Guldastae Khayal

Guldastae Khayal

گلدستہٴ خیال

مترجم: محمد زکریا ورک
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اخلاقیات

Book Content

Page 1

گلدستۂ خیال ☆ جسکا دوسرا نام نشان منزل بھی ہے بشیر احمد آرچرڈ

Page 2

نام کنه مترجم..گلدسته خیال بشیر احمد آرچرڈ.برطانیہ انگلش ٹائیٹل گائیڈ پوسٹس محمد زکر یاورک.کنگسٹن ترجمه نظر ثانی و ناشر عبد الرحمن دہلوی.ٹورنٹو مقام و تاریخ اشاعت ٹورنٹو.کینیڈا.مارچ ۲۰۰۰ آئی ایس بی این نمبر....04-02-895194-1 :ISBN کمپوزنگ....او ذیشان این ابراہیم خلیل.خوشنویس ملنے کا پتہ...101- Picola Court, North York, On.Canada M2H 2N2.Tel: 416-756-4292 ای میل ایڈریس...zakariav@hotmail.com قابل ستائش اس کتاب کی طباعت کے اخراجات محترم آغا طاہر شمیم صاحب آف ہملٹن ابن حضرت شیخ عبد الحمید صاحب شملوی (لاہور) اور انکی اہلیہ صاحبہ بنت محترم عبد الطیف صاحب دھرم پورہ لاہور) نے والدین کے ایصال ثواب کی خاطر ادا کئے ہم دست بدعا ہیں کہ اللہ کریم آغا صاحب کے اموال میں برکت ڈالے.جزاکم اللہ

Page 3

+ ۱۳ ---- ۲۰ ۲۴ TEUI ۲۸ B**O I I ۳۱ LEVE ۳۶ ۴۰ ---- ۴۳ ANJI ۴۷ ---- ۵۱ AA ۶۲ ۶۵ ۶۸ ---- ا زندگی کا مطمع نظر ۲.آسودگی فرا خدای.ضبط نفس د.اخلاقی خوبیوں کی ملکہ.اعمال صالحه خوش مزاجی ۸.دا نمی زندگی عشق الهی ١٠.مال و دولت.طهارت قلب ۱۲.شا ئسته اخلاق.١٣ مهمان نوازی ۱۳ روحانی تشنگی ۱۵.تنہائی کی قدر ۱۷.انکساری

Page 4

29 11 Af AL 90 ۹۹ ---- ١٠٣ DIGI 11.**** 117 N 1A ■■ ۱۲۲ SUBS ۱۲۸ GUAR ۱۵۰ DIOR ۱۵۵....نصیحت ہے غریبانه ١٨ عيب جوئی ۱۹ با برکت زندگی ۲۰ نیک کا موں میں استقلال ۲۱.برے دوستوں ۲۲ سید ما راست ۲۳ روزه کا اصل ۲۴- عبد الله ۲۵.ادعيته المخزن ۲۰، ساعت مرگ ۲۷- ایک محبانه گفتگو ۲۸.غم گساری ۲۹ بهائی چاره ۳۰.شکرگزاری ٣١.قول و قرار ۳۲ ایک احمدی کا رول آرچرڈ مسلمان کیسے ہوئے آرچرڈ کی قادیان میں آمد لکھتے جنور

Page 5

پیش لفظ میں جناب ذکر یا ورک کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے (آج کل کی مصروف زندگی میں سے) اپنے وقت اور محنت کو وقف کر کے میری کتاب گائیڈ پوسٹس کا اردو میں ترجمہ کرنے کے ساتھ میری زندگی کے نمایاں واقعات کو بھی پیش کیا ہے اسلام ایک عملی طرز حیات کا نام ہے جو انسان میں نیک خیالات پیدا کر نے ان کا تزکیہ کرنے حسن کلام اور اعمال صالحہ بجالانے پر محیط ہے تا انسان عجز و انکساری سے اپنے نفس کے اندر خدا کی تجلی پیدا کرے اور قرآن پاک کی خدائی تاثیر بھی اس کے ذریعہ ظاہر ہو اس کتاب میں میں نے ان اصولوں اور اخلاقی خوبیوں پر توجہ مرکوز کرنیکی کوشش کی ہے جنکے ذریعہ انسان متبرک زندگی گزار کے ساتھ اس سے لطف اندوز بھی ہو سکتا ہے.بایں ہمہ میں اپنی خامیوں سے بھی بخوبی آگاہ ہوں آمین اللہ تعالیٰ روحانی امنگوں کے حصول میں اوپر لیجانیوالی پرواز میں ہماری نصرت فرمائے.بشیر احمد آرچرڈ

Page 6

PREFACE much appreciate the time and labour which Mr Zakaria Virk has devoted to the translation into book Guide Posts and aho to the Urdu of my addition of a few salient points of my life.Islam is a practical way of life involving the cultivation and purification of one's thoughts, words and actions thereby humbly manifesting within oneself efficacy of esence of God and the divine "the Holy Quran In this book I have endeavoured to focus attention on various principles and virtues enable Can which one to live and enjoy a blessed life while at the same time acknowled- ing my own short-comings.May Allah uplift us on our spinctual upward flight and towards our spiritual aspirations.Bashir Ahmad Orchard

Page 7

الله الرحمن الرحيم زندگی کا مطمح نظر قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے :.يَا أَيْنَهَا النفس المُطْمَئِنَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكَ رَا ضِيتَهُ مَرَضِيَة ه فا د خَلِي فِي عِبَادِى، وَادْخُلِي جَنَّتِي ترجمہ.اے اطمینان والی روح تو اپنے پروردگار (کے جوار رحمت) کی طرف چلی آ کہ تو اس ذات باری تعالیٰ سے خوش اور وہ تجھ سے خوش پھر تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جالور میری جنت میں داخل ہو جا ( الفجر ۲۸ تا ۳۱) قارئین وقت کیا ہے ؟ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ یہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے جوں جوں ہم بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ زندگی صرف ایک روزہ تجربہ ہے جبکہ لحد ہم سب کا بے تالی سے انتظار کر رہی ہے کہا جاتا ہے کہ انسان کی اوسط عمر ستر سال ہوتی ہے دنیا کے بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں انسان صرف تمہیں سال سے کچھ زیادہ زندہ رہتے ہیں بالفرض انسان ایک سو سال زندہ رہے پھر بھی کائینات کی عمر کی نسبت یہ صرف ایک لمحہ محسوس ہوتا ہے بیئت دان ہمیں بتلاتے ہیں کہ روشنی دور ترین کہکشاؤں سے ایک ہزار مین سال میں یہاں پہنچتی ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کائینات کو بنے ہوئے قریب قریب پانچ ہزار ملین سال ہوئے ہیں خطہ زمین پر بے چارے انسان کو یہاں رہنے کے لئے بہت کم وقت ملا ہے اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم زندگی کے مطمح نظر کو حاصل کرنے کے لئے تمام توانائیاں اور کو ششیں مرکوز کر دیں.اللہ تبارک و تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں وَمَا خَلَقَتُ الجِنَّ وَالإِنسَ الا لِيَعْبُدُونَ (سوره ۵۱۰ آیت (۵۷) حقیقی عبادت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم خدائے تعالیٰ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کردیں اور اس ذات باری تعالی کی شان کی بڑائی میں تمام صلاحیتوں کو بروئے

Page 8

کار لائیں ہمارا مطمح نظر یہ ہونا چاہئے کہ ہم تقوی کے لباس میں خود کو ملبوس کر لیں اور ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس چیز کو زندگی کا منتہائے مقصود نالے بعض لوگ اپنی خفیہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے پیشوں میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کر لیتے ہیں.ان کی کامیابیوں نے پوری دنیا سے داد تحسین حاصل کی ہے اور ان کے نام دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ریکارڈ ہو گئے مگر سب سے عظیم انسان تو ایسے لوگ ہیں جنکی تعریف خدا نے خود کی ہو نیز حقیقی مسرت پانے والے لوگ تو وہ ہیں جو خدا کی خوشی اور اسکی رضا کی خاطر زندہ رہتے ہیں اور جنت کے میٹھے مشروبات کا نا قابل بیان مزہ انہوں نے نہ صرف اس دنیا میں پالیا بل کہ آنے والی زندگی میں بھی پائیں گے ان افراد کے نام زندگی کی کتاب میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے آنیوالی زندگی اتنی ہی حقیقی اور سچی ہے جتنی موجودہ زندگی یقینی ہے اس بارے میں کسی مسلمان کے ذہن میں کوئی ذرہ بھر بھی شک نہیں ہونا چاہیے.قرآن اس موضوع پر آیات کریمہ سے پھر اہوا ہے وَمَا الحیوۃ الدنیا الأَلَعِبُ وَلَهْو وَلَلَدَارُ الآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ (سورة ۳۳:۲) دنیوی زندگی بجز لہو و لعب کے کچھ بھی نہیں ہے اور آنے والا گھر عقل مندوں کے لئے لازما بہتر ہے.ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے يُقَومِ اِنْمَا ہٰذِهِ لحَيُوةَ الدَّنْيَا مَتَاعُ وَإِن الْأَخِرَةَ هِيَ دَارَ لقرار المومن) (۴۰:۴۰) اے بھا ئیو یہ دنیوی زندگی محض چند روزہ ہے اور اصل مقام تو آخرت کا گھر ہے.پھر اس آیت کریمہ پر غور فرمائیں وَالآخِرَةِ خَيْرٌ وَ ابقی - پاره ۷ ۸ آیت (۱۸) آخرت کی زندگی (دنیا سے) بدرجہا بہتر ہے آخرت کی زندگی در حقیقت اعلیٰ درجہ کی زندگی ہے اور اس کی تیاری کیلئے اپنی روح تیار رکھنا ہمارا فرض ہے اس امر کو ہم بلکل نظر انداز نہیں کر سکتے یہ زندگی تو گویا نقش بر آب کی طرح فانی ہے

Page 9

مگر آنیوالی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے حضرت علی کے مندرجہ ذیل قول پر غور فرمائیں عقل مند کا ہر کام اپنی اصلاح کے لئے ہوتا ہے اس کی تمام فکر میں آنے والی زندگی کیلئے ہوتی ہیں اور اس کی تمام سعی اور کوشش آنیوالی زندگی میں نیکی اور اچھائی کے لئے ہوتی ہے زندگی کا اس سے زیادہ اعلی مطمح نظر اس کے سوالور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان نیکی وطہارت کو حاصل کرے ہمارا مطمح نظر ہر صورت میں پر فیکشن ہونا چاہیئے مذ ہب اسلام اس خوش آئند نوید کا اعلان کرتا ہے کہ جنت کی زندگی کے دروازے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں جہاں گناہ کا زہریلا سانپ اس گھر کے مکینوں کو اپنے دانتوں میں جکڑ نہیں سکے گا اس روحانی حالت کا نام لقاء ہے اور لقاء صرف خدا کی منشاء اور ہماری کوشش سے حاصل ہوتی ہے اس مرحلہ پر پہنچنے تک ہم نے فیصلہ کر لیا ہو کہ ہم نے واقعی اپنے مطمح زندگی کو ہر صورت میں حاصل کرنا ہے اس تمنا کو پانے کی خواہش اس بات کا واشگاف اظہار ہے کہ اب ہم صحیح سمت میں چل پڑے ہیں ہمیں اس ضمن میں محدود ترقی پر مطمئن نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ہماری منزل مقصود وہ ہے جہاں سفر ختم ہوتا ہے آگے بڑھنے کیلئے آسانی سے سفر کرنے کے لئے نیز تیزی سے منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے چند قوانین زندگی پر عمل ضروری ہے کیونکہ یہ قوانین ہمارے لا ئحہ عمل کو استوار کرنے میں بہت ممد ثابت ہوں گے اس بات پر ہمار الیقین ٹھوس اور کامل ہونا چاہیئے کہ ہم اس مقصد حیات کو ضرور پالیں گے یہ یقین کامل ہو محض wishful thinkingنہ ہو یا امید کا ٹمٹماتا دیا نہ ہو دماغ میں شک اور ذہن غلط فہمی کا شکار نہ ہو اگر ہمارے ذہن میں یہ کامل یقین اور اعتماد نہ ہو گا تو فطرت کا ایک ضروری اصول عمل میں نہ آئیگا اور وہ اصول ہے چاہت کا اصول.ایک اور اصول جس کا عمل پذیر ہونالازمی

Page 10

ہے جس کے بغیر خواہش کی قوت پوری رفتار سے عمل میں نہ آئیگی وہ ہے خواہش کی قوت یعنی.force of desire.اپنے مقصد میں کامیاب ہو نیکی پر جوش اور ولولہ انگیز خواہش کا موجود ہو نالازم ہے خواہش ہر ارادی کام یا حرکت کے پیچھے کار فرماز بر دست قوت Impulse ہے ماسوا اس کام کے جو تشدد یا جبر اور اکراہ یا خوف کی وجہ سے سر انجام دیا جائے اس شخص کی حالت پر غور فرمائیں جو پانی کی تلاش میں سرگرداں ہو اس کا یہ عمل پانی کی تلاش خواہش سے شروع ہوتا ہے یا ایک اور مثال میں ایک طالب علم ساری رات جاگتا ہے اور صبح نور کے تڑکے تک نصابی کتب کے مطالعہ میں غرق رہتا ہے.وہ پڑہائی اس لئے کرتا ہے تاوہ امتحان میں کامیاب ہو جائے خواہش جس قدر تڑپ والی ہو گی اسی قدر اس کے نفس میں ترغیب زیادہ ہو گی.تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری توجہ اس بات کی طرف مرکوز رہے کہ ہماری تڑپ والی خواہش تقوی کے لباس میں لپٹی رہے اگر خواہش شدید نہ ہو گی تو اس بنیادی قوت کی غیر موجودگی میں ہماری پیش قدمی رک جائیگی ہم سفر ختم نہیں کر سکیں گے ممکن ہے ہم جادہ سفر پر زیادہ دور تک بھی نہ جاسکیں گے بہت ممکن ہے کہ پہلے عمودی چٹان پر چڑھائی ہی ہمارے سفر کو ختم کر دے تو کہنے کا مدعا یہ ہے کہ ہر کامیابی کے پیچھے خواہش کی سب سے زبر دست قوت کار فرما ہوتی ہے آئیے ہم اپنی بیٹریوں کو اس قوت سے مزید چارج کر کے سفر پر روانہ ہوں عام حالات میں خواہش کے مختلف درجات ایک فرد کے فطری رجحان سے جنم لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خواہش کا احساس شدید تڑپ یا تمنا سے پیدا کیا جا سکتا ہے ؟ حضرت میرزا غلام احمد صاحب بانی جماعت احمدیہ نے ایک ایسے ہی سوال کہ کیا نماز میں مزہ پیدا کیا جاسکتا ہے جبکہ ذہن میں نماز کے لئے میلان کا فقدان ہو ؟ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ہماری نماز میں رغبت پیدا ہو.میرے نزدیک اسکا سب سے مجرب نسخہ یہ ہے کہ ہم خدا

