Language: UR
احادیث نبوی ﷺ کا یہ نہایت دلکش مجموعہ 1967ء میں محترم مولانا ملک سیف الرحمٰن صاحب نے بڑی لمبی محنت اورخاص مہارت و کاوش سے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان کے زیر سایہ و اہتمام مرتب کیا تھا، جسے قبول عام کا اعزاز حاصل ہوا کیونکہ لوگوں کواس سادہ اور عام فہم مجموعہ کی صورت میں129 موضوعات پر ایک ہزار منتخب احادیث کا متن اور اردو مل گیا جس سے اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے عوامی تعلیم و تربیت کے لئے مفیدوسیلہ میسر آیا۔ نیز اختلافی مسائل کے لئے متعلق احادیث سے خاطر خواہ مواد جمع کردیا گیا ہے۔ مجموعہ کے آغاز میں حضرت مرزا طاہراحمد صاحب کا پیش لفظ موجود ہے اسی طرح علم الحدیث کی بنیادی اصطلاحات اور ابتدائی معلومات اوربعض ضروری تعارف بھی مختصراً شامل کتاب کئے گئے ہیں۔
حَدِيقَة الصَّالِحِينَ احادیث حفتر تهم النتین صلى الله علية المرحلة مرتبة حضرت ملک سیف الرحمان مرحوم
حديقة الصالحين أحاديث حسبة نجم البنين صلى الله علية الدولة مرتبه حضرت ملك سيف الرحمان مرحوم
حدیقۃ الصالحین مر م مولانا ملک سیف الرحمن صاحب Hadeeqat-us-Saliheen (Garden of the Righteous) Compiled by Maulana Malik Saif-ur-Rahman First edition published in Rabwah, Pakistan, 1967 (under the auspices of Hazrat Mirza Tahir Ahmad, Nazim Irshaad, Waqf-e-Jadid Anjuman Ahmadiyya Rabwah) Reprinted in Qadian, India, 2003, 2008, 2015 Present updated and revised edition published in the UK in 2019 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS Printed in the UK at: Raqeem Press, Farnham, Surrey For further information, please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-196-7 10897654321
☐ ☐ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم أَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمُ پیش لفظ مجموعه احادیث " حديقة الصالحین حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے بطور ناظم ارشاد وقف جدید انجمن احمد یہ ربوہ محترم ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم سے تیار کر وایا تھا اور ۱۹۶۷ میں اس کی پہلی مرتبہ طباعت کی گئی تھی.کتاب کا پیش لفظ طبع اول حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے قلم مبارک سے تحریر کر دہ ہے جو اس کتاب کی افادیت اور خصوصیات پر خوب روشنی ڈالتا ہے.حدیقۃ الصالحین میں روحانی، دینی، اخلاقی، معاشرتی موضوعات پر حضرت رسول کریم محمد مصطفی صلی الیم کے مبارک ارشادات کو مختلف ابواب میں تقسیم کر کے بیان کیا گیا ہے.اسی طرح حدیث کی اہمیت و ضرورت، کتب حدیث کی اقسام، جماعت احمدیہ کے نزدیک سنت اور حدیث کا مقام وغیرہ جیسے ضروری عناوین پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے.یہ کتاب اپنے اختصار اور جامعیت کی وجہ سے دینی علوم کے طلباء کے لئے بالخصوص اور احباب جماعت کے لئے بالعموم علم حدیث سیکھنے کا پہلا زینہ ثابت ہوئی ہے.سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر اس کتاب میں درج حوالہ جات کو اصل ماخذ کے مطابق درست کرنے کا پراجیکٹ نور فاؤنڈیشن ربوہ کے سپر د کیا گیا تھا.مکرم عبد القدیر قمر صاحب (نور فاؤنڈیشن ربوہ) کو اس سلسلہ میں خاص خدمت کی سعادت ملی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے.اس نئے ایڈیشن کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں: ہر حدیث کے حوالہ میں کتاب کے نام کے ساتھ باب، ذیلی باب اور حدیث نمبر درج کیا گیا ہے.اس سے تحقیق کرنے والوں کو بہت آسانی ہو جائے گی.کتب تفسیر کے حوالہ جات میں سورت اور آیت کا نمبر بھی دیا گیا ہے.
بعض مقامات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات درج ہیں، ان کے مکمل حوالہ جات شامل کر دئے گئے ہیں.کتابیات کے باب میں تمام کتب اور مصنفین کے مکمل اسماء درج کئے گئے ہیں.روایات کی سند کے الفاظ کے آغاز کو اصل ماخذ کے مطابق کر دیا گیا ہے.علم کلام سے متعلقہ بعض عناوین بھی اس کتاب میں شامل ہیں، ان میں مندرج تمام حوالہ جات کو مکمل کر دیا گیا ہے.جن مقامات پر ایک نمبر شمار کے تحت ایک سے زیادہ حوالہ جات درج تھے، وہاں اصل کتب سے حوالہ جات کو لیکر شامل کیا گیا ہے اور ان کا عربی اور اردو متن الگ درج کر دیا گیا ہے تاہم نمبر شمار مزید شامل کی گئی روایات پر نہیں لگایا گیا بلکہ اسی نمبر کے تحت ہی بغیر نمبر لگائے مزید دو یا تین (حوالہ جات کی تعداد کے مطابق) روایات مع اردو ترجمہ شامل کی گئی ہیں.یوں حدیقہ الصالحین کا سابقہ ایڈیشن جو ۱۰۱۳ روایات پر مشتمل تھا، اب اس میں مکمل روایات کی تعداد ۱۲۵۴ ہے، گویا مزید ۲۴۱ روایات شامل کی گئی ہیں، تاہم نمبر شمار وہی پر انار کھا گیا ہے جس کے مطابق آخری روایت کا نمبر ۱۰۱۳ ہے.مذکورہ بالا تمام اضافہ جات کے ساتھ حدیقہ الصالحین کا یہ نیا ایڈیشن انگلستان سے پہلی مرتبہ طبع کروایا جارہا ہے.حدیث کی یہ ضروری کتاب ہر احمدی کے گھر میں ہونی چاہیئے تا کہ احباب جماعت اسلامی تعلیمات، آداب و اخلاق اور فقہی مسائل کے بارہ میں اپنے علم میں اضافہ کر سکیں.اللہ تعالیٰ اس کی طباعت ہر لحاظ سے مفید و با برکت فرمائے.آمین منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف فروری 2019
i فهرس نمبر شمار ج عنوان باب صفحه پیش لفظ (طبع اول) حدیث.اس کی اہمیت اور ضرورت سند کے اعتبار سے حدیث کی اقسام راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی اقسام راویوں کی صفات کے لحاظ سے حدیث کی اقسام کتب حدیث کی اقسام مختصر حالات محد ثین صحاح ستہ ز ایک ضروری تشریح تابعین اور تبع تابعین کے طبقات b 1 2 3 4 5 6 جماعت احمدیہ کے نزدیک سنت اور حدیث کا مقام خلوص نیت اور حسن ارادہ وحی کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اللہ تعالیٰ اور اس کے نام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کا شکر سر دار دو جہاں حضرت خاتم النبيين محمد مصطفى صلى الله ولم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت 1 5 10 10 11 11 12 14 17 18 21 26 28 34 38 108
112 126 128 131 135 136 139 150 169 179 181 184 191 194 201 207 249 252 257 267 ii ذکر الہی اور دعا کی اہمیت درود شریف کی اہمیت رضائے الہی اور قرب خداوندی کے حصول کی کوشش توجہ الی اللہ ، تقدیر اور راضی برضا ر ہنے کا مفہوم یقین، توکل اور توفیق الہی تقویٰ و طہارت نیز شبہات سے اجتناب خوف در جاء اور اللہ تعالیٰ کی خشیت توبہ و استغفار اور اللہ تعالیٰ کے بارہ میں حُسن ظن علم اور اس کے حصول کی ترغیب علماء اور بزرگوں کا ادب واحترام قرآن مجید اور اس کی قراءت اطاعت رسول صلی ا ظلم و بدعات اور کثرت سوال سے اجتناب) ایمان اور اس کے ارکان اسلام اور اس کے ارکان احکام شریعت کا تعلق ظاہر سے ہے.باطن کا علم خدا کو ہے نماز اور اس کی شرائط جمعہ اور اس کے آداب مسجد اور اس کے آداب روزہ اور اس کی اہمیت زکوۃ اور اس کی اہمیت 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 23 22222 24 25 26
:= حج اور اس کی اہمیت جہاد اور خدا کی راہ میں تکالیف اور مصائب برداشت کرنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت محمدیہ کی فضیلت نکاح اور شادی.حسن معاشرت اور اولاد کی تربیت ماں باپ کی خدمت اور صلہ رحمی ہر اہم کام میں مشورہ لینے اور استخارہ کرنے کی ہدایت شہریت اور اس کے حقوق پڑوسی کے حقوق اور پڑوسی سے حسن سلوک صفائی اور نظافت بیت الخلاء میں جانے کے متعلق ہدایات سونے اور بیدار ہونے کے آداب 280 284 315 321 327 355 362 366 371 374 377 379 383 386 387 389 397 398 400 402 آداب کلام آداب و امثال شعر و شاعری تفریح و مزاح اور ورزش قسم کھانے کے آداب ہر اچھا کام دائیں طرف سے شروع کرنے کی ہدایت لباس اور اس کے آداب سفر اور اس کے آداب 28 29 27 282 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46
47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 660 60 61 62 63 64 65 iv استقبال اور الوداع آداب ملاقات اور سلام کا رواج گھر کے اندر جانے اور اس کے لیے اجازت لینے کے آداب صحبت صالحین اور آداب مجلس مہمان نوازی اور دعوت کے آداب حلال و حرام کھانے پینے کے آداب ذبیحہ اور شکار تجارت اور صنعت، خرید و فروخت اور اجارہ کے آداب صحت و مرض ، پر ہیز وعلاج تیمار داری اور عیادت وفات اور تعزیت تجہیز و تدفین اور نماز جنازہ قبرستان جانا اور وفات یافتہ عزیزوں کے لیے دعا کرنا خلافت ، حکومت اور شوریٰ خلافت ، پہر ہ، امام کی حفاظت مقننہ، استنباط مسائل کے بارہ میں رہنما اصول اور حکومت کی بین الا قوامی ذمہ داریاں حکومت اور خلافت.بین الا قوامی معاہدے حکومت اور پبلک ذمہ داریاں.عوام کی خیر خواہی منصف مزاج امراء اور حکام 406 408 415 417 424 439 451 454 460 467 471 478 489 492 508 509 511 512 517
520 523 524 527 538 541 541 545 552 556 556 560 575 580 583 596 600 602 613 622 V امراء اور حکام کی اطاعت حکومت اور عہدہ کی طلب نا پسندیدہ ہے عدالت اور پبلک انصاف خصومات.مراجعات اور جرم وسزا جھوٹی شہادت لوگوں میں مصالحت کرانے کی فضیلت اخلاق حسنه نیکی کے مختلف راستے اور سبقت الی خیر العمل صدق و وفا امانت اور دیانت کی فضیلت وفائے عہد اور ایفائے عہد احترام آدمیت.یتامی اور کمزوروں سے حسن سلوک خادموں اور مزدوروں سے حسن سلوک اتحاد و اتفاق.محبت اور اخوت الفت اور شفقت انفاق فی سبیل اللہ جو دوسخا.صدقہ کی اہمیت ہدیہ.مصافحہ.صبہ کی اہمیت دولت اور شکر نعمت.احسان کا شکریہ و قار عمل.کسب حلال اور سوال سے بچنا میانہ روی اور متوازن زندگی قناعت اور سادگی 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 لا لا لا 78 79 80 81 82 83 84 85
87 88 86 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 vi دنیا کی محبت سے اجتناب خیر خواہی اور تعاون علی البر تواضع اور خاکساری.عجز و انکساری حلم اور بردباری.رافت اور نرمی حوصلہ اور جر آت.شجاعت اور بہادری حسن کردار ، بشاشت اور خوش خلقی شرم و حیا راز رکھنے کی فضیلت اور افشائے راز کی مذمت پردہ پوشی اور چشم پوشی حسن ظن عفو اور دوسروں کے قصور معاف کر دینا قرض.حسن نقاضا اور حسن ادا مصائب و مشکلات اور صبر و ثبات اخلاق سیئہ.اثم اور گناہ تکبر اور غرور ظلم و ستم، ایذارسانی اور حق تلفی حسد بغض و کینہ اور قطع تعلق جھوٹ اور کذب بیانی.احسان جتانا زبان کی حفاظت.غیبت اور چغلخوری زمانے اور دوسرے سماوی حوادث کو برا بھلا کہنا 630 635 637 638 645 645 646 649 650 652 654 655 664 671 683 683 685 689 690 694
695 696 699 701 702 703 705 706 708 710 717 721 726 731 752 755 774 777 784 vii احسان جتانا تجسس.عیب جوئی اور دوسروں کی تحقیر بد نظری اور جنسی بے راہ روی اسراف اور فضول خرچی حرص اور بخل خیانت اور بد دیانتی شہرت کی طلب اور ریا کاری تکلف اور بناوٹ.نقالی اور تشبہ بالغیر تو ہم پرستی اور بد فالی نعماء جنت اور مصائب دوزخ.ثواب اور عقاب فتنے اور آخری زمانہ کی علامات مسلمانوں کا تنزل اور ان کا بگاڑ حضرت عیسی کی وفات دجال کا خروج اور یا جوج ماجوج کا ظہور دجال اور یا جوج ماجوج کے ظہور سے تعلق رکھنے والی احادیث پر تبصرہ عیسی بن مریم یعنی مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور نزول مسیح اور ظہور مہدی سے متعلق احادیث پر تبصرہ رؤیا اور کشوف کی اہمیت وحی و الہام اور امت محمدیہ 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124
785 789 812 829 834 840 viii وحی و الہام سے متعلق احادیث پر تبصرہ امت محمدیہ اور امتی نبی مناقب صحابہ و علامات الاولیاء لانبی بعدی کے الفاظ والی احادیث کی مختصر تشریح خاتم النبیین کے الفاظ والی احادیث کی مختصر تشریح کتابیات 125 126 127 128 129 130
1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم أَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمُ پیش لفظ طبع اوّل وقف جدید انجمن احمدیہ کی طرف سے احادیث نبوی ملی لی نام کا ایک نہایت دلکش مجموعہ احباب کے استفادہ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے.اگر چہ مختلف پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے احادیث کے بہت سے مجموعے اور انتخابات سینکڑوں مرتبہ مرتب کئے جاچکے ہیں لیکن یہ ایک ایسا بحر ذخار ہے کہ کسی ایک پہلو سے بھی نہ کبھی اس کا پہلے مکمل احاطہ ہو سکا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو سکے گا.ہر مرتب اپنے اپنے ذوق کے مطابق وقت کی مخصوص ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے یا پھر کسی خاص مضمون کے مختلف پہلوؤں کو احادیث نبوی صلی الم کی روشنی میں اجاگر کرنے کے لیے ایک نیا انتخاب تیار کر تا رہا ہے جس کی افادیت اس امر سے بے نیاز کہ اس سے قبل اس سلسلہ میں کیا کیا کوششیں ہو چکی ہیں اپنی ذات میں ایک غیر مشکوک حیثیت رکھتی ہے.وقف جدید کی یہ کوشش بھی اس لامتناہی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بہت بابرکت فرمائے اور پڑھنے اور سننے والے اس سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں.اس نئے انتخاب کی ضرورت اولاً معلمین وقف جدید کی سالانہ تعلیمی کلاس کا نصاب تجویز کرتے وقت محسوس کی گئی تھی چونکہ وقف جدید کا تربیتی حلقہ دیہاتی علاقوں تک محدود ہے اس لیے ضروری تھا کہ احادیث الله نبوی صلی یی کم کا ایک ایسا سادہ اور عام فہم مجموعہ منتخب یا تیار کیا جاتا جو ایک طرف تو اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے عوامی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں مفید ثابت ہوتا اور دوسری طرف روز مرہ کے فقہی مسائل اور عقائد سے متعلق اہم امور پر بھی مشتمل ہوتا.گویا ایک مختصر کتاب کی صورت میں اسلامی تعلیم کے مختلف پہلو یکجا ہو
2 جاتے.ایسا انتخاب صرف معلمین کو تعلیم دینے کے لیے ہی درکار نہ تھا بلکہ ضرورت تھی کہ معلمین آئندہ دیہاتی عوام کی تعلیم و تربیت کے دوران اسی مجموعہ کو استعمال کریں.ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے جب کتب احادیث پر نظر دوڑائی گئی تو نظر انتخاب ریاض الصالحین“ پر جا ٹھہری جو اپنی نوع کی تمام دوسری کتب میں ایک امتیازی شان رکھتی ہے لیکن اس غرض سے اسے اختیار کرنے کی راہ میں یہ مشکل حائل تھی کہ یہ ایک ضخیم کتاب ہے جو ایک سال کی قلیل مدت میں بطور تعلیمی نصاب ختم نہیں کروائی جاسکتی تھی نیز اس میں احادیث کی تکرار بھی پائی جاتی ہے، حجم اور قیمت کے اعتبار سے بھی دیہات میں اس کی کثیر اشاعت ممکن نظر نہیں آتی تھی.علاوہ ازیں علم کلام سے تعلق رکھنے والی بہت سی احادیث جن کی فی زمانہ ضرورت پیش آتی ہے اس مجموعہ میں مفقود تھیں چنانچہ ان دقتوں کے پیش نظر بعد مشورہ یہ طے پایا کہ "ریاض الصالحین" کی نسیج پر ایک نئی کتاب تالیف کی جائے جو کم و بیش پانچ چھ صد احادیث پر مشتمل ہو اور گو زیادہ تر انتخاب ریاض الصالحین سے ہی ہو لیکن حسب ضرورت دیگر کتب احادیث سے بھی براہ راست استفادہ کیا جائے.مجھے یہ بیان کرتے ہوئے دلی مسرت ہوتی ہے کہ استاذی المکرم جناب ملک سیف الرحمان صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ نے اس نہایت اہم کام کی ذمہ داری قبول کرنا منظور فرمالیا.اور ایک لمبا عرصہ بڑی محنت اور کاوش سے مطلوبہ انتخاب تیار فرمایا.جہاں تک محترم ملک صاحب کی قابلیت اور وسعت علم کا تعلق ہے میرا یہ مقام نہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے کہ اس بارہ میں کچھ بیان کروں.یہ انتخاب خود آپ کے اعلیٰ مذاق اور علمی تنجر پر گواہی دے گا.البتہ نامناسب نہ ہو گا کہ تعارف کے رنگ میں انتخاب کے بعض قابل ذکر پہلوؤں کی نشان دہی کر دی جائے، اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل امور قارئین کی خدمت میں پیش ہیں..1 منتخب احادیث کی کل تعداد 611 ہے جن میں سے تقریباً 450 ریاض الصالحین سے اخذ کی گئی ہیں اور بقیہ دیگر کتب احادیث مثلاً صحیح بخاری ، صحیح مسلم، ترمذی، مسند احمد ، دار قطنی ، کنز العمال وغیرہ سے براہ راست لی گئی ہیں.
3.2.3.4.5.6 ریاض الصالحین سے جو احادیث اخذ کی گئی ہیں ان کے حوالہ جات پوری چھان بین اور تبع کے بعد ہر حدیث کے آخر پر درج کر دئے گئے ہیں.(ریاض الصالحین میں کتب احادیث کے اسماء پر ہی اکتفاء کی گئی ہے مکمل حوالہ درج نہیں ہے) انتخاب میں بالخصوص ایسے مسائل سے متعلق مختلف احادیث جو مسلمانوں میں ما بہ النزاع ہیں اکٹھی کر دی گئی ہیں تاکہ ان کے مختلف پہلوؤں پر یکجائی نظر ڈالتے ہوئے قارئین کو صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں آسانی ہو.ترجمہ نہایت ہی سلیس اور بامحاورہ ہے لیکن ایسا آزاد بھی نہیں کہ اصل مفہوم کے بدلنے کا خطرہ لاحق ہو جائے بلکہ اول سے آخر تک آنحضور صلی علی کرم کے مفہوم کو حتی الامکان محفوظ صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے.تاہم چونکہ ہر ترجمہ خواہ کیسا ہی اعلیٰ اور محتاط ہو بعینہ اصل کے مطابق ہو نا نا ممکن ہے اس لیے اس بشری کمزوری کا اس ترجمہ میں بھی پایا جانالائق در گزر ہے.اخلاقی حالت کے اعتبار سے مسلمان معاشرے کی روز بروز گرتی ہوئی حالت کو سنبھالنے کی خاطر حتی الامکان ایسی اخلاقی تعلیم پر مشتمل احادیث کو منتخب کیا گیا ہے جو اپنی تاثیر اور روحانی لطافت کے اعتبار سے ایک نمایاں شان رکھتی ہیں اور بعید نہیں کہ بہت سے پڑھنے والوں کے قلوب میں ایک روحانی انقلاب برپا کر دیں.اگر چہ مضامین کے لحاظ سے یہ مجموعہ بہت وسیع ہے لیکن حجم کے اعتبار سے اتنا بڑا نہیں کہ اس کا خریدنا اور پڑھنا عوام الناس کے لیے مشکل امر ہو ہو.اس کتاب کی تیاری کے دوران مکرم و محترم ملک سیف الرحمان صاحب کے علاوہ مکرم و محترم سید شمس الحق صاحب شاہد کار کن دفتر افتاء کی محنت کا بھی بہت دخل ہے.انہوں نے دفتری اوقات کے بعد اپنے فارغ وقت کا ایک قابل ذکر حصہ لمبے عرصہ تک اس کام کے لیے وقف کئے رکھا.کاپی اور پروف کی تصحیح کے سلسلہ میں بھی انہوں نے بہت محنت اٹھائی ہے.
4 اسی طرح مولوی گل محمد صاحب اور مولوی سید عبد العزیز شاہ صاحب بھی خاص شکریہ کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے بھی حسب توفیق مسودات کی نقل اور کاپیوں اور پروف کی تصحیح کے سلسلہ میں بہت کام کیا ہے.قارئین سے گزارش ہے کہ ان احباب کے لیے جن کی محنت کا ثمرہ حدیث کی اس نہایت ہی پیاری کتاب کی صورت میں ان کے سامنے ہے، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے خلوص اور جان و مال میں برکت دے اور خدمت دین کی بیش از پیش توفیق عنائیت فرماتار ہے.اللهم آمين! خاکسار مرزا طاہر احمد ناظم ارشاد ، وقف جدید انجمن احمد یہ ، ربوہ
5 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ حدیث اس کی اہمیت اور ضرورت سید ولد آدم فخر المرسلین خاتم النبيين رسول مجتبی محمد مصطفی صلی الی یکم کو اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عمر میں مبعوث فرمایا، آپ پر اپنا کلام نازل کیا جو قرآن کریم کی شکل میں مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب کی حیثیت میں دنیا میں موجود ہے.آنحضرت صلی للی کام کے دو کام تھے.اول ، اللہ تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ جس کی طرف مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ تبلغ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ ذِيكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ (المائدة 68) ”اے رسول تیرے رب کی طرف سے جو ( کلام بھی) تجھ پر اتارا گیا ہے اسے (لوگوں تک پہنچا اور اگر تو نے (ایسا) نہ کیا تو (گویا) تو نے اس کا پیغام (بالکل) نہیں پہنچایا.“ آنحضرت صلی علیکم کا دوسرا کام کلام الہی یعنی قرآن کریم کی تبیین اور تفسیر ہے جو سنت و حدیث کی الله سة صورت میں مدون اور امت محمدیہ صلی علیم میں مقبول و مشہور ہے.قرآن کریم کی آیت ذیل میں حضور کی اسی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے وو وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الليكُرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (النحل 45) اور تجھ پر ہم نے یہ ( کامل ) ذکر نازل کیا ہے تاکہ تو سب لوگوں کو وہ ( فرمان الہی) جو (تیرے ذریعہ سے )
6 انکی طرف نازل کیا گیا ہے کھول کر بتائے اور تاکہ وہ اس پر تدبر کریں.“ پس حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کلام الہی کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اپنے قول اور فعل سے اس کی جو تشریح و تفسیر فرمائی وہ امت کے لیے اسی طرح واجب العمل ہے جس طرح قرآن کریم کی اتباع اور فرمانبر داری واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وو مَا أَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَبُكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر 8) ر سول جو کچھ تم کو دے اس کو لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ“ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ آنحضرت صلی علم کا ہر فعل اور ہر قول جس کا تعلق دین کی توضیح و تشریح سے ہے واجب التسلیم ہے اور اس کی اطاعت اور اسکے مطابق عمل کرنا امت مسلمہ پر فرض ہے آنحضرت علی ایم کے صحابہ کرام جو کاشانہ نبوت کے تربیت یافتہ ، دین اسلام کے امین ، اور تبلیغ قرآن کے ذمہ دار تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے افعال وارشادات کی یہی حیثیت سمجھتے تھے ، سنت کی پیروی ان کا جزو ایمان تھا اور وہ آپ کے ارشادات کا علم حاصل کرنا باعث نجات جانتے تھے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علم کی وفات کے بعد جب بھی کوئی اہم معاملہ ان کے سامنے آتا تو وہ قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرتے اگر انہیں اس پاک کلام میں کوئی وضاحت نہ ملتی تو آنحضرت صلی لی ایم کے ارشاد کے متعلق استفسار کرتے جب انہیں معتبر اور مستند ذرائع سے علم ہو جاتا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی ارشاد اس بارہ میں موجود ہے تو وہ اسے بسر و چشم قبول کرتے اور اپنی رائے پر عمل کرنے کو گمراہی اور ضلالت سمجھتے ، یہاں تک کہ جب کوئی مقتدر صحابی کسی اہم معاملہ میں نص کا علم نہ ہو سکنے کی وجہ سے اپنی رائے اور اجتہاد سے کوئی فیصلہ کرتا اور بعد میں اسے معلوم ہوتا کہ آنحضرت صلی الی یوم نے بھی ایسا ہی ارشاد فرمایا ہے تو اسے اتنی خوشی اور مسرت حاصل ہوتی جیسے دنیا کے عظیم الشان خزانے اسے مل گئے ہیں اور بہت بڑی نعمت سے اسے نوازا گیا ہے ( دیکھیں حدیث نمبر 672) خود آنحضرت علی الم نے جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا والی بنا کر بھیجا تو آپ نے اس سے پوچھا معاملات کس طرح طے کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے دیا کروں گا اور اگر ہدایت کے ان دو
7 ذریعوں سے رہنمائی حاصل نہ کر سکا تو آپ کے فیض صحبت میں جو دینی تربیت پائی ہے اس کی روشنی میں اپنی سے مشکل کو حل کروں گا.آپ نے حضرت معاذ کی اس وضاحت پر اطمینان کا اظہار فرمایا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کے مقرر کردہ افسر کی صحیح رہنمائی فرمائی ہے.(مسند احمد بن حنبل، مسند الانصار ، مسند رائے اور اجتہاد سے معاذ بن جبل، 22357) رض الله سة ہم اس اہم مسئلہ پر ایک اور نقطہ نظر سے بھی غور کر سکتے ہیں جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں آنحضرت صلی الم کے دو کام تھے ایک تو کلام الہی یعنی قرآن پاک کو پہنچانا، پڑھانا اور سکھانا اور دوسرے اس کی تبیین و تفسیر.گویا آپ کا منصب رسول کا بھی تھا اور مبین اور مفسر کا بھی.قرآن کریم چونکہ بنیادی ذریعہ تعلیم دین تھا اس لیے علاوہ زبانی تعلیم کے آپ نے اس کے لکھنے کا بھی مکمل اہتمام فرمایا.پھر صحابہ نے اس کلام پاک کی حفاظت کا حق ادا کیا اور اپنی اس اہم ذمہ داری کو ایسے شاندار طریق سے نبھایا کہ دنیا عش عش کر اٹھی اور حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تو کیا ایسی فرض شناس قوم سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آنحضرت صلی علیکم کے دوسرے اہم کام یعنی آپ کے ارشادات و اقوال کو ضائع اور فراموش کر دے گی اسکی حفاظت اور آگے امت مرحومہ تک اسے پہنچانے کا کوئی اہتمام نہیں کرے گی.جس سے معمولی سی بھی محبت ہوتی ہے انسان اس کی ہر بات کو نہ صرف یاد رکھتا ہے بلکہ ہر ایک کو سناتا پھرتا ہے.تو کیا وہ جاں نثار صحابہ جنہوں نے اپنے آقا اپنے ہادی علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسی محبت کی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ، ان سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کی پیاری باتوں کو بے اعتنائی اور لا پرواہی کی نظر کر دیں گے اور لوگوں کو سنانے کا کوئی اہتمام نہ کریں گے.پھر اگر صحابہ نے آپ کی باتیں ایمان لانے والوں کو سنائیں، آگے پہنچائیں اور کسی قسم کی غفلت اور لاپر واہی سے کام نہیں لیا تو آخر وہ باتیں کہاں گئیں ؟ سوائے سنت و حدیث کے کوئی کتاب ملفوظات اس دنیا میں موجود نہیں جس میں سرور کائنات صلی ایم کے ارشادات اور آپ کی پیاری باتیں درج ہوں.پس سنت و حدیث کا انکار دراصل وہی لوگ کر سکتے ہیں جو یا تو آپ کے اس منصب کو نہیں جانتے کہ آپؐ مبلغ قرآن ہونے کے علاوہ مُبین قرآن بھی ہیں اور رسول کی حیثیت سے یہ دونوں منصب آپ کو حاصل ہیں اور یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے تنبیین قرآن کے فریضہ کو ادا ہی نہیں کیا.یا صحابہ نے العیاذ باللہ اپنے فرض کو نہیں پہچانا اور آپ کے اقوال وارشادات کو ضائع کر دیا اور امت تک ان کے پہنچانے کا کوئی اہتمام نہیں کیا.جب یہ تینوں باتیں بالہداہت غلط ہیں تو پھر الله سة
8 احادیث رسول سے انکار کا سوائے اس کے کوئی مفہوم نہیں کہ یا تو ایسے لوگوں کی عقل میں فتور ہے یا پھر وہ دین سے آزادی کے خواہاں ہیں اور من مانی کرنا چاہتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ بعض مصالح کی وجہ سے شروع میں احادیث کے لکھنے اور کتاب کی شکل میں انہیں مدون کرنے کا اجتماعی اہتمام صحابہ نے اس طرح نہیں کیا جس طرح کا اہتمام قرآن کریم کے لکھنے اور مختلف علاقوں میں اس کی مستند نقول بھجوانے کا کیا ہے اور اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ تانئے مسلمان ہونے والے کے لیے کوئی غلط فہمی کی صورت پیدا نہ ہو اور وہ نا سمجھی سے کسی حدیث کو قرآن کریم کی آیت ہی نہ سمجھ لیں.لیکن اس کے باوجود انفرادی طور پر متعدد صحابہ احادیث کو زبانی یاد رکھنے کے علاوہ لکھ بھی لیتے تھے اور یہ صحائف اپنے پاس محفوظ رکھتے اور بوقت ضرورت لوگوں کے سامنے انہیں بیان کرتے.یہی حال تابعین کا تھا انتہائی شوق اور پوری توجہ سے وہ ارشاداتِ رسول اللہ صلی اللی علم کا علم حاصل کرتے اور پھر دوسروں تک انہیں پہنچاتے.تبع تابعین کے زمانہ تک تو علم حدیث کے حصول کا شوق ساری مملکت اسلامی میں عام ہو چکا تھا اور ہر گھر میں حدیث رسول کا چرچا تھا.بڑے بڑے ائمہ حدیث پیدا ہوئے.حضرت امام حسن بصری، سعید بن المصيب سعید بن جبیر، ابن شہاب زہر گی، امام شعبی ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ اور حضرت امام مالک کی جلالت شان اور خدمت حدیث کے عظیم الشان کام سے کون انکار کر سکتا ہے.ان ائمہ حدیث کے بعد ان کے شاگردوں نے اس علم میں اور اضافہ کیا.علم حدیث اور جمع احادیث کے لیے مختلف ممالک کے سفر اختیار کئے ہر جگہ پھرے اور احادیث کے عظیم الشان مجموعے مرتب کر کے انہیں کتابی شکل دی.انہیں مجموعوں میں سے حضرت امام احمد بن حنبل" کی بے نظیر کتاب ”مند احمد “ ہے جو چالیس ہزار احادیث پر مشتمل ہے.اس کے بعد اور آئمہ آئے جنہوں نے صحت وضعف کے اعتبار سے احادیث کی چھان بین کی ، ان کا انتخاب کیا اور ایسے عمدہ مفید مجموعے مرتب کئے جن میں مضامین کی ترتیب کو بھی مد نظر رکھا گیا اور ساتھ ہی صحت احادیث کے معیار کو بھی پوری محنت اور دقت نظر کے ساتھ ملحوظ رکھا گیا جیسے حضرت امام بخاری کی کتاب ”صحیح بخاری“ اور امام مسلم کی کتاب ” صحیح مسلم " ہے.اس زمانے میں صحت حدیث کے پر کھنے کے بھی اصول مرتب ہوئے اور طے پایا کہ کسی حدیث کو مستند اور صحیح قرار دینے کے لیے درایت اور روایت کے اصولوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.دو
9 درایت درایت سے مراد یہ ہے کہ حدیث عقل سلیم اور واقعات ثابتہ کے مطابق ہو ، ان کے خلاف نہ ہو.درایت کی جانچ پڑتال کے لیے مندرجہ ذیل اصول قائم کئے گئے ہیں.1.حدیث قرآن کریم کے کسی واضح ارشاد اور اسکی صریح نص کے خلاف نہ ہو.-2 -3 -4 حدیث سنت نبوی اور صحابہ کے اجتماعی تعامل کے خلاف نہ ہو.حدیث مشاہدہ اور ثابت شدہ واقعہ کے خلاف نہ ہو.حدیث بدیہات اور عقل صریح کے خلاف نہ ہو.روایت روایت سے مراد یہ ہے کہ کتاب لکھنے والے کو جن راویوں کے ذریعہ حدیث پہنچی ہے وہ کون کون سے ہیں، کتنے ہیں اور امانت و دیانت ، حفظ و ذہانت میں ان کا معیار کیا ہے ، اس لحاظ سے احادیث کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں.سند سند سے مراد حدیث بیان کرنے والے راویوں کا وہ سلسلہ ہے جس کے ذریعہ حدیثیں جمع کرنے والے یا کتاب لکھنے والے امام تک یہ حدیث پہنچی ہے مثلاً حديث إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِيَّاتِ کی سند جو امام بخاری نے اپنے کتاب میں بیان کی ہے درج ذیل ہے.حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْن وَقَاصِ اللَّيْهِيَ يَقُولُ سَمِعْتُ
10 عمر بن الخطابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ انما الأَعْمَالُ بِالبَيَاتِ اس مثال میں حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ سے لے کر قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ پھوٹی تک کی عبارت سند کہلاتی ہے اور حدیث ائما کے لفظ سے شروع ہوتی ہے.سند کے اعتبار سے حدیث کی اقسام.1 مرفوع: وہ حدیث ہے جس کی سند میں حدیث کی نسبت آنحضرت علی ایم کی طرف کی گئی ہو مثلاً راوی کہے کہ میں نے آنحضرت صلی علیم سے یہ سنا، یا آپ نے یہ فرمایا، یا آپ نے یہ کیا.جیسا کہ اوپر کی.2 الله مثال میں امام بخاری کی بیان کر دہ حدیث مرفوع ہے.متصل : وہ حدیث جس کی سند میں تسلسل ہو وہ ٹوٹی ہوئی نہ ہو، یعنی در میان سے کوئی راوی رہ نہ گیا ہو.اس کی مثال بھی اوپر کی حدیث ہے جو امام بخاری نے روایت کی ہے گویا اس حدیث کی سند مرفوع بھی ہے اور متصل بھی..3 مُرسل: وہ حدیث جس کی سند میں صحابی کا ذکر نہ ہو مثلاً ایک تابعی کہے کہ آنحضرت ملی ہم نے ایسا فرمایا یا ایسا کیا.نقطع : وہ حدیث جس کی سند میں صحابی کی بجائے کوئی اور راوی رہ گیا ہو اور سند کا تسلسل ٹوٹ گیا ہو.راویوں کی تعداد کے اعتبار سے احادیث کی اقسام.1 متواتر : وہ حدیث جو واضح المعنے ہو اور اسے بیان کرنے والے اتنے زیادہ لوگ ہوں کہ عقل ان سب کو جھوٹا سمجھے کے لیے تیار نہ ہو.1: بخاری کتاب الایمان باب الایمان و قول النبی ﷺ نبی الاسلام على خمس 1
11 2 مشہور : وہ حدیث جس کے راوی سند کے کسی حصہ میں بھی تین سے کم نہ ہوں.3 عزیز: وہ حدیث جس کے راوی سند کے کسی حصہ میں دو رہ گئے ہوں لیکن کہیں بھی دو سے کم نہ ہوں..4 غریب وہ حدیث جس کی سند کے کسی حصہ میں ایک راوی رہ گیا ہو.راویوں کی صفات کے لحاظ سے احادیث کی اقسام 1.صحیح : وہ حدیث جسے ایسے راویوں نے بیان کیا ہو جو سچ بولنے اور بچ پر قائم رہنے میں شہرت رکھتے ہوں، نیک ہوں، بڑے دیانتدار ، صوم و صلوۃ کے پابند اور منہیات شرعی سے پر ہیز کرنے والے ہوں، ان کا حافظہ قوی اور سمجھ بہت عمدہ ہو اور اس حدیث کی سند متصل ہو یعنی درمیان سے کوئی رہا ہوا نہ ہو.2 حسن: وہ حدیث ہے جس کے کسی راوی کے حافظہ میں کسی قدر کمی ہو لیکن باقی صفات مکمل طور پر صحیح والی موجود ہوں کوئی اور نقص ان میں موجو د نہ ہو.3 ضعیف: وہ حدیث ہے جس میں صحیح یا حسن والی شر طیں نہ پائی جاتی ہوں مثلاً حدیث کے راوی کی دیانتداری میں کسی کو کلام ہو یا راوی کا حافظہ خاصہ کمزور ہو طوري.4 موضوع: جھوٹی حدیث یعنی ایک بات غلط طور پر یا جھوٹ موٹ آنحضرت صلی کم کی طرف منسوب کر دی گئی ہو اور آپ نے ایسا نہ فرمایا ہو..5 مقبول: وہ حدیث ہے جو صحیح ہو یا حسن.6 مردود: وہ حدیث ہے جو ضعیف ہو یا موضوع.ایسی حدیث رڈ کرنے کے قابل ہے.کتب حدیث کی اقسام کتب احادیث کو طرز تصنیف، مقصد تحریر اور مصنف کی ذاتی محنت اور دقت نظر کے اعتبار سے مختلف اقسام میں مقسم کیا گیا ہے.مثلاً 1.مسند حدیث کی وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی بیان کردہ احادیث کو الگ الگ بلالحاظ مضمون جمع کر دیا گیا ہو مثلاً پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بین کر دہ احادیث،
12 پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث ، و علی ھذا القیاس دوسرے صحابہ کی احادیث.جیسے مسند احمد بن حنبل "جو مختلف صحابہ کی روایات سے قریباً چالیس ہزار احادیث پر مشتمل ہے.اس کے مصنف حضرت امام احمد بن حنبل نہیں جو 164ء میں پیدا ہوئے اور 241, میں وفات پائی..2 معجم : حدیث کی وہ کتاب ہے جس میں ہر استاد یا ہر شہر کی احادیث کو بلالحاظ مضمون الگ الگ اجزاء میں بیان کیا گیا ہو.جیسے معجم طبرانی 3 جامع: وہ کتاب ہے جس میں ہر قسم کے مضامین کی حدیثیں خاص ترتیب کے مطابق بیان ہوں مثلاً عقائد، احکام، آداب، معاشرہ، تصوف، اخلاق، تاریخ و تفسیر وغیرہ جیسے جامع صحیح بخاری، جامع ترمذی.سنن: وہ کتاب جس میں صرف احکام و آداب سے متعلقہ احادیث جمع کی گئی ہوں یعنی وہ کتاب فقہی ابواب سے متعلق احادیث پر مشتمل ہو جیسے سنن ابو داؤد، سنن نسائی.صحیحین: صحت کے لحاظ سے حدیث کی دو بہت ہی مشہور کتا ہیں یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم 6 صحاح ستہ صحت کے لحاظ سے حدیث کی چھ مشہور کتابیں یعنی بخاری، مسلم ، ترمذی، ابو داؤد، ابن.5 ماجہ ،نسائی.اس فہرست میں موطا امام مالک کا ذکر اس لئے الگ نہیں آیا کیونکہ اس کتاب کی سب احادیث میں آچکی ہیں.) مختصر حالات محد ثین صحاح ستہ : حيين حضرت امام بخاری : آپ کا نام محمد بن اسماعیل بخاری ہے.194ء میں میں بخارا میں پیدا ہوئے اور 256ء میں وفات پائی.آپ حافظ حدیث ، زاہد و متقی اور بلند پایہ امام المحد ثین تھے.آپکی تصنیف کردہ کتاب کا نام ”جامع صحیح بخاری“ ہے.صحت کے لحاظ سے اس کتاب کو ” اصح الکتاب بعد کتاب اللہ“ کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے.
13 حضرت امام مسلم " : آپ کا نام مسلم بن حجان ہے.202, میں پید اہوئے 261, میں وفات پائی.66 نیشا پور کے رہنے والے تھے.حدیث کے مانے ہوئے امام ، تقویٰ اور ورع میں بلند مقام اور حافظ احادیث رسول تھے.آپ کی تصنیف کردہ کتاب کا نام " صحیح مسلم " ہے.مضامین کے اعتبار سے اس کتاب کی احادیث کی ترتیب بہت عمدہ ہے لیکن امام صاحب نے اپنی طرف سے ابواب کا کوئی عنوان قائم نہیں کیا بلکہ ترتیب کو مد نظر رکھ کر احادیث روایت کرتے چلے گئے.صحیح بخاری کے بعد بلحاظ صحت ”صحیح مسلم “ کا درجہ تسلیم کیا گیا ہے.حضرت امام ترمذی : آپ کا نام محمد بن عیسی ہے 209, میں پید اہوئے 279, میں وفات ہوئی.ترکستان کے شہر ترمذ کے رہنے والے تھے.علم حدیث کے مشہور امام اور تقویٰ شعاری کے بلند مقام کے مالک تھے.آپ کی کتاب کا نام ” جامع ترمذی ہے.صحاح میں اس کا درجہ تیسرا ہے.امام ترمذی اپنی کتاب میں روایت حدیث کے ساتھ ساتھ علماء میں اس کی مقبولیت اور صحت کے لحاظ سے اس کی قدر و قیمت کو بھی بیان کرتے گئے ہیں.کتاب کی یہ خصوصیت اسے دوسری کتابوں سے ممتاز کرتی ہے.ข حضرت امام ابو داؤد " : آپ کا نام سلیمان بن اشعث ہے 202ء میں پید اہوئے 275ء میں وفات ہوئی.سجستان کے رہنے والے علم حدیث کے مسلمہ امام اور ورع و تقوی میں مشہور و معروف تھے.بعد میں بصرہ ہجرت کر آئے اور وہیں وفات پائی.آپ کی تصنیف کردہ کتاب کا نام ”سنن ابی داؤد“ ہے اور صحاح میں اس کا ข ข چوتھا درجہ ہے.حضرت امام ابن ماجہ : آپ کا نام محمد بن ماجہ ہے.ماحبہ آپ کے والد ماجد کا نام یا ان کا لقب تھا.209 میں عراق کے مشہور شہر قزوین میں پیدا ہوئے 275ء میں وفات پائی.مانے ہوئے امام حدیث اور اپنے زمانہ کے مشہور و مقبول بزرگ تھے.آپکی تصنیف کردہ کتاب کا نام ”سنن ابن ماجہ“ ہے اور صحاح میں اس کا پانچواں درجہ ہے.حضرت امام نسائی : آپ کا نام احمد بن شعیب ہے.215ء میں پیدا ہوئے 303, میں وفات ہوئی.خراسان کے مشہور شہر نساء کے رہنے والے تھے.تقویٰ اور زہد میں بلند مقام پایا.امامت حدیث کا مر تبہ نصیب ہو ا.آپ کی کتاب کا نام ”سنن نسائی“ ہے صحاح ستہ میں اس کا چھٹا مقام ہے.
14 حضرت امام مالک : مالک بن انس نام ہے.193 میں پیدا ہوئے 129ء میں وفات پائی.مدینہ منورہ ہے.کے رہنے والے تھے.علم حدیث میں ان کا مرتبہ امام المحدثین کا ہے تمام عالی مقام محد ثین کے شیخ اعلیٰ تھے.سب علماء آپ کی جلالت شان کے معترف تھے اور آپکی عظمت علمی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے تھے.”عالم مدینۃ الرسول“ کا معزز لقب پایا.زہد و توکل میں اپنی مثال آپ تھے.آپکی مرتب کر وہ تصنیف کا نام ” مؤطا امام مالک ہے.جسے کتب حدیث میں اولیت کا شرف حاصل ہوا.یہاں تک کہ امام بخاری اور امام مسلم نے اس کتاب کی حدیثوں کو اپنی صحیحین میں جگہ دی.ایک ضروری تشریح ا محمد ثین کی اصطلاح میں آنحضرت علی ایم کے ارشاد کو حدیث قولی آپ کے عمل کو حدیث فعلی اور آپ کے صحابی کے کسی ایسے فعل یا قول کو جسے آپ کی تائید حاصل ہو حدیث تقریری کہتے ہیں.صحابی سے مراد وہ خوش قسمت مسلمان ہے جسے آنحضرت صلی علیم کی زیارت نصیب ہوئی.آپ پر ایمان لایا اور ملاقات کا شرف حاصل کیا.کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی ا یکم کی وفات تک کے وقت صحابہ کی کل تعداد ایک لاکھ چو میں ہزار انتھی.ان صحابہ کو درجہ، سبقت، قربانی اور ذمہ داری کے لحاظ سے مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے.مثلاً 1.وہ صحابہ جو بالکل ابتداء میں اسلام لائے جیسے حضرت خدیجہ، حضرت ابو بکر، حضرت علی و غیر هم 2.وہ صحابہ جو دار الندوہ میں شامل ہوتے تھے.1 والاكثر على ان الصحابي هو كل من اسلم و رأى النبی ﷺ وصحبه و لو أقل زمان و كان عددهم عند وفاته مائة الف و أربعة وعشرين ألفا (الاسلام و الحضارة العربیہ (حاشیه) باب ثروة العرب و علومهم صفحه 142، مصنفه محمد كرد على بحواله تاریخ ابوالفداء)
15 3.وہ صحابہ جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.4.وہ صحابہ جو بیعت عقبہ اولیٰ میں شامل ہوئے.5 وہ صحابہ جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے.6.وہ صحابہ جو بیعت عقبہ ثالثہ میں شامل ہوئے.7 وہ صحابہ جنہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اسوقت مدینہ پہنچے جبکہ ابھی حضور صلی للہ ہم قباء میں قیام فرما تھے اور ابھی قباء میں مسجد کی تعمیر شروع نہیں ہوئی تھی.8 وہ صحابہ جو غزوہ بدر میں شامل ہوئے اور بدری صحابی کہلائے.رض و.وہ صحابہ جنہوں نے غزوہ بدر کے بعد اور صلح حدیبیہ سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی.10.”اہل بیعت رضوان“ یعنی وہ صحابہ جو حدیبیہ کے مقام پر بیعت رضوان میں شامل ہوئے.11.وہ صحابہ جنہوں نے صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی.12.وہ صحابہ جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا.13.وہ صحابہ جو حضور کی حیات میں ابھی نابالغ بچے تھے لیکن انہوں نے حضور کو دیکھا تھا.بعض نے اہل صفہ “ کو صحابہ کا الگ طبقہ شمار کیا ہے.حفظ اور بات آگے پہنچانے کے ذوق نیز فراست اور مختلف الانواع ذمہ واریوں کے لحاظ سے صحابہ کی روایات کی تعداد مختلف ہے.سب سے زیادہ روایتیں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی ہیں جن کی تعداد 5374 بتائی گئی ہے.اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایات کی تعداد 2630، حضرت انس بن مالک کی 2286، حضرت عائشہ کی 2210 ، حضرت عبد اللہ بن عباس کی 1660 ، حضرت جابر بن عبد اللہ کی 1540 حضرت ابو سعید الخدری کی 1170، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی 848، حضرت عبد اللہ بن عمرو کی 700، حضرت علی کی 586 ، حضرت عمر کی 537 ، حضرت ابوذر کی 281 اور حضرت ابو بکر کی روایات کی کل تعداد 132 ہے.1 حاشیه مالک بن انس صفحه 170 ، 171 مصنفه عبد الحليم الجندى دار المعارف قاهره مصر 6
16 حاصل کیا.امام مالک نے موطاء میں کل 1720 روایات شامل کی ہیں.تابعی سے مرادوہ مسلمان ہے جس نے حالت اسلام میں کسی صحابی کو دیکھا اور اس سے ملا اور شرف تلمذ تبع تابعی سے مراد وہ مسلمان ہے جس نے حالت اسلام میں کسی تابعی کو دیکھا اس سے ملا اور شرفِ تلمذ سے سر فراز ہوا.دور صحابہ کے بعد احادیث کی روایات میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ اس دور میں مختلف مذہبی اور سیاسی اختلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہر طبقہ اپنے اپنے مسلک کی تائید میں روایات بیان کرنے لگا جس کی وجہ سے روایات کا اعتبار مجروح ہونے لگا.اس وجہ سے علماء حدیث نے تابعین اور بعد کے راویوں کی چھان بین ضروری سمجھی اور ان کے حالات اور ان کی سیرت ، خاص طور پر ان کے حفظ ، ان کے صدق اور دیانت کے بارہ میں بڑے جامع اور مانع نوٹ لکھے اور اس طرح ” اسماء الرجال“ کے فن کی بنیاد پڑی.اسی ضمن میں تابعین اور تبع تابعین وغیرہ کے طبقات کی بھی تعیین ہوئی تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ کسی روایت نے کب اور کس طبقہ میں زیادہ شہرت پائی مثلاً اگر ایک روایت تابعین کے ہر طبقہ میں مشہور اور متد اول رہی ہو تو اس کا اعتبار زیادہ ہو گا بہ نسبت اس روایت کے جس کو بہت بعد کے طبقہ میں شہرت ملی گویا پہلے طبقات کے تابعی وغیرہ بظاہر اس روایت سے واقف نہ تھے.اس سے یہ شبہ قوی ہو سکتا ہے کہ اگر یہ روایت بالکل صحیح ہے تو پہلے طبقات کی اکثریت کو اس کا علم کیوں نہ ہوا.حالانکہ روایت کے الفاظ کا انداز ایسا ہے جس سے طبعاً یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ اس کا علم عام ہونا چاہیے تھا مثلاً بسرہ کی روایت کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگ جائے تو وضوء ٹوٹ جاتا ہے.اب اس مسئلہ اور صورت کا تعلق عموم بلوی یعنی ہر ایک سے ہے اگر یہ حضور کا فرمان تھا تو اکثر صحابہ کو اس کا علم ہونا چاہیے تھا جبکہ صور تحال یہ ہے کہ صرف ایک عورت یہ روایت بیان کرتی ہے اور کوئی مرد صحابی اس روایت کا راوی نہیں ہے.تابعین اور تبع تابعین وغیرہ کے طبقات میں تو اس قسم کے نقص کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ عرصہ زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بات بھول بھی سکتی ہے.طبقاتی تعصب کی وجہ سے یہ بات گھڑی بھی جاسکتی ย
17 ہے بہر حال اس قسم کے اسباب کی وجہ سے اسماء الرجال کے فن میں تابعین اور تبع تابعین کے زمانی طبقاتی تفاوت کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہوئی.تابعین اور تبع تابعین کے طبقات طبقات کے تعین کے لیے قریباً بیس سال کے عرصہ کو معیار بنایا گیا ہے..1 طبقہ اولیٰ : کبار تابعین جیسے سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر وغیرہ 2 طبقہ ثانیہ : اوساط تابعین جیسے حسن بصری، ابن سیرین وغیرہ 3 طبقه ثالثه : تابعین کا وہ طبقہ جس نے صحابہ کو دیکھا تو ہو لیکن اس کی اکثر روایات کبار تابعین سے مروی ہوں جیسے محمد بن شہاب زہری..4 طبقہ رابعہ : صغار تابعین جنہوں نے ایک دو سے زیادہ صحابہ کو نہ دیکھا ہو اور صحابہ سے ان کا سماع برائے نام ہو جیسے ہشام بن عروہ، اعمش وغیرہ.5 طبقہ خامسہ : تابعین کا وہ طبقہ جو طبقہ رابعہ کا قریباً قریباً ہمعصر لیکن کسی صحابی سے اس کی لقاء کی تصریح نہ ملتی ہو جیسے جریج وغیرہ.طبقہ سادسہ : کبار تبع تابعین جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام ثوری وغیرہ.7 طبقه سابعه : اوساط تبع تابعین جیسے ابن عیینہ ، امام محمد وغیرہ.8 طبقه ثامنہ : صغار تبع تابعین جیسے امام شافعی، ابو داؤد، طیالسی، عبد الرزاق وغیرہ.و طبقہ تاسعہ : تبع تابعین سے روایت کرنے والا راویوں کا ایسا بڑا طبقہ جس کا کسی تابعی سے ملنا تاریخی ثابت نہ ہو جیسے امام احمد بن حنبل، یکی ابن یحی، ابن المنذر.10 طبقه عاشرہ : تبع تابعین سے روایت کرنے والا در میانی طبقہ جیسے امام بخاری، امام مسلم ، امام ذہلی..11 طبقه حادیہ عشر : تبع تابعین سے بہت کم روایت کرنے والا چھوٹا طبقہ جیسے امام ترمذی، امام ابو بکر طور پر بن ابی شیبہ.
18 اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ صحابہ کے بعد احادیث کی مشہور کتابوں کی تدوین تک راویوں کے کل گیارہ طبقات متعین ہوئے تھے.جن میں سے تابعین کے پانچ طبقات ، تبع تابعین کے تین طبقات اور تبع تبع تابعین کے تین طبقات ہیں.کتابوں کی تدوین کے دور سے پہلے روایات حدیث کا زیادہ تر دار و مدار حفظ اور زبانی روایت پر تھا.100ء تک طبقہ اولیٰ کے تمام راوی وفات پاچکے تھے.1200 تک طبقہ ثانیہ سے ساتویں طبقہ کے تمام راوی وفات پاگئے تھے.200 کے بعد آٹھویں طبقہ سے گیارہویں طبقہ کا دور ہے جس میں مشہور کتب حدیث کی تدوین ہوئی جیسے مسند احمد بن حنبل، صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ.جماعت احمدیہ کے نزدیک سنت اور حدیث کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کیلئے تین چیزیں ہیں (۱) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں.وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے.(۲) دوسری سنت..سنت سے مُراد.آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور عنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کیلئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی
19 عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں.مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرت صلی یہ کلم نے خدا تعالیٰ کے اس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلا دیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں.ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا.پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اسی کا نام سنت ہے.(۳) تیسر ا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت صلی علیم سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں...جب.........دور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہیئے تب حدیثیں جمع ہوئیں.اس میں شک نہیں ہو سکتا کہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متقی اور پرہیز گار تھے.اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھا حدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبه الحال راوی کی حدیث نہیں لی.بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر ہے بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہو گی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور علمی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی.تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بے خبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہو گیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلا دیئے تھے اس لئے یہ بات.
20 بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہو تا جو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا.تاہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نور علی نور ہو گیا اور حدیثیں قرآن اور سنت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہو گئیں.“ ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی صفحه 2 ، 3 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 211،210) خاکسار ملک سیف الرحمٰن ربوہ ضلع جھنگ 26 جون 1967ء
21 بسم الله الرحمنِ الرَّحِيم خلوص نیت اور حسن ارادہ 1- حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عبد الله بن زبير قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْن وَقَاصِ اللَّيْهِيَ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنياتِ وَإنّما لِكُلِّ امْرِه مَا تَوَى فَمَن كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ بخاری کتاب الايمان باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله (1) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ال نیلم کو فرماتے ہوئے سنا یقیناً اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور ہر انسان کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی.پس جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہے یا عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہے تو اس کی ہجرت اسی کے لئے ہو گی جس کی طرف اس نے ہجرت کی.
22 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْن سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْن وَقَاصِ اللَّيْنَ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَإِنَّمَا لِامْرِ مَا نَوَى فَمَن كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُها أو امرأة يَتَزَوْجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاری کتاب الايمان والنذور باب النية في الايمان 6689) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الل ولم کو فرماتے ہوئے سنا یقیناً اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور ہر انسان کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی.پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہی ہو گی اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی کی خاطر ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی.عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنَّيَّةِ وَإِنَّمَا لِامْرِ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوْجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (مسلم کتاب الامارة باب قوله صلى الله علیه وسلم انما الاعمال بالنية 3516) حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الکریم نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی.پس جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی علیم کے لئے ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی الی ظلم کے لئے ہے.اور جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہے کہ وہ اُسے حاصل کرے یا کسی عورت کے لئے جس سے وہ شادی کرے تو اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی.
23 -2 عن أبي هريرةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يُبْعَثُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمُ (ابن ماجہ کتاب الزهد باب النية 4229) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا یقینا لوگوں کا حشر ان کی نیتوں کے مطابق ہو گا.( یعنی اپنی اپنی نیت کے مطابق وہ اجر پائیں گے).3- عَن أبي هريرةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.....إِنَّ اللَّهَ لَا يَنظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ وَلَا إلَى صُوَرِكُمْ وَلَكِن يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ (مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم خذله و احتقاره 4636) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کلم نے فرمایا یقینا اللہ تمہارے جسموں کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے.-4- عَنْ مُعَاوِيَةَ بْن أَبِي سُفْيَانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ كَالْوِعَاءِ إِذَا طَابَ أَسْفَلُهُ طَابَ أَعْلَاهُ وَإِذَا فَسَدَ أَسْفَلُهُ فَسَدَ أَعْلَاهُ (ابن ماجه كتاب الزهد باب التوقى على العمل 4199) حضرت معاویہ بن ابو سفیان بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للی کم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اعمال ایک برتن کی طرح ہیں جب اس کا نچلا حصہ اچھا ہو تو اس کا اوپر کا حصہ بھی اچھا ہو تا ہے اور جب اس کا نچلا حصہ گندہ اور خراب ہو تو اوپر کا حصہ بھی گندہ اور خراب ہوتا ہے.
24 5- عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلُهَا كَتَبَهَا اللهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً وَإِنْ هَم بِمَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ وَإِنْ هَمَّ بِسَيْئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلُهَا كَتَبَهَا اللهُ عِنْدَهُ حَسَنَةٌ كَامِلَةً وَإِنْ هَمَّ بِمَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللَّهُ سَيْئَةٌ وَاحِدَةً (مسلم کتاب الایمان باب اذام هم العبد بحسنة كتبت و اذا هم بسيئة...179) حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم نے ان باتوں میں سے جو آپ نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے روایت کی ہیں فرمایا کہ اللہ تعالی نے نیکیاں اور بدیاں لکھ دی ہیں پھر ان کو کھول کر بیان کر دیا ہے.پس جو نیکی کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرے اللہ اس کو اپنے ہاں پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر وہ اس کا ارادہ کرے پھر کر (بھی) لے تو اسے اللہ عزوجل اپنے ہاں دس سے لے کر سات سو گنا تک لکھ لیتا ہے بلکہ کئی گنازیادہ.لیکن اگر وہ بدی کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ اس کو اپنے ہاں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر وہ اس کا ارادہ کرے اور عمل (بھی) کرے تو پھر اللہ اسے صرف ایک بدی لکھ لیتا ہے.6 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ فَدَنَا مِنَ الْمَدِينَةِ فَقَالَ إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ قَالَ وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ حَبَسَهُمْ الْعُذْرُ (بخاری کتاب المغازی باب نزول النبي الا الله الحِجْرَ 4423) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک میں ہم رسول اللہ صلی ایم کے ساتھ تھے.آپ مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا یقیناً مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں ، تم نے کوئی سفر نہیں کیا اور نہ کوئی
25 وادی پار کی مگر وہ تمہارے ساتھ تھے.انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! اور وہ مدینہ میں ہیں؟ آپ نے فرمایا وہ مدینہ میں ہیں انہیں عذر نے روک رکھا ہے.7 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لَا تَصَدَّقَنَ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصْدِقَ عَلَى سَارِقٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ لَأَتَصَدَّقَنَ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَى زَانِيَةٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصْدِقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لَأَتَصَلَّ قَنَ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ غَنِي فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصْدِقَ عَلَى غَنِي فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ وَعَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى غَنِي فَأَتِي فَقِيلَ لَهُ أَمَّا صَدَقَتُكَ عَلَى سَارِقٍ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفْ عَنْ سَرِقَتِهِ وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَ عَنْ زِنَاهَا وَأَمَّا الْغَنِيُّ فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ (بخاری کتاب الزكواة باب اذا تصدق على غنى وهو لا يعلم 1421) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کہا کہ آج میں کچھ صدقہ دوں گا.وہ اپنا صدقہ لے کر باہر نکلا تو ایک چور کو غریب آدمی سمجھتے ہوئے اس کے ہاتھ پر وہ رکھ دیا.جب صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ اب تو چور کو بھی صدقہ دیا جانے لگا ہے.اس شخص کو جب علم ہوا تو اس نے کہا اے میرے اللہ تو ہی حمد کا مالک ہے.میں ضرور صدقہ دوں گا.وہ صدقہ لے کر نکلا تو ایک بد کار عورت کو یہ صدقہ دے دیا.جب صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ رات کو بد کار عورت کو صدقہ دیا گیا ہے.جب اس آدمی کو یہ بات پہنچی تو اس نے کہا اے اللہ! تو ہی حمد کا مالک ہے.مجھ سے ایک زانیہ کو صدقہ دینے میں غلطی ہوئی.میں ضرور صدقہ دوں گا.وہ صدقہ لے کر نکلا اور ایک دولت مند کو یہ صدقہ دے دیا.جب صبح ہوئی تو لوگوں کہنے لگے اب تو امیر کو صدقہ دیا جانے لگا ہے.اس پر اس نے کہا.اے میرے اللہ ! تو ہی حمد کا مالک ہے میں نے
26 ایک دفعہ چور کو صدقہ دے دیا.ایک دفعہ بدکار کو اور ایک دفعہ دولت مند کو.وہ اسی سوچ میں تھا کہ اسے آواز آئی تو نے ایک چور کو جو صدقہ دیا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت پوری ہوتی دیکھ کر چوری سے باز آجائے.اسی طرح بد کار پر جو تو نے خرچ کیا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ یہ رقم پا کر بدکاری چھوڑ دے.رہا دولت مند تو اس کو صدقہ دینے کا یہ نتیجہ ہو سکتا ہے کہ اس دولت مند کو عبرت حاصل ہو اور وہ سوچے کہ دوسرے تو خد اتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن میں اس برکت سے محروم ہوں.اس طرح وہ نادم ہو کر اپنے اس مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق پائے جو اللہ تعالی نے اس کو دیا ہے.كَيْفَ كَانَ بَدُهُ الْوَحْيِ وحی کی ابتداء کیسے ہوئی 8- عَنْ عَائِشَةَ أَمِ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من الوخي الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُيْت إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَظَنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِ فَأَخَذَنِي فَعَطَنِي القَانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِه فَأَخَذَنِي فَعَظلِي الفَالِقَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
27 عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ زَقِلُونِي زَقِلُونِي فَزَقَلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلَّا وَاللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةً بْن نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأَ تَنَظَرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ الكتاب العبراتي فيكتب من الإنجيل بالعِبْرَانِيةِ مَا شَاءَ اللهُ أَن يَكْتُبُ وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قد عمى فَقَالَتْ لَهُ خَديجة يَا ابْنَ عَنِ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ فَقَالَ لَهُ وَرَقَهُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نزل الله عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَدَعًا لَيْتَنِي أَكُونَ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَو مُخرجي هُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَدْ بِمِثْلٍ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِى وَإِن يُدْرِكْفِي يَوْمُكَ أَنصرك نصرا مُؤذَرًا ثُمَّ لَمْ يَنْهَب وَرَقَهُ أَن تُوفي و (بخاری کتاب بدء الوحي باب كَيْفَ كَانَ بَدءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ 3) ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ وحی میں سے سب سے پہلی چیز جور سول اللہ صلی نیلم کو ملی وہ سچی خوا ہیں تھیں.جو خواب بھی آتی وہ صبح کی طرح روشن اور صحیح نکلتی.پھر آپ کو خلوت پسند آگئی اور آپ غار حرا میں جا کر عبادت کرتے تھے.آپ کچھ سلمان اپنے ہمراہ لے جاتے جب ختم ہو جاتا تو دوبارہ گھر آکر کھانے پینے کا سامان لے جاتے.اسی اثناء میں آپ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا پڑھو.آپ صلی لمینیوم نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا.فرشتے نے آپ کو سختی سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو.آپؐ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا.فرشتہ نے دوسری مرتبہ دبایا، پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو.آپ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا.تیسری دفعہ فرشتے نے پھر دبایا اور چھوڑ دیا.اور کہا اپنے اس پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے انسان کو پیدا کیا.پڑھو در آنحالیکہ تیرا رب عزت والا اور کرم والا ہے.اس کے بعد رسول الله علی میر کی گھر واپس آئے آپ کا دل لرز رہا تھا.اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ کے پاس آکر کہا مجھے کمبل
28 رض اوڑھا ہو چنانچہ انہوں نے کمبل اوڑھا دیا.جب آپ سے یہ گھبراہٹ جاتی رہی تو حضرت خدیجہ کو سارا واقعہ بنایا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ میں اپنے متعلق ڈرتا ہوں.اس پر حضرت خدیجہ نے کہا کہ خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا.آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کو اٹھاتے ہیں ، جو خوبیاں معدوم ہو چکی ہیں ان کو کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مہمان نواز ہیں، ضروریات حقہ میں امداد کرتے ہیں.پھر حضرت خدیجہ ان کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں.یہ حضرت خدیجہ کے چازاد بھائی تھے.اور زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے.عبرانی جانتے تھے اور عبرانی اناجیل لکھ پڑھ سکتے تھے وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے بینائی بھی جاتی رہی تھی.حضرت خدیجہ نے ورقہ سے کہا اپنے بھتیجے کی بات سنو.چنانچہ ورقہ نے کہا میرے بھتیجے تم نے کیا دیکھا ہے.رسول اللہ صلی العلیم نے سارا واقعہ بیان فرمایا اس پر ورقہ نے کہا یہ وہی روح القدس ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوا.کاش، جس وقت تیری قوم تجھے نکالے گی.اس وقت میں مضبوط جو ان ہو تا یازندہ رہتا تو میں پوری طاقت سے آپ کی مدد کرتا.اس پر رسول اللہ صلی علی کرم نے حیران ہو کر پوچھا کیا یہ مجھے نکال دیں گے ؟ انہوں نے کہا جس آدمی کو بھی یہ مقام ملا ہے جو آپ کو دیا گیا.اس سے ضرور دشمنی کی گئی.اگر مجھے وہ دن دیکھنا نصیب ہوا تو میں پوری مستعدی سے آپ صلی ہی کم کی مددکروں گا، لیکن افسوس کہ ورقہ اس کے بعد جلد ہی فوت ہو گئے.اللہ تعالیٰ اور اس کے نام 9- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً غَيْرَ وَاحِدٍ مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَثِرُ الْخَالِقُ الْبَارِى الْمُصَوْرُ الْغَفَّارُ الْقَهَّارُ الْوَهَّابُ الرَّزَّاقُ الْفَتَاحُ الْعَلِيمُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْخَافِضُ الرَّافِعُ
29 الْمُعِيُّ الْمُذِلُّ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ الْحَكَمُ الْعَدْلُ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ الْحَلِيمُ الْعَظِيمُ الْغَفُورُ الشَّكُورُ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ الْحَفِيظُ الْمُقِيتُ الْحَسِيبُ الْجَلِيلُ الْكَرِيمُ الرَّقِيبُ الْمُجِيبُ الْوَاسِعُ الْحَكِيمُ الْوَدُودُ الْمَجِيدُ الْبَاعِثُ الشَّهِيدُ الْحَقُّ الْوَكِيلُ القَوِيُّ الْمَتِينُ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ الْمُحْصِى الْمُبْدِ الْمُعِيدُ الْمُحْيِي الْمُمِيتُ الْحَيُّ الْقَيُّومُ الْوَاجِدُ الْمَاجِدُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ الْمُوخِرُ الأَوَّلُ الْآخِرُ الظَّاهِرُ الْبَاطِنُ الْوَالِيَ الْمُتَعَالِي الْبَرُّ الثَّوَابُ الْمُنْتَقِمُ الْعَفُو الرَّءُوفُ مَالِكُ الْمُلْكِ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ الْمُقْسِطُ الْجَامِعُ الْغَنِيُّ الْمُغْنِي الْمَانِعُ الضَّاتُ النَّافِعُ النُّورُ الْهَادِي الْبَدِيعُ الْبَاقِي الْوَارِثُ الرَّشِيدُ الضَّبُورُ (ترمذی کتاب الدعوات باب فى اسماء الحسنى مع ذكرها تماما 3507) الله - حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ( اسم ذات اللہ کے علاوہ) اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جو زندگی میں ان کو مد نظر رکھے گا اور ان کا مظہر بننے کی کوشش کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا.یہ نام رسول اللہ صلی الم نے اس طرح گنے اللہ تعالیٰ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بن مانگے دینے والا ، بار بار رحم کرنے والا، بادشاہ، ہر قسم کے نقائص سے پاک اور منزہ، تمام آفات سے بچانے والا، امن دینے والا، ہر قسم کے بگاڑ سے محفوظ رکھنے والا، غالب، نقصان کی تلافی کرنے والا، کبریائی والا، پیدا کرنے والا، نیست سے ہست کرنے والا، صورت گری کرنے والا، ڈھانپنے اور پردہ پوشی کرنے والا، مکمل غلبہ رکھنے والا، بے دریغ عطا کرنے والا، روزی رساں، مشکل کشا، سب کچھ جاننے والا، روک لینے والا ، کشادگی پیدا کرنے والا، پست کرنے والا ، بالا کرنے والا، عزت دینے والا، ذلت دینے والا، سننے والا، دیکھنے والا، فیصلہ دینے والا، عدل کرنے والا ، باریک بین، باخبر ، حلم والا، عظمت والا، خطاء پوش، قدر دان بلند مرتبہ ، بڑی شان والا، سب کا حافظ و ناصر ، حساب کتاب لینے والا، جلالت شان والا ، صاحب کرم، نگہبان، قبول کرنے والا، وسعت والا، حکمت والا، بڑا محبت کرنے والا ، بزرگی والا، دوبارہ زندگی دینے والا، ہمہ بین، ہر کمال کا دائمی اہل، کفایت کرنے والا، صاحب قوت، صاحب قدرت، مدد گار، لائق حمد ، شمار کننده، پہلی بار پیدا کرنے والا، دوبارہ پیدا کرنے والا، زندگی بخشنے والا، موت دینے والا، زندہ جاوید ، قائم
30 بالذات، بے نیاز ، صاحب بزرگی، یکتا، یگانه، مستغنی، قدرت والا، صاحب اقتدار ، آگے بڑھانے والا، پیچھے ہٹانے والا، پہلا، آخری، عیاں، نہاں، مالک متصرف، بلند و بالا، نیکوں کی قدر کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا ، انتقام لینے والا، معاف کرنے والا، نرم سلوک کرنے والا، بادشاہت کا مالک، عظمت و کرامت والا، انصاف کرنے والا، یکجا کرنے والا، بے نیاز، بے نیاز کرنے والا، روکنے والا، ضرر کا مالک، نفع دینے والا، نور ہی نور ، ہدایت دینے والا، نئی سے نئی ایجاد کرنے والا، صاحب بقا، اصل مالک، راہنما، سزا دینے میں دھیما.10- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالسَّمَوَاتُ مَطوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ أَنَا الْجَبَّارُ أَنَا الْمُتَكَبَرُ أَنَا الْمَلِكُ أَنَا الْمُتَعَالِي يُمَجِدُ نَفْسَهُ قَالَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَدْدُهَا حَتَّى رَجَفَ بِهِ الْمِنْبَرُ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيَخِرُ بِهِ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند عبد الله بن عمر 5608) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ہم نے یہ آیت پڑھی اور آپ منبر پر تھے وَالسَّمَوَات مَطوِيَّاتُ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیٹے ہوئے ہوں گے وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں) حضور صلی اللہ کریم نے کہا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بڑی طاقتوں والا اور نقصان کی تلافی کرنے والا ہوں، میرے لئے ہی بڑائی ہے ، میں بادشاہ ہوں، میں بلند شان والا ہوں.وہ اللہ تعالیٰ) اپنی ذات کی مسجد اور بزرگی بیان کرتا ہے.رسول اللہ صلی علی یکم ان کلمات کو بار بار بڑے جوش سے دہرا رہے تھے یہاں تک کہ منبر لرزنے لگا اور ہمیں خیال ہوا کہ کہیں آپ منبر سے گر ہی نہ جائیں.11.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ كَذَّبَنِي عَبْدِى وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ أَنْ يَقُولَ فَلَنْ يُعِيدَنَا
31 كما بدأنا وَأَما شَتْمُهُ إِيَّايَ يَقُولُ اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا الضَّمَدُ الَّذِي لَمْ أَلِدٌ وَلَمْ أُولَدْ وَلَمْ يَكُن لي كُفُوًا أَحَدٌ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة مسند ابو هریره 8204) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرابندہ میری تکذیب کرتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے.وہ مجھے گالیاں دیتا ہے حالانکہ اسے ایسا کرنے کا حق نہیں تھا.مجھے جھٹلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ دوبارہ ہمیں اس طرح پیدا نہیں کر سکتا جس طرح اس نے ہمیں پہلے پیدا کیا ہے اور مجھے گالی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ تعالی نے کسی کو اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میر کی ذات صمد یعنی بے نیاز ہے اور نہ میراکوئی بیٹا ہے اور نہ میں جنا گیا ہوں یعنی نہ میں کسی کا بیٹا ہوں اور نہ ہی کوئی میر اہمسر ہے.12- عَنْ أَبِي ذَرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا رَوَى عَنْ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَّهُ قَالَ يَا عِبَادِى إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِى وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا يَا عِبَادِي كُلُكُمْ ضَالٌ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ فَاسْتَطْعِمُونِي أَطْعِمْكُمْ يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ عَادٍ إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ يَا عِبَادِى إِنَّكُمْ تُخْطِونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ يَا عِبَادِى إِنَّكُمْ لَن تَبْلُغُوا ضَرِى فَتَضُرُونِي وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِي فَتَنْفَعُونِي يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا يَا عِبَادِى لَوْ أَنَّ أَوَلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِي إِلَّا كَمَا
32 يَنقُصُ الْمِخْيَط إذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ يَا عِبَادِى إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أَحْصِيهَا لَكُمْ ثُمَّ أَو فِيكُمْ إِيَّاهَا فَمَن وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدُ اللهَ وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ (مسلم کتاب البر والصلة باب تحریم الظلم 4660) حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ نبی صلی الیم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے جو باتیں بیان کی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ نے فرمایا اے میرے بندو میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے.پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو.تم سب گمر اہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں پس مجھ سے ہدایت طلب کر و.اے میرے بندو تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھانا کھلاؤں پس تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا اے میرے بندو تم سب برہنہ ہو مگر جسے میں پہناؤں پس مجھ سے کپڑے مانگو میں تمہیں پہناؤں گا اے میرے بندو ! تم رات دن غلطیاں کرتے ہو اور میں تمہارے سب گناہ بخشتا ہوں پس مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں بخش دوں گا تم ہر گز طاقت نہیں رکھتے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور نہ ہی مجھے نفع پہنچانے کی طاقت رکھتے ہو.اے میرے بندو اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی دل رکھنے والے کی طرح ہو جائیں تو یہ میری بادشاہت میں ذرہ بھی اضافہ نہ کر سکے گا.اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن تم میں سے سب سے زیادہ فاجر دل رکھنے والے آدمی کی طرح ہو جائیں تو یہ میری بادشاہت میں کچھ کمی نہ کر سکے گا.اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن ایک میدان میں کھڑے ہوں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر انسان کو اس کی طلب عطا کروں تو یہ اس میں سے کچھ بھی کمی نہ کرے گی جو میرے پاس ہے.سوائے اس قدر جتنا ایک سوئی کم کرتی ہے.جبکہ وہ سمندر میں ڈالی جائے اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں میں تمہارے اعمال (ہی) تمہارے لئے محفوظ رکھتا ہوں.پھر میں تمہیں وہ پورے پورے دوں گا.پس جو خیر پائے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا ( کچھ ) پائے تو صرف اپنے نفس کو (ہی) ملامت کرے.
33 13- عن جَرِيرٍ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ قَالَ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِهِ فَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَصَلَاةٍ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ فَا فَعَلُوا (بخاری کتاب التوحيد والرد على الجهمية وغيرهم باب قول الله وجوه يومئذ ناضرة الى ربها ناظره 7434) حضرت جریر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی نیلم کی خدمت میں حاضر تھے ( رات کا وقت تھا).آپ صلی الیکم نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا تم اپنے پروردگار کو اسی طرح ( بلا روک ٹوک) دیکھو گے جس طرح اس چودہویں کے چاند کو دیکھ رہے ہو.اگر تم اس شرف کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا چاہتے ہو تو فجر اور عصر کی نماز وقت پر پڑھنے میں کو تاہی نہ ہونے دو.14- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه، مسند ابو هريره 7319) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی (کسی کو ) مارے تو چہرے سے بچے کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے.( یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں یہ استعداد ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفات کو ظلی طور پر اپنا سکے ).
34 اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کا شکر -15- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ...ثم يَفْتَحُ اللهُ عَلَىٰ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الفَنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا، لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي (بخاری کتاب التفسير سورة بنى اسرائيل باب قوله ذرية من حملنا مع نوح 4712) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے محامد اور ثناء کے معارف اس طور پر کھولتا ہے کہ مجھ سے قبل کسی اور شخص پر اس طرح نہیں کھولے گئے.16- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَبَّحَ اللَّهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثلاثًا وَثَلَاثِينَ، وَحَمِدَ اللهَ ثَلَاثًا وَثَلاثِينَ، وَكَبَّرَ اللهَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَتْلِكَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ، وَقَالَ تَمَامَ الْمِائَةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ غُفِرَتْ خَطَايَاهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ (مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب استحباب الذكر بعد الصلاة 931) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کہ جس نے ہر نماز کے بعد تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہا اور تینتیس دفعہ الحمد للہ کہا اور تینتیس دفعہ اللہ اکبر کہا تو یہ مل کر ننانوے ہوئے.سو کا عد د پورا کرنے کے لئے لا إله إلا الله وحدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ " اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.بادشاہت اسی کی ہے.تمام تعریف اس کے لئے ہے اور وہ ہر ایک چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے“.اس کی تمام خطائیں معاف کر دی جائیں گی اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں.
35 17 - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا ، قَالَتْ مَا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةٌ بَعْدَ أَنْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالفَتْحُ ( النصر 2) إِلَّا يَقُولُ فِيهَا سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُم اغْفِرْ لِي (بخاری کتاب التفسير سورة اذاجاء نصر الله والفتح 4967) الله حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ سورۃ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالفَتْحُ نازل ہونے کے بعد جب بھی نبی صلی ا کم نماز پڑھتے تو اس میں بکثرت یہ دعا مانگتے.اے ہمارے پروردگار ! تو پاک ہے ہم تیری حمد کرتے ہیں، اے میرے اللہ ! تو مجھے بخش دے.18- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللهَ (ترمذی کتاب ابواب البروا باب ما جاء فى الشكر لمن احسن اليك (1954) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال نیلم نے فرمایا جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا.( یعنی کسی شخص کے احسان کے نتیجہ میں انسان کو اگر کوئی نعمت یا بھلائی حاصل ہو تو جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر لازم ہے وہاں اس محسن شخص کا شکر یہ ادا کر نا بھی ضروری ہے).19- عن أبي هريرةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ، وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخَذَهُ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ (بخاری کتاب المظالم باب من اخذ الغصن وما يو ذى الناس فى الطریق فرمی به 2472)
36 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا ایک شخص راستہ میں جارہا تھا کہ اس نے کانٹے دار ٹہنی پڑی ہوئی پائی.اس نے اس کو ہٹا دیا.اللہ تعالیٰ نے اس کی اس نیکی کو بصورت شکر یہ قبول فرمایا اور اسے بخش دیا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي طَرِيقٍ إِذْ وَجَدَ غُضَ هَوْكٍ فَأَخَرَهُ فَشَكَرَ اللهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ (ترمذی کتاب ابواب البر والصلة باب ما جاء فى اماطة الأذى عن الطريق 1958) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ا یکم نے فرمایا ایک شخص راستہ میں جارہا تھا کہ اس نے کانٹے دار ٹہنی پڑی ہوئی پائی.اس نے اس کو ہٹا دیا.اللہ تعالیٰ نے اس کی اس نیکی کو بصورت شکریہ قبول فرمایا اور اسے بخش دیا.20- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ كَلَامٍ لَا يُبْدَأُ فِيهِ بالحمدُ للهِ فَهُوَ أَجده (ابوداود کتاب الادب باب الهدى في الكلام 4840) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کلیم نے فرمایا ہر قابل قدر گفتگو ( اور تقریر وغیرہ) اگر خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بغیر شروع کی جائے تو وہ برکت سے خالی اور بے اثر ہوتی ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ أَمْرٍ ذِى بَالٍ لَا يُبْدَأُ فِيهِ بالحمد أقطع ابن ماجه کتاب النکاح باب خطبة النكاح 1894)
37 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی کرم نے فرمایا ہر وہ کام جو حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص اور برکت سے خالی ہوتا ہے.-21 كُل أمر ذى بَالٍ لَمْ يُبْدَأُ فيه پيشم الله فهو أَبْتَر (تفسیر الکشاف (زمخشری) تفسير سورة الفاتحة ، زير آیت بسم الله ، صفحه 25) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی علیم نے فرمایا ہر اہم کام جو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص اور برکت سے خالی ہوتا ہے.كُلُّ أَمْرٍ ذِى بَالِ لَا يُبْدَأُ فِيهِ بِالحَمْدُ لِلَّهِ فَهُوَ أَقْطَعُ-(هـ هق) عن أبى هريرة (الجامع الصغير (للسیوطی) حرف الكاف، روایت نمبر 2683 صفحه 391) الله سة حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا ہر وہ کام جو اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص اور برکت سے خالی ہو تا ہے.كُلُّ أَمْرٍ ذِى بَالٍ لَا يُبْدَأُ فِيهِ بِبِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ أَقْطَعُ- عن أبى هريرة (الجامع الصغير (للسيوطی) حرف الكاف، روایت نمبر 2684 صفحه 391) دو ،، حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ہر وہ کام جو ” بسم اللہ الرّحمن الرّحيم ‘ کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناقص اور برکت سے خالی ہو تا ہے.
38 سردارِ دو جہاں حضرت خاتم النبيين محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم 22 - عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِي قَالَ سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةٌ، وَكَانَ وَصَافًا، عَنْ حِلْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِهِ، فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَمَا مُفَخَمَا يَتَلَالاً وَجْهُهُ تَلَأُلُوَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، أَطْوَل مِنَ الْمَرْبُوعِ، وَأَقْصَر مِنَ الْمُشَذَبِ، عَظِيمُ الْهَامَةِ، رَجِلُ الشَّعْرِ، إِنِ انْفَرَقَتْ عَقِيقَتُهُ فَرَقَهَا، وَإِلَّا فَلَا يُجَاوِرُ شَعْرُهُ شَيْمَةَ أُذُنَيْهِ إِذَا هُوَ وَفَرَهُ، أَزْهَرُ اللَّوْنِ، وَاسِعُ الْجَبِينِ، أَزَجُ الْحَوَاجِبِ سَوَابِغَ فِي غَيْرِ قَرَنٍ، بَيْنَهُمَا عِرْقُ يُدِرُّهُ الْغَضَبُ، أَقْنَى الْعِرْنَيْنِ، لَهُ نُورٌ يَعْلُوهُ، يَحْسَبُهُ مَنْ لَمْ يَتَأَمَلُهُ أَشَمَّ، كَثَ اللَّحْيَةِ، سَهْلَ الْخَذَيْنِ، ضَلِيعَ الْفَمِ ، مُفْلَجَ الْأَسْنَانِ، دَقِيقَ الْمَسْرُبَةِ، كَأَنَّ عُنُقَهُ جِيدُ دُمْيَةٍ فِي صَفَاءِ الْفِضَّةِ مُعْتَدِلَ الْخَلْقِ، بَادِنٌ مُعَاسِكَ، سَوَاءُ الْبَطْنِ وَالصَّدْرِ، عَرِيضُ الصَّدْرِ، بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، ضَخْمُ الْكَرَادِيسِ ، أَنْوَرُ الْمُتَجَرَّدِ، مَوْصُولُ مَا بَيْنَ اللَّبَةِ وَالسُّرَّةِ بِشَعْرٍ يَجْرِى كَالْخَطِ، عَارِي الثَّدْيَيْنِ وَالْبَطْنِ مِمَّا سِوَى ذَلِكَ، أَشْعَرُ الذِرَاعَيْنِ وَالْمَنْكِبَيْنِ وَأَعَالِي الصَّدْرِ، طَوِيلُ الزَّنْدَيْنِ، رَحْبُ الرَّاحَةِ، شَثْنُ الْكَفَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، سَائِلُ الْأَطْرَافِ - أَوْ قَالَ شَائِلُ الْأَطْرَافِ - خَمْصَانُ الْأَخْمَصَيْنِ، مَسِيحُ الْقَدَمَيْنِ، يَنْبُو عَنْهُمَا الْمَاءُ، إِذَا زَالَ زَالَ قَلِعًا، يَخْطُو تَكَفَيًا ، وَيَمْشِي هَوْنًا، ذَرِيعُ الْمِشْيَةِ، إِذَا مَشَى كَأَنَّمَا
39 يَنْحَظُ مِنْ صَبَبٍ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا ، خَافِضُ الطَّرْفِ، نَظَرُهُ إِلَى الْأَرْضِ أَطْوَلُ مِنْ نظر إلى السَّمَاءِ، جُلُّ نَظرِهِ الْمُلَاحَظةُ، يَسُوقُ أَصْحَابَهُ وَيَبْدَأُ مَنْ لَقِي بِالسَّلَامِ (شمائل النبي باب فى خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 7) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں حضرت ھند بن ابی حالہ سے نبی صلی علیہ کم کا حلیہ مبارک پوچھا اور وہ نبی صلی این کم کا حلیہ خوب بیان کرتے تھے اور میں چاہتا تھا کہ وہ میرے سامنے بھی اُن (خد و خال) کا کچھ ذکر کریں جس سے میں چمٹ جاؤں تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی للی کم بارعب اور وجیہ شکل و صورت کے تھے.آپ کا چہرہ مبارک یوں چمکتا جیسے چودھویں کا چاند.آپ میانہ قد سے کسی قدر دراز اور طویل القامت سے کسی قدر چھوٹے تھے.سر بڑا تھا، بال خمدار ( یا کسی قدر بہر دار ) اگر مانگ سہولت سے نکل آتی تو نکال لیتے ورنہ نہ نکالتے.جب بال زیادہ ہوتے تو کانوں کی لو سے بڑھ جاتے.پھول سا رنگ، کشادہ پیشانی، ابر و لمبے باریک اور بھرے ہوئے ، باہم ملے ہوئے نہ تھے ان کے درمیان ایک رگ تھی جو جلال میں نمایاں ہو جاتی ، ناک ستواں جس پر نور جھلکتا تھا، سرسری دیکھنے والے کو اُٹھی ہوئی نظر آتی تھی، ریش مبارک گھنی رخسار نرم، و آن کشاده، دانت رکندار آنکھوں کے کوئے باریک، آپ کی گردن خوبصورت اور لمبی صراحی دار جس پر سرخی جھلکتی تھی.صفائی میں چاندی کی مانند.اعضاء متوازن تھے.بدن کچھ بھاری مگر نہایت موزوں اور مضبوط.شکم و سینہ ہموار.چوڑے سینے والے.دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا.جوڑ مضبوط اور بھرے ہوئے.جسم چمکتا ہوا اور بالوں سے خالی، سینہ اور پیٹ بالوں سے صاف سوائے ایک بار یک دھاری کے جو سینے سے ناف تک ایک خط کی طرح جاتی تھی.دونوں بازوؤں اور کندھوں اور سینے کے بالائی حصہ پر بال تھے.کلائیاں دراز ہتھیلی چوڑی، ہاتھ اور پاؤں گوشت سے پر اور نرم، انگلیاں دراز ، تلوے قدرے گہرے ، قدم نرم اور چکنے کہ پانی ان پر نہ ٹھہرے.جب چلتے تو قوت سے قدم اُٹھاتے.قدرے آگے جھکتے ہوئے قدم اُٹھاتے آپ فروتنی کے ساتھ چلتے، تیز رفتار تھے جب چلتے تو یوں لگتا جیسے بلندی سے اتر رہے ہوں جب کسی طرف رخ فرماتے تو پوری طرح فرماتے.نظر جھکائے رکھتے، اوپر آسمان کی طرف
40 نظر کے بجائے آپ کی نظر زمین پر زیادہ پڑتی.اکثر آپ کی نظریں نیم وا ہو تیں.اکثر آپ کی نظر (ایک لمحہ میں ملاحظہ کر لیتی تھی.اپنے صحابہ ( کا خیال رکھنے کے لئے ان کے پیچھے چلتے.ہر ملنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرتے.23- عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَليْ قَالَ سَأَلْتُ خَالِي هِنْدُ بْنُ أَبِي هَالَةٌ، وَكَانَ وَضَافًا، فَقُلْتُ صِفٌ لِي مَنْطِقَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْأَحْزَانِ دائم الْفِكْرَةِ لَيْسَتْ لَهُ رَاحَةُ طويل الشكت لا يَتَكَلَّمُ فِي غَيْرِ حَاجَةٍ، يَفْتَتِحُ الْكَلَامَ وَيَخْتِمُهُ بِاسْمِ اللهِ تَعَالَى، وَيَتَكَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ ، كَلَامُهُ فَضْلُ، لَا فُضُولَ وَلَا تَقْصِيرَ، لَيْسَ بِالْجَافِي وَلَا الْمُهِينِ، يُعَظِمُ النَّعْمَةَ، وَإِنْ دَقَتْ لَا يَذُهُ مِنْهَا شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُن يَذُهُ ذَوَاقَا وَلَا يَمَدَحُهُ، وَلَا تُغْضِبُهُ الدُّنْيَا، وَلَا مَا كَانَ لَهَا، فَإِذَا تُعْذِيَ الْحَقُّ لَمْ يَقُمْ لِغَضَبِهِ شَيْءٍ حَتَّى يَنْتَصِرَ لَهُ، وَلَا يَغْضَبْ لِنَفْسِهِ، وَلَا يَنْتَصِرُ لَهَا، إِذَا أَشَارَ أَشَارَ بِكَفِهِ كُلِهَا، وَإِذَا تَعَجَبَ قَلَبَهَا، وَإِذَا تَحَدَّثَ اتَّصَلَ بِهَا ، وَضَرَبَ بِرَاحَتِهِ الْيُمْنَى بَطْنَ إِبْيَامِهِ الْيُسْرَى، وَإِذَا غَضِبَ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ، وَإِذَا فَرِحَ غَضَّ طَرْفَهُ، وكان الْجُدُرُ تلاحكَ وَجْهَهُ) جُلُ ضَحِكِهِ التَّبَسُّمُ، يَفْتَرُّ عَنْ مِثْلِ حَبِ الْغَمَامِ (شمائل النبي باب كيف كان كلام رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم 217) حضرت حسن بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ھالہ سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی علیکم انداز گفتگو کے متعلق بتائیں اور وہ حضور کے اوصاف بیان کرنے میں بڑے ماہر تھے.انہوں نے بتایا رسول اللہ صلی علیم پر مسلسل غم آتے اور آپ کسی مسلسل اور گہری سوچ میں رہتے.آپ کو آرام کا موقع کم ہی ملتا تھا.اکثر خاموش رہتے.بغیر ضرورت کے بات نہ کرتے.آپ اللہ کے نام سے کلام شروع کرتے اور ( اللہ کے نام پر ہی ) اختتام فرماتے.آپ ایسا کلام فرماتے جو وسیع مطالب و معانی پر مشتمل ہوتا.آپ کے کلام کے الفاظ علیحدہ
41 علیحدہ اور واضح ہوتے.اس میں کوئی زائد بات نہ ہوتی اور نہ ہی اس میں کوئی کمی ہوتی تھی.نہ تو آپ سخت مزاج تھے نہ ہی کمزور اور بے حیثیت.آپ ہر نعمت کی تعظیم فرماتے خواہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو.کسی نعمت کی ذرا بھی مذمت نہ کرتے.ہاں کھانے پینے کی چیزوں کی نہ مذمت کرتے نہ تعریفیں کرتے.نہ دنیا آپ کو غصہ دلاتی نہ ہی جو اس سے متعلق ہے.لیکن اگر حق سے تجاوز کیا جاتا یا حق غصب کر لیا جاتا تو پھر آپ کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی جب تک آپ اس کی دادر ہی نہ کروا دیتے.اپنی ذات کے لئے کبھی غصے نہ ہوتے اور نہ اس کے لئے بدلہ لیتے.جب آپ اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے کرتے.جب آپ تعجب کا اظہار کرتے تو ہاتھ الٹا دیتے اور جب آپ بات کرتے تو ہاتھ کو اس کے مطابق حرکت دیتے اور دائیں ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصہ پر لگاتے.جب آپ ناراض ہوتے تو اعراض کرتے اور ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے.جب خوش ہوتے تو آنکھیں نیچی کر لیتے.آپ کی زیادہ سے زیادہ جنسی تبسم کی حد تک ہوتی (یعنی زور کا قہقہہ نہ لگاتے ) آپ کے دندان مبارک ایسے لگتے جیسے بادل سے گرنے والے اولے ہوتے ہیں.24- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَيْسَ بِالقَوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ وَكَانَ أَزْهَرَ لَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمَ وَكَانَ رَجِلَ الشَّعْرِ لَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبْطِ بُعِثَ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرًا وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ سِتَّينَ لَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلَا فِي لِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءً (المعجم الصغير للطبرانی باب من اسمه جعفر جلد 1 صفحه 118) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی ام درمیانہ قد کے تھے نہ تو بہت زیادہ لمبے اور نہ چھوٹے قد والے، آپ صلی این کم کا رنگ نکھر تا سفید تھا نہ بہت زیادہ سفید اور نہ گہرے گندم گوں رنگ والے تھے آپ صلی علیم کے بال ایک حد تک سیدھے تھے نہ بہت زیادہ گھنگریالے اور نہ بالکل سید ھے.آپ صلی ای ام جب آپ.
42 مبعوث ہوئے اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی بعثت کے بعد دس سال مکہ رہے اور مدینہ میں دس سال قیام رہا اور جب آپ کی وفات ہوئی اس وقت آپ کی عمر ساٹھ سال تھی آپ کے سر اور داڑھی میں میں سے زیادہ سفید بال نہ تھے.حدقنا تبيعةُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجِلَ الشَّعْرِ، لَيْسَ بِالسَّبْطِ، وَلَا الْجَعْدِ الْقَطَطِ، أَزْهَرَ، لَيْسَ بِالْآدَمِ ، وَلَا الْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، كَانَ رَبعَةٌ مِنَ الْقَوْمِ، لَيْسَ بِالْقَصِيرِ وَلَا القَوِيلِ الْبَائِنِ بُعِثَ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ.أَقَامَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَبِمَكَّةَ عَشْرًا.وَتُوُفِّيَ عَلَى رَأْسِ سِثِينَ سَنَةً، لَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلَا فِي لِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ (دلائل النبوة للبيهقى باب صفة لون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلد 1 صفحہ 203) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یکم نہ نمایاں طور پر بہت زیادہ لمبے تھے نہ ہی پستہ قامت، نہ تو بالکل سفید تھے اور نہ گندم گوں، اور (آپ کے بال نہ زیادہ گھنگریالے تھے نہ بالکل سیدھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس سال کے سر پر مبعوث فرمایا آپ نے مکہ میں دس سال قیام فرمایا اور مدینہ میں دس سال.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساٹھ سال کے سر پر وفات دی.اس وقت آپ کے سر اور ریش مبارک میں ہیں بال بھی سفید نہ تھے.25 - عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ أَتَيْتُ عَائِشَةَ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَخْبِرِينِي بِخُلُقٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ، أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ، قَوْلَ الله عَزَّ وَجَلْ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (اهم (5) (مسند احمد بن حنبل مسند الصديقة عائشة بنت صديق 25108)
43 حضرت سعد بن ہشام بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُن سے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کے بارہ میں ہمیں کچھ بتائیں.حضرت عائشہ نے بتایا کہ آپ کے اخلاق و اطوار قرآن کے عین مطابق تھے.پھر پوچھا کہ کیا تم نے قرآن کریم میں یہ نہیں پڑھا وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عظیم کہ اے رسول تو یقیناً اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر ہے.26ـ قال سَعْدِ بْنِ هِشَامِ.....فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ ؟ قُلْتُ بَلَى، قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ (مسلم کتاب الصلاة المسافرین و قصرها باب جامع صلاة الليل (1225) حضرت سعد بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.پھر میں نے عرض کیا اے ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی علیم کے اخلاق کے بارہ میں بتائیے ! حضرت عائشہ فرمانے لگیں کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں.انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی الی یوم کے اخلاق قرآن تھے.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ (مجمع بحار الانوار في غرائب التنزيل و لطائف الاخبار (شیخ محمد طاہر) حرف الخاء ، باب خلق جلد 1 صفحه (372) نبی صلی علیم کے اخلاق قرآن کریم کے عین مطابق تھے.عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَائِشَةَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَخْبِرِينِي عَنْ خُلُقٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنِ ؟ قَالَ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ (دلائل النبوة للبيهقى باب ذكر اخبار رویت من شمائله و اخلاقه حدیث هند بن ابي هاله ، جلد 1 صفحه 308)
44 حضرت سعد بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کیا کہ اے ام المومنین ! مجھے رسول اللہ صلی العلیم کے اخلاق کے بارہ میں کچھ بتائیں.اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا.کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں.حضرت عائشہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نبی صلی الیکم کے اخلاق قرآن کریم کے عین مطابق تھے.27 - عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ، قَالَ قُلْنَا لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، كَيْفَ كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ ثُمَّ قَالَتْ تَقْرَأُ سُورَةَ الْمُؤْمِنِينَ اقْرَأْ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (المؤمنون 2) حَتَّى بَلَغَ الْعَشْرَ فَقَالَتْ هَكَذَا كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مستدرک للحاکم ، کتاب التفسیر تفسیر سورۃ المومنون 3481) یزید بن بابنوس کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اے ام المومنین! رسول اللہ صلی الیکم کے اخلاق کیسے تھے ؟ انہوں نے فرما یار سول اللہ صلی علیم کے اخلاق قرآن کریم کے عین مطابق تھے.پھر انہوں نے پوچھا کیا تم سورۃ المومنون پڑھتے ہو ؟ پڑھو قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (المؤمنون 2) یقیناً مومن کامیاب ہو گئے.انہوں نے دس تک آیات پڑھیں.تو حضرت عائشہ نے فرمایا اس طرح کے رسول اللہ صلی اللی ولیم کے اخلاق تھے.عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ قَالَ قُلْنَا لِعَائِشَةَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، كَيْفَ كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ ثُمَّ قَالَتْ تَقْرَأُ ةَ الْمُؤْمِنِينَ ؟ اقْرَأْ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (المؤمنون (2) إِلَى الْعَشْرِ حَتَّى بَلَغَ الْعَشْرَ، فَقَالَتْ هَكَذَا كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (دلائل النبوة للبيهقى باب ذکر اخبار رویت من شمائلہ و اخلاقه ، حديث هند بن ابى هالة جلد 1 صفحه 309)
45 یزید بن بابنوس کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اے ام المومنین رسول اللہ صلی علیم کے اخلاق کیسے تھے ؟ انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی علیم کے اخلاق اور اطوار زندگی قرآن کریم کے عین مطابق تھے.پھر انہوں نے پوچھا کیا تم سورۃ المومنون پڑھتے ہو ؟ پڑھو قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (المؤمنون 2) يقيناً مومن الله کامیاب ہو گئے.انہوں نے دس تک آیات پڑھیں.تو حضرت عائشہ نے فرمایا اس طرح کے رسول اللہ صلی علیکم کے اخلاق تھے.28 - وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ قَدْ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بُعِثْتُ لأتمم حُسن الأخلاق (موطا امام مالک ، کتاب حسن الخلق ، باب ما جاء في حسن الخلق 1677) حضرت امام مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے.یعنی میں اچھے اور اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں.عن أبي هريرة رضى اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إنما بعثت لأتمم مَكَارِمُ الْأَخْلَاقِ (السنن الكبرى للبهيقى كتاب الشهادات باب بیان مكارم الاخلاق 20782 جلد 10 صفحه 323) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے.-29 عَنِ عَائِشَةَ قَالَت كانَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ اللَّهُمَّ أَحْسَنَتَ خَلْقِي فَأَحْسِنَ خُلُقِى (مسند احمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابية ، مسند عائشة 24896)
46 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ جس طرح تو نے میری شکل وصورت اچھی اور خوبصورت بنائی ہے اسی طرح میرے اخلاق و عادات بھی اچھے بنادے.-30 عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سَلَامٍ قَالَ لَهَا قَدِمَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ اسْتَشْرَفَهُ النَّاسُ فَقَالُوا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَخَرَجْتُ فِيمَنْ خَرَجَ فَلَمَّا رَأَيْتُ وَجْهَهُ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَابٍ فَكَانَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوا الْأَرْحَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَاهُ تَدْخُلُوا الجلة بسلام (سنن دار می كتاب الاستيذان باب فی افشاء السلام 2635) حضرت عبد اللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ استقبال کے لئے نکلے.میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا.جب میں نے حضور صلی اللہ ملک کا چہرہ مبارک دیکھا تو میں جان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا.حضور صلی الی یکم نے اس موقع پر فرمایا اے لوگو! سلام کو عام کرو، ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو.اگر تم ایسا کروگے تو تم امن اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے.عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ الْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَقِيلَ قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْهِ فَلَمَّا اسْتَقْبَتُ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ وَكَانَ أَولُ شَيْءٍ
47 تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامُ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ (الجامع الترمذی کتاب صفة القيامة باب ما جاء في اواني الحوض (2485 حضرت عبد اللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں پہنچے.اور کہا گیار سول اللہ صلی الی یوم تشریف لائے، رسول اللہ صلی ال م تشریف لائے ، رسول الله على ولم تشریف لائے.میں بھی ان لوگوں میں شامل ہو کر آیا کہ آپ کو دیکھوں.جب میں نے رسول اللہ صلی اللی کم کا چہرہ مبارک دیکھا تو میں جان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا.پہلی بات جو رسول اللہ صلی الیم نے اس موقع پر فرمائی اے لوگو! سلام کو عام کرو، ضرورت مندوں کو کھاناکھلاؤ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو.اگر تم ایسا کرو گے تو تم امن اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے.31 - عَنْ الزُّهْرِي سَمِعَ مُحَمَّدَ بْن جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال أنا محمد وأنا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِى يُمحى في الكُفْرُ وَأَنَا الْحَافِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى عَلِي وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ (مسلم کتاب الفضائل باب فى اسمائه صلى اللہ علیہ وسلم 4328) صحیح مسلم کے اسی باب کی اگلی روایت میں یہ وضاحت ہے کہ " وَ الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِي “ امام زہری کی تشریح ہے.وَفِي حَدِيثِ عُقَيْلٍ قَالَ قُلْتُ لِلزُّهْرِي وَمَا الْعَاقِبُ قَالَ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ (مسلم كتاب الفضائل باب في اسمائه صلى الله علیہ وسلم 4329) ترجمہ: عقیل کی روایت میں ہے کہ میں نے زہری سے کہا عاقب سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا جس کے بعد کوئی نبی نہیں.
48 الله سة زہری سے روایت ہے کہ انہوں نے محمد بن جبیر بن مطعم سے سنا.انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی صلی الم نے فرمایا میں محمد صلی ال یکم ہوں اور میں احمد علی یہ کم ہوں ، میں الماحی صلی الی یکم ہوں ( یعنی مٹانے والا) میرے ذریعہ کفر مٹایا جائے گا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور میں العاقب ہوں اور العاقب سے مراد وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں.32 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتْ أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَةٌ وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ (مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب المساجد و مواضع الصلاة 804) 1 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مجھے انبیاء پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے مجھے جوامع الکلم دیئے گئے ہیں اور رعب سے مجھے مردو دی گئی ہے اور غنیمتیں میرے لئے جائز کی گئی ہیں اور زمین میرے لئے پاکیزگی کا ذریعہ اور مسجد بنائی گئی ہے اور مجھے سب مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہے اور میرے ذریعہ نبیوں پر مہر لگائی گئی ہے.نوٹ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِي قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِني عَبْد الله في أم الكتاب لعالم النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ (مسند احمد بن حنبل مسند الشاميين (17295) 1: جوامع الکلم سے مراد حضور صلی اللہ ملک کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے مختصر الفاظ ہیں جن میں کثیر معانی ہوتے ہیں.
49 حضرت عرباض بن ساریہ سلمی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں لوح محفوظ میں اللہ کا بندہ اور خاتم النبیین قرار پایا ہوں جبکہ آدم ابھی تخلیق کے مراحل میں تھے.33 - عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهرٍ وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا فَأَيْنَما أَدْرَكَ الرَّجُلَ مِنْ أُمَّتِي الصَّلَاةُ يُصَلِّي وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ وَلَمْ يُعْطَ نَبِيٌّ قَبْلِي وَبُعِثْتُ إِلَى الناس كافة وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاضَةٌ رسنن نسائی کتاب الغسل والتيمم باب التيمم بالصعيد (432) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ باتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں.ایک مہینے کی مسافت کے رعب سے میری مدد کی گئی ہے.ساری زمین میرے لئے مسجد اور طہارۃ کا ذریعہ بنائی گئی ہے.جہاں بھی میری امت کے کسی آدمی پر نماز کا وقت آئے وہ وہاں نماز پڑھ سکتا ہے ( دوسرے مذاہب کی طرح انہیں عبادت خانے میں نہیں جانا پڑتا).مجھے شفاعت کا شرف حاصل ہواجو مجھ سے پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں ہوا.مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے حالانکہ مجھ سے پہلے خاص قوم کے لئے نبی مبعوث ہو تا تھا.-34 عن عبد الله بن الحارث بن جزء، قال ما رأيت أحدا أكثر تبسما مِنْ رَسُولِ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(سنن ترمذی کتاب المناقب باب في بشاشة النبي صلى اللہ علیہ وسلم 3641) حضرت عبد اللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للی علم سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی اور شخص کو نہیں دیکھا.(یعنی ہر وقت آپ کے چہرہ مبارک پر تبسم کھلا رہتا).
50 35- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا ، قَالَتْ مَا رَأَيْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا قَط ضَاحِكًا، حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَشَمُ (صحیح بخاری کتاب الادب باب التبسم و الضحك (6092 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی زور کا قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا.آپ کا ہنسنا تبسم کے اند از کا ہو تا تھا.36.عنِ ابْنِ عباس رضى الله عنهما ، قَالَ كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ في رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِيْنَ جِبْرِيلُ عليه السلام يَلْقَاهُ أَجْوَدُ بِالخَيْرِ مِن الرِيحِ المُرْسَلَةِ (رياض الصالحين كتاب الفضائل باب الجود و فعل المعروف...1222) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور جب رمضان میں جبرائیل آپ کے پاس قرآن کریم کا دور کرنے آتے تو آپ صلی للی کم پہلے سے بھی زیادہ سخاوت کا اظہار فرماتے اور جبریل رمضان کی ہر رات آپ سے ملتے اور قرآن کریم پڑھاتے ، پس جب جبریل رسول اللہ صلی علیکم سے ملتے تو آپ تیز چلنے والی ہو اسے بھی زیادہ سخی ہو جاتے.الله سة 37 - عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ، قَالَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَلًّا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شيئا قط فقال لا 4261)
51 موسیٰ بن انس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی علیم سے اسلام پر کوئی چیز مانگی گئی آپ نے وہ عطا فرمائی.وہ کہتے ہیں ایک شخص آپ کے پاس آیا.آپ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان (کی تمام) بکریاں عطا فرمائیں.وہ اپنی قوم کی طرف لوٹا اور کہا اے میری قوم! اسلام لے آؤ.محمد صلی میں تم تو اتنا دیتے ہیں کہ فاقہ کا ڈر نہیں رہتا.عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَّا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، فَأَتَى قَوْمَهُ فَقَالَ أَى قَوْمٍ أَسْلِمُوا، فَوَاللَّهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَيُعْطِي عَطَاءً مَا يَخَافُ الْفَقْرَ فَقَالَ أَنَسٌ إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيُسْلِمُ مَا يُرِيدُ إِلَّا الدُّنْيَا، فَمَا يُسْلِمُ حَتَّى يَكُونَ الْإِسْلَامُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب ما سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شيئا قط فقال لا 4262) الله حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی الیہ کم سے دو پہاڑوں کے درمیان جتنی (بھی) بکریاں تھیں مانگ لیں.آپ نے اسے وہ عطا فرما دیں.پھر وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا اے میری قوم ! اسلام لے آؤ.خدا کی قسم ! محمد صلی علی کرم تو اتنا دیتے ہیں کہ غربت کا ڈر نہیں رہتا.حضرت انس کہتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی آدمی صرف دنیا کے لئے اسلام قبول کرتا تھا مگر جو نہی اسلام قبول کرتا تو اسلام اسے دنیا ومافیھا سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا تھا.عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يُسْأَلُ شَيْئًا عَلَى الْإِسْلَامِ، إِلَّا أَعْطَاهُ ، قَالَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ، فَأَمَرَ لَهُ بِشَاءٍ كَثِيرٍ بَيْنَ جَبَلَيْنِ مِنْ شَاءِ الصَّدَقَةِ.قَالَ فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً مَا يَخْشَى الْفَاقَةَ (مسند احمد ، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند انس بن مالک رضی اللہ تعالی 12074)
52 42 حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم سے جب بھی اسلام کے نام پر کوئی چیز مانگی گئی تو آپ صلی یہ کلم حسب استطاعت ) ضرور دیتے، راوی کہتے ہیں ایک دفعہ آپ صلی این نام کے پاس ایک آدمی آیا اور سوال کیا.آپ صلی ملیالم نے اس کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اسے صدقہ کی بکریوں میں سے کثیر تعداد دی جائے جن سے ایک وادی بھر جائے.راوی کہتے ہیں جب وہ بکریاں لے کر اپنی قوم میں واپس آیا تو آکر کہا اے میری قوم! اسلام قبول کر لو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس طرح دیتے ہیں جیسے غربت و احتیاج کا انہیں کوئی ڈر ہی نہیں.38- حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ زَحَمْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَفِي رِجْلِى نَغْلُ كَثِيفَةٌ، فَوَطِئَتُ عَلَى رِجْلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَحَنِي نَفْحَةٍ بِسَوْطٍ فِي يَدِهِ وَقَالَ بِسْمِ اللهِ أَوْ جَعْتَنِي، قَالَ فَبِتُ لِنَفْسِى لَائِمًا أَقُولُ أَوْ جَعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَبِتُ بِلَيْلَةٍ كَمَا يَعْلَمُ اللهُ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا رَجُلٌ يَقُولُ أَيْنَ فُلَانٌ ؟ قَالَ قُلْتُ هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي كَانَ مِنِي بِالْأَمْسِ، قَالَ فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مُتَخَوِفٌ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ وَطِئْتَ بِنَعْلِكَ عَلَى رِجْلِي بِالْأَمْسِ فَأَوْجَعْتَنِي، فَنَفَحْتُكَ نَفْحَةً بِالسَّوْطِ، فَهَذِهِ ثَمَانُونَ نَعْجَةً، فَخُذْهَا بِهَا رسنن دار میى باب فى سخاء النبي صلى الله عليه وسلم (73) حضرت عبد اللہ بن ابو بکر بیان کرتے ہیں ایک عرب نے ان سے ذکر کیا کہ جنگ حنین میں بھیٹر کی وجہ سے اس کا پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر جاپڑا.سخت قسم کی چپلی جو میں نے پہن رکھی تھی اس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں بری طرح زخمی ہو گیا.حضور علی ای کم نے تکلیف کی وجہ سے ہلکا سا کوڑا مارتے ہوئے فرمایا بسم اللہ ! تم نے میرا پاؤں زخمی کر دیا ہے اس سے مجھے بڑی ندامت ہوئی.ساری رات میں سخت بے چین رہا کہ ہائے مجھ سے یہ غلطی کیوں ہوئی.صبح ہوئی تو کسی نے مجھے آواز دی کہ حضور صلیا ہم تمہیں بلاتے
53 ہیں.مجھے اور گھبر اہٹ ہوئی کہ کل کی غلطی کی وجہ سے شاید میری شامت آئی ہے.بہر حال میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی عوام نے بڑی شفقت سے فرمایا کل تم نے میر اپاؤں کچل دیا تھا اور اس پر میں نے تمہیں ایک کو ڑا ہلکا سا مارا تھا اس کا مجھے افسوس ہے.یہ اسی بکریاں تمہیں دے رہا ہوں یہ لو ( اور جو تکلیف تمہیں مجھ سے پہنچی ہے ، اسے دل سے نکال دو).39- عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّ مُحَمَّد بْن جُبَيْرٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ ، أَنَّهُ بَيْنَا هُوَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ النَّاسُ، مُقْبِلًا مِنْ حُنَيْنٍ، عَلِقَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَعْرَابُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُّوهُ إِلَى سَمُرَةٍ، فَخَطِفَتْ رِدَاءَهُ، فَوَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعْطُونِي رِدَائِي، فَلَوْ كَانَ عَدَدُ هَذِهِ العِضَادِ نَعَمَّا لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ لَا تَجِدُونِي بَخِيلًا، وَلَا كَذُوبًا ، وَلَا جَبَانًا (بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبى صلى اللہ علیہ وسلم یعطی المولفة قلوبهم 3148) حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین سے واپسی کے دوران ایک موقع پر کچھ اجڈ دیہاتی آپ صلی یہ کلم کے پیچھے پڑ گئے وہ بڑے اصرار سے سوال کر رہے تھے.جب آپ صلی علی یکم انہیں دینے لگے تو انہوں نے اتنا رش کیا کہ آپ صلی علی ایم کو مجبوراً ایک درخت کا سہارا لینا پڑا.حتی کہ آپ صلی علیکم کی چادر چھین لی گئی.آپ صلی الم نے فرمایا میری چادر مجھے واپس دے دو.پھر کیکروں کے بہت بڑے جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی للی یم نے فرمایا اگر اس وسیع جنگل کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوں تو میں ان کو تقسیم کرنے میں خوشی محسوس کروں گا اور تم مجھے کبھی بھی بخل سے کام لینے والا، بڑہانکنے والا یا بز دلی دکھانے والا نہیں پاؤ گے.
54 وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ بَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْفَلَهُ مِنْ حُنَيْنٍ فَعَلِقَتِ الْأَعْرَابُ يَسْأَلُونَهُ حَتَّى اضْطَرُوهُ إِلَى سَمُرَةٍ فَخَطَفَتْ رِدَاءَهُ فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعْطُونِي رِدَائِي لَوْ كَانَ لِي عَدَدُ هَذِهِ الْعِضَاةِ نَعَمُ لَقَسَمْتُهُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ لَا تجدوني بخيلًا وَلَا كذوباً وَلَا جَبَانًا.رَوَاهُ البُخَارِي (مشكاة المصابيح كتاب الفضائل و الشمائل ، باب فی اخلاقه و شمائلہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الفصل الاول 5807) حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین سے واپسی کے دوران ایک موقع پر کچھ اجڈ دیہاتی رسول اللہ صلی نیلم کے پیچھے پڑ گئے وہ بڑے اصرار سے سوال کر رہے تھے.جب آپ صلی اللہ لکم انہیں دینے لگے تو انہوں نے اتنا رش کیا کہ آپ می بینم کو مجبوراً ایک درخت کا سہارا لینا پڑا.حتی کہ آپ صلی نیلم کی چادر چھین لی لئی.آپ صلی ہم نے فرمایا میری چادر مجھے واپس دے دو.پھر کیکروں کے بہت بڑے جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی علی یم نے فرمایا اگر اس وسیع جنگل کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوں تو میں ان کو تقسیم کرنے میں الله خوشی محسوس کروں گا اور تم مجھے کبھی بھی بخل سے کام لینے والا، بڑہانکنے والا یا بز دلی دکھانے والا نہیں پاؤ گے.40 - عَنْ جَابِرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَ الْجَنادِبُ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهَا ، وَهُوَ يَذْبُهُنَّ عَنْهَا، وَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَأَنْتُمْ تَفَلَّتُونَ مِنْ يَدِى (مسلم کتاب الفضائل ، باب شفقته صلى اللہ علیہ وسلم على امته و مبالغته فى تحذيرهم مما يضر هم 4222) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا میری مثال اور تمہاری مثال اس شخص کی مثال کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور ٹڈیاں اور پروانے اس میں گرنے لگے اور وہ انہیں اس سے ہٹاتا ہے اور میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کر آگ سے بچاتا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے نکل نکل جاتے ہو.
55 41 - عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ مَا بَعَثْنِيَ اللَّهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمَهُ، فَقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَ، وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ، فَالنَّجَاءَ، فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَدْجُوا فَانْطَلَقُوا عَلَى مُهْلَتِهِمْ، وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ ، فَصَبَحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي وَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ، وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَكَذَّبَ مَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِ (مسلم کتاب الفضائل باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امته و مبالغته في تحذيرهم مما يضر هم 4219) حضرت ابو موسی سے روایت ہے کہ نبی صلی ایم نے فرمایا کہ میری مثال اور اس ہدایت کی مثال جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس شخص کی مثال ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا اے میری قوم یقینا میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے اور میں کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں.پس بچ جاؤ.پس اس کی قوم کے ایک گروہ نے اس کی اطاعت کر لی.وہ رات کو نکل گئے اور وقت کے اندر اندر چلے گئے اور ان میں سے ایک گروہ نے تکذیب کی اور وہ اپنی جگہوں پر ہی رہے اور اس لشکر نے انہیں صبح آلیا اور بلاک کر دیا اور انہیں جڑ سے اکھیڑ دیا.یہ مثال اس شخص کی ہے جس نے میری اطاعت کی اور اس کی پیروی کی جو میں لے کر آیا ہوں اور اس کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور تکذیب کی اس حق کی جسے میں لے کر آیا ہوں.42- حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللهِ ، هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أَحْدٍ ؟ فَقَالَ لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِى عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي، فَلَمْ أَسْتَفِقُ إِلَّا بِقَرْنِ الفَعَالِبِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي
56 فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ، فَنَادَانِي، فَقَالَ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَمَا رُدُّوا عَلَيْكَ، وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ ، قَالَ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ وَسَلَّمَ عَلَى، ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمدُ إِنَّ اللهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لكَ، وَأَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَقَدْ بعقنِي رَبُّكَ إليك لتأمرني بأمرك، فنا ،سنت، إن شنت أن أُطْبَقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْطَبَيْنِ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحدَهُ لَا يُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا (مسلم کتاب الجهاد باب ما لقى النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اذى المشركين و المنافقين 3338) ابن شہاب سے روایت ہے کہ مجھے عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نبی صلی الی یکم کی وجہ مطہرہ حضرت عائشہ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی العلیم سے عرض کیا.یارسول اللہ ! آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے تیری قوم سے بہت دکھ اُٹھایا ہے اور جو دکھ میں نے اُن سے عقبہ کے دن اٹھا یا وہ سب سے زیادہ سخت تھا.جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبد کلال پر پیش کیا تو جو میں چاہتا تھا.اس نے وہ جواب نہ دیا.پس میں چلا اور میں فکر مند اپنے دھیان میں جارہا تھا.جب میں قرن الثعالب پہنچا تو یہ کیفیت دور ہوئی اور میں نے اپنا سر اُٹھایا تو دیکھا کہ ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا ہے میں نے دیکھا اس میں جبرائیل ہیں.انہوں نے مجھے پکار کر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارہ میں تمہاری قوم کی بات سن لی ہے اور جو انہوں نے تمہیں جواب دیا ہے اور تمہاری طرف پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے کہ تم جو چاہو اسے ان کے بارہ میں حکم کرو.آپ فرماتے ہیں پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے پکارا اور مجھے سلام کہا پھر کہا اے محمد صلی ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی بات جو انہوں نے آپ سے کہی سن لی ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور میرے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ مجھے اپنے معاملہ میں جو چاہیں حکم دیں.اگر آپ چاہیں تو میں ان دو پہاڑوں کو ان پر ملا دوں.تو رسول اللہ صلی الیم نے اسے فرمایا نہیں میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.سة
57 43 - وَرَوَى أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْلِفُ البَعِيرَ وَيَقُمُ الْبَيْتَ وَيَخْصِفُ النَّغْلَ وَيَرْقَعُ الثَّوْبَ وَيَحْلِبُ الشَّاةَ وَيَأْكُلُ مَعَ الخَادِمِ وَيَطْحَنُ مَعَهُ إِذَا أَغْيًا وَكَانَ لَا يَمْنَعُهُ الحَيَاءُ أَن يَحْمِلَ بِضَاعَتَهُ مِنَ السُّوْقِ إِلَى أَهْلِهِ وَكَانَ يُصافح الغَنِيَّ وَالفَقِيرَ ويُسَلِّمُ مَبْتَدِئًا وَلَا يَحْتَقِرُ مَا دُعِيَ إِلَيْهِ وَلَوْ إِلَى حَشْفِ التَّمْرِ وَكَانَ هَيْنَ المَؤنَةِ لَيْنَ الخُلُقِ كَرِيمَ الطَّبِيعَةِ جَمِيْلَ المُعَاشَرَةِ طَلْقَ الوَجْهِ بَسَّاماً مِنْ غَيْرِ ضحك مَحْرُوناً مِنْ غَيْرِ عَبُوسَةٍ مُتَوَاضِعاً مِنْ غَيْرِ مَذِلَّةٍ جَواداً مِنْ غَيْرِ سَرَفٍ رَقِيْقَ الْقَلْبِ رحماً بِكُلِّ مُسْلِمٍ لم يتجها قط مِنْ شَبَحَ وَلَمْ يَمدَّ يَدَهُ إلى جمع.(الرسالة القشيرية ، باب الخشوع التواضع صفحه 183,184) حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی کم کی زندگی بڑی سادہ تھی.آپ صلی للہ ہم کسی کام کو عار نہیں سمجھتے تھے ) اپنے اونٹ کو خود چارہ ڈالتے.گھر کے کام کاج کرتے.اپنی جو تیوں کی مرمت کر لیتے.کپڑے کو پیوند لگا لیتے.بکری دوہ لیتے.خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے.آٹا پیتے پیتے اگر وہ تھک جاتا تو اس میں اس کی مدد کرتے.بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے امیر غریب ہر ایک سے مصافحہ الله کرتے.سلام میں پہل کرتے اگر کوئی معمولی کھجوروں کی بھی دعوت دیتا تو آپ صلی علی کم اسے حقیر نہ سمجھتے اور قبول کرتے.آپ صلی علیہ کی نہایت ہمدرد، نرم مزاج اور حلیم الطبع تھے.آپ کا رہن سہن بڑا صاف ستھرا تھا.بشاشت سے پیش آتے.تبسم آپ صلی الی یکم کے چہرے پر جھلکتا رہتا.آپ صلی علیہ کم زور کا قہقہ لگا کر نہیں ہنستے تھے.خدا کے خوف سے فکر مند رہے لیکن ترش روئی اور مخشکی نام کو نہ تھی.منکسر المزاج تھے لیکن اس میں کسی کمزوری، پست ہمتی کا شائبہ تک نہ تھا.بڑے سخی (کھلے ہاتھ کے) لیکن بیجا خرچ سے ہمیشہ بچتے.نرم دل، رحیم و کریم تھے.ہر مسلمان سے مہربانی سے پیش آتے.اتنا پیٹ بھر کر نہ کھاتے کہ ڈکار لیتے رہیں.کبھی حرص و طمع کے جذبہ سے ہاتھ نہ بڑھاتے بلکہ صابر و شاکر اور کم پر قانع رہتے.
58 وعَن عائشة والحَسَنِ وأبي سَعِيدٍ وغيرهم في صِفَةِ النَّبِيِّ صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم وَبَعْضُهِمْ يَزِيدُ عَلَى بَعْضٍ كَانَ في بَيْتِهِ في مِهْنَةِ أَهْلِهِ، يَفْلِي ثَوْبَهُ، وَيَحْلِبُ شَأْتَهُ، وَيَرْفَعُ ثَوْبَهُ، وَيَخْصِفُ نَعْلَهُ، وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ، وَيَعْلفُ نَاضِحَهُ وَيَقُهُ الْبَيْتَ، وَيَعْقِلُ الْبَعِيرَ وَيَأْكُلُ مَعَ الْخَادِمِ، وَيَعْجِن مَعَهَا وَيَحْمِلُ بِضَاعَتَهُ مِنَ السُّوقِ.(الشفاء بتعريف حقوق المصطفى ، الباب الثاني في تكميل الله تعالى إله المحاسن خَلْقاً و خُلقاً، الفصل التاسع عشر التواضع، صفحه 176) حضرت عائشہ ، حضرت حسن اور حضرت ابو سعید اور بعض اور صحابہ سے نبی صلی الی یکم کی صفات کے متعلق روایت ہے اور بعض دوسروں سے زائد بات بیان کرتے ہیں کہ آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ کام میں مصروف رہتے اپنے کپڑوں کو پیوند لگاتے ، اپنی بکری کا دودھ دوہتے ، اپنے کپڑوں کو سی لیتے اپنی جوتی کو ٹا نگا لگا لیتے اپنے کام خود کرتے ، گھر کی صفائی کر لیتے اونٹ باندھتے پانی نکالنے والی اونٹنی کا چارہ ڈالتے خادم کے ساتھ کھانا کھا لیتے اور اس کے ساتھ آٹا گوندھ لینے میں مدد کرتے اور بازار سے اپنا سامان اٹھا کر لاتے.وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ الله عنها كَانَ يَرْقَعُ الثَّوْبَ وَيَقُهُ البَيْتَ، وَيَخْصِفُ النَّعْلَ، وَيَطْحَنُ عَنْ خَادِمِهِ إِذَا أَغْيًا.(اسد الغابة، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ذکر جمل من اخلاقه و معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد 1 صفحہ 138) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ آپ اپنے کپڑے کو پیوند لگالیتے اور گھر کی صفائی کر لیتے اور جوتے کو ٹا نکالگا لیتے ، جب خادم تھک جاتا تو اس کا آٹا پینے کا کام خود کر لیتے.44 - عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ قِيلَ لِعَائِشَةَ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ ؟ قَالَتْ كَمَا يَصْنَعُ أَحَدُكُمْ يَخْصِفُ نَعْلَهُ، وَيُرَقْعُ ثَوْبَهُ (مسند احمد بن حنبل ، مسند النساء ، مسند الصديقة عائشة بنت الصديق رضي الله عنها 25256)
59 ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے کسی شخص نے پوچھا نبی صلی الله یم گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا جس طرح تم میں سے کوئی (اپنے گھر میں کام کرتا ہے.اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے اور اپنے کپڑے سی لیتے تھے.عَنْ عُرْوَةَ، وَعَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ عَائِشَةَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا ؟ قَالَتْ نَعَمْ ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْصِفُ نَعْلَهُ، وَيَخِيطُ ثَوْبَهُ، وَيَعْمَلُ فِي بَيْتِهِ كَمَا يَعْمَلُ أَحَدُكُمْ فِي بَيْتِهِ (مسند احمد بن حنبل، مسند النساء ، مسند الصديقة عائشة بنت الصديق رضي الله عنها 25855) ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے کسی شخص نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی علی کم گھر میں کوئی کام کاج کیا کرتے تھے.حضرت عائشہ نے کہاہاں حضور صلی للی کم اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے ، اپنا کپڑ اسی لیا کرتے تھے اور اپنے گھر میں اسی طرح کام کیا کرتے تھے جس طرح تم سب اپنے اپنے گھروں میں کام کرتے ہو.45 - عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ كَانَ يَكُونُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ - تَعْنِي خِدْمَةَ أَهْلِهِ - فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ (بخاری کتاب الاذان باب ما كان فى حاجة اهله فاقيمت الصلاة فخرج 676) حضرت اسود بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللی کم گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ نے کہا آپ صلی علی کم کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو باہر نماز کے لئے چلے جاتے.
60 46 - عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ فِرَاشُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ، وَحَشْوُهُ من ليف (بخاری ، کتاب الرقاق ، باب كيف كان عيش النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ 6456) س حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللی علم کا بستر چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے بار یک نرم ریشے بھرے ہوئے تھے.47 - عَنِ الْأَسْوَدِ، أَن عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَكَاةٍ شَكَاهَا، فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعْ عَلَى عَبَاءَةٍ قَطَوَانِيَّةٍ وَمِرْفَقَةٍ مِنْ صُوفٍ حَشُوهَا إِذْخِرِ، فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأَقِى يَا رَسُولَ اللَّهِ كِسْرَى وَقَيْصَرُ عَلَى الذِيبَاجِ فَقَالَ يَا عُمَرُ! أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ ؟ ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ مَسَّهُ فَإِذَا هُوَ فِي شِدَّةِ الْحُمَّى، فَقَالَ تُحَمُّ هَكَذَا وأنْتَ رَسُولُ اللهِ ؟ فَقَالَ إِنْ أَهَدَّ هَذِهِ الْأَمَةِ بَلَاءٌ نَبِهَا، ثم الخير، قم الخير ، وَكَذَلِكَ كَانَتِ الْأَنْبِيَاء قَبْلَكُمْ وَالأقم (مسند امام اعظم امام ابو حنیفه ، کتاب الرقاق، باب بیان محتویات الرقاق حدیث نمبر 481 ) م الله حضرت اسود بیان کرتے ہیں حضرت عمر بن خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور علی یہ کم بیمار تھے اور ایک قطوانی چادر پر لیٹے ہوئے تھے اور تکیہ ایسا تھا جس کے اندر اذخر گھاس بھری ہوئی تھی.یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ کہنے لگے حضور ! میرے ماں باپ آپ صلی علیم پر قربان ہوں قیصر و کسری تو ریشمی گدے پر آرام کریں اور آپ اس حالت میں ہوں.یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ یہ آرام دہ سامان تمہیں آخرت میں میسر آئیں اور ان دنیا داروں کے لئے صرف یہ دنیا ہو یعنی عیش و عشرت اور مسرفانہ زندگی ہمارا شیوہ نہیں.پھر عمرؓ نے حضور صلی الم کے جسم مبارک کو چھوا تو دیکھا کہ آپ صلی للی کم شدید بخار میں مبتلا ہیں.اس پر عمرہ کہنے لگے حضور صلی ا لم! آپ تو اللہ کے میں کم م الله
61 رسول ہیں تعجب ہے کہ آپ کو بھی اس قدر تیز بخار ہے.حضور صلی للی یکم نے فرمایا اس امت میں سب سے زیادہ آزمائش اس کے نبی کی ہے کہ وہ نمونہ ہے ، پھر درجہ بدرجہ نیک اور بڑے لوگوں کی اور یہی طریق گذشتہ نبیوں اور امتوں کے ساتھ بھی ہو تا رہا ہے.48 - عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ اضْطَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى حَصِيرٍ فَأَثَرَ فِي جِلْدِهِ، فَقُلْتُ بِأَبِي وَأَتِي، يَا رَسُولَ اللهِ لَوْ كُنْتَ آذَنَتَنَا فَفَرَشْنَا لَكَ عَلَيْهِ شَيْئًا يَقِيكَ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَنَا وَالدُّنْيَا إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْيَا كَرَاكِبٍ اسْتَطَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا (سنن ابن ماجه کتاب الزهد باب مثل الدنيا 4109) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر نشانات تھے میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا.ہماری جان آپ کی یہی تم پر فدا ہو اگر آپ صلی علیکم اجازت دیں تو ہم اس چٹائی پر کوئی گدیلا وغیرہ بچھا دیں.جو آپ صلی علیہ کم کو اس کھردرے پن سے بچائے یہ سن کر رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا مَا أَنَا وَالدُّنْيَا مجھے دنیاوی لذتوں سے کیا غرض ؟ میں تو صرف ایک مسافر کی طرح ہوں جو کچھ دیر سستانے کی غرض سے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے.49 - عَنْ أَبِي بُرْدَةً، قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ كِسَاءٌ وَإِذَارًا غَلِيظًا، فَقَالَتْ قُبِضَ رُوحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَيْنِ (بخاری کتاب اللباس باب الاكسية و الخمائص (5818) حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موٹی کھدر کی چادر اور تہبند نکال کر دکھائی اور کہا کہ نبی صلی نیلم نے وفات کے وقت یہ کپڑے پہن رکھے تھے.
62 عن أبي بُرْدَةً، قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِقَةُ إنَارًا وَكِسَاءٌ مُلَيَّدًا، فَقَالَتْ فِي هَذَا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ فِي حَدِيثِهِ إِذَارًا غَلِيظًا، (مسلم کتاب اللباس باب التواضع فى اللباس والاقتصار على الغليظ منه و اليسير من اللباس...3866) ابو بردہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے ہمارے لئے ایک ازار اور مُلَبَّدَ چادر نکالی اور فرمایا کہ اس میں رسول اللہ صلی ایم کی وفات ہوئی تھی.دوسری روایات میں (ازارا کی بجائے) اِزَارًا غَلِيظًا (دبیز ازار) کے الفاظ ہیں.50 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِكرِ وَيُقِلُ اللَّغَوَ، وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ، وَيُقْصِرُ الْخُطَبَةَ، وَلَا يَأْنَفُ وَلَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ، وَالْمِسْكِينِ فَيَقْضِيَ لَهُمَا حَاجَتَهُمَا (سنن دارمی، المقدمة، باب فی تواضع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (75) حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ” بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تکبر نام کو بھی نہ تھا.نہ آپ صلی علیہ الم ناک چڑھاتے اور نہ اس بات سے برا مناتے اور بیچتے کہ آپ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلیں اور ان کے کام آئیں اور ان کی مدد کریں.یعنی بے سہارا عورتوں اور مسکینوں اور غریبوں کی مدد کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے.51- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ كَانَ اسْمُهُ زَاهِرًا وَكَانَ يُهْدِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةٌ مِنَ الْبَادِيَةِ، فَيُجَهِزُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتْنَا وَنَحْنُ حَاضِرُوهُ وَكَانَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّهُ وَكَانَ رَجُلًا دَمِيمًا فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ
63 يَبِيعُ مَتَاعَهُ فَاحْتَضَنَهُ مِنْ خَلْفِهِ وَهُوَ لَا يُبْصِرُهُ، فَقَالَ مَنْ هَذَا؟ أَرْسِلْنِي.فَالْتَفَتَ فَعَرَفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ لَا يَأْلُو مَا أَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِصَدْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عَرَفَهُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يَشْتَرِى هَذَا الْعَبْدَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، إِذًا وَاللهِ تَجِدُنِي كَاسِدًا، فَقَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكِن عِنْدَ اللهِ لَسْتَ باسِدٍ أَوْ قَالَ أَنتَ عِنْدَ اللهِ غَالٍ (شمائل المحمديه للترمذى باب ما جاء فى صفة مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (231) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک بادیہ نشین شخص جس کا نام زاہر تھا.وہ نبی صلی الی یکیم کے لئے صحراء سے تحفے لایا کرتا تھا جب وہ واپس جانے کا ارادہ کرتا تو نبی صلی علیہ کی اس کے لئے (کچھ) سامان تیار کرواتے.نبی صلی اللی یکم نے فرمایا زاہر ہمارا بدوی دوست ہے اور ہم اس کے شہری دوست ہیں اور رسول اللہ صلی علی نام اس سے محبت کرتے تھے ور وہ معمولی شکل و صورت آدمی تھے.ایک دن نبی صلی علی کرم اس کے پاس تشریف لے گئے جب کہ وہ اپنا سامان بیچ رہا تھا اور آپ نے پیچھے سے آکر اس کی کمر میں اپنے بازو ڈال دیئے اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکتا تھا.اُس نے کہا یہ کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو.پھر جب اس نے توجہ کی تو نبی کریم صلی یکم کو پہچان لیا.جب وہ آپ کو پہچان گیا تو اپنی پشت کو نبی صلی این کم کے سینہ مبارک پر خوب خوب چمٹانے لگا پھر نبی صلی اللہ یکم فرمانے لگے اس غلام کو کون خریدے گا؟ اُس نے کہا یارسول اللہ ! اللہ کی قسم اس طرح تو آپ مجھے بہت کم قیمت پائیں گے.اس پر رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا لیکن اللہ کے ہاں تو کم قیمت نہیں ہے یا یہ فرمایا اللہ کے نزدیک تو بیش قیمت ہے.الله سة 52ـ عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ الحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ صَفِيَّةَ - زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ فِي اعْتِكَافِهِ فِي المَسْجِدِ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَتَحَدَّثَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً، ثُمَّ قَامَتْ تَنْقَلِبُ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا يَقْلِبُهَا ، حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ بَابَ المَسْجِدِ عِنْدَ
64 بَابٍ أَمِ سَلَمَةَ، مَرَّ رَجُلانِ مِنَ الأَنْصَارِ، فَسَلَّمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّمَا هِيَ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَنٍ، فَقَالاً سُبْحَانَ اللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَبُرَ عَلَيْهِمَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَبْلُغُ مِنَ الإِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّهِ ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا (بخاری ، کتاب الاعتكاف باب هل يخرج المعتكف لحوائجه (2035) زہری سے مروی ہے کہ حضرت علی بن حسین (امام زین العابدین رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا کہ نبی صلی علیم کی زوجہ حضرت صفیہ نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کی غرض سے آپ کے پاس آئیں.آپ اُس وقت مسجد میں اعتکاف فرما تھے ، جو رمضان کے آخری عشرہ میں تھا.بی بی صفیہ نے کچھ وقت آپ کے پاس بیٹھ کر کچھ باتیں کیں.پھر جب اُٹھ کر واپس جانے لگیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کو گھر تک پہنچانے کے لئے کھڑے ہو گئے.جب حضرت صفیہ مسجد کے دروزے پر اُس جگہ پہنچیں جہاں حضرت ام سلمہ کا دروازہ ہے تو انصار میں سے دو شخص گزرے.انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو السلام علیکم کہا نبی صلی الم نے اُن دونوں سے فرمایا ذرا ٹھہر جائیں.یہ صفیہ بنت حی ہیں تو اُن دونوں نے کہا سبحان اللہ یارسول اللہ ! اور اُن دونوں پر شاق گزرا.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان میں وہاں تک پہنچتا ہے جہاں خون پہنچتا ہے اور مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی بات ڈال دے.عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَى، قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا، فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَذَفَتَهُ ، ثُمَّ قُمتُ لِأَنْقَلِبَ، فَقَامَ مَعِيَ لِيَقْلِبَنِي، وَكَانَ مَسْكُنُهَا فِي دَارِ أَسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَلَمَّا رَأيَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَنٍ فَقَالَا سُبْحَانَ اللَّهِ
65 يَارَسُولَ اللهِ ، قَالَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِى مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى اللَّهِ ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ في قُلُوبِكُمَا هَذَا أَوْ قَالَ شَيْئًا (مسلم کتاب السلام باب بیان انه يستحب لمن روى خاليا بامراة وكانت زوجته او محر ما له ان يقول هذه فلانة ليدفع ظن السوء به 4027) آنحضرت علی علیکم کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ بنت حی فرماتی ہیں نبی صلی علی نام اعتکاف میں تھے.میں رات کے وقت آپ سے ملنے آئی.آپ سے باتیں کیں.پھر واپس جانے کے لئے اٹھی.آپ بھی میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تا مجھے واپس چھوڑ آئیں اور ان کا گھر اسامہ بن زید کے محلہ میں تھا.دو انصاری شخص گذرے اور جب انہوں نے نبی صلی للہ ہم کو دیکھا تو جلدی جلدی چلنے لگے.نبی صلی للی یکم نے فرما یار کو ! یہ صفیہ بنت حی ہیں.ان دونوں نے کہا سبحان اللہ ، یار سول صلی علی کرم اللہ ! آپ نے فرما یا شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور میں ڈرا کہ وہ تم دونوں کے دل میں کچھ شر نہ ڈال دے.53 - عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَط بِيَدِهِ، وَلَا امْرَأَةٌ، وَلَا خَادِمًا ، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللهِ ، وَمَا يَيْلَ مِنْهُ شَيْءٍ قَةٌ، فَيَنْتَقِمَ مِنْ صَاحِبِهِ إِلَّا أَنْ يُنْتَهَكَ شَيْءٌ مِنْ مَحَارِمِ اللَّهِ ، فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (مسلم کتاب الفضائل باب مباعدته صلى الله علیہ وسلم للآثام و اختياره من المباح...4282) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ ہم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا.نہ کسی عورت کو ، نہ کسی خادم کو سوائے اس کے کہ آپ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں.نہ ہی کوئی تکلیف پہنچنے پر آپ نے کبھی اس کے پہنچانے والے سے کوئی انتقام لیا.ہاں مگر اللہ کی محرمات کی بے حرمتی کی جاتی تو آپ اللہ عزوجل کی خاطر انتقام لیتے.
66 54 - عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ مَا خُيْرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْن أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُن إثما، فإن كَانَ إثْمَا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ، إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (مسلم) کتاب الفضائل باب مباعدته صلی اللہ علیہ وسلم للاثام و اختياره من المباح...4280) نبی صلی اللی علم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی الی یکم کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا تو آپ نے ان دونوں میں سے آسان کو اختیار فرمایا جب تک وہ گناہ نہ ہوتا اور اگر وہ گناہ ہو تا تو آپ سب لوگوں سے زیادہ اس سے دور تھے اور رسول اللہ صلی الی یکم نے اپنی ذات کے لئے کبھی انتقام نہیں نہ لیا.ہاں مگر جب اللہ عزوجل کی حرمت کی ہتک کی جاتی.55 - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِنْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ بخاری کتاب فضل ليلة القدر باب العمل فى العشر الاواخر من رمضان (2024 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی ا تم اپنی کمر کس لیتے اور رات بھر جاگتے رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا دَخَلَ الْعَفْرُ أَحْيَا اللَّيْلَ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ، وَجَدٌ وَشَدَّ الْمِنْزَرَ (مسلم کتاب الاعتكاف باب الاجتهاد فى العشر الاواخر من شهر رمضان 1994)
67 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب (آخری) عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی المینیوم راتوں کو زندہ کرتے اور اپنے گھر والوں کو بیدار کرتے اور خوب مجاہدہ فرماتے اور کمر کس لیتے.56- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَانْطَلَقَ نَاسٌ قِبَلَ الصَّوْتِ، فَتَلَقَّاهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاجِعًا، وَقَدْ سَبَقَهُمْ إِلَى الصَّوْتِ، وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُري، فِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا قَالَ وجدناه تخرا، أو إِنَّهُ لَبَحْرُ قَالَ وَكَانَ فَرَسًا يُبقاً (مسلم کتاب الفضائل باب فى شجاعة النبى عليه سلام و تقدمه للحرب 4252 ) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کی سب لوگوں سے زیادہ حسین تھے اور سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے.سب لوگوں سے زیادہ بہادر تھے اور ایک رات اہل مدینہ نے خطرہ محسوس کیا کچھ لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللہ صلی ال لم انہیں واپس آتے ہوئے ملے.آپ آواز کی طرف ان سے پہلے چلے گئے تھے اور آپ ابو طلحہ کے گھوڑے پر بغیر زین کے سوار تھے اور آپ کے گلے میں تلوار تھی اور آپ فرمارہے تھے گھبرا نے کی کوئی بات نہیں، گھبرانے کی کوئی بات نہیں.آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ ہم نے اس (گھوڑے) کو سمندر پایا ہے یا فرمایا یہ سمندر ہے.راوی کہتے ہیں حالانکہ وہ گھوڑا بہت سست ہوا کر تا تھا.عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ المَدِينَةِ فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَقَهُمْ عَلَى فَرَسٍ، وَقَالَ وَجَدْنَاهُ بَحْرا بخاری کتاب الجهاد باب الشجاعة فى الحرب و الجبن 2820
68 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی صلی العلیم سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور سب سے بہادر اور سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے.ایک بار ایسا ہوا کہ اہل مدینہ گھبرا اٹھے تو نبی صلی یکم گھوڑے پر سوار ہو کر ان سب سے آگے گئے اور آپ نے فرمایا ہم نے اس گھوڑے کو ٹھاٹیں مارتا ہوا دریا پایا.عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ المَدِينَةِ لَيْلَةً، فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ اسْتَبْرَأَ الخَبَرَ ، وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْرٍ، وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ، وَهُوَ يَقُولُ لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرُ (بخاری کتاب الجهاد باب الحمائل وتعليق السيف بالعنق 2908) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی صلی ل لم لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے اور لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے.مدینہ والے ایک رات ایکا یک گھبراگئے اور آواز کی طرف چل پڑے تو نبی صلی ا ہم ان کو سامنے سے آتے ہوئے ملے.آپ بات کی تحقیق کر چکے تھے.آپ حضرت ابو طلحہ کے ایک گھوڑے پر سوار تھے.جس کی پیٹھ نکلی تھی.تلوار آپ کے گلے میں حمائل تھی.اور آپ کہہ رہے تھے ڈرو نہیں ڈرو نہیں.پھر آپ نے فرمایا ہم نے اس گھوڑے کو دریا پایا یا فرمایاوہ تو ایک دریا ہے.عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، قَالَ وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ المَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْي، وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدْتُهُ بُخْرًا يَعْنِي الفَرسَ (بخاری کتاب الجهاد باب اذا فزعوا بالليل (3040)
69 حضرت انس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی علیکم سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت سب لوگوں سے زیادہ سخی اور سب لوگوں سے زیادہ بہادر تھے.حضرت انس کہتے تھے ایک رات مدینہ والے یکا یک گھبرا گئے.انہوں نے کوئی آواز سنی تھی.کہتے تھے وہ باہر گئے تو نبی صلی علی کریم ان سامنے سے آتے ہوئے ملے.آپ حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے کی کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور تلوار لٹکائی ہوئی تھی.آپ نے فرمایاڈرو نہیں ڈرو نہیں.پھر رسول اللہ صلی الم نے فرمایا میں نے اس گھوڑے کو دریا پایا ہے.57 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِي، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ لَهُ فَعَطَمُوا، فَانْطَلَقَ سَرْعَانُ النَّاسِ، فَلَزِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَقَالَ حَفِظَكَ اللَّهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ (ابو داؤد کتاب الادب باب في الرجل يقول للرجل حفظك الله 5228) ( حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے.لوگ پیاس کی شدت کی وجہ سے حضور صلی الم سے آگے نکل گئے (تاکہ پانی والی جگہ پر جلد پہنچ جائیں ) اور میں رسول اللہ صلی یم کی حفاظت کی غرض سے اس رات حضور صلی یکی) کے ساتھ ساتھ رہا.اس پر حضور ملی یکم نے مجھے دعادی اور فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے جس طرح تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے.58 - عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرَسُ حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ فَأَخْرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ مِنَ القُبَّةِ، فَقَالَ لَهُمْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ انْصَرِفُوا فَقَدْ عَصَمَنِي اللَّهُ.(ترمذی کتاب ابواب تفسير القرآن باب و من سورة المائدة 3046)
70 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی غرض سے پہرہ لگا کرتا خا.یہاں تک کہ یہ آیت وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے (برے ارادوں سے ) تمہیں محفوظ رکھے گا تو رسول اللہ صلی اللہ نیلم نے اس رات خیمہ سے باہر جھانکا اور فرمایا اب تم لوگ جاسکتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود میری حفاظت کی ذمہ داری لے لی ہے.59 قَالَ عَبَّاس شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَلَزِمْتُ أَنا وَأَبُو سُفْيَانَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَلِبِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نُفَارِقْهُ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغُلَةٍ لَهُ بَيْضَاءَ أَهْدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نُفَاثَةَ الْجُذَامِيُّ، فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ وَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ، قَالَ عَبَّاسٌ وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُفُهَا إِرَادَةَ أَنْ لَا تُسْرِعَ، وَأَبُو سُفْيَانَ آخِذْ بِرِكَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَى عَبّاسُ، نَادِ أَصْحَابَ السَّمْرَةِ فَقَالَ عَبَّاسُ وَكَانَ رَجُلًا صَيْنًا، فَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي أَيْنَ أَصْحَابُ السَّبُرِةِ؟ قَالَ فَوَاهِهِ، لَكَانَ عَظَفَتَهُمْ حِينَ سَمِعُوا صَوْتِي عَظَفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا، فَقَالُوا يَا لَبَّيْكَ، يَا لَبَيْكَ، قَالَ فَاقْتَتَلُوا وَالْكُفَّار، وَالدَّعْوَةُ فِي الْأَنْصَارِ يَقُولُونَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالَ ثُمَّ قُصِرَتِ الدَّعْوَةُ عَلَى بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَقَالُوا يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغُلَتِهِ كَالْمُتَطَاوِلِ عَلَيْهَا إِلَى قِتَالِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا حِينَ حَمِيَ الوطيش قَالَ ثُم أخذ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَيَاتٍ فَرَقَى بِهِنَّ وُجُوهَ الْكُفَّارِ،
71 ثُمَّ قَالَ البَرمُوا وَرَبٍ مُحمدٍ قَالَ فَذَهَبْتُ أَنْظُرْ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَى هَيْئَتِهِ فِيمَا أَرَى، قَالَ فَوَ اللهِ، مَا هُوَ إِلَّا أَن رَمَاهُمْ بِحَصَيَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَى حَذَهُمْ كَلِيلًا، وَأَمْرَهُمْ مُديرًا (صحیح مسلم كتاب الجهاد والسير باب في غزوة حنين 3310 ) حضرت عباس بیان کرتے ہیں کہ میں حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ ظلم کے ساتھ تھا.میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبد المطلب رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ ساتھ رہے اور آپ سے علیحدہ نہ ہوئے.رسول اللہ صلی ا ہم اپنی سفید خچر پر جو آپ کو فروہ بن نفاشہ جذامی نے تحفہ دیا تھا سوار تھے جب مسلمانوں اور کفار کی مٹھ بھیڑ ہوئی تو مسلمانوں نے پیٹھ پھیر لی.رسول اللہ صلی علی کریم نے اپنی خچر کو کفار کی طرف تیزی سے برابر بڑھاتے رہے.حضرت عباس کہتے ہیں.میں رسول اللہ صلی علیم کی فیچر کی لگام پکڑے ہوئے اسے تیز چلنے سے روک رہا تھا اور ابو سفیان رسول اللہ صلی ایم کی رکاب پکڑے ہوئے تھے.رسول اللہ صلی للی یکم نے فرمایا اے عباس اصحاب سمرہ کو بلاؤ.عباس کہتے ہیں.اور وہ بلند آواز آدمی تھے.میں نے بلند آواز سے کہا اصحاب سمرہ کہاں ہیں ؟ وہ کہتے ہیں اللہ کی قسم ! جب انہوں نے میری آواز سنی تو گویا ان کا لوٹنا ایسے تھا جیسے گائے اپنے بچوں کی طرف (شفقت کی وجہ سے ) جاتی ہے.انہوں نے کہا لبیک لبیک پھر وہ کفار سے لڑے اور انصار کو یہ کہتے ہوئے بلایا! اے گر وہ انصار ! وہ کہتے ہیں پھر یہ پکار ، بنی حارث بن خزرج پر جا ٹھہری اور انہوں نے کہا اے بنی حارث بن خزرج ! اے بنی حارث بن خزرج! رسول اللہ صلی علیم نے گردن اُٹھا کر ان کی جنگ کا نظارہ کیا اور آپ اپنی خچر پر سوار تھے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا یہ تنور کے جوش زن ہونے کا وقت ہے.وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے کنکر پکڑے اور انہیں کفار کے چہروں کی طرف پھینکا.پھر فرمایا محمد صلی الیکم کے رب کی قسم ! انہوں نے شکست کھائی.(حضرت عباس ) کہتے ہیں میں دیکھنے لگا تو لڑائی ویسے ہی ہو رہی تھی جیسے میں دیکھتا تھا.وہ کہتے ہیں اللہ کی قسم جو نہی آپ نے کنکریاں پھینکیں تو میں نے دیکھا کہ ان کی تیزی ماند پڑنے لگی اور ان کا معاملہ الٹنے لگا.ا
72 60 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَ فِمَادًا، قَدِمَ مَكَّةَ وَكَانَ مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ، وَكَانَ يَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ، فَسَمِعَ سُفَهَاءَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، يَقُولُونَ إِنَّ مُحَمَّدًا مَجْنُونٌ، فَقَالَ لَوْ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا الرَّجُلَ لَعَلَّ اللهَ يَشْفِيهِ عَلَى يَدَيَّ، قَالَ فَلَقِيَهُ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ، وَإِنَّ اللَّهَ يَشْفِي عَلَى يَدِى مَنْ شَاءَ، فَهَلْ لَكَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ قَالَ فَقَالَ أَعِدُ عَلَى كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ، فَأَعَادَهُنَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ فَقَالَ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ، وَقَوْلَ السَّحَرَةِ، وَقَوْلَ الشُّعَرَاءِ، فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ، وَلَقَدْ بَلَغْنَ نَاعُوسَ الْبَحْرِ، قَالَ فَقَالَ هَاتِ يَدَكَ أَبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، قَالَ فَبَايَعَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى قَوْمِكَ، قَالَ وَعَلَى قَوْمِي، قَالَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةٌ، فَمَرُوا بِقَوْمِهِ، فَقَالَ صَاحِبُ السَّرِيَّةِ لِلْجَيْشِ هَلْ أَصَبْتُمْ مِنْ هَؤُلَاءِ شَيْئًا ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أَصَبْتُ مِنْهُمْ مِظْهَرَةٌ، فَقَالَ رُدُّوهَا ، فَإِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمُ ضِمَادٍ (مسلم کتاب الجمعة باب تخفيف الصلاة والخطبة 1427) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ضماد مکہ آیاوہ شنوءہ (قبیلہ کی شاخ) از دسے تھا وہ اس ریح (وغیرہ) کا دم کیا کر تا تھا اس نے مکہ کے بے وقوفوں کو یہ کہتے سن لیا تھا کہ محمد صلی ای کم مجنون ہے.اس نے کہا اگر میں اس شخص کو دیکھوں تو شاید اللہ اسے میرے ہاتھ پر شفاء دے دے.راوی کہتے ہیں وہ آپ سے ملا اور کہا اے محمد صلی علیکم ! میں اس قسم کی بیماری کا علاج کرتاہوں اور اللہ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھ پر شفاء دیتا ہے.کیا میں آپ کا علاج کروں؟ اس پہ رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا ، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ قرار دے اسے کوئی ہدایت دینے
73 والا نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں محمد صل اللی کم اسکے بندہ اور رسول ہیں.راوی کہتے ہیں اس نے کہا کہ آپ اپنے یہ کلمات میرے لئے دوبارہ پڑھیں.الشرسة چنانچہ رسول اللہ صلی سلیم نے اس کے سامنے تین دفعہ یہ کلمات دہرائے.راوی کہتے ہیں اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی باتیں، جادو گروں کا کلام اور شعراء کا کلام بھی سنا ہے لیکن میں نے آپ کے ان کلمات جیسے کبھی نہیں سنے.یہ (کلمات) سمندر کی گہرائی تک پہنچتے ہیں.راوی کہتے ہیں پھر اس نے کہا آپ اپنا ہاتھ لائیے میں اسلام پر آپ کی بیعت کروں گا.راوی کہتے ہیں پھر اس نے آپ کی بیعت کی.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اور اپنی قوم پر بھی ( اسلام کو مقدم کرو گے ؟) اُس نے کہا اپنی قوم پر بھی.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے ایک مہم بھیجی.وہ اس کی قوم کے پاس سے گذرے.مہم کے نگران نے اپنے لشکر سے کہا کیا تم نے ان سے کوئی چیز لی ہے؟ لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ میں نے ان سے ایک وضو کرنے کا برتن لیا ہے انہوں نے کہا اسے واپس کر دو کیونکہ یہ لوگ ضماد کی قوم ہیں.61 - أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بن عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ، مِنْ فِيهِ إِلَى فِي، قَالَ انْطَلَقْتُ في المدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّامِ، إِذْ جِيءَ بِكِتَابِ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ، قَالَ وَكَانَ دِحْيَةُ الكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ، فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمٍ بُكْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمٌ بُكْرَى إِلَى هِرَقْلَ، قَالَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَلْ هَا هُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالُوا نَعَمْ، قَالَ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأُجْلِسْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِى يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ ؟ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا، فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي، ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيُّ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِبُوهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ
74 وَايْمُ اللَّهِ، لَوْلاً أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَى الكَذِبَ لَكَذَبْتُ ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ، سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ، قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكَ ؟ قَالَ قُلْتُ لَا، قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَهمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ ؟ قُلْتُ لَا ، قَالَ أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ ، قَالَ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ؟ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخَطَةٌ لَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ لَا، قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ، قَالَ فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ ؟ قَالَ قُلْتُ تَكُونُ الحربُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَا وَنُصِيبُ مِنْهُ، قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ ؟ قَالَ قُلْتُ لَا، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هَذِهِ المَدَّةِ لَا نَدْرِى مَا هُوَ صَانِعُ فِيهَا ، قَالَ وَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ، قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا القَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ لَا، ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكَ، قُلْتُ رَجُلٌ يَطلُب مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضْعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ، فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الكَذِبَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخَطَةٌ لَهُ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ القُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ، فَتَكُونُ الحَرب بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ العَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ،
75 وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هَذَا القَوْلَ قَبْلَهُ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ قَالَ هَذَا القَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ، قُلْتُ رَجُلٌ انْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، قَالَ ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُكُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلاة والزكاة والضلة والعقاب، قال إن يك مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا، فَإِنَّهُ نَبِي، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَمْ أَكُ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَلَيَبْلُغَنَ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ، قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلامِ ، أَسْلِمُ تَسْلِمُ، وَأَسْلِمُ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِنِينَ، وَقُل يَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ إِلَى قَوْلِهِ اشْهَدُوا بِأَنَا مُسْلِمُونَ (آل عمران (64) فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الكِتَابِ، از تَفَعَتِ الأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَكَثُرَ اللَّغَطُ، وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ فَقُلْتُ لأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَى الإِسْلَامَ، قَالَ الزُّهْرِيُّ فَدَعَا هِرَقْلُ عُظَمَاءَ الرُّومِ فَجَمَعَهُمْ فِي دَارٍ لَهُ، فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ ، هَلْ لَكُمْ فِي الفَلَاحِ وَالرَّشَدِ آخِرَ الأَبَدِ، وَأَنْ يَثْبُتَ لَكُمْ مُلْكُكُمْ، قَالَ فَخَاصُوا حَيْصَةَ مُمْرِ الوَحْشِ إِلَى الأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ خُلِقَتْ، فَقَالَ عَلَى بِهِمْ، فَدَعَا بِهِمْ فَقَالَ إِنِّي إِنَّمَا اخْتَبَرْتُ شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ مِنْكُمُ الَّذِى أَحْبَبْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ (بخاری کتاب التفسير باب قل يا اهل الكتاب تعالوا الى الكلمة سواء بيننا...4553)
76 عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس مجھ سے بیان کرتے ہیں.ابوسفیان نے میرے روبرو بات کرتے ہوئے کہا میں اس میعادی صلح کے دوران میں جو میرے اور رسول اللہ صلی ال نیم کے درمیان تھی چلا گیا کہا اس اثناء میں کہ میں شام میں تھا کہ نبی صلی علی یکم کا ایک خط ہر قل کے پاس لایا گیا کہا اور دحیہ کلبی وہ خط لایا اور اس نے بصرہ کے سردار کے سپر د کیا اور بصری کے سردار نے ہر قل کو پہنچا دیا.ہر قل نے پوچھا کہ کیا اس شخص کی قوم میں سے کوئی یہاں ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں.ابوسفیان نے کہا چنانچہ قریش کے چند لوگوں سمیت مجھے بلایا گیا اور ہم ہر قل کے سامنے پیش ہوئے اور اس کے سامنے بٹھائے گئے.ہر قل نے پوچھا تم میں سے کون رشتہ دار ہیں اس شخص سے زیادہ قریب جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ؟ ابوسفیان نے کہا میں ہوں.تب انہوں نے مجھے اس کے سامنے بٹھایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھایا پھر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا اور اس سے کہا ان لوگوں سے کہو کہ میں اس سے اس شخص کے متعلق جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے پوچھنے لگاہوں اگر اس نے مجھ سے جھوٹ کہا تو تم اس کو جھٹلا دینا.ابوسفیان کہتے تھے اور اللہ کی قسم کہ اگر یہ خیال نہ ہو تا کہ میرے ساتھی میرے بر خلاف کہہ دیں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا.پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے پوچھ تم میں اس کا خاندان کیسا ہے ؟ کہتے تھے.میں نے کہا وہ ہم میں خاندانی ہے.ہر قل نے پوچھا کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے ؟ کہتے تھے.میں نے کہا نہیں.پوچھا.تو کیا پیشتر اس کے کہ وہ دعویٰ کرتا جو اس نے کیا تم اس پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے ؟ میں نے کہا نہیں.کہنے لگا کیا لوگوں میں سے بڑے بڑے اس کی پیروی کرتے ہیں یا ان میں سے کمزور ؟ میں نے کہا بلکہ ان میں سے کمزور.پوچھا کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ میں نے کہا نہیں بلکہ بڑھ رہے ہیں.اس نے پوچھا کیا ان میں سے کوئی اپنے دین سے اس میں داخل ہونے کے بعد دین سے نفرت کرنے کی وجہ سے مرتد بھی ہوتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں.اس نے پوچھا کیا تم نے اس سے جنگ بھی کی ؟ میں نے کہا ہاں.اس نے پوچھا.پھر اس سے تمہاری لڑائی کیسی رہی؟ میں نے کہا لڑائی ہمارے اور اس کے درمیان ڈول کی طرح.کبھی وہ ہم کو نقصان پہنچاتا ہے کبھی ہم اس کو پہنچاتے ہیں.اس نے پوچھا.کیا وہ عہد شکنی بھی کرتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں اور اب ہم اس کی طرف سے ایک میعادی صلح
77 میں ہیں.ہم نہیں جانتے کہ اس میں وہ کیا کچھ کرنے والا ہے اور ابو سفیان کہتے تھے.اللہ کی قسم کسی بات نے موقعہ نہیں دیا کہ اس میں اپنی طرف سے کچھ کہوں سوائے اس بات کے.اس نے پوچھا.کیا کسی نے اس سے پہلے یہ دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں.پھر اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے کہو کہ میں نے تم سے اس کے خاندان سے متعلق پوچھا تھا کہ وہ تم میں کیسا ہے ؟ تو تم نے کہا ہے کہ وہ ہم میں خاندانی ہے اور رسول بھی اس طرح اپنی قوم کے شریف خاندانوں ہی میں سے ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا.کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے ؟ تو تم نے کہا نہیں.میں نے خیال کیا اگر اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو تو میں سمجھتا کہ ایک ایسا شخص ہے جو اپنے باپ دادوں کی بادشاہت کا خواہاں ہے اور میں نے تم سے اس کے پیرؤوں کی بابت پوچھا تھا کیا وہ لوگوں میں سے کمزور ہیں یا ان میں سے بڑے بڑے لوگ ؟ تو تم نے کہا نہیں ان میں کمزور اور یہی لوگ رسول کے پیرو ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا.کیا جو اس نے دعویٰ کیا ہے اس دعویٰ کرنے سے پہلے تم اس کو جھوٹ سے متہم کرتے تھے ؟ تم نے کہا نہیں.میں اس سے سمجھ گیا کہ وہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں پر تو جھوٹ ترک کرے اور اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے اور میں نے تم سے پوچھا.کیا ان میں سے کوئی اپنے دین سے اس میں داخل ہونے کے بعد اس دین سے نفرت کرنے کی وجہ سے مرتد بھی ہوتا ہے؟ تم نے کہا نہیں اور ایمان کی یہی حالت ہوتی ہے جب وہ دلوں میں بشاشت سے سما جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا.کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ تو تم نے کہا بڑھ رہے ہیں اور ایمان کا یہی حال ہوتا ہے.یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا تھا.کیا تم نے کبھی اس سے لڑائی بھی کی ؟ تم نے کہا کہ ہم نے اس سے جنگ کی اور جنگ تمہارے اور اس کے درمیان ڈول کی طرح ہے.کبھی وہ تم کو نقصان پہنچاتا ہے اور کبھی تم اس کو نقصان پہنچاتے ہو اور رسولوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے مگر آخر انجام انہی کا ہوتا ہے اور پھر میں نے تم سے پوچھا.کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے ؟ تم نے کہا نہیں.اس طرح رسولوں کا حال ہوتا ہے کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا.کیا اس سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ؟ تم نے کہا نہیں.میں نے خیال کیا کہ اگر اس سے پہلے کوئی یہ دعویٰ کرتا تو میں سمجھتا ایک شخص ہے کہ جس نے ایسی بات کی تقلید کی ہے جو اس سے پہلے بھی کہی گئی.ابوسفیان
78 کہتے تھے.اس کے بعد اس نے پوچھا.کس بات کا تمہیں حکم دیتا ہے ؟ میں نے کہا نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے اور صلہ رحمی کرنے اور بدیوں سے بچنے کا حکم کرتا ہے.ہر قل کہنے لگا.جو کچھ تم نے اس کے بارے میں کہا ہے اگر یہ سچ ہے تو یقینا وہ نبی ہے اور میں جانتا تھا کہ وہ آنے والا ہے ، مگر میں یہ خیال نہیں کرتا تھا کہ وہ تم میں سے ہو گا اور اگر میں جانتا کہ میں اس تک اس کے پاس صحیح سالم پہنچ جاؤں گا تو میں ضرور اس کی ملاقات پسند کرتا اور اگر میں اس کے پاس ہو تا تو میں اس کے پاؤں کی میل دھوتا اور ضرور ضرور اس کی بادشاہت اس زمین تک پہنچ جائے گی جو میرے پاؤں کے نیچے ہے.ابوسفیان کہتے تھے.پھر اس نے رسول اللہ صلی علی کم کا خط منگایا اور اس کو پڑھا.تو اس میں یہ مضمون تھا.بسم اللہ الرحمن الرحیم ، محمد صلی علیم کی طرف سے جو اللہ کا رسول ہے.ہر قل کی طرف جو رومیوں کا سر دار ہے.جس نے ہدایت ( صحیح راستے) کی پیروی کی.اس پر سلامتی ہو.اما بعد میں تم کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں.اسلام قبول کر لو سلامتی میں رہو گے اور اسلام قبول کرو.اللہ تمہیں تمہارا اجر دے گا.دومر تبہ.اگر تم نے منہ پھیر لیا تو یا در کھو رعایا کا وبال بھی تم پر پڑے گا اور اے اہل کتاب تم اس بات کی طرف آؤ.جو ہمارے اور تمہارے در میان مشتر کہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں.اشہدوا بانا مسلمون تک.جب ہر قل اس خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے پاس آوازیں بلند ہوئیں اور شور بہت ہوا اور ہمارے متعلق حکم دیا گیا اور ہم نکال دیئے گئے.ابوسفیان کہتے تھے.جب ہم نکلے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ابو کبشہ کے بیٹے کی تو دھاک بندھ گئی ہے.اس سے تو اب بنو اصفر کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے.میں اس وقت سے رسول اللہ کے سلسلے کی نسبت یقین کئے رہا کہ وہ ضرور غالب ہو گا.یہاں تک کہ یہ دن آیا اللہ نے مجھے کو اسلام میں داخل کیا.زہری کہتے تھے.ہر قل نے رومیوں کے بڑے بڑے سرداروں کو بلایا.ان کو اپنے ایک محل میں جمع کیا اور کہنے لگا.رومی لوگو! کیا تمہیں کامیابی اور سیدھے راستے پر رہنے کی خواہش ہے اور یہ کہ تمہاری بادشاہت قائم رہے.یہ سن کر وہ جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے.مگر انہوں نے ان کو بند پایا.ہر قل نے کہا ان کو میرے پاس لے آؤ.ان کو بلایا اور کہنے لگا.میں نے تو صرف یہ آزمایا تھا کہ تم اپنے دین پر مضبوط بھی ہو.سو میں نے تم سے یہ بات دیکھ لی ہے جو میں چاہتا تھا.یہ سن کر انہوں نے اس کے سامنے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے.
79 62 - أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ لَمْ أَغْقِلْ أَبَوَىٰ قَط ، إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الذِينَ، وَلَمْ يَمُ عَلَيْنَا يَوْمُ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَ النَّهَارِ، بُكْرَةً وَعَشِيَّةٌ ، فَلَمَّا ابْتُلِيَ المُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا نَحْوَ أَرْضِ الحَبَشَةِ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَرُكَ الغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ القَارَةِ، فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ يا أبا بكر ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجَنِي قَوْمى فَأُرِيدُ أَن أَسِيحَ فِي الْأَرْضِ وَأَعْبُدَ رَبِّي، قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ فَإِنَّ مِثْلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرِجُ ، إِنَّكَ تَكْسِبُ المَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِ، فَأَنَا لَكَ جَارٌ ارْجِعْ وَاعْبُدُ رَبَّكَ بِبَلَدِكَ، فَرَجَعَ وَارْتَحَلَ مَعَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ، فَطَافَ ابْنُ الدَّغِنَةِ عَشِيَّةٌ فِي أَشْرَافِ قُرَيْشٍ، فَقَالَ لَهُمْ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلَا يُخْرِجُ أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يَكْسِبُ المَعْدُومَ وَيَصِلُ الرّحمَ ، وَيَحْمِلُ الكَلَّ وَيَقْرِى الضَّيْفَ، وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِ، فَلَمْ تُكَذِبُ قُرَيْقٌ بِحِوَارِ ابْنِ اللَّعْنَةِ، وَقَالُوا لِابْنِ الدَّغِنَةِ مُرُ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، فَلْيُصَلِ فِيهَا وَلْيَقْرَأُ مَا شَاءَ، وَلَا يُؤْذِينَا بِذَلِكَ وَلَا يَسْتَعْلِنَ بِهِ، فَإِنَّا نَخْشَى أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ ذَلِكَ ابْنُ الدَّعْنَةِ لِأَبِي بَكْرٍ، فَلَبِكَ أَبُو بَكْرٍ بِذَلِكَ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، وَلَا يَسْتَعْلِنُ بِصَلَاتِهِ وَلَا يَقْرَأُ فِي غَيْرِ دَارِهِ، ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَكْرٍ، فَابْتَلَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، وَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ، وَيَقْرَأُ القُرْآنَ، فَيَنْقَذِفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ المُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ ، وَهُمْ يَعْجَبُونَ مِنْهُ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَاءَ، لَا يَمْلِكُ عَيْنَيْهِ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ، وَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ المُشْرِكِينَ، فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ بِجِوَارِكَ، عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ، فَقَدْ جَاوَزَ ذَلِكَ، فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، فَأَعْلَنَ بِالصَّلَاةِ وَالقِرَاءَةِ فِيهِ، وَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَانْهَهُ، فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى
80 أَنْ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ، وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَن يُعْلِنَ بِذَلِكَ، فَسَلْهُ أَن يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَتَكَ، فَإِنَّا قدْ كَرِهْنا أَن تُخفِرَكَ، وَلَسْنَا مُعزين لأبي بكر الاستغلانَ، قَالَتْ عَائِمَةُ فَأَلَى ابْنُ الدَّعِنَةِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتَ الَّذِى عَاقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ، فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ، وَإِمَّا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى ذِمَّتِي، فَإِنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ العَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَإِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ ، وَأَرْضَى بِجَوَارِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُسْلِمِينَ إِنِّي أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ ، ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَا بَتَيْنِ وَهُمَا الحَرَّتَانِ، فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ المَدِينَةِ، وَرَجَعَ عَامَّةُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ بِأَرْضِ الحَبَشَةِ إِلَى المَدِينَةِ، وَتَجَهَزَ أَبُو بَكْرٍ قِبَلَ المَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكَ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَهَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ؟ قَالَ نَعَمْ فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَصْحَبَهُ، وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ الشَّهْرِ وَهُوَ الخَبَطُ، أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ عُرْوَةُ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَبَيْنَمَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، قَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ هَذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَقَنَعًا، فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُن يَأْتينا فيها، فقال أبو بكر فداء له أبي وألى، والله ما جاء به في هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا أَمْرُ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنَ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ.فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ، بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ فَإِنِّي قَدْ أَذِنَ لِي فِي الخُرُوجِ فَقَالَ أَبُو بَكْرِ الصَّحَابَةُ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ أَبُو بَكْرٍ فَخُذْ - بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ - إحْدَى رَاحِلَتى هَاتَيْنِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالقَمَنِ.قَالَتْ عَائِشَةُ
81 فَجَهَزْنَاهُمَا أَحَثَ الجِهَازِ، وَصَنَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ، فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قِطْعَةً مِنْ نِطَاقِهَا، فَرَبَطَتْ بِهِ عَلَى فَمِ الجَرَابِ، فَبِذَلِكَ سُمِّيَتْ ذَاتَ النِّطَاقِ قَالَتْ ثُمَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلِ ثَوْرٍ، فَكَمَنَا فِيهِ ثَلَاثَ لَيَالٍ، يَبِيتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللهِ بْن أَبِي بَكْرٍ، وَهُوَ غُلامٌ شَابٌ، ثَقِفْ لَقِنٌ، فَيُدَجُ مِنْ عِنْدِهِمَا بِسَحَرٍ، فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ، فَلا يَسْمَعُ أَمْرًا، يُكْتَادَانِ بِهِ إِلَّا وَعَاهُ، حَتَّى يَأْتِيَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِينَ يَخْتَلِطُ الظَّلامُ ، وَيَرْعَى عَلَيْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةً، مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْحَةٌ مِنْ عَلَمٍ، فَيُرِيحُهَا عَلَيْهِمَا حِينَ يَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ العِشَاءِ، فَيَبِيتَانِ فِي رِسْلٍ، وَهُوَ لَبَنُ مِنْحَتِهِمَا وَرَضِيفِهِمَا، حَتَّى يَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةً بِغَلَسٍ، يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّيَالِي القَلاتِ، وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ بْنِ عَدِي، هَادِيَا خِرِينًا، وَالخَرِيتُ المَاهِرُ بِالهِدَايَةِ، قَدْ غَمَسَ حِلْفًا فِي آلِ العَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِي، وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، فَأَمِنَاهُ فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا ، وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاثِ لَيَالٍ بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلَاثٍ، وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ، وَالدَّلِيلُ، فَأَخَذَ بِهِمْ طَرِيقَ السَّوَاحِلِ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبى و اصحابه الى المدينة 3905) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے ماں باپ کے متعلق ہوش سنبھالی ہے وہ اس دین کے پابند تھے اور ہم پر کوئی بھی دن نہ گزرتا تھا کہ جس میں ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں وقت صبح اور شام نہ آتے ہوں.جب مسلمانوں کو تکالیف کاسامناہوا.حضرت ابو بکر حبشہ کے ملک کی طرف ہجرت کی نیت سے نکلے.جب برک الغماد میں پہنچے تو انہیں ابن الدغنہ ملا اور وہ قارہ قبیلہ کا سر دار تھا.اس نے پوچھا ابو بکر کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت ابو بکر نے کہا میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کروں.ابن الدغنہ نے کہا اے ابو بکر ! تمہارے
82 جیسے بہترین شخص کو ملک سے نہیں جانا چاہیے اور نہ اسے نکالا جانا چاہیے.تم تو نادار کو کم کر دیتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، عاجز کو سہارا دیتے ہو ، مہمان نوازی کرتے ہو اور پیش آمدہ ضرورتوں میں مدد دیتے ہو.میں تمہاری پناہ ہوں گا.واپس جاؤ اور اپنے شہر میں ہی اپنے رب کی عبادت کرو.چنانچہ حضرت ابو بکر لوٹ آئے اور ابن الدفنہ نے بھی ان کے ساتھ ہی کوچ کیا.پھر ابن الدغنہ نے شام کے وقت قریش کے بڑے بڑے لوگوں میں چکر لگایا اور ان سے کہا ابو بکر جیسے بہترین شخص کو ملک سے نہیں جانا چاہیے اور نہ اس کو نکالا جانا چاہیے.کیا تم اس شخص کو نکالتے ہو جو نادار کو کما کر دیتا ہے ،صلہ رحمی کرتا ہے ، عاجز کو سہارا دیتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے اور پیش آمدہ ضرورتوں میں مدد دیتا ہے.چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ رڈ نہیں کی اور انہوں نے ابن الدغنہ سے کہا ابو بکر سے کہو کہ اپنی چار دیواری میں ہی اپنے رب کی عبادت کرے.اسی میں نماز ادا کرے اور اسی میں جو چاہے پڑھے اور ہمیں اس سے تکلیف نہ دے اور نہ اس کا اعلان کرے.کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور لڑکوں کو بہکا نہ دے.چنانچہ ابن الدغنہ نے حضرت ابو بکر سے یہ کہہ دیا اور حضرت ابو بکر بھی اس پر قائم رہے.وہ اپنی چار دیواری کے اندر ہی اپنے رب کی عبادت کرتے تھے اور اپنی نماز اعلانیہ طور پر ادا نہ کرتے تھے اور نہ ہی اپنی چار دیواری کے سوا کسی اور جگہ قرآن مجید پڑھتے.پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر کو خیال آیا اور انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنالی اور اس میں نماز ادا کیا کرتے اور قرآن پڑھا کرتے.انہیں سن کر مشرکوں کی عورتیں اور ان کے بیٹے حضرت ابو بکر کے پاس آن جمع ہوتے اور ان سے تعجب کرتے اور ان کو دیکھتے رہتے اور حضرت ابو بکر بہت رونے والے شخص تھے.جب قرآن پڑھتے تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھتے اور اس بات نے مشرکین قریش کے بڑے بڑے آدمیوں کو گھبرا دیا.انہوں نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا.چنانچہ وہ آیا تو انہوں نے کہا ہم نے تو تمہاری پناہ کی وجہ سے ابو بکر گو اس شرط پر پناہ دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں ہی اپنے رب کی عبادت کرے.مگر وہ اس سے آگے بڑھ گیا ہے اور اس نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی ہے اور اس مسجد میں نماز اور قرآن اعلامیہ پڑھنا شروع کر دیا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور ہمارے بیٹوں کو بہکا نہ دے.اس لئے تم اس کو روک دو.پس اگر وہ اس کی پابندی کرنا پسند کرے کہ اپنے گھر میں ہی رہ کر اپنے رب کی عبادت کرتا رہے تو کرے اور اگر اس کے اعلان کرنے پر ہی
83 اصرار کرے تو اسے کہو کہ وہ تمہاری ذمہ داری تمہیں واپس کر دے.کیونکہ ہمیں یہ ناپسند ہے کہ ہم تمہاری ذمہ داری کو توڑیں اور ہم تو ابو بکر کو اعلان نہیں کرنے دیں گے.حضرت عائشہ فرماتی تھیں چنانچہ ابن الدغنہ حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور کہنے لگا تمہیں علم ہی ہے کہ جس بات پر میں نے تمہاری خاطر عہد کیا تھا.پس یا تو تم اس بات کے پابند رہو اور یا میری ذمہ داری مجھے واپس کر دو.کیونکہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ عرب لوگ یہ سنیں کہ ایک شخص کے متعلق کہ جس کی خاطر میں نے عہد کیا تھا میری ذمہ داری توڑ دی گئی ہے.حضرت ابو بکر نے کہا اچھا میں تمہیں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں اور اللہ عزوجل کی پناہ پر راضی ہو تا ہوں اور نبی صلی المی ام ان دنوں مکہ میں ہی تھے.نبی صلی علیہ یکم نے مسلمانوں سے کہا تمہاری ہجرت کا مقام مجھے دکھایا گیا ہے جہاں کھجوریں ہیں اور پتھر یلے میدانوں میں واقع ہے اور وہ یہی مدینہ کے دو میدان ہیں.تو یہ سن کر جن مسلمانوں سے ہو سکا وہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اور جو حبشیوں کے ملک میں ہجرت کر گئے تھے وہ بھی اکثر آخر مدینہ کولوٹ آئے اور حضرت ابو بکر نے بھی مدینہ جانے کی تیاری کی تو نبی صلی للی کرم نے فرمایا ذرا ٹھہر جائیں.کیونکہ میں بھی امید کرتا ہوں کہ مجھے بھی اجازت دی جائے.حضرت ابو بکر نے کہا اور کیا آپ اس کی امید کرتے ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان؟ آپؐ نے فرمایا ہاں.چنانچہ حضرت ابو بکر نے رسول اللہ صلی علیکم کی خاطر اپنے آپ کو روکے رکھا تا وہ آپ کے ساتھ ہی جائیں اور دوسواری کی اونٹنیوں کو جو اُن کے پاس تھیں کیکر کے پتے چار مہینے تک چراتے رہے.ابن شہاب کہتے تھے عروہ نے کہا حضرت عائشہ فرماتی تھیں ایک دن ہم حضرت ابو بکر کے گھر ٹھیک دوپہر کے وقت بیٹھے ہوئے تھے، کسی کہنے والے نے حضرت ابو بکر سے کہا رسول اللہ صل للہ ہم اپنے سر پر کپڑا اوڑھے ہوئے آرہے ہیں.آپ ایسے وقت آئے کہ جس میں آپ ہمارے پاس نہیں آیا کرتے تھے.تو حضرت ابو بکر نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان.خدا کی قسم ! آپ جو اس وقت تشریف لائے ہیں تو ضر ور کوئی بڑا کام ہے.کہتی تھیں اتنے میں رسول اللہ کی تعمیر یکم آن ہی پہنچے اور اندر آنے کی اجازت مانگی.حضرت ابو بکر نے اجازت دی.آپ اندر آئے.نبی صلی علی یکم نے حضرت ابو بکر سے کہا جو تمہارے پاس ہیں انہیں باہر بھیج دو.حضرت ابو بکڑ نے کہا یا رسول اللہ !میرے ماں باپ آپ پر قربان.گھر میں تو صرف آپ ہی کے گھر والے ہیں ( یعنی عائشہ اور اتم رومان ان کی والدہ) تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مجھے ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی ہے.تو یاده
84 حضرت ابو بکر نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلئے.میرے ماں باپ آپ پر قربان.تو رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا ہاں ( تم بھی میرے ساتھ چلو.) پھر حضرت ابو بکر نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان تو پھر میری ان دو سواری کی اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیجئے.رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا قیمتا لوں گا.حضرت عائشہ فرماتی تھیں چنانچہ ہم نے جلدی سے دونوں کا سامان سفر تیار کر دیا اور ہم نے ان کے لئے توشہ تیار کر کے چھڑے کے تھیلہ میں ڈال دیا.حضرت ابو بکر کی بیٹی حضرت اسمان نے اپنے کمر بند سے ایک ٹکڑا کاٹ کر تھیلے رم کے منہ کو اس سے باندھا، اس لئے ان کا نام ذات النطاق ہو گیا.فرماتی تھیں پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی الی کم اور حضرت ابو بکر ثور پہاڑ کی ایک غار میں جا پہنچے اور اس میں تین راتیں چھپے رہے.حضرت عبد اللہ بن ابو بکر ان دونوں کے پاس جا کر رات ٹھہر تے اور اس وقت وہ چالاک اور ہشیار جوان تھے اور اندھیرے ہی میں ان کے پاس سے چلے آتے اور مکہ میں قریش کے ساتھ ہی صبح کرتے جیسے وہیں رات گزاری ہے.جو تدبیر بھی ان کے متعلق سنتے وہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیتے اور جب اندھیرا ہو جاتا تو غار میں پہنچ کر ان کو بتا دیتے اور حضرت ابو بکر کا غلام عامر بن فہیرہ بکریوں کے ریوڑ میں سے ایک دو دھیل بکری ان کے پاس چراتا رہتا اور جب عشاء کے وقت سے کچھ گھڑی گزر جاتی تو وہ بکری ان کے پاس لے آتا اور وہ دونوں تازہ دودھ پی کر رات گزارتے اور یہ دودھ ان دونوں کی دو د جیل بکری کا ہوتا.عامر بن فہیر و رات کے پچھلے پہر ( گلے میں چلا جاتا اور بکریوں کو آواز دینا شروع کر دیتا.تین رات تک وہ ایسا ہی کرتا رہا اور رسول اللہ صلی املی کام اور حضرت ابو بکر نے بنو دیل کے قبیلہ کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لئے اجرت پر رکھ لیا اور وہ بنو عبد بن عدی سے تھا.بہت ہی واقف کار راستہ بتانے کا ماہر تھا.خریت عربی میں اس شخص کو کہتے ہیں جو راہ دکھانے میں ماہر ہو.اس شخص نے عاص بن وائل سہمی کے خاندان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے اپنا ہاتھ ڈبویا تھا اور وہ کفار قریش ہی کے مذہب پر تھا.آنحضرت علی ای کم اور حضرت ابو بکر دونوں نے اس پر اعتبار کیا اور اپنی سواری کی اونٹنیاں اس کے سپر د کر دیں اور اس سے یہ وعدہ ٹھہرایا کہ وہ تین دن کے بعد صبح کے وقت ان کی اونٹنیاں لے کر غار ثور پر پہنچے گا.عامر بن فہیرہ اور رہبر ان دونوں کے ساتھ چلے.وہ رہبر اُن تینوں کو سمندر کے کنارے کے راستہ سے لے کر چلا.
85 قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَالِكِ المُدحِي، وَهُوَ ابْنُ أَخِي سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ سُرَاقَةَ بْن جُعْشُمٍ يَقُولُ جَاءَنَا رُسُلُ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، يَجْعَلُونَ فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، دِيَةٌ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، مَنْ قَتَلَهُ أَوْ أَسَرَهُ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ في تجليس مِنْ مَجَالِسِ قَوْمِي بَنِي مُديح، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، حَتَّى قَامَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ جُلُوسٌ فَقَالَ يَا سُرَاقَهُ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ آنفًا أَسْوِدَةً بِالسَّاحِلِ، أَرَاهَا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ، قَالَ سُرَاقَةُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ هُمْ، فَقُلْتُ لَهُ إِنَّهُمْ لَيْسُوا بِهِمْ، وَلَكِنَّكَ رَأَيْتَ فُلَانًا وَفُلَانًا، انْطَلَقُوا بِأَعْيُنِنَا، ثُمَّ لَبِثْتُ فِي المَجْلِسِ سَاعَةً، ثُمَّ قُمتُ فَدَخَلْتُ فَأَمَرْتُ جَارِيَنِي أَنْ تَخْرُجَ بِفَرَسِي، وَهِيَ مِنْ وَرَاءِ أَكَمَةٍ فَتَحْبِسَهَا عَلَى، وَأَخَذْتُ رُحِي، فَخَرَجْتُ بِهِ مِنْ ظَهْرِ البَيْتِ، فَطَطْتُ بِزُجِهِ الْأَرْضَ، وَخَفَضْتُ عَالِيَهُ، حَتَّى أَتَيْتُ فَرَسِي فَرَكِبْتُهَا، فَرَفَعْتُهَا تُقَرَّبُ بِي، حَتَّى دَنَوْتُ مِنْهُمْ، فَعَثَرَتْ بِي فَرَسِي، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، فَقُمْتُ فَأَهْوَيْتُ يَدِى إِلَى كِنَانَنِي، فَاسْتَخْرِجْتُ مِنْهَا الأَزْلاَمَ فَاسْتَقْسَمْتُ بِهَا أَضُرُهُمْ أَمْ لَا، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ، فَرَكِبْتُ فَرَسِي، وَعَصَيْتُ الأَزْلام ، تُقَرِّبُ بِي حَتَّى إِذَا سَمِعْتُ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ لَا يَلْتَفِتُ، وَأَبُو بَكْرٍ يُكْثِرُ الاِلْتِفَاتَ، سَاخَتْ يَدَا فَرَسِي فِي الْأَرْضِ، حَتَّى بَلَغَنَا الرُّكْبَتَيْنِ، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، ثُمَّ زَجَرْتُهَا فَنَهَضَتْ ، فَلَمْ تَكَرُ تُخْرِجُ يَدَيْهَا، فَلَمَّا اسْتَوَتْ قَائِمَةً إِذَا لِأَثَرِ يَدَيْهَا عُتَانٌ سَاطِعْ فِي السَّمَاءِ مِثْلُ الدُّخَانِ، فَاسْتَقَسَمْتُ بِالْأَزْلَامِ، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ، فَنَادَيْتُهُمْ بِالأَمَانِ فَوَقَفُوا، فَرَكِبْتُ فَرَسِى حَتَّى جِئْتُهُمْ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي حِينَ لَقِيتُ مَا لَقِيتُ مِنَ الحَبْسِ عَنْهُمْ، أَنْ سَيَظْهَرُ أَمْرُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ جَعَلُوا فِيكَ الذِيَةَ، وَأَخْبَرْتُهُمْ أَخْبَارَ مَا يُرِيدُ النَّاسُ بِهِمْ، وَعَرَضْتُ عَلَيْهِمُ الزَّادَ
86 والمتاع، فَلَمْ يَرْزَانِي وَلَمْ يَسْأَلاني، إلَّا أَن قَالَ أَخْفِ عَنَا.فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَكْتَبَ لِي كِتَابَ أَمْنِ فَأَمَرَ عَامِرَ بْنَ فَهَيْرَةَ فَكَتَبَ فِي رُقْعَةٍ مِنْ أَدِيمِ، ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَ الزُّبَيْرَ فِي رَكْبٍ مِنَ المُسْلِمِينَ، كَانُوا تِجَارًا قَافِلِينَ مِنَ الشَّامِ، فَكَسَا الزُّبَيْرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ ثِيَابَ بَيَاضِ، وَسَمِعَ المُسْلِمُونَ بِالْمَدِينَةِ مَخْرَجَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ، فَكَانُوا يَغُدُونَ كُلَّ غَدَاةٍ إِلَى الحَرَّةِ، فَيَنْتَظِرُونَهُ حَتَّى يَرُدَّهُمْ حَرُّ الظَّهِيرَةِ، فَانْقَلَبُوا يَوْمًا بَعْدَ مَا أَطَالُوا انْتِظَارَهُمْ، فَلَمَّا أَوَوْا إِلَى بُيُوتِهِمْ، أَوْفَى رَجُلٌ مِنْ يَهُودَ عَلَى أُطْمٍ مِنْ أَطَامِهِمْ، لأَمْرٍ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَبَصُرَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مُبَيَّضِينَ يَزُولُ بِهِمُ السَّرَابُ، فَلَمْ يَمَلِكِ اليَهُودِى أَنْ قَالَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا مَعَاشِرَ العَرَبِ، هَذَا جَدكُمُ الَّذِي تَنْتَظِرُونَ، فَقَارَ المُسْلِمُونَ إِلَى السَلاَحِ، فَتَلَقَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ الحَرَّةِ، فَعَدَلَ بِهِمْ ذَاتَ اليَمِينِ، حَتَّى نَزَلَ بِهِمْ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، وَذَلِكَ يَوْمَ الاثْنَيْنِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعِ الأَوَّلِ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ لِلنَّاسِ، وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامِنًا، فَطَفِقَ مَنْ جَاءَ مِنَ الأَنْصَارِ مَنْ لَمْ يَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَنِي أَبَا بَكْرٍ، حَتَّى أَصَابَتِ الشَّمْسُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى ظَلَّلٌ عَلَيْهِ بِرِدَائِهِ، فَعَرَفَ النَّاسُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَلَبِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، وَأُيْسَ المَسْجِدُ الَّذِي أُيْسَ عَلَى التَّقْوَى، وَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ، فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرَكَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، وَهُوَ يُصَلِّي فِيهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَكَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ، لِسُهَيْلٍ وَسَهْلٍ غُلَامَيْنِ
87 يَتِيمَيْنِ فِي حَجْرٍ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ هَذَا إِنْ شَاءَ اللهُ المَنْزِلُ ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الغُلَامَيْنِ فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ لِيَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا، فَقَالاً لَا ، بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا، وَطَفِقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ اللَّبِنَ فِي بُنْيَانِهِ وَيَقُولُ، وَهُوَ يَنْقُلُ اللَّينَ هَذَا الحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَرُ، هَذَا أَبَرُ رَبَّنَا وَأَطْهَرُ، وَيَقُولُ اللَّهُمَّ إِنَّ الأَجْرَ أَجْرُ الآخِرَةُ، فَارْحَم الأَنْصَارَ، وَالمُهَاجِرَهُ فَتَمَثَّلَ بِشِعْرِ رَجُلٍ مِنَ المُسْلِمِينَ لَمْ يُسَمَّ لِي قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَلَمْ يَبْلُغُنَا فِي الأَحَادِيثِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمَثَّلَ بِبَيْتِ شِعْرٍ تَاةٍ غَيْرَ هَذَا البَيْتِ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبى و اصحابه الى المدينة 3906) ابن شہاب کہتے تھے کہ عبد الرحمن بن مالک مدلجی نے جو کہ سراقہ بن مالک بن جعشم کے بھتیجے تھے ، بتایا کہ ان کے باپ نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے سراقہ بن جعشم سے سنا.کہتے تھے کہ ہمارے پاس کفار قریش کے ایلچی آئے جو رسول اللہ صلی علی یکم اور حضرت ابوبکر ان دونوں میں سے ہر ایک کی دیت مقرر کرنے لگے ، اس شخص کیلئے جو اُن کو قتل کرے یا قید کرے.اسی اثنا میں کہ میں اپنی قوم بنو مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک شخص سامنے سے آیا اور آکر ہمارے پاس کھڑا ہو گیا اور ہم بیٹھے تھے، کہنے لگا اے سراقہ ! میں نے ابھی سمندر کے کنارے کی طرف کچھ آدمی دیکھے ہیں.میں سمجھتا ہوں وہی محمد اور اس کے ساتھی ہیں.سراقہ کہتے تھے کہ میں نے شناخت کر لیا کہ وہی ہیں مگر میں نے اسے کہا وہ ہرگز نہیں ہیں، بلکہ تم نے فلاں فلاں کو دیکھا ہے جو ہمارے سامنے گئے تھے.پھر میں اس مجلس میں کچھ دیر ٹھہرا رہا.اس کے بعد اُٹھا اور گھر گیا اور اپنی لونڈی سے کہا میری گھوڑی نکالو، وہ ٹیلہ کے پرے ہی رہے ، وہاں اس کو میرے لئے تھامے رکھو.چنانچہ میں نے اپنا نیزہ لیا اور اس کو لے کر گھر کے پیچھے کی طرف سے نکلا.میں نے نیزے کے بھال کو زمین پر رکھا اور اس کے اوپر کے حصہ کو نیچے جھکایا اور اسی طرح اپنی گھوڑی کے پاس پہنچا اور اس پر سوار ہو گیا.میں نے اس کو چمکایا.وہ سرپٹ دوڑتی ہوئی مجھے لے
88 گئی.یہاں تک کہ جب ان کے قریب پہنچا تو میری گھوڑی نے ایسی ٹھوکر کھائی کہ میں اس سے گر پڑا.میں اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ترکش کی طرف ہاتھ جھکا کر میں نے اس سے تیر نکالے اور ان سے فال لی کہ آیا ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں.پس وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا.( یعنی فال میرے خلاف نکلی ) میں پھر اپنی گھوڑی پر سوار ہو گیا اور پانسے کے خلاف عمل کیا.گھوڑی سرپٹ دوڑتے ہوئے مجھے لئے جا رہی تھی اور اتنا نزدیک ہوگیا کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کو قرآن پڑھتے سن لیا.آپ ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے اور حضرت ابو بکر کثرت سے مڑ مڑ کر دیکھتے تھے.میری گھوڑی کی اگلی ٹانگیں زمین میں گھٹنوں تک دھنس گئیں اور میں اس سے گر پڑا پھر میں نے گھوڑی کو ڈانٹا اور اٹھ کھڑا ہوا اور وہ اپنی ٹانگیں زمین سے نکال نہ سکتی تھی.آخر جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی تو اس کی دونوں ٹانگوں سے گر د اُٹھ کر فضا میں دھوئیں کی طرح پھیل گئی.اب میں نے دوبارہ تیروں سے فال لی تو وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا.تب میں نے انہیں آواز دی کہ تم امن میں ہو.وہ ٹھہر گئے.میں اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا.ان تک پہنچنے میں جو روکیں مجھے پیش آئیں ان کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ضرور رسول اللہ صلی علیکم کا ہی بول بالا ہو گا.میں نے آنحضرت صلی للی کمر سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق دیت مقرر کی ہے اور میں نے ان کو وہ سب چیزیں بتائیں جو کچھ کہ لوگ ان سے کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور میں نے ان کے سامنے زاد اور سامان پیش کیا مگر انہوں نے مجھ سے نہ لیا اور نہ مجھ سے کوئی فرمائش کی سوائے اس کے کہ آنحضرت صلی الی یکم نے یہ کہا کہ ہمارے سفر کے متعلق حال پوشیدہ رکھنا.میں نے آنحضرت صلی علی کم سے درخواست کی کہ آپ میرے لئے امن کی ایک تحریر لکھ دیں.آپ نے عامر بن فہیرہ سے فرمایا اور اس نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ دیا.اس کے بعد رسول اللہ صلی علیکم روانہ ہو گئے.ابن شہاب کہتے تھے عروہ بن زبیر نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (راستہ میں) حضرت زبیر سے ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلہ کے ساتھ شام سے تجارت کر کے واپس آرہے تھے.حضرت زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر کو سفید کپڑے پہنائے اور مدینہ میں مسلمانوں نے سن لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل پڑے ہیں اس لئے وہ ہر صبح حرہ میدان تک جایا کرتے اور وہاں آپ کا انتظار کرتے رہتے.یہاں تک کہ دو پہر کی گرمی انہیں لوٹا دیتی.ایک دن ان کا بہت دیر جو انتظار کرنے کے بعد
89 لوٹے اور اپنے گھروں پر جب پہنچے تو ایک یہودی شخص اپنے ایک محل پر کچھ دیکھنے کے لئے چڑھا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھ لیا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے.سراب ان سے آہستہ آہستہ ہٹ رہا تھا.یہودی سے رہا نہ گیا اور بے اختیار بلند آواز سے بول اُٹھا اے عرب کے لوگو! یہ تمہارا وہ سر دار ہے جس کا تم انتظار کر رہے ہو.یہ سنتے ہی مسلمان اٹھ کر اپنے ہتھیاروں کی طرف لیکے اور حرہ کے میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا.آپ انہیں ساتھ لئے ہوئے داہنی طرف مڑے اور بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں ان کے ساتھ اترے اور یہ دو شنبہ (سوموار ) کا دن تھا اور ربیع الاول کا مہینہ.حضرت ابو بکر لوگوں سے ملنے کے لئے کھڑے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے اور انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا آئے اور حضرت ابو بکر کو سلام کرنے لگے.یہاں تک کہ دھوپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑنے لگی.حضرت ابو بکر آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سامیہ کیا.اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنوعمرو بن عوف کے محلہ میں دس سے کچھ اوپر راتیں ٹھہرے اور وہ مسجد بنائی گئی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی اور اس میں رسول اللہ صلی علیم نے نماز پڑھی.پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگ آپ کے ساتھ پیدل چلنے لگے اور وہ اونٹنی مدینہ میں وہاں جا کر بیٹھی جہاں اب مسجد نبوی ہے.ان دنوں وہاں چند مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے اور وہ سہیل اور سہل کے کھجوریں سکھانے کی جگہ تھی جو دو یتیم بچے حضرت سعد بن زرارہ کی پرورش میں تھے.جب آپ کی اونٹنی نے آپ کو وہاں بٹھا دیا تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو یہیں ہماری قیام گاہ ہو گی.پھر رسول اللہ صلی الی یکم نے ان دولڑکوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کی قیمت دریافت کی تا اسے مسجد بنائیں تو ان دونوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ ! ہم آپ کو یہ زمین مفت دیتے ہیں.رسول اللہ صلی علیکم نے ان سے یہ زمین مفت لینے سے الله انکار کیا اور اسے ان سے خریدا اور پھر وہاں مسجد بنائی اور رسول اللہ صلی للی کم اس مسجد کے بنانے کے لئے لوگوں کے ساتھ اینٹیں ڈھونے لگے اور جب اینٹیں ڈھو رہے تھے تو ساتھ ساتھ کہتے جاتے 66 یہ بوجھ خیبر کے بوجھ جیسا نہیں بلکہ اے ہمارے رب ! یہ بہت بھلا اور پاکیزہ ہے “
90 نیز فرماتے تھے ”اے اللہ ! اصل ثواب تو آخرت کا ثواب ہے اس لئے تو ان انصار اور مہاجرین پر رحم فرما آنحضرت صلی اللہ تم نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کے شعر پڑھے.اس کا نام مجھے نہیں بتلایا گیا.ابن شہاب نے کہا اور نہ ہی ہمیں دوسری احادیث سے یہ معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے ان اشعار کے کبھی کوئی مکمل شعر کسی کا پڑھا ہو.63 - سَمِعْتُ البَراء بن عَازِبٍ، يَقُولُ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِلَى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ، فَاشْتَرَى مِنْهُ رَجُلًا، فَقَالَ لِعَازِبِ ابْعَثِ ابْنَكَ يَحْمِلُهُ مَعِي، قَالَ فَحَمَلْتُهُ مَعَهُ، وَخَرَجَ أَبِي يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ، فَقَالَ لَهُ أَبِي يَا أَبَا بَكْرٍ، حَدِثُنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا حِينَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ نَعَمْ، أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا وَمِنَ الغَدِ، حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ لَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ، فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةُ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، فَنَزَلْنَا عِنْدَهُ، وَسَوَّيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانًا بِيَدِى يَنَامُ عَلَيْهِ، وَبَسَطْتُ فِيهِ فَرُوَةٌ، وَقُلْتُ لَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوَلَكَ، فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ، يُرِيدُ مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي أَرَدْنَا، فَقُلْتُ لَهُ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ، فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ المَدِينَةِ، أَوْ مَكَّةَ، قُلْتُ أَفِي غَنَمِكَ لَبَنْ ؟ قَالَ نَعَمْ، قُلْتُ أَفَتَحْلُبْ، قَالَ نَعَمْ، فَأَخَذَ شَاةً، فَقُلْتُ انْفُضِ الشَّرْعَ مِنَ التُّرَابِ وَالشَّعَرِ وَالقَذَى قَالَ فَرَأَيْتُ البَرَاءَ يَضْرِبُ إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى يَنْفُضُ، فَحَلَبَ فِي قَعْبِ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، وَمَعِي إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَوِى مِنْهَا، يَشْرَبُ وَيَتَوَضَّأُ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ، فَوَافَقْتُهُ حِينَ اسْتَيْقَظ، فَصَبَبْتُ مِنَ المَاءِ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، فَقُلْتُ اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ، ثُمَّ قَالَ أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيل قلتُ بَلّ، قَالَ فَار تحلنا بَعْدَمَا مَالتِ الشَّمْسُ
91 وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ ، فَقُلْتُ أُتِينَا يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَظمَتْ بِهِ فَرَسُهُ إِلَى بَظيها - أرى في جَلدٍ مِن الأَرْضِ شَكَ زُهَيْرُ فَقَالَ إِنِّي أَرَاكُما قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَى، فَادْعُوا لي فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا القَلبَ، فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَجَا فَجَعَلَ لَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا قَالَ قَدْ كَفَيْتُكُمْ مَا هُنَا، فَلاً يلقَى أَحَدًا إِلَّا رَذْهُ، قَالَ وَوَفَى لَنَا (بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام (3615) حضرت براء بن عازب کہتے تھے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے باپ کے پاس ان کے مکان میں آئے اور اس سے ایک پالان خریدی.انہوں نے حضرت عازب سے کہا اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ میرے ساتھ یہ اُٹھا کر لے جائے.حضرت برا کہتے تھے چنانچہ میں ان کے ساتھ پالان اُٹھا کر لے گیا اور میرے باپ اس کی قیمت پر کھوانے کے لئے نکلے تو میرے باپ نے ان سے کہا ابو بکر؟! وہ واقعہ تو مجھے بتائیں کہ جب آپ نے رسول اللہ صلی این نیم کے ساتھ سفر کیا تھا تو آپ دونوں نے کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں ہم رات بھر چلتے رہے اور دوسرے دن بھی اس وقت تک کہ جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا اور راستہ بالکل خالی ہو گیا.کوئی بھی اس پر نہیں گذر تا تھا اور ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی جس کا سایہ تھا.وہاں دھوپ نہیں آئی تھی.ہم اس کے پہلو میں اُترے اور میں نے نبی صلی الیکم کے لئے جگہ اپنے ہاتھ سے درست کی تا آپ وہاں سوئیں اور میں نے اس جگہ پر پوستین بچھا دی اور کہا یارسول اللہ ! سو جائیں اور میں آپ کے ارد گر دسب طرف نگاہ رکھوں گا (یعنی پہرہ دوں گا.آپ سو گئے اور میں آپ کے ارد گرد نگاہ ڈالنے کی نیت سے نکلا.میں نے اچانک کیا دیکھا کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لئے اسی چٹان کی طرف سامنے سے آرہا ہے.وہ بھی اس چٹان کے سایہ میں اسی طرح ٹھہر نا چاہتا تھا جس طرح ہم نے چاہا.میں نے پوچھا لڑ کے تم کس کے ہو ؟ اس نے کہا مدینہ والوں میں سے ایک شخص کا ، یا کہا ) مکہ کے ایک شخص کا.میں نے پوچھا کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے ؟ اس نے کہاہاں.میں نے کہا پھر کیا تم دودھ دو ہو گے ؟ اس نے کہا ہاں.اس نے ایک بکری لی.میں نے کہا تھن کو مٹی، بال ، کیچڑ وغیرہ سے صاف کر دو.
