Language: UR
احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں والدین کی معاونت کے لئے تیارکردہ نصاب کے سلسلہ کی یہ وہ کتاب ہے جس میں چودہ پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی اور اس کتاب پر بھی مرتبین نے خوب محنت کی ہے۔ کتاب کا نام’’ گلشن احمد ‘‘رکھنے سے ہی یہ تصور بندھ جاتا ہے کہ اس کے اندر پھولوں کی رنگینی اور جسم و روح کو معطر کرنے والی فضاہوگی۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ اس کتاب میں دینی تعلیمات مختصر مگر جامع طریق پر بڑی دلکشی سے قابل فہم اور قابل عمل صورت میں پیش کی گئ ہے۔
پل یخچہ مکمل محله نچہ مکمل مخلد منہ کے بعد پندرہ سال تک کے احمدی بچوں کا نصاب گلشن احمد
له 2 گلشن احمد چودہ پندرہ سال کے بچوں کا نصاب (احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے )
4 3 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا بے حد فضل و کرم ہے کہ لجنہ اماءاللہ جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر کتب کی اشاعت کے منصوبے پر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے.گلشن احمد ہمارے سلسلے کی اڑتالیسویں کتاب ہے.بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے اس سے قبل کو نیل غنچہ، گل اور گلدستہ شائع ہو چکی ہیں بلکہ کئی کئی بار شائع ہو کر ہزاروں بچوں اور بڑوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں.گلشنِ احمد د چودہ پندرہ سال تک کے بچوں کا نصاب ہے.ہمیں امید ہے کہ جس طرح پہلی گتب بفضلِ خدا قبول عام حاصل کر چکی ہیں.یہ کتاب بھی مفید ثابت ہو گی.گلشن احمد نام سے ہی یہ تصور بندھ جاتا ہے کہ اس کے اندر پھولوں کی رنگینی اور جسم و روح کو معطر کرنے والی فضا ہوگی.یقیناً ایسا ہی ہے.اس کتاب میں دینی تعلیمات مختصر مگر جامع طریق پر بڑی دلکشی سے قابل فہم اور قابل عمل صورت میں پیش کی گئی ہیں.دعا ہے کہ بچے اس پر عمل کر کے حقیقی معنوں میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے گلشن کا نظارہ بن جائیں.جس کی آبیاری مہدی دوراں کے مبارک ہاتھوں سے ہو رہی ہے.
نمبر شمار LO 5 فہرست مضامین مضمون صفحہ نمبر 50 50 6 -7 -8 -9 6.4.سید الاستغفار 6.5.پاک صاف ہونے کی دعا احادیث آخری دس سیپاروں کے نام تاریخ اسلام ( خلافت راشدہ کے بعد ) 10.تاریخ احمدیت 10.1-حضرت خلیفتر مسیح الا قول 10.2 - حضرت خلیفتر اسیح الثانی 51 53 54 1- توحید (اسمائے الہی) رسالت (مدنی زندگی) -2 -3 -4 5 -6 قرآن مجید نماز 7 14 33 40 4-1- نماز میں کس وقت دعا کی جاسکتی ہے.نماز کے بعد کی دعائیں 42 4.2.احمدی، غیر احمدی کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے 4.3.نماز کب اور کیسے جمع کی جاسکتی ہے 44 44 4.4.نماز وتر کیسے پڑھی جاتی ہے اور اس کا صحیح وقت کیا ہے 45 4.5.نماز کیسے اور کب قصر پڑھی جاتی ہے 4.6.ندا سننے کے بعد کی دعا عربی کے عام استعمال ہونے والے جملے دُعائیں 6.1.کامیابی کے سامان پیدا کرنے کی دعا 6.2.عام روز مرہ کے سفر اور ہر کام شروع کرنے کی دعا 6.3.خدا تعالیٰ سے محبت حاصل کرنے کی دعا 45 46 47 48 48 48 49 10.3 - حضرت خلیفتر اسیح الثالث 10.4.حضرت خلیفتر اسیح الرابع 59 71 82 92 10.5 - حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 100 11.کتب حضرت اقدس مسیح موعود 12.الہامات حضرت اقدس مسیح موعود 13 - قصیده از حضرت اقدس مسیح موعود ( پانچ اشعار ) -14 مسیح و مہدی موعود کی آمد کی نشانیاں 15 - حقیقی پرده 16.نظمیں 16.1.ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے 16.2.ہوفضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو 16.3.ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت 16.4.بدرگاہِ ذی شان خیر الانام ( صلی اللہ علیہ وسلم ) 17.حسنِ آداب 105 110 111 113 139 149 150 151 153 156
8 7 توحید قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌه اللهُ الصَّمَدُه لَمْ يَلِدُه وَ لَمُ يُولَدُه وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌه یعنی تمہار خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات میں واحد ہے.نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی ازلی اور ابدی یعنی انادی اور اکال حی ہے نہ کسی چیز کے صفات اس کی صفات کے مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور بایں ہمہ 3 غیر محدود ہے.انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات میں بھی کوئی مثل نہیں اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہوگا تو پھر تمام 1 2 3 4 ہمیشہ سے موجود جس کی ابتدا نہ ہو.ازلی.مراد خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا.جس کی انتہا نہ ہو.ابدی.مراد خدا تعالیٰ ان سب کے ساتھ سماعت.سُننے کی طاقت 66 صفات میں ناقص ہوگا.اس لئے اس کی توحید قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو پھر اس کے آگے آیت مدوحہ بالا کے یہ معنی ہیں کہ خدا نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کوئی اس کا بیٹا ہے کیونکہ وہ غنی بالذات ہے اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی یہ توحید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدار ایمان تی ہے.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 ص 154-155) ” ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے.اگر چہ تمام وجود 2 کھونے سے حاصل ہو.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 ص 21) ” میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے.اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے.اور مجھے خوشی قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے.کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے.جس کے پاس آج دُنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا اور اس کو حاصل کرنا.یہ ہے کہ کسی ذات کی ضرورت سے بے نیاز جس پر ایمان کا انحصار ہے
10 9 اُس کو پہچاننا اور سچا ایمان اُس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا.اور سچی برکات اس سے پانا.“ (اربعین، روحانی خزائن جلد 17 ص 344-345) حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں :- ا بار بار خدا تعالیٰ کا ذکر کرو تا کہ اُس کی محبت تمہارے رگ وریشہ میں سرایت کر جائے.خدا تعالیٰ ایک وراء الوریٰ ہستی ہے اس کا حسن براہِ راست انسان کے سامنے نہیں آتا بلکہ کئی واسطوں کے ذریعوں سے آتا ہے اگر اُس کے حسن کو الفاظ میں بیان کیا جائے اور پھر ہم اُس پر غور کریں اور سوچیں تو آہستہ آہستہ معنوی طور پر اس کی شکل ہمارے سامنے آجاتی ہے اگر تم مالک کا نام لو اور اس کی مالکیت کو ذہن میں لاؤ.قدوس کا نام لو اور اُس کی قدوسیت کو ذہن میں لاؤ.ستار کا نام لو اور اس کی ستاریت کو ذہن میں لاؤ، غفور کا نام لو اور اُس کی غفوریت کو ذہن میں لاؤ تو یہ لازمی بات ہے کہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ کی ایک مکمل تصویر سامنے آ جائے گی اور محبت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو یا اس کی تصویر سامنے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں.؎ دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی ( تفسیر کبیر جلد دوم ص 444) اسمائے الہی ہم نے اللہ تعالیٰ کے ناموں اور کاموں کو سمجھنے کے بہت مختصر اشارے دئے ہیں ان پر غور کرتے رہیں گے تو خدا تعالیٰ کی ہستی کو جاننے کے بہت سے راستے کھلیں گے.ان بابرکت ناموں کو زبانی یاد کر لیں اور ہر وقت یہ التجا کرتے رہیں.اے خدا ہم تجھ سے تیری محبت مانگتے ہیں.آمین یا رب العالمین.السَّمِيعُ : سُننے والا.خدا تعالیٰ کو سننے کے لئے انسان کی طرح کان اور ہوا کی لہروں کی ضرورت نہیں وہ دل کی مانگی ہوئی دُعا بھی سنتا ہے.پہلے بھی سنتا تھا.اب بھی سنتا ہے.صرف ہماری پکار میں درد اور خلوص چاہیے انسان اپنی سُننے کی طاقت کو اچھی باتیں سننے میں استعمال کرے اللَّطِيفُ : - باریک بین.وہ ہر چیز کو قریب ہو یا ڈور بڑی باریک بینی سے دیکھتا ہے.اور جہاں اُسے نیک خیال اور نیک عمل ملتا ہے اُسے پسند کرتا ہے.اس کا اجر دیتا ہے.دُنیا میں تو ایسا ہوسکتا ہے.اچھا کا م کوئی کرے اور انعام کسی اور کو مل جائے.مگر خدا تعالیٰ کے ہاں ایسا ناممکن ہے.الْخَبِيرُ :- سب چیزوں سے آگاہ.ہر بات سے واقف.دلوں کی باتوں کو جان لینے والا.اس کے سامنے کوئی بات بنا کر پیش نہیں کی جاسکتی.اس لئے عام انسانوں کے سامنے بھی سیدھی صاف کھری بات کہی جائے.اور دل میں بھی برائی کو جگہ نہ دی جائے..العظيم : - بزرگ ، برتر، بلند مرتبہ، اونچی صفات کا.انسانی سمجھ اور عقل سے بالا تر.انسان کو چاہیے کہ وہ کسی دنیاوی طاقت کے آگے نہ جھکے.اس لئے
12 11 کہ اس کا تعلق عظیم خدا سے ہے.اَلْغَفُورُ : - سب بخشنے والا.سب سے زیادہ معاف کرنے والا.انسان خطا کا پتلا ہے.بیچنے کی پوری کوشش کے باوجود غلطیاں ہو جاتی ہیں.اس لئے ہر وقت خدا تعالیٰ کی بخشش مانگنی چاہیے.اس کا احسان ہے کہ وہ معاف بھی کر دیتا ہے.پس انسان بھی معاف کر دیا کریں.اَلْحَسِيبُ : - حساب لینے والا.روزِ قیامت بندوں کا حساب لینے والا.ہر حال میں مدد کرنے والا محتاجوں کی حاجت پوری کرنے والا.انسان ہر وقت اپنا حساب لیتا رہے کہ اعمال کے بینک میں کیا ڈالا ہے.اَلْكَرِيمُ : معزز عزت والا مہربان ، نیک سلوک کرنے والا.اپنے فضل سے گناہ بخشنے والا.حسنِ سلوک کرنے والا.محترم مکرم ،ساری عزتوں کا مالک.انسان بھی اگر عزت چاہتا ہے تو اپنے کریم خدا کی صفات پر غور کرے اور اُن پر عمل کرے.الْحَكِيمُ : - موقعہ کے مطابق کام کرنے والا.چھپے ہوئے بھید جاننے والا.ہر کام مصلحت پر مبنی کرنے والا.کبھی پیار کرنے والا.کبھی سزا دینے والا.مگر ہر بات کے پیچھے حکمت مصلحت اور فضل کا پہلو ہوتا ہے.جو انسان سے مخفی مگر خدا کے علم میں ہوتا ہے.اس لئے قسمت پر شکوہ یا خدا تعالیٰ پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے.اَلْوَدُودُ : محبت کرنے والا.اپنی محبت رکھنے والوں کا دوست.اپنے ماننے والوں پر مہربان.اُن کے دل میں اپنی محبت پیدا کرنے والا.انسان بھی ” محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں “ پر عمل کریں.المَجِيدُ : - بزرگ ، شریف، عزت والا ، اونچی شان والا ، ساری عزتوں کے قابل.اس کی ذات بھی بزرگ اس کے کام بھی بزرگ.اس خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے کسی دوسری طاقت کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں اور عزت نفس کا خیال رکھیں.اَلْحَمِيدُ : تعریف کرنے والا ، اپنی ذات اور صفات کی اور وہ جس کی تعریف کی جائے.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے شکر ادا کرنے سے بہت خوش ہوتا ہے.قرآنِ پاک کی ابتدائی آیت ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين - اَلْوَاحِدُ : - اکیلا، یکتا ، یگانہ، لا شریک، بے ہمتا.خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے.مگر زبان سے اقرار کے بعد دوسری طاقتوں سے مدد چاہنا بہت گناہ ہے.شرک کی بہت سی قسمیں ہیں.ہر ایک کو جان کر پر ہیز کرنا لازم ہے.الصَّمَدُ : - کسی کا محتاج نہیں.اس کے سب محتاج ہیں.بے پرواہ غنی اُسے ہماری عبادات کی ضرورت نہیں.ہمیں اُس کے رحم کی ضرورت ہے.ہم اس کی تعریف کر کے بندگی کے حقوق ادا کر کے کوئی احسان نہیں کرتے.دنیا کی ہر چیز اس کی عبادت میں ہمہ وقت مصروف ہے.الْوَالِي : - مالک ، دوست ، کام آنے والا ، مولا ، وارث.اس سے بہتر کوئی مالک نہیں ہوسکتا.جو تمام جہانوں کا رب ہے.اس کی کفالت میں آنے کے بعد کسی اور کی محتاجی نہیں رہتی.الْقَادِرُ : - قدرت والا ظاہر کرنے والا.وہ ایسے کام بھی کر سکتا ہے جو انسانوں کو بظاہر ناممکن لگے.اُس کی عقل میں نہ آئے.خدا تعالیٰ ایسے طریق پر کام کرتا ہے انسان دنگ رہ جاتا ہے مثلاً غار ثور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت.مکہ واپس لانا.قاتلانہ حملوں سے بچانا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچانا.النور : - روشن، روشن کرنے والا.خدا تعالیٰ ایک قسم کا نور ہے جو اس کی
14 13 باتیں مانتا ہے.اُن کو بھی اس نور سے حصہ ملتا ہے.اُن کے دل عرفان سے منور ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ سے اس نور کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لئے دُعا کرنی چاہیے.وہ زمین و آسمان کا نور ہے.ایمان و معرفت کا نور ہے.اَلرَّءُ وُفٌ : - مہربان محبت کرنے والا.دلوں میں محبت پیدا کرنے والا.حسب موقع پیار کرنے والا.وہ مومنوں سے بھی چاہتا ہے کہ وہ آپس میں مہربانی کرنے والے ہوں اور متحد و منتظم ہوں.بے غرض سلوک کریں.اور خدا کے سوا کسی سے نہ مانگیں.اَلصَّبُورُ : - صبر کرنے والا.حلیم، برد بار سزا دینے میں جلدی نہ کرنے والا.انسان بھی کسی غلطی پر جلدی طیش میں نہ آئے بلکہ صبر کرے اور اصلاح کا موقع دے.الْهَادِى : - راہ دکھانے والا.صرف وہی اپنے پانے کا راستہ دکھا سکتا ہے پہلے اُس نے دین فطرت پیدا کیا پھر انبیاء اور پھر شریعت عطا فرمائی.پھر مجددین اور مہدی بھیجے.اور انسان کو پیغام دیا کہ اگر مجھے تلاش کرو گے تو میں خود تمہیں راہ سمجھاؤں گا.ذُو الجَلَال وَالِاكْرَام: - بزرگی والا اور معزز اور بخشنے والا اور عظیم ترین ہونے کے ساتھ مہربان ترین بھی ہے اس کے جلال کی ایک شان ہے.ایک رُعب ہے.جس کا کچھ حصہ مومنین کو بھی دیا گیا اور دور اول میں کفار پر رعب پڑا پھر اُن کو اخلاق کریمانہ دیے گئے جنہوں نے دل جیت لئے.رسالت (مدنی زندگی) ماں.اب ہم مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے بات شروع کرتے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا پہلا پڑاؤ قبا کے مقام پر تھا.بچہ.قبا مدینہ سے کتنے فاصلے پر ہے.ماں.اصل شہر سے دو اڑھائی میل کے فاصلے پر ہے.آپ کی آمد کی خبر کے ساتھ جوشِ اشتیاق سے مسلمان آپ کی عارضی قیام گاہ کلثوم بن الہدم کے مکان پہنچنے لگے یہ 20 ستمبر 622ء پیر کا دن ربیع الاول 14 نبوی کی 12 تاریخ تھی.یہاں پر آپ ﷺ کا سفر ہجرت مکمل ہوا.اسی سال محرم سے سن ہجری کا آغاز ہوا.(سیرت خاتم النبین ) اگلے دن آپ ﷺ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی.دس دن قبا میں قیام کے بعد مدینہ روانہ ہوئے.راستے میں آپ ﷺ نے پہلی نماز جمعہ ادا کی.گے.صلى الله مدینہ کے لوگ تو بہت خوش ہوں گے بلکہ خوشی سے جھوم رہے ہوں ماں.بالکل گلی گلی میں بچے گاتے پھر رہے تھے ” محمد آ گئے، خدا کے رسول آ گئے.بچیاں دف بجا بجا کر خوشی کے گیت گا رہی تھیں.طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثنيات الوداع وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاع چلتے چلتے آپ کی اوٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے قریب ٹھہری.آپ نے اُن کے گھر میں قیام فرمایا اور جہاں اونٹنی بیٹھی تھی اُس
16 15 زمین پر مسجد نبوی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے رہائشی حجرے تعمیر ہوئے.آپ کے حجرے اور مسجد کے درمیان دروازہ تھا.مسجد نبوی تیار ہوگئی.تو نماز کے لئے بلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد اللہ بن زید انصاری اور حضرت عمرؓ کو خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں الفاظ میں حضرت بلال کو اذان دینے کا ارشاد فرمایا ملے سے ہجرت کر کے آنے والوں کو مہاجر کہتے ہیں.مدینہ کے بچہ.مسلمانوں کو کیا کہتے ہیں؟ ماں.مدینہ کے مسلمانوں کو مہاجرین مکہ کی مدد کرنے کی وجہ سے انصار کہتے ہیں یعنی مدد کرنے والے.مہاجرین بالکل بے سروسامان آئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنا دیا.اس کو مواخات کہتے ہیں.یہ دینی بھائی حقیقی بھائیوں کی طرح آپس میں پیار سے رہتے تھے.مهاجرین میں بے وطنی اور رشتہ داروں سے دُوری کا احساس ختم ہو گیا اور وہ دلجمعی سے دینی کاموں اور تلاش معاش میں مصروف ہو گئے.بچہ کیا اُن دنوں کوئی سکول ہوتے تھے.ماں.سکول کی طرز پہ مسجد نبوی کے ساتھ ایک سائبان تھا جسے عربی میں صفہ اور اس میں رہنے والوں کو اصحاب صفہ کہتے ہیں.یہاں قرآن پاک سکھایا جاتا اور عبادات کی تعلیم دی جاتی.ایک معلم مقرر تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم أن سے بہت محبت کرتے تھے اور خود بھی دینی تعلیم دیتے.یہاں کے تعلیم یافتہ مبلغین کو درس و تدریس کے کاموں کے لئے بھیجا جاتا.حالت یہ تھی کہ اکثر فقر و فاقہ میں گزر بسر ہوتی.اُن کے پاس لباس نا کافی ہوتا.کھانے کو کچھ نہ ہوتا مگر عشق الہی میں مگن وہ اسی حالت مطمئن رہتے.بچہ.شکر ہے مخالفت اور تکلیفوں کا سلسلہ تو ختم ہوا.مدینہ کے متعلق بتائیے.وہاں کے حالات کیا تھے؟ ماں.مدینہ کے اطراف میں یہودی قبائل بنو قینقاع ، بنو نظیر اور قریضہ آباد تھے.مدینے کے دو قبائل اوس اور خزرج آپس میں لڑ لڑ کر کمزور ہو چکے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے امن معاہدہ کر لیا.ان کی سرداری ماند پڑ گئی جس کی وجہ سے دلوں میں رنجش اور منافقت آگئی مکہ سے ابو جہل اُن کو دھمکیوں کے خط لکھتا تھا.قریش مکہ آنے جانے والے قافلوں کو لوٹتے اور مار دھاڑ کرتے اس طرح تمام عرب ایک طرف تھے اور مٹھی بھر مسلمان ایک طرف.قرآن پاک میں ان دنوں کی حالت کا ذکر یوں ملتا ہے.”اے مسلمانو! وہ وقت ک یاد رکھو جبکہ تم ملک میں بہت تھوڑے اور کمزور تھے اور تمہیں ہر وقت یہ خوف لگا رہتا تھا کہ لوگ تمہیں اُچک کر نہ لے جائیں یعنی اچانک حملہ کر کے تمہیں تباہ نہ کر دیں مگر خدا نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری مدد فرمائی اور تمہارے لئے پاکیزہ نعمتوں کے دروازے کھولے پس تمہیں اب شکر گزار بندے بن کر رہنا چاہیے.(سورۃ انفال:27) بچہ.پھر تو وہ ہر وقت مسلمانوں کے خلاف منصوبے بناتے رہتے ہوں گے.ماں.میں اس کے متعلق پھر بتاؤں گی پہلے تحویل قبلہ اور روزوں کی فرضیت کا ذکر ہو جائے.مسلمان شعبان 2 ہجری تک بمطابق جنوری فروری 624ء بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے قرآنی حکم کے مطابق مسلمانوں کو اپنا رُخ کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنے کا ارشاد ہوا (البقرہ:143) اسی سال رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم ملا (البقرہ: 186) اسی سال پہلی شوال کو پہلی عید عید الفطر منائی گئی اور اسی سال مخالفین کی زیادتی پر جہاد کی اجازت ملی.اور خدا ا
18 17 تعالیٰ نے فرمایا.وہ لوگ جن سے (بلا وجہ ) جنگ کی جا رہی ہے.ان کو بھی جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے.“ (الحج : 40) بچہ.گویا پہل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ دفاع کی اجازت ملی.ماں.مٹھی بھر نہتے مسلمان سارے عرب کے خلاف جنگ کی ابتدا کا سوچ بھی کیسے سکتے تھے.اب جنگ ندر کا حال سینے اُس سال مکہ کے تمام مردوں اور عورتوں نے اپنے کل اثاثے سردارانِ قریش کو سامانِ جنگ خریدنے کے لئے دے دیے.تا کہ مسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کریں وہ خوب تیار ہو کر نکلے.مکہ اور مدینہ کے راستے میں مدینہ سے تقریباً اسی میل کے فاصلے پر ایک گاؤں بدر کے مقام پر قریش کا لشکر ، جو ایک ہزار کی تعداد میں تھا، آ کر ٹھہرا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم کو علم ہوا تو بارہ رمضان المبارک 2 ہجری (مطابق مارچ 624ء) شہر سے نکلے اللہ تعالیٰ کی مدد کے وعدے ساتھ تھے.فریقین کی تعداد اور سامان میں کوئی مقابلہ نہیں تھا.مسلمان تین سو تیرہ افراد تھے ان کے پاس ستر اونٹ دو گھوڑے اور سات زرہ پوش تھے.سامان جنگ تھوڑا اور ناقص تھا جبکہ کفار تعداد میں ایک ہزار تھے اُن کے پاس سات سو اونٹ ،سوگھوڑے اور اکثر زرہ پوش نیزہ ،تلوار ، تیر کمان سے لیس تھے.مسلمان بلندی پر جبکہ کفار نشیب میں تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے ریت کی مٹھی بھر کر کفار کی طرف پھینکی اور جوش کے ساتھ فرمایا.دشمن کے منہ بگڑ جائیں.ریت پھینکتے ہی زبر دست آندھی آئی جس سے دشمنوں کے پاؤں اکھڑنے لگے.آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں ”اے اللہ مجھے چھوڑ یو نہیں.یا اللہ میں تیرا وعدہ تجھے دلاتا ہوں.اے اللہ اگر تو مسلمانوں کی اس جماعت کو تباہ کر دے گا تو پھر اس زمین پر تیری پرستش کون کرے گا.“ بچہ.میں معاد اور معود والے واقعے کا بھی انتظار کر رہا ہوں.ماں.حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ جنگ بدر کے دن اُن کے ارد گرد معاذ اور معوذ نامی کم سن لڑکے تھے دونوں نے باری باری پوچھا کہ ابو جہل کہاں ہے؟ اُن کے بتانے پر وہ باز کی طرح جھپٹے اور ابو جہل پر حملہ کر کے زخمی کر دیا اور وہ گر پڑا.بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس کا سرتن سے جدا کر دیا.ہے.بچہ.بڑے بہادر لڑکے تھے ہماری کتاب میں اس واقعے کی تفصیل موجود ماں.اس جنگ میں قریش کے ستر آدمی قتل اور ستر قید ہوئے جبکہ کل چودہ مسلمان شہید ہوئے.مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط ہو گئی.قبائل عرب پر رعب پڑ گیا.منافقین مدینہ مرعوب ہو گئے.سب سے زیادہ مخالفت کرنے والوں میں سے اکثر مارے گئے.بچہ.پھر کیا ہوا؟ ماں.پھر یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بیٹی کی شادی کی خوشی کی تقریب ہوئی.بچہ.حضرت فاطمتہ الزہرا کی حضرت علی کے ساتھ.ماں.جی ہاں ! آپ نے یہ بھی پڑھا ہوگا کہ یہ شادی بے حد سادگی سے ہوئی تھی.حضرت علی کے پاس ایک معمولی زرہ ،ایک بھیڑ کی کھال اور ایک بوسیدہ یمنی چادر تھی جو مہر میں دے دی اور شہنشاہِ دو جہاں کی لاڈلی شہزادی کو جو جہیز ملا وہ بھی سُن لیجئے.بان کی چار پائی ، چمڑے کا گدا جس کے اندرونی حصے میں کھجور کے
20 19 پتے ایک چھا گل ، ایک مشک دو چکیاں اور مٹی کے دو گھڑے.بچہ اتنی سادگی ! کیا اُس زمانے میں ہر شادی اتنی سادگی سے ہوتی تھی.ماں.ایک اور شادی کا حال سُن لیجئے ماہ شوال 2 ہجری میں مارچ ،اپریل 624ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم اور حضرت عائشہ صدیقہ کی شادی بھی سادگی سے ہوئی.اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر تقریباً بارہ سال تھی (سیرۃ خاتم النبین ص 238) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پچپن سال تھی.چار پانچ سو درہم حق مہر تھا جو نقد ادا کیا گیا.حضرت عائشہ ذہین اور صاحب علم خاتون تھیں آپ سے دو ہزار دوسو احادیث مروی ہیں.بچہ.یہ بھی بتائیے کہ 2 ہجری میں صرف غزوہ بدرلڑی گئی.ماں.نہیں چھوٹے چھوٹے اور بھی غزوات ہوئے مثلاً قراقرۃ القدر،غزوہ سویق، اور غزوہ بنو قینقاع.دراصل ہوا یہ کہ بہت بڑی شکست کی شرمندگی کفار مکہ کو چین نہیں لینے دے رہی تھی.اور وہ بدر سے واپسی کے بعد ہی اگلی تیاریوں میں مصروف ہو گئے.بچہ.حسب معمول سب نے اپنے اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے جوش انتقام میں اپنے مال اور اپنی جانیں پیش کر دی ہوں گی.ماں.جی ہاں ! مگر جنگ اُحد کے ذکر سے پہلے ایک خوشی کی خبر سُنا دوں.رمضان 3 ہجری ( مطابق یکم مارچ 625 ) میں حضرت حسنؓ پیدا ہوئے.آپ کی ساری اولاد میں سے حضرت فاطمہ سے آپ کی نسل چلی.حضرت حسنؓ کی شکل اپنے نانا سے بہت مشابہ تھی.بچہ.آپ کا ذکر عام طور پر حضرت امام حسنؓ کے نام سے ہوتا ہے.اب جنگ اُحد کے متعلق بتائیے.دونوں طرف کیسا لشکر تھا.ماں.آپ کی دلچسپی سے مجھے خوشی ہو رہی ہے.اُس وقت کی مردم شماری کے مطابق کل پندرہ سو مسلمان تھے.کفار کی تعداد تین ہزار تھی جن میں سے سات سو زره پوش سپاہی شامل تھے.ان کے پاس دو سو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ تھے.اُن کا سپہ سالار ابوسفیان تھا.مسلمانوں میں قبیلہ اوس کا جھنڈا حضرت اسید بن قبیلہ خزرج کا جھنڈا حضرت خباب بن منذر اور مہاجرین کا جھنڈ ا حضرت علی کے سپرد کیا.یہ جنگ شوال 3 ہجری 23 مارچ625ء) میں ہوئی.ایک غدار اور منافق عبداللہ بن ابی سلول اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر علیحدہ ہو گیا.اس طرح مسلمان صرف 700 رہ گئے.ان میں ایک زرہ پوش اور دو گھڑ سوار تھے.اُحد میں ایک پہاڑی درہ تھا جس پر پچاس تیرانداز حضرت عبداللہ بن جبیر کی سرکردگی میں متعین تھے.آپ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے وہ الفاظ بتا سکتی ہیں جن میں اُن کو وہاں سے نہ ہٹنے کا ارشاد فرمایا تھا.ماں.آپ نے فرمایا تھا.دیکھو دڑہ کسی صورت میں خالی نہ رہے حتی کہ اگر تم دیکھو کہ مسلمانوں کو شکست ہوگئی ہے اور دشمن ہم پر غالب آ گیا ہے تو پھر بھی تم اس جگہ سے نہ ہٹنا.اگر دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کا حکم نہ آجائے.“ بچہ.یہ تو بڑے سخت لفظ ہیں اور اُن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی سوجھ بوجھ کا اندازہ ہوتا ہے.آپ کتنے ماہر جرنیل تھے.ماں.مگر جنگ کے بعد جب کفار کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے لگے تو دڑے میں متعین عبد اللہ بن جبیر اور ان کے پانچ ساتھیوں کے سوا سب نے درّہ خالی چھوڑ دیا جس پر خالد بن ولید نے اپنے
22 21 ساتھیوں کے ساتھ عقب سے حملہ کر کے جنگ کا نقشہ بدل دیا.آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک پر پتھر لگا جس سے آپ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے.جاں نثار صحابہ نے آپ کے ارد گرد گھیرا ڈال لیا.حضرت ابوطلحہ انصاریؒ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ،حضرت زیاد بن سکن ،خواتین میں سے حضرت ام عمارہ نے جرات و بہادری سے دفاع کیا.اس جنگ میں خواتین نے نرسنگ اور پانی پلانے کا کام کیا.جنگ اُحد میں ستر صحابہ شہید اور بہت سے زخمی ہوئے.بچہ.ہماری کتاب میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ اُحد کے میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی غلط خبر مدینے پہنچی تو ایک انصاری عورت بھاگتے ہوئے اُحد کے راستے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت پوچھتی جا رہی تھی بعض صحابہ نے اطلاع دی کہ تمہار باپ، بھائی اور خاوند سب اُحد کے معرکے میں شہید ہو گئے مگر وہ بے چین ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی رہی.جب آپ کی خیریت کا علم ہوا تو بے اختیار کہا.اگر آپ زندہ ہیں تو سب مصیبتیں بیچ ہیں.میرا خیال ہے کہ جنگِ اُحد کے بعد مشرکین مکہ خود کو بڑا بہادر اور حوصلہ مند سمجھنے لگے ہوں گے.ماں.آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں وہ مسلسل شرا تیں کرنے لگے غزوہ حمراء الاسد، سریہ ابوسلمہ ( یکم محرم 4 ہجری) سریہ ابنِ انیس (محرم چار ہجری) اور بنولحیان کی شرارت جیسے واقعات اسی خود سری کے نتیجے میں ہوئے.ان میں سے واقعه رجیع کی کچھ تفصیل بتاتی ہوں.ماہ صفر 4 ہجری (جولائی اگست 625ء) آپ نے عضل اور قارہ قبائل کو دین سکھانے کے لئے آدمی بھیجنے کی درخواست پر دس صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی.یہ درخواست ایک چال تھی.اس مقدس پارٹی کو بنو لحیان کے دوسو نو جوانوں نے گھیر کر شہید کر دیا.اُن میں زید بن دشمنہ بھی تھے جن کو قتل کرتے ہوئے تلوار اُٹھا کر پوچھا گیا.”سچ کہو کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ اس وقت تمہاری جگہ ہمارے ہاتھوں میں محمد ہوتے جسے ہم قتل کرتے اور تم بچ جاتے اور اپنے اہل و عیال میں خوشی کے دن گزارتے.انہوں نے کہا.” خدا کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میرے بچنے کے عوض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چھے ، اور اس کے ساتھ ہی وہ شہید کر دیے گئے.اس واقعہ کی طرح بئر معونہ میں صفر 4 ہجری میں ستر 70 قاری صحابہ کو دھو کے سے قتل کر دیا گیا.ان میں سے صرف دو بیچ سکے." بچہ.کیا اس وقت تک قرآن پاک صرف یاد کر کے محفوظ کیا جاتا تھا.ماں.حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جب آپ پر کوئی وحی نازل ہوتی تھی تو آپ اپنے کاتبانِ وجی میں سے کسی کاتب وحی کو بلوا کر وہ وحی لکھوا دیتے تھے اور ساتھ ہی یہ فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں موقع پر رکھو.اس طرح آپ خود ہی سورتوں کی ترتیب بھی فرما دیتے تھے.“ ( ابو داؤد، ترمذی، مسند احمد بن حنبل) اس سے علم ہوا کہ قرآنِ پاک لکھا جا تا تھا.یاد بھی کیا جاتا تھا اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ترتیب دیا.کاتبان وحی کے نام یہ ہیں.حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت زید بن ثابت حضرت زبیر بن العوام ، حضرت شرجیل بن حسنہ ، حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرغ، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبداللہ بن رواحہ وغیرہ.( سيرة خاتم النبيين ص 532) آگے چلنے سے پہلے اس سال کے چند اہم واقعات بتا دوں.حضرت امام حسین شعبان 4 ہجری (جنوری 626 ء ) میں پیدا ہوئے.وراثت کے احکام نازل ہوئے.شراب کی ممانعت ہوئی.