Page 11

سے ملتیجی ہوں کہ وہ ہماری خواہش میں تڑپ اور ولولہ پیدا کرے وہ خدا ہمارا محبوب خدا ہماری اس التجا کو ضرور سنے گا کیونکہ جو اس سے محبت کرتے ہیں وہ انکو اپنا محبوب بنا لیتا ہے نیز وہ ایسے تمام لوگوں کی نصرت و تائید فرماتا ہے جو صبر اور خواہش کے ساتھ اسکی صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں دلی اور تڑپ والی کچی دعا بے شک ایک بہت طاقتور ہتھیار ہے.دعا کے دوران جن چیزوں کو ہم سائل بن کر خدا سے مانگتے ہیں وہ ہماری جھولی میں یوں ہی نہیں ڈال دی جاتیں ان میں سے بعض چیزوں کے پانیئے طریقے ہمیں دعا کے ذریعہ سمجھائے جاتے ہیں اور ان طریقوں پر عمل کر کے ہم وہ چیز حاصل کر کے دعا کی قبولیت کا نشان دیکھ لیتے ہیں اس بات کو سمجھنے کے لئے اس شخص کی مثال لیں جس بے چارے کے سر میں ہر وقت درد رہتا ہے اس نے بہت معالجوں سے علاج کرو لیا مگر بے سود.بالاخر وہ سجدہ میں گرتا ہے اور رب العالمین خدا سے اس مرض سے شفامانگتا ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور سر در در فع ہو جاتا ہے مگر یہ ایسا اس لئے نہیں ہوا کہ وہ کسی کے gentle touch یعنی کسی دلربا کے چھونے سے وہ شفایاب ہو گیا.ہوا یہ کہ دعا کرنے کے بعد وہ اتفا قالا ئبریری گیا اس نے وہاں صحت کے اصولوں پر ایک کتاب دیکھی جسمیں یہ لکھا تھا کہ سر درد گندے خون کی وجہ سے ہوتا ہے اب وہ کتاب کا مزید مطالعہ شوق سے کرتا ہے اور اپنی غذا میں ضروری تبدیلیاں کرتا ہے دو ماہ بعد اسکا سر درد رفع ہو جاتا اور وہ خوش باش انسان نظر آتا ہے خدا نے اسکی دعا کو یوں قبولیت بخشی کہ اسکی توجہ اس کتاب کی طرف گئی اور یوں سر درد کا علاج اس کی سمجھ میں آگیا انسان اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خواہش کو اپنے ذہن میں کس طرح جنم دے سکتا ہے اس کے مندرجہ ذیل آزمودہ طریقوں پر عمل کریں.....اپنے ذہن میں اس روحانی حالت کا نقشہ کھینچیں جس کے حاصل کرنے کے ہم

Page 12

خواہش مند ہیں اس نقشہ کو اپنے دماغ میں ہمیشہ مستحضر رکھیں آٹو کمیشن یعنی خود کو ترغیب دینے سے کمال کی باتیں ظہور میں آجاتی ہیں اپنے ذہن کو اس بات پر بار بار ترغیب دیں کہ تقوی کا لباس یا اوڑھنا جو مقصود ہے اس کے پانیکی خواہش رفتہ رفتہ بڑھتی جائے یہ ذھنی ورزش روزانہ بار بار کریں اور اسے اپنی زندگی کا معمول بنالیں نیک اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کریں ایسے لوگوں کا بہ نظر غور جائزہ لیں ان کو ملیں.ان کو دیکھیں وہ کس طریق سے بولتے اور عمل کرتے ہیں ان کے کاموں کا اپنے کاموں سے موازنہ کریں ان کے ہر اچھے کام اور عمل کو اپنا ئیں انکی کمزوریوں کو نظر انداز کر دیں ہمیشہ کامل انسان بنے کی جستجو بلکہ سعی پیہم کریں ویر ہیں ہیں لڑ پچر میں بڑے بڑے لوگوں کی آپ بیتیوں کا مطالعہ کریں ہ ہے ہو جو مطمح نظر سامنے ہے اس پر اپنی تمام توجہ مرکوز کریں اس پر اپنی تمام توجہ صاف اور تیز رکھیں اپنے دماغ میں دوسرے خیالات کو داخل نہ ہونے دیں یہ چیز بہ نظر غائر مشکل نظر آتی ہے مگر مسلسل کوشش سے سہل ہو جاتی ہے و رب کریم کی نصرت و تائید کے لئے سچے دل سے دعا میں لگے رہیں کچی خواہش وہ قوت ہے جو زندگی کو حرکت میں رکھتی ہے اس قوت کے بغیر فرد واحد میں خواہش کی قوت شاید نا پید ہو جائے.خواہش وہ چیز ہے جس سے عاشق کا دل دھڑکتا ہے ایسے عاشق جو قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ دنیا میں انکاوصل کوئی ختم نہیں کر سکتا ہے ہر قسم کی ایزاء رسانی انکو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی مگر جونہی ان میں خواہش کا زبر دست جوش ماند پڑ جاتا ہے تو دونوں میں ایفاء اور عہد و پیمان کے وعدے بھی ختم ہو جاتے ہیں خواہش یا تمنا سے ہمارے اندر جوش خروش پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ہمارے اندر کی

Page 13

انرجی میں ہیجان پیدا ہوتا ہے خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہماری محبت اس ذات پاک کیلئے اس دنیا کی تمام خوشیوں اور تمناؤں سے بالا تر ہو اس لئے آئیے ہم اپنے من کے اندر آرزو کی آگ کو جلائیں اور یوں پیدا ہونے والی انرجی کو مقصود حیات پر مرکوز کر دیں آئیے ہم خواہش کی فائر پلیس میں ایندھن ڈالے رکھیں تا آنکہ تقوی کا لباس ہماری ملکیت بن جائے ایک اور چیز جو نہ صرف لازم بلکہ ناگزیر ہے وہ اپنے نفس کے اندر قوت ارادی کا ابھارتا ہے اس سے پہلے جو دو قوانین میں نے بیان کئے ان کو کسی صورت میں نظر انداز نہ کریں کیونکہ یقین کامل آرزو کے پیدا کرنے کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے یقین کے بغیر آرزو کسی کام کی نہیں اور نہ ہی اس کے بغیر خواہش کی قوت کام کر سکتی ہے قوت اردای کو بلاشبہ desire in action کا نام دیا گیا ہے رات کے وقت جب ہم آسمان پر ستاروں کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہیں تو یہ اس امر کا اظہار ہے اور اس سے یقین ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہاتھ کو حرکت میں لا سکتے ہیں پھر تمنا.اور پھر اس ارادہ کا اظہار کہ ہم ہاتھ اٹھا سکتے ہیں اگر ہم اس بات پر یقین نہ رکھتے کہ ہم ہاتھ بلند کر سکتے ہیں تو ہم یہ کوشش ہر گزنہ کرتے اور اگر خواہش کا شعلہ فروزاں نہ ہوتا تو شاید ہاتھ بھی نہ اٹھا سکتے قبل اس کے کہ ہم اپنے ارادوں پر عمل کر سکیں یہ جانا اور بیان کرنالازمی ہے کہ ہمارامعا اور ہماری خواہش کیا ہے ؟ دیکھو نشانہ بازی سیکھنے والا اندھادھند بغیر نشانے کے فائرنگ کرنے سے ماہر نشانے باز نہیں بن جا تا بعینہ قوت ارادی کا استعمال اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے ذہن میں کوئی متعین مقصد نہ ہو بہ حیثیت مسلمان کے ہمارا مقصد تقویٰ کے لباس کا حصول ہونا چاہئے یہ مقصد بڑا اعلیٰ اور بہت ہی نیک ہے کیونکہ اسکا مقصد خداند کریم کی خاطر ریاضت اور زہد میں زندگی گزارنا ہے کہتے ہیں where there is will, there is a way یعنی جہاں عزم ہو وہاں انسان کام کر نیکا ذریعہ تلاش کر ہی لیتا ہے وہ لوگ جو تقویٰ کے اعلیٰ مقام تک

Page 14

پہنچنے کا عزم صمیم کر چکے ہوں ان کو اعلی درجہ کی نوید قرآن کریم میں سنائی گئی ہے.ارشاد ہوتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنْهُم سُبُلَنَا - وَإِنَّ الله لَمَعَ المُحسنين ( العنكبوت سورة ٢٩ آیت ۷۰) اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انکو اپنے قرب اور جنت) کے راستے ضرور دکھائیں گے اور بے شک اللہ کریم کی رحمت ) خلوص والے لوگوں کے ساتھ ہے قوت ارادی کے ساتھ ساتھ مصمم ارادہ اور پختہ عزم کا ہونا بھی لازمی ہے اس کے ساتھ ایک اور چیز یہ ہے کہ انسان کا خیالی تصور یعنی ایجینیشن اور ذھن میں بنے والی تصویر قوت ارادی سے ہم آہنگی رکھتی ہو آئیے یہاں دو اشخاص کی مثال لیں جنہوں نے سگریٹ نوشی ترک کرنیکا ارادہ کیا ہے.پہلا شخص سگریٹ نوشی سے مزہ ملنی والی تصویر ذھن میں بنائے رکھتا ہے وہ سگار پینے سے جو مزہ آئیگا اس کی تصویر بناتا ہے اور پھر اس عادت کو چھوڑنے سے جو تکلیف ہو گی اس کے تصور سے وہ خوف کھاتا ہے یہاں قوت ارادی اور تصور میں اختلاف پیدا ہو گیا اور بعید نہیں کہ دوسری قوت پہلی پر غلبہ پالے دوسرا شخص سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے ہر تصور کو ذھن میں آنے ہی نہیں دیتا جب اسکو ایسا سوچنے میں وقت ہوتی ہے تو وہ سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کا سوچنا شروع کر دیتا ہے چہ جائیکہ وہ سگریٹ نوشی سے ملنی والی لذت کا سوچے.پھر وہ ایسے لوگوں کی صحبت سے احتراز کرتا ہے جو سگریٹ نوشی کے عادی ہیں.نیز وہ سگریٹ نوشی والے اشتہارات اور ایسی دوکانوں سے دور رہتا ہے جہاں سگریٹ فروخت ہوتے ہیں وہ اپنے ذھن میں صحت مند جسم اور دماغ کی تصویر بناتا ہے جو اسکے نتیجہ میں پیدا ہو گا.اسکی ذهنی تصویر اسکی قوت ارادی سے ہم آہنگ ہوتی ہے لہذا وہ جلد فتح یاب ہو جاتا ہے قوت ارادی ایک ایسی قوت ہے جو نہ تو کمزور ہوتی ہے اور نہ ہی تھکتی ہے یہ صرف ہمیں آگے کو ہی دھکیلتی ہے حتی کہ یہ اپنا شکار مار لیتی ہے یہ ہندوق کی گولی کے پیچھے کار فرما قوت کے

Page 15

11 بر عکس ہے جو لمحہ بھر میں اپنے نشانہ کی طرف روانہ ہو جاتی ہے.قوت ارادی کو اپنا شکار مارنے کے لئے بعض دفعہ کئی ہفتے بلکہ کئی دن درکار ہوتے ہیں قوت ارادی لمحاتی یاوقتی فیصلہ کا نام نہیں ہے یہ نام ہے مسلسل فیصلے کرنیکا اور دماغ سے شکوک اور ابہام.مایوسی اور نا کامی کے برے خیالات کے نکالنے کا.بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بڑی شاہراہ پر بڑے تزک واحتشام سے روانہ ہوئے مگر اپنا عزم بر قرار نہ رکھنے کے باعث منزل سے پہلے ہی راستہ میں گر کر ناکام ہو گئے قوت ارادی بے خوف عزم پر پروان چڑھتی ہے جو کہ ہر مسلمان کا طرہ امتیاز ہونا چاہئے اس امتیازی وصف کا اعادہ قرآن کریم میں بار بار ہوا ہے.ارشاد ربانی ہے إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبَّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَلَ عَلَيْهِمْ المَلَائِكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَ نُوا وَابْشِرُو بِالجَنْتِه التي كُنتُم تُو عَدون حم السجده سورة ٤١.آیت (٣٠) جن لوگوں نے (صمیم قلب سے ) اقرار کیا کہ ہمار ارب ایک ہے پھر انہوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا تو ان پر فرشتے نازل ہوں گے (جو انکو بشارت دیں گے کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رینج کرو کیونکہ ان کو جنت کے ملنے کی بشارت دی گئی ہے جسکا تم سے وعدہ کیا گیا تھا بَلَىٰ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَ يَا نُوكُم مِن فَورَهِم هَذَا يُمدِدِ كُم رَبِّكُم بِخَمْسَةِ أَلْفِ مِنَ المَلِئِكَةِ مُسَوَّمِيْن آل) عمران سورۃ ۳ آیت (۱۲۵) ہاں کیوں نہیں اگر ( تم لوگ) مستقل مزاج رہو گے اور متقی ہو گے اور وہ لوگ تم پر ایک دم آن پہنچیں گے تو تمہارا رب تمہاری نصرت فرمائیگا پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ جو ایک خاص وضع بنائے ہوئے ہوں گے وَلَنَبْلُوَ نَكُم حَتَّىٰ نَعْلَمَ المُجَهِدِ مِن مِنكُمْ وَالصَّابِرينَ وَ نَبلُوا أَخْبَارَكُم ( سورة ۴۷ - آیت ۳۲) اور ہم تمہاری ضرور آزمائش کریں گے تاہم ان لوگوں کو پہچان لیں جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور جو ثابت قدم ہیں تا تمہاری حالت کو جانچ سکیں قوت ارادی کے ذریعہ جو نمایاں کامیابیاں سر انجام دی جاسکتیں ہیں وہ بلا شبہ انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اولیس لیام میں مکہ کے رؤسا

Page 16

۱۲ نے ایک ہزار کی فوج کے ساتھ مسلمان فوج پر حملہ کیا جنگی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی مکہ والوں نے مومنوں کو نیست و نابود کرنا چاہا تامذہب اسلام اپنے آغاز میں ہی تباہ وبرباد ہو جائے جنگ کے شروع ہوتے ہی دو مسلمان چوں نے اپنے جرنیل سے پوچھا کہ ابو جہل کون شخص ہے ؟ ابو جہل بختر پنے میدان جنگ کے اس طرف کھڑا تھا اس کی طرف اشارہ کیا گیا ان مسلمان بچوں کے دماغ میں صرف ایک ہی خیال اور صرف ایک مقصد پیش نظر تھا اور وہ یہ کہ اس شاتم رسول ﷺ کو ہلاک کر دیں جس نے ان کے پیارے رسول ہے اور مسلمانوں کا مکہ میں سالہا سال سے عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا انہوں نے ان لا تعداد مظالم کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا جو ابو جہل نے مسلمانوں پر ڈھائے تھے بعض مسلمانوں نے تو اس قدر اذیت اٹھائی کہ قریب تھا کہ وہ موت کا لقمہ بن جاتے ان بچوں کا ذہن اور دل یقین کامل سے لبریز تھا اور یہ تمنان میں شدید رنگ اختیار کر چکی تھی اور وہ اپنے ارادہ میں پکے نظر آتے تھے چنانچہ یہی ہو اوہ بجلی کی طرح لیکے دشمن کا کمانڈر جہاں میدان جنگ میں کھڑا تھا وہ اس طرف بڑھے وہ دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے اس تک پہنچے اس تگ و دو میں ایک بچہ کا بازو کٹ گیا مگر وہ بد دل نہ ہو اور لڑتے ہوئے اپنا راستہ بناتے ہوئے چلتا گیا نسحہ ابو جہل اس کے سامنے کھڑا تھا ایک ہی وار میں اس نے اسکو تہ تیغ کر دیا شدید زخموں کے باعث وہ دوبارہ کھڑا نہ ہو سکا ہم بھی اپنے مقصد میں کامیاب و کامران ہو سکتے ہیں.واقعی تقوی کے لباس کا مطمع نظر کتنا بیش قیمت اور لعل بے بہا ہے شاید اس وقت یہ مطمع نظر ہماری پہنچ سے باہر نظر آئے مگر اس کی طرف سنہری راستہ جاتا ہے اس جادہ پر چل کر ہم ایک روز منزل مقصود پر پہنچ کر آسمانی ٹرافی ضرور حاصل کر لیں گے وہ موتی بہت انوکھا اور نرالا ہے جس کا نام تقوی ہے.وآخَرُ دَعونَا عَنِ الحَمدُ للهِ رَبِّ العَالَمِين

