشی اختیار فرمائی اور کوئی جواب نہ دیا.(2)اس پر حضرت عمرؓ کو بڑا افسوس ہوا.وہ غصے اور ملال کی حالت میں آنحضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری بات بتائی.آپ ﷺ نے ساری بات سُنی اور حضرت عمرؓ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:.عمر کچھ فکر نہ کرو.خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کو عثمان وابوبکر سے بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی.“ (3) دراصل آنحضرت علی یہ ارادہ فرما چکے تھے کہ وہ حفصہ سے شادی کرلیں گے اور اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم کی شادی حضرت عثمان سے کریں گے آپ علیہ نے اس بات کے لئے حضرت ابو بکر سے مشورہ کیا تھا.اور یہی وجہ تھی کہ حضرت ابو بکر صدیق نے یہ رشتہ قبول نہ کیا بلکہ خاموشی اختیار کی.(4) پھر آپ ﷺ نے خود ہی اپنی طرف سے حضرت عمرؓ کو حفصہ کے لئے پیغام بھیجا.حضرت عمر کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے تھا انہوں نے نہایت ہی خوشی سے یہ رشتہ قبول کرنے کی اطلاع دی.(5) اس طرح شعبان 3 ہجری الله بمطابق فروری 625ء حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا آنحضور ﷺ کے نکاح میں آکر

Page 7

حرم نبوی میں داخل ہوئیں.آپ کا مہر چار سو درہم مقرر ہوا.(8) اور اس طرح قریبی دوست آپس میں قریبی رشتوں میں بندھ گئے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر آپ علیہ کے قریبی دوست بھی تھے اور خسر بھی ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے ایسی محبت ڈالی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی گئی.حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کی عمر شادی کے وقت انداز اکیس سال تھی.(7) آپ کے ایک ماموں حضرت عثمان بن مظعون اکابر صحابہ میں سے صلى الله تھے ، جن سے رسول کریم ﷺ کو بہت محبت تھی.حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا حضرت عبد اللہ بن عمر کی بڑی بہن تھیں.حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بہت مشہور ہے.آپ اُس وقت بچی تھیں اس طرح بچپن ہی سے اسلام میں داخل ہو گئیں.بعد میں جہاں آپ کی پہلی شادی ہوئی وہ گھرانہ بھی اسلام لا چکا تھا اس طرح آپ کا وقت اسلامی ماحول میں گزرا آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ کے خاندان کے سات افراد جنگ بدر میں اسلام کے لشکر میں شامل تھے.(8) آپ بہت ذہین، بہادر اور نڈر تھیں.آپ جب شادی کے بعد آنحضرت ﷺ کے گھر آئیں تو آپ علی کی دو بیویاں پہلے سے موجود تھیں.حضرت سودہ رضی اللہ عنی عمر رسیدہ تھیں اور گھر میں بزرگ نگران کی حیثیت رکھتی تھیں جب کہ حضرت عائشہ رضی الہ میں کم عمر تھیں

Page 8

حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی آپس میں بہت محبت ہو گئی.دونوں میں پیار کی وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں آنحضور اللہ کے قریبی دوستوں کی بیٹیاں تھیں.خوش نصیب حضرت حفصہ رضی ویز موی حرم نبوی میں شامل ہو گئیں.جہاں صلى الله ہر گھڑی اللہ تعالیٰ کا نور برستا تھا.وہ حسین ہستی محمد مصطفے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کی ہدایت کے لئے پیدا فر مایا تھا اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ دکھانے ، قرآن کریم کی روشنی پھیلانے اور انسانیت کی فلاح و کامیابی صد الله کے لئے کام کرنے میں صرف فرماتے تھے.اسی لئے اپنی ازواج مطہرات کو بھی اسی کام کی تربیت دینے لگے.پیارے آقا علہ دن بھر مر دوں میں وعظ ونصیحت فرماتے نماز مغرب کے بعد جس بیوی کے گھر باری ہوتی وہاں ازواج مطہرات اور دوسری عورتیں بھی جمع ہو جاتیں اور وہیں قرآنِ کریم کا درس ہوتا.دینی مسائل پر گفتگو ہوتی محفلِ سوال و جواب بھی ہوتی یہ سلسلہ نماز عشاء تک جاری رہتا.آنحضرت میے کو بھی ازواج کی تربیت پر بہت بھروسہ تھا.ایک دفعہ فرمایا - أَنا تَارِكٌ فِيْكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَوَّ لُهَا كتاب الله....وَأَهْلُ بَيْتِي (8) ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو عظیم الشان چیزیں چھوڑے جاتا ہوں.ایک اللہ کی کتاب دوسرے اہل بیت.