24 23 بچہ.اب ہم 5 ہجری میں داخل ہورہے ہیں.ماں.5 ہجری کا پہلا اہم واقعہ غزوہ مریسیع یا بنی المصطلق تھا جو شعبان میں ہوا.جنگ احزاب یا غزوہ خندق شوال 5 ہجری (مطابق فروری ، مارچ 627) میں ہوئی.حضرت سلمان فارسی کے مشورے سے مدینے کے غیر محفوظ علاقے کے سامنے لمبی اور گہری خندق کھودی گئی.کفار نے ارد گرد کے قبائل کو ملا کر چوبیس ہزار کا لشکر تیار کیا.جن کا امیر ابوسفیان بن حرب تھا.عجیب نظارہ ہو گا مسلمان ٹکڑوں میں بٹ کر خندق کھود رہے ہوں گے.کھودتے کھودتے ایک اڑیل پتھر پر ضربیں لگاتے ہوئے ایک ایک ضرب پر آپ کو شام ، فارس اور یمن کی گنجیاں دکھائی گئیں.بچہ.میں نے پڑھا ہے کہ سخت تنگی کا زمانہ تھا.بھوک کی شدت روکنے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھ باندھ کر کام ہوتا تھا.ایک صحابی حضرت جابر بن عبداللہ نے آپ کے چہرہ پر بھوک کی وجہ سے نقاہت محسوس کی تو گھر جا کر بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کھانے کو کچھ ہے تو بیوی نے بتایا کہ ایک بکری کا بچہ اور تھوڑا سا جو کا آٹا ہے.بیوی سے کہا تم کھانا تیار کرو اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر چپکے سے کھانے کی دعوت دی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم کو جب علم ہوا کہ کھانا کم ہے تو فرمایا تم جاؤ اور بیوی سے کہو کہ جب تک میں نہ آؤں ہنڈیا اتارو اور نہ روٹیاں پکانی شروع کرو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی کھانے میں برکت پیدا ہو گئی.سب صحابہ کرام نے سیر ہو کر کھایا اور ابھی کھانا باقی تھا.ماں.سبحان اللہ.یہ آپ نے ٹھیک بتایا کہ یہ دن سخت تنگی کے تھے.سردی بہت تھی.جنگ میں بہت شدت آگئی.ایک موقع پر حضرت صفیہ نے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں بڑی بہادری دکھائی.اللہ تعالیٰ کے حکم سے شدید صلى الله آندھی آئی کفار ہیں دن کے محاصرے کے بعد بد دل ہو کر واپس چلے گئے.اس موقع پر بنو قریظہ نے غداری کی تھی جنگ احزاب کے معاً بعد آنحضور ﷺ ان کی غداری کی سزا دینے کے لئے صحابہ کرام کو ساتھ لے کر تشریف لے گئے اوران کا زور توڑا.اسی سال 5 ہجری میں مسلمان عورتوں کے لئے پردے کا حکم نازل ہوا.اب میں آپ کو صلح حدیبیہ کے متعلق بتاؤں گی.بچہ.یہ 6 ہجری کا واقعہ ہے.ماں.جی.مسلمانوں کو مکہ سے بے حد پیار تھا.مکہ ان کا وطن تھا بعض خاندان بٹ گئے تھے.مکہ میں حج ہوتا ہے.ان سب باتوں کی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چودہ سو اصحاب عمرے کا احرام باندھ کر مکہ کے لئے روانہ ہوئے.کفار مکہ کو علم ہوا تو سخت طیش میں آگئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے پیغام بھجوائے کہ صلح کرنا اچھی بات ہے.مگر آپ کے پیغام رسانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کیا گیا.حتی کہ جب حضرت عثمان کو بھیجا تو یہ افواہ پھیلی کہ اُن کو شہید کر دیا گیا ہے.آپ نے سب صحابہ سے ایک درخت کے نیچے جاں نثاری کی بیعت لی.اس کو بیعت رضوان کہتے ہیں.اس موقع پر آخر کار صلح ہوئی مگر اس شرط پر کہ اس سال کی بجائے آپ آئندہ سال آئیں.یہ صلح حدیبیہ کے مقام پر ہونے کی وجہ سے صلح حدیبیہ کہلاتی ہے.بچہ.صلح حدیبیہ کی اور شرطیں کیا تھیں.ماں.اگلے سال آئیں اور صرف تین دن کے لئے وہ بھی بغیر ہتھیاروں کے.مکہ میں مقیم کوئی مسلمان مدینہ ساتھ نہ جا سکے گا اور کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو رہ سکتا ہے.کافروں یا مسلمانوں میں سے کوئی مدینہ جائے تو وہ واپس کر دیا جائے لیکن اگر کوئی کافر مسلمان مکہ جائے تو واپس نہیں کیا جائے گا.
26 66 25 بچہ.یہ کیا بات ہوئی.ہم تو سچے دین پر ہیں پھر یہ ذلت آمیز شرائط کیوں؟ ماں.کچھ اسی قسم کا اظہار حضرت عمرؓ نے کیا تھا جب ایک مسلمان ابو جندل زخمی حالت میں آئے اور فریاد کی مجھے ساتھ لے جائیں مگر شرائط کے تحت انہیں ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے اس موقع پر آپ نے پیار سے سمجھایا کہ ” دیکھو عمر ! میں خدا کا رسول ہوں اور خدا کے منشا کو جانتا ہوں اور اس کے خلاف نہیں چل سکتا.وہی میرا مددگار ہے...حدیبیہ سے واپسی پرسورہ فتح نازل ہوئی جس میں عظیم الشان بشارات ہیں.بچہ.اب میں سمجھا امی ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سب سے بہتر جانتے ہیں مگر یہ تو بتائیے کہ حضرت ابو جندل کا کیا ہوا.ماں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دی.’ ابو جندل صبر اور ضبط سے کام لو خدا تمہارے لئے اور مظلوموں کے لئے کوئی راہ نکالے گا.بد عہدی نہیں کر سکتے ،، اور وہ زنجیروں میں بندھے ہوئے جس طرح مشکل سے بھاگ کر آئے تھے.زنجیروں میں بندھے ہوئے اُسی طرح واپس چلے گئے.بچہ.صلح حدیبیہ کے بعد کچھ امن چین نصیب ہوا ہوگا.ماں.آپ نے بالکل ٹھیک سمجھا اس اطمینان کے دنوں میں فریضہ تبلیغ دین کے لئے کل عالم کے پیغمبر نے تبلیغ کو وسعت دی.قریبی ملکوں کے بادشاہوں اور رؤسائے عرب کو تبلیغی خطوط لکھے.ان تبلیغی خطوط پر مہر ثبت کرنے کے لئے ایک چاندی کی انگوٹھی بنوائی اس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ تھے.بچہ.کیا یہ انگوٹھی اب تک محفوظ ہے.ماں.نہیں بچے.یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد حضرت ابو بکر پھر حضرت عمر کے پاس رہی اور پھر حضرت عثمان کے پاس بھی پہنچی.مگر آپ سے ایک کنوئیں میں گر گئی اور باوجود تلاش کرنے کے مل نہ سکی.بچہ.اوہ ہو....اچھا وہ بات جاری رکھے تبلیغ اسلام کے لئے خطوط کی.ماں.آپ اپنے ذہن میں چارٹ سا بناتے جائیں.پہلا خانہ ملک کا دوسرا بادشاہ یا رئیس کا نام تیسرا قاصد رسول اللہ “ کا نام، ٹھیک ہے! روم قیصر ہر قل حضرت دحیہ کلبی ایران کسری خسرو پرویز حضرت عبداللہ بن خزاعہ سہمی عزیز مقوقس حضرت حاطب ابی بلتعہ جبش نجاشی حضرت عمرو بن امیه بیامه رئیس ہوزہ بن علی حضرت سلیط بن عمر بن عبد شمس رئیس حارث نسانی حضرت شجاعہ بن وہب الاسدی یہ خطوط (اپریل تا جون 628ء) ذوالحجہ تا محرم 7 ہجری لکھے گئے.بچہ.کوئی اب تک محفوظ ہے؟ میرا دل کر رہا ہے وہ خط دیکھ سکوں.ماں.خط کی عبارت آپ کو سنا دیتی ہوں.شام محمد کی طرف سے جو خدا کا بندہ اور رسول ہے.یہ خط ہرقل کے نام ہے جو روم کا رئیس اعظم ہے.اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کا پیرو ہے.اس کے بعد میں آپ کو اسلام کی دعوت کی طرف بلاتا ہوں.اسلام لاؤ گے تو سلامت رہو گے خدا آپ کو ڈ گنا اجر دے گا اور اگر آپ نہ مانے تو اہلِ ملک کا گناہ آپ پر ہوگا.اے اہلِ کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے اور وہ یہ ہے ہم خدا کے سوا کسی کو نہ پوجیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو ( خدا کو چھوڑ کر خدا نہ بنائے.اور اگر آپ نہیں مانتے تو گواہ رہو کہ ہم مانتے ہیں.“
28 27 اس کے بعد خیبر کے مقام پر یہودیوں سے معرکہ ہوا.جس میں یہودیوں کو بہت جانی نقصان اُٹھانا پڑا.بچہ.ایک خوشی کی بات یہ ہوئی کہ وہ لوگ جو ابتدائے اسلام میں حبشہ کی طرف ہجرت کر کے گئے مدینہ لوٹ آئے.یہ 7 ہجری (628) کو واقعہ ہے.وہ کتنے خوف کے دنوں میں گئے تھے اور واپسی اُس وقت ہوئی جب مسلمانوں کی ایک طرح حکمرانی تھی.ماشاء اللہ.ماں.آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے ساتھیوں کے ساتھ عمرے کے لئے تشریف لے گئے تھے جو نہیں ہو سکا تھا اُس کی قضا کا عمرہ ذی قعد 7 ہجری میں ادا کیا.8 ہجری میں غزوہ موتہ ہوا اور 8 ہجری ماہ رمضان (بمطابق دسمبر 629) دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آفتاب رسالت مکہ کی طرف روانہ ہوا.بچہ.جب آپ مکہ سے تشریف لے گئے تھے تو آپ نے فرمایا تھا کہ ” مکہ تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.“ ماں.اب آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ تشریف لائے تھے مگر اللہ کی حمد کرتے ہوئے سر جھکائے ہوئے داخل ہوئے سب سے پہلے خانہ کعبہ میں تشریف لائے سواری پر سات بار بیت اللہ کا طواف کیا.خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے 360 بتوں کو ایک ایک کر کے چھڑی سے گراتے رہے اور ایک آیت پڑھتے رہے جس کا ترجمہ ہے حق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا.“ بچہ.اور کفار مکہ کو جو جانی دشمن تھے معاف کر دیا.ماں.جی بیٹا.یہ ایک عام معافی کا اعلان تھا لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمِ آج کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا.آپ رحمتہ للعالمین تھے لاکھوں لاکھ درود وسلام ہو اُس محسن اسلام پر.آپ کے اس حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر بہت لوگ اسلام لائے.آپ نے مکہ میں ایک اونچی جگہ بیٹھ کر بیعت لی.بچہ.سبحان اللہ.اللہ پاک جس کو چاہتا ہے عزت عطا فرماتا ہے.جس کو چاہے تخت شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو جس کو چاہے تخت سے نیچے گرا دے کر کے خوار ماں.میرا خیال ہے کہ آپ کو اُمہات المومنین یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی بیویوں کے نام بتا دوں.آپ کی پہلی شادی حضرت خدیجتہ الکبری سے ہوئی تھی جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین لڑکے اور چارلڑکیاں عطا فرمائیں.دیگر ازواج مطہرات کے نام یہ ہیں.حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابو بکرؓ، حضرت سودہ بنت زمعہ، حضرت زینب بنت جحش حضرت اُمّ سلمہ ، حضرت حفصہ بنت حضرت عمر فاروق حضرت اُم حبیبہ، حضرت جویریہ حضرت صفیہ ، حضرت میمونہ ، حضرت ماریہ قطبیہ.حضرت ماریہ قطبیہ کے بطن سے 8 ہجری ( مارچ، اپریل 630ء) میں حضرت ابراہیم پیدا ہوئے جو دو سال کے ہو کر فوت ہو گئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا صدمہ ہوا آپ نے فرمایا وَ اللهِ إِنَّهُ لَنَبی.خدا کی قسم میرا یہ بیٹا نبی ہے.بچہ.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کتنا عرصہ مکہ میں رہے.ماں.صرف پندرہ دن مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ ہے ”حنین“ اس میں قبیلہ ہوازن اور ثقیف کے جنگجو اور مغرور لوگ رہتے تھے.انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم مل جائیں اور مسلمانوں کا زور توڑ دیں.مکہ سے واپسی پر اُن سے مقابلہ ہوا جن میں
30 29 مسلمانوں کا کچھ نقصان ہوا مگر اللہ پاک کی خاص مدد سے با لآخر فتح نصیب ہوئی.اس کے بعد 9 ہجری میں غزوہ تبوک ہوئی.بچہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمرے کا ذکر کیا تھا کیا آ.نے حج بھی کیا.ماں.جی ہاں ! آپ نے اپنی زندگی میں ایک حج کیا.ایسا ہوا کہ 10 ہجری(8176 مارچ 632ء) کو آپ ایک لاکھ چوبیس ہزار افراد کے ساتھ حج کے لئے تشریف لے گئے.سب ازواج مطہرات ساتھ تھیں.اس حج کی کیا شان تھی جہاں تک نگاہ اٹھتی مسلمان ہی مسلمان تھے.عرفات کے مقام پر اونٹنی پر سوار ہو کر آپ نے یاد گار خطبہ دیا.آپ نے فرمایا:- ”اے لوگو ! میری باتوں کو غور سے سنو ، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد پھر بھی اس موقع پر تم سے مل سکوں گا یا نہیں.اے لوگو ! یاد رکھو جیسا یہ دن اور مہینہ حرمت والا ہے.اسی طرح تمہاری جان و مال ایک دوسرے پر حرام ہیں.دیکھو امانتیں ان کے مالکوں کے سپرد کرنی چاہئیں یہ باتیں جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں تم میں سے ہر ایک شخص کا جو یہاں موجود ہے فرض ہے کہ وہ ان لوگوں تک پہنچائے جو یہاں موجود نہیں.یادرکھو تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا.آج سود کی رقم ترک کی جاتی ہے اور وہ تمام خون جو جاہلیت میں ہو چکے اُن کا قصاص معاف کیا جاتا ہے.اے لوگو! آج شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا کہ پھر کبھی اس کی پرستش اس زمین میں کی جائے.اے لوگو! عورتوں کا تم پر حق ہے جیسا کہ تمہارا عورتوں پر حق ہے وہ تمہارے ہاتھوں میں خدا تعالیٰ کی امانت ہیں پس ان سے نیک سلوک کرو اور دیکھو غلاموں کا بھی خیال رکھو جو خود کھاتے ہو ان کو بھی کھلاؤ جو خود پہنتے ہو ان کو بھی پہناؤ.اے لوگو! اچھی طرح سُن لو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے.اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہار اباپ بھی ایک تھا.سنو کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، نہ سرخ کو سیاہ پر اور نہ سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت ہے تم میں سے بہتر وہ ہے جو متقی ہے تم سب آدم کی اولاد ہو اور سب مٹی سے بنے ہو.خطبہ کے آخر میں آپ نے فرمایا :- " کیا میں نے خدا کا پیغام تم تک پہنچا دیا.“ سب نے یک زبان ہو کر کہا ” ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا تب آپ نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھائی اور تین بار دہرایا " اے خدا گواہ رہنا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا.بچہ.ایسا لگتا ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفات کے قریب ہونے کا اندازہ ہو گیا تھا.ماں.جی بچے جو اس دُنیا میں آتا ہے خواہ نبی رسول ہو آخر تو جانا ہی ہوتا ہے محرم 11 ہجری میں آپ کو بخار ہوا.بخار میں دوسری بیویوں کی اجازت سے حضرت عائشہؓ کے کمرے میں تشریف لے آئے.سات آٹھ روز تک اسی کمزوری
32 31 کی حالت میں نماز پڑھاتے رہے جب کمزوری زیادہ ہو گئی تو حضرت ابوبکر کونماز پڑھانے کا ارشاد فرمایا.یہ مغرب کی نماز تھی.نماز عشاء بھی آپ نہ پڑھا سکے رات بھر بخار رہا.صبح فجر کے وقت حجرے کا پردہ ہٹا کر نمازیوں کو دیکھا دل طمانیت سے بھر گیا.ہمت کر کے اُٹھے مسجد نبوی میں حضرت ابو بکر کی امامت میں بڑی مشکل سے نماز فجر ادا فرمائی.کمزوری بہت بڑھ گئی.صبح ذراسی طبیعت سنبھلی مگر کمزوری غالب تھی.حضرت عائشہ کے بھائی عبدالرحمن کے پاس مسواک دیکھی تو اشارے سے طلب فرمائی.حضرت عائشہ نے اپنے دانتوں سے مسواک نرم کر کے پیش کی.آپ نے اچھی طرح دانت صاف کئے زبان پر لا اله الا اور الى الرفيق لاعلى مِنَ الْجَنَة کا ورد تھا.دوپہر کے قریب دوشنبہ کے روز 12 ربیع الاول 11 ہجری (26 مئی 632ء) آپ اپنے رفیق اعلیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ الله اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ َو عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلَمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ بچہ.امی جان اگر میں پیارے آقا کے متعلق تفصیل سے جاننا چاہوں تو کیا پڑھوں.ماں.میں آپ کو بتاتی ہوں کیونکہ اس سبق کی تیاری کے لئے میں نے بھی بہت مطالعہ کیا ہے.آپ کے حالات جاننے کے لئے سب سے پہلے قرآن مجید ہے پھر صحیح بخاری شریف اور دوسری احادیث کی کتب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے اقتباسات جمع کر کے بھی شائع کر دیے گئے ہیں.حضرت مصلح موعود کی کتب دیباچہ تفسیر القرآن ، رحمۃ للعالمین ، سیرت خیر الرسل، اسوہ حسنہ اور دنیا کا محسن ہیں.سیرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تصنیف ہے اسی طرح مولانا غلام باری سیف صاحب کی 6 کتاب ”محمد“ ہے.مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی 'عہد نبوی کا قمری سشسی کیلنڈران کے علاوہ ابن ہشام، سید سلیمان ندوی اور علامہ شبلی کی کتابیں بھی عمدہ ہیں.اللہ پاک ہمیں سیرت کے مطالعے کے ساتھ اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی لانے کی توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں.آمین اللھم آمین.
34 33 قرآن مجید دو پیارے بچو ہم نے اپنی کتابوں ”گل“ اور ” گلدستہ میں قرآن پاک کا پہلا پارہ لفظی ترجمے کے ساتھ شامل کیا تھا.اس کی مدد سے آپ ترجمہ کرنا کافی حد تک سیکھ چکے ہوں گے.اب آپ اس قابل ہیں کہ قرآنِ مجید مکمل با ترجمہ پڑھ سکیں.اللہ پاک سے دُعا کر کے اپنے والدین اور اسا تذہ کی مدد سے جلدی جلدی ترجمہ سیکھئے.آپ کو علم ہے کہ نصاب میں جو پہلا پارہ شامل تھا وہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے ترجمہ کا عکس تھا.اب آپ حضرت میر صاحب کے ترجمے والا قرآن مجید لے لیجئے اس سے آپ لفظی ترجمہ سیکھ سکتے ہیں.بامحاورہ ترجمہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ امسیح الثانی کی تفسیر صغیر سیکھئے.آپ نے بعض جگہ وضاحتی نوٹ بھی لکھے ہیں جو قرآن پاک سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں اور احمد یہ ٹیلی ویژن پر حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ترجمۃ القرآن کی کلاسوں نے تو نرالا لطف دیا ہے.آپ قرآنی حقائق کی صداقت کے ثبوت میں جدید ترین انکشافات پیش کرتے تھے.آپ کا ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے احمدی بچو! ان کلاسوں اور ترجمہ سے باقاعدگی سے فائدہ اُٹھاؤ.بچہ.قرآن مجید پڑھنے کے فائدے جاننا چاہتا ہوں.ماں.قرآنِ کریم ہمارے پیارے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے.اُس نے اسے اپنے.بندوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے.اس میں کامل شریعت ہے.اس سے اللہ تعالیٰ کا پیار اور محبت حاصل ہوتی ہے.قرآن کریم سے پیار کرنا گویا اللہ تعالیٰ سے پیار کرنا ہے.قرآن پاک پڑھنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں آ جاتا ہے.قرآنِ پاک میں ارشاد ہے.يَرُجُونَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُورَ (فاطر: 30) قرآنِ پاک پڑھنے والے اللہ تعالیٰ سے محبت کا ایسا معاہدہ کرتے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہو گا.قرآن کریم میں ساری الہامی کتب کی صحیح تعلیم جمع کر دی گئی ہے.یہ دائی ہے.جملہ انبیاء کے درست حالات اسی سے معلوم ہوتے ہیں.اس میں آئندہ زمانے کی پیش گوئیاں اور حالات درج ہیں.اس میں دُعائیں ہیں جو ہر قسم کی مشکلات سے نجات کے لئے عذاب آخرت سے بچاؤ کے لئے اور اللہ پاک کی مغفرت میں آنے کے لئے مانگی جاتی ہیں.اس میں ہر قسم کے علوم کا خزانہ ہے.عزت اور نجات اور اللہ پاک کو پانے کا صرف یہی ذریعہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم پر عمل کر کے عزت پائی تھی.یہ ایک زندہ کتاب ہے اس کے پڑھنے والے اُس گروہ میں شامل ہوتے ہیں جو انعام یافتہ ہیں.یا الہی ترا فرقاں ہے یا اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا (ڈرمین) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.یقیناً یہ سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سُن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے
36 35 کا منہ دیکھ سکیں میں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا 66 پیالہ پیا ہو." اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد 10 ص 443,442) بچہ.قرآن کریم پڑھنے کا بہترین وقت کون سا ہے؟ ماں.قرآن کریم پڑھنے کا بہترین وقت نماز فجر کے بعد ہے.اللہ پاک فرماتا ہے.إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (سورہ بنی اسرائیل :79) یقیناً فجر کا قرآن پڑھنا اللہ کے حضور پیش ہونے والی چیز ہے.نماز کے لئے تو چڑھتے ، ڈوبتے اور سر پر سورج کے اوقات میں ممانعت ہے.مگر قرآن کریم کے لئے کوئی ممانعت نہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.وَاتْلُوهُ حَقَّ تِلاوَتِهِ انَا ءِ اللَّيْلِ وَانَاءِ النَّهَارُ (شعب الایمان بینی جلد دوم ص 350) بيقي قرآن کریم کی تلاوت کا جو حق ہے اس کے مطابق دن اور رات کے اوقات میں تلاوت کیا کرو.بچه تلاوت کا حق کیا ہوتا ہے؟ ماں تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن پاک بڑی محبت سے پوری توجہ سے پڑھا جائے الفاظ ٹھہر ٹھہر کر ادا کئے جائیں.آواز نہ بہت بلند ہو نہ بالکل خاموش بلکہ سمجھ میں آنے والی آواز میں خوش الحانی سے حسین عمدہ اور درست ادائیگی کے ساتھ تلاوت کی جاوے.تلاوت کے انداز میں خدا کے خوف کا تاثر ملتا ہو.عام غزلوں ، نظموں کا سا انداز نہ ہو.روزانہ ترتیب سے قرآن مجید پڑھا جائے.ایسا نہیں کہ جہاں سے قرآنِ پاک کھولا جلدی جلدی پڑھ کر رکھ دیا.قرآنِ پاک بہت تیز تیز نہیں پڑھنا چاہیے.اس کے علاوہ ایسی جگہ جہاں آنا جانا لگا ہو کسی کی پشت ہو رہی ہو ، بار بار توجہ بے قرآن پاک پڑھنا درست نہیں.میت کے لئے صفیں بچھا کر قرآن پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت نہیں.قرآن کریم پڑھنے والے کو ہی قرآن کا ثواب ہوتا ہے.قرآن کریم زندوں کے لئے ہے قبروں پر قرآن کریم نہیں پڑھتے.رکوع اور سجدے میں بھی قرآنی آیات نہیں پڑھتے.تلاوت سننے والے بھی خاموشی سے سنیں.حکم الہی ہے.” جب قرآن پڑھا جائے تو اُسے غور سے سُنا کرو اور خاموش رہوتا کہ تم پر رحم کیا جائے.“ (الاعراف : 205) قرآن پاک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غم کی حالت میں اُترا اسے خاص کیفیت ،غور اور تدبر سے پڑھنا چاہیے.قرآن پاک کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کا کیا طریق ہے؟ ماں سب سے پہلے تو اپنی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ جاننا ضروری ہے اس کے بغیر قرآن کریم سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ممکن نہیں.پھر دل میں یہ یقین رکھنا کہ بچه قرآن خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن نا تمام ہے اللہ پاک نے قرآن پاک کو بڑا آسان بنایا ہے.مگر اس سے فیض وہی حاصل کر سکتے ہیں جو خدا کا خوف رکھنے والے ہوں.غور سے پڑھیں بار بار پڑھیں.اس کے مضامین پر سوچیں.قرآن پاک میں یہ خوبی ہے کہ یہ اپنے مطالب خود واضح کرتا ہے.قرآن پاک کا عربی متن پڑھنا ضروری ہے.صرف ترجمہ پڑھنے سے ترجمہ پڑھنے کا تو ثواب ہوگا.تلاوت قرآن پاک کا نہیں.
38 37 بچہ.قرآن پاک میں جہاں سجدہ لکھا ہوتا ہے اس کی ادائیگی کا کیا طریق سجدہ تلاوت جتنی جلدی ممکن ہو کیا جائے.کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں.وضو ہو یا نہ ہو.منہ قبلہ رخ ہو یا نہ ہو سجدہ کرنا چاہیے.سجدے میں عام نماز کے سجدے والی تسبیح پڑھی جاتی ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعائیں بھی پڑھتے تھے.1 - سَجَدَ وَجُهِيَ خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمُعَةً وَ بَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَ قُوَّتِهِ ترجمہ :.میرا چہرا سجدہ کر رہا ہے.اُس ذات کے سامنے جس نے پیدا کیا اور اپنی قدرتِ خاص سے اُسے سننے اور دیکھنے کی قوت عطا کی.2 - اللَّهُمَّ سَجَدَ لَكَ سَوَادِي وَ أَمَنَ بِكَ فَوَّادِي سَجَدَلَكَ رُوحِي وَ جَسَدِى وَ جَنَانِي ترندی ما یقول في سجود القرآن جلد 2 ص 180) ترجمہ : اے اللہ میرا جسم تجھے سجدہ کرتا ہے اور میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے.اے اللہ تیرے لئے میری روح نے اور میرے جسم نے میرے دل نے سجدہ کیا.بچہ.قرآن پاک میں بعض آیات کی تلاوت کرتے ہوئے یا سنتے ہوئے بعض الفاظ پڑھے جاتے ہیں وہ بھی بتا دیجئے.ماں.سب سے پہلے تو سورۃ فاتحہ کے بعد آمین ضرور کہیے.اس کی بڑی فضیلت ہے.بخاری شریف میں حدیث ہے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے پچھلے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں.سورہ فتح میں محمد رسول اللہ آتا ہے.اس کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کہیے.چند اور جوا بات بھی بتاتی ہوں.آیت فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِبَانِ (الرحمن: 55) جواب لا بِشَيْءٍ مِنْ نِعْمَتِكَ نُكَذِّبُ يَا رَبَّنَا کرتے.اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کی بھی تکذیب نہیں آیت فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ (الواقعہ : 97) جواب سُبُحْنَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ پاک ہے میرا رب بڑی عظمت والا آیت وَاسْتَغْفِرُ والله (المزمل: 21) جواب اَسْتَغْفِرُ الله ( میں اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتا ہوں.) آیت أَلَيْسَ ذَالِكَ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِ يَ الْمَوْتَى (القيامة :41) جواب بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير ہاں یقیناً وہ ہر چیز پر پورا پورا قادر ہے.آیت وَيَقُولُ الْكَفِرُ لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا ( النباء : 41) جواب اَسْتَغْفُرُ الله ( میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں) آیت سَبِّح اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ( الاعلى :2) جواب سُبْحَانَ رَبِّيَ الأغلى ( پاک ہے میرا رب جو بلندشان والا ہے ) آیت إِنَّ إِلَيْنَا إِيَا بَهُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ (الغاشية: 27,26) جواب اللَّهُمَّ حَاسِبُنِي حِسَاباً يَسِيرًا (اے اللہ میرا حساب آسان لینا) آیت اَلَيْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَكِمِينَ (التين : 9) جواب بَلَى وَ أَنَا عَلَى ذَالِكَ مِنَ الشَاهِدِينَ
40 39 ہاں اور میں اس بات پر گواہوں میں سے ہوں ) آیت فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَتِكَ وَ اسْتَغْفِرُهُ ( النصر :4) جواب سُبُحْنَكَ اللهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا پاک ہے تو اللہ اے ہمارے رب اپنی سب تعریف کے ساتھ اے اللہ ہمیں بخش دے.) ماں.جب قرآن پاک مکمل پڑھ لیں تو کیا دُعا کریں.باپ.دُعائے ختم قرآن پڑھیے یہ قرآنِ پاک کے آخر میں لکھی ہوتی ہے.بلکہ اس دُعا کو یاد کر لیں اور ہر روز تلاوت کے بعد درود شریف اور یہ دُعا پڑھیں.دُعا کا ترجمہ یہ ہے.اے اللہ میری قبر میں میری وحشت کو دُور فرما اے میرے خدا مجھ پر قرآنِ عظیم کی برکت سے رحم فرما اور اسے میرے لئے امام، نور اور رحمت بنا.اے خدا جو کچھ میں قرآن مجید میں سے بھول چکا ہوں وہ مجھے یاد دلا دے اور جو مجھے نہیں آتا وہ مجھے سکھا دے اور دن رات مجھے اس کی تلاوت کی توفیق عطا فرما.اے رب العالمین ! اسے میرے فائدہ کے لئے حجت بنا دے آمین.جب تلاوت قرآنِ پاک مکمل ہو جائے اور یہ دُعا پڑھ لیں تو دوبارہ قرآنِ پاک کے شروع کا کچھ حصہ پڑھیں اس اُمید اور دُعا کے ساتھ کہ اللہ پاک پھر پڑھنا قسمت میں کرے.آمین.اللهم آمین نماز انسان کی پیدائش کا مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا ، خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کو سمجھنا اور خدا تعالیٰ کا ہو جانا ہے.خدا تعالیٰ رب ہے یعنی جسمانی اور روحانی پرورش کے سامان کرنے والا.اُس نے بندے پر احسان کرتے ہوئے اُسے اپنے ملنے کی راہیں سکھائیں.نماز فرض کرنا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے.نماز سے ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.نماز ہمیں گناہوں اور بدیوں سے پاک کرتی ہے اور ہمارے نفس کی اصلاح کرتی ہے.نماز کو قائم رکھنا بڑی محنت اور جدو جہد کا کام ہے.ہماری ہر نماز پہلی نماز سے زیادہ خوبصورت، عمدہ اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوبی ہوئی ہونی چاہیے.حضرت مصلح موعود نے نمازوں کی ادائیگی کے سات درجات بیان فرمائے ہیں.پہلا درجہ جس سے اتر کر اور کوئی درجہ نہیں.یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے.جو مسلمان پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے اور اُس میں کبھی ناغہ نہیں کرتا وہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے.دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں وقت نماز میں وقت پر ادا کی جائیں جب کوئی مسلمان پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ لیتا ہے.تیسرا درجہ یہ ہے کہ نماز با جماعت ادا کی جائے.