Page 17

۱۳ و آسودگی کے سکون قلب ایک اندرونی کیفیت ہے جس کو پانے کیلئے ہر کوئی خواہش کرتا ہے مگر بہت تھوڑے ہیں جو اس کو پاتے ہیں اکثر وہ لوگ جن کو اشتعال انگیزی کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ بے چینی اور مایوسی کا کم و بیش اظہار کرتے ہیں حقیقی سکون قلب کا اظہار انسان کے کردار سے نمایاں ہوتا ہے اور اسکا اظہار انسان کی آواز رفتار اور دیگر جسمانی حرکات سے بھی ہوتا ہے یه در حقیقت آسمانی نعمت ہے جو انسان کے اندر سکونت پذیر ہوتی ہے اور ہماری شخصیت کو چوبیس گھنٹے رنگین رکھتی ہے روح کا سکون ایک ایسی خصوصیت ہے جسے ہر کوئی اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے = نفس.اس امر میں کامیابی کے حصول کے لئے ضروری اجزاء یہ ہیں.دعا.دماغی توجہ ضبط ن پختگی.ارادہ اور استقلال.یہ صفات یقیناً انسان کو اپنی طرف اڑا کر لے جائیں گی اور وہ جلد ہی ایک عظیم انقلاب اپنے اندر محسوس کریگا اپنی کو ششوں کے اولین ثمرات سے وہ مطمئن نہ ہو گا چنانچہ وہ مزید ترقی کے لیئے خواہش اور کوشش کر تار ہیگا اور ہمیشہ اپنے اعمال میں احتیاط برتے گا تا ذرا سی لغزش بھی اس کے روحانی توازن کو بگاڑ نہ دے اور جوں جوں وہ ترقی کرے گا سکون اور اطمینان اسکے خیالات اور اعمال پر اسقدر حاوی ہوں گے کہ اس کو ہر وقت چوکس رہنے کے لئے مزید کوشش اور احتیاط در کار نہ ہو گی اور یہ چیز اس کی فطرت ثانیہ بن جائیگی.جس شخص کو سکون قلب حاصل ہوتا ہے وہ دنیا کی تکالیف اور دکھوں سے آزاد نہیں ہو جاتا ایسا شخص ان تکالیف سے خوب واقف ہوتا ہے مگر ان کو نہایت سکون سے قبول کرتا ہے اور دیکھنے

Page 18

والا ایسے شخص میں بظاہر کوئی جذباتی تغیر نہیں دیکھ سکتا حضرت میرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی پہلی دختر عصمت سے بہت لگاؤ تھا جب وہ بیمار ہوئی تو آپ نے اسکی بہت دیکھ بھال کی لیکن جب وہ بقضائے الہی فوت ہو گئی تو ایسا محسوس ہو تا تھا گویا آپ اسے بلکل بھول گئے ہیں.آپ نے خدائے تعالی کی مر ضی کے آگے سر تسلیم خم کر دیا تھا ایک اور موقعہ پر بعض عیسائی پادریوں نے آپ کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا ایسی حالت میں عموما لوگ بے چینی اور اضطراری کا اظہار کرتے ہیں مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بلکل پر سکون رہے کسی کو گمان بھی نہ ہو تا تھا کہ آپ پر قتل کا الزام عائد ہے جس شخص کو سکون قلب حاصل ہو وہ کبھی گبھراتا نہیں.زندگی یا موت صحت کی خراطی مصائب و تکالیف اسکو پریشان نہیں کرتے اگر چہ ایسا شخص ان مصائب کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے لیکن اپنے سکون و حرکات پر اسے پورا ضبط حاصل ہوتا ہے قرآن پاک میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ انسان کو مختلف مصائب میں مبتلا کر کے صبر سکھاتا ہے ارشاد ہوتا ہے وَلَنَبْلُوَ نَكُم بِشَيْ مِنَ الخَوفِ وَالجُوعِ وَ نَقصِ مِنَ الامْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرينه الذِينَ إِذَا أَمَا بَتَهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُو إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَا جَعُونَ (سورۃ ۲ آیت نمبر ۱۵۶ ۱۵۷) حقیقت تو یہ ہے کہ تکالیف اور مصائب کے دوران ہی انسان کی صحیح پہچان ہوتی ہے جبکہ انسان کو تمام نیکیوں سے افضل نیکی یعنی صبر کے مظاہرہ کا موقعہ ملتا ہے سفلی جذبات کو زیر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے مبارک ہیں وہ لوگ جو اس میں کامیاب ہوتے ہیں بعض لوگ بڑے نیک اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں مگر ذراسی بات پر وہ اس قدر بے صبری اور غم و غصہ کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کے معتقدین حیران و ششدر رہ جاتے ہیں ہمارے اس مضمون کا مقصد سکون قلب کی جاذبیت کی طرف قارئین کی توجہ

Page 19

۱۵ مبذول کرانا ہے تاکہ قارئین گذرانہ خیال ایسی کیفیت پیدا کر یں اور اس ذہنی حالت کے پیدا کرنے کیلئے ایسے گر بتلائے جائیں جس سے کہ انسان ان بلندیوں کی طرف پرواز کر سکے جو شخص سکون قلب کی تلاش میں سرگرداں ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ایسی حالت اور موقعہ سے آگاہ ہو جو اس کی پر سکون روح کو برباد کر سکے وہ روز مرہ زندگی کے ان تمام واقعات سے آگاہ ہو جہاں سے اسے ٹھوکر لگنے کا احتمال ہو اور وہ ان حادثات سے بچنے کے لئے مناسب اقدامات کرے اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے یہ امر بہت مفید ہے کہ آنے والے خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے ان امور کا علم ہو جو اس راہ میں حائل ہوتے ہیں سیاہ بادل آنے والے طوفان کی علامت ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر راہگیر پناہ تلاش کرتا ہے گھر والی دھوپ میں لٹکے ہوئے کپڑوں کو جلد جلد اکٹھا کرتی ہے اور گڈریا اپنا ریوڑ ہانک کر باڑہ میں لے جاتا ہے سب لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ طوفان کی آمد ہے اور اس سے بچاؤ کا سامان لازم ہے سیلف کنٹرول کے نہ ہونے سے بے صبری بے آرامی.گالی گلوچ.غصہ اور طنز آمیزی کے دروازے کھل جاتے ہیں ان سب پر قابو پانا ضروری ہے اب ہم روز مرہ زندگی کی چند ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہیں یہ صرف وار نگ سائن ہیں اور جو نہی یہ نظر آئیں ان کے خلاف حفاظتی انتظامات کئے جائیں ہر علامت کو ایک چیلنج سمجھا جائے اور ضبط نفس کا ایک زینہ سمجھا جائے.مجھے یقین واثق ہے کہ رفتہ رفتہ ان پر عبور حاصل کیا جا سکتا ہے شور شور عام طور پر اعصاب شکنی غم و غصہ اور تلخ نوائی کا باعث بن جاتا ہے گھر میں بچوں کا شور و غوغا بعض دفعہ گھر والوں کے لئے ناراضگی کا باعث بن جاتا ہے حضرت بانی سلسلہ

Page 20

احمد یہ نے اپنے بعض علمی شاہکار اسی قسم کے شور و شعب کے درمیان تحریر فرمائے جو آپ کے گرد و پیش جاری رہتا تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سخت سر درد میں مبتلا تھے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ بچوں اور ملازموں کا شور حضور کی طبیعت پر بو جھل تو نہیں.آپ نے فرمایا کہ میں خود ان سے یہ کہنا پسند نہیں کرتا البتہ آپ نرمی سے ان سے خموشی کے لئے کہہ دیں.اسی طرح ایک اور موقعہ پر آپ حضور سے پوچھا گیا کہ آپ گھر کے شور و غل میں کیسے علمی کام کر لیتے ہیں؟ تو فرمایا کہ میں تو اس طرف توجہ ہی نہیں کرتا لہذا مجھے یہ ناگوار نہیں گزرتا خلل اندازی بعض اوقات جب انسان کسی دلچسپ کام میں ہمہ تن مصروف ہو تا ہے تو بے وجہ کی خلل اندازی بہت بری محسوس ہوتی ہے.حتی کہ ایک چہچہاتا ہوا پرندہ یا لکھی یا مچھر کی بھیجھناہٹ بھی اس قدر بری محسوس ہوتی ہے کہ انسان غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے اسی طرح نیند میں خلل بھی بعض لوگوں کو بہت ناگوار گزرتا ہے کہتے ہیں کہ حضرت احمد علیہ السلام جب کسی علمی کام میں محو ہوتے تھے تو چے آپ کے کام میں مخل ہوتے مثلاً دروازہ پر بار بار دستک دیتے اور دروازہ کھولنے کے لئے کہتے حضرت احمد بلا پس و پیش دروازہ کھول دیتے.پھر ایک دفعہ آپ کے صاحبزادے حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد نے آپ کا ایک ضروری مسودہ جلا دیا تو آپ نے مسکر ا فرمایا شاید خدا تعالیٰ کو اس سے بہتر مضمون لکھنا منظور تھا یاوه گونی

Page 21

16 بعض لوگ بہت باتونی ہوتے ہیں خود ستائی میں وہ دوسروں کو اس قدر بور کرتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے ایسے لوگوں کو توجہ دینا نہایت مشکل کام ہے ایسے یاوہ گو کی باتوں کو سنتا گویا دوسروں کے لئے صبر کا امتحان ہوتا ہے غذا بعض اوقات غذا بھی انسان کی پریشانی کا موجب بن جاتی ہے ہے اسکا اظہار بہت خوبی سے کرتے ہیں بعض خاوند اپنی بیویوں پر اسلئے ناراض ہوتے ہیں کہ کھانا وقت پر تیار نہ تھا بھوک اعصاب پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے.اور جو حضرات روزوں کے عادی نہیں ہوتے ہیں بھوک ان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے ہم سبکو بھوک کی علامات ظاہر ہوتے ہی خبر دار ہو جانا چاہئے مالی پریشانیاں مالی مسائل اکثر دماغ پر بو جھل ہوتے ہیں ان مسائل سے انسان کی صحیح قدریں گر جاتی ہیں پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں مالی مسائل ہمارا ذہنی سکون خراب کرنے کا باعث نہیں ہونے چا نہیں بلکہ سکون قلب ہمارا مقصد اور مدعا ہونا چاہئے ہمیں خدا پر توکل رکھنا چاہئے اور اسکا شکر گزار ہونا چاہئے کہ احمدیت کے ذریعہ ہمیں وہ لازوال دولت ملی جو دنیا کی تمام دولت اور ثروت سے بھی زیادہ قیمتی ہے ہمارے پیارے نبی ﷺ کے گھر میں بوقت وفات صرف چند سمھجور میں ہی اثاثہ تھیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بوقت رحلت صرف ایک روپیہ تھا.سکون قلب انسان کو ہشاش باش اور مسکراتا ہوا چہرہ رکھنے میں محمد ہوتا ہے خواہ انسان کو کیسے ہی مالی مسائل در پیش ہوں تھکاوٹ

Page 22

۱۸ تھکا ماندہ انسان مسکراہٹوں سے بہت دور ہو تا ہے اس کے اعصاب کچھے ہوتے ہیں ہر کام اور چیز جو طبیعت کے خلاف ہو شکایت کا موجب بن جاتی ہے تھکے ہوئے شخص کو اپنی گفتگو اور اعمال کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے گالی گلوچ بعض لوگ اپنی زبان کو گالی گلوچ کے مہلک ہتھیار سے مسلح رکھتے ہیں تاوہ دوسروں کو بے عزت کر سکیں اگر آپ کی کوئی اس طرح بے عزتی کرے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ خموش رہیں اور ایسے مفسد و جاہل شخص کے سامنے تو لازما خموش رہیں اس کام کے لئے ضبط نفس کی ضرورت ہے ہماری زندگی میں بہت ایسی باتیں وقوع پذیر ہوتی ہیں جن سے ہم ناراض اور خفا ہو سکتے ہیں مثلا اگر آپ کسی سے متفق نہ ہوں تو اس کا اظہار حکمت عملی سے کرنا پسندیدہ ہے مگر اس چیز کو کھلم کھلا دشمنی کی وجہ بنالینا نا پسندیدہ امر ہے زندگی میں ہمیں خفا کرنے والے امور کی ایک فہرست قارئین کے پیش خدمت ہے ہیں جب لوگ وقت کے پابند نہ ہوں یا جب کوئی قیمتی چیز کھو جائے جب کوئی خواہ مخواہ لڑائی مول لے ہو جب کوئی بس یا گاڑی سے رہ جائے جب کوئی وعدہ ایفاء نہ کرے کہلا جب صحت خراب ہو اور انسان سخت تکلیف میں مبتلا ہو جا ناروا سلوک اس فہرست میں اور بھی دوسری باتیں شامل ہو سکتی ہیں مگر چند ایک کی نشاندہی کافی ہے جس طرح جسمانی ورزش انسان کے جٹہ کو مضبوط بناتی ہے اس طرح ذہنی اور روحانی امور کے ذریعہ دماغی اور روحانی آسائش کا سامان کیا جا سکتا ہے کسی مقصد کے حصول کے لئے خواہ وہ مادی ہو یا روحانی ہو خاص دھیان اور غور و فکر کی ضرورت ہے اور اس میں کامیاب ہونے

Page 23

۱۹ کا زیر دست جذبہ کار فرما ہو مندرجہ ذیل مساوات ہمیشہ مد نظر رکھیں شوق جمع چاہت.مساوی ہے کامیابی کے سکون قلب کی گہرائی ناپی نہیں جا سکتی ہے یہ وہ ہیرا ہے جو انمول ہے اور اسی کو نصیب ہوتا ہے جو دیانتداری سے اسکی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور اپنے کردار پر مسلسل نظر رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں سے کامیابی کی التجا کرتا ہے

Page 24

۲۰ فراخدلی فراخدل انسان وہ ہوتا ہے جو بڑے دل والا.بہادر.مہربان.فیض رساں.مخیر.وسیع الذہن.مددگار اور رحمدل ہو.دنیا میں آنحضرت ماہ سے زیادہ کوئی اور انسان فراخدل نہ تھا آپ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کو معہ کے مشرکین نے دس سال تک نشانہ ستم بنائے رکھا حضور نبی پاک ﷺ سے نہایت برا سلوک کیا گیا آپ کا بائیکاٹ کیا گیا آپ کی ایز اور سانی کی گئی بلکہ کتنے ہی مظلوموں نے اس ستم کی چکی میں پس کر اپنی جان بھی گنوادی.اور مکہ میں حالات اس قدر نا قابل برداشت ہو گئے کہ آپ مسلمانوں سمیت مدینہ کے پرامن شہر میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے جہاں آپ کا والہانہ استقبال کیا گیا آنحضرت ﷺ مدینہ میں اس گھڑی کا بڑی تڑپ اور اشتیاق سے انتظار کرتے تھے جب آپ مکہ کے مقدس شہر میں دوبارہ داخل ہو سکیں گے مگر اس خواہش کو پورا ہونے میں مزید دس سال لگ گئے.بلآخر جب آپ تکہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ تھے آپ اگر چاہتے تو مکہ پر اچانک حملہ کر کے قبضہ کر لیتے اور انتقام کی آگ کو بجھا لیتے مگر اس کے بر عکس آپ نے خاص ہدایات جاری فرما ئیں کہ کوئی شخص لڑائی جھگڑا نہ کرے.نہ کسی کو قتل کرے مکہ کے شہری آپ کے رحم و کرم پر تھے مگر مکہ کے لوگ حیران رہ گئے جب آپ نے ان کی ماضی کے ظلم معاف کر دئے ان میں سے بہت سے شہری آپ کی فراخدلی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اکثر نے انشراح صدر سے اسلام قبول کر لیا فراخدلی بانی جماعت احمدیہ حضرت میرزاغلام احمد صاحب کا امتیازی وصف بھی تھا.۱۸۹ء میں آپ پر دشمنوں نے قتل میں حصہ لینے کا الزام لگا کر عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا مگر اس