Page 9

اہل بیت کے پڑھنے پڑھانے میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کا صلى الله نام سب سے نمایاں ہے.حضرت عائشہؓ نے سب سے زیادہ احادیث بیان فرمائی ہیں جب کہ حضرت حفصہ خدمت قرآن میں نمایاں ہیں.آپ میکو نے حضرت حفصہ کی تعلیم کے لئے خاص انتظام فرمایا.آپ ﷺ کے حکم پر حضرت شفا بنت عبد اللہ عدویہ نے ان کو لکھنا سکھایا اور طب کا ایک نسخہ بھی سکھایا.(9) حضرت حصہ قرآن کریم کی قرآت اور تفسیر میں کمال رکھتی تھیں.ایک مشہور واقعہ سے آپ کی قرآن کریم کی سمجھ اور حاضر دماغی کا اندازہ ہوتا ہے یہ واقعہ حدیث کی مشہور کتاب مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 285 پر درج ہے.مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 237 پر بڑے دلچسپ انداز میں لکھا ہے فرماتے ہیں:.حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بدر اور حدیبیہ کے صحابہ میں سے کوئی شخص دوزخ میں نہیں جائے گا.حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں میں نے کہا:.یا رسول الله وَايْنَ قـولُ اللهِ تعالى وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُها یعنی اگر یہ بات درست ہے تو پھر خدا تعالی کا یہ قول کہاں گیا ان منكُمْ إِلَّا وَارِدُھا یعنی اس میں تو یہ ذکر ہے کہ سب لوگ دوزخ میں جائیں گے اس پر

Page 10

آپ ﷺ نے فرمایا من یعنی بس بس جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ چُپ بھی کر، وہ آیت کہاں گئی کہ تم ننجى الَّذِينَ اتَّقَوْا ونَذَرُ الظَّلِمِينَ فِيهَا OL ” پھر ہم متقیوں کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل أَيَّاه کرے ہوئے چھوڑ دیں گے." حضرت حفصہ نے سورہ مریم کی آیت نمبر 71 پڑھی تھی آپ علیہ نے آیت نمبر 72 بیان فرما کر مسئلہ حل کر دیا.حضرت حفصہ رضی الله علما نزول وحی کے وقت بعض آیات لکھ لیتی تھیں یہ اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے کہ آنحضرت نے جو قرآن پاک لکھوایا کرتے تھے اُس کی تختیاں آپ کے پاس رکھوا دی جاتیں.جو آپ بہت حفاظت اور پیار سے رکھتیں اور ساتھ حفظ کر لیتیں (10) آپ نے آنحضرت ﷺ سے یہ بشارت سکی تھی کہ جو شخص قرآن کریم کو حفظ کر لے گا قیامت کے دن قرآن اس کو دوزخ میں جانے سے بچائے گا حضرت حفصہ کو نہ صرف قرآن پاک جمع کرنے اور حفظ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی بلکہ اس کی حفاظت کا موقع بھی ملا.وہ اس طرح کہ حضرت ابو بکر کے زمانہ میں حفاظت کی غرض سے قرآن کریم کے لکھے ہوئے الگ الگ ٹکڑوں کو ایک جلد میں جمع کیا گیا تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا سے بھی مشورہ کیا جاتا اور یہ جلد کیا ہوا قرآن مجید بھی حضرت حفصہ رضی اللہ علما کے پاس ہی رکھوایا گیا.