42 41 چوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر ادا کرے.جو شخص ترجمہ نہیں جانتا وہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز ادا کرے یہاں تک وہ سمجھ لے کہ میں نے نماز کو کماحقہ ادا کیا ہے.پانچواں درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نماز میں پوری محویت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں اسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطہ مارے یہاں تک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کر لے یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے...اس مقام پر بندے کے فرائض پورے ہو جاتے ہیں مگر جس بامِ رفعت تک اُسے پہنچنا چاہیے اس پر ابھی نہیں پہنچا.چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں.یہ نوافل پڑھنے والا گویا خدا تعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں نے فرض تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربار میں حاضر ہوا کروں گا.ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف نمازیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے.یہ وہ سات درجات ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے اور ان درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ رات کے وقت عرش سے اُترتا ہے.اور اُس کے فرشتے پکارتے ہیں کہ اے میرے بندو خدا تعالیٰ تمہیں ملنے کے لئے آیا ہے.اُٹھو اور اس سے مل لو.پس ان سات درجوں کو پورا کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے.ہ شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کا پابند ہو.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نمازوں کو وقت پر ادا کرے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز با جماعت ادا کرے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ علاوہ فرضی نمازوں کے رات اور دن کے اوقات میں نوافل بھی پڑھا کرے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کے اندر محویت پیدا کرے رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق یا تو خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو یا وہ اپنے دل میں یہ یقین رکھتا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے.ہر شخص کو چاہیے کہ وہ فرائض اور نوافل اس التزام اور باقاعدگی سے ادا کرے کہ اُس کی راتیں بھی دن بن جائیں.اسی طرح تہجد کی مناجات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے.جب تک کوئی شخص اپنی نمازوں کی اس رنگ میں حفاظت نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا یہ امید کرنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرلے گا ایک وہم سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 136,135) نماز میں کس وقت دُعا کی جاسکتی ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.نماز کے اندر ہر موقع پر دُعا کی جاسکتی ہے.رکوع میں بعد تسبیح ، سجدہ میں بعد تسبیح ، التحیات کے بعد کھڑے ہو کر، رکوع کے بعد بہت دعائیں کرو تا کہ مالا مال ہو جاؤ.چاہیے کہ دُعا کے واسطے روح پانی کی طرح بہہ جاوے.ایسی دُعا دل کو پاک وصاف کر دیتی ہے.یہ دُعا میسر آوے تو پھر خواہ انسان چار پہر تک دُعا میں کھڑا رہے.“ ( ملفوظات جلد نهم ص 55) ماز سے فارغ ہو کر تسبیح وتحمید کا طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس
44 43 طرح بیان فرمایا : - 'جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس (33) بارسبحان اللہ تینتیس (33) بار الحمد للہ اور تینتیس (33) بار اللہ اکبر کہے اور پھر سو کی گنتی پوری کرنے کے لئے یہ ذکر کرے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( بخاری کتاب الدعوات ) ( یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ اکیلا ہے.اس کا کوئی شریک نہیں.اُسی کی بادشاہت ہے.اُس کی ہر حد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.) تو اس کے سب گناہ بخش دیے جائیں گے اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر یعنی ان گنت ہوں.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد یہ دعائیں پڑھتے تھے.اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنْعَتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدَّ مِنْكَ الْجَدُّ ( بخاری کتاب الدعوات ) اے میرے اللہ جسے تو عطا کرے اُسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس چیز کو تو روکے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں.اور نہیں نفع دیتی کسی بزرگی والے کو تیرے مقابل کوئی بزرگی.اللَّهُمَّ أَنتَ السَّلامُ وَمِنكَ السَّلامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامُ ہے.ترجمہ: اے میرے اللہ تو سلامتی والا ہے.تیری طرف سے ہی سلامتی ملتی ہے.اے جلال اور عزت والے خدا تو برکتوں کا مالک ہے.(مسلم کتاب المساجد ) آپﷺ نے یہ دعا پڑھنے کی بھی تاکید فرمائی.اللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَ شُكُرِكَ وَ حُسُن عِبَادَتِكَ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب في الاستغفار ) ترجمہ : اے میرے اللہ ! میری مدد فرما کہ تیرا ذکر کروں اور تیرا شکر کروں اور خوبصورتی سے تیری عبادت بجا لاؤں.نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا احادیث اور سنت نبوی سے ثابت نہیں احمدی، غیر احمدی امام کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ ہم ایک امام پر ایمان لائے ہیں.ہمارے امام کو خدا تعالیٰ نے زمانے کا ایام بنایا ہے.یہ وہی امام ہیں جن کی آمد کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.اب جو ہمارے امام کو نہیں مانتا ہم اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.ہم سب کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک سیدھا راستہ دکھائے.نماز کب اور کیسے جمع کی جاسکتی ہے؟ اگر کوئی مسافر ہو، بیمار ہو ، اس قدر بارش ہو کہ مسجد کے راستہ میں کیچڑ ہو یا کوئی اور اشد مجبوری ہو.جماعتی اہمیت کا کام ہو نماز جمع کی جاسکتی ہے.ظہر وعصر اور مغرب و عشاء جمع کی جاسکتی ہے.جمع کرنے کی صورت میں دونوں نمازوں کی
46 45 سنتیں معاف ہو جاتی ہیں.مناسب یہ ہے کہ جمع ہونے والی نمازیں اوّل وقت ہوں یعنی عصر کے ساتھ ظہر نہیں اسی طرح مغرب کے ساتھ عشاء نہیں بلکہ مغرب کے ساتھ عشاء جمع ہو.کسی مجبوری کے تحت عصر کے ساتھ ظہر اور عشاء کے ساتھ مغرب بھی جمع ہوسکتی ہے.نماز وتر کیسے پڑھی جاتی ہے اور اس کا صحیح وقت کیا ہے؟ نماز وتر عشاء کے بعد صبح صادق تک پڑھی جا سکتی ہے.بہترین وقت نماز تہجد کے بعد ہے.نماز وتر کی تین رکعتیں ہوتی ہیں.جو اکٹھی پڑھی جاسکتی ہیں یا دو رکعت کے بعد سلام پھیر کے تیسری رکعت الگ پڑھی جائے.وتروں کی تیسری رکعت میں اللہ اکبر کہہ کر رکوع کرنے سے پہلے یا رکوع کرنے کے بعد سیدھے کھڑے ہو کر دعائے قنوت پڑھی جائے.نماز کیسے اور کب قصر پڑھی جاتی ہے؟ سفر کی حالت میں چار رکعت والی نماز فرض دو رکعت پڑھی جاتی ہے.سنتیں سفر میں ضروری نہیں.البتہ وتر اور صبح کی دو سنتیں ضروری ہیں.مقیم امام کے پیچھے مسافر ہونے کی حالت میں نماز پوری پڑھی جاتی ہے.اگر امام مسافر ہوتو جب وہ دو رکعت کے بعد سلام پھیرے.مقیم نمازی سلام نہ پھیریں اور کھڑے ہو کر نماز مکمل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر وہ خواہ دو تین چار کوس کا ہی سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائز ہے.“ ( ملفوظات جلد پنجم ص 311) ” جو شخص رات دن دورہ پر رہتا ہے اور اسی بات کا ملازم ہے وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلا سکتا اس کو پوری نماز پڑھنی چاہیے.“ ( ملفوظات جلد نہم ص 172) ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں اپنی پسند کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے وعدے کے مطابق جنتِ مَكْرَمُون عطا فرمائے.آمین اللَّهُمَّ آمين.ندا کے بعد کی دعا اللّهُمَّ رَبَّ هذه الدَّعُوةِ التَّامَّةِ وَالصَّلوة الْقَائِمَةِ أتِ مُحَمَّدَ ان لُوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَتُهُ مَقَامَاً مَّحْمُودَ نِ الَّذِي وَعَدْتَهُ (بخارى کتاب الاذان) اے اللہ ! اس کامل دعا اور قائم ہونے والی نماز کے رب ! محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور آپ کو مقام محمود پر فائز فرما جس کا تو نے اُن سے وعدہ فرمایا ہے.
48 47 عربی کے عام استعمال ہونے والے جملے ان میں مذکر مؤنث کا فرق یا درکھئے رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَىٰ عَنْهُ اللہ تعالیٰ اس ( ایک مرد) سے راضی ہو رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَىٰ عَنْهَا اللہ تعالیٰ اس ( ایک عورت ) سے راضی ہو رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَىٰ عَنْهُمُ اللہ تعالیٰ اُن سب سے ( مرد عورت) سے راضی ہو جَزَاكَ الله اللہ تعالیٰ آپ (مرد) کو جزا دے جَزَاكِ الله اللہ تعالیٰ آپ (عورت) کو جزا دے جَزَاكُمُ الله اللہ تعالیٰ آپ سب کو ( مرد عورت ) جزا دے جَزَاهُمُ اللَّه جَزَاهُنَ اللَّهِ اللہ تعالیٰ اُن سب ( مردوں) کو جزا دے اللہ تعالیٰ اُن سب (عورتوں) کو جزا دے أَيَّدَكَ اللَّهُ تَعَالَى بِنَصْرِهِ الْعَزِيزُ اللہ تعالیٰ اپنی غالب مدد کے ساتھ آپ (مرد) کی تائید فرمائے أَيَّدَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِنَصْرِهِ الْعَزِيزُ اللہ تعالیٰ اپنی غالب مدد کے ساتھ اُس بَارَكَ اللهُ لَكَ بَارَكِ اللَّهُ لَكِ (مرد) کی تائید فرمائے آپ ( مرد ) کو مبارک ہو آپ (عورت) کو مبارک ہو جب کوئی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو ہم جَزَاكَ الله کہتے ہیں جب ہمیں کوئی جزاک اللہ کے تو الْحَمْدُ لِلہ کہیے.اللہ تعالیٰ کا فضل یہ ہے جس نے کسی سے اچھے سلوک کی توفیق دی.دُعائیں 1 - کامیابی کے سامان پیدا کرنے کی دُعا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَّ هَيٍّ ، لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (الكهف:11) رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدَرِئُ وَيَسْرُ لِي أَمْرِي ( :27) اے ہمارے رب ہمیں اپنی جناب سے رحمت دے اور ہمارے کام میں کامیابی کی راہیں نکال.اے میرے رب میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لئے آسان بنا دے.2- عام روز مرہ کے سفر اور ہر کام شروع کرنے کی دُعا رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلُ لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَنا نصِيرًاه (بنی اسرائیل: 81) اے میرے رب مجھے صدق کیساتھ داخل فرما یعنی میرا قدم سچائی پر پڑتا ہو اور سچائی کے ساتھ میں داخل ہوں اور اس طرح سچائی پر قدم رکھتے ہوئے یا سچائی کے ساتھ اس منزل سے باہر نکلوں اور میرے لئے اپنی جناب سے ایک
50 49 ایسا مددگار عطا فرما جو غالب اور قوت والا ہو.(ترجمہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع 10 مئی 1991ء خطبہ جمعه) 3- خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی دُعا اللَّهُمَّ إنِّي أَسْتَلْكَ حُبَّكَ وَ حُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِى وَاَهْلِى وَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدُ ( ترمذی کتاب الدعوات) اے میرے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُن لوگوں کی محبت جو تجھ سے پیار کرتے ہیں اور اُس کام کی محبت (توفیق) جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے.اے میرے خدا اپنی محبت میرے دل میں اتنی ڈال دے جو میری اپنی جان اپنے اہل و عیال ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ پیاری اور اچھی لگے.4 - سید الاستغفار اللَّهُمَّ أَنتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَ أَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعَدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوذُ بكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِی فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا أَنتَ.( ترمذی کتاب الدعوات) اے اللہ تعالیٰ تو میرا رب ہے.تیرے سوا کوئی معبود نہیں.تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں.اور میں حسب توفیق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں.میں تیری پناہ چاہتا ہوں.اس کام کی برائی سے جو میں نے کیا میں تیرے حضور تیری نعمتوں اور احسانوں کا اعتراف کرتا ہوں اور تیرے سامنے اپنے گناہوں کا بھی اقرار کرتا ہوں تو مجھے بخش دے.کیونکہ تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخش سکتا.5- پاک صاف ہونے کی دُعا اللَّهُمَّ طَهِّرُ قَلْبِي مِنَ النِّفَاقِ وَ عَمَلِي مِنَ الرِّيَاءِ وَ لِسَانِى مِنَ الْكَذِبِ وَ عَيُنِى مِنَ الخِيَانَةِ فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةُ الَّا عُيُنٍ وَمَا تُخْفِي الصُّدُور ( مشکوۃ المصابیح باب جامع الدعا) اے اللہ میرے دل کو منافقت سے پاک کر دے اور میرے عمل کو دکھاوے سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے.کیونکہ تو آنکھوں کی چوری کو خوب جانتا ہے.اور تو سینے کے رازوں سے خوب واقف ہے.
52 51 احادیث 1 - اسْتَعِينُوا عَلَى الْحَوَائِجِ بِالْكِتُمَانِ مدد چاہو اپنی ضروریات پر راز داری کے ساتھ 2 - إِتَّقُو النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ بچو دوزخ کی آگ سے اگر چہ کھجور کا آدھا حصہ دے کر 3- الدُّنْيَا سِجُنٌ لِلْمُؤْمِن وَ جَنَّةٌ لِلْكَافِرِ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے 4 - لا يَحِلُّ لِـمُؤْمِنِ أَنْ يَّهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقِ ثَلَثَةِ أَيَّامٍ مومن کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے مومن بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے 5 - مَا قَلَّ وَكَفَىٰ خَيْرٌ مِّمَّا كَثُرَ وَالْهَى جو مال تھوڑا اور کافی ہو وہ بہتر ہے بہ نسبت اُس کے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے.6 - الرَّاجِعُ فِي هِبَتِهِ كَالرَّاجِعِ فِي قَيْنِهِ اپنی دی ہوئی چیز کو لوٹانے والا اُس شخص طرح ہے جو اپنی کی ہوئی تے واپس لوٹا دے 7 - النَّاسُ كَاسُنَانِ الْمُشْطِ تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی مانند ہیں.8- إِنَّ مِنَ الشَّعْرِ لَحِكْمَةَ وَّ إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحُرًا بعض بعض شعر بڑے پر حکمت ہوتے ہیں.اور بعض بعض تقریریں تو جادو ہوتی ہیں.9 - عَفُو الْمُلُوكِ ابْقَاء لِلْمُلْكِ بادشاہوں کا معاف کر دینا ان کی سلطنت کی بقاء کا باعث ہوتا ہے.ہیں 10 - مَا هَلَكَ امْرَءٌ عَرَفَ قَدْرَهُ نہیں ہلاک ہوا وہ آدمی جس نے پہچان لی اپنی حقیقت 11 - اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَ لِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ بچہ عورت کے خاوند کا ہوتا ہے اور بدکار کے لئے پتھر بچہ 12 - حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ تیرا کسی چیز سے محبت کرنا اندھا اور بہرہ کر دیتا ہے -13 - جُبلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبّ مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا وَبُغْضِ مَنْ أَسَاءَ إِلَيْهَا فطرت میں رکھی گئی ہے دلوں کی محبت اس شخص کی جو اُس کا محسن ہو اور بغض اس شخص کا جو کوئی بُرائی کرے اُن سے.14- الشَّاهِدُ يَرَى مَا لَا يَرَاهُ الْغَائِبُ
54 53 حاضر آدمی وہ کچھ دیکھتا ہے جسے غیر حاضر نہیں دیکھ سکتا.15 - مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ جو شخص قتل کیا جاوے اپنے مال کو بچاتے ہوئے تو وہ شہید ہے.16 - اللَّهُمَّ بَارِكَ فِي أُمَّتِي فِي بُكُورِهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ اے اللہ تعالیٰ ! برکت دے میری امت کے صبح کے سفر میں جمعرات کے دن.17 - كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرًا قریب ہے کہ غریبی کفر بن جائے.18 - السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِّنَ الْعَذَابِ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے.21 22 23 24 25 26 27 28 آخری دس سیپاروں کے نام اتْلُ مَا أُوحِيَ وَمَنْ يُقَنَتُ وَمَا لِي فَمَنْ أَظْلَمُ إِلَيْهِ يُرَدُّ قَالَ فَمَا خَطْبُكُمُ قَدْ سَمِعَ اللَّه 29 30 تَبَارَكَ الَّذِي عَمَّ تاریخ اسلام (خلافت راشدہ کے بعد ) حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ اول کے عہد خلافت کا ابتدائی حصہ نہایت نازک اور خطرناک تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اسلام لانے والے قبائل میں سے ایک بڑے حصے نے منہ موڑ لیا.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑی فراست سے کام لیا اور ان قبائل کو کچل دیا.دوسری طرف آپ نے بیرونی محاذ پر قیصر روم کی افواج کا مقابلہ کیا.آپ ہی کے عہد میں جنگ یرموک لڑی گئی.جس میں مسلمانوں نے رومیوں کو شکست دی.خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں عراق کی فتح مکمل ہوئی.شام فلسطین اور ایران بھی فتح ہوئے.قادسیہ کی جنگ عظیم میں مسلمانوں نے ایرانیوں کو شکست دے کر اُس زمانے کی سب سے بڑی طاقت کا خاتمہ کیا.اس طرح اسلام کی وسعت ایک طرف مکران اور دوسری طرف افریقہ میں قیروان تک ہو گئی.آپ کے دور کے آخری حصے میں منافقین نے جن کا سرغنہ عبداللہ بن سبا نامی ایک نو مسلم یہودی تھا سازشوں کا جال بچھا کر بہت سے لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیا.ان لوگوں نے مدینہ پر حملہ کر کے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا.خلیفہ رابع
56 55 حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں غیر تربیت یافتہ نو مسلموں کی کثرت کے باعث باہمی اختلافات بہت بڑھ گئے چنانچہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور مسلمان شہید ہو گئے.حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عبد الرحمن بن نجم خارجی نے کوفہ کی مسجد میں شہید کر دیا.اس طرح 40 ہجری بمطابق 661 عیسوی کو خلافت راشدہ کا اختتام ہو گیا.خلافتِ راشدہ کے اختتام کے ساتھ بنو ہاشم اور بنو امیہ کی زمانہ جاہلیت کی رقابت دوبارہ جاگ اٹھی جو قریش کی دو مختلف شاخوں میں سے دو اہم شاخیں تھیں.41 ہجری میں سارا عالم اسلام امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جمع ہو گیا.آپ خلافت بنو امیہ کے بانی تھے.آپ کے دور میں صدر مقام دمشق منتقل ہو گیا.اسلامی سلطنت میں وسعت ہوئی.قبرص کا جزیرہ فتح کر لیا گیا.آپ نے اپنے بیٹے یزید کو حکومت کے لئے نامزد کیا جس نے ظلم وستم کی انتہا کر دی.حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ابن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو میدانِ کربلا میں شہید کر دیا.یزید کے بعد مروان بن الحکم خلیفہ ہوا.حضرت عبد اللہ بن زبیر نے اپنی حکومت قائم کر لی.عبد الملک کے بعد اُس کے بیٹے ولید بن عبد الملک کی خلافت میں اسلامی حکومت کی حدود چین سے یورپ تک پھیل گئیں.قتیبہ بن مسلم ،طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر محمد بن قاسم اور مسلمہ بن عبد الملک نے ترکستان و چین ،اندلس، سندھ اور شام میں فتوحات حاصل کیں.سلیمان بن عبد الملک کے بعد 99 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم خلیفہ ہوئے.آپ بہت نیک اور خدا ترس خلیفہ تھے.آپ کے دور میں خلافتِ راشدہ کی یاد تازہ ہو گئی.آپ کی خلافت کا عرصہ دو سال پانچ مہینے اور چار دن تھا.وفات 25 رجب 101 ہجری (720 ء ) میں ہوئی.پہلی صدی اسلام کے پھیلاؤ کی صدی تھی.یزید بن عبدالملک کے بعد 105 ہجری میں ہشام بن عبد الملک خلیفہ ہوا.ترکستان ، آرمینیہ ، آذربائیجان ، شمالی افریقہ ، اندلس اور سندھ میں مزید فتوحات حاصل کیں.125 ہجری میں ولید بن یزید اور کچھ دوسرے خلفاء کے بعد مروان کے قتل کے ساتھ ہی 132 ہجری بمطابق 650ء بنو امیہ کا دور ختم ہوا.بنو ہاشم کی شاخ بنو عباس نے عباسی تحریک شروع کی.بنو عباس نے بنو امیہ کے ایک ایک فرد، مرد عورتیں بچے سب کو بے دردی سے قتل کیا.اُن میں سے ایک شخص عبد الرحمن اول کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوا جس نے 755ء میں اُندلس میں بنو اُمیہ کی حکومت شروع کی جو 6 42 ہجری بمطابق 1036 ء تک قائم رہی.عبد الرحمن الداخل الحكم ، عبد الرحمن الناصر اور المنصور نے قابل ذکر خدمات سر انجام دیں.ڈھائی سو سال تک عیسائیوں کا مقابلہ کیا مگر ان کے شدید اختلافات اور بغاوتوں سے فائدہ اُٹھا کر عیسائی حکمران فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا نے 1491ء میں غرناطہ کو تہ تیغ کر سر زمین اندلس کو مسلمانوں کے خون سے سرخ کر دیا.کتب خانے جلا دیے.قرطبہ اور غرناطہ جیسے حسین شہر کھنڈر بنا دیے اور سپین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا.بنو عباس نے 132 ہجری سے 655 ہجری تک حکومت کی پایہ تخت دمشق کی بجائے بغداد کو بنایا.ابو جعفر منصور ہارون الرشید اور چند دوسرے خلفاء نے کامیابیاں حاصل کیں.علم وفن کی ہر شاخ میں ترقی ہوئی.یہ دور زیادہ تر سیاسی انتشار، بغاوتوں ،سازشوں اور شورشوں کا دور تھا.نااہل خلفاء نے عباسیوں کے زوال میں مدد دی.ایک متعصب شخص ابن علقمی کی دعوت پر تا تاری چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے حملہ کر کے آخری خلیفہ معتصم سمیت 16 لاکھ مسلمان قتل کر دیے.عمارتوں کو آگ لگا دی.شاہی محلات کا ساز و سامان لوٹ لیا.قیمتی اور
58 57 نادر کتب خانے جلا دیے.خلافت راشدہ کے بعد اسلامی حکومتیں جغرافیائی لحاظ سے پھیلتی رہیں.مگر جہاں تک اسلام کی تعلیمات پر عمل کا تعلق ہے اس رسی پر اُن کی گرفت مضبوط نہ رہ سکی.270 ہجری کے بعد دو ایسے دردناک واقعات ملتے ہیں جن سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا.271 ہجری میں اسپین کی اسلامی حکومت نے پاپائے روم سے مدد کی استدعا کی تا کہ مل کر بغداد کی اسلامی حکومت کو ختم کر سکیں اور 272 ہجری میں بغداد کی اسلامی حکومت نے قیصر قسطنطنیہ کی بازنطینی حکومت سے استدعا کی کہ آؤ مل کر اسپین کی اسلامی حکومت کو ختم کریں.اس طرح عیسائی حکومتیں بیبا کی سے مسلمانوں کو ہزیمت پہنچانے کے درپے ہو گئیں.مسلمانوں کی کمزوری کا بڑا سبب تبلیغ اسلام کے فریضے کو پس پشت ڈالنا تھا.اگر وہ اپنی تعلیمات پر قائم رہتے اور اُسی کی تبلیغ کرتے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ہمیشہ سر بلندی عطا کرے گا.اللہ پاک کی تائید شاملِ حال نہ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خلافت کا منصب کمزور ہو گیا تھا.جب تک یہ ایمان رہا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اتحاد رہا لیکن جب لوگ یہ سمجھنے لگے کہ خلیفہ تو ہم خود بن سکتے ہیں یا لوگ بنا سکتے ہیں.اتحاد کی بنیادی وجہ ہاتھ سے نکل گئی.شخصی حکومتیں قائم ہوئیں جو جبر و تشدد سے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتیں جس سے حکمرانوں اور رعایا میں فاصلے بڑھے.یہ فاصلے حکومتوں کی کمزوری ، بغاوتوں اور شورشوں کی صورت میں ظاہر ہوئے.تباہی کا ایک بڑا سبب اپنے مذہبی مراکز کو کمزور کر کے سیاسی مراکز قاہرہ، دمشق ، بغداد، اصفہان ، بخارا وغیرہ کو مضبوط کرنا تھا.مرکز جتنا مضبوط ہوتا ہے اسی قدر جماعت مضبوط ہوتی ہے.مرکز کی کمزوری سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا.اسلامی روح کمزور ہو گئی.آپس میں فرقہ واریت کا فرسازی ، خانہ جنگیوں اور جانشینی کے جھگڑوں نے اندر سے مسلمانوں کو کھوکھلا کیا.مذہبی ٹھیکیداروں اور ملاؤں نے مذہب کا حلیہ بگاڑ دیا.جس قسم کا مذہب وہ پیش کرتے تھے اُس سے مذہب سے نفرت پیدا ہوئی.پیارے بچو یہ مختصر حالات آپ کے سامنے اس لئے پیش کئے ہیں کہ آپ ترقی اور زوال کی وجوہات پر غور کریں اور نہ صرف ان علاقوں پر بلکہ ساری دُنیا کے چنتے چنتے پر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم لہرانے کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں وقف کر دیں.اللہ تعالیٰ ہمارے قدم آگے سے آگے بڑھاتا رہے.آمین.میرے آنسو اس غم دل سوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویراں ہے اور دنیا کے ہیں عالی منار (ڈرمین)
60 59 حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفہ اسیح الاوّل (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) حضرت حکیم نور الدین 1841ء میں بھیرہ ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے.آپ کے والد کا نام حضرت حافظ غلام رسول صاحب اور والدہ کا نام نور بخت صاحبہ تھا.والد کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی اور والدہ کی طرف سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتا ہے.آپ کی والدہ بہت نیک دل خاتون تھیں.پچاسی سال کی عمر میں وفات پائی اور ساری عمر ہزار ہا بچوں کو قرآن پاک پڑھایا.حضرت حکیم نور الدین نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی اور پھر تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور، ہمیئی لکھنو، بھوپال کے سفر کئے چوبیس پچیس سال کی عمر میں حج کی سعادت نصیب ہوئی.بیت اللہ شریف پر نظر پڑتے ہی آپ نے دُعا کی.وو الہی میں تو ہر وقت محتاج ہوں اب میں کون کون سی دُعا مانگوں پس میں یہی دُعا مانگتا ہوں کہ جب میں ضرورت کے وقت تجھ سے دُعا مانگوں تو اُسے قبول کر لیا کر.“ قیام مدینہ کے دوران کئی بار رویا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی.1876ء سے 1892ء تک آپ ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ کے شاہی طبیب کی حیثیت سے وہاں مقیم رہے.آپ کی قابلیت اور علمیت کا بہت شہرہ تھا.دُنیائے اسلام کا ہر قابل ذکر عالم آپ کے علمی ،روحانی اور اخلاقی کمالات کا معترف تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کا تعارف اسلام کی تائید میں شائع ہونے والے مضامین سے ہوا اور پھر مارچ 1885ء میں پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر نظر پڑتے ہی حضور کی صداقت پر کامل یقین ہو گیا.23 مارچ 1889ء کو بیعت کرنے والوں میں اولیت کا شرف حاصل ہوا.حضرت مسیح موعود کی خواہش کے مطابق بھیرہ سے قادیان منتقل ہو گئے.1871ء میں محترمہ فاطمہ بی بی بنت شیخ مکرم قریشی عثمانی سے اور 1900ء میں محترمہ صغری بیگم بنت حضرت صوفی احمد جان سے شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیان سے آپ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے.حضور نے فرمایا.” جب سے میں خدا تعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حی و قیوم نے مجھے نئی زندگی بخشی ہے.مجھے دین کے چیدہ مددگاروں کا شوق رہا ہے اور وہ شوق پیاسے سے بڑھ کر رہا ہے میں خدا تعالیٰ کے حضور آہ وزاری کرتا تھا اور عرض کرتا تھا کہ الہی میرا ناصر و مدد گار کون ہے میں تنہا اور بے حقیقت ہوں پس جب دُعا کا ہاتھ مسلسل اُٹھا اور فضائے آسمانی دعاؤں سے معمور ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزانہ دُعا قبول کی اور رب العالمین کی رحمت جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص اور صدیق عطا فرمایا.جو میرے
62 61 مددگاروں کی آنکھ اور میرے مخلصین دین کا خلاصہ ہے.اس مدد گار کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے وہ مولد کے لحاظ سے بھیروی اور نسب کے اعتبار سے ہاشمی قریشی ہے وہ اسلام کے سرداروں میں سے ہے اور بزرگوں کی نسل سے ہے مجھے آپ کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا کوئی جدا شدہ جسم کا ٹکڑا مل گیا اور ایسا مسرور ہوا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ملنے سے ہوئے تھے.مجھے سارے غم بھول گئے......جب وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے ملاقات کی اور میری نگاہ ان پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ آپ میرے رب کی آیات میں سے ہیں اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ میری اُسی دعا کا نتیجہ ہیں جو میں ہمیشہ کیا کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے.“ ( ترجمہ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 ص 581) آپ کی زندگی کا سب سے پہلا اور نمایاں پہلو آپ کا خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور تو کل تھا.آپ اپنی ہر ضرورت پر صرف اور صرف خدا تعالیٰ سے دُعا کرتے اور خدا تعالیٰ کا آپ سے ایسا پیارا تعلق تھا کہ آپ کی ضرورت پوری کرنے کے غیب سے سامان فرما دیتا.آپ اپنے خُدّام کو توجہ دلاتے کہ دیکھو صرف خدا تعالیٰ کے آستانے پر جھکنے سے فائدہ ہے.آپ نے فرمایا:- ” خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ میں جنگل بیابان میں بھی ہوں تب بھی خدا تعالیٰ مجھے رزق پہنچائے گا اور میں کبھی بھوکا نہیں رہوں گا.“ ( بدر اگست 1910ء) اسی طرح آپ فرماتے ہیں:- ” میری آمدنی کا راز خدا نے کسی کو بتانے کی اجازت نہیں دی.(الحکم 28 اکتوبر 1909ء) چنانچہ آپ کی زندگی میں کئی ایسی مثالیں ہیں جن سے حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی فضل ظاہر ہوتا ہے مثلاً ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب دار الضعفاء یا نور ہسپتال کے چندے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا میرے پاس اس وقت کچھ نہیں مگر حضرت میر صاحب نے بار بار اصرار کیا اس پر خلیفہ اُسیح الاوّل نے کپڑا اُٹھایا اور وہاں سے ایک پونڈ اُٹھا کر دے دیا اور فرمایا.اس پر صرف نورالدین نے ہاتھ لگایا ہے.“ ایک کشمیری دوست نے آپ کو چار سو روپیہ بطور امانت دیا.چند دن بعد اس کا تار آ گیا کہ مجھے روپے کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ اول اس وقت مطب میں بیٹھے تھے کہ کچھ وقت کے بعد شاہ پور کے دو ہندو رئیس حاضر ہوئے اور ایک تھال میں پھل اور چار سو روپیہ پیش کیا.وو.( نصائح المبلغين ص8) ایک دفعہ حضرت خلیفہ امسیح الاول کی خدمت میں کتابوں کا ایک وی پی آیا وہ کتابیں آپ کو بہت پسند تھیں مگر وی پی کی رقم جو سولہ روپے تھی آپ کے پاس نہیں تھی.اتنے میں ایک ہندو اپنا بیمارلڑکا لے کر آیا.آپ نے نسخہ لکھ دیا وہ ایک اشرفی اور ایک روپیہ رکھ کر چل دیا.آپ نے اُسی وقت سجدہ شکر ادا کیا اور فرمایا.میں اپنے مولیٰ پر قربان جاؤں کہ اس نے مجھے شرمندہ
64 63 وو نہیں کیا اگر یہ شخص مجھے کچھ بھی نہ دیتا تو میری عادت ہی مانگنے کی نہیں پھر ہو سکتا تھا کہ وہ صرف ایک روپیہ ہی دیتا یا اشرفی ہی دیتا مگر میرے مولیٰ نے اُسے مجبور کیا کہ میرے نورالدین کو سولہ روپے کی ضرورت ہے اس لئے اشرفی کے ساتھ روپیہ بھی رکھو.“ ایک دفعہ ایک ضرورت مند نے بیٹی کی شادی کے لئے امداد چاہی آپ نے پوچھا.” کتنے روپے میں گزارا ہو جائے گا.اُس نے بتایا اڑھائی سو روپے میں فرمایا.” بیٹھ جاؤ.آپ مریضوں کی نبض دیکھتے رہے.ظہر کے وقت اُٹھے فرشی نشست کا کپڑا اُٹھا کر گنتی کی پورے اڑھائی سو روپے تھے.اس ضرورت مند کو دے کر نماز کے لئے چل دیے اور ایسا کئی دفعہ ہوتا کبھی ایک ،کبھی دو کبھی تین ضرورتمند آ جاتے آپ سب کو بٹھا لیتے اللہ تعالیٰ کوئی صورت بنا دیتا کہیں سے منی آرڈر آ جاتا یا کوئی نذرانہ وغیرہ بھیج دیتا.آپ نمبر وار ضرورت مندوں کو عنایت کرتے جاتے کہ لو تمہاری قسمت کا آ گیا.آپ کی سیرت کا دوسرا نمایاں پہلو عشقِ قرآن تھا.آپ فرمایا کرتے تھے.” مجھے قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی.ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خدا ہی کی کتاب پسند آئی.“ ( بدر 18 جنوری 1912ء) میں نے دوسری کتابیں پڑھی ہیں اور بہت پڑھی ہیں مگر اس لئے نہیں کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں وہ مجھے پیاری ہیں بلکہ محض اس نیت اور غرض سے کہ قرآن کریم کے فہم میں معاون ہوں.“ ( بدر 8 جنوری 1912ء) قرآن میری غذا میری تسلی اور اطمینان کا ذریعہ ہے اور میں جب تک اس کو کئی بار مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا مجھے آرام اور چین نہیں آتا.بچپن سے میری طبیعت خدا نے قرآن شریف پر تدبر کرنے والی بنائی ہے اور میں ہمیشہ دیر 66 دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کرتا ہوں.“ ( ترجمۃ القرآن ص 46 از حضرت یعقوب علی عرفانی) ” میرا تو اعتقاد ہے کہ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کو خوش قسمت بنا دیتا ہے.“ ایک دفعہ فرمایا کہ.” خدا تعالیٰ مجھے بہشت اور حشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں ، پڑھاؤں اور سناؤں.“ تذكرة المهدی حصہ اوّل ص 246 آپ قادیان کی بیت الاقصیٰ میں درس دیا کرتے تھے اس درس میں کبھی کبھی خود حضرت مسیح موعود بھی تشریف لے آتے.درس کا رنگ عالمانہ اور ناصحانہ ہوتا انداز پیارا اور دل میں اُتر جانے والا ہوتا جو ایک دفعہ سُن لیتا قرآن پاک کا گرویدہ ہو جاتا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد آپ کے درس کی کیفیت کا ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں.” جماعت احمدیہ کے علم النفسیر کا ایک کثیر حصہ بلا واسطہ یا بالواسطہ آپ ہی کی تشریحات اور انکشافات پر مبنی ہے.“ ( الفضل 6 دسمبر 1950ء) آپ کو علوم حدیث پر بھی بہت عبور تھا.فرماتے ہیں.میں نے بہت روپیہ محنت ، وقت خرچ کر کے احادیث کو پڑھا ہے اور اس قدر پڑھا ہے کہ اگر بیان کروں تو تم کو حیرت ہو ابھی میرے سامنے کوئی کلمہ کو حدیث کا ، ایک قرآن کا اور ایک کسی اور شخص کا پیش کرو میں بتا دوں گا کہ یہ قرآن
66 65 کا ہے یہ حدیث کا اور یہ کسی معمولی انسان کا.( بدر یکم جنوری 1906ء) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم سے بے مثال عشق تھا ایک دفعہ آپ نے فرمایا.خدا تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے ایسی محبت بخشی ہے کہ میرے کسی گوشہ میں آپ ﷺ کی تعلیم آپ کی آل سے ذرا بغض نہیں رہا.“ آپ اپنی سب سے بڑی خواہش ظاہر فرماتے ہیں.میں تم میں ایسی جماعت دیکھوں جو اللہ تعالیٰ کی محبّ ہو.اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلّم کی متبع ہو.قرآن سمجھنے والی ہو...میں اپنے مولیٰ پر بڑی بڑی اُمید رکھتا ہوں کہ وہ یہ آرزو بھی پوری کرے گا کہ تم میں اللہ تعالیٰ کی محبت کرنے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے کلام سے محبت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور اس کے خاتم النبین" کے بچے متبع ہوں اور تم میں سے ایک جماعت ہو جو قرآن مجید اور سنت نبوی پر چلنے والی ہو اور میں دُنیا سے رخصت ہوں تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں میرا دل ٹھنڈا ہو.“ (الحکم جلد 14 نمبر 41 ص 14) آپ کی بیٹی محترمہ امتہ آئی صاحبہ نے (جو بعد میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے عقد میں آئیں) اپنے والد کی وفات کے بعد دوسرے دن خلیفہ اسیح سے تحریری درخواست کی کہ درس القرآن کا سلسلہ جاری رکھا جائے.اس طرح جماعت میں جاری رہنے والے درس القرآن سے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی یہ آرزو پوری ہو رہی ہے.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے عاشق تھے اسی طرح حضرت خلیفہ اسیح الاوّل حضرت مسیح موعود کے بھی نیچے عاشق تھے.ایک دفعہ آپ نے فرمایا.میں حضور کی محبت اور قرب میں رہنے کو اس قدر عزیز سمجھتا ہوں کہ حضور کے حکم کے بغیر ایک منٹ بھی آپ سے علیحدگی گوارا نہیں اور اگر کوئی شخص ایک لاکھ روپیہ بھی ایک دن کی اُجرت دے اور حضرت کی اجازت اور حکم کے بغیر مجھے حضور سے جدا کرنا چاہے تو میں اس لاکھ روپے پر ہزار درجہ حضرت کے حضور ایک منٹ کی صحبت و قرب کو ترجیح ( تفسير سورة جمعه ص 63) آپ حضرت مسیح موعود کے وجود کو، آپ کی مجلس میں بیٹھنے اور آپ کے چہرہ مبارک پر نظر پڑنے کو اتنی بڑی سعادت سمجھتے کہ شکرانے کے طور پر کثرت سے درود شریف پڑھنے کی تلقین فرماتے.ایک دفعہ شیخ کرم الہی پٹیالوی صاحب کو بتایا کہ.دوں گا.“ اس سے بڑا روحانی فائدہ ہوتا ہے میں نے آج کی مجلس میں تقریباً پانچ سو دفعہ درود پڑھا ہے.“ (الدر المنظور فى لمعات النور ) ایک دفعہ خطبہ کے دوران ہی آپ کو حضرت مسیح موعود کا پیغام ملا آپ نے خطبہ بند کر دیا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد واپس آئے اور بقیہ خطبہ مکمل کیا.اسی طرح ایک دفعہ آپ نماز توڑ کر حضور کی خدمت میں پہنچے.( تفسیر کبیر سورہ النورص 409) ایک دفعہ فرمایا.