Page 25

۲۱ سے آپ بری الذمہ قرار پائے مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا کہ وہ جھوٹی شہادت کی وجہ سے جو با مقدمہ دائر کر سکتے ہیں مگر آپ نے فرمایا کہ آپ کو یہ ہر گز پسند نہیں اور یہ کہ آپ نے جھوٹے شخص کو معاف کر دیا ہے آنحضرت ﷺ کے بعد تاریخ میں فراخدلی میں کسی مسلمان کی اتنی تعریف نہیں کی جاتی جتنی سلطان صلاح الدین الیونی کی جس نے صلیبی جنگوں کے بعد عیسائیوں کی برتری فلسطین سے ہمیشہ کے لئے ختم کر دی مصر کے اس سلطان کے بارہ میں ایک مصنف نے لکھا ہے He was more gallant, more chivalrous and sincere than the Western kings And barons who rode against him in the second and third crusades.He was Also a better warrior.During his life time there was no man equal to him in The breadth, scope, and depth of his honor and vision.(Saladin - A Man for All Ages - By L Paine) وہ ان مغربی بادشاہوں اور نوابوں کی نسبت زیادہ جرأت مند.بہادر.اور مخلص تھا جو دوسری اور تیسری صلیبی جنگوں میں اس کے خلاف برد آزما ہوئے (اے مین فار آل ایجز.ایل پین ) سلطان صلاح الدین نے خود اپنے بارہ میں کہا.میں جو اتنا عظیم انسان ہوں میں نے یہ پوزیشن لوگوں کے دل جیت کر حاصل کی ہے میں نے کسی کے خلاف دل میں برے خیالات کو جگہہ نہ دی کیونکہ موت سے کسی کو فرار نہیں ہے.ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ ہم نے کسی شخص کے خلاف دل میں برے خیالات کو جعبہ نہیں دی.فراخدلی اور انتقام ایک دل میں ہر گز نہیں سما سکتے.غصہ - حد - شک.غیبت بدظنی اور تمام ایسے بڑے احساسات نہ صرف دماغ بلکہ جسم اور روح کو بھی زہر آلود کر دیتے ہیں ان احساسات کی وجہ سے ہی نفرت.جھگڑا.اور نا موافقت جنم لیتے ہیں اللہ تبارک تعالی کی پیاری کتاب میں ارشاد ہوا ہے وَلَا تَجْعَل فِي قُلُوتِنَا غلا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَوف الرّحيم (سورة الحشر نمبر ۵۹ آیت نمبر ۱۱) اور ہمارے دلوں میں

Page 26

۲۲ ایمان داروں کی طرف سے کینہ نہ پیدا ہونے دینا اے ہمارے رب آپ یقتا بڑے ہی شفیق اور رحمدل ہیں.وہ شخص بہت ہی خوش قسمت ہے جس کا دل عداوت اور بغض سے پاک ہے..کیونکہ ایسا شخص جنت میں امن اور سکون اور اسکی برکات کا مزہ یہاں بھی محسوس کر سکتا ہے ارشاد خداوندی ہے اِن المُتَّقِينَ فِى جَنْتِ وَ عَيُونِ أَدْخُلُوهَا بِسَلام آمِنِيْن وَ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِنَ غِلِ إِخْوَا نَّا عَلى سرر متقبِلین (سورة الحجر نمبر ۱۵ آیت ۴۵ تا ۴۸) بے شک اہل ایمان باغوں اور چشموں کے درمیان بہتے ہوں گے تم ان میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم وہ سب دور کر دیں گے اور سب لوگ بھائی بھائی کی طرح (الفت سے ) ہیں گے اور تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے حضرت میر زاناصر احمد صاحب خلیفہ الیح الٹا لٹ" کے الفا ظ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں اب کس قدر معنی خیز معلوم ہوتے ہیں فراخدل انسان کا دل نیکی سے معمور ہوتا ہے اس کے کردار میں بغض و عداوت ذرہ بھر بھی نظر نہیں آتے.وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ مثبت اور روشن پہلو کو اجاگر کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے تمام قسم کی دشمنیاں اور حسد کو ترک کر دو سچا مسلمان کسی کے خلاف دل میں کینہ نہیں رکھتا ہے ہیں ہیں جو ہر قسم کا غصہ اور بغض نکال پھینکو جو دنیاوی اور نفس پرست خواہشات سے پیدا ہوتے ہیں او پر بیان کردہ مقولے روح افزا غذا کی مانند ہیں جنکو ہمیں خوب ہضم کر کے اپنی شخصیت کا حصہ بنا لینا چاہئے اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو شاید ہم اطمینان قلب اس دنیا میں حاصل نہ کر سکیں اور آنے والی دنیا میں بھی ایک لمبے عرصہ تک اطمینان قلب نہ ملے کیونکہ ہماری روح ہماری دماغی کیفیت کے رنگ سے رنگین ہوتی ہے فراخدل اور فیاضانہ خیالات سے ہماری روح چمک اٹھتی ہے

Page 27

۲۳ جبکہ عداوت و کینہ کے خیالات سے ہمار ادماغ دھندلا اور سیاہ ہو جاتا ہے ابراهام لنکن جو امریکہ کا مشہور صدر ہو گزرا ہے اس کے بارہ میں کسی نے کیا خوب تعریفی کلمات کے ہیں.اس کا دل اس دنیا سے بھی بڑا تھا مگر اس دل کے اندر کسی کی خطا کو یا د ر کھنے کا خانہ نہ تھا.دوہزار سال قبل کے مشہور فلاسفر ارسطو نے فراخدل انسان کے اوصاف یوں بیان کئے ہیں.( فراخدل مشخص) کم گو ہوتا ہے وہ آہستگی سے گفتگو کرتا ہے مگر اپنے خیالات کا اظہار کھل کر جرات سے کرتا ہے جب اس کو موقعہ ملے وہ زیادتی کو نظر انداز کر دیتا ہے وہ میاں مٹھو نہیں ہوتا.وہ دوسروں کے بارہ میں بے وجہ باتیں نہیں کرتا.وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اسکی تعریف کے کلمات بولے جائیں وہ لوگوں پر بے وجہ اعتراض نہیں کرتا ہے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سر نہیں پیٹتا.اور دوسروں کی مدد کا طلبگار نہیں ہوتا ہے جھگڑا کر نا فراخدل انسان کے لئے نہائت غیر معقول ہوتا ہے جھگڑا کرنا اسکی فطرت میں نہیں ہوتا مگر انسان ہو نیکی بناء پر اس سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اس صورت میں وہ خود منفعل ہو تا اور مستقبل میں محتاط رہتا ہے در حقیقت وہ لوگوں کا بھلا چاہتا ہے اور دوسروں کے بارہ میں دل میں برے خیالات یا احساسات نہیں رکھتا یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ نیک دل انسان کسی کا بر انہیں چاہتا ☆☆

Page 28

۲۴ وضبط نفس) قارئین آپ میں سے کئی ایک نے چین کے بہت پرانے عظیم مفکر سینیکا کا مقولہ تو ضرور سنا ہوگا وہ انسان سب سے زیادہ طاقتور ہے جس کو اپنے نفس پر ضبط حاصل ہے چاند کی طرف بازو بڑھا کر پکارنے سے کبھی یہ چمکتا ہوا سیارہ انسان کے پاس نہیں آسکتا ایک خلائی سیارہ کے بنانے.اس کے خلاء میں جانے اور اس کے تیز رفتار سفر مع سائینسی آلات کے نیز انسان کے خلائی سفر سے قبل کا ئنات کے قوانین کو سمجھنا ان پر غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے خدا کبھی بھی انسان کی اس خواہش کو پورا نہیں کرے گا کہ وہ آنکھ جھپکنے میں زمین سے اڑ کر چاند کی سطح پر پہنچ جائے اس کے بر عکس خدا نے انسان کو عقل دی ہے کہ وہ مطالعہ.مشاہدہ.تجربات.اور سائینسی قوانین کو سمجھ کر اپنے مقصد کو حاصل کرے.یعنی چاند کی تسخیر ، سائینسی اصولوں کی طرح روحانی اصولوں کو بھی اگر انسان سمجھے اور پہچانے تو اس دنیا سے نکل کر جنت کی دلر باد نیا میں پہنچ سکتا ہے لیکن اس کے لئے پہلا قدم بھی انسان کو اٹھانا ہو گا کیونکہ خدائے تعالیٰ صرف ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں جس طرح ایک خلائی سیارہ کی کامیابی کا دار مدار کنٹرول سینٹر پر ہے جو اس کے گوناگوں کا موں اور حالتوں کا خیال رکھتا ہے اور ہدایات دیتا ہے اسی طرح روحانی پرواز کے لئے انسان کو ایک خاص اندرونی کیفیت کا پیدا کرنا ضروری ہے اس کیفیت کا نام ہے ضبط نفس ضبط نفس ہی وہ چیز ہے جو انسان کے کردار کو رنگین کرتی ہے کردار کے بنانے میں اس کا دخل بہت زیادہ ہے اس لئے اس کے حاصل کرنے میں خاص توجہ کی ضرورت ہے اپنے

Page 29

۲۵ ย کردار کو بلید یوں تک لیجائیکی کی طاقت فی الحقیقت انسان کے اندر ہی پوشیدہ ہے یہ بجا ہے کہ تمام طاقت کا سر چشمہ خدا تعالیٰ ہے لیکن وہ ایسے لوگوں ہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے قَد أَفَلَحَ مَن تَزَ کی.(سورۃ ۷ ۸.آئت (۱۵) یعنی وہ شخص کا میاب ہوا جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا.ایک مومن ہمیشہ خدا کی پناہ میں رہنا پسند کرتا ہے شیطان کا اس پر دائمی غلبہ نہیں ہو سکتا اس مقصد کے حصول میں خدا کی تائید و نصرت کی سخت ضرورت در کار ہے اور خدا تعالیٰ اپنا ہا تھ اس شخص کی طرف ضرور بڑھاتا ہے جو اس کی طرف بڑھنے کے لئے سرگرداں اور کوشاں رہتا ہے اسلامی طریق زندگی نہائت منتظم طریق حیات ہے جو اطاعت.کوشش.اور نگرانی پر خاص زور دیتا ہے نظم و ضبط کی ریڑھ کی ہڈی فی الحقیقت ضبط نفس ہے گذشتہ انبیاء.صوفیاء اور اولیاء اللہ کی زندگیوں کا مطالعہ ہمیں بتلاتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں ضبط نفس کا بہت دخل تھا جس کی بناء پر ان میں روحانی جاذبیت اور زبر دست کشش پیدا ہوئی حضور رسالت مآب ﷺ کو اپنے ہر عمل.ہر بول، اور ہر حرکت پر پورا پورا ضبط حاصل تھا.آپ حضور یہ فرض کے جادہ پر ہمیشہ گا مزن اور استقامت پذیر رہے اور سے کٹھن آزمائش میں ضبط اور صبر کا دامن نہ چھوڑا.نبی کریم ﷺ میں صبر صداقت.دیانت.جرات.اور انصاف کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے.جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کان خلقه القرآن یعنی آپکی خو اور خصلت قرآن سے عبارت تھا حضرت احمد علیہ السلام کی زندگی اور کردار میں بھی ہمیں ضبط نفس نمایاں نظر آتا ہے آپ کی زندگی ضبط نفس کا دلکش نمونہ تھی.آپکی زندگی میں آپ سے زیادہ شاید ہی کسی اور شخص کو اتنی گالیاں دی گئیں اور طعن و تشنیع کا ہدف بنایا گیا لیکن اس کے باوجود آپ کے کردار

Page 30

۲۶ اور عمل میں کبھی فرق نہ آیا آپ کے نحیف کندھوں پر ایک بھاری اور عظیم ذمہ داری تھی لیکن آپ نے ہمیشہ خدا تعالیٰ پر توکل کیا اور اپنے مشن میں کامیابی اور کامرانی کے لئے اللہ کبھی تعالی کے حضور ہی گریہ وزاری کی.بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کسی عارضی ناکامی سے نہ گبھرائے اور نہ ہی کسی کی دشمنی اور تمسخر نے آپ کو پریشان کیا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا میرے دل میں رحم کی انتہاء نہیں اور غصہ کو تو میں نے بلکل ہی ختم کر دیا ہے ہم اپنی زندگی میں خود اپنے حاکم ہیں خدا نے ہماری رہ نمائی فرمائی ہے اور ہمیں ایسی فراست عطا کی ہے جس سے ہم اپنا کردار اچھا بنا سکتے ہیں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے کردار کے معمار منیں شیطانی قوتوں کا دلیری سے مقابلہ کر ہیں.اپنے آپ کو پاک و صاف رکھیں اور دعا کے ساتھ خدائے ذوالجلال کی ہدایت اور رحمت کے طلبگار ہو دیں یہ ایک بڑا مشکل کام ہے جس کو ہم نے ہی کرتا ہے اور صراط مستقیم پر گامزن رہنے کے لئے ضبط نفس کے سٹیئرنگ دحیل Steering wheel پر قابو رکھنا ہو گا بلکل جس طرح ایک جہاز کا کپتان اس کو طوفان میں سے گزار تا ہوا بندرگاہ پر لے آتا ہے ضبط نفس ایک مسرت سے بھر پور زندگی کے کردار کو جنم دیتا ہے ہندؤوں کی مقدس کتاب گیتا میں لکھا ہے کہ وہی شخص حقیقی مسرت سے فیض یاب ہوتا ہے جو نفرت سے بالا تر ہے اور اسکو اپنے جذبات پر قابو ہے.ضبط نفس سے انسان کی خود داری بھی بڑھتی ہے ایک کہاوت ہے کہ اپنی عزت خود کرو ورنہ دوسرے بھی تمہاری عزت نہ کریں گے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ہے کہ جو خود داری کو پروان چڑھاتا ہے وہ کبھی دوسروں کی نظر میں بے عزت نہیں ہوتا ہے

Page 31

۲۷ مشہور امریکی مصنف ٹامس جیفرسن نے کیا خوب کہا ہے ایک شخص کو دوسرے پر اس سے زیادہ کوئی فضیلت نہیں کہ وہ ہر حال میں خوش و خرم رہے.ضبط نفس سے انسان میں سب سے افضل اور اعلیٰ صفت صبر کی پیدا ہوتی ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے یا نهَا الذِّيْنَ آمَنُوا اصْبِرُو وَ مَا بَرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّهوَ الله لَعَلَكُم تفلحونه (سورة نمبر ۳.آیت نمبر ۲۰۱) اے ایمان دارو - صبر سے کام لو اور دشمن سے بڑھ کر صبر دکھاؤ اور سر حدوں کی نگرانی رکھو اور اللہ کا تقوی اختیار کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ اپنے اندر ضبط نفس پیدا کرنا در حقیقت ایک زیر دست آرٹ اور اعلیٰ تعلیم ہے لیکن یاد رہے کہ اس تعلیم کا صرف اتنا ہی فائدہ ہو گا جتنا اس پر عمل کیا جائے گا ضبط نفس کوئی تحفہ نہیں بلکہ ایک زبر دست مجاہدہ ہے اور اس مجاہدہ کا ر از ذ ہنی ارتکاز ہے جس سے ٹھوس خواہش اور ذہنی تصورات کا پیدا ہوتا ہے جو ٹھوس چیزوں میں تبدیل ہو جائیں ہم ہی اپنی روح کے آرکیٹیکٹ ہیں.اور ہمارا قادر مطلق خدا.ہمارا پیارا خدا یقینا ہمار ا ر ہنما اور مددگار ہے

Page 32

۲۸ اخلاقی خوبیوں کی ملکہ کے مذہب اپنے پیرو کاروں سے عقائد اور اصولوں کے قبول کرنے کے علاوہ کچھ اور باتوں کا بھی مقتضی ہوتا ہے جس سے مراد زندگی کا وہ عملی پہلو ہے جو ہر قسم کے کردار اور چال و چلن پر محیط ہوتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں مذہب اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ انسان اس بات کی کوشش کرے کہ وہ اپنی سوچ اپنے عمل اور اپنے قول میں نیکی کا پیکر بن جائے اور یہ مطمح نظر صبر اور مستقل مزاجی کے علاوہ حاصل نہیں ہو سکتا ہے صبر در حقیقت تمام اخلاقی خوبیوں کی ملکہ ہے یہ تنک مزاج طبیعت اور بد اخلاق رویہ کے لئے تریاق کا اثر رکھتا ہے.بلا شبہ اس نیکی کو ہر وقت مد نظر رکھنا اور اس پر عمل کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن جتنا انسان اس کو اپنے نفس کے اندر پیدا کرتا ہے اتنا ہی زیادہ انسان روحانی دنیا میں ترقی کرتا ہے اور ہر روحانی مسافر کا یقینا یہی مطمح نظر ہو نا چاہئے مبر ایک اکتسابی استعداد ہے جو انسان کو ہر قسم کی آفت اور مصیبت میں عقل مندی.صبر اور تحمل سے جھیلنے کی قوت عطا کرتی ہے یہ استعداد ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم ہر دم چوکس رہیں یہ ایک ایسی استعداد ہے جو زندگی میں ہر روز پڑھائی جاسکتی ہے یا یوں کہ یہ ایک ایسی رحمت ہے جو انسان کو پریشان ہونے سے نجات دیتی ہے.یہ ہر قسم کے پریشان کن حالات میں خود کو قابو میں رکھنے کی استعداد عطا کرتی ہے اس رحمت کے نتیجہ میں انسان مصائب اور تکالیف کا صبر اور تحمل سے مقابلہ کرتا ہے نیک فطرت انسان کے لئے گویا یہ چیز خدا کی منشاء اور اس کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے.کامیاب زندگی گزارنے کے لئے یہ ایک نہایت بنیادی اور اہم جزو ہے خاص طور پر

