Hadayatul Muqtasidh

Hadayatul Muqtasidh

ھدایۃ المقتصد بامحاورہ اُردو ترجمہ بدایۃ المجتھد

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

هَدَايَة المُقتصد با محاوره اردو ترجمه بداية المجتهد علامه ابن رشد ادارة المصيفين ربوه - ضلع جنگ

Page 2

هَدَايَة المُقتصد با محاوره اردو ترجمه تدانة المجتهد بَدَايَةُ علامہ ابن رشد ادارة المحصنفين ربوہ ضلع جھنگ

Page 3

۷۴ پیش لفظ علم فقہ کی تعریف فہرست مضامین 19 بیوی کی مال کی حرمت زنا سے حرمت حالات فقہاء اربعہ دیگر ائمر فقه ۲۱ رضاعی تعلق ائمہ فقہ کے اختلافات ۲۲ دودھ کی مقدار دودھ پینے والے کی عمر کی حد بندی ہے ۲۳ 1.كتاب النكاح A نکاح کی دینی اور شرعی حیثیت ۲ ۲۴ دو سالی کے اندر دودھ پلانا منگنی اور نسبیت طے کرنا ۳ نکاح سے قبل منگیتر کو دیکھتا دوسرا باب ۲۵ I ۲۶ لاوٹ والا دودھ دودھ کا حلق کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ سے پیٹ میں جاتا و صحت نکاح کے اسباب ۲۷ رضاعت کے متعلق شہادت ١٠ ۱۲ ١٣ ایجاب و قبول باپ کے علاوہ دوسرے ولی ہے کا نکاح میں پیر کرنا ۲۸ دودھ پلانے والی کے اومان ۲۹ i ٣٠ ۳۱ ۱۵ ۳۳ ۳۳ فریقین کو فسخ نکاح کا اختیار نکاح کی پہلی بنیادی شرط اولیاء کی رضامندی کے 14 ید کاری تعدد ازدواج 29 > ۸۲ ۸۴ AD دو بہنوں کا ایک عقد میں جمع کرنا ۸۶ لونڈی سے شادی ۹۲ 94 ۹۸ ۹۹ ۱۰۴ 1.0 كفر ۱۴ نکاح کی دوسری بنیادی شرط شاید ۳۹ ۳۲ حالت احرام ۱ 10 نکاح کی تیسری بنیادی شرط ہا ۳۵ حالت مرض 1 JA ताइ حق جبر نکاح کی حلت و حرمت کی صورف نسبی تعلق شهری تعلق 4L ۶۷ ۳۹ عدت میں نکاح زوجیت ۳۸ چار سے زائد بیویاں ۳۹ ایک دوسر کے بعد اسلام قبول کرنا

Page 4

تیسرا یاب ۲۰ فسخ نکاح کے موجبات 10 بیوی کو طلاق کا اختیار دنیا ۱۶۶ طلاق کے الفاظ اور شرائط کس کی طلاق جائز ہے ۴۱ حق مہر اور نفقہ کی عدم توفیق ۴۲ نان و نفقہ کی عدم ادائیگی ۴۳ مفقود الخبر کی بیوی ۴۳ آزادی کے بعد اختیار چوتھا باب ۴۵ حقوق زوجیت پانچواں باب H ۱۱۲ 119 112 ۵۸ وہ عور تیں جین پر طلاق واقع ہوتی ہے اور جین پر واقع نہیں ہوتی ہے طلاق رجعی میں رحیت کے احکام ۲۰۳ طلاق بائن کے بعد رحمن کے احکام کے عمرت ۲۰۹ ۲۱۳ مشر یعنی مطلقہ کو احسان کے طور پر کچھ پویان ۲۳۳ ۶۴ مصالحت کنندگان کا تقریر ۶۵ کتاب الاملاء ۲۳۵ ۲۴۰ ۴۶ منوع اور فاسد نکاح نکاح شغار 1332 نکاح مستخد ام نکاح حلالہ كتاب الطلاق پولا یاب کتاب انتظار ظہار کے الفاظ 47 ۱۲۷ '* ۱۲۸ 4 19 ۱۳۱ طلاق رجعی اور بائن کی حقیقت ۱۳۶ ان بیک وقت تین طلاقیں دوسرا باب ง ۷۲ ۲۵۶ ظہار کسی عورت سے ہو گیا ہے.۲۶۱ ظہار سے کسی قسم کے اعمال عام ہے میں کیا دوبارہ نکاح سے ظہار کا حکم دوبارہ لازم آتا ہے.ظہار کے بعد ایکا بھی واقع ہو جاتا ہے یا بنائیں ٢٦٥ کفارہ ظہار کے احکام ٥٢ طلاق سنت اور بدعت میں فرق ۱۴۶ ۱۲ کتاب اللعان ۵۲ تیسرا باب خلع چوتھا باب در طلاق اور شیخ نکاح میں فرق پانچواں باب ۱۵۳ 20 یحان کا وجوب KA یفان کرنے والوں کے اورات ۲۸۴ احسان کی تعریف اگر فریق اگر ایک فریق قسم کھانے سے انکار کرے ۲۸۷ ٢٩١٠ ۷۸ لعان کے بعد کے احکام خاوند کے مرنے کے بعد سوگ کرتا ۲۹۶

Page 5

بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ کتاب ہدایہ المقتصد جلد اول فقہ کی مشہور کتاب بدایۃ المجتہد کے ایک حصہ کا ترجمہ ہے.بدایۃ المجتہد علامہ ابن کث محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد کی شہرہ آفاق تصنیف ہے جب کہ نسب نامہ سے ظاہر ہے.علامہ موصوف اپنے خاندان کے بزرگ رشد کی نسبت سے ابن رشد کے نام سے مشہور ہیں.آپ کا نام محمد تنا مشہور نہیں جتنی کہ آپ کی کنیت این رشد مشہور ہے.آپ شدید مطابق ان میں بمقام قرطبہ پیدا ہوئے.اور ششده و مطابق ، اردسمبر اندوہ میں مراکش میں فوت ہوئے.آپ اندلس کے ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو پشت ہا پشت سے علوم و فنون کا مالک چلا آتا تھا.اس لئے قدرتاً آپ کی تعلیم وتربیت کا بھی خاص اہتمام کیا گیا.چنانچہ اس ملک کے عام رواج کے مطابق سب سے پہلے انہوں نے اپنے والد سے قرآن مجید اور حدیث کی کتاب موطا امام مالک کو حفظ کیا.اس کے بعد ادب عربی میں کمال حاصل کیا.ابن الآبار کا بیان ہے کہ منی اور حبیب کے دیوان ان کو پوری طرح حفظ تھے.اس زمانہ میں علم فقہ اور حدیث بھی تعلیم کا لازمی جزو خیال کئے جاتے تھے.لاوہ ازیں یہ علوم ابن رشد کے خاندانی معلم تھے.اور اس وجہ سے ان کے باپ اور دادا قرطبہ کے قاضی اور جامع مسجد کے امام تھے.چنانچہ انہوں نے بھی اپنے قیت کے بلند پایہ محد ثین مثلاً حافظ ابو القاسم بن بشكوال ابو ترين سمون - ابوجعفر بن

Page 6

عبد العزیز اور ابوعبد الله ماذری سے علم حدیث کی تحصیل اور ابو محمد بن رزق سے فقہ میں کمال حاصل کیا.اس وقت ملک میں فلسفہ کی تعلیم کا رواج عام تھا.اس لیئے این رشد کو بھی خاندانی علوم فقہ اور حدیث کی تحصیل کے بعد طب وفلسفہ سیکھنے کا شوق پر ہوا سب سے پہلے مشہور فلسفی ابن باجہ سے فلسفہ پڑھنا شروع کیا.اور اس کی وفات کے بعد ابوبکرین جزیوں اور ابو جعفر بن ہارون الرقالی کے درس سے طب و فلسفہ کی تکمیل کی تفقہ و حدیث میں آپ کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ این آلای ر کھتے ہیں کہ ان علوم نہیں اس وقت ملک میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا.اسی طرح طلب و فلسفہ میں بھی ان کی ہمسری کا کوئی شخص دھوئے نہ کر سکتا تھا.کیونکہ ابن باجہ او را بو جعفر الرجالی جیسے ائمہ فن ان کے استاد تھے.اور ابن الطفیل جیسا لیگانہ روزگار ان کا مربی تحصیل علم کے بعد اب عمل کا وقت آیا.رفتہ رفتہ ابن رشد نے عملی میدان میں بھی اپنی قاعیت کے جو ہر دکھانے شروع کئے.اور ان کی علمی شہرت کا چرچہ ملک کے گوشہ گوشہ میں ہونے لگا.این رشد کو اپنے ایک ہم سبق سامتی ابن الطفیل جسے دربار میں رسائی حاصل تھی کی مدد سے یوسف بن عبد المومن کے دربار میں پذیرائی حاصل ہوئی.چنانچہ شام میں اس کو اشبیلیہ کا قاضی مقرر کیا گیا.شاہ ہو تا شیعہ تک ابن رشد نے طب فلسفہ اور علم کلام میں متعدد کتب تصنیف کیں.بالآخر شعر میں ابن طفیل کی وفات کے بعد انہیں یوسف بن عبد المومن نے مراکش بلالیا.اور اسے دربار کا طبیب خاص مقرر کیا.پھر اسی سال محمد بن مغیث قاضی قرطبہ کی وفات کے بعد ا سے

Page 7

قاضی القضاۃ مقرر کر دیا گیا.ابن رشد نے قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز ہوتے کے بعد فقہ کا رخ ہی بدل دیا.وہ تمام اہم امور میں اجتہاد سے کام لیتے.اور جدید ملکی تقاضوں کے پیش نظر فروعی مسائل میں خود اپنے اجتہاد سے فیصلے کرتے ابن رشد کے اس اجتہاد نے مالک گیر شہرت حاصل کی چنانچہ اسی اثر کے تحت یوسف بن عبد المومن کی وفات کے بعد جب اس کا بیٹا یعقوب منصور تخت نشین ہوا.تو اس نے اپنے زمانہ کے فقہاء کو حکم دیا کہ کسی امام یا مجتہد کی تقلید نہ کریں بلکہ خود اپنے اجتہاد سے فیصلہ کریں بچنا نچہ تمام عدالتوں میں فروع فقہ کی پابندی اٹھا دی گئی.اور جو فیصلہ کیا جاتا.قرآن مجید حادیث.اجماع اور قیاس کی مدد سے ائمہ فقہ کی آمار دوشنی میں کیا جاتا اور کسی خاص امام کی تقلید کو ضروری نہ سمجھا جاتا چنانچہ علامہ ابن خلکان اس زمانہ کے حالات قلمبند کرتے ہوئے لکھتے ہیں.یہ ہمارے زمانہ میں مغرب سے جو علماء آئے.مثلاً ابو الخطاب بن دحیہ ابو عمر بن دحیہ اور محی الدین ابن عربی وغیرہ سب کا یہی طریقہ تھا یعنی وہ وہ کسی خاص امام کی تقلید نہیں کرتے تھے " یعقوب منصور کے عہد میں ابن رسٹ کی شہرت بام عروج کو پہنچ چکی تھی میندی بالا مناصب کے علاوہ خلیفہ نے اسے اپنا مشیر خاص مقرار کر لیا چنانچہ وہ اکثر فرصت کے اوقات میں اس سے علمی مسائل پر بحث کیا کرتا تھا.اور اس کی رائے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتا تھا.فقہ واصول فقہ میں ابن رشد نے اللہ کتابیں تصنیف کیں، ان میں سے بدایۃ المجتہد کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی.یہ کتاب اپنی خصوصیات کے لحاظ سے به این خانکان چیا و ۲ ست ۴۳۴

Page 8

1 نمایاں حیثیت رکھتی ہے.اور اس لحاظ سے اسے دیگر تمام فی کتب میں ممتاز مقام اسے حاصل ہے.چنانچہ اس کتاب کی مشہور خصوصیات درج ذیل ہیں :- (1) اس کتاب کے مضامین کی ترتیب دیگر کتب فقہ کی ترتیب سے بالکل مختلف ہے.مثلاً عبادات کے بعد کتاب الجھاد کو کتاب الایمان اور معاملات سے مقدم کیا گیا ہے.کیونکہ ابن رشد کے نزدیک جہاد کا مرتبہ عبادات کے بعد سب سے مقدم ہے.اسی طرح کتاب الاشریہ اور کتاب الضحایا کو معاملات سے بالکل الگ کر دیا ہے، کیونکہ اسلام میں ان چیزوں کی حیثیت محض تعبدی اور ثانوی ہے.(۳) اس کتاب کی سب سے بڑی اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے اجتہاد کی قوت و استعداد میں اضافہ ہوتا ہے.ابن رش سے قبل فقہاء کا کام صر یہ تھاکہ وہ اپنے امام کی رائے کی متعصبانہ تائید کریں چنانچہ اپنے امام کے قول کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے رطب و یابس دلائل فراہم کئے جاتے میں کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہر فریق اپنے اپنے امام کے مسلک کے ساتھ چھٹتا رہا.چنانچہ ان کے ذہنوں میں ایسا جلا پیدا نہ ہو سکا کہ وہ خالی الذہن ہو کر یہ فیصلہ کر سکیں کہ حق کس کے ساتھ ہے اور باطل پر کون ہے.لیکن ابن رشد نے یہ کتاب لکھ کر علم کی اپنی بڑی خدمت کی ہے.کہ انہوں نے ذہنوں کے دھارے کو بالکل بدل کر رکھ دیا.اور کورانہ تقلید کے انداز کو تہ و بالا کر دیا.اور اذہان میں نئے انداز پر سوچنے کی اہمیت پیدا کر دی.چنانچہ خود ابن رشد اسی کتاب کے لکھنے کی غرض وغایت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :- اس کتاب کی غرض تو یہ ہے کہ اگر انسان لذت اور اصول فقہ سے بقدر ضرورت واقف ہو.تو اس کتاب کے ذریعہ سے اس میں اجتہاد کی قوت پیدا ہو جائے.اور اسی سبب سے میں نے اس کتاب کا نام بدایۃ المجتہد رکھا.

Page 9

ملے کیونکہ اس کے بغور مطالعہ سے اجتہاد کی استعداد پیدا ہو سکتی ہے.طلع (س) با حموم فقہ کی کتب میں فروعی مسائل جمع کر دیئے جاتے ہیں.ان کے پڑھتے والا یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ کسی فرعی مسئلہ کو کس اصول کے ما تحت مستنبط کیا گیا ہے اور کیا بیان کردہ مسئلہ کا کوئی مخالف پہلو بھی ہے یا نہیں اگر ہے تو اسے بیان کرنے والا کس اصول سے اخذ کرتا ہے.ابن رشد نے اپنی کتاب میں اس مقلدانہ طرز کو ترک کر کے نیا اسلوب بیان اختیا ر کیا ہے.انہوں نے مسلہ کے مخالف اور موافق پہلو کو بیان کر کے ہر ایک مذہب کے تائیدی دلائل بیان کر دیتے ہیں.اور ساتھ ساتھ ترجیحی مذہب کی نشان دہی کر دی ہے.اور اگر ان کو بیان کردہ مسائل میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اتفاق نہ ہو.تو انہوں نے اس مسئلہ میں اپنا نیا اجتہاد پیش کر کے اختلاف بیان کو دلائل سے واضح کیا ہے چنانچہ کتاب کی اس خصوصیت کو ابن رشد ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:.نہ اس کتاب میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم شریعت کے متفق علیہ اور مختلف فیہ مسائل بیان کر دیں.کیونکہ ان دونوں قسم کے مسائل کی واقفیت کے بعدی مجتہد اس اصول کو معلوم کر سکتا ہے جس کے پیش نظر وہ اس اختلاف کو رفع کریتی ہے.اگر ان مسائل کی واقفیت کے ساتھ ساتھ فقہاء کے اختلافات کے مکل و اسباب بھی ذہن نشین ہو جائیں.تو انسان ہر جدید حادثہ کے متعلق شرعی فتوے دینے کے قابل ہوسکتا ہے ہے اللہ تعالے کا یہ ارشاد ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے سوا کسی کی بات بلادل نة بداية المجتهد و ٣٣٣ که بداية المجتهد ۲۳۲۵

Page 10

میں تسلیم نہ کی جائے.خود ائمہ اربعہ نے بھی اپنے پیروؤں کو یہ ہدایت کی ہے.کہ وہ کتاب و سنت کے مقابلہ میں ہماری رائے کو قابل قبول نہ سمجھیں.لیکن اس وقت عام مسلمانوں کے ذہن پر تقلید کا بھوت اس شدت سے سوار ہو چکا تھا کہ وہ اپنے ائمہ کی ان ہدایات کو بھول چکے تھے.اور بلا دلیل و محبت فرعی مسائل اپنی کتابوں میں نقل کرنے لگے تھے.اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اللہ تعالے کی بعید سے ڈرانے لگے تھے ، ابن رشد کی وسعت نظر آپ سے معلوم ہوتی ہے کہ معروف اور غیر معروف ہر قسم کے الحمد کے مذاہب اس کتاب میں موجود ہیں.امام مالک کے اصحاب میں سے ابن القاسم - اشہب سخنون - ابن الملا جنون علاوہ ازیں امام اونیفه ن کے صحا بنام شانس اور اے صحات بیج این نعمتی عطاربن بیماری ابو ثوره امام ثوری اور سفیان بن مینی اورامی - امام احمدبن جنین - امام داود ظاہری.فقیہ ابوالی ابن ابی لیلی.ابن جریر عرض تابعی اور غیر تابعی ہر قسم کے اللہ کے اقوال اس کتاب میں نقل کر دیتے ہیں.اور پھر پیر ایک کے دلائل بھی واضح طور پر بیان کئے ہیں.اگر کسی مسئلہ میں صحابہ نے اختلاف کیا.پر ہے.تو اختلاف مع وجہ بیان کیا ہے.یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے امام مبین کی کتاب مقبول عام ہوئی.اور ان کا درجہ اجتہاد مخالف و موافق نے تسلیم کیا یہی وہ خصوصیات ہیں.جنہوں نے ہمیں اس کتاب کا ترجمہ شائع کرنے پر مجبور کیا ہے.اللہ تعالے سے دعا ہے کہ جس طرح اس نے اصل کتاب کو مقبولیت بخشی ہے.اسی طرح وہ اس کے ترجمہ کو بھی شرف قبولیت بخشے.اور اس کے پڑھنے والوں کی صحیح راہ نمائی فرمائے آمین امام ابن رشد نے مختلف علوم ثالاً فلسفہ طلب علم کلام - فقہ اصول فقہ.علیم نخور اور عظیم بیت پر بہت سی کتب تصنیف کی ہیں.اور ان میں سے اس وقت جو مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں.ان کی تعداد ۷ ہے تعقیب نے ہر زمانہ میں نادر روزگار ہستیوں کو نشانہ ظلم و ستم بنایا ہے.اس سے علامہ ابن رٹ بھی مستلنے نہ رہے اوریہ العصر بند رشد A

Page 11

اور عالم ہے بدل کے ساتھ بالآخر نہائیت بے رحمانہ سلوک کیا گیا.آپ شاہی رقابت کا شکار ہوئے.حاسدین نے آپ پر بے دینی اور الحاد کے فتوے لگائے.آپ کے فلسفہ کی کتب کو تلف کرنے کا حکم دیا گیا.اور ایک گمنام جگہ نو مینیا میں آپ کو جلا وطن کیا گیا.آپ نے یہ عرصہ نہایت بے بسی کے عالم میں گزارا.بالآخر تحقیقات سے خلیفہ منصور پر یہ عیاں ہوا که در حقیقت این رشا کے خلاف شورش کے پردہ میں حاسدوں کی ذاتی اغراض منفی تھیں چنانچہ خلیفہ نے ان کی لڑائی کے احکام صادر کئے لیکن وہ رہائی کے ایک سال بعد ہی مراکش میں بیمار ہوئے اور ششصہ میں وفات پا گئے.ہی ابن رشد کے کئی بیٹے تھے جن میں سے دو نے خاص شہرت حاصل کی.بڑے کا نام احمد تھا اس نے فقہ و حدیث کی تحصیل کی.اور آخر میں قضا کی خدمت ان کے سپرد ہوئی.دوسرے بیٹے کا نام محمد تھا.اس نے علم طلب کی تحصیل کی.اور بہت مشہور ہوا اور خلیفہ ناصر کے دربار میں طبیب خاص کے عہدہ پر مامور کیا گیا.امام ابن رشد کے ذاتی حالات اور ان کی تصنیف بدایۃ المجتہد کے خصائص لکھنے کے بعد علم فقہ کے متعلق مختصر تعارف کرانا مناسب ہے.تاکہ قارئین کو یہ معلوم ہے کہ علم فقہ کیا ہے.اور اس علم کے فوائد اور غرض و غایت کیا ہیں.اور اس کی تکمیل کے لئے کن لوگوں نے علمی خدمات سر انجام دیں ہیں.علم فقہ کی تعریف نقہ کے لغوی معنی سمجھ آئے ہیں.قرآن مجید میں بھی نفقہ کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہیں.ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وطيعَ عَلى قُلُوهِمْ فَهُمْ لا يفقهون فقہ کی اصطلاحی تعریف بالعموم یہ کی گئی ہے کہ فقہ ان احکام شرعیہ کا نام ہے جن کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ہے.اور جو تفصیلی دلائل سے ماخوذ ہیں.اس تعریفیت میں

Page 12

احکام سے مراد وہ عملی سال میں جو انسان کو روزمرہ کی زندگی میں پیش آتے رہتے ہیں.خواہ وہ مسائل عبادات سے متعلق ہوں مثلاً نماز حج روزہ غیرہ کے مسائل خواہ معاملات سے متعلق ہوں.مثلاً خرید و فروخت ٹھیکہ ہبہ ہنڈی شرکت وغیرہ کے مسائل، تفصیلی دلائل سے مراد وہ اصول اور شرعی نہ لائل ہیں.جو ان حملی مسائل کے جواز کی سند پیش کرتے ہیں.شلا کسی مسئلہ کو قرآنی آیت کے ذریعہ صحیح اور جائز ثابت کیا جاتا ہے.تو کسی کو نسبت نبوی کے ذریعہ اور کسی کو اجتماع وقیاس کے ذریعہ ثابت کیا جاتا منہ ہے.اور کسی کے لئے عوام الناس کے حالات اور ضردریا اور ان کی مجبوریوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے غرض روزمر کی زندگی کے مسائل شرعی سند کے ساتھ میں کرتے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی تلقین کرنے والے علم کا نام علم فقہ ہے.علیم فقہ کا اطلاق چونکہ دینی اور دنیا ہی دونوں قسم کے مسائل پر ہوتا ہے.اس لئے اس علم کو دو بڑی قسموں میں منقسم کیا گیا ہے دن دینی امور یعنی عبادات وغیرہ (۲) دنیاوی امور دینی امورمیں نماز - زکواۃ، روزہ اور حج کے احکام کی تفصیل بیان کی جاتی ہے.دنیاوی امور کو پھر تین اقسام میں منقسم کیا گیا ہے.میں (۱) عقوبات یعنی حدود و تعزیرات.اس میں قتل چوری - زنا کاری - شرا خوردی اور کسی پر جھوٹی تہمت لگانے کے متعلق تفصیلی بحث کی جاتی ہے.مثلا ان جرائم کی نوعیت کیا ہے، اور ان کی سزائیں کیا ہیں، اور ان پر کس قسم کے احکام مرتب ہوتے ہیں جیسے قصاص خون بہا تحریری سزائیں وغیرہ.یہ در اصل حفاظتی احکام ہیں اور بعضی لحاظ سے جہاد بالسیف اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تعلق بھی اسی قسم سے ہے :

Page 13

(ع) مشالحات اس میں نکاح و طلاق خلع، مدت ایلاء ظہار وغیرہ احکام کی تفصیل بیان کی جاتی ہے.اس وقت ہماری زیر نظر کتاب کا موضوع اسی قسم کے مسائل ہیں.اور بعض لحاظ سے یہ مسائل حقوق اللہ سے بھی متعلق ہیں.اس وجہ سے عبادات سے ان کا قریبی تعلق ہے.(۳) معاملات.اس میں مالیات اور اس کے متعلقہ حقوق سے بحث کی جاتی ہے.مثلاً بیع و شراء - اجارہ (ٹھیکہ) ہیں.عاریت - امانت ضمانت حوالہ دہنڈی شرکت کمپنی لاء مصالحت شفعه و غیره.مجلد الاحکام العدلیہ جو کہ پہلی جنگ عظیم تک حکومت عثمانیہ (ترکی) کی سرکاری قانون کی کتاب سمجھی جاتی تھی.اس کی دفعہ اول میں احکام فقہ کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے :- م مسائل فقہ یا تو آخرت کے متعلق ہیں.جو عبادات کہلاتے ہیں یا دنیاوی امور کے متعلق ہیں.جن کی قسمیں یہ ہیں.مناکحات معاملات اور عقوبات کیو نکہ اللہ تعالے نے اس عالم آب و گل کو ایک معین مدت کے لئے پیدا کیا ہے.اور تنظیم عالم کی بقا بنی نوع انسان کی بقار سے وابستہ ہے اور نوع انسانی کی بقاء بیاہ شادی.اولاد اور افزائش نسل پر موقوف ہے اپر مقصد یہ ہے کہ افراد انسانی کہیں مٹ نہ جائیں، اس کے ساتھ ہی انسان اپنی بقاء کے لئے غذا - لباس اور جائے رہائش کا بھی محتاج ہے.ایران کی تحصیل کے لئے افراد کے باہمی تعاون اور اشتراک عمل کی ضرورت ہے.اس لئے معاشرہ میں قرار واقعی عدل و انضباط قائم رکھنے کے لئے ایسے قوانین کی ضرورت ہے.جو زندگی کے بقاء کے ساتھ ساتھ اس کو خوشگوار بنانے کا ١١

Page 14

موجب نہیں.ان میں سے وہ قوانین جو تعلقات زمان پشو کو استوار رکھنے کے لئے ہیں.وہ علم فقہ میں مناکحات کے نام سے موسوم ہیں.اور جومعاشرتی اور اقتصادی قوانین تعاون باہمی اور اشتراک عمل کے لئے مقرر ہیں.وہ اصطلاح فقہ میں معاملات کہلاتے ہیں.اور تمدن و معاشرت کو بر قرار رکھنے کے لئے جن تعزیری قوانین کی ضرورت ہے.وہ اصطلاح فقہ میں عقوبات کہلاتے ہیں نے حالات فقها اربعہ علیم فقہ کی تعریف بیان کرنے کے بعد اب ان فقہاء کے مختصر حالات قلمبند کئے جانے ہیں جنہوں نے فقہ کے جملہ اصول و فروع کو کھول کھول کر بیان کیا.اور میدان اجتہاد میں اپنے لئے الگ الگ مسلک اختیار کیا.اور جن کے اس مسلک کو قبول عالم اور دوام نصیب ہوا.امام ابوحنیفہ آپ کا نام نعمان اور کنیت ابوخلیفہ ہے.آپ فارسی الاصل تھے نشہ میں شہر کوفہ میں پیدا ہوئے اور سنٹر میں وفات پائی.آپ نے فقہ اپنے استاد تمارین ابی سلیمان سے پڑھی تجر علمی حاصل کرنے کے بعد آپ نے احکام شرعیہ کو ملی زندگی میں جاری کرنے اور مسائل جدیدہ کو قیاس اور رہئے سے سلجھانے کا قصد کیا.اسی لئے آپ کے مذہب کا نام مذہب اہل الرائے مشہور ہیں گیا ہے A له فعله الاحكام العدلية تعد أول بحوالہ ترجمه فاسة التشريع الاسلامي ۱۳۰ ١٢

Page 15

آپ فرمایا کرتے تھے.میری یہ رائے ہے اور بہی میرے نزدیک سب سے بہتر ہے.جو شخص اس کے سوا کسی اور رائے کو بہتر سمجھے تو اس کے لئے اس کی رائے اور ہمارے لئے ہماری رائے سے نیز فرماتے تھے:.جب کوئی مسئلہ نہ کتاب اللہ میں ہے نہ سنت رسول میں تو میں اقوال صحابہ پر غور کرتا ہوں.اور اقوال صحابہ کے سامنے کسی کے قول کو قابل اقلنا نہیں سمجھتا.ابراہیم شعبی - ابن سیرین عطا اور سعید بن جبیر نے بھی اپنے رہنے میں اجتہاد کیا پس جس طرح ان حضرات نے اجتہاد کیا.میں بھی کرتا ہوں کہ قبولیت عامہ اور تبحر علمی کی وجہ سے آپ کا لقب امام اعظم ، مشہور ہوگی.آپ کے متعلق امام شافعی نے فرمایا : جو علم سیکھنا چاہے وہ ابو حنیفہ رح کا محتاج ہے" تیز امام ابو یوسف نے فرمایا.جب کسی مسئلہ میں ہمارا باہمی اختلاف ہوتا تھا، تو ہم اسے امام ابو حنیفہ کے سامنے پیش کرتے.آپ اتنی جلدی جواب دیتے جیسے اسے اپنی آستین سے نکالا ہو سکے عہدہ قضا سے انکار جب خلیفہ منصور اور ابراہیم کے درمیان خانہ جنگی ہوئی تو اس وقت امام ما ب المثل والنحل صفحه ٣٩ ابن عبد البر کی کتاب انتقاد مطبوعه مصر ص ۱۴۳ كتاب الانتقاء صفحه ۱۳۶ و صفحه ۱۳۸ ۱۳

Page 16

.کی ہمدردیاں ابراہیم کے ساتھ تھیں.کیونکہ وہ بہت بڑے عالم تھے اور علماء و فقہاء کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.اتفاق سے ابراہیم کو شکست ہوئی.اور انہوں نے مصری کم نہائت دلیری کے ساتھ لڑ کر جان دے دی.اس مہم سے فارغ ہو کر خلیفہ متصور نے امام ابو حنیفہ کو طلب کیا جب آپ دربار میں پیشین ہوئے تو منصور نے دریافت کیا کہ آپنے کس سے علم کی تحصیل کی.آپ نے اپنے استادوں کے نام بتائے.جن کا سلسلہ شاگردی بڑے بڑے صحابہ تک پہنچتا تھا.منصور نے آپ کے لئے قضاء کا عہدہ تجویز کیا لیکن امام صاحب نے کسی سرکاری عہدہ کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس کی قابلیت نہیں رکھتا.منصور نے غصہ میں آکر کہا کہ تم جھوٹے ہوں.اس پر امام صاحب نے جواب دیا اگر میں چھوٹا ہوں.تو پھر اس میں کیا شک ہے.کہ میں عہدہ قضا کے قابل نہیں.کیونکہ جھوٹا شخص قاضی مقرر نہیں ہوسکتا.اس کے علاوہ آپ نے اس کے لئے یہ وجوہات بھی پیش کیں کہ میں کی نسل نہیں ہوں، اس لئے اہل عرب کو میری حکومت ناگوار گزرے گی.نیز مجھے درباریوں کی تعظیم کرنی پڑے گی.اور یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا.اس کے ساتھ ہی حالات ایسے ہیں کہ شخصی حکومت میں پوری آزادی سے فرائض منصبی کو اور انہیں کیا جاسکتا.اس پر بھی منصور نہ مانا اور قسم کھائی کہ نہیں یہ عہدہ ضرور قبول کرنا پڑے گا.امام صاحب نے بھی قسم کھائی کہ میں ہرگز قبول نہیں کروں گا.چنانچہ آپ کہ قید کر دیا گیا.اور بالآخر قید خانہ میں ہی آپ کو زہر دیگر مروا دیا گیا.آپ کے شاگرد آپ کے شاگردوں میں سے سب سے زیادہ مشہو ر چار ہیں.(۱) ابو یوسف (۲) ز فرین بدیل بن قیس (۳ محمد بن حسن (ام حسن بن زیاد - انہی چانوردی وام کے ذریعہ حنفی مذہب دنیا میں پھیلا.۱۴

Page 17

امام ابو یوسف بغداد میں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر مامور ہوئے.اور امام محمد نے امام صاحب کے مذہب کی تدوین او را شاعت میں وقت گزارا جن کتب کی تاروین امام محمد نے کی.ان کی دو قسمیں میں پہلی قسم وہ ہے جن کو ثقہ راویوں نے امام محمد سے مدایت کیا ہے.اور یہ کتب ظاہر الروانیہ یا مسائل اصول کے نام سے مشہور ہیں.121 اوری چھے ہیں (1) المبسوط (۲) المجامع الکبیر (۳) الجامع الصغير (م) کتاب السير الكبير.(۵) اب السير الصغير (1) زیادات حنفی مذہب کی اشاعت مذہب حنفی کی اشاعت دیگر تمام مذاہب کی نسبت سب سے زیادہ ہوئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ خلفائے عباسیہ نے محکمہ عدل وقضا کے لئے یہی مذہب منتخب کیا تھا.اور اہل عراق اس مذہب کے متقلد تھے.اس کے علاوہ سلطنت عثمانیہ کا سرکاری مذہب بھی یہی تھا.اسی طرح یہ مذہب مصر سوڈان - لبنان - ترکی شام، البانیہ افغانستان بر صغیر ہند و پاکستان میں پھیل گیا.امام مالک آپ کا نام مالک تھا کنیت عبداللہ اور لقب امام دارالہجرت سلسلہ نسب یوں ہے.مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر بن عمر بن حارث - آپ خالص عربی ندان سے تھے.یہ خاندان جاہلیت اور اسلام دونوں میں معتز ز سمجھا جاتا تھا.آپ مدینہ میں سو میں پیدا ہوئے.مدینہ النبی میں رہے اور وہیں وفات پائی.آپ مدینہ کے عالم - امام رفقیہہ اور محدث تھے.یہاں تک کہ آپ کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ مدینہ میں امام مالک کے موجود ہوتے ہوئے اور کون فتوے دے سکتا ہے.آپ امام شافعی کے استاد تھے.امام شافعی نے آپ کے متعلق فرمایا.۱۵

Page 18

تابعین کے بعد امام مالک لوگوں کے لئے سب سے بڑی محبت میں اہم مالک میرے استاد ہیں.جب کوئی حدیث مالک کی روایت سے تم کو پہنچے تو اسے مضبوطی سے پکڑو.کیونکہ وہ علم حدیث کا ایک درخشان ستارہ میں اسی امام مالکان نے رمیہ بن عبدالرحمن سے علم فقہ پڑھا اور متحدہ علمائے حدیث مثلاً نافع می لئے ابن عمر زہری البو الزناہی اور بیٹے ابن سعید انصاری سے علم حدیث کی تحصیل کی.☑ آپ نے علم حدیث میں کتاب مولی تصنیف کی.اور اس میں فقہ کی طرد پر ایوی ایس کو ترتیب دیا موٹی کے متعلق امام شافعی فرماتے ہیں.کہ کتاب اللہ کے بعد امام مالک کی کتاب سے زیادہ صحیح کوئی دوسری کتاب روئے زمین پر موجود نہیں ہے.لہ امام مالک مسائل کے استخراج کے لئے صرف قرآن مجید اور حدیث پر اعتماد لکھتے تھے.اور یس حدیث کی سند وہ صحیح سمجھتے تھے.اس سے استدلال کرتے تھے خواہ ؟ ایسی روایت کیوں نہ ہو.جسے صرف ایک راوی نے روایت کیا ہو.آپ اہل مدینہ کے تعامل اور اقوال صحابہ کو قابل سند قرار دیتے تھے.اور نص کی عدم موجودگی میں اپنے اجتہاد سے با مصلحت عامہ کے تقاضا کے مطابق فتوے دیتے تھے.آپ کے شاگرد امام ابو حنیفہ کے خاص شاگر د امام محمد بن حسن، امام مالک کے بھی شاگرد تھے.اسی طرح امام شافعی " بھی ان کے شاگرد تھے.ان کے علاوہ حسب ذیل فقہا ان کے شاگرد اور مقلد تھے بھی الیتی اندلسی انہوں نے آپ سے موطا کی روایت کی ہے.عبد السلام نوشی عرف ستون بعبد الرحمن بن قاسم عبد الله بن ہب - شهاب بن عبد العونين ن كتاب الانتقاا - سه تنوير الحوامك علا 14

Page 19

عبداللہ بن عبد الحکم- امام صاحب کے ان شاگردوں کا ذکر جابجا ابن رشد کی کتاب بدایۃ المجتہد میں آتا ہے.اس وقت امام مالک کے تعلدین کا سرمایہ علی مونہ ایری جسے آپ کے شاگر بہنوں نے مرتب کیا ہے.امام مالک اپنی رائے کے اظہار میں کسی کے جاہ و جلال یا کسی کی تہدید و ترہیب سے ہرگز نہ ڈرتے تھے.اور اپنے ایمان و عقیدہ کی خاطر مصائب زمانہ کو بری صبر و استقلال سے برداشت کرتے تھے.یہ عباسی خلیفہ منصور کا زمانہ تھا.لوگ اس وقت خلیفہ سے باطن ہو چکے تھے.اور محض فتنہ و فساد کے خوف سے یا لالچ میں آکر بہیت کرتے تھے.اور بعد میں بغاوت پر آمادہ ہو جاتے تھے.اس صورت حال کے تدارک کے لئے تعلیفہ نے بویت میں یہ الفاظ ڑھا رہے کہ اگر میں دل سے بیعت نہ کروں تو میری بیوی کو طلاق.امام مالک نے اس پر یہ فتوے دیا.کہ یہ تو جبری طلاق کی ایک قسم ہے.اور جبری طلاق واقع نہیں ہوتی.امام مالک کو مجبور کیا گیا.کہ وہ اس فتوے کو واپس لے لیں.لیکن آپ نے اس فتوے کو واپس لینے سے انکار کر دیا چنانچہ آپ کو اس کی پاداش میں کوڑوں کی سنڈ دی گئی.جو آپ نے نہائت صبر و استقلال سے برداشت کی ہے علم طور پر جب آپ کو کسی جزئی مسئلہ کے متعلق علم نہ ہوتا.تو اس کے متعلق دریافت کرنے والے کو آپ صاف کہ دیتے کہ لا ادري " میں نہیں جانتا.امام اب کے شاگرد ابن ہب کہتے ہیں کہ اگر میں امام کی کردا ادری بجھتا تو شائد کتنی تختیاں بھر جاتیں.مان کی مذہب کا منبع مدینہ ہے یہ پورے حجاز میں پھیل گیا.لیکن بعد میں صرف مغربی فہرست این تقدیم مطبوعہ مصر منه 16

Page 20

اور اندلس میں محدود ہو کر رہ گیا.ابن خلدون نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے.ان ملکوں کے فقہاء کا منتہائے سفر حجاز رہا.اور وہ اس سے آگے نہ بڑھے.اس زمانہ میں چونکہ مدینہ ہی علمی مرکز تھا.اور عراق ان کے راستہ میں نہیں پڑتا تھا.علاوہ ازیں خلافت بغداد سے ان علاقہ کی حکومتوں کو سیاسی رقابت تھی.اس وجہ سے کبھی ان علاقوں کے رہنے والوں کا نرخ ادھرہ " ہوتا.اس لئے انہیں جو کچھ سیکھنا تھا وہ علمائے مدینہ سے ہی سیکھا، دوسرے یہ کہ مغرب اقصٰی اور اندلس کے باشندے بدوی معاشرت کے دلدادہ تھے اور اہل عراق کے تمدن سے سروکار نہیں رکھتے تھے.لہذا معاشرہ کی یکسانی کے سبب ان کا میلان طبع اہل حجاز کی طرف زیادہ تھا اس مذہب کا زیادہ تر سورج مغرب اقصى الجزائر- تونس - طرابلس بالائی مصر سوڈان، بحرین اور کویت میں رہا ہے.اما هر شافعی آپ کا نام محمد رکنیت عدات القب ناصر الحدیث وہ اپنے جد اعلیٰ شائع کی نسبت سے شافعی کہلاتے ہیں سلسلہ نسب اس طرح چلتا ہے.محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد بن با شمر بن عبد المطلب.آپ بمقام عرہ رجب نشر ھو میں پیدا ہوئے اور رجب سندھ میں مصر میں فوت ہوئے.اپنے بچپن میں ہی ایک عجیب خواب دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں.انہوں نے دریافت کیا کہ اسے لڑکے تو کس خاندان سے ہے.اه مقدمه ابن خلدون ۳۹۳۳ IA.

Page 21

انہوں نے عرض کیا حضور کے خاندان سے.فرمایا میرے قریب آجاؤ جب وہ قریب گئے.تو حضور نے اپنا لعاب دہن.ان کی زبان ہونٹوں اور منہ میں ڈالا.اور فرمایا جا بعد التجھ پر برکت نازل فرمائے.اس عمر میں ایک اور خواب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھا رہے ہیں جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو تعلیم دیتے رہے.امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں بھی آپ کے قریب پہنچا.اور آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے بھی کچھ سکھائیے.آپ نے اپنی آستین سے ایک میزان دترازی نکال کر عطا فرمائی.اور فرمایا تیرے لئے میرا یہ عطیہ ہے.امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مقبر سے تعبیر دریافت کی تو اس نے کہا کہ تم دنیامیں حضور علیہ السلام کی سنت مطہرہ کی نشر واشاعت میں امام بینو گے.چنانچہ بعد کے واقعات نے اس کو سچا کر دکھایا.آپ نے حجاز پہنچکر امام مالک بن انس سے علم حاصل کیا.پھر عراق آئے.اور مجاز امام ابو حنیفہ کے شاگرد محمد شیبانی سے استفادہ کیا.مشروع شروع میں آپ امام مالک کے مقلد تھے لیکن بعد میں اپنے ذاتی تجربات کی بناء پر اپنے لئے ایک خاص مذہب متخب کیا.اور اپنے شاگردوں کو اپنے نئے.مذہب کی تلقین کی.آپ فن لخت - فقہ اور حدیث کے متبحر عالم تھے.کتاب سنت، اجماع اور قیاس چاروں مصادر سے استنباط کرتے تھے.آپ سب سے پہلے امام ہیں جنہوں نے فقہ کے اصول اور احکام مرتب کئے.اور علمی حیثیت سے ایک مشہور رسالہ تحریر کیا جس میں مندرجہ ذیل مضامین کے متعلق سیر حاصل بحث کی گئی ہے.آیات قرآنی احادیث نبوی ناسخ و منسوخ - احادیث کے عمل والباب خبر واحد کو قبول کرنے کے شرائط اجماع - اجتہاد - استحسان اور قیاس فقہ میں آپ کا ایک قیمتی سرمایہ کتاب الا تقدر مات ۱۹

Page 22

1 جلدوں کی صورت میں آج تک موجود ہے.جسے آپ کے شاگرد ربیع بن سلیمان نے آپ سے روایت کیا ہے.آپ کے شاگرد آپ کے بہت سے عراقی شاگرد بعد میں صاحب مذہب اور امام مجتہد بنے.شائی امام احمد بن مقبل - داور ظاہری ابو تو بیداری او را بوجعفر بن جریر طبری - آپ کے مصری شاگردوں میں سے مندرجہ ذیل ہیں المعيل مزنی مولف کتاب المختصر ربیع بن سلیمان مرادی.یہ کتب شائعی کے راوی ہیں.اور ربیع بن سلیمان جیزی - آپ کے مقلدین میں سے مشہور علماء مندرجہ ذیل ہیں.جنہوں نے بعد میں مسلمی مثلاً خدمات انجام دیں.ب) المام غزالی.انہوں نے اصول فقہ.فلسفہ کی بہت سی کتب تصنیف کی شکا المستصفى الوجيز - احیاء علوم الدین (۳) ابوالقاسم را قعی - مولف کتاب فتح العرينين شرح الوجنیر (۳) محی الدین نوری مصنف کتاب الکبیر - المجموع شرح مہذب - شرح صحیح مسلم منها الطالبین وغیرہ (۴) قاضی دقیق العید (۵) تقی الدین علمی سیکی مصنف شرح منہاج البیضاوی - فتاوی سیکی (1) تاج الدین عبد الوہاب نیکی مصنف مجمع الجوامع - طبقات الشافعیہ اکبر نے غیره (۷) جلال الدین سیوطی.ان کی مستعد کتب سے آج تک خاص و عام فائدہ حاصل کر رہے ہیں.گرفتاری اور رہائی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں آپ کو نجران کا والی مقرر کیا گیا.آپ سے پہلے نجران میں بنو حادث اور موالی ثقیف وہاں کے والی کو رشوت دیا کرتے تھے.اس لئے ماں کا والی ہمیشہ ان کی رعایت کیا کرتا تھا.امام شافعی کو بھی یہ نذرانہ پیش کیا

Page 23

گیا.تو آپ نے لینے سے انکار کر دیا.اور مقدمات کے فیصلے بغیر کسی رعایت کے کرتے رہے.اس سے ان لوگوں میں سکھنی پیدا ہوگئی.اور وہ در پردہ آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے.مین میں آپ کا بڑا اثر و رسوخ تھا.اور لوگ آپ کی قوت استدلال اور تنتحر علمی سے بہت متاثر تھے.چونکہ آپ دیگر عمال کو رشوت ظلم اور جانبداری سے روکنے رہتے تھے.اس لئے مطرف نے جو ایک عامل تھا بصیغہ راز خلیفه هارون الرشید کو ایک خط لکھا کہ مین میں شافعی کا بہت اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے.اور ملک میں سارا کا خاندان پھر خلافت کے خواب دیکھ رہا ہے.شافعی چونکہ خود ہاشمی ہے.اس لئے اس کی اعانت پی در پردہ سادات کو حاصل ہے.یہ خط دیکھتے ہی خلیفہ ہارون الرشید آگ بگولا ہو گیا.اور فوراً حماد بریری کے نام بصیغہ را از خط لکھوایا کہ محمد بن ادریس شافعی اور تمام سادات کو گرفتار کر کے دارالخلافہ میں بھیجو.اس حکم کی تعمیل ہوئی خلیفہ نے محکم دیا کہ دس دس سید روزانہ قتل کئے جائیں.چنانچہ جب آپ کی باری آئی.تو آپ نے ایسی موثر اور پر در و تقریر فرمائی کہ خلیفہ کانپ اٹھا.اور اسی وقت آپ کے قتل کے حکم کو منسوخ کر کے حراست میں رکھے جانے کا حکم صادر کیا.اسی اثنا میں امام شافعی کے ایک علمی مباحثہ کی تفصیل خلیفہ کے سامنے پیش کی گئی جب خلیفہ نے امام صاحب کے دلائل سنے تو اللہ کر بیٹھ گیا.اور دوبارہ سنانے کا حکم دیا.دوبارہ بنکر کہنے لگا.کہ واقعی محمد بین اور میں محمد بن حسن سے زیادہ عالم میں.برقمہ کو حکم دیا کہ پانچ سو دینار شانٹی کو بطور انعام دیئے جائیں.ہر شہ نے اپنی طرف سے پانچ سو دنیا ر شامل کر کے ایک ہزار دنیار امام شافعی کے نذر کئے.اور اس کے بعد آپ سے نگرانی اتحادی گئی.مصر امام شافعی کے مذہب کا مرکز تھا.کیونکہ آپ نے اس ملک میں اپنے مذہب کو رواج دیا.اور آپ کے اکثر شاگرد اور ناشرین مذہب بھی نہیں گزارے ۲۱

Page 24

: ہیں.حکومت ایوبیہ کے عہد میں حکومت کا سرکاری مذہب یہی تھا.اور مدیت دور از تک جامعہ ازہر کے شیخ کا منصوب شافعی علما کے لئے مخصوص رہا.فلسطین اور اردن میں بھی یہ مذہب پھیلا.اور اس کے مقلدین سوریا اور لبنان میں بھی بکثرت موجود ہیں.امام احمد بن حنبل آپ کا نام احمد اور کنیت ابو عبد اللہ ہے.آپ کے باپ کا نام منبل نہ تھا.بلکہ دادا کا نام قبل تھا.نسب اس طرح چلتا ہے.ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل بن بلال بن اسدین اور لیں.آپ ربیع الاول ستار ھو میں بغداد میں پیدا ہوئے اور ربیع الاول اللہ ہمیں فوت ہوئے.- آپ نے ابتدائی تعلیم امام ابو یوسف سے حاصل کی.اور اس کے بعد سندھ میں مین جا کر عبد الرزاق محدث سے علم حدیث پڑھا.آپ کے سب سے بڑے استاد امام شافعی ہیں لیکن اس کے باوجود حدیث کی مشکلات حل کرنے کے لئے امام شافعی آپ کی طرف رجوع کرتے تھے.آپ نے حدیث کا علم حاصل کرنے کے لئے شام مجاز مین کو نہ اور بصرہ کا سفر کیا.اور بہت سی احادیث مسند امام احمد میں جمع کیں جس کی کچھ جلدیں ہیں.اور میں میں تمہیں اور چالیس ہزار کے درمیان احادیث ہیں.آپ تخریج مسائل میں اجتہاد اور رائے سے اجتناب کرتے تھے.اور فقط قرآن اور حدیث سے استدلال کرنے میں مشہور تھے.اجماع بھی صرف صحابہ کا مانتے تھے اس کے علاوہ دیگر علمی کے اجماع کے قائل نہ تھے.امام احمد امام شافعی کے شاگردوں میں سب سے بڑے تھے.شروع شروع میں امام شافعی کے مقلد تھے.لیکن بعد میں اپنا مذہب الگ اختیار کیا.جو پانچ اصولوں پر مبنی ہے.۲۲

Page 25

ر آیات قرآنی اور احادیث سے استنباط (۲) صحابہ کے فتاوی بشر طیکہ ان کے خلاف دوسرے اقوال نہ ہوں.(۳) بعض صحابہ کے اقوال بشر طیکہ قرآن وحدیث کے مطابق ہوں.(۳) مرسل اور ضعیف روایات سے بوقت ضرورت استدال (۵) اگر مندرجہ بالا زرائع سے راہ نمائی حاصل نہ ہو تو یا مجبوری قیاس اور انتہا کرنا آپ کے مذہب کے مشہور متقلد جنہوں نے علمی خدمات سرانجام دی ہیں مندرجہ ذیل ہیں دا) ابوبترین معافی عرت اترم مصنف کتاب السنن فی الفقہ (۲) ابو القاسم خونی مصنف المختصر (۳) موفق الدین ابن قدامه مصنف کتاب المغنی (۴) تقی الدین احمد بن تیمیہ مصنف فتاد نے ابن تیمیہ مجموعتہ الرسائل اکبر نے منہاج السنۃ.رسالہ tal معراج الاصول وغیره (0) ابو عبدالله بن بکر عرت ابن القيم مصنف العلام الموقعين طرق الحكمية في السياسة الشرعیہ اور زاد المعاد وغیرہ.امام صاحب اپنے قول اور عقیدہ کے بہت سے کھلے.اس لئے جب خلیفہ مامون اور وافق باشد نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کریں.تو آپ نے صاف انکار کر دیا چنانچہ آپ کو یا بز نجیر قید کیا گیا.اور کوڑے لگائے گئے لے مذاہب اہل سنت میں سے میلی مذہب سب سے کم پھیلا.اس مذہب کا رواج ابتداء میں بغداد میں ہوا.اس کے بعد چوتھی صدی ہجری میں عراق میں اور بالآخر کبھی صدی ہجری میں مصر میں پھیلا.اس ذہب کی اشاعت میں سب سے زیادہ کام امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم نے کیا.ن فتحي الاسلام چاند ۲ و ۱۲۳۵ مرداد ۳ ۳۶۷ ۲۳

Page 26

دیگر مشہور ان فقہ کے حالات فقا اربعہ کے حالات بیان کرنے کے بعد اب میں مختصراً ان فقہا کے حالات تحریر کرتا ہوں جنہوں نے مسائل فقہ کی تدوین اور اشاعت میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں.اور بالعموم ان کا ذکر ہماری اس کتاب میں آیا ہے.حضرت عکرمہ مرلے ابن عباس.آپ نے حضرت ابن عباس - حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ سے رعایت کی اور حضرت ابن عباس سے فقہ کی تعلیم حاصل کی.اہم نبی سے مروی ہے کہ عکرمہ سے زیادہ کتاب اللہ کا عالم کوئی نہیں رہا.آپ نے سند ھ میں وفات پائی.حضرت عطار بین ابی رباح - حضرت عمر کے عہد خلافت میں پیدا ہوئے ایک حضرت عائشہ - ابو ہریرہ.اور ابن عباس سے حدیث سنی.امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ نہیں نے عطا سے زیادہ کسی کو افضل نہیں دیکھا.بعضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اسے اہل مکہ تم لوگ میرے پاس جمع ہوتے ہو.حالانکہ تمہارے پاس عطا ہیں.انہوں نے میں وفات پائی حضرت محمد بن سیرین.آپ نے حضرت انس بن مالک.حضرت ابو ہریرہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر وغیرہ سے روایت کی مورق العملی کا قول ہے کہ پر ہیز گاری میں این سیرین سے زیادہ فقیہہ اور فقہ میں ان سے زیادہ پرہیز گار نہیں دیکھا.آپ نے ندھ میں وفات پائی.حضرت ابراسم الحفی.آپ نے علقمہ مسروق اور اسٹو وفیہ سے روایت کی جہادین ابی سلیمانی فقیہ کے استاد میں سعید بن جبیر یہ کہا کرتے تھے کہ تم لوگ مجھ سے ۲۴

Page 27

فتوے لیتے ہو.حالانکہ تم میں ابراہیم شخصی موجود ہیں.آپ نے شو میں وفات پائی حضرت عامر بن شر اجبیل الشعبی.آپ نے حضرت علی و حضرت ابو ہریرہ حضر ابن عباس اور حضرت عائشہ سے روایت کی.آپ امام حافظ اور فقیہ تھے امام ابو حنیفہ کے استاد تھے مکحول کہتے ہیں کہ میں نے شعبی سے بڑھ کر عالم نہیں دیکھا آپ قیاس کو مکروہ سمجھتے تھے.سارہ میں وفات پائی.حضرت محمد بن مسلم المعروف بابن شہاب الزہری.آپ نے حضرت والله مین عمرہ حضرت انس بن مالک.اور حضرت سعید بن المسیب وغیرہ سے روایت کی.حضرت عمربن عبد العزیز نے فرمایا.دہری سے زیادہ گزشتہ صدیوں کا عالم کوئی باقی نہیں رہا.وہ ہشام بن عبدالملک کے بیٹے کو تعلیم دیتے تھے.ہشام نے ان سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ ان کے دوسرے لڑکوں کو بھی چند حدیثیں لکھ انہوں نے چار سو حد میں لکھوا دیں.جب وہ ایک جینے کے بعد پھر آئے.تو اس نے معذرت کی کہ وہ کتاب گھر ہو گئی ہے پھر دوبارہ لکھوا دیں.آپنے دوبارہ کھو دیں ایسے لگتا کتا ہے یار مل گئی تو ان دونوں میں ایک لفظ کا فریق نہ پایا.آپ نے ۲ ھ میں وفات پائی.لکھوا دیں.حضرت عمر بن عبد العزیز.آپ بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ ہیں.آپ نے حضرت انس بن مالک اور بہت سے تابعین سے روایت کی.آپ عدل و انصاف میں حضرت عمر بن الخطاب کے مثل اور زہد و تقوے میں حضرت حسن بصری کے مظہر اور علم میں امام زہری کے ہمرر تسلیم کئے جاتے ہیں.آپنے سلسلہ میں وفات پائی.حضرت طائوس بن کیسان - آپ نے حضرت زید بن ثابت : حضرت عائشہ سے حدیث سنی.ابن سیرین کہتے ہیں کہ طاؤس اہل یمین کے شیخ ان کے فقیہہ اور ان کے لئے ایک برکت تھے.آپ حج بہت کرتے تھے.چنانچہ سات ادھر میں مکہ ہی میں دفات ۲۵

Page 28

پائی حضرت وہب بن منیہ آپ نے حضرت ابن عمر حضرت ابن عباس اور حضرت جائر ا سے روایت کی وہ مستند قاضی تھے.ا ھ میں وفات پائی.دھ حضرت پیجیے ابن ابی کثیر اپنے حضرت انس بن مالکٹ اور بہت نئے بین سے روایت کی شعبہ کہتے ہیں کہ وہ حدیث میں زہری سے اچھے ہیں.احمد کہتے ہیں کہ جب زہری ان کی مخالفت کریں تو یحیی کا قول تسلیم کیا جائے گا.آپ نے سلسلہ میں فات بانی حضرت سفیان بن سعید ثوری.آپ اللہ مجتہدین میں سے ہیں.ان کی دینداری درع اور زہر پر لوگوں کا اجماع ہے رسقیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ میں نے حلال و حرام کا کہ عالم ثوری سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا.حضرت محمد عبد الرحمن بن ابی لیلی ، آپ اصحاب الرائے میں سے تھے.کوفہ مقتضاء کی خدمت انجام دی فقیہہ اور مفتی تھے.امام ثوری کہتے ہیں کہ ابن ابی لیلی اور این شیر ابی ہمارے فقہاء ہیں.آپ نے شکر ھ میں وفات پائی.حضرت ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم ہشام بن عروده " ابو اسحاق شیبانی را عطابن السائب اور ان کے طبقہ کے لوگوں سے روایت کی.اس کے بعد ابن ابی لیلی نے سے فقہ کی تعلیم حاصل کی.اس کے بعد امام ابو حنیفہ نہ کے حلقہ درس میں آئے.اور ان کے اکابر تلامذہ اور بہترین مدد گاروں میں شمار ہونے - وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے امام ابو حنیفہ رح کے مذہب کی تائید میں کتابیں تصنیف کیں یمنی بن معین سمجھتے ہیں کہ اصحا اللہ میں امام ابو یوسف سے زیادہ کثیر الحدیث اور صحیح الروایت کوئی شخص نہیں.آپ نے ۱۳ جھ میں وفات پائی.حضرت زفرین بدیل بن میں.آپ پہلے اہلحدیث تھے، پھر امام ابو حنیفہ ہی کے تلامذہ میں شامل ہوئے.اور آپ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ قیاس کرنے والے ثابت

Page 29

ہوئے کہتے ہیں کہ امام ابو یوسف ان میں سے سب سے زیادہ متبع حدیث، اور امام محمد سب سے زیادہ تفریحی مسائل کا استخراج کرنے والے اور امام نہ فرسب سے زیادہ قیام کرنے والے تھے.آپ نے امام ابو حنیفہ رح کے شاگردوں میں سب سے پہلے یعنی مسئلہ و میں وفات پائی : حضرت محمد بن حسن بن فرقد ، آپ بچپن سے ہی علم حاصل کرنے لگے اور حدیث کی روایت کی اور امام ابو حنیفہ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے.چونکہ امام ابو حنیفہ رح کا انتقال ان کی کمسنی میں ہی ہو گیا تھا.اس لئے بقیہ علم کی تکمیل امام ابو یوسف سے کی.اہم شافعی نے بغداد میں ان سے ملاقات کی.اور ان کی کتاب میں پڑھیں.اور بہت سے مسائل میں ان سے مناظرہ کیا.ان دونوں کے مناظر سے مدون طور پر اب تک موجود ہیں.آپ نے شہرم میں وفات پائی.حضرت حسن بن زیاد تو لوٹی.پہلے امام ابو حنیفہ کے شاگرہ ہوئے.آپ کے بعد امام ابو یوسف کے پھر امام محمد کے شاگرد ہوئے.آپ نے بھی امام ابو حنیفہ ان کے مذاہب میں کتب تصنیف کیں لیکن امام محمد کی کتب کی طرح مقبول نہ ہوئیں.آپ نے سنہ میں وفات پائی..حضرت ابو عبد الله عبد الرحمن ابن القاسم امام مالکٹ کی صحبت میں رہے اور ان سے حدیث و فقہ کا علم حاصل کیا.ایک دفعہ امام مالک سے ان کے اور ابن وہب کے متعلق سوال کیا گیا.تو آپ نے فرمایا ابن ہب عالم اور ابن القاسم نقیہ ہیں.خود ابن وہب نے ابو ثابہت سے بیان کیا.کہ اگر تم امام ماکت کی فقہ چاہتے ہو.تو ابن القاسم کی صحبت اختیار کرو.کیونکہ وہ صرفت انہی کی صحبت میں رہے ، اور ہم نے دوسروں سے بھی فائدہ اٹھایا.آپ نے ہ میں وفات پائی.حضرت اشہب بن عبد العزیز آپ نے امام مالک اور مانی اور مصری عملہ سے فقہ کی ۲۷

Page 30

! تعلیم پائی.امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اشہب سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا سحنون سے سوال کیا گیا کہ ابن القاسم اور اشہب میں زیادہ فقیہ کون ہے تو انہوں نے جواب دیا.کہ وہ دونوں گھوڑ دوڑ کے دو گھوڑوں کی مثل تھے کبھی یہ بازی لے جاتا تھا اور کبھی وہ آپ نے سنا کہ ھر میں وفات پائی.حضرت ابو محمد عبد الله بن عبد الحم.آپ امام مالکن کے مذہب کے محقق اور مرید تھے.اشہب کے بعد مصر کے پیشوا قرار پائے.آپ نے ۲۳ ھ میں : فات پائی.مصر عبد السلام بن سعید معنون - آپ شامی اواصل تھے.تونس کا سفر کر کے علی بن زیاد سے علم حاصل کیا.اس کے بعد مصر میں آئے اور ابن القاسم اور ابن وہب وغیرہ سے حاصل کیا.ابو العرب کہتے ہیں کہ سحنون ثقہ حافظ - عالم اور فقیہہ تھے.انہوں نے فقہ مالکی کی مشہور کتاب مدونہ تالیف کی.آپ افریقہ کے قاضی مقرر ہوئے.اور مرتے دقت تک اس عہد ہے پر قائم رہے.آپ نے دھ میں وفات پائی.حضرت ابو ابراہیم اسمعیل بن یحی المرتی جب امام شافعی مصر میں آئے تو ان سے فقہ کی تعلیم حاصل کی.ابو اسحاق شیر آزی کہتے ہیں کہ وہ زاہد عالم مجتہد مناظر اور رحمانی دقیقہ کی تہ میں ڈوبنے والے تھے.امام شافعی نے ان کی نسبت فرمایا کہ مزنی میرے مذہب کا حامی ہے جن کتابوں پر امام شافعی کے مذہب کا دارومدار ہے.وہ انہی کی لکھی ہوئی ہیں.آپ نے ۳۳۳ ھ میں وفات پائی.حضرت ابو العباس احمد بن عمربن سری.ان کو تمام تلاند شافعی یہاں تک که مربی پر بھی ترجیح دی جاتی ہے، شیخ ابو حامد اسفراینی کہتے ہیں کہ ہم ابو العباس کے ساتھ ظلی پر فقہ میں چلتے ہیں دقائق فقہ میں نہیں چلتے.ان کے مناظر سے داد دین علی ظاہری اور ان کے بیٹے محمد کے درمیان بہت مشہور ہیں.آپ نے سختہ میں وفات پائی.حضرت ابو عبد الرحمن بن محمد الاوزاعی اوزاع ایک گاؤں کا نام ہے میں کیطرف وہ ۲۸

Page 31

سوب ہیں.آپ نے علی بن ابی رباح اور زہری اور ان کے طبقہ کے لوگوں سے توات کی.اور خود ان سے اکابر محدثین نے روایت کی اور امی کا اپنا قول ہے کہ مجھے ان فقہا پر افسوس ہے.جو عبادت کے علاوہ کسی اور چیز کے لئے فقہ سکھتے ہیں.اور جو چیزیں شبہ کی وجہ سے حرام ہیں ان کو حلال کر لیتے ہیں.آپ ان محدثین میں سے تھے جو قیاس کو پسند نہیں کرتے.وہ شام کے قاضی تھے.اور خود صاحب مذہب تھے.آپ کی وفات شدھ میں ہوئی.حضرت ابوسلیمان داؤ دین علی بن خلف المعروف الظاہری.آپ نے اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور وغیرہ سے علم حاصل کیا.پہلے وہ امام شافعی کے مذہب کے حامی تھے.لیکن بعد میں انہوں نے اپنا نیا مذہب اختیار کیا.ان کے مذہب کی بنیاد ظا ہر کتاب اور سنت ہے.اگر کتاب وسنت سے کوئی نص نہ ملے تو اجماع پر عمل کرتے میں تیاس کو نہیں مانتے ان کا قول ہے کہ خود عموم کتاب اور سنت سے ہر مسئلہ کا جواب نکل آتا ہے.ان کئے ہیں کی پر زور اشاعت ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم نے کی ہے چنانچہ مسائل فقہ میں ان کی مشہور کتاب محلی این حزم ہے.حضرت ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید طبری - آپ قرآن مجید کے حافظ اصول صحم و تابعین کے ماہر اور تاریخ کے عالمہ تھے.ان کی مشہور تصنیفات میں شہرہ آفاق تاریخ اور تفسیر ہے.آپ نے پہلے فقہ شافعی پڑھی پھر فقہ مالکی.آپ کے بعد ان کا علم وسیع ہو گیا.اور انہوں نے اپنا ایک خاص مذہب اختیار کر لیا.مسائل فرعید یں فقہا کے باہمی اختلا کے ابنات یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ فقہا نے جو قریباً ہر مسئلہ میں ایک دوست ۲۹

Page 32

سے اختلاف کیا ہے، اس کے اسباب کیا ہیں، اور کیا یہ اختلافات ہمارے لئے سود منار ہیں یا ضرر رسال؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ علماء اور فقہا کے باہمی اختلافات کے کئی وجوہات ہیں جن کا استقصاء ان مختصر اوراق میں بہت مشکل ہے.تاہم چند وجوہات معہ امتار بیان کی جاتی ہیں (1) وہ مسائل جو نقش قرآنی سے اخذ کئے جاتے ہیں.ان میں اختلافات کی وہ بعض اوقات یہ ہوتی ہے کہ ایک فریق اس نص صریح کے ظاہری مفہوم کو لیتا ہے.اس لئے آیت کے ظاہر مفہوم کے مطابق جواز یا صدم جواز کا فتو نے دے دیتا ہے.لیکن دوسرا فریق اس نص اور حکم کی غرض و غایت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ یہ حکم لبعض خاص حالات اور خاص اوقات کے ساتھ مخصوص ہے.لوپ چونکہ وہ حالات یا وہ شوم موجود نہیں ہے.اس لئے اب اس جسم کی بھی ضرورت نہیں ہے.اس کی واضح مثال قرآن مجید کی آیات میں سے وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے زکواۃ کے مصارف بیان کئے ہیں.یعنی اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِنِي وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَ الْمُؤلة قُلُوبُهُمْ وَفِى الرّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَلَى سَبِيلِ اللهِ وَابْنَ السَّبِيلِ قَرِيْمَةٌ مِّنَ اللهِ ل ترجمہ.صدقات تو صرف فقراء اور مسکین کے لئے ہیں.اور ان کے لئے جو ان صدقات کے جمع کرنے کے لئے مقرر ہیں.نیز ان کے لئے جن کے دلوں کو اپنے ساتھ جوڑنا مطلوب ہیں اور اسی طرح قیدیوں اور قرض داروں کے لئے اور ان کے لئے جو اللہ تعالے کے راستہ میں جنگ کرتے ہیں.اور مسافروں کے لئے یہ فرض اللہ تعا لے گا مقرر کردہ ہے.(تبدع ) ۳۰

Page 33

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے اموال کے حقداروں میں مولف القلوب کا بھی ذکر کیا ہے.چنانچہ اس آیت کے ظاہر الفاظ کو ملحوظ رکھنے میٹھے امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ ہر زمانہ اور ہر حالات میں ذکواۃ کے اموال میں سے دیگر مقداروں کے ساتھ مولفۃ القلوب کا حصہ نکالنا ضروری ہے.لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ یہ حکم اس وقت کے لئے تھا جب السلام کمزور تھا.اور ایسے لوگوں کو امداد دینے کی ضرورت تھی.تا کہ دلجوئی کر کے ان کو اسلام پر قائم رکھا جائے، یا ان کے شر سے بچا جائے لیکن جب اسلام کی بیٹری مضبوط اور طاقتور ہوگئیں اس وقت ایسے لوگوں کی دلجوئی کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی.اس بارہ میں حضرت عمر کا بھی یہی مسلک تھا.چنانچہ حضرت عمر نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ان کا حصہ موقوت کر دیا.اور ایسے لوگوں کو واضح الفاظ میں یہ فرما دیا کہ " یہ وظیفہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس لئے عطا فرماتے تھے کہ تمہاری دلجوئی کر کے تمہیں اسلام پر قائم رکھیں لیکن اب اللہ تعالے نے اسلام کو طاقتور بنا دیا ہے.اور تمہاری امداد سے بے نیاز کر دیا ہے.پس اسلام کے معاوضہ میں ہم تمہیں کچھ نہ دیں گے.جو چاہے ایمان لائے.اور جو چاہے کافر ہو جائے.نے.وہ لوگ جو اہیت کے ظاہر پر عمل کرنے کی بجائے اس کی غرض وغایت کو ملحوظ رکھتے ہیں.وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی اسکے مطابق تھا.مثلاً اللہ تعالے نے قرآن مجید میں کچھ رشتے حرام قرار دیئے ہیں.مثلاً ماں بیٹی.بہن.دو بہنوں کو ایک عقد میں جمع کرنا وغیرہ ان رشتوں کی حرمت کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالے فرماتا ہے کہ واحل تكُم مَا وَرَاءَ ڈالکر کہ ان کے علاوہ دیگر ت فتح القدير چندان فرار ہو ۳۱

Page 34

خور تمیں تمہارے لئے حال ہیں لیکن اس اجازت کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت اور اس کی پھوپھی یا خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے.اس کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ دو بہنوں کو ایک عقد میں جمع کرنے کی ممانعت کی غرض یہ ملتی.کہ یہ امر صلہ رحمی اور محبت قرابت کی روح کے خلاف ہے.یونکہ یہ غرض ایک عورت اور اس کی خالہ یا پھوپھی کو ایک عقد میں جمع کرنے میں بھی موجود ہے.اس لئے اس پر قیاس کرتے ہوئے آپ نے ایسے اسنوں سے بھی منع فرما دیا.اور ساتھ ہی اس کی غرض بھی بتادی کہ ناشکمْ إِذَا فَعَلَكُمْ ذيك تَطَعْتُمْ انحا معکم یعنی اگر ایسا کرو گے تو قطع رحمی کا ارتکاب کرو گے جو اللہ تعالے کے منشاء کے قطعا خلاف ہے.اس فریق نے آپ کے ارشاد کے پیش نظریہ نتیجہ نکالا کہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ ایت کے ظاہر مفہوم کو ہی لیا جائے بلکہ اس حکم کی اصل قرض اور مقصد کو دیکھنا چاہیے اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہیئے.دی) بعض فقہا ایک نفق قرآنی کا یہ مفہوم لیتے ہیں.کہ اس حکم سے اللہ تعالے کی نشأ سختی کرتا ہے.تاکہ لوگ اس سے نا جائز فائدہ نہ اٹھائیں لیکن دوسرے فریق کے نزدیک اس حکم سے اللہ تعالے کا منشا نرمی کرنا ہے.تاکہ لوگوں پر عمل کا دائرہ ناگ نہ ہوجائے.اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دے تو امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ تین ہی شمار ہوں گی.اور اس کے بعد اور ! اسے رجوع کا حق حاصل نہ ہو گا.اور اس کی بیوی بائن ہو جائے گی.لیکن امام ابن رشد اور اہل ظاہر کے نزدیک اسے صرف ایک طلاق ہوگی.اور ایک طلاق بھی رکھی ہوگی.یعنی اسے عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوگا.امام ابو حنیفہ اور امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ ایسی طلاق کو تین طلاقیں قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے شخص پر سختی کی جائے ۳۲

Page 35

تا کردہ شریعیت کو کھیل نہ بنالے چنانچہ یہی مسلک حضرت عمر کا تھا.آپ نے سختی سے یہ حکم دے رکھا تھا.کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیگا.تو وہ تین ہی سمجھی جائیں گی بخارات اس کے امام ابن رشد اور اصحاب ظاہر کا استدلال یہ ہے کہ طلاق کے معاملہ میں شریعت کا مقصد سختی کرنا نہیں ہے.یاکہ طلاق کے " ابغض الحلال" ہونے کی وجہ سے شریت کا منشاء یہ ہے کہ طلاق کا وقوع کم از کم مواقع پر ہو.اور یہ کم سے کم موٹر ہو تا کہ ایک تعلق جو قائم میچکا ہے.جہاں تک ممکن ہیں اسے قائم رکھنے کی کوشش کی جائے.یہی وجہ ہے.کہ ثریت نے طلاق کے وقوع پر بعض پابندیاں عائد کر دی ہیں مثلاً یہ کہ طلاق ظہر کی حالت میں ہو.اور وہ طہر بھی ایسا ہو جس میں میاں بیوی نے تعلقات زوجیت قائم نہ کئے ہیں.پھر جب طلاق واقع ہو گئی تو اس کے بعد تین حیض عدت مقرر کی گئی.تاکہ وہ اس عرصہ میں رجوع کر سکیں پس ان پابندیوں کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر طلاق نافذ ہو تو کم از کم حد ناک ہو.اور وہ حد ایک طلاق رجعی ہے : (۳) نصوص قرآنی کے بارہ میں اختلاف کی تیسری صورت یہ ہے کہ بعض اوقات نص قرآنی اور حدیث اور قیاس کا بظاہر یا ہم تعارض ہو جاتا ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ اگر میاں بیوی آگے پیچھے اسلام قبول کریں تو ان کے نکاح کے متعلق اختلاف ہے.اگر عورت مرد سے قبل اسلام قبول کرے.تو اس کے متعلق امام مالک ہے.ابو حنیفہ اور شانی کا مذہب یہ ہے کہ اگر خاوند بیوی کے اسلام قبول کرنے کے بعد حقت کے عرصہ کے اندر اندر اسلام قبول کرلے تو وہ اس عدت کا زیادہ حقدار ہے، اس صورت میں اس کا نکاح قائم رہے گا.لیکن اگر وہ عدت گزرچکی ہیں.تو نکاح قائم نہ رہے گا.بخلاف اس کے اگر خاوند اپنی بیوی سے قبل اسلام قبول کرلے.تو اس صورت میں امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائیگا.اگر وہ مالک اسلام قبول کرنے سے انکار کرے.تو اس کا نکاح فسخ کیا جائیگا.لیکن امام شافعی کا نہیں سوسر

Page 36

یہ ہے کہ خواہ عورت مرد سے قبل اسلام قبول کرنے یا مرد عورت سے قبل اگر بعد میں اسلام قبول کرنے والا عدت کے عرصہ کے اندر سلمان ہو گا.تو ان کیا نکاح قائم رہے گا.اس اختلاف کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے.کہ ایک طرف نص قرآنی ولا تمسكوا تعظیم انگرا نی ہے اور یہ حکم فوری طور پر جدائی کی تائید کرتا ہے.دوسری طرف حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سفیان بن حرب اپنی بیوی ہند قیمت قبہ سے قبل مسلمان ہوئے.آپ نے مشتر ظہران میں اسلام قبول کیا.اس کے بعد مکہ واپس آئے.اور ان کی بیوی ہند مکہ میں ہی ابھی کفر کی حالت میں تھی.اس نے آپ کی داڑھی کو پکڑ کر کیا اس گمراہ بوڑھے کو قتل کرو اس سے کچھ دن بعد ہند نے بھی اسلام قبول کیا تو وہ دونوں اپنے پہلے نکاح پر قائم رہے.تیسری طرف قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ عورت خواہ مرد سے پہلے اسلام قبول کرے یا بعد میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیئے.اختلافات کی جملہ وجوہات مع املہ بیان کرنا تو دشوار ہے یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کر دی ہیں.اب صرف یہائی اختلاف کی صورت میں درج کی جاتی ہیں.(۲) قرآن مجید کی دو یا ہم متعلق آیات کے مفہوم سمجھنے میں اختلاف (0) قرآن مجید کی آیت اور حدیث کے مفہوم میں مطابقت پیدا کرنے میں اختلاف دو احادیث کا باہم تعارض جس کی وجہ سے کسی نے ایک حدیث کو ترجیح ہی.اور کسی نے دوسری کو.تیسرے نے ان میں توافق کی صورت نکالنے کی کوشش کی بعض اوقا ایک ہی حدیث کا ایک امام نے اور معنی لیا.دوسر نے کچھ اور مفہوم بتایا.اور لغت دونوں کی تائید کرتی ہے.اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا یہ اختلافات ہمارے لئے موجب رحمت ہیں یا موب زحمت.تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ اختلافات در حقیقت اختلافات ہی نہیں ہیں.۳۴

Page 37

جو فقہا نے اپنے حالات اور مصالح مکی کے پیش نظر اپنی مشکلات اور دشواریوں کا حال تلاش کیا ہے.اور ہر ایک نے اس کے جواز کے لئے کوئی نہ کوئی دلیل تلاش کرلی ہے.پس اس اختلاف کو اختلاف سمجھنا ہی درست نہیں ہے.ابن قیم نے ان اختلافات کے متعلق نہائت ہی عمدہ فیصلہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ شریعیت کی بنیاد حکمتوں اور لوگوں کی دنیاوی اور اخروی فلاح و یہودہ پر ہے.اور شریعت کل کی کل انصاف میرا سر رحمت اور حکمت ہے.پس جس مسئلہ میں انصاف کی بجائے ظلم ہو.رحمت کی بجائے زحمت ہو.فائدہ کی بجائے نقصان ہو.اور عقل کی بجائے بے عقلی ہو.وہ شریعت کا مسئلہ نہیں ہے" پھر لکھتے ہیں :.احکام کی تبدیلی اور اختلاف زمان مکان ر اموال نیت اور عادات انسانی کے اختلاف کے ساتھ وابستہ ہے اسی طرح لکھتے ہیں :- و معاشرہ انسانی اور قانون کا باہمی رشتہ نہ جاننے کے باعث لوگوں میں ایک غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے.میں نے شریعت اسلامی کا دائرہ بالکل محدود کر دیا ہے.حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ میں شریعت میں مصالح انسانی کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا گیا ہو.اس میں ایسی تنگ نظریوں کی گنجائش نہیں ہے " ہے اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اختلافات ہمارے لئے اس لحاظ سے بھی موجب رحمت ہیں کہ ان لوگوں نے استنبا د مسائل کا طریق اس کے اصول وقواعد وضع کر کے ہمارے لئے آسانی پیدا کر دی ہے.ہم ان کے وضع کردہ اصولوں سے رمینی لة إعلام الموقعين جلد ملا TA

Page 38

حاصل کر کے اجتہا دور استنباط کے ذریعہ اپنی مشکلات کا حل زیادہ آسانی کے ساتھ ملائک کر سکتے ہیں.ان اختلافات کی وجہ سے ایک سہولت ہمارے لئے یہ ہوگئی ہے.کہ ہم فقہاء اربعہ اور دیگر ائمہ کے اجتہادی مسائل اور طے شدہ جزئیات میں سے اس جوئی کو اختیار کرسکتے ہیں.جو ہماری ضرورت کے عین مطابق ہو.لیکن یہ اس صورت میں مکن ہے جب ہم کسی ایک امام کے مقالہ نہ ہوں بلکہ ہر امام کے اس اجتہاد کو صحیح تسلیم کریں جو حالات کے مطابق ہو.اور اس زمانہ میں اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے.حرف آخر آخر میں اس ترجمہ کے متعلق چند باتیں بیان کی جاتی ضروری ہیں.جو ناظرین کے ہاتھوں میں ہے.یہ ترجمہ تمام تر حضرت امام جماعت احمدیہ کی توجہ کا مرہون منت ہے جن کی دور بین نگاہ نے یہ محسوس کیا.کہ اس دور میں مسلمانوں کے ذہن تقلید کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور وہ یہ باورہی نہیں کر سکتے کہ کوئی ایسی رائے جو ان کے شیخ کی رائے کے خلاف ہو وہ بھی درست ہو سکتی ہے.چونکہ اردو میں کوئی ایسا لٹریچر مسلمانوں کے سامنے نہیں ہے جس کو پڑھے کہ وہ اندازہ کر سکیں کہ بعض اوقات ایک.بات کے متعلق جو ایک ایستادہ کا ذہن فیصلہ کرتا ہے.واقعات اور شواہد اکس بات پر دال ہیں کہ اس بات کے متعلق دوسرا استاد اس سے بہت بہتر اور پختہ رائے رکھتا ہے.اور ایک مسئلہ میں لوگوں کی آراء مختلف ہو سکتی ہیں.اس وقت اس بات کی ضرورت تھی.کہ لوگوں کے سامنے ہی علی شانیں پیش کی جائیں تا کہ وہ اس حقیقت کو مجھیں.اور محسوس کریں کہ ان کی مشکلات کے حل کے لئے شریعت کا دائرہ آنا تنگ نہیں جتنا وہ سمجھتے ہیں.بلکہ اجتہاد اور قیاس کا میدان اس قدر وسیع ہے.کہ

Page 39

اس سے ہر امام نے کیا حقہ فائدہ اٹھایا.اور اپنے اپنے وقت کے حالات کے مطابق آزاد اجتہاد سے اپنی مشکلات کا حل تلاش کیا.علامہ ابن رشد کی کتاب بدايته المجتهد میں مبتدی سے لے کہ منتھی تک ہر ایک کے لئے ایسی واضح مثالیں موجود ہیں کہ انکے ڑھنے سے ہر شخص اس نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے کہ اس کے لئے شریعت کا دامن ایسا کو تاہ نہیں کہ کسی ایک مقام پر جا کر وہ اسے مایوس کر دے اور اس کی مزید راہ نمائی سے انکار کر کے اسے تذبذب کے تنگ و تاریک غار میں پھینک دے.اس کتاب کے ترجمہ کی پہلی جبکہ قارئین کے ہاتھ میں ہے.اور اور اس ترجمہ کے متعلق ہر ممکن کوشش کی گئی ہے.کہ وہ آسان ہو اور اس میں کسی قسم کا الجھاؤ نہ رہے جہاں جہاں علامہ ابن رشد نے دقیق اور فلسفیانہ بخشیں کی ہیں.وہ محمداً ترک کر دی گئی ہیں.منطقی اور فقہی اصطلاحوں کو چھوڑ کر ان کے اصل مفہوم کو لے لیا گیا ہے.قرآن مجید کی آیا نند اور احادیث کا آسان ترجمہ حاشیہ میں دے دیا گیا ہے نیز آیات اور احادیث کا حوالہ سبی حاشیہ میں دیا گیا ہے.بعض مسائل ضروریہ کے متعلق حاشیہ میں نوٹ دے دیا گیا ہے.تا کہ قارئین کرام کو سمجھنے میں دقت نہ ہو.اور اصل مسئلہ واضح ہو جائے.ترجمہ کے اس حصہ میں علامہ ابن رشد کی کتاب کی چند خصوصیات واضح طور پر محسوس کی گئی ہیں.جن کا تذکرہ مشانوں کے ساتھ پیش کرنا اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے.علامہ ابن رشد کے دادا مالکی المذہب تھے.چنانچہ فقہ مالکی کی کتاب مدونتہ کی شرح بھی انہوں نے لکھی ہے علامہ ابن رشد سبھی مالکی مذہب سے متاثر تھے لیکن اس کے باوجود جہاں انہوں نے محسوس کیا کہ حق دوسرے اماموں کے ساتھ ہے.وہاں انہوں نے بے تخصصی کے ساتھ دیگر ائمہ کی قوت استدلال کو تسلیم کیا ہے.مثلاً ۳۷

Page 40

(1) لعان کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مرد عورت پر بد چلنی کا الزام لگائے.اور عورت انکار کرے تو وہ دونوں قاضی کے رویہ مخصوص الفاظ میں جن کی تصریح آیات قرآنیہ میں ہے قسمیں کھائیں.اگر قسمیں کھا لیں.تو ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی.یہاں تک اللہ میں اتفاق ہے.لیکن اگر عورت قسم کھانے سے انکار کردے.تو قسم کھانے سے انکار کرنے کی وجہ سے اسے شرعی حداد گائی جنگی نہیں اس کے تقی ائمہ ثلاثہ یہ کہتے ہیں کہ اس پر حد زنا جاری ہوگی لیکن امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ محضر قسم سے انکار کی وجہ سے حد جاری نہیں ہوسکتی، بلکہ وہ قید کی جائیگی تا وقتیکہ وہ قسم کھانے کے لئے تیار ہو جائے.علامہ ابن رشد کا فیصلہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کا مسلک صحیح ہے.کیونکہ محض قسم سے انکار کی بنیاد پر جب فقہا اس کے خلاف مالی ڈگری کو نا پسند کرتے ہیں.تو محض اس انکار کی وجہ سے اس پر ھد رنا جاری کر کے اس کا خون بہانا کی طرح جائز ہوسکتا ہے کیونکہ جان مال سے زیادہ عزیز او قیمتی ہے.حد زیاد اس پر کس طرح جاری ہو سکتی ہے.ابن رشد کہتے ہیں کہ ابو المعالی جوونی جو کہ شافعی میں انہوں نے بھی اس مسئلہ میں کتاب البرھان میں احناف کے دلائل کی قوت کو تسلیم کیا ہے لہ (۲) قرآن مجید میں مطلقہ کی عدت تین قرود بیان کی گئی ہے.اب سوال یہ ہے کہ قرو سے مراد شہر ہے یا مبیض.امام مالک اور شافعی بہو کے نزدیک اس سے مراد ظہر ہے یکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک حیض ہر ہر طریق نے اپنی اپنی تائید میں دلائل دیئے ہیں.آخرمیں علامہ ابن رشد کہتے ہیں کہ مدت کی فرق، اور مقصد کے لحاظ سے امام ابو حنیفہ کا مذہب زیادہ واضح اور درست ہے.ہے ة بدایۃ المجتہد جلد ۲ ۱۰۰۰ سکه بدایۃ المجتہد جلد ۲ ص۷۹ WA

Page 41

شریعت کا اصل مقصد انسان کے لئے آسانی پیدا کرنا ہے.نہ کہ شیاری اور تنگی پیدا کرنا علامہ ابن رشد نے اپنے مذہب میں شریعت کے اس مقصد کو خاص طور پر ملحوظ رکھا ہے.جہاں کسی امام کے مذہب میں شواری کا پہلو غالب دیکھا ہے.وہاں فوراً یہ اعتراض کر دیا ہے کہ یہ مذاہب شریعیت کی غرض کے خلاف ہے مثلاً :- (1) اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دے.تو اس کے متعلق جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ اسے تین طلاقیں ہی پڑ جائیں گی.لیکن اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ صرف ایک طلاق پڑے گی.اس کے متعلق بھی ہر فریق نے اپنے اپنے دلائل دیتے ہیں.سب سے آخر علامہ ابن رشد اپنا محاکہ میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جمہور نے اس مسئلہ میں تشدید کے پہلو کو ملحوظ رکھا ہے میاں محہ شریعت کی اصل غرض رفت اور نرمی کا برم و کرتا ہے جیسا کہ طلاق کا حکم بیان کر کے خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لعل الله يُحدِث بعد ذالك امرا یعنی طلاق کے بعد عدت اس لئے رکھی گئی ہے.تا کہ اس دوران میں کوئی ایسا امر پیدا ہو جائے جو فریقین کے لئے مفید ثابت ہو.مثلاً خاوند وجوع کرلے.لیکن اگر ایسی طلاق کو تمین طلاقیں شمار کر لیا گیا.تو خاوند رجوع کب کرے گا.لہذا یہ مذہب شریعت کے مقصود کے بالکل خلاف ہے.یہ اور اس قسم کی دیگر اور کئی مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابن رشد اپنے مذہب میں نرمی کے پہلو کو خاص طور پر ملحوظ رکھتے تھے.ایسی مثالیں ترجمہ کے اس حصہ میں قارئین کو بے شمار ملیں گی.ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے.کہ امام این رشد شریعت کے فلسفہ کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے.اور جہاں ضرورت پڑتی ہے جھجک بیان کردیتے تھے : بالآخر اللہ تعالے سے دعا ہے کہ وہ ادارہ کی مساعی کو قبول فرمائے.اور ٣٩

Page 42

ہدایۃ المقتصد کو شرف قبولیت بخئے.اور جن دوستوں نے اس کتاب کی تیاری ہیں.محنت کی ہے.ان کو جزائے خیر دے.اور ہمیں زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اسلامی لٹریچر کو وسیع پیمانہ پر شائع کر سکیں : ادارۃ المصنفین - دیوہ ضلع جھنگ ۱۵ را پریل شهدا در ۴۰

Page 43

نَحْمَدُهُ وَنَصَل عَلى رَسُولِي الكريم كتاب النكاح تجاج کے متعلق اصولی احکام پانچ ابواب میں تفصیل ذیل بیان کئے گئے ہیں.باب اول : نکاح کے متعلق ابتدائی باتیں.باب دوم: نکاح صحیح قرار پانے کے اسباب باب سوم :- وہ امور جن کی موجودگی میں عورت کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے.باب چہارم :- خاوند اور بیوی کے حقوق - باب پنجم وہ نکاح جو یا تو کلیتہ نا جائز ہیں یا ان میں کسی ایک شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ نامکمل رہتے ہیں.باب اوّل اس باب میں چار مسائل کا بیان ہے.اول : نکاح کی دینی اور شرعی حیثیت.دوم: نکاح سے قبل پیغام نکاح بھیجوانا جسے منگنی اور نسبت طے کرنا کہتے ہیں.سوم -: ایک شخص کے پیغام نکاح پر دوسرے شخص کا پیغام نکاح بھیجنا.چہارم: نکاح سے قبل منسوبہ یعنی منگیتر کو دیکھنا.

Page 44

نکاح کی دینی اور شرعی حیثیت اور فقہاء کا یہ مذہب ہے کہ نکاح کرنا واجب نہیں ہے.بلکہ سنت موکدہ ہے لیکن اہل ظاہر کے نزدیک نکاح کرنا واجب ہے.امام مالک کے مقلدین میں سے متاخرین کا یہ مذہب ہے کہ نکاح کا حکم ہر شخص کے حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے.بعض لوگوں کے لئے نکاح واجب ہے.بعض کے لئے سنت موکدہ اور بعض کے لئے مباح ہے.ان کے نزدیک اگر کسی شخص کے متعلق یہ خوف ہو کہ وہ نکاح نہ کرنے کی وجہ سے گناہ میں ملوث ہو جائے گا.تو اس کے لئے نکاح واجب ہے.اور اگر کوئی شخص اپنے نفس پر ضبط کی طاقت رکھتا ہے.اور اسے گناہ میں ملوث ہونے کا اندیشہ نہیں ہے تو اس کے لئے حسب حالات مستحب یا مباح ہے.وجد اختلاف اس مسئلہ میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فانک خوا ما طاب لكم من النساء اور رسول کو پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد تَنَاكَ حُوا فانی مُكاثر بكُمُ الامم اور اسی قسم کے دیگر ارشادات میں الفاظ فَانكِحُوا اور تنال خوا میں صیغہ امر واجب کے معنی میں آیا ہے یا مستحب کے معنی میں یا مباح کے معنی میں.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نکاح بعض کے لئے واجب ہے اور بعض کے لئے سنت موکدہ ہے اور بعض کے لئے مباح ہے.وہ صرف مصلحت وقتی کا لحاظ کرتے ہیں.مصلحت وقتی کا خیال کرنا قیاس کی ایک خاص قسم ہے جس کو اصول فقہ کی اصطلاح اے اہل ظاہر سے مراد امام داؤد ظاہری کے مقلدین ہیں امام داودین علی الاصفہانی شدھ میں پیدا ہوئے اور نہ میں قوت ہوئے.ترجمہ : یعنی میں عورتوں کو تم پسند کرو ان سے نکاح کرو.(سورہ نساء خ آیت ۳) سے ترجمہ : اے مسلما نو تم نکاح کرو کیونکہ اولاد کے بکثرت ہونے پر باقی استوں سے تمہاری فوقیت ہونے پر مجھے فخر ہو گا.(ابوداود کتاب النکاح باب في تزویج اللی کار اور نسائی کتاب النکاح باب کرنا ہیتہ تزویج العظیم ان میں تناکحوا کی بجائے " تزوجوا " کے الفاظ ہیں لیکن مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے.ے جن لوگوں کے نزدیک صیغہ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے وہ نکاح کو واجب قرار دیتے ہیں اور جن کے نزدیک مستحب یا مباح پر دلالت کرتا ہے وہ نکاح کو بھی منتخب یا مباح قرار دیتے ہیں.

Page 45

میں قیاس ترسل " کہتے ہیں.قیاس مرسل اس قیاس کو کہتے ہیں جس کی تائید شرعی اصل میں نہ ملتی ہو بلکہ عوام الناس کے حالات اور مجبوریوں کے پیش نظر ان کی بہبودی کے لئے کوئی فتوی دے دیا جائے.اکثر علماء اس قسم کے قیاس کے قائل نہیں ہیں لیکن امام مالک کے مذہب کے مطابق عوام الناس کی مجبوریاں بھی شرعی احکام میں مناسب تبدیلیوں کا موجب بن جاتی ہیں.منگنی اور نسبت طے کرنا جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ منگنی واجب نہیں ہے.لیکن داؤد ظاہری کے نزدیک واجب ہے.شوافع میں سے ابو عوانہ کا مذہب بھی یہی ہے.چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں یہ باب باندھتا ہے " وجوب الْخِطْبَة عِندَ العقد" کے عقد کے موقعہ پر منگنی اور نسبت طے کرنا واجب ہے.یہ اختلاف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی حیثیت میں اختلاف کی بناپر ہے جو لوگ آپ کے فعل کو وجوب پر محمول کرتے ہیں وہ منگنی اور نسبت طے کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور جو لوگ آپ کے فعل کو سنت پر محمول کرتے ہیں وہ اسے محض سنت ہی کہتے ہیں.ایک شخص کے پیغام نکاح کی موجودگی میں دوسرے شخص کا پیغام نکاح بھیجنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ ایک شخص کے پیغام نکاح بھیجوانے ے احناف کے نزدیک اس قیاس کا نام استحسان ہے.سے الہ اس بارہ میں امام مالک کا مسلک درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ شریعت اسلامی اور رسول اکرم صہ یہ وسلم کی بعثت کی اصل غرض بنی نوع انسان کے لئے ایسی سو انتیں بیشتر کرتا ہے جن پر عمل کر کے انسان روزمرہ کی زندگی کو خوشیاں ندل اور پر امن بنا سکے.اور وہ سوسائٹی کے لئے ایک بار نہ بن جائے.پس میں حد تک اسلامی تعلیم کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی واقع نہ ہوتی ہو شریعت اسلامی نے فروعی احکام میں لچک رکھ دی ہے تا کہ ہر انسان زندگی کی دوڑ میں اپنے لئے آسان اور پر امن راستہ تلاش کر سکے.قیاس مرسل جس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ انسان اپنی مجبوریوں کے پیش نظر ایسا راستہ اختیار کرے جس پر گام ہوتے ہوئے شریعت کے اصولی احکام میں کوئی تبدیلی بھی واقع نہ ہوتی ہو اور انسان کی ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہوں یقیناً ایک ایسا راستہ ہے جو ہر لحاظ سے قابل ستائش اور قابل قبول ہے.