68 67 اگر میری لڑکی ہو اور مرزا صاحب اس کو سو برس کے بڈھے سے بیاہنا چاہیں تو ہر گز عذر نہ ہو.“ (الحکم 17 مارچ 1901ء) آپ کی ذاتی زندگی بے حد سادہ تھی اور بناوٹ نام کو نہ تھی.ذاتی خرچ صرف چند روپے تھا.بالکل معمولی کرتا پاجامہ زیب تن فرماتے گھر یا مطب میں کوئی سجاوٹ کا سامان نہ تھا.مطب کا یہ عالم تھا کہ ایک چٹائی پر اون کا بچھونا، ایک تکیہ اور ایک تپائی جس پر کاغذ رکھ کر نسخے لکھتے.آپ نہایت درجہ خلیق ، ملنسار اور شگفتہ مزاج تھے.بہت دوست نواز تھے.آپ کے پاس ہر وقت آنا جانا لگا رہتا.طالب علموں سے خاص شفقت فرماتے.مساکین و یتامیٰ کا بہت خیال رکھتے.آپ کے گھر میں کوئی یتیم اپنی اولاد کی طرح رہ رہا ہوتا.آپ کے پاس بے شمار روپیہ آیا مگر آپ نے جمع کر کے نہیں رکھا.ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے.عیدین کے موقع پر قادیان کے مستحق امداد لوگوں کو نام لکھ لکھ کر نقد رقم اور کپڑے تحفہ بھجواتے ایک دن کپڑے تقسیم کر چکے تو ایک شخص نے عرض کی میرے پاس پاجامہ اور جوتی نہیں.آپ نے ایک طالب علم سے چادر لے کر پہنی اور اپنا پاجامہ اور جوتی اس کو دے کر ننگے پاؤں گھر چلے گئے.عید کے لئے بلانے والا بار بار آ رہا تھا.اللہ کی شان دیکھئے کہ لاہور سے کپڑے اور جوتی تحفے میں آگئے.آپ نے پہنے اور عید کے لئے تشریف لے گئے.روایت مولوی محمد جی صاحب) 8 نومبر 1910ء حضرت خلیفہ اسیح الاوّل گھوڑے سے گر کر شدید زخمی ہو گئے.1905ء میں حضرت مسیح موعود نے آپ کے متعلق خواب دیکھا تھا کہ آپ گھوڑے سے گر گئے ہیں.یہ خواب پورا ہوا.اسی بیماری میں آپ کی وفات ہوگئی.27 مئی 1908 سے 13 مارچ 1914ء تک جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے کار ہائے نمایاں سر انجام دیے.آپ کے مبارک عہد میں لنگر خانے کا انتظام صدر انجمن احمدیہ کے سپرد ہوا.اندرونِ ملک میں با قاعدہ واعظ مقرر ہوئے جماعتوں میں سالانہ جلسے منعقد ہونا شروع ہوئے.احمدی خواتین بھی بیت الاقصیٰ میں نماز جمعہ میں شریک ہونے لگیں.احمدی نوجوانوں کو بغرض تعلیم مصر بھجوایا گیا.آپ کے عہد میں بیت نور تعلیم الاسلام ہائی سکول جو بعد میں تعلیم الاسلام کالج بنا اور ہوٹل کی عمارت تعمیر ہوئی بیت اقصیٰ کی توسیع ہوئی.بیرونی ممالک میں سب سے پہلا دار التبلیغ انگلستان میں قائم فرمایا.جہاں حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب نے 1913ء میں پہلے مبلغ کی حیثیت سے کام کا آغاز فرمایا.دینی تعلیم کے لئے مدرسہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.جہاں سے جلیل القدر مربیان تیار ہوئے.قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ پر کام شروع ہوا.امام وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی مرتبہ آپ کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا.آپ نے تحریر فرمایا.مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور اللہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں.کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اُٹھا دینا اور اپنے لئے دُنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں پر
70 69 اُن کی صحبت کا اثر ہے...اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک میرے پاس نہیں خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس اُمت میں زیادہ سے زیادہ کرے آمین ثم آمین..چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے نشان آسمانی روحانی خزائن جلد 4 ص407) اللہ تعالیٰ اس کو دین و دنیا میں بڑا اجر دے اور صدق و صفا اور اخلاص و محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں سے وہ اول نمبر پر ہے اور غیر اللہ سے انقطاع میں اور ایثار اور خدمت دین میں وہ عجیب شخص ہے اس نے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے مختلف وجوہات سے بہت مال خرچ کیا ہے اور میں نے اس کو اُن مخلصین سے پایا ہے جو ہر ایک رضا پر اور اولاد و ازواج پر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے مال اور جانیں صرف کرتے ہیں.اور ہر حال میں شکر گزاری سے زندگی بسر کرتے ہیں.اور وہ شخص رقیق القلب ،صاف طبع حلیم ، کریم اور جامع الخیرات بدن کے تعہد اور اس کی لذات سے بہت دور ہے.بھلائی اور نیکی کا موقع اس کے ہاتھ سے کبھی ضائع نہیں ہوتا اور وہ چاہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے اعلاء اور تائید میں پانی کی طرح اپنا خون بہا دے اور اپنی جان کو بھی خاتم النبیین کی راہ میں صرف کرے.وہ ہر ایک بھلائی کے پیچھے چلتا ہے اور مفسدوں کی بیخ کنی کے واسطے ہر ایک سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجہ کا صدیق دیا جو راستباز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس ،اللہ تعالیٰ کے لئے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لئے ایسی اعلیٰ درجے کی محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی محبّ اُس سے سبقت نہیں لے گیا.“ ( ترجمه از حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد 7 ص180)
72 71 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) آپ وہ مبارک وجود تھے جن کی آمد کی ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلّم نے پیشگوئی فرمائی تھی.حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا.يُنزِلُ عيسى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ يَتَزَوَّجُ وَيُو لَدُلہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر فرمایا کہ مسیح موعود شادی کریں گے اور اُن کے ہاں اولاد ہو گی اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک ایسا نیک بیٹا عطا کرے گا جو نیکی کے لحاظ سے اپنے باپ سے مشابہ ہو گا ،اور وہ اللہ تعالیٰ کے معزز بندوں میں سے ہوگا.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 ص578) آپ کا وجود حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک زبردست نشان تھا جنوری 1886ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہوشیار پور ( پنجاب، بھارت) میں چلہ کشی کر کے اللہ پاک سے ایسے روشن نشان کے لئے دُعا کی جو مخالفین کے لئے اسلام کی سچائی ثابت کرے.اللہ پاک نے آپ کی دعاؤں کو سُنا اور آپ کو خوشخبری دی.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین اور فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.دو شنبہ ہے مبارک دوشنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند - مَظْهَرُ الاوّل وَالآخَر مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَاءِ كَانَّ اللَّهُ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اُس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا، اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِياً،
74 73 ( تذکره ص109 ) اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق 12 جنوری 1889ء بمطابق 9 جمادی الاول 1306 ہجری وہ موعود لڑ کا مرزا بشیر الدین محمود احمد پیدا ہوا آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کی مقدس ماں حضرت نصرت جہاں بیگم کی آغوش میں اور گھر پر ہی ہوئی.کہی.قرآن پاک ناظرہ مکمل کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیہ نظم حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی کم عمری سے ہی آپ کی غیر معمولی ذہانت اور جلد جلد ترقی کرنے کے آثار ظاہر ہونے لگے.آپ دینی معاملات پر غوروفکر کرنے لگے.آپ صرف گیارہ سال کے تھے جب آپ نے یہ سوچنا شروع کیا کہ میں خدا پر ایمان کیوں لاتا ہوں اور اُس کے وجود کا کیا ثبوت ہے ایک رات دیر تک اس مسئلے پر سوچتے رہے آخر دس گیارہ بجے آپ کے دل نے یہ فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے.آپ فرماتے ہیں.” وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی تھی جس طرح ایک بچے کو اُس کی ماں مل جائے تو اُسے خوشی ہوتی ہے اس طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا.سماعی ایمان علمی میں تبدیل ہو گیا.“ آپ بچپن سے پابندی سے نماز پڑھنے کے عادی تھے.آپ کی نماز رسمی نہ تھی بلکہ خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق والی نماز تھی.ابھی آپ گیارہ سال کے تھے کہ ایک دن صفحی یا اشراق کے وقت آپ نے وضو کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا با برکت جبہ پہنا اور اپنی کوٹھڑی کا دروازہ بند کر کے خوب روئے خوب روئے اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑیں گے.یہی اقرار کرتے رہے اور روتے رہے اور پھر ساری عمر اس عہد پر قائم رہے.اسی عمر کا واقعہ ہے کہ آپ نے سوچا کہ کیا آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر اس لئے ایمان لاتے ہیں کہ وہ آپ کے والد ہیں؟ پھر آپ نے صداقت کے دلائل پر غور و فکر شروع کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں.پھر یہ یقین اور ایمان عمر کے ساتھ بڑھتا رہا.آپ انیس سال کے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا.آپ نے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر عزم کیا.”اے خدا میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر سچے دل سے عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے تُو نے نازل فرمایا ہے اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا ؤں گا.“ (سوانح فضل عمر حصہ اوّل ص 178) آپ نے قرآن شریف اور بخاری شریف حضرت خلیفۃ المسح الاول سے پڑھی.آپ بہت جلدی پڑھتے اور ایسے ایسے نکات اخذ کر لیتے جہاں تک آپ کے ہم سبق ساتھیوں کا دماغ نہ جاتا.پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا بھی شوق تھا.آپ چاہتے تھے کہ احمدی نوجوان ہر لحاظ سے قابل ہوں اُن میں تبلیغ کا جنون ہو وہ دلائل سے مسلح ہو کر میدان عمل میں نکلیں.اس غرض سے 1906ء میں ایک انجمن تفخیذ الا ذہان بنائی.خود مضامین لکھے دوسرے نوجوانوں کو ترغیب دی.تشخیذ الاذہان رسالہ میں آپ کے مضامین سے آپ کی علمی، دینی اور تحریری قابلیت کا چرچا ہونے لگا اس زمانے میں آپ نے احمد یہ دارالمطالعہ اور لائبریری
76 75 بھی قائم کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو حج کا فریضہ ادا کرنے کے بھی سعادت عطا فرمائی.روزنامہ الفضل جاری کیا.آپ حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل اور دوسرے رفقائے مسیح سے بہت ادب لحاظ سے پیش آتے.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کے تو آپ نیچے فرماں بردار اور اطاعت گزار تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کے وصال کے بعد 14 مارچ بروز ہفتہ بعد نماز عصر آپ کو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا دوسرا خلیفہ مقرر فرمایا.آپ کے دور میں جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار ہر گھڑی تیز تر ہوتی رہی.تاریخ احمدیت کے اوراق آپ کے کارناموں سے مزین ہیں.آپ نے دُنیا پر کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر کیا.زمین کے کناروں تک شہرت پائی.اسلام اور بانی اسلام کا جھنڈا بلندیوں پر لہرانے لگا.آپ نے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ جس میدان میں قدم رکھا فتح پائی کیونکہ آپ کا دل حُبّ اللہ اور حُبّ رسول اللہ سے لبریز تھا.چودہ سو سال کی بتدریج اسلامی تعلیم سے دُوری نے مسلمانوں میں کمزوری کا احساس پیدا کر دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تشریف لا کر اسلام کا حسین چہرہ دکھایا تو مسلمانوں کو کمزور دیکھنے کے خوگر سیخ پا ہو گئے اور اوچھے ہتھیاروں پر اتر کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر غلیظ حملے کرنے لگے.عشاق رسول نے ہر رُخ سے حملوں کا بہادری سے جواب دیا.آپ کے خلاف لکھی گئی کتب کے جواب میں مضامین لکھے گئے ،اخباروں کو توجہ دلائی گئی.'الفضل' کے خاص نمبر نکالے گئے.17 جون 1928ء کو ہندوستان کے طول و عرض میں جلسہ ہائے سیرۃ النبی منعقد کروائے تا کہ سوانح رسول پر اس قدر لیکچر دیے جائیں کہ بچہ بچہ آپ کے اسوہ حسنہ سے واقف ہو جائے.پھر یہ جلسے معمول بن گئے اور اس طرح ایک مضبوط دفاعی فوج تیار ہو گئی اپنی ذاتی زندگی میں اسوہ رسول پر عمل کر کے اس کی حسن و خوبی کو نمایاں کیا.آپ کی عبادتیں، آپ کی قربانیاں ، آپ کا جینا ، آپ کا مرنا عشق رسول سے لبریز تھا.اور یہی روح آپ تقریر و تحریر سے جماعت میں منتقل فرماتے رہے.پ کے پر معارف منظوم کلام ” کلام محمود میں بھی محبت الہی اور عرفان دین کی لگن پیدا کرنے کا جذبہ شعر کی مؤثر زبان میں موجود ہے.آپ کے عہد میں دینی معاشرہ کی زندہ تصویریں وجود میں آئیں.آپ نے تیز رفتاری سے ایسی اصلاحات فرمائیں جن سے ہر احمدی کی عام زندگی میں حقیقی انقلاب آ گیا.اُن میں خود کو اور اپنے ماحول کو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کا مجاہدانہ جذبہ بیدار ہو گیا.اس مجاہدانہ جذبہ کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ احمدیت کی ترقی سے بوکھلا کر مخالفین نے زیادہ قوت سے حملے شروع کر دیے تھے.1929ء میں مجلس احرار وجود میں آئی جس کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ علم اور دلائل سے احمدیت کو زیر نہیں کر سکے.اس لئے سیاسی ہتھکنڈوں سے بھر پور حملہ کیا جائے اور من گھڑت الزام لگا کر اُن کی تشہیر سے نفرت کی عام فضا پیدا کی جائے ایک طرف تو اُن الزامات کے دندان شکن جواب دیے گئے حتی کہ مباہلہ کی دعوت بھی دی اور دوسری طرف اپنی جماعت میں حالتِ جنگ جیسی کیفیت پیدا کرنے کے لیے 1934ء میں تحریک جدید کا اجرا کیا.جس کا مقصد اپنی جانیں، اپنے دل ، اپنی اولاد، ہر قسم کی صلاحیتیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنا تھا.اس تحریک میں مجاہدین احمدیت نے کامل اطاعت کی روح سے حصہ لیا اور اپنا سب کچھ دعوت الی اللہ میں جھونک دیا اس طرح ایک عظیم الشان دُور رس انقلاب کی راہیں کھلیں.1939ء میں آپ کی خلافت پر چھپیں سال پورے ہونے پر شایانِ شان طریق سے خلافت جوبلی منائی گئی.قرآن پاک آپ کو خود خدا تعالیٰ نے سکھایا تھا.آپ نے ثابت فرمایا کہ قرآن پاک ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور اس میں ایسے ایسے معارف ہیں جس میں رہتی دنیا تک اصلاح و ہدایت کا مکمل سامان موجود ہے.وہ خزائن جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقسیم کرنے کے لئے لائے
78 77 آپ کے موعود بیٹے کے ہاتھوں سے کھلے دل سے بانٹے گئے.درس قرآن کا سلسلہ جاری فرمایا.حفاظ قرآن تیار فرمائے.دنیا بھر میں احمدیہ تبلیغی مراکز دراصل قرآنی تعلیم کے مراکز ہیں.1928 ء سے فضائل القرآن کے عنوان سے تقاریر کا سلسله شروع فرمایا.ان تقاریر میں قرآنِ کریم کے متعدد پہلوؤں پر عالمانہ تبصرہ فرمایا.سوا تین سو صفحات پر مشتمل دیباچہ تفسیر القرآن اور دس ضخیم جلدوں میں تفسیر کبیر تحریر فرمائی جس کے حسن و خوبی کے بیان کے لئے کوئی بھی الفاظ کافی نہیں.اپنے تو اپنے غیروں میں بھی جس نے بھی اس چشمے سے پانی پیا پھر زندگی بھر اس کی لذت نہیں بھولے.آپ کے مبارک عہد میں قرآن کریم کا انگریزی ، جرمن ، ڈچ، ڈینش سواحیلی ، یوگنڈا ،ہمیندی ، فرانسیسی ، ہسپانوی ، اٹالین ، روسی پرتگیزی، کیکویو کی کاسا ، انڈو نیشین اور اسپرانٹو میں ترجمہ ہوا.تفسیر صغیر کی صورت میں قرآن کریم کا با محاورہ ترجمہ مختصر تفسیری نوٹس کے ساتھ تحریر فرمایا.اگر آپ کی زندگی کے دنوں کا شمار کریں اور اس ساری خدمت قرآن کا جائزہ لیں تو ثابت ہو گا کہ آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قرآنِ کریم کی خدمت میں گزار دیا.1886ء میں سبز اشتہار کی صورت میں شائع ہونے والی پیشگوئی والی ساری خصوصیات حضرت مصلح موعود میں موجود تھیں جس پر عام طور پر آپ کو ہی موعود بیٹا سمجھا جاتا تھا لیکن آپ نے خدا کی اجازت کے بغیر اپنی زبان سے ایسا دعویٰ نہ کیا.جنوری 1944ء میں حضور نے ایک خواب دیکھا.یہ ایک طویل خواب تھا جس میں آپ کے ہی پیشگوئی کا مصداق ہونے کی واضح خبر دی گئی.خواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا و انا المسيح الموعود مثيله و خلیفتہ اور میں مسیح موعود ہوں یعنی اُس کا مثیل اور اُس کا خلیفہ ہوں.اس سے آپ کو یقین ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بیٹے کے متعلق پیشگوئی آپ کی ذات میں پوری ہو گئی ہے.ہوشیار پور میں 20 فروری 1944ء کو ایک تاریخی جلسہ میں فرمایا :- میں خدا کے حکم کے تحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہنچانا تھا.میں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.حکومتیں اگر اس کے مقابلے میں کھڑی ہوں گی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی.لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے اُن کو اپنے ہاتھ سے ملیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے اور ان کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا.(الفضل 24 فروری 1944ء) 28 جنوری 1944ء بیت اقصیٰ میں آپ نے اعلان فرمایا:.” وہ میں ہی ہوں اور میرے ذریعے ہی وہ پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے موعود بیٹے کے متعلق فرمائی تھیں.یادر ہے کہ میں کسی خوبی کا اپنے لئے دعویدار نہیں میں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعوی ہے نہ مجھے کسی دعوی میں خوشی ہے میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آ جائے اور
80 79 66 اللہ تعالیٰ مجھے پر راضی ہو جائے اور میرا خاتمہ رسول اللہ کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو.“ (الموعودص 53 تا70) پیشگوئی پوری ہونے کی خوشی میں زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی.حضرت مسیح موعود کی گریہ وزاری اور عاجزانہ دعاؤں کا جواب آیا تھا.اللہ نے اپنی رحمت و قربت کا نشان دکھایا تھا.وہ مخالفین جو پیشگوئی کا مذاق اُڑاتے تھے کھیا کر رہ گئے.حق اپنی پوری تا بنا کی کے ساتھ جلوہ گر ہوا.اس خوشی میں بعض اہم مقامات پر عام جلسے منعقد ہوئے.20 فروری 1944ء کو ہوشیار پور 12 مارچ 1944 ء کو لاہور 23 مارچ 1944 ء کو لدھیانہ 14 اپریل 1944ء کو دہلی ان جلسوں میں خاص طور پر بیرونی ممالک میں دعوت الی اللہ کرنے والے خوش نصیب اپنے تجربات بیان کرتے حضرت مصلح موعود اپنی تقاریر کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت اور قرآنی دُعاؤں سے فرماتے تھے.جس سے سوز و رقت کے عجیب ایمان افروز نظارے ہوتے.آپ کے عہد مبارک میں بیرونی ممالک میں 25 نئے احمد یہ مراکز قائم ہوئے ترقی پذیر جماعت کا سر براہ اپنی جماعت کے ہر حصے کو ساتھ لے کر آگے بڑھتا.حضرت مصلح موعود کا یہ نظریہ تھا کہ اگر پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو جماعت ترقی کرے گی.اس لئے آپ نے لڑکیوں کا اسکول اور کالج کھولا دینی تعلیم کے لئے مدرستہ الخواتین قائم فرمایا.جس میں شروع میں خود بھی پڑھاتے رہے تھے.خواتین کی تنظیم لجنہ اماء اللہ اور بچیوں کی ناصرات الاحمدیہ قائم فرمائی.خواتین کی تربیت و اصلاح کے خیال سے آپ اپنی بیویوں کی خاص طور پر تربیت فرماتے تھے تا کہ خواتین کی اصلاح کا دائرہ وسیع ہوتا جائے.ان ازواج مبارکہ کے ذریعے اللہ پاک کے مسیح موعود کی نسل اور نفوس میں برکت دینے کے وعدے بھی پورے ہوئے.1902ء میں آپ کی پہلی شادی محمودہ بیگم (حضرت ام ناصر ) بنت حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب سے ہوئی.آپ کو سات لڑکے اور دولڑکیاں عطا ہوئیں.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر خلیفة أسبح الثالث صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا منور احمد ،صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد ،صاحبزادہ مرزا انور احمد ، صاحبزادہ مرزا اظہر احمد، صاحبزادہ مرزا رفیق احمد، صاحبزادی ناصرہ بیگم، صاحبزادی امتہ العزیز بیگم.1914ء میں آپ کی شادی حضرت سیدہ امتہ الحئی بنت حضرت خلیفۃ المسح الاول سے ہوئی.آپ کو ایک لڑکا ، دولڑکیاں عطا ہوئیں.صاحبزادہ مرزا خلیل احمد ، صاحبزادی امتہ القیوم اور صاحبزادی امۃ الرشید.1921ء میں آپ کی شادی حضرت سیدہ مریم بیگم بنت حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ سے ہوئی.آپ کو ایک لڑکا اور تین لڑکیاں عطا ہوئیں.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ ایسیح الرابع ،صاحبزادی امتہ الحکیم، صاحبزادی امتہ الباسط ، صاحبزادی امتہ الجمیل.1925ء میں آپ کی شادی حضرت سیده ساره بیگم بنت حضرت مولوی عبدالماجد بھا گلپوری سے ہوئی.ان کے بطن سے آپ کو دولڑ کے اور ایک لڑکی عطا ہوئی.صاحبزادہ مرزا رفیع احمد ، صاحبزادہ مرزا حنیف احمد،صاحبزادی امتہ النصير 1926ء میں آپ کی شادی حضرت عزیزہ بیگم بنت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب سے ہوئی.آپ کو دولڑ کے عطا ہوئے.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد اور صاحبزادہ مرزا نعیم احمد.
82 81 1935ء میں آپ کی شادی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل" سے ہوئی.آپ کو ایک لڑکی صاحبزادی امتہ المتین عطا ہوئی.1944ء میں حضرت سیّدہ بشری بیگم مہر آپا بنت حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب سے آپ کی شادی ہوئی.آپ کے عہد خلافت میں احمدیت کی ترقی کی تاریخ کو اختصار سے سمیٹا نہیں جاسکتا.ربوہ کا قیام ایک مثال ہے.1947ء میں تقسیم برصغیر کے موقع پر جب قادیان کی مقدس بستی ہندوستان میں شامل کر دی گئی.آپ نے فیصلہ فرمایا کہ حفاظت مراکز کے لئے کچھ احمدی قادیان میں رکیں اور باقی اجتماعی طور پر پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں.پاکستان میں احمدیوں کو ایک مرکز پر مجتمع رکھنے کے لئے الہی بشارت اور دُعاؤں کے ساتھ نیا مرکز ربوہ آباد کیا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم کا نام دیا تھا.ربوہ کی پیاری بستی آپ کے عزم و ہمت کا نشان ہے.1954 ء میں ایک حملہ آور نے آپ پر چاقو کا وار کیا گردن پر گہرا زخم آیا جس کے اثرات سے آپ علیل رہنے لگے.اگر چہ اس علالت میں بھی جماعتی کاموں میں مصروف رہے.تاہم کمزوری بڑھتی گئی اور آخر 8 نومبر 1965ء کی رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرزان دلبند گرامی ارجمند اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گیا.ملت کے اس فدائی پر رحمت خدا کرے حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے پوتے حضرت مصلح موعود( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کے پہلے بیٹے اور جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ 16 نومبر 1909ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.آپ کی ذات بابرکات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پہلے سے خوشخبریاں دی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وَ بَشْرَنِي بِخَامِسَ فِي حِينٍ مِّنَ الْأَحْيَانِ یعنی پانچواں لڑکا جو چار کے علاوہ بطور نافلہ پیدا ہونے والا تھا اس کی خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ کسی وقت ضرور پیدا ہو گا.إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةَ لَّكَ نَافِلَةً مِّنْ عِندِي یعنی ہم ایک اور لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں کہ وہ نافلہ ہو گا یعنی لڑکے کا لڑکا یہ نافلہ ہماری ہی طرف سے 66 ہے.