Page 33

۲۹ روحانی زندگی کی نشوو نما میں تو صبر جزولانیفک کی حیثیت رکھتا ہے.صبر انسان کے کردار کو سنورا تا اسے نکھارتا اسے خوب صورت بناتا ہے اور روحانی نشو و نما کو منور کرتا ہے یہ روح کو چمکدار بناتا ہے انسان کا کردار اس سے دلکش بن جاتا ہے یہ ایک ایسا جادو منتر (چارم) ہے جس کی تعریف ہر کس و ناکس کرتا ہے بے صبری اس کے بر عکس دماغ میں آگ لگاتی ہے جبکہ صبر اپنے خوشکن جھونکے سے ہمارے ذہن کو سکون مہیا کرتا ہے بائیبل میں مذکور ہے.بھائیو تمام مخلوق کے ساتھ صبر کے ساتھ پیش آؤ قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے اِستَعِينُوا بِالصبر و الصلوة (سپارہ ۲.آیت ۱۵۳) یعنی صبر اور نماز کے ساتھ سہارا حاصل کرو بلا شبہ اللہ کریم صبر کرنے والوں کیسا تھ ہے.ایک اور جگہہ ارشاد ہوتا ہے و بشر الصابرین ( سپارہ ۲ آیت نمبر (١٥٦) اے نبی کریم صبر کرنے والوں کو بشارت سنائیے پھر ارشاد ہوتا ہے یا نهَا لَذينَ آمَنُوا صِبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا (سپارہ تین آیت ۲۰۰) اے ایمان والو صبر کرو اور مقابلہ میں بھی صبر کرو اور مقابلہ کے لئے مستعد رہو ایک مغربی مصنف سموئیل سمائیل Samuel Smile نے کیا خوب کہا ہے....ین It is by patience and self control that the truly heroic character is perfected.جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ حضرت میرزا ناصر احمد صاحب کا بھی یہی مائو تھا و محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں.مصائب کو اگر انسان کو شش کرے تو خیر برکت کا موجب بنا سکتا ہے مصائب میں فوائد کے بیچ پنہاں ہوتے ہیں جن کو اگر مناسب غذا دی جائے تو وہ فوائد کے پھول بن کر ہماری جھولی میں گر سکتے ہیں مصائب سے انسان کے کردار کا امتحان ہوتا ہے کیونکہ زندگی پھولوں کی سیج ہر گز نہیں ہے اللہ کریم اپنی پیاری کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں.ووَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْ مِنَ الخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ والقمرات ، و بَشر الصابرین سپاره تبر ۲ آیت (۱۵۶) اور ہم تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک (سے) اور

Page 34

مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ) سے ضرور آزما لیں گے اور (اے رسول) تو ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے جن پر جب (بھی) کوئی مصیبت آتی ہے ) تو وہ گھبراتے نہیں بلکہ یه ) کہتے ہیں کہ ہم (تو) اللہ ہی کے ہیں اور اسی کے طرف لوٹنے والے ہیں بے شک صبر کا راستہ چکنا اور پھسلنے والا ہے مگر ہر روحانی مسافر کو اونچائی پر واقع طہارت کے قلعہ کی طرف جانے کے لئے اس پر چلنا اور ثابت قدم رہنا لازمی ہے کیونکہ خداوند کریم کے ہر پرستار اور فرمانبردار کا یہی نصب العین ہوتا ہے ا.حضور ﷺ نے فرمایا مسلمانو اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو ان کو : مقبرے نہ مناؤ ۲.حضور ﷺ نے فرمایا کہ خدا کے بند و علاج کروایا کرو کیونکہ خدا نے پڑھا ہے کے سوا ہر باری کی دوا پیدا کی ہے ۳.حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی (مسلمان) کے ساتھ حث نہ کیا کرو اور نہ اس سے ایسی دل لگی کرو ( جو اسکو ناگوار ہو ) اور نہ ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کر سکو

Page 35

۳۱ اعمال صالحہ دنیا کی سب سے عظیم اور دائمی کتاب قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے فاستبقو الخیرات - ( سپاره ۲ آیت نمبر ۱۳۹) تمام مذاہب کے پیروکاروں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اعمال صالحہ بجالائیں بائیبل میں لکھا ہے ایمان اعمال صالحہ کے بغیر مردہ تصور کیا جاتا ہے ایک اور جگہہ آیا ہے تمہاری نیکی بغیر کسی حد کے ہو متی ۵ آیت ۸ حضرت عیسی علیہ السلام نے تو یہاں تک فرمایا وہ لوگ جو تم سے نفرت کرتے ہیں ان سے بھی نیک طریق سے پیش آؤ.متی ۵ آیت ۴۵ نیک کام بجا لانا اور دوسروں کی مدد کر نا زندگی کی جملہ خوشیوں میں سے اعلیٰ خوشی ہے جس سے نہ صرف نیکی کرنے والا بلکہ نیکی وصول کرنے والا دونوں محفوظ ہوتے ہیں نیک کام کرنے کے لئے انسان کو مثبت مواقع کی تلاش میں سرگرداں رہنا چاہئے بجائے اس کے کہ ہم کسی موقعہ کے انتظار میں رہیں بہتر تو یہ ہے کہ ہم خود اس کو تلاش کر کے سرگرم عمل ہو جائیں مثلا انسان ایسے بیمار لوگوں یا تنہا زندگی گزارنے والے (جیسے بیوہ خواتین وغیرہ) افراد کی فہرست تیار کر سکتا ہے جو ہماری ملاقات یا خط موصول ہونے پر یک گونہ خوشی محسوس کر سکتے ہیں بعض اور لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ہماری رہنمائی، ہمدردی یا حوصلہ افزائی کے خواہاں اور مستحق ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نیکی کرنیکا کوئی نہ کوئی طریقہ تلاش کیا جا سکتا ہے آئیے ہم ایسے مواقع تلاش کریں اور اپنی طاقت و وسعت کے مطابق دوسروں کی مدد کریں نیک اعمال مجالینا قرآن پاک میں بنیادی احکامات میں سے ایک اہم حکم ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے يَا مُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَونَ عَنِ المُنكَر.پھر ایک اور جگہہ ارشاد ہوا ہے نا استبقو الخیرات ( سورۃ نمبر ۲ آیت ۱۴۹).پھر ایک حدیث مبارکہ یہ بھی ہے نیک کام سر انجام دینے میں کوئی موقعہ ضائع نہ

Page 36

۳۲ کرو.خود نیکی کرنے اور اعمال صالحہ بجالانے کے علاوہ قرآن پاک ہمیں یہ نصیحت کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی نیک اعمال بجالانے کی دعوت دوار شاد ربانی ہے : وَلَتَكُن مِنكُم أَمَةً يَدعُونَ إِلَى الخَيْرِ وَ يَا مُرُونَ بِا المعروف ( سورۃ ۳ : آیت (۱۰۵) یعنی تم میں سے ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے جو خیر کی طرف (لوگوں کو) بلائے اور نیک کام کرنے کی تاکید کرے اور برے کاموں سے روکے قرآن کریم ہمیں یہ بھی واشگاف الفاظ میں بتلاتا ہے کہ ہر نیک کام کا اجر ضرور ملے گا وَ مَن يَعمَل مِثْقَالَ ذَرَةٍ خير ايره ( سورة زلزال ۹۹ آیت (۸).جو شخص دنیا میں ذرہ بھر بھی نیک کام کرے گا وہ آخرت میں اس کو ضرور دیکھ لے گا.پھر اللہ کریم ایک اور جگہہ ارشاد فرماتے ہیں مَن جَاءَ بِاالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا ( سورة القصص ۲۸ : آیت ۸۵) جو شخص (قیامت) کے روز) نیکی لیکر آئیگا اس کو اس سے بہتر بدلہ ملے گا.سرور کائینات آنحضور ﷺ کی ایک حدیث یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایک شخص نیک کام کرتا ہے تو میں اس کا اجر دس گنادیتا ہوں یا اس سے بھی زیادہ.نیک کام سے مراد خدا کی تمام مخلوق سے رحمدلی کرنا ہے چاہے وہ جانور ہوں یا پرندے آنحضور ﷺ نے ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ ایک بد کار شخص کے گناہ صرف اس لئے معاف کر دئے گئے کیونکہ اسنے کنویں میں سے پانی نکال کر کتے کو پلایا تھا ایک موقعہ پر آنحضور نے دیکھا کہ ایک شخص نے پرندے کے گھونسلے سے اسکا بچہ نکال لیا پرندے کی ماں کابرا حال دیکھ کر آنحضور ﷺ نے اسکو حکم دیا کہ چہ کو واپس گھونسلہ میں رکھ دو ایک بار کسی شخص نے نبی کریم ﷺ سے استفسار کیا پیارے حضور کیا ہم جانوروں سے بھی نیک سلوک کرنے پر اجر کے حق دار ٹھریں گے ؟ سرور کائینات ﷺ نے جواباً فرمایا ہر جاندار چیز سے نیک سلوک

Page 37

٣٣ کا اجر دیا جائیگا ایک فعل اس وقت نیک قرار پائیگا جب وہ کسی ذاتی مفاد کے بغیر انجام دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی میں نیکی کے درج ذیل تین درجات کا ذکر فرمایا ہے :.اول یہ درجہ کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کی جائے.یہ تو کم درجہ ہے اور ادنی درجہ کا پھلا مانس آدمی بھی یہ خلق کر سکتا ہے کہ اپنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کر تار ہے.دوسرا درجہ اس سے مشکل ہے اور وہ یہ کہ ابتداء آپ ہی نیکی کرنا اور بغیر کسی کے حق کے احسان کے طور پر اس کو فائدہ پہچانا اور یہ خلق اوسط درجہ کا ہے اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں یہ ایک مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میں شکر یہ یادعا چاہتا ہے اور اگر کوئی ممنون منت اس کا اس کے مخالف ہو جائے تو اسکا نام احسان فراموش رکھتا ہے بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے جیسا کہ احسان کر نیوالوں کو خدا تعالیٰ نے متنبہ کرنے کے لئے فرمایا ہے....لا تبطلوا صد قُتِكُم بِالمَن وَالأذَى ( البقرة (۲۶۵) یعنی اے احسان کرنے والو اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بناء چاہئے احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ مت بر باد کرو.یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا ہے بلکہ ایک ریا کاری کی حرکت ہو جاتی ہے غرض احسان کرنے والوں میں یہ خامی ہوتی کہ کبھی غصہ میں اگر اپنا احسان یاد دلاتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا

Page 38

تیسر ادرجہ ایصال خیر کا خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بلکل احسان کا خیال نہ ہو اور نہ شکر گزاری پر نظر ہو بلکہ ایک ایسے ہمدردی کے جوش سے نیکی صادر ہو جیسا کہ ایک نہایت قریبی مثلاً والدہ محض ہمدردی کے جوش سے اپنے بیٹے سے نیکی کرتی ہے یہ وہ آخری درجہ ایصال خیر کا ہے جس سے آگے ترقی کرنا ممکن نہیں ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۲۲ اور ۶۳) یادر ہے کہ جملہ مذاہب کے تمام بانی نیک کام کر نیکی اعلیٰ ترین مثال تھے آنحضور ہے غرباء اور محتاجوں کا اس قدر خیال کر رکھتے تھے کہ آپ ہر وقت صدقہ و خیرات میں مصروف رہتے تھے.اگر چہ آپ دینی اور دنیوی لحاظ سے سب سے بڑے اور مکرم اور افضل انسان تھے مگر آپ کا طرز زندگی بہت ہی سادہ تھا آپ کو مومنوں سے جو کچھ ملتا آپ اسے دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے بائیل میں مذکور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی نیک کام کیا کرتے تھے (10.38 :ACT) آئیے اب ہم روز مرہ زندگی میں سے چند عام انسانوں کی مثالیں لیتے ہیں جارج پی باڈی Peabody گزشتہ صدی کا عظیم پیکر اور سرمایہ دار ہو گزرا ہے اس نے اپنی تمام دولت نیک کاموں کے لئے صرف کر دی اس کے بارہ میں مقولہ مشہور ہے اس کے سامنے نیکی کا جو موقعہ آیا اس نے اسے ہاتھ سے نہ جانے دیا پھر لارڈ شافٹ بری Shaftbury کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ گزشتہ صدی میں ہونے والے سوشل ریفارم پر اسکا بہت اثر تھا وہ بہت بڑا انسان دوست شخص تھا پھر اینڈریو کارنیگی Carnagie ایک سکاٹش پارچہ باف کا عاجز بیٹا تھا جس نے امریکہ میں اسٹیل انڈسٹری میں بہت نام پیدا کیا اس نے انسانیت کی خدمت کے لئے اپنی تمام دولت صرف کر دی اسنے امریکہ برطانیہ یوروپ افریقہ اور نجی میں تین ہزار لائبر مریاں قائم کرنے میں اپنی دولت بے دریغ خرچ کر دی اسکا کہنا تھا کہ جو شخص امیر حالت میں مرتا ہے وہ بے

Page 39

۳۵ عزتی کی موت مرتا ہے دوسروں کو خوش دیکھ کر.دوسروں کی استعانت کر کے دراصل ہمیں خود مسرت اور راحت حاصل ہوتی ہے یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم دوسروں کو سچی خوشی دینے کے ذرائع فراہم کریں انگریزی کا محاورہ ہے کہ Like attracts like ہم جو کچھ دوسروں پر خرچ کرتے ہیں وہ اس سے زیادہ لوٹ کر واپس ہمارے پاس پہنچتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہم اپنی مدد خود کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ نیکی کسی نہ کسی رنگ میں واپس آجاتی ہے حضرت عیسی علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے.Give and thou shall receive ہمیں نیکی اس نیت سے نہیں کرنی چاہئے کہ اس کے عوض ہمیں بہتر معاوضہ ملیگا کیونکہ یہ عمل تو ایسا ہی ہے جیسے قوت ثقل کا آفاقی قانون اس کائینات میں کار فرما ہے روحانی مقنا طیسیت پیدا کرنے کا ایک راز یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ نیک کاموں کی تشہیر بلاوجہ نہ کی جائے ہاں اس سے اگر کسی کو فائدہ پہنچتا ہو تو اس کا بتلانا بری بات نہیں ہے پوشیدگی میں بھی زبر دست قوت مضمر ہے.ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی تمام توجہ اپنے ہی نیک کاموں پر مرکوز کر دیں حضرت میرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کی اہلیہ صاحبہ نے بیان کیا کہ آپ صدقہ و خیرات یوں دیتے کہ کسی کو اس کا علم نہ ہوتا تھا مستجیب الدعوات خدا ہمیں نیک کاموں میں مکمل عاجزی سے سبقت لیجانے کی توفیق عطا کرے.آمین یا ارحم الر حمن