92 ابو اسحاق کہتے تھے میں نے حضرت بر اٹھ کو دیکھا کہ وہ اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر جھاڑتے تھے.اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ دوہا.میرے پاس چھاگل تھی (سفر میں) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُٹھالایا تھا تا آپ اس سے سیر ہو کر پانی پئیں اور وضو کریں.میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے پسند نہ کیا کہ آپ کو جگاؤں.میں آپ کے پاس اس وقت آیا جب آپ خو د جاگے.میں نے کچھ پانی دودھ پر ڈالا.یہاں تک کہ وہ نیچے تک ٹھنڈ ا ہو گیا.میں نے کہا یارسول اللہ! پیجئے.(حضرت ابو بکر کہتے تھے) آپ نے اتنا پیا کہ میں خوش ہو گیا.پھر آپ نے فرمایا کیا ابھی کوچ کا وقت نہیں آیا؟ میں نے کہا ہاں آگیا ہے.کہتے تھے جب سورج ڈھل چکا تو ہم وہاں سے روانہ ہو گئے اور سراقہ بن مالک ہمارا تعاقب کر رہا تھا.میں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمیں دشمن نے پا لیا ہے.آپ نے فرمایا غم نہ کریں.اللہ ہمارے ساتھ ہے.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی تو اس کا گھوڑا اس کے سمیت اپنے پیٹ تک سخت زمین میں دھنس گیا.زہیر نے شک کیا کہ آیا سخت کا لفظ کہا تھا یا نہیں.سراقہ کہنے لگا میں سمجھتا ہوں کہ آپ دونوں نے مجھ پر بد دعا کی ہے.اس لئے میرے لئے اب دعا کریں.اللہ کے نام کا یہ وعدہ آپ سے کرتا ہوں کہ میں تعاقب کرنے والوں کو تم سے واپس کر دوں گا.چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دعا کی اور اس نے چھٹکارا پایا تو وہ جس کسی سے بھی ملتا یہی کہتا میں تمہاری جگہ دیکھ آیا ہوں.چنانچہ وہ جس کسی کو بھی ملتا، اسے واپس کر دیتا.کہتے تھے اور اس نے ہم سے وفاداری کی.64 - عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيْتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَةٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَبِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي وَاللهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي، وَاللهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوا فِيهَا (مسلم کتاب الفضائل باب اثبات حوض نبينا الله و صفاته 4234)
93 حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم ایک دن باہر تشریف لے گئے اور اُحد ( میں شہید ہونے) والوں کی نماز جنازہ پڑھی.پھر آپ منبر کی طرف واپس تشریف لائے اور فرمایا میں تمہارے لئے پیش رو ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں خدا کی قسم میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا) زمین کی کنجیاں.اور اللہ کی قسم مجھے تمہارے بارہ میں یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد شرک کروگے لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ ڈر ضرور ہے کہ تم ان کے لئے آپس میں مقابلہ کرنے لگو گے.عَنْ عُقْبَةَ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا ، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أَحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى المَيْتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَطُ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِى الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِى، وَلَكِنِي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا (صحیح بخاری کتاب المغازی باب احد يحبنا و...4085) حضرت عقبہ بن عامر ) سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر آئے اور اُحد والوں کی نماز جنازہ اسی طرح پڑھی جس طرح کہ میت کی پڑھا کرتے تھے، پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارا پیش روہوں اور میں تمہارے لئے گواہی دوں گا اور میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہاہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا) زمین کی چابیاں اور ( فرمایا ) اللہ کی قسم ! تمہارے متعلق مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں تم دنیا میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حرص نہ کرنے لگو.
94 عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى المَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ إِنِّي فَرَطُ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِى الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ـ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ـ وَإِنِّي وَاللهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِى، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الصلوة على الشهيد (1344) حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے اور آپ نے اُحد والوں کے لئے اسی طرح دعا کی جس طرح میت کے لئے کیا کرتے تھے.پھر آپ منبر کی طرف مڑ گئے اور فرمایا دیکھو میں تمہارا پیش خیمہ ہوں اور میں تمہارے لئے گواہ ہوں اور میں اللہ کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں یا فرمایاز مین کی چابیاں دی گئی ہیں اور مجھے بخدا تمہارے متعلق خوف نہیں کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے ، بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا میں لگ جاؤ گے.65 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ فَلَمَّا كَانَ اليَوْمُ الَّذِى دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ اليَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، وَلَمَّا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَيْدِى وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا.رسنن ترمذی کتاب المناقب باب فى ما جاء فضل النبى الام 3618) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دن مدینہ تشریف لائے تھے.آپ صلی یک کم کی آمد کی وجہ سے اس دن مدینہ کا گوشہ گوشہ روشن ہو گیا تھا اور جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے مدینہ کی ہر جگہ تاریک ہو گئی.اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ ہم کو دفن کیا اور ابھی ہمارے ہاتھوں سے مٹی بھی صاف نہیں ہوئی تھی اور ہم ابھی آپ کی تدفین میں ہی مشغول تھے کہ ہمارے دل بدلنے لگے.
95 عن أَنَس قَالَ لَمَّا كَانَ اليَوْمُ الَّذِى دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ ، فَلَمَّا كَانَ اليَوْمُ الَّذِى مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ ، وَمَا نَفَضْنَا أَيْدِيَنَا مِنَ التُّرَابِ وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا (شمائل ترمذی باب ما جاء فى وفات رسول الله لا 375) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ہم جس دن مدینہ تشریف لائے اُس دن مدینہ کی ہر چیز روشن ہو گئی اور جس دن آپ فوت ہوئے.مدینہ کی ہر چیز تاریک ہو گئی اور ہم نے اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑی نہیں تھی، ہم ابھی آپ صلی الی یکم کی تدفین میں مصروف تھے کہ ہم نے اپنے دلوں کو مختلف حال میں پایا.66 - عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا سَيْدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ وَلَا فَخَرَ، وَبِيَدِى لِوَاءُ الحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِي يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُ عَنْهُ الأَرْضُ وَلَا فَخَرَ، قَالَ فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلَاثَ فَزَعَاتٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ ، فَيَقُولُونَ أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أَهْبِطْتُ مِنْهُ إِلَى الأَرْضِ وَلَكِن انتُوا نُوحًا، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُ إِنِّي دَعَوْتُ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ دَعْوَةً فَأَهْلِكُوا وَلَكِن اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ إِنِّي كَذَبْتُ قلَاتَ كَذِبَات ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْهَا كَذِبَةٌ إِلَّا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ الله.ولكن التُوا مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا، وَلَكِن انتوا عِيسَى، فَيَأْتُون عِيسَى، فَيَقُولُ إِنِّي عُبِدَتُ مِنْ دُونِ اللَّهِ، وَلَكِنْ انْتُوا مُحَمَّدًا ، قَالَ فَيَأْتُونَنِي فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ - قَالَ ابْنُ جَدْعَانَ قَالَ أَنَسٌ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ فَأَخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأَتَعْقِعُهَا فَيُقَالُ مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ مُحَمَّدٌ دين
96 فَيَفْتَحُونَ لِي، وَيُرَحْبُونَ فَيَقُولُونَ مَرْحَبًا، فَأَخِرُ سَاجِدًا، فَيُلْهِمُنِي اللَّهُ مِنَ الثَّنَاءِ وَالْحَمْدِ، فَيُقَالُ لِي ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْط ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِكَ، وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللهُ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا (سنن ترمذی کتاب التفسير باب و من سورة بنى اسرائيل 3148) حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا " قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی فخر نہیں ہے ، میرے ہاتھ میں حمد وشکر) کا پرچم ہو گا اور مجھے (اس اعزاز پر) کوئی فخر نہیں ہے.اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے ، میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں ہے ، آپ نے فرمایا "(قیامت میں) لوگوں پر تین مرتبہ سخت گھبراہٹ طاری ہو گی، لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے آپ ہمارے باپ ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت کیجئے، وہ کہیں گے مجھ سے ایک گناہ سر زد ہو چکا ہے جس کی وجہ سے میں زمین پر بھیج دیا گیا تھا، تم نوح کے پاس جاؤ، وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے ، مگر نوح (علیہ السلام) کہیں گے میں زمین والوں کے خلاف بد دعا کر چکا ہوں جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کیے جاچکے ہیں، لیکن تم ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ، وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، ابراہیم (علیہ السلام) کہیں گے میں تین جھوٹ بول چکا ہوں ، آپ نے فرمایا " ان میں سے کوئی جھوٹ جھوٹ نہیں تھا، بلکہ اس سے اللہ کے دین کی حمایت و تائید مقصود تھی، البتہ تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ، تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے ، موسیٰ (علیہ السلام) کہیں گے میں ایک قتل کر چکا ہوں، لیکن تم عیسی (علیہ السلام) کے پاس چلے الله سة جاؤ.تو وہ عیسی (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے ، وہ کہیں گے اللہ کے سوا مجھے معبود بنالیا گیا تھا، تم محمد (صلی انی) کے پاس جاؤ، آپ نے فرمایا "لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤں گا"، ابن جدعان (راوی) کہتے ہیں انس نے کہا مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں رسول اللہ (صلی علی یم) کو دیکھ رہاہوں، آپ نے فرمایا "میں جنت کے دروازے کا حلقہ (زنجیر ) پکڑ کر اسے ہلاؤں گا، پوچھا جائے گا کون ہے ؟ کہا جائے گا محمد ہیں، وہ لوگ میرے لیے
97 دروازہ کھول دیں گے ، اور مجھے خوش آمدید کہیں گے ، میں سجدے میں گر جاؤں گا اور حمد و ثنا کے جو الفاظ اور کلمے اللہ میرے دل میں ڈالے گاوہ میں سجدے میں ادا کروں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا اپنا سر اٹھائیے، مانگئے (جو کچھ مانگنا ہو ) آپ کو دیا جائے گا.سفارش کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، کہئے آپ کی بات سنی جائے گی.اور وہ جگہ مقام محمود ہو گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال أَي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الدَّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَى مِنْهَا نَبْسةً، ثُمَّ قَالَ أَنَا سَيْدُ النَّاسِ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَهَلْ تَدْرُونَ همَّ ذَلِكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِى وَيَنْفُذُهُمُ البَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الغَةِ وَالكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ وَلَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ أَلا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ ، أَلا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبَّكُمْ ؟ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ عَلَيْكُمْ بِآدَمَ ، فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَيَقُولُونَ لَهُ أَنْتَ أَبُو البَشَرِ، خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ المَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبَّكَ، أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، أَلاَ تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَيَقُولُ آدَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ اليَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ، إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ اليَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ
98 يا إبْرَاهِيمُ أَنتَ نَبِيُّ اللهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبَّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ لَهُمْ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ اليَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلاثَ كَذِبَاتٍ - فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الحَدِيثِ - نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى فَيَأْتُونَ، مُوسَى فَيَقُولُونَ يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلامِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ اليَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا ، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي المَهْدِ صَبِيًّا ، اشْفَعْ لَنَا أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ فَيَقُولُ عِيسَى إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ اليَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَط ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللهِ وَخَاتَمُ الأَنْبِيَاءِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبَّكَ أَلا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، فَأَنْطَلِقُ فَأْتِي تَحْتَ العَرْشِ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللهُ عَلَى مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ القَنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا، لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارفع رأسك سل تُعْطَهُ، وَاشْفَعْ تُشَفَعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي يَارَب، فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلُ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ البَابِ الأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الأَبْوَابِ، ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ المِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الجَنَّةِ، كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى (بخاری کتاب التفسير سورة انبى اسرائيل ، ذرية من حملنا مع نوح انه كان عبد شكورا (4712)
99 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی علیم کے پاس گوشت لا یا گیا اور اس میں سے دستی کا گوشت اٹھا کر آپ کے سامنے پیش کیا گیا اور آپ کو یہ بہت پسند تھا آپ نے اس میں سے دانتوں سے تھوڑا سا لیا پھر فرمایا میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا ، کیا تم جانتے ہو کس لیے ؟ پہلے اور پچھلے لوگ ایک ہی میدان میں اکٹھے کئے جائیں گے.پکارنے والا ان سب کو سنائے گا اور آنکھ ان کو دیکھے گی اور سورج نزدیک آجائے گا اور لوگوں کو اس قدر ہم و غم ہو گا جس کی وہ طاقت نہیں رکھیں گے اور نہ اسے برداشت کر سکیں گے.لوگ آپس میں کہیں گے کہ کیا دیکھتے نہیں کہ تمہارا کیا حال ہو چکا ہے کیا اب بھی تم ایسے شخص کو نہیں ڈھونڈو گے جو تمہارے رب کے پاس تمہارے لیے سفارش کرے، تب بعض لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ چلو آدم سے مدد لیں.فرمایا چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ آدم ہیں ابو البشر ہیں.اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کی خاطر سجدہ کیا.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حالت میں ہیں، ہماری نوبت کہاں تک پہنچ گئی ہے.آدم کہیں گے میر ارب آج بہت بڑے جلال میں ہے کہ اس سے قبل اتنے جلال میں نہیں ہوا اور اس کے بعد ایسے جلال کا اظہار کرے گا.اور اس نے مجھے درخت سے روکا تھا اور میں نے اس کی نافرمانی کی ، مجھے تو اپنی جان کی پڑی ہے ، اپنی ہی فکر ہے اپنی ہی فکر ہے ، میرے سوا تم کسی اور کے پاس جاؤ.نوح کی طرف جاؤ.پھر لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے.وہ کہیں گے اے نوح آپ پہلے رسول ہیں جو زمین والوں کی طرف بھیجے گئے اور اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ قرار دیا ہے.اپنے رب سے ہمارے لیے سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ وہ کہیں گے کہ میر ارب عزو جل آج بہت بڑے غضب میں ہے ، ایسا غضب ناک نہ وہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ ایسا غضب ناک ہو گا.اور مجھ سے ایک دعا ہو گئی تھی جو میں نے اپنی قوم کے ہی خلاف کی تھی، مجھے تو اپنی جان کی پڑی ہے.مجھے اپنی ہی فکر ہے اپنی ہی فکر ہے..میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ تم ابراہیم کے پاس جاؤ.وہ حضرت ابراہیم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے ابراہیم آپ اللہ کے نبی ہیں اور ساری زمین والوں میں سے اس کے دوست ہیں آپ اپنے رب سے ہمارے لیے سفارش کریں کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں ؟ ا
100 وہ کہیں گے کہ میر ارب عزو جل آج بہت بڑے غضب میں ہے ، ایسا غضب ناک نہ وہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ ایسا غضب ناک ہو گا.میں نے تو تین باتیں خلاف واقعہ کہی تھیں.ابو حیان نے حدیث میں ان ( خلاف واقعہ باتوں کا ذکر کیا ہے.مجھے اپنی ہی فکر ہے ، اپنی ہی فکر ہے.میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ تم موسیٰ کے پاس جاؤ وہ حضرت موسیٰ علیہ سلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ آپ اللہ کے رسول ہیں.اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام سے لوگوں پر فضیلت دی ہے اپنے رب سے ہمارے لیے سفارش کریں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ وہ کہیں گے کہ میرا رب عزو جل آج بہت بڑے غضب میں ہے ، ایسا غضب ناک نہ وہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ ایسا غضب ناک ہو گا.اور میں نے ایک جان کو مار ڈالا تھا جس کے مارنے کا حکم مجھے نہیں تھا مجھے تو اپنی فکر ہے اپنی ہی فکر ہے.میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ.تم عیسی بن مریم کے پاس جاؤ.وہ حضرت عیسی کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسی آپ اللہ کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جو مریم کو اللہ نے القا کیا اور اس کی روح ہیں.آپ نے گہوارے میں لوگوں سے باتیں کیں ، ہماری سفارش کریں.کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں ؟ حضرت عیسی' کہیں گے میر ارب عزو جل آج بہت بڑے غضب میں ہے ، ایسا غضب ناک نہ وہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ ایسا غضب ناک ہو گا.انہوں نے اپنے کسی گناہ کا ذکر تو نہیں کیا(مگر کہیں گے ) مجھے تو اپنی فکر ہے ، اپنی ہی فکر ہے ، اپنی ہی فکر ہے.میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ تم محمد علی لی نام کے پاس جاؤ.اور وہ حضرت محمد صلی یکیم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کی مہر ہیں اور اللہ نے آپ کو پہلے بھی گناہوں سے محفوظ رکھا اور بعد میں بھی ، اپنے رب سے ہماری سفارش کریں.کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں تو میں ( یہ سن کر ) جاؤں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا اور اللہ مجھے اپنی خوبیاں بیان کرنے کی توفیق دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو ویسی توفیق نہ دی ہو گی.پھر کہا جائے گا اے محمد صل الیکم! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری سنی جائے گی ،مانگو تمہیں دیا جائے گا، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی.پھر میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا اے میرے رب میری امت، اے میرے رب میری امت، اے میرے رب میری امت.کہا جائے گا محمد ! اپنی امت ہی سے جن
101 لوگوں کے ذمہ کوئی حساب نہیں جنت کے دروازوں میں سے دائیں جانب کے دروازے سے جنت میں لے جاؤ اور اس کے سوا جو دوسرے دروازے ہیں ان میں بھی وہ لوگوں میں شریک ہو سکتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (جنت کا دروازہ اتنا فراخ ہو گا کہ) اس کے دو کواڑوں میں فاصلہ اتنا ہے جتنا مکہ اور حمیر کے درمیان ہے یا فرمایا جتنا فاصلہ مکہ اور بصرہ کے درمیان ہے.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَهْتَمُونَ لِذَلِكَ - وَقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ فَيُلْهَمُونَ لِذَلِكَ - فَيَقُولُونَ لَوْ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبَّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا ، قَالَ فَيَأْتُونَ آدَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُونَ أَنْتَ آدَمُ ، أَبُو الْخَلْقِ، خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ ، قَالَ فَيَأْتُونَ نُوحًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي اتَّخَذَهُ اللَّهُ خَلِيلًا، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ، قَالَ فَيَأْتُونَ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا عِيسَى رُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى رُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَقُولُ لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَلَكِنِ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عبدا قد غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
102 فَيَأْتُونِي فَأَسْتَأْذِنَ عَلَى رَني فَيُؤذن لي ، فَإِذَا أَنَا رَأَيْتُهُ وَقَعَتْ سَاجِدًا، فَيَدَعْنِي مَا شَاءَ اللهُ فَيُقَالُ يا محمد ارفع رأسك، قُلْ تُسْمَعْ، سَلْ تُغطة، اشْفَعْ تُشَفَعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ رَبِّي، ثُمَّ أَشْفَعْ فَيَحُدُّ لي حَدًّا فَأَخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأَدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَقَعُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ ارْفَعْ رأسك يَا مُحَمَّدُ، قُلْ تُسمع، سَلْ تُغطة، اشْفَعْ تُشَفَعْ، فَأَرْفَعُ رأسي، فأحمد ربي يتخوين يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعْ فَيَحُتُ لي حَتَّا، فَأُخْرِجَهُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ - قَالَ فَلَا أَدْرِى فِي القَالِقَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ - قَالَ فَأَقُولُ يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ، أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ.قَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ فِي رِوَايَتِهِ قَالَ قَتَادَةُ أَن وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ (مسلم کتاب الايمان باب ادنى من اهل الجنة منزلة فيها (276) الله حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور لوگ اس وجہ سے فکر مند ہوں گے.ابن عبید کہتے ہیں اس لئے ان کے دلوں میں ڈالا جائے گا تو وہ کہیں گے کیوں نہ ہم اپنے رب کے پاس کسی کی شفاعت لے کر جائیں تا کہ وہ ہمیں اس جگہ سے نجات دلائے.فرمایا چنانچہ وہ آدم علی ایم کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ آدم ہیں ابو البشر ہیں.اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کی خاطر سجدہ کیا آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کریں کہ وہ ہمیں اس جگہ سے نجات دے.آدم کہیں گے میں تو اس مقام پر نہیں ہوں اور اپنی غلطی کا ذکر کریں گے جو ان سے سرزد ہوئی تھی اور جس کی وجہ سے اپنے رب سے شرمائیں گے اور (کہیں گے) نوح کی طرف جاؤ جو پہلے رسول تھے جنہیں خدا نے مبعوث فرمایا پھر لوگ نوح ملی ایم کے پاس جائیں گے.وہ کہیں گے میں تو اس مقام پر نہیں ہوں اور اپنی غلطی کا ذکر کریں گے جو اُن سے ہوئی اور وہ اس وجہ سے اپنے رب سے شرمائیں گے اور ( کہیں گے ) ابراہیم علی علیم کے پاس جاؤ جن کو خدا نے گہر ا دوست بنایا تھا.اس پر لوگ ابراہیم علی عالم کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے میں اس مقام پر نہیں ہوں اور اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے اور جو
103 پر الله سة ان سے ہوئی تھی اور اس وجہ سے اپنے رب سے شرمائیں گے (اور کہیں گے ) موسی علی ایم کے پاس جاؤ جن سے خدا نے خوب کلام کیا اور انہیں تو رات دی.فرمایا تو لوگ موسی صلی للی نیم کے پاس جائیں گے مگر وہ کہیں گے میں اس مقام پر نہیں ہوں.وہ اپنی غلطی کا ذکر کریں گے جو ان سے ہوئی تھی اور اس کی وجہ سے اپنے رب کے پاس جانے) سے شرمائیں گے ( اور کہیں گے ) عیسی کے پاس جاؤ جو روح اللہ اور اس کا کلمہ ہے.چنانچہ وہ عیسی کے پاس جو روح اللہ اور اس کا کلمہ ہے جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ میں اس مقام پر نہیں ہوں لیکن تم محمد علی یام کے پاس جاؤ.وہ ایسے عہد ہیں جنہیں خدا نے اگلے پچھلے گناہوں سے منزہ کیا ہوا ہے.راوی کہتے ہیں رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تب وہ میرے پاس آئیں گے.میں اپنے رب کے پاس آنے کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی.جب میں اس کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر جاؤں گا.اللہ مجھے (اس حالت میں ) رہنے دے گاجب تک وہ چاہے گا پھر کہا جائے گا اسے محمد علی ییم ! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری سنی جائے گی ، مانگو تمہیں دیا جائے گا، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی.پھر میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد کروں گاجو میر ارب مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا اور میرے لئے وہ ایک حد مقرر کر دے گا.میں ان کو جہنم سے نکال لوں گا پھر میں دوبارہ واپس آؤں گا اور سجدہ میں گروں گا اور جب تک اللہ چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا پھر کہا جائے گا اے محمد صلی اللہ ! اپنا سر اٹھاؤ، کہو تمہاری سنی جائے گی مانگو تمہیں دیا جائے گا شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی.تب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا.پھر میں شفاعت کروں گا وہ میرے لئے حد مقرر کر دے گا.میں ان کو جہنم سے نکال لوں گا اور جنت میں داخل کر دوں گا.راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ آپ صلی علی کرم نے فرمایا میں کہوں گا اے میرے رب اب جہنم میں صرف وہ رہ گئے ہیں جن کو قرآن نے روک رکھا ہے یعنی جن پر لمبا عرصہ رہنا واجب ہے.سة 67 - حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُرِضَتْ عَلَى الْأُهُمُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ الرُّهَيْدُ ، وَالنَّبِي وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِيَّ لَيْسَ
104 مَعَهُ أَحَدٌ، إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي، فَقِيلَ لِي هَذَا مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَوْمُهُ، وَلَكِن انظُرْ إِلَى الْأُفُقِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي انْظُرْ إِلَى الْأُفُقِ الْآخَرِ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي هَذِهِ أُمَّتُكَ وَمَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ ثُمَّ نَهَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَخَاضَ النَّاسُ فِي أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ صَحِبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الْإِسْلامِ وَلَمْ يُشْرِكُوا بِاللهِ، وَذَكَرُوا أَشْيَاءَ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ مَا الَّذِي تَخُوضُونَ فِيهِ؟ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ هُمُ الَّذِينَ لَا يَرْقُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ أَنْتَ مِنْهُمْ، ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ سَبَقَكَ بِهَا عُكَاشَةُ (مسلم کتاب الايمان باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب (315) حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے فرمایا کہ میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں.پس میں نے کسی نبی کے ساتھ کوئی ایک چھوٹی سی جماعت دیکھی.کسی نبی کے ساتھ ایک یا دو آدمیوں کو دیکھا اور کسی نبی کے ساتھ کوئی شخص بھی نہیں تھا.پھر میرے سامنے ایک بہت بڑی جماعت لائی گئی تو میں نے سمجھا کہ وہ میری امت ہے.مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ صلی اللہ یوم اور ان کی قوم ہے لیکن اُفق کی طرف دیکھو، تو میں نے دیکھا تو میں کیا دیکھتا ہوں ایک بہت بڑی جماعت ہے.پھر مجھ سے کہا گیا کہ دوسرے افق کی طرف دیکھو، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت ہی بڑی جماعت ہے.پھر مجھ سے کہا گیا کہ یہ تیری امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو جنت میں بغیر حساب و عذاب کے داخل ہوں گے.پھر آپ اُٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئے.لوگ ان لوگوں کے بارہ میں قیاس آرائیاں کرنے لگے جو جنت میں بغیر حساب و عذاب داخل ہوں گے.ان میں سے بعض (لوگوں) نے کہا شاید یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی علم کی صحبت پائی اور ان میں سے بعض نے کہا شاید
105 یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا.انہوں نے کچھ اور باتوں کا بھی تذکرہ کیا.تو رسول اللہ صلی علیکم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تم کن باتوں میں لگے ہوئے ہو ؟ انہوں نے آپ کو بتایا.آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں نہ کرواتے ہیں نہ بر اشگون لیتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں اس پر عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور عرض کیا اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے.اس پر آپ نے فرمایا تم ان میں سے ہو.پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ اللہ کے حضور دعا کیجئے کہ وہ مجھے ان میں سے بنادے.اس پر آپ نے فرمایا اس میں عکاشہ تم پر سبقت لے گیا ہے.عَنْ حُصَيْنٍ، قَالَ كُنْتُ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، فَقَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُرِضَتْ عَلَى الأَهمُ ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ الأُمَّةُ، وَالنَّبِيُّ يَمُرُ مَعَهُ النَّفَرُ، وَالنَّبِيُّ يَمُرُ مَعَهُ العَشَرَةُ، وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ مَعَهُ الخَمْسَةُ، وَالنَّبِيُّ يَمُرُّ وَحْدَهُ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ كَثِيرُ، قُلْتُ يَا جِبْرِيلُ، هَؤُلاءِ أُمَّتِي ؟ قَالَ لَا، وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْأُفُقِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ كَثِيرٌ، قَالَ هَؤُلاءِ أُمَّتُكَ، وَهَؤُلاَءِ سَبْعُونَ أَلْفًا قُدَّامَهُمْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ، قُلْتُ وَلِمَ ؟ قَالَ كَانُوا لَا يَكْتَرُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ فَقَامَ إِلَيْهِ عُكَاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ قَالَ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ ، قَالَ سَبَقَكَ بِهَا عُكَاشَةُ (بخاری کتاب الرقاق باب يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب 6541) م الله حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا کہ میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں، چنانچہ نبی گزرنے لگے کسی کے ساتھ ایک امت تھی، کسی کے ساتھ ایک گروہ تھا اور کسی کے ساتھ دس اور کسی کے ساتھ پانچ آدمی اور کوئی تنہا جارہے تھے پھر میں نے نظر اٹھائی، تو ایک بڑی جماعت پر نظر پڑی تو میں نے کہا، اے جبرائیل یہ میری امت ہے! جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا نہیں، افق کی طرف دیکھئے میں نے دیکھا، ایک بڑی
106 جماعت نظر آئی، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ آپ کی امت ہے اور یہ ان کے آگے جو ستر ہزار ہیں ان کا نہ حساب ہو گا اور نہ ان پر عذاب ہو گا.میں نے پوچھا کیوں! جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا، کہ وہ لوگ داغ نہیں لگواتے تھے اور نہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں اور نہ شگون لیتے تھے اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے، بن محصن" آپ کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کیا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے ان لوگوں میں بنادے آپ نے فرمایا اے اللہ اس کو ان لوگوں میں بنادے، پھر ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھ کو بھی ان لوگوں میں بنا دے، آپ نے فرمایا کہ عکاشہ ، تم سے بازی لے گیا.عکاشہ بن 68 - حَدَّثَنِي رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، قَالَ قَدِمَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَهُمْ يَأْبُرُونَ النَّخْلَ، يَقُولُونَ يُلْقِحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ مَا تَصْنَعُونَ؟ قَالُوا كُنَّا نَصْنَعُهُ، قَالَ لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا فَتَرَكُوهُ، فَنَفَضَتْ أَوْ فَنَقَصَتْ، قَالَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيِ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٍ قَالَ عِكْرِمَةُ أَوْ نَحْوَ هَذَا قَالَ الْمَعْقِرِئُ فَنَفَضَتْ وَلَمْ يَشُكَ (مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قاله شر عا دون ما...4343) حضرت رافع بن خدیج ” بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے اور لوگ کھجور کی pollination کر رہے تھے.جس کے لئے یلَقْحُونَ النَّخْل کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.حضور صلی اللہ ہم نے فرمایا یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم اسی طرح کیا کرتے ہیں.حضور صلی الم نے فرمایا شاید اگر تم ایسانہ کرو تو الله سة بہتر ہو.چنانچہ انہوں نے اسے ترک کر دیا.پھر پھل جھڑ گیا یا کم ہوا.راوی کہتے ہیں پھر لوگوں نے حضور صلی للی کم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا میں صرف ایک بشر ہوں.جب میں تمہارے دین کے متعلق کوئی حکم دوں تو اسے لے لو اور جب میں تمہیں اپنی رائے سے کچھ کہوں تو میں محض ایک بشر ہوں.
107 عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَوْمٍ عَلَى رُءُوسِ النَّخْلِ، فَقَالَ مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ فَقَالُوا يُلْقِحُونَهُ، يَجْعَلُونَ الذَّكَرَ فِي الْأُنْقَى فَيَلْقَحُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَظُنُّ يُغْنِي ذَلِكَ شَيْئًا قَالَ فَأُخْبِرُوا بِذَلِكَ فَتَرَكُوهُ، فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ فَقَالَ إِنْ كَانَ يَنْفَعُهُمْ ذَلِكَ فَلْيَصْنَعُوهُ، فَإِنِّي إِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنَّا فَلَا تُؤَاخِذُونِي بِالظَّنِ، وَلَكِنْ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ شَيْئًا، فَخُذُوا بِهِ، فَإِنِّي لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قاله شر عا دون ما...4342) الله حضرت موسیٰ بن طلحہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی ایم کے ہمراہ بعض لوگوں کے پاس سے گزرا جو کھجور کے درختوں پر چڑھے ہوئے تھے.حضور صلی نمی کنم نے فرمایا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ وہ اس کی (pollination) زر پاشی کر رہے ہیں اس کے نر کے زرگل کو مادہ میں ڈالتے ہیں تو وہ بار آور ہو جاتا ہے.رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا میر اخیال نہیں کہ یہ کچھ فائدہ دیتا ہے.راوی کہتے ہیں کہ پھر اس بارہ میں لوگوں کو بتایا گیا تو انہوں نے اُسے چھوڑ دیا.رسول اللہ صلی علی کم کو اس بارہ میں جب بتایا گیا تو آپ نے فرمایا اگر یہ عمل انہیں فائدہ دیتا تھا تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اسے کرتے رہتے.میں نے تو ایک گمان کیا تھا پس اس گمان پر مجھے پکڑ نہ بیٹھو ، ہاں اگر میں تمہیں اللہ کی طرف سے کچھ بتاؤں تو اسے قبول کرو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی طرف سے کوئی غلط بات تو نہیں کہہ سکتا.
108 اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت 69 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، وَالْجِنَّ وَالْإِنْسُ يَمُوتُونَ مسلم کتاب الذكر والدعاء باب التعوذ من شر ما عمل و من شر مالم يعمل 4880) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ ہم کہا کرتے تھے اے اللہ ! میں تیری فرمانبر داری اختیار کرتا ہوں اور میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں.اور میں تجھ پر توکل کرتا ہوں.اور میں تیری طرف جھکتا ہوں.تیری مدد سے ہی میں مقابلہ کرتا ہوں.اے اللہ ! میں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں.تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے.کہ وہ مجھے گمراہ قرار دے.تو ہی زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی جبکہ جن وانس مر جائیں گے.70 ـ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَالعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي، وَمِنَ المَاءِ البَارِدِ قَالَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ دَاوُدَ يُحَدِّثُ عَنْهُ قَالَ كَانَ أَعْبَدَ البَشَرِ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فى عقد التسبيح باليد (3490) حضرت ابو دردا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے " اے اللہ میں تجھ سے تیری اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے.اور ہر وہ عمل جو مجھے تیری محبت تک پہنچائے.اے اللہ میرے لئے اپنی محبت کو میری جان ومال ، اہل وعیال اور ٹھنڈے پانی
109 سے بھی زیاد عزیز کر دے“.راوی کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علیکم حضرت داؤد کا ذکر کرتے تو فرماتے کہ وہ بندوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے.71 عن أنس عنِ النّبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَلاتٌ مَنْ كُنْ فِيهِ وَجَدَ حَلاوَةَ الإيمَانِ أَنْ يَكُونَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبُّ المَوْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَة أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ (بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الايمان 16) حضرت انس نے نبی صلی اللہ یکم سے روایت کی.آپ نے فرمایا تین باتیں جس میں ہوں وہ ایمان کا مزا پالیتا ہے.یہ کہ اللہ اور اس کا رسول تمام دوسری چیزوں سے بڑھ کر اس کو پیارے ہوں اور یہ کہ جس انسان سے بھی محبت کرے صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے محبت کرے اور یہ کہ کفر میں لوٹنا ایسا ہی برا سمجھے جس طرح وہ آگ میں پھینکے جانے کو برا سمجھتا ہے.72 عن أنيس بنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى السَّاعَةُ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ مَا أَعْدَدْتَ لَهَا قَالَ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِيرٍ صَلَاةٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنِي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ (بخاری کتاب الادب باب علامت الحب فى الله عز وجل 6171) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک بدوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یارسول اللہ ! قیامت کب ہو گی ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اس کے لئے تیاری کیا کی ہے ؟ بدوی نے جواب دیا میں نے نماز روزہ اور صدقے کے ذریعہ تو قیامت کے لئے کوئی زیادہ تیاری نہیں کی البتہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی الیکم کے ساتھ محبت رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا تجھے اس کا ساتھ نصیب ہو گا جس سے تجھے محبت ہے.
110 73 - عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ قَالَ بَيْنَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ وَكَانَ فِيهِ مِزَاحٌ بَيْنَا يُضْحِكُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَاصِرَتِهِ بِعُودٍ فَقَالَ أَصْبِرْنِي فَقَالَ اصْطَبِرْ قَالَ إِنَّ عَلَيْكَ قَمِيصًا وَلَيْسَ عَلَى قَمِيضُ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَمِيصِهِ، فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَتِلُ كَشْحَهُ، قَالَ إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ابو داؤد کتاب الادب باب في قبلة الجسد (5224) حضرت اسید بن حضیر انصاری کے بارہ میں روایت ہے کہ ایک دن لوگوں میں بیٹھے ہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے.آپ کی طبیعت میں مزاح پایا جاتا تھا.کہ نبی صلی علیکم نے ان کے پہلو میں اپنی چھڑی چھوٹی.اس پر وہ کہنے لگے میں نے تو بدلہ لینا ہے آپ نے فرمایا اچھا آؤ اور بدلہ لے لو.اس پر وہ کہنے لگے آپ نے تو قمیض پہنی ہوئی ہے اور میں تو شنگے بدن ہوں اس پر نبی صلی الہ ہم نے بدلہ دینے کے لئے اپنی قمیض کو اوپر اٹھایا.یہ دیکھ کر حضرت اسید بن حضیر آپ صلی الیہ کمی سے لپٹ گئے اور جسد مبارک کے بوسے پر بوسے لینے لگے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ ! میرا تو یہ مقصد تھا ( میں نے تو یہ برکت حاصل کرنے کے لئے دل میں یہ تدبیر سوچی تھی).عَن أُسَيدِ بن حُضَيرٍ - رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ - قَالَ بَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ - وَكَانَ فِيهِ مِزَاحٌ - بَيْنَا يُضْحِكُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَاصِرَتِهِ بِعُودٍ فَقَالَ أَصْبِرْنِي.قَالَ أَصْطَبِرٍ.قَالَ إِنَّ عَلَيْكَ قَمِيصًا وَلَيْسَ عَلَى قَمِيضٌ فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَمِيصِهِ فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِلُ كَشْحَهُ قَالَ إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُولَ الله.(مشكاة كتاب الادب باب المصافحة ـة و المعانقة ، الفصل الثاني 4685) حضرت اسید بن حضیر انصاری کے بارہ میں روایت ہے کہ ایک دن لوگوں میں بیٹھے ہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے.آپ کی طبیعت میں مزاح پایا جاتا تھا.کہ نبی صلی علیکم نے ان کے پہلو میں اپنی چھڑی چھوئی.اس پر وہ کہنے لگے میں نے تو بدلہ لینا ہے آپ نے فرمایا اچھا آو اور بدلہ لے لو.اس پر وہ کہنے لگے آپ نے تو قمیض پہنی ہوئی ہے اور میں تو
111 نگے بدن ہوں اس پر نبی صلی علیم نے بدلہ دینے کے لئے اپنی قمیض کو اوپر اٹھایا.یہ دیکھ کر اسید بن حضیر آپ صلی ایام سے لپٹ گئے اور جسد مبارک کے بوسے پر بوسے لینے لگے اور کہنے لگے کہ یار سول اللہ امیر اتو یہ مقصد تھا.74 - عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي قُرَادٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ يَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَتَمَسَّحُونَ بِوَضُوئِهِ فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَذَا؟ قَالُوا حِبُّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ.فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَن يحب الله وَرَسُوله أو يحبه اللهُ وَرَسُولُهُ فَلْيَصْدُقُ حَدِيقَهُ إِذَا حَذَتَ وَلْيُؤذِ أَمَانَكَهُ إِذَا أَو من وَلِيُحْسِنَ جَوَارٌ مَنْ جَاوَرَهُ (مشكاة كتاب الادب باب الشفقة و الرحمة على الخلق ، الفصل الثالث 4990) حضرت عبد الرحمن بی ابی قراد بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ال یکم ایک روز وضو کر رہے تھے کہ آپ صلی ایلم کے صحابہ وضو والا پانی اپنے ہاتھوں اور چہروں پر ملنے لگے.یہ دیکھ کر نبی صلی علی کرم نے فرمایا ایسا تم کس سبب سے کر رہے ہو ؟ صحابہ کرام نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول صلی الیکم کی محبت کی وجہ سے.اس پر نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم اللہ اور اس کے رسول صلی لی نام سے واقعی محبت کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول صلی علیہ کی بھی تم سے محبت کرے تو اس کے لئے تمہیں یہ کرنا چاہئے کہ ہمیشہ سچ بولو، جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں کبھی خیانت نہ کرو اور اپنے پڑوسی سے ہمیشہ حسن سلوک کرو.عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي قُرَادٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ يَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَتَمَشَحُونَ بِوَضُوئِهِ، فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَملُكُمْ عَلَى هَذَا ؟ قَالُوا حُبُّ اللهِ وَرَسُولِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحِبَّ اللهَ وَرَسُولَهُ، أَوْ يُحِبَّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَلْيَصْدُقُ حَدِيقَهُ إِذَا حَدَّثَ، وَلْيُوَذِ أَمَانَتَهُ إِذَا انْتُمِنَ، وَلْيُحْسِنُ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَهُ الله و (شعب الایمان ، الخامس عشر من شعب الايمان و هو باب تعظیم النبي الله في اجلاله و توقیره 1533 )
112 حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز وضو کر رہے تھے کہ آپ صلی نیلم کے صحابہ وضو والا پانی اپنے ہاتھوں اور چہروں پر ملنے لگے.یہ دیکھ کر نبی ملا لی ہم نے فرمایا ایسا تم کسی کے سبب سے کر رہے ہو ؟ صحابہ کرام نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول صلی میں کمی کی محبت کی وجہ سے.اس پر نبی صلی علیم نے فرمایا اگر تم اللہ اور اس کے رسول صلی علیم سے واقعی محبت کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول صلی ا ہم بھی تم سے محبت کرے تو اس کے لئے تمہیں یہ کرنا چاہئے کہ جب بات کرے تو سچ بولے، جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں کبھی خیانت نہ کرو اور اپنے پڑوسی سے ہمیشہ حسن سلوک کرو.ذکر الہی اور دعا کی اہمیت 75 - سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَفضَلُ الذكر لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ الحَمْدُ لِلَّهِ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء ان دعوة المسلم مستجابة 3383) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علی کیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بہترین ذکر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) ہے اور بہترین دعا الحمد للہ (سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) ہے.76.عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَي وَالمَيْتِ بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذكر الله عز وجل (6407)
113 حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذکر الہی کرنے والے اور ذکر الہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے ( یعنی جو ذکر الہی کرتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے).عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مَثَلُ الْبَيْتِ الَّذِي يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ، وَالْبَيْتِ الَّذِي لَا يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ، مَثَلُ الْحَقِّ وَالْمَيْتِ (مسلم کتاب الصلاة المسافرين باب استحباب صلاة النافلة فى بيته و جوازها في المسجد 1291) حضرت ابو موسی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی لی ہم نے فرمایا کہ اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے اور اس گھر کی جس میں اللہ کا ذکر نہ کیا جائے زندہ اور مردہ کی مثال ہے.77 - عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَأَيُّهَا النَّاسُ، ارْتَعُوا فِي رِيَاضِ الْجَنَّةِ، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ مَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ مَجَالِسُ الذِّكْرِ قَالَ اغْدُوا وَرُوحُوا وَاذْكُرُوا مَنْ كَانَ يحبُّ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَتَهُ عِنْدَ اللَّهِ فَلْيَنْظُرْ كَيْفَ مَنْزِلَةٌ الله عندَهُ فَإِنَّ الله سبحانه يُنزِلُ الْعَبْدَ مِنْهُ حَيْثُ أَنْزَلَهُ مِنْ نَفْسِهِ رسالہ قشیریه باب الذكر ، صفحه 257) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے لوگو! جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو ہم نے عرض کیا.یارسول اللہ ! جنت کے باغ سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی الم نے فرمایا ذکر کی مجالس.آپ صلی للی کرم نے فرمایا کہ صبح اور شام کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے اس قدر و منزلت کا علم ہو جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی ہے تو وہ یہ دیکھے کہ
114 اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا کیا مقام ومرتبہ ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ایسی ہی قدر کرتا ہے جیسی اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہے.78 - عَن أبي هريرة، عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِنَّ لِلهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَلَائِكَةٌ سَيَّارَةً، فَضْلًا يَتَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِكرِ، فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرِ قَعَدُوا مَعَهُمْ، وَحَفَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ، حَتَّى يَمَلُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَاءِ، قَالَ فَيَسْأَلُهُمُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ، وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ؟ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِي الْأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَذِرُونَكَ وَيُبَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ، قَالَ وَمَاذَا يَسْأَلُونِي؟ قَالُوا يَسْأَلُونَكَ جَنَّتَكَ، قَالَ وَهَلْ رَأَوْا جَنَّتِي ؟ قَالُوا لَا، أَى رَبِ قَالَ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا جَنَّتِي ؟ قَالُوا وَيَسْتَجِيرُونَكَ، قَالَ وَهِمَّ يَسْتَجِيرُونَنِي؟ قَالُوا مِنْ نَارِكَ يَا رَبِّ، قَالَ وَهَلْ رَأَوْا نَارِى؟ قَالُوا لَا، قَالَ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا نَارِى؟ قَالُوا وَيَسْتَغْفِرُونَكَ، قَالَ فَيَقُولُ قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ فَأَعْطَيْتُهُمْ مَا سَأَلُوا، وَأَجَرْتُهُمْ يما اسْتَجَارُوا، قَالَ فَيَقُولُونَ رَبّ فِيهِمْ فُلَانٌ عَبْدٌ خَظَاءُ، إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ، قَالَ فَيَقُولُ وَلَهُ غَفَرْتُ هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ (مسلم کتاب الذكر والدعا باب فضل مجالس الذكر 4840 ) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فضیلت رکھنے والے فرشتے چکر لگاتے رہنے والے ہیں جو ذکر کی مجالس تلاش کرتے رہتے ہیں.جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں ( اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے انہیں گھیر لیتے ہیں یہانتک کہ جو کچھ ان کے اور ورلے آسمان کے درمیان ہے اس کو بھر دیتے ہیں.پھر جب لوگ منتشر ہو جاتے ہیں تو وہ (فرشتے) بھی اوپر چڑھتے اور آسمان تک جا پہنچتے ہیں.حضور علی ایم نے فرمایا پھر اللہ عزوجل ان سے سوال کرتا ہے.
115 حالانکہ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے.تم کہاں سے آئے ہو ؟ تب وہ کہتے ہیں ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین میں ہیں وہ تیری تسبیح اور تیری بڑائی بیان کر رہے تھے.تیری تہلیل (لا الہ الا اللہ کا ورد کرنا) اور تیری حمد بیان کر رہے تھے اور تجھ سے مانگ رہے تھے.اللہ فرماتا ہے وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے ؟ وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں وہ تجھ سے تیری جنت مانگ رہے تھے.وہ (اللہ) فرماتا ہے کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے ؟ وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں نہیں اے میرے رب! اللہ فرماتا ہے کیا حال ہو اگر وہ میری جنت دیکھ لیں.وہ عرض کرتے ہیں وہ تجھ سے تیری پناہ چاہتے ہیں.وہ ( اللہ ) فرماتا ہے وہ کس چیز سے پناہ چاہتے ہیں.وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں یارب ! تیری آگ سے.اللہ فرماتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے ؟ وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں نہیں.وہ ( اللہ ) فرماتا ہے کیا حال ہو اگر وہ میری آگ دیکھ لیں.تب وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں وہ تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں.حضور فرماتے ہیں پھر اللہ فرماتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور جو انہوں نے مانگا میں نے انہیں عطا کیا اور جس چیز سے انہوں نے پناہ طلب کی میں نے انہیں پناہ دی.حضور صلی ا یکم فرماتے ہیں اس پر وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں یارب! ان میں فلاں سخت خطا کار شخص بھی تھا جو وہاں سے گذرا تو ان کے پاس بیٹھ گیا.آپ نے فرمایاوہ ( اللہ ) فرمائے گا میں نے اسے بھی بخش دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں ان کی بدولت ان کے پاس بیٹھنے والا بے نصیب نہیں رہتا.79 - عَن ابْن عَبَّاسٍ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ أَى جُلَسَائِنَا خَيْرٌ قَالَ مَنْ ذَكَّرِ كُمُ اللهَ رُؤْيَتُهُ وَزَاد فِي عِلْيكُم مَنْطِقُه وذَكِّركُمْ بِالآخِرَة عَمَلُهُ (الترغيب والترهيب للمنذري ، الجزء 1 كتاب العلم ، التَّرْغِيب في مجالسة العلماء (163) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! کس کے پاس بیٹھنا بہتر ہے آپ صلی میں کم نے فرمایا ایسے شخص کے پاس بیٹھنا مفید ہے جس کو دیکھنے کی وجہ سے تمہیں خدا یاد آجائے.جس کی باتوں سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کو دیکھ کر تمہیں آخرت کا خیال آئے.
116 80 عَنْ أَبِي ذَرْعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهى عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِهُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنَ الضُّحَى (مسلم کتاب صلاة المسافرين باب استحباب صلاة الضحى و ان اقلها ركعتان (1173) حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ نبی صلی الم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر ہر صبح صدقہ ہے.پس ہر تسبیح صدقہ ہے اور ہر تحمید صدقہ ہے اور ہر تہلیل صدقہ ہے اور ہر تکبیر صدقہ ہے.نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور ناپسندیدہ بات سے روکنا صدقہ ہے اور جو چاشت کی دور کعت پڑھ لے وہ ان سے کفایت کر جائیں گی.81ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُ تبارك وتعالى أَنَا عِنْدَ ظَنِ عَبْدِى بِي وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ اقْتَرَبَ إِلَى شِبْرًا اقْتَرَبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَإِنْ اقْتَرَبَ إِلَى ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةٌ (ترمذی کتاب الدعوات باب فى حسن الظن بالله عز وجل (3603) حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں.جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہو تا ہوں.اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا.اور اگر وہ میر اذکر محفل میں کرے گا تو میں اس بندے کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا.اگر وہ میری جانب ایک بالشت بھر آئے گا تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا.اگر میری طرف وہ ایک ہاتھ آئے گا تو میں اس کی طرف دوہاتھ جاؤں گا.اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا.
117 82 عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِي، قَالَ أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَقَبَةٍ - أَوْ قَالَ فِي ثَنِيَّةٍ - قَالَ فَلَمَّا عَلا عَلَيْهَا رَجُلٌ نَادَى، فَرَفَعَ صَوْتَهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ، قَالَ فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا مُوسَى - أَوْ يَا عَبْدَ اللهِ - أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزِ الْجَنَّةِ قُلْتُ بَلَى، قَالَ لَا حَوْلَ ولا قوة إلا بالله (بخاری کتاب الدعوات باب قول لا حول ولا قوة الا بالله 6409) - حضرت ابو موسیٰ اشعری نے بیان کیا کہ نبی صلی یہ کم ایک گھاٹی میں گئے یا کہا پہاڑ کے موڑ میں.(راوی نے) کہا جب اس کی بلندی پر پہنچے تو ایک آدمی نے پکارا اور اس نے اپنی آواز کو بلند کیا.لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أكبر اور رسول اللہ صلی ا لم اس وقت اپنی خچر پر سوار تھے.آپ نے فرمایا تم کسی بہرے کو نہیں پکار رہے ہو اور نہ کسی غیر حاضر کو.پھر فرمایا اے ابو موسیٰ کیا میں تمہیں ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کا خزانہ ہے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ضرور جتلائیں ؟ آپ نے فرمایا لا حَوْلَ وَلا قُوَةً إِلَّا بِاللهِ ( بدیوں سے بچنے کی طاقت نہیں اور نیکیوں کے کرنے کی قدرت نہیں مگر اللہ ہی کی مدد سے).83ـ عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ خُبَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ خَرَجْنَا فِي لَيْلَةِ مَطَرٍ، وَظُلْمَةٍ شَدِيدَةٍ، نَطْلُبُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّي لَنَا، فَأَدْرَكْنَاهُ، فَقَالَ قُلْ، فَلَمْ أَقُل شَيْئًا ، ثُمَّ قَالَ قُلْ، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا ، ثُمَّ قَالَ قُلْ فَقُلْتُ مَا أَقُولُ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَوَذَتَيْنِ حِينَ تُمسِى وَحِينَ تُصْبِحُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ (ابو داؤد کتاب الادب باب ما يقول اذا أصبح 5082) حضرت عبد اللہ بن حبیب بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک بارش اور سخت تاریک رات میں نکلے.ہم رسول اللہ صلی ا یم کو تلاش کر رہے تھے تا کہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں.پس ہم نے آپ کو پالیا.آپ نے فرمایا کہو.میں نے کچھ
118 نہ کہا.پھر آپ نے فرمایا کہو.میں نے پھر کچھ نہ کہا.پھر آپ نے فرمایا کہو.میں نے عرض کیا میں کیا کہوں؟ یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا تم سورۃ اخلاص اور بعد کی دو سورتیں صبح و شام تین بار پڑھا کرو.یہ تجھے ہر چیز سے بے نیاز کر دے گا.84ـ عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ كُنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَجْهَرُونَ بِالتَّكْبِيرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، إِنَّكُمْ لَيْسَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبا ، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا، وَهُوَ مَعَكُمْ قَالَ وَأَنَا خَلْفَهُ، وَأَنَا أَقُولُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزِ مِن كُنُوزِ الْجَنَّةِ، فَقُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ الله قَالَ قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ (مسلم کتاب الذكر والدعاء باب استحباب خفض الصوت بالذكر 4859) حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی علیکم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ لوگ بلند آواز سے تکبیر کہنے لگے.اس پر نبی صلی ٹیم نے فرمایا اے لوگو! آہستہ آرام سے ! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں بلا ر ہے.یقینا خوب سننے والے کو جو بہت قریب ہے کو بلا رہے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے.وہ (حضرت ابو موسیٰ) کہتے ہیں میں آپ کے پیچھے تھا میں کہہ رہا تھا اللہ کے سوا نہ کسی کو طاقت ہے اور نہ قوت ہے.اس پر آپ نے فرمایا اے عبد اللہ بن قیس ! کیا میں تجھے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کے بارہ میں نہ بتاؤں.میں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ پڑھا کرو.85ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، فَيَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ؟ وَمَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ وَمَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فى عقد التسبيح باليد (3498
119 حضرت ابو ہریرۃ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارا رب ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے جب رات کا تیسر احصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کو جواب دوں ! کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اس کو دوں ! کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں !.86- عَن أبي هُرَيْرَةً أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ (مسلم کتاب الصلاة باب ما يقال في الركوع والسجود 736) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے پس(اس میں ) کثرت سے دعا کیا کرو.87 - عَنْ سَلْمَانَ الفَارِسِي، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَبِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرْذَهُمَا صُفَرًا خَائِبَتَيْنِ (ترمذی کتاب الدعوات باب فى دعاء النبي صلى اللہ علیہ وسلم 3556) حضرت سلمان فارسی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی بڑا حیا والا، بڑا کریم اور سخی ہے.جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے.88- عَنْ مَالِكِ بْنِ يَسَارٍ السَّكُونِي ثُمَّ الْعَوْلِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا سألكم الله فَاسْأَلُوهُ بِبُطُونِ أَنفَكُمْ، وَلَا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا (ابو داؤد کتاب الصلاة باب الدعاء 1486)
120 حضرت مالک بن لیسار السکونی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے ارشاد فرمایا جب تم اللہ سے دعا مانگو تو ہتھیلیوں کے اندرونی حصہ سے مانگو اور ان کی پشت کے ذریعہ نہ مانگو.حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَسْتُرُوا الْجُدُرَ مَنْ نظر في كتاب أخِيهِ بِغَيْر إذنِهِ فَإِنَّمَا يَنظُرُ في النَّارِ، سَلُوا الله يكون أكفكف، ولا تسألوه يظُهُورِهَا، فَإِذَا فَرَغْتُكُمْ، فَامْسَحُوا بِمَا وُجُوهَكُمْ (ابو داؤد کتاب الصلاة باب الدعاء 1485) حضرت عبد اللہ بن عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (1) دیواروں کو مت ڈھانپو (2) جس نے اپنے بھائی کے خط پر نظر ڈالی بغیر اس کی اجازت کے تو وہ آگ میں نظر ڈال رہا ہے (3) اللہ سے مانگو اپنی ہتھیلیوں کے اندرونی حصہ کے ذریعہ اور ان کی پشت کے ذریعہ نہ مانگو اور جب تم فارغ ہو تو ان کو اپنے چہروں پر پھیر لیا کرو.89 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدائِدِ وَالكُرَب فَلْيُكْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء ان دعوة المسلم مستجابة 3382) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی تکالیف کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہیے کہ وہ فراخی اور آرام کے وقت بکثرت دعا کرے.90- وزاداً كاتب المغيرة بن شعبة يقول كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ اكْتُبْ إِلَى بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
121 عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِذَا قَضَى الصَّلَاةَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، اللهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِ مِنْكَ الْجَدُّ (مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب الاستحباب الذكر بعد الصلاة وبيان صفتها 926) حضرت مغیرہ بن شعبہ کے کاتب، وراد، کہتے ہیں امیر معاویہؓ نے حضرت مغیرہ کو خط لکھا کہ مجھے کوئی ایسی بات لکھیں جو آپ نے رسول اللہ صلی علیم سے سنی ہو.وہ کہتے ہیں اس پر انہوں نے انہیں لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی ایم کو نماز پورا کرنے کے بعد یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں بادشاہت اسی کی ہے تمام تعریف بھی اسی کے لئے ہے اور وہ ہر ایک چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے.اے اللہ ! جو تو عطاء فرمائے وہ کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک لے ، وہ کوئی عطاء نہیں کر سکتا اور کسی شان والے کو اس کی شان تیرے مقابلہ میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.91 - عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ ، قَالَ سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْن عَفَانَ رضى اللهُ عنهُ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ عَبْدٍ يَقُولُ فِي صَبَاحٍ كُلِّ يَوْمٍ وَمَسَاءِ كُلِّ لَيْلَةٍ بِسْمِ اللهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ العَلِيمُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء في الادعاء اذا اصبح و اذا امسی 3388) حضرت عثمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص روزانہ صبح و شام تین بار یہ دعامانگتا ہے کہ میں اس اللہ تعالیٰ کے نام کی مدد چاہتا ہوں جس کے نام کے ہوتے ہوئے زمین و آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی، وہ دعاؤں کو سننے والا اور سب کچھ جانے والا ہے.تو اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی.
122 92 عَنْ خَالِدِ بْن أبي ،عمران أَنَّ ابْن عُمَرَ، قَالَ قَلْمَا كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم يَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتَّى يَدْعُوَ بِبُؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ لِأَصْحَابِهِ اللَّهُمَّ اقْسِمُ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ، وَمِنَ اليَقِينِ مَا تُهَوَنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا، وَمَتَعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا، وَاجْعَلْهُ الوَارِثَ مِنَّا، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا، وَلَا تَجْعَلُ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا، وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمَنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا، وَلَا تُسَلَّطَ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمْنَا (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فى عقد التسبيح باليد (3502) حضرت ابن عمررؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لی لی کہ جب کبھی کسی مجلس سے اٹھتے تو اپنے اصحاب کے لیے یہ دعا کرتے ”اے میرے اللہ ! تو ہمیں اپنا خوف عطا کر جسے تو ہمارے اور گناہوں کے درمیان روک بنادے اور ہم سے تیری نافرمانی سر زد نہ ہو اور ہمیں اطاعت کا وہ مقام عطا کر جس کی وجہ سے تو ہمیں جنت میں پہنچا دے اور اتنا یقین بخش کہ جس کی وجہ سے دنیا کے مصائب تو ہم پر آسان کر دے.اے میرے اللہ ! ہمیں اپنے کانوں، اپنی آنکھوں اور اپنی طاقتوں سے زندگی بھر صحیح صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے.اور ہمیں اس بھلائی کا وارث بنا.اور جو ہم پر ظلم کرے اس سے تو ہمارا انتقام لے.جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اس کے بر خلاف ہماری مدد فرما.اور دین میں کسی ابتلا کے آنے سے بچا.اور ایسا کر کہ دنیا ہمارا سب سے بڑا غم اور فکر نہ ہو اور نہ یہ دنیا ہمارا مبلغ علم ہو ( یعنی ہمارے علم کی پہنچ صرف دنیا تک ہی محدودنہ ہو).اور ایسے شخص کو ہم پر مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے اور مہربانی سے پیش نہ آئے“.93 عَنْ أَمْ سَلَمَةَ، قَالَتْ مَا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِي قَةٌ إِلَّا رَفَعَ طَرْفَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ، أَوْ أَضَلَّ، أَوْ أَزِلَّ، أَوْ أَزَلَّ، أَوْ أَظْلِمَ، أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْهَلَ، أَوْ يُجْهَلَ عَلَى (ابوداؤد کتاب الادب باب ما يقول اذا خرج من بيته 5094)
123 حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے گھر سے نکلتے تو اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے اور یہ دعا کرتے "اے میرے اللہ! میں گمراہ ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اسی طرح گمراہ کیے جانے سے بھی.پھلنے اور پھیلائے جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں ظالم اور مظلوم بننے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے بھی کہ میں کسی سے جہالت سے پیش آؤں اور اس پر زیادتی کروں یا مجھ سے ایسا نارواسلوک کیا جائے“.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِنَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةً إِلَّا بِاللَّهِ (ابوداؤد کتاب الادب باب ما يقول اذا خرج من بيته 5095) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے گھر سے نکلے تو کہے ” اللہ کے نام کے ساتھ (شروع کرتا ہوں) میں اللہ پر ہی تو کل کرتا ہوں، اللہ کے سوا نہ (برائی) ہٹانے کی طاقت اور نہ (بھلائی) دینے کی قوت ہے“.94ـ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتَّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى (مسلم کتاب الذكر والدعاء والتوبة باب التعوذ من شر ما عمل و من شر ما لم يعمل 4884) حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیہم یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت اور تقویٰ اور عفت اور غناء طلب کرتا ہوں.
124 95 عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَصَفَتِ الريحُ ، قَالَ اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ يه، وأعُوذُ بِكَ مِن هَزِهَا، وَقَرْ مَا فِيهَا، وَهَر مَا أُرْسِلَتْ بِهِ (مسلم کتاب صلاة الاستسقاء باب التعوذ عند رؤية الريح و الغيم و الفرح بالمطر 1487) نبی صلی یہ کمی کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آندھی چلتی تو نبی صلی الیکم کہتے اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس کی خیر جو اس میں ہے اور وہ خیر جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اور میں تجھ سے اس کے شر سے پناہ چاہتا ہوں اور اس کے شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے.عَنْ عَائِشَةَ رضى اللهُ عنها ، قَالَتْ كَانَ الرَّسُوْلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَى الرِيحَ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهَا وَخَيْرِ مَا فِيهَا ، وَخَيْرِ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِهَا، وهر ما فيها، وقر ما أرسلت به.(ترمذی کتاب الدعوات باب ما يقول اذا هاجت الريح 3449) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آندھی کو دیکھتے تو یوں دعا کرتے "اے میرے خدا! تجھ سے اس آندھی کی خیر چاہتا ہوں اور وہ بھلائی چاہتا ہوں جو اس میں ہے اور جس کے لئے اسے بھیجا گیا ہے.اور میں تجھ سے اس آندھی کے شر سے پناہ چاہتا ہوں اور اس نقصان سے پناہ چاہتا ہوں جو اس میں مخفی ہے اور جن شر انگیز اور نقصان دہ حالات کے لئے اسے بھیجا گیا ہے ان سے بھی پناہ چاہتا ہوں“.96 عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي العُمْرَةِ فَقَالَ أَنْ أَخِي أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ وَلَا تَنْسَنَا (ترمذی کتاب الدعوات باب في دعا النبي 3562)
125 حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ عمرہ کے لئے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی.آپ نے فرمایا میرے بھائی ! ہمیں اپنی دعاؤں میں شامل رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا.عَن عُمر عَنِ النبي صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَهُ فِي الْعُمْرَةِ فَأَذِنَ لَهُ وَقَالَ يَا أَلِي، لَا تَنْسَنَا مِنْ دُعَائِكَ وَقَالَ بَعْدُ فِي الْمَدِينَةِ يَا أَخِي أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ فَقَالَ عُمَرُ مَا أُحِبُّ أَنَّ لي بِهَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، لِقَوْلِهِ يَا أَخِي (مسند احمد بن حنبل، مسند العشرة المبشرين ، مسند خلفاء الراشدین ، اول مسند عمر بن الخطاب 195) ย حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ عمرہ کے لئے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی.آپ صلی میں کم نے اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ ہی فرمایا میرے بھائی ! ہمیں اپنی دعاؤں میں بھول نہ جانا.اور بعد میں فرمایا میرے بھائی ! اپنی دعاؤں میں ہمیں بھی شریک کرنا.حضرت عمرؓ کہتے تھے حضور علی ای کمی کی اس بات سے (کہ ”اے میرے بھائی مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس کے بدلے میں مجھے ساری دنیا مل جائے تو اتنی خوشی نہ ہو.97.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ.(ترمذی کتاب الدعوات باب ما يقول اذا ركب الناقة 3448) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین دعائیں بلاشک قبول ہوتی ہیں.مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی بیٹے کے متعلق دعا.
126 درود شریف کی اہمیت 98ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَىٰ إِلَّا رد الله عَلَى رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ (سنن ابو داؤد کتاب المناسک باب زيارة القبور (2041 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جو کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں.99 - حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةٌ، فَقَالَ أَلَا أُهْدِى لَكَ هَدِيَّةٌ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا قَدْ عَرَفْنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (مسلم کتاب الصلاة باب الصلاة على النبي ام بعد التشهد 606) الله ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت کعب بن عجرہ ملے اور کہا کیا میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں؟ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علیکم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ہم آپ پر کس طرح سلام بھیجیں لیکن ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟ آپ نے فرمایا یہ کہا کرو کہ اے اللہ محمدعلی لی نام پر اور محمد علی ای کمی کی آل پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی.یقینا تو بہت قابلِ تعریف اور بہت شان والا ہے.اے اللہ محمد صلی علیم پر اور محمد صلی الم کی آل پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی یقینا تو بہت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے.
127 حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا الحَكَمُ ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةٌ، فَقَالَ أَلا أُهْدِى لَكَ هَدِيَّةٌ ؟ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا يَارَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ فَقُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (بخاری کتاب الدعوات باب الصلاة على النبي عام 6357) الله سة حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یکم جب ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول صلی ا ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ آپ پر سلام کس طرح بھیجا جائے لیکن یہ پتہ نہیں کہ آپ صلی ہی ہم پر درود کیسے بھیجیں.آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا تم مجھ پر اس طرح درود بھیجا کرو.اے ہمارے اللہ ! تو محمد صلی علی یم اور محمد صلی الی یکم کی آل پر درود بھیج جس طرح تو نے ابراہیم کی آل پر درود بھیجا اے ہمارے اللہ! تو محمد صلی ا یکم اور محمدعلی ایم کی آل کو برکت عطا کر جس طرح تو نے ابراہیم کی آل کو برکت عطا کی.تو حمد والا اور بزرگی والا ہے.رم 100- أَنَّ أَبَا عَلي عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْن عُبَيْدٍ، صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ سَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو فِي صَلَاتِهِ لَمْ يُمجد الله وَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِين صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجَلَ هَذَا، ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ - أَوْ لِغَيْرِهِ - إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ، فَلْيَبْدَأُ بِتَمْجِيدِ رَبِّهِ وَالقَنَاءِ عَلَيْهِ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَدْعُو بَعْدُ بِمَا شَاءَ (ابوداؤد کتاب الوتر باب الدعاء 1481) رسول اللہ صلی علی کیم کے صحابی حضرت فضالہ بن عبید بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللی یم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا، کہ اس نے نہ تو اللہ کی بڑائی بیان کی اور نہ نبی صلی علیہ وسلم پر درود بھیجا.آپ نے فرمایا اس نے
128 - جلد بازی سے کام لیا، پھر آپ نے اس کو بلایا اور اس کو کہا یا کسی اور کو کہا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے رب کی تمجید سے اور اس کی ثنا سے شروع کرے پھر نبی صلی عوام پر درود بھیجے پھر جو چاہے دعا کرے.رضائے الہی اور قرب خداوندی کے حصول کی کوشش 101- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَتَفَطَرَ قَدَمَاهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ تَصْنَعُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ؟ قَالَ أَفَلاَ أَحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا فَلَهَا كَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّى جالسًا ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ هُمْ رَكَعَ (بخاری کتاب التفسير باب ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك ، الفتح ، 4837) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی للی کم رات کو اٹھ کر نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ صلی علیہم کے پاؤں متورم ہو کر پھٹ جاتے.ایک دفعہ میں نے آپ صلی الی نام سے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی علیکم ! آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی این کرم کے اگلے پچھلے سب قصور معاف فرما دیئے ہیں.اس پر حضور ملی یہ کم نے فرمایا کیا میں یہ نہ چاہوں کہ اپنے رب کے فضل و احسان پر اس کا شکر گزار بندہ بنوں.جب آپ کی عمر زیادہ ہو گئی.آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے.جب آپ رکوع کا ارادہ فرماتے تو کھڑے ہو جاتے ، قراءت کرتے پھر رکوع کرتے.المدرسة
129 عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذَا صَلَّى قَامَ حَتَّى تَفَطَرَ رِجْلَاهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللهِ أَتَصْنَعُ هَذَا، وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَقَالَ يَا عَائِشَةُ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا (مسلم كتاب صفة القيامة و الجنة والنار باب اكثار الاعمال والاجتهاد في العبادة 5032) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں جب رسول اللہ صلی اہم نماز پڑھتے تو اتنا لمبا) قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے.حضرت عائشہ نے عرض کیا یار سول اللہ ! آپ ( یہ ) کرتے ہیں؟ جب کہ اللہ نے آپ کو اگلے پچھلے گناہوں سے منزہ کیا ہوا ہے.آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ 102- حَدَّثَنَا هِقُلُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ سَمِعْتُ الْأَوْزَاعِيَّ، قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ كَعْبِ الْأَسْلَمِيُّ ، قَالَ كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي سَلْ فَقُلْتُ أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ.قَالَ أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ قُلْتُ هُوَ ذَاكَ.قَالَ فَأَعِنِي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ (مسلم کتاب الصلاة باب فضل السجود و الحث عليه 746) ابو سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی نے مجھے بتایا کہ میں رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں رات بسر کر تا تھا تو میں آپ کے پاس (ایک رات) آپ کے وضو کا پانی اور آپ کی ضرورت کی چیز لے کر آیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا، مانگ لو ، تو میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میں جنت میں آپ کی رفاقت مانگتا ہوں.آپ نے فرمایا یا کچھ اور ؟ میں نے کہا کہ بس یہی.آپ نے فرمایا تو پھر اپنے لئے کثرت سجود سے میری مدد کرو.
130 103 - عن أليس بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا تَقَرَّبَ عَبْدِى مِنِى شِبْرًا، تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَإِذَا تَقَرَّبَ مِنِي ذِرَاعًا، تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا - أَوْ بُوعًا - وَإِذَا أَتَانِي يَمْشِي، أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً (مسلم کتاب الذكر والدعا والتوبة باب فضل الذكر والدعا و التقرب الى الله 4836) حضرت انس بن مالک حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی علی کرم نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے جب میرا بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اسکے قریب ہو جاتا ہوں.اور جب وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں.جب وہ میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑتے ہوئے جاتا ہوں.104- عَنْ أَبِي ذَرْ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَأَزِيدُ، وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيْئَةِ فَجَزَاؤُهُ سَيْئَةٌ مِثْلُهَا أَوْ أَغْفِرُ وَمَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا، وَمَنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً، وَمَنْ لَقِيَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِيئَةً لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَقِيتُهُ بِمِثْلِهَا مَغْفِرَةً (مسلم کتاب الذكر والدعا والتوبة باب فضل الذكر والدعا و التقرب الى الله 4838) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے جو ایک نیکی کرے گا تو اس کے لئے اس کا دس گنا اجر ہے بلکہ میں اور بڑھاؤں گا اور جو بدی کرے گا تو اسے اس کے برابر ہی جزا دی جائے گی یا میں بخش دوں گا اور جو ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں گز بھر اس کے قریب ہو جاتا ہوں.اگر وہ ایک گز میرے قریب آتا ہے تو میں دو گز اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جو میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس
131 دوڑ کر جاتا ہوں اور جو زمین بھر خطاؤں کے ساتھ بھی میرے پاس آئیگا بشر طیکہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، میں اس کے برابر مغفرت کے ساتھ اس سے ملوں گا.توجہ الی اللہ ، تقدیر اور راضی برضا ر ہنے کا مفہوم 105- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ يَا غُلَامُ إِنِّي أَعَلِمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظ اللهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ لَكَ ، وإِن اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ (ترمذی کتاب صفة القيامة والرقائق والورع باب ما جاء في صفة اوانى الحوض 2516) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ میں رسول اللہ صل اللی کم کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا.صلی ا لم نے فرمایا اے برخوردار! میں تجھے چند باتیں بتاتا ہوں.اول یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ، اللہ تعالیٰ تیر اخیال رکھے گا.تو اللہ تعالی پر نگاور کھ تو اسے اپنے پاس پائے گا.جب کوئی چیز مانگنی ہو تو اللہ تعالی سے مانگ.اگر مددمانگنی ہو تو اللہ تعالیٰ سے مانگ اور سمجھ لے کہ اگر سارے لوگ اکٹھے ہو کر تجھے فائدہ پہنچانا چاہیں تو وہ تجھے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ اللہ چاہے اور تیری قسمت میں فائدہ لکھ دے.اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر اتفاق کر لیں تو تجھے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ تیری قسمت میں نقصان لکھ دے.قلمیں اٹھا کر رکھ دی گئی ہیں اور صحیفہ تقدیر خشک ہو چکا ہے.
132 قال أبو عبد الرَّحْمَنِ وَأَنَا قَدْ رَأَيْتُهُ في طَرِيقي فَسَلَّمَ عَلَىٰ وَأَنَا صَبِيٌّ رَفَعَهُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَوْ أَسْنَدَهُ إِلَى ابْنِ عَبّاس......قَالَ كُنْتُ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا غُلَامُ أَوْ يَا غُلَيمُ أَلَا أَعَلِمُكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللهُ بِهِنَّ فَقُلْتُ بَلَى فَقَالَ احْفَظُ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللهَ تَجِدُهُ أَمَا مَكَ تَعَرَّفُ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ يَعْرِفُكَ فِي الشّدّة....وَاعْلَمْ أَنَّ فِي الصَّبْرِ عَلَى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.(مسند أحمد بن حنبل ، مسند عبد الله بن عباس ، روایت نمبر 2804 حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی علیم کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا.آپ نے فرمایا اے برخوردار ! کیا میں تمہیں چند کلمات نہ سکھاؤں کہ اللہ ان کی وجہ سے تجھے نفع پہنچائے.میں نے عرض کیا جی ہاں.آپ نے فرمایا اللہ تعالی پر نگاہر کھ.تو اسے اپنے سامنے پائے گا.تو اللہ تعالی کو خو شحالی میں پہچان اللہ تعالیٰ تجھے تنگ دستی میں پہچانے گا اور سمجھ لے کہ جو تجھ سے چوک گیا اور تجھ تک نہیں پہنچ سکا، وہ تیرے نصیب میں نہیں تھا اور جو تجھ کو مل گیا وہ تجھے ملے بغیر رہ نہیں سکتا تھا.کیونکہ تقدیر کا لکھایو نہی تھا.جان لو کہ ( اللہ تعالیٰ کی ) مد و صبر کرنے کے ساتھ ہے اور خوشی بے چینی کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ہر تنگی کے بعد یسر اور آسانی کے دن آتے ہیں.106- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ إِلَى الشَّامِ ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الأَجْنَادِ، أَبُو عُبَيْدَةَ بْنِ الجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِأَرْضِ الشَّأْمِ.قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ فَقَالَ عُمَرُ ادْعُ لِي المُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ قَدْ خَرَجْتَ لأَمْرٍ، وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ، فَقَالَ ارْ تَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ ادْعُوا لِي
133 الأَنْصَارَ ، فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ المُهَاجِرِينَ، وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلافِهِمْ، فَقَالَ ارْتَفِعُوا عَنِي، ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمْ يَخْتَلِفْ مِنْهُمْ عَلَيْهِ رَجُلانِ، فَقَالُوا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ إِنِّي مُصَبَحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ.قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاحِ أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللهِ ؟ فَقَالَ عُمَرُ لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ؟ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلُ هَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ، إِحْدَاهُمَا خَصِبَةٌ، وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللهِ ، وَإِنْ رَعَيْتَ الجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ؟ قَالَ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ - وَكَانَ مُتَغَيَّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ - فَقَالَ إِنَّ عِنْدِي فِي هَذَا عِلْمًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضِ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضِ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ ثُمَّ انْصَرَفَ (بخاری کتاب الطب باب ما يذكر في الطاعون 5729) حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب شام کی طرف روانہ ہوئے.جب آپ سرغ نامی مقام میں پہنچے تو فوجوں کے سردار حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھی آپ کی پیشوائی کے لئے آئے.انہوں نے آپ کو بتایا کہ شام کے علاقہ میں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے مجھے فرمایا کہ مہاجرین کو بلائیے.چنانچہ حضرت ابن عباس ان کو بلا لائے اور حضرت عمرؓ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ طاعون کی وبا شام میں پھیلی ہوئی ہے.تو انہوں نے اختلاف کیا.بعض نے کہا کہ اب آپ ایک کام کے لئے نکل چکے ہیں اور ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ آپ اس سے لوٹ جائیں.اور بعض نے کہا آپ کے ساتھ لوگوں اور صحابہ کی ایک خاصی تعداد ہے ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ آپ ان کو لے کر وباء زدہ علاقہ میں جائیں.آپ نے ان کا مشورہ سن کر فرمایا آپ جائیے.پھر آپ نے فرمایا انصار کو بلاؤ.جب وہ آگئے اور
134 آپ نے مشورہ شروع کیا تو وہ بھی مہاجرین کی طرح مختلف الرائے تھے.آپ نے ان کا مشورہ سن کر فرمایا آپ جائے.پھر مجھے فرمایا کہ میرے پاس جو یہاں قریش کے وہ بزرگ جو فتح مکہ سے پہلے کے مہاجر ہیں بلاؤ.چنانچہ حضرت ابن عباس ان کو بلا لائے.تو ان میں سے دو شخصوں نے بھی آپ کے سامنے اختلاف نہیں کیا.وہ کہنے لگے.ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور اس وبا کے ہوتے ہوئے ان کو نہ لے جائیں.چنانچہ حضرت عمر نے ان کے متفقہ فیصلہ کو پسند فرمایا اور یہ اعلان کیا کہ ہم کل صبح صبح روانہ ہوں گے قافلہ والے صبح چلنے کے لئے تیار رہیں.حضرت عمر فضا یہ فیصلہ سن کر حضرت ابو عبیدۃ نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں ؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ابو عبیدہ یہ بات کسی دوسرے کو کہنی چاہئے تھی (آپ جیسے سمجھدار قائد سے اس کی توقع نہ تھی.ہاں میں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف فرار ہو رہا ہوں.دیکھیں اگر آپ اپنے اونٹ ایک ایسی وادی میں چرنے کے لئے لے آئیں جس کا ایک کنارہ سر سبز و شاداب ہے اور دوسرا بنجر خشک آپ اپنے جانور وادی کے جس کنارہ پر چرائیں گے وہ اللہ کی تقدیر ہی ہو گی آپ کا کوئی فیصلہ اس کی تقدیر کے دائرہ سے باہر نہیں ہو گا.الله سة حضرت ابن عباس کہتے تھے کہ اتنے میں حضرت عبد الرحمن بن عوف آئے اور وہ کسی اپنے کام کے لئے کہیں گئے ہوئے تھے وہ کہنے لگے مجھے اس کے متعلق ایک بات معلوم ہے جو میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنی آپ فرماتے تھے.جب تم سنو کہ وبا کسی ملک میں ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی ملک میں پڑے اور تم وہاں ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نہ نکلو.حضرت ابن عباس کہتے تھے.حضرت عمرؓ نے سن کر اللہ کا شکر کیا اور وہیں سے واپس چلے گئے.
135 یقین ، توکل اور توفیق الہی 107- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ القَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ العِضَادِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي العِضَاءِ، يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ.قَالَ جَابِرٌ فَنِمْنَا نَوْمَةً، ثُمَّ إِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُونَا فَجِئْنَاهُ، فَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِي جَالِسٌ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ سَيْفِي وَأَنا نَاكُمْ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْنَا، فَقَالَ لِي مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ؟ قُلْتُ اللَّهُ، فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ ثُمَّ لَمْ يُعَاقِبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع 4135) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کی طرف ایک غزوہ میں گئے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئے تو وہ بھی ان کے ساتھ لوٹے.آپ کو اتفاق سے دو پہر کا وقت ایسی وادی میں آیا جہاں کانٹے دار درخت بہت تھے.رسول اللہ صلی علیکم اتر پڑے اور لوگ ان درختوں میں اِدھر اُدھر بکھر گئے تاکہ سایہ میں بیٹھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیکر کے درخت کے نیچے ڈیرا کیا.آپ نے اس سے اپنی تلوار لٹکا دی.حضرت جابر کہتے تھے کچھ ہم سوئے.پھر کیا سنتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم میں بلا رہے ہیں.ہم آپ کے پاس آئے.کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص نے میری تلوار سونت لی اور میں سویا ہوا تھا، میں جو بیدار ہوا تو وہ تلوار اس کے ہاتھ میں سوتی ہوئی تھی.اس نے مجھ سے پوچھا کون تمہیں مجھ سے بچائے گا؟ میں نے کہا اللہ.تو یہ دیکھو وہ بیٹھا ہوا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سزا نہ دی.
136 عَنْ جَابِرٍ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَاتِ الرِقَاعِ، فَإِذَا أَتَيْنَا عَلَى شَجَرَةٍ ظَلِيلَةٍ تَرَكْنَاهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ المُشْرِكِينَ وَسَيْفُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلَّق بِالشَّجَرَةِ، فَاخْتَرَطَهُ، فَقَالَ تَخَافُنِي؟ قَالَ لَا، قَالَ فَمَنْ يَمْنَعُكَ مِنِي ؟ قَالَ اللهُ فَتَهَذَدَهُ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّى بِطَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ تَأَخَرُوا، وَصَلَّى بِالطَّائِفَةِ الأُخْرَى رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعُ، وَلِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ (بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع 4136) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ اتنے میں ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس پہنچے ، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ چھوڑ دیا، اتنے میں مشرکوں میں سے ایک شخص آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار در صحت سے نکلی ہوئی تھی.اس نے اس کو سونت لیا اور آپ سے کہنے لگا مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ نے اس سے فرمایا نہیں.کہنے لگا پھر کون مجھ سے تمہیں بچائے گا؟ آپ نے فرمایا اللہ.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے اس کو دھمکایا.اور نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ نے ایک گروہ کو دو رکھتیں پڑھائیں.پھر وہ پیچھے ہٹ گئے اور آپ نے دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں.نبی صلی علیم کی چار رکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی دو.تقوی اور طہارت نیز شبہات سے اجتناب 108- حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْن مِسْمَارٍ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْن سَعْدٍ، قَالَ كَانَ سَعْدُ بن أَبي وَقَاصٍ في إبِلِهِ، فَجَاءَهُ ابْتُهُ عُمَرُ، فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ قَالَ أَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَر هَذَا الرَّاكِبِ، فَنَزَلَ فَقَالَ لَهُ
137 أَنْزَلْتَ فِي إِبِلِكَ وَغَنَمِكَ، وَتَرَكْتَ النَّاسَ يَتَنَازَعُونَ الْمُلْكَ بَيْنَهُمْ؟ فَضَرَبَ سَعْدٌ فِي صَدْرِهِ، فَقَالَ اسْكُتُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِى، الْغَنِي الْخَفِيَ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الدنيا سجن للمومن وجنة الكافر (5252) عامر بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے اونٹوں میں تھے کہ ان کا بیٹا عمر اُن کے پاس آیا.جب حضرت سعد نے اسے دیکھا تو کہا میں اس سوار کے شر سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں.وہ نیچے اتر اتو اس نے ان سے کہا کہ آپ اپنے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں میں آگئے ہیں اور لوگوں کو سلطنت کے بارہ میں باہمی تنازعہ کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں.اس پر حضرت سعد نے اس کے سینہ پر ہاتھ مارا اور کہا کہ خاموش ہو جاؤ.میں نے رسول اللہ صلی اینیم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یقینا اللہ متقی بے نیاز اور لوگوں کی نظر سے پوشیدہ بندہ کو پسند کرتا ہے.الشرسة 109- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ ؟ قَالَ أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ قَالَ فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللهِ ابْنُ نَبِي اللَّهِ ابْنِ نَبِيَّ اللهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ، قَالُوا لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ فَعَنْ مَعَادِنِ العَرَبِ تَسْأَلُونِي قَالُوا نَعَمْ، قَالَ فَخَيَارُكُمْ فِي الجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا (بخاری کتاب تفسیر القرآن باب قوله لقد کان فی یوسف و اخوته آيات للسائلين 4689) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے کون زیادہ معزز ہے ؟ آپ نے فرمایا اُن میں سے اللہ کے نزدیک وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے.لوگوں نے کہا اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے.آپ نے فرمایا پھر لوگوں میں سب سے بڑھ کر شریف یوسف نہیں جو اللہ کے نبی، نبی اللہ کے بیٹے، نبی اللہ کے پوتے اور خلیل اللہ (حبیب خدا) کے پڑ پوتے ہیں.انہوں نے کہا اس کے متعلق بھی ہم آپ
138 سے نہیں پوچھتے.آپ نے فرمایا تو کیا پھر تم مجھ سے عربوں کے خاندانوں کی نسبت پوچھتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں.فرمایا تم میں سے جو جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں، بشر طیکہ دین سیکھیں اور سمجھیں.110- عَنْ وَابِصَةَ الْأَسَدِيّ - قَالَ عَفَانُ حَدَّثَنِي غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَمْ يَقُلْ حَدَّثَنِي جُلَسَاؤُهُ - قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ لَا أَدَعَ شَيْئًا مِنَ الْبِرَ وَالْإِثْمِ إِلَّا سَأَلْتُهُ عنه......فقال جنت تَسْألني عن البز والإِثْمِ فَقَالَ نَعَمْ، فَجَمَعَ أَنامِلَهُ فَجَعَلَ يَنكُتُ بِينَ فِي صَدْرِي، وَيَقُولُ يَا وَابِصَةُ اسْتَفْتِ قَلْبَكَ، وَاسْتَفْتِ نَفْسَكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ ، وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ، وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ (مسند احمد بن حنبل، مسند الشاميين ، حدیث و ابصو بن معبد الاسدي 18169) حضرت وابصہ بن معبد بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا.اور میں آپ سے نیکی اور گناہ کے بارہ میں ہر بات پوچھنا چاہتا تھا.آپ صلی اللہ تم نے فرمایا کیا تم مجھ سے نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھنے آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں.آپ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ میرے سینہ کو ٹھکورنے لگے اور فرمانے لگے اے وابصہ ! اپنے دل سے پوچھ.تین بار کامل نیکی وہ ہے جس پر تیر ا دل اور تیر اجی مطمئن ہو.اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تیرے لئے اضطراب کا موجب بنے اگر چہ لوگ تجھے اس کے جواز کا فتویٰ دیں اور اسے درست کہیں.111- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ كُن وَرِعًا، تَكُن أَعْبَدَ النَّاسِ، وَكُنْ قَنِعًا، تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، تَكُن مُؤْمِنًا، وَأَحْسِن جَوَارٌ مَنْ جَاوَرَكَ، تَكُن مُسْلِمًا ، وَأَقِلَ الضَّحِكَ، فَإِنَّ كَفَرَةَ الضَّحِتِ مُمِيتُ الْقَلْبَ ابن ماجه کتاب الزهد باب الورع والتقوى 4217)
139 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا اے ابوہریرہ! پر ہیز گار بنو تم سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے.اور قانع بنو تم سب لوگوں سے زیادہ شکر گزار ہو جاؤ گے اور لوگوں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو تم مومن ہو جاؤ گے اور جو تمہارا پڑوسی ہے اس سے اچھی ہمسائیگی کرو تم مسلم ہو جاؤ گے اور کم ہنسو کیونکہ ہنسنے کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے.خوف اور رجاء اور اللہ تعالیٰ کی خشیت 112- عن أبي هُرَيْرَةً، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللهِ مِنَ الْعُقُوبَةِ، مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ، وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَا عِنْدَ اللهِ مِنَ الرَّحْمَةِ، مَا قَنَطُ مِنْ جَنَّتِهِ أَحَدٌ (مسلم کتاب التوبة باب فى سعة رحمة الله تعالى...4934) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا اگر مومن جان لے کہ اللہ کے پاس عقوبت میں سے کیا ہے تو کوئی اس کی جنت کی امید نہ کرے.اور اگر کا فرجان لے جو اللہ کے پاس رحمت ہے تو وہ اس کی جنت سے مایوس نہ ہو.113- عَنْ شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ قَالَ قُلْتُ لِأُمِ سَلَمَةَ يَا أُمَّ المُؤْمِنِينَ مَا كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدَكِ ؟ قَالَتْ كَانَ أَكْثَرُ دُعَائِهِ يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ مَا أَكْثَرَ دُعَانَكَ يَا مُقَلِّبَ
140 القلوب ثبت قلبى عَلَى دِينِكَ ؟ قَالَ يَا أَمَّ سَلَمَةَ إِنَّهُ لَيْسَ ادَى إِلَّا وَقَلْبُهُ بَيْنَ أَصْبُعَيْنِ من أصابع اللَّهِ، فَمَنْ شَاءَ أَقَامَ ، وَمَنْ شَاءَ أَزَاغَ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فى عقد التسبيح باليد 3522) حضرت شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ سے پوچھا کہ اے ام المومنین رسول اللہ صلی الیکم جب آپ کے یہاں ہوتے تھے تو زیادہ تر کون سی دعا کرتے تھے.اس پر حضرت ام سلمہ نے بتایا کہ حضور علیہ السلام اکثر یہ دعا پڑھتے تھے "يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِتُ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ “ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ.ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ ہم سے اس دعا پر مداومت کی وجہ پوچھی تو آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ ! ہر انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دو انگلیوں کے در میان ہے، جس شخص کو ثابت قدم رکھنا چاہے تو اس کو ثابت قدم رکھے.اور جس کو ثابت قدم نہ رکھنا چاہئے اس کے دل کو ٹیڑھا کر دے.م سة 114- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً عَنِ النَّبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيمَا يُحْيِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ أَذْنَبَ عَبْدُ ذَنْبًا، فَقَالَ اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا، فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبِّا يَغْفِرُ الذَنْبَ، وَيَأْخُذُ بِالذَنْبِ، ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ، فَقَالَ أَيْ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَبْدِى أَذْنَبَ ذَنْبًا، فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبِّا يَغْفِرُ الذُّنْبَ، وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ، ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا، فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذُّنْبَ ، وَيَأْخُذُ بِالذَنْبِ، اعْمَلُ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ (مسلم کتاب التوبة باب قبول التوبة من الذنوب وان تكررت الذنوب والتوبة 4939) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللی کم نے اپنے رب عزو جل سے حکایت کے طور پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک بندہ نے گناہ کیا اور پھر عرض کیا اے اللہ ! مجھے میر ا گناہ بخش دے.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
141 میرے بندہ نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے اور گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا بھی ہے.پھر اس نے دوبارہ گناہ کیا اور عرض کیا کہ اے میرے رب! مجھے میرا گناہ بخش دے.اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندہ نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا بھی ہے اور گناہ پر پکڑ بھی کرتا ہے.پھر اس نے دوبارہ گناہ کیا اور کہا اے میرے رب ! مجھے میرا گناہ بخش دے.اللہ نے فرمایا میرے بندہ نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے.(تو فرمایا) تو جو چاہے کر میں نے تجھے بخش دیا.سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةً، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ عَبْدًا أَصَابَ ذَنْبًا - وَرُبَّمَا قَالَ أَذْنَبَ ذَنْبًا - فَقَالَ رَبِ أَذْنَبْتُ - وَرُبَّمَا قَالَ أَصَبْتُ - فَاغْفِرْ لِي، فَقَالَ رَبُّهُ أَعَلِمَ عَبْدِى أَنَّ لَهُ رَبِّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَتَ مَا شَاءَ اللهُ ثُمَّ أَصَابَ ذَنْبًا، أَوْ أَذْنَبَ ذَنْبًا ، فَقَالَ رَبِّ أَذْنَبْتُ - أَوْ أَصَبْتُ - آخَرَ، فَاغْفِرْهُ فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا، وَرُبَّمَا قَالَ أَصَابَ ذَنْبًا ، قَالَ قَالَ رَبِّ أَصَبْتُ - أَوْ أَذْنَبْتُ - آخَرَ، فَاغْفِرْهُ لِي، فَقَالَ أَعَلِمَ عَبْدِى أَنَّ لَهُ رَبِّ يَغْفِرُ الذُّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي ثَلَاثًا، فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ (بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى يريدون أن يبدلوا كلام الله 7507) حضرت ابو ہریر کا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی الی تم سے سنا آپ نے فرمایا ایک بندے نے گناہ کیا اور کبھی حضرت ابوہریرہ نے بجائے أَذْنَبْتُ کے أَصَبْتُ کہا تھا.پردہ پوشی فرما کر در گزر فرمایا اس کے رب نے کہا کیا میرے بندے کو علم ہو چکا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشا ہے اور گناہ پر پکڑتا بھی ہے.میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا.پھر جتنی دیر اللہ نے چاہا وہ ٹھہرا رہا.پھر ایک اور گناہ کیا.تو کہنے لگا.اے میرے رب میں نے ایک اور گناہ کیا ہے پر وہ پوشی فرماتے ہوئے اس سے در گزر فرما.تو پر ور دگار نے پھر فرمایا کیا میرے
142 بندے کو علم ہو چکا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشا بھی ہے اور اس پر پکڑتا بھی ہے.میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر جتنی دیر اللہ نے چاہا وہ ٹھہر ارہا.پھر ایک اور گناہ کیا.اے میرے رب ! میں نے ایک اور گناہ کیا میری پردہ پوشی فرماتے ہوئے مجھ سے در گزر فرما.تو پرودگار نے فرمایا کیا میرے بندے کو علم ہو چکا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا بھی ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے.میں نے اپنے بندے کو تین بار معاف کر دیا اب جو چاہے کرے.115.عن ابن عمر رضی الله عنهما ، قَالَ سَمِعْتُ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول يُدنَى الْمُؤْمِنُ يَوْمَ القِيَامَة مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ، فَيُقَرِرُهُ بِذُنُوبِهِ، فيقولُ أتعرِفُ ذَنْبَ كَذَا؟ أَتَعرِفُ ذَنْبَ كَذَا ؟ فيقول رَبِ أَعْرِفُ، قَالَ فَإِنِّي قَدْ سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ في الدُّنْيَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ اليَومَ ، فَيُعْطَى صَحِيفَةً حَسَنَاتِهِ (رياض الصالحين باب الرجاء (433) حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للی کم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.قیامت کے دن مومن اپنے رب کے بہت قریب لے جایا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس کے سایہ رحمت میں آجائے گا پھر اللہ تعالیٰ اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائے گا اور کہے گا کہ کیا تو فلاں گناہ جانتا ہے جو تو نے کیا ؟ کیا تو فلاں گناہ کو جانتا ہے جو تو نے کیا؟ اس پر بندہ کہے گا ہاں میرے رب ! میں جانتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرمائے گا دنیا میں میں نے اس گناہ کے متعلق تیری پردہ پوشی کی اور اب قیامت کے دن تمہار اوہ گناہ بخشتا ہوں.الغرض اس کو صرف اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دے دیا جائے گا.116- عن أبي سَعِيدٍ، عَنِ الذين صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنه ذكر رَجُلًا فيمن سلف - أو فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، قَالَ كَلِمَةً يَعْنِي - أَعْطَاهُ اللهُ مَالًا وَوَلَدًا، فَلَمَّا حَضَرَتِ الوَفَاةُ، قَالَ
143 لِبَنِيهِ أَيَّ أَبٍ كُنْتُ لَكُمْ ؟ قَالُوا خَيْرَ أَبِ، قَالَ فَإِنَّهُ لَمْ يَبْتَدِرُ - أَوْ لَمْ يَبْتَئِزُ - عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا، وَإِنْ يَقْدِرِ اللَّهُ عَلَيْهِ يُعَذِّبْهُ، فَانْظُرُوا إِذَا مُتُ فَأَحْرِقُونِي حَتَّى إِذَا صِرْتُ فَمَا فَاسْحَقُونِي أَوْ قَالَ فَاسْتَحَكُونِي - فَإِذَا كَانَ يَوْمُ رِيحٍ عَاصِفٍ فَأَذْرُونِي فِيهَا، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مَوَاثِيقَهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَرَبِّي فَفَعَلُوا، ثُمَّ أَذْرَوْهُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ كُنْ، فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ قَائِمٌ، قَالَ اللهُ أَى عَبْدِى مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ ؟ قَالَ مَخَافَتُكَ، - أَوْ فَرَةٌ مِنْكَ - قَالَ فَمَا تَلافَاهُ أَن رَحِمَهُ عِنْدَهَا وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى فَمَا تلافاهُ غَيْرُهَا (بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى يريدون أن يبدلوا كلام الله 7508) ابو سعید نے نبی صلی علیم سے روایت کی کہ آپ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو ان لوگوں میں سے تھا جو پہلے گزر چکے.یا فرمایا جو تم سے پہلے تھے آپ نے ایک فقرہ بولا.جس کے یہ معنی تھے کہ اللہ نے اس کو مال اور اولا د دی تھی.جب وفات کا وقت آن پہنچا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا میں تمہارا باپ کیسا تھا؟ انہوں نے کہا بہت اچھے باپ تھے.اس نے کہا کہ اس نے اللہ کے پاس کوئی نیکی بھی نہیں بھیجی ہے اور اگر اللہ نے اس پر قابو پایا تو اس کو سزا دے گا.اس لئے دیکھو جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دو یہاں تک کہ جب میں کو ئلہ ہو جاؤں تو مجھے پیس ڈالنا.جس دن زور کی آندھی ہو تو اس آندھی میں تم میری راکھ اڑا دینا.نبی صلی الیم نے فرمایا میرے رب کی قسم اس نے اس بات پر پختہ عہد لئے اور انہوں نے ایسا ہی کیا.پھر آندھی کے دن اس کی راکھ اڑا دی.تو اللہ عز و جل نے فرمایا گن (ہو جا) پھر کیا تھا کہ وہی شخص کھڑا تھا.اللہ نے پو چھا اے میرے بندے ! یہ جو تم نے کیا ہے اس کے کرنے پر تمہیں کس نے آمادہ کیا ؟ اس نے کہا تیرے خوف نے یا کہیا گھبراہٹ نے جو تیرے ڈر سے تھی.راوی نے کہا اس پر ( اللہ نے ) جلدی ہی اپنی رحمت سے اس کے گناہوں کی تلافی کی اور دوسری بار راوی نے کہا اس بات کے سوا اور کسی بات نے بھی اس کے گناہوں کی تلافی نہ کی (اسے بخش دیا).
144 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ، فَلَهَا حَضَرَهُ الْمَوْتُ، أَوْصَى بَنِيهِ، فَقَالَ إِذَا أَنَا مِن فَأَحْرٍ قُونِي، ثُمَّ اسْتَقُونِي، ثُمَّ ذَرُوني في الريح في الْبَحْرِ، فَوَاللهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَى رَبِّي لَيُعَذِبُنِي عَذَابًا مَا عَذَبَهُ أَحَدًا ، قَالَ فَفَعَلُوا بِهِ ذَلِكَ، فَقَالَ لِلْأَرْضِ أَذِى مَا أَخَذْتِ، فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ لَهُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ ؟ قَالَ خَشْيَتُكَ أَوْ مَخَافَتُكَ يَا رَبِّ، فَغَفَرَ لَهُ لِذَلِكَ ابن ماجه کتاب الزهد باب ذكر التوبة 4255) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا ایک شخص نے اپنے نفس پر زیادتی کی پس جب اس کی موت کا وقت آیا اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی اور کہا کہ جب میں مر جاؤں تم مجھ کو جلا دینا اور پھر مجھے ریزہ ریزہ کر دینا پھر مجھے ہوا میں سمندر میں اڑا دینا کیونکہ اللہ کی قسم اگر میرے رب نے مجھ پر قابو پالیا وہ ضرور مجھے ایسا عذاب دے گا کہ جو اس نے کسی کو نہ دیا ہو گا.فرمایا انہوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا.اس (اللہ تعالیٰ) نے زمین سے کہا جو تو نے لیا ہے وہ دے دے تو دیکھو وہ شخص کھڑا تھا.اس (اللہ) نے اس کو کہا کہ تجھے کس چیز نے ایسا کرنے پر آمادہ کیا ؟ اس نے کہا کہ تیری خشیت نے ( یا کہا تیرے ڈر نے) اے میرے رب.اس نے اس وجہ سے اسے بخش دیا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْصَى بَنِيهِ، فَقَالَ إِذَا أَنَا مِتُ، فَأَخَرٍ قُونِي، ثُمَّ اسْتعطوني، ثم المروني في الريح فِي الْبَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَى رَبِّي لَيُعَذِ بَنِي عَذَابًا مَا عُذِّبَهُ أَحَدٌ ، قَالَ فَفَعَلُوا ذَلِكَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ لِلْأَرْضِ أَذِى مَا أَخَذْتِ.فَإِذَا هُوَ قَائِم فَقَالَ لَهُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ خَشْيَتُكَ يَا رَبِّ، أَوْ مَخَافَتُكَ.فَغَفَرَ لَهُ بِذَلِكَ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه، مسند ابی ہریرہ 7635)
145 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص نے اپنے آپ پر بہت زیادتی کی، خوب گناہ کیے.جب وہ مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر میرے جلے ہوئے جسم کو باریک پیس لینا اور میری اس راکھ کو سمندری فضا کی ہوا میں اڑا دینا.خدا کی قسم مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر میں اپنے خدا کے ہاتھ آگیا تو میرے گناہوں کی وجہ سے وہ مجھے ایسی سزا دے گا جس کی مثال نہیں مل سکے گی.حضور صلی الیکم نے فرمایا چنانچہ اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا.لیکن خدا نے زمین کو حکم دیا کہ جہاں جہاں اس شخص کی راکھ کے ذرے گرے ہیں وہ سب واپس کر دو.چنانچہ وہ شخص پورے جسم کے ساتھ خدا کے حضور لرزاں ترساں آحاضر ہوا.خدا نے اس سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا.اے میرے خدا! تیری خشیت اور تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا.خدا کو اس کی یہ ادا اور احساس ندامت پسند آیا اور اس کو بخش دیا.117- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِهِ يَوْمَ لا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌ نَشَأَ بِعِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابًا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ يَمِينُهُ مَا تُنْفِقُ شِمَالُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ (مسلم کتاب الزكاة باب فضل اخفاء الصدقة 1698) الله سة حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا سات ( شخص ) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہو گا.انصاف کرنے ولا امام اور وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ہو اور وہ شخص جس کا دل مساجد میں اٹکا ہوا ہے.اور وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کی اسی کیلئے وہ اکٹھے ہوئے اور اسی کے لئے جدا ہوئے اور وہ شخص جسے کسی بڑے منصب والی ا
146 خوبصورت عورت نے بلا یا مگر اس نے کہا میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے کوئی صدقہ کیا اور اسے چھپا کر دیا یہاں تک کہ اس کا دایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ اس کے بائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے.اور وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالی کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے.118- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضى اللهُ عنهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بَنَ قَيْسٍ، فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللهِ، أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ، فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ، مُنَكِّسًا تأْسَهُ، فَقَالَ لَهُ مَا شَأْنُكَ ؟ فَقَالَ شَرٌّ، كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ مُوسَى فَرَجَعَ إِلَيْهِ المَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ، فَقَالَ اذْهَبْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَلَكِنَّكَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ بخاری کتاب تفسیر القرآن باب لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبی 4846) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا یکم نے ایک دفعہ ثابت بن قیس کو نہ پایا اور پوچھا کہ وہ کہاں ہے.اس پر ایک شخص نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول صلی علیکم! میں اس کا پتہ لے آتا ہوں.چنانچہ وہ ثابت کے پاس آیا اور اسے اس حالت میں دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے غمگین بیٹھا ہے.اس نے ثابت سے پوچھا تمہاری یہ کیا حالت ہے.اس نے جواب دیا بہت بری ہے.میری آواز نبی صلی الم کی آواز سے بلند ہے اور قرآن کریم میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ رسول کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو.مجھ سے تو اس کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے ) اس کا عمل ضائع ہو گیا اور وہ اب آگ والوں میں سے ہے (اور اس غم میں گھر بیٹھ گیا ہوں).اس آدمی نے آکر نبی علی ایم کو یہ حالات بتائے کہ ثابت یہ کہتا ہے.(راوی) موسیٰ کہتے تھے پھر وہ شخص دوبارہ ان کے پاس بڑی بشارت لے کر گیا.آپ نے فرمایا اس کے پاس جاؤ اسے کہو تم دوزخیوں میں سے نہیں ہو
147 بلکہ تم جنتیوں میں سے ہو.( یہ آیت تو ان لوگوں کے بارہ میں ہے جو بری نیت سے اور بے ادبی کے ارادہ سے آنحضرت صلی الہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرتے ہیں).119- عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِي، قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، فبَكَى طَوِيلًا ، وَحَولَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ ، فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ يَا أَبَتاهُ، أَمَا بَشَتَرَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا ؟ أَمَا بَشَرِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا؟ قَالَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ كُنتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِي، وَلَا أَحَبَّ إِلَى أَنْ أَكُونَ قَدِ اسْتَمْكَنَتُ مِنْهُ، فَقَتَلْتُهُ، فَلَوْ مُثْ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَكُنتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَلَمَّا جَعَلَ اللهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ ابْسُطُ يَمِينَكَ فَلا بَايِعْكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ ، قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِى، قَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو ؟ قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا ؟ قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي، قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَام يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الْهَجْرَةَ عَبْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا ؟ وَأَنَّ الْحَج يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ ؟ وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَى مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَ عَيْنَى مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ، وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ، لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَى مِنْهُ، وَلَوْمُتُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَاءَ مَا أَدْرِى مَا حَالِي فِيهَا ، فَإِذَا أَنَا مُتُ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحِةٌ، وَلَا نَارُ، فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَهُنُوا عَلَى التُّرَابَ شَئًا، ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِى قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا، حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ، وَأَنْظُرَ مَاذَا أَرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي (مسلم کتاب الایمان باب كون الاسلام يهدم ما قبله وكذا الهجرة و الحج 165)
148 ابن شماسہ المہری کہتے ہیں ہم حضرت عمرو بن العاص کے پاس حاضر ہوئے جبکہ وہ جان کنی کی حالت میں تھے وہ بہت دیر تک روتے رہے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف پھیر لیا.ان کا بیٹا ان سے کہنے لگا اے ابا ! کیا رسول اللہ صلی الم نے آپ کو یہ خوشخبری نہیں دی اور کیار سول اللہ صلی علیم نے آپ کو وہ خوشخبری نہیں دی.راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے ( ہماری طرف ) اپنا رخ پھیرا اور کہا سب سے افضل بات ہم اس شہادت کو سمجھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الی یوم اللہ کے رسول ہیں.میں تین ادوار سے گذرا ہوں.میں نے اپنے تئیں اس طرح دیکھا تھا کہ کوئی رسول اللہ صلی الی یکم کے بغض میں مجھ سے بڑھا ہوا نہیں تھا اور میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ میں آپ پر قابو پاؤں اور آپ کو قتل کر دوں اگر میں اس حال میں مر جاتا تو جہنمی ہو تا.پھر جب اللہ نے اسلام میرے دل میں ڈال دیا تو میں نبی صلی علیم کے پاس آیا اور کہا اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیے کہ میں آپ کی بیعت کروں.آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا تو کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا.آپ نے فرمایا اے عمرو! تمہیں کیا ہوا؟ وہ کہتے ہیں میں نے کہا میں ایک شرط کرنا چاہتا ہوں.فرمایا تم کیا شرط کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا یہ کہ مجھے بخش دیا جائے.فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پہلے کی تمام عمارت کو گرا دیتا ہے اور ہجرت بھی اپنے سے پہلے تمام عمارت کو گرا دیتی ہے اور حج بھی اپنے سے پہلے تمام عمارت کو گرا دیتا ہے.پھر رسول اللہ صلی علیم سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہ تھا اور نہ میری نظر میں آپ سے زیادہ کوئی صاحب عظمت تھا اور مجھے یہ طاقت نہیں تھی کہ میں آپ کے جلال کی وجہ سے آپ کو آنکھ بھر کر دیکھ سکوں اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بیان نہ کر سکوں کیونکہ میں نے آپ کو نظر بھر کر دیکھا ہی نہیں تھا.اگر میں اس حال میں مر جاتا تو امید کرتا ہوں کہ میں جنتی ہو تا.پھر کچھ امور کے ہم ذمہ وار بنے، میں نہیں جانتا کہ ان میں میرا کیا حال ہے اس لئے جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب تم مجھے دفن کر دو تو مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈال دینا اور میری قبر کے پاس کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ مجھے تمہاری وجہ سے تسکین رہے اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے قاصدوں سے کیا سوال جواب کر تا ہوں.
149 120- عن أليس بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَ رَجُلًا قَدْ جُهِدَ حَتَّى صَارَ مِثْلَ الفَرْخِ فَقَالَ لَهُ أَمَا كُنْتَ تَدْعُو ؟ أَمَا كُنْتَ تَسْأَلُ رَبِّكَ العَافِيَةُ ؟ قَالَ كُنْتُ أَقُولُ اللَّهُمَّ مَا كُنْتَ مُعَاقِنِي بِهِ فِي الآخِرَةِ فَعَخِلْهُ لِي فِي الدُّنْيَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّكَ لَا تُطِيقُهُ أَوْ لَا تَسْتَطِيعُهُ، أَفَلَا كُنْتَ تَقُولُ اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةٌ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء في عقد التسبيح باليد 3487) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.آپ صلی ہی ہم نے دیکھا کہ بیماری کی وجہ سے وہ سوکھ کر چوزے کی طرح ہو گیا ہے.حضور علیہ السلام نے اس سے پوچھا.کیا تم دعا نہیں کرتے تھے.کیا تم خدا تعالیٰ سے عافیت طلب نہیں کرتے تھے.وہ شخص کہنے لگا.میں تو یہ دعا کر تا تھا کہ اے خدا تو میرے گناہوں کے بدلے جو سزا آخرت میں دے گا وہ اس دنیا میں ہی دیدے.نبی صلی ال کلم نے ( تعجب سے) فرمایا سبحان اللہ ! تم نہ تو اس سزا کو برداشت کر سکتے ہو اور نہ اس کی استطاعت رکھتے ہو.تم نے یہ دعا کیوں نہ مانگی کہ اے ہمارے اللہ ! ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.
150 توبہ و استغفار اور اللہ تعالیٰ کے بارہ میں حسن ظن 121- حدقنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو عِبَابٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ الحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدِيثَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ ، قَالَ إِنَّ المُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَكَذَا، قَالَ أَبُو شِهَابٍ بِيَدِهِ فَوْقَ أَنْفِهِ ثُمَّ قَالَ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ نَزَلَ مَنْزِلًا وَبِهِ مَهْلَكَةٌ، وَمَعَهُ رَاحِلَتُهُ، عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ نَوْمَةٌ، فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ رَاحِلَتُهُ، حَتَّى إِذَا اشْتَدَّ عَلَيْهِ الحَرِّ وَالعَطَشُ أَوْ مَا شَاءَ اللهُ ، قَالَ أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِي، فَرَجَعَ فَنَامَ نَوْمَةً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَهُ (بخاری کتاب الدعوات باب التوبة (6308) حارث بن سوید سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں.میں ان میں سے ایک نبی صلی للی نیم سے اور ایک اپنی طرف سے.یہ کہا کہ مؤمن اپنے گناہوں کو یوں دیکھتا ہے گویا وہ پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اس پر نہ آپڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو یوں سمجھتا ہے جیسے مکھی اس کے ناک پر سے گزر گئی اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا.ابو شہاب نے یہ اشارہ اپنے ہاتھ کو ناک پر گزار کر بتلا یا پھر انہوں نے ( آنحضرت صلی للی کم کی حدیث بیان کی) فرمایا اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا وہ شخص کہ جو ایک مقام پر اترا اور وہاں ہلاکت کے سب سامان موجود ہیں.اس کے ساتھ اس کی اونٹنی ہے جس پر اس کا کھانا اور پانی بندھا ہوا ہے.وہ اپنا سر رکھ کر تھوڑا سا سو گیا اور پھر جاگا کیا دیکھا کہ اس کی اونٹنی کہیں چلی گئی ہے.نوبت یہاں تک پہنچی کہ گرمی اور پیاس نے اسے سخت لاچار کر دیا یا فرمایا اتنی سخت گرمی
151 اور پیاس لگی جتنی اللہ نے چاہی.کہنے لگا.میں اپنی جگہ لوٹ جاتا ہوں اور وہ لوٹا اور تھوڑا سا سویا تو پھر اس نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی او ملٹی اس کے پاس کھڑی ہے.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْعَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَهُوَ عَمهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَلَهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ، مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَيسَ مِنْهَا، فَأَتَى شَجَرَةً، فَاضْطَجَعَ فِي ظِلْهَا، قَدْ أَيسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَبَيْنَا هُمَا كَذَلِكَ إِذَا هُوَ بِهَا، قَائِمَةً عِنْدَهُ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ، أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَح (مسلم كتاب التوبة باب فى الحض على التوبة والفرح بها 4918) اسحاق بن عبداللہ ابن ابو طلحہ کہتے ہیں ہمیں حضرت انس بن مالک نے بتایا اور وہ ان کے چچا تھے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا یقیناً اللہ اپنے بندہ کی تو بہ پر جب وہ اس کے حضور توبہ کرتا ہے تم میں سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی جنگل میں اپنی سواری پر تھا.پھر وہ اس سے چھوٹ گئی جبکہ اس پر اس کا کھانا اور اس کا پانی تھا.پھر وہ اپنی سواری سے مایوس ہو کر ایک در محت کے پاس آیا اور اس کے سایہ کے نیچے آکر لیٹ گیا.اچانک کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے پاس کھڑی ہے.چنانچہ اس نے اس کی نکیل سے پکڑا.خوشی کی شدت سے کہا اے اللہ ! تو میرا بندہ اور میں تیر ارب ہوں.خوشی کی شدت کی وجہ سے اس سے غلطی ہو گئی.122- عَن أبي هريراً، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أنا عند ظن عبدي بي، وَأَنا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُني، والله تلهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ
152 ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَى شِبْرًا، تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَىٰ ذِرَاعًا، تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَى يَمْشِي، أَقْبَلْتُ إِلَيْهِ أُهَرُولُ (مسلم کتاب التوبة باب فى الحض على التوبة...4913) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا میں اپنے بندہ سے اس کے میرے متعلق ظن کے مطابق ہو تا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میر اذکر کرتا ہے اور اللہ کی قسم ! اللہ اپنے بندہ کی تو بہ پر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو تم میں سے اپنی گمشدہ اونٹنی جنگل میں پالینے پر ہوتا ہے اور جو ایک بالشت میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ اس کے قریب آجاتا ہوں.جو ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے میں دو ہاتھ اس کے قریب آجاتا ہوں اور جب وہ میرے پاس چل کر آتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں.123.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الله تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِ عَبْدِى فِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي ، فَإِن ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِن ذَكَرَ فِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِن تَقَرَّبَ إِلَى بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَى ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا ، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً (بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى يحزر كم الله نفسه 7405) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں وہیں ہو تا ہوں جہاں میرا بندہ میرے متعلق خیال کرتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہی ہو تا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اگر وہ اپنے دل میں مجھے یاد کرے تو میں بھی اپنے دل میں اس کو یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بھری مجلس میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو بھری مجلس میں یاد کرتا ہوں جو اس مجلس سے بہتر ہوتی ہے اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو تا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک باع اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں اس کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہوں.
153 عَنْ وَائِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَا عند طَنٍ عَبْدِي بِي، فَلْيَظُنَّ فِي مَا شَاءَ سنن دارمی ، و من كتاب الرقاق باب فى حسن الظن بالله (2733 حضرت واثلہ کی روایت ہے کہ نبی صلی الیم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اپنا آپ اس پر ظاہر کرتا ہوں پس جیسا وہ میرے متعلق گمان کرے ایسا ہی میر ااس سے سلوک ہوتا ہے.124- عن أنس سمعت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُولُ التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذنب له وإذا أحب الله عَبْدَهُ لَمْ يَضُرَّهُ ذَنب ثم تلا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ القَوَابِينَ وَيُحِبُّ المُتَطَفِرِينَ قِيلَ يَا رَسُولَ الله وَمَا عَلَامَةُ التَّوْبَة قَالَ النَّدَامَةُ (الدر المنثور فى تفسیر بالماثور ، البقره آیت (222) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.پھر حضور صلی علیکم نے یہ آیت پڑھی.اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے عرض کیا گیا یارسول اللہ ! تو بہ کی علامت کیا ہے ؟ آپ صلی لیں کم نے فرمایا ندامت اور پشیمانی (علامت تو بہ ہے).حَدَّثَنَا احمد بن زكريا قال سمعتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الثَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لا ذَنْبَ لَهُ وَإِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا لَمْ يَضُرَّهُ ذَنْبٌ، ثُمَّ تَلا إنَّ اللهَ يُحِبُّ الثَّوَابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَفِرِينَ ، قيل يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا عَلَامَةُ الثَّوْبَةِ ؟ قَالَ النَّدَامَةُ (الرسالة القشيرية ، باب التوبة صفحه 126)
154 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں.جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے اور گناہ کے بد نتائج سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھتا ہے.پھر حضور صلی علیہم نے یہ آیت پڑھی إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.عرض کیا گیا یارسول اللہ! تو بہ کی علامت کیا ہے ؟ آپ صلی غیر ہم نے فرمایاند امت اور پشیمانی (علامت تو بہ ہے).125- عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ، فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ لَا، فَقَتَلَهُ، فَكَمَلَ بِهِ مِائَةٌ، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةً نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَقَالَ نَعَمْ ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ ؟ انْطَلِقُ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا أَنَاسًا يَعْبُدُونَ اللهَ فَاعْبُدِ اللَّهَ مَعَهُمْ وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ، فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ جَاءَ تَائِباً مُقْبِلا بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَط ، فَأَتَاهُمْ مَلَكَ فِي صُورَةِ آدَيَ ، فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَينِ، فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ (مسلم کتاب التوبة باب قبول التوبة القاتل و ان كثر قتله 4953)
155 حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی یم نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جس نے ننانوے قتل کئے تھے.اس نے ملک کے سب سے بڑے عالم کے بارہ میں پوچھا چنانچہ اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا.وہ شخص اس کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اس نے نانوے قتل کئے ہیں کیا اس کی تو بہ ہو سکتی ہے ؟ اس نے کہا نہیں.اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس طرح سو پورے کر دئے.اس نے پھر ملک کے سب سے بڑے عالم کے متعلق پو چھا.تو پھر اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا.اس نے کہا کہ اس نے سو آدمیوں کو قتل کیا ہے کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے.اس نے کہا ہاں.بندہ اور اس کی توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے.فلاں علاقہ کی طرف چلے جاؤ.وہاں کچھ لوگ ہیں جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں.پس تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو اور واپس اپنے ملک مت لوٹنا کیو نکہ وہ ملک بُرا ہے.پس وہ چل پڑا، ابھی اس نے آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ اسے موت نے آلیا.اس کے بارہ میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے.رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ اپنے دل سے تو بہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف آرہا تھا.مگر عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی.اتنے میں ان کے پاس انسانی صورت میں ایک فرشتہ آیا.انہوں نے اسے اپنے در میان حکم بنالیا.اس نے کہا کہ دونوں زمینوں کی پیمائش کرو.پس جس کے وہ زیادہ قریب ہو گا وہ اسی کا ہو گا.چنانچہ انہوں نے اس کی پیمائش کی تو انہوں نے اسے اس زمین کے زیادہ قریب پایا جس کی طرف جانے کا اس نے ارادہ کیا تھا.تو رحمت کے فرشتوں نے اسے قبضہ میں لے لیا.عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِنْسَانًا، ثُمَّ خَرَجَ يَسْأَلُ، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ لَهُ هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ قَالَ لَا، فَقَتَلَهُ، فَجَعَلَ يَسْأَلُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ انْتِ قَرْيَةً كَذَا وَكَذَا، فَأَدْرَكَهُ المَوْتُ، فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَهَا، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ العَذَابِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى
156 هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي، وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِى، وَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا، فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ، فَغُفِرَ لَهُ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حديث الغار 3470) حضرت ابو سعید نے نبی صلی علیم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے نانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا.پھر وہ مسئلہ) پوچھنے کے لئے نکلا اور ایک راہب کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ اس نے کہا نہیں.یہ سن کر اس نے اس کو بھی مار ڈالا اور پھر وہ اسی طرح (مسئلہ) پوچھنے لگا تو ایک شخص نے اس سے کہا فلاں فلاں بستی میں جاؤ تو راستے میں اس کو موت نے آلیا اور مرتے وقت اس نے اپنے سینے کو اس بستی کی طرف جھکا دیا.اب اس کے متعلق رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے.اللہ نے اس بستی کو وحی کی کہ اس کے قریب ہو جا اور اللہ نے اس بستی کو جہاں سے وہ نکلا تھا حکم دیا کہ اس سے دور ہو جا.پھر فرشتوں سے فرمایا دونوں بستیوں کے درمیان جو فاصلہ ہے اس کو نا ہو.تو اس بستی کے جس کی طرف جانے کا قصد رکھتا تھا، ایک بالشت زیادہ قریب پایا گیا.اس لئے اس کو بخش دیا گیا.126- عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَ، قَائِدَ كَعْبِ مِنْ بَنِيهِ، حِينَ عَمَى، قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ، تَبُوكَ، قَالَ كَعْبُ لَمْ أَتَخَلَّفُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهَا، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ، وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ العَقَبَةِ، حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الإِسْلامِ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرُ، أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا ، كَانَ مِنْ خَبَرِى أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَط أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ، فِي
157 تِلْكَ الغَزَاةِ، وَاللهِ مَا اجْتَمَعَتْ عِنْدِى قَبْلَهُ رَاحِلَتَانِ قَط حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الغَزْوَةِ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ غَزْوَةً إِلَّا وَذَى بِغَيْرِهَا، حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الغَزْوَةُ، غَزَاهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرٍ شَدِيدٍ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا، وَمَفَازًا وَعَدُوا كَثِيرًا، فَجَلَى لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ، فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِي يُرِيدُ، وَالمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابٌ حَافِظٌ ، يُرِيدُ الدِّيوَانَ، قَالَ كَعْبُ فَمَا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلَّا ظَنَّ أَنْ سَيَخْفَى لَهُ، مَا لَمْ يَنْزِلُ فِيهِ وَحْى اللهِ، وَغَزَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثَّمَارُ وَالظَّلاَلُ، وَتَجَهَّدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُسْلِمُونَ مَعَهُ، فَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّز مَعَهُمْ ، فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَأَقُولُ فِي نَفْسِى أَنا قَادِرٌ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَزَلْ يَتَقَادَى بِي حَتَّى اشْتَدَّ بِالنَّاسِ الجِدُّ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُسْلِمُونَ مَعَهُ، وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِى شَيْئًا، فَقُلْتُ أَتَجَهَرُ بَعْدَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ، فَغَدَوْتُ بَعْدَ أَنْ فَصَلُّوا لِأَتَجَهَزَ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا ، ثُمَّ غَدَوْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَلَمْ يَزَلْ بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الغَزْرُ، وَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ، وَلَيْتَنِي فَعَلْتُ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي ذَلِكَ، فَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَفْتُ فِيهِمْ، أَحْزَنَنِي أَنِّي لَا أَرَى إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَيْهِ النَفَاقُ، أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ، فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي القَوْمِ بِتَبُوكَ مَا فَعَلَ كَعْبُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَبَسَهُ بُرْدَاهُ، وَنَظَرُهُ فِي عِطْفِهِ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ بِئْسَ مَا قُلْتَ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا ، فَسَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّهُ
158 E تَوَجَّهَ قَافِلًا حَضَرَنِي هَمّي، وَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الكَذِبَ ، وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا، وَاسْتَعَنْتُ عَلَى ذَلِكَ بِكُلِّ ذِى رَأْي مِنْ أَهْلِي، فَلَمَّا قِيلَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِي البَاطِلُ، وَعَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَخْرُجَ مِنْهُ أَبَدًا بِشَيْءٍ فِيهِ كَذِبُ، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ، وَأَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ، فَيَرْكَعُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَهَا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ المُخَلَّفُونَ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ، وَكَانُوا بِضْعَةٌ وَثَمَانِينَ رَجُلًا، فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ ، وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ، وَوَكَّلْ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ، فَجِئْتُهُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ تَبَسَّمَ تَبَسَّمَ المُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ تَعَالَ فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَقَالَ لِي مَا خَلَفَكَ ، أَلَمْ تَكُنْ قَدْ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ.فَقُلْتُ بَلَى، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، لَرَأَيْتُ أَنْ سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ، وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا، وَلَكِنِي وَاللهِ، لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ اليَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِي، لَيُوشِكَنَ اللهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَى ، وَلَئِنْ حَدَّفَتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ، تَجِدُ عَلَى فِيهِ، إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ، لَا وَاللهِ، مَا كَانَ لِي مِنْ عُذْرٍ، وَاللهِ مَا كُنْتُ قَط أَقْوَى، وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ.فَقُمْتُ، وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ فَاتَّبَعُونِي، فَقَالُوا لِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ كُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا، وَلَقَدْ عَجَزَتَ أَنْ لَا تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ إِلَيْهِ المُتَخَلَّفُونَ، قَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لكَ، فَوَالله مَا زَالُوا يُؤَيبوني حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعْ فَأَكَذِبَ نَفْسِي، ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ هَلْ لَفِي هَذَا أَحَدٌ ؟ قَالُوا نَعَمْ، رَجُلانِ، قَالاً مِثْلَ مَا قُلْتَ فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلُ مَا قِيلَ لَكَ، فَقُلْتُ
159 مَنْ هُمَا؟ قَالُوا مُرَارَةُ بْنُ الرّبِيعِ العَمْرِيُّ، وَهِلاَلُ بْن أُمَيَّةَ الوَاقِفِيُّ، فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صالِحَيْنِ، قَد شَهِدَا بَدْرًا، فِيهِمَا أُسْوَةٌ، فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي، وَنَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُسْلِمِينَ عَنْ كَلاَمِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ، فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ، وَتَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ فِي نَفْسِي الْأَرْضُ فَمَا هِيَ الَّتِي أَعْرِفُ، فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، فَأَمَّا صَاحِبَايَ فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ، وَأَمَّا أَنَا، فَكُنْتُ أَشَبَّ القَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلاةَ مَعَ المُسْلِمِينَ، وَأَطُوفُ فِي الأَسْوَاقِ وَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ، وَآتِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَةِ السَّلَامِ عَلَى أَمْ لَا؟ ثُمَّ أَصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ، فَأُسَارِقُهُ النَّظَر، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي أَقْبَلَ إِلَى، وَإِذَا التَفَتُ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِي، حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَى ذَلِكَ مِنْ جَفْوَةِ النَّاسِ، مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ، وَهُوَ ابْنُ عَمِي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَى، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَوَاللهِ مَا رَدَّ عَلَى السَّلَامَ، فَقُلْتُ يَا أَبَا قَتَادَةَ، أَنْشُدُكَ بِاللهِ هَلْ تَعْلَمُنِي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ ؟ فَسَكَتَ ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ فَسَكَتَ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ، فَقَالَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَفَاضَتْ عَيْنَايَ، وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الجِدَارَ، قَالَ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي بِسُوقٍ المَدِينَةِ، إِذَا نَبَطِيُّ مِنْ أَنْبَاطِ أَهْلِ الشَّامِ ، حَمَنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبيعُهُ بِالْمَدِينَةِ ، يَقُولُ مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ، حَتَّى إِذَا جَاءَنِي دَفَعَ إِلَى كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَشَانَ، فَإِذَا فِيهِ أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلُكَ اللهُ بِدَارٍ هَوَانٍ، وَلَا مَضْيَعَةٍ، فَالحَقِّ بِنَا نُوَاسِكَ، فَقُلْتُ لَمَّا قَرَأْتُهَا وَهَذَا أَيْضًا مِنَ البَلاءِ، فَتَيَمَّمْتُ بِهَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُهُ بِهَا ، حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةٌ مِنَ الخمسين، إذا رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَقَالَ إِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
160 اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ أَطَلِقُهَا ؟ أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ لَا، بَلِ اعْتَزِلُهَا وَلَا تَقْرَبُهَا، وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَتَكُونِي عِنْدَهُمْ، حَتَّى يَقْضِيَ اللهُ فِي هَذَا الأَمْرِ ، قَالَ كَعْبُ فَجَاءَتِ امْرَأَةُ هِلاَلِ بْنِ أُمَيَّةً رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ هِلاَلَ بْن أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ، لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ ، فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ ؟ قَالَ لَا ، وَلَكِنْ لَا يَقْرَبُكِ.قَالَتْ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةً إِلَى شَيْءٍ، وَاللهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ، مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا، فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَتِكَ كَمَا أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ ؟ فَقُلْتُ وَاللهِ لَا أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا يُدْرِينِي مَا يَقُولُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَتْتُهُ فِيهَا، وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌ : فَلَبِثْتُ بَعْدَ ؟ ذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ، حَتَّى كَمَلَتْ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلامِنَا، فَلَمَّا صَلَّيْتُ صَلاَةَ الفَجْرِ صُبْحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، وَأَنَا عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللهُ قَدْ ضَاقَتْ عَلَى نَفْسِي، وَضَاقَتْ عَلَى الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ، سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخ، أَوْفَى عَلَى جَبَلٍ سَلْعِ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرُ، قَالَ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ، وَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلاَةَ الفَجْرِ، فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا، وَذَهَبَ قِبَل صَاحِبَيَّ مُبَشِّرُونَ، وَرَحْضَ إِلَى رَجُلٌ فَرَسًا، وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ، فَأَوْفَى عَلَى الجَبَلِ، وَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الفَرَسِ فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِى سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي، نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَى، فَكَسَوْتُهُ إِيَّاهُمَا ، بِبُشْرَاهُ وَاللهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا، وَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَيَتَلَقَانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا، يُهَنُونِي
161 بِالتَّوْبَةِ، يَقُولُونَ لِتَهْنِكَ تَوْبَةُ اللهِ عَلَيْكَ، قَالَ كَعْبٌ حَتَّى دَخَلْتُ المَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ حَوْلَهُ النَّاسُ، فَقَامَ إِلَى طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرُولُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَانِي، وَاللهِ مَا قَامَ إِلَى رَجُلٌ مِنَ المُهَاجِرِينَ غَيْرَهُ، وَلَا أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ، قَالَ كَعْبُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ أَبْشِرُ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ، قَالَ قُلْتُ أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَمْ مِنْ عِنْدِ اللهِ ؟ قَالَ لَا، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ.وَكَانَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرِّ اسْتَنَارَ ،وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَهُ قَرٍ، وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ ، فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَنِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِ اللهِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ.قُلْتُ فَإِنِّي أَمْسِكُ سَمِي الَّذِى بِخَيْبَرَ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا نَجَانِي بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِثَ إِلَّا صِدْقًا، مَا بَقِيتُ.فَوَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ المُسْلِمِينَ أَبْلَاهُ اللهُ فِي صِدْقِ الحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي، مَا تَعَمَّدَتُ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا كَذِبًا، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللهُ فِيمَا بَقِيتُ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَد تَابَ اللهُ عَلَى النَّبِي وَالمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ (التوبة (117) إِلَى قَوْلِهِ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة (119) فَوَاللهِ مَا أَنْعَمَ اللهُ عَلَى مِنْ نِعْمَةٍ قَط بَعْدَ أَنْ هَدَانِي لِلْإِسْلَامِ، أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدِّقِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ، فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا، فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا - حِينَ أَنْزَلَ الوَحْى - شَرَّ مَا قَالَ لِأَحَدٍ، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى سَيَحْلِفُونَ بِاللهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ (التوبة (95) إِلَى قَوْلِهِ فَإِنَّ اللَّهَ لَا
162 يَرْضَى عَنِ القَوْمِ الفَاسِقِينَ (التوبة (96) قَالَ كَعْب وَكُنَّا تَخَلَّفْنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَلَفُوا لَهُ، فَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ، وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى اللَّهُ فِيهِ، فَبِذَلِكَ قَالَ اللهُ وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِفُوا التوبة (118) وَلَيْسَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِفْنَا عَنِ الغَزْهِ، إِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا، وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُ (بخاری کتاب المغازی باب حديث كعب بن مالک و قول الله عز وجل و على الثلاثة...4418) ابن شہاب نے عبد الرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک سے روایت کی کہ عبد اللہ بن کعب بن مالک اور وہ ان کے بیٹوں سے کعب کو جب وہ نابینا ہو گئے تھے پکڑ کر لے جایا کرتے تھے کہا کہ میں نے کعب بن مالک کو وہ واقعہ بیان کرتے سنا کہ جب کہ وہ پیچھے رہ گئے تھے یعنی تبوک کا واقعہ.کعب نے کہا میں رسول اللہ صلی اللی نام سے کسی غزوہ میں بھی پیچھے نہیں رہا جو آپ نے کیا ہو.سوائے غزوہ تبوک کے.ہاں غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا اور آپ نے کسی پر بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا کہ جو اس جنگ کے پیچھے رہ گیا تھا.رسول اللہ صلی للی نیم صرف قریش کے قافلہ کو روکنے کے ارادے سے نکلے تھے.مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بغیر اس کے کہ جنگ کی ٹھانی ہو ان کو دشمن سے ٹکرا دیا اور میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ عقبہ کی رات میں بھی موجود تھا.جب ہم نے اسلام پر قائم رہنے کا پختہ عہد و پیمان کیا تھا اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے عوض مجھے بدر میں شریک ہونے کی توفیق ملتی.اگر چہ بدر لوگوں میں اس سے زیادہ مشہور ہے اور میری حالت یہ تھی کہ میں کبھی بھی اتناتنو مند اور خوشحال نہیں تھا جتنا کہ اس وقت جب کہ میں آپ سے اس غزوہ میں پیچھے رہ گیا.اللہ کی قسم اس سے پہلے کبھی بھی میرے پاس اونٹ اکٹھے نہیں ہوئے اور اس حملہ کے اثناء میں دو اونٹ اکٹھے کر لئے تھے اور رسول اللہ صلی اللمعلم جبس غزوہ کا بھی ارادہ کرتے تھے تو آپ اس کو چھپا کر کسی اور طرف جانے کا اظہار کرتے.جب وہ غزوہ ہو ا تو نبی صلی ال کی اس حملہ میں سخت گرمی کے وقت نکلے اور آپ کے سامنے دور دراز کا سفر اور غیر آباد بیابان اور دشمن تھا.جو بہت سی تعداد میں تھا.آپ نے مسلمانوں کو ان کی حالت کھول کر بیان کر دی تا کہ وہ اپنے اس غزوہ کے لئے جو تیاری کرنے کا حق
163 مسلمان ہے تیاری کریں.آپ نے ان کو اس جہت کا بھی پتہ کر دیا جس طرف آپ جانا چاہتے تھے اور رسول اللہ صلی ال نیم کے ساتھ بکثرت تھے اور محفوظ رکھنے والی کوئی کتاب نہ تھی.جو ان کی تعداد کو ضبط میں رکھتی.کعب کی مراد اس سے رجسٹر تھا.کعب کہتے تھے اور کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو غیر حاضر رہنا چاہتا ہو.وہ خیال نہ کرتا کہ اس کا غیر حاضر رہنا آپ سے پوشیدہ رہے گا.جب تک کہ اس سے متعلق اللہ کی وحی نازل نہ ہو اور رسول اللہ صلی علیم نے یہ غزوہ اس وقت کیا کہ جب پھل لگ چکے تھے اور سائے اچھے تھے اور رسول اللہ صلی علیکم نے سفر کی تیاری شروع کر دی.آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی اور میں صبح کو جاتا تا میں بھی ان کے ساتھ سامان سفر کی تیاری کروں.میں واپس لوٹتا اور کچھ بھی نہ کیا ہوتا.میں اپنے دل میں کہتا کہ میں تیاری کر سکتا ہوں.یہ خیال مجھے لیت و لعل میں رکھتا رہا.یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ لوگوں کو سفر کی جلدی پڑی اور رسول اللہ صلی الی یکم ایک صبح روانہ ہو گئے اور مسلمان بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئے اور میں اپنے سامان سفر کی تیاری میں سے کچھ بھی نہ نپٹا یا تھا.میں نے سوچا کہ آپ کے جانے کے ایک دن یا دو دن بعد تیاری کرلوں گا اور پھر ان سے جاملوں گا.ان کے چلے جانے کے بعد دوسری صبح باہر گیا کہ سامان تیار کرلوں.مگر پھر واپس آگیا اور کچھ بھی نہ کیا.پھر میں ا دوسرے دن گیا اور واپس لوٹ آیا اور کچھ بھی نہ نپٹایا اور یہی حال رہا یہاں تک کہ تیزی سے سفر کرتے ہوئے لشکر بہت آگے نکل گئے.میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ کوچ کروں اور ان کو پالوں اور کاش کہ میں ایسا کرتا.مگر مجھ سے یہ مقدر بھی نہ ہوا.رسول اللہ صلی للی و ملک کے جانے کے بعد جب بھی میں لوگوں میں نکلتا اور ان میں چکر لگاتا تو میں ایسے ہی شخص دیکھتا جن پر نفاق کا عیب لگایا جاتا تھا.ایسا شخص جس کو بوجہ نفاق ہونے کے حقارت سے دیکھا جاتا تھا یا کمزوروں میں سے ایسا شخص جس کو اللہ نے معذور ٹھہرایا تھا اور رسول اللہ صلی العلیم نے بھی مجھے اس وقت یاد کیا جب آپ تبوک میں پہنچے.آپ نے فرمایا اور اس وقت آپ تبوک میں لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے ، کعب کہاں ہے ؟ بنو سلمہ میں سے ایک شخص نے کہا اللہ کی قسم ! یارسول اللہ ! اس کو اس کی دو چادروں نے اور اس کے اپنے ! دائیں بائیں مڑ مڑ کر دیکھنے سے روک رکھا ہے.معاذ بن جبل نے یہ سن کر کہا کیا یہ بری بات ہے جو تم نے کہی ہے ؟ یار سول اللہ ! اس کے متعلق ہمیں بھی اچھا ہی تجربہ ہے.رسول اللہ صلی علی کرم یہ سن کر خاموش ہو گئے.کعب
164 بن مالک کہتے تھے.جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ آپ واپس آرہے ہیں مجھے فکر ہوئی اور میں جھوٹی باتیں سوچنے لگا کہ کس بات سے کل آپ کی ناراضگی سے بچ جاؤں اور اپنے گھر والوں سے ہر ایک اہل رائے سے میں نے اس بارے میں مشورہ لیا.جب یہ کہا گیا کہ رسول اللہ صلی للی کم آن پہنچے میرے دل سے سارے جھوٹے خیالات کافور ہو گئے اور میں نے سمجھ لیا میں کبھی بھی آپ کے غصہ سے ایسی بات سے بچنے کا نہیں جس میں جھوٹ ہو.اس لئے میں نے آپ سے سچ سچ بیان کرنے کی ٹھان لی اور رسول اللہ صلی للی یکم تشریف لے آئے.جب آپ کسی سفر سے آتے پہلے مسجد میں جاتے.اس میں دور کعتیں پڑھتے.پھر لوگوں سے ملنے کے لئے بیٹھ جاتے.جب آپ نے یہ کیا تو پیچھے رہے ہوئے لوگ آپ کے پاس آگئے اور لگے آپ سے معذر تیں کرنے اور قسمیں کھانے اور ایسے لوگ اسی سے کچھ اوپر تھے.رسول اللہ صلی الیکم نے ان سے ان کے ظاہر عذر مان لئے اور ان سے بیعت لی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی اور ان کا اندرونہ اللہ کے سپر د کیا.پھر میں آپ کے پاس آیا.جب میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے ناراضگی والا تبسم فرمایا پھر فرمایا آؤ.میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا.آپ نے مجھے پوچھا.کس بات نے تمہیں پیچھے رکھا؟ کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی؟ میں نے کہا ہاں، میں اللہ کی قسم ایسا ہوں کہ اگر آپ کے سوا دنیا کے لوگوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ میں ضرور ہی اس کی ناراضگی سے عذر کر کے بچ جاتا.( مجھے خوش بیان دی گئی ہے).مگر اللہ کی قسم میں خوب سمجھ چکا ہوں اگر میں نے آج آپ سے کوئی ایسی جھوٹی بات بیان کی جس سے آپ مجھ پر راضی ہو جائیں تو اللہ عنقریب مجھ پر آپ کو ناراض کر دے گا اور اگر یہ آپ سے سچی بات بیان کروں گا جس کی وجہ سے آپ مجھ پر ناراض ہوں تو میں اس میں اللہ کے عفو کی امید رکھوں گا.نہیں اللہ کی قسم میرے لئے کوئی عذر نہیں تھا.اللہ کی قسم میں کبھی بھی ایسا تنو مند اور آسودہ حال نہیں ہو اجتنا کہ اس وقت تھا جب آپ سے پیچھے رہ گیا.رسول اللہ صلی نیلم نے یہ سن کر فرمایا اس نے تو سچ بیان کر دیا ہے.اٹھو جاؤ.یہاں تک کہ اللہ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کرے.میں اٹھ کر چلا گیا اور بنو سلمہ میں سے بعض لوگ بھی اٹھ کر میرے پیچھے ہو لئے.انہوں نے مجھے کہا اللہ کی قسم ہمیں علم نہیں کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو اور تم یہ بھی نہ کر سکے کہ رسول اللہ صلی علیم کے پاس کوئی بہانہ ہی بناتے.جب کہ ان پیچھے رہنے والوں نے آپ کے
165 سامنے بنائے.رسول اللہ صلی علیہ نیم کا تمہارے لئے مغفرت کی دعا کر دینا ہی تمہارے اس گناہ بخشانے کے لئے کافی تھا.اللہ کی قسم یہ لوگ مجھے ملامت ہی کرتے رہے.یہاں تک کہ میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ لوٹ جاؤں اور اپنے آپ کو جھٹلا دوں.پھر میں نے ان سے پوچھا.کیا کوئی میرے ساتھ اور بھی ہے جس نے آپ سے اس قسم کا اقرار کیا ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں.دو اور شخص ہیں.انہوں نے بھی وہی کیا ہے جو تم نے کیا ہے اور ان کو بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں دیا گیا ہے.میں نے کہا وہ کون ہیں؟ کہنے لگے.مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ واقفی.انہوں نے مجھ سے ایسے نیک آدمیوں کا ذکر کیا جو بدر میں شامل ہوئے تھے.وہ دونوں (میرے لیے ) اسوہ تھے.تو میں چلا گیا اور رسول اللہ صلی الیکم نے مسلمانوں کو ہم سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا.یعنی ان میں سے جو ان لوگوں میں سے تھے جو آپ سے پیچھے رہ گئے تھے لوگ کترانے لگے.گویا کہ ہم سے بالکل نا آشنا ہیں.یہاں تک کہ یہ زمین بھی مجھے اوپری نظر آنے لگی.وہ نہ تھی جس کو میں جانتا تھا.ہم اس حالت پر پچاس راتیں رہے.میرے جو ساتھی تھے وہ تو رہ گئے اور اپنے گھروں میں بیٹھ کر رونے لگے اور میں ان لوگوں میں سے زیادہ جو ان تھا اور ان لوگوں سے مصیبت کو زیادہ برداشت کرنے والا تھا.میں گھر سے نکلتا اور مسلمانوں کے ساتھ نمازوں میں شریک ہو تا اور بازاروں میں پھرتا.مگر مجھ سے کوئی بات نہ کرتا اور رسول اللہ صلی علیم کے پاس بھی جاتا.آپ کو السلام علیکم کہتا.جب کہ آپ نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے ہوتے اور اپنے دل میں کہتا.کیا آپ نے مجھے سلام کا جواب دینے میں اپنے ہونٹ ہلائے یا نہیں؟ اور آپ کے قریب ہو کر نماز پڑھتا اور نظر چرا کر آپ کو دیکھتا.یہاں تک کہ لوگوں کی یہ درشتی مجھ پر لمبی ہو گئی.تو میں چلا گیا اور ابو قتادہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا.یہ میرے چچا کے بیٹے تھے اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارے تھے.میں نے ان کو السلام علیکم کہا اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا.میں نے کہا ابو قتادہ میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں.کیا تم جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں ؟ وہ خاموش رہے.پھر ان سے پوچھا اور ان کو قسم دی اور انہوں نے کہا اللہ اور اس کار سول بہتر جانتے ہیں.یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.میں پیٹھ موڑ کر دیوار پھاندی (اور وہاں سے چلا آیا ).کعب کہتے تھے اس اثناء میں کہ میں مدینہ کے بازار میں چلا جارہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ اہل شام کے قبطیوں سے ایک
166 قبطی ان لوگوں میں سے ہے جو مدینہ میں غلہ لے کر بیچنے کے لئے آئے تھے وہ کہہ رہا ہے کعب بن مالک کا کون بتائے گا؟ یہ سن کر لوگ اس کو اشارہ سے بتانے لگے.جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے غسان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط مجھے دیا.اس میں یہ مضمون تھا.اما بعد مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تمہارے ساتھ سختی کا معاملہ کر کے تمہیں الگ تھلگ چھوڑ دیا ہے اور تمہیں تو اللہ نے کسی ایسے گھر میں پیدا نہیں کیا تھا جہاں ذلت ہو اور تمہیں ضائع کر دیا جائے.تم ہم سے آکر ملو.ہم تمہاری خاطر مدارت کریں گے.جب میں نے یہ خط پڑھا میں نے کہا یہ بھی مصیبتوں کی ایک مصیبت ہے.میں نے وہ خط لے کر تنور کی طرف گیا اور اس میں جھونک دیا.جب پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزریں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی علیکم کا پیغام لانے والا میرے پاس آرہا ہے.اس نے کہا رسول اللہ صلی یہی تم تم سے فرماتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ.میں نے پوچھا.کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا اس سے الگ رہو اور اس کے قریب نہ جاؤ.آپ نے میرے دونوں ساتھیوں کو بھی ایسا ہی کہلا بھیجا.میں نے اپنی بیوی سے کہا اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور اس وقت تک انہیں کے پاس رہنا کہ اللہ اس معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے.کعب کہتے تھے.پھر ہلال بن امیہ کی بیوی رسول اللہ صلی الیکم کے پاس آئی اور کہنے لگی.یارسول اللہ ! ہلال بن امیہ بہت بوڑھا ہے.اس کا کوئی نوکر نہیں.کیا آپ نا پسند فرمائیں گے اگر میں اس کی خدمت کروں ؟ آپ نے فرمایا نہیں.لیکن تمہارے قریب نہ ہو.کہنے لگی.اللہ کی قسم اس کو تو کسی بات کی تحریک نہیں ہوتی.اللہ کی قسم وہ اس دن سے آج تک رورہا ہے جب سے اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے.میرے بعض رشتہ داروں نے مجھ سے کہا اگر تم بھی رسول اللہ صلی علیم سے اپنی بیوی کے متعلق ویسے ہی اجازت لے لو جب کہ آپ نے ہلال بن امیہ کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دی ہے.میں نے کہا اللہ کی قسم میں تو رسول اللہ صلی علیم سے کبھی اس بارے میں اجازت نہ لوں اور مجھے کیا معلوم رسول اللہ صلی الیم مجھے کیا جواب دیں اور میں جو ان آدمی ہوں.اس کے بعد میں رات اور ٹھہر ارہا.یہاں تک کہ ہمارے لئے پچاس راتیں اس وقت سے پوری ہوئیں کہ جب رسول اللہ صلی ال کلم نے ہمارے ساتھ بات چیت کرنے سے منع کیا تھا.جب پچاس رات کی صبح کو نماز فجر پڑھ چکا اور میں اس وقت اپنے گھروں میں سے ایک گھر کی چھت پر تھا ور اسی
167 حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے یعنی مجھ پر میری جان تنگ ہو چکی تھی اور مجھ پر زمین بھی باوجود کشادہ ہونے کے تنگ ہو گئی تھی.اس اثناء میں ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑ پر چڑھ کر بلند آواز سے پکار رہا تھا.اے کعب بن مالک تمہیں بشارت ہو.میں یہ سن کر سجدہ میں گر پڑا اور سمجھ گیا کہ مصیبت دور ہو گئی اور رسول اللہ نے جب آپ فجر کی نماز پڑھ چکے اعلان فرمایا کہ اللہ نے مہربانی کر کے ہماری غلطی کو معاف کر دیا ہے.یہ سن کر لوگ مجھے خوشخبری دینے لگے اور میرے ساتھیوں کی طرف بھی خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص میرے پاس گھوڑا ہوگائے ہوئے آیا اور اسلم قبیلہ کا ایک شخص دوڑا آیا اور پہاڑ پر چڑھ گیا اور اس کی آواز گھوڑے سے زیادہ جلدی پہنچنے والی تھی.جب وہ شخص میرے پاس بشارت دینے آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی میں نے اس کے لئے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس کو پہنائے.اس لئے کہ اس نے مجھے بشارت دی تھی اور اللہ کی قسم اس وقت ان کے سوامیرے پاس اور کچھ نہ تھا اور میں نے دو اور کپڑے عاریتا لئے اور انہیں پہنا اور رسول اللہ صلی لنی کیم کے پاس چلا گیا اور لوگ مجھے فوج در فوج ملتے اور توبہ کی قبولیت کی وجہ سے مجھے مبارک دیتے تھے.کہتے تھے.تمہیں مبارک ہو.جو اللہ نے تم پر رحم کر کے توبہ قبول کی ہے.کعب کہتے تھے.آخر میں مسجد میں پہنچا.کیا دیکھتا ہوں رسول اللہ لی لی نام مسجد میں بیٹھے ہیں.آپ کے ارد گر دلوگ ہیں.طلحہ بن عبد اللہ مجھے دیکھ کر میرے پاس دوڑے آئے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک دی.مہاجرین میں سے ان کے سوا بخدا کوئی شخص بھی میرے پاس اٹھ کر نہیں آیا اور طلحہ کی یہ بات میں کبھی بھی نہیں بھولوں گا اور کعب کہتے تھے.جب میں نے رسول اللہ صلی شیرینم کو السلام علیکم کہا تو رسول اللہ صلی می نم نے فرمایا اور آپ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا.تمہیں بشارت ہو.نہایت ہی اچھے دن کی ان دنوں میں سے جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا تم پر گزرے ہیں.کہتے تھے میں نے پوچھا.یارسول اللہ ! کیا یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے.آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے.رسول اللہ صلی علی یکم جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ ایسا روشن ہو جاتا کہ گویاوہ چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم اس سے آپ کی خوشی پہچان لیا کرتے تھے.جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا.میں نے کہا یارسول اللہ ! میں اس تو بہ کے قبول ہونے کے عوض اپنی جائیداد سے دست بردار ہوتا ہوں جو رسول اللہ صلی علیم کی خاطر صدقہ
168 ہو گی.رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا اپنی جائیداد میں سے کچھ اپنے لئے بھی رکھو.کیونکہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے.میں نے کہا اپنا وہ حصہ رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے.میں نے کہا یارسول اللہ ! اللہ نے مجھے صدقہ کی وجہ سے نجات دی اور میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں ہمیشہ سچ ہی بولا کروں گا.جب تک کہ میں زندہ رہوں گا.کیونکہ اللہ کی قسم میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا کہ اللہ نے اس کو سچی بات کہنے کی وجہ سے اس خوبی کے ساتھ آزمایا ہو.جس خوبی سے میری آزمائش کی ہے.اس وقت سے کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے اصل واقعہ بیان کیا میں نے آج تک عمد اجھوٹ نہیں بولا اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ آئندہ بھی جب تک زندہ ہوں مجھے محفوظ رکھے گا اور اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی للی کم پر یہ وحی نازل کی لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ....وكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ.اللہ کی قسم کہ اس کے بعد اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دی.کبھی بھی اس نے کوئی انعام میرے نزدیک اس سے بڑھ کر نہیں کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سچ سچ بیان کر دیا.شکر ہے کہ میں نے آپ سے جھوٹ نہیں بولا.ورنہ میں ہلاک ہو جاتا جب کہ وہ لوگ ہلاک ہو گئے جنہوں نے جھوٹ بولا تھا.نہایت ہی نفرت آمیز الفاظ استعمال کئے ہیں.جو اس نے کسی کے لئے استعمال کئے ہوں.اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا سَيَحْلِفُونَ بِاللهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمُ....فَإِنَّ اللهَ لَا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ یعنی اللہ ان بد عہد لوگوں سے کبھی خوش نہیں ہو گا اور کہتے تھے اور ہم تینوں کا فیصلہ ان لوگوں کے فیصلے سے پیچھے رکھا گیا.جن سے رسول اللہ صلی الی نام نے عذر قبول کیا تھا اور ان سے بیعت لی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی تھی اور رسول اللہ صلی ال نیلم نے ہمارے فیصلہ کو ملتوی کر دیا.یہاں تک کہ اللہ نے اس کے متعلق فیصلہ فرمایا سو وہ یہی بات ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِفُوا اور جب پیچھے رکھے جانے کا اللہ نے (اس میں ) ذکر کیا ہے.وہ غزوہ سے ہمارے پیچھے رہنا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی ہمیں ان لوگوں سے پیچھے رکھنا ہے کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی یام کے پاس قسمیں کھائی تھیں اور آپ کے پاس مندر میں کی تھیں اور آپ نے ان کی معذرت قبول کر لی تھی.الله
169 127- عَنْ جُنْدَبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ وَاللَّهِ لَا يَغْفِرُ اللهُ لِفُلانٍ، وَإنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ مَنْ ذَا الَّذِي يَتَأَلَّى عَلَى أَنْ لَا أَغْفِرَ لِفَلَانٍ، فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِفُلَانٍ، وَأَحْبَطَتُ عَمَلَكَ (مسلم کتاب البر والصلة باب النهي عن تقنيط الانسان من رحمة الله 4739) الله حضرت جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم ہے کہ اللہ فلاں کو نہیں بخشے گا اور اللہ فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ پر قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا میں نے فلاں کو بخش دیا اور تیرے عمل کو ضائع کر دیا.128.عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةُ العَبْدِ مَا لَمْ يُغَرغِرُ (ترمذی کتاب الدعوات باب فضل التوبة والاستغفار وما ذكر 3537) حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کر لیتا ہے جب تک بندے پر غرغرہ کی حالت طاری نہ ہو.علم اور اس کے حصول کی ترغیب 129- عن عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْن عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نَظَرَ اللهُ امْرَأَ سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَغَهُ كَمَا سَمِعَ، فَرُبَ مُبَلِّغ أَوْعَى مِنْ سَامِع (ترمذی کتاب العلم باب ما جاء في الحث على التبليغ السماع 2657)
170 حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ اور خوشحال رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور آگے اسی طرح اسے پہنچایا جس طرح اس نے سنا تھا.کیونکہ بہت سے ایسے لوگ جن کو بات پہنچائی گئی ہے ، سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے اور سمجھ سے کام لینے والے ہوتے ہیں.130ـ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ، خَطِيبًا يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقَهُهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِم وَاللَّهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يأتي أمر الله (بخاری کتاب العلم باب من يريد الله به خيرا يفقه في الدين (71) حمید بن عبد الرحمن نے کہا میں نے حضرت معاویہ کو تقریر کرتے سنا وہ کہتے تھے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرماتے تھے اللہ جس شخص کی بہتری چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی دیتا ہے اور ہمیشہ یہ امت اللہ کے حکم پر قائم رہے گی.اس کے مخالف اس کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا امر آجائے.131.قال ابوحنیفه وُلِدتُ سَنَةَ ثَمَانِينَ، وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي سَنَةَ سِثٍ وَتِسْعِينَ، وَأَنَا ابْنُ سِتَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمَّا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، وَرَأَيْتُ حَلْقَةً عَظِيمَةً ، فَقُلْتُ لِأَبِي حَلَقَةُ مَنْ هَذِهِ؟ فَقَالَ حَلَقَةُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءِ الزبيدى صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَقَدَّمُتُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ مَنْ تَفَقَهَ في دِينِ اللهِ كَفَاهُ اللهُ تعالى مُهمَّهُ وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (مسند ابی حنیفه (امام اعظم) کتاب العلم باب بيان فضيلة التفقة روايت نمبر (33)
171 حضرت ابو حنیفہ بیان کرتے ہیں کہ میں 80 ھ میں پیدا ہوا اور میں نے اپنے والد کے ساتھ 96ھ میں حج کیا اور میری عمر اس وقت 16 سال تھی.ایک دفعہ میں مسجد حرام میں داخل ہوا تو لوگوں کا ایک بڑا مجمع دیکھا.میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ لوگ کس کے گرد اکٹھے ہیں.میرے والد نے بتایا کہ یہ حلقہ نبی صلی علیم کے صحابی حضرت عبد اللہ بن حارث کا ہے.یہ سن کر میں ان کی طرف بڑھا تو انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا جو شخص اپنے اندر تفقہ فی الدین پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے اور اس کے لئے ایسی ایسی جگہوں سے رزق کے سامان مہیا کرتا ہے کہ جس کا اسے وہم و گمان بھی نہیں ہو تا.132- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ على كُلِّ مُسْلِمٍ، وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِندَ غَيْرِ أَهْلِهِ تنقلب الخنازير الجوهر واللولو والذهب ابن ماجه ، افتتاح الكتاب ، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم (224) حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور علم کو نااہل کے سامنے پیش کرنے والا سوروں کے گلے میں جو اہر ، موتی اور سونے کا ہار ڈالنے والے کی طرح ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ (مسند ابی حنیفه کتاب العلم باب بیان فريضة العلم (32) حضرت ابوھریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے.133.عَن ابْن عَبَّاس قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الجَنَّةِ فَارْتَعُوا قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا رِيَاضُ الجَنَّةِ؟ قَالَ فَجَالِسُ العلم (الترغيب والترهيب للمنذرى ، كتاب العلم باب الترغيب فى مجالسة العلماء (161)
172 حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو خوب چرو.صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! ریاض الجنہ سے کیا مراد ہے ؟ آپ کے فرما یا مجالس علمی.134- عَن أبي هُرَيْرَة قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم تعَلَّمُوا الْعَلَمَ وتعلموا للعلم السكينة والوقار وتواضعوا لمن تَعَلَّمُونَ مِنْهُ (الترغيب و الترهيب للمنذري ، كتاب العلم الترغيب في العلم وطلبه وتعلمه ، باب الترغيب في إكرام العلماء وإجلالهم (172) نے حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم حاصل کرو.علم حاصل کرنے کے لئے وقار اور سکینت کو اپناؤ.اور جس سے علم سیکھو اس کی تعظیم و تکریم کرو اور ادب سے پیش آؤ.135- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ يُعَلِّمَهُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ ابن ماجه ، افتتاح الكتاب ، باب ثواب معلم الناس الخير (243) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ ایک مسلمان شخص علم سیکھے اور پھر وہ اسے اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے.136- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةٌ الْمُؤْمِنِ، حَيْها وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِها ابن ماجه ، کتاب الزهد باب الحكمة 4169)
173 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے وہ جہاں بھی اسے پائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہوتا ہے.137 عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال قال رَسُولُ الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم مَا يُخَلِفُ الرَّجُلُ مِنْ بَعْدِهِ ثَلَاثَ وَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَهُ، وَصَدَقَةٌ تَجْرِى يَبْلُغُهُ أَجْرُهَا، وَعِلْمٌ يُعْمَلُ بِهِ مِنْ بَعْدِهِ ابن ماجه ، افتتاح الكتاب ، باب ثواب معلم الناس الخير (241) حضرت ابو قتادہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا خیر ، جو انسان اپنے بعد چھوڑتا ہے، تین قسم کی ہے.(1) نیک اولا دجو اس کے لئے دعا کرے.(2) صدقہ جاریہ ، اُس کا اجر اُسے پہنچتارہے گا.(3) ایسا علم جس پر اس کے بعد عمل کیا جاتا رہے.138.عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ ، قَالَ قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ المَدِينَةِ عَلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَهُوَ بِدِمَشْقَ فَقَالَ مَا أَقْدَمَكَ يَا أَخِي ؟ فَقَالَ حَدِيثُ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَمَا جِئْتَ لِحَاجَةٍ ؟ قَالَ لَا ، قَالَ أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ ؟ قَالَ لَا، قَالَ مَا جِئْتُ إِلَّا فِي طَلَبِ هَذَا الحَدِيثِ ؟ قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَهلَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ المَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً لِطَالِبِ العِلْمِ ، وَإِنَّ العَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ حَتَّى الحِيتَانُ فِي المَاءِ، وَفَضْلُ العَالِمِ عَلَى العابدِ كَفَضْل القمر على سائر الكواكب، إنَّ العُلَمَاء وَرَقَةُ الأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَزِلُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَما إِنما وَذَلُوا العِلْمَ ، فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ يَا وَافِرٍ (ترمذی کتاب العلم باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة (2682)
174 قیس بن کثیر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے حضرت ابو دردانہ کے پاس آیا جبکہ وہ دمشق میں تھے.انہوں نے پوچھا اے میرے بھائی ! آپ کیسے آئے؟ انہوں نے کہا ایک حدیث کی طلب میں، مجھے معلوم ہوا کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللی علم سے بیان کرتے ہیں.انہوں نے کہا کسی ضرورت سے تو نہیں آئے ؟ انہوں نے کہا نہیں.انہوں نے کہا کسی تجارت کے لیے تو نہیں آئے ؟ انہوں نے کہا نہیں.انہوں نے کہا میں صرف حدیث کی طلب میں آیا ہوں.انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی لی ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.جو شخص علم کی تلاش میں نکلے.اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے.اور فرشتے طالب علم کے کام پر خوش ہو کر اپنے پر اس کے آگے بچھاتے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان میں رہنے والے بخشش مانگتے ہیں یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں بھی اس کے حق میں دعا کرتی ہیں.عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چاند کی دوسرے ستاروں پر ، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں.انبیاء روپیہ پیسہ ورثہ میں نہیں چھوڑ جاتے بلکہ ان کا ورثہ علم و عرفان ہے.جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ بہت بڑا نصیبہ اور خیر کثیر حاصل کرتا ہے.139- عَنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهِي قَالَ ذُكِرَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا عَابِدُ وَالآخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةٌ فِي مُجْرِهَا وَحَتَّى الحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ (ترمذی کتاب العلم باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة 2685) حضرت ابو امامہ باھلی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا.ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسر ا عالم.اس پر رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ایک معمولی آدمی پر ہے.یعنی دونوں میں بہت بڑا فرق ہے.پھر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا
175 اللہ اور اس کے فرشتے ، آسمانوں میں رہنے والے اور زمین میں رہنے والے، یہاں تک کہ چیونٹی جو بل میں ہے اور مچھلی جو پانی میں ہے یہ سب دعائیں مانگتے ہیں اس شخص کے لئے جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے.140- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ بَعْضٍ مُجَرِهِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَيْنِ، إِحْدَاهُمَا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَدْعُونَ اللَّهَ، وَالْأُخْرَى يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلٌّ عَلَى خَيْرٍ، هَؤُلَاءِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَدْعُونَ اللهَ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ، وَهَؤُلَاءِ يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا فَجَلَسَ مَعَهُمْ (ابن ماجه، افتتاح الكتاب ، باب فضل العلماء و الحث على طلب العلم 229) حضرت عبد اللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ ایک دن رسول اللہ صلی ییم اپنے ایک حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے تو آپ کے سامنے دو حلقے تھے.اُن میں سے ایک حلقے والے) قرآن پڑھ رہے تھے اور اللہ سے دعا کر رہے تھے اور دوسرے علم حاصل کر رہے تھے اور علم سکھارہے تھے.نبی صلی علی کرم نے فرمایا سب نیک کام کر رہے ہیں.یہ لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں اور اللہ سے دعا کر رہے ہیں.اگر اللہ چاہے تو ان کو دے گا اور اگر چاہے تو ان کو نہ دے گا اور یہ علم سیکھ رہے ہیں اور سکھا رہے ہیں اور میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں.پس آپ ان کے ساتھ بیٹھ گئے.141- عَنْ......زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كِتَابِ يَهُودَ قَالَ إِنِّي وَاللهِ مَا آمَنْ يَهُودَ عَلَى كِتَابِ قَالَ فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ لَهُ قَالَ فَلَمَّا تَعَلَّمْتُهُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ إِلَيْهِمْ ، وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ (ترمذی کتاب الاستئذان باب ما جاء فى تعليم السريانيه 2715)
176 حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا یہودیوں کی خط و کتابت کی زبان سیکھو کیونکہ مجھے یہودیوں پر اعتبار نہیں کہ وہ میری طرف سے کیا لکھتے ہیں اور کیا کہتے ہیں.زید کہتے ہیں کہ نصف ماہ ہی گزرا تھا کہ میں نے سریانی میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا.اس کے بعد جب بھی حضور علیہ السلام کو یہود کی طرف کچھ لکھنا ہو تا تو مجھ سے لکھواتے اور جب ان کی طرف سے کوئی خط آتا تو میں حضور صلی الی یکم کو پڑھ کر سناتا.142.عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ كَاتِبٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ ضَعِ القَلَمَ عَلَى أُذُنِكَ فَإِنَّهُ أَذَكَّرُ لِلْمُمْلِي (ترمذی کتاب الاستئذان والادب باب ما جاء في تتريب الكتاب 2714) الله حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ صلی للی کم کے سامنے ایک خط تھا.اس وقت میں نے حضور صلی علیہ ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (وقفہ کے دوران) قلم کو کان پر رکھا کر واس سے لکھانے والے کو بات زیادہ یاد رہتی ہے.143- عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمُ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ ، فَإِنَّ مِنَ العِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ اللهُ أَعْلَمُ ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ المُتَكَلِّفِينَ (بخاری کتاب التفسير باب قوله وما انا من المتكلفين 4809) حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس ہم آئے آپ نے کہا اے لوگو ! اگر کسی کو کوئی علم کی بات معلوم ہو تو بتا دینی چاہئے اور جسے علم کی کوئی بات معلوم نہ ہو تو سوال ہونے پر وہ جواب دے کہ اللهُ أَعْلَمُ یعنی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.کیونکہ یہ بھی علم کی بات ہے کہ انسان جس بات کو نہیں جانتا
177 اس کے متعلق کہے کہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی علم کو فرماتا ہے اے رسول صلی علیکم ! تو کہہ میں تم سے اس کا کوئی بدلہ نہیں مانگتا اور نہ ہی میں تکلف سے کام لینے والا ہوں.144 عن زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ لَا أَقُولُ لَكُمْ إِلَّا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَانَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَالْهَرَمِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِى تَقْوَاهَا ، وَزَيْهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَاهَا، أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا، اللهم إني أعوذ بك من علم لا يَنفَعُ وَمِن قَلْبٍ لَا يَخْفَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا (مسلم کتاب الذكر باب التعوذ من شر ما عمل و من شر مالم يعمل 4885) حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ میں تمہیں نہیں کہتا مگر وہی جیسے رسول اللہ صلی یکم فرمایا کرتے تھے.آپ یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں.عاجز آجانے سے ، شستی اور بزدلی اور بخل اور انتہائی بڑھا پے اور عذاب قبر سے.اے اللہ ! میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اسے پاک کر دے.تو اسے پاک کرنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے.تو اس کا ولی اور مولا ہے.اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو فائدہ نہ دے اور اس دل سے جس میں خشوع نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس دعا سے جسے قبول نہ کیا جائے.145- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاهُوا بِهِ الْعُلَمَاءَ، وَلَا لِتَمَارُوا بِهِ السُّفَهَاءَ ، وَلَا تَخَيَّرُوا بِهِ الْمَجَالِسَ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَالنَّارُ النَّارُ ابن ماجه ، افتتاح الكتاب ، باب الانتفاع بالعلم والعمل به 254)
178 حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا علم اس غرض کے لئے حاصل نہ کرو کہ اس کے ذریعہ علماء پر فخر کرو اور نہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ نادانوں سے بحث کرو اور نہ اس کے ذریعہ مجالس میں فضیلت چاہو.جس نے ایسا کیا تو آگ ہے آگ ہے.146 - عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِي، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللهِ إِكْرَامَ ذِى الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ (ابو داؤد كتاب الادب باب في تنزيل الناس منازلهم (4843) حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی بڑائی میں سے ہے عمر رسیدہ مسلمان، حافظ قرآن جو غالی نہ ہو اور نہ قرآن کو بھولنے والا ہو کی عزت کرنا اور انصاف پسند بادشاہ کی عزت کرنا.147ـ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبِ قَالَ إِنَّ الْفَقِيهَ حَقَّ الْفَقِيهِ، مَنْ لَمْ يُقَيْطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ، وَلَمْ يُرَخّصُ لَهُمْ فِي مَعَاصِي اللَّهِ، وَلَمْ يُؤَمِنْهُمْ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ، وَلَمْ يَدَعِ الْقُرْآنَ رَغْبَةً عَنْهُ إِلَى غَيْرِهِ، إِنَّهُ لَا خَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لَا عِلْمَ فِيهَا، وَلَا عِلْمٍ لَا فَهُمَ فِيهِ، وَلَا قِرَاءَةٍ لَا تدبر فِيهَا (سنن دارمی - مقدمه - باب من قال العلم لخشية وتقوى الله (302) حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ صحیح اور حقیقی فقیہہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونے دیتا اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا جواز بھی مہیا نہیں کرتا اور نہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بے خوف بناتا ہے.قرآن کریم سے ان کی توجہ ہٹا کر کسی اور کی طرف انہیں راغب کرنے کی کوشش نہیں کرتا.
179 یاد رکھو.علم کے بغیر عبادت میں کوئی بھلائی نہیں اور سمجھ کے بغیر علم کا دعویٰ درست نہیں.اور تدبر اور غور و فکر کے بغیر محض قراءت کا کچھ فائدہ نہیں.علماء اور بزرگوں کا ادب و احترام 148- عَن ابْنِ عَبَّاس قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرنا، ويوفر كبيرنا، وَيَأْمُرُ بِالمَعْرُوفِ وَيَنْهَ عَنِ المُنكَرِ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى رحمة الصبيان 1921) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، امر بالمعروف نہیں کرتا اور برائی سے نہیں روکتا.149- حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ ، قَالَ انْطَلَقْتُ أَنا وَحُصَيْنُ بْن سَبْرَةً، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ ، إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا ، حَدِثُنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.....قَالَ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدعى لما بَيْن مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَرَ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، أَلَّا أَيُّهَا النَّاسُ فَإنما أنا بشر يُوشِكُ أَن يَأْتِي رَسُولُ رَني فَأَجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ فَقَلَيْنِ
180 أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ وَأَهْلُ بَيْتِي أَذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي (مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضل على ه 4411) یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں اور حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے ان سے کہا کہ اے زید؟! آپ نے بہت خیر پائی.آپ نے رسول اللہ صلی علیکم کو دیکھا، آپ کی باتیں سنیں اور آپ کی معیت میں غزوات کئے اور آپ کے پیچھے نمازیں پڑھیں.زید ؟! آپ رض رض نے بہت خیر پائی ہے.اے زید ؟ جو رسول اللہ صلی علیم سے آپ نے سنا ہے ہمیں بتائیں.وہ کہنے لگے ایک روز رسول الله علی ای ایام مکہ اور مدینہ کے مابین ایک چشمہ کے پاس جسے تم کہا جاتا تھا ہمارے درمیان خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے.آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور وعظ و نصیحت فرمائی پھر فرمایا اما بعد !سنو اے لوگو! میں تو محض ایک انسان ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا پیغام لانے والا آئے اور میں اس کے بلاوے پر ہاں کہوں.میں تم میں دو اہم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے.پس اللہ کی کتاب کو لو اور اس کو مضبوطی سے پکڑ لو.پھر آپ نے کتاب اللہ کے بارہ میں بہت ترغیب و تحریض دلائی پھر فرمایا اور میرے اہل بیت، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں.
181 قرآن مجید اور اس کی قراءت 150- عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ بخاری کتاب فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن 5027) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کریم سیکھتا ہے اور دوسروں کو سکھاتا ہے.151ـ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ المَعَلَى ، قَالَ كُنْتُ أَصَلِّي، فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَجِبْهُ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي كُنْتُ أَصَلّي، قَالَ أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ ؟ ثُمَّ قَالَ أَلاَ أَعَلِمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي القُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ، فَأَخَذَ بِيَدِى، فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نَخْرُجَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ قُلْتَ لَأُعَلِمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ مِنَ القرآن قال الحمد لله رب العالمين، هى الشيع المقاني، والقُرْآنُ العَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل فاتحة الكتاب 5006) حضرت ابوسعید بن معلی بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی صلی علی کرم نے مجھے بلایا.میں نے آپ کو جواب نہ دیا.میں نے کہا یارسول اللہ صلی علیکم میں نماز پڑھ رہا تھا.آپ نے فرمایا کیا اللہ نے نہیں فرمایا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ یعنی اللہ رسول کی مانو جب وہ تمہیں بلائیں.پھر آپ نے فرمایا سنو! کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ نہ سکھاؤں.آپ نے میرا ہاتھ پکڑ ا جب ہم باہر جانے
182 سے نکلنے لگے.میں نے کہا یارسول اللہ ! آپ نے تو فرمایا تھا کہ میں تمہیں قرآن میں سب سے بڑی سورۃ بتاؤں گا.آپ نے فرمایا الحمد لله رب العالمین یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے.152- عَن سَعِيدِ بْنِ أَبي سَعِيدٍ - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنا مَنْ لَمْ يَتَذَنَ بِالْقُرْآنِ (ابو داؤد کتاب الصلاة باب كيف يستحب الترتيل في القراءة 1469) حضرت سعید بن ابی سعید نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایاوہ ہم میں سے نہیں جو خوش الحانی سے قرآن نہ پڑھے.153- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَأْ عَلَى، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، اَقْرَأُ عَلَيْكَ، وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ، قَالَ نَعَمْ فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى أَتَيْتُ إِلَى هَذِهِ الآيَةِ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ، وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاء شَهِيدًا (النساء 42)، قَالَ حَسْبُكَ الآنَ فَالْتَفَتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقرئ للقاری حسبک 5050) حضرت عبد بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے مجھے فرمایا مجھے قرآن مجید سناؤ.میں کہا یارسول اللہ ! میں آپ صلی للہ علم کو قرآن سناؤں ! حالانکہ قرآن آپ صلی یہ تم پر نازل کیا گیا ہے.آپ نے فرمایا ہاں (دوسرے سے قرآن سننا مجھے بہت اچھا لگتا ہے ).تب میں نے سورۃ نساء کی تلاوت شروع کی.جب میں اس آیت پر پہنچا که فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ، وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شہیدا (کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان سب پر تجھے گواہ بنائیں گے).آپ صلی الی ایم نے فرمایا بس کر دو.تلاوت مختم کر کے) جب میں نے آپ صلی ٹیم کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.
183 154ـ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْأُتْرُجَةِ رِيحُهَا طَيب، وَطَعْمُهَا طَيب، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الشَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيْبٌ، وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ، رِيحُهَا طَيْبٌ، وَطَعْمُهَا مُنْ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مَنْ، وَلَا رِيحَ لَهَا ابو داؤد كتاب الادب باب من يؤمر ان يجالس (4829) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا قرآن کریم پڑھنے والے مومن کی مثال نارنگی کی سی ہے کہ جس کا مزہ بھی اچھا ہوتا ہے اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے.اور اس مومن کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتا وہ کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی اور اس فاجر کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت کا عادی ہے گل ریحان کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا مزہ کڑوا ہوتا ہے اور اس فاجر کی مثال جو قرآن کریم نہیں پڑھتا حنظل کی طرح ہے جس میں مہک اور خوشبو بھی نہیں ہوتی اور اس کا مزہ بھی تلخ اور کڑوا ہوتا ہے.155- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمْ يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَ القُرْآنَ فِي أَقَلِ مِنْ ثَلَاثٍ (ترمذی کتاب القراءت باب ما جاء انزل القرآن على سبعة احرف 2949) حضرت عبد اللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الیم نے فرمایا جس نے تین دن سے کم عرصہ میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کا کچھ بھی نہیں سمجھا.(یعنی قرآن کریم جلدی جلدی نہیں پڑھنا چاہئے بلکہ معانی و مطالب پر غور و فکر کرتے ہوئے تلاوت کرنی چاہئے ).
184 156- عَن ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جوْفِهِ عَى مِنَ القُرْآنِ كَالبَيْتِ الخَرِبِ ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء فى من قرا حرفا...2913) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یوم نے فرمایا جس کو قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی یاد نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے.اطاعت رسول مصلى اللوم ، " بدعات اور کثرت سوال سے اجتناب 157 - عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنْ العِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةٌ، قَالَ وَعَظَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الغَدَاةِ مَوْعِظَةٌ بَلِيغَةٌ ذَرِفَتْ مِنْهَا العُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا القُلُوبُ، فَقَالَ رَجُلٌ إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَذِعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَاعَةِ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيُّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشُ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيَّينَ، عَضُوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِنِ (ترمذی کتاب العلم باب با جاء فى الاخذ بالسنة حديث نمبر 2676) حضرت عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ کریم نے ہمیں صبح کی نماز کے بعد بہت مؤثر فصیح و بلیغ انداز میں ہمیں وعظ فرمایا جس سے (لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور دل ڈر گئے.
185 (حاضرین میں سے ) ایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟ آپ صلی یم نے فرمایا میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، بات سنو اور اطاعت کرو خواہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہو.کیونکہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی میرے بعد زندہ رہا تو بہت بڑے اختلافات دیکھے گا پس تم ان نازک حالات میں میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرنا اور اسے پکڑ لینا.دانتوں سے مضبوط گرفت میں کر لینا.حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرِ و السُّلَمِيُّ ، وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ ، قَالَا أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْن سَارِيَةً، وَهُوَ وَ منْ نَزَلَ فِيهِ وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ (التوبة (92) فَسَلَّمْنَا، وَقُلْنَا أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ، فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةٌ مُوَدِعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا ؟ فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّبْعِ وَالطَاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشُ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيَّينَ ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِنِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (ابو داؤد کتاب السنة باب فى لزوم السنة حديث نمبر 4607) عبد الرحمن بن عمر و سلمی اور حجر بن حجر بیان کرتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ کے پاس آئے یہ وہی عرباض ہیں جن کے بارہ میں یہ آیت نازل ہوئی کہ نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جو تیرے پاس سواری حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں ( تا کہ غزوہ میں شریک ہو سکیں ) تو تو ان کو جواب دیتا ہے کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے وہ یہ جواب سن کر رنج و غم میں ڈوبے واپس جاتے ہیں ان کی آنکھیں آنسو بہا رہی ہوتی ہیں کہ افسوس ان کے پاس
186 خرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں.ہم نے ان کی خدمت میں سلام عرض کیا اور کہا کہ ہم آپ سے ملنے اور کچھ استفادہ کرنے آئے ہیں اس پر عرباض نے فرمایا ایک دن رسول اللہ صلی علی تم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر آپ صلی علیم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور بہت مؤثر فصیح و بلیغ انداز میں ہمیں وعظ فرمایا جس سے (لوگوں کی) آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور دل ڈر گئے.حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ تو الو داعی وعظ لگتا ہے آپ کی نصیحت کیا ہے آپ صلی للی یکم نے فرمایا میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، بات سنو اور اطاعت کرو خواہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہو.کیونکہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی میرے بعد زندہ رہا تو بہت بڑے اختلافات دیکھے گا پس تم ان نازک حالات میں میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرنا اور اسے پکڑ لینا.دانتوں سے مضبوط گرفت میں کر لینا.تمہیں دین میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچنا ہو گا کیونکہ ہر نئی بات جو دین کے نام سے جاری ہو بدعت ہے اور بدعت نری گمر اہی ہے.158 - عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشِ يَقُولُ صَبَّحَكُمْ وَمَشَاكُمْ وَيَقُولُ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ، وَيَقْرُنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ، وَالْوُسْطَى، وَيَقُولُ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلأُهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنَا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَى وَعَلَى (مسلم کتاب الجمعة باب تخفيف الصلاة والخطبة 1426) حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آپ کی آواز بلند ہو جاتی تھی اور آپ کا جلال زیادہ ہو جاتا تھا گویا آپ کسی لشکر سے ڈرار ہے ہیں.آپ فرماتے تھے کہ وہ صبح یا شام تم پر حملہ آور ہونے والا ہے اور فرماتے کہ میں اور قیامت ان دو کی طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور آپ
187 شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے اور فرماتے اما بعد ! بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت محمد (رسول اللہ صلی الیکم ) کی ہدایت ہے اور سب سے بری چیز بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے.پھر فرماتے میرا ہر مؤمن سے اس کی جان سے زیادہ قریبی تعلق ہے جو کوئی بھی مال چھوڑے تو وہ اس کے گھر والوں کے لئے ہے اور جو کوئی قرض چھوڑے یا کمزور اولا د چھوڑے تو وہ میرے ذمہ ہے.159 - عَنِ الْحَارِثِ الْأَشْعَرِي، أَنَّ نبي الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمْرٍ يحيى بن زَكَرِيَّا عَلَيْهِمَا السَّلَامُ بِخَمْس كَلِمَاتٍ.....وَ أَنَا أَمْرُكُمْ بِخَمْسٍ اللَّهُ أَمَرَنِي بِينَ بِالْجَمَاعَةِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَالْهِجْرَةِ، وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللهِ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَةِ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ إِلى أَنْ يَرْجِعَ، وَمَنْ دَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ، فَهُوَ مِنْ جُنَا جَهَنَّمَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ وَإِنْ صَامَ ، وَ صَلَّى ؟ قَالَ وَإِنْ صَامَ ، وَ صَلَّى، وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ، فَادْعُوا الْمُسْلِمِينَ بِمَا سَمَّاهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَادَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ (مسند احمد ، مسند الشاميين ، حديث الحارث العشرى عن النبي صل 17953) حضرت حارث اشعری بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت یحی بن زکریا علیہما السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا تھا...........اور میں بھی تم کو ان پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے.ا.جماعت کے ساتھ رہو.۲.امام وقت کی باتیں سنو.۳.اور اس کی اطاعت کرو.۴.دین کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو وطن چھوڑ دو.۵.اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرو.پس جو شخص جماعت سے تھوڑا سا بھی الگ ہوا اس نے گویا اسلام سے گلو خلاصی کرالی.سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ نظام جماعت میں شامل ہو جائے.اور جو شخص جاہلیت کی باتوں کی طرف بلاتا ہے وہ جہنم کا ایندھن ہے.صحابہ نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول ! خواہ ایسا شخص نماز بھی پڑھتا ہو اور روزہ بھی رکھتا ہو.آپ صلی اللہ کریم نے فرمایا ہاں خواہ وہ نماز بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھے اور اپنے آپ کو مسلمان بھی سمجھے لیکن اے اللہ جل شانہ، کے بندو! یہ بات یاد رکھو کہ
188 (اس صورت حال کے باوجود) جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہیں انہیں تم بھی مسلمان کہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (تعین کے لئے ) اس امت کا نام مسلمان اور مومن رکھا ہے (اس لئے سر ائر کو تم حوالہ بخد ا کرو).160 - حدثنا كَثِيرُ بْن عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفِ الْمُزَنِي قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِي، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَحْيَا سُنَّةٌ مِنْ سُنَّتِي، فَعَمِلَ بِهَا النَّاسُ، كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا ، لَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةٌ، فَعُمِلَ بِهَا، كَانَ عَلَيْهِ أَوْزَارُ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنقُصُ مِنْ أَوْزَارٍ مَنْ عَمِلَ بِمَا شَيْئًا (سنن ابن ماجه، کتاب افتتاح الكتاب ، باب من احياء سنة قد اميتت 209) کثیر بن عبد اللہ بن عمر و بن عوف مزنی نے بیان کیا کہ مجھے میرے باپ نے میرے دادا سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا جس نے میری سنت میں سے کسی سنت کو زندہ کیا اور لوگ اُس پر عمل کرنے لگے تو اس کے لئے اس پر عمل کرنے والوں کے برابر اجر ہو گا اور اُن کے اجر میں کچھ کمی نہیں ہو گی اور جس نے کوئی بدعت شروع کی اور اس پر عمل ہونے لگا تو اس پر ان سب عمل کرنے والوں کے بوجھ ہوں گے اور ان عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی.161 - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أحدث فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَةٌ (بخاری کتاب الصلح باب اذا الصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود (2697) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ہماری اس شریعت میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہیں تو وہ رڈ کی جائے گی.
189 162 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ كُنْتُ أَسْقِي أَبَا طَلْعَةَ الأَنْصَارِئَ، وَأَبَا عبيدة بن الجراح، وأبي بن كَعْبٍ هَرَابًا مِنْ فَضِيحُ ، وَهُوَ تَمَرَ فَجَاءَ هُمْ آتِ فَقَالَ إِنَّ الخَمْرَ قَدْ حُرِمَتْ، فَقَالَ أَبُو طَلْعَةَ يَا أَنَسُ، ثُمَّ إِلَى هَذِهِ الجِرَارِ فَاكْسِرُهَا، قَالَ أَنَسٌ فَقُمْتُ إِلَى مهراس لَنا فَضَرَبْتُهَا بِأَسْفَلِهِ حَتَّى الكَسَرَتُ (بخاری کتاب اخبار الاحاد باب ما جاء في اجازة خبر الواحد الصدوق في الاذان...7253) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں ابو طلحہ انصاری ، ابو عبیدہ بن جراح اور ابی بن کعب کو کھجور کی شراب پلا رہا تھا.کسی آنے والے نے بتایا کہ شراب حرام ہو گئی ہے یہ سن کر ابو طلحہ نے کہا کہ انس اٹھو اور شراب کے مٹکوں کو توڑ ڈالو.حضرت انس کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور پتھر کی کونڈی کا نچلا حصہ مٹکوں پر دے مارا اور وہ ٹوٹ گئے.پرو 163- عن أبي هريرةً، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ ، فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ (بخاری کتاب الاعتصام باب الاقتداء بسنن رسول اللہ 7288) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا جب تک میں تم کو چھوڑے رکھوں اور تم سے کچھ نہ کہوں تم بھی مجھے چھوڑے رکھو ( یعنی مجھ سے کچھ نہ پوچھو) کیونکہ تم سے پہلے بہت سے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء سے بکثرت سوال کرتے لیکن جب ان کو جواب دیا جاتا تو ان کی خلاف ورزی کرتے اور جواب کے مطابق عمل نہ کرتے.پس جب خود میں تم کو کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ اور جس کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق کرو.
190 164 عن أبي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيْعُوهَا وَحَرَّمَ حُرُمَاتٍ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا وَخَدَ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْعَثُوا عَنْهَا (دار قطنی، کتاب المكاتيب باب الرضاع 4396) رض حضرت ابو ثعلبة خشنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں تم انہیں ضائع نہ کرنا.اس نے کچھ حدیں مقرر کی ہیں.تم ان سے آگے نہ بڑھنا اور نہ ان کو پامال کرنا.اس نے کچھ چیزیں حرام کی ہیں.تم ان کا ارتکاب نہ کرنا.کچھ باتوں کا ذکر اس نے چھوڑ دیا ہے (صرف تم پر رحم کرتے ہوئے).نہ وہ بھولا ہے نہ اس نے غلطی کھائی ہے پس ان کے متعلق کرید اور جستجو نہ کرنا.165- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّاسَ سَأَلُوا نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ بِالْمَسْأَلَةِ، فَخَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ ، فَقَالَ سَلُونِي، لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْقَوْمُ أَرَمُّوا وَرَهِبُوا أَنْ يَكُونَ بَيْنَ يَدَى أَمْرٍ قَدْ حَضَرَ قَالَ أَنَسٌ فَجَعَلْتُ أَلْتَفِتُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافُ رَأْسَهُ فِي قَوْبِهِ يَبْكِي، فَأَنْشَأَ رَجُلٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، كَانَ يُلاحَى فَيُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ، فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللهِ مَنْ أَبِي ؟ قَالَ أَبُوكَ حُذَافَةٌ ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ رَضِينَا بِاللهِ رَبِّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، عَائِدًا بِاللهِ مِنْ سُوءِ الْفِتَنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ قَط فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِ، إِنِّي صُوَرَتْ لِي الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَرَأَيْتُهُمَا دُونَ هَذَا الْحَائِطِ (مسلم کتاب الفضائل باب توقیره و ترک اکثار سؤاله عما لا ضرورة اليه...4340) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی صلی للی کام سے سوال کئے یہانتک کہ انہوں نے حضور صلی الظلم سے کرید کرید کر سوال کئے.ایک روز آپ باہر تشریف لائے اور منبر پر چڑھے اور فرمایا مجھ سے سة
191 پوچھو.تم مجھ سے جس چیز کے بارہ میں بھی سوال کرو گے میں اسے تمہارے لئے کھول کر بیان کروں گا.جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ خاموش ہو گئے اور ڈر گئے کہ ضرور کوئی بات ہونے والی ہے.حضرت انس کہتے ہیں میں اپنے دائیں اور بائیں دیکھنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر آدمی اپنے کپڑے میں سر لیٹے ہوئے رورہا ہے.پھر ایک آدمی مسجد میں کھڑا ہوا جس سے جھگڑا کیا جاتا تھا اور اسے اس کے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا جاتا تھا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی الی یوم امیر باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیر اباپ حذافہ ہے.پھر حضرت عمر کھڑے ہوئے اور عرض کیا ہم راضی ہیں اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمدصلی المی ٹیم کے رسول ہونے پر.اور اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے، فتنوں کے شر سے.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا میں نے آج کے دن کی طرح خیر اور شر کبھی نہیں دیکھا.میرے سامنے جنت اور آگ کا منظر دکھایا گیا.میں نے ان دونوں کو اس دیوار سے ورے دیکھا.ایمان اور اس کے ارکان 166- فقال عمر بن الخطابِ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ القِيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَا أَحَدٌ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَلْزَقَ رُكْبَتَهُ بِرُكُبَتِهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَاليَوْمِ الْآخِرِ، وَالقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِهِ (ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء في وصف جبريل للنبي العالم الايمان و الاسلام 2610) حضرت عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی علیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی یلم کے پاس ایک آدمی آیا جس کے کپڑے بہت سفید تھے اور بالوں کا رنگ بہت سیاہ تھا اس پر سفر کی کوئی علامت دکھائی نہیں دیتی تھی اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا.وہ آیا اور نبی صلی الیکم کے گھٹنے کے ساتھ اپنا گھٹنا ملا
192 کر (مؤدب) بیٹھ گیا اور عرض کیا.اے محمد (صلی للی کم) ایمان کسے کہتے ہیں ؟ آپ صلی یکم نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، یوم آخرت کو مانے اور خیر اور شر کی تقدیر اور اس کے صحیح صحیح اندازے پر یقین رکھے.167ـ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَقَوْلُ بِالنِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ ابن ماجه افتتاح الكتاب ، باب في الايمان (65) حضرت علی بن ابی طالب نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا ایمان دل کی معرفت اور زبان کے اقرار اور اسلام کے ارکان پر عمل کا نام ہے.168- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِيمَانُ بِضْعُ وَسَبْعُونَ - أَوْ بِضْعُ وَسِتُّونَ - شُعْبَةٌ، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ - - الأذى عن الطريق، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ (مسلم کتاب الایمان باب بيان عدد شعب الایمان (43) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا ایمان کی ستر سے کچھ اوپر یا فرمایا ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں.اس کی سب سے افضل شاخ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنا اور سب سے عام راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے.
193 -169 عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقلُ الْمُؤْمِنِينَ في تَوَاذِهِمُ ، وَتَرَامُهِمْ، وَتَعَاطفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اهتكَى مِنْهُ عُضْوَ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بالشهر والحمى (مسلم کتاب البر والصلة والادب باب تراحم المومنین و تعاطفهم وتعاضدهم 4671) حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال کلیم نے فرمایا مومنوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے پر شفقت کرنے میں ایک بدن کی سی ہے جب ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی وجہ سے باقی سارا بدن بیداری اور بخار میں شامل ہوتا ہے.170- عن أبي مُوسَى، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ المَؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَقُل بَعْضُهُ بَعْضًا وَشَبِّكَ أَصَابِعَهُ (بخاری کتاب الصلاة باب تشبيك الاصابع في المسجد وغيره 481) رض حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے مومن مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے.جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کئے رکھتا ہے.اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پرو
194 اسلام اور اس کے ارکان 171- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا بَارِزًا للناس، إذ أَتَاهُ رَجُلٌ يَعِي، فَقَالَ يَا رَسُولَ الله مَا الإيمان ؟ قَالَ الإِيمَانُ أَن تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ، وَرُسُلِهِ، وَلِقَائِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الآخِرِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الإِسْلَامُ ؟ قَالَ الإِسْلامُ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِ الزَّكَاةَ المَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ الإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُن تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ مَتَى السَّاعَةُ ؟ قَالَ مَا المِسْوَلُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأَحَدِثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتِ المَرْأَةُ رَبَّتَهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا كَانَ الحُفَاةُ العُرَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللهُ (إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنْزِلُ الغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ) (سورة لقمان35) ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رُدُّوا عَلَى فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوا فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَقَالَ هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمُ (بخاری کتاب التفسير باب قوله ان الله عنده علم الساعة (لقمان (35) 4777) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ال یکم ایک دن لوگوں کے لئے باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص سامنے سے پیدل چلتے ہوئے آیا اور کہنے لگا یار سول اللہ ! ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ ، اس کے ملائکہ ، اس کے رسولوں اور اس کی ملاقات پر یقین رکھے اور اس بات پر یقین کرے کہ (مرنے کے بعد ) دوبارہ زندگی ہے.اس نے کہا یار سول اللہ ! اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت
195 کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور نماز سنوار کر ادا کرے اور زکوۃ دے جو فرض کی گئی ہے اور رمضان میں روزے رکھے.اس نے کہا یار سول اللہ ! احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر یہ کہ تم اسے دیکھ رہے ہو تو پھر اتنا تو ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے.وہ کہنے لگا یار سول اللہ ! وہ گھڑی کب ہو گی ؟ آپ نے فرمایا جس شخص سے اس کی بابت پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا مگر میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں.جب عورت اپنے مالک کو جنے گی تو یہ اس کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے اور جب ننگے پاؤں، ننگے بدن آوارہ گر دلوگوں کے سردار ہوں گے.یہ بات بھی اس کی علامتوں میں سے ہے.اس گھڑی کا علم ان پانچ باتوں میں سے ہے.جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنْزِلُ الغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ...( يقينا اللہ ہی ہے جس کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش کو اتارتا ہے اور جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے).پھر اس کے بعد وہ شخص واپس چلا گیا.آپ نے فرمایا اسے میرے پاس واپس لے آؤ.صحابہ اسے واپس بلانے کے لئے گئے.مگر انہوں نے کچھ نہ دیکھا.آپ نے فرمایا یہ جبرائیل ہیں جو اس لئے آئے تھے کہ لوگوں کو ان کا دین سکھائیں.حدثني أبي عُمر بن الخطابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ القِيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ الشَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ صَدَقْتَ ، قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ
196 ومره، قال صدقت، قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُن تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ مَا الْمَسْولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا ، قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَهُ رَبَّتَهَا ، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَن السَّائِلُ ؟ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ (مسلم کتاب الایمان باب بیان الايمان و الاسلام (1) حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ہمارے پاس ایک بہت سفید کپڑوں میں ملبوس بہت سیاہ بالوں والا آدمی آیا، نہ تو اس پر کوئی سفر کے آثار نظر آتے تھے ، نہ ہی اُسے ہم میں سے کوئی جانتا تھا یہاں تک کہ وہ نبی صلی الی یکم کی طرف رخ کر کے بیٹھ گیا.اس نے اپنے دونوں گھٹنے آپ کے دونوں گھٹنوں سے لگا دیئے اور اپنے دونوں ہاتھ دونوں رانوں پر رکھے اور پھر کہا کہ اسے محمد صلی علیکم ! مجھے اسلام کے بارہ میں (کچھ ) بتائیے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد لی لی یا اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کر و اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تم وہاں جانے کی طاقت رکھتے ہو.اس نے کہا آپ نے ٹھیک کہا.حضرت عمر نے کہا ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ (خود) ہی آپ سے سوال کرتا ہے اور (محمود) ہی آپ کی تصدیق کرتا ہے.پھر اس نے کہا مجھے ایمان کے بارہ میں بتائیے.آپ نے فرمایا کہ (ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ،اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر اور آخری دن پر اور اس کی خیر وشر کی تقدیر پر ایمان لاؤ.اس نے کہا کہ آپ نے ٹھیک فرمایا پھر اس نے کہا کہ مجھے احسان کے بارہ میں بتائیے.آپ نے فرمایا کہ (احسان یہ ہے کہ ) تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو.اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں یقین دیکھ رہا ہے.پھر اس نے کہا کہ مجھے اس گھڑی کے بارہ میں بتائیے.آپ نے فرمایا کہ جس سے اس کے متعلق پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا.پھر اس نے کہا کہ مجھے اس کی کوئی نشانی بتائیے.آپ نے فرمایا کہ لونڈی
197 اپنے مالک کو جنے گی اور تم دیکھو گے کہ جگے پاؤں، جنگے بدن، محتاج اور بکریاں چرانے والے بلند و بالا عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے.انہوں نے کہا پھر وہ چلا گیا.میں کچھ دیر وہاں رہا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اے عمر ! کیا تم جانتے ہو کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اینم زیادہ جانتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے تمہارے پاس آئے تھے.172- عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الإِسْلامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وإيتاء الزَّكَاةِ، وَالحَج وَصَوْمِ رَمَضَانَ (بخاری کتاب الایمان باب دعائكم ایمانکم 8) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے.یہ اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد (صلی للی نم) اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو سنوار کر ادا کرنا اور زکوۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا.173 ـ عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْن عُبَيْدِ اللَّهِ، يَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ قَائِرُ الرَّأْسِ، نَسْمَعُ دَوِيٌّ صَوْتِهِ، وَلَا تَفْقَهُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ ، وَاللَّيْلَةِ فَقَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهُنَّ ؟ قَالَ لَا، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ، وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَقَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهُ ؟ فَقَالَ لَا ، إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ، وَذَكَرَ لهُ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهَا ؟ قَالَ لَا إلَّا أَن تَطوع
198 قَالَ فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ، وَهُوَ يَقُولُ وَاللهِ لا أَزِيدُ عَلَى هَذَا، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ (مسلم کتاب الایمان باب بيان الصلوات التي هي احد اركان الاسلام (4) حضرت طلحہ بن عبید اللہ کہتے ہیں کہ اہل نجد میں سے ایک پراگندہ سر ، آدمی رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس آیا.ہم اس کے بولنے کی آواز سنتے تھے مگر سمجھ نہ آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی لنی کیم کے قریب ہوا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا پانچ نمازیں دن رات میں ہیں.اس نے کہا کیا مجھ پر ان کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں سوائے اس کے کہ تم نفل پڑھو ، اور ماہ رمضان کے روزے.اس نے کہا کیا مجھ پر ان کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں سوائے اس کے کہ تم نفلی روزے رکھو.پھر رسول اللہ صلی ا لی لی لی نے اس سے زکوۃ کا ذکر فرمایا تو اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں سوائے اس کے کہ تم نفل کے طور پر دو.انہوں نے کہا وہ شخص چلا گیا اور وہ کہتا جاتا تھا خدا کی قسم میں نہ تو اس سے زیادہ کروں گا اور نہ اس سے کم کروں گا.رسول اللہ سی کی ہم نے فرمایا یہ کامیاب ہو گیا اگر اس نے سچ کہا.174- سمعتُ أَبَى أُمَامَةَ ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ فَقَالَ اتَّقُوا اللهَ رَبَّكُمْ، وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ، وَصُومُوا شَهْرَكُمْ، وَأَذُوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ، وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ ترمذی کتاب الصلاة باب ما ذكر في فضل الصلاة 616 حضرت ابو امامہ باصلی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو حجہ الوداع کے موقعہ پر خطبہ دیتے ہوئے سنا.آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈور اور پانچوں وقت کی نماز پڑھو، ایک مہینے کے روزے رکھو، اپنے
199 اموال کی زکوۃ دو اور جب میں کوئی حکم دوں تو اس کی اطاعت کرو.(اگر تم ایسا کرو گے تو) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے.175.عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ (بخاری کتاب الايمان باب المسلم من سلم المسلمون....10) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا اصل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان سلامتی میں رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جو اس بات کو جسے اللہ نے منع فرمایا ہے چھوڑ دے.176- عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمًا أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةٍ أَخِيهِ كَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةٌ، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةٌ مِنْ كُوبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ القِيَامَةِ (بخاری کتاب المظالم باب لا يظلم المسلم المسلم ولا يسلمه 2442) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ خود اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ( ظالم کے)سپر د کرے.اور جو شخص اپنے بھائی کے کام میں مشغول ہو گا، اللہ بھی اس کے کام میں مشغول رہے گا.اور جس نے کسی مسلمان سے کوئی تکلیف دور کی اللہ یوم قیامت کی تکالیف میں سے ایک تکلیف اُس سے دور کرے گا.اور جس نے ایک مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ بھی قیامت کے روز اُس کی پردہ پوشی کرے گا.