Page 46

۴ پر دوسرا شخص نکاح کا پیغام بھجوائے.چنانچہ اس ممانعت کے بعد فقہار نے اس بات میں اختان کیا ہے کہ کیا ایسا پیغام شرکا نا جائز ہوگا یا جائز اور اگر تا جب کہ ہو گا تو اس کا تحکم کیا ہے.بچنا نچہ اس بارہ میں امام داؤد ظاہری کا مذہب یہ ہے کہ دوسرے پیغام پر جو نکاح ہوا ہے وہ قابل فسخ ہو گا لیکن امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک قابل فسخ نہیں ہوگا.امام مالک کی اس بارہ میں دورائیں ہیں.ایک رائے کے مطابق وہ قابل فسخ ہوگا.لیکن دوسرے قول کے مطابق قابل فسخ نہیں ہو گا.امام مالک کا تیسرا قول یہ ہے کہ رخصتاد سے قبل قابل فسخ ہو گا لیکن رخصتانہ کے بعد قابل فسخ نہیں رہے گا.ابن قاسم فرماتے ہیں کہ جب ایک صالح مرد ایک دوسرے صالح مرد کے پیغام کے بعد پیغام بھیجے تو اس صورت میں دوسرا پیغام ممنوع ہے.لیکن اگر پہلا شخص غیر صالح ہو اور دوسرا شخص صالح ہو تو اس صورت میں دوسرا پیغام جائز ہے.رہا یہ سوال کہ دوسرا پیغام بھجوانا کس وقت نا پسندیدہ ہے تو اس کے متعلق یہ تصریح کی گئی ہے کہ جب ایک فریق کا دوسرے کی طرف میلان ظاہر ہو جائے تو ایسے وقت میں دوسرا شخص پیغام نہ بھیجوائے.اس سے پہلے جائز ہے.نے یہی رائے درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، المُؤمِن اخو الْمُؤْمِنِ فلا يحل للمؤمن أن يَبْتَاعَ عَلَى بَيْهِ أَخِيهِ وَلَا يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ حَتَّى يَدَرَ ر صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم الخطبة على خطبته اخیر کہ ایک مومن دو سر مومن کا بھائی ہے.ہیں اس لئے یہ جائر نہیں کہ وہ دوسرے کے سودے پر سودا کرے.یا ایک کے پیغام نکاح پر اپنی طرف سے پیغام نکاح بھیجوائے.سوائے اس کے کہ گفتگو منقطع ہو جائے اور پہلے پیغام پر رشتہ طے نہ پائے.اسی طرح ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا :- لا يَخْبُ الرجل على خطبة اخيه حتى يَنكِحَ ادْيَرُكَ (بخارى كتاب النكاح باب لا يخطب على خطبته الخير ) کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے پیغام نکاح پر اپنی طرف سے پیغام نہ بھجوائے.جب تک وہ خود نکاح کی گفت گوئٹے نہ کرنے یا ترک نہ کر دے.مندرجہ بالا روایات قانون اخلاق اور تمدنی اور معاشرتی رواج اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ اگر چہ زندگی کے ہر شعبے میں ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بہبودی اور بھلائی کے لئے جدوجہد کرے لیکن اسکی یہ جد و جہد ایسی نوعیت کی ہونی چاہیئے کہ اسکی وجہ سے کسی دوسرے شخص کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے.

Page 47

چنانچہ صدیقی میں مروی ہے کہ فاطمہ بنت قیس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور بیان کیا کہ میرے پاس ابو جہم بن حذیفہ اور معاویہ بن ابی سفیان نے پیغام نکاح بھیجا ہے.آپ کے اس بارہ میں کیا مشورہ ہے.آپ نے فرمایا کہ ابو جہم ایسا شخص ہے جو عورتوں کو ہر وقت پیٹتا رہتا ہے اور معاویہ ایسا شخص ہے جو کنگال ہے اور اس میں کوئی وجہ کشش نہیں پائی جاتی.اس لئے تم ان دونوں کو چھوڑ کر اسامہ سے نکاح کر لو.نکاح سے قبل منگیتر کو دیکھنا بعض علماء کے نزدیک منگیتر کو نیکان سے قبل دیکھنا منع ہے لیکن امام مالک کے نزدیک اس کے چہرہ اور ہاتھ دیکھے جاسکتے ہیں.اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے پاؤں بھی دیکھ سکتے ہیں.البتہ بعض فقہاء کے نزدیک ایسی کوئی قید نہیں ہے.وجه اختلاف وجہ اختلاف یہ ہے کہ بعض روایات میں مطلقاً ممانعت اور بعض ہیں مطلقاً اجازت وارد ہوئی ہے.اور بعض روایات سے جزوی اجازت ثابت ہے.یعنی صرف چیر اور ہاتھوں کو دیکھنے کی اجازت ہے اور اکثر فقہاء کا مسلک یہی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ارشاد الہی وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا میں چہرہ اور ہاتھ شامل ہیں.اور قیاس بھی یہی ہے کہ اس قدر حصہ دیکھا جائے ہے.کیونکہ حج کے موقعہ پر یہ حصے ظاہر کرنے جائز ہیں.جو لوگ ممانعت کی طرف جاتے ہیں وہ اصل حکم کی طرف جاتے ہیں جس کے مطابق غیر محرم عورتوں کو دیکھنے سے منع کیا گیا ہے.درست مذہب یہی ہے کہ منگیتر کو دیکھنا جائز ہے.جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے جب یہ کہا کہ اس نے ایک انصاری عورت کو شادی کا پیغام بھیجا ہے.تو آپ نے اسے یہ ہدایت فرمائی کہ اسے پہلے دیکھ لو.کیونکہ انصاری عورتوں کی آنکھ میں عام طور پر نقص ہوتا ہے.(نسائی کتاب النکاح باب اباحة النظر قبل التروت) اس سے معلوم ہو اکہ بعض حالات میں نکاح سے قبل اپنی منسوبہ کو دیکھتا نہ صرف جائز بلکہ مناسب بھی ہے.سے ترجمہ : اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں.سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی پر ہو.( نورع ۴)

Page 48

دوسرا باب صحت نکاح کے اسباب اس باب میں تین امور بیان کئے گئے ہیں :- اول : عقد نکاح کی کیفیت - دوم : عقد نکاح کی شرائط سوم جقد نکاح کے مواقع.کیفیت نکاح کیفیت نکاح کے لئے مندرجہ ذیل امور کا جاننا ضروری ہے.- اذین نکاح یعنی یہ معلوم کرنا کہ نکاح کے لئے کس کس کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری ہے؟ ب.کیا نکاح کے بعد کسی فریق کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے.یا نہیں ؟ ج - ایجاب کے بعد بلا تاخیر نکاح ضروری ہے یا اگر اس میں دوسرے فریق کی طرف سے قبول نکاح میں تاخیر واقع ہو جائے تب بھی یہ عقد لازم ہو جاتا ہے ؟ کیفیت اذن نکاح کے موقعہ پر رضامندی کا اظہار دو طرح سے ہو سکتا ہے.ا مردوں اور بیوہ عورتوں کی رضامندی کا اظہار واضح الفاظ میں ہونا چاہیئے.- باکرہ عورتوں کی رضامندی اس طریق پر ہی کافی ہے کہ جب ان سے دریافت کیا جائے تو وہ خاموش رہیں.اور انکار نہ کریں.لیکن عدم رضا مندی کا اظہار واضح الفاظ میں ہونا ضروری ہے.اظہار رضا مندی کے مندرجہ بالا طریق میں کسی فقیہہ نے اختلاف نہیں کیا.البتہ بعض

Page 49

شوافع نے کہا ہے کہ جب پاکرہ عورت کا نکاح اس کے باپ یا دادہ کے علاوہ کوئی اورشخص کروانے والا ہو تو اس صورت میں باکرہ عورت بھی واضح الفاظ میں رضامندی کا اظہار کرے.جمہور فقہاء کا مذہب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک واضح ارشاد کی بناء پر ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: اَلْاَيْمُ اَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيهَا وَالْبِكْرُ تَسْتَأْمَرُ في نفيها و اونها حماتها اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ انعقاد نکاح کے لئے نکاح یا زوجیت کا لفظ استعمال کرنے کی صورت میں بیوہ عورت یا مرد کی طرف سے رضا مندی کے اظہار کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ مرد یہ کہے کہ بیٹے اپنا نکاح فلاں عورت سے قبول کیا.یا اپنی زوجیت میں فلاں عورت کو لے لیا.لیکن اگر ان الفاظ کی بجائے ہبہ یا بیع یا صدقہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے.مثلاً بیوہ عورت یا مرد یہ کہے کہ سینے اپنے آپ کو فلان شخص کے لئے یا فلاں عورت کے لئے ہبہ کر دیا ہے یا فروخت کر دیا ہے.یا صدقہ کر دیا ہے.تو اس بارہ میں امام مالک اور امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ ان الفاظ سے بھی نکاح صحیح ہو جاتا ہے.لیکن امام شافعی کے نزدیک صرف نکاح اور زوجیت کے الفاظ سے ہی نکاح صحیح ہوتا ہے باقی الفاظ اس کی صحت کے لئے کافی نہیں ہیں.وجہ اختلاف یہ ہے کہ بعض فقہار کے نزدیک نکاح کی نیت کے ساتھ ساتھ ایسے واضح الفاظ کے اظہار کی بھی ضرورت ہے.جن سے سوائے نکاح کے اور کوئی مفہوم نہ نکلتا ہولیکن بعض دوسرے فقہاء کے نزدیک نیست نکاح کے علاوہ ایسے خاص الفاظ استعمال کرنیکی ضرورت نہیں جو صرف نکاح کے لئے ہی استعمال ہوتے ہوں.بلکہ اگر اس کا اظہار ایسے الفاظ سے بھی کر دیا جائے جو اپنے اصلی معنوں کے علاوہ نکاح کے مفہوم پر بھی دلالت کرتے ہوں تو ترجمہ :.بیوہ عورت (نکاح کے معاملہ میں ) اپنے ولی کی نسبت اپنی مرضی کی زیادہ مالک ہے.لیکن یا کرہ عورت سے اس کی رضا مندی کے متعلق دریافت کیا جائے اور اس کی خاموشی اس کی طرف سے اذن اور اظہار رضامندی ہے داس کو بخاری کے علاوہ متعد د محدثین نے روایت کیا ہے.جو الن تلقی من جلد )

Page 50

یہ بھی ایک رنگ میں رضا مندی کا اظہار ہی ہے.غرض جن لوگوں نے نکاح کو ان عقود میں شمار کیا ہے جن کے لئے نیت کے علاوہ واضح الفاظ کی بھی ضرورت ہے.وہ ایسے موقع پر نکاح یا زوجیت کے علاوہ اور کسی لفظ کو جائز قرار نہیں دیتے لیکن جن کے نزدیک الفاظ کا اعتبار نہیں ہے بلکہ نیت ہی اصل چیز ہے ان کے نزدیک تمام ایسے الفاظ سے نکاح مکمل ہو جاتا ہے جو نکاح شرعی کے مفہوم پریسی لحاظ سے دلالت کرتے ہوں.ایجاب و قبول صحت نکاح کے لئے شرع میں ایجاب و قبول کے دو طریق بیان ہوئے ہیں.اول :- میاں بیوی کی رضامندی کے علاوہ اولیاء کی رضا مندی.یا صرف میاں اور بیوی کی رضامندی دوم - صرف اولیاء کی رضا مند تھی.مندرجہ بالا ہر دو طریق رضامندی کے بارہ میں مختلف بجتیں ہیں جن میں سے بعض کے متعلق فقہار نے اتفاق کیا ہے اور بعض کے متعلق اختلاف.چنانچہ ہم ان مسائل سے تعلق بعض ایسے اصول وقواعد بیان کریں گے جن سے ان کی حقیقت واضح ہو جائے گی.بالغ اور آزاد مردوں کے متعلق تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ نکاح کی صحت کے لئے انکی طرف سے واضح الفاظ میں رضامندی کا اظہار ضروری ہے.لیکن اس بارہ میں اختلاف ہے کہ کیا آقا اپنے غلام کو یا وقتی بالغ مجور موسی لہ کو نکاح پر مجبور کر سکتا ہے یا نہیں.امام مالک اور امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ آت اپنے غلام کو مجبور کر سکتا ہے.لیکن امام شافعی کو اس سے اتفاق نہیں.لے یہ فرق اس اختلاف کی بناء پر ہے کہ بعض کے نزدیک بالغ عورت اپنے نفس کی خود مالکہ ہے اس لئے اسکی رضامندی ہی کافی ہے.ولی کی رضا مندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اور بعض کے نزدیک ولی کی رضا مندی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا.سے جس کو وصیت کے جاری کرنے کا اختیار دیا جائے.سے جس کی لین دین کی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کیا گیا ہو.ہے جس کے حق میں وصیت کی گئی ہو.

Page 51

اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک غلام کا نکاح کرنا آقا کے فرائض میں شامل ہے.اس لئے آقا اس بارہ میں غلام پر جبر کر سکتا ہے لیکن بعض فقہاء کے نزدیک آقا کے فرائض میں یہ امر شامل نہیں ہے اس لئے وہ غلام پر جبر نہیں کر سکتا.اسی طرح محجور موصی لہ کے متعلق بھی اختلاف ہے.اور اسکی بنا یہ ہے کہ کیا نکاح ان مصالح میں سے شمار ہوتا ہے جن کا وقتی حالات تقاضا کرتے ہیں یا اس کا مصالح وقتی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ واجبات دینیہ میں سے ہے.پس جو لوگ اس کو واجبات دینیہ میں شمار کرتے ہیں وہ اس بارہ میں جبر کے قائل ہیں.اور جو لوگ اسے مصالح وقتی میں شمار کرتے ہیں وہ جبر کے قائل نہیں ہیں.نکاح کے لئے عورتوں کی رضا مندی کے بارہ میں فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ بالغ بیوہ عورتوں کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے اور ان کے نکاح کے بارہ میں ان پر کسی قسم کا جبر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ رسول اکرم صلی الہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ النيب تحربُ عَنْ نَفْسِ ا لیکن حسن بصری اس اختلاف کرتے ہیں.باکرہ بالغہ اور بیوہ غیر بالغہ کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے.باکرہ بالغہ کے متعلق امام شافعی.مالک.اور ابن ابی لیلی یہ کہتے ہیں کہ اس کو صرف اس کا والد نکاح کے لئے مجبور کر سکتا ہے.لیکن امام ابوحنیفہ - نوری - اوزاعی.اور ابو ثور اور بعض دوستی فقہاء کے نزدیک باکرہ بالغہ کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری ہے.ایسی باکرہ جس کی ایک لمبے عرصہ سے کسی وجہ سے شادی نہ ہوسکی ہو.امام مالک کے ایک قول کے مطابق اس کی رضامندی حاصل کرنا بھی ضروری ہے.یہ اختلاف دلیل خطاب کی بنار پر ہے جو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ لا تُنكَحِ الْيَتِيمَةُ إِلَّا بِإِذْنِهَا نیز آپ نے فرمایا تُسْتَأْ مَرُ الْيَتِيمَةُ فِي نَفْسِهَا حضور کے ان ارشادات سے بعض فقہار نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ لڑکی جس کا باپ ے بیوہ یا مطلقہ عورت اپنی طرف سے رضا مندی کا اظہار خود کرے.اس روایت کو محدثین کی ایک جماعت نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے الشَّيْبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِن ولیتھا.اور اس کا مفہوم بھی وہی ہے جو متن کی روایت کا ہے (بحوالہ منتقی عنہ جلد ۲ ) ہے ترجمہ یتیم لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے.نیز یتیم لڑکی کے نکاح کے بارہ میں اس سے اجازت حاصل کی جائے.(ابو داؤد کتاب النکاح ( باب في الاستيمار )

Page 52

زندہ ہے اس کا حکم یتیم لڑکی سے مختلف ہے.یعنی اس کو اس کا باپ شادی کے لئے مجبور کر سکتا ہے لیکن قیم لڑکی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا.بلکہ اس کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری ہے.بعض دوسرے فقہار نیم اور غیر تقسیم میں کوئی فرق نہیں کرتے.وہ ہر دو کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری قرار دیتے ہیں.ان کی دلیل حضرت ابن عباس کی ایک مشہور روایت ہے میں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الیکی تستآمر اور صحیح مسلم میں ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں.البكر يَسْتَأْذِنُها البو تھا.یہ روایت عمومیت پر دلالت کرتی ہے.اور ایسا حکم پہل خطاب یا مضوم مخالف سے زیادہ قوی ہوتا ہے.ایسی بیوہ جو نابالغہ ہو اس کے متعلق امام مالک اور امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ اسے اس کا باپ شادی پر مجبور کر سکتا ہے.لیکن امام شافعی اس پر جبر کی اجازت نہیں دیتے.فقہاء متاخرین کے اس بارہ میں تین اقوال ہیں :- اول :- طلاق کے بعد مطلقہ عورت جب تک بالغ نہ ہو اس کا والد اسے مجبور کر سکتا ہے یہ اشہب کا قول ہے.دوم :.اس کا باپ اسے مجبور کر سکتا ہے اگر چہ وہ بالغ ہو گئی ہو.یہ سحنون کا قول ہے.سوم -:- اس کا باپ اسے مجبور نہیں کر سکتا.خواہ بالغہ ہو یا نا بالغہ یہ اپنی تمام کا مذہب ہے.امام مالک کا یہ مذہب ابن قصار نے اختلافی مسائل پر بحث کرتے ہوئے بیان کیا ہے.اس اختلاف کی بنا دلیل خطاب اور حکم عمومی ہے.له :ترجمہ: پاکرہ لڑکی کے نکاح کے متعلق اس سے اجازت حاصل کی جائے.ر صحیح مسلم باب استيذان الشيب في النكاح بالنطق والبكر بالسكوت ) سے ترجمہ :- باکرہ عورت کے نکاح کے متعلق اس کا باپ اس سے رضا مندی حاصل کرے.صحیح مسلم کتاب النکاح باب استیذان الشيب في النكاح بالنطق والبكر بالسكوت) سے یہی مذہب دلائل کے لحاظ سے زیادہ مضبوط اور درست معلوم ہوتا ہے.کے کلام کے اصل مفہوم کی بجائے اس کے بالمقابل مفہوم پر طرز کلام کی دلالت کو دلیل خطاب کہتے ہیں اسکی ایک قسم مفہوم مخالف بھی ہے ه و حکم جس میں عمومیت پائی جائے.

Page 53

دلیل خطاب یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا.تُسَا مو اليتيمة فى ننها نیز آپ نے فرمایا لا تُنْكُمُ اليَتِيمَةُ إِلَّا بِإِذْنِھا.اس سے مفہوم مخالف یہ نکلتا ہے کہ وہ لڑکی جس کا باپ زندہ ہو اسکی رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے سوائے بیوہ بالغہ کے جس کے متعلق تمام فقہا ء کا اجماع ہے کہ اس کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری ہے.عمومی حکم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آب آح بِنَفْسِهَا مِنْ وَليها نيز فرمايا لا تنكُمُ الايْمُ حَتَّى تُستَا مَر یہ حکم بالغہ اور غیر بالغہ کے لئے عام ہے.اور اس میں کسی کی تخصیص نہیں کی گئی.یہی وجہ ہے کہ امام شافعی کا یہ مذہب ہے کہ بیوہ لڑکی خواہ بالغہ ہو یا غیر بالغہ شادی کے لئے اس کی رضا مندی L حاصل کرنا ضروری ہی ہے.ان مسائل میں اختلاف کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام فقہار کا اس امر پر اجماع ثابت ہے کہ باپ باکرہ غیر بالغہ پر نکاح کے معاملہ میں جبر کر سکتا ہے.اور بیوہ بالغہ پر جبر نہیں کر سکتا.اب یہ امر قابل تحقیق ہے کہ اس حکم کا اصل باعث کیا ہے.بعض نے کہا ہے کہ اس کی وجہ بکارت ہے اور بعض نے کہا کہ اسکی وجہ صغرسنی یعنی چھوٹی عمر ہے.پس جن فقہا نے اسکی وجہ صفر سنی قرار دی ہے ان کے نزدیک باکرہ بالغہ پر جبر نہیں کیا جا سکتا اور جن کے نزدیک اسکی وجہ بکارت ہے وہ کہتے ہیں کہ باکرہ بالغہ پر جبر کیا جا سکتا ہے لیکن شیہ صغیرہ پر جبر نہیں کیا جاسکتا.اور جنہوں نے ان دونوں میں سے ہر ایک کو منفردا اس حکم کی علت قرار دیا ہے ان کے نزدیک باکرہ بالغہ نہ ترجمہ : یتیم لڑکی کے نکاح کے بارہ میں اس سے اجازت حاصل کی جائے.نیز یتیم لڑکی کا نکاح اسکی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے.(ابو داؤد کتاب النکاح باب فی الاستیمار ) سے جب کوئی حکم کسی قید یا وصف یا شرط کے ساتھ بیان کیا جائے پھر اگر وہ قید یا وصف بی شرمانہ پائی جایگی تو وہ حکم بھی نہ پایا جائے گا.ترجمہ : بیوہ عورت اپنے نکاح کے بارہ میں اپنے ولی کی نسبت زیادہ اختیارات کی مالک ہے.نیز بیوہ عورت کا نکاح اسکی رضا مندی حاصل کئے بغیر نہ کیا جائے.(اس روایت کو محدثین کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے.بحوالہ منتقی حلوا عنه) یہ مذہب دلائل کے لحاظ سے زیادہ مضبوط اور درست معلوم ہوتا ہے.

Page 54

۱۳ اور ثیبہ بغیر بالغہ ہر دو پر جبر کیا جا سکتا ہے.رفع بکارت جس کی وجہ سے احکام تبدیل ہو جاتے ہیں مثلاً یہ کہ اس پر نکاح کے بارہ میں جبر نہیں کیا جا سکتا یا اس کی رضامندی واضح الفاظ میں معلوم کرنا ضروری ہو جاتی ہے.اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے کہ یہ رفع بکارت کس طریق پر ہونی چاہیئے.امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ رفع بکارت نکاح صحیح کی صورت میں ہو یا شبہ نکاح کی صورت میں یا ملکیت کی وجہ سے ہو.لیکن اگر یہ رفع بکارت زنایا غصب کے ذریعہ سے ہو تو اس صورت میں اس پر باکرہ کے احکام ہی نافذ ہونگے یعنی نکاح کے موقعہ پر اس کا اسکوت ہی اس کی رضامندی کے لئے کافی ہوگا.اور صغیرہ ہونے کی صورت میں اس کا والد اس کی شادی کے معاملہ میں اس پر جبر کرسکے گا.امام شافعی کے نزدیک رفع بکارت خواہ کسی وجہ سے ہو اس پر قتیبہ کے احکام نافذ ہوں گے.اس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد الشیب بِنَفْسِهَا مِنْ وَلَيْهَا.میں بعض نے شیبہ سے مراد اصطلاحی نییہ لی ہے.اور بعض نے تیبہ لغویہ.جنہوں نے اصطلاحی ثیبہ مراد لی ہے.ان کے نزدیک نکاح صحیح یا نکاح شبہ یا ملکیت کا پایا جانا ضروری ہے.لیکن جنہوں نے ثیبہ لغویہ مراد لی ہے ان کے نزدیک بکارت خواہ کسی وجہ سے زائل ہو جائے.اس پر شیبہ کے احکام نافذ ہو جائیں گے.جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اس امر پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ باپ اپنی نابالغ باکرہ بیٹی اور نابالغ بیٹے کو نکاح کرنے پر مجبور کر سکتا ہے.اور اس کے متعلق انکی رضامندی ایسا نکاح جو شرعا حرام ہو لیکن نکاح کے وقت اس کا علم نہ ہوسکا ہو مثلاً نکاح کے بعد یہ معلوم ہو کہ منکوحہ اس کی رضاعی نہیں ہے یا اس کی بیوی کی حقیقی بہن ہے وغیرہ غصب سے مراد زنا بالجبر ہے.وہ عورت جس کی بکارت نکاح صحیح یا شبہ نکاح یا ملکیت کے باعث زائل ہو گئی ہو.ے وہ عورت جس کی بکارت نکاح صحیح شعبہ نکاح ملکیت یا کسی اور وجہ سے زائل ہو گئی ہو.مشکل زنا یا بیماری و غیره

Page 55

۱۳ حاصل کرنا بھی ضروری نہیں ہے.فقہار کا یہ خیال اس بنا پر ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ حتی تر عنہا سے اس وقت نکاح کیا تھا.جبکہ آپ کی عمر چھ یا سات سال تھی.اور رخصتانہ اس وقت ہوا تھا جبکہ آپ کی عمر نو سال تھی.اور یہ رخصتانہ آپ کے والد بزرگوار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے اختیار سے ہی کر دیا تھا.کیا باپ کے علاوہ دوسرا ولی بھی نکاح میں جبر کر سکتا ہے نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح باپ کے علاوہ کوئی دوسرا ولی بھی اپنی مرضی سے کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق فقہاء نے اختلاف کیا ہے.نابالغ لڑکی کے متعلق امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اس کے باپ اور دادا ہر دو کو اختیار ہے.لیکن امام مالک کے نزدیک صرف باپ کو ہی اس امر کا حق حاصل ہے یا اس شخص کو حیس کو لڑکی کا باپ خود مقرر کردے.بشرطیکہ باپ اس کے خاوند کی تعیین بھی کر دے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک ہر وہ شخص جس کو لڑکی کی ولایت حاصل ہے اسے لڑکی کی رضا مندی کے بغیر نکاح کرنے کا اختیار ہے.ہاں ! جب لڑکی بالغ ہو جائے تو اس صورت میں یہ حق باطل ہو جاتا ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد والْبِكْرُ تُسْتَأْمُرُ وَإِذْ نُهَا مُا تُهَا - عام ہے.سوائے باکرہ نابالغہ کے جس کے متعلق فقہاء کا اجماع ہے کہ اس سے اذن حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمام اولیاء ہمدردی اور مصلحت کے لحاظ سے باپ کے مساوی ہیں یا نہیں.پس بعض تو یہ کہتے ہیں کہ تمام اولیاء اس معاملہ میں مساوی ہوں، اس لئے لے اس واقعہ سے فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اس کا والد اپنی مرضی کے مطابق خود ہی کر سکتا ہے البتہ جب وہ لڑکی بالغ ہو جائے اور اسے وہ نکاح ناپسندیدہ ہو تو اس وقت اسے خیار بلوغ حاصل ہے یعنی وہ اس نکاح کو فسخ کرانے کی درخواست دے سکتی ہے.

Page 56

۱۴۴ اس حکم میں باپ کے ساتھ ملحق ہیں لیکن بعض کے نزدیک ہمدردی کے لحاظ سے داد ا کے علاؤ دوسرے اولیاء باپ کے مساوی نہیں ہو سکتے.کیونکہ ایک لحاظ سے دادا بھی باپ کے قائمقام ہی ہے لہذا صرف باپ اور دادا کو ہی اس امر کا اختیار حاصل ہے کہ وہ صغیرہ کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر کر دیں یہ مذہب امام شافعی کا ہے.بعض فقہاء صرف باپ کو ہی اس امر کا حقدار قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک جو ہمدردی اور شفقت باپ کے دل میں ہو سکتی ہے.وہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتی ہذا صرف باپ ہی اس امر کا حقدار ہے.یہ مذہب امام مالک کا ہے.امام ابو حنیفہ صغیرہ کا نکاح باپ کے علاوہ دیگر اولیاء بھی اپنی مرضی سے کر سکتے ن دلیل ہیں.امام ابوحنیفہ اپنے اس مذہب کی تائید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پیش کرتے ہیں فَإِن خِفْتُمْ أَن لَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَ فى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّساء.امام صاحب کے نزدیک اس آیت میں بتائی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اور یتیم کا لفظ صرف غیر بالغ کے لئے استعمال ہوتا ہے نیز ان خِفْتُم میں خطاب اولیا، نکاح کو ہے.لہذا اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ غیر بالغہ کا نکاح ولی اپنی مرضی سے کر سکتا ہے خواہ وہ لڑکی کا باپ ہو یا کوئی اور ہو.لیکن دوسرا فریق جو امام صاحب کے مذہب کے خلاف ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یتیم کا لفظ کبھی بالغہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے تُستَا مَرُ القيمة اس میں مقیمہ سے اذن طلب کرنے کا ارشاد ہے اور اذن صرف بالغہ سے ہی طلب کیا جاتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ سے جو استدلال امام ابو حنیفہ نے کیا ہے وہ لغوی لحاظ سے درست نہیں ہے.امام ابو حنیفہ جو صغیرہ کے نکاح کا اختیار باپ کے علاوہ جملہ اولیاء کو دیتے ہیں وہ لڑکی کو بھی اس قدر اختیار ے ترجمہ : اور اگر تمہیں یہ خوف ہوکر تم یتیموں کے بارہ میں انصاف نہ کر سکو گے تو خیر تیم عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں کر لو.(النساءع) سے دلائل کے لحاظ سے امام ابو حنیفہ " کا مذہب زیادہ مضبوط اور درست معلوم ہوتا ہے.

Page 57

۱۵ ضرور دیتے ہیں کہ جب وہ بالغ ہو جائے تو اسے خبار بلوغ حاصل ہے لہذا اگر اسے وہ نکاح نا پسند ہو تو وہ فسخ نکاح کی درخواست کر سکتی ہے.امام مالک کے نزدیک و حتی کبھی نابالغہ کا نکاح کر سکتا ہے.لیکن نا بالغہ کو اس وجہ سے فسخ نکاح کا اختیار حاصل نہیں ہے کہ اس کے سن بلوغ سے قبل اس کا نکاح کر دیا گیا تھا.کیا فریقین کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے جمہور فقہاء کے نزدیک کسی عیب کی بنا پر فریقین کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل نہیں ہے.لیکن ابو ٹور کے نزدیک فریقین کو یہ اختیار حاصل ہے.اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض فقہاء نے نکاح کو ان بیوع کے قائمقام قرار دیا.ہے جن میں فریقین کو کسی عیب کی وجہ سے فتح بیع کا اختیار حاصل ہوتا ہے.اور بعض نے اسے ان بیوع کے قائمقام قرار دیا ہے جن میں فسخ بیع کا اختیار نہیں ہوتا.ابن رشد یہ کہتے ہیں کہ عقود میں اصل حکم یہ ہے کہ ان میں فسخ عقد کا اختیار نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ کوئی صریح نص اس کی تائید میں موجود ہو.نیز بیوع میں اختیار کی وجہ یہ ہے کہ انسان دھوکے سے بچ جائے.اور نکاح میں یہ اندیشہ نہیں ہوتا.کیونکہ فریقین خوب دیکھ بھال کر نکاح کرتے ہیں.لہذا نکاح میں خبار عجیب یا خیار روئت باقی نہیں رہتا.اگر نکاح میں فریقین میں سے کسی ایک کی طرف سے قبول میں تاخیر واقع ہو جائے تو امام مالک کے نزدیک معمولی تاخیر جائز ہے لیکن امام شافعی کے نزدیک تاخیر مطلق جائز نہیں ہے خواہ تھوڑی ہو یا بہت.امام ابو حنیفہ کے نزدیک تاخیر قبول سے نکاح باطل نہیں ہوتا.پس اگر ولی کسی لڑکی کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر کسی جگہ پڑھ دے اور بعد میں اس لڑکی سے رضا مندی ا خریدار بیچنے والے سے یہ وعدہ لے لے کہ میں یہ چیز اس شرط پر خریدتا ہوں کہ اگر اتنے دنوں کے اندر اندر اس میں کوئی عیب نکل آیا تو مجھے یہ چیز واپس کرنے کا اختیار ہو گا.سے خریدار کوئی چیز دیکھنے کے بغیر ہی خرید لے اور بیچنے والے سے یہ وعدہ لے لے کہ جب میں اسے دیکھوں گا اگر اس وقت اس چیز میں کوئی عیب ہوا تو مجھے واپس کرنے کا اختیار ہوگا.

Page 58

14 حاصل کرے تو امام شافعی کے نزدیک ایسا نکاح جائز نہیں ہے.لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کے نزدیک جائز ہے.اور امام مالک کے نزدیک قلیل تاخیر کی صورت میں جائز ہے کثیر کی صورت میں نہیں.اس اختلاف کی بناء یہ ہے کہ بعض کے نزدیک فریقین کا ایجاب و قبول ایک ہی وقت میں ضروری نہیں ہے لیکن بعض کے نزدیک ایک ہی وقت میں ہونا ضروری ہے یہی اختلاف بیوع میں بھی پایا جاتا ہے.شرائط نکاح باب دوم میں جن مسائل کی تشریح مقصود ہے ان میں سے پہلا مسئلہ کیفیت نکاح کا ہے.جس کی تشریح ہم کر چکے ہیں.دوسرا مسئلہ شرائط نکاح کا ہے جس کی تشریح ہم آئندہ سطور میں کریں گے.نکاح کی بنیادی شرائط تین ہیں :- اول : اولیاء دوم :.گواہوں کی گواہی.سوم : حق مہر - نکاح کی پہلی بنیادی شرط اولیاء کی رضامندی اولیاء کے متعلق تفصیلات معلوم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل امور کا جاننا ضروری ہے اول :- کیا صحت نکاح کے لئے اولیاء کی رضا مندی ضروری ہے.دوم - اولیا ر نکاح کے اوصاف کیا ہونے چاہئیں.- سوم: اولیاء نکاح کی کتنی اقسام ہیں.اور ولایت میں ان کی کیا ترتیب ہے.چہارم کیا اولیار زوجین کو نکاح سے روک سکتے ہیں.->

Page 59

14 صحت نکاح کے لئے اولیاء کی رضامندی علماء نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے کہ کیا صحت نکاح کے لئے اولیاء کی رضامندی ضروری ہے یا نہیں ؟ امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا.امام ابو حنیفہ - زفر شعیبی اور زہری کے نزدیک جب کوئی عورت اپنا نکلی ولی کی اجازت کے بغیر ایسی جگہ کرلے جو اس کے معیار کے مطابق ہو تو جائز ہے.داؤد ظاہری نے پاکرہ اور نیہ میں فرق کیا ہے.ان کے نزدیک با گرہ کے نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے لیکن نیتہ کے نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری نہیں ہے.ابن القاسم نے امام مالک سے ایک اور قول نقل کیا ہے جس کے مطابق امام مالک کے نزدیک ولی کی شرط سنت ہے فرض نہیں ہے.مندرجہ ذیل روایات بھی امام مالک کے اس مذہب پر دلالت کرتی ہیں.اول..اگر میاں بیوی دونوں بغیر ولی کے نکاح کر لیں تو امام مالک کے نزدیک اگر ان میں سے کوئی فوت ہو جائے تو دوسرا اس کا جائز وارث ہوگا.دوم اگر کوئی عورت از خود کسی کو اپنا ولی مقرر کر کے نکاح کرلے تو یہ نکاح جائز ہوگا.سوم :- اگر بیوہ عورت خود ہی کسی کو ولی بنا کہ اپنا نکاح کرلے تو امام مالک کے نزدیک یہ کو گیسو امر مستحب ہے.بیان کردہ روایات سے یہ معلوم ہوا کہ امام مالک کے نزدیک شرط ولایت ص نکاح کے لئے نہیں بلکہ اتمام نکاح کے لئے ہے.امام مالک کے بغدادی شاگردوں کے نزدیک امام صاحب کا دوست مذہب یہ ہے کہ شرط ولایت صحیت نکاح کے لئے ہے نہ کہ اتمام نکاح کے لئے.نے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت بغیر ولی کے نکاح کرے.تو یہ نکاح شرعاً درست نہیں ہے.پس اس صورت میں خاوند پر حق مہر اور نفقہ و غیر واجب نہ ہوگا.اسی طرح اگر ان میں کوئی ایک فوت ہو جائے تو وہ ایک دوسر کے وارث ہونگے.سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر ولی کے نکاح کرلے تو یہ نکاح ہو جاتا ہے لیکن ناقص رہتا ہے.پس جب تک میاں بیوی زندہ ہیں وہ اس نکاح کو مکمل کرنے کے لئے ولی کی رضا مندی حاصل کریں.لیکن اگر ایسی رضا مندی حاصل کئے بغیر ان میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے تو وہ ایک دوسرے کے وارث ہونگے.اسی طرح اللہ کی اولاد بھی ان کی جائز وارث ہوگی.

Page 60

١٨ وجہ اختلاف اس مسئلہ میں فقہار میں اختلاف کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک جس قدر آیات اور احادیث اس بارہ میں وارد ہوئی ہیں ان سے واضح طور پر شرط ولایت ظاہر نہیں ہوتی.وہ سن جن سے بعض فقہاء یہ استدلال کرتے ہیں کہ نکاح کے لئے ولایت شرط ہے دوسر فقہار کے نزدیک ایسی تمام سنین محتمل علیہ ہیں.اسی طرح وہ سنن جن سے بعض فقہار یہ استدلال کرتے ہیں کہ نکاح کے لئے ولایت شرط نہیں ہے دوسرے گروہ کے نزدیک وہ سنن بھی محتمل علیہ ہیں.اسی طرح وہ احادیث جو اس بارہ میں منقول ہیں ان کے الفاظ اور انکی صحت میں اختلاف ہے.اب ان دلائل کے متعلق وہ احتمالات بیان کئے جاتے ہیں جو فریقین ایک دوسرے کے خلاف پیش کرتے ہیں.جو لوگ نکاح کے لئے ولایت کو شرط قرار دیتے ہیں وہ اپنے مسلک کی تائید میں سب سے بڑی دلیل قرآن مجید کی اس آیت سے پیش کرتے ہیں.وَإِذَا طَلَّقَمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ تَنْكِحُنَ ازْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ له اس آیت میں اولیا، نکاح کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اگر مطلقہ عورتیں مقرر ہیجاد گزرنے کے بعد اپنے پہلے خاوندوں سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو تم ان کو مت روکو.اس آیت سے فقہاء کا استدلال یہ ہے کہ اس میں اولیاء کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے مواقع پر مطلقہ عورتوں کو اپنے پہلے خاوندوں سے نکاح کرنے سے مت روکیں.اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء کو ولایت کا حق حاصل ہے.اگر انہیں ولایت کا حق حاصل ہی نہیں تھا اور مطلقہ عورتیں ولی کی اجازت کے بغیر خود بخود نکاح کر سکتی تھیں تو پھر ان کے اولیاء کو اپنے حق کے ناجائز استعمال سے کیوں روکا گیا.ے وہ نص جس کے معنی میں اختلاف ہو اور اس سے موافق و مخالف ہر دو مفہوم نکالے جا سکتے ہوں.لہ ترجمہ : اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پورا کر لیں تو تم انہیں جب کہ وہ نیک طریق پر باہم رضامند ہو جائیں.اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کر لینے سے مت روکو.( البقره ع ٣٠ )

Page 61

14 یہ فریق دوسری دلیل قرآن مجید کی اس آیت سے پیش کرتا ہے:.وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوْا وَلَعَبْدُ مُؤْمِنَ خَيْرٌ من مشرِك وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ اس آیت میں بھی خطاب اولیاء کو ہے اور انہیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مشرکوں کو رشتہ نہ دیں.پس ان ہر دو آیات میں اولیاء کو مخاطب کر کے اپنے حق سے تجاوز نہ کرنے کی تاکید کرنا ان کے حق کی تصدیق کرتا ہے.وہ احادیث جو یہ فریق اپنی تائید میں پیش کرتا ہے ان میں سے مشہور روایت حضرت عائشہ کی ہے عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا اِمْرَ أَي تَكَحَتْ بِغَيْرِ اِذنِ وَلِيْهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ دران دَخَلَ بِهَا فَالْمَهُرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا فَإِنِ اسْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِى مَنْ لَا وَلَقَ لَدَه امام ترمذی نے اس حدیث کو بیان کیا ہے اور اسے قابل قبول قرار دیا ہے.۲۷ ے اور مشرکوں سے جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ( مسلمان عورتیں مت پیا ہو.اور ایک مومن غلام ایک مشترک (آزاد) سے یقیناً بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کتنا ہی پسند ہو (البقرہ ) ترجمہ : حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے.آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے.پھر فرمایا اگر ایسے نکاح کے بعد وہ شخص اس سے تعلقات زوجیت قائم کرلے تو اس پر حق مہر واجب ہو جاتا ہے.اور اگر ولایت کے بارہ میں کوئی جھگڑا ہو جائے اور کوئی ولی متعین نہ ہو سکے تو اس صورت میں حائم وقت اس کا ولی ہوگا.(اس روایت کو نسائی کے علاوہ تمام صحاح نے نقل کیا ہے.جوالہ منتقی جلد ۵۵) سے اس حدیث کا مضمون محتاج تشریح نہیں ہے اس میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا گیا ہے.اور تین دفعہ اس مضمون کو دہرا کر اسکی اہمیت پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ نکاح کے احکام میں کوئی حکم بھی ایسا نہیں ملتا جس کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یقیہ حاشیہ مت پر ویکھیں

Page 62

وہ فقہاء جو صحت نکاح کے لئے ولی کی شرط ضروری قرار نہیں دیتے.وہ اپنی تائید اس قدر تشدید اور تاکید وارد ہوئی ہو جتنی اس حکم میں وارد ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایسے نکاح کے باطل ہونے کے متعلق تین مرتبہ اصلان فرمایا.- تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اس ارشاد کے مطابق حضرت عمر حضرت علی حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ہریرہ سختی سے عمل کرتے تھے.حضرت عمرہ کے متعلق تو ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت نے ایک سفر کے دوران میں اپنے جائز ولی کی بجائے کسی دوسرے شخص کو اپنا ولی بنا کر نکاح کر لیا.جب حضرت عمرؓ کے پاس یہ خبر پہنچی تو آپ نے اس نا جائز ولی اور نکاح کرنے والے مرد دونوں کو کوڑے لگوائے اور ان کے نکاح کو نا جائز قرار دیا.کشف الغمہ جلد من حضرت علی ر کے متعلق مغنی لابن قدامہ میں منقول ہے :- مَا كانَ اَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشَدُّ فِي النِّكَاحَ بِغَيْرِ ولى من عَلَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ يَضْرِبُ فيه (مغنی لابن قدامه جلد ۲ ۴۵۵) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے حضرت علی " بغیر ولی کے نکاح کے متعلق سب سے زیادہ ہے وہ سختی کیا کرتے تھے اور ایسے لوگوں کو کوڑے لگایا کرتے تھے.رض حضرت ابو ہر برگ سے دار قطنی میں روایت منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :- لا تزوج الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا فَانَ الزَّانِيَةَ هِى التى تُزَوج نَفْسَهَا که عورت بغیر ولی کے خود بخود اپنا نکاح نہ کرے کیونکہ یہ تو رانیہ کا کردار ہے کہ وہ خود بخود اپنے آپ کو دوسرے مرد کے سپرد کر دیتی ہے.(ابن ماجہ و دار قطنی بحوالہ منتقى جلد منه کیا صحابہ کے علاوہ تابعین میں سے ابن المسید بن حسن شریح مخفی اور عمر بن عبدالعزیز کا مذہب بھی یہی تھا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح حرام ہے.فقہار میں سے امام ثوری اوزاعی مالک ابن المبارک شافعی امام احمد اور اسمی کا بھی یہی مذاہب ہے.ابن المنذر نے لکھا ہے کہ صحابہ میں سے کسی ایک کا بھی اس کے خلاف عمل نہیں ملتا.و و فقار جو حضرت ابن عباس کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں.الشَّيْبُ اَحَقُّ بِنفس من والا کہ ہیں کہ بیوہ یا مطلقہ عورت اپنے نفس کی اپنے دلی کی نسبت زیادہ حقدار ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیوہ عورت اپنے ولی کی اجازت بغیر نکاح کر سکتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نکاح کے بارہ میں اسکی رائے کو خاص اہمیت دی جائے گی.یہی وجہ ہے کہ اسکی مرضی کا بالصراحت علم ہونا ضروری ہے.غرض اسلام میں کسی عورت کا نکاح اسکی رضا مندی حاصل کئے بغیر جائز نہیں البتہ مرضی معلوم کرنیکے طریق میں فرق ہے چنانچہ باکرہ عورت کی رضا مندی معلوم کر نیچے لئے صرف اسکی خاموشی کافی ہے لیکن بیوہ عورت کی رضا معلوم کر نیچے لئے اسکی خاموشی کو کافی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس لئے اس کا صریح اذن ضروری ہے پس اس حدیث کا صرف یہ مطلب ہے کہ اس بارہ میں بیوہ عورت کی رائے کو خاص اہمیت حاصل ہوگی نہ یہ کہ وہ خود بخود یہاں چاہیے نکاح کر سکے گی.خود حضرت ابن عباس جو اس روایت کے راوی ہیں ان سے عکرمہ نے مشہور روایت لانگام الا بولي والسلطان ولى من لا ولی لئے بھی بیان کی ہے جس کو ابن ماجہ نے باب لا نام الا بولی کے ماتحت نقل کیا کیا ہے.پس ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اس بارہ میں امام شافعی اور امام مالک کا مذہب ہی درست اور صائب ہے.

Page 63

۲۱ میں مندرجہ ذیل آیات سے استدلال پیش کرتے ہیں.دا) وَالَّذِينَ يُتَوَقَوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ارْبَعَةٌ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اس آیت میں بیوہ عورت کو اپنے نکاح کے متعلق از خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور اگر عورتیں مناسب کفو میں خود بخود نکاح کرلیں تو ان کے اس فعل کو جائز قرار دیا گیا ہے.متعدد آیات میں فعل نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے.جیسے آیت آن يَنْكِحُنُ أَزْوَاجَهُنَّ میں اور آیت حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیر ہیں.پس اگر نکاح کا اختیار عورتوں کو حاصل نہ ہوتا تو فعل نکاح کی نسبت ان کی طرف نہ کی جاتی.بلکہ اولیاء کی طرف ہی کی جاتی.احادیث میں سے ابن عباس کی روایت اس فریق کی بنیادی دلیل ہے.اور وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ الام احق بِنَفْسِهَا مِن وَلِيّهَا وَالبَكَرُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا وَاِذْ نَهَا مُا تُهَا.یہی وہ روایت ہے جس سے داؤ د ظاہری نے بارہ در شیبہ میں فرق کیا ہے یعنی شیبہ بغیر ولی کے نکاح کر سکتی ہے.اور باکرہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی.ابن رشد کا محاکمہ ابن رشد ان ہر دو مذاہب پر اپنی طرف سے محاکمہ پیش کرتے ہیں.چنانچہ سب سے له ترجمہ: اور تم میں سے جن لوگوں کی روح قبض کرلی جاتی ہے.اور وہ اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں.وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روک رکھیں پھر جب وہ اپنا مقررہ وقت پورا کر ہیں تو وہ اپنے متعلق مناسب طور پر جو کچھ بھی کریں اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں.اور جو تم کرتے ہو اللہ تعالے اس سے واقف ہے (البقرہ (ع۳۰) لہ اس جگہ کھو سے مراد معیار زندگی کے لحاظ سے ہم پلہ ہوتا ہے ترجمہ: کہ وہ اپنے خاوندوں سے راپنی مرضی سے) نکاح کرلیں.(البقرہ (ع۳۰) کہ ترجمہ :.یہانتک کہ وہ اس کے سوا کسی دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح کرلے.(البقرہ ع۲۹) و

Page 64

۲۲ پہلے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو نا جائز قرار دینے والوں پر مندرجہ ذیل تنقید کرتے ہیں اول :- جولوگ آیت فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا.ان کا یہ استدلال درست نہیں.کیونکہ یہ استدلال نہ تو بطور دلیل خطاب ہے اور نہ بطور نص صریح.بلکہ اس کے برعکس اس آیت سے تو یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اولیاء کو ان عورتوں کے نکاح کے بارہ میں کسی قسم کا دخل ہی نہیں ہے.اسی طرح آیت وَلَا تَنْكِحُوا المُقرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا میں بھی خطاب اولیاء کی بجائے جمیع مسلمین یا اولی الامر کے لئے زیادہ قرین قیاس ہے.یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس خطاب میں اولیاء نکاح اور اولی الامردونوں کا احتمال ہے.یعنی ہو سکتا ہے کہ یہ خطاب اولیاء نکاح کو ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے مخاطب اولی الامر ہوں.اب یہ ان لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ثابت کریں کہ اس میں اولیا، نکاح کو خطاب کیا گیا ہے اولی الامر کو نہیں یا یہ کہ اس میں اولی الامر کی نسبت اولیاء کو خطاب زیادہ قرین قیاس ہے دوم : اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں حکم عام ہے اور اس میں اولیاء اور اولی الامر دونوں شامل ہیں تو ان کو جواب میں کہا جائے گا کہ اس خطاب میں ایک شرعی تصرف سے روکا گیا ہے.نہیں اس میں اولیاء اور غیر اولیاء دونوں کی حیثیت مساوی ہوگئی اور اولیاء کی ولایت کی خصوصیت نہ رہی بلکہ اس حکم میں اجنبی بھی شامل ہو گئے.سوم.اگریہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس آیت میں اولیار کو ہی خطاب کیا گیا ہے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ صحت نکاح کے لئے اولیاء کی اجازت ضروری ہے تو ہم کہینگے کہ یہ ایک معیل حکم ہے جس پر عمل کرنا دشوار ہے.کیونکہ اس آیت میں اولیاء کی اقسام اوصاف یا مراتب کا بیان موجود نہیں ہے.حالانکہ جب ضرورت موجود ہے تو پھر تفصیلات کا بیان نہ کرنا کسی صورت میں بھی درست نہیں.چہارم : اگر یہ کہا جائے کہ اولیاء کی اقسام اور اوصاف وغیرہ بیان کرنے کی ضرورت a1 یعنی حکامم

Page 65

۲۳ نہیں ہے کیونکہ اس کے متعلق احادیث میں تفصیل آگئی ہے تو یہ جواب درست نہیں کیونکہ تفصیل ایسی ہونی چاہئے جس کی حیثیت متواتر یا متواتر کے قریب ہو.اور یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو امت میں ہر شخص کو کسی نہ کسی وقت پیش آتی رہتی ہے.علاوہ ازیں یہ بھی درست ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہی مدینہ میں ایسی عورتیں موجود تھیں جن کا کوئی ولی نہ تھا لیکن آپ نے ان کے نکاح کے لئے کسی کو ولایت کے اختیار نہ سونپے.حجم : اس آیت کے بیان کرنے کا اصل مقصد ولایت کا حکم بیان کرنا نہیں بلکہ جیسا کہ آیت کی ظاہری عبارت سے معلوم ہو رہا ہے اس کا اصل مقصد مشرکین اور مشرکات سے نکاح کرنے کی حرمت بیان کرتا ہے.پس آیت کے ظاہری معنوں کے علاوہ مکلف سے کوئی اور معنے کرنا درست نہیں ہے.ششم : حضرت عائشہ کی جو حدیث بیان کی گئی ہے اس کی صحت اور معنی کی تعیین کے سلسلہ میں فقہاء میں شدید اختلاف ہے اور یہ امرظاہر ہے کہ جس حکم کی صحت وغیرہ کے متعلق اہل علم کا اتفاق نہ ہو اس پر عمل بھی واجب نہیں ہوتا.پھر اگر ہم یہ بھی تسلیم کرلیں کہ یہ حدیث صحیح ہے تو ہم زیادہ سے زیادہ اس سے یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ وہ لڑکیاں جن کے نکاح کے لئے ولایت شرط قرار دی گئی ہے دیعنی نابالغ لڑکیاں، صرف ان کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے.اور پھر اگر یہ بھی تسلیم کر لی جائے کہ یہ حکم تمام عورتوں کے لئے عام ہے تو اس سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے جائز ولی سے اپنے نکاح کے لئے عمومی اجارت حاصل کرلے تو اس ولی کا نکاح کے وقت اصالتاً یا د کا لنا موجود ہونا بھی ضروری ہے دوسرے مذاہب پر ابن رشد کی تنقید ابن رشد دوسرے فریق کے دلائل پر حسب ذیل تنقید کرتے ہیں.اول -- دوسرا فریق جو آیت فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلُنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ

Page 66

۲۴ معروف سے یہ استدلال کرتا ہے کہ اس میں عورتوں کو اپنا نکاح آپ کرنے کا پورا حق حاصل ہے یہ درست نہیں ہے.اس کے ظاہر معنی سے تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت ولی کی اجازت کے بغیر خود بخود اپنا نکاح کرلے تو اس کو اس غلطی پر سلامت مت کرو.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر یہ نکاح دستور کے مطابق نہ ہو تو ولی اس کو منسوخ نہیں کر سکتا.شریعت کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ عورت کا نکاح اس کے معیار کے مطابق ہو اور اس میں دیگر شرائط نکاح کی بھی پابندی ہو.پس اگر ولی یہ سمجھے کہ یہ نکاح کفو میں نہیں ہوا اور نکاح کی دیگر شرائط مثلاً حق مہر یا گواہان کے متعلق شریعت کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوا تو اس صورت میں ولی کو اختیار ہے کہ وہ اس نکاح کو کالعدم قرار دیدے.دوم :- دوسرا فریق جو یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ آیت آن يَنكِحُنَ اَزْوَاجَهُنَّ اور حَتَّى تَنْكِحَ زَ و جَاغَيْرَہ میں فعل نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے بارہ میں عورتوں کو خصوصی حق حاصل ہے.یہ بھی درست نہیں.کیونکہ یہ استدلال صرف اس صورت میں درست ہو سکتا ہے جب کہ اس خصوصیت کے خلاف کوئی اور دلیل موجود نہ ہو نہیں جب اس خصوصیت کو باطل کرنے والے دیگر دلائل موجود ہیں تو اس صورت میں یہ خود بخود نہ اٹل ہو جاتی ہے جب یہ ثابت ہو چکا کہ اولیاء کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے تو اس بارہ میں عورتوں کی خصوصیت قائم نہ رہی.سوم : حضرت ابن عباس کی روایت سے جو استدلال پیش کیا گیا ہے وہ بھی درست :- نہیں ہے.یہ روایت تو صرف نیب اور پکر کے حقوق میں فرق کو ظاہر کرتی ہے.ور نہ جب یہ مان لیا جائے کہ یہ دونوں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتیں تو پھر الايْمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِن دکھا کا حکم دے کر شیبہ کو اس حکم سے مستثنیٰ

Page 67

۲۵ کیوں قرار دیا گیا ہے.احناف جو کہ ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں.حضرت عائشہ کی روایت کو بوجوہات ذیل ضعیف سمجھتے ہیں.(1) اس روایت کو ایک جماعت نے زہری سے بیان کیا ہے اور ابن معلیہ نے کہا ہے کہ اس نے اس روایت کے متعلق زہری سے دریافت کیا تو اُس نے کہا کہ مجھے اس کے متعلق کچھ علم نہیں ہے خود زہری جو اس روایت کے راوی ہیں نکاح کے لئے ولایت کو شرط قرار نہیں دیتے.ے اس اعتراض کا جواب مختلف آئمہ نے دیا ہے.چنانچہ ابن حیان نے اپنی صحیح میں اس کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے.وَلَيْسَ هَذَا مِمَّا يُقدم في صحة الْخَيْرِ لِأَنَّ الصَّابِطَ مِنْ أهلِ الْعِلْمِ قَدْ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ ثُمَّ يَدَسَاهُ فَإِذَا سُئِلَ عَنْهُ لَمْ يَعْرِفَهُ فَلا يَكُونُ نِسْياتُهُ وَالَّا عَلَى يُطْلَانِ الْخَيْرِ وَ هَذَا المُصْطَفَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ الْبَشَرِ صَلَّى فَسَهَا فَقِيلَ لَهُ أَقْصِرَتِ الصَّلَوةُ امْرَنَسِيتَ ؟ فقال كل ذلِكَ لَمْ يَكُنْ فَلَمَّا جَازَ عَلَى مَنِ اصْطَفَاهُ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ فِي أَعَم أمور المُسْلِمِينَ الَّذِي هُوَ الصَّلوةُ حِيْنَ نَسِيَ فَلَمَّا سَأَلُوهُ أَنْكَرَ ذلك وَلَمْ يَكُن نِيَانَهُ وَ إِلَّا عَلَى بُطْلَانِ الْحُكْمِ الَّذِي نَسِيَهُ هَانَ جَوَارُ النِّسْيَانِ عَلَى مَنْ دُونَهُ مِنْ أُمَّتِهِ الَّذِينَ لَمْ يَكُونُوا بِمَعْصُومِينَ اولى ترجمہ اک شخص کی اپنی بیان کردہ روایت کو بھول جانا ، یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس شخص کی بیان کی ہوئی روایت درست نہیں ہے.کیونکہ بسا اوقات ایک شخص میں کا حافظہ بہت قوی ہوتا ہے وہ ایک روایت بیان کرنے کے بعد بھول جاتا ہے اور جب اس کے متعلق اس سے دو ریاست کیا جاتا ہے تو وہ کہند یتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں ہے پس اس کا بھول جانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کی بیان کر وہ روایت جھوٹی ہے.خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خیر البشر ہیں ایک مرتبہ نما نہیں بھول گئے.اس کے بعد جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ نماز میں قصر کا حکم نازل ہو گیا ہے یا آپ بھول گئے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ نہ نماز

Page 68

74 قصر ہوتی ہے اور نہ ہی میں بھولا ہوں.جب آپ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے منتخب فرمایا ہے مسلمانوں کے عام احکام مثلاً نمانہ میں بھول جاتے ہیں اور جب آپ سے دریافت کیا جاتا ہے تو آپ اس سے لاعلمی کا اظہار فرماتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا کسی معامر میں بھول جانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ چکر پائل ہو گیا ہے تو آپ کی اُمت میں سے وہ لوگ جو خطا سے معصوم نہیں ہیں ان کا بھول جانا تو بدرجہ اولیٰ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ امر جیس کے متعلق کوئی بھول جائے اس کا حکم باطل نہیں ہو جاتا.ر صحيح ابن حبان حواله تصب الرأية لاحاديث الهداية جلد ۳ ها) ابن حزم نے محلی میں اس کا مدلل اور مسکت جواب دیا ہے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں : - فَاذا صلح آن رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسِيَ آيَةً مِنَ الْقُرْ أَنِ عَمَنِ الزُّهْرِى وَمَنْ سُلَمَانُ وَمَن يَحْيى حتى لا ينسى ؛ وَقَدْ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِي لَكِنِ ابْنُ جُرَيْجٍ ثِقَةٌ فَإِذَا رَوَى لَنَا عَنْ سُلَيْن مِنْ مُوسَى وَهُوَ ثقَةُ أَنَّهُ أَخْبَرَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ بِخَيْرِ مُسْنَدٍ فَقَدْ قَامَتِ الْحُجَّةُ بِهِ سَوَاءً نسوة بَعْدَ أَنْ بَلَغُوهُ وَحَدَّلُوا بِهِ أَوَلَمْ يَنْسُوهُ وَقَدْنَى أَبُو هُرَيْرَةَ حديث لا عَدْوَى وَنَسِيَ الْحَسَنُ حَدِيثَ مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ وَنَسِيَ أَبُو معبد مولى ابنِ عَبَّاس حَدِيثَ التَّكْبِيرِ بَعْدَ الصَّلوةِ بَعْدَ اَنْ هَل تُوهُ يها فكَانَ مَاذَا : لَا يَحْتَرِضُ بِهَذَا الجَاهِلُ اَوْ مُدَافِعُ لِلْحَقِّ بِالْبَاطِل ولا تدْرِي فِي آتِي الْقُرْآنِ آخر في آي السُّنَنِ آمر في آي الحُكْمِ الْمَعْقُونِ وجدوا ؟ أَنَّ مَنْ حَدَّثَ بِحَدِيثِ ثُمَّ نَسِيَهُ أَن حُكْمَ ذَلِكَ الْخَبَرِ يَبْطُلُ.مَا هُم الا في دَعْوَى كَاذِبَةٍ بِلابُرْهَانِ.ترجمہ :.جب یہ صحیح ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ قرآن مجید کی آیت بھول گئے تو پھر زہری اور سلیمان اور یحینی کی کیا حیثیت ہے کہ وہ نہ بھولیں دیہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسجد میں ایک شخص کی قرآت سن رہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اش شخص نے مجھے ایک آیت یاد کرا دی ہے جو مجھے بھول گئی تھی) (بقیہ حاشیہ دیکھو مت،

Page 69

۲۷ (۲) اسی طرح حضرت عائش ہو بھی نکاح کے لئے ولی کی رضا مندی کو ضروری قرار نہیں بقيه حاشیه ت دیتی تھیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آدم علیہ السلام سے پہلے عہد لیا پھر وہ بھول گئے.پس جب ابن جریح ثقہ ہیں اور وہ ہمارے پاس سیلیمان بن موشی سے یہ روایت کرتے ہیں (اور وہ بھی ثقہ ہیں، کہ ان کے پاس زہری نے حدیث بیان کی تو وہ روایت قابل محبت ہوگی جبکہ ان لوگوں نے یہ روایت شنکر آگے بیان کر دی اس کے بعد خواہ وہ اسے بھول جائیں یا نہ بھولیں داس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ) یہ امر بھی ستم ہے کہ حضرت ابو ہریرہ حدیث لا عدوی اور حضرت حسن حدیث " من قتل عید اور حضرت ابن عباس کے غلام ابو معبد حديث التكبير بعد الصلوة " بيان کرنے کے بعد بھول گئے تھے تو اس سے ان احکام پر کیا اثر پڑا.لہذا اس پر سوائے ناواقف شخص کے اور اس کے جو حق کا باطل کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتا ہو کوئی دوسرا شخص اعتراض نہیں کر سکتا.اور ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے یہ دلیل کس قرآن سے یا کسی سنت نبوی سے یا کسی معقول حکم سے حاصل کی ہے.کہ اگر کوئی شخص ایک روایت بیان کرنے کے بعد اسے بھول جائے تو اس روایت کا حکم باطل ہو جاتا ہے.پس ایسے لوگوں کا دعویٰ غلط اور بلادلیل ہے (محلی ابن حزم جلده ۳۵۳ ) اس اعتراض کا جواب اور بھی متعدد آئمہ نے مختلف طریق پر دیا ہے لیکن طوالت کے خوف سے اس جگہ ان کو نقل نہیں کیا گیا.بہر حال یہ اعتراض اصول روایت کے اعتبار سے بہت کمزور ہے کیونکہ جملہ محدثین اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ بعض اوقات ثقہ رواۃ اپنی روایت کو بھول جاتے ہیں.چنانچہ دارقطنی نے روایات کا ایک ایسا مجموعہ مرتب کیا ہے جس کو مختلف راویوں نے بیان کیا اور پھر اس کے بعد وہ کھول گئے کہ وہ روایت خود انہوں نے بیان کی تھی.لیکن اس کے باوجود ایسی روایات کو محدثین نے صحیح تسلیم کیا ہے.پھر عقلاً بھی یہ ماننا پڑے گا کہ ایک راوی جو مرفوع روایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا ہے اس کے مقابلہ میں اسکی ذاتی رائے یا اس کے قیاس کو ترجیح نہیں دی جاسکتی کیونکہ روایت پر عمل کرنا تو واجب ہے لیکن اس کے مقابلہ میں راوی کا قیاس کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ے.یہ خیال کہ حضرت عائشہ نکاح کے لئے ولی کی رضا مندی کو ضروری خیال نہیں فرمائی تھیں.یہ واقعات کے خلاف ہے.چنانچہ ابن حزم رکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عائشہ نے اپنے خاندان کے ایک لڑکے اور لڑکی سے نکاح کی بات چیت طے کی.جب نکاح کے علاوہ دیگر امور کے متعلق فیصلہ ہو گیا تو آپ نے خاندان کے ایک شخص کو کہا کہ وہ اس نکاح کی اجازت دے.کیونکہ عورتوں کو نکاح کی ولایت کا اختیار حاصل نہیں ہے.(محتی ابن حزم جلد ۹ ۴۵۳) ر بقیہ حاشیہ دیکھو )

Page 70

۲۸ بقيه حضرت ابن عباس سے لا نكاح الاً پوری کی جو روایت بیان کی گئی ہے اس کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ کیا یہ مرفوع بھی ہے یا نہیں ؟ پس اس غیر یقینی روایت حضرت عائشہ ور کے متعلق یہ خیال کہ وہ نکاح کے لئے ولی کی اجازت کو ضروری خیال نہ فرماتی تھی بہیقی کی ایک روایت کی بناء پر ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.عَن عَائِشَةَ أَنَّهَا زَوَّجَتْ حَفْصَةً بنتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ الرُّبَيْرِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ غَائِب بالشام - کہ حضرت عائشہ نے حفصہ بنت عبدالرحمن کا نکاح منددین نے بیر سے کیا جب کہ عبد الرحمن شام گئے ہوئے تھے.IAY اس کا جواب خود بہقی نے یہ دیا ہے کہ اس روایت میں " زوجت " کا مطلب یہ ہے کہ ممَّدَتْ اسْبَابَ التَّزْوِي وَأَضِيفَ النِّكَاحُ البُهَا لِاخْتِيَارِهَا ذلِكَ کہ اپنے نکارج کے انتظامات کئے.اس طرح نکاح کی اضافت آپ کی طرف ہی کر دی گئی کیونکہ آپ کو تمام انتظامات کا اختیار دیا گیا تھا ر بیہقی جو النصب الراية جلد ۳ ص ) نے یہ اعتراض کہ ابن عباس کی روایت کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے درست نہیں کیونکہ اسکی تائید دوسری روایات سے بھی ہو رہی ہے چنانچہ حضرت عائشہ کی روایت کے متعلق پہلے مفصل بحث گزر چکی ہے.وہ روایت حضرت ابن عباس کی روایت کی تائید کرتی ہے اور اس کو نسائی کے سوا باقی سب صحاح نے بیان کیا ہے.اس کے علاوہ اس روایت کو ابو بردہ نے ابو موسی کے واسطہ سے رسول کریم ملی تیر علیہ کو کم سے بیان کیا ہے.اور اسے ابو داؤد.تریزی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے.اسی طرح طبرانی نے حضرت باہر سے مرفوعا.اور دارقطنی نے عبداللہ ابن مسعود سے اس روایت کو بیان کیا ہے.پس جبکہ ابن عباس کی روایت کی تائید دیگر متعدد روایات سے ہو رہی ہے تو اس صورت میں اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں رہتی کہ حضرت ابن عباس کی روایت کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے حق تو یہ ہے کہ حضرت ابن عباس کی روایت بھی بعض محدثین نے مرفوع سند سے نقل کی ہے.اور اس کی رجال کو ثقہ قرار دیا ہے.چنانچہ دار قطنی میں یہ روایت مندرجہ ذیل سند سے منقول ہے.عن عبْدِ اللهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عَدِي بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خَيْم عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرِ عَنِ ابن عباس.اس سند کے متعلق دارقطنی نے لکھا ہے کہ یہ مرفوع ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں.دار قطنی کتاب النکاح ص۳۸۲) اسی طرح طہرانی نے اس روایت کو مکن ابی یعقوب بن ابی نجیح عن عطاء عن ابن عباس نقل کیا ہے اور یہ سند بھی مرفوع ہے لہذا یہ اعتراض کسی رنگ میں بھی درست نہ رہا کہ اس روایت کے مرفوع ہوتے ہیں اختلاف ہے.

Page 71

۲۹ پر کسی مذہب کی بنیا د کس طرح رکھی جاسکتی ہے؟ اسی طرح اس حدیث کی صحت کے متعلق بھی اختلاف ہے میں میں کہا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نکاح ام سلمہ سے کرتے وقت اس کے بیٹے کو ولی بننے کے لئے کہا تھا.فریقین نے جو عقلی دلائل دیئے ہیں.ابن رشد نے ان پر بھی تنقید کی ہے.مثلاً وہ لوگ جو نکاح کے لئے ولایت کو شرط قرار نہیں دیتے وہ ایک عقلی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ بالغہ کو اپنے نکاح کے لئے اسی طرح آزادی ہونی چاہئیے جیسا کہ اسے اپنے مال میں تصرف کرنے کی آزادی ہوتی ہے.اس دلیل کا ابن رشد نے یہ جواب دیا ہے کہ عورت کے اندر چونکہ فطری طور پر مرد کی طرف میلان پایا جاتا ہے اس لئے شریعت نے اسے اس غلطی سے بچانے کے لئے کہ وہ جذبات سے مغلوب ہو کیا اپنے لئے کسی ایسے شخص کا انتخاب نہ کرلے جو اس کے مناسب حال نہ ہو یہ پابندی لگا دی کہ وہ اولیاء کی اجازت سے نکاح کرے اور اگر وہ اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کر بھی لے تو وہ اسے فسخ کر سکتے ہیں.ابن رشد کہتے ہیں کہ اس پر بھی یہ اعتراض وارد ہوتا ہے.کہ جب شریعت نے اولیاء کی رضا مندی لازم قرار دی تھی تو اسے اولیاء کی اقسام اور نوعیت کی تعیین بھی کرتی چاہئیے تھی.اور ان کے مراتب بھی بیان کرنے چاہئے تھے کیونکہ ضرورت کے وقت تاخیر بیان جائزہ نہیں ہے اور اگر خود شارع علیہ السلام نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی تھی تو عام ضرورت کے پیش نظر آپ کے فعل اور عمل سے یہ مسئلہ اس حد تک واضح ہو جانا چاہیئے تھا کہ امت میں سے کسی شخص کو ولایت کے احکام کے بارہ میں کوئی ابہام باقی نے یہ کہتا کہ اس روایت کی صحت میں اختلاف ہے درست اعتراض نہیں ہے.کیونکہ یہ اعتراض صرف اس صورت میں وزنی ہو سکتا ہے جبکہ یہ کہا جائے کہ اس واقعہ کی صحت کے متعلق اختلاف ہے جب ایک واقعہ کے متعلق تمام محدثین کا اتفاق ہے تو پھر اب صرف یہ اعتراض باقی رہ جاتا ہے کہ اس واقعہ کو کسی نے صحیح سند سے بیان نہیں کیا.یہ اعتراض بھی اس لئے درست نہیں ہے کہ اس روایت کو نسائی نے صحیح سند سے نقل کیا ہے.چنانچہ منتقی نے لکھا ہے وَاخْرَجَ النِّسَائی بسند صحيح عن أم سلمة کہ اس روایت کو نسائی نے ام سلمہ سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے منتقی جلد منہ)

Page 72

٣٠ نہ رہتا.لیکن جب یہ شرائط منقول نہیں ہیں تو اس صورت میں ان دو امور میں سے ایک امر پر اتفاق ہونا چاہیئے.اول، صحت نکاح کے لئے اولیاء کی شرط نہیں ہے اولیا صرف نگرانی کر سکتے ہیں.ووم صحت نکاح کے لئے اولیاء کی رضامندی ضروری ہے مگر اولیاء کی صفات اور مراتب کی تمیز ضروری نہیں ہے.اولیاء کے اوصاف اولیاء کے اوصاف کے متعلق تمام فقہا، اس بات پر متفق ہیں کہ ولی مسلمان.بالغ مرد ہونا چاہیئے.تین اشخاص کے متعلق اختلاف ہے یعنی غلام فاسق اور سفیہ غلام کے متعلق اکثر فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ اس کی ولایت درست نہیں ہے لیکن ایام ابو حنیفہ کے نزدیک درست ہے.اس کے متعلق اکثر اصحاب مالک کا مذہب یہ ہے کہ یہ امر ولایت کے لئے شرط نہیں ہے.اور یہی مذہب امام ابو حنیفہ کا ہے.لیکن امام شافعی کے نزدیک شد بھی ایک ضروری شرط ہے.اور امام مالک سے ایک روایت امام شافعی کے مذہب کے موافق بھی بیان کی گئی ہے.چنانچہ امام مالک کے شاگردوں میں نئے اشہب اور ابو مصعب اس روایت کے حامی ہیں.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ سوال ہے کہ نکاح کی ولایت مال کی وارات کے مشابہ ہے یا نہیں، پس جس کے نزدیک اشد ولایت نکاح میں ضروری ہے زر خرید غلام کا دستور چونکہ آجکل دنیا میں کی جگہ قانونا جائز نہیں ہے اسلئے یہ تم جیل کے دستور پر جہاں نہیں ہو سکتا.ے اس جگہ سفینہ سے مراد وہ شخص ہے جو نفع اور نقصان میں تمیز نہ کر سکے.اس کے لئے اردو میں کوئی ایسا متبادل لفظ نہیں مل سکا تو اس کے منظوم کو پوری طرح ادا کر سکے.سے رشد سے مراد اس جگہ وہ صفت ہے جس کے ماتحت کوئی شخص نفع اور نقصان میں تمیز کر سکتا ہے یہ لفظ سفاہت کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے.

Page 73

۳۱ لیکن ولایت مال میں ضروری نہیں ہے.اس نے ولایت مال کے لئے ریشر کا پایا جانا ضروری قرار نہیں دیا.جن فقہاء کے نزدیک رشد کے بغیر ان دونوں کا اختیار حاصل ہونا شرعاً درست نہیں ہے ان کے نزدیک ولایت حال میں بھی اُشد کا پایا جانا اسی طرح ضروری ہے جس طرح ولایت نکاح میں.اس پر ابن رشد کا خیال یہ ہے کہ بے شک ولایت مال اور ولایت نکاح دونوں کے لئے رشد کا پایا جانا ضروری ہے لیکن ولایت نکاح اور ولایت مال دونوں میں ارشد کے مدارج میں فرق کرنا پڑے گا.ولی کے عادل ہونے کے بارہ میں اختلاف اس وجہ سے ہے کہ ولی کے غیر عادل ہونیکی صورت میں اس بات کا اندیشہ باقی رہتا ہے کہ وہ ایسا رشتہ تجویز کر دے جو غیر مناسب ہو اور لڑکی کے معیار کے مطابق نہ ہو حالانکہ ولایت نکاح کا فریضہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ عادل ہو اور ولایت کے حقوق کی نگہداشت کر سکتا ہو.اس پر ابن رشد اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ اس کے متعلق یہ کہا ہیا سکتا ہے کہ ولایت نکاح کے لئے جن اوصاف کی ضرورت ہے ان میں عدالت کا شمار نہیں ہوتا کیونکہ معیاری رشتہ تلاش کرنے کا اصل محرک تو انسان کا یہ احساس ہے کہ لوگ اسے یہ طعنہ نہ دیں کہ اس نے اپنے خاندان کے لئے ایسا رشتہ منتخب کیا ہے جو اسکی شان کے شایاں نہیں ہے.یہ احساس تو ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے اور جس عدالت کا ذکر اس باب میں کیا گیا ہے یہ سبھی چیز ہے لہذا اسے ضروری شرط قرار نہیں دیتا.چاہیئے.غلام کی ولایت اور عدالت میں بھی اسی وجہ سے اختلاف کیا گیا ہے کہ اس کی ذہنی پستی کی وجہ سے اس کے قومی میں ایک قسم کا نقص واقعہ ہو جاتا ہے.عادل سے مراد اس جگہ صرف وہ شخص ہے جس کے اندر احساس ذمہ داری پایا جاتا ہو اور سوسائٹی میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو.

Page 74

۳۲ (1) اولیاء کی اقسام ولایت نکاح کے لئے مندرجہ ذیل خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے ، قرابت نسبی (۲) اختیار حکومت (۳) اختیار ملکیت.(ہی) وصی - (۵) وکالت ترتیب ولایت ترتیب ولایت میں اختلاف ہے.امام مالک کے نزدیک تمام عصبات ولی ہیں.اور جو قریبی عصبہ ہو گا وہ ولایت کا زیادہ حقدار ہوگا.مثلاً بیٹے اور پوتے سب سے اولیٰ ہیں.ان کے بعد باپ.پھر حقیقی بھائی.پھر باپ کی طرف سے بھائی.پھر حقیقی بھائی کے بیٹے پھر باپ کی طرف سے بھائی کے بیٹے.پھر دادا - ابو مغیرہ کے نزدیک باپ اور دادا بہ نسبت بھائی اور بھتیجے کے زیادہ قریب ہیں پھر چھے.پھر حاکم وقت.امام شافعی کے نزدیک بیٹے ولی نہیں بن سکتے.اسی طرح بھائی دادا سے فائق نہیں ہو سکتے.امام مالک کی ایک روایت یہ ہے کہ باپ بیٹے سے اولیٰ ہے.اور ابن رشہر کے نزدیک یہ خیال درست ہے.اسی طرح امام مالک کی ایک روایت کے مطابق دادا بھائی سے اولیٰ ہے اور یہی مغیرہ کا مذہب ہے.امام شافعی کے نزدیک بیٹا عصبہ نہیں ہے.اس لئے وہ ولی بھی نہیں ہو سکتا ان کا استدلال حضرت عمرہ کی مندرجہ ذیل روایت سے ہے کہ لَا تُنْكَمُ الْمَرْآةُ إِلَّا بِاذْنِ وَلِيهَا أوذي الرأْيِ مِنْ أَهْلِهَا أَو السُّلطَانِ ے وکیل اور وصی میں یہ فرق ہے کہ وکیل موکل کی زندگی میں ہوتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اسکی وکالت ختم ہو جاتی ہے لیکن وصی موصی کے مرنے کے بعد وکیل ہوتا ہے اسکی زندگی میں اسے کوئی اختیار نہیں ہوتا.سے عصبہ سے مراد بیٹے پوتے.باپ اور باپ کی طرف سے تمام مرد رشتہ دار ہیں.ترجمہ : کسی عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر یا اس کے خاندان میں سے کسی صاحب دوا ہے کی اجازت یا حاکم وقت کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے.

Page 75

٣٣ لیکن امام مالک حضرت ام سلمہ کی اس روایت کی بنا پر بیٹے کو ولایت سے فالح نہیں کرتے.اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ ابْنَهَا أَنْ يَنْكِحَهَا إِيَّاه دادا کے متعلق اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ دادا کو زیادہ قریبی سمجھتے ہیں وہ دادا کو ترجیح دیتے ہیں.اور جو لوگ بھائی کو زیادہ قریبی سمجھتے ہیں وہ بھائی کو ترجیح دیتے ہیں.اولیاء کی ترتیب کے بارہ میں تین مسائل زیادہ تر زیر بحث آتے ہیں.(1) جب بعید ولی قریبی ولی کی موجودگی میں نکاح کر دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ (۲) جب قریبی ولی غائب ہو تو کیا ولایت کے اختیارات بعید ولی کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں یا حاکم وقت کی طرف ؟ (۳) جب باپ اپنی باکرہ بیٹی کے نکاح کے وقت موجود نہ ہو تو کیا اس صورت میں باپ کی ولایت منتقل ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ مسئلہ اول کے متعلق امام مالک سے تین اقوال منقول ہیں.اول : جب قریبی ولی کی موجودگی میں بعید و لی نکاح کر دے تو نکاح قابل فسخ ہے.ووم:.ایسا نکاح جائز ہے.سوم :- اس صورتیں بیوی کو اختیار ہوا ہے چاہے تو وہ اس نکاح کو قائم رکے اور چاہے تو فسخ کر دے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی بنا یہ ہے کہ کیا یہ ترتیب شرعی حکم کی بنا پر مقرر کی گئی ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ شرعی حکم کی بنا پر ہے تو کیا یہ ولی کے حقوق میں سے ہے یا حقوق اللہ میں سے ہے؟ پس جو لوگ اسے حکم شرعی خیال نہیں کرتے.ان کے نزدیک قریبی ولی کی موجودگی میں بھی بعید ولی نکاح کر سکتا ہے.اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم شرعی ہے اور ولی کے حقوق میں سے ہے.ان کے نزدیک اگر نکاح ولی کی اجازت کے بغیر پڑھا جائے ترجمہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے حضرت ام سلمہ کے بیٹے کو ارشا د فرمایا کہ وہ اپنی والدہ کا ولی بن کر آپ سے نکاح کرا دے.(مسند امام احمد و نسائی کتاب النکاح باب انکارح الابن امته)

Page 76

تو وہ اس وقت تک معلق رہے گا جب تک ولی اس کی اجازت نہ دیدے.جب ولی اس کی تصدیق کر دے گا تو وہ نافذ ہو جائے گا ورنہ فسخ ہو جائے گا.دوسرے مسئلہ کے متعلق امام مالک کے نزدیک اگر ولی قریب غائب ہو تو اس صورت میں ولایت کے اختیارات بعید ولی کی طرف منتقل ہو جائیں گے لیکن امام شافعی کے نزدیک اس صورت میں ولایت کے اختیارات حاکم وقت کی طرف منتقل ہو جائیں گے.اس اختلاف کی بنا یہ ہے کہ کیا اوٹی کی اس قسم کی غیر حاضری کی موت قائمقام ہے یا نہیں.جن کے نزدیک یہ موت کے قائمقام ہے ان کے نزدیک ولایت کے اختیارات بعید ولی کی طرف منتقل ہو جائیں گے دوسروں کے نزدیک نہیں.تیسرے مسئلہ کے متعلق بہت سے اختلافات اور تفصیلات قابل ذکر ہیں :- در حقیقت یہ اختلاف ولی کے مکان کے قرب و بعد یا غیر حاضری کے عرصہ اور اس کی جائے رہائش کے علم اور عدم علم پر منحصر ہے.نیز ان حالات کو بھی مد نظر رکھنا پڑے گا کہ لڑکی کے نکاح کی اشد ضرورت کیوں پیش آئی.کیا اس لئے کہ اس کو کوئی نفقہ دینے والا نہیں ہے.یا اس لئے کہ اس کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہے یا یہ دونوں وجوہات موجود ہیں.اس امر پر تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ اگر باپ لیے عرصہ سے غائب ہو یا اس کی جائے رہائش کا کچھ علم نہ ہو یا اس کا باپ لمبی قید میں ہو.مگر لڑکی کے نفقہ اور حفاظت کے سامان موجود ہوں تو ایسی صورت میں اگر لڑکی نکاح کا تقاضا نہ کرے تو اس کا نکاح نہ کیا جائے اور اگر وہ نکاح کا تقاضا کرے تو اس کے ولی کی لمبی قید یا مجہول المکان ہونے کی صورت میں اس کا نکاح کر دیا جائے.اگر ولی کا مکان معلوم ہو لیکن بعید ہو تو اس صورت میں امام مالک کا نذری یہ ہے کہ لڑکی کا.....نکاح کر دیا جائے لیکن عبدالملک اور ابو وہب کا قول یہ ہے کہ نہ کیا جائے.اگر مندرجہ بالا تین صورتوں میں لڑکی سے نفقہ اور حفاظت کا

Page 77

۳۵ انتظام نہ ہو تو اس صورت میں فقہاء کے نزدیک اس کا نکاح کر دیا جائے خواہ وہ اس کا مطالبہ کرے یا نہ کرے.اگر ولی کسی قریب جگہ پر ہی موجود ہو اور وہ جگہ معلوم ہو تو اس صورت میں فقہار کا اتفاق ہے کہ اس کی آمد تک نکاح نہ کیا جائے.کیونکہ عام حالات میں ایسی جگہ سے دلی خود آ کر نکاح کر سکتا ہے لیکن اگر حاکم وقت مصلحتا یہ دیکھے کہ وقت تنگ ہے اور اگر لڑکی کا نکاح نہ کیا گیا تو فساد کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں خود حاکم وقت اپنے حکم سے اس کا نکاح کر سکتا ہے.اگر ایک عورت اپنے نکاح کا معاملہ دو ولیوں کے ہاتھ میں دیدے اور وہ دونوں ولی اس کا نکاح دو جگہ پر کر دیں تو اس صورت میں یا تو یہ معلوم ہوگا کہ پہلے کسی ولی نے نکاح کیا ہے یا یہ معلوم نہ ہوگا.اگر یہ معلوم ہو کہ پہلے کس نے نکاح کیا ہے تو اس پر تمام فقہاء کا اجماع ہے کہ اس صورت میں پہلے ولی کا نکاح صحیح ہوگا بشرطیکہ کسی جگہ بھی ازدواجی تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں.لیکن اگر دوسرے نے ازدواجی تعلقات قائم کرلئے ہوں تو اس صورت میں امام شافعی اور ابن عبد الحکم کا مذہب یہ ہے کہ پہلے کا نکاح بحال رہے گا اور امام مالک اور ابن القاسم کا خیال یہ ہے کہ دوسرے ولی کا نکاح بحال رہے گا.اگر دونوں ولیوں نے ایک ہی وقت میں نکاح کیا ہو تو اس صورت میں سب کا مذہب یہ ہے کہ دونوں کا نکاح فسخ ہو جائے گا.له شریعت نے نکاح کے تعلقات کو منقطع کرنے کے دو طریق رکھے ہیں (ا) خاوند اپنی بیوی کو طلاق کے ذریعہ سے جدا کرے (۲) بیوی حاکم وقت کے پاس وجو ہات پیش کر کے خاوند سے علیحدگی کا فیصلہ حاصل کرلے پہلی صورت کا نام طلاق ہے اور دوسری صورت کا نام شیخ نکاح ہے میں طرح عورت پر نکاح کرنے کے لئے یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ وہ ولی کی رضا مندی حاصل کرے اسی طرح فسخ نکاح کے لئے بھی اس پر یہ لازم ہے کہ وہ اس وقت کے ملکی نظام یا مذہبی نظام کے ماتحت مقرر کردہ حاکم یا قاضی کے سامنے وجوہات پیش کر کے اپنی علیحدگی کا فیصلہ کرائے بصورت چونکہ خارجی حالات سے بہت تم آگاہ ہوتی ہے اس لئے اس کی بہبودی اور بہتری کے لئے شریعیت نے اس پر یہ پابندی عائد کی ہے.تا ایسا نہ ہو کہ وہ وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی ایسا اقدام کر بیٹھے جو مستقبل میں اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہو.ہو

Page 78

ازدواجی تعلقات قیام یا دم قیام کے متعلق جو اختلاف بیان ہوا ہے اس کی بنیاد ایک روایت اور ایک قیاس پر ہے.روایت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَيُّمَا امْرَأَةٍ أَنَكَحَهَا وَلِيَّانِ فَهِيَ لِلْاَوَّلِ مِنْهُمَانه اس روایت میں عمومیت ہے یعنی اس میں یہ تخصیص نہیں کی گئی کہ دوسرے نے ازدواجی تعلقات قائم کئے ہیں یا نہیں.پس اس عمومیت کی بنا پر ان دونوں صورتوں میں پہلے ولی کا نکاح بحال رہے گا.جو فقیہہ یہ کہتے ہیں کہ اگر دوسرے خاوند نے تعلقات زوجیت قائم کرلئے ہوں تو اس کا نکاح بحال ہوگا ان کی قیاسی دلیل یہ ہے.کہ یہ نکاح اس مکروہ بیع کے مشابہ ہے جس میں خرید شدہ مال ضائع ہو جائے.اس صورت میں بیع مکروہ بحال رہتی ہے ایسا نکاح بھی جبکہ تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہوں.ضائع شدہ مال کے قائمقام قرار دیکر بحال سمجھا جائے گا.لیکن ابن رشد کے نزدیک یہ قیاس ضعیف ہے.اگر یہ علم نہ ہو کہ پہلے کس ولی نے نکاح کیا ہے تو اس صورت میں جمہور کا مذہب یہ ہے کہ دونوں نکاح فسخ ہوں گے.امام مالک کے نزدیک صرف اس صورت میں ہوں گے جبکہ ان دونوں میں سے کسی نے تعلقات زوجیت قائم نہ کئے ہوں.لیکن قاضی شریح کے نزدیک جس کو عورت اختیار کرے اس کا نکاح بحال رہے گا.دوسرے کا فتح ہو جایا گیا را اور یہی حضرت عمر بن عبد العزیز کا مذہب بیان کیا گیا ہے.اولیاء کا زوجین کو نکاح سے سوکھا اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ولی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ لڑکی کو ایسے نکاح ترجمہ: وہ عورت جس کا نکاح دو ولی دو جگہ کر دیں تو اس کا پہلا خیار درست ہوگار ابوداود کتاب النکاح باب اذا انکے الولیان ) یہ مذہب درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ نکاح کے بارہ میں اصل چیز تو عورت کی رضامندی ہے اگر اسکی مرضی کے بغیر دوسری جگہ نکاح کر بھی دیا جائے تب بھی عورت کو شیخ نکاح یعنی ضلع کا حق دیا گیا.پس ایسی صورت میں کیوں نہ وہ طریق اختیار کیا جائے جس سے کوئی ایسی پیچیدگی پیدانہ ہو جس کی وجہ سے کسی فریق کو نقصان پہنچے.

Page 79

سے روکے جو وہ کفو میں کرنا چاہتی ہو اور مناسب مہر کے عوض کرنا چاہتی ہو اگر ولی اس میں روک پیدا کرنے کی کوشش کرے تو لڑکی کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملہ کو حاکم وقت کے پاس پیش کر کے انصاف حاصل کرے.اسی طرح اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر ولی لڑکی کا نکاح جبراً کسی ایسی جگہ کرنا چاہتا ہے جہاں وہ پسند نہیں کرتی تو وہ اس سے انکار کر سکتی ہے.اسی طرح اس میں بھی اختلاف نہیں ہے کہ جب با کرہ لڑکی کو اس کا باپ کسی شرابی یا فاسق سے بیا بنا چاہے تو لڑکی اپنے آپ کو اس نکاح سے روک سکتی ہے.اور اگر وہ جبر کرے تو حاکم وقت اس بارہ میں غور کر کے ان کے درمیان تفریق کر سکتا ہے اسی طرح اس شخص نے نکاح کا بھی یہی حکم ہے جو حرام مال کماتا ہو اور طلاق کے متعلق بہت قسمیں کھانے والا ہو.حسب نسب - حریت میسر اور صحت کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ اوصاف بھی گفو میں شمار ہوتے ہیں یا نہیں.امام مالک کے نزدیک غلام کا نکاح عربی سے ہو سکتا ہے.اور وہ اس بارہ میں آیت کریمہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ الله انفیکفر سے استدلال کرتے ہیں لیکن سفیان ثوری اور احمد کے نزدیک عربی عورت کا نکاج غلام سے ناجائز ہے.امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک قریشی کا قریضی عورت اور عربی کا عربی عورت سے ہی نکاح ہو سکتا ہے اس کے خلاف نہیں.اس اختلاف کا سبب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کی تشریح میں اختلاف کی بنا پر ہے.اور وہ یہ ہے تُنكَحُ المَرْآةُ لِدِينِهَا وَجَمَالِهَا وَمَالِهَا وحَسْبِهَا فَاظُفَرُ بِذَاتِ الدين تربت يمينك " اس روایت کی ے کفر سے مراد اس جگہ برابری اوپر درجہ میں مساوات ہے.ے یعنی ایسا شخص جو ہر بات میں قسم کھائے کہ میں تمہیں طلاق دے دونگا.سے عورت کا نکاح اس کے دین کی وجہ سے کیا جاتا ہے یا اس کے جمال یا مال یا حسب نسب کی وجہ سے پس اے مخاطب خدا تیرا بھلا کرے.تم دیندار عورت سے نکاح کرو.(ابو داؤد کتاب النکاح با پ ا ومربہ من تنز و بج ذات المدين ).

Page 80

۳۸ بنا پر بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ صرف دین ہی کفو میں شمار ہوتا ہے لیکن بعض کہتے ہیں کہ حسب اور مال کے الفاظ میں بھی دین کا مفہوم شامل ہے پس اس روایت میں جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ کفو سے خارج نہیں ہو سکتے سوائے اس کے کہ اس کے متعلق فقہاء کا اجماع ہو.جیسا کہ حسن کے متعلق جملہ فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ ان اوصاف میں سے نہیں ہے جو گفو کے لئے ضروری قرار دیئے گئے ہیں.وہ لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ زوجین میں کسی عیب کی وجہ سے نکاح نہیں کرنا چاہیے وہ صحت کو بھی گفو کے اوصاف میں شمار کرتے ہیں کیونکہ بیماری ایک عیب ہے اور اس کے مقابلہ میں صحت خوبی ہے.اس لحاظ سے حسن بھی ایک رنگ میں کفو کے اوصاف میں شمار ہوگا کیونکہ بدصورتی بھی ایک حبیب ہے.اس بارہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر زوج تنگدست ہوا اور نفقہ پر قادرنہ ہو تو بیٹی اپنے باپ کے کرائے ہوئے نکاح کو فسخ کرواسکتی ہے.اس لحاظ سے مال بھی کھو کے اوصاف میں سے شمار ہوتا ہے.لیکن امام ابو حنیفہ کمال کو ان اوصاف میں شمار نہیں کرتے.حریت کے متعلق بھی عام اتفاق ہی ہے کہ یہ کفو میں شامل ہے کیونکہ سنت سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادشدہ لونڈی کو اپنا نکاح فسخ کرنے کا اختیار دیا.مہر مثل سے متعلق امام شافعی اور امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ یہ کفو میں شامل نہیں ہے.اور باپ کو یہ اختیار ہے کہ وہ ہرشل سے کم پر اپنی لڑکی کا نکاح کر دے.اسی طرح بیوہ اگر مہر شکل سے کم پر راضی ہو تو اولیاء کو اس پر اعتراض کا حق حاصل نہیں ہے.لے حریت کے معنے آزادی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اب چونکہ غلامی قانوناً کسی ملک میں بھی جائز نہیں ہے اس لئے غلامی اور حریت کے احکام موجودہ زمانے سے متعلق نہیں ہیں.ے مہر نسل سے مراد ہر کی وہ مقدار ہے جو عام طور پر کسی لڑکی کے خاندان کی عورتوں کے نکاح میں ملحوظ رکھی جاتی ہے.