84 83 (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 ص 219,218) حضرت مصلح موعود ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) فرماتے ہیں.” مجھے بھی خدا نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا.(الفضل 13 نومبر 1965ء) آپ بہت چھوٹے تھے جب حضرت مصلح موعود نے آپ کو اپنی مبارک ماں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی گود میں ڈال کر درخواست کی کہ آپ ہی اس بچے کی تربیت فرمائیں.اس طرح اللہ پاک نے آپ کی تربیت کا انتظام اُس ہستی کے سپرد کر دیا جس نے حضرت مسیح موعود کی صحبت میں اپنی مبشر اولاد کی تربیت فرمائی تھی.تیرہ سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید حفظ کر لیا.آپ کی طبیعت میں گہری سعادت مندی اور فطری نیکی تھی.خدمت خلق کا جذبہ بھی بہت پایا جاتا تھا.جلسہ سالانہ کے ایام میں دن رات ڈیوٹی دیتے.1927ء میں حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر راتوں رات جلسہ گاہ کو وسیع کرنے کے لئے ان تھک کام کیا.اس کے انعام میں میڈل حاصل کیا.جولائی 1929ء میں آپ نے جامعہ احمد یہ قادیان سے پنجاب یونیورسٹی کا امتحان 'مولوی فاضل، پاس کیا.1934ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کی.زمانہ طالب علمی میں ایک موقع پر آپ نے بے حد دیانتداری کا مظاہرہ کیا جب کسی نے امتحان کے دنوں میں آؤٹ ہونے والا پرچہ بڑے فخر سے آپ کو پیش کیا تو آپ نے فرمایا.میں صرف اُس محنت کا صلہ لینے کا حق دار ہوں جو میں 66 نے کی.جو نمبر مفت ملتے ہوں وہ میں کبھی نہیں لوں گا.“ 4 اگست 1934ء میں آپ کی شادی سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ ہوئی.ستمبر 1934ء میں آپ کو انگلستان حصول تعلیم کے لئے روانہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے فرمایا :- میں تم کو انگلستان بھجوا رہا ہوں اس غرض سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو فتح مکہ سے پہلے مکہ بھجوایا کرتے تھے.میں اس لئے بھجوا رہا ہوں کہ تم مغرب کے نقطہ نظر کو سمجھو.تم اس زہر کی گہرائی معلوم کرو جو انسان کے روحانی جسم کو ہلاک کر رہا ہے.تم ان ہتھیاروں سے واقف اور آگاہ ہو جاؤ جن کو دقبال اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے.غرض تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے سامان جمع کرو.“ 1938ء میں آپ آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لے کر واپس تشریف لائے.جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام کالج میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے.مئی 1944 سے نومبر 1965 تک تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل رہے.1947ء میں تقسیم برصغیر کے وقت آپ نے حفاظت مرکز اور مہاجرین کے انخلاء کا کام بڑے مشکل وقتوں میں حکمت عملی اور بہادری سے کیا.آپ 15 نومبر 1947 ء تک قادیان میں رہے.ایک کیمپ میں مسلمان عورتوں کو پناہ دی گئی جن کے پاس کپڑے نہ ہونے کے باعث ستر پوشی بھی ممکن نہ تھی.آپ نے اپنی بیگم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے جہیز کے ٹرنک کھولے اور سارے کپڑے مستحق خواتین میں تقسیم کر دیے.ان میں سے بعض جوڑے
86 85 اتنے قیمتی تھے کہ اُس وقت اُن کی قیمت پانچ پانچ ہزار روپے تھی.جون 1948 سے جون 1950 ء تک فرقان بٹالین میں اہم ملکی خدمات بجا لاتے رہے یہ بٹالین احمدی نوجوان پر مشتمل تھی جو محاذ کشمیر پر شجاعت و دلیری کے جو ہر دکھاتی رہی.1953ء میں پاکستان بھر میں فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی تھی آپ کو جھوٹے الزام میں قید کر لیا گیا.یہ آزمائش بھی خندہ پیشانی اور صبر وسکون سے گزاری.آپ 28 مئی 1953 ء کو رہا ہوئے 1954ء میں مجلس انصار اللہ کے صدر منتخب ہوئے اور مئی 1955 میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا صدر مقرر فرما دیا 1959 سے نومبر 1965 تک افسر جلسہ سالانہ کی خدمات بھی ادا فرمائیں.8 نومبر 1965ء آپ کو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا تیسرا خلیفہ بنا دیا.اللہ پاک کی خاص حکمت سے آپ حضرت عثمان سے گہری مشابہت اور مماثلت رکھتے تھے.حضرت عثمان " بھی 8 نومبر کو مسند آرائے خلافت ہوئے تھے.دونوں کو اللہ تعالیٰ اور اُس کی مخلوق سے بے حد پیار تھا انتہائی شفیق اور حلیم تھے.17 ستمبر 1965 ء کو آپ نے تحریک فرمائی کہ خیال رکھا جائے کہ کوئی احمدی رات کو بھوکا نہ سوئے.آپ فرماتے ہیں.ہیں.” ہمارا پہلا پیارا پنے ربّ کریم سے ہے اور پھر اس سے ہے جس نے ہمارے رب کی ہمیں راہیں دکھائیں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم.غرض ہمارے لئے خدا، مصطفے ہی کافی ہیں کسی اور کی ہمیں ضرورت نہیں.“ ( الفضل 26 اپریل 1976ء) آپ کی دلی دعاؤں سے آپ کی ذات کا حسن نمایاں ہوتا ہے آپ فرماتے ”اے ہمارے اللہ ! ہمارے پیارے رب تو ایسا کر کہ تیرے یہ کمزور اور یہ بے مایہ بندے تیرے لئے بنی نوع انسان کے دل جیت لیں اور تیرے قدموں میں انہیں لا ڈالیں ایسا کر کہ تا ابد دُنیا کے ہر گھروں میں بسنے والے ہر ول سے لا إله إلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کی صدا اور دُنیا کی ہر زبان سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا رہے“ ( از جلسہ سالانہ کی دُعائیں ص 18) آپ نے جماعت کو سوز و درد سے لا إِلَهَ إِلَّا اللہ کا ورد بکثرت کرنے کی تاکید فرمائی.آپ کی اقتدا میں آپ کی لے میں جماعت کا یہ ورد لہر در لہر کائنات میں پھیلا.آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات پر اتنا تو کل تھا جتنی بڑی مشکل ہوتی آپ اُسی قدر خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں فضلوں اور برکتوں کے ساتھ سارے کام خود سنوار دیتا.1974ء میں جب جماعت کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا آپ لٹے پٹے گھائل لوگوں کو گلے سے لگاتے، حوصلہ اور دُعائیں دیتے.جماعت مضبوط چٹان کی طرح اپنے خلوص میں آگے بڑھتی رہی.قومی اسمبلی میں سوالات کے ایمان افروز جوابات دیے.اور اس طرح بہت بڑے جہاد کا موقع ملا.اس دلیرانہ جہاد میں آپ کو خدا تعالیٰ کی معجزانہ تائید حاصل رہی.کارروائی کے آخری دن آپ نے قرآن مجید ہاتھ میں لے کر فرمایا :- ” میں نے اس ایوان میں پہلے دو روز جماعت کا محضر نامہ پڑھا.بعد ازاں گیارہ دن تک مجھ پر انتہائی سخت قسم کے سوالات پوچھے گئے.یہ ایام شدید گرمی کے بھی تھے اور میرے لئے انتہائی مصروفیت کے بھی مجھے معلوم نہیں کہ دن کب چڑھا ہے اور رات کب آئی ہے ان تیرہ دنوں میں اگر
88 87 کوئی شخص میرے دل کو چیر کر دیکھ سکتا تو اُسے معلوم ہو جاتا کہ اس میں خدا اور محمد مصطفے ﷺ کی محبت کے سوا اور کچھ نہیں.“ آپ حافظ قرآن تھے.قرآنی علوم کو پھیلانے کا از حد شوق تھا.آپ نے تحریک کی کہ ہزاروں رضا کاراپنے وقت کا ایک حصہ قرآن پاک سکھانے میں صرف کریں.ناظرہ پڑھائیں اور ترجمہ پڑھائیں.آپ کی خواہش تھی کہ جماعت کو کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے، نہ بڑا نہ چھوٹا ، نہ مرد ، نہ عورت ، نہ جوان نہ بچہ کہ جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو.آپ نے سورۃ البقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک فرمائی.جس کے نتیجے میں چھوٹے ، بڑے ابتدائی ستره آیات حفظ کرتے ہیں اور ان کا ترجمہ سیکھتے ہیں.1969ء میں حضرت مسیح موعود کی تفسیر اور ارشادات بابت تفسیر القرآن مختلف کتب سے یکجا کر کے شائع کروائے.قرآن کریم کو دُنیا کی ہر قوم تک اُس کی زبان میں پہنچانے کے لئے آپ نے یورپ ، امریکہ اور افریقہ کے درجنوں ممالک کے مشہور ہوٹلوں میں قرآن پاک رکھوانے کا اہتمام کروایا.قرآن کریم حفظ کرنے کی تحریک فرمائی اور اس کے لئے خاص طور پر خدام کو ارشاد فرمایا کہ وہ پہلے ایک پارہ حفظ کریں.جب حفظ ہو جائے تو دوسرا کریں.اس طرح آپ کا مقصد زیادہ سے زیادہ حفاظ تیار کرنا تھا.یہ تحریک خدام تک محدود نہ رہی بلکہ دیگر تنظیموں نے بھی حصہ لیا.آپ کے عہد میں بیت اقصی ، خلافت لائبریری ، قصر خلافت ،سرائے محبت ، سرائے فضل عمر ، احمد یہ دارالکتب فضل عمر فاؤنڈیشن اور جدید پریس کی شاندار عمارات تعمیر ہوئیں.28 اکتوبر 1979ء کو غلبہ دین حق کی صدی کے لئے دس سالہ لائحہ عمل تجویز فرمایا.1 - ہر بچہ قاعدہ یسرنا القرآن جانتا ہو.2- قرآن مجید ناظرہ جاننے والے ترجمہ و تفسیر سیکھیں.3 - ہر بچہ کم از کم میٹرک ہو.4- ہر احمدی دینِ حق کی حسین تعلیم پر قائم ہو.چنانچہ آپ کے دور خلافت میں قرآنی علوم کے پھیلانے کی جو کوشش کی گئی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.خدمت انسانیت کے لئے آپ کا نعرہ زبانِ زدِ عام ہے." محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں.“ بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی بے لوث خدمت کا جذبہ رکھتے ہوئے آپ نے بہت سے عظیم الشان کام کئے.1970ء میں گیمبیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں یہ تحریک پیدا فرمائی کہ ان ملکوں کے غریب اور مظلوم انسانوں کی خدمت کے لئے ابتدائی طور پر ایک لاکھ پونڈ خرچ کر کے رفاہی ادارے کھولے جائیں.چنانچہ بیت الفضل لندن میں آپ نے نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کا اعلان فرمایا.اس کا مقصد افریقہ میں ہسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کر کے وہاں کے عوام کی خدمت کرنا تھا.آپ نے واضح طور پر اعلان فرمایا کہ ان ملکوں میں کمایا ہوا روپیہ باہر نہیں جائے گا بلکہ وہیں بہبود کے کاموں میں خرچ ہو گا.آپ نے اس کے لئے رقت سے دُعائیں کیں اور کروائیں.اللہ تعالیٰ کے احسان سے اس میں غیر معمولی ترقی نصیب ہوئی..خلافت ثالثہ کے اختتام پر 21 ہسپتال 35 سیکنڈری سکول 100 پرائمری و مڈل سکول کا م کر رہے تھے.شفا اور تعلیم کے معیار کا شہرہ دور ونزد یک پھیل چکا تھا احیائے دین کے لئے آپ نے بیرونی ممالک کے چھ دورے کئے جن میں وسیع
90 89 پیمانے پر خطابات اور پریس کانفرنسز سے پیغام حق پہنچایا.سفر یورپ مغربی افریقہ سفر انگلستان سفر یورپ امریکہ و کینیڈا دوره مغرب 6 جولائی 1967 تا 24 اگست 1967 4 اپریل 1970 تا 8 جون 1970 13 جولائی 1973 تا 26 ستمبر 1973 15 اگست 1975 تا 29 اکتوبر 1975 20 جولائی 1976 تا 20 اکتوبر 1676 26 جون 1980 تا 26 اکتوبر 1980 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے مبارک دور میں حضرت مسیح موعود کی متعدد پیشگوئیاں پوری ہوئیں.اس مختصر مضمون میں صرف ان کی جھلک دکھائی جا سکتی ہے.مثلاً ایک پیشگوئی ہے.” میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ (برکات الدعاص30) گیمبیا کے پریذیڈنٹ الحاج ایم اے سنگھاٹے نے احمدیت قبول فرما کر حضرت اقدس کے مقدس کپڑوں سے برکت پائی.1970ء کے دورہ افریقہ کے موقع پر کئی سربراہان مملکت نے حضور سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا.حضرت اقدس کی ایک پیشگوئی." تزلزل در ایوان کسری فتاد ( تذکرہ ص (503) ترجمہ :- شاہ ایران کے محل میں تزلزل پڑ گیا.اس طرح پوری ہوئی کہ 16 جنوری 1979ء کو شاہ ایران کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور ایران کے مذہبی رہنما روح اللہ خمینی برسراقتدار آئے.حضرت اقدس کی ایک پیشگوئی ہے ” میرا لوٹا ہوا مال تجھے ملے گا ( تذکرہ ص 158) اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی ایک اس رنگ میں پوری فرمائی کہ سرزمین سپین پر ساڑھے سات سو سال کے بعد پھر سے غلامان محمد کی آواز اذان کی صورت میں گونجی 19اکتوبر 1980ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پید رو آباد اسپین میں اللہ کے گھر کی بنیاد رکھی.آپ کو طالب علموں سے خاص طور پر بہت پیار تھا ان کی روحانی و جسمانی صحت کا خیال بھی رکھتے.ذہانت بڑھانے کے لئے سویا بین متعارف کروائی.ادا ئیگی حقوق طلباء کے لئے ایک فنڈ قائم فرمایا تعلیمی وظائف میں صرف لیاقت کی شرط رکھی.احمدی ، غیر احمدی کا فرق نہ رکھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی حیات میں چھ تقاریب میں 32 طلباء و طالبات کو گولڈ میڈل دیے گئے.جلسہ سالانہ 1965ء کے موقع پر آپ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے ادارے کا قیام فرمایا.یہ ادارہ حضرت مصلح موعود کی یاد میں اُن کے محبوب مقاصد کو سامنے رکھ کر قائم فرمایا جس کا ابتدائی سرمایہ 25 لاکھ روپے رکھا گیا مگر جماعت نے والہانہ مالی قربانی پیش کر کے کہیں زیادہ ادائیگی کی.اس فاؤنڈیشن کے تحت خلافت لائبریری اور سرائے فضل عمر کے نام سے وسیع گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا گیا.جلسہ سالانہ پر تقاریر کے انگریزی اور انڈونیشین زبانوں میں رواں ترجمے کا انتظام کیا گیا.قرآن کریم کے فرانسیسی ترجمے کی اشاعت میں مدد کی گئی.اور دیگر بے حد اہم کام ہوئے.آپ کے مبارک دور میں پاکستان اور بیرون پاکستان کل 425 بیوت الحمد تعمیر ہوئیں.جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر اظہار تشکر کے لئے صد سالہ جوبلی کا عظیم الشان منصوبہ پیش فرمایا.آپ نے فرمایا کہ اسلام پر عالگیر حملوں کا جواب دینے کے لئے ” آدم کی پیدائش کے بعد اتنا بڑا منصوبہ نہیں بنایا گیا.آدم سے لے کر آج تک اتنی زبر دست جنگ (روحانی جنگ مادی ہتھیاروں سے نہیں) شیطانی قوتوں کے خلاف نہیں لڑی گئی جتنی اس زمانے میں جو محمد مصطفے صلی اللہ
92 91 علیہ وسلم کا زمانہ ہے لڑی جانے والی ہے.“ خطبہ جمعہ 25 فروری 1974) اس منصوبہ کا سب سے بڑا مقصد بنی نوع انسان کو خدا سے روشناس کرانا تھا آپ کی خواہش تھی کہ کل انسانیت ملتِ واحدہ بن جائے.جدید ترین ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھایا جائے.روحانی انقلاب کے لئے روحانی پروگرام دیا جو روزے ، نوافل اور دُعاؤں پر مشتمل تھا.اس منصوبے کے تحت نئے مراکز اور بيوت الحمد تعمیر کئے گئے.پید رو آباد اسپین میں بیت البشارت کا سنگ بنیاد 9اکتوبر 1980ء کو رکھا.یہ سکیم فیضان کا جاری سلسلہ ہے.مسجد مکمل ہو چکی ہے جو بلی فنڈ سے قرآنِ کریم کے تراجم اور دیگر لٹریچر سو سے زائد زبانوں میں شائع ہو چکا 3 ستمبر 1981 ء کو آپ کی بیگم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ وفات پا گئیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو صاحبزادیاں محترمہ امۃ الشکور صاحبہ اور محترمہ امتہ الحلیم صاحبہ اور تین صاحبزادے محترم مرزا انس احمد محترم فرید احمد اور محترم مرزا لقمان احمد عطا فرمائے.حضرت سیدہ منصورہ بیگم کی وفات کے بعد آپ نے خالص دینی اغراض کے لئے گیارہ اپریل 1982ء کو حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ بنت مکرم عبد المجید خاں صاحب سے دوسری شادی کی.موصوفہ علمی، تربیتی اور طبی میدان میں خدمت دینیہ میں مصروف ہیں.8/9 جون 1982 کی درمیانی شب آپ مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.خدا رحمت کنند این عاشقان نیک طینت را حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے بڑے فرزند اور جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد اور حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ کے بیٹے مرزا طاہر احمد 18 دسمبر 1928 ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.آپ کے نانا حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے 1901ء میں حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت کی تھی.آپ نہایت عابد و زاہد مخلص انسان تھے.حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ بہت سی خوبیوں کی مالک خاتون تھیں.اُن کا دل خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوقات کی محبت سے لبریز تھا.غریبوں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھ کر ان کی عزت نفس کی حفاظت کرتے ہوئے مشفقانہ ہمدردانہ سلوک کرتیں.آپ کے ذاتی تعلقات بہت وسیع تھے.آپ نے لجنہ اماء اللہ کی طویل عرصہ خدمت کی.1933ء میں لجنہ کی جنرل سیکرٹری مقرر ہوئیں 1942 ء سے وفات تک بطور صدر خدمات سر انجام دیں.حضرت خلیفہ ایج
94 93 الثانی آپ کی خدمات سے بے حد خوش تھے.اللہ تعالیٰ کے احسان والدین کی دعاؤں اور فطری سعادت کے نتیجے میں مرزا طاہر احمد کا بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ سے تعلق استوار ہو گیا جو دن بدن مضبوط تر ہوتا چلا گیا.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ آپ کے بچپن کا ایک عجیب واقعہ لکھتے ہیں." اس بچہ کا ایک عجیب و غریب واقعہ میں تازیست نہ بھولوں گا.1939 ء کی بات ہے ایک دن جناب عبد الرحیم تیر صاحب نے کسی بات پر خوش ہو کر کہا.” میاں طاہر آپ نے ایک بات نہایت اچھی کہی ہے جس سے میرا دل بہت خوش ہوا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کو کچھ انعام دوں جتلائیں آپ کو کیا چیز پسند ہے.“ تو اس بچہ نے جس کی عمر اس وقت ساڑھے دس سال تھی برجستہ کہا " اللہ " (تابعین ( رفقائے ) احمد جلد سوم سیرت اُم طاہر ) 5 مارچ 1944ء کو حضرت سیدہ اُمّ طاہر کا انتقال ہو گیا.احباب جماعت کو اُن سے گہرا قلبی لگاؤ تھا.اس لئے صرف مرزا طاہر احمد ہی کو نہیں ہر احمدی کو محسوس ہوا گویا اس کی اپنی مادر مہربان کا انتقال ہوا ہے.آپ میٹرک کا امتحان دے رہے تھے.6مارچ کو ریاضی کا پرچہ تھا.آپ کی اُس وقت کی کیفیت آپ کے اُستاد محترم میاں محمد ابراہیم صاحب تحریر فرماتے ہیں.آپا جان فوت ہو گئیں لیکن ہم طاہر احمد کو فوراً بغیر اس کے کہ وہ ذہنی طور پر اس خبر کو سننے کے لئے تیار ہو یہ اطلاع نہ دینا چاہتے تھے.اس اثنا میں نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا.طاہر احمد نے وضو کیا اور نماز کے لئے چلا گیا پھر وہاں سے گھبرایا ہوا آیا کیونکہ اس کی تلاش ہو رہی تھی دیوار پھاند کر اپنی امی کے بالائی صحن میں اُترا اور پوچھا کہ ” کیا بات ہے.سید ولی اللہ شاہ صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے 66 66 اور کہا کہ فوت ہو گئیں.“ طاہر خاموشی اور سکون کا مجسمہ بن کو تخت پوش پر بیٹھ گیا اور اس قدر صبر کا مظارہ کیا کہ مجھے خیال آیا ایسا نہ ہو غم اندر ہی اندر ان کو زیادہ تکلیف دے اس لئے ہم نے یہ کوشش کی کہ طاہر تھوڑا بہت روئے.طاہر بھی اب بھر چکا تھا اور ایک حد تک آنسو بہا کر اپنی امی ہاں اُس امی کو جس کو ایک جہان رو رہا تھا یا د کیا اور کہا کہ ” مجھے دو تین مرتبہ ایسی خوابیں آچکی ہیں جن سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ بس امی فوت ہو جائیں گی ابھی چند روز ہوئے مجھے خواب میں امی نے کہا کہ میں اس چراغ کی طرح ہوں جو بجھنے سے پہلے ڈگمگا رہا ہو.“ (الفضل 21 اپریل 1944ء) حضرت اُم طاہر مرحومہ نے خاص طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد سے طاری کا خیال رکھنے کی درخواست کی تھی آپ نے اس عہد کو نبھایا اور دینی علوم کے ساتھ ساتھ عمومی تربیت کا خاص خیال رکھا.حضرت اُم طاہر کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعود چالیس روز تک روزانہ حضرت مسیح موعود اور حضرت اُم طاہر کے مزار پر جا کر دُعا کرتے رہے.آپ نے اسلام کی فتوحات کے لئے خاص اسباب پیدا کرنے کیلئے بہت دُعا کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کی تضرعات کو سُنا اور آپ کے بیٹے طاہر احمد کو جلیل القدر منصب کے لئے چن لیا.آپ نے 1944ء میں ہائی سکول قادیان سے میٹرک کیا.ایف ایس سی گورنمنٹ کالج لاہور سے کی.1949 میں جامعتہ المبشرین ربوہ سے شاہد کی
96 95 ڈگری لی.اپریل 1955 سے اکتوبر 1957ء تک لندن میں تعلیم حاصل کی.1958ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو وقف جدید کا ناظم ارشاد مقرر کیا.وقف جدید کی خدمات کے دوران آپ نے گاؤں گاؤں قصبے قصبے کے دورے کئے.غرباء میں گھل مل کر ان کے معاشی اور دینی مسائل کو بہت قریب سے دیکھا.آپ کا تجربہ اور علم بہت وسیع ہوا.بڑی محنت اور لگن سے ملک میں معلمین وقف جدید کا جال پھیلا دیا.ہومیو پیتھک کے سستے اور مؤثر طریق علاج سے جہاں ان گنت لوگوں کو فائدہ پہنچا.وہاں آپ کی ذات بھی ہر سطح پر زندگی کے ٹھوس حقائق سے آشنا ہوئی.نومبر 1960 ء سے 1966ء تک نائب صدر خدام الاحمدیہ کے فرائض ادا کئے.1960ء میں پہلی دفعہ جلسہ سالانہ سے خطاب فرمایا اور اس کے بعد سے ہر سال یہ عرفان کی بارش جاری رہی.جماعتی رسائل میں مضامین لکھے.مذہب کے نام پر خون اسی زمانے کی کتاب ہے جس کے تراجم کئی زبانوں میں ہو چکے ہیں اور زبردست خراج تحسین حاصل کر چکی ہے.نومبر 1966ء سے نومبر 1969ء تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے یکم جنوری 1970 ء سے فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا.1957ء میں آپ کی شادی محترمہ آصفہ بیگم بنت مرزا رشید احمد صاحب سے ہوئی جو حضرت مسیح موعود کے پوتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹیوں محترمه شوکت محترمه فائزه محترمه یاسمین رحمن مونا اور محترمہ عطیۃ الحبیب طوبی سے نوازا.( محترمہ آصفہ بیگم صاحبہ 3 اپریل 1992 کو انتقال فرما گئیں) 1974ء میں جب پاکستان اسمبلی کے سامنے حضرت خلیفہ اسیح الثالث ( نور اللہ مرقدہ ) نے جماعت احمدیہ کا موقف پیش کیا تو آپ کے ساتھ جو پانچ رکنی وفد تھا.آپ اس کے ایک رکن تھے.10 جون 1982ء کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو جماعت احمدیہ کا چوتھا خلیفہ بنایا.حسنِ اتفاق یہ کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی خلافت رابعہ کا انتخاب بھی جون میں ہوا تھا.28 جولائی 1982 سے 12اکتوبر 1982ءتک آپ نے سویڈن ، ڈنمارک ، جرمنی ، سوئٹزر لینڈ ، سپین ،ہالینڈ اور برطانیہ کا دورہ کیا.اس سفر کے دوران مختلف مواقع پر اجتماعات سے خطابات ، پریس کانفرنسز اور مجالس عرفان کے ذریعہ دعوت الی اللہ کا کام کیا.10 ستمبر 1882ء کو بیت بشارت پیڈ رو آباد سپین کا افتتاح فرمایا.اس مسجد کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے 19 اکتوبر 1980 ء کو رکھا تھا.اس موقع پر آپ کے خطاب ، پریس کانفرنس اور بیت بشارت کی تصویروں کی اشاعت نے دینِ حق کا تعارف کروایا.یہ ایک بہت بڑی فتح تھی.سات سو سال کے بعد سپین میں دین حق کے احیاء کی صورت بنی تھی.اس بیت کی خوشی میں شکرانے کے طور پر آپ نے 29اکتوبر 1982ء کو بیوت الحمد سکیم کا اعلان فرمایا.جس میں محض رضائے باری تعالیٰ کے حصول کے لئے غرباء کے لئے مکانات کی تعمیر کی تحریک فرمائی.1977ء میں پاکستان کی حکومت پر قبضہ کر لینے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ظاہری طور پر رائے عامہ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش میں نام نہاد علماء کو خوش کرنے کے لئے ان کے ایسے مطالبات تسلیم کئے جن سے عمومی طور پر جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت کی لہر آگئی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو پُر سکون رہنے اور خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق بڑھانے کی تلقین فرمائی.دو گھڑی صبر سے کام لو سا تھیو آفت ظلمت و جورٹل جائے گی آہ مومن سے ٹکرا کے طوفان کا رُخ پلٹ جائے گا رُت بدل جائے گی ہے ترے پاس کیا گالیوں کے سوا ساتھ میرے ہے تائید ربّ الوری کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دُعا آج بھی اذن ہو گا تو چل جائے گی
98 97 1984ء میں حکومت نے بدنام زمانہ آرڈی نینس جاری کیا جس کی موجودگی میں خلیفہ وقت کے لئے پاکستان میں رہ کر دینِ حق کی اشاعت کا کام ناممکن ہو گیا.حضرت صاحب نے 30 اپریل 1984ء کو پاکستان سے ہجرت فرمائی.اس ہجرت میں اللہ تبارک تعالیٰ کی غیر معمولی مدد شامل حال رہی.رسل و رسائل کی وسیع تر اور آسان تر سہولتوں سے دعوت الی اللہ کے کام میں یکدم تیزی پیدا ہوئی.یورپ اور دوسرے ملکوں کے دعوت الی اللہ مراکز کے کاموں میں غیر معمولی ترقی ہوئی.جلسہ لندن کو خلیفہ وقت کی موجودگی سے مرکزی اہمیت حاصل ہوئی.ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا بھر میں اشاعت و دعوت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا.جس کی دنیا میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی.عالمی بیعت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے اور محیر العقول کارناموں اور کامیابیوں کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا.10 جون 1988ء کو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ آئمۃ الکفر کو مباہلے کا چیلنج دیا اور انصاف اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا.اس مباہلے کے جو نتائج فوری طور پر سامنے آئے.ان میں سے ایک شخص اسلم قریشی کا ظاہر ہونا تھا اس شخص کو ایک سکیم کے تحت چھپا دیا گیا تھا اور مشہور کیا گیا تھا کہ اس کو پیغام دور و نزدیک ہر طبقہ فکر تک وسیع پیمانے پر پہنچا اس موقع پر آپ کی طرف سے خصوصی پیغام خوبصورتی سے شائع کر کے تقسیم کیا گیا.ایم ٹی اے نے احمدیت کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا.اور خلیفہ وقت سے دور مہجوری میں اطمینان و سکینت کا باعث بنا.31 جنوری 1992ء سے ایم ٹی اے کے ذریعے خطبات سننے کا آغاز ہوا جو پہلے براعظم یورپ میں دیکھا اور سنا گیا.1992ء کا جلسہ سالانہ برطانیہ سے براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوا.21 اگست سے خطبہ جمعہ چار براعظموں ایشیا، یورپ ، افریقہ اور آسٹریلیا میں ٹیلی وژن کے ذریعے با قاعدہ نشر ہونا شروع ہوا.31 جولائی 1993ء کو پہلی عالمی بیعت ہوئی.7 جنوری 1994ء کو باقاعدہ چوبیس گھنٹے نشریات اور 13 مارچ 2001 ء کو ڈیجیٹل نشریات کا آغاز ہوا.ایم ٹی اے پر حضور کے 2724 پروگرام نشر ہوئے.عالمی بیعت کا سلسلہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے 1993 - 2002 تک عالمی بیعتوں کی تعداد میں اضافوں کی رفتار حیرت انگیز ہے.سال بہ سال جائزہ لیں تو اعداد و شمار کے مطابق چار لاکھ ،8لاکھ ، 16 لاکھ ، 30 لاکھ ، 50لاکھ ، ایک کڑوڑ ، چار کروڑ ، آٹھ کروڑ اور دو کروڑ مرزا طاہر احمد نے قتل کروایا ہے.اسلم قریشی کو 10 جولائی 1988ء کو پاکستان کل 164,875,605 سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہو ئیں.ٹیلی وژن پر دکھایا گیا.اور اس نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں گیا ہوا تھا.دوسرے 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کی جہاز کے حادثے میں عبرت ناک موت تھی.اس حادثے سے پہلے جمعہ کے خطبہ میں آپ نے اس انجام کے قریب ہونے کی پیشگوئی کی تھی.آپ کے مبارک عہد میں جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی بڑے وقار اور شان و شوکت سے منائی گئی.تقریبات ، آرائشوں اور نمائشوں سے احمدیت کا 1995 میں احمد یہ ویب سائٹ Alislam.org کا آغاز ہوا جس سے روحانی خزائن کے منہ کھل گئے اور علم و عرفان کی نہریں ساری دنیا کی دسترس میں آ گئیں.آپ کے دور مبارک میں 13065 نئی بیوت بنیں 985 مشن ہاؤسز کھلے گئے.56 زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ مکمل ہوا منتخب آیات کا ترجمہ سو سے زائد زبانوں میں شائع ہوا کل 175 ممالک میں جماعت قائم ہوگئی.(1982 میں
100 99 اتنی ممالک میں جماعت قائم تھی ) 21 فروری 2003 کو آپ نے اپنی زندگی کی آخری تحریک 'مریم فنڈ کے نام سے کی جس کے تحت غریب بچیوں کی شادی کے لئے ایک مستقل فنڈ قائم ہو آپ نے بیس سے زائد کتب تحریر فرمائیں.جن میں ترجمۃ القرآن ، مذہب کے نام پر خون، ہومیو پیتھی علاج بالمثل، سوانح فضل عمر،, زهق الباطل حوا کی بیٹیاں اور کلام طاہر ,Revelation Christianity a journey From Facts To Fiction جیسی عظیم الشان کتب شامل ہیں.علم و عرفان کی دنیا پر راج کرنے والا ،غریبوں کا ہمدرد محبتوں کا امین، ہر رخ سے چمکنے والا ہیرا، انتہائی کامیابی سے اپنے مفوضہ فرائض ادا کرنے کے بعد اپنے رب کے بلاوے پر راضیۂ مرضیہ عالم بالا کو سدھارا.9اپریل2003 کا دن جماعت کے ہر فرد کو تڑپا گیا.اس عظیم صدمے میں ایم ٹی اے نے سب کو اُن کے آخری سفر میں ساتھ ساتھ رکھا.اُس تاجدار دین کی رحلت کے غم اور خوف کے عالم کو امن میں بدلتے دیکھا.جماعت نے قدرت ثانیہ کے مظہر خامس کے ہاتھ پر بیعت کی.23 اپریل بروز بدھ اسلام آباد ٹلفورڈ میں تدفین ہوئی.اے خدا بر تربت او ابر رحمت ہا بیار حضرت مرزا مسرور احمد خلیفه لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 22 اپریل 2002 کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جماعت احمدیہ کا پانچواں خلیفہ بنایا.آپ 15 ستمبر 1950 کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد و صاحبزادی ناصرہ بیگم کے ہاں پیدا ہوئے.آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پڑپوتے ،حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد کے پوتے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے نواسے ہیں.آپ نے تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی.اے کیا پھر 1967 میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی آپ کا مضمون ایگریکلچرل اکنامکس تھا.1977 میں آپ نے زندگی وقف کی اور نصرت جہاں سکیم کے تحت غانا بھجوائے گئے.جہاں 1977 سے 1985 تک آپ کا قیام رہا واپس آنے پر آپ نے نائب وکیل المال ثانی، ناظر تعلیم ، صدر صدرا م ،صدر صدر انجمن احمدیہ، ناظر اعلیٰ ،
102 101 امیر مقامی ربوہ صدر مجلس کار پرداز، ناظر ضیافت، ناظر زراعت ، چیئر مین ناصر فاؤندیشن ، صدر تزئین کمیٹی ربوہ ہمبر قضا بورڈ رہے نیز خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ میں بھی اعلیٰ ذمہ دار عہدوں پر رہے.30 اپریل سے 10 مئی 1999 تک اسیر راہ مولی رہنے کی سعادت پائی.1977 میں مکرمہ سیدہ امتہ السمبوح بیگم صاحبہ سے آپ کی شادی ہوئی آپ کی ایک صاحبزادی امتہ الوارث فاتح صاحبہ اور ایک صاحبزادہ مکرم وقاص احمد صاحب ہیں.آپ کے انتخاب خلافت کے واقعات ساری دنیا کے احمدیوں نے بیک وقت ایم ٹی اے کے ذریعے دیکھے.یہ انتخاب پہلی بار برصغیر سے باہر بیت فضل لندن میں ہوا..جب آپ خلیفہ بنے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کوٹ ، حضرت مصلح موعود کی انگوٹھی اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی پگڑی زیب تن کی ہوئی تھی.آپ کا پہلا خطاب اگر چہ بہت مختصر تھا مگر دین حق کی تعلیمات کا خلاصہ تھا آپ نے فرمایا.احباب جماعت سے صرف ایک درخواست ہے آج کل دعاؤں پر زور دیں.دعاؤں پر زور دیں، بہت دعائیں کریں.بہت دعائیں کریں ، بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنی تائید و نصرت فرمائے اور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے.“ ترقیات کی طرف رواں دواں رہنے والی دعا مقبول بہ درگاہ الہی ہوئی اور.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نئے سے نئے منصوبے سمجھائے.جن میں اپنے فضل سے برکت عطا فرمائی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا الہام إِنِّي مَعَكَ يَا مسرور تذکرہ ص 630 ایڈیشن چہارم (2004) یعنی اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں.زبان زد عام ہوا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کے نظارے ایمان کی مضبوطی کا باعث بن رہے ہیں.2003 میں آپ نے حضرت خلیفہ اسیح ارابع رحمہ اللہ کی جاری فرمودہ تحریکات اور غلبہ دین حق کے لئے مختلف منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے آپ کے خطبات ،تقاریر اور مجالس عرفان کی تدوین واشاعت کے لئے طاہر فاؤنڈیشن قائم فرمائی.2005 میں نظام وصیت کے قیام پرسوسال مکمل ہونے پر ایک سال میں کم از کم پندرہ ہزار نئے موصیان اور 2008 تک جب قیام خلافت کو سو سال مکمل ہوں تو کم از کم پچاس فیصد احباب جماعت اور سو فیصد عہدے داران کی اس نظام میں شمولیت کی تحریک فرمائی.نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے لئے دینی کتب کا مطالعہ خاص طور پر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلّم کی سیرت کی کتب کے مطالعہ کی تاکید فرمائی تا کہ اسلام ، بانی اسلام اور قرآن مجید پر ہونے والے ہر اعتراض کا جواب دے سکیں.جرنلزم سیکھنے کی طرف راغب فرمایا.انٹرنیٹ کے تحقیقی اور علمی فائدہ سے متمتع ہونے اور اس کے غلط استعمال سے منع فرمایا.آپ نے خطبات کے سلسلوں میں سیرت پاک کے ہر پہلو پر ٹھوس معلومات اور دلائل بیان فرمائے.میڈیا کے مؤثر ذرائع کو استعمال کر کے پیغام حق پہنچانے کے طریق بتائے سب سے بڑھ کر درود شریف کثرت سے پڑھنے کی تاکید فرمائی.بیوت آباد کرنے ،تقویٰ کے لباس سے مزین ہونے کی اہمیت واضح فرمائی.عصر حاضر کے خطرات کو بھانپتے ہوئے امن و عافیت کے حصار میں محفوظ ہونے کے لئے دعائیں پڑھنے کا ایک روحانی پروگرام دیا.مثبت سوچ اور عمل کی راہیں متعین فرمائیں جن میں سرفہرست خدمت خلق ہے امداد مریضان ، امداد طلباء ، تعمیر بیوت، کفالت یتامی ،مرئم فنڈ.