Page 40

خوش مزاجی میں نے آنحضور ﷺ سے زیادہ کسی اور شخص کو مسکراتے نہیں دیکها ( روایت حضرت عبداللہ بن حارث) ہر وقت بڑبڑانے والا اور شکایتی شخص کسی کے دل کو نہیں بھاتا ہے.ایسے شخص سے ہر کوئی کنی کتراتا ہے کیونکہ اس کی موجودگی سے پاس وقنوطیت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ خوش رہنا پسند کرتے ہیں مگر اس کیساتھ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگوں کی اکثریت خوش رہنے کے راز سے ناواقف اور محروم ہے اور اگر بادل نخواستہ وہ یہ راز جان بھی لیں تو بھی وہ روزانہ زندگی میں خوشی کی نعمت سے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ خوش رہنے کے بنیادی اصولوں سے نابلد ہیں بلا شبہ خوشی اور فرحت کے بھی درجات ہیں مگر خوش رہنے کی کیفیت عارضی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ اس حالت کا نام ہے جو انسان کے ذہن میں ہر وقت چھائی رہتی ہے اور انسان مصائب اور گوناگوں آلام کے سامنے بھی مسکراتا رہتا ہے دنیا کے کام کاج خوشگوار طریق سے بہت ہی کم انجام پاتے ہیں ہر صورت اور ہر سائز کی مصیبت.چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی در حقیقت اس میں رحمت اور فائدہ پنہاں ہوتا ہے مصائب و آلام کے اندر بلا شبہ بڑے بڑے فوائد اور کامیابیوں کے بیچ پنہاں ہوتے ہیں یہ چیز کسی غیر تجربہ کار شخص کو شاید پا گل کی بڑ محسوس ہو مگر ہے یہ ایک حقیقت قائمہ.ایک اور بات یہ ہے کہ مصائب سے ہمارا کردار سنورتا ہے قرآن مجید میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں :.وَلَنَبْلُوَ نَكُم بِشَرِ مِنَ الخَوفِ وَالجُوعِ وَنَقصِ مِنَ الأمْوَالِ وَلا نفسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَمَا بَنهُم مُصيبَةُ قَالُو انا لله وإنا إلَيهِ رَاجِعُون ( البقرة سورۃ ۲ آیت نمبر ۷ ۱۵-۱۵۶) |

Page 41

۳۷ ترجمہ اور دیکھو ہم تمہارا امتحان لیں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اور آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دیں کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ( مال و اولاد سمیت اللہ ہی کی ملکیت ہیں.اور ہم اللہ ہی کے پاس جانے والے ہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ مصائب ہی میں انسان کے جو ہر کھلتے ہیں آئے اب ذرا ہم سرور کائنات آنحضور ﷺ کی حیات طیبہ پر ایک نظر ڈالیں آپ نے اپنی زندگی میں ہر قسم کی مصیبت کو جھیلا مگر آپ کے چہرہ مبارک پر ہمیشہ مسکراہٹ ہی آویزاں رہی اس موضوع پر مندرجہ ذیل اقتباس حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد کی مشہور کتاب دیباچہ تفسیر القرآن سے لیا گیا ہے : رسول کریم ﷺ کی زندگی دنیوی طور پر بھی نہایت ہی تلخ طور پر گزری ہے.پیدائش سے پہلے ہی اپنے والد کی وفات پھر والدہ اور دادا کی یکے بعد دیگرے وفات.پھر جب شادی ہوئی تو آپ کے بے متواتر فوت ہوتے چلے گئے اسکے بعد پے در پے آپ کی کئی بیویاں فوت ہو ئیں جن میں حضرت خدیجہ جیسی باوفا اور خدمت گزار بیوی بھی تھیں مگر آپ نے ان سب مصائب کو خوشی سے برداشت کیا اور ان غموں نے نہ آپ کی کمر توڑی نہ آپ کی خوش مزاجی پر کوئی اثر ڈالا.دل کے زخم کبھی آنکھوں سے نہیں پھوٹے چرہ ہر ایک لئے بھاش رہا اور شاذ و نادر ہی کسی موقع پر آپنے اس درد کا اظہار کیا.ایک دفعہ ایک عورت جسکا لڑکا فوت ہو گیا تھا اپنے لڑکے کی قبر پر ماتم کر رہی تھی.رسول کریم ہے وہاں سے گزرے تو آپ نے فرمایا.اے عورت صبر کر خدا کی مشیت ہر ایک پر غالب ہے وہ عورت رسول کریم ہی ہے کو پہچانتی نہ تھی اپنے آگے سے جواب دیا جس طرح میرا چہ مرا ہے تمہارا چہ بھی مرتا تو تمہیں معلوم ہوتا کہ صبر کیا ہے رسول کریم ﷺ وہاں سے صرف یہ کہہ کر آگے چل پڑے ایک نہیں میرے سات بچے فوت ہو چکے ہیں پس اس قسم کے موقع پر اتنا اظہار تھا جو رسول کریم ﷺ اپنے گزشتہ مصائب پر کبھی کر دیتے تھے ورنہ نبی نوع انسان کی خدمت میں کوئی کوتاہی ہوئی نہ آپ کی بھاشت میں کوئی فرق آیا (صفحہ ۲۴۷) یہ آپ کی مقنا طیسی شخصیت کا امتیازی وصف تھا حضرت علی کرم اللہ نے کیا خوب آپ کے کردار کو ان الفاظ میں پیش کیا ہے : آپ حضور ہر کس و ناکس سے بھاشت.شادمانی اور

Page 42

لمنساری سے پیش آتے تھے ایک اور معزز صحافی جناب جریر این عبد اللہ کا بیان ہے کہ جب کبھی آپ مجھے نظر آتے آپ مسکرا دیتے تھے.یہ بات اس مضمون میں پہلے بھی بیان کی جا چکی ہے کہ زندگی اونچ نیچ.یعنی زیرو ہم کا نام ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے اگر زندگی تمہارے لئے مصیبت ہے تو شکایت مت کرو تمہارا چہرہ تمہارے دل کو چھپالے تمہاری ہمت اونچی اور تمہاری روح خوش ہو اور ہر مصیبت کا کھلے بازوں سے استقبال کرو.ہمیشہ خوش رہو زندہ دلی کی عادت ڈالو مسکراتے رہو حضرت میرزا ناصر احمد صاحب کے مندرجہ ذیل خطاب کو جو انہوں نے نوجوانوں سے کیا اس پر عمل پیرا ہو آپ حضور نے فرمایا : مسکرانے کی عادت ڈال کر دوسروں کے لئے ضرب المثل ہو یہ ایسی چیز ہے جو متعدی بیماری کی مانند دوسروں کو بھی اپنے اثر میں لے لیتی ہے یہ ہر خادم احمدیت کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ مسکرائے اور ہنسے خادم بننے کیلئے ضروری ہے کہ اسکا چہرہ مسکراہٹ کے زیور سے آراستہ ہو یہ جملہ فرائض میں سے پہلا فرض ہے میری لڑکی کا بڑا بیٹا بہت خوب صورت تھا مگر پیدائش کے معا بعد وہ رحلت کر گیا جب میں نے اپنی لڑکی کے سامنے اظہار افسوس کرنا چاہا تو میں نے اس کو مسکراتے پایا اس چیز نے مجھے بہت خوش کیا تو میں نے اس کو اسی وقت اسی جگہ یہ کہا کہ خدا ضرور تجھے ایسا فرزند عطا کرے گا جس کی زندگی بہت لمبی ہو گی چنانچہ اللہ تعالیٰ انے اسے دوسرے بیٹے سے نوازا.میرے حالیہ افریقہ کے دورہ کے دوران میں نے ایک جلسہ میں پانچ سے چھ ہزار احمدیوں سے مصافحہ کیا مجھے بتلایا گیا کہ متعدد احمد کی حیران تھے کہ میں نے ہر ایک کا کیسے مسکراتے ہوئے استقبال کیا اس چیز پر نہ تو میر ا چپیسہ لگا نہ ہی وقت اور مسکراتے چہرہ نے کمال کر دکھایا الغرض میں تمہیں یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ خوش خلق عادات انسان پر دیر پا اثر چھوڑتی ہیں.( خطاب حضرت میرزا ناصر احمد صاحب)

Page 43

۳۹ بائیبل میں مذکور ہے کہ زندہ دلی دوا کی طرح انساں پر اثر کرتی ہے( Proverb 17:22) گری مسکراہٹ سے انسان خود کو بہتر اور اچھا محسوس کرتا ہے مسکراہٹ دینے والا اور لینے والا دونوں مالا مال ہوتے ہیں اس سے تھکا ماندہ انسان تازگی و فرحت محسوس کرتا ہے اور بد دل انسان زندہ دل ہو جاتا ہے اس میں خرچ کچھ بھی نہیں مگر اس سے حاصل بہت زیادہ ہوتا ہے مسکراہٹ انسان میں مقنا طیس کی مانند کشش پیدا کرتی ہے سائیکالوجی میگزین اپریل ۱۹۷۱ء کے ایک مضمون کے درج ذیل اقتباس پر غور کریں جلدی اور بار بار مسکراؤ جب ایک شخص مسکراتا تو چہرہ میں ایک دم زندگی آجاتی ہے عورتیں مسکرا کر زیادہ خوب صورت بن جا تی ہیں اور مرد دلکش نظر آنے لگتے ہیں مسکراہٹ کا اثر چہرہ پر ویسا ہی ہے جیسا روشنی کا اثر کھلے سبزہ زار کھیت کے میدانوں پر ہوتا ہے مسکرانے کی تربیت خود کرو ے لوگوں کا مسکرانے کے لئے انتظار نہ کر وہ جب لوگوں سے ملو تو مسکرا کر ملوجب رخصت ہو تو مسکراتے ہوئے رخصت ہو جب ! کی معیت میں ہو تو مسکراتے رہو لوگوں کا استقبال بھی مسکراتے ہوئے کرو برطانیہ کے مشہور ادیب چارلس ڈکنز Dickens کی شخصیت کو ایک مؤرخ نے کیا خوب طریق سے قلم بند کیا ہے.اسکی مسکراہٹ اس قدر چمکدار تھی گویا اس کے ارد گرد روشنی اور خوشی کی لہر دوڑتی تھی 2 Life of Dickens by J Foster, Vol) قارئین کرام اس مضمون سے مسکراتے ہوئے چہرہ کی اہمیت کا اندازہ آپ کو ہو گیا ہو گا مختصر یہ کہ مسکراہٹ یاس و ناامیدی کے بادلوں کو ہٹا کر دھوپ اور روشنی کو نچھاور کرتی ہے آئیے ہم یہ عہد کریں کہ ہمارا ہر دن ہر طرف مسکراہٹ پھیلائے گا.خوب جان لو کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے.مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

Page 44

ودائی زندگی کے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے.انَمَا ہٰذِهِ الحَيوةُ الدُّنْيَا مَتَاعُ وَإِنَّ الْأَخِرَةَ هِيَ دار لقرار (سورة ۴۰ آیت (۴۰) ترجمہ : یہ دنیوی زندگی تو محض چند روزہ ہے اور اصل مستقل مقام تو آخرت ہے انسان اور دوسری اشیاء میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ انسان میں یہ استعداد ودیعت کی گئی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے اور اپنے دوست احباب سے اپنے تعلق کو بہتر سے بہتر بنا سکتا ہے یہی اس عالم میں ہمارے رہنے کا مقصد ہے.جس کیلئے خداوند کریم نے وقتاً فوقتاً مختلف ادوار میں انسانوں کی رشد و ہدایت کیلئے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سیدھا راستہ دکھلایا اور تمام نوع انسانی کے لئے سب سے آخری اور ہر رنگ میں مکمل ہدایت نامہ ہمارے محبوب پیغمبر آنحضرت علی لیکر مبعوث ہوئے مذہب اسلام میں آخرت کی زندگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے.جو کہ فی الحقیقت اس زندگی کا ہی ایک حصہ ہے آخرت کی کائینات ایسی فری کوئین سیز پر ارتعاش کرتی ہے کہ انسان کے حواس اس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں.جنت الفردوس کی نعماء اس نوعیت کی ہیں کہ جن کو نہ آنکھ نے دیکھا نہ ہی انسانی کانوں نے سنا اور نہ ہی انسانی دماغ ان کو تصور میں لا سکتا ہے تا ہم جنت کی نعماء کا تجربہ اور انکا لطف قبر میں جانے سے پہلے اس زندگی میں کیا جا سکتا ہے اس تجربہ کو جنت ارضی کہا جاسکتا ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی پیاری کتاب میں فرماتے ہیں نحن أولياء كُم فِى الحيوةِ الدُّنيَا وَفِي الآخِرَةِ ( حم السجدة سورة ۲۱ آیت ۳۲) ہم تمہارے رفیق دنیوی زندگی میں تھے اور آخرت میں بھی ہوں گے لَهُم البشري في الحيوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ ( یونس سورۃ نمبر ۱۰ آیت (۶۵) ان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے حضرت میرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مهدی موعود.بانی جماعت احمدیہ نے

Page 45

۴۱ 3 مذکورہ آخری آیت کی تغییر یوں فرمائی ہے کہ جنت دو قسم کی ہیں ایک اس دنیا میں اور دوسری آنے والی دنیا میں.کچی بات تو یہ ہے کہ ہم کبھی مرتے نہیں بلکہ پیدائش کے بعد فنا ہو نے والی زندگی میں رہ کر نہ فنا ہونے والی زندگی میں چلے جاتے ہیں.ہمارا اصل نفس تو ہماری روح ہے نه که همارا طبیعی جسم جس میں یہ کچھ عرصہ کے لئے قائم رہتی ہے ہماری ہستی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم روح ہیں جو جسم میں مقیم ہے نہ کہ جسم جس میں روح ہے تمام ادیان اپنی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان اپنی نمود و افزائش خدا سے محبت.دعا دوسروں کی خدمت اور نفسانی تزکیہ سے کرتا رہے اس بیان کردہ عمل کا نچوڑ ہی دراصل Elixir of Life ہے جس کے ذریعہ ھم جنت کی نعماء کا مزہ اس دنیا میں ہی چکھ سکتے ہیں اس مقصد کیلئے مندرجہ ذیل قرآنی حکم کو اپنے مد نظر رکھیں فا استبقو الخيرات ( سورۃ ۲.آیت نمبر ۱۴۹) قد أَفْلَحَ مَن تزكى ( سورة ۸۷ - آیت (۱۵) یہ دنیا ہمیں نیکی اور بدی اور خدا کی رضا حاصل کرنیکا موقعہ فراہم کرتی ہے کیونکہ آنے والی زندگی میں نیکی اور بدی کر نیکی قوت ھم سے جاتی رہیگی روحانی ترقی کا انحصار اخروی زندگی میں صرف اور صرف خدا کی خوشنودی پر منحصر ہو گا یہ ھمارے کسی عمل یا کوشش سے ممکن نہ ہو گا ہاں دعا کے ذریعہ ہم ہدایت کا نور تلاش کر سکیں گے اس ورلی زندگی میں مومن کے لبوں پر یہ دعا ہو گی رَبَّنَا آتِهِم لَنَا نُورَنَا.اے آپ حیك ہمارے رب اس نور کو اخیر تک ہمارے ساتھ رکھیئے (یعنی راستہ میں گل نہ ہو جائے ) سورۃ ۶۶ آیت ۶ زندگی میں اس سے زیادہ بڑا اور معنی خیز مقصد نہیں ہو سکتا ماسوا اس کے کہ انسان اپنی روحانی زندگی کو بہتر ہے بہتر بنائے اور خدا سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائے قرآن مجید کی درج ذیل نصیحت کتنی سبق آموز ہے وَ جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُم وَأَنفُسِكُم فِي سَبِيلِ الله (سورة الحمد ۹ آیت نمبر (۲) اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے.والی زندگی میں ھم

Page 46

۴۲ خدا سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ ہمارے نور کو ہمارے لئے مکمل کر دے یعنی ہم رب العالمین کے نزدیک سے نزدیک تر ہو جائیں اگر ور لی زندگی میں ہم یہ چاہیں گے تو پھر اس موجودہ زندگی میں یہ خواہش کیوں نہ کریں اس خواہش کا حصول نہ صرف دعا سے ممکن ہے بلکہ اس راستہ میں آنے والے ہر موقعہ سے فائدہ اٹھا ئیں تا ہم اس نیک مقصد کو ہر ممکن ذریعہ سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں مراسلة جو ☆☆☆