Page 11

8 اُس زمانے میں اسلام میں داخل ہونے والے ہر ملک اور ہر علاقہ کے لوگ قرآن کریم کی قرآت اپنے اپنے لہجے میں کرتے تھے جس سے معافی میں فرق پیدا ہونے کا خطرہ ہو گیا اس خطرے کے پیش نظر حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا سے قرآن پاک لے کر اُس کی نقلیں کی گئیں اور قرآن پاک ان کو واپس کر دیا گیا.(11) یہ ایک بہت بڑی سعادت تھی جو ایک خاتون کے حصہ میں آئی.آنحضرت علیہ سے لے کر خلفاء راشدین کے زمانہ اور بعد میں بھی آپ کی وفات تک آپ قرآن کریم کے سب سے زیادہ صحیح نسخے کی مالک رہیں.(12) حضرت حفصہ بہت عبادت گزار تھیں.ایک دفعہ حضرت جبرائیل نے آنحضرت ﷺ کو بتایا کہ حفصہ رات کو عبادت کرتی ہیں.اور دن کو روزہ رکھتی ہیں.وہ جنت میں آپ علیہ کی زوجہ ہیں.“ (13) إِنَّهَا صَوَّامة قوامة وَإِنَّهَا زوجكَ فِي الجَنَّةِ یہ ایک بہت بڑی سند ہے جو کسی کو اپنے پروردگار سے مل سکتی ہے.آپ کے روزوں کے معمول کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جب 60 سال سے زائد عمر میں آپ کا انتقال ہوا اُس دن بھی آپ روزے سے تھیں آپ کو دس ہجری میں آنحضور ﷺ کے ساتھ حج کی سعادت بھی حاصل ہوئی.(14) پیارے حضور یہ کا گھر آپس میں پیار و محبت سے رہنے کی ایک مثال تھا.

Page 12

9 صلى الله حضرت حفصہ کے بعد بھی آپ ﷺ نے کئی اور شادیاں کیں لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ سب آپس میں بھی سلوک سے رہتیں اور آنحضرت علی پر بھی جان چھڑکتی تھیں بہت کم کوئی تلخی کی بات ہوتی تھی لیکن اگر کبھی کوئی تلخی الله کی بات ہوتی تو آپ عملہ پیار سے سمجھا دیتے.اب ہم آپ کو حضرت حفصہ رضی الہ عہا کی کچھ اور دلچسپ باتیں بناتے ہیں آپ کو پتہ ہے کہ حضرت عمرؓ بہت بہادر تھے.آپ کی بیٹی بھی بہت بہادر تھیں اس لئے بلا ضرورت جھجکتی نہیں تھیں جو بات دل میں کھٹکے حضور ﷺ سے صلى الله پوچھ لیا کرتی تھیں اس طرح اُن کے علم میں اضافہ ہوتا ایک دفعہ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہ نے نفلی روزہ رکھا.کسی نے تحفہ کے طور پر کھانا بھیج دیا تو انہوں نے اپنا نفلی روزہ کھول لیا اور کھانا کھا لیا تھوڑی دیر کے بعد آنحضور میں نے گھر تشریف لائے.وہ روزہ کھول چکی تھیں اور آپ مے سے پوچھا نہ تھا کچھ خوف سا محسوس ہوا حضرت حفصہ رضی الله عنا فوراً بولیں.یارسول اللہ ﷺ ! میرا اور عائشہ کا نفلی روزہ تھا ، ہمیں کچھ کھانا ہدیہ کے طور پر آیا اور ہم نے اس پر روزہ افطار کر لیا، پس رسول اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا اُس کی جگہ ایک اور دن روزہ رکھ لو.حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں خاموش رہی لیکن حفصہ نے جلدی سے بات کر لی کیونکہ سیدنا عمر فاروق کی بیٹی تھیں.(15) حضرت عائشہ نے حضرت حفصہ کے بولنے کی جرات کی تعریف کی کیونکہ اس طرح ان کے