Page 81

۳۹ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہر مثل بھی کفو میں شامل ہے.احکام ولایت کے ساتھ ایک اور مشہور مسئلہ کا خاص تعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا ولی.کو اختیار ہے کہ وہ زیر ولایت لڑکی کا نکاح اپنے ساتھے کر لے ہے امام شافعی نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے وہ اس اختیار کو حاکم اور شاہد کے اختیارا پر قیاس کرتے ہیں.یعنی جس طرح حاکم اپنے نفس کے لئے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا اور شاہد اپنے نفس کے لئے گواہی نہیں دے سکتا اسی طرح ولی بھی اس لڑکی کا نکاح اپنے ساتھ نہیں کر سکتا جس کی ولایت کے اختیارات اسے دیئے گئے ہوں.امام مالک نے اس کو جائز قرار دیا ہے.اور وہ اس کے جواز میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ سے بغیر ولی کے نکاح کیا تھا.کیونکہ اس کا بیٹا اس وقت نابالغ تھا.اسی طرح آپ نے حضرت صفیہ کو آزاد کیا اور آپ کی آزادی کو مہر قرار دے کر اپنے ساتھ نکاح کر لیا.اس کے متعلق امام شافعی کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف آپ کی خصوصیت تھی اور دلیل خصوصی جمہور مسلمانوں کے خلاف حجت نہیں ہو سکتی.نکاح کی دوسری بنیادی شرط شہادت امام ابو حنیفہ - شافعی اور امام مالک اس پر متفق ہیں کہ شہادت نکاح کے لئے شرط ہے.اختلاف صرف اس بارہ میں ہے کہ یہ شرط تکمیل نکاح کے لئے ہے یا صحت نکاح کے لئے.تکمیل نکاح کی شرط ہونے کی صورت میں نکاح تو ہو جاتا ہے لیکن ناقص رہتا ہے.اور تعلقات نہ وجیت قائم کرنے سے قبل گواہان کی گواہی کی تکمیل ضروری ہے.صحت نکاح کی شرط قرار دینے کی صورت میں نکاح اس وقت تک ہوتا ہی نہیں ہے الے لڑکی کے جن مفاد کی حفاظت ولی کے سپرد ہے ان کے پیش نظر زیادہ صحیح امام شافعی کا مسلک معلوم ہوتا ہے.کیونکہ ولی اگر اپنے ساتھ نکاح کرلے گا تو دوسروں کو موقع دے گا کہ وہ بدھنی سے کام لیتے ہوئے یہ اعتراض کریں کہ ولی نے لڑکی کے مفاد کو ملحوظ نہیں رکھا بلکہ صرف اپنا فائدہ سوچا ہے.

Page 82

۴۰ جب تک نکاح کے وقت گواہوں کی گواہی نہ ہو.اس امر پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ خفیہ نکاح جس میں کوئی گواہ نہ ہو جائز نہیں ہے.لیکن اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر نکاح کے گواہ تو ہوں لیکن ان کو گواہی خفیہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہو تو پھر کیسا صورت ہوگی.امام مالک کے نزدیک ایسا نکاح خفیہ نکاح کے حکم میں ہے اس لئے ناجائز ہے لیکن امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک یہ خفیہ نکاح نہیں ہے اس لئے جائز ہے.اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ آیا شہادت کا حکم شرعی حکم ہے یا محض اس لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ تا فریقین میں سے کوئی فریق عقد نکاح سے انکار نہ کر سکے.جن کے نزدیک یہ شرعی حکم ہے ان کے نزدیک صحت نکاح کے لئے شہادت کا پایا جانا ضروری ہے.اور جو لوگ اسے محض ضمانت ہی قرار دیتے ہیں وہ اسے تکمیل نکاح کی حد تک ضروری قرار دیتے ہیں.اس بارہ میں اصل الاصول وہ روایت ہے جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے.کہ : - لا نكاح الا بِشَاهِدَى عَدْلٍ وَ وَلِي مُرْشِيله صحابہ میں سے کسی نے اس روایت کا انکار نہیں کیا اور اکثر علماء کے نزدیک یہ اجماع سے ثابت ہے لیکن ابن رشد کے نزدیک یہ خیال ضعیف ہے.اس روایت کے متعلق دارقطنی نے لکھا ہے کہ یہ مرفوع ہے.البتہ اس کی سند میں ایسے راوی بھی ہیں جن کے حالات کا پوری طرح علم نہیں ہے امام ابو حنیفہ کے نزدیک دو فاسق گواہوں کی موجودگی میں بھی نکاح صحیح ہو جاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک شہادت سے اصل غرض تو اعلان نکاح ہے اور یہ غرض دو فاسق گواہوں سے بھی پوری ہو جاتی ہے.ترجمہ : نکاح اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس میں دو عادل گواہ اور سمجھ دار ولی ہو.سے ایسی سند کو اصطلاح میں مجہول کہتے ہیں.

Page 83

۴۱ امام شافعی کے نزدیک شہادت کے دو مقصد ہیں (۱) اعلان نکاح (۲) قبول نکاح کی تصدیق.یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک عادل گواہوں کا ہونا ضروری ہے.امام مالک کہتے ہیں کہ گواہوں کے وجود سے اعلان نکاح کی غرض پوری نہیں ہوتی کیونکہ اگر گواہوں کو گواہی چھپانے کی ہدایت کی گئی ہو تو اس صورت میں گواہوں کی گواہی تو موجود ہے.لیکن اعلان نکاح کی غرض پوری نہیں ہوتی.شرط اعلان کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اصل بنیاد ہے.اعْلِتُوْا هُذَا النِّكَاحَ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّ فُوْنِ نه اسی طرح ایک ایسے نکاح کے متعلق جس میں وقت کے ذریعہ سے اعلان نہ کیا گیا تھا حضرت عمر نے ارشاد فرمایا :- هذا نگام اسرِ وَلَوْ تَقَدَّمُتُ فِيهِ لَرَجَمتُ موطاء باب لا يحل نكاح الشتر) ابو ثور اور فقہاء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ گواہان کی موجودگی نکاح کے لئے شرط نہیں ہے اور حضرت حرج بون علی کا فعل بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ان کے متعلق یہ روایت ہے کہ انہوں نے بغیر گواہوں کے نکاح کیا اس کے بعد نکاح کی تکمیل کا اعلان کیا.نکاح کی تیسری بنیادی شرط حق مہر اس باب میں مختلف مسائل بیان کئے جائینگے جن کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر آئیگی انشا اللہ حق مہر کا حکم اس پر سب کا اتفاق ہے کہ حق مہر کا تقرر صحت نکاح کے لئے ضروری ہے؟ کے ترجمہ : نکاح کا اعلان کرو.خوب اعلان کرو.اور خوب اعلان کرنیکے لئے اس موقع پر بیشک تو بجاؤ ه ترجمه ی خفیہ کال ہو اگر کیتے اس قسم کے نکاح کے متعلق پہلے سے اعلان کیا ہوتا تو میں نکاح کرنے والے کو ریم کرواتا.و موطاء امام مالک باب لایجل نکاح السر) نوٹ : حضرت عمر فہ کا یہ ارشاد اس نکاح اور اُس وقت کے حالات کے مطابق تھا.ممکن ہے کہ اس نکاح کے متعلق آپکے پاس کوئی اعتراض پہنچا ہو.اس لئے آپ نے اس کے متعلق سختی سے ارشاد فرمایا.آج کل کے حالات میں اعلان کے کئی متعارف طریقی موجود ہیں.جیسا کہ اخبار میں اعلان یا لاؤڈ سپیکر کے ذریع سے اعلان وغیرہ ذلک بپس زمانہ کے حالات کے مطابق اعلان کا جو بھی متعارف طریق ہو اس کے مطابق اعلان کر دینا کافی ہے.آجکل دف کے ذریعہ اعلان ضروری نہیں اور اگر ایسا کیا جائے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں.

Page 84

۴۲ اور اس کے بغیر تعلقات زوجیت قائم کرنا جائز نہیں ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وأتُوا النِّسَاءَ صَدَّقْتِهِنَّ نِحْلَةً نساء اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَانكِحُوهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ اُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُونِ حق مہر کی مقدار اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ حق مہر کی اکثر مقدار کی کوئی حد نہیں ہے لیکن اقل مقدار میں فقہاء کا اختلاف ہے.امام شافعی - احمد اسحق ابوثور" اور فقہاء مدینہ اس بات کے قائل ہیں کہ اقتل - مقدار کی بھی کوئی حد نہیں ہے اور ہر وہ مقدار جو کسی چیز کی قیمت بن سکتی ہے وہ عورت کا حق مہر بھی بن سکتی ہے.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ اقل مقدار کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے اگرچہ اس حد کی تعیین میں اختلاف ہے امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اقل مقدار پر دینا ر ہے.امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ اقل مقدار دشش درہم ہے.اور ایک مذہب یہ ہے کہ اقل مقدار پانچ درہم ہے.اور ایک اور مذہب کے مطابق چالیس درہم.سبب اختلاف | یہ اختلاف اس بنا پر ہے کہ آیا حق مہر بھی ایک عوض ہے جو کہ فریقین کی رضا مندی سے کم و بیش مقدار پر طے ہو سکتا ہے.جیسا کہ بیچ میں کسی چیز کی قیمت بائع اور شتری کی باہمی رضامندی سے کم و بیش ہو سکتی ہے.یا یہ ایک عبادت ہے جس میں فریقین کو کوئی دخل نہیں ہے.اس لحاظ سے کہ خاوند حق مہر کی وجہ سے اپنی بیوی کے منافع کا حقدار ہو جاتا ہے اسے بیچ کے مشابہ قرار دیا گیا ہے.اور اس لحاظ سے کہ اس عوض کو فریقین کی باہمی رضا مندی سے بھی ساقط نہیں کیا جا سکتا.اس کو عبادت قرار دیا گیا ہے.لے ترجمہ: اور تم عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دور نسار غ) ترجمہ :.تم ان سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو اور تم انکو ان کا ہر دستور کے مطابق ادا کر دنمارستان دینار اور درہم اس زمانہ کے ستوں کا نام ہے.وہ ہم اس زمانہ کے سنگتے کے لحاظ سے اندازا چوٹی کے برابر.اور دینار انداز اوسش روپے کے برابر بنتا ہے اس لحاظ سے یہ ویار اندازاً اڑھائی روپے کے برابر بنتا ہے.

Page 85

۴۳ اختلاف کا دوسرا سبب ایک روایت اور قیاس میں باہمی اختلاف ہے قیاس یہ ہے کہ یہ ایک عبادت ہے اور تمام عبادات موقت ہوتی ہیں.لہذا اس عبادت کی بھی کوئی حد بندی ہونی چاہیئے.روایت سہل بن سعد الساعدی کی ہے جس کی صحت پر سب کا اتفاق ہے اور وہ یہ ہے.ان رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ يَا رَسُولُ اللَّهِ إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِى لَكَ فَقَامَتْ قِيَامًا طَوِيلًا فَقَامَ رَجَل فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ زَوْجُنِيهَا إِنْ لَمْ يَكُن لَكَ بِهَا حَاجَةً فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَحَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ مَعَكَ مِنْ شَيْ ءٍ تُصَدِقُهَا اياهُ فَقَالَ مَا عِنْدِي إِلَّا إِذَارِي فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ إن أَعْهَا إِيَّاهُ جَارَكَ فَالْتَمِسُ شَيْئًا فَقَالَ لَا اجد شيئًا فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ التَمِسُ وَلَوْ خَاتِمَا من حَدِيدٍ فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ مَعَكَ شَيْءٍ مِنَ الْقُرْ أَن قَالَ نَعَمُ سُوْرَةُ كَذَا وَسُوْرَةٌ كَذَا بِسُوَرٍ سَمَّا هَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد أَنْكَحْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ اہ ترجمہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی.یا رسول اللہ میں نے اپنا نفس آپ کے لئے ہبہ کر دیا.یہ کہہ کر وہ دیر تک کھڑی رہی اس پر ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح میرے ساتھ کردیں.آپ نے اس شخص سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو اس کو حق مہر کے طور پر وے.اس نے جواب دیا کہ میرے پاس تو صرف ایک تہ بند ہے.آپ نے فرمایا اگر تم یہ تہ بند اسے دے دو گے تو تمہارے پاس کچھ مندرہے گا.تم کوئی اور چیز تلاش کرو.اس نے جواب دیا کہ میرے پاس اور کوئی چیز نہیں ہے.آپ نے فرمایا تلاش کرو خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو.چنانچہ اس نے پھر کوشش کی مگر کوئی چیز نہ پائی.آپ نے فرمایا کیا تمہیں قرآن مجید کا کوئی حصہ یاد ہے اس نے جواب دیا ہاں یا رسول اللہ فلاں فلاں سورۃ مجھے یاد ہے.آپنے فرمایا میں نے تمہارا نکاح قرآن مجید کی اپن سورتوں کے عوض کر دیا.تم اس کو یہ پڑھا دو.صحیح مسلم کتاب النکاح باب الصداق و جواز کو تعلیم قرآن مقام مدید

Page 86

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان ارشادات میں الْتَمِسُ وَلَوْ خَارِمَا مِنْ حَدِید کے الفاظ اس امر کی دلیل ہیں کہ حق مہر میں قلیل مقدار کی کوئی حد نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی اقل مقدار ہوتی تو آپ اس موقعہ پر ضرور بیان فرماتے.کیونکہ ضرورت کے وقت تاخیر بیان جائز نہیں ہے.یہ استدلال نہایت واضح ہے اس کے مقابلہ میں جو قیاس بیان کیا گیا ہے اس کے مقدمات بھی مسلم نہیں ہیں.کیونکہ یہ قیاس دو مقدمات پر مبنی ہے.اقول : حق مہر ایک عبادت ہے.دوم عبادت موقت ہوتی ہے.ان ہر دو مقدمات میں نزاع ہے کیونکہ بعض ایسی عبادات موجود ہیں جو موقت نہیں ہوتیں جس پر عبادت کا قلیل ترین مفہوم بھی صادق آتا ہے اس کو عبادت میں شامل کر لیا جاتا ہے.نیز اس میں خالص عبادات کے ساتھ مشابہت بھی نہیں پائی جاتی.جن لوگوں نے قیاس کو اس روایت پر ترجیح دی ہے انہوں نے یہ ترجیح اس احتمال پر دی ہے کہ یہ روایت خاص اس شخص کے متعلق ہے کیونکہ روایت کے الفاظ قد انگختكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ اس امر کی دلیل ہے.لیکن یہ قیاس درست نہیں ہے.اگر چہ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں.قَالَ تُمْ فَعَلَيْهَا فَقَامَ فَعَلَيْهَا گویا ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوا کہ نکاح بھی ایک قسم کا اجارہ ہے جو ایک معین معاوضہ کے عوض حاصل ہوتا ہے.جس اصل پر اس قسیم کا قیاس کیا گیا ہے اگر اس پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اصل اور فرع میں کسی قسم کی مشابہت نہیں.اور قیاس کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ اصل اور فرع میں مشابہت ہو.اس قیاس کی اصل یہ ہے کہ کسی عضو کے کاٹنے کے لئے کم از کم مال مسروقہ کی جو مقدار مقرر ہے.حق مہر کی کم سے کم مقدار بھی اسی قدر ہونی چاہیئے کیونکہ حق مہر کے ذریعہ لہ ترجمہ : میں نے تمہارا نکاح اس صورت کے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تمہیں یاد ہے.ترجمہ : رجب اس شخص نے بتایا کہ مجھے فلاں فلاں سورۃ یا د ہے تو آپ نے فرمایا.اٹھو اور اس عورت کو یہ سورتیں سکھاو.چنانچہ وہ سورتیں اسے سکھا دیں.

Page 87

۴۵ سے ایک عضو کو مباح کیا جاتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہ مقدار کم از کم اتنی ہو جتنی می عضو کے جُدا کرنے کے لئے شریعت نے بیان کی ہے لیکن یہ قیاس ضعیف ہے.حق مہر اور مال مسروقہ میں کوئی بھی مشابہت نہیں کیونکہ ان دونوں کے درمیان معنی اور مقصد کا اشتراک تو الگ رہا.اہم کا اشتراک بھی پایا نہیں جاتا.کیونکہ ایک جگہ مال چوری کرنے کے نتیجہ میں سزا کے طور پر عضو کاٹا جاتا ہے تو دوسری جگہ مال دیکر تعلقات زوجیت کا قیام مقصود ہوتا ہے.اسی طرح عضو کاٹنا سرا اور سرزنش کے لئے ہے اور حق مہر باہمی الفت کے لئے ہے.پس اس قیاس میں نہ تو کوئی لفظی مشابہت پائی جاتی ہے نہ معنوی.لہذا یہ قیا کسی کسی طرح بھی درست نہیں.اگر چہ اس کے قائلین نے اس کو حدیث کے مقابلہ میں مقدار اور حد کے ثبوت کے لئے پیش نہیں کیا بلکہ مقدار کی تعیین کے ثبوت میں پیش کیا ہے.لیکن کچھ بھی ہو اس قیاس میں کوئی جان نہیں اور بالکل ضعیف اور کمزور ہے.عدم تحدید کے سلسلہ میں امام ترمذی نے ایک روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے أَنَّ امْرَأَةٌ تَزَوَّجَتْ عَلَى نَعْلَيْنِ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَرَضِيْتِ مِنْ نَفْسِكَ وَمَالِكِ بِنَحْلَيْنِ فَقَالَتْ نَعَمْ فَجَرَّزَ نِكَا حَهَا وَقَالَ هَذَا حَدِيثُ حَسَنٌ صَحِيح له بعض فقہاء نے سرقہ کے نصاب کے مطابق حق مہر کی تحدید کی ہے.لیکن خود سرقہ کے نصاب میں بھی اختلاف ہے.چنانچہ امام مالک کے نزدیک سرقہ کا نصاب دینا ر ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک دس درہم ہے.ابن شہرمہ کے نزدیک پانچ ومهم ہے لہذا ان سب کے نزدیک حق مہر کی قلیل مقدار بھی اسی کے مطابق ہے.کے ترجمہ : ایک عورت نے ایک جوڑا جوتے کے عوض اپنا نکاح کیا تو اسے رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا تم اپنے نفس اور اپنے مال کے عوض جوتے کا ایک جوڑا بطور حق مہرے کر راضی ہو گئی ہو.اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ اس پر آپ نے اس کے نکاح کو جائز قرار دے دیا.امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے.(ترمذی باب في جهور النساء )

Page 88

N4 اضاف نے دن اور ہم کے وجوب میں ایک حدیث بطور دلیل پیش کی ہے اور وہ یہ ہے : عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آلَهُ قَالَ لَا مَهْرَ باقل مِنْ عَشْرَةِ دَرَاهِمَ له ابن رشد کہتے ہیں کہ اگر یہ روایت ہر لحاظ سے درست ثابت ہو جائے تو صرف اس روایت سے تمام نزاع ختم ہو جاتا ہے.اور اس حدیث کی موجودگی میں ہم یہ کہیں گے کہ سهل بن سعد کی حدیث اس شخص کے لئے خاص ہے.مگر افسوس ہے کہ محدثین کے نزدیک جابہر کی مندرجہ بالا روایت ضعیف ہے کیونکہ اس روایت کو مبشر بن عبید نے حجاج بن ارطاط سے اس نے عطاء سے اور اس نے جابر سے بیان کیا ہے.اور مبشر اور حجاج دونوں ضعیف ہیں اور عطار کی ملاقات جابر سے ثابت نہیں.لہذا ان وجوہات کی بنا پر یہ روایت سہل بن سعد کی صحیح روایت کے معارض نہیں ہوسکتی.حق مہر کی جنس ہر وہ چیز جس کی ملکیت جائز ہے یا وہ کسی چیز کا عوض بن سکے.وہ حق مہر میں ادا ہو سکتی ہے.اس مسئلہ میں دو جگہ اختلاف کیا گیا ہے.اول :- جب نکاح کسی اجازہ کے عوض میں ہو.دوم :- جب اپنی لونڈی کی آزادی کو اس کا ہر قرار دیا جائے تو صورت اول میں فقہاء کے تین اقوال بیان کئے گئے ہیں.(۱) جائزہ (۲) نا جائز.(۳) مگر وہ امام مالک کا مشہور مذہب یہ ہے کہ یہ مکروہ ہے چنانچہ ان کے نزدیک اگر تعلقات زوجیت قائم نہ ہوئے ہوں تو ایسا نکاح قابل فسخ ہے.کے ترجمہ : حضرت جابر نے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ دس درہم سے کم حتی مہر نہیں ہونا چاہئے.دوار قطني بحواله نصب الراية جلد 19) ے یعنی جب کوئی یہ شرط کرے کہ تم ہمارا اتنی مدت یا اتنا کام کر دو تو تمہاری خدمت یا کام بطور حق مہر سمجھے لیا جائے گا.

Page 89

۴۷ امام مالکان کے اصحاب میں سے امین اور سمنون اسے جائز قرار دیتے ہیں اور یہی امام شافعی کا قول ہے.ابن قاسم اور امام ابو حنیفہ اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں البتہ غلام کے متعلق ان کا مذہب یہ ہے کہ وہ اپنا حق مہر اجارہ پر ادا کر سکتا ہے.اس اختلاف کے دو اسباب ہیں.اول :- کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کی شریعت ہمارے لئے حجت ہے یا نہیں ؟ وہ لوگ جو پہلی شریعت کو قابل حجت قرار دیتے ہیں وہ قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں.کہ أنّى أُرِيدُ انْ أُنْكِحَكَ إحْدَى ابْنَتَى هَاتَيْن عَلَى أَنْ تَا جُرَنِي ثَمَانِي حِجَجٍ جو لوگ یہ کہتے کہ پہلی شریعت ہمارے لئے حجت نہیں ہے وہ نکاح علی الاجارہ کو جائز قرار نہیں دیتے.دوم :.اس اختلاف کا دوسرا سبب یہ ہے کہ کیا نکاح کو اجارہ پر قیاس کیا جا سکتا ہے یا نہیں.در حقیقت اجارہ دھوکے کی بیوع میں سے مستثنی قرار دیا گیا ہے.چنانچہ ہر وہ بیچ جس کا ایک عوض معین نہ ہو اس کو دھوکے کی بیچ قرار دیا جاتا ہے.کیونکہ اس میں جھگڑے کا احتمال ہے.اجارہ میں ایک حوض معین ہوتا ہے (یعنی اجرت) لیکن دوسرا عوض غیر معین ہوتا ہے یعنی مزدور کے افعال اور حرکات.چونکہ دنیا کے کام بغیر اجارہ کے چل نہیں سکتے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اس لئے اسے دھوکے کی بیوع سے ستشنی قرار دیا گیا ہے.اے میں چاہتا ہوں کہ اس شرط پر اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کردوں کہ تو آٹھ سال تک میری خدمت کرے.(قصص ۳۶)

Page 90

لونڈی کی آزادی کو حق مہر قرانہ دینے کے متعلق دائود اور احمد کے سوا تمام فقہاء نے یہ فتوی دیا ہے کہ یہ نا جائز ہے.وجہ اختلاف | اس اختلاف کی وجہ ایک روایت ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ کی آزادی کو اس کا حق ہر قرار دیا.لیکن اس روایت کے متعلق یہ احتمال ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہو.کیونکہ نکاح کے بارہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی بہت سی خصوصیات مروی ہیں.یہ روایت ایک اصول کے بھی خلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ عشق تو غلام کو اپنی ملک سے آزاد کرنا ہے.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ کسی کو پابند کر کے اپنے لئے مباح اور مخصوص کر لیا جائے.کیونکہ جب وہ آزاد ہو گئی تو وہ اپنے نفس کی خود مالک ہے اس کے بعد اسے نکاح کے لئے پابند کس طرح کیا جا سکتا ہے.کیا آزادی بمعنی پابندی کسی صورت میں بھی درست ہے.یہی وجہ ہے کہ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر کسی عورت کو نکاح کے لئے آزاد کیا جائے.اور وہ آزاد ہونے کے بعد نکاح سے انکار کر دے تو اسے اپنی آزادی کی قیمت ادا کرنی چاہیے کیونکہ اس کے مالک نے اس کے ساتھ نکاح کرنے کی خاطر ہی یہ نقصان اٹھایا کہ اسے آزاد کر کے اس کے منافع سے محروم ہو گیا.اب جبکہ اس عورت نے مالک کی نیت کے مطابق نکاح کا فائدہ نہ پہنچایا تو اسے اس کا معاوضہ ادا کرنا چاہیئے.جو لوگ اسے جائز قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ امر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لئے ناجائز ہوتا تو آپ اس وقت یہ بیان فرما دیتے کہ امت کے لئے یہ صورت جائز نہیں ہے.کیونکہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فصل کے متعلق کوئی ایسی دلیل قائم نہ ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ آپ کی خصوصیت ہے اس وقت تک آپ کے ہر فعل کی اتباع لازم ہے.حق مہر کی حق مہریں ہر وہ حلال چیز ادا کی جا سکتی ہے میں کی صفت یا مقدار بیان کرکے صفت اس کی تعیین کر دی گئی ہو.

Page 91

۴۹ جو چیز غیر معین ہو اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے.مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ لینے فلاں عورت سے ایک غلام کے عوض نکاح کیا تو چونکہ اس نے غلام کی صفت بیان نہیں کی اس لئے اس کی تعیین نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.اس کے متعلق امام مالک اور امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ جائز ہے اور امام شافعی کے نزدیک نا جائز ہے.امام مالک کے نزدیک ایسی صورت میں اوسط درجہ کا غلام دیا جائے گا.اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک بعد میں اس سے قیمت معین کرائی جائے گی.اس اختلاف کی بنا یہ ہے کہ کیا نکاح بیچ کی مانند ہے جس میں ایک معین قیمت ادا کر کے کوئی چیز خرید لی جاتی ہے یا یہ عوض رحق مہر محض تکریم اور اعزاز کی خاطر ہے.جن کے نزدیک یہ بیچ کے مشابہ ہے وہ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں کیونکہ بیچ میں قیمت کا معین ہونا ضروری ہے.جن کے نزدیک یہ محض اعزاز کے لئے ہے وہ اسے جائز قرار دیتے ہیں.حق مہر مؤجل فقہاء کا ایک گروہ موجل حق مہر کو جائز قرار نہیں دیتا لیکن بعض کے نزدیک یہ جائز ہے.امام مالک کے نزدیک منتخب طریق یہ ہے کہ تعلقات زوجیت قائم کرنے سے قبل اپنی بیوی کو حق مہر کا کچھ حصہ ادا کر دیا جائے.وہ لوگ جو ہر موجل کو جائز قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ جہر مؤجل کے لئے به ضروری ہے کہ ادائیگی کی مدت کی تعیین پہلے سے کرلی جائے.یہ امام مالک کا مذہب ہے.بعض کے نزدیک ادائیگی مہر کے لئے کسی مدت کی تعیین کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خاوند اپنی موت یا علیحدگی تک ادا کر سکتا ہے.یہ اوزاعی کا مذہب ہے.اے مہر موجل سے مراد وہ مہر ہے جو نکاح کے وقت نقدا وا نہ کیا جائے بلکہ ادائیگی کے لئے کوئی مدت مقرر کر کی جائے یا مدت مقرر کئے بغیر بعد میں کسی وقت ادا کر دیا جائے.

Page 92

۵۰ اس اختلاف کی بنا یہ ہے کہ نکاح بیچ کے مشابہ ہے یا نہیں.جو لوگ اسے بیچ کے مشابہ قرار دیتے ہیں وہ ادائیگی مہر کو غیر معین عرصہ تک معلق رکھنے کے قائل نہیں ہیں کیونکہ جس بیچ میں قیمت کی ادائیگی کا عرصہ نہ ہو وہ بیع مجہول ہوتی ہے جو شرعا نا جائز ہے جو لوگ اسے بیچ کے مشابہ قرار نہیں دیتے وہ مہر کی ادائیگی کو غیر معین عرصہ تک معلق رکھنے کی اجازت دیتے ہیں.جو لوگ نکاح کو ایک عبادت خیال کرتے ہیں ان کے نزدیک حق مہر نقد ادا کرنا ضروری ہے.کیونکہ جب تک عبادت کے جملہ شرائط مکمل نہ ہوں اس وقت تک عبادت مکمل نہیں ہوتی.حق مرا وجوب تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ حق مہر کی ادائیگی تعلقات کب ہوتا ہے زوجیت کے قیام کے ساتھ یا کسی فریق کی موت کے ساتھ واجب ہو جاتی ہے.تعلقات زوجیت کے ساتھ حق مہر کے وجوب کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے وَ إِنْ أَرَدْتُم استبدال زَوْجٍ كَانَ زَوْجِ وَأَتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا (نساء ع٣) زوجین میں سے کسی ایک کی موت کے ساتھ حق مہر کی فوری ادائیگی کے واجب ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملتی سوائے اس دلیل کے کہ اس پر امت کا اجماع ہے.تعلقات زوجیت کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ اس سے مراد صرف خلوت بھیجو ہے یا جماع امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک صرف فلوت صحیحہ سے کل ہر واجب نہیں ہوتا بلکہ نصف مہر واجب ہوتا ہے لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک خلوت صحیحہ سے لے اگر تم ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری بیوی سے نکاح کرنا چا ہو اور تم نے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیروں ڈھیر مال دیا ہو تو تم اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو.(نساء ع (۳) سے خلوت صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی کو علیحدگی کا اس رنگ میں موقعہ مل جائے کہ کوئی دوسرا شخص ان کے درمیان خارج نہ ہو.

Page 93

۵۱ بھی کل مہر واجب ہو جاتا ہے خواہ تعلقات زوجیت قائم ہوئے ہوں یا نہ سوائے اسکی کہ بعد میں معلوم ہو جائے کہ منکوحہ بیمار تھی یا رمضان کی وجہ سے روزہ دار کھتی یا حائضہ تھی جسکی وجہ سے مخصوص تعلقات قائم نہیں ہو سکے.ان صورتوں میں امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی خلوت صحیحہ سے کل مہر واجب نہیں ہوتا.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض صحابہ کا مذہب بظا ہر مندرجہ ذیل نص کے خلاف ہے.وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ رَفَضَى بَعْضُكُمْ إلى بَعْضن اس آیت میں ایسی عورت جس کے ساتھ مجامعت ہو چکی ہو اس سے حق مہر کی رقم واپس لینے سے منع کیا گیا ہے.اسی طرح وہ عورت جس سے ابھی مجامعت نہ ہو اور طلاق واقعہ ہو گئی ہو اس کے متعلق مندرجہ ذیل نص وارد ہوئی ہے.وَان طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُم پس یہ دونوں احکام دو حالتوں کے متعلق بیان ہوئے ہیں.یعنی جماع سے قبل اور جماع کے بعد.اور ان دونوں کے درمیان کوئی اور تیسری حالت نہیں ہوتی پس اسکی یہ ثابت ہوا کہ کل مہر کی ادائیگی بغیر جماع کے واجب نہیں ہوتی.آیت مذکورہ میں نمش کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے لغوی معنے صرف چھوٹے کے ہیں.غالباً بعض صحابہ نے مشق کے لغوی معنوں کو ہی ملحوظ رکھ کر ظاہر نص کے خلاف اپنے اس خیال کی بنیاد رکھی ہے کہ خلوت صحیحہ سے بھی کل ہر واجب ہو جاتا ہے.اسی وجہ سے امام مالک کا یہ مذہب ہے کہ اگر کوئی عنیت سے جوابی بیماری میں مبتلا ہو ایک عرصہ تک اپنی بیوی کے پاس رہنے کے بعد اسے طلاق دیدے.تو اس پر کل ہر ترجمہ: تم اپنا دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جبکہ تم آپس میں مل چکے ہو ( النساء سح) ے اگر تم اپنی بیوی کو مجامعت سے قبل طلاق دو اور تم ان کا مہر مقرر کر چکے ہو.تو مقرر کردہ مہر کا نصف ان کو ادا کرو.(بقره ع (۳۱) سے جس کی قوت رجولیت کمزور یا مفقود ہو چکی ہو.

Page 94

۵۲ واجب ہوگا.گویا امام مالک کے نزدیک بھی خلوت صحیحہ سے کل مہر واجب ہو جاتا ہے.اگر بیوی یہ دعوی کرے کہ اس کے خاوند نے اس سے مجامعت کی ہے اور خاوند انکار کرے.تو اس کے متعلق امام مالک کا مشہور قول یہ ہے کہ اس بارہ میں بیوی کا قول معتبر ہوگا.ایک مذہب یہ ہے کہ اگر بیوی باکرہ ہو تو جماع کے متعلق اختلاف کی صورت میں عورتیں اس کو دیکھ کر بتائیں.دیعنی طبی معائنہ کے نوریعہ یہ پتہ کیا جائے، کہ مجامعت ہو چکی ہے یا نہیں.میاں بیوی کے مندرجہ بالا اختلاف بیان کی صورت میں امام شافعی اور اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ اس بارہ میں خاوند کا قول حلف کے ساتھ معتبر ہو گا.کیونکہ وہ مدعلی یہ ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک قسم دلانے کا ایک خاص باعث ہے.اور وہ یہ ہے کہ ایک فریق کی پوزیشن زیادہ قوی ہوتی ہے لیکن دوسرے فریق کی کمزور اور ثبوت کسی کے پاس بھی نہیں ہوتا.ایسے موقعہ پر جسکی پوزیشن زیادہ قوی ہو اس سے قسم دلانی چاہیئے خواہ وہ مدعی ہو یا مدعی علیہ.بعض کے نزدیک مدعی علیہ پر قسم بحیثیت مدعی علیہ آتی ہے اس میں کسی اور وجہ کا دخل نہیں ہے لہذا مدعی پر قسم کسی صورت میں بھی نہیں آنی چاہئیے.نصف مہر اس امر پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ اگر خاوند تعلقات زوجیت قائم کرنے سے قبل طلاق دیدے تو اس صورت میں خاوند مقررہ مہر میں سے نصف مہر واپس اے امام مالک کے نزدیک مدعی علیہ پر حیثیت مدعی علی قسم نہیں آتی بلکہ اس پر قسم اس لئے آتی ہے کہ مدعی جب ثبوت پیش نہ کر سکے تو مدعی علیہ کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہوتی ہے اس لئے اسے یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ قسم کے ذریعہ سے اپنی پوزیشن واضح کرے.یہی وجہ ہے کہ بن حالات میں مدعی کی پوزیشن زیادہ واضح ہو لیکن وہ پورا ثبوت پیش نہ کر سکے تو امام مالک کے نزدیک ان مواقع پر مدعی سے بھی قسم لی جا سکتی ہے.

Page 95

لینے کا حق دار ہے.۵۳ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے.وان طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِشَفُ مَا فَرَضْتُم له (بقره ٣١٤) نصف مہر کے احکام تین امور پر مبنی ہیں.اول: مختلف قسم کے نکاحوں میں سے نصف جہر کا حکم کس قسم کے نکاح کے ساتھ متعلق ہے.دوم : مختلف قسم کی طلاقوں میں سے جو کہ تعلقات زوجیت سے قبل واقع ہوتی ہیں ان میں سے کونسی طلاق اس حکم کی موجب ہے.سوم : وہ تغیرات جو طلاق سے قبل لاحق ہوتے ہیں ان کا کیا حکم ہے.امام مالک کے نزدیک اگر جملہ شرائط کی پابندی کے ساتھ نکاح ہو چکا ہو اور پھر تعلقات زوجیت کے قیام سے قبل طلاق واقع ہو تو اس صورت میں نصف ہر واجب ہوگا.لیکن اگر نکاح فائر ہوا ہو اور بذریعہ فسخ ابھی مفارقت نہ ہوئی ہو اور اس سے پہلے پہلے خاوند طلاق دیدے تو اس صورت میں امام مالک کی دور ائیں منقول ہیں.ایک رائے کے مطابق نصف مہر دینا پڑے گا اور ایک رائے کے مطابق نہیں.نصف مہر کی وجہ وہ طلاق ہے جو خاوند خون نے.رہا یہ سب کہ خاوند مہر ادا نہیں کر سکتا یا تنگدستی کی وجہ سے گزارہ نہیں دے سکتا.اور اس وجہ سے عورت نے طلاق کا مطالبہ کیا ہے تو ایسی صورت میں نصف مہر ادا کرنے کے متعلق اختلاف ہے.تمام ایسے فسخ نکاح جو طلاق کا حکم نہیں رکھتے ان میں نصف مہر بھی واجب نہیں ہوتا مثلاً شیخ نکاح اس وجہ سے ہوا ہو کہ عقد نکاح میں کسی شرط کی پابندی نہ ہوئی ہو مثلاً اہے تو چہرہ اور اگرتم انہیں قبل اس کے کہ تم نے انہیں چھوا ہو لیکن چہر مقرر کر دیا ہو.طلاق دے دو تو اس صورت میں جو ہر تم نے مقرر کیا ہو اس کا آدھا ان کے سپرد کرنا ہوگا.(بقرہ ع۳۱) نکات فاسد وہ ہے جس میں شرائط نکاح میں سے کوئی ایک شرط ملحوظ نہ رکھی گئی ہو.مثلاً اعلان نکاح گواہان کی گواہی کیسی فریق کی عدم رضا مندی وغیرہ.

Page 96

۵۴ گوارہ نہ ہوں یا دلی کی اجازت نہ ہو.وغیرہ.اگر فسخ نکاح کی صورت عقد صحیح کے بعد پیدا ہوئی ہو مثلاً نکاح کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ان دونوں کے درمیان رضاعی رشتہ ہے یا ان میں سے کوئی ایک مرتد ہو جائے تو ان صورتوں میں اگر خاوند کا کوئی قصور نہ ہو تو نصف مہر واجب نہیں ہوتا لیکن اگر یہ خدائی خاوند کی وجہ سے ہو مثلاً وہ مرتد ہو گیا ہو تو اس صورت میں نصف مہر واجب ہوگا.اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ جو طلاق رخصتانہ سے قبل واقع ہو خواہ اس طلاق کا سبب عورت کی طرف سے مطالبہ کی صورت میں ہو.یا مرد کی طرف سے اس میں نصف مہر واجب ہوتا ہے.لیکن اگر طلاق نہ ہو بلکہ فسخ نکاح ہو تو اس میں نصف مہر واجب نہیں ہوتا.بغیر مہر کے نکاح اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ نکاح جس میں جہر مقررہ نہ کیا گیا ہو جائز ہے گویا نکاح کی صحت کے لئے پہلے سے مہر کا مقدر کرنا ضروری نہیں.البتہ رخصت کے بعد مہر خود بخود واجب ہو جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.لا جُنَاحَ عَلَيْكُمْان مللتُمُ النِّسَاءِ مَالَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَخْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً اس بارہ میں دو مواقع پر اختلاف کیا گیا ہے.اول : جب بیوی ہر مقرر کرنے کا مطالبہ کرے.اور میاں بیوی کا مقدار مہر میں اختلاف ہو دوم :- جب خاوند فوت ہو جائے اور اس نے نکاح کے موقعہ پر مہر مقررہ نہ کیا ہو.مسئلہ اول کے متعلق فقہاء کے ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ اس کا مہر مثل مقر کیا جائے گا.اگر خاوند اس اختلاف کے دوران میں بیوی کو طلاق دیدے تو اس صورت میں بعض کے نزدیک اس کا نصف مہر ادا کرے اور بعض کے نزدیک اس کا کوئی مہر نہیں ہے کیونکہ نکاح کے موقعہ پر اس کا کوئی مہر مقرر نہیں تھا.یہ مذہب امام ابو حنیفہ له ترجمہ: تمہیں گناہ نہیں ہے اگر تم عورتوں کو اس وقت طلاق دے دو جبکہ تم نے ان کو چھوا تک نہ ہو یا مہر نہ مقرر کیا ہو.(بقرہ (۳)

Page 97

۵۵ اور اُن کے اصحاب کا ہے.اہم مالک کے نزدیک مسئلہ اول میں خاوند کو تین اختیارات دیئے جائیں گے (1) بیوی کو مہر مقرر کئے بغیر طلاق دیدے (۲) عورت کے مطالبہ کے مطابق اس کا مہر مقرر کرے (۳) مہر مثل مقرر کرے.وجہ اختلاف یہ بحث اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اختلاف کی بناء پر ہے.لا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ اوْ تَقْرِضُ وَ الَهُنَّ فَرِيضَةً (بقروع ٣١) بعض کے نزدیک یہ آیت جہر کے سقوط کے متعلق ایک عام حکم بیان کرتی ہے خواہ طلاق کی وجہ مہر مقرر نہ کرنے کا معاملہ ہو یا کوئی اور وجہ ہو.نیز اس آیت میں گناہ کی نفی سے مراد یہ ہے کہ طلاق دینے والے پر مہر واجب نہیں ہے یا اس کا کوئی اور مطلب ہے اس کے متعلق امام ابن رشد کہتے ہیں کہ میرے نزدیک ظاہر مفہوم تو ہی تقاضا کرتا ہے کہ ایسی صورت میں طلاق دینے والے پر مہر واجب نہیں ہوتا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَمَتعُوهُنَّ عَلَى الْمُوْسِع قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْدِرِ قدرة (بقره ) ابن رشد کہتے ہیں کہ میرے علم میں اس بارہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کوئی شخص مہر مقرر کرنے سے قبل طلاق دیدے تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے.نیز ابن رشد کہتے ہیں کہ جو اس بات کے قابل ہیں کہ اگر کوئی شخص تعلقا زوجیت سے قبل اپنی بیوی کو طلاق دیدے جبکہ نکاح کے وقت اس کا حق مہر مقرر ہو چکا ہو تو اس صورت میں خاوند پر نصف مہر کے علاوہ کچھ اور امداد بھی کرنی ہوگی جو نقدی یا کپڑوں کی صورت میں ہو.اور وہ لوگ جو اس بات چھے بھی قائل ہیں کہ جس نکاح میں ہر مقرر نہیں ہوا وہاں مہر مثل واجب ہوتا ہے.ان پر یہ واجب ہے کہ وہ ایسے نکاح میں اگر مجامعت سے قبل طلاق ہوئی ہو تو زائد سامان کے علاوہ مہر مثل کا نصف بھی دلوائیں کیونکہ کے ترجمہ :.اور چاہئے کہ تم انہیں مناسب طور پر کچھ سامان دے دو.دولتمند پر اس کی طاقت کے مطابق لازم ہے.اور نادار پر اس کی طاقت کے مطابق - دیقور ع اس)

Page 98

۵۶ آیت سے صرف اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مہر مقرر کرنے سے قبل طلاق دی جاسکتی ہے مہر کے ساقط ہونے کا براہ راست اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے.مسئله دوم یعنی جب خاوند مر جائے اور اس نے نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا ہوا اور تعلقات زوجیت بھی قائم نہ ہوئے ہوں.تو اس صورت میں امام مالک اور اس کے اصحاب اور اوزاعی کا مذہب یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی مہر نہیں ہے بلکہ اس کی دلداری کے لئے کچھ دے دینا چاہیئے.اسی طرح وہ اس کی میراث میں بھی شریک ہوگی.امام ابو حنیفہ امام احمد اور داؤد ظاہری کے نزدیک اسے مہر مثل اور میراث ملے گی امام شافعی سے مندرجہ بالا دونوں اقوال منقول میں لیکن امام شافعی کے اصحاب میں سے منصور کا مذہب امام مالک کے مذہب کے موافق ہے.وجه اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ایک روایت اور قیاس ایک دوسرے کے مخالف ہیں.روایت یہ ہے.عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْمَسْلَةٍ فَقَالَ أَقُولُ فِيْهَا بِرَأَبِي فَإِنْ كَانَ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ وَإِنْ كَانَ خُطَأً نَمِنِي أَذَى لَهَا مُدَاقَ امْرَأَةِ مِنْ نِسَائِهَا لَا إِلَسَ وَلَا شَطَطَ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ وَلَهَا الْمِيْرَاتُ فَقَامَ مَعْقَلُ بْنُ يَسَارِال شُحَة فَقَالَ أَشْهَدُ لَقَضَيْتَ فِيهَا بِقَضَاءِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْد وسَلَّمَ فِي بَرْوَعٍ بِنْتِ وَاشِقٍ اس روایت کے خلاف قیاس یہ ہے کہ مہر ایک عوض ہے.پس جب عوض کا ترجمہ: ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اس سے اس مسئلہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ میں اس مسئلہ میں اپنی رائے بیان کرتا ہوں اگر یہ درست ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری طرف سے.میرے نزدیک اس کے لئے ہر مثل ہے نہ کم اور نہ پیش، اور وہ عدت گزارے.اور متوٹی کی میراث سے حصہ نے یہ سن کر معقل بن بسیار اشجعی کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس بارہ میں وہی فیصلہ کیا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بر فرج بنت واشق کے متعلق فرمایا تھا.(ابوداؤد - نسائی.ترمذی)

Page 99

۵۷ معاوضہ وصول نہیں ہوا تو عوض کیونکر واجب ہو سکتا ہے.جیسے بیچ میں جب تک خریدی ہوئی چیز نہ ملے اس وقت تک قیمت لازم نہیں ہوتی.مزنی کہتے ہیں کہ امام شافعی فرماتے تھے کہ اگر بر دع بنت و اشق والی روایت درست ثابت ہو جائے تو اس روایت کے مقابلہ میں کسی فقیہ کا قول بھی حجت نہیں رہتا.امام ابن رشد فرماتے ہیں کہ جو کچھ امام شافعی نے فرمایا ہے وہ بالکل درست ہے.فاسد ہر ہر فاسد ہونے کے دو وجوہات ہیں :- (1) جب حق مہر کے عوض شراب یا خنزیر یا کوئی اور ایسی چیز تجویز کی جائے جس کی ملکیت شرعاً جائز نہیں ہے.(۳) جب حق مہر میں کوئی ایسی چیز مقرر کی جائے جس کی تعین نہ کی گئی ہو مثلاً حق مہر میں ایک بھینس مقرر کی لیکن بھینس کا کوئی وصف بیان نہ کیا جس سے بھینس یا بھینس کی قیمت کی تعین ہوسکے.فاسد حق مہر کے متعلق پانچ مسائل بیان کئے گئے ہیں.اقول.جب حق پر شراب یا خنزیر ہو یا ایسا پھل ہو جو ابھی کچا ہو یا بھاگنے والا اونٹ ہو تو اس کے متعلق امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ نکاح صحیح ہوگا.اور خاوند کے ذمہ ہر مثل واجب ہوگا.امام مالک سے اس بارہ میں دو روایات بیان ہوئی ہیں.(1) نکاح فاسد اور قابل فسخ ہو گا خواہ تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہوں یا نہ یہی قول ابو عبید کا ہے.ے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچے پھل کی فروخت سے منع فرمایا ہے.کیونکہ اس سے خریدنے والے کو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے مثلاً آندھی وغیرہ سے گرکر تباہ ہو جائے یا کوئی اور آفت آجائے لیکن جو پھل پکنے کے قریب ہو اس کے متعلق یہ احتمال کم ہوتا ہے.سے بھاگنے والے اونٹ کے متعلق بھی یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ کسی وقت بھاگ جائے.اور قبضہ سے نکل جائے اس لئے امام ابو حنیفہ نے اس کو بھی مقبوضہ مال قرار نہیں دیا.سے یہ مذہب اصول اسلام کے مطابق ہے کیونکہ جب فاسر حصہ خارج کر دیا گیا تو اس کے بعد صحیح حصہ کو قائم رکھتا ہی مناسب اور قرین قیاس ہے.

Page 100

(۲۳) اگر تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہوں تو عقد صحیح ہوگا.اور خاوند کے ذمہ ہر مثل واجب ہوگا.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ بعض کے نزدیک نکاح کا حکم بیچ کے حکم کے موافق ہے اور بعض کے نزدیک اس کا حکم ہی کے حکم سے مختلف ہے.جو لوگ اسے بیج کے موافق قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مہر فاسد سے نکاح بھی فاسد ہو جاتا ہے.اور جو لوگ اسے بیع کے موافق قرار نہیں دیتے ان کے نزدیک ایسا نکاح ہے.کیونکہ صحت عقد کے لئے مہر کا ذکر لازمی شرط نہیں ہے.لہذا عقد صحیح ہوگا اور مہر مثل لازم آئے گا.ابن رشد کے نزدیک جن لوگوں نے اس مسئلہ میں تعلقات زوجیت کے قیام اور عدم قیام کا فرق کیا ہے.ان کا مذہب ضعیف ہے.دوم :- اگر مہر کے ساتھ بیچ بھی شامل ہو تو اس بارہ میں فقہاء کا اختلاف ہے.اس صورت کو امام مالک ابن قاسم اور ابو نور نے جائز قرار نہیں دیا اور اشہب اور امام ابو حنیفہ نے اسے جائز قرار دیا ہے.بعض نے اس میں فرق کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اگر اس چیز کی قیمت کے بعد دینار بچ جائے تو نکاح جائز ہے ورنہ نہیں.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ جس نے نکاح کو بیچ کے مشابہ قرار دیا اس کے نزدیک یہ جائز نہیں کیونکہ جس طرح قیمت کے معین نہ ہونے سے بچ ناجائز ہوتی ہے اسی طرح مہر کے معین نہ ہونے سے نکاح نا جائز ہوتا ہے جن لوگوں نے اس کو بیع کے مشابہ قرار نہیں دیا ان کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہے لے اس کی مثال یہ ہے کہ بیوی نے اپنے خاوند کو ایک گھوڑا دیا اور خاوند نے بیوی کو ایک ہزار روپیہ دیکر یہ کہا کہ یہ رقم گھوڑے کی قیمت اور تمہارے حق مہریں ادا کر رہا ہوں.لیکن اس نے گھوڑے کی قیمت اور حق مہر کی الگ الگ تعیین نہیں کی.سے اس بارہ میں امام ابو حنیفہ کا یہ مذہب کہ اس صورت میں نکاح صحیح ہوگا درست معلوم ہوتا ہے.

Page 101

۵۹ سوم.اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اس شخص کے ساتھ یہ شرط کی گئی ہو کہ وہ مقررہ حق مہر کے علاوہ لڑکی کے والد کو تحفہ بھی دے تو اس کے متعلق تین اقوال منقول ہیں.امام ابو حنیفہ کے نزدیک شرط کا پورا کرنا ضروری ہے.اور حق مہر درست ہے.امام شافعی کے نزدیک یہ مہر فاسد ہے اور اسے ہر مثل ادا کرنا ہوگا.امام مالک کے نزدیک اگر یہ شرط نکاح کے وقت کی گئی ہے تو یہ تحفہ لڑکی کو دیا جائے گا اور اگر نکاح کے بعد شرط کی گئی.تو اس کے باپ کو دیا جائے گا.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک یہ صورت اشخص کے مشابہ ہے جو بیع کے لئے وکیل مقرر ہو اور وہ وکیل اس چیز کو فروخت کرنے کے قیت مشتری سے کہے کہ میں تمہارے پاس یہ چیز اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ تم اسکی قیمت کے علاوہ مجھے کچھ تحفہ بھی دو.چونکہ اس صورت میں یہ بیج جائز نہیں ہوتی لہذا یہ نکاح بھی جائز نہیں ہے.بعض نے اس صورت کو اس قسم کی سیج کے قائمقام قرار نہیں دیا اس لئے ان کے نزدیک یہ نکاح جائز ہے.امام مالک نے جو اپنے مذہب میں نکاح سے قبل اور نکاح کے بعد شرط کرنے کی تفریق کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح کے وقت شرط کرنے سے باپ پر یہ الزام عاید ہوتا ہے کہ اس نے اپنے لئے شرط مقرر کر کے لڑکی کو ہر مشکل سے محروم کر دیا.لیکن نکاح کے بعد شرط کرنے سے یہ الزام عائد نہیں ہوتا.امام مالک کے مذہب کے مطابق عمر بن عبد العزیزہ ثوری اور ابو عبید کا بھی یہی مذہب ہے.اسی طرح نسائی اور ابو داؤد نے ایک روایت نقل کی ہے اور وہ یہ ہے.عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا اِمْرَأَةٍ نَكَحَتْ عَلَى حِبَاءَ قَبْلَ عِصْمَةِ النِّكَاح فَهُوَ لَهَا وَمَا كَانَ بَعْدَ نِعْمَةِ النِّكَاحَ فَهُوَ لِمَنْ أُعْطِيَهُ وَأَحَقُّ

Page 102

4.مَا أُكْرِمَ الرَّجُلُ عَلَيْهِ ابْنَتَهُ وَ اخْتُهُ یہ روایت مختلف فیہ ہے.اور اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے لیکن یہ امام مالک کے مذہب میں نص ہے.ابو عمر بن عبدالبر کہتے ہیں کہ جب اس کو ثقات نے روایت کیا ہے تو اس پر عمل کرنا بھی واجب ہے.چہارم : اگر خاوند نے کوئی چیز حق مہر میں ادا کرنے کے لئے بیوی کو دی لیکن بعد میں یہ معلوم ہوا کہ یہ کسی اور شخص کی ملکیت ہے یا اس میں کوئی عیب نکل آیا.تو اس بارہ میں جمہور کا مذہب یہ ہے کہ نکاح ثابت ہے لیکن اختلاف اس بارہ میں ہے کہ جہر اس چیز کی قیمت میں ادا کرنا ہوگا یا اسکی مثل کوئی اور چیز ادا کرنی ہوگی.امام شافعی ﷺ کے ایک قول کے مطابق اس چیز کی قیمت واجب ہوگی اور دوسرے قول کے مطابق مہر مثل واجب ہوگا.ایک اور مذہب یہ ہے کہ اس چیز کی مثل کوئی اور چیز ادا کرنی ہوگی.ابو الحسن لحمی کہتے ہیں کہ اس صورت میں زیادہ مناسب یہ ہے کہ مہر مثل اور اس چیز کی قیمت میں سے جو مقدار کم ہو وہ ادا کی جائے.سخنوں اس بارہ میں سب سے منفرد ہیں ان کے نزدیک نکاح فاسد ہوگا.اس اختلاف کا سبب بھی وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا کہ میں نے نکاح کو بیچ سے قائمقام قرار دیا اس کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہے کیونکہ جس طرح قیمت کے معین ه ترجمه: عمرو بن شعیب نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت رحتی صبر کے علاوہ کسی تحفہ کی شرط پر نکاح کرے اور یہ شرط نکاح سے قبل کی گئی ہو تو وہ تحفہ اس عورت کے لئے ہے.اور اگر یہ شرط نکاح کے بعد کی گئی ہو تو وہ تحفہ اس کا ہے جس کو دیا گیا.اور جس تحفہ کے پیش کرنے سے کسی شخص کی عزت افزائی مقصود ہوتی ہے تو اس کی زیادہ حقدار اس شخص کی بیٹی یا بہن ہے.(اس روایت کو ترندی کے علاوہ باقی صحاح نے بیان کیا ہے.بحوالہ منتقی جلد ۵۴۹۵۲) ے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی نے واقعات اور حالات کے مطابق مختلف فتوے دیئے ہیں.بہتر بھی یہی ہے کہ ایسی صورت میں حالات اور میاں بیوی کی رضا مندی کے مطابق عمار را مد کیا جائے.

Page 103

41 نہ ہونے سے بیع فاسد ہو جاتی ہے اسی طرح ہر کے معین نہ ہونے سے نکاح بھی فاسد ہونا چاہیئے.جس نے اس کو بیج کے قائمقام قرار نہیں دیا اس کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہو گا.مجھے:.اگر کوئی شخص نکاح کے وقت یہ کہے کہ اگر اس سے پہلے میری کوئی اور بیوی ثابت نہ ہو تو حق مہر ایک ہزار روپیہ ہوگا.اور اگر کوئی اور بیوی ثابت ہو جائے تو حق پر دو ہزار روپیہ ہو گا.تو اس بارہ میں جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ نکاح صحیح ہوگا اور ایک فریق کے نزدیک یہ شرط بھی صحیح ہوگی.اور اس شرط کے مطابق اسے حق مہر ادا کرتا ہوگا.ایک گروہ کے نزدیک اس میں مہر مثل لازم آئے گا.یہ امام شافعی اور ابو توزر کا قول ہے لیکن ابو ثور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ تعلقات زوجیت سے قبل اسے طلاق دے گا تو اس پر صرف مالی امداد و اجب ہوگی.دیعنی اسکی دلداری کے لئے کچھ رقم ادا کر دے گا) امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر اسکی کوئی اور بیوی ثابت نہ ہو تو حق مہر ایک ہزار روپیہ ادا کرے گا.اور اگر کوئی اور بیوی ثابت ہو تو مہر مثل ادا کرے گا.بشرطیکہ دو ہزار سے زیادہ اور ایک ہزار سے کم نہ ہو.ایک مذہب یہ بھی ہے کہ یہ نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں دھوکے کا احتمال ہے.مندرجہ بالا پانچ مسائل میں جس جس جگہ جہرشل کا ذکر آیا ہے.اس میں سوال یہ ہے کہ اس مہر مثل کا اندازہ اس عورت کے حسن کی بنا پر کیا جائے گا.یا حسب نسب کی بنا پر یا مال کی بنا پر یا کسی اور لحاظ سے.امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ جمال حسب نسب اور مال تینوں چیزوں کا لحاظ کیا جائے گا.امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اس عورت کے خاندان کی خونی رشتہ دار عورتوں کے حق مہر کے مطابق رکھا جائے گا.امام ابوحنیفہ " کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت کے خاندان کی عورتوں کے مہر کا لحاظ کیا ہے گا

Page 104

۶۳ وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک مماثلث صرف نسب میں ہی ہوتی ہے.لیکن بعض کے نزدیک مماثلث ہیں.نسب مال اور جمال تینوں چیزوں کا دخل ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- تُنْكَحُ المَرأَةُ لِدِينِهَا وَجَمَالِهَا وَحَسَبها مہر کے متعلق زوجین میں مہر کے متعلق زوجین کے اختلاف کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں :- (1) مہر وصول کرنے کے متعلق.(۲) ہر کی جنس کے متعلق.(۳) مہر کی مقدار کے متعلق.(۴) مہر کی ادائیگی کے وقت کی تعیین اختلاف کے متعلق.مہر کی مقدار کے متعلق اختلاف کی مثال یہ ہے کہ عورت یہ کہتی ہے کہ جہر دوصد روپیہ مقرر ہوا تھا اور مرد کہتا ہے کہ مہر یکصد روپیہ مقرر ہوا تھا.اس بارہ میں امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اگر یہ اختلاف مجامعت سے پہلے ہو تو ان دونوں سے حلف لیا جائے گا.اگر دونوں حلف اُٹھا لیں تو نکاح فسخ ہو جائے گا.اگر ایک حلف اُٹھا لے اور دوسرا انکار کر دے تو جو حلف اٹھا لے گا اس کا قول معتبر ہوگا.اور اگر دونوں حلف سے انکار کر دیں تو اس کا حکم وہی ہوگا جو دونوں کے حلف اٹھانے کا حکم ہے یعنی نکاح فسخ ہو جائے گا.ہے.اگر اختلاف مجامعت کے بعد ہو تو اس صورت میں خاوند کا قول معتبر ہوگا.ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ خاوند کا قول حلف کے ساتھ معتبر ہوگا.یہ مذہب ابو ثور ابن ابی لیلی اور ابن شہر منہ کا ہے.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر عورت کا مطالبہ جہر مثل کے اندر اندر ہے تو عورت کا قول معتبر ہوگا لیکن اگر اس کا مطالبہ ہر مشکل سے زیادہ ہے تو اس صورت میں خاوند کا قول معتبر ہوگا.یعنی اس میں اگر خاوند زیادتی کی تصدیق کرے گا تو دلایا جائے گا ورنہ نہیں.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ جب میاں بیوی کا اختلاف ہو جائے تو دونوں سے

Page 105

سور حلف لیا جا وگیا.اگر وہ دونوں حلف اُٹھا لیں تو ممثل لازم آئے گا.اور امام مالک کے مذہب کے مطابق فسخ نکاح کا حکم نہیں لگایا جائے گا.یہ مذہب امام شافعی نوری اور ایک جماعت کا ہے.ایک مذہب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت میں بغیر حلف کے ہر مثل کا فیصلہ کیا جائے گا بشرطیکہ مہر مثل عورت کے دعوئی سے زیادہ اور مرد کے دعوئی سے کم نہ ہو.وجہ اختلاف یہ اختلاف رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مفہوم میں اختلاف کی بنا پر ہے یعنی :- الْبَيِّنَةُ عَلَى مَنِ ادَّعَى وَالْيَمِينُ عَلَى مَنْ انْكَرَ اس ارشاد کے متعلق بعض یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد کا باعث کوئی خاص امر ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اس کا کوئی خاص باعث نہیں ہے بلکہ مدعی علیہ پر اسکی ذاتی حیثیت سے حلف آتا ہے.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مدعی علیہ پر حلف کسی خاص وجہ سے آتا ہے ان کے نزدیک اگر وہ وجہ مدعی میں بھی پائی جائے گی تو اس سے بھی حلف لیا جائے گا.اور اگر دونوں کی پوزیشن برابر ہو گی تو دونوں پر صلف آئے گی اور نکاح فسخ ہو جائے گا.جو یہ کہتے ہیں کہ مدعی علیہ پر خلف اس کی ذاتی حیثیت سے آتی ہے اور اس کا کوئی خاص سبب نہیں ہے ان کے نزدیک خلف صرف خاوند پر آئیگی کیونکہ وہ مدعی علیہ ہے.ایک قول یہ ہے کہ دونوں پر علت آئے گی کیونکہ اس مسئلہ میں دونوں مدعی اور دونوں مدعی علیہ ہیں.امام مالک اور امام شافعی میں حلف کے بعد فسخ نکاح یا مہرشل کے متعلق اختلاف کی بنا یہ ہے کہ نکاح بیع کے مشابہ ہے یا نہیں جس کے نزدیک بیچ کے مشابہ ہے اس کے نزدیک حلف کے بعد نکاح فسخ ہو جائے گا.لے یہ فیصلہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ بالعموم حق مہر ایک خاندان میں مساوی مقدار میں ہی مقرر ہوتا ہے پس اگر عورت کا دعوئی مہر مثل کے مطابق ہوگا تو اس صورت میں اس کی پوزیشن زیادہ قومی اور قابل قبول ہوگی لیکن اگر خاوند کے پاس اپنے دعوی کا ثبوت ہو تو اس کا قول معتبر ہوگا.سے ترجمہ : ثبوت اس کے ذمہ ہے جو دعوی کرے اور قسم اس کے لئے ہے جو انکار کرے.

Page 106

पत اور جس کے نزدیک بیچ کے مشابہ نہیں ہے اس کے نزدیک ہر مثل لازم آئے گا کیونکہ نکاح کے لئے جہر کا ذکر ضروری نہیں ہے.امام مالک کے اصحاب میں سے جو اس طرف گئے ہیں کہ حلف اٹھانے کے بعد وہ دونوں مصالحت نہیں کر سکتے یا اپنے قول سے رجوع نہیں کر سکتے وہ اس کو لکان کے قائمقام قرار دیتے ہیں.ابن رشد کے نزدیک یہ قول انتہائی ضعیف ہے.کیونکہ اس اختلاف کا لعان کے ساتھ کسی قسم کا بھی اشتراک نہیں ہے.مہر کی وصولی کے متعلق اختلات کی مثال یہ ہے کہ خاوند کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو مہر ادا کر دیا ہے اور بیوی کہتی ہے کہ سینے ابھی وصول نہیں کیا.اس کے متعلق امام شافعی خوری - احمد اور ابو ثور کا مذہب یہ ہے کہ اس بات میں عورت کا قول معتبر ہوگا.امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ مجامعت سے قبل بیوی کا قول معتبر ہو گا اور مجامعت کے بعد حنا وند کا.امام مالک کے بعض اصحاب یہ کہتے ہیں کہ امام صاحب کا یہ مذہب اس بنا پر ہے کہ آپ کے زمانہ میں یہ دستور تھا کہ لوگ جب تک مہر ادا نہ کر لیتے اس وقت تک تعلقات زوجیت قائم نہ کرتے تھے.پس اگر کوئی ملک ایسا ہو جہاں یہ دستور نہ ہو تو اس جگہ تنازعہ کی صورت میں ہمیشہ عورت کا قول ہی معتبر ہوگا.ابن رشد کہتے ہیں کہ یہ قول کہ اس بارہ میں عورت کا قول ہی معتبر ہوگا.زیادہ ورست اور صائب ہے.کیونکہ وہ مدعی علیہا ہے.امام مالک اس طرف گئے ہیں کہ مجامعت کے بعد چونکہ مرد کی پوزیشن زیادہ قومی ہوتی ہے اس لئے اس کا قول زیادہ معتبر ہوگا.لے اس بارہ میں ابن رشد کا خیال زیادہ قومی معلوم ہوتا ہے پس اگر خاوند کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو عورت کا قول بحیثیت بھی علی مختلف کے ساتھ قابل قبول ہوگا.

Page 107

امام مالک کے اصحاب نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کہ اگر نکاح کے بعد تعلقات زوجیت قائم ہوئے ایک مدت گذر چکی ہو تو اس صورت میں خاوند کا قول قسیم کے ساتھ معتبر ہوگا یا بغیر قسم کے ایک گروہ ایک طرف گیا ہے اور دوسرا دوسری مرت لیکن ابن رشد کے نزدیک اس صورت میں خاوند کا قول قسم کے ساتھ مقبول ہوگا مہر کی جنس کے متعلق اختلاف کی مثال یہ ہے کہ خاوند کہتا ہے لینے تمہارے نکاح کے لئے یہ بھینس حق مہر میں مقرر کی تھی.لیکن بیوی کہتی ہے کہ تم نے حق مہر ہیں قلال کپڑا مقرر کیا تھا.اس بارہ میں مشہور مذہب یہ ہے کہ اگر تعلقات زوجیت قائم ہونے سے قبل اختلاف واقع ہوا ہو تو دونوں سے قسم لی جائینگی اگر دونوں قسم کھائیں تو نکاح فسخ ہوگا.اگر اختلاف تعلقات قیام کے بعد واقع ہوا ہو تو نکاح قائم رہے گا اور ہر شل لازم آئے گا.بشرطیکہ میشل عورت کے دعوئی سے زیادہ نہ ہوا اور مرد کے دھوئی سے کم نہ ہو.ابن قصار کہتے ہیں کہ اگر اختلاف تعلقات زوجیت سے قبل ہو تو دونوں سے حلف لیا جائے گا اور نہ خاوند کا قول معتبر ہوگا.امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ دونوں سے حلف لیا جائے گا اگر دونوں حلف اُٹھا.میں تو مہر مثل کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا.اور نہ ہو قسم کھائے اس کا قول معتبر ہوگا.مہر کی ادائیگی کے وقت کی تعیین میں اختلاف کی مثال یہ ہے کہ خاوند یہ کہتا ہے کہ لینے دوماہ کے بعد مہر ادا کرنے کے وعدہ پر نکاح کیا ہے اور بیوی یہ کہتی ہے کہ سینے ایک ماہ کے بعد مہر وصول کرنے کے وعدے پر نکاح کیا ہے.ایک اختلاف یہ ہے کہ ہر مجامعت کے بعد واجب ہوگا.یا اس سے قبل.جس نے نکاح کو بیچ کے قائمقام قرار دیا ہے اس کے نزدیک مجامعت کے بعد مہر خواب ه به مذیب زیادہ صائب معلوم ہوتا ہے کیونکہ اسلام کے عمومی ابو کام میں اس اصل کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دو مسلمانوں کے معاہدات کو قائم رکھا جائے.یہ صورت چونکہ اس اصول کی تائید کرتی ہے اس لئے یہ زیادہ قابل قبول ہے.

Page 108

ہو گی کیونکہ بیچ میں خرید شدہ چیز پر قبضہ کرنے کے بعد اسکی قیمت کی ادائیگی واجب ہوتی ہے جو لوگ نکاح کو ایک عبادت قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک مجامعت سے قبل مہر کی ادائیگی واجب ہوگی.یہی وجہ ہے کہ امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ مجامعت سے قبل حق مہر کا کچھ حصہ حصہ ادا نکاح کی حلت اور حرمت کی صورتیں شرعاً کسی عورت سے دو طریق پر ازدواجی تعلقات قائم کئے جاسکتے ہیں (1) نکاح صحیح (۲) علامی - اس تعلق کے مواقع بھی شرفا دو قسم کے ہیں.(۱) دائمی (۲) عارضی دائمی موانع بھی دو قسم کے ہیں.(1) جن پر سب کا اتفاق ہے (۲) جن میں اختلاف ہے.وہ مواقع جن پر سب کا اتفاق ہے تین قسم کے ہیں.(۱) نسبی تعلق (۲) مصری تعلق (۳) در ضاعی تعلق وہ مواقع جن میں اختلاف ہے دو قسم کے ہیں.(۱) زنا.(۳) احسان عارضی مواقع تو قسم کے ہیں.(۱) تعداد (۳) دورشتہ داروں کو جمع کرنا.(۳) غلامی (۴) کفر (۵) احرام کی حالت (4) بیماری.(4) عدت (۸) تین طلاقیں.(۹) زوجیت -

Page 109

یہ کل چودہ موانع بنتے ہیں جن کے متعلق چودہ فصلوں کے ماتحت فردا فردا بحث کی جائے گی نبی تعلق وہ رشتے جو نسب کی وجہ سے حرام قرار دیئے گئے ہیں سات ہیں.جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے اور وہ یہ ہیں:.(1) مائیں.(۲) بیٹیاں.(۳) بہنیں.(۴) پھوپھیاں.(ھ) خالائیں.(4) بھتیجیاں (۷) بھانجیاں.ماؤں میں نانیاں اور دادیاں بھی شامل ہیں.اور بیٹیوں میں پوتیاں اور نواسیاں بھی شامل ہیں.بہنوں میں حقیقی بہنوں کے علاوہ باپ کی طرف سے بہنیں اور ماں کی طرف سے بہنیں بھی شامل ہیں.پھوپھلیوں میں دادا اور نانا کی بہنیں بھی شامل ہیں.خالہ میں نانی اور دادی کی بہنیں بھی شامل ہیں.بھتیجیوں میں باپ کی طرف سے بھائی اور ماں کی طرف سے بھائی کی لڑکیاں بھی شامل ہیں.اور بھانجیوں میں باپ کی طرف سے بہن اور ماں کی طرف سے بہن کی لڑکیاں بھی شامل ہیں.مصری رشتے چار ہیں :- صری تعلق دا، باپ کی بیویاں - آپکی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے.ولا تَنْكِحُوا مَا نَكَعَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ له لے اس جگہ اس سے مراد وہ رشتے ہیں جو نکاح کی وجہ سے ممنوع قرار دیئے گئے ہیں نہ کہ نسب کی وجہ سے.کے ترجمہ: اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہیں.(نسار یخ)

Page 110

4A (۲) بیٹوں کی بیویاں.اس کی دلیل اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے.وَحَلَائِلُ ابْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَا بِكُمْ ل (۳) بیویوں کی مائیں.اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے.وأقهَاتُ نِسَائِكُمْ (ہی) بیویوں کی لڑکیاں.اس کی اصل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے.ور بائِبُكُمُ التِي فِي حُجُوْرِكُمْ مِّن نِسَائِكُمُ الَّتِي دَخَلْتُمْ بهن له مندرجہ بالا چار رشتوں میں سے دو رشتے تو ایسے ہیں جو صرف عقد نکاح سے ہی حرام ہو جاتے ہیں.اور وہ باپ کی بیویاں اور بیٹوں کی بیویاں ہیں.ایک رشتہ تعلقات زوجیت قائم کرنے کے بعد حرام ہوتا ہے اور وہ بیوی کی بیٹی ہے.اس کے متعلق بھی دو مقامات میں اختلاف ہے.اول - کیا حرمت کے لئے یہ ضروری ہے کہ بیوی کی بیٹی ماوند کی زیر تربیت ہو.جیسا کہ الفاظ في حُجوَرِكُمْ سے ظاہر ہے ؟ دوم - کیا حرمت کے لئے یہ ضروری ہے کہ بیوی سے تعلقات زوجیت قائم کئے جائیں یا خارجی مباشرت سے بھی یہ حرمت واقع ہو جاتی ہے ؟ چوتھا رشتہ بیوی کی ماں کا ہے.اس کے متعلق یہ اختلاف ہے.کہ کیا بیوی سے نکاح کے ساتھ ہی اس کی ماں حرام ہو جاتی ہے یا اس کے لئے ہورہی سے مجامعت ضروری ہے.اسی طرح اس ضمن میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے.کہ کیا کسی عورت سے زنا کی ترجمہ :.اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری نسل سے ہیں.دنسارع ۴) ترجمہ: اور تمہاری بیویوں کی مائیں.ونسا ر ع ہی سے ترجمہ:.اور تمہاری وہ سوتیلی لڑکیاں جو تمہاری ان بیویوں سے ہوں جن سے تم خلوت کر چکے ہو اور تمہارے گھروں میں پلتی ہیں تم پر وہ حرام کی گئی ہیں.(نساء) کے خارجی مباشرت سے مراد اس جگہ میاں بیوی کے وہ تعلقات ہیں جن میں مجامعت بغیر صرف جسم کا جسم کے سے مراد ان من صرف ساتھ ملاپ ہو.

Page 111

49 وجہ سے بھی اس کی ماں حرام ہو جاتی ہے یا صرف نکاح صحیح یا شبیہ نکاح کی بنا پر ہی حرام ہوتی ہے.چنانچہ ان چاروں مسائل کے متعلق ضمنی بخشیں درج کی جاتی ہیں.حجر الزوج کی شرط یہ بحث کہ کیا بیوی کی بیٹی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خاوند کے پاس اس کی تربیت میں موجود ہو یا یہ ضروری نہیں.اس کے متعلق جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ خاوند کے پاس موجود ہونا اسکی حرمت کی شرط نہیں ہے.داؤد ظاہری کے نزدیک اس کے پاس موجود ہونا شرط ہے اس اختلاف کی بناء قرآن مجید کے الفاظ التي فِي حُجُورِكُمْ " ہیں کہ کیا یہ ایسی شرط ہے جو اس کی حرمت پر اثرانداز ہوتی ہے یا نہیں.پس جس نے اس کو حرمت کے لئے ضروری شرط قرار دیا ہے اس کے نزدیک بیوی کی بیٹیاں جو خاوند کے پاس زیر تربیت نہیں حرام نہیں ہیں.دیگر شرائط اس پر تمام فقہاء متفق ہیں کہ بیوی سے جماع کے بعد اس کی بیٹی فاو پر حرام ہو جاتی ہے.اس بارہ میں اختلاف ہے کہ خارجی مباشرت سے یا شہوت کی نظر سے اس کے عضو بنائی کو دیکھنے سے بھی حرمت لازم آتی ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق امام مالک ثوری - ابو حنیفہ اوزاعی اور لیث بن سعد کا مذہب یہ ہے کہ شہوت کے ساتھ خارجی مباشرت سے اس کی بیٹی حرام ہو جاتی ہے اور امام شافعی کا قول بھی اس کے مطابق ہے.داؤد ظاہری اور مزنی کے نزدیک مجامعت کے بغیر حرمت نہیں ہوتی.امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے.امام مالک کے نزدیک شہوت کے ساتھ نظر بھی مجامعت کے برابر ہے.یہ نظر خواہ کسی عضو کی طرف ہو.لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف شرمگاہ کی طرف شہوت کی نیت سے

Page 112

4- نظر کرنے سے حرمت لازم آتی ہے.توری کے نزدیک مطلق نظر مجامعت کے قائمقام ہے خواہ شہوت کی نیست سے ہو یا بغیر شہوت کے شرمگاہ کی طرف ہو یا کسی اور عضو کی طرف.ابن ابی لیلیٰ اور امام شافعی حکم کے ایک قول کے مطابق خارجی مباشرت سے تو حرمت لازم آتی ہے لیکن نظر سے نہیں.نظر خواہ کسی نیت سے ہو اور خواہ کسی عضو کی طرف ہو.یہ اختلاف اللہ تعالیٰ کے ارشاد الَّتِی دَخَلْتُم بِهِنَّ کے معنی میں اختلاف کی بناء پر ہے.بعض لوگ دخول سے مراد مجامعت لیتے ہیں اور بعض خارجی مباشرت.اور حرمت بعض خارجی مباشرت کے مفہوم میں نظر کو بھی شامل کر لیتے ہیں.بیوی کی ماں کی جمہور کا مذہب یہ ہے کہ بیوی کے ساتھ نکاح سے ہی اسکی ماں حرام ہو جاتی ہے.خواہ بیوی سے مجامعت ہو یا نہ ہو.ایک فریق کا مذہب یہ ہے کہ جب تک بیوی سے مجامعت نہ ہو اس وقت تک اسکی ماں حرام نہیں ہوتی.جیسے بیوی کی بیٹی اس وقت حرام ہوتی ہے جب بیوی سے مجامعت ہو جائے.سیب اختلاف | اس اختلاف کی بناء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: وَأَمَّهُتُ نِسَا بِكُمْ وَرَبَا بِبْكُمُ التِي فِى حُجُورِكُمْ مِّن نِّسَا بِكُمُ الَّتِي دَخَلْتُمْ بِھن.رنساء ۴۴ میں دَخَلتم بمن کی شرط کا تعلق صرف ” ربائب“ کے ساتھ ہی ہے.یا دو " ربائب" اور " أملت “ دونوں کے ساتھ ہے.جن لوگوں کے نزدیک اس شرط کا تعلق صرف ربائب کے ساتھ ہے ان کے نزدیک بیویوں کے ساتھ مجامعت سے صرف رہا ئب حرام ہوتی ہیں.املت کی حرمت کے لئے بیویوں سے مجامعت شرط نہیں ہے.

Page 113

41 بین لوگوں کے نزدیک اس شرط کا تعلق دونوں کے ساتھ ہے.ان کے نزدیک دونوں کی خدمت کے لئے بیویوں سے مجامعت ضروری ہے.جمہور کی دلیل ایک روایت ہے جو ان الفاظ میں مذکور ہے:.عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِهِ اَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ إِمْرَ أَةً فَدَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلُ فَلَا تَحِلُّ لَهُ اُمُّهَا له زنا سے حرمت زناء کے بارہ میں اختلاف ہے کہ اس سے حرمت لازم آتی ہے یا نہیں.امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ زنا ر سے اسکی ماں اور بیٹی حرام نہیں ہوتی.اسی طرح زانی کے باپ اور اس کے بیٹے کی حرمت بھی اس عورت یا اسکی ماں یا بیٹی سے لازم نہیں آتی.امام ابو حنیفہ - ثوری اور اوزاعی کے نزدیک نہ تار سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نکاح سے حرام ہوتے ہیں.موطار امام مالک میں بھی امام شافعی کے قول کے موافق قول نقل کیا گیا ہے لیکن ابن القاسم نے امام مالک سے امام ابو ضیفہ کے موافق قول نقل کیا ہے سحنون کہتے ہیں کہ امام مالک کے دوسرے اصحاب ابی القاسم کی روایت کی مخالفت کرتے ہیں.اور موطار کی روایت کو معتبر قرار دیتے ہیں.لیث سے روایت ہے کہ نکاح شبیہ سے بھی حرمت لازم نہیں آتی لیکن یہ قول ضعیف ہے.وجه اختلاف اوّل: نکاح کے دو معنی ہیں.(1) اسلامی طریق کے مطابق 1 جمہور فقہاء کا مذہب دلائل کے لحاظ سے زیادہ مضبوط اور قابل قبول ہے.کے ترجمہ عمرو بن شعیب نے اپنے باپ کی وساطت سے اپنے داد ا سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلی الشہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ایک عورت سے نکاح کرے تو اس کے بعد اس کے ساتھ جماعت کر سے یا نہ کرے اس شخص پر اس عورت کی ماں حرام ہوگی.

Page 114

۷۲ تمام شرائط کو ملحوظ رکھ کر نکاح کرنا.یہ نکاح کے شرعی معنے ہیں.(۲) مرد اور عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ ہمبستر ہونا خواہ جائز رنگ میں ہو یا ناجائزہ رنگ میں.یہ نکاح کے لغوی معنی ہیں.پس جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے قول لا تُنْكِحُوا مَا تَكَعَ آبَاؤُكُمْ میں معنی لغوی لئے ہیں اس کے نزدیک زناء سے بھی حرمت لازم آجاتی ہے لیکن جس نے شرعی معنی لئے ہیں اس کے نزدیک زناء سے حرمت نہیں آتی.دوئم بعض کے نزدیک زائی اور زانیہ کی بیٹی زانیہ اور زانی کے بیٹے کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ باپ بیٹی اور ماں بیٹے کی حرمت کی وجہ یہ رکھی گئی ہے کہ اولاد اپنے ماں باپ کی جزو ہوتی ہے.کیونکہ خاوند کے خون کے اجزاء بیوی کے خون کے اجزار میں شامل ہو جاتے ہیں اور اس طرح ماں کی وساطت سے اولاد کے خون کے اجزاء میں والدین کے خون کے اجزا ز مشترک ہو جاتے ہیں.پس یہاں یہاں براہ راست جزو مشترک پائی جائے گی.نکاح کی حرمت پائی جائیگی.سوائے میاں بیوی کے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں اس لئے ان پر یہ اصول چسپاں نہیں ہوتا.پس جو لوگ اس فلسفہ کے ماتحت حرمت کے قائل ہیں وہ زنار کی وجہ سے بھی ان رشتوں کو حرام قرار دیتے ہیں.کیونکہ یہ وجہ اس جگہ بھی پائی جاتی ہے.جو لوگ اس حرمت کی وجہ نسبی تعلق قرار دیتے ہیں وہ زنار کی وجہ سے اس حرمت کے قائل نہیں ہیں.کیونکہ زنا کی بناء پر نسب قائم نہیں ہوتی کیونکہ نسبی تعلق ایک اعزاز ہے لیکن زناء کے نتیجہ میں اہانت و ذلت کے اسباب تو پیدا ہو سکتے ہیں اعزاز و تکریم کے نہیں.این مندر کے بیان کے مطابق ملکیت کی صورت میں مجامعت کے بعد بھی حرمت کے وہی احکام صادر ہوتے ہیں جو نکاح کے بعد مجامعت کی صورت میں پیدا ہوئے ہیں اور اسی قول پر فقہاء کا اتفاق ہے.ملکیت کی صورت میں مجامعت کے بعد شرعی احکام میں وہی اختلاف ہے جو

Page 115

۷۳ متکوہ بیوی کے متعلق گزر چکا ہے یعنی لونڈی کی بیٹی اور ماں کی حرمت کے مسائل منکوحہ بیوی کی بیٹی اور ماں کے موافق ہوں گے.رضاعی تعلق اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ رضاعی ماں کی حیثیت بالکل ویسی ہی ہے جیسی حقیقی ماں کی بیعنی دودھ پینے والے بچہ پر اسکی ماں اور ماں کے وہ تمام رشتہ دار حرام ہو جاتے ہیں جو اسکی حقیقی ماں کے ساتھ تعلق رکھنے والے شرعا حرام ہیں.رضاعت کے سلسلہ میں بہت سے مسائل میں اختلاف ہے.ایسے مسائل تعداد میں تو ہیں.(1) حرام کرنے والے دودھ کی مقدار.(۲) دودھ پینے والے کی عمر.(۳) دودھ پینے کے وقت بچے کی حالت.(۴) کیا دودھ پستان سے چوسنے سے ہی حرمت لازم آتی ہے یا اگر بچے کے پیٹ میں کسی اور طریقہ سے پہنچ جائے تو اس کا بھی وہی حکم ہے ؟ (۵) وہ دودھ جس میں کسی دوسرے دودھ کی ملاوٹ ہو یا پانی وغیرہ کی ملاوٹ ہو اس سے بھی حرمت لازم آتی ہے یا نہیں ؟ (4) کیا صرف حلق کے راستہ سے ہی دودھ کا پیٹ میں جانا ضروری ہے.یا کسی اور ذریعہ سے بھی چلا جائے تو حرمت لازم آ جاتی ہے.؟ دے ، کیا دودھ پلانے والی عورت کے خاوند کا اس بچے کے لئے وہی حکم ہے جو باپ کا ہے یا نہیں ؟ (۸) رضاعت کی شہادت.(۹) دودھ پلانے والی کے اوصاف.اب ہم نمبر وار ان مسائل کے متعلق مختصر بحث درج ذیل کرتے ہیں :-

Page 116

۷۴ ودھ کی مقدار فقہاء میں سے ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ حرمت کے لئے دودھ کی کسی خاص مقدار کی شرط نہیں ہے.یہ مذہب امام مالک اور ان کے ساتھیوں کا ہے.اور یہی روایت حضرت علی اور ابن مسعود سے کی گئی ہے.علاوہ ازین ابن عمر اور ابن مسعود امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب ثوری اور اوزاعی کا بھی یہی مذہب ہے.بعض فقہاء دودھ کی مقدار کی تعین کے قائل ہیں ایسے فقہاء پھر تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ چوسنے سے حرمت لازم نہیں آتی.یہ مذہب ابو ثور اور ابو عبید کا ہے.دوسرے گروہ کا مذہب یہ ہے کہ کم از کم پانچ وقعہ چوسنے سے حرمت لازم آتی ہے یہ امام شافعی کا مذہب ہے.تیسرے گروہ کا مذہب یہ ہے کہ کم ازکم دس وقعہ چوسنے سے حرمت لازم آتی ہے وجہ اختلاف | اس اختلاف کی وجہ قرآن مجید کا ایک عام حکم او بعض احادیث کا آپس میں تعارض ہے.قرآن مجید کا عمومی حکم اللہ تعالٰی کا بی ارشا د ہے، وانفت و انتی از معلم اس آیت میں لفظ " ارضعْنَكُم" سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ ارضاع کا مفہوم پایا جائے گا حرمت لازم آئیگی.احادیث جو ایک دوسری سے متعارض بیان ہوئی ہیں.مندرجہ ذیل ہیں :- اول - حدیث عائش :- وشه قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَا تُحْرُمُ الْمُصَّةُ وَلَا الْمُضَتَانِ أوِ الرَّضْعَةُ وَالرّضُعَتَانِ به ے ترجمہ :.تمہاری (رضائی) مائیں وہ ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ( النساء ع ۴) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ایک واقعہ.یا دو دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت لازم نہیں آتی.یا آپنے فرمایا کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ دودھ پینے سے حرمت لازم نہیں آتی.ایک اور روایت میں لا تُخْرِمُ الإمْلَاجَةُ وَلَا الإملاجان کے الفاظ منقول ہیں.اوران سب کا مفہوم ایک ہی ہے.(ابو داؤد باب میکرم مادون خمس رضعات)

Page 117

۷۵ دوم : حديث سهلة.اس روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہلہ کو سالم کے متعلق ارشاد فرمایا: ارضِعِيهِ خَمْسَ رَضَعَاتِه اسی طرح اس روایت کے ہم معنی ایک روایت حضرت عائشہؓ سے ان الفاظ میں مروی ہے.قَالَتْ كَانَ فِيْمَا نَزَلَ مِنَ الْقُرانِ عَشْرَ رَضَعَاتٍ مَعْلُومات ثُمَّ سخن بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ نَعُونَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ مِمَّا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِه پس جس شخص نے ان احادیث پر قرآن مجید کے ظاہر حکم کو ترجیح دی ہے وہ تو یہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ چوسنا بھی حرمت کے لئے کافی ہے.اور جس نے ان احادیث کو قرآن مجید کا مفسر کہا ہے اس نے احادیث اور قرآن مجید میں اس طرح موافقت دہی ہے کہ روایت لا تُحْرِمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ سے دلیل خطاب کے ماتحت یہ مفہوم نکلتا ہے کہ تیکن یا تین سے زیادہ مرتبہ پستان چوسنے سے حرمت واقع ہوتی ہے.اے (آپ نے سہلہ کو فرمایا ، اس بچے کو پانچ مرتبہ دودھ پلاؤ.ے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت موجود ہے جس کا ظاہری مفہوم یہ ہو کہ دس و قعدہ یار پانچ دفعہ دودھ پینے سے حرمت لازم آتی ہے.بلکہ اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت و امان کے التي أرضعنكم سے پہلے یہ مطلب اخذ کیا جاتا تھا کہ رضاعی ماں وہ ہوتی ہے جس کا دور ہے دیس دفعہ پیا جاوے لیکن بعد میں رسول کریم کے ارشادات سے یہ سمجھا گیا کہ اس سے مراد صرف پانچ وقعہ دودھ پیتا ہے.ے ترجمہ : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب قر آن مجید نازل ہوا تھا اس وقت حرمت کی مقدار دیس رضعات تھی.اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو کر پانچ رضعات رہ گئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اس وقت بھی قرآن مجید میں ہی حکم پڑھا جاتا تھا ملا ہو جائو کتاب النکارت با محل گرم مادون میری سایت فوق : اس روایت میں حضرت عائشہؓ کا مطلب یہ ہے کہ آیت قرآنی اُمَّهُتُكُمُ التِي الضَعْنَكُمْ کا مطلب یہی سمجھا جاتا تھا.کہ بچے کو پانچ مرتبہ دودھ پلایا جاوے.تو حرمت کا حکم لازم آتا ہے.