200 177 عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَنَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، ثُمَّ يَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ ، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنِ الْغُرَبَاءُ ؟ قَالَ الَّذِينَ يُصْلِحُونَ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُحَازَنَّ الْإِيمَانُ إِلَى الْمَدِينَةِ كَمَا يَجُوزُ السَّيْلُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيَأْرِزَنَ الْإِسْلَامُ إِلَى مَا بَيْنَ الْمَسْجِدَيْنِ كَمَا تَأْرِزُ الحية إلى مخرها (مسند احمد ، مسند المدنيين ، حديث عبد الرحمان بن سنة 16810) حضرت عبد الرحمان بن سنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی الی یم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام غریب الوطنی کی حالت میں شروع ہوا پھر غریب الوطن ہو جائے گا جیسا کہ شروع ہوا.پس غریب الوطن لوگوں کے لیے خوش خبری ہے.پوچھا گیا کہ یارسول اللہ ! غرب الوطن کون ہیں ؟ آپ صلی للی یکم نے فرمایا وہ جو نیکی اور بھلائی پر قائم رہتے ہیں جبکہ عام لوگ بگڑ گئے ہوں اور ان میں فساد آ گیا ہو.اس کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! ایمان مدینہ کی طرف یوں ہٹ آئے گا جیسے سیلابی موج بڑی تیزی کے ساتھ پیچھے ہٹتی ہے.اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اسلام دو مسجدوں کے درمیان یوں سکڑ اور سمٹ جائے گا جیسے سانپ اپنی بل میں سمٹ کر گھس جاتا ہے.178- عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْن عَوْفٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَنَحْنُ عِنْدَهُ طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ ، فقيل مَنِ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ أَنَاسٌ صَالِحُونَ، فِي أُنَاسِ سُوءٍ كَثِيرٍ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ (مسند احمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابه ، ، مسند عبد اللہ بن عمر بن العاص 6650)
201 حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے ہماری موجودگی میں ایک دن فرمایا کہ غریب الوطن لوگوں کے لئے بڑی خوشخبری ہے.عرض کیا گیا.حضور ملیالم غریب الوطن لوگوں سے مراد کون لوگ ہیں ؟ آپ صلی ٹیم نے فرمایاوہ نیک لوگ جو ایسے لوگوں میں رہتے ہوں جن میں فرمانبرداروں کی نسبت نافرمانوں کی بھاری اکثریت ہو ( اور نیک لوگ ان میں اجنبی اجنبی اور اوپرے او پرے لگیں جیسے وہ کسی اور دنیا کے باسی ہیں).احکام شریعت کا تعلق ظاہر سے ہے باطن کا علم خدا کو ہے 179- عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ، حَرُمَ مَالُهُ، وَدَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ (مسلم کتاب الایمان باب الامر بقتال الناس حتى يقولوا لا اله الا الله...26) ابو مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ا ظلم کو فرماتے ہوئے سنا جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور ان چیزوں کا انکار کیا جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے اس کا مال اور خون حرام ہو گیا اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے.180.عَنْ عَطَاءٍ، أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثُوهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بن رَوَاحَةَ كَانَتْ لَهُ رَاعِيَةٌ تَتَعَاهَدُ غَنَمَهُ، وَأَنَّهُ أَمَرَهَا تَتَعَاهَدُ شَاةٌ، فَتَعَاهَدَتهَا حَتَّى سَمِنَتِ الشّاةُ، وَاشْتَغَلَتِ الرَّاعِيَةُ بِبَعْضِ الْغَلَمِ، فَجَاءَ الذِئْبُ، فَاخْتَلَسَ الشَّاةَ وَقَتَلَهَا، فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ، وَفَقَدَ الشَّاةَ، فَأَخْبَرَتْهُ الرَّاعِيَةُ بِأَمْرِهَا فَلَطَمَهَا، ثُمَّ نَدِمَ عَلَى ذَلِكَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ
202 لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَعَظَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، وَقَالَ ضَرَبْتَ وَجْهَ مُؤْمِنَةٍ فَقَالَ إِنَّهَا سَوْدَاءُ لَا عِلْمَ لَهَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهَا أَيْنَ اللهُ ؟ فَقَالَتْ في السَّمَاءِ، قَالَ فَمَنْ أَنَا ؟ قَالَتْ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ إِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ، فأعتقها، فأعتقها (مسند امام احمد امام ابھی (حنیفه) ، کتاب الایمان و الاسلام ، حدیث نمبر (4) عطاء نے نبی صلی علیم کے بہت سے صحابہ سے یہ واقعہ سنا کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی ایک لونڈی تھی جو ان کی بکریاں چرایا کرتی تھی.عبد اللہ بن رواحہ نے اس کو ایک بکری کا خاص طور پر خیال رکھنے کی ہدایت کی.چنانچہ وہ بکری موٹی تازی ہو گئی.ایک دن چرواہن بعض اور جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف تھی کہ ایک بھیڑیے نے آکر اس بکری کو چیر پھاڑ دیا.عبد اللہ بن رواحہ نے اس بکری کو نہ پایا تو اس کے متعلق پوچھا.چرواہن نے سارا واقعہ بتا دیا جس پر انہوں نے چرواہن کو ایک تھپڑ مارا.بعد میں اپنے فعل پر شر مندہ ہوئے اور اس واقعہ کا ذکر رسول اللہ صلی اللی کام سے کیا.رسول اللہ صلی علیم نے اس بات کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا کہ تم نے ایک مومنہ کے منہ پر تھپڑ مارا؟ اس پر عبد اللہ بن رواحہ نے عرض کیا.حضور وہ تو حبشی عورت ہے اور جاہل سی عورت ہے اسے دین وغیرہ کا کچھ علم نہیں.نبی صلی الیکم نے اس چرواہن کو بلا بھیجا اور اس سے پوچھا.اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا آسمان پر.پھر آپ صلی علی کرم نے دریافت کیا.میں کون ہوں؟ اس نے جو ابا کہا اللہ کے رسول.یہ سن کر آپؐ نے فرمایا یہ مومنہ ہے اسے آزاد کر دو.اس پر عبد اللہ بن رواحہ نے اسے آزاد کر دیا.181.اخبرنا ابوظبيان قال سمعتُ أَسَامَةَ بن زَيْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الحُرَقَةِ، فَصَبَّحْنَا القَوْمَ فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِينَاهُ ، قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَكَفَّ الْأَنْصَارِيُّ فَطَعَنْتُهُ بِرُمُحِي حَتَّى قَتَلْتُهُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا أَسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ
203 مَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ قُلْتُ كَانَ مُتَعَوَذًا فَمَا زَالَ يُكَررُهَا ، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِكَ اليَوْمِ الله دل (بخاری کتاب المغازی باب بعث النبي صل اسامة بن زيد الى الحرقات من جهينة 4269) حضرت اسامہ بن زید بان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا.ہم نے صبح سویرے اس قوم پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی اور میں نے اور ایک انصاری مردنے ان میں سے ایک شخص کا پیچھا کیا.جب ہم نے اس کو گھیر لیا تو وہ الہ الا اللہ کہنے لگا.(یہ سن کر ) انصاری تورک گیا اور میں نے اپنے نیزہ سے اس کو زخمی کیا اور مار ڈالا.جب ہم آئے تو نبی صلی الیہ کم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا اے اسامہ ! کیا تم نے اسے مار ڈالا بعد اس کے کہ اس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا.میں نے کہا وہ اپنا بچاؤ کر رہا تھا.مگر آپ وہی بات دہراتے رہے.یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں اس دن سے پہلے مسلمان نہ ہو اہو تا.الله عَنْ أَسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ - وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ - قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَصَبَحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَأَدْرَكْتُ رَجُلًا فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَطَعَنْتُهُ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ ، فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَقَتَلْتَهُ ؟ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السَّلَاحِ، قَالَ أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا؟ فَمَا زَالَ يُكَرِرُهَا عَلَى حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ (مسلم کتاب الایمان باب تحريم قتل الكافر بعد ان قال لا اله الا الله 132) حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے ہمیں ایک مہم پر بھیجا.صبح کے وقت ہم جہینہ کے حرقات ( جہینہ قبیلہ کے علاقہ میں ایک موضع کا نام ہے) میں پہنچے.وہاں ایک شخص کو میں نے جالیا، اس نے کہا "لا اله الا اللہ“ مگر میں نے اسے نیزہ مارا، پھر اس سے میرے دل میں خلش پیدا ہوئی تو میں نے اس کا ذکر 6
204 نبی صلی الیم سے کیا تور سول اللہ صلی علیم نے فرمایا کیا اس نے لا الہ الا اللہ کہا اور تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ تو اس نے ہتھیار کے ڈر سے کہا تھا.فرمایا تو تم نے کیوں اس کا دل نہ چیر اتا کہ تم جان لیتے کہ اس نے یہ ( دل سے) کہا تھا یا نہیں.آپ میرے سامنے یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے یہ خواہش کی کہ کاش میں نے اس دن ہی اسلام قبول کیا ہوتا.182- حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّ عُبَيْدَ اللهِ بْن عَدِي، حَدَّثَهُ أَنَّ المِقْدَادَ بْن عَمْرٍو الكِنْدِيَّ، حَلِيفٌ بَنِي زُهْرَةَ، حَدَّثَهُ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي لَقِيتُ كَافِرًا فَاقْتَتَلْنَا، فَضَرَبَ يَدِى بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ بِشَجَرَةٍ، وَقَالَ أَسْلَمْتُ لِلَّهِ، اقْتُلُهُ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقْتُلُهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَإِنَّهُ طَرَحَ إِحْدَى يَدَيَّ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ مَا قَطَعَهَا، أَقْتُلُهُ؟ قَالَ لَا تَقْتُلُهُ، فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَأَنْتَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ (بخاری کتاب الديات ، باب قول الله تعالى و من يقتل مو منا متعمداً....حدیث نمبر (6865) حضرت عبید اللہ بن عدی بیان کرتے ہیں کہ مقداد بن عمر و کندی جو جنگ بدر میں شامل ہوئے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے کہا یار سول اللہ ! اگر کسی کافر سے میری مڈ بھیڑ ہو جائے اور وہ تلوار سے میر اہاتھ کاٹ ڈالے پھر اپنے بچاؤ کی خاطر درخت کی اوٹ میں ہو جائے اور کہے کہ میں خدا پر ایمان لاتا ہوں تو کیا میں اسے اس کے یہ کہنے کے بعد قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اﷺ نے فرمایا نہیں تم اسے قتل نہیں کر سکتے.مقداد نے عرض کیا یارسول اللہ ! اس نے تو میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا ہے پھر اپنی جان بچانے کی خاطر یہ کہہ رہا ہے تو کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں جب وہ ایمان کا اقرار کرتا ہے تو تم اس کو قتل نہیں کر سکتے.اگر تم اس اقرار کے بعد اسے قتل کرو گے تو تم اس مقام پر ہو گے جس پر وہ تھا.یعنی وہ مومن اور تم کا فر قرار پاؤ گے.
205 183- عَنْ عَبْدَ اللهِ بْن عُتْبَةَ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ إِنَّ أَنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالوَحْيِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ الوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُكُمُ الآنَ بِمَا ظَهَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِكُمْ ، فَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا خَيْرًا، أَمِنَّاهُ، وَقَرَّبْنَاهُ، وَلَيْسَ إِلَيْنَا مِنْ سَريريه فى اللهُ يُحَاسِبُهُ في سَرِيريهِ، وَمَنْ أَظْهَر لَنَا سُوا لم تأمنه، وَلَمْ تُصَدِّقُهُ، وَإِنْ قَالَ إِنَّ سَرِيرَتَهُ حَسَنَةٌ (بخاری کتاب الشهادات باب الشهداء العدول ، حدیث نمبر (2641 عبد اللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ صلی الیکم کے زمانہ میں بعض لوگوں سے وحی کی بناء پر مواخذہ کیا جاتا تھا اور اب وحی تو منقطع ہو چکی ہے اور ہم تم سے صرف تمہارے انہی عملوں کی بناء پر مواخذہ کریں گے جو ہم پر ظاہر ہوں.سو جس نے ہمیں بھلے کام دکھائے ہم اس سے مطمئن ہوں گے اور اس کو ہم اپنے قریب کریں گے اور اس کے اندرونے کا ہم سے کچھ واسطہ نہیں.اللہ اس کے اند رونے کا (اس سے) حساب لے گا.اور جس نے ہمیں برے کام دکھلائے ہم اس سے مطمئن نہیں ہوں گے اور نہ اسے سچا سمجھیں گے ، اگر چہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ اس کا اندرونہ اچھا ہے.184- عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنْ يَسْتَقْبِلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَنْ يَأْكُلُوا ذَبِيحَتَنَا، وَأَنْ يُصَلُّوا صَلَاتَنَا، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ حَرَّمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ، وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُسْلِمِينَ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب على ما يقاتل المشركون حدیث نمبر 2641) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اس کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی علیہ صلی لیلیوم اس کا بندہ اور رسول ہے
206 اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کریں اور ہمارا ذبح کیا ہو اجانور کھائیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں.جب وہ یہ کر لیں تو ان کے خون اور ان کے مال ہم پر حرام ہیں مگر کسی حق کی وجہ سے اور ان کے لیے وہی ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے اور ان پر وہی ہے جو مسلمانوں پر ہے.185- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ المُسْلِمُ الَّذِى لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةٌ رَسُولِهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللهَ فِي المَتِهِ (بخاری کتاب الصلاة باب فضل استقبال القبلة ، حدیث نمبر 391) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہماری نماز کی طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبح کر دہ جانور کھائے.پس یہ وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ کی امان ہے اور اُس کے رسول کی امان ہے.سو اللہ سے عہد شکنی مت کرو اُس امان کے متعلق جو اُس نے دی ہے.186- عَنْ أَبِي ذَرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَرْهِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالفُسُوقِ، وَلَا يَرْمِيهِ بِالكُفْرِ، إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ، إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُهُ كَذَلِكَ (بخاری کتاب الادب باب ما ينها من السباب و اللعن ، حدیث نمبر 6045) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو فسق اور کفر کی تہمت نہ لگائے کیونکہ اگر وہ شخص خدا تعالیٰ کے نزدیک کا فریا فاسق نہیں تو کہنے والے پر یہ کلمہ لوٹے گا.(یعنی کہنے والا خدا کی نظر میں کافر اور فاسق ہو گا).
207 نماز اور اس کی شرائط 187- عن أبي أيوب الأَنْصَارِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَخْبِرْنِي بِعَمَل يُدخِلْنِي الجَنَّةَ، فَقَالَ القَوْمُ مَا لَهُ مَا لَهُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَبُ مَا لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحم (بخاری کتاب الادب باب فضل صلة الرحم حدیث نمبر 5983) حضرت ابوایوب انصاری بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتلائے جو مجھے جنت میں داخل کرے.لوگوں نے کہا اسے کیا ہو گیا، اسے کیا ہو گیا؟ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا اس کو ضرورت ہے.اس کو کیا ہو گیا؟ پھر نبی صلی اللہ ہم نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہر اؤ اور نماز کو سنوار کر پڑھو اور رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو (بس یہی عمل ہیں).188- عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا ، يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ (مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة 108) حضرت جابر کہتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنایقیناً آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز ترک کرنا ہے.
208 189- عَنْ حُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ ، قَالَ قَدِمْتُ المَدِينَةَ ، فَقُلْتُ اللَّهُمَّ يَسْرُ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، قال فجلست إلى أبي هريرة، فقلتُ إلى سألت الله أن يقنِي جَلِيسًا صَالِحًا فَحَدِ فَنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ؟ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِى مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلُ بِهَا مَا انْتَقَصَ من القريضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ (ترمذی کتاب الصلاة باب ما جاء ان اول ما يحاسب به العبد يوم القيامة ، حدیث نمبر (413) حریث بن قبیصہ کہتے ہیں میں مدینہ آیا اور میں نے یہ دعا کی اے اللہ ! مجھے نیک ساتھی میسر آئے.وہ کہتے ہیں میں حضرت ابوھریرہ کے پاس بیٹھا.میں نے کہا میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ مجھے نیک ساتھی ملائے اور وہ مجھے حدیث بتائے جو اس نے رسول اللہ صلی علیم سے سنی ہو شاید کہ اللہ اس کے ذریعہ مجھے نفع دے.( حضرت ابوہریرہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الی یوم کو فرماتے سنا قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گاوہ نماز ہے.اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور اس نے نجات پالی.اگر یہ حساب خراب ہو ا تو وہ ناکام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا.اگر اس کے فرضوں میں کوئی کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا.دیکھو! میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں.اگر نوافل ہوئے تو فرضوں کی کمی ان نوافل کے ذریعہ پوری کر دی جائے گی.اسی طرح اس کے باقی اعمال کا معائنہ ہو گا اور ان کا جائزہ لیا جائے گا.190- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ شَهْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ قَالُوا لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا، قَالَ فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الخَطَايَا (بخاری کتاب مواقيت الصلاة باب الصلوات الخمس كفارة ، حدیث نمبر (528)
209 حضرت ابوہریر گا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرماتے تھے بھلا بتاؤ تو سہی کہ اگر تم میں سے کسی ایک کے دروازے کے پاس نہر ہو جس میں وہ ہر روز پانچ دفعہ نہائے.تمہارا کیا خیال ہے یہ (نہانا) اس کی کچھ میل باقی رہنے دے گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ کوئی میل بھی نہیں رہنے دے گا.آپ نے فرمایا یہ پانچوں نمازوں کی مثال ہے.اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹادیتا ہے.191- عَنْ جَابِرٍ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ كَمَثَلِ نَهْرٍ جَارٍ، عَمْرٍ عَلَى بَابِ أَحَدِكُمْ، يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ قَالَ قَالَ الْحَسَنُ وَمَا يُبْقِي ذَلِكَ مِنَ الدَّرَنِ ؟ (مسلم کتاب المساجد باب المشى الى الصلاة تمحى به الخطايا 1064) حضرت جابر اور وہ حضرت عبداللہ کے بیٹے ہیں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا پانچ نمازوں کی مثال ایک گہری اور بہتی ہوئی نہر کی طرح ہے جو تم میں سے کسی کے دروازہ پر ہو اور وہ ہر روز پانچ مر تبہ اس سے نہاتا ہو.راوی کہتے ہیں کہ حسن نے کہا اور یہ کوئی میل باقی رہنے نہ دے گا.192ـ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَى، قَالَ وَلَمْ يَسْأَلُهُ عَنْهُ، قَالَ وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَهَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاةَ، قَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقَمْ فِي كِتَابَ اللَّهِ، قَالَ أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ مَعَنَا قَالَ نَعَمْ ، قَالَ فَإِنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ، أَوْ قَالَ حَدَّكَ (بخاری کتاب الحدود باب اذا اقر بالحد ولم يبين هل للامام ان يستر عليه ، 6823)
210 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی علیکم کے ساتھ تھا ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی.اے اللہ تعالیٰ کے رسول! میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں اور سزا کا مستحق ہوں.نماز کا وقت ہو چکا تھا اس شخص نے بھی نبی صلی علیم کے ساتھ نماز پڑھی.جب نبی صلی نیلم نے نماز مکمل فرمائی تو وہ شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں سزا کا مستحق ہوں.مجھے اللہ تعالیٰ کے مقررہ قانون کے مطابق سزاد یجئے.آپ صلی ا یہ کلم نے فرمایا کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس نے کہا جی حضور پڑھی ہے.آپ مصلای عالم نے فرمایا اس نیکی کی وجہ سے تجھے بخش دیا گیا ہے.نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں.193- عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سنينَ وَفَرَّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ (ابو داؤد کتاب الصلاة باب متى يومر الغلام بالصلاة (495) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور جب دس برس کے ہوں ( اور نماز نہ پڑھیں ) تو ان کو سزا دو.اور ان کے بستر الگ رکھو.عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرُوا صِبْيَانَكُمْ بِالصَّلَاةِ، إِذَا بَلَغُوا سَبْعًا وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، إِذَا بَلَغُوا عَشْرًا، وَفَرِقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ (مسند احمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابة ، مسند عبد الله بن عمر بن العاص ، 6689)
211 عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کرو.اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر سختی کرو اور اس عمر میں ان کے بسترے بھی الگ کر دو ( یعنی ان کو الگ الگ بستر پر سلایا کرو).عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرُوا أَبْنَاءَكُمْ بِالصَّلَاةِ لِسَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا لِعَشْرِ سِنِينَ، وَفَرِقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ، وَإِذَا أَنْكَحَ أَحَدُكُمْ عَبْدَهُ أَوْ أَجِيرَهُ، فَلَا يَنْظُرَنَّ إِلَى شَيْءٍ مِنْ عَوْرَتِهِ، فَإِنَّ مَا أَسْفَلَ مِنْ سُرَّتِهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ مِنْ عَوْرَتِهِ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابة ، ، مسند عبد الله بن عمر بن العاص، 6756) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کرو.اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر سختی کرو اور اس عمر میں ان کے بسترے بھی الگ کر دو ( یعنی ان کو الگ الگ بستر پر سلایا کرو) جب تم میں سے کوئی اپنے غلام کا نکاح کر دے تو وہ اس کا ستر نہ دیکھے.اسکی ناف سے لے کر اس کے گھٹنوں تک اس کا ستر ہے.194- عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عَطَاءَ بْن يَزِيدَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، رَأَى عُثْمَانَ بْن عَفَّانَ دَعَا بِإِنَاءٍ، فَأَفَرَغَ عَلَى كَفَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَمِينَهُ فِي الإِناءِ، فَمَضْمَضَ، وَاسْتَنْشَقَ ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاثًا ، وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثَلَاكَ مِرَارٍ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ إِلَى الكَعْبَيْنِ، ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
212 علَيْهِ وَسَلَّمَ مَن تَوَضَّأَ لَهُوَ وُضُونِي هَذَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يُعَذِتُ فِيهِمَا نَفْسَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (بخاری کتاب الوضو باب الوضو ثلاثا ثلاثا، (159) ابن شہاب سے روایت ہے کہ عطاء بن یزید نے انہیں بتایا کہ حمران نے جو کہ حضرت عثمان کے آزاد کردہ غلام تھے انہیں بتایا کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفان کو دیکھا کہ انہوں نے ایک برتن منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ تین بار (پانی) ڈال کر دھوئے.پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور کلی کی اور ناک صاف کیا.پھر اپنا منہ اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین تین بار دھوئے.پھر اپنے سر کا مسح کیا.پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک تین تین بار دھوئے.پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور پھر اس طرح دور کعتیں پڑھیں کہ ان میں اپنے نفس سے باتیں نہ کہیں تو جو گناہ بھی اس سے پہلے ہو چکے ہیں، ان سب سے اس کی مغفرت کی جائے گی.195ـ عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ السَّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِ نسائی کتاب الطهارة باب الترغيب في السواك.5) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی الیم نے فرمایا مسواک کرنامنہ کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب ہے.196- حدقنَا أَنَسُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرْتُ عَلَيْكُمْ فِي السَّوَاكِ (بخاری کتاب الجمعة باب السواك يوم الجمعة ، 888) حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا میں نے مسواک کے بارہ میں تمہیں بارہا تاکید کی ہے.
213 197- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنْ أشق على أمتي أو عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسَّوَاكِ مَعَ كُل صَلَاةٍ بخاری کتاب الجمعة باب السواك يوم الجمعة، 887) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے اس کا خیال نہ ہو تا کہ میں اپنی امت کو تکلیف میں ڈال دوں گا یا یہ فرمایا کہ اگر لوگوں کی تکلیف کا مجھے خیال نہ ہوتا تو میں انہیں ضرور ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا.198- عَنْ عُرْوَةَ بْنِ المَغِيرَةِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ أَمَعَكَ مَاءً قُلْتُ نَعَمْ، فَنَزَلَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَمَشَى حَتَّى تَوَارَى عَنِي فِي سَوَادِ اللَّيْلِ، ثُمَّ جَاءَ، فَأَفَرَغْتُ عَلَيْهِ الإِدَاوَةَ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُخْرِجَ ذِرَاعَيْهِ مِنْهَا، حَتَّى أَخْرَجَهُمَا مِنْ أَسْفَلِ الجُبَّةِ، فَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ أَهْوَيْتُ لِأَنْزِعَ خُفَيْهِ، فَقَالَ دَعْهُمَا، فَإِنِّي أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَيْنِ فَمَسَحَ عَلَيْهِمَا (بخاری کتاب اللباس باب لبس جبة الصوف في الغز و حديث نمبر 5799) حضرت مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات سفر میں میں نبی صلی علیم کے ساتھ تھا آپ صلی بی ایم نے پوچھا کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے عرض کیا جی حضور ہے.چنانچہ آپ صلی علیم سواری سے اترے اور اندھیرے میں اتنی دور گئے جہاں آپ نظر نہیں آتے تھے.( قضائے حاجت کے بعد ) آپ واپس تشریف لائے اور وضو کرنے لگے.میں لوٹے سے پانی ڈالنے لگا.آپ نے اپنا چہرو اور دونوں ہاتھ دھوئے.آپ پر اونی جبہ تھا.آپ اس میں سے اپنے بازو نہیں نکال سکتے تھے.اس لئے آپ صلی بی ایم نے جمعہ کے اندر سے ہاتھ نکال کر انہیں دھویا.پھر سر کا مسح
214 کیا.آپ صلی ٹیم نے پاؤں میں موزے پہن رکھے تھے اس لئے میں جو کا کہ آپ صلی نیلم کے موزے اتاروں.تو آپ صلی ٹیم نے فرمایا رہنے دو میں ان پر مسح کروں گا کیونکہ میں نے انہیں پاؤں دھو کر پیتا تھا.199- عَنْ زِرِ بْنِ حُبَيْشٍ ، قَالَ أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالِ المَرَادِئَ، أَسْأَلُهُ عَنِ المَسْحِ عَلَى الخَفَيْنِ، فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ يَا زِرُ ؟ فَقُلْتُ ابْتِغَاءَ العِلْمِ ، فَقَالَ إِنَّ المَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ العِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ، فَقُلْتُ إِنَّهُ حَلٌّ فِي صَدْرِي المَسْحُ عَلَى الخُفَّيْنِ بَعْدَ الغَائِطِ والبَوْلِ، وَكُنتَ امْرَأَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِنتُ أَسْأَلُكَ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا، قَالَ نَعَمْ، كَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرِينَ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةٌ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، لَكِن مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ ، فَقُلْتُ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي الْهَوَى شَيْئًا ؟ قَالَ نَعَمْ، كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ نَادَاهُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ لَهُ جُهِوَرِي يَا مُحَمَّدُ، فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَحْو مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ وَقُلْنَا لَهُ وَيْحَكَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ فَإِنَّكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ مُبِيتَ عَنْ هَذَا، فَقَالَ وَاللهِ لَا أَغْضُضُ.قَالَ الأَعْرَائى المرءُ يُحِبُّ القَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقُ بِهِمْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ القِيَامَةِ و و (ترمذی کتاب الدعوات باب فى فضل التوبة والاستغفار (3535) حضرت زر بن حبیش بیان کرتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال کے پاس موزوں پر مسح کرنے کا مسئلہ پوچھنے آیا.حضرت صفوان نے کہا اے زر! کیسے آئے؟ میں نے کہا علم سیکھنے کے لئے آیا ہوں.اس پر انہوں نے کہا طالب علم کے آگے فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور اس کی اس علمی طلب پر بہت خوش ہوتے ہیں.اس پر میں نے کہا پیشاب پاخانہ کے بعد وضو کرتے ہوئے موزوں پر مسح کرنے کا مسئلہ میرے دل میں کھٹکتا ہے.آپ نبی صلی الی یوم کے صحابی ہیں.آپ سے پوچھنے آیا ہوں کہ اس بارہ میں آپ نے نبی صلی علیم سے کوئی بات سنی ہے ؟ انہوں نے کہا
215 ہاں.آنحضرت مصلی کلام فرماتے تھے اگر سفر میں ہوں تو تین دن رات اپنے موزے پہنے رکھ سکتے ہیں.چاہے کوئی پیشاب پاخانہ کرے یا سوئے.البتہ کوئی شخص جنبی ہو اور اسے نہانا ضروری ہو ، تو پھر موزے اتارنے کا حکم ہے.پھر میں نے ان سے پوچھا کہ عشق و محبت کے بارہ میں بھی کوئی بات آپ نے سنی ہے ؟ انہوں نے کہاہاں، ہم ایک الله سفر میں نبی صلی علیم کے ساتھ تھے کہ ایک دیہاتی آدمی نے بلند آواز سے آپ صلی کام کو اے محمد ! کہہ کر پکارا.آپ صلی علی ایم نے بھی اسی لہجہ میں اس کو ہاں میں جواب دیا.میں نے اسے کہا تیر استیا ناس ہو، تو نبی صلی الی یکم کے حضور میں ادب کا طریق اختیار کر اور آہستہ بول کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دربار میں اونچی آواز نکالنے سے منع فرمایا ہے.وہ دیہاتی کہنے لگا خدا کی قسم! میں تو آہستہ نہیں بولوں گا.پھر اس نے کہا، یہ بندہ آپ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان میں شامل نہیں.( یعنی ان جیسے اعمال اس کے نصیب میں نہیں).اس پر نبی صلی الی یکم نے فرمایا قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے.المدرسة 200- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا تَوَفَّاَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أو الْمُؤْمِنُ - فَعَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ - أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ - فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ كَانَ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ أو مع آخرٍ قَطرٍ الْمَاءِ - فَإِذَا عَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتْ كُلُّ خَطِيئَةٍ مَشَعْهَا رِجْلَاهُ مَعَ الْمَاءِ - أَوْ مع أخر قطرٍ الْمَاءِ - حَلى تخرج نَقِيا مِنَ الذُّنوب (مسلم کتاب الطهارة باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء 352) حضرت ابوہریر گا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان یا مومن بندہ وضوء کرتا ہے اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرہ سے ہر وہ خطا پانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتی ہے جو اس نے اپنی آنکھوں سے کی ہوتی ہے اور جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو وہ ساری خطائیں جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کی تھیں پانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتی ہیں اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا
216 پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ وہ ساری خطائیں نکل جاتی ہیں جن کی طرف اس کے پاؤں چل کر گئے تھے یہائک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے.201 - عن عثمان بن عفان، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَن تَوَضَّأَ فَأَحْسَن الْوُضُوءَ خَرَجَتْ خَطَايَاهُ مِنْ جَسَدِهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِهِ (مسلم کتاب الطهارة باب خروج الخطايا مع ماء الوضو (353) حضرت عثمان بن عفان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا جس نے وضوء کیا اور اچھی طرح وضوء کیا تو اس کے جسم سے اس کی خطائیں نکل جاتی ہیں یہانتک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی (خطائیں) نکل جاتی ہیں.202- عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ يَبْدَأُ فَيَغْسِلُ يَدَيْهِ ثُمَّ يُفْرِخُ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَيَغْسِلُ فَرْجَهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ.ثُمَّ يَأْخُذُ الْمَاءَ فَيُدْخِلُ أَصَابِعَهُ في أُصُولِ الشَّعْرِ، حَتَّى إِذَا رَأَى أَنْ قَدْ اسْتَبْرَأَ حَفَنَ عَلَى رَأْسِهِ فَلَاتَ حَفَنَاتٍ ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرٍ جَسَدِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ (مسلم كتاب الطهارة باب صفة غسل الجنابة 466) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ا لم جب غسل جنابت فرماتے تو سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے.پھر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور اپنی شرمگاہ دھوتے.پھر نماز کے وضوء کی طرح وضوء فرماتے.پھر پانی لیتے اور اپنی انگلیوں کو بالوں کی جڑوں میں داخل کرتے یہا تک کہ جب آپ دیکھتے کہ اچھی طرح صفائی ہو گئی ہے تو اپنے سر پر دونوں ہاتھوں سے تین دفعہ پانی ڈالتے.پھر اپنے سارے جسم پر پانی ڈالتے.پھر اپنے دونوں پاؤں دھوتے.
217 203ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْعُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ ؟ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثَرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ (مسلم كتاب الطهارة باب فضل اسباغ الوضوء على المكاره 361) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کے ذریعہ اللہ گناہ مٹاتا اور درجات بلند کرتا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا تمام قسم کی ناپسندیدگیوں کے باوجود پورا وضوء کرنا اور مساجد کی طرف زیادہ قدم اٹھانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا.پس یہی رباط ہے '.204ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ مَشَى إِلَى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ لِيَقْضِيَ فَرِيضَةً مِنْ فَرَائِضِ اللَّهِ، كَانَتْ خَطْوَتَاهُ إِحْدَاهُمَا تَحْظُ خَطِيئَةٌ، وَالْأُخْرَى تَرْفَعُ دَرَجَةً (مسلم کتاب المساجد باب المشى الى الصلاة تمحى به الخطايا 1062) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر میں وضوء کرے اور اللہ کے گھروں میں کسی گھر کو چل کر جائے.تاکہ اللہ کے فرائض میں سے کوئی فریضہ ادا کرے تو اس کے دونوں قدموں میں سے ایک قدم برائی دور کرے گا اور دوسر اقدم درجہ بڑھائے گا.205- قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى مِيقَاتِهَا، قُلْتُ ثُمَّ أَيُّ ؟ قَالَ ثُمَّ بِهِ 1: رباط سے مراد مؤمنوں کا ایک دوسرے سے، امام سے اور اللہ تعالیٰ سے گہر ا رابطہ ہے جیسا کہ فرما یار ابطوا ( آل عمران: 201)
218 الوَالِدَيْنِ، قُلْتُ ثُمَّ أَنَّى ؟ قَالَ الجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ فَسَكَتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي (بخاری کتاب الجهاد و السير باب فضل الجهاد و السير حدیث نمبر 2782) حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یار سول اللہ ! کونسا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا.میں نے پو چھا پھر کونسا؟ آپ نے فرمایا والدین سے نیک سلوک کرنا.میں نے پوچھا پھر کونسا؟ آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا.پھر میں خاموش ہو رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید کچھ نہ پوچھا.اور اگر میں آپ سے اور پوچھتا تو مجھے اور بھی بتاتے.206- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ وَهُوَ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ ثُمَّ فَصَلَّهُ ، فَصَلَّى الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ جَاءَهُ الْعَصْرَ، فَقَالَ ثُمَّ فَصَلَّهْ، فَصَلَّى الْعَصْرَ حِينَ صَارَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ - أَوْ قَالَ صَارَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ - ثُمَّ جَاءَهُ الْمَغْرِبَ، فَقَالَ ثُمَّ فَصَلَّهُ، فَصَلَّى حِينَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ ، ثُمَّ جَاءَهُ الْعِشَاءَ، فَقَالَ ثُمَّ فَصَلَّهُ، فَصَلَّى حِينٍ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ جَاءَهُ الْفَجْرَ ، فَقَالَ ثُمَّ فَصَلَهُ ، فَصَلَّى حِينَ بَرَقَ الْفَجْرُ - أَوْ قَالَ حِينَ سَطَعَ الْفَجْرِ ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الْغَدِ لِلظُّهْرِ ، فَقَالَ ثُمَّ فَصَلَهُ، فَصَلَّى الظُّهْرَ حِينَ صَارَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلْعَصْرِ، فَقَالَ ثُمَّ فَصَلَّهُ، فَصَلَّى الْعَصْرَ حِينَ صَارَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَيْهِ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلْمَغْرِبِ، وَقُنَّا وَاحِدًا لَمْ يَزُلُ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَ لِلْعِشَاءِ، حِينَ ذَهَبَ نِصْفُ اللَّيْلِ - أَوْ قَالَ قُلْتُ اللَّيْلِ - فَصَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلْفَجْرِ حِينَ أَسْفَرَ جِدًّا، فَقَالَ ثُمْ فَصَلَّهُ، فَصَلَّى الْفَجْرِ، ثُمَّ قَالَ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ وَقْتُ (14592.(مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند جابر بن عبد الله
219 حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں.اور وہ انصار میں سے تھے کہ نبی صلی این کلم کے پاس جبریل آئے اور کہا اٹھیے نماز پڑھیں.چنانچہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ سورج ڈھلنے لگا.پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا.پھر سورج غروب ہونے پر مغرب کی نماز پڑھی.پھر عشاء کی نماز شفق یعنی سفیدی کے غائب ہونے کے بعد پڑھی پھر طلوع فجر کے بعد صبح کی نماز پڑھی.اس کے بعد دوسرے دن پھر جبرئیل آئے اور ان کے بتانے پر آپ صلی للی یکم نے ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا تھا.پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس سے دو گنا ہو گیا تھا اور مغرب کی نماز کل والے وقت پر ہی پڑھی.پھر عشاء کی نماز آدھی رات یا تیسر ا حصہ رات گزرنے پر پڑھی اور صبح کی نماز ایسے وقت میں پڑھی جبکہ روشنی پوری طرح پھیل چکی تھی.اس کے بعد حضرت جبرئیل نے کہا ہر نماز کا افضل اور بہترین وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان کا ہے.207 عن عليّ، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ الظُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (ترمذی کتاب الطهارة باب ما جاء ان مفتاح الصلاة الطهور ، 3) حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ال کلم نے فرمایا نماز کی کلید طہارت ہے.نماز کی تحریم تکبیر ہے.نماز کی تحلیل تسلیم ہے.( یعنی اللہ اکبر کہنے کے بعد نماز کے علاوہ کوئی اور بات یا کام کرنا منع ہو جاتا ہے اور سلام کے بعد وہ تمام کام جو نماز میں منع تھے جائز ہو جاتے ہیں).208ـ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ، وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ، وَقَالَ يَحْيَى يُشْخِصُ رأْسَهُ، وَلَمْ يُصَوْبُهُ، وَلَكِن بَيْنَ ذَلِكَ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكُوعِ، لَمْ يَسْجُدُ حَتَّى
220 يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدُ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا ، قَالَتْ وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ، وَكَانَ يَفْتَرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ أَحَدُنَا ذِرَاعَيْهِ كَالْكَلْبِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَسْلِيم قَالَ يَحْيَى وَكَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَفْتَرِشَ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ (مسند احمد بن حنبل ، الملحق المستدرك من مسند الانصار بقية خامس عشر ، مسند الصديقه عائشه ، 24531) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یوم تکبیر ( یعنی اللہ اکبر) کہہ کر نماز شروع کرتے ، اس کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھتے.جب رکوع کرتے تو نہ سر کو اوپر اٹھا کر رکھتے نہ جھکاتے بلکہ پیٹھ کے برابر اور ہموار رکھتے اور جب رکوع سے اٹھتے تو سیدھے کھڑے ہو کر پھر سجدہ میں جاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو پوری طرح بیٹھنے کے بعد دوسر اسجدہ کرتے.اور ہر دور کعتوں کے بعد تشہد کے لئے بیٹھتے، اپنا دایاں پاؤں کھڑا ر کھتے اور بایاں بچھا دیتے اور اس طرح بیٹھ کر تشہد پڑھتے.اور شیطان کی طرح بیٹھنے (یعنی ایڑیوں پر بیٹھنے ) سے منع فرماتے اور سجدہ میں بازو بچھانے سے منع فرماتے جس طرح کہ کتا اپنے بازو بچھا کر بیٹھتا ہے.آخر میں صلى الميم السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہہ کر نماز ختم کرتے.209- حَدَّثَنَا مَالِكٌ، أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِبًا رَفِيقًا، فَلَهَا ظَنَّ أَنَّا قَدِ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا - أَوْ قَدِ اشْتَقْنَا - سَأَلَنَا عَمَن تَرَكْنَا بَعْدَنَا، فَأَخْبَرْنَاهُ، قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ، فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ - وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا - وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أَصْلِي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاةُ فَلْيُوَذِنَ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، وَليَؤمكُمْ أكبرُكُمْ - (بخاری کتاب الاذان باب الاذان للمسافر اذا كانوا جماعة، 631)
221 حضرت مالک نے بیان کیا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہم تقریباً ایک ہی عمر کے جوان تھے.ہم آپ کے پاس بیس دن اور راتیں رہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی مہربان اور نرم دل تھے.جب آپ سمجھے کہ ہمیں اپنے گھر والوں سے ملنے کی خواہش ہے یا کہا ہم مشتاق ہیں، تو آپ نے ان لوگوں کی بابت ہم سے پوچھا جن کو ہم اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے.ہم نے آپ کو بتایا.آپ نے فرمایا اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ اور ان میں رہو ، انہیں تعلیم دو اور انہیں نیک باتیں بتاؤ.آپ نے بعض باتوں کا ذکر کیا جنہیں میں یادر کھتا ہوں یا یہ کہا میں یاد نہیں رکھتا اور فرمایا تم اس طرح نماز پڑھنا، جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے.جب نماز کا وقت آئے تو تم میں سے ایک تمہارے لیے اذان دے اور چاہیے کہ تم میں سے بڑا تمہارا امام ہو.ا 210- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي جَمَاعَةٍ تَزِيدُ عَلَى صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ، وَصَلَاتِهِ فِى سُوقِهِ بِضُعًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً، وَذَلِكَ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنِ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ لَا يَنْهَرُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ، فَلَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رُفِعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَحُطَ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ، حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ كَانَ فِي الصَّلَاةِ مَا كَانَتِ الصَّلَاةُ هِيَ تَحْبِسُهُ، وَالْمَلَائِكَةُ يُصَلُّونَ عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مَجْلِسِهِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ، يَقُولُونَ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، اللّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ، مَا لَمْ يُؤْذِ فِيهِ، مَا لَمْ يُحْدِثُ فِيهِ (مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب فضل صلاة الجماعة وانتظار الصلاة 1051) حضرت ابو ہریرۃ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اہل علم نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ آدمی کی نماز اس کے گھر اور اس کے بازار میں نماز کی نسبت ہیں سے کچھ درجہ زیادہ ہوتی ہے.یہ اس طرح کہ جب تم میں سے کوئی وضوء کرتا ہے اور اچھی طرح وضوء کرتا ہے پھر مسجد میں آتا ہے اور نماز کے سوا کوئی چیز اسے اس پر آمادہ نہیں کرتی ا اور اس کا نماز کے علاوہ کوئی ارادہ نہیں ہوتا تو جو قدم بھی وہ اٹھاتا ہے اس کے ساتھ اس کا ایک درجہ اونچا کیا جاتا
222 ہے اور اس کی وجہ سے ایک برائی دور کر دی جاتی ہے.یہانتک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ اس وقت تک نماز میں ہی ہو تا ہے جب تک نماز اسے روکے رکھتی ہے.اور فرشتے تم میں سے ہر اُس شخص کے لئے دعائیں کرتے ہیں جو اپنی جگہ پر رہتا ہے جہاں اُس نے نماز پڑھی.اور وہ (فرشتے) کہتے ہیں اے اللہ ! اس پر رحم فرما.اے اللہ ! اسے بخش دے.اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما جب تک کہ وہ کسی کو تکلیف نہ دے اور جب تک وہ اس میں کوئی نئی صورت نہ پیدا کرے.211.عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاةِ الْفَلِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً (مسلم کتاب المساجد باب فضل صلاة الجماعة وبيان التشديد في تخلف عنها 1030) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا جماعت کے ساتھ نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجے افضل ہے.212ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ (مسلم کتاب صلاة المسافرين ، باب كراهة الشروع في نافلة بعد شروع المؤذن 1152) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علی کلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں.
223 213- انَّ أَبِي هُرَيْرَةً قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا تَأْتُوهَا تَسْعَوْنَ، وَأَتُوهَا تَمْشُونَ وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُوا (مسلم کتاب المساجد باب استحباب اتيان الصلاة بوقار وسكينة 936) حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للی کم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب نماز کھڑی ہو جائے تو اس کی طرف دوڑ کر نہ آؤ بلکہ چلتے ہوئے آؤ اور تم پر سکینت لازم ہے.جو ( نماز کا حصہ) تمہیں مل جائے وہ پڑھ لو اور جورہ جائے اسے (بعد میں ) پورا کر لو.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِذَا ثُوبَ لِلصَّلَاةِ فَلَا تَأْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ، وَأَتُوهَا وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُوا، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا كَانَ يَعْمِدُ إِلَى الصَّلَاةِ فَهُوَ فِي صَلَاةٍ (مسلم کتاب المساجد باب استحباب اتيان الصلاة بوقار وسكينة 937) مة الله سة حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا جب نماز کے لئے اقامت کہہ دی جائے تو دوڑ کر اس کی طرف نہ آؤ بلکہ اس کی طرف آؤ جبکہ تم پر سکینت لازم ہے اور جو ( نماز کا حصہ) تم پالو دو پڑھ لو اور جو تم سے رہ جائے اسے پورا کر لو کیونکہ جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ نماز میں ہی ہوتا ہے.214- عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِي، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُهُ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءٌ، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءٌ، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةٌ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءٌ، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤْمَنَّ
224 الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ قَالَ الْأَشَحُ فِي رِوَايَتِهِ مكان سِلْما سنا (مسلم کتاب المساجد باب من احق بالامامة (1070) حضرت ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں کی امامت وہ کرے جو اُن میں سے سب سے زیادہ اللہ کی کتاب پڑھا ہوا ہو.اگر وہ علم قرآن میں برابر ہوں تو ان میں سے سنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا اگر وہ اس سنت کے علم میں ) برابر ہوں تو جس نے ان میں سے پہلے ہجرت کی ہو.اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو اسلام لانے میں سب سے مقدم.کوئی آدمی کسی آدمی کی عملداری میں اس کی امامت نہ کرے.اور اس کے گھر میں اس کی قابل احترام نشست پر بغیر اس کے کہے کے نہ بیٹھے.انج نے اپنی روایت میں سلما (یعنی اسلام لانے کے لحاظ سے) کی بجائے سینا یعنی عمر میں بڑا کہا ہے.215- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي اليْدَاءِ وَالضَّفِ الأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ الاسْتَهَمُوا.....(بخاری کتاب الاذان باب الاستهام في الاذان (615) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی ایم نے فرمایا اگر لوگ جانتے کہ اذان میں اور پہلی صف میں کیا (ثواب) ہے اور پھر سوائے قرعہ ڈالنے کے کچھ چارہ نہ پاتے تو وہ ضرور ہی قرعہ ڈالتے.216ـ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ مَنَاكِبَنَا فِي الصَّلَاةِ، وَيَقُولُ اسْتَوُوا، وَلَا تَخْتَلِفُوا، فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ، لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ (مسلم کتاب الصلاة باب تسوية الصفوف...646)
225 حضرت ابو مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی کام نماز کے وقت ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے کہ (صفیں) سیدھی رکھو اور آگے پیچھے مت کھڑے ہو ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف ہو جائے گا اور تم میں سے میرے قریب صاحب عقل و بصیرت ہوں اور پھر وہ جو اُن کے قریب ہیں پھر وہ جو اُن کے قریب ہیں.217- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ قُتَيْبَةُ عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ أَبِي شَجَرَةَ - لَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عُمَرَ - أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَقِيمُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَّلَ وَلِينُوا بِأَيْدِى إِخْوَانِكُمْ - لَمْ يَقُلْ عِيسَى بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ - وَلَا تَذَرُوا فرجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَله الله، ومن قطع صفا قطعه الله (ابوداؤد ، کتاب الصلاة باب تسوية الصفوف (666) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یم نے فرمایا صفوں کو سیدھار کھو.اور کندھوں کو برابر رکھو اور خالی جگہ کو پر کرو اور اپنے بھائیوں کے سامنے نرم ہو جاؤ.عیسی (جو امام ابو داود کے استاد ہیں) انہوں نے أَيْدِى إِخْوَانِكُمْ کے الفاظ نہیں کہے.اور شیطان کے لئے رخنے نہ چھوڑو اور جو صف کو ملائے گا اللہ اس کو ملائے رکھے گا اور جو صف کو کاٹے گا اللہ اس کو کاٹ دے گا.218 - عَن النُّعْمَانَ بْن بَشِيرٍ، يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتُسَؤُنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ (بخاری کتاب الاذان باب تسوية الصفوف عند الاقامة 717) حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی صفیں ضرور سیدھی رکھا کر و.ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے منہ ایک دوسرے سے پھیر دے گا.
226 219 - عَنْ أَنَسِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَرُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنَّ تَسْوِيَةً الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ (بخاری کتاب الاذان باب اقامة الصف من تمام الصلاة 723) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی صفیں سیدھی رکھو.کیونکہ صفوں کی درستی بھی اقامت صلوۃ کے حکم میں شامل ہے.220 - عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَا يقى أَحَدُكُمْ - أَوْ لَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الإِمَامِ، أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ جمَارٍ، أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةً حِمارٍ (بخاری کتاب الاذان باب اثم من رفع راسه قبل الامام (691) حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی جب وہ اپنا سر امام سے پہلے اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دے؟ یا ( فرمایا) اللہ تعالیٰ اس کی شکل گدھے کی شکل بنا دے.221 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ، فَلْيُخَفِفُ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوَلُ مَا شَاءَ (بخاری کتاب الاذان باب اذا صلى لنفسه فليطول ما شاء (703)
227 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو چاہیے کہ وہ ملکی پڑھے کیونکہ ان میں کمزور اور بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو جتنا چا ہے لمبی کرے.222 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ أُرِيدُ أَنْ أَطْوَلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَرُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةً أَنْ أَهلَ عَلَى أَمِهِ (بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلاة عند بكاء الصبى 707) حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ نبی صلی للی کم نے فرمایا میں نماز میں یہ ارادہ کر کے کھڑ ا ہو تا ہوں کہ اسے لمبا کروں گا.اتنے میں بچے کا رونا سنتا ہوں تو میں اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں.میں ناپسند کرتا ہوں کہ اس کی ماں کو تکلیف میں ڈالوں.223- عَن أَبي مَسْعُودٍ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ وَاللهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَرُ عَنْ صَلَاةِ الغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلانٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوزُ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ (بخاری کتاب الاذان باب تخفيف الامام في القيام و اتمام الركوع والسجود 702) حضرت ابو مسعودؓ نے بتایا کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ! بخدا میں صبح کی نماز سے فلاں شخص کی وجہ سے پیچھے رہ جاتا ہوں.اس لئے کہ وہ ہمیں نماز لمبی پڑھاتا ہے.تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نصیحت میں اس دن سے زیادہ غصے میں نہیں دیکھا.آپؐ نے فرمایا تم میں بعض نفرت دلانے والے ہیں.پس
228 تم میں سے جو لوگوں کو نماز پڑھائے تو چاہیے کہ وہ نماز مختصر پڑھے.کیونکہ ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور حاجت مند بھی.224ـ عَنْ جَابِرٍ قَالَ كَانَ مُعَاذُ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَأْتِي فَيَؤُهُ قَوْمَهُ، فَصَلَّى لَيْلَةٌ مَعَ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ أَنَّى قَوْمَهُ فَأَمَّهُمْ فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَانْحَرفَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى وَحْدَهُ وَانْصَرَفَ فَقَالُوا لَهُ أَنَافَقْتَ؟ يَا فُلَانُ، قَالَ لَا.وَاللهِ وَلَآتِيَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأُخْبِرَنَّهُ.فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا أَصْحَابُ نَوَاضِحَ نَعْمَلُ بِالنَّهَارِ وَإِنَّ مُعَاذًا صَلَّى مَعَكَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ أَتَى فَافْتَتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُعَادٍ فَقَالَ يَا مُعَاذُ أَفَتَانُ أَنْتَ ؟ اقْرَأْ بِكَذَا وَاقْرَأْ بِكَذَا قَالَ سُفْيَانُ فَقُلْتُ لِعَمْرٍو، إِنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا عَنْ جَابِرٍ، أَنَّهُ قَالَ اقْرَأْ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالضُّحَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَسَبْحِ اسْمَ رَبَّكَ الْأَعْلَى فَقَالَ عَمْرُو لَهُوَ هَذَا (مسلم کتاب الصلاة باب القراة في العشاء 701) حضرت جابر بیان کرتے ہیں حضرت معاذ نبی صلی علیکم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے پھر آکر اپنے لوگوں کی امامت کرتے تھے.ایک رات انہوں نے نبی صلی ایم کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی پھر اپنے لوگوں کے پاس آکر ان کی امامت کی تو اس میں سورہ بقرہ شروع کر دی اس پر ایک آدمی الگ ہو گیا اور سلام پھیرا، اکیلے نماز پڑھی اور جانے لگا.اس پر لوگوں نے اسے کہا کہ اے فلاں کیا تو منافق ہو گیا ہے ؟ اس پر اس نے جواب دیا نہیں خدا کی قسم اور میں ضرور رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں جاؤں گا اور ضرور یہ آپ کو بتاؤں گا.چنانچہ وہ شخص رسول اللہ صلی فیلم کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اللہ ! ہم پانی لانے والے اونٹ رکھتے ہیں دن بھر کام کرتے ہیں اور حضرت معاذ نے آپ کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کی اور پھر آکر سورہ بقرہ شروع کر دی.چنانچہ رسول اللہ صلی الی یوم حضرت معاذ
229 کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے معاذ! کیا تم آزمائش میں ڈالنے والے ہو! یہ پڑھا کرو یہ پڑھا کرو.حضرت جابر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا اور الضُّحَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى اور سَبْحِ اسْمَ رَبِّكَ الأخلی کی تلاوت کیا کرو.225 - كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَؤُهُ قَوْمَهُ، فَدَخَلَ حَرَامٌ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَ نَخْلَهُ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ لِيُصَلِّي مَعَ الْقَوْمِ ، فَلَمَّا رَأَى مُعَاذَا طَوَّلَ، تَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ وَلَحِقَ بِنَخْلِهِ يَسْقِيهِ، فَلَمَّا قَضَى مُعَاذُ الصَّلَاةَ، قِيلَ لَهُ إِنَّ حَرَامًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا رَآكَ طَوَّلْتَ تَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ وَلَحِقَ بِنَخْلِهِ يَسْقِيهِ.قَالَ إِنَّهُ لَمُنَافِقُ، أَيَعْجَلُ عَنِ الصَّلَاةِ مِنْ أَجْلِ سَقْي نَخْلِهِ قَالَ فَجَاءَ حَرَامٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذُ عِنْدَهُ، فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَسْقِيَ نَخَلًا لِي، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ لِأُصَلِّي مَعَ الْقَوْمِ، فَلَمَّا طَوَّلَ، تَجَوَّزْتُ فِي صَلَاتِي وَحِقْتُ بِنَخْلِي أَسْقِيهِ، فَزَعَمَ أَنِّي مُنَافِقٌ.فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مُعَاذٍ فَقَالَ أَفَتَانٌ أَنْتَ، أفتان أنت لَا تُطولُ بِهِمُ اقْرَأْ بِسَبْحَ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَالشَّمْسِ وَهُمَا هَا، وَلَجُوهِمَا (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه، مسند انس بن مالک 12272) حضرت معاذ بن جبل اپنے قبیلہ میں نماز پڑھایا کرتے تھے.حضرت حرام آئے ان کا ارادہ اپنے نخلستان کو پانی دینے کا تھا.وہ مسجد میں آئے تاکہ لوگوں کے ساتھ نماز ادا کریں.جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت معاذ نے نماز کو طویل کر دیا ہے تو انہوں نے اپنی نماز مختصر کی اور اپنے باغیچہ میں جا کر پانی دینے لگے.حضرت معاذ نے جب نماز ختم کی تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت حرام مسجد میں آئے جب انہوں نے دیکھا کہ آپ نے نماز لمبی کر دی ہے تو انہوں نے اپنی نماز مختصر کی اور اپنے باغ کو پانی دینے لگے.حضرت معاذ نے کہا وہ منافق ہے اپنے باغیچہ کو پانی دینے کی غرض سے نماز اس طرح جلدی سے پڑھتا ہے ( یہ کیسی نماز ہے) حضرت حرام کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ نبی صلی یم کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت معاذ بھی آپ صلی الی نیم کے پاس بیٹھے تھے.
230 حضرت حرام نے عرض کیا اے اللہ کے نبی میرا ارادہ اپنے باغیچہ کو پانی دینے کا تھا لیکن چونکہ نماز کا وقت تھا) اس لئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی غرض سے مسجد آیا کہ پہلے نماز پڑھ لوں پھر باغیچہ کو پانی دوں گا) جب معاذ نے نماز بہت لمبی کر دی تو میں نے خود ہی نماز مختصر کر کے پڑھ لی.اس پر معاذ نے مجھے طعنہ دیا کہ میں منافق ہوں.نبی صلی الیکم ( حضرت حرام کی یہ شکایت سن کر ) معاذ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو ؟ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو ؟ لوگوں کو لمبی نماز نہ پڑھاؤ بلکہ سیخ اسم ريك الأعلى اور الشَّمْيس ومعاها اور اس جیسی دوسری سورتیں پڑھا کرو.226.عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِي، قَالَ بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ ، فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ وَاتُكُلَ أَمِيَاهُ، مَا شَأْنُكُمْ ؟ تَنْظُرُونَ إِلَى، فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمْتُونَنِي لكِنِي سَكَتُ، فَلَهَا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِي هُوَ وَأَقِي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِمَا مِنْهُ، فَوَاللَّهِ، مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي، قَالَ إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ ، وَإِنَّ مِنَا رِجَالًا يَأْتُونَ الْكُهَانَ، قَالَ فَلَا تَأْتِهِمْ قَالَ وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ ذَاكَ شَيْءٍ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلَا يَصُدَّتَهُمْ (مسلم کتاب المساجد باب تحريم الكلام فى الصلاة و نسخ ما كان من اباحته 828) حضرت معاویہ بن حکم اسلیمی نے بیان کیا کہ اس اثناء میں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے کسی شخص نے چھینک ماری.اس پر میں نے پر حمک اللہ کہا کہ اللہ تجھ پر رحم کرے.تولوگ مجھے گھورنے لگے.میں نے کہا میری ماں مجھے کھوئے تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ مجھے دیکھنے لگے ہو ؟ اس پر وہ اپنے ہاتھ
231 اپنی رانوں پر مارنے لگے.جب میں نے انہیں دیکھا کہ مجھے خاموش کرارہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا.جب رسول اللہ صلی علیم نے نماز پڑھ لی.میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نے آپ سے بہتر معلم نہ تو آپ سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ آپ کے بعد.خدا کی قسم !نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا اور نہ مجھے مارانہ مجھے برا بھلا کہا صرف سیہ) فرمایا یہ نماز ہے اس میں کوئی انسانی کلام مناسب نہیں یہ تو صرف تسبیح ، تکبیر اور قرآن کی قراءت ہے یا جیسے رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا میں نے عرض کیا کہ یارسول صلی علیکم اللہ ! میں جاہلیت کے زمانہ سے نیا نیا آیا ہوں اور یقیناً اب اللہ ( دین ) اسلام کو لایا ہے اور ہم میں بعض آدمی ایسے ہیں جو کاہنوں کے پاس جاتے ہیں آپ نے فرمایا کہ ان کے پاس مت جاؤ.اس نے کہا کہ ہم میں بعض آدمی ایسے ہیں جو شگون لیتے ہیں آپ نے فرمایا یہ ایک ایسی بات ہے جسے وہ اپنے سینوں میں پاتے ہیں پس یہ ان کے لئے (کوئی) روک نہ بنے.227- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ المَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّى، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ وَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَرَجَعَ يُصَلِّي كَمَا صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا ، فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِ مَا أَحْسِنُ غَيْرَهُ، فَعَلِمْنِي، فَقَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاةِ فَكَبَرُ، ثُمَّ اقْرَأُ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاتِكَ كُلها بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءة للامام والمأموم في الصلوات كلها (757) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے.ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی.پھر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا.آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا واپس جاؤ اور نماز پڑھو.کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.چنانچہ وہ لوٹ گیا.پھر اس نے اسی طرح ہی نماز پڑھی جس طرح
232 (پہلے) پڑھی تھی.پھر وہ آیا اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا.آپ نے فرمایا واپس جاؤ اور نماز پڑھو.کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.آپ نے تین بار ایسا ہی فرمایا اس نے کہا اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے.میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا.اس لئے آپ مجھے سکھائیں.آپ نے فرمایا جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو.پھر قرآن میں سے جو میسر ہو، پڑھو.پھر رکوع کرو.یہاں تک کہ رکوع میں تمہیں اطمینان ہو جائے.پھر سر اٹھاؤ.یہاں تک کہ اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ.پھر سجدہ کرو.یہاں تک کہ سجدہ میں تمہیں اطمینان ہو جائے.پھر سر اٹھاؤ.یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ.الغرض اپنی ساری نماز میں اسی طرح ادا کرو.228- حَدَّثَهُ أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ - وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ - أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، وَإِذَا كَانَتِ الْأَمْطَارُ سَأَلَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَلَمْ أَسْتَطِعْ أَن أَي مَسْجِدَهُمْ فَأَصَل لَهُمْ، وَدِدْتُ أَنَّكَ يَا رَسُولَ اللهِ تَأْتِي فَتُصَنِي فِي مُصَلَّى فَأَتَخِذَهُ مُصَلَّى، قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَفَعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ عِتْبَانُ فَغَدَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَبُو بَكْرِ الصِّدِّيقُ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أَصَلِّي مِنْ بَيْتِكَ ؟ قَالَ فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَر، فَقُمْنَا وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ لَهُ، قَالَ فَتَابَ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ حَوْلَنَا حَتَّى اجْتَمَعَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ ذَوُو عَدَدٍ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ مُنَافِقُ، لَا يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُلْ لَهُ ذَلِكَ، أَلَا تَرَاهُ قَدْ
233 قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللهِ ؟ قَالَ قَالُوا اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ فَإِنَّمَا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ لِلْمُنَافِقِينَ، قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللهَ قَد حَرَّم عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ (مسلم کتاب المساجد باب الرخصة فى التخلف عن الجماعة بعذر 1044) الله سة حضرت عتبان بن مالک جو نبی صلی الی یوم کے انصار صحابہ میں سے تھے جو (غزوہ) بدر میں شریک ہوئے تھے رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یار سول ملی لی نام اللہ ! میری بینائی کمزور ہو گئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں.جب بارشیں ہوتی ہیں تو وہ وادی جو میرے اور ان کے درمیان ہے بہہ پڑتی ہے اور میں ان کی مسجد میں جاکر انہیں نماز نہیں پڑھا سکتا.یارسول صلی علی کرم اللہ ! میری خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں اور (کسی جگہ ) نماز پڑھیں جسے میں نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں.وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا کہ انشاء اللہ میں ضرور ایسا کروں گا.حضرت عتبان کہتے ہیں اگلی صبح جب دن چڑھا تو رسول اللہ صلی لی کمر اور حضرت ابو بکر صدیق تشریف لائے رسول اللہ صلی علیم نے اجازت چاہی.میں نے اجازت دی.جب آپ (گھر میں آئے تو) بیٹھے نہیں یہانتک کہ اندر تشریف لے آئے.فرمایا کہ تم اپنے گھر میں کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں.وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے گھر کے ایک کونہ کی طرف اشارہ کیا.رسول اللہ صلی للی کم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے.آپ نے دور کعتیں پڑھیں اور سلام پھیرا.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کو خنزیر کے لئے روک لیا جو ہم نے آپ کے لئے تیار کیا تھا.وہ کہتے ہیں کہ محلہ کے بعض اور افراد بھی ہمارے ارد گرد سے آگئے.یہانتک کہ گھر میں آدمیوں کی خاصی تعداد جمع ہو گئی.اُن میں سے کسی نے کہا مالک بن د خشن کہاں ہے ؟ ایک نے کہا کہ وہ تو منافق ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی علیم سے محبت نہیں کرتا.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ تم اس کے بارہ میں یہ مت کہو.کیا تمہیں پتہ نہیں کہ اس نے اللہ کی رضا چاہتے ہوئے لا اله الا اللہ کا اقرار کیا ہے.وہ کہتے ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی یہ کم بہتر جانتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے کہا کہ
234 ہم تو اس کی توجہ اور اس کی خیر خواہی منافقین کے لئے ہی دیکھتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا کہ جس نے اللہ کی رضا چاہتے ہوئے لا إله إلا اللہ کا اقرار کیا اللہ اس پر آگ کو حرام فرما چکا ہے.229 عن جابر بْنِ الْأَسْوَدِ أَوِ الْأَسْوَدِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلَيْنِ صَلَيَا الظَّهَرَ فِي بُيُوتِهِمَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمَا يَرَيَانِ أَنَّ النَّاسَ قَدْ صَلُّوا، ثُمَّ أَتَيَا الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، فَقَعَدَا نَاحِيَةً مِنَ الْمَسْجِدِ، وَهُمَا يَرَيَانِ الصَّلَاةَ لَا تَحِلُّ لَهُمَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَآهُمَا أَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَجِيءَ بِهِمَا، وَفَرَائِصُهُمَا تَرْتَعِدُ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ حَدَثَ فِي أَمْرِ هِمَا شَيْءٌ، فَسَأَلَهُمَا، فَأَخْبَرَاهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ إِذَا فَعَلْتُمَا ذَلِكَ، فَصَلِّيَا مَعَ النَّاسِ، وَاجْعَلَا الْأُولَى هِيَ الْفَرْضَ (مسند ابي حنيفه كتاب الصلاة، باب بيان تقديم العشاء على العشاء 137 ) حضرت جابر بن اسود یا اسود بن جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم کے زمانہ مبارک میں دو آدمیوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ مسجد میں نماز باجماعت ہو چکی ہو گی گھر میں ظہر کی نماز پڑھی اور پھر مسجد میں آئے اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی میں کم نماز پڑھا رہے ہیں وہ نماز میں شامل ہونے کی بجائے ) مسجد میں ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے کہ ایک مرتبہ تو وہ نماز پڑھ چکے ہیں دوبارہ وہی نماز پڑھنا درست نہیں.جب رسول اللہ صلی للی نکم نے سلام پھیر نے کے بعد انہیں دیکھا کہ وہ نماز میں شامل نہیں ہوئے ہیں تو انہیں بلوایا وہ دونوں خوف کے مارے کانپتے ہوئے آئے کہ شاید ان سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہے.آپ نے ان سے نماز نہ پڑھنے کی وجہ پوچھی.انہوں نے جب امر واقعہ بتایا تو آپ نے فرمایا جب اکیلے نماز پڑھ چکے ہو تو دوبارہ جماعت کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیا کرو خواہ تم پہلی ادا کر دہ نماز کو ہی فرض سمجھتے ہو.
235 230ـ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ تَطَوُّعِهِ ؟ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَيُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ، وَيَدْخُلُ بَيْنِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الوثر، وَكَانَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا، وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا، وَكَانَ إِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَاهُمْ رَكَعَ وَسَجَد وَهُوَ قائم، وَإِذَا قَرَأَ قَاعِدًا رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَكَانَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ (مسلم کتاب صلاة المسافرين باب جواز النافلة قائما و قاعدا 1193) عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے رسول اللہ صلی علیم کی نفل نماز کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حضور علی الیکم میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے پھر باہر تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے پھر اندر تشریف لاتے اور دو رکعت ادا فرماتے اور آپ لوگوں کو مغرب پڑھاتے پھر (اندر) تشریف لاتے اور دو رکعت ادا فرماتے پھر آپ گوگوں کو عشاء پڑھاتے اور میرے گھر تشریف لاتے اور دور کعت ادا فرماتے اور آپ رات کو نور کعت پڑھتے جن میں وتر شامل ہیں.اور آپ لمبی رات کھڑے ہو کر اور لمبی رات بیٹھ کر نماز پڑھتے اور جب آپ کھڑے ہو کر قرات فرماتے تو رکوع و سجود بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب فجر طلوع ہو جاتی تو دور کعت پڑھتے.231 - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الغَدَاةِ (بخاری كتاب التهجد باب الركعتين قبل الظهر (1182 1: مراد یہ ہے کہ جب کھڑے ہو کر قراءت فرماتے تو قیام سے رکوع و سجود میں جاتے اور جب بیٹھ کر قراءت فرماتے تو بیٹھنے کی حالت سے ہی رکوع و سجود میں جاتے.
236 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت ظہر سے پہلے نہیں چھوڑا کرتے تھے اور دور کعتیں صبح سے پہلے.232- عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبِ الْأَنْصَارِي، قَالَ صَيْتُ رَسُول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلّم ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَفَرًا، فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ رَكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ (ابوداؤد ، تفریع ابواب صلاة السفر ، باب التطوع في السفر 1222) حضرت برء بن عازب انصاری سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں میں اٹھارہ سفروں میں رسول اللہ صلی این یکم کے ساتھ رہا.میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے دور کعتیں چھوڑی ہوں.233 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إذَا اختلف المؤذن للصبح وَبَدَا الصُّبْحُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تُقَامَ الصَّلَاةُ (صحيح البخاري، كتاب الأذان باب الاذان بعد الفجر 618) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ حضرت حفصہ نے مجھے بتایا کہ جب مؤذن صبح کی اذان دے کر بیٹھ جاتا اور صبح نمودار ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلکی سی دور کعتیں پڑھتے ، پیشتر اس کے کہ باجماعت نماز شروع کی جاتی.عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ (مسلم کتاب صلاة المسافرين باب استحباب ركعتى سنة الفجر 1177) حضرت حفصہ فرماتی ہیں جب فجر طلوع ہو جاتی تو رسول اللہ صلی ا لیکن صرف دو ملکی رکعتیں پڑھتے.
237 234.عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، أَخِي بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، قَالَ أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ فِي مَسْجِدِنَا فَلَمَّا سَلَّمَ مِنْهَا قَالَ ارْكَعُوا هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ فِي بُيُوتِكُمْ (مسند احمد بن حنبل ، احاديث من مسند الانصار ، حدیث محمود بن لبيد 24023) حضرت محمود بن لبید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی للی نام ہمارے محلہ میں تشریف لائے اور آپ نے مسجد میں مغرب کی نماز پڑھائی.جب آپ نے سلام پھیر اتو (حاضرین نماز سے ) فرمایا کہ (مغرب کی ) دو سنتیں اپنے اپنے گھر جا کر پڑھو.235 - عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِن خَيْرٌ صَلاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْجَمَاعَةَ (سنن دارمی کتاب الصلاة باب صلاة التطوع فى اى موضع افضل 1372) رض حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اپنے گھروں میں نماز (سنن و نوافل) پڑھا کرو کیونکہ جماعت کے ساتھ فرضوں کے سوا باقی نماز گھر میں پڑھنا بہترین نماز ہے.236ـ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، فَإِذَا طَلَعَ الفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقَهِ الْأَيْمَنِ، حَتَّى يَجِيءَ الْمُؤَذِّنُ فَيُؤْذِنَهُ بخاری کتاب الدعوات باب الضجع على شق الايمن (6310
238 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی المی ام رات کے پچھلے حصہ ) میں گیارہ رکعت تہجد پڑھتے.جب فجر طلوع ہوتی تو وہ ملکی رکعتیں پڑھتے اور پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے.جب موذن نماز کے لیے اطلاع دیتا تو آپ نماز دو پڑھانے تشریف لے جاتے).237ـ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، قُلْتُ أَرَأَيْتَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، أَأَطِيلُ فِيهِمَا الْقِرَاءَةَ ؟ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، قَالَ قُلْتُ إِنِّي لَسْتُ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ، قَالَ إِنَّكَ لَضَخْمُ، أَلَا تَدَعُنِي أَسْتَقْرِ لَكَ الْحَدِيثَ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَيُوتِرُ بِرَكَعَةٍ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ كَأَنَّ الْأَذَانَ بِأُذُنَيْهِ (مسلم کتاب صلاة المسافرين باب صلاة الليل مثنى مثنى 1243) انس بن سیرین کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عمرؓ سے سوال کیا کہ صبح کی نماز سے پہلے کی دور کعت کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا میں ان میں لمبی قراءت کروں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی ال کل رات کو دو دور کعت ادا فرماتے.پھر ایک رکعت کے ساتھ وتر کرتے.وہ (انس) کہتے ہیں میں نے کہا میں اس بارہ میں آپ سے نہیں پوچھ رہا.انہوں (حضرت ابن عمرؓ نے کہا تم سادہ لوح ہو.کیا تم مجھے اتنی مہلت بھی نہیں دو گے کہ میں تمہارے سامنے پوری حدیث بیان کروں.رسول اللہ صلیالی کی رات کو دو دو رکعت کر کے پڑھتے اور ایک رکعت سے وتر کرتے اور صبح کی نماز) سے قبل دور کعت پڑھتے گویا کہ اذان آپ کو سنائی دے رہی ہے.238- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ ، قَالَ فَصَلَّى لَنَا الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ وَأَقْبَلْنَا مَعَهُ، حَتَّى جَاءَ رَحْلَهُ، وَجَلَسَ وَجَلَسْنَا مَعَهُ، فَحَانَتْ مِنْهُ الْتِفَاتَةٌ نَحْوَ حَيْثُ صَلَّى، فَرَأَى نَاسًا قِيَامًا، فَقَالَ مَا
239 يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ ؟ قُلْتُ يُسَبِّحُونَ، قَالَ لَوْ كُنْتُ مُسَبْعًا لَأَتْمَمْتُ صَلَاتِي، يَا ابْنَ أَخِي إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ ، وَصَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللهُ ، وَصَحِبْتُ عُمَرَ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللهُ ، ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (مسلم کتاب صلاة المسافرين باب صلاة المسافرین و قصرها 1104) عیسی بن حفص بن عاصم بن حضرت عمر بن خطاب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مکہ کے رستہ میں میں حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ تھا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں ظہر دور کعتیں پڑھائیں پھر ان کی نظر پڑی جہاں انہوں نے نماز پڑھائی تھی.پھر وہ آگے بڑھے تو ہم بھی ان کے ہمراہ آگے بڑھے یہاں تک کہ وہ اپنے پڑاؤ پر پہنچ گئے.وہ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے.پھر انہوں نے کچھ لوگوں کو کھڑے دیکھا تو پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ میں نے بتایا کہ یہ نوافل پڑھ رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ اگر میں نے نوافل (غالباً سنتیں ) پڑھنے ہوتے تو ضرور اپنی نماز پوری پڑھتا.اے میرے بھتیجے! میں رسول اللہ صلی اللی کام کے ہمراہ سفر میں رہا ہوں.آپ نے کبھی دور کعت سے زائد نہیں پڑھیں یہانتک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی.میں حضرت ابو بکر کے ساتھ رہا.انہوں نے بھی دو رکعت سے زائد ( نہیں پڑھیں) یہانتک کہ اللہ نے ان کو وفات دے دی.میں حضرت عمر کے ساتھ بھی رہا.انہوں نے دور کعت سے زائد ( نہیں پڑھیں) یہانتک کہ اللہ نے ان کو وفات دے دی.پھر میں حضرت عثمان کے ساتھ بھی رہا.انہوں نے بھی دور کعت سے زائد رکعتیں (نہیں پڑھیں) یہانتک کہ اللہ نے ان کو وفات دے دی اور اللہ فرما چکا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (احزاب 22) یقینا اللہ کے رسول صلی المیہ کی میں تمہارے لئے نیک نمونہ ہے.
240 239.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ فِي حَدِيثِ وَكِيعٌ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ ؟ قَالَ كَى لَا يُخْرِجَ أَمَتَهُ، وَفِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةٌ قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ ما أراد إلى ذلك ؟ قَالَ أَرَادَ أَنْ لا يُخرج أُمَّتَهُ (مسلم کتاب صلاة المسافرين باب الجمع بين الصلاتين في الحضر (1143) حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال نیلم نے مدینہ میں ظہر اور عصر نیز مغرب اور عشاء بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع کر کے پڑھیں.وکیع کی روایت میں ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ آپ صلی علیکم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا تا کہ آپ اپنی امت پر کوئی تنگی نہ ڈالیں.ابو معاویہ کی روایت میں (لِمَ فَعَلَ ذَالِک کے بجائے) ما أراد إلى ذَالِک کے الفاظ ہیں.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ، فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ ؟ قَالَ أَرَادَ أَنْ لَا يُخْرِجَ أُمَّتَهُ (ابو داؤد کتاب صلاة السفر باب الجمع بين الصلاتين (1211) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یم نے ظہر، عصر اور مغرب، عشاء مدینہ میں بغیر خوف اور بارش کے جمع کیں.حضرت ابن عباس سے کہا گیا آپ کی اس سے کیا منشاء تھی.انہوں نے کہا کہ آپ نے چاہا کہ آپ اپنی امت کو تکلیف میں نہ ڈالیں.
241 240- عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِمَّا زَادَ وَإِمَّا نَقَصَ - قَالَ إِبْرَاهِيمُ وَإِنمَّا جَاءَ نِسْيَانُ ذَلِكَ مِنْ قِبَلِي - فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ ؟ قَالَ وَمَا ذَاكَ ؟ قُلْنَا صَلَّيْتَ قَبْلُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ تَحَوَلَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند عبد الله بن مسعود (4032) حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے ہمیں نماز پڑھائی.نماز میں ہم نے محسوس کیا کہ کوئی کمی بیشی ہوئی ہے.نماز کے بعد ہم نے عرض کیا.یارسول اللہ ! نماز کے بارہ میں کوئی نئی ہدایت نازل ہوئی ہے ؟ حضور نے فرمایا کیا بات ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ حضور نے ابھی اس اس طرح نماز پڑھائی ہے.آپ نے فرمایا میں بھی انسان ہوں جس طرح تم بھولتے ہو.اسی طرح میں بھی بھول سکتا ہوں.جب تم میں سے کوئی نماز میں بھول جائے تو دو سجدے سہو کرے پھر آپ نے قبلہ رخ ہو کر دو سجدے کیے.241 ـ عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ قَالَ الْوَلِيدُ فَقُلْتُ لِلْأَوْزَاعِي كَيْفَ الْاسْتِغْفَارُ ؟ قَالَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ (مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذكر بعد الصلاة وبيان صفته923) حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللملم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتے نیز کہتے اے اللہ ! تو سلام ہے اور سلامتی کا منبع ہے.اے جلال اور عزت والے ! تو بہت برکت والا ہے.ولید کہتے ہیں کہ میں نے اوزاعی سے پوچھا کہ استغفار کیسے کرتے ؟ انہوں نے کہا تم کہتے ہو استغفر الله استغفر اللہ.
242 242 ـ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَقَالَ يَا مُعَاذُ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ تَقُولُ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (ابو داؤد کتاب الصلاة باب في الاستغفار 1522) حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے رسول اللہ صلی علی کرم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے معاذ! بخدا میں یقیناً تم سے محبت کر تاہوں.پھر فرمایا اے معاذ! میں تمہیں تاکید کرتا ہوں ہر نماز کے بعد ہر گز نہ چھوڑنا کہ تم کہو اے اللہ میری مدد فرما اپنے ذکر کے لیے اور اپنے شکر کے لیے اور اپنی عبادت کی خوبصورتی کے لیے.243 ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - وَهَذَا حَدِيثُ قُتَيْبَةَ - أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَى، وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ، فَقَالَ وَمَا ذَاكَ ؟ قَالُوا يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلّى، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ ، وَيَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ، وَيُعْتِقُونَ وَلَا نُعْتِقُ، فَقَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَلَا أُعَلِّمُكُمْ شَيْئًا تُدْرِكُونَ بِهِ مَنْ سَبَقَكُمْ وَتَسْبِقُونَ بِهِ مَنْ بَعْدَكُمْ ؟ وَلَا يَكُونُ أَحَدٌ أَفْضَلَ مِنْكُمْ إِلَّا مَنْ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُمْ قَالُوا بَلَى، يَا رَسُولُ اللهِ قَالَ تُسَبِّحُونَ، وَتُكَبِرُونَ، وَتَحْمَدُونَ، دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً قَالَ أَبُو صَالِحٍ فَرَجَعَ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا سَمِعَ إِخْوَانُنَا أَهْلُ الْأَمْوَالِ بِمَا فَعَلْنَا، فَفَعَلُوا مِثْلَهُ، فَقَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ (مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذكر بعد الصلاة و بيان صفته 928) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ غریب مہاجر رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مالدار لوگ بلند درجات اور دائمی نعمتیں لے گئے.آپ نے فرمایا وہ کیسے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں
243 جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں جیسے ہم روزے رکھتے ہیں مگر وہ صدقہ دیتے ہیں ہم صدقہ نہیں دیتے اور وہ غلام آزاد کرتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کرتے.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایسی بات نہ سکھاؤں جس کے ذریعہ تم اپنے سے سبقت لے جانے والوں کو پالو گے اور اپنے سے بعد والوں سے آگے رہو گے اور کوئی تم سے آگے نہیں بڑھ سکے گا سوائے اس کے کہ وہ ایسا ہی کرے جیسا تم کرو.انہوں نے عرض کیا ضرور یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا ہر نماز کے بعد تم تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللہ کہو گے اللہ اکبر کہو گے اور الحمد للہ کہو گے.(راوی) ابو صالح کہتے ہیں کہ غریب مہاجر پھر رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں دوبارہ آئے اور عرض کیا کہ ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی سن لیا ہے.وہ بھی ویسا ہی کرنے لگ گئے ہیں جو ہم کرتے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی ال نیلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے.244 ـ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِها عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلُ عَنْ حُسْنِينَ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلا تَسَلُ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاقًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَاهُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ؟ قَالَ يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي (بخاری کتاب صلاة التراويح باب فضل من قام رمضان 2013) ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی علیکم کی نماز رمضان میں کیسی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ رمضان میں اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت نماز سے زیادہ نہ پڑھتے تھے.چار رکعتیں پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی کے متعلق نہ پوچھ.پھر چار رکعت پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی کے متعلق نہ پوچھ.پھر تین رکعتیں پڑھتے.میں نے (ایک بار آپ سے ) عرض کیا یارسول اللہ ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ فرمایا عائشہ میری آنکھیں تو سوتی ہیں اور میر اول نہیں سوتا.
244 245ـ عَنْ بِلَالٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ قِيَامَ اللَّيْلِ قُرْبَةٌ إِلَى اللهِ، وَمَنْهَاةٌ عَنْ الإِثْمِ، وَتَكْفِيرٌ للسَّيِّئَاتِ، وَمَطْرَدَةٌ لِلدَّاءِ عَنِ الجَسَدِ (ترمذی کتاب الدعوات باب في دعاء النبي الله (354) حضرت بلال سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی المی کریم نے فرمایا تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریقہ رہا ہے اور رات کا قیام قرب الہی کا ذریعہ ہے اور گناہوں سے روکنے کا ذریعہ ہے، برائیوں کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے اور جسمانی برائیوں سے بچانے کا ذریعہ ہے.246- عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ الْأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثْنَى مَثْنَى وَالْإِقَامَةُ وَاحِدَةً، غَيْرَ أَنَّ الْمُؤذِنَ كَانَ إِذَا قَالَ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ مرتين (مسند احمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابة ، مسند عبد الله بن عمر 5602) الله حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم کے زمانہ میں اذان کے کلمات دو مر تبہ کہے جاتے تھے اور اقامت کے کلمات ایک ایک دفعہ.البتہ اقامت میں موذن قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ کے الفاظ دو دفعہ کہا کرتا تھا.247ـ عَنْ مُطَرفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَفِي صدره أزيز كأزيز الرَّحَى مِنَ الْبُكَاءِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (ابو داؤد کتاب الصلاة باب البكاء في الصلاة 904) مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللی علم کو اس حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے کہ رونے کی بنا پر آپ صلی الی ایم کے سینہ میں آواز تھی چکی کی آواز کی طرح.م الله سة
245 248 عَن أبي هريرةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَى عَبْدِى بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ هِمَا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَى بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ....(صحيح البخاري, كتاب الرقاق باب التواضع (6502 حضرت ابو ہریر کا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی نیلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے دوست سے دشمنی کی.میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں.میرا بندہ جتنا میرا قرب اس چیز سے، جو مجھے پسند ہے اور میں نے اس پر فرض کر دی ہے، حاصل کر سکتا ہے اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتا اور نوافل کے ذریعہ سے میر ابندہ میرے قریب ہو جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا دوست بنالیتا ہوں تو اس کے کان بن جاتا ہوں.جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے ، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.( یعنی میں ہی اس کا کار ساز ہوتا ہوں) اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں.249 ـ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ زَوْجِي صَفْوَانَ بْنَ الْمُعَظَلِ، يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ، وَيُفَطِرُنِي إِذَا صُمْتُ، وَلَا يُصَلِّى صَلَاةَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ وَصَفُوَانُ عِنْدَهُ، قَالَ فَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَتْ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَمَّا قَوْلُهَا يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ، فَإِنَّهَا تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ وَقَدْ نَهَيْتُهَا، قَالَ فَقَالَ لَوْ كَانَتْ سُورَةً وَاحِدَةً لَكَفَتِ النَّاسَ، وَأَمَّا قَوْلُهَا يُفَطِرُنِي، فَإِنَّهَا
246 تَنْطَلِقُ فَتَصُومُ ، وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌ، فَلَا أَصْبِرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ لا تَصُومُ امْرَأَةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا، وَأَمَّا قَوْلُهَا إِنِّي لَا أَصَلِّي حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ قَدْ عُرِفَ لَنَا ذَاكَ، لَا نَكَادُ نَسْتَيْقِظُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، قَالَ فَإِذَا اسْتَيْقَظْتَ فَصَلِ (ابوداؤد کتاب الصيام باب المرأة تصوم بغیر اذن زوجها 2459) حضرت ابوسعید نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی صلی الی یکم کے پاس آئی اور ہم آپ کے پاس تھے.اس نے عرض کیا یارسول اللہ ! میر اخاوند صفوان بن معطل جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتا ہے اور میر اروزہ کھلوا دیتا ہے جب میں روزہ رکھتی ہوں اور یہ فجر کی نماز اس وقت پڑھتا ہے جب سورج نکلتا ہے.حضرت ابوسعید" کہتے ہیں کہ اس وقت صفوان آپ کی مجلس میں موجود تھے.آپ نے ان پر ان کی بیوی کی شکایت کے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ اس کا یہ کہنا کہ یہ جب نماز پڑھتی ہے میں اس کو مارتا ہوں کہ وہ دو دو سورتیں پڑھتی ہے.میں نے اس کو منع کیا.آپ نے فرمایا اگر ایک سورۃ بھی ہوتی تو لوگوں کے لیے کافی ہوتی.اور اس کا یہ کہنا کہ میں اس کا روزہ کھلوا دیتا ہوں کہ یہ روزے رکھتی چلی جاتی ہے اور چونکہ میں جو ان آدمی ہوں اس لئے صبر نہیں کر سکتا.ابوسعید کہتے ہیں کہ اس دن آپؐ نے فرمایا کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے اور اس کا یہ کہنا کہ میں سورج نکلنے کے بعد فجر کی نماز پڑھتا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایسے گھر والا آدمی ہوں اور یہ بات معروف ہے کہ ہمیں سورج نکلنے سے پہلے جاگ نہیں آتی.آپ نے فرمایا جب تمہاری آنکھ کھلے تو نماز پڑھ لیا کرو.عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدِهِ فَقَالَت زَوْجِي صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَظَلِ يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ وَيُفَطِرُنِي إِذَا صُمْتُ وَلَا يُصَلِّي الْفَجْرَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ وَصَفْوَانُ عِنْدَهُ قَالَ فَسَأَلَهُ عَمَّا قَالَت فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا قَوْلُهَا يَضْرِبُنِي إِذَا صَلَّيْتُ فَإِنَّهَا تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ وَقَدْ نَهَيْتُهَا قَالَ فَقَالَ لَه رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَتْ سُورَةٌ وَاحِدَةً لَكَفَتِ النَّاسَ.قَالَ وَأَمَّا قَوْلُهَا يُفَطِرُنِي إِذَا هُمْتُ
247 فَإِنَّهَا تَنْطَلِقُ تَصُوم وَأَنا رجل شاب فَلَا أَصْبِرٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَصُومُ امْرَأَةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا وَأَمَّا قَوْلُهَا إِنِّي لَا أَصَلَّى حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِنَّا أهل بيت قد عرف لنا ذاك لا نَكَادُ نَسْتَيْقِظُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ فَإِذَا اسْتَيْقَظْتَ يَا صَفْوَانُ فَصَلِّ (مشكاة المصابيح كتاب النكاح باب عشرة النساء وما لكل واحدة من الحقوق ، الفصل الثالث (3269) حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی ا کرم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ کے پاس ایک عورت آئی اور عرض کیا کہ میرا خاوند صفوان بن معطل ( مجھ سے بُرا سلوک کرتا ہے) جب میں نماز پڑھوں تو مجھے مارتا ہے اور اگر روزہ رکھوں تو روزہ کھلوا دیتا ہے اور خود فجر کی نماز ایسے وقت میں پڑھتا ہے جب سورج نکل آیا ہوتا ہے.صفوان اس وقت مجلس میں موجود تھے.آپ نے ان سے ان شکایات کے بارے میں پوچھا.انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ جو کہتی ہے کہ میں نماز پڑھوں تو یہ مارتا ہے.تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نماز میں ( لمبی لمبی) دو سورتیں پڑھتی ہے.(اور مجھے کام پر جانا ہوتا ہے، اس لئے) میں نے اسے کہا ہے کہ چھوٹی سورت پڑھے (تاکہ یہ میرے لئے کھانا پکا سکے اور میں کام پر جاسکوں) اس پر رسول اللہ صلی اللی کم نے فرمایا اگر قرآن کی ایک ہی سورت ہو تو لوگوں کے لئے کافی ہے (یعنی ایک سورۃ پڑھنے سے نماز ہو جاتی ہے).پھر صفوان نے کہار ہی اس کی یہ شکایت کہ اگر میں روزہ رکھوں تو یہ روزہ تڑوادیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ روزے رکھتی ہی چلی جاتی ہے اور ( آپ جانتے ہیں کہ میں نوجوان ہوں) اتناصبر نہیں کر سکتا.اس پر رسول اللہ صلی یم نے فرمایا کہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کوئی عورت نفلی روزے نہ رکھے.اب رہا ( اس کا آخری) اعتراض کہ میں نماز اس وقت پڑھتا ہوں جب سورج طلوع ہو جاتا ہے تو ہم ایسے لوگ ہیں کہ ہمارے بارہ میں سب لوگوں کو معلوم ہے کہ ہم سورج چڑھے اٹھتے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا اے صفوان ! جب تم جا گو تو نماز پڑھ لیا کرو.250- عن أنس بن مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدُّعَاءُ لَا يُرَةُ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ (ترمذی کتاب الصلاة باب ما جاء ان الدعا لا يرد بين الاذان والاقامة (212)
248 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں ہوتی.251- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَالَ حِينٍ يَسْمَعُ النَّدَاءَ اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحَمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ (بخاری کتاب الاذان باب ما جاء فى الدعاء عند النداء (614) حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اذان سننے کے وقت یہ دعا کی کہ اے اللہ ! جو اس دعوۃ تائمہ اور اس قائم ہونے والی نماز کا رب ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی کامیابی کا ذریعہ عطا فرما اور ہر طرح کی برتری عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر پہنچا، جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے تو قیامت کے دن میری شفاعت اس کے لئے واجب ہو گئی.252 عن ابْنِ أَبِي عَتِيقٍ قَالَ تَحَدَّثْتُ أَنَا وَالْقَاسِمُ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها.....إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الأخيقان (مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب كراهة الصلاة بحضرة الطعام 861) ابنِ ابی عتیق بیان کرتے ہیں کہ میں اور قاسم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس باتیں کر رہے تھے.حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی ا لنی کیم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کھانے کی موجودگی میں نماز نہیں ہے.اور نہ (اس وقت) جب دونا پاک چیزیں اسے روک رہی ہوں.
249 جمعہ اور اس کے آداب 253ـ عَن أَبي هُرَيْرَةَ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا (مسلم کتاب الجمعه باب فضل يوم الجمعة 1401) حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کلم نے فرمایا بہترین دن جس پر سورج طلوع ہو اجمعہ کا دن ہے اس میں آدم پیدا کئے گئے اور اس میں جنت میں داخل کئے گئے اور اس (دن) میں جنت سے نکالے گئے.254 عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِيهِ قُبِضَ ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَى مِنَ الصَّلاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَى (ابو داؤد کتاب تفريع ابواب الجمعة باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة 1047) حضرت اوس بن اوس کہتے ہیں رسول اللہ صلی الی یم نے فرمایا تمہارے افضل ایام میں سے جمعہ کا دن ہے.اس میں آدم پیدا کیے گئے اور اس میں ان کی وفات ہوئی اس میں (بگل) میں صور پھونکا جائے گا اور اس میں بے ہوشی ہو گی.پس اس میں مجھ پر کثرت سے درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے.-255 - عَن أبي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ الْغُسْلُ يَوْمَ الجمعة واجب على كل محتلم (مسلم کتاب الجمعة باب وجوب غسل الجمعة على كل بالغ 1389) حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن غسل کرناہر بالغ پر واجب ہے.
250 256 - عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُقْبَةَ بْنِ الْفَاكِهِ عَنْ جَدِهِ الْفَاكِهِ بْنِ سَعْدٍ - وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيَوْمَ عَرَفَةٌ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ، وَيَوْمَ النَّحْرِ (مسند احمد بن حنبل، مسند المدنيين ، حديث الفاكه بن سعد 16840) حضرت فاکہ جو رسول اللہ صلی الل ظلم کے صحابی تھے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللی کم جمعہ کے دن، عرفہ کے دن (یعنی نو ذی الحجہ کو )، عید الفطر اور عید الاضحی کے دن نہایا کرتے تھے.257- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي جُمْعَةٍ مِنَ الْجَمْعِ مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ، إِنَّ هَذَا يَوْمٌ جَعَلَهُ اللهُ لَكُمْ عِيدًا ، فَاغْتَسِلُوا ، وَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَاكِ (المعجم الصغير للطبرانى ، باب الحاء ، من اسمه الحسن جلد 1 صفحه 129) الله سة حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ نام ایک جمعہ کے خطبہ ) میں فرمایا اے مسلمانو کے گرو ہو !اس دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے عید بنایا ہے (اس روز) نہایا کرو اور مسواک کیا کرو.258.عن عامر بن لدين الْأَشْعَرِي رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول إِن يَوْم الْجُمُعَة عيدكم فَلَا تَصُومُوا إِلَّا أَن تَصُومُوا قبله أو بعده (الترغيب والترهيب للمنذرى، كتاب الصوم الترغيب فى صوم الاربعاء والخميس و الجمعة......1522) حضرت عامر بن لدین اشعری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جمعہ کا دن تمہارے لیے عید ہے.اس لیے صرف اس دن کو مخصوص کر کے ) روزہ نہ رکھا کر وسوائے اس کے کہ جمعہ کے ساتھ اس کا پہلا یا بعد کا ( دن) ملالو.( یعنی جمعرات اور جمعہ یا جمعہ ہفتہ دو دن ملا کر روزہ رکھو).
251 259ـ عَنْ وَاصِلِ بْنِ حَيَّانَ، قَالَ قَالَ أَبُو وَائِلٍ: خَطَبَنَا عَمَّارٌ، فَأَوْجَزَ وَأَبْلَغَ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا يَا أَبَا الْيَقْطَانِ لَقَدْ أَبْلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ ، فَلَوْ كُنْتَ تَنَفَسْتَ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَيْئَةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ، وَاقْصُرُوا الْخُطَبَةَ (مسلم کتاب الجمعة باب تخفيف الصلاة والخطبة 1428) ابووائل کہتے ہیں کہ حضرت عمار نے ہمیں خطبہ دیا اور مختصر دیا اور بلیغ کلام کیا جب وہ (منبر سے ) سے نیچے اترے تو ہم نے کہا اے ابو یقطان ! آپ نے بہت بلیغ کلام کیا ہے مگر مختصر کیا ہے کیوں نہ آپ نے لمبا کیا.انہوں نے کہا کہ ر میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدمی کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ اس کی عظمندی کی نشانی ہے پس نماز لمبی کر و اور خطبہ مختصر کرو.260- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ فِيهِ سَاعَةٌ، لَا يُوَافِقُهَا عَبْدُ مُسْلِمٌ، وَهُوَ يُصَلِّي، يَسْأَلُ اللهَ شَيْئًا، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ زَادَ قُتَيْبَهُ فِي رِوَايَتِهِ: وَأَهَارٌ بِيَدِهِ يُقَيْلُهَا (مسلم کتاب الجمعة باب في الساعة التي في يوم الجمعة 1397) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا اس میں ایک گھڑی ہوتی ہے اگر ایک مسلمان بندہ نماز پڑھتے ہوئے اس سے موافقت کر جائے اور اللہ سے کچھ مانگے تو وہ ضرور اسے عطاء کر دیتا ہے.قتیبہ نے اپنی روایت میں مزید یہ کہا کہ آپ نے اس (گھڑی ) کے چھوٹا ہونے کا اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا.
252 مسجد اور اس کے آداب 261ـ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَنَّ عُثْمَانَ بْن عَفَّانَ، أَرَادَ بِنَاءَ الْمَسْجِدِ، فَكَرِةَ النَّاسُ ذَلِكَ، وَأَحَبُّوا أَنْ يَدَعَهُ عَلَى هَيْئَتِهِ، فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ، بَنَى اللَّهُ لَهُ فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ (مسلم کتاب الزهد والرقائق بـاب فضل بناء المسجد 5284) محمود بن لبید سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان نے مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ فرمایا تولوگوں نے اسے برا سمجھا اور پسند کیا کہ اسے اس کی اصل شکل پر رہنے دیں انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی ا لنی کیم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کی خاطر مسجد بنائی اس کے لئے اللہ اس جیسا گھر جنت میں بنائے گا.262 - عن أبي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَعْتَادُ المَسْجِد فَاهُدُوا لَهُ بِالإِيمَانِ، قَالَ اللهُ تَبَارَكَ تَعَالَى: إنّما يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ (ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب و من سورة التوبة 3093) حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت کے لیے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے مومن ہونے کی گواہی دو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں“.263 - عَن جدتها فَاطِمَةً بِنْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ قَالَ بِسْمِ اللهِ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ، اللَّهُم
253 اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ وَإِذَا خَرَجَ قَالَ بِسْمِ اللَّهِ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، اللهم الهزلي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ الله و (مسند احمد بن حنبل ، الملحق المستدرك من مسند الانصار ، مسند فاطمه بنت رسول الله عام 26949) حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللی کم بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلیالی یکم جب مسجد میں داخل ہوتے تو کہتے ”اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اللہ کے رسول پر سلامتی ہو.اے میرے اللہ ! میرے گناہ بخش اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے“.اور جب آپ (مسجد سے باہر نکلتے تو یہ کہتے ”اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر سلامتی ہو.اے میرے اللہ ! میرے گناہ بخش اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے“.264- حَدَّثَنِي أَنَسِ بْنُ مَالِدٍ وهُو عَم اسحاق قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَامَ يَبُولُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهُ مَهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُزْرِمُوهُ دَعُوهُ فَتَرَكُوهُ حَتَّى بَالَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ: إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ منْ هَذَا الْبَوْلِ، وَلَا الْقَدْرِ إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ (مسلم کتاب الطهارة باب وجوب غسل البول و غيره من النجاسات 421) حضرت انس بن مالک.جو اسحاق کے چا ہیں.نے بیان کیا کہ ہم مسجد میں رسول اللہ صلی نیلم کے پاس تھے کہ - ایک اعرابی آیا اور مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگار سول اللہ صلی نیلم کے صحابہ کہنے لگے رک جاؤ رک جاؤ.وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا یکم نے فرمایا اس کا پیشاب مت روکو ، اسے چھوڑ دو.چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا یہانتک کہ وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو پھر رسول اللہ صلی الیکم نے اس بلا یا اور اس سے فرمایا یہ مساجد پیشاب اور گندگی و غیرہ کے لئے نہیں ہوتیں.یہ تو صرف اللہ عز و جل کے ذکر، نماز اور قرآن پڑھنے کے لئے ہیں.
254 265 عن جابر، قَالَ عَلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَكْلِ الْبَصَلِ وَالْكُرَاتِ، فَغَلَبَتْنَا الْحَاجَةُ، فَأَكَلْنَا مِنْهَا، فَقَالَ مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ الْمُنْتِنَةِ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَأَذَى، مِمَّا يَتَأَذَى مِنْهُ الْإِنْسُ (مسلم کتاب المساجد ، باب نهى من اكل ثو ما او بصلا 866) حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے پیاز اور گند نا کے کھانے سے منع فرمایا جب اس کی ضرورت ہم پر غالب آگئی اور ہم نے اس میں سے کھالیا تو آپ نے فرمایا جو اس بد بودار پودہ میں سے کھائے تو وہ ہر گز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں اس سے فرشتے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں.266 عَنْ أَبِي ذَرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ عُرِضَتْ عَلَى أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيْهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِى أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ (مسلم کتاب المساجد باب النهي عن البصاق في المسجد (851) حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ نبی صلی الیم نے فرمایا کہ میرے سامنے میری اُمت کے اچھے اور بُرے اعمال پیش کئے گئے تو میں نے اس کے خوبصورت اعمال میں سے تکلیف دہ چیز کا راستہ سے ہٹا دینا پایا اور اس کے بُرے کاموں میں وہ بلغم پائی جو مسجد میں ہو اور اسے دفن نہ کیا جائے.267 - عَن أَبي عَبْدِ اللهِ ، مَوْلَى شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبا هريرة، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَةٌ فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللَّهُ عَلَيْكَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُيْن لِهَذَ (مسلم کتاب المساجد باب النهي عن نشد الضالة في المسجد (872)
255 حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا کہ جو شخص کسی آدمی کو گمشدہ چیز کے بارہ میں مسجد میں اعلان کرتے ہوئے سنے تو اسے چاہئے کہ وہ کہے کہ ”اللہ اس چیز کو تیری طرف نہ لوٹائے“ کیونکہ مساجد اس غرض کے لئے نہیں بنائی گئیں.268.عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشَّرَاءِ وَالْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ ضَالَّةٌ، وَأَنْ يُنْشَدَ فِيهِ شِعْرُ، وَنَهَى عَنِ التَّعَلُّقِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ (ابوداؤد کتاب الصلاة باب التحلق يوم الجمعة قبل الصلاة 1079) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی عوام نے مسجد میں خرید و فروخت سے منع فرمایا اور یہ کہ اس میں گم شدہ چیز کا اعلان کیا جائے اور اس میں شعر گائے جائیں اور نماز سے پہلے جمعہ کے دن حلقہ بناکر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے.عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِهِ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَنَاشُدِ الْأَشْعَارِ فِي الْمَسْجِدِ وَعَنِ الْبَيْعِ وَالِاشْتِرَاءِ فِيهِ وَأَنْ يَتَحَلَّقَ النَّاسُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ فِي الْمَسْجِدِ (مشكاة المصابيح كتاب الصلاة باب المسجد ومواضع الصلاة الفصل الثاني (732) حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مسجد میں (مشاعرہ کے رنگ میں ) اشعار پڑھے جائیں یا اس میں ( بیٹھ کر) خرید و فروخت کی جائے یا جمعہ کے دن نماز سے پہلے لوگ حلقے بنا کر بیٹھے باتیں کریں.
256 269ـ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ مُجْرَةً فِي المَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا ليَايَ حَلى اجتمع إلَيْهِ نَاسٌ ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةٌ، فَظَنُّوا أَنَّهُ قَدْ نَامَ ، فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ، حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ، فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ المَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلاةَ المَكْتُوبَةَ (بخاری کتاب الاعتصام باب ما يكره من كثرة السوال و من تكلف ما لا يعنيه 7290) حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ ہم نے مسجد میں چٹائی کا ایک حجرہ بنالیا اور رسول اللہ صلی للی نیلم نے چند رات نماز پڑھی یہاں تک کہ کچھ لوگ آپ کے پاس اکٹھے ہو گئے.پھر انہوں نے ایک رات آپ کی آہٹ نہ پائی تو وہ سمجھے کہ آپ سو گئے ہیں یہ خیال کر کے ان میں سے بعض کھانسی کرنے لگے تا کہ آپ ان کے پاس باہر آئیں تو آپ نے فرمایا یہ تمہارا کام جو میں نے دیکھا ہے کہ تم برابر کر رہے ہو اس سے میں ڈر گیا کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ کر دی جائے اور اگر تم پر فرض کر دی گئی تو تم کبھی اس کو بیجا نہ لا سکو اس لئے لو گو تم اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھو کیونکہ آدمی کی افضل نماز وہی ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے سوائے فرض نماز کے.270- عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ (ابوداؤد کتاب الصلاة باب في بناء المساجد (449) الله حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی ہی ہم نے فرمایاوہ گھڑی نہیں آئیگی جب تک کہ لوگ مساجد کے بارہ میں ایک دوسرے پر فخر نہ کریں.
257 روزہ اور اس کی اہمیت 271 عن أبي صالح الآيَاتِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللهُ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا القِيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصَّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُتُ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَامَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَخُلُوفُ قَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ المِسْكِ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفَطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ (بخاری کتاب الصوم باب هل يقول اني صائم اذا شتم 1904) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی المیت کم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم کا ہر عمل اُس کے لئے ہوتا ہے سوائے روزہ کے.کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اُس کا بدلہ ہوتا ہوں اور روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو وہ کوئی فحش بات نہ کرے اور نہ شور و غل کرے.اور اگر کوئی اُس کو گالی دے یا اس سے لڑے تو چاہیے کہ وہ یہ کہہ دے: میں روزہ دار شخص ہوں.اور اُسی ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! یقینا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بوئے مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے.روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے.( پہلی خوشی ) اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ افطار کرتا ہے اور ( دوسری ) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا.272- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يداع قَوْلَ النُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةٌ فِي أَن يَدعَ طَعَامَهُ وَقَرَابَهُ (بخاری کتاب الصوم باب من لم يدع قول الزور (1903)
258 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنانہ چھوڑے تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ ایسا شخص کھانا اور پینا چھوڑ دے.273- عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي أَنَسٍ، مَوْلَى التَّيْمِنِينَ: أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَخُلِقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ (بخاری کتاب الصوم باب هل يقال رمضان او شهر رمضان 1899) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آجاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں.طَلْحَة بْنِ 274- حَدَّثَنِي بِلَالُ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِهِ عُبَيْدِ اللهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الهِلَالَ قَالَ اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا باليمن والإيمان والسَّلَامَةِ وَالإِسْلامِ، رَبِّي وَرَبُّكَ الله (ترمذی کتاب الدعوات باب ما يقول عند روية الهلال 3451) حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی للی یکم جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا کرتے ”اے اللہ ! یہ چاند امن و امان اور صحت و سلامتی کے ساتھ ( ہر روز ) نکلے.اے چاند میر ارب اور تیر ارب اللہ تعالیٰ ہے تو خیر و برکت اور رشد و بھلائی کا چاند بن “.
259 275- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُنِي عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ (بخاری کتاب الصوم باب قول النبي صل اللهم اذا رأيتم الهلال فصوموا......1909) - حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی یم نے فرمایا.یا کہا ابو القاسم علی یم نے فرمایا.اُسے دیکھ کر روزہ رکھو اور اُسے دیکھ کر افطار کرو اور اگر ابر کی وجہ سے تمہیں نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن کی گنتی پوری کر لو.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمُ الهلال فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفَطِرُوا فَإِنْ عُمْ عَلَيْكُمْ فَصُومُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا (مسلم کتاب الصیام باب وجوب صوم رمضان لروية الهلال1794) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا جب تم نی چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جب تم اسے دیکھو تو روزے رکھنے چھوڑ دو.اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے تمہیں نظر نہ آئے تو تیس دن روزے کرو.276- حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسَخَرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً (بخاری کتاب الصوم باب بركة السحور من غير ايجاب (1923) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی علی کرم نے فرمایا سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے.
260 عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسَخَرُوا، فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَكَةً (مسلم کتاب الصوم باب فضل السحور و تأكید استحبابه 1821) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا سحری کھایا کرو.کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے.277 ـ عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ بخاری کتاب الصوم باب متى يحل فطر الصائم (1954) حضرت عمر بن خطاب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ جب رات ادھر سے آجائے اور دن اُدھر سے پیٹھ موڑ کر چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو روزہ دار افطار کر چکا.278- عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجْلُوا الفِطر (بخاری کتاب الصوم باب تعجيل الافطار 1957) حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھلائی ہمیشہ میں رہیں گے جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے.279 ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِذَا نَسِيَ فَأَكَلَ وَشَرِبَ، فَلَيْهِمْ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ (بخاری کتاب الصوم باب الصائم اذا اكل او شرب ناسيا 1933)
261 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی بھول سے کھائے پئے تو چاہیے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اللہ نے ہی اُسے کھلایا اور پلایا ہے.280 عَنْ الرِّبَابِ، عَنْ عَيْهَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إذَا أَفطر أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى عَمْرٍ ، فَإِنَّهُ بَرَكَهُ، فَإِن لَمْ يَجِد قمرًا فَالمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُورٌ وَقَالَ الصَّدَقَةُ عَلَى المِسْكِينِ صَدَقَةٌ، وَهِيَ عَلَى ذِي الرَّحِيمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَّةٌ (ترمذی کتاب الزكوة باب ما جاء فى الصدقة على ذى القرابة 658) حضرت سلمان بن عامر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی افطار کرے کھجور سے کرے کیونکہ یہ باعث برکت ہے اور اگر کھجور کسی کو میسر نہ ہو تو پانی سے کرے کہ وہ پاک ہے.اور فرمایا کہ غریب کی مدد کر نا تو صرف صدقہ ہے لیکن اپنے کسی غریب عزیز کی مد د کر ناصدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی.281ـ عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ابوداؤد كتاب الصيام باب القول عند الافطار (2358) حضرت معاذ بن زہرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم جب روزہ افطار کرتے تو کہتے اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ ”اے اللہ میں نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا“.282.عَن مَرْوَان يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِ وَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذَا أَفْطَرَ قَالَ ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (ابوداؤد كتاب الصيام باب القول عند الافطار (2357)
262 مروان بن سالم المقفع بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر کو دیکھا کہ وہ اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور جو ہتھیلی سے زائد ہوتی اس کو کاٹ ڈالتے اور فرماتے کہ جب رسول اللہ صلی ا نام روزہ افطار کرتے تو فرماتے ذهب الظمأ وابتلت العرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُانْ هَاءَ اللهُ "پیاس بجھ گئی ، رگیں تر ہو گئیں اور اجر ثابت ہو گیا انشاء اللہ.283 ـ عَنْ مَالِكَ أَنَّهُ بَلَغَهُ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مِسْكِينًا سَأَلَهَا، وَهِيَ صَائِمَةٌ، وَلَيْسَ فِي بَيْتِهَا إِلَّا رَغِيفٌ، فَقَالَتْ لِمَوْلَاةٍ لَهَا: أَعْطِيهِ إِيَّاهُ، فَقَالَتْ: لَيْسَ لَكِ مَا تُفْطِرِينَ عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: أَعْطِيهِ إِيَّاهُ، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، قَالَتْ: فَلَمَّا أَمْسَيْنَا أَهْدَى لَنَا أَهْلُ بَيْتٍ أَوْ إِنْسَانُ مَا كَانَ يُهْدِى لَنَا شَاةً وَكَفْنَهَا، فَدَعَتْنِي عَائِشَةُ أَمْ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَتْ كُلى مِنْ هَذَا، هَذَا خَيْرٌ مِنْ قُرْصِكِ (موطا امام مالک ، کتاب الصدقة باب الترغيب في الصدقة 1878) نبی صلی ال نیلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ان سے ایک غریب عورت نے سوال کیا.اس دن آپ روزہ سے تھیں اور گھر میں سوائے ایک روٹی کے کچھ نہ تھا.آپ نے اپنی خادمہ سے کہا کہ وہ روٹی اس (غریب عورت) کو دے دے.وہ (خادمہ) کہنے لگی کہ آپ کے لئے کوئی اور چیز تو موجود نہیں.آپ کس چیز سے روزہ افطار کریں گی.حضرت عائشہ نے اس خادمہ سے کہا کہ تم وہ روٹی اس (غریب عورت ) کو دے دو.وہ (خادمہ) کہتی ہے کہ میں نے وہ روٹی اس غریب عورت کو) دے دی.جب شام ہوئی تو آپ کے پاس کسی عزیز نے یا کسی اور شخص نے بکری کا کچھ گوشت اور اس کا باز و بطور تحفہ بھیج دیا.آپ نے اس خادمہ کو (بلا کر ) فرما یالو کھاؤ یہ تمہاری روٹی سے (کہیں) بہتر ہے.
263 284- عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَطَرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا (ترمذی کتاب الصوم باب ماجاء في فضل من فطر صائما 807) حضرت زید بن خالد جھنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا ہم نے فرمایا جس نے کسی روزہ دار کاروزہ افطار کروایا (اسے روزہ رکھنے والے) کے برابر ثواب ملے گا لیکن اس سے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی.285ـ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِنا مِنْ شَوَالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ (مسلم کتاب الصیام باب استحباب صوم ستة ايام من الشوال 1970) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سارے سال کے روزے رکھے ہیں.286- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ إِلَى مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ، فَصَامَ النَّاسُ، ثُمَّ دَعَا بِقَدَجٍ مِنْ مَاءٍ فَرَفَعَهُ، حَتَّى نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، ثُمَّ شَرِبَ، فَقِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ: إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ قَدْ صَامَ ، فَقَالَ أُولَئِكَ الْعُصَاةُ، أُولَئِكَ الْعُصَاةُ (مسلم کتاب الصیام باب جواز الصوم و الفطر فى شهر رمضان...1864) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل ال الم فتح کے سال مکہ کی طرف رمضان میں نکلے آپ نے روزہ رکھا یہانتک کہ آپ كُراع الغَمِيم مقام پر پہنچے.لوگوں نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا.آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے بلند کیا یہانتک کہ لوگوں نے اس کی طرف دیکھا.پھر آپ نے
264 پیا.اس کے بعد آپ سے عرض کیا گیا کہ بعض لوگوں نے (پھر بھی ) روزہ رکھا ہوا ہے.آپ نے فرمایا یہ نافرمان ہیں، یہ نافرمان ہیں.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ عَامَ الفَتْحِ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الغَيمِ، وَصَامَ النَّاسُ مَعَهُ، فَقِيلَ لَهُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَ عَلَيْهِمُ الصّيَامُ ، وَإِنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ فِيمَا فَعَلْتَ فَدَعَا بِقَدَءٍ مِنْ مَاءٍ بَعْدَ العَصْرِ، فَشَرِبَ، وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَأَفَطَرَ بَعْضُهُمْ، وَصَامَ بَعْضُهُمْ، فَبَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا، فَقَالَ أُولَئِكَ العُصَاةُ (ترمذی کتاب الصوم باب ما جاء في كراهية الصوم في السفر (710) حضرت انس سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ لی لی یکم فتح مکہ کے لئے مدینہ سے چلے (تو رمضان کا مہینہ تھا).یہانتک کہ آپ كُراع العميم مقام پر پہنچے.آپ کے ساتھ سب لوگوں نے بھی روزہ رکھا.آپ سے عرض کیا گیا کہ روزہ کی وجہ سے لوگوں کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے اور وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ آپ کیا کرتے ہیں آپ نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا اور پیا اور لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے.بعض نے روزہ کھول دیا اور بعض نے روزہ (رکھے) رکھا.اس کے بعد آپ کو اطلاع دی گئی کہ اب بھی بعض لوگوں نے روزہ رکھا ہوا ہے اور انہوں نے پانی نہیں پیا ).اس پر آپ نے فرمایا یہ لوگ نافرمان ہیں.287- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (بخاری کتاب الصلاة التراويح باب فضل من قام رمضان (2009)
265 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جو جذبہ ایمان سے بھر پور ہو کر رضائے الہی حاصل کرنے کی غرض سے رمضان میں عبادت کے لئے رات کو بیدار ہو تو جو گناہ اُس کے پہلے ہو چکے ہوں گے اُن کی مغفرت کی جائے گی.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (مسلم کتاب صلاة المسافرين باب الترغيب فى قيام الرمضان وهو التراويح 1258) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ال یکم نے فرمایا جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اللہ کی رضا کی امید رکھتے ہوئے اعبادت کی تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے.- - 288.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانَ يَعْتَكِفُ العَفْرَ الأَوَاخِرَ مِن رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللهُ، ثُم التكف أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ (بخاری کتاب الاعتكاف باب الاعتكاف في عشر الاواخر و الاعتكاف في المساجد 2026) نبی صلی ایلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللی ام رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی.پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج معتکف ہوتی تھیں.1 احتسابا : اس کے ایک معنی ہیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے.
266 289ـ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُرُوا لَيْلَةَ القَدْرِ فِي المَنَامِ فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتُ فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ مُتَحَزِيهَا فَلْيَتَحَزَهَا فِي السَّبْعِ الأَوَاخِرِ (بخاری کتاب فضل ليلة القدر باب التماس ليلة القدر في سبع الاواخر (2015) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی لوگوں کو آخری سات راتوں میں لیلتہ القدر خواب میں دِکھائی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری خوابیں آخری سات راتوں کے متعلق ایک دوسرے سے متفق ہیں.پس جس کو اس کی تلاش ہو تو چاہیے کہ وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے.290 - عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ القَدْرِ مَا أقولُ فِيهَا ؟ قَالَ قُولي: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُو ( كَرِيمٌ) تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِي (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء فى عقد التسبيح باليد 3513 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کونسی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا دعا مانگوں.اس پر حضور نے فرمایا تم یوں دعا کرنا : اے میرے اللہ تو بخشنے والا ہے ، (عزت دینے والا ہے ) بخشش کو پسند کرتا ہے ، مجھے بخش دے.291 عَن أَبي الدَّرْدَاءِ، قَالَ أَوْصَانِي حَبِيبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَلَافٍ، لَنْ أَدَعَهُنَّ مَا عِشْتُ: بِصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَصَلَاةِ الضُّحَى، وَبِأَنْ لَا أَنَامَ حَتَّى أُوتِرَ (مسلم کتاب صلاة المسافرین باب استحباب صلاة الضحى 1175)
267 حضرت ابو دردا بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب صلی علیہم نے تین باتوں کی تاکید فرمائی.جب تک میں زندہ رہوں گا انہیں کبھی ترک نہیں کروں گا.ہر ماہ تین دن روزے رکھنا اور چاشت کی نماز پڑھنے کی اور یہ کہ میں اس وقت تک نہ سوؤں جب تک و تر نہ پڑھ لوں.292.عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا ذَرٍ، إِذَا حُمْتَ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصُمْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ (ترمذی کتاب الصوم باب ما جاء في الصوم ثلاثة ايام من كل شهر (761) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اے ابو ذر ! تم ہر ماہ تین روزے رکھنا چاہو تو ہر مہینہ کے ایام بیض یعنی چاند کی ) تیر ہوئیں، چودہویں اور پندرہویں کو روزور کھو.زکوۃ اور اس کی اہمیت 293 - عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَضِلُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ، وَدَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَة، وَاسْتَقْبِلُوا أَمْوَاجُ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَفَرُّع مراسیل ابو داؤد کتاب الطهارة باب في الزكوة 105) حضرت حسن بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا اپنے اموال کو زکوۃ ادا کر کے محفوظ کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقات کے ذریعہ کرو اور موج در موج آنے والی آفات کا دفعیہ دعاؤں اور تضرعات کے ذریعہ کرو.
268 294.عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، أَنَّ امْرَأَةٌ أَنتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا، وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا: أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا ؟ قَالَتْ: لَا ، قَالَ أَيَسُرُكِ أَنْ يُسَوِرَكِ اللهُ بِبِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَينِ مِنْ نَارٍ ؟ قَالَ فَخَلَعَتْهُمَا، فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَتْ: هُمَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ (ابو داؤد کتاب الزكوة باب الكنز ما هو ؟ و زكاة الحلى 1563) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی لنی کیم کے پاس آئی اور اسکے ساتھ اسکی بیٹی تھی اور اس (لڑکی) کے ہاتھوں میں سونے کے دو وزنی کنگن تھے.آپ نے فرمایا کیا اسکی زکوۃ دیتی ہو ؟ اس نے کہا نہیں.فرمایا کیا تم پسند کرتی ہو کہ اسکے بدلے تمہیں اللہ قیامت کے دن آگ کے دو کنگن پہنائے.راوی کہتے ہیں اُس نے ان دونوں کو اتارا اور نبی صلی علی کریم کی طرف رکھ دیے اور کہا یہ اللہ عز و جل اور اسکے رسول کی خدمت میں پیش کرتی ہوں.295 - عَن أبى أُمَامَةَ الْبَاهِلِي قَالَ جَاءَ ثَعْلَبَةُ بن حَاطِبِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ ادْع الله أَن يَرْزُقنِي مَالاً قَالَ وَيحِكَ يَا ثَعْلَبَةُ قَلِيلٌ تُؤَدِّى شُكْرَهُ خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ لا تُطِيقُهُ قَالَ يَا رَسُول الله ادع الله أَن يَرْزُقنِي مَالَا قَالَ وَيحك يا تعلية قلِيلٌ تُؤذِى شُكْرَهُ خَيْرٌ مِن كَثِيرٍ لا تُطِيفَهُ قَالَ يَا رَسُول الله اذع الله أَن يَرْزُقنِي مَا لا قَالَ وَيحك يَا ثَعْلَبَة أما تحب أن تكون مثلى ! فَلَو شِئْتُ أَن يُسَيِّدَ رَبِّي هَذِهِ الْجِبَالَ معى لَسَارَتْ قَالَ يَا رَسُول اللهِ ادْعُ الله أَن يَرْزُقَنِي مَالا فوالذي بعثك بِالْحَقِّ إِن أَتَانِي اللهُ مَالا لأغطين كل ذي حق حقه قال ويحك يا فَعْلَبَةُ قليل تطيق شكره خير من كثير لا تطيقه فَقَالَ يَا رَسُول الله ادع الله تَعَالَى فَقَالَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم اللهم ارزقه ذِى
269 مالاً فاتجر أو اشترى غنما فبُوركَ لَهُ فِيهَا ونَمَت كَمَا يَنْمُو الدُّودُ حَتَّى ضَاقَتْ بِهِ الْمَدِينَةُ فَتَنَحْى بها - فَكَانَ يَشْهدُهَا الصَّلَاةَ بِالنَّهَارِ مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلَا يشهدها بِاللَّيْلِ ثم نمت كَمَا يَنْمُو الدُّودُ فَتنحى بهَا فَكَانَ لَا يَشْهد الصَّلَاةَ بِاللَّيْلِ وَلَا بِالنَّهَارِ إِلَّا من مُجمعَة إِلَى جُمعَة مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ثُمَّ نَمَتْ كَمَا يَنْبُو الدُّودُ فَضَاقَ بِهِ مَكَانَهُ فَتنحْى بِهِ فَكَانَ لا يشهد جُمعَة وَلَا جَنَازَة مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وسلم فجعل يتلقى الركبان ويسألهم عَن الْأَخْبَار وفقده رسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَسَأَلَ عَنهُ فأخبروه أن اشترى غنما وَأَن المَدِينَة ضَاقَتْ بِهِ وَأَخْبُرُوهُ خَبْرَهُ فَقَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَيحَ ثَعْلَبَةَ بن حَاطِبٍ ثُمَّ إِن الله تَعَالَى أَمر رَسُوله أَن يَأْخُذ الصدقات وأنزل الله عز وجل (خُذ من أَمْوَالهم صدقة) الْآيَة - فَبعث رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم رَجُلَيْنِ رجلاً من جُهَيْئَةَ ورجلاً من بني سلمة يأخذان الصدقات وكتب لهما أسنان الابلِ وَالْغَنم كَيفَ يأخذانها على وجوههَا وَأَمرِهمَا أَن يَمُرًا على ثَعْلَبَةٌ بن حَاطِبٍ وبرجُلِ مِن بَنى سُلَيْمٍ فَخَرَجًا فمرا بِتَعْلَبَةَ فَسَأَلَاهُ الصَّدَقَة فَقَالَ أرياني كتابَكُما فَنظر فِيهِ فَقَالَ مَا هَذَا إِلَّا جِزْيَةٌ انْطَلَقَا حَتَّى تفرغا ثُمَّ مِمَّا بِي قَالَ فَانْطَلَقَا وَسَمِعَ بهما السليمي فَاسْتَقْبَلَهُمَا بِخيار إبِلِهِ فَقَالَا: إِنَّمَا عَلَيْكَ دونَ هَذَا فَقَالَ مَا كُنتُ أَتَقَرَّبُ إِلَى اللهِ إِلَّا بِخَير مَالِي فقبلا فَلَمَّا فَرَغَا مَرًا بِتَعْلَبَة فَقَالَ أرياني كتابَكُما فَنظر فِيهِ فَقَالَ مَا هَذَا إِلَّا جِزْيَة انطلقَا حَتَّى أرى رَأْيِي فَانْطَلَقَا حَتَّى قدما الْمَدِينَة فَلَمَّا رآهما رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ قبل أَن يُكَلِّمَهما: وَيْحَ ثَعْلَبَةَ بن حَاطِبٍ ودعا السُّليمئ بِالْبركَةِ وَأَنزل الله وَمِنْهُم مِن عَاهَدَ الله لَئِن آتَانَا مِن فَضْلِهِ لنَصَدَّقَنَ الثَّلَاثِ آيَات قَالَ فَسمع بعض مر 1: بعض نسخوں میں فاتخذ ہے.
270 أَقَارِب ثَعْلَبَة فَأَتى ثَعْلَبَة فَقَالَ وَيحك يَا ثَعْلَبَة أنزل اللهُ فِيكَ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَقدم ثَعْلَبَةُ على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ يَا رَسُول اللَّه هَذِهِ صَدَقَةٌ مَالِي فَقَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم : أنَّ الله قد مَنَعَنِي أَن أَقْبَلَ مِنْكَ قَالَ فَجَعَلَ يَبْكى ويَحْتِي التُّرَابَ على رأسه فَقَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم : هَذَا عَمَلُكَ بِنَفْسِكَ أَمَرْتُكَ فَلم تُطِعْنِي، فَلم يقبل مِنْهُ رَسُول اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَتَّى مضى ثم أَنَّى أَبا بكر فَقَالَ يَا أَبَابكر اقبلُ مِنِي صَدَقَتى فقد عَرَفْتَ مَنْزِلَتى من الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَبُو بكرٍ: لم يَقْبَلَهَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وأقْبَلُها ! فَلم يقبلها أبوبكرٍ ثُمَّ وَلِيَ عمر بن الخطاب فَأَتَاهُ فَقَالَ يَا أَبَا حَفْصٍ يَا أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ اقْبلُ منى صَدقنى وتوسل إِلَيْهِ بالمهاجرين وَالْأَنْصَارِ وَأَزْوَاجِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ عمر : لم يَقْبَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وسلم ولا أبو بكر أقبَلُها أَنا فَأبى أن يقبلها ثم وَلى عُثْمَان فَهَلَكَ فِي خَلَافَة عُثْمَانَ (تفسير الدر المنثور سورة التوبة ( ومنهم من عاهد الله...) آية 75) حضرت ابو امامہ باہلی بیان کرتے ہیں کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری رسول اللہ صلی یی کمی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اللہ سے میرے لئے دعا کریں کہ وہ مجھے مال و دولت سے نوازے.آپ نے فرما یا ثعلبہ تیر ا بھلا ہو ، تھوڑا جس پر تو شکر ادا کرتا ہے (اس) زیادہ مال سے بہتر ہے (جس پر رشک کرنے کی ) تجھے طاقت نہ ہو.(کچھ عرصہ بعد ) اس نے کہا یار سول اللہ ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مال و دولت سے نوازے.آپ نے فرمایا ثعلبہ ! تیر ابھلا ہو، تھوڑا جس پر تو شکر ادا کرتا ہے (اس) زیادہ مال سے بہتر ہے (جس پر رشک کرنے کی ) تجھے طاقت نہ ہو.اس نے کہا یارسول اللہ ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مال و دولت سے نوازے.آپ نے فرمایا اے ثعلبہ ! تیر ابھلا ہو کیا تجھے پسند نہیں کہ تو میرے جیسا ہو.اگر میں چاہوں کہ میر ارب اس پہاڑ کو میرے ساتھ چلا 1: بعض نسخوں میں تنقل علیہ کے الفاظ ہیں.
271 دے تو وہ چل پڑے گا.(اس کے کچھ عرصہ بعد ثعلبہ پھر حاضر ہوا) اور کہا یار سول اللہ ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مالدار کر دے اور کہا اس کی قسم جس نے آپ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا ہے اگر اللہ نے مجھے مال عطاء فرمایا تو میں ہر حقدار کا حق ادا کروں گا.آپ نے فرمایا ثعلبہ ! تیر ابھلا ہو، تھوڑا جس پر تو شکر ادا کرتا ہے (اس) زیادہ مال سے بہتر ہے (جس پر رشک کرنے کی تجھے طاقت نہ ہو.اس نے کہا یار سول اللہ ! اللہ سے دعا کیجیے.آپ نے اس کے لیے دعا کی اے اللہ ! ثعلبہ کو مال دار کر دے.(حضور علیہ السلام کی دعا کے بعد ) ثعلبہ نے کچھ بکریاں خریدیں.اس کے لیے اس میں برکت دی گئی اور وہ (اس تیزی سے ) بڑھے جیسے (برسات کے ) کیڑے مکوڑے بڑھتے ہیں.اس کی وجہ سے مدینہ کی گلیاں تنگ پڑ گئیں تو وہ ان کو لیکر علیحدہ ہو گیا.وہ دن کے وقت رسول اللہ صلی علی کریم کے ساتھ نماز پڑھتا مگر رات کی نماز میں نہ آتا.پھر جب وہ اور بڑھ گئیں تو نہ رات کی نماز میں آتا نہ دن کی نماز میں.مگر جمعہ کے جمعہ رسول اللہ صلی ال نیم کے ساتھ ( نماز پڑھنے کے لیے حاضر ہو تا.پھر وہ اور بڑھ گئیں اور اسکی (وہ) جگہ بھی تنگ پڑ گئی تو وہ اور دور چلا گیا.اور اب نہ وہ جمعہ کے لیے آتا نہ کسی جنازہ کے لیے رسول اللہ صلی اللی نیلم کے ساتھ حاضر ہو تا.رسول اللہ صلی اللا علم لوگوں سے ملتے اور ان سے حال احوال پوچھتے.رسول اللہ صلی علیم نے اس ( ثعلبہ ) کو غائب پایا تو اس کے متعلق دریافت کیا.لوگوں نے آپ کو بتایا کہ اس نے بکریاں خریدیں اور مدینہ ان سے بھر گیا اور اس کے بارہ میں سب کچھ بتایا.رسول اللہ صلی ال یکم نے فرمایا تعلبہ بن حاطب کا بھلا ہو.پھر اللہ نے اپنے رسول کو زکوۃ لینے کا حکم فرمایا اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی خُذ من أَمْوَالهم صدقة ( ان کے مالوں سے زکاۃ لیں ).رسول اللہ صلی علی کریم نے دو شخص ، ایک جہینہ میں سے اور ایک بنو سلمہ میں سے صدقات لینے کیلے بھجوائے.اور ان دونوں کو اونٹوں اور بکریوں کی عمروں وغیرہ کے متعلق لکھ کر دیا کہ کیسے زکاۃ وصول کرنی ہے اور انہیں کہا کہ وہ ثعلبہ بن حاطب اور بنو سلیم کے ایک شخص کے پاس جائیں.وہ دونوں ( محصل) ثعلبہ کے پاس آئے اور اس سے زکاۃ کا مطالبہ کیا.اس نے کہا مجھے اپنا حکم نامہ دکھائیں.اس نے اس کو دیکھا تو کہنے لگا یہ تو جزیہ ہے.اچھا جاؤ فارغ ہو کر واپسی پر یہاں سے ہوتے جانا.وہ دونوں ( محصل یہ سن کر) چلے گئے اور دوسرے شخص سلمی کی طرف گئے (جب سلمی کو ان
272 محصلوں کے آنے کا علم ہوا) تو اس نے اپنے اونٹوں میں سے اعلیٰ اونٹ چن کر صدقات کے لئے نکالے اور انہیں محصلین کے پاس لایا.(جب محصلوں نے ان جانوروں کو دیکھا تو) کہا کہ (اس طرح کے قیمتی اور عمدہ جانور لینے کا ہمیں حکم تو نہیں ) اس کے علاوہ آپ پر لازم ہیں.( یہ سُن کر سلمی ) کہنے لگا میں تو اللہ کا قرب اپنے بہتر مال سے حاصل کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے اس سے لے لیا.وہ دونوں ( محصل اور لوگوں سے صدقات وصول کرنے کے بعد ) ثعلبہ کے پاس (دوبارہ) آئے تو ثعلبہ نے کہا مجھے اپنا حکم نامہ دکھاؤ.اس نے اسے دیکھا اور کہا یہ تو محض جزیہ ہے، تم چلے جاؤ یہاں تک کہ میں کوئی رائے قائم کروں.وہ دونوں چلے گئے یہاں تک کہ مدینہ پہنچ گئے.جب ان دونوں کو رسول اللہ صلی علیم نے دیکھا تو قبل اس کے کہ وہ کچھ کہتے آپ نے فرمایا ثعلبہ پر افسوس راسلمی کے لیے برکت کی دعا کی.اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (التوبة 75-76) کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ انہیں مال دے گا تو وہ تمام حقوق ادا کریں گے لیکن بعد میں جب انہیں اللہ نے مال دیا تو انہوں نے بخل سے کام لیا اور وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے.آپ کی مجلس میں ثعلبہ کا ایک عزیز ( کبھی بیٹھا ہوا تھا جو ) تمام باتیں سُن رہا تھا.اس نے جاکر ثعلبہ کو ساری صورت حال بتائی اور بڑے افسوس کا اظہار کیا اور کہا تمہارابر اہو.تمہارے بارہ میں تو قرآن کریم نازل ہوا ہے ( یہ سُن کر ثعلبہ بہت پچھتایا اور صدقات لے کر رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا.اور کہا یہ میرے مال کی زکاۃ ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ نے مجھے تم سے (زکاۃ) وصول کرنے سے منع فرمایا ہے.راوی کہتے ہیں اس نے رونا شروع کر دیا اور اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا.رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا یہ سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے ، میں نے تمہیں سمجھایا تھا مگر تم نے میری بات نہ مانی.رسول اللہ صلی الیکم نے اس سے (مال زکاۃ) وصول نہ کیا یہاں تک کہ آپ وفات پاگئے.پھر وہ حضرت ابو بکر کے پاس صدقات لے کر حاضر ہوا.اور کہا اے ابو بکر مجھ سے (مال) زکاۃ قبول کریں اور آپ انصار میں میرے مقام کو جانتے ہیں.حضرت ابو بکڑ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب
273 رسول اللہ صلی الیم نے تمہارا صدقہ قبول نہیں کیا تو میں کس طرح قبول کر سکتا ہوں.پھر حضرت عمرؓ بن خطاب خلیفہ ہوئے تو وہ آپ کے پاس آیا اور کہا اے ابو حفص ! اے امیر المومنین ! مجھ سے زکاۃ قبول فرمائیں اور اس سلسلہ میں مہاجرین اور انصار اور رسول اللہ صلی ایم کی ازواج مطہرات کو بھی وسیلہ بنایا مگر حضرت عمرؓ نے فرمایا اسے رسول اللہ صلی الیوم نے قبول نہیں فرمایا اور نہ ہی حضرت ابو بکڑ نے ، کیا میں قبول کر لوں گا؟.اور اسے قبول الله کرنے سے انکار کر دیا.پھر حضرت عثمان خلیفہ ہوئے اور وہ حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں فوت ہو گیا.عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِي قَالَ جَاءَ ثَعْلَبَةُ بْن حَاطِبِ الأَنْصَارِيُّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عليه وسلم فقال: یا رسول الله، ادْعُ اللهَ أَنْ يَرْزُقَنِي مَا لا فَقَالَ وَيْحَكَ يَا ثَعْلَبَةُ، قَلِيلٌ تُوَدِّى شُكْرَهُ خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ لا تُطِيقُهُ.ثُمَّ أَتَاهُ بَعْدَ ذَلِكَ فقال: يا رسول الله ، ادع الله أن يَرْزُقَنِي مالا، قَالَ أَمَا لَكَ فِي أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَرَدْتُ أَنْ تَسِيرَ الْجِبَالُ مَعِي ذَهَبًا وَفِضَّةٌ لَسَارَتْ، ثُمَّ أَتَاهُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ يَارَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَرْزُقَنِي مَالَا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَئِنْ رَزَقَنِي اللهُ مَالاً لأَعْطِيَنَ كُلَّ ذِي حَقٍ حَقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمْ ارُزْقُ ثَعْلَبَةَ ،مالا ، اللهم ارزق ثعلبة مالاً، قال: فَاتَّخَذَ غَنَّا فَنَبَتْ كَمَا يَنْمَى الدُّودُ، فَكَانَ يصلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَيُصَلِّي فِي غَنَمِهِ سَائِرِ الصَّلَوَاتِ ثُمَّ كَثَرَتْ وَنَمَتْ، فَتَقَاعَدَ أَيْضًا حَتَّى صَارَ لَا يَشْهَدُ إِلا الْجُمْعَةَ، ثُمَّ كَثَرَتْ وَنَمَتْ فَتَقَاعَدَ أَيْضًا حَتَّى كَانَ لا يَشْهَدُ جُمْعَةٌ وَلا جَمَاعَةً، وَكَانَ إِذَا كَانَ يَوْمُ جُمْعَةٍ خَرَجَ يَتْلَقَّى النَّاسَ يَسْأَلُهُمْ عَنِ الأَخْبَارِ فَذَكَرَهُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات يَوْمٍ فَقَالَ مَا فَعَلَ ثَعْلَبَةُ ؟ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّخَذَ ثَعْلَبَةُ غَنَّما لَا يَسَعُهَا وَادٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا وَحَ تَعْلَبَةَ ، يَا وَيحَ ثَعْلَبَةَ ، يَا وَيحَ ثَعْلَبَةَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةً
274 الصدقة، فبعث رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلا مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، وَرَجُلا مِنْ بَنِي جُهَيْئَةَ، وَكَتَبَ لَهُمَا أَسْنَانَ الصَّدَقَةِ كَيْفَ يَأْخُذَانِ وَقَالَ لَهُمَا: مُرًا بِتَعْلَبَةَ بْنِ حَاطِبٍ، وَبِرَجُلٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَخَذَا صَدَقَاتِهِمَا، فَخَرَجَا حَتَّى أتيا ثعلبة فسألاه الصدقة، وأقرءاه کتاب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ مَا هَذِهِ إِلا جِزْيَةٌ: مَا هَذِهِ إِلا أُخْتُ الْجِزْيَةِ: انْطَلِقَا حَتَّى تَفْرَغَا ثُمَّ عُودَا إِلَى، فَانْطَلَقَا وَسَمِعَ بِهِمَا السُّلَمِيُّ، فَنَظَرَ إِلَى خِيَارِ أَسْنَانِ إِبِلِهِ، فَعَزَلَهَا لِلصَّدَقَةِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَهُمَا بِهَا ، فَلَمَّا رَأَيَّاهَا قَالا: مَا هَذَا عَلَيْكَ، قَالَ خُذَاهُ فَإِنَّ نَفْسِي بِذلِكَ طَيْبَةٌ، فَمَا عَلَى النَّاسِ وَأَخَذَا الصَّدَقَةَ، ثُمَّ رَجَعَا إِلَى ثَعْلَبَةَ، فَقَالَ أَرُونِي كِتَابَكُمَا، فَقَرَأَهُ فَقَالَ مَا هَذِهِ إِلا جِزْيَةٌ ، مَا هَذِهِ إِلا أُخْتُ الْجِزْيَةِ، اذْهَبَا حَتَّى أَرَى رَأْبِي، فَأَقْبَلَا فَلَهَا رَآهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُكَلِمَاهُ قَالَ يَا وَيْحَ ثَعْلَبَةَ، ثُمَّ دَعَا لِلسُّلَمِيَ بِخَيْرٍ، وَأَخْبَرَاهُ بِالَّذِى صَنَعَ ثَعْلَبَةُ، فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ إلى قوله وَبِما كانُوا يَكْذِبُونَ وَعِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ أَقَارِب ثَعْلَبَةَ سَمِعَ ذَلِكَ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَاهُ، فَقَالَ وَيْحَكَ يَا ثَعْلَبَةَ، قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيكَ كَذَا وَكَذَا فَخَرَجَ ثَعْلَبَةُ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلَهُ أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ صَدَقَتَهُ فَقَالَ إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَنَعَنِي أَنْ أَقْبَلَ مِنْكَ صَدَقَتَكَ، فَجَعَلَ يَحْلِي التُرَابَ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا عَمَلُكَ، قَدْ أَمَرْتُكَ فَلَمْ تُطِعْنِي، فَلَمَّا أَبَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبِضَ صَدَقَتَهُ رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ، وَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقْبِضُ مِنْهُ شَيْئًا ثُمَّ أَتَى أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ قَدْ عَلِمْتَ مَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَوْضِعِي مِنَ الْأَنْصَارِ فَاقْبَلْ صَدَقَنِي، فقال أبو بكر: لم يقبلها رَسُولُ اللهِ مِنك، أنا أقبلها ؛ ففيض أبو بكر رضى الله عنه ولم
275 يقبلها.فَلَهَا وَلِيَ عُمَرُ أَتَاهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْبَلُ صَدَقَنِي، فَقَالَ لَمْ يَقْبَلُهَا مِنْكَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولا أبو بَكْرٍ، أَنَا أَقْبَلُهَا ؟ فَقُبِضَ وَلَمْ يَقْبَلُهَا ثُمَّ وَلِي عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ أَنْ يَقْبَلَ صَدَقَتَهُ، فَقَالَ لَمْ يَقْبَلْهَا رَسُولُ اللَّهِ وَلَا أَبُو بَكْرٍ وَلا عُمَرُ، أَنَا أَقْبَلُهَا ؟ وَلَمْ يَقْبَلُهَا.وَهَلَكَ ثَعْلَبَةُ في خلافة عثمان رضی اللہ عنہ (اسد الغابة ، باب الثاء مع الراء ومع العين (صحابی نمبر (590) ثعلبه بن حاطب جلد 1 صفحه 463) حضرت ابو امامہ باہلی بیان کرتے ہیں کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور ! میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال و دولت سے نوازے.حضور نے فرمایا ثعلبہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تو یہ چاہتا ہے.تھوڑے مال پر شکر ادا کر نازیادہ مال پر شکر ادا کرنے سے آسان ہو تا ہے.کچھ عرصہ بعد ثعلبہ دوبارہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور مال و دولت کے لئے دعا کی درخواست کی.اس پر حضور نے فرمایا کیا تجھے میرا اسوہ پسند نہیں؟ خدا کی قسم ! اگر میں پہاڑ کو کہوں کہ وہ میرے لئے سونے چاندی کا بن جائے تو ایسا ہی ہو ( تم اس قسم کی درخواست نہ کیا کرو اور جس طرح میں قناعت اور کفایت شعاری کی زندگی بسر کرتا ہوں تم بھی بسر کرو) اس کے کچھ عرصہ بعد ثعلبہ پھر حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے مالدار کر دے اور کہا خدا کی قسم جس نے آپ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا ہے اگر میں مال دار ہو گیا تو ہر حقدار کا حق ادا کروں گا.حضور علیہ السلام نے جب دیکھا کہ یہ بار بار آکر دعا کی درخواست کرتا ہے تو آپ نے اس کے لئے دعا کی کہ اے اللہ ! تعلبہ کو مال دار کر دے.اے اللہ تعلبہ کو دولت مند بنادے.حضور علیہ السلام کی دعا کے بعد ثعلبہ نے کچھ بکریاں خریدیں اور ان بکریوں نے اس قدر بچے دیئے اور وہ اس تیزی سے بڑھے جیسے برسات کے کیڑے مکوڑے بڑھتے ہیں.شروع شروع میں تعلبہ ظہر کی نمازیں حضور کے ساتھ ادا کر تا اور بقیہ نمازیں وہ اپنے ریوڑ میں پڑھنے لگا.اس کے بعد جب اس کے بہت سے ریوڑ ہو گئے تو صرف نماز جمعہ کے لئے وہ آنے لگا لیکن جب اس کے ریوڑ اور زیادہ ہو گئے تو صرف نماز جمعہ کے لئے وہ آنے لگالیکن جب اس کے ریوڑ اور زیادہ ہو گئے تو نماز جمعہ کے لئے بھی آنا ترک کر دیا.حضور علیہ السلام بالعموم جمعہ کے دن
276 لوگوں سے ان کے حال و احوال دریافت کرنے کے لئے گھر سے نکلتے تھے.آپ نے ایک جمعہ کے دن ثعلبیہ کے بارہ میں لوگوں سے دریافت فرمایا کہ اس کا کیا حال ہے.لوگوں نے عرض کیا حضور تعلبہ نے بکریاں لے لی ہیں اور اب اس کا ریوڑ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وادی میں بھی نہیں سماتا.حضور نے یہ سن کر ثعلبہ کے متعلق تین بار اظہار افسوس کیا.جب اللہ تعالیٰ نے آیات صدقات نازل فرمائیں تو حضور علیہ السلام نے بنو سلیم میں سے ایک شخص اور بنو جھینہ میں سے ایک شخص کو بطور محصل مقرر فرمایا اور انہیں صدقات میں لئے جانے والے جانوروں کی عمروں وغیرہ کے بارہ میں احکام لکھ کر دیئے کہ اس حساب سے زکوۃ وصول کرنا.اور ان دونوں سے فرمایا تعلبہ بن حاطب اور بنو سلیم کے ایک شخص کے پاس جاؤ اور ان دونوں سے زکوۃ وصول کر و.وہ دونوں محصل ثعلبہ کے پاس آئے اور زکوۃ کا مطالبہ کیا.صدقات کی تفصیل پڑھ کر ثعلبہ کہنے لگا یہ تو جزیہ ہے اور اگر یہ جزیہ نہیں تو اس سے ملتا جلتا ٹیکس ہے.اچھا جاؤ فارغ ہو کر واپسی پر یہاں سے ہوتے جانا.وہ دونوں محصل یہ سن کر چلے گئے اور دوسرے شخص سلمی کی طرف گئے جب سلمی کو ان محصلوں کے آنے کا علم ہوا تو اس نے اپنے اونٹوں میں سے اعلیٰ اونٹ چن کر صدقات کے لئے نکالے اور انہیں محصلین کے پاس لایا.جب محصلوں نے ان جانوروں کو دیکھا تو کہا کہ اس طرح کے قیمتی اور عمدہ جانور لینے کا ہمیں حکم تو نہیں.یہ سُن کر سلمی کہنے لگا میں یہ اپنی خوشی سے دے رہا ہوں.وہ دونوں محصل اور لوگوں سے صدقات وصول کرنے کے بعد ثعلبہ کے پاس دوبارہ آئے تو ثعلبہ نے پہلے جیسا طرزِ عمل اختیار کیا اور کہا تم دونوں جاؤ میں سوچ کر فیصلہ کروں گا کہ کتنی زکوۃ ادا کرنی ہے.وہ دونوں محصل حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.جب رسول اللہ صلی علیم نے ان دونوں کو دیکھا تو ان کے بولنے سے پہلے فرمایا ثعلبہ پر افسوس، پھر سلمی (شخص) کے لیے دعا برکت کی.اور انہوں نے سلمی اور ثعلبہ دونوں کے بارہ میں سارے حالات عرض کئے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (التوبة 75-76) کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ انہیں مال
277 دے گا تو وہ تمام حقوق ادا کریں گے لیکن بعد میں جب انہیں اللہ نے مال دیا تو انہوں نے بخل سے کام لیا اور وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے.حضور صلی للی کم کی مجلس میں ثعلبہ کا ایک عزیز بھی بیٹھا ہوا تھا جو تمام باتیں سُن رہا تھا.اس نے جاکر ثعلبہ کو ساری صورت حال بتائی اور بڑے افسوس کا اظہار کیا اور کہا تمہارا بُرا ہو.تمہارے بارہ میں تو قرآن کریم نازل ہوا ہے یہ سُن کر ثعلبہ بہت پچھتایا اور صدقات لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.اور صدقات قبول کرنے کی درخواست کی.حضور نے فرمایا کہ تمہارا صدقہ لینے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا ہے اس لئے میں نہیں لے سکتا.یہ سن کر ثعلبہ نے سر پیٹ لیا گریہ وزاری کی اور اپنی بد بختی پر اظہار افسوس کیا.حضور نے فرمایا یہ سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے.میں نے تو تمہیں سمجھایا تھا کہ دولت مند بننے کی دعانہ کرواؤ لیکن تم پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا.جب ثعلبہ نے دیکھا کہ حضور صدقہ قبول نہیں کرتے تو روتا دھوتا واپس اپنے ڈیرے پر آگیا.حضور علیہ السلام کی وفات ہو گئی اور آپ نے اس سے کچھ وصول نہ کیا.پھر وہ حضرت ابو بکر کے پاس صدقات لے کر حاضر ہوا جب آپ خلیفہ بنے اور کہا آپ رسول اللہ صلی علیکم کے حضور میرے مقام کو جانتے ہیں اور انصار میں میرے مرتبہ کو پہچانتے ہیں پس آپ زکاۃ قبول کریں.لیکن انہوں نے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب حضور نے تمہارا صدقہ قبول نہیں کیا تو میں کس طرح قبول کر سکتا ہوں.پھر جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو یہ ان کے پاس آئے اور کہا اے امیر المومنین! میر اصدقہ قبول کریں.انہوں نے فرمایا اسے رسول اللہ صلی الیم نے قبول نہیں کیا اور نہ حضرت ابو بکر نے تو میں کیسے قبول کر لوں.حضرت عمرؓ نے اپنی وفات تک ان سے صدقات قبول نہ کئے.پھر حضرت عثمان خلیفہ بنے تو وہ آپ کے پاس آیا اور آپ سے زکاۃ قبول کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ اسے رسول اللہ صلی لی ہم نے قبول نہیں کیا اور نہ حضرت ابو بکڑنے اور نہ حضرت عمرؓ نے تو میں کیسے قبول کروں.حضرت عثمان کے دور خلافت میں ثعلبہ فوت ہو گیا.
278 296- حَدَّثَنَا أَبُو الجُوَيْرِيَةِ، أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي وَجَدِى، وَخَطَبَ عَلَى، فَأَنْكَحَنِي وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ، كَانَ أَبِي يَزِيدُ أَخْرَجَ دَنَانِيرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا، فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي المَسْجِدِ، فَجِئْتُ فَأَخَذْتُهَا، فَأَتَيْتُهُ بِمَا فَقَالَ وَاللهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ، فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَكَ ما نويت يا يَزِيدُ، وَلكَ مَا أَخَذْتَ يَا مَعْن (بخاری کتاب الزكوة باب اذا تصدق على ابنه و هو لا يشعر 1422) حضرت معن بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا (کہ) رسول اللہ صلی علیم سے میں نے اور میرے باپ (حضرت یزید ) اور میرے دادا ( حضرت انس بن حبیب ) نے بیعت کی اور آپ نے میرا رشتہ تجویز کیا اور نکاح پڑھایا اور میں آپ کے پاس ایک مقدمہ لے کر گیا.میرے باپ حضرت یزید نے کچھ اشرفیاں خیرات کرنے کے لئے نکالیں اور مسجد میں ایک آدمی کے پاس رکھ دیں.میں اس کے پاس آیا اور میں نے وہ اشرفیاں لے لیں اور اپنے باپ کے پاس لے آیا.انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میں تجھے دینا نہیں چاہتا تھا.آخر میں نے ان کے خلاف رسول اللہ صلی علیم کے پاس یہ قضیہ پیش کیا.آپ نے فرمایا یزید ! تیرے لئے وہی ہے جس کی تو نے نیت کی اور معن ! تیرے لئے ہے جو تو نے لے لیا.297 - عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِي، قَالَ اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَرْدِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ، يُدعَى: ابْنَ الْأُنْبِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ، قَالَ هَذَا مَالُكُمْ، وَهَذَا هَدِيَّةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلًا جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ، ثُمَّ خَطَبَنَا، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ عَلَى الْعَمَلِ مِمَّا وَلَّانِي اللهُ، فَيَأْتِي فَيَقُولُ هَذَا مَالُكُمْ، وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، أَفَلَا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ إِنْ
279 كَانَ صَادِقًا، وَاللهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا بِغَيْرِ حَقَّهِ، إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلَأَعْرِفَنَ أَحَدًا مِنْكُمْ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءُ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةٌ تَبْعَرُ ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رُبِّي بَيَاضُ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُم ، هَلْ بَلْغَتُ؟ (مسلم کتاب الامارۃ باب تحریم ہدایا العمال 3400).حضرت ابو محمد الساعدی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے از د قبیلہ کے ایک شخص کو جوابنُ الأتبيَّةِ کہلاتا تھا بنو سلیم کے صدقات کے لئے عامل بنایا.جب وہ آیا تو آپ نے اس سے حساب لیا.اس نے کہا یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ تحفہ ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تم اپنے باپ اور ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھے رہے.اگر تم درست کہہ رہے ہو تو تمہارے پاس تحفہ آتا.پھر آپ نے ہم سے خطاب فرمایا.آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا انا بعد میں تم میں سے کسی شخص کو ان کاموں پر جن پر اللہ نے مجھے والی بنایا ہے مقرر کرتا ہوں وہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے.وہ کیوں اپنے باپ اور ماں کے گھر نہیں بیٹھا کہ اگر وہ درست بات کرتا ہے تو اس کے پاس تحفہ آتا.بخدا تم میں سے کوئی شخص اس میں سے اپنے حق کے علاوہ کوئی چیز نہیں لیتا مگر وہ قیامت کے دن اسے اُٹھائے ہوئے اللہ کو ملے گا.میں ضرور تم میں سے اسے پہچان لوں گا کہ جو بلبلاتا ہوا اونٹ یاڈ کراتی ہوئی گائے یا منمناتی ہوئی بکری اُٹھائے ہوئے ملے گا.پھر آپ نے دونوں بازو اٹھائے یہانتک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی گئی.پھر آپ نے کہا اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا.
280 حج اور اس کی اہمیت 298ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمُ الْحَجَ، فَحُجُوا فَقَالَ رَجُلٌ : أَكُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُم ، قَالَ ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَبَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوهُ (مسلم کتاب الحج باب فرض الحج مرة في العمر 2366) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی علیم نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، پس حج کرو.ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے یہانتک کہ اس نے تین مرتبہ یہ سوال کیا.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو یہ فرض ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے.پھر آپ نے فرمایا جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے کچھ نہ کہو یقینا تم سے پہلے لوگ اپنے سوالات کی کثرت کی وجہ سے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے.پس جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو جتنی تم میں طاقت ہے اسے بجالاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو.299ـ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّهُ جَاءَ إِلَى الحَجَرِ الأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ ، لَا تَضُرُّ ولا تَنْفَعُ، وَلَوْلاً أَبِي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَتِلُكَ مَا قَتَلْتُكَ (بخارى كتاب الحج باب ما ذكر في الحجر الاسود (1597)
281 عابس بن ربیعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا اور کہا میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہی ہے ، نہ نقصان دے سکتا ہے نہ نفع اور اگر میں نے نبی صلی للی کم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہو تا تو تجھے ہر گز بوسہ نہ دیتا.300- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَةِ الْوَدَاعِ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا ؟ قَالُوا هَذَا يَوْمٌ حَرَامٌ ، قَالَ أَى بَلَدٍ هَذَا قَالُوا بَلَدٌ حَرَامٌ ، قَالَ فَأَيُّ شَهرٍ هَذَا ؟ قَالُوا شَهْرُ حَرَامٌ ، قَالَ إِنَّ أَمْوَالَكُمْ، وَدِمَاءَكُمْ ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرُمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي هَبْرِكُمْ هَذَا هُمْ أَعَادَهَا مِرَارًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ مِرَارًا - قَالَ يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَوَصِيَّةٌ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ أَلا فَلْيُبَلِّغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، لَا تَرْجِعُوا بَعْدِى كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ (مسند احمد بن حنبل ، و من مسند بنی ہاشم ، مسند عبد الله بن عباس بن عبد المطلب 2036) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے حجتہ الو دواع کے موقعہ پر فرمایا اے لوگو! یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یہ (عرفہ کا ) قابلِ احترام دن ہے.پھر آپ نے فرمایا یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ (مکہ کا) قابل احترام شہر ہے.پھر آپ نے فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یہ م الله سة (ذی الحجہ کا ) قابلِ احترام مہینہ ہے.(اس سوال وجواب کے بعد حضور صلی للی یکم نے فرمایا کہ سنو! تمہارے اموال اور تمہارے خون اور تمہاری آبروئمیں اسی طرح قابل احترام اور مستحق حفاظت ہیں اور ان کی ہتک تمہارے لئے حرام ہے.جس طرح یہ دن یہ شہر اور یہ مہینہ تمہارے لئے قابل احترام اور لائق ادب ہے اور جس کی ہتک تم پر حرام ہے.حضور نے اس بات کو کئی مرتبہ دہرایا.پھر آپ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا کیا میں نے پہنچا دیا؟ حضور نے هَلْ بَلَغْتُ کے الفاظ بھی کئی بار دوہرائے.پھر آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا دیکھو جو یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچادیں جو اس موقعہ پر موجود نہیں.آپ
282 نے یہ بھی فرمایا کہ یادرکھو کہ میرے بعد کا فرنہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھر و( اور خونریزی کا ارتکاب کرنے لگو).301 عن عامر أبي رملة، قال أنبأنا يختف بن سليم، قَالَ وَنَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةٌ ابو داؤد کتاب الضحايا باب ماجاء فى ايجاب الاضاحي 2788) حضرت مخنف بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الی ظلم کے ساتھ عرفات میں وقوف کئے ہوئے تھے.آپ نے فرمایا اے لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی ہے.302- سَمِعْتُ سَعيد بن مُسَيَّبِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ فِحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أُهِلَّ هلال فى الحةِ، فَلَا يَأْخُذَنَ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ أَظْهَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحَى (مسلم کتاب الاضاحی باب نهى من دخل عليه عشر ذي الحجه 3642) سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی ہی کام کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صل الم نے فرمایا جس شخص کے پاس قربانی کا جانور ہو جسے وہ قربان کرنا چاہتا ہے تو جب ذی الحجہ کی پہلی رات کا چاند نکل آئے تو جب تک وہ قربانی نہ کرلے اپنے بال اور نائن ہر گز نہ کائے.
283 303.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَضْحَى بالمصلَّى، فَلَمَّا قَضَى خُطبَتَهُ نَزَلَ عَنْ مِنْبَرِهِ، فَأَتِي بِكَبْشِ، فَذَبَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَقَالَ بِسْمِ اللهِ، وَاللهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحَ مِنْ أُمَّتِي (ترمذی کتاب الاضاحي باب العقيقة بشاة 1521) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ال نیم کے ساتھ میں نے عید الاضحی کی نماز پڑھی.جب آپ نے خطبہ مکمل کیا تو منبر سے نیچے اترے.اس (کے بعد ) آپ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا جسے رسول اللہ صلی علی کریم نے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا.اور کہا ” اللہ تعالیٰ کے نام ساتھ، اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے.(اے میرے اللہ !) یہ (قربانی) میری طرف سے ہے اور (میری امت کے ) ان لوگوں کی طرف سے ، جو قربانی نہیں کر سکتے“.304- عَنْ جُنْدَبٍ، أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ صَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ مَن ذَبَحَ قَبْلَ أَن يُصَلَى فَلْيَذْبَحْ مَكانَها أُخْرَى، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحَ فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ اللَّهِ (بخاری کتاب التوحید باب السوال باسماء الله تعالى و الاستعاذة بها 7400) الله حضرت جندب بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی علیم کو عید الاضحی کے دن دیکھا کہ پہلے آپ صلی الیکم نے نماز پڑھائی پھر آپ مسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ جس شخص نے نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر لیا وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کیا وہ اب بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے.
284 جہاد اور خدا تعالی کی راہ میں تکالیف اور مصائب برداشت کرنا 305 - عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ (ابو داؤد كتاب الجهاد باب كراهية ترك الغزو 2504) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرما یا مشرکوں سے اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنی زبانوں کے ذریعہ جہاد کرو.306 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ، حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب في دوام الجهاد 2484) حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر لڑ تا رہے گاجو ان کی مخالفت رکھے گاوہ ان پر غالب آئیں گے یہانتک کہ ان کے آخری مسیح الدجال سے لڑیں گے.307ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُل أَمِيرٍ، بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَالصَّلاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرا
285 كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ، وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ بَا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب فى الغزو مع ائمة الجور 2533) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جہاد تم پر واجب ہے، ہر امیر کے ساتھ شامل ہو کر ، چاہے وہ نیک ہو یا ہد.اور نماز تم پر فرض ہے ہر مسلمان کے پیچھے ، نیک ہو یا بد ، اگر چہ وہ گناہ کبیرہ کرے.اور نماز ( جنازہ) تم پر فرض ہے ہر مسلمان کی چاہے وہ نیک ہو یابد اور اگر چہ اس نے گناہ کبیر ہ کیا ہو.308- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَابِ، يَقُولُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا، فَقُلْتُ: اليَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا، قَالَ فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ: وَسَلَّمَ: مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟ قال (أبقَيْتَ لَهُم قالَ ما أَبْقَيْت لَهُم ) فقُلْتُ: مِثْلَهُ، وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟ قَالَ أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قُلْتُ: وَ اللَّهِ لَا أَسْبِقُهُ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا (ترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابی بکر صدیق 3675) رض حضرت عمر بن خطاب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یکم نے (ہمیں ایک جنگی ضرورت کے لئے خدا کی راہ میں) مال خرچ کرنے کی تحریک فرمائی.ان دنوں میرے پاس کافی مال تھا.میں نے اپنے دل میں کہا اگر میں ابو بکر سے آگے بڑھ سکتا ہوں تو آج موقعہ ہے.میں اپنا مال لے کر آیا.رسول اللہ صلی ا یکم نے دریافت فرمایا (عمر! کتنا مال لائے ہو اور کس قدر بال بچوں کے لئے چھوڑ آئے ہو ، میں نے عرض کیا حضور ! آدھا مال لایا ہوں اور آدھا چھوڑ آیا ہوں.اور حضرت ابو بکر جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب لے کر آگئے.حضور علیہ السلام نے ابو بکر سے دریافت فرمایا ابو بکر ! اپنے گھر کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے ؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا ( حضور ! جو
286 کچھ میرے پاس تھا وہ سب لے آیا ہوں اور بال بچوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں.(یعنی خدا تعالیٰ پر توکل ہے).(حضرت عمرؓ کہنے لگے یہ سن کر) میں نے (اپنے آپ سے کہا) کہ میں ابو بکر سے کبھی بھی نہیں بڑھ سکتا.309- عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ، صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صُنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَمُنْبِلَهُ.وَارْمُوا، وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَى مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ: تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّفْيَ بَعْدَ مَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ، فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا ، أَوْ قَالَ كَفَرَهَا (ابو داؤد کتاب الجهاد باب في الرمي 2513) رض حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعہ تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریگا.اس کا بنانے والا جس کی اس کے بنانے میں نیکی کی نیت ہو اور اسے چلانے والا اور پکڑانے والا.پس تیر چلاؤ اور گھڑ سواری کرو.اور اگر تم تیر اندازی کرو تو یہ تمہاری گھڑ سواری سے مجھے زیادہ پسند ہے.مشغلے تین ہی ہیں ، اپنے گھوڑے کو سکھانا اور اپنی بیوی سے کھیلنا اور اپنے کمان سے اور تیر سے تیر اندازی کرنا.اور جس نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے چھوڑ دی تو یہ ایک نعمت ہے جسے اُسنے چھوڑا ہے یا فرمایا اس نے اس کی ناشکری کی ہے.310- حَدَّثني زيد بن خَالِدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ جَهَزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللهِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَ غَازِيَّا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِخَيْرٍ فَقَدْ غَزَ (بخاری کتاب الجهاد و السير باب فضل من جهز غازيا او خلفه بخير (2843)
287 حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ کی راہ میں کسی غازی کو سازوسامان سے تیار کیا تو گویا خود ہی جنگ کے لئے نکلا اور جس شخص نے اللہ کی راہ میں کسی غازی کی اچھی جانشینی کی تو گویا وہ خود بھی جنگ کے لئے نکلا.311.عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّهُ قَالَ الْغَزْوُ غَزْوَانِ: فَغَزُو تُنْفَقُ فِيهِ الْكَرِيمَةُ، وَيُيَاسَرُ فِيهِ الشّرِيكُ، وَيُطَاعُ فِيهِ ذُو الْأَمْرِ ، وَيُجْتَنَبُ فِيهِ الْفَسَادُ، فَذلِكَ الْغَزُو خَيْرٌ كُلُّهُ وَغَزُو لَا تُنْفَقُ فِيهِ الْكَرِيمَةُ، وَلَا يُيَاسَرُ فِيهِ الشَّرِيكُ، وَلَا يُطَاعُ فِيهِ ذُو الْأَمْرِ، وَلَا يُجْتَنَبُ فِيهِ الْفَسَادُ، قديكَ الْقَوْمُ لَا يَرْجِعُ صَاحِبُهُ كَفَافاً (موطا امام مالک کتاب الجهاد باب الترغيب في الجهاد 1015) حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا غزوہ اور جہاد میں دو طرح کے انسان شامل ہوتے ہیں.ایک وہ شخص جو خدا کی رضا کے لئے جہاد کرتا ہے امام کی اطاعت کرتا ہے اپنا عمدہ مال خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے.اپنے ساتھی کے ساتھ نرم سلوک کرتا ہے اور فتنہ و فساد سے بچارہتا ہے ایسے شخص کو سونے اور جاگنے سب حالات میں ثواب ملتا ہے.دوسر اوہ شخص ہے جو فخر اور نام و نمود کے لئے جہاد میں شامل ہو تا ہے.امام کی نافرمانی کر تا اور زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتا ہے.ایسا شخص بے نصیب اور نامراد ہے کچھ بھی حاصل نہ کر پائے گا.عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضى اللهُ عَنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَزْمُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنْ ابْتِغَى وَجْهَ اللَّهِ ، وَأَطَاعَ الإِمَامَ ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وتنبهه أَجْرٌ كُلُّهُ وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخَرًّا وَرِيَاءٌ وَسُمْعَةٌ ، وَعَصَى الإمام وأفسد في الأَرْضِ ، فَإِنَّهُ لَن يَرْجِعَ بِالْكَفَافِ (الترغيب والترهيب للمنذرى ، كتاب الجهاد ، الترغيب فى اخلاص النية فى الجهاد وما جاء فيمن يريد الاجر...1948)
288 حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرما یا غزوہ اور جہاد میں دو طرح کے انسان شامل ہوتے ہیں.ایک وہ شخص جو خدا کی رضا کے لئے جہاد کرتا ہے امام کی اطاعت کرتا ہے اپنا عمد ومال خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے.اپنے ساتھی کے ساتھ نرم سلوک کرتا ہے اور فتنہ و فساد سے بچا رہتا ہے ایسے شخص کو سونے اور جاگنے سب حالات میں ثواب ملتا ہے.دوسر اوہ شخص ہے جو فخر اور نام و نمود کے لئے جہاد میں شامل ہوتا ہے.امام کی نافرمانی کرتا اور زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتا ہے.ایسا شخص بے نصیب اور نامراد ہے کچھ بھی حاصل نہ کر پائے گا.عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ الْغَزْرُ غَزْوَانِ: فَأَمَّا مَنْ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ، وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنَبْهَهُ أَجْرُ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَرًا فَخَرَا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً ، وَعَصَى الْإِمَامَ ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب في من يغزو ويلتمس الدنيا 2515) حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا غزوہ دو قسم کے ہوتے ہیں، جو اللہ کی رضا چاہے اور امام کی اطاعت کرے اور اپنا اچھا مال خرچ کرے اور اپنے ساتھی کو آسانی پہنچائے اور فساد سے بچے تو اس کی نیند اور اس کا جاگناسب (باعث) ثواب ہے اور جو کوئی فخر اور ریا اور شہرت کیلئے غزوہ کرے اور امام کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد تو وہ کام کے ) برابر (ثواب) لے کر بھی نہ لوٹا تھا.312.عن ابى النضر عَنْ كِتَابِ رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللهِ بْن أَبي أَوْلَى، فَكَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْن عُبَيْدِ اللهِ حِينَ سَادَ إِلَى الْحَرُورِيةِ، يُغيرُهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَعْضِ أَيَّامِهِ الَّتِي لَقِي فِيهَا الْعَدُقِّ، يَنْتَظِرُ حَتَّى
289 إِذَا مَالَتِ الشَّمْسُ قَامَ فِيهِمْ، فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُةِ، وَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ اللهُمَّ ، مُنْزِلَ الْكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ، اهْزِمُهُمْ، وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ (مسلم کتاب الجهاد باب كراهية تمنى لقاء العدو والامر بالصبر عند اللقاء 3262) ย ابو نضر نے بنی اسلم کے ایک شخص، جو نبی صلی اللہ نام کے صحابہ میں سے تھے جنہیں حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کہا جاتا تھا، کے خط کے بارہ میں بیان کیا کہ انہوں نے عمر بن عبید اللہ کو خط لکھا جب وہ حروریہ کے مقابلہ میں روانہ ہوئے کہ رسول اللہ صلی ا یکم جس دن دشمن سے بر سر پیکار ہوتے تو آپ انتظار فرماتے یہانتک کہ جب سورج ڈھل جاتا تو آپ ان میں کھڑے ہوتے اور فرماتے اے لوگو! دشمن سے مڈھ بھیڑ کی تمنانہ کرو اور جب تمہاری مڈھ بھیڑ ہو تو صبر کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے.تھوڑی دیر کے بعد رسول اللہ صلی این کلم پھر کھڑے ہوئے اور فرمایا اے اللہ ! کتاب کو نازل فرمانے والے اور بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے ! انہیں شکست دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما.313- عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَافَ قَوْمًا، قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ (ابوداؤد کتاب الصلاة ، تفريع ابواب الوتر، باب ما يقول الرجل اذا خاف قوما 1537) ابو بردہ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی ای کمر کو کسی قوم کی طرف سے خطرہ محسوس ہو تا تو آپ کہتے اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ ”اے اللہ ! ہم تجھے ان کے مقابل میں رکھتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں“.
290 314- عَنْ عَبْدِ الله الخطين، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْتَوْدِعَ الْجَيْشَ قَالَ أَسْتَوْدِعُ اللهَ دِينَكُمْ وَأَمَا نَتَكُمْ وَخَوَاتِهِمَ أَعْمَالِكُمْ (ابو داؤد كتاب الجهاد باب فى الدعاء عند الوداع 2601) حضرت عبد اللہ خطمی بیان کرتے ہیں کہ جب نبی صلی کم لشکر کو روانہ کرنے کا ارادہ کرتے تو کہتے میں اللہ کو سونپتا ہوں تمہارا دین اور تمہاری امانت اور تمہارے اعمال کا انجام.315- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَالَ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِى وَنَصِيرى، بك أَحُولُ، وَبِكَ أَصُولُ، وَبِكَ أَقَاتِلُ ی (ابو داؤد کتاب الجهاد باب ما يدعى عند اللقاء 2632) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کم جب غزوہ کرتے تو یہ دعا کرتے اے اللہ ! تو ہی میرا بازو اور میر امد دگار ہے ، تجھ سے ہی مدد حاصل کرتا ہوں ، تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے لڑتا ہوں.316- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُوَ فِي قُبَّةٍ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدُ بَعْدَ اليَوْمِ فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ سَيُهْزَهُ الجَمْعُ، وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ، وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ (بخاری کتاب الجهاد والسير ، باب ما قيل في درع النبي الهلال و القميص في الحرب (2915) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ (بدر کے دن) ایک بڑے خیمہ میں تھے.اے میرے اللہ ! میں تجھے تیرے ہی عہد اور تیرے ہی وعدہ کی قسم دیتا ہوں.اے میرے
291 اللہ ! اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے.اتنے میں حضرت ابو بکڑ نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا.انہوں نے کہا یار سول اللہ ! بس کیجئے.آپ نے اپنے رب سے دعامانگنے میں بہت اصرار کر لیا ہے اور آپ زرہ میں تھے.آپ خیمے سے نکلے اور آپ یہ پڑھ رہے تھے عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے اور یہی وہ گھڑی ہے جس سے ڈرائے گئے تھے اور یہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ: اللَّهُمَّ أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدُ فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ حَسْبُكَ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ سَيُهْزَهُ الجَمْعُ وَيُوَلُّونَ النُّبُرَ (بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى اذ تستغيثون ربكم فاستجاب...3953) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیکم نے بدر کی لڑائی کے دن اللہ تعالیٰ سے) دعا کرتے ہوئے عرض کیا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے تیر ا عہد اور وعدہ پورا کرنے کی التجا کر تا ہوں.اے اللہ ! اگر تیری یہی منشاء ہے کہ تیری عبادت نہ کی جائے.اس پر حضرت ابو بکر نے آپ کا ہاتھ تھام لیا اور کہا بس کیجئے (جو دعا آپ کر چکے ہیں وہی کافی ہے.) پھر آپ (خیمے سے) باہر نکلے اور یہ فرما رہے تھے عنقریب یہ جمعیت شکست کھا کر بھاگ جائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر لیں گے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ يَوْمَ بَدْرٍ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ تَشَأْ لَا تُعْبَدُ بَعْدَ اليَوْمِ فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ فَقَالَ حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ، وَهُوَ يَثِبُ فِي الدِّرْعِ، فَخَرَجَ وَهُوَ يَقُولُ ودرو سَيُهْزَمُ الجَمْعُ وَيُوَلُونَ الدُّبُر (بخاری کتاب تفسیر القرآن باب قوله سيهزم الجمع ویولون الدبر (القمر (45) 4875)
292 م الله سة حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی لیلی کی ایک خیمہ میں قیام پذیر تھے اور بار بار یہ دعا کرتے تھے کہ اے میرے اللہ ! میں تجھے تیرے عہد کا واسطہ دیتا ہوں تجھے تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں.میرے اللہ ! اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے تو بے شک ہماری مدد نہ کر.یعنی اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا.حضور علی ای دلم اتنی عاجزی اور زاری کے ساتھ بار بار دعا کر رہے تھے کہ حضرت ابو بکر سے رہا نہ گیا اور گھبر اگر آپ میلی لی و کم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا اے اللہ کے رسول کافی ہے اتنی آدوزاری کافی ہے.اللہ تعالی آپ صلی اینم کی دعا ضرور قبول کرے گا.حضور اس وقت ذرع پہنے ہوئے تھے چنانچہ حضور اس حالت میں خیمہ سے باہر آئے اور مسلمانوں کو خوش خبری دی کہ دشمن کی یہ جمیعت شکست کھا جائے گی.ان کے منہ موڑ دیئے جائیں گے بلکہ یہ گھڑی ان کے لئے بڑی دہشت ناک، ہلاکت خیز اور تلخ ہو گی.317- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الخَطَابِ، قَالَ نَظَرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى المُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفُ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القِبْلَةَ، ثُمَّ مَنَ يَدَيْهِ وَجَعَلَ يَنْتِفُ بِرَبِّهِ: اللَّهُمْ أَلْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي (اللَّهُمَّ آتنى ما وَعَدْتَنِي) اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكَ هَذِهِ العِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ لَا تُعْبَدُ فِي الأَرْضِ (ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب و من سورة الانفال 3081) حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے بتایا کہ نبی صلی علیم نے مشرکوں کی طرف دیکھا ، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے ساتھی تین سو سے کچھ اوپر تھے.نبی صلی ال کلم قبلہ رخ ہوئے اور اپنے ہاتھ پھیلائے اور اپنے رب سے التجا کرنے لگے ”اے میرے اللہ ! جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا اس کو پورا کر
293 اور مجھے اپنے وعدہ کے مطابق عطا کر.اے میرے اللہ ! اگر یہ مسلمانوں کی جماعت ہلاک کر دی گئی تو پھر زمین میں تیری سچی عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا“.318- عن أبي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِي، قَال: سَمِعْتُ أَبِي، يَحْضُرَةِ العَدُةِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلالِ السُّيُوفِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ رَبُّ الهَيْئَةِ : أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهُ؟ قَالَ نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ أَقْرَأُ عَلَيْكُمُ السَّلَامَ ، وَكَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ، فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ (ترمذی کتاب فضائل الجهاد باب ما ذكر ان ابواب الجنة تحت ظلال السيوف (1659) ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت ابو موسیٰ اشعری سے ایک جنگ کے موقع پر سناوہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا جنت کے دروازے تلواروں کے سایہ تلے ہیں.ایک شخص نے جو دیکھنے میں پراگندہ حال تھا، ابو موسیٰ سے پوچھا کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی لیلیوم کو یہ خود فرماتے ہوئے سنا ہے.اس پر ابو موسیٰ نے کہا ہاں.یہ سن کر وہ آدمی اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا میں تمہیں سلام کہتا ہوں.پھر تلوار کے میان کو توڑ دیا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا.319.عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ غَابَ عَمَى أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ، فَقَالَ يَارَسُولَ اللَّهِ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلْتَ المُشْرِكِينَ، لَئِنِ اللَّهُ أَشْهَدَنِي قِتَالَ المُشْرِكِينَ ليَرَينَ اللهُ مَا أَصْنَعُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، وَانْكَشَفَ المُسْلِمُونَ، قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكَ يما صنع هؤلاء - يَعْنِي أَصْحَابَهُ - وَأَبْرَأَ إِلَيْكَ عما صنع هؤلاء، - يَعْنِي المشركين.ثم تقدم ، فَاسْتَقْبَلَهُ سَعْدُ بْن مُعَادٍ، فَقَالَ يَا سَعْدُ بْن مُعَاذٍ الجَنَّةَ وَرَبِّ النَّضْرِ إِنِّي أَجِدُ رِيحَهَا مِنْ دُونِ أُحُدٍ، قَالَ سَعْدٌ: فَمَا اسْتَطَعْتُ يَا رَسُولَ اللهِ مَا صَنَعَ، قَالَ أَنَسٌ فَوَجَدْنَا بِهِ بِضُعًا
294 وَثَمَانِينَ ضَرْبَةٌ بِالسَّيْفِ أَوْ طَعْنَةٌ بِرُحٍ، أَوْ رَمْيَةً بِسَهْمٍ وَوَجَدْنَاهُ قَدْ قُتِلَ وَقَدْ مَثَلَ بِهِ المشْرِكُونَ، فَمَا عَرَفَهُ أَحَدٌ إِلَّا أُخْتُهُ بِبَنَانِهِ قَالَ أَنَسٌ : كُنَّا نُرَى أَوْ نَظُنُّ أَنَّ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ فِيهِ وَفِي أَشْبَاهِهِ: مِنَ المُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ (بخاری کتاب الجهاد باب قول الله تعالى من المومنين رجال صدوقوا ما عاهدوا 2805) حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا حضرت انس بن نضر غزوئہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے تو انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ! میں پہلی جنگ میں شریک نہیں ہو سکا جو آپ نے مشرکوں سے کی ہے.اگر اللہ نے مشرکوں سے جنگ میں مجھے شریک کیا تو پھر اللہ بھی ضرور دیکھ لے گا کہ میں کیا کروں گا.جب اُحد کی جنگ ہوئی اور مسلمان میدانِ جنگ سے ہٹ گئے تو انہوں نے کہا اے اللہ ! جو میرے ان (مسلمان) ساتھیوں نے کیا ہے میں تیرے حضور اس کی معذرت کرتا ہوں اور جو ان مشرکوں نے کیا ہے میں اس سے تیرے حضور بیزاری کا اظہار کرتاہوں.یہ کہہ کر وہ (جنگ کیلئے) آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ ان کو سامنے سے ملے.تب (حضرت انس بن نضر نے حضرت سعد بن معاذ سے) کہا اے سعد بن معاذ ! میں تو بہشت میں داخل ہونا چاہتا ہوں.نضر کے رب کی قسم ! میں تو اُحد کے پاس اس کی خوشبو پار ہا ہوں.سعد کہتے تھے یار سول اللہ ! پھر جو کچھ انہوں نے کیا میں نہ کر سکا.حضرت انس بن مالک ) کہتے تھے ہم نے ان کے بدن پر اسی سے کچھ اوپر نشان دیکھے جو بعض تلوار کے تھے اور بعض برچھی کے زخم تھے اور بعض تیر کے اور ہم نے ان کو دیکھا کہ وہ ایسی حالت میں قتل کئے گئے ہیں کہ مشرکوں نے ان کی ناک، کان، ہاتھ اور پاؤں سب کاٹ ڈالے.حتی کہ ان کو کوئی نہ پہچان سکا سوائے ان کی بہن کے جس نے ان کی انگلیاں دیکھ کر پہچانا.حضرت انس بن مالک ) کہتے تھے ہم سمجھتے تھے یا (کہا) ہم خیال کرتے تھے کہ یہ آیت حضرت انس بن نضر یا ان جیسے دوسرے مومنوں کے بارے میں نازل ہوئی.یعنی وہ ایسے مرد ہیں کہ جو عہد انہوں نے اللہ سے کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا.
295 320 - عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ خَلَتِ الْبِقَاعُ حَوْلَ الْمَسْجِدِ، فَأَرَادَ بَنُو سَلِمَةَ أَنْ يَنْتَقِلُوا إِلَى قُربِ الْمَسْجِدِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَنْتَقِلُوا قُرْبَ الْمَسْجِدِ، قَالُوا نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَرَدُنَا ذَلِكَ، فَقَالَ يَا بَنِي سَلِمَةَ دِيَارَكُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ ، دِيَارَكُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ (مسلم کتاب المساجد باب فضل كثرة الخطأ الى المسجد 1060) حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں مسجد کی قریبی جگہیں خالی ہوئیں تو بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ مسجد کے قریب منتقل ہو جائیں.یہ بات رسول اللہ صلی نیز کم کو پہنچی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو.انہوں نے عرض کیا جی ہاں یارسول اللہ ! ہم نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے.آپ نے فرمایا اے بنی سلمہ ! اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے ) نشان لکھے جائیں گے.اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے نشان لکھے جائیں گے.321ـ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ أَرَادَ بَنُو سَلِمَةَ أَنْ يَتَحَوَّلُوا إِلَى قُرْبِ المَسْجِدِ، فَكَرِةَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنْ تُعْرَى المَدِينَةُ وَقَالَ يَا بَنِي سَلِمَةٌ أَلَا تَحْتَسِبُونَ آثاركم فأقاموا (بخاری کتاب فضائل المدينة باب كراهية النبى للعلم ان تعرى المدينة 1887 ) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ اپنی جگہیں چھوڑ کر مدینہ کے قریب آجائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا کہ مدینہ کے کسی طرف جگہ خالی رہے اور فرمایا اے بنی سلمہ ! کیا تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے.پھر وہ وہیں ٹھہرے رہے.
296 69 322- عَنْ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْحَرْبُ خُدعة (ابو داؤد کتاب الجهاد باب المكر في الحرب 2636) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا لڑائی سراسر دھوکا ہے.323- حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ أَتَيْتُ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ إِنَّا يَوْمَ الخَنْدَقِ تَحْفِرُ، فَعَرَضَتْ كُدْيَةٌ شَدِيدَةٌ، فَجَاءُوا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا هَذِهِ كُدْيَةٌ عَرَضَتْ فِي الخَنْدَقِ، فَقَالَ أَنَا نَازِلٌ ثُمَّ قَامَ وَبَطْنُهُ مَعْصُوبُ بِحَجَرٍ، وَلَبِثْنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ لَا نَذُوقُ ذَوَاقًا، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المِعْوَلَ فَضَرَبَ، فَعَادَ كَثِيبًا أَهْيَلَ، أَوْ أَهْيَمَ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي إِلَى البَيْتِ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِ: رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا كَانَ فِي ذَلِكَ صَبْرٌ ، فَعِنْدَكِ شَيْءٌ ؟ قَالَتْ: عِنْدِى شَعِيرٌ وَعَنَاقٌ، فَذَبَحتُ العَنَاقَ، وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ حَتَّى جَعَلْنَا اللَّحْمَ فِي البُرْمَةِ، ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالعَجِينُ قَدْ انْكَسَرَ، وَالبُرْمَةُ بَيْنَ الأَثافِي قَدْ كَادَتْ أَنْ تَنْضَجَ، فَقُلْتُ: طَعَيمٌ لِي، فَقُمْ أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ، قَالَ: كَمْ هُوَ فَذَكَرْتُ لَهُ، قَالَ كَثِيرُ طَيْب قَالَ قُلْ لَهَا: لَا تَنْزِعِ البُرْمَةَ، وَلَا الخُبُزَ مِنَ التَّنُّورِ حَتَّى آتِي، فَقَالَ قُومُوا فَقَامَ المُهَاجِرُونَ، وَالأَنْصَارُ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ قَالَ وَيْحَكِ جَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ وَمَنْ مَعَهُمْ ، قَالَتْ: هل سألك ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ ادْخُلُوا وَلا تَضاغطوا فَجَعَل يَكْسِيرُ الخبز، وَيَجْعَلُ عَلَيْهِ اللَّحْمَ ، وَيُخَيرُ البُرْمَةُ وَالتَّنُورَ إِذَا أَخَذَ مِنْهُ، وَيُقَرَبُ إِلَى أَصْحَابِهِ ثُمَّ يَنزِعُ، فَلَمْ يَزَلْ يَكْسِرُ الخَينَ، وَيَغْرِفُ حَتَّى شَبِعُوا وَبَلِي بَقِيَّةُ، قَالَ كُلى هَذَا وَأَهْدِي ، فَإِنَّ النَّاسَ أَصَابَتْهُمْ فَجَاعَةٌ (بخاری کتاب المغازى باب غزوة الخندق و هي الاحزاب 4101)
297 عبد الواحد بن ایمن اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری) رضی اللہ عنہ کے پاس آیا.انہوں نے کہا ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے کہ ایک سخت پتھر سامنے آگیا.پس وہ نبی صلی الیہ کلیم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ خندق میں ایک پتھر آگیا ہے.آپ نے فرمایا میں اتر تاہوں.آپ کھڑے ہو گئے اور آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا اور تین دن سے ہم نے کچھ بھی نہیں چکھا تھا.نبی صلی الی یم نے کدال لی اور اس سے پتھر پر ضربیں لگائیں تو وہ بھر بھرا، یا کہا کہ پھسلتی ہوئی ریت کا ڈھیر ہو گیا.میں نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے گھر تک جانے کی اجازت دیجئے.میں نے جاکر اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بات محسوس کی ہے جس پر صبر نہیں ہو سکتا.کیا تمہارے پاس کچھ (خوراک) ہے ؟ کہنے لگی: کچھ جو اور بکری کا چھوٹا بچہ ہے.میں نے اس بچے کو ذبح کیا اور اس نے جو پیسے اور ہم نے پتھر کی ہانڈی میں گوشت ڈال دیا.پھر میں نبی صلی علی نیم کے پاس آیا اور آٹا خمیر ہو چکا تھا اور ہانڈی چولہے پر پکنے کے قریب تھی.میں نے کہا یا رسول اللہ !) میرے پاس کچھ کھانا ہے.یارسول اللہ ! آپ اُٹھیں اور ایک یا دو آدمی ساتھ لے لیں.آپ نے پوچھا: کھانا کتنا ہے ؟ میں نے آپ سے بیان کیا.آپ نے فرمایا بہت ہے اور اچھا ہے.پھر آپ نے فرمایا اپنی بیوی سے کہو ہانڈی نہ اُتارے اور نہ روٹی تنور سے نکالے جب تک کہ میں نہ آجاؤں.پھر آپ نے صحابہ سے کہا اُٹھو.چنانچہ مہاجرین اور انصار کھڑے ہو گئے.جب حضرت جابر اپنی بیوی کے پاس گئے، کہنے لگے: تمہارا بھلا ہوائی ملی اعلام مہاجرین اور انصار اور جو ان کے ساتھ ہیں سب کو لے کر آگئے ہیں.ان کی بیوی نے کہا کیا آنحضرت صلی اللہ ہم نے تم سے کچھ پوچھا تھا؟ میں نے کہا ہاں.پھر آپ نے (صحابہ سے فرمایا اندر چلو اور کشمکش نہ کرو.آپ روٹیوں کے ٹکڑے کر کے ان پر گوشت ڈال کر صحابہ کو دینے لگے اور جب ہانڈی اور تنور سے کچھ لیتے تو اسے ڈھانپ دیتے.اسی طرح کرتے رہے یہاں تک کہ صحابہ سیر ہو گئے اور کچھ کھانا بچ بھی رہا.آپ نے (حضرت جابر کی بیوی سے) فرمایا لو اب یہ کھالو اور ہدیہ بھیجو کیونکہ لوگوں کو بھوک کا سامنا تھا.سة
298 سمِعْتُ جَابِرَ بْن عَبْدِ اللَّهِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا حُفِرَ الخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا ، فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِ، فَقُلْتُ: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ؟ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا، فَأَخْرَجَتْ إِلَى جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِن فَذَبَحْتُهَا، وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ، فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي، وَقَطَعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا، ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ: لَا تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَنْ مَعَهُ، فَجِنْتُهُ فَسَارَرْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ كَانَ عِنْدَنَا، فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ، فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَهْلَ الخَنْدَقِ، إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُورًا ، فَحَى هَلًا بِكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُلْزِلْنَ يُرْمَتَكُمْ، وَلَا تَلْخَبِزُنَ عَمِينَكُمْ حَتَّى أَجِي فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْدُمُ النَّاسَ حَتَّى جِئْتُ امْرَأَتِي، فَقَالَتْ: بِكَ وَبِكَ، فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ، فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِينًا فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَكَ، ثُمَّ قَالَ ادْعُ خَابِزَةٌ فَلْتَخْبِزُ مَعِي، وَاقْدَحِي مِنْ يُرْمَتِكُمْ وَلَا تُنْزِلُوهَا وَهُمْ أَلْفُ، فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَقَدْ أَكُلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَالْحَرَفُوا ، وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِةُ كَمَا هِيَ ، وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيُخْبَرُ كَمَا هُوَ (بخاری کتاب المغازى باب غزوة الحندق و هي الاحزاب (4102 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے تھے جب خندق کھو دی گئی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شدید بھوک سے دوچار ہیں.میں وہاں سے لوٹ کر اپنی بیوی کے پاس آیا.میں نے پوچھا: کیا تمہارے پاس ؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ شدید بھوک سے دوچار ہیں.یہ سن کر وہ میرے پاس ایک تھیلالائی جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے گھر کا پلا ہوا ایک بکری کا بچہ تھا.میں نے اسے ذبح کیا اور بیوی نے جو پیسے.میرے فارغ ہونے تک وہ بھی فارغ ہو گئی.میں نے گوشت کاٹ کر اُس کی ہانڈی میں ڈال دیا.پھر رسول اللہ صلی علیکم کی طرف واپس چلا.وہ کہنے لگی : رسول اللہ صلی علی یکم اور آپ کے ساتھیوں کے سامنے مجھے
299 شرمندہ نہ کرنا.میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور چپکے سے کہا یا رسول اللہ ! ہم نے اپنا بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو جو ہمارے پاس تھے پیسے ہیں.آپ آئیں اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی.یہ سن کر نبی صلی علی یم نے بلند آواز سے فرمایا خندق والو! جابر نے دعوت کی ہے.چلو جلدی چلو اور (مجھ سے) فرمایا اپنی ہانڈی نہ اُتارنا اور اپنے آٹے کی روٹیاں بھی نہ پکانا جب تک کہ میں نہ آجاؤں.میں گھر میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے تھے.میں اپنی بیوی کے پاس گیا، کہنے لگی: تمہارا بھلا ہو.میں نے کہا میں نے تو وہی کیا ہے جو تم نے کہا تھا.چنانچہ اس نے آٹا آنحضرت صلی علی ایم کے سامنے رکھ دیا.آپ نے اس میں اپنا لعاب ڈالا اور برکت کی دعا کی.آپ ہماری ہانڈی کی طرف گئے اور اس میں لعاب ڈالا اور برکت کی دعا کی پھر فرمایا روٹی پکانے والی کو بلاؤ کہ وہ میرے سامنے روٹی پکائے اور ہانڈی نہ اُتارو اور اس سے گوشت نکالتے جاؤ.کھانے والے ایک ہزار تھے.میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں ان سب نے کھایا اور بچ بھی رہا اور وہ چلے گئے اور ہماری ہانڈی ویسی ہی اُبل رہی تھی اور ہمارے آنے کی روٹیاں بھی پکائی جارہی تھیں.324- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ - شَكَ الْأَعْمَضُ - قَالَ لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَةٌ ، قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ ، لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا، فَأَكَلْنَا وَاذَهَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْعَلُوا، قَالَ فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنْ فَعَلْتَ قَلَّ الظَّهْرُ، وَلَكِنْ ادْعُهُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، ثُمَّ ادْعُ اللَّهَ لَهُمْ عَلَيْهَا بِالْبَرَكَةِ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ، قَالَ فَدَعَا بِنِطَعٍ، فَبَسَطَهُ، هُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ ، قَالَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِكَفِ ذُرَةٍ، قَالَ وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكَفِ تَمرٍ، قَالَ وَيَجِيءُ الْآخَرُ بِكَسْرَةٍ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَى النطع مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ يَسِيرٌ، قَالَ فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ خُذُوا فِي أَوْعِيَتِكُمْ، قَالَ فَأَخَذُوا فِي أَوْعِيَتِهِمْ، حَتَّى مَا تَرَكُوا فِي الْعَسْكَرِ وِعَاءً إِلَّا مَلَوْهُ، قَالَ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، وَفَضَلَّتْ
300 فَضْلَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْبَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ، لَا يلقى الله بهما عبدٌ غَيْرَ شَاكٍ، فَيُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّةِ (مسلم کتاب الايمان باب الدليل على ان من مات على التوحيد دخل الجنة قطعا (32) حضرت ابو ہریرہ یا حضرت ابو سعید ( اعمش کو شک ہے ) سے روایت ہے کہ جب غزوہ تبوک کے دن تھے تو لوگوں کو سخت بھوک کا سامنا ہوا.لوگوں نے کہا یارسول اللہ ! اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے پانی لانے والے اونٹ ذبح کر لیں اور ہم کھائیں اور چکنائی استعمال کریں.آپ نے فرمایا کر لو.راوی کہتے ہیں اس پر حضرت عمر آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر آپ نے ایسا کیا تو سواریاں کم ہو جائیں گی ہاں لوگوں کو اپنا باقی مانده زاد راہ لانے کا ارشاد فرمائیں اور پھر ان کے لئے اس پر برکت کی دعا کریں.بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت رکھ دے.رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا ہاں.راوی کہتے ہیں آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان منگوایا اور بچھا دیا اور پھر ان کے باقی ماندہ زاد منگوائے.راوی کہتے ہیں کوئی مٹھی بھر مکئی لایا اور کوئی مٹھی بھر کھجوریں اور کوئی روٹی کا ٹکڑ اوغیرہ لے آیا یہاں تک کہ اس دستر خوان پر اس میں سے کچھ تھوڑاسا اکٹھا ہو گیا.راوی کہتے ہیں رسول اللہ صلی علی یم نے اس پر برکت کی دعا کی، پھر فرمایا اپنے برتنوں میں لے لو.انہوں نے برتنوں میں اس کو لے لیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا مگر اس کو بھر لیا پھر سب نے کھایا اور سیر ہو گئے اور کچھ بیچ بھی گیا.تب رسول اللہ صلی ا لم نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور جو جو شخص بغیر کسی شک کے ان دونوں (شہادتوں) کے ساتھ خدا سے ملے گا وہ جنت سے روکا نہیں جائے گا.325- عَنْ جَابِرٍ، قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمْرَ عَلَيْنَا أَبَا عُبَيْدَةَ، نَتَلَقَى عِيرًا لِقُرَيْشٍ، وَزَوَدَنَا جِرَابًا مِنْ تَمرٍ لَمْ يَجِدُ لَنَا غَيْرَهُ، فَكَانَ أَبُو عُبَيْدَةً يُعْطِينَا تَمَرَّةً تمرةً، قَالَ فَقُلْتُ: كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِهَا ؟ قَالَ نَمَضُهَا كَمَا يَمَضُ الصَّبِيُّ، ثُمَّ نَشْرَبُ عَلَيْهَا مِنَ الْمَاءِ، فَتَكْفِينَا يَوْمَنَا إِلَى اللَّيْلِ، وَكُنَّا نَضْرِبُ بِعِصِيْنَا الْخَبَطَ ، ثُمَّ نَبْلُهُ بِالْمَاءِ فَنَأْكُلُهُ،
301 قَالَ وَانْطَلَقْنَا عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَرُفِعَ لَنَا عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ كَهَيْئَةِ الْكَثِيبِ الضَّخْمِ، فَأَتَيْنَاهُ فَإِذَا هِيَ دَابَّةٌ تُدْعَى الْعَنَبَرَ ، قَالَ قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَيْتَةٌ، ثُمَّ قَالَ لَا، بَلْ نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَفِي سَبِيلِ اللهِ ، وَقَدِ اضْطَرِرْتُمْ فَكُلُوا، قَالَ فَأَقَمْنَا عَلَيْهِ شَهْرًا وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ حَتَّى سَمِنًا، قَالَ وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نَخْتَرِفُ مِنْ وَقْبٍ عَيْنِهِ بِالْقِلَالِ الدُّهْنَ، وَنَقْتَطِعُ مِنْهُ الْفِدَرَ كَالقَوْرِ ، أَوْ كَقَدْرِ الثَّوْرِ، فَلَقَدْ أَخَذَ مِنَّا أَبُو عُبَيْدَةَ ثَلَاثَةٌ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَقْعَدَهُمْ فِي وَقْبِ عَيْنِهِ، وَأَخَذَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلاعِهِ فَأَقَامَهَا ثُمَّ رَحَلَ أَعْظَمَ بَعِيرٍ مَعَنَا، فَمَرَّ مِنْ تَحْتِهَا وَتَزَوَّدُنَا مِنْ لَحْمِهِ وَشَائِقَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: هُوَ رِزْقٌ أَخْرَجَهُ اللهُ لَكُمْ، فَهَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ فَتُطْعِمُونَا ؟ قَالَ فَأَرْسَلْنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ فَأَكَلَهُ (مسلم كتاب الصيد باب اباحة ميتة البحر (3562) حضرت جابر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی علی کرم نے ہمیں بھیجا اور حضرت ابو عبیدہ کو ہمارا امیر مقرر فرمایا کہ ہم قریش کے قافلہ کا مقابلہ کریں اور آپ نے ہمیں کھجوروں کا ایک تھیلا زادِ راہ کے طور پر دیا.اس کے علاوہ آپ نے ہمارے لئے کچھ نہ پایا.اور ایک روایت میں ہے کہ ( اور ایک وقت ایسا آیا) کہ حضرت ابو عبیدہ ہمیں ایک ایک کھجور دیتے تھے.راوی کہتے ہیں میں نے کہا تم ایک (کھجور سے) کیسے گذارا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا ہم اسے چوستے تھے جس طرح بچہ چوستا ہے پھر اس پر کچھ پانی پی لیتے تھے تو وہ ہمیں دن رات کے لئے کافی ہو جا تا تھا.اور ہم اپنی چھڑیوں کے ساتھ پتے جھاڑتے پھر انہیں پانی سے تر کر کے کھا لیتے.وہ کہتے ہیں ہم ساحل سمندر پر جارہے تھے تو بڑے ٹیلے کی طرح کوئی چیز نظر آئی.ہم اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ ایک جانور ہے جسے عنبر کہتے ہیں.وہ کہتے ہیں حضرت ابو عبیدہ نے کہا یہ مری ہوئی ہے.پھر کہا نہیں ہم رسول اللہ صلی المی ٹیم کی طرف سے اللہ کی راہ میں بھیجے ہوئے ہیں اور تم مضطر بھی ہو اس لئے کھاؤ.وہ کہتے ہیں ہم نے اس پر ایک ماہ گزارا کیا اور ہم تین سو آدمی تھے یہاں تک کہ ہم خوب موٹے (صحت مند ) ہو گئے.وہ کہتے ہیں میں دیکھ رہا
302 ہوں ہم اس کی آنکھ کے گڑھے سے چربی کے منکے بھر بھر کر نکالتے تھے اور اس سے بیل کی طرح یا بیل کے برابر ٹکڑے کاٹتے تھے.حضرت ابو عبید گانے ہم میں سے تیرہ آدمی لئے اور انہیں اس کی آنکھ کے گڑھے میں بٹھا دیا اور اس کی پسلیوں سے ایک پہلی لی اسے کھڑا کیا اور ہمارے پاس جو اونٹ تھے ان میں سے سب سے بڑے اُونٹ پر پالان باند ھا تو وہ اس کے نیچے سے گذر گیا اور ہم نے توشہ کے طور پر اس کے گوشت کے پارچے خشک کر کے ساتھ لئے.جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی.آپ نے فرمایا یہ رزق تھا جو اللہ تعالی نے تمہارے لئے نکالا تھا کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ گوشت ہے کہ تم ہمیں بھی کھلاؤ.راوی کہتے ہیں ہم نے اس میں سے کچھ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں بھیجا اور آپ نے اسے تناول فرمایا.326- حَدَّثَنَا خَبَّابٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَلْتَمِسُ وَجْهَ اللَّهِ، فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ، فَمِنَّا مَنْ مَاتَ لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ ، فَهُوَ يَهْدِبُهَا، قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَلَمْ نَجِدُ مَا نُكَفْنُهُ إِلَّا بُرْدَةً إِذَا غَطَيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلاَهُ، وَإِذَا غَطَيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ، فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِيَ رَأْسَهُ وَأَنْ نَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ مِنَ الإذخر (بخاری کتاب الجنائز باب اذا لم يجد كفنا الا مایواری راسه (1276) حضرت خباب بن ارت ) رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا، کہ ہم نے نبی صلی اللی کم کے ساتھ وطن چھوڑا.اللہ تعالیٰ ہی کی رضامندی ہم چاہتے تھے اور ہمارا بدلہ اللہ کے ذمہ ہو گیا.ہم میں سے ایسے بھی ہیں جو مر گئے اور انہوں نے اپنے بدلہ سے کچھ نہیں کھایا.انہیں میں سے حضرت مصعب بن عمیر بھی ہیں اور ہم میں ایسے بھی ہیں جن کا میوہ پک گیا اور وہ اس میوہ کو چن رہے ہیں.حضرت مصعب احد کے دن شہید ہوئے تھے اور ہمیں صرف ایک ہی چادر ملی تھی کہ جس سے ہم ان کو کفتاتے.جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤس کھل
303 جاتے اور اگر ان کے پاؤں ڈھانچتے تو ان کا سر کھل جاتا تو نبی صلی علیم نے ہمیں فرمایا ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر (خوشبو دار گھاس) ڈال دیں.327- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشِ، قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ لَقِيَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ لِي: يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا ؟ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي (و قُتِلَ يَوْمَ أُحَدٍ) وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللهُ بِهِ أَبَاكَ ؟ قَالَ : قلتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ.قَالَ مَا كَلَّمَ اللهُ أَحَدًا قَدُ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا.فَقَالَ يَا عَبْدِى تَمَنَ عَلَى أُعْطِكَ.قَالَ يَا رَبِ تُحْيِينِي فَأَقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً.قَالَ الرَّبُّ تبارک و تعالىٰ إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ (ترمذی کتاب التفسير باب و من سورة آل عمران 3010) حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی للی یکم مجھ سے ملے.حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھ کر فرمایا اے جابر آج میں تمہیں پریشان اور اداس کیوں دیکھ رہا ہوں میں نے عرض کیا حضور میرے والد شہید ہو گئے ہیں اور کافی قرض اور بال بچے چھوڑ گئے ہیں.حضور فرمانے لگے کیا میں تمہیں یہ خوشخبری نہ سناؤں کہ کس طرح تمہارے والد کی اللہ تعالیٰ کے حضور پذیرائی ہوئی.میں نے عرض کیا ہاں حضور ! ضرور سنائیں اس پر آپ صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اگر کسی سے گفتگو کی ہے تو ہمیشہ پردہ کے پیچھے سے کی ہے لیکن تمہارے باپ کو زندہ کیا اور اس سے آمنے سامنے گفتگو کی اور فرمایا میرے بندے مجھ سے جو مانگتا ہے مانگ.میں تجھے دوں گا تو تمہارے والد نے جو ابا عرض کیا اے میرے رب میں چاہتا ہوں کہ تو زندہ کر کے مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ تیری خاطر دوبارہ قتل کیا جاؤں.اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ میں یہ قانون نافذ کر چکا ہوں کہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں نہیں لوٹاؤں گا.
304 328- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ يُحَدِثُ، قَالَ جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرُّمَاةِ يَوْمَ أُحُدٍ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْن جُبَيْرٍ، وَقَالَ إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطِفُنَا الطَّيْرُ، فَلَا تَبْرَحُوا مِنْ مَكَانِكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلَا تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ.قَالَ فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ.قَالَ فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ - يُسْنِدَنَ عَلَى الْجَبَلِ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرِ الْغَنِيمَةَ – أَىٰ قَوْمِ الْغَنِيمَةَ — ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْظُرُونَ ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ: أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالُوا وَاللهِ لَتَأْتِيَنَ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَ مِنَ الغَنِيمَةِ، فَأَتَوْهُمْ فَصُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ وَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب في الكمناء (2662) حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ صلی علیم نے تیر اندازوں پر اور وہ پچاس تھے حضرت عبد اللہ بن جبیر کو مقرر کیا اور آپ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں اچک رہے ہیں تب بھی تم اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلا بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے اس قوم کو شکست دیدی اور ان کو روند ڈالا تب بھی تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلا بھیجوں.راوی کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو شکست دی اور وہ کہتے ہیں کہ بخدا! میں نے عورتوں کو دیکھا وہ پہاڑ پر چڑھ رہی ہیں.تو حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا لوگو! غنیمت ، تمہارے ساتھی غالب آگئے ، تم کس کا انتظار کر رہے ہو ؟ حضرت عبد اللہ بن جبیر نے کہا کیا تم بھول گئے جو رسول اللہ صلی ال یکم نے تمہیں فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا بخدا! ہم ضرور لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور غنیمت حاصل کریں گے.وہ ان کے پاس آئے تو ان کے رخ پھیر دیے گئے اور وہ شکست کھا کر مڑے.