Page 13

10 سوال پوچھنے سے دینی مسائل کا علم ہو جاتا تھا.ایک دفعہ ایک سفر میں حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ دونوں آنحضور ﷺ کے ساتھ تھیں آپ ﷺ کی عادت تھی کہ سفر میں حضرت عائشہ کے اونٹ کے ساتھ چلتے رہتے اور باتیں کرتے اگر سوار ہوتا ہوتا تو آپ ہی کے اونٹ پر سوار ہو جاتے.ایک دن حضرت حفصہ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ میرا بھی دل کرتا ہے کہ حضور ﷺ میرے اونٹ کے ساتھ ساتھ چلیں اور مجھ سے باتیں کریں اور میرے اونٹ پر سوار ہوں اس لئے آج تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر سوار ہو جاتی ہوں.حضرت عائشہ مان گئیں اور اپنی سہیلی کی خواہش پوری کر دی.(16) ایک دفعہ آنحضور ﷺ گھر تشریف لائے تو حضرت صفیہ رو رہی تھیں.آپ اللہ نے پوچھا صفیہ کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو؟ تو آپ نے بتایا کہ مجھے حفصہ نے یہودی کی بیٹی کہا ہے.آپ ﷺ نے یہ سُن کر فرمایا حفصہ خدا سے ڈرو.اور پھر حضرت صفیہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تم نے اُس کو یہ جواب کیوں نہ دیا کہ تم نبی کی بیٹی ہو.تمہارا چچا نبی ہے اور تم نبی کی بیوی ہو.بھلا حفصہ تم پر کیسے فخر کر سکتی ہے اس طرح آپ ﷺ نے حضرت حفصہ کو ایک بات سمجھا دی اور حضرت صفیہ کو بھی خوش کر دیا.(17) حضرت حفصہ اپنی ذہانت کی وجہ سے پیارے آقا کے رہن ย

Page 14

11 سہن، صبح شام کے معمولات اور ارشادات کو غور سے دیکھتیں سنتیں اور یاد رکھتیں.حضرت حفصہ سے 60 حدیثیں مروی ہیں.بخاری شریف میں ہے.الله آپ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ جب مؤذن صبح کی اذان کے لئے کھڑا ہو جاتا تو آپ ﷺ نماز فرض سے پہلے دور کعتیں ہلکی سی پڑھ لیا کرتے تھے.‘ (18) آپ ع کے بستر کی کیفیت حضرت حفصہ بیان فرماتی ہیں.آنحضور ﷺ کا بستر کمبل کا تھا.کبھی چھڑے کا جس میں کجھور کی چھال بھری ہوتی تھی.کبھی معمولی کپڑے کا جسے دوہرا کر دیا جاتا.ایک شب میں نے چادر کو چوہرا ( چار تہہ ) کر کے بچھا دیا تا کہ کچھ نرم ہو جائے تو آپ ﷺ نے اسے پسند نہ فرمایا.کیونکہ نماز کے لئے اٹھنے میں سستی کا ڈر تھا.(19) پردے کے متعلق احکامات کی وضاحت میں حضرت حفصہ کی ایک روایت سے بہت سی باتوں کا علم ہوتا ہے.فرماتی ہیں:.ہم کنواری لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے ہیں.ایک دفعہ ایک عورت آئی اور قصر بنی خلق میں اتری.اس نے بتایا کہ اس کی ایک بہن رسول اللہ علی کے کسی صحابی کی بیوی تھیں.وہ صحابی آنحضور ﷺ کے ساتھ بارہ (12) غزوات میں شریک ہوئے تھے اور ان کی بیوی چھ (6) غزوات میں شریک ہوئی