104 103 ، ہیومینٹی فرسٹ میں مالی مدد کے ساتھ دنیا میں کسی جگہ انسان کو مشکل میں دیکھ کر فی سبیل اللہ خدمت اور مدد کرنے کا جذ بہ اُبھارا.آپ کے خطبات ایک طرح سے سٹیئرنگ وھیل ہیں جن سے آپ ساری جماعت کو صحیح سمت پر رواں دواں رکھتے ہیں.آپ کے دورے جماعت میں بھائی چارے ، یک جہتی اور خلوص و محبت میں عظیم الشان اضافے کر رہے ہیں.اپنے خلیفہ کو سامنے پاکر دلوں میں جو محبت کے چشمے اُبلتے ہیں اور آنکھیں جو کیفیت کہہ رہی ہوتی ہیں الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا.ان دوروں میں بیوت الذکر کے سنگ بنیاد اور افتتاح ، دیگر جماعتی پروگرام خاص طور پر سالانہ جلسے پھر ذیلی تنظیموں سے براہِ راست خطاب ، جماعت کی عمارات کے معائنے ، بچوں کے ساتھ کلاسز ، آمین کی تقاریب.واقفین کو سے ملاقاتیں اور فیملی ملاقاتیں غرضیکہ رنگ بہار کا ہر روپ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے.مختلف ممالک میں صدور مملکت اور عمائدین سے ملاقاتیں دعوت الی اللہ کی نئی راہیں کھولتی ہیں.2003 میں آپ نے جرمنی اور فرانس کا دورہ فرمایا.2004 میں غانا ، بوکینا فاسو، بین ، نائیجیریا، جرمنی، ہالینڈ، کینیڈا، سوئٹزر لینڈ، بلجیم اور فرانس تشریف لے گئے.2005 میں سپین ، کینیا ، تنزانیہ، یوگنڈا ، کینیڈا، یورپ، ڈنمارک ،سویڈن، ناروے، جرمنی اور ماریشس کی سرزمینوں نے قدم مبارک چومے.2006 میں بھارت ،سنگا پور ،آسٹریلیا ، نبی، نیوزی لینڈ، جاپان بلجیم ، جرمنی ، ہالینڈ کی قسمت جاگی.2007 میں بلجیم ، فرانس ، ہالینڈ ، جرمنی ،کینیڈا اور جرمنی کے سفر ہوئے.خلافت خامسہ میں احمدیت میں 17 نئے ممالک شامل ہو چکے ہیں.193 ممالک میں جماعت کا پودا لگ چکا ہے کل 3033 نئی جماعتوں کا اضافہ ہوا ہے.3 M.T.A العربیہ کا اجراء اس دور کے خاص کارناموں میں شامل ہے.طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ جیسا عظیم الشان منصوبہ شفا کے پھل تقسیم کر رہا ہے اور جماعت نے 27 مئی 2008 کو خلافت احمدیہ پر سو سال مکمل ہونے پر جو اظہار تشکر کیا رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا.جب حضور انو رکی آواز کے ساتھ بیک وقت پوری دنیا گونج اُٹھی.عہد وفا آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم (.) اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضہ کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخری دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفید ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا
105 دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو میں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللهم آمين اللهم آمين اللهم.آمین.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف حضرت اقدس کی کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے.آپ جس کتاب کو پڑھ لیں اس پر نشان لگا لیں.ہر کتاب کو ایک سے زیادہ مرتبہ غور وفکر سے پڑھیں.نمبر شمار سن تحریر کتاب کا نام LO $1879 1 $1880 2 $1880 3 $1882 4 $1884 5 پرانی تحریریں براہین احمدیہ حصہ اوّل براہین احمدیہ حصہ دوم براہین احمدیہ حصہ سوم براہین احمدیہ حصہ چہارم 6 7 8 مارچ1886ء سرمه چشم آریہ $1887 شحنه حق یکم دسمبر 1888ء سبز اشتہار 106 $1890 9 $1890 10 $1891 11 12 13 14 15 16 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 فتح اسلام توضیح مرام ازالہ اوہام جولائی 1891ء الحق، مباحثہ لدھیانہ اکتوبر 1891ء الحق مباحثہ دہلی دسمبر 1891ء آسمانی فیصلہ فروری 1892ء نشان آسمانی $1892 آئینہ کمالات اسلام (اردو حصہ ) فروری 1893ء آئینہ کمالات اسلام عربی حصہ دافع الوساوس 30 مارچ 1893ء کرامات الصادقين اپریل 1893ء بركات الدعاء مئی تا جون 1893ء جنگ مقدس مئی 1893ء حجة الاسلام مئی 1893ء سچائی کا اظہار جولائی 1893ء تحفہ بغداد اگست 1893ء شهادة القرآن نومبر 1893ء حمامة البشرى فروری 1894ء نور الحق (حصہ اوّل) مئی 1894ء نور الحق (حصہ دوم) جون 1894ء اتمام الحجہ جولائی 1894ء سر الخلافہ ستمبر 1894ء انوار الاسلام
107 30 31 32 33 34 20 مئی 1895ء ضیاء الحق 15 جون 1895ء نُور القرآن حصہ اول و دوم $1895 منن الرحمن نومبر 1895ء ست بچن $1895 آریہ دھرم 35 یکم جنوری 1896ء اسلامی اصول کی فلاسفی 36 22 جنوری 1896ء انجام آتھم 37 38 39 40 41 42 مئی 1897ء سراج منیر مئی 1897ء رساله استفتاء ( عربی ) 25 مئی 1897ء تحفہ قیصریہ 26 مئی 1897ء حجۃ اللہ جون 1897ء محمود کی آمین 22 جون 1897ء سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے 43 20 جون 1897ء جواب جلسه احباب 44 24 جنوری 1898ء کتاب البريه 45 46 47 48 49 50 وو اپریل 1898ء البلاغ“ یا ” فریاد درد 6 ستمبر 1898ء ضرورت الامام 20 ستمبر 1898ء نجم الہدی (ایک ہی دن میں تصنیف کی گئی ) نومبر 1898ء راز حقیقت 27 نومبر 1898ء كشف الغطاء جنوری 1899ء ایام الصلح 108 51 52 21 جنوری 1899ء حقیقة الوحی اپریل 1899ء مسیح ہندوستان میں 53 24 اگست 1899ء ستاره قیصریه 54 55 56 ستمبر 1899ء تریاق القلوب ستمبر 1900ء تحفه غزنویه 2 فروری 1900ء رونداد جلسہ دُعا 57 11 فروری 1900ء خطبہ الہامیہ 58 59 60 61 $1900 لجة النور 22 مئی 1900ء گورنمنٹ انگریزی اور جہاد 20 جولائی 1900ء تحفہ گولڑ و به $1900 اربعین 63 64 65 62 23 فروری 1901ء اعجاز ایح 5 نومبر 1901ء ایک غلطی کا ازالہ اپریل 1902ء دافع البلاء 12 جون 1902ء الهدى والتبصرة لمن يرى (عربی میں مقابلہ کا چیلنج ) 66 جولائی اگست 1902ء نزول ایح 5اکتوبر 1902ء کشتی نوح 67 68 69 70 71 6 اکتوبر 1902ء تحفة الندوه 15 نومبر 1902ء اعجاز احمدی 27 نومبر 1902ء ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی 14 جنوری 1903ء مواہب الرحمن
110 109 72 28 فروری 1903ء نسیم دعوت 8 مارچ 1903ء سناتن دھرم 16 اکتوبر 1903ء تذكرة الشهادتين 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 دسمبر 1903ء سيرة الابدال ستمبر 1904ء لیکچر لاہور 31اکتوبر 1904ء لیکچر سیالکوٹ فروری 1905ء براہین احمدیہ حصہ پنجم فروری 1905ء حقیقة الوحی نومبر 1905ء لیکچر لدھیانہ 20 دسمبر 1905ء رساله الوصیت دسمبر 1905ء احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے 9 نومبر 1906ء چشمه مسیحی مارچ 1906ء تجليات الهيه 20 فروری 1907ء قادیان کے آریہ اور ہم 15 مئی 1908ء 24 مئی 1908 ء پیغام صلح چشمه معرفت الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام إِنَّ اللَّهَ مَعَكَ إِنَّ اللَّهَ يَقُومُ أَيْنَمَا قُمْتَ وو ( تذکره ص 291) خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہے.-2- دنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ -4 جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو ( تذکره ص104) ( تذکره ص 471) صادق آن باشد که ایام بلا می گذارد با محبت با وفا ( تذکره ص307) (ترجمہ) خدا کی نظر میں صادق وہ ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے.-5
112 اے ہمارے چاند ! اے خدائے رحمن کے نشان سب ہادیوں کے ہادی اور سب بہادروں سے بڑے بہادر اني أرى فِي وَجْهَكَ الْمُتَهَلل شأناً يَّفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ بے شک میں آپ کے چمک دار چہرہ میں ایسی شان دیکھتا ہوں جو تمام انسانی شمائل و خصائل پر فوقیت رکھتی ہے.111 1-The days shall come when God shall help you.2- Glory be to this Lord God maker of earth and heaven ( تذکره ص99) قصیدے کے اشعار وأرى القُلوب لدى الخناجر كربة وَأَرَى الْغُرُوبَ تُسِيلُهَا الْعَيْنَانِ اور میں دیکھتا ہوں کہ گھبراہٹ کی وجہ سے (ان کے) دل حلق تک آگئے ہیں! اور میں دیکھتا ہوں کہ (غم کی وجہ سے ان کی ) آنکھیں آنسو بہاتی ہیں يَامَنُ غَدَا فِي نُورِهِ وَضِيَائِهِ كَالنَّيْرَيْنِ وَنَوَّرَ الْمَلَوَانِ اے وہ جو اپنے نور اور اپنی روشنی سے آفتاب اور ماہتاب کی مانند ہو گیا ہے جس نے (اپنے نور سے ) رات اور دن کو روشن کر دیا يا بدرنا يا أية الر.أهدى الهداة وأشجع الشجعان بیت میں ے پہلے اگلی صفیں پُر کی جائیں تا کہ بعد میں آنے والوں کو پھلانگنا نہ پڑے ☆ خطبہ کے دوران مکمل خاموشی اختیار کی جائے.بولنے والوں کو بھی زبان سے چپ کروانا جائز نہیں.نماز جمعہ میں دوسرا خطبہ ختم ہونے سے قبل ہی ب ☆ کھڑے نہیں ہو جانا چاہیے.☆ صفوں میں خلاء نہ رکھا جائے صفیں بالکل سیدھی ہوں اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں.اد امام سے پہلے رکوع اور سجدہ میں نہ جائیں.ہر حرکت امام کے تابع ہو.
114 113 مهدی و مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی نشانیاں بچہ.پیاری امی جب میں اپنے دوستوں سے حضرت مہدی اور مسیح موعود کے بارے میں بات کرتا ہوں تو وہ حیران ہو کر دیکھتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.ماں.آپ ٹھیک کہتے ہیں یہ بے تعلقی کا اظہار زیادہ پرانا نہیں ہے آج سے ایک سو سال پہلے لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح پیشگوئیوں کے مطابق مهدی و مسیح کی آمد کے منتظر تھے.بلکہ دُعائیں کرتے تھے کہ جلد مسیح موعود دنیا میں تشریف لائیں تا کہ دُنیا سے گمراہی اور جہالت دُور ہو کر اسلام کا بول بالا ہو.جماعت احمدیہ کے محترم علماء نے یہ سب باتیں جمع کر کے لکھ دی ہیں.میں آپ کو کتابیں دوں گی آپ کو بہت سی معلومات یکجا مل جائیں گی.افسوس کی بات ہے کہ وہی علماء جو رو رو کر مسیح موعود اور مہدی موعود کی آمد کی دُعائیں کر رہے تھے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ کے دعوی کرنے پر مخالفت پر اُتر آئے.حق کو پہچان نہ سکے تو حق سے نظریں چرانے لگے.آپ کو یہ سُن کر حیرت ہوگی کہ مہدی کا شدت سے انتظار کرنے والوں نے مہدی کا ذکر تک چھوڑ دیا ہے.بچہ.اب میں سمجھا کہ اسی وجہ سے لوگ یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ مہدی علیہ السلام کو آنا تھا یوں لگتا ہے کہ اکثر لوگ خود مطالعہ نہیں کرتے اور اپنی عقل اور بصیرت سے کام نہ لیتے ہوئے اپنے علماء کے پیچھے چلنے لگتے ہیں اسی لئے اب تو یہی سننے میں آتا ہے کہ اصلاح کے لئے کسی کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے.قرآنِ پاک موجود ہے شریعت مکمل ہوگئی اس پر عمل کرو اور سچے مسلمان بن جاؤ.ماں.اللہ پاک اپنے پیدا کئے ہوئے انسانوں کی فطرت کو خوب سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسان بھولنے لگتے ہیں ، اُن میں سستی آجاتی ہے اس لئے اس نے انسانوں کی بھلائی کے لئے یہ طریق رکھا کہ مناسب وقفوں سے اصلاح کے لئے اس کی طرف سے مجددین آتے رہیں.بچہ.وہ بھی تو جانتا ہے کہ قرآن پاک مکمل شریعت نازل ہو چکی پھر بھی مصلحین کو بھیجتا ہے.اس لئے میں یہ تو سمجھ گیا کہ مصلحین کی اسی طرح ضرورت رہتی ہے جیسے کورس کی کتابوں کو سمجھنے کے لئے اُستاد کی ضرورت ہوتی ہے.ماں.بالکل ٹھیک سمجھے ہیں آپ.میں آپ کو ایک حدیث سناتی ہوں تا کہ یہی بات آپ پورے یقین سے کہہ سکیں.أنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُ مَّةِ عَلَىٰ رَأْ سِ كُلّ مِائَةِ سَنَةٍ مَّن يُجَدِّدُلَهَا دِيْنَهَا (ابو داؤد بحوالہ مشکوۃ ص34) اللہ تعالیٰ اس اُمت کے لئے ہر صدی کے سر پر ضرور ایسے آدمی کھڑے کرتا رہے گا جو اس کے دین کی اس کے فائدے اور نفع کے لئے تجدید کرتے رہیں گے.
116 115 بچہ.اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں دین سے غفلت کی بھی پیش گوئی فرمائی تھی اور مصلحین اور مجددین کی آمد کی بھی اس کے ثبوت میں کوئی قرآنی آیت بھی بتائیے؟ ماں.آپ قرآن پاک لائیے اور سورہ جمعہ نکالئے یہ اٹھائیسویں پارے میں ہے.تیسری اور چوتھی آیت پڑھئے.بچہ.أعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمُ يَتْلُوا عَلَيْهَمُ ايَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِينٍ وَّاخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ ط وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمِ ماں.اس کا ترجمہ ہے.وہی خدا ہے جس نے ایک ان پڑھ قوم کی طرف اُسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو (باوجود ان پڑھ ہونے کے) اُن کو خدا کے احکام سناتا ہے، اور اُن کو پاک کرتا ہے ، اور اُن کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا جو ابھی تک اُن سے نہیں ملی اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے.بچہ.یہ آپ نے پہلے بتایا تھا کہ آخرین میں آپ ﷺ کے دوبارہ تشریف لانے کے متعلق صحابہ کرام نے سوال کیا تو آپ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی پشت پر ہاتھ رکھ کر فرمایا.” اگر ایمان دُنیا سے اُٹھ کر ثریا ستارے پر بھی چلا جائے تو پھر بھی ان فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک شخص اُسے ہو.وہاں سے اُتار لائے گا.“ ( بخاری کتاب التفسیر تفسیر سوره جمعه ) کوئی اور آیت بھی بتائیے جس سے مصلحین کے آتے رہنے کا وعدہ ثابت ماں.سورہ نور کی ایک آیت کا ترجمہ ہے.وو اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے وہ اُن کے لئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا.“ (النور: 56) بچہ.پہلے لوگوں سے کون مراد ہیں؟ ماں.حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے بعد خلافت کا سلسلہ چلا اس سلسلے کے آخری نبی حضرت عیسی علیہ السلام تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 1400 سال بعد تشریف لائے.مسلمانوں سے اسی قسم کے سلسلہ خلفاء کا وعدہ ہے.بچہ..آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے کیا ہے تو پورا ضرور ہو گا.اس کا مطلب ہے اُمتِ محمدیہ میں بھی خلفاء کا طویل سلسلہ چلے گا.اور جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چودھویں صدی میں حضرت عیسیٰ
118 117 علیہ السلام تشریف لائے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ چودھویں صدی ثابت ہوتا ہے.ماں.بالکل درست آپ نے اپنی کتاب ”گل“ میں حضرت مسیح موعود کے تشریف لانے کا وقت ، نشانیاں ، آپ کے ملک کا نام اور گاؤں کا نام ، آپ کا نام اور حلیہ ، پیشہ سب کچھ پڑھا تھا اور ہر بات حدیث کے حوالے سے پڑھی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اُن کی اس پیش خبری پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ ایک موعود مسیح کو اور موعود مہدی کو اس زمانے میں تشریف لانا ہے اور یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ ہی کے ارشاد کے مطابق دونوں ایک ہی وجود ہیں.لا المهدى الا عيسى “ عام مسلمان یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح کا دور اسلام کی نئی زندگی کا دور ہوگا اور اسلام کو دوسرے مذاہب پر غلبہ دیا جائے گا.اور یہ کہ مسیح کا زمانہ پانے والے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ہم مرتبہ ہوں گے.یہ عقیدہ بھی ہے کہ زمانے کے سب مصائب کا حل حضرت مسیح کے پاس ہوگا..جیسا کی حدیث مبارکہ ہے.661 كَيْفَ تَهْلِک أُمَّةٌ آنَا فِي أَوَّلِهَا وَالْمَسِيحُ في أخرِهَا (كتاب ابن ماجه باب الاعتصام ى بالسنه ) وہ اُمت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں مسیح ہو گا.“ ان تسلیم شدہ باتوں کے علاوہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کی شناخت کے بارے میں جو نشانات بیان فرمائے ہیں وہ بھی مسلمانوں کے ہر فرقے کی مسلمہ کتب میں ملتے ہیں.بچہ.جو کچھ میں نے بڑوں سے سُنا ہے ان میں بعض بالکل عام سی باتیں ہیں.امانت اُٹھ جائے گی ، جہالت پھیل جائے گی وغیرہ وغیرہ یہ تو بالکل عمومی سی باتیں ہیں کسی بھی معاشرے میں کسی بھی وقت ظاہر ہو سکتی ہیں.ماں.میں نے احادیث صحیحہ کا تفصیل سے مطالعہ کر کے ایسی نشانیاں جمع کی ہیں جن کو یکجا رکھ کر دو اور دو چار کی طرح زمانے کی حالت کا اندازہ ہو جائے گا.ان میں سے کچھ میں بیان کرتی ہوں اور آپ اپنے ذہن میں خاکہ بناتے جائیے.اُس وقت مسیحیت کا بہت زور ہوگا (مسلم جلد 2 کتاب الفتن ) اسلام اس زمانے میں بہت ہی کمزور ہوگا.مسلمان دجال کے پیرو ہو جائیں گے.(ابن ماجہ باب الاسلام غریباً) ( ترمذی ابواب الفتن باب ماء جانی فتنہ الدجال) مسلمان تقدیر کے منکر ہو جائیں گے.(حضرت علیؓ) لوگ زکوۃ کو تاوان سمجھیں گے.( حج الکرامہ ص 298) وہ قوم جو ہر عزیز سے عزیز شے کو خدا اور رسول کے اشارے پر قربان کر دیتی تھی اور دنیا اس کی نظر میں ایک مُردار سے زیادہ حقیقت نہ رکھتی تھی وہ دُنیا کی خاطر دین کو فروخت کرے گی.نماز ترک ہو جائے گی.(نج الکرامہ ص 927) نماز بہت جلد جلد پڑھی جائے گی.پچاس آدمی نماز پڑھیں گے ان میں سے کسی ایک کی نماز بھی قبول نہ ہو گی.(ابن مسعودؓ سے ابو الشیخ نے اشاعۃ میں بیان کیا ہے)
120 119 ☆ قرآن اُٹھ جائے گا.صرف اس کا نقش باقی رہ جائے گا.قرآن کریم سے بے توجہی ہو گی دوسری طرف اس کے ظاہری سنگھار اور آرائش اور زری کے غلافوں کی طرف توجہ ہو گی.(ابن عباس سے ابن مردویه ) ☆ مسلمان مساجد کو آراستہ کریں گے وہ بت خانوں سے مشابہ ہو جائیں گی.نج الکرامه بروایت ابن مردویہ عن ابن عباس) عرب کے لوگ دین سے دُور جا پڑیں گے.لوگوں کے دل عجمیوں کی طرح ہوں گے اور زبان عربوں کی طرح.( حج الكرامه في اثار القيامة ) عرب میں نیک لوگ پوشیدہ ہو کر پھریں گے (حضرت علیؓ سے دیلمی ☆ نے روایت کی ہے) مخش کثرت سے پھیل جائے گا بلکہ تحش پھیل جائے گا اور لوگ اس پر ناز حج الكرامه ) کریں گے.ولد الزنا کثرت سے ہو جائیں گے.(حج الکرامہ) شراب کا استعمال بہت بڑھ جائے گا.(مسلم) اُس وقت راستوں میں شراب پی جائے گی.( مسلم اشراط ساعة ) حمہم جوئے کی کثرت ہوگی.(حضرت علیؓ سے دیلمی میں مروی ہے) نفس زکیہ مارا جائے گا.( نعیم بن حماد عن عمار بن یاسر حجج الکرامہ ) حمد لوگ ماں باپ سے حسنِ سلوک نہیں کریں گے لیکن دوستوں سے کریں گے.(ابو نعیم حلیہ میں حذیفہ بن الیمان) علم اُٹھ جائے گا اور جہل ظاہر ہو جائے گا.لوگ آپس میں ملتے ہوئے ایک دوسرے پر لعنت کریں گے.امام احمد بن حنبل معاذ بن انس سے روایت کرتے ہیں) ☆ ہے) ☆ صاحب مال کی تعظیم ہو گی (ابن مردویہ نے ابنِ عباس سے روایت کی کہا جائے گا کہ فلاں شخص کیا ہی بہادر ہے کیا ہی خوش طبع ہے اور نیک اخلاق ہے اور کیا ہی عقلمند ہے حالانکہ اس شخص کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان نہ ہوگا حذیفہ ابن الیمان سے روایت ترمذی) مومن لونڈی سے بھی زیادہ ذلیل سمجھا جائے گا.☆ (ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ) صفیں لمبی ہوں گی لیکن زبانیں مختلف ہوں گی ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت ) عورتیں باوجو دلباس کے ننگی ہوں گی.( عن ابن عمر مسند احمد بن حنبل) عورتیں سر کے بال اُونٹ کے کوہان کی طرح رکھیں گی.( عن ابن عمر مسند احمد بن حنبل) عورت اپنے خاوند کے ساتھ مل کر تجارت کرے گی.( حجج الکرامہ بحوالہ ابن مردویہ ) عورتیں آزاد ہوں گی وہ مردوں کا لباس پہنیں گی اور گھوڑوں پر سوار ہوں گی بلکہ مردوں پر حکمران ہو گی.(عن ابن عباس ابن مردویہ ) مرد عورتوں کی طرح زینت کریں گے اور ان کی شکلیں اختیار کریں ( حذیفہ بن الیمان علیہ ابونعیم ) اس وقت طاعون پڑے گی اور دجال ظاہر ہو گا.اللہ تعالی طاعون اور دجال دونوں سے مدینے کو بچائے گا.گے.☆ ایک بیماری ہوگی جو ناک سے تعلق رکھے گی.عورتیں مردوں سے زیادہ ہو جائیں گی حتی کہ پچاس عورت کا ایک مرد
122 121 نگران ہوگا.☆ ☆ ☆ ☆ سواری کی اُونٹنیاں ترک کر دی جائیں گی ( صحیح مسلم کتاب الایمان ) دجال کا گدھا پانی پر بھی چلے گا ( ریل اور بحری جہاز ) سونا زیادہ ہو جائے گا اور چاندی لوگوں کو مطلوب ہو جائے گی.( حذیفہ ابن الیمان حلیہ ابونعیم ) سُود بڑھ جائے گا.عراق اپنے درہم اور غلے روک دے گا اور شام اپنے دینار اور غلے کو روک دے گا اور مصر اپنے غلے کو روک دے گا اور تم پھر ویسے کے ویسے ہو جاؤ گے جیسے کہ پہلے تھے (عربوں کے ہاتھوں سے شام ،عراق اور مصر نکل جائیں گے اور عرب میں پھر طوائف الملو کی ہوگی ) (مسلم) یا جوج ماجوج کو ایسی طاقت ہوگی کہ دوسری اقوام کو ان کے مقابلے میں بالکل مقدرت نہ ہوگی یا جوج ماجوج سے آگ سے کام لینے والی قوتیں روس اور امریکہ مراد ہیں) (مسلم ،ترمذی) ساعت) ☆ اس وقت غریب بر ہنہ لوگ بادشاہ ہوں گے (جمہوریت) ( حلیہ اشراط محمد اس وقت شرط زیادہ ہو جائیں گے.( پولیس فورس اور حکومتی عملے ) کثرت سے زلزلے آئیں گے.( حذیفہ ابن الیمان علیہ ابونعیم ) سورج اور چاند گرہن لگے گا.(دار قطنی (188) ان مختصر عنوانات کو پھیلا کر بات کرنے کیلئے اور سمجھا کر ثابت کرنے کے لئے بہت وقت چاہیے.کچھ کچھ تو آپ ساتھ ساتھ سمجھ رہے ہوں گے اب دُنیا کی متعلقہ علوم کی کتب پڑھ کر ان سب نشانوں کو یک جا کریں تو بغیر ذرا سے بھی شک کے فوراً چمکتے دن کی طرح فیصلہ ہو جاتا ہے کہ یہ سب نشانیاں اسی زمانے میں پوری ہوئی ہیں.اور جب یہ واضح ہو جائے تو اس زمانے میں جس نے مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے اُسے سچا ماننا ضروری ہے.کیونکہ مہدی کو ماننا دراصل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا ہے.بچہ.مجھے معلوم ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت جو گزشتہ انبیاء نے نشانیاں بتائی تھیں انہیں پورا ہوتے دیکھ کر اُس وقت کے بعض علماء نے شہادتیں دی تھیں.ماں.جی ہاں.آپ کو خوب یاد ہے.آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جب آپ نے اللہ پاک سے خبر پا کر دعویٰ کیا تھا تو اپنا بطور نبی تعارف کروانے میں کیا دلیل پیش کی تھی اور ابتداء میں آپ پر ایمان لانے والوں نے کس بات سے متاثر ہو کر آپ ﷺ کی تصدیق کی.صلى الله بچہ.سب سے پہلے تو آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے غار حرا کا سارا واقعہ بیان کر کے خوف کیا تو حضرت خدیجہ نے فوراً فرمایا.” خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا.آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں اور بے کس کا بوجھ P اُٹھاتے ہیں اور آپ میں وہ اخلاق فاضلہ پائے جاتے ہیں جو اس زمانے میں بالکل ختم ہو گئے ہیں.آپ مہمان نواز ہیں اور لوگوں کی جائز ضرورت میں اُن کی مدد کرتے ہیں.“ ( بخاری جلد 1 باب علامات النبوت في الاسلام) حضرت ابوبکر حضرت علی ، حضرت زید بن حارث سب آنحضور ﷺ کی ذاتی خوبیوں سے متاثر ہو کر ایمان لائے.ماں.قرآنِ پاک نے بھی نبی کی گزشتہ عمر کی سچائیوں کو بطور ثبوت پیش کیا ہے.