Page 47

۴۳ عشق الیک دنیا کی سب سے مستند کتاب قرآن کریم میں ایک کیا خوب دعا بیان ہوئی ہے ایاک نَعبْدْ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينَ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم اس رب کریم کی ذات کے ما سوا دنیا کی کسی اور چیز سے زیادہ محبت نہ کریں اگر چہ یہ بات نا ممکن نظر آتی ہے مگر جلد ہی ہمیں یہ احساس ہو جاتا ہے کہ عشق الہی ایک ایسی زندگی کو جنم دیتا ہے جس سے زندگی خوشیوں ا اور ابدی نعمتوں سے اس قدر بھر پور ہو جاتی ہے کہ جنت ارضی کا سماں پیدا ہو جاتا ہے تمام ادیان میں انسانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک سے محبت کا تعلق پیدا کریں اور اسکی خدمت اور یاد میں اپنا وقت گزاریں یہ تعلیم کوئی نئی تعلیم نہیں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدا سے محبت اور عشق کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے فرزند ارجمند اسماعیل کو قربان کرنے کے لئے محض اس لئے تیار ہو گئے کہ یہ حکم خداوندی تھا حضرت موسیٰ پر جو دس احکامات نازل ہوئے ان میں سے دوسرا یہ ہے کہ تم اپنے خالق سے پوری دلجمعی سے پیار کرو گے اپنی روح اور اپنی پوری جان کے ساتھ 6:5 Deut حضرت داؤد نے خدا کو مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ اے میرے محسن خدا میں تیرا ہر فرمان پورا کر کے یک گونہ خوشی محسوس کرتا ہوں 40:8 Psalms پھر نئے عہد نامہ میں مذکور ہے کہ اپنا دل خدا کی محبت کے لئے پوری طرح وقف کردو 3:5 Thess اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی آخری اور مکمل کتاب میں ارشاد ہوا ہے میں نے انسان اور جن کو بے سود پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اسکا مقصد میری عبادت کر نا ہے (سورۃ نمبر ۵۱ آیت ۵۷).اس آیت کریمہ کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ خدا کی عبادت صرف نمازوں کے مقررہ اوقات میں کی جائے عبادت کے مفہوم میں انسان کا ہر خیال لفظ اور ہم عمل

Page 48

۴۴ مراد ہے جو خدا کی رضا حاصل کر نے کیلئے کیا جائے عبادت کی عادت اپنے اندر پیدا کرنا خدا کے عاشق کا طرز زندگی اختیار کرنے کے مترادف ہے ایسا عاشق پوری سعی کرتا ہے کہ اسکی حیات مستعار کا ہر لمحہ خدا کی اطاعت میں گزرے یہی چیز ہماری زندگی کا منتہائے مقصود ہو اور اسکی یہی آرزو ہر وقت رہے جب ایسا ہو جائیگا تو پھر خدا کے نور سے ہم منور ہو جائیں گے ہمیں ہر وقت اس بات کی آرزو اور جستجور ہے کہ خدا ہمیں اس بات کی استطاعت دے کہ ہم اس کے عاشق صادق بن جائیں اور احکامات خداوندی پر عمل پیرا ہو سکیں کہا جاتا ہے کہ خدا کی معیت میں گزرا ہوا ایک لمحہ دنیا کی تمام مسرتوں سے زیادہ دائمی خوشی مہیا کرتا ہے ہم خداوند کریم سے جس قدر پیار کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہم خدا کا قرب محسوس کرتے ہیں اور جتنا زیادہ ہم خدا کا قرب محسوس کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہم خدا کے قریب ہو تے جاتے ہیں اور جتنا زیادہ ہم خدا کے قریب ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہم میں خدا کی صفات کا ظہور ہونے لگتا ہے اور پھر ہم خدا کی صفات کا جتنا زیادہ مظہر بنتے ہیں اتنا ہی زیادہ لوگ ہماری طرف کھنچے چلے آتے ہیں جس طرح ایک کھلاڑی کیلئے جسمانی ورزش اور فٹ نہیں ضروری ہوتی ہے بعینہ ایک روحانی مسافر کے لئے عشق الہی کا ہونا بنیادی اہمیت رکھتا ہے دیکھو محبت کے بغیر دوانسانوں کے درمیان رشتہ مضبوطی سے قائم نہیں رہ سکتا ہے تو پھر محبت کے بغیر خدا سے رشتہ کس طرح قائم رہ سکتا ہے ایسا خدا جس سے بہتر محبت کرنے والا اور وفادار دوست کوئی نہیں ہو سکتا ہے قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے اللہ ولی الذینَ آمَنُوا يُخرِ جَهُم مِنَ الظُّلَمْتُ إِلَى النُّورِ ( سورۃ نمبر ۲ آیت نمبر (۲۵۸) اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے اللہ ان کو (کفر کی) کی تاریکی سے نکال کر (اسلام کے نور کی طرف لے آتا ہے.اس آیہ ممدوحہ میں ایمان والوں سے مراد ایسے افراد ہیں جو دل کی گہرائیوں سے خود کو خدا کی رضا کی خاطر وقف کر دیتے ہیں قرآن پاک میں ایسے افراد کو

Page 49

۴۵ درج ذیل تعریفی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اِنْمَا المُومِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَتْهُ زَادَتهُم إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِم يَتوكلون - - (الانفال ۸ آیت (۳) ترجمہ.ایمان والے لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے آگے خدا کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے خدا کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ آیات ان کے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں انسانی رشتوں میں کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں اور خاص طور پر محبت والا رشتہ تو کبھی بھی ہموار نہیں ہوتا ہے مایوسی.حسد نا چاقی اس رشتہ میں بعض دفعہ ایسے نمودار ہوتے ہیں کہ یہ امور رشتہ کو ختم کر دیتے ہیں لیکن خدا کے ساتھ تعلق اور محبت والے رشتہ میں ایسا کوئی امر داخل نہیں ہوتا ہے خدا کی ذات والا صفات میں ہمیں سب سے گہر اور مخلص دوست نصیب ہوا ہے خدا کی ذات کے علاہ ہمارے اندرونی جذبات اور احساسات سے زیادہ کوئی واقف نہیں ہے اور ہم اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں پوشیدہ راز خدا کے آگے مکمل اعتماد کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں ھم خدا کے ساتھ کھلے طریق سے آزادانہ طور پر گفتگو کر سکتے ہیں خدا کی ذات میں ہمیں کیا خوب دوست ملا ہے ھم جو بھی دعا یا التجا اس کے آگے کرتے ہیں ان کو سنتے سنتے وہ تھکتا نہیں چاہے یہ التجا کتنی ہی لہی ہو اور خواہ یہ رات یا دن کسی وقت کی جائے دنیا میں کیا ہم ایسا وجود پاسکتے ہیں جو ہمیں مکمل توجہ اور پوری ہمدردی دن رات مہیا کرے دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ والدین بھی اپنے باتونی بچوں سے تنگ آجاتے ہیں اور پھر دوست احباب بھی بعض دفعہ غیر دلچسپ باتیں یا فضول بحث لگا تار کر کے انسان کو بد دل کر دیتے ہیں اس چیز کا خدا پر اطلاق نہیں ہوتا وہ ھماری دعاؤں اور التجاؤں کو سن کر تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا ہے خدا کی ذات میں ہمیں کیا خوب وفادار دوست نصیب ہوا ہے انسانی رشتوں میں اکثر حسد پیدا ہو جاتا ہے مگر خدا کے ساتھ ایسے رشتہ میں سوائے امن اور سکون

Page 50

۴۶ کے کوئی اور احساس جنم نہیں لیتا خدا کی ذات میں بلاشبہ ہمیں کیا خوب رفیق عطا ہوا ہے ہمارے دوست احباب ہمیں بعض دفعہ مایوس کر دیتے ہیں مگر خدا کی ذات پر ہم مکمل بھروسہ کر سکتے ہیں کیونکہ خدا کی ذات میں ہمیں زبر دست اور بہترین دوست ملا ہے عمر بڑہانیکا نسخہ سب آدمی اپنے اپنے کام اور غرض سے جس کیلئے وہ آئے ہیں واقف نہیں ہوتے بعض کا اتنا ہی کام ہوتا ہے کہ چوپایوں کی طرح کھا پی لینا وہ سمجھتے ہیں که اتنا گوشت کھانا ہے اسقدر کپڑا پہننا ہے وغیرہ اور کسی بات کی انکو پرواہ اور فکر نہیں ہوتی ایسے آدمی جب پکڑے جاتے ہیں تو پهر يك دفعه بی انکا خاتمه ہو جاتا ہے لیکن جو لوگ خدمت دین میں مصروف ہوں انکے ساتھ نرمی کی جاتی ہے اس وقت تك كه جب تك وه اس کام اور خدمت کو پورا نہ کر لیں انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اسکو جہاں تک ہو سکے خالص دین کے واسطے اپنی عمر وقف کرے یہ یاد رکهے که الله تعالیٰ سے دھوکہ نہیں چلتا جو الله تعالیٰ کو دعا دیتا ہے وہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے وہ اسکی پاداش میں ہلاک ہو جاوے گا پس عمر بڑھانیکا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساته اعلاء کلمه (دین) (حق) میں مصروف ہو جا وے اور خدمت دین میں لگ جاوے اور آجکل یه نسخه بہت ہی کار گر ہے کیو نکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے یو نہی چلی جاتی ہے ) فرمودات بانی جماعت احمد به ملفوظات جلد سوم صفحه ٥٦٣)

Page 51

مال و دولت کا دولت دنیوی چیزوں کا نام نہیں بلکہ یہ نفس مطمنہ سے عبارت ہے حدیث قدسی انسان کو مال و دولت کے حصول کے علاوہ کسی اور چیز کی اس دنیا میں اتنی حرص نہیں ہوتی بلکہ اکثر لوگوں کیلئے زیادہ سے زیادہ مال کا حصول اس دنیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے متمول لوگ مزید سے مزید دولت کے ہر وقت خواہش مند رہتے ہیں.حالانکہ ان کے پاس دولت کی فراوانی پہلے ہی ہوتی ہے ایسے لوگ مذہب کی فکر ذرا نہیں کرتے.نہ ہی ان کو خدا کا خیال آتا ہے.آئے دن ان کو صرف ایک چیز کی فکر کھائے جاتی ہے کہ وہ اس مادی زندگی کو مزید سے مزید کسی طرح بہتر بنائیں انسان کا اپنی مادی زندگی کو بہتر بنانا کوئی برا فعل نہیں بری چیز یہ ہے کہ انسان اپنی توجہ اس طرف مرکوز کر کے اپنے روحانی فرا ئض کو فراموش کر دے یا ان کو نظر انداز کر دے اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں : ان الذین لایر جُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالحَيوة الدنيا (يونس سورۃ نمبر ۱۰ آیت ۷) ترجمہ.یقیناً جن لوگوں کو ہمارے پاس آتکی فکر نہیں ہے اور ان کو اس دنیا کی زندگی بہت پیاری ہے یہ بات کس قدر سچی ہے مگر کس قدر افسوس ناک بھی ہے کہ روحانی اوصاف اور اخلاقی اقدار کے حصول کیلئے کوئی توجہ نہیں دی جاتی جو نیک کردار بنا کے بنیادی اجزاء ہونیکے ساتھ دولت کا صحیح امتیاز بھی ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے انسان کا کردار ہی اصل خوشحالی ہے یہی سب سے اچھا مال و متاع ہے دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس دنیوی مال و دولت تو نہیں ہے لیکن ان کے سروں پر ایسے تاج ہیں جو ہیرے جواہرات سے سے اٹے پڑے ہیں اور یہی چیز ان کو کسی بادشاہ

Page 52

۴۸ سے بھی زیادہ امیر بناتی ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے اِن اگر مَكُم عِندَ الله القُكُم - (الحجرات سورة نمبر ۴۹ : آیت (۱۴) ترجمہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے معزز انسان وہی ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے کردار میں فضیلت سونے اور چاندی کے بر عکس ایسی دولت ہے جو ہم بوقت مرگ اس عالم میں پیچھے نہیں چھوڑ جاتے ہیں بلکہ یہ ھماری روح پر اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اثر انداز ہوتی ہے میرے نزدیک وہ شخص بہت ہی مفلس ہے جس کے پاس بڑے سے بڑے بینک بیلنس اور مادی اشیاء کے سوا اور کچھ بھی نہیں.قرآن پاک کے مندرجہ ذیل ارشاد پر ذرا غور فرمائیں : اور تمہارے اموال اور اولاد ایسی چیز نہیں جو درجے میں تم کو ہمارا مقرب بنا دے مگر ہاں جو ایمان لا وے اور اچھے نيك كام كرے یہ دو نوں چیزیں باعث قرب ہیں ایسے لوگوں کے لئے ان کے نیک اعمال کا دو گنا صلہ ہے اوروہ بہشت کے بالا خانوں میں چین سے بیٹھے ہوں گے (سورۃ سبا نمبر ۳۴.آیت نمبر (۳۸) پھر ایک اور جگہ ارشاد خداوندی یہ ہے وَاِنَهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدَه وَإِنَّهُ لِحَبِ الخَير لَشَدِيد، (العاديت سورة نمبر ۱۰۰ آئت نمبر ۸ اور (۹) ترجمہ اور وہ یقینا اس پر اپنے قول و فعل سے) گواہی دے رہا ہے.اور وہ (باوجود اس کے) یقینا مال کی محبت میں بڑھا ہوا ہے بائبل میں لکھا ہے کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا آسان ہے چہ جائیکہ امیر انسان جنت میں داخل ہو ایک مصنف انڈریو کارنیگی نے کہا ہے دولت جمع کرنا بت پرستی کے مترادف ہے اس سے زیادہ بڑا ہت کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے اس کے بر عکس نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا انسان کو خدا کا مقرب بنا دیتا ہے قرآن پاک میں مومنوں کو تلقین کی گئی ہے فاستبقو الخيرات ) سورۃ نمبر ۲ آیت نمبر ۱۴۹ ) یعنی تم نیکی کے کاموں میں سبقت لے جانیکی مکمل سعی کرو.یہ چیز اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی امیر بنے کا راز ہے یہ فی

Page 53

۴۹ الحقیقت روحانی امارت کا راز ہے اس کی قیمت دنیا کے کسی بھی لعل بے بہا سے زیادہ ہے ارشاد خداوندی ہے : مال اور اولاد دنیوی زندگی کی ایک رونق ہیں اور جو اعمال صالحہ باقی رہنے والے ہیں وہ تہمارے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے ہزار درجه بہتر ہیں اور اجر کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں ( الکشف ۱۸ آیت نمبر ۴۶) بائیبل میں آیا ہے کہ دولت کی بے جا محبت تمام شیطانی کاموں کی محرک ہے (6:10 Timothy ) اس کا مطلب یہ ہے کہ دولت شیطانی کاموں کی محرک نہیں ہے بلکہ اس کی محبت نیز سونا.اور چاندی اس وقت دنیا کے مجازی خدا نے ہوئے ہیں یہ بلا شبہ نہایت ذلیل ترین بت پرستی ہے امیر انسان کی کیا تعریف ہے ؟ امیر شخص وہ نہیں جس کے پاس دنیا کے اموال اور مادی اشیاء ہیں بلکہ امیر وہ ہے جو خدا کے لئے زندہ رہتا ہے نیک کام کرتا ہے نوع انسانی کے ساتھ همدردی اور رحمدلی سے پیش آتا ہے ایسا شخص پر امن روح کا مالک و مکین ہے اسکا دل بھٹی دل ہے ایک حدیث قدسی میں بیان ہوا ہے کہ دولت مادی اشیاء کی فراوانی کا نام نہیں بلکہ مطمئن نفس کا نام ہے پھر بائیل میں بھی ذکر ہوا ہے کہ جائے دولت و ثروت جمع کرنے کے نیک نام پیدا کرنا ضروری ہے (22:1 Proverb) ہماری زندگی کی مثال اس کائینات میں چند سیکنڈ کی ہے بہ نسبت وسیع کائینات کے جو ارب ہا ارب سالوں سے خلاء میں گردش کر رہی ہے وقت کے ایک لمحہ میں ہم آتے اور عدم کو روانہ ہو جاتے ہیں موت کا فرشتہ ہمارے انتظار میں ہے صحیح دولت دنیوی اشیاء اور جائیداد کے حصول میں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کے حصول میں مضمر ہے.قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتے ہیں قد أفلح من ترکی (87:15 ) پھر ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے.وافعلوا الخير لعلكم تُفْلِحُون ) سورة نمبر ۲۲ آیت (۷۸) پھر فرمایا فَإِن خَيْرَ الزَّادِ التَقویٰ ( سورۃ نمبر ۲ آیت (۱۹۸ نجمن فریکن جو امریکہ میں اٹھارویں صدی کا نامور سیاست دان اور سائینس دان ہو