Page 15

12 تھیں وہ بتاتی تھیں کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی اور تیمار داری کرتی تھیں.میری بہن نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہمارے باہر نکلنے میں کوئی حرج ہے جب کہ اس کے پاس چادر نہ ہو.فرمایا اس کی سہیلی اُسے چادر اوڑھا دے اور ہر نیکی کے کام اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو.(20) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کے لئے ہر نیکی کے کام اور مسلمانوں سے دعا ملنے کے مواقع میں شامل ہونے کی اجازت ہے وہ گھر میں اور گھر سے باہر بھی یہ موقع تلاش کر سکتی ہیں مگر پردے کے ساتھ ، چادر اوڑھ کر.اگر کسی کے پاس چادر یا حجاب کے لئے کوئی کپڑا نہیں ہے تو کوئی دوسری عورت مدد کرے مگر کسی بھی عذر سے بے حجاب رہنا پسندیدہ نہیں.اب ہم آپ کو ایک ایسا واقعہ سُنا ئیں گے جس سے آپ کو پتہ لگے گا کہ اسلام سے پہلے عورتوں کو کیا سمجھا جاتا تھا اور پھر آنحضرت ﷺ نے عورتوں کو کیا مقام، درجہ اور عزت دی.جب کوئی بہت بڑی تبدیلی آتی ہے تو لوگ اُس کو عجیب سمجھتے ہیں یہی حالت حضرت عمر کی ہوئی جب ایک دفعہ گھر میں اُن کی بیگم نے انہیں کسی بات میں مشورہ دیا تو آپ کو بہت غصہ آ گیا..ایک دم اُن سے کہا کہ تم نے ایسی جرات کیسے کی کہ مجھے مشورہ دیا.اس پر حضرت عمر کی بیگم نے کہا کہ، عمر ا رسول پاک ﷺ کے گھر جا الله کر دیکھئے کہ ازواج مطہرات کس طرح آنحضور ﷺ کے ساتھ بے تکلفی سے.

Page 16

13 زندگی بسر کرتی ہیں اور مشورے دیتی ہیں.(21) اُس زمانے میں عربوں کا یہ خیال تھا کہ عورت میں کچھ عقل نہیں ہوتی اُسے ہمارے کسی معاملہ میں بولنا ہی نہیں چاہیے.اگر کوئی کسی معاملے میں دخل بھی دیتی تو اُسے سخت نا پسند کرتے تھے.ایک دفعہ حضرت عمر ایک بات کے متعلق سوچ رہے تھے.اُن کی بیوی نے کہا بات تو آسان ہے اس طرح کرلو.انہوں نے کہا کہ تو کون ہوتی ہے میرے معاملے میں دخل دینے والی.اُن کی بیوی نے کہا جب رسول کریم ﷺ کی بیویاں اُن کو مشورہ دیتی ہیں تو اگر میں نے دے دیا تو کیا حرج ہے.حضرت عمر اُسی وقت اپنی لڑکی کے پاس جو کہ رسول کریم مے سے بیاہی ہوئی تھیں دوڑے گئے اور پو چھا کہ کیا تم رسول کریم اللہ کے معاملے میں دخل دیا کرتی ہو.وہ کہنے لگیں.ہاں.حضرت عمر نے انہیں کہا یہ بہت بُری بات ہے تم پھر اس طرح کبھی نہ کرنا.اُن کی پھوپھی نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے کہا.تم کون ہوتے ہو رسول کریم ﷺ کے گھر کی باتوں میں بولنے والے.(22) الله رض حضرت عمر اپنی بیٹی کو اکثر سمجھایا کرتے تھے.ایک روایت ہے کہ آپ نے حضرت حفصہ سے فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جن کے سامنے تو اس طرح کے سوالات کرتی ہے وہ اللہ کے محبوب پیغمبر ہیں وہ جو بھی ارشاد فرما ئیں خاموشی اور ادب سے سُن لیا کرو.حضرت حفصہ نے کہا:.ابا جان ! عائشہ بھی تو