124 123 وو...اس سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں.کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے.“ (سوره یونس : 17) اب اس زمانے میں مہدی ہونے کا دعوی کرنے والے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں کہ اُن کے اخلاق فاضلہ سے اس وقت قادیان میں رہنے والے مسلمان، ہندو سکھ سب برابر متاثر تھے.خاندانی اور علاقائی جھگڑے اپنی جگہ تھے مگر آپ کی ذاتی خوبیوں کا اعتراف کھل کر کرتے تھے.اور اسلام کے لئے پُر جوش حمایت ، تقریریں تحریریں دیکھ کر عام طور پر آپ کو اسلام کا مجاہد ، جرنیل سمجھا جاتا تھا.شدید مخالفتوں کے باوجود کوئی ایک لفظ اعتراض کا آپ کی حیات مبارکہ کے متعلق نہیں کہہ سکا.آپ نے بار بار چیلنج دیے مگر سچائی سورج کی طرح روشن ہو کر سامنے آتی ہے.بچہ.قرآن کریم کے حوالے سے بات کرنا بہت جلد اور گہرا اثر کرتا ہے.قرآن کریم ہی سے بتائیے کہ حضرت مسیح موعود کو اس زمانہ میں خاص طور پر کیا کام کرنا تھا پھر ہم دیکھیں گے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے ذریعے وہ کام کس طرح ہوا.ماں.قرآن کریم میں آیت ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِين الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (سوره تو به 33: وسوره فتح : 26) خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تا اللہ تعالیٰ اس دین کو باقی تمام ادیان پر غالب کر کے دکھائے.(تفسیر جامع البیان جلد (29) وَذَالِكَ عِندَ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ دین اسلام کا غلبہ عیسی بن مریم کے زمانے میں ہوگا.اس زمانے کی علامتوں میں ہم دجال کا خروج اور یاجوج ماجوج کی طاقتوں کے متعلق پڑھ آئے ہیں.پھر ہمیں یہ بھی علم ہے کہ حضرت مسیح موعود کا کام صلیب توڑ نا قرار فرمایا گیا ہے اور یہ مقابلہ دلائل سے ہونا تھا.آپ سوچئے کہ اگر کوئی مہدی ہونے کا دعویٰ کرے اور جہاں کہیں صلیب نظر آئے لکڑی کی ، سونے کی ، پتھر کی اُسے توڑتا پھرے تو اس میں کیا معقولیت ہے.یا اس سے دین کو کیا فائدہ پہنچتا ہے.یہ سب دلائل کی جنگ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیت چکے ہیں.بچہ.دجال کی حقیقت بھی بتائیے یوں لگتا ہے جیسے لوگ مسیح سے زیادہ دجال میں دلچسپی لیتے ہیں.ماں.میں بھی چاہتی ہوں کہ دجال کے متعلق ہر پہلو سے بات ہو جائے.سب سے پہلے لفظ دجال کا مطلب بتا دوں لغت کی مشہور کتاب تاج العروس میں اس کے جو مطلب لکھے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے.ایک کثیر تعداد والی جماعت جس کا پیشہ تجارت ہو اور تجارتی سامان پوری دنیا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائے.اس طرح بہت سا مال کمائے خزانے جمع کرے.وہ جماعت تمام دنیا میں سیر و سیاحت کرنے والی ہو اور کوئی جگہ اس سے خالی نہ ہو.اس کا مذہب جھوٹے عقیدے پر قائم ہوئے 66 یہ لغوی معنی ہوئے اب آئیے اس طرف کہ احادیث میں دجال کے متعلق کیا کہا گیا ہے.آپ چونکہ سمجھدار ہیں اس لئے ساتھ ساتھ سمجھتے جائیں گے کہ
126 125 احادیث مبارکہ کا اشارہ کس طرف ہے جبکہ آپ کو تمثیلی زبان سمجھنا آ گیا ہے کہ خوابوں کی تعبیریں ہوتی ہیں یہ بھی معلوم ہے یہ نظارے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خواب میں دکھائے گئے.آپ فرماتے ہیں بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ اطوف با الکعبہ یعنی میں نے سوتے ہوئے خواب میں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا.( بخاری جلد دوم طبع مصری 171) بچہ.میں سمجھ گیا اب آپ احادیث سے اصل الفاظ کا ترجمہ اردو میں بتا دیجئے.ماں.مشکوۃ کتاب الفتن میں بیان ہے.کوئی نبی نہیں گزرا جس نے اپنی اُمت کو ایک آنکھ والے کذاب سے نہ ڈرایا ہو خبر دار ہو کر سُن لو کہ وہ یک چشم ہے.مگر تمہارا رب یک چشم نہیں.اس یک چشم دجال کی آنکھوں کے درمیان ک ،ف،رلکھا ہو گا...وہ اپنے ساتھ جنت اور دوزخ کی امثال لائے گا مگر جس چیز کو وہ جنت کہے گا وہ دراصل نار ہوگی...دجال خروج کرے گا اور اس کے ساتھ پانی اور آگ ہو گی مگر وہ چیز جو لوگوں کو پانی نظر آئے گی وہ دراصل جلانے والی آگ ہوگی اور وہ جسے لوگ آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہوگا اور دجال کی ایک آنکھ بیٹھی ہوئی ہوگی اور اس پر ایک بڑا اُبھار سا ہوگا اور اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہو گا جسے ہر مومن پڑھ سکے گا.خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو اور ایک روایت میں ہے کہ دنبال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا پس جب تم میں سے کوئی اُسے پائے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے کیونکہ سورۃ کہف کی ابتدائی آیات اس کے فتنے سے تم کو بچانے والی ہوں گی...دقبال آسمان یعنی بادل کو حکم دے گا کہ پانی برسا تو وہ برسائے گا.اور زمین کو حکم دے گا کہ ” اُگا تو وہ اُگائے گی اور ویرانے سے گزرے گا اور اُسے حکم دے گا کہ اپنے خزانے باہر نکال تو اس کے خزانے باہر نکل کر اُس کے ساتھ ہو لیں گے...دجال لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو اگر میں اس شخص کو قتل کر دوں اور پھر زندہ کر دوں تو کیا تم میرے امر میں شک کرو گے؟ لوگ کہیں گے نہیں.پھر وہ اُسے مارے گا اور پھر دوبارہ زندہ کرے گا...اس کے ساتھ ایک پہاڑ روٹیوں کا ہو گا اور ایک نہر پانی کی ہو گی..دقبال ایک چمکدار گدھے پر ظاہر ہوگا اور وہ گدھا ایسا ہو گا کہ اس کے دو کانوں کے درمیان ستر ہاتھ کا فاصلہ ہوگا.وغیرہ وغیرہ.بچہ.ایک بات میں سمجھ گیا چونکہ یہ خواب ہے اس لئے یہاں دجال کا ذکر ہے مگر مراد دقبال صفت جماعت ہے کیونکہ اس کے جو کام بتائے گئے ہیں وہ ایک شخص کے نہیں جماعت کے ہیں.ایک بات اور بتا دیں تو باقی خود بخود واضح ہو جائے گا.سورہ کہف کے پہلے رکوع میں کیا مضمون بیان ہوا ہے.ماں.آپ خود ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھئے.موضوع یہ ہے ” یہ کتاب اُن لوگوں کو ڈرانے اور ہوشیار کرنے کے لئے اُتری ہے جو خدا کا ایک بیٹا مانتے ہیں یہ بہت بڑے فتنے کی بات ہے اور سراسر جھوٹ ہے.(الکہف رکوع 1) بچہ.دجال سے مراد مسیحی اقوام ہیں.سائنسی علوم میں مہارت سے زمین سے زیادہ پیداوار لینا.معدنیات نکالنا اور تجارتی مقاصد سے سفر کرنا سب آسانی سے
128 127 سمجھ میں آ گیا.دجال کے گدھے سے مراد آپ بتا چکی ہیں کہ نئی ایجاد ہو نے والی سواریاں ہیں یہ تو بڑا واضح نشان ہے.اب تھوڑا سا یا جوج ماجوج کی حقیقت بھی بتا دیجئے.ماں.قرآن پاک میں ارشاد ہے.حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَا جُوُجُ وَمَاجُوجُ وَهُمُ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (انبیاء:97) یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے دُنیا میں پھیل جائیں گے.دوسری آیت ہے.وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمُ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمُ جَمَعاً (الكهف : 100) اور (جب اُس کے پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ) اُس وقت ہم انہیں ایک دوسرے کے خلاف جوش سے حملہ آور ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور بگل بجایا جائے گا تب ہم اُن (سب) کو اکٹھا کر دیں گے.جیسا کہ آپ کو علم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان کے طور پر موجود پیش گوئیاں گہرے معانی اور حکمتیں اور تعبیر میں رکھتی ہیں.یاجوج ماجوج سے مراد آگ سے کام لینے والی قومیں ہیں.جو ظاہر ہے روس اور امریکہ ہیں پہلے یہ اتنی ترقی یافتہ نہ تھیں.اس عہد میں ان کی ترقی اور دُنیا پر چھا جانے کا انداز ایک دعویٰ کرنے والے کی صداقت کا اعلان ہے.بچہ.یہ باتیں اتنی گھلی گھلی اور صاف ہیں مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ مسلمان علماء ان باتوں کو کیوں نہیں سمجھتے.ماں.اس لئے کہ ان کا نہ سمجھنا اور سمجھ کر آنکھیں بند کر لینا بھی آنحضرت ے کی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان صلى الله آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:- ” میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہو جائے گی جو سب آگ کے رستہ پر ہوں گے سوائے ایک کے.ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا لیکن اگر وہ ثریا پر بھی چلا گیا تو پھر بھی ایک فارسی الاصل شخص اُسے واپس اُتار لائے گا.“ بچہ.میں نے پڑھا ہے کہ حضرت مسیح موعود فارسی الاصل تھے اور یہ بھی اُن کی سچائی کی ایک دلیل ہے.لیکن ہر فرقہ یہ کہے گا کہ ہم بچے ہیں.ماں.اس کا جواب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دیا ہے.آپ فرماتے ہیں اس جماعت کی پہچان یہ ہو گی کہ ” وہ میرے اور میرے اصحاب کے طریق پر ہوگی.آپ اور آپ کے اصحاب کو دکھ دیے گئے.اپنے مذہب کا نام خود رکھنے کا اختیار نہیں دیا گیا.مذہب چھوڑنے کے لئے لالچ دی گئی خوفزدہ کیا گیا.گھر جلائے گئے.ترقی کے راستے روکے گئے مگر وہ ثابت قدم رہے اور تقوی میں ترقی کرتے رہے.آپ نظریں دوڑائیں خود سوچیں اور ایسے حقائق جمع کریں کہ کون سا فرقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم اور ان اصحاب کے طریق پر ہے.بچہ.میں نے مجالس عرفان میں بہت دفعہ اس پر گفتگوسنی ہے اور بہت اچھی طرح ثابت کر سکتا ہوں.ماں.شاباش بچے.مجھے خوشی ہے احمدی بچے بہت سمجھدار ہوتے ہیں.یہ
130 129 سب نشانیاں جو آپ کو بتا رہی ہوں ان میں سے کسی میں بھی انسان کا بس نہیں ہے صدیوں کی تبدیلیوں کے بعد یہ حالات یکجا ہوئے ہیں.کوئی لاکھ کوشش کر دیکھے مصنوعی طور پر یہ حالات پیدا نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے ہیں.مسیح موعود کا آنا کوئی معمولی بات نہیں.خدا تعالیٰ نے آسمان کو بھی گواہ ٹھہرایا ہم پھر قرآن پاک سے بات شروع کرتے ہیں.وَ خَسَفَ الْقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القيامة : 9: 10) چاند کو گرہن لگے گا اور اُس گرہن میں سورج بھی چاند کے ساتھ شامل ہوگا یعنی اُسے بھی اسی مہینہ میں گرہن لگے گا.حدیث مبارکہ ہے.إِنَّ لِمَهْدِيَنَا ايَتَيْن لَمْ تَكُونَا مُنذُ خَلْق السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَنكَسِفَ الْقَمَرُ لِاَوَّل لَيْلَهُ مِن رَمَضَانَ وَتَنْكَسَفُ الشَّمْسُ فِي النصف (دار قطنی ص188) ہونا.منه یعنی ”ہمارے مہدی کے لئے دو نشان مقرر ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان پیدا ہوئے ہیں یہ نشان کسی اور مامور کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے مہدی معہود کے زمانے میں رمضان کے مہینے میں چاند کو اس کی پہلی رات میں گرہن لگے گا اور سورج کو اس کے درمیانی دن میں گرہن لگے گا.“ اب دیکھئے اس حدیث میں چار باتیں جمع ہیں.نمبر 1 چاند گرہن مقرہ راتوں میں سے پہلی رات میں ہونا.نمبر -2 سورج کا گرہن اس کے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دنوں میں نمبر 3 رمضان المبارک کا مہینہ ہونا.نمبر 4.ایسے دعویٰ کرنے والے کا موجود ہونا جس کو جھوٹا کہا جا رہا ہو اور آسمان سے اس کی صداقت کے لئے یہ نشان ظاہر ہو.ایسا نشان جب سے زمین و آسمان وجود میں آئے ہیں کسی اور کے لئے ظاہر نہیں کیا گیا.بچہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوئی کے بعد 23 مارچ 1889ء کو پہلی بیعت لی تھی اور آپ کی مخالفت بھی ہوئی تھی.یہ گرہن کن تاریخوں میں ہوئے تھے.ماں.سخت مخالفت میں یہ اعتراض بھی کئے گئے کہ چاند سورج گرہن تو ہوا نہیں یہ کیسے مہدی ہیں؟ پھر آپ نے اللہ پاک کے حضور رو رو کر دعائیں کیں آپ کی تائید میں زمین و آسمان کی تاریخ میں پہلی دفعہ 21 مارچ 1894ء مطابق 13 رمضان 1311 ہجری چاند کو اور 6 اپریل 1894ء مطابق 28 رمضان 1311 ہجری سورج کو گرہن لگا اور اگلے سال دوسرے گڑے میں رمضان کی انہی تاریخوں کو چاند گرہن لگا یعنی مارچ 1895ء مطابق 13 رمضان 1312 ہجری اور سورج کو 26 مارچ 1895 ء مطابق 28 رمضان 1312 ہجری کو گرہن لگا.اس طرح ایک اور پیش گوئی پوری ہوئی.إنَّ الشَّمْسَ تَنكَسِفُ مَرَّتَيْن فِي رَمَضَان یقیناً سورج کو رمضان میں دو دفعہ گرہن لگے گا.( مختصر تذکرہ قرطبی ص 148 للقطب الروحانی شیخ عبد الوہاب شعرانی) بچہ.سُبحان اللہ کتنی وضاحت سے پیش گوئی پوری ہوئی.میں نے پڑھا تھا کہ حدیث میں آنے والے مسیح کی شکل و شباہت کے متعلق بھی پیش گوئی ہے.ماں.آپ نے ٹھیک پڑھا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کر رہا
132 131 ہوں کہ ناگاہ ایک آدمی میرے سامنے آیا اس کا رنگ گندم گوں تھا اور بال سیدھے اور لمبے تھے اور اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپکتے تھے.میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے تو مجھے بتایا گیا کہ یہ ابنِ مریم ہے.“ ( صحیح بخاری جلد دوم کتاب بدء الخلق ) ایک دوسری حدیث ہے.مسیح دمشق سے مشرق کی طرف سفید منارے کے پاس نازل ہوگا اس حال میں کہ وہ زرد چادروں میں لپٹا ہوا ہو گا.( صحیح مسلم جلد ثانی) بچہ.گندمی رنگ عام طور پر ایشیائی خاص طور پر برصغیر کے علاقوں کے انسانوں کا ہوتا ہے.ماں.بالکل ٹھیک بالوں کے نرم اور سیدھا ہونے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ذکر مسیح ناصری کا نہیں مسیح قادیانی کا ہو رہا ہے.اُن کے بال گھنگھریالے تھے.دمشق کے مشرق کی طرف قادیان واقع ہے اور دو زرد چادروں سے مراد دو بیماریاں ہیں.سر سے موتی اور پانی جھڑنے سے مراد دُعا اور عبادات میں مصروفیت ہے.بچہ کس زبر دست طریق پر پیشگوئی پوری ہوئی.اَلْحَمْدُ لِله ماں.ایک اور قرآنی پیش گوئی سنیے قرآن پاک میں ارشاد ہے.وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمُ دَابَّةٌ مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمُ لا أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوقِنُونَ (النمل:83) اور جب اُن کی تباہی کی پیش گوئی کی تباہی پوری ہو جائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک کیڑا نکالیں گے وہ ان کو کاٹے گا اس وجہ سے کہ لوگ ہمارے نشانات پر یقین نہیں رکھتے.دَابَّةُ الأرْض کا مطلب زمینی کیڑا ہے.اور یہی معنی یقینی ہیں.کیونکہ قرآنِ پاک میں یہ لفظ سورہ سبا میں انہی معنوں میں آتا ہے کہ ایک زمینی کیڑا حضرت سلیمان علیہ السلام کے عصا کو کھاتا ہے.“ بخاری و مسلم کی احادیث میں بھی دَابَّةُ الْأَرْضِ کا ذکر ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں ایک کیڑا نکلے گا جو ملک میں چکر لگائے گا اور مومنوں اور کافروں میں امتیاز کرتا جائے گا.اب دیکھئے حضرت مسیح موعود کے زمانے میں 1900ء سے طاعون کے آثار شروع ہوئے پھر یہ شہر شہر گاؤں گاؤں گھومی اور ایک ایک دن میں کئی کئی سو افراد اس میں گرفتار ہو کر مر گئے جبکہ احمدی اور مرکز احمدیت قادیان اس سے نسبتاً محفوظ رہے نتیجتا احمدیت کو زبردست ترقی حاصل ہوئی اور دیکھتے دیکھتے احمدیوں کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی.مخالفین کے گھر دو طرح کا ماتم پڑا ایک تو طاعون سے خاندان کے خاندان مر گئے.دوسرے احمدیت کی ترقی آنکھوں سے دیکھی.بچہ.مجھے ان باتوں سے اتنی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے کہ اب انشاء اللہ میں ان کے متعلق زیادہ معلومات حاصل کر کے پوری دُنیا کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ جس کو تشریف لانا تھا وہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے تشریف لا چکے.اور اُن کا ماننا در اصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے.ماں.اب تو احمدیت کی عمر سو سال سے زیادہ ہو چکی ہے.آپ سو سالوں میں احمدیت کی ترقی کے اعداد و شمار بھی جمع کریں مثلاً کتنی بیوت الحمد بنوا ئیں.کتنے
134 133 تراجم قرآن کریم کے شائع کئے ، کتنے ملکوں میں مراکز قائم ہو چکے ہیں اور ہر رُخ سے ترقی کا گراف کیا ہے.چڑھتے سورج کو دکھانے کے لئے روشنی ہونے کے دلائل دینے کی ضرورت نہیں رہتی.اب میں آپ کو احمدیت کی یقینی ترقی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس سنا کر آج کی نشست کی گفتگو مکمل کرتی ہوں.”اے تمام لوگوں سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور محبت اور بُرہان کے رُو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا...یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی ابھی آسمان سے نہ اُترا.تب سب دانش مند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سب نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دُنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ 66 ( تذكرة الشہادتین ، روحانی خزائن جلد 20 ص 67,66) آخر میں دُعا ہے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْراً وَّ ثَبِّتُ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ.آمین یا رب العالمین (البقرہ:251) حقیقی پرده بچی.امی جان آپ کے کہنے کے مطابق ہم نے آج سورہ نور کا چوتھا رکوع تلاوت کیا تھا اور ترجمہ بھی پڑھا تھا ہم سمجھ گئے ہیں کہ آج آپ ہم سے پردہ کے موضوع پر بات کریں گی.ہم نے بھی بہت سے سوالات سوچ لئے ہیں.ماں.شاباش ! میں یہی چاہتی تھی کہ پہلے میری پیاری بیٹی اور میرا پیارا بیٹا دونوں اس بات کو اچھی طرح سوچ لیں پھر ہم ہر پہلو سے گفتگو کریں.بچی.پردہ تو لڑکیوں کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے.ماں.اللہ پاک کے سب احکام کے متعلق معلومات تو کیا عورت کیا مرد سب
136 135 کے لئے ضروری ہیں اب ہم گفتگو کریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ پردہ صرف لڑکیوں کا مسئلہ نہیں.بچی.پہلے یہ بتائیے کہ پردہ کسے کہتے ہیں؟ ماں.میں آپ کو پردے کا مطلب سمجھاتی ہوں پردہ کہتے ہیں شرم حیا ، حجاب،اوٹ اور چھپانا.انسان اللہ تعالیٰ کی سمجھ رکھنے والی مخلوق ہے.ہر دور کا انسان صدیوں کے تہذیبی ورثے کی ایک کڑی ہوتا ہے.تہذیب کی سمجھ بوجھ سب کاموں کو ایک خاص رنگ اور سلیقہ دیتی ہے.چھوٹے بچے دودھ پینے کی عمر میں ہوتے ہیں وہ نا سمجھ ہوتے ہیں مگر ماں لباس تبدیل کرتے وقت یہ خیال رکھتی ہے کہ بچے کو سب کے سامنے نہیں کھولنا.آہستہ آہستہ یہ شعور بچے میں منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ بغیر سمجھائے یہ جان لیتا ہے کہ جسم کے کچھ حصے سب کے سامنے آنا مناسب نہیں یہ پردہ کا پہلا شعور ہے.کچھ عمر تک بچے امی ، آیا ، باجی سے نہا لیتے ہیں مگر پھر خود اپنی صفائی کے کام کرنے لگتے ہیں اور شرم وحیا سے الگ کمرے میں لباس تبدیل کرتے ہیں.غلطی سے بھی کسی کی نظر پڑنے سے اتنی شرم محسوس کرتے ہیں گویا مر جائیں گے.اس طرح پر دے کا شعور آگے بڑھتا آپ ٹھیک کہتی ہیں یہ احساس فطری طور پر پیدا ہو جاتا ہے مگر میں نے یہ کبھی سوچا نہیں تھا کہ یہ بھی پردے کا حصہ ہے.بچی.میں نے اپنی کتاب ”گل میں پڑھا تھا لڑکے لڑکیاں جب بڑے ہو جاتے ہیں تو مل کر نہیں کھیلتے.لڑکیاں بزرگوں کے سامنے سر پر دوپٹہ لے کر جاتی ہیں.لڑکے ٹوپی لیتے ہیں.یہ بھی پردہ ہے.ماں.آپ بالکل ٹھیک سمجھی ہیں.اسی طرح آرام کے وقتوں میں ماں باپ کے کمروں میں اجازت لے کر جاتے ہیں اور یہ بھی پردہ ہے.بچہ.گھر کے افراد سے بھی پردہ ہوتا ہے؟ ماں.اب تک گھر کے افراد میں ہی پردہ کی بات ہو رہی تھی پھر قریبی رشتے دار ہوتے ہیں مثلاً آپ نے دیکھا ہو گا کہ آپ کے دادا جان ، ناناجان ، تایا جان، ماموں جان، چچا جان ، خالو جان، پھوپھا جان کے سامنے میں اچھی طرح دوپٹہ اوڑھ کر جاتی ہوں یہ بھی پردہ ہے.اسی طرح جب میرے پاس قریبی رشتہ دار عورتیں بیٹھی ہوتی ہیں تو آپ کے ابا جان سیدھے ہماری طرف بلا روک ٹوک نہیں آتے بلکہ کچھ ٹھہر کر اپنے آنے کا احساس دلا کر آگے آتے ہیں تا کہ بے تکلف بیٹھی ہوئی خواتین سنبھل کر بیٹھ جائیں سر پر دوپٹہ لے لیں یہ بھی پردہ ہے.بچہ.قرآن پاک میں موجود پردے کی آیات کی وضاحت کیجئے.ماں.اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں قومی ترقی کے رہنما اصول بیان فرمائے ہیں مثلاً فرمایا ہے کہ بُری بات کرنا اور اُسے مشہور کرنا دونوں سے بچنا چاہیے.میاں بیوی میں بدظنی ہو جائے تو صلح صفائی کروانی چاہیے.گواہی سچی دینی چاہیے.قومی اور انفرادی اخلاق کو بچانے کے لئے حکمت کے ساتھ کبھی عفو اور کبھی سزا سے کام لیا جائے.گھروں میں اجازت لے کر جانا چاہیے.اگر مرد اور عورت کا آمنا سامنا ہو جائے تو اُن کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھا کریں اور اُن تمام اسباب اور راستوں کی حفاظت کریں جن سے بدی دل میں داخل ہوتی ہے اور اپنے جسم کی خوبصورتی غیر محرم پر ظاہر نہ کریں.سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو جائے.ایک اور جگہ یہ ہدایات دیں کہ مومن مرد اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور مومن عورتیں بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس زینت کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہو جاتی ہو اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینے پر سے گزار کر اور اس کو ڈھانک کی پہنا کریں اور
138 137 اپنے قریبی رشتہ داروں کے سوا کسی پر اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں.( ملخص سوره نور آیت 32,31) ”اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی بیویوں سے کہہ دے کہ (جب وہ باہر ھیں اپنی بڑی چادروں کو سروں پر سے گھسیٹ کر اپنے سینوں تک لے آیا کریں.‘“ (احزاب:60) بچی.اگر میں کہوں کہ پردے کے احکام کی بات مردوں کو مخاطب کر کے شروع ہوئی ہے تو کیا یہ ٹھیک ہے.ماں.جی ہاں ٹھیک ہے اللہ پاک نے حکم فرمایا کہ مومن اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اُن تمام راستوں کی حفاظت کریں جن سے بدی کے داخلے کا امکان ہے.اس طرح عورتوں سے پردہ کروانے کی ذمہ داری پہلے مردوں پر ڈالی ہے.آپ کے ذہن میں کوئی سوال اور ہو تو پوچھ لیں.بچہ.مردوں کی آنکھیں نیچی رکھنے کا حکم سن کر میں سوچ رہا ہوں کہ اس میں یہ اجازت موجود ہے کہ ضرورت کے وقت عورتیں باہر نکل سکتی ہیں.ماں.جی ہاں عورتوں کو گھروں میں قید نہیں رکھا گیا بلکہ وہ ضروری کاموں کے لئے باہر نکل سکتی ہیں مثلاً سیر کرنے جا سکتی ہیں تعلیم حاصل کر نے جا سکتی ہیں.بازار جا سکتی ہی.اگر ضرورت ہو تو ملازمت کر سکتی ہیں.کھیتوں میں کا م کر سکتی ہیں.سفر کر سکتی ہیں.یہاں تک آزادی ہے اور آپ ہی آپ ظاہر ہو اس پر بھی مختلف حالات میں مختلف بندشیں ہیں.قد ، جسم اور چال تو چھپ نہیں سکتی.اس حکم کی روشنی میں مجبوری کی حالت میں ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے جسم کا کوئی حصہ کھولنا بھی جائز ہے.کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کے ہاتھ پاؤں پنڈلیوں کا کچھ حصہ کھل سکتا ہے اسی طرح دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں تقویٰ کے ساتھ اپنے پردے کی حدود خود متعین کر سکتی ہیں.بچی.اس زمانے میں اگر میں قرآنِ پاک کے معیار کا پردہ کرنا چاہوں تو کس طرح کرسکتی ہوں.ماں.اللہ پاک آپ کو اس نیک جذبے کی جزا دے آئیے ہم قرآن پاک کے معیار کا پردہ عملاً کر کے دیکھتے ہیں.ایک ایک لفظ کو دیکھئے.وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ اور چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں کو بھینچ کر اپنے گریبانوں تک لے آئیں.خمار اُس چادر کو کہتے ہیں جس سے سر اور چہرہ ڈھانکا جائے.( صحیح مسلم باب الطلاق) خمار کا مطلب رومال یا سکارف ہے بڑی چادر نہیں اور جیب کہتے ہیں میض کے چاک کو ، مطلب یہ ہوا اپنے سکارف کوسر کے سامنے سے کھینچ کر سینے تک لے آئیں.آپ سکارف باندھیں اور سامنے سے اُسے کھینچ کر سینے تک لے آئیں دیکھئے پورا چہرہ ڈھک گیا.سامنے والوں کو آپ کا چہرہ بالکل نظر نہیں آ رہا جبکہ آپ کو اپنا رستہ ، اپنی کتاب اپنا کام سب کچھ نظر آسکتا ہے.بچی.آج کی دنیا میں مناسب پردہ کس شکل میں ہو سکتا ہے؟ ماں.اصل پردہ لباس کے اُوپر ایک ڈھیلا ڈھالا لبادہ اوڑھ لینا اور سر پر اس طرح سکارف پہننا جس کو آگے کھینچا گیا ہو اور منہ ڈھک جائے اس میں وہ برقع جو پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں رائج ہے لازمی نہیں.آپ جو بھی پہنیں پردے کی رُوح کے مطابق ہونا چاہیے.کوٹ ایسا تنگ نہ ہو کہ جسم کا ہر حصہ الگ الگ نظر آئے.آج کی دُنیا سے آپ کا مطلب سمجھتی ہوں.دُنیا کے ہر حصے کے لئے جہاں مسلمان عورت ہے.اصول ایک ہے پھر الَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَای گنجائش ہے اور یہ گنجائش تقویٰ کے ساتھ استعمال کرنی ہے.جس کی رُوح پر دے کی حفاظت ہو نہ کہ بے پردگی کا بہانہ.