305 329- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يُحَدِثُ قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ، وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، فَقَالَ إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخَطَفُنَا الطَّيْرُ فَلَا تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ، هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا القَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ، فَلَا تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، فَهَزَمُوهُمْ، قَالَ فَأَنَا وَاللهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ، قَد بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ وَأَسْوقُهُنَّ، رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللهِ بْنِ جُبَيْرٍ : الغَنِيمَةَ أَى قَوْمِ الغَنِيمَةَ ، ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْن جُبَيْرٍ: أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالُوا وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَ النَّاسَ، فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الغَنِيمَةِ، فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أَخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَصَابُوا مِنَا سَبْعِينَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابُوا مِنَ المُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةٌ، سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ فَتِيلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: أَفِي القَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجِيبُوهُ، ثُمَّ قَالَ أَفِي القَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةُ ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ أَفِي القَوْمِ ابْنُ الخَطَابِ ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَّا هَؤُلاءِ، فَقَدْ قُتِلُوا، فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ، فَقَالَ كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عدو اللهِ إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لَأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ ، وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوءُكَ، قَالَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، وَالحَرْبُ سِجَالُ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي القَوْمِ مُثْلَةٌ، لَمْ آمُرُ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ: أَعْلُ هُبَلَ، أَعْلُ هُبَلَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ؟ قَالَ قُولُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُ ، قَالَ إِنَّ لَنَا العُزَّى وَلَا عُنَّى لَكُمْ،
306 فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلا تجيبُوا لَهُ ؟ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ، مَا تَقُولُ ؟ قَالَ قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَلَا مَوْلَى لَكُمْ (بخاری کتاب الجهاد باب ما يكره من التنازع والاختلاف في الحرب (3039) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے دن پیادہ فوج پر حضرت عبد اللہ بن جبیر کو مقرر فرمایا اور یہ پچاس آدمی تھے اور ان سے فرمایا اپنی اس جگہ سے نہ ہٹناخواہ دیکھو کہ پرندے ہم پر جھپٹ رہے ہیں.اپنی جگہ پر رہنا، تاوقتیکہ میں تمہیں نہ بلا بھیجوں اور اگر تم ہمیں اس حالت میں بھی دیکھو کہ لوگوں کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں ہم نے روند ڈالا ہے.تب بھی یہاں سے نہ سر کنا، جب تک کہ میں تمہیں نہ کہلا بھیجوں.چنانچہ مسلمانوں نے ان کو شکست دے کر بھگا دیا.حضرت برا کہتے تھے بخدا میں نے (مشرک) عورتوں کو دیکھا کہ وہ بھاگ رہی تھیں اور وہ اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں.ان کی پاز یہیں اور پنڈلیاں ننگی ہو رہی تھیں.(حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے یہ دیکھ کر کہا لوگو! چلو، نقیمت حاصل کریں.تمہارے ساتھی غالب ہو گئے.تم کیا انتظار کر رہے ہو ؟ حضرت عبد اللہ بن جبیر نے کہا کیا تم وہ بات بھول گئے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمائی تھی ؟ انہوں نے کہا بند ضرور ہم بھی لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور غنیمت کا مال لیں گے.جب وہ وہاں پہنچے تو ان کے منہ پھیر دیئے گئے اور شکست کھا کر بھاگتے ہوئے لوٹے.یہی وہ واقعہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جبکہ رسول تمہاری سب سے پچھلی جماعت میں (کھڑا) تمہیں بلا رہا تھا.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی نہ رہا اور کافروں نے ہم میں سے ستر آدمی شہید کئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جنگ بدر میں مشرکوں کے ایک سو چالیس آدمیوں کو نقصان پہنچایا تھا.ستر قیدی اور ستر مقتول.ابوسفیان نے تین بار پکار کر کہا کیا ان لوگوں میں محمد ہے؟ نبی صلی علیکم نے صحابہ کو اسے جواب دینے سے روک دیا.پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا: کیالوگوں میں ابو قحافہ کا بیٹا ہے ؟ پھر تین بار پوچھا: کیا ان لوگوں میں ابن خطاب ہے؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور کہنے لگا: یہ جو تھے وہ تو مارے گئے.یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور بولے:اے اللہ کے دشمن! بخد اتم نے جھوٹ
307 کہا ہے.جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں.جو بات ناگوار ہے اس میں سے ابھی تیرے لئے بہت کچھ باقی ہے.ابوسفیان بولا: یہ معرکہ بدر کے معرکے کا بدلہ ہے اور لڑائی تو ڈول کی طرح ہے.(کبھی اس کی فتح اور کبھی اس کی ).تم ان لوگوں میں کچھ ایسے مردے پاؤ گے جن کے ناک کان کٹے ہوئے ہیں.میں نے اس کا حکم نہیں دیا اور میں نے اسے برا بھی نہیں سمجھا.پھر اس کے بعد وہ یہ رجزیہ فقرہ پڑھنے لگا: ہل کی ہے.جہل کی ہے.نبی صلی علیکم نے فرمایا کیا اسے جواب نہیں دو گے ؟ صحابہ نے کہا یار سول اللہ اہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا تم کہو.اللہ ہی سب سے بلند اور بڑی شان والا ہے.پھر ابوسفیان نے کہا غربی نامی بت ہمارا ہے اور تمہارا کوئی مغربی نہیں.نبی صلی الیم نے یہ سن کر فرمایا کیا تم اسے جواب نہیں دو گے؟ حضرت براء بن عازب کہتے تھے صحابہ نے کہا یارسول اللہ ! ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا کہو اللہ ہمارامد دگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں.330 - عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، فَقَدِمْنَا المَدِينَةَ، فَاخْتَبَيْنَا بِهَا وَقُلْنَا: هَلَكْنَا ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ، نَحْنُ الفَزَارُونَ، قَالَ بَلْ أَنْتُمُ العَكَارُونَ، وَأَنَا فِتَتُكُمْ (ترمذی کتاب الجهاد باب ماجاء فى الفرار من الزحف 1716) الله سة حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے ہمیں ایک فوجی مہم کے لئے بھیجا.لوگ ڈر کر بھاگ آئے.جب مدینہ پہنچے تو چھپتے پھرے اور ( پشیمان ہو کر ) کہنے لگے کہ ہم تو ہلاک ہو گئے.پھر ہم رسول اللہ صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور صلی ال لی کہ ہم بھاگنے والے ہیں.( یہ سن کر ) رسول اللہ صلی الیم نے (ہماری تسلی کی خاطر ) فرمایا نہیں بلکہ تم تو ٹھکانے پر تازہ دم ہونے اور تقویت حاصل کرنے کے لئے آئے ہو.کیونکہ میں تمہارا ٹھکانہ تمہارا مددگار اور تمہاری پناہ ہوں.
308 331.عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ بَدْرٍ، فَلَمَّا كَانَ بِحَرَةِ الْوَبَرَةِ أَدْرَكَهُ رَجُلٌ قَدْ كَانَ يُذْكَرُ مِنْهُ جُرْأَةٌ وَنَجَدَةٌ، فَفَرِحَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَأَوُهُ، فَلَمَّا أَدْرَكَهُ قَالَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِئْتُ لِأَتَّبِعَكَ ، وَأُصِيبٌ مَعَكَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَرَسُولِهِ ؟ قَالَ لَا ، قَالَ فَارْجِعْ، فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ، قَالَتْ: هم مَعَى حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالشَّجَرَةِ أَدْرَكَهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، قَالَ فَارْجِعْ ، فَلَن أَسْتَعِينَ يَمُشْرِكٍ، قَالَ ثُمَّ رَجَعَ فَأَدْرَكَهُ بِالْبَيْدَاءِ، فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ: تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ؟ قَالَ نَعَمْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلِقُ مسلم كتاب الجهاد باب كراهة الاستعانة في الغزو بكافر 3374) نبی صلی للی کم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی ام بدر کی طرف نکلے جب آپ حرة الوبرہ پہنچے تو آپ کو ایک شخص ملا جس کی جرآت اور بہادری کا ذکر کیا جاتا تھا.رسول اللہ صلی الیکم کے صحابہ نے جب اسے دیکھا تو بہت خوش ہوئے جب وہ آپ سے ملا تو اس نے رسول اللہ صلی الی یکم کی خدمت میں عرض کیا میں آپ کے ساتھ جانے اور آپ کے ساتھ حصہ پانے کے لئے آیا ہوں.رسول اللہ صلی علیم نے اسے فرمایا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا واپس چلے جاؤ کیونکہ میں کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا وہ کہتی ہیں وہ چلا گیا یہاں تک کہ جب ہم شجرہ پہنچے وہ شخص پھر آپ کو ملا.اس شخص نے آپ کو پایا اور ویسا ہی کہا جیسا پہلی مرتبہ کہا تھا.نبی صلی علیہم نے اُسے ویسا ہی فرمایا جیسے پہلے فرمایا تھا.آپ نے فرمایا لوٹ جاؤ میں کسی مشرک سے مد د نہیں لوں گا.پھر وہ لوٹا اور آپ کو بیداء میں ملا تو آپ صلی للی کرم نے اسے فرمایا جیسے پہلے فرمایا تھا کہ کیا تم اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی علی کم پر ایمان لاتے ہو ؟ اس نے کہا جی ہاں تو رسول اللہ صلی علیم نے اسے فرمایا تو اب چلو.
309 332.عَنْ سَعْدٍ، قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَةٌ آمَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسُ إِلَّا أَرْبَعَةً نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَسَقَاهُمْ وَابْن أبي مرج، فَذَكَرَ الْحَدِيث - قَالَ وَأَمَّا ابْنُ أَبِي سَرْجِ فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللهِ بَايِعْ عَبْدَ اللهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَأْبَى (عَلَيْهِ) فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، هُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِى عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ ؟ فَقَالُوا مَا نَدْرِى يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا فِي نَفْسِكَ أَلَّا أَوْ مَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ.قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِي أَنْ تَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ الْأَعْيُنِ (ابوداؤد کتاب الجهاد باب قتل الاسير ولا يعرض علیہ الاسلام 2683) حضرت سعد نے بیان کیا کہ جب فتح مکہ کا دن آیا تو رسول اللہ صلی ا ہم نے تمام لوگوں کو امن دیا سوائے چار شخصوں اور دو عورتوں کے اور ان کا نام لیا اور ابن ابی سرح کا اور باقی روایت بیان کی.راوی کہتے ہیں کہ ابن ابی سرح تو حضرت عثمان بن عفان کے پاس چھپ رہے.جب رسول اللہ صلی اللی رام نے لوگوں کو بیعت کے لئے الله سة بلایا تو وہ ( حضرت عثمان) اس ( ابن ابی سرح) کو لائے اور رسول اللہ صلی للی نیلم کے سامنے لا کھڑا کیا اور بولے اے اللہ کے نبی !عبد اللہ سے بیعت لے لیجئے.آپ نے سر اٹھایا اور اس کو تین دفعہ دیکھا، ہر بار اس کے بارہ میں رکھتے تھے.پھر اس کی بیعت لی تین دفعہ کے بعد.پھر اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تم میں کوئی ہدایت یافتہ آدمی نہیں تھا؟ اس کی طرف کھڑا ہو کر جاتا کہ جب اس نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ روک لیا تھا کہ اس کو قتل کرتا.انہوں نے کہا یارسول اللہ ! ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ کے دل میں کیا ہے، آپ نے اپنی آنکھ سے اشارہ کیوں نہ فرما دیا؟ آپ نے فرمایا نبی کے شایان شان نہیں کہ اس کی طرف سے آنکھوں کی خیانت ہو.
310 333ـ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الفَتْحِ، وَلَكِن جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا (ترمذی کتاب السير باب ما جاء في الهجرة 1590) حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں.البتہ جہاد اور نیت (ہجرت کا ثواب ہے ) اور جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تو اس کے لئے نکلو.334- عَنِ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِي، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَقَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذَنَا فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا (ابو داود كتاب الجهاد باب فى دعاء المشركين 2635) رض حضرت عصام المزنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا تو فرمایا جب تم کوئی مہ دیکھو یا مؤذن کو سنو تو کسی کو قتل مت کرنا.335- حَد في أبو هُرَنج، أَنَّ سَبْلَ بْن أبي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، حَدَّقَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَدَّثَنِي تريحٍ،.جَدِهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سَأَلَ اللهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ، بَلَغَهُ اللَّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ (مسلم کتاب الامارة باب استحباب طلب الشهادة في سبيل الله 3518) سہل بن ابی امامہ بن سہل بن حنیف نے اپنے باپ اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے فرمایا جو شخص اللہ سے صدق سے شہادت مانگتا ہے اللہ اسے شہادت کے درجات تک پہنچا دے گا اگر چہ وہ اپنے بستر پر فوت ہو.
311 336- عَن أبى الدَّرْدَاء قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: من فرَّ بِدِينِهِ مِنْ أَرْضِ إِلَى أَرْضِ مَخَافَةَ الْفِتْنَةِ عَلَى نَفْسِهِ وَدِينِهِ كُتِبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِيْقاً فَإِذَا مَاتَ قَبَضَهُ اللهُ شَبِيداً وَتَلَا هَذِهِ الْآيَةِ وَالَّذين آمَنُوا بِالله وَرُسُله أُولَئِكَ هُمُ الصَّدِيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ عند ربهم ثُمَّ قَالَ وَهَذِهِ فِيهِمْ ، ثُمَّ قَالَ والفارونَ ۚ بِدِيْنِهِمْ من أَرضِ إِلَى أَرضِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَم في درجته فِي الْجَنَّةِ (الدر المنثور في التفسير بالمأثور ، سورة الحديد ( والذین آمنوا بالله و رسله) آیت نمبر 19) مة الله سة حضرت ابو دردا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی یم نے فرمایا جو شخص اپنے دین میں فتنہ کے ڈر سے ( بچاؤ کی خاطر ) ایک ملک سے دوسرے ملک میں بھاگ جاتا ہے وہ خدا کی نظر میں صدیق ہے اور اگر وہ اس حالت میں فوت ہو جاتا ہے تو وہ شہید ہے.پھر آپ صلی علیم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں وہ اپنے رب کے ہاں صدیق اور شہید ہیں“.پھر آپ صلی میڈم نے فرمایا جو لوگ اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہیں وہ قیامت کے روز (آخری زمانہ میں ) عیسی بن مریم کے ساتھ ایک ہی درجہ کی جنت میں ہوں گے.337 - عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلْقَمَةَ بْن عَلَى بَعْثٍ، وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَنَا انْتَهَى إِلَى رَأْسِ غَزَاتِهِ، أَوْ كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، اسْتَأْذَنَتْهُ طَائِفَةٌ مِنَ الْجَيْشِ، فَأَذِنَ لَهُمْ ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللهِ بْنَ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ السَّهْمِئَ، فَكُنْتُ فِيمَنْ غَزَا مَعَهُ، فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، أَوْقَدَ الْقَوْمُ نَارًا لِيَصْطَلُوا، أَوْ لِيَصْنَعُوا عَلَيْهَا صَنِيعًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَكَانَتْ فِيهِ دُعَابَةٌ : أَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمُ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ ؟ قَالُوا بَلَى، 1: بعض نسخوں میں کتبہ کا لفظ ہے.2 بعض نسخوں میں والفَرارُون کا لفظ ہے.
312 قَالَ فَمَا أَنَا بِآمِرِكُمْ بِشَيْءٍ ، إِلَّا صَنَعْتُمُوهُ ؟ قَالُوا نَعَمْ، قَالَ فَإِنِّي أَعْزِمُ عَلَيْكُمْ، إِلَّا تَوَاثَبْتُمْ فِي هَذِهِ النَّارِ، فَقَامَ نَاسٌ فَتَحَجَّزُوا ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّهُمْ وَاثِبُونَ، قَالَ أَمْسِكُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّمَا كُنْتُ أَمْرَحُ مَعَكُمْ، فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلَا تُطِيعُوهُ ابن ماجه کتاب الجهاد باب لا طاعة في معصية الله 2863) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی العلیم نے ایک لشکر پر علقمہ بن مجزز کو سر دار مقرر کیا.اور میں بھی ان میں تھا جب وہ اپنے غزوہ کے مقام پر پہنچایا ابھی کسی راستے میں تھا تو لشکر کے ایک گروہ نے ان ( عالقمہ) سے اجازت چاہی.انہوں نے ان کو اجازت دی اور ان پر عبد اللہ بن حذافہ بن قیس سبھی کو امیر مقرر کیا.میں بھی ان میں سے تھا جنہوں نے ان کی معیت میں غزوہ کیا.جب یہ (گروہ) کسی رستے پہ تھا تو اُن لوگوں نے آگ جلائی تا کہ وہ آگ تاپیں یا اس پر کچھ بنائیں.تو عبد اللہ نے کہا.اور اس کی مذاق کی عادت تھی.کیا میر ا تم پر حق نہیں کہ تم سنو اور اطاعت کرو ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.اس نے کہا میں تمہیں جس بات کا حکم دوں گا تم اس پر عمل کرو گے ؟ انہوں نے کہاہاں.اس نے کہا میں تمہیں یقینی حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں کو دجاؤ.کچھ لوگ کھڑے ہو گئے اور (کو دنے کے لئے ) تیار ہو گئے.جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ تو کو دنے لگے ہیں اس نے کہا اپنے آپ کو روک لو کیونکہ میں تو تم سے صرف مذاق کر رہا تھا.جب ہم واپس آئے تو لوگوں نے اس بات کا ذکر نبی صلی الم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا جو تمہیں ان (امراء) میں سے اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرو.338- عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ (ترمذی کتاب الديات باب ما جاء فيمن قتل دون ماله فهو شهید 1421)
313 حضرت سعید بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للی علم کو فرماتے ہوئے سنا جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے.جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے ، جو اپنے دین و مذہب کی حفاظت کرتے ہو امارا جائے وہ بھی شہید ہے، جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ قُتِل دُونَ مَالِهِ فَهُوَ قَبِيدٌ (بخاری کتاب المظالم باب من قتل دون ماله 2480) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرماتے تھے کہ جو شخص اپنا مال بچاتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے.339 - عَن أَبي سَعِيدٍ الخُدْرِي، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الجِهَادِ كَلِمَةٌ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (ترمذى كتاب الفتن باب ما جاء افضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر (2174 حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی علیکم نے فرمایا بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق اور انصاف کی بات کہنا ہے.340- عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ اهْجُوا قُرَيْشًا، فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَهْقٍ بِالنَّبْلِ (مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضائل حسان بن ثابت 4531)
314 حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ قریش کی ہجو کا جواب دو کیونکہ وہ ان پر تیروں کی مار سے زیادہ گراں ہے.341- عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةً يحسّان بن ثابت : اهج المُشْرِكِينَ، فَإِنَّ جِبْرِيلَ مَعَكَ (بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبي له من الاحزاب 4124) حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ کے واقعہ میں حسان بن ثابت سے کہا ان مشرکوں کی ہجو کرو، جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ عُمَرَ، مَرَّ بِحَسَّانَ وَهُوَ يُنْشِدُ الشِعْرَ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَحَظَ إِلَيْهِ، فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أُنْشِدُ، وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَسَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَجِبْ عَنِي، اللَّهُمَّ أَيْدُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضائل حسان الله بن ثابت 4525) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ، حضرت حسان کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے تو انہوں (حضرت عمر نے اُن (حضرت حسان) کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ میں تو اس وقت بھی شعر پڑھا کرتا تھا جب اس میں آپ سے بہتر موجود تھے.پھر وہ حضرت ابو ہریرہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ صلی الی یم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری طرف سے جواب دو اے اللہ ! روح القدس سے اس کی تائید فرما.
315 امر بالمعروف و نہی عن المکر دعوت وارشاد اور وعظ و تبشیر 342- عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْن سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ فَقَالَ عَلَى : يَا رَسُولَ اللهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ انْفُذُ عَلَى رِسُلِكَ، حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِ الله فِيهِ، فَوَ الله لَأَنْ يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ (مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل علی بن ابی طالب 4409) حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے خیبر کے دن فرمایا حضرت علی نے کہا یارسول اللہ ! میں ان سے لڑوں کہ وہ ہمارے جیسے ہو جائیں.آپ نے فرمایا تم اپنی رفتار پر چلتے جاؤ یہاں تک کہ تم ان کے صحن میں اتر و.پھر انہیں اسلام کی طرف بلاؤ اور انہیں بتاؤ جو اللہ کے حق میں سے ان پر واجب ہیں کیونکہ اللہ کی قسم اگر اللہ تمہارے ذریعہ سے ایک آدمی کو (بھی) ہدایت دے دے.وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے.343- عَنْ أَبي هُرَيْرَةً، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورٍ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الإقي مِثْلُ أَقَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَثَامِهِمْ شَيْئًا (مسلم کتاب العلم باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا الى هدى او ضلالة 4817) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص ہدایت کی طرف بلائے تو اس کا اجر ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کی مانند ہو گا اور یہ ان کے اجر میں کچھ بھی کم نہ کرے گی اور جو شخص گمراہی کی طرف
316 بلائے تو اس پر اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہ ہوں گے.یہ بات ان کے گناہوں میں سے بھی کم نہ کرے گی.344- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ (مسند ابی حنیفه کتاب الادب، باب بيان ذكر المتفرقات 469) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا نیک باتوں کا بتانے والا ان پر عمل کرنے والے کی طرح ہوتا ہے ( یعنی عمل کرنے والے کی طرح اسے بھی ثواب و اجر ملتا ہے).345- عن أنيس عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ يَنرُوا ولا تعبروا وبخيرُوا وَلا تُنفِرُوا الله و (بخاری کتاب العلم باب ما كان النبي لا يتخولهم بالموعظة (69) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی ایم نے فرمایا آسانی کرو.سختی نہ کرو اور خوشی کی باتیں سنایا کرو اور نفرت نہ دلاؤ.عَنْ أَبِي التَّيَاحِ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْرُ وا وَلَا تُعَشِرُوا، وَسَكِّنُوا وَلَا تُنفِرُوا مسلم كتاب الجهاد باب فى الامر بالتيسير وترك التنفير (3250) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا آسانی پیدا کر و اور مشکل پیدا نہ کرو اور سکینت پہنچاؤ اور متنفر نہ کرو.
317 346ـ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ........قَالَ أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلَاةِ مَرْوَانُ.فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ الصَّلَاةُ قَبْلَ الْخُطَبَةِ، فَقَالَ قَدْ تُرِكَ مَا هُنَالِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيْرُهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ (مسلم کتاب الایمان باب بيان كون النهي عن المنكر من الايمان (62) طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ دینا شروع کیا وہ مروان تھا.ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہا نماز خطبہ سے پہلے ہوتی ہے.اس نے کہا یہاں جو ہوا کرتا تھا اس کو ترک کر دیا گیا ہے.اس پر حضرت ابوسعید نے کہا اس شخص نے اپنا فرض ادا کر دیا.میں نے رسول اللہ صلی الی یک کو فرماتے سنا ہے تم میں سے جو کوئی نا پسندیدہ کام دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اسے طاقت نہ ہو تو پھر اپنی زبان سے اور اگر یہ طاقت بھی نہ ہو تو اپنے دل سے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے.عن أبي سعيد الخدري، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَن رأى مُنكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيْرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيْرُهُ بِيَدِهِ وَقَطَعَ هَنَّادٌ بَقِيَّةَ الْحَدِيثِ، وَفَاهُ ابْنُ الْعَلَاءِ فإن لم يستطع فبلسانه، فَإِن لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ (ابو داؤد کتاب الملاحم باب الامر والنهي (4340) حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للی نیلم کو فرماتے سنا کہ تم میں سے جو کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے اور وہ طاقت رکھتا ہو کہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل سکے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل.اور اگر اسے طاقت نہ ہو تو پھر اپنی زبان سے اور اگر اسے زبان سے طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے.
318 347ـ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ نَبِي بَعَثَهُ الله في أُمَّةٍ قَبْلى إلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابُ يَأْخُذُونَ بِسُنّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخَلْفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفُ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَن جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةٌ خَرْدَلٍ مسلم کتاب الایمان باب بيان كون النهي عن المنكر من الايمان (63) حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یی کم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کسی امت میں جو بھی نبی مبعوث کیا اس کے اس کی امت میں سے حواری اور صحابہ تھے جو اس کی سنت کو اختیار کرتے تھے اور اس کے احکام کی پیروی کرتے تھے.پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پید اہوئے وہ جو کہتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے اور وہ کرتے تھے جس کا انہیں حکم نہیں دیا جاتا تھا جو اُن سے ہاتھ کے ذریعہ جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو اُن سے زبان کے ذریعہ جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو اُن کے ساتھ دل کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیں.348ـ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ اليَمَانِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوْنَ عَنِ المُنكَرِ أَوْ لَيُونِكَنَ اللهُ أَنْ يَبْعَكَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يَسْتَجِيبُ لَكُمْ (ترمذی کتاب الفتن باب الامر بالمعروف والنهي عن المنكر 2169) ย حضرت حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ا ہم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، یا تو تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سخت عذاب سے دو چار کرے گا.پھر تم دعائیں کرو گے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیں گی.
319 349ـ عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ سَمِعْتُ نَبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ رَجُلٍ يَكُونُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِم بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يُغَيرُوا عَلَيْهِ، فَلَا يُغَيْرُوا إِلَّا أَصَابَهُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَمُوتُوا (ابو داؤد کتاب الملاحم باب الامر و النهى 4339) حضرت جریر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی الی ظلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو لوگ برے لوگوں میں رہتے ہیں اور باوجو د قدرت کے ان کو برائی سے نہیں روکتے اللہ تعالیٰ ان کو ان کے مرنے سے پہلے سخت عذاب میں مبتلا کرے گا.350 - سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْن بَشِيرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلُ القَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللهِ وَالوَاقِعِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ المَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا لَوْ أَنَا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا، وَنَجَوْا جَمِيعًا (بخاری کتاب الشركة باب هل يقرع في القسمة و الاستهام فيه (2493) حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یم نے فرمایا جو شخص اللہ کی حدوں پر قائم ہوا اور وہ شخص جس نے ان حدوں سے تجاوز کیا ان کی مثال ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ایک کشتی میں قرعہ ڈال کر جگہ بانٹ لی.ان میں سے بعض کو اوپر کا درجہ ملا اور بعض کو نیچے کا.تو وہ لوگ جو اس کشتی کے نچلے درجہ میں تھے جب پانی لینا چاہتے ان لوگوں کے پاس سے گزرتے جو اوپر کے درجہ میں تھے.پھر انہوں نے کہا اگر ہم اپنے ہی درجہ میں ایک سوراخ کر لیں اور جو اوپر کے درجہ میں ہیں ان کو تکلیف نہ دیں تو بہتر ہو گا ).
320 اب اگر اُوپر کے درجہ والے انہیں وہ بات جس کا انہوں نے ارادہ کیا ہے ، کرنے دیں تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر ان کے ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی نجات پا جائیں اور دوسرے بھی سب نجات پا جائیں.351 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ مُعَاذَا قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى هَبَادَة أن لا إله إلا الله وأني رَسُولُ الله ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمُهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةٌ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَاتِهِمْ فَتُرَدُّ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ ليْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ (مسلم کتاب الایمان باب الدعاء إلى الشهادتين و شرائع الاسلام (19) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت معاذ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علی کلم نے مجھے بھیجا اور فرمایا تم اہل کتاب کی ایک قوم کی طرف جارہے ہو ، ان کو اس شہادت کی طرف بلاؤ کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کار سول صلی ا یہ ظلم ہوں.اگر وہ یہ بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں.اگر وہ یہ بھی تسلیم کر لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے امیروں سے لیا جائے گا اور ان کے غرباء کو دیا جائے گا.اگر وہ یہ بات تسلیم کر لیں تو ان کے عمدہ اموال لینے سے بچنا اور مظلوم کی (بد) دعا سے ڈر کر رہنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہے.1: صدقہ سے یہاں مرادز کوۃ ہے.
321 352- عن معين أبي وائلٍ، قَالَ كَانَ عَبْدُ اللهِ يُل يُرنَا كُلَّ يَوْمِ خميس، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّا نُحِبُّ حَدِيثَكَ وَنَشْعَبِيهِ، وَلَوَدِدْنَا أَنَّكَ حَدِّثُتَنَا كُلَّ يَوْمٍ ، فَقَالَ مَا يَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِثَكُمْ إِلَّا كَرَاهِيَةُ أَنْ أُمِلَكُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ ، كَرَاهِيَةَ السَّامَةِ عَلَيْنَا (مسلم کتاب صفة القيامة باب الاقتصاد في الموعظة 5034) شقیق بن ابی وائل سے روایت ہے وہ کہتے ہیں حضرت عبد اللہ ہمیں ہر جمعرات کے دن نصیحت فرمایا کرتے تھے.ایک شخص نے انہیں کہا اے ابو عبد الرحمن ! ہمیں آپ کی باتیں اچھی لگتی ہیں اور ہمیں پسند آتی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہر روز وعظ کیا کریں.اس پر حضرت عبد اللہ نے فرمایا مجھے صرف تمہاری اکتاہٹ کا ڈر اس بات سے روکے ہوئے ہے کہ تمہارے سامنے وعظ کروں.رسول اللہ صلی علیکم بھی ہماری اکتاہٹ کے ڈر سے دنوں وعظ کے سلسلہ میں ہمارا خیال رکھتے تھے.امت محمدیہ کی فضیلت 353 - عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ المُسْلِمِينَ وَاليَهُودِ وَالنَّصَارَى، كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ قَوْمًا يَعْمَلُونَ لَهُ عَمَلًا إِلَى اللَّيْلِ، فَعَمِلُوا إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ فَقَالُوا لَا حَاجَةَ لَنَا إِلَى أَجْرِكَ، فَاسْتَأْجَرَ آخَرِينَ، فَقَالَ أَكْمِلُوا بَقِيَّةً يَوْمِكُمْ وَلَكُمُ الَّذِي شَرَطتُ، فَعَمِلُوا حَتَّى إِذَا كَانَ حِينَ صَلَاةِ العَصْرِ، قَالُوا لَكَ مَا عَمِلْنَا، فَاسْتَأْجَرَ قَوْمًا، فَعَمِلُوا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمْ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، وَاسْتَكْمَلُوا أَجْرَ الفَرِيقَيْنِ بخاری کتاب مواقيت الصلاة باب من ادرك ركعة من العصر قبل الغروب (558)
322 حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں اور یہو دیوں اور عیسائیوں کی حالت اس شخص کی حالت کی مانند ہے جس نے کچھ لوگ مزدوری پر لگائے کہ وہ اس کے لئے رات تک کام کریں تو انہوں نے آدھا دن کام کیا اور کہا ہمیں تیری مزدوری کی ضرورت نہیں.اس نے اوروں کو مزدوری پر لگایا اور کہا کہ تم اپنا بقیہ دن پورا کرو اور تمہیں وہی مزدوری ملے گی جس کی میں نے شرط کی ہے.یہاں تک کہ جب عصر کی نماز کا وقت ہوا تو انہوں نے کہا یہ لو سنبھالو جو ہم نے کیا ہے.اس پر اُس نے کچھ اور لوگ مز دوری پر لگائے اور وہ بقیہ دن کام کرتے رہے.یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور انہوں نے دونوں گروہوں کی مزدوری پوری کی پوری لے لی..عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِي أَجَلٍ مَنْ خَلاَ مِنَ الأُهمِ، مَا بَيْنَ صَلاةِ العَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ، وَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ اليَهُودِ، وَالنَّصَارَى، كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمالًا، فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، فَعَمِلَتِ اليَهُودُ إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلاةِ العَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، فَعَمِلَتِ النَّصَارَى مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلَاةِ العَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ صَلاةِ العَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، أَلَا، فَأَنْتُمُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ مِنْ صَلاةِ العَصْرِ إِلَى مَغْرِبِ الشَّمْسِ، عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، أَلا لَكُمُ الأَجْرُ مَرَّتَيْنِ، فَغَضِبَتِ اليَهُودُ، وَالنَّصَارَى، فَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلًا وَأَقَلُ عَطَاءٌ، قَالَ اللهُ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقَكُمْ شَيْئًا ؟ قَالُوا لَا ، قَالَ فَإِنَّهُ فَضْلِي أُعْطِيهِ مَنْ شِئْتُ (بخاری کتاب احاديث الانبياء باب ما ذكر عن بنى اسرائيل 3459) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا زمانہ ان امتور کے زمانے کے مقابل میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں صرف اتنا ہی ہے جتنا کہ عصر کی نماز اور سورج کے غروب
323 ہونے کے در میان ہوتا ہے اور تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے کچھ مزدور کام پر لگائے اور اس نے کہا کون میرے لئے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرے گا؟ یہ سن کر یہود نے ایک ایک قیراط پر آدھے دن تک کام کیا.پھر اس نے کہا کون میرے لئے دو پہر سے عصر کی نماز تک ایک ایک قیراط پر کام کرے گا.یہ سن کر نصاری نے دو پہر سے عصر کی نماز تک ایک ایک قیراط پر کام کیا.پھر اس نے کہا کون میرے لئے عصر کی نماز سے سورج کے غروب ہونے تک دو دو قیراط پر کام کرے گا.سنو ! ہوشیار رہو کہ تم وہ لوگ ہو جو عصر کی نماز سے سورج کے غروب ہونے تک دو دو قیراط پر کام کر رہے ہو.اچھی طرح سن لو.تمہارے لئے دو گنا اجر ہے جس سے یہود و نصاریٰ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے : ہم نے کام زیادہ کیا اور دیا گیا تھوڑا.اللہ نے کہا کیا میں نے تمہارے حق سے کچھ کم دیا ہے.انہوں نے کہا نہیں.اللہ نے فرمایا پھر یہ میرا انعام ہے ، جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں.354- عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَنَّ شَنَّ إِلَى النَّارِ (ترمذی كتاب الفتن باب ما جاء في لزوم الجماعة 2167) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع نہیں کرے گا.اللہ تعالی کی مدد جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے جو شخص جماعت سے الگ ہو اوہ گویا آگ میں پھینکا گیا.355 عَنْ عَدِي بْنِ حَامٍ قَالَ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَيْهِ الفَاقَةَ، ثم أَتَاهُ آخَرُ فَشَكَا إِلَيْهِ قَطعَ السَّبِيلِ، فَقَالَ يَا عَدِى، هَلْ رَأَيْتَ الحِيرَةً ؟ ثُمَّ
324 قُلْتُ: لَمْ أَرَهَا ، وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا، قَالَ فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، لَتَرَيَنَ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِيرَةِ، حَتَّى تَطُوفَ بِالكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا الله - قُلْتُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَارُ طَنِي الَّذِينَ قَد سَغَرُوا البِلادَ - وَلَئِن طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَفْتَحَنَّ كُنُورُ كِسْرَى، قُلْتُ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُز ؟ قَالَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُ، وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، لَتَرَيَنَ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ ، يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ مِنْهُ، وَلَيَلْقَيَنَ اللَّهَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ يَلْقَاهُ، وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ، فَلَيَقُولَنَّ لَهُ: أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَيُبَلِغَكَ ؟ فَيَقُولُ بَلَى، فَيَقُولُ أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأَفْضِلُ عَلَيْكَ ؟ فَيَقُولُ بَلَى، فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ، وَيَنْظُرُ عَنْ يَسَارِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ قَالَ عَدِيٌّ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقَةٍ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدُ شِقَةٌ تَمْرَةٍ فَبِكَلِمَةٍ طَيْبَةٍ قَالَ عَدِيٌّ : فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا الله ، وَكُنتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُرٌ وَلَئِن طَالَتْ بِكُمْ حَيَاةٌ، لَتَرُونَ مَا قَالَ النَّبِيُّ أَبُو القَاسِمِ: صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفْهِ (بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام 3595) حضرت عدی بن حاتم، بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نبی کا نام کے پاس تھا.اتنے میں ایک شخص آپ کے پاس آیا تو اس نے آپ سے بھوک کا شکوہ کیا.پھر آپ کے پاس ایک اور شخص آیا اور اس نے آپ سے رہزنی کا شکوہ کیا.آپ نے فرمایا عدی! کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ ( یہ بستی کوفہ کے پاس ہے) میں نے کہا اسے میں نے نہیں دیکھا مگر مجھے اس کی نسبت بتایا گیا ہے.آپ نے فرمایا اگر تمہاری زندگی کہی ہوئی تو تم اکیلی سوار عورت کو دیکھ لو گے کہ وہ تیر دو سے چل کر آئے گی اور کعبہ کا طواف کرے گی.سوا اللہ کے کسی سے نہ ڈرے گی.میں نے اپنے دل میں کہاطی (قبیلہ ) کے وہ ڈاکو کہاں چلے جائیں گے جنہوں نے شہروں میں آگ بھڑکائی ہے.(آپ نے فرمایا) اگر زندگی تمہاری لمبی ہوئی تو کسری
325 کے خزانے ضرور فتح کیے جائیں گے.میں نے کہا کسرای بن ہرمز کے ؟ آپ نے فرمایا کسری بن ہرمز کے، اور اگر زندگی تمہاری لیبی ہوئی تو تم یہ بھی دیکھ لو گے کہ ایک آدمی اپنی مٹھی بھر سونا یا چاندی نکالے گا اور ایسے شخص کو تلاش کر رہا ہو گا جو اس سے وہ قبول کرے اور وہ کسی کو بھی نہ پائے گا جو اُس سے اس کو لے اور تم میں سے ایک اللہ سے اس روز ضرور ملے گا جس روز کہ وہ اس سے ملے گا.حالت یہ ہو گی کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہو گا جو اس کے لئے ترجمانی کرے اور وہ فرمائے گا: کیا میں نے تیرے پاس رسول نہیں بھیجا جو تجھے میرا حکم پہنچائے ؟ تو وہ کہے گا: کیوں نہیں، ضرور بھیجا ہے اور وہ فرمائے گا: کیا میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا اور تجھ پر فضل نہیں کیا تھا.وہ کہے گا: کیوں نہیں، ضرور کیا تھا.پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو جہنم ہی دیکھے گا اور اپنی بائیں طرف دیکھے گا تو جہنم ہی دیکھے گا.عدی کہتے تھے میں نے نبی صلی الہ ظلم سے سنا.آپ فرماتے تھے آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ، اور جو کھجور کا ایک ٹکڑا نہ پائے تو وہ اچھی بات سے ہی.عدی کہتے تھے چنانچہ میں نے عورت سوار دیکھی جو حیرہ سے چل کر آئی اور کعبہ کا طواف کرتی.اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتی اور میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے کسرای بن ہرمز کے خزانے فتح کئے اور اگر زندگی تمہاری لمبی ہوئی تو تم بھی ضرور ان باتوں کو پورا ہوتے دیکھ لو گے جو اس نبی ابو القاسم علی سلیم نے فرمائی ہیں، یعنی یہ کہ ایک آدمی مٹھی بھر (سونا چاندی) لے کر نکلے گا ( اور کوئی اس کو قبول نہ کرے گا).حَدَّثَنَا مُحِلُّ بْن خَلِيفَةَ الطَّائِ، قَالَ سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَهُ رَجُلانِ أَحَدُهُمَا يَشْكُو العَيْلَةَ، وَالآخَرُ يَشْكُو قَطعَ السَّبِيلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا قَطَعُ السَّبِيلِ: فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكَ إِلَّا قَلِيلٌ، حَتَّى تَخْرُجَ العِيرُ إِلَى مَكَّةَ بِغَيْرِ خَفِيرٍ، وَأَمَّا العَيْلَةُ: فَإِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُومُ، حَتَّى يَطُوفَ أَحَدُكُمْ بِصَدَقَتِهِ، لَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا مِنْهُ، ثُمَّ لَيَقِفَنَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ
326 يدي الله ليسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ حِجَابٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ، ثُمَّ لَيَقُولَن لَهُ: أَلَمْ أُوتِكَ مَالاً ؟ فَلَيَقُولَن: بلى، ثُمَّ لَيَقُولَن ألم أرسل إليك رَسُولاً ؟ فَليَقُولُنَ: بَلَ، فَيَدْخُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ، ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ شِمَالِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ، فَلْيَتَّقِينَ أَحَدُكُمُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِ عمرة، فَإِن لَّمْ يَجِدُ فَبِكَلِمَةٍ طيبة بخارى كتاب الزكاة باب الصدقة قبل الرد 1413) حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا.وہ کہتے تھے میں رسول اللہ صل اللی نیم کے پاس تھا.اتنے میں دو شخص آپ کے پاس آئے.ان میں سے ایک اپنی محتاجی کا شکوہ کرتا تھا اور دوسر ار ہرنی کا شکوہ کرتا تھا.رسول اللہ صلی الیم نے فرما یار ہر نی جو ہے تو اس کے متعلق یاد رکھو کہ تھوڑی دیر گزرے گی کہ جب قافلہ بغیر کسی محافظ کے مکہ کو جایا کرے گا اور جو محتاجی ہے تو وہ گھڑی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم میں سے کوئی اپنے صدقہ کو لئے گھومتا نہ پھرے اور وہ کسی کو نہ پائے جو اس سے صدقہ قبول کرے.پھر اس کے بعد تم میں سے ایک ضرور اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہو گا.اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نہ کوئی پر دہ ہو گا اور نہ کوئی ترجمان جو اس کے لئے ترجمانی کرے.پھر اللہ تعالیٰ اسے کہے گا کیا میں نے تجھ کو مال نہیں دیا تھا؟ تو وہ جواب دے گا: کیوں نہیں.پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: کیا میں نے تیرے پاس رسول نہیں بھیجا تھا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں.پھر وہ اپنی دائیں طرف نظر کرے گا تو آگ ہی آگ دیکھے گا اور پھر بائیں طرف نظر کرے گا تو آگ ہی آگ دیکھے گا.اس لئے چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک آگ سے بچاؤ کا سامان کرے.خواہ کھجور کے ایک ٹکڑہ ہی سے ہو.اگر یہ بھی نہ پائے تو اچھی بات سے ہی.
327 نکاح اور شادی حسن معاشرت اور اولاد کی تربیت 356- عن أنس، أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلُوا أَزْوَاجَ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَمَلِهِ فِي السَّرِ ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لا أكُلُ اللَّحْمَ ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا أَنَامُ عَلَى فِرَاشِ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ.فَقَالَ مَا بَالُ أَقْوَامٍ قَالُوا كَذَا وَكَذَا ؟ لَكِنِي أَصَلِّي وَأَنَامُ، وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِي (مسلم کتاب النکاح باب استحباب النكاح لمن تاقت نفسه اليه...2473) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی الی ایم کے صحابہ میں سے بعض لوگوں نے نبی صلی ایم کی ازواج مطہرات سے آپ کے ان کاموں کے بارہ میں پوچھا جو آپ تنہائی میں کرتے تھے.اس کے بعد ان (پوچھنے والوں) میں سے ایک نے کہا میں کبھی عورتوں سے شادی نہیں کروں گا اور دوسرے نے کہا میں کبھی گوشت نہیں کھاؤں گا اور تیسرے نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا.اس پر رسول اللہ صلی علی کریم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور فرمایا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جو اس اس طرح کہتے ہیں؟ میں تو نماز ( بھی ) پڑھتا ہوں اور سوتا ( بھی ) ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اور روزہ چھوڑتا (بھی) ہوں اور میں عورتوں سے شادی (بھی) کرتا ہوں.پس جو میری سنت سے بے رغبتی کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں.357 عَنِ ابْنِ عَبَّاس قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا عَرُورَةً فِي الْإِسْلام ابو داؤد کتاب المناسک باب لا ضرورة في الاسلام 1729) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی للی کم نے فرمایا اسلام میں کوئی جبری روک ٹوک نہیں ہے.
328 358ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنْكَحُ المَرْأَةُ لأربع: لِمَالِهَا وَحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرُ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ (بخارى كتاب النكاح باب الاكفاء في الدين 5090) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علی کرم نے فرمایا کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں یا تو اس کے مال کی وجہ سے یا اس کے خاندان کی وجہ سے یا اس کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اس کی دینداری کی وجہ سے.لیکن تو دین دار عورت کو ترجیح دے، اللہ تیر ابھلا کرے اور تجھے دین دار عورت حاصل ہو.359- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِنَّمَا الدُّنْيَا تَاعُ، وَلَيْسَ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا شَيْءٍ أَفْضَلَ مِنَ الْمَرْأَةِ الصَّالِحَةِ ابن ماجه کتاب النکاح باب افضل النساء 1855) حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ ﷺ نے فرمایا دنیا تو صرف ایک عارضی فائدہ کی چیز ہے اور اس دنیا کے عارضی فائدے میں صالحہ عورت سے بڑھ کر افضل کوئی چیز نہیں.360ـ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً جَمَالٍ وَ حَسَبٍ ، وَإِنَّهَا لَا تَلِدُ ، أَفَأَتَزَوْجُهَا، قَالَ لَا ثُمَّ أَتَاهُ القَانِيَةَ فَنَهَاهُ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِقَةَ، فَقَالَ تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرُ بِكُمُ الْأَهَمَ (ابو دود کتاب النکاح باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء 2050) الله سة حضرت معقل بن یار سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی الم کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی امید لم! مجھے ایک عورت ملی ہے جو خو بصورت بھی ہے اور خاندانی بھی لیکن اس کے اولاد نہیں ہوئی تو کیا میں اس سے شادی کرلوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں.پھر وہ دوسری مرتبہ آیا آپ نے پھر منع فرما دیا.پھر وہ تیسری
329 مر تبہ آیا تو آپ نے فرمایا ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور بچے جننے والی ہو کیونکہ تمہاری کثرت کی بنا پر ہی میں دوسری امتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا.عَن مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ إلى أَصَبْتُ امْرَأَةٌ ذَاتَ حَسَبٍ وَمَنصب، إلا أنها لا تلد أفَأَتَزوجها ؟ فَتَبَاهُ، ثُمَّ أَتَاهُ القَانِيَة، فَتَبَاهُ، ثُمَّ أتَاهُ الفَالِقَةَ، فَتَهَاهُ، فَقَالَ تَزوجوا الولود الودود، فإلي مُكَاثِرُ بِكُمْ (نسائی كتاب النكاح باب كراهية تزويج العقيم (3227) حضرت معقل بن یسار بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس آیا اور کہا میں ایک حسب نسب والی عورت سے شادی کا خواہاں ہوں مگر وہ بچہ نہ جن سکے گی.کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ نے اسے منع فرمایا پھر وہ دوسری مرتبہ آپ کے پاس آیا.آپ نے اسے منع فرمایا پھر وہ تیسری مرتبہ آیا.آپ نے اسے منع فرمایا اور فرمایا تم ایسی عورتوں سے شادی کرو جو محبت کرنا جانتی ہوں اور جن سے زیادہ اولاد پید ا ہو تا کہ میں کثرت افراد کی وجہ سے سابقہ امتوں پر فخر کر سکوں.361ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، قَالَ قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرُ ؟ قَالَ التي تَسُرُهُ إِذَا نَظَر، وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ (نسائی) کتاب النکاح باب اى النساء خير (3231 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی ظلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی عورت (بطور رفیقہ حیات) بہتر ہے ؟ آپ صلی علیکم نے فرمایا وہ جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو.مرد جس کام کے کرنے کے لئے کہے اسے بجالائے اور جس بات کو اس کا خاوند ناپسند کرے اس سے بچے.
330 عَنْ أَبي هُرَيْرَةَ، قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اليَسَاءِ خَيرُ ؟ قَالَ الَّتِي تَشعر إِذَا نَظَرَ، وَلَا تَعْصِيهِ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُهُ بِمَا يَكْرَهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا، وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، وَقَالَ فِي نَفْسِهَا وَلَا مَالِهِ (شعب الايمان ، الستون من شعب الايمان ، باب فى حقوق الاولاد على الاهلين 8363) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم سے دریافت کیا گیا کہ کون سی عورت (بطور رفیقہ حیات) بہتر ہے ؟ آپ صلی الی یکم نے فرمایا وہ جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو.جب اسے کوئی کام کہا جائے تو وہ انکار نہ کرے اور کسی ایسی بات کی مخالفت نہ کرے جسکو اس کا خاوند اس کی ذات اور اس کے مال کے بارہ میں ناپسند کرے.362 - عَنْ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنَّهُ خَطَبَ امْرَأَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُ إلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُما (ترمذی کتاب النكاح باب ما جاء فى النظر الى المخطوبة 1087) حضرت مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک جگہ منگنی کا پیغام دیا تو نبی صلی الم نے فرمایا کہ اس (لڑکی) کو دیکھ لو کیونکہ اس طرح دیکھنے سے تمہارے اور اس کے در میان موافقت اور الفت کا امکان زیادہ ہے.363ـ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا يَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ، قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِيَةً فَكُنْتُ أَتَخَبَأُ لَهَا حَتَّى رَأَيْتُ مِنْهَا مَا دَعَانِي إِلَى نِكَاحِهَا فَتَزَوَّجْتُهَا (ابوداؤد كتاب النكاح باب فى الرجل ينظر الى المراة و هو يريد تزويجها 2082)
331 حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو پیغام نکاح دے تو اگر دیکھنا ممکن ہو جو اسے اس کے نکاح پر آمادہ کرتا ہو تو وہ ایسا کر لے.راوی کہتے ہیں کہ میں نے ایک لڑکی کو نکاح کا پیغام بھجوایا اور میں اسکے لیے چھپ کر بیٹھتا یہاں تک کہ میں نے اس میں وہ (خوبی) دیکھ لی جس نے مجھے اس سے نکاح پر آمادہ کیا پھر میں نے اس سے شادی کر لی.364- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فَتَلا حق في النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَنا عَلَى نَافِحِ لَنَا، قَدْ أَعْهَا فَلَا يَكَادُ يَسِيرُ، فَقَالَ لِي: مَا لِبَعِيرِكَ ؟، قَالَ قُلْتُ: عَبِي، قَالَ فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَزَجَرَهُ، وَدَعَا لَهُ، فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ، فَقَالَ لِي: كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ؟، قَالَ قُلْتُ: بِخَيْرٍ، قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتكَ، قَالَ أَفَتَبِيعُنِيهِ ؟ قَالَ فَاسْتَحْيَيْتُ وَلَمْ يَكُن لَنَا نَاضِحُ غَيْرُهُ، قَالَ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ فَبِعْنِيهِ، فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ، حَتَّى أَبْلُغَ المَدِينَةَ قَالَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَرُوسٌ فَاسْتَأْذَنْتُهُ، فَأَذِنَ لِي، فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى المَدِينَةِ حَتَّى أَتَيْتُ المَدِينَةَ، فَلَقِيَنِي خَالِي، فَسَأَلَنِي عَنِ البَعِيرِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ، فَلَامَنِي قَالَ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ: هَلْ تَزَوَّجْتَ بِكُرًا أَمْ ثَيْبًا ؟، فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ ثَيْبًا، فَقَالَ هَلَا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلاعِبُهَا وَتُلاعِبُكَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُوفَّى وَالِدِى أَوِ اسْتُشْهِدَ وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارُ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مِثْلَهُنَّ، فَلَا تُوَذِبُهُنَ، وَلَا تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ ثَيْبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُوَذِبَهُنَ، قَالَ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَى (بخاری کتاب الجهاد باب استئذان الرجل الامام (2967)
332 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کیلئے نکلا.حضرت جابر کہتے تھے کہ نبی مسی کی ہم پیچھے سے آکر مجھے مل گئے اور میں اپنے پانی لادنے والے اونٹ پر سوار تھا جو تھک کر رہ چکا تھا اور وہ چلتا ہی نہ تھا.تو آپ نے مجھے پو چھا: تمہارے اونٹ کو کیا ہوا؟ حضرت جابر کہتے تھے میں نے کہا تھکا ماندہ ہو کر رہ گیا ہے.کہتے تھے رسول اللہ صلی فیلم پیچھے ہو گئے اور آپ نے اسے ڈانٹا اور اس کیلئے دعا کی.پھر تو وہ تمام اونٹوں کے آگے ہی رہا.ان کے آگے ہی آگے چلتا تھا.آپ نے مجھے سے پوچھا: اب تم اپنے اونٹ کو کیسا دیکھتے ہو ؟ کہتے تھے میں نے کہا اچھا ہے.آپ کی برکت اس کو نصیب ہوئی ہے.آپ نے پوچھا: تو پھر کیا تم اس کو میرے پاس بیچتے ہو ؟ کہتے تھے میں نے شرم کی اور ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی پانی لانے والا اونٹ نہ تھا.کہتے تھے میں نے کہا جی ہاں.آپ نے فرمایا اچھا میرے ہاتھ فروخت کر دو.چنانچہ میں نے آپ کو وہ اونٹ قیمتاً دے دیا اس شرط پر کہ مدینہ پہنچنے تک میں اس کی پیٹھ پر سواری کروں گا.کہتے تھے (جب میں مدینہ کے قریب پہنچا) تو میں نے کہا یار سول اللہ ! میں نے ابھی شادی کی ہے.یہ کہہ کر میں نے جانے کی اجازت چاہی.آپ نے مجھے اجازت دی.میں لوگوں سے آگے بڑھ کر مدینہ کو چل پڑا.جب مدینہ پہنچا تو میرے ماموں مجھے ملے اور انہوں نے اونٹ کی نسبت مجھ سے دریافت کیا.تو میں نے انہیں جو فیصلہ اس کے متعلق کر چکا تھا بتایا.انہوں نے مجھے ملامت کی.حضرت جابر کہتے ย تھے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی علیم سے گھر جانے کی اجازت لی تھی تو آپ نے مجھے پوچھا کہ تم نے کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا: بیوہ سے.تو آپ نے فرمایا کنواری سے کیوں شادی نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے والد فوت ہو گئے ہیں یا کہا کہ شہید ہو گئے اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں تھیں.میں نے ناپسند کیا کہ میں ان جیسی عمر کی عورت سے شادی کروں جو نہ ان کو ادب سکھائے نہ ان کی تربیت کرے.اس لئے بیوہ سے شادی کی ہے کہ ان کی نگرانی کرے اور ان کو ادب سکھائے.کہتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں پہنچے تو میں دوسرے دن صبح وہ اونٹ لے کر آپ کے پاس گیا.آپ نے مجھے اس کی قیمت دی اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس دے دیا.
333 365 - عَنِ الأَعْرَجِ، قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: يَأْثرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ ولا يخطب الرّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ حَتَّى يَنكِحَ أَوْ يَخْرُكَ (بخاری کتاب النکاح باب لا يخطب على خطبة اخيه حتى ينكح 5144.5143) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ہیں ہم نے فرمایا کہ کوئی آدمی اپنے بھائی کی منگنی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے جب تک اس کا فیصلہ نہ ہو جائے کہ وہ نکاح کرے گا یا اس رشتہ کو چھوڑ دے گا.366.عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَةَ الْحَاجَةِ يَعْنِي: النِّكَاحَ : أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَسْتَهْدِيهِ، مَنْ يَهْدِى اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (آل عمران: 103) وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا، (النِّسَاء: 2) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ، وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الْأَحْزَاب: 72،71) (مسند ابی حنیفه ، کتاب النکاح ، باب بيان خطبة النكاح 256) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے نکاح کے موقعہ پر اس طرح خطبہ نکاح پڑھنا سکھایا ہے.کہ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے سو ہم اس کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اس سے بخشش مانگتے ہیں اور اس سے ہدایت کے طلب گار ہیں کیونکہ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ گمراہ قرار دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.اور ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں.اس کے بعد آپ صلی للی کم نے ان آیات کے پڑھنے کی ہدایت فرمائی.(جن کا ترجمہ یہ ہے کہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا
334 ایسا تقوی اختیار کرو جیسا اس کے تقوی کا حق ہے اور ہر گز نہ مر و مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبر دار ہو.اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رحموں (کے تقاضوں) کا بھی خیال رکھو یقینا اللہ تم پر نگران ہے.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کر ووہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یقیناً اُس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا.367ـ عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالْغِرْبَالِ ابن ماجه کتاب النکاح باب اعلان النكاح (1895) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی للہ ہم نے فرمایا یہ جو نکاح ہے اس کا اعلان کیا کرو اور اس (موقع) پر دف بجایا کرو.368ـ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا زَفَتِ امْرَأَةً إِلَى رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَائِشَةُ، مَا كَانَ مَعَكُمْ لَهُوَ؟ فَإِنَّ الأَنْصَارَ يُعْجِبُهُمُ اللَّهُمُ (بخاری کتاب النکاح باب النسوة اللاتى يهدين المرءة الى زوجها 5162) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک عورت کو دلہن بنا کر ایک انصاری کے گھر بھجوایا.اس پر اللہ کے نبی صلی الم نے فرمایا اے عائشہ ! رخصتانے کے اس موقع پر تم نے گانے بجانے کا اہتمام کیوں نہیں کیا حالانکہ انصار شادی کے موقع پر گانے بجانے کو پسند کرتے ہیں.( یعنی ہلکے پھلکے اچھے گانے اور ہنسی مذاق کا شریفانہ اہتمام شادی کے موقع پر پسندیدہ ہے یہ منع نہیں).
335 369ـ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَنْكَحَتْ عَائِشَةُ ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَهْدَيْتُمُ الْفَتَاةَ؟ قَالُوا نَعَمْ، قَالَ أَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِي ، قَالَتْ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيهِمْ غَزَلٌ، فَلَوْ بَعَثْهُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ ابن ماجه کتاب النکاح باب الغناء والدف 1900) حضرت ابن عباس نے بیان کیا حضرت عائشہ نے انصار میں کسی اپنی قرابت دار کی شادی کرائی.اس موقع پر رسول اللہ صلی ا لم تشریف لائے اور فرمایا کیا تم نے لڑکی کو تحفوں کے ساتھ رخصت کر دیا؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں.آپ نے فرمایا کیا تم نے اس کے ساتھ کسی کو بھیجا جو گائے ؟ انہوں نے کہا نہیں.اس پر رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا انصار ایسے لوگ ہیں جن کو گانے سے لگاؤ ہے.اگر تم اس کے ساتھ کسی کو بھیج دیتے جو یہ کہتا ہم تمہارے ہاں آئے ہیں ہم تمہارے ہاں آئے ہیں.وہ ہمیں سلامت رکھے ، وہ تمہیں سلامت رکھے.370ـ عَنْ عَائِشَةَ، وَأَمْ سَلَمَةَ، قَالَتَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُجَهْزَ فَاطِمَةَ حَتَّى نُدْخِلَهَا عَلَى عَلَى، فَعَمَدْنَا إِلَى الْبَيْتِ، فَفَرَشَنَاهُ تُرَابًا لَيْنًا مِنْ أَعْرَاضِ الْبَطْحَاءِ، ثُمَّ حَشَوْنَا مِرْفَقَتَيْنِ لِيفًا، فَنَفَشَنَاهُ بِأَيْدِينَا ، ثُمَّ أَطْعَمْنَا تَمَرًا وَزَبِيبًا، وَسَقَيْنَا مَاءً عَذَبًا، وَعَمَدْنَا إِلَى عُودٍ، فَعَرَضْنَاهُ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ، لِيُلْقَى عَلَيْهِ الثَّوْبُ، وَيُعَلَّقَ عَلَيْهِ السَّقَاءُ، فَمَا رَأَيْنَا عُرْسًا أَحْسَنَ مِنْ عُرِسِ فَاطِمَةَ ابن ماجه کتاب النکاح باب الوليمة (1911) حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی علیم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم فاطمہ کو تیار کریں یہاں تک کہ ہم اس کو حضرت علی کے پاس لے جائیں.چنانچہ ہم گھر کی طرف متوجہ ہوئے ہم نے اس کو
336 بطحاء کے نواح کی نرم مٹی سے لیا.پھر ہم نے کھجور کے ریشوں سے دو تکئے بھرے ہم نے اس کو اپنے ہاتھوں سے ڈھنا پھر ہم نے کھجور اور منفی کھانے کے لئے رکھا اور میٹھا پانی پینے کے لئے رکھا اور ہم نے ایک لکڑی لی اور اس کو کمرے میں ایک طرف لگا دیا.تا کہ اس پر کپڑے ڈالے جائیں اور اُس پر مشکیزہ لٹکایا جائے.ہم نے حضرت فاطمہ کی شادی سے اچھی کوئی شادی نہیں دیکھی.371- عن أنيس رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، قَالَ مَا هَذَا ؟ قَالَ إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ (بخاری کتاب النکاح باب كيف يدعى للمتزوج 5155) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی عالم نے عبد الرحمن بن عوف پر زردرنگ کا نشان دیکھا تو آپ صلی مینیم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ گٹھلی بھر سونا مہر میں رکھ کر میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے.آپ ملی ٹیم نے فرمایا اللہ تعالی مبارک کرے ولیمہ بھی کرو چاہے ایک بکری ذبح کر لو.372- عن أبي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ بِئْسَ الطَّعَامُ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُدْعَى إِلَيْهِ الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الْمَسَاكِينُ، فَمَن لَمْ يَأْتِ الدَّعْوَةَ، فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ (مسلم کتاب النكاح باب الامر باجابة الداعي الى دعوة (2571) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ” بد ترین کھانا“ اس دعوت ولیمہ کا کھانا ہے جس میں (صرف) امیروں کو بلایا جائے اور غرباء کو چھوڑ دیا جائے.اور جو بلانے پر نہ آیا تو اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی یی کم کی نافرمانی کی.
337 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ شَرُّ الطَعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ، يُدْعَى لَهَا الأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الفُقَرَاءُ، وَمَنْ تَرَكَ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (بخاری کتاب النکاح باب من ترك الدعوة فقد عصى الله 5177) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الی یکم نے فرمایا شادی کی بدترین دعوت وہ ہے جس میں امراء کو بلایا جائے اور غرباء کو چھوڑ دیا جائے.اور جو شادی کی دعوت کو قبول نہ کرے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی ا ولم کا نافرمان ہے.373- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْمَلُ المُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخَيارُكُمْ خَيارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ (ترمذی کتاب النكاح باب ما جاء فى حق المراة على زوجها 1162) رض حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں.اور تم میں سے خلق کے لحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرتا ہے.374- عَنْ أَنَسٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَغُلَامٌ أَسْوَدُ يُقَالُ لَهُ: أَنْجَشَةُ يَحْدُو، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَنْجَشَةُ رُوَيْدَكَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيرِ (مسلم کتاب الفضائل باب رحمة النبي صل للنساء 4273) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یکم ایک سفر پر تھے.ایک سیاہ رنگ کا غلام جسے انجشہ کہا جاتا تھا حدی پڑھ رہا تھا.رسول اللہ صلی علیم نے اس سے فرمایا اے انجشہ ! آہستہ ، آنگینے لے جارہے ہو.
338 375 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْفَلَهُ مِنْ عُسْفَانَ وَرَسُولُ اللهِ صلَّى الله عليه وسلم عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَقَدْ أَرْدَفَ صَفِيَّةٌ بِئْتَ حُيَنٍ، فَعَثَرَتْ نَاقَتُهُ، فَصْرِعًا جَمِيعًا ، فَاقْتَحَمَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، قَالَ عليك المرأة، فَقَلبَ قَوْبًا عَلَى وَجْهِهِ، وَأَتَاهَا، فَأَلْقَاهُ عَلَيْهَا، وَأَصْلَحَ لَهُمَا مَرْكَبَهُمَا، فَرَكِبًا (بخاری کتاب الجهاد باب ما يقول اذا رجع من الغزو 3085) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے.جب آپ عسفان سے لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور آپ نے حضرت صفیہ بنت حی کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا.آپ کی اونٹنی نے ٹھو کر کھائی اور دونوں گر پڑے.حضرت ابو طلحہ یہ دیکھ کر فوراً اونٹ سے کو دے اور بولے: یارسول اللہ ! میں آپ پر قربان.آپؐ نے فرمایا اس عورت کی خبر لو.حضرت ابو طلحہ نے اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیا اور حضرت صفیہ کے پاس آئے اور وہ کپڑا اُن پر ڈالا اور ان دونوں کی سواری درست کی جس پر وہ سوار ہو گئے.376 - عَن أبي هريرة، قال قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رحم الله رَجُلا قَامَ مِن اللَّيْلِ فَصَلَّى، وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ، فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ، وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا، فَإِنْ أَبَى، نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ (ابوداؤد کتاب التطوع ، ابواب قيام الليل ، باب قيام الليل 1308) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ اس شخص پر رحم کرے جو رات کو اٹھا اور اس نے نماز پڑھی اور اپنی بیوی کو جگایا اگر اس نے انکار کیا اس نے اس کے چہرے پر پانی چھڑ کا.اللہ اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھی اس نے نماز پڑھی اور اپنے خاوند کو جگایا اگر اس نے انکار کیا اس نے اس کے چہرے پر پانی چھٹڑ کا.
339 377- أَسْمَاء بِنْت يَزِيدَ الأَنْصَارِية.من بنى عبد الأشهل.رسول النساء إِلَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ روى عنها مسلم بن عسد.إنها أنتِ النّبي صلى الله عليه وسلم وهو بَيْنَ أصْحَابه، فقالت: بأَبي وأمي أنْتَ يَا رَسُول الله.أنا وافدة النِّسَاء إِلَيْكَ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ.بعثك إِلَى الرِّجَالِ وَالنِسَاء كَافَة فَآمنا بِكَ وَبِالَاهِكَ ، وَإِنَّا مَعْشَرٍ النِّسَاء محصُورَات مَقْصُوْرات، قَوَاعِد بيوتكم ، ومَقْضى شَهَوَاتِكم ، وحَامِلات أولادِكُمْ.وإنكم- معشر الرجال - فضّلتم علينا بالجمع والجماعات، وَعِيَادَة المَرْضَى، وَشُهُود الجَنَائِزِ، وَالحَج بَعْدَ الحج، وأفضل من ذلك الجهاد في سَبِيلِ الله عَزَّ وَجَلَّ وإن الرجل إِذا خرج حاجاً أو معْتَمِراً أَوْ مُجاهداً، حفظْنَا لَكُم أَمْوَالَكُم، وغزلْنَا أَثْوَابكم، ورَبِيْنَا لكم أَوْلادكم.أَفَمَا نشارككم فى هذا الأجر والحير ؟ فالتفت النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلى أصحابه بوجهه كله، ثم قال: هَلْ سَمِعْتُمْ مَقَالَةَ امْرَأَةِ قَط أَحْسَنَ مِن مُسَاءَلَتِهَا فِي أَمْرِ دِينِهَا مِن هَذِهِ؟ فقالوا: يارسول الله ما ظننا أن امرأة تهتدى إلى مثل هذا.فالتفت النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إليها فقال: أَفْهَمِي أَيَّتُهَا الْمَرْأَةُ، وَأَعْلِمِي مَنْ خَلَفَكِ مِنَ النِّسَاءِ، أَنْ حُسْنَ تَبَغُلِ الْمَرْأَة لِزَوْجِهَا وَطَلَبَهَا مَرْضَاتِهِ، وَاتَّبَاعَهَا مُوَافَقَتِه، يَعْدِلُ ذَلِكَ كُلَّهُ (اسد الغابة ، كتاب النساء ، حرف الهمزه، اسماء بنت یزید صحابی نمبر 6718 جلد 7 صفحه 17، 18) ایک دفعہ اسماء بنت یزید انصاری نبی صلی اللی کم کی خدمت میں عورتوں کی نمائندہ بن کر آئیں اور عرض کیا یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ صلی الی یکم پر فدا ہوں.میں عورتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الی یکم کو مردوں اور عورتوں سب کی طرف مبعوث فرمایا ہے.ہم عورتیں گھروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں اور مردوں کو یہ فضیلت اور موقعہ حاصل ہے کہ وہ نماز باجماعت، جمعہ اور دوسرے مواقع اجتماع میں شامل ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھتے ہیں، حج کے بعد حج کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جب آپ میں سے کوئی حج ، عمرہ یا جہاد کی غرض سے جاتا ہے تو ہم عور تیں آپ کی
340 اولاد اور آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں اور سوت کات کر آپ کے کپڑے بنتی ہیں، آپ کے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں.کیا مر دوں کے ساتھ ہم ثواب میں برابر کی شریک ہو سکتی ہیں؟ جبکہ مرد اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داری نبھاتی ہیں.نبی صل اللہ کی اسماء کی یہ باتیں سن کر صحابہ کی طرف مڑے اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اس عورت سے زیادہ عمدگی کے ساتھ کوئی عورت اپنے مسئلہ اور کیس کو پیش کر سکتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا حضور ہمیں تو گمان بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اتنی عمدگی کے ساتھ اور اتنے اچھے پیرایہ میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتی ہے.پھر آپ صلی اللہ کی اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے خاتون (محترم) اچھی طرح سمجھ لو اور جن کی تم نمائندہ بن کر آئی ہو ان کو جا کر بتا دو کہ خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے والی اور اسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی ثواب اور اجر ملے گا جو اس کے خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے.أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ الأَنْصَارِيَّةُ......رَوَى عَنْهَا أَنَّهَا أَتَتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: إِنِّي رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مَنْ جَمَاعَةِ نِسَاءِ المُسْلِمِينَ، كُلِّهِنَّ يَقُلْنَ بِقَوْلِي، وَعَلَى مِثْلَ رَأْيِي، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى بَعَثَكَ إِلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، فَآمَنَّا بِكَ وَاتَّبَعْنَاكَ، وَنَحْنُ مَعْشَرُ النِّسَاءِ مَقْصُورَاتُ مُخَدَّرَاتُ، قَوَاعِدُ بُيُوتٍ وَمَوَاضِعُ شَهَوَاتِ الرِّجَالِ، وَحَامِلَاتُ أَوْلَادِهِمْ، وإِنَّ الرِّجَالَ فُضَلُوْا بِالْجُمُعَاتِ وَشُهُودِ الجَنَائِزِ وَالْجِهَادِ، وَإِذَا خَرَجُوْا لِلْجِهَادِ حَفِظْنَا لَهُمْ أَمْوَالَهُم وَرَبَّيْنَا أَوْلَادَهُمْ، أَفَنُشَارِكُهُم فِي الأَجْرِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَالْتَفَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: هَلْ سَمِعْتُمْ مَقَالَةَ امْرَأَةٍ أَحْسَنَ سَوَالًا عَنْ دِينِهَا مِنْ هَذِهِ ؟ فَقَالُوا بَلَى وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصرِفِي يَا أَسْمَاءُ وَأَعْلِمِي مَنْ وَرَانَكِ مِنَ اليَسَاء أَنَّ حُسْنَ تَبَغُلِ إحْدَاكُنْ لِزَوْجِهَا،
341 وَطَلَبَها لِمَرْضَاتِهِ، وَاتَّبَاعَهَا لِمُوَافَقَتِهِ، يَعْدِلُ كُلَّ مَا ذَكَرْتِ لِلرِّجَالِ.فَانْصَرَفَتْ أَسْمَاءُ وَهِيَ تُهلل وَتُكَذِرُ اسْتِبْشَارًا بِمَا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(الاستيعاب كتاب النساء باب الالف ، اسماء بنت یزید) حضور ایک دفعہ اسماء بنت یزید انصاری نبی صلی للی کم کی خدمت میں عورتوں کی نمائندہ بن کر آئیں اور عرض کیا میرے ماں باپ آپ صلی نیلم پر فدا ہوں.میں عورتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ صلی ای کم کو مر دوں اور عورتوں سب کی طرف مبعوث فرمایا ہے.ہم عورتیں گھروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں اور مر دوں کو یہ فضیلت اور موقعہ حاصل ہے کہ وہ نماز باجماعت، جمعہ اور دوسرے مواقع اجتماع میں شامل ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھتے ہیں، حج کے بعد حج کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جب آپ میں سے کوئی حج ، عمرہ یا جہاد کی غرض سے جاتا ہے تو ہم عور تیں آپ کی اولاد اور آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں اور سوت کات کر آپ کے کپڑے بنتی ہیں، آپ کے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں.کیا مردوں کے ساتھ ہم ثواب میں برابر کی شریک ہو سکتی ہیں ؟ جبکہ مرد اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داری نبھاتی ہیں.حضور صلی الی کم اساء کی یہ باتیں سن کر صحابہ کی طرف مڑے اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اس عورت سے زیادہ عمدگی کے ساتھ کوئی عورت اپنا مسئلہ اور کیس کو پیش کر سکتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا حضور ہمیں تو گمان بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اتنی عمدگی کے ساتھ اور اتنے اچھے پیرایہ میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتی ہے.پھر آپ صلی یی کم حضرت اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے خاتون ( محترم ) اچھی طرح سمجھ لو اور جن کی تم نمائندہ بن کر آئی ہو ان کو جا کر بتا دو کہ خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے والی اور اسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی ثواب اور اجر ملے گا جو اس کے خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے.
342 378 - عَنْ مُسَاوِرٍ الْحِمْيَرِي، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ أَمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ أَيُّهَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ ابن ماجه كتاب النکاح باب حق الزوج على المرأته 1854 حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی یہ کم کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جو کوئی عورت ایسی حالت میں فوت ہو کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہو گئی.379 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُومَ وَزَوْجُهَا هَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَلَا تَأْذَنَ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ (بخاری کتاب النکاح باب لا تأذن المرأة في بيت زوجها لاحد الا باذنه 5195) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت نفلی روزے نہ رکھے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر کے اندر نہ آنے دے.380- عن أبي هريرةَ، عَن النَّبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ كُنتُ أمرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لأحَدٍ لأمَرْتُ المرأة أن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا (ترمذی ابواب الرضاع باب ما جاء فى حق الزوج على المراة 1159) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی یم نے فرمایا اگر میں کسی کو حکم دے سکتا کہ وہ کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.
343 381.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ المَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَحٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضَّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب خلق آدم و ذریته (3331) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے بارے میں میری وصیت پر کار بند ہو.بھلائی سے ان کے ساتھ پیش آیا کرو.کیونکہ عورت کی پیدائش بھی پہلی ہی کی ہے اور تم دیکھتے ہی ہو کہ پہلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہے.اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو تو اس کو توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو تو ٹیڑھا ہی رہے گا.اس لئے عورتوں کے متعلق میری وصیت پر عمل کرو.عن أبي هريرة، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ المَرْأَةُ كَالضَلَعِ إِنْ أَقَتَهَا كَسَرتَها وَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَ عِوَج الله : بخاری کتاب النكاح باب المداراة مع النساء وقول النبي لا انما المراة كالضلع 5184) حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی المی کریم نے فرمایا عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے.لیکن اگر اس کے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو گے تو فائدہ اٹھا لو گے.382 - عَن أبي هريرةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم لا يفرك مؤمن مؤمِنَةٌ، إن كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ (مسلم کتاب الرضاع باب الوصية بالنساء (2658)
344 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی ایم نے فرمایا کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے اگر وہ اس کے کسی خُلق کو نا پسند کرے گا تو کسی خُلق کو پسند بھی تو کر دیگا.383- عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْقُشَيْرِي، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ زَوْجَةٍ أَحَدِنَا عَلَيْهِ ؟، قَالَ أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ، أَوِ اكْتَسَبْتَ، وَلَا تطرب الوجة، ولا تقيخ، ولا تنجز إلا في البيت (ابو داؤد كتاب النكاح باب فى حق المراة على زوجها 2142) حضرت حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یار سول اللہ ! ہم میں سے کسی ایک کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا جب تم کھانا کھاؤ تو اسے کھلاؤ اور جب تم کپڑا پہنو تو اسے پہناؤاور چہرہ پر مت مارو اور عیب نہ لگاؤ اور (اس کو ) علیحدہ نہ کرو مگر گھر میں.384ـ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ، يَكْفُرْنَ قيل أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ ؟ قَالَ : يَكْفُرْنَ العَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَ الدَّهْرَ ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَط (بخاری کتاب الایمان باب كفران العشير و كفر دون كفر 29) حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے جہنم دکھایا گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں اکثر عور تیں ہیں.کفر کرتی ہیں.پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں ؟ فرمایا شوہر کی ناشکر گذاری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہوتی ہیں.اگر تو ان میں سے کسی پر زمانہ بھر بھی احسان کرتارہے اور پھر وہ تجھ سے کچھ ایسی ویسی بات دیکھے تو کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی بھی بھلائی نہیں دیکھی.
345 385 - عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبْغَضُ الْحَلالِ إلى الله عز وجل الطلاق (ابو داؤد کتاب الطلاق باب في كراهية الطلاق 2178) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے.عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ الطَّلَاقُ ابن ماجه کتاب الطلاق باب حدثنا سويد بن سعید 2018 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے.386 - عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ وَالرَّجُلُ يُطلِّقُ امْرَأَتَهُ مَا شَاءَ أَنْ يُطَلِّقَهَا، وَهِيَ امْرَأَتُهُ إِذَا ارْتَجَعَهَا وَهِيَ فِي العِدَّةِ، وَإِنْ طَلَّقَهَا مِائَةَ مَرَّةٍ أَوْ أَكْثَرَ، حَتَّى قَالَ رَجُلٌ لِامْرَأَتِهِ: وَاللَّهِ لَا أُطلِقُكِ فَتَبِينِي مِنّي، وَلَا آوِيكِ أَبَدًا، قَالَتْ: وَكَيْفَ ذَاكَ ؟ قَالَ أُطْلِقُكِ، فَكُلَّمَا هَمَّتْ عِدَّتُكِ أَنْ تَنْقَضِيَ رَاجَعْتُكِ، فَذَهَبَتِ المَرْأَةُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتهَا، فَسَكَتَتْ عَائِشَةُ، حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتُهُ، فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى نَزَلَ القُرْآنُ : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيح بِإِحْسَانٍ قَالَتْ عَائِشَةُ : فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ مُسْتَقْبَلًا مَنْ كَانَ طَلَّقَ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ طَلَّقَ (ترمذی کتاب الطلاق باب ما جاء في الطلاق المعتوه 1192) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ (زمانہ جاہلیت میں) لوگوں میں رواج تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو جتنی بار چاہتا طلاق دے سکتا تھا کیونکہ طلاق دیکر عدت کے اندر رجوع کر لیتا اور بعض اوقات توسو (۱۰۰) سو(۱۰۰) بار بلکه
346 اس سے بھی زیادہ دفعہ طلاق دیتا (اور پھر رجوع کر لیتا).ایک شخص نے ایک بار اپنی بیوی سے کہا کہ نہ میں تجھے اس طرح طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے آزاد ہو جائے اور نہ تجھے اپنے گھر بساؤں گا.عورت نے پوچھا، وہ کس طرح؟ اس نے کہا کہ اس طرح کہ تجھے طلاق دوں گا اور جب تمہاری عدت ختم ہونے لگے گی تو رجوع کرلوں گا اور اسی طرح کرتا رہوں گا.وہ عورت حضرت عائشہ کے پاس گئی اور اپنے خاوند کی اس زیادتی کا ان کے پاس ذکر کیا.حضرت عائشہ خاموش رہیں کوئی جواب نہ دیا.جب آنحضرت صلی الله دلم گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے آپ صلی ٹیم کے پاس اس عورت کی اس مشکل کا ذکر کیا.آپ صلی علی ایم نے بھی کوئی جواب نہ دیا تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں کہ آئندہ اس طرح دو مرتبہ طلاق دی جاسکتی ہے ( یعنی پہلی طلاق کے بعد مر د عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد باہمی رضامندی سے اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے اگر رجوع یا نکاح کے بعد اس نے پھر طلاق دے دی تو اسے یہی اختیار حاصل ہو گا یعنی عدت کے اندر رجوع کر سکے گا اور عدت گزرنے کے بعد باہمی رضامندی سے نکاح کر سکے گا اگر اس نے اس دوسرے رجوع یا نکاح کے بعد پھر اس نے طلاق دے دی تو پھر نہ وہ رجوع کر سکے گا اور نہ اس عورت سے نکاح کر سکے گا البتہ اگر عدت گزرنے کے بعد وہ عورت کسی اور سے شادی کر لے اور دوسر امر دیا ہمی نباہ نہ ہو سکنے کی وجہ سے اسے طلاق دے دے تو پھر اگر پہلا مرد چاہے تو عورت کو رضامند کر کے اس سے تیسری بار شادی کر لے.گو ی طلاق اور رجوع کے اختیار کو محدود کر دیا گیا اور اس طرح جاہلیت کے اس برے رواج کو ختم کر کے ظالم خاوند سے عورت کی آزادی کی راہ آسان کر دی) چنانچہ اس قانون کے نازل ہونے کے بعد مسلمان اس ہدایت کی پابندی کرنے لگے اور جن لوگوں نے اس طرح طلاق دی ہوئی تھی وہ اس ظلم و زیادتی سے باز آگئے.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ كَانَ الرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ مَا شَاءَ أَنْ يُطْلَّقَهَا، وَإِنْ طَلَّقَهَا مِائَةً أَوْ أَكْثَرَ ، إِذَا ارْتَجَعَهَا قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا ، حَتَّى قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ وَاللَّهِ لَا أَطَلِقُكِ فَتَبِينِي مِنِي، وَلَا آوِيكِ إِلَى قَالَتْ: وَكَيْفَ ذَاكَ ؟ قَالَ أُطلِقُكِ وَكُلَّمَا قاربت
347 عِدَّتُكِ أَنْ تَنْقَضِيَ ارْتَجَعْتُكِ، ثُمَّ أَطَلِقُكِ، وَأَفَعَلُ ذَلِكَ، فَشَكَتِ الْمَرْأَةُ ذَلِكَ إِلَى عَائِشَةَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَكَتَ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيح بِإِحْسَانٍ (البقره: 230) (مستدرك على صحيحين للحاكم ، كتاب التفسير باب من سورة البقرة 3106) وو حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ (زمانہ جاہلیت میں) لوگوں میں رواج تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو جتنی بار چاہتا طلاق دے سکتا تھا کیونکہ طلاق دیکر عدت کے اندر رجوع کر لیتا اور بعض اوقات تو سو (۱۰۰) سو(۱۰۰) بار بلکه اس سے بھی زیادہ دفعہ طلاق دیتا اور پھر رجوع کر لیتا.ایک شخص نے ایک بار اپنی بیوی سے کہا کہ نہ میں تجھے اس طرح طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے آزاد ہو جائے اور نہ تجھے اپنے گھر بساؤں گا.عورت نے پوچھا، وہ کس طرح؟ اس نے کہا کہ اس طرح کہ تجھے طلاق دوں گا اور جب تمہاری عدت ختم ہونے لگے گی تو رجوع کر لوں گا اور اسی طرح کرتارہوں گا.اس عورت نے حضرت عائشہ کے پاس اپنے خاوند کی اس زیادتی کا ذکر کیا.(جب آنحضرت صلی علیکم گھر تشریف لائے) تو حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی العلیم کے پاس اس عورت کی اس مشکل کا ذکر کیا.آپ صلی الم نے بھی کوئی جواب نہ دیا تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں کہ ” ایسی طلاق (جس میں رجوع ہو سکے ) دو دفعہ (ہو سکتی) ہے ( یاتو ) مناسب طور پر روک لینا ہو گا یا حسن سلوک کے ساتھ رخصت کر دینا ہو گا“.(یعنی پہلی طلاق کے بعد مرد عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد باہمی رضامندی سے اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے اگر رجوع یا نکاح کے بعد اس نے پھر طلاق دے دی تو اسے یہی اختیار حاصل ہو گا یعنی عدت کے اندر رجوع کر سکے گا اور عدت گزرنے کے بعد باہمی رضامندی سے نکاح کر سکے گا اگر اس نے اس دوسرے رجوع یا نکاح کے بعد پھر اس نے طلاق دے دی تو پھر نہ وہ رجوع کر سکے گا اور نہ اس عورت سے نکاح کر سکے گا البتہ اگر عدت گزرنے کے بعد وہ عورت کسی اور سے شادی کر لے اور دوسر امر د باہمی نباہ نہ ہو سکنے کی وجہ سے اسے طلاق دے دے تو پھر اگر پہلا مر دچاہے تو عورت کو رضامند کر کے اس سے
348 تیسری بار شادی کر لے.گویا طلاق اور رجوع کے اختیار کو محدود کر دیا گیا اور اس طرح جاہلیت کے اس برے رواج کو ختم کر کے ظالم خاوند سے عورت کی آزادی کی راہ آسان کر دی).387- عَنِ ابْنِ عَبَّاس أَن جَارِيَّةٌ بِكْرًا أنتِ النَّبي صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوْجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ ، فَقَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (ابو داؤد کتاب النکاح باب في البكريزوجها ابوها ولا يستامرها2096) حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی صلی اللہ نیلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا ہے اور وہ نا پسند کرتی ہے.نبی صلی الی ہم نے اسے اختیار دیا.388 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ.......أَنَّ امْرَأَةٌ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَلَهَا مِنْهُ وَلَدٌ، فَخَطَبَهَا عَهُ وَلَدِهَا إِلَى أَبِيهَا، فَقَالَتْ: زَوَجْنِيهِ، فَأَبَى وَزَوَجَهَا مِنْ غَيْرِهِ بِغَيْرِ رِضٌى مِنْهَا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ نَعَمْ، زَوَجْتُهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْ عَمْ وَلَدِهَا ، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، وَزَوَّجَهَا مِنْ عَمْ وَلَدِهَا (مسند ابی حنیفه کتاب النکاح ، باب بیان استئذان البكر والثيب (266) حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہو گیا اس کا اس سے ایک بچہ بھی تھا.بچہ کے چچانے عورت کے والد سے اس بیوہ کا رشتہ مانگا.عورت نے بھی رضا مندی کا اظہار کیا لیکن لڑکی کے والد نے اس کا رشتہ اس کی رضامندی کے بغیر کسی اور جگہ کر دیا.اس پر وہ لڑکی حضور صلی ای کم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شکایت کی.حضور صلی اللہ کریم نے اس کے والد کو بلا کر دریافت کیا.اس کے والد نے کہا کہ اس کے دیور سے بہتر آدمی کے ساتھ میں نے اس کا رشتہ کیا ہے.حضور صلی الم نے باپ کے کئے ہوئے رشتہ کو توڑ کر
349 بچے کے چچا یعنی عورت کے دیور سے اس کا رشتہ کر دیا.(یعنی شادی کے معاملہ میں لڑکی کی پسند اور اس کی مرضی کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے).-389- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِ أَهْلَهُ قَالَ بِاسْمِ اللهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنْبِ الشَّيْطَانَ مَا رزَقْتَنَا، فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرُ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا بخاری کتاب الدعوات باب ما يقول اذا اتي اهله (6388) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ال یکم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے تعلق قائم کرتے وقت یہ دعا مانگے : اللہ کے نام کے ساتھ ، اے میرے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اور اس بچے کو بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عطا کرے.اگر ان کے لئے کوئی بچہ مقدر ہوا تو شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِ أَهْلَهُ، قَالَ بِاسْمِ اللهِ ، اللهُمَّ جَنِبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَيْبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَفَتَنَا، فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدِّرُ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا (مسلم کتاب النکاح باب ما يستحب ان يقوله عند الجماع 2577) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص جب اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے اور یہ کہے.اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ ! ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور جو تو ہمیں عطا فرمائے اس کو بھی شیطان سے بچا.اگر ان دونوں کے لئے اس میں کوئی اولاد مقدر ہے تو شیطان اس کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا.
350 390 - عن سمرا، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُل غُلَامٍ مُرْعَبْن بِعَقِيقَتِهِ، تُذبح عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ، وَيُسَمَّى ابن ماجه کتاب الذبائح باب العقيقة 3165) حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علی کرم نے فرمایا ہر بچہ عقیقہ کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے اس کا سر مونڈا جائے اور اس کا نام رکھا جائے.عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ، فَأَخْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى ابن ماجه کتاب الذبائح باب العقيقة 3164) حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے انہوں نے نبی صلی اللی کم کو فرماتے ہوئے سنابچے کے ساتھ عقیقہ ہے، اس کی جانب سے خون بہاؤ اور اس سے تکلیف دہ چیز دور کرو.391ـ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ ، وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ (ابو داؤد کتاب الادب باب فى تغيير الاسماء 4948) حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپ دادوں کے ناموں کے ذریعہ بلایا جائے گا.اس لئے اچھے اچھے نام رکھا کرو.عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسمائكم (مشكاة المصابيح ، كتاب الادب، باب الاسامى ، الفصل الثاني 4768)
351 حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپ دادوں کے ناموں کے ذریعہ بلایا جائے گا.اس لئے اچھے اچھے نام رکھا کرو.392 - عن أبي وهب الجُشَمِي، وَكَانَتْ لَهُ مُبَةٌ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللهِ عَبْدُ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَأَصْدَقُهَا حَارِثُ، وَهَمَّامٌ ، وَأَقْبَحُهَا حَرْبٌ وَمُرَّةٌ (ابو داؤد کتاب الادب باب في تغيير الاسماء 4950) رض حضرت ابو وہب جثشمی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا انبیاء علیہ السلام کے ناموں جیسے اپنے " ما بچوں کے نام رکھو.اور عبد اللہ اور عبد الرحمن نام اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں اور حارث اور ہمام بھی اچھے اور سچائی کے قریب نام ہیں لیکن حرب اور مرہ ( ان کے معنی لڑائی اور تلفی ہونے کی وجہ سے ) برے نام ہیں.393 عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُغَيْرُ الإِسْمَ القَبِيحَ (ترمذی کتاب الادب باب ما جاء في تغيير الاسماء 2839) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی للی کم برے نام کو تبدیل کر دیا کرتے تھے.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ كَانَ يُغَيْرُ الاِسْمِ الْقَبِيحِ (مشكاة المصابيح ، كتاب الادب، باب الاسامى ، الفصل الثاني 4774) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی الی یک برے نام کو تبدیل کر دیا کرتے تھے.
352 394 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُبَوِدَانِهِ وَيُنَقِرَانِهِ وَيُمَحِسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةٌ جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِشُونَ فِيهَا مِنْ جَدُعَاءَ ؟ (مسلم کتاب القدر باب معنی کل مولود يولد على الفطرة...4789) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت (صحیحہ) پر پیدا کیا جاتا ہے.پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے ایک چوپایہ سالم چوپائے کو ہی جنم دیتا ہے.کیا تم اس میں کوئی چیز کٹی ہوئی دیکھتے ہو ؟ 395- حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْن مُوسَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ماجاء في ادب الولد (1952) حضرت ایوب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین اعلیٰ تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے.396 - حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُمَارَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكِ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ وَأَحْسِنُوا ادبهم ابن ماجه کتاب الادب باب بر الوالد و الاحسان إلى البنات 3671) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نیلم نے فرمایا اپنی اولاد کی عزت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو.
353 397 - عَنْ أَمِ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ أَنَهَا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ سَمْتًا وَدَلًّا وَهَدْيًا - وَقَالَ الْحَسَنُ : حَدِيقًا، وَكَلامًا ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْحَسَنُ السَّمْتَ، وَالْهَدْيَ، وَالدَّلَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَةَ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهَا كَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا فَأَخَذَ بِيَدِهَا ، وَقَبَلَهَا ، وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ إِلَيْهِ، فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ فَقَتَلَتْهُ، وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا (ابو داؤد کتاب الادب باب في القيام 5217) رض حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے فاطمہ سے بڑھ کر شکل و صورت، چال ڈھال اور گفتگو میں رسول اللہ صلی الم کے مشابہ کسی اور کو نہیں دیکھا.فاطمہ جب کبھی رسول اللہ صلی ا ریلی سے ملنے آتیں تو حضور صلی ا لم ان کے لئے کھڑے ہو جاتے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر چومتے.اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے.اسی طرح حضور صلی ا کام ملنے کے لئے فاطمہ کے یہاں تشریف لے جاتے وہ کھڑی ہو جاتیں.حضور صلی ال نیم کے دست مبارک کو بوسہ دیتیں اور اپنی خاص بیٹھنے کی جگہ پر حضور صلی الی یکم کو بٹھاتیں.جب 398 - عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ دِينَارٍ يُنْفِقُهُ الرّجُلُ، دِينَارُ يُنْفِقُهُ عَلَى عِيَالِهِ، وَدِينَارُ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٍ يُنْفِقُهُ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (مسلم کتاب الزكاة باب فضل النفقة على العيال و المملوک 1646) حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الکریم نے فرمایا سب سے افضل دینار جو آدمی خرچ کرتا ہے وہ دینار ہے جس کو وہ آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار جو آدمی اللہ کی راہ میں اپنی سواری پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار جسے وہ اللہ کی راہ میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے.
354 399 عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ، لَيْسَ لَهَا كَاسِبُ غَيْرُكَ ابن ماجه کتاب الادب باب بر الوالد و الاحسان الى البنات 3667) حضرت سراقہ بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ کریم نے فرمایا کیا تم کو بہترین نیک خرچ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تمہاری بیٹی جو تمہاری طرف لوٹادی گئی ہے اور اس کا تیرے علاوہ کوئی کمانے والا نہیں ہے.400 ـ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَتْنِي مِسْكِينَةٌ تَحْمِلُ ابْنَتَيْنِ لَهَا، فَأَطْعَمْتُهَا ثَلَاثَ تَمَرَّاتٍ، فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا تَمرَةٌ، وَرَفَعَتْ إِلَى فِيهَا تَمْرَةً لِتَأْكُلَهَا، فَاسْتَطْعَمَتُهَا ابْنَتَاهَا، فَشَقَتِ التَّمْرَةَ الَّتِي كَانَتْ تُرِيدُ أَنْ تَأْكُلَهَا بَيْنَهُمَا، فَأَعْجَبَنِي شَأْنُهَا، فَذَكَرْتُ الَّذِي صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَوْجَبَ لَهَا بِهَا الْجَنَّةَ، أَوْ أعتقها بها من النار (مسلم کتاب البر والصلة باب فضل الاحسان على البنات 4750) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اُٹھائے ہوئے آئی تو میں نے اسے تین کھجوریں کھانے کو دیں اس نے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دی اور ایک کھجور کھانے کے لئے اپنے منہ کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ اس کی بیٹیوں نے کھانے کے لئے وہ بھی مانگ لی.چنانچہ اس نے وہ کھجور جسے وہ کھانا چاہتی تھی ان دونوں کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی.مجھے اس کا فعل پسند آیا اور میں نے جو اس نے کیا تھا رسول اللہ صلی الم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ نے اس وجہ سے اس پر جنت واجب کر دی یا ( فرمایا) اس کی وجہ سے اسے آگ سے آزاد کر دیا.سة
355 ماں باپ کی خدمت اور صلہ رحمی 401- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي ؟ قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ أَمكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ أَبُوكَ بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة (5971) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی الی ظلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے ؟ آپ صلی اللہ میں نے فرمایا تیری ماں.پھر اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی للی یم نے فرمایا تیری ماں.اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ صلی کم نے فرمایا تیری ماں.اس نے چوتھی بار پوچھا.پھر کون؟ آپ صلیالی کم نے فرمایاماں کے بعد تیر اباپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے.پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار ).عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ؟ قَالَ أُمُّكَ، هُمَّ أَمكَ، ثُمَّ أُمُّكَ، ثُمَّ أَبُوكَ، ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ (مسلم کتاب البر والصلة باب بر الوالدين و انهما احق به 4608) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللی کم لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا حقدار کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں پھر تیری ماں، پھر تیری ماں پھر تیر اباپ پھر جو تیرے قریب تر ہے.جو تیرے قریب تر ہے.
356 402.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، قيل مَنْ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ(مسلم کتاب البر و الصلۃ باب رغم انف من ادرک ابویہ او حدھما عند الکبر…(4613 حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا ناک خاک آلود ہوئی پھر ناک خاک آلود ہوئی پھر ناک خاک آلود ہوئی.عرض کیا گیا کس کی یا رسولؐ اللہ؟ فرمایا جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا.403 - أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ ثَوْبَانَ، أَنَّ أَبَا الطُفَيْلِ، أَخْبَرَهُ، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ لَحْمًا بِالْجُعِرَّانَةِ.إِذْ أَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ حَتَّى دَنَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَبَسَطَ لَهَا رِدَاءَهُ، فَجَلَسَتْ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَنْ هِيَ ؟ فَقَالُوا هَذِهِ أُمُّهُ الَّتِي أَرْضَعَتْهُ (ابوداؤد کتاب الادب ، ابواب النوم ، باب في بر الوالدين (5144) حضرت ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی علیہ کم کو مقام جعرانہ میں دیکھا.آپ صلی یه کم گوشت تقسیم فرما رہے تھے اس دوران ایک عورت آئی تو حضور صلی الیم نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی.میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے جس کی حضور اس قدر عزت افزائی فرمارہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضور صلی الی یکم کی رضاعی والدہ ہیں.404- عَنِ ابْنِ عُمَرَ....فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ أبز البر صلةَ الرَّجُلِ أَهْلَ وُذِ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّي (مسلم کتاب البر والصلة باب صلة اصدقاء الاب و الام و نحوهما 4617)
357 عبد اللہ بن دینار حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے بارہ میں روایت کرتے ہیں......اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدمی کا اپنے باپ کے بعد اس کے باپ کے پیاروں سے حسن سلوک کر نایقینا سب سے بڑی نیکی ہے.405 - عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقُّ كَبِيرِ الْإِخْوَةِ عَلَى صَغِيرِهِمْ حَقُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ (مراسیل ابو داؤد باب ما جاء في بر الوالدين (487) حضرت سعید بن عاص بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا ہم نے فرمایا بڑے بھائی کا حق اپنے چھوٹے بھائیوں پر اس طرح کا ہے جس طرح والد کا حق اپنے بچوں پر ( یعنی بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے لئے بمنزلہ باپ کے ہے اس لئے اس کا ادب و احترام بھی واجب ہے).406- عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ السَّاعِدِي، قَالَ بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بَقِيَ مِنْ يَرَ أَبَوَنُ شَيْءٍ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا؟ قَالَ نَعَمُ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا، وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا (ابو داؤد کتاب الادب ، ابواب النوم ، باب في بر الوالدين (5142) حضرت ابو اسید الساعدی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یارسول اللہ اوالدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کر سکوں؟ آپ صلی للی یکم نے فرمایا ہاں کیوں نہیں.تم ان کے لئے دعائیں کرو، ان کے لئے بخشش طلب کرو، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو.ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح
358 صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ.407- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُمَدَّ لَهُ فِي عُمْرِهِ، وَيُزَادَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، فَلْيَبَر وَالِدَيْهِ، وَلْيَصِلُ رَحِمَهُ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند انس بن مالک 13847) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے.408- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ، أَوْ يُنْسَأَ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ (مسلم کتاب البر والصلة باب صلة الرحم و تحریم قطيعتها4624) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جسے پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراخی دی جائے یا اس کی عمر لمبی کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے.409- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي، وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيونَ إِلَى، وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَى، فَقَالَ لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ، فَكَأَنَّمَا تُسِقُهُمُ الْمَلَّ وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللهِ ظَهِيرُ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ (مسلم کتاب البر والصلة باب صلة الرحم و تحریم قطيعتها 4626)
359 حضرت ابوہریر کا بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا یارسول صلی علیہ کم اللہ ! میرے ایسے قرابت دار ہیں کہ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بر اسلوک کرتے ہیں.میں ان سے حلم سے پیش آتا ہوں وہ مجھ سے جہالت سے پیش آتے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا اگر تم ویسے ہی ہو جیسا کہ تم کہتے ہو.تو تم گویا ان پر گرم راکھ ڈالتے ہو.جب تک تم اس حال پر رہے اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ ان کے مقابل پر ایک مدد گار رہے گا.410- عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي عَامَ حَبَّةِ الوَدَاعِ مِنْ وَجَعِ اشْتَدَّ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ بَلَغَ بِي مِنَ الوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِخُلُقَى مَالِي ؟ قَالَ لَا فَقُلْتُ: بِالشَّطْرِ ؟ فَقَالَ لَا ثُمَّ قَالَ القُلتُ وَالقُلتُ كَبِيرُ - أَوْ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةٌ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَن تُنْفِقَ نَفَقَةٌ تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي ؟ قَالَ إِنَّكَ لَن تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةٌ وَرِفْعَةً، ثُمَّ لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنِ البَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ يَرْ فِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن مات بمكة الله و (بخاری کتاب الجنائز باب رثاء النبي العالم سعد ابن خوله 1295) عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ (حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی.انہوں نے کہا رسول اللہ صلی ال یکم جس سال حجتہ الوداع ہوا، میری بیمار پرسی کے لئے آیا کرتے تھے.کیونکہ میری بیماری بڑھ گئی تھی.میں نے کہا میری بیماری آخری حد تک پہنچ گئی ہے اور میں مالدار ہوں اور سوائے (میری) ایک لڑکی کے اور
360 کوئی میر اوارث نہیں.کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں.میں نے کہا تو آدھا؟ آپ نے فرمایا نہیں.پھر آپ نے فرمایا تہائی بلکہ تہائی بھی بڑا ہے یا فرمایا بہت ہے اور یہ کہ تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو، بہتر ہے اس سے کہ تم ان کو محتاج چھوڑ جاؤ، لوگوں کے سامنے وہ ہاتھ پھیلاتے پھریں اور جو تم ایسا خرچ کرو گے کہ جس سے اللہ کی رضامندی چاہتے ہو تو ضرور ہی اس پر تمہیں ثواب دیا جائے گا.یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو.میں نے کہا یارسول اللہ ! میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے (مکہ میں) رہ جاؤں گا.آپ نے فرمایا تم کبھی پیچھے نہیں رہو گے.جو نیک کام بھی کرو گے ، تم اس کے ذریعہ سے درجہ اور بلندی میں بڑھو گے.مزید بر آں امید ہے کہ تم پیچھے رکھے جاؤ گے تا تمہارے ذریعہ بہت سی قومیں نفع حاصل کریں اور بعض کو تمہارے ذریعہ نقصان پہنچے.اے میرے اللہ ! میرے ساتھیوں کے لئے ان کی ہجرت پوری کر اور ان کو ان کی ایڑیوں کے بل نہ لوٹائیو.لیکن بیچارے سعد بن خولہ ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ یکم افسوس ہی کیا کرتے تھے کہ وہ مکہ میں فوت ہو گئے.عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عَادَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعِ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، بَلَغَنِي مَا تَرَى مِنَ الْوَجَعِ، وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةُ لِي وَاحِدَةٌ ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِخُلُقَى مَالِي ؟ قَالَ لَا، قَالَ قُلْتُ: أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ؟ قَالَ لَا، القُلتُ، وَالقُلْتُ كَثِيرُ ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا أَجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ، قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي، قَالَ إِنَّكَ لَن تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يُنْفَعَ بِكَ أَقْوَامٌ ، وَيُضَرِّ بِكَ آخَرُونَ اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِن الْبَائِسُ سَعْدُ بن خَوْلَهُ ، قَالَ رَقَى لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَن تُونِي بِمَكَّة (مسلم کتاب الوصية باب الوصية بالثلث 3062)
361 عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی ال کلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت فرمائی.اس بیماری میں جس میں میں موت کے کنارے پر پہنچ گیا تھا.میں نے عرض کیا یار سول اللہ ! میری تکلیف جس حد تک پہنچ چکی ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں.میں مالدار ہوں اور میر اوارث سوائے میری اکلوتی بیٹی کے کوئی نہیں.کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں.وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا کیا میں اس کا نصف صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں.تیسرا حصہ (کر دو ) اور تیسر احصہ (بھی) بہت ہے.تمہارا اپنے وارثوں کو اچھی حالت میں چھوڑنا انہیں محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے جو بھی خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر دیا جائے گا یہانتک کہ ایک لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو.وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے چھوڑا جاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا تم پیچھے چھوڑے نہ جاؤ گے مگر جو نیک عمل کرو گے جس کے ذریعہ تم اللہ کی رضا چاہو تو تم اس کے ذریعہ درجہ اور رفعت میں زیادہ ہو گے.اور بعید نہیں کہ تم پیچھے چھوڑے جاؤ ( یعنی لمبی عمر دیئے جاؤ) یہانتک کہ قومیں تجھ سے فائدہ اٹھائیں اور کچھ دوسری نقصان اٹھائیں.اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری فرما اور انہیں ان کی ایڑیوں کے بل نہ لوٹانا لیکن بے چارہ سعد بن خولہ اراوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے ان کے لئے دکھ کا اظہار فرمایا کیونکہ وہ (ہجرت کے بعد ) مکہ میں فوت ہو گئے تھے.411- عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأُ بِمَنْ تَعُولُ، وَخَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَهْرِ غِنِّي، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ (بخاری کتاب الزكاة باب لا صدقة الا عن ظهر غنى 1427)
362 حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے ان کو دو جن کی تم پرورش کرتے ہو اور بہتر صدقہ وہی ہے جو ضرورت پوری کرنے کے بعد ہو اور جو سوال سے بچنا چاہے گا اللہ اسے بچائے گا اور جو فتاحا صل کرنا چاہے گا.اللہ اسے غنی کر دے گا.ہر اہم کام میں مشورہ لینے، سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے اور استخارہ کرنے کی ہدایت 412ـ عَنْ أُمِ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المِسْتَشَارُ مُؤْتَمَن (ترمذی کتاب الادب باب ان المستشار مؤتمنن 2823) حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کرم نے فرمایا جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے.دو، 413 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ....فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ، فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الهَيْقَمِ بْنِ الشَّيْهَانِ الْأَنْصَارِي.فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ لَكَ خَادِهُ ؟ قَالَ لَا ، قَالَ فَإِذَا أَتَانَا سَبَى فَأْتِنَا فَأَتِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثُ فَأَتَاهُ أَبُو الهَيْقَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اخْتَر مِنْهُمَا، فَقَالَ يَا نَبِنَ اللهِ اخْتَرْ لي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ المُسْتَشَارَ مُؤْتَمَن خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا (ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء فى معيشة اصحاب النبي الا (236)
363 مة الشرسة حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یم نے ابو الہیشم بن تیہان سے فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی خادم ہے انہوں نے عرض کیا.نہیں.نبی صلی علیم نے فرمایا جب میرے پاس کوئی قیدی آئے تو آنا.نبی صلی الیکم کے پاس دو قیدی آئے تو اس وقت ابوالہیشم حضور علی ای کم کی خدمت میں حاضر ہوئے.نبی صلی ا ہم نے ان سے فرمایا کہ ان دو قیدیوں میں سے جو تمہیں پسند ہو وہ لے لو.ابو الہیشم نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! میرے لئے آپ صلی یکم خود پسند فرماویں.اس پر نبی صلی علیم نے فرمایا ” المستشار موتمن“ کہ جس سے مشورہ مانگا جائے اسے امین ہو نا چاہئے یعنی وہ صحیح مشورہ دے.پھر ایک قیدی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ لے لو، سیہ اچھا ہے میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور پھر فرمایا اس سے اچھا سلوک کرنا.414- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةٌ لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (ترمذی کتاب الجهاد باب ما جاء في المشورة 1714) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی المی کم سے بڑھ کر کسی اور کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا.-415 عَنِ ابْنِ عَلمُ الْأَشْعَرِي: أَنَّ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم قال لأبي بكر، وعمر لو اجْتَمَعْنَا فِي مَشُورَةٍ مَا خَالَفْتُكُمَا ( مسند احمد بن حنبل ، مسند الشاميين ، حديث عبد الرحمن بن غنم الاشعری 18157) ย حضرت ابن غنم الاشعری سے روایت ہے کہ نبی صلی الیم نے (ایک بار) حضرت ابو بکر اور حضرت عمر سے فرمایا جب تم دونوں کوئی متفقہ مشورہ دیتے ہو تو پھر میں اس کے خلاف نہیں کرتا ( یعنی تم دونوں کے متفقہ مشورہ کی قدر کرتا ہوں).
364 416 ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ اسْتَشَارَكَ، فَأَشِرَهُ بِالرُّشْدِ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُ، فَقَدْ خُنْتَهُ (مسند ابی حنیفه ، كتاب الادب، باب بيان ذكر المتفرقات (472) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی مشورہ مانگے تو اچھا مشورہ دو.اگر تم نے ایسانہ کیا تو گویا تم نے خیانت سے کام لیا.417 عن أنير أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصِلِي فَقَالَ خُذِ الْأَمْرَ بالقديير فَإِن رَأَيْتَ فِي عَاقِبَيهِ خَيْرًا فَأَمْضِهِ وَإِنْ خِفْتَ عَيْا فَأَمْسِكُ (مشكاة ، كتاب الادب، باب الحذر و التانى ، الفصل الثاني 5057) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی یہ کم سے عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت فرماویں.آپ نے فرمایا جو کام کرو پہلے اس پر اچھی طرح غور و فکر کر لیا کرو.اگر تم سمجھو کہ بہتر اور فائدہ مند ہے تو کرو اور اگر سمجھو کہ اس کام کے کرنے میں گھاٹا اور نقصان ہے تو اس سے رک جاؤ.418ـ عَنْ أَبِي ذَرٍ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا ذَرٍ لَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ ، وَلَا وَرَعَ كَالْكَفِ، وَلَا حَسَبَ كَحُسْنِ الْخُلُقِ (شعب الايمان ، الثالث والثلاثون.شعب الايمان و هو باب في تحديد نعم الله عز وجل و ما يجب من شكرها ، فصل في فضل العقل الذي هو من النعم العظام...4325) رض حضرت ابو ذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تم نے مجھے فرمایا ابو ذر ! اچھی تدبیر اور عمدہ سوچ سے بڑھ کر کوئی عقل والی بات نہیں.اور برائی سے بچنا اصل پر ہیز گاری ہے اور حسن خلق سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب بنانے والی نہیں.
365 عَنْ أَبي ذر قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا ذَا لَا عَقَلَ كَالتَّدْبِيرِ وَلَا ورع كالكفّ ولا حسب كحسن الخلق (مشكاة ، كتاب الادب، باب الحذر والتانى الفصل الثالث 5066) رض حضرت ابو ذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی یم نے مجھے فرمایا ابو ذر ! اچھی تدبیر اور عمدہ سوچ سے بڑھ کر کوئی عقل والی بات نہیں.اور برائی سے بچنا اصل پر ہیز گاری ہے اور حسن خلق سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب بنانے والی نہیں.419ـ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الاسْتِخَارَةَ في الأُمُورِ كُلِّهَا، كَالسُّورَةِ مِنَ القُرْآنِ: إِذَا هَمَّ بِالأَمْرِ احَدَكُم فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ العَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُيُوبِ، اللَّهُم إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِى وَآجِلِهِ ـ فَاقْدُرْهُ لِي، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرُّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِى وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ رَضْنِي بِهِ، وَيُسَنِي حَاجَتَهُ - -- (بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارة 6382) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللی کم اہم امور میں استخارہ کا طریق اس طرح سکھایا کرتے تھے جیسے کوئی قرآن کا حصہ سکھا رہے ہوں.آپ صلی یکم فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی اہم کام کا ارادہ کرے تو دو (۲) رکعت نفل پڑھے پھر آخر میں یہ دعا مانگے.اے اللہ ! میں تجھ سے بھلائی کا طلبگار ہوں.تجھ سے طاقت و قدرت چاہتا ہوں.تیرے فضل عظیم کا سوالی ہوں کیونکہ تو ہر چیز پر قادر ہے، میں قادر نہیں.تو ہر بات کو جانتا
366 سکتا ہے، میں نہیں جانتا.تو سارے علم رکھتا ہے اے میرے اللہ ! اگر تیرے علم میں میرا یہ کام کام کا نام لے ہے (میرے لئے دینی اور دنیوی ہر لحاظ سے اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہے.یا فرمایا یوں کہے کہ میری اب کی ضرورت اور بعد میں پید اہونے والی ضرورت کے لحاظ سے بابرکت ہے تو یہ کام میرے لئے آسان کر دے اور پھر اس میں میرے لئے برکت ڈال اور اگر تیرے علم میں یہ کام میری دینی اور معاشی حالت کے لحاظ سے اور انجام کار کے اعتبار سے مضر ہے.یا یوں فرمایا اب کی ضرورت یا مستقبل کی ضرورت کے لحاظ سے میرے لئے مضر ہے تو اس کام کو نہ ہونے دے اور اس کے شر سے مجھے بچالے، اور میرے لئے خیر جہاں بھی ہو ، وہ مقدر فرما اور مجھے اس پر اطمینان بخش.شہریت اور اس کے حقوق 420ـ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِيَلِيْنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، وَلَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ، وَإِيَّاكُمْ وَهَيُشَاتِ الأَسْوَاقِ (ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء لیلینی منکم اولو الاحلام والنهى (228) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا تم میں سے صاحب فہم اور بڑی عمر والے افراد مجھ سے قریب رہا کریں، پھر درجہ بدرجہ عمر اور فہم والے افراد.اور دیکھو آپس میں بغض، کینہ اور اختلافات نہ کرو، ورنہ تمہارے دلوں میں اختلاف ہو جائے گا ( یعنی تم میں پھوٹ پڑ جائے گی ) اور بازاروں میں شور و غوغا کرنے سے بچو.
367 421 - عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ غَطُوا الْإِناءَ، وَأَوْكُوا السَّقَاءَ، وَأَغْلِقُوا الْبَابَ، وَأَطْفِوْا السّرَاجَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَخْلُ سِقَاءٌ، وَلَا يَفْتَحُ بَابًا، وَلَا يَكْشِفُ إِنَاءً فَإِنْ لَمْ يَجِدُ أَحَدُكُمْ إِلَّا أَنْ يَعْرُضَ عَلَى إِنَائِهِ عُودًا، وَيَذْكُرَ اسْمَ اللَّهِ ، فَلْيَفْعَلْ، فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةٌ تُضْرِمُ عَلَى أَهْلِ الْبَيْتِ بَيْتَهُمْ (مسلم كتاب الاشربة باب الامر بتغطية الاناء و ايكاء السقاء......3741) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا بر تن ڈھانک کر رکھو اور مشکیزے کا منہ باند ھو اور دروازوبند رکھو اور چراغ بجھا دو کیونکہ شیطان مشکیزہ نہیں کھولتا اور نہ دروازہ کھولتا ہے اور نہ ہی بر تن کا ڈھکنا اٹھاتا ہے.پس اگر تم میں سے کوئی کچھ نہ پائے سوائے اس کے کہ اپنے بر تن پر کوئی لکڑی (ہی) رکھ دے اور اللہ کا نام لے تو ایسا کرے کیونکہ چوہیالوگوں پر ان کے گھر جلا دیتی ہے.422 - عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُةٌ نَتَحَدَّثُ فِيهَا، فَقَالَ إِذْ أَبَيْتُمْ إِلَّا المَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَهُ قَالُوا وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ غَضُّ البَصَرِ ، وَكَفَ الأَذَى وَرَدُّ السَّلَامِ ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهَى عَنِ المُنْكَرِ (بخاری کتاب الاستئذان باب يا ايها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوتا 6229) حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ایم نے فرمایا تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو.صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں، اس کے بغیر چارہ نہیں، ہم ان جگہوں پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں اور آپس میں مشورہ کرتے ہیں.حضور صلی الی یکم نے فرمایا جب تم وہاں بیٹھنے پر مجبور اور مصر ہو تو پھر راستے کو اس کا حق دیا کرو.صحابہ نے عرض کیا راستے کا حق کیا ہے ؟ آپ میلی لی یکم نے فرمایا نظر نیچی رکھنا، دکھ دینے سے بچنا، سلام کا جواب دینا، نیک بات کی تلقین کرنا اور بری بات سے روکنا.
368 423 - عن عمرة بن أبي أُسَيْد الأَنْصَارِي، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاءِ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاءِ: اسْتَأْخِرْنَ، فَإِنَّهُ لَيْسَ لَكُنَّ أَنْ تَحْفُقْنَ الطَّرِيقَ عَلَيْكُنَ بِحَافَاتِ الطَّرِيقِ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْصَقُ بِالْجِدَارِ حَتَّى إِنَّ ثَوْبَهَا لَيَتَعَلَّقُ بالجدار مِنْ لُصُوقها به (ابوداؤد کتاب الادب ، ابواب النوم ، باب فى مشى النساء مع الرجال في الطريق 5272) حضرت ابو اسید انصاری بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی للی کم کو مسجد سے باہر جس وقت عورتیں گلی میں مردوں کے ساتھ مل کر بھیڑ کی شکل میں چل رہی تھیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ خواتین راستہ کے ایک طرف ہو کر یعنی فٹ پاتھ پر چلیں.یہ مناسب نہیں کہ وہ راستہ کی روک بن جائیں.ابو اسید بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد عورتیں سڑک کے ایک طرف ہو کر دیوار کے ساتھ ساتھ ہو کر چلا کرتیں.بعض اوقات تو وہ اس قدر دیوار کے ساتھ لگ کر چلتیں کہ ان کے کپڑے دیوار کے ساتھ اٹک اٹک جاتے.424- عن جابر، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا إلَّا كَانَ مَا أُكِلَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهُ صَدَقَةٌ، وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهُ صدقَةٌ، وَمَا أَكَلَتِ الخَيْرُ فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ، وَلَا يَرْزَؤُهُ أَحَدٌ إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةٌ (مسلم کتاب المساقاة باب فضل الغرس و الزرع 2886) حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یوم نے فرمایا کہ کوئی مسلمان کوئی درخت نہیں لگاتا مگر جو بھی اس میں سے کھایا جائے وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے اور جو اس میں سے چوری ہو جائے وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہے.اور جو درندے اس سے کھائیں وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے اور جو پرندے کھائیں وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے اور کوئی بھی اس کو نقصان نہیں پہنچا تا مگر وہ اس کے لئے صدقہ ہوتا ہے.
369 عَن أنس رضي الله عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانُ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ (بخاری کتاب المزارعه ، باب فضل الزرع و الغرس اذا اكل منه 2320 ) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان بھی کوئی پودا لگاتا ہے یا کھیتی بوتا ہے اور پھر اُس سے کوئی پرندہ یا انسان یا چوپا یہ کھاتا ہے تو یہ (کھیتی اور درخت) اس کے لئے ثواب کا موجب بن جائے گا.425ـ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ إِنْسَانٌ، أَوْ طَيْرُ، أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ (ترمذی كتاب الاحكام باب ما جاء في فضل الغرس 1382) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا جو کوئی مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس کے لگائے ہوئے درخت یا کھیتی کی پیداوار انسان پرندے یا جانور کھائیں تو یہ اس درخت لگانے یا کھیتی کرنے والے شخص کی طرف سے صدقہ ہے.426 - عَن أبي هريرةَ، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَتَقَلَّبُ في الْجَنَّةِ، فِي شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيقِ، كَانَتْ تُؤْذِي النَّاسَ (مسلم کتاب البر والصلة باب فضل ازالة الاذى عن الطريق 4731) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الم نے فرمایا کہ میں نے ایک شخص کو جنت میں ادھر اُدھر جاتے دیکھا راستہ سے ایک درخت کے کاٹنے کی وجہ سے جو لوگوں کو تکلیف دیتا تھا.
370 عن أبي هريرة ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ رَجُلٌ بِغُصْنٍ شَجَرَةٍ عَلَى ظَهْرٍ طَرِيقٍ، فَقَالَ وَاللَّهِ لَا تَخَيَنَ هَذَا عَنِ الْمُسْلِمِينَ لَا يُؤْذِيهِمْ فَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ (مسلم کتاب البر والصلة باب فضل ازالة الاذى عن الطريق 4730) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص رستہ پر پڑی درخت کی شاخ کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا اللہ کی قسم میں اسے مسلمانوں (کے راستہ) سے ایک طرف کر دیتا ہوں تا کہ انہیں تکلیف نہ پہنچائے.چنانچہ اسے جنت میں داخل کر دیا گیا.427 - عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَسْجِدِنَا، أَوْ فِى سُوقِنَا وَمَعَهُ نَبْلُ فَلْيُمْسِكُ عَلَى نِصَالِهَا أَوْ قَالَ فَلْيَقْبِضُ كَفَّهُ.أَوْ قَالَ فَلْيَقْبِضُ بِكَفِهِ أَنْ تُصِيبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب فى النبل يدخل في المسجد 2587) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا جب کوئی ہماری مسجد سے گزرے یا ہمارے بازار سے گذرے اور اس کے پاس اس کے تیر ہوں تو ان کے پھلوں سے پکڑے یا فرمایا اپنی ہتھیلی سے پکڑے مبادا وہ کسی مسلمان کو لگ جائیں.428- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أمْسَكَ كَلْبًا، فَإِنَّهُ يَنقُصُ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاهُ، إِلَّا كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ مَاهِيَةٍ (بخاری کتاب المزارعة باب اقتناء الكلب للحرث 2322)
371 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کتار کھا تو اس کے اعمال سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا جائے گا، سوائے اس کتے کے جو کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کی غرض سے رکھا جائے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا، لَيْسَ بِكَلْبِ صَيْدٍ، وَلَا مَاشِيَةٍ، وَلَا أَرْضِ ، فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ قِيرَاطَانِ كُلَّ يَوْمٍ (مسلم کتاب المساقاة باب الامر بقتل الكلاب و بیان نسخه......2933) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا کہ جس نے کتار کھا جو شکاری کتا نہیں نہ ہی جانوروں اور نہ ہی زمین ( کی حفاظت) کے لئے ہے تو اس کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہونگے.پڑوسی کے حقوق اور پڑوسی سے حسن سلوک 429 - عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا زَالَ جبريل يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَلى فتلك اللَّهُ سَيُوَزِتُهُ (بخاری کتاب الادب باب الوصائة بالجار 6015) حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا جبریل ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا آرہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں وہ اسے وارث ہی نہ بنادے.
372 430- عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ، وَإِذَا أَسَأْتُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَمِعْتَ جِيرَانَكَ يَقُولُونَ أَنْ قَد أَحْسَنُتَ، فَقَدْ أَحْسَنْتَ، وَإِذَا سَمِعْتَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ أَسَأْتَ، فَقَدْ أَسَأْتَ ابن ماجه كتاب الزهد باب الثناء الحسن (4223) حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم سے کسی شخص نے یہ عرض کیا کہ میرے لئے کیسے ہو سکتا ہے کہ میں جان لوں کہ جب میں نے اچھا کام کیا ہے اور جب میں نے برا کام کیا ہے.نبی صلی الی ٹیم نے فرمایا جب تو پڑوسیوں کو یہ کہتا سنے کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو تم نے اچھا کیا ہے اور جب تم ان کو یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا ہے تو تم نے برا کیا.431 عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ الأَصْحَاب عِنْدَ اللهِ خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ، وَخَيْرُ الجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في حق الجوار 1944) حضرت عبد اللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ ساتھی اچھا ہے جو اپنے ساتھی کے لئے اچھا ہو.اور پڑوسیوں میں وہ پڑوسی بہترین ہے جو اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کر.432 عن أبي ذَرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا ذَرٍ إِذَا طَبَخْتَ مَرْقَةٌ فَأَكْثِرُ مَاءَهَا، وَتَعَاهَدُ جِيرَانَكَ (مسلم کتاب البر والصلة باب الوصية بالجار و الاحسان اليه 4744)
373 حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اے ابو ذر ا جب تو شور بہ بنائے تو اس میں پانی زیادہ ڈال دے اور پڑوسیوں کا خیال کر.433- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَا نِسَاءَ المُسْلِمَاتِ، لَا تخون جَارَةً جَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِن شَاةٍ (بخاری کتاب الادب باب لا تحقرن جارة لجارتها 6017) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی العلیم نے فرمایا اے مسلمان عور تو ! کوئی عورت اپنی پڑوسن سے حقارت آمیز سلوک نہ کرے.اگر بکری کا ایک پایہ بھی بھیج سکتی ہو تو اسے بھیجنا چاہئے.434 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتُ (بخاری کتاب الادب باب اكرام الضيف و خدمته...6136) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا ہم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ( یعنی سچا مومن ہے ) وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے.جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اپنے مہمان کا احترام کرے.جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی اور نیکی کی بات کہے یا پھر خاموش رہے.435 ـ عَنْ أَبِي هُرَيحٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللهِ لا يُؤْمِنُ قِيلَ وَمَنْ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ بخاری کتاب الادب باب اثم من لا يا من جاره بوائقه 6016)
374 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الیم نے فرمایا خدا تعالیٰ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں ہے.خدا تعالی کی قسم اوہ شخص مومن نہیں ہے.آپ صلی علیم سے پوچھا گیا.یارسول اللہ ! کون مومن نہیں ہے ؟ آپ ملی ٹیم نے فرما یا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور اس کے اچانک واروں سے محفوظ نہ ہو.436ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ، وَالْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ، يَكْفُ عَلَيْهِ ضَيْعَتَهُ، وَيَحُوطُهُ مِنْ وَرَائِهِ (ابوداؤد كتاب الادب باب فى النصيحة و الحياطه 4918) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے (یعنی اپنا آپ اس میں دیکھتا ہے).اور ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے.اپنے بھائی کا مال و متاع ضائع کرنے سے بچتا ہے اور اس کی غیر حاضری میں اس کے مال کی دیکھ بھال کرتا ہے.صفائی اور نظافت 437 ـ عَنْ أَبِي مَالِكِ الْأَشْعَرِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ (مسلم کتاب الطهارة باب فضل الوضوء (320) حضرت ابو مالک اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی یک نے فرمایا صفائی و پاکیزگی ) نصف ایمان ہے.
375 438- عن جابر، أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَنَّ أَحَدُكُمْ بِطِيبٍ، فَلْيُصِبْ مِنْهُ (مسند ابی حنيفه كتاب الادب باب بيان الخلق الحسن 459 ) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا جب تمہیں کوئی دوست بطور تحفہ خوشبو دے تو اسے قبول کر و اور اسے استعمال کرو.439ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رِوَايَةً: الفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنَ الفِطْرَةِ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، ونتف الإبط ، وَتَعْلِيمُ الأَغْفَارِ، وَقَضُ القَارِبِ (بخاری کتاب اللباس باب قص الشارب 5889) ت حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ (آنحضرت صلی میں ہم نے فرمایا) پانچ باتیں فطرت انسانی میں رکھی گئی ہیں.ختنہ کرنا، زیر ناف بال لینا، ناخن اتروانا، بغلوں کے بال لینا اور مونچھیں تراشنا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْفِطْرَةُ خَمْسٌ - أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ - الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الْأَطْفَارِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَقَضُّ الشَّارِبِ (مسلم کتاب الطهارة باب خصال الفطرة 369) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا پانچ باتیں فطرت ہیں یا پانچ باتیں فطرت میں سے ہیں: خفتنه، استر ولینا، ناخن تراشتا، بغل صاف کر نا اور مونچھیں تراشنا.440 - عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللَّحْيَةِ، وَالسَّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَضُ الْأَخْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاهِمِ
376 وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ قَالَ زَكَرِيَّا : قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ زَادَ قُتَيْبَةُ، قَالَ وَكِيعٌ : انْتِقَاصُ الْمَاءِ: يَعْنِي الِاسْتِنْجَاءَ (مسلم کتاب الطهارة باب خصال الفطرة 376) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ دس باتیں فطرت میں سے ہیں مونچھیں تر شوانا، اور داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا ناخن کاٹنا، جوڑ دھونا ، بغل صاف کرتا اور استرہ لینا اور پانی کا کم (یعنی محتاط) استعمال کرنا.مصعب کہتے ہیں کہ دسویں بات میں بھول گیا ہوں شاید وہ کلی کرنا ہے.قتیبہ نے مزید کہا کہ وکیع کہتے تھے کہ انتقاص الماء سے مراد استنجاء کرنا ہے.441ـ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ عَطَاءَ بْنِ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْمَسْجِدِ.فَدَخَلَ رَجُلٌ ثَائِرَ الرَّأْسِ وَاللَّحْيَةِ.فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ أَنِ اخْرُجُ كَأَنَّهُ يَعْنِي إِصْلَاحَ شَعَرِ رَأْسِهِ وَلِحَيَتِهِ.فَفَعَلَ الرَّجُلُ، ثُمَّ رَجَعَ.فَقَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم : أَلَيْسَ هذَا خَيْراً مِنْ أَنْ يَأْتِي أَحَدُكُمْ ثَائِرِ الرأس كأنه شيطان؟ (موطاء كتاب الشعر باب اصلاح الشعر 1770) حضرت عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علم ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص پراگندہ بال اور بکھری داڑھی والا آیا.رسول اللہ صلی علیم نے اسے اشارہ سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر کے اور داڑھی کے بال درست کرو.جب وہ سر کے بال ٹھیک ٹھاک کر کے آیا تو رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کیا یہ بھلی شکل بہتر ہے یا یہ کہ انسان کے بال اس طرح بکھرے اور پراگندہ ہوں کہ شیطان اور بھوت لگے.1: البراجم: مفاصل الاصابع او العظام الصغار في اليد والرجل (المنجد) انگلیوں کے جوڑ یا ہاتھ پاؤں کی چھوٹی ہڈیاں.
377 بیت الخلاء میں جانے کے متعلق ہدایات 442 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الخَلاءَ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ بخارى كتاب الدعوات باب الدعاء عند الخلاء 6322) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللی علم جب بیت الخلاء جانے لگتے تو یہ دعا پڑھتے اے میرے خدا میں تیری پناہ چاہتا ہوں نقصان پہنچانے والے گندے خیالات اور جراثیم سے اور نقصان پہنچانے والی گندگیوں اور بیماریوں سے.عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا ، يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الخَلاءَ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ بخاری کتاب الوضوء باب ما يقول عند الخلاء (142) حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی صلی ا یکم جب بیت الخلاء جاتے تو کہتے ”اے اللہ ! میں گندگی اور گندی باتوں سے تیری پناہ لیتا ہوں“.443 - عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةٌ ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ الخَلَاءَ ، فَأَحْمِلُ أَنَا وَغُلامٌ إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ وَعَنَزَةً، يَسْتَنْجِي بِالْمَاءِ (بخاری کتاب الوضوء باب حمل العنزة مع الماء في الاستنجاء (152)
378 حضرت انس بن مالک کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی الی یکم جب قضائے حاجت کے لئے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کی چھا گل اور برچھی اٹھا کر لے جاتے.پانی سے آپ استنجا کرتے.-444 عن أبي أيوب الأَنْصَارِي، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَنَّى أَحَدُكُمُ الغَائِط ، فَلَا يَسْتَقْبِلِ القِبْلَةَ وَلَا يُوَلِّهَا ظَهْرَهُ (بخاری کتاب الوضوء باب لا تستقبل القبلة بغائط او بول...144) حضرت ابوایوب انصاری نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے جائے تو وہ قبلہ کی طرف منہ نہ کرے اور نہ اس کی طرف اپنی پیٹھ کرے.مشرق کی طرف منہ کر دیا مغرب کی طرف.445 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اتَّقُوا اللَّغَانَيْنِ قَالُوا وَمَا اللعَانَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ الَّذِى يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ (مسلم کتاب الطهارة باب النهي عن التخلي في الطرق...389) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا کہ دو لعنت کرنے والوں کی لعنت کا باعث بننے والے کام) سے بچو.لوگوں نے پوچھا یار سول اللہ !وہ دو لعنت کرنے والے کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا( اس شخص پر لعنت کرنے والے) جو لوگوں کے رستہ میں یا ان کے سایہ کی جگہ میں قضائے حاجت کرتا ہے.
379 سونے اور بیدار ہونے کے آداب 446 - عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ نَامَ عَلَى شِفِيهِ الأَيْمَنِ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَوَجَهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةٌ إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيَكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ (بخاری کتاب الدعوات باب النوم على شق الايمن 6315) حضرت بر او بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یکم جب اپنے بستر پر سونے کے لئے جاتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعامانگتے.اے میرے اللہ ! میں اپنے آپ کو تیرے حوالے کرتا ہوں، اپنی آبرو تیرے سپر د کر تا ہوں، اپنے سب معاملات تیرے حوالے کرتا ہوں اور تجھے اپنا سہارا بنا تا ہوں.تیری طرف رغبت رکھتا ہوں اور تجھی سے ڈرتا ہوں.تیرے سوا کوئی جائے پناہ نہیں اور نہ ہی کوئی جائے نجات.میں تیری اس کتاب پر ایمان لاتا ہوں جو تو نے اتاری ہے اور تیرے اس نبی پر بھی ایمان لاتا ہوں جو تو نے بھیجا ہے.447 - عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ، وَضَعَ يَدَهُ تَحْتَ خَدِهِ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُم بِاسْمِكَ أُمُوتُ وَأَحْيَا وَإِذَا اسْتَيْقَظَ قَالَ الحمد للّهِ الَّذِي أحْيَانًا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّفُورُ (بخاری کتاب الدعوات باب وضع اليد تحت الخد اليمني 6314) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی کل رات کے وقت سونے کے لئے جب بستر پر آتے تو اپنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیتے اور پھر یہ دعا مانگتے.اے اللہ ! میں تیرے نام کی مدد سے مرتا ہوں اور زندہ ہو تا ہوں یعنی
380 سوتا ہوں اور جاگتا ہوں.جب آپ صلی میں کم بیدار ہوتے تو یہ دعا مانگتے : سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اس کے پاس ہی سب نے جا اکٹھے ہونا ہے.448 عن أبي ذر رضى الله عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ قَالَ اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا فَإِذَا اسْتَيْقَظَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانًا بَعْدَ ما أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّفُورُ (بخاری کتاب الدعوات باب ما يقول اذا اصبح 6325) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ جب نبی صلی الی یکم سونے کے لئے بستر پر تشریف لے جاتے تو اس طرح دعا کرتے اے میرے اللہ ! میں تیرے نام کی برکت سے زندہ ہو تا ہوں اور مرتا ہوں یعنی بیدار ہو تا ہوں اور سوتا ہوں.اور جب آپ صلی یہ کم بیدار ہوتے تو یہ دعا مانگتے.اس اللہ کی میں حمد و ثناء کرتا ہوں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف سب نے لوٹ کر جانا ہے.الله 449 - عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا فُلَانُ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ ، وَبِنَبِيَّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ ، فَإِنَّكَ إِنْ مُتَّ فِي لَيْلَتِكَ مُتَّ عَلَى الفِطْرَةِ، وَإِنْ أَصْبَحْتَ أَصَبْتَ أَجْرًا (بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالی انزله بعلمه و المائكة 7488) حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا اے میاں ! جب تم اپنے بستر پر آرام کرنے کے لئے آؤ تو یہ دعا کرو.اے میرے اللہ ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی، میں نے اپنا رخ تیری
381 طرف پھیر لیا، میں نے اپنا سب کچھ تیرے سپر د کر دیا، میری پشت پناہ تو ہی ہے ، تیری طرف رغبت رکھتا ہوں اور تجھ سے ڈرتا ہوں، نہ کوئی جائے پناہ ہے نہ کوئی جائے نجات مگر تو ہی.میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے اس نبی کو مانا جس کو تو نے بھیجا.یہ دعا سکھانے کے بعد حضور صلی ا ہم نے فرمایا اگر تو یہ دعا پڑھ کر سویا اور اسی رات فوت ہو گیا تو فطرت صحیحہ پر تیری وفات ہو گی اور اگر صبح زندہ اٹھا تو نیکی اور بھلائی تیرے مقدر میں ہو گی.ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ ﷺ نے فرمایا جب تو بستر پر لیٹنے لگے تو پہلے وضو کر جس طرح نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر دائیں پہلو پر لیٹ جا اور پھر یہ دعا پڑھ یہ سب سے آخر میں ہو اس کے بعد کوئی بات چیت نہ کی جائے.عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي البَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ، فَتَوَضَّأْ وَضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِيكَ الأَيْمَنِ، وَقُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَفَوَضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ، رَهْبَةً وَرَغْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وبنبيك الَّذِي أَرْسَلْتَ فَإن من مُت عَلَى الفِطْرَةِ فَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَقُولُ (بخاری کتاب الدعوات باب اذا بات طاہرا و فضله (6311) حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اے میاں ! جب تم اپنے بستر پر آرام کرنے کے لئے آؤ تو یہ دعا کرو.اے میرے اللہ ! میں نے اپنی جان تیرے سپر د کی، میں نے اپنا رخ تیری طرف پھیر لیا، میں نے اپنا سب کچھ تیرے سپر د کر دیا، میری پشت پناہ تو ہی ہے ، تیری طرف رغبت رکھتا ہوں اور تجھ سے ڈرتا ہوں، نہ کوئی جائے پناہ ہے نہ کوئی جائے نجات مگر تو ہی.میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے اس نبی کو مانا جس کو تو نے بھیجا.یہ دعا سکھانے کے بعد حضور صلی یکم نے فرمایا اگر تو یہ دعا پڑھ کر سویا اور اسی رات فوت ہو گیا تو فطرت صحیحہ پر تیری وفات ہو گی اور اگر صبح زندہ اٹھا تو نیکی اور بھلائی
382 تیرے مقدر میں ہو گی.ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضور صلی الیم نے فرمایا جب تو بستر پر لیٹنے لگے تو پہلے وضو کر جس طرح نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر دائیں پہلو پر لیٹ جا اور پھر یہ دعا پڑھ یہ سب سے آخر میں ہو اس کے بعد کوئی بات چیت نہ کی جائے.450ـ عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، يَخُوضُ فَاهُ بالسواك (بخاری کتاب الوضو باب السواک (245) حضرت حذیفہ نے بیان کیا کہ نبی صلی ا یکم جب رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے اوپر نیچے مل کر صاف کرتے.451 عن جابر، قالَ نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن ينام الرَّجُلُ عَلَى سطح ليْسَ يَمَحْجُورٍ عَلَيْهِ (ترمذی کتاب الادب باب ما جاء في فصاحة والبيان (2854) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے جس پر پردہ کی دیوار نہ ہو.452- عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ احْتَرَقَ بَيْتُ بِالْمَدِينَةِ عَلَى أَهْلِهِ مِنَ اللَّيْلِ، فَيْتَ بِمَأْتِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِنَّ هَذِهِ النَّارَ إِنَّمَا هِيَ عَدُوٌّ لَكُمْ، فَإِذَا مَمْ فَأَطْفِوْهَا عَنْكُمْ (بخاری کتاب الاستئذان باب لا تترك النار فى البيت عند النوم (6294
383 حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کے ایک آدمی کا گھر رات کے وقت جل گیا.نبی صلی یکم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی میں کم نے فرمایا آگ تمہاری دشمن ہے ، آگ کو اچھی طرح بجھا کر سویا کرو.آداب کلام 453- عَنْ أَبِي جُرَيْ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ رَأَيْتُ رَجُلًا يَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْيِهِ، لَا يَقُولُ شَيْئًا إِلَّا صَدَرُوا عَنْهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا ؟ قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ لَا تَقُل عَلَيْكَ السَّلَامُ ، فَإِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، قُلْ: السَّلَامُ عَلَيْكَ قَالَ قُلْتُ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ الَّذِي إِذَا أَصَابَكَ ضُرِّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ، وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ، أَنْبَتَهَا لَكَ، وَإِذَا كُنتَ بِأَرْضِ قَفْرٍ - أَوْ فَلَاةٍ - فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ، رَدَّهَا عَلَيْكَ، قَالَ قُلْتُ: اعْهَدْ إِلَيَّ، قَالَ لَا تَسْبَنَّ أَحَدًا قَالَ فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا ، وَلَا بَعِيرًا، وَلَا شَاةً، قَالَ وَلَا تَحْقِرَنَّ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطُ إِلَيْهِ وَجْهَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزارِ، فَإِنَّهَا مِنَ المخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ، وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَيَّرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ، فَلَا تُعَيْرُهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ، فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَيْهِ ابوداؤد كتاب اللباس باب ما جاء في اسبال الازار (4084
384 حضرت ابوحجر کی جابر بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس سے ہدایت اور مشورہ طلب کرنے کے لئے آتے ہیں (یعنی وہ مرجع عوام ہے) اور جو کچھ وہ کہتا ہے لوگ اس کو قبول کرتے ہیں.میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.چنانچہ میں آگے بڑھا اور کہا اے اللہ کے رسول ! علیک السلام دو دفعہ آپ نے فرمایا تم نہ کہو.علیک السلام یہ ”علیک السلام“ کہنا تو مر دوں کا سلام ہے.بلکہ تم کہو ”السلام علیک“ یعنی سلامتی ہو آپ پر.جابر کہتے ہیں پھر میں نے عرض کیا.کیا آپ صلی علی رام اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں ! میں اس اللہ کار سول ہوں کہ جب تجھے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور تو اس سے دعا کرتا ہے تو وہ تیری دعا کو سنتا ہے اور اس تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور جب تجھے قحط سالی سے دوچار ہو نا پڑے اور تو اس سے دعا کرے تو وہ تیرے کھیت ہرے بھرے کر دیتا ہے اور جب تو کسی بیابان جنگل میں ہو اور تیری سواری گم ہو جائے اور تو اس سے دعا کرے تو وہ تیری سواری تجھے واپس دلا دیتا ہے.جابر" کہتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا مجھے کوئی نصیحت کیجئے.آپ ملی ایم نے فرمایا کسی کو گالی نہ دو.چنانچہ اس کے بعد میں نے کسی کو گالی نہیں دی.نہ کسی آزاد کو اور نہ کسی غلام کو نہ کسی اونٹ کو نہ کسی بکری کو.اسی طرح آپ صلی علیم نے یہ بھی فرمایا معمولی سی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو، بشاشت اور خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے بھائی سے بات کرنا بھی نیکی ہے.اپنا تہبند نصف پنڈلی تک اونچا باند ھو.اگر ایسانہ کر سکو تو زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رکھ سکتے ہو اس سے نیچے لٹکانا ٹھیک نہیں کیونکہ تہبند کازمین پر گھسٹنا تکبر کا انداز ہے اور اللہ تعالی تکبر پسند نہیں کرتا.اگر کوئی آدمی تجھے گالی دے یا ایسی کمزوری کا طعنہ دے جو تجھ میں ہے تو تو اس کے مقابلے میں اسے ایسے عیب کا طعنہ نہ دے جو تیرے علم کے مطابق اس میں ہے تو اس شخص کی زیادتی کا سارا وبال اسی پر پڑے گا.(وہی نقصان اٹھائے گا اور تم اللہ تعالیٰ کے حضور سے صبر کا اجر پاؤ گے).454- عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا النَّجَاةُ؟ قَالَ امْسَكُ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَلْيَسَعُكَ بَيْتُكَ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ (ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء في حفظ اللسان (2406)
385 حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول سے نجات کیا ہے ؟ آپ صلی علیہ ہم نے فرمایا اپنی زبان کو روک کر رکھو، اپنا گھر مہمانوں کے لئے کھلا رکھو اور اپنی غلطیوں پر نادم ہو کر (اللہ کے حضور ) رویا کرو.455 - عَن ثَوْبَان رَضِي الله عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم طُوبَى لِمَنْ مَلكَ لِسَانَهُ ووَسِعَه بَيتُه وَبَكَى عَلَى خَطِيئَتِهِ (الترغيب والترهيب للمنذري ، كتاب الادب وغيره، الترغيب في العزلة لمن لا يأمن على نفسه عند الاختلاط 3968) حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کی زبان اس کے قابو میں ہو اس کا مکان (مہمانوں کے لئے ) کشادہ ہو اور وہ خدا کے حضور نادم ہو کر اپنی غلطیوں پر روتا ہو.456ـ عَن صفوان بن سليم قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم أَلَا أُخْبِركُمْ بِأَيْسَرِ الْعِبَادَةِ وأَهْوَنها عَلَى الْبَدَنِ ؟ الصُّمْتُ وَحُسْنُ الْخُلْقِ، رَوَاهُ ابْن أَبِي الدُّنْيَا فِي كتاب الصمت مرسلا (الترغيب والترهيب للمنذری ، کتاب الادب و غیره ، الترغيب الخلق الحسن و فضله...3840) حضرت صفوان بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی آسان عبادت نہ بتاؤں جو بجالانے کے لحاظ سے بڑی ہلکی ہے.خاموشی اختیار کرو بے ضرورت بات نہ کرو اور اچھے اخلاق اپناؤ.
386 آداب و امثال 457ـ عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِيَ اللَّهُ بِهِ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الْهُدَى، وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَتْ مِنْهَا طَائِفَةٌ طَيْبَةٌ، قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الكَلاَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، وَكَانَ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا مِنْهَا وَسَقَوْا وَرَعَوْا، وَأَصَابَ طَائِفَةً مِنْهَا أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانُ لَا تُمْسِكُ مَاءً، وَلَا تُنْبِتُ كَلَا، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللهِ، وَنَفَعَهُ بِمَا بَعَثْنِيَ اللَّهُ بِهِ، فَعَلِمَ وَعَلَّمَ ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعُ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ (مسلم کتاب الفضائل باب بیان مثل ما بعث به النبي له من الهدى 4218) الله حضرت ابو موسی سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا اس ہدایت اور علم کی مثال جس کے ساتھ اللہ عز و جل نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس بارش کی طرح ہے جو کسی زمین پر پڑی تو اس زمین کا ایک عمدہ حصہ تھا جس نے اس پانی کو قبول کر لیا اور کثرت سے جڑی بوٹیاں اور سبزہ اُگایا اور اس میں سے بعض سخت حصے تھے جنہوں نے پانی روک رکھا تو اللہ نے اس کے ذریعہ سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا اور لوگوں نے اس میں سے پانی پیا اور سیر اب کیا اور جانوروں کو چرایا.اس کے ایک حصہ کو پانی پہنچا جو چٹیل میدان ہے نہ تو پانی روکتا ہے نہ ہی کوئی سبزہ اُگاتا ہے.یہ مثال ہے اس کی جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اللہ نے اس کو اس ذریعہ سے فائدہ پہنچایا جس کے ساتھ اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے.پس اس نے سیکھا اور سکھایا اور اس کی مثال جس نے اس کے ساتھ اپنا سر اُٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اُس ہدایت کو جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے قبول نہ کیا.
387 شعر و شاعری 458ـ عَنْ صَخْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ إِنَّ مِنَ البَيَانِ سِحْرًا، وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ جَهْلًا، وَإِنَّ مِنَ الشَّعْرِ حُكْمًا، وَإِنَّ مِنَ الْقَوْلِ عِيَالًا (ابوداؤد کتاب الادب باب ما جاء في الشعر 5012) حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للی کم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بعض باتیں جادو کی طرح اثر انگیز ہوتی ہیں اور بعض علم مراحل جہالت کا مظہر ہوتے ہیں اور بعض شعر حکمت اور دانائی کے مضامین سے پر ہوتے ہیں اور بعض باتیں کہنے والے کے لئے مصیبت اور وبال کا باعث بن جاتی ہیں.459- عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّعْرُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ كَلَامُ فَسَنُهُ حَسَنُ ، وَقَبِيحُهُ قَبِيحُ (دار قطنی کتاب المكاتيب ، باب خبر الواحد يوجب العمل 4306 ) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم کے پاس شعر کے اچھے یا برے ہونے کا ذکر ہوا تو آپ مصلی می کنم نے فرمایا شعر ایک انداز کلام ہے جو اشعار عمدہ اور پاکیزہ مضامین پر مشتمل ہیں وہ اچھے ہیں اور جو گھٹیا اور محش مطالب کے حامل ہیں وہ برے اور مخرب اخلاق ہیں.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّعْرُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ كَلَامُ فَحَسَنُهُ حَسَنُ وَقَبِيحُهُ قَبِيحُ (مشكاة كتاب الادب باب البيان و الشعر ، الفصل الثالث 4807)
388 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ٹیم کے پاس شعر کے اچھے یا برے ہونے کا ذکر ہوا تو آپ صلی فیلم نے فرمایا شعر ایک اند از کلام ہے جو اشعار عمدہ اور پاکیزہ مضامین پر مشتمل ہیں وہ اچھے ہیں اور جو گھٹیا اور مخش مطالب کے حامل ہیں وہ برے اور مخرب اخلاق ہیں.460 - عَنْ عَمْرِو بْنِ الشّرِيدِ ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ رَدِفَتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ هَلْ مَعَكَ مِنْ شِعْرِ أُمَيَّةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ شَىءٍ ؟ قُلْتُ نَعَمْ، قَالَ هِيهُ فَأَنْشَدْتُهُ بَيْتًا فَقَالَ هِيهُ ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ بَيْتًا فَقَالَ هِيهُ حَتَّى أَنْشَدُتُهُ مِائَةً بَيْتٍ (مسلم کتاب الشعر باب في انشاء الاشعار و بیان اشعر كلمة...4171) عمرو بن شریہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا ایک دن میں رسول اللہ صلی نیلم کے پیچھے سوار تھا.آپ صلی کلام نے فرمایا کیا تمہیں امیہ بن ابی ملت کے کچھ اشعار یاد ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں.آپ نے فرمایا سناؤ تو میں نے آپ کو ایک شعر سنایا.آپ نے فرمایا اور سناؤ.میں نے پھر ایک شعر سنایا.آپ نے فرمایا اور پڑھو یہانتک کہ میں نے آپ صلی علیکم کو ایک سو 100 شعر سنائے.461ـ عن كعب بن مالكٍ أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قد أُنزِلَ فِي الشعرِ مَا أَنْزَلَ.فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَعَالَمَا تَرْمُونَهُمْ بِهِ نَفْحَ النَّبْلِ (مشكاة كتاب الادب باب البيان و الشعر الفصل الثاني 4795) حضرت کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی الی علم سے عرض کیا کہ حضور شعر اور شعراء کے بارہ میں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اس کا علم تو حضور کو ہے ( پھر میں کس طرح بذریعہ اشعار کفار کی ہجو لکھوں )
389 اس پر آپ صلی علیم نے فرمایا مومن کبھی تلوار سے جہاد کرتا ہے اور کبھی زبان سے.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم اس وقت (بذریعہ ہجو یہ اشعار) ایک طرح سے انہیں تیروں سے چھلنی کر رہے ہو.462 - عَنْ جُنْدَبِ بْنِ سُفْيَانَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَعْضِ المَشَاهِدِ وَقَدْ دَمِيَتْ إِصْبَعُهُ، فَقَالَ: هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعُ دَمِيتِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ (بخاری کتاب الجهاد باب من ينكب في سبيل الله 2802) اسود نے جندب بن سفیان سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ میں شریک تھے.آپ کی انگلی زخمی ہو گئی تو آپ نے یہ شعر پڑھا تو ایک انگلی ہی ہے جو زخمی ہوئی ہے اور جو تجھے تکلیف پہنچی ہے وہ اللہ کی راہ میں ہے تفریح و مزاح اور ورزش 463ـ عن قتادةَ قَالَ سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ: هَلْ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُونَ؟ قَالَ نَعَمْ وَالْإِيمَانُ فِي قُلُوبِهِمْ أَعْظَمُ مِنَ الْجَبَلِ.وَقَالَ بِلَالُ بْنُ سَعْدٍ: أَدْرَكْتُهُمْ يَفْتَذُونَ بَيْنَ الْأَغْرَاضِ وَيَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَإِذَا كَانَ اللَّيْلُ كَانُوا رُهْبَانًا (مشكاة كتاب الادب باب الضحك ، الفصل الثالث 4749) حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی علم کے صحابہ کبھی ہنستے بھی تھے ؟ انہوں نے جواب دیا.ہاں ہنستے تھے اور ایمان ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی عظیم تر تھا اور بلال بن سعد بیان کرتے ہیں کہ میں نے انہیں تیر اندازی کی مشق کرتے اور اس دوران ایک دوسرے پر ہنستے بھی
390 دیکھا ( یعنی وہ بڑے زندہ دل اور خوش مزاج تھے).لیکن جب رات ہوتی تو وہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں اس طرح محو ہوتے گویا وہ تارک الدنیا ہیں.464 عن يماك بي حزب، قال قلت يجابر بن سمرة: أكُنتَ تُجَالِسُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ نَعَمْ كَثِيرًا، كَانَ لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ قَامَ وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَيَأْخُذُونَ فِي أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم کتاب الفضائل باب تبسمه و حسن عشرته 4272) سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ سے کہا کیا آپ رسول اللہ صلی علیکم کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے ؟ انہوں نے کہاہاں، بہت کثرت سے آپ اپنے اس مصلی سے جس پر آپ صبح کی نماز پڑھا کرتے تھے نہ اٹھتے جب تک سورج طلوع نہ ہو جاتا.پھر جب (سورج) طلوع ہو جاتا تو آپ کھڑے ہوتے.(اور مجلس میں) لوگ باتیں کرتے ، جاہلیت کی باتوں کا تذکرہ کرنے لگ جاتے اور ہنستے اور حضور صلی نی نیم تبسم فرماتے.عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: أَكُنْتَ تُجَالِسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ نَعَمْ كَثِيرًا ، كَانَ لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ، أَوِ الْغَدَاةَ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ قَامَ ، وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ فَيَأْخُذُونَ فِي أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ (مسلم کتاب المساجد باب فضل الجلوس في مصلاه بعد الصبح 1066) سماک بن حرب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ سے پوچھا کیا آپ رسول اللہ صلی علیم کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا.ہاں بہت دفعہ.جب آپ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ سے نہ اٹھتے
391 یہانتک کہ سورج طلوع ہو جاتا اور جب سورج طلوع ہو جاتا تو آپ صلی علیہ کی اٹھتے.لوگ گفتگو کرتے اور (زمانہ) جاہلیت کی باتیں کیا کرتے اور ہنتے اور آپ تبسم فرماتے.465 - عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ جَالَسْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ مِائَةٍ مَرَّةٍ، فَكَانَ أَصْحَابُهُ يَتَنَاشَدُونَ الشَّعْرَ ، وَيَتَذَا كَرُونَ أَشْيَاءَ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ وَهُوَ سَاكِتْ، فَرُبَّمَا تَبَسَّمَ مَعَهُمْ (ترمذی کتاب الادب باب ما جاء فى انشاد الشعر (2850) حضرت جابر بن سمر کا بیان کرتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللی کم کی مجلس میں سو سے زیادہ دفعہ بیٹھنے کی سعادت ملی.صلى الم کے صحابہ ان مجالس میں (بعض اوقات) ایک دوسرے کو شعر بھی سناتے اور جاہلیت کے زمانہ کے واقعات کا ذکر بھی ہوتا.آپ صلی یہ کم خاموش ( بیٹھے باتیں سنتے ) رہتے اور بعض اوقات ان کی خوشی میں شامل ہونے کے لئے تبسم بھی فرماتے.466 - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ 6 697 غَزْوَةِ تَبُوكَ، أَوْ خَيْبَرَ وَفِي سَهْوَتِهَا سِترُ، فَهَبَّتِ الرِيحُ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السَّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ لُعَبٍ، فَقَالَ مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ ؟ قَالَتْ: بَنَاتِي، وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ، فَقَالَ مَا هَذَا الَّذِى أَرَى وَسْطَهُنَّ ؟ قَالَتْ: فَرَسٌ، قَالَ وَمَا هَذَا الَّذِي عَلَيْهِ؟ قَالَتْ: جَنَاحَانِ، قَالَ فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ ؟ قَالَتْ: أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ ؟ قالت: فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِدَهُ (ابو داؤد کتاب الادب باب اللعب بالبنات 4932 )
392 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلى ام غزوئہ تبوک یا غزوئہ حسنین سے واپس تشریف لائے اور حضرت عائشہ کے کمرہ کی الماری کے سامنے پردہ پڑا ہو اتھا.ہوا چلی تو پر دو ہٹا.وہاں حضرت عائشہ کی کچھ گڑیاں رکھی تھیں.حضور علیم نے پوچھا اے عائشہ ! یہ کیا ہے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا.یہ میری گڑیاں ہیں.ان گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا جس کے کاغذ کے دو پر تھے.آپ صلی اللی کرم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا یہ گھوڑا ہے.پھر آپ صلی ہیں ہم نے اس کے پروں کی طرف اشارہ کیا اور پو چھا یہ کیا ہے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا.یہ اس کے پر ہیں.حضور صلی این نم نے کچھ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا گھوڑا اور پر.؟ اس پر حضرت عائشہ نے معصومانہ انداز میں جواب دیا.کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان کے گھوڑوں کے پر پر کی تھے ؟ حضور صلی ا لم اس پر رکھکھلا کر ہنس پڑے.467.عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِي، قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ فَسَلَّمْتُ فَرَدَّ وَ قَالَ ادْخُلُ فَقُلْتُ أَكُلِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ كُلكَ فَدَخَلْتُ (ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء في المزاح (5000) حضرت عوف بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللی کم کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور چمڑے کے ایک چھوٹے سے خیمہ میں تشریف فرما تھے.میں نے حضور کو سلام عرض کیا.حضور نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اندر آجاؤ.میں نے عرض کیا حضور پورے کا پورا اندر آجاؤں.حضور نے فرمایا ہاں پورے کے پورے آجاؤ.اس پر میں خیمہ میں چلا گیا.
393 468 عَنْ أَنَي أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ الْمِلْنِي، قال النبى صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا حَامِلُوكَ عَلَى وَلَدٍ نَاقَةٍ قَالَ وَمَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ ؟ 3 فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ (ابوداؤد کتاب الادب ما جاء في المزاح 4998) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی یہ کام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یار سول اللہ ! مجھے سواری کا جانور مہیا فرمائیے.نبی صلی للی یکم نے فرمایا میں سواری کے لئے تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا.وہ کہنے لگا میں اونٹنی کا بچھ لے کر کیا کروں گا؟ اس پر نبی صلی نیلم نے فرمایا کیا اوٹ اونٹنی کا بچہ نہیں ہوتا ؟ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا اسْتَعْمَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ النَّاقَةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَلْ تَلِدُ الإِيلَ إِلَّا النُّوقُ؟ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى المزاح 1991) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم سے ایک شخص نے سواری کے لئے جانور مانگا.آپ نے اس سے فرمایا میں سواری کے لئے تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا.وہ کہنے لگا یارسول اللہ! میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ اس پر رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کیا اونٹ اونٹنی کا بچہ نہیں ہوتا؟ 469 - عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ (ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء في المزاح 5002) حضرت انس بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے ایک بار از راہ مزاح انہیں کہا ” اے دوکانوں والے“.
394 470ـ عن أنسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِامْرَأَةٍ عَجُورٍ: إِنَّهُ لَا تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَجُورٌ فَقَالَتْ: وَمَا لَهُنَّ ؟ وَكَانَتْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهَا: أَمَا تَقْرَئِينَ الْقُرْآنَ؟ إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنشَاء فجعلنا هُنَّ أَبْكَارًا (مشكاة كتاب الادب باب المزاح فصل الثاني 4888) الله الله حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الیم نے ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت سے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی.وہ عورت قرآن کریم پڑھتی تھی.گھبر ا کر کہنے لگی.حضور صلی الی یکم کس وجہ سے نہیں جائیں گی حضور علی ایم نے اس سے فرمایا کیا تو نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا ہے.إِذَا أَنْفَأَتَاهُنَّ إنشاء المعلما هُنَّ أَبْكَارًا کہ ہم نے انہیں (جنت والیوں کو ) نو عمر اور کنواریاں بنایا ( یعنی بوڑھی عورتیں بھی کنواری اور نو عمر بن کر جنت میں جائیں گی ).471- حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَاحِ ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا، حَتَّى يَقُولَ لأَحْ لِي صَغِيرٍ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ (بخاری کتاب الادب باب الانبساط الى الناس 6129) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا م ہم میں بے تکلف ہو کر گھل مل جایا کرتے تھے.بعض اوقات میرے چھوٹے بھائی کو پیار سے فرماتے اے ابو عمیر ! تمہارے نغیر کو کیا ہوا.(عمیر کے پاس ایک ممولہ تھا جس کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا اور وہ مر گیا تھا).عَنْ أَنَسٍ قَالَ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ لَيَقُولُ لاج لي صَغِيرٍ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النَّغَيْرُ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى المزاح (1989)
395 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی لی کہ ہم میں بے تکلف ہو کر گھل مل جایا کرتے تھے.بعض اوقات میرے چھوٹے بھائی کو پیار سے فرماتے اے ابو عمیر ! تمہارے نغیر کو کیا ہوا؟ عَن أنس قَالَ إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى يَقُولُ لِأَحْ لِي صَغِيرٍ يا أبا عمير ما فعل النغَيْرُ ؟ كَانَ لَهُ نُغَيْرُ يَلْعَبُ بِهِ فَات (مشكاة كتاب الادب باب المزاح الفصل الاول 4884) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا ہم ہم میں بے تکلف ہو کر گھل مل جایا کرتے تھے.بعض اوقات میرے چھوٹے بھائی کو پیار سے فرماتے اے ابو عمیر ! تمہارے تغیر کو کیا ہوا؟ عمیر کے پاس ایک ممولہ تھا جس کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا اور وہ مر گیا تھا.472ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا، قَالَ إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا (ترمذی کتاب البر باب ماجاء في المزاح (1990) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ (کسی بات پر ) لوگوں نے کہا یار سول اللہ ! آپ بھی کبھی کبھی ہم سے مزاح کر لیتے ہیں.آپؐ نے فرمایا میں حق کے سوا کچھ اور نہیں کہتا( یعنی میرے مزاح میں خوش مزاجی کے علاوہ حکمت، سچائی، بھلائی بھی ہوتی ہے جس کی طرف متوجہ کرنا مقصد ہوتا ہے ).473 - عن أبي هريرةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤْمِنُ القوى، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضّعِيفِ، وَفِي كُلّ خَيْرٌ اخْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ
396 وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ، فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ (مسلم کتاب القدر باب فى الامر بالقوة وترك العجز...4802) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا کہ طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ پیارا ہے جو بھی تیرے لئے مفید ہے تو اس کی خواہش رکھ اور اللہ سے مدد طلب کر اور ہمت نہ ہار اور اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو یہ مت کہہ کہ اگر میں (ایسا) کرتا تو یہ یہ ہو جا تا بلکہ کہو کہ اللہ کی تقدیر تھی جو اس نے چاہا سو کیا کیونکہ (لفظ) لو ( یعنی اگر تو شیطان کے لئے راہ کھول دیتا ہے.474 ـ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ قَالَتْ: فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلَى رِجْلَى، فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ فَسَبَقَنِي فَقَالَ هَذِهِ بِتِلْكَ السَّبْقَةِ (ابو داؤد كتاب الجهاد باب في السبق على الرجل 2578) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ وہ نبی صلی للی نام کے ساتھ ایک سفر میں تھیں.وہ کہتی ہیں میں نے آپ سے دوڑ کا مقابلہ کیا.میں اس دوڑ میں آپ سے آگے نکل گئی.جب میر اوزن زیادہ ہو گیا تو میں نے آپ سے مقابلہ کیا تو آپ آگے بڑھ گئے فرمایا یہ اس کی جگہ ہے.
397 قسم کھانے کے آداب 475 - عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ عُمر بن الخطابِ، وَهُوَ يَسِيرُ فِي رَكْبٍ، يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ أَلا إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بآبَائِكُمْ، مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفُ بِاللَّهِ أَو لِيَعْمُتُ (بخاری کتاب الایمان باب لا تحلفوا بآبائكم 6646) عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم حضرت عمر بن خطاب سے آملے اور وہ ایک قافلہ کے ساتھ جارہے تھے ، وہ اپنے باپ کی قسم کھارہے تھے.آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا دیکھو اللہ تمہیں منع فرماتا ہے کہ تم پنے باپ دادوں کی قسمیں کھاؤ، جس نے قسم کھانی ہی ہو تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے.476 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَةَ، تمييك وأت الذى هو خير دو، (بخاری کتاب الایمان ، باب قول الله تعالى لا يؤاخذكم الله بالغو في أيمانكم (6622) حضرت عبد الرحمن بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے مجھے فرمایا کہ اگر تو کسی کام کے متعلق قسم کھالے اور پھر تجھے اس سے بہتر کوئی بات نظر آئے تو اس قسم کو توڑ کر اس بہتر بات کو کر لو اور قسم (توڑنے) کا کفارہ ادا کر دو.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ الرحمن بن سمرةً، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِن أَعْطِيعَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وَكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ
398 أَعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا ، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ، وَانْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ (مسلم کتاب الایمان باب ندب من حلف يمينا فراى غيرها خير منها...3106) حضرت عبد الرحمان بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا کہ اے عبد الرحمان بن سمرہ! (کبھی) امارت طلب نہ کرنا کیونکہ اگر تجھے مانگنے پر یہ (امارت ) دی گئی تو تمہیں اس کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا اور اگر بن مانگے یہ تمہیں دی گئی تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی اور جب تم قسم کھاؤ پھر دوسری بات اس سے بہتر دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کر لوجو بہتر ہے.ہر اچھا کام دائیں طرف سے شروع کرنے کی ہدایت 477ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا انْتَعَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأُ بِاليَمِينِ، وَإِذَا نَزَعَ فَلْيَبْدَأُ بِالشِّمَالِ، لِتَكُنِ اليُمْنَى أَوَلَهُمَا تُنْعَلُ وَاخِرَهُمَا تُنْزَعُ (بخارى كتب اللباس باب ينزع نعله اليسرى 5855) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا جب کوئی شخص جوتی پہننے لگے تو پہلے دایاں پاؤں پہنے اور جب اتارنے لگے تو پہلے بایاں پاؤں اتارے تا کہ شروع میں بھی دائیں طرف کا خیال رہے اور آخر میں بھی.
399 478 - عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ التَّيَقُنَ مَا استطاع في مايو كله، في ظُهُورِهِ وَتَرْجُلِهِ، وَتَعْلِهِ (ابو داؤد کتاب اللباس باب في الانتعال 4140) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ال کی حتی الامکان تمام کام دائیں طرف سے شروع کرنا پسند ا فرماتے تھے.یہاں تک کہ وضو یا غسل کرنے، کنگھی کرنے اور جو تا پہنے میں بھی.479- عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِي بِشَرَابِ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلامٌ ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَشْيَاخٌ، فَقَالَ لِلْغُلَامِ : أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَ هَؤُلَاءِ، فَقَالَ الغُلَامُ : لَا وَاللَّهِ لَا أُوثِرُ بِنَصِيبِي مِنْكَ أَحَدًا، فَتَلَّهُ فِي يَدِهِ (بخاری کتاب الهبة باب الهبة المقبوضة وغير المقبوضة......2605) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی اور آپ کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر والے.آپ نے اس لڑکے سے فرمایا کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں ان کو دے دوں ؟ تو اس لڑکے نے کہا اللہ کی قسم! آپ سے جو حصہ مجھے ملے ، میں تو اسے کسی کو بھی نہ دوں گا.اس پر آپ نے وہ پیالہ اس کے ہاتھ میں دے دیا.
400 لباس اور اس کے آداب 480 - عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمُ البَيَاضَ ، فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَا بِكُمْ، وَكَفْنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ (ترمذی کتاب الجنائز باب ما يستحب من الاكفان (994) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یم نے فرمایا سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ یہ بہترین لباس ہے.اسی طرح سفید کپڑوں میں ہی کفن دیا کرو.481 ـ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ أَحَبَّ القِيَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القَمِيصُ (ترمذی کتاب اللباس باب ما جاء في القمص 1764) حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ ہم کو کپڑوں میں سے قمیص بہت پسند تھی.482 - عن أبي سَعِيدٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَجَنَّ قَوْبًا سَمَاهُ بِاسْمِهِ، عِمَامَةٌ ، أَوْ قَمِيصًا، أَوْ رِدَاءَ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ، أَسْأَلُكَ خَيْرَهُ وَخَيْرَ مَا صُبعَ لَهُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ هَزِهِ وَهَرَ مَا صُنِعَ لَهُ (ترمذی کتاب اللباس باب ما يقول اذا لبس ثوبا جديدا 1767) حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی علی کم نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے مثلاً عمامہ، قمیص، چادر.پھر آپ صلی علیہ ہم دعا کرتے کہ اے میرے اللہ ! تو ہی تعریف کا مستحق ہے، تو نے مجھے یہ کپڑا پہنایا، میں تجھ سے اس کپڑے کے فائدے مانگتا ہوں اور اس کی خیر چاہتا ہوں اور اس کی بھی جس کے لئے یہ بنایا گیا اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کپڑے کے نقصان اور اس مقصد کے شر سے جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے.
401 483ـ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ فِي لُبْسِ الحرير، حكة بهما (بخاری کتاب اللباس باب ما يرخص للرجال من الحرير للحكة 5839) ย حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یکم نے حضرت زبیر اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کو ریشم پہننے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی کیونکہ ان دونوں کو خارش کی شکایت تھی اور یہ لباس اس مرض کے لئے مفید ہے ).484ـ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ يَا أَسْمَاءُ، إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ يَصْلُحُ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا وَأَهَادَ إِلَى وَجْهِهِ وَ كَفَّيْهِ (ابوداؤد کتاب اللباس باب فيما تبدى المراة من زينتها 4104) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی علی ایم کے پاس اس حالت میں آئیں کہ وہ بار یک کپڑا پہنے ہوئے تھیں رسول اللہ صلی الیم نے ان سے اعراض کیا اور فرمایا اے اسماء جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ منہ اور ہا تھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی اور حصہ نظر آئے.485 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبَهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ، وَالْمُتَشَبِهِينَ مِنَ الرَّجَالِ بِالنِّسَاءِ (ابوداؤد کتاب اللباس باب في لباس النساء 4097)
402 حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی علی کرم نے ایسی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ایسے مردوں پر بھی لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں (یعنی عورتیں مردانہ اور مر دزنانہ لباس اور اند از بود و باش اختیار نہ کریں).سفر اور اس کے آداب 486- عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، انْذَنَ لِي بِالشِيَاحَةِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ سِيَاحَةَ أُمَّتِي الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عز وجل (ابو داؤد کتاب الجهاد باب النهي عن السياحة 2486) حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے سیاحت کی اجازت دیجئے.نبی صلی ا ہم نے فرمایا میری امت کی سیاحت اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد ہے.487 - عن أبي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤْمِرُوا أَحَدَهُمْ (ابوداؤد کتاب الجهاد باب في القوم يسافرون یو مرون احدهم 2608) الله حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا جب تین سفر میں نکلیں تو چاہئے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں.
403 488- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُول الله، إلي أريد أن أسافر فَأَوْصى، قَالَ عَلَيْكَ يتقوى الله، والتكبير عَلَى كُل عَرَف، قلها أن ولى الرَّجُلُ، قَالَ اللَّهُم الطولَهُ البُعْدَ، وَهَوْنَ عَلَيْهِ السَّفَرَ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما يقول اذا ودع انسانا (3445) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں سفر پر جانا چاہتا ہوں.آپ ! مجھے کوئی نصیحت کیجئے.آپ صلی الی یکم نے فرمایا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.جب بھی بلندی پر چڑھو تکبیر کہو.جب وہ آدمی واپس ہوا تو آپ صلی للی یکم نے دعا کی.اے اللہ ! اس کی دوری کو لپیٹ دے ( یعنی اس کا سفر جلد طے ہو ) اور اس کا سفر آسان کر دے.489 - أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، كَانَ يَقُولُ لَقَلَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ إِذَا خَرَجَ فِي سَفَرٍ إِلَّا يَوْمَ الخَمِيسِ (بخاری کتاب الجهاد باب من اراد غزوة فورى بغيرها......2949) حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے تھے کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں جمعرات کے سوا اور کسی دن نکلیں.عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الخَمِيسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَكَانَ يُحِبُّ أَنْ يَخْرُجَ يَوْمَ الخَمِيسِ (بخاری کتاب الجهاد باب من اراد غزوة فورى بغيرها......2950) عبد الرحمن بن کعب بن مالک نے اپنے باپ (حضرت کعب بن مالک ) رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی یکم غزوئہ تبوک کے لئے جمعرات کے دن نکلے اور آپ جمعرات کے دن سفر پسند کرتے تھے.
404 490- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمِّنِي فِي بُكُورِهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ ابن ماجه کتاب التجارات باب ما يرجى من البركة في البكور 2237) حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول الله صلى الم نے کہا اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ اے اللہ ! میری امت کے لئے جمعرات کی صبح کو بابرکت بنادے 491- عن قطر العَامِدِي قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُم بَارِك لأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا، قَالَ وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةٌ، أَوْ جَيْشًا، بَعَثَهُمْ أَوَّلَ النَّهَارِ، وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تاجِرًا، وَكَانَ إِذَا بَعَثَ تِجَارَةً بَعَهُمْ أَوَّلَ النَّهَارِ، فَأَثْرَى وَكَثُرَ مَالُهُ (ترمذی کتاب البيوع باب ما جاء فى التبكير بالتجارة 1212) الله حضرت صخر الغامدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم یہ دعا کیا کرتے تھے.اے میرے خدا! میری امت کو صبح جلدی کام شروع کرنے میں برکت دے اور جب کوئی مہم یا لشکر بھجوانا ہو تا تو دن کے پہلے حصہ میں اسے روانہ کرتے.(اس حدیث کے راوی ) حضرت صخر تاجر تھے ، وہ (حضور صلی این نیم کے اس ارشاد کی تعمیل میں ) اپنا تجارتی مال دن کے پہلے حصہ میں روانہ کرتے.آپ کو ہمیشہ خوب فائدہ ہو تا اور بہت نفع ملتا.492 - أَنَّ عَلِيًّا الْأَزْدِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنِ عُمَرَ عَلَمَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى بَعِيرِهِ خَارِجًا إِلَى سَفَرٍ، كَبَّرَ ثَلَاثًا ، ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوَنُ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْقَاءِ السَّفَرِ، وَكَابَةِ
405 الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ ، وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ وَزَادَ فِيهِنَّ: آيبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبَّنَا حَامِدُونَ (مسلم کتاب الحج باب ما يقول اذا ركب الى سفر الحج وغيره2378) حضرت ابن عمرؓ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی علیکم جب سفر پر نکلتے ہوئے اپنے اونٹ پر بیٹھتے تو تین دفعہ اللہ اکبر کہتے.پھر کہتے پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لئے مسخر کیا اور ہم اس کو زیر نگیں کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور یقینا ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.(الزخرف : 14، 15 ) اے اللہ ! ہم اپنے اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقویٰ اور ایسے عمل کی توفیق چاہتے ہیں جس سے تو راضی ہو جائے.اے اللہ ! ہم پر ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کے فاصلہ کو (بسہولت) طے کرا دے.اے اللہ ! سفر میں بھی تو ہی ساتھی ہے اور گھر میں بھی تو ہی جانشین.اے اللہ ! میں سفر کی مشقت ، کسی اندوہناک منظر اور مال اور گھر کے لحاظ سے بُری واپسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور جب واپس تشریف لاتے تو یہی الفاظ کہتے اور ان میں یہ اضافہ فرماتے ہم لوٹنے والے، تو بہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں.493.سَمِعْتُ خَوْلَةٌ بِنْتَ حَكِيمِ السُّلَمِيَّةَ، تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ نَزَلَ مَنْزِلًا ثُمَّ قَالَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ، حَتَّى يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ذَلِكَ (مسلم كتاب الذكر باب فى التعوذ من سوء القضاء ودرك الشفاء وغيره 4867) حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں نے حضرت خولہ بنت حکیم سلمی سے سنا وہ کہتی تھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو کسی جگہ پر قیام کرے پھر یہ کہے کہ أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِ مَا خَلَقَ میں اللہ کے کامل کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی تو کوئی چیز اسے نقصان نہیں دے گی یہاں تک کہ وہ اس جگہ سے چلا جائے.
406 494- قَالَ كَعْبُ......وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ، فَيَرْكَعُ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ (بخاری کتاب المغازی باب حديث كعب بن مالک...4418) حضرت کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ (جب آنحضرت صلی اللہ ہم سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور وہاں دور کعت نفل نماز پڑھتے.استقبال اور الوداع 495- عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَبُوكَ خَرَجَ النَّاسُ يَتَلَقَّوْنَهُ إِلَى ثَنِيَّةِ الوَدَاعِ، قَالَ السَّائِبُ فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ وَأَنَا غُلَامٌ (ترمذی کتاب الجهاد باب ما جاء فى تلقى الغائب اذا قدم (1718) حضرت سائب بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علم غزوئہ تبوک سے واپس آئے تو مدینہ کے لوگ ثنیہ الوداع تک آپ صلی علی ظلم کے استقبال کے لئے پہنچے.سائب کہتے ہیں کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ گیا تھا.اس وقت میں چھوٹی عمر کا لڑکا تھا.496- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلْقِيَ بِالصَّبْيَانِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ قَالَ وَإِنَّهُ قَدِمَ مَرَّةً مِنْ سَفَرٍ قَالَ فَسُبِقَ بِي إِلَيْهِ قَالَ فَحَمَلَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ ثُمَّ جِيءَ بِأَحَدِ ابْنَى فَاطِمَةَ، إِمَّا حَسَنٌ، وَإِمَّا حُسَيْنُ، فَأَرْدَفَهُ جی خَلْفَهُ.قَالَ فَدَخَلْنَا الْمَدِينَةَ ثَلَاثَةً عَلَى دَابَّةٍ (مسند احمد بن حنبل، مسند اہل بیت رضوان الله عليهم ، حدیث عبد الله بن جعفر بن ابي طالب (1743)
407 حضرت عبد اللہ بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی یکم جب سفر سے واپس آتے تو اہل بیت کے بچے بھی آپ صلی للی یکم کے استقبال کے لئے جاتے ایک دفعہ جب آپ صلی میں کم سفر سے آئے تو سب سے پہلے مجھے آپ صلی الیکم تک پہنچایا گیا.آپ صلی میں کم نے مجھے گود میں اٹھا لیا.پھر حضرت فاطمہ کے دو بیٹوں امام حسن یا امام حسین میں سے کسی ایک کو لایا گیا.تو آپ صلی می کنم نے اسے اپنے پیچھے بٹھا لیا.اس طرح مدینہ منورہ میں ( اس شان سے) داخل ہوئے کہ ایک اونٹ پر ہم تین سوار تھے.497ـ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ مَشَى مَعَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَى بَقِيعِ الْغَرْقَدِ ثُمَّ وَجَهَهُمْ وَقَالَ انْطَلِقُوا عَلَى اسْمِ اللهِ ، وَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنُهُمْ - يَعْنِي النَّفَرَ الَّذِينَ وَجَهَهُمْ إِلَى كَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ (مسند احمد بن حنبل ، منسد بنی ہاشم ، ، مسند عبد الله بن العباس بن ع مطلب (2391) م الله حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یکم ایک فوجی مہم میں بھیجے جانے والے صحابہ کو الوداع کہنے کے لئے ان کے ساتھ بقیع الغرقد تک گئے.ان کو رخصت کیا اور ان کے لئے یوں دعا کی.اللہ کے نام پر یعنی اس کی رضا اور اس کے دین کی خدمت کے لئے جانا نصیب ہو.اے میرے اللہ ! تو ان کی مدد کر.یہ مہم کعب بن اشرف کی شرارتوں کے قلع قمع کرنے کے لئے آپ ملی ٹیم نے بھیجی تھی.
408 آداب ملاقات اور سلام کا رواج 498 ـ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاكُمْ كَرِيمُ قَوْمٍ فَأَكْرِمُوهُ ابن ماجه کتاب الادب باب اذا اتاکم کریم قوم فاکرموه 3712) حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا سر دار یا معزز آدمی آئے تو (اس کی حیثیت کے مطابق) اس کی عزت و تکریم کرو.499.عَن عبد اللهِ بن عَمر و رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم زُرْغِبًا تَزْدَدُ حُبًّا - رَوَاهُ الطَّبَرَانِي (الترغيب والترهيب للمنذرى ، كتاب البر والصلة باب الترغيب في زيارة الاخوان والصالحين...3900) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا وقفہ دے کر اور کبھی کبھی ملنے سے محبت زیادہ ہوتی ہے.(روز روز ملنے چلے آنے سے چاہت کم ہو جاتی ہے).500 - عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ، قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي المدينة....قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَاهُ تَدْخُلُونَ الجَنَّةَ بِسَلَامٍ (ترمذی کتاب صفة القيامة والرقائق باب ما جاء فى صفة اواني الحوض (2485) حضرت عبد اللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی لی نام مدینہ تشریف لائے.آپ نے فرمایا اے لوگو! سلام کو رواج دو، ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ.صلہ رحمی کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں.(اگر تم ایسا کرو گے) تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے.
409 501 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضى اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سأل النبي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم أَيُّ الإِسْلَامِ خَيْرُ ؟ قَالَ تُطْعِمُ الطَعَامَ ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفُ (بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام 12) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اسلام کا کونسا عمل بہترین ہے ؟ فرمایا ( یہ کہ) تو کھانا کھلائے اور سلامتی کی دعا کرے،اس کے لئے جس کو تو جانتا ہے اور اس کے لئے بھی جسے تو نہیں جانتا.502- عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرٌ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَالَ عِشْرُونَ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَالَ ثَلَاثُونَ (ابو داؤد کتاب الادب ابواب السلام باب كيف السلام ؟ 5195) حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی کم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے السلام علیکم کہا آپ صلی للی کم نے اس کے سلام کا جواب دیا.جب وہ بیٹھ گیا تو نبی صلی ا ہم نے فرمایا اس شخص کو دس گنا ثواب ملا ہے.پھر ایک اور شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا حضور صلی ا یم نے سلام کا جواب دیا.جب وہ بیٹھ گیا تو آپ صلی علیہ کم نے فرمایا اس کو بیس گنا ثواب ملا ہے.پھر ایک اور شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا آپ صلی یم نے انہی الفاظ میں اس کو جواب دیا.جب وہ بیٹھ گیا تو آپ صلی یکم نے فرمایا اس شخص کو تیس گنا ثواب ملا ہے.الله
410 503 - قَال أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى أَهْلِكَ فَسَلِّمْ يَكُونُ بَرَكَةٌ عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِكَ (ترمذی کتاب الاستئذان والادب باب ماجاء فى التسليم اذا دخل بيته 2698) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کرم نے مجھے فرمایا اے میرے بیٹے !جب تم گھر جاؤ تو سلام کہو اس طرح تجھے بھی برکت ملے گی اور تیرے خاندان کو بھی.504 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يُسَلِّمُ الرّاكِبُ عَلَى الماشي، والماشِي عَلَى القَاعِدِ، وَالقَلِيلُ عَلَى الكَثِيرِ (بخاری کتاب الاستئذان باب تسليم الماشي على القاعد (6233) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھنے والے کو اور تھوڑے زیادہ آدمیوں کو سلام کریں (یعنی سلام میں پہل کریں).505 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ إِذَا لَقِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمُ عَلَيْهِ، فَإِنْ حَالَتْ بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ جِدَارٌ، أَوْ حَجَرٌ ثُمَّ لَقِيَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ أَيْضًا (ابوداود کتاب الادب ابواب السلام باب فى الرجل يفارق الرجل ثم يلقاه اسلم عليه؟ 5200) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں (آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے فرمایا) جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے کہے پھر جب کوئی درخت یا دیوار یا پتھر درمیان میں حائل ہو جائے یعنی وہ ایک دوسرے سے اوجھل ہو جائیں اور دوبارہ آپس میں ملیں تو پھر ایک دوسرے کو سلام کہیں.سلام-
411 506ـ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ لَهَا جَاءَ أَهْلُ الْيَمَنِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَكُمْ أَهل اليَمَنِ، وَهُمْ أَولُ مَنْ جَاءَ بِالْمُصَافَةِ ابو داؤد کتاب الادب ابواب السلام باب في المصافحة (5213) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ جب اہل یمن آئے تو رسول اللہ صلی المینیوم نے فرمایا تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مصافحہ کو رواج دیا.507 - عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَمَامُ عِيَادَةِ المَرِيضِ أَنْ يَضَعَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ أَوْ قَالَ عَلَى يَدِهِ فَيَسْأَلُهُ كَيْفَ هُوَ، وَتَمَامُ تَحِيَّتِكُمْ بَيْنَكُمُ المُصَافَةُ (ترمذی کتاب الاستئذان والادب باب ما جاء في المصافحة (2731) حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ ہم نے فرمایا عیادت کا ایک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی مریض کے پاس جائے اس کی پیشانی یا نبض کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کا حال احوال پوچھے اور آپس میں ملنے ملانے کا عمدہ طریق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملتے وقت مصافحہ کرو.عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم قَالَ تَمَامُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ أَنْ يَضَعَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ أَوْ عَلَى يَدِهِ فَيَسْأَلَهُ: كَيْفَ هُوَ ؟ وَتَمَامُ تَحِيَّاتِكُمْ بَيْنَكُمُ الْمُصَافَحَةُ (مشكاة المصابيح ، كتاب الادب، باب المصافحة و المعانقة ، الفصل الثاني 4681
412 حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا عیادت کا ایک عمدہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی مریض کے پاس جائے اس کی پیشانی یا نبض کی جگہ پر اپناہاتھ رکھ کر اس کا حال احوال پوچھے اور آپس میں ملنے ملانے کا عمدہ طریق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملتے وقت مصافحہ کرو.508ـ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبِ الْعَدَوِنِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَنَزَةَ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي ذَرٍ حَيْثُ سُيْرَ مِنَ الشَّامِ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِذَا أُخْبِرِكَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ سِرًّا قُلْتُ إِنَّهُ لَيْسَ بِسِرٍ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَافِحُكُمْ إِذَا لَقِيتُمُوهُ ؟ قَالَ مَا لَقِيتُهُ قَدْ إِلَّا صَافَحَنِي، وَبَعَثَ إِلَى ذَاتَ يَوْمٍ وَلَمْ أَكُن فِي أَهْلِي فَلَمَّا جِئْتُ أخْبِرْتُ أَنَّهُ أَرْسَلَ إِلَى، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ عَلَى سَرِيرِهِ فَالْتَزَمَنِي، فَكَانَتْ تِلْكَ أَجْوَدَ وَأَجْوَدَ (ابوداؤد کتاب الادب، ابواب السلام ، باب في المعانقة 5214) حضرت ایوب بن بشیر قبیلہ عنزہ کے ایک شخص کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ اس شخص نے حضرت ابوذر ( غفاری) سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی کم وقت ملاقات آپ لوگوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے.اس پر حضرت ابو ذر نے بتایا کہ میں جب کبھی بھی رسول اللہ صلی الی یکم سے ملا مصافحہ کیا ہے.بلکہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی علی نکم نے مجھے بلا بھیجا.میں اس وقت گھر پر نہیں تھا.جب میں گھر آیا اور مجھے بتایا گیا تو میں حضور علی ای کم کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور اس وقت بستر پر تھے.حضور صلی الی یکم نے مجھے اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا اور معاللہ کیا.اس خوش نصیبی کے کیا کہنے.
413 509ـ عَنِ الشَّعْبِي، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَلَقَّى جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَالْتَزَمَهُ، وَقَبْلَ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ (ابو داؤد کتاب الادب، ابواب النوم ، باب في قبلة بابين العينين (5220) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ نبی صلی لی تم اپنے چچازاد بھائی جعفر بن ابی طالب سے ملے تو آپ نے ( بوقت ملاقات) ان سے معانقہ کیا اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیا.510 - عَنْ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رَقِيقَةٌ، قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَابِعَهُ، فَقَالَ إِنِّي لَسْتُ أَصَافح النِّسَاءَ (مسند ابی حنیفه کتاب الادب باب بيان الخلق الحسن 456) حضرت امیمہ بنت رقیقہ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی صلی یکم کی خدمت میں بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی تو حضور صلی الیم نے فرمایا میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ( یا عورتوں کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت نہیں لیتا).511 - شَهْرَ بْن حَوْشَبٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ، تُحَدِثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ فِي المَسْجِدِ يَوْمًا وَعُصْبَةٌ مِنَ النِّسَاءِ قُعُودٌ، فَأَلْوَى بِيَدِهِ بِالتَّسْلِيم (ترمذى كتاب الاستئذان والادب باب ما جاء فى التسليم على النساء (2697) ها الله سة حضرت اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الی کی ایک دن مسجد میں سے گزرے.وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی تھی.آپ صلی اللہ ہم نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کو سلام کیا.
414 512.عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ كُنْتُ أَخُذُ بِيَدِ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْمَسْجِدِ، فَانطَلَقْتُ مَعَهُ وَهُوَ مُنصرِفْ إِلَى بَيْتِهِ، فَلَا يَمْرُ عَلَى أَحَدٍ صَغِيرٍ وَلا كَبِيرٍ، مُسْلِمٍ وَلَا نَصْرَانِي، إِلَّا سَلَّمَ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا انْتَهَى إِلَى بَابِ دَارِهِ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي، أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَفْشِي السَّلَام (عمل الیوم والليلة ( لابن السني) باب كيف افشاء السلام 216) محمد بن زیاد بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ باہلی کا ہاتھ مسجد میں پکڑے ہوئے تھا اور وہ گھر کی طرف واپس آرہے تھے راستہ میں چھوٹا بڑا مسلمان، عیسائی جو کوئی بھی ملتا آپ اسے سلام کہتے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کے دروازہ پر پہنچ گئے.یہاں پہنچ کر انہوں نے کہا اے بھتیجے ! ہمارے نبی صلی این کلم نے اس طرح سے سلام پھیلانے کا حکم فرمایا ہے.513 - عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَسَامَةُ بْن زَيْدٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا.....حَتَّى مَرَّ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاط مِنَ المُسْلِمِينَ وَالمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النّبي صلى الله عليه وسلّم..واليهود.(بخاری کتاب الاستئذان باب التسليم في مجلس فیہ اخلاط من المسلمين و المشركين 6254) حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی میں کم گدھے پر سوار ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان، مشرکین، بت پرست، یهودسه دسب.جلے بیٹھے تھے آپ صلی ا یہ کلم نے ان کو السلام علیکم کہا.علی 514- عدقنا أنس بن مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الكِتَابِ فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ (بخاری کتاب الاستئذان باب كيف يرد اهل الذمة السلام 6258)
415 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے فرمایا جب تم کو اہل کتاب سلام کریں تو اس کے جواب میں وعلیکم کہو.نوٹ :.یہ دراصل ایسے مخالف کے بارہ میں ہے جو منافق طبع ہو.مدینہ کے بعض یہود ظاہراً تو سلام کرتے تھے لیکن زبان کو لوچ دیکر السلام علیکم کی بجائے السلام علیکم کہہ جاتے تھے یعنی تم پر موت اور ہلاکت آئے.اس قسم کے حالات میں یہ ہدایت دی گئی کہ اگر تمہیں اس قسم کی شرارت کا خدشہ ہو تو تم جواب میں صرف و علیکم کہہ دیا کرو یعنی تم پر بھی وہی ہو جو تم ہمارے لئے چاہ رہے ہو.گھر کے اندر جانے اور اس کے لیے اجازت لینے کے آداب 515 عن ربعِي، قَالَ حَدَّثَنَا رَجُلٌ مَنْ بَنِي عَامِرٍ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتٍ فَقَالَ : أَأَجُ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَادِمِهِ: اخْرُجْ إِلَى هَذَا فَعَلِمُهُ الاِسْتِئَذَانَ، فَقُلْ لَهُ: قُلِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ، أَأَدْخُلُ؟ فَسَمِعَهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ فَأَذِنَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ (ابو داؤد کتاب الادب، ابواب السلام ، باب كيف الاستئذان (5177) حضرت ربعی بن حراش بیان کرتے ہیں کہ بنی عامر کے ایک آدمی نے ہمیں بتایا کہ ایک دفعہ اس نے نبی صلی للی کم سے اجازت مانگی جبکہ آپ صلی للی کم گھر میں تشریف فرما تھے کہ اندر آجاؤں؟ آپ صلی یکم نے اپنے خادم کو کہا جاؤ اور اس سے کہو کہ اندر آنے کی اجازت اس طرح مانگتے ہیں.پہلے السلام علیکم کہیں، پھر پوچھیں کیا میں اندر آسکتا
416 ہوں؟ جب اس آدمی نے یہ بات سنی تو ایسا ہی کیا.سلام کہا پھر عرض کیا.اندر آسکتا ہوں؟ نبی صلی الی کلم نے فرمایا اجازت ہے آجاؤ.چنانچہ وہ اندر حاضر ہو گیا.516 - عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَسْتَأْذِنُ عَلَى أُمّي ؟ فَقَالَ نَعَمْ، قَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي مَعَهَا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَأْذِنَ عَلَيْهَا، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي خَادِمُهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَأْذِنَ عَلَيْهَا ، أَتُحِبُّ أَنْ تَرَاهَا عُرْيَانَةً؟ قَالَ لَا، قَالَ فَاسْتَأْذِنَ عَلَيْهَا (موطا امام مالک کتاب الاستئذان باب الاستئذان 1796) حضرت عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی الی نام سے دریافت کیا کہ کیا میں گھر میں داخل ہوتے وقت اپنی ماں سے بھی اندر آنے کی اجازت لوں.آپؐ نے فرمایا ہاں اجازت لے کر گھر میں داخل ہونا چاہئے.اس شخص نے کہا میں تو ماں کے ساتھ ہی اس گھر میں رہتا ہوں.رسول اللہ صلی یم نے فرمایا اجازت لے کر اندر داخل ہوا کرو.اس شخص نے کہا میں تو اس کا خادم ہوں.رسول اللہ صلی ا ہم نے پھر فرمایا گھر میں اطلاع دے کر داخل ہوا کرو.کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اپنی ماں کو ننگی حالت میں دیکھو ( یعنی وہ بے خیالی میں اس حالت میں بیٹھی ہو کہ اس کے جسم کے کسی حصہ پر کپڑا نہ ہو).اس شخص نے عرض کیا ( میں تو اسے پسند ) نہیں کرتا).آپؐ نے فرمایا پھر اجازت لے کر اندر جایا کرو.(یعنی بغیر اجازت، خواہ اپنی ماں کا ہی گھر ہو، اندر نہیں جانا چاہئے کیونکہ اکیلے ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ کپڑے وغیر ہ بدل رہی ہوں یا گرمی کی وجہ سے کپڑے اتار کر لیٹی ہوں یا نہار ہی ہوں.کئی احتمالات ہیں).
417 صحبت صالحین اور آداب مجلس 517ـ عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالْجَلِيسِ السَّوْءِ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ، وَنَافِحِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيْبَةٌ ، وَنَافِخُ الْكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُخْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ بيعا حبيقة (مسلم کتاب البر والصلة باب استحباب مجالسة الصالحين و مجانبة قرناء السوء4748) الله حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی صلی ال یکم نے فرمایا اچھے ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی جھو نکنے والے کی سی ہے.خوشبو والا یا تو تجھے (خوشبو) دے دے گا یا تو اس سے خرید لے گا یا کم از کم تجھے اس سے اچھی خوشبو تو آجائے گی اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا تجھے اس سے بد بو آئے گی.518ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الرَّجُلُ عَلَى دین فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ خليله (ابوداؤد کتاب الادب باب من يؤمر ان يجالس 4833) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الیکم نے فرمایا انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے (یعنی دوست کے اخلاق کا اثر انسان پر ہوتا ہے) اس لئے اسے غور کرنا چاہئے کہ وہ کسے دوست بنارہا ہے.
418 519 - عَن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ خَيْرُ الْمَجَالِسِ أَوْسَعُهَا (ابو داؤد کتاب الادب باب في سعة المجلس 4820) حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علی یم کو یہ فرماتے ہوئے سنا بہترین مجالس وہ ہیں جو کشادہ اور فراخ ہوں اور لوگ کھل کر بیٹھ سکیں.520- عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُقَامَ الرَّجُلُ مِنْ تجلِسِهِ وَيَجْلِسَ فِيهِ آخَرُ، وَلَكِن تَفَشَحُوا وَتَوَسَّعُوا وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْرَهُ أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يَجْلِسَ مَكَانَهُ (بخاری کتاب الاستیذان باب اذا قيل لكم تفسحوا فى المجلس فأفسحوا...6270) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا تم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اس غرض سے نہ اٹھائے کہ تا وہ خود اس جگہ بیٹھے.وسعت قلبی سے کام لو اور کھل کر بیٹھو.چنانچہ ابن عمرؓ کا طریق تھا کہ جب کوئی آدمی آپ کو جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے.، 521- عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْخَطَابِ، قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ قَاعِدٌ، فَتَزَحْزَحَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الرَّجُلُ:
419 يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فِي الْمَكَانِ سَعَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلْمُسْلِمِ حَقًّا إِذَا رَآهُ أَخُوهُ أَنْ يَتَزَحْزَحَ لَهُ (شعب الايمان ، الحادى والستون من شعب الايمان و هو باب فى مقاربة اہل الدین و موادتهم ، فصل في قيام المرء لصاحبه على وجه الاكرام...8933) حضرت واثلہ بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیہ کی مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا.حضور علیہ السلام اسے جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے کچھ ہٹ گئے.وہ شخص کہنے لگا.یارسول اللہ ! جگہ بہت ہے آپ مئی یہ کم کیوں تکلیف فرماتے ہیں.اس پر نبی صلی الی یم نے فرمایا ایک مسلمان کا حق ہے کہ اس کے لئے اس کا بھائی سمٹ کر بیٹھے اور اسے جگہ دے.عَن وَاثِلَة بن الخطابِ قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ قَاعِدٌ فَتَزَحْزِحَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الرَّجُلُ : يَا رَسُولَ الله إِنَّ فِي الْمَكَانِ سَعَةً.فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلْمُسْلِمِ لَحَمَّا إِذَا رَآهُ أَخُوهُ أَنْ يَتَزَحْزِحَ لَهُ رمشكاة المصابيح ، كتاب الادب، باب القيام ، الفصل الثالث 4706) رض حضرت واثلہ بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یکم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا.رسول اللہ صلی علیم سے جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے کچھ ہٹ گئے.وہ شخص کہنے لگا یار سول اللہ ! جگہ بہت ہے آپ صلی غیر کم کیوں تکلیف فرماتے ہیں.اس پر نبی صلی علی کرم نے فرمایا ایک مسلمان کا حق ہے کہ اس کے لئے اس کا بھائی سمٹ کر بیٹھے اور اسے جگہ دے.
420 522.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسٍ رَجَعَ إِلَيْهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ (ابوداؤد کتاب الادب باب اذا قام من مجلسه ثم رجع 4853) رض حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی لی ایم نے فرمایا جب کوئی آدمی جلسہ گاہ یا مسجد وغیرہ سے کسی ضرورت کے لئے اپنی جگہ سے اٹھے تو واپس آنے پر وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہوتا ہے.523.عَنْ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةٌ فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الْآخَرِ، حَتَّى تَخْتَلِطُوا بِالنَّاسِ مِنْ أَجْلِ أَنْ يُحْزِنَهُ (مسلم کتاب السلام باب تحريم مناجاة الاثنين دون الثالث بغیر رضاه 4039) حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جب تم تین ہو تو ایک کو چھوڑ کر دوسر گوشی سے بات نہ کریں جب تک اور لوگوں سے مل جل نہ جاؤ.اس وجہ سے کہ یہ (بات) اس کو تکلیف دے گی.524- عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَجْلِسٍ أَوْ سُوقٍ، وَبِيَدِهِ نَبْلُ، فَلْيَأْخُذُ بِنصَالِهَا ، ثُمَّ لْيَأْخُذُ بِنصَالِهَا، ثُمَّ لْيَأْخُذُ بِنصَالِهَا (مسلم کتاب البر والصلة باب امر من مر بسلاح فى مسجد او سوق او غيرها من المواضع...4725) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کسی مجلس یا بازار سے گزرے اور اس کے ہاتھ میں تیر ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ (ان کو) ان کے پھل سے پکڑے پھر چاہئے کہ وہ تیر کو ان کے پھل سے پکڑے، پھر چاہئے کہ وہ تیر کو ان کے پھل سے پکڑے.
421 عَن أبي مُوسَى، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَسْجِدِنَا أَوْ فِي سُوقِنَا وَمَعَهُ نَبْلُ فَلْيُمْسِكَ عَلَى نِصَالِهَا بِكَفِهِ، أَنْ يُصِيبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِنْهَا بِشَيْءٍ أَوْ قَالَ لِيَقْبِضُ عَلَى نِصَالِهَا (مسلم کتاب البر والصلة باب امر من مر بسلاح في مسجد او سوق او غيرها من المواضع...4726) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ہماری مسجد یا ہمارے بازار - گزرے اور اس کے پاس تیر ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ ان کے پھل کو ہاتھ سے پکڑے تاکہ مسلمانوں میں سے کسی کو اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچے یا آپ نے فرمایا کہ اسے چاہئے کہ انہیں ان کے پھل سے پکڑے.525- حَدَّثَنِي عَطَاءُ، أَنَّ جَابِرَ بْن عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: زَعَمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَنْ أَكَلَ لُومًا أَوْ بَصَلا فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِيَعْتَزِلُ مَسْجِدَنَا (بخاری کتاب الاطعمة باب ما يكره من الثوم والبقول (5452) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی للی یکم نے فرمایا جس شخص نے کچا لہسن یا پیاز کھایا ہو اہو وہ ہم سے اور ہماری مسجدوں سے الگ رہے.(یعنی یہ بد بودار چیزیں کھا کر مجلس یا مجمع یا مسجد میں نہ آئے ).عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ.....مَنْ أَكَلَ الْبَصَل وَالقُومَ والكراكَ فَلا يَفْرَبنَ مَسْجِدَنَا، فَإنَّ الْمَلائِكَةَ تَتَأَذَى عَمَّا يَتَأَذَى مِنْهُ بَنُو آدَمَ (مسلم کتاب المساجد والمواضع الصلاة باب نهى من اكل ثوما او بصلا اوکراتا......868) حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا کہ جو اس ترکاری یعنی لہسن میں سے کھائے اور ایک مرتبہ فرمایا کہ جو پیاز ، لہسن اور گند نا کھائے تو وہ ہر گز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے بھی اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے بنی آدم تکلیف محسوس کرتے ہیں.
422 526- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَطَسَ وَضَعَ يَدَهُ أَوْ قوْبَهُ عَلَى فِيهِ، وَخَفَضَ أَوْ عَى بِهَا صَوْتَهُ شَكَ يَحْيَى ابو داؤد کتاب الادب باب في العطاس (5029) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یم کی عادت تھی کہ جب آپ صلی یہ ہم کو چھینک آتی تو اپنا ہاتھ یا کپڑا منہ کے سامنے رکھ لیتے اور جس قدر ہو سکتا آواز کو دباتے.527ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ: الحَمدُ لِلَّهِ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَإِذَا قَالَ لَهُ: يَرْحَمُكَ اللهُ ، فَلْيَقُلْ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ (بخاری کتاب الادب باب اذا عطس كيف يشمت (6224 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے (اور اس کا بھائی جو سن رہا ہے ) وہ اس کے جواب میں يرحمك الله کہے یعنی اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے اور جب وہ چھینک مارنے والا یہ جواب سنے تو يَهْدِيكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ کے یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حالات اچھے کر دے.528.عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ كَانَ اليَهُودُ يَتَعَاطَسُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُونَ أَنْ يَقُولَ لَهُمْ: يَرْحَمُكُمُ اللهُ ، فَيَقُولُ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ (ترمذی کتاب الادب باب ما جاء كيف يشمت العاطس (2739)
423 حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللی علم کی موجودگی میں یہود جان بوجھ کر چھینک مارتے تاکہ آپ صلی اللہ یکم ان کے حق میں يَرْحَمُكُمُ الله کہہ دیں یعنی اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے.لیکن حضور ملی ی ام اس وقت کہتے يَهْدِيكُمُ اللهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے اور تمہاری اصلاح کر دے.529ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ جَلَسَ فِي مَجْلِسٍ فَكَثُرَ فِيهِ لَغَطُهُ، فَقَالَ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ مِنْ مَجْلِسِهِ ذَلِكَ : سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا كَانَ فِي مَجْلِسِهِ ذَلِكَ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما يقول اذا قام من مجلسه 3433) حضرت ابو ہریرۃا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا یکم نے فرمایا جو شخص کسی ایسی مجلس میں بیٹھا ہو جس میں لغو اور بریکار باتیں ہوتی رہیں اور اس نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ دعا مانگی کہ اے میرے اللہ تو پاک ہے تیری حمد بیان کرتے ہوئے میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کے اس قصور کو معاف کر دے گا جو اس مجلس میں بریکار اور لغو باتوں میں شامل رہنے کی وجہ سے اس سے سر زد ہوا.
424 مہمان نوازی اور دعوت کے آداب 530 عَنْ أَبِي هُرَيحِ الْكَعْبِي، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، جَائِزَتُهُ يَوْمُهُ وَلَيْلَتُهُ، الضَّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَمَا بَعْدَ ذلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَقْوِى عِنْدَهُ حَتَّى يُخْرِجَهُ (ابوداؤد کتاب الاطعمة باب ما جاء في الضيافة (3748) حضرت ابو شریح کعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُس چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے.اُس کی اعلیٰ درجہ کی مہمان نوازی ایک دن رات ہے اور مہمان نوازی تین دن تک ہوتی ہے اور جو اس کے بعد ہے تو وہ نیکی ہے.اور اُس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے پاس اس قدر ٹھہرے کہ اُسے تنگ کر دے.عن أبي سعيد الخدري، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخَيَافَةُ ثَلَاتٌ فَمَا زَادَ عَلَى ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند ابي سعيد الخدری 11345) حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مہمان نوازی تین دن تک ہوتی ہے اور جو اس کے بعد ہے تو وہ نیکی ہے.