Page 118

24 اور روایت اِرْضِعِيهِ خَمْسَ رَضَعَاتِ سے دلیل خطاب کے ماتحت یہ مفہوم نکلتا ہے کہ پانچ سے کم مرتبہ چوسنے سے حرمت لازم نہیں آتی.پس فقہار کی ان ہر دو جماعتوں نے اپنے اپنے مسلک کے مطابق قرآن مجید اور حدیث شریف میں مطابقت کی راہ نکال لی ہے لیکن ابن رشد کہتے ہیں کہ پھر بھی یہ اعتراض قائم کر ہا کہ ان میں سے ہر ایک نے ایک روایت کو دوسری پر ترجیح کیونکردی.دودھ پینے والے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ دو سال کے اندر دودہ پینے سے حرمت لازم آجاتی ہے.لیکن اس سے بڑی عمرمیں حرمت کی عمر کے متعلق اختلاف ہے.امام مالک - ابوحنیفہ - شافعی کے نزدیک دو سال سے بڑی عمر میں رضاعت سے حرمت لازم نہیں آتی.داؤد اور دیگر اہل ظاہر کے نزدیک بڑی عمر میں بھی رضاعت سے حرمت لازمیم آجاتی ہے یہی مذہب حضرت عائشہ.ابن مسعود - ابن عمر ابو هریر ان ازواج مطہرات اور حضرت ابن عباس کا ہے.یہ اختلاف مختلف روایات میں اختلاف کی بنا پر ہے چنانچہ اس بارہ که یہ مذہب زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لا تحرم المَصَّةُ وَالمَصَّتَانِ یعنی بچہ کا ایک دفعہ یا دو دفعہ پستان کو چوسنا حرمت کا موجب نہیں بنتا اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا لا تُحرُمُ الأَضْعَةُ وَالرعتان یعنی بچے کا ایک دفعہ یا دو دفعہ کسی عورت کے دورے کو سیر ہو کر پینے سے کبھی مت لازم نہیں آتی.رَضْعَه در حقیقت ایک وفعہ سیر ہو کر پینے کو کہتے ہیں.بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی عمر کے مختلف مراتب میں طبعی لحاظ سے یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ اتنی دفعہ دن میں اس کو دودھ پلایا جائے.گویا ایک وقعہ بچے کا دودھ پینا " رضعہ" کہلائے گا.پس جو بچہ ایک دن میں پانچ دفعہ یا مختلف اوقات میں پانچ دفعہ سیر ہو کر کسی کا دورہ پی لے گا تو اس سے حرمت لازم آئے گی

Page 119

CL دو احادیث بیان ہوئی ہیں (1) حدیث سالم جو اس سے پہلے گزر چکی ہے (۲) حدیث عائشہ وہ جس کو امام بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے.اور وہ یہ ہے:.قَالَتْ دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي رَجَل فاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَرَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ فَقُلْتُ يَا رسول اللَّهِ إِنَّهُ أَى مِنَ الرَّضَاعَةِ فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ انْظُرْنَ مَنْ اِخْوَانَكُنَ مِنَ الرِّضَاعَةِ فَإِنَّ الرَّضَاعَةَ من المجاعة له پس جس شخص نے اس حدیث کو ترجیح دی ہے اس نے یہ کہا ہے کہ وہ دور سے حرمت پیدا نہیں کرتا جو بچے کی غذا نہیں بنتا.البتہ سالم کی روایت صرف سالم کے متعلق ہی ہے اس لئے یہ اس کے لئے خاص ہے.جس نے سالم کی روایت کو ترجیح دی ہے اس نے یہ کہا ہے کہ چونکہ حضرت عائشہ کا عمل خود اپنی روایت کے مطابق نہ تھا اس لئے حدیث سالم کو ترجیح حاصل ہے.دو سال کے اندر اگر دو سال کے اندر اندریچہ اپنی ماں کا دودھ چھوڑ کر دودھ پلانا دوسری غذا پر گزارہ کرنے لگا ہو تو اس عرصہ میں اگر کوئی عورت اس بچہ کو دودھ پلائے تو کیا اس بچہ پر بھی وہ صورت اور اس کے اقر بار ترام ہوں گے ؟ اس کے متعلق امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اس رضاعت سے حرمت لازم نہیں آتی لیکن امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک حرمت واقع ہو جاتی ہے.نه توجیه احضر عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس آئے اور اس وقت میرے پاس ایک شخص موجود تھا.آپ کو یہ بات نا پسند آئی.چنانچہ لینے آپ کے چہرہ پر غصہ کے آثار دیکھے کینے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو میرا رضاعی بھائی ہے.آپ نے فرمایا کہ تم پوری طرح تحقیق کر لو کہ تمہار کے ضاعی بھائی کون ہیں.کیونکہ رضاعت بھوک سے ہوتی ہے.ربیعنی دودھ جو رضاعت کے عرصہ کے اندر اندر پیا جائے اس سے رضاعت کے احکام صادر ہوتے ہیں، را بوداود کتاب النکاح باب رضاعت الكبير)

Page 120

LA وجه اختلاف یہ اختلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں اختلاف کی بناء پر ہے کہ :.اِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ له بعض نے اس سے یہ مفہوم لیا ہے کہ اس رضاعت سے وہ رضاعت مراد ہے جو ودھ پلانے کی مدت کے اندر اندر ہو.خوا کسی حالت میں ہو یعنی ماں کا دودھ پیتا ہو یا نہ پیتا ہو.کیونکہ مجاعت سے مراد بچے کا دودھ پینے کا عرصہ ہے.بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے وہ اس کی مجاعت کی عمر ہے.خواہ پورے دو سال کے عرصہ میں ہو یا دو سال کے اندر دودھ چھوڑنے کے بعد اس پر رضاعت کا حکم نہیں لگتا.گویا اختلاف اس بات میں ہے کہ رضاعت سے مراد وہ زمانہ ہے جبکہ بچے کو دودھ کی طبعی احتیاج ہوتی ہے یعنی دو سال کا عرصہ یا اس سے مراد وہ عرصہ ہے جبکہ بچے کو طبعی احتیاج نہیں رہی بلکہ دودھ چھوڑنے کی وجہ سے وہ اس احتیاج سے آزاد ہو چکا ہے.خواہ وہ دو سال کے عرصہ سے کم ہی ہو.رضاعت کے عرصہ میں بھی اختلاف ہے امام نہ فرد کے نزدیک یہ عرصہ دو سال تک ہے.امام مالک کے نزدیک اگر دو سال سے کچھ دن زیادہ بھی ہو جائیں تو کوئی جرح نہیں ہے یہ ان کا مشہور قول ہے.لیکن ایک دوسرے قول کے مطابق یہ عرصہ دو سال تین ماہ تک ہے.امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ عرصہ دو سال چھ ماہ تک ہے.یہ اختلاف آیت رضاعت کا حدیث عائشہؓ سے اختلاف کی بناء پر ہے.آیت رضاعت یہ ہے:.وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ له اس آیت کے مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو سال کے بعد رضاعت کا عرصہ ختم اه ترجمه: اصل رضاعت وہ ہے جو بھوک سے ہو یعنی دودھ پینے کے عرصہ کے اندر اندر ہو د یعنی دو سال کے اندر کے ترجمہ : اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں.(بقرہ ح ۳۰) به

Page 121

49 ہو جاتا ہے اور حدیث جو اوپر گزر چکی ہے اس کے الفاظ الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَيَّة) کی عمومیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک ماں کا دودھ بیچے کی غذا ہے اس وقت تک وہ رضاعت کے عرصہ میں ہے خواہ یہ دو سال کے عرصہ کے اندر ہو یا بعد.اور یہ عرصہ حرمت کا حکم رکھتا ہے.دودھ پینے کا طریق | سوال یہ ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ بچہ دودھ کو عام طریق سے ہی ماں کے پستان سے پوسے یا اگر کسی اور طریق سے بھی اس کے حلق سے اُتار یا دیا جائے تو اس سے بھی حرمت لازم آجاتی ہے؟ امام مالک کے نزدیک دودھ بچے کے حلق میں ڈال دینے سے بھی حرمت لازم آجاتی ہے.لیکن عطاء اور داؤد کے نزدیک عام عادت کے مطابق پینا ضروری ہے پس جس کے نزدیک رضاعت کا اصل مفہوم یہی ہے کہ بچہ پستان سے ہی دودھ چوسے اس کے نزدیک اگر اس کے پیٹ میں کسی اور طریق سے دودھ چلا جائے تو حرمت لازم نہیں آتی لیکن میں کے نزدیک رضاعت کا مفہوم عام ہے اس کے نزدیک خواہ کسی صورت میں بچہ کے پریٹ میں دودھ چلا جائے حرمت لازم آئے گی.ملاوٹ والا دودھ اگر بچہ رضاعت کے ایام میں ایسا دودھ پی لے جس میں پانی یا کسی دوسرے دودھ کی ملاوٹ ہو تو کیا اس سے بھی حرمت لازم آتی ہے یا نہیں ؟ ابن القاسم کا مذہب یہ ہے کہ اگر بچہ ایسا دودھ پی لے جس میں پانی وغیرہ کا غلبہ اس قدر ہو کہ اس پر دودھ کا اطلاقی نہ ہو سکے تو حرمت لازم نہیں آتی رہی اہب امام ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب کا ہے.امام شافعی ابن حبیب - مطرف اور اصحاب مالک میں سے ابن الماجشون کا مذہب یہ ہے کہ اس سے بھی حرمت لازم آتی ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک ایسے دورہ پر بھی لفظ دو کا اطلاق ہوتا ہے جس میں پانی یا کسی اور دودھ کی ملاوٹ ہو.اور ان دونوں کا ہم ایک ہی ہے

Page 122

A+ كه جیسے پانی میں کوئی پاک چیز ملائی جائے تو پانی کا حکم تبدیل نہیں ہوتا.اسی طرح ایسا دور ہے پینے سے بھی حرمت لازم آتی ہے.جس میں دوسری چیز کی ملاوٹ ہو بعض کے نزدیک ایسے دودھ کا حکم تبدیل ہو جاتا ہے.جیسے حلال اور پاک چیز میں تھوڑی سی نجاست ڈال دی جائے تو اس کا حکم تبدیل ہو جاتا ہے.دودھ کا حلق کے علاوہ کسی کیا دودھ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ حلق کے راستہ دوسر ذریعہ سے پیٹ میں جانا سے ہی پیٹ میں جائے یا کسی دوسرے بستے سے بھی پیٹ میں چلے جانے سے حرمت لازم آجاتی ہے ؟ مثلاً ناک کے راستہ سے یا حقنہ کے ذریعہ سے.جن لوگوں کے نزدیک اس طریق سے دودھ معدے میں نہیں پہنچتا ان کے نزدیک اس طریق سے پیٹ میں جانے سے حرمت لازم نہیں آتی.لیکن جن کے نزدیک وہ معدے میں پہنچ جاتا ہے.ان کے نزدیک وہ حرمت میں موثر ہے.کیا دودھ کا باپ نسبی | دودھ کا باپ جیسے رضاعی باپ بھی کہتے ہیں کیا باپ کے قائمقام ہے دودھ پینے والی بچی پر حرام ہو جاتا ہے ؟ اسی طرح دود کے باپ کے دوسرے نسبی رشتہ دار دودھ کی اولاد پر حرام ہو جاتے ہیں یا نہیں ؟ امام ابو حنیفہ - مالک - شافعی - احمد اور اعمی - خوری - علی ابن عباس کے نزدیک دودھ کا باپ بھی حرمت میں اسی طرح مؤثر ہے جیسے نسیبی باپ.لیکن ایک گروہ کا خیال اس کے برعکس ہے اور اس کے قائل حضرت عائشہ کے ہے حضرت ابن زبیری اور ابن عمری ہیں.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب آیت قرآنی اور حدیث کا بظاہر ایا ہمیں تعارض ہے.ہ پانی کا حکم یہ ہے کہ وہ خود پاک ہے اور دوسری چیز کو بھی پاک کرتا ہے جب پانی کے اندر کوئی پاک چیز ملادی جاوے تو اس کی بعد بھی اس کا یہ حکم قائم کر ہتا ہے.

Page 123

آیت قرانی یہ ہے.وَأَمَّهُتُكُمُ التِي أَرْضَعْتَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةُ حدیث مندرجہ ذیل ہے.جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے.قَدْ جَاءَ أَفَلَمُ اخُو أَبِي الْقَعَيْسِ يَسْتَأْذِنَ عَلَى بَعْدَ أَنْ اُنْزِلَ الحِجَاب فَأَبَيْتُ أنْ أذَنَ لَهُ وَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ فَقَالَ إِنَّهُ عَمُّكِ فَأُذِنِي لَهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي المرأَةُ وَلَمْ يَرْضَعْنِي الرَّجُلُ فَقَالَ إِنَّهُ عَمَّكِ فَلْيَلِجُ عَلَيْكِ پس جس کے نزدیک حدیث مذکورہ میں آیت قرآنی سے زائد حکم پایا جاتا ہے اس کے نزدیک رضاعی باپ کے واسطہ سے بھی حرمت لازم آتی ہے.آیت قرآنی کے علاوہ ایک روایت بھی ہے جو اس بارہ میں اصولی حکم کو بیان کرتی ہے اور وہ یہ ہے : يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ له پس جن کے نزدیک آیت قرآنی اور مندرجہ بالا روایت رضاعت کے حکم کو اصولی رنگ میں بیان کرتی ہے ان کے نزدیک اگر حدیث عائشہ کے مطابق عمل کیا جاوے ترجمہ : اور تم پر حرام کی گئی ہیں، تمہاری رضاعی مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعی نہیں انسار ) س ترجمہ: حضر عائشہ فرماتی ہیں کہ ابو القعیس کے بھائی آفلم نے آیت حجاب نازل ہونے کے بعد میرے پاس آنے کی اجازت چاہی لیکن کینے اسے اجازت نہ دی.چنانچہ پینے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا.وہ تمہارا چا ہی ہے کیونکہ وہ تمہارے رضائی باپ ابو الفعلیس کا بھائی ہے) اس لئے اسے آنے کی اجازت دیدو.کینے عرض کی یا رسول اللہ مجھے دودھ تو ایک عورت نے پلایا ہے مرد نے نہیں.آپنے فرمایا نہیں وہ تمہارا اچھا ہے اور وہ تمہارے پاس آسکتا ہے.(ابو داؤد كتاب النكاح باب في لبن الفحل) سے جمہور فقہار کی رائے درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عائشہؓ کی روایت صحاح ستہ نے بیان کی ہے اور یہ آیت قرآنی کے حکم کے مخالف نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح کا رنگ رکھتی ہے لہذا یہ اعتراض کہ یہ روایت آیت قرآنی کو منسوخ کرتی ہے درست نہیں بلکہ اس روایت کی رو سے آیت کے مخصوص حکم میں عمومیت کا رنگ پایا جاتا ہے.که ترجمه: رضاعت کی وجہ سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں.2 ابو داؤد کتاب النکاح باب يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب ) !

Page 124

AN تو اس سے قرآن مجید کا بیان کردہ اصول منسوخ ماننا پڑے گا.کیونکہ وہ زیادتی جو کسی حکم کو تبدیل کرنے والی ہو وہ اس حکم کی ناسخ ہوتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ خود حضرت عائشہ کا بھی یہ مذہب نہ تھا کہ رضاعی باپ کے واسطہ سے حیرت الله لازم آتی ہے حالانکہ وہ خود اس روایت کی راوی ہیں.ابن رشد کہتے ہیں کہ ایسے اصول ہو کہ رائج ہوں ان کی تردید ایسی نادر روایات سے کرنا جو کہ کسی خاص موقعہ کے لئے وارد ہوئی ہوں.مناسب معلوم نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رض نے حضرت فاطمہ بنت قیس کی روایت کے متعلق فرمایا تھا کہ ہم اور کی کتاب کو ایک عورت کی روایت کی وجہ سے ترک نہیں کر سکتے.رضاعت کے متعلق اختہار کے ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ اس میں دو عور توں شہادت کی گواہی معتبر ہے اور یہ مذہب امام شافعی اور عطاء کا ہے ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ایک عورت کی شہادت بھی مقبول ہوگی.جن لوگوں کے نزدیک دو عورتوں کی گواہی معتبر ہے ان میں سے بعض ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ عورتیں اس بارہ میں گواہی دینے سے قبل اس کا اظہار عام کر چکی ہوں.یہ مذہب امام مالک اور ابن القاسم کا ہے.بعض ایسے ہیں جو یہ شرط نہیں لگاتے.یہ مطرف اور ابن الماجشون کا مذہب ہے.وہ لوگ جو اس بارہ میں ایک عورت کی گواہی کو معتبر قرار دیتے ہیں ان میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو اس بات کی شرط عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنی گواہی سے قبل اس امر کا اظہا یہ عام کر چکی ہو.لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے لئے یہ شرط ضروری نہیں ہے.دو اور چار عورتوں کی شہادت میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ کیا ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی شہادت اس جگہ بھی ضروری ہے جہاں مردوں کی شہادت ممکن نہیں ہے.یا ایسے مواقع پر صرف دو یا ایک عورت کی شہادت ہی کافی ہے.

Page 125

ایک عورت کی شہادت کے متعلق اختلاف کا سبب یہ ہے کہ ایک روایت اور ایک اصولی حکم جس پر سب کا اتفاق ہے ان میں باہم تعارض ہے.اصولی حکم یہ ہے کہ مردوں میں دو مردوں سے کم کی خواہی قبول نہیں ہوتی اور عور توں کی گواہی میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے.اس بارہ ہیں جو روایت بیان کی گئی ہے وہ عقبہ بن حارث کی یہ روایت ہے.قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ اِنّى تَزَوَجْتُ امْرَأَةً نَانَتْ مَرَأَةٌ نَقَالَتْ قَدْ ال ضَعَتُكُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ دَعَهَا عَنْكَ بعض نے اس روایت کے متعلق یہ کہا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں ہے بلکہ آپ نے یہ شورہ دیا ہے کہ تمہارے لئے اس حالت میں بہتر یہ ہے کہ تم اس عورت کو طلاق دے دو.دودھ پلانے والی کے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ہر عورت خواہ بالغہ ہویا اوصات نابالغہ.خواہ اسے حیض آتا ہو یا اسے اب حیض آنے کی امید نہ ہو یعنی وہ بوڑھی ہو چکی ہو.اس کا خاوند زندہ ہو یا بیوہ ہو حاطہ ہو یا غیر حاملہ ان سب صورتوں میں اگر کوئی بچہ رضاعت کے عرصہ میں اس کا دود وپیئے گا تو اس سے حرمت لازم آئے گی.بعض فقہاء نے یہ مذہب بھی اختیار کیا ہے کہ مرد کے دودھ سے بھی حرمت آجاتی ہے.امام ابن رشد بیان فرماتے ہیں کہ یہ تو صورت ہی غیر ممکن ہے چہ جائیکہ اس کا کوئی شرعی حکم موجود ہو لیکن اگر کوئی ایسی صورت ممکن بھی ہو تو اس پر دودھ کے لفظ کا اطلاق نہ ہوگا ہندا اس کا حکم بھی وہ نہ ہوگا.جو عورت کے دودھ کا بیان کیا گیا ہے.ه ترجمه: عقبہ بن حارثہ سے روایت ہے کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سینے ایک عورت سے شادی کی ہے اور ایک عورت میرے پاس آئی ہے جو یہ کہتی ہے کہ پینے تم دونوں کو و و وہ پہلا یا ہے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اس کے متعلق ایسا کہا گیا ہے تو یہ نکاح کس طرح رہ سکتا ہے.لہذا تم اس کو چھوڑ دو یعنی طلاق دے دو.

Page 126

۸۴ سبب اختلاف صرف یہ ہے کہ آیا آیت رضاعت میں عمومیت ہے یا نہیں.جو اس کا مفہوم عام لیتے ہیں وہ ہر قسم کے دودھ کی حرمت کے قائل ہیں اور جو اس کی عمومیت کے قائل نہیں وہ مختلف حدبندیوں کے قائل ہیں.بدکاری زانیہ عورت سے نکاح کے بارہ میں اختلاف ہے جمہور نے اس کو جائز قرار دیا ہے.لیکن بعض فقہاء نے اس کو ناجائز کہا ہے وجہ اختلاف یہ اختلاف اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے معنی میں اختلاف کی بناء پر ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے:.الزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا الإِذَانٍ أَوْ مُشْرِكُ وَمُحَرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ بعض کے نزدیک یہ ممانعت کا حکم حرمت کے لئے نہیں ہے بلکہ محض مذمت فعل کے لئے ہے لیکن بعض کے نزدیک یہ ممانعت حرمت کے لئے ہے.اسی طرح آیت کے آخری حصہ وحرم ذلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِين سے بعض لوگ زنا کی حرمت مراد لیتے ہیں.لیکن بعض لوگ اس سے نکاح کی حرمت مراد لیتے ہیں.جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ حرمت زنا کی ہے نکاح کی نہیں ہے.اور اسکی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے.اَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زَوْجَتِهِ أَنَّهَا لَا تَرُدُّ يَدَ لامس فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلِقُهَا فَقَالَ لَهُ إِلَى أحِبُّهَا فَقَالَ لَهُ فَاَمْسِلْهَا - - لے ترجمہ.اور ایک زانیہ زانی یا مشرک کے سوا کسی سے ہم صحبت نہیں ہوتی.اور مومنوں پر یہ حرام کی گئی ہے کے ترجمہ : ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اپنی بیوی کے متعلق بتایا کہ وہ کسی خواہش مند کے ناتھ کو روکتی نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ اس کو طلاق دے دو.اس شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے اسے محبت ہے.آپ نے فرمایا تب تم اس کو اپنے پاس رکھو.دنسائی کتاب المنكاح باب تزويج الزانية )

Page 127

۸۵ تعداد ازواج تمام مسلمان اس امر پر متفق ہیں کہ چار بیویوں سے بیک وقت شادی کرنا جائز ہے لیکن یہ حکم آزاد مردوں کے لئے ہے.اس مسئلہ میں دو جگہوں پر اختلاف کیا گیا ہے.اول کیا غلام بھی چار بیویاں کر سکتا ہے یا نہیں ؟ دوم کیا چار بیویوں سے زائد بھی جائز ہیں یا نہیں ؟ غلام کے لئے امام مالک کے مشہور قول کے مطابق چار نکاح جائز ہیں اور یہی اہل ظاہر کا مذہب ہے.امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک غلام صرف دو بیویاں بیک وقت رکھے سکتا ہے.وجه اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ میں طرح حد زنا میں غلام کی حد نصف ہو جاتی ہے.یا طلاق کی تعداد میں کمی ہو جاتی ہے کیا یہی حکم تعداد ازواج میں بھی ملحوظ ہے.یا نہیں ہے حقن تار کے متعلق تو تمام فقہاء متفق ہیں کہ غلام کی حد آزاد کی حد سے نصف ہے لیکن تعداد ازواج اور طلاق وغیرہ مسائل میں اختلاف ہے.آزاد مرد کے لئے چار سے زائد شادیوں کے متعلق جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ چار بیویوں کی موجودگی میں پانچویں بیوی جائزہ نہیں ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَه اسی طرح حدیث میں ہے.قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ لِغَيْلَانَ لَمَّا أَسْلَمَ وَنَحْتَهُ عَشْرُ ہ ترجمہ :.تم کو عورتوں میں سے جو پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین اور چار چار سے نکاح کرلو.(نساء عدم

Page 128

نِسْوَةِ أَمْسِك أَرْبَعًا وَفَارِقُ سَائِرَهُنَّ له فقہار کے ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ تو بیویاں بھی بیک وقت جائز ہیں.ان لوگوں نے آیت قرآنی میں جواز کے اعداد کو جمع کرکے استدلال کیا ہے یعنی ۲+۳+۴ - ۹ دو بہنوں کو ایک عقد میں جمع کرنا اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ ایک عقد میں دو حقیقی بہنوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ اَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأَخْتَيْنِ اس بارہ میں اختلاف ہے کہ دو حقیقی بہنوں کو غلامی کے تعلق میں جمع کرنا جائز ہے یا نہیں یعنی دو مملوکہ بہنوں کے ساتھ مجامعت کرنا جائز ہے یا نہیں.جمہور فقہاء اس کو جائز قرار نہیں دیتے.لیکن ایک طبقہ نے اس کو جائز قرار دیا ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ کے اول حصہ میں عمومی مانعت بیان کی گئی ہے.لیکن اس کے آخری حصہ میں استثناء ہے یعنی الا ما مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اختلاف یہ ہے کہ یہ استثناء یا تو آیت کے قریبی حصہ سے ہے یعنی آن تَجْمَعُوا بين الأختين سے با آیت میں بیان کردہ مجموعی امور سے مثلاً چار سے زیادہ شادیاں کرنا وغیرہ.اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر ایک بہن نکاح میں ہو اور ایک ملکیت میں تو ان دونوں کو جمع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے.اور امام شافعی کے ترجمہ :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیلات کو جب وہ اسلام لا ئے فرمایا اور اس وقت غیلان کے عقد میں دس بیویاں تھیں کہ چار بیویاں اپنے پاس رکھ کر باقی کو طلاق دے دو.د مستند امام احمد بجواله منتقی حسی در ۲ ۵۳۷ ) ترجمہ :.اور تم پر حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو اپنے نکاح میں جمع کرو.(نساء ع ۲۴ ترجمہ :.سوائے ان عورتوں کے جو تمہاری ملکیت میں آجائیں.(نساء ع٢)

Page 129

نزدیک جائز ہے.اسی طرح امام شافعی کے نزدیک اپنی بیوی کے ساتھ اس کی عمر " یعنی پھوپھی رباپ کی بہن یا دادا کی بہین ، اور اپنی بیوی کے ساتھ اس کی خالہ زماں کی بہن یا نانی کی ہوں ؟ جمع کرنا منع ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ابو ہر یہ رہنے کی روایت میں یہ ثابت ہے اور اس کے مطابق صحابہ کا عمل بھی ہے.روایت یہ ہے.أن لا يُجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا وَبَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا فقہار میں ایک مشہور اختلاف یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں خصوصی ممانعت مد نظر ہے یا عمومی ممانعت ہے اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس روایت میں بعض خاص رشتوں کی مانعت کی گئی ہے لیکن اصل مقصد ان خاص رختوں کی ممانعت نہیں ہے بلکہ اس میں ممانعت کا ایک اصول بیان کیا گیا ہے جہاں جہاں یہ اصول پایا جائے گا وہاں یہ ممانعت اور حرمت لازم آئے گی.وہ اصل جو اس سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ جہاں دو عورتوں کے درمیان رحمی تعلق ہوگا وہاں ان کو جمع کرنا منع ہو گا.بیان کردہ تفصیل کے ماتحت گو مذکورہ روایت ہمیں دو مخصوص رشتوں کو جمع کرنے سے ممانعت کی گئی ہے.لیکن اس سے یہ اصول مستنبط ہوا کہ یہاں بھی رحمی تعلق ہو گا ان کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز نہ ہوگا.مثلاً عورت اور اس کی پھوپھی زاد بہن.عورت اور اسکی خالہ ندا و بہن کو بھی ایک عقد میں جمع کرنا منع ہوگا.وغیرہ.ایک گروہ کے نزدیک یہ مانعت خصوصی ہے.اور اس سے مراد وہی خاص رشتے ہیں جو اس میں مذکور ہیں اور حرمت کی حد اس سے آگے تجاوز نہیں کرتی بعض لوگوں نے اس حرمت کے لئے ایک اور اصول وضع کیا ہے.اور وہ یہ ہے کر ان دو عورتوں میں سے اگر کسی ایک کو مرد تصور کیا جائے اور شرعا ان دونوں کا آپس میں له ترجمه :- ایک عقد میں عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اور عورت کو اس کی خالہ کے ساتھ جمع نہ کیا جائے (نسائی کتاب النکاح باب المجمع بين المرأة وقمتها )

Page 130

^^ نکاح حرام ہو.ایسی دو عورتوں کو ایک عقد میں جمع کرنا منع ہے.بعض فقہار اس اصول کو دو طرت سے ملحوظ رکھتے ہیں اور بعض صرف ایک طرف سے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر دونوں طرفوں میں سے کسی ایک طرف کو مرد تصویر کیا جائے تو ان دونوں کا آپس میں نکاح شرعاً منع ہو تو ان کو ایک عقد میں جمع کرنا بھی منع ہے.ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ اگر طرفین میں سے ایک طرف کو مرد تصور کرنے سے شرعی خرمت لازم آتی ہو لیکن دوسری طرف کو مرد تصور کرنے سے حرمت لازم نہ آتی ہو تو ان دو عورتوں کو ایک عقد میں جمع کرنا جائز ہے.ان ہر دو صورتوں کی مثالیں علی الترتیب درج ذیل ہیں.زار دل، ایک شخص ایک عورت اور اس کی پھوپھی کو ایک عقد میں جمع نہیں کر سکتا.کیونکہ اگر اس عورت کو مرد اور کھو بھی کو عورت تصور کیا جاوے تو یہ رشتہ بھو بھی بھیجے کا بنتا ہے.چونکہ شرعا ان دونوں کا نکاح حرام ہے اس لئے یہ دونوں عورتیں ایک عقد میں جمع نہیں ہو سکتیں.(ب) اگر پھوپھی کو مرد اور اس عورت کو عورت تصور کیا جاوے تو یہ رشتہ چچا اور بھتیجی کا بنتا ہے.اس لئے ان دونوں عورتوں کا ایک عقد میں جمع کرنا بھی ملع ہے.(۳) دوسرے مسئلے کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کسی متوفی کی بیوی سے نکاح کرتا ہے.اور پھر اس متوفی کی دوسری بیوی کی لڑکی کو بھی اپنے عقد میں جمع کرنا چاہتا ہے.یہ صورت ایک گروہ کے نزدیک جائز ہے.اور دوسرے گروہ کے نزدیک نا جائز ہے.کیونکہ اگر ایک طرف سے عورت کو مرد تصور کیا جائے تو شرعاً ان کا نکاح جائز ہے.لیکن اگر دوسری طرف سے عورت کو مرد تصور کیا جاوے تو ان کا نکاح ناجائز ہے.یعنی اگر دوسری بیوی کی لڑکی کو مرد تصور کیا جائے.تو متوفی کی بیوی اس لڑکے کے باپ کی بیوی ہوگی اور شرعا ان دونوں کا نکاح حرام ہے.

Page 131

ہذا ایک گروہ کے نزدیک ان کا ایک عقد میں جمع کرنا منع ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ اگر متوفی کی ایک بیوی کو مرد تصور کیا جاوے تو متوفی کی دوسری بیوی کی لڑکی کسی غیر مرد کی بیٹی ہوگی جو شر کا جائز ہے.اس لحاظ سے ایک گروہ کے نزدیک ان دونوں کو ایک عقد میں جمع کرنا جائز ہے لیے لونڈی سے شادی اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ لونڈی سے غلام شادی کر سکتا ہے.اسی طرح آزاد عورت بھی غلام سے شادی کر سکتی ہے.بشرطیکہ وہ عورت اور اس کے اولیاء اس پر راضی ہوں.آزاد مرد لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے.نے اس مسئلہ کو مندرجہ ذیل نقشہ سے واضح کیا جاتا ہے.صور اول کی اگر دونوں طرفوں میں سے کسی ایک طرف کو مرد تصور کیا جائے تو ان دونوں کا آپس میں نکاح شرعاً منع ہو مثلاً : زینب کی پھوپھی زینب اس میں اگر زینب کو مرد اور زینب کی پھوپھی کو عورت تصور کیا جاوے تو یہ پھوپھی اور بھتیجے کا رشتہ بن جاتا ہے.لیکن اگر اس کے بیکس ہو تو اس صورت میں چچا اور بھتیجی کا رشتہ بن جاتا ہے ایسے دورشتوں کو آپس میں جمع کرنا منع ہو گا صورت دوم- ایک شخص بکرہ زید کے مرنے کے بعد فاطمہ اور زینب کو اپنے عقد میں جمع کرنا تريد چاہتا ہے تو ایک گروہ کے نزدیک یہ جائز نہ ہوگا (بیوی) زینب کیونکہ اگر ف احمد کو لڑ کا تصور کیا جائے تو تر تیب اس کے باپ کی بیوی ہے.چونکہ باپ کی بیوی سے نکاح فاطمه حرام ہے اس لئے ان دونوں کا جمع کرنا بھی حرام ہے.بسنده (بیوی) لیکن اگر زینب کو مرد سمجھا جائے تو اس کے لئے فاطمہ ایک غیر شخص کی لڑکی ہے اس لئے اس کے ساتھے اس کا نکاح ہو سکتا ہے.بعض کے نزدیک ان دونوں کے کو جمع کرتے ہیں کوئی روک نہیں.

Page 132

4.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ مطلقاً جائز ہے.یہ مذہب ابن القاسم کا ہے.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ دو شرطوں سے جائز ہے.(1) اسے آزاد عورت سے نکاح کی توفیق نہ ہو.(۲) اسے گناہ میں ملوث ہونے کا اندیشہ ہو.یہ امام مالک کا مشہور مذہب ہے.امام ابو حنیفہ اور امام شافعی " کا بھی یہی مذہب ہے.وجہ اختلاف یہ اختلاف دلیل خطاب اور ایک عمومی حکم میں بظا ہر تعارض کی بناء پر ہے.دلیل خطاب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دی جاتی ہے.وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنْكِحَ الْمُحْصَنَتِ الْمُؤْمِنَتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لونڈی کے ساتھ نکاح مندرجہ بالا شرط کے بغیر جائز نہیں ہے کیونکہ دلیل خطاب کا یہ تقاضا ہے کہ جب کوئی حکم کسی شرط کے ساتھ مشرو ہوا تو جب تک وہ شرط نہ پائی جائے گی.وہ ہم بھی نہ پایا جائے گا.چونکہ اس آیت میں لونڈی کے ساتھ نکاح کرنا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ آزاد عورت سے نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو.پس جب اسے آزاد عورت سے شادی کی طاقت ہو تو اس صورت میں اسے لونڈی سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے.عمومی حکم اللہ تعالے کے مندرجہ ذیل ارشاد میں پایا جاتا ہے.وَانكَحُوا الأَيَّا فِى مِنكُمْ وَالصَّالِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ إِمَائِكُمْ ترجمہ : اور جو کوئی تم میں سے آزاد مومن عورتوں سے شادی کرنے کی بالکل طاقت نہ رکھتا ہو وہ تمہاری مملوکہ عورتوں یعنی تمہاری مومن لونڈیوں میں سے کسی سے نکاح کرنے.رنساء ) ترجمہ: اور اپنے میں سے جو بیوائیں ہیں اور جو اپنے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک ہوں.ان کی شادیاں کر دیا کرو.(نور)

Page 133

۹۱ اس آیت میں عام حکم ہے.کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا جائز ہے.خواہ آزاد ھورت سے نکاح میسر ہو یا نہ ہو.گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو یا نہ ہو.ابن رشد کہتے ہیں کہ دلیل خطاب اس عمومی حکم سے زیادہ قوی ہے.کیونکہ عمومی حکم میں زوج کی صفات نہیں بیان کی گئیں بلکہ اس میں صرف لونڈیوں میں سے نکاح کی عام اجازت دی گئی ہے.لیکن دلیل خطاب میں نکاح کے لئے واضح شرط کا بیان موجود ہے کہ اس شرط کی عدم موجودگی میں نکاح نہیں ہونا چاہیئے.جمہور کے نزدیک لونڈی سے نکاح جائز ہے.اگرچہ اس میں یہ پہلو بھی موجود ہے کہ اس ذریعہ سے ایک آزاد مرد خود اپنی اولاد کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے میں محدود معاون بنتا ہے اے اس بات میں دو اور امور میں بھی اختلاف ہے اول :- اگر کسی شخص کے عقد میں ایک آزاد عورت موجود ہو تو کیا اس عورت کی موجودگی میں وہ لونڈی سے شادی کر سکتا ہے یا نہیں ؟ امام ابو حنیفہ کے نزدیک پہلے سے اس کے عقد میں ایک آزاد عورت کا ہوتا اس یات کی علامت ہے کہ اسے آزاد عورت سے شادی کرنے کی توفیق ہے اس لئے وہ لونڈی سے شادی نہیں کر سکتا.امام مالک سے اس بارہ میں دونوں قول نقل کئے گئے ہیں دوم - خیس شخص کو نہ آزاد عورت سے شادی کی توفیق ہو نہ وہ خوف گناہ سے محفوظ ہو کیا وہ ایک سے زیادہ لونڈیوں سے شادی کر سکتا ہے یا نہیں ؟ جو یہ کہتا ہے کہ اگر اس کے عقد میں آزاد عورت ہو تو یہ عدم توفیق کی علامت نہیں ہے اور اسے خون گناہ بھی نہیں ہے.اس کے نز دیک آزاد عورت کی موجودگی میں لونڈی سے نکاح جائز نہیں ہے.جس کے نزدیک خوف گناہ ایک بیوی کی موجودگی میں بھی ہو سکتا ہے.جیسا کہ بیوی کی عدم موجودگی میں ہوتا ہے.کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے لئے کہ یہ انسوی صورت نہیں ہے.جبکہ لونڈی غیر کی ہو.اور اس سے نکاح کیا جائے.

Page 134

۹۲ ایک بیوی کا ہونا اس کو گناہ کے احساس سے نہ بچا سکے.پس اگر وہ دوسری جگہ آزاد عورت سے نکاح نہ کر سکتا ہو تو لونڈی سے شادی کر سکتا ہے.یہ اختلاف دونوں صورتوں میں موجود ہے.یعنی آزاد عورت کے بعد لونڈیوں سے شادی کر سکتا ہے یا نہیں.یا ایک لونڈی کے بعد دوسری لونڈی سے شادی کر سکتا ہے یا نہیں.یہ اختلاف اوپر کے بیان کردہ اصول کے ماتحت فقہاء میں پایا جاتا ہے.جب فقہاء یہ کہتے ہیں کہ آزاد عورت کی موجودگی میں عدم توفیق یا خوف گناہ کی بناء پر لونڈی سے شادی جائز ہے.تو انہوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے کہ وہ اس آزاد عورت سے اجازت حاصل کر کے لونڈی سے شادی کرے یا بغیر اجازت بھی السیا کر سکتا ہے.اگر وہ بغیر اجازت ہی لونڈی سے نکاح کرلے تو کیا آزاد بیوی کو اختیار ہے کہ چاہے تو وہ اپنے نکاح کو بحال رکھے چاہے تو فتح کردے.یا اسے اختیار نہیں ہے؟ اس بارہ میں امام مالک نے اختلاف کیا ہے.اسی طرح اس بارہ میں بھی اختلاف ہے کہ جب آزاد عورت کی توفیق نہ ہونے کی وجہ سے لونڈی سے شادی کرلے اور بعد میں آزاد عورت سے شادی کی توفیق پائے تو کیا اس وقت لونڈی کو چھوڑ دے یا اپنے عقد میں رکھے.اس بارہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے.کہ اگر لونڈی سے نکاح گناہ کے خوف کی وجہ سے کیا ہو اور بعد میں یہ خوف زائل ہو گیا ہو تو لونڈی کو چھوڑ نہیں سکتا.اس امر پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ آزاد عورت اپنے غلام سے نکاح نہیں کر سکتی اور اگر کسی وجہ سے اس کا خاوند اس کی ملکیت میں آجائے تو نکاح فسخ ہو جائے گا.اس باب میں مندرجہ ذیل مشہور مسائل بیان کئے گئے ہیں :.(۱) اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مسلمان کے لئے مشترکہ (آزاد) سے نکاح جائز نہیں ہے

Page 135

۹۳ ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَلَا تُمْسِكُوا بِعصير الكوافيرا (تحت (۲) مشرکہ (لونڈی سے نکاح کرنے کے متعلق اختلاف ہے.(۳) اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ کتابیہ (آزاد) کا نکاح جائز ہے.ہاں ابن عمر کے متعلق ایک روایت آتی ہے کہ وہ جائز نہیں سمجھتے تھے (۴) کتابیہ لونڈی سے نکاح کرنے کے متعلق اختلاف ہے.(۵) کتابیہ (لونڈی سے بغیر نکاح کے تعلقات قائم رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ مشرکہ ٹونڈی کے نکاح میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کا عمومی ارشاد ہے:.وَلَا تُمْسِكُوا بِعصم الكوافير ممتحنه عام اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِن دوسری طرف اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد بھی موجود ہے :- والمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اس آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ لونڈی خواہ مشترکہ ہو یا کتا ب یہ دونوں سے نکاح کرنا جائز ہے.جمہور فقہار اس کو جائز قرار نہیں دیتے.اور وہ اول الذکر دو آیات کے عمومی حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں لیکن طاؤس اور مجاھد اس کو جائز قرار دیتے ہیں.ان کا استدلال ایک تو مندرجہ بالا آیت سے ہے اس میں لونڈی کے نکاح کی اجازت کسی خاص وصف کے ساتھ مقید نہیں کی گئی بلکہ عام اجازت دی گئی ہے.دوم وہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ غزوہ اور طاس میں جو لونڈیاں پکڑی ہوئی آئی تھیں وہ مشرکہ تھیں اور مسلمانوں نے ان سے نکاح کر لئے تھے چنانچہ ان سے عرض کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے دریافت کیا تو آپ نے ه تترجمہ: اور کا فرعورتوں کے ننگ و ناموس کو تم قبضہ میں نہ رکھو (ممتحنہ عا) ترجمہ: اور تم مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں نکاح نہ کرو.(بقرہ (۲۷۴) ترجمہ : اور پہلے سے منکوجہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں سوائے ان عورتوں کے جو تمہاری ملکیت میں آجائیں.ے عزل سے مراد ہر تھے کنٹرول ہے یعنی جماع کے ایسے طریقے جن سے قرار حمل نہ ہو.دقاء ع ۱۲۴

Page 136

۹۴ اس کی اجازت مرحمت فرمائی.کتابیہ (آزاد) کے متعلق جمہور فقہار کا مذہب یہ ہے کہ اس سے نکاح کرتا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَ ہے لیکن اس کے بعد ایک اور حکم والمُحْصَنَتُ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبِ کہ کر دیا گیا ہے گویا پہلے حکم سے دوسرے حکم کو مستثنی کیا گیا ہے.یعنی پہلی آیت میں مطلق مشرک عورتوں سے نکاح کرنا منع فرمایا ہے لیکن دوسری آیت میں اہل کتاب کو مستثنی فرمایا گیا ہے.جس کے نزدیک کتابیہ (آزاد) سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے اس نے ان آیات کے متعلق یہ جواب دیا ہے کہ عام حکم دینی ولا تُنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ خاص حکم یعنی وَالْمُحْصَلَتُ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الكِتب ) کے لئے ناسخ ہے اس لئے اس پر عملدرآمد نہ ہوگا.کتابیہ لونڈی سے نکاح کرنے کے متعلق اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام حکم اور قیاس میں باہم تعارض ہے.قیاس یہ ہے کہ چونکہ کتابیہ (آزاد) سے نکاح کرنا قرآن مجید اور دیگر ادلہ سے ثابت ہے تو اس پر قیاس کرتے ہوئے کتابیہ (لونڈی سے بھی نکاح کرنا جائز ہونا چاہیئے.عام حکم یہ ہے کہ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الكَوافِر.اس کا تقاضا یہ ہے کہ کا فرعورت خواہ کتابیہ ہو یا غیر کتابیہ - آزاد ہو یا لونڈی سی سے نکاح نا جائز ہے.اس اختلاف کا ایک اور سبب یہ ہے کہ ایک طرف دلیل خطاب ہے اور دوسری طرف قیاس ہے.دلیل خطاب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمُ طَوْلا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَتِ اہے وہ پاکدامن عورتیں جو اہل کتاب میں سے ہیں تمہارے لئے جائز ہیں) (مائدہ غ) ہ اس بارہ میں جمہور کا مذہب درست ہے کیونکہ قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ کا مسئلہ بے بنیاد ہے.

Page 137

۹۵ الْمُؤْمِنَتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّنْ فَتَيْتِكُمُ الْمُؤْمِنت (نساء) اس سے معلوم ہوا کہ غیر مومن لونڈی کا نکاح جائز نہیں ہے اور قیاسی دلیل اوپر بیان ہو چکی ہے کہ اگر کتابیہ (لونڈی کو کتابیہ (آزاد) پر قیاس کیا جاوے تو اس سے نکاح جائز ہونا چاہیے.کیونکہ قیاس یہ کہنا ہے کہ جس جگہ نکاح بذریعہ عقد جائزہ ہوگا وہاں نکاح بذریعہ تملیک بھی جائز ہونا چاہیئے.جو لوگ کتابیہ (لونڈی سے نکاح کو جائز قرار نہیں دیتے وہ ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ جب مسلمان لونڈی کا نکاح عام حالات میں جائزہ قرار نہیں دیا گیا.بلکہ اس کے لئے بعض خاص شرائط لگا دی گئی ہیں.مثلاً آزا د عورت سے نکاح کی توفیق نہ پاتا.یا گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہونا.یہ امر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کتابیہ (لونڈی سے تو بدرجہ اولی تکاح جائز نہیں ہونا چاہیئے.اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ اپنی کتابیہ (لونڈی سے بغیر نکاح کے تعلقات قائم کرنا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عمومی ارشاد إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اس کی تائید کرتا ہے جس میں مملوکہ لونڈیوں کو حرمت سے مستثنیٰ کیا گیا ہے.** •• اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ قید غلامی غیر شادی شدہ لونڈی سے تعلقات کو جائز کر دیتی ہے.لیکن شادی شدہ لونڈی کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا غلامی کی وجہ سے اس کا پہلا نکاح فسخ ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ اگر فسخ ہو جاتا ہے تو کب ؟ ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ اگر خاوند اور بیوی دونوں اکٹھے قید ہو کر آئیں تو ان کا نکاح قائم رہتا ہے لیکن اگر وہ ایک دوسرے سے آگے پیچھے گرفتار ہو کر آئیں تو ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے.یہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے.ے اور جود کوئی تم میں سے آزا د مومن عورتوں سے شادی کرنے کی بالکل طاقت نہ رکھتا ہو.وہ تمہاری ملوکہ عورتوں یعنی تمہاری مومن لونڈیوں میں سے کسی سے نکاج کرتے.(نساء ہے)

Page 138

94 ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ مطلق غلامی سے پہلا نکاح فسخ ہو جاتا ہے.خواہ دونوں اکٹھے گرفتار ہو کر آئیں یا الگ الگ.یہ مذہب امام شافعی اور ان کے اصحاب کا ہے.امام مالک کے دو قول ہیں.ایک قول یہ ہے کہ غلامی سے پہلا نکاح فسخ ہو جاتا ہے.دوسرا قول یہ ہے کہ غلامی سے پہلا نکاح نہیں ٹوٹتا.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس جواز یا عدم جواز کا سبب در حقیقت غلامی نہیں ہے.بلکہ خاوند اور بیوی کا دوختلف حکومتوں کے ماتحت ہونا ہے پس جب وہ دونوں اکٹھے گرفتار ہوں گے تو ان کے درمیان دو مختلف حکومتوں کا بعد نہ رہے گا.اس لئے نکاح قائم رہے گا.لیکن جب یکے بعد دیگرے گرفتار ہوں گے تو ان کے درمیان دو حکومتوں کا بعد واقعہ ہو جائیگا.اس لئے ان کا نکاح ٹوٹ جائے گا.دیگر فقہاء کے نزدیک اس جوانہ یا عدم جواز کا سبب غلامی ہے پس جب وہ کسی حالت میں بھی گرفتار ہو کر آئیں گے نکاح ٹوٹ جائے گا.اس غلامی کے متعلق یہ امر قابل ذکر ہے کہ کیا شادی شدہ اور غیر شادی شدہ صورت میں کوئی فرق ہے ؟ ابن رشد اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ جب محض غلامی کی وجہ سے ہی اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے جائز ہیں تو اس لحاظ سے اس کا شادی شدہ ہونے یا غیر شادی شدہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ ان تعلقات کے جواز کا اصل سبب تو کفر اور ر ملک ہے.اور یہ دونوں حالتوں میں مساوی حیثیت سے موجود ہے.کسی کا یہ کہتا کہ لونڈی کے ساتھ بغیر نکاح کئے تعلقات قائم کرنے کے جواز کا اصل سیب کفر ہے.تو پھر وقتی لونڈیوں سے کیوں جائز نہیں ہے جبکہ کفر کا سبب ان میں بھی پایا جاتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس وجہ سے غلط ہے کہ وتی تو اے ابن رشد کا مذہب دلائل کے لحاظ سے زیادہ قومی معلوم ہوتا ہے.سے وقتی سے مراد وہ غیر مسلم ہیں جوکہ مسلمانوں کی پناہ میں آجائیں اور اس کے عوض میں کچھ رقم بطور ٹیکس کے اور کریں.

Page 139

94 جزیہ ہی اس لئے ادا کرتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں اور اپنی روایات کو قائم رکھیں.پس جب ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا جائز قرار دیا جا وے تو پھر ان سے جزیہ لینے کا کیا جواز باقی رہا.حالت احرام محرم کے لئے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس بارہ میں فقہاء میں اختلاف ہے.امام مالک شافعی.لیث - اوزامی".اور احمد کا مذ ہب یہ ہے کہ محرم نہ کاج پڑھے بڑا اس کا نکاح پڑھا جائے.اور اگر کوئی محرم ایسا کرے گا.تو اس صورت میں نکاح باطل ہوگا.صحابہ میں سے یہ مذہب حضرت عمر یہ حضرت علیؓ حضرت ابن عمر اور تریدین ثابت کا ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک محرم کے لئے نکاح کرنا جائز ہے.وجه اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اس بارہ میں مختلف روایات کا باہم تعارض ہے.ان میں سے ایک روایت حضرت ابن عباس کی ہے کہ :.ان رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكَحَ مَيْمُونَةً وَهُوَ عُمرم اس روایت کو صحیح بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے.اور اسکی صحت پر اتفاقی ہے اس روایت کے خلاف بھی بہت سی روایات منقول ہیں.اور وہ حضرت میمونہ سے مروی ہیں :- آنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَجَهَا وَهُوَ حَلَال اس روایت کے ہم معنی میمونہ سے ابو رافع سیلیمان بن یسار اور یزیدین الاصم نے بھی روایات نقل کی ہیں:.ترجمہ : حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ سے نکاح کیا.جبکہ آپ ایام کا میں محرم تھے صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نکاح المحرم و كرامته خطبه کے ترجمہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت میمونہ سے) نکاح کیا اور اس وقت احرام کی طالبات میں نہ تھے.(صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نكاح المحرم و كراهته خلیفته)

Page 140

۹۸ اس کے علاوہ امام مالک نے عثمان بن عفان سے روایت نقل کی ہے.انَّهُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْكِحَ الْمُجْرِمُ ولَا يُنَكُمْ وَلَا يَخطب جس نے ان روایات کو حضرت ابن عباس کی روایت پر ترجیح دی اس کے نزدیک محرم نکاح نہیں کر سکتا.اور جس نے حضرت میمونہ کی روایت کو ترجیح دی یا ان دونوں قسم کی روایات کو جمع کرنے کی کوشش کی اس نے یہ کہا کہ یہ نہی کرا جہت کے لئے ہے نہ کہ حرمت کے لئے.لہذا اگر کوئی محرم نکاح کرلے تو ہو جاتا ہے.حالت مرض اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر مریض طالبت مرض میں اپنا نکاح کرلے تو ریکل درست ہے یا نہیں.امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک جائز ہے.اور امام مالک کے مشہور قول کے مطابق جائز نہیں ہے.ان کے نزدیک اگر مریض نکاح کرلے تو اسے کالعدم قرار دیا جائے گا خواہ نکاح کے بعد مریض تندرست ہو گیا ہو.امام مالک کے نزدیک ان کے در میان جدائی کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی دو وجوہات ہیں :.(1) نکاح بیع کے مشابہ ہے یا ہبہ کے جس کے نزدیک نکاح ہبہ کے مشابہ ہے وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مریض سے حصہ سے زائد ہیہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اس لئے اسے نکاح کا بھی اختیار نہیں ہونا چاہیئے.جن کے نزدیک نکاح بیچ کے مشابہ ہے ان کے نزدیک چونکہ مریض کو بیچ کا اختیا ہے اس لئے نکاح کا بھی اختیار ہے.له ترجمه: - رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ محرم نہ نکاح کیسے نہ نکاح کرائے یہ منگنی کر رہے.(موطار امام مالک و صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحريم نكاح المحرم وكرامتطيته ے اس جگہ حالت مرض سے مراد وہ بیماری ہے جس سے عموما موت واقع ہوتی ہے معمولی بیماری مراد نہیں ہے.

Page 141

٩٩ (۲) اس اختلاف کا دوسرا سبب یہ ہے کہ مریض پر یہ الزام عائدہ ہوتا ہے کہ اس نے نکاح کر کے اپنے ورثار میں ایک اور وارث کا اضافہ کر دیا ہے.اور اس طرح اپنے دیگر ورثاء کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے.مریض کے نکاح کو قصبہ پر قیاس کرنے کے متعلق این ارشد رکھتے ہیں کہ یہ قیاس درست نہیں ہے کیونکہ مریض کے صبہ کے متعلق تو سب کا اتفاق ہے کہ وہ اپنی جائداد کے ی حصہ کا ہبہ کر سکتا ہے لیکن مریض کے نکاح کے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ وہ مطلقاً جائز نہیں ہے پس جب ان دونوں میں ماثلت نہیں ہے تو یہ دونوں ایک دوسرے کی دلیل کس بن سکتے ہیں.عدت میں نکاح اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ عدت میں نکاح جائز نہیں ہے.عدت خواہ حیض کی ہو یا محل کی یا مہینوں کی.اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص عدت میں نکاح کرلے اور تعلقات زوجیت بھی قائم کرلے تو کیا یہ نکاح قائم رہے گا یا نہیں ؟ امام ابوحنیفہ - شافعی ثوری کا مذہب یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان تفریق کی جائے گی اور عدت گزرنے کے بعد اگر دونوں دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ بعض کے نزدیک اے عزت سے مراد وہ عرصہ ہے جو عورت طلائی کے بعد یا خاوند کے مرنے کے بعد گزارتی ہے اور اس میں سہی دو سے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی.یہ عرصہ مختلف حالات میں مختلف ہوتا ہے.مثلاً وہ عورت جیسے حیض آتا ہو اور اسے طلاق ہو گئی ہو تو اس کی عدت تین حیض ہے.وہ عورت جو حاملہ ہو اگر اسے طلاق ہو جائے تو اس کی عدت وضع حمل ہے.اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو اس کی عدت چار مہینے اور دس دن ہے.اگر کوئی ایسی عورت ہو جیسے حیض نہیں آتا تو اس کی عدت طلاق کی صورت میں تین ماہ ہے، اور بیوہ ہونے کی صورت میں چار ماہ دس دن.

Page 142

صحابہ کا قول محبت ہے اور بعض کے نزدیک صحابہ کا قول حجت نہیں ہے.اس مسئلہ کے متعلق امام مالک نے ایک روایت نقل کی ہے :- عَنِ ابْنِ شَهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَسُلَيْمَانَ ابْنِ يَسَارِ ان عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَرَّنَ بَيْنَ طَلِيعَةَ الْأَسَدِيَّةِ وَبَيْنَ زَوْجِهَا راشد الشَّفَفِ لَمَّا تَزَوَجَهَا فِى الْعِدَّةِ مِنْ زَوْجِ ثَانٍ وَقَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ فِي عَدَتِهَا مِنَ الْاَوَّلِ ثُمَّ كَانَ الْأَخَرُ خَاطِيَّا مِنَ الْخُطَّابِ وَإِن كَانَ دَخَلَ بِهَا فُرِقَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ اعْتَدَّتْ بَقِيَة عِدَتِهَا مِنَ الْأَوَّلِ ثُمَّ اعْتَدَّتْ مِنَ الأخَرِ ثُمَّ لَا يَجْتَمِعَانِ اَبَدال سعید کہتے ہیں کہ اس صورت میں دوسرا خاوند اس عورت کو حق مہر ادا کرے گا.کیونکہ اس نے اس سے مجامعت کرلی ہے.بعض لوگ اس حکم کو ایک قیاس کی وجہ سے بھی ضروری قرار دیتے ہیں اور وہ قیاس یہ ہے کہ چونکہ اس نے عدت میں مجامعت کر کے نسب میں سفبہ پیدا کر دیا ہے اس لئے یہ لفاتق کے قائمقام ہوا.لہذا اس پر حکم بھی لعان کا لگے گا یعنی ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہوگی اور حق مہر ادا کرتا ہو گا لیکن علامہ ابن رشد کہتے ہیں کہ یہ قیاس ضعیف ہے.اہ ترجمہ نہ ابن شہاب نے ابن المسیب اور سلیمان بن یسار کے واسطہ سے یہ روا بہت بیان کی ہے کہ حضرت عمر نے طلیحہ اور اس کے خاوند کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ فرمایا کیونکہ انہوں نے عزت کے عرصہ میں نکاح کیا تھا.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت اپنے پہلے خاوند کی عدت میں دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرلے پھر اگر وہ دوسرا خاوند اس سے مجامعت کرے تو ان دونوں کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کیا جائے.اس کے بعد وہ پہلے خاوند کی عدت گزارے.پھر دوست کے خاوند کی عدت گزارے پھر وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے.اگر مرد اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور اس کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو اور بیوٹی لگا کرے.تو اس کے متعلق قرآن مجید کا حکم یہ ہے کہ اس صورت میں مرد چار دفعہ ی قسم کھائے کہ وہ اس الزام میں سچا ہے اور پانچویں دفعہ یہ قسم کھائے کہ اگر وہ چھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہو.اسی طرح عورت چار دفعہ یہ قسم کھائے کہ اس کا خاوند جھوٹ بولتا ہے.پانچویں و قعد یہ قسم کھائے کہ اگر اس کا خاوند اس الزام میں سچا ہے تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو.

Page 143

: : : 1-1 جو لوگ حضرت عمر کے اس فتویٰ کے خلاف ہیں وہ حضرت علی اور حضرت ابن مسعود کی روایت کو لیتے ہیں جو حضرت عمرہؓ کی روایت کے خلاف ہے.علامہ ابن رشد کہتے ہیں کہ صحیح تو یہ ہے کہ عدت میں نکاح کرنے اور مجامعت کرنے سے حرمت لازم نہیں آتی کیونکہ اس کے متعلق قرآن مجید.حدیث شریف اور اجماع است سے کوئی تائید نہیں ملتی.بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عمر نے اس کے متعلق حرمت کا فتویٰ دیا اور حق مہر بیت المال سے ادا کیا لیکن جب حضرت علی کو علم ہوا تو انہوں نے اس کے خلاف مشورہ دیا.چنانچہ اس کے بعد حضرت عمر نے اپنے پہلے قول سے رجوع کیا اور اسکی حرمت کا فیصلہ واپس لے لیا.اور اس کا حق مہر بھی خاوند کے ذمہ قرار دیا.یہ روایت ثوری نے الشعب اور شعبی کے واسطہ سے مسروق ” سے بیان کی ہے.اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ حاملہ لونڈی سے جبکہ اس کا حمل کسی اور کا ہو.اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک وضع حمل نہ ہو جائے.کیونکہ اس کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر روایات بیان ہوئی ہیں.اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر حاملہ لونڈی سے مجامعت کرے تو بچہ آزاد ہو گا یا نہیں.جمہور کا مذہب یہ ہے کہ وہ آزاد نہیں ہوگا.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سب یہ ہے کہ اس بارہ میں اختلاف ہے کہ کیا حاملہ عورت سے مجامعت کرنے سے مرد کا نطفہ بچے کی خلقت پر اثر انداز ہوتا ہے یا نہیں.جن کے نزدیک وہ اثر انداز ہوتا ہے ان کے منہ دیک وہ بچہ ایک جہت سے اس کا اپنا بچہ ہی ٹھہرا لیکن جن کے نزدیک وہ نطفہ بچے کی خلقت پر اثر انداز نہیں ہوتا ان کے نزدیک وہ بچہ اس کا نہ ہوا لہذا وہ آزا د بھی نہ ہوگا.ہیں.جن کے نزدیک وہ بچہ آزاد ہو گا وہ اپنی تائید میں یہ روایت بھی بیان کرتے

Page 144

١٠٢ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.كَيْفَ يَسْتَعْبِدُهُ وَقَدْ عَذَاةَ فِي سَمْعِهِ وَبَصَرِ اللهِ زوجیت اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور ذمیوں کا نکاح منکوحہ عورت کو دوسرے لوگوں پر حرام کر دیتا ہے.لونڈیوں کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا اس کی بیچ ہی طلاق کے قائمقام ہے یا نہیں ؟ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ محض بیچ طلاق کے قائمقام نہیں ہوتی.ایک قوم کا مذہب یہ ہے کہ بیچ طلاق کے قائمقام ہے.اور یہ روایت ابن حیان جابر ابن مسعود اور ابی ابن کعب کی ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب حدیث بریرہ اور ایک عام حکم کا باہم اختلاف ہے.عام حکم تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے.الا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اس حکم میں گرفتار شدگان اور فروخت شدگان دونوں شامل ہیں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی لونڈی فروخت ہو کر دوسرے مالک کے پاس آجائے تو پہلے مالک کی طرف سے خود بخود طلاق ہو جائے گی.حدیث بریرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محض اس کی بیع سے طلاق واقع نہیں ہوتی.اور وہ روایت یہ ہے کہ ہر یہہ کو حضرت عائشہؓ نے اس کے خاوند سے خرید لیا اور اس کے بعد اسے آزاد کر دیا.اس آزادی کے بعد آنحضرت صلعم نے بریرہ کو اختیار دیا کہ چاہے تو اپنے خاوند کے عقد میں رہے چاہے تو اس عقد کو فتح کر دے.اس اختیار سے معلوم ہوا کہ جب حضرت عائٹ کرنے بریرہ کو خرید لیا تھا تو محض له ترجمہ : درسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، وہ شخص اس کو اپنا غلام کس طرح بنا سکتا ہے جبکہ اس کے کان اور آنکھوں کو اس کے نطفہ سے غذا حاصل ہوئی ہے.

Page 145

١٠٣ اس وجہ سے وہ اپنے خاوند کے نکاح سے آزاد نہیں ہوئی.کیونکہ اگر صرف بیچ سے ہی طلاق واقع ہو جاتی ہے تو پھر اسے اپنے خاوند کے عقد میں رہنے یا نکاح فسخ کرنے کا مطلب ہی کیا ہوا.جمہور کی دلیل ابن ابی شیبہ کی یہ روایت ہے :.عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم بَعَثَ يَومَ حُنَيْنٍ سَرِقَةً فَأَصَابُوا حَيَّا مِنَ الْعَرَبِ يَوْمَ أَوطَاسِ فَهَر مهم وما هُمْ نِسَاء لَهُنَّ ازْوَاجَ وَ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَاتَّمُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجَلِ أَزْوَاجِهِنَّ فَاَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اس روایت میں آیت قرآنی سے استدلال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عورہ خواہ کسی وجہ سے ملکیت میں آجائے اس کا خاوند زندہ ہو یا نہ ہو وہ اپنے مالک کے لئے حلال ہے.یہ مسئلہ کہ وہ نکاح جو اسلام سے قبل کے ہیں قائم رہتے ہیں یا نہیں ؟ اس بارہ میں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں میاں بیوی اکٹھے مسلمان ہو جائیں اور ان کا نکاح اسلام کے بنیادی احکام کے خلاف نہ ہو (مثلاً وہ نسیبی حرمت والے رشتے نہ ہوں یا ایک عقد میں دو حقیقی بہنیں نہ ہوں یا چار سے زائد بیویاں نہ ہوں تو ایسا نکاح قائم رہے گا.اس کے متعلق دو مسائل میں اختلاف ہے :.له تترجمہ : ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے مقام پرایک دستہ بھیجا.انہوں نے عربوں کے ایک قبیلہ کو شکست دی اور انہیں قتل کیا.وہاں ان کو بعض ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے خاوند زندہ تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض ایسے تھے جو ان کے ساتھ صحبت کرنے کو گناہ خیال کرتے تھے تو اللہ تعالے نے یہ آیت نازل فرمائی: وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ

Page 146

۱۰۴ اول - جب اس کے عقد میں چار سے نہائد بیویاں ہوں یا ایسی عورتیں اس کے عقد میں ہوں جن کا جمع کرنا اسلام نے حرام قرار دیا ہے دوم :- جب ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت پہلے اسلام قبول کرے.ان ہر دو مسائل کے متعلق الگ الگ بحث کی جاتی ہے.چار سے زائد اگر مسلمان ہونے والے کی چار سے زائد بیویاں ہوں یا اس کے بیویاں عقد میں دو حقیقی بہنیں ہوں تو امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ وہ ان میں سے چار بیویاں انتخاب کرلے اور دو بہنوں میں سے ایک بہن کو اختیار کرلے اور باقی کو طلاق دیدے.یہی مذہب امام شافعی - احمد اور داؤ ظاہری کا ہے.امام ابو حنیفہ - ثورہی.اور ابن ابی لیلی کا مذہب یہ ہے کہ پہلی چار بیویوں کو اختیا کرنے اور باقی کو طلاق دے لیکن اگر ان سب کے ساتھ ایک ہی وقت میں نکاح کیا ہو تو سب کو طلاق دے.اصحاب مالک میں سے ابن ماجشون کا دو بہنوں کے متعلق یہ مذہب ہے کہ وہ ات دونوں کو طلاق دے اس کے بعد ان میں سے جس کو چاہیے اس سے جدید نکاح کرے ابن ماجشون کے علاوہ امام مالک کے اصحاب میں سے کسی اور نے یہ مذہب اختیار نہیں کیا.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور قیاس میں باہم تعارض ہے.رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کے ارشادات میں سے ایک روایت تو امام مالک نے بیان کی ہے.ان غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ الشَّفَفِي أَسْلَمَ وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةِ اسْلَمْنَ مَعَهُ فَا مَرَةَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَخْتَارَ مِنْهُنَّ ارْبَعَا ترجمہ : غيلان بن سلمہ ثقفی نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے عقد میں دس بیویاں تھیں.ان بیویوں نے بھی اس کے سام ہی اسلام قبول کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی اختیار دیا کہ وہ ان میں سے چار بیویاں رکھ کر باقی کو طلاق ر ترمذی باب في الرحيل يسلم وعنده عشر نسوة ) دے دیں.

Page 147

۱۰۵ دوسری روایت قیس بن حارث کی ہے.الهُ اسْلَمَ عَلَى الْأَخْتَيْنِ فَقالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَرُ ايَّتَهُمَا شِئْتَ له ان روایات کے خلاف قیاس یہ ہے کہ وہ نکاح جو اسلام قبول کرنے کے بعد جائز نہیں ہیں وہ اسلام قبول کرنے سے قبل بھی نا جائز ہونے چاہئیے کیونکہ میں بنیادی نقص کی وجہ سے کوئی نکاح نا جائز قرار دیا گیا ہے وہ قص ہر دو حالتوں میں موجود ہے اس لئے دونوں حالتوں میں اس پر ایک ہی حکم نافذ ہوتا چاہیئے.ابن رشد کہتے ہیں کہ یہ قیاس ضعیف ہے لیے ایک دوسرے کے بعد اگر میاں بیوی آگے پیچھے اسلام قبول کریں تو اسلام قبول کرنا ان کے نکاح کے متعلق اختلاف ہے.امام مالک کے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اگر عورت مر سے قبل اسلام قبول کرلے اور وہ ابھی عدت گزار رہی ہو کہ اس کا خاوند بھی اسلام قبول کرے تو وہ اس عورت کا زیادہ حقدار ہے یعنی اس صورت میں ان کا نکاح بحال رہے گا.اور وہ اپنے خاوند کے پاس لوٹ جائے گی لیکن اگر وہ عدت گزار چکی ہو تو ان کا نکاح قائم نہ رہے گا اس کی تائیدہ ایک روایت سے ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ صفوان بن امیہ بیان کرتے ہیں کہ : رن زَوْجَهُ عَاتِكَةَ ابْنَةَ الْوَلِيدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ أَسْلَمَتْ قَبْلَهُ ثُمَّ أَسْلَمَ هُوَ فَا فَرَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ا ترجمہ :.قیس بن حارث جب مسلمان ہوئے تو ان کے عقد میں دو حقیقی بہنیں تھیں.رسول کریا ملی علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ ان دونوں میں سے جس کو چاہو اختیار کر لو.رتمندی باب في الرجل يسلم وعنده أختان ) کے اس قیاس کے کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب اس مسئلہ میں صحیح روایات موجود ہیں تو ان کی موجودگی میں قیاس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی.

Page 148

1.4 وسَلَّمَ عَلَى نِكَاحِهِ - قَالُوا وَكَانَ بَيْنَ إِسْلَامِ صَفْوَانَ وَبَيْنَ اِسلام امْرَأَتِهِ نَحْو مِنْ شَهْرٍ ابن شہاب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بھی روایت ایسی نہیں پہنچی.کہ ایک عورت اسلام قبول کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی ہو.اور اس کا خاوند کفار کے ملک میں کفر کی حالت میں ہو مگر آپ نے ان دونوں کے نکاح کو فسخ قرار نہ دیا ہو.سوائے اس کے کہ اس کی عدت گزارنے سے قبل اس کا خاوند بھی مسلمان ہو کر آجائے.اگر خاوند اپنی بیوی سے قبل اسلام قبول کرے تو اس بارہ میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے.امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں اس عورت کے سامنے اسلام پیشش کیا جائے گا اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرے تو ان کا نکاح فسخ کیا جائے گا.امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ خواہ عورت مرد سے قبل اسلام قبول کرے یا مرد عورت سے قبل اگر بعد میں اسلام قبول کرنے والا عدت کے عرصہ کے اندر مسلمان ہو گا تو ان کا نکاح قائم رہے گا.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ قرآن مجیک عام حکم حدیث اور قیاس سے باہم متعارض ہے.قرآن مجید کا عام حکم یہ ہے : وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ یہ حکم فوری طور پر فدائی کی تائید کرتا ہے.لیکن روایت جو اس حکم کے خلاف آئی ہے وہ یہ ہے.أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبِ أَسْلَمَ قَبْلَ هِنْدِ بِنْتِ عُتْبَةَ امْرَأَتِهِ وَكَانَ إِسْلَامُهُ بِمَةِ الظَّهْرَات ثمَّ رَجَعَ إِلى مَكَةَ اہ ترجمہ : صفوان بن امیہ کی بیوی عاتکہ نیت ولید بن مغیرہ نے اسلام قبول کیا اور اس کے بعد صفوان نے اسلام قبول کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پہلے نکاح کو بحال رکھا.کہتے ہیں کہ ان دونوں کے اسلام میں قریباً ایک مہینہ کا وقفہ تھا.(منتقی جلد۲ ص۵۲)

Page 149

وَهِنْدَبِهَا كَافِرَ فَاخَذَتْ بِلِقييم وَقَالَتِ اقْتُلُوا الشيخ الضَّالَ ثُمَّ أَسْلَمَتْ بَعْدَهُ بِاَيَّامٍ فَاسْتَقَرَا عَلَى نِكَاحِهِمَا قیاس جو عام حکم کے خلاف ہے.وہ یہ ہے کہ عورت خواہ مرد سے پہلے اسلام قبول کرے یا بعد میں عقلاً ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیئے.اسی طرح اگر عورت کی عدت کا مرد سے پہلے اسلام قبول کرنے میں لحاظ رکھا جاتا ہے تو مرد سے بعد اسلام قبول کرنے میں بھی اس کا لحاظ رکھا جانا چاہیئے.له ترجمه: - سفیان بن حرب اپنی بیوی مصور بنت عتبہ سے قبل مسلمان ہوئے.آپ نے مر ظہران میں اسلام قبول کیا.اس کے بعد مگر واپس آئے اور ان کی بیوی ہند مکہ میں ہی ابھی کفر کی حالت میں تھی اس نے آپ کی داڑھی کو پکڑ کر کہا کہ اس گمراہ بوڑھے کو قتل کرو اس کے کچھ دنوں بعد ھند نے بھی اسلام قبول کیا تو وہ دونوں اپنے پہلے نکاح پر قائم رہے.

Page 150

I.A تیسرا باب فسخ نکاح کے موجبات چار ہیں (۱) عیب (۲) حق مہر یا نان و نفقہ دینے کی نا اہلیت - (۳) خاوند کا مفقود الخبر ہونا.( من کوجہ لونڈی کی آزادی.اب ان موجبات کے متعلق الگ الگ بحث کی جاتی ہے.عیب فقہاء نے کسی عیب کی وجہ سے شیخ نکاح کے بارہ میں دو باتوں میں اختلاف کیا (1) کیا کسی عیب کی وجہ سے فسخ نکاح جائز ہے یا نہیں ہے (۲) کن عیوب میں فسح جائز ہے اور کن میں ناجائز؟ صورت اول کے متعلق امام مالک شافعی اور ان کے اصحاب کا مذہب یہ ہے کر کسی بھی عیب کی وجہ سے میاں بیوی کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے.اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ کسی عیب کی وجہ سے بھی زوجین کو فسخ نکاح کا اختیار نہیں ہے اور یہی مذہب عمر بن عبدالعزیز کا ہے.وجہ اختلاف اس بارہ میں اختلاف کی دو وجوہ بیان کی گئی ہیں.(1) کیا صحابی کا قول حجت ہے یا نہیں ؟ (۲) کیا نکاح بیع کے مشابہ ہے یا نہیں؟ صحابی کا قول جو اس بارہ میں بیان ہوا ہے وہ حضرت عمرف کا ہے.آپ فرماتے ہیں:.أيُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ وَ بِهَا جُنُونَ اَوْ جُدَاهُ أَوْ بَرْضٌ وفي بعض الرواياتِ اَوْ قَرْنَ فَلَهَا صَلَاقُهَا كَا مِلا وذلِكَ

Page 151

1.4 غرم لِزَوْجِهَا عَلَى وَلِيهَا جو لوگ صحابی کے قول سے حجت پکڑتے ہیں وہ اس قول کی بناء پر عیب کی وجہ سے فسخ نکاح کے قائل ہیں.جولوگ قیاس کی وجہ سے فسخ نکاح کے قائل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ نکاح بیچ کے مشابہ ہے اس لئے جس طرح بیع کسی عیب کی وجہ سے رو کی جاسکتی ہے، اسی طرح نکاح بھی عیب کی وجہ سے فسخ ہو سکتا ہے.جو لوگ اس قیاس کو نہیں مانتے وہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں.کہ نکاح بیع کے مشابہ نہیں ہے.اگر ایسا ہوتا تو ین عیوب کی وجہ سے بیچ رو ہو سکتی ہے انہی ٹیوب کی وجہ سے نکاح بھی فسخ ہونا چاہیئے.حالانکہ کوئی بھی اس طرح کی مناسبت کا قائل نہیں ہے.صورت دوم کے متعلق امام مالک اور امام شافعی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فسخ نکاح چار عیوب کی وجہ سے ہوتا ہے.(۱) جنون - (۲) جدام - (۳) برص - (۴) اندام نہانی میں کوئی ایسی بیماری میں کی وجہ سے مجامعت نہ ہو سکتی ہو.مثلاً عورت کو قرن یا رتق (شرمگاہ کا بند ہونا) اور مرد کو عنین دنا مردی) یا خصی ہونے کی بیماری ہو.اصحاب مالک نے چار عیوب میں اختلاف کیا ہے.(۱) سواد - (۲) قرتح (۳) مند یا ناک سے بدبو آنا.(۴) شرمگاہ سے بدبو آنا.ایک قول یہ ہے کہ ان عیوب کی وجہ سے نکاح فسخ ہوگا.اور ایک قول یہ ہے کہ فسخ نہ ہو گا.کے ترجمہ :- اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اسے جنون یا جذام یا برص یا قرن کی بیماری ہو تو اس عورت کا خاوند کے ذمہ پورا مہر ہوگا.اور عورت کا ولی بطور تاوان کے اس کے خاوند کو ادا کریگا.نوٹ قرن سے مراد عورت کی اندام نہانی میں پیدائشی طور پر کسی ایسی روک کا پیدا ہونا جسکی موجودگی میں ہی ہمت نہ ہو سکے.سواد دانتوں کی بیماری ہے یعنی دانتوں کا سیاہ ہونا.یر قان یعنی رنگ کے زرد ہونے کو بھی سواد کہتے ہیں.سے قریع - گنجا پن.

Page 152

If امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور ثوری کے نزدیک صرف دو عیوب کی وسید سے نکاح فسخ ہو سکتا ہے اور وہ رتق اور قرن ہے.احکام ضخ جو فقہا فسخ کے قائل ہیں وہ سب اس امر پر متفق ہیں کہ اگر خاوند جماع سے قبل کسی عیب پر مطلع ہو جائے اور طلاق دیدے.تو اس پر کوئی حق مہر واجب نہیں ہے.اور اگر جماع کے بعد کسی عیب پر اطلاع پائے تو اس بارہ میں فقہار کا اختلائی ہے امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس کا ولی قریبی رشتہ دار ہے جو اس کے عیب پر مطلع ہو سکتا ہے.مثلاً باپ یا بھائی تو حق مہر کا نقصان وہ برداشت کرے گا.لیکن اگر ولی الیسا رشتہ دار ہے.جو غیب پر اطلاع نہیں پاسکتا تو اس صورت میں حق مہر کی رقم وہ عورت واپس کرے گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر اس مرد سے دھوکا کیا ، البتہ عورت کے حق مہر میں سے ہے دینا نہ اسے معاف کر دیا جائے گا اور اس سے وصول نہیں کیا جائے گا.امام شافعی کے نزدیک اگر خاوند بیوی سے مجامعت کر چکا ہو تو اس پر حق مہر کی ادائیگی لازم ہوگی اور وہ اس میں سے کچھ بھی اپنی بیوی سے یا اس کے ولی سے واپس لینے کا حقدار نہ ہوگا.وجه اختلاف | اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک یہ نکاح بیج کے مشاہد ہے اور بعض کے نزدیک یہ نکاح اس فاسد نکاح کے مشابہ ہے جس کے بعد جماع ہو چکا ہو.جو اسے بیع کے مشابہ قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک حق مہر واجب نہ ہوگا اور نکاح فسخ ہوگا.کیونکہ بیچ عیب کی وجہ سے فسخ ہوتی ہے اور قیمت واجب نہیں ہوتی نے اس صورت میں اگر خاوند حق مہر ادا کر چکا ہو تو اس کا ولی وہ رقم خاوند کو واپس ادا کرنے کا ذمہ وار ہوگا.اور اگر خاوندیقی مرادانہ کر چکا ہو تو اس صورت میں خاوند بیوی کو حق مہر ادا کریگا بعد اس کے ولی سے بطور تاوان وصول کرے گا.دینار کی قیمت اندازاً اڑھائی روپے بنتی ہے.

Page 153

جن کے نزدیک یہ نکاح فاسد کے قائمقام ہے.ان کے نزدیک نکاح فسخ ہو گا لیکن حق مہر واجب ہوگا.کیونکہ اس پر سب فقہار کا اتفاق ہے کہ نکاح فاسد کے بعد جب جماع ہو جائے تو نکاح فسخ ہوتا ہے.لیکن حق مہر کی ادائیگی واجب ہوتی ہے.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:.ايما امرا و تلحَتْ بِغَيْرِ اذْنِ سَيْدِ مَا فَنِكَاحُهَا بَاطِل وَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَ مِنْهَالة تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نامرد سے نکاح کی صورت میں ایک سال تک نکاح فتح نہیں ہو گا یعنی نامرد کو ایک سال تک علاج کی مہلت دی جائیگی.اگر وہ اس عرصہ میں تندرست ہو جائے تو بہتر ورنہ بیوی کو نکاح فسخ کرانے کا حق حاصل ہوگا.مندرجہ بالا عیوب کی وجہ سے نکاح فسخ ہونے کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں.(۱) بعض عیب ظاہر ہوتے ہیں اور وہ نظر آ جاتے ہیں لیکن مندرجہ عیوب مخفی ہیں اور نکاح کے وقت ان عیوب کا علم نہیں ہوتا.اس لئے ان عیوب کی بناء پر نکاح فسخ ہوگا.(۲) کیونکہ ان میں سے بعض عیوب ایسے ہیں جن کا اثر اولاد میں بھی جانے کا اندیشید ہوتا ہے.مثلاً دانتوں کی بیماری.یرقان اور گنجا پن.برص وغیرہ.حق مہر اور نفقہ کی عدم توفیق حق مہر کی عدم ادائیگی اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر خاوند حق مہر ادارہ کر سکتا ہو تو بیوی کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے یا نہیں ؟ امام شافعی اور مالک کے نزدیک اگر مجامعت نہ ہوئی ہو تو اسے فسخ کا اختیار ہے.اہ ترجمہ : وہ عورت جو اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح ناجائز ہے اور اس کے خاوند کے قومہ اس عورت کے لئے ہر واجب ہے کیونکہ اس نے اس سے تعلقات زوجیت قائم کئے ہیں..

Page 154

امام مالک کے اصحاب میں اس مدت کی حد بندی میں اختلاف ہے جس میں حق مہر کی ادائیگی واجب ہے.بعض کے نزدیک اس کے لئے مدت کی کوئی قید نہیں ہے.خاوند جب ادائیگی کر سکے کرنے سے بعض کے نزدیک ایک سال کے اندر ادائیگی ضروری ہے ور نہ عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہو گا.اور بعض کے نزدیک دو سال کے اندر ادائیگی ضروری ہے.امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ اس کی بیوی اس وقت تک اسکی قرض خواہ ہو گی جب تک حق مہر کی ادائیگی نہ ہو جائے.اور اسکی بیوی کو اس بات کا اختیار ہو گا کہ جب تک اس کا خاوند حق مہر کی ادائیگی نہ کرے اس وقت تک اسے تعلقات زوجیت قائم کرنے کی اجات نہ دے.لیکن اس عرصہ کے نان و نفقہ کی ذمہ واری خاوند پر ہوگی.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ نکاح بچے کے مشابہ ہے یا اس مسئلہ میں بیوی کو حق مہر کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے مجامعت سے جو محرومی ہوئی ہے.یہ اکیلا کے مشابہ ہے.جس کے نزدیک یہ بیچ کے مشاہد ہے اس کی نزدیک بیوی کو فسخ نکاح کا اختیا ہوگا.جس کے نزدیک یہ ایلاء کے مشابہ ہے اس کے نزدیک وہ نان و نفقہ کی حقدار ہوگی اور حق مہر کی وصولی میں اسکی حیثیت ایک قرض خواہ کی ہوگی.نان و نفقہ کی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو نفقہ ادا نہ کر سکے تو امام مالک و عدم ادائیگی شافعی احمد ابو ثور - ابو عبید اور فقہار کی ایک جماعت کے نزدیک اس وجہ سے بیوی کو فتح نکاح کا اختیار حاصل ہوگا.نے ایلام قرآن کریم کے محاورہ میں اس قسم کو کہتے ہیں جو ایسی بات پر کھائی جائے کہ مرد اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہ رکھے گا.چونکہ اس قسم میں عورت کے حق کا اختلاف ہے اس لئے اسے ایلاء کہا گیا.

Page 155

۱۱۳ امام ابو حنیفہ اور ثوری کے نزدیک اس وجہ سے بیوی کو فتح نکاح کا اختیار نہ ہوگا.اور یہی اہل ظاہر کا مذہب ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک خاوند کا نان و نفقہ کی ادائیگی کی توفیق نہ ہونے کی مثال ایسی ہے جیسے خاوند عنین (نامرد) ہے.چونکہ جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کو عنین سے فسخ نکاح کا حق حاصل ہے.اس لئے ان کے نزدیک اس صورت میں بھی اسے فتح نکاح کا حق حاصل ہوگا.بعض کے نزدیک خاوند کا نان و نفقہ کی ادائیگی اس لئے واجب ہے کہ وہ اس سے حقوق زوجیت حاصل کرتا ہے.اس کی دلیل یہ ہے کہ ناشزہ عورت نان و نفقہ کی حقدار نہیں ہوتی پس جب تک وہ تعلقات زوجیت سے اپنے آپ کو روک رکھے اس وقت تک وہ نفقہ کی حقدار نہیں.پس اس کے مقابلہ میں اگر کوئی خاوند نان و نفقہ کی ادائیگی نہ کرے تو اسکی بیوی کو بھی یہ حق ہونا چاہیئے کہ وہ اس وقت تک اسے تعلقات زوجیت قائم کرنے کی اجازت نہ دے.جو لوگ اس مسئلہ میں قیاس کے قائل نہیں ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ بیوی کی عصمت اپنے خاوند کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے اس لئے وہ بغیر کسی ایسے حکم کے جو قرآن یا حدیث میں نہ ہو ٹوٹ نہیں سکتی.مفقود الخبر کی بیوی ایسا مفقود الخبر خاوند جس کی زندگی یا موت کے متعلق یقین نہ ہو لیکن وہ اسلامی حکومت میں ہی ہو تو اس کے متعلق اختلاف ہے کہ اسکی بیوی شیخ نکاح کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں ؟

Page 156

۱۱۴ امام مالک کے نزدیک جب اس کے خاوند کا معاملہ حاکم وقت کے سامنے پیش ہو اور وہ اس بات کی تصدیق کر دے کہ واقعی اس کا خاوند مفقود الخبر ہے تو وہ عورت اس دن سے چار سال تک انتظار کرے اس کے بعد وہ ایک بیوہ کی عدت گزارے یعنی چار ماہ دس دن.اس کے بعد وہ آزاد ہے.لیکن اس کے بعد وہ اسکی جائیداد کی اس وقت تک وارث نہیں ہو سکتی جب تک اس پر اتنی مدت نہ گذر جائے جتنی ایک مرد کی اوسط عمر ہوتی ہے.بعض کے نزدیک یہ مدت ستر سال ہے.بعض کے نزدیک انٹی سال اور بعض کے نزدیک نوے سال.اور بعض کے نزدیک نو سال ہے.یہی قول حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان را سے مروی ہے.اور لیث کا بھی یہی مذہب ہے.امام ابو حنیفہ - امام شافعی اور ثوری کا مذہب یہ ہے کہ مفقود الخبر کی ہیوی اس وقت تک اس کے عقد سے آزاد نہیں ہوتی.جب تک اسکی نقینی موت کا علم نہ ہو جائے.یہی قول حضرت علی اور ابن مسعودؓ سے مروی ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ استصحابیت حال اور قیاس میں اختلاف ہے اس مسئلہ میں استصحاب حال یہ ہے کہ ایک عورت جب ایک مرد کے ساتھ عقد نکاح کی وجہ سے وابستہ ہو جاتی ہے تو وہ اس مرد کی وفات یا طلاق یا کسی واضح دلیل کے بغیر اس سے جدا نہیں ہو سکتی.پس اس صورت میں چونکہ مفقود الخبر کی موت کی تصدیق حاکم وقت کی طرف سے ہو جاتی ہے.اس لئے وہ عورت اس مرد کے عقد سے آزاد ہو جانی چاہیئے.ه استصحاب حال سے مراد کسی چیز کا اس حالت پر قائم رہتا ہے جو شریعت کے قانون کے مطابق اس کو ٹی ہے تا وقتیکہ اس حالت کے زائل کرنے کا کوئی یقینی ثبوت نہ ملے.مثلاً ایک صاف پانی کا مٹکہ ہے شریعت نے اس کو پاک قرار دیا ہے طہارت کا یہ حکم اس وقت تک اس میں قائم کی ہے گا.جب تک ہمیں یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس میں کوئی ایسی چیز مل گئی ہے جس سے وہ پانی ناپاک ہو گیا ہے.

Page 157

۱۱۵ قیاس یہ ہے کہ اس خاوند کی غیر حاضری کی وجہ سے بیوی کو جو نقصان پہنچا ہے وہ ایلاء یا مرد کے عنین ہونے کے مشابہ ہے اس لئے اس صورت میں عورت کو اختیار ہونا چاہیئے.چاہے تو وہ اس مرد سے وابستہ رہے اور اگر چاہے تو علیحدگی حاصل کر کے عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرے.امام مالک کے نزدیک مفقود کی چار قسمیں ہیں.(۱) جو اسلامی حکومت میں مفقود الخبر ہو.(۲) جو کھار کے ساتھ جنگ میں مفقود اخیر ہو.(۳) جو کفار کے ملک میں جاکر مفقود الخبر ہو.(ہی) جو مسلمانوں کے ساتھ باہم جنگ میں مفقود الخبر ہو.ان میں سے جو کفار کے ملک میں جاکر مفقود الخبر ہو اس کے متعلق تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ اس کا حکم ایک قیدی کی مانند ہے.یعنی اسکی بیوی اس کے عقد میں رہے گی اور اس کا مال اس وقت تک تقسیم نہیں ہو گا.جب تک اسکی یقینی موت کا علم نہ ہو جائے وہ شخص جو مسلمانوں کے ساتھ باہم جنگ میں مفقود الخبر ہو.امام مالک کے نزدیک اسے مقتول تصور کیا جائے گا اور اسکی بیوی کسی انتظار کے بغیر عدت گزار کر آزاد ہو جائے گی.امام مالک کا ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ میدان جنگ کے قرب وبعد کے لحانا سے اس کی واپسی کا انتظار کرے گی اور یہ مدت زیادہ سے زیادہ ایک سال ہے.اس کے بعد وہ عدت گزار کر آزاد ہو جائے گی.و شخص جو کفار کے ساتھ جنگ میں مفقود الخبر ہوا ہو اس کے متعلق امام مالک کے چار اقوال نقل کئے گئے ہیں.(۱) وہ قیدی کی مانند سمجھا جائے گا.(۲) ایک سال کے بعد اسے مقتول تصور کیا چائے گا.سوائے اس کے کہ وہ جگہ ایسی ہو جہاں عام حالات میں اس کی خبر مخفی نہ رہ سکتی ہو.ایسی صورت میں اس کا حکم اس مفقود الخبر کی طرح ہو گا جو مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں عدم پتہ ہوا ہو.

Page 158

114 (۳) اس کا حکم اس مفقود الخبر کی طرح ہے جو اسلامی حکومت میں عدم پتہ ہوا ہوئیں کا حكم تفصیل کے ساتھ پہلے بیان ہو چکا ہے.(۴) بیوی کے عقد کے بارہ میں وہ مقتول تصور کیا جائے گا اور میراث کے حق میں اس کا وہی حکم ہو گا جو اسلامی حکومت میں مفقود النخیر کا ہے یعنی اس کے مال کی تقسیم میں اتنی مدت انتظار کی جائے گی جتنی مدت میں وہ عام حالات میں فوت ہو سکتا ہے.آزادی کے بعد اختیار اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جب لونڈی غلام کی بیوی ہو تو اسے آزادی کی فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے.لیکن اگر وہ آزاد مرد کی بیوی ہو تو اس صورت میں فقہاء میں اختلاف ہے.امام مالک - شافعی فقہاء مدینہ - اوزاعی - احمد اور لیست کا یہ مذہب ہے کہ آزاد مرد کی بیوی کو آزادی کے بعد فسخ نکاح کا اختیار حاصل نہیں ہے.امام ابو حنیفہ اور ثوری کا مذہب یہ ہے کہ خواہ اس کا خاوند آزاد ہو یا غلام دونوں صورتوں میں اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے.وجہ اختلاف یہ اختلاف حدیث بربرہ میں اختلاف کی بناء پر ہے کیونکہ حضرت ابن عباس کی روایت کے مطابق بریرہ کا خاوند غلام تھا.اور حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق اس کا خاوند آزاد تھا.محدثین کے نزدیک یہ دونوں روایتیں اصول روایت کے لحاظ سے درست ہیں.اس اختیار کے وقت میں بھی اختلاف ہے.امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اس کو فسخ نکاح کا اختیار صرف اس صورت میں ہو گا جب کہ خاوند نے اس سے تعلقات زوجیت قائم نہیں گئے لیکن اوزاعی کے نزدیک تعلقات قائم کرنے کے بعد اس کا شیخ نکاح کا اختیار اس صورت میں ساقط ہو گا.اگر وہ پہلے سے یہ جانتی ہو کہ تعلقات کے قیام کے بعد اس سے اختیار ساقط ہو جاتا ہے.

Page 159

11 چوتھا باب حقوق زوجیت اس امر پر سب کا اتفاق ہے.کہ خاوند پر بیوی بچوں کا نان و نفقہ اور لباس کا جہیا کرنا واجب ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے.وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالمَعْرُونِ اسی طرح آپ نے ھند کو ارشاد فرمایا :- خُذِى مَا يَلْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالمَحْرُ وَنِ نفقہ کے متعلق تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ خاوند پر واجب ہے لیکن اس کے فروع میں اختلاف ہے اور وہ چار ہیں :- (۱) وقت وجوب (۲) مقدار نفقہ (۳) کس خاوند پر واجب - ہے؟ (۴) کس کے لئے واجب ہے ؟ وقت وجوب امام مالک کے نزدیک نفقہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب تعلقات زوجیت قائم ہو جائیں.یا خلوت صحیحہ ہو جائے.بشرطیکہ خاوند بالغ ہو اور عورت جماع کے قابل ہو.امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر خاوند غیر بالغ ہے.اور بیوی بالغ.تو خاوند پر ے ترجمہ: اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ حسب دستوران ردودھ پلانے والی کا کھانا اور ان کی پوشاک ہے.اور تمہارے ذمہ ان دودھ پلانے والی عورتوں کے لئے حسب ستوران کا کھانا اور ان کی پوشاک ہے.ر(معنی واین قدامه جلده شده) سے تم دستور کے مطابق اپنے لئے اور اپنے بیٹے کے لئے لے لو.(مغنی لابن قدامہ جلد کے مشاہ)

Page 160

١١٨ نفقہ واجب ہے بشرطیکہ خلوت صحیحہ ہو چکی ہو.امام شافعی کے نزدیک اگر خاوند بالغ ہو اور بیوی غیر بالغ ہو تو اس صورت میں ان کا ایک قول تو امام مالک کے موافق ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس کے لئے نفقہ واجب ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ نفقہ اس وجہ سے واجب ہے کہ خاوند بیوی سے فائدہ اٹھاتا ہے.یا اس وجہ سے واجب ہے کہ بیوی کی عصمت خاوند کے ساتھ وابستہ ہے.اور وہ اس کے قبضہ میں ہے.جیسا کہ غائب اور مریض پر نفقہ واجب ہوتا ہے باوجود اس کے کہ وہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.مقدار نفقہ | امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک شریعت میں مقدار نفقہ کی کوئی تعیین نہیں ہے.اور یہ امر خاوند بیوی اور ملکی حالات پر بنی ہے.اور یہ مقدار مختلف حالات اور مختلف اوقات میں اس ملک کے معیار زندگی کے مطابق کم وبیش ہوتی رہتی ہے.امام شافعی کے نزدیک اس کی شرعی مقدار مقرر ہے اور وہ یہ ہے کہ امیر آدمی پر دونده متوسط پر وائد اور غریب آدمی پر ایک مذ فلہ روزانہ کے حساب سے ہے.وجہ اختلاف یہ اختلاف اس وجہ سے ہے کہ بعض نے نفقہ کو کفارات میں طعام کی مقدار پر قیاس کیا ہے اور بعض نے کفارات میں لباس پر جس نے نے ایک مد کا وزن ۶۸ تو در ۳ ماشہ کے برابر ہے.گویا ایک مر تقریباً ساڑھے ۱۳ مسیر کے برابر ہوتا ہے.کفارہ سے مراد یہ ہے اگر کوئی شخص کسی شرعی حکم کو حمد توڑ دے تو شریعیت نے اسے یہ حکم دیا ہے کہ وہ دوسرے طریق سے اس کی تلافی کرے.مثلاً اگر کوئی شخص بلا عذر قسم کھا کر توڑ دے تو اس کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا لباس دنے یا غلام آزاد کرے اور اگر ان کی توفیق نہ ہو تو تین روزے رکھے.

Page 161

۱۱۹ لباس پر قیاس کیا اس کے نزدیک اس کی کوئی شرعی مقدار نہیں ہے.جیسا کہ لباس کی کوئی تعیین نہیں ہے.جس نے اس کو طعام پر قیاس کیا اس کے نزدیک اس کی مقدار کی تجین ہونی چاہیئے جیسا کہ کفارات میں طعام کی مقدار معین ہے.ایک اور اختلاف اس بارہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کیا بیوی کے نفقہ کے علاوہ خاوند پر اس کے خادم کا نفقہ بھی واجب ہے یا نہیں.اور اگر واجب ہے تو کتنے خدام کا نفقہ واجب ہے ؟ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اگر بیوی خادم کے ذریعہ ہی گھر کا کام کرتی ہے تو اس صورت میں خادم کا نفقہ بھی واجب ہوگا.ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ گھر کے کام کی ذمہ واری بیوی پر ہی ہے اس لئے خادم کا نفقہ نہیں دیا جائے گا.جو لوگ خادم کے نفقہ کے قائل ہیں ان کے نزدیک اگر بیوی گھر میں ایک خادم سے کام لیتی ہے تو ایک خادم کا لفقہ واجب ہوگا.اور اگر دو خادموں سے کام لیتی ہے تو دو خادموں کا نفقہ واجب ہوگا.یہ مذہب امام مالک.اور ابو ثور کا ہے.امام ابن رشد فرماتے ہیں کہ مجھے اس مذہب کی کوئی اور دلیل نہیں ملی سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ گھر کے خادموں کا نفقہ سکنی میں شامل ہے.اور سکنی " کے متعلق نص صریح موجود ہے جس کا مطلقہ کو حق ہے.بشرطیکہ وہ آزاد ہو اور 16 نے سکتی کے لئے رہائیش کی میگہ اور اس کے لوازمات ہیں.اس بارہ میں نص صریح کیے ہے اشكو هُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وَجْدِكُمْ (یعنی اے مسلمانوں مطلقہ عورتو کے حق کو نہ بھولوم ان کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی طاقت کے مطابق رہتے ہو ( طلاق انعام اس نص کے رو سے جس کو اپنے گھر میں خادموں کے رکھنے کی طاقت ہو وہ بیوی کے خادموں کے اخراجات بھی دے گا.