140 139 بچہ.پردے کا مقصد کیا ہے؟ ماں.معاشرے کو پاک کرنا.بُرائیاں پیدا ہونے کے امکان کو ختم کرنا.اس زمانے کے حاکم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پردہ کی غرض و غایت کے متعلق جو فرمایا ہے میں اسلامی اصول کی فلاسفی سے ایک اقتباس سناتی ہوں.ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور اُن کی زینت کی جگہ کو ہر گز نہ دیکھیں نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے.اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور اُن کے حُسن کے قصے نہ سُنہیں نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے بلکہ ہمیں چاہیے کہ اُن کو سُننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مُردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکر میں پیش آویں سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر اُمید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اس خیال میں غلطی پر ہیں.سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قومی کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آئے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 ص 344,343) انسان کا خالق انسان کی فطرت کو سب سے بہتر سمجھتا ہے اس لئے انسان کی پاکیزگی کی حفاظت کے لئے احکامات دیے ایک آسان سی مثال سے بات سمجھاتی ہوں.اگر گھر میں بہت سے لال بیگ ، ٹڈیاں جھینگر ہو جائیں تو انہیں مارنے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے لیکن اگر ایسی جگہوں پر جہاں اُن کے انڈے دینے کا امکان ہو پہلے ہی صفائی رکھی جائے اور مناسب دوا ڈال دی جائے تو یہ گند پیدا ہی نہیں ہوگا.جس طرح مشہور ہے کہ لال بیگ کے ایک انڈے سے بارہ بچے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح ایک ایک بُرائی سے کئی کئی بُرائیاں جنم لیتی ہیں.اسلام ایک مکمل دین ہے اس لئے اُس نے عورت اور مرد دونوں کی پاکیزگی قائم رکھنے کے احکامات دیے ہیں.پردے کی رُوح اور حدود کو سمجھنے کے لئے حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں دلچسپ روایات پڑھتے ہیں.تفسیر کبیر جلد ششم کے صفحہ نمبر 301,300 پر تحریر ہے.لیجئے بیٹا آپ پڑھ کر سنائیے.بچہ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رشتے کے سلسلے میں ایک صحابیہ اُم سلیم کو بھیجا کہ وہ جا کر دیکھ آئے کہ لڑکی کیسی ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 2221) اگر اس وقت چہرہ کو نہ چھپایا جاتا تھا تو ایک عورت کو بھیج کرلڑکی کا رنگ وغیرہ معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک نوجوان نے اپنے رشتے کے لئے ایک جگہ پسند کی اور اُس نے لڑکی کے باپ سے درخواست کی کہ مجھے اور تو سب باتیں پسند ہیں میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے ایک دفعہ لڑکی دیکھنے کی اجازت دے دیں تاکہ میرے دل کو اطمینان ہو جائے.چونکہ اس وقت پردے کا حکم نازل ہو چکا تھا اس لئے لڑکی کے باپ نے اس کو اپنی ہتک سمجھا اور خفا ہو گیا وہ نوجوان رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے تمام واقعہ بیان کیا.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک پردے کا حکم نازل ہو چکا ہے مگر یہ غیر عورت کے لئے ہے جس لڑکی سے انسان شادی کرنا
142 141 چاہے اور لڑکی کے ماں باپ بھی رشتہ دینے پر آمادہ ہو جائیں تو اسے شادی سے پہلے اگر لڑکا دیکھنا چاہے تو ایک دفعہ دیکھ سکتا ہے.تم جاؤ اورلڑکی کے باپ کو میری یہ بات بتا دو.وہ گیا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام اُسے پہنچا دیا مگر معلوم ہوتا ہے اس کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا اُس نے پھر بھی جواب دیا کہ میں ایسا بے غیرت نہیں کہ کہ تمہیں اپنی لڑکی دیکھا دوں.لڑکی اندر بیٹھی ہوئی یہ تمام باتیں سن رہی تھی جب اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سُن کر بھی اپنی لڑکی کی شکل دکھانے سے انکار کر دیا تو وہ لڑکی فوراً اپنا منہ ننگا کر کے باہر آگئی اور اس نے کہا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منہ دیکھ لو تو میرے باپ کا کیا حق ہے کہ وہ اس کے خلاف چلے میں اب تمہارے سامنے کھڑی ہوں تم بے شک مجھے دیکھ لو (ابن ماجہ کتاب النکاح مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 244) اگر وہ لڑکی کھلے منہ پھرا کرتی تو اُس نوجوان کو لڑکی کے باپ سے یہ کہنے کی کیا ضروری تھی کہ مجھے اپنی لڑکی دکھا دیں اور پھر رسول کریم علی صلى الله سے اس بارے میں اجازت حاصل کرنے کا کیا مطلب تھا؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنی بیوی کے ساتھ جن کا نام صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا شام کے وقت گلی میں سے گزر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک آدمی سامنے سے آ رہا ہے.آپ ﷺ کو کسی وجہ سے شبہ ہوا کہ اس کے دل میں شاید یہ خیال پیدا ہو کہ میرے ساتھ کوئی اور عورت ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کے منہ پر سے نقاب الٹ دیا اور فرمایا کہ دیکھ لو یہ صفیہ ہے.( بخاری باب الاعتکاف و مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص136) اگر منہ کھلا رہنے کا حکم ہوتا تو اس قسم کے خطرے کا کوئی احتمال ہی نہیں ہو سکتا تھا.اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ جنگ جمل میں فوج کو لڑا رہی تھیں اور اُن کی ہودج کی رسیوں کو کاٹ کر گرا دیا گیا تو ایک خبیث الطبع خارجی نے اُن کے ہودج کا پردہ اُٹھا کر کہا ” اوہو یہ تو سرخ و سفید رنگ کی عورت ہے.اگر رسول کریم ﷺ کی بیویوں کا منہ کھلا رکھنے کا طریق رائج ہوتا تو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہودج میں بیٹھی فوج کو لڑا رہی تھیں تو اُس وقت وہ انہیں دیکھ چکا ہوتا اور اُس کے لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی.وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں اُن سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے.اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے.- بچی.عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پردہ ترقی کی راہ میں حائل ہے.ماں.اسلامی پردے کے قواعد کے تفصیلی مطالعہ سے ہمیں علم ہو چکا ہے کہ عورت پردے کے ساتھ ہر طرح مردوں کے کاموں میں شامل ہو سکتی ہے.وہ مردوں سے پڑھ سکتی ہے.مردوں کو پڑھا سکتی ہے.اگر کسی جلسہ میں تقریر کی ضرورت ہو تو عورت تقریر کر سکتی ہے.علم وادب میں الگ انتظام کے ساتھ شریک ہوسکتی ہے.ضرورت کے وقت رائے دے سکتی ہے.سفر کے دوران مردوں کے ساتھ ایک سواری میں سفر بھی کر سکتی ہے بازاروں میں جاسکتی ہے.مرد ڈاکٹروں سے علاج کروا سکتی ہے.سیر و تفریح کی بھی اجازت ہے پھر بندش کہاں ہے.بندش صرف زیب و زینت کر کے یا سادے چہرے کے ساتھ کھلے منہ مخلوط پارٹیوں میں شریک ہونے ، مردوں کے ساتھ بے تکلفی سے بے حجابانہ گفتگو کرنے لغو محفلوں میں شریک ہونے کی ہے.جہاں تک ترقی کی راہ میں حائل ہونے کی بات ہے یہ تو اپنی اپنی سوچ کا انداز ہے کوئی کسی چیز کو ترقی سمجھتا ہے اور کوئی کسی
144 143 اور چیز کو.اگر ترقی سے مفہوم وہ سارے کام لئے جائیں جو جائز نہیں تو ایسی ترقی کی راہ میں پردہ حائل ہے.اسلام ایسی ترقی چاہتا ہی نہیں.علم و عرفان میں ترقی گھر میں سکون و طمانیت میں ترقی.بچوں کی صحیح تربیت میں ترقی ان سب باتوں میں پردہ مدد کرتا ہے.ترقی تو اُمنگ اور جذبہ سے ہوتی ہے.پردے اور بے پردگی سے نہیں.بچی.آپ نے بتایا تھا کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک قسم کا پردہ شروع ہو جاتا ہے.برقع پہنے کی کیا عمر ہوتی ہے؟ ماں.بہت چھوٹی عمر میں سخت پردے میں بٹھا دینا صحت اور قد بڑھنے کے لحاظ سے درست نہیں.جب لڑکی میں نسائیت پیدا ہونے لگے اُسے پردہ کروانا چاہیے.بچہ.کیا پردہ کے حکم میں زیادہ پابندیاں عورت پر ہیں؟ ماں.جہاں تک پابندیوں کو سوال ہے دونوں کے لئے برابر ہیں.گھر کا دائرہ عمل عورت کا ہے.باہر کا دائرہ عمل مرد کا.جب تک عورت اپنے دائرہ عمل میں رہے تو کھلی پھرے.جب مردوں کے دائرہ عمل میں جائے تو پردہ کرے.اسی طرح جب مرد اپنے دائرہ عمل میں رہے تو کھلا پھرے.اور عورتوں کے دائرہ عمل میں جائے یعنی کسی کے گھر جائے تو اجازت لے کر جائے.عورت پر تو اجازت لینے کی پابندی بھی نہیں وہ جب چاہے مردوں کے دائرہ عمل میں پردے کے ساتھ جاسکتی ہے جبکہ مرد کو دوسری عورت کے دائرہ عمل میں جانے کی اجازت نہیں ہے.بچی.مخلوط تعلیم والے اداروں میں تعلیم پانے والی لڑکیوں کے لئے پردے کا کیا حکم ہے؟ ماں.حضرت مصلح موعود نے اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا.کالج کی لڑکیاں پردہ کر کے بیٹھیں اور اگر پردہ کے بغیر نہیں پڑھ سکتیں تو نہ پڑھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کون سی ایم اے تھیں.66 قانونِ قدرت میں مرد اور عورت کے کاموں کی تقسیم میں بھی یہی حکمت ہو گی.ماں.آپ ٹھیک کہتے ہیں.عورت پر گھر کی جنت کی حفاظت کی ذمہ داری ہے جبکہ مرد روزی کمانے کے لئے باہر نکلتے ہیں.اس تقسیم کار میں خاتون سے زیادہ تر ایسے کاموں کی توقع ہے جو چادر اور چار دیواری میں ہوتے ہیں.آپ کو ایک دلچسپ روایت سُنا ؤں." حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس میں صحابہ سے پوچھا کہ بتاؤ عورت کے لئے سب سے زیادہ بہتر کیا بات ہے.صحابہ خاموش رہے.میں نے گھبرا کر اپنی بیوی فاطمہ سے پوچھا کہ عورتوں کے لئے سب سے بہتر کیا بات ہے تو انہوں نے بتایا کہ نہ وہ غیر محرم مردوں کو دیکھیں نہ غیر محرم اُن کو دیکھیں.“ میں نے حضرت فاطمۃ الزہرا کا جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی خدمت میں سُنا دیا آپ نے خوش ہو کر فرمایا.فاطمہ میری لخت جگر ہے اس لئے وہ خوب سمجھتی ہے.“ (دار قطنی) بچہ.اگر پردہ اتنا ضروری اور مفید ہے تو بے پردگی کا رواج کب اور کہاں سے آیا؟ ماں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب پردے کا حکم نازل ہوا اس پر سختی سے عمل شروع ہو گیا.آپ کے بعد خلفائے کرام کے زمانے میں بھی
146 145 رواج رہا.مسلمان خواتین اور پردہ لازم ملزوم سمجھا جاتا تھا.اسلام پھیلنے کے ساتھ جس جس ملک میں اسلام کا پیغام گیا.خواتین کا پردہ تسلیم شدہ حقیقت کی طرح ساتھ گیا.اگر چہ ملکی رسوم و رواج کا دخل رہا.عرب علاقوں میں پردہ کی شکل مختلف تھی.برصغیر میں اور ہوگئی.آہستہ آہستہ برصغیر میں پردہ پر عمل درآمد میں اتنی شدت آگئی کہ عورت کی جائز آزادی بھی سلب کر لی گئی.اس کا رد عمل ہوا.انگریز کی آمد کے ساتھ جو بے پردگی کی لہر آئی اس کے ساتھ حاکم قوم کی نفسیاتی بالا دستی بھی شامل تھی پھر ہندوؤں کے اثر سے بھی مسلمان عورت پردے سے باہر آئی تو اسے ترقی پسندی کا نشان سمجھنے لگی.دیکھنا یہ ہے کہ جن اقوام میں عورت کا پردہ نہیں اور آپس میں مرد عورت کے آزاد نہ میل ملاپ کا رواج ہے.انہوں نے اس آزادی سے کیا حاصل کیا.زیادہ پاکیزہ معاشرہ نے جنم لیا، خاندانی حالات سدھر گئے؟ یا مختلف قسم کی اخلاقی برائیوں کے راستے کھل گئے؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں جماعت احمد یہ عطا کی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے میں دین کو زندہ کرنے اور شریعت کو قائم کرنے کے لئے تشریف لائے اس طرح ہمیں پردے کا وقار اور حیا نصیب ہوئی.اب احمدی عورت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرآنی منشا کے مطابق پردہ اُس کی پہچان ہے.مگرامی آنٹی..تو بغیر برقع کے بازار میں نظر آتی ہیں.بچی.جی ہاں امی میں نے بھی آنٹی کو دیکھا تھا اپنی بیٹی کی شادی میں سڑک پر کھڑی ہو کر بارات کا استقبال کر رہی تھیں.....ماں.نہیں نہیں پیارے بچو یہ ہمارا کام نہیں اس طرح نام لے کر دوسرے کی کمزوری کا ذکر نہیں کرنا چاہیے.اسلام نے پردے کی اصولی بات کی ہے.یہ ایک معیار ہے.اس کے علاوہ جو کچھ ہوتا ہے اس پر ہم اعتراض کرنے کے مجاز نہیں اگر ہم اصلاح چاہتے ہیں تو پہلے اپنی ذات سے شروع کریں اور اپنا نمونہ دکھائیں.خوب ترقی کریں اور پھر بتائیں کہ پردے ترقی میں روک نہیں بلکہ وہ وقار اور عزت میں اضافہ کرتا ہے.احکام الہی پر عمل درآمد خدا تعالیٰ کا مقرب بناتا ہے.آپ کو چونکہ دنیا کے سامنے صحیح پردے کی روح کے متعلق بتانا ہے.اس لئے میں آپ کو چند اقتباسات سناتی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.اسلام نے جو حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض ہے کہ نفسِ انسانی پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے.کیونکہ ابتدا میں اُس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا کسی لذیذ کھانے پر.انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے.“ ( ملفوظات جلد ہفتم ص 126) آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو اگر یہ درست ہو جائے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات سے مغلوب نہ ہوں تو اُس وقت بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گو یا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ( ملفوظات جلد ہفتم ص153) ہے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- تم لاکھ بہانے تراشو اور لاکھ عذر پیش کرو کہ ہم اسلامی پردے میں شدت اختیار کر رہی ہیں اور یہ کہ اسلامی پردہ
148 147 چادر ہی ہے لیکن میں جانتا ہوں اور میرا نفس جانتا ہے اور آپ کا نفس بھی جانتا ہے کہ وہ چادر جو آج بے پردگی کے لئے استعمال کی جارہی ہے بہر حال اسلامی نہیں ہے.اسلامی قدریں تو ڑی جا رہی ہیں اور ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ ان کی نسلوں کا کیا حال ہو گا ؟ ان کو پتہ نہیں کہ وہ ناچ گانوں میں مبتلا ہو جائیں گی اور بے حیائی میں ایسے قدم آگے بڑھا ئیں گی کہ نہیں روکی جاسکیں گی.“ خطاب جلسہ سالانہ 1982) 1995ء میں جلسہ سالانہ لندن اور جرمنی کے مواقع پر خواتین سے خطاب میں آپ نے پردے کی رُوح کی قرآن و حدیث کی روشنی میں بڑی دلنشین وضاحت فرمائی ہے.وہ ضرور پڑھیے میں اُس میں سے کچھ حصہ سناتی ہوں.حضرت زید بن طلحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہر دین و مذہب کا اپنا خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا یہ خاص خلق حیا ہے.“ (موطا امام مالک جامع ما جاء فى اهل القدر ، باب ما جاء في الحيا) ہر مذہب کی ایک بنیادی رُوح ہے اور وہ رُوح اُسے دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی روح حیا ہے اور حیا نہ رہے تو کچھ بھی نہیں رہتا.پس یاد رکھیں کہ حیا کا جہاں تک تعلق ہے یہ صرف عورت کا زیور نہیں ، یہ مردوں کا بھی زیور ہے اور مردوں اور عورتوں دونوں میں برابر کی چیز ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کے مضمون کو صرف عورت سے نہیں باندھا بلکہ مرد اور عورت دونوں سے برابر باندھا ہے.فرماتے ہیں بے حیائی اپنے ہر بے حیا کو بدنما بنا دیتی ہے اور شرم و حیا ہر حیا دار کو حُسن سیرت بخشتی ہے اور اُسے خوبصورت بنا دیتی ہے.(سنن ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی المحش ) حضرت ابو مسعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں جب حیا اُٹھ جائے تو انسان جو چاہے کرتا پھرے.( بخاری کتاب الادب باب اذالم نسیمی فاصنع ماشئت ) تو یہ پردے کی رُوح ہے اور پردے کی ہی نہیں ہر عصمت کی رُوح ہے اور یہ وہ روح ہے جو عورتوں سے خاص نہیں بلکہ مردوں اور عورتوں سے خاص تعلق ہے.اس لئے حیا کی حفاظت کریں اور اپنے بچوں میں بھی حیا قائم کریں.حیا سے مراد صرف مردوں اور عورتوں کے تعلقات کی حیا نہیں ہے.حیا فی ذاتہ ایک خلق ہے جو ہر گناہ کے مقابل پر ایک پردہ ہے.پس وہ عورتیں جو معلوم کرنا چاہتی ہیں کہ اسلامی پردہ کیا ہے میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلامی پردہ حیا ہے اگر آپ اپنی حیا کی حفاظت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے فرشتے آپ کی ہر قسم کی خرابیوں اور گناہوں سے حفاظت کریں گے.کیونکہ حیا کے پردے سے بہتر اور کوئی پردہ نہیں.“ حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے جرمنی میں خواتین سے خطاب بتاریخ 8 ستمبر 1995 ء سے استفادہ)
150 149 ( دین محمد نُورِ خدا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام ) ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ شمر باغ محمد " سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اُٹھو دیکھو سُنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے آؤ لوگو کہ یہیں نُورِ خدا پاؤ گے تمھیں طور تسلی کا بتایا ہم نے لو ہو (ورمشین) ہوفضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ اسیح الثانی) و فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو مٹ جاؤں میں تو اس کی پرواہ نہیں ہے کچھ بھی میری فنا سے حاصل گر دین کو بقا ہو سینہ میں جوش غیرت اور آنکھ میں حیا ہو لب پر ہو ذکر تیرا دل میں تری وفا ہو
152 151 چلتا شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں مصطفا ہو حاکم تمام دنیا پر میرا محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونہی ہو رُوح میری سجدہ میں سامنے خدا ہو (کلام محمود ) خدام احمدیت حضرت خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) ہیں بادہ مست بادہ آشام احمدیت ہے دور مینا و جام احمدیت تشنہ لیوں کی خاطر ہر سمت گھومتے ہیں تھامے ہوئے سبُوئے گلفام احمدیت خُدامِ احمدیت ، خُدامِ احمدیت جب دہریت کے دم سے مسموم تھیں فضائیں پھوٹی تھیں جا بجا جب الحاد کی وبائیں تب آیا اک منادی.اور ہر طرف صدا دی آؤ کہ ان کی زد سے......کو بچائیں زور دعا دکھائیں ، خُدام احمدیت پھر باغ مصطفے کا دھیاں آیا ذوالمنن کو سینچا پھر آنسوؤں سے احمد نے اس چمن کو آہوں کا تھا بلاوا پھولوں کی انجمن کو اور کھینچ لائے نالے مرغان خوش لحن ہو لوٹ آئے پھر وطن کو ، خُدّام احمدیت پہ نام احمد چمکا پھر آسمان مشرق مغرب میں جگمگایا ماہِ تمام احمد وہم و گماں سے بالا عالی مقام احمد ہم ہیں غلام خاک پائے غلام احمد مرغان دام احمد ، خدام احمدیت اُٹھو کہ ساعت آئی اور وقت جا رہا ہے
154 153 پر میچ دیکھو کب سے جگا رہا ہے دیر بعد آیا از راه دور لیکن گو وہ تیز گام آگے بڑھتا ہی جا رہا ہے تم کو بلا رہا ہے، خُدام احمدیت سلام بحضور سید الا نام ( حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل ) بدر گاہِ ذی شان خیر الانام شفیع الوری مربع خاص و عام بصد عجز و منت - بصد احترام یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام کہ اے شاہِ کونین عالی مقام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام حسینانِ عالم ہوئے شرمگیں جو دیکھا وہ حُسن اور وہ نُورِ جبیں پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے.آفریں! رہے خُلق کامل زہے حُسنِ تام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامِ خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی ضلالت تھی دُنیا وہ چھا رہی کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَام گھائل کیا آپ نے محبت دلائل ނ قائل کیا آپ نے جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے بیان کر حلال و حرام
156 155 عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع ہیں آپ میں لا محال صفات جمال اور صفات جلال ہر اک رنگ بس عدیم المثال ہے لیا ظلم کا عفو انتقام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامِ اور مظہر مذاق مقدس حیات اطاعت میں یکتا، عبادت میں طاق سوار جہانگیر - یکراں بُراق که بگذشت از قصر نیلی رواق محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام علمدار دار عشاق ذات افواج یگاں قدوسیاں معارف کا اک قلزم بیکراں افاضات میں زنده جاوداں پلا ساقیا آب کوثر کا جام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامِ (آمین) ( بخار دل ) حُسنِ آداب ماں.مجھے خوشی ہے کہ آپ امتحان سے فارغ ہو گئے.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ کامیابیاں دے.آج ہم فرصت سے بیٹھیں گے اور بہت سی باتیں کریں گے.بچہ.سکول کا امتحان تو ختم ہوا مگر اب اطفال الاحمدیہ کا آخری امتحان ہے اُسکی تیاری کے لئے بہت کم وقت باقی ہے بچی.مجھے بھی ناصرات الاحمدیہ کا آخری امتحان دینا ہے پھر میں لجنہ میں شامل ہو جاؤں گی اور بھیا خادم ہو جائیں گے.ماں.ماشاء اللہ.اللہ تعالیٰ آپ کو نیک اور خادم دین بنائے.جب آپ لجنہ کی ممبر اور خادم بنیں گے تو آپ سے یہ توقع کی جائے گی کہ آپ ابتدائی تنظیم میں اتنا کچھ سیکھ آئے ہیں کہ اب ذمہ داری سے اپنے اگلے فرائض ادا کر سکیں.بچہ.اچھے احمدی بننے کے لئے اپنی شخصیت کی حد تک ہم سے کیا توقعات
158 157 رکھی جاتی ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے.ماں.ہماری حیثیت انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی.ہم ایک معاشرہ کا حصہ ہیں ہم خود اپنی اصلاح کریں گے تو آہستہ آہستہ معاشرہ کی اصلاح ہو گی.آج ہم بعض خوبیوں کا ذکر کریں گے جو افراد اپنا لیں تو جگمگ جگمگ چراغوں کی طرح معاشرہ میں روشنی پھیل جائے گی.آپ کو پتہ ہے دینِ حق کا کیا مطلب ہے.اس کا مطلب ہے تسلیم کر لینا، مان لینا، جھک جانا.سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم صرف وہ چاہیں گے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے.اس کے احکام پر عمل کریں کسی بندش ، ز بر دستی یا بے دلی سے نہیں بلکہ ہمارے اندر سے، ہمارے دل اور دماغ سے یہ آواز اُٹھے کہ ہمیں صرف وہ کرنا ہے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے.یہ جذ بہ شوق سے ، رغبت سے، خوش دلی سے پیدا ہو وہ عادات اپناتے جائیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں.اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہو جائیں گے.اس کے لئے آسان سا طریق یہ ہے کہ ہم بار بار زبان سے اقرار کریں.بلند آواز سے بھی اقرار کریں اور دل ہی دل دل میں بھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ہیں اُسی کے فرماں بردار ہیں اُسی کے وفادار ہیں.پھر یہ اقرار ہمارے عمل سے ظاہر ہونے لگتا ہے.ہمارے ارد گرد کے لوگ یہ جانے لگتے ہیں کہ اس شخص سے احکام الہی کی مخالفت کی توقع نہیں ہے.بچی.خدا تعالیٰ سے تعلق اسی طرح سے پیدا ہوتا ہے؟ ماں.جی بچو! ہم عاجز انسان ہیں وہ بہت بڑا ، بہت عظیم ، بہت صفات کا مالک ، بادشاہوں کا بادشاہ خدا ہے.اس سے تعلق پیدا کرنے کا پہلا گر عاجزی اور انکساری ہے.ہم کمترین اور بے طاقت بندے ہیں.وہ ہر لمحہ ہمارے حال سے واقف ہے اچھا کام کریں گے تو اپنی رحمت سے جزا دے گا ورنہ بُرا کام کرنے کی صورت میں (اللہ اپنی پناہ میں رکھے ) سزا دے گا.حضرت صاحب نے بتایا تھا کہ فرشتے کمپیوٹر کی طرح ہماری ساری زندگی کی فلم بنا لیتے ہیں.اعمال کی جزا سزا اُسی کتاب سے بنتی ہے.بچی.مجھے تو اس کمپیوٹر والی بات سے بہت ڈر لگ رہا ہے.ماں.ڈرنا ہی چاہیے.ہم جن باتوں پر ایمان لاتے ہیں اُس میں یوم آخرت پر ایمان بھی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے ہر وقت ڈرنا کہ کہیں ہم بُرا کام کر کے سزا نہ پائیں اور اللہ پاک سے اتنی محبت کرنا کہ ہر وقت اُس کی خوشنودی کے لئے دُعا کرنا اور بے قرار رہنا کہ کوئی ایسے راستے مل جائیں جن پر چل کر اُس تک پہنچا جاسکتا ہے.انسان کو اچھا انسان بناتا ہے.اب آپ بتائیے اب تک آپ کیا سمجھے ہیں.بچہ.زبان سے اور دل سے اللہ پاک کی محبت کا اقرار اور اُس کی اطاعت کرنی چاہیے.بچی.اور اللہ پاک سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ وہ ناراض نہ ہو جائے.ماں.شاباش جتنی آسانی سے آپ نے یہ جملے کہے ہیں ان پر عمل کرنا اتنا آسان نہیں ہے.کسی چیز کو ہمارا دل کر رہا ہے مگر ہم کو علم ہے کہ اللہ پاک کو یہ بات پسند نہیں.یہ امتحان ہے، ہم اپنی خواہشات کو چھوڑ کر اللہ پاک کی مرضی کے تابع ہو گئے تو ہم کامیاب ہو گئے.یہ کوشش اپنے وجود سے شروع ہوتی ہے پھر دُنیا میں پھیلتی ہے.ہم دُنیا میں الگ تھلگ نہیں رہ سکتے ہمارا گھر ہوتا ہے ،خاندان ہوتا ہے ، رشتہ دار ہوتے ہیں ، پھر محلے دار ہوتے ہیں.ہمیں سب کے لئے پیار محبت، خدمت گزاری اور رحمت کا وجود بننا ہے.ہمارا حسنِ سلوک انہیں دائروں میں پھیلتے پھیلتے پوری دُنیا میں پھیل سکتا ہے.بچی.سب سے پہلے اور سب سے ضروری کس سے حسنِ سلوک ہے.ماں.اپنے ماں باپ سے حسن سلوک سب سے ضروری ہے ماں باپ سے
159 حُسنِ سلوک ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ اُن کا کہنا ما نہیں.اُن کی خوشنودی حاصل کریں.اُن کو آرام دینے کی کوشش کریں.اُن کی گستاخی نہ کریں.ماں باپ کے تجربات سے فائدہ اُٹھائیں.قرآن پاک اور احادیث میں اس نیکی کا بہت اجر لکھا ہے.بچہ.ماں باپ کے بعد کس سے حسنِ سلوک کرنا چاہیے.ماں.رشتہ دار اور ہمسائے.قریبی رشتہ دار پھر دُور کے رشتے دار اور پڑوسیوں کا دائرہ اگر وسیع کرتے جائیں تو پورا محلہ بلکہ شہر اور اس سے بڑھ کر حلقوں تک حسن سلوک کا دائرہ پھیل جاتا ہے.ان سے حسن سلوک کا طریق یہ ہے کہ ہماری ذات سے بھلائی پہنچے بھی بھی بُرائی نہ پہنچے اور یہ ایک معلوم حقیقت کی طرح واضح ہو جائے کہ ہم انسان دوست ہیں.بچی.محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں.بچہ.مگر بعض رشتہ داروں اور ہمسائیوں کو ہمارے حسن سلوک کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.ماں.ضرورت صرف روپے پیسے کی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس میں روحانی ضرورت شامل ہے خیر کی طرف بلانا اور بُرائی سے روکنا بھی اچھے سلوک میں آتا ہے.خیر کی کوئی انتہا نہیں اس طرح ہمارے کام کی کوئی انتہا نہیں.جب تک دُنیا میں بیمار، مسافر مسکین موجود ہیں.جب تک کم کردہ راہ موجود ہیں ہمارے سامنے خدمت کے مواقع موجود ہیں.بچی.یہ تو آپ نے بڑی اچھی بات بتائی تکلیف اور بُرائی کو دور کرنے کے لئے ہمیں اور کیا کرنا چاہیے.ماں.ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں.آپ کو تاریکی دور کرنی ہے تو روشنی کا انتظام کیجئے.آپ امانت دار بن جائیں کسی کا حق نہ ماریں اور اپنا وعدہ پورا 160 کریں.تو آپ نے امانت و دیانت کی ،عدل و انصاف کیا اور ایفائے عہد کی روشنی پھیلائی سوچئے اس طرح کس کس قسم کی تاریکی ختم ہوئی.بچہ.خیانت کی ظلم کی اور بدعہدی کی.ماں.بہت خوب اب آپ کچھ اور مثالیں دیں.بچی.سچ پھیلائیں گے تو جھوٹ ختم ہو گا.صاف رہیں گے تو گندگی ختم ہوگی.مسکرائیں گے تو غصہ ختم ہوگا.حُسنِ ظن رکھیں گے تو بد گمانی ختم ہوگی.بچی.حُسنِ ظن کسے کہتے ہیں؟ ماں.ظن کہتے ہیں گمان کو یونہی کچھ فرض کر لینا.کچھ سوچ لینا مثلاً آپ کی کسی سہیلی نے آنے کا وعدہ کیا مگر آ نہ سکی آپ دو باتیں سوچ سکتی ہیں.کوئی مجبوری ہو گئی ہو گی ورنہ وہ ایسی تو نہیں یا اُس کی آنے کی نیت ہی نہیں تھی یونہی وعدہ کر لیا تھا.پہلی صورت حسن ظن اور دوسری بدظنی کہلاتی ہے.قرآن پاک میں ہے.يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضاً ط أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَّاكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ ط وَاتَّقُوا الله ط إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ.(الحجرات:13) اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجس سے کام نہ لیا کرو اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کیا کریں کیا تم میں سے
162 161 کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا (اگر تمہاری طرف یہ بات منسوب کی جائے تو ) تم اس کو نا پسند کرو گے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اللہ بہت ہی توبہ قبول کرنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.بچہ پیارے حضور نے غیبت کے متعلق خطبے دیے تھے تو میں نے عہد کیا تھا کہ کبھی غیبت نہیں کروں گا.ماں.آپ عمر کے جس دور سے گزر رہے ہیں اس کے لئے خاص طور پر پاکیزہ خیالات، پاکیزہ لٹریچر کا مطالعہ ، پاکیزہ دلچسپیاں اور پاکیزہ صحبت کی ضرورت ہے.ہمار ذہن ماحول کا اثر ضرور قبول کرتا ہے.اس لئے سب سے پہلے تو یہ کوشش ہو کہ ہم بُرائی کے سامنے سے بچیں اور دوسری کوشش یہ کہ ہمارے اندر نیکی بدی کی پہچان کا شعور ہو اور حوصلہ ہو کہ ہم بدی کو رد کر سکیں اور جہاں نیکی ہو اُسے اپنا لیں.انٹرنیٹ پر نیک مقصد کے لئے جائیں.بچی.کالج میں داخلے کی تیاری کر رہی ہیں آپ.ماں.یہی سمجھ لو.اپنی عفت ،عصمت اور عزت کی حفاظت بھی ضروری ہے.اس کے لئے ہمارے مذہب میں کچھ حد بندیاں ہیں جو بڑی پُر حکمت ہیں اُن حد بندیوں کا مقصد ہماری عزت کی حفاظت ہے.قرآن و حدیث کی تعلیم پر نظر رکھیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی تعلیمات کا ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں.اور چاہیے کہ نامحرم کے مقابلے کے وقت تیری آنکھ خوابیدہ رہے تجھے اُس کی صورت کی کچھ خبر نہ ہو مگر اسی قدر جیسا کہ ایک دھندلی نظر سے ابتدا نزول الماء ( آنکھوں کی ایک بیماری) میں دیکھتا ہے.“ ہے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 ص29) اس طرح وہ ابتدائی دروازہ ہی بند کر دیا جو کھلے تو بُرائی کا آغاز ہو جاتا بچہ.آج کی دُنیا میں ایسی باتیں لوگ بہت مشکل سے قبول کرتے ہیں.ماں.صرف یہی نہیں ہر بات جس کو قبول کرنے میں کچھ قربانی کرنی پڑتی ہے.لوگوں کو مشکل لگتی ہیں.سچائی صرف ایک ہوتی ہے جیسے دو نقطے کے درمیان سیدھی لائن صرف ایک ہوتی ہے سچائی پر قائم رہیں.بچے اصول اپنا ئیں پھر کبھی شرمندگی نہیں ہوتی.انسان کبھی ہلکا نہیں پڑتا.سچائی خسارے کا سودا نہیں ہوتی.بالآخر فتح حق کی ہوتی ہے.یہ بات میں اس لئے قدرے زور دے کر بتا رہی ہوں کہ ہم جس بھی معاشرے میں رہیں گے مخالفت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا.سچائی پر یقین سے مخالفت کا خوف بالکل ختم ہو جائے گا.بچے اصول زبر دست طاقت ہوتے ہیں ہمیشہ ناقابل شکست ہوتے ہیں.بچہ.آپ نے بہت اچھی بات بتائی ہے.دُعا کیجئے کہ ہم بُرائیوں کی کشش سے بالکل نجات پا جائیں اور قائم رہنے والی نیکیاں اپنا لیں.ماں.ہم ہر نیکی کو اپنا ئیں اور دوسروں کو نیکی کی طرف بلائیں اس طرح ہم چلتے پھرتے داعی الی اللہ بن سکتے ہیں.دعوت الی اللہ کے کئی طریق ہیں جن میں سب سے زیادہ اثر کرنے والا ہمارا کردا ر ہے.حضرت مسیح موعود کے اس جملے کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں.چاہیے کہ ہر ایک صبح تمہارے لیے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 ص12)
اس دُعا کے ساتھ آج کی گفتگو ختم کرتے ہیں.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً جِ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَابِ (ال عمران:9)
نونهالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع مرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو تا کہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو جب گزر جائیں گے ہم تم پر پڑے گا سب بار مستیاں ترک کرو طالب آرام نہ ہو خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلہ میں کبھی طالب انعام نہ ہو رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه نظر انداز کوئی کام احکام نہ ہو مشکل ہے بہت منزل محصور ہے دور اے مرے اہل وفا ست کبھی گام نہ ہو حلمت رنج و غم و درد سے محفوظ رہو مہر انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو (کلام محمود)