Page 17

14 اُن سے اسی طرح بات کرتی ہیں.حضرت عمرؓ نے پیار سے سمجھایا.بیٹا میں نے تجھے پہلے بھی کہا تھا کہ اس کی نقل نہ کیا کرو کہیں اپنا نقصان نہ کر بیٹھنا.ہمیشہ ادب، احترام، اطاعت گزاری اور سلیقہ شعاری کا خیال رکھنا.پیارے آقا ﷺ کی زندگی کے حالات دیکھیں تو دو ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں آپ عمﷺ نے حلال چیز سے خود کو روکا.پہلا واقعہ یوں ہے کہ رسول کریم میے کو ایک دفعہ ایک بیوی نے جس کے گھر ماری تھی شہد کا شربت پلایا جو آپ ﷺ کو پسند تھا.اس وجہ سے آپ ﷺ دیر تک اس کے الله صلى الله ہاں ٹھہرے دوسری بیویوں کو یہ بُرا لگا.ایک بیوی نے جسے شہد پسند نہ تھا الله آپ ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے منہ سے بو آتی ہے.آپ ﷺ نے دل میں عہد کیا کہ آئندہ شہد نہ پئیں گے اس پر سورۃ تحریم آیت 1-2 نازل ہوئیں، جس میں فرمایا گیا کہ شہد کو خدا تعالیٰ نے اچھا قرار دیا ہے کسی بیوی کی خاطر اُس کا ترک بُری بات ہے.آپ ﷺ نے ایک.....بیوی کے ہاں شہر پیا اور دوسری کو وجہ بتائی اس پر اُس نے اور اُس کی سہیلی نے سمجھا کہ شہد تو بعض دفعہ بو دار بوٹیوں کا بھی ہوتا ہے.آپ ﷺ سے کہنا چاہیے کہ شہد سے بعض دفعہ کو آتی ہے اس سے آپ اس بیوی کے ہاں زیادہ جانا چھوڑ دیں گے.اس واقعہ کا اس جگہ ذکر ہے.(23)

Page 18

15 قرآن پاک میں کسی بیوی کا نام نہیں ہے لیکن بخاری و مسلم شریف میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی بی بی زینب کے گھر میں شہد پیا.عائشہ صلى الله اور حفصہ نے زینب پر غیرت کی اور رسول خدا ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ کے منہ سے مغافیر کی بُو آتی ہے.آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے زینب کے گھر میں شہد پیا ہے.اب پھر شہد نہ پیوں گا.(24) آپ مے کے گھر میں انتہائی سادگی تھی.جس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی دنیاوی چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے توجہ ہٹا نہ دے.آپ ﷺ دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ بس اتنا رزق دے جس سے زندہ رہ سکیں.یہی سادگی اپنی ازواج کو بھی سکھائی حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ میلہ نے ہم کو پانچ چیزوں سے منع کیا.ریشمی کپڑے، سونے کے زیورات ،سونے اور چاندی کے برتن، سرخ نرم گڈے اور گتان آمیز ریشمی کپڑے.(25) قرآن پاک نے مطالبہ کرنے والیوں کا نام نہیں لکھا البتہ اس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح سے ہے کہ :.يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِازْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلاً O وَإِنْ كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّرَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا O (الاحزاب : 29، 30 )

Page 19

16 ترجمہ: ”اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں دیدی سامان دے کر رخصت کر دیتا ہوں اور احسن اور نیک طریق سے تمہیں رخصت کر دیتا ہوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور اخروی زندگی کے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے پوری طرح اسلام پر قائم رہنے والیوں کے لئے بہت بڑا اجر تجویز فرمایا ہے.“ حضرت حفصہ کے لئے آنحضور ﷺ کی آخری بیماری کا ایک چھوٹا سا واقعہ یاد گار بن گیا.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ جب آنحضور علیہ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آپ مے سہارا لے کر میرے گھر تشریف لائے تو حضور ﷺ نے فرمایا " میرے اوپر سات مشکیں بہاؤ جن کے ابھی منہ 66 الله نہ کھولے گئے ہوں شاید میں لوگوں کو وصیت کر سکوں.چنانچہ آنحضور علی کو حضرت حفصہ کے شب میں بٹھا کر سات مشکیں ڈالی گئیں یہاں تک کہ الله آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ بس، پھر آپ میلہ لوگوں کے پاس تشریف لے گئے پھر نماز پڑھائی اور خطبہ دیا.(27) حضرت حفصہ نے اپنی ساری زندگی بہت سادگی سے صوفیانہ انداز میں گزاری.قرآن مجید پڑھنا پڑھانا آپ کا مشغلہ رہا.آپ دجال سے اور اس کے ذکر سے بہت ڈرتی تھیں.بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضرت حفصہ طبیعت اور مزاج کی تیز تھیں تاہم اس کے باوجود فقہ اور تقویٰ میں ممتاز تھیں