Page 162

۱۲۰ نا فرمان نہ ہو.نافرمان اور لونڈی کے متعلق اختلاف ہے.جمہور کا مذہب یہ ہے کہ نا فرمان کے لئے نفقہ نہیں ہے.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ نا فرمان کے لئے بھی نفقہ واجب ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی ارشاد ہے اور دوسری طرف آپ کے اس ارشاد سے بظاہر اس عمومیت کے خلاف مقوم نکلتا ہے.آپ کا عمومی ارشاد یہ ہے کہ : لَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ اس حکم سے معلوم ہوا کہ فرمانبردار اور نا فرمان صورتیں نان و نفقہ کے حکم میں دونوں برابر ہیں.اس کے مقابلہ میں اس ارشاد کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ نان و نفقہ حقوق زوجیت کے مقابلہ میں ہے.جب نا فرمان عورت حقوق زوجیت ادا نہیں کرتی تو وہ نان و نفقہ کی بھی حقدار نہیں ہے لونڈی کے متعلق اصحاب مالک میں اختلاف ہے.(1) ایک قول یہ ہے کہ لونڈی کے لئے بھی آزاد کی طرح نفقہ ہے.اور مشہور قول ہے.(۲) ایک قول یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی نفقہ نہیں ہے.كه (۳) ایک قول یہ ہے کہ اگر لونڈی اپنے خاوند کے پاس جاتی ہے تو اس کے لئے ا ترجمہ :.اور تمہارے ذمہ حسب دستوران عورتوں کا کھانا اور پوشاک واجب ہے.اس جگہ یہ یا د رکھنا چاہیئے.کہ لونڈی اپنے آقا کے پاس رہتی ہے اور اپنے آقا کی اجازت سے خاوند کے پاس جاتی ہے یا خاوند اس کے آقا کی اجازت سے اس کے پاس آتا ہے.گو یا گرلونڈی اپنے آقا کی اجازت سے خاوند کے پاس جائے گی تو خاوند پر اس کا نفقہ واجب ہوگا.اور اگر خاوند اپنی بیوی کے آقا کی اجازت سے اس کے پاس آتا ہے تو اس صورت میں خاوند پر کوئی نفقہ نہیں ہے اس صورت میں اس کا نفقہ اس کے آئی پر ہے جس کی وہ خدمت کرتی ہے.

Page 163

نفقہ ہے.اور اگر خاوند اپنی بیوی کے پاس آتا ہے تو اس کے لئے نفقہ نہیں ہے.(۴)، ایک قول یہ ہے کہ اگر خاوند آزاد ہے تو اس پر نفقہ ہے اور اگر غلام ہے تو اس پر نفقہ نہیں ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عمومی حکم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے نفقہ دیا جائے.اور قیاس یہ تقاضا کرتا ہے کہ اسے نفقہ نہ دیا جائے.عمومی محکم تو وہی ہے جو اوپر کی روایت میں گذر چکا ہے.اور قیاس یہ ہے کہ لونڈی اپنے آقا کی خدمت کرتی ہے اس لئے یہ کس طرح سیرت ہو سکتا ہے کہ وہ خدمت تو اپنے آقا کی کرے.اور اخراجات اپنے خاوند سے لے جس کے پاس وہ آزادانہ طور پر آ جا بھی نہیں سکتی.ہاں قیاس اس امر کی اجازت دے سکتا ہے کہ اس کا نفقہ اس کا مالک اور اس کا خاوند دونوں مل کر دیں.کیونکہ خدمت وہ اپنے آقا کی کرتی ہے.اور تعلقات زوجیت اپنے خاوند سے قائم کرتی ہے.اس لئے دونوں نصف نصف اخراجات ادا کریں.یہی وجہ ہے کہ ایک گروہ کا یہ مذہب بھی ہے کہ جب وہ اپنے خاوند کے پاس آئے تو اس کا نفقہ ا اس پر ہے اور جب اپنے آقا کے پاس جائے تو اس وقت اس کا نفقہ اس کے آتا پر ہے.اسی وجہ سے ابن حبیب کہتے ہیں کہ اس کے آقا کو چاہیے کہ وہ اسے ہر چارہ یوم کے بعد ایک دن کے لئے اپنے خاوند کے پاس جانے کی اجازت دے.قہ کس قسم کے خاوند اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ نفقہ آزا د خاوند پر واجب ہے.فقہاء نے اختلاف کیا ہے.پر واجب ہے.جو اپنی بیوی کے پاس موجود ہو لیکن غلام اور غائب خاوند کے نفقہ کے متعلق ابن المنذر کہتے ہیں کہ جس قدر اہل علم کا مجھے علم ہے وہ سب غلام پر نفقہ کو

Page 164

۱۲۲ واجب قرار دیتے ہیں.لیکن اصحاب مالک میں سے ابو المصعب کہتے ہیں کہ اس پر نفقہ واجب نہیں ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب عمومی حکم اور قیاس میں باہم تعارض ہے عمومی حکم اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ غلام اور آزاد دونوں پر اپنی بیوی بچوں کا نفقہ واجب ہے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے.قیاس یہ کہتا ہے کہ غلام پر نفقہ واجب نہیں ہے.کیونکہ غلام اپنے کمائے ہوئے مال کا مالک نہیں ہے.نہ اس میں تصرف کر سکتا ہے.اس لئے اس پر بیوی بچوں کا نفقہ بھی واجب نہیں ہونا چاہیئے.غائب کے متعلق جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اس پر نفقہ واجب ہے.لیکن امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ جب تک حاکم وقت اس کے ذمہ نفقہ واجب نہ کرے اس کے حال سے اس کی بیوی کو نفقہ نہ دیا جائے.اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ عدل کا معاملہ کیا جائے.یعنی جب ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سب کے در میان عدل کیا جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان عدل فرمایا کرتے تھے.چنانچہ آپ اس کے متعلق فرماتے ہیں.إِذَا كَانَتْ لِلرَّجُلِ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلَى إِحْدَاهُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَاَحَرُ شِقَيْهِ مَائِلٌ اسی طرح آپ سے یہ امر بھی ثابت ہے کہ آپ جب سفر پر جاتے تھے اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے تھے.جس کا قرعہ نکل آتا اسے سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے.اس بارہ میں اختلاف ہے کہ باکرہ اور ثیبہ کے حقوق میں کوئی فرق ہے یا کے ترجمہ: جب کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف (اپنے ظاہر سلوک میں ) مائل ہو تو قیامت کے روز وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ایک طرف مائل ہو گا.رابو داؤد کتاب النکاح باب في القسم بين النساء

Page 165

١٢٣ نہیں.اور کیا باری کے لحاظ سے ان دونوں کے درمیان کوئی فرق کیا جائے گا یا نہیں.امام مالک شافعی.اور ان کے اصحاب کے نزدیک رخصتانہ کے بعد باکرہ کے پاس سات دن قیام کرے.اور ثیبہ کے پاس تین دن.اور یہ ایام اس کی باری میں شمار نہ ہوں گے لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس بارہ میں باکرہ اور ثیبہ دونوں برا بر ہیں.اور قیام کے یہ ایام باری میں شمار ہوں گے.وجہ اختلاف | اس اختلاف کا سبب دور وایتوں کا آپس میں تعارض ہے.ایک روایت حضرت انس سے ان الفاظ میں مروی ہے :- انَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَزَوَّجَ البكر أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا وَإِذَا تَزَوَّجَ الشَّيْبَ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلَائًا دوسری روایت حضرت ام سلمہ نے بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے:.انَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَجَهَا فَاصْبَحَتْ عِنْدَهُ فَقَالَ لَيْسَ بِكِ عَلَى أَهْلِكِ هَوَانَّ إِنْ شِأْتِ سَجَعْتُ عِندَكِ وسبَّعْتُ عِنْدَهُنَّ وَإِنْ شِئْتِ نَلَثْتُ عِنْدَكِ وَدُرْتُ فَقَالَتْ ثلث حضرت ام سلمہ کی یہ روایت مدنی ہے.اور اس کو امام مالک نے موطاء میں سه ترجمه: - حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باکرہ عورت سے شادی کرتے تو اس کے پاس سات یوم تک قیام فرماتے.اور جب شیبہ کے ساتھ شادی کرتے تو اس کے پاس تین دن تک تعلیم فرماتے.(ابو داؤد باب في المقام عند البكر ) سے حضرت ام کلمتہ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی وہ آپ کے پاس صبح کے وقت گئیں تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ کسی قسم کی بے انصافی نہ کی جائے گی جس سے تمہارے گھر والے ذلت محسوس کریں.اگر تم پسند کرو تو میں تمہارے پاس بھی سات دن ٹھہروں.اور دوسری بیویوں کے پاس بھی اتنے ہی دن.اور اگر تم چاہو تو تمہارے پاس بھی تین دن ٹھہروں.اور ان کے پاس بھی تین دن.چنانچہ وہ آپ کی بات سمجھ گئیں.اور کہنے لگیں کہ تین ون ٹھیک ہوا.اس روایت کو ترندی کے سواء باقی صحاح نے نقل کیا ہے.بحوالہ منتقی جلد )

Page 166

۱۲۴ نیر بخاری اور سلم میں بیان کیا گیا ہے.اور حضرت انسؓ کی روایت بصری ہے اس کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے.اس لحاظ سے اہل مدینہ نے اہل بصرہ کی روایت کے مطابق عمل کیا.اور اہل کو فہ نے اہلِ مدینہ کی روایت کو ترجیح دی.امام مالک کے اصحاب نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے کہ باکرہ کے پاس سات یوم ٹھہرنا اور ثیبہ کے پاس تین یوم ٹھہرنا واجب ہے یا مستحب؟ ابن القاسم کے نزدیک یہ واجب ہے.اور ابن الحکم کے نزدیک تحب ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس بارہ میں اختلاف ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی اتباع کرنا واجب ہے یا مستحب.جن کے نزدیک واجب ہے وہ اسے واجب قرار دیتے ہیں.اور جن کے نزدیک آپ کے عمل کی اتباع مستحب ہے وہ اسے مستحب قرار دیتے ہیں.بیوی پر خاوند کے گھر کی خدمت اور اس کے بچوں کو دودھ پلانا واجب ہے یا نہیں ؟ اس بارہ میں اختلاف ہے.فقہاء کے ایک گروہ کے نزدیک عورت پر دودھ پلانا واجب ہے.اور ایک گروہ کے نزدیک اعلیٰ خاندان کی عورت پر دودھ پلانا واجب نہیں ہے لیکن متوسط اور ادنی خاندان کی عورت پر بچوں کو دودھ پلانا واجب ہے اور اگر بچہ اپنی ماں کے علاوہ کوئی اور دودھ نہ پیئے.اس صورت میں خاندانی تفریق نہ ہوگی.یہ امام مالک کا مشہور قول ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک آیت رضاعت میں امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے.اور بعض کے نزدیک یہ امر وجوب پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ اس میں وجوب کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی.نے اس زمانہ میں یہ دستور تھا کہ امراء کی عورتیں بچوں کو اپنا دودھ پلانا پسند نہ کرتی تھیں اور وہ اس کے لئے دودھ کی آباد کھتی تھیں.اس بار پر بعض فقہاء نے امراء کے خاندان کی عورتوں پر دودھ پلانا واجب قرار نہیں دیا.

Page 167

۱۲۵ جس نے اعلیٰ خاندان اور ادنی خاندان میں فرق کیا ہے اس نے عادت اور دستور کو ملحوظ رکھ کر کیا ہے.وہ عورت جو مطلقہ ہو اس پر رضاعت واجب نہیں ہے.سوائے اس کی که بچہ دوسری عورت کا دودھ قبول نہ کرے.اس صورت میں اس پر رضاعت واجب ہے.اور بچے کے باپ پر رضاعت کے اخراجات کی ادائیگی واجب ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- فَإِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَأْتُوهُنَّ اُجُورَهُنَّ له حق حضانت جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مطلقہ صورت اپنے چھوٹے بچے کی حضانت کا حق رکھتی ہے.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فَرَّقَ اللهُ بَيْنَهُ وَ بين أحِبَّتِهِ يَوْمَ القِيمَةِ اس مذہب کی دوسری دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب لونڈی اور قیدی کو اپنے بچے سے جدا کرنے سے منع کیا گیا ہے تو آزاد عورت کو اپنے بچے سے جدا کرنا کس طرح جائزہ ہو سکتا ہے.بچہ جب اس عمر تک پہنچ جائے کہ وہ اپنے نفع و نقصان میں تمیز کرنے لگے تو اس کے متعلق امام شافعی اور فقہار کی ایک حجم است کا مذہب یہ ہے کہ اسے ماں اور باپ دونوں میں سے کسی ایک کے پاس رہنے کا اختیار دیا جائے.اور انہوں نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے جو اس بارہ میں وارد ہوئی ہیں لیکن جو لوگ ان احادیث کو صحیح قرارہ نہیں دیتے ان کے نزدیک وہ بچہ ماں کے پاس ہی رہے گا.لہ ترجمہ: اور اگر وہ عورتیں تمہارے لئے بچوں کو دودھ پلائیں تو ان کو معقول اجرت دور طلاق ہے ه حضانت کے لفظی معنے تربیت اور پرورش کے ہیں اور اصطلاحی معنے یہ ہیں کہ بچے کی ایک خاص عمر تک پرورش اور نگرانی کا حق ماں کو حاصل ہے.سے ترجمہ : جو شخص ماں اور اس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالتا ہے اللہ تعالے اس کے عزیزوں کے در میان قیامت کے دن جدائی ڈالے گا.i ! }

Page 168

جمہور کا مذہب یہ ہے کہ جب عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے تو اس کا حق حضانت باطل ہو جاتا ہے.کیونکہ اس کے متعلق یہ روایت ہے کہ :.انَّ رَسُولَ اللهِ صَلَحَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ انْتِ احَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي له د ابو داؤد باب من احق بالولد ) جس کے نزدیک یہ روایت صحیح نہیں ہے.ان کے نزدیک نکاح کے بعد بھی بچہ ماں کے پاس ہی رہے گا.ابن رشد کہتے ہیں کہ ماں سے منتقل ہو کر باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف حق حضانت منتقل ہونے کے متعلق کوئی تین اور قابل اعتماد پیل نہیں ملتی.له ترجمہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو فرمایا تم اپنے بچے کی زیادہ حقدار ہو جب تک تم دوسری جگہ نکاح نہ کرو.تذکرہ ر ابو داؤد باب من احق بالولد )

Page 169

۱۲۷ پانچواں باب ممنوع اور فاسد نکاح وہ نکاح جن کے متعلق صراحت نہیں وارد ہوئی ہے وہ چار قسم کے ہیں.(۱) شغار (۲) متعہ (س) منگنی پر منگنی (۴) حلالہ اب ہم ان کے متعلق الگ الگ تفصیلی بحث کریں گے.ا نکاح شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یا کسی زیر ولایت نکاح شغار لڑکی کا نکاح اس شرط پر کیسے کہ دوسرا شخص بھی اپنی لڑکی اس کے مقابلہ میں اسے دے.اور ان دونوں کا ہر مقرر نہ ہو بلکہ وہ دونوں لڑکیاں ہی ایک دوسرے کے حق مہر کے مقابلہ میں ہوں.اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ نکاح جائز نہیں ہے کیونکہ اس بارہ میں واضح لے اس جگہ ممنوع سے مراد وہ نکاح ہیں جو مطلقاً حرام اور باطل ہیں جیسے نکاح متعہ اور نکاح حلالہ.اور قاسیر تکاتوں سے مراد وہ نکاح ہیں جن میں کسی ایک شرط میں خرابی ہو.ایسے نکاحوں میں جب تک اس خرابی کو رفع نہ کیا جائے وہ جائز نہیں ہوتے.جب اس خرابی کو رفع کر دیا جائے تو جائز ہو جاتے ہیں جیسے نکاح شغار و غیره.سے نکاح شغار کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات صحابہ کرام کے واسطہ سے منقول ہیں.حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَن الصفار.که رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے شخار سے منع فرمایا ہے.اسی طرح حضرت انسؓ فرماتے ہیں قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ که اسلام میں نکاح شغار جائز نہیں ہے (محلی ابن حزم جلد و شاه (۵۱۳) رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے ان ارشادات کے علاوہ اسکی مانعت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ایسے کا وارکے قارچ بالعموم اچھے نہیں ہوتے.باہم مناقشت اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر ان دونوں کے درمیان خلع یا طلاق تک نوبت پہنچتی ہے.لہذا ان امور کو محوظ رکھتے ہوئے اسلام اس قسم کے نکاح کو جائز قرار نہیں دیا.ہاں جب دونوں طرت سے مہر مقرر ہو تو اس صورت میں چونکہ ہر دو کے حقوق متعین ہوتے ہیں اس لئے ایسی صورت میں جھگڑے کے امکان کم ہوتے ہیں.اس لیے یہ شکار کے حکم میں نہیں ہو گا.

Page 170

۱۲۸ نہیں وارد ہوئی ہے.اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر ایسا نکاح ہو جائے تو مہر مثل مقرر کرنے سے یہ نکاح صحیح ہو جاتا ہے یا نہیں.امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک ایسا نکاح صحیح نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے فسخ ہو جاتا ہے.لیکن امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اگر ایک لڑکی کا ہر مقرر کیا گیا ہو یا دونوں لڑکیوں کا مہر مقرر کیا گیا ہو مگر وہ مہر مثل سے کم ہو تو اس صورت میں مہر مثل مقرر کیا جائے گا.امام ابو حنیفہ کے نزدیک نکاح شغار کے بعد اگر مہر مثل مقرر کر لیا جائے تو اس صورت میں نکاح صحیح ہو جاتا ہے.یہی مذہب امام احمد - لیٹ " اسحاق ابو ثور اور طبری کا ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک یہ بہی مہر مقرر نہ کرنے کی وجہ سے ہے.اور بعض کے نزدیک اس قسم کا نکاح کلیتہ ممنوع ہے.خواہ اس میں مہر مقمریہ ہو یا نہ ہو.جن کے نزدیک ایسا نکاح کلینہ ممنوع ہے ان کے نزدیک یہ ہر حالت میں قابل فسخ ہوگا.جن کے نزدیک یہ مہر مقررہ نہ ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے ان کے نزدیک اگر ایسے نکاح کے بعد مہر مثل مقرر ہو جائے تو نکاح صحیح ہو جاتا ہے.جیسے فاسد نکاح ہر مثل مقرر کرنے سے صحیح ہو جاتا ہے.یعنی اگر کیسی نکاح میں حق مہر میں شراب یا کوئی اور حرام چیز مقرر کی گئی ہو یا مطلقا مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو اس میں مرشل مقرر کرنے سے نکاح صحیح ہو جاتا ہے.نکاح متعہ نکاح متعہ یہ ہے کہ ایک معین مدت تک کسی معین رقم کے عوض نکاح کرنا.اس بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر روایات وارد ہوئی ہیں سی

Page 171

۱۲۹ کہ یہ حرام ہے.البتہ حرمت کے وقت کے متعلق اختلاف ہے.بعض کے نزدیک یہ حرمت غزوہ خیبر میں نازل ہوئی.بعض کے نزدیک یو ف فتح کے دن.بعض کے نزدیک غزوہ تبوک کے دن.بعض کے نزدیک حجۃ الوداع کے موقعہ پر.اور بعض کے نزدیک عمرۃ القضاء کے موقعہ پر.اکثر صحابہ اور تمام فقہاء اس کی حرمت کے قائل ہیں.لیکن حضرت ابن عباش کا مشہور مذہب یہ ہے کہ یہ جائز ہے.اور حضرت ابن عباس کے اس قول کی اتباع ان کے کئی اصحاب اور اہل یمین نے کی ہے.اور اس بارہ میں حضرت ابن عباس ے نکاح متعہ کے متعلق متواتر اور مشہور روایات سے یہ ثابت ہے کہ یہ حرام ہے.اور اس کی حریمت کی روایات تمام محدثین نے نقل کی ہیں.مسند امام احمد اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کے متعلق یہ الفاظ منقول ہیں.آ إِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ ذلِكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ حضرت ابن عباس کا جو یہ مذہب بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اسے جائز قرار دیتے تھے تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو پہلے پہلے حرمت کے احکام کا علم نہ تھا بعد میں جب ان کو اس کے متعلق یقینی طور پر معلوم ہو گیا تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا.چنانچہ امام ابن قیم اپنی کتاب تہذیب استن میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس شروع شروع میں ضرورت اور حاجت کے وقت متعہ کو جائز قرار دیتے تھے.لیکن بعد میں جب لوگوں نے کثرت سے آپ کو حرمت کے احکام کے متعلق اطلاع دی تو آپ نے اپنے پہلے خیال سے رجوع فرما لیا.اسی طرح علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ حضرت ابن جبیر نے حضرت ابن عباس سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں.اور کیا فتوی دے رہے ہیں.اب تو آپ کے فتویٰ کے متعلق بھی عجیب و غریب اشعار لکھنے لگے ہیں.اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وَاللهِ مَا بِهَذَا أَنْتَيْتُ وَلَا هَلَ أَرَدْتُ وَلَا احْلَلْتُ إِلَّا مِثْلَ ما اللَ اللهُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا يَحِلُّ إِلَّا لِلْمُضْطَى وماهي الاكا لمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَلَحْمِ الْخِنْزِيرِ یعنی اس کے جواب میں حضرت ابن عباس نے انا للہ وانا اکیوراجِعُونَ پڑھا اور کہا کہ خدا کی قسم کہتے یہ فتوی نہیں دیا اور نہ میرا ارادہ تھا.اور کتنے جو اس کو جائز قرار دیا ہے وہ صرف اسی طرح ہے میں طرح و بقيه اپر)

Page 172

کا استدلال اس آیت سے ہے.فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ دَأْتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً حضرت ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ فرماتے ہیں :- نکاح متحد اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے.جو اس نے امت محمدیہ پر نازل کی ہے.اللہ تعالی نے اضطراری حالت میں فردا میخوں اور خنزیر کے گوشت جائز قرار دیا ہے ہاں کی حیثیت بھی سردار خون اور مشیری حضرت ابن عباس کا جواب درج کرنے کے بعد علامہ خطابی لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس اس مسئلہ میں قیاس سے کام لیتے تھے اور اس کو بھو سکے کی اضطراری حالت پر قیاس کرتے تھے لیکن ان کا قیاس درست نہیں ہے.کیونکہ بھو کے آدمی کا اضطرار تو اس کو موت سے بچانے کے لئے درست ہے کیونکہ جب اس کے سوار اس کے لئے کوئی اور چارہ نہ رہ ہے تو استثنائی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کی زندگی بچانے کے لئے اس امر کی اجازت دیدی کہ وہ ایسے موقعہ پیران حرام اشیاء ہیں سے جو بھی میسر ہوں اتنی قلیل ترین مقدار میں جس سے وہ موت سے بچ سکے.استعمال کر سکتا ہے.لیکن شہوت کے غلبہ کا دفاع تو دوسرے ذرائع سے بھی ہو سکتا ہے.مثلاً کرو زو رکھنے سے اور اصلاح کی دعا کرنے سے.لہذا اس مسئلہ کو بھو کے آدمی پر قیاس کرنا درست نہیں ہے.کوالا متقی جلد ۵۳) جیسا کہ لینے بیان کیا ہے اس کی اصل وجہ تو یہی ہے کہ حرمت متعہ کی احادیث حضرت ابن عباس پر مخفی رہیں.چنانچہ نووی شرح مسلم نے اس امر کی تائید کی ہے کہ آپ کو یہ روایات نہیں پہنچیں.اس لئے آپ اس کی حرمت کے قائل تھے.(نودی شرح مسلم جلد ا ط ۳۵) یہ امر کوئی بعید بھی نہیں ہے کہ کسی جلیل القدر صحابی کو کسی مشہور مسئلہ کے متعلق روایت نہ پہنچی ہو اس کی متعدد مثالیں تاریخ سے ثابت ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو بعض عام اور مشہور مسائل کا علم نہ تھا.مثلاً حضرت ابو بکر پر حديث أمرت أن أقاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُو الا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مخفی رہی (نودی شرح مسلم باب الامر لقتال الناس حتى يقولوا لا إلهَ إِلَّا اللهُ ) اسی طرح آپ پر جدہ کے ترکہ کی حدیث مخفی تھی جو آپ کو مغیرہ بن شعیہ اور محمد بن مسلمہ نے بتائی.کہ رسول اللہ نے جدہ کو ہلے ترکہ دیا تھا.اعلام الموقعين باب ذكر ما شفى على الصحابة ) حضرت عمرہ کو ان مشہور مسئلہ کا علم نہ تھا کہ عورت کا حق مہر اپنی طاقت کے مطابق زیادہ بھی مقرر کیا جا سکتا ہے پہلے ان کا خیال یہ تھا کہ امہات المومنین یا بنات النبی سے زیادہ حق مہر نہیں رکھنا چاہیئے لیکن جب آپ کو ایک عورت وأقيم احد مهن قنطارا کی آیت پڑھ کر سنائی تو آپنے اپنے خیال سے رجوع فرمایا.اور فرمایا حسن احد أَفْقَهُ مِنْ عُمَرَ حَتى النِّسَاء (اعلام الموقعین) پس ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کو بھی پہلے پہلے اس مسئلہ میں حرمت کی اطلاع نہ تھی لیکن جب ان پر اسکی حرمت واضح ہوئی تو آپنے اپنے پہلے خیال سے رجوع خوالیا ترجمہ :.اگر تم نے ان سے نفع اٹھایا ہو تو تم انہیں ان کے مہر بمقدار موعود ادا کرو.(نساء ع۴)

Page 173

۱۳۱ اور اگر حضرت عمرؓ اس سے صلحہ منع نہ فرما دیتے تو کوئی بد بخت ہی ایسا ہوتا جو زنار کے قریب جاتا.یہ روایت حضرت ابن عباس سے ابن جریج اور عمرو بن دینار نے بیان کی ہے منگنی پرمنگنی اگر نکاح ایسا ہوجو منگنی پرمنگنی کر کے کیا گیا ہو تو اس کے متعلق تین اقوال بیان کئے گئے ہیں :- (1) نکاح فسخ ہو گا.(۲) نکاح فسخ نہ ہو گا.(۳) اگر دوسری منگنی.پہلی منگنی میں طرفین کے میلان اور تکمیل کے قریب پہنچنے کے بعد ہوئی ہو تو نکاح نفع ہو گا ورنہ نہیں یہ امام مالک کا مذہب ہے.نکاح حلالہ وہ نکاح جو اس غرض سے کیا گیا ہو کہ تین طلاقوں کے بعد وہ عورت پھر پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے اور حالی تشکر زوجا هیرہ کی شرط پوری ہو جائے.یعنی دوسرے شخص کی نیت اس عورت کو اپنے پاس رکھنے کی نہ ہو.بلکہ طلاق دینے والے کے لئے دوبارہ نکاح کرنے کے امکان پیدا کرنے کے لئے ہو یہ شرکا نا جائز ہے.امام مالک کے نزدیک ایسا نکاح فسخ ہو گیا.لیکن امام ابو حنیفہ اور امام شاهی کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہو گا.یعنی اگر وہ اس نکاح پر ہمیشہ قائم رہنا چاہیں تو جائز ہے انہیں جدید نکاح نہ کرنا پڑے گا.وجہ اختلاف یہ اختلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد تحت الله المحول کے مفہوم میں اختلاف کی بنا پر ہے.ے حلالہ کے نکاح کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناجائز قرار دیا ہے.اور ایسا نکاح کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت ڈالی ہے.اس کے ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نکاح تو انسان است کرتا ہے کہ تا دونوں کے درمیان ہمیشہ محبت اور الفت کے تعلقات قائم رہیں.نیک اولاد پیدا ہو جو والدین کے لئے محمد و معاون ہو لیکن حلالہ میں یہ غرض مد نظر نہیں ہوتی نہ تو ان دونوں کے دل میں ایک دوسر کے لئے رغبت ہوتی ہے نہ دو اسی تعلق کی خواہش.یہی وجہ ہے کہ صحابہ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ کسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ کام جو خود حرام ہے دوسرے کے لئے حلال کرنے والا ہو.جو خو د نجس ہے دوسرے کے لئے ظاہر کرنے والا ہو.چونکہ یہ غیرت کے تقاضا کے خلاف ہے اسی طرح فلسفہ نکاح کے بھی خلاف ہے اس لئے اسلام نے اس کا ناجائز قرار دیا ہے

Page 174

۱۳۲ جس نے اس لعنت کو صرف گناہ پر محمول کیا اس کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوگا.اور میں نے اس لعنت کو منہی عنہ کے حرام ہونے پر محمول کیا.اس کے نزدیک یہ نکات صحیح نہ ہوگا.اگر کوئی شخص نکاح میں ایسی شرائط عائد کر لیتا ہے جو شرعی لحاظ سے اس پر لازم نہیں ہیں تو کیا ان شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ مثلاً وہ اپنی بیوی سے یہ شرط کہتا ہے کہ وہ دوسرا نکاح نہیں کرے گا.یا اپنی بیوی کو سفر میں اپنے ہمراہ نہیں لے جائے گا وغیرہ.اس بارہ میں اختلاف ہے.امام مالک کے نزدیک ایسی شرائط کو پورا کرنا ضروری نہیں ہے سوائے اس کی کہ اس نے ان شرائط کے ساتھ غلام کو آزاد کرنے یا دوسری بیوی کو طلاق دینے کی قسم کھائی ہو.ریعنی حلفاً وعدہ کیا ہو کہ اگر دوسرا نکاح کروں گا.تو میرا غلام آزاد ہو گا یا اگر دوسرا نکاح کروں گا تو دوسری بیوی کو طلاق ہوگی اس صورت میں ان شرائط کی پابندی ضروری ہو گی اگر پابندی نہیں کرے گا.تو اس کا غلام آزاد ہو جائے گا.یا بیوی کو طلاق ہو جائے گی ہاں اگر اس بیوی کی طلاق کے متعلق حلف اُٹھائے جس کے ساتھ شرط کی گئی ہے تو اس صورت میں ان شرائط کی پابندی ضروری نہیں ہے.اور اگر اس کی خلاف ورزی کرے گا تو طلاق واقع نہیں ہوگی.یہی مذہب امام ابو حنیفہ اور سا نام شافعی کا ہے ابن شہرمہ اور اوزاعی کے نزدیک ان شرائط کی پابندی ضروری ہے.ابن شہاب فرماتے ہیں کہ سینے ایک جماعت کو اس کے مطابق فستونی دیتے دیکھا ہے.و جر اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف اختر صلی الہ علی وسلم

Page 175

١٣٣ کی عمومی بنی ہے.اور دوسری طرف ایک اور روایت میں خصوصی اجازت بھی ملتی ہے.ان دونوں روایات میں اختلاف کی بناء پر مذاہب میں اختلاف واقع ہوا ہے.عمومی روایت یہ ہے :- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ فِى خُطْبَتِهِ كُلَّ شَيْءٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ فَهُوَ بَاطِل وَلَوْ كَانَ مِأَنَةَ شَرْطِ خصوصی جواز کی روایت عقبہ بن عامر کی ہے.GALE GE صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انَّهُ قَالَ أَحَقُّ الشُّروط ان يوق به ما اسْتَمْلتُم بِهِ الْفُرُوج له این رشد لکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا روایات صحیح ہیں لیکن فقہ کے لحاظ سے عمومی نی کی روایات پر خصوصی جواز کی روایات کو ترجیح حاصل ہوگی.کے ترجمہ: حضرت عائیشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ پڑھا اور فرمایا ہر وہ شرط جو اللہ تعالے کی کتاب میں نہیں ہے وہ باطل اور نا جائز ہے.اگر چه ایسی نتوش میں ہی کیوں نہ ہوں.ترجمہ :.وہ شرائط جن کی وجہ سے تم اپنی بیویوں کی شرمگاہوں کو حلال کرتے ہو ان کو پورا کرنا زیادہ مناسب ہے.و مسلم اياب الوفاء بالشروط في النكاح )

Page 176

المرقم

Page 177

۱۳۵ کتاب الطلاق

Page 178

كتاب الطلاق طلاق کی بحث میں چار مسائل خاص اہمیت رکھتے ہیں (1) طلاق کی اقسام.(۲) طلاق کے ارکان.(۳) طلاق کے بعد رجوع کرنا.(۴) مطلقات کے احکام مندرجہ بالا چاروں مسائل کے ماتحت مختلف ابواب میں تفصیلی بحث کی جائے گی.چنانچہ مسئلہ اول کے متعلق مندرجہ ذیل پانچ ابواب قائم کئے گئے ہے ہیں.دا طلاق بائن اور رجعی کی حقیقت.(۲) طلاق سنت اور بدعت میں فرق.(۳) خلج (۴) طلاق اور فسخ نکاح میں فرق.(۵) بیوی کو طلاق کا اختیار دینا.پہلا باب طلاق رجعی اور بائن کی حقیقت اس پر سب کا اتفاق ہے کہ طلاق کی دو قسمیں ہیں.(ا) طلاق رجعی (۲) طلاق بائن.

Page 179

۱۳۷ طلاق بھی رجعی طلاق وہ ہے جس میں خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہو بغیر اس کے کہ بیوی کو اس سے انکار کا اختیار ہو طلاق رہمی کے لئے یہ شرط ہے کہ بیوی ایسی ہو جس سے تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہوں.اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے.يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاحْصُوا العِدة سے طلاق رجعی کو سمجھنے کے لئے مت درجہ ذیل امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے.اس جگہ طلاق رجعی سے مراد وہ طلاق ہے جس کے بعد خاوند عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے.ایسی طلاق کے لئے یہ ضروری ہے کہ شادی کے بعد بیوی سے تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہوں کیونکہ رجوع تو عدت میں ہوتا ہے اور مجامعت سے قبل جو طلاق دی جائے اسکی کوئی عدت نہیں ہوتی.جیسا کہ اللہ تعالے نے فرمایا :- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا نَكَحْمُ الْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ طَلَقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتَّعُوهُنَّ وَسَبِّحُوهُنَّ سَرَ احَا جَمِيلًاه ترجمہ : اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے شادی کرو پھر ان کو ان کے چھونے سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کوئی حتی نہیں کہ ان سے عدت کا مطالبہ کرو.پس چاہیئے کہ اُن کو کچھ دنیوی نفع پہنچا دو.اور ان کو عمدگی کے ساتھ رخصت کر دو.( احزاب ہے) رجعی طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق دیا گیا ہے اور اگر خاوند رجوع کرنا چاہیے تو بیوی کو اس سے انکار کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وبعولتهُنَّ اَحَقُ بِرَدِهِنَ فى ذلِكَ إِنْ أَرَادُوا اِصلاح و بقروح اس میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اگر ان کے خاوند باہمی اصلاح کا ارادہ کریں تو وہ اس مدت عقوت کے اندر اند یہ ان کو اپنی زوجیت میں واپس لینے کے زیادہ حقدار ہیں.خاوند کو اس قسم کی دو طلاقیں دینے کا اختیار ہے یعنی وہ دو دفعہ طلاق دیگر رجوع کر سکتا ہے.جب تیسری دفعہ طلاق دے گا.تو اس وقت اسے رجوع کرنے کا اختیار نہ ہوگا.ان با حکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اصل منشاء یہ ہے کہ طلاق کے ذریعہ سے جدائی کے امکان است کو کم کیا جائے اور صلح اور رجوع کے امکانات کو بڑھایا جائے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حلال امور میں سے سب سے کم درجہ کا حلال حکم طلاق کا حکم ہے.ترجمہ : اے نبی (اور اس کے ماننے والوں جب تم بیویوں کو طلاق دو تو ان کو مقررہ وقت کے مطابق طلاق روا کا اندازہ رکھو.(طلاق ع )

Page 180

۱۳۸ اس آیت سے معلوم ہوا کہ طلاق رجعی اس حالت میں دی جاتی ہے جبکہ بیوی سے تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہوں ورنہ اگر یہ تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں تو پھر نہ عدیت کے گنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جس بیوی سے ابھی صحبت نہ ہوئی ہو اور طلاق ہو جائے تو اس کے لئے کوئی عدت نہیں ہے.طلاق رجعی کے ثبوت کے لئے حضرت ابن عمر کی روایت بطور نص کے ہے اور و یہ ہے: أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَ زَوْجَتَهُ لَمَّا طَلَّقَهَا حَائِضًا طلاق بائن طلاق بائن تین امور کی بناء پر ہوتی ہے.(۱) مجامعت سے قبل طلاق (۲) متفرق اوقات میں تین طلاقیں.(س) عورت کی طرف سے حوض کی ادائیگی کی بنا پر طلاق.تعداد کے لحاظ سے تین طلاقین جو آزاد عورت کو متفرق اوقات میں دی گئی ہوں طلاق بائن کا حکم رکھتی ہیں.ot اس کا استدلال اللہ تعالے کے اس ارشاد سے کیا گیا ہے.الطَّلَاقُ مَرَّتْنِ فَإِمْسَاكُ بِمَعْرُونِ أَوْ تَمْرِيعَ بِإِحْسَانٍ فَاِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَة اگر تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دی جائیں تو اس کے متعلق اختلاف ہے جمہور کا اس امر پر اتفاق ہے.کہ غلامی سے طلاق کی تعداد میں کمی واقع ہو جاتی ہے.اور لونڈی کے لئے طلاق بائن کی طلاق دو طلاقیں ہیں.لیکن اس بارہ میں اختلاف ہے کہ غلامی جس کی وجہ سے طلاق کی تعداد میں کمی اه ترجمه - کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر کو جبکہ اس نے اپنی حائضہ بیوی کو طلاق دی تھی یہ ارشاد فرمایا کہ وہ اس سے رجوع کرے.(مسلم باب تحریم طلاق الحائض) ترجمہ : ایسی طلاق جس میں رجوع ہوس کے دو دفعہ ہو سکتی ہے پھر یا تو مناسب طور پر روک لینا ہوگا.یا حسین سلوک کے ساتھ رخصت کر دینا ہوگا....پھر اگر اوپر کی بیان کردہ دو طلاقوں کے گزر جانے کے بعد بھی خاوند اسے تیسری طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے لئے جائز نہ ہوگی جب تک کہ وہ اس کے سوا کسی دوسرے خاوند کے پاس نہ جائے.(نفروع ۲۹)

Page 181

۱۳۹ واقع ہو جاتی ہے.اس سے مراد خاوند کی غلامی ہے یا بیوی کی یا دونوں میں سے کسی ایک کی.چنانچہ ان کی تشریح کے لئے اس باب میں تین امور بیان کئے گئے ہیں.دا) بیک وقت تین طلاقیں.(۲) غلامی میں طلاق.(۳) غلامی کے باعث تعداد طلاق میں کمی.بیک وقت تین طلاقیں جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقوں کا حکم بھی تین متفرق طلاقوں کی طرح ہے.اہل ظاہر اور ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ اس کا حکم ایک طلاق کی طرح ہے.ان کا استدلال آیت طلاق کے ظاہر معنی سے ہے جو یہ ہے :- الطَّلَاقُ مَرَّتن......فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَة (بقره ) ان کے نزدیک اس آیت کے ظاہر معنی یہ ہیں کہ طلاق تین دفعہ ہو سکتی ہے اور ایک لفظ سے تین طلاقوں کا حکم ایک طلاق کے برابر ہے.نیز اس کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بھی پیش کیا جاتا ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ علَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ واحِدَةٌ فَامْضَاهُ عَلَيْهِ عُمَرُه ه ترجمه: حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر کی خلافت میں اور حضرت عمر کی خلافت کے پہلے دو سال تک ایک وقت میں دی ہوئی تین طلاقوں کا حکم ایک طلاق کے برابر تھا.لیکن اس کے بعد حضرت عمرہ کے حکم سے یہ قرار پایا کہ ایسی تین طلاقیں تین ہی سمجھی جائینگی.(مسلم باب طلاق الثلاث )

Page 182

۱۴۰ اسی طرح انہوں نے ابن اسحاق کی روایت سے استدلال کیا ہے جو حضرت ابن عباس رم سے مروی ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَلَّقَ رُكَافَةٌ زَوْجَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسِرٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَيْهِ حَزَنَا شَدِيدًا فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ طَلَقْتَهَا قَالَ طَلَقْتُهَا ثَلَانَّا فِي مَجْلِسِ وَاحِدٍ قَالَ إِنَّمَا تِلكَ طَلقَةٌ وَاحِدَةً فَارْتَجِعُهَا جمہور فقہار ان دلائل کا یہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کی روایت جو بخاری اور مسلم میں منقول ہے اور اس کو ابن عباس کے اصحاب میں سے طاؤس نے بیان کیا ہے.اس کے متعلق خود حضرت ابن عباس کے اصحاب کا یہ بیان ہے کہ ابن عباس کا اپنا مذہب اس روایت کے خلاف تھا.اور وہ بیک وقت تین طلاقوں کو تین متفرق طلاقوں کے قائمقام سمجھتے تھے.ان اصحاب کے اسماء یہ ہیں.سعید بن جبیر مجاہد عطال عمرو بن دینار روایت ابن اسحاق کا وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ واقعہ درست نہیں ہے کیونکہ بعض ثقہ راویوں نے بیان کیا ہے کہ رکا نہ نے اپنی بیوی کو متفرق اوقات میں تین طلاقیں دی تھیں نہ کہ بیک وقت تین طلاقیں.وجه اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ یہ امر قابل تحقیق ہے کہ شریعت نے جو تین طلاقوں کی وجہ سے بائن ہونے کا حکم صادر فرمایا ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ انسان نے اپنے اوپر خود اس حکم کو لازم کرنے کی کوشش کی ہے ؟ یا انسان پر صرف وہی حکم لازم آتا ہے جو شریعت نے اپنے دائرے کے اندر منظرر فرمایا ہے ا ترجمہ : حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رکا نہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں وہیں.اس کے بعد رکانہ کو سخت ریخ ہوا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم نے اپنی بیوی کو طلاق کس طرح دی تھی اس نے بتایا کہ لینے ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دی تھیں.آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ہی طلاق ہے اس لئے تم رجوع کر لو.ابو داؤد باب نسخ المراجعة بعد التعليقات الثلث )

Page 183

الرا جس نے طلاق کو اُن افعال کے مشابہ قرار دیا ہے جو اپنی صحت کے اعتبار سے شرعی پابندیوں کے محتاج ہیں.اور ان میں انسان کا خود اپنے ذمہ کوئی پابندی عائد کرنے کا اعتبار نہیں کیا گیا.اس کے نزدیک بیک وقت تین طلاقیں ایک طلاق کے برابر ہیں لیکن جن لوگوں کے نزدیک طلاق ان افعال کے مشابہ ہے جو انسان کے اپنے ذمہ لازم کرنے کی وجہ سے لازم ہو جاتے ہیں مثلاً نذر یا قسم.ان کے نزدیک تین اکٹھی طلاقوں کا حکم تین متفرق طلاقوں کے برابر ہے.ابن رشد فرماتے ہیں کہ اس حکم کے ماتحت یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فقہا ر نے یہ سختی اس لئے کی ہے.تاکہ رجوع کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہے لیکن اگر اسے درست سمجھا جائے تو اس سے تو شریعت کا رفق اور نرمی کا فلسفہ بالکل باطل ہو جاتا ہے.حالانکہ طلاق میں رفق اور نرمی کا فلسفہ خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے.غلامی میں طلاق لونڈی کی طلاق میں تعداد کی کمی کی وجہ کے متعلق اختلاف ہے.بعض کے نزدیک اس کمی کی وجہ خاوند کی غلامی ہے.یعنی جب خاوند غلام ہو تو اس کی بیوی کے لئے قو طلاقیں بائن ہونگی.بیوی خواہ آزاد ہو یا غلام.یہ مذہب امام مالک اور امام شافعی کا ہے.اور صحابہ میں سے حضرت عثمان بن عفان حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن عباس کا ہے.بعض کے نزدیک اس کمی کی وجہ بیوی کی غلامی ہے.پس اگر بیوی کنیز ہو تو خاوند خواہ آزاد ہو یا غلام اسکی طلاق بائن دو طلاقوں سے ہوگی.صحابہ میں سے اس قول کو ابن مسعودؓ نے اختیار کیا ہے اور فقہار میں سے امام ابوحنیفہ نے.ان اقوال کے علاوہ ایک قول یہ بھی ہے کہ میاں بیوی میں سے اگر ایک بھی غلام ہو.تو دو طلاقیں پائی ہونگی.یہ عثمان بقی کا قول ہے اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت بھی اسکے موافق

Page 184

۱۳۲ ل اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اس میں موثر عورت کی غلامی ہے یا مرد کی ؟ جس کا مذہب یہ ہے کہ جس کے ہاتھے میں طلاق کا اختیار ہے اسکی غلامی کا اعتبار کیا جائے گا اس کے نزدیک اس میں مرد کی غلامی کا لحاظ ہو گا.جس کے نزدیک اس مسئلہ میں اس فرد کی غلامی کا اعتبار کیا جائے گا جس پر طلاق واقع ہوتی ہے اس کے نزدیک اس میں عورت کی غلامی کا لحاظ ہو گا.جیسا کہ عدت کے معاملہ میں عورت کی غلامی کا اعتبار کیا جاتا ہے.کیونکہ اجتماع اس امر پر ہے کہ عدت میں مدت کی کمی کا اعتبار عورت کی غلامی کی وجہ سے کیا جاتا ہے.پہلے گروہ نے اپنے مسلک کی تائید میں مندرجہ ذیل روایت بیان کی ہے.جو کہ حضرت ابن عباس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان فرمائی ہے.انَّهُ قَالَ الطَّلَاقُ بِالرِّجَالِ وَالْعِدَّةُ بِالنِّسَاءِ این رشد لکھتے ہیں کہ یہ روایت ایسی ہے جو صحاح میں منقول نہیں ہے اس لیے اس کی صحت میں شبہ ہے.جس نے میاں بیوی میں سے کسی ایک کی غلامی کا اعتبار کیا ہے اس کے نزدیک مجرد غلامی اس کمی کا باعث ہے.یہ غلامی خواہ خاوند کی ہو یا بیوی کی.ترجمہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طلاق میں مردوں کا لحاظ کیا جائے گا اور عدت میں عورتوں کا وطیرانی بحواله محلی این حرم جلد ۱ ص ۲۳) تو اس مسئلہ میں چار صورتیں ممکن ہو سکتی ہیں :- - 8 رام خاوند آزاد ہو ہیوی غلام ہو.(۳) خاوند آزاد ہو بیوی آزاد ہو.(س) خاوند غلام ہو بیوی آزاد ہو.(۴) خاوند غلام ہو بیوی غلام ہو.روایت مندرجہ بالا کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہکی صورت میں خاوند کو تین طلاقوں کا اختیار ہوگا.اور بیوی دو حیض عدت گزار یکی دوسری صورت میں خاوند کو تین طلاقوں کا اختیار ہوگا.اور بیوی تین حیض عزت گزاریگی تیسری صورت میں خاوند کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا.اور بیوی تین حیض عدت گزارے گی.جو بھی صورت میں خادند کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا.اور بیوی دو حیض عدت گزارے گی

Page 185

۱۴۳ غلامی کے باعث تعداد طلاق میں کمی اس امر پر اکثر فقہاء کا اتفاق ہے کہ غلامی کے باعث تعداد طلاق میں کمی واقع ہو جاتی ہے.ابو محمد بن حزم اور اہل ظاہر کے نزدیک اس بارہ میں غلام اور آزاد دونوں برابر ہیں.جمہور نے غلام اور لونڈی کی طلاق کو حدود پر قیاس کیا ہے.کیونکہ غلام کی حقد آزاد کی حد سے نصف ہے اس لئے طلاق کی تعداد بھی نصف ہونی چاہیئے.چونکہ تین طلاقوں کا نصف ڈیڑھ طلاق ہے اور ڈیڑھے طلاق عملاً ممکن نہیں ہے اس لئے لونڈی کے لئے دو طلاقیں رکھی گئی ہیں.اہل ظاہر کی دلیل یہ ہے کہ شرعی احکام میں آزاد اور غلام دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں.سوائے اس کے کہ اسکے خلاف کوئی صریح نص موجود ہو اور نص صریح سے مراد قرآن مجید اور سنت نبوی کی کوئی دلیل ہے.چونکہ اس مسئلہ میں قرآن مجید یا سنت بیوی میں کوئی ایسی نص نہیں ملتی.اس لئے اس بارہ میں غلام کا حکم آزاد کے برابر ہونا ا اہل ظاہر کی دوسری دلیل اور جمہور کے قیاس کا جواب یہ ہے کہ لونڈی کی طلاق کو حدود پر قیاس کرنا درست نہیں ہے.کیونکہ حدود میں غلام کے ساتھ نرمی کرنے کا فلسفہ یہ ہے کہ غلام میں آزاد کی نسبت بعض کمزوریاں ہیں مثلاً اسے اپنے کمائے ہوئے مال میں تصرف کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے.اسی طرح وہ عام لین دین میں بھی اپنے آقا کی اجازت کے بغیر خود مختار نہیں ہے.چنانچہ غلام کے عام اختیارات میں کمی کے باعث شریعت نے اس کی سزا میں بھی آزاد کی نسبت کمی کر دی.چونکہ غلام کے جرم اور آزاد کے جرم میں بھی فرق ہوتا ہے.مثلاً غلام کا ارتکاب زناد اور آزاد کا ارتکاب زنا شعور کے لحاظ سے برابر نہیں ہے.اس لئے شریعت نے غلام کے زنا کی سزا بھی آنا د کے زنار سے نصف کردی.

Page 186

۱۴۴ بخلاف اس کے غلام کی طلاق میں تعداد کی کمی سے اس پر تخفیف نہیں کی گئی بلکہ تشدید کی گئی ہے یعنی جہاں اسے تین طلاقوں تک رجوع کا اختیار ہونا چاہیے تھا وہاں اس کا یہ اختیار دو طلاقوں تک محدود کر دیا گیا ہے.چونکہ یہ امر اس فلسفہ کے بالکل خلاف ہے.جو حدود میں رکھا گیا ہے کہ غلام کی سزاؤں میں کمی کا باعث یہ ہے کہ اس میں فطری نقائص کی وجہ سے آزاد کی نسبت احساس ذمہ داری کم ہوتا ہے.اس لئے اس کے جرائم کی سزا بھی آزاد سے کم ہونی چاہئے.مگر اس مسئلہ میں غلام کے فطری نقائص کے باوجود اس پر تخفیف کی بجائے تشدید کی گئی ہے.ہذا یہ کہنا درست نہ ہوا کہ طلاق کی تعداد میں کمی کا قیاس حدود پر کیا گیا ہے.اس بحث کے بعد ابن بشر مسئلہ طلاق کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں.شریعت نے اسلامی احکام میں درمیانہ راہ اختیار کیا ہے.مثلا طلاق کے مسئلہ میں اگر شریعت مرد کو ہمیشہ کے لئے رجوع کا حق دیتی تو اس سے عورت کو بہت زیادہ تکلیف اور شقت برداشت کرنی پڑتی یعنی مرد عورت کو تنگ کرنے کے لئے ہمیشہ طلاق دیتا رہتا اور جب عدت ختم ہونے کو ہوئی تو رجوع کر لیتا.اسی طرح اگر ایک طلاق کے بعد ہی طلاق بائن واقع ہو جاتی تو اس سے خاوند کو بہت زیادہ تکلیف اور مشقت برداشت کرنی پڑتی کیونکہ اس صورت میں اسے ندامت اور رجوع کا موقعہ ہی نہ ملتا.اس لئے شریعت نے درمیانہ راستہ اختیار کیا ہے یعنی تین منظر میں طلاقوں کو بائن طلاق قرار دیا.اور صرف تیسری طلاق تک حدت کے اندر مرد کو رجوع کا اختیار دیا.بالآخر ابن رشد فرماتے ہیں کہ یہی وہ حکمت ہے جس کی بناء پر ہم یہ کہتے ہیں جس نے ایک وقت میں تین طلاقوں کو تین متفرق طلاقوں کے برابر قرار دیا اس نے شریعت کی حکمت کو ہی باطل کر دیا.له ابن رشد کا یہ خیال درست ہے کیونکہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا مسنون طر سنون طریق کے خلاف ہے اس لئے ایسی

Page 187

۱۲۷۵ تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی سمجھا جائے گا.کیونکہ قرآن مجید کے احکام سے یہ معلوم ہوتا ہے.کہ طلاق کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے بعد عورت عدت گزارے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَا أَيُّهَا النَّبِي إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ (طلاق ع) اور اس عدت کی غرض اللہ تعالٰی نے یہ رکھی ہے کہ تا اس عرصہ میں ان دونوں کے درمیان مصالحت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے اور خاوند رجوع کرلے.یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تَدْرِي لَعَلَ اللهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ آمرا یعنی اے طلاق دینے والے تجھے معلوم نہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ اس واقعہ کے بعد کچھ اور ظاہر کردے اور اسی طرح اس کے بعد فرماتا ہے.وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَهُ مَخرجا.یعنی جو شخص اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے گا اللہ تعالے اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیگا.اگر ایک وقت میں تین طلاقوں کا حکم یہ ہو کہ وہ تین علیحدہ علیحدہ طلاقوں کے برابر ہیں تو پھر اس کے بعد خاوند کے لئے رجوع کا کوئی موقعہ باقی نہیں رہتا.اور یہ امر اللہ تعالیٰ کے منشار کے بالکل خلاف ہے.چنانچہ نسائی کی ایک روایت سے بھی یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بھی یہ ناپسندید و فعل ہے اور قرآن مجید کے منشاء کے خلاف ہے.روایت یہ ہے :- عن محمود ابن لَيْهِ قَالَ اخَيرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْر أَحَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيفَاتٍ جَمِيعًا فَغَضِبَ ثُمَّ قَالَ آيَلْعَبُ بِكِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَاَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ.محمود بن لبید سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو آٹھی تین طلاقیں دی تھیں.اس پر آپ نے ناراضگی کی حالت ہیں فرمایا کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلتا ہے اور ابھی تک میں تم لوگوں میں موجود ہوں.دنسائی باب الثلاث المجموعة وما فيه من التغليظ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو کی کے زمانہ میں اسی کے مطابق عمل ہوتارہا ہے لیکن حضرت عمری کے زمانہ میں جب بعض لوگوں نے طلاق کے معاملہ میں نیک نیتی کو چھوڑ کر شرارت کی راہ اختیا کر لی اس وقت حضرت عمر نے تعزیرا اس حکم کو نافذ فرمایا کہ آیندہ اکٹھی تین طلاقوں کا حکم علیحدہ علیحدہ نین طلاقوں کے برابر ہو گا.چنانچہ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ كان الطلاق عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرِ وَ سَنَتَيْنِ مِن خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرَ مِنَ الخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ - قدِ استَعْجَلُوا في أمر كانَتْ لَهُمْ فِيهِ أنا لا فَلَوْا مُضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ ؟ فَامْضَاهُ عليم مسلم باب طلاق الثلاث) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر کی خلافت کے زمانہ میں اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک ایک وقت میں تین طلاقوں کا حکم ایک طلاق کے برابر تھا اس کے بعد حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا کہ لوگوں نے ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لئے نرمی کا حکم تھا جلد بازی کی ہے پس ہمارا ارادہ ریشه ها شبه دوم (۱۳)

Page 188

۱۴۶ دوسرا باب طلاق سنت اور طلاق بدعت میں فرق علماء کا اس پر اجماع ہے کہ طلاق سنت وہ ہے جو تعلقات زوجیت قائم کرنے کے بعد صرف ایک طلاق کی صورت میں دی جائے.اور یہ طلاق اس طہر میں دی گئی ہو جس میں اس سے مجامعت نہ کی گئی ہو.وہ طلاق جو حیض کی حالت میں دی ہو یا ایسے طہر میں دی ہو جس میں مجامعت کی گئی ہو وہ طلاق سنت نہیں کہلاتی.یہ اجماع حضرت ابن عمرہ کی اس روایت کی بنار پر ہے :.أَنَّهُ طَلَقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ مُرُهُ فَلْيُرَاجِعُهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضُ ثُمَّ تَطْهُرُ ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قبل أنْ يَمَسَّ فَتِلْكَ الْحِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ اس باب میں تین امور میں اختلاف کیا گیا ہے.طائفتی بغیر رضا ہا) کہ ہم اس کے مطابق اس کو جاری کر دیں.چنانچہ آپ نے اس کے مطابق حکم جاری کر دیا.اس روایت کے الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں بھی اکھٹی تین طلاقوں کو ایک طلاق کے برابر ہی سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں بعض لوگوں کی خرابی کی بناء پر تعزیرا اس حکم میں تبدیلی کرنی پڑی.اپس اس عارضی تبدیلی کی وجہ سے اس حکم میں کوئی مستقل تبدیلی کرنا شریعت کے منشاء کے خلاف ہے.ہاں اگر کسی وقت پھر حالات کی مجبوری کی وجہ سے اس میں تبدیلی کرنی پڑے تو حکومت یا مذہبی راہنما اس میں تبدیلی کر سکتا ہے.لے ترجمہ :.حضرت ابن عمر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی اس پر آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے حضرت عمرہ کو ارشاد فرمایا کہ اپنے بیٹے کوحکم دو کہ وہ رجوع کرے تا کہ اس کے بعد وہ ظاہر ہو پھر حیض آئے پھر طاہر ہو.اس کے اگر وہ چاہے تو اپنے پاس روکے رکھے اور چاہے تو مجامعت سے قبل طلاق دے کیونکہ یہی وہ عدت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بیویوں کو طلاق دی جائے تاکہ وہ عدت گزاریں.

Page 189

۱۴۷ (1) کیا طلاق سنت کے لئے یہ شرط ہے کہ عدت کے اندر دوسری طلاق نہ دے؟ (۲) کیا بیک وقت دی ہوئی تین طلاقیں بھی طلاق سقت میں شامل ہیں یا نہیں ؟ (۳) جس کو حیض میں طلاق دی گئی ہو اس کا کیا حکم ہے؟ طلاق کے بعد طلاق | امراول کے متعلق امام مالک اور امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب میں اختلاف ہے.امام مالک کے نزدیک طلاقی سنت کے لئے ضروری ہے کہ عدت کے اندر دوسری طلاق نہ دے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر ہر طہر میں الگ الگ تیری طلاقیں دے تو یہ طلاقی ست کہلا ئے گی.بیک وقت تین طلاقیں امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا طلاق سنت نہیں کہلاتی لیکن امام شافعی کے نزدیک یہ بھی طلاق سنت ہے وجہ اختلاف | اس اختلاف کا سبب اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور حدیث تقریری میں باہم بظاہر تعارض ہے.امام مالک کے مسلک کے مطابق اللہ تعالٰی کا ارشاد تو آیت طلاق ہے جس میں تیسری طلاق طلاق بائن ہے.روایت جس سے امام شافعی نے استدلال کیا ہے وہ یہ ہے کہ اَنَّ العَجْلَاتِي طَلَقَ زَوْجَهُ ثَلَانَّا بِحَضْرَةِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الفَرَاغِ مِنَ الْمُلَاعَنةِ له ه حدیث تقریر ی سے مراد وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا فعل تو بیان نہ کیا گیا ہو لیکن یہ ذکر ہو کہ آپ کے سامنے فلاں شخص نے فلاں کام کیا یا فلاں بات کہی اور اسے آپ نے اس کام کے کرنے یا اس بات کے کہنے سے نہیں روکا.در اصل عربی زبان ہیرا تقریر کے معنی بولنے کے نہیں ہوتے.بلکہ کسی بات کو برقرار رکھنے کے ہوتے ہیں پیپس حدیث تقریری سے وہ حدیث مراد ہے میں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی کے فعل یا قول کو صحیح سمجھتے ہوئے اسے برقرار رکھا ہو.اور اس پر اعتراض نہ فرمایا ہے کے ترجمہ : مجلانی نے اپنی بیوی کو لعان کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین طلاقیں دیں.داس روایت کو ترمذی کے سوا دیگر محدثین نے نقل کیا ہے بحوالہ منتقی جلد ۲ ۶۲)

Page 190

۱۴۸ پس اگر تین طلاقیں سنت نہ ہوتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خاموش نہ رہتے بلکہ اسی وقت عجب لانی کو یہ بتاتے کہ طلاق دینے کا یہ طریق درست نہیں ہے.امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاقوں کو طلاق سنت قرار دینے سے وہ رخصت فوت ہو جاتی ہے.جس کا لحاظ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے احکام میں رکھا ہے.نیز امام مالک نے مذکورہ بالا روایت کا یہ جواب دیا ہے کہ عجلانی نے لعان کے بعد تین طلاقیں دی تھیں.چونکہ اس کی بیوی یکان سے ہی بائن ہو گئی تھی اس لئے اس کے بعد طلاق دینے کا کوئی مطلب ہی نہ تھا.لہذا اس طلاق کے متعلق یہ بحث کرنا کہ وہ طلاق سنت تھی یا بدعت بالکل بے سود ہے.ابن رشد فرماتے ہیں کہ اس بارہ میں امام شافعی کے مسلک سے امام مالک کا مسلک زیادہ واضح اور درست ہے معلوم ہوتا ہے.حیض میں طلاق جمہور کا مذ ہب یہ ہے کہ حیض میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے.لیکن ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ ایسی طلاق نافذ نہیں ہوتی.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حیض میں دی ہوئی طلاق نافذ ہو جاتی ہے ان کے نزدیک اسے رجوع کا حکم دیا جائے گا.اس طلاق میں رجوع کرنے کے مسئلہ میں بھی دو گروہ ہیں :- ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ رجوع کرنا واجب ہے.لہذا اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ رجوع کرے.یہ امام مالک اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے.دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ رجوع کرنا بہتر ہے اس لئے رجوع پر مجبور نہ کیا جائے گا فر تحریک کی جائے گی.یہ امام شافعی - ابوحنیفہ - ثوری اور احمد کا مذہب ہے.جن لوگوں کے نزدیک رجوع کرنا واجب ہے.ان میں پھر یہ اختلاف ہے کہ رجوع س وقت ہوگا.امام مالک اور اس کے اکثر اصحاب کے نزدیک عدت ختم ہونے سے قبل اسے نے اس بارہ میں امام مالک کا مسلک ولائل کے لحاظ سے زیادہ قوی اور درست ہے.

Page 191

رجوع پر مجبور کیا جائے گا.اور اشہب کے نزدیک صرف پہلے حیض میں رجوع پر مجبور کیا جائے گا.وہ لوگ جو رجوع کو ضروری قرار دیتے ہیں ان میں پھر یہ اختلاف ہے کہ اس ر جموع کے بعد اگر وہ دوبارہ طلاق دینا چاہے تو کب دے سکتا ہے.اس کے متعلق ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ رجوع کے بعد اسے اپنے پاس روکے رکھے یہاں تک کہ وہ اس حیض سے پاک ہو جائے.پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو.اس کی بعد اگر چاہے تو شہر میں طلاق دے چاہے تو نہ دے.یہ امام ابو حنیفہ اور کوفیوں کا مذہب ہے وہ لوگ جو طلاق سنت کے لئے بے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے طہر میں ہو جیں میں مجامعت نہ کی گئی ہو.ان کے نزدیک اگر کوئی شخص ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے مجامعت کی ہو تو اسے رجوع پر مجبور نہ کیا جائے گا لیکن وہ طلاق سنت بھی نہ ہوگی.مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس بارہ میں چار امور قابل تشریح ہیں.اول.کیا ایسی طلاق جو طلاق سنت نہ ہو واقع ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ دوم.اگر واقع ہو جاتی ہے تو کیا اسے رجوع پر مجبور کیا جائے گا یا اس کے متعلق صرف تحریک کی جائے گی ؟ سوم.تحریک کرنے کے بعد یا مجبور کرنے کے بعد طلاق کب واقع ہوگی ؟ چہارم.جبر کب کیا جائے گا ؟ امر اول کے متعلق جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اگر طلاق حیض میں دی گئی ہو تو یہ طلاق واقع ہو جائے گی اور مطلقہ عورت اپنی عدت گزار کر آزاد ہو جائے گی.کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرہ کو ابن عمر کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا.مرة فَلْيُرَاجِعُهَا یہ امر ظاہر ہے کہ رجعت صرف اس وقت ہوتی ہے جب طلاق واقع ہو چکی ہو.

Page 192

۱۵۰ وہ لوگ جو ابن عمرہ کی طلاق کو نافذ قرار نہیں دیتے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمومی ارشاد کو لیتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا :- كُلُّ فِعْلِ أَوْ عَمَلٍ لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَرَدُّ له اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن عمر کو ہر نوع کا ارشاد فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ طلاق ناف ز نہ تھی.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک طلاق سنت کے لئے جو شرائط بیان کی گئی ہیں.ان کے بغیر وہ طلاق صحیح نہیں ہوتی.لیکن بعض کے نزدیک صحیح تو ہو جاتی ہے مگر مکمل نہیں ہوتی.جن کے نزدیک ان شرائط کی عدم موجودگی میں وہ طلاق صحیح نہیں ہوتی.ان کے نزدیک طلاق بدعت بھی نافذ نہیں ہوتی.بلکہ وہ طلاق کا لعدم سمجھی جائے گی.جن کے نزدیک ان شرائط کے بغیر وہ طلاق مکمل نہیں ہوتی.ان کے نزدیک طلاق ا نافذہ تو ہو جائے گی لیکن ناقص یہ ہے گی.اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ رجوع کرے اور ان شرائط کی تکمیل کرے.امر دوم یعنی اسے رجوع پر مجبور کیا جائے گا یا نہیں.؟ اس کے متعلق جمہور کا خیال یہ ہے کہ ظاہر امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسے رجوع پر مجبور کیا جائے گا.لیکن بہن کے نزدیک یہ شرائط تکمیل ہیں ان کے نزدیک اسے رجوع پر مجبور نہ کیا جائے گا.اتر سوم.کہ رجوع پر مجبور کرنے کے بعد اسے طلاق کب دینی چاہئیے ؟ اس کے متعلق بعض کا خیال یہ ہے کہ جس حیض میں رجوع کرے.اس کے بعد وہ پاک ہو پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو.اب اس شہر میں اگر وہ اسے دوبارہ طلاق دینا چاہے تو دے سکتا ہے.کیونکہ ابن عمر کے واقعہ کے متعلق حدیث کے الفاظ اس پر لہ ترجمہ :.وہ کام یا عمل جس کے متعلق ہمارا امر یک حکم نہ ہو وہ قابل رقہ ہے.

Page 193

۱۵۱ نص ہیں.اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ تا جس حیض میں طلاق واقع ہوئی ہے اس کے بعد آنے والے مہریں مجامعت کے ساتھ رجوع صحیح ہو جائے.اب چونکہ اس طہر میں مجامعت ہو چکی ہے اس لئے اس میں طلاق نہیں دے سکتا.کیونکہ طلاق اس جگر میں دینی چاہیئے جس میں مجامعت نہ ہوئی ہو.لہذا اگلے مہر میں طلاق دے سکتا ہے.وہ لوگ جو پہلے حیض کے بعد پہلے طہر میں طلاق کے قائل ہیں وہ یونس بن جیش اور سعید بن جبیر اور ابن سیرین کی روایت سے استدلال کرتے ہیں.یہ روایت انہوں نے ابن عمر سے نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق یہ فرمایا تھا کہ ہت فَلْيُرَاجِعُهَا فَإِذَا طَهُرَتْ طَلَّقَهَا إِنْ شَاءَ له اس روایت کے علاوہ عقلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابن عمرہ کو رجوع کا حکم ان کے فعل کی سزا کے طور پر دیا تھا.کیونکہ انہوں نے اسے ایسے وقت میں طلاق دی تھی جو مکروہ تھا پس جب وہ مگر وہ وقت گزر چکا تو اس کے بعد طلاق دینا جائز ہونا چاہیئے.امر چہارم کہ اسے رجوع پر کب مجبور کیا جائے گا ؟ اس کے متعلق امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اسے عدت کے اندر رجوع کا حکم دیا جائے گا.کیونکہ عدت کی طویل مدت اس لئے رکھی گئی ہے کہ تا اس میں رجوع کیا جائے.اشہب اس حدیث کے ظاہر مفہوم کی طرف گئے ہیں.یعنی جس حیض میں کہ ترجمہ :.پس وہ رجوع کرے اس کے بعد جب اس کی بیوی حیض سے پاک ہو تو اس وقت اگر چاہے تو طلاق دے.

Page 194

" IAY وہ طلاق دے.اس حیض میں اسے رجوع پر مجبور کیا جائے گا.کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :- قلْبُرَا جِعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمرہ کی مراجعت حیض میں ہوئی تھی اور اس کے مطابق ان کو حکم دیا گیا تھا.اس امر کی تائید میں عقلی دلیل یہ دی گئی ہے کہ آپ نے اسے اسی حیض میں رجوع کرنے کا حکم اس لئے دیا تھا.کہ اس پر عدت کا زمانہ کیا نہ ہو جائے.کیونکہ جب وہ اسے حیض میں طلاق دے گا تو بالا جماع وہ حیض عدت کے زمانہ میں شامل نہ ہو گا.پس اس حیض میں رجوع کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے بعد جب وہ دوبارہ طلاق دے گا تو اس کی بیوی کو صرف ایک کامل عدت گزارنی ہوگی لیکن اگر وہ اس حیض میں رجوع نہ کرے بلکہ حیض کے بعد ظہر میں رجوع کرے تو رجوع سے قبل کا زمانہ بھی اسے عدت میں گزارنا پڑا.اور پھر دوبارہ طلاق ملنے کے بعد بھی اسے کامل عدت گزارنی پڑے گی.گویا اسے عدت کے لئے مسنون وقت سے زیادہ گزارنا پڑے گا.پنداری کو ہذا مسنون طریق یہی ہے کہ اس کو پہلے حیض کے اندر ہی رجوع کرنے پر مجبور کیا جائے.

Page 195

IAM تیسرا باب لع خلع کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ عورت اپنی طلاق کے عوض تمام وہ مال اپنے خاوند کو واپس کر دے جو اس سے وصول کر چکی ہے یا ان مطالبات کو ترک کردے جو اس کے خاوند کے ذمہ واجب الادا ہیں.ضلع کے ہم معنی بعض اور الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں.مثلاً فدیہ - ملح - مباراة ان الفاظ کے معنی بھی قریب قریب وہی ہیں جو ضلع کے ہیں لیکن ان میں معمولی فرق ہے.مثلاً جہاں ضلع میں تمام مال واپس کیا جاتا ہے صلح میں بعض مال کی واپسی ہوتی ہے.اور فدیہ میں واجب سے زائد مال واپس کرنا پڑتا ہے.اور مباراة میں وہ تمام حقوق ترک کئے جاتے ہیں جو خاوند کے ذمہ واجب الادا ہیں.مسئلہ ضلع کے متعلق چار امور پر الگ الگ بحث کی جائے گی.(1) ضلع کا جواز یا عدم جواز.(۲) جواز کی صورت میں اس کے وقوع کی شرائط (۳) ضلع حکماً طلاق ہے یا فتح نکاح (۴) ضلع کے متعلق دیگر احکام.اه در حقیقت خلع کا حق عورت کو دیا گیا ہے جیسا کہ طلاق کا حق مرد کو دیا گیا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ مرد خود بخود طلاق دینے کا مجاز ہے لیکن عورت صرف حاکم وقت یا قاضی کی وساطت یا اپنے میاں کےساتھ باہمی رضامندی سے ضلع حاصل کر سکتی ہے لیکن اس آزادی کی قیمت عورت کو ادا کرنی پڑتی ہے.مثلاً اگر اس نے حق مہر وصول کر لیا ہو تو خاوند کے مطالبہ پر وہ اسے واپس کرنا ہوگا.یا اگر اس نے ابھی وصول نہیں کیا تو اس کا مطالبہ چھوڑنا پڑے گا.یہ آزادی کی قیمت کس قدر ہو اس کے متعلق شریعت نے کوئی خاص حکم نہیں دیا.اس کا حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا.مثلاً وہ ایسی رقم ہو جس پر فریقین رضامند ہو جائیں.یا حاکم وقت یا قاضی حالات کے مطابق خود فیصلہ فرمائے کہ عورت ایک معینی مفت را درقسم کی واپس کر کے یا اپنا مطالبہ ترک کر کے خاوند کے تعلق سے آزاد ہو سکتی ہے.

Page 196

۱۵۴ جواز خلع اکثر علماء کا مذہب یہ ہے کہ ضلع شریعت میں جائز ہے.اس کی دلیل قرآن مجید اور حدیث سے ماخوذ ہے.به قرآن مجید سے دلیل اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے.فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ حدیث سے دلیل حضرت ابن عباس کی روایت ہے.أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَنَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَّم فقالتْ يَا رَسُولَ اللهِ ثَابِتُ ابْنُ قَيْسِ لَا أُعِيْبُ عَلَيْهِ فِى خُلق ولا دين ولكن الرَهُ الْكُفْرَ بَعْدَ الدَّخُولِ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اثْبِلِ الْحَدِيقَةَ کے وَطَلِقُهَا طَلْقَةً وَاحِدَةً له اس روایت کی صحت کے متعلق سب کا اتفاق ہے لیکن ابو بکر بن عبدالله للرینین نے جمہور کے مذہب سے اختلاف کیا ہے.ان کے نزدیک خاوند اپنی بیوی سے کوئی چیز واپس نہیں لے سکتا.ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ ترجمہ:- وہ عورت جو کچھ بطور فدیہ دیگر (آزاد ہونا چاہے) اس کے بارہ میں ان دونوں میں سے کسی کو گناہ نہ ہو گا.(بقره ع (۲۹) ه ترجمه: - ثابت بن قیس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ یا رسول اللہ یکن ثابت بن قیس کے اخلاق یا دین پر کوئی الزام عالمہ نہیں کرتی.بلکہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد اس کی نافرمانی کو ناپسند کرتی ہوں.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا کیا تم اس کو اس کا یا کچھہ واپس کرنے کو تیار ہو اس نے کہا ہاں ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو فرمایا کہ اپنا یا غیچہ لے لو اور ا سے ایک طلاق دے دو.د بخاری باب الخليج وكيف الطلاق فيه )

Page 197

۱۵۵ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه اس کے بعد اللہ تعالے نے اس حکم کو منسوخ فرما کرد و سرا حکم نازل فرمایا کہ ان وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَأَتَيْتُمْ احْدُهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا جمہور اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ خاوند اپنی بیوی کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز واپس نہیں لے سکتا ہاں اس کی رضا مندی سے جائز ہے.شرائط ضلع خلع کے وقوع کی شرائط کے بارہ میں ان امور کا تذکرہ کیا جائے گا.(1) وہ مقدار جو بدل ضلع کے طور پر دی جاتی ہے.(۲) بدل خلع کی صفت.(۳) کس حال میں ضلع جائز ہے ؟ ایم ) اس عورت کی صفت جو ضلع وحاصل کرنا چاہتی ہے مقدار بدل خلع امام مالک - امام شافعی اور فقہاء کی ایک جماعت کے نزدیک صورت بدل ضلع کے طور پر اس سے زیادہ رقم ادا کرے.جو اس نے اپنے خاوند سے حق مہر میں حاصل کی ہے.ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ جس قدر اس کے خاوند نے اسے دیا ہے اس سے زیادہ لینا خاوند کے لئے منع ہے.له -ترجمہ : اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہو اور تم ان میں سے کسی ایک کو ایک ڈھیر مال کا دے چکے ہو تو بھی اس مال سے کچھ واپس نہ لو.(نساء) سے اس بارہ میں جمہور کا مذہب درست ہے کیونکہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے.کیونکہ استبولالی دو طریق سے ہو سکتا ہے.اول طلاق کے ذریعہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آیت مندرجہ بالا میں تشریح فرما دی کہ اگر تم اپنی پہلی بیوی کو ایک ڈھیر بھی دے چکے ہو تو اسے واپس لینے کے مجاز نہیں ہو دوم - ضلع کے ذریعہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آیت فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ پہلے سے اس امر کی اجازت مرحمت فرما دی.کہ اگر تم اپنی بیوی کو کچھوٹے بچے ہو تو اُسے واپس لے سکتے ہو.یا اگر تمہاری بیوی کا تم پر کوئی مطالبہ ہو تو وہ مطالبہ ترک کر کے آزادی حاصل کر سکتی ہے.ان دونوں آیات میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ہی تاریخ ومنسوخ ہونے کی کوئی وجہ.

Page 198

1A4 جس نے اس ضلع کو ان معاملات کے مشابہ قرار دیا ہے جن میں معاوضہ ادا کیا جاتا ہے.ان کے نزدیک فریقین کی رضا مندی کے مطابق جس قدر رقم مقرر ہو جائے ادا کی جائے.لیکن جو لوگ ظاہر حدیث کی طرف گئے ہیں ان کے نزدیک جو کچھ خاوند نے ادا کیا ہے وہ اس سے زیادہ لینے کا مستحق نہیں ہے.بدل ضلع کی صفت امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک بدلی ضلع وہ چیز بن سکتی ہے جو خارج میں موجود ہو اور اس کی صفات معلوم ہوں.امام مالک کے نزدیک ایسی چیز جو خارج میں موجود نہ ہو اور اس کی مقدار بھی مجہول ہو وہ بھی بدل ضلع بن سکتی ہے.مثلاً (1) بھاگا ہوا غلام.(۲) بھاگا ہوا اونٹ (۳ ) کچا پھل (۴) وہ غلام جس کی صفت بیان نہ کی گئی ہو.امام مالک کے نزدیک یہ استیار بدل ملع بن سکتی ہیں.وجہ اختلاف | اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس بارہ میں اختلاف ہے کہ خلع کا بدل بھی میں اشیاء کی قیمت کے مشابہ ہے یا اس چیز کے جو شہید کی گئی ہو یا جس کی وصیت کی گئی ہو.جس کے نزدیک یہ بیچ میں اشیاء کی قیمت کے مشابہ ہے اس کے نزدیک بدل ضلع معلوم الصفت اور معلوم القدر ہونا چاہیئے.جس کے نزدیک یہ ہبہ یا وصیت کے مشابہ ہے اس کے نزدیک مجہول الصفت اور مجہول القدر اشیاء بھی بدل ضلع بن سکتی ہیں.کیونکہ بعض اوقات ایک شخص نے ایک چیز خود نہیں دیکھی ہوتی.اس لئے اس کی صفت یا مقدار سے ناواقف ہوتا ہے لیکن اس کے با وجود وہ اس کو ہمیہ کر سکتا ہے یا اس کی وصیت کر سکتا ہے.اگر بدل ضلع ایسی چیز مقرر کی جائے جو شرعاً حرام ہو مثلاً شراب یا خنزیر وغیرہ.تو اس بارہ میں اختلاف ہے کہ ایسی صورت میں ان حرام اشیاء کی قیمت کی ادائیگی واجب ہوگی یا نہیں.

Page 199

۱۵۷ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس صورت میں ضلع تو صحیح ہوگا.یعنی اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا.لیکن عوض ضلع کے متعلق امام مالک اور امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ خاوند عوض کا مستحق نہ ہوگا.امام شافعی کے نزدیک عورت ہر مثل ادا کر کے آزاد ہوگی.جواز خلع کی صورتیں جمہور فقہار اس امر کے قائل ہیں کہ ضلع فریقین کی رضا مندی سے جائز ہے.بشرطیکہ بیوی خاوند کے مظالم سے تنگ آ کر رضامند نہ ہوئی ہو.یہ استدلال اللہ تعالے کے اس ارشاد سے کیا گیا ہے.وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضٍ مَا أَتَيْتُمُوهُنَّ إلا أن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ له نیز اللہ تعالے کا یہ ارشاد بھی اس کی تائید کرتا ہے.فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه.ابو قلابہ اور حسن بصری اس طرف گئے ہیں کہ ضلع اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک خاوند اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے زنا کرتے نہ دیکھے تھے.انہوں نے آیت ترجمہ :.اور تم انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ جوکچھ تم نے انہیں دیا ہے اس میں کچھ پھین کرلے جاؤ.ہاں اگر وہ کسی کھلی کھلی بدی کی مرتکب ہوں تو اس کا حکم پہلے گزر چکا ہے کہ ان کو اپنے گھروں میں اس وقت تک رکھو کہ ان کو موت آجائے یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راہ نکالے) (نسار ) ترجمہ: اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کی مقرر کر وہ حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو وہ یعنی عورت جو کچھ تطورت یہ دے اس کے بارہ میں ان دونوں میں سے کسی کو کوئی گاہ نہ ہوگا.(بقره ع۲۹) سے ابو قلابہ اور حسن بصری کا اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ ضلع صرف اس صورت میں جائز ہے.جب کہ خاوند اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے زنا کرتے ہوئے دیکھ لے.یہ درست نہیں ہے.روک، کیونکہ ضلع کا اختیار بیوی کو حاصل ہے.خاوند کے اختیار کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.دوم: اس صورت میں شریعت نے خاوند کو لکان کا اختیار دیا ہے.ضلع کا اس سے تعلق نہیں.سوم.اس جگہ استثناء اس امر کی نہیں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے زنا کرتے دیکھے (بقیہ حاشیہ ویکھو اگلے صفحہ ہیں)

Page 200

۱۵۸ دو قرآنی میں الفاحشة " کی تعبیر زنا سے کی ہے.داؤد کے نزدیک ضلع اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اس امر کا خوف نہ ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالٰی کی حدود کو قائم نہ کر سکیں گے.نعمان اس طرف گئے ہیں کہ ضلع اس صورت میں جائز ہے جبکہ فریقین کو ایک دوسرے سے ضرر کا اندیشہ ہو.این ارشد فرماتے ہیں کہ ضلع کا فلسفہ یہ ہے کہ ضلع عورت کے اختیار میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق رکھی گئی ہے یعنی جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں ضلع رکھا گیا ہے.اور جب مرد کو عورت کی طرف کوئی تکلیف ہو تو اسے طلاق کا اختیار دیا گیا ہے.تو اس صورت میں اسے اس کا مال چھین لینے کی اجازت ہے بلکہ اسیس استثناء کا تعلق فَاَمْسِكُوهُنَّ فِى الْبُيُوتِ سے ہے.یعنی اگر وہ فاحشہ کی تحریک ہوں تو صرف اس صورت میں ان کو گھروں سے نکلنے سے روکا جاسکتا ہے.اس کا ضلع پ سے کوئی تعلق نہیں ہے.اه در حقیقت خلع کے جواز کی جس قدر صورتیں اوپر بیان کی گئی ہیں وہ کوئی اصولی حیثیت نہیں کرتیں بلکہ وقتی حالات کے ماتحت مختلف فقہاء نے مختلف فتوے دئے ہیں.ان فتووں کو دیکھ کر ان فقار کے شاگردوں نے انہیں اصولی حیثیت دے دی اور ان فتووں پر مستقل مذہب کی بنیاد رکھ دی.خلع کے جواز کے متعلق ثابت بن قیس کی بیوی کا واقعہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس واقعہ کو صحیح بخاری اور نسائی کے علاوہ دیگر متعدد محدثین نے نقل کیا ہے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ثابت بن قیسی کی بیوی نے خود اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ مجھے اپنے خاوند کے متعلق کسی قسم کی شکایت نہیں ہے نہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے ضرر کا اندیشہ تھا نہ اس کو خاوند سے بدسلوکی کی شکایت تھی نہ خاوند کو اس سے کسی قسم کی اخلاقی شکایت تھی بلکہ اس کی بیوی کے دل میں کسی وجہ سے اس کے متعلق شدید نفرت پیدا ہو گئی تھی جس کے ہوتے ہوئے وہ اس کے عقدہ میں رہنا برداشت نہیں کرتی تھی.یہی وجہ ہے کہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس امر کا اعتراف کیا کہ مجھے نہ تو اس کے دین کے متعلق کوئی شکایت ہے نہ کوئی اخلاقی شکایت ہے بلکہ مجھے چونکہ اس کے متعلق سخت نفرت ہو گئی ہے اس لئے میں یہ پسند نہیں کرتی کہ اسلام قبول کرنے کے بقیه حاشیه ۵۵ اپر)

Page 201

149 ضلع کس کے لئے اس کے متعلق فقہار میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عاقلہ بانہ جائز ہے اپنا خلع حاصل کر سکتی ہے.لیکن لونڈی اپنے مالک کی رضا مندی کے بغیر ضع حاصل نہیں کر سکتی.اسی طرح سفی ہے اور کم عقل صورت اپنے ولی کی رضامندی کے بغیر خلع حاصل نہیں کر سکتی سے ہو اپنے بڑے بھلے کی تمیز نہ کرے.بعد میں اس کے عقد میں رہ کر اس کی نافرمانی کروں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی حاصل کروں.چنانچہ ابن ماجہ کی روایت میں ضلع کی درخواست کی وجہ صاف طور پر لا اطيق کے بُعْضًا " کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے.کہ میں شدید نفرت کی وجہ سے اس کے عقد میں رہنا برداشت نہیں کر سکتی.طبرانی کی ایک روایت میں اس نفرت کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے.واللهِ مَا كَرِهْتُ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا دَمَامَتَہ.کہ خدا کی قسم مجھے اس سے نفرت کی اس کے سوار اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ بدصورت ہے (بحوالہ منتقی جلد ۶۳) ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلع کے جواز کے لئے کسی معین وجہ کا پایا جانا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ عورت کی اپنے خاوند سے نفرت ہے یہ نفرت خواہ اس وجہ سے ہو کہ اس کا خاوند ظالم ہے.اس کو ناحق مارتا ہے یا بیمار ہے یا اس کے نان و نفقہ کا انتظام نہیں کرتا.اور اسے ناحق تنگ کرتا ہے اس پر جھوٹے الزامات لگاتا ہے وغیرہ.ان تمام صورتوں میں عورت ضلع کی درخواست کر سکتی ہے لیکن اس بارہ میں قاضی یا حاکم وقت کی ذمہ داری بہت اہم ہے اس کے لئے اس بات کا اطمینان کرنا ضروری ہوگا.کہ نفرت کی جو وجوہ بیوی پیش کر رہی ہے وہ درست ہیں.اور وہ کسی کے اکسانے کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہی.اس کے لئے اس کے خاوند کو پوری آزادی ہوگی کہ وہ یہ ثابت کرسکے کہ وجوہات نفرت فرضی ہیں اور اس کی بیوی والدین یا کسی دوسرے شخص کے اُکسانے کی وجہ سے درخواست کر رہی ہے.نہیں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وجوہات نفرت فرضی ہیں یا اسے کوئی اور شخص اکسا رہا ہے تو اس صورت میں قاضی یا حاکم وقت اُکسانے والوں کے خلاف تعزیری حکم نافذ کر سکتا ہے.ورنہ نفس ضلع کے لحاظ سے عورت کو وہی حق حاصل ہے جو مرد کو طلاق دینے کا ہے جس طرح کوئی شخص مرد کو طلاق دینے سے روک نہیں سکتا ہی طرح کوئی شخص عورت کو ضلع لینے سے بھی روک نہیں سکتا.اگر وجوہات نفرت معقول اور درست ہوں تو اس صورت میں اس کی درخواست ضلع کو منظور کر کے ان دونوں کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کیا جائے گا.نیز اگر یہ ثابت ہو جائے کہ خاوند اپنی بیوی کو ناجائز تنگ کرتا ہے اور یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اسے اس لیے تنگ کرتا ہے کرتا اسکی بیوی خلع کی درخواست کرے اور وہ حق مہر اور دیگر مطالبات سے پہنچ جائے تو اس صورت میں قاضی یا حاکم وقت آگی درخواست منظور کر کے تقریباً خاوند سے فی مراد یہ دیگر مطالبات بھی اسکی بیوی کو دلا سکتا ہے.ضلع کے متعلق ابن رشد کا یہ فلسفہ درست ہے کہ ضلع عورت کے اختیار میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق رکھی گئی ہے.اسلامی احکام میں مساوات اور انصاف کے پہلو کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے ضلع کے متعلق مندرجہ بالا احکام سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام نے جہاں مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے وہاں عورت سے بھی بے انصا لئے بھی نا موافق

Page 202

14.امام مالک کے نزدیک میں طرح باپ کو اپنی نابالغ بیٹی کے نکاح کا خصوصی اختیار حاصل ہے.اسی طرح وہ اس کا ضلع بھی حاصل کر سکتا ہے.نیز جس طرح باپ کو اپنے نابالغ بیٹے کی طرف سے طلاق کا اختیار حاصل ہے.اسی طرح وہ اس کی طرف سے ضلع بھی منظور کر سکتا ہے.امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک چونکہ اسے طلاق کا اختیار نہیں ہے اس لئے اسے اپنے نابالغ بیٹے کی طرف سے ضلع منظور کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے.امام مالک کے نزدیک ایسی مریضہ تو کسی شدید مرض میں مبتلا ہو وہ بھی ضلع حاصل کر سکتی ہے لیکن بدل ضلع کے طور پر صرف اس قدر معاوضہ دے سکتی ہے جس قدر اس کے خاوند کو اس کے مرنے کے بعد اس کی میراث سے ملنے والا ہے اس سے زیادہ وہ اس لئے نہیں دے سکتی کہ اس طرح اس کے دیگر ورثاء کو نقصان اُٹھانا پڑے گا.این رافع نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ ایسی مریضہ اپنے مال کا ہے حصہ ادا کر کے ضلع حاصل کر سکتی ہے کیونکہ اسے اپنی جائیداد کے لیے حصہ کی وصیت کا اختیار حاصل ہے.جمہور کا مذہب یہ ہے کہ وہ عورت جو اپنے نفس کی خود مالک ہے وہ خود بخود ضلع حاصل کر سکتی ہے.لیکن حسن اور ابن سیرین اس طرف گئے ہیں کہ ضلع حاکم وقت کی منظوری کے بغیر جائز نہیں.نوعیت ضلع جمہور علماء امام مالک اور امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ ضلع طلاق ہے.امام شافعی امام احمد اور داؤد کا مذہب یہ ہے کہ ضلع فسخ نکاح ہے طلاق نہیں ہے.صحابہ میں سے ابن عباس کا مذہب بھی یہی ہے.لے طلاق اور شیخ نکاح میں فرق یہ ہے کہ طلاق کی عدت تین حیض یا تین ماہ ہوتی ہے.لیکن سیخ قلم کی عادت صرف ایک ماہ یا ایک حیض ہوتی ہے.ما

Page 203

141 امام شافعی کی ایک روایت یہ ہے کہ یہ کتا یہ ہے اگر خاوند کا مقصد طلاق کا ہوگا تو طلاق واقع ہوگی.اور اگر اس کی نیت فسخ نکاح کی ہوگی تو فسخ ہو گا لیکن امام شافعی کا آخری قول یہ ہے کہ یہ طلاق ہے.جمہور فقہاء جو اسے طلاق قرار دیتے ہیں وہ اسے طلاق بائن قرار دیتے ہیں.یعنی عدت کے عرصہ کے اندر خاوند رجوع نہیں کر سکتا کیونکہ اگر عدت کے اندر نهاوند یہ جوع کر سکتا ہو تو عورت کو بدل ضلع ادا کرنے کا کیا فائدہ.این ثور کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس کے لئے طلاق کا لفظ استعمال کیا گیا ہو تو وہ طلاق کی عدت گزارے گی اور اسے رجوع کا اختیار حاصل ہوگا.اور اگر فسخ نکاح کا لفظ استعمال کیا گیا ہو تو وہ ایک ماہ عدت گزارے گی اور اسے رجوع کا حق ہیں نہ ہوگا.وہ لوگ جو اسے طلاق قرار دیتے ہیں وہ اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ فتح نکاح کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان رسی جدائی واقع ہو جائے جس میں خاوند کو کسی قسم کا اختیار باقی نہ ہو لیکن ضلع کی وجہ علیحدگی میں خاوند کو اس وجہ سے قدر اختیار ہوتا ہے کہ وہ یہاں ضلع لے کر علیحدگی پر رضا مند ہو یا نہ ہو اس لئے یہ فسخ نکاح نہیں بلکہ طلاق ہے.سے کنایہ سے مراد یہ ہے کہ خاوند صریح الفاظ میں طلاق نہیں دے رہا.بلکہ ایسے الفاظ میں دے رہا ہے جن سے طلاق کا مفہوم بھی نکل سکتا ہے اور طلاق کے علاوہ اور کوئی مفہوم بھی نکل سکتا ہے.اس لئے اس کے متعلق خاوند کی نیت کو دیکھا جائے کہ وہ کیا چاہتا ہے اگر اسکی نیت طلاق کی ہوگی تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر اسکی نیست فسخ نکاح کی ہوئی تو منع ہوگا.کے در حقیقت فقہاء کا یہ اختلاف کو خلع طلاق ہے یا فسخ نکاح اور اس میں خاوند کو اختیار ہے یا نہیں.یہ اختلاف صرف اس وجہ سے ہے کہ اکثر فقہاء کا ہر سب یہ ہے کہ خلع کے لئے حاکم وقت یا قاضی کے پاس جانا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف میاں بیوی آپس میں اس طرح فیصلہ کر لیں کہ بیوی کی پال دیگر خاوند سے علیحدگی حاصل کر لے.مثلاً بیوی یہ کہے کہ اس قدر بال لیکر مجھے ضلع دے دو اور خاوند اس کو ظور کرلے.اس صورت میں بعض اسے طلاق قرار دیتے ہیں.بعض طلاق بالحوض اور بعض نسخ نکاح - ان کے نزدیک چونکہ یہ خاوند ہی اپنی طرف سے علیحد گی منظور کر رہا ہے اس لئے یہ طلاقی ہی ہے لیکن ان (بقیہ حاشیہ د پر)

Page 204

۱۶۲ وہ لوگ جو اسے طلاق قرار نہیں دیتے وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں طلاق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا الطلائی مرند.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قدید کا ذکر فرمایا.اس کے بعد پھر طلاق کا ذکر فرمایا.یعنی : فإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَة انس گروہ کے نزدیک اگر ضلع بھی طلاق کے حکم میں ہے تو اس طرح چار طلاقیں بن جاتی ہیں اور حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ والی طلاق.چوتھی طلاق بنتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ طلاقوں کے ذکر کے درمیان ضلع کا ذکر ہے اور ضلع کا حکم طلاق کے حکم سے بالکل جدا ہے.فقہاء کا یہ خیال درست نہیں ہے.کیونکہ ضلع کی دو صورتیں ہیں.اول میاں بیوی آپس میں کسی معاوضہ پر رضامند ہو جائیں یعنی خاوند بیوی سے کچھ معاوضیہ نے کر اسے اپنے عقد سے آزاد کردے یہ بھی ضلع ہے اور اس پر ضلع کے تمام احکام نافذ ہوتے ہیں یعنی خاوند اس صورت میں رجوع نہیں کر سکتا.اور عورت ایک فیض عدت گزار کر دوسری جبکہ شادی کر سکتی ہے.دوم.اگر خاوند یا ہم رضامندی سے کچھ معاوضہ لے کر بیوی کو آزاد کرنے پر رضامند نہ ہو اور بیوی کو اس سے کسی وجہ سے سخت نفرت ہو اور وہ اس کے عقد میں رہنا گوارا نہ کرتی ہو تو اس صورت میں اس کی بیوی.قاضی یا حاکم وقت کے پاس درخواست قلع کر سکتی ہے قاضی حالات کا جائزہ لے کر خاوند کا دیا ہوا حق مہر وغیرہ واپس دلا کر درخواست ضلع منظور کر سکتا ہے.ان پرو و صورتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضلع کی صورت میں خاوند کو انکار کا کوئی اختیار نہیں ہے.کیونکہ اگر وہ باہم رضامندی سے جدا کرنے پر رضامند نہ ہو تو بیوی حاکم وقت یا قاضی کے ذریعہ سے علیحدگی کا فیصلہ حاصل کر سکتی ہے.اور اس فیصلہ کے بعد خاوند کو انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.ہذا بعض فقہار کا یہ کہنا کہ ضلع میں چونکہ خاوند کو معاوضہ کی پیشکش رو کرنے یا قبول کرنے کا اختیار ہوتا ہے اس لئے یہ طلاق ہے فسخ نکاح نہیں ہے درست نہیں ہے.مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں اس کی بیوی اس سے ہائن ہو جائے گی اور اسے رجوع کا کوئی حق حاصل نہ ہو گا.در حقیقت محفوظ اور درست رائے ہی ہے.اور اس مذہب کو اختیار کرتے ہوئے دیگر تمام جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں.