425 531 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنَ السُّنَّةِ، أَنْ يخرج الرَّجُلُ مَعَ ضَيْفِهِ إِلَى بَابِ الدَّارِ (ابن ماجه کتاب الاطعمة باب الضيافة 3358) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی لیم نے فرمایا سنت یہ ہے کہ آدمی اپنے مہمان کو اپنے گھر کے دروازے تک چھوڑنے کے لئے ساتھ جائے.532 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُجِبْ، فَإِن كَانَ صَائِمًا، فَلْيُصَلِّ، وَإِنْ كَانَ مُفْطِرًا، فَلْيَطْعَمْ (مسلم کتاب النكاح باب الامر باجابة الداعي الى دعوة 2570) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت کے لئے بلایا جائے تو وہ قبول کرے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو وہ دعا کرے اور اگر بغیر روزے کے ہو تو وہ کھائے.533 عن أبي هريرةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا أَلَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَكَ إِلَى نِسَائِهِ فَقُلْنَ: مَا مَعَنَا إِلَّا الماءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيفُ هَذَا؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ : أَنَا، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا عِنْدَنَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي، فَقَالَ هَيْنِي طَعَامَكِ، وَأَصْبِحِي سِرَاجَكِ، وَنَوْمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءٌ، فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا، وَأَصْبَحَتْ سِرَاجَهَا، وَنَوَّمَتْ صِبْيَاءَهَا، ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ، فَجَعَلاَ يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلان، قباتًا طَاوِيَيْنِ، فَلَهَا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ هَيكَ
426 اللهُ اللَّيْلَةَ، أَوْ عَجِبَ، مِنْ فَعَالِكُمَا فَأَنْزَلَ اللهُ: وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ مُ نَفْسِهِ فَأُولَيكَ هُمُ المُفْلِحُونَ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول الله يؤثرون على انفسهم...3798) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ نے اپنی ازواج کی طرف (کسی کو) بھیجا.انہوں نے جواب دیا: ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں.رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا اس مہمان کو کون اپنے ساتھ رکھے گا؟ یا فرمایا اسے کون مہمان ٹھہرائے گا؟ انصار میں سے ایک شخص بولا: میں.چنانچہ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہا رسول اللہ صلی ایم کے مہمان کی نہایت اچھی خاطر تواضع کرو.وہ بولی ہمارے پاس کچھ نہیں مگر اتنا ہی کھانا جو میرے بچوں کیلئے مشکل سے کافی ہو.اس نے کہا اپنے اس کھانے کو تیار کر لو اور چراغ بھی جلاؤ اور اپنے بچوں کو جب وہ شام کا کھانا مانگیں سلا دینا.چنانچہ اس نے اپنا کھانا تیار کیا اور چراغ کو جلایا اور اپنے بچوں کو سلا دیا.پھر اس کے بعد وہ اٹھی جیسے چراغ درست کرتی ہے.اس نے اس کو بجھا دیا.وہ دونوں اس مہمان پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویاوہ بھی کھارہے ہیں مگر ان دونوں نے خالی پیٹ رات گزاری.جب صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا.آپ نے فرمایا آج رات اللہ ہنس پڑا، یا فرمایا تمہارے دونوں کے کام سے بہت خوش ہوا، اور اللہ نے یہ وحی نازل کی کہ انصار اپنے آپ پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں اگر چہ خود انہیں محتاجی ہی ہو اور جو اپنے نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں وہی ہیں جو بامراد ہونے والے ہیں.534ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَقَالَ مَا أَخْرَجَكُمَا مِنْ بُيُوتِكُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ ؟ قَالَا: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ وَأَنَا، وَالَّذِى نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَكُمَا، قُومُوا، فَقَامُوا مَعَهُ، فَأَتَى رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي بَيْتِهِ، فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ، قَالَتْ: مَرْحَبًا
427 وَأَهْلًا، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ فُلَانٌ ؟ قَالَتْ: ذَهَبَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا مِنَ الْمَاءِ، إِذْ جَاءَ الْأَنْصَارِيُّ، فَنَظَرَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أَكْرَمَ أَضْيَافًا مِنِي، قَالَ فَانْطَلَقَ، فَجَاءَهُمْ بِعِذْقٍ فِيهِ بُسْرٌ وَتَمَرُ وَرُطَبٌ، فَقَالَ كُلُوا مِنْ هَذِهِ، وَأَخَذَ الْمُدْيَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاكَ، وَالْحَلُوبَ، فَذَبَحَ لَهُمْ ، فَأَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ وَمِنْ ذَلِكَ الْعِذْقِ وَشَرِبُوا، فَلَمَّا أَنْ شَبِعُوا وَرَوُوا، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتُسْأَلُنَ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمُ الْجُوعُ، ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّى أَصَابَكُمْ هَذَا النَّعِيمُ (مسلم کتاب الاشربة باب جواز استتباعه غيره الى دار من يثق برضاه بذلک 3785) ابو صلی حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں ایک رات یا دن رسول اللہ صلی علیم گھر سے) نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر نہیں.آپ نے ان سے پوچھا اس وقت کیا چیز تمہیں گھر سے باہر لائی؟ ان دونوں نے کہا یارسول صلیم اللہ ! بھوک.آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے بھی اسی چیز نے نکالا ہے جس نے تم دونوں کو نکالا ہے.اٹھو ، پس وہ آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور انصار میں سے ایک شخص کے ہاں آئے.وہ اس وقت اپنے گھر نہیں تھا جب آپ کو عورت نے دیکھا تو کہا خوش آمدید.رسول اللہ صلی علیم نے اس سے پوچھا فلاں شخص کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے.اتنے میں وہ انصاری آگیا اور اس نے رسول اللہ صلی علیم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا اور کہا الحمد للہ.آج کوئی مجھ سے بڑھ کر معزز مہمانوں والا نہیں ہے.راوی کہتے ہیں پھر وہ گیا اور ایک شاخ لا یا جس میں گدری اور عام کھجوریں اور تر و تازہ کھجوریں تھیں اور عرض کیا اس میں سے کھائیے اور اس نے چھری پکڑی تو رسول اللہ صلی امین کریم نے اسے فرمایا دودھ والی ذبح نہ کرنا.اس نے اُن کے لئے ( ایک بکری ذبح کی پھر انہوں نے بکری کا گوشت) اور اس خوشہ میں سے کھایا اور پانی پیا جب وہ کھانے پینے سے سیر ہو گئے تو رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے فرمایا اس ذات کی
428 قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارہ میں ضرور پوچھا جائے گا.بھوک تمہیں تمہارے گھروں سے باہر لائی اور تم واپس نہیں لوٹے یہاں تک کہ تم نے اس نعمت کو پایا.535 عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْعَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا، أَعْرِفُ فِيهِ الجُوعَ ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا، فَلَقَتِ الخُبْزَ بِبَعْضِهِ، ثُمَّ دَسَتْهُ تَحْتَ يَدِى وَلا تَثْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ، وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ ؟ فَقُلْتُ نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ فَقُلْتُ نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ: قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أَمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ ؟ فَقَالَتْ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْعَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمَى يَا أَمَّ سُلَيْمٍ، مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَتَ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَةٌ فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ انْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكُلُوا حَتَّى خَرَجُوا ، ثُمَّ قَالَ الذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ
429 فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكُلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ الذَّنْ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ القَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا، والقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة...3578) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ نے حضرت ام سلیم سے کہا میں نے رسول اللہ صلی علیکم کی الله سة الله رض آواز کمزور سنی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو بھوک ہے.کیا تمہارے پاس کچھ ہے ؟ حضرت ام سلیم نے کہا ہاں.یہ کہہ کر جو کی کچھ روٹیاں نکال لائیں.پھر انہوں نے اپنی ایک اوڑھنی نکالی اور ان روٹیوں کو اس کے ایک کنارے میں لپیٹ دیا اور وہ میرے ہاتھ میں دے دیں اور اوڑھنی کا کچھ حصہ میرے بدن پر لپیٹ دیا.پھر انہوں نے رسول اللہ صلی علیم کی طرف مجھے بھیجا.حضرت انس کہتے تھے میں وہ لے کر چلا گیا.تو رسول اللہ صلی للی کم کو مسجد میں پایا.آپ کے ساتھ کچھ لوگ تھے.میں ان کے پاس کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی علیم نے مجھے فرمایا کیا ابو طلحہ نے تجھے بھیجا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں.آپ نے فرمایا کھانا دے کر ؟ میں نے کہا جی ہاں.رسول اللہ صلی علیکم نے ان لوگوں سے کہا جو آپ کے پاس تھے چلو اٹھو.آپ چل پڑے اور میں بھی آپ کے آگے آگے چل پڑا اور حضرت ابو طلحہ کے پاس پہنچا اور ان کو بتایا.حضرت ابو طلحہ کہنے لگے: ام سلیم ! رسول اللہ صلی کم لوگوں کو لے آئے ہیں اور ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں جو اُن کو کھلائیں.وہ بولیں: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں.حضرت ابو طلحہ گئے اور جاکر رسول اللہ صلی علیم سے ملے.رسول اللہ صلی علی ایم آئے، حضرت ابو طلحہ آپ کے ساتھ تھے.رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا اتم سلیم ! جو تمہارے پاس ہو وہ لے آؤ.وہ روٹیاں لے آئیں تو رسول اللہ صلی علیکم نے ان کے متعلق فرمایا وہ توڑی گئیں اور حضرت ام سلیم نے گھی کی ایک کپٹی نچوڑی اور اس کو بطور سالن کے پیش کیا.پھر رسول اللہ صلی عوام نے ان روٹیوں پر دعا کی جو دعا اللہ نے چاہی کہ کریں.پھر آپ نے فرمایا کہ دس آدمیوں کو اندر آنے کی اجازت دو.ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے اور باہر چلے گئے.پھر آپ نے فرمایا دس اور آدمیوں کو اجازت دو.ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے اور باہر چلے گئے.پھر آپ نے فرما یا دس اور آدمیوں کو اجازت دو.ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھایا کہ وہ
430 سیر ہو گئے اور باہر چلے گئے.پھر آپ نے فرمایا دس اور آدمیوں کو اجازت دو.ان کو اجازت دی اور لوگوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے.اور باہر چلے گئے.غرض ان سب لوگوں نے کھایا اور پیٹ بھر کر کھایا اور وہ لوگ ستر یا اسی آدمی تھے.حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ.قَالَ......فَمَا زَالَ يُدْخِلُ عَشَرَةً وَيُخْرِجُ عَشَرَةً حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ، فَأَكَلَ حَتَّى سَبعَ ، ثُم حَياهَا فَإِذَا هِيَ مِثْلُهَا حِينَ أَكَلُوا مِنْهَا (مسلم کتاب الاشربة باب جواز استتباعه غیره الى دار من يثق برضاه 3788) حضرت انس بن مالک کہتے ہیں.پھر وہ اسی طرح دس ( دس ) کو اندر لاتے اور سیر ہونے کے بعد باہر بھیجتے رہے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا مگر وہ داخل ہوا اور اس نے کھایا یہانتک کہ وہ سیر ہو گیا، پھر آپ نے اس کھانے کو ایک جگہ جمع کیا تو وہ اتنا ہی تھا جتنا اس وقت جب انہوں نے کھاناشروع کیا تھا.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ...فَأَكُلُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا، ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ، وَتَرَكُوا سُؤْرًا (مسلم کتاب الاشربة باب جواز استتباعه غیره الى دار من يثق برضاه 3788) حضرت انس بن مالک کہتے ہیں..انہوں نے کھایا یہاں تک کہ آپ صلی للی کرم نے 80 آدمیوں کے ساتھ ایسا ہی کیا.پھر نبی صلی الیکم نے اور گھر والوں نے اس کے بعد کھایا اور کچھ بچے بھی گیا.536- حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، كَانَ يَقُولُ اللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بكيدِى عَلَى الأَرْضِ مِن الجُوعِ وَإِن كُنتُ لأَهل الحجر عَلَى بَطْنِي مِنَ الجُوعِ، وَلَقَدْ فَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيْقِهِم الَّذِي يَخْرُجُونَ مِنْهُ، قمر أبو بكرٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ، مَا سَأَلْتُهُ
431 إلَّا لِيُضيعنِي، فَمَر وَلَمْ يَفْعَلْ ثُمَّ مَوَ في عُمَرَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَ فَلَمْ يَفْعَلْ ثُمَّ مَرَّ بِي أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي، وَعَرَفَ مَا فِي نَفْسِي وَمَا فِي وَجْهِي ثُمَّ قَالَ أَبَا هِرٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ الْحَقِّ وَمَضَى فَتَبِعْتُهُ، فَدَخَلَ، فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنَ لِي، فَدَخَلَ، فَوَجَدَ لَبَنَّا فِي قَدَحٍ، فَقَالَ مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ؟ قَالُوا أَهْدَاهُ لَكَ فُلَانٌ أَوْ فُلَانَةُ، قَالَ أَبَا هِرٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ الحَقِّ إِلَى أَهْلِ الصُّفَةِ فَادْعُهُمْ لي قَالَ وَأَهْلُ الصَّفَةِ أَضْيَافُ الإِسْلامِ ، لَا يَأْوُونَ إلَى أَهْلِ وَلَا مَالٍ وَلَا عَلَى أَحَدٍ، إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلُ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، فَسَاءَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِي أَهْلِ الصُّفَةِ؟ كُنْتُ أَحَقُّ أَنَا أَنْ أُصِيبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرْبَةٌ أَتَقَوَى بِهَا ، فَإِذَا جَاءَ أَمَرَنِي، فَكُنْتُ أَنَا أَعْطِيهِمْ، وَمَا عَسَى أَنْ يَبْلُغَنِي مِنْ هَذَا اللَّبَنِ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُلُّ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَأَقْبَلُوا، فَاسْتَأْذَنُوا فَأَذِنَ لَهُمْ، وَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ مِنَ البَيْتِ، قَالَ يَا أَبَاهِرٍ قُلْتُ لَبَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ خُذْ فَأَعْطِهِمْ قَالَ فَأَخَذْتُ القَدَحَ، فَجَعَلْتُ أُعْطِيهِ الرَّجُلُ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَى القَدَحَ، فَأَعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَى القَدَحَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَى القَدَحَ، حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوِيَ القَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ القَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدِهِ، فَنَظَرَ إِلَ فَتَبَسَّمَ ، فَقَالَ أَبَاهِرٍ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ بَقِيتُ أَنَا وَأَنْتَ قُلْتُ صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ اقْعُدُ فَاشْرَبْ فَقَعَدتُ فَشَرِبْتُ، فَقَالَ: اشْرَبْ فَشَرِبْتُ ، فَمَا زَالَ يَقُولُ اشْرَبْ حَتَّى قُلْتُ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بالحق، ما أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، قَالَ فَأر بي فَأَعْطَيْتُهُ القَدح، تحمد الله وَسَمَّى وَغَرِبَ الفَضْلة الله و (بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي ص و اصحابه...6452)
432 مجاہد نے بتایا کہ ابوہریرہ کہا کرتے تھے.اس اللہ ہی کی قسم ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ میں بھوک کے مارے اپنے کلیجے کے سہارے زمین سے لگارہتا تھا اور کبھی تو بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر بھی باندھ دیا کرتا تھا اور ایک دن میں لوگوں کے اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے وہ نکلا کرتے تھے اتنے میں ابو بکر گزرے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی.میں نے ان سے اس لئے پوچھی تھی تا کہ وہ مجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیں مگر وہ گزر گئے اور انہوں نے ایسا نہ کیا.پھر میرے پاس سے عمر گزرے میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی.میں نے محض اس لئے پوچھی تھی تاکہ وہ مجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے.انہوں نے ایسا نہ کیا.پھر اس کے بعد ابو القاسم نبی صلی الیکم میرے پاس سے گزرے اور جب آپ نے مجھے دیکھا تو مسکرائے اور جو میرے نفس کی کیفیت تھی اور جو میرے چہرے کی حالت تھی سمجھ گئے اور آپ نے فرمایا ابوہریرہ ! میں نے کہا حاضر ہوں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا میرے پیچھے آجاؤ اور یہ کہہ کر چلے گئے اور میں آپ پیچھے پیچھے گیا.آپ اندر گئے اور اجازت لے کر گئے اور مجھے بھی اجازت دی.آپ جو اندر گئے تو دودھ کا پیالہ پایا.آپ نے پوچھا.یہ دودھ کہاں سے ہے ؟ گھر والوں نے کہا فلاں شخص نے یا کہا عورت نے آپ کو یہ ہدیہ بھیجا ہے.آپ نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے کہا حاضر ہوں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس بلا لاؤ.کہتے تھے اور اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان ہوتے نہ گھر بار تھا کہ وہاں جا کر آرام کرتے اور نہ کوئی ایسا تھا کہ جس کے پاس جاکر وہر ہے.جب آپ کے پاس کوئی صدقہ آتا تو آپ ان کو بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہ لیتے اور اس میں انہیں بھی شریک کرتے.مجھے ان کا یہ بلانا بر الگا میں نے کہا اہل صفہ کے سامنے یہ اتنا سا دودھ کیا چیز ہے ؟ میں زیادہ حقدار تھا کہ میں اس دودھ سے کچھ پیتا کہ جس سے مجھ میں طاقت آتی اگر وہ آگئے تو آپ مجھے حکم دیں گے اور مجھے ان کو دینا ہو گا اور امید نہیں کہ اس دودھ سے مجھ تک کچھ پہنچے اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبر داری سے کچھ چارہ نہ تھا.آخر میں ان کے پاس آیا اور ان کو بلا یا وہ چلے آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی.آپ نے ان کو اجازت دی اور وہ گھر میں اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے.آپ نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے کہا حاضر ہوں یارسول اللہ ! فرمایا یہ لو اور ان کو دو.کہتے تھے.میں نے وہ پیالہ لیا اور ایک آدمی کو وہ دیتا اور وہ پیتا یہاں تک کہ
433 سیر ہو جاتا.پھر وہ پیالہ مجھے واپس دے دیتا.پھر میں دوسرے آدمی کو دیتا اور وہ بھی اتنا پیتا کہ سیر ہو جاتا.پھر وہ مجھے وہ پیالہ واپس دے دیتا.پھر دوسر اسیر ہو کر پیتا اور وہ پیالہ مجھے واپس کر دیتا یہاں تک کہ آخر میں نبی صلی علیکم الله سة کے پاس پہنچا اور سب لوگ سیر ہو چکے تھے.آپ نے وہ پیالہ لیا اور اسے اپنے ہاتھ پر رکھا اور میری طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا ابو ہریرہ ! میں نے کہا حاضر ہوں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا میں اور تم باقی رہ گئے.میں نے کہا یارسول اللہ ! آپ نے سچ فرمایا آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پیو.میں بیٹھ گیا اور میں نے پینا شروع کیا.آپ نے فرمایا اور پیو.میں نے اور پیا.آپ یہی فرماتے رہے اور پیو اور میں نے اتنا پیا آخر میں نے کہا اب نہیں.اسی ذات کی قسم ہے جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا میں اب اس کے لئے راستہ نہیں پاتا جس میں اس کو اتاروں.آپ نے فرمایا مجھے دکھلاؤ.تو میں نے وہ پیالہ آپ کو دے دیا.آپ نے اللہ کا شکر کیا اور اللہ کا نام لیا اور وہ بچا ہو ادودھ پی لیا.عن أبي هريرةَ، قَالَ كَانَ أَهْلُ الصُّفَةِ أَضْيَاف أَهْلِ الإسْلامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْل وَلا مَالٍ والله الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِن كُنتُ لَأَعْتَمِرُ بِكَيدِى عَلَى الأَرْضِ مِنَ الجُوعِ وَأَهُدُّ الحَجَر عَلَى بَطْنِي مِنَ الجُوعِ وَلَقَدْ فَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيهِ فَمَةٍ بِي أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِن كِتَابِ اللهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِيُشبِعَنِي، فَمَةٍ وَلَمْ يَفْعَلْ هُم مَرَّ بِي عُمَرُ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي ، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ثُمَّ مَرَّ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَانِي وَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الحَقِّ، وَمَضَى فَاتَّبَعْتُهُ وَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ فَأَذِنَ لِي فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ فَقَالَ مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَن لَكُمْ ؟ قيل أَهْدَاهُ لَنَا فُلَانٌ.فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ لبَيْكَ.قَالَ الحَق إِلَى أَهْلِ الصُّفَةِ فَادْعُهُمْ، وَهُمْ أَضْيَافُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَمَالٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلُ مِنْهَا شَيْئًا وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ
434 أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، فَسَاءَ فِي ذَلِكَ وَقُلْتُ مَا هَذَا القَدَحُ بَيْنَ أَهْلِ الصُّفَةِ وَأَنَا رَسُولُهُ إِلَيْهِمْ فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَهُ عَلَيْهِمْ فَمَا عَسَى أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ وَقَدْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْهُ مَا يُغْنِينِي وَلَمْ يَكُنْ بُدُّ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ فَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةً، خُذِ القَدَحَ وَأَعْطِهِمْ فَأَخَذْتُ القَدَحَ فَجَعَلْتُ أَنَاوِلُهُ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّهُ فَأُنَاوِلُهُ الْآخَرَ حَتَّى انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوَى القَوْمُ كُلُّهُمْ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَتَبَسَّمَ فَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ اهْرَب، فَشَرِبْتُ ثُمَّ قَالَ افْتَرَبْ فَلَمْ أَزَلَ أَهْرَب، وَيَقُولُ اهْرَبْ حَتَّى قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بالحق ما أَجِدُ لَهُ مَسْلَك، فَأَخَذَ القَدَحَ فَحَمَدَ اللهَ وَسَمَّى ثُمَّ قَرِب (ترمذی کتاب صفة القيامة باب ما جاء فى صفة اواني الحوض (2477) ย حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ ابتدائی ایام میں بھوک کی وجہ سے میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا یا زمین سے لگاتا تا کہ کچھ سہارا ملے.ایک دن میں ایسی جگہ پر بیٹھ گیا جہاں سے لوگ گزرتے تھے.میرے پاس سے حضرت ابو بکر گزرے میں نے ان سے ایک آیت کا مطلب پوچھا.میری غرض یہ تھی کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں لیکن وہ آیت کا مطلب بیان کر کے گزر گئے پھر حضرت عمرؓ کا گزر ہوا میں نے ان سے بھی اس آیت کا مطلب پوچھا.غرض یہی تھی کہ وہ کھانا کھلائیں لیکن وہ بھی آیت کا معنی بتا کر چلے گئے پھر میرے پاس سے آنحضرت صلی لی کم گزرے تو آپ صلی ہم نے تبسم فرمایا میری حالت دیکھی اور میرے دل کی کیفیت کو بھانپ لیا.حضور صلی الی یکم نے بڑے مشفقانہ انداز میں فرمایا اے ابوہریرہ! میں نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول ! حاضر ہوں.آپ صلی یی یکم نے فرمایا میرے ساتھ آؤ.میں آپ صلی اللہ ہم کے پیچھے پیچھے ہو لیا.جب آپ صلی اللہ ہم گھر پہنچے اور اندر جانے لگے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی.میں آپ سئل علم کی اجازت سے اندر آگیا.آپ ملکی ٹیم نے دودھ کا ایک پیالہ پایا.آپ صلی نمیریم کی مة الشرسة
435 نے پو چھا.یہ دودھ کہاں سے آیا ہے ؟گھر والوں نے بتایا کہ فلاں شخص یا فلاں عورت تحفتاً دے گئی ہے.حضور صلی الم نے فرمایا ابو ہریرہ! میں نے کہا یا رسول اللہ حاضر ہوں.آپ صلی الی ٹیم نے فرمایا سب صفہ میں رہنے والوں کو بلا لاؤ.یہ لوگ اسلام کے مہمان تھے اور ان کا نہ کوئی گھر بار تھا نہ کاروبار.جب حضور صلی الیکم کے پاس صدقہ کا مال آتا تو ان کے پاس بھیج دیتے اور خود کچھ نہ کھاتے اور اگر کہیں سے تحفہ آتا تو آپ صلی نیم صفحہ والوں کے پاس بھی بھیجتے اور خود بھی کھاتے.بہر حال حضور علی لیالم کا یہ فرمان کہ میں ان کو بلا لاؤں، مجھے ناگوار گزرا کہ ایک پیالہ دودھ ہے یہ اہل صفہ میں کس کس کے کام آئے گا، میں اس کا زیادہ ضرورت مند تھا تا کہ پی کر کچھ تقویت حاصل کرتا.پھر جب اہل صفہ آجائیں اور مجھے ہی حضور صلی یکم ان کو پلانے کے لئے فرمائیں تو یہ اور بھی برا ہو گا.بہر حال اللہ تعالیٰ اور حضور علی تعلیم کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا.چنانچہ میں اہل صفہ کو ہلا لا یا.جب سب آگئے اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو حضور صلی ٹیم نے مجھے حکم دیا کہ ان کو باری باری پیالہ پکڑاتے جاؤ ( میں نے دل میں خیال کیا مجھ تک تو اب یہ دودھ پہنچنے سے رہا).بہر حال میں پیالہ لے کر ہر آدمی کے پاس جاتا.جب وہ سیر ہو جاتا تو دوسرے کے پاس، اور جب وہ سیر ہو جاتا تو تیسرے کے پاس، یہاں تک کہ آخر میں میں نے پیالہ آنحضرت صلی علیہ کم کو دیا کہ سب کے سب سیر ہو کر پی چکے ہیں.پیالہ میں نے آپ صلی ٹیم کے ہاتھ پر رکھا.آپ صلی علیم نے میری طرف دیکھا اور تبسم فرمایا پھر کہا ابوھریرہ! میں نے کہا یا رسول اللہ ! فرمائیے.آپ صلی لی یکم نے ارشاد فرمایا اب تو صرف ہم دونوں رہ گئے ہیں.میں نے عرض کیا.حضور ٹھیک ہے اس پر آپ صلی ہیم نے فرمایا کہ بیٹھو اور خوب پی ؤ.جب میں نے بس کیا تو فرمایا ابو ہریرہ اور پی ؤ! میں پھر پینے لگا.چنانچہ جب بھی میں پیالے سے منہ ہٹاتا تو آپ صلی للی یکم فرماتے.ابو ہریرہ اور پیو.جب اچھی طرح سیر ہو گیا تو عرض کیا.جس ذات نے آپ صلی یی کم کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے اس کی قسم اب تو بالکل گنجائش نہیں چنانچہ میں نے پیالہ آپ صلی نیلم کو دے دیا آپ صلی عوام نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر بسم اللہ پڑھ کر دودھ نوش فرمایا.
436 537ـ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَاقِي القَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا (ترمذی کتاب الاشربة باب ما جاء ان ساقى القوم آخر هم شربا 1894) حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الیکم نے فرمایا قوم کے ساقی کی باری آخر میں آتی ہے.538 عَن أَبي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامُ الاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةِ، وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةِ (مسلم کتاب الاشربة باب فضيلة المواساة في الطعام القليل...3821) حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی الی یکم نے فرما یا دو آدمیوں کا کھانا تین کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور تین کا کھانا چار کے لئے کافی ہو جاتا ہے.أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْن عَبْدِ اللهِ ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ (مسلم کتاب الاشربة باب فضيلة المواساة في الطعام القليل...3822) حضرت جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا ایک کا کھانا دو کے لئے کفایت کر جاتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لئے کفایت کر جاتا ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لئے کفایت کر جاتا ہے.539ـ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِي، قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ: أَبُو شُعَيْبٍ، وَكَانَ لَهُ غُلَامٌ لَحَامُ ، فَرَأَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَفَ فِي وَجْهِهِ الْجُوعَ،
437 فَقَالَ لِغُلَامِهِ: وَيْحَكَ، اصْنَعْ لَنَا طَعَامًا لِخَمْسَةِ نَفَرٍ ، فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَدْعُوَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ ، قَالَ فَصَنَعَ ثُمَّ أَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَاهُ خَامِسَ خَمْسَةٍ وَاتَّبَعَهُمْ رَجُلٌ ، فَلَمَّا بَلَغَ الْبَابَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا اتَّبَعْنَا، فَإِنْ شِلت أَن تَأْذَنَ لَهُ، وَإن شئتَ رَجَعَ ، قَالَ لَا، بَلْ أَذَنُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ (مسلم کتاب الاشربة باب ما يفعل الضيف اذا اتبعه غير من دعاه صاحب الطعام 3783) حضرت ابو مسعود انصاری کہتے ہیں انصار میں سے ایک شخص تھا جس کا نام ابوشعیب تھا اور اس کا ایک غلام گوشت بیچنے والا تھا.اس شخص نے رسول اللہ صلی لی یم کو دیکھا تو آپ کے چہرہ پر بھوک کے آثار محسوس کئے.اس نے اپنے غلام سے کہا تیرا بھلا ہو ہمارے لئے پانچ کس کا کھانا تیار کرو.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں نبی علی ایم سمیت پانچ کی دعوت کروں.راوی کہتے ہیں اس نے کھانا تیار کیا پھر وہ شخص نبی صلی علیم کے پاس آیا اور آپ سمیت پانچ کو کھانے کی دعوت دی اور ان کے پیچھے ایک شخص چلا آیا.جب آپ صلی للی ام دروازہ پر پہنچے تو ہی ملی ہم نے فرمایا یہ شخص ہمارے ساتھ آگیا ہے.اگر تم چاہو تو اسے اجازت دے دو اگر تم چاہو تو وہ لوٹ جائے اس نے کہا نہیں یار سول صلی علی کرم اللہ میں اسے اجازت دے تا ہوں.م الله سة 540- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَافَهُ ضَيْفُ كَافِرُ، فَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ، فَخَلِبَتْ فَشَرِبَ ثُمَّ أُخْرَى فَشَرِبَهُ، ثُمَّ أُخْرَى فَشَرِبَهُ حَتَّى شَرِبَ حِلَابَ سَبْع شِيَاءٍ، ثُمَّ أَصْبَحَ مِنَ الغَدِ، فَأَسْلَمَ، فَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) بِشَاةٍ ، فَخَلِبَتْ فَشَرِبَ حِلَابَهَا، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِأُخْرَى فَلَمْ يَسْتَيَنَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُؤْمِنُ يَشْرَبُ فِي مِعيَّ وَاحِدٍ، وَالكَافِرُ يَشْرَبُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ (ترمذی کتاب الاطعمة باب ما جاء ان المو من ياكل فى معى واحد 1819)
438 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک کافر رسول اللہ صلی اللی کم کا مہمان ہوا.رسول اللہ صلی اللی نیلم نے اس کے لئے بکریوں کا دودھ نکلوایا وہ یکے بعد دیگرے سات بکریوں کا دودھ پی گیا.دوسرے دن وہ کافر مسلمان ہو گیا.رسول اللہ صلی ا ہم نے اس کے واسطے ایک بکری کا دودھ نکلوایا.اس نے وہ پی لیا پھر دوسری بکری کا دودھ نکلوایا تو وہ سارا نہ پی سکا.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مومن کفایت و قناعت کی وجہ سے اتنا پیتا ہے کہ ایک انتڑی میں سما سکے.اور کافر حرص کی وجہ سے اتنا کچھ پی جاتا ہے کہ سات انتڑیوں میں سمائے.(یعنی کھانے پینے میں کفایت کرنا اور قناعت سے کام لینا سچے مومن کا خاصہ ہوتا ہے.اور کافر کا مقصد زندگی کھانا پینا عیش منانا اور مال و دولت کی حرص ہوتا ہے).541ـ عَنْ أَبِي ذَرٍ، قَالَ قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهِ طَلْقٍ (مسلم کتاب البر والصلة باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء 4746) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یوم نے مجھے فرمایا نیکی کو حقیر مت سمجھو خواہ تمہارا اپنے بھائی سے کشادہ پیشانی سے ملنا ہی کیوں نہ ہو.
439 حلال و حرام اور کھانے پینے کے آداب 542.عَنِ الضَّحَاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ أَنَّهُ اجْتَمَعَ هُوَ وَالْحَسَنُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ ، وَمَكْحُولُ الشَّامِيُّ ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ الْمَلِيُّ ، وَطَاوُوسُ الْيَمَانِيُّ ، فَاجْتَمَعُوا فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ وَكَثُرَ لَعَظهُمْ فِي الْقَدَرِ ، فَقَالَ طَارُوسٌ وَكَانَ فِيهِمْ مَرْضِيًّا : أَنْصِتُوا أُخْبِرُكُمْ مَا سَمِعْتُ مِنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيْعُوهَا ، وَخَدَ لَكُمْ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا ، وَنَهَاكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا ، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَتَكَلَّفُوهَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكُمْ فَاقْتِلُوهَا.نَقُولُ مَا قَالَ رَبُّنَا وَنَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأُمُورُ بِيَدِ اللهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ مَصْدَرُهَا ، وَإِلَيْهِ مَرْجِعُهَا ، لَيْسَ إلَى الْعِبَادِ فِيهَا تَفْوِيضٌ وَلَا مَشِيئَةٌ سنن دار قطنی ، کتاب الصيد والذبائح والاطعمه و غیر ذلک، باب الاكل من آنية المشركين 4814) ضحاک بن مزاحم سے روایت ہے کہ وہ اور حسن بن ابی الحسن اور مکحول شامی اور عمرو بن دینار کی اور طاؤس بمانی مسجد خیف میں اکٹھے ہوئے.تقدیر کے بارہ میں انکی آوازیں بلند ہوئیں.طاؤس نے کہا.اور وہ ان کے پسندیدہ تھے.خاموش ہو جاؤ.میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو میں نے حضرت ابو درداء سے سنا.انہوں (حضرت ابو در دام) نے کہا کہ آنحضرت صلی الی یکم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں تم انہیں ضائع نہ کرنا اور کچھ حدود مقرر کی ہیں تم ان سے تجاوز نہ کرنا.اس نے بعض چیزوں سے تم کو روکا ہے.تم ان کے مر تکب نہ ہونا اور بغیر کسی نسیان یا بھول کے کچھ اشیاء کے بارہ میں وہ خاموش رہا ہے ان کا ذکر نہیں کیا سو تم بلا وجہ تکلف سے کام لے کر ان کے پیچھے نہ 1 : بعض نسخوں میں رضا کا لفظ ہے.
440 پڑنا کیونکہ اپنی رحمت اور اپنے فضل کی وجہ سے اس نے ان کا ذکر نہیں کیا تا کہ تم پر زیادہ بوجھ نہ پڑے پس خدا کی اس رعایت کو تم خوش دلی سے قبول کرو اور اس کی رحمت کی قدر کرو.(راوی کہتے ہیں کہ) ہم انہی باتوں کے قائل ہیں جنہیں ہمارے رب اور ہمارے نبی صلی للی کم نے بیان کیا ہے.اس پر کسی زیادتی کی ضرورت نہیں سمجھتے کیونکہ تمام اختیارات ہمارے رب کے ہاتھ میں ہیں وہیں سے احکام آتے ہیں اور ان کے مال کا مالک بھی وہی ہے.انسانوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی مرضی چلائیں یا اپنی خواہشات کی پیروی کریں.543- عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْن بَشِيرٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الحَلالُ بَيْنَ، وَالحَرَامُ بَيْن ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ: كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمِّي، أَلا إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ فَحَارِمُهُ، أَلا وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً : إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ (بخاری کتاب الایمان باب فضل استبر الدينه 52) حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سنا.آپ نے فرمایا حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ والی کچھ باتیں ہیں.اکثر لوگ انہیں نہیں جانتے.پس جو اِن مشتبہ باتوں سے بچا، اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو محفوظ رکھنے کے لئے پوری احتیاط سے کام لیا اور جو ان مشتبہ امور میں جا پڑا تو وہ اس چرواہے کی مانند ہے جو اپنار یوڑرکھ کے آس پاس چرارہا ہے.قریب ہے کہ اس میں ریوڑ جا پڑے.دیکھو ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے.خیال رکھنا کہ اللہ کی رکھ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی باتیں ہیں.خبردار! اور جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے.اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور سنو! کہ وہ دل ہے.
441 عَنِ الشَّعْبِي، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ - وَأَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ إِنَّ الْحَلَالَ بَيْنَ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيْنَ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمَى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللهِ فَحَارِمُهُ ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ (مسلم کتاب المساقاة باب اخذ الحلال و ترك الشبهاة 2982) ا حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے اور نعمان اپنی دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں تک لے گئے اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی الم کو فرماتے سنا ہے کہ حلال (بھی) واضح ہے اور حرام ( بھی ) واضح ہے اور ان دونوں کے در میان مشتبہ باتیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے.پس جو شخص شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچالیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں داخل ہو گیا.اس چرواہے کی طرح جو کسی محفوظ علاقہ کے گرد (جانور) چراتا ہے بعید نہیں کہ وہ (جانور) اس ( چراگاہ) کے اندر چرنے لگ جائے.خبر دار ہر بادشاہ کا ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے اور سنو ! اللہ کا منوعہ علاقہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں.سنو ! جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح ہو گا.اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو گا اور سنو وہ دل ہے.544- عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هُنَا أَقْوَامًا حَدِيثًا عَهْدُهُمْ بِشِرْكٍ، يَأْتُونا بلخمان لا نذرِى يَذْكُرُونَ اسْمَ اللهِ عَلَيْهَا أَمْ لا ؟ قَالَ اذْكُرُوا أَنْتُمُ اسْمَ اللَّهِ، وَكُلُوا (بخاری کتاب التوحید باب السؤال بأسماء الله تعالى و الاستعاذة به 7398) الله سة حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم سے صحابہ نے دریافت کیا کہ حضور کچھ لوگ جو کفر سے نئے نئے نکلے ہیں ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں اور ہمیں علم نہیں کہ انہوں نے جانور کو ذبح کرتے
442 وقت بسم اللہ پڑھی بھی یا نہیں.کیا ہم گوشت کھا سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا تم خود اس پر بسم اللہ پڑھ لو اور ( بخوشی) کھاؤ.545.عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ الله إن نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ يَأْتُونَنَا بِلُحْمَانٍ وَلَا تَدْرِى هَلْ سَموا اللهَ عَلَيْهَا أَمْ لا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمُّوا اللَّهَ عَلَيْهَا ثُمَّ كُلُوهَا (موطا امام مالک کتاب الذبائح باب ما جاء فى التسمية على الذبيحة (1054) حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم سے دریافت کیا گیا کہ گاؤں والے ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ جانور کو ذبح کرتے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ کا نام لیا تھا یا نہیں تو ( ایسے گوشت کو) ہم کیا کریں ؟ حضور علی ایم نے فرمایا اس پر بسم اللہ پڑھ لو پھر اس گوشت کو کھالو.546.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبْنَةٍ فِي غَزَاةٍ، فَقَالَ أَيْنَ صُنِعَتْ هَذِهِ ؟ فَقَالُوا بِفَارِسَ، وَنَحْنُ نُرَى أَنَّهُ يُجْعَلُ فِيهَا مَيْتَةً.فَقَالَ اطْعَنُوا فِيهَا السكين، وَاذْكُرُوا اسْم الله وَكُلُوا (مسند احمد بن حنبل، مسند بنی ہاشم ، مسند عبد الله بن عباس 2755) حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں نبی صلی علیکم کے سامنے پنیر لایا گیا.آپ صلی الی ہم نے فرمایا یہ کہاں کا تیار شدہ ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا.فارس کا ( یعنی مجوسیوں کا بنایا ہوا ہے) اور ہمارا خیال ہے کہ اس میں مردار ملایا جاتا ہے.یہ سن کر آپ صلی للہ ہم نے فرمایا زیادہ کرید کی ضرورت نہیں) بسم اللہ پڑھو اور کھاؤ.
443 547.(فَفِي السُّنَنِ لِأَبِي دَاوُدَ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَتَى) بِالبِنَاءِ لِلْمَجْهُولِ (النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِبْنَةِ فى تَبُوكَ مِنْ عَمَلِ النَّصَارَى فَقِيْلَ هَذَا طَعَامٌ تَصْنَعُهُ المَجُوْسُ ( فَدَعَا بِسِكِيْنِ فَسَمَّى وَقَطَعَ ، رَوَاهُ أَبُو دَاؤُدُ) وَ مُسَدَّدُ وَغَيْرُهُمَا.وَرَوَى الظَّيَالِسِيُّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا فَتَحَ مَكَّةَ رَأَى جُبْنَةٌ فَقَالَ: مَا هَذَا ؟ فَقَالُوا: طَعَامِ يُصْنَعُ بِأَرْضِ الْعَجَمِ فَقَالُوا: ضَعُوْا فِيْهِ السَّكِينُ وَكُلُوا.وَرَوَى أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ، عَنْهُ: أَتِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبْنَةٍ فِي غَزَاةٍ تَبُوكَ، فَقَالَ: أَيْنَ صُنِعَتْ هَذِهِ ؟ قَالُوا: بِفَارِسَ، وَنَحْنُ نَرَى أَنْ تَجْعَلَ فِيهَا مَيْتَةً، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: أَطْعِمُوا.وَفِي رِوَايَةٍ : ضَعُوا فِيهَا السَّكِينَ، وَاذْكَرُوا اسْمَ اللهِ تَعَالَى وَكُلُوا (شرح العلامه الزرقاني على المواهب اللدنيه بالمنح المحمديه للعلامه القسطلاني، المجلد السادس الفصل الثالث: فيما تدعو ضرورته اليه من غذائه و ملبسه و منكحه....النوع الاول في عيشه الله في الماكل و المشارب ،تحت و أما الجبن...، صفحہ نمبر 189، 190) رض امام ابو داؤد نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ غزوہ تبوک کے سفر میں نبی صلیالی کم کی خدمت میں عیسائیوں کا بنایا ہوا اپنیر پیش کیا گیا.اس کے متعلق یہ بھی خیال تھا کہ یہ مجوسیوں کا بنایا ہو ا تھا.آپ صلی علیہ کم نے ( کسی چھان بین کے بغیر چھری منگوائی اور بسم اللہ پڑھ کر اسے کاٹا اور استعمال فرمایا.ایک اور روایت میں ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر پنیر پیش کیا گیا تو آپ صلی ا ہم نے پو چھا یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا.اہل حجم اس کو تیار کرتے ہیں.آپ صلی للی تم نے فرمایا چھری سے کاٹ کر اسے استعمال کر سکتے ہو (یعنی کسی چھان بین کی ضرورت نہیں).ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ سنتے ہیں کہ اس کے بنانے میں مردار کی چربی استعمال ہوتی ہے آپ صلی میں کم نے فرما یازیادہ چھان بین کی ضرورت نہیں چھری سے کاٹو اور اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھالو.
444 وَجُوْجُ اشْتُهِرَ عَمَلُهُ بِشَحْمِ الْخِنْزِيرِ وَجُبْنٍ شَافِى الشْتُهِرَ عَمَلُهُ بِإِنْفَحَةِ الْخَنْزِيرِ وَقَدْ جَاءَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبْنَةٌ مِنْ عِنْدِهِمْ فَأَكَلَ مِنْهَا وَلَمْ يَسْأَلُ عَنْ ذَلِكَ (فتح المعين شرح قرة العین ، باب الصلاة ، فصل : في شروط الصلاة ، تحت الفظ : " و يعفى عن دم نحو برغوث ، ، ، جلد 1صفحه 83) جوخ جس کے بارہ میں مشہور ہے کہ اس کو سور کی چربی کے ساتھ بنایا جاتا ہے اور شام کا بنا ہو اپنیر ، کہ اس کے بارہ میں مشہور تھا کہ وہ سور کی چربی کے ساتھ بنایا جاتا ہے.اور رسول اللہ لی ایم کے پاس ان کی طرف سے پنیر آیا.آپ نے اس میں سے کھایا اور اس کے بارہ میں (کسی سے نہ ) پوچھا.548- عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلْيَقُلْ: بِسْمِ اللهِ، فَإِنْ نَسِيَ فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ (ترمذی کتاب الاطعمة باب ما جاء فى التسمية على الطعام 1858) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جب تم میں کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو پہلے اللہ تعالیٰ کا نام لے یعنی بسم اللہ پڑھے.اگر شروع میں بھول جائے تو یاد آنے پر بسم الله في أَوله وآخره پڑھ لے.549ـ قَالَ الوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ: أَخْبَرَنِي أَنَّهُ سَمِعَ وَهُبَ بْن كَيْسَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ، يَقُولُ كُنْتُ غُلامًا فِي حَجْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ يَدِى تَطِيشُ فِي الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا غُلَامُ، سَمِ اللهَ، وَكُلْ بِيَمِينِكَ، وَكُلِّ مِمَّا يَلِيكَ فَمَا زَالَتْ تِلْكَ طِعْمَتِي بَعْدُ (بخارى كتاب الاطعمة باب التسمية على الطعام والاكل باليمين 5376)
445 حضرت عمر بن ابی سلمہ جو رسول اللہ صلی علیکم کے ربیب تھے ، بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میں رسول اللہ صلی اینیم کے گھر رہتا تھا.(کھانا کھاتے وقت) میر ا ہاتھ تھالی میں ادھر ادھر گھومتا تھا.(یعنی بے صبری سے جلد جلد کھاتا اور اپنے آگے کا بھی خیال نہ کرتا ).رسول اللہ صلی علیم نے (میری اس عادت کو دیکھ کر) فرمایا اولر کے کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ.حضور صلی للی کم کی یہ نصیحت میں ہمیشہ یاد رکھتا ہوں اور اس کے مطابق کھانا کھاتا ہوں.550- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عِكْرَاشِ، عَنْ أَبِيهِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُوِّيْبٍ قَالَ بَعَثَنِي بَنُو مُرَّةً بْنِ عُبَيْدٍ بِصَدَقَاتِ أَمْوَالِهِمْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ المَدِينَةَ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا بَيْنَ المُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ، قَالَ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِى فَانْطَلَقَ بِي إِلَى بَيْتِ أَمْ سَلَمَةَ فَقَالَ هَلْ مِنْ طَعَامٍ ؟ فَأُتِينَا بِجَفْنَةٍ كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالوَذْرٍ، وَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْهَا، فَخَبَطتُ بِيَدِى مِنْ نَوَاحِيهَا وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، فَقَبَضَ بِيَدِهِ اليُسْرَى عَلَى يَدِى اليُمْنَى ثُمَّ قَالَ يَا عِكْرَاشُ، كُلْ مِنْ مَوْضِعِ وَاحِدٍ فَإِنَّهُ طَعَامُ وَاحِدٌ ، ثُمَّ أَتِينَا بِطَبَقٍ فِيهِ أَلْوَانُ الشَّمْرِ، أَوْ الرُّطَبِ ـ شَكٍّ عُبَيْدُ اللَّهِ - قَالَ فَجَعَلْتُ أَكُلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّبَقِ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلِّ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ أَتِينَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، وَمَسَحَ بِبَلَلِ كَفَيْهِ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَرَأْسَهُ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ، هَذَا الوُضُوءُ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ (ترمذى كتاب الاطعمة باب ما جاء فى التسمية على الطعام 1848) حضرت عکراش بیان کرتے ہیں کہ بنو مرہ نے اپنے اموال صدقہ دے کر مجھے رسول اللہ صلی کم کی خدمت میں م الله سة بھیجا.جب میں آیا تو میں نے آپ کو مہاجرین اور انصار کے درمیان رونق افروز دیکھا.حضور صلی الی یکم نے میر اہا تھ
446 پکڑا اور ام سلمہ کے گھر لے گئے اور ان سے دریافت کیا.کوئی کھانے کی چیز ہے ؟ انہوں نے نرید کا پیالہ پیش کیا جس میں شرید اور بوٹیاں کافی تھیں.ہم اس میں سے کھانے لگے.میں کبھی ادھر سے اور کبھی ادھر سے کھاتا اور رسول اللہ صلی عوام اپنے سامنے سے کھا رہے تھے.آپ مصلی معنی تم نے اپنے بائیں ہاتھ سے میر ادایاں ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے عکراش ! کھانا ایک جگہ سے کھاؤ تمام کھانا ایک ہی طرح کا ہے.پھر ہمارے سامنے ایک طشت لایا گیا جس میں مختلف قسم کے کھجور یا ڈو کے تھے.میں تو سامنے سے کھانے لگا اور رسول اللہ صلی ال کی اپنی پسند کے مطابق کبھی ادھر سے اور کبھی ادھر سے چن چن کر کھاتے اور فرمایا اے عکراش! اپنی پسند کی چن چن کر کھاؤ کہ مختلف اقسام کی ہیں پھر پانی لایا گیا.رسول اللہ صلی علیکم نے اپنا ہاتھ دھویا اور اپنا گیلا ہاتھ اپنے چہرے، سر اور بازؤں پر پھیرا اور فرمایا اے عکراش! یہ آگ پر پکی ہوئی چیز کا وضوء ہے ( یعنی کھانے کے بعد ہاتھ صاف کر لئے جائیں).551.عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ البَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ، فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْهِ، وَلَا تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِ (ترمذی کتاب الاطعمة باب ما جاء في كراهية الاكل من وسط الطعام 1805) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی ایم نے فرمایا کھانے کے درمیانی حصہ میں برکت نازل ہوتی ہے اس لئے کنارے یعنی ایک طرف سے کھایا کرو اور درمیان سے کھانے سے اجتناب کرو.552- عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَا يَأْكُلَنَ أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشِمَالِهِ، وَلَا يَغْرَبَنَ بِهَا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ، وَيَشْرَبُ بِهَا (مسلم کتاب الاشربة باب آداب الطعام والشراب و احكامهما (3751) سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا تم میں سے کوئی ہر گز اپنے بائیں ہاتھ سے نہ کھائے نہ اس سے پئے کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور پیتا ہے.
447 553.عن أَبي سَعِيدٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى أَطْعَمَنًا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ (ترمذی کتاب الدعوات باب ما يقول اذا فرغ من الطعام (3457) حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی یکم جب کھانا تناول فرماتے یا پانی پیتے تو بعد میں یہ دعا پڑھتے.سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور مسلمان ( یعنی اطاعت شعار ) بنایا.554- حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْن سُحَيمٍ، قَالَ أَصَابَنَا عَامُ سَنَةٍ مَعَ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَرَزَقَنَا تَمَرًا، فَكَانَ عَبْدُ اللهِ بن عُمَرَ، يَمُرُ بِنَا وَنَحْنُ نَأْكُلُ، وَيَقُولُ لَا تُقَارِنُوا، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ القِرَانِ، ثُمَّ يَقُولُ إِلَّا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ أَخَاهُ (بخاری کتاب الاطعمة باب القرآن في التمر 5446) حضرت جبلہ بن سحیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر کے عہد خلافت میں ایک سال ہمیں سخت قحط سالی سے دوچار ہونا پڑا.آپ نے ہمیں کھجوریں دیں.حضرت عبد اللہ بن عمررؓ ہمارے پاس سے گزرے تو فرمایا اکٹھے بیٹھ کر کھانے لگو تو دو دو کھجوریں ملا کر نہ کھاؤ ( یعنی حرص اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرو) کیونکہ نبی صلی ا ہم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے.سوائے اس کے کہ کھانے والا دوسرے شریک طعام بھائی سے اس کی اجازت لے لے.حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ جَبَلَةَ بْن سُحَيمٍ، قَالَ كَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَرْزُقُنَا الشَّمْرَ، قَالَ وَقَدْ كَانَ أَصَابَ النَّاسَ يَوْمَئِذٍ جَهْدٌ، وَكُنَّا نَأْكُلُ فَيَمُرُ عَلَيْنَا ابْنُ عُمَرَ وَنَحْنُ نَأْكُلُ، فَيَقُولُ لَا تُقَارِنُوا فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْإِقْرَانِ، إِلَّا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ أَخَاهُ (مسلم کتاب الاشربة باب نهى الاكل مع جماعة عن قران تمرتين و نحوهما في لقمة...3795)
448 شعبہ کہتے ہیں میں نے جبلہ بن سحیم کو کہتے ہوئے سنا کہ ابن زبیر" ہمیں کھجوریں دیتے تھے.راوی کہتے ہیں ان دنوں لوگ بہت مشکل حالات سے دوچار تھے.ہم کھارہے تھے تو حضرت ابن عمر ہمارے پاس سے گذرے انہوں نے کہا دو دو کھجوریں ملا کر نہ لو کیونکہ رسول اللہ صلی ا ہم نے دو دو اکٹھی کھجوریں لینے سے منع فرمایا ہے.سوائے اس کے کوئی شخص اپنے بھائی سے اجازت لے.شعبہ کہتے ہیں میرے خیال میں یہ بات حضرت ابن عمرؓ کی ہے یعنی اجازت لینے کی بات.555- عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَوْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ كَعْبٍ، أَنَّهُ حَذَقَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْكُلُ بِثَلَاثِ أَصَابِعَ، فَإِذَا فَرَغَ لَعِقَهَا (مسلم کتاب الاشربة باب استحباب لعق الاصابع و القصعة و اكل اللقمة الساقطة......3777) سة حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی می تین انگلیوں سے کھانا تناول فرماتے تھے اور جب فارغ ہوتے تو انہیں چاٹ لیتے تھے.556 عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ، وَقَالَ إِذَا مَا وَقَعَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيُوط عَنْهَا الأَذَى وَلْيَأْكُلْهَا، وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَسْلِتَ الصَّحْفَةَ، وَقَالَ إِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ فِي أَيْ طَعَامِكُمُ البَرَكَةُ (ترمذی کتاب الاطعمة باب ما جاء في اللقمة تسقط 1803) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلیالی کم کھانا تناول فرمانے کے بعد اپنی انگلیوں کے پوروں کو چاٹ لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر کھاتے وقت کوئی لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا چاہئے اور اسے شیطان کے لئے نہیں چھوڑ نا چاہئے اور ہمیں حکم فرماتے تھے کہ ہم پلیٹ کو اچھی طرح صاف کر لیا کریں (یعنی کھانا نہ
449 بچا یا کریں یا اتناڈالیں جتنا کھاتا ہے) یہ بھی فرماتے تھے کہ تمہیں یہ علم نہیں ہے کہ کھانے کے کون سے حصہ میں برکت ہے.557.حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُكْثِرَ اللَّهُ خَيْرَ بَيْتِهِ، فَلْيَتَوَضَّأُ إِذَا حَضَرَ غَدَاؤُهُ، وَإِذَا رُفِعَ ابن ماجه کتاب الاطعمة باب الوضوء عند الطعام 3260) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ اس کے گھر کی بھلائی میں اضافہ کرے تو اسے چاہئے کہ جب اس کا کھانا آئے تو ہاتھ دھوئے اور جب اُٹھایا جائے تب بھی.558ـ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ نَهَى أَنْ يَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا، قَالَ قَتَادَةُ: فَقُلْنَا فَالأَكُلُ، فَقَالَ ذَاكَ أَشَرُّ أَوْ أَخْبَتُ (مسلم کتاب الاشربة باب كراهية الشرب قائما 3758) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی الیم نے منع فرمایا کہ آدمی کھڑا ہو کر پئے.قتادہ کہتے ہیں ہم نے کہا اور کھانا! وہ کہنے لگے وہ تو اور بُرا ہے یا (کہا) زیادہ خراب ہے.عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَجَرَ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا (مسلم كتاب الاشربة باب كراهية الشرب قائما 3757) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے.
450 559- عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَا نَأْكُلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَمْشِي، وَنَشْرَبُ وَنَحْنُ قِيَامٌ (ترمذی کتاب الاشربة باب ما جاء فى النهى عن الشراب قائما 1880) حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم کے زمانہ میں ہم (بوقت ضرورت) چلتے ہوئے بھی کھالیتے تھے اور کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے.560 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ سَقَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَمْزَمَ فَشَرِبَ وَهُوَ قَائم (مسلم کتاب الاشربة باب فى الشرب من زمزم قائما3762) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی لنی کیم کو زمزم کا پانی پلایا تو آپ نے پیا جبکہ آپ کھڑے تھے.561 - عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الإِنَاءِ أَوْ يُنْفَخَ فِيهِ (ترمذی کتاب الاشر به باب ما جاء في كراهية النفخ في الشراب (1888) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے پانی پیتے ہوئے بر تن میں سانس لینے سے منع فرمایا اسی طرح پینے کی چیز میں پھونک مارنے سے بھی روکا.562 عن ابن أبي لَيْلَى، قَالَ كَانَ حُذَيْفَهُ بِالْمَدَابِي فَاسْتَشقي، فَأَتَاهُ دُهْقَانٌ بِقَدَج فِضَّةٍ فَرَمَاهُ بِهِ، فَقَالَ إِنِّي لَمْ أَرْمِهِ إِلَّا أَنِّي نَهَيْتُهُ فَلَمْ يَنْتَهِ، وَإِنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
451 وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنِ الحَرِيرِ وَالدِيبَاجِ، وَالقُرْبِ فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ، وَقَالَ هُنَّ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَهِيَ لَكُمْ فِي الآخِرَةِ بخاری کتاب الاشربه باب الشرب في آنية الذهب (5632) ابن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان مدائن میں تھے تو انہوں نے پانی مانگا تو ایک کسان ان کے پاس چاندی کا پیالہ لایا.آپ نے وہ پیالہ اس پر پھینک دیا اور کہنے لگے.میں نے اسے نہیں پھینکا مگر اس لئے کہ میں نے اس کو روکا ہے اور وہ رکا نہیں اور نبی صلی الم نے ریشمی کپڑوں اور دیباج اور سونے چاندی کے برتن میں پینے سے ہمیں روکا اور فرمایا یہ چیزیں دنیا میں ان کے لئے ہیں اور وہ آخرت میں تمہارے لئے ہوں گی.ذبیحہ اور شکار 563 - عَنْ عَدِي بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الكَلْبِ المُعَلَّمِ ، قَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ المُعَلَّمَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ، فَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلُ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ خَالَطَتْ كلا بنا كلاب أخرى ؟ قَالَ إِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْم الله عَلَى قَلْبِكَ، وَلَمْ تَذْكُرْ عَلَى غَيْرِهِ (ترمذی کتاب الصيد باب ما جاء فى الكلب يأكل من الصيد (1470) حضرت عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے سدھائے ہوئے شکاری کتے سے شکار کرنے کے بارہ میں پوچھا.آپ صلی المی یکم نے فرمایا جب تم نے اپنا کتا بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا ہے تو اس شکار کو کھاؤ جو اس نے تمہارے لئے پکڑ رکھا ہے اور اگر اس نے اس میں سے کچھ کھالیا ہے تو اس شکار کو مت کھاؤ کیونکہ کتے نے اپنے لئے شکار کیا ہے.پھر میں نے پوچھا کہ اگر ہمارے کتوں کے ساتھ دوسرے کتے مل جائیں تو کیا
452 حکم ہے.آپ صلی ٹیم نے فرمایا تم نے اپنے کتے کو بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا تھا دوسرے کتوں کو نہیں (اس لئے یسے شکار کو نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ اس جانور کو خو د ذبح کیا ہو).564 - عَنْ عَدِي بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَسَمَّيْتَ فَأَمْسَكَ وَقَتَلَ فَكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلُ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَإِذَا خَالَطَ كِلابًا ، لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهَا، فَأَمْسَكَنَ وَقَتَلْنَ فَلَا تَأْكُلُ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِى أَيْهَا قَتَلَ، وَإِنْ رَمَيْتَ الصَّيْدَ فَوَجَدْتَهُ بَعْدَ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ لَيْسَ بِهِ إِلَّا أَثَرُ سَيْبِكَ فَكُلْ، وَإِن وَقَعَ في الماءِ فَلَا تَأْكُل (بخاری کتاب الذبائح و الصيد باب الصيد اذا غاب عنہ یو مین او ثلاثه (5484) حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے مجھے فرمایا کہ جب تم نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے کتے کو شکار پر چھوڑا اور اس نے شکار کو تمہارے لئے پکڑے رکھا خواہ وہ مر ہی گیا ہو تو تم اس شکار کو کھا سکتے ہو.اور اگر کتے نے اس شکار میں سے کچھ کھا لیا ہے تو اس کو نہ کھاؤ کیونکہ کتے نے اپنے لئے شکار کیا ہے تمہارے لئے نہیں.اور اگر تمہارے کتنے کے ساتھ دوسرے کتے شامل ہو جائیں جن پر تم نے بسم اللہ نہیں پڑھا اور ان سب نے شکار کو مار کر تمہارے لئے روکے رکھا اور اس میں سے خود کچھ نہیں کھایا تو بھی تم اس شکار کو نہ کھاؤ اس لئے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ شکار کو کس کتے نے مارا ہے.اگر تم نے شکار کو تیر سے مارا ہے اور تم نے اس کو ایک یا دو دن بعد مراہوا پایا اور مرنے کی وجہ تیر کے سوا کوئی اور چیز نہیں تو تم اس شکار کو کھا سکتے ہو.اور اگر شکار پانی میں مرا ہو املا ہے تو اسے نہ کھاؤ ( اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پانی میں گرنے کی وجہ سے مراہو تیر کے زخم سے نہیں).
453 565 - عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا النَّجَ، وَلْيُحِلَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ (مسلم کتاب الصيد باب الامر باحسان الذبح والقتل...3601) حضرت شداد بن اوس کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی الی یکم سے دو باتیں یادر کھی ہیں.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے احسان کو فرض کیا ہے.جب تم قتل کرو تو اچھے طریق سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقہ سے ذبح کرو.تم میں سے جو کوئی ذبح کرنا چاہے وہ اپنی چھری تیز کرے اور اپنے ذبح ہونے والے جانور کو آرام پہنچائے.566 - عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِ الشَّفَارِ، وَأَنْ تُوَارَى عَنِ الْبَهَائِمِ وَقَالَ إِذَا ذَبَحَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُجْهِزْ ابن ماجه كتاب الذبائح باب اذا ذبحتم فأحسنوا الذبح (3172) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللی یم نے چھری تیز کرنے کا اور اسے جانوروں سے چھپانے کا ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ جو کوئی تم میں سے ذبح کرے وہ پوری تیاری اور تیزی سے کرے.
454 تجارت اور صنعت، خرید و فروخت اور اجارہ کے آداب -567 عَنْ عَبَايَةَ بْن رفاعة بي رافع بي حد ، عَنْ جَدِهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ قِيْلَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ الْكَسْبِ أَطيبُ ؟ قَالَ عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ وَكُلِّ بَيْعِ مَبْرُورٍ (مسند احمد بن حنبل ، مسند الشاميين ، حدیث رافع بن خديج 17397) حضرت رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! کون سا ذریعہ معاش بہتر ہے.آپ صلی الی یکم نے فرمایا ہاتھ کی محنت ، دستکاری اور صاف ستھری تجارت بہترین ذریعہ معاش ہیں.568 - عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ أُتِيَ اللهُ بِعَبْدِ مِنْ عِبَادِهِ آتَاهُ اللهُ مَالًا، فَقَالَ لَهُ: مَاذَا عَمِلْتَ فِي الدُّنْيَا ؟ قَالَ وَلَا يَكْتُمُونَ اللهَ حَدِيثًا ، قَالَ يَا رَبِ آتَيْتَنِي مَالَكَ، فَكُنْتُ أَبَايِعُ النَّاسَ، وَكَانَ مِنْ خُلُقِي الْجَوَازُ، فَكُنْتُ أَتَيَسَّرُ عَلَى الْمُوسِرِ، وَأَنْظُرُ الْمُعْسِرَ، فَقَالَ اللهُ: أَنَا أَحَقُّ بِذَا مِنْكَ، تَجَاوَزُوا عَنْ عَبْدِي ، فَقَالَ عُقْبَةُ بْنْ عَامِرٍ الْجُهَنِيُّ، وَأَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ، هَكَذَا سَمِعْنَاهُ مِنْ في رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم کتاب المساقاة باب فضل انظار المعسر 2906) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے پاس اس کے بندوں میں سے ایک بندہ جسے اللہ نے مال عطا کیا تھا لایا گیا.اللہ نے اس سے پوچھا کہ تم نے دنیا میں کیا کیا ؟ راوی کہتے ہیں کہ وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے.وہ کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے اپنا مال عطاء فرمایا تھا میں لوگوں سے خرید و فروخت کرتا تھا اور میری عادت در گزر کرنے کی تھی.میں مالدار کو سہولت دیتا تھا اور تنگدست کو مہلت دیتا تھا.اللہ فرمائے گا کہ میں
455 تم سے زیادہ اس کا حقدار ہوں.میرے بندے سے در گزر کرو.حضرت عقبہ بن عامر جہنی اور حضرت ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ ہم نے اسی طرح یہ رسول اللہ صلی اللی کمی کی زبان مبارک سے سنا ہے.-569 عن جابر بن عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَزَنكُمْ فَأَرْجُوا ابن ماجه کتاب التجارات ، باب الرجحان في الوزن (2222) حضرت جابر بن عبد اللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الہیم نے فرمایا جب تم وزن کرو تو ( پلڑا) جھکاؤ.570.عَنْ قَيْلَةً أُمْ بَنِي أَنْمَارٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ عُمَرِهِ عِنْدَ الْمَرْوَةِ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي امْرَأَةٌ أَبِيعُ وَأَشْتَرِي، فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَاعَ الشَّيْءَ، سُمْتُ بِهِ أَقَلَ مِمَّا أُرِيدُ ثُمَّ زِدْتُ، حَتَّى أَبْلُغَ الَّذِى أُرِيدُ، وَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ الشَّيْءَ، سُمْتُ بِهِ أَكْثَرَ مِنَ الَّذِى أُرِيدُ، ثُمَّ وَضَعْتُ حَتَّى أَبْلُغَ الَّذِي أُرِيدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَفْعَلِي يَا قَيْلَهُ إِذَا أَرَدْتِ أَنْ تَبْتَاعِي شَيْئًا، فَاسْتَامِي بِهِ الَّذِي تُرِيدِينَ، أُعْطِيتِ أَوْ مُنِعَتِ، فَقَالَ وَإِذَا أَرَدْتِ أَنْ تَبِيعِي شَيْئًا، فَاسْتَامِي بِهِ الَّذِي تُرِيدِينَ، أَعْطَيْتِ أَوْ مَنَعْتِ ابن ماجه كتاب التجارات ، باب السوم (2204) حضرت قبلہ ام بنی انمار بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں آپ کے ایک عمرہ کے دوران ”مروہ کے قریب حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں ایک عورت ہوں جو خرید و فروخت کیا کرتی ہوں جب میں کوئی چیز خریدنا چاہتی ہوں اس کی قیمت لگاتی ہوں اس سے کم جتنے میں لینا چاہتی ہوں پھر میں بڑھاتی ہوں یہاں تک کہ اس (قیمت تک پہنچ جاتی ہوں جو میرا ارادہ ہوتا ہے اور جب میں کوئی چیز بیچنا چاہتی ہوں تو میں اس کی اس سے زیادہ قیمت لگاتی ہوں جو میرا ارادہ ہوتا ہے پھر میں کم کرتی ہوں یہاں تک کہ
456 وہاں پہنچ جاتی ہوں جہاں میرا ارادہ ہوتا ہے.رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا قبیلہ ! ایسا نہ کرو، جب تم کچھ خرید نا چاہو تو اس کی قیمت لگاؤ جو تم چاہتی ہو خواہ تمہیں دیا جائے یانہ دیا جائے اور فرمایا جب تم کوئی چیز بیچنا چاہو تو وہ قیمت بتاؤ جو تمہارا ارادہ ہے خواہ تم دویانہ دو.571.عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النبيين والصديقين والشهداء سنن الدار می كتاب البيوع باب فى التاجر الصدوق (2542) رض حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا سچا اور دیانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی معیت کا حقدار ہے.عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبيين والصديقِينَ وَالشُّهَدَاء (المستدرك على الصحيحين للحاكم ، كتاب البيوع ، باب و اما حديث حبیب بن ابي ثابت (2143) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا سچا اور دیانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی معیت کا حقدار ہے.عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَالصَّدِيقِينَ، وَالشُّهَدَاءَ الله ق (ترمذی کتاب البیوع باب ما جاء في التجار وتسمية النبي الا اياهم 1209)
457 رض حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی یم نے فرمایا سچا اور دیانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی معیت کا حقدار ہے.572ـ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّاجِرُ الْأَمِينُ الصَّدُوقُ الْمُسْلِمُ مَعَ الشُّهَدَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ابن ماجه کتاب التجارات ، باب الحث على المكاسب (2139) حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللی کم نے فرمایا امانت دار ، سچ بولنے والا مسلمان تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہو گا.573- عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ البَيْعَانِ بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا ، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَّبَا مُحقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا (بخاری کتاب البیوع باب ما يمحق الكذب والكتمان في البيع 2082) ย حضرت حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بائع اور مشتری کو (بیع فسح کرنے کا) اختیار ہے ، جب تک وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں.یا (یہ) فرمایا اُس وقت تک کہ جدا ہو جائیں.اگر اُن دونوں نے سچائی سے کام لیا اور صفائی سے بات کی تو اُن دونوں کو خرید و فروخت کے سودے میں برکت دی جائے گی اور اگر اُن دونوں نے اخفاء سے کام لیا اور جھوٹ بولا تو اُن دونوں کے سودے کی برکت مٹادی جائے گی.
458 574ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ عَلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَ حَافِرُ لِبَادٍ، وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا يَبيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلَا يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةٍ أَخِيهِ، وَلَا تَسْأَلُ المرأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْفَأَ مَا فِي إِنَائِهَا (بخاری کتاب البیوع باب لا يبيع على بيع اخيه ولا يسوم على سوم اخيه 2140) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ شہری غیر شہری کے لئے بیع کرے، اور تم دھو کہ دینے کے لئے آپس میں قیمت نہ بڑھاؤ، اور کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے، اور اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نہ دے، اور کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق طلب نہ کرے، اس نیت سے کہ اُس کے بر تن میں جو کچھ ہے وہ خود انڈیل لے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَلَقَى، وَأَن يَبْتَاعَ المُهَاجِرُ لِلْأَعْرَابِ، وَأَنْ تَشْتَرِطَ المَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا، وَأَنْ يَسْتَامَ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمٍ أَخِيهِ، وَنَهَى عَنِ النَّجْشِ، وَعَنِ التَّصْرِيَةِ (بخاری کتاب الشروط باب الشروط في الطلاق 2727 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی قافلہ سے آگے جاکر ملنے کی ممانعت کی.اور اس بات سے بھی کہ کوئی مہاجر کسی بدوی کے لئے خرید و فروخت کرے.اور اس سے بھی کہ کوئی عورت اپنی بہن کو طلاق دینے کی شرط کرے.اور اس سے بھی کہ کوئی آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے.اور آپ نے دھوکا دینے کیلئے قیمت بڑھانے سے اور تھنوں میں دودھ جمع رکھنے سے بھی منع فرمایا ہے.
459 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، وَلَا يَسُومُ عَلَى سَوْمٍ أَخِيهِ، وَلَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا وَلَا عَلَى خَالَتِهَا، وَلَا تَسْأَلُ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْتَفِي مَحْفَتَهَا وَلْتَنْكِحُ، فَإِنَّمَا لَهَا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهَا (مسلم کتاب النکاح باب تحريم الجمع بين المراة وعمتها 2505) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر نکاح کا پیغام نہ دے اور نہ ہی اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے اور کسی عورت کا نکاح اس کی پھوپھی نہ ہی خالہ پر کیا جائے اور نہ ہی کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ وہ اس کے بر تن کو انڈیل لے بلکہ نکاح کرے.کیونکہ اس کے لئے وہی ہے جو اللہ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے.اس پیغام نکاح پر پیغام دینے کی ممانعت ہے جو گویا منظور ہو چکا ہو اور اس سودے پر سودے کی پیش کش منع ہے جو طے ہو چکا ہو.( یہ روایت اس کے علاوہ مسلم میں کتاب النکاح باب تحریم الخطبة على خطبة اخیہ میں متعد دبار مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے ).575- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لا يُبيعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا تَلَقَّوْا اليَلَعَ حَتَّى يُبْبَطَ بِهَا إِلَى السُّوقِ (بخاری کتاب البيوع باب النهي عن التلقى الركبان (2165) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی کسی کے سودے پر سودا نہ کرے اور تجارتی سامان لانے والوں سے آگے جا کر نہ ملا کرو، جب تک کہ مال منڈی میں لے جاکر اُتارا نہ جائے.
460 576 ـ عَنْ أَبِي الْحَمْرَاءِ، قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنَ بِجَنَبَاتِ رَجُلٍ عِنْدَهُ طَعَامُ فِي وِعَاءٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ، فَقَالَ لَعَلَّكَ غَشَشْتَ، مَنْ غَشَنَا فَلَيْسَ مِنَّا (ابن ماجه كتاب التجارات باب النهي عن الغش (2225 حضرت ابو الحمر انہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم کو دیکھا آپ ایک شخص کے پاس سے گذرے، اس کے پاس ایک برتن میں غلہ تھا.آپ نے اس میں اپنا ہاتھ ڈالا اور فرمایا معلوم ہوتا ہے تم نے دھو کہ کیا ہے.جس نے ہمیں دھو کہ دیاوہ ہم میں سے نہیں ہے.577 - رُوِيَ عَن ابن عمر رضى الله عَنْهُمَا عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ إِن الله يُحِبُّ الْمُؤمِنَ المحتَرِفَ - رَوَاهُ الطَّبَرَانِي فِي الْكَبِيرِ وَالْبَيْهَقِى (الترغيب والترهيب للمنذري ، كتاب البيوع وغيرها الترغيب فى الاكتساب بالبيع 2469) حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ماہر دست کار اور ہنر مند مومن کو پسند کرتا ہے.صحت و مرض، پر ہیز اور اعلاج 578- عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الضِخَةُ وَالفَرَاغُ (بخاری کتاب الرقاق باب ولا عيش الا عيش الآخرة 6412) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الیم نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن میں بہت سے لوگ گھاٹا کھا رہے ہیں.صحت اور فراغت.
461 عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصَّغَةُ وَالفَرَاغُ (ترمذی کتاب الزهد ، باب الصحة و الفراغ نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس 2304) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کی قدر نہ کر کے بہت سے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں.ایک صحت دوسرے فارغ البالی.579ـ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ جِبْرِيلَ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اشتَكَيْت فَقَالَ نَعَمْ قَالَ بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ مِن كُل شَىءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ هَرَ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عين حاسد اللهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللهِ أرقيك (مسلم کتاب السلام باب الطب و المرض و الرقى 4042) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ جبریل نبی صلی علیم کے پاس آئے اور کہا اے محمد صلی علیکم ! آپ صلی علیہ کم بیمار ہیں ؟ صلی للی مریم نے فرمایا ہاں.انہوں نے کہا اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ صلی لی کام کو کم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ صلی اللہ کم کو تکلیف دیتی ہے.ہر نفس کے شر سے اور حسد کرنے والے کی آنکھ سے.اللہ آپ صلی علیہ یکم کو شفادے گا اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ صلی علیہ ہم کو دم کرتا ہوں.الله سة 580ـ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ كَانَ لِي خَالْ يَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ، فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى، قَالَ فَأَتَاهُ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّكَ نَبَيْتَ عَنِ الرُّقَ، وَأَنَا أَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ، فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنكُمْ أَن يَنفَعَ أَخَاهُ فَلْيَفْعَلْ (مسلم کتاب السلام باب استحباب الرقية من العين و النملة و الحمة...4063)
462 حضرت جابر کہتے ہیں میرے ایک ماموں بچھو کے کاٹے ) کا دم کرتے تھے.رسول اللہ صلی الیم نے دم سے منع فرما دیا.وہ کہتے ہیں وہ (ان کے ماموں) آپ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول صلی الیم اللہ ! آپ نے دم سے منع فرما دیا ہے اور میں بچھو کے کاٹے) کا دم کرتا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا جو تم میں سے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اُسے ایسا کرنا چاہیے.581ـ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا فِي سَفَرٍ، فَمَرُوا بِحَيْ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَاسْتَضَافُوهُمْ فَلَمْ يُضِيفُوهُمْ، فَقَالُوا لَهُمْ: هَلْ فِيكُمْ رَاقٍ ؟ فَإِنَّ سَيْدَ الْحَي لَدِيغ أَوْ مُصَابٌ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: نَعَمْ، فَأَتَاهُ فَرَقَاهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَبَرَأَ الرَّجُلُ، فَأُعْطِيَ قَطِيعًا مِنْ غَلَمٍ، فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا، وَقَالَ حَتَّى أَذْكُرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ يَارَسُولَ اللهِ وَاللهِ مَا رَقَيْتُ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَتَبَسَّمَ وَقَالَ وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟ ثُمَّ قَالَ خُذُوا مِنْهُمْ، وَاضْرِبُوا لِي بِسَهُم مَعَكُمْ (مسلم کتاب السلام باب جواز اخذ الاجرة على الرقية بالقرآن...4066) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم کے کچھ صحابہ سفر میں تھے.وہ عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے اور ان سے مہمان نوازی چاہی لیکن انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی.انہوں نے ان سے پوچھا کیا تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے ؟ کیونکہ قبیلہ کے سردار کو کسی چیز ( بچھو وغیرہ) نے ڈس لیا ہے یا وہ بیمار ہے.ان (صحابہ) میں سے ایک نے کہا ہاں.وہ اس کے پاس گئے اور انہوں نے اسے سورۃ فاتحہ کا دم کیا.تو وہ شخص تندرست ہو گیا تو اس کو بکریوں کا ایک ریوڑ دیا گیا لیکن اس (صحابی) نے اسے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں (پہلے) نبی صلی لیلم کے پاس اس کا ذکر کروں گا.وہ نہیں ملی لیکم کے پاس آیا اور یہ بات بیان کی اور اس نے کہا یارسول اللہ! اللہ کی قسم میں نے صرف سورۃ فاتحہ کا دم کیا ہے.ا
463 آپ مسکرائے اور فرمایا تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ دم ہے ؟ پھر فرمایا تم ان سے لے لو اور اپنے ساتھ میرے لئے بھی حصہ رکھنا.582 - عن أبي سَعِيدٍ، وأبي هُرَيْرَةَ أَنَّهُمَا سَمِعَا رَسُول الله صلى الله عليه وسلم ، يَقُولُ ما يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ وَصَبٍ، وَلَا نَصَبٍ، وَلَا سَقَمٍ ، وَلَا حَزَنٍ حَتَّى الْهَمْ يُيَمُهُ، إِلَّا كُفْرَ بِهِ مِنْ سَيِّئَاتِهِ (مسلم کتاب البر والصلة باب ثـ و من فيما يصيبه من مرض...4656) حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مومن کو کوئی تکلیف تھکان بیماری یا غم نہیں پہنچتا یہانتک کہ اگر کوئی فکر اسے لاحق ہوتی ہے تو اس کے عوض اس کی بعض برائیوں کو دور کر دیا جاتا ہے.583ـ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ، خَرَجَ إِلَى الشَّامِ ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أَهْلُ الْأَجْنَادِ أَبو عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَزَاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ فَقَالَ عُمَرُ : ادْعُ فِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ فَدَعَوْتُهُمْ، فَاسْتَشَارَهُمْ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ ، فَاخْتَلَفُوا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ فَقَالَ ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي الْأَنْصَارِ فَدَعَوْتُهُمْ لَهُ، فَاسْتَشَارَهُمْ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ، وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ ارْتَفِعُوا عَنِي، ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْحِ، فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفُ عَلَيْهِ رَجُلَانِ، فَقَالُوا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا
464 الْوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ إِنِّي مُصْبحْ عَلَى ظَهْرٍ، فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاح : أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللهِ ؟ فَقَالَ عُمَرُ : لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةً وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُ - خِلَافَهُ ـ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللهِ إِلَى قَدَرِ اللهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَتْ لَكَ إِبِلُ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ، إِحْدَاهُمَا خَصْبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةُ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةٌ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللهِ، قَالَ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَكَانَ مُتَغَيَبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَالَ إِنَّ عِنْدِى مِنْ هَذَا عِلْمًا ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضِ، فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضِ وَأَنْتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ ثُمَّ انْصَرَفَ (مسلم کتاب السلام باب الطاعون و الطيرة والكهانة ونحوها4100) حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف گئے یہانتک کہ سرغ مقام پر پہنچے تو آپ کو لشکروں کے افسران حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور ان کے ساتھی ملے اور انہوں نے آپ کو بتایا کہ شام میں طاعون پھوٹ پڑی ہے.حضرت ابن عباس کہتے ہیں حضرت عمرؓ نے فرمایا ابتدائی مہاجرین کو میرے پاس بلاؤ.میں انہیں بلالا یا.آپ (حضرت عمرؓ) نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں طاعون پھوٹ پڑی ہے.اس پر انہوں نے مختلف آراء دیں.ان میں سے بعض نے کہا آپ ایک اہم کام کے لئے نکلے ہیں اور ہم آپ کا واپس لوٹنا مناسب نہیں کجھتے اور ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا آپ کے ساتھ بہترین لوگ اور رسول اللہ صلی الم کے صحابہ نہیں اور ہم مناسب خیال نہیں کرتے کہ آپ انہیں اس وباء میں لے جائیں.آپ نے انہیں فرمایا آپ جاسکتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا میرے پاس انصار کو بلاؤ.میں انہیں آپ کے پاس بلا لایا.آپ نے ان سے مشورہ کیا انہوں نے بھی مہاجرین مخاطریق اختیار کیا اور ان کی طرح مختلف آراء پیش کیں.آپ نے فرمایا آپ لوگ جاسکتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا میرے پاس قریش کے بزرگان کو بلاؤ جنہوں نے فتح مکہ کے موقعہ پر ہجرت کی تھی.میں انہیں بلالا یا.ان میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا.انہوں نے کہا ہماری رائے ہے کہ
465 آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور انہیں اس وبا میں نہ لے جائیں.اس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں میں اعلان کروادیا کہ میں صبح ( واپسی کے لئے ) سوار ہوں گا آپ سب لوگ بھی صبح سوار ہو جائیں.اس پر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں؟ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا اے ابو عبیدہ ! کاش تمہارے علاوہ کوئی اور یہ بات کہتا !!.اور حضرت عمر بالعموم ان (حضرت ابو عبیدہ) سے اختلافِ رائے کو نا پسند فرماتے تھے.ہاں، ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں.بتایئے اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور وہ ایک ایسی وادی میں ہوں جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سر سبز و شاداب ہو اور دوسر اخشک اور ویران ہو تو اگر تم سر سبز کنارے پر انہیں چہ اؤ تو اللہ کی تقدیر سے ہی انہیں چراؤ گے اور اگر تم انہیں خشک کنارے پر چراؤ تواللہ کی تقدیر سے انہیں چراؤ گے.وہ (حضرت ابن عباس) کہتے ہیں حضرت عبد الرحمان بن عوف جو اپنے کسی کام کی وجہ سے موجود نہ تھے آئے اور انہوں نے کہا مجھے اس بات کا علم ہے میں نے رسول اللہ صلی علی یلم کو فرماتے سنا ہے جب تم کسی جگہ اس ( وبا) کا سنو تو اس کی طرف نہ جاؤ اور اگر اس جگہ پھوٹ پڑے جہاں تم ہو تو وہاں سے اس سے بھاگنے کے لئے نہ نکلو.وہ (حضرت ابن عباس) کہتے ہیں اس پر حضرت عمر نے اللہ کی حمد کی اور واپس لوٹ گئے.584ـ عَنْ أَسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ الله........أَنْتَدَاوَى؟ قَالَ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُنْزِلُ دَاءً ، إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءٌ، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ، وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ (مسند احمد بن حنبل ، اول مسند الكوفيين ، حدیث اسامہ بن شریک 18647) حضرت اسامہ بن شریک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور پوچھا یار سول اللہ ! ہم علاج معالجہ کر سکتے ہیں ؟ حضور صلی الی یکم نے فرمایا بیمار کا علاج ضرور کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لئے شکار کھی ہے.کوئی اس کا علاج جانتا ہے اور کوئی نہیں جانتا ہے.
466 585.عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءُ، فَإِذَا أَصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلْ (مسلم کتاب السلام باب لكل داء دواء و استحباب التداوی 4070) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ہر بیماری کی دوا ہے جب بیماری کی دوامل جائے تو اللہ عز و جل کے اذن سے (مریض) شفاء پاتا ہے.586- عَنْ سِمَاكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْن وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلَهُ سويد بن ظاري، أو طارق بن سُوَيْدٍ عَنِ الخَيْرِ فَتَهَاهُ عَنْهُ فَقَالَ إِنَّا نَتَدَاوَى بها، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا لَيْسَتْ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَهَا دَاءً (ترمذی کتاب الطب باب ما جاء في كراهية التداوي بالمسكر 2046) حضرت عاظمہ اپنے والد کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں حضرت سوید بن طارقی نے نبی صلی الی یکم سے شراب کے متعلق دریافت کیا تو رسول اللہ صلی الی یکم نے اس کے استعمال کرنے سے منع فرمایا اس پر سوید نے کہا کہ ہم اسے بطور دوا پیتے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا یہ دوا نہیں ہے بلکہ یہ بیماری ہے.587- عن أبي هريرةً، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم قال لا يعملين أحد منكم الموت، إما مُحْسِنًا فَلَعَلَهُ أَن يَزْدَادَ خَيْرًا، وَإِمَّا مُسِينَا فَلَعَلَّهُ أَن يَسْتَعْتِبَ (نسائی کتاب الجنائز باب تمنى الموت 1818)
467 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا تم میں سے کوئی موت کی تمنانہ کیا کرے اگر وہ نیک ہے تو ہو سکتا ہے مزید نیکیاں کرنے کی اسے توفیق ملے اور اگر وہ گنہگار ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے تو بہ واستغفار کرنے کا موقع ملے.588- عن أليس، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَعْمَلَينَ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ يفرٍ نَزِّلَ بِهِ، فَإِن كَانَ لَا بُدَّ مُتَمَنِيًا فَلْيَقُل: اللهم أخيبي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي (مسلم کتاب الذكر والدعاء باب كراهية تمنى الموت لضر نزل به 4826) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تم میں سے کوئی کسی تکلیف کے اترنے پر موت کی خواہش نہ کرے.اگر اسے خواہش کئے بغیر کوئی چارہ نہیں تو یہ کہے اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھیو جب تک زندگی میرے لئے بہتر ہے اور مجھے اس وقت وفات دینا جب وفات میرے لئے بہتر ہو.تیمار داری اور عیادت 589ـ عَنِ البَرَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ، وَنَهَانَا عَنْ سَبْعَ : أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ المَرِيضِ ، وَاتَّبَاعِ الجِنَازَةِ، وَتَشْمِيتِ العَاطِسِ، وَإِجَابَةِ الدَّاعِي، وَرَدِ السَّلامِ ، وَنَصْرِ المَظْلُومِ، وَإِبْرَارِ المُقْسِمِ.(بخاری کتاب الادب باب تشميت العاطس اذا حمد الله 6222) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا یکم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم بیمار کی عیادت کریں، جنازے کے ساتھ جائیں، چھینک مارنے والے کی چھینک کا جواب دیں، اور دعوت کے لئے بلانے والے کی
468 دعوت قبول کریں اور سلام کا جواب دیں اور مظلوم کی مدد کریں اور قسم کھانے والے کو اس کی قسم پورا کرنے میں مدد دیں.590ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ عَادَ مَرِيضًا أَوْ زَارَ أَنَّا لَهُ فِي اللهِ نَادَاهُ مُنَادٍ أَنْ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في زيارة الاخوان 2008) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مریض کی عیادت کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی بھائی سے ملنے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا منادی صد الگاتا ہے کہ تو خوش رہے تیر اچلنا مبارک ہو جنت میں تیر اٹھ کا نہ ہو.-591- عن أبي هريرة، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدُنِي، قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أَعُودُكَ ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِى فَلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدُهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدُ تَنِي عِنْدَهُ ؟ يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمُنِي، قَالَ يَا رَبِّ وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِى فُلَانٌ، فَلَمْ تُطْعِمْهُ ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي، يَا ابْنَ آدَمَ اسْتَسْقَيْتُكَ، فَلَمْ تَسْقِنِي، قَالَ يَا رَبِّ كَيْفَ أَسْقِيكَ ؟ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ، قَالَ اسْتَسْقَاكَ عَبْدِى فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِى (مسلم کتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض 4647)
469 حضرت ابو ہریر کا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ عز و جل فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار ہوا لیکن تو نے میری عیادت نہ کی وہ کہے گا اے میرے رب ! میں کس طرح تیری عیادت کرتا جبکہ تو تمام جہانوں کا رب ہے.اللہ فرمائے گا کیا تجھے علم نہیں تھا کہ میر افلاں بندہ بیمار تھا لیکن تو نے اس کی عیادت نہ کی.کیا تجھے علم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا.اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھاناما لنگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلا یا وہ کہے گا اے میرے رب میں تجھے کس طرح کھلا سکتا ہوں جبکہ تو سب جہانوں کا رب ہے.وہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں ہندو نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا کیا تو جانتا نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا.اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پا پیادہ کہے گا اے میرے رب میں مجھے کس طرح پانی پلا سکتا ہوں جبکہ تو تمام جہانوں کا رب ہے.وہ فرمائے گا کہ تجھ سے میرے فلاں بندہ نے پانی مانگا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلا یا اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے ضرور میرے پاس موجو د پاتا.592.عَنْ أُمِ الْعَلَاءِ، قَالَتْ: عَادَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضَةٌ، فَقَالَ أَبْشِرِى يَا أُمَّ الْعَلَاءِ، فَإِنَّ مَرَضَ الْمُسْلِمِ يُذْهِبُ اللَّهُ بِهِ خَطَايَاهُ، كَمَا تُذْهِبُ النَّارُ خَيْتَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ (ابو داؤد کتاب الجنائز باب عيادة النساء 3092) حضرت ام علامہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے میری عیادت کی اور میں بیمار تھی.آپ نے فرمایا اے ام العلاء خوش ہو جاؤ کیونکہ مسلمان کی بیماری کے ذریعے اللہ اس کی خطائیں دور کر دیتا ہے جس طرح آگ سونے اور چاندی کی میل کچیل دور کر دیتی ہے.
470 593 - عَنْ عَائِمَةً، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا عَادَ مَرِيضًا يَقُولُ أَذْهِبٍ الْبَاسَ، رَبَّ النَّاسِ، اشْفِهِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا (مسلم کتاب السلام باب استحباب رقية المريض 4048) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی لی لیم جب کسی مریض کی عیادت فرماتے تو دعا کرتے اے لوگوں کے رب! تو بیماری کو دور کر دے.تو اسے شفاء دے کہ تو ہی شفاء دینے والا ہے.تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفاء نہیں ہے.ایسی شفاء دے جو کوئی بیماری نہ چھوڑے.594 - عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ: أَسْلِمُ ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ: أَطِعْ أَبَا القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ (بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبى فمات هل يصلى عليه 1356) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا تھا.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا.وہ بیمار ہو گیا.نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیمار پرسی کے لئے اس کے پاس آئے.آپ اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس سے کہا اسلام قبول کر لو.اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور وہ اس کے پاس ہی تھا.تو اس نے اسے کہا ابو القاسم کی بات مانو.سو اس نے اسلام قبول کیا.پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے اور آپ یہ کہہ رہے تھے اللہ ہی کی حمد ہے جس نے اس کو آگ سے بچالیا ہے.
471 وفات اور تعزیت 595- عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ آخِرُ كلامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ (ابو داؤد کتاب الجنائز باب في التلقين 3116) حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جس کا آخری کلام لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ہو وہ جنت میں داخل ہو گا.596 - عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ (بخاری کتاب المرضى باب تمنى المريض الموت 5674) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی الی یوم وفات کے وقت میری گود کا سہارا لے کر لیٹے ہوئے تھے اور یہ دعا کرتے تھے ”اے اللہ! مجھے بخش، مجھ پر رحم کر اور مجھے اعلیٰ ساتھی سے ملادے“ (یعنی اپنا قرب خاص عطا کر ).597 - عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِي، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا مَاتَ وَلَدُ العَبْدِ قَالَ اللهُ لِمَلَائِكَتِهِ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِى، فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ قَبَضْتُمْ ثَمَرَّةً فُؤَادِهِ، فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ مَاذَا قَالَ عَبْدِي ؟ فَيَقُولُونَ: حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ، فَيَقُولُ اللهُ: ابْنُوا لِعَبْدِى بَيْتًا فِي الجَنَّةِ، وَسَمُوهُ بَيْتَ الحَمدِ (ترمذی کتاب الجنائز باب فضل المصيبة اذا احتسب 1021)
472 حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے بچہ کو وفات دیتا ہے تو اپنے ملائکہ سے کہتا ہے کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی، اس پر فرشتے جواب دیتے ہیں ہاں ہمارے اللہ ! پھر فرماتا ہے تم نے اس کے دل کی کلی توڑ لی.فرشتے جواب دیتے ہیں ہاں، ہمارے اللہ ! پھر وہ پوچھتا ہے.اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں.اس نے تیری حمد کی اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے تم میرے اس صابر و شاکر بندے کے لئے جنت میں ایک گھر تعمیر کر و اور اس کا نام بیت الحمد رکھو.598ـ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَقُلْ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأُجُرْنِي فِيهَا وَأَبْدِلْنِي مِنْهَا خَيْرًا.فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ اللَّهُمَّ اخْلُفْ فِي أَهْلِي خَيْرًا مِنِّي، فَلَمَّا قُبِضَ قَالَتْ: أَمُّ سَلَمَةَ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، عِنْدَ اللَّهِ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيهَا (ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء في عقد التسبيح باليد (3511) حضرت ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جب تم میں سے کسی پر مصیبت آئے تو وہ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھے اور دعا مانگے کہ میرے اللہ ! میں تیرے حضور اپنی مصیبت کو پیش کرتا ہوں مجھے اس کا بہتر اجر دے اور اس کے بدلہ میں خیر اور برکت مجھے عطا کر.پس جب ابو سلمہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے دعا کی.اے میرے اللہ ! میرے اہل کو میرے بدلہ میں اچھا قائم مقام عطا کرنا.جب ان کی وفات ہو گئی تو حضرت ام سلمہ نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور دعا کی کہ میں اپنی مصیبت تیرے حضور پیش کرتی ہوں تو مجھے اس کا بہتر اجر دے (چنانچہ ایسا ہوا کہ حضرت ام سلمہ کی شادی آنحضرت صلی علیکم سے ہو گئی اور اس طرح بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا).
473 599 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَيْفِ القَيْنِ، وَكَانَ ظِنُّرًا لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَبَّلَهُ، وَهَمَهُ، ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِبْرَاهِيمُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ، فَجَعَلَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَذْرِ فَانِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ فَقَالَ يَا ابْن عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ، ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ العَيْن تَدْمَعُ، وَالقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلَا تَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا ، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ (بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي لا انا بك لمحزونون (1303) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسیف لوہار کے پاس گئے اور وہ ابراہیم علیہ السلام کی انا کے شوہر تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو لیا.ان کو بوسہ دیا اور پیار کیا.پھر اس کے بعد ہم (ابوسیف) کے پاس گئے اور ابراہیم نزع کی حالت میں تھے.یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی علیم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا یارسول اللہ ! آپ بھی؟ آپ نے فرمایا عوف کے بیٹے یہ تو رحمت ہے.پھر آپ نے آنسو بہائے اور آپ صلی الم نے فرمایا آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے اور ہم کچھ نہیں کہتے مگر وہی جو ہمارے رب کو پسند ہو اور ہم اے ابراہیم ! تیری جدائی سے یقینا غمگین ہیں.600ـ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ حَدَّثَنِي أَسَامَةُ بْن زَيْدٍ، قَالَ أَرْسَلَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ أَنَّ ابْنَا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا، فَأَرْسَلَ يَقْرَأُ السَّلَامَ وَيَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَ اللهِ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرُ وَلْتَحْتَسِبْ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَهَا، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَبَى بَنْ كَعْبٍ،
474 وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرِجَالٌ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا هَذَا ؟ قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ ، يَجْعَلُهَا اللهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ (نسائی کتاب الجنائز باب الامر بالاحتساب و الصبر عند نزول المصيبة 1868) حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ایم کی صاحبزادی نے حضور صلی علیکم کے پاس پیغام بھیجا کہ میرا الله لڑکا قریب المرگ ہے آپ ذرا جلدی تشریف لاویں.حضور علی یی کم نے فرمایا کہ اس سے میر اجاکر سلام کہو اور کہو کہ صبر کرے.اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور وہی لے لیتا ہے اور اس نے ہر چیز کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے.آپ کی صاحبزادی نے پھر پیغام بھیجا کہ آپ کو قسم ہے.خدا کے واسطے آپ ضرور تشریف لاویں.حضور صلی یی کم چلنے کے لئے کھڑے ہوئے آپ کے ہمراہ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور کئی اور لوگ تھے جب آپ صلی نیز کم وہاں پہنچے تو بچے کو آپ کی گود میں دے دیا گیا بچہ جان کنی کی حالت میں تھا یہ دیکھ کر حضور صلی اینم کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے.حضرت سعد بن عبادہ کہنے لگے.حضور یہ کیا! آپ رو ر ہے ہیں.حضور صلی یکم نے فرمایا یہ رحم کے آنسو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کے دل میں فطرۃ ودیعت کیا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والوں پر ہی رحم کرتا ہے.الله سة 601- حدثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، عَنِ امْرَأَةٍ، مِنَ الْمُبَايِعَاتِ، قَالَتْ: كَانَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَعْرُوفِ الَّذِي أَخَذَ عَلَيْنَا أَنْ لَا نَعْصِيَهُ فِيهِ : أَنْ لَا نَخْمَشَ وَجْهَا ، وَلَا نَدْعُوَ وَيْلًا، وَلَا نَشُقِّ جَيْبًا، وَأَنْ لَا نَنْشُرَ شَعْرًا (ابو داؤد کتاب الجنائز باب في النوح (3131)
475 اسید بن ابی اسید نے ایک عورت سے روایت کی جو بیعت کرنے والیوں میں سے تھی اس نے کہا جن معروف باتوں پر رسول اللہ صلی علی کریم نے ہم سے عہد لیا ان میں یہ عہد بھی شامل تھا کہ ہم اس (معروف بات ) میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، ( غم میں) چہرہ نہیں نوچیں گی اور نہ ہی ہلاکت کو بلائیں گی اور نہ گریبان پھاڑیں گی اور نہ اپنے بال بکھیریں گی.602 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اثْنَتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا بهم كُفْرُ: الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ وَالنِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيْتِ (مسلم کتاب الايمان باب اطلاق اسم الكفر على الطعن...92) الله حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ دو باتیں لوگوں میں ہیں جو کفر کا موجب ہیں.نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا.603 - عَنْ زَيْنَبَ ابنة أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ هَذِهِ الأَحَادِيثَ الثَّلَاثَةَ: قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أَمْ حَبِيبَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَدَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ، خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ، فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةٌ ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِلَّ عَلَى مَيْتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا قَالَتْ زَيْنَبُ، فَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ ابنة تخش، حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَتْ: أَمَا وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى المِنْبَرِ :
476 لا يحل لامرأة تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ تَحِدَّ عَلَى مَيْتٍ فَوْقَ فَلَاتِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجِ أَرْبَعَةَ أَهْبُرٍ وَعَشْرًا (بخاری کتاب الطلاق باب المتوفى عنها زوجها اربعة اشهر وعشر ا5334، 5335) حضرت زینب بنت ابی سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت ام المومنین ام حبیبہ کی خدمت میں حاضر ہوئی ان رض دنوں آپ کے والد حضرت ابو سفیان فوت ہوئے تھے حضرت ام حبیبہ نے میری موجودگی میں زردرنگ کی خوشبو منگوائی پہلے اپنی لونڈی کو لگائی پھر اپنا ہاتھ اپنے رخساروں پر ملا اور ساتھ ہی فرمایا خدا کی قسم ! مجھے خوشبو لگانے کی کوئی خواہش نہیں مگر میں نے رسول اللہ صلی علیہ کمی سے سنا ہے آپ صلی ای ایم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا اللہ تعالٰی اور آخری دن پر ایمان لانے والی کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی مرنے والے کا سوگ کرے البتہ بیوی اپنے خاوند کے مرنے پر چار ماہ دس دن سوگ میں گزارتی ہے اس حدیث کی راویہ زینب کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں ام المومنین حضرت زینب کی خدمت میں افسوس کے لئے حاضر ہوئی آپ صلی الی یوم کے بھائی فوت ہو گئے تھے میری موجودگی میں انہوں نے بھی خوشبو منگوا کر لگائی اور فرمایا مجھے خوشبو لگانے کی کوئی خواہش نہیں صرف رسول اللہ صلی علیم کے ارشاد کی تعمیل میں ایسا کر رہی ہوں آپ ملی پیام نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا اللہ تعالی اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مرنے والے کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اس بیوی کے جو اپنے خاوند کے مرنے پر چار ماہ دس دن سوگ میں رہتی ہے.604 - عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ قَالَ هَلَكَتِ امْرَأَةٌ لِي، فَأَتَانِي مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبِ الْقُرَظِيُّ يُعَزِينِي بِهَا فَقَالَ إِنَّهُ كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ فَقِيهُ عَالِمٌ عَابِدٌ مُجْتَهِدٌ، وَكَانَتْ لَهُ امْرَأَةٌ.وَكَانَ بِهَا مُعْجَبًا لَهَا مُحِبًا، فَمَاتَتْ فَوَجَدَ عَلَيْهَا وَجَدًا شَدِيدًا، وَلَقِيَ عَلَيْهَا أَسَفًا،
477 حَتَّى خَلَا فِي بَيْتٍ، وَغَلَقَ عَلَى نَفْسِهِ، وَاحْتَجَبَ مِنَ النَّاسِ فَلَمْ يَكُن يَدْخُلُ عَلَيْهِ أَحَدٌ.وَإِنَّ امْرَأَةً سَمِعَتْ بِهِ فَجَاءَتْهُ، فَقَالَتْ: إِنَّ لِي إِلَيْهِ حَاجَةً أَسْتَفْتِيهِ فِيهَا.لَيْسَ يُجْزِينِي فِيهَا إِلَّا مُشَافَهَتُهُ، فَذَهَبَ النَّاسُ، وَلَزِمَتْ بَابَهُ.وَقَالَتْ: مَا لِي مِنْهُ بُةٌ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: إِنَّ هَاهُنَا امْرَأَةً أَرَادَتْ أَنْ تَسْتَفْتِيكَ، وَقَالَتْ: إِنْ أَرَدْتُ إِلَّا مُشَافَهَتَهُ وَقَدْ ذَهَبَ النَّاسُ وَهِيَ لَا تُفَارِقُ الْبَابَ.فَقَالَ انْذَنُوا لَهَا.فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ.فَقَالَتْ: إِنِّي جِئْتُكَ أَسْتَفْتِيكَ فِي أَمْرٍ.قَالَ وَمَا هُوَ ؟ قَالَتْ: إِنِّي اسْتَعَرْتُ مِنْ جَارَةٍ لِي حَلْيَّا، فَكُنْتُ أَلْبَسُهُ وَأَعِيرُهُ زَمَانًا، ثُمَّ أَرْسَلُوا إِلَى فِيهِ، أَفَأَوَذِيهِ إِلَيْهِمْ ؟ فَقَالَ نَعَمْ وَاللَّهِ.فَقَالَتْ: إِنَّهُ قَدْ مَكَتَ عِنْدِي زَمَانًا، فَقَالَ ذَلِكِ أَحَقُّ لِرَذِكِ إِيَّاهُ إِلَيْهِمْ ، حِينَ أَعَارُوكِيهِ زَمَانًا، فَقَالَتْ: أَى يَرْحَمُكَ اللهُ ، أَفَتَأْسَفُ عَلَى مَا أَعَارَكَ اللهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ مِنْكَ وَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْكَ؟ فَأَبْصَرَ مَا كَانَ فِيهِ وَنَفَعَهُ اللَّهُ بِقَوْلِهَا (موطاء امام مالک کتاب الجنائز باب جامع الحسبة في المصيبة 559) قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ میری بیوی فوت ہو گئی تو تعزیت کے لئے میرے پاس محمد بن کعب قرظی تشریف لائے اور بسلسلہ تعزیت و تسلی یہ حکایت سنانے لگے کہ بنی اسرائیل میں ایک بڑا فقیہہ عالم اور عبادت گزار بزرگ شخص تھا اس کی بیوی فوت ہو گئی جو بہت خوبصورت تھی اور اس کو بہت پیاری تھی بیوی کے مرنے کی وجہ سے اس عالم کو بہت غم ہوا اور اس قدر افسوس ہوا کہ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور گھر میں بند ہو کر بیٹھے گیا تا کہ اس کے پاس کوئی بھی نہ آسکے ایک عورت کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ آئی اور کہا کہ میں ایک اہم فتویٰ پوچھنے کے لئے اس سے ملنا چاہتی ہوں آئے ہوئے تمام لوگ تو ملے بغیر چلے گئے لیکن یہ عورت جم کر بیٹھ گئی اور کہا کہ میں تو ملے بغیر نہیں جاؤں گی اس عالم کو گھر والوں میں سے کسی نے جا کر بتایا کہ سب لوگ چلے گئے ہیں لیکن یہاں پر ایک عورت آئی ہوئی ہے وہ جانے کا نام نہیں لیتی کہتی ہے کہ میں نے بالمشافہ ایک مسئلہ پوچھنا
478 ہے اس عالم نے کہا اچھا اس کو اندر آنے دو اس عورت نے اندر جا کر اس عالم سے کہا کہ میں تم سے ایک فتویٰ پوچھنے آئی ہوں عالم نے کہا ہو چھو عورت نے کہا میں نے اپنے پڑوسی سے کچھ زیور عاریتا کیا تھا میں اس زیور کو کافی عرصہ پہنتی رہی اب انہوں نے یہ زیور واپس مانگ بھیجا ہے کیا مجھے یہ زیور جو مجھے بہت پسند ہے واپس کرنا ہو گا دل تو اس کے واپس کرنے کو نہیں چاہتا.اس فقیہہ اور عالم نے کہا کیوں نہیں، اس زیور کا واپس کرناضروری ہے کیونکہ یہ ان کا ہے.عورت کہنے لگی ہی تو نہیں چاہتا.عالم نے جواب دیا دل کی بات نہیں جن کا مال ہے وہ واپس مانگنے کے حقدار ہیں اور تجھے یہ واپس کرنا ہی پڑے گا یہ جواب سن کر وہ عورت کہنے لگی میاں! اللہ تجھ پر رحم کرے کیا تو ایسی چیز پر اتنا غم اور سوگ کر رہا ہے جو اللہ نے تجھے عاریت دی تھی اور پھر اپنی چیز واپس لے لی کیونکہ یہ اس کی امانت تھی اور اس نے اپنا ہی حق واپس لیا ہے.اس دانا عورت کی یہ بات سن کر اس عالم کی آنکھیں کھل گئیں، اسے صبر کی توفیق ملی اور معمول کی زندگی شروع کر دی.ا تجہیز و تدفین اور نماز جنازہ 605 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَاحَةً فَخَيْرُ تُقَدِمُونَهَا ، وَإِنْ تَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ (بخاری کتاب الجنائز باب السعرة بالجنازة 1315) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا جنازہ جلدی لے جایا کرو.اگر نیک (روح) ہوئی تو تم اچھی چیز آگے لے جارہے ہو اور اگر نیک نہ ہوئی تو دو بری ہوگی.جسے تم اپنی گردنوں سے اتار دو گے.
479 606 - عَنِ الْحُصَيْنِ بْنِ وَخوَج أَنْ طَلْعَةَ بْن الْبَرَاءِ، مَرضَ فأتاه الذين صلى الله عليه وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَالَ إِنِّي لَا أَرَى طَلْعَةَ إِلَّا قَدْ حَدَثَ فِيهِ الْمَوْتُ فَأَذِنُونِي بِهِ وَعَجِلُوا فَإِنَّهُ لا يَنْبَغِي لِحِيفَةِ مُسْلِمٍ أَنْ تُحْبَسَ بَيْنَ ظَهْرَانَ أَهْلِهِ (ابوداؤد کتاب الجنائز باب تعجيل الجنازة وكراهية حبسها3159) حصین بن و خوخ سے روایت ہے کہ حضرت طلحہ بن براء بیمار ہو گئے.نبی صلی ا یکم ان کے پاس ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے.آپ نے فرمایا میرا خیال ہے کہ اس کی وفات ہونے والی ہے.مجھے اس کی اطلاع کر دینا اور جلدی کرنا کیونکہ ایک مسلمان کی میت کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اس کے اہل کے درمیان روک رکھی جائے.607 - عن علي بن أبي طالبى اللهُ عَنْهُ قَالَ لَا تَغَالِى لِي فِي كَفَرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَعَالَوْا فِي الْكَفَنِ، فَإِنَّهُ يُسْلَبُهُ سَلْبًا سَرِيعا (ابو داؤد کتاب الجنائز باب كراهية المغالاة في الكفن 3154) حضرت علی بن ابو طالب نے فرمایا کہ آپ نے فرمایا کفن میں غلو نہیں چاہیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کفن میں غلو نہ کرو.کیونکہ وہ اس سے جلد ہی چھین لیا جاتا ہے.608 - عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ، وَدُفِنَ يَوْمَ الثَّلَاثَاءِ، وَصَلَّى النَّاسُ عَلَيْهِ أَفَذَاذًا لَا يَؤُمُّهُمْ أَحَدٌ.فَقَالَ نَاسٌ : يُدْفَنَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، وَقَالَ آخَرُونَ: يُدْفَنُ بِالْبَقِيعِ ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِيقُ، فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا دُفِنَ نَبِيٌّ قَط إِلَّا فِي مَكَانِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَخَفِرَ لَهُ فِيهِ، فَلَمَّا كَانَ
480 عِنْدَ غُسْلِهِ، أَرَادُوا نَزْعَ قَمِيصِهِ.فَسَمِعُوا صَوْنًا يَقُولُ لَا تَنْزِعُوا الْقَمِيصَ، فَلَمْ يُنْزَعِ الْقَمِيصُ، وَغُسِلَ وَهُوَ عَلَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (موطاء امام مالک ، کتاب الجنائز باب ما جاء في دفن الميت (543) حضرت امام مالک بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی ایم کی وفات سوموار کے روز ہوئی اور دفن بروز منگل ہوئے اور حضور صلی اللہ نام کا جنازہ لوگوں نے الگ الگ گروہوں کی شکل میں پڑھا کسی نے امامت نہیں کرائی کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ منبر کے قریب آپ کو دفن کیا جائے اور کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا جائے حضرت ابو بکر نے آکر بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی ا ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اسی جگہ دفن ہوتا ہے جہاں اس کی وفات ہوئی ہو اس وجہ سے حضور کے لئے اسی کمرے میں قبر تیار کی گئی حضور علیہ السلام کے غسل دینے کے وقت کپڑے اتارنے کا ارادہ کیا گیا تو ایک غیبی آواز آئی کپڑے نہ اتارو اس لئے کپڑوں میں ہی حضور صلی یی کم کو غسل دیا گیا.نوٹ :.غالباً یہاں حضور علی ملی یکم کی ذات اقدس یا مستقل شریعت لانے والا نبی مراد ہے ورنہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کی نعشیں مصر سے ارض فلسطین میں لا کر دفن کی گئی تھیں.واللہ اعلم بالصواب.609 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِى عِيدًا ، وَصَلُّوا عَلَى فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ (ابو داؤد کتاب المناسک باب زيارة القبور (2042 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں اور میری قبر کو عید مت بنانا، مجھ پر درود بھیجنا، تم جہاں بھی ہو گے وہیں سے تمہارا درود مجھ تک پہنچادیا جائے گا.
481 610ـ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَوْ كُنْتُ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِى مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا غَشَلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ نِسَائِهِ (ابن ماجه کتاب الجنائز باب ما جاء فى غسل الرجل امراته...1464) حضرت عائشہ نے بیان فرمایا اگر مجھے اس بات کا پہلے علم ہو تا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا تو نبی صلی یم کو آپ کی ازواج کے علاوہ اور کوئی غسل نہ دیتا.611- عَنِ الْمُفَضَلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللهِ عَلَيْهِ السَّلام) جُعِلْتُ فِدَاكَ مَنْ غَسَلَ فَاطِمَةَ (عَلَيْهَا السَّلَام قَالَ: ذَاكَ أَمِيرُ المُؤْمِنِينَ ( عَلَيْهِ السَّلام) قَالَ: فَكَأَنِّي اسْتَعْظَمتُ ذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِ قَالَ: فَكَأَنَّكَ ضِقْتَ لِمَا أَخْبَرْتُكَ بِهِ؟ قُلْتُ: فَقَدْ كَانَ ذَلِكَ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَقَالَ: لَا تَضِيْقَنَ فَإِنَّهَا صَدِيقَةُ لَمْ يَكُنْ يَغْسِلُهَا إِلَّا صِدِّيقُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ مَرْيَمَ (عَلَيْهَا السَّلَام ) لَمْ يَغْسِلُهَا إِلَّا عِيسَى عَلَيْهِ السَّلام).الاستبصار فيما اختلف من الاخبار، كتاب الطهارة ، ابواب الجنائز، باب جواز غسل الرجل امراته و المراة زوجها، جلد 1 صفحه 200 روایت نمبر (703) مفضل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو عبد اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کو کس نے غسل دیا تھا تو انہوں نے فرمایا امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے غسل دیا تھا مجھے ان کی بات بہت عجیب لگی اس پر آپ فرمانے لگے معلوم ہوتا ہے کہ میری بات سے تمہیں تعجب ہوا ہے میں نے کہا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے فرمانے لگے حیران ہونے کی کوئی بات نہیں کیونکہ حضرت فاطمہ صدیقہ تھیں اور انہیں صدیق کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا تھا کیا تجھے معلوم نہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام کو ان کے بیٹے) حضرت عیسی علیہ السلام نے غسل دیا تھا.
482 612 - عَنْ أَمْ عَطِيَّةٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عسل ابنيه ابدأن يميَا مِنهَا، وَمَوَاضِعَ الوُضُوءِ مِنْهَا (بخاری کتاب الجنائز باب يبداء بميا من الميت 1255) حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو غسل دینے سے متعلق فرمایا اس کی داہنی طرفوں اور اس کے وضو کرنے کی جگہوں سے شروع کرو.613ـ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ غَسَلَتْ أَبَا بَكْرِ الصَّدِيقَ حِينَ تُوفي، ثُمَّ خَرَجَتْ فَسَأَلَتْ مَنْ حَضَرَهَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ.فَقَالَتْ: إِنِّي صَائِمَةٌ، وَإِنَّ هَذَا يَوْمٌ شَدِيدُ الْبَرْدِ، فَهَلْ عَلَى مِنْ غُسْلِ ؟ فَقَالُوا لَا (موطاء امام مالک ، کتاب الجنائز باب غسل الميت 519) حضرت عبد اللہ بن ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر فوت ہوئے تو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس نے ان کو غسل دینے کے بعد ، مہاجرین صحابہ جو وہاں پر موجود تھے، سے دریافت کیا کہ میں روزے سے ہوں اور آج سردی شدت کی ہے تو کیا غسل دینے کی وجہ سے مجھے بھی غسل کرناضروری ہے ؟ صحابہ نے کہا نہیں یعنی غسل ضروری نہیں.614ـ عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مَيْتٍ تُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ مِائَةً، كُلُّهُمْ يَشْفَعُونَ لَهُ، إِلَّا شُفْعُوا فِيهِ (مسلم کتاب الجنائز باب من صلى عليه مائة شفعوا فيه 1565)
483 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی الی یم نے فرمایا کوئی بھی میت نہیں جس پر مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھے جو سو تک پہنچے اور وہ سب اس کی شفاعت کریں مگر اس کے بارہ میں ان کی شفاعت قبول ہوتی ہے.615ـ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يُحَدِثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَطَبَ يَوْمًا ، فَذَكَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ قُبِضَ فَكُفَنَ فِي كَفَنٍ غَيْرِ طَائِلٍ، وَقُبِرَ لَيْلًا، فَزَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْبَرَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ، حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ يَضْطَرَّ إِنْسَانُ إِلَى ذَلِكَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَفَنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُحْسِن كَفَتَهُ كَفْتَهُ (ابو داؤد کتاب الجنائز باب في الكفن (3148 حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے ایک دن خطاب فرمایا اور (حضرت جابر بن عبد اللہ نے ) آپ کے ایک صحابی کا ذکر کیا جو فوت ہو گیا.تو اس کو ایک معمولی کفن میں کفن دیا گیا اور رات کو دفن کر دیا گیا.نبی صلی الم نے تنبیہ کی کہ آدمی کو رات کو دفنایا جائے یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے سوائے اس کے کہ آدمی ایسا کرنے پر مجبور ہو جائے.اور نبی صلی علیم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اس کو اچھا کفن دے.616- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيْنَا وَمَيْتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأَنْقَانَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ (ابن ماجه کتاب الجنائز باب ما جاء في الدعاء في الصلاة على الجنازة 1498)
484 حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم جب نماز جنازہ پڑھتے تو یوں دعا کیا کرتے اے اللہ ! ہمارے زندہ اور وفات یافتہ کو اور ہمارے حاضر کو اور غیر حاضر کو اور ہمارے چھوٹے اور بڑے کو اور ہمارے مرد اور عورت کو بخش دے.اے اللہ ! ہم میں سے جس کو بھی تو زندہ رکھے اُسے اسلام پر زندہ رکھنا اور ہم میں سے جس کو بھی تو وفات دے اسے ایمان پر وفات دینا.اے اللہ ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھنا اور ہمیں اُس کے بعد گمراہ نہ کر دینا.عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَنِي أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَشْيَلِيُّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى عَلَى الْجَنَازَةِ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيْنَا وَمَيْتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وصَغِيرنَا وَ كَبِيرنَا وَذَكَرِنَا وَأَنْقَانَا قَالَ يَحْيَى وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ وَزَادَ فِيهِ اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ (ترمذی کتاب الجنائز باب ما يقول في الصلاة على الميت 1024) ابو ابراھیم الا شھلی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم جب جنازہ پڑھاتے تو یہ دعا کرتے.اے ہمارے خدا! ہمارے زندوں کو اور ہمارے وفات پانے والوں کو ، ہم میں سے جو حاضر ہیں اور جو غائب ہیں، ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو ، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو سب کو بخش دے.حضرت ابو ہریرہ سے بھی ایسی ہی روایت ہے ، اس میں مزید یہ ہے کہ ”اے ہمارے اللہ ! جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو تو ہم میں سے وفات دے اس کو ایمان پر وفات دے“.
485 617 - عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ سَمِعَهُ يَقُولُ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَشِعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَيْتَ القَوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلُهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيْتَ (مسلم ، کتاب الجنائز باب الدعاء للميت في الصلاة 1589) حضرت عوف بن مالک بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی علیم نے ایک جنازہ پڑھایا تو میں نے آپ کی دعا یاد کر لی.آپ کہہ رہے تھے اے اللہ ! اس کو بخش دے.اس پر رحم کر، اس کو عافیت سے رکھ اور اس سے در گزر کر اور اس کی باعزت مہمانی فرما.اور اس کے داخل ہونے کی جگہ کو وسیع کر دے اور اسے پانی اور برف اور اولوں سے دھو دے اور اسے بدیوں سے صاف کر دے جیسے ایک سفید کپڑے کو تو آلودگی سے صاف کرتا ہے.اور اسے بدلے میں اس کے گھر سے بہتر گھر دے اور اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے عطا کر اور اس کے ساتھی سے بہتر ساتھی دے.اور اس کو جنت میں داخل کر اور اس کو قبر کے عذاب سے پناہ دے یا (کہا) آگ کے عذاب سے.راوی کہتے ہیں یہانتک کہ مجھے خواہش ہوئی کہ کاش وہ مرنے والا میں ہو تا.618ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِي فِي اليَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى المُصَلَّى ، فَصَفَ بِهِمْ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ (بخاری کتاب الجنائز باب التكبير على الجنازة اربعا 1333)
486 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ہی ہم نے نجاشی کے فوت ہونے کی خبر اُسی روز دی تھی جس روز وہ فوت ہوئے تھے اور آپ ان (لوگوں) کے ساتھ عید گاہ کو گئے اور ان کی صفیں بند ھوائیں اور ان کے لئے چار تکبیریں کہیں.619- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَةً مُسْلِمٍ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، وَكَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيَفْرُغَ مِنْ دَفْنِهَا، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ مِنَ الأجر بقيراطين، كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أَحَدٍ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ بِقِيرَاطٍ (بخاری کتاب الایمان باب اتباع الجنائز من الايمان (47) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایمان کی وجہ اور رضائے الہی کی خاطر جاتا ہے.جب تک اس کے جنازے کی نماز نہیں پڑھ لی جاتی اور اس کے دفنانے سے لوگ فارغ نہیں ہو جاتے ، تب تک وہ اس کے ساتھ ہی رہتا ہے تو وہ دو قیراط أجر لے کر واپس آتا ہے.ایک ایک قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہو گا اور جس نے جنازہ پڑھا اور پھر اس کے دفنانے سے پہلے لوٹ آیا تو وہ ایک قیراط لے کر واپس آتا ہے.620 - عَنْ أُمَّ عَطِيَّةٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا ، قَالَتْ: نُهِينَا عَنِ اتَّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَلَمْ يُعْزَمُ عَلَيْنَا (بخاری کتاب الجنائز باب اتباع النساء الجنائز 1278) حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ کہتی تھیں جنازوں کے ساتھ جانے سے ہم رو کی گئی تھیں اگر ہمیں تاکیدی حکم نہیں دیا گیا تھا.
487 621 - حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ مَرُّوا بِجَنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُوا بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا، فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا وَجَبَتْ ؟ قَالَ هَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا، فَوَجَبَتْ لَهُ الجَنَّةُ، وَهَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا، فَوَجَبَتْ لَّهُ النَّارُ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ (بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس على الميت 1367) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ ایک جنازے کے پاس سے گذرے اور انہوں نے اس کی اچھی تعریف کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی.پھر ایک اور جنازے کے پاس سے گذرے.انہوں نے اس کی مذمت کی.(نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا واجب ہو گئی.حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کیا چیز واجب ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا جس کی تم نے اچھی تعریف کی، اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے مذمت کی ہے ، اس کے لئے آگ واجب ہو گئی.تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو.622.عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرُ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ مَرَّتْ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا، فَلَمَّا ذَهَبْنَا لِتَحْمِلَ إِذَا هِيَ جَنَازَةُ يَهُودِي، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ الله إنما هي جَنَازَةُ يَهُودِي فَقَالَ إِنَّ الْمَوْتَ فَرَعْ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ جَنَازَةٌ فَقُومُوا (ابو داؤد کتاب الجنائز باب القيام للجنازة 3174) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی یی کم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک ہمارے پاس سے جنازہ گزرا.آپ اُس کی خاطر کھڑے ہوئے.جب ہم اُسے اُٹھانے کے لئے گئے تو وہ ایک یہودی کا جنازہ تھا.ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے.آپ نے فرمایا موت ایک گھبر اہٹ پیدا کرنے والی چیز ہے.پس جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ.
488 623 - عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ كَانَ سَهْلُ ابْنُ حُنَيْفٍ، وَقَيْسُ بْنُ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بِالْقَادِسِيَّةِ، فَمُرَّ عَلَيْهِمَا بِجَنَازَةٍ، فَقَامَا، فَقِيلَ لَهُمَا: إِنَّهَا مِنْ أَهْلِ الْشِرِكِ؟ فَقَالَا: مُرَّ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَةٍ فَقَامَ ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ يَهُودِيٌّ ؟! فَقَالَ أَلَيْسَتْ نَفْسًا ؟ (نسائی کتاب الجنائز باب القيام لجنازة اهل الشرك 1921) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد بن عبادہ قادسیہ میں تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو یہ دونوں بزرگ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے لوگوں نے انہیں بتایا کہ یہ جنازہ یہیں کے کسی (غیر مسلم) باشندے کا ہے یہ سن کر دونوں (بزرگ) کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی لنی کیم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا اسے دیکھ کر آپ صلی الی کم کھڑے ہو گئے عرض کیا گیا کہ حضور صلی علیہم یہ جنازہ تو یہودی کا ہے آپ نے فرمایا تو اس سے کیا ہوتا ہے کیا یہ انسان نہیں (یعنی احترام میت ہر حال میں ضروری ہے).624 - عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَانَ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيْتِ وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ ، وَاسْأَلُوا لَهُ بِالتَثْبِيتِ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ ابو داؤد کتاب الجنائز باب الاستغفار عند القبر للميت فى وقت الانصراف (3221 حضرت عثمان بن عفان بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ہم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو اس پر کھڑے ہوتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی مانگو کیونکہ اب اس سے پوچھ جائے گا.
489 -625 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَاحِ يَدْعُو لَهُ (مسلم کتاب الوصية باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته 3070) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے عمل اس ے منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے.صدقہ جاریہ کے یا ایسے علم کے جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک اولاد کے جو اس کے لئے دعا کرے.قبرستان جانا اور وفات یافتہ عزیزوں کے لیے دعا کرنا - 626 - عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابِرِ، فَكَانَ قَائِلُهُمْ يَقُولُ فِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ - السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِيَارِ - وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ - السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ لَلَاحِقُونَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ (مسلم کتاب الجنائز باب ما يقول عند دخول القبور و الدعا لاهلها 1608) سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی کام ان کو ( یہ دعا) سکھایا کرتے تھے جب وہ قبرستان جائیں اور ان میں سے کہنے والا.ابو بکر کی روایت کے مطابق کہتا تھا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ
490 أَهْلَ الذِيَارِ گھر والوں پر سلام ہو.اور زہیر کی روایت میں ہے السّلامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ تم پر سلام اے گھر والو! مومنوں اور مسلمانوں میں سے اور ہم انشاء اللہ ضرور ملنے والے ہیں.میں اللہ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت مانگتا ہوں.627 - عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ فَخَرَمَةَ بْنِ الْمُطَلِبِ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا: أَلَا أُحَدِثُكُمْ عَنِي وَعَنْ أُتِي قَالَ فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ: أَلَا أُحَدِثُكُمْ عَنِي وَعَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: بَلَى، قَالَ قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ، وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ، فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَاضْطَجَعَ ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْقَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ، ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا، فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي، وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَعْتُ إِزَارِى، ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ، حَتَّى جَاءَ البقيع فَقَامَ ، فَأَطالَ الْقِيَامَ ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثٌ مَرَّاتٍ ثُمَّ الْحَرَفَ فَالْحَرَفتُ ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، فَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ، فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ، فَقَالَ مَا لَكِ ؟ يَا عَائِشُ، حَشْيَا رَابِيَةً قَالَتْ: قُلْتُ لَا شَيْءَ، قَالَ لتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأَقِى، فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِى رَأَيْتُ أَمَاهِي ؟ قُلْتُ نَعَمْ، فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟ قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ يَعْلَمُهُ اللهُ، نَعَمْ، قَالَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، فَنَادَانِي، فَأَخْفَاهُ مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ، فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدَتِ،
491 فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَقَالَ إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِي أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ ، قَالَتْ: قُلْتُ كَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ قُولِي: السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ للَّاحِقُونَ (مسلم کتاب الجنائز باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لاهلها 1607) محمد بن قیس نے ایک دن کہا کیا میں تمہیں اپنے اور اپنی ماں کے بارہ میں حدیث نہ سناؤں.لوگ سمجھے ان کی مراد اپنی ماں سے ہے جو اُن کی حقیقی والدہ تھیں.انہوں نے کہا حضرت عائشہ نے فرمایا کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ صلی علیم کے بارہ میں بات نہ سناؤں ؟ ہم نے کہا کیوں نہیں.راوی کہتے ہیں حضرت عائشہ نے فرمایا ایک دفعہ اس رات میں جس میں نبی صلی علیکم میرے ہاں تھے.آپ گھر لوٹے، اپنی چادر رکھ دی اور اپنے جوتے اتارے اور اپنے پاؤں کے قریب رکھ دیئے.اور اپنے ازار کا ایک پہلو بستر پر بچھایا اور لیٹ گئے.اور آپ اتنا وقت ٹھہرے کہ آپ نے خیال فرمایا کہ میں سوگئی ہوں تو آپ نے آہستہ سے اپنی چادر لی.آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور دروازہ کھولا اور باہر چلے گئے.پھر اُسے آرام سے بند کر دیا.میں نے اپنی قمیص سر پر سے پہنی ہیں اور اپنی اوڑھنی لی اور ازار پہنا اور آپ کے پیچھے چل پڑی یہانتک کہ آپ بقیع پہنچ گئے.آپ کھڑے ہوئے اور لمبا قیام فرمایا پھر آپ نے تین مرتبہ دونوں ہاتھ اٹھائے.پھر آپ واپس مڑے اور میں بھی مڑی.آپ تیز چلنے لگے ، میں بھی تیز چلنے لگی.آپ نے رفتار اور تیز کی تو میں نے بھی کر لی.آپ تیز دوڑنے لگے میں بھی تیز دوڑنے لگی پھر آپ گھر آگئے اور میں آپ سے پہلے اندر داخل ہوئی.پس میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آگئے اور فرمایا اے عائش! تمہیں کیا ہوا؟ تمہارا سانس کیوں پھولا ہوا ہے ؟ وہ کہتی ہیں میں نے کہا کوئی بات نہیں.آپؐ نے فرمایا تم ضرور مجھے بتاؤ گی ورنہ لطیف و خبیر (خدا) مجھے بتادے گا.وہ کہتی ہیں میں نے کہا یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.پھر میں نے آپ کو ساری بات بتادی.آپ نے فرمایا( اچھا) تو تم وہ سایہ تھیں جسے میں نے اپنے آگے دیکھا تھا؟ میں نے کہا جی ہاں.آپ نے میرے سینہ پر
492 ہاتھ مارا جو مجھے محسوس ہوا.پھر فرمایا کیا تم نے گمان کیا تھا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی یکم تمہاری حق تلفی کریں گے ؟ حضرت عائشہ نے کہا جو کچھ بھی لوگ چھپاتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے.آپ نے فرمایا ہاں جبرائیل میرے پاس آئے جب تم نے دیکھا اور انہوں نے مجھے بلایا اور تم سے انہوں نے مخفی رکھا.میں نے ان کی بات قبول کی اور اسے تم سے مخفی رکھا.جب تم اپنے کپڑے رکھ چکی تو اس نے تمہارے پاس نہیں آنا تھا مجھے خیال تھا کہ تم سو چکی ہو اور میں نے ناپسند کیا کہ تمہیں جگاؤں اور مجھے اندیشہ ہوا کہ تم تنہائی محسوس کرو گی.انہوں (جبرائیل) نے کہا کہ آپ کا رب آپ کو ارشاد فرماتا ہے کہ آپ بقیع والوں کے پاس جائیں اور ان کے لئے بخشش مانگیں.وہ کہتی ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں ان کے لئے کیسے دعا کروں؟ آپ نے فرمایا تم کہو، مومنوں اور مسلمانوں میں سے گھر والوں پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ ہم میں سے آگے جانے والوں اور بعد میں جانے والوں پر رحم فرمائے اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں.در غ سے مراد چھوٹی قمیص ہوتی ہے جو صدری کی طرح ہوتی ہے.خلافت ، حکومت اور شوریٰ 628 - مَا كَانَتْ نَبُوَة قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خِلَافَة (کنز العمال، حرف الفاء ، كتاب الفضائل من قسم الافعال الباب الثانى فى فضائل سائر الانبياء ، الفصل الاول في بعض خصائص الانبياء 32246) (رسول اللہ صلی الیم نے ایک بار فرمایا) ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے.
493 629 - عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: لَا خِلَافَةَ إِلَّا عَنْ مَشْوْرَةٍ (کنز العمال ، حرف الخاء ، كتاب الخلافه مع الامارة ، الباب الاول فى خلافة الخلفاء ، مسند عمر (14136: خلافت کا انعقاد مشورہ اور رائے لینے کے بغیر درست نہیں ( نیز خلافت کے نظام کا ایک اہم ستون مشاورت ہے).630 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكثَرَ مَشُورَةٌ لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (ترمذى كتاب الجهاد باب ما جاء في المشورة 1714) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی علیم سے زیادہ کسی کو اپنے صحابہ سے مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا.631ـ عَن عَلَيَّ رَضِى الله عَنهُ قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهُ: الْأَمْرُ يَنْزِلُ بِنَا بَعْدَكَ لَمْ يَنْزِلُ فِيهِ قُرْآنٌ وَلَمْ نَسْمَعْ مِنْكَ فِيهِ شَيأً قَالَ إِجْمَعُوا لَهُ العَابِدِينَ مِنْ أُمَّتِي وَاجْعَلُوْهُ بيْنكُم شُورَى وَلَا تَقْضُوه ير أَي وَاحِدٍ (الدر المنثور في تفسير بالمأثور، سورة شورى آيت نمبر 38 وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ و امرهم شورى بينهم...جلد 13 صفحه 168) حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ کے بعد ایسا معاملہ سامنے آ جاتا ہے جس کے بارہ میں نہ قرآن کریم میں کوئی تصریح ملتی ہے اور نہ آپ کی کسی سنت کا علم ہوتا ہے ایسے وقت میں کیا کیا جائے آپ نے فرمایا اصحاب علم اور سمجھدار لوگوں کو بلاؤ اور معاملہ ان کے سامنے مشورہ کی غرض سے پیش کرو اکیلے صرف اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کرو.
494 عَنْ عَلِي، قَالَ قُلْت : يَا رَسُولَ اللهِ الْأَمْرُ يَنْزِلُ بِنَا لَمْ يَنْزِلُ فِيهِ الْقُرْآنُ، وَلَمْ تَمْضِ فِيهِ مِنْكَ سُنَّةٌ، قَالَ اجْمَعُوا لَهُ الْعَالَمِينَ، أَوْ قَالَ الْعَابِدِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَاجْعَلُوهُ شُورَى بَيْنَكُمْ، وَلَا تَقُضُوا فِيهِ بِرَأْي وَاحِدٍ (اعلام الموقعين عن رب العالمين ، فصل كلام الأئمة في الفتيا ، فصل تاويل ما روى عن الصحابه من الاخذ بالراى ، جُمْلَةٌ.مَنْ أَخْذِ الصَّحَابَةِ بِالرأي.جلد 2 صفحه 121) ، حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ (ایک بار ) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بعض اوقات ایسا معاملہ سامنے آجاتا ہے جس کے بارہ میں نہ قرآن کریم میں کوئی تصریح ملتی ہے اور نہ آپ کی کسی سنت کا علم ہوتا ہے ایسے وقت میں کیا کیا جائے آپ نے فرمایا اصحاب علم اور سمجھدار لوگوں کو بلاؤ اور معاملہ ان کے سامنے مشورہ کی غرض سے پیش کرو اکیلے صرف اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کرو.- 632.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ، - قَالَ إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي بِالعَالِيَةِ – فَقَامَ عُمَرُ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ في نَفْسِي إِلَّا ذَاكَ، وَلَيَبْعَقَنَهُ اللهُ، فَلْيَفْطَعَنَ أَيْدِى رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَّلَهُ، قَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأَقِى، طِبْتَ حَيًّا وَمَيْتًا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقَكَ اللهُ المُوَنَتَيْنِ أَبَدًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ أَيُّهَا الحَالِفُ عَلَى رِسُلِكَ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ، فَحَمَدَ اللهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ أَلا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ، وَقَالَ إِنَّكَ مَيْتُ وَإِنَّهُمْ مَيْتُونَ وَقَالَ وَمَا مُحمد إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ
495 أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى اللهُ الشَّاكِرِينَ، قَالَ فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، قَالَ وَاجْتَمَعَتِ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةٌ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَقَالُوا مِنَا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرُ، فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بْنُ الخَطَابِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجَزَاحِ، فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَكَانَ عُمَرُ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلامًا قَدْ أَعْجَبَنِي، خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أبو بكر، ثم تكلم أبو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، فَقَالَ فِي كَلامِهِ : نَحْنُ الأُمَرَاءُ وَأَنتُمُ الوُزَرَاءُ، فَقَالَ حُباب بن المنْذِرِ : لَا وَاللهِ لَا نَفْعَلُ، مِنَا أَمِيرُ ، وَمِنْكُمْ أَمِيرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا، وَلَكِنَّا الأُمَرَاءُ، وَأَنْتُمُ الوُزَرَاءُ، هُمْ أَوْسَطُ العَرَبِ دَارًا، وَأَغْرَبُهُمْ أَحْسَابًا، فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ فَقَالَ عُمَرُ: بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ، فَأَنْتَ سَيْدُنَا، وَخَيْرُنَا، وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ، وَبَايَعَهُ النَّاسُ، فَقَالَ قَائِلٌ: قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقَالَ عُمَرُ قَتَلَهُ اللهُ وَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْن سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِي، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ القَاسِمِ، أَخْبَرَنِي القَاسِمُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا ، قَالَتْ: شَخَصَ بَصَرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ فِي الرَّفِيقِ الأَعْلَى ثَلاثًا، وَقَضَ الحَدِيثَ، قَالَتْ: فَمَا كَانَتْ مِنْ خُطْبَتِهِمَا مِنْ خُطبَةٍ إِلَّا نَفَعَ اللهُ بِهَا لَقَدْ خَوَفَ عُمَرُ النَّاسَ، وَإِنَّ فِيهِمْ لَنِفَاقًا فَرَدَّهُمُ اللَّهُ بِذَلِكَ ثُمَّ لَقَدْ بَقَرَ أَبُو بَكْرِ النَّاسَ الهُدَى، وَعَرَّفَهُمُ الحَقِّ الَّذِى عَلَيْهِمْ وَخَرَجُوا بِهِ، يَتْلُونَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ (بخاری کتاب اصحاب النبي علم باب قول النبی الا لو كنت متخذا خليلا 3668،3667، 3670،3669) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور حضرت ابو بکر اس وقت سخ میں تھے.اسماعیل نے کہا یعنی مضافات میں.( یہ خبر سن کر ) حضرت عمرؓ
496 کھڑے ہوئے، کہنے لگے : اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے.حضرت عائشہ کہتی تھیں: حضرت عمر کہا کرتے تھے بخدا میرے دل میں یہی بات آئی تھی.اور انہوں نے کہا اللہ آپ کو ضرور ضرور اُٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے.اتنے میں حضرت ابو بکر آگئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور آپ کو بوسہ دیا.کہنے لگے میرے ماں باپ آپ پر قربان.آپ زندگی میں بھی اور موت کے وقت بھی پاک وصاف ہیں.اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ آپ کو کبھی دو موتیں نہیں چکھائے گا.یہ کہہ کر حضرت ابو بکڑ باہر چلے گئے اور کہنے لگے : ارے قسم کھانے والے ٹھہر جا.جب حضرت ابو بکر بولنے لگے ، حضرت عمر بیٹھ گئے.حضرت ابو بکر نے حمد وثناء بیان کی اور کہا دیکھو! جو محمد صلی ا یہ ظلم کی عبادت کرتا تھا، سن لے کہ محمد تو یقیناً فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا.اور حضرت ابو بکڑ نے یہ آیت پڑھی: تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں.پھر انہوں نے یہ آیت بھی پڑھی: محمد مصرف ایک رسول ہیں.آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.تو پھر کیا اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو ہر گز نقصان نہ پہنچا سکے گا.اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا.سلیمان کہتے تھے یہ سن کر لوگ اتنے روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں.سلیمان کہتے تھے اور انصار بنی ساعدہ کے گھر حضرت سعد بن عبادہ کے پاس اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے : ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح ان کے پاس گئے.حضرت عمرؓ بولنے لگے.حضرت ابو بکر نے انہیں خاموش کیا.حضرت عمر کہتے تھے اللہ کی قسم ! میں نے جو بولنا چاہا تو اس لئے کہ میں نے ایسی تقریر تیار کی تھی جو مجھے بہت پسند آتی تھی.مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابو بکر اس تک نہ پہنچ سکیں گے یعنی ویسا نہ بول سکیں.پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر نے تقریر کی اور ایسی تقریر کی جو بلاغت میں تمام لوگوں کی تقریروں سے بڑھ کر تھی.انہوں نے اپنی تقریر کے اثناء میں کہا ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو.حباب بن منذر نے یہ سن کر کہا ہر گز نہیں.اللہ کی قسم! ہر گز نہیں.بخدا! ہم ایسا نہیں کریں گے.
497 ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر آپ میں سے.حضرت ابو بکر نے کہا نہیں بلکہ امیر ہم ہیں اور تم وزیر ہو کیونکہ یہ قریش لوگ ( بلحاظ نسب) تمام عربوں سے اعلیٰ ہیں اور بلحاظ حسب وہ قدیمی عرب ہیں.اس لئے عمر یا ابو عبیدہ کی بیعت کرو.حضرت عمرؓ نے کہا نہیں، بلکہ ہم تو آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم میں سے زیادہ پیارے ہیں.یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکر کا ہاتھ پکڑا اور اُن سے بیعت کی اور لوگوں نے بھی ان سے بیعت کی.ایک کہنے والے نے کہا سعد بن عبادہ کو تم نے مار ڈالا ہے.اس پر حضرت عمرؓ نے کہا اللہ نے اسے مارا ہے.اور عبد اللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبد الرحمن بن قاسم نے کہا قاسم (بن محمد ) نے مجھے بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ وفات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹکٹکی بندھ گئی اور آپ نے تین بار فرما یا رفیق اعلیٰ کے ا ساتھ.اور پھر انہوں نے یہی واقعہ بیان کیا.حضرت عائشہ کہتی تھیں : حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے خطبوں میں سے کوئی بھی ایسا خطبہ نہ تھا کہ جس کے ذریعہ سے اللہ نے فائدہ نہ پہنچایا ہو.حضرت عمرؓ نے بھی لوگوں کو ڈرایا جبکہ ان میں نفاق تھا.پھر اللہ نے ان کو ان خطبوں کے ذریعہ سے پھر ویسے کا ویسا بنا دیا.پھر حضرت ابو بکر نے بھی لوگوں کو سیدھا راستہ دکھلایا اور ان کو وہ سچائی شناخت کرا دی جس پر کہ وہ پہلے تھے اور وہ یہی آیت پڑھتے باہر نکلے تھے اور محمد نہیں ہے مگر ایک رسول.یقیناً اس سے پہلے رسول فوت ہو چکے ہیں..633 - عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ ، حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ يُكَلِّمُ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، فَتَيَمَّمَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُغَشِّي بِقَوْبِ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَ عَلَيْهِ فَقَتَلَهُ وَبَكَى، ثُمَّ قَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأَقِى، وَاللَّهِ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا المَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ ، فَقَدْ مُتَهَا قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَعُمَرُ بْن الخطابِ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اجْلِسُ
498 ياعمر، فأبي عُمَرُ أَنْ تَجْلِسَ، فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَتَرَكُوا عُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَّا بَعْدُ فَمَن كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ، قَالَ اللهُ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى قَوْلِهِ الشَّاكِرِينَ وَقَالَ وَاللهِ لَكَانَ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبو بَكْرٍ، فَتَلَقَاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَمَا أَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا فَأَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيْبِ، أَنَّ عُمَرَ قَالَ وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ تَلَاهَا فَعَقِرْتُ، حَتَّى مَا تُقِلُنِي رِجْلاكَ، وَحَتَّى أَهْوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ حِينَ سَمِعْتُهُ تَلاهَا، عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدُمَات (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي الله و وفاته 4454،4453،4452) حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی علیم کی وفات کی خبر سن کر اپنے مکان سے جو سخ نامی محلہ میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور مسجد کے قریب گھوڑے سے اتر کر کسی سے کوئی بات کئے بغیر مسجد میں آئے اور حضرت عائشہ کے حجرے میں گئے رسول اللہ صلی الی یکم کا چہرہ مبارک منقش کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا آپ صلی علیم نے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا جھک کر بوسہ دیا اور رو کر کہا میرے ماں باپ آپ سی ایم پر فدا ہوں خدا کی قسم ! اللہ تعالی آپ صلی علیم کے لئے دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا جسمانی وفات تو ہو چکی لیکن آپ صلی اللہ کا لایا ہوا دین کبھی نہیں مٹ سکتا حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں جب حضرت ابو بکر آنحضرت صلی یہ کام کے حجرے سے باہر آئے اور مسجد میں گئے تو آپ نے دیکھا کہ حضرت عمر لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں آپ نے کہا اے عمر بیٹھ جائے لیکن حضرت عمر نہ بیٹھے تا ہم لوگ حضرت عمر کو چھوڑ کر حضرت ابو بکر کی طرف متوجہ ہو گئے آپ نے ان میں تقریر کی اور حمد و ثناء کے بعد کہا کہ جو شخص تم میں سے محمد صلی للی یکم کی عبادت کرتا تھا اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ تو فوت ہو گئے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اسے یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا اللہ تعالی خود قرآن کریم میں فرماتا ہے
499 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ..یعنی محمد بھی اللہ کے رسول ہیں اور آپ سے پہلے جتنے رسول ہوئے وہ سب فوت ہو چکے ہیں تو محمد صلی عوام کے فوت ہونے میں کون سی اچھنبے کی بات ہے یہ پوری آیت آپ نے پڑھی راوی کہتے ہیں کہ جب آپ اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے لوگوں کو آج اس آیت کا علم ہوا ہے اس کے بعد ہر شخص کی زبان پر یہ آیت تھی وہ اسے پڑھتا اور روتا گویاوہ یقین کرنے لگا کہ واقعی ان کے آقا سرور دو عالم صلی با نام فوت ہو گئے ہیں حضرت عمر کہتے ہیں خدا کی قسم اجب میں نے حضرت ابو بکر کو یہ آیت پڑھتے سنا تو میری جان سکتے میں آگئی، میرے پاؤں مجھے اٹھا نہیں رہے تھے میری ٹانگیں لڑ کھڑانے لگیں میں زمین پر بیٹھ گیا اور مجھے یقین آنے لگا کہ واقعی آنحضرت صلی اللہ علم فوت ہو گئے ہیں.634 - عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَأَى عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَةٌ، فَاسْتَأْذَنَهُ إِلَى امْرَأَتِهِ بِنْتِ خَارِجَةً ، وَكَانَتْ فِي حَوَائِطِ الْأَنْصَارِ، وَكَانَ ذَلِكَ رَاحَةَ الْمَوْتِ وَلَا يَشْعُرُ، فَأَذِنَ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَأَصْبَحَ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَتَرَامَوْنَ، فَأَمَرَ أَبُو بَكْرٍ غُلَامًا يَسْتَمِعُ، ثُمَّ يُخْبِرُهُ، فَقَالَ أَسْمَعُهُمْ يَقُولُونَ: مات مُحمدٌ، فَاشْتَدَّ أَبو بَكْرٍ ، وَهُوَ يَقُولُ واقطع ظَهْرَاهُ، فَمَا بَلَغَ أَبُو بَكْرٍ الْمَسْجِدَ، حَتَّى ظَنُّوا أَنَّهُ لَمْ يَبْلُغْ وَأَرْجَفَ الْمُنَافِقُونَ، فَقَالُوا لَوْ كَانَ مُحَمَّدٌ نَبِيًّا لَمْ يَمُتُ، فَقَالَ عُمَرُ لَا أَسْمَعُ رَجُلًا يَقُولُ مَاتَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا ضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ.فَكَفُوا لِذَلِكَ، فَلَمَّا جَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَكِّى، كَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ جَعَلَ يَلْهِمُهُ، فَقَالَ مَا كَانَ اللهُ لِيُذِيقَكَ الْمَوْتَ مَرَّتَيْنِ، أَنْتَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ، ثُم خرج أبو بَكْرٍ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ رَبَّ مُحَمَّدٍ فَإِنَّ رَبَّ مُحَمَّدٍ لَا يَمُوتُ، ثُمَّ قَرَأَ : وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ
500 اللهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى اللَّهُ الشَّاكِرِينَ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ لَكَأَنَّا لَمْ نَقْرَأَهَا قَبْلَهَا قَطُ، فَقَالَ النَّاسُ مِثْلَ مَقَالَةِ أَبِي بَكْرٍ مِنْ كَلامِهِ وَقِرَاءَتِهِ وَمَاتَ لَيْلَةَ الْإِثْنَيْنِ، فَمَكَتَ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمَيْنِ، وَدُفِنَ يَوْمَ الثَّلَاثَاءِ، وَكَانَ أَسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَأَوْسُ بْنُ خَوْلِيَ يَصُبَّانِ وَعَلَى وَالْفَضْلُ يُغَسِلَانِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، (مسند امام اعظم امام ابی حنیفه) کتاب الفضائل و الشمائل باب بیان فضائل النبی 363) حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی یکم کی طبیعت پہلے کی نسبت کچھ ٹھیک ہے تو آپ نے حضور علیہ السلام سے اپنی بیوی خارجہ کے یہاں جانے کی اجازت طلب کی جو انصار کے احاطہ میں رہتی تھیں حضور نے اجازت دے دی پھر رسول اللہ صلی ال یکم اسی رات فوت ہو گئے صبح لوگ آپس میں مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کرنے لگے حضرت ابو بکر نے اپنے غلام کو کہا کہ پتہ کر کے آؤ کہ صورت حال کیا ہے غلام نے آکر بتایا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ حضرت محمد صلی علی کرم فوت ہو گئے ہیں ابو بکر پر یہ بات بہت گراں گزری اور کہنے لگے ہائے یہ کیا ہو گیا ابو بکر ا بھی مسجد نبوی نہیں پہنچے تھے اور یہ سمجھا گیا کہ وہ نہیں آئیں گے اس وقت منافقین یہ مشہور کر رہے تھے کہ محمد اگر نبی ہوتے تو فوت نہ ہوتے یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا کہ اگر میں نے کسی شخص کو یہ کہتے سنا کہ محمد صلی نیم فوت ہو گئے ہیں تو میں اس شخص کا سر تلوار سے اڑا دوں گا لوگ ڈر کی وجہ سے خاموش ہو گئے اور اس قسم کی باتیں کرنے سے رک گئے جب ابو بکر آئے اس وقت نبی صلی علیم پر چادر ڈالی ہوئی تھی ابو بکر نے آپ صلی نام کے چہرہ مبارک پر سے کپڑا اٹھایا اور پیشانی چوم کر سة کہا اللہ تعالیٰ آپ صلی الیکم کو دو موتوں کا مزہ نہیں چکھائے گا (یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ جسمانی اور روحانی ہر دولحاظ سے آپ صلی علی کرم فوت ہو جائیں دین کے لحاظ سے آپ صلی لی نام ہمیشہ زندہ رہیں گے ) اس کے بعد حجرہ مبارک سے باہر آئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ جو شخص محمد (صلی لیلی) کی عبادت کیا کرتا تھا تو وہ سن لے کہ محمد (صلی ا ) فوت ہو گئے ہیں اور جو شخص محمد علی ایم کے رب کی عبادت کیا کر تا تھا تو وہ سنے کہ محمد صلی للی کم کا
501 رب زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( آل عمران 145) یعنی محمد بھی ایک رسول ہیں (وہ بھی فوت ہو سکتے ہیں) جیسے اس سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں پس اگر یہ رسول ( یعنی محمد ) بھی فوت ہو جائے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ابو بکر کی یہ باتیں سن کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں نے یہ آیت اس سے قبل پڑھی ہی نہیں تھی (یعنی اس آیت کی طرف پہلے میر ادھیان نہیں گیا تھا ) بہر حال سب لوگوں کی زبان پر حضرت ابو بکر کی یہ تقریر اور آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُول.....جاری تھی اور وہ زار و قطار رورہے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام اتوار اور پیر کی درمیانی رات فوت ہوئے جنازہ دورات رکھا رہا اس کے بعد منگل کے پچھلے پہر تدفین عمل میں آئی حضرت علی اور فضل بن عباس نے آپ صلی کمی کو غسل دیا.اسامہ بن زید اور اوس بن خولہ نے پانی ڈالا.635 - عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ، أَبَاكِ، وَأَخَاكِ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍ وَيَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَى، وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ (مسلم کتاب فضائل الصحابه ، باب من فضائل ابى بكر الصديق 4385) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے اپنی بیماری میں مجھ سے فرمایا کہ ابو بکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تا کہ میں ایک تحریر لکھ دوں.مجھے ڈر ہے کہ کوئی خواہش کرنے والا خواہش کرے یا کوئی کہنے والا کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں لیکن اللہ اور مومن تو سوائے ابو بکر کے (کسی اور کا ) انکار کریں گے.
502 636 - عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا مَرِضَ الْمَرِضَ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ خَفَّ مِنَ الْوَجَعِ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ لِعَائِشَةَ مُرِى أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِ بِالنَّاسِ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا: إِنِّي شَيْخٌ كَبِيرٌ رَقِيقٌ، وَإِنِّي مَتَى لَا أَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَقَامِهِ أَرِقُ لِذَلِكَ، فَاجْتَمِعِى أَنْتِ وَحَفْصَةُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُرْسِلَ إِلَى عُمَرَ فَلْيُصَلِّ بِهِمْ، فَفَعَلَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتُنَّ صَوَاحِبْ يُوسُفَ، مُرِى أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِ بِالنَّاسِ، فَلَمَّا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ، سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤَذِّنَ، وَهُوَ يَقُولُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْفَعُونِي، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: قَدْ أَمَرْتُ أَبَا بَكْرٍ أن يُصَلِّي بِالنَّاسِ، وَأَنْتَ في عَذِرٍ، قَالَ ارْفَعُونِي، فَإِنَّهُ جُعِلَتْ قُرَّةَ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ.قَالَتْ عَائِشَةُ: فَرَفَعْتُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، وَقَدَمَاهُ تخدانِ الْأَرْضَ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ لَحْسَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَخَّرَ، فَأَوْمَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَسَارٍ أَبِي بَكْرٍ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِذَاءَهُ يُكَبَرُ، وَيُكَبَرُ أَبُو بَكْرٍ بِتَكْبِيرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُكْبَرُ النَّاسُ بِتَكْبِير أبي بَكْرٍ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ غَيْرَ تِلْكَ الصَّلَاةِ حَتَّى قُبِضَ ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ الْإِمَامُ ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجِعٌ حَتَّى قُبِضَ (مسند امام اعظم ابی حنیفه) کتاب الصلاة، باب بيان صلاة المريض (129) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ مرض الوفات کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علم کو کچھ افاقہ محسوس ہوا نماز کا وقت تھا آپ صلی الی یم نے مجھ سے کہا کہ ابو بکر کو نماز پڑھانے کے لئے پیغام بھیج دو میں نے ابو بکر کو کہلا بھیجا کہ رسول اللہ صلی الی یک نماز پڑھانے کا ارشاد فرماتے ہیں ابو بکڑ نے کہلا بھیجا کہ میں بڑی عمر
503 کا بوڑھا ہوں اور کمزور دل والا ہوں جب مصلے پر رسول اللہ صلی علیم کو نہ دیکھ پاؤں گا تو اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکوں گا اس لئے تم اور حفصہ دونوں مل کر حضور سے عمر کے نام پیغام بھیجو او جب ہم دونوں نے حضور ملی یکم الله سة سے ایسا کہا تو رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا آنتن صوَاحِبُ يُوسُفَ کہ تم تو اسی طرح کی عورتیں ہو جیسی یوسف کے خلاف سازش کرنے والی تھیں ابو بکر کو نماز پڑھانے کے لئے کہو جب حضور نے موذن کی آواز حَيَّ عَلَى الصَّلاة سنی تو فرمایا مجھے کھڑا کر و ( یعنی اٹھا کر نماز کے لئے لے چلو) اس پر عائشہ نے کہا حضور آپ تو حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے کے لئے فرما چکے ہیں اور آپ تکلیف کی وجہ سے معذور بھی ہیں حضور صلی الیکم نے فرمایا مجھے اٹھاؤ میری دلی تسکین نماز سے ہوتی ہے اس پر دو آدمیوں نے پکڑ کر حضور صلی ایم کو اٹھایا اور سہارا دے کر نماز کے لئے لے چلے حضور علیہ السلام کے قدم زمین پر گھسٹ رہے تھے جب حضرت ابو بکر نے رسول اللہ صلی کم کی آمد کو محسوس کیا تو پیچھے ہٹنے لگے رسول اللہ صلی الیم نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ ٹھہرنے کے لئے فرمایا اور خود حضرت ابو بکر کے بائیں طرف بیٹھ گئے اور رسول اللہ صلی الم کی تکبیر یہ حضرت ابو بکر تکبیر کہتے اور مقتدی ابو بکر کی تعمیر کی اقتداء کرتے اس طرح نماز پوری ہوئی یہ لوگوں کی نبی صلی علیکم کے پیچھے آخری نماز تھی اس کے بعد نبی صلی این نیم فوت ہو گئے.637ـ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكَرَةَ، قَالَ وَفَدْتُ مَعَ أَبِي إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرَةَ، حَدِ ثُنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ وَيَسْأَلُ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: أَيُّكُمْ رَأَى رُؤْيَا ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ كأن ميزانا دلي مِنَ السَّمَاءِ، فَوْزِنتَ أنتَ بأبي بكر فرحت بأبي بكر، ثم وزن أبو بكر
504 يعمر، فرح أبو بكر يعمر، ثُم وزن عُمر بعمان، فَريحَ عُمَرُ بِعُلَمان، ثُمَّ رُفِعَ الْمِيزَانُ، فَاسْتَاءَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ خِلَافَةُ نُبُوَةٍ، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ (مسند احمد بن حنبل ، اول مسند البصريين ، حدیث ابى بكره نفيع بن الحارث بن كلده 20718) حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے ساتھ حضرت معاویہ بن ابوسفیان سے ملنے گیا جب ہم ان کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے میرے والد سے کہا اے ابو بکرۃ! مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی علیم سے سنی ہو اس پر ابو بکر نے کہا کہ رسول اللہ صلی علی یم کو اچھے خواب بہت پسند تھے اور آپ صلی ا یکم ان کے بارہ میں پوچھا کرتے تھے ایک دن رسول اللہ صلی علیم نے لوگوں سے پوچھا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے تو حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول! میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک الله ترازو آسمان سے لٹکایا گیا ہے آپ صلی علی نیم کا وزن ابو بکڑ سے کیا گیا آپ مالی ملیالم کا پلڑا جھک گیا پھر ابو بکر کا وزن عمرؓ سے کیا گیا تو ابو بکر کا پلڑا جھک گیا پھر عمر کا وزن عثمان سے کیا گیا تو عمر کا پلڑا جھک گیا پھر ترازو اٹھا لیا گیا رسول اللہ صلی اللہ نیلم نے اس خواب کی یہ تعبیر فرمائی کہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا حکومت دے گا.638ـ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِي، أَنَّهُ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ، قَالَ وَعَظَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَوْعِظَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَذِهِ لَمَوْعِظَةٌ مُوَدِعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا ؟ قَالَ قَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا لَا يَزِيغُ عَنْهَا بَعْدِى إِلَّا هَالِكٌ، وَمَنْ يَعِشُ مِنْكُمْ، فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيَّينَ، وَعَلَيْكُمْ
505 بِالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا عَضُوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِدِ، فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ كَالْجَمَلِ الْأَيْفِ حَيْهما انْقِيدَ انْقَادَ الله و (مسند احمد بن حنبل، مسند الشميين ، حدیث العرباض بن ساريه عن النبي عام 17272) حضرت عبد الرحمن بن عمر و سلمی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرباض بن ساریہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک بار رسول اللہ صلی عوام نے ایک ایسا پر اثر وعظ کیا کہ جس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے دل ڈر گئے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ تو ایسی نصیحت ہے جیسے ایک الوداع کہنے والا وصیت کرتا ہے، ہمیں کوئی ایسی ہدایت فرمائیے کہ ہم صراط مستقیم پر قائم رہیں آپ صلی الی یکم نے فرمایا میں تمہیں ایک روشن اور چمکدار راستے پر چھوڑے جارہا ہوں اس کی رات بھی اس کے دن کی طرح ہے سوائے بد بخت کے اس سے کوئی بھٹک نہیں سکتا اور تم میں سے جو شخص رہا وہ بڑا اختلاف دیکھے گا ایسے حالات میں تمہیں میری جانی پہچانی سنت پر چلنا چاہئے اور خلفائے راشدین مہد بین کی سنت پر چلنا چاہئے تم اطاعت کو اپنا شعار بناؤ خواہ حبشی غلام ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے اس دین کو تم مضبوطی سے پکڑو مومن کی مثال تکمیل والے اونٹ کی سی ہے جدھر اسے لے جاؤ وہ ادھر چل پڑتا ہے اور اطاعت کا عادی ہوتا ہے.حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْن عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ ، قَالا: أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْن سَارِيَةً، وَهُوَ عَمَّن نَزَلَ فِيهِ وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ (التوبة: 92) فَسَلَّمْنَا وَقُلْنَا: أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ، فَقَالَ الْعِرْبَاضُ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةٌ بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةٌ مُوَذِعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا ؟ فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشُ مِنْكُمْ بَعْدِي
506 فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِئِينَ ، تَمَتَكُوا بِهَا وَعَضُوا عَلَيْهَا بِالتَّوَاجِنِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَقَاتِ الْأُمُورِ، فَإِن كُلِّ مُحْدَقَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلِّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (ابو داؤد كتاب السنة باب في لزوم السنة 4607) عبد الرحمن بن عمر و سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ کے پاس آئے، وہ ان میں سے تھے جن کے بارے میں نازل ہوا وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ (التوبہ:93) ( اور نہ ان لو گوں پر کوئی حرف ہے کہ جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تا کہ تو انہیں (جہاد کے لئے ساتھ ) کسی سواری پر بٹھالے تو تو انہیں جواب دیتا ہے میں تو کچھ نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کر سکوں) تو ہم نے سلام کیا اور ہم نے کہا ہم آپ کے پاس آئے ہیں زیارت کرتے ہوئے، عیادت کرتے ہوئے اور علم حاصل کرتے ہوئے.اس پر حضرت عرباض نے کہا ایک دن رسول اللہ صلی علیکم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں بہت مؤثر وعظ فرمایا جس سے آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور جس سے دل ڈر گئے.پھر ایک کہنے والے نے عرض کیا یارسول اللہ امیہ کو یا کسی الوداع کرنے والے کا وعظ ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ یکم نے فرمایا میں تمہیں اللہ کا تقوی ( اختیار کرنے) اور سننے اور اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اگر چہ وہ حبشی غلام ہی ہو، کیونکہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ بہت اختلاف دیکھے گا.تم میری سنت اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت پانے والے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑے رہنا اور اس کو خوب مضبوطی سے پکڑے رکھنا اور نئے نئے امور سے اجتناب کرنا.یقینا ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے.639.عَنْ نَافِعٍ، قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعِ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ، زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً فَقَالَ.....سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةٌ (مسلم کتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة عند ظهور الفتن...3427)
507 نافع سے روایت ہے کہ یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب حزہ کا واقعہ ہوا تو حضرت عبد اللہ بن عمر عبد اللہ بن مطیع کے پاس آئے انہوں (عبد اللہ بن مطیع) نے کہا ابو عبد الرحمان کے لئے تکیہ لگاؤ انہوں (حضرت ابن عمرؓ) نے کہا میں نے رسول اللہ صلی علی کلم سے سنا آپ فرما رہے تھے جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ وہ قیامت سة کے دن اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو گی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا.640 - حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءِ العُطَارِدِيُّ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرُ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الجماعة شبرا فَمَاتَ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةٌ (بخاری کتاب الفتن باب قول النبى الله سترون بعدی امورا...7054) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ال یکم نے فرمایا جو شخص اپنے سردار اور امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جو اسے پسند نہ ہو تو صبر سے کام لے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی دور ہوتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرے گا.641 - عَنْ عَرْفَجَةً، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشْقَ عَصَاكُمْ، أَوْ يُفَزِقَ جَمَاعَتَكُمْ، فَاقْتُلُوهُ (مسلم کتاب الامارة باب حكم من فرق المسلمين هو مجتمع 3429) حضرت عرفجہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علی نظم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص تمہارے پاس آئے.تم ایک شخص پر متفق ہو اور وہ تمہارا عصا تو ڑنا چاہے یا تمہاری جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا چاہے تو اسے قتل کر دو.
508 642 - عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ عَامًا، ثُمَّ يَكُونُ بَعْدَ ذَلِكَ الْمُلْكُ قَالَ سَفِينَةُ: أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَخِلَافَةٌ عُمَرَ عَشْرَ سِنِينَ، وَخِلَافَةً عُثْمَانَ اثْنَتَى عَشْرَةَ سَنَةً ، وَ خِلَافَةَ عَلَيَّ سِتَّ سِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُم (مسند احمد بن حنبل ، تتمه مسند الانصار ، حدیث ابی عبد الرحمان سفينة مولی رسول الله 22264) حضرت سفینہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الم کو فرماتے ہوئے خلافت تیس سال رہے گی اس کے بعد ملوکیت کا دور ہو گا.سفینہ نے کہا اب گن لو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت دو سال، عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت دس سال، عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت بارہ سال اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت چھ سال ( یہ کل تیس سال بنے).خلافت، پہر ہ، امام کی حفاظت 643 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَهِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْدَمَهُ المَدِينَةَ لَيْلَةٌ.فَقَالَ لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا يَحْرُسُنِيَ اللَّيْلَة قَالَتْ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعْنَا خَشْخَشَةَ السَّلَاحِ، فَقَالَ مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَاصٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جَاءَ بِكَ ؟ فَقَالَ سَعْدٌ: وَقَعَ فِي نَفْسِي خَوْفٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَحْرُسُهُ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ (ترمذی کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن ابی وقاص 3756) الله حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الیہ کی مدینہ آنے کے بعد ایک رات سونہ سکے اس بے چینی کی کیفیت میں حضور صلی للی یکم نے فرمایا کاش کوئی خدا کا نیک بندہ آج پہرہ پر ہو تا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اسی دوران ہم نے ہتھیاروں کی جھنکار سنی حضور صلی اللہ ہم نے فرمایا کون ہے ؟ ( باہر سے) جواب ملا ( حضور !) میں سعد بن ابی وقاص
509 ہوں.رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا کس لئے آئے ہو ؟ سعد نے جواب دیا میرے دل میں رسول اللہ صلی علیم کے متعلق کچھ خدشہ محسوس ہوا اس وجہ سے آپ صلی یک کم کی حفاظت کی غرض سے چلا آیا.رسول اللہ صلی الیکم نے ان (سعد ) کے لئے دعا کی اور پھر (اطمینان سے) سو گئے.استنباط مسائل کے بارہ میں رہنما اصول اور حکومت کی بین الا قوامی ذمہ داریاں 644 - عَن رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَادٍ، عَنْ مُعَادٍ أَنَّ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم بعث مُعَاذًا إِلَى اليَمَنِ، فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي ؟ فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللهِ ؟ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ؟ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأَبِي ، قَالَ الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ (ترمذی کتاب الاحكام باب ما جاء فى القاضي كيف يقضى 1327) حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا لی کہ جب انہیں یمن میں حاکم بنا کر بھیجنے لگے تو فرمایا تم کس طرح فیصلے کیا کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا قرآن کریم کے احکامات کے مطابق فیصلہ کروں گا.آپ صلی اللہ ہم نے فرمایا کہ اگر ( ایسا معاملہ آجائے جس کے بارہ میں) قرآن کریم میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو تو ( پھر کس طرح کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا حضور صلی اللہ کریم کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا.حضور صلی اللی علم فرمانے لگے اگر
510 میری سنت میں بھی (کوئی ایسی مثال) نہ ملے (تو پھر کس طرح کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا پھر میں اجتہاد اور غور و فکر کروں گا اور پھر جو رائے بنے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا اس پر آپ نے خوش ہو کر فرمایا تمام تعریفوں کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے رسول اللہ کے ایلچی کو اس فراست اور صحیح سوچ کی ہدایت دی.645 - عن عمرو بن العَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَكَم الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ (بخاری کتاب الاعتصام باب اجر الحاكم اذا اجتهد فاصاب او اخطاء 7352) حضرت عمر و بن عاص بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی علیم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی حاکم سوچ سمجھ کر اور پوری تحقیق کے بعد فیصلہ کرے اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اسے دو ثواب ملیں گے اور اگر باوجود کوشش کے اس سے غلط فیصلہ ہو گیا تو اسے ایک ثواب اپنی کوشش اور نیک نیتی کا بہر حال ملے گا.646 - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ الله بالأمير خَيْرًا جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ إِنْ نَسِى ذَكَرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ، وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهِ غَيْرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوءٍ إِنْ نَسِيَ لَمْ يُذْكُرِهُ، وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ (ابو داؤد كتاب الخراج باب في اتخاذ الوزير (2932 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ال نیلم نے فرما یا جب اللہ کسی امیر کے متعلق خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اُس کا صادق وزیر مقرر فرما دیتا ہے.اگر وہ بھول جائے تو وہ اُسے یاد دلاتا ہے اور اگر وہ یادر کھے تو اس کی مدد کرتا ہے اور جب اللہ اس کے ساتھ کچھ اور ارادہ کرتا ہے تو اُس کا بُر اوزیر مقرر کرتا ہے.اگر وہ بھول جائے تو اُسے یاد نہیں دلا تا اور اگر وہ یا در کھے تو اُس کی مدد نہیں کرتا.
511 حکومت اور خلافت بین الا قوامی معاہدے -647 - عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلي بن أبي رافع، أن أبا رافع الخبرَهُ ، قَالَ بَعْقَتَنِي قُريش إلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُلْقِيَ فِي قَلْبِي الْإِسْلَامُ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي وَاللَّهِ! لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنِ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ قَالَ فَذَهَبْتُ ، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب فى الامام يستجن به في العهود 2758) حضرت ابو رافع نے بیان کیا کہ قریش نے مجھے رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس بھیجا.جب میں نے رسول اللہ صلی للی کم کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام ڈال دیا گیا.میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! اب میں ان کی طرف لوٹ کر کبھی نہ جاؤں گا آپ نے فرمایا نہ تو میں عہد شکنی کرتا ہوں اور نہ ایلچیوں کو روکتا ہوں لہذا اب تو تم لوٹ جاؤ اور اگر پھر بھی تیرے دل میں وہ بات رہتی ہے جو اب ہے تو پھر واپس آجانا.ابو رافع کہتے ہیں کہ اس وقت میں چلا گیا.پھر نبی صلی ال نیم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا.648 - حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ، قَالَ مَا مَنَعَنِي أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّي خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي حُسَيْلٌ، قَالَ فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَيْشٍ، قَالُوا إِنَّكُمْ تُرِيدُونَ مُحَمَّدًا، فَقُلْنَا: مَا نُرِيدُهُ ، مَا نُرِيدُ إِلَّا الْمَدِينَةَ، فَأَخَذُوا مِنَا عَهْدَ اللهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَنْصَرِفَنَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَلَا تُقَاتِلُ مَعَهُ،
512 فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ انْصَرِفَا نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَنَسْتَعِينُ اللهَ عَلَيْهِمْ (مسلم کتاب الجهاد باب الوفاء بالعهد 3328) حضرت حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں مجھے بدر میں شامل ہونے سے صرف اس بات نے روکا کہ میں اور میرا باپ حسیل نکلے وہ کہتے ہیں ہمیں قریش کے کافروں نے پکڑا انہوں نے کہا تم محمد ( صلی الیکم کے پاس جانے ) کا ارادہ رکھتے ہو.ہم نے کہا ہم آپ کے پاس نہیں جارہے بلکہ ہمارا ارادہ مدینہ کا ہے.انہوں نے ہم سے اللہ کا عہد اور اس کا پختہ وعدہ لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے اور آپ کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے.ہم رسول اللہ صلی الم کے پاس آئے اور ہم نے آپ کو یہ بات بتائی.آپ نے فرمایا تم دونوں واپس چلے جاؤ ہم ان سے ان کا عہد پورا کریں گے اور ان کے معاملہ میں اللہ سے مدد چاہیں گے.حکومت اور پبلک ذمہ داریاں عوام کی خیر خواہی 649 - عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالأَمِيرُ رَاعٍ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، فَكُلُكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْوِلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (بخاری کتاب النكاح باب المراة راعية في بيت زوجها 5200) الله سة حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اس سے اپنی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا امیر نگران ہے اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کی اور
513 اس کی اولاد کی نگران ہے پس تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا (کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو کس طرح نباہا).650ـ عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ عَادَ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ زِيَادٍ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ الْمُزَنِ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، قَالَ مَعْقِلُ :.....سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةُ، يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ عَاشُ لِوَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ (مسلم کتاب الایمان باب استحقاق الوالى الغاش لرعيته النار 195) حسن سے روایت ہے کہ عبید اللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار مزنی کی مرض الموت میں ان کی عیادت کے لئے گیا تو حضرت معقل نے کہا.میں نے رسول اللہ صلی الم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جس بندے کو اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا نگران بنادے اور جب وہ مرے اس حال میں مرے کہ وہ رعایا کو دھوکہ دیتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے.عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحٍ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْن زِيَادٍ عَادَ مَعْقِلَ بْن يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلُ.....سمعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ أَمِيرٍ يَلِي أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ، م لَا يَجْهَدُ لَهُمْ، وَيَنْصَحُ إِلَّا لَمْ يَدْخُلُ مَعَهُمُ الْجَنَّةَ (مسلم کتاب الایمان باب استحقاق الوالى الغاش لرعيته النار 197) ابو طلیح سے روایت ہے کہ عبید اللہ بن زیاد نے حضرت معقل بن یسار کی بیماری میں ان کی عیادت کی تو حضرت معقل نے اس سے کہا.میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے جو امیر مسلمانوں کے امور کا والی بنتا ہے اور پھر ان کے لئے جد وجہد نہیں کرتا اور نہ ہی خیر خواہی کرتا ہے وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا.
514 عَنِ الحَسَنِ، أَنَّ عُبَيْدَ اللهِ بْن زِيَادٍ، عَادَ مَعْقِلَ بْن يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلُ.....سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةٌ فَلَمْ يَحْطَهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدُ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ (بخاری کتاب الاحكام باب من استرعى رعية فلم ينصح 7150) حضرت معقل بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی المینیوم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ داریتا یا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی، اپنے فرض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کو تاہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت حرام کر دے گا اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا.651 - عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ احمَرَّتُ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشِ يَقُولُ صَبَحَكُمْ وَمَشَاكُمْ وَيَقُولُ......أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأُهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَى وَعَلَى (مسلم کتاب الجمعة باب تخفيف الصلاة والخطبة 1426) حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یکم خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آپ کی آواز بلند ہو جاتی تھی اور آپ کا جلال زیادہ ہو جاتا تھا گویا آپ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں.آپ فرماتے تھے کہ وہ صبح یا شام تم پر حملہ آور ہونے والا ہے اور فرماتے کہ میرا اہر مؤمن سے اس کی جان سے زیادہ قریبی تعلق ہے جو کوئی بھی مال چھوڑے تو وہ اس کے گھر والوں کے لئے ہے اور جو کوئی قرض چھوڑے یا کمزور اولا د چھوڑے تو وہ میرے ذمہ ہے.
515 652 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِي، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ البَحْرَيْنِ قَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، فَلَمْ يَجِي مَالُ البَحْرَيْنِ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ مَالُ البَحْرَيْنِ أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ أَوْ دَيْنٌ، فَلْيَأْتِنَا، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لي: كَذَا وَكَذَا ، فَتَى لِي حَشْيَةٌ، فَعَدَدْتُهَا ، فَإِذَا هِيَ خَمْسُ مِائَةٍ، وَقَالَ خُذْ مِثْلَيْهَا (بخارى كتاب الكفالة باب من تكفل عن ميت دينا، فليس له ان يرجع 2296) حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا اگر بحرین سے مال آیا ہو تا تو میں تمہیں اس طرح ( دونوں لپ بھر کر ) اس طرح (اس طرح) دیتا.بحرین کا مال نہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے.جب بحرین سے مال آیا تو حضرت ابو بکر نے حکم دیا اور منادی کرائی گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جس کسی کا کوئی وعدہ یا قرضہ ہو تو وہ ہمارے پاس آئے.میں بھی اُن کے پاس گیا اور میں نے کہا نبی صلی الہی ہم نے مجھ سے یوں فرمایا تھا تو انہوں نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا اور میں نے اسے گنا تو وہ پانچ سو تھے اور انہوں نے کہا اس سے دو گنے اور لے لو.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ، قَالَ لَهَا مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ أَبَا بَكْرٍ مَالٌ مِنْ قِبَلِ العَلَاءِ بْنِ الحَضْرَمِي، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنَ أَوْ كَانَتْ لَهُ قِبَلَهُ عِدَةٌ، فَلْيَأْتِنَا، قَالَ جَابِرٌ: فَقُلْتُ وَعَدَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعْطِيَنِي هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، فَبَسَطَ يَدَيْهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ جَابِرٌ: فَعَدَّ فِي يَدِى خمس مائة، ثم خمس مائة، ثم خمس مائة بخاری کتاب الشهادات باب من امر بانجاز الوعد (2683
516 حضرت جابر بن عبد اللہ (انصاری) رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو حضرت ابو بکڑ کے پاس حضرت علاء بن حضرمی (بحرین کے حاکم ) کی طرف سے مال آیا تو حضرت ابو بکر نے کہا جس کسی کا ہی علم کے ذمہ قرض ہو یا آپ نے اس سے کچھ وعدہ کیا ہو تو ہمارے پاس آئے.حضرت جابر کہتے تھے میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے اتنا اتنا اتنا مال دیں گے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر تین بار اس طرح فرمایا حضرت جابر کہتے تھے چنانچہ حضرت ابو بکڑ نے میرے ہاتھ میں پانچ سو پھر پانچ سو پھر پانچ سو گن کر دیئے.653 - عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ امْرَأَةٌ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ فَلَمْ أَجِدُكَ ؟ قَالَ أَبِي: كَأَنَّهَا تَعْنِي الْمَوْتَ قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ (مسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل ابى بكر الصديقه 4384) محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی للی کم سے کچھ مانگا.آپ نے اسے پھر آنے کا فرمایا اس نے عرض کیا یارسول صلی علی کرم اللہ ! یہ بتائیں کہ اگر میں آئی اور آپ کو نہ پایا.میرے والد نے کہا گویا اس کی مراد وفات سے تھی.آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس جانا.
517 منصف مزاج امراء اور حکام 654 - سَمِعَ مُسْلِمَ بْنَ فَرَظَةَ - ابْنَ عَيْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ - يَقُولُ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ الْأَشْجَيَ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ، قَالُوا قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلَا نُنَا بِذُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ ؟ قَالَ لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ ، لَا ، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ، أَلَا مَنْ وَلِيَ عَلَيْهِ وَالٍ، فَرَاهُ يَأْتِي شَيْئًا مِن مَعْصِيَةِ اللهِ، فَلْيَكْرَهُ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ (مسلم کتاب الامارة باب خيار الامة و شرارهم 3434) حضرت عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ ہم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے بہترین امام وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تمہارے بڑے آئمہ وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہیں تم ان پر لعنت ڈالتے ہو اور وہ تم پر لعنت ڈالتے ہیں.لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم اس صورت میں ان کا مقابلہ نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں، نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں.غور سے سنو! وہ جس کا کوئی والی ہو اور وہ دیکھے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کی بات کرتا ہے تو اس بات کو نا پسند کرے جو وہ خدا کی نافرمانی کی بات کرتا ہے لیکن اپنا ہاتھ اطاعت سے ہر گز باہر نہ نکالے.655 - عن أبي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَى اللهِ يَوْمَ القِيَامَةِ وَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامُ عَادِلٌ، وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ وَأَبْعَدَهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا إِمَامٌ جَائِرُ (ترمذی کتاب الاحكام باب ما جاء في الامام العادل 1329)
518 حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور اس کے زیادہ قریب انصاف پسند حاکم ہو گا.اور سخت نا پسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہو گا.656 - حَدَّثَنِي أَبُو الحَسَنِ، قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ إِمَامٍ يُغْلِقُ بَابَهُ دُونَ ذَوِى الحَاجَةِ، وَالخَلَّةِ، وَالمَسْكَنَةِ إِلَّا أَخْلَقَ اللهُ أَبْوَابَ السَّمَاءِ دُونَ خَلَّتِهِ، وَحَاجَتِهِ، وَمَسْكَنَتِهِ، فَجَعَلَ مُعَاوِيَةُ رَجُلًا عَلَى حوائج النَّاسِ (ترمذی کتاب الاحكام باب ما جاء في امام الرعية 1332) ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن مرہ نے حضرت معاویہ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی یی کم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجتمندوں، ناداروں اور غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لئے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے.(حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو سننے کے بعد ) حضرت معاویہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ وہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا مداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے.657ـ عَنْ أَبِي فِرَاسٍ، قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ بْنِ الْخَطَابِ فَقَالَ إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ عُمَّالِي لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ، وَلَا لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ، فَمَنْ فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ فَلْيَرْفَعُهُ إِلَى أُقِضُهُ مِنْهُ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَذَبَ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ أَتُقِضُهُ مِنْهُ ؟ قَالَ إِى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِلَّا أُقِضُهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَضَّ مِنْ نَفْسِهِ (ابوداؤد کتاب الديات باب القود من الضربة و قص الامير من نفسه 4537)
519 حضرت ابو فراس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک تقریر میں کہا کہ میں نے اپنے عمال کو تمہارے پاس اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ تمہیں ماریں پیٹیں اور تمہارا مال و اسباب چھین لیں.اگر کسی حاکم نے ایسا کیا ہے تو مجھے بتاؤ میں اس سے بدلہ دلاؤں.عمرو بن عاص کہنے لگے اگر کوئی حاکم رعیت کے کسی فرد کو تادیب کی غرض سے سزا دے تو کیا آپ اس سے بھی بدلہ لیں گے.حضرت عمرؓ فرمانے لگے خدا کی قسم میں اس سے بھی بدلہ لوں گا.پھر آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی علیہم کو دیکھا کہ آپ صلی عوام نے خود اپنے آپ کو بدلہ کے لئے پیش کیا.( مقصد یہ ہے کہ ثبوت اور باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بغیر انتظامیہ کے کسی فرد کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی کو من مانی سزا دے).الله الله 658 - عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، قَالَ بَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ قَسْمًا أَقْبَلَ رَجُلٌ فَأَكَبْ عَلَيْهِ، فَطَعَنَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُرْجُونٍ كَانَ مَعَهُ، فَجرِحَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَالَ فَاسْتَقِدُ فَقَالَ بَلْ عَفَوْتُ يَا رَسُولَ اللهِ (ابوداؤد کتاب الديات باب القود من الضربة و قص الامير من نفسه 4536) حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ل کر مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے کہ ایک شخص آپ صلی یہ ظلم پر جھک گیا.آپ صلی الی یکم نے اسے اپنی سوئی چبھو کر پرے کیا.جس کی وجہ سے اس کا چہرہ کچھ زخمی ہو گیا.اس پر رسول اللہ صلی العلیم نے اس شخص سے کہا کہ مجھ سے بدلہ لے لو اس شخص نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں نے معاف کیا.
520 امراء اور حکام کی اطاعت 659 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْكَ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِي عُسْرِكَ وَيُسْرِكَ، وَمَنْشَطِكَ وَمَكْرِهِكَ، وَأَثَرَةٍ عَلَيْكَ (مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية...3405) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا تم پر مشکل اور سہولت اور بشاشت اور ناپسندیدگی اور اپنے پر ترجیح دیئے جانے پر ( بھی ) سننا اور اطاعت کرنا فرض ہے.660- عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، قَالَ بَايَعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّيْعِ وَالطَاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرِهِ، وَعَلَى أَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَعَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِ أَيْنَمَا كُنَّا، لَا تَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لائِمِ (مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية...3412) عبادہ بن ولید بن عبادہ اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی ا ظلم کی سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی نکلی اور سہولت ، بشاشت اور ناپسندیدگی اور اپنے پر ترجیح کی صورت ) میں اور اس بات پر کہ اختیارات کے بارہ میں ذمہ دار لوگوں سے نزاع نہیں کریں گے اور اس بات پر کہ ہم جہاں بھی ہوں بیچ کہیں گے اور اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.661ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ يَعْصِنِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَمَنْ يُطِعِ الأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي (مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء في غير معصية...3403)
521 حضرت ابو ہریر گا سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے یقینا اللہ کی اطاعت کی اور جو میری نافرمانی کرتا ہے وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور جو امیر کی اطاعت کرتا ہے اس نے میری اطاعت کی اور جو امیر کی نافرمانی کرتا ہے اس نے یقینا میری نافرمانی کی.662 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِي، كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ (بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعة 7142) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا سنو اور مانو، اگر تم پر ایک ایسا حبشی غلام ہی حاکم مقرر کیا گیا ہو کہ جس کا سر گویا ایک منقہ ہے.663ـ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ السَّمْعُ وَالطَاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيهَا أَحَب وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرُ بِمَعْصِيَةٍ ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب في الطاعة 2626) حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا سنا اور مانا مسلمان مرد پر واجب ہے اس میں جو وہ پسند کرے اور (اس میں بھی) جو وہ نا پسند کرے اور یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ معصیت کا حکم نہ دیا جائے.جب معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ اطاعت ہے.عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّمْعُ وَالطَاعَةُ عَلَى المَرْءِ المُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرُ بِمَعْصِيَةٍ ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ عَلَيْهِ وَلَا طَاعَةً (ترمذى كتاب الجهاد باب ما جاء لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق 1707)
522 حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ﷺ نے فرمایا امام کی اطاعت اور فرمانبر داری ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے خواہ وہ امر اس کے لئے پسندیدہ ہو یا نا پسندیدہ.جب تک وہ امر معصیت نہ ہو لیکن جب امام (کھلی) معصیت کا حکم دے تو اس وقت اس کی اطاعت اور فرمانبر داری نہ کی جائے.664- عَنْ عَلَى أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْمَعُوا لَهُ وَيُطِيعُوا فَأَجَجَ نَارًا وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَفْتَحِمُوا فِيهَا، فَأَبَى قَوْمٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا وَقَالُوا إِنَّمَا فَرَدْنَا مِنَ النَّارِ، وَأَرَادَ قَوْمٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَوْ دَخَلُوهَا.أَوْ دَخَلُوا فِيهَا.لَمْ يَزَالُوا فِيهَا.وَقَالَ لَا طَاعَةً فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ إِنَّمَا الطَاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ (ابو داؤد کتاب الجهاد باب في الطاعة (2625) حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی ایم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ایک شخص کو اس کا امیر بنا دیا اور لوگوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا کہ اس کی سنیں اور اطاعت کریں.پس اس نے آگ جلائی اور ان کو کہا اس میں داخل ہو جاؤ.پس کچھ لوگوں نے اس کی یہ بات ماننے سے انکار کیا اور کہا ہم تو آگ سے بھاگ کر آئے ہیں اور بعض لوگوں نے ارادہ کیا کہ اس میں داخل ہو جائیں.یہ خبر رسول اللہ صلی الی یم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو وہ اسی میں رہتے.پھر آپ نے فرمایا اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے.اطاعت تو صرف معروف میں ہے.665- عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْوِيهِ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رأى من أميره شَيْئًا فَكَرِهَهُ فَلْيَضين، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوتُ إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً (بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعة لامام مالم تكن معصية 7143)
523 حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ایم نے فرمایا اگر کوئی شخص اپنے امیر میں کوئی ناگوار یا بظاہر نظر بری بات دیکھے تو وہ صبر کرے یعنی جماعت سے وابستہ رہے.کیونکہ جو شخص تھوڑا سا بھی جماعت سے الگ ہو جاتا ہے اور تعلق توڑ لیتا ہے وہ جہالت کی موت مرتا ہے.حکومت اور عہدہ کی طلب ناپسندیدہ ہے 666 - عَنِ الحَسَنِ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَةَ لَا تَسْأَلِ الإِمَارَةَ، فَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا ، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا ، فَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ (بخاری کتاب الاحكام باب من سال الامارة وكل منها 7147) حضرت عبد الرحمن بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تم نے مجھے فرمایا اے عبد الرحمن ! تو امارت اور حکومت نہ مانگ، اگر تجھے بغیر مانگے یہ عہدہ ملے تو اس ذمہ داری کے بارہ میں تیری مدد کی جائے گی یعنی اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا اور اگر تیرے مانگنے پر یہ عہد و تجھے دیا گیا تو تو اس کی گرفت میں ہو گا.تائید الہی سے محروم رہے گا.اور جب تو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق قسم کھائے اور پھر اس قسم کے بر عکس تجھے بہتر بات نظر آئے تو وہ بہتر بات کر اور اپنی قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کر.
524 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَةَ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَةَ، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا ، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ، وَائْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ (مسلم کتاب الایمان باب ندب من حلف يمينا فراى غيرها خير منها 3106) حضرت عبد الرحمان بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا کہ اے عبد الرحمان بن سمرہ! (کبھی) امارت طلب نہ کرنا کیونکہ اگر تجھے مانگنے پر یہ (امارت ) دی گئی تو تمہیں اس کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا اور اگر بن مانگے یہ تمہیں دی گئی تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی اور جب تم قسم کھاؤ پھر دوسری بات اس سے بہتر دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کر لو جو بہتر ہے.عدالت اور پبلک انصاف 667- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَرْسَلَتْ أُخْرَى بِقَصْعَةٍ فِيهَا طَعَامُ، فَضَرَبَتْ يَدَ الرَّسُولِ، فَسَقَطَتِ الْقَصْعَةُ فَانْكَسَرَتْ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِسْرَتَيْنِ، فَضَمَّ إِحْدَاهُمَا إِلَى الْأُخْرَى، فَجَعَلَ يَجْمَعُ فِيهَا الطَّعَامَ، وَيَقُولُ غَارَتْ أُمُكُمْ، كُلُوا ، فَأَكُلُوا، حَتَّى جَاءَتْ بِقَصْعَتِهَا، الَّتِي فِي بَيْتِهَا، فَدَفَعَ الْقَصْعَةَ الصَّحِيحَةَ إِلَى الرَّسُولِ، وَتَرَكَ الْمَكْسُورَةٌ فِي بَيْتِ لل الَّتِي كَسَرَتهَا ابن ماجه کتاب الاحكام باب الحكم فيمن كسر شياً 2334)
525 حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ نبی صلی علی یکم امہات المؤمنین میں سے کسی ایک کے گھر میں تھے تو دوسری نے ایک پیالہ بھیجا جس میں کھانا تھا.اس پر انہوں نے رسول اللہ صلی علی یم کے ہاتھ پر مارا اور اس پیالہ کو گرادیا.پیالہ گر گیا اور ٹوٹ گیا.رسول اللہ صلی اللہ کریم نے ان دونوں ٹکڑوں کو لیا.ایک دوسرے کے ساتھ ملایا اور اُس میں کھانا جمع کر ناشروع کیا اور فرمانے لگے تمہاری ماں کو غیرت آگئی ہے تم کھالو.پس سب نے کھالیا اتنے میں وہ اپنے گھر کا پیالہ سة لے کر آئی تو آپ نے ثابت پیالہ قاصد کو دے دیا اور ٹوٹا ہوا اس کے گھر میں چھوڑ دیا جس نے اس کو توڑا تھا.668 - عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ....وَقَالَ كَانَتِ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا، جَاءَ الذِئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ صَاحِبَتُهَا: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، وَقَالَتِ الْأُخْرَى: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ، فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى، فَخَرَجَنَا عَلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ فَأَخْبَرَنَاهُ، فَقَالَ ائْتُونِي بِالسّكِينِ أَشُقُهُ بَيْنَهُمَا ، فَقَالَتِ الصُّغُرَى لَا تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، هُوَ ابْنُهَا، فَقَضَى بِهِ لِلصُّغُرَى (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول الله تعالی و وهبنا لداؤد سلیمان نعم العبد...3426، 3427) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرماتے تھے دو عور تیں تھیں.ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے تھے.بھیڑیا آیا.ان میں سے ایک عورت کا بیٹالے گیا.اس کی ساتھی نے کہا وہ تو تیر اپیا لے گیا ہے ، اور دوسری کہنے لگی.تیرا ہی بیٹا لے گیا ہے.اس کے بعد وہ دونوں داؤد کے پاس اپنا جھگڑا فیصلہ کے لئے لے گئیں.انہوں نے بڑی عورت کو بچہ دلانے کا فیصلہ کیا.پھر دونوں نکل کر سلیمان بن داؤد کے پاس گئیں اور انہوں نے ان سے واقعہ بیان کیا.سلیمان نے کہا مجھے چھری لا دو تا کہ میں اس کو ان دونوں کے درمیان نصف، نصف تقسیم کر دوں.یہ سن کر چھوٹی کہنے لگی ایسانہ کیجیئے.اللہ آپ پر رحم کرے.یہ اسی کا بیٹا ہے.یہ سن کر سلیمان نے چھوٹی کو اس بیٹے کے دینے کا فیصلہ کیا.
526 669 عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْرُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالُوا وَمَنْ يَجْتَرِهُ عَلَيْهِ إِلَّا أَسَامَةُ، حِبُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَهُ أَسَامَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍ مِنْ حُدُودِ اللهِ ؟ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِهِ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا (مسلم کتاب الحدود باب قطع السارق الشريف وغيره...3182) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ قریش کو اس مخزومی عورت کے معاملہ سے فکر پید اہوئی جس نے چوری کی تھی.انہوں نے کہا اس کے بارہ میں کون رسول اللہ صلی الی سے بات کرے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کی رسول اللہ صلی علیم کے محبوب اُسامہ کے سوا کون جرآت کر سکتا ہے.چنانچہ آپ سے اُسامہ نے بات کی.رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارہ میں سفارش کرتے ہو ؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا ” اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی معزز چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب اُن میں کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اُس پر حد قائم کرتے تھے اور اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد صلی علیکم بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا“.670 - عَن عبد اللوبي عمر و قَالَ: لَعَن رَسُولُ الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّافِي وَالمَرْتَقِى (ترمذی کتاب الاحکام باب ما جاء فى الراشي والمرتشي في الحكم (1337) حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے.
527 671.وَعَن ابْن مَسْعُود رَضِى اللهُ عَنْهُ قَالَ الرَّشْوَةُ فِي الحُكْمِ كُفْرُ وَهِي بَين النَّاسِ سُحْتُ (الترغيب و التهيب للمنذری ، کتاب القضاء و غیره ، ترهيب الراشى و المرتشى و الساعي بينهما 321) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رشوت کفر کے حکم میں شامل ہے.اور یہ لوگوں کے در میان حرام ہے برکت کو ختم کرنے والی اور ناراضگی، دشمنی اور بے چینی پیدا کرنے والی حرکت ہے.خصومات، مراجعات اور جرم و سزا 672ـ عَنْ أُناسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْعَثَ مُعَاذَا إِلَى الْيَمَنِ قَالَ كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءُ ؟ قَالَ أَقْضِي بِكِتَابِ اللهِ ، قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدُ فِي كِتَابِ اللهِ ؟ ، قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدُ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِي كِتَابِ اللهِ ؟ قَالَ أَجْتَهِدُ بِرَأْيِي وَلَا اَلُو فَضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ، فَقَالَ الْحَمْدُ للهِ الَّذِى وَفَقَ رَسُولَ رَسُولِ اللهِ لِمَا يُرْضى رَسُولُ اللهِ (ابوداؤد کتاب القضاء باب اجتهاد الراى في القضاء 3592) حضرت معاذ بن جبل کے حمص کے رہنے والے ساتھیوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے جب حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو فرمایا! جب تمہارے پاس قضائی معاملے آئیں گے تو کیسے فیصلہ کرو گے ؟ انہوں نے کہا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا.آپ نے فرمایا اگر تمہیں کتاب اللہ میں نہ ملے ؟ انہوں نے کہا پھر رسول اللہ صلی اللی علم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا.آپ نے فرمایا اگر تمہیں رسول اللہ صلی اللی علم کی سنت میں بھی نہ ملے اور کتاب اللہ میں بھی نہ ملے ؟ انہوں نے کہا پھر میں کوشش کر کے
528 رائے قائم کروں گا اور کوئی کوتاہی نہ کروں گا.رسول اللہ صلی علیکم نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے جس نے اللہ کے رسول کے نمائندہ کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی جو اللہ کے رسول کو خوش کرتی ہے.673 - عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةً وَأَخْرَجَ الْكِتَابَ ، فَقَالَ هَذَا كِتَابٌ عُمَرَ ، ثُمَّ قُرِ عَلَى سُفْيَانَ: مِنْ هَاهُنَا إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِي ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْقَضَاءَ فَرِيضَةٌ مُحْكَمَةٌ وَسُنَّةٌ مُتَبَعَةٌ ، فَافْهَمْ إِذَا أُدْيَ إِلَيْكَ فَإِنَّهُ لَا يَنْفَعُ تَكَلَّمُ بِحَقِي لَا نَفَاذَ لَهُ ، أَسِ بَيْنَ النَّاسِ فِي مَجْلِسِكَ وَوَجْهِكَ وَعَدْلِكَ حَتَّى لَا يَطْمَعَ شَرِيفٌ فِي حَيْفِكَ وَلَا يَخَافَ ضَعِيفٌ جَوْرَكَ الْبَيْنَةُ عَلَى مَنِ ادَّعَى وَالْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ ، الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ النَّاسِ إِلَّا صُلْعًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا ، لا يَمْنَعُكُ قَضَاءٌ قَضَيْتَهُ بِالْأَمْسِ رَاجَعْتَ فِيهِ نَفْسَكَ وَهُدِيتَ فِيهِ لِرُشيك أَن تُرَاجِعَ الْحَق فَإِنَّ الْحَق قَدِيمَ وَإِنَّ الْحَقِّ لَا يُبْطِلُهُ شَيْءٌ وَمُرَاجَعَةُ الْحَق خَيْرٌ مِنَ التَّمَادِى فِي الْبَاطِلِ ، الْفَهْمَ الْفَهْمَ فِيمَا يُخْتَلَجُ تَخَلَّجَ فِي صَدْرِكَ مِمَّا لَمْ يَبْلُغُكَ فِي القرآن أو السُّنَّةِ اعْرِفِ الْأَمْقَالَ وَالْأَشْبَاهِ ثُمَّ فِيسِ الْأُمُورَ عِنْدَ ذَلِكَ فَاعْمَلْ إِلَى أَحَيْهَا إلى اللهِ وَأَشبيهَا بِالْحَقِي فِيمَا تَرَى وَاجْعَلْ لِلْمُدَّعِى أَمَدًا يَنْعَيِي إِلَيْهِ فَإِنْ أَحْضَرَ بَيْنَتَهُ وَإِلَّا وَجَهْتَ عَلَيْهِ الْقَضَاءَ ، فَإِنَّ ذَلِكَ أَجْلَى لِلْعَمَى وَأَبْلَغُ فِي الْعُذْرِ ، الْمُسْلِمُونَ عُدُولٌ بَيْنَهُمْ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلَّا مَجْلُودًا فِي حَةٍ أَوْ مُجَرَّبًا بِشَهَادَةِ نُورٍ أَوْ ظَنِينًا فِي وَلَاءٍ أَوْ قَرَابَةٍ ، فَإِنَّ اللهَ تَوَلَّى مِنْكُمُ السَّرَائِرَ وَدَرَأَ عَنْكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ، ثُمَّ إِيَّاكَ وَالشَّجَرَ وَالْقَلَقَ وَالتَّأْذِيَ بِالنَّاسِ وَالتَتكُرَ لِلْخُصُومِ في مَوَاطِنِ الْحَقِ الَّتِي يُوجِبُ اللهُ بِهَا الْأَجْرَ وَيَحْسِنُ بِهَا الذكر،
529 فَإِنَّهُ مَنْ يُخْلِصُ نِيَّتَهُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللهِ يَكْفِهِ اللهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ تَزَيَّنَ لِلنَّاسِ بِمَا يَعْلَمُ اللهُ مِنْهُ غَيْرَ ذَلِكَ ، شَانَهُ اللَّهُ سنن دار قطنى ، كتاب الاقضيه و الاحكام ، باب کتاب عمر رضی الله عنه الى ابي موسى (4472) حضرت سعید بن ابو بردہ نے امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب کا ایک خط نکالا جو انہوں نے اپنے ایک والی حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا.یہ خط مشہور محدث سفیان عیینہ کے سامنے پڑھا گیا.اس کا مضمون یہ تھا.امابعد.قضاء ایک محکم اور پختہ دینی فریضہ اور واجب الاتباع سنت ہے.جب کوئی مقدمہ یا کیس آپ کے سامنے پیش ہو تو معاملہ کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو کیونکہ صرف حق بات کہنا اور اس کے نفاذ کی کوشش نہ کرنا بے فائدہ ہے ( یعنی عدل و انصاف کا وعظ کرنا اور عملا لوگوں کو صحیح انصاف مہیا نہ کرنا ایک بریار وعظ ہو گا) کیا بلحاظ مجلس، کیا بلحاظ توجہ ، اور کیا بلحاظ عدل و انصاف سب لوگوں کے درمیان مساوات قائم رکھو.سب سے ایک جیسا سلوک کرو تا کہ کوئی با اثر تم سے ظلم کرانے کی امید نہ رکھے اور کسی کمزور کو تیرے ظلم وجور کاڈر اور اندیشہ نہ ہو اور ثبوت پیش کرنا مدمی کا فرض ہے اور (اگر اس کے پاس ثبوت نہ ہو تو پھر) قسم منکر مدعی علیہ پر آئے گی.مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کرنا اچھی بات ہے.ہاں ایسی صلح کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جس کی وجہ سے حرام حلال بن رہا ہو اور حلال حرام یعنی خلاف شریعت صلح جائز نہ ہو گی.اگر تم کوئی فیصلہ کرو اور پھر غور و فکر کے بعد اللہ کی ہدایت سے دیکھو کہ فیصلہ میں غلطی ہو گئی ہے.صحیح فیصلہ اور طرح ہے تو اپنا کل کا فیصلہ واپس لینے اور اسے منسوخ کرنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ یا شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے کیونکہ حق اور عدل ایک قدیمی صداقت ہے اور حق اور سچ کو کوئی چیز باطل اور غلط نہیں بنا سکتی اس لئے حق کی طرف لوٹ جانا اور حق کو تسلیم کر لینا باطل میں پھنسے رہنے اور غلط بات پر مصر رہنے سے کہیں بہتر ہے جو بات تیرے دل میں کھٹکے اور قرآن و سنت میں اس کے بارہ میں کوئی وضاحت نہ ہو تو اس کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو اس کی مثالیں تلاش کرو.اس سے ملتی جلتی صورتوں پر غور کرو پھر ان پر قیاس کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کر و اور جو پہلو اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ پسندیدہ لگے اور حق اور سچ کے زیادہ مشابہ نظر آئے اسے اختیار کرو مدعی کو ثبوت پیش
530.کرنے کے لئے مناسب تاریخ اور وقت دو تا کہ وہ اپنے دعویٰ کے حق میں ثبوت اکٹھے کر سکے.اگر مقررہ تاریخ پر وہ ثبوت اور بینہ پیش کر سکے تو فبہاور نہ اس کے خلاف فیصلہ سنادو.یہ طریق اندھے پن کو جلا بخشنے والا ہے.اور بے خبری کے اندھیرے کو روشن کرنے والا ہے یعنی اس سے الجھا ہوا معاملہ سلجھ جائے گا اور ہر قسم کے عذر اور اعتراض کا موثر جواب ہو گا.سب مسلمان برابر شاہد عادل ہیں ایک دوسرے کے حق میں اور ایک دوسرے کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں اور ان گواہیوں کے مطابق فیصلہ ہو گا سوائے اس کے کہ کسی کو حد کی سزامل چکی ہو.یا اس کے جھوٹی شہادت دینے کا تجربہ ہو چکا ہو یاوہ غلط ولاء یا قرابت کے دعوئی میں متہم ہو.مولیٰ کسی اور کا ہو اور دعوی کسی کے مولیٰ ہونے کا کرے یا اس کا اصل رشتہ کسی اور شخص یا قوم سے ہو اور دعویٰ کسی اور کے رشتہ دار ہونے کا کرے یعنی حسب و نسب کے دعویٰ میں جھوٹا ہو ایسے خفیف الحرکت شخص کے سچا ہونے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا.باقی سب مسلمان گواہ بننے کے اہل ہونے کے لحاظ سے برابر ہیں کیونکہ کسی کے دل میں کیا ہے ؟ اصل راز اور سچائی کیا ہے ؟ اسے اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے.اگر کوئی غلط بیانی کرے گا تو خدا اس کو اس کی سزا دے گا.اللہ تعالیٰ نے تمہیں بینات اور گواہیوں کے ذریعہ معاملات نپٹانے کا مکلف بنایا ہے.یہ بھی یاد رکھو کہ تنگ پڑنے سے بچو.جلد گھبر اجانے اور لوگوں سے تکلیف اور دکھ محسوس کرنے اور فریقین مقدمہ سے تنفر اور اجنبی پن سے کبھی پیش نہ آؤ.حق اور سچ معلوم کرنے کے مواقع میں اس طرز عمل سے بچنا اور حق شناسی کی صحیح کوشش کرنا.اللہ اس کاضر ور اجر دے گا اور ایسے شخص کو نیک شہرت بخشے گا.جو شخص اللہ کی خاطر خلوص نیت اختیار کرے گا اللہ اسے لوگوں کے شر سے بچائے گا اور جو شخص محض بناوٹ اور تصنع سے اپنے آپ کو اچھا ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ کبھی نہ کبھی اس کا راز فاش کر دے گا اور اس کی رسوائی کے سامان پیدا کر دے گا.