Page 20

17 نہایت عبادت گزار اور امور دینیہ کی سختی سے پابند تھیں.حضرت عائشہ حضرت خلصہ کے متعلق فرمایا کرتی تھیں کہ حصہ اپنے باپ (عمر) کی صاحبزادی ہیں.جیسے مضبوط ارادے کے مالک وہ خود ہیں ویسی ہی ان کی صاحبزادی بھی ہیں.حضرت شفاء نے حضرت حفصہ کو چیونٹی کے کاٹے کا منتر بھی سکھایا ایک دن وہ گھر آئیں تو رسول اللہ علیہ نے کہا اے شفاء ! تم حفصہ کو منتر سکھا دو.حضرت عمر کی شہادت کا صدمہ آپ نے بڑے صبر سے برداشت کیا.اور لوگوں کو پُر امن رہنے کی تلقین کرتی رہیں.حضرت عمرؓ نے اپنی کچھ جائیداد آپ کی نگرانی میں دی تھی وفات سے پہلے اپنے بھائی حضرت عبد اللہ کو بلایا اور فرمایا کہ میرے بعد یہ جائیداد صدقہ کر دینا.(29) تریسٹھ سال کی عمر میں 5 شعبان 45 ہجری میں امیر معاویہ کے دور حکومت میں مدینہ میں وفات پائی.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہ تدفین میں شامل ہوئے.مروان بن الحکم نے نماز جنازہ پڑھائی.ان کے بھائی حضرت عبد اللہ بن عمر اور ان کے لڑکوں عاصم، سالم عبد اللہ اور حمزہ نے قبر میں اتارا جنت البقیع میں مدفون ہیں.آپ نے کوئی اولا د یادگار نہیں چھوڑی.(30) اللہ تعالیٰ انہیں اپنے قرب خاص سے نوازے.آمین اللهم آمین.

Page 21

18 حوالہ جات (1) ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ (179-182) (2) بخاری کتاب النکاح باب عرض الانسانِ ابنته (3) زرقانی حالات حفصہ (4) ازواج مطہرات وصحابیات صفحہ (183-184) (5) بخاری کتاب النکاح (6) طبری حالت ۳ ہجری (7) سیرت خاتم النبین (صفحہ 480) (8) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 179-180) (9) مسند احمد.ابو داؤد کتاب الطب (10) فتح الباری جلد 9 صفحہ 747 (11) فضائل القرآن (صفحہ 37) (12) مطہر عائلی زندگی (صفحہ 55) (13) امہات المؤمنین (صفحہ 198) (14) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 190 - 139 ) (15) آزاد ترجمہ.المؤطا مالک بن انس جلدا (صفحہ 306) ابوداؤ د حدیث نمبر 2457، ترمذی حدیث نمبر 735،

Page 22

19 فتح الباری جلد 4 صفحہ 250 (16) ازواج مطہرات حیات و خدمات صفحہ 121 (17) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 188) (18) بخاری باب بدء الا ذان (19) سیرت النبی شبلی نعمانی جلد دوم صفحه 201 حوالہ شمائل ترمذی (20) صحیح بخاری کتاب المناسک صفحہ 611،610 حدیث نمبر 1543 (21) بخاری کتاب النکاح باب موعظہ الرجل ابنته (22) الازهار لذوات الخمار (صفحہ 62،61) (23) فتح البیان جلد 9 تفسیر صغیر ( صفحه 755) (24) حقائق الفرقان.جلد چہارم صفحہ 148 (25) مسند جلد 6 (صفحہ 228)، مطہر عائلی زندگی (صفحہ 147) (26) ہفت روزہ بدر 6 نومبر 1986 ء جلسہ سالانہ مستورات خطاب 27 دسمبر 1983ء از مطهر عائلی زندگی (صفحات 104 تا 106) (27) صحیح بخاری کتاب الطب باب 417 حدیث 667 جلد سوم 1 26 (28) ازواج مطہرات حیات و خدمات (صفحہ 120-122 ) (29) ازواج مطہرات حیات و خدمات صفحہ (122-122) (30) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 189-188 )

Page 23

رض حضرت حفصہ rd (Hadrat Hafsah") U Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 979 5

Page 23