Page 205

۱۶۳ اس طرح ان کے نزدیک فسخ نکاح فریقین کی رضا مندی سے ہوتا ہے جس طرح فیح پیچ فریقین کی رضامندی سے ہوتی ہے.لہذ اطلاق اور فسخ نکاح کا حکم مساوی نہ ہونا چاہیئے.دوسرا گروہ جو ضلع کو طلاق قرار دیتا ہے.ان کا یہ جواب دیتا ہے کہ آیت مذکورہ میں طلاقوں کی تعداد نہیں بنائی گئی بلکہ طلاقوں کی اقسام بیان کی گئی ہیں.کیونکہ ایک طلاق ایسی بھی ہوتی ہے جو معاوضہ ادا کر کے حاصل کی جاتی ہے.اس لئے اس کا ذکر بھی دوسری طلاقوں کے ضمن میں کر دیا گیا ہے.وجہ اختلاف | اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس بارہ میں اختلافت ہے کہ کیا بدل کی ادائیگی سے طلاق کے اختیارات باطل ہو جاتے ہیں یا قائم رہتے ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بدل کی ادائیگی سے طلاق کے اختیارات باطل ہو جاتے ہیں ان کے نزدیک خاوند کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے.اور عورت طلاق کی عدت کی بجائے ضلع کی عدت گزارے گی یعنی ایک حیض.جن لوگوں کے نزدیک بدل کی ادائیگی کے بعد بھی طلاق کا حکم قائم رہتا ہے.ان کے نزدیک خاوند کو رجوع کا اختیار حاصل رہے گا اور بیوی طلاق کی عدت تین حیض گزارے گی.ضلع کے احکام ضلع کے احکام متعدد ہیں لیکن ان میں سے مشہور احکام درج ذیل کئے جاتے ہیں :.اول ضلع کے بعد طلاق دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ امام مالک کے نزدیک ضلع کے بعد طلاقی نہیں پڑتی.سوائے اس کے کہ طلاق کے متعلق کلام متصل ہو.یعنی خاوند یہ کہے کہ اس قدر بدلہ کے عوض تمہار ا خلع منظور ہے اور پھر تمہیں ایک طلاق ہے.امام شافعی کے نزدیک خواہ کلام متصل ہو یا منفصل خلع کے بعد طلاق کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.اس لئے طلاق نہیں پڑتی.امام ابو حنیفہ کے نزدیک کلام خواہ متصل ہو یا منفصل ضلع کے بعد طلاق پڑھائی

Page 206

14N وجہ اختلاف فریق اول کے نزدیک عدت طلاق کے احکام میں شمار ہوتی ہے.اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک عدت نکاح کے احکام میں شمار ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر طلاق بائن ہو.اور خاوند کو رجوع کا اختیار نہ ہو تو اس طلاق کی عدت کے درمیان وہ مطلقہ کی حقیقی بہن سے شادی نہیں کر سکتا.کیونکہ جب تک اس کی عدت نہ گزر جائے اس وقت تک وہ اس کے نکاح میں ہے اس لئے اس دوران میں وہ اس کی بہن سے نکاح نہیں کر سکتا.اور اسے دوسری طلاق دے سکتا ہے.پس جس کے نزدیک عدت نکاح کے احکام میں سے ہے اس کے نزدیک ضلع کے بعد طلاق پڑ جاتی ہے.اور جس کے نزدیک عدت طلاق کے احکام میں سے ہے اس کے نزدیک ضلع کے بعد طلاق نہیں پڑتی.دوم - جمہور فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ خلع کے بعد خاوند کو عدت میں رجوع کا اختیار نہیں ہے.سعید بن مسیب اور ابن شہاب نے اس سے اختلاف کیا ہے ان کے نزدیک اگر خاوند رجوع کرے تو بیوی اپنا دیا ہو ا دل واپس لے سکتی ہے سوم جمہور فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ خلع کے بعد عدت کے اندر فریقین باہمی رضامندی سے جدید نکاح کر سکتے ہیں لیکن متاخرین کے ایک گروہ کے نزدیک فریقین یا کوئی اور شخص عدت کے اندر نکاح نہیں کر سکتا.وجہ اختلاف ایک گروہ کے نزدیک ضلع کے بعد عدت میں نکاح نہ کرنا.ایک قسم کی عبادت ہے کیونکہ مطلقہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں عدت گزاررہی ہے دوسرے گروہ کے نزدیک ضلع کے بعد عدت میں نکاح نہ کرنا عبادت نہیں ہے بلکہ اس کا باعث یہ ہے کہ اس طرح بیوی کو نقصان سے محفوظ رکھا جائے کیونکہ وہ ضلع کے عوض کچھ رقم ادا کر چکی ہے یا اپنے مطالبات ترک کر چکی ہے.پس جب وہ خود رضامند ہو جائیں تو اس صورت میں ان کے دوبارہ نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے.چہارم.اگر خاوند اور بیوی میں بدلی ضلع کی مقدار میں اختلاف ہو تو امام مالک او

Page 207

140 کے نزدیک اگر بیوی کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو خاوند کا قول معتبر ہوگا.امام شافعی کے نزدیک دونوں سے حلف لیا جائے گا.اور عورت پر مہر مثل کی ادائیگی واجب ہوگی.امام شافعی نے اس اختلاف کو بائع او مشتری کے اختلاف سے تشبیہ دی ہے.امام مالک کے نزدیک اس بارہ میں بصورت مدنی علیہا ہے اور مرو مدعی.اس لئے مرد کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو عورت کا قول حلف کے ساتھ معتبر ہوگا.چوتھا باب طلاق اور فسخ نکاح میں فرق طلاق اور فسخ نکاح میں فرق امام مالک نے اس فرق کو اس طرح بیان کیا ہے.کہ اگر میاں بیوی کی جدائی کسی ایسی وجہ سے واقعہ ہوئی ہو کہ اس وجہ کی موجودگی میں اگر وہ دونوں سے چاہیں کہ ان کا عقیدہ نکاح قائم رہے تو شرعاً ان کو اس کا اختیار نہ ہو.مثلا ان دونوں کے درمیان رضاعی رشتہ ثابت ہو جائے یا معلوم ہو جائے کہ ان کا نکاح عدت ختم ہونے سے قبل ہوا تھا.تو اس صورت میں اگر وہ یہ چاہیں بھی کہ ان کا عقد نکاح قائم رہے تو وہ شرعاً اس امر کے مجازہ نہیں ہیں.بلکہ لاز گا ان کے درمیان تفریق واقع ہو جائے گی.یہ تفریق فسخ نکاح کہلائے گی.لیکن اگر تفریق کسی ایسی وجہ سے ہوئی ہو کہ اس وجہ کی موجودگی میں اگر وہ دونوں اپنے عقد کو قائم رکھنا چاہیں تو شرعا وہ اس کو قائم رکھ سکتے ہیں.مثلاً اگر خاوند یا بیوی میں کوئی عیب ثابت ہو جائے تو اس عیب کی موجودگی میں اگر وہ دونوں اپنے عقد نکاح کو قائم رکھنا چاہیں تو شرعا ان کو اسکی اجازت ہے پس اگر اس وجہ سے ان کے درمیان تفریق ہوئی تو یہ طلاق کہلائے گی.امام مالک نے طلاق اور فسخ نکاح کو اوپر کی دو مثالوں سے واضح کیا ہے.

Page 208

K 194 پانچواں باب بیوی کو طلاق کا اختیار دینا طلاق کے مسئلہ میں بیوی کو طلاق کا اختیار دینے کے متعلق چند خاص امور بان کئے گئے ہیں تو یہ ہیں:.بیوی کو طلاق کا اختیار دینے کے لئے عام طور پر دو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں." اختیار طلاق" "مملیک طلاق" فقہا ر نے ان دونوں لفظوں کے الگ الگ احکام بیان کئے ہیں.امام مالک کے نزدیک تملیک طلاق کا مطلب یہ ہے کہ خاوند نے بیوی کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا مالک بنا دیا.یہ طلاق ایک بھی ہو سکتی ہے اور ایک سے زیادہ بھی.یہی وجہ ہے کہ اگر بیوی اپنے اوپر ایک سے زیادہ طلاقیں واقع کرلے تو امام مالک کے نزدیک خاوند کو اس امر کا اختیار ہے کہ وہ ایک کے علاوہ باقی طلاقوں کا اختیار دینے سے انکار کر دے.امام مالک کے نزدیک اختیار طلاق اگر مطلق اور غیر مقید ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی خواہ اپنے خاوند کو اختیار کرے یعنی اس کے ساتھ رہنا پسند کرے یا اس سے تین طلاقوں کے ساتھ بائن ہو جائے.اور اگر وہ ایک طلاق کے ساتھ علیحدگی اختیار کرنا چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتی." تملیک طلاق کی صورت میں امام مالک کی ایک روایت کے مطابق اگر بیوی اپنے اوپر طلاق وارد نہ کرے تو اس کا اختیار باطل نہیں ہوتا.سوائے اس کی کہ اس پر ایک عرصہ گذر جائے اور وہ اس اختیار کو استعمال نہ کرے.امام مالک کی دوسری روایت کے مطابق اس سے اختیار طلاق باطل نہیں ہوتا تا وقتیکہ وہ خود اس اختیار کو رد نہ کر دے یا اپنے اوپر طلاق وارد نہ کرلے.

Page 209

امام مالک کے نزدیک " تملیک طلاق اور تو کیل طلاق“ میں یہ فرق ہے کہ " توکیل طلاق " کی صورت میں خاوند کو یہ اختیار ہے کہ جب تک وہ اپنے اوپر طلاق وارد نہ کرے اس وقت تک اس کے خاوند کو یہ اختیار واپس لینے کا حق ہے کیونکہ میں طرح موکل کو وکیل کرنے کا اختیار ہے اسی طرح اس کو وکیل سے وکالت کے اختیارات واپس لینے کا بھی اختیار ہے.لیکن تملیک طلاق کی صورت میں وہ یہ اختیارات واپس لینے کا مجاز نہیں ہے.امام شافعی کے نزدیک اگر خاوند اپنی بیوی کو یہ کہے کہ تمہیں اپنے نفس کا اختیار ہے یا تمہارا معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے تو ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے اور اس اختیار کو استعمال کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ خاوند کی نیست ایسا اختیار دینے سے اختیار طلاق ہو.پس اگر خاوند کی نیت ان الفاظ سے طلاق کا اختیار دینے کی ہو تو اس صورت میں اگر بیوی اس اختیار کو استعمال کرلے تو خاوند کی نیت کے مطابق طلاق واقع ہوگی یعنی اگر اسکی نیست ایک طلاق کی ہو تو ایک طلاق واقع ہوگی اور اگر تین طلاق کی ہو تو تین طلاقین واقع ہونگی.امام شافعی کے نزدیک اختیار طلاق یا تملیک طلاق کی صورت میں خاوند کو یہ حق ہے کہ وہ اختیار دینے کے بعد اس اختیار سے انکار کردے یا تعداد طلاق کے متعلق انکار کردے یعنی یہ کہہ دے کہ میں نے طلاق کا اختیار نہیں دیا یا اختیار وائیس لے لیا ہے یا سینے تین طلاقوں کا اختیار نہیں دیا بلکہ صرف ایک طلاق کا اختیار دیا ہے.نیز امام شافعی کے نزدیک اگر بیوی اس اختیار کے بعد اپنے اوپر طلاق وارد کرلے تو ایک طلاق رجعی واقعہ ہوگی.امام مالک کے نزدیک تملیک طلاق کی صورت میں بھی بیوی کو صرف ایک رجعی طلاق واقعہ ہوگی.امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک خیار طلاق کے الفاظ سے

Page 210

14N طلاق کا اختیار حاصل نہیں ہوتا.اور تملیک طلاق کی صورت میں اگر وہ اپنے اوپر ایک طلاق وارد کرے تو بائن طلاق واقع ہوگی.ٹوری کے نزدیک خیار طلاق اور تملیک طلاق کا ایک ہی حکم ہے؟ ایک مذہب یہ ہے کہ تملیک طلاق کی صورت میں تعداد طلاق کے متعلق عورت کا قول معتبر ہوگا.اور خاوند اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس نے تین طلاق کا اختیار نہیں دیا تھا بلکہ صرف ایک طلاق کا اختیار دیا تھا.یہی قول حضرت علی رض ابن مسیب زہری اور عطاء کا ہے ایک قول یہ ہے کہ " تملیک طلاق کی صورت میں عورت کو صرف ایک طلاق کا اختیار ہوتا ہے.اس سے زیادہ کا نہیں.اور اس کے مطابق حضرت ابن عباس اور حضرت عمرف سے روایت کی گئی ہے اور وہ روایت یہ ہے.أَنَّهُ جَاءَ ابْنَ مَسْعُودٍ رَجُلُ فَقَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ امْرَأَتِي بَعْضُ مَا يَكُونَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَتْ لَوْ آنَ الَّذِي بِيَدِكَ مِنْ أَمْرِي بيدى تعَلِمْتَ كَيْفَ أَصْنَعُ قَالَ فَانَ الَّذِي بِيَدِى مِنْ امرك بِيَدِكِ قَالَتْ فَانْتَ طَالِقُ ثَلَاقَا قَالَ أَرَاهَا وَاحِدَةً وَأَنْتَ أَحَقُّ بِهَا مَا دَامَتْ فِي عِدَّ تِهَا وَ سَالْقِي أَمِيرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عُمَرَ ثُمَّ لَقِيَهُ فَقَصَّ عَلَيْهِ الْقِصَّةُ فَقَالَ صَنَعَ اللَّهُ بِالرِّجَالِ وَفَعَلَ يَعْمِدُونَ إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي أَيْدِيهِمْ فَيَجْعَلُوْنَهُ بأَيْدِي النِّسَاء فِيهَا التَّرَابُ مَاذَا قُلْتَ فِيْهَا قَالَ قُلْتُ أأَرَاهَا وَاحِدَةً وَهُوَ أَحَقُّ بِهَا قَالَ وَآنَا أَرى ذَلِكَ وَلَوْ رَأَيْتَ غَيْرَ ذَلِكَ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُصِبْهُ ترجمہ : حضرت ابن مسعودؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے بیان کیا کہ میرے اور میری بیوی کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا.اس دوران میں میری بیوی نے یہ کہا کہ اللہ تعالٰی نے میرے متعلق جو اختیار تمہیں دیا ہے اگر وہ اختیار میرے پاس ہوتا تو تمہیں معلوم ہو جاتا کہ میں کیا کرتی اس پر بیٹے اسے کہا کہ تمہارے متعلق جو اختیارات مجھے حاصل ہیں دو میں تمہارے سپرد کرتا ہوں پر

Page 211

149 " بعض فقہار کا خیال یہ ہے کہ اختیار طلاق اور تملیک طلاق“ اور اس قسم کے دوسرے اختیارات کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ شریعت نے جو اختیارات مرد کے سپرد کئے ہیں وہ اختیارات عورت کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے یہ قول ابو محمد بن حزم ظاہری کا ہے.امام مالک - امام شافعی امام ابو حنیفہ اوزاعی اور فقہاء کی ایک جماعت کے نزدیک تملیک طلاق کی صورت میں عورت کو اپنے اوپر طلاق وارد کرنے یا خاوند کے عقد میں رہنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک وہ دونوں اس مجلس میں بیٹھے ہیں جس میں اس کو اختیار دیا گیا ہے جب وہ مجلس ختم ہو جائے تو اس کا اختیار بھی ختم ہو جاتا ہے.ور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ " تملیک طلاق“ اور ” توکیل طلاق " دونوں کا حکم برابر ہے.یعنی خاوند جب چاہے اس اختیار کو واپس لے سکتا ہے مجلس مذاکرہ کے اندر بھی اور بعد میں بھی تا وقتیکہ اس کی بیوی اس اختیار کو استعمال کرلے یعنی طلاق اپنے اوپر وارد کرے.Whi اس پر میری بیوی نے کہا کہ تمہیں تین طلاقیں ہیں.اس کے جواب میں حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ تمہاری بیوی کو ایک طلاق ہے اور جب تک وہ عدت میں ہے تمہیں رجوع کا حق حاصل ہے.حضرت ابن مسعود نے یہ بھی فرمایا کہ میں عنقریب حضرت عمرانہ سے بھی ملونگا.دیعنی ان سے اس بارہ میں دریافت کروں گا) چنا نچہ وہ حضرت عمرؓ کو ہے اور ان کو یہ سارا قصہ سنایا حضرت عمرو نے فرمایا کہ اللہ تعالے نے ایک اختیار مردوں کو دیا ہے اور وہ یہ اختیار عورتوں کے سپرد کرتے لگے ہیں دیعنی آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ، حضرت عمرہ نے اس عورت کے متعلق ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے حضرت ابن مسعود سے دریافت فرمایا کہ آپ کا اس کے متعلق کیا مستوی ہے.حضرت ابن مسعود نے جواب دیا کہ میرے خیال میں اسے ایک طلاق ہے اور اس کے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق ہے.حضرت عمر نے فرمایا کہ میرا خیال بھی یہی ہے.اور اگر آپکا خیال اس کے برعکس ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ آپ کی رائے اس بارہ درست نہیں ہے.

Page 212

12.دیتے جمہور فقہار نے جو یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ تملیک طلائی اور اختیار طلاق کی صورت میں عورت کو طلاق کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے اس کی دلیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیویوں کو اس امر کا اختیار دیتا ہے کہ وہ چاہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرلیں اور چاہیں تو علیحدگی اختیار کرلیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ کو اختیار کر لیا.اس لئے ہمیں طلاق نہ ہوئی.اہل ظاہر اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں طلاق کو اختیار کر لیتیں تو محض اس اختیار کر لینے سے ان پر طلاق واقع نہ ہوتی.بلکہ اس صورت میں خود رسول اللہ ان کو طلاق دیدیتے.لہذا اس سے یہ معلوم ہوا کہ محض تملیک طلاق یا اختیار طلاق سے عورت کو اپنے اوپر طلاق وارد کر لینے کا حق حاصل نہیں ہو جاتا.بلکہ یہ حق ان کے خاوند کے پاس ہی رہتا ہے.جمہور فقہاء کے نزدیک اختیار طلاق اور تملیک طلاق کا حکم مساوی ہے کیونکہ لغوی معنوں کے لحاظ سے اس کا یہ تقاضا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو اس امر کا اختیار دے دیتا ہے کہ وہ چاہے تو یہ کام کرے اور چاہے تو نہ کرے تو اس سے اس کو اس امر کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے.امام مالک کے نزدیک جب خاوند بیوی کو یہ کہتا ہے کہ چاہو تو تم مجھے اختیا کرو اور چاہو تو اپنے اوپر طلاق وارد کر لو تو شرعی عرف کے لحاظ سے اس نے اس کو بائن طلاق کا اختیار دے دیا.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اپنی بیویوں کو علیحدگی کا اختیار دیا تھا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ چاہیں تو آپسے بائن ہو جائیں اور چاہیں تو آپ کو اختیار کرلیں.امام مالک کہتے ہیں کہ جب خاوند بیوی کو اختیار دیتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اس کی بیوی اس سے بائن نہ ہوا اور جب بیوی اس اختیار کو قبول کر لیتی ہے تو اس کا بھی یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ اس سے علیحدہ ہونا نہیں چاہتی.

Page 213

141 اس اختیار کا ظاہر مفہوم ہی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے طلاق بائن کے ذریعہ جدا ہونے کو تیار ہیں.امام شافعی کے نزدیک یہ الفاظ چونکہ نص کا حکم نہیں رکھتے اس لئے اس بار میں خاوند کی نیت کو دیکھا جائے گا اگر اس کی نیت طلاق بائن کی ہوگی تو اسے طلاق بائن ہوگی اور اگر اس کی نیت طلاق رجعی کی ہوگی تو اسے طلاق رجعی ہوگی.اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ " تملیک طلاق سے خاوند کو اس امر کا اختیام حاصل ہوتا ہے کہ وہ تعداد کے بارہ میں بیوی سے اختلاف کرے یعنی اگر اس کی بیوی اپنے اوپر تین طلاقیں وارد کرلے تو خاوند یہ کہدے کہ اس نے صرف ایک طلاق کا اختیار دیا تھا.کیونکہ ان لفظوں میں تعداد طلاق کے متعلق کوئی مفہوم نہیں نکلتا.امام مالک اور امام شافعی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر تملیک طلاق کی صورت میں بیوی اپنے اوپر ایک طلاق وارد کرے تو وہ طلاق رجبھی ہوگی.کیونکہ عام عات میں طلاق کو عرف شرعی کے ماتحت معمول کرنا چاہیئے.اور طلاق کا شرعی تقاضا یہ ہے کہ وہ طلاق سنت ہو.اور طلاق سنت ایک رجعی طلاق کی صورت میں ہوتی ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ طلاق بائن ہوگی کیونکہ اگر اس کو طلاق رجعی قرار دیا جائے تو بیوی نے جو تملیک کا اختیار حاصل کیا ہے اس کا کوئی فائدہ ہی نہیں کہتا.جن کے نزدیک تملیک طلاق کی صورت میں بیوی کو اپنے اوپر تین طلاقیں وارد کرنے کا اختیار ہے ان کے نزدیک ایسی صورت میں خاوند کو اس سے انکار کرتے کا اختیار نہیں ہے.کیونکہ اس اختیار کا تقاضا یہ ہے کہ خاوند کے پاس جس قدر طلاقوں کا اختیار تھا وہ اس نے اپنی بیوی کی طرف منتقل کر دیا.اب اسے اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہی.جن کے نزدیک ” تملیک طلاق“ کی صورت میں بیوی کو صرف ایک طلاق وارد

Page 214

۱۷۲ کرنے کا اختیار ہے.ان کے نزدیک طلاق کے متعلق خاوند کو صرف اس قدر اختیارات منتقل کرنے کا حق ہے.جن سے طلاق کا کم از کم تقاضا پورا ہو سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کا اختیار عورتوں کے سپر د اس لئے نہیں گیا کہ ان کی عقل ناقص ہوتی ہے.اس لئے ان سے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ہو او ہوس کے غلبہ کے ماتحت اپنے اوپر بے موقعہ طلاق وارد کرلیں.اس لئے جب خاوند یہ اختیار اس کے سپرد کردے.تو اس صورت میں کم از کم اختیار ہی اس کے سپرد ہوگا اور وہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہے.حسن بصری کے نزدیک اگر بیوی کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ چاہے تو اپنے خاوند کو اختیار کرے چاہے تو اپنے اوپر طلاق واقع کرے.اس صورت میں اگر وہ اپنے خاوند کو اختیار کرے گی تو اس پر ایک طلاق واقع ہوگی.اور اگر اپنے اوپر طلاق واقع کرے گی تو اس پر تین طلاقیں واقع ہونگی جمہور کے نزدیک خاوند کو اختیار کرنے کی صورت میں اس پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی.

Page 215

۱۷۳ بحث ثانی مسئلہ طلاق کے متعلق اس بحث میں تین مشہور مسائل تین مختلف ابواب میں بیان کئے جائیں گے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :- (1) طلاق کے الفاظ اور شرائط.(۲) کس کی طلاق جائز ہے اور کس کی نہیں ؟ (۳) کن عورتوں پر طلاق واقع ہوتی ہے اور کن پر نہیں ؟ پہلا باب طلاق کے الفاظ اور شرائط مطلق طلاق کے الفاظ اس بات پر سب فقہاء متفق ہیں کہ جب طلاق کی نیت بھی ہو اور صریح الفاظ میں ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے.مندرجہ ذیل صورتوں میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے.(1) طلاق کی نیت موجود ہو.لیکن طلاق کے الفاظ صریح نہ ہوں.(۲) طلاق کی نیت ہو لیکن الفاظ نہ ہوں صریح نہ غیر صریح.(۳) صریح الفاظ موجود ہوں لیکن طلاق کی نیت نہ ہو.جن کے نزدیک صریح الفاظ اور نیت طلاق ضروری ہے.انہوں نے شریعت ظاہری مفہوم کو لیا ہے.جنہوں نے عقد نکاح کو نذر یا قسم کے ساتھ مشابہت دی ہے.ان کے لے اس جگہ نذر یا قسم سے مشابہت کا یہ مطلب ہے کہ نذر یا قسم کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ لفظاً نذر مانی جائے یا لفظاً قسم کھائی جائے بلکہ اگر کوئی شخص اپنے دل میں کسی چیز کی نذرمان لے یا

Page 216

۱۷۴ نزدیک محض نیت سے بھی طلاق ہو جاتی ہے خواہ لفظا طلاق دے یا نہ دے.جنہوں نے طلاق کے معاملہ میں تہمت سے بچنے کو ضروری قرار دیا ہے ان کے نزدیک طلاق صریح الفاظ میں ہونی چاہیے.خواہ نیت طلاق ہو یا نہ ہو.جمہور فقہاء اس امر پر متفق ہیں کہ مطلق طلاق کے الفاظ کی دو قسمیں ہیں:.(۱) صریح.(۲) کتابہ.لیکن صریح اور کنایہ کی تفصیل اور اس کے احکام میں اختلاف ہے.چنانچہ اس جگہ مشہور اور اصولی اختلافات بیان کئے جاتے ہیں.امام مالک کے نزدیک طلاق کے لئے صریح لفظ صرف " طلاق" ہے.اس کے علاوہ باقی تمام الفاظ کنایہ میں شامل ہیں.امام شافعی کے نزدیک صریح طلاق کے لئے تین الفاظ ہیں.(۱) طلاق (۳) فراق (۳) سراحت چونکہ یہ ہر سہ الفاظ قرآن مجید میں طلاق کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں اس لئے امام شافعی کے نزدیک یہ تینوں الفاظ صریح طلاق کا حکم رکھتے ہیں.لفظ طلاق کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ یہ صریح ہے کیونکہ طلاق کا لفظ رت و مرد کی جدائی کے لئے ہی وضع کیا گیا ہے.لہذا اس ضمن میں یہ لفظ عورت اصل الاصول ہے.فراق اور سراحت کے الفاظ کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا یہ اپنے لغوی معنی تم کھا لے تو اس صورت میں اس پر نذر کا پورا کرنا یا قسم کو پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے پس جس نے طلاق کو ان دونوں کے مشابہ قرار دیا ہے ان کے نزدیک اگر کوئی شخص طلاق کی نیست بھی کرلے گا تو اس کی بیوی کو طلاق واقعہ ہو جائے گی خواہ لفظ طلاق استعمال نہ کیا ہو.کی ے طلاق کے متعلق فراق اور صراحت کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ پینے تمہیں جدا کر دیا.یا سینے تمہیں رخصت کر دیا.بعض لوگوں کے نزدیک ان دو لفظوں سے بغیر نیت یا بغیر قرینہ کے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے لیکن بعض فقہاء کے نزدیک ان الفاظ سے نہتہ یا قرینہ کے بغیر طلاق واقعہ نہیں ہوتی.

Page 217

۱۷۵ پر ہی دلالت کرتے ہیں یا عرف شرعی کے مطابق طلاق کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں جن کے نزدیک یہ لغوی معنی پر ہی دلالت کرتے ہیں ان کے نزدیک جب یہ الفاظ طلاق کے معنی میں مستعمل ہونگے تو اس صورت میں طلاق کے معنی مجازی ہوں گے حقیقی نہ ہوں گے.بعض لوگوں کے نزدیک صریح طلاق ان تین لفظوں میں محدود ہے کیونکہ قرآن مجید میں یہ الفاظ طلاق کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں.نیز طلاق ایک عبادت ہے اور عبادت کے لئے الفاظ کا استعمال ضروری ہے.عبادت چونکہ ان الفاظ کے ساتھ ہونی چاہیئے جو نص شرعی میں موجود ہوں.اس لئے ان لوگوں کے نزدیک طلاق صریح صرف ان تین لفظوں میں ہی محدود ہے.امام مالک - شافعی اور ابو حنیفہ کے نزدیک اگر طلاق کے لئے یہ الفاظ استعمال کرے کہ تھے تمہیں طلاق دی.اس کے بعد وہ یہ کہے کہ یے طلاق کی نیت نہیں کی تھی امام شافعی کے نزدیک فراق اور سراحت کے الفاظ کا بھی یہی حکم ہے یعنی اس صورت میں بھی اس کی یہ بات نہ مانی جائے گی.کہ اس کی نیت طلاق کی نہ تھی.امام مالک نے ان الفاظ کے متعلق امام شافعی سے صرف یہ اختلاف کیا ہے کہ اگر طلاق کا قرینہ موجود ہو گا تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی.لیکن اگر طلاق کا قرینہ موجود نہ ہو گا تو اس کا قول تسلیم کیا جائے گا.مثلاً اگر میاں بیوی کا تنازعہ ہو اور بیوی اس تنازعہ کے دوران میں طلاق کا مطالبہ کرے اور اس کے جواب میں وہ یہ کہے کہ تم مجھ سے جدا ہو یا سینے تمہیں رخصت کر دیا بعد میں وہ کہے کہ میری نیست اس سے طلاق کی نہ تھی تو اس کی یہ بات مانی جائیگی.اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے کہ تمہیں طلاق ہے اور اس کے بعد وہ یہ کہے کہ اس نے ان الفاظ میں دو یا دو سے زیادہ طلاقوں کا ارادہ کیا تھا تو امام مالک کا اس بارہ میں یہ مذہب ہے کہ اس کی بیوی کو اس کی نیت کے مطابق دو یا دو سے زیادہ طلاقیں پڑی جائینگی

Page 218

164 امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے.لیکن ان کے نزدیک اگر وہ طلاق دیتے وقت یہ کہے کہ تمہیں ایک طلاق ہے اور بعد میں یہ دعوی کرے کہ میری نیت دو یا دو سے زیادہ طلاقوں کی تھی تو اس صورت میں اس کی بات نہ مانی جائے گی.امام ابو حنیفہ کے نزدیک " تمہیں طلاق“ یا ” تمہیں ایک طلاق" کے الفاظ سے اس کی بیوی کو دو یا تین طلاقیں نہیں پڑ سکتیں خواہ اس کی نیت دو یا تین طلاقوں کی ہو.کیونکہ مفرد الفاظ سے کنایہ یا صراحتہ جمع کا مفہوم نہیں لیا جا سکتا.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک طلاق کے لئے الفاظ کے بغیر محض نیت ہی کافی ہے.اور بعض کے نزدیک اس کے لئے نیت کے ساتھ ساتھ ایسے الفاظ بھی ضروری ہیں جن میں طلاق کا احتمال پایا جاتا ہو.جن کے نزدیک طلاق کے لئے محض نیت ہی کافی ہے ان کے نزدیک اس کی نیت کے مطابق دو یا تین طلاقیں واقع ہو جائینگی.اسی طرح اس شخص کے نزدیک بھی دو یا تین طلاقیں واقع ہو جائینگی جس کے نزدیک نیت کے ساتھ ایسے الفاظ بھی ضروری ہیں جن میں طلاق کا احتمال پایا جاتا ہے اور اس کے نزدیک طلاق کے لفظ میں کثرت عدد کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے.جس کے نزدیک نیت کے ساتھ صریح الفاظ ضروری ہیں.اور طلاق کے لفظ میں کثریت عدد کا مفہوم نہیں پایا جاتا.اس کے نزدیک خواہ اس کی نیت موجود ہویا نہ ہو دو یا تین طلاقیں واقع نہ ہونگی.امام مالک کا مشہور مذہب یہ ہے کہ طلاق کے لئے لفظ اور نیت دونوں ضروری ہیں.یہی مذہب امام ابو حنیفہ کا ہے لیکن امام ابو حنیفہ کا ایک نے ہب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ نیت کے بغیر محض الفاظ سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے.اسی طرح امام شافعی کے نزدیک بھی صریح الفاظ کی موجودگی میں طلاق کے لئے نبت کی ضرورت نہیں ہے.

Page 219

122 جن کے نزدیک صرف نیت ہی کافی ہے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے:.إنما الأَعْمَالُ بِالنِّيَّات جن کے نزدیک نیست بغیر الفاظ کے بے معنی ہے انہوں نے رسول اکرم صلی شود علیہ وسلم کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے.رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الخَطَاء وَالنِّسْيَانُ وَمَا حَدَ لَتْ بِهِ أَنْفُسُهَا اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ الفاظ کے بغیر نیت حدیث نفس ہے اور اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے.اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دھیں کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہوں) یہ کہے کہ " تمہیں طلاق ہے اور اس سے اس کی نیت طلاق بائن کی ہو.اور اسکی بیوی نے اس طلاق کے لئے کوئی معاوضہ بھی ادا نہ کیا ہو تو کیا یہ طلاق بائن ہوگی یا رجعی ؟ اس بارہ میں بعض فقہاء کا یہ مذہب ہے کہ یہ طلاق بائن ہوگی.اور بعض.یہ کا یہ مذہب ہے کہ یہ رجعی طلاق ہوگی.طلاق کے متعلق صریح بحث کے بعد اب غیر صریح الفاظ کی بحث کی جاتی ہے بغیر صریح الفاظ وہ طلاق جو غیر صریح الفاظ میں ہو اس کی دو قسمیں ہیں.(1) وہ الفاظ جن میں طلاق کا واضح کنایہ موجود ہو (۲) وہ الفاظ جن میں طلاق کا واضح کتابہ موجود نہ ہو.امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اگر واضح کنایہ استعمال کرنے کے بعد خاوند یہ دعوی کرے کہ اس نے طلاق کی نیت نہ کی تھی تو اس کی بات تسلیم نہ کی جائے گی له ترجمہ : اعمال صرف نیتوں کے ساتھ ہوتے ہیں دیعنی اعمال کے نتائج کا انحصار نیتوں پر ہے؟ د بخاری باب كيف كان بدء الوحی الی رسول الله صلى اله علیه وسلم ترجمہ :.میری امت سے خطا بھول چوک اور برے خیالات جو صرف ذہن سے گزریں اور ان پر عمل نہ ہو معاف کئے گئے ہیں.

Page 220

14A بلکہ طلاق وارد ہو جائے گی سوائے اس کے کہ اس کے متعلق کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ اس نے طلاق کی نیت نہ کی تھی.اسی طرح اگر اپنی بیوی کو جس سے تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہیں.واضح کتابہ سے طلاق دے اس کے بعد یہ ہے کہ میری نیت تین طلاق سے کم کی تھی تو اس کا یہ قول نہ مانا جائے گا.لیکن اگر وہ ایسی بیوی ہو جس سے ابھی تعلقات زوجیت قائم نہ ہوئے ہوں اور اسے واضح کتابہ سے طلاق دی ہو تو اس صورت میں اس کا یہ قول مان لیا جائے گا کہ اس نے تین سے کم طلاقوں کی میت کی تھی.کیونکہ ایسی بیوی نہیں سے مجامعت نہ ہوئی ہو.اس کو ایک طلاق دینے سے بھی طلاق بائن ہوتی ہے.مثلاً وہ اس کے لئے یہ الفاظ استعمال کرے حَبْلُكِ عَلَى غَارِ بِكَ یعنی تو آزاد ہے جہاں چاہے جاسکتی ہے انتِ بَتَةٌ " یعنی تمہیں جُدا کرنے والی طلاق ہے." انتِ خَلِيَّةُ " اور " KING TONGUE ) ان تینوں فقروں کا مطلب یہی ہے کہ تو مجھے سے طلاق کے ذریعہ آزاد ہے اور جہاں چاہے جاسکتی ہے.یہ الفاظ طلاق کے لئے واضح کنانہ ہیں.اس لئے اگر یہ الفاظ ایسی بیوی کے متعلق استعمال کرے جس کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم نہ ہوئے ہوں اور طلاق دینے کے بعد وہ یہ کہے کہ میری نیت تین سے کم طلاقوں کی تھی تو اس کی بات مان لی جائے گی.امام شافعی کے نزدیک واضح کنایہ میں طلاق دینے والے کی نیت کے مطابق عملدرآمد ہوگا.اگر اس کا ارادہ ایک طلاق کا ہو گا تو ایک طلاق ہوگی.اور اگر اس سے زیادہ کا ہو گا تو اس کے مطابق زیادہ طلاقیں ہونگی.امام ابو حنیفہ کا مذہب بھی یہی ہے صرف فرق یہ ہے کہ اگر اس کی نیت ایک ے ترجمہ: تمہاری رہتی تمہارے کندھے پر ہے.کے ترجمہ تو مجھ سے جدا ہے اور تمہیں کوئی روک نہیں ہے.کے ترجمہ :.تو مجھے سے آزاد ہے اور تمام ذمہ داریوں سے بری ہے.

Page 221

149 یا دو طلاق کی ہوگی تو اسے طلاق بائن پڑے گی.اسی طرح اگر طلاق کا قرینہ موجود ہو اور وہ یہ دعوی کرے کہ اس نے طلاق نہیں دی تو اس کی بات قبول نہ کی جائے گی.امام ابو حنیفہ کے نزدیک تمام واضح کنایات میں جب طلاق کا قرینہ موجود ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے سوائے چار الفاظ کے.اور وہ یہ ہے.(۱) عَبْلُكِ عَلَى غَارِبِكِ (٣) اِعْتَدِی (۳) اسْتَبْدِي (م) تَقَني کیونکہ امام صاحب کے نزدیک یہ الفاظ صریح کنایہ نہیں ہیں بلکہ ان میں دیگر احتمالات بھی موجود ہیں.اس لئے ان میں اس کی نیت کو ملحوظ رکھا جائے گا.اگر طلاق کے لئے غیر واضح کنا یہ استعمال کیا جائے تو امام مالک کے نزدیک اس کے متعلق طلاق دینے والے کی نیت کے مطابق عمل کیا جائے گا.لیکن جمہور کا مذاہب یہ ہے کہ اس قسم کا کتابیہ کالعدم ہے.اور اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی خواہ اس کی نیت طلاق دینے کی ہی ہو.واضح کنایہ کے متعلق مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ اس بارہ میں فقہار کے تین اقوال ہیں:.اول : اس قسم کی طلاق کے بعد اگر خاوند یہ کہے کہ پینے صرف ایک طلاق دی تھی یا میری نیت طلاق کی نہ تھی تو اس کی تصدیق کی جائے گی.یہ امام شافعی کا قول ہے.دوم :- اس کی تصدیق نہ کی جائے گی.سوائے اس کے کہ کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جس سے اس کی صداقت نظاہر ہوتی ہو.تو اس صورت میں اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی.یہ امام مالک کا مذہب ہے.سوم: اس کی تصدیق کی جائے گی سوائے اس کے کہ اس نے طلاق کے دوران میں اکنایہ استعمال کیا ہو.تو اس صورت میں اس کی یہ بات نہ مانی جائے گی ے تو عدت گزار سے تو مجھے سے ایک حیض گزار کر فارغ ہے.سے تو سر پر اور بھی لے یعنی تو مجھ سے پرده کست

Page 222

۱۸۰ کہ اس نے طلاق کی نیت نہ کی تھی یہ امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے.امام مالک کا یہ دھوئی کہ واضح کنایات میں خاوند کے اس قول کی تصدیق نہ کی جائے گی کہ اس نے طلاق کا ارادہ نہ کیا تھا.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک عرق لغوی اور عرف شرعی دونوں اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ طلاق کے لئے ہی استعمال ہوتے ہیں.سوائے اس کے کہ کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جو اس کی خلاف واضح دلیل ہو.اسی طرح امام مالک نے جو یہ کہا ہے کہ اس کے اس دعوی کی بھی تصدیق نہ کی جائے گی.کہ اس نے تین سے کم طلاقوں کی نیت کی تھی.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے الفاظ طلاق بائن کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور امام مالک کے نزدیک بینونت یا ضلع سے ہوتی ہے یا تین طلاقوں سے.پس جب اس جگہ ضلع کا قرینہ موجود نہیں ہے یعنی طلاق کے مقابلہ میں معاوضہ کی ادائیگی نہیں ہے تو اب تین طلاقوں کا حکم باقی رہ جاتا ہے.امام شافعی نے اپنے مذہب کی تائیدیں یہ دلیل دی ہے کہ اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو صریح الفاظ میں طلاق دے تو اس صورت میں اس کے اس دعوی کو تسلیم کیا جائے.کہ اس کی نیت تین طلاق کی نہیں تھی بلکہ ایک طلاق کی تھی.پس غیر صریح الفاظ میں طلاق دینے کی صورت میں تو اس کا قول بدرجہ اولی تسلیم کر لینا چاہیئے کیونکہ صریح دلالت غیر صریح دلالت سے قوی تر ہوتی ہے.امام شافعی کی دوسری دلیل حدیث رُکا نہ ہے جو تین طلاقوں کے باب میں گزر چکی ہے رکانہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ مینے اپنی بیوی کو جو ایک وقت میں تین قطعی طلاقیں دی تھیں اس وقت میری نیت ایک طلاق کی تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ کے بیان کو تسلیم کر لیا تھا اور اس کو رجوع کا اختیار دے دیا تھا.

Page 223

IMI اس روایت کے متعلق بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ رکانہ نے صریح الفاظ میں طلاق نہیں دی تھی بلکہ غیر صریح الفاظ میں دی تھی بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی نیت کا اظہار کیا تو آپ نے اس کی نیت کو تسلیم کر لیا اور اسے رجوع کی اجازت دے دی امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ ایسی طلاق جو کنائیہ دی جائے وہ ایک بائن طلاق ہوتی ہے.کیونکہ کنائی طلاق سے اصل غرض کامل علیحدگی ہوتی ہے.اور کامل علیحدگی ایک پائن طلاق سے ہو جاتی ہے.تین طلاقوں کا مفہوم تو بائن طلاق میں اضافہ ہے اور یہ طلاق دینے والے کے مقصد سے خارج ہے.طلاق کے الفاظ میں سے حرمت کے لفظ کے متعلق دور اول کے فقہار میں ایک مشہور اختلاف چلا آتا ہے.پس اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ تم مجھ پر ترام ہو.تو اس کے متعلق اپنی یہ مجھ پر ہو تو فقہار کے متعدد اقوال منقول ہیں جو درج ذیل ہیں.اول :- امام مالک کے نزدیک اگر بیوی سے تعلقات زوجیت قائم ہو چکے ہوں تو ان الفاظ سے اسے طلاق بتہ یعنی تین طلاقیں وارد ہونگی.اور اگر تعلقات زومیت قائم نہیں ہوئے تو کہنے والے کی نیت کو دیکھا جائے گا.اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہوگی تو ایک اور اگر نیت تین طلاقوں کی ہوگی تو تین طلاقیں وارد ہونگی یہی قول ابن ابی لیلی - زید بن ثابت اور حضرت علیؓ کا ہے.این ماجشون کا یہ مذہب ہے کہ اس کی نیت کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا بلکہ تمین طلاقیں پڑ جائینگی.دوم : امام ثوری کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہوگی تو ایک بائنہ طلاق ہو گی.اور اگر اس کی نیت تین طلاقوں کی ہوگی تو تین طلاقیں پڑ جائینگی.لیکن اگر اس کی نیت طلاق کی نہ ہوگی، بلکہ بغیر طلاق کے قسم کے رنگ میں اس کو حرام قرار دیا ہے.تو اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا.اگر ہ اگر کوئی شخص جوش میں آکر قسم کھائے کہ میں ایسا نہیں کروں گا یا ایسا ضرور کروں گا.اس کے بعد جب ہا.

Page 224

IAP اس کی نیت نہ تو طلاق کی ہو نہ قسم کی بلکہ جوش میں آکر ایسے الفاظ کہہ دئے ہوں تو پھر اسے کوئی طلاق نہ پڑے گی بلکہ اس قول کو لغو قرار دیا جائے گا.سوم - اوزاعی کا مذہب یہ ہے کہ اس کی نیت کو ہی دیکھا جائے گا.اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہوگی تو ایک طلاق پڑیگی اور اگر نیت تین طلاقوں کی ہوگی تو تین طلاقین پڑینگی.لیکن اگر کسی چیز کی بھی نیت نہ ہوگی تو اسے لغو کلام قرار نہیں دیا جائے گا بلکہ اسے کفارہ قسم ادا کرنا ہو گیا.چہارم : امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اس کے متعلق دو باتوں میں اس کی نیت کو دیکھا جائے گا (1) نیت طلاق.(۲) نیت تعداد طلاق.پس جس قسم کی اس کی نیت ہوگی اسی کے مطابق عملدرآمد ہو گا.اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہوگی تو ایک رجعی طلاق ہوگی اور اگر غیر طلاق کے حرام قرار دینے کا ارادہ ہو گا تو اسے کفار قسم ادا کرنا ہوگا.پنجم : امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا مذہب یہ ہے کہ ان الفاظ میں نیت وہ اپنی بات کے انجام کو سوچکر اس نتیجہ پر پہنچے کہ اسے قسم کے منشاء کے خلاف وہ کام کرنا چاہے یا نہیں کرنا چاہئے اور اس طرح وہ اس قسم کو توڑنا چاہے تو اس کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے :- لا يُؤَاخِذْ كُمُ اللهُ بِاللَّغُوتِ اَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُ كُمْ بِمَا عقد تُمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتْهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسْكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ اهْلِيكُمْا وَيَسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ فَلَا خَةِ أَيَّامٍ ترجمہ :.تمہاری قسموں میں سے لغو قسموں پر اللہ تعالیٰ تمہیں سزا نہیں دے گا.بلکہ تمہاری پکی قسمیں کھانے اور پھر توڑ دینے پر تمہیں سزا دے گا.پس اس کے توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلاتا ہے.ایسا کھانا ہو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کا لباس یا ایک غلام کی گردن کا آزاد کرتا.پھر جیسے یہ بھی میسر نہ ہو تو اس پر تین دن کے روزے واجب ہیں.(مائده ع ۱۲) پس جس نے حرمت کے ان الفاظ کو قسم کا رنگ دیا ہے اس کے نزدیک قرآن مجید کے مذکورہ حکم کے مطابق قسم کا کفارہ اور کرتا ہوگا.

Page 225

١٨٣ طلاق اور نیت تعداد کو ملحوظ رکھا جائے گا.لیکن اگر کسی بات کی نیت نہ ہوگی تو اسے ایلاء قرار دیا جائے گا لیکن اگر نیت کذب بیانی کی ہوگی تو اسے لغو قرار دیا جائے گا.ششم : حضرت عمر حضرت ابن مسعود اور ابن عباس اور بعض تابعین کا مذہب یہ ہے کہ یہ یمین یعنی قسم ہے اور اس پر قسم کا کفارہ ہے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد ياتُهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَ اللَّهُ لَكَ سے استدلال کیا ہے.ہفتم مسروق" اجدع " ابوسلم بن عبدالرحمن اور شعبی وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ ان الفاظ سے عورت کو حرام کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی پاکیزہ اور حلال چیز کو اپنے قول سے حرام قرار دیئے تو وہ حرام نہیں ہو سکتی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا اَحَلَّ اللَّهُ لَكُير وہ لوگ جو ان الفاظ کو قسم قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسے کفارہ نہ گرا دا کرنا ہو گا اور بعض کے نزدیک اسے غلام آزاد کرنا ہو گا.که ایلا قرآن مجید کے محاورہ میں اس قسم کو کہتے ہیں جو اس بات پر کھائی جائے کہ مرد اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہیں رکھے گا اس کے متعلق قرآن مجید میں ان الفاظ میں ذکر آیا ہے بلدین يُولُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُ وَافَانَ اللَّهَ غَفُورٌ رحيم.ترجمہ : جو لوگ اپنی بیویوں کے متعلق قسم کھا کر ان سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں ان کے لئے صرف چار مہینے تک انتظار کرنا جائز ہے پھر اگر اس عرصہ میں صلح کے خیال کی طرف لوٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.( بقروع ۲۸) اللہ تعالٰے کے اس ارشاد کے ماتحت امام ابو حنیفہ کے نزدیک بغیر نیت کے عورت کو حرام کر نیو الے قسم کا کفارہ نہیں ہو گا بلکہ اسے ایلاء قرار دیا جائے گا.اور اس کے اس قول سے اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی.ے ترجمہ : اے نبی ا تو اس چیز کو کیوں حرام کرتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے حلال کیا ہے دتحریم ع ) ترجمہ : اے ایماندارو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال قرار دیا ہے اس میں پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ بھرا ہے تھ ظہار سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ماں کی طرح حرام قرار دیدے اور با وجود خدا تعالیٰ کے منع اشیه صله اپر)

Page 226

۱۸۴ مقید طلاق کے الفاظ طلاق مقید کی دو قسمیں ہیں:.(1) قید کسی شرط کے پورا ہونے کی لگائی جائے.مثلاً یہ کہے کہ اگر زید گھر آ جائے تو تمہیں طلاق.(۲) قید استثناء کی لگائی جائے.مثلاً یہ کہے کہ تمہیں طلاق ہے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نہ ہو.وغیرہ طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں.مثلاً :- د(1) کسی ایسے وجود کی مشیت کے ساتھ مشروط کرنے میں میں مشیت کی اہمیت موجود ہے (۲) مستقبل میں کسی فعل کے وقوع کے ساتھ معلق کرے.(۳) کسی مجہول الوجود چیز کے وجود میں آنے کے ساتھ معلق کرے.(۲) کسی ایسے مجہول الوجود کے وجود میں آنے کے ساتھ مشروط کرنے جب سکسی وجو د میں آنے یا نہ آنے کا اسے علم نہ ہو سکتا ہو.اب ان تمام امور کی تفصیل بیان کی جاتی ہے.طلاق کو مشیت کے ساتھ معلق کرنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:.کرنے کے پھر اس پر اصرار کرے تو اس صورت میں اس شخص کے متعلق اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے :.وَالَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِن قَبْلِ أَنْ يَتَما سار الايه ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں کو ماں کہ دیتے ہیں.پھر اس کے باوجود خدا تعالٰی کے منع کرتے 2 کے جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس کی طرف لوٹ آتے ہیں یعنی دوبارہ وہی حرکت کرتے ہیں.ان کے لئے ضروری ہے کہ قبیل اس کے کہ وہ دونوں یعنی (میاں بیوی ایک دوسرے کو چھوئیں.ایک غلام آزاد کریں.یہ وہ بات ہے جس کی نصیحت تمہیں کی جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب آگاہ ہے.اور جو شخص غلام نہ پائے تو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے پیشتر اس کے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں اور حمن میں یہ طاقت بھی نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاتے یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول کی بات کو مانا کرو.(مجادلہ غام پس جن لوگوں کے نزدیک بیوی کو حرام قرار دینے سے کفارہ ظہار ادا کرنا پڑتا ہے اپنے نزدیک اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا حکم کے مطابق اسے کفارہ ادا کرنا ہوگا.

Page 227

IAA اول :- اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ معلق کرنا.کسی مخلوق کی مشیت کے ساتھ معلق کرنا.دوم : اگر طلاق کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ معلق کیا گیا ہو.خواہ وہ مشیت بطور شرط ہو یا بطور استثناء- مثلاً :- یہ کہا ہو کہ تمہیں طلاق ہے.اِن فَاءَ اللهُ یا یہ کہا ہو کہ تمہیں طلاق ہے اِلا أَنْ يَشَاءَ اللہ تو ان دونوں صورتوں میں امام مالک کے نزدیک طلاق نافذ ہو جاگی لیکن امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک استثناء کی صورت میں اسے طلاق نہیں ہوگی.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک استثنا کا تعلق افعال حاضرہ کے ساتھ بھی اسی طرح ہے جس طرح مستقبل کے ساتھ تعلق رکھنے والے افعال کے ساتھ ہوتا ہے.اور بعض کے نزدیک افعال حاضرہ کے ساتھ استثناء کا کوئی تعلق نہیں ہے.چونکہ طلاق افعال حاضرہ میں سے ہے دیعنی طلاق دینے والا زمانہ حال میں طلاق دیتا ہے، اس لئے جن کے نزدیک استثناء کا تعلق افعال حاضرہ کے ساتھ بھی اسی طرح ہے جس طرح ان افعال کے ساتھ ہے جو مستقبل میں ہونے والے ہیں ان کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ ابھی مستقبل میں ہونے والے افعال کا وقوع نہیں ہوا اس لئے استثناء کی وجہ سے فعل حاضر بھی مستقبل کے فعل کے حکم میں ہو گیا بہرا طلاق واقع نہ ہوگی.جن کے نزدیک اس استثناء کا افعال حاضرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کے نزدیک طلاق واقع ہو جائے گی.اگر طلاق کسی ایسے وجود کی مشیت کے ساتھ متعلق ہو جسے مشیت کی اہمیت حاصل ہے.تو تمام فقہاء کے نزدیک اس کی مشیت کے مطابق طلاق واقع ہو جائے گی.

Page 228

JAY مثلاً اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے کہ اگر میرے بھائی کی مشقت ہو تو تمہیں طلاق تو اس صورت میں اگر اس کے بھائی کی مشقت طلاق کی ہوگی تو طلاق واقع ہو جائیگی ورنہ نہیں.اگر طلاق کو کسی ایسے وجود کی مشیت کے ساتھ معلق کیا گیا ہو جو مشیت کی اہلیت ہی نہ رکھتا ہو تو بعض کے نزدیک ایسی طلاق واقع ہو جائے گی اور بعض کے نزدیک ایسی طلاق لغو ہے اس لئے واقع نہ ہوگی.مجنون اور بچے کی مشیت کا حکم بھی انہیں اشیاء میں سے ہے جن کو مشیت کی اہمیت حاصل نہیں ہے.اس مسئلہ میں جس شخص نے اس قسم کی طلاق کو طلاق ھنرل کے مشابہ قرار دیا ہے اس کے نزدیک چونکہ طلاق منزل واقع ہو جاتی ہے.اس لئے یہ طلاق بھی واقع ہو جائیگی اور میں کے نزدیک یہ طلاق اس طلاق کے مشابہ ہے جو کسی شرط کے ساتھ مشروط ہو تو اس کے نزدیک یہ طلاقی واقع نہ ہوگی کیونکہ یہ طلاق ایسی شرط کے ساتھ مشروط ہے جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی.وہ طلاق جو ایسے اقبال کے ساتھ معلق کی گئی ہو جو مستقبل میں واقع ہونے والے ہیں اس کی تین قسمیں ہیں:.اول: وہ افعال جن کا وقوع اور عدم وقوع دونوں ممکن ہیں مثلاً اپنی بیوی کو یہ ہے کہ اگر زید اس گھر میں داخل ہوا یا تم زید کے گھر داخل ہوئی تو تمہیں طلاق ہے.اس فقرہ میں زید کا اس کے گھر میں داخل ہونا یا نہ داخل ہونا دونوں کا وقوع ممکن ہے.اسی طرح اس کا زید کے گھر میں داخل ہونا یا نہ ہونا دونوں کا وقوع مکن ہے.اس قسم کی طلاق کا حکم یہ ہے کہ جب یہ شرط پوری ہوگی اس وقت طلاق طلاق منزل سے مراد وہ طلاق ہے جو سنجیدگی کے جذبات کے ماتحت نہ ہو بلکہ ہنسی مذاقی کے رنگ میں ہو.فقہاء کے نزدیک ایسی طلاق نافذ ہو جاتی ہے.لے

Page 229

IMG واقع ہوگی ورنہ نہیں.دوم :- وہ افعال جن کا وقوع ضروری ہو اور عدم وقوع محال ہو.مثلاً اپنی ہومی کو یہ کہے کہ جب سورج طلوع ہو گا تو تمہیں طلاق.اس فقرہ میں سورج کا طلوع ضروری ہے لیکن عدم طلوع غیر ممکن.کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کبھی سورج کا طلوع نہ ہو.اس قسم کے اقوال میں امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ طلاق اسی وقت واقع ہو جاتی ہے.خواہ اس وقت رات ہو یا دن.کیونکہ رات گذرنے کے بعد سورج بہر حال طلوع ہو گا.اس لئے اس قول کے مطابق طلاق بھی بہر حال واقع ہوگی.اس لئے ایسی یقینی طلاق کے لئے توقف کی ضرورت نہیں ہے.لہذا طلاق اسی وقت واقع ہو جائے گی.امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک سورج کے طلوع کے وقت تک طلاق موقوف رہے گی جب سورج کا طلوع ہوگا اس وقت طلاق واقع ہوگی.پس جنہوں نے ایسے فقرات کو ان فقرات کے مشابہ قرار دیا ہے جن کا وقوع اور عدم وقوع دونوں ممکن ہیں ان کے نزدیک توقف ضروری ہے اور جنہوں نے اس کو نکاح متعہ میں اجل کے اندر طلاق کے مشابہ قرار دیا ہے.ان کے نزدیک طلاق اسی وقت واقع ہو جائے گی.سوم : اگر طلاق ایسے افعال کے ساتھ معلق کرے جو عام طور پر واقع ہوتے ہیں.لیکن شاذ طور پر واقع نہیں بھی ہوتے.مثلاً یہ کہے کہ جب تمہارا وضع حمل ہوگا یا حیض آئے گا یا ظہر کا زمانہ ے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے نکاح متحد یہ ہے کہ کوئی شخص شکل کرتے وقت نکاح کی مدت مقرر کرے مثلاً ایک ماہ تک یا ایک سال تک تو جن کے نزدیک نکاح متعہ جائز ہے ان کے نزدیک اگر ایسا نکاح کرنے والا تدت مقررہ سے پیشتر اس منکوحہ کو طلاق دے تو وہ طلاق اسی وقت نافذ ہو جائے گی اور اجل مقررہ کی انتظار نہیں کی جائے گئی.پس جن لوگوں نے اس شرط کو بھی نکاح متعہ میں مندرجہ بالا طلاق کے مشابہ قرار دیا ہے.ان کے نزدیک یہ طلاق اسی وقت نافذ ہو جائے گی.

Page 230

آئے گا.اس وقت تمہیں طلاق ایسے اقوال کے متعلق امام مالک کی دور و انتیں ہیں.(1) طلاق اسی وقت واقع ہو جائیگی (۲) شرط کے وجود کے بعد طلاق واقع ہو گی.این رشد کے نزدیک اس بارہ میں امام مالک کا پہلا قول ضعیف ہے.کیونکہ اس قول کے مطابق اس نے اس فعل کو اُن افعال کے مشابہ قرار دیا ہے جو لازماً وقوع پذیر ہوتے ہیں.اگر خاوند طلاق کو مجہول الوجود شرط کے ساتھ معلق کرے اور وہ مجہول الوجود شرط ایسی ہو کہ اس کے معرض وجود میں آنے کا علم کسی صورت میں بھی مکن نہ ہو تو اس قسم کے اقوال میں اسی وقت طلاق واقع ہو جاتی ہے.کیونکہ اس شرط کے وقوع یا عدم وقوع کا علم نہیں ہو سکتا اس لئے اس طلاق کو شرط کے وجود کے ساتھ معلق رکھنا بے فائدہ ہے گویا اس صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ کوئی شرط ہے ہی نہیں.مثلا وہ یہ کہے کہ اگر آج اللہ تعالیٰ بحیرہ قلزم میں اس صفت کی ایک مچھلی پیدا کر دے تو تمہیں طلاق.اگر وہ اس کی طلاق کو ایسی مجہول الوجود شرط کے ساتھ متعلق کرے جس کے وقوع کا علم ممکن ہے.تو اس صورت میں طلاق شرط کے وجود کے بعد واقع ہوگی.مثلا یہ کہے کہ اگر تمہارے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تو تمہیں طلاق.تو اس صورت میں جب اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوگی تو ا سے طلاق ہوگی.اگر لڑکی پیدا نہ ہوگی امام مالک کے نزدیک اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو میری بیوی کو طلاق تو اسے اس وقت تک طلاق نہ ہوگی جب تک وہ اس کام کو نہ کریگا لیکن اگر وہ یہ کہے کہ جب تک میں فلاں کام نہ کروں میری بیوی کو طلاق - اس صورت میں گروہ اس کام کو ایلیاء کی مدت سے زیادہ عرصہ تک نہ کرے تو اس پر املاء کا منہ لگے گا.اے چونکہ ایلاء کا حکم بعض کے نزدیک یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے بعد ایک طلاق رجعی واقعہ ہوگی اس لئے اس مسئلہ میں بھی اگر دو چار ماہ تک اس کام کو نہ کر گیا تو اس کی بیوی کو ایک رجعی طلاق واقعہ ہو جائے گی.

Page 231

Inq امام مالک کے نزدیک اگر خاوند اپنی بیوی کو یہ کہے کہ تیرے ہاتھ یا پاؤں یا بالوں کو طلاق.تو اسے طلاق واقع ہو جائے گی.امام ابو حنیفہ کے نزدیک ان الفاظ سے اسے طلاق واقع نہ ہوگی سوائے اس کے کہ وہ ایسے عضو کا نام لے جو سارے جسم کا قائمقام سمجھا جاتا ہے.مثلاً وہ یہ کہے کہ تمہارے سر کو طلاق یا تمہارے دل کو طلاق یا تمہاری شرمگاہ کو طلاق - امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر ان اعضاء کے ایک حصے کو طلاق دے.تب بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے.مثلاً یہ کہے کہ تمہارے نصف سر کو طلاق یا ربج دل کو طلاق یا ثلث شرمگاہ کو طلاق وغیرہ.داؤد ظاہری کے نزدیک اگر ان اعضاء کے ایک حصے کو طلاق دے تو طلاق واقع نہ ہوگی.اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو جس کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم نہ ہوئے ہوں تین وقعہ یہ کہے کہ تمہیں طلاق.تمہیں طلاق تمہیں طلاق.تو امام مالک کے نزدیک اسے تین طلاق واقع ہونگی لیکن امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک ایک ہی طلاق واقع ہوگی.کیونکہ ان کے نزدیک ایک طلاق سے وہ بائنہ ہو جائیگی اور باقی دو لغو ہونگی کیونکہ اصل مقصود تو ایک طلاق سے حاصل ہو گیا.اگر طلاق میں عدد کا استثنار ہو تو اس کی تین صورتیں ممکن ہو سکتی ہیں.(۱) استثناء اسی عدد کا ہو جس کی طلاق دی گئی ہے.مثلاً یہ کہے کہ تمہیں تین طلاق سوائے تین طلاق کے.(۲) استثناء طلاق کے عدد سے کم ہو.مثلاً یہ کہے کہ تمہیں تین طلاق سوائے دو طلاق کے.یا سوائے ایک طلاق کے.(۳) استثناء طلاق کے عدد سے زیادہ کا ہو.مثلاً یہ کہے کہ تمہیں ایک طلاق سوائے تین طلاق کے وغیرہ.

Page 232

19- دوسری صورت میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ استثنار صحیح ہے اور اسے باقی عدد کی طلاقیں واقع ہو جائینگی.تیسری صورت میں فقہاء کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ استثناء درست نہیں ہے اور اسے اتنی طلاقیں واقع ہو جائینگی جتنی اس نے دی ہیں.لیکن بعض کے نزدیک یہ استثناء درست ہے اور اسے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی.یہ امام مالک کا قول ہے.پہلی صورت میں امام مالک کے نزدیک طلاق واقع ہو جائے گی.کیونکہ ان کے نزدیک وہ طلاق کے الفاظ سے انکار کر رہا ہے.جس کا اب موقعہ نہیں رہا.بعض فقہاء کے نزدیک ان الفاظ میں طلاق سے انکار ظاہر نہیں ہوتا بلکہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طلاق کے وقوع کے امکان کو باطل کر رہا ہے یعنی یہ کہہ رہا ہے کہ تمہیں شرعا تین طلاق واقع ہو سکتی ہیں لیکن میں تمہیں تین طلاق نہیں دیتا چنانچہ ان کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ کسی چیز کا وقوع اس کی ضد کے ساتھ محال ہوتا ہے یعنی جس طرح اندھیرے کی موجودگی میں روشنی نہیں آسکتی اور روشنی کی موجودگی میں اندھیرا نہیں آسکتا.اسی طرح طلاق سے استثناء کی موجودگی میں طلاق واقع نہیں ہوسکتی.

Page 233

191 دوسرا باب کس کی طلاق جائز ہے اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ خاوند جو عاقل بالغ اور آزاد ہو اور اسے طلاق دینے پر مجبور نہ کیا گیا ہو اس کی طلاق صحیح ہے لیکن جس کو مجبور کیا گیا ہو یا وہ بیہوش ہو یا بیمار ہو یا بلوغت کے قریب ہو اس کی طلاق کے متعلق اختلاف ہے.ایسے مریض کی طلاق کے متعلق جو مرض سے صحتیاب ہونے کے بعد طلاق کے قول پر قائم ہو اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ وہ نافذ ہو جائے گی.لیکن اگر مریض طلاق دینے کے بعد مر جائے تو اس کی مطلقہ بیوی اس کی طلاق مكرة وارث ہوگی یا نہیں ؟ اس بارہ میں اختلاف ہے.کا ہے وہ شخص جس کو مجبور کر کے طلاق دلائی گئی ہو اس کے متعلق امام مالک شافعی احمد.داؤد ظاہری اور عبداللہ بن عمر: این زبیر عمر بن الخطاب - علی بن ابی طالب اور ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ اس کی طلاق نافذ نہ ہوگی.لے مکرہ سے مراد وہ شخص ہے جس کو طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو.طلاق مکرہ کا مسئلہ ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور اس کی ابتدا ر امام مالک کے زمانہ سے ہوئی ہے خلفاء بنو عباسیہ نے جب یہ محسوس کیا کہ لوگ ان کی سبجیت دل سے نہیں کرتے بلکہ نمائش کے طور پر یا حکومت کے خوف سے کرتے ہیں تو انہوں نے بیعت میں یہ الفاظ رکھ دئے کہ اگر میں یہ بیعت دل سے نہیں کرتا تو میری بیوی کو طلاق چنانچہ حضرت امام مالک سے اس بارہ میں فستوئی دریافت کیا گیا کہ ایسی طلاق میں میں جبر کا دخل ہو واقع ہو جاتی ہے یا نہیں تو اس پر حضرت امام مالک نے یہ فتوی دیا کہ طلائی المَكْرَة کھیں پشنی ہے کہ جہری طلاق کالعدم ہے.چنانچہ والی مدینہ جعفر بن سلیمان عباسی جو خلیفہ منصور وبقي

Page 234

١٩٢ اصحاب شافعی نے اس قدر فرق کیا ہے کہ اگر اس کی نیت طلاق کی ہوگی تو طلات واقع ہوگی ورنہ نہیں.امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکرہ کی طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے غلام کو آزاد کرے تو اس کے آزاد کرنے سے وہ غلام آزاد ہو جائے گا لیکن اگر بیع پر مجبور کیا گیا ہو تو سیع نافذ نہ ہوگی.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک ا مکرہ یعنی مجبور کیا گیا شخص اکراہ کے باوجود مختار ہے کیونکہ الفاظ کا تلفظ تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اور حقیقی مجبور تو وہ شخص ہے جس کو کسی فعل کے کرنے کا مطلقا اختیار نہ ہو.بعض کے نزدیک مکرہ اختیار مند نہیں ہے کیونکہ اختیار اپنی مرضی کے تابع ہوتا ہے اور جبر کی صورت میں وہ اپنی مرضی کے تابع نہیں ہوتا.امام ابن رشد کے نزدیک جبر کی صورت میں شرکا اسے مجبور کہا جائے گا اگر چہ اسے تلفظ کا اختیار ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنَّ بِالْإِيمَانِ لہذا ایسے شخص کی طلاق نافذ نہ ہوگی.ترجمه : (جو لوگ ایمان لانکے بدلہ تعالی کا انکار کریں سوائے انکے جنہیں کفر پر جبور کیا گیا ہو لیکن ان کا دل ایمان پر ملین ہوں کا چچا زاد بھائی تھا اس نے امام مالک کو حکم دیا کہ وہ ایسا فتوی نہ دیں لیکن امام صاحب نے.اپنا فتوئی واپس نہ لیا.بالآخر اس بناء پر آپ کو کوڑے لگائے گئے.امام صاحب کے سامنے ایک تو خلفاء کا وہ طریق تھا جس کے ہاتحت وہ شریعت کے احکام کا مذاق اُڑا رہے تھے.آپ اس طریق کو نا پسند فرماتے تھے اس لئے آپ جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور اس فتولی کو واپس لینے سے انکار کر دیا.دوسری طرف امام صاحب کے سامنے حضرت عائش پے کی ایک روایت تھی جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا لا طَلَاقَ وَلَا عِتاق فِي اغْلَاقٍ که حالت جبر و اکراہ میں طلاق اور خناق (غلام کی آزادی صحیح نہیں.ہندا آپ نے با وجو و خلفاء کے جبر کے اس فتوی کو واپس نہ لیا.امام مالک کے علاوہ صحابہ میں سے حضرت ابن عباس.حضرت ابن عمر اور حضرت عروہ نے بھی یہی ریقیه ماشیم طار وہ گرفت میں نہیں آئے

Page 235

۱۹۳ امام ابو حنیفہ نے طلاق اور بیع میں فرق اس لئے کیا ہے کہ ان کے نزدیک طلاق فتوی دیا ہے کہ جبری طلاق صحیح نہیں ہوتی.چنانچہ امام شعرانی نے اپنی کتاب کشف الغمہ میں اس کے متعلق صحابہ کے اقوال نقل کئے ہیں :- حضرت این خیاس کے متعلق لکھا ہے.وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسِ يَقُولُ طَلَاقُ السَّكْرَانِ وَالْمُسْتَكْرَةِ لَيْسَ بِجَائِرٍ ترجمہ : حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ مدہوش اور مجبور کی طلاق جائز نہیں ہے امام شعرانی نے جبر کی صورتیں بھی نقل کی ہیں.چنانچہ لکھتے ہیں :- وكَانَ ابْنُ عَبَّاسِ يَقُولُ مَنْ أَكْرَهَتْهُ اللصُوصُ عَلَى الطَّلَاقِ فَطَلَّقَ تميَقَعُ وَ كانَ يَقُولُ الْجُوعُ الوَاةَ وَالْوَثَاقُ إِكْرَاةُ وَالشَّرْبُ والحَيْسُ إِكْرَاةَ وَالْوَعِيدُ الْرَاهُ ترجمہ :.حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے جس کو چور اس بات پر مجبور کریں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے اور اس پر وہ طلاق دیدے تو اس کی طلاق واقع نہ ہوگی.اسی طرح آپ فرماتے تھے.بھوکا رکھنا بھی جبر ہے.ہاتھ پاؤں باندھنا بھی جبر ہے.مارنا اور قید کرنا بھی جبر ہے قتل وغیرہ کی دھمکی دینا بھی جیبر ہے.یعنی ان صورتوں میں طلاق دی ہوئی جہری طلاق کہلائے گی.اور واقع نہ ہوگی.حضرت ابن عمر نے ایک عجیب واقعہ بیان فرمایا ہے.قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا نَزَلَ رَجُلُ الْبَثْرَ فِي حَبْلٍ فَجَاءَتِ امرأَتُهُ فَجَلَسَ عَلَى الْحَيْلِ وَكَانَتْ تُكْرِهَهُ فَقَالَتْ طَلِقَنِي ثَلَاثًا وَإِلَّا قَطَعْتُ الحَيْلَ بِكَ فَذَكَرَهَا اللَّهَ وَالْإِسْلَامَ فَأَبَتْ فَطَلَّقَهَا ثَلَاقًا ثُمَّ خَرَجَ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ ارْجِعْ إِلى أَهْلِكَ فَلَيْسَ هَذَا بِطَلَاقِ.ترجمہ: حضرت ابن عمر ر بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص ایک رہتی کے ذریعہ کنوئیں میں اُترا اس کی بیوی آئی جو اسے نا پسند کرتی تھی وہ رہتی پر بیٹھ کر کہنے لگی کہ مجھے تین طلاقیں دو ورنہ میں رتی کو کاٹتی ہوں انکی خاوند نے اسے اللہ تعالے اور اسلام کا واسطہ دیا لیکن وہ نہ مانی بالآخر اس کے خاوند نے اسے تین طلاقیں دے دیں.پھر وہ شخص حضرت عمر کے پاس آیا اور یہ قصہ سنایا.آپ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر چلے جاؤ یہ طلاق نہیں ہے.بعض لوگ اس فتویٰ کے خلاف حضرت ابو ہر برٹا کی یہ روایت پیش کرتے ہیں :- (بقیہ حاشیہ عله اپر)

Page 236

بقیه حاشیه ۱۹۳ ۱۹۴ ثَلَاثَ جِد هُن جدَّ وَهَر لُهُنَّ جِنَّ النِّكَاحُ وَالطَّلَانُ وَالرَّجْعَةُ اس روایت کو نسائی کے علاوہ باقی صحاح نے بیان کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین امور ایسے ہیں جن میں سنجیدگی اور مذاق دونوں برابر ہیں یعنی وہ مذاق سے بھی نافذ ہو جاتی ہیں اور سنجیدگی سے بھی.وہ تین امور یہ ہیں.نکاح ، طلاق طلاق کے بعد رجوع جو لوگ جبر کی طلاق کو نافذ قرار دیتے ہیں وہ اسے اس روایت پر قیاس کرتے ہیں.کہ جس طرح مذاق کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے اسی طرح جبر کی طلاق بھی نافذ ہونی چاہیئے.لیکن ابن قیم نے اپنی کتاب تہذیب السنن میں اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ قیاس درست نہیں ہے کیونکہ مذاق میں طلاق دینے والا دین کے ساتھ مذاق کرتا ہے.اور وہ طلاق کے الفاظ قصدا اور اختیارا کہتا ہے لیکن چاہتا یہ ہے کہ ان الفاظ کا اثر اور نتیجہ ظاہر نہ ہو.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس شریعت کے ساتھ وہ مذاق کر رہا ہے اس شریعت کا حکم اس کے الفاظ کے مطابق مرتب نہ ہو.بخلاف اس کے مجبور انسان اپنے مقصد او را را وہ سے طلاق نہیں دیتا بلکہ جبرا، اس سے طلاق کے الفاظ کہلائے جاتے ہیں.لہذا شریعت بھی اسے مجبور قرار دیتی ہے اور اس کے الفاظ کا نتیجہ نافذ نہیں کرتی.(بحوالله حاشیه منتقی جلد ۲ ص) امام مالک کے مذہب کی تائید مندرجہ ذیل صحابہ اور ائمہ اہل علم نے کی ہے.حضرت علی حضرت عمر ابن عمرہ ابن عباس - ابن زبیر اور جابرین حکوم- حسن بصری جابربن زید شریح عطاء طاؤس" عمر بن عبد العزيزية فقہاء میں اور اعلی شافعی.اسحاق.ابو نور اور ابو عبید نے اس کی تائید کی ہے.مندرجہ ذیل فقہاء کا مذہب امام مالک کے خلاف ہے.ان کے نزدیک مجبور کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے.ابو قلابة شعبی" خفی".زہری - ثوری " ابو حنیفہ" - ابو یوسف اور محمد.انکی دلیل یہ ہے کہ مجبور بھی شرعی احکام کا پابند ہے.اور ہر حکم کے حسن وقع کو سمجھتا ہے.اس لئے جب وہ الفظ کا تلفظ کرتا ہے.اس وقت وہ اس کے نتائج کو بھی خوب سمجھتا ہے اس لئے اس کے کہے ہوئے الفاظ کے شرعی نتائج ظاہر میں مرتب ہونے چاہیئے.آخرت کے نتائج کے لحاظ سے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے.امام ابن رشد نے اس مسئلہ میں امام مالک کے مذہب کو درست قرار دیا ہے اور دلائل کے نوٹی سے یہی مذہبیت زیادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے.

Page 237

148 کے حکم میں زیادہ شدیت ہے لیکن بیع کے متعلق کوئی ایسا حکم وارد نہیں ہوا.بیچنے کی طلاق انچے کی طلاق کے متعلق امام مالک کا مشہور مذہب یہ ہے کو کہ وہ نافذ نہیں ہوتی.لیکن مختصر میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر بچہ قریب البلوغ ہو تو اس کی طلاق نافذ ہو جائے گی.امام احمد کا مذہب یہ ہے کہ اگر بچہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اس کی طلاق نافذ ہوگی.عطار کا مذہب یہ ہے کہ جب بچہ بارہ برس کا ہو جائے تو اس کی طلاق نافذ ہوگی اور یہی روایت حضرت عمر بن الخطاب کے متعلق بیان کی گئی ہے.مدہوش کی طلاق | مد ہوش آدمی کی طلاق کے متعلق جمہور فقہار کا نذیب یہ ہے کہ وہ نافذ ہو جائے گی.لیکن مزنی اور امام ابو حنیفہ کے بعض اصحاب کے نزدیک نافذ نہ ہوگی.ملہ شریعت اسلامی نے بلاوجہ طلاق دینے سے بہت سختی سے منع فرمایا ہے.اور اس کو نا پسندید افعال میں سے قرار دیا ہے.چنانچہ ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَبْغَضُ الْحَلَالِ إلى الله عَزَّ وَ جَلَ الطَّلاق - کہ اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے ( ابوداؤد باب فی کرامتہ الطلاق ) دوسری طرف بلا وجہ طلاق لینے والی عورت کے متعلق فرمایا - اَيْمَا امْرَأَةٍ سَأَلت زوْجَهَا الطَّلَاقَ فِي غَيْرِ مَابَاسِ فَحَرَام عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ که اگر کوئی عورت بغیر کسی معقول وجہ کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالعہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی خوشی و حرام کر دیتا ہے داس روایت کو نسائی کے سواء باقی صحاح نے بیان کیا ہے، جہاں اللہ تعالی نے طلاق کے فعل سے باز رہنے کی تلقین کی ہے وہاں اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیوقوفی سے یا سنجیدگی سے طلاق دیدہ ہے تو اس کے متعلق بھی شریعت کا حکم یہی ہے کہ اس کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے.چنانچہ اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.ثلاث جدُهُنَّ جِل وَهَزَ لَهُوَ جِلَّ النِّكَاحُ وَالطَّلَاقُ والرجعة کہ تین باتیں ایسی ہیں جن میں سنجیدگی اور مذاق کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ان میں قائل کے قول کے مطابق حکم نافذ ہو جاتا ہے.اور وہ تین امور یہ ہیں.نکاح.طلاق اور طلاق سے رجوع.ترمذی باب في المجد والعزل في الطلاق ) امام ابو حنیفہ نے طلاق کرہ کے متعلق اسی لئے یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ اس کی طلاق ناخذ ہو جاتی ہے اما الا کی تائید ہیں جو دلائل دیئے ہیں ان کا جواب امام ما مذہب کی بحث

Page 238

194 وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک مدہوش کا حکم مجنون کی طرح ہے.اور بعض کے نزدیک مدہوش کا حکم مجنون سے مختلف ہے.بعض فقہاء کے نزدیک مدہوش اور مجنون دونوں برا بر ہیں کیونکہ دونوں کی عقل و دانست زائل ہو جاتی ہے.چونکہ شریعت نے انسان کو اعمال کی تکلیف اس کی عقل و خرد کی وجہ سے دی ہے اس لئے بعض کے نزدیک مدہوش کی طلاق نافذ نہیں ہوتی بعض لوگوں نے مدہوش اور مجنون میں یہ فرق کیا ہے کہ مدہوش اپنے ارادہ سے ایسی اشیاء استعمال کرتا ہے جس سے وہ بیہوش ہو جاتا ہے مثلاً شراب یا کسی اور نشہ آور چیز کے پینے سے.لیکن مجنون کو اس کے ارادہ سے جنون لاحق نہیں ہوتا.اس لئے ان کے نزدیک مد ہوش کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے لیکن مجنون کی نہیں کیونکہ طلاق کے احکام میں سختی کا پہلو ملحوظ رکھا گیا ہے اس لئے مدہوش کو اس حکم سے مستثناء نہ کیا جائے گا.فقہار نے ان احکام میں اختلاف کیا ہے.جو مد ہوش کو لازم ہوتے ہیں اور جو لازم نہیں ہوتے.امام مالک کے نزدیک طلاق عتاق.زخموں کی دیت اور قتل کا قصاص مدہوش پر لازم ہیں لیکن نکاح اور بیج لازم نہیں ہیں.امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس پر تمام احکام لازم ہوتے ہیں.لیث کے نزدیک وہ افعال جو مد ہوش کے کلام کے ساتھ متعلق ہیں وہ اس پر لازم نہیں ہوتے.مثلاً طلاق - عتاق - نکاح - بیچ حد قذف وغیرہ.لیکن وہ افعال جو اس کے دیگر اعضاء کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان کے نتائج اور احکام اسے لازم ہونگے.مثلاً.شراب خوری - قتل - زناء اور پوری کی حد اسے لگائی جائے گی.حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات سے ثابت ہے کہ آپ مدہوش کی طلاق کو صحیح قرار نہیں دیتے تھے اور بعض علماء کا خیال ہے کہ اس

Page 239

194 مسئلہ میں صحابہ میں سے حضرت عثمان کی مخالفت کسی نے نہیں کی.بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ کل طلاقٍ جَائِزَ الَّا طَلَاقُ الْمَعْتُومِ یہ قول مدہوش کی طلاق پر اثر انداز نہیں ہوتا اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مدہوش بھی ایک لحاظ سے معتوہ " یعنی احمق کا حکم ہی رکھتا ہے.یہی قول داؤد ابو ثور - اسحاق اور تابعین کی ایک جماعت کا ہے.امام شافعی کے اس بارہ میں دو اقوال منقول ہیں.ایک قول کے مطابق ہوں کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے اور دوسرے قول کے مطابق نافذ نہیں ہوتی.آپ کے اکثر اصحاب نے اس قول کو ترجیح دی ہے جو جمہور کے مذہب کے موافق ہے یعنی یہ کہ مدہوش کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے.لیکن مرغی نے ان کے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے.وہ مریض جس نے مرض کی حالت میں طلاق دی اور پھر مریض کی طلاق اس مرض میں فوت ہو گیا اس کی بیوی اس کی وارث ہوگئی یا نہیں ؟ امام مالک اور ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ اس کی بیوی وارث ہو گی.امام شافعی اور ایک جماعت کے نزدیک وارث نہ ہوگی.وہ لوگ جو اسے وارث قرار دیتے ہیں ان کے تین گروہ ہیں.اول: ایک گروہ کے نزدیک اگر اس کا خاوند اس کی عدت کے اندر فوت ہو جائے تو وہ اس کی وارث ہوگی ورنہ نہیں.یہ مذہب امام ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب اور امام ثوری کا ہے.دوم : دوسرے گروہ کے نزدیک جب تک وہ دوسری جگہ شادی نہ کرے اس وقوع تک وہ اس کی دارت سمجھی جائے گی.اگر شادی کرلے گی تو دارت نہ ہوگی.یہ مذہب امام احمد اور ابن ابی لیلی کا ہے.سوم :- تیسرے گروہ کے نزدیک وہ مطلقاً وارث ہو گی.خواہ اس کا خاوند ے ترجمہ :.رحمتی اور بے عقل کی طلاق کے سوا باقی سب کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے.یہ حضرت علی کا قول ہے

Page 240

ور عدت میں فوت ہوا ہو یا بعد میں اور اس نے دوسری جگہ شادی کی ہویا نہ کی ہو.یہ امام مالک اور لیث کا مذہب ہے.وجد اختلاف بعض فقہاء نے جو یہ کہا ہے کہ مریض کی مطلقہ وارث ہوتی ہے اور بعض نے یہ کہا ہے کہ وہ وارث نہیں ہوتی اس اخترات کی وجہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک مریض کی ذات پر یہ انتہام عائد ہو سکتا ہے کہ اس نے یہ طلاق بیوی کو میراث سے محروم کرنے کے لئے وہی ہے اس لئے بعض کے نزدیک وہ طلاق کے با وجو د خاوند کی وارث ہوگی.بعض نزدیک چونکہ طلاق کے ساتھ طلاق کا حکم بھی نافذ ہو جاتا ہے.اس لئے وہ وارث نہیں ہوگی.ان فقہار کی دلیل یہ ہے کہ اگر طلاق واقع ہو گئی ہے تو اس کے جمیع احکام بھی لازم آنے چاہیئے جس طرح طلاق کے بعد خاوند اپنی مطلقہ بیوی کا وارث نہیں ہوتا اسی طرح بیوی بھی خاوند کی وارث نہ ہونی چاہئیے.لیکن اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تو ان کی زوجیت جملہ احکام کے ساتھ باقی رہنی چاہیئے.کیونکہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شریعت میں کوئی ایسی طلاق بھی ہے جس پر بعض احکام طلاق کے نافذ ہوتے ہیں اور بعض احکام زوجیت کے.نیز یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ یہ طلاق خاوند کی صحت تک ملتوی رہے گی یعنی اگر خاوند صحت یاب ہو جائے گا تو نافذ ہوگی ورنہ نہیں.بہر حال اس طلاق کے متعلق حتمی طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ یہ طلاق نافذ ہوگی یا نہیں.اگر نافذ ہوگی تو اپنے جملہ احکام کے ساتھ نافذ ہوگی.اور اگر نافذ نہ ہوگی تو زوجیت کے جملہ احکام قائم ہونگے.اس گروہ میں سے بعض فقہاء نے اپنے اس مذہب کی تائیکہ میں یہ کہا ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت عمرہ کا بھی یہی مذہب تھا کہ مریض کی مطلقہ وارث نہیں ہوتی اور اصحاب مالک نے یہاں تک کہدیا کہ اس پر صحابہ کا اجماع ہے.لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ اس بارہ میں حضرت ابن زبیر کا اختلاف مشہور ہے کہ وہ اس بات

Page 241

199 قائل نہ تھے کہ مریض کی مطلقہ وارث نہیں ہوتی.لہذا صحابہ کے اجماع کا دعوائے درست نہ رہا.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ عدت میں وفات کی صورت میں وہ ایک دوسرے کے وارث ہونگے ان کی دلیل یہ ہے کہ عدت کے ساتھ زوجیت کے بعض احکام متعلق ہیں گویا اس عرصہ میں اسے مطلقہ رحیمیہ قرار دیا جاتا ہے اس لئے وہ وارث ہونی چاہیئے.- ایک روایت کے مطابق یہی قول حضرت عمرہ اور حضرت عائشہ کا بیان کیا جاتا ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ جب تک وہ نکاح نہ کریگی اس کی وارث ہو گی اُنکی دلیل یہ ہے کہ ایک عورت دو خاوندوں کی وارث نہیں ہو سکتی.اگر مریض کی بیوی نے خود طلاق طلب کی ہو یا خاوندے طلاق کا حق عورت کے سپرد کر دیا ہو اور اس نے خود اپنے اوپر طلاق وارد کر لی ہو تو اس صورت میں اس کے وارث ہونے کے متعلق اختلاف ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ بالکل وارث نہیں ہوتی.اور اعمی نے اس کے متعلق یہ فرق کیا ہے کہ اگر اس نے طلاق طلب کی ہو تو اس صورت میں وہ وارث ہوگی.لیکن اگر اس نے طلاق کا اختیار اصل کر کے خود اپنے اوپر طلاق دارد کی ہو تو اس صورت میں وہ وارث نہ ہوگی.امام مالک نے ان سب صورتوں میں یہ فتوی دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی وارث ہو گی لیکن اس کا خاوند اس کا وارث نہ ہوگا.این رشد کہتے ہیں کہ یہ مذہب اصول کے بالکل خلاف ہے

Page 242

تیسرا باب وہ عورتیں جن پر طلاق واقع ہوتی ہے اور جن پر واقع نہیں ہوتی اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ عورتیں جو عصمت نکاح کے اندر ہیں یا طلاق رجعی کی عدت کے اندر ہیں ان پر طلاق واقع ہو جاتی ہے لیکن اجنبی عورتوں پر طلاق واقع نہیں ہوتی.اجنبی عورتوں کو نکاح کی شرط کے ساتھ طلاق دینے کی صورت میں علماء میں اختلاف ہے کہ ایسی طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں ؟ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں اجنبی عورت سے میں نکاح کروں تو اسے طلاق کیا نکاح کے بعد اس عورت کو طلاق ہوگی یا نہیں ؟ اس بارہ میں علماء کے تین گروہ ہیں.اول :- اجنبی عورت پر نکاح کی شرط کے ساتھ طلاق واقع نہیں ہوتی خواہ اس کا قول عام ہو یا خاص یعنی خواہ اس کا قول یہ ہو کہ جس عور سے میں شادی کروں اسے طلاق یا کسی خاص عورت کے متعلق ہو کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں یا فلاں قبیلہ یا فلاں شہر کی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق.یہ مذہب امام شافعی - احمد اور داؤد کا ہے.دوم : اجنبی عورتوں پر نکاح کی شرط سے طلاق واقع ہو جاتی ہے.خواہ طلاق کا قول عام ہو یا خاص.یہ امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے.سوم : اگر طلاق میں تمام عورتوں کی عمومیت ہو تو نکاح کے بعد طلاق واقع

Page 243

M نہ ہوگی لیکن اگر کسی خاص عورت کے متعلق شرط ہو تو اس سے نکاح کے بعد طلاق واقع ہو جائے گی.یہ کا نام مالک اور اس کے اصحاب کے مذہب ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک طلاق کے لئے طلاق سے پیشتر اس کی بلک یعنی زوجیت میں ہونا ضروری ہے.لیکن بعض کے نزدیک طلاق کے لئے طلاق سے پیشتر ملک زوجیت میں ہونا ضروری نہیں ہے.بلکہ طلاق کے بعد بھی اگر وہ ملک نے وجبت میں آجائے گی تو یہ طلاق اس پر اثر انداز ہو گی.جن کے نزدیک طلاق سے پیشتر ملک زوجیت میں ہونا ضروری ہے ان کے نزدیک اجنبی عورت پر کسی صورت میں بھی طلاق واقع نہیں ہوتی.جن کے نزدیک طلاق کے لئے مطلق مالک زوجیت کا موجود ہونا ہی کافی ہے.خواہ یہ ملک حال میں ہو یا مستقبل میں ان کے نزدیک اجنبی عورت کو زوجیت کی شرط کے ساتھ طلاق واقع ہو جاتی ہے.1 اس بارہ میں عمومیت اور خصوصیت میں فرق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے.کیونکہ عمومیت کی صورت میں وہ اپنے لئے تمام دنیا کی عورتوں کو حرام کر رہا ہے اور وہ اپنے لئے نکاح کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر رہا ہے.اس لئے یہ جائز نہیں ہے.لیکن اگر وہ ایک خاص شہر یا ایک خاص طبقہ کی عورتوں کی تخصیص کرے تو اس صورت میں چونکہ یہ دقت پیش نہیں آتی اس لئے یہ جائز ہے.امام شافعی نے عمرو بن شعیب کی روایت سے استدلال کیا ہے اور وہ یہ ہے.قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا طَلَاقَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ نِكَا ا ترجمہ :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طلاق صرف نکاح کے بعد ہی صحیح ہوتی دترندی باب لاطلاق قبل النكاح ) ہے.