531 674 - عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ : البَيْنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَاليَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ.(ترمذی کتاب الاحكام باب ما جاء فى ان البينة على المدعى و اليمين على المدعى عليه 1341) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ا یکم نے فرما یا بینہ اور ثبوت پیش کر نامدعی کا فرض ہے اور (اگر مدعی کے پاس بینہ نہ ہو تو ) مدعی علیہ پر قسم آتی ہے.عَنِ ابْن أبي مليكة، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَنا تَخَرزَانِ في بَيْت أَو فِي الحُجْرَةِ، فَخَرَجَتْ إِحْدَاهُمَا وَقَدْ أَنْفِذَ بِاشْفَى فِي كَفْهَا، فَادَّعَتْ عَلَى الأُخْرَى، فَرُفِعَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ.قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ بخاری کتاب التفسير باب ان الذين يشترون بعهد الله...(آل عمران (78) 4552 ا ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ دو عورتیں ایک گھر میں یا کوٹھڑی میں بیٹھی (موزہ) ہی رہی تھیں.اتنے میں ان میں سے ایک باہر نکلی اور اس کی ہتھیلی میں ( موزہ سینے کا) سوا چھ گیا.اس نے دوسری پر دعویٰ کیا.یہ مقدمہ (حضرت عبد اللہ ) بن عباس کے سامنے پیش ہوا.حضرت ابن عباس نے یہ سن کر کہا.......رسول اللہ صلی ام نے فرمایا قسم مد عاعلیہ پر ہوتی ہے.675 - عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ......فَكَتَبْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَكَتَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لَادَّعَى رِجَالٌ أَمْوَالَ قَوْمٍ وَدِمَاءَهُمْ ، وَلَكِنَّ الْبَيْنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينَ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ (سنن الكبرى للبيهقى ، كتاب الدعوى والبينات باب البينة على المدعى و اليمين على المدعى عليه 21201)
532 ابوملیکہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک مقدمہ کے سلسلہ میں میرے استفسار کرنے پر) حضرت ابن عباس نے لکھا کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا اگر صرف دعویٰ کی بنیاد پر فیصلے ہوں تو لوگ دعوی کر کے لوگوں کے اموال کھا جائیں اور ان کی جانیں لے لیں (ایسا نہیں ہو سکتا) اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ثبوت اور بینہ پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے اور (اگر مدعی کے پاس ثبوت نہ ہو تو ) منکر (یعنی مدعی علیہ ) پر قسم آئے گی (اگر وہ قسم کھا جائے تو مقدمہ خارج ہو جائے گا).676 - حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِي، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ الضَّحَاكَ بْن خَلِيفَةً سَاقَ خَلِيجًا لَهُ مِنَ الْعُرَيْضِ ، فَأَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بِهِ فِي أَرْضِ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، فَأَبَى مُحَمَّدٌ، فَقَالَ لَهُ الضَّخَاكُ: لِمَ تَمَنْعُنِي، وَهُوَ لَكَ مَنْفَعَةٌ تَشْرَبُ بِهِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَلَا يَضُرُّكَ، فَأَبَى مُحَمَّدٌ، فَكَلَّمَ فِيهِ الضَّحَّاتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ فَدَعَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ مُحَمَّد بْن مَسْلَمَةَ فَأَمَرَهُ أَنْ يُخَتِيَ سَبِيلَهُ، فَقَالَ مُحَمَّدٌ : لَا ، فَقَالَ عُمَرُ : لِمَ تَمَنْعُ أَخَاكَ مَا يَنْفَعُهُ، وَهُوَ لَكَ نَافِعٌ، تَسْقِي بِهِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَهُوَ لَا يَضُرُّكَ، فَقَالَ مُحَمَّدٌ: لَا وَاللهِ.فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ لَيَمُرَّنَ بِهِ، وَلَوْ عَلَى بَطْنِكَ، فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يَمُرَّ بِهِ، فَفَعَلَ الضَّحَّاكُ (موطا امام مالک ، کتاب الاقضیه ، با القضاء في المرفق (1463) حضرت امام مالک بیٹی مازنی کی روایت سے بیان کرتے ہیں کہ ضحاک بن خلیفہ نے مدینہ کی ایک وادی سے پانی کی ایک نالی نکالنی چاہی تا کہ اپنے کھیت سیراب کر سکے.یہ نالی محمد بن مسلمہ کی زمین میں سے گزرنی تھی.محمد بن مسلمہ نے اس کی اجازت نہ دی.ضحاک نے ان سے کہا تم کیوں روکتے ہو تمہارا بھی اس میں فائدہ ہے.پہلے تم اپنی زمین کو پانی دے سکو گے اور آخر میں بھی یہ فائدہ حاصل کر سکتے ہو اور تمہارا کوئی نقصان بھی نہیں لیکن محمد نے کہا بس میری مرضی، میں اجازت نہیں دیتا.ضحاک نے حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب کی خدمت میں اس مشکل کا ذکر کیا.آپ نے محمد بن مسلمہ کو بلایا اور کہا کہ وہ ضحاک کی بات مان لیں لیکن محمد بن
533 مسلمہ نے انکار کر دیا.حضرت عمر نے فرمایا جب تمہارا بھی اس میں فائدہ ہے اور کوئی نقصان نہیں تو تم اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے سے کیوں انکار کرتے ہو ؟ محمد بن مسلمہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور کہا خدا کی قسم ! میں ان کو ہر گز اجازت نہیں دوں گا.اس پر حضرت عمر نے فرمایا یہ نالی تمہارے پیٹ پر سے بھی گزارنی پڑے تو بھی گزرے گی (یعنی تم وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ کے مصداق بننا چاہتے ہو) چنانچہ ضحاک نے (حضرت عمرؓ کے حکم سے یہ نالی بنالی.677 - عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ مِنْ دَمِهَا لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سن القتل أولا بخاری کتاب الاعتصام باب اثم من دعا الى الضلالة او سن سنة السيئة 7321) حضرت عبد اللہ (ابن مسعود) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ظلماً یا نا حق قتل کیا جاتا ہے.اس کے قاتل کے گناہ میں سے کچھ حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے لڑکے کو بھی ملتا ہے.اس وجہ سے کہ سب سے پہلے اس نے ہی قتل کرنے کا طریقہ رائج کیا تھا.678ـ عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ ذَهَبْتُ لِأَنْصَرَ هَذَا الرَّجُلَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةً، فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ أَنْصُرُ هَذَا الرَّجُلَ ، قَالَ ارْجِعْ ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا التَقَى المُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِي النَّارِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا القَاتِلُ، فَمَا بَالُ المَقْتُولِ؟ قَالَ: إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ (بخاری کتاب الديات باب قول الله تعالى و من احياها (المائدة (33) 6875)
534 حضرت ابو بکرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال یکم نے فرمایا جب دو مسلمان تلوار لے کر ایک دوسرے سے لڑنے لگیں ان میں سے کوئی قتل ہو جائے تو قاتل و مقتول دونوں آگ میں جائیں گے ابو بکرہ کہتے ہیں کہ میں نے الله عرض کیا.یارسول اللہ ! اس قاتل کو تو آگ میں جانا چاہئے.لیکن مقتول کیوں آگ میں جائے آپ مصلی میں ہم نے فرمایاوہ بھی تو اپنے مد مقابل کے قتل کا آرزومند تھا.679 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَبي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَدْ قَرِبَ، قَالَ اضْرِبُوهُ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَمِنَّا الضَّارِبُ بِيَدِهِ، وَالضَّارِبُ بِنَعْلِهِ، وَالشَّارِبُ بِقَوْبِهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ بَعْضُ القَوْمِ : أَخْرَاكَ اللهُ ، قَالَ لَا تَقُولُوا هَكَذَا، لَا تُعِينُوا عَلَيْهِ الشَّيْطَانَ (بخاری کتاب الحدود باب الضرب بالجريد و النعال (6777) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الم کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی ہوئی تھی.آپ صلی علی کرم نے فرمایا اس کو مارو یعنی سزا دو.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے کسی نے اسے ہاتھ سے مارا، کسی نے جوتی سے مارا، کسی نے کپڑے سے مارا، (غرض دھول دھپرہ کر کے اسے چھوڑ دیا ).جب وہ واپس جانے لگا تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے.آپ صلی یکم نے فرمایا ایسا مت کہو.ایسا کہہ کر تم اس کے خلاف شیطان کی مدد کرتے ہو ( بلکہ اس کے حق میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت اور سمجھ دے).680 - عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجُ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ يُخْطِيَ فِي العَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِيَ فِي العُقُوبَةِ.(ترمذی كتاب الحدود باب ما جاء في در الحدود 1424)
535 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مسلمان کو سزا سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرو.اگر اس کے بچنے کی کوئی راہ نکل سکتی ہو تو معاملہ رفع دفع کرنے کی سوچو.امام کا معاف اور در گزر کرنے میں غلطی کر ناسزا دینے میں غلطی کرنے سے بہتر ہے.681.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْرَءُوا الْحُدُودَ بِالشُّبُهَاتِ (مسند ابی حنیفه کتاب الحدود باب بیان درء الحد (314) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا شبہات کی وجہ سے حدود کا نفاذ روک دو.(یعنی کسی پر حد جاری کرنے میں جلدی نہ کرو.بلکہ اگر شبہ کی وجہ سے گنجائش نکلتی ہو تو اس کی بناء پر در گذر سے کام لو).682 - عَنْ يَحْيَى، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ أَتَاهُ رَجُلٌ بِابْنِ أَحْ لَهُ نَشْوَانَ، قَدْ ذَهَبَ عَقْلُهُ، فَأَمَرَ بِهِ فَبِسَ حَتَّى إِذَا مَحَ وَأَفَاقَ عَنِ السَّكْرِ، دَعَا بِالسَّوْطِ فَقَطَعَ ثَمَرَتَهُ رَقَهُ، وَدَعَا جَلَّادًا، فَقَالَ اجْلِدُهُ عَلَى جِلْدِهِ، وَارْفَعْ يَدَكَ فِي جَلْدِكَ وَلَا تَبْدَأُ ضَبْعَيْكَ، قَالَ وَأَنْشَأَ عَبْدُ اللهِ يَعُدُّ حَتَّى أَكْمَلَ ثَمَانِينَ جَلْدَةٌ خَلَّى سَبِيلَهُ، فَقَالَ الشَّيْخُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَابْنُ أَخِي وَمَالِي وَلَدٌ غَيْرَهُ، فَقَالَ شَرُّ الْعَةِ وَالِي الْيَتِيمِ، أَنْتَ كُنْتَ، وَاللَّهِ مَا أَحْسَنْتَ أَدَبَهُ صَغِيرًا، وَلَا سَتَرْتَهُ كَبِيرًا ، قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُعَدِ ثُنَا، فَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ حَدٍ أُقِيمَ فِي الْإِسْلَامِ لِسَارِقٍ أَتِيَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَامَتْ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةُ، قَالَ انْطَلِقُوا بِهِ، فَاقْطَعُوهُ فَلَمَّا انْطَلَقَ بِهِ نَظَرَ إِلَى وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنَّمَا سُفَ عَلَيْهِ وَاللهِ الرَّمَادُ، فَقَالَ بَعْضُ جُلَسَائِهِ يَا رَسُولَ اللهِ، لَكَانَ هَذَا قَدِ اشْتَدَّ عَلَيْكَ ؟ فقَالَ وَمَا يَمْنَعُنِي أَنْ يَشْتَدَّ عَلَى، أَنْ تَكُونُوا أَعْوَانَ الشَّيْطَانِ عَلَى أَخِيكُمْ، قَالُوا فَلَوْلَا
536 خليت سبيلهُ ؟ قَالَ أَفَلَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَن تَأْتُونِي بِهِ، فَإِنَّ الْإِمَام إِذا انتهى إِلَيْهِ حَد فَلَيْسَ يَنْبَغِي لَه أَنْ يُعَطِلَهُ، قَالَ ثُمَّ تَلَا: وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا (مسند ابی حنیفه ، کتاب الحدود، باب بيان حرمة الخمر و القمار (312) حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے بھتیجے کو جو نشہ میں دھت تھا ان کے پاس لایا.انہوں نے اسے قید کرنے کا حکم دیا جب اس کے ہوش ٹھکانے لگے اور نشہ اتر گیا تو انہوں نے ایک کوڑا منگوایا اور اس کی اگلی گانٹھ کاٹ ڈالی اور اسے نرم کیا پھر جلاد کو بلا کر کہا کہ اس کے گوشت والی جگہ پر کوڑے لگاؤ لیکن مارتے وقت اپنے ہاتھ کو اس قدر نہ اٹھانا کہ تمہاری بغلیں ظاہر ہوں.پھر عبد اللہ کوڑے گنے لگے یہاں تک کہ اسی (80) کی تعداد پوری ہو گئی تو اسے چھوڑ دیا.سزا دلانے کے بعد وہ آدمی جو ملزم کو لایا تھا کہنے لگا کہ اے ابو عبد الرحمن! خدا کی قسم یہ میرا بھتیجا ہے اور اس کے علاوہ میری کوئی اولاد نہیں ہے یہ سن کر عبد اللہ بن مسعودؓ فرمانے لگے.تو بہت بر اچھا ہے جو یتیم کا والی اور نگران تو بنا لیکن بچپن میں نہ اس کی اچھی تربیت کی اور جب وہ بڑا ہو گیا تو نہ اس کی پردہ پوشی کی.پھر آپ نے یہ حدیث بیان کی کہ شروع کے دنوں میں سب سے پہلے ایک چور کو حد کی سزا دی گئی اسے نبی ملی لی ایم کے پاس لایا گیا تھا جب اس کے جرم کا کھلا ثبوت مل گیا تو حضور صلی ال کلیم نے فرمایا اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو.لوگ جب اسے لے کر جانے لگے تو انہوں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ نیلم کے چہرہ مبارک پر اس کا اثر ہے آپ پر ملال اور اداس اداس ہیں.اس پر بعض نے عرض کیا کہ معلوم ہو تا ہے کہ حضور کو اس واقعہ کا بے حد افسوس ہے حضور صلی الیم نے فرمایا کیوں نہ افسوس ہو تم لوگ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار بن جاتے ہو.لوگوں نے عرض کیا حضور نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا.اس پر آپ صلی للی کرم نے فرمایا تم میرے پاس یہ شکایت لانے سے پہلے چھوڑ سکتے تھے.جب امام کے پاس ملزم کو لایا جائے اور جرم ثابت ہو جائے تو اس کارروائی کے بعد حد (کی سزا) واجب ہو جاتی ہے.اور امام (قاضی) یہ سزا معطل نہیں کر سکتا یہ فرمانے کے بعد آپ میلی لی ہم نے یہ آیت پڑھی وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا (النور: 23) یعنی عفو اور در گزر سے کام لیا کرو.
537 683 - عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ يَخْتَصِمَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوَارِيكَ بَيْنَهُمَا قَدْ دُرِسَتْ لَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيْنَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَى، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَعْلَمَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِي بَيْنَكُمْ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذُهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ يَأْتِي بِهَا إِسْطَامًا فِي عُنُقِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.فَبَكَى الرَّجُلَانِ، وَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: حَقِي لأَخِي قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِذْ قُلْنَا، فَاذْهَبَا فَاقْتَسِمَا، ثُمَّ تَوَخَيَا الْحَقَ ، ثُمَّ اسْتَهِمَا، ثُمَّ لِيَحْلِلُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا صَاحِبَهُ الله و (مسند احمد بن حنبل ، الملحق المستدرك من مسند الانصار ، حدیث ام سلمة زوج النبي ص 27161) حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس دو آدمی آئے جن میں وراثت کی ملکیت کے بارہ میں جھگڑا تھا اور معاملہ پر انا ہو جانے کی وجہ سے ثبوت کسی کے پاس نہ تھا.رسول اللہ صلی عالم نے ان کی بات سن کر فرمایا میں انسان ہوں اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی زیادہ لسان ہو اور بات کو بڑے عمدہ اند از اور لہجہ میں بیان کر سکتا ہو اور میں اس کی باتوں سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کروں اور اس کے حق میں فیصلہ دے دوں حالانکہ حق دوسرے فریق کا ہو.ایسی صورت میں اسے اس فیصلہ سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے اور اپنے بھائی کا حق نہیں لینا چاہئے کیونکہ اس کے لئے دو ایک آگ کا ٹکڑا ہے جو میں اسے دلا رہا ہوں.اگر وہ لے گا تو قیامت کے دن وہ سانپ بن کر اس کی گردن پر لپٹا ہو اہو گا.حضور صلی اللی کم کی یہ بات سن کر دونوں کی چیخیں نکل گئیں اور ہر ایک نے عرض کیا.حضور ! وہ کچھ نہیں لینا چاہتا.ساری جائیداد میرے بھائی کو دے دی جائے آپ صلی الی یکم نے یہ سن کر فرمایا جب تم اس پر آمادہ ہو تو یوں کرو کہ جائیداد تقسیم کر کے قرعہ اندازی کر لو جس حصہ کے بارہ میں جس کا قرعہ نکلے وہ، وہ لے لے اور دوسرے کے حصہ میں نکلا ہوا قرعہ اسے بخش دے یعنی اگر اس کا کوئی حق دوسرے کے حصہ میں ہے تو وہ اسے معاف کر دے اور اسے بخش دے.
538 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوَارِيكَ وَأَشْيَاءَ قَدْ دَرَسَتْ، فَقَالَ إِنِّي إِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِرَأْبِي فِيمَا لَمْ يُنَزِّلُ عَلَى فِيهِ (ابو داؤد کتاب القضاء باب فى قضاء القاضي اذا اخطاء 3585) عبد اللہ بن رافع بیان کرتے ہیں میں نے حضرت ام سلمہ کو نبی صلی املی کام سے یہ حدیث بیان کرتے سنا انہوں نے کہا کہ دو شخص اپنی وراثت اور اشیاء کے بارہ میں جو پرانی ہو گئیں جھگڑا کرتے ہوئے آئے.آپ نے فرمایا میں تمہارے درمیان ان باتوں کا اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا جن کے بارہ میں مجھ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی.جھوٹی شہادت 684.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ السَّلَهِيَ : أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الإِسْلامِ ، فَأَصَابَ الأَعْرَابِ وَعَكَ بِالْمَدِينَةِ، فَجَاءَ الأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جاءَهُ فَقَالَ أَقِلْنِي بيعتي، فَأَبَ ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ أقلبي تعبي، فَأَبَ، فَخَرَجَ الأَعْرَابِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا المَدِينَةُ كَالكِيرِ، تَنْفِي خَبَقَهَا، وَيَنْصَعُ طِيبُهَا (بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب و السنة باب ما ذكر النبي صل الله و وحض على اتفاق اہل العلم 7322) حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی العلیم کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمان ہوا.کچھ دنوں کے بعد اس کو مدینہ میں بخار ہو گیا.(اس تکلیف سے گھبر اکر) وہ دیہاتی رسول اللہ صلی للی کمی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اپنا اسلام واپس لے لیں.رسول اللہ صلی علیکم نے انکار فرمایا وہ دوسرے دن پھر آیا اور
539 کہنے لگا میرا اقرار بیعت واپس کر دیں.رسول اللہ صلی اللی یکم نے فرما یا واپس لینے کے کیا معنی ؟ وہ بدوی تیسرے دن پھر آیا اور یہی مطالبہ کیا.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ہم تمہارا مطالبہ پورا نہیں کر سکتے.آخر وہ خود ہی مدینہ سے چلا گیا اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مدینہ تو بھٹی کی طرح ہے کہ گند اور میل کچیل کو نکال پھینکتی ہے اور خالص اور طیب حصہ کو قائم اور باقی رکھتی ہے.685 - عَن عائقةً، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَجُودُ فَبَادَةُ خَائِنٍ وَلَا خَائِنَةٍ، وَلَا تَجْلُودٍ حَدًّا وَلَا تَجْلُودَةٍ، وَلا ذِى غمرٍ لأَخِيهِ، وَلَا مُجَرَّبٍ هَبَادَةٍ، وَلَا القَائِع أهل البيت لَهُمْ وَلا قَلِيين في وَلَاء وَلَا قَرابة.(ترمذی کتاب الشهادات باب ما جاء فيمن لا تجوز شهادته (2298) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی نیلم نے فرما یا کسی خیانت کرنے والے مرد یا عورت کی گواہی درست نہیں اور نہ اس مرد یا عورت کی جسے حد کی سزا ملی ہو نہ کینہ ور دشمن کی اور نہ ایسے شخص کی جس کی جھوٹی شہادت کا تجربہ ہو چکا ہو اور نہ ایسے شخص کی جس کا گزارہ ان لوگوں پر ہو جن کے حق میں وہ گواہی دے رہا ہے اور نہ ایسے شخص کی جس پر اس شخص کے وارث یارشتہ دار ہونے کی تہمت لگے جس کے حق میں وہ گواہی دے رہا ہے.686ـ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الكَبَائِرُ: الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَاليَمِينُ الغَمُوسُ (بخاری کتاب الايمان والنذور باب اليمين الغموس 6675) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا بڑے گناہ یہ ہیں.اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہر انا.والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا.
540 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ مَا الكَبَائِرُ ؟ قَالَ الإِشْرَاكُ بِاللهِ قَالَ ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ ثُمَّ عُقُوقُ الوَالِدَيْنِ قَالَ ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ اليَمِينُ الغَمُوسُ قُلْتُ وَمَا اليَمِينُ الغَمُوسُ ؟ قَالَ الَّذِي يَقْتَطِعْ مَالَ امْرِ مُسْلِمٍ ، هُوَ فِيهَا كَاذِبٌ (بخاری کتاب الاستتابة المرتدين و المعاندين باب اثم من اشرک بالله و عقوبته في الدنيا...6920) حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی صلی للی نیم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کہ یا رسول اللہ ! بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں؟ آپ صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہر انا.اس نے عرض کیا اور کیا؟ آپ صلی علیکم نے فرمایا یمین غموس.راوی بیان کرتے ہیں کہ اس پر میں نے عرض کیا یمین غموس کیا ہوتی ہے.آپ صلی علی تم نے فرمایا جھوٹی قسم جس کے ذریعہ انسان کسی مسلمان کا حق مارے.687 - عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ وَإِنْ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ (مسلم کتاب الایمان باب و عید من اقتطع حق مسلم بيمين فاجرة...188) حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا جس نے اپنی قسم سے کسی مسلمان کا حق مار لیا اللہ نے اس کے لئے دوزخ واجب کر دی اور اس پر جنت حرام کر دی.ایک شخص نے آپ سے عرض کیا یار سول اللہ ! خواہ وہ معمولی چیز ہو ؟ آپ نے فرمایا خواہ پیلو کی ایک ٹہنی ہو.
541 لوگوں میں مصالحت کرانے کی فضیلت 688 - أَخْبَرَنِي مُحَميدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أُمَّهُ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ.....أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِى يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنِي خَيْرًا (مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الكذب وبيان ما يباح منه (4703 ابن شہاب سے روایت ہے کہ حمید بن حضرت عبد الرحمان بن عوف نے مجھے بتایا کہ اس کی ماں حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط نے انہیں بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہے اور نیک باتیں کہتا ہے اور نیک با تیں پہنچاتا ہے.اخلاق حسنه 689 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا (مسلم کتاب الفضائل باب كان رسول الله الا اللهم احسن الناس خلقا 4259) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیہ کی سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت اخلاق والے تھے.690 - عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَخِشًا، وَكَانَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلَاقًا (بخاری کتاب المناقب باب صفة النبي ال (355)
542 حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم درشت زبان نہ تھے اور نہ تکلف سے درشتی کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے تم میں بہتر وہی ہیں جو تم میں سے اخلاق میں اچھے ہیں.-691- عن أبي ذَرٍ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّقِ اللهِ حَيْها كُنتَ، وَأَتْبِعِ الشَّيْئَةَ الحَسَنَةَ تَمَعُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ماجاء فى معاشرة الناس 1987) حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے فرمایا جہاں بھی تم ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.اگر کوئی براکام کر بیٹھو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو یہ نیکی اس بدی کو مٹادے گی اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ.692 - عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إن من أحبكُم إلى وأقربكُمْ مِنِي مَجْلِسًا يَوْمَ القِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا، وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَى وَأَبْعَدَكُمْ مِنِي مَجْلِسًا يَوْمَ القِيَامَةِ القِرْقَارُونَ وَالمُتَشَدِقُونَ وَالمُتَفَيْبِقُونَ، قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْنَا القِرْقَارُونَ والمتَشَدِقُونَ فَمَا المُتَفَيهِقُونَ؟ قَالَ: المَتَكَبَرُونَ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى معالى الاخلاق 2018 حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے.اور تم میں سے سب سے زیادہ مبغوض اور مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو ثر ثار یعنی منہ پھٹ ، بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ہیں، متشدق یعنی منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے اور متفيهق یعنی لوگوں پر
543 جتلانے والے ہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ثرثار اور متشدق کے معنے تو ہم جانتے ہیں متفیق کے کہتے ہیں ؟ آپ صلی للی کرم نے فرمایا متفیق متکبرانہ باتیں کرنے والے کو کہتے ہیں.693 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا هُرَيْرَةً كُن وَرِعًا، تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَكُنْ فَنِعًا، تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، تَكُن مُؤْمِنًا، وَأَحْسِنُ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَكَ، تَكُنْ مُسْلِمًا، وَأَقِلَ الضَّحِكَ، فَإِنَّ كَثْرَةً الضَّحِكِ تُميتُ الْقَلب ابن ماجه كتاب الزهد باب الورع والتقوى (4217 رض حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال نیلم نے فرمایا اے ابوہریرہ پرہیز گار بنو تم سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے.اور قانع بنو تم سب لوگوں سے زیادہ شکر گزار ہو جاؤ گے اور لوگوں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو تم مومن ہو جاؤ گے اور جو تمہارا پڑوسی ہے اس سے اچھی ہمسائیگی کرو تم مسلم ہو جاؤ گے اور کم ہنسو کیونکہ ہنسنے کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْ وَرِعًا تَكُن أَعْبَدَ النَّاسِ، وَكُنْ قَنِعًا تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ، وَأَحَبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُن مُؤْمِنًا، وَأَحْسِنَ مُجَاوَرَةٌ مَنْ جَاوَرَكَ تَكُن مُسْلِمًا، وَأَقِلَ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ رسالة قشيرية ، باب القناعة ، صفحه 196) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا متقی بنو.سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے، قناعت اختیار کر وسب سے زیادہ شکر گزار سمجھے جاؤ گے.لوگوں کے لئے وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو، حقیقی مومن کہلاؤ گے.اچھے پڑوسی بنو بچے مسلمان کہلاؤ گے.کم ہنسو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے.
544 694.عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاللهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِؤهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِوْنَهُ، فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَا فَأْتُمُوهُ (ابو داؤد کتاب الزكاة بـاب عطية من سال بالله عز وجل1672) حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا جو اللہ کا واسطہ دے کر پناہ مانگے تو اسے پناہ دو اور جو اللہ کا واسطہ دے کر مانگے اسے دو اور جو تمہیں بلائے اس کی (پکار ) کا جواب دو اور جو کوئی تم سے بھلائی کرے تو اس کا اسے بدلہ دو اور اگر اسے بدلہ میں دینے کے لئے کچھ نہ پاؤ تو اس کے لئے دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھو کہ تم نے اس کا بدلہ دے دیا ہے.695 - عَنْ أَبِي ذَرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ عُرِضَتْ عَلَى أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيْتُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِى أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ (مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاة باب النهي عن البصاق فى المسجد في الصلاة...851) حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ نبی صلی علیکم نے فرمایا کہ میرے سامنے میری اُمت کے اچھے اور بُرے اعمال پیش کئے گئے تو میں نے اس کے خوبصورت اعمال میں سے تکلیف دہ چیز کا راستہ سے ہٹا دینا پایا اور اس کے بُرے کاموں میں وہ بلغم پائی جو مسجد میں ہو اور اسے دفن نہ کیا جائے.696 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُسْنٍ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرُكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ.(ترمذی کتاب الزهد باب فيمن تكلم بكلمة يضحك بها الناس 2317)
545 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ انسان کے اسلام کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ انسان لا یعنی بریکار اور فضول باتوں کو چھوڑ دے.نیکی کے مختلف راستے اور سبقت الى خير العمل 697 - عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلْنِي الجَنَّةَ......فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحمَ (بخاری کتاب الادب باب فضل صلة الرحم (5983) حضرت ابو ایوب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ ! کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے نبی صلی اللہ ہم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.نماز باجماعت پڑھو، زکوۃ دو اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو.698ـ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلْنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي مِنِ النَّارِ، قَالَ لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيرُ عَلَى مَنْ يَشَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا
546 تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ أَلا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الخَيْرِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَصَلاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ قَالَ ثُمَّ تَلاَ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ، حَتَّى بَلَغَ يَعْمَلُونَ ، ثُمَّ قَالَ أَلا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الأَمْرِ كُلِهِ وَعَمُودِهِ، وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ ؟ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ رَأْسُ الأَمْرِ الإِسْلامُ ، وَعَمُودُهُ الصَّلاَةُ، وَذِرْوَةٌ سَنَامِهِ الْجِهَادُ، ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلاكِ ذَلِكَ كُلِهِ ؟ قُلْتُ بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا، فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللهِ ، وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ ؟ فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَادَ، وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ.(ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء في حرمة الصلاة 2616) الله حضرت معاذ بن جبل نے بیان کیا کہ میں نبی صلی الی ایم کے ساتھ ایک سفر میں تھا.ایک دن دوران سفر میں آپ کے قریب ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا کام بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے دور رکھے.آپ صلی للی یکم نے فرمایا تم نے ایک بہت بڑی اور مشکل بات پوچھی ہے لیکن اگر اللہ تعالی توفیق دے تو یہ آسان بھی ہے.تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کر ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ ، باقاعدگی سے زکوۃ ادا کر ، رمضان کے روزے رکھ ، اگر زاد راہ ہو تو بیت اللہ کا حج کر.پھر آپ صلی لی ہم نے یہ فرمایا کیا میں بھلائی اور نیکی کے دروازوں کے متعلق تجھے نہ بتاؤں؟ سنو اروزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے صدقہ گناہ کی آگ کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے.رات کے درمیانی حصہ میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے.پھر آپ صلی علیم نے یہ آیت پڑھی: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ....الخ.پھر آپ صلی الم نے فرمایا کیا میں تم کو سارے دین کی جڑ بلکہ اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا.جی ہاں یارسول اللہ ! ضرور بتائیے آپ صلی للی یکم نے فرمایا دین کی جڑ اسلام ہے اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے.پھر آپ صلی الم نے فرمایا کیا میں تجھے اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں.
547 یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ صلی علیکم نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا اسے روک کر رکھو.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی علیکم ! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس کا بھی ہم سے مواخذہ ہو گا.آپ صلی الم نے فرمایا تیرا بھلا ہو ، لوگ اپنی زبانوں کی کائی ہوئی کھیتیوں یعنی اپنے برے بول اور بے موقع باتوں کی وجہ سے ہی جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں.699 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللهِ، نُودِيَ مِنْ أَبْوَابِ الجَنَّةِ : يَا عَبْدَ اللهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجَهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رضي الله عنه: بأبي أنت وأخى يَا رَسُولَ اللهِ مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِهَا، قَالَ نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ (بخاری کتاب الصوم باب الريان للصائمين 1897) رض حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ کی راہ میں جو ڑا خرچ کیا، جنت کے دروازوں سے اُسے آواز دی جائے گی.اے اللہ کے بندے ! یہ ( دروازہ) اچھا ہے.سو جو نماز پڑھنے والوں میں سے ہو گا، وہ نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا.جو جہاد کرنے والوں میں سے ہو گا، وہ جہاد کے دروازہ سے بلایا جائے گا.جو روزہ داروں میں سے ہو گا، اُسے ریان دروازہ سے بلایا جائے گا.جو صدقہ دینے والوں میں سے ہو گا، اُسے صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا.تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) کہا یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان جو ان دروازوں میں سے بلایا گیا تو اُسے کوئی ضرورت نہیں رہے گی.کیا کوئی ایسا بھی ہے جسے ان سب دروازوں میں سے بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں.اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے.
548 700 - أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيْبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: حَقٌّ المُسْلِمِ عَلَى المُسْلِمِ خَمْسٌ رَدُّ السَّلَامِ، وَعِيَادَةُ المَرِيضِ ، وَاتَبَاعُ الجَنائِزِ، وَإجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَتَقْمِيتُ العَاطِسِ (بخاری کتاب الجنائز باب الامر باتباع الجنائز (1240) مسلمان حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صلی اللی علم کو فرماتے سنا کہ مسلمان پر مہ کے پانچ حق ہیں.سلام کا جواب دینا ، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والے کو دعا دینا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتَّ قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمُ عَلَيْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَسَمِتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدُهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ (مسلم کتاب السلام باب من حق المسلم للمسلم رد السلام 4009) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں.عرض کیا گیا یارسول صلی علیکم اللہ ! وہ کیا ہیں؟ آپ صلی للی یکم نے فرمایا جب تم اسے ملو، اسے السلام علیکم کہو اور جب وہ تمہیں بلائے تو لبیک کہو اور جب وہ تجھ سے خیر خواہی چاہے تو اس سے خیر خواہی کرو اور جب وہ چھینک مارے اور الْحَمدُ لِلهِ کہے تو اسے پر حمك الله کہو اور جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور جب وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جاؤ.
549 701 - حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِنٍ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ، وَنَهَانًا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ، وَاتَّبَاعِ الْجَنَازَةِ، وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ، وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ ، أَوِ الْمُقْسِمِ، وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ، وَإِجَابَةِ الدَّاعِي، وَإِفْشَاءِ السَّلَامِ ، وَنَهَانَا عَنْ خَوَاتِهِمَ أَوْ عَنْ تَخَتُم بِالذَّهَبِ، وَعَنْ شُرْبٍ بِالْفِضَّةِ، وَعَنِ الْمَيَاثِرِ، وَعَنِ الْقَيْنِي، وَعَنْ لبْسِ الْحَرِيرِ وَالْإِسْتَبْرَقٍ وَالدِّيباج (مسلم کتاب اللباس والزينة باب تحریم استعمال اناء الذهب والفضة على الرجل و النساء 3834) حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا آپ نے ہمیں ارشاد فرما یا مریض کی عیادت کا ، جنازہ کے پیچھے چلنے کا، چھینک کے جواب دے نے کا اور قسم پوری کرنے یا قسم کھانے والے کی قسم پورا کرنے میں مدد کرنے کا اور مظلوم کی مدد کرنے کا اور پکارنے والے کی پکار کے جواب دے نے کا اور سلام کو رواج دے نے کا اور آپ نے ہمیں انگوٹھیوں سے یا ( فرمایا) سونے کی انگوٹھیاں پہننے سے اور چاندی کے برتھوں میں پینے سے اور ریشمی زین پوشوں سے، قسی بستی میں بننے والے ریشمی کپڑوں سے ، ریشم کے پہننے سے، موٹے ریشم سے اور ریشمی لباس کے استعمال سے منع فرمایا.702 - عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللهِ أَوْصِنِي فَقَالَ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ فَإِنَّهُ جِمَاعُ كُلِّ خَيْرٍ، وَعَلَيْكَ بِالْجِهَادِ فَإِنَّهُ رهبانية المُسلم ، وَعَلَيْكَ بِذِكْرِ اللَّهِ فَإِنَّهُ نُورٌ لَكَ (الرسالة القشيريه ، باب التقوى صفحه 141 )
550 حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یارسول اللہ مجھے کوئی وصیت کیجئے.آپ صلی علیہ یم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تمام بھلائیوں کی یہ بنیاد ہے.اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو.کیونکہ یہ مسلمان کی رہبانیت ہے.اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو کیونکہ یہ تیرے لئے نور ہے.703 - حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا ؟ قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشَى القفر، وتأمل الفتى، ولا تمهل حَتَّى إذا بَلَغَتِ الحلقوم ، قُلْتَ لِفُلانٍ كَذَا، وَلِفُلانٍ كَذا وَقَدْ كَانَ لِفُلانٍ بخارى كتاب الزكاة باب اى الصدقة افضل وصدقة الشحيح الصحيح (1419) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی صلی المی ٹیم کے پاس آیا.اس نے کہا یار سول اللہ !اثواب میں کونسا صدقہ بڑھ کر ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو صدقہ کرے جب تو تندرست ہو.مال حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہو اور بخیل ہو.محتاجی سے ڈرے اور مال دار ہونے کی امید رکھتا ہو اور اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق میں آپہنچے اور تو کہے کہ فلاں کو اتنا دینا.فلاں کو اتنا دینا.حالانکہ فلاں کا تو ہو ہی چکا ہے.704ـ عَنْ أَبِي ذَرْ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا رَسُولَ اللهِ ذَهَبَ أَهْلُ الدُّلُورِ بِالْأُجُورِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ ، وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ، قَالَ أَوَلَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ مَا تَضَلَّقُونَ ؟ إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهى عَنْ مُنكَرٍ صَدَقَةٌ، وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، قَالُوا
551 يَا رَسُولَ اللهِ، أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَيَكُونُ لَهُ فِيهَا أَجْرُ ؟ قَالَ أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَكَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرُ ؟ فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْراً (مسلم کتاب الزكاة باب بيان ان اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف 1660) سة حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ نبی صلی املی کام کے بعض صحابہ نے نبی صلی الم کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہ ! مالدار لوگ سب اجر لے گئے وہ نماز پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور وہ روزے رکھتے ہیں جیسا کہ ہم روزے رکھتے ہیں اور وہ اپنے زائد اموال میں سے صدقہ کرتے ہیں.آپ نے فرمایا کیا اللہ نے تمہارے لئے وہ چیز نہیں بنائی جو تم صدقہ کرو یقینا ہر تسبیح صدقہ ہے.ہر تکبیر صدقہ ہے اور ہر تحمید صدقہ ہے اور ہر تہلیل ' صدقہ ہے اور نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور بدی سے روکنا صدقہ ہے اور تمہارا اپنی بیوی سے تعلق قائم کرنا بھی صدقہ ہے انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم میں سے اگر کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے لئے اجر ہے؟ آپ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر اپنی خواہش حرام جگہ پوری کر تا تو کیا اس پر بوجھ نہ ہوتا؟ اسی طرح جب وہ اسے جائز طریقہ سے کرتا ہے تو اس کے لئے اجر ہے.:1 تبليل: لا إلهَ إِلَّا اللہ کہنے کو تہلیل کہتے ہیں.
552 صدق و وفا 705 - عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الصَّدْقَ يَهْدِى إِلَى البِرِ، وَإِنَّ البِرَّ يَهْدِى إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يَكُونَ صِدِّيقًا.وَإِنَّ الكَذِبَ يَهْدِى إِلَى الفُجُورِ ، وَإِنَّ الفُجُورَ يَهْدِى إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّابًا (بخاری کتاب الادب باب قول الله تعالی یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين (التوبة 120) 6094) الله حضرت عبد اللہ نبی صلی ال یکم سے روایت کرتے ہیں کہ ( آنحضرت صلی للہ ہم نے فرمایا سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف اور انسان سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ گناہ اور فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور جہنم کی طرف اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے.706 - وَقَالَ حَسَّان بن أبي سِنَانٍ مَا رَأَيْتُ هَيْنا أَهْوَنَ مِنَ الوَرَعِ دَعْ مَا يُرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ (بخاری کتاب البیوع باب تفسير المشبهات (تعليقاً 2052) حسان بن ابی سنان نے کہا میں نے پر ہیز گاری سے زیادہ آسان کوئی بات نہیں دیکھی.چھوڑ دو وہ بات جو تمہیں کھٹکتی ہے اور اختیار کرو وہ بات جس کی نسبت تمہیں کوئی خدشہ نہیں.
553 عَنْ أَبِي الحَوْرَاءِ السَّعْدِي، قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلَى مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ، فَإِنَّ الصِّدِّقَ حُمَأْنِينَةٌ، وَإِنَّ الكَذِبَ رِيبَةٌ (ترمذى كتاب صفة القيامة باب ما جاء فى صفة اوانی حوض 2518) حضرت حسن بن علی بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی علیہ کم کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو شک سے مبرا یقین کو اختیار کرو.کیونکہ یقین بخش سچائی اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ اضطراب اور پریشانی کاموجب ہو تا ہے.707 - حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ انْطَلَقَ ثَلاثَةُ رَهْطٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَتَّى أَوَوْا المبيتَ إِلَى غَارٍ، فَدَخَلُوهُ فَالْحَدَرَتْ صَخْرَةٌ مِنَ الجَبَلِ، فَسَدَّتْ عَلَيْهِمُ الغَارَ، فَقَالُوا إِنَّهُ لَا يُنْجِيكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ بِصَالِحِ أَعْمَالِكُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: اللَّهُمَّ كَانَ لِي أَبَوَانٍ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، وَكُنْتُ لَا أَغْبِقُ قَبْلَهُمَا أَهْلًا، وَلَا مَالًا فَنَأَى بِي فِي طَلَبِ شَيْءٍ يَوْمًا ، فَلَمْ أُرِحْ عَلَيْهِمَا حَتَّى نَامَا، فَخَلَبْتُ لَهُمَا غَبُوقَهُمَا، فَوَجَدْتُهُمَا نَائِمَيْنِ وَكَرِهْتُ أَنْ أَغْبِقَ قَبْلَهُمَا أَهْلًا أَوْ مَالًا، فَلَبِثْتُ وَالقَدَحُ عَلَى يَدَى، أَنْتَظِرُ اسْتِيقَاظَهُمَا حَتَّى بَرَقَ الفَجْرُ، فَاسْتَيْقَظَا، فَشَرِبَا غَبُوقَهُمَا ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَفَرِجُ عَنَّا ا، مَا نَحْنُ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ، فَانْفَرَجَتْ شَيْئًا لَا يَسْتَطِيعُونَ الخُرُوجَ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ الآخَرُ اللَّهُمَّ كَانَتْ لِي بِنْتُ عَةٍ، كَانَتْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَى، فَأَرَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا، فَامْتَنَعَتْ مِنِى حَتَّى أَلَمَتْ بِهَا سَنَةٌ مِنَ السَّنِينَ، فَجَاءَتْنِي، فَأَعْطَيْتُهَا عِشْرِينَ
554 وَمِائَةَ دِينَارٍ عَلَى أَنْ تُخَلِي بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِهَا ، فَفَعَلَتْ حَتَّى إِذَا قَدَرْتُ عَلَيْهَا، قَالَتْ لَا أُحِلُّ لَكَ أَنْ تَفْضَ الخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَتَحَرَّجْتُ مِنَ الوُقُوعِ عَلَيْهَا، فَانْصَرَفْتُ عَنْهَا وَهِيَ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى، وَتَرَكْتُ الذَّهَبَ الَّذِي أَعْطَيْتُهَا اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافُرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ، فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ الخُرُوجَ مِنْهَا ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ الثَّالِثُ اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجَرَاءَ، فَأَعْطَيْتُهُمْ أَجْرَهُمْ غَيْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ تَرَكَ الَّذِى لَهُ وَذَهَبَ فَتَمَّرْتُ أَجْرَهُ حَتَّى كَثُرَتْ مِنْهُ الأَمْوَالُ، فَجَاءَنِي بَعْدَ حِينٍ فَقَالَ يَا عَبْدَ الله أَدَى إِلَى أَجْرِى فَقُلْتُ لَهُ كُلُّ مَا تَرَى مِنْ أَجْرِكَ مِنَ الإِبِلِ وَالبَقَرِ وَالغَنَمِ وَالرَّقِيقِ، فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ لَا تَسْتَهْزِ بِي، فَقُلْتُ إِنِّي لَا أَسْتَهْزِهُ بِكَ، فَأَخَذَهُ كُلَّهُ، فَاسْتَاقَهُ ، فَلَمْ يَتْرُكُ مِنْهُ شَيْئًا، اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافُرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ، فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ، فَخَرَجُوا يَمْشُونَ (بخاری کتاب الاجارة باب من استأجر اجیرا فترک اجره فعمل فيه...2272) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں میں سے جو تم سے پہلے تھے ، تین آدمی کسی سفر میں نکلے، یہاں تک کہ ایک غار میں.رات بسر کرنے کے لئے داخل ہو گئے.اُوپر سے ایک پہاڑ کا بڑا پتھر گرا اور انہیں غار میں بند کر دیا.اس پر وہ کہنے لگے اس پتھر سے ہمیں کوئی نجات نہیں دے گا ہاں تم اللہ سے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر دعا کرو تو یہ مشکل حل ہو سکتی ہے).تب ان میں سے ایک شخص نے کہا اے میرے اللہ !میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں اُن سے پہلے کسی اور کو دودھ نہ پلاتا تھا، نہ بال بچوں کو نہ نوکروں کو.ایک دن میں کسی چیز کی تلاش میں دور نکل گیا اور شام کو اُس وقت واپس آیا کہ وہ سو گئے تھے.میں نے ان کے لئے ان کے شام کے پینے کا دودھ دوہا مگر انہیں سویا ہوا پایا، اور میں نے پسند نہ کیا کہ اُن سے پہلے بال بچوں یا لونڈی غلام کو دودھ پلاؤں.میں ٹھہر گیا.پیالہ میرے ہاتھ میں تھا، اُن کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا، یہاں تک کہ جب خوب صبح ہو گئی اور وہ دونوں جاگ
555 اٹھے تو انہوں نے دودھ پیا.اے میرے اللہ ! اگر میں نے یہ عمل تیری خوشنودی کے لئے کیا تھا تو اس پتھر کی وجہ سے جس مصیبت میں ہم ہیں، وہ ہم سے دور کر.اس پر وہ پتھر کچھ سرک گیا مگر وہ غار سے نکل نہیں سکتے تھے.نبی صلی یم نے فرمایا دوسرے نے کہا اے میرے اللہ ! میری ایک چا کی بیٹی تھی جو مجھے بہت ہی پیاری تھی.میں نے اسے پھسلانا چاہا، وہ مجھ سے بچتی رہی یہاں تک کہ قحط سالی میں مبتلا ہوئی اور وہ میرے پاس آئی.میں نے اسے ایک سو بیس اشرفیاں دیں، اس شرط پر کہ وہ مجھے خلوت میں ملے.اس نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ جب وہ پوری طرح میرے قابو میں آگئی تو وہ کہنے لگی: میں تیرے لئے یہ جائز نہیں قرار دیتی کہ تو اس مہر کو بغیر اس کے جائز حق کے توڑے.اس پر میں نے اس سے مباشرت کرنا گناہ سمجھا اور اس سے الگ ہو گیا جبکہ وہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب تھی اور وہ اشرفیاں بھی میں نے اُسی کے پاس رہنے دیں جو میں نے اُسے دی تھیں.اے میرے اللہ ! اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا تھا تو جس مصیبت میں ہم ہیں، وہ ہم سے دُور کر دے.اس پر وہ پتھر کچھ اور سرک گیا مگر پھر بھی وہ غار سے باہر نکلنے کے قابل نہ تھے.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیسرے نے کہا اے میرے اللہ ! میں نے کچھ مز دور لگائے اور میں نے اُن کی مزدوری اُن کو دے دی، سوائے ایک شخص کے جو اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا.میں نے اُس کی مزدوری کو کام پر لگا دیا، یہاں تک کہ اس ذریعہ سے بہت مال ہو گیا.پھر وہ ایک عرصہ کے بعد میرے پاس آیا اور اُس نے کہا اے اللہ کے بندے ! میری مزدوری مجھے دے.میں نے اُسے کہا یہ سب اُونٹ، گائیاں، بکریاں اور غلام لونڈی جو تو دیکھ رہا ہے تیری مز دوری ہی ہے.اس نے کہا اے اللہ کے بندے ! مجھ سے ہنسی نہ کر.میں نے کہا میں تم سے ہنسی نہیں کر رہا.تب اس نے ساری چیزیں لے لیں اور انہیں ہانک کر لے گیا اور اس نے اس میں سے کچھ بھی نہ چھوڑا.اے میرے اللہ ! اگر میں نے تیری رضا کے لئے یہ کام کیا تھا تو جس مصیبت میں ہم ہیں، وہ ہم سے دور کر.اس پر وہ پتھر (ان سے اور بھی ) ہٹ گیا، یہاں تک کہ وہ نکل کر چلے گئے.
556 امانت اور دیانت کی فضیلت 708ـ عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْخَازِنَ الْمُسْلِمَ الْأَمِينَ الَّذِي يُنْفِذُ وَرُبَّمَا قَالَ يُعْطِي مَا أُمِرَ بِهِ، فَيُعْطِيهِ كَامِلا مُوَفَرًا، طَيْبَةٌ بِهِ نَفْسُهُ، فَيَدْفَعُهُ إِلَى الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ - أَحَدُ الْمُتَصَدِ قَيْنِ.(مسلم کتاب الزكاة باب اجر الخازن الامين و المراة اذا تصدقت من بيت زوجها...1685) حضرت ابو موسی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں نبی صلی نیلم نے فرمایا یقیناوہ مسلمان امانتدار خزانچی جو صدقہ کرنے کے حکم کو نافذ کرتا ہے (راوی بسا اوقات کہتے يُغطی دیتا ہے“ ) جس کا اسے حکم دیا گیا اور وہ اس شخص کو مکمل اور پورا پورا اپنے دل کی خوشی کے ساتھ دیتا ہے اور جس شخص کیلئے اسے وہ چیز دینے کا حکم دیا گیا ہے وہ اس کے سپر د کر دیتا ہے وہ دو صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے.وفائے عہد اور ایفائے وعدہ 709 - أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ مَرْوَانَ بْنَ الحَكَمِ ، وَالمِسْوَرَ بْن مَخْرَمَةً يُخْبِرَانِ خَبَرًا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُمْرَةِ الحُدَيْبِيَّةِ، فَكَانَ فِيمَا أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ لَهَا كَاتَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُهَيْلَ بْن عَمْرٍو يَوْمَ الحُدَيْبِيَّةِ عَلَى قَضِيَّةِ المُدَّةِ، وَكَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّهُ قَالَ لَا يَأْتِيكَ مِنَا أَحَدٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ، وَأَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَى ذَلِكَ، فَكَرِةَ المُؤْمِنُونَ ذَلِكَ وَامَّتعَضُوا، فَتَكَلَّمُوا فِيهِ، فَلَمَّا أَبِى سُهَيْلٌ أن يُقاضِي رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَى ذَلِكَ، كَاتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
557 وَسَلَّمَ، فَرَّدْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا جَنْدَلٍ بن سُبَيْلٍ يَوْمَيذٍ إِلَى أَبِيهِ سُهَيْل بن عمرو، وَلَمْ يَأْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلَّا رَذْهُ فِي تِلْكَ المُدَّةِ، وَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا ، وَجَاءَتِ المُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ، فَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ عَاتِقٌ، فَجَاءَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي المؤمِنَاتِ مَا أُنْزِل (بخاری کتاب المغازی باب غزوہ الحدیبیه (4180).عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مروان بن حکم اور حضرت مسور بن مخرمہ سے سنا کہ وہ دونوں اس واقعہ کی خبر بیان کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ حدیبیہ میں پیش آیا تھا.عروہ نے ان دونوں سے روایت کرتے ہوئے مجھے جو بتایا اس میں یہ بھی تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حدیبیہ میں سہیل بن عمر و سے قضیہ معیادی کا صلح نامہ لکھوایا اور سہیل بن عمرو نے جو شر طیں کی تھیں ان میں سے اس نے یہ بھی کہا تھا: تمہارے پاس ہم میں سے جو کوئی جائے گا اور وہ تمہارے دین پر بھی ہو ا تو تم نے اسے ہماری طرف لوٹا دینا ہو گا اور ہمارے اور اس کے درمیان کوئی دخل نہیں دو گے.سہیل نے انکار کر دیا کہ وہ رسول اللہ صلی علیم سے بغیر اس کے صلح کرے.مومنوں نے اس شرط کو بُر امانا اور پیچ و تاب کھانے لگے اور اس کے متعلق باتیں کرنے لگے.جب سہیل نے بغیر اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کرنے سے قطعی انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ شرط لکھنے کے لئے کہا اور رسول اللہ صلی ا ہم نے حضرت ابو جندل بن سہیل کو (جو مسلمان ہو چکے تھے ) انہی ایام میں ان کے باپ سہیل بن عمرو کے پاس لوٹا دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جو مرد بھی ( قریش سے ) آتا تو آپ میعادی صلح کے دوران اسے واپس کر دیتے گو وہ مسلمان ہی ہوتا اور چند مومن عورتیں بھی ہجرت کر کے آئیں.حضرت ام کلثوم بنت
558 عقبہ بن ابی معیط بھی ان لوگوں میں سے تھیں جو رسول اللہ صلی نیلم کے پاس نکل کر آئے اور وہ ابھی ابھی بالغ ہوئی تھیں.ان کے رشتہ دار آئے ، رسول اللہ صلی ال یکم سے درخواست کرنے لگے کہ وہ اسے ان کو واپس کر دیں.اس وقت اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کی بابت وحی نازل کی (کہ وہ واپس نہ کی جائیں).6 710 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، فَقَالَ الَّتِنِي بِالشُّهَدَاء أَهْبِدُهُمْ ، فَقَالَ كَفَى بِاللهِ شَهِيدًا ، قَالَ فَأْتِنِي بِالكَفِيلِ، قَالَ كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، قَالَ صَدَقْتَ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَخَرَجَ فِي البَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ التَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِى أَجَلَهُ، فَلَمْ يَجِدُ مَرْكَبًا، فَأَخَذَ خَشَبَةٌ فَنَقَرَهَا، فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةٌ مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ زَجَجَ مَوْضِعَهَا ، ثُمَّ أَنَّى بِهَا إِلَى البَحْرِ، فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلَانًا أَلْفَ دِينَارٍ، فَسَأَلَنِي كَفِيلاً، فَقُلْتُ كَفَى بِاللهِ كَفِيلًا، فَرَضِيَ بِكَ، وَسَأَلَنِي شَهِيدًا، فَقُلْتُ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، فَرَضِيَ بِكَ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِى لَهُ فَلَمْ أَقْدِرُ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا، فَرَهَى بِهَا فِي البَحْرِ حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، يَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا المَالُ، فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ المالَ وَالصَّحِيفَةَ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، فَأَتَى بِالأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ وَاللهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِى أَتَيْتُ فِيهِ، قَالَ هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَى بِشَيْءٍ ؟ قَالَ أُخْبِرُكَ أَنْي
559 لَمْ أَجِدُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ، قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذَى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الحقبة، فَانْصَرِفُ بِالأَلْفِ الذِينَارِ رَاشِدًا (بخارى كتاب الكفالة باب الكفالة فى القرض والديون بالا بدان و غيرها 2291) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ اس نے بنی اسرائیل میں سے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفیاں قرض مانگ میں تو اس نے کہا میرے پاس کوئی گواہ لے آؤ.میں ان کو گواہ ٹھہراؤں (اور رقم دے دوں) تو اس نے کہا اللہ ہی کافی گواہ ہے.اس نے کہا پھر (اپنا) کوئی ضامن پیش کرو.اس نے کہا اللہ ہی کافی ضامن ہے.اس نے کہا تم نے سچ کہا اور اُس کو ایک مقررہ میعاد کے لئے (اشرفیاں) دے دیں.(جس نے قرض لیا تھا) اس نے سمندر کا سفر کیا اور اپنا کام سر انجام دیا اور اس کے بعد جہاز کی تلاش کی کہ جس پر وہ سوار ہو کر اس کے پاس اس میعاد پر پہنچے جو اس نے مقرر کی تھی.مگر اس نے کوئی جہاز نہ پایا.آخر اس نے ایک لکڑی لی اور اسے کریدا اور اس میں ایک ہزار اشرفیاں اور اپنا ایک خط اپنے دوست کے نام رکھ دیئے.پھر اس کا منہ بند کر دیا اور پھر اسے لے کر سمندر پر آیا اور کہا اے میرے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار اشرفیاں قرض لی تھیں اور اس نے مجھ سے ضامن مانگا تھا اور میں نے کہا تھا: اللہ تعالیٰ ہی کافی ضامن ہے اور وہ تیر انام سن کر راضی ہو گیا اور اُس نے مجھ سے گواہ مانگا تھا اور میں نے کہا تھا: اللہ ہی کافی گواہ ہے اور وہ تیر انام سن کر راضی ہو گیا تھا.اور میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی جہاز پاؤں کہ تا اس کا مال اس کو بھیج دوں مگر میں نہ کر سکا اور آب میں یہ مال تیرے سپر د کرتا ہوں.یہ کہہ کر اُس نے وہ لکڑی سمندر میں ڈال دی، یہاں تک کہ وہ سمندر میں آگے چلی گئی.پھر اس کے بعد وہ واپس (گھر کو لوٹا اور جہاز کی تلاش میں رہا.تا اپنے ملک کو واپس آجائے.وہ شخص جس نے اس کو قرض دیا ہوا تھا، ایک دن باہر نکلا کہ دیکھے شائد کوئی جہاز اس کا مال (روپیہ) لے کر آیا ہو تو اس کی نظر اس لکڑی پر پڑی جس کے اندر مال رکھا ہوا تھا.وہ اسے اپنے گھر والوں کے لئے ایندھن سمجھ کر لے گیا.جب اس نے اس کو چیر ا، اس میں مال اور خط پایا.پھر کچھ مدت کے بعد وہ شخص بھی آپہنچا جس کو اس نے مال قرض دیا تھا.وہ ایک ہزار دینار اپنے ساتھ لایا اور کہا اللہ کی قسم! میں نے جہاز کی انتہائی
560 تلاش کی تا تمہارا مال تمہیں واپس کروں.مگر جس جہاز میں میں آیا ہوں، اس سے پہلے میں نے کوئی جہاز نہیں پایا تو قرض خواہ نے کہا کیا تو نے کوئی (رقم) میرے لئے بھیجی تھی؟ اس نے کہا کہ میں تجھے بتاتا ہوں کہ مجھے اس جہاز کے سوا جس میں اب آیا ہوں کوئی جہاز نہیں ملا.قرض خواہ نے کہا اللہ نے تیری طرف سے وہ مال مجھے پہنچا دیا ہے جو تو نے لکڑی میں بند کر کے بھیجا تھا.پس تو اطمینان سے ہزار اشرفیاں لے کر واپس لوٹ جا.احترام آدمیت، یتامی اور کمزوروں سے حسن سلوک شفقت على خلق الله 711ـ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَات ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ ، وَرَجَبْ شَيْرُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ ، ثُمَّ قَالَ أَيُّ شَيْرٍ هَذَا ؟ قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ أَلَيْسَ ذَا الْحِجَةِ ؟ قُلْنَا: بَلَى قَالَ فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟ قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا ؟ قُلْنَا : اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ ؟ قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ - قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَأَعْرَاضَكُمْ - حَرَامٌ عَلَيْكُمْ، كَحُرِمَةٍ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي
561 بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ، فَلَا تَرْجِعُنَ بَعْدِى كُفَارًا - أَوْ ضُلالا - يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا لِيُبَغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ بَعْضَ و مَنْ يُبَلِّغُهُ يَكُونُ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضِ مَنْ سَمِعَهُ ثُمَّ قَالَ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ (مسلم کتاب القسامة و المحاربين باب تغلیظ تحريم الدماء و الاعراض والاموال 3165) حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے نبی صلی الی یکم نے فرمایا کہ زمانہ اپنی اس شکل پر ( جس شکل پر وہ تھا) چکر کھا کر آگیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا سال بارہ مہینے (کا) ہے.ان میں سے چار حرمت والے ہیں تین تو متواتر ہیں ذو القعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور رجب مضر کا مہینہ ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتا ہے.پھر آپ نے فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی یم بہتر جانتے ہیں.راوی کہتے ہیں آپ خاموش رہے یہانتک کہ ہم نے سمجھا کہ آپ اس کو کوئی دوسرا نام دیں گے.پھر آپ نے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں.آپ نے فرمایا یہ کونسا علاقہ ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ ہم بہتر جانتے ہیں.راوی کہتے ہیں آپ خاموش رہے اور ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کو کوئی اور نام دیں گے.آپ نے فرمایا کیا یہ وہ حرمت والا) علاقہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں.آپ نے فرمایا اور یہ کونسا دن ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی میں کم بہتر جانتے ہیں.راوی کہتے ہیں آپ خاموش ہو گئے یہانتک کہ ہم نے سمجھا کہ آپ اس کو کوئی دوسرا نام دیں گے.آپ نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا یقینا تمہارے خون اور تمہارے مال راوی محمد کہتے ہیں میر اخیال ہے کہ آپ نے فرمایا اور تمہاری عزتیں.تمہارے لئے قابل احترام ہیں تمہارے اس دن کی حرمت کی طرح، تمہارے اِس علاقہ میں، تمہارے اس مہینہ میں اور جلد تم اپنے رب سے ملو گے تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارہ میں پوچھے گا.پس میرے بعد تم کافر نہ ہو جانا یا گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردنیں مارنے لگیں.سنو! چاہئے کہ ( یہ پیغام) حاضر غائب کو پہنچا دے.ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ ( پیغام پہنچایا جائے وہ اس سے زیادہ محفوظ کرنے والا ہو جس نے اس کو (خود) سنا ہے.پھر آپ نے فرمایا سنو ! کیا میں نے پہنچا دیا !!
562 712ـ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ خُطْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَسَطِ أَيَّامِ التَشْرِيقِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، أَلا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْل لِعَرَبِي عَلَى عَجَمِي، وَلَا لِعَجَمِي عَلَى عَرَبِ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرٌ، إِلَّا بالقهوى أبلغتُ ، قَالُوا: بَلَغَ رَسُولُ اللهِ، ثُمَّ قَالَ أَى يَوْمٍ هَذَا؟ قَالُوا: يَوْمُ حَرَامٌ، ثُمَّ قَالَ أَيُّ شَهْرٍ هَذَا ؟ قَالُوا: شَهْرُ حَرَامٌ ، قَالَ ثُمَّ قَالَ : أَى بَلَدٍ هَذَا؟ قَالُوا بَلَدٌ حَرَامٌ ، قَالَ فَإِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ بَيْنَكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ.قَالَ وَلَا أَدْرِى قَالَ أَوْ أَعْرَاضَكُمْ، أَمْ لا.كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَبَلَغْتُ قَالُوا: بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ لِيُبَلِّعْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ (مسند احمد بن حنبل من مسند الانصار (23885) ابو نضرہ بیان کرتے ہیں مجھے اس شخص نے بتایا جس نے حضور کا وہ خطبہ حجتہ الوداع سنا جو آپ صلی ہیں ہم نے ایام منی میں دیا تھا.کہ آپ صلی علیہم نے اپنے اس خطبہ میں فرمایا اے لوگو! تمہارا خدا ایک ہے.تمہارا باپ ایک ہے یادر کھو کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی سرخ و سفید رنگ والے کو کسی سیاہ رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو کسی سرخ و سفید رنگ والے پر کسی طرح کی کوئی فضیلت نہیں.ہاں تقویٰ اور صلاحیت وجہ ترجیح اور فضیلت ہے.کیا میں نے یہ اہم پیغام پہنچا دیا لوگوں نے (بلند آواز سے ) عرض کیا ہاں اللہ کے رسول نے یہ پیغام حق اچھی طرح پہنچا دیا.پھر آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا (ایام حج کا) بڑا محترم دن ہے.پھر آپ صلی علیم نے پوچھا یہ کون سا مہینہ ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا یہ (ذوالحجہ کا) بڑا محترم مہینہ ہے.پھر پوچھا یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا.یہ (مکہ کا ) بڑا محترم شہر ہے.اس پر آپ صلی اللہ یکم نے فرمایا تمہاری جانیں تمہارے اموال ( راوی کو یاد نہیں کہ آپ صلی ایم نے آبرو کا ذکر بھی فرمایا یا نہیں) اسی طرح قابل عزت اور حرمت والے ہیں جس طرح یہ دن یہ مہینہ اور یہ شہر حرمت والے ہیں (یعنی جس طرح ان کی بے حرمتی کا تم خیال بھی نہیں کر سکتے اسی طرح لوگوں کی جانوں اور ان کے مالوں اور ان کی آبرووں کی بے حرمتی بھی
563 نا جائز ہے.پھر آپ صلی میڈم نے پوچھا.کیا میں نے یہ اہم پیغام پہنچا دیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں اللہ کے رسول نے سب کچھ پہنچا دیا ہے.آپ صلی للی یکم نے فرمایا تو جو موجود ہیں وہ ان تک بھی اس پیغام کو پہنچا دیں جو یہاں موجو د نہیں.713 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا يَبعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ التَّقْوَى هَاهُنَا وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِ مِنَ الشَّرِ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ (مسلم کتاب البر والصلة باب تحریم ظلم المسلم و خذله و احتقاره...4636) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کہ تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور دھو کہ دینے کے لئے قیمت نہ بڑھاؤ اور نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو نہ ہی ایک دوسرے سے بے رُخی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ.مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ ہی اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے نہ ہی اس کی تحقیر کرتا ہے.اور آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقویٰ یہاں ہے.آدمی کے لئے یہی شر کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے.ہر مسلمان کا خون اس کا مال، اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے.714.عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنا من لم يَرْعَمْ صَغِيرَ نَا وَيَعْرِفُ فَرَفَ كَبِيرِنَا (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى رحمة الصبيان (1920)
564 حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ انکے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا اس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو چھوٹے پر رحم نہیں کرتا اور بڑے کا شرف نہیں پہچانا یعنی بڑے کی عزت نہیں کرتا.715 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رُبِّ أَشْعَتَ مَدْفُوعِ بِالْأَبْوَابِ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرِّهُ (مسلم کتاب الجنة وصفة نعيمها باب الناريد خلها الجبارون و الجنة يدخلها الضعفاء5080) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ کتنے ہی پر اگندہ بالوں والے، جنہیں دروازوں سے دھکے دئے جاتے ہیں اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو وہ ضرور اسے پوری کرتا ہے.716ـ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْن وَهُبِ الخُزَاعِيَّ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَلا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ؟ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعْفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأبره، ألا أخيرُكُمْ بأَهْلِ النَّارِ : كُل عُتُلٍ، جَوَاطٍ مُسْتَكْير (بخاری کتاب تفسیر القرآن ، باب عتل بعد ذلک زنیم (القلم (14) 4918) رض حضرت حارثہ بن وہب بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی للی کم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.کیا جنت میں بسنے والوں کے متعلق میں تمہیں کچھ بتاؤں ؟ ہر وہ کمزور جس کو لوگ کمزور سمجھتے ہیں مگر جب وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے نام کی قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کو پورا کر دیتا ہے اور جیسا وہ چاہتا ہے ایسا ہی کر دیتا ہے.پھر فرمایا کیا میں تم کو دوزخ میں رہنے والوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہر سرکش خود پسند، شعله مزاج، متکبر دوزخ کا ایندھن بنے گا.
565 717 - عن أبي الدَّرْدَاءِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ابْغُولي ضُعَفَاءَكُمْ، قا لما تُرْزَقُونَ وَتُنصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ (ترمذی کتاب الجهاد باب ما جاء في الاستفتاح بصعالیک المسلمین (1702) حضرت ابو الدردار بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.کمزوروں میں مجھے تلاش کرو.یعنی میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کی مدد کر کے تم میری رضا حاصل کر سکتے ہو.یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں اور غریبوں کی وجہ سے ہی تم خدا کی مد دپاتے ہو اور اس کے حضور سے رزق کے مستحق بنتے ہو.718ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ امْرَأَةٌ سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُ الْمَسْجِدَ - أَوْ شَابًا فَفَقَدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَنْهَا – أَوْ عَنْهُ - فَقَالُوا مَاتَ، قَالَ أَفَلَا كُنْتُمْ أَذَنْتُمُونِي قَالَ فَكَأَنَّهُمْ صَغَرُوا أَمْرَهَا - أَوْ أَمْرَهُ - فَقَالَ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَدَلُّوهُ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُوةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنَوْرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ (مسلم کتاب الجنائز باب الصلاة على القبر (1577) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ رنگ کی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی یا ایک نوجوان.رسول اللہ صلی نیم نے اسے موجود نہ پاکر اس کے بارہ میں پوچھا.انہوں نے کہا اس کی تو وفات ہو گئی ہے.آپ نے فرمایا تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی.راوی کہتے ہیں گویا کہ انہوں نے اس کے معاملہ کو معمولی سمجھا.آپ نے فرمایا مجھے اس کی قبر بتاؤ.انہوں نے قبر بتائی.آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی.پھر فرمایا یہ قبریں ان میں رہنے والوں پر تاریکی سے بھری ہوتی ہیں اور یقینا اللہ عزوجل ان کے لئے اسے میری دعا سے ، جو میں ان کے لیے کرتا ہوں، انہیں روشن کرتا ہے.
566 719- عن أبي هريرة ، عَنِ اللَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورته (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابه ، مسند ابی هریره 8274 ) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علی یکم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے.(یعنی اسے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور اس میں یہ اہلیت اور استعد ادر کبھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو خلی طور پر اپنا سکے).720ـ عَنْ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَلْقُ عِيَالُ اللَّهِ فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللهِ مَنْ أَحْسَنَ إلَى عِبَالِهِ (شعب الايمان ، التاسع والاربعون من شعب الايمان وهو باب فى طاعة اولى الامر بفصولها ، باب فضل في نصيحة الولاة و وعظهم 7448) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہیں.پس اللہ تعالیٰ کو اپنے مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے.721.عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنِ الحَمُوا أَهْلَ الْأَرْضِ يَزعَمكُم مَن في السَّمَاءِ (ابوداؤد کتاب الادب باب في الرحمة (4941)
567 حضرت عبد اللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے فرما یار حم کرنے والوں پر رحمان خدارحم کرے گا.تم اہل زمیں پر رحم کرو.آسمان والا تم پر رحم کرے گا.722 - حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْن عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَبْلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الحَسَنَ بْنَ عَلِي وَعِندَهُ الأَقْرَعُ بْن حَابِي الشَّمِهِي جَالِسًا، فَقَالَ الأفرع: إن لي عَمَّرَةٌ مِنَ الوَلَدِ مَا قَتَلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ (بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبیله و معانقته 5997) الله حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علی کو بوسہ دیا.اس وقت آپ صلی لنی کیم کے پاس اقرع بن حابس بھی بیٹھا تھا.اقرع نے یہ دیکھ کر عرض کیا.میرے دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا.آپ صلی علیم نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا.عن أبي هريرة، أن الأقرع بن حابس، أَبْصَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبَلُ الْحَسَنِ فَقَالَ إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ وَاحِدًا مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ مَنْ لا يَرحَمْ لا يُرحم (مسلم کتاب الفضائل باب رحمته على الصبيان والعيال 4268)
568 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے نبی صلی للہ ہم کو دیکھا.آپ حضرت بوسہ لے رہے تھے.اس نے کہا میرے دس بچے ہیں میں نے کبھی ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیا تو رسول اللہ صلی للہ ﷺ نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا.723- عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَّا يَرْحَم النَّاسَ، لَا يَرْحَمُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ (مسلم کتاب الفضائل باب رحمته الا الله على الصبيان والعيال 4269) حضرت جریر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ عزوجل اس پر رحم نہیں کرتا.724- عن سهل، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا وَكَافِلُ اليَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِالسَّبَابَةِ وَالوُسْطَى، وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا شَيْئًا (بخاری کتاب الطلاق باب اللعان (5304) حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا میں اور یتیم کی دیکھ بھال میں لگارہنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے.آپ صلی للی یم نے وضاحت کی غرض سے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑاسا فاصلہ رکھ کر دکھایا کہ اس طرح.725 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتُ فِيهِ يَتِيمَ يُحْسَنُ إِلَيْهِ، وَشَرُّ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتُ فِيهِ يَتِيمَ يُسَاءُ إِلَيْهِ ابن) ماجه کتاب الادب باب حق اليتيم (3679)
569 ย حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی للی یکم نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں سب سے بد ترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہے اور اس کے ساتھ بُر اسلوک کیا جاتا ہے.726- حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ كَانَتْ عِنْدَ أَمْ سُلَيْمٍ يَتِيمَةٌ، وَهِيَ أُمُّ أَنَسٍ، فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَتِيمَةَ، فَقَالَ أَنْتِ هِيَهُ؟ لَقَدْ كَبِرْتِ، لَا كَبِرَ سِنُّكِ فَرَجَعَتِ الْيَتِيمَةُ إِلَى أَمْ سُلَيْمٍ تَبْلَى، فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: مَا لَكِ يَا بُنَيَّةُ ؟ قَالَتِ الْجَارِيَةُ: دَعَا عَلَى نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا يَكْبَرَ سِي، فَالآنَ لَا يَكْبَرُ سِنِي أَبَدًا، أَوْ قَالَتْ قَرْنِي فَخَرَجَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مُسْتَعْجِلَةٌ تَلُوتُ خِمَارَهَا ، حَتَّى لَقِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَدَعَوْتَ عَلَى يَتِيمَتِي قَالَ وَمَا ذَاكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ؟ قَالَتْ زَعَمَتْ أَنَّكَ دَعَوْتَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِتهَا، وَلَا يَكْبَرَ قَرْنُهَا، قَالَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ أَمَا تَعْلَمِينَ أَنَّ شَرْطِي عَلَى رَبِّي أَنِّي اشْتَرَطْتُ عَلَى رَبِّي فَقُلْتُ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، أَرْضَى كَمَا يَرْضَى الْبَشَرُ، وَأَغْضَبْ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ، فَأَيُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَيْهِ، مِنْ أُمَّتِي، بِدَعْوَةٍ لَيْسَ لَهَا بِأَهْلِ، أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ طَهُورًا وَزَكَاةً، وَقُرْبَةً يُقَرِبُهُ بِهَا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الله و (مسلم کتاب البر والصلة باب من لعنه النبى عالم او سبه او دعا عليه...4698) ย حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم کے پاس ایک یتیم بچی تھی اور وہ (حضرت ام سلیم) حضرت انس کی والدہ ہیں.رسول اللہ صلی علی کرم نے اس یتیم بچی کو دیکھا تو فرمایا تم وہی ہو ، بہت بڑی ہو گئی ہو ، اب تمہاری عمر نہ بڑھے.تب وہ یتیم بچی روتے ہوئے حضرت ام سلیم کے پاس آگئی تو حضرت ام سلیم نے پوچھا اے میری پیاری بیٹی تجھے کیا ہوا ہے ؟ (اس) لڑکی نے کہا اللہ کے نبی صلی یہ تم نے میرے خلاف دعا کی ہے کہ میری عمر نہ
570 بڑھے.اب کبھی میری عمر نہیں بڑھے گی.یا اس نے کہا میر ازمانہ.اس پر حضرت ام سلیم جلدی سے اپنی اوڑھنی اوڑھتے ہوئے باہر آئیں اور رسول اللہ صلی یکم سے جاملیں.رسول اللہ صلی الیکم نے ان سے پوچھا اے ام سلیم ! کیا بات ہے ؟ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی علی نیم ! کیا آپ نے میری یتیم بچی کے خلاف دعا کی ہے ؟ آپ نے فرمایا ام سلیم ہوا کیا ہے ؟ وہ کہنے لگیں اس کا خیال ہے کہ آپ نے اسے دعادی ہے کہ نہ اس کی عمر بڑھے اور نہ مة الله سة اس کا زمانہ بڑھے.راوی کہتے ہیں اس پر رسول اللہ صلی علی یکم مسکرائے پھر فرمایا اے ام سلیم ؟! کیا تجھے میرے رب سے میری شرط کا پتہ نہیں جو میں نے اپنے رب سے کی ہوئی ہے؟ میں نے کہا کہ میں تو ایک بشر ہوں اور ایک بشر کی طرح خوش ہو تا ہوں اور ایک بشر کی طرح ناراض ( بھی ) ہوتا ہوں.پس جس کسی کے خلاف میں اپنی امت میں سے اس کے خلاف دعا کروں جس کا وہ اہل نہ ہو تو ( اللہ ) اسے قیامت کے دن اس کے لئے طہارت، پاکیزگی اور اپنے قرب کا موجب بنادے جو اسے قیامت کے دن اس کے قریب کرے.727- عن أبي ذَرٍ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ ، أَى الْأَعْمَالِ أَفضَلُ؟ قَالَ الْإِيمَانُ بِاللهِ وَالْجِهَادُ في سَبِيلِهِ قَالَ قُلْتُ أَى القَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ أَنْفَسُهَا عِندَ أَهْلِهَا وَأَكْثَرُهَا فَمَنًا قَالَ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ ؟ قَالَ تُعِينُ صَانِعًا أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ عَنْ بَعْضِ الْعَمَلِ ؟ قَالَ تَكْفُ شَتَرَكَ عَنِ النَّاسِ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ مِنْكَ عَلَى نَفْسِكَ (مسلم کتاب الایمان باب بیان کون الایمان بالله تعالى افضل الاعمال (111) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ پر ایمان اور اس کی راہ میں جہاد کرنا.وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کو نسی گردن آزاد کرناسب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا جو اپنے مالک کے نزدیک سب سے عمدہ اور سب سے زیادہ قیمتی ہے.وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اگر میں ایسانہ کر پاؤں ؟ آپ نے فرمایا پھر کسی کاریگر کی مدد کر دے یا کسی سادہ لوح ( بے ہنر ، اناڑی ) کو کچھ بنا کر
571 ے.وہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! فرمائیے اگر میں ایسا کوئی کام (بھی) نہ کر سکوں.آپ نے فرمایا اپنے نشر کو لوگوں سے روکے رکھ.یہی تیری طرف سے تیرے نفس کے لئے صدقہ ہے.728 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ اشْتَدَّ عَلَيْهِ العَطشُ، فَوَجَدَ بِثْرًا فَنَزَلَ فِيهَا، فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَتُ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ العَطَشِ ، فَقَالَ الرَّجُلُ : لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الكَلْبَ مِنَ العَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ بي، فَنَزَلَ البِئْرَ فَمَلاَ خُفَهُ ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ، فَسَقَى الكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَإِنَّ لَنَا فِي البَهَائِمِ أَجْرًا ؟ فَقَالَ فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرُ (بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس و البهائم 6009) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ایک آدمی راستے پر جارہا تھا.اسے سخت پیاس لگی.وہ ایک کو میں پر گیا اور اس میں اتر کر پانی پیا.جب وہ نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا با نپ رہا ہے اور گیلی مٹی پیاس کے مارے چاٹ رہا ہے اس نے دل میں کہا کہ پیاس کی وجہ سے اس کتے کو بھی اتنی ہی تکلیف پہنچی ہے جتنی تکلیف مجھے پہنچی تھی یہ سوچ کر وہ دوبارہ کو ئیں میں اترا.پانی سے اپنا موزا بھرا اور اس کو اپنے منہ میں پکڑ کر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا.اللہ تعالیٰ نے اس کے اس فعل کو قبول فرمایا اور اس کو بخش دیا.صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا چارپایوں پر رحم کرنے سے بھی ہمیں ثواب ملے گا.آپ صلی یکم نے فرمایا ہر زندہ جان پر رحم کرنے میں ثواب ہے.ایک اور روایت میں ہے کہ ایک پیاسا کتا کنویں کا چکر لگارہا تھا اور پیاس سے مرا جار ہا تھا کہ بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نے دیکھ لیا.اس نے اپنا جوتا اتارا اور اس سے پانی بھر کر کتے کو پلایا.اللہ تعالیٰ نے اس کی اس نیکی کی وجہ سے اسے بخش دیا.
572 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا كَلْبٌ يُطِيفُ بِرَكِيَّةٍ ، كَادَ يَقْتُلُهُ العَطَشُ إِذْ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لَهَا بِهِ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حديث الغار 3467) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم نے فرمایا ایک بار ایک کتا ایک کنوئیں پر گھوم رہا تھا.قریب تھا کہ پیاس اس کو مار ڈالے.اتنے میں بنی اسرائیل کی کنچنیوں میں سے ایک کنچنی نے اسے دیکھ لیا.اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس کتے کو پانی پلایا.اس سبب سے اس کو بخش دیا گیا.729ـ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ ذَاتَ يَوْمٍ ، فَأَسَرَّ إِلَى حَدِيثًا لَا أُحَدِثُ بِهِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، وَكَانَ أَحَبُّ مَا اسْتَتَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ هَدَفًا، أَوْ حَائِشَ نَخْلٍ، قَالَ فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَكَتَ، فَقَالَ مَنْ رَبُّ هَذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هَذَا الْجَمَلُ؟، فَجَاءَ فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ لِي يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ أَفَلَا تَتَّقِى اللهَ فِي هَذِهِ الْبَهِيمَةِ الَّتِي مَلَكَكَ اللَّهُ إيَّاهَا ، فَإِنَّهُ شَكَا إِلَى أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْيَبهُ ؟ (ابوداؤد کتاب الجهاد باب ما يومر به من القيام على الدواب و البهائم 2549) الله حضرت عبد اللہ بن جعفر" بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی علیم نے مجھے (سواری پر ) اپنے پیچھے بٹھایا اور مجھے ایک راز کی بات بتائی، میں لوگوں میں سے کسی کو نہ بتاؤں.اور رسول اللہ صلی ای کم کو قضائے حاجت کیلئے پر دے کیلئے دو جگہیں بہت پسند تھیں کوئی اونچی جگہ یا درختوں کا جھنڈ کہتے ہیں رسول اللہ صلیا کی ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اونٹ تھا اس نے جب نبی صلی علی کم کو دیکھا تو اس نے رونے کی آواز نکالی اور اس کی
573 آنکھیں بہہ پڑیں.نبی صلی للہ تم اس کے پاس تشریف لائے اور اس کے کانوں کے پچھلے حصہ پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا.فرمایا اس اونٹ کا مالک کون ہے ؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ انصار میں سے ایک نوجوان آیا اس نے کہا یارسول اللہ ! یہ میرا ہے.فرمایا اس جانور کے متعلق اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے جس کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ؟ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور مسلسل کام پر لگائے رکھتے ہو.730 - عَنْ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُذْبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ ، لَا هِىَ أَطْعَمَتُهَا وَسَقَتْهَا، إِذْ حَبَسَتْهَا، وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ (مسلم کتاب السلام باب تحريم قتل الهرة 4146) حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا.اس نے (بلی) کو قید کر دیا یہانتک کہ وہ مر گئی.اس وجہ سے وہ آگ میں داخل ہوئی.اس نے نہ اس کو جب اس نے اسے قید کیا کھا نا ڈالا اور نہ پانی پلایا اور نہ ہی اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ عُذْبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِزَةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ لَا هِيَ أَطْعَمَتُهَا وَلَا سَقَتْهَا، إِذْ حَبَسَتُهَا ، وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حديث الغار (3482) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے سزادی گئی جس نے اس کو دیر تک قید کر رکھا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی اور اس وجہ سے وہ
574 (عورت) دوزخ میں داخل ہوئی.نہ تو اس نے بلی کو کچھ کھایا اور نہ ہی پانی پلایا.اس نے اس کو روک رکھا.نہ خود کھانا دیا اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتی.731ـ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَّرَةٌ مَعَهَا فَرِخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا، فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرُشُ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا ؟ رُدُّوا وَلَدَهَا إلَيْهَا، وَرَأَى قرية تملٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ مَنْ حَزَقَ هَذِهِ ؟ قُلْنَا: نَحْنُ.قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَن يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ (ابوداؤد كتاب الجهاد باب في كراهية حرق العدو بالنار 2675) حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی علی ایم کے ساتھ سفر میں تھے آپ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے.ہم نے ایک چڑیا د یکھی اس کے پاس دو بچے تھے.ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا تو چڑیا اپنے پروں کو پھڑ پھڑانے لگی اتنے میں رسول اللہ صلی الی یوم تشریف لے آئے.آپ نے پوچھا اس کا بچہ پکڑ کر کس نے اس کو تکلیف دی ؟ اس کا بچہ اس کو دیدو.اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا جس کو ہم نے جلا دیا تھا آپ نے پو چھا کہ یہ کس نے جلایا ؟ ہم نے کہا ہم نے جلایا ہے.آپ نے فرمایا کسی کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے سوائے آگ کے مالک کے.
575 خادموں اور مزدوروں سے حسن سلوک 732- عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، قَالَ رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ، وَعَلَى غُلَامِهِ مِثْلُهَا، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ فَذَكَرَ أَنَّهُ سَابَ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَيْرَهُ بِأَتِهِ، قَالَ فَأَقَى الرَّجُلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ ، إِخْوَانُكُمْ وَخَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدَيْهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ عَلَيْهِ (مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملوك مما ياكل و الباسه مما يلبس...3126) الله معرور بن سوید سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر کو دیکھا.انہوں نے ایک جوڑا پہن رکھا تھا اور ان کے غلام نے بھی ویسا ہی پہنا ہوا تھا.میں نے اس بارہ میں ان سے سوال کیا.راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی الیم کے زمانہ میں انہوں نے ایک شخص کو گالی دی اور اس کی ماں کا اسے طعنہ دیا.وہ کہتے ہیں وہ کو شخص نبی سلام کے پاس آیا اور آپ سے اس بات کا ذکر کیا.نبی صلی علیم نے (مجھے) فرمایا تم ایسے شخص ہو جس میں جاہلیت ہے.( یہ تمہارے خادم) تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے کاموں کا خیال رکھنے والے ہیں اور انہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کیا ہے.پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو تو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے اس میں سے اسے کھلائے اور جو خود پہنے اسے پہنائے ان کی طاقت سے بڑھ کر ان پر ذمہ داری نہ ڈالو اور اگر ان پر کوئی ایسا بوجھ ڈال دو تو اس پر ان کی مدد کرو.
576 733 - عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ خَرَجْتُ أَنا وَأَبِي نَطْلُبُ الْعِلْمَ فِي هَذَا الْحَيِ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَبْلَ أَنْ يَهْلِكُوا ، فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ لَقِينَا أَبَا الْيَسَرِ، صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَهُ غُلَامٌ لَهُ، مَعَهُ فِمَامَةٌ مِنْ صُحُفٍ، وَعَلَى أَبِي الْيَسَرِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيَّ، وَعَلَى غُلَامِهِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِئَ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: يَا عَمَّ....لَوْ أَنَّكَ أَخَذْتَ بُرْدَةً غُلَامِكَ، وَأَعْطَيْتَهُ مَعَافِرِيْكَ، وَأَخَذْتَ مَعَافِرِيَّهُ وَأَعْطَيْتَهُ بُرْدَتَكَ، فَكَانَتْ عَلَيْكَ حُلَّةٌ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ، فَمَسَحَ رَأْسِي، وَقَالَ اللهُمَّ بَارِكْ فِيهِ يَا ابْنَ أَخِي بَصَرُ عَيْنَيَّ هَاتَيْنِ، وَسَمْعُ أُذُنَى هَا تَيْنِ، وَوَعَاهُ قَلْبِي هَذَا - وَأَشَارَ إِلَى مَنَاطِ قَلْبِهِ - رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَأَلْبِسُوهُمْ مَا تَلْبَسُونَ وَكَانَ أَنْ أَعْطَيْتُهُ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَى مِنْ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب حديث جابر الطويل وقصة ابي اليسر (5314 الله سة عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے والد انصار کے ایک قبیلہ میں قبل اس کے کہ وہ فوت ہو جائیں (ان سے) تحصیل علم کے لئے نکلے.اور سب سے پہلے ہم رسول اللہ صلی علیم کے ایک صحابی ابوالیسر سے ملے.ان کے ساتھ ان کا ایک غلام تھا جس کے پاس کتابوں کا ایک بستہ تھا اور ابو لیسر پر ایک چادر اور ایک معافری ' کپڑا تھا اور ان کے غلام پر بھی ایک چادر اور ایک معافری کپڑا تھا.میرے باپ نے ان سے کہا اے چچا ! اگر تم اپنے غلام کی چادر لے لیتے اور اپنا کپڑا معافری اسے دے دیتے یا اس کا کپڑا معافری لے لیتے اور اپنی چادر اسے دے دیتے تو آپ پر بھی پورا جوڑا ہو جاتا اور اس پر بھی پورا جوڑا ہو جاتا.انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا اے اللہ ! اس کو برکت دے.اے میرے بھتیجے امیری ان دو آنکھوں نے دیکھا اور ان دوکانوں نے سنا اور میرے دل نے اس کو یاد رکھا اور انہوں نے اپنے دل کی جگہ کی طرف اشارہ کیا.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا انہیں کھلاؤ جس میں سے تم کھاتے ہو اور انہیں وہ پہناؤ جو تم پہنتے ہو اور یہ بات مجھ پر 1: معافری ایک قسم کا دھاری دار کپڑایا معافرہ بستی کا بنا ہوا کپڑا.(شرح نووی)
577 زیادہ آسان ہے کہ میں اسے (اس) دنیا کے مال و متاع میں سے دوں بہ نسبت اس بات کے کہ قیامت کے روز وہ میری نیکیوں میں سے لے لے.734 - أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ، فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ، فَليُنَاوِلُهُ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ أو أكله أو المتَيْنِ، فَإِنَّهُ وَلِيَ عِلاجه (بخاری کتاب العتق باب اذا اتاه خادمه بطعامه (2557) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی العلیم نے فرمایا جب تم میں سے کسی ایک کے پاس اس کا خادم کھانا لے کر آئے تو اگر اس کو اپنے ساتھ نہ بٹھائے تو چاہیے کہ وہ اس کو ایک نوالہ یا دو نوالے یا فرمایا ایک لقمہ یادو لقمے دیدے، کیونکہ اس نے اس کو اپنی نگرانی میں پکایا ہے.735- عن جابر ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَاتُ مَنْ كُن فِيهِ سَتَرَ اللهُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ وَأَدْخَلَهُ جَنَّتَهُ: رِفقٌ بِالضَّعِيفِ، وَشَفَقَةٌ عَلَى الوَالِدَيْنِ، وَإِحْسَانُ إِلَى المَمْلُوكِ (ترمذى كتاب صفة القيامة باب ما جاء فى صفة اوانى الحوض (2494) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا.پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے، دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے.تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے.
578 736 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطُوا الأجير أَجْرَهُ، قَبْلَ أَنْ يَجِفُ عَرَقَهُ ابن ماجه کتاب الرهون باب اجر الاجراء (2443 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرما یا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو.737 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ قَالَ اللهُ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ: رَجُلٌ أَعْطَى فِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ (بخاری کتاب البیوع باب اثم من باع حر (2227) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تین شخص ہیں جن سے قیامت کے روز میں جھگڑا کروں گا.ایک وہ شخص جس نے میر انام لے کر کسی سے عہد کیا اور پھر غداری کی.دو سر اوہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی.تیسر اوہ شخص جس نے مزدور کو مزدوری پر رکھا اور اس سے پورا کام لیا مگر اُس کی مزدوری اُسے نہ دی.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ كُنْتُ خَصْمَهُ خَصَمْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : رَجُلٌ أَعْطَى بِي، ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُدًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا، فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُوفِهِ أَجْرَهُ (ابن ماجه کتاب الرهون باب اجر الاجير (2442)
579 حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا میں قیامت کے دن تین آدمیوں کے مد مقابل ہوں گا اور جس کا میں مدمقابل ہو ا قیامت کے دن میں اس پر غالب رہوں گا.(اللہ فرماتا ہے ) وہ شخص جو میر انام لے کر عہد کرے پھر دھو کہ دے اور ایک وہ شخص جو آزاد کو بیچ دے اور اس کی قیمت کھا جائے اور ایک وہ جو مز دور رکھے اور اس سے کام لے مگر اس کو پوری اجرت نہ دے.738ـ قال أنش: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، فَأَرْسَلَنِي يَوْمًا لِحَاجَةٍ، فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَذْهَبُ، وَفِي نَفْسِى أَنْ أَذْهَبَ لِمَا أَمَرَنِي بِهِ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَاىَ مِنْ وَرَائِي، قَالَ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقَالَ يَا أُنَيْسُ أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ ؟ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ ، أَنَا أَذْهَبُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَنَسٌ وَ اللَّهِ لَقَدْ خَدَمْتُهُ تِسْعَ سِنِينَ، مَا عَلِمْتُهُ قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا؟ أَوْ لِشَيْءٍ ترَكْتُهُ: هَلَّا فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا (مسلم کتاب الفضائل باب كان رسول الله لم احسن الناس خلقا 4258) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علم اخلاق میں سب لوگوں سے زیادہ اچھے تھے.ایک روز آپ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا.میں نے کہہ دیا بخدا میں نہیں جاؤں گا لیکن میرے دل میں تھا کہ اس بات کے لئے اللہ کے نبی صلی علیم نے مجھے حکم دیا ہے میں جاؤں گا.چنانچہ میں نکلا یہانتک کہ بچوں کے پاس سے گزرا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے تو رسول اللہ صلی عوام نے پیچھے سے اچانک مجھے گردن کے پچھلے حصہ سے پکڑا.وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کی طرف دیکھا.آپ ہنس رہے تھے.پھر آپ نے فرمایا اے انھیں ! کیا تم وہاں گئے ہو جہاں میں نے تمہیں (جانے کا) کہا تھا؟ وہ کہتے ہیں میں نے کہا جی ہاں یارسول اللہ ! میں جارہا ہوں.حضرت انس کہتے ہیں کہ خدا
580 کی قسم میں نے آپ کی نو سال خدمت کی ہے.میرے علم میں نہیں کہ کسی کام پر جو میں نے کیا ہو آپ نے فرمایا ہو کہ تم نے یہ یہ کیوں کیا یا کسی کام کے بارہ میں جسے میں نے چھوڑا ہو ( فرمایا ہو) کہ تم نے یہ یہ کیوں نہ کیا.اتحاد و اتفاق، محبت و اخوت الفت اور شفقت 739ـ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يُؤْ مِنْ أَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ (بخاری کتاب الایمان باب من الايمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه 13) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو تا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہ بات پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.740ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي الْيَوْمَ أَظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِيَ (مسلم کتاب البر والصلة باب فى فضل الحب في الله 4641) الله حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا یکم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہاں ہیں میرے جلال کی خاطر آپس میں محبت کرنے والے ؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا جس دن میرے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں.
581 741 - عَنْ المِقْدَامِ بْنِ مَعْدِى كَرِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمْهُ إِيَّاهُ (ترمذی كتاب الزهد باب ما جاء في اعلام الحب 2392) حضرت مقداد بن معدی کرب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جب ایک آدمی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اپنے بھائی کو یہ بتا بھی دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے.عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِى كَرِب..وَقَدْ كَانَ أَدْرَكَهُ ـ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ فَلْيُخْبِرُهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ (ابوداؤد کتاب الادب ، ابواب النوم ، باب الرجل يحب الرجل على خير يراه 5124) حضرت مقداد بن معدی کربے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یم نے فرمایا جب ایک آدمی اپنے بھائی سے محبت کرے تو اپنے بھائی کو یہ بتا بھی دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے.742ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا ، وَيَكْرَهُ لَكُمْ ثَلَاثًا ، فَيَرْضَى لَكُمْ: أَنْ تَعْبُدُوهُ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا يحبل الله جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَيَكْرَهُ لَكُمْ: قِيلَ وَقَالَ، وَكَفَرَةَ السُّوَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ (مسلم کتاب الاقضيه باب النهي عن كثرة المسائل من غير حاجة......3222) الله سة حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تین کام پسند کرتا ہے اور تمہارے لئے تین کام نا پسند کرتا ہے.وہ تمہارے لئے پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور یہ کہ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور باہم تفرقہ نہ کرو اور وہ تمہارے لئے نا پسند کرتا ہے قیل و قال اور بہت مانگنا اور مال ضائع کرنا.
582 743ـ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُمَارِ أَخَاكَ، وَلَا تُمَا زِحْهُ، وَلَا تَعِدُهُ مَوْعِدَةٌ فَتَخْلِفَهُ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في السراء (1995) حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا اپنے بھائی سے جھگڑے کی طرح نہ ڈالو اور نہ اس بودہ تحقیر آمیز مذاق کرو.اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جسے پورا نہ کر سکو یعنی جھوٹے وعدے نہ کیا کرو.سے بیہودہ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُمَارِ أَخَاكَ وَلَا تُمَازِحْهُ وَلَا تَعِدُهُ مَوْعِدًا فَتَخْلِفَهُ (مشكاة المصابيح كتاب الادب باب المزاح الفصل الثاني (4892) حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی ایم نے فرمایا اپنے بھائی سے جھگڑے کی طرح نہ ڈالو اور نہ اس سے بیہودہ تحقیر آمیز مذاق کرو.اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جسے پورا نہ کر سکو (یعنی جھوٹے وعدے نہ کیا کرو).744 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السَّلَاحَ فَلَيْسَ مِنا ابن ماجه کتاب الحدود باب من شهر السلاح 2575) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں.
583 انفاق فی سبیل اللہ و جود وسخا صدقہ کی اہمیت 745ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ العِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلاَنِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا (بخاری کتاب الزكاة باب قول الله تعالى فاما من اعطى و اتقى وصدق...1442) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی دن بھی ایسا نہیں کہ جس میں دو فرشتے جبکہ بندے صبح کو اُٹھتے ہیں نازل نہ ہوتے ہوں.ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا کر اور دوسرا کہتا ہے : بخیل کا مال رائیگاں جائے.746 - عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللهِ كُتِبَتْ لَهُ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ (ترمذی کتاب فضائل الجهاد باب ما جاء في فضل النفقة في سبيل الله 1625) حضرت خریم بن فاتک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی یکم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے.اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنازیادہ ثواب ملتا ہے.747ـ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّكَ لَن تُنفِقَ نَفَقَةٌ تَبْتَغِي بِهَا وَجْةَ اللهِ إلَّا أَجِرْتَ عَلَيْهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي أَمِ امْرَأَتِكَ (بخاری کتاب الایمان باب ما جاء ان الاعمال بالنية والحسبة......56)
584 حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا تو جب کبھی بھی کوئی ایسا خرچ کرے گا کہ جس سے تو اللہ کی رضامندی چاہتا ہو گا تو ضرور ہے کہ اس کا بدلہ تجھے دیا جائے.یہاں تک کہ اس (لقمہ) پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے.748ـ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِي بِالْمَدِينَةِ نَخَلًا، وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَة المَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيْبٍ، فَلَمَّا أُنْزِلَتْ لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ قَامَ أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَى بَيْرُ حَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللهِ، فَضَعْهَا يَارَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخَ ذَلِكَ مَالٌ رَابِ، ذَلِكَ مَالٌ رَاعٍ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَفِي بَنِي عَيْهِ (بخاری کتاب تفسير القرآن باب لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (4554) الله سة حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ انصاری مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے.ان کے کھجوروں کے باغات تھے جن میں سے سب سے زیادہ عمدہ باغ بیرحاء نامی تھا جو حضرت طلحہ کو بہت پسند تھا اور مسجد نبوی صلی الک کے سامنے بالکل قریب تھا.رسول اللہ صلی علیہ یکم بالعموم اس باغ میں جاتے اور اس کا میٹھا اور عمدہ پانی پیتے.جب یہ آیت نازل ہوئی لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (جب تک تم اپنے پسندیدہ مال میں سے خرچ نہیں کرتے نیکی کو نہیں پاسکتے ).تو حضرت ابو طلحہ آنحضرت صلی کمی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ ! آپ صلی لی تم پر یہ آیت نازل ہوئی ہے لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ اور
585 میری سب سے پیاری جائیداد بیر حاء کا باغ ہے.میں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری اس نیکی کو قبول کرے گا اور میرے آخرت کے ذخیرہ میں شامل کرے گا.یارسول اللہ سة ! آپ اپنی مرضی کے مطابق اس کو اپنے مصرف میں لائیں.رسول اللہ صلی اللی کرم فرمایا واہ واہ! بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ مال ہے ، بڑا نفع مند ہے اور جو تو نے کہا ہے وہ بھی میں نے سن لیا ہے.میری رائے یہ ہے کہ تم یہ باغ اپنے رشتہ داروں کو دے دو.ابو طلحہ نے کہا میں نے دے دیا یا رسول اللہ ! چنانچہ حضرت ابو طلحہ نے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں میں تقسیم کر دیا.749 - عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٍ آتَاهُ اللهُ مَالًا، فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الحَقِّ، وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً، فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا (بخارى كتاب الزكاة باب انفاق المال في حقه 1409) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرماتے تھے: رشک نہیں کرنا چاہیے مگر دو ( آدمیوں) پر.ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور پھر اس کو بر محل خرچ کرنے کی توفیق دے اور وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے صحیح علم دیا ہو اور وہ خود بھی اس پر عمل کرتا ہے اور لوگوں کو بھی سکھاتا ہے.750 - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللهِ تَعَالَى قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ قَرِيبٌ مِنَ الْجَنَّةِ بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ، وَالْبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللهِ تَعَالَى بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ بَعِيدٌ مِنَ الْجَنَّةِ قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ، وَالْجَاهِلُ السَّغِيُّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الْعَابِدِ الْبَخِيلِ (الرسالة قشيرية ، باب الجود و السخاء صفحه280)
586 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہو تا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے.اس کے برعکس بخیل اللہ تعالیٰ سے دور ہو تا ہے ،لوگوں سے دور ہو تا ہے ، جنت سے دور ہوتا ہے لیکن دوزخ کے قریب ہوتا ہے.ان پڑھ سخی، بخیل عابد سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الجَنَّةِ قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ، وَالبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ، وَلَجَاهِلٌ شَحْى أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَابِدٍ بَخِيلٍ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء في السخاء (1961) حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الیکم نے فرمایا سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے.اس کے بر عکس بخیل اللہ سے دور ہو تا ہے، لوگوں سے دور ہوتا ہے ، جنت سے دور ہوتا ہے لیکن دوزخ کے قریب ہوتا ہے.ان پڑھ سخی، بخیل عابد سے اللہ عزوجل کو زیادہ محبوب ہے.751 - سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْن مَعْقِلٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ حَاتِم رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ القُوا النَّارَ وَلَوْ بِشق تمرة (بخاری کتاب الزكاة باب اتقوا النار ولو بشق تمرة......1417) حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرماتے تھے کہ آگ سے بچو خواہ ایک ٹکڑا کھجور کا دے کر.
587 - 752 - عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْن أَبي عَمْرَةٌ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِنَّ ثَلَاثَةٌ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى، بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الْأَبْرَصَ، فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ لَوْنٌ حَسَنَ ، وَجِلْدٌ حَسَنٌ، قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ، فَأَعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا، وَجِلْدًا حَسَنًا، فَقَالَ أَيُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ الإِبلُ أَوْ قَالَ البَقَرُ، هُوَ شَكَ فِي ذَلِكَ: إِنَّ الأَبْرَصَ، وَالأَقْرَعَ، قَالَ أَحَدُهُمَا الإِبِلُ، وَقَالَ الآخَرُ: البَقَرُ - فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ، فَقَالَ يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الأَقْرَعَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ شَعَرُ حَسَنُ وَيَذْهَبُ عَنِي هَذَا، قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ فَأَيُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ البَقَرُ، قَالَ فَأَعْطَاهُ بَقَرَةً حَامِلًا، وَقَالَ يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا، وَأَتَى الأَعْمَى فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ يَرُدُّ اللَّهُ إِلَى بَصَرِى، فَأُبْصِرُ بِهِ النَّاسَ، قَالَ فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ فَأَيُّ المَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ الغَلَمُ: فَأَعْطَاهُ شَاةٌ وَالِدًا، فَأَنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَدَ هَذَا، فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ إِبِلٍ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ بَقَرٍ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ غَلَمٍ، ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينَ، تَقَطَّعَتْ بِي الحِبَالُ فِي سَفَرِى فَلَا بَلاغَ اليَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الحَسَنَ، وَالجِلْدَ الحَسَنَ، وَالمَالَ، بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي، فَقَالَ لَهُ إِنَّ الحُقُوقَ كَثِيرَةٌ، فَقَالَ لَهُ كَأَنِي أَعْرِفُكَ ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ، فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللهُ ؟ فَقَالَ لَقَدْ وَرِثْتُ لِكَابِرٍ عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، وَأَتَى الأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، فَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هَذَا، فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ ، وَأَتَى الأَعْمَى فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ
588 مِسْكِينَ وَابْنُ سَبِيلٍ وَتَقَطَّعَتْ بِي الحِبَالُ فِي سَفَرِى، فَلَا بَلاغَ اليَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةٌ أَتَبَلَّغْ بِهَا فِي سَفَرِي، فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَذَ اللَّهُ بَصَرِى، وَفَقِيرًا فَقَدْ أَغْنَانِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ، فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ اليَوْمَ بِشَيْءٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ أَمْسِكُ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ، فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْكَ، وَسَخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ (بخاری کتاب احادیث الانبياء باب ما ذكر عن بنی اسرائیل 3464) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی علی میم سے سنا.آپ فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ، ایک کوڑھی اور ایک گنجا اور ایک اندھا.اللہ نے ان کو آزمانا چاہا.ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو کوڑھی کے پاس آیا اور پوچھا: تجھے کونسی شئے زیادہ پیاری ہے ؟ اس نے کہا اچھار نگ اور اچھا جسم.لوگ مجھ سے بہت کراہت کرتے ہیں.آپ نے فرمایا فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا اور وہ کوڑھ اس سے جاتارہا اور اسے اچھار نگ اور اچھا جسم دیا گیا.پھر فرشتہ نے پوچھا: تمہیں کو نسامال زیادہ پیارا ہے ؟ اس نے کہا اونٹ یا کہا گائے ہیں.اسحاق (راوی) نے اس کے متعلق شک کیا کہ کوڑھی اور گنجے ان دونوں میں سے ایک نے اونٹ کہے اور دوسرے نے گائے بیل.چنانچہ اسے دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی گئی اور کہا تیرے لئے اس میں برکت دی جائے گی اور وہ گنجے کے پاس آیا.اس نے پوچھا: تجھے کونسی چیز زیادہ پیاری ہے ؟ اس نے کہا اچھے بال اور یہ گنج پن مجھ سے جاتا رہے.لوگ مجھ سے بہت ہی نفرت کرتے ہیں.آپ نے فرمایا فرشتہ نے اس پر ہاتھ پھیرا اور گنج پن جاتا رہا اور اسے اچھے بال دیئے گئے.فرشتہ نے کہا تجھے کو نسامال زیادہ پیارا ہے ؟ کہا گائے بیل.فرشتہ نے اسے ایک گا بھن گائے دی اور کہا تجھے اس میں برکت دی جائے گی اور اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا: تجھے کونسی چیز زیادہ پیاری ہے ؟ اس نے کہا اللہ میری بینائی مجھے واپس دیدے.جس سے میں لوگوں کو دیکھوں.آپ نے فرمایا فرشتہ نے اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ نے اس کی بینائی اس کو پھر دے دی.فرشتہ نے پوچھا: کو نسامال مجھے زیادہ پیارا ہے ؟ اس نے کہا بکریاں.اس نے اس کو ایک جننے والی بکری دی.چنانچہ ان دونوں نے بچے دیئے اور اس نے بھی بچے دیئے.چنانچہ کوڑھی کے پاس اونٹوں کا اور گائے
589 والے کے پاس گائے بیلوں کا گلہ اور اندھے کے پاس بکریوں کے دل کے دل ہو گئے.پھر وہ فرشتہ کوڑھی کے پاس ہو بہو اسی صورت شکل میں آیا اور کہنے لگا: ایک مسکین آدمی ہوں میرے سفر میں سارے وسیلے کٹ گئے ہیں، اس لئے سوائے اللہ کے اور پھر تمہارے بن آج میں اپنے ٹھکانے نہیں پہنچ سکتا.میں تم کو اسی ذات کا واسطہ دیتے ہوئے جس نے کہ تم کو یہ اچھا رنگ دیا اور یہ اچھا بدن دیا اور یہ اونٹ دیئے تم سے ایک اونٹ مانگتا ہوں تا کہ میں اپنے سفر میں اس پر سوار ہو کر اپنے ٹھکانے پہنچوں.اس نے جواب دیا: حق بہت سے ہیں (جنہیں میں نے ادا کرنا ہے.) وہ فرشتہ اسے کہنے لگا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں.کیا تو کوڑھی نہ تھا؟ لوگ تجھ سے کراہت کرتے تھے ، محتاج تھا.اللہ نے تجھے دیا.اس نے کہا میں تو خود بڑا ہوں اور بڑوں سے وراثت ملتی چلی آئی ہے.فرشتہ نے کہا تم جھوٹے ہو.اللہ تمہیں اسی حالت میں لوٹا دے جس میں تم تھے اور وہ گنجے کے پاس اسی کی شکل وصورت میں آیا اور اس کو بھی ویسا ہی کہا (جیسا اس کو ڑھی سے کہا تھا) اس نے بھی اس کو وہی جواب دیا جو اس کوڑھی نے اس کو دیا تھا.فرشتہ نے کہا تم جھوٹے ہو.اللہ تمہیں اسی حالت میں لوٹا دے جس میں تم تھے پھر وہ اندھے کے پاس اسی صورت شکل میں آیا اور کہنے لگا: میں ایک مسکین شخص ہوں، مسافر ہوں.سفر میں میرے سارے وسیلے کٹ گئے ہیں.آج سوائے اللہ کے اور تمہارے بغیر ٹھکانے پہنچنے کی کوئی صورت نہیں.میں اسی کے وسیلے سے جس نے تمہاری بینائی تم کو واپس دی ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ میں اپنے سفر میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ٹھکانے پہنچ جاؤں.اس نے کہا ہاں میں اندھا تھا اور اللہ نے میری بینائی لوٹا دی اور محتاج تھا اور اس نے مجھے مالدار کر دیا، اس لیے جو تم چاہو لے لو، اللہ کی قسم! میں تم سے آج کسی بات میں تنگی نہیں کرنے کا.جو تو لے لے، اللہ کے لئے لے گا.فرشتہ نے یہ سن کر کہا تم اپنا مال اپنے پاس ہی رکھو کیونکہ تم کو تو صرف آزمایا گیا ہے.اللہ تم سے خوش ہو گیا ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں پر ناراض.
590 حَدَّثَنِي عَبْد الرحمن بن أبي عمرة، أن أبا هريرة حَلَقَهُ، أَنَّهُ سَمع الذين صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِنَّ ثَلَاقَةٌ في بَنِي إِسْرائيل: أَبْرَضَ، وَأَفَرَعَ، وَأَعْمَى، فَأَرَادَ اللهُ أَن يَبْتَليهُمْ، فَبَعَتَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الْأَبْرَصَ، فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ لَوْنَ حَسَنَ، وَجِلْدٌ حَسَن، وَيَذْهَبُ عَنِي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ، وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا، قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ الْإِبِلُ - أَوْ قَالَ الْبَقَرُ، شَكٍّ إِسْحَاقُ - إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ، أَوِ الْأَقْرَعَ، قَالَ أَحَدُهُمَا الْإِبِلُ، وَقَالَ الْآخَرُ الْبَقَرُ، قَالَ فَأَعْطِيَ نَاقَةُ عُشَرَاءَ، فَقَالَ بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ فَأَتَى الْأَقْرَعَ ، فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبْ عَنِي هَذَا الَّذِى قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ، وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ الْبَقَرُ، فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا، فَقَالَ بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ فَأَتَى الْأَعْمَى، فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَى بَصَرِي، فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ، قَالَ فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ الْغَلَمَ، فَأُعْطِيَ شَاةٌ وَالِدًا، فَأَنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَدَ هَذَا، قَالَ فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الْإِبِلِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَلَمِ، قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ أَنَّى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينَ، قَدِ انْقَطَعَتْ فِي الْحِبَالُ فِي سَفَرِى فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ، وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ، وَالْمَالَ بَعِيرًا، أَتَبَلَّغْ عَلَيْهِ فِي سَفَرِى، فَقَالَ الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ، فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ؟ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللهُ ؟ فَقَالَ إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا، فَصَيَّرَكَ اللهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا، فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ
591 وَأَنَّى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينَ وَابْنُ سَبِيلٍ، انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللهِ، ثُمَّ بِكَ، أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ، شَاةٌ أَتَبَلَّغْ بِهَا فِي سَفَرِي، فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللهُ إِلَى بَصَرِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ، وَدَعْ مَا شِئْتَ، فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئًا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ ، فَقَالَ أَمْسِكَ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَسُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الدنيا سجن المومن وجنة الكافر (5251) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ایک مبروص تھا ایک گنجا اور ایک نابینا.اللہ نے ارادہ کیا کہ ان کی آزمائش کرے.اس نے ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا وہ مبروص کے پاس آیا اور پوچھا کہ تجھے کیا چیز سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا کہ خوبصورت رنگ ، خوبصورت جلد اور یہ مجھ سے دور ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے کراہت کرتے ہیں.فرمایا اس (فرشتہ) نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس سے وہ بیماری جاتی رہی اور اسے خوبصورت رنگ اور خوبصورت جلد عطا کی گئی.اس (فرشتہ) نے کہا کہ کو نسا مال تجھے پسند ہے ؟ اس نے کہا اونٹ یا کہا گائے.راوی اسحاق کو اس بارہ میں شک ہے کہ مبروص یا گنجے میں سے کسی ایک نے اونٹ کہا تھا اور دوسرے نے گائے.فرمایا اسے دس ماہ کی گا بھن اونٹنی دی گئی اور کہا کہ اللہ تجھے اس میں برکت دے.فرمایا پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور کہا تجھے سب سے زیادہ کیا اچھا لگتا ہے ؟ اس نے کہا خوبصورت بال اور یہ مجھ سے دور ہو جائے جس کی وجہ سے لوگوں کو مجھ سے کراہت آتی ہے.فرمایا اس (فرشتہ) نے اس پر ہاتھ پھیرا اور اس سے وہ ( بیماری) جاتی رہی اور اسے خوبصورت بال عطا کئے گئے.اس (فرشتہ) نے کہا کہ کونسا مال تجھے پسند ہے ؟ اس نے کہا گائیاں.چنانچہ اسے حاملہ گائے دی گئی اور کہا اللہ تجھے اس میں برکت دے.فرمایادہ نابینا کے پاس آیا اور کہا کہ تجھے سب سے زیادہ کیا پسند ہے ؟ اس نے کہا یہ کہ اللہ مجھے میری نظر لوٹا دے جس سے میں لوگوں کو دیکھ سکوں.فرمایا پھر اس نے اس پر ہاتھ پھیر اتو اللہ نے اسے اس کی نظر لوٹادی.اس نے پوچھا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند
592 ہے ؟ اس نے کہا بکریاں پس اسے زیادہ بچے دینے والی بکری عطا کی گئی سو ان دونوں نے بھی بچے دئے اور اس نے بھی بچے دئے.فرمایا کہ اس کے لئے اونٹوں کی وادی ہو گئی اور اس کے لئے گائیوں کی وادی اور اس کے لئے بکریوں کی وادی.فرمایا کہ پھر وہ (فرشتہ) مبروص کے پاس اس کی (پرانی) صورت اور ہیئت میں گیا اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں اور سفر میں میرے سب اسباب جاتے رہے.پس آج اللہ اور پھر تمہارے بغیر میرا پہنچنا ممکن نہیں.میں تم سے اس کے نام پر سوال کرتا ہوں جس نے تمہیں خوبصورت رنگ اور خوبصورت جلد اور مال عطا کیا ہے ایک اونٹ مانگتا ہوں جو میرے سفر میں میرا کام بنادے اس نے کہا ذمہ داریاں بہت ہیں.اس پر اس نے کہا میر الخیال ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تم مہبر وص نہیں تھے جس سے لوگ کراہت کرتے تھے ؟ (کیا تم ) وہ فقیر ( نہیں تھے) جسے اللہ نے عطا کیا ہے.اس نے کہا کہ میں تو اس مال کا نسل در نسل وارث ہوں.اس نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں تمہاری پہلی حالت کی طرف لوٹادے گا.فرمایاوہ (فرشتہ) گنجے کے پاس اس کی (پرانی) صورت میں آیا اور اسے بھی وہی کہا جو پہلے کو کہا تھا اور اس نے وہی جواب دیا جو پہلے نے جواب دیا تھا اس پر اس نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھے ویسا ہی کر دے جیسے تو تھا فرمایا پھر وہ اندھے کے پاس اس کی شکل وصورت میں آیا اور کہا کہ میں ایک مسکین شخص مسافر ہوں میرے سفر کے سب ذرائع کٹ چکے ہیں.آج اللہ اور پھر تمہارے بغیر میر ا ( منزل تک پہنچنا نا ممکن ہے.میں تم سے اس کے واسطہ سے جس نے تمہاری نظر تمہیں لوٹائی ہے ایک بکری مانگتا ہوں جو میرے سفر میں مجھے کفایت کر جائے.اس پر اس نے کہا کہ میں اندھا تھا اللہ نے مجھے میری نظر لوٹائی.پس جو تو چاہے لے لے اور جو تو چاہے چھوڑ دے اللہ کی قسم آج کے دن میں تجھ پر اس بارہ میں جو تو نے اللہ کی خاطر لیا میں تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں کروں گا.اس پر اس نے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس ہی رکھو.( تم تینوں کی ) آزمائش کی گئی تھی اللہ تجھ سے راضی ہو گیا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوا.
593 753 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ: اسْقِ حَدِيقَةً فُلَانٍ، فَتَنَغَى ذَلِكَ السَّحَابُ، فَأَفْرَغَ مَاءَهُ فِي حَرَّةٍ، فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْكَ الشَّرَاجِ قَدِ اسْتَوَعَبَتْ ذَلِكَ الْمَاءَ كُلَّهُ، فَتَتَبَّعَ الْمَاءَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيقَتِهِ يُحَزِلُ الْمَاءَ بِمِسْعَاتِهِ، فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ ؟ قَالَ فُلَانٌ - لِلِاسْمِ الَّذِى سَمِعَ فِي السَّحَابَةِ - فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ لِمَ تَسْأَلُنِي عَنِ اسْمِي؟ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِى هَذَا مَاؤُهُ يَقُولُ اسْقِ حَدِيقَةٌ فُلَانٍ، لِاسْمِكَ، فَمَا تَصْنَعُ فيها ؟ قَالَ أَمَّا إِذْ قُلْتَ هَذَا، فَإلي أنظرُ إلَى مَا يَخْرُجُ مِنهَا، فَأَتَصَدَّقُ بِخُلُقِهِ، وَاكُل أنا وَعِيَالِي ثُلُيًّا، وَأَرُدُّ فِيهَا ثُلُثَهُ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الصدقة في المساكين (5285) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا ایک بار ایک شخص ایک ویرانہ میں تھا.اس نے ایک بدلی میں سے آواز سنی کہ فلاں کے باغ کو سیراب کر.وہ بادل ایک طرف ہو گیا اور اپنا پانی ایک پتھریلی زمین پر برسایا ان نالیوں میں سے ایک نالی نے سارا پانی سمیٹ لیا وہ پانی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص اپنے باغ میں کھڑا اپنی کسی سے پانی کا رخ بدل رہا ہے.اس نے اسے کہا اے اللہ کے بندے! تیرا کیا نام ہے ؟ اس نے بتا یا فلاں ، تو وہ وہی نام تھا جو اس نے بدلی میں سنا تھا پھر اس نے کہا اے اللہ کے بندے! تو میر انام کیوں پوچھتا ہے؟ اس نے کہا میں نے اس بادل سے جس کا یہ پانی ہے ایک آواز سنی تھی جو تیر انام لے کر کہہ رہی تھی کہ فلاں کے باغ کو سیر اب کر.تو اس میں کیا کرتا ہے ؟ اس نے کہا کیونکہ تم نے پوچھا ہے تو بات یوں ہے کہ جو اس میں سے پیداوار ہوتی ہے.میں اس کا جائزہ لیتا ہوں اور ایک تہائی صدقہ کر دیتا ہوں اور ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اس (باغ ) میں لوٹا دیتا ہوں.
594 754 - عَن عُمر بن الخطاب، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى رَسُول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ أَن يُعْطِيَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا عِنْدِى شَيْءٌ وَلَكِنِ ابْتَعْ عَلَى، فَإِذَا جَاءَنِي شَيْءٍ قَضَيْتُهُ فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ أَعْطَيْتَهُ فَمَا كَلَّفَكَ اللَّهُ مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْهِ، فَكَرِةَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلَ عُمَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْفِقُ وَلَا تَخَفْ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعُرِفَ فِي وَجْهِهِ المفرُ لِقَوْلِ الْأَنْصَارِي، ثُمَّ قَالَ بِهَذَا أُمِرْتُ (شمائل النبى للترمذى باب ماجاء فى خلق رسول الله 340) حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے کچھ مانگا.نبی کریم صلی ای کم نے فرمایا میرے پاس (اس وقت) تو کچھ نہیں ہے تم میرے نام سے (ضرورت کی چیز ) خرید لو ، جب میرے پاس کچھ آئے گا تو میں ادا کر دوں گا.اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی.یارسول اللہ ! آپ اُسے (پہلے) دے چکے ہیں اور جو آپ کی استطاعت میں نہیں اس کا اللہ تعالی نے آپ کو مکلف نہیں ٹھہرایا.نبی صلی علی یم نے حضرت عمرؓ کی بات ناپسند فرمائی تو انصار میں سے ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ! آپ خرچ کریں اور خدائے ذوالعرش کی طرف سے فقر سے نہ ڈریں.انصاری کی اس بات پر رسول اللہ صلی علیم نے تبسم فرمایا اور خوشی آپ کے چہرہ سے ظاہر ہونے لگی.پھر فرمایا اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے.755ـ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، قَالَ بَيْمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى رَاحِلَةٍ لَهُ، قَالَ فَجَعَلَ يَصْرِفُ بَصَرَهُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ فَضْلُ مِنْ
595 زادٍ، فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ قَالَ فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لَا حق لأحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ (مسلم کتاب اللقطة باب استحباب المواساة بفضول المال 3244) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں ایک سفر میں ہم نبی صلی المی ریم کے ساتھ تھے کہ ایک شخص اپنی کم اونٹنی پر سوار آیا.راوی کہتے ہیں اس نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا.رسول اللہ صلی الی نکم نے فرمایا جس شخص کے پاس زائد سواری ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد کھانا ہے ، وہ اسے دے دے جس کے پاس کھانا نہیں ہے.راوی کہتے ہیں آپ نے اموال کی بہت سی اقسام کا ذکر فرمایا یہانتک کہ ہم نے خیال کیا کہ ہم میں سے کسی کا زائد مال پر کوئی حق نہیں ہے.756 - عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُمْ ذَبَحُوا شَاةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَقِيَ مِنْهَا ؟ قَالَتْ مَا بَقِيَ مِنْهَا إِلَّا كَتِفُهَا قَالَ بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا (ترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق باب ما جاء فى صفة اواني الحوض (2470 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کروائی (اور اس کا گوشت غرباء میں تقسیم کیا اور کچھ گھر میں بھی کھانے کے لئے رکھ لیا) اس پر نبی صلی علیم نے دریافت فرمایا کس قدر گوشت بچ گیا حضرت عائشہ نے جواب دیا دستی بچی ہے.(یہ سن کر) حضور علی ایم نے فرمایا سارا بچ گیا ہے سوائے اس دستی کے ( یعنی جس قدر تقسیم کیا گیا وہ ثواب ملنے کی وجہ سے بچ گیا ہے اور جو بچا کر خود کھانے کے لئے رکھا ہے چونکہ اس کا ثواب نہیں ملے گا.اس لئے حقیقت وہ نہیں بچا ).
596 عَن عَائِشَة رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنهم ذَبَحُوا شَاة فَقَالَ النَّبي صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم مَا بَقِي مِنْهَا ؟ قَالَت مَا بَقِي مِنْهَا إِلَّا كتفها قَالَ بَقِي كلُّهَا غيرُ كتفها (الترغیب و الترهيب للمنذري ، كتاب الصدقات التَّرْغِيب فِي الصَّدَقَة والحث عَلَيْهَا وَمَا جَاءَ فِي جهد المقل ومن تصدق بِمَا لَا روایت نمبر 1234 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کروائی.نبی صلی اللہ کریم نے دریافت فرمایا کس قدر گوشت بچ گیا.حضرت عائشہ نے جواب دیا صرف دستی بچی ہے.حضور نے فرمایا سارا بچ گیا ہے سوائے اس دستی کے.جدید، مصافحہ ، صبہ کی اہمیت 757 - عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَصَافَحُوا يَذْهَبِ الْغِلُ، وَتَهَادَوْا تَحَابُّوا، وَتَذْهَبِ الشَّحْنَاءُ (موطا امام مالک ، کتاب حسن الخلق ، باب ما جاء في المهاجرة 1685) حضرت عطاء بن ابی مسلم عبداللہ خراسانی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لی لی ہم نے فرمایا آپس میں مصافحہ کیا کرو اس سے بغض اور کینہ دور ہو جائے گا اور آپس میں تحفے تحائف دیا کرو اس سے ایک دوسرے سے محبت زیادہ ہو گی اور عداوت اور رنجش دور ہو جائے گی.758 - أَخْبَرَهُ عَنْ كَلَدَةَ بْنِ حَنْبَلٍ، أَنَّ صَفْوَانَ بْن أُمَيَّةَ، بَعَثَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَبَنٍ وَجِدَايَةٍ وَضَغَابِيسَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَى مَكَّةَ فَدَخَلْتُ وَلَمْ أُسَلِّمُ فَقَالَ ارْجِعْ فَقُلِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ (ابوداؤد کتاب الادب، ابواب النوم ، باب كيف الاستئذان 5176)
597 حضرت کلدہ بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ مجھے صفوان بن امیہ نے رسول اللہ صلی اللی یکم کی خدمت میں دودھ ، ہرن کے بچے کا گوشت اور کڑیاں دے کر بھیجا.نبی صلی املی کی ملکہ کے بالائی حصہ میں تھے.میں حضور صلی للی نیم کے پاس بلا اجازت اور بغیر سلام کہے چلا گیا.آپ صلی میں کم نے مجھے فرمایا پہلے باہر واپس جاؤ پھر السلام علیکم کہو ( اور پھر اندر آنے کے لئے اجازت مانگو).أَنَّ كَلدَةَ بْن حَنْبَلٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ صَفْوَانَ بْن أُمَيَّةَ بَعَثَهُ بِلَبَنٍ وَلَبَا وَضَغَابِيسَ إِلَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَى الوَادِي، قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَلَمْ أُسَلِّمْ وَلَمْ أَسْتَأْذِنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْجِعْ فَقُلْ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَ أَدْخُلُ ؟ (ترمذی کتاب الاستئذان والادب باب ما جاء فى التسليم قبل الاستئذان (2710) حضرت کلدہ بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ مجھے صفوان بن امیہ نے آنحضرت صلی ال یکم کی خدمت میں دودھ ، ہرن کے بچے کا گوشت اور لکڑیاں دے کر بھیجا.اور نبی صلی اللہ نیلم وادی کے بالائی حصہ میں تھے.میں حضور صلی ال نیم کے پاس بلا اجازت اور بغیر سلام کہے چلا گیا.آپ صلی المی کم نے مجھے فرمایا پہلے باہر واپس جاؤ پھر کہو "السلام علیکم کیا میں اندر آسکتا ہوں؟“ 759 - عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إلى تحلتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا، فَقَالَ أَكُل وَلَيكَ فَعَلْتَ مِثْلَهُ، قَالَ لَا، قَالَ فَارْجِعْهُ (بخاری کتاب الهبة باب الهبة للولد 2586)
598 حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کو لائے اور کہا میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے.آپ نے فرمایا کیا تم نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح دیا ہے جیسے اس کو ؟ انہوں نے کہا نہیں.تو آپ نے فرمایا اس کو واپس لے لو.عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ تَصَدَّقَ عَلَى أَبِي بِبَعْضِ مَالِهِ ،.....فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِهِمْ ؟ قَالَ لَا ، قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ، وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ فَرَجَعَ أَبِي ، فَرَةً تِلْكَ الصَّدقة (مسلم کتاب الهبات باب كراهية تفضيل بعض الاولاد في الهبة 3041) حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے عطا کیا.رسول اللہ صلی علی کلم نے ان سے فرمایا کیا تم نے اپنے سب بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولاد سے عدل کا سلوک کرو.میرے والد واپس آئے اور وہ عطیہ واپس لے لیا.عَنَ الشَّعْبِي حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بن بَشِيرٍ، أَنَّ أُمَّهُ بِنْتَ رَوَاحَةَ، سَأَلَتْ أَبَاهُ بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ مِنْ مَالِهِ لِابْنِهَا، فَالْتَوَى بِهَا سَنَةً ثُمَّ بَدَا لَهُ، فَقَالَتْ لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا وَهَبْتَ لِابْنِي، فَأَخَذَ أَبِي بِيَدِي وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَمْ هَذَا بِنْتَ رَوَاحَةَ أَعْجَبَهَا أَنْ أُشْهِدَكَ عَلَى الَّذِي وَهَبْتُ لِابْنِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بَشِيرُ أَلَكَ وَلَدٌ سِوَى هَذَا ؟ قَالَ نَعَمْ، فَقَالَ أَكُلَهُمْ وَهَبْتَ لَهُ مِثْلَ هَذَا؟ قَالَ لَا، قَالَ فَلَا تُشْهِدُنِي إِذًا، فَإِني لَا أَهْبَدُ عَلَى جَوْرٍ (مسلم کتاب الهبات باب كراهية تفضيل بعض الاولاد في الهبة 3042)
599 شعبی سے روایت ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر نے مجھے بتایا کہ ان کی والدہ بنت رواحہ نے ان کے والد سے خواہش کی کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ اس کے بیٹے کو ہبہ کر دیں.انہوں نے ایک سال تک تو اسے ملتوی رکھا پھر ان کی رائے ہو گئی ( کہ ہبہ کردیں).اس پر وہ کہنے لگیں میں راضی نہ ہوں گی جب تک تم رسول اللہ صلی نمیزنم کو اس ہبہ پر گواہ نہ ٹھہر اؤ جو تم نے میرے بیٹے کے نام کیا ہے.اس پر میرے والد نے میر اہاتھ پکڑا اور میں اس وقت لڑکا تھا اور وہ رسول اللہ صلی علیم کے پاس آئے اور عرض کیا یار سول صلی علی کرم اللہ ! اس کی ماں بنت رواحہ نے چاہا ہے کہ میں آپ کو اس ہبہ پر گواہ ٹھہر اؤں جو میں نے اس کے بیٹے کو دیا ہے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اے بشیر ! کیا اس کے علاوہ بھی تمہاری کوئی اولاد ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں.آپ نے فرمایا کیا تم نے ان سب کو اس کی طرح ہبہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں.آپ نے فرمایا پھر مجھے گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا.760 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ، الَّذِي يَعُودُ فِي هِبَتِهِ كَالكَلْبِ يَرْجِعُ فِي قَيْدِهِ (بخاری کتاب الهبة و فضلها باب لا يحل لاحد ان يرجع في هبته...2622) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری مثال اُس برے شخص کی ہی نہیں جو اپنے ہبہ سے پھر تا ہے، جیسے کنا قے کر کے چاتا ہے.
600 دولت اور شکر نعمت احسان کا شکر 761 - عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللهَ يُحِبَّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِ (ترمذی كتاب الادب باب ما جاء ان الله تعالى يحن ان يرى اثر نعمته...2819) حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ انکے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا اللہ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے فضل اور اپنی نعمت کا اثر اپنے بندہ پر دیکھے (یعنی خوشحالی کا اظہار اور توفیق کے مطابق اچھا لباس اور عمدہ رہن سہن اللہ تعالیٰ کو پسند ہے بشر طیکہ اس میں تکبر اور اسراف کا پہلو نہ ہو).762ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بَيْنَمَا أَيُّوبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا، خَزَ عَلَيْهِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَهَبٍ ، فَجَعَلَ يَحْلِي فِي ثَوْبِهِ، فَنَادَاهُ رَبُّهُ يَا أَيُّوبُ أَلَمْ أأَكُنْ أَغْنَيْتُكَ عَمَّا تَرَى، قَالَ بَلَى يَا رَبِّ، وَلَكِن لَّا غِنَى لِي عَنْ بَرَكَتِكَ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ و ایوب اذ نادى ربه انی مسنی...3391) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا ایک بار حضرت ایوب برہنہ نہار ہے تھے کہ ان پر ڈھیروں ڈھیر سونا گرا.وہ لپ بھر بھر کر اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے.اس وقت ان کے رب نے ان کو آواز دی.ایوب! یہ جو تو دیکھ رہا ہے کیا میں نے تمہیں اس سے بے پروا نہیں کر دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں.مگر اے میرے رب! تیری برکت سے مجھے بے نیازی نہیں ہو سکتی.
601 763 - عَن أبي هريرة، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا نَفَر أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فَضَلَ عَلَيْهِ فِي المَالِ وَالخَلْقِ ، فَلْيَنظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ بخاری کتاب الرقاق باب لينظر الى من هو اسفل منه...6490) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللی کرم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ان کو دیکھے جن کو اس سے بڑھ کر مال دیا گیا ہے اور اس سے عمدہ بناوٹ دی گئی ہے تو چاہیے کہ وہ ان کو بھی دیکھے جو اسی سے نیچے ہیں.عن أبي هريرة، قالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ ، فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللهِ - قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةٌ — عَلَيْكُمْ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الدنيا سجن للمومن وجنة الكافر 5250) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یم نے فرمایا اس کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے اوپر ہے یہ اس بات کے زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی نعمت کی تحقیر نہ کرو.ایک روایت میں ( نِعْمَةَ الله کے بعد ) عَلَیكُمْ کے الفاظ ہیں.764 - عَنْ أَسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي القَنَاءِ (ترمذی کتاب البر و الصلة باب ما جاء فى المتشبع بما لم يعطه 2035) الله حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جس پر کوئی احسان کیا گیا ہو وہ احسان کرنے والے کو کہے اللہ تجھے اس کی جزائے خیر اور اس کا بہتر بدلہ دے تو اس نے ثناء کا حق ادا کر دیا (یعنی ایک حد تک شکریہ کا فرض پورا کر دیا).
602 765 - عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِهِ، فَإِنْ لَمْ يَجِدُ فَلْيُثْنِ بِهِ ، فَمَنْ أَثْنَى بِهِ فَقَدْ شَكَرَهُ، وَمَنْ كَتَمَهُ فَقَدْ كَفَرَه (ابو داؤد کتاب الادب باب فى شكر المعروف 4813) حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اگر کسی شخص کو کوئی تحفہ دیا جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کا بدلہ دے.اگر وہ بدلہ دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ تعریف کے رنگ میں اس کا ذکر کرے اگر اس نے ایسا کیا تو گویا اس نے شکر کا حق ادا کر دیا.اگر اس نے بات کو چھپایا تعریف کا ایک کلمہ تک نہ کہا تو گویاوہ ناشکری کا مر تکب ہوا.و قار عمل، کسب حلال اور سوال سے بچنا 766 ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الغَلَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ ؟ فَقَالَ نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مكَّة (بخاری کتاب الاجارة باب رعى الغنم على قراريط 2262) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الی ہم نے فرمایا اللہ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے لم بکریاں نہ چرائی ہوں.آپ کے صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ !) کیا آپ نے بھی (چرائی ہیں؟) آپ نے فرمایا ہاں، میں بھی چند قیر اطوں کے بدلے مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا.
603 767 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلب كشب الْحَلالِ فَرِيضَةُ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ (مشكاة المصابيح كتاب البيوع باب الكسب والطلب الحلال، الفصل الثالث (2781) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے فرمایا خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کی طرح محنت کی کمائی بھی فرض ہے.عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَةُ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ (شعب الایمان ، الستون من شعب الايمان وهو باب في حقوق الاولاد والاهلين (8741 مة الله سة حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ہیم نے فرمایا خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کی طرح محنت کی کمائی بھی فرض ہے.768 - عَنِ المِقْدَامِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَط ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَل يَدِهِ (بخاری کتاب البيوع باب كسب الرجل و عمله بیده (2072) حضرت مقدام بن معدی کرب) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الیم نے فرمایا کہ انسان کا اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھانا کھانے سے بڑھ کر کوئی کھانا نہیں اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی ہی کھایا کرتے تھے.
604 769ـ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ گشیكُمْ ، وَإِنْ أَوْلادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ (ترمذی کتاب الاحکام باب ما جاء ان الوالد ياخذ من مال ولده 1358) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا پاکیزہ خوراک وہ ہے جو تم خود کما کر کھاؤ.اور تمہاری اولاد بھی تمہاری عمدہ کمائی میں شامل ہے.770ـ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ، فَقَالَ أَمَا فِي بَيْتِكَ شَيْءٍ ؟ قَالَ بَلَى حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ، وَقَعْبٌ نَشْرَبُ فِيهِ مِنَ الْمَاءِ، قَالَ انْتِنِي بِمَا، قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا ، فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَقَالَ مَنْ يَشْتَرِى هَذَيْنِ ؟ قَالَ رَجُلٌ : أَنَا ، أَخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ، قَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ رَجُلٌ: أَنَا أَخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ، وَأَخَذَ الدِرْهَمَيْنِ وَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ، وَقَالَ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَى أَهْلِكَ، وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قدوما فأتي به، فَأَتَاهُ بِهِ، فَشَدَّ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودًا بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَبِعْ، وَلَا أَرَيَنَّكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَذَهَبَ الرَّجُلُ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ، فَجَاءَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةً دَرَاهِمَ ، فَاشْتَرَى بِبَعْضِهَا ثَوْبًا، وَبِبَعْضِهَا طَعَامًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ الْمَسْأَلَهُ نُكْتَةٌ فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِنَّ الْمَسْأَلَة لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِقَلَاثَةٍ : لِذِى فَقْرٍ مُدْقِعٍ، أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِجٍ، أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِجٍ (ابو داؤد کتاب الزكاة باب ما تجوز فيه المسالة 1641)
605 حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ انصار کا ایک آدمی نبی علی قیام کے پاس مانگنے آیا آپ نے فرمایا تمہارے گھر میں کوئی چیز نہیں.اس نے کہا ہاں کیوں نہیں.ایک کمبل ہے جس کا ایک حصہ ہم اور ہتے ہیں اور ایک بچھاتے دو در ہیں اور ایک بڑا پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں.فرمایا وہ دونوں میرے پاس لاؤ.کہتے ہیں وہ آپ کے پاس لائے تو رسول اللہ صلی الیکم نے وہ اپنے ہاتھ میں لیے اور فرمایا یہ دونوں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا میں یہ ایک درہم میں خرید تاہوں.آپ نے دو یا تین دفعہ فرمایا ایک درہم سے زیادہ کون بڑھاتا ہے ؟ ایک شخص نے کہا میں در ہم میں لیتا ہوں.آپ نے اُسے وہ دے دیا اور دو در ہم لیے اور اس انصاری کو وہ دیئے اور فرمایا اس ایک سے اپنے گھر والوں کے لئے کھانا خرید لو اور دوسرے سے ایک کلہاڑا خرید و اور اسے میرے پاس لاؤ.رسول اللہ صلی المیت کم نے اپنے ہاتھ سے اس میں دستہ ڈالا اور فرمایا جاؤ ایندھن جمع کرو اور بیچو اور میں تمہیں پندرہ دن تک نہ دیکھوں.تو وہ آدمی لکڑیاں جمع کرنے اور بیچنے لگا اور جب آیا تو دس 10 درہم کما چکا تھا کچھ کے اس نے کپڑے خریدے کچھ کا اناج.تو رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم مانگو اور قیامت کے دن تمہارے چہرے پر داغ ہو.مانگنا جائز نہیں سوائے تین آدمیوں کے ، ایسے فقر والے کے جو ہلاکت تک پہنچانے والا ہو یا ایسا قرض جو پریشان کرنے والا انتہائی سخت ہو.یا تکلیف دہ خون والا ( یعنی جسے قتل دیت دینا ہو).771ـ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ العَوَامِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ، فَيَأْتِ بِحُزْمَةِ الحَطَبِ عَلَى ظَهْرِهِ، فَيَبِيعَهَا، فَيَكُفَ اللَّهُ بِهَا وَجْهَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلُ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنْعُوهُ (بخاری کتاب الزكاة باب الاستعفاف عن المسالة 1471) رض حضرت زبیر سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنی رسی لے اور اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا اُٹھا کر لائے اور پھر اُسے بیچے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس کی آبرو کو بچائے رکھے.یہ بات اُس کے لئے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ لوگوں سے مانگے ، وہ اس کو دیں یانہ دیں.
606 772 - عَنْ جَابِرٍ قَالَ طُلِقَتْ خَالَتِي ثَلَاثًا فَخَرَجَتْ تَجُدُّ نَخَلًا لَهَا، فَلَقِيَهَا رَجُلٌ، فَنَهَاهَا، فَأَتَتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهَا اخْرُجِي فَجْدِي نَخْلَكِ، لَعَلَّكِ أَنْ تَصَدِّقِي مِنْهُ أَوْ تَفْعَلِي خَيْرًا (ابوداؤد کتاب الطلاق باب فى المبتوتة تخرج بالنهار (2297 حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئی تھیں.وہ اپنی کھجوریں کاٹنے کے لئے گئیں.راستے میں ان کو ایک شخص ملا.اس نے ان کو منع کیا تو وہ نبی صلی نیم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ واقعہ عرض کیا.آپ نے فرمایا نکلو اور اپنی کھجور کے درختوں کا پھل اتار و شاید تم اس میں سے صدقہ دو یا کوئی اور نیک کام کرو.773 - عَنِ ابْنِ أَعْبُدَ، قَالَ قَالَ لِي عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَلَا أَحَدِثُكَ عَنِي، وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مِنْ أَحَبٍ أَهْلِهِ إِلَيْهِ ؟ قُلْتُ بَلَى، قَالَ إِنَّهَا جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَرَ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَرَ فِي نَحْرِهَا، وَكَنَسَتِ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتُ ثِيَابُهَا، فَأَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدَهُ، فَقُلْتُ لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا، فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُداثًا فَرَجَعَتْ، فَأَتَاهَا مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ مَا كَانَ حَاجَتُكِ ؟ فَسَكَتَتْ، فَقُلْتُ أَنَا أَحَدِثُكَ يَا رَسُولَ اللهِ، جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَرَتْ فِي يَدِهَا، وَحَمَلَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَرَتْ فِي نَحْرِهَا ، فَلَمَّا أَنْ جَاءَكَ الْخَدَمُ أَمَرْتُهَا أَنْ تَأْتِيَكَ فَتَسْتَخْدِمَكَ خَادِمًا يَقِيهَا حَرَّ مَا هِيَ فِيهِ، قَالَ اتَّقِي اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ! وَأَذِى فَرِيضَةَ رَبَّكِ، وَاعْمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ فَسَبْعِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدِى ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبْرِى أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، فَتِلْكَ مِائَةٌ، فَهِيَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ قَالَتْ رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ (ابوداؤد کتاب الخراج باب فی بیان مواضع قسم الخمس...2988)
607 ابن اعبد کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے مجھے بتایا کیا میں تمہیں اپنے متعلق اور رسول اللہ صلی علیم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کے متعلق نہ بتاؤں جو آپ کو اپنے اہل و عیال میں سب سے زیادہ محبوب تھیں.میں نے عرض کیا کیوں نہیں.حضرت علیؓ نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ چکی چلاتی تھیں یہاں تک کہ (اس کام نے ) ان کے ہاتھ پر نشان ڈال دیے اور مشکیزہ کے ذریعہ پانی لاتی تھیں یہاں تک کہ اس نے ان کے سینہ پر نشان ڈال دیا اور وہ گھر میں جھاڑو دیتیں یہاں تک کہ ان کے کپڑے غبار آلود ہو جاتے.نبی صلی علیم کے پاس کچھ خادم آئے.میں نے کہا تم اگر اپنے ابا کے پاس جاؤ اور اُن سے خادم مانگو.وہ آپ کے پاس گئیں اور آپ کے پاس متعدد بات چیت کرنے والے پائے تو وہ واپس آگئیں.آپ دوسرے دن ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارا کیا کام تھا ؟ وہ خاموش رہیں.تو میں نے کہا میں بتاتا ہوں یارسول اللہ !.وہ چکی چلاتی ہیں یہاں تک کہ اس نے ان کے ہاتھ پر نشان ڈال دیا ہے اور مشکیزہ اٹھاتی ہیں یہاں تک کہ اُس نے انکے سینہ پر نشان ڈال دیا ہے.پس جب آپ کے پاس خادم آئے تو میں نے ان کو کہا کہ آپ کے پاس جائیں اور آپ سے ایک خادم چاہیں جو ان کو اس مشقت سے بچائے جس میں وہ ہیں.آپ نے فرمایا اے فاطمہ ! اللہ کا تقویٰ اختیار کر واور اپنے رب کا فریضہ ادا کرو اور اپنے گھر والوں کا کام کرو.جب تم بستر پر جاؤ تو تینتیس دفعہ تسبیح کرو اور تینتیس دفعہ حمد کرو اور چونیتس دفعہ اللہ اکبر کہو.یہ سو 100 ہوئے وہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے.انہوں نے کہا میں اللہ اور اُس کے المدرسة رسول صلی یہ کام پر راضی ہوں.774- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ، وَالسُّفْلَى السَّائِلَةُ (مسلم کتاب الزكاة باب بيان ان اليد العليا خير من اليد السفلى...1701)
608 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے منبر پر جبکہ آپ صدقہ اور سوال سے بچنے کا ذکر کر رہے تھے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے.775 - عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ المُسَيَّبِ ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَأَعْطَانِي قم قال يا حكيم، إن هَذَا المَالَ خَفِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَن أَخَذَهُ بِسَحَاوَةٍ نَفْيس بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكُ لَهُ فِيهِ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ اليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى، قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأَ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أَفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى العَطَاءِ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أَشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ المُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ، أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَى أَنْ يَأخُذَهُ، فَلَمْ يَرْداً حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُولِي (بخاری کتاب الزكاة باب الاستعفاف عن المسالة 1472) حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا.آپ نے مجھے دیا.پھر میں نے آپ سے مانگا.پھر آپ نے دیا.پھر میں نے آپ سے مانگا.پھر آپ نے دیا.پھر فرمایا حکیم ! یہ مال تو ہر ابھر امیٹھا ہے.جس نے اس کو سخاوت نفس ( یعنی استغناء) سے لیا تو اس کے لئے اس (مال) میں برکت دی جائے گی اور جس نے نفس کے لالچ سے لیا، اُس کے لیے اس میں برکت نہیں ڈالی جائے گی اور وہ اسی شخص کی مانند ہو گا جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہو تا.اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے.حضرت حکیم کہتے تھے کہ
609 میں نے کہا یارسول اللہ ! اُسی کی قسم جس نے آپ کو سچائی دے کر بھیجا ہے، میں آپ کے سوا کسی سے بھی کچھ نہیں لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے چلا جاؤں.چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت حکیم کو وظیفہ دینے کے لئے بلاتے تو وہ اُن سے وظیفہ لینے سے انکار کر دیتے.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں بلایا کہ انہیں وظیفہ دیں تو بھی انہوں نے انکار کر دیا کہ اُن سے کچھ لیں.اس پر حضرت عمرؓ نے کہا اے مسلمانوں کی جماعت! میں تمہیں گواہ ٹھہراتا ہوں حکیم کو میں (بیت المال کی آمدنی سے اُن کا حق پیش کرتا ہوں اور وہ انکار کرتے ہیں.اُسے نہیں لیتے.چنانچہ حضرت حکیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوالو گوں میں سے کسی سے کچھ نہیں لیا، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے.776 - عَن أبي أُمَامَة رَضِى اللهُ عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم من يُبَايِع ؟ فَقَالَ ثَوْبَان مولى رَسُول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم بايعنَا يَا رَسُول اللَّهِ ، قَالَ على أَن لا تسأل أحداً شَيْئاً فَقَالَ ثَوْبَان فَمَا لَهُ يَا رَسُول اللهِ قَالَ الْجَنَّةِ فَبَايِيعَهُ ثَوْبَان - قَالَ أَبُو أُمَامَة فَلَقَد رَأَيْته بِمَكَّة في أجمع ما يكون من الناس يسْقَط سَوْطَه وَهُوَ رَاكب فَرُبَمَا وقع على عاتق رجل فيأخذه الرجل فينا وله فَما يَأْخُذه منه حتى يكون هو ينزل فيأخذه (الترغيب والترهيب للمنذرى كتاب الصدقات باب الترهيب من المسألة و تحريمها مع الغنى...1171) حضرت ابو امامہ بن بابلی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے ایک موقع پر فرمایا مجھ سے کون عہد باندھتا ہے.رسول اللہ صلی الم کے آزاد کردہ غلام ثوبان نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں عہد باندھنے کے لئے تیار ہوں.آپ نے فرمایا تو عہد کرو کہ تم کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگو گے.اس پر ثوبان نے عرض کیا یارسول اللہ ! اس عہد کا اجر کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا اس کے بدلہ میں جنت ملے گی.اس پر ثوبان نے آپ کے اس عہد پر عمل کرنے کا اقرار کیا.ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ثوبان کو مکہ میں دیکھا کہ سخت بھیڑ کے باوجو د سواری کی حالت میں اگر
610 آپ کے ہاتھ سے چابک بھی گر جاتا تو خود اتر کر زمین پر سے اٹھاتے اور اگر کوئی شخص خود ہی انہیں چاہک پکڑانا چاہتا تو نہ لیتے بلکہ خود اتر کر اٹھاتے.777 - عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقِ الْهِلَالِ ، قَالَ تَحَمَلْتُ حَمَالَةٌ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا، فَقَالَ أَقَمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ، فَتَأْمُرَ لَكَ بِهَا، قَالَ ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَة لَا تَحِلُ إِلَّا لِأَحَدٍ ثَلَاثَةٍ رَجُلٍ، تَحَمَلَ حَمَالَةٌ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَهُ حَتَّى يُصِيبَهَا، ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِيةُ اجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَهُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشِ - أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشِ - وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِى الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ: لَقَدْ أَصَابَتْ فَلَانًا فَاقَةٌ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَهُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشِ - أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشِ - فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْنًا يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحنا (مسلم كتاب الزكاة باب من تـ المسالة 1716) قبیصہ بن مخارق ہلائی کہتے ہیں میں نے ایک مالی ذمہ داری قبول کرلی تو میں رسول اللہ صلی ایم کی خدمت میں اس بارہ میں سوال کے لئے گیا.آپ نے فرمایا ٹھہر و یہاں تک کہ ہمارے پاس صدقہ کا مال آجائے.پھر ہم تمہارے لئے اس کے بارہ میں حکم دیں گے.وہ کہتے ہیں آپ نے فرمایا اے قبیصہ سوال کرنے کی تین میں سے ایک کو اجازت ہے.وہ شخص جو مال کی ذمہ داری اٹھائے اس کے لئے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ وہ اس کو حاصل کر لے پھر وہ ( سوال سے رک جائے ایک وہ شخص جس پر کوئی ایسی مصیبت آئے جو اس کے مال کو ضائع کر دے اس کے لئے سوال کرنا جائز ہے.یہانتک کہ اس کی معیشت کے لئے سہارا مل جائے یا معیشت کا رخنہ بھر جائے اور ایک وہ شخص جسے فاقے کا سامنا ہو.یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین سمجھدار لوگ گواہی دیں کہ فلاں شخص کو
611 فاقہ نے آلیا ہے تو اس کے لئے سوال جائز ہے یہانتک کہ اس کی معیشت کے لئے سہارا مل جائے یا معیشت کارخنہ بھر جائے.اس کے سوا سوال کرنا اے قبیصہ حرام ہے.اس کا مر تکب حرام کھاتا ہے.778 ـ عَنْ سَعِيدٍ الطَانِ أَبِي البَخْتَرِي، أَنَّهُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ الأَنْمَارِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ثَلَاثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأَحَدِثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُونَ قَالَ مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلِمَةً صَبَرَ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا، وَلَا فَتح عَبْد بَاب مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ بَاب فَقَرٍ أَوْ كَلِمَةٌ تَحْوَهَا وَأَحَدِثُكُمْ حَدِيقًا فَاحْفَظُوهُ فَقَالَ إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ، عَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَثْقِي فِيهِ رَبَّهُ، وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ، وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا، فَهَذَا بِأَفْضَلِ المَنَازِلِ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقُهُ مَالًا فَهُوَ صَادِقُ النِيَّةِ يَقُولُ لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ نِيَّتُهُ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا ، فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبِّهُ، وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ، وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا، فَهَذَا بِأَخْبَكِ المَنَازِلِ، وَعَبْد لَمْ يَرْزُقُهُ اللهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَهُوَ يَقُولُ لَوْ أَنَّ فِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلانٍ فَهُوَ نِيَّتُهُ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ (ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء مثل الدنيا مثل اربعة نفر (2325 حضرت ابو کبشہ انماری سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی علی یم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین باتوں کے مؤثر ہونے کے بارہ میں میں قسم کھا سکتا ہوں تم ان باتوں کو یا در کھو.اول یہ کہ صدقہ سے کسی کا مال کم نہیں ہو تا.دوسرے کوئی مظلوم جب ظلم پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کو عزت دیتا ہے.تیسرے جب کوئی انسان اپنے لئے سوال اور مانگنے کا دروازہ کھول لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ غربت اور احتیان کا دروازہ اس پر کھول دیتا ہے.یاد رکھو دنیا میں رہنے والے چار قسم کے انسان ہو سکتے ہیں ایک وہ جس کو اللہ تعالی نے مال اور علم دیا اور وہ
612 اس نعمت کی وجہ سے اپنے رب سے ڈرتا ہے، رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے.یہ تو سب سے اعلیٰ درجہ کا انسان ہے.دوسر اوہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا لیکن مال نہیں دیا اور سچی نیت سے کہتا ہے کہ اگر مجھے مال بھی ملتا تو میں فلاں سخی کی طرح اپنے مال کو خرچ کرتا.ایسے شخص کو اس کی نیت کا ضرور ثواب ملے گا اور پہلے آدمی کے برابر اس کا درجہ ہو گا.تیسر اوہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال تو دیا ہے لیکن علم نہیں دیا.چنانچہ وہ اپنے مال کو سوچے سمجھے بغیر بے جا خرچ کرتا ہے اور اس خرچ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا.صلہ رحمی اور رشتہ داروں حسن سلوک نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کے حق کو نہیں پہچانتا.یہ انسان بڑا بد قسمت اور بد کردار ہے.چوتھے وہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ مال دیا ہے اور نہ علم، لیکن آرزور کھتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہو تو میں بھی اس بد کردار شخص کی طرح اسے خرچ کروں اور عیش و عشرت میں زندگی بسر کروں.پس ایسے بد نہاد شخص کو بھی اس کی نیت کا بدلہ ملے گا اور اس کا انجام اس تیسرے شخص کی طرح بلکہ اس سے بھی بد تر ہو گا.779ـ أَنَّ عَطَاءَ بْن يَسَارٍ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْن أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَا سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ المِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ وَالشَّمْرَتَانِ، وَلَا اللَّقْمَةُ وَلَا اللَّقَمَتَانِ، إِنَّمَا المِسْكِينُ الَّذِي يَتَعَفَّفُ (بخاری کتاب التفسير باب لا يسالون الناس الحافا (البقرة (273) 4539) عطاء بن یسار اور عبد الرحمن بن ابی عمرہ انصاری دونوں نے کہا کہ ہم نے حضرت ابوہریرہ سے سنا.وہ کہتے تھے کہ نبی صلی الم نے فرما یا مسکین وہ نہیں جس کو ایک کھجور یا دو کھجوریں لوٹا دیں اور نہ وہ جس کو ایک لقمہ یا دو لقمے لوٹا دیں بلکہ مسکین تو وہ شخص ہے جو سوال کرنے سے بچتار ہے.
613 780ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ المِسْكِينُ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقَمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالشَّمْرَةُ وَالشَّمْرَتَانِ، وَلَكِنِ المِسْكِينُ الَّذِي لَا يَجِدُ عَنِّى يُغْنِيهِ، وَلَا يُفْطَنُ بِهِ، فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ وَلَا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ (بخاری کتاب الزكاة باب قول الله تعالى لا يسالون الناس الحافا (البقرة 273) 1479) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے پاس گھومتا پھرے.ایک دو لقے اور ایک دو کھجور میں اُس کو دربدر لے جائیں.بلکہ مسکین وہ ہے جو اتنا مال نہیں پاتا کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کر دے اور نہ اُس کا حال کسی کو معلوم ہو کہ اس کو صدقہ دے اور نہ وہ اُٹھ کر لوگوں سے سوال کرتا پھرتا ہو.میانہ روی اور متوازن زندگی 781.عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الِاقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ، وَالتَّوَدُّدُ إِلَى النَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَحُسْنُ السُّؤَالِ نِصْفُ الْعِلْمِ (شعب الايمان الثانى والاربعون من شعب الايمان و هو باب الاقتصاد في النفقة و تحريم اكل المال الباطل 6568) حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال نیلم نے فرما یا اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے اور لوگوں سے محبت سے پیش آنا نصف عقل ہے اور سوال کو بہتر رنگ میں پیش کر نانصف علم ہے.عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الِاقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيشَةِ وَالتَّوَذُدُ إِلَى النَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ وَحُسْنُ السُّؤَالِ نِصْفُ الْعِلْمِ (مشكاة المصابيح كتاب الادب باب الحذر والتانى الفصل الثالث 5067)
614 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے اور لوگوں سے محبت سے پیش آنا نصف عقل ہے اور سوال کو بہتر رنگ میں پیش کر نا نصف 782 - عن محمد بن سيرين، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَرَاهُ رَفَعَهُ، قَالَ أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْنًا مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْمًا مَا، وَأَبْغِضُ بَغِيضَكَ هَوْنًا مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْمًا مَا (ترمذی کتاب البر والصله باب ما جاء فى الاقتصاد فى الحب والبغض 1997) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی للی یکم نے فرمایا اپنے دوست سے اعتدال کے اندر رہ کر محبت کرو کیونکہ عین ممکن ہے کہ کل کلاں وہی شخص تیرا دشمن بن جائے اور اسی طرح اپنے دشمن سے بھی حد کے اندر رہ کر دشمنی رکھ کیونکہ ممکن ہے کہ وہی کل تیر ا دوست بن جائے (اور پھر کی ہوئی زیادتیوں پر تو شر مندہ ہوتا پھرے).783 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَ مِنْ أَخْلَاقِ الْإِيمَانِ: مَنْ إِذَا غَضِبَ لَمْ يُدْخِلْهُ غَضَبُهُ فِي بَاطِلٍ وَمَنْ إِذَا رَضِيَ لَمْ يُخْرِجْهُ رِضَاهُ مِن حَق وَمَنْ إِذَا قَدَرَ لَمْ يَتَعَاطَ مَا لَيْسَ لَهُ (المعجم الصغير للطبرانى ، باب الالف ، من اسمه احمد جلد 1صفحه61) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا تین اخلاق ایمان کا تقاضا ہیں.اول یہ کہ جب کسی مومن کو غصہ آئے تو غصہ اسے باطل اور گناہ میں مبتلا نہیں کر سکتا اور جب وہ خوش ہو تو اس کی خوشی اسے حق سے باہر نکلنے نہیں دیتی وہ خوشی میں بھی اعتدال کو نہیں چھوڑتا ) اور جب اسے قدرت اور اقتدار ملتا ہے تو (اس وقت بھی) وہ اپنے حق سے زیادہ نہیں لیتا (یعنی جو اس کا نہیں اس کو لینے کے لئے کوشش نہیں کرتا).
615 784 - عن أبي هريرةَ، عَنِ النّينِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الَّذِينَ يُنتر، وَلَن يُقَاذَ الذينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدَدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْثِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَة وَشَيْءٍ من الناتجة بخاری کتاب الایمان باب الدين يسر (39) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی یی کم نے فرمایا دین تو آسان ہے اور جو کوئی بھی دین میں حد سے بڑھے گا تو دین اس کو مغلوب کر دے گا.اس لئے ٹھیک راہ چلو اور حدود کے قریب قریب رہو اور خوش رہو اور صبح و شام دعاوذ کر سے اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرتے رہو اور ایسا ہی کچھ پچھلی رات کو بھی.785 - أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُوهَا، فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ أَنَّكُمُ الَّذِينَ قُلَهُمْ كَذَا وَكَذَا؟ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِي أَصُومُ وَأَفْطِرُ، وَأَصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَن رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِي بخارى كتاب النكاح باب الترغيب في النكاح 5063) حضرت انس بن مالک بیان فرماتے تھے کہ تین شخص نبی صلی ایم کی از اوج مطہرات کے گھروں میں آئے اور پوچھنے لگے کہ نبی صلی اللہ ہم کس طرح عبادت کیا کرتے تھے.جب انہیں بتلایا گیا ایسا معلوم ہو تا تھا کہ انہوں نے
616 اسے کم خیال کیا.وہ کہنے لگے.نبی صلی اللیل کم سے ہمیں کیا نسبت؟ اللہ نے انہیں جو بھی ان سے پہلے قصور ہو چکے یا بعد میں ہونے والے تھے سب معاف کر دیئے.ان میں سے ایک نے کہا میں رات بھر نماز پڑھتارہتا ہوں گا اور دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں گا اور افطار نہیں کروں گا اور تیسرے نے کہا میں عورت سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا.رسول صلی اللہ تم آئے آپ نے فرمایا کیا تم وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسا ایسا کہا ہے ؟ سنو اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ کے حضور عاجزی کرتا ہوں اور تم سے زیادہ اس (کی ناراضگی ) سے ڈر تاہوں مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں.سو جس نے میرے طریقے کو نا پسند کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَغْضَبْ حَتَّى يُعْرَفَ الغَضَبْ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ يَقُولُ إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمُكُمْ بِالله أنا (بخاری کتاب الایمان باب قول النبی الله انا اعلمكم بالله...20) حضرت عائشہ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی لیم جب کبھی صحابہ کو کسی کام کے کرنے کا حکم دیتے تو آپ صرف انہیں ایسے کاموں کا حکم دیتے جن کو وہ کر سکتے.صحابہؓ کہتے : یار سول اللہ ! ہم تو آپ جیسے نہیں ہیں.اللہ تعالی نے آپ کی پہلی اور پچھلی کو تاہیاں معاف کر دی ہیں.اس بات پر آپ کو اتنا رنج ہوا کہ آپ کے چہرہ سے ظاہر ہونے لگا.پھر آپ نے فرمایا کہ تم میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے والا اور سب سے زیادہ عارف باللہ میں ہوں.
617 786ـ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرًا فَتَرَخَّصَ فِيهِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِهِ ، فَكَأَنَّهُمْ كَرِهُوهُ وَتَنَزَّهُوا عَنْهُ، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ، فَقَامَ خَطِيبًا فَقَالَ مَا بَالُ رِجَالٍ بَلَغَهُمْ عَنِي أَمْرُ تَرَخَصْتُ فِيهِ، فَكَرِهُوهُ وَتَنَزَّهُوا عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لَأَنَا أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ، وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةٌ (مسلم کتاب الفضائل باب لعلمه الا الله و بالله تعالی و شدتہ خشیتہ 4331) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یوم نے کوئی کام کیا اور اس میں رخصت پر عمل کیا.آپ کے صحابہ میں سے بعض لوگوں کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے گویا اسے ناپسند کیا اور اس سے بچنا چاہا.حضور صلی علیکم کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اُن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہیں میری طرف سے بات پہنچی جس میں میں نے رخصت پر عمل کیا لیکن انہوں نے اسے ناپسند کیا اور اس حکم سے بچنا چاہا.اللہ کی قسم ! میں اللہ کے بارہ میں ان سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور اس کی خشیت بھی ان سے زیادہ رکھتا ہوں.787ـ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَتْ عِنْدِى امْرَأَةٌ، فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ مَنْ هَذِهِ؟ قُلْتُ فُلَانَةُ، لَا تَنَامُ تَذْكُرُ مِنْ صَلَاتِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهُ، عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ، فَوَاللهِ لَا يَمَلُّ اللهُ حَتَّى تَمَلُّوا ، قَالَتْ وَكَانَ أَحَبَّ الذِينَ إِلَيْهِ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ ابن ماجه كتاب الزهد باب المداومة على العمل 4238) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت بیٹھی تھی اور نبی صلی الی یکم گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ فلاں (اپنی نماز کا ذکر کرتی ہے ) جو سوتی نہیں.اس پر نبی صلی الم نے فرما یا بس.تم پر وہ لازم ہے جس کی تم طاقت رکھتے ہو.بخدا اللہ نہیں اکتا تا مگر تم اکتا جاؤ گے.حضرت عائشہ نے فرمایا: آپ کو سب سے زیادہ پیارا دین وہ تھا جس کو کرنے والا اس پر باقاعدگی اختیار کرے.
618 788ـ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي مُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِلَةٌ، فَقَالَ لَهَا مَا شَأْنُكِ ؟ قَالَتْ أَخُوكَ أَبو الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، فَجَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ كُل ؟ قَالَ فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ مَا أَنَا بِاكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُومُ ، قَالَ لَمْ ، فَنَامَ ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ فَقَالَ لَمْ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قَالَ سَلْمَانُ ثُم الآنَ، فَصَلَّيَا فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِى حَقٍ حَقَهُ، فَأَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ سَلْمَانُ (بخاری کتاب الصوم باب من اقسم على اخيه ليفطر في التطوع......1968) عون بن ابی جحیفہ اپنے باپ ( وہب بن عبد اللہ سوائی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا نبی صلی ا ہم نے حضرت سلمان اور حضرت ابو دردا کو آپس میں بھائی بھائی بنایا.حضرت سلمان حضرت ابو در دانہ سے ملنے گئے تو انہوں نے حضرت ام در دار کو دیکھا کہ انہوں نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں.انہوں نے اُن سے پوچھا تمہارا یہ کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگیں: تمہارے بھائی ابو دردار کو دنیا میں کوئی حاجت نہیں.اتنے میں حضرت ابو دردار آئے تو انہوں نے حضرت سلمان کے لئے کھانا تیار کیا اور اُن سے کہا آپ کھائیں (اور) کہا میں تو روزہ دار ہوں.حضرت سلمان نے کہا میں اس وقت تک ہر گز نہ کھاؤں گا جب تک آپ نہ کھائیں.(وہب نے ) کہا حضرت ابو دردار نے کھانا کھایا اور جب رات ہوئی تو حضرت ابو درداء کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے.(حضرت سلمان نے) کہا سوئیں.تو وہ سو گئے.پھر نماز کے لئے اُٹھنے لگے تو انہوں نے کہا ابھی سوئیں.جب رات کا آخری حصہ ہوا تو حضرت سلمان نے کہا اب اُٹھیں اور دونوں نے نماز پڑھی اور حضرت سلمان نے اُن سے کہا تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے نفس کا بھی اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے.اس لئے ہر حق والے
619 کو اُس کا حق دے.حضرت ابو دردائے نبی صلی ایم کے پاس آئے اور آپ سے اس بات کا ذکر کیا تو نبی صلی یکم نے اُن سے فرمایا سلمان نے سچ کہا ہے.789.عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى شَيْخًا يُهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ، قَالَ مَا بَالُ هَذَا ؟ ، قَالُوا: نَذَرَ أَنْ يَمْشِي، قَالَ إِنَّ اللهَ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ لَغَنِيٌّ وَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ (بخاری کتاب جزاء الصيد باب من نذر المشى الى الكعبة 1865) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.(انہوں نے کہا) نبی صلی لینکم نے ایک بوڑھے کو دیکھا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان سہارا لئے چلا جارہا ہے.آپؐ نے فرمایا اس کی یہ کیا حالت ہے ؟ انہوں نے کہا اس نے نذر مانی تھی کہ وہ (حج کیلئے ) پیدل جائے گا.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تو اس بات سے بے نیاز ہے کہ یہ اپنے تئیں دکھ میں ڈالے اور آپ نے اس سے فرمایا سوار ہو جاؤ.790 - عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى رُخَصُهُ كَمَا يُحِبُّ أَن تُوَلَّى عَزَائِمُهُ (صحیح ابن حبان ، کتاب الصوم ، باب صوم المسافر ، ذِكْرُ الْخَبَرِ الدَّانِ عَلَى أَنَّ الْإِفْطَارَ فِي السَّفَرِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ 3568) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو یہ بات بڑی پسند ہے کہ اس کی طرف سے دی ہوئی رخصت پر عمل کیا جائے اور اس رعایت سے فائدہ اٹھایا جائے جس طرح اسے یہ بات پسند ہے کہ (اگر کوئی عذر نہ ہو تو ) عزیمت اور اصل حکم عمل کیا جائے ( تعمیل حکم اور رعایت کے موقع پر رعایت سے فائدہ اٹھانا یہی حقیقی فرمانبرداری ہے).
620 عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى رُخَصُهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ تُؤْتَى مَعْصِيَتُهُ (صحیح ابن حبان ، كتاب الصلاة ، فصل فى صلاة السفر باب ذكر استحباب قبول الرخصة الله......2742) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو رخصتوں اور رعایتوں سے فائدہ اٹھانا اسی طرح پسند ہے ( اور اس پر وہ خوش ہوتا ہے ) جس طرح نافرمانی اور حکم عدولی اسے ناپسند ہے (اور اس پر وہ ناراض ہو تا ہے).791 - عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيْدِي، قَالَ - وَكَانَ مِنْ كُتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ لَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ كَيْفَ أَنْتَ ؟ يَا حَنْظَلَةُ قَالَ قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَةُ، قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ قُلْتُ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُذْكُرْنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ، حَتَّى كَأَنَا رَأَى عَيْنٍ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ، فَنَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَوَاللهِ إِنَّا لَنَلْقَى مِثْلَ هَذَا، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَهُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاكَ ؟ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ نَكُونُ عِنْدَكَ، تُذَكَّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ، حَتَّى كَأَنَا رَأَى عَيْنٍ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ، عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ، نَسِينَا كَثِيرًا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِى، وَفِي الذِكرِ ، لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ، وَلَكِن يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً ثَلَاثَ مَرَّاتٍ (مسلم کتاب التوبة باب فضل دوام الذكر و الفكر فى الامور الآخرة 4923)
621 حضرت حنظلہ الأسيدي جو رسول اللہ صلی علی یکم کے کاتبوں میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر مجھے ملے اور کہا حنظلہ تم کیسے ہو ؟ وہ کہتے ہیں میں نے کہا حنظلہ منافق ہو گیا ہے.حضرت ابو بکر نے کہا سبحان اللہ ! یہ تم کیا کہہ رہے ہو.حضرت حنظلہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی علیکم کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں دوزخ اور جنت یاد کراتے ہیں یہانتک کہ گویا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں لیکن جب ہم رسول اللہ صلی الیکم کے پاس سے نکلتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائیدادوں میں مشغول ہوتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں.اس پر حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم پر بھی یہی گذرتی ہے.وہ کہتے ہیں پھر میں اور حضرت ابو بکر چل پڑے یہانتک کہ ہم رسول اللہ صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر ہوئے.میں نے عرض کیا یار سول اللہ ! حنظلہ منافق ہو گیا ہے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں دوزخ اور جنت یاد کر ا دیتے ہیں یہانتک کہ گویا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں لیکن جب ہم آپ کے پاس سے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائیدادوں میں پڑ جاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ نیلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس میں تم میرے پاس ہوتے ہو اور ذکر میں ہوتے ہو تو ضرور فرشتے تمہارے بچھونوں پر اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کرتے لیکن اسے حنظلہ ! یہ وقت وقت کی بات ہے.یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا.
622 قناعت اور سادگی 792ـ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ مِحْصَنٍ الخَطْمِي، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَتْ لَهُ مُحْبَةٌ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ يَمْلِكُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا (ترمذى كتاب الزهد باب فى توكل على الله 2346) حضرت عبید اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے اس نے گویا ساری دنیا جیت لی اور اس کی ساری نعمتیں اسے مل گئیں.793 - سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبْلِي، يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ أَلَسْنَا مِنْ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: أَلَكَ امْرَأَةٌ تَأْوِى إِلَيْهَا ؟ قَالَ نَعَمْ، قَالَ أَلَكَ مَسْكَنَ تَسْكُنُهُ ؟ قَالَ نَعَمْ، قَالَ فَأَنْتَ مِنَ الْأَغْنِيَاءِ، قَالَ فَإِنَّ لِي خَادِمًا، قَالَ فَأَنتَ مِنَ الْمُلُوكِ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الدنيا سجن للمومن وجنة الكافر 5276) ابو عبد الرحمان مخبلی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص کو کہتے ہوئے سناجب ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ کیا ہم درویش مہاجرین میں سے نہیں ہیں ؟ تو حضرت عبد اللہ نے اس سے کہا کیا تمہاری بیوی ہے جس کے پاس تم رہتے ہو ؟ اس نے کہا ہاں انہوں نے کہا کیا تمہارا گھر ہے جس میں تم رہ سکو ؟ اس نے کہا ہاں.انہوں نے کہا پھر تو تم اغنیاء میں سے ہو.اس نے کہا میرا تو خادم بھی ہے.انہوں نے کہا پھر تو تم بادشاہوں میں سے ہو.
623 دو 794- حَدَّثَنَا عَلِيُّ ، أَنَّ فَاطِمَةَ اشْتَكَتْ مَا تَلْقَى مِنَ الرَّحَى فِي يَدِهَا، وَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْى، فَانْطَلَقَتْ، فَلَمْ تَجِدُهُ وَلَقِيَتْ عَائِشَةَ، فَأَخْبَرَتْهَا فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ عَائِقَةُ بمجيء قاصة إِلَيْهَا، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا، وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا، فَذَهَبْنَا نَقُومُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَكَانِكُمَا فَقَعَدَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمِهِ عَلَى صَدْرِي، ثُمَّ قَالَ أَلَا أُعَلِّمُكُمَا خَيْرًا هِمَا سَأَلْتُها، إِذَا أَخَذْ تُمَا مَضَاجِعَكُمَا ، أَنْ تُكَبْرَا اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، وَتُسَبحَاهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدَاهُ فَلَانًا وَثَلَاثِينَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ (مسلم كتاب الذكر والدعا...باب التسبيح اول النهار وعند النوم 4892) رض حضرت علی نے بیان فرمایا کہ حضرت فاطمہ نے چکی چلانے سے اپنے ہاتھ میں تکلیف کی شکایت کی اور نبی صلی اللی نیم کے پاس کچھ قیدی آئے تھے تو وہ (حضور کی طرف) گئیں اور آپ کو نہ پایا.آپ حضرت عائشہ سے ملیں اور (ان کو) بتایا.جب نبی تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے حضرت فاطمہ کے اپنے ہاں آنے کا بتایا.(حضرت علی کہتے ہیں) تو نبی ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے.ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو.پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے یہا تک کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینہ پر محسوس کی.آپ نے فرمایا کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر بات نہ بتاؤں جو تم نے مانگا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو تو چونیتس 34 مرتبہ اللہ اکبر کہو، تنیس 3 33 وقعه سبحان اللہ کہو اور تنتمیں 33 دفعہ الحمد للہ کہو.یہ تم دونوں کے لئے خادم سے زیادہ بہتر ہے.795 - عَنْ سَالِمٍ : أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْن عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي العَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِي،
624 فَقَالَ خُذْهُ إِذَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا المَالِ شَيْ: وَأَنتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتَّبِعْهُ نَفْسَكَ (بخارى كتاب الزكاة باب من اعطاه الله شيئا من غير مسالة و لا...1473) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ سے سنا.وہ کہتے تھے رسول اللہ صلی علیکم مجھے وظیفہ دیتے تو میں کہتا آپ اُن کو دیجئے جو مجھ سے زیادہ اس کے محتاج ہوں تو آپ فرماتے اس مال میں سے جب کچھ تمہارے پاس آئے تو اُسے ایسی حالت میں لے لو جبکہ تم نہ خواہشمند ہو اور نہ سائل اور جو نہ ملے تو اپنے نفس کو اُس کے پیچھے مت لگاؤ.عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْطِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الْعَطَاءَ، فَيَقُولُ لَهُ عُمَرُ : أَعْطِهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُذْهُ فَتَمَوَّلَهُ أَوْ تَصَدَّقُ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا ، فَلَا تُتَّبِعْهُ نَفْسَكَ قَالَ سَالِمٌ : فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا وَلَا يَرُدُّ شَيْئًا أُعْطِيَهُ (مسلم کتاب الزكاة باب اباحة الاخذ لمن اعطى من غير مسالة...1718) سالم بن عبد اللہ بن عمرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یی کم حضرت عمرؓ کو کچھ عطا فرماتے تو حضرت عمر آپ سے عرض کرتے یار سول اللہ ! اسے اس شخص کو عطا فرما دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورتمند ہے.رسول اللہ صلی علی کریم نے ان سے فرمایا یہ لے لو اور اس سے مالی فائدہ اٹھاؤ یا اس کو صدقہ کر دو اور وہ مال جو تمہیں بغیر حرص کے اور بن مانگے ملے اولے اور نہ اس کے پیچھے مت پڑو.سالم کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اسی وجہ سے کسی سے کوئی چیز نہیں مانتے تھے اور جو چیز آپ کو دی جاتی اسے رڈ نہیں کرتے تھے.
625 796 - حَدَّثَنَا عَمْرُو بْن تَغْلِبَ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي بِمَالٍ - أَوْ سَبي فَقَسَمَهُ، فَأَعْطَى رِجَالًا وَتَرَكَ رِجَالًا، فَبَلَغَهُ أَنَّ الَّذِينَ تَرَكَ عَتَبُوا، فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ أَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، وَأَدَعُ الرَّجُلَ، وَالَّذِي أَدَعُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الَّذِي أُعْطِى، وَلَكِنْ أُعْطِي أَقْوَامًا لِمَا أَرَى فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الجَزَعِ وَالهَلَعِ، وَأَكُلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الغِنَى وَالخَيْرِ، فِيهِمُ عَمْرُو بْن تَغْلِبَ فَوَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحمرٌ النَّعَمِ (بخاری کتاب الجمعة باب من قال فى الخطبة بعد الثناء اما بعد923) حضرت عمرو بنت تغلب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال یا کوئی چیز لائی گئی.آپ نے وہ بانٹ دی.آپ نے بعض آدمیوں کو دیا اور بعض کو نہ دیا.پھر آپ کو یہ خبر پہنچی کہ جن لوگوں کو آپ نے چھوڑ دیا تھا.وہ کچھ ناراض ہیں.آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور اس کی تعریف کی.پھر فرمایا اما بعد ، اللہ کی قسم ! میں ایک شخص کو دیتا ہوں ( اور ایک شخص کو چھوڑ دیتا ہوں) اور حالانکہ جسے چھوڑ تا ہوں.وہ مجھ کو زیادہ پیار ا ہوتا ہے بہ نسبت اس کے جسے میں دیتا ہوں.لیکن میں بعض لوگوں کو اس لئے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں بے چینی اور بے صبری دیکھتا ہوں اور بعض لوگوں کو اس سیر چشمی اور بھلائی کے حوالہ کر دیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہوتی ہے.انہی لوگوں میں عمرو بن تغلب بھی ہیں ( یہ کہتے تھے ) بخدا! میں ہر گز پسند نہیں کرتا که رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کے مقابل میں مجھے سرخ اونٹ ملتے.797- عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي قَالَ لَمَّا أَعْطَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَى مِنْ تِلْكَ الْعَطَايَا فِي قُرَيْشٍ وَقَبَائِلِ الْعَرَبِ ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْأَنْصَارِ مِنْهَا شَيْءٌ وَجَدَ هَذَا الْحَيُّ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي أَنْفُسِهِمْ، حَتَّى كَثُرَتْ فِيهِمُ الْقَالَةُ حَتَّى قَالَ قَائِلُهُمْ: لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمَهُ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ هَذَا الْحَقِّ قَدْ
626 وَجَدُوا عَلَيْكَ فِي أَنْفُسِهِمْ لِمَا صَنَعْتَ فِي هَذَا الْفَيْءِ الَّذِي أَصَبْتَ، قَسَمْتَ فِي قَوْمِكَ، وَأَعْطَيْتَ عَطَايَا عِظَامًا فِي قَبَائِلِ الْعَرَبِ، وَلَمْ يَكُ فِي هَذَا الْحَيِ مِنَ الْأَنْصَارِ شَيْءٌ، قَالَ 6 فَأَيْنَ أَنْتَ مِنْ ذَلِكَ يَا سَعْدُ ؟ قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ ، مَا أَنَا إِلَّا امْرُؤٌ مِنْ قَوْمِي، وَمَا أَنَا ؟ قَالَ فَاجْمَعْ لِي قَوْمَكَ فِي هَذِهِ الْحَظِيرَةِ ، قَالَ فَخَرَجَ سَعْدٌ، فَجَمَعَ الناس فِي تِلْكَ الْحَظِيرَةِ، قَالَ فَجَاءَ رِجَالٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَتَرَكَهُمْ، فَدَخَلُوا وَجَاءَ آخَرُونَ، فَرَدَّهُمْ، فَلَهَا اجْتَمَعُوا أَتَاهُ سَعْدٌ فَقَالَ في اجتمع لكَ هَذَا الْحَى مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلْ ثُمَّ قَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ مَا قَالَةٌ بَلَغَتْنِي عَنْكُمْ وَجِدَةٌ وَجَدْتُمُوهَا فِي أَنْفُسِكُمْ، أَلَمْ آتِكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمُ اللهُ ؟ وَعَالَةٌ فَأَغْنَاكُمُ اللهُ؟ وَأَعْدَاء فَأَلَّفَ اللهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ؟ قَالُوا: بَل الله وَرَسُولُهُ أَمَنْ وَأَفْضَلُ.قَالَ أَلَا تُجيبوتي يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالُوا: وَبِمَاذَا نُجِيبُكَ يَا رَسُولَ اللهِ ، وَلِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ الْمَنُ وَالْفَضْلُ.قَالَ أَمَا وَاللَّهِ لَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ فَلَصَدَقْتُمْ وَصُدِقْتُمْ ، أَتَيْتَنَا مُكَذَّبًا فَصَدَّقْنَاكَ، وَفَخُذُولًا فَنَصَرْنَاكَ وَطَرِيدًا فَأَوَيْنَاكَ ، وَعَائِلًا فَآسَيْنَاكَ أَوَجَدْتُهُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ فِي لُعَاعَةٍ مِنَ الدُّنْيَا، تَأَلَّفْتُ بِهَا قَوْمًا لِيُسْلِمُوا، وَوَكَلْتُكُمْ إِلَى إِسْلَامِكُمْ ؟ أَفَلَا تَرْضَوْنَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ ، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللهِ فِي رِحَالِكُمْ ؟ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأَ مِنَ الْأَنْصَارِ ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ شِعْبًا، وَسَلَكَتِ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَسَلَكْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْأَنْصَارَ ، وَأَبْنَاءَ الْأَنْصَارِ، وَأَبْنَاءَ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ قَالَ فَبَكَى الْقَوْمُ، حَتَّى أَخْضَلُوا لِحَاهُمْ ، وَقَالُوا: رَضِينَا بِرَسُولِ اللَّهِ قِسْمًا وَحَظًا، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقُوا (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابه ، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ 11753)
627 حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الیکم نے قریش اور عرب کے قبائل میں وہ تمام مال غنیمت تقسیم فرما دیا جو فتح ہوازن و حنین میں ہاتھ لگا تھا اور انصار کو کچھ نہ ملاتو انصار کے کچھ لوگوں نے اپنے دلوں میں انتہاض محسوس کیا.یہاں تک کہ اس بارہ میں چہ میگوئیاں بڑھ گئیں.اور کسی کہنے والے نے یہ بھی کہہ دیا کہ اب کیا ہے اب تو رسول اللہ صلی الی یکی اپنی قوم سے آملے ہیں اب ہماری ضرورت نہیں رہی) انصار میں سے سعد بن عبادہ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضور صلی یکم آپ کی اس تقسیم کی وجہ سے کچھ انصار کے دل میں شکوک پیدا ہو گئے ہیں کہ آپ صلی علیہم نے اپنی قوم کو مال غنیمت میں سے اتنے بڑے بڑے عطیات مرحمت فرمائے ہیں اور انصار کو کچھ نہیں ملا.حضور نے فرمایا اے سعد ! تم کہاں تھے لوگوں کو سمجھانا تھا.سعد نے عرض کیا حضور! میں بھی تو اس قوم کا ایک فرد ہوں.میری کون سنتا ہے.آپ نے فرمایا سعد اپنی قوم اس چوپال میں جمع کرو میں ان سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.سعد" انصار کو چوپال میں جمع کرنے لگے.مہاجرین میں سے بھی چند لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دی اور باقی مہاجرین کو لوٹا دیا.جب تمام انصار اکٹھے ہو گئے تو آپ کو اطلاع دی کہ لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں.ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ پھر آپ تشریف لائے اور حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے انصار ! تم نے جو گلے شکوے کئے ہیں وہ مجھ تک پہنچے ہیں.اے انصار سوچو تو میں تمہارے پاس اس وقت آیا تھا جب تم بھٹکے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں ہدایت دی.تم تنگ دست تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں دولت مند بنایا.تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا.کیا یہ سب سچ نہیں.انصار نے عرض کیا کیوں نہیں، خدا اور اس کے رسول کا یہ بڑا فضل و احسان ہے.حضور نے فرمایا اے انصار ! تم میری ان باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انصار نے عرض کیا.ہم کیا جواب دیں.ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے زیر احسان ہیں.آپ نے فرمایا تم اگر چاہو تو یہ جواب دے سکتے ہو اور یہ جواب صحیح ہو گا کہ آپ ہمارے پاس اس حالت میں آئے جب آپ صلی علی کم کی قوم نے آپ کو جھٹلایا اور تکذیب کی اور ہم نے اس وقت آپ صلی میں کمی کی تصدیق کی.آپ پریشان حال ہمارے پاس آئے ہم نے آپ کی مدد کی.آپ ہمارے
628 پاس بے گھر ہو کر آئے ہم نے آپ کو پناہ دی.آپ محتاج اور بے سروسامان ہو کر آئے ہم نے آپ صلی یک کم کی محتاجی دور کی اور آپ صلی علیہم کا سہارا بنے.اے انصار ! کیا تم ان دنیاوی چمک دمک کے سامانوں کی وجہ سے اپنے دلوں میں انقباض محسوس کرتے ہو جو میں نے قریش اور قبائل عرب کے نو مسلموں کو ان کی دلجوئی اور تالیف قلب کے طور پر دیئے ہیں.اے انصار کیا تم اس بات سے خوش نہیں کہ لوگ تو اپنے گھر بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم اپنے ساتھ اللہ کے رسول کو لے جاؤ.خدا کی قسم! جس کے قبضے اور اختیار میں محمد صلی للی کم کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی میں بھی انصار کا ایک فرد ہو تا.اگر تمام لوگ ایک وادی اور ایک راہ پر چلیں اور انصار کوئی اور راہ اختیار کریں تو میں انصار کے ساتھ چلوں گا.اے اللہ ! تو انصار پر رحم فرما.انصار کی اولا د پر رحم فرما.انصار کی اولاد کی اولاد پر رحم فرما.حضور کی اس تقریر کو سن کر انصار زار از ر روئے یہاں تک کہ ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں اور عرض کیا حضور ! ہم آپ صلی ہم سے راضی ہیں آپ کی تقسیم پر راضی ہیں.کچھ نا سمجھ لوگوں کے منہ سے ایسی ناز بیا با تیں نکلی ہیں اور سنجیدہ اور بزرگ انصار اس سے بیزار ہیں.بہر حال اس صورت حال کو سلجھنے کے بعد رسول اللہ صلی اہلیہ کی اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے.اور لوگ بھی اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے.قَالَ فَقَالَ الْأَنْصَارُ الْمَنُ لِلهِ وَلِرَسُوْلِهِ، وَالْفَضْلُ عَلَيْنَا وَعَلَى غَيْرِنَا، فَقَالَ مَا حَدِيث بَلَغَنِي عَنْكُمْ ؟ فَسَكَتُوْا، فَقَالَ: مَا حَدِيثُ بَلَغَنِي عَنْكُمْ ؟ فَقَالَ فُقَهَاءُ الْأَنْصَارِ أَمَّا رُؤَسَاؤُنَا فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئاً، وَأَمَّا نَاسٌ مِنَّا حَدِيقَةٌ أَسْنَانُهُمْ، قَالُوا يَغْفِرُ اللَّهُ تَعَالَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشاً وَيَتْرُكُنَا وَسُيُوْفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَاعِهِمْ (سيرة الحلبيه ، تتمه باب ذکر مغازيه ، غزوة الطائف ، جلد 3 صفحه 176)
629 راوی کہتے ہیں کہ انصار نے جواب دیا احسان اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے اور فضل ہم پر اور ہمارے غیر پر ہے.آپ نے فرمایا یہ کیا بات ہے جو مجھے تمہاری طرف سے پہنچی ہے ؟ وہ خاموش رہے.آپ نے فرمایا یہ کیا بات ہے جو مجھے تمہاری طرف سے پہنچی ہے ؟ انصار کے سمجھدار لوگوں نے کہا ہمارے سرداروں نے تو کوئی بات نہیں کی لیکن ہمارے نوجوانوں نے کہا ہے.انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی الی یکم کی مغفرت فرمائے ، وہ قریش کو دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کے خون ٹپک رہے ہیں.798 عن جابر بن عَبْدِ اللهِ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَنَاعَةُ كُنز لا يفنى رسالة قشيريه ، باب القناعة صفحه 196) حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ ﷺ نے فرمایا کہ قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.799 - عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَاينِ، فَاسْتَسْقَى، فَأَتَاهُ دِهْقَانٌ بِقَدَحٍ فِضَّةٍ فَرَمَاهُ بِهِ، فَقَالَ إِنِّي لَمْ أَرْمِهِ إِلَّا أَنِّي نَهَيْتُهُ فَلَمْ يَنْتَهِ، وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نهَانَا عَنِ الحَرِيرِ وَالدِيبَاجِ، وَالقُرْبِ فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَقَالَ هُنَّ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَهِيَ لَكُمْ فِي الآخِرَةِ (بخاری کتاب الاشربة باب الشرب في آنية الذهب 5632) ابن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ بن یمان مدائن میں تھے.انہوں نے پانی مانگا تو ایک کسان ان کے پاس چاندی کا پیالہ لایا.آپ نے وہ پیالہ اس پر پھینک دیا اور کہنے لگے.میں نے اسے نہیں پھینکا مگر اس لئے کہ میں نے اس کو روکا ہے اور وہ رکا نہیں اور نبی صلی الینکم نے ریشمی کپڑوں اور دیباج اور سونے چاندی کے برتن میں پینے سے ہمیں روکا اور فرمایا یہ چیزیں دنیا میں ان کے لئے ہیں اور وہ آخرت میں تمہارے لئے ہوں گی.
630 عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْد الله بن عُكَمْ، قَالَ كُنَا مَعَ حُذَيْفَةَ بِالْمَدَائِي، فَاسْتَسْقَى حُذَيْفَةُ، فَجَاءَهُ دِهْقَانٌ بِشَرَابٍ فِي إِنَاءٍ مِنْ فِضَّةٍ فَرَمَاهُ بِهِ، وَقَالَ إِنِّي أُخْبِرُكُمْ أَنِّي قَدْ أَمَرْتُهُ أَنْ لَا يَسْقِيَنِي فِيهِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَا تَشْرَبُوا فِي إِنَّاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَا تَلْبَسُوا الديباج وَالْحَرِير، فَإِنَّهُ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَهُوَ لَكُمْ فِي الْآخِرَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسلم کتاب اللباس والزينة باب تحریم استعمال اناء الذهب والفضة......3835) عبد اللہ بن علیم کہتے ہیں کہ ہم مدائن میں حضرت حذیفہ کے پاس تھے.حضرت حذیفہ نے پانی مانگ تو ایک گاؤں کا نمبر دار چاندی کے برتن میں پانی لے کر آیا.انہوں نے وہ بر تن اس پر دے مارا اور کہا کہ میں تمہیں بتاتی ہوں کہ میں اسے پہلے حکم دے چکا ہوں کہ یہ مجھے اس ( چاندی کے برتن میں (پانی) نہ پلائے کیونکہ رسول اللہ صلی فیلم نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیو اور نہ ہی دیباج اور ریشم پہنو کیونکہ یہ دنیا میں ان کے لئے ہے اور قیامت کے دن آخرت میں تمہارے لئے ہے.دنیا کی محبت سے اجتناب 800 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا شَاعِرٌ كَلِمَةُ لبِيدٍ أَلَا كُل شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِل (مسلم کتاب الشعر باب في انشاء الاشعار وبيان الشعر...4173)
631 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا سب سے سچا کلمہ جو کسی شاعر نے کہا ہے لبید کا یہ کلمہ ہے."سنو اللہ کے سواہر چیز باطل ہے" 801ـ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ نَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً، فَقَالَ مَا لِي وَمَا لِلدُّنْيَا، وَمَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبِ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا (ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء فى اخذ المال بحقه 2377) حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی علی کم چٹائی پر سورہے تھے.جب اٹھے تو چٹائی کے نشان پہلو مبارک پر نظر آئے.ہم نے عرض کیا.یارسول اللہ ! ہم آپ صلی یکم کے لئے نرم سا گدیلہ بنا دیں تو کیا اچھا نہ ہو ؟ آپ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے دنیا اور اس کے آراموں سے کیا تعلق ؟ میں اس دنیا میں اس شتر سوار کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے ستانے کے لئے اترا اور پھر شام کے وقت اس کو چھوڑ کر آگے چل کھڑا ہوا.802- عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ أَخَذَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلّم يمنكبي، فَقَالَ كُن في الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ (بخاری کتاب الرقاق باب قول النبي اماكن فى الدنیا کانک غریب...6416) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے میرے کندھے کو پکڑا اور فرمایا تو دنیا میں اس طرح بسر کر گویا کہ تو مسافر ہے یا راہ چلتا مسافر.
632 803 - عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِي ، قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ يَارَسُولَ اللها دُلَّى عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللهُ وَأَحَبَّنِي النَّاسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ازْهَدُ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللهُ ، وَاذْهَدُ فِيمَا فِي أَيْدِى النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ (ابن ماجه ، كتاب الزهد باب الزهد في الدنيا 4102) حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی علیم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا یارسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں وہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرے اور لوگ مجھ سے محبت کریں.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ اللہ تم سے محبت کرے گا اور اس سے جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے بے رغبت ہو جاؤ لوگ تجھ سے محبت کریں گے.804- عن أبي هريرةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِن وَجَنَّةُ الْكَافِرِ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الدنيا سجن للمومن وجنة الكافر 5242) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے.805 - عَنِ المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمْرُو بْن عَوْفٍ الأَنْصَارِيَّ.....أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْن الْجَزَاحِ إِلَى البَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ البَحْرَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمُ العَلَاءَ بْنَ الحَضْرَتِي، فَقَدِمَ أَبو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنَ البَحْرَيْنِ، فَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ، فَوَافَتْ صَلاةَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى بِهِمُ الفَجْرَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، وَقَالَ أَظُنُّكُمْ قَدْ
633 سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدْ جَاءَ بِشَيْءٍ ؟ قَالُوا: أَجَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ فَأَبْشِرُوا وَأَقِلُوا مَا يَسُرُكُمْ، فَوَاللَّهِ لَا الفَقْرِ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ أَخَشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِكُكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ (بخاری کتاب الجزیہ باب الجزيه و الموادعه مع اہل العرب 3158) رض حضرت عمرو بن عوف انصاری نے جو بنو عامر بن لوئی کے حلیف اور بدر میں شریک تھے.بتایا کہ رسول اللہ صلی علیم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو بحرین کی طرف بھیجا کہ اس کا جزیہ لائیں اور رسول اللہ صلی الیہ کم نے بحرین کے باشندوں سے صلح کر لی تھی اور حضرت علاء بن حضرمی کو ان کا امیر مقرر کیا تھا.حضرت ابو عبیدہ بحرین کا مالیہ لے کر آئے اور انصار نے حضرت ابو عبیدہ کی آمد کی خبر سنی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آکر صبح کی نماز پڑھی.جب آپ فجر کی نماز ان کو پڑھا چکے تو آپ مڑے.صحابہ آپ کے سامنے آ بیٹھے.رسول اللہ صلی علیم نے جب ان کو دیکھا تو آپ مسکرائے اور فرمایا میں سمجھتا ہوں تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے آئے ہیں.انہوں نے کہا ہاں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا پھر تمہیں بشارت ہو اور اسی بات کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے گی.بخدا! تمہارے متعلق مجھے محتاجی کا اندیشہ نہیں.بلکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا تمہارے لئے اس طرح کشادہ نہ ہو جائے جس طرح ان لوگوں پر کشادہ ہوئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور پھر تم اس میں اس طرح ایک دوسرے سے بڑھ کر حرص کرنے لگو جس طرح انہوں نے کی اور یہ حرص تمہیں بھی ویسے ہی ہلاک کر دے جیسے انہیں ہلاک کیا ہے.أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ فَخَرَمَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ.....أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَزَاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ، يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَاحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمُ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِي، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، فَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةً، فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ
634 رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، ثُمَّ قَالَ أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ ؟ فَقَالُوا أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَأَبْشِرُوا وَأَقِلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنِي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ ، كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُهْلِكُكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ (مسلم کتاب الزهد والرئقاق باب الدنيا سجن للمومن وجنة الكافر (5247) حضرت عمرو بن عوف جو بنو عامر بن لوی کے حلیف تھے اور بدر میں رسول اللہ صلی علیم کے ساتھ موجود تھے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو جزیہ لینے کے لئے بحرین بھیجا.رسول اللہ صل اللی کم نے بحرین والوں سے صلح کا معاہدہ کیا تھا اور حضرت علاء حضرمی کو ان پر امیر مقرر فرمایا تھا.حضرت ابو عبیدہ بحرین سے مال لے کر آئے.انصار نے حضرت ابو عبیدہ کے آنے کا سنا تو نماز فجر رسول اللہ صلی الم کے ساتھ ( ادا کرنے کے لئے) پہنچ گئے.جب آپ نے نماز ادا کی تو آپ مُڑے.وہ ان کے سامنے ہوئے تو رسول اللہ صلی الہ یکم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا میر اخیال ہے تم نے سن لیا ہے کہ بحرین سے ابو عبیدہ کچھ لائے ہیں.انہوں نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا خوش ہو جاؤ اور اس بات کی امید رکھو جو تم کو خوش کر دے گی.اللہ کی قسم مجھے تمہارے بارہ میں غربت کا ڈر نہیں ہے ہاں مگر تمہارے بارہ میں یہ ڈر ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کر دی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور پھر تم اس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگو جیسے انہوں نے کیا تھا اور وہ تمہیں ہلاک کر دے جیسے اس نے ان کو ہلاک کیا تھا.806- قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الْإِسْلَامِ (المبسوط فى الفقه الحنفى (للسرخسى) ، كتاب النكاح جلد 4 صفحه (194)
635 آنحضرت صلی الم نے فرمایا اسلام میں رہبانیت نہیں ہے (یعنی عیسائیت کی طرح تجرد اور دنیا سے بے تعلقی کی زندگی گزار نا اسلام میں درست اور پسندیدہ نہیں).خیر خواہی اور تعاون علی البر 807ـ عَنْ تَمِيمِ الدَّارِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الدِّينُ النَّصِيحَةُ قُلْنَا: لِمَنْ ؟ قَالَ لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَيْمَةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ (مسلم کتاب الایمان باب بيان ان الدين النصيحة 74) حضرت تمیم داری سے روایت ہے کہ نبی صلی الیم نے فرمایا کہ دین خیر خواہی اور خلوص (کا نام) ہے.ہم نے عرض کیا کس کے لئے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے لئے اور اس کی کتاب کے لئے اور اس کے رسول صلی ایام کے لئے ، مسلمانوں کے ائمہ اور ان کے عوام کے لئے.-808 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثلاث لا يَغُلُ / يَغِلُّ عَلِمِينَ قَلْبُ مُسْلِمٍ: إخْلاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَمُنَاكَةُ ولاة الأمورٍ، وَلُزُومُ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ رسالة قشيريه ، باب الاخلاص صفحه (242) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ہم نے فرمایا تین باتیں ہیں جن کے بارے میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا.ایک اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص، دوسر احکام کی خیر خواہی، تیسر اجماعت مسلمین کے ساتھ وابستگی.
636 809 - عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا يَزَالُ اللَّهُ تَعَالَى فِي حَاجَةِ الْعَبْدِ مَا دَامَ الْعَبْدُ فِي حَاجَةٍ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ رسالة تشيريه ، باب الفتوة صفحه (261) حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ ہم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس وقت تک انسان کی ضرورتیں پوری کرتارہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے کوشاں رہے.810 - عن أبي هريرة، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِّنْ نَفْسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَشَرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا ، سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَمَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِم السَّكِينَةُ ، وَغَشِيَتُهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَتُهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرهُمُ اللهُ فِيمَن عِندَهُ، وَمَن بَقَا بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعُ بِهِ نَسَبُهُ (مسلم کتاب الذكر والدعا باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن...4853) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا جس نے کسی مؤمن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی تو اللہ اس سے قیامت کے دن کی تکلیفوں میں سے تکلیف دور فرمائے گا اور جو کسی تنگ دست سے آسانی کا معاملہ کرے گا اللہ اس کے لئے دنیا اور آخرت میں سہولت پیدا کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ دنیاو آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.جب تک کوئی بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے اللہ اس بندہ کی مدد کر تا رہتا ہے اور جو حصول علم کی خاطر کسی راستہ پر چلتا ہے اللہ اس کے ذریعہ اس کے لئے جنت کا رستہ آسان کر دیتا ہے اور جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اس کی کتاب پڑھنے کے لئے اور آپس
637 میں ایک دوسرے کو سکھانے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں تو ضرور ان پر سکینت اترتی ہے اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں اپنے حلقے میں لے لیتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر ان میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں اور جس کا عمل اسے ست کرے اس کا نسب اسے تیز نہیں کرے گا.تواضع اور خاکساری، عجز اور انکساری 811 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوِ، إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ (مسلم کتاب البر والصلة باب استحباب العفو والتواضع 4675) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور عفو کرنے سے اللہ بندہ کو عزت میں ہی بڑھاتا ہے اور کوئی بھی اللہ کی خاطر انکساری نہیں کرتا ہے مگر اللہ اس کا درجہ بڑھاتا ہے.812ـ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةٌ تُسَمَّى العَشْبَاءَ، لَا تُسْبَقُ - قَالَ مُحَميدٌ: أَوْ لَا تَكَادُ تُسْبَقُ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ فَسَبَقَهَا، فَشَقَ ذَلِكَ عَلَى المُسْلِمِينَ حَتَّى عَرَفَهُ، فَقَالَ حَقٌّ عَلَى اللهِ أَنْ لَا يَرْتَفِعَ شَيْءٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ (بخاری کتاب الجهاد باب ناقة النبي 2872) - حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا.اس سے آگے کوئی اونٹ نہیں نکل سکتا تھا.محمید کہتے یا یوں کہا کہ) ممکن نہ تھا کہ کوئی اونٹ اس سے آگے نکل سکے.ایک بدوی (نوجوان) اونٹ پر سوار آیا اور وہ اس سے آگے نکل گیا تو مسلمانوں پر یہ شاق گذرا اور نبی صلی للی کم بھی
638 پہچان گئے.آپ نے فرمایا اللہ یہ ضرور کرتا ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بلند ہوتی ہے اسے (کبھی نہ کبھی) ضرور ہی نیچادکھاتا ہے.علم اور بردباری، رافت اور نرمی 813ـ عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرَّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَى الرَّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ، وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ (مسلم کتاب البر والصلة باب فضل الرفق 4683) نبی صلی ایم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا اے عائشہ ! اللہ رفیق ہے اور رفق کو پسند کرتا ہے اور وہ نرمی پر جو عطا کرتا ہے وہ نہ سختی پر اور نہ اس کے سوا کسی (چیز) پر عطا کرتا ہے.814ـ عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِنَّ الزِفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ (مسلم کتاب البر والصلة باب فضل الرفق 4684) نبی صلی ا لم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی الی یم نے فرمایا کہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جائے اسے بد صورت بنادیتی ہے.