Page 244

٢٠٢ ایک دوسری روایت یہ ہے:.لا طَلَاقَ فِيمَا لا يَمْلِكُ وَلَا عِتَقَ فِيمَا لا يَمْلِكُ یہی مذہب حضرت علی محاذ جابر بن عبداللہ ابن عباس اور عائشہ سے ثابت ہے.رهم ہ ترجمہ :.ایسی عورت پر طلاق واقع نہیں ہوتی.جس کا طلاق دینے والا ابھی تک حقدار اور مالک نہیں ہوا.اور ایسا غلام آزاد نہیں ہوتا جو آزاد کرنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے.(ترمذی باب لاطلاق قبل النکاح)

Page 245

٢٠٣ بحث ثالث جب یہ بیان کیا گیا ہے کہ طلاق کی دو قسمیں ہیں یعنی دا، تبھی طلاق (۲) بائن طلاق اور ان دونوں کے احکام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں.تو اب یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ ان دونوں قسم کی طلاقوں کے احکام دو الگ الگ ابواب میں بیان کئے جائیں پہلا باب طلاق رجعی میں رجعت کے احکام تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ خاوند رجعی طلاق کے بعد عدت میں رجوع کا حق رکھتا ہے.خواہ اس کی بیوی اس رجوع پر رضامند ہو یا نہ ہو.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا نیز اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اس قسم کی طلاق سے پہلے تعلقات زوجیت کا قیام ضروری ہے.اور اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اس طلاق کے لئے دو گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے اور طلاق واضح لفظوں میں دینی ضروری ہے لیکن اس بارہ میں اختلاف ہے کہ طلاق کے صحیح ہونے کے لئے گواہوں کا ہونا بطور شرط ہے یا نہیں ؟ اسی طرح رجوع کے لئے تعلقات زوجیت قائم کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ ے ترجمہ: اور اگر ان کے خاوند باہمی اصلاح کا ارادہ کر لیں تو وہ اس مدت کے اندر اندر ان کو اپنی زوجیت میں واپس لینے کے زیادہ حقدار ہیں.(بقرہ )

Page 246

گواہوں کے متعلق امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ گواہوں کا ہونا پسندیدہ ہے.لیکن امام شافعی کے نزدیک طلاق کے لئے گواہوں کا ہونا واجب ہے.وجہ اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ قیاس ، ایک ظاہر حکم کے معارض ہے قرآن مجید کا ظاہر حکم تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے.واشهدوا ذَرَى عَدْلٍ مِنْكُمْ له اس حکم سے ثابت ہوتا ہے کہ طلاق کے موقعہ پر دو گواہوں کی گواہی رکھنا واجب ہے.لیکن قیاس یہ ہے کہ یہ حق بھی ان دیگر حقوق کے مشابہ ہے جن پر انسان بغیر کسی شہادت کے قبضہ کر لیتا ہے.اور وہ قبضہ شرعاً درست سمجھا جاتا ہے.لہذا اس حق کو بھی بغیر کسی مشہادت کے تسلیم کر لینا چاہیئے.یہی وجہ ہے کہ اس ظاہر حکم اور قیاس میں موافقت پیدا کرنے کے لئے بعض فقہار نے یہ فتوی دیا ہے کہ طلاق کے لئے گواہوں کا ہونا واجب نہیں بلکہ پسندیدہ ہے.یہ اختلاف کہ رجوع کس طرح ہونا چاہیے.اس کے متعلق بعض یہ کہتے ہیں کہ رجوع الفاظ سے ہی کافی ہے یعنی خاوند صرف زبانی کہدے کہ میں رجوع کرتا ہوں تو ربوع صحیح ہو جائے گا.یہ امام شافعی کا مذہب ہے.لیکن ایک گروہ کا یہ مذہب ہے کہ رجوع کے لئے تعلقات زوجیت قائم کرنا ضروری ہے.فقہاء کے اس گروہ کے پھر ڈوگر وہ ہیں.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ تعلقات زوجیت قائم کرتے وقت نیست رجوع بھی شامل ہونی چاہئیے.یہ امام مالک کا مذہب ہے.امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ مطلق تعلقات زوجیت قائم کرنے سے ہی ابھی صحیح ہو جاتا ہے نیت رجوع ضروری نہیں ہے امام شافعی نے عدت میں اچھا کو نکاح میں گواہوں کی گواہی پر قیاس کیا ہے یعنی جس ملہ ترجمہ :.اور اپنے میں سے دو منصف گواہ مقریہ کرو.(طلاق رخ )

Page 247

۲۰۵ طرح نکات میں اللہ تعالیٰ نے گواہوں کی گواہی رکھی ہے اور یہ گواہی الفاظ سے ہوتی ہے.اسی طرح رجوع بھی الفاظ سے ہی کافی ہے.امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے درمیان نیت اور عدم نیت کا جو اختلا ہے.اس کا سبب یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک رجوع مجامعت کو اسی طرح خلال کرتا ہے.جس طرح ایلاء اور ظہار میں رجوع مجامعت کو حلال کرتا ہے یعنی جس طرح ایلاء اور ظہار سے ربوخ کے لئے نیت کی شرط نہیں ہے اسی طرح طلاق سے رجوع کے لئے نیت ضروری نہیں ہے.نیز طلاق رجعی میں خاوند کی ملک زائل نہیں ہوتی.اسی لئے وہ ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں.لہذا اس مسئلہ میں بھی نیست رجوع شرط نہیں ہونی چاہئیے.امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ وہ عورت جس کو طلاق رجعی دی گئی ہو اس سے رجوع کے بغیر تعلقات زوجیت قائم کرنا حرام ہے اس لئے اس حرام کو حلال کرنے کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے.اس بارہ میں اختلاف ہے کہ رجعی طلاق کے بعد خاوند اور بیوی کو عزت کے اندر کس حد تک میل ملاپ رکھنا جائز ہے.امام مالک کے نزدیک خاوند اس کے ساتھ علیحدگی اختیار نہ کرے اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہو.اس کے بالوں کی طرف نہ دیکھے ہاں دوسرے شخص کی موجودگی میں اس کے ساتھ کھانا کھا سکتا ہے لیکن ابن انتقام کی ایک روایت کے مطابق امام مالک نے بعد میں کھانا کھانے کے متعلق اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا.امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کی بیوی عدت کے اندر اس کے لئے آرائش کر سکتی ہے.خوشیوں گا سکتی ہے اور سرمہ وغیرہ لگا سکتی ہے.یہی مذمب ثوری ے یہ مذہب فلسفہ طلاق کے عین مطابق ہے کیونکہ یہ امور رجوع کے لئے کشش پیدا کر نیوالے ہیں اور فریقین کے درمیان مصالحت کو روشن کرنے والے ہیں.

Page 248

۲۰۶ ابویوسف اور اوزاعی کا ہے.ان سب فقہاء کے نزدیک اس کے پاس داخل ہونے سے پیشتر اس کو اطلاع ں داخل ہونے دینا ضروری ہے.وہ شخص جو اپنی بیوی کو رجعی طلاق دے اور وہ گھر سے باہر ہو پھر گھر سے باہر ہی رجوع کی نیت کرلے اور اپنی بیوی کو اس کی اطلاع بھیجوا دے.لیکن اسکی بیوی کو طلاق کی اطلاع تو پہنچ جائے مگر رجوع کی اطلاع نہ پہنچے اور اسکی بیوی عدت گزار کرد و سرا نکاح کرلے.پھر پہلا خاوند بھی وہاں پہنچ جائے تو اس کے متعلق امام مالک کا مذہب موطاء میں یہ منقول ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی ہے جس نے اس کے ساتھ طلاق کے بعد نکاح کر لیا ہے خواہ اس نے تعلقات زوجیت قائم گئے ہوں یا نہ کئے ہوں.یہی مذہب اوزاعی اور لیٹ گیا ہے.لیکن ابن القاسم کی ایک روایت کے مطابق امام مالک نے بعد میں اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا.اور یہ کہ دیا تھا کہ پہلا خاوند اس کا زیادہ حقدار ہے.سوائے اس کے کہ دوسرے خاوند نے تعلقات زوجیت قائم کرلئے ہوں.امام مالک کے مدنی اصحاب کا یہ دھونی ہے کہ امام مالک نے اپنی موت کے قیمت تک اپنے قول سے رجوع نہیں کیا تھا کیونکہ موطاء ان پر پڑھی جاتی رہی اور انہوں نے اس مسئلہ میں کسی تبدیلی کا اظہار نہیں فرمایا.یہی حضرت عمر کا قول ہے جو امام مالک نے اپنی کتاب موطاء میں نقل کیا ہے.امام شافعی فقہار کو فہ اور امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ اس کا پہلا خاوند میں نے طلاق سے رجوع کیا ہے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے خواہ دوسرے خاوند نے اس سے مجامعت کی ہو یا نہ کی ہو.اسی مذہب کو داؤد ظاہری اور ابو ثور نے اختیار کیا.اور حضرت علی کی ایک روایت بھی اسی کے مطابق ہے

Page 249

۲۰۷ حضرت عمرہ کے متعلق ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے.کہ اس مسئلہ میں آپ کا مذہب یہ تھا کہ اس کے پہلے خاوند کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے.یا تو اپنی بیوی کو اختیار کرے یا اس کو دیا ہوا حق مہر واپس لے لے.امام مالک کے پہلے قول کی تائید میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ابن شہاب نے سعید بن المسیب کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ :- مَضَتِ السُّنَّةُ فِي الَّذِي يُطَلِقُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يُرَاجِعُهَا فَيَكْتُمُهَا اجعَتَهَا حَتَّى تَحِلَّ فَتَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ مِنْ أَمْرِهَا شَيْءٍ وَلَكِنَّهَا لِمَنْ تَزَوَجَهَا اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ روایت صرف ابن شہاب نے ہی بیان کی ہے.اس لئے اس کو قابل حجت قرار نہیں دیا جا سکتا.وہ فقہار جن کے نزدیک پہلے خاوند کا حق فائق ہے.ان کی دلیل یہ ہے کہ اس امر پر سب علماء کا اجماع ہے کہ جب تک مطلقہ دوسری جگہ نکاح نہ کرلے اس وقت تک پہلے خاوند کا حق فائق ہوتا ہے.پس جب پہلے خاوند کا رجوع شرعاً صحیح ہے تو دوسرے خاوند کا نکاح شرکا فاسد ہونا چاہیئے اور اس کا نکاح پہلے خاوند کے رجوع پر اثر انداز نہ ہوتا چاہئیے.خواہ اس نے اس کے ساتھ مجامعت کر لی ہو یا نہ کی ہو.اس کی تائید سمرة بن جندب کی ایک روایت سے ہوتی ہے.انَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَة تَزَوَّجَهَا اِثْنَانِ فَهِىَ لِلاَوَّلِ مِنْهُمَا وَ مَنْ بَاعَ کہ ترجمہ : وہ شخص جو اپنی بیوی کو طلاق دے پھر رجوع کرے اور رجوع کو اپنی بیوی سے پوشیدہ رکھے.چنانچہ اس کی بیوی عدت گزار کر دوسرے شخص سے نکاح کرلے تو اس کے متعلق مسنون طریق یہ گذرا ہے کہ پہلے خاوند کو اب اس پر کوئی حق نہیں رہا.بلکہ وہ اس کی بیوی ہے جس سے اس نے دوسری جگہ نکاح کیا ہے.

Page 250

بَيْعَا مِن رَّجُلَيْنِ فَهُوَ لِلْاَوَّلِ شهُمَاله این ریشر کہتے ہیں کہ اس بارہ میں عقلی اور نقلی دلائل کے لحاظ سے یہ مذہب زیادہ صحیح اور قابل قبول ہے.ے ترجمہ : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ عورت جس سے دو شخص نکاح کر لیں تو وہ اس کی بیوی بنے گی جس نے ان دونوں میں سے پہلے نکاح کیا.اور جس نے کوئی چیز دو خریداروں کے پاس فروخت کی تو وہ اس کی ملکیت ہوگی جس نے ان دونوں میں سے پہلے خرید کی.روردی باب في الوليين يزور جان )

Page 251

۲۰۹ دوسر ا باب طلاق بائن کے بعد رجوع کے احکام ایسی بیوی جس کے ساتھ ابھی تعلقات زوجیت قائم نہ ہوئے ہوں اس پر ایک یا دو بائن طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ہے طلاق بائن کے بعد رجوع کی صورت یہ ہے کہ اس سے جدید نکاح کرے اور جدید حق مہر مقریہ کرے.ولی کی رضامندی اور اس عورت کی رضا مندی حاصل کرے.جمہور فقہاء کے نزدیک اس جدید نکاح کے لئے عدت گزارنے کی شرط نہیں ہے بلکہ عدت کے اندر بھی ہو سکتا ہے لیکن خلع کی صورت میں ایک گروہ کا شاذ مذہب یہ ہے کہ مختلعہ عدت کے اندر اپنے پہلے خاوند یا کسی دوسر شخص سے نکاح نہیں کر سکتی.وہ بائنہ جس کو تین طلاقیں متفرق اوقات میں ہل چکی ہوں اس کے متعلق تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ وہ اپنے پہلے خاوند کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک وہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کر کے تعلقات دو جیت انے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ایسی بیوی جس کے ساتھ ابھی تعلقات زوجیت قائم نہ ہوئے ہوں وہ ایک طلاق کے ساتھ بھی بائن ہو جاتی ہے اور دو طلاق کے ساتھ بھی.اور اس کے بعد وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح کر سکتا ہے لیکن تیسری طلاق کے بعد اس کے ساتھ دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا جب تک وہ عورت کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کر کے آزاد نہ ہو یعنی یا دوسرا شخص اس کو طلاق دے دے یا فوت ہو جائے.سے مختلفہ کی عزت ایک حیض ہے.اس گروہ کے نزدیک مختلفہ ضلع کے بعد ایک حیض گذر نے سے قبل اپنے پہلے خاوند کے ساتھ یا کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی.

Page 252

۲۱۰ قائم نہ کرے.جمہور کا استدلال حدیث رفاعہ سے ہے.اور وہ یہ ہے:.عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ القُرَ فِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كُنتُ عِندَرِفَاعَةِ الْفُرَظِي فَطَلَّقَنِي فَبَتْ طَلَاتِي فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ واتَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ فَقَالَ أَتُرِيْدِ بْنَ أَنْ تُرْجِعِي إلى رِفَاعَةُ ؟ لَا حَتَّى تَذُونِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ سعيد بن المسیب کا مذہب یہ ہے کہ وہ محض نکاح سے ہی پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاتی ہے.خواہ اس کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم ہوئے ہوں یا نہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم عام ہے.حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَ اس میں ر نکاح کا ذکر ہے اور نکاح صرف عقد کا نام ہے اکثر فقہاء کے نزدیک میاں بیوی کے اعضاء مخصوصہ کے مل جانے سے ہی وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاتی ہے.یعنی دوسرے خاوند سے طلاق حاصل کر کے یا اس کی وفات کی صورت میں وہ پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے.لیکن حسن بصری کے نزدیک اعضاء کے ملنے کے علاوہ انزال بھی شرط ہے جمہور کی دلیل یہ ہے کہ دیگر تمام احکام صرف میاں بیوی کی شرمگاہوں کے ملنے سے لاحق ہو جاتے ہیں.مثلاًاحد کا واجب ہونا.روزہ یا حج کا فاسد ہونا.له ترجمه: - حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکس آئی.اور بیان کیا کہ میں پہلے رفاعہ کے عقد میں تھی اس نے مجھے متفرق اوقات میں نین طلاقیں دے دیں.اس کے بعد کیسے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کر لیا.وہ اپنی مردمی کمزوری کے باعث تعلقات زوجیت قائم نہیں کر سکتے.آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا تم چاہتی ہو که دوباره رفاعہ سے نکاح کر لو ؟ اس کے بعد آپ خود ہی فرماتے ہیں کہ تم ایسا نہیں کر سکتی جب تک ایک وستر کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم نہ ہو جائیں (اس روایت کو محدثین کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے دیوانہ متقی جلد مثلا) ترجمہ : - دیر اگر خاوند اسے تیسری طلاق دیدے) تو وہ عورت اس کے لئے جائز نہ ہوگی جب تک کہ وہ اس سکھ سوار کسی دوسرے خاوند کے پاس نہ جائے.(بقرہ (۲۴۴)

Page 253

٢١١ میاں بیوی پر محصن ہونے کا حکم لگنا.مہر کا واجب ہونا وغیرہ.چونکہ ان سب صورتوں میں انزال کی شرط ضروری نہیں ہے.لہذا مندرجہ بالا صورت میں بھی انزال کی شرط عائد نہیں ہونی چاہیئے.امام مالک اور ابن قاسم کا مذہب یہ ہے کہ ایسی مطلقہ کے لئے پہلا خاوند اس وقت تک حلال نہیں ہوتا جب تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح صحیح کر کے تعلقات زوجیت قائم نہ کرے.اور اس وقت ان دونوں کا روزہ نہ ہو یا حج پر نہ ہوں.عورت حائضہ نہ ہو.یا اعتکاف کی حالت میں نہ ہو اسی طرح خاوند نابالغ نہ ہو.امام شافعی امام ابو حنیفہ ثوری اور اور اعلی ان تمام امور میں امام مالک سے اختلاف کرتے ہیں ان کے نزدیک دوسرا نکاح خواہ عقد فاسد ہو یا غیر مبارح وقت میں ہوا ہو مثلا حالت احرام میں ہوا ہو یا نابالغ کے ساتھ ہوا ہو یا ایسے خصتی مرد کے ساتھ ہوا ہو جو تعلقات زوجیت پر قدرت رکھتا ہو ان سب صورتو میں جب دوسرا خاوند اسے طلاق دیدے یا مر جائے تو وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاتی ہے.وجه اختلاف اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک نکاح کا لفظ مجامعت پر بھی دلالت کرتا ہے.لیکن بعض کے نزدیک صرف عقد پر دلالت کرتا ہے جن کے نزدیک نکاح صرف عقد پر دلالت کرتا ہے ان کے نزدیک عقد نکاح سے ہی وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاتی ہے.جن کے نزدیک نکاح کے لفظ میں مجامعت کا مفہوم بھی شامل ہے خواہ مجھاتے ہ بعض فقہاء کا یہ مذہب ہے کہ غیر شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو اسکی سزا یک فنڈ کوئی ہے اور اگر شادی شدہ مرد یا عورت زنار کرے تو اس کی سزا رجم ہے اس جگہ محسن سے مراد و شخص ہے جس نے شادی کر کے تعلقات زوجیت قائم کر لئے ہوں ان تعلقات میں خواہ انتزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو.

Page 254

۲۱۲ ناقص ہی ہو وہ مندرجہ بالا صورتوں میں مجامعت کو صحیح قرار دیتے ہیں.لیکن جن کے نزدیک پہلے خاوند کو حلال کرنے کے لئے جامعت کامل ضروری ہے.ان کے نزدیک مندرجہ بالا صورتوں میں مجامعت صحیح نہیں ہوتی.امام مالک کے نزدیک نکاح حلالہ میں عورت کی نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ مرد کی نیت کا اختیار کیا جائے گا.یعنی اگر نکاح کے وقت عورت کی نیت یہ ہو کہ وہ اس سے طلاق حاصل کر کے پہلے خاوند کے پاس چلی جائے گی تو یہ نکاح فاسد نہ ہو گا.لیکن اگر مرد کی نیت یہ ہو کہ وہ اس ذکاح کے بعد اس عورت کو طلاق دیدے گا تاکہ وہ اپنے پہلے خاوند کے پاس جا سکے تو اس صورت میں یہ نکاح فاسد ہوگا.امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک حلالہ کا عقد نکاح جائز ہے.یعنی وہ نکاح جو حلالہ کی نیت سے کیا گیا ہو اگر نکاح کے بعد دونوں میاں بیوی اس نکاح پر قائم رہنا چاہیں تو انہیں جدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہی عقد ہی کافی ہو گا جو ملالہ کی نیت سے کیا گیا تھا.یہی مذہب داؤد ظاہری اور فقہاء کی ایک جماعت کا ہے بعض فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ حلالہ کا نکاح جائز ہے اور شرط باطل ہے یعنی نکاح کرنے کے بعد وہ اسے طلاق نہ دے بلکہ اپنے عقد میں رکھے.یہ قول ابن ابی لیلی کا ہے.اور ایک روایت کے مطابق سفیان ثوری کا بھی یہی مذہب ہے امام مالک اور ان کے اصحاب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے استدلال کیا ہے جس کو علی بن ابی طالب- ابن مسعود ابوہریرہ اور عقبہ بن عامر نے روایت کیا ہے.اور وہ یہ ہے:.قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ اللهُ المُحَدِّلَ وَ الْمُحَلَّلَ له ان کا استدلال یہ ہے کہ آپ نے نکاح حلالہ کرنے والے اور کرانے والے کو اسی ه ترجمه رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جب کسی لئے حلالہ کیا گیا ہو دونوں پر لعنت بھیجی ہے.(ترمذی باب في المحل والمحلل له )

Page 255

۲۱۳ طرح لعنت کی ہے جس طرح سود کھانے والے اور شراب پینے والے کو لعنت کی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ نکاح حلالہ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح شراب اور شود حرام ہے.دوسرے فریق کا استند لال اللہ تعالیٰ کا یہ عمومی ارشاد ہے.حَتَّى تَنْكِحَ مَرَ وَجًا غَيْرَةً اس میں مطلق نکاح کی شرط لگائی گئی ہے.نکاح حلالہ کر نیوالا بھی چونکہ نکاح کرتا ہے اس لئے اس کا عقد نکاح صحیح ہونا چاہئیے.اس گروہ کے نزدیک جس طرح غصب کرد؟ زمین میں نماز پڑھنے سے بہی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص غصب کر وہ زمین میں نماز پڑھے گا یا مالک زمین کی اجازت کے بغیر اس کی زمین میں نماز پڑھے گا تو اس کی نمازہ فاسد ہوگی.اسی طرح نکاح حلالہ سے نہی کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا نکاح کرلے گا تو یہ نکاح فاسد ہوگا.امام مالک نے جو نکاح حلالہ کے لئے عورت کی نیت کا اعتبار نہیں کیا.اسکی وجہ یہ ہے کہ جب عورت کی نیت ہوگی اور مرد کی نیت نہ ہوگی تو عورت کی نیست اس میں کسی صورت میں بھی مؤثر نہ ہوگی کیونکہ طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہے عورت کے پاس نہیں ہے.ے ترجمہ :- دتیسری طلاق کا عرصہ گزر جانے کے بعد) وہ عورت اس کے لئے جائز نہ ہوگی جب تک وہ اس کے سوا کسی دوسرے خاوند کے پاس نہ جا کے دیرہ ہے )

Page 256

ラ سک بحث رابع اس بحث میں دو باب باندھے گئے ہیں.پہلے باب میں عدت کے متعلق بحث کی جائے گی اور دوسرے باب میں عورت کو طلاق کے بعد والداری کے طور پر کچھ نقدی یا پارچات وغیرہ دینے کے متعلق بیان کیا جائے گا.پہلا باب عدت عدت کے مسائل میں آزاد بیویوں کی عزت اور لونڈیوں کی مدت کے متعلق الگ الگ تفصیلی احکامات بیان کئے جائیں گے آزاد بیویوں کی عدت آزاد بیویوں کی عدت کے متعلق بیان کرتے وقت دو امور کا بیان کرنا ضروری ہے (۱) عدت کیا ہے؟ (۲) عدت کے احکام کیا ہیں ؟ معلوم ہونا چاہیئے کہ بیوی یا آزاد ہوگی یا غلام.ان دونوں میں سے جب کسی ایک کو طلاق ہوگی یا تو اس سے مجامعت ہو چکی ہوگی یا نہیں ؟ پس اگر اس سے مجامعت نہیں ہوئی تو اس کی کوئی عزت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَةٍ تَعْتَدُّونَهَا وہ عورت جس سے مجامعت ہو چکی ہوگی وہ یا تو ایسی عورت ہوگی جس کو ترجمہ : - و مجامعت کے بغیر طلاق دینے کی صورت میں تم کو کوئی حق نہیں ہے کہ ان سے عدت کا مطالبہ کرو.(احزاب غ)

Page 257

۲۱۵ حیض آتا ہو گا یا وہ ایسی عورت ہوگی میں کو ابھی حیض نہیں آتا.یہ حیض نہ آنا یا تو نابالغی کی وجہ سے ہوگا یا حیض کا زمانہ گذر کر مایوسی کا زمانہ آجانے کی وجہ سے ہوگا.وہ عورت جس کو حیض آتا ہو گا.یعنی حیض کی عمر میں ہوگی.وہ یا تو حاملہ ہوگی یا اپنی عادت کے مطابق اسے حیض آتا ہوگا.یا کسی عارضہ کی وجہ سے اسے حیض نہ آتا ہو گا.یا وہ تخاضہ ہوگی.وہ عورت جس کو حیض کی عمر میں ہی حیض بند ہو گیا ہے یا تو اسے حمل کا شبہ ہو گا یا اسے اس قسم کا کوئی شبہ نہ ہوگا.وہ عورت جس کو حمل کا شبہ نہیں ہے اسے یا تو حیض کے منقطع ہونے کا سبب معلوم ہو گا مثلاً بیماری یا رضاعت کی وجہ سے یا اسے انقطاع حیض کا سبب معلوم نہ ہوگا.اب ان جملہ اقسام کی عدت علیحدہ علیحدہ بیان کی جاتی ہے:.وہ عورتیں جن کو باقاعدہ حیض آتا ہے ان کی عدت تین فرور ہے.حاملہ عورت کی عدت وضع حمل تک ہے.اور حیض سے مایوس عورتوں کی عدت تین ماہ ہے.ان مسائل میں کسی قسم کا اختلاف اور شبہ نہیں ہے.کیونکہ ان کے متعلق نص صریح موجود ہے.حائضہ کی عدت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ حاملہ عورتوں کی عزت کے متعلق یہ ارشاد ہے :- تے وَأُولَاتُ الْأَعْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُجَ ٣ حیض سے مایوس عورتوں کے متعلق اللہ تعالے کا یہ ارشاد ہے :- اہ مستحاضہ سے مراد وہ عورت ہے جس کو کسی بیماری کی وجہ سے ہمیشہ خون جاری رہتا ہے.ترجمہ : اور جن عورتوں کو طلاق مل جائے وہ تین بار حیض آنے تک اپنے آپکی رو کے لکھیں سے ترجمہ : اور جن عورتوں کو حمل ہو ان کی عدت وضع حمل تک ہے (طلاق )

Page 258

۲۱۶ وَى يَبِسنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَا بِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ (طلاق غ) لفظ قرء کے متعلق فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ فقہار کی ایک جماعت کے نزدیک یہ ظہر کا وہ زمانہ ہے جو دو جینوں کے درمیان آتا ہے.یہ مذہب فقہاء میں سے امام مالک اور امام شافعی اہل مدینہ اور ابوتون کا ہے.اور صحابہ میں سے ابن عمر.زید بن ثابت اور حضرت عائشہ کا ہے.بعض کے نزدیک قوم سے مراد حیض ہے.یہ مذہب امام ابو حنیفہ ثوری رح اوزاعی اور ابن ابی لیلیٰ کا ہے.اور صحابہ میں سے حضرت علی عمر بن الخطاب ابن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری کا ہے.اریم نے امام احمد سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کبار کہا کرتے تھے کہ قرء حیض کا نام ہے.شعبی نے بیان کیا ہے کہ یہ مذہب صحابہ میں سے گیارہ بارہ کبار صحابہ کا تھا امام احمد کے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ پہلے وہ کہا کرتے تھے کہ قرء کے منے ظہر ہے.کیونکہ زید بن ثابت - ابن عمرہ اور عائشہ کا یہ مذہب ہے لیکن اس کے بعد جب ان کو حضرت علی.اور ابن مسعود کا یہ مذہب معلوم ہوا کہ قدء سے مراد حیض ہے.تو انہوں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کر لیا.ان ہر دو مذاہب میں فرق یہ ہے کہ جن کے نزدیک قرء ظہر ہے ان کے نزدیک جب عورت طلاق کے بعد تیسرے حیض میں داخل ہو جاتی ہے تو اس وقت اس کے خاوند کو رجوع کا اختیار نہیں رہتا.اور وہ دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے.جن کے نزدیک اس کے معنے حیض کے ہیں ان کے نزدیک جب تک تیسرا ا ترجمہ :.اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر ان کی عدت کے متعلق تمہیں سفہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے.(طلاق غ )

Page 259

MIG حیض نہ گذر جائے اس وقت تک اس کے خاوند کو رجوع کا اختیار ہے اور اس عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہوتی.وجہ اختلاف | اس اختلاف کا سبب متعدد امور پر مبنی ہے جن کا تفصیلی ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.در حقیقت کلام عرب میں قدم کا لفظ حیض اور ظہر دونوں کے لئے مشترک ہے.اب سوال یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں یہ رکن معنوں میں استعمال ہوا ہے.وہ لوگ جو اس کے معنی ظہر کے لیتے ہیں وہ اپنی تائید میں حسب ذیل دلائل پیش کرتے ہیں.اول : قد جس کے معنے حیض کے ہیں اس کی جمع قدو نہیں آتی.بلکہ اس کی جمع اقراء آتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ اس جگہ قدء بمعنے ظہر استعمال ہوا ہے.دوم : حیض کا لفظ مونث ہے.اور ظہر مذکر ہے.عدد اور معدود کے قاعدہ میں تین سے لے کر دس تک اگر عدد مونث ہو تو محدود مذکر ہوتا ہے اور اگر عدد مذکر ہو تو معدود مونث.اس قاعدہ کی رو سے اگر قد بمعنی حیض ہو تو حیض چونکہ مونث ہے اس لئے اس کا عدد مذکر آنا چاہئے یعنی بجائے ” ثَلَاثَة سے " ثلاث آنا چاہیے.چونکہ ظہر مذکر ہے اس لئے اس کا عدد ثلاثة مونث آیا ہے اس خوی قاعدہ کے پیش نظر یہ ثابت ہوا کہ اس آیت میں قدر یعنے ہر رہی استعمال ہوا ہے.سوم : قاعدہ اشتقاق کے ماتحت بھی اس جگہ قدء بمعنے ہر ہی ہونا چاہیئے زمات کیونکہ قرء کا لفظ قَرَأتِ الْمَاء في الحوض " سے مشتق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پانی حوض میں جمع ہوا.خون حیض بھی چونکہ رحم کے اندر آہستہ آہستہ جمع ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے بھی قدر کا لفظ وضع کیا گیا ہے.نیز خون چونکہ ظہر کے عرصہ میں

Page 260

FIA آہستہ آہستند رحم کے اندر جمع ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس جگہ قدء بمعنی ظہر ہی استعمال ہوا ہے.دوسرے فریق نے جس نے قدء بمعنی حیض لئے ہیں اس نے اس کے مندرجہ ذیل دلائل دیئے ہیں.الفاظ " ثلاثة قروء سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عدت میں تین مکمل قرو کا گذارنا ضروری ہے.پس اگر اس جگہ قوء بمعنے شہر لئے جائیں تو اس صورت میں ممکن ہے کہ عدت دو پہر اور تیسرے ظہر کا کچھ حصہ ہو یا تین طہر اور چوتھے ظہر کا کچھ حصہ ہو.اور یہ کمی بیشی " ثلاثة" یعنی معین عدد کے مفہوم کے خلاف ہے.رو اس کی تفصیل یہ ہے کہ طلاق طہر میں دی جانی ضروری ہے.پپس اگر عدت طہروں کے حساب سے گزاری جائے تو جس طہر میں طلاق دی گئی ہے یا تو وہ ظہر عدت میں شمار ہوگا یا شمار نہ ہو گا.اگر وہ ظہر عدت میں شمار ہوگا تو عدت نین ظہر سے کم ہوگی کیونکہ اس ظہر کا کچھ حصہ گذر چکا ہے جس میں اس نے طلاق دی ہے.لہذا اس ظہر کا بقیہ حصہ اور دو طہر مزید گزار کر وہ آزاد ہو جائینگی اور یہ عرصہ تین طہر سے کم ہے.لیکن اگر اس ظہر کو شمار نہ کیا جائے جس میں اس نے طلاق دی ہے تو اس صورت میں عدت تین گھر سے زیادہ ہو جائے گی کیونکہ اس مظہر کا کچھ حصہ جس میں اس نے طلاق دی ہے اور تین طہر مزید ا سے عدت بہر حال طہر کے معنی لینے سے تین کا عدد کسی صورت میں بھی مکمل نہیں ہوتا.ہاں اگر قدوہ کے معنی حیض کے لئے جائیں تو یہ وقت پیش نہ آئے گی کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ طلاق حیض میں نہیں بلکہ طہر میں دی جاتی ہے لہذا اس کے بعد تین مکمل حیض گزار کر وہ عورت آزاد ہو جائے گی.ابن رشد ان دلائل کے متعلق یہ فرماتے ہیں کہ ماہرین علماء کا یہ فیصلہ ہے

Page 261

۲۱۹ کہ یہ آیت اس بارہ میں مجمل ہے.لہذا اس کے متعلق دیگر دلائل کی تائید صل کرنی چاہیئے.پس وہ لوگ جو قرء کے معنے ہر لیتے ہیں وہ اس کے متعلق تائیدی دلیل حدیث ابن عمرہ کو پیش کرتے ہیں جیں میں آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے.مرْهُ فَلْيُرَا جِعْهَا حَتَّى تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ يُطَلَّقَهَا إِنْ شَاءَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا فَتِلْكَ الْعِدَّةُ التِي أَمَرَ اللهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءِ له اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ طلاق اس جگر میں دینی چاہئے جس میں مناجات نہ کی گئی ہو اور یہی طلاق سنت ہے.اور آپ کے الفاظ فَتِلْكَ الْعِدَةُ الَّتِي الحر سے ظاہر ہے کہ عدت اظہار کے ذریعہ ہوگی تاکہ طلاق عدت کے ساتھ متصل ہو."فَتِلْكَ الْعِدةُ " کے الفاظ کا ایک یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ فتلك مُدَّةٌ اِسْتِقْبَالِ الْعِلَ : " کہ یہ مدت وہ ہے جس میں فوری طور پر عدت شروع ہو جاتی ہے.پس اگر عدت حیض سے شروع کی جائے تو آپ کے الفاظ کا یہ مفہوم ساقط ہو جاتا ہے.کیونکہ اس صورت میں ایام عدت اور طلاق میں وقفہ پڑ جاتا ہے اور وہ دونوں متصل نہیں رہتے.دوسرے فریق کی تائیدی دلیل یہ ہے کہ عدت کا مقصد یہ ہے کہ عورت کا رحم طلاق دینے والے کے حمل سے صاف ہو جائے.ظاہر ہے کہ یہ مقصد حیض سے پورا ہوتا ہے ظہر سے نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ آئستہ اور نابالغہ کی عدت حیض کی بجائے مہینوں سے ہوتی ہے.پس جب حیض ہی عزت کی لے ترجمہ : اس کو حکم دیں تاکہ وہ طلاق سے رجوع کرے، یہاں تک کہ اس کی بیوی کو حیض آئے پھر پاک ہو پھر حیض آئے پھر پاک ہو اس کے بعد اگر چاہے تو مجامعت کرنے سے قبل اس کو طلاق دے.کیونکہ یہی وہ عدت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ عورتوں کو عدت گزارنے کے لئے طلاق دو.(مسلم باب تحریم طلاق الحائض) کے اس جگہ آئسہ سے مراد وہ عورت ہے جو ایسی عمر تک پہنچ جائے جبکہ اسے حیض نہ آئے.

Page 262

: ! ۲۲۰ غرض کو پورا کرنے والا ہے تو معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ میں قدم کے معنی حیض کے ہیں ظہر کے نہیں.وہ عورت جس کو طلاق دی گئی ہو اور اسے حیض نہ آتا ہو حالانکہ وہ حیض کی عمر میں ہو یعنی اس عمر میں عام طور پر حیض آجاتا ہو اور اس عورت کو حمل کا شبہ بھی نہ ہو اور رضاعت یا بیماری کی وجہ بھی نہ ہو تو امام مالک کے نزدیک وہ نو ماہ تک انتظار کرے اگر اس عرصہ میں اسے حیض نہ آئے تو پھر وہ تین ماہ تک عدت گزارے.اگر ان تین ماہ کے عرصہ کے اندر اسے حیض آجائے تو پھر تین حیض تک انتظار کرے.لیکن اگر ایک حیض آنے کے بعد دو سر رمیض نہ آئے تو پھر نو ماہ تک انتظار کرے.اگر نو ماہ تک کوئی حیض نہ آئے تو پھر تین ماہ تک عدت گزارے.اگر پھر ان تین ماہ کے عرصہ میں اسے حیض آجائے تو پھر تیسرے حیض کی انتظار کرے.لیکن اگر پھر اس انتظار میں نو ماہ گذر جائیں اور اسے تیسر حیض نہ آئے تو وہ پھر تین ماہ عدت گزارے.اگر ان تین ماہ میں اسے تیسرا حیض آجائے تو اس کی عدت مکمل ہو گئی.امام ابو حنیفہ اور امام شافعی اور جمہور کے نزدیک وہ عورت جس کو حیض آتے آتے بند ہو گیا ہو اور وہ ابھی حیض سے مایوسی کی عمر کو نہ پہنچی ہو تو وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک وہ اس عمر میں داخل ہو جائے جبکہ ایک عورت حیض سے مایوس ہو جاتی ہے.اس کے بعد وہ تین ماہ عدت گزار کر آزاد ہوگی.امام مالک نے اپنے مذہب کی بنیاد حضرت عمر بن الخطاب اور ابن عباس کے قول پر رکھی ہے اور جمہور نے اپنے مذہب کی بنیاد ابن مسعود اور زیڈ کے قول پر رکھی امام مالک کے مذہب کی دلیل یہ ہے کہ عدت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ رحم حمل سے صاف ہو جائے چونکہ کبھی حاملہ عورت کو بھی حیض آجاتا ہے

Page 263

۲۲۱ اس لئے ایسی عورت کے لئے مدت حمل تک انتظار کرنا اس غرض کے لئے ضروری ہے.جب مدت حمل گذر جائے اور اس دوران میں اسے حیض نہ آئے اور نہ ہی حمل ظاہر ہو تو اس کے بعد وہ تین ماہ عدت گزارے گی.اس دوران میں جب اسے حیض آجائے تو پھر اسے حائضہ عورت سمجھے کر تین حیض عزت گزارنی ہوگی.پھر جب ایک حیض آنے کے بعد اس کا حیض بند ہو جائے گا تو پھر اس کے ساتھ پہلا سا سلوک کیا جائے گا.تا کہ اس کے متعلق ہر قسم کے شبات رفع ہو جائیں.جمہور فقہاء اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ظاہر مفہوم کی طرف گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَن يَسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّ نُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرِه اس آیت کا ظاہر مفہوم یہ ہے کہ تین ماہ عدت صرف اس عورت کی ہے جو حیض سے مایوسی کی عمر کو پہنچ چکی ہو لیکن وہ عورت جس کا حیض کسی اور وجہ سے بند ہو گیا ہو اور وہ ابھی اس عمر تک نہ پہنچی ہو جبکہ عام طور پر عورتوں کو حیض آنا بند ہو جاتا ہے ایسی عورت پر اس آیت کے مطابق حکم لگانا درست نہیں ہے.جمہور کے اس استدلال پر ابن رشد یہ فرماتے ہیں کہ یہ مذہب کہ ایسی عورت جس کو حیض آتے آتے رک گیا ہو وہ حیض سے مایوسی کی عمر تک انتظار کرے یہ بہت مشکل اور حرج کی بات ہے اگر اس کے متعلق یہ کہا جاتا کہ وہ بھی تین مہینے عدت گزارے زیادہ بہتر ہوتا.اہ ترجمہ : اور دتمہاری ہیولوں میں سے ، وہ عورتیں جو حیض سے بایوس ہو چکی ہوں اگر انکی عدت کے متعلق تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے.سے اس بارہ میں این رشد کا مذہب بالکل درست ہے.در حقیقت قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت میں ایسی عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے جو اس غمر کو پہنچ چکی ہو جس میں حیض نہیں آتا.اور ایسی عورت جس کا حیض کسی اور وجہ سے بند ہو گیا ہو اس کا حکم مندرجہ بالا آیت کے TENAAT NATURATENDANT کے الفاظ میں: سے جیمز کی عدت بھی تین مہینے ہے

Page 264

۲۲۲ ابن رشد فرماتے ہیں کہ امام مالک نے جو یہ کہا ہے کہ آیت کے الفاظ ان ادبم کا اشارہ حیض کی طرف نہیں ہے بلکہ حکم کی طرف ہے.یہ تاویل ان کے مذہب کی تائید نہیں کرتی کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس کے حیض کے متعلق تو کسی کو شبہ نہیں ہے یعنی اس بارہ میں کسی کو شبہ نہیں ہے کہ اسے حیض نہیں آتا.صرف اس کے حکم کے متعلق شبہ ہے.اور یہ ایسی ہی عدت کے متعلق ہو سکتا ہے جو حیض کی عمر سے گذر چکی ہو.لیکن اس کی عدت جو تو مہینے تک رکھی ہے وہ اس عورت کی کبھی ہے جس کے حیض کے متعلق احتمال اور شبہ ہو کیونکہ جس عورت کے متعلق یہ یقین ہو کہ وہ حیض سے مایوسی کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اس کو حیض آنے کا کوئی امکان نہیں ہے اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ وہ تین ماہ عدت گزارے.وہ عورت جس کا حیض کسی وجہ سے منقطع ہو.مثلاً رضاعت کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے تو اس کے متعلق امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ وہ حیض کے آنے کا انتظار کرے خواہ یہ مدت قلیل ہو یا کثیر.مستحاضہ جس کو کسی بیماری کی وجہ سے ہر وقت خون جاری رہتا ہو اور حیض کے خون اور بیماری کے خون میں انتیار نہ ہوتا ہو.امام مالک کے نزدیک اس کی عدت ایک سال ہے لیکن اگر حیض اور بیماری کے خون میں امتیاز ہو سکتا ہو تو اس کے متعلق دو روایات ہیں.ایک یہ کہ وہ بھی ایک سال تک عدت گزار سے اور دوسری یہ کہ وہ حیض کے خون کی پہچان کے مطابق تین حیض عدت گزارے.امام شافعی کے نزدیک وہ حساب لگا کر حیض کے حساب سے عزت گزارے کیونکہ حیض کا خون گہرا سرخ ہوتا ہے اور استحاضہ کا نہ ردی مائل لہذا اس تمیز کے ماتحت وہ حساب سے عدت گزارے.امام مالک نے مستحاضہ کی عدت ایک سال اس لئے رکھی ہے کہ ان کے نزدیک مستحاضہ کا حکم بھی اس عورت کی طرح ہے جو حیض کی عمر میں ہو لیکن اسے حیض نہ آتا ہو.لہذا وہ نو ماہ مدت حمل کے اور تین مہینے مدت عدت کے مطابق

Page 265

۲۲۳ گزاری.امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح وہ نماز کے لئے اندازہ کر لیتی ہے اسی طرح عدت گزارنے کے لئے بھی اندازہ کر سکتی ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مستحائضہ کو ارشاد فرمایا تھا.اتركي الصلوة أيَّامَ اقْرَاءِكِ فَإِذَا ذَهَبَ عَنْكِ قَدْرُهَا فَاغْسِلى الدم به اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت جیش کو ارث او فرمایا :- إِذَا كَانَ دَمُ الْحَيْضِ فَإِنَّهُ دَمُ أَسْوَدُ يُعْرَفُ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَامْسِكِى عَنِ الصَّلوةِ فَإِذَا كَانَ الْآخَرُ فَتَوَكَّي وَصَلَّى فَإِنَّمَا هُوَ عِرف له جن لوگوں نے مستحاضہ کے لئے مہینوں کے حساب سے عدت گزارنے کا حکم دیا ہے وہ اس مستحاضہ کے متعلق ہے جس کے خون حیض اور خونِ استحاضہ میں تمیز نہ ہو سکے کیونکہ خون کا انقطاع اور خون میں تمیز نہ ہونا دونوں برابر ہیں اس لئے دونوں کا ایک ہی حکم ہونا چاہیئے.وہ عورت جس کو حمل کا شبہ ہو اس کی عدت کا حکم یہ ہے کہ وہ وضع حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت تک انتظار کرے.بعض کے نزدیک یہ مدت چار سال ہے اور بعض کے نزدیک پانچ سال.اہلِ ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ وہ نو ماہ تک انتظار کرے.اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے.له ترجمہ :.تو حیض کے ایام میں نماز چھوڑ دے اور جب حیض کے ایام کی مقدار گزر جائے تو غسل کر کے خون کو صاف کرئے.ه ترجمه :- جب حیض کا خون ہو تو وہ سیاہ ہوتا ہے اور پہچانا جاتا ہے جب اس قسم کا خون ہو تو تم نماز سے رک جاؤ اور جب دوسرے رنگ کا خون ہو تو وضو کر کے نماز پڑھو کیونکہ وہ ایک رگ ہے (جو پھوٹ رہی ہے) (ابو داؤد باب من قال توضاً لكل صلوة )

Page 266

۲۲۴ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَأَوْلاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ له لونڈیوں کی بھی وہی اقسام ہیں جو آزاد عورتوں کی بیان کی جاچکی ہیں.لونڈیوں کی اقسام اور ان کا حکم درج ذیل کیا جاتا ہے.حیض والی لونڈی کے متعلق داؤد اور اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ اسکی عدت بھی آزاد عورت کی طرح تین حیض ہے.اور یہی مذہب ابن سیرین کا ہے.اہل ظاہر اللہ تعالیٰ کے اس عمومی ارشاد کی طرف گئے ہیں : وَالمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ تُرُوءَ له چونکہ لونڈی پر بھی مطلقہ" کا اطلاق ہوتا ہے تو وہ بھی اس حکم میں شامل ہونی چاہیئے.جمہور کے مذہب کے مطابق اس عمومی حکم کو ایک قیاس کی بنا پر مخصوص کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ لونڈی طلاق اور عدت کے معاملہ میں حدہ کے مشابہ ہے.جس طرح لونڈی کی حد آزاد کی حد سے نصف ہوتی ہے اسی طرح اس کی عدت بھی آزاد عورت سے نصف ہوگی چونکہ تین حیض کا نصف نہیں ہوتا اس لئے اس کی عدت ڈیڑھ کی بجائے دو حیض رکھے گئے ہیں.وہ لونڈی جو حیض سے مایوس ہو یا صغیرہ ہو تو امام مالک اور اکثر اہل مدینہ کے نزدیک اس کی عدت تین مہینے ہوگی.لیکن امام شافعی - ابو حنیفہ - نوری اور ابو ثور کے نزدیک اس کی عدت ڈیڑھ ماہ ہے کیونکہ حیض کا نصف نہیں ہو سکتا لیکن مہینے کا نصف ہو سکتا ہے.اگر کوئی شخص رجعی طلاق میں عدت کے اندر رجوع کرلے اور پھر مجامعت کرنے کے بغیر اسے دوبارہ طلاق دیدے تو کیا وہ عورت دوبارہ شروع سے اہ ترجمہ : اور جن عورتوں کو حمل ہو ان کی عدت وضع حمل تک ہے.(طلاق لح) ترجمہ : اور جن عورتوں کو طلاق مل جائے وہ تین بار حیض آنے تک اپنے آپ رو کے رکھیں.(بقره ع ۲۸)

Page 267

۲۲۵ عدت کے دن گزارے گی یا پہلی گزاری ہوئی عدت بھی دوسری عدت میں شمار ہوگی ؟ جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ وہ دوبارہ پوری عدت گزارے.امام شافعی کا ایک قول یہ ہے کہ وہ پہلی عدت کے ایام کو دوسری عدت میں شمار کرے.جمہور اور امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ ہر رجوع گذری ہوئی عدت کو کالعدم کر دیتا ہے.خواہ تعلقات زوجیت قائم ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں.ابن رشد کے نزدیک امام شافعی کا قول زیادہ واضح اور قابل قبول ہے.اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو مالی تنگی سے مجبور ہو کر طلاق دے تو امام مالک کے نزدیک اس کا رجوع اس صورت میں قابل قبول ہو گا جب وہ اسے نفقہ دے اگر وہ اسے نفقہ نہ دے گا تو رجوع صحیح نہ ہوگا اور وہ پہلی عدت کے مطابق یقیہ ایام عدت کو ختم کرے گی.اگر لونڈی عدت کے اندر آزاد ہو جائے تو وہ اس کے بعد لونڈی کی عدت پوری کرے گی یا آنرا دعورت کی ؟ امام مالک کے نزدیک لونڈی کی عدت پوری کرے یعنی دو حیض یا دو ماہ - امام ابو حنیفہ کے نزدیک رجعی طلاق میں اس کی عدت آزاد عورت کی عدت میں تبدیل ہو جائے گی.لیکن بائن طلاق میں لونڈی کی عدت ہی گزار گی.امام ابوحنیفہ کے نزدیک طلاق رجعی کی صورت میں آزاد عورت کی عدت گزارنے کی وجہ یہ ہے کہ رجعی طلاق میں عورت اپنی عدت میں پہلے خاوند کے ساتھ متعلق رہتی ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی وارث ہوتی ہے لہذا اسی صورت میں بھی آزاد ہو جانے کی وجہ سے آزاد عورت کی عدت گزارے گی.عدت کے احکام تمام فقہاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ رجعی طلاق کی صورت میں رہائش اور خوراک کے اخراجات عدت کے ایام میں خاوند کے ذمہ ہیں

Page 268

۲۲۶ اسی طرح حاملہ عورت کی طلاق کی صورت میں بھی عدت کے ایام میں اس کی رہائش اور خوراک کے اخراجات خاوند کے ذمہ ہونگے.رجعی طلاق کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- اسكِلُوْهُنَ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وَجْدِكُمْ حاملہ عورت کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے:.وَإِن كُتَ أوْلَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمَلَهُنَّ وہ عورت جس کو بائنہ طلاق ہو گئی ہو اور وہ حاملہ نہ ہو اس کے متعلق فقہاء کے تین اقوال ہیں.اول علماء کوفہ کے قول کے مطابق اسے رہائش اور خوراک کے اخراجات دیئے جائیں گے.دوم : امام احمد - داؤد - ابو نور اور اسحاق کا مذہب یہ ہے کہ اسے کسی قسم کے اخراجات نہیں دیے جائیں گے.سوم : امام مالک اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اسے رہائش کے اخراجات دئیے جائیں گے لیکن خوراک کے نہیں.وجہ اختلاف | اس اختلاف کا سبب حدیث فاطمہ اور قرآن مجید کے ظاہر حکم میں اختلاف ہے.حدیث فاطمہ یہ ہے:.قَالَتْ طَلَّقَنِي رَوحِي ثَلَانَّا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَجْعَلْ لِى سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً (مسلم) ترجمہ: اے مسلما نو مطلقہ عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی طاقت کے مطابق رہتے ہو طلاق لح) تم ہے ترجمہ : اور اگر وہ حمل والی ہوں تو اس وقت تک ان پر خرچ کرو جب تک وضع حمل ہو جائے.سے فاطمہ فرماتی ہیں کہ میرے خاوند نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مجھے تین طلاقیں دیں.چنانچہ میں آپ کے پاس آئی اور اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے لئے نہ رہائش کے اخراجات ہیں نہ نان و نفقہ کے (مسلم باب المطلقہ خلافا لا نفقہ کہا)

Page 269

۲۲۷ له بعض روایات میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- إِنَّمَا السُّكْنى وَالتَّفَقَةُ لِمَن يُزَوجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ یہی قول حضرت علی ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے:.وہ لوگ جو نفقہ نہیں دلاتے لیکن رہائش کی ذمہ واری خاوند کے ذمہ عائد کرتے ہیں وہ فاطمہ کی مندرجہ بالا روایت سے جو موطاء امام مالک میں الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ مروی ہے استدلال کرتے ہیں.قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ وَأَمَرَهَا أَن تَعْتَدُّ فِي بَيْتِ ابْنِ أَةِ مَكْتُومِ اس روایت میں سکنی کو ساقط نہیں کیا گیا.اس سے معلوم ہوا کہ سکنی کا حکم اللہ تعالیٰ کے عمومی ارشاد کے ماتحت قائم ہے یعنی :- اسْكِنُوهُنَّ مِن حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وَجْدِكُمْ یہ سوال کہ آپ نے اسے رہائش کے اخراجات دلائے تھے تو پھر اسے ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارنے کو کیوں کہا گیا.تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ چونکہ وہ بڑی زبان دراز تھی اس لئے اُسے خاوند کے گھر رہ کر عدت گزارنے سے باز رکھا.وہ فقہاء جن کے نزدیک سکتی اور نفقہ دونوں لازم ہیں ان کے نزدیک سکتی تو اللہ تعالے کے مندرجہ بالا ارشاد سے ثابت ہے.نفقہ کے واجب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نفقہ سکنی کا تالی ہے میں جب رحمیہ اور حاملہ کے لئے خاوند کے گھر رہنا لازم قرار دیا گیا تو ساتھ ہی اسے ے ترجمہ آپ نے فرمایا کہ رہائش کے اخراجات اور نان و نفقہ اس عورت کے لئے ہے جس کے خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہو.ترجمہ :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لئے تمہارے خاوند کے ذمہ کوئی نفقہ نہیں ہے.نیز آپ نے فاطمہ کے متعلق حکم دیا کہ وہ ابن ام مکتوم کے گھر کھا کر عدت گزار ہے.(موطاء امام مالک و مسلم باب المطلقة ثلاثا لا تفقد لها )

Page 270

۲۲۸ نفقہ بھی دینا پڑے گا.حضرت عمر سے ایک روایت منقول ہے کہ آپ نے فاطمہ کی روایت کے متعلق فرمایا :- هذا لا تَدَعُ كِتَابَ نَبِيِّنَا وَسُئَتَهُ لِقَوْلِ امْرَأَةِ له اس ارشاد میں آپ کا منشاء اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد مد نظر تھا.اسْكِنُوهُنَّ مِن حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وَجْدِ كُمْ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بہ مشہور و معروف امر تھا کہ آپ جہاں سگئی لازم قرار دیتے وہاں نفقہ بھی لازم قرار دیتے تھے این رشد فرماتے ہیں کہ سکتی اور نفقہ میں فرق کرنا بڑا مشکل ہے اور میں نے یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ سکتی ہو اور نفقہ نہ ہو اس کے مذہب کی بنیاد کمزور ہے.وہ عورت جس کا خاوند فوت ہو گیا ہو اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ آزاد مرد کی آزاد بیوی کی عدت چار ماہ دس دن ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرمانا ہے.وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَا جَايَتَرَبَّصْنَ با نفسِهِنَّ اَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا له حاملہ عورت اور وہ لونڈی جس کو چار ماہ دس دن تک حیض نہ آئے اور اس کا خاوند فوت ہو چکا ہو ان کی عدت میں اختلاف ہے.له ترجمہ : حضرت عمر نے فرمایا کہ ہم ایک عورت کے قول کی خاطر رسول کریم صلی للہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کی حدیث کو چھوڑ نہیں سکتے.(حاشیہ منتقی جلد ۲ ص ۶۲) ترجمہ :.اور تم میں سے جن لوگوں کی روح قبض کرلی جاتی ہے اور وہ اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں چاہیے کہ وہ (یعنی بیویاں) اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روس رکھیں (بقرہ )

Page 271

۲۲۹ امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ چار ماہ دس دن کی مدت کے لئے یہ شرط ہے کہ اس دوران میں اسے کم از کم ایک مرتبہ حیض آجائے تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ اس کا رحم حمل سے صاف ہے پس اگر اس مدت میں اسے حیض نہ آئے تو اس کے متعلق یہ شبہ ہو گا کہ وہ حاملہ ہے لہذا اسے مدت حمل یعنی نو ماہ تک عدد گزارنی ہوگی.امام مالک کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان کے نزدیک بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کو چار ماہ دس دن تک حیض نہیں آتا بلکہ اس عرصہ کے بعد آتا ہے اور وہ حاملہ بھی نہیں ہوتیں تو اس کے متعلق دو صورتیں ہونگی.اول :- اگر وہ ایسی عورتیں ہیں جن کی عادت یہ ہے کہ انہیں چار ماہ دس اون سے زیادہ عرصہ تک حیض نہیں آتا تو ان کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ حیض آنے تک انتظار کریں.خواہ یہ مدت چار ماہ دس دن سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو.دوم..اگر وہ ایسی عورتیں ہیں کہ انہیں عاداً چار ماہ دس دن سے زیادہ عرصہ تک حیض نہیں آتا بلکہ شاذ و نادر طور پر کبھی کبھی ان کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے.تو وہ چار ماہ دس دن تک عدت گزاریں.اگر اس عرصہ میں ان کا حمل ظاہر نہ ہو تو ان کی عدت مکمل ہو گئی اور دو دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہیں.یہی مذہب امام ابو حنیفہ - شافعی اور توری گیا ہے.وہ عورت جو حاملہ ہو اور اس کا خاوند فوت ہو گیا ہو اس کے متعلق جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ اس کی عدت وضع حمل تک ہے ان کا استدلال اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا عمومی ارشاد سے ہے.یعنی : وَ أَوَلاتِ الْأَعْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ اگر چہ یہ آیت طلاق کی عدت کے ضمن میں بیان ہوئی ہے تاہم یہ عام حکم ہے.اہ ترجمہ :.اور جن عورتوں کو حمل ہو ان کی عدت وضع حمل تک ہے (طلاق لح)

Page 272

۲۳۰ جس کا اطلاق وفات کی عدت پر بھی ہوتا ہے.اسی طرح اس مذہب کی تائید ام سلمہ کی مندرجہ ذیل حدیث سے ہوتی ہے.انَّ سَبيعَةَ الْأَسْلَمِيةَ وَلَدَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِنِصْفِ شَهْرٍ فَجَاءَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا قَدْ حَلَلْتِ فَانْكِى مَنْ شِئْتِ امام مالک نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس کی عدت وہ ہے جوان دونوں میں سے آخر میں ختم ہو یعنی اگر چار ماہ دس دن کی مدت وضع حمل کے بعد ختم ہوتی ہو تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہوگی.اور اگر وضع حمل چار ماہ دس اگر دن کے بعد ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہوگی.اور اس قسم کی روایت حضرت علی سے بھی مروی ہے.ان کی دلیل یہ ہے کہ اسی طرح حاملہ عورتوں کے متعلق عمومی حکم یعنی وضع حمل اور وفات شدہ خاوند والی عورت کی عدت کے حکم یعنی چار ماہ دس دن میں موافقت ہو جاتی ہے.وہ لونڈی جس کا مالک فوت ہو گیا ہو اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں.(1) فوت ہونے والا اس کا خاوند ہو.(۲) فوت ہونے والا اس کا آتا ہو.(۳) وہ صورت ام ولد ہو (م) وہ ام ولد نہ ہو.بیوی ہونے کی صورت میں جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اس کی عدت آزاد عورت کی عدت سے نصف ہوگی.اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ اس کی عدت آزاد عورت کی عدت کے برابر ہو گی.یہی مذہب ان کے نزدیک مطلقہ لونڈی کی عدت کے متعلق ہے.له ترجمہ: - سبیعة الاسلیقہ کے ہاں اس کے خاوند کی وفات سے نصف ماہ بعد بچے پیدا ہوا چنا نچہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی عدت کے متعلق دریافت کرنے آئیں تو آپنے فرمایا کہ تمہاری عدت ختم ہو گئی ہے اب تم جیسن کے ساتھ بچا ہو نکاح کر لو.دنسائی باب عدة المحاض المتوفى عنها زوجها )

Page 273

۲۳۱ ام ولد کے متعلق امام مالک شائعی.احمد بیت اور ابو ثور کا مذہب یہ ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہے.امام مالک کے نزدیک اگر وہ ایسی عورت ہے کہ اسے حیض نہیں آتا تو اس کی عدت تین ماہ ہوگی اور اسے رہائش کے اخراجات دئیے جائیں گے.امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور ثوری کے نزدیک ام ولد کی عدت تین حیض ہے.یہی قول حضرت علی اور ابن مسعود کا ہے.اور ایک گروہ کے نزدیک اس کی عدت اس آزاد عورت کی عدت سے نصف ہے جس کا خاوند فوت ہوچکا ہو.ایک گروہ کے نزدیک اس کی عدت آزاد عورت کی عدت کے برابر بینی چار ماہ دس دن ہے.امام مالک کے مذہب کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ وہ زوجہ بھی نہیں ہے اور مطلقہ بھی نہیں ہے اس لئے اس کی عدت ان دونوں سے مختلف ہوگی.چونکہ مقصد حضرت رحم کا پاک ہوتا ہے اور وہ ایک حیض سے بھی ہو جاتا ہے اس لئے اس کی عدت ایک حیض ہوگی کیونکہ اس کی مثال اس لونڈی کی طرح ہے جس کا آقا فوت ہو چکا ہے.امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ وہ نہ زوجہ ہے نہ لونڈی ہے.اس لئے نہ وہ عدت وفات گزاریگی نہ عدت کنیز (لونڈی نہیں لازم آیا کہ وہ آزاد عورتوں کی طرح اپنے رحم کو پاک کرے اور وہ کم از کم مدت تین حیض ہے.وہ لوگ جو اس کے لئے عدت وفات یعنی چار ماہ دس دن قرار دیتے ہیں.وہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کو عمرو بن العاص نے بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے له ام ولد سے مراد وہ لونڈی ہے جس کے ہاں اس کے آقا کے نطفہ سے بچہ پیدا ہو وہ اپنے آف کی وفات کے بعد آزاد ہوتی ہے.

Page 274

۲۳۲ قَالَ لَا تَلْبِسُوا عَلَيْنَا سُنَةَ نَبِيِّنَا عِدَّةَ أَمِ الْوَلَدِ إِذَا تُونِي عَنْهَا سَيدُهَا ارْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا امام احمد نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اس لئے اسے نقل نہیں کیا جس نے اس کی عدت آزاد عورت سے نصف مقرر کی ہے اس نے اس کو لونڈی کے مشابہ قرار دیا ہے جو شادی شدہ ہو اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس حکم کے متعلق وجه اختلاف سربی نص نہیں ملتی اس لئے مختلف فقہاء نے اس کو کوئی لونڈی یا آزاد عورت یا ان دونوں پر قیاس کیا ہے.این رشد کہتے ہیں کہ جس نے اس کو شادی شدہ لونڈی کے مشابہ قرار دیا ہے ان کا خیال ضعیف ہے.اور اس سے بھی زیادہ ضعیف ان کا خیال ہے جس نے ان کو آزاد مطلقہ کے مشابہ قرار دیا ہے.له ترجمہ : حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ ام ولد کی عدت کے متعلق جس کا آف فوت ہو چکا ہو ہم پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مشتبہ نہ کرو.کیونکہ سنت کے مطابق اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے.و بجواله محلی این حزم جلد ۱۰ صنت (۳)

Page 275

۲۳۳ دوسرا باب متحد دریعنی مطلقہ کو احسان کے طور پر کچھ دینا ) جمہور کا مذہب یہ ہے کہ متحد ہر مطلقہ عورت کے لئے واجب نہیں ہے.لیکن اہل ظاہر میں سے ایک گروہ کے نزدیک یہ ہر مطلقہ کے لئے واجب ہے اور ایک گروہ کے نزدیک یہ پسندیدہ ہے واجب نہیں ہے.اور یہی مذہب امام مالک کا ہے.وہ فضاء جن کے نزدیک بعض مطلقات کے لئے متعہ واجب ہے ان میں سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک متعہ اس مطلقہ کے لئے واجب ہے جس کو مجامعت سے قبل طلاق دی گئی ہو اور اس کا کوئی معین مہر مقرر نہ کیا گیا ہو.امام شافعی کے نزدیک منعہ ہر اس مطلقہ کے لئے واجب ہے، جس کو خاوند نے خود ہیوی کے مطالبہ کے بغیر طلاق دی ہو اور اس کا مہر بھی مقرر نہ ہو اور اسی سے مجامعت بھی نہ ہوئی ہو.امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَكَعْتُمُ الْمُؤْمِتِ تو طاقتين مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتَّعُوهُنَّ وَسَيّ حُوهُنَّ سَرَاحَا جَمِيلاه اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ میں عورت کا ہر مقرر نہ ہوا اور مجامعت سے قبل طلاق ہو گئی ہو اسی کے لئے متعہ ہے.ا ترجمہ : اے مومنو جب تم مومن عورتوں سے شادی کرو اور پھر ان کو ان کے چھونے سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کوئی حق نہیں کہ ان سے عادت کا مطالبہ کرو.چاہیے کہ ان کو کچھ دنیوی نفع پہنچاؤ و اور ان کو عمدگی سے رخصت کرو.(احزاب غ)

Page 276

۲۳۴ اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے: وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُم لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس کا ہر مقرر ہوا اور مجامعت سے قبل طلاق ہو گئی ہو.اس کے لئے متحد نہیں ہے.امام شافعی " متعہ کے حکم کو عام قرار دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.ومتعُوهُنَّ عَلَى المُوسِع قَدَرُهُ وَ عَلَى المُقْتِرِ قَدَ رُع له یہ حکم عام ہے اور اس میں سے تخصیص صرف اس کی کی گئی ہے جس کا مہر مقرر ہو اور اسے مجامعت سے قبل طلاق دی گئی ہو جیسا کہ اوپر کی آیت میں بیان ہو چکا ہے یعنی اس کو صرف نصف مہر لے گا.اور باقی سب مطلقات کے لئے متحد لازم ہے.جمہور کے نزدیک مختلفہ کے لئے متحد نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنے پاس سے کچھ رقم ادا کر کے ضلع حاصل کرتی ہے.لیکن اہل ظاہر کے نزدیک وہ بھی ایک حکم کے ماتحت معاوضہ دیگی اور دوسرے حکم کے ماتحت متعہ لے گی.امام مالک نے متعہ کو مستحسن اس لئے قرار دیا ہے کہ متعہ کے متعلق حکم دینے کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ یعنی جو اس کے متحمل ہو سیکس اور اپنے پاس سے کچھ استحسان کے طور پر له ترجمہ : اور اگر تم نہیں تخیل اس کے کہ تم نے انہیں چھوا ہو لیکن ہر مقرر کر دیا ہو طلاق دے دو تو اس صورت میں جو مہر تم نے مقرر کیا ہو اس کا آدھا ان کے سپرد کرنا ہوگا دبقرہ عام ترجمہ : اور چاہیئے کہ تم ان کو مناسب طور پر سامان دے دو یہ امر دولتمند پر اس کی طاقت س کے مطابق لازم ہے اور نادار پر اس کی طاقت کے مطابق (بقرہ ہے) سے ترجمہ : ہم نے ایسا کرنا نیک لوگوں پر واجب کیا ہے دیقرہ )

Page 277

۲۳۵ دے سکیں وہ ضرور دیں.پس اگر متعہ واجب ہوتا تو اس طرح ترغیب کے الفاظ وارد نہ ہوتے.مصالحت کنندگان کا تقرر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیان تنازعہ ہو جائے تو مصالحت کنندگان ان کے احوال معلوم کریں اور ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَانْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا من اهلها اس پر بھی سب کا اجماع ہے کہ یہ مصالحت کنندگان میاں اور بیوی کے خاندان میں سے ہونے چاہیے یعنی ایک میاں کے خاندان سے ہو اور دوسرا بیوی کے خاندان سے ہو.سوائے اس کے کہ ان کے خاندان سے ایسے افراد نہ مل سیکیں تو ایسی صورت میں باہر سے بھی لئے جاسکتے ہیں.اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ یہ مصالحت کنندگان اگر کسی نتیجہ تک نہ پہنچیں اور ان کے درمیان بھی اختصاصات ہو جائے تو ان کا فیصلہ نافذ نہ کیا جائے گا.اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ مصالحت کنندگان کا یہ فیصلہ کر میان بیوی اپنے اختلافات مٹا کر صلح کرلیں تو ان کا فیصلہ قابل نفاذ ہوگا.خواہ ان کو زوجین نے اپنی طرف سے مقرر نہ کیا ہو.بلکہ ان کے خاندان کے دوسرے افراد نے مقرر کیا ہو.اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر مصالحت کنندگان کا اس امر پر اتفاق ہو ے ترجمہ :.اور اگر تمہیں ان دونوں ریعنی میاں بیوی کے آپس کے تعلقات میں تفرقہ کا خوف ہو تو ایک پہنچ اس کے (یعنی مرد کے رشتہ داروں سے اور ایک پہنچ اس کے ویعیقی عورت کے رشتہ داروں سے مقریر کرو.(نسار)

Page 278

۲۳۶ جائے کہ میاں بیوی کے درمیان تفریق کردی جائے تو ان کا یہ فیصلہ نافذ ہوگا ن نہیں؟ امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ خواہ زوجین نے ان کو اپنی طرف سے مقرر کیا ہو یا نہ کیا ہو مصالحت یا تفرقہ دونوں امور کے متعلق ان کا فیصلہ نافذ احمل ہوگا.امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ان کا فرقت کا فیصلہ نافذ العمل نہ ہوگا سوائے اس کے کہ خاوند نے ان کو اس کا اختیار دیا ہو.امام مالک کی دلیل حضرت علی کا مذہب ہے کیونکہ ان کے نزدیک بھی مصحات کنندگان کو ان ہر دو امور کا اختیار ہے خواہ خاوند نے ان کو اس کا اختیار دیا ہو یا نہ دیا ہو.امام ابو حنیفہ اور امام شافتی کی دلیل یہ ہے کہ طلاق کا اختیار سوائے خاود کے اور کسی کو نہیں دیا گیا سوائے اس کے کہ خاوند خود کسی کو اس کا اختیار دیدے.امام مالک کے اصحاب میں اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر مصالحت کنندگان عورت کو تین طلاقیں دے دیں تو کتنی طلاقیں واقع ہونگی ؟ ابن القاسم کے نزدیک ایک طلاق واقع ہوگی.اشہب اور مغیرہ کے نزدیک تین طلاقیں ہی واقع ہونگی.این رشد اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ طلاق کا اختیار صرف خاوند کے پاس ہے سوائے اس کے کہ اس کے خلاف کوئی صریح دلیل ہو.امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کی دلیل حضرت علی کی روایت ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے ایک تنازعہ کے سلسلہ میں مصالحت کنندگان کو مخاطب کر کے فرمایا :- آپ جانتے ہیں کہ آپ کے سپرد کیا ذمہ داریاں ہیں اگر آپ دیکھیں کہ ان دونوں کے درمیان صلح بہتر ہے تو صلح کرا دیں اور اگر دیکھیں کہ ان کے درمیان جدائی بہتر ہے تو جدائی کرا دیں.اس پر صورت نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے پیش کر وہ احکام پر راضی ہوں اور اس کے پیش کر وہ احکام

Page 279

کے مطابق جو بھی فیصلہ میرے حق میں یا میرے خلاف ہو گا میں اسے قبول کرونگی.لیکن مرد نے کہا کہ اگر فیصلہ جُدائی کا ہو گا تو میں اسے قبول نہ کروں گا.اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ تمہیں خدا کی قسم ہے کہ جب تک اس بات کا اقرار نہ کرو جس کا اقرار تمہاری بیوی نے کیا ہے اس وقت تک تم یہاں سے چا نہیں سکتے.امام ابو حنیفہ کا استدلال یہ ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ مصلحت کنندگان کو علیحدگی کا فیصلہ کرنے کے لئے خاوند کی اجازت حاصل ہونا ضروری ہے.امام مالک مصالحت کنندگان کو حاکم وقت کے قائم مقام قراردیتے ہیں جس طرح حاکم وقت کو یہ اختیار ہے کہ جب وہ دیکھے کہ میاں بیوی کے اکٹھا رہنے میں ان کا ضرر ہے تو ان کے درمیان تفریق کر دے

Page 280

Page 281

۲۳۹ کتاب الایلاء

Page 282

۲۴۰ كتاب الايلا دبیوی کے ساتھ تعلقات زوجیت قائم نہ کرنیکی قسم کھانا) اس بارہ میں اصل دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :- لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ أَشْهُره ایلاء کی تعریف کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ وہ ایک مدت تک اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرے گا.یہ مدت خواہ معین ہو یا غیر معین.فقہاء نے اس مسئلہ میں مندرجہ ذیل مسائل میں اختلاف کیا ہے.(1) تقی صریح میں ایلاء کے لئے چارماہ کا عرصہ توقف کرنے کا حکم ہے کیا چار ماہ کا عرصہ گزرنے تک اگر ایلاء کرنے والا رجوع نہ کرے.تو اس کی بیوی کو خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی یا چار ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد اس کے خاوند کو اختیار ہو گا چاہے تو رجوع کرے چاہے تو طلاق دے؟ (۲) کیا ایلار ہرقسم کی قسموں سے ہو جاتا ہے یا اس کے لئے شرعی قسم کھانا ضروری ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کی یا اس کی کسی صفت کی قسم کھائی ضروری ہے ؟ (۳) اگر کوئی شخص بغیر قسم کھانے کے اپنی بیوی سے ایک عرصہ تک مجامعت نہیں کرتا تو کیا یہ بھی ایلاء کے حکم میں شامل ہے یا نہیں ؟ (ہی) کیا ایلاء کے لئے چار ماہ یا اس سے زیادہ کا عرصہ معین کرنا ضروری ہے یا غیر معین عرصہ تک قسم کھانے والے پر بھی ایلاء کا حکم لازم آتا ہے؟ (۵) ایلاء کی طلاق بائن ہوگی یا رجعی ؟ له ترجمہ: جو لوگ اپنی بیویوں کے متعلق قسم کھا کر ان سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں ان کے لئے صرف چار مہینے تک انتظار کرنا جائز ہے.(بقرہ )

Page 283

۲۴۱ (4) ایلاء کے بعد خاوند نہ طلاق دے نہ رجوع کرے تو کیا قاضی اس کی بیوی کی علیحدگی کا فیصلہ دے سکتا ہے یا نہیں ؟.(6) ایلار کی صورت میں طلاق دینے کے بعد اگر کوئی شخص دوبارہ رجوع کرے تو کیا اس صورت میں ایلاء کا حکم بھی دوبارہ لاحق ہو جاتا ہے.یا نہیں ؟ (۸) کیا ایلاء کے بعد عورت کے لئے عدت گزارنا ضروری ہے یا نہیں؟ (4) کیا غلام کے ایلاء کا حکم بھی وہی ہے جو آزاد کے ایلاد کا ہے یا اس سے مختلف ہے ؟ (۱۰) کیا ایلا کے بعد رجوع کے لئے عدت کے اندر مجامعت ضروری ہے.یا نہیں ؟ اب ان مسائل کے متعلق فقہاء کے مذاہب.ان کے دلائل اور وجوہ ہی اختلاف بالترتیب بیان کئے جاتے ہیں :- پہلا اختلاف یہ ہے کہ چار ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد عورت کو خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی یا اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ خاوند رجوع کرتا ہے یا طلاق دیتا ہے.چنانچہ خاوند کے اس رویہ کے مطابق اس پر حکم لگایا جائے گا.اس کے متعلق فقہاء کا مسلک درج ذیل ہے.امام مالک - امام شافعی - احمد - ابونور - دار د اور لیث کا مذہب یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے بعد توقف کیا جائے گا.اس کے بعد اگر اس کا خاوند طلاق دے گا تو اسے طلاق ہوگی اگر رجوع کرے گا تو طلاق واقع نہ ہوگی.یہی مذہب حضرت علی اور ابن عمر کا ہے.امام ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب ثوری اور کو فیین کا مذہب یہ ہے کہ اگر وہ چار ماہ کے اندر رجوع کرلے گا تو بہتر ورنہ چار ماہ کے بعدا سے خود بخود

Page 284

۲۴۲ طلاق واقع ہو جائے گی یہی مذہب ابن مسعود اور تابعین کی ایک جماعت کا ہے وجہ اختلاف | اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آیت قرآنی : فَإِن فَارُو فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ میں فاؤڈ کا حکم چار ماہ گزرنے سے قبل عرصہ سے تعلق رکھتا ہے یا اس کے بعد سے.جی کے نزدیک اس حکم کے ماتحت رجوع کی گنجائش صرف چار ماہ سے پہلے پہلے ہے.ان کے نزدیک اگر وہ چار ماہ سے قبل رجوع نہ کرے گا تو اس کے بعد اسے خود بخود طلاق ہو جائے گی.ان فقہاء نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيدُ عَلِيمٌ میں الفاظ عَزَمُوا الطَّلَاقَ کا یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ وہ اس عرصہ کے گذرنے کے بعد اسے لفظاً طلاق دے الفاظ سَمِيعٌ عَلِيم سے ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ سمع کا تعلق تلفظ سے ہے اس لئے طلاق باللفظ ضروری ہے.امام مالک نے اپنی تائید میں اس آیت سے چار دلائل پیش کئے ہیں :- اول : اللہ تعالٰی نے تربص " یعنی توقف کا حق مرد کو دیا ہے.پس یہ حق اسی طرح کا ہے جس طرح میعادی قرضوں میں قرضہ ادا کرنے والے کو حاصل ہوتا ہے میں اس مدت تک مرد کو توقف کا اختیار ہے اس کے بعد چاہے تو طلاق دے اور چاہے تو رجوع کرے.دوم: اللہ تعالیٰ نے فعل طلاق کی اضافت مرد کی طرف کی ہے یعنی مرد اگر ترجمہ :.پھر اگر اس عرصہ میں صلح کے خیال کی طرف لوٹ آئیں تو اللہ تعالے یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.(بقرہ ) کے ترجمہ :.اور اگر وہ طلاق کا فیصلہ کر لیں تو اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.(بقره )

Page 285

۲۴۳ طلاق دے کی تو واقع ہوگی نہ دے گا تو نہ ہوگی.امام ابو حنیفہ نے جو محض توقف اور ترقی کو بھی طلاق کے قائمقام قرالہ دیا ہے یہ مجازا ہے اور حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو اختیار کرنا سوائے قطعی دلیل کے جائز نہیں ہے.اور اس جگہ ایسی کوئی قطعی دلیل اس امر کی پائی نہیں جاتی میں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم آیت کے ظاہر مفہوم کو چھوڑ کر مجاز کی طرف جائیں.سوم:- اللہ تعالیٰ نے آیت وَإِنْ عَدَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ میں یہ بتایا ہے کہ طلاق مسموع ہونی چاہیئے.اور مسموع طلاق الفاظ سے ہی ہوتی ہے چونکہ صرف مدت کا گزر جانا سمیع سے تعلق نہیں رکھتا اس لئے یہ طلاق کی وجہ نہیں بن سکتی.چہارم : اللہ تعالیٰ کے ارشاد خان فَارُهُ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمیں ظاہر الفاظ میں ہی تعقیب کا مفہوم شامل ہے.کیونکہ ”ف“ ایک حکم کے بعد دو سر حکم کے لئے آتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ رجوع یا طلاق دینے کا اختیار مدت ایلاء کے گزر جانے کے بعد ہے.امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ چار ماہ کی عدت در حقیقت طلاق رجعیہ کی عدت کے مشابہ ہے.جس طرح طلاق رجعی میں عدت کی مدت اس لئے رکھی گئی ہے تا اس عرصہ میں خاوند نادم ہو کر رجوع کرے.اور اگر وہ رجوع نہ کرے تو اس کے بعد وہ رجوع نہیں کر سکتا.اور طلاق بائن ہو جاتی ہے.اسی طرح ایلاء بھی طلاق رجعی کے مشابہ ہے لہذا اسے اختیار ہے کہ خواہ وہ اس عرصہ میں رجوع کرے خواہ اس کے بعد اسے طلاق یافتہ تصور کرے.حضرت ابن عباس سے بھی اسی قسم کی روایت مروی ہے.دوسرا اختلاف یہ ہے کہ کس قسم کی قسم ایلاء کے لئے موخر ہوگی ؟ امام مالک کے نزدیک ہر قسم کی قسم ایلاء کے لئے کافی ہے.امام شافعی کے نزدیک صرف ان قسموں سے ایلاء ہو سکتا ہے جو شریعت

Page 286

۲۴۴ میں مباح ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات کی قسمیں ہیں.امام مالک اللہ تعالے کے عمومی ارشاد کی طرف گئے ہیں.لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ ارْبَعَةِ أَشْهُرٍ امام شافعی ایلار کو کفارہ کی قسموں کے مشابہ قرار دیتے ہیں کیونکہ ان دونوں قسموں پر شرعی حکم مرتب ہوتا ہے اس لئے یہ دونوں قسمیں اپنی جنس میں بھی ایک دوسری کے مشابہ ہونی چاہئیں.یعنی جس طرح وہ قسمیں جن پر کفارہ لازم آتا ہے وہ وہی ہوتی ہیں جو دل کے ارادہ سے ہوں تکیہ کلام کے طور پر نہ ہوں ہذا ایلاء کی قسم بھی ایسی ہی ہونی چاہیئے.تیسرا اختلاف یہ ہے کہ اگر خاوند بغیر قسم کے ایک مدت تک بیوی سے تعلق پیدا نہ کرے تو یہ بھی ابلاء میں شامل ہوگا یا نہیں ؟ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قیمے بغیر ایلار کا حکم ثابت نہیں ہوتا.لیکن امام یک کے نزدیک بغیر قسم کے بھی ایلاء کا حکم لگایا جاسکتا ہے جبکہ یہ ثابت ہو کہ خاوند اس طرح اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے.جمہور ظاہر حکم کی طرف گئے ہیں لیکن امام مالک حکم کے مقصد اور معنی کی طرف گئے ہیں.ان کے نزدیک اس حکم کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی سے علیحدگی کا عزم رکھتا ہے کبھی وہ عزم کو قسم کے ساتھ اور پختہ کر دیتا ہے کبھی بغیر قسم کے ہی اس عزم پر قائم رہتا ہے.بہر حال اس کی بیوی کو تو ان دونوں صورتوں میں یکسان نقصان پہنچتا ہے اس لئے ان دونوں کے حکم میں بھی کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے.چوتھا اختلاف | مدت ایلار کے متعلق ہے.امام مالک اور ان کے اصحاب جن کا یہ مذہب ہے کہ رجوع یا طلاق کا حق چار ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہوتا ہے ان کے نزدیک مدت ایلاء چار ماہ سے

Page 287

۲۴۵ زیادہ ہونی چاہیئے.امام ابو حنیفہ اور وہ فقہاء جن کے نز دیک رجوع چار ماہ کے اندر ہونا چاہیئے ان کے نزدیک ایلاء کی مدت صرف چار ماہ ہے.ابن ابی لیلی اور حسن بصری کے نزدیک جب خاوند قطع تعلق کی قسم کھائے اور اس کی مدت خواہ چار ماہ سے کم بیان کرے یا زیادہ اس پر ایلا کا حکم لگایا جائیگا لیکن عملاً اس کے لئے قسم کے وقت سے چار ماہ کی مدت مقرر کی جائے گی.اگر اس عرصہ میں رجوع کرلے گا تو بہتر ورنہ اس کی طرف سے طلاق سمجھی جائے گی.حضرت ابن عباس کی ایک روایت کے مطابق ایلاء یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی سے ہمیشہ کے لئے تعلقات زوجیت منقطع کرنے کی قسم کھائے.پانچواں اختلاف یہ ہے کہ ایلار کے بعد جو طلاق دی جائے گی وہ بھی ہوگی یا بائن ؟ اس کے متعلق امام مالک اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ یہ طلاق شرقی ہو گی.ان کی دلیل یہ ہے کہ وہ طلاق جو کسی شرعی حکم کے ماتحت دی جاتی ہے وہ رجعی سمجھی جاتی ہے سوائے اس کے کہ اس کے خلاف کوئی شرعی دلیل موجود ہو جو پہلے حکم سے زیادہ مضبوط ہو.ایلاء کی صورت میں علیحدگی بھی چونکہ شرعی حکم کے ماتحت ہوئی ہے اس لئے شرعی حکم کے تقاضا کے مطابق اس پر ابھی طلاق واقع ہوگی.وجہ اختلاف | ایک طرف ایلاء کی مصلحت کا تقاضا ہے اور دوسری طرف طلاق کا اصل حکم ہے.جس نے طلاق کے اصل حکم کو ملحوظ رکھا اس نے اسے طلاق اچھی قرار دیا اور جس نے مصلحت کو ملحوظ رکھا اس نے اسے طلاق بائن قرار دیا.کیونکہ اگر اسے طلاق بائن قرار نہ دیا جائے تو ایلاء کرنے والا ہمیشہ ایلاء کرتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا.

Page 288

چھٹا اختلاف یہ ہے کہ اگر خاوند ایلاء کی مدت گذرنے کے بعد نہ طلاق دے اور نہ رجوع کرے تو کیا قاضی اُسے طلاق دے سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق امام مالک کا یہ مذہب ہے کہ قاضی اسے طلاق دے سکتا ہے اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ قاضی اسے قید کرے یہاں تک کہ وہ طلاق دے یا رجوع کرے.وجہ اختلاف | اس اختلاف کا سبب بھی مصلحت.اور طلاق کا ظاہری حکم ہے جس نے مصلحت کو ملحوظ رکھا اس نے یہ کہا کہ قاضی طلاق دے سکتا ہے جن طلاق کے ظاہری حکم کو ملحوظ رکھا اس کے نزدیک طلاق کا حق صرف خاوند کو ہے اس لئے قاضی اسے طلاق نہیں دے سکتا.ساتواں اختلاف یہ ہے کہ اگر ایلاء کرنے والا خاوند ایلاء کے بعد طلاق دیدے.اس کے بعد رجوع کرلے تو کیا رجوع کے بعد ایلاء کا حکم پھر عود کر آتا ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اگر رجوع کے بعد اس سے معات نہ کرے تو ایلاء کا حکم پھر خود کر آئے گا خواہ اس کی طلاق رجعی ہو یا بائن.امام ابو حنیفہ کے نزدیک صرف پاکن طلاق سے ایلار کا حکم ساقط ہو جاتا ہے رچھی سے نہیں.امام شافعی " کا ایک قول بھی اسی کے موافق ہے.اور اس کو مرانی نے اختیار کیا ہے.فقہار کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ رجوع کے بعد ایلاء کا حکم خود نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ قطع تعلق کی دوبارہ قسم کھائے.وجہ اختلاف اس اختلاف کا سبب بھی مصلحت اور طلاق کی ظاہری شرط ہے.ظاہری شرط یہ ہے کہ شریعت میں ایلاء کے لئے قسم کھانا ضروری ہے لیکن یہ قسم ایک ہی نکاح میں ہو یعنی ایک نکاح کی قسم دوسرے نکاح پر اثر انداز نہیں ہوتی.دوسری طرف مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ ایلاء کے حکم کے ذریہ

Page 289

۲۴۷ عورت کو جس ضرر سے بچانا مقصود تھا اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہوتا.کیونکہ اس طرح اس کا خاوند دوبارہ اسے تنگ کرنے کے لئے ایلاء نہیں کرے گا اور ندہ اس کے ساتھ تعلق قائم کرے گا جس سے وہ کا معتلقہ ہوگی.یہی وجہ ہے کہ امام مالک نے یہ کہا ہے کہ طلاق خواہ کسی قسم کی ہو رجوع کے بعد اس پر امیلا کا حکم پھر عود کر آئے گا.خواہ وہ دوبارہ قسم کھائے یا نہ کھائے.آٹھواں اختلاف یہ ہے کہ وہ عورت جس سے ایلاء کیا گیا ہو اس کی لئے ایلاء کی عدت بھی گزارنا ضروری ہے یا نہیں ؟ ہے.اس کے متعلق جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اس کے لئے عدت گزار ناضروری جابر بن زید کا مذہب یہ ہے کہ اگر چار ماہ کے عرصہ میں اسے تین حیض آ جائیں تو اس صورت میں اسے مزید عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ چار ماہ گزارنے کے بعد وہ آزاد ہو گی.ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس کا بھی یہی مذہب تھا.ان کی دلیل یہ ہے کہ عدت کی غرض تو یہ ہے کہ اس عرصہ میں اس کا رحم حمل وغیرہ سے صاف ہو جائے اور یہ غرض تین حیض آنے سے پوری ہو چکی ہے.اس لئے مزید عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے.جمہور کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ وہ ابھی ایک مطلقہ ہے اس لئے وہ دیگر مطلقہ عورتوں کی طرح عدت گزار نے گی.وجد اختلاف عدت میں عبادت اور مصلحت دونوں اغراض موجود ہیں جس نے مصلحت کی جہت کو ملحوظ رکھا اس کے نزدیک اسے مزید عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے جس نے عبادت کی بہت کو ملحوظ رکھا اس کے نزدیک اسے عدت گزارنی چاہیئے.عدت کو عبادت اس لیے کہا گیا ہے کہ عدت گذارنا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ہے اس لئے اس جسکم

Page 290

۲۴۸ کی تعمیل ایک قسم کی عبادت ہے.نواں اختلاف یہ ہے کہ غلام کے ایلار کا حکم بھی وہی ہے جو آزاد کے ایلاء کا حکم ہے یا اس سے مختلف ہے ؟ امام مالک کے نزدیک غلام کے ایلاء کی مدت دو ماہ ہے یعنی آزاد سے تصرف مدت اس میں حدود اور طلاق کے احکام پر قیاس کیا گیا ہے.امام شافعی اور اہل ظاہر کے نزدیک غلام کا ایلاء بھی آزاد کے ایلاء کی طرح ہے اس لئے اس کی مدت بھی چار ماہ ہوگی.انہوں نے قرآن مجید کے عمومی حکم کو ملحوظ رکھتا ہے.نیز قسم کے معاملہ میں چونکہ آزاد اور غلام دونوں برابر سمجھے جاتے ہیں اور ایلار بھی ایک قسم کی قسم ہے اس لئے ان دونوں کا ایک ہی حکم ہونا چاہیئے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایلاء میں عورت کی بہت کو دیکھا جائے گا نہ کہ مرد کو یعنی اگر عورت آزاد ہوگی تو ایلاء کی مدت چھار ماہ ہو گی خواہ اس کا خاوند غلام ہو یا آزاد.لیکن اگر عورت کنیز ہو گی تو اس کے ایلاء کی مدت دوماہ ہوگی خواہ اس کا خاوند آزاد ہو یا غلام.گویا امام ابو حنیفہ کا مذہب غلام کے ایلاء کے متعلق بھی وہی ہے جو اس کی عورت کے متعلق ہے اور امام صاحب نے عدت کا قیاس غلام کی حد پر کیا ہے.لیکن ابن رشد یہ کہتے ہیں کہ یہ قیاس درست نہیں ہے کیونکہ حق پر قیاس کرنے کی غرض تو یہ تھی کہ غلام کے مجرم کی قباحت آزاد کے جُرم کی قباحت سے کمتر ہے اس لئے اس کی سزا بھی آزاد سے نصف رکھی گئی ہے.لیکن اس جگہ یہ غرض مفقود ہے کیونکہ غلام کا ایلار اور آزاد کا ایلا ہیلی قط قسم کے دونوں مساوی ہیں اس لئے ان میں فرق کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ابن رشد اس مذہب پر مزید جرح اس طرح کرتے ہیں کہ ایلاد کی مدت مقرر کرنے کی دو اغراض مد نظر رکھی گئی ہیں.

Page 291

: ۲۴۹ (۱) خاوند کے لئے سہولت.(۲) بیوی سے ضرر کا انبالہ - اگر ہم کنیز کے لئے چارہ ماہ سے کم مدت مقرر کریں تو اس سے کنیز سے ضرر کا ازالہ تو ہو جائے گا لیکن خاوند کو زیادہ تنگی ہو جائے گی کیونکہ اسے چار ماہ کے اندر رجوع کا حق تھا اب وہ دوبا دمیں محدود ہو گیا حالانکہ غلام کی نسبت آزاد اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو سہولت دی جائے اور اسے ضرر سے بچایا جائے.لہذا اس قیاس کے ماتحت ایلاء کی مدت صرف اس صورت میں کم ہونی چاہیئے جبکہ خاوند غلام ہو اور بیوی آزاد ہو.اور یہ مذہب کسی فقیہہ نے نہیں اختیار نہیں کیا بہذا مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کو اس حکم میں برا بر قرار دیا جائے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ غلامی کی وجہ سے مدیت ایلار میں کمی ہو جاتی ہے ان میں یہ اختلاف باقی ہے کہ اگر ایلار کے بعد کنیر آزاد ہو جائے تو کیا اس صورت میں ایلاء کی مدت آزاد کے برابر ہو جائے گی یا نہیں ؟ امام مالک کے نزدیک اس صورت میں ایلاد کی مدت زیادہ نہ ہوگی لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک زیادہ ہو جائے گی یعنی اگر بیوی کنیز ہو اور وہ ایلاء کی مدت گزار رہی ہو کہ اس دوران میں وہ آزاد ہو جائے تو اس صورت میں وہ دوماہ کی بجائے چار ماہ ایراد کی مدت گزارے گی.ابن القاسم کے نزدیک وہ نابالغ لڑکی جو تعلقات زوجیت کے قابل نہ ہو اس کے لئے ایلار نہیں ہوتا.کیونکہ تعلقات زوجیت ترک کرنے سے ایسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا.لیکن اگر وہ اس دوران میں بالغ ہو جائے تو وہ بلوغ کے وقت سے چار ماہ کی مدت مکمل کرے.اسی طرح خصی اور وہ شخص جو جماع پر قادر نہ ہو اس کے لئے بھی ایلاء نہیں ہے دسواں اختلاف یہ ہے کہ کیا ایکار سے رجوع کے لئے یہ ضروری ہے کہ عدت کے اندر اندر خاوند تعلقات زوجیت بھی قائم کرے یا یہ ضروری نہیں ہے؟

Page 292

۲۵۰ جمہور کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے.لیکن امام مالک کے نزدیک اگر می بافت نہ کرنے کا کوئی معقول عذر نہ ہو مثلاً بیماری وغیرہ تو اس صورت میں رجوع صحیح نہ ہوگا اور عدت گزارنے کے بعد وہ آزاد ہو جائے گی.وجہ اختلاف | اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض فقہاء نے اس رجوع کو جدید نکاح کے قائمقام قرار دیا ہے یعنی رجوع کے بعد پہلا ایلار ختم ہو گیا خواہ رجوع لفظا کرے یا مجامعت کے ساتھ اس کی بعد اگر دوبارہ ایلاء کرے گا تو ایلاء کی تجدید ہوگی ورنہ نہیں.یہ جمہور کا مذہب ہے.بعض فقہاء نے اس رجوع کو اس طلاق دینے والے شخص کے رجوع کے مشابہ قرار دیا ہے جس نے تنگدستی کی وجہ سے طلاق دی ہو.اور پھر وہ رجوع اس حالت میں کرے.جبکہ تنگدستی ابھی دور نہ ہوئی ہو تو جس طرح ایسا رجوع کالعدم ہے.اسی طرح ایلاد کے بعد بغیر جماع کے رجوع کرنے والے کا رجوع بھی کالعدم ہے کیونکہ اس قسم کے رجوع کے بعد اب بھی ہیوی کا ضرر قائم ہے یہ مذہب امام مالک کا ہے.

Page 293

۲۵۱ كتاب الطهار

Page 294

۲۵۲ کتاب الطہار ظہار کے احکام بارہ میں اصل راہنمائی قرآن مجید سے ہوتی ہے اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور روایات سے.اللہ تعالیٰ کا ارشاد قرآن مجید میں ان الفاظ میں وارد ہوا ہے:.وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ بِمَا قَالُوا نَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ (الآية) حدیث میں اس کے متعلق مندرجہ ذیل روایات آئی ہیں : (1) خولہ بنت مالک کی روایت : قالت ظَاهَرَ مِتى زوجى أوَيْسُ ابْنُ الصَّامِتِ فَجِلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدُّوا إِلَيْهِ وَرَسُولُ اللهِ يُجَادِلُنِي فيهِ وَيَقُولُ اتَّقِ اللَّهَ فَإِنَّهُ ابْنُ عَيْكِ فَمَا خَرَجْتُ حَتَّى اَنْزَلَ اللهُ قَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَ نَشتَكَى إِلَى اللهِ وَاللهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ( الاية) فَقَالَ لِيُعْتِقُ رَقَبَةً قَالَتْ لَا يَجِدُ قَالَ فَلْيَهُمْ شَهْرَيْنِ متَتَابِعَيْنِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ اللَّهُ شَيْخُ كَبِيرُ مَا بِهِ مِنْ صيَامٍ قَالَ فَلْيُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِينَا قَالَتْ مَا عِنْدَهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَصَدَّقُ بِهِ قَالَ فَإِنّى سَاعِيْنُهُ بِعَرَةٍ مِنْ عَمْرٍ قَالتْ وآمَنَا أَعِيْنُهُ بِعَرْقِ أَخَرَ قَالَ لَقَدْ أَحْسَنُتِ أَذهَبِی فَاطَى عَنْهُ سِتِّينَ مِسْكِيْنَا " ترجمہ :.جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہ دیتے ہیں پھر اس کے بعد جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس کی طرف لوٹے سے خود نیست مالک فرماتی ہیں کہ میرے خاوند اولیس نے میرے ساتھ ظہار کیا.چنانچہ میں رسول اسلم

Page 295

۲۵۳ (۴) مسلمہ بن صخر کی روایت : ۲۵۲ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَغِي قَالَ كُنتُ امْرَأَ أَصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَالَا يُصِيبُ غَيْرِى فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أَصِيبَ مِن امْرَأَتِي شَيْئًا يُنَابِعُ لِى حَتَّى أَصْبَحَ فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى يَنْسَلِعْ شهرُ رَمَضَانَ فَبَيْنَهَا هِيَ تَحْدِمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكشَفَ لِي مِنْهَا شَيْءٍ فَلَمُ البِتْ اَنْ نَزَوَتُ عَلَيْهَا فَلَمَّا أَصْبَحْتُ خَرَجْتُ إِلَى قوْمِي فَاخَبَرْتُهُمُ الخَبَرَ وَقُلْتُ امْشُوا مَعِي إِلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لَا وَاللهِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْبَرْتُهُ فَقَالَ اَنْتَ بِذَكَ يَا سَلَمَهُ قُلْتُ آنا بلكَ يَا رَسُولَ اللهِ مَرَّتَيْنِ وَأَنَا صَابِرُ لِأَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَاحْكُمْ مَا أَرَاكَ اللهُ قَالَ حَرَّرْ رَقَبَةً قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپکے پاس اس امر کی شکایت کی.آپ فرماتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ علیہ وسلم مجھے میرے خاوند کے متعلق سمجھاتے رہے چنانچہ آپ نے مجھے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرد تمہارا خاوند تمہارے چچا کا بیٹا ہے (اس کے خلاف شکایت نہ کرو ) چنانچہ آپ فرماتی ہیں کہ میں وہاں سے نہ نکلی یہاں تک کہ قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں کہ داے رسول ، اللہ تعالٰی نے اس عورت کی دعا کوشن آیا ہے جو اپنے خاوند کے متعلق تجھے سے بحث کرتی تھی اور اللہ تعالٰی سے فریاد کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ تم دونوں کی بحث سن رہا تھا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ کو فرمایا کہ اپنے خاوند کو کہو کہ ایک غلام آزاد کرے.حضرت خولہ نے جواب دیا کہ وہ اسکی توفیق نہیں رکھتا.آپنے فرمایا پھر اسے کہو کہ دوماہ کے متواتر روزے رکھے.حضرت خوا نے جواب دیا یا رسول اللہ وہ تو بوڑھا آدمی ہے روزے رکھنے کی بھی اسے طاقت نہیں ہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ اسے کہو کہ وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے.حضرت خولہ نے جواب دیا کہ اس کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو صدقہ میں دے سکے.آپنے فرمایا کہ میں اسے امداد کے طور پر ایک ٹھو کر کھجور کا ابھی دونگا.حضرت خولہ نے فرمایا کہ میں بھی ایک ٹوکرہ کھجور کا دونگی.آپنے فرمایا تم نے اچھا کام کیا ہے ہیں اب جا کر اپنے خاوند کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو.(ابو داؤد باب فی الظہار) ترجمہ : سلمہ بن صخر بیان کرتے ہیں کہ ازدواجی تعلقات کے لحاظ سے میں دوسروں کی نسبت بیوی کی طرف زیادہ رغبت رکھتا تھا.چنانچہ جب رمضان کا مہینہ آیا تو مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ مبادا مجھے اپنی بیوی سے کوئی ایسا امر لاحق ہو جس سے میرے لئے مشکل پیدا ہو جائے.چنانچہ جب دن چڑھا تو پیلے اپنی ہو گی

Page 296

< ۲۵۴ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةَ غَيْرَهَا وَضَرَبْتُ صَفْحَةٌ رَقَبَنِي قَالَ فَهُمْ شَهْرَيْنِ مُتَنَا بِعَيْنِ قَالَ وَهَلْ أَصَعْتُ الَّذِي أَصَبْتُ إِلا مِنَ الصيَامِ قَالَ فَاطْعِمُ وَ سَقَا مِنْ تَمْرِبَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينَا قَالَ وَالَّذِي بَعَمَّكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا وَحْشِيَّيْنِ مَا لَنَا طَعَامُ قَالَ فَانْطَلِقَ إلى صاحِب صَدَقَةٍ بَنِي رُرَيْنِ فَلْيَدَ فَصَا إِلَيْكَ فَأَطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِيْنَا وَسَقَا مِّنْ تَمَرٍ وَكُلْ اَنْتَ وَعَيَالُكَ بَقِيَّتَهَا فَرَجَعْتُ إِلى قَوْمِي فَقُلْتُ وَجَدْتُ عِندَكُمُ الصِّيقَ وَسُوْء الراي وَوَجَدتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَحُسْنَ الرَّأْي وَقَدْ أمَرَنِي بَصَدَقَتِكُمْ دابو داؤد باب الظہار ) رمضان کے اختتام تک ظہار کیا.ایک ران جبکہ وہ میری خدمت کر رہی تھی تو اس کے جسم کا کوئی حصہ بنگا ہو گیا جس سے میں بے اختیار ہو گیا اور اس کے ساتھ مجامعت کی.جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے لوگوں کے پاس آیا اور انہیں یہ واقعہ بتایا اور انہیں کہا کہ میرے ہمراہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو.انہوں نے میرے ساتھ جانے سے انکار کیا.چنانچہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا.اور اپنا واقعہ بیان کیا.آپنے دو دفعہ فرمایا کہ اے سلمہ تو نے ایسا کام کیا ہے کہ سلمہ بن صحر نے دو وقعہ ا جواب دیا.ہاں یا رسول اللہ مجھے سے ایسا فصل سرزد ہوا ہے اور میں اللہ تعالٰی کے حکم کو برداشتہ ہی نے کے لئے تیار ہوں ہیں تو کچھ الٹ تھانے ارشاد سے متعلق ہو آپ مجھے اس کا حکم دیں.آپ نے فرمایا کہ ایک نظام آزاد کر و یسلمته بن صخر فرماتے ہیں کہ یکھنے جواب دیا کہ مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا ہے میں اپنی گردن کے سوار اور کسی کا مالک نہیں ہوں.یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی گردن پر ہاتھ مارا اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کہ پھر تم دوماہ کے متواتر روزے رکھو تو سلمہ نے جواب دیا کہ مجھے موصیبت لاحق ہوتی ہے اس کا باعث بھی تو روزے ہی تھے.آپنے فرمایا کہ پھر ایک وسق کھجور ساٹھ مسکینوں میں قسم کو وسیلہ نے جواب دیا کہ مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا ہے ہم نے آج رات بغیر کھانے کے گزاری ہے.آپ نے فرمایا کہ پھر تم اس شخص کے پاس جاؤ جس کے پاس بنی زریق کے صدقات جمع ہوتے ہیں تاکہ وہ تمہیں اس میں کچھ دے.اس میں سے تم ایک وسق ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو اور باقی اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر خریچ کر و سلمہ بن صخر فرماتے ہیں کہ میں اپنی قوم کی طرف گیا اور ان کو کہا کہ سینے تمہارے پاس سے تنگی اور ناپسندید و رائے حاصل کی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ینے فراخی اور کدہ رائے حاصل کی.آپنے مجھے تم سے صدقہ لینے کا ارشاد فرمایا ہے.(ابو داؤد باب فی انتظار ) نوٹ : ایک وسق پانچ مین اور اڑھائی سیر کے برابر ہے.

Page 297

۲۵۵ ظہار کے مسائل کے متعلق بحث کرتے وقت سات امور کا بیان کرنا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہیں.(۱) ظہار کے الفاظ.(۲) کفارہ واجب ہونے کے شرائط (س) ظہا کن عورتوں سے ہو سکتا ہے ؟ (۴) ظہار کرنے والے پر کن چیزوں کی حرمت لازم آتی ہے ؟ (۵) ظہار کے بعد دوبارہ نکاح کرنے سے پہلا ظہار پھر عود کر آتا ہے یا نہیں ؟ (4) ظہار کے بعد ایلار ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ دے ، ظہار کے کفارہ کے احکام.ظہار کے الفاظ تمام فقہاء اس امر پر متفق ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ تم میرے لئے ایسی ہو جیسے میری ماں کی پیٹھ دیعنی حرام ہو، تو یہ تمہار ہے اس بارہ میں اختلاف ہے کہ اگر وہ پیٹھ کے علاوہ کسی اور عضو کا نام لے یا اپنی ماں کے علاوہ کسی اور رشتہ دار عورت کی پیٹے سے تشبیہ دے جس کا نکاح اس کے لئے شرعا حرام ہے تو کیا یہ بھی ظہار میں شامل ہے یا نہیں ؟ امام مالک کے نزدیک یہ بھی ظہار ہے.لیکن علماء کی ایک جماعت کے نزدیک اعضا رمیں سے صرف پیٹھ اور رشتہ داروں میں سے صرف ماں کی تشبیہہ سے ہی ظہار ہوتا ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک ظہار ہر اس عضو سے تشبیہ دینے سے ہو جاتا نشبیہ دینے ہے جس کی طرف دیکھنا حرام ہے.وجہ اختلاف ایک طرف ظاہر حکم ہے اور دوسری طرف اس حکم کا معنی اور مقصد ہے.مفہوم اور معنی کے لحاظ سے ماں اور دوسری وہ رشتہ دار عورتیں جن سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے حرمت میں برابر ہیں.اسی طرح حرمت کے لحاظ سے ماں اور ان دیگر عورتوں کی پیٹھ اور دوسرے

Page 298

۲۵۶ پرائیویٹ اعضاء برا بر ہیں.اس لئے ان کے ذکر سے بھی ظہار ہو جانا چاہیئے.ظاہر شریعت کے لحاظ سے ظہار صرف اس کو کہا جائے گا.جس میں صرف بیٹھے اور ماں کا ذکر ہو.اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صرف یہ کہے کہ تم میری ماں کی طرح ہوا اور بیٹے کا ذکر نہ کرے تو کیا اس سے بھی ظہار ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایسے موقعہ پر اس کی نیت معلوم کی جائے گی.کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے اس کی مراد ماں کی طرح عزت و تکریم ہو لیکن امام مالک کے نزدیک یہ الفاظ بھی ظہار کے الفاظ میں شامل ہیں.اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایسی عورت کی پیٹھ سے مشابہت دے جو اس کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ہے تو امام مالک کے نزدیک یہ بھی ظہار ہے.اور ابن الماجشون کے نزدیک یہ ظہار نہیں ہے.ا اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بعض کے نزدیک اپنی بیوی کو ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ہے.اس عورت سے تشبیہہ کی طرح ہے جو ہمیشہ کے لئے حرام ہے.پس جس نے ان دونوں کو برا بر قرالہ دیا اس نے اسے ظہار قرار دیا دوسرے نے نہیں.

Page 299

۲۵۷ وجوب کفارہ کی شرائط جمہور کا مذہب یہ ہے کہ کفارہ اس وقت تک واجب نہیں ہوتا جب تک ظہار کرنے والا دوبارہ جماع یا ارادہ جماع نہ کرے.جمہور کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :- وَالَّذِيْنَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثمَّ يَعُورُونَ بِمَا قَالُو فَتَحْرِيرُ رقبة الآيه ( مجادله لح) یہ آیت اس بارہ میں نص ہے کہ کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے.جب ظہار کرنے والا ظہار کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ دوبارہ ازدواجی تعلقات قائم کرنے یا قائم کرنے کا ارادہ کرے.جمہور کی قیاسی دلیل یہ ہے کہ ظہار کا کفارہ بھی قسم کے کفارہ کی طرح ہے.جس طرح قسم کے کفارہ کے لئے ضروری ہے کہ پہلے قسم توڑی جائے یا قسم توڑنے کا ارادہ کیا جائے.اسی طرح ظہار کے گزارہ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ظہار کرنے والا پہلے اپنے قول سے منحرف ہو کر اپنی بیوی سے مجامعت کرے یا اس کا ارادہ کرے.مجاہد اور طاؤس کا مذہب یہ ہے کہ ظہار کے کفارہ کے لئے جماع یا ارادہ جماع شرط نہیں ہے بلکہ نفس ظہار سے ہی کفارہ لازم آجاتا ہے کیونکہ یہ کفارہ قتل اور روزہ توڑنے کے کفارہ کی مانند ہے کہ نفس فصل سے ہی کفارہ لازم آجانا ہے کسی زائد معنی اور مفہوم کی ضرورت نہیں ہے.جمہور کی دلیل کا انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طارق سمجھا جاتا تھا.اسلام آنے کے بعد اس حرمت کو کفارہ کے ذریعہ منسوخ کر دیا.یعنی جاہلیت میں ظہارہ کی وجہ سے عورت حرام ہو جاتی تھی اسلام میں اس حرمت کو حلت میں تبدیل کرنے کے لئے کفارہ کا حکم دے دیا گیا.اور قرآن مجید

Page 300

۲۵۸ میں جو یہ کہا گیا ہے.ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا.اس میں " عود کے معنی اسلام میں عود کرتا ہے وہ لوگ جو کفارہ کے لئے خود کے قائل ہیں انہوں نے بھی عود کے مفہوم میں اختلاف کیا ہے.امام مالک سے اس بارہ میں تین روایات منقول ہیں :- (1) خود کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھنے کا ارادہ کرے اور مجامعت کا قصد کرے.(۲) صرف مجامعت کا قصد کرے یہ ان کے اصحاب کا مشہور قول ہے اور یہی مذہب امام احمد اور امام ابو حنیفہ کا ہے.(۳) اس سے عملاً مجامعت کرے یہ امام مالک کے اصحاب کی ضعیف روایت ہے.امام شافعی کے نزدیک عود کا مطلب صرف امساک ہے یعنی بیوی کو اپنے پاس رکھنے کا ارادہ کرنا.امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ جو شخص ظہار کے بعد اسے اپنے پاس رکھتا ہے اور طلاق نہیں دیتا جبکہ وہ اس عرصہ میں طلاق دے سکتا تھا.دس سے یہ ثابت ہوا کہ اس نے اپنے قول سے عملا رجوع کر لیا ہے.پس اس رجوع کے بعد بیوی کی حرمت کو حکمت میں تبدیل کرنے کے لئے کفارہ ادا کرے.داؤد اور اہل ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ عود کا مطلب دوسری دفعہ ظہار کرتا ہے یعنی جب کوئی شخص ایک دفعہ ظہار کرے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے.پھر جب دوبارہ ظہار کرے گا تو اس پر کفارہ لازم ہو گا کیونکہ ان کے نزدیک نخود کا یہی مطلب ہے.امام مالک کا مشہور مذہب دو اصولوں پر مبنی ہے.یعنی کفارہ کا وجوب اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس شخص نے ظہار کے ذریعہ جس چیز کو اپنے اوپر حرام کیا تھا اب اس سے رجوع کر کے وہ اپنے لئے حلال کر رہا ہے.یہ رجوع یا مجامعت سے ہو سکتا ہے یا مجامعت کے عزم و ارادہ سے

Page 301

۲۵۹ اب خود کا معنی محض مجامعت ہو یہ ممکن نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَا اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجامعت سے قبل کفارہ ادا کرنا ضروری ہے.نیز یہ کہ کفارہ سے قبل مجامعت حرام ہے تو معلوم ہوا کہ اس جگہ عود کے معنی صرف ارادہ جماع ہے.امام مالک اور ان کے موافقین کہتے ہیں کہ اگر عود کے معنے محض امساک مینی طلاق سے رکنے کے ہیں تو ظہار کے معنے امساک سے بالکل برعکس ہونے چاہیئے یعنی ظہار کے معنے طلاق کے ہونے چاہئیں.اور یہ مذہب کسی کا بھی نہیں ہے غرض فقہاء نے مختلف نتیجے نکالتے ہوئے اس مسئلہ کا تجزیہ کیا ہے اور مختلف نتائج اخذ کئے ہیں مثلا داؤد ظاہری نے خود کے معنی ظہار میں تکرار کے کئے ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے.یا دوسرے فقہار نے عود کے سننے مجامعت کے یا امساک کے یا مجامعت کا ارادہ کے گئے ہیں.این ارشدان مختلف نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عود کے معنی کرایہ ظہار کے تو نہیں ہو سکتے کیونکہ تکرار ظہار تو تاکید کے لئے ہے اور تاکید سے کفار و لازم نہیں آتا.اسی طرح خود کے معنے مجامعت کی نیت سے امساک اور رکنے کے بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ امساک تو پہلے سے موجود ہی ہے کیونکہ ابھی تک اس نے طلاق نہیں دی لہذا امساک تو موجود ہوا اب مجامعت کا ارادہ باقی رہ گیا.پس جب اس نے مجامعت کی نیت سے امساک کیا تو گویا اس نے نفس مجامعت کا ہی ارادہ کیا لہذا ثابت ہوا کہ عود کے معنی مجامعت کے ارادہ کے ہی ہیں.امام شافعی ہو نے جو یہ کہنا ہے کہ خود کے معنی محض ارادہ امساک ہے ان کا لے ترجمہ :.ان کے لئے ضروری ہے کہ قبل اس کے کہ وہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو چھوٹیں ایک غلام آزاد کریں.(مجادلہ )

Page 302

F4- مطلب یہ ہے کہ امساک کی اصل غرض مجامعت ہے.گویا انہوں نے ایک چیز کے لازم معنی کو اصل چیز کے قائمقام قرار دیا ہے یعنی امساک کو مجامعت کے قائمقام قرار دیا ہے لہذا انہوں نے ان دونوں کا حکم بھی ایک ہی قرار دیا ہے.اسی طرح امام شافعی نے ایک استدلال یہ کیا ہے کہ امساک کا ارادہ و جوری کفارہ کا سبب ہے گویا ارتفاع امساک سے ارتفاع کفارہ لازم آیا یعنی جب امساک نہ رہا تو کفارہ بھی نہ رہا.کیونکہ امساک نہ رہنے کا مطلب ظہار کے بعد طلاقی ہے جب طلاق ہو گئی تو کفارہ کا کیا مطلب ہوا.یہی وجہ ہے کہ امام مالک کی دوسری روایت میں مزید احتیاط سے کام لیا گیا ہے اس روایت کے مطابق انہوں نے تجوید کے معنی ارادہ امساک اور ارادہ مجامعت دونوں لئے ہیں.ابن رشد کے نزدیک عود بھیجنے مجامعت ضعیف ہے.اور نص صریح کے خلاف ہے.جن لوگوں نے اظہار کو قسم کے مشابہ قرار دیا ہے یعنی میں طرح کسم کا کفارہ قسم توڑنے کے بعد واجب ہوتا ہے اسی طرح ظہار کا کفارہ مجامعت کے بعد واجب ہونا چاہیے.یہ قیاس درست نہیں ہے کیونکہ یہ نص صریح کے خلاف ہے.چنانچہ نص صریح ہیں یہ حکم ہے کہ ظہار کرنے والا کفارہ ادا کرنے سے پہلے مجامعت نہیں کر سکتا اس لئے عود کے معنے نفس مجامعت کے لینا صحیح نہیں ہے.اس باب میں بعض فروع میں فقہا ر نے اختلاف کیا ہے.مثلاً یہ کہ ظہار کے بعد خود کے عزم سے قبل ظہار کرنے والا اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا اس کی بیوی مر جائے تو کیا خاوند کو کفارہ ادا کرنا ہوگا یا نہیں ؟ جمہور فقہار کا مذہب یہ ہے کہ ایسی صورت میں اس پر کفارہ لازم نہیں ہے.سوائے اس کے کہ عود کے ارادہ کے بعد اسے طلاق دیدے.یا ایک طویل عرصہ تک امساک کے بعد اسے طلاق دیدے تو اس صورت میں اسے کفارہ ادا کرنا ہوگا.

Page 303

۲۶۱ عثمان متی کا مذہب یہ ہے کہ جب ظہار کے معا بعد طلاق دیدے تو ایسی صورت میں طلاق کے بعد اسے کفارہ ادا کرنا ہوگا.اور اگر اس کی بیوی عود کے ارادہ سے قبل مرجائے تو وہ اس کا اس وقت تک وارث نہ ہو گا جب تک کفارہ ظہا را دا تذکرے گا.این رشد کا خیال یہ ہے کہ یہ مذہب نص صریح کے خلاف ہے کیونکہ کفارہ تو خود کے بعد واجب ہوتا ہے اور اس شخص نے تو ظہار کے معا بعد طلاق دیدی ہے اور خود نہیں کیا.لہذا یہ مذہب نص صریح کے خلاف ہے.ظہار کس عورت سے ہو سکتا ہے اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ اپنی منکوجہ بیوی سے تمہار ہو سکتا ہے لیکن لونڈی اور اجنبی عورت سے ظہار کے وقوع کے متعلقی اختلاف ہے اسی طرح اگر بیوی خاوند سے ظہار کرے تو کیا یہ بھی صحیح ہے یا نہیں ہے.اس بارہ میں بھی اختلاف ہے.لونڈی سے ظہار کے متعلق امام مالک.ثوری اور ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ اس کا ظہار نبی وہی حکم رکھتا ہے جو آزاد بیوی کا ہے.اسی طرح مد تبرہ اور ام ولد کا حکم بھی وہی ہے جو آزاد بیوی کا ہے.امام شافتی ابو حنیفہ - احمد.اور ابو ثور کا مذہب یہ ہے کہ لونڈی سے ظہار صحیح نہیں ہوتا.اوزاعی کا مذہب یہ ہے کہ اگر لونڈی سے مجامعت کرتا ہے تو اس سے ظہار ہو سکتا ہے.اور اگر مجامعت نہیں کرتا تو یہ قسم ہے اور اس سے کفارہ قسم لازم آتا ہے.عطاء کا مذہب یہ ہے کہ اس کا ظہار صحیح ہوگا لیکن اس کا کفارہ آزاد بیوی کے کفارہ سے نصف ہوگا.

Page 304

P4P وہ لوگ جو لونڈی کے ظہار کو صحیح قرار دیتے ہیں وہ اپنی تائید میں اللہ تعا کے عمومی ارشاد کو پیش کرتے ہیں.وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ چونکہ لونڈیاں بھی نیساء میں شامل ہیں اس لئے ان کا حکم بھی وہی ہوگا جو دوسری بیویوں کا ہے.وہ لوگ جو لونڈی کے اظہار کو صحیح قرار نہیں دیتے ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد :- لِلَّذِينَ يُولُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ میں نساء سے مراد صرف منکوحہ بیویاں لی گئی ہیں اسی طرح آیت اظہار میں بھی شمار سے مراد منکوحہ بیویاں ہی ہونی چاہیئے.فریقین کے مندرجہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ ان کے درمیان وجد اختلال یہ ہے کہ ایک فریق کے نزدیک ظہار.ایلاء کے مشابہ ہے.پس جس طرح آیت ایلاء میں نساء سے مراد بیویاں ہیں اسی طرح آیت ظہار میں بھی فنساء سے مراد منکوحہ بیویاں ہیں.دوسرے فریق کے نزدیک نساء کا لفظ عام ہے جو لونڈیوں اور بیویوں دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے ظہار لونڈیوں سے بھی اسی طرح صحیح ہے جس طرح بیویوں سے.یہ امر کہ کیا ظہار کے لئے یہ ضروری ہے کہ عورت ظہار کرنے والے کی منکوحہ ہو ہے اس کے متعلق امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے.ان کے نزدیک اگر کوئی شخص کسی عورت کے متعلق یہ ہے کہ اگر وہ میرے نکاح میں آگئی تو اس کی پیٹھ میری ماں کی میٹھے کی طرح ہے تو امام مالک کے نزدیک یہ ظہار صحیح ہوگا اور جب وہ اس کے نکاح میں آئے گی یہ ظہار اس پر اثر انداز ہوگا.

Page 305

۲۶۳ اسی طرح اگر وہ کسی عورت کی تعیین کئے بغیر ظہار کرے مثلاً یہ کہے کہ ہیں میں عورت سے بھی نکاح کرونگا.اس کی پیٹھ میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے تو یہ ظہار بھی صحیح ہوگا.دامام مالک کے نزدیک غیر معین صورت سے ظہار صحیح ہے.ایراد صحیح نہیں ہے، لیکن امام ابو حنیفہ - نوری اور اوزاعی کے نزدیک ظہار صرف منکوحہ عورت سے ہی ہو سکتا ہے.غیر منکوحہ سے نہیں ہو سکتا.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ ظہار ملوکہ عورت سے ہو سکتا ہے یہ قول امام شافعی ابو ثور اور داؤد کا ہے.ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ غیر معتین عورتوں سے ظہار نہیں ہو سکتا لیکن معین عورتوں سے ہو سکتا ہے.مثلاً یہ کہے کہ اگر فلاں شہر یا فلاں قبیلہ یا فلاں محلہ کی عورت سے نکاح کروں تو اس کی پیٹھ میری ماں کی بیٹھ کی طرح ہے.تو یہ نہار صحیح ہو گا.یہ قول ابن ابی لیلی.اور حسن بن تھی کا ہے.فریق اول کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اوفُوا بِالْعُقُودِ کہ اپنے عہد کو پورا کرو.چونکہ یہ بھی ایک عہد ہے لیکن ملکیت کے ساتھ مشروط ہے تو ہم اسے ایسا ہی سمجھیں گے جیسا کہ وہ فی الحال اس کا مالک ہے کیونکہ مومن پر عہد کی پابندی لازم ہے لہذا یہ ظہار صحیح ہوگا.امام شافعی کی دلیل حضرت عمرو بن شعیب کی ایک روایت ہے جو انہوں نے اپنے باپ سے بیان کی ہے.اور وہ یہ ہے:.انَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لا طَلَاقَ إِلَّا فِيمَا اس بارہ میں امام مالک کے نزدیک ایکار اور ظہار کے حکم میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ ایلا ایک قسم کی طلاق ہے اور ابلاء میں اس قسم کی طلاق کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمر بھر کے لئے دنیا کی تمام عورتوں کو اپنے لئے حرام کر رہا ہے.چونکہ یہ شرعی حکمت کے خلاف ہے اس لئے غیر معین عورتوں کے لئے ایلاء جائزہ نہیں ہے.ظہار میں چونکہ یہ صورت نہیں ہے اور اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی.بلکہ کفارہ ادا کرتا پڑتا ہے.اس لئے انہوں نے غیر معتلق عورتوں کے ظہار کو صحیح قرار دیا ہے.

Page 306

= ۲۶۴ يَمْلِكُ وَلَا عِشقَ إِلَّا فِيْمَا يَمْلِكُ وَلَا بَيْعَ الَّا فِيمَا يَمْلِكُ وَلا وقاءَ بِنَذَرٍ إِلَّا فِيْمَا يَمْلِكُ.جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے اس باب میں یہ بھی اختلاف کیا گیا ہے کہ کیا....عورت بھی مرد سے ظہار کر سکتی ہے یا نہیں ؟ مثلاً اپنے خاوند کو یہ کہے کہ تمہاری شرمگاہ میرے باپ کی شرمگاہ کی طرح ہے.تو کیا اس قسم کا ظہار صحیح ہوگا یا.نہیں ؟ علماء کے اس بارہ میں تین اقوال بیان ہوئے ہیں :- مشہور قول یہ ہے کہ عورت کی طرف سے ظہار صحیح نہیں ہوتا.یہ امام مالک اور شافعی" کا قول ہے.دوسرا قول یہ ہے کہ عورت پر کفارہ قسم لازم آتا ہے.تیسرا قول یہ ہے کہ یہ ظہار صحیح ہے اور عورت پر ظہار کا کفارہ لازم ہے.جمہور کی دلیل یہ ہے کہ ظہار طلاق کے مشاہد ہے پس جس طرح عورت کو طلاق کا اختیار نہیں ہے اسی طرح اسے ظہار کا بھی اختیار نہیں ہے جس نے عورت کے ظہار کو درست قرار دیا اس کے نزدیک ظہار قسم کے مشاہد ہے.پس جس طرح عورت کی قسم صحیح ہوتی ہے اسی طرح اس کا ظہار بھی صحیح ہونا چاہیئے.تیسرے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ عورت کے اس قول سے نہ تو ظہار لازم آئیگا نہ عدم ظہار.بلکہ اس کو اس قول سے کم از کم کفارہ ادا کرتا ہوگا.اور وہ کفارہ قسم ہے.ابن رشد کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے.که ترجمه :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طلاق صرف اس عورت کو ہوتی ہے جو اپنی زوجیت میں ہو.اور آزادی صرف اس غلام کی صحیح ہے جو اپنی ملکیت میں ہو.اور پہیے صرف اس چیز کی صحیح ہے جو اپنی ملک میں ہو اور نذر صرف اس چیز سے ادا ہو سکتی ہے جو اپنی ملک میں ہو.د ترندی باب لاطلاق قبل النكاح )

Page 307

۲۶۵ ظہار سے کس قسم کے افعال حرام ہوتے ہیں اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ ظہار کرنے والے پر مجامعت حرام ہو جاتی ہے.لیکن مجامعت کے علاوہ دیگر ذرائع لذت کے متعلق اختلاف ہے امام مالک کے نزدیک مجامعت اور دیگر تمام ذرائع لذت حرام ہو جاتے ہیں.مثلاً بوسہ لینا.مکس کرنا.شہوت کی نظر سے اس کی طرف دیکھتا.البتہ وہ اس کے ہاتھ.پاؤں اور چہرے کو شہوت کی نظر سے دیکھ سکتا ہے.امام ابو حنیفہ کا بھی یہی مذہب ہے لیکن ان کے نزدیک صرف شرمگاہ کو دیکھنا مکروہ ہے.دیگر تمام اعضاء کو شہوت کی نظر سے دیکھ سکتا ہے.امام شافعی کے نزدیک مجامعت کے علاوہ دیگر تمام ذرائع لذت کا حصول جائز ہے.یہی مذہب امام احمد اور ثوری کا ہے.امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسًا اس سے معلوم ہوا کہ کفارہ ادا کرنے سے قبل مس کرنا منع ہے کیونکہ کس کا لفظ عام ہے اور یہ مباشرت اور دیگر تمام ذرائع لذت کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے متعلق یہ قسم کھائے کہ وہ اس سے مس نہیں کرے گا تو وہ اس پر حرام ہو جاتی ہے لہذا یہ معلوم ہوا کہ مس طلاق کے الفاظ کے قائمقام ہے.امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ کس کا لفظ اس جگہ مجامعت سے کنایہ ہے اس لئے مجامعت کے علاوہ دیگر معنوں میں استعمال نہیں ہوگا کیونکہ یہ لفظ یا تو جماع کے لئے استعمال ہوگا اور یا جماع کے علاوہ ظاہری مس پر.چونکہ جماع کے معنوں میں اس کا استعمال مجازی ہے اور ہاتھ لگانے کے معنوں میں حقیقی اور فقہاء نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ آیت قرآنی میں مکس کے معنی جماع کے ہیں.

Page 308

۲۶۶ یعنی انہوں نے اس کے حقیقی معنوں کو چھوڑ کر مجازی معنوں کو اختیار کیا ہے.کیونکہ حقیقت اور مجاز دونوں ایک وقت میں ایک لفظ میں جمع نہیں ہو سکتے اس لئے اس کے دیگر معنے چھوڑنے پڑیں گے.این رشد کہتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے نزدیک مشترک لفظ میں عمومیت ہوتی ہے اور اس سے حقیقی اور مجازی دونوں معنے بیک وقت لئے جاسکتے ہیں ان کا یہ قول نہایت درجہ ضعیف ہے اور قابل قبول نہیں ہے.کیا دوبارہ نکاح سے ظہار کا حکم دوبارہ لازم آتا ہے اگر کوئی شخص ظہار کے بعد کفارہ ادا کرنے سے قبل طلاق دیدے پھر اس سے نکاح کرلے تو کیا یہ ظہار دوبارہ عود کر آئے گا یا نہیں ؟ امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس نے تین سے کم طلاقیں دی تھیں اور عدت کے اندر یا بعد اس نے رجوع کر لیا تھا تو اسپر کفارہ واجب ہے.امام شافعی " کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس نے عدت کے اندر رجوع کیا ہے تو اس صورت میں اس پر کفارہ لازم ہے لیکن اگر اس نے مدت کے بعد رجوع کیا.یعنی نکاح جدید کیا تو اس صورت میں اس پر کفارہ واجب نہیں ہے امام شافعی جیسے امام مالک کے موافق بھی ایک قول منقول ہے.امام محمد بن حسی کے نز دیک ظہار کا حکم دوبارہ عود کر آتا ہے خواہ اس نے تین طلاقوں کے بعد رجوع کیا ہو یا ایک طلاق کے بعد.وجد اختلاف اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ فقہاء میں اس بارہ میں نزاع ہے کہ کیا طلاق سے تمام احکام زوجیت ساقط ہو جاتے ہیں یا نہیں ؟ بعض کے نزدیک بالن طلاق سے پہلے احکام ساقط ہو جاتے ہیں اور تین طلاقوں سے کم میں پہلے احکام ساقط نہیں ہوتے.بعض کے نزدیک کسی قسم کی طلاق سے بھی پہلے احکام ساقط نہیں ہوتے.

Page 309

ابن رشد کے نزدیک بظاہر ان لوگوں کا قول زیادہ درست ہے جن کے نزدیک ہر قسم کی طلاق سے پہلے تمام احکام ساقط ہو جاتے ہیں.ظہار کے بعد ایلاء بھی واقع ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ جب خاوند کی نیست بیوی کو محض تنگ کرنا ہو اور اس نے تمہار کے بعد کفارہ ادا نہ کیا ہو بلکہ اس کے بعد ایلار کر لیا ہو تو کیا یہ ایلا بھی درست ہو گا یا نہیں ؟ اس بارہ میں امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ ظہار کا حکم اور ہے اور ایلار کا حکم اور ہے.چونکہ دو حکم ایک دوسرے پر اثر اندازہ نہیں ہوتے اس لئے ظہار پر ایلار واقع نہ ہوگا خواہ اس کی نیت ضرر پہنچانے کی ہو یا نہ ہو یہی مذہب اوزاعی اور ایک اور جماعت کا ہے.امام مالک کے نزدیک ایلار ظہار کے بعد واقع ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس کی نیت ایلاء سے ضرر پہنچانا ہو.ٹوری کے نزدیک ظہار کے بعد ایلار کرنے سے چار ماہ کے بعد وہ پائن ہو جاتی ہے.خواہ اس کی نیت ضرر پہنچانے کی ہو یا نہ ہو.وجہ اختلاف جس نے معنی اور مقصد کو ملحوظ رکھا ہے اس کے نزدیک ظہار کے بعد ایلار واقع ہو جاتا ہے لیکن میں نے ظاہر مفہوم کو لیا ہے اس کے نزدیک ایک حکم دوسرے حکم پر اثر انداز نہیں ہوتا.کفارہ ظہار کے احکام ظہار کے کفارہ میں مختلف امور پر سجت کی جائے گی.مثلاً :- (1) کفارہ کی انواع (۳) کفارہ کی ترتیب.(۳) شرائط کفارہ (ہی) ایک کفارہ کب واجب ہوتا ہے اور ایک سے زیادہ کب ؟

Page 310

۲۶۸ کفارہ کی انواع کے متعلق فقہاء کا اتفاق ہے کہ کفارہ کی تین قسمیں ہیں.دا) غلام آزاد کرنا (۲) دو مہینے کے روزہ رکھنا.(۳) ساتھ مسکینوں کو کھانا کھلانا.ان تینوں کی ادائیگی کی ترتیب بھی وہی ہے جس ترتیب سے ان کا بیان کیا گیا ہے.یعنی پہلے غلام آزاد گرے.اگر غلام آزاد نہ کر سکے تو روزے رکھے.اگر روزے بھی نہ رکھ سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے.غلام کے متعلق اختلاف ہے کہ اگر خود غلام ظہار کرے تو کیا وہ بھی غلام آزاد گر یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ؟ ابو ثور اور داؤد کے نزدیک اگر اس کا مالک اسے اس امر کی اجازت دے تو وہ غلام آزاد کرے.ورنہ نہیں لیکن دیگر فقہاء نے اس کی اجازت نہیں دی.کھانا کھلانے کے متعلق امام مالک نے اپنے آقا کی اجازت سے جائز قرار دیا ہے.لیکن امام ابو حنیفہ اور شافعی نے اسے بھی جائز قرار نہیں دیا گھریا ان کے نزدیک غلام یہ کفارہ صرف روزوں کے ذریعہ ادا کر سکتا ہے کفارہ کی شرائط کے متعلق ایک اختلاف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کفار کے روزے رکھ رہا ہے اور اس نے ابھی دو ماہ روزے کمل نہیں کئے کہ ما است کر لی.تو کیا اسے پھر شروع سے روزے رکھنے چاہیے یا دو ماہ کے بقیہ روزے تو مکمل کرنے چاہیئے.امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ دوبارہ روزے رکھے.صرف امام ابو حنیفہ نے اتنا فرق کیا ہے کہ اگر اس نے محمد اجماع کیا ہے تو دوبارہ رور ہے مکمل کرے.اور اگر بھول کر کیا ہے تو دوبارہ شروع سے روزے نہ رکھے بلکہ پہلے روزے مکمل کرے.امام شافعی کے نزدیک کسی صورت میں بھی دوبارہ روزے رکھنے کی ضرورت

Page 311

نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک روزوں کے دوران میں مجامعت کر سکتا ہے.وجہ اختلاف بعض کے نزدیک ظہار کے کفارہ کے روزوں کے لئے "من قبْلِ أَن يَتَما شا کی شرط ضروری ہے لیکن بعض کے نزدیک ظہار کا کفارہ بھی قسم کے کفارہ کے مشاہد ہے جس نے اس شرط کو ضروری قرار دیا ان کے نزدیک دوبارہ روزے مکمل کرے.اور جس نے اس کو قسم کے کفارہ کے مشابہ قرار دیا اس کے نزدیک دوبارہ روزے مکمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قسم کا کفارہ قسم توڑنے کے بعد واجب ہوتا ہے.اس.درمیان میں توڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ظہار کے کفارہ کے متعلق ایک اختلاف یہ ہے کہ غلام جو آزاد کیا جائے وہ مومن ہونا ضروری ہے یا غیر مومن غلام بھی آزاد ہو سکتا ہے.امام مالک اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اس کے لئے مومن ہو نا شرط ہے.لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک کا فر غلام بھی آزاد ہو سکتا ہے.لیکن شرط یہ ہے کہ وہ مشرک یا مرتد نہ ہو.امام مالک اور امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ غلام کو آزاد کرنا ایک ثواب کا کام ہے.اس لئے مسلمان غلام ہی آزاد کرنا چاہیے.جیسا کہ کفارہ مقتل میں مسلمان غلام آزاد کرنے کا حکم ہے.چنانچہ کفارہ قتل پر قیاس کرتے ہوئے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ ظہار میں بھی مسلمان غلام آزاد کیا جائے.گو یا کفارہ قتل میں غلام کی آزادی کو مومن کی قید سے مقید کیا گیا ہے.اور کفار کا ظہار میں مطلق غلام کی آزادی کا حکم ہے.لہذا اس مطلق کو مقید پر قیاس کرتے ہوئے دونوں کا ایک ہی حکم ہوگا.امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ کفارہ ظہارہ میں ظاہر حکم پر عمل کرنا چاہیئے یعنی مقید حکم کو مقید پر اور مطلق کو مطلق پر محمول کرنا چاہیئے کیونکہ ہر ایک کا حکم اپنی اپنی جگہ پر قائم ہے.یعنی جہاں " مؤمن " کا لفظ آیا ہے وہاں مومن غلام مراد

Page 312

٢٧٠ ہوگا اور جہاں مطلق حکم ہے وہاں مومن اور غیر مومن دونوں قسم کے غلام کفارہ میں آزاد کئے جا سکتے ہیں.کفارہ ظہار کے متعلق ایک اختلاف یہ ہے کہ آزاد کردہ غلام کا تمام عیوب سے صحیح سالم ہونا ضروری ہے یا عیب دار غلام بھی آزاد کیا جا سکتا ہے.جمہور کے نزدیک کفارہ میں غلام کو آزاد کرنا قربانی کے قائمقام ہے میں طرح قربانی ثواب کی نیت سے دی جاتی ہے اس لئے اس کا جملہ عیوب سے پاک ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے.اسی طرح غلام کی آزادی کا حال ہے اس میں نبھی ثواب کی نیت ہوتی ہے اس لئے اسے بھی جملہ عیوب سے بری ہونا چاہئے.دوسرے فریق کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید کا حکم عام ہے اس میں بے عیب ہونے کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی اس لئے ہمیں بھی اس میں تخصیص کرنے کا اختیار نہیں ہے.وہ لوگ جن کے نزدیک میبدار غلام آزاد کرنے سے کفارہ ادا نہیں ہوتا ان کے نزدیک بھی بعض عیوب اس حکم سے مستثنی ہیں.چنانچہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اندھا ہونا یا دونوں ہاتھوں یا پاؤں کا کٹا ہونا عیب ہے اور ایسا غلام آزاد کرنے سے کفارہ ادا نہیں ہوتا.جس کا صرف ایک ہاتھ کٹا ہوا ہوا امام ابو حنیفہ اس کو آزاد کرنا جائز سمجھتے ہیں.لیکن امام مالک اور شافعی اس کو جائز نہیں سمجھتے.امام مالک کے نزدیک ایک آنکھ سے کانا یا دونوں کان کٹے ہوئے غلام کو کھارہ میں آزاد کرنا منع ہے.لیکن امام شافعی کے نزدیک جائز ہے.بہرے غلام کے متعلق امام مالک کی دو روایات ہیں ایک روایت کے مطابق جائز ہے اور دوسری روایت کے ماتحت ناجائز ہے.لیکن گونگے کے متعلق امام مالک کا یہی مذہب ہے کہ اسے کفارہ میں آزاد نہیں کرنا چاہئیے.

Page 313

مجنون کے متعلق بھی مختار راہب یہی ہے کہ اسے کفارہ میں آزاد نہیں کرنا چاہیئے.عام فقہاء کے نزدیک چھوٹے بچے کو کفارہ میں آزاد کرنا جائز ہے لیکن متقدمین کے نزدیک ناجائز ہے.تخت ارمذہب کے مطابق لنگڑا پن کا کوئی حرج نہیں ہے لیکن واضح لنگڑا پن آزادی میں مانع ہے.اس اختلاف کے متعلق کسی کے پاس بھی واضح دلیل نہیں ہے سوائے اس کے کہ قربانیوں میں کونسے عیوب موثر ہیں اور کونسے نہیں ؟ جو کسی عیب کو قربانی میں موثر قرار دیتے ہیں وہ کفارہ میں بھی موثر قرار دیتے ہیں.مشترک غلام یا مکاتب اور مدتیر کے متعلق ایک فریق کا مذہب یہ ہے ، کہ ان کو کفارہ میں آزاد نہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ اور آزادی کامل اس وقت ہوتی ہے جبکہ غلامی کامل ہو چونکہ مشترک غلام بھی کامل غلام نہیں ہوتا.اسی طرح مکاتب یا مرتبہ غلام بھی کامل غلام نہیں ہوتا اس لئے یہ ہر سہ اس حکم کے ماتحت نہیں آسکتے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر مہ کا تب غلام نے کچھے حصہ مکاتبت کا ادا کر دیا ہو تو اسے آزاد کرنا منع ہے وہ نہ جائز ہے.مدتیر کے متعلق امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ وہ بھی مکاتب کی طرح آزاد نہیں ہو سکتا.لیکن امام شافعی کے نزدیک مدیر کی آزادی جائز ہے.امام مالک کے نزدیک ارقم والد کو کفارہ میں آزاد کرنا جائزہ نہیں ہے کیونکہ اسم ولد کی آزادی یقینی ہے بلکہ اس کی آزادی تومد تر اور مکاتب سے بھی یقینی ہے.کیونکہ مکاتب اگر کتابت کی رقم ادا نہ کر سکے تو اس کی غلامی پھر عود کر آتی ہے.اسی طرح مد تبر کے متعلق بھی قاضی حکم دے سکتا ہے کہ اس کے مالک کے قرضہ کی ادائیگی کے لئے اسے فروخت کیا جائے.لیکن ام ولد کے متعلق ہیں قسم کے امکانات نہیں ہیں لہذا اسے کفارہ میں آزاد کرنا جائز نہیں ہے

Page 314

۲۷۲ وہ غلام یونسی تعلق کی بناء پر غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے.اسے کفار کا ظہار میں آزاد کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک ایسا غلام کفار کا ظہار میں آزاد کرتا جائز نہیں ہے لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر اسے کفار کو ظہار کی نیت سے آزاد کرے تو کافی ہوگا.امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ اس غلام کا خریدنا اس کے لئے واجب نہ تھا.اب جبکہ اس کو آزاد کرنے کی نیت سے اس نے خرید کیا ہے.تو اسکی نیت کے مطابق اس پر حکم عائد ہو گا یعنی اگر وہ اسے کفارہ ظہار کے لئے آزاد کرے گا تو اس کے لئے کافی ہو گا.امام مالک اور امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ جب اس نے ایسا غلام خریدا جو خریدنے کے بعد بغیر قصد کے اس پر آزاد ہو جاتا ہے تو اس کی آزادی کفارہ کے لئے کافی نہ ہونی چاہیئے.اگر کوئی شخص دو غلاموں کا نصف نصف حصہ آزاد کر دے تو امام مالک کے نزدیک کفارہ ادا نہ ہو گا.امام شافعی کے نزدیک ادا ہو گا.کیونکہ یہ ایک غلام کے قائمقام ہے.امام مالک ظاہر آیت کو لیتے ہیں.کیونکہ اس میں ایک مستقل غلام کی آزادی کا حکم ہے.اس لئے دو نصف نصف غلاموں کی آزادی اس کے لئے کافی نہ ہوگی.ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کھانا کھلانے کے متعلق اختلاف کے متعلق فقہاء میں یہ اختلاف ہے کہ بہرکین کو کس قدر غلہ دینا واجب ہے.امام مالک سے اس بارہ میں دو روایات ہیں مشہور روایت یہ ہے کہ ہر سکین کو مذ ہشام کے برابر ایک تر دیا جائے اور یہ بتلائی کے دونر کے برابر ہے کے ایک متل النبی ۶۸ تولے ۳ ماشے کے برابر ہے.یعنی ۱۳ چھٹا تک سو تو لے ۳ ماشے.

Page 315

۲۷۳ برابر بعض نے مذ ہشام کا وزن اس سے کم بتایا ہے یعنی نبی کریم صلعم کے لیے ائمہ کے امام مالک کی دوسری روایت یہ ہے کہ ہر مسکین کو بنی کریم کے قد کے برابر دیا جائے اور یہی امام شافعی کا مذہب ہے.امام مالک کی پہلی روایت کی بنیاد یہ ہے کہ ایک شخص کا صبح و شام کا گزارہ اس کے مطابق ہوتا ہے اور دوسری روایت کی بنیاد کفارہ یمین پر ہے.یعنی کفارہ یمین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مد کے برابر فی مسکین غلہ دیا جاتا ہے کفارات کی تعداد کے متعلق اختلاف کفارات کی تعداد کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے.اس کی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کئی بیویوں سے ایک ہی لفظ سے ظہار کرے تو اس بارہ میں اختلاف ہے کہ ایسی صورت میں اسے ایک ہی کفار اوا کرتا ہوگا یا متعدد کفارات ادا کرنے ہونگے.امام مالک کے نزدیک ان سب کے لئے ایک ہی کفارہ ادا کرنا کافی ہوگا لیکن امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک عورتوں کی تعداد کے موافق کفارات ادا کرنے ہوں گے.وجہ اختلاف اس مسئلہ میں جس نے اس کو طلاق کے مشابہ قرار دیا ہے اس سے ہر عورت کے لئے علیحدہ علیحدہ کفارہ ادا کرنا واجب قرار دیا ہے.اور میں نے اسکو ایلاد کے مشابہ قرار دیا ہے اس نے تمام عورتوں کی طرف سے ایک ہی کفارہ ادا کرتا کافی سمجھا ہے.این رشد کے نزدیک اس کی مشابہت ایلاء سے زیادہ مناسب ہے.ایک مشہور اختلاف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مختلف مجالس میں متعدد دفعہ ظہار کرے تو کیا وہ ایک ہی کفارہ ادا کرے یا متعدد.

Page 316

۲۷۴ امام مالک کے نزدیک اس پر صرف ایک ہی کفارہ واجب ہے سوائے اس کے کہ وہ اظہار کرے پھر کفارہ ادا کرے اس کے بعد پھر ظہار کرے تو اس پر دوبارہ کفارہ واجب ہوگا.یہی مذہب اوزاعی - احمد اور اسحاق " کا ہے.امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اسپر پھر ظہار کے عوض ایک کفار واجب ہے.لیکن اگر وہ ایک ہی مجلس میں متعدد دفعہ ظہار کرے تو اس صورت میں امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کی نیت دیکھی جائیگی اگر اس کی نیت تاکید کی ہے تو ایک ہی کفارہ واجب ہوگا.لیکن اگر اس کی نیت اعادہ کی ہے تو عد و ظہار کے مطابق اسے متعدد کفارے ادا کرنے پڑیں گے.پنی پی سعید کے نزدیک خواہ مجلس واحد ہو یا مختلف ہر صورت میں اسے متعد کفار ہے ادا کرنے ہونگے.اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرے پھر کفارہ ادا کرنے سے قبل اس سے مجامعت کرے تو کیا اس پر ایک کفارہ واجب ہوگا یا دو ؟ اکثر فقہاء مثلاً مالک - شافعی ابوحنیفہ ثوری - اوزاعی - احمد اسحاق ابو ثور داؤد طبری اور ابو عبید کے نزدیک اس پر ایک ہی کفارہ واجب ہوگا.ان کی دلیل سلمہ بن صخر بیا منی کی حدیث ہے کہ اس نے رسول اللہ کی زندگی میں اپنی بیوی سے اظہار کیا پھر کفارہ ادا کرنے سے قبل اس نے اپنی بیوی سے معیات کی اس کے بعد رسول اللہ سے دریافت کرنے آیا تو آپ نے اس کو ایک کفارہ ادا کرنے کا ارشاد فرمایا.ایک طریق کے نزدیک اس پر ڈو کفارے واجب ہیں.ایک کفارہ ظہار کا اور ایک کفارہ ناجائز مجامعت کرنے کا.کیونکہ قرآن مجید کے حکم کے ماتحت وہ کھان اوا کرنے سے پیشتر اس سے مجامعت نہیں کر سکتا تھا.ایک فریق کا مذہب یہ ہے کہ اس پر ایک کفار و بھی نہیں ہے کیونکہ اس پر کفارہ تو مجامعت کرنے سے قبل واجب تھا.جب اس نے مجامعت کر لی تو کفارہ

Page 317

۲۷۵ کا وقت تو نکل گیا.اس لئے اب اس پر کفارہ واجب نہ رہا.الو تم میں مریم کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص کفارہ میں مسکینوں کو کھانا کھلائے وہ کھانا کھلانے کے دوران میں بیوی سے مجامعت کر سکتا ہے.لیکن جو غلام آزاد کرے یا روز رکھے تو وہ کفارہ ادا کرنے سے قبل مجامعت نہیں کر سکتا.

Page 318

Page 319

كتاب اللعان

Page 320

كتاب اللعان لعان کے باب میں پانچ امور پر بحث کی جائیگی (1) لعان کو واجب کرنے والے موجبات اور شرائط (۲) لعان کرنے والوں کے اوصاف (۳) لعان کی تعریف (۴) لعان کرنے والوں میں سے اگر کوئی ایک یمان کرنے سے انکار کرے یا اپنے دعوئی سے رجوع کرے تو اس کا کیا حکم ہے.(ھ) لعان کے احکام.لعان کا وجوب لعان کا وجوب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے:.وَالَّذِينَ يَرْمُونَ ازْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا انْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَدَتِ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصدقيق.وَالْخَامِسَةُ آنَ لَعْنَةَ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَذِبِينَ حدیث میں سے اس کے وجوب کی دلیل عویمر عجلانی کی حدیث ہے اور وہ یہ ہے.عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدِ أَنَّ عُوَيْمِرَ الْعَجْلَانِي آتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَيْتُ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْر كَيْت يَفْعَلُ - فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَزَلَ فيكَ وَ فِى صَاحِبَتِكَ - فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا قَالَ سَهْل فَلا عَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِندَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم لہ ترجمہ.اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں اور ان کے پاس سوائے اپنے وجود کے اور کوئی گواہ نہیں ہوتا تو ان میں سے ہر شخص ایسی گواہی دینی چاہئے جو اللہ تعالٰی کی قسم کھا کر چار گواہوں پر مشتمل ہوا اور ہر گواہی میں وہ یہ کہے کہ وہ راستبازوں میں سے ہے.اور پانچویں گواہی میں کہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ چھوٹوں میں سے ہے.(نوری)

Page 321

۲۷۹ فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَيْمِرُ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللهِ إِ أمْسَلْتُهَا فَطَلَّقَهَا فَلَا تَا قَبْلَ أَنْ يَا مُرَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسلمه یحان کی صحبت کی عقلی دلیل یہ ہے کہ جب کسی شخص کو یقین ہو جائے کہ اس کے بستر میں کسی دوسرے شخص کا بھی دخل ہے.تو اس کے اپنے سب سے نفی کرنے کا کوئی نہ کوئی طریق ضرور ہونا چاہئے اور وہ طریق لعان ہی ہے.پس لعان کا حکم قرآن حدیث.قیاس اور اجماع سے ثابت ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے.وجوب لعان کے اسباب وہ اسباب جن سے لعان واجب ہوتا ہے دو ہیں را، زناء کا دعوی (۲) حمل سے نھی کا دعوئی.زنار کے چھوٹی کی دو صورتیں ہیں.یا تو خاوند کا یہ دعوی ہو کہ اس نے خود اپنی بیوی کو نہر نا کرتے دیکھا ہے یا اس کا دعوی مطلق ہو یعنی یہ کہے کہ اس کی بیوی را نیہ ہے.به ترجمه : سہل بن سعد سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے نے اگر آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو نا جائز حالت میں دیکھے اور وہ اسے قتل کرنے پھر تو آپ بھی اسے قصاص میں قتل کر دینگے.اگر وہ اسے قتل نہ کرے تو پھر اسے ایسے موقعہ پر کیا کرنا چاہیئے.اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الہ تعالیٰ نے تمہانے سے اور تمہاری ہو ہی گیارہ میں حکم نازل فرمایا ہے.جائیں اور اپنی بیوی کو ہمراہ نے کر آئیں.حضرت سہل فرماتے ہیں کہ ان دونوں نے باہم لعان کیا.اس وقت میں بھی دیگر لوگوں کے ہمراہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا.جب ان دونوں نے لوان کر لیا تو عویمر نے کہا کہ لعان کے بعد اگر میں اس کو اپنے پاس رکھونگا تو جھوٹ بولنے والا ہوں گا.چنا نچہ قبیل اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جدائی کا حکم دیتے عویمر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں.اس روایت کو ترمذی کے سواء باقی صحاح نے نقل کیا ہے.)

Page 322

۲۸۰ نفی حمل کی بھی دو صورتیں ہیں.یا مطلق دعوی کرے کہ اس کی بیوی کا حمل اس کا نہیں ہے یا یہ کہے کہ حیض کے بعد وہ اپنی بیوی کے قریب نہیں گیا اس لئے یہ اس کا حمل نہیں ہے.اب ان دعاوی کے متعلق فقہاء کے مذہب بیان کئے جاتے ہیں :- اگر وہ یہ الزام لگائے کہ خود اس نے اپنی بیوی کو زنار کرتے دیکھا ہے.اس کے متعلق تمام فقہاء متفق ہیں کہ ان پر لعان واجب ہے.مجرو زنا کے الزام کی صورت میں جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ اسپریجان واجب ہے لیکن امام مالک کے نزدیک اس صورت میں اس پر لعان واجب نہیں ہے جمہور کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَالَّذِينَ يَرْمُونَ ازْوَاجَهُم (الاية) اس آیت میں زنار کی صورت کی تعیین نہیں کی گئی اور نہ ہی الزام کی نوعیت بیان کی گئی ہے.امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ جن واقعات اور روایات کی بناء پر آیت لعان نازل ہوئی ہے ان سب میں شکایت کرنے والوں نے یہی بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو نا جائز حالت میں دیکھ لے تو اسے کیا کرنا چاہیئے.ایک روایت میں تو یہ الفاظ ہیں لَقَدْرَ ايْتُ بَعَيْنِي وَسَمِعْتُ بِاذْتى کہ سینے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ان کی باتوں کو اپنے کانوں سے سنا ہے.ان واقعات کے بارہ میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا.تو اس کے بعد آیت لعان نازل ہوئی.اس سے معلوم ہوا کہ آیت لعان میں الزام کی صورت کی تعیین ان شکایات کے مطابق ہو چکی ہے اور وہ رولیت ہے.امام مالک کی دوسری دلیل یہ ہے کہ دعوی ثبوت کے ساتھ ہونا چاہیے.چونکہ اس دعوئی میں نبوت عینی شہادت ہوتا ہے.اس لئے اس میں مطلق الزام کافی نہیں ہے.

Page 323

۲۸۱ اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے پھر تین طلاقیں دیدے تو کیا ان میاں بیوی کے درمیان ریحان ہو گا یا نہیں ؟ امام مالک - شافعی اور اوزاعی کے نزدیک ان کے درمیان ریحان ہو گا.امام ابو حنیفہ کے نزدیک ان دونوں کے درمیان یحان نہ ہو گا سوائے اس کے کہ وہ بچہ سے اپنے نسب کی نفی کرے.اور اُسے حد بھی نہ لگائی جائیگی.اپنے نسب سے بچے کی نفی کے متعلق اگر اس کا یہ دعوئی ہو کہ اُس نے رحم کے صاف ہونے ہانے بعد اپنی بیوی سے مجامعت نہیں کی اس لئے یہ عمل اس کا نہیں ہے.اس کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ ان دونوں کو لعان کرنا ہو گا.البتہ رحیم کے پاک ہونے کے متعلق امام مالک نے اختلاف کیا ہے.ان کا ایک قول تو یہ ہے کہ وہ تین حیض تک اس کے قریب نہ جائے.اور ایک روایت یہ ہے کہ صرف ایک حیض تک اسکے قریب نہ جائے اگر مطلقاً بچے کی نفی کرے.یعنی اس نفی کی کوئی ظاہری وجہ نہ بتائے.صرف یہ کہے کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہے.تو اس کے متعلق امام مالک کا قول یہ ہے کہ ان مال کے درمیان ریحان نہ ہو گا.امام شافعی کے اصحاب میں سے عبدالوہاب کا قول یہ ہے کہ مطلق حمل سے نفی کرنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے.مثلاً یہ کہے کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنی بیوی کو زنا کرتے دیکھا ہے.بچے کی نفی کرنے کے وقت میں اختلاف ہے.جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ وہ اس وقت نفی کرے جبکہ اس کی بیوی حاملہ ہو.امام مالک نے کہا ہے کہ اگر وہ حاملہ ہونے کے وقت بچے کی نفی نہ کرے.تو ے تھی نہ بعد میں بحان کے ذریعہ اس کی نفی نہیں کر سکتا - امام شافعی کے نزدیک جب خاوند کو حمل کا علم ہو اور حاکم نے اس کو بتان کا موقعہ دیا ہو لیکن اس نے اس وقت بیان نہ کیا ہو تو بچہ پیدا ہونے کے بعد

Page 324

۲۸۲ اسے نفی کا کوئی اختیار نہ ہو گا.امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب بچہ پیدا ہو جائے اسوقت اس کی نفی کر سکتا ہے.اس سے قبل نہیں کر سکتا امام مالک اور وہ فقہاء جو اُن کے ساتھ متفق ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ احادیث میں متواتر ایسی روایات موجود ہیں.مثلاً حضرت ابن عباس - ابن مسعود - اس اور سہل بن محمد سے مروی ہیں کہ جب آنحضرت صلعم نے لعان کرنے والوں کے درمیان یعان کروایا اسوقت آپ نے فرمایا : ان جَاءَتْ بِهِ عَلَى صِفَةِ كَذَا فَمَا أَرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا.آپ کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ نفی ولد اور بعان وضع حمل سے قبل ہی ہونا چاہیے.امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ حمل کبھی ضائع ہو جاتا ہے اس لئے وضع حمل کے بعد یقینی بنیاد پر بعان ہونا چاہیئے.جمہور کی دلیل یہ ہے کہ حمل کے ظاہر ہونے کے ساتھ بہت سے احکام متعلق ہیں.مثلاً نفقہ - عقدت وغیرہ اس لئے قیاس یہ کہتا ہے کہ بعان بھی ظہور حمل کے بعد ہی ہو.امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ ولادت کے بعد لعان جائز ہے خواہ طلائین حمل کی نفی کرے یا نہ کرے.امام ابوحنیفہ نے وضع حمل کے بعد لعان کے لئے کوئی وقت معین نہیں کیا.لیکن آپ کے صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد نے وضع حمل کے بعد چالیس دن تک ے امام ابوحنیفہ کا مسلک زیادہ درست اور محتاط معلوم ہوتا ہے کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ عورت کسی بیماری کی وجہ سے حاملہ معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت اسے حمل نہیں ہوتا.

Page 325

۲۸۳ وقت مقرر فرمایا ہے.امام شافعی کے نزدیک طلاق کے بعد حمل سے نفی عدت کے اندر کر سکتا عدت کے بعد اگر نفی کریگیا تو حد لگائی جائے گی.اور بچے کو اس کی طرف منسوب کیا جائے گا.با امام مالک کے نزدیک عمل کی طویل ترین مدت تک اپنے نسب سے انکار کر سکتا ہے طویل ترین مدت فقہاء کے نزدیک مختلف ہے.مشکی بعض کے نزدیک چار سال بعض کے نزدیک پانچ سال وغیرہ.اہل ظاہر کے نزدیک قلیل ترین مدت حمل تک نسب سے انکار کر سکتا ہے.اور اُن کے نزدیک قلیل تمرین مدت نو ماہ ہے.اگر بچہ چھ ماہ یا اس سے زیادہ مدت میں پیدا ہو تو اس کے نسب سے انکار کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں ہے.کیونکہ مجامعت کے بعد چھے ماہ کے اندر بچے کی پیدائش کا امکان ہے.بعض کے نزدیک یہ چھے ماہ کی مدت مجامعت کے بعد سے نہیں ہے.بلکہ عقد نکاح کے بعد سے ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر یہ معلوم بھی ہو کہ میاں بیوی نکاح کے بعد اکٹھے نہیں رہے.مثلاً خاوند مغرب میں رہتا ہے اور بیوی مشرق میں رہتی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی ملاقات بھی نہیں ہوئی.اور نکاح کے چھ ماہ بعد بیوی کو بچہ پیدا ہو تو امام صاحب کے نزدیک وہ بچہ اُس کے خاوند کی طرف منسوب ہو گا سوائے اسکے کہ اس کا خاوند یحان کے ذریعہ اس بچے کی اپنے نسب سے نفی کرے.اس مسئلہ میں امام صاحب ظاہر شریعت کی طرف گئے ہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ " الولدُ لِلْفِرَاس " چونکہ یہ عورت اس کا فراش ہے.اس لئے یہ بچہ اس کے خاوند کی طرف منسوب ہوگا.این رشد اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ استدلال ضعیف ہے.اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنار کا الزام لگائے لیکن حمل اپنی طرف منسوب کرنے تو اس بار یہاں

Page 326

۲۸۴ امام مالک کے تین اقوال مردی ہیں: (1) اسے حد لگائی جائیگی اور بچہ اس کی طرف منسوب ہو گا اور اُسے لعان کا اختیار نہ ہوگا.(۲) وہ لعان کرے گا.اور بچہ اس کی طرف منسوب نہ ہو گا.(۳) وہ لعان کرے گا اور بچہ اس کی طرف منسوب ہوگا.اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کیا اس صورت میں اس کے دعوئی زناء کی طر التفات کیا جائیگا یا حمل کو اپنی طرف منسوب کرنے کی طرف ؟ جن کے نزدیک دعوی زناء کو دیکھا جائیگا اُن کے نزدیک بچہ اس کی نظر منسوب.نہ ہو گا اور وہ لعان کریگا.جن کے نزدیک اس صورت میں اس جہت کو دیکھا جائیگا کہ اس نے بچہ کو اپنی طرف منسوب کیا ہے.اُن کے نزدیک بچہ اس کی طرف منسوب ہو گا اور دعوی زناء کی وجہ سے اُسے حد لگائی جائیگی.اس بارہ میں ایک اختلاف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگانے کی بجائے چار گواہ پیش کرتا ہے تو کیا اس صورت میں وہ لعان کریگا؟ یا اس کی بیوی کو لگائی جائیگی.داؤد اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ ریحان نہیں کریگا کیونکہ یعان کا حکم تو گواہوں کی عدم موجودگی میں ہے.جب گواہ موجود ہوں تو پھر لعان کی کیا ضرورت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :- والذين يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أنْفُسُهُمْ ( نوع ) امام مالک اور شافعی کے نزدیک وہ لعان کرینگے کیونکہ میاں بیوی کے معاملہ میں گواہوں کا کوئی اثر نہیں ہے.یعان کرنے والوں کے اوصاف فقہاء کی ایک جماعت کے نزدیک یعان میاں بیوی کے درمیان ہو سکتا ہے خواہ

Page 327

۲۸۵ وہ آزاد ہوں یا غلام یا ایک غلام ہو اور ایک آزاد - عادل ہوں یا غیر عادل - خواہ دونوں مسلمان ہوں یا مرد مسلمان ہوا اور عورت اہل کتاب.دو کافروں کے درمیان بعان نہیں ہو سکتا.سوائے اس کے کہ وہ خود قانون شریعیت کو قبول کریں.یہ مذہب امام مالک اور امام شافعی کا ہے.امام ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب کا مذہب یہ ہے کہ ریحان صرف دو مسلمان.آزاد - عادل کے درمیان ہو سکتا ہے.خلاصہ یہ کہ ان کے نزدیک الحان صرف ان لوگوں کے درمیان ہو سکتا ہے.جو شہادت کی اہلیت رکھتے ہوں.امام مالک اور ان کے ہم نواؤں کی دلیل اللہ تعالیٰ کا عمومی ارشاد ہے :- وَالَّذِينَ يَرْمُونَ ازْوَاجُهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسَهُمْ (نوع) اس آیت میں زوجین کے لئے کوئی شرط مقرر نہیں کی گئی.امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ بعان شہادت کے قائمقام ہے.اس لئے یعان ایسے افراد کے درمیان ہو سکتا ہے جو خود شہادت کی اہلیت رکھتے ہوں.کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے انکو شہداء قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا :- : فَشَهدَة أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللهِ (نوع ) نیز امام صاحب اور آپ کے ساتھیوں کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یوان اُن کے درمیان ہو سکتا ہے جن کو قذف کی وجہ سے حد لگائی جاسکتی ہے.اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ غلام پر حد قذف نہیں لگائی جا سکتی.گویا انہوں نے ریحان کرنے والوں کو ان لوگوں کے مشابہ قرار دیا ہے جن کو حد قذف لگتی ہے کیونکہ لعان کی غرض ہی صرف یہ ہے کہ لعان کرنے والوں کو حد قذف سے بچایا جائے.ہیں جب ان کو شرعاً حد قذف لگ ہی نہ سکتی ہو تو پھر بیان کا کیا مطلب؟ اس کے علاوہ امام صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ایک دلیل آنحضرت صلحم - کا یہ ارشاد ہے :-

Page 328

۲۸۶ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِه أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ وَسَلَّمَ قَالَ لا يعانَ بَيْنَ اَرْبَعَةِ الْعَبُدَيْنِ وَالكَافِرِّين جمہور کی دلیل یہ ہے کہ رمان شہادت نہیں ہے بلکہ قسم ہے کیونکہ شہادت خود اپنے متعلق نہیں ہوا کرتی.نقسم کے لئے شہادت کا لفظ قرآن مجید میں استعمال کیا گیا ہے.جیسا کہ منافقین کے ذکر میں فرمایا : - إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا تَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ الهوة وما تقون )) اس کے بعد فرمایا : اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةٌ ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس جگہ منافقوں کی شہادت سے مراد ان کی قسم ہے اور قسم علامہ بھی کھا سکتے ہیں لہذا ان کا معان صحیح ہونا چاہیئے.- اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اندھے کا لعان صحیح ہے اور گونگے کے لعان میں اختلاف ہے.امام مالک اور شافعی کے نزدیک جب اس کے اشارات واضح ہوں تو اس کا یعان صحیح ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک چونکہ وہ شہادت کی اہلیت نہیں رکھتا اس لئے اس کا یحان درست نہیں جمہور فقہاء کے نزدیک ریحان کی تعریف یہ ہے.کہ یعان کی تعریف جب خاوند اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے.تو وہ جب قاضی کے سامنے چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ اس نے اسے زناء کرتے دیکھا ہے اور پانچویں شہادت یہ دے کہ اگر وہ اپنے دعوئی میں جھوٹا لہ ترجمہ : حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ملی شد علیہ وسلمنے فرمایا کہ چار شخصوں کے درمیان بھان نہیں ہو سکتا.غلام اور کنیز کے درمیان - کافراور کافرہ کے درمیان.کے ترجمہ :.جب تیرے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے.ترجمہ :.انہوں نے اپنی قسموں کو تیری گرفت سے بچنے کے لئے ڈھال بنالیا ہے.

Page 329

YAL ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو.اس کے بعد اس کی بیوی اللہ تعالٰی کی قسم کھا کہ چار مرتبہ یہ کہے کہ اس نے زناء نہیں کیا.اور نہ اس کے خاوند نے اُسے زنا کرتے دیکھا ہے.اگر وہ اپنے دعوی میں جھوٹی ہے تو اس پر خدا تعالے کی لعنت ہو.بعض فقہاء نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کی بجائے اللہ تعالیٰ کا غضب کے الفاظ بھی کہہ سکتے ہیں.اور میں شہادت دیتا ہوں کی بجائے میں قسم کھاتا ہوں.اور اللہ تعالے کے نام کی بجائے کسی اور صفت کا ذکر بھی کر سکتے ہیں.جمہور کا مذہب یہ ہے کہ نص قرآنی کے مطابق ان الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے.نیز بعان حاکم وقت کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتا.اگر ایک فریق قسم کھانے سے انکار کرے اگر خاوند اپنی بیوی پر زناء کا الزام لگانے کے بعد اس الزام سے رجوع کرے تو جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اُسے جھوٹا الزام لگانے کی حد لگائی جائیگی.لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک اُسے حد نہیں لگائی جائے گی بلکہ قید کیا جائیگا.جمہور کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :- وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَلَت له الورع ) (نوری) یہ ارشاد خاوند اور غیر خاوند دونوں کے لئے عام ہے جب لعان خاوند کے لئے شہادت کے قائمقام ہے تو اگر وہ یحان سے انکار کرے گا تو اُسے قاذن قرار دیا جائیگا.اور جب اس کے پاس شہادت بھی نہیں ہے تو اُسے حد لگائی جائیگی.نے ترجمہ : اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں.(نورغ)

Page 330

۲۸۸ اسی طرح جمہور کی دوسری دلیل ابن عمر کی روایت ہے جس میں عجلانی کا قصد بیان کیا گیا ہے.اس میں عجلانی نے اپنی بیوی کو زناء کرتے دیکھ کر رسول اکرم کو ان الفاظ میں اطلاع دی تھی :- إن تَتَلتُ قُتِلْتُ وَإِنْ نَطَقَتُ جُلِدُتُ وَإِنْ سَلَتُ سلتُ عَلَى غَيْظِ له اس روایت میں الفاظ ان نَطَقْتُ جُلِدتُ سے معلوم ہوتا ہے.کہ خاوند بھی اگر بیوی پر زناء کا الزام لگائے اور گواہ پیش نہ کرے تو اُسے حق لگائی جائیگی.دوسرے فریق یعنی امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ آیت بتان میں انکار یا رجوع کی صورت میں حق کا حکم نہیں پایا جاتا.لہذا اس فیس فتومی دنیا نص قرآنی میں زیادتی ہو گی.اور فقہاء کے نزدیک نفق پر زیادتی کرنا اس کے نسخ کے قائمقام ہے.اور نسخ قیاس یا خبر واحد کی وجہ سے جائزہ نہیں ہے.امام ابو حنیفہ جمہور کے مذہب پر یہ جرح کرتے ہیں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خاوند پر بعان سے انکار کی صورت میں حد لگائی جائیگی تو اس عقلی اعتراض پڑتا ہے کہ خاوند پریشان کرنے کی صورت میں بھی حد لگائی جانی چاہئیے.کیونکہ رمان تو محض ایک قسم ہے اور قسم کی وجہ سے کسی اجنبی سے حد ساقط نہیں ہوتی لہذا خاوند سے بھی ساقط نہیں ہونی چاہئیے.این رکشہ اس کے متعلق اپنی رائے یہ بیان فرماتے ہیں کہ حق تو یہ ہے کہ بحان ایک خاص رنگ کی قسم ہے.اس لئے ضروری ہے کہ اس کا حکم بھی له ترجمه : اگر میں اس کو قتل کروں تو قصاص میں قتل کیا جاؤں اور اگر ! بات بیان کروں تو مجھے کوڑے لگائے جائیں اور اگر خاموشی اختیار کروں تو غم و غصہ کے سے خاموشی اختیار کریں.۵۲ خبر واحد سے مراد حادیث کی وہ روایت ، جو صرف ایک ہی سند سے مروی ہو.

Page 331

۲۸۹ خاص ہو.یعنی لعان کے بعد حد ساقط ہو جانی چاہئیے.لہذا امام ابو حنیفہ کی یہ جرح درست نہیں ہے کہ لعان کے بعد بھی خاوند پر حقہ لگائی جانی چاہئیے این رشد مزید فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو یہ ذکر آیا ہے کہ عورت جب قسم کھاتی ہے تو اس قسم کے ذریعہ وہ اپنے آپ سے عذاب کو دور کرتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَيَدْرَةٌ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَدَتِ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الكَاذِبِينَه (نورغ ) اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عذاب سے کیا مراد ہے ؟ اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے.چنانچہ اس کے متعلق امام شافعی - مالک - احمد اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اگر وہ قسم کھانے سے انکار کرے تو اُسے حد لگائی جائے گی.اور اس کی قدر تعلقات زوجیت کے عدم قیام کی صورت میں منٹو کوڑے ہیں.امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر وہ قسم کھانے سے انکار کرے تو اُسے قید کیا جائے.یہاں تک کہ وہ لعان کرانے پر آمادہ ہو جائے امام صاحب کی دلیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے :- لا يَحِلُّ دَمُ امْرَأَى مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ زِنَا بَعْدَ اِحْصَانٍ أَوْ كُفْر بَعْدَ إِيْمَانٍ أَوْ قَتْلِ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ لِه اس روایت میں زنا کی وجہ سے قتل کرنا جائز قرار دیا گیا ہے.چونکہ مندرجہ لہ ترجمہ :.اور وہ بیوی میں پر اس کا خاوند الزام لگائے.اپنے نفس پر سے چار میں گواہوں کی ذریعہ سے جو قسم کھا کر دی گئی ہوں عذاب کو دور کرے یہ کہتے ہوے کہ وہ یعنی خاوند جھوٹا، نور ) کے ترجمہ : کسی مسلمان کا خون بہانا ہوے ان تین صورتوں کے جائز نہیں ہے راہ شادی کے بعد زنا کرنا (۲) اسلام نے کے بعد انکار کرنا (۳) کسی کو بغیر حق کے قتل کرنا.(نسائی باب العود )

Page 332

۲۹۰ صورت میں نہ تو زنا کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی عزم کا اپنا اقرار ہے.اس لئے اس پر حد نہیں لگنی چاہیئے.امام ابو حنیفہ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ محض انکار کی وجہ سے کسی کا خون بہانا خلاف اصول ہے.کیونکہ بعض فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ مدعی علیہ کے صرف انکار کی وجہ سے اس کی خلاف مالی ڈگری نہیں دی جاسکتی اس اصول کے ماتحت مدعلی علیہ کے انکار کی وجہ سے اس کا خون بہانا بھی جائز نہیں ہونا چاہیئے در حقیقت خون بہانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ یا تو اس کے متعلق عادل گواہ موجود ہوں یا ملزم کا خود اعترافِ جرم ہو.چونکہ اس جگہ یہ دونوں صورتیں موجود نہیں ہیں.لہذا ایسی عورت جو جرم سے انکار کرے اس پر حد نہیں لگنی چاہیئے.علامہ ابن رشد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس مسئلہ میں امام ابو حفیظہ کا قول معتبر ہے.اور ابو المعالی نے اپنی کتاب "برہان میں اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے دلائل کی قوت کو تسلیم کیا ہے.اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر مرد بیوی پر زنا کا الزام لگ الزام لگائے اور اپنے نسب کی نفی کے بعد رجوع کرے تو اُسے حد قذف لگائی جائیگی.اور بچہ اس کی طرف منسوب کیا جائیگا.اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ بعان کے بعد میاں بیوی خود یا حاکم کے حکم سے دوبارہ اکٹھے ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟ امام مالک - شافعی - ثوری - داؤد ، احمد اور جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے.کہ یحان کے بعد وہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتے.اگرچہ الزام لگانے والا اس کے بعد اپنے قول سے رجوع کرلے.امام ابو حنیفہ اور ایک فریق کا اس کے متعلق یہ مذہب ہے کہ اگر وہ اپنے قول سے رجوع کرے تو اُسے کوڑوں کی حد لگائی جائے گی.اس کے بعد وہ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں.ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ اس کے بعد انہیں جدید نکاح کی ضرورت

Page 333

۲۹۱ نہیں ہے بلکہ وہ اس کے بغیر ہی رجوع کر سکتے ہیں.پہلے فریق کی دلیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بعان کے بعد فرمایا تھا :- لا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا." اس میں آپ نے کسی قسم کی استثناء نہیں فرمائی.اس سے معلوم ہوا کہ.بحان کے بعد مطلق حرمت لازم آتی ہے.دوسرے فریق کی دلیل یہ ہے کہ جب خاوند نے اپنے قول سے رجوع کر لیا.تو یغان کا حکم باطل ہو گیا.پس جس طرح اس رجوع کی وجہ سے اس کے بچے کی نسب اس کی طرف لوٹ آئے گی.اسی طرح اس کی بیوی بھی اس کی طرف لوٹ آئے گی.کیونکہ اس حرمت کی اصل وجہ تو یہ تھی کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی صداقت کا بھی یقینی علم نہ تھا اس لئے اُن کے درمیان حرمت قائم کی گئی تھی.اب جبکہ ایک کا صدق واضح ہو گیا تو اس کے بعد حرمت قائم نہیں رہنی چاہئے.بعان کے بعد کے احکام | بعان کے موجبات کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ لعان کے بعد فرقت واجب ہے یا نہیں ؟ اور اگر واجب ہے تو کب ؟ نیز کیا محض یعان کی بنا پر واجب ہے یا اس کے لئے حاکم کے حکم کی ضرورت ہے ؟ نیز کیا یعان طلاق کے قائمقام ہے یا فسخ نکاح کے ! جمہور کا مذہب یہ ہے کہ فرقت محض بعان کی وجہ سے واجب ہوتی ہے.جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کے بعد فریقین کے درمیان فرقت کا حکم نافذ فرمایا.اور یہ ارشاد فرمایا کہ :- " لا سبيل لكَ عَلَيْهَا " عثمان نبی اور اہل بصرہ کے ایک فریق کا مذہب یہ ہے کہ بعان کے بعد فرقت لازم نہیں ہوتی.انہوں نے یہ دلیل دی ہے کہ یہ حکم آیت یہان میں

Page 334

۲۹۲ موجود نہیں ہے اور نہ ہی احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے.کیونکہ حدیث مشہور سے یہ ثابت ہے کہ ایک طلائن نے آنحضرت صلعم کے سامنے بعان کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دی تھی اور آپ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا تھا.راسی طرح اس فریق کی عقلی دلیل یہ ہے کہ بعان تو صرف حد قذف سے بچانے کے لئے ہے نہ یہ کہ اس سے وہ عورت اس پر حرام ہو جاتی ہے.جمہور کی اس کے متعلق عقلی دلیل یہ ہے کہ زوجیت کے رشتہ کی اساس محبت اور رحمت پر رکھی گئی ہے.جب لعان کی وجہ سے دونوں کے درمیان بغض اور نفرت پیدا ہو گئی تو اس کے بعد ہمیشہ کی جدائی ہی قرین مصلحت ہے.لہذا نفس بعان ہی ہمیشہ کی جدائی کا موجب ہے.اب سوال یہ ہے کہ یہ فرقت کسی وقت سے شمار ہوگی ؟ سو اسکے متعلق امام مالک.لیث اور ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ جب دونوں ملا عین یتان سے فارغ ہوں.اُسوقت جدائی واجب ہوتی ہے.امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ جب خاوند یتان سے فارغ ہو اُس وقت جدائی واجب ہو جاتی ہے.امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ بیعان کے بعد فرقت کے لئے حاکم کا حکم ضروری ہے یہی مذہب ثوری اور احمد کا ہے.امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملا نکین کے درمیان لعان کے بعد فرقت کرا دی اور فرمایا :- حِسَابُكُمَا عَلَى اللهِ اَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا.اس سے معلوم ہوا کہ فرقت کے لئے ہر دو کے درمیان یحان مکمل ہونا ضروری ہے ہے امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ عورت کا معان تو اس سے حد زنا سے حد زنا کو دور کرنے کے لئے ہوتا ہے.البتہ مرد کا لعان بچے کے نسب سے نفی کے لئے

Page 335

ہوتا ہے.لہذا ثابت ہوا کہ متلاعین میں سے مرد کا لعان فرقت کے لئے مؤثر ہوتا ہے.اور مرد کا یعان ہی طلاق کے مشابہ ہوتا ہے.ان ہر دو کے دلائل امام ابو حنیفہ کے خلاف حجت ہیں.جو یہ کہتے ہیں کہ بتان کے بعد فرقت کے لئے حکم حاکم کا ہونا ضروری ہے.امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ ملامین کے درمیان آنحضرت کے حکم کے تحت جدائی کی گئی تھی.جبکہ آپ نے اُن کو فرمایا تھا :- " لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا اس سے معلوم ہوا کہ جاگہ کا حکم چدائی کے لئے بھی ضروری ہے جیسا کہ نفس لعان کے جاری کرنے کے لئے ضروری ہے.جن کے نہ دیک ریحان کے بعد فرقت واجب نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وجه انقلاف جو عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق فرمائی تھی اس میں عجلانی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم فرقت سے قبل اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی.تو گویا اس جلائی کا سبب بحان نہ تھا بلکہ طلاق تھی.اس کے علاوہ کسی اور مشہور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ کا ارشاد نہیں ملتا.جس میں آپ نے یحان کے بعد اپنی طرف سے فرقت کا حکم نافذہ فرمایا ہو.جن کے نزدیک یحان کے بعد فرقت واقع ہو جاتی ہے وہ احادیث کے ظاہر مضموم کی طرف گئے ہیں.جن میں آپ نے ارشاد فرمایا :- لا سبيل لكَ عَلَيْهَا.جن سے فرقت کے لئے حکم حاکم کو ضروری قرار دیا ہے.اُنکے نزدیک بعان ان معاملات کے مشابہ ہے.جن کے لئے حکیم حاکم ضروری ہے.مثلاً طلع وغیرہ.دوسرے فریق کے نزدیک یہ ان معاملات کے مشابہ ہے جن میں حکم حاکم

Page 336

۲۹۴ کی ضرورت نہیں ہے.مثلاً طلاق وغیرہ ایک اختلاف یہ ہے کہ لعان کے بعد کی فرقت فسخ نکاح ہے یا طلاق بائن - اِس کے متعلق امام مالک اور شافعی کا مذہب یہ ہے کہ یہ فسخ نکاح ہے.لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ طلاق بائن ہے.امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ جب اُن کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی واقع ہو گئی تو یہ حرام رشتوں کے مشابہ ہوئی..امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ یہ فرقت منین (نامرد) کی فرقت کے مشابہ ہے جو کہ حاکم کے حکم سے واقع ہوئی ہو.ایسی فرقت طلاق بائن ہوتی ہے.

Page 337

۲۹۵ سوگ KE

Page 338

KAY خاوند کے مرنے کے بعد سوگ کرنا تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد مسلمان عورتوں پر اپنے خاوند کی وفات کے بعد عدت کے اندر سوگ کرنا واجب ہے.لیکن وہ عورتیں جو آزاد مسلمان نہ ہوں اُن کے متعلق اختلاف ہے.امام مالک کے نزدیک سوگ کرنا.مسلمان - کتابیہ - بالغ اور نابالغ عورت پر واجب ہے.لونڈی خواہ ارقم ولد ہو یا نہ ہو.اس پر اپنے مالک کے مرنے کے بعد سوگ.واجب نہیں ہے.امام شافعی کے نزدیک کتابیہ پر سوگ واجب نہیں ہے.امام ابو حنیفہ کے نزدیک نابالغ اور لکھتا نیہ پر سوگ واجب نہیں ہے.ایک گردہ کے نزدیک شادی شدہ لونڈی پر بھی سوگ واجب نہیں ہے.اور ایک روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ کا مذہب بھی یہی ہے.سوگ کن ایام میں واجب ہے ؟ امام مالک کے نزدیک سوگ صرف عدت وفات کے عرصہ میں واجب ہے.امام ابو حنیفہ اور ثوری کے نزدیک طلاق بائن پر بھی سوگ واجب ہے.امام شافعی کے نزدیک طلاق بائن کی صورت میں سوگ مستحسن ہے واجب نہیں.4 عورت سوگ میں کن امور سے اجتناب کرے ؟ - اس کے متعلق فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ وہ ایسی زینت سے اجتناب کرے.جس سے مردوں کے دل میں کشش پیدا ہوتی ہو.مثلاً زیور پہننا.سرمہ لگانا نگدار بھر کیلے کپڑے پہننا وغیرہ.ضرورت کے موقعہ پر سرمہ لگانا جائز ہے.

Page 339

۲۹۷ بشر طیکہ اس سے نہ نیت نہ ہوتی ہو.فقہاء نے سوگ کا یہ حکم اس لئے دیا ہے کہ یہ سنت نبوی سے ثابت یہ حکم ہے یہ نبوی ہے.جیسا کہ حضرت ام سلمہ کی روایت ہے کہ : جب ایک عورت آنحضرت صلعم کے پاس آئی اور دریافت کیا کہ میری بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا ہے اور اُس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں.کیا آنکھوں میں سرمہ لگا ہے ؟ وہ آپ نے فرمایا.نہیں ؛ چنانچہ اس نے تین مرتبہ دریافت کیا.آپ نے تین مرتبہ ہی منع فرمایا.اور فرمایا.یہ حکم چار ماہ دس دن تک ہے." به اختلاف کہ سوگ صرف مسلمان عورت پر واجب ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک سوگ ایک عبادت ہے اور عبادت کافر کے لئے واجب نہیں ہے.بعض کے نزدیک یہ حکم مجلسی اور اخلاقی لحاظ سے دیا گیا ہے تاکہ اس کی طرف مردوں کی توجہ نہ ہو.ان کے نزدیک اس لحاظ سے کافراور مسلمان عورت دونوں برا بر ہیں.جنہوں نے عورت کی کشش کو ملحوظ رکھا اور مرد کی کشش کا لحاظ نہیں رکھا اُنکے نزدیک نابالغ عورت پر سوگ واجب نہیں ہے کیونکہ اُس کی طرف مردوں کو نہیں ہوتی.وہ لوگ جن کے نزدیک سوگ صرف مسلمان عورتوں پر واجب ہے.اُن کی دلیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا يَجِلَّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تَحِدَّ إِلَّا عَلَى زوج.جن لوگوں نے آزاد اور غلام عورت میں فرق کیا ہے اُن کی دلیل یہ ہے کہ سوگ سے دو باتیں واجب ہوتی ہیں :

Page 340

۲۹۸ دا، زینت ترک کرنا.(۲) گھر سے باہر نہ نکلنا.چونکہ لونڈی گھر میں بیٹھ نہیں سکتی کیونکہ اُسے خدمت کے لئے گھر سے باہر لازما جانا پڑتا ہے اس لئے اس پر سوگ واجب نہیں ہے.کیونکہ جب ایک حکم اُس سے ساقط ہو گیا تو دوسرا حکم بھی ساقط ہونا چاہیئے.جن لوگوں نے مطلقہ اور متوفی عنہا زوجہا میں فرق کیا ہے اُن کے نزدیک ظاہری حکم صرف اس عورت کے لئے ہے جس کا خاوند فوت ہو گیا ہو.مطلقہ کے لئے نہیں ہے.اس لئے وہ اس حکم میں شامل نہیں ہے.جس نے مطلقہ کو بھی اس حکم میں شامل کیا ہے اس کے نزدیک چونکہ سوگ کی اصل غرض یہ ہے کہ عدت کے اندر مرد اس کی طرف توجہ نہ کریں.تو یہ غرض مطلقہ اور متوفی عنہا زوجہا دونوں میں موجود ہے.اس لئے مطلقہ بھی اس حکم میں شامل ہونی چاہئیے.ضیاء الاسلام پریس زیوه

Page 341

Page 341