639 815- عن عبد الله بن مَسْعُودٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم ألا أخبركم من تَحْرُمُ عَلَى النَّارِ أَوْ مَن تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ عَلى كُلِ قَرِيبٍ هَيْنٍ سَهْلٍ (ترمذى كتاب القيامة والرقائق باب ما جاء فى صفة اوانى الحوض 2488) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا کیا میں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے ؟ وہ حرام ہے ہر اس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے.یعنی نفرت نہیں کرتا ان سے نرم سلوک کرتا ہے.ان کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اور سہولت پسند ہے.816 - أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْن عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَبَالَ فِي المَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَهُ النَّاسُ، فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعُوهُ وَهَرِيقُوا عَلَى بَوْلِهِ سَجُلًا مِنْ مَاءٍ، أَوْ ذَنُوبًا مِنْ مَاءٍ، فَإِنَّمَا بُعِثْتُمُ مُيَسِرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِرِينَ (بخاری کتاب الوضوء باب صب الماء على البول في المسجد 220) حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ ایک بدوی کھڑا ہوا اور اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا.لوگوں نے اسے برا بھلا کہا.اس پر نبی صلی علیکم نے ان سے کہا اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی کا بہادو.سجل کا لفظ (کہا) یا ذُنُوب کا.اور تم صرف اس لئے مبعوث کئے گئے ہو کہ آسانی کرنے والے بنو اور تم سختی کرنے کے لئے مبعوث نہیں کئے گئے.817 - عن أبي سعيد الخُدْرِي، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّقُوا فِرَاسَةَ المُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ، ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَثِمِينَ.....وَ قَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الآيَةِ : إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَثِمِينَ قَالَ لِلْمُتَفَرِّسِينَ (ترمذی کتاب التفسير باب و من سورة الحجر (3127)
640 حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مومن کی فراست سے بچو وہ اللہ تعالیٰ کے عطاء کر دہ نور سے دیکھتا ہے پھر آپ صلی للی مریم نے یہ آیت تلاوت فرمائی إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِيمِينَ (یعنی اس میں ان لوگوں کے لئے نشانات ہیں جو بات کی تہ تک پہنچتے اور صحیح صورت حال فوری طور پر سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں).عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ تَعَالَى، ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَثِمِينَ الْمُتَفَرِسِينَ (مسند امام ابی حنیفه (الامام الاعظم) كتاب التفسير روایت نمبر 500 ) حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا مومن کی فراست سے بچو وہ اللہ تعالیٰ کے عطاء کر دہ نور سے دیکھتا ہے پھر آپ صلی علیہم نے یہ آیت تلاوت فرمائی إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِيمِينَ (الحجر 76) (يقيناً اس ( واقعہ ) میں کھوج لگانے والوں کے لئے نشانات ہیں ).818ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَا يُلْدَغُ المُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ (بخاری کتاب الادب باب لا يلدغ المومن من جحر مرتين 6133) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ایم نے فرمایا مومن ایک سوراخ سے کبھی دو مر تبہ نہیں ڈسا جاتا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ بُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب لا يلدغ المومن من ج من جحر مرتين 5303) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ ہم نے فرمایا مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا.
641 819ـ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ فَخَرَمَةَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ ، يُصَدِّقُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَدِيثَ صَاحِبِهِ قَالا: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَانَ الْحُدَيْبِيَّةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ.....فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَصْحَابِهِ : قُومُوا، فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا قَالَ فَوَاللهِ مَا قَامَ مِنْهُمْ رَجُلٌ، حَتَّى قَالَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا لَمْ يَقُمْ مِنْهُمْ أَحَدٌ، قَامَ ، فَدَخَلَ عَلَى أُمِ سَلَمَةَ، فَذَكَرَ لَهَا مَا لَقِي مِنَ النَّاسِ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَتُحِبُّ ذَلِكَ ؟ اخْرُجُ ، ثُمَّ لَا تُكَلِّمُ أَحَدًا مِنْهُمْ كَلِمَةٌ حَتَّى تنْحَرَ بُدُنَكَ، وَتَدْعُوَ حَالِقَكَ، فَيَحْلِقَكَ.فَقَامَ ، فَخَرَجَ ، فَلَمْ يُكَلِّمُ أَحَدًا مِنْهُمْ حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ : نَحَرَ هَدْيَهُ، وَدَعَا حَالِقَهُ.فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ قَامُوا، فَنَحَرُوا ، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَحْلِقُ بَعْضًا حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يَقْتُلُ بَعْضًا غَما (مسند احمد بن حنبل کتاب اول مسند الكوفيين باب حدیث المسور بن مخرمه و مروان بن الحكم 19136) مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے روایت ہے ، ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی روایت کی تصدیق کرتا ہے.وہ دونوں کہتے ہیں حدیبیہ کے زمانہ میں رسول اللہ صلی الی یکی اپنے چودہ سو صحابہ کے ساتھ نکلے جب معاہدہ صلح لکھا جا چکا تو رسول اللہ صلی اللی کم نے صحابہ سے فرمایا اٹھو اپنی قربانیاں ذبح کرو اور بال منڈوا کر احرام کھول دو.راوی کہتے ہیں اللہ کی قسم ! ان میں سے ایک شخص بھی نہ اٹھا یہاں تک کہ آپ نے تین بار یہ بات دہرائی.جب ان میں سے کوئی نہ اٹھا آپ کھڑے ہوئے اور حضرت ام سلمہ کے پاس اندر تشریف لے گئے.اور ان سے اس صورت حال کا ذکر کیا.حضرت ام سلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! (اس وقت صحابہ شدت غم سے دو چار ہیں) آپ باہر تشریف لے جائیں اور ان (صحابہ ) سے کوئی گفتگو نہ فرمائیے بلکہ اپنی قربانی ذبیح کیجئے اور حجام کو بلوائیے اور بال کٹوا کر احرام کھول دیجئے (پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے) چنانچہ حض حضور علی ایم نے ایسا ہی کیا.آپ کھڑے ہوئے اور باہر نکلے اور ان میں سے کسی سے بات نہ کی یہاں رض
642 تک کہ آپ نے اپنی قربانی کی اور اپنے حجام کو بلایا.جب صحابہ نے یہ دیکھا تو تیزی سے اٹھے اپنی اپنی قربانیاں ذبح کہیں اور احرام کھولنے کے لئے ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے جلدی اور غم کی وجہ سے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے کہ یوں لگتا تھا کہ ایک دوسرے کو مار ہی ڈالیں گے.6 820 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ إِلى تَهُودٌ ، فَأَرْسَلَ إِلَى بَعْضٍ نِسَائِهِ، فَقَالَتْ وَالَّذى بَعَقَكَ بِالْحَقِ، مَا عِنْدِي إِلَّا مَاءٌ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُخْرَى، فَقَالَتْ مِثْلَ ذَلِكَ، حَتَّى قُلْنَ كُلُّهُنَّ مِثْلَ ذَلِكَ: لَا ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِ، مَا عِنْدِى إِلَّا مَاءُ، فَقَالَ مَنْ يُضِيفُ هَذَا اللَّيْلَةَ رَحِمَهُ اللهُ ؟ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ أَنَا ، يَا رَسُولَ اللهِ، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى رَحْلِهِ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٍ ؟ قَالَتْ لَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي، قَالَ فَعَيْلِيهِمْ بِشَيْءٍ ، فَإِذَا دَخَلَ ضَيْفُنَا فَأَطْفِي السَيَرَاجَ، وَأَرِيهِ أَنَا تَأْكُلُ ، فَإِذَا أَهْوَى لِيَأْكُلَ ، فَقُومِي إِلَى السَرَاجِ حَتَّى تُطْفِئِيهِ، قَالَ فَقَعَدُوا وَأَكَلَ الضَّيْفُ، فَلَهَا أَصْبَحَ غَدًا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ قَدْ عَجِبَ اللَّهُ مِنْ صَنِيعِكُمَا بِضَيْفِكُمَا اللَّيْلَةَ (مسلم کتاب الاشربة باب اكرام الضيف و فضل ایثاره 3815) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی علیکم کے پاس آیا اس نے کہا میں فاقہ زدہ ہوں.آپ نے اپنی ایک زوجہ مطہرہ کی طرف پیغام بھیجا، انہوں نے کہا اس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے.میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے.پھر آپ نے (ایک اور زوجہ مطہرہ) کی طرف بھیجا.انہوں نے بھی اسی طرح کہا یہاں تک کہ ان سب نے اس طرح کہا کہ نہیں! اس کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میرے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں.اس پر آپ صلی ا ہم نے فرمایا جو اس شخص کو رات مہمان بنائے گا اللہ اس پر رحم کرے گا.انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا میں یار سول اللہ ! وہ اسے اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی
643 سے کہا کیا تیرے پاس کچھ ہے ؟ اس نے کہا سوائے میرے بچوں کی خوراک کے اور کچھ نہیں.انہوں نے کہا کہ انہیں کسی چیز سے بہلا دو اور جب ہمارا مہمان اندر آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر ظاہر کرو کہ ہم کھانا کھارہے ہیں.جب وہ کھانے لگے تو چراغ کی طرف جانا اور اسے بجھا دینا.راوی کہتے ہیں وہ سب بیٹھے اور مہمان نے کھایا جب صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی ال یکم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا رات جو تم نے اپنے مہمان کے ساتھ کیا اللہ اس سے خوش ہوا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ فَقُلْنَ: مَا مَعَنَا إِلَّا المَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيفُ هَذَا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ : أَنَا فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ مَا عِنْدَنَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي، فَقَالَ هَيْنِي طَعَامَكِ، وَأَصْبِحِي سِرَاجَكِ، وَنَوْمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءَ، فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا، وَأَصْبَحَتْ سِرَاجَهَا، وَنَوْمَتْ صِبْيَاءَهَا، ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ، فَجَعَلاَ يُرِيَانِهِ أَنَهُمَا يَأْكُلَانِ، فَبَاتًا طَاوِيَيْنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ضَحِكَ اللَّهُ اللَّيْلَةَ، أَوْ عجِبَ، مِنْ فَعَالِكُمَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُغَ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ المُفْلِحُونَ (بخاری کتاب المناقب باب قول الله و یو ثرون على انفسهم 3798) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ نے اپنی ازواج کی طرف (کسی کو) بھیجا.انہوں نے جواب دیا: ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں.رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا اس مہمان کو کون اپنے ساتھ رکھے گا؟ یا فرمایا اسے کون مہمان ٹھہرائے گا؟ انصار میں سے ایک شخص بولا میں.چنانچہ وہ اسے اپنے ساتھ لے کر اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہا رسول اللہ صلی علیم کے مہمان کی نہایت
644 اچھی خاطر تواضع کر و.وہ بولی : ہمارے پاس کچھ نہیں مگر اتنا ہی کھانا جو میرے بچوں کیلئے مشکل سے کافی ہو.اس نے کہا اپنے اس کھانے کو تیار کر لو اور چراغ بھی جلاؤ اور اپنے بچوں کو جب وہ شام کا کھاناما نگیں سلا دینا.چنانچہ اس نے اپنا کھانا تیار کیا اور چہ ان کو جلایا اور اپنے بچوں کو سلا دیا.پھر اس کے بعد وہ اٹھی جیسے چراغ درست کرتی ہے.اس نے اس کو بجھا دیا.وہ دونوں اس مہمان پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویاوہ بھی کھا رہے ہیں مگر ان دونوں نے خالی پیٹ رات گزاری.جب صبح ہوئی تو دور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا.آپ نے فرمایا آج رات اللہ ہنس پڑا، یا فرمایا تمہارے دونوں کے کام سے بہت خوش ہوا، اور اللہ نے یہ وحی نازل کی وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر :10): انصار اپنے آپ پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں اگر چہ خود انہیں محتاجی ہی ہو اور جو اپنے نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں وہی ہیں جو بامراد ہونے والے ہیں.821- عن أبي مُوسَى، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْأَشْعَرِنِينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْهِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ، جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبِ وَاحِدٍ، اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ (مسلم کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل الاشعريين رضی اللہ عنہ 4542) حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا جب دوران جنگ اشعری لوگوں کا کھانا ختم ہو جاتا ہے یا مدینہ میں ان کے اہل و عیال کا کھانا کم پڑ جاتا ہے تو جو کچھ ان کے پاس ہو تا ہے وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں پھر اسے آپس میں ایک برتن کے ذریعہ برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں لہذ اوہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں.
645 حوصلہ اور جرات، شجاعت اور بہادری 822- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالقُرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ (بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب 6114) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ( مد مقابل کو) پچھاڑنے والا بہادر نہیں ہو تا بلکہ بہادر وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے اوپر قابور رکھتا ہے.حسن کردار ، بشاشت اور خوش خلقی 823 - عَنْ أَبِي ذَرٍ، قَالَ قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهِ طَلْقٍ (مسلم کتاب الادب باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء 4746) حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الم نے مجھے فرمایا نیکی کو حقیر مت سمجھو خواہ تمہارا اپنے بھائی سے کشادہ پیشانی سے ملنا ہی کیوں نہ ہو.824- عَنْ عَدِي بْنِ حَامٍ، قَالَ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّار.......ثُمَّ قَالَ الهوا النار ولو بشق تمرةٍ، فَإِن لَّمْ تَجِل فَبِكَلِمَةٍ طَيْبَةٍ (بخاری کتاب الایمان باب طيب الكلام (6023)
646 حضرت عدی بن حاتم نے بیان کیا کہ نبی صلی ا ہم نے دوزخ کا ذکر کیا.پھر آپ نے فرمایا دوزخ سے بچو اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑاہی دے کر اگر نہ پا سکو تو اچھی بات ہی سے.شرم و حیا 825.عَنْ زَيدَ بْنِ طَلْعَةَ بْنِ رُكَانَةَ ، يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِكُلِّ دِينِ خُلُقَ ، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ (موطا امام مالک ، کتاب حسن الخلق ، باب ما جاء في الحياء 1678) حضرت زید بن طلحہ نبی صلی علیکم کی طرف منسوب کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ہر دین و مذہب کا ایک اپنا خاص خلق ہو تا ہے اور اسلام کا( یہ خاص ) خلق حیاء ہے.826- عن أبي هريرة، قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِيمَانُ يَضْعُ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعُ وَسِتُونَ - شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ (مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الايمان وافضلها...43) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا ایمان کی ستر سے کچھ اوپر یا فرمایا ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں.اس کی سب سے افضل شاخ لَا إِلَهَ إِلَّا الله کا اقرار کرنا اور سب سے عام راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے.
647 827ـ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَحْيُوا مِنَ اللهِ حَقَّ الحَياءِ.قَالَ قُلْنَا: يَا نَبِيَّ اللهِ إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ لَيْسَ ذَاكَ، وَلَكِنَّ الاسْتِحْيَاء مِنَ اللهِ حَقَّ الحَياءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَالبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْتَذْكُرَ الموتَ وَالبِلَى، وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَن فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ اسْتَحْيَا يَعْنِي مِنَ اللهِ حَقَّ الحَياءِ (ترمذى كتاب صفة القيامة والرقائق باب ما جاء في صفة اوانى الحوض 2458) حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے.راوی کہتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ؟ ہم یقینا حیا کرتے ہیں، الحمد للہ.آپ نے فرمایا یوں نہیں بلکہ جو شخص اللہ تعالی کی شرم رکھتا ہے وہ اپنے سر اور اس میں سمائے ہوئے خیالات کی حفاظت کرے.پیٹ اور اس میں جو خوراک وہ بھرتا ہے اس کی حفاظت کرے موت اور ابتلاء کو یادرکھنا چاہئے.جو شخص آخرت پر نظر رکھتا ہے وہ د نیادی زندگی کی زینت کے خیال کو چھوڑ دیتا ہے پس جس نے یہ طرز زندگی اختیار کیا اس نے واقعی اللہ تعالیٰ سے حیا کی.عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتِ يَوْمٍ لأَصْحَابه: اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ قَالُوا: إِنَّا نَسْتَحى يَا نَبِيَّ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ.قَالَ لَيْسَ ذَلِكَ وَلَكِن مَنِ اسْتَحْيَا مِنَ اللهِ حَقَّ الْحَيَاءِ فَلْيَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَغَى، وَلْيَحْفَظِ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْيَذْكُرُ الْمَوْتَ وَالْبِلَى، وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللهِ حَقَّ الْحَيَاءِ (الرسالة القشيريه ، باب الحيا صفحه (249)
648 حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی الیکم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے.صحابہ نے عرض کیا ہم حیا کرتے ہیں اے اللہ کے نبی ! الحمد للہ.آپ نے فرمایا یوں نہیں بلکہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے حیار کھتا ہے وہ اپنے سر اور اس میں سمائے ہوئے خیالات کی حفاظت کرے.پیٹ اور اس میں جو خوراک وہ بھرتا ہے اس کی حفاظت کرے موت اور ابتلاء کو یادر کھنا چاہئے.جو شخص آخرت پر نظر رکھتا ہے وہ دنیاوی زندگی کی زینت کے خیال کو چھوڑ دیتا ہے پس جس نے یہ طرز زندگی اختیار کیا اس نے واقعی اللہ تعالیٰ سے حیا کی.828- عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ الفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ، وَمَا كَانَ الحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى الفحش و التفحش 1974) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے بد نما بنا دیتی ہے اور حیا جس چیز میں بھی ہو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے.829 - حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلامِ النُّبُوَّةِ الأُولَى : إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ بخاری کتاب الادب باب اذا لم تستحى فاصنع ما شئت (6120) حضرت ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا پہلی نبوت کے کلام سے جولوگوں نے محفوظ رکھا یہ بھی ہے کہ جب تم حیا نہیں کرتے تو پھر تم جو چاہو کرو.
649 830ـ عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْن أَبِي عُتْبَةَ، يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِكَ، يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا وَكَانَ إِذَا كَرِهَ شَيْئًا عَرَفْتَاهُ فِي وَجْهِهِ (مسلم کتاب الفضائل باب كثرة حياته ال 4270) حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ کی پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیادار تھے اور جب آپ کچھ نا پسند فرماتے تو ہم اسے آپ کے چہرہ سے جان جاتے تھے.راز رکھنے کی فضیلت اور افشائے راز کی مذمت 831 - أَخْبَرَنَا ثَابِتُ ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ أَتَى عَلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَا أَلْعَبْ مَعَ الْغِلْمَانِ، قَالَ فَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَبَعَثَنِي إِلَى حَاجَةٍ، فَأَبْطَأْتُ عَلَى أَنِي، فَلَمَّا جِئْتُ قَالَتْ مَا حَبَسَكَ ؟ قُلْتُ بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَةٍ، قَالَتْ مَا حَاجَتُهُ؟ قُلْتُ إِنَّهَا سر ، قَالَتْ لَا تُحَدِثَ بِسِيرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا قَالَ أَنَسٌ : وَاللَّهِ لَوْ حَدَّثْتُ به أحدا لحل منك يا قايت (مسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل انس بن مالک رضی الله عنه 4519) الله سة حضرت ثابت کہتے ہیں حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی للی و کم میرے پاس تشریف لائے اور میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا.وہ (حضرت انس ) کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں سلام کہا پھر مجھے کسی کام کے لئے بھیجا.میں کچھ تاخیر سے اپنی ماں کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ میں نے کہا کہ
650 مجھے رسول اللہ صلی ال کلم نے کسی کام سے بھیجا تھا.انہوں نے پوچھا آپ کا کیا کام تھا؟ میں نے کہا یہ راز ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللی کم کار از ہر گز کسی کو نہ بتانا.حضرت انس کہتے ہیں بخدا اگر میں وہ کسی کو بتاتا تو اے ثابت ! تجھے ضرور بتاتا.پردہ پوشی اور چشم پوشی 832- عن أبي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نَفْسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةٌ مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةٌ مِنْ كُرَبِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ يَشَرَ عَلَى مُعْسِرٍ فِي الدُّنْيَا يَشَرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ فِي الدُّنْيَا سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ العَبْدِ مَا كَانَ العَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى السترة على المسلم 1930) حضرت ابوہریر کا بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ایم نے فرمایا جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس کے کرب کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کرب اور اس کی بے چینی کو دور کرے گا.اور جو شخص کسی تنگ دست کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی اور آرام کا سامان بہم پہنچائے گا.اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے.اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کرتارہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کے لئے کوشاں رہتا ہے.833 - عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّ أُمَّتِي مُعَافَى إِلَّا المُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ المُجَاهَرَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ
651 بِاللَّيْلِ عَمَلًا، ثم يُصْبحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولَ: يَا فَلَانُ، عَمِلْتُ البَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ (بخاری کتاب الادب باب ستر المومن على نفسه 6069) حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی املی کمر سے سنا آپ فرماتے تھے میری امت میں سے ہر ایک کو معاف کر دیا جائے گا مگر ان کو نہیں جو کھلم کھلا گناہ کریں اور یہ بھی بے حیائی ہے کہ آدھی رات کو کوئی کام کرے اور پھر صبح کو ایسی حالت میں اٹھے کہ اللہ نے اس پر پردہ پوشی کی ہوئی ہے تو پھر وہ کہ کہے کہ میں نے گزشتہ رات یہ یہ کیا حالانکہ رات اس نے ایسی حالت میں گزاری کہ اس کے رب نے اس کی پردہ پوشی کئے رکھی اور وہ صبح کو اٹھتا ہے اور اپنے سے اللہ کے پر دے کو کھول دیتا ہے.834.عَنْ مَوْلًى لِعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ يُقَالُ لَهُ أَبِي كَثِيرُ ، قَالَ أَتَيْتُ عُقْبَةَ بْن عَامِرٍ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّ لَنَا جِيرَانًا يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ ، قَالَ دَعْهُمْ ثُمَّ جَاءَهُ فَقَالَ أَلَا أَدْعُو عَلَيْهِمُ الشُّرَطُ ؟ فَقَالَ عُقْبَةُ وَيْحَكَ دَعْهُمْ ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مِنْ رَأَى عَوْرَةً فَسَتَرَهَا، كَانَ كَمَنْ أَحْيَا مَوْءُودَةً مِنْ قَبْرِة الله و (مسند احمد بن حنبل ، مسند الشاميين ، مسند عقبہ بن عامر الجهني عن النبي عام 17465) حضرت عقبہ بن عامر” کے مولیٰ جن کا نام ابو کثیر تھا بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے آقا عقبہ بن عامر کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ ہمارے پڑوسی شراب پی رہے ہیں.عقبہ نے فرمایا جانے دو.پھر میں ان کے پاس دوبارہ گیا اور کہا کیا میں پولیس کو نہ بلا لاؤں ؟ عقبہ نے فرمایا تیر ابراہو! کہا جو ہے جانے دو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الی کلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے.جس نے کسی کی کمزوری دیکھی اور پردہ پوشی سے کام لیا یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زندہ در گور لڑکی کو اس کی قبر سے نکالا اور اسے زندگی بخشی.
652 عَنْ أَبِي الْهَيْقَمِ قَالَ جَاءَ قَوْمٌ إِلَى عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ فَقَالُوا إِنَّ لَنَا جِيرَانًا يَشْرَبُونَ وَيَفْعَلُونَ، أَفَذَرْفَعُهُمْ إِلَى الْإِمَامِ ؟ قَالَ لَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ رَأَى مِنْ مُسْلِمٍ عَوْرَةً فَسَتَرَهَا، كَانَ كَمَنْ أَحْيَا مَوْءُ ودَةٌ مِنْ قَبْرِهَا الادب المفرد ، باب من ستر مسلما 758 صفحه 264) ابو الھیثم کہتے ہیں کہ کچھ لوگ حضرت عقبہ بن عامر کے پاس آئے اور کہا ہمارے ہمسائے شراب پیتے ہیں اور دوسرے افعال کرتے ہیں کیا ہم ان کا معاملہ امیر تک پہنچائیں ؟ انہوں نے کہا نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے کسی کی کمزوری دیکھی اور پردہ پوشی سے کام لیا یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زندہ در گور لڑکی کو اس کی قبر سے نکالا اور اسے زندگی بخشی.حسن ظن 835ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ حُسْنَ الظَّنِ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه ، مسند ابي هريرة 7943) حضرت ابوہریر کا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا یقیناً حسن ظن ایک حسین عبادت ہے.عن أبي هريرة.....عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ حُسْنُ الظَّنِ مِنْ حُسْنٍ هُرَيْرَةَ، الْعِبَادَةِ (ابو داؤد کتاب الادب باب في حسن الظن (4993) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللی کم نے فرمایا کہ حسن ظنی عبادت کی خوبصورتی میں سے ہے.
653 836 - عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَتِهِ، قَالَ هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ......وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَجُلًا يَسْرِقُ، فَقَالَ لَهُ عِيسَى: سَرَقْتَ ؟ قَالَ كَلَّا ، وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَقَالَ عِيسَى آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكَذَّبُتُ نَفْسِي (مسلم کتاب الفضائل باب فضائل عیسیٰ علیہ سلام 4352) ہمام بن منبہ نے بیان کیا کہ یہ وہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرۃ نے ہمیں رسول اللہ صلی ا ظلم سے بتائیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ عیسی ابن مریم نے ایک آدمی کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو حضرت عیسی نے اسے کہا کہ تو نے چوری کی ہے.اس نے کہا ہر گز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.اس پر حضرت عیسی نے کہا کہ میں اللہ پر ایمان لاتاہوں اور اپنے نفس کو جھٹلاتا ہوں.عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَجُلًا يَسْرِقُ، فَقَالَ لَهُ أَسَرَقْتَ ؟ قَالَ كَلَّا وَاللهِ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَقَالَ عِيسَى: آمَنْتُ بِاللَّهِ، وَ كَذَّبُتُ عَيْنِي (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول الله واذكر فى الكتاب مريم...3444) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللی کرم نے فرمایا عیسی بن مریم نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا.انہوں نے اس سے پوچھا: کیا تم چوری کرتے ہو ؟ اس نے کہا ہر گز نہیں، اسی ذات کی قسم ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں.حضرت عیسی یہ سن کر بولے میں اللہ پر ایمان لایا اور اپنی آنکھ کو جھوٹا قرار دیتاہوں.
654 عفو اور دوسروں کے قصور معاف کرنا 837 - عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَفْضَلُ الْفَضَائِلِ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَكَ، وَتُعْطِيَ مَنْ مَنَعَكَ، وَتَصْفَحَ عَمَّنْ شَتَمَكَ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكيين ، مسند معاذ بن حسن 15703) سھل بن معاذ بن انس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی کرم نے فرمایا سب سے بڑی فضلیت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اسے بھی دے اور جو تجھے برابھلا کہتا ہے اس سے تو درگزر کرے.838- عن أبي هُرَيْرَةً، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَلَا عقارجُلٌ عَنْ مَظلَمَةٍ إِلَّا زَادَهُ اللهُ بِهَا عِنا (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند ابى هريرة 7205) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الیم نے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کر دینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی.عن أبي هريرة، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا عَهَا رَجُلٌ إِلَّا زَادَهُ اللهُ بِهِ عِزًّا، وَلَا نقضت صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَلا عَهَا رَجُل قَط ، إِلَّا زَادَهُ اللهُ عزا (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند ابى هريرة 9641)
655 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الیکم نے فرمایا کہ جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو کسی کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ اسے عزت میں بڑھا دیتا ہے.قرض، حسن تقاضا اور حسن ادا 839- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ، طَلَبَ غَرِيمًا لَهُ، فَتَوَارَى عَنْهُ ثُمَّ وَجَدَه....قالَ فَإِني سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ مَنْ سَرَّهُ أَن يُنجِيَهُ اللهُ مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ، أَوْ يَضَعْ عَنْهُ (مسلم کتاب المساقات باب فضل انظار المعسر 2909) عبد اللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو قتادہ نے اپنے ایک مقروض کو بلوایا تو وہ ان سے چھپ گیا.پھر وہ اس سے ملے.( حضرت ابو قتادہ) نے کہا میں نے رسول اللہ صلی نیلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے.جسے یہ بات خوش کرے کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی مصیبتوں سے نجات دے تو چاہئے کہ وہ تنگدست کو مہلت دے یا (مطالبہ ہی) چھوڑ دے.عَنْ أَبي قتادَةً قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَن يُنْجِيَهُ اللهُ مِنْ كُرب يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنفِسَ عَنْ مُغيرٍ أَوْ يَضَعْ عَنْهُ (مشكاة المصابيح ، كتاب البيوع باب الافلاس و الانظار ، الفصل الاول 2902)
656 حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن بے چینیوں اور پریشانیوں سے نجات دے تو اسے چاہئے کہ وہ تنگ دست مقروض کو وصولی میں سہولت دے یا قرض میں سے کچھ حصہ معاف کر دے.840ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَاضَاهُ، فَأَغْلَظُ فَهَم بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعُوهُ، فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِ مَقَالًا، ثُمَّ قَالَ أَعْطُوهُ سِنًا مِثْلَ سِيْهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا أَمْثَلَ مِنْ سِيْهِ، فَقَالَ أَعْطُوهُ، فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً (بخاری كتاب الوكالة باب الوكالة في قضاء الديون (2306) رض حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے قرض کا تقاضا کرنے لگا.لب ولہجہ سخت تھا.آپ کے صحابہ اُسے مارنے کے لئے لیکے.رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اسے چھوڑ دو، کیونکہ حق والا ایسی باتیں کہتا ہی ہے.پھر آپ نے فرمایا اس کو ویسی عمر کا اونٹ دے دو جیسا کہ اس کا تھا.صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! اس سے بہتر ہی ملتا ہے.آپ نے فرمایا وہی دے دو.کیونکہ تم میں عمدگی سے قرض ادا کرنے والے ہی بہترین لوگ ہیں.841- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ خَيْرَكُمْ - أَوْ مِنْ خَيْرِكُمْ - أَحَاسِنُكُمْ قَضَاءً ابن ماجه کتاب الصدقات باب حسن القضاء (2423) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہیں یا تمہارے بہترین لوگوں میں سے وہ ہیں جو ادائیگی میں بہترین ہیں.
657 842- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ كَانَ بِالْمَدِينَةِ يَهُودِيُّ، وَكَانَ يُسْلِفُنِي في تمرِى إِلى الجدادِ، وَكَانَتْ لِجَابِرِ الأَرْضُ الَّتِي بِطَرِيقِ رُومَةً، فَجَلَسَتْ، فَخَلَا عَامًا فَجَاءَنِي اليَهُودِيُّ عِنْدَ الجَدَادِ وَلَمْ أَجُدَّ مِنْهَا شَيْئًا، فَجَعَلْتُ أَسْتَنْظِرُهُ إِلَى قَابِلٍ فَيَأْبَ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: امْشُوا نَسْتَنْظِرْ لِجَابِرٍ مِنَ اليَهُودِي فَجَاءُونِي فِي نَخْلِي، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِمُ اليَهُودِيَّ، فَيَقُولُ أَبَا القَاسِمِ لَا أُنْظِرُهُ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَطَافَ فِي النَّخْلِ، ثُمَّ جَاءَهُ فَكَلَّمَهُ فَأَبَ، فَقُمْتُ فَجِئْتُ بِقَلِيلِ رُطَبٍ، فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ، ثُمَّ قَالَ أَيْنَ عَرِيشُكَ يَا جَابِرُ ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ افْرِشُ لِي فِيهِ فَفَرَشْتُهُ، فَدَخَلَ فَرَقَدَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ، فَجِئْتُهُ بِقَبْضَةٍ أُخْرَى فَأَكَلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَ فَكَلَّمَ اليَهُودِى فَأَبَى عَلَيْهِ، فَقَامَ فِي الرَّطَابِ فِي النَّخْلِ القَانِيَةَ، ثُمَّ قَالَ يَا جَابِرُ جُدَّ وَاقْضِ فَوَقَفَ فِي الجَدَادِ ، فَجَدَدْتُ مِنْهَا مَا قَضَيْتُهُ، وَفَضَلَ مِنْهُ، فَخَرَجْتُ حَتَّى جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشِّرْتُهُ، فَقَالَ أَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ (بخاری کتاب الاطعمة باب الرطب و التمر 5443) الله حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا اور وہ مجھے میری کھجوریں کٹنے تک قرض دیا کر تا تھا اور جابر کی وہ زمین تھی جو بئر رومہ کے راستے پر تھی.ایک سال اس زمین نے پھل نہ دیا اور سال خالی گزرا وہ یہودی پھل کٹنے کے وقت میرے پاس آیا اور میں نے کھجوروں سے کچھ بھی نہ کاٹا تھا میں اس سے آئندہ سال تک مہلت مانگنے لگا.لیکن وہ نہ مانتا تھا.نبی صلی ا ہم کو اس کے متعلق بتلایا گیا.آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا چلو یہودی سے جابر کے لئے مہلت مانگیں.وہ میرے پاس میرے کھجور کے باغ میں آئے اور نبی صلی یم یہودی سے گفتگو کرنے لگے.وہ کہنے لگا ابو القاسم ! میں اس کو مہلت نہیں دوں گا.جب نبی صلی للی یکم نے یہ دیکھا آپ کھڑے ہو گئے اور باغ میں چکر لگایا.پھر اس کے پاس آئے اور اس سے گفتگو کی مگر وہ نہ مانا.میں اٹھا اور جا کر تھوڑی سے تازہ کھجور لایا اور میں نے ان کو نبی صلی المی ریم کے سامنے رکھ دیا.آپ نے کھائیں.پھر اس کے بعد پوچھا
658 جابر ! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے ؟ میں نے آپ کو بتلایا.آپ نے فرمایا میرے لئے اس میں بچھو نا لگا دو.میں نے آپ کے لئے بچھونا بچھایا.آپ اس میں گئے اور سو گئے.پھر آپ جاگے اور میں آپ کے پاس مٹھی بھر اور کھجور میں لایا.آپ نے ان میں سے کچھ کھائیں پھر کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو کی.لیکن اس نے آپ کی نہ مانی.آخر آپ دوسری بار ان کھجوروں میں جن کے پھل سبز تھے کھڑے ہوئے.پھر فرمایا جابر کھجوریں کاٹو اور اس کا قرض چکادو.آپ کھجوریں کاٹنے کے اثنا میں ٹھہرے رہے.میں نے ان سے اتنی کھجوریں کائیں جس سے اس کا قرضہ ادا کر دیا اور ان سے کچھ پیار ہیں.میں باغ سے نکل کر نبی علی میم کے پاس آیا اور آپ کو خوشخبری دی آپ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کار سول ہوں.843ـ عَنْ عَلَيَّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ مُكَاتَبًا جَاءَهُ فَقَالَ إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَنِي فَأَعِنِّي، فقَالَ أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِينَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ تَبِيْرِ دَيْنًا أَذَاهُ اللهُ عَنْكَ؟ قَالَ قُلْ: اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّن سِوَاكَ (ترمذی کتاب الدعوات باب في دعاء النبي الا 3563) حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک مکاتب غلام آیا اور عرض کیا کہ میں زر کتابت یعنی فدیہ آزادی ادا کرنے سے قاصر ہوں.آپ میری مدد فرمائیں.آپ نے فرمایا کیا میں تجھے ایسے کلمات نہ بتاؤں جو مجھے رسول اللہ صلی ال نیلم نے سکھائے تھے اور فرمایا تھا کہ اگر تجھ پر پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو اللہ تعالیٰ اس دعا کی برکت سے اس کے ادا کرنے کے سامان کر دے گا تم یہ دعا مانگا کرو.اے میرے اللہ ! تیرا دیا ہوا حلال رزق میرے لئے کافی ہو حرام رزق کی مجھے ضرورت نہ پڑے ( یعنی مجھے حلال رزق دے، حرام رزق سے بچا ) اور اپنے فضل سے مجھے اپنے سوا دوسروں سے بے نیاز اور مستغنی کر دے ( یعنی کبھی دوسروں کا محتاج نہ بنوں).
659 844ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَظْلُ الذين ظُلْمٌ، فَإِذَا أَتَّبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِي فَلْيَتَبَعْ (بخاری کتاب الحوالات باب فى الحوالة و هل يرجع في الحوالة 2287) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دولت مند کا ٹال مٹول کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور جس کو اپنا قرض لینے کے لئے مالدار شخص کے سپر د کیا جائے تو وہ قبول کرے.845 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهَا أَرَادَ هَدْيَ زَيْدِ بْنِ سَعْنَةٌ، قَالَ زَيْدُ بْنُ سَعْنَةَ : مَا مِنْ عَلَامَاتِ النُّبُوَّةِ شَيْءٌ إِلَّا وَقَدْ عَرَفْتُهَا فِي وَجْهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ نَظَرْتُ إِلَيْهِ إِلَّا شَيْئَيْنِ لَمْ أَخْبَرْهُمَا مِنْهُ هَلْ يَسْبِقُ حُلْمُهُ جَهْلَهُ، وَلَا يَزِيدُهُ شِدَّةُ الْجَهْلِ عَلَيْهِ إِلَّا حِلْمًا ، فَكُنْتُ أَلْطُفُ بِهِ لَئِنْ أَخَالِطَهُ فَأَعْرِفُ حِلْمَهُ مِنْ جَهْلِهِ، قَالَ زَيْدُ بْنُ سَعْنَةَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا مِنَ الْحُجُرَاتِ، وَمَعَهُ عَلَى بْن أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَأَتَاهُ رَجُلٌ عَلَى رَاحِلَتِهِ كَالْبَدَوِي، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ بُصْرَى قَرْيَةُ بَنِي فَلَانٍ قَدْ أَسْلَمُوا وَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ، وَكُنْتُ حَدَّثَتْهُمْ إِنْ أَسْلَمُوا آتَاهُمُ الرِّزْقُ رَغَدًا وَقَدْ أَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ وَشِدَّةٌ وَقُحُودٌ مِنَ الْغَيْثِ، فَأَنَا أَخْشَى يَا رَسُولَ اللهِ أَنْ يَخْرُجُوا مِنَ الْإِسْلَامِ طَمَعًا كَمَا دَخَلُوا فِيهِ طَمَعًا، فَإِنْ رَأَيْتَ أن تُرْسِلَ إِلَيْهِمْ بِقَى تُعِيتُهُمْ بِهِ فَعَلْتَ فَنَظَرَ إِلَى رَجُلٌ وَإِلَى جَانِبِهِ أَرَاهُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ مَا بَقِيَ مِنْهُ شَيْءٌ، قَالَ زَيْدُ بْنُ سَعْنَةَ: فَدَنَوْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا مُحَمد هَلْ لك أن تبيعني قمرًا مَعْلُومًا مِنْ حَائِطِ بَنِي فَلَانٍ إِلَى أَجَلٍ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ لَا يَا يَهُودِيُّ، وَلَكِن أَبِيعُكَ تَمرًا مَعْلُومًا إِلَى أَجَلٍ كَذَا وَكَذَا، وَلَا أُسَمِّيَ حَائِطَ بَنِي فُلَانٍ
660 فَقُلْتُ نَعَمْ، فَبَايَعَنِي فَأَطْلَقْتُ هِمْيَانِي فَأَعْطَيْتُهُ ثَمَانِينَ مِثْقَالًا مِنْ ذَهَبٍ فِي تَمْرٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ كَذَا وَكَذَا فَأَعْطَاهَا الرَّجُلُ ، فَقَالَ اعْدِلْ عَلَيْهِمْ وَأَعِنْهُمْ بِهَا، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ سَعْنَةً: فَلَمَّا كَانَ قَبْلَ فَحَلِ الْأَجَلِ بِيَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ أَتَيْتُهُ فَأَخَذْتُ بِمَجَامِعِ قَمِيصِهِ وَرِدَائِهِ وَنَظَرْتُ إِلَيْهِ بِوَجْهِ غَلِيظٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا تَقْضِيَنِي يَا مُحَمَّدُ حَقِي فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُمْ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَلِبِ سَيِّئَ الْقَضَاءِ مَظلَّ وَلَقَدْ كَانَ لِي بِمُخَالَطَتِكُمْ عِلْمٌ وَنَظَرْتُ إِلَى عُمَرَ فَإِذَا عَيْنَاهُ تَدُورَانِ فِي وَجْهِهِ كَالْفَلَكِ الْمُسْتَدِيرِ، ثُمَّ رَمَانِي بِبَصَرِهِ، فَقَالَ يَا عَدُوٌّ اللَّهِ أَتَقُولُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَسْمَعُ وَتَصْنَعَ بِهِ مَا أَرَى؟ فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِ لَوْلَا مَا أَحَاذِرُ قُوَتَهُ لَضَرَبْتُ بِسَيْفِي رَأْسَكَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنظُرُ إلَى عُمَرَ في سُكُونٍ وَتُوَدَةٍ وَتَبَسَّمَ، ثُمَّ قَالَ يَا عُمَرُ أَنَا وَهُوَ كُنَّا أَحْوَجَ إِلَى غَيْرِ هَذَا أَنْ تَأْمُرَنِي بِحُسْنِ الْأَدَاءِ، وَتَأْمُرَهُ بِحُسْنِ التَبَاعَةِ اذْهَبْ بِهِ يَا عُمَرُ فَاعْطِهِ حَقَهُ، وَزِدْهُ عِشْرِينَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ فَقُلْتُ مَا هَذِهِ الزِيَادَةُ يَا عُمَرُ، قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَزِيدَكَ مَكَانَ مَا نَقِمتُكَ قُلْتُ أَتَعْرِفُنِي يَا عُمَرُ ؟ قَالَ لَا، مَنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ زَيْدُ بن سَعْنَةَ، قَالَ الْحَبْرُ، قُلْتُ الْحَبْرُ ، قَالَ فَمَا دَعَاكَ أَنْ فَعَلْتَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فَعَلْتَ، وَقُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ ؟ قُلْتُ لَهُ يَا عُمَرُ، لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْ عَلَامَاتِ النُّبُوَّةِ شَيْءٌ إِلَّا وَقَدْ عَرَفْتُهُ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ نَظَرْتُ إِلَيْهِ إِلَّا اثْنَيْنِ لَمْ أَخْبرُهُمَا مِنْهُ : هَلْ يَسْبِقُ حِلْمُهُ جَهْلَهُ، وَلَا تَزِيدُهُ شِدَّةُ الْجَهْلِ عَلَيْهِ إِلَّا حِلْمًا فَقَدِ اخْتَبَرْتُهُمَا فَأَشْهِدُكَ يَا عُمَرُ أَنِّي قَدْ رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبِّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا وَأُشْهِدُكَ أَن شَطْرَ مَالِي - فَإِنِّي أَكْثَرُهُمْ مَالًا - صَدَقَةٌ عَلَى أُمَّةٍ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَوْ عَلَى بَعْضِهِمْ، فَإِنَّكَ لَا تَسَعَهُمْ
661 قُلْتُ أَوْ عَلَى بَعْضِهِمْ ، فَرَجَعَ زَيْلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ زَيْلٌ أَشْهَدُ أن لا إله إلا الله، وَأَعْبَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَآمَنَ بِهِ وَصَدَّقَهُ وَبَايَعَهُ وَشَهِدَ مَعَهُ مَقاهِد هير، ثم توفي زيد في غزوة تبوك مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْرٍ وَرَحمَ اللَّهُ زَيْدًا (المستدرك على الصحيحين للحاكم ، كتاب معرفة الصحابه ، باب ذكر اسلام زيد بن سعنة مولى رسول الله 6547) حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے زید بن سعنہ کو ہدایت دینی چاہی تو زید بن سعنہ نے کہا ( وہ تمام علامات نبوت جو تورات میں درج تھیں ) آنحضرت علی ایم کے چہرہ مبارک کی طرف جیسا میں نے دیکھا تھا تو آپ صلی اللہ یکم میں تمام علامات نبوت مجھے نظر آئیں سوائے دو باتوں کے جن کا مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ میں ہیں یا نہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نبی کا حلم اس کے غصہ پر غالب ہو گا دوسری بات یہ ہے کہ جتنا ہی زیادہ اس کو غصہ دلایا جائے اور اس کی گستاخی کی جائے اتنا ہی زیادہ وہ حلم اور بردباری دکھائے گا اور میں اس کی جستجو میں رہا کہ کبھی موقع ملے تو ان علامتوں کو بھی آزماؤں زید بن سعنہ (یہودی) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی للی کم گھر سے باہر آئے آپ صلی الی یکم کے ساتھ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اس دوران ایک سوار آیا جو بدوی یعنی دیہاتی لگتا تھا اس نے کہا یار سول اللہ ! بنو فلاں کے گاؤں بصری کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو ان کو وافر رزق ملے گا اب وہ قحط سے دو چار ہیں کیونکہ بارشیں نہیں ہو ئیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ حرص اور لالچ میں آکر اسلام سے نکل نہ جائیں جس طرح کہ وہ فراخی رزق کی ترغیب دلانے پر مسلمان ہوئے تھے.اگر آپ مہربانی فرما دیں اور مناسب سمجھیں تو ان کی طرف کچھ بھیج کر ان کی مدد اور دلداری فرماویں آپ صلی یکم نے اس کی بات سن کر علی کی طرف دیکھا تو انہوں نے عرض کیا اس وقت تو ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو مدد کے طور پر بھیجی جاسکے.زید بن سعنہ کہتے ہیں کہ میں (قریب ہی تھا) آپ کے پاس آیا اور کہا اے محمد صلی الی یکم کیا بنو فلاں کے باغ کی کھجوریں ایک طے شدہ مقدار اور طے شدہ مدت کی شرط پر ( یعنی بطور بیع سلم ) بیچ سکتے ہیں.آپ نے فرمایا اے یہودی طے شدہ مقدار اور مدت کی شرط پر کھجوریں تو بیچ سکتا ہوں لیکن یہ شرط نہیں مان سکتا کہ یہ کھجوریں بنو فلاں کے
662 رسول باغ کی ہی ہوں گی.میں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ آپ نے مجھ سے سودا طے کر لیا اور میں نے اپنی ہمیائی کھول کر آپ کو اسی 80 مثقال (بطور پیشگی قیمت) دے دیا کہ فلاں وقت اتنی کھجوریں آپ مجھے دے دیں.آپ نے وہ سونا اس شخص کو دے دیا (جو مددمانگنے کے لئے آیا تھا) اور فرمایا یہ برابر ان مصیبت زدہ لوگوں میں تقسیم کر دو اور ان کی مدد کرو.زید بن سعنہ کہتے ہیں کہ ابھی مدت مقررہ طے شدہ مدت میں دو تین دن باقی تھے کہ میں آپ کے پاس آیا اور آپ کا گریبان پکڑ لیا چادر کھینچی اور بڑے غصہ کی حالت بنا کر کہا.اے محمد ! کیا میر ا حق ادا نہیں کرو گے خدا کی قسم ! تم بنو عبد المطلب اپنی اس عادت کو اچھی طرح جانتے ہو کہ قرض ادا کرنے میں بڑے برے ہو اور تمہاری ٹال مٹول کی اس عادت کو میں بھی جانتا ہوں ( اور اس کا مجھے تجربہ ہے ) اس وقت میں عمر کی طرف (جو پاس ہی تھے) دیکھ رہا تھا کہ (غصہ کے مارے) ان کی آنکھیں یوں گھوم رہی ہیں جس طرح گھومنے والی کشتی یا پھر کی.آپ نے بڑی تیز غصہ بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا اے اللہ کے دشمن! اللہ کے رسول صلی علیم سے ایسا کہتا ہے جو میں سن رہا ہوں اور اس طرح گستاخی سے پیش آتا ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں.اس خدا کی قسم جس نے ان کو حق دیکر بھیجا اگر مجھے ان کا ڈر نہ ہوتا تو میں اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا اور رسول اللہ صلی اللی نیم بڑے اطمینان اور تسلی کے ساتھ عمر کی طرف دیکھ رہے تھے اور تبسم فرمارہے تھے اور پھر آپ صلی علی یکم نے فرمایا اے عمر اس غصہ کی بجائے میں اور یہ دونوں اس بات کے زیادہ ضرورت مند ہیں کہ تو مجھے حسن ادا کے لئے کہے اور اسے حسن تقاضا کے لئے.اگر چہ ابھی ادائیگی کا وقت نہیں آیا اور کچھ دن باقی ہیں لیکن شاید یہ جلدی ادا ئیگی چاہتا ہے اس لئے جاؤ اسے ( ذخیرہ میں سے ) اس کا حق دلا دو اور میں صاع زیادہ کھجوریں دے دینا.جب ادائیگی ہوئی تو میں نے عمرؓ سے کہا یہ زیادہ کس لئے ؟ عمر نے جواب دیا.حضور علی یم نے مجھے فرمایا تھا کہ جو سختی میں نے کی ہے اس کے عوض میں ہیں صاع زیادہ ادا کروں.میں نے عمرؓ سے کہا آپ جانتے ہیں میں کون ہوں ؟ عمرؓ نے کہا نہیں، آپ کون ہیں ؟ میں نے کہا میں زید بن سعنہ ہوں عمرؓ نے پوچھا (وہ) حبر یعنی یہود کا عالم ؟ میں نے جواب دیا ہاں، یہود کا عالم.اس پر عمر نے کہا اتنے بڑے عالم ہو کر گستاخی کا یہ طریق تم نے کیوں اختیار کیا؟ میں نے جواب دیا جتنی بھی علامات نبوت ( میں نے اپنی کتابوں میں پڑھیں) تھیں جب میں نے
663 آپ صلی الیہ کم کو دیکھا تو آپ مای لیلی کام میں وہ مجھے نظر آئیں سوائے دو علامات کے ان میں ایک یہ کہ کیا اس نبی کا حلم اس کے غصہ پر غالب ہے دوسرے یہ کہ جتنا زیادہ ان سے تلخی اور جہالت سے پیش آیا جائے اتنا ہی زیادہ وہ حلم اور بردباری سے پیش آئیں گے (سو موقع ملنے پر) میں نے ان دونوں باتوں کی آزمائش کی ہے.اے عمر! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اللہ کو اپنا رب اور اسلام کو اپنا دین اور محمدصلی لینک کو اپنا نبی ماننے پر خوش ہوں اور آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں ایک مالدار شخص ہوں میرا آدھا مال امت محمد صلی الیکم کے لئے صدقہ ہے.اس پر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بعض امت محمدیہ کے لئے کہو کیونکہ ساری امت کا تو کوئی شمار ہی نہیں ان) کے لئے یہ مال کیسے پورا آسکتا ہے.میں نے کہا اچھا بعض کی ضرورتوں کے لئے خرچ ہو.اس کے بعد زیدہ رسول اللہ صلی الیکم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلى العلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں اس پر ایمان لاتا ہوں.اس طرح زید نے آپ صلی کم کی بیعت کی اور کئی جنگوں میں آپ کے ساتھ شریک رہے.یہاں تک کہ غزوئہ تبوک سے واپس آتے وقت راستہ میں ہی زید نے وفات پائی.اللہ تعالیٰ زید پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے.آمین.
664 مصائب و مشکلات اور صبر و ثبات 846ـ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الثَّقَفِي، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قُلْ لِي فِي الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ وَ فِي حَدِيثِ أَبِي أَسَامَةَ غَيْرَكَ قَالَ قُلْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ فَاسْتَقِمْ (مسلم کتاب الایمان باب جامع اوصاف الاسلام 47) حضرت سفیان بن عبد الله الثقفی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! مجھے اسلام کے بارہ میں کوئی ایسا ارشاد فرمائیں کہ مجھے آپ کے بعد کسی سے اس بارہ میں پوچھنے کی ضرورت نہ ہو.ابو اسامہ کی روایت میں آپ سے (” بعد “ کے بجائے ) علاوہ کے الفاظ ہیں.آپ نے فرمایا کہو ” میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم رہو.847- عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِ، قَالَ شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُتَوَسِلٌ بُرْدَةٌ لَهُ فِي ظِلِ الكَعْبَةِ، قُلْنَا لَهُ أَلاَ تَسْتَنْصِرُ لَنَا ، أَلا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا ؟ قَالَ كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ، فَيُجْعَلُ فِيهِ، فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُ بِاثْنَتَيْنِ، وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الحَدِيدِ مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَاللهِ لَيُتِمَّنَ هَذَا الأَمْرَ، حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ ، أَوِ الذِئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ (بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فى الاسلام 3612) حضرت خباب بن ارث نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا اور آپ اس وقت کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے.ہم نے آپ سے کہا کیا آپ ہمارے لئے نصرت کی دعا نہیں کریں گے ؟ کیا آپ اللہ سے ہمارے لئے دعا نہیں کریں گے ؟ آپ نے فرمایا تم میں سے جو پہلے لوگ تھے ، ان میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا جس کے لئے زمین میں گڑھا کھودا جاتا.پھر وہ اس میں گاڑ دیا جاتا اور آرا لا کر اس کے سر پر رکھا
665 جاتا اور وہ دو ٹکڑے کر دیا جاتا اور یہ بات اس کو اس کے دین سے نہ روکتی اور لوہے کی کنگھیاں چلا کر اس کا گوشت ہڈیوں یا پٹھوں سے نوچتے اور یہ بات اس کو اس کے دین سے نہ روکتی.اللہ کی قسم! اس سلسلہ ( کی کامیابی) کو ( پروردگار ) ضرور مکمل کرے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا.کسی سے نہیں ڈرے گا، سوا اللہ کے، یا اپنی بکریوں کی بابت بھڑیئے سے.مگر بات یہ ہے کہ تم (کامیابی ) جلدی چاہتے ہو.848ـ قَالَ عَبْدُ اللهِ كَافِي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ، ضَرَبَهُ قَوْمُهُ فَأَدْمَوْهُ، وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَيَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حديث الغار 3477) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ) نے بیان کیا کہ گویا میں نبی صلی للی کمک و آب بھی دیکھ رہا ہوں کہ نبیوں میں سے ایک نبی کا حال آپ سنارہے ہیں جس کو اس کی قوم نے مار مار کر لہولہان کر دیا تھا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور کہتے جاتے تھے : اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے.849ـ عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذالك لأحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِن، إن أصابَتْهُ مَرَاءُ هَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب المومن امره کله خیر 5304) حضرت صہیب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کا معاملہ سراسر خیر ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کے لئے نہیں.اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لئے مخیر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ (بھی) اس کے لئے خیر ہے.
666 850ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلا وَصَبٍ، وَلَا هُمْ وَلَا حُزْنٍ وَلَا أَذًى وَلَا هُمْ ، حَلَّى الشَّوْكَةِ يُقاتُهَا، إِلَّا كَفَرَ اللهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ (بخاری کتاب المرضى باب ما جاء فى كفارة المرض 5641) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان کو کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچتی اور بیماری اور غم اور نہ رنج اور نہ کوئی دکھ اور نہ کوئی گھبراہٹ یہاں تک کہ وہ کانٹا بھی جو اسے چبھ جاتا ہے مگر ضرور ہے کہ اللہ اس کی وجہ سے اس کی غلطیوں کو دور کر دیتا ہے.851- عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَشَلَّ آيَةٍ فِي كتاب اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ ؟ قَالَ أَيَّةُ آيَةٍ يَا عَائِشَةُ ؟ قَالَتْ قَوْلُ اللهِ تَعَالَى: مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ قَالَ أَمَا عَلِمْتِ يَا عَائِشَةُ، أَنَّ المُسْلِمَ تُصِيبُهُ النَّكْبَةُ، أَوِ الشَّوْكَةُ فَيُكَافَى بِأَسْوَءِ عَمَلِهِ وَمَنْ حُوسِبٌ عُذْبَ قَالَتْ أَلَيْسَ يَقُولُ اللهُ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا قَالَ ذَاكُمُ الْعَرَضُ، يَا عَائِشَةُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذْبَ (ابو داؤد کتاب الجنائز باب عيادة النساء 3093) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں یقینا اللہ عزوجل کی کتاب میں وہ آیت جانتی ہوں جو سب سے زیادہ شدید ہے.آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کونسی آیت ؟ آپ نے کہا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجز به (انسان: 124) جو بھی بر اعمل کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی.آپ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتیں اے عائشہ ! کہ جب کسی مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کانٹا تو وہ اس کے سب سے برے اعمال کا بدلہ ہو جاتا ہے اور جس سے حساب لیا گیا اسے عذاب دیا جائے گا.حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کیا اللہ تعالیٰ یہ
667 نہیں فرماتا فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يسيرا تو یقیناً اُس کا آسان حساب لیا جائے گا.آپ نے فرمایا وہ تو صرف پیشی ہے اے عائشہ ! جس سے خوب کرید کر حساب لیا گیا اسے عذاب دیا جائے گا.852- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى أَمْ سَيْفٍ، امْرَأَةِ قَيْنٍ يُقَالُ لَهُ أَبُو سَيْفٍ، فَانْطَلَقَ يَأْتِيهِ وَاتَّبَعْتُهُ، فَانْتَبَيْنَا إِلَى أَبِي سَيْفٍ وَهُوَ يَنْفُخُ بِكِيرِهِ، قَدِ امْتَلَا الْبَيْتُ دُخَانًا، فَأَسْرَعْتُ الْمَشْيَ بَيْنَ يَدَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ يَا أَبَا سَيْفٍ أَمْسِكْ، جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَمْسَكَ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّبِيِّ، فَضَمَّهُ إِلَيْهِ، وَقَالَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُولَ فَقَالَ أَنَسٌ : لَقَدْ رَأَيْتُهُ وَهُوَ يَكِيدُ بِنَفْسِهِ بَيْنَ يَدَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَمَعَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبَّنَا، وَاسِهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ (مسلم کتاب الفضائل باب رحمته الله الصبيان و العيال و تواضعه و فضل ذلک 4265) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایارات میرے ہاں بچہ کی ولادت ہوئی.میں نے اس کا نام اپنے باپ ابراہیم کے نام پر رکھا ہے.پھر آپ نے اسے ایک لوہار ابوسیف کی بیوی ام سیف کے پاس بھیج دیا.حضور صلی للی کم اس کے پاس جانے کے لئے چلے اور میں بھی آپ کے ساتھ گیا.ہم ابوسیف کے پاس پہنچے اور وہ بھٹی دھونک رہا تھا.اس کا گھر دھوئیں سے بھر گیا تھا.تو میں تیزی سے رسول اللہ صلی ا یکم کے آگے چلا.میں نے کہا اے ابو سیف !رُک جاؤ ، رسول اللہ صلی یی کم تشریف لا رہے ہیں.وہ رُک گیا.پھر نبی صلی علیم نے بچہ کو بلوایا اور اسے اپنے ساتھ چمٹایا پھر جو اللہ نے چاہا آپ نے فرمایا حضرت انس کہتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ وہ (بچہ) رسول اللہ صلی علیم کے سامنے آخری سانس لے رہا تھا اور رسول اللہ صلی ایم کی آنکھوں میں آنسو آگئے.الله سة
668 پھر آپ نے فرمایا آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہوتا ہے مگر ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے سوائے اس کے جس میں ہمارے رب کی رضا ہے.خدا کی قسم اے ابراہیم ایقینا ہم تیری وجہ سے غمگین ہیں.853 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ اشْتَكَى سَعْدُ بْن عُبَادَةً شَكْوَى لَهُ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ فِي غَاشِيَةِ أَهْلِهِ، فَقَالَ قَدْ قَضَى ؟ قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللهِ، فَبَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى القَوْمُ بُكَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا، فَقَالَ أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ العَيْنِ، وَلَا بحزْنِ القَلْبِ، وَلَكِن يُعَذِّبُ بِهَذَا - وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ - أَوْ يَرْحَمُ (بخاری کتاب الجنائز باب البكاء عند المريض 1304) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کو کسی بیماری کی شکایت ہوئی تو رسول الله صلى علم ، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو اپنے ساتھ لے کر ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے.جب ان کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو گھر والوں کے جمگھٹ میں پایا.آپ نے فرمایا کیا فوت ہو گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں یارسول اللہ.نبی صلی اللہ علیہ و سلم رو پڑے.لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو وہ بھی روئے.آپ نے فرمایا سنتے نہیں.دیکھو اللہ آنکھ کے آنسو نکلنے سے عذاب نہیں دیتا اور نہ دل کے غمگین ہونے پر.بلکہ اس کی وجہ سے سزا دے گا یار تم کرے گا اور آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا.
669 854ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا شَتَمَ أَبَا بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْجَبُ وَيَتَبَسَّمُ، فَلَمَّا أَكْثَرَ رَةً عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَ ، فَلَحِقَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَانَ يَشْتُمُنِي وَأَنْتَ جَالِسٌ فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ، غَضِبْتَ وَقُمتَ ، قَالَ إِنَّهُ كَانَ مَعَكَ مَلَكَ يَرُدُّ عَنْكَ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ، وَقَعَ الشَّيْطَانُ، فَلَمْ أَكُنْ لِأَقْعُدَ مَعَ الشَّيْطَانِ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا بَكْر ثَلاتٌ كُلُهُنَّ حَقٌّ: مَا مِنْ عَبْدٍ ظُلِمَ بِمَظْلَمَةٍ فَيُغْضِي عَنْهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، إِلَّا أَعَزَّ اللَّهُ يها نفرَهُ، وَمَا فَتح رَجُلٌ بَاتٍ عَطِيَّةٍ ، يُرِيدُ بِهَا صِلَةَ، إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ بِهَا كَثْرَةٌ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَاب مَسْأَلَةٍ ، يُريد بها كثرَةٌ إِلَّا زَادَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا قِلَةٌ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه ، مسند ابی هریره رضی اللہ عنہ 9622) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی لی ایم کے سامنے ابو بکر کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور حضرت ابو بکر چپ تھے حضور صلی یہ کم بیٹھے مسکراتے رہے اور تعجب کرتے رہے جب اس شخص نے گالیاں دینے میں حد کر دی تو ابو بکڑ نے بھی جو اب کچھ الفاظ کہے.اس پر نبی صلی للی کنم ناراضگی کے انداز میں کھڑے ہو گئے اور چل پڑے.حضرت ابو بکر نے جا کر حضور علی کی کمی سے عرض کیا کہ حضور جب تک وہ مجھے گالیاں دیتارہا آپ سنتے رہے اور بیٹھے رہے لیکن جب میں نے اس کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ آئے اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا اے ابو بکر جب تک تم خاموش تھے فرشتے تمہاری طرف سے اسے جواب دے رہے تھے لیکن جب تم نے خود جواب دینا شروع کیا تو فرشتے چلے گئے اور شیطان آگیا.میں شیطان کے ساتھ کس طرح بیٹھ سکتا تھا.پھر فرمایا اے ابو بکر تین باتیں بر حق ہیں.اول یہ کہ اگر کسی انسان سے زیادتی ہو اور وہ اللہ کی خاطر در گزر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت کا مقام عطاء کرتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے.دوسری یہ کہ جس شخص نے بخشش کا دروازہ کھولا اور اس کا مقصد صرف صلہ رحمی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مال کو زیادہ کرے گا اور اسے بہت دے گا.تیسری
670 یہ کہ جس شخص نے اس غرض سے مانگنا شروع کیا ہے کہ اس کا مال زیادہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے مال کو بڑھانے کی بجائے کم کر دے گا.یعنی تنگ دستی اس کا پیچھا کرے گی.855- عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُرَدٍ، قَالَ كُنتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلانِ يَسْتَبَانِ، فَأَحَدُهُمَا احْمَرَ وَجْهُهُ، وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا ذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، ذَهَبَ عَنْهُ مَا يجد فَقَالُوا لَهُ إِنَّ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَعَوَّذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ (بخاری کتاب بدء الخلق باب صفة الابليس و جنوده 3282 ) سة حضرت سلیمان بن صُر بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہو اتھا اور دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے.ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس کی گردن کی رگیں پھول گئیں.نبی صلی الیم نے فرمایا میں ایک کلمہ جانتا ہوں کہ اگر وہ اسے کہے تو جو غصہ اس کو ہے وہ جاتا رہے گا.اگر وہ یہ کہے میں شیطان سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں تو جو غصہ اس کو ہے وہ جاتا رہے گا.لوگوں نے اس سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : تم شیطان سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگو.856ـ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ اتَّقِى اللهَ وَاصْبِرِى قَالَتْ إِلَيْكَ عَنِي ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي، وَلَمْ تَعْرِفُهُ، فَقِيلَ لَهَا إِنَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ تَجِدُ عِنْدَهُ بَوابِينَ، فَقَالَتْ لَمْ أَعْرِفُكَ، فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدِّمَةِ الأُولَى (بخاری) کتاب الجنائز باب زيارة القبور (1283)
671 الله حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے قریب سے گزرے جو قبر کے پاس رورہی تھی تو آپ نے فرمایا اللہ کو سپر بناؤ اور صبر کرو.وہ کہنے لگی: مجھ سے دور ہو.تمہیں میرے جیسی مصیبت نہیں پہنچی.اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا.اسے کہا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تب وہ نبی صلی علیکم کے دروازے پر آئی اور آپ کے پاس کوئی دربان نہ پایا.کہنے لگی: میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا.آپ نے فرمایا صبر تو پہلے صدمہ کے وقت میں ہوتا ہے.اخلاق سیئہ ، اثم اور گناہ 857 عن زياد بن علاقة، عَنْ عَيْهِ، قَالَ كان النبى صلى الله عليه وسلم يقول اللهم إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنكَرَاتِ الأَخْلَاقِ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاء (ترمذی کتاب الدعوات باب دعاء ام سلمة له 3591) حضرت زیاد اپنے چا قطبہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی علیکم یہ دعامانگا کرتے تھے : اے میرے اللہ ! میں برے اخلاق اور برے اعمال سے اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں.858 عنِ النَّوَّاسِ بْنِ مِمْعَانَ الْأَنْصَارِي، قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ البز والإِثْمِ فَقَالَ الحُسْن الْخَلْقِ، وَالإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعُ عَلَيْهِ النَّاسُ دوو (مسلم کتاب البر والصلة باب تفسير البر والاثم 4618)
672 حضرت نواس بن سمعان انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللی نیلم سے نیکی اور گناہ کے بارہ میں سوال کیا.آپ نے فرمایا نیکی حسن خلق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینہ میں کھٹکے اور تو نا پسند کرے کہ لوگوں کو اس کا پتہ لگے.عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ البِرِّ وَالإِثْمِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ، وَالإِثْمُ مَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ (ترمذى كتاب الزهد باب ما جاء في البر والاثم (2389) حضرت نواس بن سمعان بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صل اللی کم سے نیکی اور گناہ کے بارہ میں پوچھا.نبی ملی ٹیم نے فرمایا نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے اور تیری اس کمزوری سے وہ واقف ہوں.859 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الكَبَائِرُ الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَاليَمِينُ الغَمُوسُ (بخاری کتاب الايمان والنذور باب اليمين الغموس 6675) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی صلی ا یکم نے فرمایا بڑے گناہ یہ ہیں.اللہ کا شریک ٹھہر انا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جان کو مار ڈالنا اور عمد اجھوٹی قسم کھانا.860- عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ ثَلَاتٌ هُنَّ أَصْلُ كُلِّ خَطِيئَةٍ فَاتَّقُوهُنَّ وَاحْذَرُوهُنَّ ، إِيَّاكُمْ وَالْكِبْرَ فَإِنَّ إِبْلِيسَ حَمَلَهُ الْكِبْرُ عَلَى أَنْ لَا يَسْجُدَ
673 لآدَمَ ، وَإِيَّاكُمْ وَالْحِرْصَ فَإِنَّ آدَمَ حَمَلَهُ الْحِرْصُ عَلَى أَنْ أكل مِنَ الشَّجَرَةِ ، وَإِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فإن ابن آدم إنما قتل أحدُهُمَا صَاحِبَهُ حَسَدًا الرسالة القشيريه ، باب الحسد (192 حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا تین باتیں ہر گناہ کی جڑ ہیں ان سے بچنا چاہئے.تکبر سے بچو کیونکہ تکبر نے ہی شیطان کو اس بات پر اکسایا کہ وہ آدم کو سجدہ نہ کرے.دوسرے حرص سے بچو کیونکہ حرص نے ہی آدم کو درخت کھانے پر اکسایا.تیسرے حسد سے بچو کیونکہ حسد کی وجہ سے ہی آدم کے دو بیٹوں میں سے ایک نے اپنے دوسرے بھائی کو قتل کر دیا تھا.861.عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَهَلْ يَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ ؟ قَالَ نَعَمُ يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ (مسلم کتاب الایمان باب بیان الكبائر و اكبرها 122) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے فرمایا آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے.(صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا کوئی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، وہ کسی شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے.862- عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ لَعَن رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ (مسلم کتاب المساقات باب لعن آكل الربا وموكله 2980) حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت کی ہے.
674 863 - حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْن جُنْدَبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ لِلأَصْحَابِهِ: هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْ رُؤْيَا قَالَ فَيَقُصُّ عَلَيْهِ مَنْ شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُضَ، وَإِنَّهُ قَالَ ذَاتَ غَدَاةٍ: إِنَّهُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ، وَإِنَّهُمَا ابْتَعَثَانِي، وَإِنَّهُمَا قَالاً لي انطلق، وَإِنِّي انْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، وَإِنَّا أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ، وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَيْهِ بِصَخْرَةٍ، وَإِذَا هُوَ يَهْوِى بِالصَّخْرَةِ لِرَأْسِهِ فَيَخْلَعُ رَأْسَهُ، فَيَتَهَدْهَدُ الحَجَرُهَا هُنَا، فَيَتْبَعُ الحَجَرَ فَيَأْخُذُهُ، فَلَا يَرْجِعُ إِلَيْهِ حَتَّى يَصِخَ رَأْسُهُ كَمَا كَانَ، ثُمَّ يَعُودُ عَلَيْهِ فَيَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ المرَّةَ الأُولَى قَالَ قُلْتُ لَهُمَا: سُبْحَانَ اللهِ مَا هَذَانِ؟ قَالَ قَالاً لي: انْطَلِقِ انْطَلِقُ قَالَ فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُسْتَلْقٍ لِقَفَاهُ، وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَيْهِ بِكَلُوبٍ مِنْ حَدِيدٍ، وَإِذَا هُوَ يَأْتِي أَحَدَ شِقَى وَجْهِهِ فَيُشَرْشِرُ شِدْقَهُ إِلَى قَفَاهُ، وَمَنْخِرَهُ إِلَى قَفَاهُ، وَعَيْنَهُ إِلَى قَفَاهُ - قَالَ وَرُبَّمَا قَالَ أَبُو رَجَاءِ: فَيَشُقُ - قَالَ ثُمَّ يَتَحَوَلُ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ فَيَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا - فَعَل بالجانب الأول، أمَّا يَفرُ مِن ذَلِكَ الجَانِبِ حَتَّى يَصِحَ ذَلِكَ الجَانِبُ كَمَا كَانَ، ثُمَّ يَعُودُ عَلَيْهِ فَيَفْعَلُ مِثْلَ مَا فَعَلَ المُرَّةَ الأُولَى قَالَ قُلْتُ سُبْحَانَ اللهِ مَا هَذَانِ ؟ قَالَ قَالاً لي: انْطَلِقِ انْطَلِقُ، فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى مِثْلِ التَنُّورِ قَالَ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فَإِذَا فِيهِ لَغَظ وَأَصْوَاتُ قَالَ فَاطَّلَعْنَا فِيهِ، فَإِذَا فِيهِ رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ، وَإِذَا هُمْ يَأْتِيهِمْ لَهَبٌ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ، فَإِذَا أَتَاهُمْ ذَلِكَ اللَّهَبُ ضَوْضَوْا قَالَ قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَؤُلَاءِ؟ قَالَ قَالَا لِي: انْطَلِقِ انْطَلِقُ قَالَ فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ - حَسِبْتُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ - أَحْمَرَ مِثْلِ الدَّمِ ، وَإِذَا فِي النَّهَرِ رَجُلٌ سَائِحٌ يَسْبَحُ، وَإِذَا عَلَى شَطِ النَّهَرِ رَجُلٌ قَدْ جَمَعَ عِنْدَهُ حِجَارَةً كَثِيرَةً، وَإِذَا ذَلِكَ السَّابِحُ يَسْبَحُ مَا يَسْبَحُ، ثُمَّ يَأْتِي ذَلِكَ الَّذِي قَدْ جَمَعَ عِنْدَهُ الْحِجَارَةَ، فَيَفْعَرُ لَهُ فَاهُ فَيُلْقِمُهُ عَجَرًا فَيَنطَلِقُ يَسْبَحُ، ثم يَرْجِعُ إِلَيْهِ كُلَّمَا رَجَعَ إِلَيْهِ فَغَرَ لَهُ فَاهُ فَأَلْقَمَهُ
675 حَجَرًا قَالَ قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَانِ ؟ قَالَ قَالاً لِي انْطَلِقِ انْطَلِقُ قَالَ فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ كَريهِ المَزاقِ، كَأْكُرهِ مَا أَنْتَ رَاءٍ رَجُلًا مَرْأَةٌ، وَإِذَا عِنْدَهُ نَارٌ يَحُضُهَا وَيَسْعَى حَوْلَهَا قَالَ قُلْتُ لَهُمَا : مَا هَذَا ؟ قَالَ قَالاً لي: انْطَلِقِ انْطَلِقُ، فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَيْنَا عَلَى رَوْضَةٍ مُعْتَمَةٍ، فِيهَا مِنْ كُلِّ نورِ الرَّبِيعِ، وَإِذَا بَيْنَ ظَهْرِي الرَّوْضَةِ رَجُلٌ طَوِيلٌ، لَا أَكَادُ أَرَى رَأْسَهُ طُولًا فِي السَّمَاءِ، وَإِذَا حَوْلَ الرَّجُلِ مِنْ أَكْثَرِ وِلْدَانٍ رَأَيْتُهُمْ قَط قَالَ قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَا مَا هَؤُلَاءِ؟ قَالَ قَالاً لي: انْطَلِقِ انْطَلِقُ قَالَ فَانْطَلَقْنَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ عَظِيمَةٍ، لَمْ أَرَ رَوْضَةٌ قَط أَعْظَمَ مِنْهَا وَلَا أَحْسَنَ قَالَ قَالاً لِي ارْقَ فِيهَا قَالَ فَارْتَقَيْنَا فِيهَا، فَانْتَبَيْنَا إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ وَلَبِهِ فِضَّةٍ، فَأَتَيْنَا بَابَ المَدِينَةِ فَاسْتَفْتَحْنَا فَفُتِحَ لَنَا فَدَخَلْنَاهَا، فَتَلَقَّانَا فِيهَا رِجَالٌ شَطْرُ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ، وَشَطْرُ كَأَ فَبَحٍ مَا أَنْتَ رَاءٍ قَالَ قَالاً لَهُمْ : اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهَرِ قَالَ وَإِذَا نَهَرٌ مُعْتَرِضٌ يَجْرِى كَأَنَّ مَاءَهُ المَحْضُ فِي البَيَاضِ، فَذَهَبُوا فَوَقَعُوا فِيهِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ، فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالَ قَالاً لِي: هَذِهِ جَنَّةُ عَدْنٍ وَهَذَاكَ مَنْزِلُكَ قَالَ فَسَمَا بَصَرِي صُعُدًا فَإِذَا قَصْرُ مِثْلُ الرَّبَابَةِ البَيْضَاءِ قَالَ قَالاً لي: هَذَاكَ مَنْزِلُكَ قَالَ قُلْتُ لَهُمَا: بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمَا ذَرَانِي فَأَدْخُلَهُ، قَالا: أَمَّا الآن فَلَا وَأَنْتَ دَاخِلَهُ قَالَ قُلْتُ لَهُمَا: فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ مُنْذُ اللَّيْلَةِ عَجَبًا، فَمَا هَذَا الَّذِى رَأَيْتُ؟ قَالَ قَالاً لِي : أَمَا إِنَّا سَنُخْبِرُكَ، أَمَّا الرَّجُلُ الأَوَّلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يُخْلَعُ رَأْسُهُ بِالحَجَرِ، فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَأْخُذُ القُرْآنَ فَيَرْفُضُهُ وَيَنَامُ عَنِ الصَّلَاةِ المكْتُوبَةِ، وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِى أَتَيْتَ عَلَيْهِ، يُشَرْشَرُ شِدّقُهُ إِلَى قَفَاهُ، وَمَنْخِرُهُ إِلَى قَفَاهُ، وَعَيْنُهُ إِلَى قَفَاهُ، فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَغْدُو مِنْ بَيْتِهِ، فَيَكْذِبُ الكَذِّبَةَ تَبْلُغُ الْآفَاقَ، وَأَمَّا الرِّجَالُ وَالنَّسَاءُ العُرَاةُ الَّذِينَ فِي مِثْلِ بِنَاءِ القَنُورِ، فَإِنَّهُمُ الزَّنَاةُ وَالزَّوَانِي، وَأَمَّا الرَّجُلُ
676 الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يَسْبَحُ فِي النَّهَرِ وَيُلْقَمُ الحَجَرَ ، فَإِنَّهُ آكِلُ الرِّبَا، وَأَمَّا الرَّجُلُ الكَرِيهُ المرآة، الَّذِي عِنْدَ النَّارِ يَحُمُّهَا وَيَسْعَى حَوْلَهَا، فَإِنَّهُ مَالِكَ خَازِنُ جَهَنَّمَ، وَأَمَّا الرَّجُلُ الطَّوِيلُ الَّذِي فِي الرَّوْضَةِ فَإِنَّهُ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَمَّا الوِلْدَانُ الَّذِينَ حَوْلَهُ فَكُلُّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَى الفِطْرَةِ قَالَ فَقَالَ بَعْضُ المُسْلِمِينَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَوْلَادُ المُشْرِكِينَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَوْلَادُ المُشْرِكِينَ، وَأَمَّا القَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شَطْرُ مِنْهُمْ حَسَنًا وَشَطْرُ قَبِيعًا، فَإِنَّهُمْ قَوْمٌ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيْئًا، تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُم (بخاری کتاب التعبير باب تعبير الرويا بعد صلاة الصبح (7047) حضرت سمرہ بن جندب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی میں کم اپنے صحابہ سے اکثر یہ پوچھا کرتے تھے.کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا؟ حضرت سمرہ کہتے تھے.تو پھر وہ لوگ جن کے متعلق اللہ چاہتا کہ بیان کریں آپ سے بیان کرتے اور ایک دن صبح کے وقت آپ نے فرمایا آج رات دو آنے والے میرے پاس آئے.انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہنے لگے.چلو.میں ان کے ساتھ چل پڑا اور ہم ایک شخص کے پاس آئے جو لیٹا ہو اتھا اور اتنے میں دیکھا کہ ایک دوسرا شخص ہے جو پتھر لئے اس کے پاس کھڑا ہے اور وہ جھک کر پتھر اس کے سر پر مارتا ہے اور سر کو پھوڑ دیتا ہے اور پھر وہ پتھر ادھر ڈھلک جاتا اور وہ پتھر کے پیچھے جاتا اور اس کو لیتا اور ابھی اس کے پاس لوٹ کر نہ آتا کہ اس کا سر ویسے ہی درست ہو جاتا جیسے پہلے تھا.پھر وہ اس کے پاس آتا اور اس سے وہی کرتا جو پہلی دفعہ کیا.آپ فرماتے تھے.میں نے ان سے پوچھا.سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں ؟ آپ فرماتے تھے.ان دونوں نے مجھ سے کہا.چلے چلو.فرماتے تھے.ہم چل پڑے اور ایک شخص کے پاس آئے جو اپنی گدی کے بل چت لیٹا ہوا تھا اور ایک اور شخص ہے جو اس کے پاس لوہے کا کانٹا لئے کھڑا ہے اور وہ ان کے منہ کے ایک طرف جاکر اس کی باچھ اس کی گدی تک چیر ڈالتا اور اس کا نتھنا بھی گدی تک اور اس کی آنکھ بھی گدی تک چیر ڈالتا اور عوف اعرابی کہتے تھے اور کبھی ابور جاء نے بجائے يُشر شر کے يَشُقُ کہا.آپ فرماتے تھے اس کے بعد وہاں سے ہٹ کر
677 دوسرے رخسار کی طرف جاتا اور اس سے وہی کرتا جو اس نے اس کے منہ کے پہلے رخسار سے کیا تھا.اس طرف سے ابھی فارغ نہ ہو تا کہ وہ پہلی طرف ویسی اچھی بھلی ہو جاتی جیسی پہلی تھی.پھر اس کے پاس آتا اور ویسے ہی کرتا جو اس نے پہلی بار کیا تھا فرماتے تھے.میں نے کہا.سبحان اللہ یہ کون ہیں ؟ فرماتے تھے.ان دونوں نے مجھے سے کہا.چلے چلو.ہم چل پڑے.پھر ایک ایسے گڑھے پر پہنچے جو تنور کی طرح تھا.حضرت سمرہ بن جندب کہتے تھے میں سمجھتا ہوں کہ آپ یہ فرمایا کرتے تھے.تو کیا سنتا ہوں کہ اس گڑھے میں شور وغل ہے.فرماتے تھے.ہم نے اس میں جھانکا تو کیا دیکھا کہ اس میں مرد اور عور تیں ہیں جو ننگے ہیں اور کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نیچے سے شعلے اٹھ کر ان پر لپک رہے ہیں.جب وہ شعلے ان پر لپکتے وہ چیختے چلاتے فرماتے تھے.میں نے ان دونوں سے پوچھا.یہ کون ہیں ؟ انہوں نے مجھ سے کہا.چلے چلو.فرماتے تھے.ہم چل پڑے اور ایک ندی پر پہنچے.حضرت سمرہ کہتے تھے.میں سمجھتا ہوں آپ فرمایا کرتے تھے جو خون کی طرح لال تھی اور کیا دیکھتے ہیں کہ اس ندی میں ایک تیر اک شخص تیر رہا ہے اور کیا دیکھا کہ اس ندی کے کنارے پر ایک شخص ہے جس نے اپنے پاس بہت سے پتھر اکٹھے کر رکھے ہیں اور تیراک تیر تا رہتا ہے جتنی دیر تیرتا ہے پھر وہ اس شخص کی طرف منہ کرتا ہے جس نے اپنے پاس پتھر اکٹھے کر رکھے ہیں اور اس کے سامنے اپنا منہ کھول دیتا ہے تو وہ اس کے منہ میں وہ پتھر ڈال دیتا ہے اور پھر وہ جاکر تیرنے لگتا ہے.پھر کچھ تھوڑی دیر بعد وہ اس کے پاس لوٹ آتا ہے.جب کبھی وہ اس کے پاس لوٹ کر آتا ہے اپنا منہ اس کے سامنے کھول دیتا ہے اور وہ اس کے منہ میں پتھر رکھ دیتے.آپ فرماتے تھے.میں نے ان سے پوچھا.یہ دونوں کون ہیں ؟ فرماتے تھے.ان دونوں نے مجھ سے کہا.چلے چلو.فرماتے تھے.ہم چل پڑے اور ہم ایسے شخص کے پاس آئے جو بد صورت تھا بہت ہی بدصورت ایسا کہ تم نے کبھی کسی شخص کو دیکھا ہو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے پاس آگ ہے جس سے وہ سلگا رہا ہے اور اس کے گردا گر د دوڑ رہا ہے.آپ فرماتے تھے میں نے ان سے کہا.یہ کون ہے؟ فرماتے تھے.ان دونوں نے مجھ سے کہا.چلے چلو.ہم چل پڑے اور سر سبز باغیچہ کے پاس پہنچے جس میں موسم بہار کے ہر قسم کے غنچے تھے اور اس باغیچہ کے در میان ایک لمبا شخص ہے اتنا لمبا کہ اونچائی کی وجہ سے میں اس کا سر بھی نہ دیکھ سکتا تھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ اس شخص کے گر دا گر داس کی کثرت
678 سے کہ جو میں نے کبھی دیکھے فرماتے تھے.میں نے ان سے پوچھا.یہ کون ہے اور یہ کون ہیں ؟ فرماتے تھے.انہوں نے مجھ سے کہا.چلے چلو.آپ فرماتے تھے ہم چل پڑے اور ایک بہت ہی بڑے باغ پر پہنچے.میں نے کبھی اس سے بڑا اور نہ اس سے بڑھ کر خوبصورت کبھی کوئی باغ دیکھتا.فرماتے تھے انہوں نے مجھ سے کہا اس درخت پر چڑھ جاؤ.فرماتے تھے ہم اس پر چڑھ گئے اور ایک ایسے شہر پر پہنچے جو سونے کی اینٹوں اور چاندی کی اینٹوں سے بنا تھا اور ہم شہر کے دروازے پر آئے اور ہم نے (اسے) کھولنا چاہا.وہ ہمارے لئے کھول دیا گیا.ہم اس کے اندر گئے تو ہم کو ایسے آدمی ملے کہ جن کا آدھا دھڑ نہایت ہی خوبصورت ایسا کہ جو تم نے کبھی دیکھا ہو اور آدھا دھڑ نہایت ہی بد صورت ایسا کہ جو تم نے کبھی دیکھا ہو.فرماتے تھے.ان دونوں نے ان لوگوں سے کہا.چلے جاؤ اور اس ندی میں داخل ہو جاؤ.آپ فرماتے تھے اور کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ندی ہے جو سامنے بہہ رہی ہے اس کا پانی ایسا صاف جیسا سفیدی میں خالص دودھ ہوتا ہے.چنانچہ وہ لوگ گئے اور اس میں کود پڑے.پھر وہ ہمارے پاس لوٹ کر آئے وہ بد صورتی ان سے جاتی رہی اور وہ نہایت ہی خوبصورت ہو گئے.آپ فرماتے تھے ان دونوں نے مجھ سے کہا.یہ جنت عدن ہے اور وہ تمہارے ٹھہرنے کی جگہ ہے.آپ فرماتے تھے.میری نگاہ جو اوپر اٹھی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک محل ہے جو سفید ابر کی مانند ہے اور فرماتے تھے ان دونوں نے مجھ سے کہا.یہی تمہارے ٹھہرنے کی جگہ ہے.فرماتے تھے میں نے ان سے کہا.تم دونوں کو اللہ برکت دے مجھے اجازت دو کہ میں اس کے اندر جاؤں.ان دونوں نے کہا ابھی تو نہیں اور تم اس میں داخل ہو گے.فرماتے تھے میں نے ان سے کہا کہ آج جو میں نے عجیب باتیں دیکھیں ہیں تو وہ کیا ہے جو میں نے دیکھا ہے فرماتے تھے.ان دونوں نے مجھ سے کہا.سنو ہم تمہیں اصل حقیقت بتلائے دیتے ہیں.وہ پہلا شخص جس کے پاس تم آئے تھے.اس کا سر پتھر سے پھوڑا جارہا تھا تو وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا ہے اور پھر اس کو چھوڑ دیتا ہے اور فرض نماز کو چھوڑ کر سورہتا ہے اور وہ شخص جس کے پاس تم آئے تھے جس کا جبڑا گدی تک اور اس کا نتھنا بھی گدی تک اور اس کی آنکھ بھی گدی تک چیری جارہی تھی تو وہ شخص ہے جو اپنے گھر سے صبح نکلتا ہے اور ایک جھوٹی بات بناتا ہے جو چاروں طرف پہنچ جاتی ہے اور وہ ننگے مرد اور عور تیں جو تم نے ایسے گڑھے میں دیکھے جو تنور کی طرح بنا ہوا تھاوہ زنا کرنے والے اور زنا
679 کرنے والیاں اور وہ شخص جس کے پاس تم آئے جو نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھر دیئے جاتے تھے تو وہ سود خور ہے اور وہ بد صورت شخص جو آگ کے پاس تھا اس کو سلگا رہا تھا اور اس کے گر دا گر د دوڑ رہا تھا تو وہ مالک فرشتہ ہے جو جہنم کا داروغہ ہے اور وہ شخص جو باغیچہ میں تھاتو وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں اور وہ بچے جو ان کے گر داگر و تھے وہ تمہارے بچے ہیں جو فطرت پر مر گئے.حضرت سمرہ کہتے تھے یہ سن کر بعض مسلمانوں نے کہا.یار سول اللہ ! اور مشرکوں کے بچے (جو مر جاتے ہیں)؟ تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مشرکوں کے بچے بھی تھے اور وہ لوگ جن کا آدھا دھڑ اچھا تھا اور آدھا بد صورت تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملے جلے کام کئے کچھ اچھے بھی اور کچھ برے بھی اللہ نے ان سے در گزر کر دیا.عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ......رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخَذَا بِيَدِى، فَأَخْرَجَانِي إِلَى الأَرْضِ المقدَّسَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ، وَرَجُلٌ قَائِمٌ، بِيَدِهِ كَذُوبٌ مِنْ حَدِيدٍ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُوسَى : إِنَّهُ يُدْخِلُ ذَلِكَ الكَلُوبَ فِي شِدْقِهِ حَتَّى يَبْلُغَ قَفَاهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ بِشِدْقِهِ الآخَرِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَيَلْتَهِمْ شِدّقُهُ هَذَا، فَيَعُودُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ، قُلْتُ مَا هَذَا؟ قَالَا: انْطَلِقُ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعْ عَلَى قَفَاهُ وَرَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِهِ بِفِهْرٍ — أَوْ صَخْرَةٍ - فَيَشْدَحُ بِهِ رَأْسَهُ، فَإِذَا ضَرَبَهُ تَدَهُدَةَ الحَجَرُ، فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ لِيَأْخُذَهُ، فَلَا يَرْجِعُ إِلَى هَذَا حَتَّى يَلْتَيَّمَ رَأْسُهُ وَعَادَ رَأْسُهُ كَمَا هُوَ، فَعَادَ إِلَيْهِ، فَضَرَبَهُ، قُلْتُ مَنْ هَذَا؟ قَالا: انْطَلِقُ فَانْطَلَقْنَا إِلَى ثَقْبِ مِثْلِ التَّنُّورِ ، أَعْلاهُ ضَيْقُ وَأَسْفَلُهُ وَاسِعٌ يَتَوَقَدُ تَحْتَهُ نَارًا، فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوا حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجُوا ، فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوا فِيهَا، وَفِيهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا ؟ قَالاَ انْطَلِقُ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَهِ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى وَسُطِ النَّهَرٍ - قَالَ يَزِيدُ، وَوَهُبُ بْنُ جَرِيرٍ: عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ وَعَلَى شَطِ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةً ، فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ رَعَى
680 الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ، فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ، فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَعَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ، فَيَرْجِعُ گھما كَانَ، فَقُلْتُ مَا هَذَا ؟ قَالاً : انْطَلِقُ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ، فِيهَا شَجَرَةٌ عَظِيمَةٌ، وَفِي أَصْلِهَا شَيْخٌ وَصِبْيَانٌ، وَإِذَا رَجُلٌ قَرِيبٌ مِنَ الشَّجَرَةِ بَيْنَ يَدَيْهِ نَارٌ يُوقِدُهَا، فَصَعِدَا بِي فِي الشَّجَرَةِ، وَأَدْخَلاَنِي دَارًا لَمْ أَرَ قَط أَحْسَنَ مِنْهَا، فِيهَا رِجَالٌ شُيُوخٌ وَشَبَابٌ، وَنِسَاءُ، وَصِبْيَانَ، ثُمَّ أَخْرَجَانِي مِنْهَا فَصَعِدَا بِي الشَّجَرَةَ، فَأَدْخَلَانِي دَارًا هِيَ أَحْسَنُ وَأَفْضَلُ فِيهَا شُيُوخٌ، وَشَبَابٌ، قُلْتُ طَوَفَتَمانِي اللَّيْلَةَ، فَأَخْبِرَانِي عَمَّا رَأَيْتُ، قَالَا: نَعَمْ، أَمَّا الَّذِى رَأَيْتَهُ يُشَقُ شِدْقُهُ، فَكَذَّابٌ يُحَدِّثُ بِالكَذَّبَةِ، فَتَحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الآفَاقَ، فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ، وَالَّذِى رَأَيْتَهُ يُشْدَحُ رَأْسُهُ، فَرَجُلٌ عَلَّمَهُ اللهُ القُرْآنَ، فَنَامَ عَنْهُ بِاللَّيْلِ وَلَمْ يَعْمَلْ فِيهِ بِالنَّهَارِ يُفْعَلُ بِهِ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ، وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي القَقْبِ فَهُمُ الزِّنَاةُ، وَالَّذِى رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُوا الرِّبَا، وَالشَّيْخُ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلامُ، وَالصَّبْيَانُ، حَوْلَهُ، فَأَوْلادُ النَّاسِ وَالَّذِي يُوقِدُ النَّارِ مَالِكَ خَازِنُ النَّارِ، وَالدَّارُ الأُولَى الَّتِي دَخَلْتَ دَارُ عَامَّةِ المُؤْمِنِينَ، وَأَمَّا هَذِهِ الدَّارُ فَدَارُ الشُّهَدَاءِ، وَأَنَا جِبْرِيلُ، وَهَذَا مِيكَائِيلُ، فَارْفَعْ رَأْسَكَ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا فَوْقِي مِثْلُ السَّحَابِ، قَالا: ذَاكَ مَنْزِلُكَ، قُلْتُ دَعَانِي أَدْخُلُ مَنْزِلِي، قَالَا: إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمْرُ لَمْ تَسْتَكْمِلُلْهُ فَلَوِ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ (بخاری کتاب الجنائز باب ما قيل فى اولاد المشركين 1386) حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( آج رات تم میں سے کس نے خواب دیکھا ؟ ( حضرت سمرہ ) کہتے تھے : اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو وہ بیان کرتا.پھر جو اللہ چاہتا، آپ تعبیر فرماتے.ایک دن آپ نے ہم سے پوچھا، فرمایا کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے کہا نہیں).
681 میں نے تو آج رات دو شخص دیکھے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں.انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ارض مقدسہ کی طرف لے گئے تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بیٹھا اور ایک شخص کھڑا ہے.اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا ہے.ہمارے بعض ساتھیوں نے موسیٰ ( بن اسماعیل) سے یوں نقل کیالو ہے کا آنکڑا ہے، جو وہ اس کے گلپھڑے میں گھسیڑ تا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی گدی تک پہنچ جاتا ہے.پھر دوسرے گلپھڑے میں بھی اسی طرح کرتا ہے اور پہلا گلپھڑا جڑ جاتا ہے اور وہ بار بار اسی طرح کرتا ہے.میں نے اس سے پوچھا: یہ کیا؟ ان دونوں نے کہا آگے چلیں.ہم چل پڑے.یہاں تک کہ ہم ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو اپنی گدی کے بل لیٹا ہو اتھا اور ایک آدمی اس کے سر پر سل بٹہ یا کہا پتھر لئے کھڑا ہے اور اس سے اس کا سر پھوڑ رہا ہے.جب اسے مارتا ہے تو پتھر لڑھک جاتا ہے.پھر وہ اس کو لینے جاتا ہے.ابھی اس کی طرف نہیں لوٹنا کہ اس کا سر جڑ جاتا ہے اور پھر ویسے ہی ہو جاتا ہے جیسے پہلے تھا.پھر وہ اس کی طرف دوبارہ لپکتا ہے اور اسے مارتا ہے.میں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ ان دونوں نے کہا آگے چلیں.تو ہم ایک گڑھے کی طرف گئے جو تنور کی طرح تھا.اوپر سے تنگ تھا اور نیچے سے کشادہ.اس کے اندر آگ سلگ رہی تھی.جب آگ کی لپٹ کنارے تک آتی تو وہ لوگ بھی اوپر اٹھ آتے ، یہاں تک کہ وہ نکلنے کے قریب ہوتے.جب دھیمی ہوتی تو وہ بھی اس میں لوٹ جاتے اور اس میں کئی عورتیں اور مرد ننگے تھے.میں نے پوچھا: یہ کون ؟ دونوں نے کہا آگے چلیں.ہم چل پڑے.یہاں تک کہ ہم ایک خون کی ندی پر آئے، اس میں ایک آدمی کھڑا تھا اور وہ ندی کے درمیان میں تھا.اور ایک (اور) آدمی تھا جس کے سامنے پتھر تھے.یزید بن ہارون) اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم سے یوں روایت کی: کیا دیکھتے ہیں کہ ندی کے کنارے پر ایک شخص ہے.(جس کے سامنے پتھر ہیں.اتنے میں وہ شخص جو ندی کے اندر تھا، آگے کو بڑھا.جب اس نے نکلنے کا ارادہ کیا تو دوسرے آدمی نے اس کے منہ پر پتھر مارا اور اسے وہیں لوٹا دیا، جہاں تھا.پھر ایسا ہی کرتا ہے جب کبھی وہ نکلنے کے لئے آتا تو اس کے منہ پر پتھر مارتا اور وہ جہاں ہو تا وہاں لوٹ جاتا.میں نے کہا یہ کیا ؟ دونوں نے کہا آگے چلیں.ہم چل پڑے.یہاں تک کہ ایک سر سبز باغ میں آئے، جس میں ایک بہت ہی بڑا درخت تھا.اس کی جڑ کے پاس ایک بوڑھا اور کچھ بچے تھے اور دیکھا کہ ایک شخص درخت کے قریب ہے.اس
682 کے سامنے آگ ہے، جسے وہ جلا رہا ہے.وہ دونوں مجھے لے کر درخت پر چڑھ گئے اور مجھے ایسے گھر میں لے گئے کہ میں نے اس سے اچھا ( اور اس سے بہتر گھر کبھی نہیں دیکھا.اس میں بوڑھے ، جوان، عور تیں اور بچے ہیں.پھر انہوں نے مجھے وہاں سے نکالا اور درخت پر چڑھالے گئے اور مجھے ایک ایسے گھر کے اندر لے گئے جو پہلے گھر سے بھی زیادہ خوبصورت اور بہتر تھا.اس میں بوڑھے اور جوان ہیں.میں نے کہا تم نے مجھے آج رات خوب گھمایا ہے جو میں نے دیکھا ہے اس کے متعلق مجھے بتلاؤ تو سہی.ان دونوں نے کہا اچھاوہ جو تم نے دیکھا تھا کہ اس کا گلپھڑا چیرا جارہا ہے ، وہ بڑا جھوٹا شخص ہے جو جھوٹی بات بیان کرتا.لوگ اسے سن کر ادھر اُدھر لے جاتے، یہاں تک کہ چاروں طرف وہ بات پہنچ جاتی.اس لئے اس کے ساتھ بھی قیامت کے دن یہی معاملہ ہو تارہے گاجو تم نے دیکھا اور جسے تم نے دیکھا کہ اس کا سر پھوڑا جارہا ہے ، وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سکھایا تھا تو وہ رات کو تو اس سے غافل سو تارہا اور دن کو اس پر عمل نہ کیا.اس کے ساتھ بھی قیامت کے دن تک یہی ہو تا رہے گا اور وہ لوگ جو تم نے گڑھے میں دیکھے تو وہ زانی ہیں اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا، اس سے مراد سود خور ہیں اور وہ بوڑھا شخص جو تم نے درخت کی جڑ میں دیکھا تھا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور بچے جو اُن کے ارد گر د تھے تو وہ لوگوں کے بچے ہیں اور وہ جو آگ جلا رہا ہے تو وہ مالک فرشتہ ہے جو دوزخ کا داروغہ ہے اور وہ پہلا گھر جس کے اندر تم گئے تھے وہ عام مومنوں کا گھر ہے اور یہ جو دوسر اگھر ہے تو وہ شہید وں کا گھر ہے اور میں جبریل ہوں اور یہ میکائیل ہے.اپنا سر اٹھاؤ.میں نے اپنا سر اُٹھایا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر ابر کی طرح کوئی چیز ہے.ان دونوں نے کہا وہ تمہارا مقام ہے.میں نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں اپنے مقام میں جاؤں تو ان دونوں نے کہا ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی.اگر تم پوری کر چکے ہوتے تو تم اپنے مقام میں پہنچ جاتے.
683 تکبر اور غرور 864- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كان في قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَن يَكُونَ قَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةٌ، قَالَ إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطرُ الْحَقِ، وَغَمْطُ النَّاسِ (مسلم کتاب الایمان باب تحريم الكبر وبيانه (123) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی نیلم نے فرمایا جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہے.ایک آدمی نے کہا انسان پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کا جو تا اچھا ہو ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے.خوبصورتی کو پسند کرتا ہے تکبر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے حق کا انکار کرنا ہے اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے.ظلم و ستم ایذارسانی اور حق تلفی 865- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ ؟ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِس مِنْ أُمَّنِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطَرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طَرِحَ فِي النَّارِ (مسلم کتاب البر والصلة باب تحریم الظلم 4664)
684 حضرت ابو ہریر گا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی ایم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ کوئی اور ہم ہے نہ کوئی سازو سامان ہے اس پر آپ نے فرمایا میری امت میں تو مفلس وہ ہے.جو قیامت کے دن نماز روزہ اور زکوۃ کے ساتھ پیش ہو گا مگر اس طرح آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر بہتان لگایا ہو گا اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا اس کو اس کی کوئی نیکی دی جائے گی اور کسی کو اس کی کوئی اور نیکی اور ان کی خطائیں لی جائیں گی اور اس پر ڈال دی جائیں گی.پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا.866- سَمِعَ جَابِرَ بْن عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاكُمْ وَالظُّلُمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّخَ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ، وَاسْتَحَلُوا فَحَارِمَهُمْ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابه مسند جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ 14515) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ظلم سے بچو کیونکہ علم قیامت کے دن تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا.حرص بخل اور کینہ سے بچو کیونکہ حرص بخل اور کینہ نے پہلوں کو ہلاک کیا اس نے ان کو خونریزی ر آمادہ کیا اور ان سے قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی کرائی.پر 867ـ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْهُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا، أَفَرَأَيْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ ؟ قَالَ تَحْجُزُهُ، أَوْ تَمَنْعُهُ، مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ (بخاری کتاب الاکراه باب يمين الرجل لصاحبه انه اخوه اذا خاف علیہ 6952)
685 حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اپنے بھائی کی مددکر و ظالم ہو یا مظلوم تو ایک شخص نے کہا.یارسول اللہ ! جب وہ مظلوم ہو تب تو میں اس کی مدد کروں بھلا یہ تو بتلائیں کہ جب ظالم ہو تو میں کیسے مدد کروں ؟ آپ نے فرمایا اس کو ظلم سے باز رکھو یا فرما یارو کو کیونکہ یہی اس کی مدد ہو گی.868- حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُشيرُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ بِالسلاح، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِى أحَدُكُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنزِعُ فِي يَدِهِ فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ (مسلم کتاب البر والصلة باب النهي عن الاشارة بالسلاح الى مسلم 4728) حضرت ابو ہریر کا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو جھٹکا دے اور وہ آگ کے گڑھے میں جا گرے.حسد اور بغض و کینہ اور قطع تعلق 869ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ أَوْ قَالَ الْعُشْبَ (ابو داؤد کتاب الادب باب في الحسد (4903) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الیکم نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن اور گھاس کو بھسم کر دیتی ہے.
686 عن أنيس، أنَّ رسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ الْحَسَدُ يَأْكل الحَسَنَاتِ، كما تأكل النَّارُ الْحَطَبَ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ، كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَالصَّلَاةُ نُورُ الْمُؤْمِنِ، وَالصَّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ ابن ماجه کتاب الزهد باب الحسد 4210 ) ย حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھاتی ہے اور صدقہ گناہ کو بجھاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے اور نماز مومن کا نور ہے اور روزے آگ کے مقابل میں ڈھال ہیں.870ـ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا، وَكَادَ الْحَسَدُ أَنْ يَغْلِبَ الْقَدَرَ (شعب الايمان ، الثالث والاربعون من شعب الايمان وهو باب فى الحث على ترك الغل و الحسد 6612) حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا قریب ہے کہ فقر اور احتیاج کفر کا باعث بن جائے اور حسد مقدر پر غالب آجائے ( یعنی محرومی اس کا مقدر بن جائے).عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا وَكَادَ الْحَسَدُ أَن يَغُلِبَ الْقَدَرَ (مشكاة المصابيح كتاب الادب باب ما ينهى عنه التهاجر و التقاطع و اتباع العورات الفصل الثالث (5051) سة حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللی یم نے فرمایا قریب ہے کہ فقر اور احتیاج کفر کا باعث بن جائے اور حسد مقدر پر غالب آجائے ( یعنی محرومی اس کا مقدر بن جائے).
687 871- حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ (بخاری کتاب الادب باب ما ينهى عن التحاسد و التدابر 6065) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو حسد نہ کر وبے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو با ہمی تعلقات نہ توڑو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق رکھے.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَدابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَن يَنجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ (مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم التحاسد و التباغض والتدابر 4627) سة حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بے رُخی نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بنو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زائد قطع تعلق کرے.872- عن أبي أيوب الْأَنْصَارِي، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَن يَهْرَ أَخَاهُ فَوْقَ فَلاثَةِ أَيَّامٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا، وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يبدأ بالسلام (ابوداؤد كتاب الادب باب فى هجرة الرجل أخاه 4911)
688 حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ال یکم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس وجہ سے اس سے ملنا جلنا چھوڑ دے اور جب ایک دوسرے سے سامنا ہو تو ایک ادھر منہ موڑ لے اور دوسرا ادھر.اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے.عن أَبي أَيُّوبَ الأَنْصَارِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ ينجر أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاثِ لَيَالٍ يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلامِ (بخاری کتاب الادب باب الهجرة 6077) حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للی کرم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین رات سے زیادہ ناراض رہے اور اس وجہ سے اس سے ملنا جلنا چھوڑ دے اور جب ایک دوسرے سے سامنا ہو تو ایک ادھر منہ موڑ لے اور دوسرا ادھر.اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے.
689 جھوٹ اور کذب بیانی.احسان جتانا 873ـ عَنْ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْكُمْ بِالصِدْقِ، فَإِنَّ الصدقَ يَهْدِى إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرِّ يَهْدِى إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصَّدقَ حَتَّى يُكتبَ عِنْدَ اللهِ صِدِيقًا، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِى إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِى إِلَى النَّارِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرِّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَابًا (مسلم کتاب البر والصلة باب قبح الكذب و حسن الصدق و فضله 4707) حضرت عبد اللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یوم نے فرما یا صدق اختیار کرو یقینا صدق نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے.ایک آدمی سچ بولتا چلا جاتا ہے اور بیچ کے لئے طلب اور کوشش کرتا رہتا ہے یہانتک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھا جاتا ہے اور تم جھوٹ سے بچو یقینا جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ آگ کی طرف لے جاتا ہے.ایک آدمی جھوٹ کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے یہانتک کہ اللہ کے نزدیک کذ آب لکھا جاتا ہے.874ـ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عليه وسلم ألا أنينكُمْ بِأكبر الكبائر قلنا: بلى يا رسول الله، قال الإغتراك بالله وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَكَانَ مُتَكِنًا فَجَلَسَ فَقَالَ أَلاَ وَقَوْلُ النُّورِ، وَشَهَادَةُ النُّورِ، أَلَا وَقَوْلُ النُّورِ، وَشَهَادَةُ النُّورِ فَمَا زَالَ يَقُولُهَا، حَتَّى قُلْتُ لَا يَسْكُتُ (بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدين من الكبائر 5976)
690 عبد الرحمن بن ابی بکر نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی لی لی نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتلاؤں کہ بڑے بڑے گناہ کیا ہیں ؟ ہم نے کہا کیوں نہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا اللہ کا شریک ٹھہر انا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور آپ اس وقت تک تکیہ لگا کر بیٹھے تھے اٹھ بیٹھے اور فرمایا سنو جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا.سنو جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا.آپ ان کلمات کو اتنی بار دہراتے رہے کہ ہم نے سمجھا کہ آپ خاموش نہیں ہوں گے.875ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ (مسلم (مکتبہ بیروت)، مقدمة الكتاب ، باب النهي عن الحديث بكل ما سبع، روایت نمبر (7) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا کہ انسان کے جھوٹے ہونے کے لئے یہی علامت کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے.زبان کی حفاظت، غیبت اور چغلخوری 876ـ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ مَا النَّجَاةُ؟ قَالَ امْسِكُ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَلْيَسَعُكَ بَيْتُكَ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ (ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء فى حفظ اللسان (2406) حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں کہا یا رسول اللہ ! نجات کیسے حاصل ہو ؟ آپ صلی للی یکم نے فرمایا اپنی زبان روک کر رکھو.تیر اگھر تیرے لئے کافی ہو ( یعنی حرص سے بچو).اگر کوئی غلطی ہو جائے تو نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر معافی طلب کرو.
691 877ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ، لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَنْوِى بِهَا فِي جَهَنَّمَ (بخاری کتاب الرقاق باب حفظ اللسان 6478) حضرت ابوہریر گا سے روایت ہے کہ نبی علی ایم نے فرمایا بندہ کبھی رضاء الہی کی بات منہ سے نکالتا ہے اس کا کچھ خیال نہیں رکھتا تو اللہ اس کے ذریعہ سے کئی درجہ اس کو بلند کر دیتا ہے اور بندہ کبھی اللہ کی ناراضگی کی بات منہ سے نکال بیٹھتا ہے اس کا کچھ خیال نہیں کرتا اس کے ذریعہ سے جہنم میں جاگرتا ہے.878 عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ المُؤْمِنُ بِالطَعَانِ وَلَا اللَّعَانِ وَلَا الفَاحِشِ وَلَا البَذِي (ترمذی کتاب البر والصلة باب ماجاء في اللعنة 1977) حضرت عبد اللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا طعنہ زنی کرنے والا، دوسرے پر لعنت کرنے والا، مخش کلامی کرنے والا، یاوہ گو زبان دراز مومن نہیں ہو سکتا.879- عَنْ عَبْدِ الله بْنِ دِينَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْن عُمر يَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وَسَلَّمَ أَيُّمَا امْرِ قَالَ لِأَخِيهِ : يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا، إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ (مسلم کتاب الایمان باب بیان حال الايمان من قال لاخيه المسلم......84)
692 عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے.انہوں نے حضرت ابن عمرؓ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے بھائی سے کہا اے کا فر! تو ان دونوں میں سے ایک کفر لے کر لوٹے گا.اگر تو وہ ایسا ہی ہے جیسا اس نے کہا تو ٹھیک ہے ورنہ وہ کفر اس (کہنے والے) پر لوٹ جائے گا.880- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ قِيلَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ : قَالَ إِن كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ، فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ جَبْتَهُ (مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الغيبة 4676) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی ی ی یم بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ تیرا اپنے بھائی کا ایسا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے.عرض کیا گیا کہ حضور فرمائیے اگر میرے بھائی میں وہ بات ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو ؟ آپ نے فرمایا جو (بات) تم کہتے ہو اگر اس میں موجود ہے تو یقینا تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ (بات) اس میں نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا.881- عن أبي هريرةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَجِدُونَ مِنْ هَرِ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْن، الذي يأتي هؤلاء يوجو، وهؤلاء يوجي (مسلم کتاب البر والصلة باب ذم ذى الوجهين و تحریم فعله4702) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا کہ تم لوگوں میں سے بدترین دور نگی اختیار کرنے والے کو پاؤ گے جو ان کے پاس ایک رخ سے جاتا ہے اور اُن کے پاس اور رخ سے جاتا ہے.
693 882ـ عنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا عُرِجَ بِي مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمِشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ، فَقُلْتُ مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ، قَالَ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ، وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ (ابو داؤد کتاب الادب باب في الغيبة 4878) حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا جب مجھے معراج ہو اتو حالت کشف میں میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے.میں نے پوچھا.اے جبرائیل ! یہ کون ہیں تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں کا گوشت کر کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت و آبر وسے کھیلتے تھے.883- عَنْ حُذيفَةً ،......فَقَالَ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّام (مسلم کتاب الایمان باب بیان غلظ تحريم النميمة 143) (حضرت حذیفہ کو خبر پہنچی کہ ایک آدمی چغلیاں کرتا پھرتا ہے) تو حضرت حذیفہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی ال کلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا.الله 884ـ عَنْ هَمَّامٍ ، قَالَ كُنَّا مَعَ حُذَيْفَةَ.....فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَتَات (بخاری کتاب الادب باب ما يكره من النميمة 6056) حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ کریم نے فرمایا چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا.
694 زمانے اور دوسرے سماوی حوادث کو برا بھلا کہنا 885- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ ، يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أَقَلِبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ (مسلم کتاب الالفاظ من الادب باب النهي عن سب الدهر 4152) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے ابن آدم مجھے ایذاء دیتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں.رات اور دن کو میں ادلتا بد لتا ہوں.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِى الأَمْرُ أَقَلِبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ (بخاری کتاب التفسیر باب و مايهلكنا الا الدهر 4826 ) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ نبی صلی علی یم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زمانہ کو برا بھلا کہہ کر انسان مجھے دکھ دیتا ہے کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں ( یعنی میرے ہاتھ میں ہی زمانے کے تغیرات ہیں).میں ہی دن رات کو بدلتا ہوں اور زمانہ میری قدرتوں کا ہی مظہر ہے.قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللهُ يَسُبُّ بَنُو آدَمَ الدَّهْرِ، وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِى اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ (بخاری کتاب الادب باب لا تسبوا الدهر (6181)
695 حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نبو آدم زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے ( اس طرح انسان مجھے دکھ دیتا ہے کیونکہ ) اور میں زمانہ ہوں.میں ہی دن رات کو بدلتا ہوں.عن أبي هريرة ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ ، يَسُبُّ الدَّهْرَ ، وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِى الْأَمْرُ، أَقَيْبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه ، مسند ابی هریره رضی اللہ عنہ 7244) حضرت ابوہریر گانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان مجھے دکھ دیتا ہے.وہ زمانہ کو برا کہتا ہے حالانکہ زمانہ تو میں ہوں، تمام معاملات میرے ہاتھ میں ہیں.میں ہی دن رات کو بدلتا ہوں.احسان جتانا 886ـ عَنْ أَبِي ذَرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِرَارًا، قَالَ أَبُو ذَرٍ: خَابُوا وَخَسِرُوا مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ، وَالْمُتفق سِلْعَتَهُ بِالْخَلفِ الْكَاذِبِ (مسلم کتاب الایمان باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار والمن بالعطيعة 146) حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ نبی صلی ا یکم نے فرمایا تین (شخص) ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہ کرے گا، نہ ان کو اللہ تعالیٰ دیکھے گا اور نہ ان کو پاک ٹھہرائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا.راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی المینیوم نے تین بار اس کو پڑھا.حضرت ابو ذر نے کہا وہ لوگ خائب و خاسر ہو گئے ، یارسول اللہ ! وہ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا ازار ( تکبر سے ) لٹکانے والا، احسان جتلانے والا، اور جھوٹی قسم کھا کر سودا نکالنے والا.
696 تجسس، عیب جوئی اور دوسروں کی تحقیر 887ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَافَسُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا ، وَلَا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا (مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الظن و التجسس...4632) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ ظن سے بچو یقینا بد ظنی سب سے بڑا جھوٹ ہے اور ٹوہ نہ لگاؤ اور تجسس نہ کرو دنیا داری میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے بے رخی نہ کرو، اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ.عَنِ الْأَعْمَشِ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، لَا تَقَاطَعُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا إِخْوَانًا كَمَا أَمَرَكُمُ اللَّهُ (مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الظن والتجسس.(4634..اعمش سے اسی سند سے روایت ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ) آپس میں قطع تعلق نہ کرو، اور ایک دوسرے سے بے رخی نہ کرو اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ.
697 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا ، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا ، وَلَا يَبعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ التَّقْوَى هَاهُنَا وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِ مِنَ الشَّرِ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ (مسلم کتاب البر و الصلة باب تحريم ظلم المسلم و خذله 4636) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی نیلم نے فرمایا کہ تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور دھو کہ دینے کے لئے قیمت نہ بڑھاؤ اور نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو نہ ہی ایک دوسرے سے بے رُخی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ.مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ ہی اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے نہ ہی اس کی تحقیر کرتا ہے.اور آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقویٰ یہاں ہے.آدمی کے لئے یہی شر کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے.ہر مسلمان کا خون اس کا مال، اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تجَسَّسُوا وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَنَاجَشُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا (مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الظن و التجسس..(4634..حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ آپس میں حسد نہ کرو ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور تجسس نہ کرو اور ٹوہ نہ لگاؤ اور دھوکہ دینے کے لئے بولی نہ دو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ.
698 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا ، وَلَا تَدابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا (بخاری کتاب الادب باب یا یها الذین آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن 6066) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا بد ظنی سے بچو کیونکہ بد ظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے.ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو، اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو، اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ بر تو.جس طرح اس نے حکم دیا ہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.888- عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَنَادَى بِصَوْتٍ رَفِيعٍ، فَقَالَ يَا مَعْشَرَ مَنْ قَدْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يُفْضِ الإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ، لَا تُؤْذُوا المُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيْرُوهُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنْ يَتَّبَعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ المَسْلِمِ يَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ يَتبعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ (ترمذی کتاب البر والصلة باب ما جاء فى تعظيم المومن (2032) الله حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایا کہ اے لوگو! تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایمان راسخ نہیں ہوا، انہیں میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعہ تکلیف نہ دیں اور نہ ان کے عیبوں کا کھوج لگاتے پھریں ورنہ یاد رکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر چھپے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کر کے اس کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے اگر چہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو.
699 889 - عَن أبي هُرَيْرَة رَضِى اللهُ عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسلم يُبصِرُ أحدكم القذاة في عينٍ أَخِيهِ وَيَنْسَى الْجِذْعِ فِي عَيْنِهِ (الترغيب والترهيب للمنذرى كتب الحدود وغيرها ، باب الترهيب من ان يأمر بمعروف وينهى عن المنكر 3379) حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر وہ بھول جاتا ہے.بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے (کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام) (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 551) بد نظری اور جنسی بے راہ روی 890- عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا لَا يَبِيتَنَ رَجُلٌ عِنْدَ امرأة تيب، إلا أن يكون تاكها أو ذا محرم (مسلم کتاب السلام باب تحريم الخلوة بالاجنبية و الدخول عليها 4022) حضرت جابر نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا خبر دار! کوئی شخص کسی بیوہ کے پاس (اکیلے ) رات نہ گزارے سوائے اس کے کہ اس نے اس سے نکاح کیا ہو ا ہو یا وہ محرم ہو.891- عن عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولُ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ (مسلم کتاب السلام باب تحريم الخلوة بالاجنبية والدخول عليها 4023)
700 ย حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرما یا عورتوں کے ہاں جانے سے بچو.انصار میں سے ایک شخص نے کہا یار سول اللہ ! دیور کے بارہ میں کیا ارشاد ہے ؟ آپ نے فرمایا دیور تو موت ہے.892- عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلًا مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ فَيَخُونُهُ فِيهِمْ ، إِلَّا وُقِفَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَأْخُذُ مِنْ عَمَلِهِ مَا شَاءَ، فَمَا ظَنُّكُمْ ؟ (مسلم کتاب الامارة باب حرمة نساء المجاہدین و اثم من خانهم (3501) سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی نیلم نے فرمایا مجاہدین کی خواتین کا احترام ( پیچھے بیٹھے رہنے والوں کے لئے ان کی ماؤں کے احترام کی طرح ہے اور پیچھے بیٹھ رہنے والوں میں سے جو شخص بھی مجاہدین کے گھر والوں کی خبر گیری کرتا ہے اور اس کی، اُن کے (اہل) کے بارہ میں خیانت کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اس مجاہد کے لئے کھڑا کیا جائے گا اور وہ (مجاہد) اس کے عمل میں سے جو چاہے گالے لے گا.پس تمہارا کیا خیال ہے ؟
701 اسراف اور فضول خرچی 893- عَنْ وَرَادٍ، كَاتِبِ المَغِيرَةِ، قَالَ كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى المَغِيرَةِ: اكْتُبْ إِلَى مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الجَدِ مِنْكَ الجَدُّ وَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّهُ كَانَ يَنْهَى عَنْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ ،المالِ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقُوقِ الأَنْهَاتِ، وَوَأَدِ البَنَاتِ، وَمَنع وَمَاتِ (بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب باب ما يكره من كثرة السؤال و تكلف ما لا يعنيه 7292) وراد جو حضرت مغیر ٹا کے کاتب تھے، نے بیان کیا کہ امیر معاویہؓ نے حضرت مغیرہ کو لکھا کہ جو باتیں آپ نے رسول اللہ صلی العلیم سے سنی ہیں وہ میری طرف لکھ بھیجیں تو مغیرہ نے ان کو یہ لکھا کہ نبی اللہ صلی ال کی ہر نماز کے یہ کہا کرتے تھے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الجَدِ مِنْكَ الجَدُّ (اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس کی بادشاہت ہے اور اس کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اے اللہ کوئی روکنے والا نہیں جو تو دے اور کوئی دینے والا نہیں جس کو تو روک لے اور کسی شان والے کو تیرے مقابلہ میں (اس کی) شان نفع نہیں دیتی) اور نیز ان کو یہ لکھا کہ آپ چہ میگوئیوں سے اور بہت سوالات کرنے اور مال ضائع کرنے سے منع فرمایا کرتے اور ماؤں کی نافرمانی سے اور بیٹیوں کو زندہ گاڑنے سے اور خود نہ دینا اور لوگوں سے کہنا کہ لاؤ، اس سے منع فرمایا کرتے تھے.
702 حرص اور بخل 894- عَنْ مُطَرفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ: أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ، قَالَ يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِي مَالِي قَالَ وَهَلْ لَكَ، يَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفَنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ، أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ ؟ (مسلم کتاب الزهد والرقائق باب الدنيا سجن للمومن وجنة الكافر 5244) مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں میں نبی صلی المینیم کے پاس آیا تو آپ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ کی تلاوت فرمار ہے تھے.آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا ہے میر امال میر امال.آپؐ نے فرمایا اے ابن آدم! تیر امال تو وہی ہے جو تو نے کھایا اور ختم کر دیا، پہن کر پر انا کر دیا یا صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا.895ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُنْفِقِ كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ مِنْ لَدُنْ تُدِيهِمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا ، فَأَمَّا الْمُنْفِقُ، فَلَا يُنْفِقُ مِنْهَا إِلَّا اتَّسَعَتْ حَلَقَةٌ مَكَانَهَا، فَهُوَ يُوَسِعُهَا عَلَيْهِ، وَأَمَّا الْبَخِيلُ، فَإِنَّهَا لَا تَزْدَادُ عَلَيْهِ إِلَّا اسْتِحْكَامًا (مسند احمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابه ، مسند ابی هریره رضی اللہ عنہ 7483) حضرت ابوہریر کا بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی للی کم نے فرمایا بخیل اور سخی کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جنہوں نے سینے تک لوہے کی قمیص پہنی ہوئی ہے جس میں وہ جکڑے ہوئے ہیں.سخی جب کچھ خرچ کرتا ہے تو اس کی آہنی قمیص کا حلقہ کھل جاتا ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ وہ قمیص کھل جاتی ہے اور آخر کار وہ اس کی جکڑ سے آزاد ہو جاتا ہے لیکن بخیل کو وہ قمیص جکڑتی چلی جاتی ہے اور اس طرح اس کی گرفت بڑھتی جاتی ہے.
703 896.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُحْشَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَخُشَ، وَإِيَّاكُمْ وَالشُّحَ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، أَمَرَهُمْ بِالْقَطِيعَةِ فَقَطَعُوا، وَبِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا، وَبِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا (مسند احمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابة مسند عبد اللہ بن عمر و ابن العاص رضی اللہ عنہ 6837) حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اند ھیرے بن کر سامنے آئے گا.بے حیائی اور یاوہ گوئی سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے ناپسند کرتا ہے بخل، حرص اور کینہ سے بچو کیونکہ اسی عیب نے پہلوں کو برباد کیا.اس نے انہیں قطع رحمی پر آمادہ کیا اس لئے انہوں نے اپنوں سے قطع تعلق کر لیا.اس نے ان کو بخل پر آمادہ کیا اور وہ بخیل بن گئے اس نے ان کو فسق و فجور پر آمادہ کیا اور وہ فاسق و فاجر بن گئے.خیانت اور بد دیانتی 897ـ عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُوعِ، فَإِنَّهُ بِئْسَ الضَّجِيعُ، وَمِنَ الْحَيَانَةِ، فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ (نسائی کتاب الاستعاذة باب الاستعاذة من الخيانة 5469) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیکم یہ دعا مانگا کرتے تھے.اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک ننگ سے جس کا ساتھ ( اوڑھنا بچھونا) بہت برا ہے اور میں پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ یہ اند رونے کو خراب کر دیتی ہے یا اس کی چاہت برے نتائج پیدا کرتی ہے.
704 898- عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَى الْخِلَالِ كُلِّهَا إِلَّا الْخِيَانَةَ وَالْكَذِبَ (22523..., (مسند احمد بن حنبل ، تتمه مسند الانصار ، حدیث ابي امامة الباهلى الصدى بن عجلان بن عمر و...حضرت ابو امامہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علی یکم نے فرمایا کہ مومن میں جھوٹ اور خیانت کے سوا تمام کمزوریاں ہو سکتی ہیں.899 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعُ مَنْ كُنَ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَلَةٌ مِنْهُنَ كَانَتْ فِيهِ خَلَةٌ مِنْ نِفَاقٍ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرٌ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ سُفْيَانَ: وَإِنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ (مسلم کتاب الایمان باب بیان خصائل المنافق 80) حضرت عبد اللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ جس میں چار خصلتیں پائی جائیں وہ پورا منافق ہے اور جس (شخص) میں ان ( خصلتوں) میں سے کوئی (ایک) خصلت ہوگی اس (شخص) میں نفاق کی ایک خصلت پائی جائے گی یہانتک کہ وہ اسے چھوڑ دے.(وہ خصلتیں یہ ہیں) جب بات کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے.جب معاہدہ کرتا ہے معاہدہ شکنی کرتا ہے جب وعدہ کرتا ہے وعدہ خلافی کرتا ہے.جب جھگڑ تا ہے تو گالی گلوچ کرتا ہے سوائے اس کے کہ سفیان کی روایت میں خُلةٌ کی بجائے "خَصْلَةٌ" کا لفظ ہے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعَةٌ مَنْ كُنَ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا، أَوْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ الْأَرْبَعِ، كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ (نسائی کتاب الایمان و شرائعه باب علامة المنافق 5020)
705 حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی صلی ہی کم نے فرمایا چار ایسی علامتیں ہیں کہ جس میں وہ ہوں وہ پکا منافق ہو گا اور جس میں ان میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہو گی سوائے اس کے کہ وہ اسے چھوڑ دے.وہ چار باتیں یہ ہیں.: جب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرتا ہے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے، جب کسی سے معاہدہ کرے تو بے وفائی کرتا ہے اور جب کسی سے جھگڑ پڑے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے.شہرت کی طلب اور ریا کاری 900 عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ سَمِعْتُ جُنْدَبًا ، يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ سَمَّعَ اللهُ بِهِ ، وَمَنْ يُرَانِي يُرَانِي اللَّهُ بِهِ (بخاری کتاب الرقاق باب الرياء والسمعة 6499)......حضرت جندب ( بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے سنانے کے لئے نیک کام کئے اللہ بھی اس کی شہرت کرے گا اور جس نے دکھاوے کے لئے کام کئے تو اللہ بھی اس کے کاموں کو بطور دکھلاوے کے ہی رکھے گا.901 - عَن مَحمُودِ بْنِ لَبِيْدٍ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَشِرْكَ السَّرَائِرِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا شِرْكُ السَّرَائِرِ ؟ قَالَ يَقُومُ الرَّجُلُ فَيصَلِّي فَيُزَيْنُ صَلَاتَه جَاهِداً لِمَا يرى مِنْ نَظَرِ النَّاسِ إِلَيْهِ فَذَلِكَ شِرْكُ السَّرَائِرِ - رَوَاهُ ابْن خُزيمة في صحيحه (الترغيب والترهيب للمنذرى ، كتاب الاخلاص ، باب الترهيب من الرباء وما يقوله من خاف شيئا منه (45)
706 حضرت محمود بن لبیڈ نے بیان کیا کہ نبی صلی علیم نے فرمایا اے لو گو ا شرک محفی سے بچو.صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! شرک محفی کیا ہے ؟ آپ صلی علی تم نے فرمایا ایک شخص سنوار کر نماز پڑھتا ہے اور اس کی خواہش و کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ مجھے اس طرح نماز پڑھتے دیکھیں اور بزرگ سمجھیں یہی دکھاوے کی خواہش شرک خفی ہے.902- عَنْ أَبِي ذَرٍ ، قَالَ قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْعَمَلَ مِنَ الْخَيْرِ، وَيَحْمَدُهُ النَّاسُ عَلَيْهِ ؟ قَالَ تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ (مسلم کتاب البر والصلة والادب باب اذا اثنى على الصالح فهى بشری ولا تضره 4766) حضرت ابو ذر نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی یم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ کا اس شخص کے بارہ میں کیا خیال ہے جو نیک کام کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ مومن کو جلد ملنے والی خوشخبری ہے.تکلف اور بناوٹ، نقالی اور تشبہ بالغیر 903- عَنْ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلَكَ الْمُتَنَطِعُونَ قَالَهَا ثَلَاثًا (مسلم کتاب العلم باب هلك المتنطعون 4809) حضرت عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا موشگافی کرنے والے ہلاک ہو گئے.آپ نے یہ تین دفعہ فرمایا.
707 904- عَنْ أَبي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا، قَوْهُ مَعَهُمْ سِيَادٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءُ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُميلات مائِلَاتُ، رُءُوسُهُنَ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدُنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا (مسلم کتاب اللباس والزينة باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات 3957) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللی کلیم نے فرمایا آگ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا.ایک تو وہ جن کے پاس گائیوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے ہیں اور وہ عور تیں جو لباس پہنے ہوئے (مگر) عریاں ہیں.(اپنی طرف مائل کرنے والی اور (اپنے بدن ) مٹکانے والی.ان کے سر بختی اونٹوں کی جھکی ہوئی کو ہان کی طرح ہیں وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنے اتنے فاصلہ سے آتی ہے.905 ـ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (ابوداؤد کتاب اللباس باب في لبس الشهرة 4031) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ کی تعلیم نے فرمایا جو شخص کسی قوم کی نقالی کرے اور اس کی چال ڈھال رکھے وہ انہی میں سے شمار ہو گا.عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ بِالسَّيْفِ حَتَّى يُعْبَدَ اللَّهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَجُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ ظِلِ رُفى، وَجُعِلَ الذِلَّةُ، وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي، وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه ، مسند عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ 5114)
708 حضرت ابن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا مجھے تلوار دے کر بھیجا گیا ہے تا کہ اللہ کی ہی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں، میر ارزق میرے نیزے کے سائے کے نیچے رکھا گیا ہے میرے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے بھر پور ذات لکھ دی گئی ہے اور جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی میں شمار ہو گا.تو ہم پرستی اور بد فالی 906 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةً، وَيُعْجِبُنِي القَال قَالُوا وَمَا القَال: قَالَ كَلِمَةً طيبة (بخاری کتاب الطب باب لا عدوى 5776) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی الیکم نے فرمایا چھونے سے کوئی بیماری نہیں ہوتی اور نہ بدشگونی کوئی حقیقت رکھتی ہے اور مجھے قال اچھا لگتا ہے.لوگوں نے پوچھا فال کیا ہوتا ہے؟ فرمایا اچھی بات.907- عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخِيَرَةُ مِنَ الفيركِ، وَمَا مِنا ولكن اللهَ يُذْهِبُهُ بالفويل (ترمذی کتاب السير باب ما جاء في الطيرة 1614) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا (برا) فال لینا شرک ہے اور ہم میں سے ہر شخص کی تکلیف کو اللہ تعالی (اس کے ) تو کل کی وجہ سے دور کر دیتا ہے.
709 908ـ عَنْ أَبِي حَسَّانَ، قَالَ دَخَلَ رَجُلَانِ مِنْ بَنِي عَامِرٍ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرَاهَا أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ الطِيَرَةُ فِي الدَّارِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالْفَرَسِ فَغَضِبَتْ فَطَارَتْ شِقَةٌ مِنْهَا فِي السَّمَاءِ، وَشِقَةٌ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَتْ وَالَّذِي أَنْزَلَ الْفُرْقَانَ عَلَى مُحَمَّدٍ مَا قَالَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَط، إِنَّمَا قَالَ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَطَيَّرُونَ مِنْ ذَلِكَ (مسند احمد بن حنبل ، الملحق المستدرك من مسند الانصار ، مسند الصديقه عائشة بنت الصديق رضی اللہ عنہ 26562) حضرت ابو حسان نے بیان کیا کہ بنی عامر کے دو شخص حضرت عائشہ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ حضرت ابو ہریرہ نبی صلی الیہ کمی سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ گھر ، عورت اور گھوڑے سے نحوست کا تعلق ، ہوتا ہے یہ سن کر حضرت عائشہ سخت ناراض ہو گئیں اور کہنے لگیں خدا کی قسم جس نے محمد صلی للی کم پر قرآن اتارا ہے رسول اللہ صلی علی کریم نے اس طرح ہر گز نہیں فرمایا تھا بلکہ آپ صلی میں ہم نے تو فرمایا تھا کہ اہل جاہلیت ان تین چیزوں کے متعلق نحوست اور بد شگونی کے قائل تھے.
710 نعماء جنت اور مصائب دوزخ ثواب اور عقاب 909 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِى الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْن رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ على قلب بشر قال أبو هريرة: اقْرَءُوا إِن لَّكُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَةٍ أَعْيُنٍ (بخاری کتاب التفسير باب قوله فلا تعلم نفس ما أخفي لهم (4779) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا نہ کبھی انسان کے دل پر اس کا خیال گزرا ہے.حضرت ابو ہریرہ کہتے تھے اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ فرة أغبن کوئی نفس نہیں جانتا کہ اس کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پوشید دور کھا گیا ہے.910- عن أبي سعيد الخدري، أن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللهَ يَقُولُ لأهل الْجَنَّةِ : يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ فَيَقُولُونَ: لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ فَيَقُولُ هَلْ رَضِيتُمُ؟ فَيَقُولُونَ: وَمَا لَنَا لَا نَرْضَى ؟ يَا رَبِ وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، فَيَقُولُ أَلَا أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ؟ فَيَقُولُونَ: يَا رَبِّ وَأَيُّ شَيْءٍ أَفَضَلُ مِنْ ذَلِكَ؟ فَيَقُولُ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي، فَلَا أَسْخَطَ عَلَيْكُمْ بَعْدَهُ أَبَدًا (مسلم کتاب الجنة وصفة نعيمها و اهلها باب احلال الرضوان على اهل الجنة فلا يسخط عليهم ابدا 5043)
711 حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی علیکم نے فرمایا اللہ تعالیٰ جنتیوں سے فرمائے گا اے جنت والو ! وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم حاضر ہیں اور یہ ہماری خوش بختی ہے اور خیر تیرے ہاتھ میں ہے.وہ کہے گا کیا تم راضی ہو ؟ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم کیوں نہ راضی ہوں جبکہ تو نے ہمیں وہ دیا ہے جو اپنی مخلوق میں سے تو نے کسی کو نہیں دیا.اس پر وہ فرمائے گا کیا میں تمہیں اس سے افضل چیز نہ دوں وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! اس سے افضل چیز کونسی ہے ؟ وہ فرمائے گا میں تم پر اپنی رضامندی نازل کرتا ہوں اور اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا.دو 911- عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْى، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبِي قَدْ تَحْلُبُ ثَدْيَهَا تَسْقِى، إِذَا وَجَدَتْ صَبِيًّا فِي السَّبْيِ أَخَذَتْهُ، فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتْرَوْنَ هَذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ ؟ قُلْنَا لَا، وَهِيَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لَا تَطْرَحَهُ، فَقَالَ اللَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا (بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبیله و معانقته 5999) حضرت عمر بن خطاب نے بیان کیا کہ نبی صلی للی نیم کے پاس کچھ قیدی آئے.ان قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے اس وجہ سے پھوٹ پڑا کہ وہ کسی بچے کو دودھ پلایا کرتی تھی جب بھی وہ ان قیدیوں میں کسی بچے کو دیکھتی تو اس کو لیتی اور اپنے پیٹ سے اسے لگا لیتی اور اس کو دودھ پلانے لگتی.نبی علی پیریم نے ( یہ دیکھ کر ) ہم سے فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی.ہم نے کہا ہر گز نہیں جب تک اس کو آگ میں نہ ڈالنے کی طاقت رکھے گی تو آپ نے فرمایا اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنی یہ عورت اپنے بچے پر..
712 912.عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ، يُقَالُ لَهُ عُفَيْرُ، قَالَ فَقَالَ يَا مُعَاذُ تَدْرِى مَا حَقُ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ ؟ قَالَ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ فَإِنَّ حَقَ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوا اللهَ ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقَ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ ، أَفَلَا أَبَشِّرُ النَّاسَ، قَالَ لَا تُبَشِّرُهُمْ فَيَتَكِلُوا (مسلم کتاب الايمان باب الدليل على ان من مات على التوحيد دخل الجنة قطعا 36) حضرت معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی علیکم کے پیچھے ایک گدھے پر جس کا نام غفیر تھا بیٹھا ہوا تھا.آپ نے فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی للی کم بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں اور بندوں کا اللہ عزوجل پر یہ حق ہے کہ جو اس کا کسی کو شریک نہ بنائے وہ اس کو عذاب نہ دے.میں نے کہا یار سول اللہ ! کیا میں لوگوں کو یہ بشارت نہ دوں ؟ آپ نے فرمایا ان کو یہ نہ بتاناور نہ وہ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے.913- عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ، فَهُوَ يَمْشِي مَرَّةً، وَيَكُبُو مَرَّةً، وَتَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً ، فَإِذَا مَا جَاوَزَهَا الْتَفَتَ إِلَيْهَا، فَقَالَ تَبَارَكَ الَّذِي نَجَانِي مِنْكِ لَقَدْ أَعْطَانِي اللهُ شَيْئًا مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، فَيَقُولُ أَى رَبِ، أَدْنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَلِأَسْتَظِلَّ بِظِلْهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا ابْنَ آدَمَ ، لَعَلِّي إِنَّ أَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا، فَيَقُولُ لَا، يَارَبِ، وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدَنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْتَظِلُّ بِظِلْهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَاعِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَى، فَيَقُولُ
713 أَى رَبّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا ، وَأَسْتَظِلَّ بِظِيْهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ يَا ابْنَ آدَمَ ، أَلَمْ تُعَاهِدُنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا ، فَيَقُولُ لَعَلَّى إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا، فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا ، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدُنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلْهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَاعِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابُ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَيَيْنِ، فَيَقُولُ أَى رَبّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لأَسْتَظِلَّ بِظِلْهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا ، فَيَقُولُ يَا ابْنَ آدَمَ ، أَلَمْ تُعَاهِدُنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا، قَالَ بَلَى يَا رَبِّ، هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهَا ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ أَى رَبِ، أَدْخِلْنِيهَا، فَيَقُولُ يَا ابْنَ آدَمَ مَا يَصْرِينِي مِنْكَ؟ أَيُرْضِيكَ أَنْ أَعْطِيَكَ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا ؟ قَالَ يَا رَبِّ، أَتَسْتَهْزِهُ مِنِي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ أَلَا تَسْأَلُونِي هِمَّ أَضْحَكُ فَقَالُوا هِمَّ تَضْحَكُ، قَالَ هَكَذَا ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالُوا هِمَ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ مِنْ ضَحِكِ رَبِ الْعَالَمِينَ حِينَ قَالَ أَتَسْتَهْزِهُ مِنِي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ إِنِّي لَا أَسْتَهْزِهُ مِنْكَ، وَلَكِنِي عَلَى مَا أَشَاءُ قَادِرُ (مسلم کتاب الایمان باب آخر اہل النار خروجا 266) حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ آخری شخص جنت میں داخل ہو گا وہ کبھی سیدھا چلے گا.کبھی اوندھے منہ گرے گا اور کبھی آگ اسے جھلسائے گی.جب وہ اسے عبور کرے گا تو اس کی طرف متوجہ ہو گا اور کہے گا بہت ہی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی.یقینا اللہ نے مجھے وہ چیز عطاء فرمائی ہے جو اس نے اولین و اخرین میں سے کسی کو نہیں دی.پھر اس کے لئے ایک درخت بلند کیا جائے گا.وہ شخص کہے گا اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سایہ سے فائدہ اٹھاؤں اور اس کا پانی پیوں.تب اللہ عزوجل فرمائے گا اے ابن آدم ! ہو سکتا ہے کہ اگر میں نے تجھے یہ
714 دے دیا تو تو مجھ سے اس کے علاوہ کچھ اور مانگے.تب وہ کہے گا نہیں اے میرے رب ! پھر وہ اس سے عہد و پیمان کرے گا کہ اس کے علاوہ وہ اس سے اور کچھ نہیں مانگے گا اور اس کا رب اس کو معذور جانے گا کیونکہ اس نے وہ دیکھ لیا ہے جس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا.تو وہ اسے اس کے قریب کر دے گا.پس وہ اس کے سایہ سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کے پانی میں سے پیئے گا.پھر اس کے لئے ایک درخت بلند کیا جائے گا جو پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گا.تب وہ کہے گا اے میرے رب ! مجھے اس (درخت) کے قریب کر دے تاکہ میں اس کا پانی پیوں اور اس کے سایہ سے فائدہ اٹھاؤں.اس کے علاوہ میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا.تب وہ فرمائے گا اے ابنِ آدم کیا تو نے مجھ سے عہد نہیں کیا تھا کہ اس کے علاوہ مجھ سے کوئی سوال نہ کرے گا.اور فرمائے گا کہ ممکن ہے کہ اگر میں نے تجھے اس کے قریب کر دیا تو تو مجھ سے اس کے علاوہ اور مانگے.تب وہ اس سے پھر عہد کرے گا کہ اس کے علاوہ اس سے کچھ نہیں مانگے گا.اور اس کا رب اس کو معذور جانے گا کیونکہ وہ اُسے دیکھ رہا ہے جس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا.پس وہ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا.پھر وہ اس کے سایہ سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کے پانی میں سے پئے گا.پھر اس کے لئے جنت کے دروازے کے پاس ایک درخت بلند کیا جائے گا جو پہلے دونوں ( درختوں) سے زیادہ حسین ہو گا.پھر وہ عرض کرے گا.اے میرے رب ! مجھے اس کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سایہ سے فائدہ اٹھاؤں اور اس کا پانی پیوں.اس کے علاوہ میں تجھ سے اور کچھ نہ مانگوں گا.تب ( اللہ ) فرمائے گا اے ابنِ آدم کیا تو نے مجھ سے عہد نہیں کیا تھا کہ اس کے علاوہ مجھ سے کچھ نہیں مانگے گا.وہ کہے گا کیوں نہیں اے میرے رب ! بس یہی.اس کے علاوہ میں تجھ سے کچھ سوال نہیں کروں گا اور اس کا رب اس کو معذور جانے گا کیونکہ وہ اسے دیکھ رہا ہے جس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا.پس وہ اسے اس کے قریب کر دے گا.پھر جب وہ اسے اس کے قریب کر دے گا اور اہل جنت کی آوازیں سنے گا تو عرض کرے گا اے میرے رب! مجھے اس میں داخل فرما دے.تب وہ ( اللہ تعالیٰ ) فرمائے گا.اے ابنِ آدم! مجھے تجھ سے کون بچائے ؟ کیا تو اس بات پر راضی ہو گا کہ میں تجھے دنیا اور اس کے ساتھ اس جیسی اور (دنیا) دے دوں.اس پر وہ کہے گا اے میرے رب! کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے حالانکہ تو رب العالمین ہے.اس پر
715 حضرت ابن مسعود ہنس پڑے اور کہا کیا تم مجھ سے نہیں پوچھو گے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہوں.؟ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اسی طرح رسول اللہ صلی الی نام ہنسے تھے.اس پر صحابہ نے عرض کیا تھا یار سول صلی علیم اللہ ! آپ کسی بات پر ہنس رہے ہیں.آپ نے فرما یارب العالمین کے ہننے پر.جب اس شخص نے عرض کیا کیا مجھ سے مذاق کرتا ہے ؟ اور تورب العالمین ہے.تب وہ ( اللہ تعالیٰ) وہ فرمائے گا یقینا میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا لیکن میں جو چاہوں اس پر قادر ہوں.914ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ، وَمُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ بخاری کتاب الرقاق باب حجبت النار بالشهوات (6487) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا آگ نفسانی خواہشوں سے ڈھکی ہوئی ہے اور جنت ان باتوں سے ڈھکی ہوئی ہے جو نفس کو بری معلوم ہوتی ہیں.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُفَتْ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ وَحُقَّتْ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ (مسلم ، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها باب صفة الجنة 5035) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا جنت ناپسندیدہ باتوں سے گھری ہوئی ہے اور جہنم (نفسانی) خواہشات سے گھری ہوئی ہے.یعنی جنت کے حصول کے لئے بہت سی آزمائشوں، ابتلاؤں، جن کو انسان نا پسند کرتا ہے ، ان میں سے گزرنا پڑتا ہے.
716 915.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبُو مَالِكٍ، عَنْ رِبَعِي، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّاسَ، فَيَقُومُ الْمُؤْمِنُونَ حَتَّى تُزْلَفَ لَهُمُ الْجَنَّةُ...فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَيَقُومُ فَيُؤْذَنُ لَهُ، وَتُرْسَلُ الْأَمَانَةُ وَالرَّحم، فَتَقُومَانِ جَنَبَتَي القِرَاطِ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَيَمُرُ أَوَّلُكُمْ كَالْبَرْقِ قَالَ قُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأَقِي أَيُّ شَيْءٍ كَمَةِ الْبَرْقِ ؟ قَالَ أَلَمْ تَرَوْا إِلَى الْبَرْقِ كَيْفَ يَمْرُ وَيَرْجِعُ فِي طَرْفَةِ عَيْنٍ ؟ ثُمَّ كَمَرٍ الرِّيحِ ، ثُمَّ كَمَةِ الطَّيْرِ، وَشَدِ الرِّجَالِ، تَجْرِى بِهِمْ أَعْمَالُهُمْ وَنَبِيُّكُمْ قَائِمٌ عَلَى الفِرَاطِ يَقُولُ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ، حَتَّى تَعْجِزَ أَعْمَالُ الْعِبَادِ، حَتَّى يَجِيءَ الرَّجُلُ فَلَا يَسْتَطِيعُ السَّيْرَ إِلَّا زَحْفًا قَالَ وَفِي حَافَقِي الفِرَاطِ كَلَالِيبُ مُعَلَّقَةٌ مَأْمُورَةٌ بِأَخْذِ مَنِ أُمِرَتْ بِهِ، فَمَخْدُوشُ تَاجِ، ومكدوس في النَّارِ وَالَّذِي نَفْسُ أبي هريرة بيدِهِ إِنْ فَعْرَ جَهَنَّمَ لَسَبْعُونَ خَرِيفًا (مسلم کتاب الایمان باب ادنى اهل الجنة منزلة فيها 280) حضرت ابو ہریر گا اور حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور مؤمن کھڑے ہوں گے یہانتک کہ جنت ان کے قریب کر دی جائے گی.پس وہ محمد صلی اللی یکم کے پاس جائیں گے.چنانچہ آپ کھڑے ہوں گے.آپ ملی ایام کو اجازت دی جائے گی اور امانت اور ر تم بھیجا جائے گا.وہ (پل) صراط کے دائیں بائیں کھڑے ہو جائیں گے.تم میں سے پہلے بجلی کی طرح گزر جائیں گے.راوی کہتے ہیں میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کون سی چیز بجلی کے گزرنے کی طرح ہے ؟ آپ نے فرمایا تم نے بجلی کو نہیں دیکھا کہ وہ کیسے گزرتی ہے اور پلک جھپکنے میں لوٹتی ہے.پھر دوسرے ہوا کے چلنے کی طرح.پھر تیسرے پرندہ کے گزرنے کی طرح اور آدمیوں کے دوڑنے کی طرح.ان کے اعمال ان کو تیزی سے لے کر چلیں گے.اور تمہارا نبی صلی این کلم پل صراط پر کھڑا ہو گا.وہ کہے گا اے میرے رب !سلامتی نازل فرما، سلامتی نازل فرما یها متک ا کہ بندوں کے اعمال تھک کر رہ جائیں گے یہانتک کہ ایسا آدمی آئے گا جو چل نہ سکے گا مگر گھسٹ کر.فرمایا 1 : امانت یعنی فرائض کی ادائیگی اور صلہ رحمی پل صراط پر گویا نیک لوگوں کی حفاظت کا ذریعہ بنے گی.
717 (پل) صراط کے دونوں جانب آنکڑے لٹک رہے ہوں گے جس کے متعلق حکم ہو گا اس کو پکڑنے پر مامور ہوں گے.خراشیں لگنے والے (بھی) ناجی ہیں وہ نجات پا جائیں گے.بعض الٹ کر جہنم میں جاگریں گے اور اس کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے جہنم کی گہرائی ستر برس کی ہے.فتنے اور آخری زمانے کی علامات 916ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ القَوْمَ ، جَاءَهُ أَعْرَابِي فَقَالَ مَتَى السَّاعَةُ ؟ فَمَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ بَعْضُ القَوْمِ : سَمِعَ مَا قَالَ فَكَرِهَ مَا قَالَ وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ قَالَ أَيْنَ - أَرَادُ - السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ قَالَهَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ فَإِذَا ضُيْعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ ، قَالَ كَيْفَ إِضَاعَتُهَا ؟ قَالَ إِذَا وُشِدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ (بخاری کتاب العلم باب من سئل علما و هو مشتغل في حديثه...59) حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ یکم مجلس میں بیٹھے لوگوں سے باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک بدوی آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: موعودہ گھڑی کب ہو گی ؟ رسول اللہ صلی علی کی اپنی بات میں لگے رہے.اس پر لوگوں میں سے کسی نے کہا: جو اس نے کہا آپ نے سن لیا ہے مگر آپ نے اس کی بات کو بر امنایا.اور ان میں سے بعض نے کہا نہیں آپ نے سنا نہیں.آخر جب آپ بات ختم کر چکے تو فرمایا کہ کہاں ہے ؟ ( راوی کہتا ہے) میں سمجھتا ہوں.(آپ نے یوں فرمایا) موعودہ گھڑی کے متعلق پوچھنے والا.اس نے کہا یارسول اللہ ! میں یہ ہوں.فرمایا جب امانت ضائع کر دی جائے گی تو اس وقت موعودہ گھڑی کا انتظار کرو.اس نے پوچھا: وہ کیوں کر ضائع کی جائے گی ؟ فرمایا جب حکومت نا اہل لوگوں کے سپرد کر دی جائے گی تو اس وقت اس گھڑی کا انتظار کرو.
718 917- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَلَا أَحَدِثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لَا يُحَدِّثُكُمْ بِهِ أَحَدٌ بَعْدِى سَمِعْتُهُ مِنْهُ: إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ، وَيَفْشُوَ الزَّنَا ، وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ، وَيَذْهَبَ الرَّجَالُ وَيَبْقَى النِّسَاءُ، حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةٌ فَهِمْ وَاحِدٌ رسنن ابن ماجه کتاب الفتن باب اشراط الساعة 4045) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ کیا میں تم سے وہ حدیث بیان نہ کروں جسے میں نے رسول اللہ صلی علی یم سے سنا ہے اور میرے بعد تم سے اس حدیث کو کوئی بیان نہ کرے گا.میں نے آپ سے سنا ہے کہ اس گھڑی کی نشانیاں یہ ہیں کہ علم اٹھا دیا جائے گا اور جہالت ظاہر ہوگی اور زنا پھیل جائے گا اور شراب پی جائے گی، مرد مر جائیں گے اور عور تیں باقی رہیں گی یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا ایک کفیل ہو گا.918- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلُ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ، يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَتُهُمَا وَاحِدَةٌ، وَحَتَّى يُبْعَثَ دَجَالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَحَتَّى يُقْبَضَ العِلْمُ وَتَكْثُرَ الزّلازِلُ، وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ، وَتَظْهَرَ الفِتَنُ، وَيَكْثُرَ الهَرْجُ وَهُوَ القَتْلُ، وَحَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ المَالُ فَيَفِيضَ حَتَّى يُهِمَّ رَبَّ المَالِ مَنْ يَقْبَلُ صَدَقَتَهُ، وَحَتَّى يَعْرِضَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولَ الَّذِي يَعْرِضُهُ عَلَيْهِ لَا أَرَبَ لِي بِهِ، وَحَتَّى يَتَطَاوَلَ النَّاسُ فِي البُنْيَانِ، وَحَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي مَكَانَهُ، وَحَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ - يَعْنِي آمَنُوا - أَجْمَعُونَ، فَذَلِكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ - - قَبْلُ، أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلانِ ثَوْبَهُمَا بَيْنَهُمَا، فَلَا
719 يَتَبَايَعَانِهِ وَلَا يَطْوِيَانِهِ، وَلَتَقُومَنَ السَّاعَةُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِهِ فَلَا يَطْعَمُهُ، وَلَتَقُومَنَ السَّاعَةُ وَهُوَ يُلِيطُ حَوْضَهُ فَلَا يَسْقِي فِيهِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ رَفَعَ أُكْلَتَهُ إِلَى فِيهِ فَلَا يَطْعَمُهَا (بخاری کتاب الفتن باب خروج النار (7121) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ دو بڑے بڑے گروہ آپس میں نہ لڑیں.ان دونوں کے درمیان بہت ہی بڑی لڑائی ہو گی.ان کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور جب تک کہ تیس کے قریب دجال ظاہر نہ ہو جائیں ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور جب تک کہ علم اٹھا نہ لیا جائے اور زلزلے کثرت سے نہ آئیں اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزر جائے اور فتنے نہ ہو لیں اور قتل و خونریزی بہت نہ ہولے اور جب تک کہ مال اس کثرت سے نہ ہو جائے کہ وہ پانی کی طرح بہنے لگ جائے یہاں تک کہ مال والے کو یہ فکر رہے گی کہ کون اس کا صدقہ قبول کرے گا یہاں تک کہ وہ پیش کرے گا اور وہ شخص جس کے سامنے پیش کر رہا ہو گا کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں اور جب تک کہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اونچی عمارتیں نہ بنانے لگ جائیں گے اور جب تک کہ نہ ہولے گا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی قبر پر سے گزرے گا اور وہ کہے گا.اے کاش ! میں اس جگہ ہوتا اور جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ جب سورج ادھر سے چڑھے گا اور لوگ اس کو دیکھ لیں گے تو وہ سب کے سب ایمان لائیں گے.سو یہی وہ وقت ہو گا جب کسی نفس کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لاچکا ہو یا ایمان نہ لا کر نیک کام نہ کئے ہوں.دو آدمیوں نے اپنے درمیان کپڑا پھیلایا ہوا ہو گا.وہ ابھی ایک دوسرے سے خرید و فروخت نہ کر چکے ہوں گے اور اپنے کپڑے کو لپیٹا نہیں ہو گا کہ وہ گھڑی برپا ہو گی.ایک شخص اپنی دود ھیل اونٹنی کا دودھ لے کر لوٹے گا اور ابھی اس کو پیا نہیں ہو گا کہ وہ گھڑی بر پا ہو جائے گی.ایک شخص ابھی اپنا حوض لیپ رہا ہو گا اور ابھی اس میں پانی نہ پلایا ہو گا کہ وہ گھڑی پر باہو جائے گی.آدمی اپنا نوالہ اپنے منہ تک اٹھا چکا ہو گا مگر ابھی اسے کھایا نہ ہو گا کہ وہ گھڑی بر پا ہو جائے گی.
720 919.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ الْآيَاتِ خُرُوجًا، طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا ، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحى رسنن ابن ماجه کتاب الفتن باب طلوع الشمس من مغربها 4069) حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی نیلم نے فرمایا ظہور کے اعتبار سے نشانیوں میں سے پہلی سورج کا اپنے مغرب سے طلوع ہونا ہے اور دابتہ کالوگوں کے سامنے نکلنا چاشت کے وقت.920- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، يَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ، تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ، وَيَقُولُ كُل رَجُلٍ مِنْهُمْ لَعَلَى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أَنجو (مسلم کتاب الفتن باب لا تقوم الساعة حتى يحسر الفرات عن جبل من ذهب 5138) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللی کم نے فرمایا کہ قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ فرات سونے کا ایک پہاڑ ظاہر نہ کر دے.جس پر لوگ لڑیں گے اور ہر سو میں سے نناوے مارے جائیں گے اور ان میں سے ہر ایک کہے گا کاش کہ میں بچ جاؤں.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ الفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ كثر من ذهب فَمَن حَضَرَهُ فَلَا يَأْخُذُ مِنْهُ هَيْنا (بخاری کتاب الفتن باب خروج النار (7119) حضرت ابوہریر گانے بیان کیا کہ نبی صلی علیم نے فرمایا وہ زمانہ قریب ہے کہ فرات سونے کا ایک خزانہ نمودار کرے گا سوجو وہاں موجود ہو تو وہ اس میں سے کچھ نہ لے.
721 مسلمانوں کا تنزل اور ان کا بگڑ جانا 921.وَعَنْ عَلى قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى عُلَمَاؤُهُمْ هَر مَنْ تَحتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ (مشكاة المصابيح كتاب العلم ، الفصل الثالث 276) حضرت علی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللی کرم نے فرمایا عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا.الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.( اس زمانہ کے لوگوں کی) مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے.ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے (یعنی تمام خرابیوں کا وہی سر چشمہ ہوں گے).عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ خَطَبَ عَلَى النَّاسِ بِالْكُوفَةِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ مَنْ يَتَفَقَرُ افْتَقَرَ، وَمَنْ يُعَمَر يُبْتَلَى، وَمَنْ لَا يَسْتَعِدُ لِلْبَلَاءِ إِذَا ابْتُلِيَ لَا يُصِيرُ، وَمَنْ مَلَكَ اسْتَأْثَرَ، وَمَنْ لَا يَسْتَشِيرُ يَنْدَهُ وَكَانَ يَقُولُ مِنْ وَرَاءَ هَذَا الْكَلَامِ يُوْشِكُ أَنْ لَّا يَبْقَى مِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَمِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ، وَكَانَ يَقُولُ أَلَا لَا يَسْتَحْيِي الرَّجُلُ أَنْ يَتَعَلَّمَ، وَمَنْ يُسْأَلُ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ مَسَاجِدُكُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ، وَقُلُوْبُكُمْ وَأَبْدَانُكُمْ خَرْبةٌ مِّنَ الهدى، شَرٌّ مِنْ تَحْتِ ظِلِ السَّمَاءِ فُقَهَاؤُكُمْ ، مِنْهُمْ تَبْدُو الفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ (کنز العمال حرف الميم ، كتاب المواعظة و الرقاق والخطاب، من قسم الافعال ، فصل في جوامع المواعظ ، خطب علی و مواعظه رضى الله عنه 44217
722 ابو وائل کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا میں نے اسے سنا چنانچہ آپ فرمار ہے تھے ! اے لوگو! جو شخص تکلف سے فقر اپنائے وہ فقیر بن ہی جاتا ہے، جسے لمبی عمر دی گئی وہ ابتلاء کا شکار ہو اجو ย شخص آزمائش کے لئے تیار نہ ہوا تو وہ ابتلاء کے وقت صبر آزما نہیں ہو سکتا جو بادشاہ بنا وہ دولت جمع کرنے میں مشغول ہو ا جو شخص مشورہ نہیں لیتاوہ نادم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد آپ فرمایا کرتے تھے ، عنقریب اسلام کا صرف نام ہی باقی رہے گا اور قرآن کے صرف نقوش ہی باقی رہیں گے اس لئے فرمایا کرتے تھے خبر دار ! کوئی شخص بھی علم حاصل کرنے میں حیاء محسوس نہ کرے جس سے کوئی ایسی بات پر بھی جائے جس کا اسے علم نہیں تو اسے چاہیے کہ وہ کہے ” لا اَعْلَمُ“ میں نہیں جانتا ہوں.اس وقت تمہاری مساجد کی عمارتیں عالی شان ہوں گی حالانکہ تمہارے دل اور تمہارے اجسام ہدایت سے ویران ہوں گے اس وقت تمہارے فقہاء آسمان تلے بد ترین لوگ ہوں گے انہی سے فتنوں کا ظہور ہو گا اور انہی میں (فتنے لوٹیں گے.وو 922 - تَكُونُ فِي أُمَّتِي قَزَعَةٌ فَيَصِيرُ النَّاسُ إِلَى عُلَمَائِهِمْ فَإِذَا هُمْ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ.(کنز العمال حرف القاف كتاب القيامة - من قسم الأقوال الباب الأول في أمور تقع قبلها ، الفصل الرابع في ذكر اشراط الساعة الخسف والمسخ والقذف، الاكمال 38727) (رسول اللہ صلی الم نے فرمایا) میری امت میں سخت گھبراہٹ ہو گی لوگ اپنے علماء کے پاس جائیں گے تو کیا دیکھیں گے کہ وہ خنزیر اور بندر بن چکے ہیں.(رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا.لوگ اپنے علماء کے پاس رہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے یعنی ان علماء کا اپنا کر دار انتہائی خراب اور قابل شرم ہو گا.)
723 923- عن ثعلبة البهرانى، قال قال رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ العِلمُ أَن يُختَلَسَ من العَالَمِ حتى لا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ، قَالُوا يَا رَسُول اللَّهِ، كَيْفَ يُخْتَلَسُ، وكِتَابُ اللهِ بَيْنَنَا نُعَلمُهُ أَبْنَاءَنَا ؟ فقال رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّوْرَاةُ والإنجيل عِنْدَ اليَهُودِ والنَّصَارَى فَمَا يُغْنِي عَنْهُم ؟ (أسد الغابة في معرفة الصحابة باب الثاء مع الراء ومع العين ثعلبة البهراني، صحابی نمر 587 ، جلد 1 صفحہ 461) حضرت ثعلبہ بہرائی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا عنقریب دنیا سے علم چھین لیا جائے گا یہاں تک کہ علم و ہدایت اور عقل و فہم کی کوئی بات انہیں سمجھائی نہ دے گی.صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! علم کس طرح ختم ہو جائے گا جبکہ اللہ کی کتاب ہم میں موجود ہے اور ہم اسے آگے اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے.اس پر رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کیا تو رات اور انجیل یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس موجود نہیں ہے لیکن اس نے انہیں کیا فائدہ دیا.924 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِن يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا (بخاری کتاب العلم باب كيف يقبض العلم (100) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ال نیلم کو فرماتے سنا کہ اللہ بندوں سے یو نہی چھینا جھپٹی کر کے علم نہیں اٹھایا کرتابلکہ وہ علماء کو اٹھا کر علم اٹھا لیتا ہے.یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہتا تولوگ ایسے جاہلوں کو سر دار بنا لیتے ہیں کہ جن سے اگر ( کوئی مسئلہ) پوچھا جائے تو بغیر علم کے فتویٰ دیتے ہیں.خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.
724 925.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَأْتِيَنَ عَلَى أمتي ما أتى على بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إن كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةٌ لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِن بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَةٌ، وَتَفْتَرِقُ أمين على ثلاثٍ وَسَبْعِينَ مِلة، كُلُّهُمْ في النَّارِ الأملة وَاحِدَةً، قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحابي (ترمذی کتاب الايمان باب ما جاء فى افتراق هذه الامة (2641) حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جن میں ایسی مطابقت ہو گی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے بدکاری کا مر تکب ہو ا تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا بدبخت نکل آئے گا.بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی.لیکن ایک فرقے کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے.صحابہ نے پوچھا یار سول اللہ ! یہ نامی فرقہ کون سا ہے ؟ تو آپ صلی الی یکم نے فرمایاوہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل پیر اہو گا.لَيَأْتِيَنَ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ (حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلانِيَةً لَكَانَ فِي أمتى مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ) وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةٌ وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَةٌ كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةَ وَاحِدَةً مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي (الجامع الصغير فى احاديث البشير النذير (للسيوطى) ، حرف اللام ، روایت نمبر 7523) میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے (جن میں ایسی مطابقت ہو گی ) جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے ( یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے بد کاری کا مر تکب ہوا تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا).بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے
725 اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی.لیکن ایک فرقے کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے.(صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے ؟ تو رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا) وہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل پیر اہو گا.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ افْتَرَقَتْ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَإِنَّ أُمَتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ الْجَمَاعَةُ ابن ماجه کتاب الفتن باب افتراق الامم 3993 حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا یقینا بنی اسرائیل اکہتر 7 فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت ضرور بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی وہ سب کے سب آگ میں ہیں سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے.926- عن أبي سَعِيدٍ الخُدْرِي، عَنِ النَّبي صلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَتَتْبَعُنَ سَنَن مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا مُجْرَ ضَتٍ تَبِعْتُمُوهُمْ ، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ ، اليَهُودُ وَالنَّصَارَى ؟ قَالَ فَمَن (بخاری کتاب الاعتصام باب قول النبي مال التتبعن سنن من كان قبلكم 7320) حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا تم ضرور ان لوگوں کی چالوں پر چلو گے جو تم سے پہلے تھے بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں بھی داخل ہوئے ہوں تو تم بھی ان کے پیچھے ہی جاؤ گے.ہم نے کہا یارسول اللہ ! کیا یہودو نصاریٰ ؟ آپ نے فرمایا اور کون.
726 حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات 927 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُحْشَرُونَ حُفَاةٌ، عُرَاةٌ، غُرُلا، ثُمَّ قَرَأَ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ فَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمَ، ثُمَّ يُؤْخَذُ بِرِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِي ذَاتَ اليَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ أَصْحَابِي، فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَذِينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ العَبْدُ الصَّالِحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِنْ تُعَذِّبُهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ العَزِيزُ الْحَكِيمُ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول الله و اذكر فى الكتاب مریم اذا نتبذت من اهلها 3447) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں ننگے پاؤں، ننگے بدن، بے ختنہ اُٹھایا جائے گا.یہ کہہ کر آپ نے یہ آیت پڑھی جس طرح ہم نے پہلے پہل پیدا کیا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے.ہمارے ذمہ یہ ایک وعدہ ہے ہم ضرور پورا کریں گے.(پھر فرمایا ) سب سے پہلے جسے پہنایا جائے گا، ابراہیم ہوں گے.پھر (جب سب پہنائے جائیں گے تو ایسا ہو گا کہ میرے صحابہ میں سے بعض لوگوں کو دائیں طرف لے جایا جائے گا اور بعض کو بائیں طرف.میں کہوں گا یہ میرے ساتھی ہیں.تو کہا جائے گا آپ جب سے ان سے جد اہوئے وہ اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے.تو میں ویسے ہی کہوں گا جیسے اس نیک بندے یعنی عیسی بن مریم نے کہا تھا میں اپنی قوم پر نگران رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا.جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہی ہر ایک چیز کا نگران ہے.اگر تو انہیں سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کی پردہ پوشی فرمائے تو تو بڑی عزت والا اور بڑی حکمتوں والا ہے.
727 928 - أنَّهُ لَمْ يَكُن نبى كان بعده تبن إِلَّا عَاشَ نِصْفَ عُمَرَ الَّذِي كَان قَبْلَهُ، وَ أَنَّ عِيسَى ابن مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةَ وَإِنِّي لَا أَرَانِي إِلَّا ذَاهِبًا عَلَى رَأْسِ اليَتَينَ (كنز العمال ، حرف الفاء، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ، الباب الثاني في فضائل سائر الأنبياء صلوات الله عليهم أجمعين، الفصل الأول في بعض خصائص الأنبياء عموما، الاكمال 32262) (روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا) کوئی نبی ایسا نہیں کہ اس کے بعد میں آنے والا نبی نصف عمر زندہ رہتا ہے جتنا کہ اس سے پہلے نبی کی عمر تھی.اور عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے اور میر اخیال ہے کہ میں ساٹھ 60 سال کے سر پر جانے والا ہوں ( یعنی وفات پانے والا ہوں).نوٹ:.یہ سنت الہی اور قاعدہ ربانی غالباً پرانی شریعت کے آخری نبی اور نئی شریعت کے بانی نبی کے بارہ میں ہے.فکر عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَبَيْنَا إِلَى غَدِيرِ ثُمَّ فَأَمَرَ بِرَوْجِ، فَكُسِحَ فِي يَوْمٍ مَا أَتَى عَلَيْنَا يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ حَرًّا مِنْهُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يُبْعَثْ نَبِي قَدْ إِلَّا مَا عَاشَ نِصْفَ مَا عَاشَ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ، وَإِنِّي أُوشِكُ أَنْ أَدْعَى فَأَجِيبَ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا لَن تَضِلُّوا بَعْدَهُ كِتَابَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ (مستدرك على الصحيحين للحاكم كتاب معرفۃ الصحابہ رضی الله عنهم باب ذکر زید بن الارقم الانصاری رضی اللہ عنہ 6272 ) حضرت زید بن ارقم نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی علی کریم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ہم غدیر خم تک.آئے.آپ نے آرام کا حکم دیا.ہمیں ایسے سخت دن سے واسطہ پڑا کہ اس سے قبل اس سے سخت اور گرم دن سے نہیں پڑا تھا.آپ نے اللہ کی تعریف اور شاہ بیان کی اور فرمایا اے لو گوا کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا مگر وہ اپنے سے پہلے نبی کی عمر سے نصف عمر زندہ رہا اور میر ایقین ہے کہ مجھے بلایا جائے گا اور میں جواب دوں گا( یعنی
728 میری وفات ہو گی ) اور یقینا میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں جس کی وجہ سے تم بعد میں گمراہ نہ ہو گے ، اللہ عزوجل کی کتاب.929- عَنْ عَائِقة: أَنَّ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ في مَرْضَهِ الَّذِى تُوفي فِيهِ لِقاطِمة: إِنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُنِي الْقُرْآنَ فِي كُل عَامٍ مَرَةٌ ، وَإِنَّهُ عَارَضَى بِالقُرآنِ الْعَام مَرَّتَيْنِ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ لَمْ يَكُن نَبِيُّ إِلَّا عَاشَ نِصْفَ الَّذِي قَبْلَهُ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةَ سَنَةٌ، وَلَا أَرَانِي إِلَّا ذَاهِبًا عَلَى رَأْسِ السَّثِينَ (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية، باب خصائص امته العلم ، جلد 7 صفحه 398) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی الیم نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ صلی یہ کم کی وفات ہوئی، اپنی بیٹی حضرت فاطمہ سے فرمایا جبرائیل ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کریم کا دور کرتا تھا لیکن اس سال اس نے دو دفعہ دور کیا اور مجھے خبر دی کہ ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف عمر پائی ہے.عیسی ابن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ میں ساٹھ سال کی عمر میں اس دنیا سے جاؤں گا.930ـ وكانت عائِشَة رَضِى الله عَنْهَا تَقُوْلُ كُنْتُ كَثِيرًا مَا أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ نَبِي إِلَّا وَقَدْ عَاشَ نِصْفَ عَمرَ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ وَ إِنَّ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةٍ وَ لا أُرَانِي إِلَّا ذَاهِب عَلَى رأس سِثِينَ سَنَةٌ فَكَانَ كَمَا قَالَ وَقَدْ مَكَتَ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَرْبَعِينَ سَنَةٌ.(كشف الغمة عن جميع الامة (للشعرانی) کتاب الامان و الصلح ، باب قسم الفى والغنيمة جلد 2 صفحه 272) حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللی کام سے اکثر سنا کرتی تھی کہ ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف عمر پائی ہے اور عیسی بن مریم ایک سو بیس 20 سال زندہ رہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ساٹھ 60 سال کی عمر میں
729 میں اس دنیا سے جاؤں گا چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ آپ صلی علی کرم فرمایا کرتے تھے.یہ بھی مشہور ہے کہ عیسی بن مریم بنی اسرائیل میں چالیس 40 سال رہے (اور اس کے بعد آپ دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے ).931- فَفِي زَادِ الْمَعَادِ مَا يُذْكَرُ أَنَّ عِيسَى رُفِعَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِيْنَ سَنَةً لَا يُعْرَفُ بِهِ أَثْرٌ مُتَصِلٌ يَجِبُ الْمَصِيرِ إِلَيْهِ.قَالَ الشَّامِي: وَهُوَ كَما قَالَ فَإِنَّ ذَلِكَ إِنَّمَا يُرْوَى عَنِ النَّصَارَى، وَالْمُصَرَّحُ بِهِ فِي الْأَحَادِيثِ النَّبَوِيَّةِ أَنَّهُ إِنَّمَا رُفِعَ وَهُوَ ابْنُ مِائَةٍ وَعِشْرِينَ سَنَةً (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالی له عليه الصلاة و السلام ، باب المدخل ، جلد 1 صفحه 67) یہ روایت جو مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ سلام تنتمیں 33 سال کی عمر میں اٹھائے گئے.یہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے.آنحضرت صلی علیہ کم کی حدیث تو یہ ہے حضرت عیسی ایک سو بیس سال زندہ رہے.وَيُوَيْدُهُ أَنَّ حَدِيثَ رَفْعِهِ ، وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ، إِنَّمَا يُرْوَى عَنِ النَّصَارَى، فَعِنْدَ الحَاكِمِ عَنْ وَهَبِ بْنِ مُنَبِّهِ ، قَالَ إِنَّ النَّصَارَى تَزْعُمُ " ، فَذَكَرَ الحَدِيثَ إِلى أَنْ قَالَ " وَإِنَّهُ رُفِعَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ " ، وَفِيهِ عَبْدُ الْمَنْعَمِ بْنِ إِدْرِيسَ كَذَّبُوهُ ، وَلَوْ طَعَ، فَهُو عَنِ النصارى كما ترى، وَالثَّابِتُ فِي الْأَحَادِيثِ النَّبَوِيَّةِ أَنَّهُ رُفِعَ، وَهُوَ ابْنُ مِائَةٍ وَعِشْرِين.الله و (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية، تابع المقصد الرابع : فى معجزاته ل ، باب خصائص امتها ، جلد 7 صفحه 398) یہ روایت کہ ان (یعنی حضرت عیسی کا تینتیس 33 سال کی عمر میں رفع ہوا تھا عیسائیوں کا زعم اور خیال ہے.حدیث نبویہ سے تو ثابت ہوتا ہے کہ ایک سو بیس سال کی عمر میں ان کا رفع ہو ا تھا.
730 932.لَو كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ مَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِي الیواقیت والجواہر ، الجز الثانى ، المبحث الثانى والثلاثون : فى ثبوت رسالة نبينا محمد و بیان انه افضل خلق الله صفحہ نمبر (342) روایت ہے کہ آنحضرت صلی للی یکم نے فرمایا اگر موسیٰ اور عیسی زندہ رہتے تو میری پیروی کرنے کے سوا ان کے لئے کوئی چارہ نہ ہو تا.لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّينِ لَمَا وَسِعَهُما إِلَّا اتَّبَاعِي (تفسیر ابن کثیر ، زير آيت وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابِ (آل عمران 81 ، 82) روایت ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے فرمایا اگر موسیٰ اور عیسی زندہ رہتے تو ( مجھ پر ایمان لانے اور ) میری پیروی کرنے کے سوا ان کے لئے کوئی چارہ نہ ہوتا.933 - أوحى اللهُ تَعَالَى إِلَى عِيسَى: أَن يَا عِيسَى انْتَقِلْ مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ، لِتَلَّا تُعْرَفَ، فَتُؤذى، فَوَعِزَّتِي وَجَلَالِي لَأَزَوَجَنَّكَ أَلْفَ حُوْراءَ، وَلَأُوْلِمَنَّ عَلَيْكَ أَرْبَعِيانَةِ عَامٍ (کنز العمال حرف الخاء، الخوف والرجاء ، الخمول، باب الاكمال 5955) روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اے عیسی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہو تا کہ تم پہچانے نہ جا سکو، بصورت دیگر تجھے لوگ دکھ دیں گے.مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم میں ہز ار حوروں سے تیری شادی کراؤں گا اور تیر اولیمہ چار سو سال تک کر اتار ہوں گا.( یعنی ہزاروں حسن باطنی رکھنے والی قومیں تیری اطاعت اور پیروی کا دم بھریں گی اور چار سو سال تک تیرے ماننے والے صحیح راستہ پر گامزن رہیں گے اور تیرے ذریعہ نازل ہونے والی روحانی برکات سے حصہ پائیں گی ).
731 934.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ ذَلِكَ قَبْلَ مَوْتِهِ يقهر أو أخو ذَلِكَ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنفُوسَةٍ الْيَوْمَ تَأْتِي عَلَيْهَا مِانَهُ سَنَةٍ، وَهِيَ حَيَّةٌ يَوْمَينٍ (مسلم کتاب فضائل الصحابه باب قوله الله لا تَأْتِي مِائَةُ سَنَةٍ، وَعَلَى الْأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةُ الْيَوْمَ 4593) حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل یا اس کے قریب قریب فرمایا آج کوئی جان ایسی نہیں جس پر سوسال گزریں اور وہ زندہ ہو.935 - إِذَا تَوَاضَعَ العَبْدُ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ.(کنز العمال ، حرف التاء ، التقوى ، باب التواضع ، 5720) روایت ہے کہ آنحضرت صلی نیلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کا بندہ خاکساری اور انکساری اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ساتویں آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ اسے بلندی رفعت اور بڑا اعزاز بخشتا ہے.دجال کا خروج اور یا جوج ماجوج کا ظہور 936.حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِي، شَعْبُ هَمْدَانَ، أَنَّهُ سَأَلَ فَاطِمَةً بِئْتَ قَيْسٍ، أُخْتَ الضَّحَاكِ بْنِ قَيْسٍ - وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُولِ – فَقَالَ حَدِّثِينِي حَدِيقًا - سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لَا تُسْنِدِيهِ إِلَى أَحَدٍ غَيْرِهِ، فَقَالَتْ.سَمِعْتُ نِدَاءَ الْمُنَادِي، مُنَادِى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يُنَادِي الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَكُنْتُ فِي صَفِ النِّسَاءِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ فَلَهَا قَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ،
732 وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقَالَ لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ ثُمَّ قَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ ؟ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ إِنِّي وَ اللهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ، وَلَكِن جَمَعْتُكُمْ، لأَنَّ تَمِيماً الدَّارِى كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا، فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ، وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِثُكُمْ عَنْ مَسِيحِ الدَّجَالِ، حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ، مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَحْمٍ وَجُذَامَ ، فَلَعِبَ بِهِمِ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ ، ثُمَّ أَرْفَ وَا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَتَّى مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبِ السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ، لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ، فَقَالُوا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ ؟ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قَالُوا وَمَا الْجَسَاسَةُ ؟ قَالَتْ أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ، فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ، قَالَ لَهَا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً، قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا، حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ، فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَط خَلْقًا، وَأَشَدُّهُ وِثَاقًا، مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ، مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ قُلْنَا: وَيْلَكَ مَا أَنْتَ ؟ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي، فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ ؟ قَالُوا نَحْنُ أَنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ رَكِبْنَا فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ، فَصَادَفَنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا، ثُمَّ أَرْفَأَنَا إِلَى جَزِيرَتِكَ هَذِهِ، فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا، فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ، فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبْ كَثِيرُ الشَّعَرِ، لَا يُدْرَى مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ، فَقُلْنَا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ ؟ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قُلْنَا: وَمَا الْجَسَاسَةُ ؟ قَالَتْ اعْمِدُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ، فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ، فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا، وَفَزِعْنَا مِنْهَا، وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةٌ، فَقَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ، قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ ؟ قَالَ أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا، هَلْ يُكْبِرُ ؟ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ ، قَالَ أَمَا إِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ لَا تُنْمِرَ، قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ يُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ، قُلْنَا: عَنْ أَي شَأْتِهَا تَسْتَخْبِرُ ؟ قَالَ هَلْ فِيهَا مَاءٌ؟ قَالُوا هِيَ
733 كَثِيرَةُ الْمَاءِ، قَالَ أَمَا إِنْ مَاءَهَا يُوشِكُ أَن يَذْهَب قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنٍ زُغَرَ، قَالُوا عَنْ أَي شَأْتِهَا تَسْتَخْبِرُ ؟ قَالَ هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءً ؟ وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاء الْعَيْنِ ؟ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ، فِي كَثِيرَةُ الْمَاءِ، وَأَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِن مَاعِهَا، قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِي الْأُمِنِينَ مَا فَعَلَ؟ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ، قَالَ أَقَاتَلَهُ الْعَرَب ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ ؟ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنَ الْعَرَبِ وَأَطَاعُوهُ، قَالَ لَهُمْ: قَدْ كَانَ ذَلِكَ ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ أَمَا إِن ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَن يُطِيعُوهُ، وَإِلى مُخيرُكُمْ عَنِي، إني أنا الْمَسِيحُ، وَإِنِّي أُوشك أن يُؤذن لي في الخروج، فَأَخْرُجَ فَأَسِيمَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدْعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبْظُلُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ، فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَى كِلْتَاهُمَا ، كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً ـ أَوْ وَاحِدًا - مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكَ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْنَا، يَصُدُّنِي عَنْهَا، وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةٌ يَحْرُسُونَهَا ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ : هَذِهِ طَيْبَةُ، هَذِهِ طَيْبَةُ، هَذِهِ طَيْبَةُ.يَعْنِي الْمَدِينَةَ.أَلَا هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ ؟ فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ، أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِى كُنْتُ أَحَدِثُكُمْ عَنْهُ، وَعَنِ الْمَدِينَةِ وَمَكَةَ، أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّامِ ، أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ، لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ، مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ، قَالَتْ فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم کتاب الفتن باب قصة الجساسة 5221) عامر بن شراحیل شعبی شعب ہمدان بیان کرتے ہیں انہوں نے ضحاک بن قیس کی بہن حضرت فاطمہ بنت قیس سے پوچھا اور وہ ابتدائی ہجرت کرنے والیوں میں سے تھیں کہ آپ مجھے کوئی ایسی حدیث بتائیں جو آپ نے
734 رسول اللہ صلی الم سے سنی ہو اور آپ اسے حضور کے علاوہ کسی کی طرف منسوب نہ کریں 1 تو انہوں نے کہا میں نے ایک پکارنے والے کی پکار سنی وہ رسول اللہ صلی الہام کا منادی تھا جو نماز کے لئے پکارتا تھا.میں مسجد کی طرف نکلی اور رسول اللہ صلی علی نام کے ساتھ نماز پڑھی.میں عورتوں کی اس صف میں تھی جو مردوں کے پیچھے تھی جب رسول اللہ صلی للی یکم نے نماز مکمل فرمالی تو منبر پر بیٹھ گئے اور آپ ہنس رہے تھے.آپ نے فرمایا ہر شخص اپنی نماز کی جگہ پر ہی رہے پھر فرمایا تمہیں پتہ ہے کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں.آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے تمہیں کسی چیز کی طرف رغبت دلانے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا بلکہ میں نے تمہیں اس لئے اکٹھا کیا ہے کہ تمیم داری ایک عیسائی شخص تھا آیا، اس نے بیعت کی اور اسلام لایا اور اس نے مجھے اس سے ملتی جلتی بات بتائی جو میں تمہیں مسیح دجال کے بارہ میں بنایا کرتا تھا اس نے مجھے بتایا کہ وہ خم اور جذام کے تیس لوگوں کے ہمراہ ایک بحری جہاز میں سوار ہوا اور ایک ماہ تک سمندر کی موجیں ان سے کھیلتی رہیں پھر سمندر میں ایک جزیرہ کے قریب پہنچ گئے یہانتک کہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر پہنچ گئے.پھر وہ چھوٹی کشتیوں پر بیٹھے اور جزیرہ میں داخل ہو گئے.وہاں انہیں ایک بہت گھنے اور زیادہ بالوں والا چوپا یہ ملا.زیادہ بالوں کی وجہ سے نہ اس کے آگے کا پتہ چلتا تھا نہ پیچھے کا.انہوں نے کہا تیر ابھلا ہو تو کون ہے؟ اس نے کہا میں جساسہ ہوں.انہوں نے کہا کیا ہے جساسہ ؟ اس نے کہا کہ تم اس آدمی کے پاس دیر میں چلے جاؤ وہ تمہارے بارہ میں جاننے کا مشتاق ہے.جب اس نے ایک آدمی کا نام لیا تو ہم گھبر ائے کہ کہیں یہ شیطان ہی نہ ہو.وہ کہتے ہیں ہم تیزی سے دیر کی طرف چل پڑے.جب اس میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عظیم الخلقت انسان ہے جیسا ہم نے کبھی نہ دیکھا اور مضبوطی سے جکڑا ہوا، دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ اس کے گھٹنوں اور ٹخنوں کے درمیان لوہے کی زنجیروں) سے جکڑے ہوئے.ہم نے کہا تمہارا بھلا ہو تم کون ہو ؟ اس نے کہا میرے بارہ میں تمہیں پتہ لگ ہی چکا ہے ، تم مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا کہ ہم عرب کے کچھ لوگ ہیں جو ایک بحری جہاز میں سوار ہوئے دوران سفر ہم نے سمندر کو اس وقت پایا جب وہ جوش میں تھا.موجیں ہم سے 1: بعض کے خیال میں یہ تمیم داری کی ایک رؤیا کا بیان ہے.واللہ اعلم
735 ایک ماہ تک کھیلتی رہیں یہانتک کہ تمہارے جزیرہ میں آپہنچے.ہم اس جہاز) کی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھے اور جزیرہ میں داخل ہو گئے.ہم جزیرہ میں داخل ہوئے تو ہمیں ایک بہت گھنے بالوں والا چو پا یہ ملا.زیادہ بالوں کی وجہ سے نہ اس کے آگے کا پتہ چلتا تھا نہ پیچھے کا.ہم نے کہا تیر ابھلا ہو تو کیا ہے ؟ اس نے کہا میں جساسہ ہوں ہم نے کہا کون جساسہ ؟ اس نے کہا کہ تم اس آدمی کے پاس دیر میں چلے جاؤ کیونکہ وہ تمہارے بارہ میں سننے کا شوق رکھتا ہے.پس ہم تمہاری طرف دوڑتے ہوئے آئے ہیں اور ہم اس سے بہت گھبر ائے ہوئے ہیں کہ کہیں وہ شیطان ہی نہ ہو.اس نے کہا کہ مجھے نخل بیسان کے بارہ میں بتاؤ ہم نے کہا کہ اس کی کس چیز کے بارہ میں پوچھنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا کہ اس کی کھجوروں کے بارہ میں کیا وہ پھل دیتی ہیں ؟ ہم نے اس سے کہا ہاں.اس نے کہا کہ قریب ہے کہ وہ پھل نہیں دیں گی.پھر اس نے کہا کہ مجھے بحیرہ طبریہ کے بارہ میں بتاؤ.ہم نے کہا کہ اس کی کس چیز کے بارہ میں پوچھنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا کہ کیا اس میں پانی ہے ؟ انہوں نے کہا اس میں بہت پانی ہے.اس نے کہا عنقریب اس کا پانی ختم ہو جائے گا اس نے کہا مجھے زغر کے چشمہ کے بارہ میں بتاؤ انہوں نے کہا اس کی کس چیز کے بارہ میں پوچھتے ہو ؟ اس نے کہا کیا چشمہ میں پانی ہے ؟ اور کیا وہاں رہنے والے اس چشمہ کے پانی سے کھیتیاں اگاتے ہیں ؟ ہم نے کہاہاں اس میں بہت پانی ہے اور اس کے رہنے والے اس سے کھیتیاں اگاتے ہیں.اس نے کہا کہ مجھے امیوں کے نبی کے بارہ میں بتاؤ کہ اس نے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلا اور یثرب آگیا.اس نے کہا کیا عربوں نے اس سے جنگ کی ؟ ہم نے کہا ہاں اس نے کہا اس نے ان سے کیا سلوک کیا ؟ ہم نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ارد گر د عرب پر غالب آگیا اور انہوں نے اس کی اطاعت قبول کر لی.اس نے ان سے کہا کیا ایسا ہو گیا ہے ؟ ہم نے کہا ہاں اس نے کہا ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ اس کی اطاعت قبول کر لیں.میں تمہیں اپنے بارہ میں بتاتا ہوں کہ میں مسیح ( دجال ) ہوں اور قریب ہے کہ مجھے خروج کی اجازت دی جائے گی.میں عنقریب خروج کروں گا اور زمین میں پھروں گا اور چالیس راتوں میں ساری بستیوں میں اتروں گا سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہ دونوں مجھ پر حرام کئے گئے ہیں.جب کبھی میں ان میں سے کسی ایک میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا تو میرے سامنے ایک فرشتہ آجائے گا جس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تلوار ہو گی اور وہ مجھے اس سے روک دے گا اور اس کے ہر راستہ پر فرشتے
736 ہوں گے جو اس کا پہر ادے رہے ہوں گے.وہ (راویہ) کہتی ہیں رسول اللہ صلی علیم نے منبر میں اپنی چھڑی ٹھکور کر فرمایا یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ.کیا میں نے تمہیں یہ نہیں بتایا تھا ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ( فرمایا) مجھے تمیم کی بات اچھی لگی کہ وہ اس بات کے مطابق ہے جو میں تمہیں اس کے اور مکہ اور مدینہ کے بارہ میں بتایا کرتا تھا.سنو ! وہ شام یا یمن کے سمندر میں نہیں ہے بلکہ مشرق کی طرف سے ہے ، وہ جو بھی ہے مشرق کی طرف ہے ، وہ جو بھی ہے مشرق کی طرف ہے.آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایاوہ کہتی ہیں میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللی نام سے یاد کر لی.6 937- عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَالَ ذَاتَ غَدَاةٍ، فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ ؟ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ ذَكَرْتَ الدَّجَالَ غَدَاةٌ، فَخَفَضْتَ فِيهِ وَرَفَعْتَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ، إِنْ يَخْرُجُ وَأَنَا فِيكُمْ، فَأَنا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجُ وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌ قطط ، عَيْنَهُ طَافِئَةٌ، كَافِي أَهَبهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بن قطن، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ، فَلْيَقْرَأُ عَلَيْهِ فَوَاتِّحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَةَ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاتَ شِمَالًا، يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا لَبْتُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا، يَوْمُ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِى كَسَنَةٍ، أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ ؟ قَالَ لَا ، اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ ؟ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ، فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ، فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ، وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ، أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا، وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ، ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ ، فَيَدْعُوهُمْ
737 فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ ، فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَيَمُرُ بِالْخَرِبَةِ، فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجى كُنُوزَكِ، فَتَتْبَعُهُ كُنُونُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ، ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا، فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزَلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ، ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ، يَضْحَكُ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُ ودَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَتَحَذَرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفْسِهِ إِلَّا مَاتَ، وَنَفَسُهُ يَنْتَنِي حَيْثُ يَنْتَنِي طَرْفُهُ، فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُةٍ، فَيَقْتُلُهُ، ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ مِنْهُ، فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِقُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ، فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى: إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي، لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ ، فَحَزِزُ عِبَادِى إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى مُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةٌ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا ، وَيَمُرُ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءُ، وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ، حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ القَوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ ، فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ، فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ، فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَنْبِطُ نَبِيُّ اللهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْتُهُمْ، فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ ، فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَكُن مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ، فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ، ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِنِي تمرتكِ، وَرُذِى بَرَكَتَكِ، فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ، وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا، وَيُبَارَكُ فِي الرَّسُلِ، حَتَّى أَنَّ اللَّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِنَامَ مِنَ النَّاسِ وَاللَّقْعَةَ مِنَ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ
738 مِنَ النَّاسِ وَالْقَحَةَ مِنَ الْغَلَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنَ النَّاسِ، فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيْبَةٌ، فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ، فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ، وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ، يَتَهَا رَجُونَ فِيهَا تَبَارُجَ الْحُمُرِ، فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ (مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة باب ذكر الدجال و صفته و ما معه 5214) حضرت نواس بن سمعان بیان کرتے ہیں کہ ایک دن صبح رسول اللہ صلی نیلم نے دجال کا ذکر فرمایا اور اس کے ذکر میں آواز کبھی دھیمی ہوئی اور کبھی بلند یہانتک کہ ہم سمجھے کہ وہ (دجال قریب ہی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے.جب ہم شام کو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہم میں (گھبراہٹ کے آثار ) پہچان لئے اور فرمایا تمہیں کیا ہوا ہے ؟ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ! صبح آپ نے دجال کا ذکر کیا تھا کبھی آپ کی آواز دھیمی تھی کبھی بلند.ہم سمجھے وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے.اس پر آپ نے فرمایا دجال کے علاوہ ( اور امور کا) تمہارے بارے میں مجھے زیادہ خوف ہے.اگر وہ میری موجودگی میں نکلے تو میں تمہاری طرف سے اس سے دلیل کے ذریعہ مقابلہ کرنے والا ہوں اور اگر وہ نکلے اور میں تم میں نہ ہوں تو ہر شخص کو خود دلیل کے ذریعہ اس کا مقابلہ کرنا ہو گا اور اللہ میرے بعد ہر مسلمان کا خلیفہ ہے.وہ ( دجال) جو ان ہے ، بہت گھنے گھنگھریالے بالوں والا ہے.اس کی آنکھ پھولی ہوئی ہے گویا کہ میں اسے عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دوں گا.تم میں سے جو کوئی اسے پائے تو اس پر سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے.وہ شام اور عراق کے درمیان ایک راہ سے نکلنے والا ہے.دائیں جانب بھی فساد برپا کرے گا اور بائیں جانب بھی.پس اے اللہ کے بندو! تم ثابت قدم رہنا.ہم نے عرض کیا یارسول اللہ !وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا ؟ آپ نے فرمایا چالیس دن ، کوئی دن ایک سال کے برابر ہو گا اور کوئی دن ایک ماہ کے بر ابر اور کوئی دن ایک ہفتہ کے برابر ، اس کے باقی سارے دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے.ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ! وہ دن جو ایک سال کی طرح ہو گا کیا اس میں ایک دن کی نمازیں ہمارے لئے کافی ہوں گی.آپ نے فرمایا نہیں اس کے لئے اندازہ کر لینا.ہم نے عرض کیا یارسول اللہ از مین میں اس کی تیز رفتاری کیسی ہو گی ؟ آپ نے فرمایا بارش کی طرح جس کے پیچھے ہوا چل رہی ہو.پھر وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں پکارے گا تو
739 وہ اس کی بات مان لیں گے.اس پر وہ بادلوں کو حکم دے گا تو وہ خوب بارش برسائیں گے اور زمین کو حکم دے گا تو وہ اگائے گی اور شام کو ان کے مویشی آئیں گے تو ان کی کو ہانیں پہلے سے بہت اونچی ہوں گی ، ان کے تھن بھرے ہوئے ہوں گے اور ان کی کو کھیں بھری ہوں گی.پھر وہ ایک اور قوم کو بلائے گا وہ اس کی بات کو رد کر دیں گے اور وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا تو وہ قحط میں مبتلا ہو جائیں گے اور ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں میں سے کچھ نہ رہے گا اور وہ (دجال) ویرانے سے گزرے گا تو اسے کہے گا کہ اپنے خزانے نکال تو اس (ویرانے) کے خزانے اس طرح اس کے پیچھے چل پڑیں گے جیسے شہد کی نر مکھیاں.پھر وہ ایک بھر پور جوان آدمی کو بلائے گا اور اسے تلوار سے مارے گا اور اس کے دو ٹکڑے کر دے گانشانے پر مارنے کی طرح پھر اسے پکارے گا تو وہ روشن چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا.اتنے میں اللہ مسیح ابن مریم کو مبعوث کرے گا اور وہ سفید مینار کے پاس دمشق کے شرقی جانب دوزر د چادروں میں دو فرشتوں کے بازؤوں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اترے گا.جب وہ اپنا سر جھکائے گا تو سر سے پانی کے قطرے ٹپکیں گے اور جب سر اٹھائے گا تو موتی کی طرح بوندیں ٹپکیں گی.کافر (جو) اُس کی سانس کی ہو ا پائے، اس کے لئے کچھ چارہ ممکن نہیں مگر یہ کہ وہ مر جائے گا اور اس کی سانس وہاں تک جائے گی جہاں تک اس کی نظر جائے گی.پھر وہ ( مسیح دجال) کو تلاش کرے گا یہانتک کہ اسے باب لد پر پالے گا اور اسے قتل کر دے گا پھر عیسی بن مریم کے پاس ایک قوم آئے گی جنہیں اللہ نے اس (دجال) سے محفوظ رکھا تھا وہ (عیسی بن مریم ) ان کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور انہیں جنت میں ان کے درجے بتائیں گے.وہ اس حالت میں ہوں گے کہ اللہ عیسی کی طرف وحی کرے گا کہ میں نے اپنے کچھ ایسے بندے نکالے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں تاب نہیں.پس میرے بندوں کو طور کی طرف لے جاؤ.پھر اللہ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا وہ ہر بلندی کو پھلانگتے ہوئے آئیں گے.ان کا پہلا ہر اول دستہ بحیرہ طبریہ سے گذرے گا.وہ جو اس میں ہو گا پی جائیں گے اور ان کا آخری دستہ گذرے گا تو کہے گا یہاں کبھی پانی ہوتا تھا.اللہ کے نبی عیسی اور ان کے ساتھیوں کو محصور کر دیا جائے گا یہانتک کہ ان میں سے ایک کے لئے بیل کا سر ، آج تم میں سے کسی ایک کے لئے سو دینار سے بہتر ہو گا.پھر اللہ کے نبی عیسی اور ان کے ساتھی (خدا کی طرف توجہ کریں گے.تو اللہ ان ( یا جوج ماجوج) کی گردنوں میں
740 ایک کیڑا بھیجے گا.ایک آدمی کے مرنے کی طرح سب ہلاک ہو جائیں گے.پھر اللہ کے نبی عیسی اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت بھر جگہ بھی ان کی چربی اور تعفن سے خالی نہ پائیں گے.پھر اللہ کے نبی عیسی اور ان کے ساتھی اللہ کی طرف توجہ کریں گے تو اللہ پرندوں کو بھیج دے گا جو سختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گے.وہ ان کی لاشیں اٹھا اٹھا کر وہاں پھینکیں گے جہاں اللہ چاہے گا پھر اللہ بارش بھیجے گا جس سے خاک دخشت کا گھر یا نیمہ نہیں بچائے گا.پھر زمین کو دھو ڈالے گی یہا تک کہ اسے آئینے کی طرح کر دے گی پھر زمین سے کہا جائے گا کہ اپنا پھل اگا اور اپنی برکت لوٹا.اس دن ایک انار سارا گر وہ کھائے گا اور اس کے چھلکے سے سایہ لیں گے اور دودھ میں برکت دی جائے گی حتی کہ دودھ والی اونٹنی ایک بڑے گروہ کو کفایت کرے گی.ایک دودھ والی گائے ایک قبیلے کو کفایت کرے گی.ایک دودھ والی بکری کا دودھ ایک خاندان کو کفایت کرے گا.اسی دوران اللہ ایک خوشگوار ہوا بھیجے گا جو ہر مسلمان کے پہلو کو لگے گی اور ہر مسلمان اور مومن کی روح قبض کرلے گی اور صرف شریر لوگ رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح لڑائی ، فساد کریں گے اور ان پر وہ گھڑی آئے گی.938 - عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ الدَّجَّالَ بَيْنَ ظَهْرَانَي النَّاسِ، فَقَالَ إِنَّ اللهَ تَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلَا وَإِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَانَ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ (مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة باب ذكر الدجال و صفته و ما معه 5204) حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیم نے لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا یقینا اللہ تعالی یک چشم نہیں ہے اور سنوا مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہے گویا اس کی آنکھ انگور کا پھولا ہوا دانہ ہے.
741 939ـ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَالُ أَغْوَرُ بِعَيْنِ الشِّمَالِ، بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبُ كَافِرُ، يَقْرَؤُهُ الْأُمِّيُّ وَالْكَاتِبُ (مسند أحمد بن حنبل ، اول مسند البصريين ، حديث ابي بكرة نفيع بن الحارث بن كلدة 20672) حضرت ابو بکرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ال نیلم نے فرمایا کہ دجال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا.اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر کافر لکھا ہو گا جسے ان پڑھ اور پڑھا ہو ا دونوں پڑھ سکیں گے.940.وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ عَلَى حِمَارٍ أَثْمَرَ مَا بَيْنَ أُذُنَيْهِ سَبْعُونَ بَاعًا (مشكاة المصابيح ، كتاب الفتن ، باب العلامات بين يدى الساعة وذكر الدجال ، الفصل الثالث 5493) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی نیلم نے فرمایا دجال ایک ایسے گدھے پر سوار ہو کر نکلے گا جو چاند کی طرح چمکے گا اس کے دونوں کانوں کے درمیان ستر ”باع کا فاصلہ ہو گا.(انسان کے دونوں پھیلے ہوئے ہاتھوں کے درمیان جو فاصلہ ہو تا ہے اسے ”باع “ کہتے ہیں.) نوٹ :.ا.عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ إِنَّ أُذُنَ حَمَارِ الدَّجَّالِ لَتُظِلُّ سَبْعِينَ أَلْفَاً (الدر المنثور فی تفسیر بالماثور ، سورة غافر ، آيت إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللهِ ( 56 تا 59 ) جلد 13 صفحه 63) دجال کے گدھے کا کان ستر 70 ہزار لوگوں پر سایہ کرے گا.ب ـ مَابَيْنَ حَافِرِ حِمَارِهِ إِلَى الْحَافِرِ الْآخَرِ مَسِيرَةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ (کنز العمال ، حرف القاف ، كتاب القيامة من قسم الافعال ، باب الدجال 39709)
742 اس کے گدھے کے ایک سم سے دوسرے سم تک کا فاصلہ ایک دن اور رات کے سفر جتنا ہو گا.ج - كُل خُطوة من خطاهُ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ وَ تُطوى لَهُ الْأَرْضُ حَتَّى يَسْبِقُ الشَّمْسِ إِذَا طلَعَتْ إِلَى مَغْرِيبًا يَخُوضُ الْبَحْرِ حِمَارِه الى ركبتيه (نزهة المجالس و منتخب النفائس عبد الرحمان الصفوى الشافعي ، باب فى فضل الجمعة و يومهاو لیلتها و کرمها، جلد 1 صفحه 132) اس کے قدموں میں سے ہر قدم کا فاصلہ) تین دن کا ہو گا.اس کے لئے زمین لپیٹ دی جائے گی.حتی کہ وہ مغرب کی طرف جاتے ہوئے سورج سے آگے نکل جائے گا.وہ اپنے گدھے سمیت سمندر میں اترے گا اور سمندر کا پانی) اس کے گھٹنوں تک ہو گا.( تیز رفتار ہوائی جہازوں نے عملاً یہی صورت پیدا کی ہے کہ وہ دو ملکوں کے درمیان وقت کے فرق کے اندر اندر بلکہ پہلے وہاں پہنچ جاتے ہیں).د - أَمَامَهُ جَبَلُ دُخَانٍ (کنز العمال ، حرف القاف ، کتاب القيامة من قسم الافعال ، باب الدجال 39709) اس کے آگے آگے دھوئیں کا پہاڑ ہو گا.- وَرَكْبٌ ذَوَاتِ الفُرُوجِ السُّرُوحِ (بحار الانوار (محمد باقر مجلسی الجز الثانى والخمسون ، باب علامات ظهور علیہ سلام من السفيانی و الدجال و غیر ذلک و 6 فیہ ذکر بعض اشراط الساعة، صفحه 414) دجال کی سواری کے اندر روشنیاں ہوں گی اور اس کے بہت سے در اور کھڑکیاں ہوں گی.
743 941 - عن سبيع قَالَ أَرْسَلُونِي مِنْ مَاءٍ إلَى الْكُوفَةِ أَشتَرى الدَّوَابَ، فَأَتَيْنَا الكُتاسَةَ عَنْ فَإِذَا رَجُلٌ عَلَيْهِ جَمْع قَالَ فَأَمَّا صَاحِبِي فَانطلق إلى الدَّوَاتٍ وَأَمَّا أَنَا فَأَتَيْتُهُ، فَإِذَا هُوَ حُذَيْفَةُ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَهُ عَنِ الْخَيْرِ وَأَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرْ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ شَرٌّ ؟ قَالَ نَعَمْ ، قُلْتُ فَمَا الْعِصْمَةُ مِنْهُ ؟ قَالَ السَّيْفُ - أَحْسَبُ أَبُو التَّيَّاحِ يَقُولُ السَّيْفُ، أَحْسَبُ - قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ ثُمَّ تَكُونُ هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ ، قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ ثُمَّ تَكُونُ دُعَاةُ الضَّلَالَةِ، فَإِنْ رَأَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةَ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزَمُهُ، وَإِنْ نَبَكَ جِسْمَكَ وَأَخَذَ مَالَكَ، فَإِنْ لَمْ تَرَهُ فَاهْرَبْ فِي الْأَرْضِ، وَلَوْ أَنْ تَمُوتَ وَأَنْتَ عَاضُ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ ، قَالَ قُلْتُ ثُمَّ ماذا ؟ قال لم يخرجُ الدَّجَالُ ، قَالَ قُلْتُ في تجي بِهِ مَعَهُ ؟ قَالَ بِنَبَرٍ أَوْ قَالَ مَاءٍ وَنَارٍ - فَمَن دَخَلَ نَهْرَهُ حُطَ أَجْرُهُ، وَوَجَبَ وِزْرُهُ، وَمَنْ دَخَلَ نَارَهُ وَجَبَ أَجْرُهُ وَحُطَ وِزْرُهُ ، قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ لَوْ أَنْتَجْتَ فَرَسًا لَمْ تَرُكَبْ، فَلُوهَا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ (مسند احمد بن حنبل ، تتمه مسند الانصار ، حديث حذيفة بن اليمان عن النبي ال 23819) حضرت سبیح بیان کرتے ہیں کہ چند لوگوں کے ساتھ مجھے ایک آباد چشمہ سے کوفہ کی طرف بھیجا گیا تا کہ وہاں سے کچھ جانور خرید لاؤں.جب ہم کناسہ کے مقام پر ایک خانقاہ پر پہنچے تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی کے ارد گرد لوگ جمع ہیں.میرے ساتھی تو جانوروں کی طرف چلے گئے اور میں اس آدمی کی طرف آ گیا وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ شخص حضرت حذیفہ نہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت علی ایم کے (دوسرے) صحابہ ہمیشہ اچھی، بھلائی اور خوشخبری والی باتیں آپ صلی ایام سے پوچھا کرتے تھے لیکن میں مستقبل میں پیدا ہونے والے فتنہ وفساد کے متعلق پوچھتارہتا تھا.ایک دن میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ان بھلے دنوں کے بعد برے دن بھی آئیں گے جس طرح پہلے برے دن تھے ؟ آپ صلی ٹیم نے فرمایا ہاں.میں نے عرض کیا اس فتنہ سے بچنے کی کیا صورت اختیار کی جائے گی ؟ آپ نے فرمایا تلوار، یعنی جنگ کا حربہ استعمال کیا جائے گا.میں نے عرض کیا.نتیجہ کیا ہو گا؟
744 ولی کدورت کے باوجود صلح کی سطحی کوششیں کی جائیں گی.میں نے عرض کیا پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی ٹیم نے فرمایا گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ کھڑے ہوں گے ، ایسے حالات میں اگر زمین میں اللہ کا کوئی خلیفہ دیکھو تو تم اس کی متابعت و مصاحبت اختیار کرو.اگر چہ اس وجہ سے تمہارا جسم لہولہان کر دیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے اور اگر تمہیں ایسے خلیفتہ اللہ کا قرب میسر نہ آئے تو زمین کے کسی کونے میں چلے جاؤ اگر چہ تم اکیلے درخت کے تنے کو پکڑے مر جاؤ.حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا.اس نازک صورت حال کے اور کیا نتائج بر آمد ہوں گے ؟ آپ صلی للی کرم نے فرمایا پھر دجال کا غلبہ ہو گا.اس پر میں نے پوچھا وہ کیا شعبدے دکھائے گا؟ آپ صلی علیکم نے فرمایا وہ نہریں جاری کرے گا، آگ سے کام لے گا.جو شخص اس کی نہر میں داخل ہوا ( یعنی اس نے دنیا کو ترجیح دی ) اسے ثواب سے محروم کر دیا جائے گا اور گناہوں کی سزا پائے گا اور جو شخص اس کی آگ میں داخل ہوا ( یعنی اس کی پیدا کر دہ مشکلات کا اس نے سامنا کیا) اس کو اللہ تعالیٰ کے حضور سے ثواب ملے گا اور اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے.حذیفہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا اس کے بعد پھر کیا ہو گا ؟ تو آپ صلی یہی ہم نے فرما یا گھوڑی بچہ بنے گی تو اس کا بچہ سواری کے قابل نہیں ہو گا کہ قیامت آجائے گی.عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ؟ قَالَ قُلُوبُ لَا تَعُودُ عَلَى مَا كَانَتْ (مسند احمد بن حنبل ، تتمه مسند الانصار ، حديث حذيفة بن اليمان عن النبي ال 2381) حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ” هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ“ کے معنی کیا ہیں؟ آپ صلی الم نے فرمایا ایسے دل جو پہلی بھائی چارہ کی حالت پر واپس نہیں آئیں گے یعنی ان میں دشمنی اور کھوٹ کی آگ سلگتی رہے گی.
745 نوٹ : إِنَّ مَعَهُ جَبَلَ خُبُرٍ، وَغَيْرَ مَاءٍ (بخاری کتاب الفتن باب ذكر الدجال (7122) روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا اس کے ساتھ ہوں گے.942- عَنْ عَيْهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَتْبَعُ الدَّجَالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ، سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمُ الطَّيَالِسَةُ (مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة باب في بقية من احاديث الدجال 5223) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علی یم نے فرمایا اصفہان کے یہود میں سے ستر 70 ہزار طیالسی قبا پہنے دجال کے ساتھ ہو جائیں گے.(قبا کو انگریزی میں duffle coat کہتے ہیں) نوٹ: أَلَا إِنَّ الدَّجَالَ أَكْثَرُ أَشبَاعِهِ وَ أَتْبَاعِهِ الْيَهُودُ وَأَوْلَادُ الزِنَا (کنز العمال، حرف القاف ، كتاب القيامة ، الكذابون ، باب الدجال 39709) دجال کے زیادہ تر پیر و کار و مددگار یہودی اور حرامزادے ہوں گے.943 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِيَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللهِ هَذَا يَهُودِى خَلْفِي، فَتَعَالَ فَاقْتُلُهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ، فَإِنَّهُ مِنْ هَجَرِ الْيَهُودِ (مسلم کتاب الفتن باب لا تقوم الساعة حتى يمر الرجل بقبر الرجل فيتمنى ان يكون مكان الميت من البلاء 5189)
746 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا وہ گھڑی “ قائم نہیں ہو گی یہانتک کہ مسلمان یہود سے جنگ کریں گے اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہانتک کہ یہودی کسی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپ جائے گا تو وہ پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان !اے اللہ کے بندے !یہ میرے پیچھے یہودی ہے آ اور اسے قتل کر سوائے غرقد (درخت) کے کیونکہ وہ یہود کا درخت ہے.944 - يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَختِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللَّينِ أَلْسِنَتُهُمْ أَخْلَى مِنَ العَسَلِ وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذَّتَابِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَى يَجْتَرِؤُونَ؟ فَبِي حَلَفْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانَ ـ (ت ـ عن أبى هريرة ) (کنز العمال، حرف القاف، كتاب القيامة من قسم الأقوال الباب الأول: في أمور تقع قبلها ، الفصل الثالث في أشراط الساعة الصغرى 38443) (حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی للی یکم نے فرمایا ) آخری زمانہ میں کچھ لوگ ظاہر ہوں گے جو دنیا اور پیسہ کے زور پر دین پھیلائیں گے اور لالچ کے ذریعہ لوگوں کے ضمیر خرید لیں گے.دنیا کے سامنے وہ بھیٹروں کا لباس پہن کر آئیں گے (یعنی بظاہر بڑے نرم مزاج اور ٹھنڈی طبیعت کے ہوں گے.ان کی زبانیں شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی (اور اپنی چکنی چپڑی اور میٹھی باتوں سے لوگوں کا دین بدلنے کی کوشش کریں گے ) لیکن ان کے دل بھیڑیوں کے سے ہوں گے ( یعنی اندر سے ان کی نیتیں سخت خراب اور ان کے ارادے بڑے خطرناک ہوں گے).اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حلم کی وجہ سے ان کو دھوکا لگا ہے اور میرے خلاف ایسی نار واجرات کی ہے میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہی میں سے اور ان کے اندر سے ہی ایسے فتنہ گر پیدا کروں گا کہ ان کے فتنوں اور کارستانیوں کو دیکھ کر عقلمند اور دانا حیران و ششدر رہ جائیں گے.
747 945- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْقٌ مِنَ الْمَدِينَةِ، مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُوا قَالَتِ الرُّومُ : خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا ، وَ اللَّهِ لَا تُخَلِي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ تُلْتُهُمْ، أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ ، وَيَفْتَتِحُ القُلْتُ، لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، فَبَيْنَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ، قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ، إِذْ صَاحَ فِيهِمِ الشَّيْطَانُ: إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ، فَيَخْرُجُونَ، وَذَلِكَ بَاطِلٌ، فَإِذَا جَاءُوا الشَّامَ خَرَجَ، فَبَيْنَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ، يُسَؤُونَ الصُّفُوفَ، إِذْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوٌّ اللَّهِ ، ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ ، وَلَكِن يَقْتُلُهُ اللهُ بِيَدِهِ، فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ (مسلم کتاب الفتن باب فى فتح قسطنطينية وخروج الدجال و نزول عیسی ابن مریم 5143) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ رومی اعماق یا فرمایا دابق میں اتریں گے.تو اس وقت مدینہ کا ایک لشکر جو کرہ ارض کے بہترین لوگوں میں سے ہو گا اُن کی طرف نکلے گا.جب وہ صف آراء ہو جائیں گے تو رومی کہیں گے ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنہوں نے ہم میں سے قیدی بنائے ہیں ہم ان سے لڑیں.مسلمان کہیں گے نہیں، اللہ کی قسم ! ہم تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے.اس پر وہ ان سے جنگ کریں گے تو ایک تہائی بھاگ جائیں گے.اللہ کبھی ان کی توبہ قبول نہیں کرے گا اور ان کا ایک تہائی مارا جائے گا.یہ اللہ کے نزدیک افضل ترین شہید ہوں گے اور ایک تہائی فتیاب ہو گا.وہ کبھی فتنہ میں مبتلا نہ ہوں گے.وہ قسطنطینیہ کو فتح کریں گے.پس وہ اپنی :1 اعماق اور دابق شام میں حلب کے قریب دو مقامات کا نام ہے.
748 تلواروں کو زیتون کے درخت) سے لٹکا کر اموالِ غنیمت تقسیم کر رہے ہوں گے کہ ان میں شیطان بلند آواز سے کہے گا کہ مسیح دجال تمہارے پیچھے تمہارے اہل و عیال میں ہے.وہ وہاں سے نکلیں گے اور یہ جھوٹ ہو گا.جب وہ شام آئیں گے جب وہ ( دجال ) نکلے گا.وہ جنگ کی تیاری کے لئے صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے کہ نماز کھڑی ہونے کا وقت آجائے گا.تو مسیح ابن مریم نازل ہوں گے اور ان کی امامت کروائیں گے.جب اللہ کا دشمن اسے دیکھے گا تو ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے اور اگر وہ (مسیح) اسے چھوڑ بھی دیں تب بھی وہ خود ہی گھل کر ہلاک ہو جائے گا لیکن اللہ اسے اس (مسیح) کے ہاتھ سے قتل کرے گا اور و والو گوں کو اس ( رجال) کا خون اپنی بر چھی پر دکھائے گا.946- قَالَ الْمُسْتَوْرِدُ الْقُرَشِيُّ، عِنْدَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرُّومُ أَكْثَرُ النَّاسِ فَقَالَ لَهُ عَمْرُو: أَبْصِرُ مَا تَقُولُ، قَالَ أَقُولُ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ، إِنَّ فِيهِمْ لَخِصَالًا أَرْبَعًا: إِنَّهُمْ لَأَحْلَمُ النَّاسِ عِنْدَ فِتْنَةٍ، وَأَسْرَعُهُمْ إِفَاقَةً بَعْدَ مُصِيبَةٍ، وَأَوْشَكُهُمْ كَرَّةً بَعْدَ فَرَةٍ وَخَيْرُهُمْ لِمِسْكِينٍ وَيَتِيمٍ وَضَعِيفٍ، وَخَامِسَةٌ حَسَنَةٌ جَمِيلَةٌ: وَأَمْنَعُهُمْ مِنْ ظُلْمِ الْمُلُوكِ (مسلم کتاب الفتن باب تقوم الساعة و الروم اكثر الناس5144) حضرت مُستَورِ د قرشی نے حضرت عمرو بن العاص کی موجودگی میں کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا قیامت اس وقت آئے گی جب لوگوں میں سے اکثر رومی ہوں گے.حضرت عمرو نے ان سے کہا کہ دیکھ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو.انہوں نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی الم سے سنا انہوں (حضرت عمرو) نے کہا کہ تم اگر ان کے بارہ میں یہ کہتے ہو تو ان میں چار خوبیاں ہیں (1) فتنہ کے وقت وہ لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم ہوتے ہیں اور (2) کسی تکلیف کے بعد سب (لوگوں ) سے جلدی افاقہ پاتے ہیں
749 اور (3) بھاگنے کے بعد پھر حملہ کرتے ہیں اور (4) لوگوں میں بہتر ہیں مسکین یتیم اور کمزور کے لئے اور.پانچویں جو بڑی عمدہ اور خوبصورت خوبی ہے وہ سب سے زیادہ بادشاہوں کے ظلم کو روکنے والے ہیں.- 947ـ عَنْ يُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ هَاجَتْ رِيحٌ حَمْرَاءُ بِالْكُوفَةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ لَيْسَ لَهُ هِجَيرَى إِلَّا يَا عَبْدَ اللَّهِ بْن مَسْعُودٍ جَاءَتِ السَّاعَةُ، قَالَ فَقَعَدَ وَكَانَ مُتَكنَّا فَقَالَ إِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُومُ، حَتَّى لَا يُقْسَمَ مِيرَاتٌ، وَلَا يُفْرَحَ بِغَنِيمَةٍ ، ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَنَاهَا نَحْوَ الشَّامِ فَقَالَ عدو يجمعون لأهْلِ الْإِسْلَامِ ، وَيَجْمَعُ لَهُمْ أَهْلُ الْإِسْلَامِ، قُلْتُ الرُّومَ تَعْنِي؟ قَالَ نَعَمْ (مسلم کتاب الفتن باب اقبال الروم فى كثرة القتل عند خروج الدجال (5146) یسیر بن جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ کوفہ میں سُرخ آندھی آئی تو ایک شخص آیا اس کا تکیہ کلام تھا کہ ” اے عبد اللہ بن مسعودؓ ! قیامت آگئی“.راوی کہتے ہیں وہ (حضرت عبد اللہ ) سہارا لئے ہوئے تھے بیٹھ گئے اور کہا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میراث تقسیم نہ ہوگی اور محض مال غنیمت پر خوشی نہ ہوگی پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا.اور اپنے ہاتھ کو شام کی طرف موڑا اور کہا کہ اہل اسلام کے مقابل پر دشمن (وہاں) اکٹھے ہوں گے اور مسلمان ان سے لڑنے کے لئے اکٹھے ہوں گے.میں نے کہا آپ کی مراد رومی ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں.948- عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، قَالَ قَالَ لِي ابْنُ صَائِدٍ: وَأَخَذَتْنِي مِنْهُ ذَمَامَةٌ: هَذَا عَذَرْتُ النَّاسَ، مَا لِي وَلَكُمْ ؟ يَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ أَلَمْ يَقُلْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ يَهُودِى وَقَدْ أَسْلَمْتُ، قَالَ وَلَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ وُلِدَ لِي، وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَيْهِ مَكَّةَ وَقَدْ حَجَجْتُ، قَالَ فَمَا زَالَ حَتَّى كَادَ أَن يَأْخُذَ فِي قَوْلُهُ، قَالَ فَقَالَ لَهُ أَمَا، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ الْآنَ
750 حَيْثُ هُوَ، وَأَعْرِفُ أَيَّاهُ وَأَمَّهُ، قَالَ وَقِيلَ لَهُ أَيَسُرُكَ أَنَّكَ ذَاكَ الرَّجُلُ؟ قَالَ فَقَالَ لَوْ عُرِضَ عَلَى مَا كَرِهْتُ (مسلم کتاب الفتن باب ذكر ابن صياد 5196) حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ ابن صائد نے مجھے کہا.اور مجھے اس سے شرم محسوس ہوئی اور میں دوسرے لوگوں کو تو معذور سمجھتا ہوں.لیکن اے محمد کے اصحاب !میرے اور تمہارے درمیان کیا ( جھگڑا) ہے ؟ کیا اللہ کے نبی نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ ( دجال) یہودی ہے ؟ اور میں تو مسلمان ہو چکا ہوں.آپ نے فرمایا تھا کہ اس کی تو اولا دنہ ہو گی اور میری اولاد ہے اور آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ نے اس پر مکہ ( میں داخلہ ) حرام کیا ہے اور میں نے تو حج کیا ہوا ہے.وہ کہتے ہیں وہ باتیں کرتا رہا حتی کہ قریب تھا کہ اس کی بات مجھ میں اثر کر جائے.وہ کہتے ہیں پھر اس نے انہیں کہا سنو! اللہ کی قسم مجھے علم ہے کہ اب وہ (رجال) کہاں ہے اور میں اس کے باپ اور اس کی ماں کو جانتا ہوں.وہ کہتے ہیں اس سے کہا گیا کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم ہی وہ شخص ہو ؟ وہ کہتے ہیں اس پر اس نے کہا اگر میرے سامنے پیش کیا جائے تو میں ناپسند نہ کروں.وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي قَالَ صَحِبْتُ ابْن صياد إِلَى مَكَّة فَقَالَ مَا لَقِيتُ مِنَ النَّاسِ؟ يَزْعُمُونَ أَبي الدَّجَالُ أَلَسْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ لَا يُولد له.وَقَدْ وُلِدَ لِي أَلَيْسَ قَدْ قَالَ هُوَ كَافِرُ وَأَنا مُسلم أَو لَيْسَ قَدْ قَالَ لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مكة ؛ وقد أقبلتُ مِنَ الْمَدِينَةِ وَأَنا أُرِيدُ مَكةَ ثُمَّ قَالَ لِي فِي آخِرِ قَوْلِهِ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ مَوْلِدَهُ وَمَكَانَهُ وَأَيْنَ هُوَ وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ قَالَ فَلَبَسَنِي قَالَ قُلْتُ لَهُ تَنَّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ.قَالَ وَقِيلَ لَهُ أَيسرك أنك ذاكَ الرَّجُلُ : قَالَ فَقَالَ لَوْ عُرِضَ عَلَى مَا كَرِهْتُ (مشكاة المصابيح ، كتاب الفِتَن بَاب قصّة ابن الصياد ، الفصل الأول 5498)
751 حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مکہ کی طرف جاتے ہوئے میں ابن صیاد کے ساتھ تھا(اس شخص کے متعلق اس کی بعض عجیب و غریب حرکات کی وجہ سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دجال ہے ) ابن صیاد نے شکوہ کے رنگ میں مجھ سے کہا.میں لوگوں سے بڑا دکھی ہوں.وہ سمجھتے ہیں میں دجال ہوں لیکن کیا تو نے رسول اللہ صل الم سے یہ نہیں سنا کہ دجال کی اولاد نہیں ہو گی اور میری اولا د ہے.آپ صلی الم نے فرمایا تھا کہ الله سل دجال کا فر ہو گا اور میں مسلمان ہوں.آپ صلی للی یکم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا اور میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کا ارادہ رکھتا ہوں.پھر اس نے مجھ سے کہا البتہ کچھ نسبت تو میری دجال سے ضرور ہے مجھے معلوم ہے کہ وہ کب اور کہاں پیدا ہو گا؟ کہاں سے اٹھے گا، اس کے ماں باپ کو بھی میں جانتا ہوں.ابوسعید کہتے ہیں کہ میں نے کہا خدا تجھے سمجھے! کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ تو ہی دجال ہو.اس پر ابن صیاد نے کہا اگر مجھے دجال بننے کی پیشکش کی جائے تو میں اسے رد نہیں کروں گا اور نہ دجال کہلا نانا پسند کروں گا.949.عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ بَخشِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُنَّ أَنَّهَا قَالَتْ اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّوْمِ مُحَمَرًا وَجْهُهُ يَقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ اليَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَعَقَدَ سُفْيَانُ تِسْعِينَ أَوْ مِائَةً قِيلَ: أَتَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ نَعَمْ، إِذَا كَثُرَ الخَبَتُ (صحيح البخاري، كتاب الفتن، باب قول النبي ويل للعرب من شر قد اقترب 7059) حضرت زینب بنت جحش نے بیان کیا کہ نبی صلی الی یکم نیند سے بیدار ہوئے.آپ کا چہرہ سرخ تھا.آپ یہ فرمار ہے تھے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، عرب کی بربادی ہے ایک شر سے جو بالکل قریب آن پہنچا ہے.یاجوج اور ماجوج کی دیوار میں آج اتنا وزن ہو گیا ہے اور سفیان نے انگلیوں سے نوے 90 یا سو 100 کا عد د بتلایا.آپ سے پوچھا گیا کیا ہمیں ہلاک کیا جائے گا جب کہ ہم میں اچھے لوگ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، جب گندگی بڑھ جائے گی.
752 دجال اور یا جوج ماجوج کے ظہور سے تعلق رکھنے والی احادیث پر تبصرہ یہ اصول مسلمہ ہے کہ صحف آسمانی اور کلام الہی میں پیشگوئیوں کی زبان تمثیل، مجاز اور استعارہ پر مشتمل ہوتی ہے اور اس انداز سے بکثرت کام لیا جاتا ہے.دجال کی پیشگوئی میں بھی یہی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے.چنانچہ خروج دجال کے باب میں جو احادیث درج ہیں ان پر مجموعی نظر ڈالنے سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ دجال اور یورپی عیسائی طاقتیں اسی طرح یا جوج ماجوج اور وہر یہ قوتیں ایک ہی گروہ انسانی کے مختلف صفاتی نام ہیں.کیونکہ بعض احادیث میں آخری زمانہ میں دجال اور یا جوج ماجوج کے غلبہ کا ذکر ہے کہ وہ ساری دنیا پر مسلط ہو جائیں گے اور بعض دوسری احادیث میں اسی دور میں رومیوں یعنی یورپی اور روسی عیسائیوں اور دہریوں کے تسلط اور غلبہ کا ذکر ہے اور وہ احادیث جن میں حضرت عیسی اور مہدی کے کارناموں کا بیان ہے ان میں اگر ایک طرف دجال کے قتل کا ذکر ہے تو دوسری طرف عیسائیوں کے عقائد صلیب و کفارہ کے بطلان اور ان کے مٹانے کا اظہار ہے جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ دجالیت اور عیسائیت ایک ہی فتنہ کے دو نام ہیں.غرض ایک ہی وقت میں ایک طرف دجال اور یا جوج ماجوج کا غلبہ اور دوسری طرف یور بین اقوام کا غلبہ خواہ وہ یورپین عیسائیت کے عقائد رکھنے والے ہوں یا دہر یہ صفت اشتراکی ہوں اور ان فتنوں کے استیصال کے لئے مسیح و مہدی کا ظہور اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان پیشگوئیوں میں ایسی قوموں کی طرف ہی اشارہ ہے جن کو بعض صفات کے لحاظ سے کبھی دجال یا یاجوج ماجوج کہا گیا ہے اور کبھی روم کا نام دیا گیا ہے.
753 لغت میں دجال کے معنی تاجروں کا وہ گروہ جو اپنا تجارتی سامان ادھر سے ادھر دنیا کے کونے کونے میں بڑی تیزی کے ساتھ پہنچانے کا ماہر ہو نیز دجل و فریب کا شاہکار ہو اور یہ تمام صفات یورپی عیسائی اقوام میں بھی بطریق اتم موجود ہیں.یا جوج ماجوج کے معنے ہیں وہ قومیں جو آگ اور حرارت سے حیرت انگیز کام لینے میں ماہر ہوں اور ان کی ساری ترقیات اور صنعت و حرفت کا دار ومدار آگ اور حرارت پر ہو یا بھوک اور پیٹ کی آگ بھڑ کا کر اقتصادی مساوات کے کرنے کے زور پر بر سر اقتدار آئیں یہ اوصاف بھی انہی اقوام کا خاصہ ہیں.پس سیاسی اور اقتصادی نظریات کی آگ بھڑ کانے کی طرف بھی اس نام میں اشارہ ہے جس کی وجہ سے قوموں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی بھسم ہو کر رہ گئی ہے.دجال کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ یہودی اس کی حمایت کریں گے اور اس کی ترقی کی بنیاد یہودی نظریات اور ان کی ایجادات پر ہوگی اس طرح تمام دنیا پر تسلط قائم رکھنے کے لئے یہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے.دجال کے فتنہ سے بچنے کے لئے سورۃ کہف کی ابتدائی آیات بکثرت تلاوت کرنے کی ہدایت ہے دیکھیں حدیث 937.جب ہم اس ہدایت پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سورۃ کہف کی ان آیات میں باتفاق مفسرین عیسائیوں اور ان کے باطل عقائد اور ان کی دنیاوی ترقی کا ہی ذکر ہے.پس اس ہدایت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ دجال اور عیسائی اقوام ایک ہی طاقت کے دو مختلف صفاتی نام ہیں اور ان کے شر سے بچنے کا علاج ان آیات میں بتایا گیا ہے.حدیث نمبر 936 سے ظاہر ہے کہ دجال مغرب کے کسی سمندر کے کسی جزیرہ یا جزیرہ نما علاقوں کے گرجے میں قید ہے اور اپنے وقت پر وہاں سے اسے نکلنے اور دنیا پر مسلط ہو جانے کی اجازت ملے گی.اور اس کے خطر ناک نظام جاسوسی میں عورتوں کا بکثرت عمل دخل ہو گا.پس اس حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ دجال اور کلیسا کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور عیسائیت کی موجودہ شکل وصورت کو ہی دجالیت کا نام دیا گیا ہے.
754 حدیث نمبر 953 میں آنحضرت صلی الی یکم کے ایک کشف کا ذکر ہے جس میں آپ صلی این کم کو دکھایا گیا ہے کہ دجال اور مسیح دونوں بیت اللہ کے ارد گرد چکر لگارہے ہیں اور اس کا طواف کر رہے ہیں یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس وقت دجال بیت اللہ یعنی اسلام کو مٹانے میں کوشاں ہو گا اور مسیح اس کی ان کوششوں کو ناکام بنانے اور اسلام کی حفاظت کرنے پر مامور ہوں گے.حدیث نمبر 940 اور اس کے حاشیہ میں درج کئے گئے مختلف احادیث کے اقتباسات سے ظاہر ہے کہ دجال کے گدھے سے مراد دجالی اقوام کے ایجاد کردہ انتہائی تیز رفتار ذرائع آمد و رفت ہیں اس طرح مختلف احادیث میں ان کی دوسری حیرت انگیز ایجادات اور نظام صنعت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے.حدیث نمبر 949,937 قابل غور ہیں جن میں ان آیات قرآنی کی مختصر تفسیر ہے جو سورۃ کہف کی آیت نمبر 84 تا 101 ہیں اور جن میں ذوالقرنین اس کی بنا کر دہ دیوار اور یا جوج ماجوج کے حملوں کی روک تھام کا ذکر ہے اسی طرح سورۃ انبیاء کی آیات نمبر 96 تا 98 جو یا جوج و ماجوج کے خروج اور ان کے بلندیوں اور پستیوں (بحروبر) پر تسلط کے مضمون کو بیان کر رہی ہیں اکثر محققین جن میں البیرونی کے علاوہ مولانا حفظ الرحمن سہواروی، دارالعلوم دیو بند کے سابق شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کاشمیری اور ترجمان القرآن کے مصنف مولانا ابو الکلام آزاد بھی شامل ہیں.اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یاجوج ماجوج سے مراد وہ قدیم منگولین اور آرین قبائل ہیں جو قدیم زمانہ میں منگولیا اور چینی ترکستان سے ہجرت کر کے یورپ کے علاقوں میں جاہے.موجودہ روی، انگریز اور بعض دوسری یور بین اقوام انہی قدیم قبائل کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں.1: نوٹ:.(1) الاثار الباقیه ص 41 مطبوعہ جرمنی ۱۸۷۸ء (۲).جواہر القرآن ص 198/9 (۳).فیض الباری شرح صحیح بخاری جلد 3 ص 437 مطبوعہ دار الماموں ۱۹۳۸ء (۴).ترجمان القرآن ص 423/3 (۵).تفصیل کے لئے دیکھئے ” مسیح دجال اور یا جوج ماجوج کا ظہور “مصنف مولانامحمد اسد اللہ قریشی کا شمیری مطبوعہ ۱۹۷۳ء
755 عیسی بن مریم یعنی مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور 950 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الجُمُعَةِ: وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 3) قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَارَسُولَ اللَّهِ ؟ فَلَمْ يُرَاجِعُهُ حَتَّى سَأَلَ فَلَانًا، وَفِينَا سَلْمَانُ الفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الإِيمَانُ عِنْدَ الغُريَا، لَنَالَهُ رِجَالٌ - أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلاءِ بخاری کتاب تفسیر القرآن باب قوله و آخرين منهم لما يلحقو بهم (الجمعة (3) 4897) الله حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ ہم نبی صلی علیکم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ پر سورۃ جمعہ نازل کی گئی.وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے متعلق ابو ہریرہ کہتے تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ کون ہیں ؟ آپ نے اس کا ان کو جواب نہیں دیا.پھر انہوں نے تین بار پوچھا اور اس وقت ہم میں سلمان فارسی تھے رسول اللہ صلی یکم نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا کہ پاس بھی ہو تو ان میں سے کچھ مرد یا فرمایا ایک مر داس تک پہنچ جائیں گے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ سُورَةٌ الْجُمُعَةِ، فَلَمَّا قَرَأَ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: 3) قَالَ رَجُلٌ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يُرَاجِعُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَأَلَهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا،
756 قَالَ وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ القُريَّا، لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ (مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضل فارس 4605) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی علیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب آپ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی.جب آپ نے وَآخَرِينَ مِنهُم لَها يَلْعَفُوا بِیمُ پڑھی تو ایک شخص نے عرض کیا یار سول اللہ ! یہ کون لوگ ہیں ؟ نبی صلی اللہ ہم نے اسے جواب نہ دیا یہانتک کہ اس نے ایک یا دو یا تین مرتبہ آپ سے پوچھا وہ (حضرت ابوہریرہ) بیان کرتے ہیں اور ہم میں سلمان فارسی بھی تھے.نبی صلی علی کرم نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہو تو ان میں سے کچھ جو انمر داسے پالیں گے.951- عن أبي قتادة، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ (سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب الايات 4057) حضرت ابو قتادہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا علامات دو سو سال کے بعد ظاہر ہوں گی.952- عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ يَمَانٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَضَتْ أَلَكَ وَ مائتان وأَرْبَعُوْنَ سَنَةٌ يَبْعَثُ اللَّهُ المَهْدِى (النجم الثاقب اهتداء لمن يدعى الدين الواصب جلد 2 صفحه 209) حضرت حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ایک ہزار دو سو چالیس (1240) کے بعد اللہ تعالیٰ مہدی کو مبعوث فرمائے گا.
757 953 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ عَبْدُ اللهِ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرِي النَّاسِ المَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ إِنَّ اللهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلاَ إِنَّ المَسِيحَ الدَّجَالَ أَعْوَرُ العَيْنِ اليُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ - وَأَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الكَعْبَةِ فِي المَنَامِ ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ ، كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أَدْمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَنْهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ رَجِلُ الشَّعَرِ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا ؟ فَقَالُوا هَذَا المسيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، ثُمَّ رَأَيْتُ رَجُلًا وَرَاءَهُ جَعْدًا قَطِطًا أَعْوَرَ العَيْنِ اليُمْنَى كَأَشْبَهِ مَنْ رَأَيْتُ بِابْنِ قَطَنٍ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلٍ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا ؟ قَالُوا: المَسِيحُ الدَّجَّالُ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ و اذکر فی الکتاب مریم اذ انتبذت من اهلها (مریم (16) 3439، 3440) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ) نے بیان کیا کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے مسیح دجال کا ذکر کیا.اور فرمایا اللہ کانا نہیں.دیکھو ہوشیار رہنا.مسیح دجال داہنی آنکھ سے کانا ہے.اس کی آنکھ جیسے پھولا ہوا انگور کا دانہ ہوتا ہے.اور آج رات خواب میں میں نے دیکھا کہ کعبہ کے پاس ہوں.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گندم گوں شخص ہے ایسا ہی خوبصورت جیسے گندمی رنگ کے لوگ نظر آتے ہیں.اس کے بال کندھوں تک پہنچے تھے.بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی.اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے.دو آدمیوں کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا.میں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ مسیح ابن مریم ہیں.پھر میں نے اس کے پیچھے ایک اور شخص چھوٹے لنگھریالے بالوں والا داہنی آنکھ سے کانا، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے عبد العزیٰ بن قطن سے بہت مشابہ تھا.وہ بھی ایک شخص کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کا چکر لگا رہا تھا.میں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا مسیح دجال ہے.
758 عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرَانِي فِي الْمَنَامِ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ كَأَحْسَنِ مَا تَرَى مِنَ الرِّجَالِ، لَهُ لِمَّةٌ قَدْ رُجِلَتْ، وَلِمَتُهُ تَقْطُرُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، رَجِلَ الشَّعْرِ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، ثُمَّ رَأَيْتُ رَجُلًا جَعْدًا قَطَطًا أَعْوَرَ عَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ كَأَشْبَهِ مَنْ رَأَيْتُ مِنَ النَّاسِ بِابْنِ قَطَنٍ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بالبيت فَقُلْتُ من هَذَا ؟ فَقَالُوا هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه ، مسند عبد الله بن عمر (6099 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا کہ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ مکرمہ کے پاس ہوں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گندمی رنگ کا خوبصورت آدمی ہے زلفیں کندھوں تک پہنچ رہی ہیں، بال سیدھے شفاف ہیں جن سے پانی کے قطرے ٹپکتے نظر آتے ہیں وہ اپنے ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے میں نے پوچھا یہ کون ہے.لوگوں نے بتایا مسیح ابن مریم ہے.پھر میں نے ان کے پیچھے ایک اور آدمی دیکھا.گھنگھریالے بال، سخت جلد ، دائیں آنکھ کانی، ابن قطن سے ملتی جلتی شکل ہے اور ایک آدمی کے دونوں کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھے کعبہ کے گرد گھوم رہا ہے.میں نے پو چھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ مسیح الد جال ہے.(خواب میں حضور صلی غیرتم کو جو نظارہ دکھایا گیا اس میں طواف کعبہ سے مراد یہ ہے کہ مسیح بیت اللہ کی حفاظت اور اس کی شان کو بلند کرنے کے لئے کوشاں ہوں گے اور دجال کعبہ کی تخریب کے درپے ہو گا).- نوٹ :.نیز دیکھیں حدیث 956،955،954 ان احادیث پر مجموعی نظر ڈالنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے نبی عیسی ابن مریم علیہ السلام اور امت محمدیہ صلی لنی کیم میں آنے والے مسیح موعود علیہ السلام کے حلیہ اور شکل میں اختلاف ہے اس لئے دونوں کی شخصیتیں بھی الگ الگ ہونی چاہئیں کیونکہ ایک شخص کے دو حلیے نہیں ہو سکتے.
759 - 954.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ – يَعْنِي عيسى عليه السلام - نَبِيُّ، وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ، بَيْنَ مُمَطَرَتَيْنِ، كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلْ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ ، فَيَدُقُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجُزْيَةَ، وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَالَ، فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ (سنن أبي داود كتاب الملاحم باب خروج الدجال 4324) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علی کرم نے فرمایا میرے اور اس یعنی عیسی علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں.جب تم اس کو دیکھو تو اسے پہچان لینا کہ وہ درمیانے قد کا ہو گا.سرخ و سفید رنگ، سید ھے بال اس کے سر سے بغیر پانی استعمال کئے قطرے گر رہے ہوں گے (یعنی اس کے بال چمک کی وجہ سے تر تر لگتے ہوں گے).(وہ مبعوث ہو کر) صلیب کو توڑے گا( یعنی صلیبی عقیدے کا ابطال کرے گا) خنزیر قتل کرے گا (یعنی خبیث النفس لوگوں کی ہلاکت کا موجب ہو گا) پس اس کے ذریعہ صلیبی غلبہ کا انسداد اور خنزیر صفت لوگوں کا قلع قمع ہو گا.جزیہ ختم کرے گا یعنی اس کا زمانہ مذہبی جنگوں کے خاتمہ کا زمانہ ہو گا).اس کے زمانے میں اسلام کے سوا اللہ تعالی باقی ادیان کو روحانی لحاظ سے بھی اور شوکت کے لحاظ سے بھی مٹا دے گا اور جھوٹے مسیح دجال کو ہلاک کرے گا.چالیس سال تک مسیح دنیا میں رہیں گے.پھر وفات پائیں گے مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے.عن أبي هريرة، عَنِ النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الأَنْبِيَاء إخْوَةً لِلعَلَّاتٍ دِيبُهُمْ وَاحِدٌ، وَأُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى، وَأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، لِأَنَّهُ لَمْ يَكُن بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيُّ، وَإِنَّهُ تازِلُ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ، سَبْطَ كَأَنَّ رَأْسَهُ
760 يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بلل، بَيْنَ مُمَطَرَتَيْنِ، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجُزْيَةَ، وَيُعَظِلُ الْمِلَلَ، حَتَّى يُهْلِكَ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلُ كُلُّهَا غَيْرَ الْإِسْلَامِ، وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمَسِيحَ الدَّجَالَ الْكَذَابَ، وَتَقَعُ الْأَمَنَةُ فِي الْأَرْضِ حَتَّى تَرْتَعَ الْإِبِلُ مَعَ الْأُسْدِ جَمِيعًا، وَالنُّمُورُ مَعَ الْبَقَرِ، وَالذِتَابُ مَعَ الْغَنَمِ، وَيَلْعَبَ الصَّبْيَانُ وَالْغِلْمَانُ بِالْحَيَاتِ، لَا يَضُرُّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَيَمْكُتُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَمَكُكَ، ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ وَيَدْفِنُونَهُ (مسند الإمام أحمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند ابی هریره رضی اللہ عنہ 9630) سة حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ ﷺ نے فرمایا انبیاء کا باہمی تعلق علاقی بھائیوں کا سا ہے جن کا دین ایک اور مائیں الگ الگ ہوں.میر الوگوں میں سے عیسی بن مریم سے سب سے قریبی تعلق ہے کیونکہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں (اس قرب روحانی کی وجہ سے میر امثیل بن کر وہ ضر ور نازل ہو گا) جب تم دیکھو تو اس حلیے سے اسے پہچان لینا کہ وہ درمیانے قد کا ہو گا.سرخ و سفید رنگ، سیدھے بال اس کے سر سے بغیر پانی استعمال کئے قطرے گر رہے ہوں گے یعنی اس کے بال چمک کی وجہ سے تر تر لگتے ہوں گے.وہ مبعوث ہو کر صلیب کو توڑے گا یعنی صلیبی عقیدے کا ابطال کرے گا خنزیر کو قتل کرے گا یعنی خبیث النفس لوگوں کی ہلاکت کا موجب ہو گا پس اس کے ذریعہ صلیبی غلبے کا انسداد اور خنزیر صفت لوگوں کا قلع قمع ہو گا.جزیہ ختم کرے گا یعنی اس کا زمانہ مذہبی جنگوں کے خاتمہ کا زمانہ ہو گا.اس کے زمانے میں اسلام کے سوا اللہ تعالیٰ باقی ادیان کو روحانی لحاظ سے بھی اور شوکت کے لحاظ سے بھی مٹادے گا اور جھوٹے مسیح دجال کو ہلاک کرے گا اور ایسا امن و امان کا زمانہ ہو گا کہ اونٹ شیر کے ساتھ ، چیتے گائیوں کے ساتھ، بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ اکٹھے چریں گے.بچے اور بڑی عمر کے لڑکے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے.پس اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جتنا عرصہ اللہ چاہے گا مسیح دنیا میں رہیں گے.پھر وفات پائیں گے مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے اور ان کی تدفین عمل میں لائیں گے.
761 نوٹ:.وَجَبَ نُزُولُه فِي آخِرِ الزَّمَانِ يَتَعَلَّقِهِ بِبَدَانٍ آخَرَ (عرائس البيان في حقائق القرآن ، هاشیه محی الدین ابن عربی ، تحت الايت بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ...النساء 159 ،جلد 1صفحه 262،) حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے فرمایا ہے کہ عیسی ابن مریم کا آخری زمانہ میں نزول ان کے دوسرے بدن سے تعلق کی صورت میں واجب ہے.قَالَتْ فِرْقَةٌ نُزُول عِيسَى خُرُوجُ رَجُلٍ يُشْبِهُ عِيسَى فِي الْفَضْلِ وَالشَّرْفِ كَمَا يُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَيْرِ مَلَكَ وَلِلشَّرِيرِ شَيْطَان تَشْبِيْئًا بِبِمَا وَلا يُرَادُ الْأَعْيَانُ (خريدة العجائب و فريدة الغرائب ( لابن الوردی ، باب بقية من خبر عيسى علیہ سلام صفحہ 442) ایک گروہ نے کہا ہے کہ عیسی کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص مبعوث ہو گا جو عیسی علیہ السلام سے فضل اور شرف میں مشابہ ہو گا.جس طرح نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہہ دیا جاتا ہے.تشبیہ کی وجہ سے حقیقی شخصیات مراد نہیں ہو تیں.955 - عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ عِيسَى ومُوسَى وَإِبْرَاهِيمَ، فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ، وَأَمَّا مُوسَى، فَآدَمُ جَسِيمٌ سَبْطُ حاله من رجال الأط (صحيح البخاري كتاب احادیث الانبیاء باب قول الله واذكر فى الكتاب مرين اذ انتبذت من اهلها 3438) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے عیسی عالی اسلام اور موسیٰ علیہ اسلام اور ابراہیم علیہ سلام کو دیکھا.عیسیٰ علیہ السلام جو تھے تو ان کا رنگ سرخ ، گھونگھریالے بال اور سینہ چوڑا رکھتے تھے اور موسیٰ علیہ سلام جو تھے تو وہ گندم گوں، فربہ جسم، سیدھے بالوں والے، جیسے کہ وہ زُھ کے لوگوں میں سے ہیں.
762 956- أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ ، وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ (صحيح البخاري كتاب احاديث الانبياء باب نزول عیسی ابن مریم عليهما السلام (3449) حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیسے ہو گے جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تم ہی میں سے تمہارے امام ہوں گے.عَن أبي هريرة، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ بِكُمْ إِذَا نَزَلَ بِكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ فَأَمَّكُمْ - أَوْ قَالَ إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند ابى هريره رضی اللہ عنہ 7666) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تمہاری حالت کیسی نازک ہو گی جب ابن مریم یعنی مثیل مسیح مبعوث ہو گا جو تمہارا امام اور تم میں سے ہو گا.957 - يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَما عَدْلًا، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند ابى هريرہ رضی اللہ عنہ 9312) تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ ( انشاء اللہ تعالیٰ ) عیسی بن مریم کا زمانہ پائے گا وہی امام مہدی اور حکم و عدل ہو گا جو صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا.
763 958- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، وَإِمَامًا عَدْلًا، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ (سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب فتنة الدجال و خروج عیسی ابن مریم و خروج ياجوج و ماجوج 4078) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی علیم نے فرمایا وہ گھڑی نہیں آئے گی جب تک کہ عیسی بن مریم نازل ہوں انصاف کرنے والے حکم اور عدل کرنے والے امام کے طور پر.وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کریں گے اور مال کثرت سے ہو جائے گا یہاں تک کہ کوئی اس کو قبول نہ کرے گا.959- سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ المالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ، وَيَوْمَ القِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء: 159) (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم عليهما السلام 3448) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم تم میں نازل ہوں، عادل حکم ہو کر وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جنگ موقوف کریں گے اور مال اس بہتات سے ہو گا کہ کوئی اس کو قبول نہ کرے گا اور حالت یہ ہوگی کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا.یہ حدیث بیان کر کے حضرت ابوہریرہ کہتے تھے : اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : اہل کتاب میں سے ایک بھی نہیں جو اس (واقعہ) پر اپنی موت سے پہلے ایمان نہ لاتا رہے اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہو گا( النساء: 159).
764 960 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، فَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَمْحُو الصَّليب، وَتُجْمَعُ لَهُ الصَّلَاةُ، وَيُعْطَى الْمَالُ حَتَّى لَا يُقْبَلَ، وَيَضَعُ الْخَرَاجَ، وَيَنْزِلُ الرَّوْحَاءَ، فَيَحُجُّ مِنْهَا أَوْ يَعْتَمِرُ، أَوْ يَجْمَعُهُمَا (مسند الإمام أحمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابة ، مسند ابی هریره رضی الله عنه 7890) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا عیسی نازل ہوں گے خنزیر کو قتل کریں گے.صلیب کو توڑیں گے یعنی عیسائیت کا ابطال کریں گے ان کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی ، وہ مال دیں گے لیکن کوئی قبول نہیں کرے گا، خراج ختم کر دیں گے.الروحاء نامی مقام پر اتریں گے اور وہاں سے حج اور عمرہ کا احرام باندھیں گے.(یعنی آپ کا مقصد بعثت اور قبلہ توجہ کعبہ کی عظمت اور اس کی حفاظت ہو گا).961ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ وَلَا رَسُولٌ أَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي بَعْدِى، أَلَا إِنَّهُ يَقْتُلُ الدَّجال، ويَكْسِرُ الصَّليب، وتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا، أَلَا فَمَن أَدْرَكَهُ مِنكُمْ فَليقرأ عَلَيْهِ السَّلام (المعجم الاوسط (للطبرانی) کتاب العین ، باب من اسمه عيسى 4898 جلد 5 صفحه 142) حضرت ابوھریرہ نے بیان کیا کہ نبی صلی علیم نے فرمایا خبر دارر ہو کہ عیسی بن مریم (مسیح موعود) اور میرے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں ہو گا.خوب سن لو کہ وہ میرے بعد میری امت میں میر ا خلیفہ ہو گا.وہ ضرور دجال کو قتل کرے گا.صلیب (یعنی صلیبی عقیدہ) کو پاش پاش کر دے گا اور اس وقت میں ( مذہبی) جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا.یادر کھو جسے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو وہ انہیں میر اسلام ضرور پہنچائے.
765 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: أَلَا إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيُّ، أَلَا خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي مِنْ بَعْدِى يَقْتُلُ الدَّجَّالَ وَيَكْسِرُ الضَّلِيبَ وَتَضَعُ الْجِزْيَةَ وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ، أَلَا مَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ ، فَلْيَقْرَأُ عَلَيْهِ السَّلَامَ (معجم الصغير للطبرانی ، کتاب العین ، باب من اسمه عيسى ، جلد 1 صفحه 275 ، 276) حضرت ابوھریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ کریم نے فرمایا خبر دار ہو کہ عیسیٰ بن مریم (مسیح موعود) او میرے درمیان کوئی نبی نہیں ہو گا.خوب سن لو کہ وہ میرے بعد میری امت میں میر اخلیفہ ہو گا.وہ ضرور دجال کو قتل کرے گا.صلیب (یعنی صلیبی عقیدہ) کو پاش پاش کر دے گا اور جزیہ ختم کر دے گا ( یعنی اس کا رواج اٹھ جائے گا کیونکہ ) اس وقت میں (مذہبی) جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا.یاد رکھو جسے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو وہ انہیں میر اسلام ضرور پہنچائے.962.عن عبد الله بن عمر و قال: قال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عِيسَى بن مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوْجُ وَيُولَهُ لَهُ وَيَمْكُتُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةٌ ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدُ فَنُ مَعي في قبرى فأقوم أنا وعيسى بن مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبي بَكْرٍ وَعُمَرَ (مشكاة المصابيح كتاب الْفِتَن بَابِ نزُول عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام الْفَضْلِ الثَّالِث 5508) حضرت عبد اللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مسیح جب نزول فرما ہوں گے تو شادی کریں گے ، ان کی (بشارتوں کی حامل) اولاد ہو گی ( دعوی ماموریت کے بعد) پینتالیس 45 سال کے قریب رہیں گے پھر فوت ہوں گے اور میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوں گے.پس میں اور مسیح ابو بکر اور عمرؓ کے درمیان ایک قبر سے اٹھیں گے (یعنی روحانیت اور مقصد بعثت کے لحاظ سے ہم چاروں کا وجو د متحد الصفات اور ایک ہو گا).
766 نوٹ:.عِيسَى عَليه السّلامُ يَنْزِلُ فِيْنَا حكماً مِنْ غَيْرِ تَفْرِيعِ وَ هُوَ نَبِيٍّ بِلَا شَاكٍ (فتوحات مكيه ، وصل فى اختلاف الصلاة جلد 1 صفحه 662) عیسی علیہ السلام ہم میں نازل ہوں گے بغیر کسی شریعت کے.لیکن وہ بلا شک نبی ہیں.عَنِ ابْنِ الْمُسَيْبِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةً، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِى نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكُنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّليب، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ (مسلم کتاب الایمان ، باب نزول عيسى بن مريم حكما بشريعة نبينا محمد ال 212) حضرت ابو ہریرہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے عنقریب تم میں ابن مریم علی الی یکم نازل ہوں گے منصف حکم کی حیثیت سے ، وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کریں گے اور مال زیادہ ہو جائے گا یہاں تک کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ أَنْ يَنْزِلَ حَكَمًا قِسْطا، وَإِمَامًا عَدْلًا، فَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَتَكُونَ الدَّعْوَةُ وَاحِدَةً فَأَقْرِوْهُ، أَوْ أَقْرِتْهُ السَّلَامَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأُحَدِثُهُ فَيُصَدِ قُنِي، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قَالَ أَقْرِوْهُ مِنِّي السَّلَامَ (مسند احمد بن حنبل ، مسند المكثرين من الصحابه ، مسند ابی هریره 9110) حضرت ابوھریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یوم نے فرمایا قریب ہے کہ مسیح عیسی بن مریم انصاف کرنے والے حکم بن کر اور عادل امام بن کر نازل ہوں گے.وہ خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب توڑیں گے.ایک ہی پکار ہوگی
767 پس اسے قبول کر دیا اس پر رسول اللہ صلی للی کم کا سلام بھیجو.میں اس کے بارہ میں بتارہاہوں وہ میری تصدیق کرے گا.جب اس کی وفات کا وقت آئے، کہا میری طرف سے اسے سلام پہنچاؤ.-963- عَنْ أَنَيى بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَا يَزْدَادُ الْأَمْرُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا، وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُحا ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ، وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ( سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب شدة الزمان 4039) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا معاملہ سختی میں بڑھتا جائے گا اور دنیا صرف تنزل میں اور لوگ حرص و بخل میں اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر بد ترین لوگوں پر اور المہدی صرف عیسی ابن مریم ہے.لا يَزْدَادُ الأمْرُ إلا هدَّةً، وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا، وَلَا النَّاسُ إِلَّا هُاً، وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا على شِرَارِ النَّاسِ، وَلَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ.(هـ، ك ـ عن أنس) (کنز العمال حرف القاف كتاب القيامة - من قسم الأقوال الباب الأول: في أمور تقع قبلها الفصل الرابع في ذكر اشراط الساعة الكبرى ، باب خروج المهدي 38656) (حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ﷺ نے فرمایا ) معاملات شدت اختیار کرتے جائیں گے دنیا پر ادبار چھا جائے گالوگ بخیل ہو جائیں گے شریر لوگ قیامت کا منظر دیکھیں گے.ایسے ہی نازک حالات میں اللہ تعالیٰ کا مامور ظاہر ہو گا.عیسی کے سوا اور کوئی مہدی نہیں ( یعنی مسیح ہی مہدی ہوں گے کیونکہ مہدی کا کوئی الگ وجود نہیں ہے).
768 964- عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَهْدِيُّ مِنِي، أَجْلَى الْجَبْهَةِ، أَقْلَى الْأَنْفِ، يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا، كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَ جَوْرًا ، يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ (سنن أبي داود كتاب المهدى 4285 ) حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا مہدی کا مجھ سے قریبی تعلق ہو گا اس کی پیشانی روشن اور ناک بلند ہو گی (یعنی کشادہ پیشانی اور کھڑی ناک والا ہو گا) وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ اس سے پہلے ظلم و تعدی سے اٹی پڑی تھی.وہ سات برس مالک رہے گا.نوٹ:.غالباً رسالہ ” ایک غلطی کا ازالہ کی اشاعت کی طرف اشارہ ہے.جس میں حضرت مسیح موعود نے اپنے دعویٰ کی وضاحت کی ہے اور ایک کھلا موقف پیش کیا ہے.یہ رسالہ 1901ء میں شائع ہوا تھا.965- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ بن جزء الزبيدي، قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ نَاسٌ مِنَ الْمَشْرِقِ، فَيُوَطِوْنَ لِلْمَهْدِي يَعْنِي سُلْطَانَهُ ابن ماجه کتاب الفتن باب خروج المهدى (4088 عبد اللہ بن حارث بن جزء الزبیدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله وسلم نے فرمایا کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے جو مہدی کے لیے تیاری کریں گے یعنی اس کے غلبہ کے لیے.
769 966.عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِي قَالَ إِنَّ لَمَهْدِينَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ، يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النَّصْفِ مِنْهُ ، وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ سنن الدار قطني كتاب العيدين باب صفة صلاة الخسوف والكسوف (1795) 13 حضرت محمد بن علی ( یعنی حضرت امام باقر ) نے فرمایا ( پیشگوئی کے مطابق ) ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ایسے ہیں کہ جب سے زمین و آسمان پید اہوئے وہ کسی کی صداقت کے لئے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے.اول یہ کہ اس کی بعثت کے وقت رمضان میں چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ (یعنی تیر و رمضان ) کو چاند گرہن لگے گا اور سورج گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی تاریخ ( یعنی اٹھائیس 28 رمضان ) کو سورج گرہن لگے گا اور یہ دونشان اس رنگ میں پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوئے.نوٹ :.یہ دونوں نشان 1894ء میں ظاہر ہو چکے ہیں.967 در اربعین مذکور آمده است خروج از مترية كدعه باشد بقول النبي صلى الله عليه وسلم يَخْرُجُ الْمَهْدِى مِن قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا كَدْعَهُ وَيُصَدِّقُهُ الله تَعَالَى وَيَجْمَعُ اللهُ تَعَالَى مِنْ أَقصى الْبِلادِ وعَلى عدد بَدْرٍ بِثَلاثِ مِائَةٍ وَ ثَلاثَ عَشَرَ رَجُلا وَ مَعَهُ صَيْقَةٌ ومَةٌ فيها عَدَدُ أَصْحَابِهِ بِأَسْمَاعِهِمْ وَ بِلادِهِمْ وَ جَلالِهِمْ (جواہر الاسرار (قلمی نسخه صفحه (43) مصنفہ حضرت شیخ علی حمزہ بن علی الملک الطوسی ( صاحب جواہر الاسرار لکھتے ہیں کہ اربعین میں یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ) آنحضرت صلی الم نے فرمایا مہدی ، ایسے گاؤں سے مبعوث ہو گا جس کا نام ” کدعہ “ ہو گا.اللہ تعالیٰ اس کی تصدیق میں نشان دکھائے گا.اور
770 بدری صحابہ کی طرح مختلف علاقوں کے رہنے والے تین سو تیرہ 313 جلیل القدر صحابہ اسے عنایت فرمائے گا.جن کے نام اور پتے ایک مستند کتاب میں درج ہوں گے.نوٹ:.کدعہ میں غالباً قادیان کی طرف اشارہ ہے.قال النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ الْمَهْدِيُّ مِنْ قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا كَدْعَهُ وَيُصَدِّقُهُ اللَّهُ تَعَالَى ، يَجْمَعُ اصْحَابَه مِنْ أَقصى الْبِلادِ عَلَى عدة اهل بَدْرٍ بِثَلَاثِ مِائَةٍ وَ ثَلَاثَةٌ عَشَر رَجُلا وَمَعَهُ صَحِيفَةٌ مَختُوْمَةٌ (اى مبطومة) فِيهَا عَدَدُ أَصْحَابِهِ بِأَسْمَائِهِمْ وَبِلَادِهِمْ وَحَلَالِهِمْ (ارشادات فریدی صفحه 70 مطبوعہ مفید عام پریس (آگرہ) نبی صلی علیم نے فرمایا مہدی ایک ایسے گاؤں سے مبعوث ہو گا جس کا نام ”کدعہ “ ہو گا.اللہ تعالیٰ اس کی تصدیق میں نشان دکھائے گا.اور بدری صحابہ کی طرح مختلف علاقوں کے رہنے والے تین سو تیرہ 313 جلیل القدر صحابہ اسے عنایت فرمائے گا.جن کے نام اور پتے ایک مستند کتاب میں درج ہوں گے.968.عَنْ هِلَالِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ وَرَاءِ النَّهْرِ يُقَالُ لَهُ الْحَارِثُ حَرَاثٍ، عَلَى مُقَدِمَتِهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مَنْصُورٌ، يُوَظِيُّ - أَوْ يُمَكِّن - لِآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا مَكَنَتْ قُرَيْقٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَجَب عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ نَصْرُهُ أَوْ قَالَ إِجَابَتُهُ (سنن أبي داود كِتَاب الْمَهْدِي 4290) حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ال یکم نے فرمایا ماوراء النہر (ترکستان) کے علاقہ سے ایک شخص مبعوث ہو گا جسے الحارث بن حراث کے لقب سے پکارا جائے گا اس کے مقدمہ الجیش کے سردار کا نام منصور ہو گا.وہ
771 آل محمد صلی ا یکم کے لئے تمکنت حاصل کرنے کا ذریعہ ہو گا.جس طرح قریش کے ذریعہ رسول الله صلى للعلم حاصل ہوئی.ہر مومن پر اس کی مدد کرنا یا اس کی پکار کا جواب دینا فرض ہے.969 عن علي، قَالَ سَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ أَى عَبر تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ هَيْرٍ رَمَضَانَ....قَالَ إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ فَصُمُ الْمُحَرَّمَ ، فَإِنَّهُ شَهْرُ اللَّهِ، فِيهِ يَوْمٌ تَابَ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ آخَرِينَ (سنن الترمذي كتاب الصَّوْمِ بَاب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ المحرم (741) حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کر یم ملی علیہ ہم سے دریافت کیا کہ رمضان کے بعد میں کس مہینہ میں روزے رکھا کروں ؟ حضور صلی نیلم نے فرمایا اگر ماہ رمضان کے بعد تم روزے رکھنا چاہو تو محرم کے مہینہ میں رکھا کرو کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بابرکت مہینہ ہے اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم (یعنی بنی اسرائیل ) کو ظالم حکمران سے نجات دی اور آئندہ بھی اسی ماہ ایک دوسری قوم ( یعنی مسیح موعود پر ایمان لانے والوں) کو ایسے ہی ظالم حکمر ان سے نجات دے گا.نوٹ: قَوْلُهُ فِيهِ يَوْمُ تَابَ اللَّهُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ هُمْ قَوْمُ مُوسَى بَنُو إِسْرَائِيلَ نَجَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فِرْعَوْنَ وَأَغْرَقَهُ (تحفة الاحوذي بشرح جامع ترمذی ، مولفہ محمد عبد الرحمان المباركفوری، زیر روايت ” أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ “كتاب الصَّوْمِ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ المحر م 741) جلد 3 صفحہ 305) راوی کے اس قول(فِيهِ يَوْم تَابَ اللهُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ) سے موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل مراد ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے فرعون سے نجات دی اور فرعون کو غرق کیا.
772 970 - عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَخْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْرُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَام النسائي كتاب الجهاد باب غزوة الهند 3175) حضرت ثوبان جو رسول اللہ صلی علیکم کے آزاد کردہ غلام تھے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے ایک دفعہ فرمایا میری امت کی دو جماعتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ فتنہ و فساد کی آگ سے محفوظ رکھے گا.ایک وہ جماعت ہے جو ملک ہند میں جنگ لڑے گی اور دوسری جماعت عیسی بن مریم علیہ السلام کی مدد گاروں کی ہوگی.عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَخْرَزَهُمُ اللهُ مِنَ النَّارِ : عِصَابَةٌ تَغْرُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ (مسند الإمام أحمد بن حنبل ، تتمة مسند الأنصار ، باب وَمِنْ حَدِيثِ ثَوْبَانَ 22759) سة حضرت ثوبان جو رسول اللہ صلی اللی یکم کے آزاد کردہ غلام تھے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ا ہم نے ایک دفعہ فرمایا میری امت کی دو جماعتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ فتنہ و فساد کی آگ سے محفوظ رکھے گا.ایک وہ جماعت ہے جو ملک ہند میں جنگ لڑے گی اور دوسری جماعت عیسی بن مریم علیہ السلام کی مدد گاروں کی ہو گی.عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ : عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَكُوْنُ مَعَ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ (حم ، ن والضياء - عن ثوبان) (کنز العمال، حرف القاف كتاب القيامة - من قسم الأقوال الباب الأول: في أمور تقع قبلها، الفصل الرابع في ذكر اشراط الساعة ، نزول عيسى على نبينا وعليه الصلاة والسلام 38845)
773 (حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ نبی صلی للی کرم نے فرمایا) میری امت کی دو جماعتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ فتنہ و فساد کی آگ سے محفوظ رکھے گا.ایک وہ جماعت ہے جو ملک ہند میں جنگ لڑے گی اور دوسری جماعت عیسی بن مریم علیہ السلام کی مدد گاروں کی ہوگی.971 - أُمَّتِي أُمَّةٌ مُبارَكَةٌ لَا يَدْرِى أَوَّلُهَا خَيْرٌ أَوْ آخِرُها (الجامع الصغير فى احاديث البشير النذير للسیوطی)، حرف الهمزه، روایت نمبر (1620) روایت ہے کہ آنحضرت صلی ا ہم نے فرمایا میری امت ایک مبارک امت ہے.یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری (یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے).أمي أمةٌ مُباركة لا يُدرى أولهَا خَيْرٌ أَوْ آخِرُها خَيْرٌ.(کنز العمال حرف الفاء ، تابع كتاب الفضائل من قسم الأفعال ، الباب السابع: في فضائل هذه الأمة المرحومة 34451) روایت ہے کہ آنحضرت صلی للہ کریم نے فرمایا میری امت ایک مبارک امت ہے.یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے.
774 نزول مسیح اور ظہور مہدی سے متعلق احادیث پر تبصرہ 1) حدیث نمبر 932،931،930،927 سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جو بنی اسرائیل کے رسول تھے ایک سو بیس سال کی عمر پا کر فوت ہو گئے.حضرت ابن عباس، حضرت امام مالک امام ابن حزم اور بعض اور علماء کا یہی مسلک ہے کہ حضرت عیسی کی وفات ہو چکی ہے.اور جو فوت ہو جائے وہ قیامت سے پہلے دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا.پس اس کے لازمی معنے یہ ہیں کہ آنے والے ابن مریم سے مراد خود عیسی نہیں بلکہ ان کا مثیل ہے.جو اپنی صفات اور اپنے کام کے لحاظ سے عیسی ابن مریم سے مشابہ ہو گا.اور اس وجہ سے اس کا نام پا کر مسیح موعود کہلائے گا.امام سراج الدین نے بھی اپنی کتاب خریدۃ العجائب 1 صفحہ 442 پر لکھا ہے کہ آنے والا موعود خود عیسی نہ ہو گا بلکہ اس کا مثیل اور ظل ہو گا.شیخ محی الدین ابن عربی نے بھی یہی لکھا ہے.دیکھیں حاشیہ حدیث نمبر 954،953.2) حدیث نمبر 937 میں اس بات کا ذکر ہے کہ جب مسیح مبعوث ہو گا تو وہ دجال کو قتل کرے گا اور اقوام یا جوج ماجوج اس کی دعا سے ہلاک ہوں گی.دوسری طرف حدیث نمبر 954 تا970 سے ظاہر ہے کہ مسیح صلیب کو توڑے گا.صلیب عیسائی مذہب کا بنیادی نشان ہے اس کے صاف معنے ہیں کہ وہ عیسائیت کے مذہبی غلبہ کا خاتمہ کرے گا.اس سے جہاں یہ ظاہر ہے کہ عیسائی، دجال اور یا جوج ماجوج ایک ہی طاقت کے صفاتی نام ہیں وہاں یہ بھی واضح ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو مختلف صفاتی نام ہیں.1 وقالت فرقة : نزول عيسى خروج رجل يشبه عيسى فى الفضل والشرف؛ كما يقال للرجل الخير ملك وللشرير شيطان، تشبيهاً بهما، ولا يراد الأعيان (خريدة العجائب و فريدة الغرائب السراج الدین بن الوردی ، باب بقية من خبر عيسى عليه السلام ، صفحة 442)
775 3) حدیث نمبر 964،963،962،956 سے ظاہر ہے کہ عیسی ہی مسلمانوں کا امام اور مہدی ہے اور مہدی کے متعلق مسلم ہے کہ وہ امت محمدیہ کا فرد ہے اس لئے عیسی سے مراد بھی ایسا ہی شخص ہے جو امت محمدیہ میں پید ا ہو گا.اس سے عیسیٰ رسول الی بنی اسرائیل مراد نہیں گویا عیسائیوں کی اصلاح کے لئے مبعوث ہونے کی وجہ سے آنے والے موعود کو عیسی کہا گیا ہے اور مسلمانوں کی اصلاح کی ذمہ داری سنبھالنے کی وجہ سے اس کا نام مہدی رکھا گیا ہے.4 ) حدیث نمبر 962 سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود بعثت کے بعد پینتالیس (45) سال رہیں گے لیکن اگر غیر احمدیوں کے عقیدہ کے مطابق یہ مانا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی آسمان سے نازل ہوں گے تو اس مسلمہ عقیدہ کے مطابق کہ رفع کے وقت ان کی عمر ۳۰ سال تھی ، وفات کے وقت ان کی عمر پچھتر (75) سال کے قریب بنتی ہے حالانکہ حدیث کی رو سے حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال ہے.دیکھیں حدیث نمبر 932 پس ثابت ہوا کہ آنے والا مسیح خو د امت محمدیہ صلی الی یکم میں پید اہو گا اور الہام پانے کے بعد 45 سال کے قریب عمر پائے گا.بعثت کے بعد شادی کرے گا.اس کے مبشر اولاد ہو گی اور فنافی الرسول ہونے کی وجہ سے اسے اپنے آقا کے ساتھ اتحاد کامل ہو گا اور اس کا دعویٰ ہو گا.مَن فَرقَ بَيْنِي وَبَيْنَ المُصطفى فَمَا عَرفَنِي وَ مَا رائ اسی طرح حدیث نمبر 970 سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود کا ہندوستان سے خاص تعلق ہو گا.(5) آنے والا مسیح موعود جہاں امام مہدی ہو گا وہاں امتی نبی بھی ہو گا یعنی وہ کمالات نبوت آنحضرت صلی للی کم کی پیروی اور اطاعت کامل کی برکت سے حاصل کرے گا.آپ صلی للہ یکم کا خطل اور بروز ہو گا اور آپ کے دین کی خدمت اور تبلیغ کے لئے مبعوث ہو گا.نیز دیکھیں حدیث نمبر 964،961،937، مستدرک حاکم جلد 1 کتاب 1ص87، مسند احمد جلد 3ص245.1: خطبہ الہامیہ ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259
776 (6) وَلَا مُنَافَاةَ بَيْنَ أَن يَكُون نَبِيًّا وَيَكُونَ مُتابعاً لتبيْنَا - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي بَيَانِ أَحْكَامِ شَرِيعَتِهِ، وَإِثْقَانِ طَرِيقَتِهِ، وَلَوْ بِالْوَحْيِ إِلَيْهِ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشكاة المصابيح ، كتاب المناقب، باب مناقب على بن ابی طالب ، زیر روایت انت منی بمنزلة هارون من موسى، جلد 11 صفحه 240 ، 241) ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ وہ نبی بھی ہو اور اس کے ساتھ ہی وہ ہمارے نبی صلی علیہ کم کا پیروکار بھی ہو ، احکام شریعت کے بیان کرنے اور حضور صلی علیکم کی طریقت کی مضبوطی کے لئے.خواہ ان مقاصد کے لئے اس طرف وحی بھی ہو.(7) فَهُوَ عَليهِ السَّلامُ وَإِن كَانَ خَليفَةٌ فِي الْأُمَّةِ المَحَمَّدِيَّةِ فَهُوَ رَسُولُ وَ نَبِي كَرِيمٌ عَلَى حاله (حجج الكرامة (نواب صدیق حسن خان ) صفحه 426) پس وہ ( مسیح علیہ السلام) اگر امت محمدیہ میں خلیفہ بن جائے تو بھی وہ رسول اور نبی رہے گا.(8) عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ يَنْزِلُ فِيْنَا حكماً مِنْ غَيْرِ تَشْرِيعِ وَهُوَ نَبِيٌّ بِلَا شَءٍ (فتوحات مکیه ، وصل فى اختلاف الصلاة جلد 1 صفحه 662) شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے فرمایا کہ عیسی علیہ السلام ہم میں بغیر شریعت کے نازل ہوں گے لیکن وہ بلاشبہ نبی ہوں گے.
777 رویا اور کشوف کی اہمیت 972 - عن أبي سعيد الخدري أنهُ سَمِعَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا يُحِبُّهَا، فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ اللهِ، فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ عَلَيْهَا وَلْيُحَدِثُ بِهَا، وَإِذَا رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَهُ، فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ شَرِهَا، وَلَا يَذْكُرْهَا لِأَحَدٍ، فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ (صحيح البخاري كتاب التعبير باب الرويا من الله (6985 رض حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی علیم سے سنا.آپ فرماتے تھے.اگر تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جسے وہ پسند کرتا ہو تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور چاہیے کہ وہ اس کی وجہ سے اللہ کا شکر یہ کرے اور اس خواب کو بیان کرے اور اگر اس کے سوا کوئی ایسی خواب دیکھے جس کو نا پسند کر تا ہو تو وہ شیطان ہی کی طرف سے ہوتی ہے.چاہیے کہ اس کے شر سے پناہ مانگے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرے تو اس کو نقصان نہیں پہنچائے گی.973ـ عَنْ أَبِي مُوسَى، أَرَاهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رَأَيْتُ فِي المَنَامِ أَنِّي أَهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضِ بِهَا نَخْلُ، فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنَّهَا اليَمَامَةُ أَوْ هَجَرُ، فَإِذَا هِيَ المَدِينَةُ يَثْرِبُ، وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ أَبِي هَزَزْتُ سَيْفًا، فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ المؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ ثُمَّ هَزَزْتُهُ بِأُخْرَى فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الفَتْحِ، وَاجْتِمَاعِ المُؤْمِنِينَ وَرَأَيْتُ فِيهَا بَقَرًا، وَاللهُ خَيْرٌ فَإِذَا هُمُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَإِذَا الخَيْرُ مَا جَاءَ اللهُ بِهِ مِنَ الخَيْرِ وَثَوَابِ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا اللَّهُ بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ (صحيح البخاري كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الاسلام 3622)
778 حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سر زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جس میں کھجور کے درخت ہیں.میر اخیال گیا کہ یہ یمامہ یا ہجر ہے.مگر اس کی تعبیر مدینہ یثرب تھی اور میں نے اپنے اس خواب میں دیکھا کہ میں نے ایک تلوار بلائی ہے تو اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا ہے.تو ٹوٹنے کی تعبیر وہ مومن ہیں جو جنگ اُحد کے دن شہید ہوئے.پھر میں نے اس کو دوبارہ ہلایا تو پھر وہ ویسی اچھی ہو گئی جیسی کہ وہ پہلے تھی.تو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا فتح دینا اور مومنوں کا پھر سے اکٹھا ہونا تھا اور میں نے اس خواب میں کچھ گائیں دیکھیں اور اللہ خیر کے الفاظ سنے تو معلوم ہوا کہ گائیوں سے مراد وہ مومن تھے جو جنگ اُحد کے دن شہید ہوئے، اور خیر سے مراد وہی خیر اور سچائی کا بدلہ تھا جو اللہ نے ہمیں جنگ بدر کے بعد دیا.عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضِ بِهَا نَخْلُ ، فَذَهَبَ وَهْلِي إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوْ هَجَرُ، فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ، وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ أَبِي هَزَزْتُ سَيْفًا، فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ ، فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أَحْدٍ، ثُمَّ هَزَزْتُهُ أُخْرَى فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ، فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَيْضًا بَقَرًا وَاللهُ خَيْرٌ ، فَإِذَا هُمُ النَّفَرُ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَإِذَا الخيرُ مَا جَاءَ اللهُ بِهِ مِنَ الْخَيْرِ بَعْدُ، وَثَوَابُ الصدقِ الَّذِي آتَانَا اللهُ بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ (مسلم کتاب الرویا باب رويا النبي 4203) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی صلی یم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہاہوں جس میں کھجور کے درخت ہیں تو میں نے خیال کیا کہ وہ یمامہ یا حجر ہے لیکن وہ مدینہ یثرب نکلا اور میں نے اس رویا میں دیکھا کہ میں نے ایک تلوار لہرائی تو اس تلوار کا اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے یہ وہ تکلیف ہے جو اُحد کے دن مسلمانوں کو اٹھانی پڑی.میں نے اسے پھر دوسری دفعہ لہرایا تو وہ پہلے سے زیادہ
779 خوبصورت ہو گئی یہ وہ فتح ہے اور مؤمنوں کا اکٹھے ہونا ہے جو اللہ نے عطا فرمایا اور میں نے اس خواب میں گائیں بھی دیکھیں.اللہ (سراسر) خیر ہے تو یہ مؤمنوں میں سے وہ لوگ ہیں جو اُحد میں (شہید ہوئے) اور خیر تو وہ خیر ہے جو اللہ نے اس کے بعد عطا فرمائی اور سچائی کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کے بعد عطا فرمایا.974ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُسْرِى فِي لَقِيتُ مُوسَى، قَالَ فَنَعَتُهُ، فَإِذَا رَجُلٌ، حَسَبْتُهُ قَالَ مُضْطَرِب رَجِلُ الرَّأْسِ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ.قَالَ وَلَقِيتُ عِيسَى، قَالَ فَنَعَتُهُ، قَالَ رَبعَةُ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ، يَعْنِي الحَمامَ ، وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ.قَالَ وَأُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ أَحَدُهُمَا لَبَنَّ وَالْآخَرُ فِيهِ خَمَرٌ، فَقِيلَ لِي: خُذْ أَيَهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَن فَشَرِبْتُهُ، فَقِيلَ لِي: هُدِيتَ الْفِطْرَةَ، أَوْ أَصَبْتَ الفِطْرَةَ، أَمَّا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ.(سنن الترمذي كتاب تفسير القرآن باب و من سورة بني إسرائيل 3130) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کے موقع پر میری ملاقات حضرت موسیٰ سے ہوئی جن کے بال لمبے اور بکھرے ہوئے تھے.میں نے ان کی شکل کا جائزہ لیا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے شنوءہ کے قبیلہ کا کوئی فرد ہو.اسی طرح میری ملاقات حضرت عیسی سے بھی ہوئی میں نے ان کی شکل کا جائزہ لیاوه در میانه قد سرخی مائل رنگ.یوں لگتا جیسے ابھی ابھی حمام سے نکلے ہوں.میں نے حضرت ابرہیم کو بھی دیکھا میری شکل و صورت ان سے بے حد ملتی تھی.پھر حضور ملی یہ کم نے فرمایا کہ میرے سامنے دو بر تن لائے گئے.ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی اور مجھ سے کہا گیا کہ جو پسند ہے وہ لے لیں.میں نے دودھ لیا اور اسے پی لیا.اس پر مجھے بتایا گیا کہ تمہاری صحیح فطرت کی طرف رہنمائی ہوئی ہے اگر آپ صلی ال یکم شراب پسند کرتے تو (عیسائیوں کی طرح) آپ کی امت بھی گمراہ ہو جاتی اور بھنکتی پھرتی.
780 975 - عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أَمْ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ فَقُلْتُ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَى غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَحَ هَذَا البَحْرِ، مُلُوكًا عَلَى الأَسِرَةِ، أَوْ: مِثْلَ المُلُوكِ عَلَى الأَسرَةِ - شَكٍّ إِسْحَاقُ - قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ ، فَدَعَا لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَى غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَا قَالَ فِي الأُولَى، قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ فَرَكِبَتِ البَحْرَ فِي زَمَانٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصْرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ البَحْرِ، فَهَلَكَتْ - (صحيح البخاري كتاب التعبير باب الرويا بالنهار 7001 ،7002) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیکم ام حرام بنت ملحان کے پاس جایا کرتے تھے اور وہ عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں.ایک دن آپ ان کے ہاں گئے اور اس نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر کے بال دیکھنے لگیں.اتنے میں رسول اللہ صلی للی کم سو گئے.پھر وہ جاگے تو آپ ہنس رہے تھے.ام حرام کہتی تھیں کہ میں نے کہا.یارسول اللہ ! آپ کو کیا بات ہنسا رہی ہے ؟ آپ نے فرمایا میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ کی راہ میں غازی ہیں اس سمندر کے درمیان سوار ہو رہے ہیں.ایسے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر سوار ہوتے ہیں.راوی اسحاق کو شک ہے کہ آپ نے مُلُوكًا عَلَى الأَسرة فرمايا يا مثل الملوك على الأسيرة فرمايا.ام حرام کہتی تھیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ اللہ سے دعا فرما دیں کہ مجھے بھی انہیں میں سے کرے اور رسول اللہ صلی علیم نے ان کے لئے دعا کی.پھر آپ سر رکھ کر سو گئے.پھر جاگ -
781 پڑے اور آپ ہنس رہے تھے.میں نے کہا یارسول اللہ ! آپ کو کیا بات ہنسا رہی ہے ؟ آپ نے فرمایا میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ کی راہ میں نمازی ہیں.پھر آپ نے وہی بات فرمائی جو پہلے فرمائی تھی.ام حرام کہتی تھیں میں نے کہا یارسول اللہ ! دعا فرما دیں کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کرے.آپ نے فرمایا تم پہلوں میں سے ہو.چنانچہ ام حرام نے معاویہ بن ابی سفیان کے زمانہ میں سمندر میں کشتی پر سوار ہوئیں اور پھر جب سمند ر سے باہر آئیں تو اپنے جانور سے گر کر مر گئیں.976 - أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةً، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَسَيَرَانِي فِي الْيَقَظَةِ، أَوْ لَكَانَمَا رَآنِي فِي الْيَقَظَةِ، لَا يَتَمَثَّلُ الشَّيْطَانُ بِي (مسلم کتاب الرویا باب قول النبي عليه الصلاة و السلام من رانى فى المنام فقد رانی 4193) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کو فرماتے سنا جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا یا ( فرمایا) گویا کہ اس نے مجھے بیداری میں دیکھا.شیطان میرا تمثل اختیار نہیں کر سکتا.977ـ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا أَتَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أَرَى اللَّيْلَةَ ظُلَّةٌ يَنْطِفُ مِنْهَا الشَّمْنُ وَالْعَسَلُ، فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَفُونَ بِأَيْدِيهِمْ، فَالْمُسْتَكْثِرُ، وَالْمُسْتَقِلُ، وَأَرَى سَبَبًا وَاصِلًّا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، فَأَرَاكَ يَا رَسُولَ اللهِ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ ثُمَّ وُصِلَ فَعَلَا بِهِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بِأَبِي وَأَقِي لَتَدَعَنِي فَلَا عَبْرَنهَا، فَقَالَ اعْبُرُهَا قَالَ أَمَّا الظُّلَّةُ فَظَلَّةُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا مَا يَنْطِفُ مِنَ السَّيْنِ،
782 وَالْعَسَلِ، فَهُوَ الْقُرْآنُ لِينُهُ وَحَلَاوَتُهُ، وَأَمَّا الْمُسْتَكْثِرُ، وَالْمُسْتَقِلُ، فَهُوَ الْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ، وَالْمُسْتَقِلُ مِنْهُ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ فَهُوَ الْحَقُ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ: تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللهُ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَكَ رَجُلٌ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، أَيْ رَسُولُ اللَّهِ لَتُحَذِ ثَنِي أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ، فَقَالَ أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا فَقَالَ أَقْسَمْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لتحدثنِي مَا الَّذِى أخطأتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا تُقيم (سنن أبي داود كتاب السنة باب في الخلفاء (4632) حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللی کیم کے پاس ایک شخص آیا اور اپنا یہ خواب بیان کیا کہ میں نے ایک بادل کا ٹکڑا دیکھا اس میں سے تھی اور شہد برس رہا ہے اور لوگوں کو دیکھا کہ وہ ہاتھوں میں بھر رہے ہیں کوئی زیادہ لے رہا ہے اور کوئی کم، پھر میں نے دیکھا کہ آسمان سے زمین تک ایک رسی نما سیڑھی ہے اور حضور اس پر اوپر کی طرف چڑھ گئے ہیں پھر ایک اور شخص نے اس کو پکڑ لیا ہے اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا ہے اس کے بعد ایک اور شخص نے اس کو پکڑا ہے اور اوپر چڑھ گیا ہے پھر تیسرے شخص نے اسے پکڑا لیکن دو ٹوٹ گئی پھر رہی جڑ گئی اور وہ شخص بھی اوپر چڑھ گیا.حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ حضور صلی للی یکم مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی تعبیر بیان کروں.حضور صلی اللہ کریم نے فرمایا اچھا بتاؤ.ابو بکڑ نے کہا کہ بادل سے مراد اسلام ہے.سمن اور عسل سے مراد قرآن کریم اور اس کی تلاوت ہے اور مستکثر سے مراد وہ ہے جو قرآن کریم کثرت سے پڑھتا ہے اور مستقل سے مراد وہ ہے جو کم پڑھتا ہے اور کم فائدہ اٹھاتا ہے اور وہ سیڑھی جو آسمان سے زمین کو ملاتی ہے وہ حق و صداقت کی سیڑھی ہے جس پر آپ ہیں پھر اللہ تعالی آپ صلی ٹیم کو اس کے ذریعہ بلند کرے گا اور آپ کی وفات کے بعد ایک اور شخص کے ذریعہ یہ سلسلہ ترقی کرے گا.پھر ایک اور شخص اس رسی کو پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا اس کے بعد ایک اور شخص اس کو پکڑے گا تو
783 رسی ٹوٹ جائے گی لیکن پھر جڑ جائے گی اور وہ بھی اوپر جانے میں کامیاب ہو جائے گا.پھر پو چھا حضور کیا میں نے صحیح تعبیر کی ہے ؟ آپ صلی الی یکم نے فرمایا تعبیر کا ایک حصہ درست ہے اور ایک غلط ہے.حضرت ابو بکر نے سة حضور صلی ایام کو قسم دیتے ہوئے عرض کیا کہ غلط کون سا حصہ ہے.آپ نے فرمایا قسم نہ دو.978.عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يَكْرَهُهَا، فَلْيَبْصُقُ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا وَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ثَلَاثًا، وَلْيَتَحَوَّلُ عَنْ جَنْبِهِ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ مسلم كتاب الرُّؤْيَا باب فى كون الرويا من الله و انها جزء من النبوة 4185) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو وہ تین دفعہ اپنے بائیں تھو کے اور تین بار شیطان کے شر ) سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور جس پہلو پر وہ ہو اس کو بدل دے.
784 وحی والہام اور امت محمدیہ 979 - أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا المُبَشِّرَاتُ قَالُوا: وَمَا المُبَشِرَاتُ ؟ قَالَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ (صحيح البخاري كتاب التعبير باب المبشرات (6990) حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی علی کل سے سنا آپ فرماتے تھے.نبوت سے اب بشارت دینے والی باتیں ہی رہ گئی ہیں.لوگوں نے کہا ان بشارت دینے والی باتوں سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا اچھی خواب.حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرِسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِى وَلَا نَبِي، قَالَ فَشَقَ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ لَكِن الْمُبَشِرَاتُ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الْمُبَشِرَاتُ؟ قَالَ رُؤْيَا الْمُسْلِمِ، وَهِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النبوة (ترمذی کتاب الرویاء باب ذهبت النبوة و بقيت المبشرات (2272 حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللی کرم نے فرمایا یقیناً رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی ہے پس میرے بعد نہ رسول ہے اور نہ نبی.راوی کہتے ہیں یہ بات لوگوں پر گراں گزری.اس پر آپ نے فرمایا لیکن مبشرات ( باقی ہیں).لوگوں نے پوچھا یار سول اللہ ! مبشرات سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک مسلمان کا خواب اور وہ نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے.
785 980 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدُ تَكْذِبُ، رُؤْيَا المَؤْمِنِ وَرُؤْيَا المَؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ (بخاری کتاب التعبير باب القيد في المنام 7017) محمد بن سیرین نے حضرت ابوہریر گا سے سناوہ کہتے تھے.رسول اللہ صلی علیہ کم نے فرمایا جب وہ زمانہ آجائے گا تو مومن کا کوئی خواب بھی جھوٹا نہ ہو گا اور مؤمن کا خواب نبوت کے چھیالیس 46 حصوں میں سے ایک حصہ ہے.وحی اور الہام سے متعلق احادیث پر تبصرہ (١) وَخَبَرُ لَا وَحْيَ بَعْدِى بَاطِلٌ، وَمَا اشْتَهرَ أَنَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام لَا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُمْ لَا أَصْلَ لَهُ (تفسير الالوسى (روح المعانى ) سورة الاحزاب ، (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ........) آیت (40) حدیث ”لا وحی بعدی “ باطل ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ جبریل نبی صلی الی کم کی وفات کے بعد زمین پر نازل نہیں ہو گا.اس کی بھی کوئی اصل بنیاد نہیں ہے.(٢) - اعلم أنيها الآح الصديق أَنَّ كَلامَهُ سُبْحَانَهُ مَعَ الْبَشَرِ قَدْ يَكُونُ شِفَاهَا وَذَلِكَ لأَفَرَادٍ مِنَ الأَنْبِياءِ عَلَيْهم الصلاة والتسليماتُ وَقَدْ يَكُونُ لِبَعْضِ الْكُمَّلِ مِنْ مُتَابِعِيهِم بالتَّبَعِيَّةِ والوِراثَةِ أَيْضاً وَإِذَا كَثُرَ هَذَا الْقِسْمِ مِنَ الْكَلَامِ مَعَ وَاحِدٍ مِنْهُمْ سُمَّى مُحَدَّنا (مکتوبات امام ربانی ، مکتوب الرابع والستون بعد الثلاثمائة الى الخواجه محمد صديق ، جلد 2 صفحه 448)
786 اللہ سبحانہ وتعالی کا بشر سے کلام کرنا کبھی تو روبرو ہوتا ہے اور یہ افراد انبیاء میں سے ہوتے ہیں اور کبھی یہ انبیاء کے متبعین میں سے کامل افراد کے ساتھ ہوتا ہے.اور جب کسی شخص کے ساتھ اس نوعیت کے کلام میں کثرت پیدا ہو تو وہ محدث کہلاتا ہے.- ۳) فالنَّبِيُّ الذي لَا شَرْعَ لَهُ فِيمَا يُوحَى إِلَيْهِ بِهِ رَأْسُ الْأَوْلِيَاء....و هَؤُلَاءِ هُمُ الْأَنْبِيَاءُ الأَوْلِيَاءُ وَأَمَّا الْأَنْبِيَاءُ الذِينَ لَهُمُ اللوائح فَلَا بُدَّ مِن تَدَالِ الْأَزْوَاجِ عَلَى قُلُوبِهِمُ بِالأَمْرِ وَالنَّهِي - (فتوحات مكية باب الثالث والسبعون في معرفة عدد ما يحصل من الاسرار ، السوال السابع والخمسون ، جلد 2صفحہ78) اور وہ نبی جن کے ساتھ ان کے الہامات میں شریعت نہیں ہوتی وہ راس الاولیاء ہوتے ہیں.......یہ لوگ انبیاء الاولیاء ہوتے ہیں.اور جن انبیاء کے ساتھ شریعت ہوتی ہے.ضروری ہے کہ ان کے قلوب پر جبریل اور فرشتے امر و نہی لے کر نازل ہوں.م) - فانه يَسْتَحِيلُ أَنْ يَنْقَطِعَ خَبْرُ اللهِ وَ أَخْبَارُهُ مِنَ الْعَالَمِ إِذْ لَوِ انْقَطَعَ لَمْ يَبْقَ لِلْعَالَمِ غِذَا يَتَعَلى بِهِ في بَقَاءُ وَجُودِه (فتوحات مكيه ، باب الثالث والسبعون في معرفة عدد ما يحصل من الاسرار...، السوال الثالث و الثمانون ، ما النبوة ، جلد 2 صفحه 89) یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عالم کے لئے اخبار منقطع ہو جائیں.کیونکہ اگر یہ منقطع ہو جائیں تو کائنات کے وجود کی بقاء کے لئے (روحانی) غذا باقی نہیں رہے گی.
787 ۵- قَوْلُهُ: (إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةَ كَأَنَّ الْمُرَادِ أَنَّهَا لَمْ تَبْقَ عَلَى الْعُمُومِ، وَإِلَّا فَالْإِلْهَامُ وَالْكَشْفُ لِلْأَوْلِيَاء مَوْجُودُ.حاشیه سندی علی سنن ابن ماجه ، کتاب تعبیر الرویا ، باب الرويا الصالحه يراها ا ،، روایت نمبر 3899) حديث " لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ " سے مراد یہ ہے کہ نبوت عمومی طور پر باقی نہ رہے ورنہ الہام اور کش كشف الاولیاء تو موجو د رہتے ہیں.٢ - فمَا ارْتَفَعَتِ النَّبُوَةُ بِالْكُلِيَّةِ وَلِهَذَا قُلْنَا إِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَةُ التَشْرِيعِ (فتوحات مكية باب الثالث والسبعون السبعون فى معرفة عدد ما يحصل من الاسرار للمشاهد ، السوال السادس و عشرون ، ما بدء الروح ، جلد 2 صفحہ59) نبوت مکمل طور پر نہیں اٹھی.اسی لئے ہم نے کہا ہے کہ صرف نبوت تشریعی ہی اٹھ گئی ہے.)- فَإِنَّ النُّبُوَّةَ التِي انْقَطَعَتْ بِوُجُودِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ النُّبُوَةُ التَّشْرِيع (فتوحات مكية ، باب الثالث والسبعون في معرفة عدد ما يحصل من الاسرار للمشاہد...، جلد 2 صفحه 6 ) جو نبوت رسول اللہ صلی علیم کے وجود کی وجہ سے منقطع ہوئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے.٨- قاللبؤة سَارِيَةٌ إلى يَوْمِ القِيَامَةِ فِي الخَلْقِ وَإن كان الله ربع في القطعَ فَالتَفْرِيحُ جُزْءُ مِنْ أَجْزَاء النُّبُوَّة (فتوحات مكيه ، باب الثالث والسبعون في معرفة عدد ما يحصل من الاسرار...، السوال الثالث و الثمانون ، ما النبوة ، جلد 2 صفحه 89)
788 نبوت قیامت کے دن تک مخلوق میں جاری ہے اگر چہ تشریعی نبوت منقطع ہو گئی ہے.تشریعی نبوت، نبوت کا ایک جزء ہے.(۹).پس حدیث نمبر 969 کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک حصہ احکام اور شریعت پر مشتمل ہوتا ہے جو ختم ہو چکا ہے اور دوسراحصہ مبشرات اور اخبار غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے جو قیامت تک امت محمد یہ میں جاری ہے.حدیث میں رویا کا ذکر بطور مثال ہے اور صرف سمجھانے کے لئے ہے کیونکہ یہ عام ہے پس اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ صرف رویاء صالحہ ہی باقی رہ گئے ہیں اور اخبار غیبیہ اور مبشرات کی دوسری اقسام اب باقی نہیں رہیں.الہام، کشف، وحی، فرشتوں کا نزول اور بالمشافہ کلام یہ سب قسمیں اب بھی باقی ہیں جو خواص امت کا نصیب یہ ہیں.شیخ ابن عربی نے ایسے خواص امت کا نام انبیاء اولیاءدر کھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امتی نبی کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے نیز حدیث نمبر 969 سے بھی یہ ثابت ہے کہ رویا صالحہ کے علاوہ مبشرات اور وحی کی دوسری اقسام بھی باقی ہیں.اسی طرح حدیث نمبر 298 میں بھی یہ وضاحت موجود ہے کہ آنے والے مسیح کو وحی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے امور غیبیہ کا علم دیا جائے گا.پس وحی کا صرف شریعت والا حصہ ختم ہوا ہے.باقی اقسام حسب سابق ہیں.
789 امت محمدیہ اور امتی نبی 981ـ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَأَبِي عَبْدِ اللهِ الْأَغَرِ، مَوْلَى الْجُهَنِيِّينَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةً - أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةً يَقُولُ صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلاةٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدَهُ آخِرُ الْمَسَاجِدِ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ، وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ لَمْ نَشُكَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ عَنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَنَا ذَلِكَ أَنْ نَسْتَقْبِتَ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ، حَتَّى إِذَا تُوُفِّيَ أَبُو هُرَيْرَةً، تَذَا كَرْنَا ذلِكَ، وَتَلَاوَمُنَا أَنْ لَا نَكُونَ كَلَّمْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ فِي ذَلِكَ حَتَّى يُسْنِدَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِنْ كَانَ سَمِعَهُ مِنْهُ، فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ، جَالَسَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَارِطٍ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ الْحَدِيثَ، وَالَّذِي فَرَّطْنَا فِيهِ مِنْ نَضِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْهُ، فَقَالَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإني أخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدِى آخِرُ الْمَسَاجِدِ (مسلم کتاب الحج باب فضل الصلاة بمسجدى مكة والمدينة 2457) ابو سلمہ بن عبد الرحمان اور جہینہ والوں کے آزاد کردہ غلام ابو عبد اللہ الاغر جو حضرت ابو ہریرہ کے ساتھیوں میں سے تھے ان دونوں نے حضرت ابو ہریرہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللی کم کی مسجد میں نماز دوسری کسی مسجد سے سوائے مسجد حرام کے ہزار نماز سے افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی نیم آخری نبی ہیں اور آپ کی مسجد آخری مسجد ہے.ابو سلمۃ اور ابو عبد اللہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ حضرت ابو ہریرۃ یہ بات رسول اللہ صلی العلیم سے بیان کیا کرتے تھے اس وجہ سے ہم رکے رہے کہ ہم حضرت ابوہریرہ سے اس
790 حدیث کے متعلق توثیق چاہیں یہانتک کہ جب حضرت ابو ہریرہ کی وفات ہو گئی تو ہم نے ایک دوسرے سے اس کا ذکر کیا اور ایک دوسرے کو ملامت کی کہ کیوں نہ ہم نے اس بارہ میں حضرت ابو ہریرہ سے بات کرلی کہ اگر انہوں نے اسے آپ سے سنا تھا تو وہ اسے رسول اللہ صلی الی کم کی طرف منسوب کریں اسی دوران عبد اللہ بن ابراھیم بن قارظ سے ہماری مجلس ہوئی.تو ہم نے اس روایت کا ذکر کیا اور حضرت ابو ہریرہ کی اس روایت کے مرفوع ہونے کے بارہ میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی تھی اس کا بھی ذکر کیا.ہمیں عبد اللہ بن ابراہیم نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے.982ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ، وَيَعْجَبُونَ لَهُ، وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ ؟ قَالَ فأنا الليته وأنا خاتم النبيين (صحيح البخاري كتاب المناقب باب خاتم النبيين صلى اللہ علیہ وسلم (3535) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری مثال اور ان انبیاء کی مثال جو مجھ سے پہلے تھے ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اسے خوب آراستہ پیراستہ کیا ہو سوائے اس جگہ کے جہاں کونے کی ایک اینٹ رکھی جاتی ہے.لوگ اس گھر میں پھرنے لگے اور اس سے تعجب کرتے اور کہتے : یہ اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی.آپ فرماتے تھے : میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں.
791 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ (مسلم کتاب الفضائل باب ذکر کو نہ صلی اللہ عیلہ و سلم خاتم النبيين 4225) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ میری مثال اور مجھ سے قبل انبیاء کی مثال اس شخص کی مثال کی طرح ہے جس نے ایک عمارت بنائی اور اسے عمدہ بنایا اور خوبصورت بنایا سوائے اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ کے.لوگ اس کا طواف کرنے لگے اور اسے پسند کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ آپ نے فرما یادہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین صلی یکی ) ہوں.عَنِ الفُقَيْلِ بْنِ أَبي بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَعَلِي فِي النَّبِيِّينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَحْسَنَهَا وَأَكْمَلَهَا وَجَمَلَهَا وَتَرَكَ مِنْهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِالبِنَاءِ وَيَعْجَبُونَ مِنْهُ، وَيَقُولُونَ: لَوْ ثُمَّ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ، وَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ بِمَوْضِع تِلْكَ اللَّبِنَةِ (ترمذی کتاب المناقب باب ما جاء في فضل النبى صلى اللہ علیہ وسلم 3613) طفیل بن عدی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا میری اور سابقہ نبیوں کی مثال اس محل کی طرح ہے جس کی تعمیر بڑے خوبصورت انداز میں ہوئی لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی.لوگ اس محل کو گھوم پھر کر دیکھتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے لیکن دل میں کہتے یہ اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی گئی پس میں ہوں جس نے اس اینٹ کی جگہ کو پر کیا.میرے ذریعہ یہ عمارت تکمیل میں اعلیٰ اور حسن میں بے مثال ہو گئی ہے اسی لئے مجھے رسولوں کا خاتم بنایا گیا ہے.
792 عن أبي هريرة قالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ تَقَل قصر أخين بنيانه ترك مِنهُ موضع لبنة قطاف النظار يتعلمون من حُسنٍ بنيانِهِ إِلَّا مَوْضِعَ تِلْكَ اللَّبِنَةِ فَكُنْتُ أَنا سَدَدْتُ مَوْضِعَ اللَّبِنَةِ خُتِمَ فِى الْبُنْيَانُ وَخُتِمَ فِي الرُّسُلُ.وَفِي رِوَايَةٍ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ (مشكاة المصابيح كتاب الفضائل و الشمائل باب فضائل سید المرسلين ، الفصل الاول 5745) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی نیلم نے فرمایا میری اور سابقہ نبیوں کی مثال اس محل کی طرح ہے جس کی تعمیر بڑے خوبصورت انداز میں ہوئی لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی.لوگ اس محل کو گھوم پھر کر دیکھتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے لیکن دل میں کہتے یہ اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی گئی پس میں ہوں جس نے اس اینٹ کی جگہ کو پر کیا.میرے ذریعہ یہ عمارت تکمیل میں اعلیٰ اور حسن میں بے مثال ہو گئی ہے اسی لئے مجھے رسولوں کا خاتم بنایا گیا ہے.ایک اور روایت ہے کہ حضور نے فرمایا وہ اینٹ میں ہوں اور نبیوں کا خاتم ہوں.983 - إِنِّي عِندَ اللهِ فِي أَمِ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ (مسند أحمد بن حنبل ، مسند الشاميين ، حديث العرباض بن سارية عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم 17295) آنحضرت صلی الم نے ایک بار فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس وقت سے ام الکتاب میں خاتم النبیین لکھا گیا ہوں جبکہ ابھی آدم کو گارے اور پانی سے ٹھوس شکل دی جارہی تھی (یعنی اس کی ساخت کی تیاریاں ہو رہی تھیں).إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أَمِ الْكِتَابِ لَا تَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ (کنز العمال، حرف الفاء كتاب الفضائل، من قسم الأفعال ، الباب الأول : في فضائل نبينا محمد صلی اللہ علیہ وسلم وأسمائہ وصفاتہ البشرية، الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم 31960)
793 آنحضرت علی ایم نے ایک بار فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس وقت سے ام الکتاب میں خاتم النبیین لکھا گیا ہوں جبکہ ابھی آدم کو گارے اور پانی سے ٹھوس شکل دی جارہی تھی.984- عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيُّ ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِى (سنن أبي داود كتاب الفتن باب ذکر الفتن و دلائلها4252) حضرت ثوبان نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا میری امت میں تیس جھوٹے خروج کریں گے وہ سب کے سب دعوی کریں گے کہ وہ نبی ہیں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں (میرے بعد میری پیروی سے آزاد، مستقل یا نئی شریعت لانیوالا کوئی نبی نہیں.985 - فِي أُمَّتِي كَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُونَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُونَ، مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ نِسْوَةٍ، وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.(كنز العمال ، حرف القاف، كتاب القيامة ـ من قسم الأقوال الباب الأول: في أمور تقع قبلها ، الفصل الثاني في خروج الكذابين والفتن (38360) میری امت میں ستائیس جھوٹے دجال ہوں گے جن میں سے چار عور تیں ہوں گی حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں.986ـ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَابُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَجَعَلَ يَقُولُ إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ الْأَمْرَ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ، فَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ كَثِيرٍ مِنْ
794 قَوْمِهِ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَاسٍ، وَفِي يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةُ جَرِيدَةٍ، حَتَّى وَقَفَ عَلَى مُسَيْلِمَةً فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ الْفِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُكَهَا، وَلَنْ أَتَعَدَّى أَمْرَ اللهِ فِيكَ، وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ لَيَعْقِرَنَّكَ اللَّهُ ، وَإِنِّي لَأُرَاكَ الَّذِي أُرِيتُ فِيكَ مَا أُرِيتُ، وَهَذَا ثَابِتٌ يُجِيبُكَ عَنِي ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسِ فَسَأَلْتُ عَنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ أَرَى الَّذِي أُرِيتُ فِيكَ مَا أُرِيتُ فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا ، فَأُوحِيَ إِلَى فِي الْمَنَامِ أَنِ انْفُخْهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارًا، فَأَوَلْتُهُمَا كَذَابَيْنِ يَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِى، فَكَانَ أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيَ صَاحِبَ صَنْعَاءَ، وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةَ صَاحِبَ اليَامَةِ الله و (مسلم کتاب الرویا باب الرويا النبي ص 4204) حضرت ابن عباس کہتے ہیں نبی صلی الم کے زمانے میں مسیلمہ کذاب مدینہ میں آیا اور کہنے لگا اگر مجھے محمد (صلی لیکر اپنے بعد امیر مقرر فرمائیں تو میں ان کی پیروی کروں گا.وہ اپنی قوم کے بہت سے لوگوں کے ساتھ وہاں آیا تھا.نبی صلی نام اس کے پاس گئے آپ کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس بن شماس تھے اور نبی صلی الہ نام کے ہاتھ میں کھجور کی شاخ کا ایک ٹکڑا تھا.آپ وہاں کھڑے ہوئے جہاں مسیلمہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ٹھہبر ہوا تھا اور فرمایا اگر تم مجھ سے یہ ٹکڑا مانگو تو میں تمہیں یہ بھی نہیں دوں گا اور اللہ تعالیٰ کا جو حکم تیرے بارہ میں ہو چکا ہے اس سے تجاوز نہ کروں گا اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا جائے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کر دے گا اور میں تجھے (اس طرح) دیکھ رہاہوں جو مجھے خواب میں تیرے بارے میں دکھایا گیا تھا جو دکھایا گیا تھا.اور یہ ثابت ہے وہ تجھے میری طرف سے جواب دے گا.پھر آپ اس کے پاس سے تشریف لے آئے.حضرت ابن عباس کہتے ہیں میں نے نبی صلی الی یوم کے اس قول کے بارہ میں پوچھا کہ میں تجھے وہی دیکھ رہا ہوں جو مجھے تیرے بارہ میں خواب میں دکھایا گیا
795 ہے تو مجھے حضرت ابو ہریرہ نے بتایا کہ نبی صلی علیم نے فرمایا میں نے سوتے ہوئے اپنے ہاتھ میں دو سونے کے کنگن دیکھے تو مجھ پر گراں گذرے تو مجھے خواب میں وحی ہوئی کہ ان پر پھونک مارو.میں نے ان سے دو کذاب مراد لئے جو میرے بعد خروج کریں گے.ان میں سے ایک تو صنعاء کا عنسی ہے اور دوسر ا یمامہ کا مسیلمہ ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ قَدِمَ مُسَيْلِمَةُ الكَذَّابُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَعَلَ يَقُولُ إِنْ جَعَلَ لِي مُحَمَّدٌ مِنْ بَعْدِهِ تَبِعْتُهُ، وَقَدِمَهَا فِي بَشَرٍ كَثِيرٍ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَاسٍ، وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِطْعَةُ جَرِيدٍ، حَتَّى وَقَفَ عَلَى مُسَيْلِمَةً فِي أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: لَوْ سَأَلْتَنِي هَذِهِ القِطْعَةَ مَا أَعْطَيْتُكَهَا، وَلَن تَعْدُوَ أَمْرَ اللَّهِ فِيكَ، وَلَئِنْ أَدْبَرْتَ ليَعْقِرَنَّكَ اللهُ، وَإِنِّي لَأَرَاكَ الَّذِى أُرِيتُ فِيهِ، مَا رَأَيْتُ، وَهَذَا ثَابِتٌ يُجِيبُكَ عَنِي ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَسَأَلْتُ عَنْ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ أُرَى الَّذِي أُرِيتُ فِيهِ مَا أَرَيْتُ، فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا أَنَا نَاهُمْ، رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَهَمَنِي شَأْنُهُمَا، فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي المَنَامِ : أَنِ انْفُخْهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارًا، فَأَوَلْتُهُمَا كَذَابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِى أَحَدُهُمَا العَنْسِيُّ، وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةُ (بخاری کتاب المغازی، باب وفد بنی حنیفہ و حدیث ثمامہ بن اثال 4374 ، 4373) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مسیلمہ کذاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آیا اور کہنے لگا: اگر محمد اپنے بعد مجھے جانشین بنائیں تو میں اُن کا پیرو ہوں گا اور وہ مدینہ میں اپنی فوج کے بہت سے لوگوں کے ساتھ آیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور آپ کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس بن شماس تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی.آپ آکر مسیلمہ کے سامنے جبکہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا، کھڑے ہو گئے.آپ نے فرمایا اگر تو مجھ سے یہ لکڑی کا ٹکڑا بھی مانگے ، میں
796 تمہیں یہ بھی نہ دوں اور تو ہر گز اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں بڑھ سکے گا، جو تیرے لئے مقدر ہے اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا گیا تو اللہ تمہاری جڑ کاٹ دے گا اور میں تمہیں وہی شخص دیکھ رہا ہوں جس کے متعلق مجھے خواب میں بہت کچھ دکھایا گیا ہے اور یہ ثابت نہیں جو میری طرف سے تمہیں جواب دیں گے اور یہ کہہ کر آپ اس کو چھوڑ کر واپس چلے گئے.حضرت ابن عباس کہتے تھے : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے متعلق پوچھا کہ تم کو میں وہی شخص دیکھ رہا ہوں جس کے متعلق مجھے خواب میں وہ کچھ دکھایا گیا جو دکھایا گیا.حضرت ابوہریر ڈا نے مجھ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بار میں سویا ہوا تھا کہ اس اثنا میں میں نے اپنے ہاتھ میں سونے کے دو لنگن دیکھے.ان کی کیفیت نے مجھے فکر میں ڈال دیا.پھر مجھے خواب میں وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونکوں.چنانچہ میں نے ان پر پھونکا اور وہ اُڑ گئے.میں نے ان کی تعبیر دو جھوٹے شخص سمجھے جو میرے بعد ظاہر ہوں گے.ان میں سے ایک عنسی ہے اور دوسر امسیلمہ.987 - عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيْبِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِي: أَنْتَ مِنِي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِى (مسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل على بن ابى طالب رضی اللہ عنہ 4404) عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللی نیلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسی کے لئے ہارون سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے.یہ مد نظر رہے کہ حضور صلی علیم نے عیسی علیہ السلام کے آنے کی بشارت دی ہے اور ان کو نبی اللہ کے لفظ سے ذکر کیا ہے (مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة باب ذكر الدجال وصفته و مامعہ 5214)
797 عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ، وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا، فَقَالَ أَتُخَلِفَنِي فِي الصَّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ أَلَّا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِى (بخاری کتاب المغازی باب غزوہ تبوک و هى غزوة العسرة 4416) مصعب بن سعد نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جانے کے لئے نکلے اور حضرت علیؓ کو (مدینہ میں ) اپنا قائمقام مقرر کیا.حضرت علیؓ نے کہا کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں پیچھے چھوڑ کر جاتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا آپ خوش نہیں ہوتے کہ آپ کا مقام مجھ سے وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ سے تھا.مگر یہ بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں.حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ إِنِّي لَجَالِسٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسِ......وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : أَخْرُجُ مَعَكَ ؟ قَالَ فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ: لَا فَبَكَى عَلِيٌّ ، فَقَالَ لَهُ أَمَا تَرْضَى أَن تَكُونَ مِني يمنزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَين (مسند احمد بن حنبل ، و من مسند بنی ہاشم ، مسند عبد الله بن عباس بن عبد المطلب عن النبي عام 3062) عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کے پاس بیٹھا تھا...اور لوگ غزوہ تبوک کے لیے نکلے.راوی کہتے ہیں حضرت علیؓ نے آپ صلی الی نام سے عرض کیا، کیا میں بھی آپ کے ساتھ نکلوں ؟ راوی کہتے ہیں اللہ کے نبی صلی الم نے انہیں فرمایا نہیں.تو حضرت علی رو دیئے.اس پر آپ صلی الم نے حضرت علیؓ سے فرمایا میرے ہاں تیری منزلت وہی ہے جو موسیٰ کے ہاں ہارون کی تھی البتہ تو نبی نہیں ہے.قَالَ أَخْبَرَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِيفَةً عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَرِيكَ قال سمعتُ عَبْدِ اللهِ بن رقيم الكناني ، قال قدمنا المدينة فلقينا سعد بن مالك فقال خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
798 إِلَى تَبُوكَ وَخَلَّفَ عَلِيًّا.فَقَالَ لَهُ يَا رَسُولَ اللهِ خَرَجْتَ وَخَلَّفْتَنِي؟ فَقَالَ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هارون من موسى إلا أنه لا نبئ بَعْدِى ؟ (طبقات الكبرى لابن سعد، طبقات البدريين من المهاجرين ، من بنى هاشم ، على بن ابى طالب رضی الله عنه ، باب ذکر قول رسول الله الا الله العلی بن ابی طالب اما ترضى ان تكون منى..جلد 3 صفحه 17 ) حضرت سعد بن مالک نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی ا لم تبوک کے لیے نکلے اور حضرت علی کو اپنے بعد جانشین بنایا.حضرت علی نے آپ سے کہا یا رسول اللہ ! آپ ( غزوہ کے لیے) نکلے ہیں اور مجھے پیچھے چھوڑ دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے ہاں تیری منزلت وہی ہے جو موسیٰ کے ہاں ہارون کی تھی لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں.988 - سَمِعْتُ ابا حازم قال قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ، فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيُّ خَلَفَهُ نَبِيُّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِى، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ (صحيح البخاري كتاب احادیث الانبياء باب ما ذكر عن بنی اسرائیل 3455) ابو حازم نے کہا کہ میں حضرت ابو ہریرہ کے ساتھ پانچ سال بیٹھتا رہا اور میں نے ان سے سناوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کرتے تھے.آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کی نگرانی نبی کیا کرتے تھے.جب کوئی نبی فوت ہو جاتا تو ایک اور نبی اس کا جانشین ہوتا اور دیکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں مگر خلفاء ضرور ہوں گے اور بہت ہوں گے.صحابہ نے پوچھا پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا جو پہلے ہو اس کی بیعت پہلے پوری کرو.پھر اس کے بعد جو ہو ، اُن کا حق انہیں دو.کیونکہ اللہ بھی ان سے ضرور پوچھے گا اس ( رعیت) کے بارے میں جس کی نگرانی اس نے ان کے سپر د کی.
799 عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاء ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِي خَلَقَهُ نَبِي، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِى، وَسَتَكُونُ خُلَفَاءُ فَتَكْثُرُ ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ، فَالْأَوَّلِ، وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ (مسلم کتاب الامارة باب وجوب بالوفاء ببيعة الخلفاء ،الاول فالاول 3415) ابی حازم سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو ہریرہ کا پانچ سال ہم نشین رہا.میں نے ان کو نبی صلی اہیم سے حدیث بیان کرتے سنا آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کرتے تھے جب کوئی نبی فوت ہو تا تو اس کا جانشین نبی ہوتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں.میرے بعد خلفاء ہوں گے اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ ہوں گے.انہوں نے عرض کی تو پھر آپ ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلے کی بیعت سے وفاداری کرو اور پھر پہلے کی اور ان کے حق انہیں دو کیونکہ اللہ ان سے ان کے بارہ میں پوچھے گا جن کا اس نے انہیں نگران بنایا تھا.قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةً خَمْسَ سِنِينَ، فَسَمِعْتُهُ يُحَدِثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيُّ خَلَفَ نَبِيُّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، إِنَّهُ سَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَتَكْثُرُ قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمُ الَّذِي جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ مسند الإمام أحمد بن حنبل ، مسند المكثرين من اصحابه ، مسند ابى هريرة رضی اللہ عنہ 7947) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللی یکم نے فرمایا تم سے پہلے بنی اسرائیل کی سرداری اور حکومت انبیاء کے سپر د ہوتی تھی.جب بھی کوئی نبی فوت ہوتا تو اس کا قائم مقام دوسرا نبی بھیج دیا جاتا (جو اپنے احکام جاری کرتا) لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں جو اپنے احکام جاری کرے) بلکہ میرے بعد (میرے ہی احکام کی پیروی کرنے والے) خلفاء ہوں گے اور فساد کے زمانہ میں بعض اوقات ایک سے زیادہ لوگ خلافت کا دعویٰ کرنے والے ہوں
800 ย گے.صحابہ نے عرض کیا ایسی صورت میں آپ صلی القیام کا کیا حکم ہے.آپ صلی یا تم نے فرمایا جس کی پہلے بیعت کرو اس کی بیعت کے عہد کو نبھاؤ اور اسے اس کا حق دو.خود خلفاء اللہ تعالیٰ کے حضور ذمہ دار ہیں وہ ان سے ان کے فرائض کے متعلق پوچھے گا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح ادا کیا ہے.989 - عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ.......فقال حُذَيْفَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَن تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يرفعها، ثم تكون مُلكًا عاضا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَن يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا هَاءَ أَن يَرْفَعَهَا، تم تَكُونُ مُلَكًا جَبْرِيَّةٌ، فَتَكُونُ مَا هَاءَ اللهُ أَن تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَن يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَةٍ ثُمَّ سَكَتَ (مسند أحمد بن حنبل، اول مسند الكوفيين ، حديث النعمان بن بشير عن النبي 18596) رض الله حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی (جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے ) جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.یہ فرما کر آپ صلی یہ کی خاموش ہو گئے.
801 عَنْ حُذَيْفَةً قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللهُ أن تَكُونَ هُم يَنفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَاقَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا هَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلَكًا عَاضًا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةٌ فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاج نُبُوهُ ثُمَّ سَكَتَ (مشكاة المصابيح كتاب الرقاق باب في ذكر الإنذار والتحذير الفصل الثَّالِث 5378) رض حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا.پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارسال بادشاہت قائم ہو گی (جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے ) جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالی کار حم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا.اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.یہ فرما کر آپ صلی ال تم خاموش ہو گئے.990 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ لَهَا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صَدِيقًا نَبِيًّا، وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، وَمَا اسْتُرِقَ قِبْطِى (سنن ابن ماجه کتاب الجنائز باب ما جاء فى الصلاة على ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ذکر وفاته 1511)
802 حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی العلیم کے صاحبزادے حضرت ابراہیممؑ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی عالم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا جنت میں اس کے لئے دودھ پلانے والی ہے اور اگر وہ زندہ رہتا تو سچائی ہوتا اور اگر وہ زندور بہتا تو اس کے قبطی ماموں آزاد ہو جاتے اور کبھی کوئی قبطی غلام نہ بنا یا جاتا.991- عَنْ عَلي بن أبي طالب لَمَّا تُولى إبْرَاهِيمُ أرسل النبي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم إِلَى أَيه مَارِيَة فَجَاءَتْهُ وغسلته وكفَنَتْه وَخَرَج بِهِ وَخَرَجَ النَّاسُ مَعَه فَدَفَنَه، وَأَدْخَلَ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسلم يده في قبره فَقَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَبِيَ ابْن نَبِي الله و (الفتاوى الحديثية، مطلب : ماورد فى حق ابراهيم ابن نبی صل ، صفحه 176) حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ جب (آنحضرت صلی یلم کے صاحبزادے ) حضرت ابراہیم فوت ہوئے تو نبی صلی الیکم نے ان کی والدہ ماریہ کو جنازہ تیار کرنے کا پیغام بھیجا.چنانچہ انہوں نے صاحبزادہ ابراہیم کو غنسل دیا، کفن پہنایا، حضور علیہ السلام اپنے صحابہ کے ساتھ جنازہ باہر لائے.قبرستان میں دفن کیا اور پھر قبر پر ہاتھ رکھ کر فرمایاخدا کی قسم یہ نبی ہے نبی کا بیٹا ہے.عَنْ عَلِي بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ النَّبِيَّ (صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) أَرْسَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ إِلَى أُمِّهِ مَارِيَةَ القِبْطِيَّةِ وَهِيَ بِالمَشْرُبَةِ فَحَمَلَهُ عَلَى فِي سَفَطٍ وَجَعَلَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ عَلَى الفَرَسِ قَالَ ثُمَّ جَاءَ بِهِ إِلى النَّبِيِّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) فَغَسَلَهُ وَكَفَتَهُ وَخَرَجَ بِهِ وَخَرَجَ النَّاسُ مَعَهُ فَدَفَنَه.....وَأَدْخَلَ عَلَى رَسُوْلُ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) يَدَهُ فِي قَبْرِهِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) أَمَا وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَبِيُّ ابْنُ نَبِي - تاریخ دمشق لابن العساكر ، باب سيرة النبويه ، باب ذکر بنیہ و بناتہ علیہ سلام و ازواجه ، روایت نمبر 588 جلد 3 صفحہ 144، 145)
803 حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ جب نبی صلی علیم کے صاحبزادے ابراہیم فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی لیلی کلم نے حضرت علی بن ابی طالب کو ان کی والدہ ماریہ کے پاس بھیجا اور وہ ایک بالا خانہ میں تھیں.چنانچہ انہوں نے صاحبزادہ ابراہیم کو ایک طشت میں اٹھایا اور اپنے سامنے گھوڑے پر رکھ لیا.پھر انہیں لے کر نبی صلی علی الم کے پاس آئے.انہیں غسل دیا اور کفن پہنایا اور انہیں لے کر قبرستان گئے اور صحابہ بھی ساتھ تھے.قبرستان میں انہیں دفن کیا اور پھر قبر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا خدا کی قسم یہ نبی ہے نبی کا بیٹا ہے.992- أَبُو بَكْرٍ خَيْرُ النَّاسِ إِلا أَنْ يَكُونَ نَبِيُّ (طب عد) عَن سَلَمَةَ بنِ الأَكْوَعِ.(الجامع الصغير فى احاديث البشير النذير (للسيوطى)، حرف الهمزة، روايت نمبر 70) روایت ہے کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا ابو بکر اس امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی مبعوث ہو.أَبُو بَكْرٍ افضَلُ هذه الأمة إِلا أَنْ يَكُونَ نَبِيَّاً كنوز الحقائق من حديث خير الخلائق، حرف الهمزه ، روایت نمبر 82، جلد 1 ، صفحه 12) روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے فرمایا ابو بکر اس امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی مبعوث ہو.أَبُو بَكْرٍ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدِي إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيُّ (کنز العمال، حرف الفاء ، كتاب الفضائل من قسم الأفعال، الباب الثالث: في ذكر الصحابة وفضلهم رضي الله عنهم أجمعين الفصل الثاني: في فضائل الخلفاء الأربعة رضوان الله تعالى أجمعين، فضل أبو بكر الصديق رضي الله عنه 32578) م الله روایت ہے کہ آنحضرت علی ای کم نے فرمایا ابو بکر اس امت میں سب سے افضل ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی مبعوث ہو.
804 -993 فَقَالَ عَلى أَبي لَمْ أَرَ زَمَانًا خَيْرًا لِعَامِلٍ مِنْ زَمَانِكُمْ هَذَا، إِلَّا أَن يَكُونَ زَمَانًا مَعَ (مسند أحمد بن حنبل مسند انس بن مالک رضی الله عنه 13897) حضرت علی فرماتے ہیں کہ تمہارے اس زمانہ سے بہتر زمانہ اچھے اثرات کے لحاظ سے مجھے نظر نہیں آتا البتہ اگر کوئی نبی آئے تو اس کے زمانہ کی برکات کی اور بات ہے.994.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فِيمَا أَعْلَمُ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِدُ لَهَا دِينَهَا (سنن أبي داود كتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة 4291) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایسا مجد د بھیجے گا جو اس امت کے دین کی تجدید کرے گا.یعنی امت میں جو بگاڑ پیدا ہو گیا ہو گا اس کی اصلاح کرے گا اور دین کی رغبت اور اس کے لئے قربانی کے جذبہ کو بڑھا دے گا.995.عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ قَالَ نَبِي اللهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْن الخطاب (سنن الترمذي ، كتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ 3686) حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی الی یکم نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے.(یعنی حضرت عمر میں ملکات نبوت اور فیض رسالت موجود ہیں.بعض نے ” بغدادی “ کے معنے ”میری بجائے “ کئے ہیں)
805 996- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ فيما قَبْلَكُمْ مِنَ الأهم مُحدَّثُونَ، فَإِن يَك في أُمَّتِي أَحَدٌ، فَإِنَّهُ عُمر صحيح البخاري كتاب فضائل أصحاب النبي صلى اللہ علیہ وسلم باب مناقب عمر بن الخطاب ابى حفص القرشي العدوى رضى الله عنه 3689) رض حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا تم سے پہلے جو اُمتیں تھیں ان میں ایسے لوگ تھے جو محدث (جن کو کثرت سے الہام و کشوف ہوں) ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر نہیں.997ـ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ، يُكَلِّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَن يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ، فَإِن يَكُن مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ حيح البخاري كتاب فضائل أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب مناقب عمر بن الخطاب ابى حفص القرشي العدوى رضى الله عنه 3689) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی للی یکم نے فرمایا تم سے پہلے جو بنی اسرائیل ہوئے ہیں ان میں ایسے آدمی ہو چکے ہیں جن سے اللہ کلام کیا کرتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوتے.اگر میری امت میں بھی ان میں سے کوئی ایسا ہے تو وہ عمر نہیں.998.عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ (المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة ، الباب الأول: الأحاديث بحسب ترتيب الأحرف، حرف العين المهملة 702 صفحه 459)
806 آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ میری امت کے علماء (جو ربانی ہیں) بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح (بلند مقام رکھتے ) ہیں.قَالَ خَاتَمُ الرُّسُل - عليه وعليهم الصلاة و السلام - عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ (مکتوبات امام ربانى ، المكتوب الرابع والتسعون والمائتان الى المخدوم جامع العلوم الظاهريه و الاسرار الباطنیہ مجد الدين الخواجہ محمد معصوم...جلد 2 صفحه 204 ) آنحضرت علی ایم نے فرمایا کہ میری امت کے علماء (جو ربانی ہیں) بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح (بلند مقام رکھتے ہیں.999- عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى نَبِيَّ بَنِي اسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ لَقِيَنِي وَهُوَ جَاحِدٌ بِأَحْمَد أَدْخَلْتُهُ النَّارَ قَالَ يَا رَبِ وَمِن أَحْمَدُ ؟ قَالَ مَا خَلَقْتُ خَلْقاً أَكْرَمَ عَلَى مِنْهُ كَتَبْتُ اسْمَةَ مَعَ اسْمِي فِي الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ أَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ إِنَّ الْجَنَّةَ مُحَرَّمَةٌ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِي حَتَّى يَدْخُلَهَا هُوَ وَأُمَّتِهِ قَالَ وَمَنْ أُمَّتُهُ؟ قَالَ الْحَمادُونَ يُحْمَدُونَ صِعُودًا وَهُبُوْطاً وعَلَى كُلِ حَالٍ يَشُدُّونَ أَوْسَاطِهُمْ وَيُطَهِرُونَ أَطْرَافَهُم، صَالِمُونَ بِالنَّهَارِ رُهْبَانَ بِاللَّيْلِ، أَقْبَلُ مِنْهُم الْيَسِيرَ وَأَدْخِلُهُمْ الْجُنَّةَ بِشَهَادَة أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ قَالَ اجْعَلَنِي نَبِيَّ تِلْكَ الْأُمَّةِ قَالَ نَبِيُّهَا مِنْهَا قَالَ اجْعَلَنِي مِنْ أُمَّةٍ ذَلِكَ النَّبِيِّ قَالَ اسْتَقْدَمْتَ وَاسْتَأَخَرَ وَلَكِن سَأَجْمَعُ بَيْنَكَ وَبَينَهُ فِي دَارِ الْجَلَالِ (خصائص الكبرى ، الجزء الاول ، لطيفه اخرى فى ان اخذ الميثاق من النبيين لنبينا الله وعليهم كايمان البيعة التي توخذ من للخلفاء ، باب اعلام الله به موسیٰ علیہ سلام جلد 1 صفحہ23)
807 حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا اللہ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی بنی اسرائیل کو اطلاع دو کہ جو شخص مجھے اس حال میں ملا کہ وہ احمد علیہ سلام سے جھگڑا کر تا تھا میں اسے آگ میں داخل کر دوں گا.موسیٰ علیہ سلام نے کہا اے میرے رب ! احمد کون ہیں ؟ فرمایا میں نے کوئی مخلوق اس سے زیادہ معزز پیدا نہیں کی.میں نے اس کا نام اپنے نام کے ساتھ عرش پر لکھ دیا ہوا ہے ، قبل اس کے کہ میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کرتا.یقیناً جنت میری تمام مخلوق پر حرام ہے جب تک کہ میں انہیں اور انکی امت کو اس میں داخل نہ کر دوں.حضرت موسی نے عرض کیا اس کی امت کون ہے ؟ فرمایا حمد کرنے والے ، وہ بلندی چڑھتے ہوئے اور نیچے اترتے ہوئے اور ہر حال میں حمد کریں گے ، دین کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہوں گے اور انکے پہلو صاف ہوں گے.دن کو روزے رکھیں گے اور راتوں کو عبادت کرنے والے ہوں گے.میں ان سے تھوڑا عمل بھی قبول کروں گا اور ان کے صرف لا إله إلا الله کہنے والوں کو جنت میں داخل کروں گا.حضرت موسیٰ نے عرض کیا مجھے اس امت کا نبی بنا دے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا انکا نبی ان میں سے ہو گا.عرض کیا مجھے اس نبی کی امت میں سے بنادے.فرمایا تو پہلے ہو چکا اور وہ بعد میں آئیں گے لیکن میں تمہیں اور انہیں دار الجلال میں اکٹھا کر دوں گا.في الحلية لأبي نعيم ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى نَبِيَّ بَنِي اسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ لَقِيَنِي وَهُوَ جَاحِدٌ بِأَحْمَد أَدْخَلْتُهُ النَّارَ قَالَ يَا رَبِّ وَمِن أَحْمَدُ ؟ قَالَ مَا خَلَقْتُ خَلْقاً أَكْرَمَ عَلَى مِنْهُ، كَتَبْتُ اسْمَةَ مَعَ اسْمِي فِي الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ أَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ إِنَّ الْجَنَّةَ مُحَرَّمَةٌ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِي حَتَّى يَدْخُلَهَا هُوَ وَأُمَّتِهِ قَالَ وَمَنْ أُمَّتُهُ ؟ قَالَ الْحَمَادُونَ يُحْمَدُونَ صَعُودًا وَهُبُوْطاً وعَلَى كُلِّ حَالٍ يَشُدُّونَ أَوْ سَاطِهُمْ وَيُطَهِّرُونَ أَطْرَافَهُم، صَائِمُونَ بِالنَّهَارِ رُهْبَانَ بِاللَّيْلِ، أَقْبَلُ مِنْهُم الْيَسِيرَ وَأَدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ بِشَهَادَة أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ قَالَ اجْعَلْنِي نَبِيَّ تِلْكَ الْأُمَّةِ قَالَ نَبِيُّهَا مِنْهَا قَالَ اجْعَلَنِي
808 مِنْ أُمَّةِ ذَلِكَ النَّبِي قَالَ اسْتَقْدَمْتَ وَاسْتَأْخَرَ وَلَكِن سَأَجْمَعُ بَيْنَكَ وَبَينَهُ فِي دَارِ الجلال (المواهب اللدنيه بالمنح المحمديه ، المقصد الرابع فى المعجزات و الخصائص ، الفصل الثاني فيما خصه الله ، خصائص امته الا ، باب من فضائل امته ، جلد 2 صفحه 708) - حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اللہ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی بنی اسرائیل کو اطلاع دو کہ جو شخص مجھے اس حال میں ملا کہ وہ احمد علیہ سلام سے جھگڑا کر تا تھا میں اسے آگ میں داخل کر دوں گا.موسیٰ علیہ سلام نے کہا اے میرے رب ! احمد کون ہیں ؟ فرمایا میں نے کوئی مخلوق اس سے زیادہ معزز پیدا نہیں کی.میں نے اس کا نام اپنے نام کے ساتھ عرش پر لکھ دیا ہوا ہے ، قبل اس کے کہ میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کرتا.یقیناً جنت میری تمام مخلوق پر حرام ہے جب تک کہ میں انہیں اور انکی امت کو اس میں داخل نہ کر دوں.حضرت موسیٰ نے عرض کیا اس کی امت کون ہے ؟ فرمایا حمد کرنے والے ، وہ بلندی چڑھتے ہوئے اور نیچے اترتے ہوئے اور ہر حال میں حمد کریں گے ، دین کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہوں گے اور انکے پہلو صاف ہوں گے.دن کو روزے رکھیں گے اور راتوں کو عبادت کرنے والے ہوں گے.میں ان سے تھوڑا عمل بھی قبول کروں گا اور ان کے صرف لا إله إلا اللہ کہنے والوں کو جنت میں داخل کروں گا.حضرت موسیٰ نے عرض کیا مجھے اس امت کا نبی بنا دے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا انکا نبی ان میں سے ہو گا.عرض کیا مجھے اس نبی کی امت میں سے بنادے.فرمای اتو پہلے ہو چکا اور وہ بعد میں آئیں گے لیکن میں تمہیں اور انہیں دار الجلال میں اکٹھا کر دوں گا.عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا مُوسَى يَمْشِي ذَاتَ يَوْمٍ فِي الطريق فَنَادَاهُ الْجَبَّارُ يَا مُوسَى فَالْتَفَتَ يَمِينًا وَهِمَالاً هُم نَادَاهُ القَانِيَةَ يَا مُوسى بن عمران فَالْتَفَتَ فَلَمْ يَرًا أَحَدًا فَارْتَعَدَتْ فَرَائِصُهُ ثُمَّ نُودِيَ الثَّالِقَةَ يَا مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ إِنِّي أَنَا اللَّهُ
809 لا إله إلَّا أنا فقال لبيك لبيك آخر يله سَاجِدًا فَقَالَ ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُوسَى فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ يَا مُوسَى أَحْبَبْتُ أَن تَسْكُن فِي فِلٍ عَزفِي يَوْمَ لَا قِلْ إِلَّا قَلِي يَا مُوسَى كُن لِلْيَتِيم تَأْبِ الرَّحِيمِ وَ كُن لِلْأَرْمَلَةِ كَالزَوْجِ الْعَطَوْفِ يَا مُوسَى بْنِ عَمْرَانَ ارْحَمْ تُرْحَمْ يَا مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ كَمَا تُدِينُ تُدَانُ يَا مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ نَبِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ لَقِيَنِي وَ هُوَ جَاحِدٌ بِأحمد أَدْخَلْتُهُ النَّارَ وَلَوْ كَانَ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلِي وَمُوسَى كَلِي قَالَ وَ مَنْ أَحْمَدُ قَالَ يَا مُوسَى وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي مَا خَلَقْتُ خَلْقًا أَكْرَمَ عَلَى مِنْهُ كَتَبْتُ اسْمَهُ مَعَ اسْمِي فِي الْعَرْشِ قَبْلَ أَنْ أَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ بِأَلْفَى أَلْفِ سَنَةٍ وَعِزَّتِي وَ جَلَالِي إِنَّ الْجَنَّةَ لَمُحَرَّمَةٌ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِي حَتَّى يَدْخُلَهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أُمَّتُهُ قَالَ مُوسَى وَ مَنْ أُمَّتُهُ قَالَ الْحَمَّادُونَ يَحْمَدُونَ اللهِ صُعُودًا وَهُبُوطًا وَ عَلَى كُلِّ حَالٍ يَشُدُّونَ أَوْ سَاطَهُمْ وَ يُطَهِرُونَ أَطْرَافَهُمْ صَائِمُونَ بِالنَّهَارِ رُهْبَانُ بِاللَّيْلِ أَقْبَلُ مِنْهُمُ الْيَسِيرَ وَ أَدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ بِشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ قَالَ مُوسَى يَا رَبِ اجْعَلْنِي نَبِي تِلْكَ الْأُمَّةِ قَالَ نَبِيُّهَا مِنْهَا قَالَ فَاجْعَلْنِي مِنْ أُمَّتِهِ قَالَ اسْتَقْدَمْتَ وَ اسْتَأْخَرَ سَأَجْمَعُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ فِي دَارِ الْجَلَالِ (الرحمة المهداة الى من يريد زيادة العلم على احاديث المشكاة نواب نور الحسن خان ( كتاب الفتن باب ثواب هذه الامة جلد 1 صفحه 337 ،338) ย حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ایک دن حضرت موسی کہیں جارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آواز دی.اے موسیٰ ! حضرت موسیٰ نے آواز سن کر دائیں بائیں دیکھا انہیں کوئی نظر نہ آیا.پھر دوسری دفعہ ان کو آواز آئی.اے موسیٰ بن عمران ! اس پر پھر انہوں نے دوبارہ ادھر ادھر دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا.اس سے موسیٰ ڈر گئے.کندھے کا گوشت کا پنپنے لگا یعنی جسم میں جھر جھری سی محسوس ہوئی کہ نہ معلوم کہاں سے یہ آواز آرہی ہے.تیسری دفعہ پھر آواز آئی.اے موسیٰ ! میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں.اس پر موسیٰ لبیک لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گئے.پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ! اپنا سر اٹھا.
810 حضرت موسیٰ نے سجدے سے سر اٹھایا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ ! میں چاہتا ہوں کہ تو میرے عرش کے سایہ کے نیچے آرام کرے جس دن میرے سایہ کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہو گا.اس لئے تم یتیم کے لئے مہربان باپ کی طرح بن جاؤ بیوہ کے لئے محبت کرنے والے خاوند کی طرح ہو جاؤ.اے موسیٰ ! رحم کرتا کہ تجھ پر رحم کیا جاوے.اے موسیٰ! جیسا تو کرے گا ویسا بھرے گا.اے موسیٰ! بنی اسرائیل کو بتا دو کہ جو بھی میرے پاس اس حال میں آئے گا کہ اس نے حضرت احمد علیہ السلام کا انکار کیا ہو گا تو میں اسے دوزخ میں ڈالوں گا.خواہ وہ میرے خلیل ابراہیم ہی کیوں نہ ہوں یا میرے کلیم موسیٰ ہی کیوں نہ ہوں.حضرت موسیٰ“ نے عرض کیا یہ احمد کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ! مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! مخلوق میں سے مجھے اس سے زیادہ پیارا کوئی نہیں لگتا میں نے اس کا نام عرش پر اپنے نام کے ساتھ لکھ دیا ہے.میں نے آسمان وزمین، شمس و قمر کے پیدا کرنے سے ہیں لاکھ سال پہلے اس کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھ دیا تھا.مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! محمد اور اس کی امت سے پہلے کسی کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دوں گا.حضرت موسیٰ نے عرض کیا اس عظمت اور جلال والے نبی کی امت میں کیسے لوگ ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ حمد کرنے والے ہوں گے.وہ بلندیوں پر چڑھتے اور اترتے اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گے ، دین کی خدمت کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہیں گے.ان کے پہلو پاکیزہ ہوں گے ، دن کو روزہ رکھیں گے اور راتیں رہبانیت کی حالت میں گزاریں گے میں ان سے تھوڑا عمل بھی قبول کر لوں گا.صرف لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے پر ان کو جنت میں لے جاؤں گا.حضرت موسیٰ نے عرض کیا.اے میرے رب ! مجھے اس امت کا نبی بنادے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس امت کا نبی اسی امت میں سے ہو گا.پھر موسیٰ نے کہا مجھے اس امت کا ایک فرد ہی بنا دیجئے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیر از مانہ پہلے ہے ، وہ نبی بعد میں آئے گا.اس لئے تو اس نبی کا امتی بھی نہیں بن سکتا.البتہ اگلے جہاں میں دار الجلال اور جنت الفردوس میں اس نبی کی معیت تجھے عطا کروں گا.حضرت انس سے ( ایک طویل حدیث میں ) روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے (ایک بار اپنے کلام میں ) فرمایا کہ بنی اسرائیل کو مطلع کر دو کہ جو شخص مجھے اس حالت میں ملے گا کہ وہ احمد (صلی ) کا منکر ہو گا تو میں اس کو الله سل
811 دوزخ میں داخل کروں گا خواہ کوئی ہو.موسیٰ نے عرض کیا کہ احمد کون ہیں ؟ ارشاد ہوا اے موسیٰ قسم ہے اپنے عزت و جلال کی میں نے کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو ان سے زیادہ میرے نزدیک مکرم ہو ، میں نے ان کا نام عرش پر اپنے نام کے ساتھ آسمان وزمین اور شمس و قمر پیدا کرنے سے میں لاکھ برس پہلے لکھا تھا.قسم ہے اپنے عزت و جلال کی کہ جنت میری تمام مخلوق پر حرام ہے جبتک کہ محمد اور ان کی امت اس میں داخل نہ ہو جاویں ( پھر امت کے فضائل کے بعد یہ ہے کہ) موسیٰ نے عرض کیا کہ اے رب مجھ کو اس امت کا نبی بنادیجیے.ارشاد ہوا اس امت کا نبی اسی میں سے ہو گا.عرض کیا کہ تو مجھ کو ان ( محمد ) کی امت میں سے بنادیجئے.ارشاد ہوا کہ تم پہلے ہو گئے وہ پیچھے ہوں گے.البتہ تم کو اور ان کو دار الجلال (جنت) میں جمع کر دوں گا.(نشر الطيب في ذكر النبي الحبيب ال (مولانا اشرف علی تھانوی ) فصل نمبر 31 صفحه 219 ) 1000- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِذَا هَلَكَ كسترى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُنْفَقَنَ كُنُونُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ (صحيح البخاري، کتاب فرض الخمس ، باب قول النبي احلت لكم الغنائم (3120) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسریٰ ( شاہ ایران ) جب ہلاک ہو گا اس کے بعد اور کوئی کسری نہ ہو گا اور جب قیصر ( شاہ روم) ہلاک ہو گا اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہو گا.اسی ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم ضرور اللہ کی راہ میں ان دونوں کے خزانے خرچ کرو گے.
812 مناقب صحابہ و علامات الاولیاء 1001- سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْن حُصَيْنٍ يُحَدِثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ خَيْرَكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ - قَالَ عِمْرَانُ: فَلَا أَدْرِى أَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ قَرْنِهِ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٌ ـ ثُمَّ يَكُونُ - بَعْدَهُمْ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَكُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلَا يُوفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السَّمَنُ (مسلم کتاب فضائل الصحابه باب فـ ـابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم 4589) الله سة حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی لی یکم نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین میری صدی کے لوگ ہیں پھر وہ جو اُن کے قریب ہیں پھر وہ جو اُن کے قریب ہیں.پھر وہ جو ان کے قریب ہیں.حضرت عمران کہتے ہیں میں نہیں جانتا آیار سول اللہ صلی علیم نے یہ اپنی صدی کے بعد دو مر تبہ فرمایا یا تین دفعہ پھر فرمایا ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی اور وہ خیانت کریں گے اور انہیں امین نہ سمجھا جائے گا اور وہ نذر مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے اور ان میں فربہی آجائے گی.1002- وعن عمر بن الخطاب قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَأَلْتُ رَبِّي عَنِ اخْتِلَافِ أَصْحَابِي مِنْ بَعْدِى فَأَوْحَى إِلَى: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ أَصْحَابَكَ عِنْدِي بِمَنْزِلَةِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ بَعْضُهَا أَقْوَى مِنْ بَعْضٍ وَلِكُلٍ نُورٌ فَمَنْ أَخَذَ بِشَيْءٍ مِمَّا هُمْ عَلَيْهِ مِن اخْتِلَافِهِمْ فَهُوَ عِنْدِى عَلَى هُدًى قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ فَبِأَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ (مشكاة المصابيح كتاب الفضائل والشمائل بَاب مَنَاقِب الصَّحَابَةِ الْفَضْلِ الثَّالِث 6018)
813 حضرت عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی.اے محمد ! تیرے صحابہ کا میرے نزدیک ایسا مر تبہ ہے جیسے آسمان میں ستارے ہیں.بعض بعض سے روشن تر ہیں.لیکن نور ہر ایک میں موجود ہے.پس جس نے تیرے کسی صحابی کی پیروی کی.میرے نزدیک وہ ہدایت یافتہ ہو گا.حضرت عمرؓ نے یہ بھی کہا کہ حضور صلی الی یم نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں.ان میں سے جس کی بھی تم اقتداء کرو گے، ہدایت پا جاؤ گے.1003- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَلٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، الله اللهَ فِي أَصْحَابِي، لا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُنِي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ أَذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذُهُ.رسنن الترمذي ، كتاب المناقب، باب فى فضل من بايع تحت الشجر ة 3862) حضرت عبد اللہ بن مغفل بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے کام لینا، انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا.جو شخص ان سے محبت کرے گا تو وہ دراصل میری محبت کی وجہ سے کرے گا.اور جو شخص ان سے بغض رکھے گا در اصل وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا.جو شخص ان کو دکھ دے گا اس نے مجھ کو دکھ دیا اور جس نے مجھے دکھ دیا اس نے اللہ کو دکھ دیا.اور جس نے اللہ کو دکھ دیا اور ناراض کیا تو ظاہر ہے وہ اللہ کی گرفت میں ہے.
814 1004- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مِّنْ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ (سنن ابن ماجه، افتتاح الكتاب ، باب فی فضائل اصحاب رسول الله ﷺ فَضْلُ أَهْلِ بَدْرٍ 161) حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الیکم نے فرمایا میرے صحابہ کو بُر امت کہو مجھے اس کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو بھی ان کے ایک مدیا نصف مد کو نہیں پہنچے گا.1005- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: أَنَّ نِسَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُن حِزْبَيْنِ، فَحِزْبٍ فِيهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ وَصَفِيَّةُ وَسَوْدَةُ، وَالحِزْبُ الْآخَرُ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَكَانَ المُسْلِمُونَ قَدْ عَلِمُوا حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ، فَإِذَا كَانَتْ عِنْدَ أَحَدِهِمْ هَدِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُهْدِيَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَخْرَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، بَعَثَ صَاحِبُ الهَدِيَّةِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَكَلَّمَ حِزْبُ أُمِّ سَلَمَةَ فَقُلْنَ لَهَا كَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَيَقُولُ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةٌ، فَلْيُهْدِهِ إِلَيْهِ حَيْثُ كَانَ مِنْ بُيُوتِ نِسَائِهِ، فَكَلَّمَتُهُ أُمُّ سَلَمَةَ بِمَا قُلْنَ، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا ، فَقَالَتْ مَا قَالَ لِي شَيْئًا، فَقُلْنَ لَهَا، فَكَلِّمِيهِ قَالَتْ فَكَلَّمْتُهُ حِينَ دَارَ إِلَيْهَا أَيْضًا، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ مَا قَالَ لِي شَيْئًا، فَقُلْنَ لَهَا كَلِّمِيهِ حَتَّى يُكَلِّمَكِ ، فَدَارَ إِلَيْهَا فَكَلَّمَتْهُ ، فَقَالَ لَهَا لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّ الوَحْى لَمْ يَأْتِنِي وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ، إِلَّا عَائِشَةَ ، قَالَتْ فَقَالَتْ أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَذَاكَ
815 يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّهُنَّ دَعَوْنَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدُنَكَ اللَّهَ العَدْلَ فِي بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَلَّمَتُهُ فَقَالَ يَا بُنَيَّةُ أَلا تُحنِينَ مَا أُحِبُّ ؟ ، قَالَتْ بَلَى، فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَ، فَأَخْبَرَتُهُنَّ، فَقُلْنَ: ارْجِعِي إِلَيْهِ، فَأَبَتْ أَنْ تَرْجِعَ، فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِئْتَ بَخشِ، فَأَتَتْهُ، فَأَغْلَظَتْ، وَقَالَتْ إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدُنَكَ اللَّهَ العَدْلَ فِي بِنْتِ ابْنِ أَبِي تُحَافَةَ، فَرَفَعَتْ صَوْتَهَا حَتَّى تَنَاوَلَتْ عَائِشَةَ وَهِيَ قَاعِدَةٌ فَسَبَتْهَا ، حَتَّى إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَنْظُرُ إِلَى عَائِشَةَ، هَلْ تَكَلَّمُ، قَالَ فَتَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ تَرُدُّ عَلَى زَيْنَبَ حَتَّى أَسْكَتَتَهَا، قَالَتْ فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ، وَقَالَ إِنَّهَا بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ (صحیح البخاري، كتاب الهبة و فضلها والتحريض عليها باب من اهدى الى صاحبه و تحری بعض نسائه دون......2581) رض رض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج دو ٹولیوں کی صورت میں تھیں.ایک میں عائشہ ، حفصہ ، صفیہ اور سودہ شامل تھیں اور دوسری میں ام سلمہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی ازواج.اور مسلمانوں کو یہ علم ہو چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو زیادہ محبوب رکھتے ہیں، تو جب ان میں سے کسی کے پاس کوئی ایسا ہد یہ ہوتا جسے وہ رسول اللہ صلی علیکم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا تو وہ اسے پیش کرنے میں اس وقت کا انتظار کرتا جبکہ رسول اللہ صلی علیہ کی عائشہ کے گھر میں ہوتے.ام سلمہ کے فریق نے (ام سلمہ سے) باتیں کیں اور اُن سے کہا رسول اللہ صلی اللہ کریم سے کہو کہ لوگوں سے یہ فرمائیں کہ جو رسول اللہ صلی علیم کے پاس کوئی ہدیہ بھیجنا چاہے تو آپ جس بیوی کے گھر میں بھی ہوں، وہ وہاں بھیج دیا کرے.جو انہوں نے کہا تھا ام سلمہ نے وہ آپ سے کہہ دیا، تو آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا اور ان ازواج نے ( ام سلمہ سے) پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے مجھے کچھ جواب نہیں دیا.پھر انہوں نے ام سلمہ سے کہا کہ تم آنحضرت (صلی ) سے پھر کہو.ام سلمہ کہتی تھیں : جب آپ میری باری پر میرے ہاں آئے تو میں نے آپ سے پھر کہا، تو آپ نے پھر انہیں جواب نہ دیا اور آن ازواج نے اہم سلمہ سے پوچھا، تو انہوں نے کہا آپ نے مجھے
816 کچھ جواب نہیں دیا.تو ازواج نے پھر اُن سے کہا کہ تم آنحضرت (صلی یک) سے کہتی رہو ، یہاں تک کہ آپ کچھ جواب دیں.جب آپ ام سلمہ کے پاس باری پر آئے تو انہوں نے پھر کہا.آپ نے حضرت ام سلمہ سے فرمایا مجھے عائشہ کی وجہ سے تکلیف نہ دو کیونکہ وحی عائشہ کے سوا کسی اور بیوی کے بستر پر نہیں ہوئی.حضرت ام سلمہ کہتی تھیں : میں نے کہا یارسول اللہ ! آپ کو تکلیف دینے سے اللہ کے حضور توبہ کرتی ہوں.پھر اس کے بعد ان ازواج نے رسول اللہ لی لی ایم کی بیٹی حضرت فاطمہ کو بلایا اور رسول اللہ لی لی ایم کے پاس انہیں بھیجا کہ آپ سے کہیں کہ آپ کی ازواج حضرت ابو بکر کی بیٹی سے متعلق انصاف کرنے کے لئے آپ کو (اللہ کی قسم دیتی ہیں.چنانچہ حضرت فاطمہ نے آپ سے کہا.آپ نے فرمایا اے میری بیٹی ! کیا تم وہ بات پسند نہیں کرتی جو میں پسند کرتا ہوں؟ (حضرت فاطمہ نے) کہا کیوں نہیں اور وہ ازواج کے پاس لوٹ آئیں اور انہیں بتایا تو انہوں نے کہا تم آنحضرت کے پاس پھر جاؤ تو حضرت فاطمہ نے پھر جانے سے انکار کر دیا.پھر انہوں نے حضرت زینب بنت جحش کو بھیجا.وہ آپ کے پاس آئیں اور لب ولہجہ کچھ سخت تھا، یعنی انہوں نے کہا آپ کی ازواج ابن ابی قحافہ کی لڑکی سے متعلق آپ کو انصاف کرنے کیلئے اللہ کی قسم دیتی ہیں اور اونچی آواز سے بولیں یہاں تک کہ حضرت عائشہ کو بھی برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور حضرت عائشہ بیٹھی ہوئی تھیں.حضرت زینب حضرت عائشہ کو سخت سست کہنے لگیں جس پر رسول اللہ صلی الیکم حضرت عائشہ کی طرف دیکھنے لگے، آیاوہ بھی کچھ بولتی ہیں.( عروہ) کہتے تھے : آخر حضرت عائشہ حضرت زینب کو ترکی بہ ترکی جواب دینے لگیں حتی کہ حضرت زینب کو چپ کرا دیا.(انہوں نے کہا) نبی صلی نیلم نے حضرت عائشہ کی طرف دیکھا اور فرمایا آخر ابو بکر کی بیٹی ہے.رض 1006- عَنْ أَمْ هَانِي رَضِيَ اللهُ عَنْهَا ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَائِشَةُ لِيَكُنْ شِعَارُكِ الْعِلْمَ وَالْقُرْآنَ (مسند امام اعظم امام ابو حنیفہ ) کتاب العلم ، روایت نمبر 34 )
817 حضرت ام ہانی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا اے عائشہ تمہارا شعار علم اور قرآن کریم ہو (یعنی قرآن اور علم کے ساتھ تمہیں اس قدر محبت ہونی چاہئے کہ اس سے زیادہ قریب اور پیاری چیز تمہیں کوئی نہ ہو.شعار اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ لگارہے.) 1007- عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا فِي بَيْتِ أَمْ سَلَمَةَ، فَدَعَا فَاطِمَةً وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَلَهُمْ بِكِسَاءٍ، وَعَلَى خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهَّرْهُمْ تَطْهِيرًا.قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللهِ ، قَالَ أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ عَلَى خَيْرٍ (سنن الترمذي ، كتاب تفسير القرآن ، باب ومن سورة الاحزاب (3205 ย حضرت عمر بن ابی سلمہ جو کہ نبی صلی الی ایم کے ربیب ہیں بیان کرتے ہیں کہ جب آیت کریمہ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ نازل ہوئی.اس وقت آپ حضرت ام سلمہ کے گھر تھے.آپ نے حضرت فاطمہ ، حسن، حسین کو بلوایا اور ان کو ایک چادر سے ڈھانپ دیا اور حضرت علی آپ کے پیچھے تھے حضور صلی الی یکم نے ان کو بھی چادر کے نیچے لے لیا.پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْنِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِرْهُمْ تَطْهِيرًا یعنی اے میرے اللہ یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ان سے بھی ہر طرح کی رجس دور فرما اور انہیں پاک و صاف فرما.حضرت ام سلمہ نے کہا اے اللہ کے نبی! میں بھی انکے ساتھ آجاؤں؟ آپ نے فرمایا آپ اپنی جگہ ٹھہری رہیں کیونکہ آپ تو ( پہلے ہی) بہتر حال میں ہیں.
818 1008- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : مَنْ آلُ مُحَمَّدٍ ؟ فَقَالَ كُلُّ تَقي ، وَقَالَ (وَتَلَا) رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ (المعجم الصغير الطبراني بَابُ الْجِيمِ ، مَنِ اسْمُهُ جَعْفَرُ جلد 1 صفحه 115) ها الله حضرت انس نے بیان کیا کہ نبی صلی علی نام سے پوچھا گیا کہ آپ میلی لی یکم کی آل سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی ا ہم نے فرمایا ہر نیک اور منتقی آدمی میری آل میں شامل ہے.اور رسول اللہ صلی الی یوم نے ( یہ آیت) تلاوت فرمائی کہ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ اللہ کے دوست تو متقی ہیں.عن أنسٍ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مِن آلكَ فَقَالَ كُلُّ تَقِي وَتَلَّا رَسُولُ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُون (الدر المنثور في تفسير بالمأثور، سورة الانفال ، آيت وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقِّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا (31تا34) جلد 7 صفحه 115) حضرت انس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علی کم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی الم کی آل سے کیا مراد ہے.آپ صلی الم نے فرمایا ہر نیک اور متقی آدمی میری آل میں شامل ہے.اور رسول اللہ صلی اللہ کریم نے ( یہ آیت) تلاوت فرمائی کہ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ اللہ کے دوست تو متقی ہیں.وَفِي رِوَايَةٍ أَنَسٍ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ آلُ مُحَمَّدٍ ؟ قال: كل تقى..(الشفاء بتعريف حقوق المصطفى عياض بن موسى بن عیاض ( القسم الثاني فيما يجب على الانام من حقوقه ، الباب الرابع في ذكر الصلاة عليه و التسليم و فرض ذلك ، الفصل : الاختلاف في الصلاة على غير النبي روایت نمبر 1456صفحه579)
819 حضرت انس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی الم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی کیم کی آل سے کیا مراد ہے.آپ صلی للی کرم نے فرمایا ہر نیک اور متقی.أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا سُئِلَ عَنْ الْآلِ قَالَ أَلُ مُحَمَّدٍ كُلُّ تَقِي نيل الاوطار ، كتاب الصلاة ، ابواب صفة الصلاة) ، (الباب التاسع والثلاثون باب ما يستدل به على تفسير آله المصلى عليهم (حاشیه زیر روایت نمبر 783 ( قالوا يا رسول الله كيف نصلی علیک......) جلد 4 صفحه 376) حضرت انس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی علیہ یکم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی الم کی آل سے کیا مراد ہے.آپ صلی الم نے فرمایا ہر نیک اور متقی.وَكَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفَتِرُ آلَهُ المُصَلَّى عَلَيْهِمْ بِالْأَزْوَاجِ وَالنُّرِيَّةِ وَأَهْلِ الْبَيْتِ وَ تَارَةً يَقُولُ آلِى كُلُّ مُؤْمِنٍ تَقِيُّ آمَنَ بِي وَ صَدَّقَنِي - الله و (کشف الغمه عن جميع الأمة (للشعرانى) ، جز الاول ، فصل في الصلاة على النبي صل الله في التشهد صفحه 155) رسول اللہ صلی علیم اپنی آل میں ازواج، اولاد اور اہل بیت کو شامل فرماتے تھے اور کبھی فرماتے میرے اہل بیت تمام متقی مومن ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی.نوٹ:.وَقِيلَ: هُمُ الْأُمَّهُ جَمِيعًا، قَالَ النَّوَوِى فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ: وَهُوَ أَظْهَرُهَا قَالَ وَهُوَ اخْتِيَارُ الْأَزْهَرِي وَغَيْرِهِ مِنَ الْمُحَقِّقِينَ اهـ وَإِلَيْهِ ذَهَبَ نَشْوَانُ الْحِمْيَرِيُّ إِمَامُ اللُّغَةِ وَمِنْ شِعْرِهِ فِي ذَلِكَ: آلُ النَّبِي هُمْ أَتْبَاعُ مِلَّتِهِ مِنَ الْأَعَاجِمِ وَالسُّودَانِ وَالْعَرَبْ لَوْ لَمْ يَكُن الهُ إلَّا قَرابَتَهُ صَلَّى الْمُصَلِّ عَلَى الظَّاغِى أَبِي لَهَبْ
820 وَيَدُلُّ عَلَى ذلِكَ أَيْضًا قَوْلُ عَبْدِ الْمُقَلبِ مِنْ أَبْيَاتٍ: وَانْصُرُ عَلَى آلِ الصَّلِيبِ وَعَابِدِيهِ الْيَوْمَ آلَكُ وَالْمُرَادُ بِآلِ الصَّلِيبِ أَتَبَاعُهُ (نیل الاوطار ، كتاب الصلاة ، ابواب صفة الصلاة ، الباب التاسع الثلاثون باب ما يستدل به على تفسير آله المصلى عليهم (حاشیه زیر روایت نمبر 783 (قالوا يا رسول الله كيف نصلی علیک؟......) جلد 4 صفحه 375) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ساری امت ہی (آل ) ہے.امام اللغة نشوان حمیری کہتے ہیں کہ نبی صلی الم کے تمام متبعین خواہ انکا تعلق ایران، عراق و غیرہ ممالک سے ہو یا سوڈان اور عرب سے سب اہل بیت میں سے ہیں.اگر آپ کے اہل بیت آپ کے قرابتی ہوتے تو تمام نمازی ابولھب جیسے شیطان پر درود و سلام بھیجتے.اس بات کی دلیل عبد المطلب کے اس شعر سے بھی ملتی ہے کہ " آل صلیب کے خلاف مدد کرو، اور تمام عبادت گزار تیری آل ہے“.آل صلیب سے مراد ا سکی اتباع کرنے والے ہیں.1009- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَيْنًا، وَأَمَرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتِ الأَنْصَارِكَ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالهَدَةِ بَيْنَ عَسْفَانَ، وَمَكَةً ذَكِرُوا لِحَيَ مِنْ هُذَيْلٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لِحْيَانَ، فَتَفَرُوا لَهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ ، فَاقْتَضُوا أَثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمُ التَّمْرِ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ، فَقَالُوا تَمْرُ يَثْرِبَ، فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ، فَلَمَّا حَشَ بِهِمْ عَامِهِمْ وَأَصْحَابُهُ بَجَ وَا إِلَى مَوْضِعِ فَأَحَاطَ بهِمُ القَوْمُ ، فَقَالُوا لَهُمْ: انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيكُمْ، وَلَكُمُ العَهْدُ وَالمِيثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْكُمْ أَحَدًا، فَقَالَ عَامِمُ بن ثَابِتٍ أَيُّهَا القَوْمُ أَمَّا أَنَا فَلَا أُنزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُمْ
821 أَخْبِرُ عَنَّا نَبِيَّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا، وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ عَلَى العَهْدِ وَالمِيثَاقِ، مِنْهُمْ خُبَيْبِ، وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ، وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَظْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيهِمُ ، فَرَبَطُوهُمْ بِهَا، قَالَ الرَّجُلُ القَالِتُ: هَذَا أَوَّلُ الغَدْرِ، وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ، إِنَّ لِي بِهَؤُلَاءِ أَسْوَةً، يُرِيدُ القَتْلَى، فَجَزَرُوهُ وَعَاجُوهُ فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ، فَانْطَلِقَ بِخَبَيْبِ، وَزَيْدِ بْنِ الدِّينَةِ حَتَّى بَاعُوهُمَا بَعْدَ وَقَعَةِ بَدْرٍ ، فَابْتَاعَ بَنُو الحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا، وَكَانَ حُبَيب هُوَ قَتَلَ الحَارِثُ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ، فَلَبِثَ حُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّى أَجْمَعُوا قَتْلَهُ، فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ، فَدَرَج بُنَيَّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ حَتَّى أَتَاهُ فَوَجَدَتْهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالمَوسَى بِيَدِهِ، قَالَتْ فَفَزِعْتُ فَزَعَةً عَرَفَهَا حُبَيْب فَقَالَ أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ ؟ مَا كُنْتُ لِأَفَعَلَ ذَلِكَ، قَالَتْ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا فَقَط خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِي يَدِهِ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقُ بِالحَدِيدِ، وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرَةٍ ، وَكَانَتْ تَقُولُ: إِنَّهُ لَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ حُبَيْبًا، فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ مِنَ الحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الحِلِ، قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ: دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَتَرَكُوهُ فركع ركعتين، فَقَالَ وَالله لَوْلاً أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا فِي جَزَعٌ لَزِدْتُ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُمْ أَحْصِهِمْ عددًا، وَاقْتُلُهُمْ بَدَدًا، وَلَا تُبي مِنْهُمْ أَحَدًا، ثم ألقاً يَقُولُ فَلَسْتُ أَبَالِي حين أقتل مسلما...عَلَى أَي جَنبِ كَانَ لِلهِ مَصْرَعى وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ...يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوِ مُمَزِّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ أَبو سِرْوَعَةٌ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِكُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلاةَ، وَأَخْبَرَ يعنى النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُصِيبُوا خَبَرَهُمْ ، وَبَعَثَ ناس من قريش إلَى عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ.حِينَ حَدِثُوا أَنَّهُ قُتِلَ - أَن يُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ
822 وَكَانَ قَتَلَ رَجُلًا عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ ، فَبَعَثَ اللَّهُ لِعَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتَهُ مِنْ رُسُلِهِمْ ، فَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَقْطَعُوا مِنْهُ شَيْئًا (بخاری کتاب المغازی باب من شهد بدر 3989) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس مخبر بھیجے اور حضرت عاصم بن ثابت انصاری کو اُن کا امیر بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے جب وہ عسفان اور مکہ کے درمیان ہر آہ کے مقام پر پہنچے تو کسی نے بذیل کے ایک قبیلے سے جسے بنو لحیان کہتے تھے ، (ان کا) ذکر کر دیا.وہ تقریباً ایک سو تیر اند از لے کر ان کے تعاقب کے لئے نکلے اور ان کا کھوج لگانے لگے.آخر انہوں نے ایک ایسے مقام پر جہاں وہ اُترے تھے وہ جگہ پالی جہاں انہوں نے کھجوریں کھائی تھیں.کہنے لگے: یہ یثرب کی کھجوریں ہیں.چنانچہ یہاں سے وہ ان کے قدموں کے نشانوں پر اُن کے پیچھے گئے.جب حضرت عاصم اور اُن کے ساتھیوں نے ان کی آہٹ پائی تو وہ ایک جگہ پناہ گزیں ہو گئے.ان لوگوں نے ان کو گھیر لیا اور ان سے کہنے لگے تم نیچے اتر آؤ اور اپنے آپ کو ہمارے سپر د کر دو اور تم سے یہ پختہ عہد و پیمان ہے کہ ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے.حضرت عاصم بن ثابت نے یہ سن کر کہا: اے لوگو! میں تو کسی کا فر کی پناہ میں نہیں اتروں گا.پھر انہوں نے دعا کی اے اللہ اپنے نبی صلی ا م کو ہماری حالت سے آگاہ کر.بنو لحیان ان پر تیر چلانے لگے اور حضرت عاصم کو مار ڈالا اور تین شخص عہد و پیمان پر بھروسہ کر کے ان کے پاس اتر آئے.حضرت خبیب اور حضرت زید بن دشنہ نیز ایک اور شخص.جب بنو لحیان نے ان پر قابو پالیا تو ان کی کمانوں کی تندیاں کھول کر انہیں باندھ لیا.تیسرے شخص (حضرت عبد الله بن طارق) نے کہا یہ (تمہاری) پہلی بد عہدی ہے، اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا.میرے لئے ان لوگوں میں نمونہ ہے یعنی ان لوگوں میں جو شہید ہو چکے تھے.انہوں نے انہیں گھسیٹا اور اُن سے کشمکش کی، انہوں نے اُن کے ساتھ جانے سے ہر طرح انکار کیا ( آخر کار انہوں نے حضرت عبد اللہ بن طارق کو مار ڈالا ).پھر وہ حضرت خبیب اور حضرت زید بن دشنہ کو اپنے ساتھ لے گئے اور بدر کی جنگ کے بعد اُن دونوں کو بیچ دیا.بنو حارث بن عامر بن نوفل نے حضرت خبیب کو خریدا اور حضرت خبیب ہی تھے جنہوں نے حارث بن
823 عامر کو جنگ بدر کے دن منتقل کیا تھا.چنانچہ حضرت خبیب ان کے پاس قیدی رہے.آخر انہوں نے ان کو مار ڈالنے کا فیصلہ کیا.حضرت خبیب نے حارث کی ایک بیٹی سے اُستر اعاریہ مانگا کہ اس سے ناف کے بال صاف کریں.اس نے اُن کو استر اعاریہ دے دیا.اس کا ایک چھوٹا بچہ رینگتے ہوئے حضرت طبیب کے پاس آیا اور وہ بے خبر تھی، اس نے حضرت خبیب کو دیکھا کہ وہ اپنی ران پر اُس کو بٹھائے ہوئے ہیں اور اُستر ان کے ہاتھ میں ہے، کہتی تھی: میں یہ دیکھ کر ایسی گھبر ائی کہ خبیب نے میری گھبراہٹ معلوم کرلی اور کہا کیا تم ڈرتی ہو کہ میں اسے مار ڈالوں گا؟ میں ایسا کبھی نہیں کرنے کا.کہتی تھی: اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بڑھ کر نیک قیدی کبھی نہیں دیکھا.اللہ کی قسم ! ایک دن میں نے انہیں دیکھا کہ انگور کا خوشہ ہاتھ میں لئے انگور کھا رہے تھے اور وہ اس وقت لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور اُن دِنوں مکہ میں کوئی پھل نہ تھا.اور کہتی تھی: وہ ایسا رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے خبیب کو دیا.جب اُن کو حرم کی سرحد سے باہر لے کر گئے تا اُن کو ایسی جگہ قتل کریں جہاں قتل جائز ہے.حضرت خبیب نے ان سے کہا مجھے دور کعت نماز پڑھ لینے دو.انہوں نے اجازت دے دی.حضرت خبیب نے دور کعتیں ادا کیں.پھر کہنے لگے: بخدا! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم لوگ یہ خیال کرو گے کہ جو میری حالت نماز میں تھی وہ موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے ہے تو میں زیادہ پڑھتا، پھر کہنے لگے: اے اللہ ! ان میں سے ایک بھی جانے نہ پائے اور انہیں پراگندہ کر کے ہلاک کر اور ان میں سے کوئی باقی نہ چھوڑ.پھر یہ شعر پڑھنے لگے: جبکہ میں مسلمان ہو کر مارا جارہا ہوں مجھے پرواہ نہیں خواہ کسی کروٹ پر اللہ کیلئے گروں اور یہ میر اگر ناخدا کی خاطر ہے اور اگر وہ چاہے تو ان جوڑوں میں برکت دے دے جو ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہوں.اس کے بعد ابو برقعہ عقبہ بن حارث ان کے پاس گیا اور اس نے انہیں قتل کر دیا اور حضرت خبیب ہی وہ ہیں جنہوں نے ہر ایسے مسلمان کیلئے جو بے بسی کی حالت میں مارا جائے یہ نمونہ قائم کیا کہ وہ دور کعت) نماز ادا کرے.اور نبی صلی الی یکم نے اپنے صحابہ کو حضرت عاصم اور اُن کے ساتھیوں کے شہید ہونے کی اسی دن خبر دے دی تھی جب وہ شہید ہوئے.
824 حضرت قریش کے لوگوں کو جب یہ بتایا گیا کہ عاصم بن ثابت قتل کر دئے گئے ہیں تو انہوں نے کچھ لوگ بھیجے جو رت عاصم کی لاش سے اس قدر حصہ کاٹ کر لائیں جس سے وہ پہچانے جائیں کیونکہ حضرت عاصم نے اُن کے سر داروں میں سے ایک بڑے شخص کو قتل کیا تھا.اللہ نے حضرت عاصم پر بھڑوں کا ایک دل بادل کی طرح بھیج دیا جس نے قریش کے بھیجے ہوئے آدمیوں سے انہیں بچایا.اس لئے وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے.1010- عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ شَهِدْتُ مِنَ المِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ مَشْهَدًا، لَأَنْ أَكُونَ صَاحِبَهُ أَحَبُّ إِلَى مِمَّا عُدِلَ بِهِ، أَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَدْعُو عَلَى المُشْرِكِينَ، فَقَالَ لَا نَقُولُ كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى: اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاً، وَلَكِنَّا نُقَاتِلُ عَنْ يَمِينِكَ، وَعَنْ شِمَالِكَ، وَبَيْنَ يَدَيْكَ وَخَلْفَكَ فَرَأَيْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَقَ وَجْهُهُ وَسَرَّهُ (بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ......الأنفال: 10، روایت نمبر 3952) طارق بن شہاب نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابن مسعودؓ سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے مقداد بن اسود کی بات کا ایک ایسا منظر دیکھا کہ اگر مجھ کو حاصل ہو جاتا تو وہ ان تمام نیکیوں سے مجھے عزیز تر ہوتا جو ثواب میں اس (ایک منظر) کے برابر ہوں.ہوا یوں کہ مقداد نبی صلی علیم کے پاس آئے جبکہ آپ مشرکوں کے خلاف دعا کر رہے تھے اور کہنے لگے : ( یار سول اللہ !) ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح موسیٰ کی قوم نے کہا تھا: جاتو اور تیر ارب دونوں جاکر لڑو، نہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی.میں نے نبی صلی علی نام کو دیکھا کہ آپ کا چہرہ چپکنے لگا اور مقد اڈ کی اس بات نے آپ کو خوش کر دیا.1011- عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ شَكَا أَهْلُ الكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا، فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّى، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ يَا أَبَا
825 إشتقاق إن هؤلاء يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصلى ؟ قال أبو إسحاق أنما أنا واللهِ فَإِنِّي كُنتُ أُصَلِّي بِهِم صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، أَصَلِّي صَلَاةَ الْعِشَاءِ، فَأَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ وَأَخِفُ فِي الأُخْرَيَيْنِ ، قَالَ ذَاكَ الظَّنُ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إلى الكُوفَةِ، فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أَسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ أَمَّا إِذْ نَشَدُتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالشَّرِيَّةِ، وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يَعْدِلُ فِي القَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللهِ لَأَدْعُوَنَ بِثَلَاثٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءٌ وَسُمْعَةٌ، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِل فَقْرَهُ، وَعَرِضُهُ بِالْفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ شَيْخٌ كَبِيرُ مَفْتُونَ، أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ المَلِكِ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ، قَدْ سَقَط حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الكِبَرِ ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ (صحيح البخاري كتاب الاذان باب وجوب القرائة للامام والمأموم في الصلوات...755) حضرت جابر بن سمرہ کہتے تھے کوفہ والوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت سعد کی شکایت کی تو انہوں نے ان کو معزول کر دیا اور حضرت عمار کو ان کا عامل (حاکم) مقرر کیا.کوفہ والوں نے حضرت سعدؓ کے متعلق شکایات میں یہ بھی کہا کہ وہ نماز بھی اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو حضرت عمرؓ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا اے ابو اسحاق ! یہ (لوگ) تو کہتے ہیں کہ آپ اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھاتے.ابو اسحاق نے کہا میں تو بخدا انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھایا کرتا تھا.اس میں ذرہ بھی کم نہیں کرتا تھا.عشاء کی نماز پڑھاتا تو پہلی دور کعتیں لمبی اور پچھلی دور کعتیں ہلکی پڑھتا تھا.تب حضرت عمرؓ نے کہا ابو اسحاق ! آپ کے متعلق یہی خیال تھا.پھر حضرت عمرؓ نے ان کے ساتھ ایک آدمی یا چند آدمی کوفہ روانہ کئے تا ان کے بارے میں کوفہ والوں سے پوچھیں.انہوں نے کوئی مسجد بھی نہ چھوڑی جہاں حضرت سعد کے متعلق نہ پوچھا ہو اور لوگ (ان کی ) اچھی تعریف کرتے تھے.آخر وہ قبیلہ بنی عبس کی مسجد میں گئے.ان میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا.اسے اسامہ بن قتادہ
826 کہتے تھے اور ابو سعدہ اس کی کنیت تھی.اس نے کہا چونکہ تم نے ہمیں قسم دی ہے.اس لئے اصل بات یہ ہے کہ سعد فوج کے ساتھ نہیں جایا کرتے تھے اور نہ برابر تقسیم کرتے تھے اور نہ فیصلہ میں انصاف کرتے تھے.حضرت سعد نے کہا دیکھو اللہ کی قسم! میں تین دعائیں کرتا ہوں.اے میرے اللہ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور ریاء اور شہرت کی غرض سے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر لمبی کر اور اس کی محتاجی کو بڑھا اور اسے مصیبتوں کا تختہ مشق بنا.اس کے بعد جب کوئی اس کا حال پوچھتا تو وہ کہتا پیر فرتوت ہوں.مصیبت زدہ ہوں.حضرت سعد کی بد دعا مجھے لگ گئی.عبد الملک کہتے تھے : میں نے اس کے بعد اسے دیکھا ہے کہ حالت یہ تھی کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی بھویں اس کی دونوں آنکھوں پر آپڑی تھیں اور تعجب ہے کہ وہ راستوں میں لڑکیوں کو چھیٹر تا اور چشمک کرتا.1012- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ، فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِى اشْتَرَى العَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةٌ فِيهَا ذَهَبٌ، فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى العَقَارَ: خُذْ ذَهَبَكَ مِنِي، إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ، وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ، وَقَالَ الَّذِى لَهُ الأَرْضُ: إِنَّمَا بِعْتُكَ الأَرْضَ وَمَا فِيهَا، فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ الكُمَا وَلَدٌ ؟ قَالَ أَحَدُهُمَا: لي غُلامٌ وَقَالَ الآخَرُ: لِي جَارِيَّةٌ، قَالَ أَنكِحُوا الغُلاَمَ الجَارِيَةَ وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِهِمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقَا (صحيح البخاري كتاب احادیث الانبياء باب حديث الغار (3472) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص نے کسی شخص سے اس کی زمین خریدی.جس شخص نے وہ زمین لی تھی، اس نے اس کی زمین میں ایک گھڑ اپا یا جس میں سونا تھا.تو جس شخص نے اس زمین کو لیا تھا اس نے کہا مجھ سے اپنا سونا لے لو کیونکہ ہم نے تو تم سے صرف زمین خریدی ہے اور تم سے سونا نہیں خریدا اور وہ شخص جس کی زمین تھی کہنے لگا: میں نے تمہیں زمین اور جو کچھ اس میں تھا بچا ہے.آخر وہ دونوں ایک شخص کے پاس تصفیہ کے لیے گئے تو اس شخص نے جس کے پاس وہ جھگڑا نپٹانے کے لئے گئے تھے،
827 پوچھا: کیا تمہاری اولاد ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا ہاں ایک لڑکا اور دوسرے نے کہا میری ایک لڑکی ہے.تو اس نے کہالڑ کے کا اس لڑکی سے نکاح کر دو اور اس سونے سے ان دونوں پر خرچ کرو اور صدقہ بھی دو.عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَتِهِ، قَالَ هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ، فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِى اشْتَرَى الْعَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةٌ فِيهَا ذَهَبٌ، فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ: خُذْ ذَهَبَكَ مِنِي، إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ، وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ، فَقَالَ الَّذِي شَرَى الْأَرْضَ إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيهَا، قَالَ فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ : أَلَكُمَا وَلَدٌ ؟ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: لِي غُلَامٌ، وَقَالَ الْآخَرُ لِي جَارِيَةٌ، قَالَ أَنْكِحُوا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ، وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِكُمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقَا (مسلم کتاب الاقضیه باب استحباب اصلاح الحاكم بين الخصمين (3232) ہمام بن منبہ کہتے ہیں یہ رسول اللہ صلی نیلم کی وہ احادیث ہیں جو حضرت ابو ہریرۃ نے ہمارے پاس بیان کیں.انہوں نے کچھ احادیث بیان کیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا ایک شخص نے کسی سے اس کی کچھ زمین خریدی.اس شخص نے جس نے زمین خریدی تھی.اپنی زمین میں ایک گھڑا پا یا جس میں سونا تھا.اس شخص نے جس نے زمین خریدی تھی کہا کہ مجھ سے اپنا سونا لے لو کیونکہ میں نے تم سے صرف زمین خریدی تھی اور میں نے تم سے سونا نہیں خریدا تھا.وہ جس نے زمین بیچی تھی اس نے کہا میں نے تو تمہیں زمین اور جو کچھ اس میں ہے بیچ دیا تھافرمایا وہ دونوں فیصلہ کے لئے ایک شخص کے پاس گئے جس شخص کے پاس وہ فیصلہ کے لئے گئے اس نے کہا کیا تم دونوں کے اولاد ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا کہ میر الڑ کا ہے اور دوسرے نے کہا میری لڑکی ہے.اس نے کہا لڑکے کی شادی اس لڑکی سے کر دو اور اس سے تم دونوں اپنے آپ پر ( بھی ) خرچ کرو اور صدقہ بھی دو.
828 -1013 - جُبِلَتِ القُلُوبُ عَلَى حُب مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا وَبُغْضِ مَنْ أَسَاءَ إِلَيها الجامع الصغير فى احاديث البشير النذير (للسيوطى)، حرف الجيم (3580) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسانی دل کی سرشت اور جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ محسن سے محبت اور بر اسلوک کرنے والے سے نفرت کرے.عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبْ مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا، وَبُغْضِ مَنْ أَسَاءَ إِلَيْهَا (شعب الإيمان، الحادى والستون من شعب الايمان و هو باب في مقاربة اہل الدین و موادتهم ، باب قصة ابراهيم في المعانقة في الثالث والثلاثين.(8573 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسانی دل کی سرشت اور جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ محسن سے محبت اور بر اسلوک کرنے والے سے نفرت کرے.
829 وہ احادیث جن میں لَا نَبِيَّ بَعْدِي کے الفاظ آئے ہیں، ان کی مختصر تشریح (۱) لانبی بعدی کے یہ معنی کسی اللہ اور مستند عالم نے نہیں کئے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ اس کی تشریح میں مندرجہ ذیل آراء کا اظہار کیا گیا ہے.(٢) أَمَّا حَدِيثُ لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِ بَاطِلُ لَا أَصْلَ لَهُ نَعْمَ وَرَدَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَمَعْنَاهُ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ إِنَّه لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ بِشَرْعٍ يَنْسَخُ شَرْعَهُ - (الإشاعة في أشراط الساعة (ملا علی قاري)، نزول عيسى على نبينا ، المقام الثالث فی مدتہ و وفاتہ ، صفحہ 225) حديث لا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِح باطل ہے اور اس کی کوئی بنیاد نہیں.ہاں لا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے اور علماء کے نزدیک ، اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی ایام کے بعد کوئی نبی شریعت کے ساتھ مبعوث نہیں ہو گا جو آپ صلی علی ایم کی شریعت کو منسوخ کرے.المعلى لا تيى نبوة التشريع بَعْدِي (نبر اس شرح عقائد نسفي، باب شواہد نبوة ، حاشیه صفحة 445 (شرح حافظ عبد العزیز الفرهاری)) لانبی بعدی میں نبی سے مراد تشریعی نبی ہے.
830 لا نَبِيَّ بَعْدِى وَلَا رَسُول المراد به لا مشرع بَعْدِى.(الیواقیت والجواهر - المبحث الثالث والثلاثون ، جلد 2 صفحة 346) لا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُول کے معنی یہ ہیں کہ ایسا کوئی شخص نہیں آئے گاجو میرے بعد اپنی خاص شریعت نافذ کرے.۵) - الْمَعْنَى انهُ لَا يَأْتِ نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَ لَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ - (موضوعات الكبرى ، مرتبة على حروف الهجاء ، حرف اللام ، زیر حدیث لو عاش ابراهيم لكان نبيا، صفحة 192) معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ یکم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو آپ صلی لی یم کی ملت کو منسوخ کرے اور وہ خود آپ صلی یہ ظلم کی امت میں سے نہ ہو.(٢) فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَ لَا نَبِيَّ أَى لَا نَبِيَّ بَعْدِي يَكُونُ عَلَى شَرْعِ يُخَالِفُ شَرْعَى بَل إِذَا كَانَ يَكُونُ تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَنِي.(فتوحات مكية ، باب الثالث و السبعون في معرفة عدد ما يحصل من الاسرار...، جلد 2 صفحة 6) لَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَ لَا نَبِيَّ كے معنی یہ ہیں کہ ایسا نبی اور رسول نہیں آئے گا جو ایسی شریعت پر ہو جو میری شریعت کے مخالف ہو.(بلکہ ) جب ہو گا تو میری شریعت کے حکم کے تحت ہو گا.لا يُوجَدُ بَعْدَهُ مَنْ يَأْمُرُهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِالقَفْرِيعِ عَلَى النَّاسِ تفهيمات إلهية، تفهيم 54 ذكر سيدنا محمد ، جلد 2 ، صفحة 85) ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جس کو اللہ سبحانہ ، لوگوں پر شریعت جاری کرنے کا حکم دے.
831 ۸).چونکہ لانبی بعدی سے غلط فہمی پید اہو سکتی تھی اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بطور احتیاط تنبیہ فرمایا الله کرتی تھیں کہ تم خاتم النبیین تو کہو لیکن لا نبين بغدہ نہ کہو یعنی اس سے تمہیں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ آپ صلی نظام کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا.اسی قسم کی روایت حضرت مغیرہ ابن شعبہ سے بھی ہے.٩) - عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قُولُوا انهُ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَلَا تَقُولُوا لَا لَبِنَ بَعْدَهُ (مجمع بحار الانوار (تکمله) ، حرف الزاى باب زي ، جلد 5 صفحة (502) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ( آنحضرت صلی اللہ ﷺ کو خاتم الانبیاء تو کہو لیکن یہ نہ کہو کہ آپ صلی الی یکم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا.١٠) عَن الشعبى رضى الله عَنهُ قَالَ قَالَ رجل عِنْد الْمُغيرة بن شُعْبَة صلى الله على مُحَمَّد خاتمِ الْأَنْبِيَاء لا نبي بعده - فَقَالَ الْمُغيرَةُ : حَسبُك إذا قلت خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ فَإِنَّا كُنَّا نُحَدَّتُ أَن عِيسَى خَارجٌ فَإِن هُوَ خرج فقد كان قبله وبعده (تفسیر در منثور ، سورة الاحزاب ، آيت وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ (38 تا 41) جلد 12 صفحة 64) حضرت شعبی رضی اللہ عنہ بینا کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے پاس کہا اللہ تعالی ، محمدعلی علیم خاتم الانبیاء جن کے بعد کوئی نبی نہیں، پر درود و سلام بھیجے.اس پر مغیرہ نے کہا.تمہارے لئے صرف خاتم الانبیاء کہنا کافی تھا.کیونکہ ہم آپس میں یہ کہا کرتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے ظاہر ہونا ہے.پس اگر وہ آئے تو وہ آپ صلی للی کم سے پہلے بھی تھے اور بعد میں بھی ہوں گے.
832 (١١) سَيَكُونُ بَعدى ثَلَافُوْنَ كُلُّهُمْ يَدعَى أَنَّهُ نَبِيٌّ وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ (نبراس شرح عقائد نسفی، باب شواہد نبوة لا ، صفحة 445) عنقریب میری امت میں نہیں ( شخص ایسے ہوں گے) جن میں سے ہر شخص سمجھے گا کہ میں نبی ہوں (جبکہ ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا سوائے اس کے کہ اللہ چاہے" وَ المَعْنَى لَا نَبِيَّ نُبُوَّةَ التَّشْرِيعِ بعديُّ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ مِن أَنْبِيَاءُ الْأَوْلِيَاءَ (نبر اس شرح عقائد نسفي، باب شواہد نبوة ، حاشیه صفحة 445 (شرح حافظ عبد العزیز الفرهاری)) عنقریب میری امت میں تیس ( شخص ایسے ہوں گے) جن میں سے ہر شخص سمجھے گا کہ میں نبی ہوں (جبکہ ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا سوائے اس کے کہ اللہ چاہے یہاں نبی کے معنی تشریعی نبی کے ہیں.اور ” إِلَّا مَا شَاءَ اللہ “ کے تحت انبیاء الاولیاء آتے ہیں.۱۲).دعویٰ نبوت کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ مستقل نبی ہونے ، نئی شریعت لانے اور آنحضرت صلی للی نیم کی شریعت کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کریں گے اور آنحضرت صلی علیہ کم کی اتباع اور پیروی سے اپنے آپ کو آزاد سمجھیں گے اور آپ صلی للی کم کے تاقیامت نبی متبوع ہونے کا انکار کریں گے.۱۳).مسیلمہ کذاب نے آنحضرت صلی علیکم کے بالمقابل تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا اور شراب اور زنا کو حلال قرار دیا.فریضہ نماز کو ساقط کر دیا.قرآن مجید کے مقابلہ میں سورتیں بنائیں پس شریر اور مفسد لو گوں کا گروہ اس کے تابع ہو گیا.( صحیح الکرامہ ص 234) 1 1 اما مسیلمہ کذاب وادعای تشریک آنحضرت صلی لم در نبود کرده و تحلیل خمر و ز ناو اسقاط فریضه نماز نموده جماعه از ابل فسق و فساد مت بع او گشتند دوی سجهای نامطبوع در معارضه ر آن مجید اختراع نموده که مضحکه عقلای عالم باشد ( حج الکرامه صفحه 234)
833 ۱۴۴).حدیث نمبر 987 کا مدلول غزوہ تبوک میں حضرت علی کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت ہارون سے تشبیہ دیا جانا ہے.جبکہ حضرت موسیٰ نے طور کی جانب سفر کیا اور بعدی کے معنی اس جگہ غیری (میرے سوا کوئی نبی نہ ہونے) کے ہیں نہ بعدیت زمانی جیسا کہ آیت فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ میں کہتے ہیں کہ بعد اللہ کے معنے اللہ تعالیٰ کے سوا کے ہیں.( قرۃ العینين في تفضيل الشيخين ص 206 مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی) 1 ۱۵).مسجد نبوی کے آخری مسجد ہونے کے یہ معنے نہیں کہ آئندہ کوئی مسجد ہی نہیں بنے گی بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ مسجد آئندہ دوسری بننے والی مساجد کے لئے مکمل اور دائمی نمونہ کے طور پر ہو گی اور اسی کی اتباع میں دوسری مساجد تعمیر ہوں گی اور اس مسجد کے تابع ہوں گی.پس اسی طرح آخر الانبیاء کے معنے یہ ہیں کہ آئندہ جو بھی نبی یاولی ہو گا وہ آپ صلی علیکم کے تابع ہو گا اور آپ صلی یکم کی اتباع اور آپ صلی یہ کم ہی کے فیضان سے اسے یہ مقام حاصل ہو گا.اس کے یہ معنے نہیں کہ آئندہ کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہو گا.1 مدلول این حدیث نیست الاستخلاف مر تضی بر مدینه در غزوہ تبوک و تشبیه دادن این استخلاف باستخلاف موسی هارون را دروقت سفر خود بی طور و معنی بعدی اینجا فیری است چنانکه در آی فَمَن يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ الله گفت اندن ن بعدية زمانی زیرا که ت بارون بعد حضرت موسی باقی نمانند تا ایشانر ابعدية زمانيه ثابت بود (قرة العينين في تفضيل الشيخين ص 206 مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی)
834 وہ احادیث جن میں خاتم النبيين کے الفاظ آئے ہیں، ان کی مختصر تشریح (١) - فَيُفَسِرُونَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ بِاللَّبْنَةِ حَتَّى أَحْمِلَتِ الْبُنْيَانُ وَمَعْنَاهُ النَّبِيُّ الَّذِي حَصَلَتْ لَهُ النَّبوَةُ الْعَامِلَةِ تاریخ ابن خلدون ، المقدمه فى فضل علم التاريخ ، الفصل الثالث و الخمسون فى امر الفاطى وما يذهب اليه الناس.صفحه 396) خاتم النبیین کی تفسیر اس حدیث سے کی جاتی ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک عمارت کی تعمیر ایک اینٹ کے ذریعہ مکمل ہو گئی اس سے مراد ایسا نبی ہے جس کو کامل نبوت حاصل ہوئی ہو.۲) فلا يناقض قوله تعالى و خاتم النبيين “ اذ الْمَعْنَى انهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلْتَهُ وَ لَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ - (موضوعات الكبرى ، مرتبة على حروف الهجاء ، حرف اللام ، زیر حدیث لو عاش ابراهيم لكان نبيا، صفحة 192) خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو اس کی ملت کو منسوخ قرار دے اور وہ آپ کی امت میں سے نہ ہو.
835 ختم في النبيون اى لا يُوجَدُ بَعْدَهُ مَنْ يَأْمُرُهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِالتَّفْرِيعِ عَلَى النَّاسِ.تفهيمات إلهية، تفهیم 54 ذکر سیدنا محمد ، جلد 2 ، صفحة 85) مجھ پر نبی ختم کئے گئے، کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی شخص نہیں آئے گا جس کو اللہ سبحانہ لوگوں کے لئے شریعت دیگر بھیجے.فهؤلاء أنْبِيَاءُ لا اوْلِيَاء ، يُرِيدُ بِذَلكَ نبُوةَ القُرْبِ والاعْلَامِ والحَكَمِ الالهي لا تُبُوةَ التَشْرِيعِ لِاَنَّ نُبُوةَ التَشْرِيعِ انْقَطَعَت بمحمد صلى اللهُ عَليهِ وسلَّم الانسان الكامل فى معرفة الاواخر والاوائل عبد الكريم بن ابراهیم) ، باب 63 ولایت کا مفهوم ، صفحه (132) انبیاء الاولیاء سے ان کی مراد قرب و اعلام و حکمت ہائے الہیہ پر مشتمل نبوت ہے نہ کہ تشریعی نبوت.کیونکہ تشریعی نبوت محمد صلی علی کم پر منقطع ہو گئی ہے.(۵) - اِنَّ كَثِيراً مِّنَ الأَنْبِيَاءِ نُبُوَتُهُ نُبُوَةُ الْوَلَايَةِ كَالْخَضَرِ فِي بَعْضِ الْأَقْوَالِ وَ كَعِيسَى إِذَا نَزِّلَ إِلَى الدُّنْيَا فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ لَهُ نُبُوَةُ التَّشْرِيع الانسان الكامل فى معرفة الاواخر والاوائل عبد الکریم بن ابراهیم ) ، باب 63 ولایت کا مفهوم ، صفحہ 132) نبیوں میں سے اکثر کی نبوت، نبوت ولایت ہے.جیسے بعض اقوال کے مطابق خضر علیہ السلام ہیں یا عیسیٰ علیہ السلام جب دنیا میں نازل ہوں گے تو ان کے پاس نبوت تشریعی نہیں ہو گی.
836 (٢) وَلَا مُنَافَاةَ بَيْنَ أَن يَكُونَ نَبِيًّا وَيَكُون مُتَابِعًا لِنَبِيْنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيَانِ أَحْكَامِ شَرِيعَتِهِ، وَإِتْقَانِ طَرِيقَتِهِ، وَلَوْ بِالْوَحْيِ إِلَيْهِ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة ، كتاب المناقب و الفضائل ، باب مناقب علی بن ابی طالب الله ، زير روايت 6087 أَنْتَ مِنّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى)) ان دو باتوں میں کوئی منافات نہیں کہ (ایک پہلو سے) وہ نبی ہوں.اور دوسری طرف ہمارے نبی صلی یکلم کے الله م تابع ہوں.حضور صلی الی یکم کی شریعت کے احکام کے بیان میں اور حضور علی یم کی طریقت کی مضبوطی قائم کرنے میں خواہ ان معاملات میں ان کی طرف وحی ہی کیوں نہ ہو.- فإِنَّ النَّبُوَّةُ الَّتِي انْقَطَعَتْ بِوُجُوْدِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ نَبُوَةُ التَّشْرِيعِ لَا مُقَامُهَا فَلَا شَرْعٌ يَكُون نَاسِخاً لِشَرْعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.و هذا معنى قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرِسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ“ أَي لا نَبِيَّ بَعْدِي يَكُونُ عَلَى شَرْعٍ يُخَالِفُ شَرْعِي، بَل إِذَا كَانَ يَكُوْن تَحْتَ حُكْمِ شَرِيعَتِي (فتوحات مكية، باب الثالث والسبعون فى معرفة عدد ما يحصل من الاسرار...، جلد 2 صفحة 6) رسول اللہ صلی الل نیلم کے قول " ان الرسالة و النبوة قد انقطعت فلارسول بعدی و لانبی “ کے یہی معنی ہیں.یعنی کوئی نبی ایسی شریعت پر نہیں آئے گا جو میری شریعت کے مخالف ہو.جب بھی (کوئی نبی ) ہو گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا.
837 ٨- فَالنُّبُوَّةُ سَارِيَةٌ إلى يَوْمِ القِيَامَةِ فِي الخَلْقِ وَإِنْ كَانَ التَّشْرِيعُ قَدْ انْقَطَعَ فَالتَّشْرِيعُ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النَّبُوَّةِ - (فتوحات مكية، سوال الثالث والثمانون : ما النبوة ؟ جلد 2 صفحة 89) نبوت قیامت کے دن تک مخلوق میں جاری ہے.اگر چہ شریعت منقطع ہو چکی ہے.کیونکہ شریعت نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے.٩) - لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ وَ صَارَ نَبِيَّاً وَ كَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيَّاً لَكَانَ مِنْ اتْبَاعِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةَ وَ السَّلَام كَعِيسَى وَ الخَضَرِ وَ الْيَاسَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى " وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذَ المَعْنى : إِنَّهُ لايَاتِي نَبِي بَعْدَهُ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَ لَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ ،، (موضوعات الكبرى صفحه 192) امام ملا علی القاری نے اس حدیث کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتے اور نبی بن جاتے اور اسی طرح اگر عمر نبی بن جاتے تو وہ آنحضرت صلی ا یکم کے پیروکاروں میں سے ہوتے.جس طرح عیسی، خضر اور الیاس علیہم السلام ہیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کے قول خاتم النبیین سے متناقض نہیں ہے جبکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی ا یکم کے بعد ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ مایل نیم کی ملت کو منسوخ کرے اور آپ صلی للی نیم کی امت میں سے نہ ہو.سة (۱).انبیاء کے کامل تابعین ان کی کمال فرمانبرداری اور ان سے انتہائی محبت کی بناء پر محض خدا تعالیٰ کی عنایت اور موہبت سے اپنے متبوع انبیاء کے تمام کمالات کو جذب کر لیتے ہیں اور پورے طور پر ان کے رنگ
838 میں رنگین ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ متبوع انبیاء اور ان کے کامل تابعین میں سوائے اصل اور تبعیت اور اولیت اور آخریت کے کوئی فرق نہیں رہتا.(مکتوبات الربانیہ جلد 1 مکتوب نمبر 248 صفحہ 473)1 (۱).سو اسی طور رسول اللہ صلی اللی کم کی خاتمیت کو تصور فرمائیے یعنی آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت بالعرض اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے پر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں.(تحذیر الناس صفحه 4) ۱۲).غرض خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ دین محمدی صلی للی کم بعد ظہور منسوخ نہ ہوا.علوم نبوت اپنی انتہا کو پہنچ جائیں.کسی اور نبی کے دین یا علم کی طرف پھر بنی آدم کو یہ احتیاج باقی نہ رہے.(مناظره عجیبہ صفحہ 58 مصنفہ مولانا محمد قاسم نانوتوی ۱۳).بالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلی الی کی بھی کوئی نبی پیدا ہوا تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا.(تحذير الناس صفحه (25) 1 اعلم ان كمال اتباع الانبياء عليهم السلام يجذبون الى انفسهم من جهة كمال المتابعة و فرط المحبة بل بمحض العناية و الموهبة جميع كمالات انبيائهم المتبوعين و ينصبغون بلونهم بالكلية حتى لا يبقى فرق بين المتبوع و التابع الا بالاصالة و التبعية و الاولية و الآخرية - مكتوبات الربانیہ جلد 1 مکتوب نمبر 248 صفحه 473)
839 نوٹ:.مزید تشریح کے لئے دیکھیں فتوحات مکیہ باب نمبر 73 جلد 2 ص 100، الیواقیت والجواہر جلد 1 ص 28، نبر اس شرح عقاید نسفی ص 445، بحر المحیط جلد 2 ص 287 ۱۴).خاتم النبیین کے معصے ہیں کہ موصوف بوصف نبوت بالذات تو ہمارے رسول اللہ صلی این کم ہی ہیں اور باقی انبیاء میں اگر کمال نبوت آیا ہے تو جناب خاتمی ماب صلی للہ کم ہی کی طرف سے آیا ہے مگر بایں لحاظ کہ ہر نبی کی روح اسکی امتیوں کی ارواح کے لیے معدن اور اصل ہوتی ہے ، چنانچہ تقریری متعلق آیت النَّبِيُّ أَولَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ (( حزاب 7) میں ادنی تامل کیجئے ، تو اسپر شاہد ہے ، یوں سمجھ میں آتا ہے کہ اور انبیاء رسول اللہ صلی الی نام سے فیض لیکر امتیوں کو پہنچاتے ہیں غرض بیچ میں واسطہ ء فیض ہیں مستقل بالذات نہیں مگر یہ بات بعینہ وہی ہے جو آئینہ کی نور افشانی میں ہوتی ہے.غرض جیسے آئینہ آفتاب اور اس دھوپ میں واسطہ ہوتا ہے جو اس کے وسیلہ سے ان مواضع میں پیدا ہوتی ہے جو خود مقابل آفتاب نہیں ہوتی پر آئینہ مقابل آفتاب کے مقابل ہوتی ہیں، ایسے ہی انبیا باقی بھی مثل آئینہ کے واسطہ فیض ہیں غرض اور انبیاء میں جو کچھ ہے وہ شکل اور عکس محمدی ہے کوئی ذاتی کمال نہیں“.(تحذیر الناس صفحہ 29) ۱۵).کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز بچگی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی علیم کے ہم ہر گز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے.(ازاله اوبام، روحانی خزائن جلد 3 صفحه (170)
840 کتابیات نمبر شمار نام کتاب مصنف مكتبه سن اشاعت 1 اسد الغابه عز الدین ابن الاثیر ابی الحسن دار الكتب العلميه 1996 في معرفة الصحابه علی بن محمد بيروت 2 اشارات فریدی رکن الدین مکتبه مفید عام، 1320 (ملفوظات خواجہ غلام فرید) آگرہ هجرى 3 اعلام الموقعين ابو عبدالله محمد بن ابی بکر دار ابن الجوزیه، دمام 1427 عن رب العالمين ابن قیم) هجرى الادب المفرد ابو عبد الله محمد بن اسماعیل دار الصديق 2000 الجامع لآداب النبويه بخاری السعودي العرب 5 الاسلام والحضارة العربيه محمد کردعلی هنداوی فاؤنڈیشن 6 الإشاعة لاشراط الساعة محمد بن عبد الرسول دار المنير 1995 الحسينى دمشق 7 الانسان الكامل في معرفة الاواخر والاوائل الترغيب والترهيب عبد الكريم بن ابراهيم مکتبه مصطفى البابي الجيلي مصر عبد العظيم بن عبد القوى مكتبه المعارف، المنذري 1981 1424 رياض هجری
2007 1970 2003 2001 1991 1994 841 التفسير المظهري محمد ثناء الله العثمانی دار الكتب العلميه بيروت التفهيمات الالهيه شاہ ولی الله المطبع الحيدري دهلوی مغربی پاکستان الخصائص الكبرى جلال الدین سیوطی دار الكتب العلميه بیروت الدر المنثور جلال الدین سیوطی ترعة الزمر، قاهره في التفسير بالماثور الرحمة المهداة نواب نور الحسن خان المطبع الفاروقيه الى من يريد زيادة العلم على حديث مشكاة الرساله القشيريه ابى القاسم عبد الكريم بن هوازن دار الكتب العلميه القشيري بيروت الاستبصار فيما اختلف من ابي جعفر محمد بن الحسن الطوسی دار التعارف بیروت الاخبار السراج الوهاج صدیق بن حسن خان من كشف مطالب ادارة السؤون الاسلاميه قطر صحیح مسلم بن حجاج 10 11 12 13 14 15 16
1991 2002 1998 1993 1988 2002 2004 1995 1985 842 السنن الكبرى للنسائي ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب الكتب العلميه بن على النسائي بيروت السيرة الحلبيه نور الدین علی بن ابراهیم بن احمد دار الكتب العلميه الحلمى بيروت الفتاوى الحديثيه احمد شهاب الدین بن حجر دار المعرفة بيروت المبسوط شمس الدین السرخی دار المعرفة بيروت المراسيل (ابو داؤد) ابو داود سليمان بن الأشعث موسسه الرساله السجستاني بيروت المستدرك ابو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكمدار الكتب العلميه على الصحيحين نیساپوری بیروت المعجم الصغير في احادیث جلال الدین بن ابى بكر السيوطى دار الكتب العلميه.البشير النذير بيروت المعجم الصغير ابی القاسم سلمان بن احمد بن دار الكتب العلميه للطبراني ايوب الطبراني بيروت المعجم الاوسط ابی القاسم سلمان بن احمد بن دار الهرمين قاهره ایوب الطبراني المقاصد الحسنه في بيان محمد عبد الرحمان السخاوى دار الكتاب العربي كثير من الاحاديث بهروت المشتهرة على الالسنة 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 26
843 المكتوبات الربانيه امام ربانی احمد بن عبد الاحد دار الكتب العلميه 2004 بيروت الموطا امام مالك بن انس موسسه الكتب 2004 الثقافيه بيروت الموضوعات الكبرى ملا علی قاری قدیمی کتب خانه کراچی النجم الثاقب اهتداء لمن حسین طبرسی نوری مکتبه احمدی پینه 1313 يدعى الدين الواصب هجرى اليواقيت والجواهر فى بيان محی الدین ابن العربی دار الاحياء التراث عقائد الاكابر بيروت تاريخ مدينة دمشق علی بن حسن بن هبة الله دار الفکر بیروت 1995 (ابن عساکر) تحذير الناس محمد قاسم نانوتوی مکتبه رحیمیه 2001 دیوبند سهارنپور تفسير الكشاف ابو القاسم جار الله محمود بن عمر دار المعرفه 2005 بیروت لبنان جامع ترمذی ابو عيسى محمد بن عیسی بن دار المعرفه 2002 سورة الترمذي بیروت لبنان جواهر الاسرار على حمزة بن على قلمی نسخه 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36
1914 2007 2002 1999 2005 2000 2009 1417 هجرى 2004 844 حجج الكرامة محمد صدیق حسن خان في آثار القيامه شاه جتانی بهوپال خريدة العجائب وفريدة سراج الدین الوردي مكتبه الثقافه الغرائب الدينيه قاهره دلائل النبوة فى معرفة ابوبکر احمد بن حسين البیهقی دار الكتب العلميه احوال صاحب الشريعة بيروت روح المعانی فی تفسیر قرآن ابوالفضل شهاب الدین السید دار الاحياء التراث العظيم محمود الالوسى البغدادی بيروت رياض الصالحين من امام یحیی بن شرف النووی دار الكتاب العربي كلام المرسلين بيروت سنن ابن ماجه ابو عبد الله محمد بن یزید دار احياء التراث القزويني بيروت سنن ابی داود ابو داود سليمان بن الأشعث دار السلام، الرياض السجستاني سنن النسائى ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب مكتبه المعارف، بن على النسائي الرياض سنن دار قطنی علی بن عمر موسسه الرساله الدار قطني بیروت لبنان 37 38 39 40 41 42 43 44 45
2000 1996 2007 2000 2010 2008 2012 2013 1991 845 سنن دارمی ابي محمد عبد الله بن عبد الرحمان دار المعرفة بيروت بن فضل الدارمي شرح ابن ماجه ابو الحسن حنفی دار المعرفة بيروت للسندى (السندي) شرح نهج البلاغه ابن ابی حدید دار الكتب العربي بغداد شعب الايمان امام ابی بکر احمد بن حسين دار الكتب العلميه البيهقى بيروت شمائل النبي ابو عيسى محمد بن عیسی بن نور فاؤنڈیشن، ربوہ سورة الترمذي صحيح البخاری ابو عبد الله محمد بن اسماعیل دار الکتاب، بیروت البخاري صحیح لابن حبان محمد بن حبان بن أحمد التميمي دار ابن حزم بيروت مسلم بن الحجاج القشیری نور فاؤنڈیشن، صحیح مسلم النيسابورى ربوة طبقات الكبرى محمد بن سعد دار الكتب العلميه (ابن سعد) بیروت 46 47 48 49 50 51 52 53 54
2008 1987 2004 2006 1986 1281 هجرى 1985 1996 846 عرائس البيان في حقائق القرآن ابو محمد صدر الدین دار الكتب العلميه روز جهان بن ابی نصر بیروت عمل اليوم والليلة ابوبکر احمد بن محمد الدينوري دار البیان فتح المعين بشرح قرة احمد زین الدین بن عبد العزیز دار ابن حزم بیروت العين مهمات الدين فتوحات مکیه محی الدین ابن العربي دار الاحياء التراث بيروت قرة العينين شاه ولی الله دهلوی مكتبه سلفيه لاهور في تفضيل شيخين كشف الغبة عبد الوهاب الشعراني المطبع الكاستليه عن جميع الامة مصر كنز العمال في سنن علاؤ الدین علی المتقی بن حسام موسسه الرساله الاقوال والافعال الدين الهندي بيروت كنوز الحقائق من عبد الروؤف بن علی بن زين دار الكتاب العربي، حدیث خير الخلائق العابدين المناوي بيروت مالك بن انس عبد الحليم الجندي دار المعارف قاهره امام دار الهجرة 55 56 57 58 59 60 61 62 63
1994 2001 2009 2010 2010 2004 1978 847 مجمع بحار الانوار في غرائب محمد طاهر صدیق مکتبه دار الایمان التنزيل ولطائف الاخبار هندی مدینه (مع تكمله) مرقاة المفاتيح شيخ علي بن سلطان محمد القارى دار الكتب العلميه شرح مشكاة المصابيح بيروت مسند احمد بن حنبل امام احمد بن حنبل مکتبه رحمانیه لاهور مسند امام اعظم امام امام ابوحنیفه مكتبه البشرى ابو حنیفه) کراچی مشكاة المصابيح محمد بن عبد الله الخطيب مكتبه البشرى التبريزي کراچی مقدمه ابن خلدون عبد الرحمان بن خلدون دار الفجر التراث قاهره مناظره عجیبه محمد قاسم نانوتوی قاسم العلوم، کراچی نبراس محمد عبد العزيز الفرهاری مکتبه رشیدیه شرح العقائد کوئٹه نزهة المجالس عبد الرحمان السفوى و منتخب النفائس 64 65 66 67 68 69 70 71 72
73 74 نشر الطيب فى ذكر نهي الحبيب 848 مولانا اشرف علی تهانوی دار الاشاعت کراچی نیل الاوطار من اسرار محمد بن على الشوكاني دار ابن الجوزی قاهره منتقى الاخبار 1427 هجرى