Page 54

گزرا ہے اس نے کہا کہ دولت انسان کو کبھی اصلی خوشی نہیں دے سکتی یہ جتنی انسان کے پاس زیادہ ہو گی وہ اور زیادہ چاہے گا امیر آدمی وہ ہے جس کا ذہن سنہری خیالوں سے بھر اہوا ہے اور جس کے چہرہ سے روحانی روشنی تابناک رنگ میں نظر آتی ہے جہاں بھی وہ جاتا ہے روشنی اس کا ٹریڈ مارک ہوتی ہے آئیے ہم اپنی زندگیوں کو یہاں بیان کردہ رنگ میں امیر بنائیں اے میری مسرتوں کے باغ فخر موجودات نبی پاک ﷺ کے درد فراق میں بے تاب ہو کر حضرت احمد علیه السلام فرما تے ہیں :---- أنظر إلى بِرَحمةِ وَتَحَنُنِ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحقر الغلمان میرے پیارے میری طرف ایک رحمت اور شفقت کی نظر ڈال.دیکھ میرے آقا میں تو ایک لوئی غلام ہوں يَا حِبِ إِنَّكَ قَد دَخَلَت مَحَبَّةَ فِي مَهجَتِی وَمَدَارِکِی وَ جَنَانِ --- اے میرے محبوب تو اپنی محبت کے ساتھ میری روح نور میرے دل و دماغ میں سرایت کر گیا ہے من ذكر وجهك يَا حَدِيقَة نهجتي -- لَم أَخُل فِي لَحظِ وَلَا فِي آنِ اے میری مسرتوں کے باغ میں تیری یاد سے کسی آن اور کسی طور بھی خالی نہیں رہتا جسمي يَطِيرُ إِلَيكَ مِن شوقِ عَلا - ياليت كانت قوة الطيران قُوَّةُ گویا میرا جسم ایک شوق غالب کے ساتھ تیری سمت اڑا چلا آ رہا ہے اے کاش مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی اے کاش اڑنے کی طاقت ہوتی i

Page 55

۵۱ طهارت قلب کے طہارت قلب تمام مذاہب کا لب لباب ہے مذہب کا خلاصہ علم نہیں باسکہ پاکیزگی اور طہارت کا حاصل کرنا ہے یہی وہ چیز ہے جس کا بیان مقدس کتب میں ہوا ہے اور مذاہب کے جملہ بانیوں نے اس چیز پر روز اول سے زور دیا ہے پرانے عہد نامہ میں حضرت داؤد علیہ السلام کی مندرجہ ذیل دعامذ کو رہے میرے موٹی مجھے صاف دل بنانا ( 51:10 Psalms) نئے عہد نامہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی درج ذیل دعانہ کو رہے صاف دل والے لوگ بابر کت ہیں کیونکہ وہی خدا کے نور سے منور ہوں گے 5:8 Mathew پھر قرآن پاک میں فرمان خداوندی ہے قد أَفْلَحَ مَن تَرکی.(سورۃ اعلیٰ ۸۷ : آیت (۱۵) وہ شخص بامراد ہوا جو پاک ہو گیا ھماری ہستی کا مقصد چند مختصر الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے یہ مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم خالص نیک اور مقدس زندگی گزارنے کی پوری سعی کریں مسلمان کے لئے اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی قرآن مجید کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کے نیک اور پاک نمونہ کے مطابق ڈھالے اپنے آپ کو پاک وصاف بنانے کے لئے مکمل دینداری.پارسائی اور مخلص کوشش کے ساتھ نیک کردار از بس لازم ہے صرف انسانی کوشش سے طہارت حاصل کرنا غیر ممکن ہے اس کے لئے خدا کی تائید و نصرت لازم ہے حضرت احمد علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے No one can achieve true purity and righteousness.unless he receives heavenly help یعنی صحیح پاکیزگی اور تقویٰ کوئی حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ خدائی تائید انسان کے ساتھ نہ ہو ایک چیز کی اور یقینی ہے کہ خدا اس شخص کو نیکی کے راستہ پر گامزن رہنے میں ضرور مدد دے گا جو تائید خداوندی دعا کے

Page 56

۵۲ ذریعہ طلب کرتا ہے سب سے اعلیٰ دعا واقعی قرآن پاک کی پہلی سورۃ میں درج ہے.جب کوئی شخص کسی چیز کیلئے دعا کرے تو وہ دعا پورے خلوص سے کرے ایک انگریز شاعر نے کیا خوب کہا ہے.A thing of beauty is a joy for ever یعنی خوبصورت چیز ہمیشہ تسکین و راحت کا باعث ہوتی ہے اس مقولہ میں فی الحقیقت خالص دل کی خوبصورتی بیان کی گئی ہے دل کی طہارت کیلئے مسلسل توجہ کی اشد ضرورت ہے گا ہے لگا ہے شاید یہ چیز وقوع پذیر ہو کہ روحانی مسافر اپنے جادہ سے پھلتا نظر آئے ایسا ہونا کوئی مایوسی کی بات نہیں ہے کو ئی کام مستقل مزاجی کے بغیر سر انجام نہیں پاتا ہے جب روحانی مسافر یہ دیکھتا ہے کہ اپنے روحانی کاموں میں ترقی حاصل کی ہے تو جو چیز اس کے لئے خوشی کے علاوہ اطمینان کا باعث ہوتی ہے وہ طہارت قلب ہے اور طہارت نفس کے لئے جو راستہ ہے وہ کہیں ختم نہیں ہو تا.انسان کو اسکے نئے نئے افق نظر آتے ہیں انسان کو بلندی کی طرف جانے والے راستہ پر چلنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے اس کو اس بات پر دل نہ چھوٹا کرنا چاہئے کہ راستہ بہت تنگ ہے یا یہ کہ اس کا منتہائے مقصود بہت بلند ہے کچی بات تو یہ کہ کہ ایسا سفر بہت خوشگوار ہوتا ہے اس ضمن میں حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی" کا مندرجہ ذیل اقتباس بہت قابل غور ہے Islam rescues man from despair and tells him that he can, in spite of his errors & mistakes, attain to the purity of mind and conduct which is the highest goal of man.It thus encourages him to make constant effort towards purity & virtue and enables him ultimately to arrive at his goal.( Ahmadiyyat or True Islam) میں یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں ایک بار ایک شخص دیہاتی علاقہ میں گزر رہا تھا وہ ایک کسان کے ڈیرے پر جا پہنچا اور کنویں سے تازہ پانی پینے کی خواہش کی اسے

Page 57

۵۳ پانی دیا گیا پانی پی کر اس نے کسان سے کہا تمہارا پانی بہت صاف ٹھنڈا اور تازگی بخش ہے میں نے سنا ہے کہ لوگ میل ہا میل سے یہ پانی پینے کو آتے ہیں کیا یہ وہی کنواں نہیں ہے جو سال میں کچھ مہینہ پانی دیتا تھا اور وہ بھی اچھا نہیں ہو تا تھا ؟ ؟ کسان نے جواب دیا ہاں تمہاری بات ٹھیک ہے بات یہ ہے کہ کنویں میں لکڑیاں بہت گرتی تھیں پتے بھی گرتے تھے اور چیز میں بھی اسمیں گرتی تھیں جسکے نتیجہ میں پانی بند ہو جاتا تھا جس سے پانی بد بو دار اور پرانا ہو جاتا تھا مگر میں نے یہ تمام رکاوٹیں دور کر دیں اس میں اب کوئی لکڑی نہیں ہے پتے بھی نہیں ہیں صرف تازہ فرحت بخش پانی اس کنویں سے نکلتا ہے جو تم نے ابھی پیا ہے میرے پیارے بھائیو.اس کنویں کی طرح دل کی طہارت بھی لازم ہے ہم اس کی روحانی آلودگی کی صفائی کی طرف توجہ دیں ان رکاوٹوں کو دور کریں جو صاف ستھرے آسمانی پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں جب یہ رکاوٹ دور ہو جائے تو پھر مسلسل کڑی نگاہ رکھیں کہ اس کے بہاؤ کے تمام چینل کھلے رہیں اور ان میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو.یہ رکاوٹیں کیا ہیں ؟ بہت ساری ہیں میں ان میں سے صرف دو کا ذکر کروں گا یعنی عداوت اور فخر.یہ دونوں چیزیں ذهنی رویہ اور دل کو اسطرح داغوں سے بھر دیتی ہیں جس طرح چائے کے داغ چائیدانی کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں حصہ ان ذھنی رویوں کا ذہن میں ہونا بھی دل کو داغدار کر دیتا ہے جو پھر بعد میں صرف خدا سے محبت اور خدا کی ہمارے لئے محبت سے دور ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عشق الہی مذہب کا اتنا بنیادی اور لازمی حصہ جانا جاتا ہے کیونکہ اسکی روحانی تاثیر بہت زیادہ اور گہری ہے.اللہ کی کتاب قرآن مجید میں ایک نصیحت آمیز دعا بیان ہوئی ہے لا تجعل فِي قُلُوبِنَا غِلا لِلذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَحِيم (سورة الحشر ۵۹ آیت نمبر ۱۱) ترجمہ.اور ہمارے دلوں میں مومنوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دیجئے اے ہمارے رب آپ بڑے ہی شفیق اور بے انتہا کرم کرنے

Page 58

۵۴ والے ہیں جس شخص کے دل میں عداوت اور کینہ کے برے جذبات ہوں گے اس کو اطمینان قلب حاصل نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی خدا کی محبت اس کے دل میں جلوہ گر ہو گی انسان کو دعا کے ذریعہ نیز عمدہ مثبت سوچ کے ذریعہ ذہن سے درج ذیل برے احساسات نکال پھینکنے چاہئیں حسد نفرت.کڑواہٹ.ناراضگی.انتقام.غیر اخوت.تمسخر.گستاخی.طنز.ہتک.نیز ایسے ہی اور احساسات جو زہر قاتل ہیں.یہ چیزیں ہمیں خدا سے لو لگانے سے روکتی ہیں نیز یہ ہمیں اپنے دل کی Spring Cleaning بھی نہیں کرنے دیتیں ہیں ہے.نیک اور صاف دل خدا کا گھر ہوتا ہے گویا انسان کے لئے دنیا میں ہی جنت کا سماں ہوتا بہشت کی یہی تعریف قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنْتِ وَعُيونِ ادخلُوهَا بِسلم آمِنِينَ - وَنَزَعْنَا مَا فِي صَدُورِهِم مِنْ غِلِ إِخْوَا نَّا عَلَىٰ سُرُرٍ مُتَقْبِلِين ( الحجر ۱۵ آیت ۴۶ تا ۴۸) بے شک متقی (لوگ) یقیناً باغوں اور چشموں والے مقام) میں داخل ہوں گے انہیں کہا جائیگا کہ تم سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر ) ان میں داخل ہو جاؤ.اور ان کے سینوں میں جو کینہ (وغیرہ) ہو گا اسے ہم نکال دیں گے وہ بھائی بھائی بن کر (جنت میں رہیں گے اور ) تختوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ( بیٹھے ) ہوں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عالی شان کردار کی تصویر مندرجہ ذیل اقتباس میں کھینچی گئی ہے.مجھے اپنے جذبات پر اس قدر قا بو ہے کہ اگر ایک شخص گندی زبان میں مجھے رہے ایک سال تک برا بھلا کہتا تو بلآخر اسکو شرم محسوس ہوگی اور اسے ماننا پڑے گا کہ وہ مجھے ذرا بھی جادہ، استقامت سے ہٹا نہیں سکا.....(کتاب حضرت مسیح موعود کا سوانحی خاکہ) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو حضرت احمد علیہ السلام کے ایک بزرگ صحافی تھے انہوں نے آپ کے صبر اور عفو و در گزر کے بارہ میں لکھا ہے جو آپنے اپنے دشمنوں سے کیا بلکہ سبھی لوگوں سے کرتے تھے آپ نے لوگوں میں غلطیاں تلاش کرنے سے منع فرمایا

Page 59

ہے اور لوگوں کو منفی تنقید کا نشانہ بنانے سے بھی منع فرما یا ہے بلکہ کھلے عام کسی سے ناراضگی کا اظہار کرنے سے بھی منع فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے A true Muslim never harbours malice for anyone Avoid malice and deal with human being with love And sympathy Forget all mutual resentment and unpleasantness.You should have no ill-feeling for anyone whosoever.I say that you should forgive and overlook the faults Of others.یہ سنہری الفاظ حضرت احمد کے قلب منور کی بے داغ حالت کی ترجمانی کرتے ہیں در اصل یہ الفاظ اپنی ترجمانی خود کرتے ہیں ان پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں صرف ان پر عمل کر نیکی ضرورت ہے مگر انپر عمل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک انسان دعا کی طرف رجوع نہ کرے اور اپنے نفس کی طہارت کے لئے خود کو وقف نہ کر دے طہارت نفس کے راستہ میں دوسری رکاوٹ غرور و تکبر ہے خداوند کریم اپنی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں وَلا تَمْشِ فِى الارض مَرَحًا (سورۃ نمبر ۱۷ آیت نمبر (۳۸) ترجمہ.اور زمین پر اتراتا ہوا مت چل.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے : اے لوگو خدا نے مجھے ہدایت کی ہے کہ تم لوگ آپس کے معاملات میں عاجزی کو پیش نظر رکھو تا کوئی ایک شخص دوسرے پر ظلم نہ کرے اور نہ ہی ایک شخص دوسرے پر فوقیت کی شیخیاں بگھارے بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے بھی غرور و تکبر کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت فرمائی ہے آپ نے فرمایا.pride is the worst impurity of all پھر نبی پاک آنحضور ﷺ کی ایک مبارک دعا یہ بھی ہے اے میرے خدا جب تک مجھ میں جان ہے مجھے عاجز رکھنا جب میری وفات ہو تو میں عاجز ہوں اور روز قیامت مجھے عاجز لوگوں کے ساتھ اٹھانا عاجزی سے انسان کے متقی ہو نیکا پتہ چلتا ہے اور تقویٰ طہارت نفس کا عمدہ پھل ہے

Page 60

۵۶ زندگی میں یہی چیز معنی خیز ہے حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی یہی چیز ان الفاظ میں بیان کی ہے (14:11 He that humbleth himself shall be exalted ( Luke یعنی جو شخص خود کو عاجز بنا تا ہے اس کو آسمان پر اعلیٰ درجہ کا منصب عطا ہو گا اگر چہ ہمیں ہر وہ کام کرنا چاہئے جو قابل ستائش ہو مگر خودستائی کی خاطر کوئی کام نہیں کرنا چاہئے نیز اس بات کا بھی خیال رہے کہ ہم ایسے شخص کی مزمت نہ کریں جس کی عادات یا طرز زندگی ہم سے مختلف ہے ہمیں ایسے لوگوں کے لئے دعا گو ہونا چاہئے اور ان سے ہمدردی کرنی چاہئے ہماری سوچ اور طرز معاش میں عاجزی کی جھلک نظر آنی چاہئے ہمارے پاس جو کچھ ہے چاہے وہ حسن.اعلیٰ پیشہ.دولت.صحت.آسائش.خاندانی تعلقات یا روحانی انوار ہوں یا اس کے علاوہ جو کچھ ہمارے پاس ہے ہمیں اس کے لئے خدا تعالیٰ کا صمیم قلب سے مشکور ہونا چاہئے اور غرور کا شائبہ کہیں ذرا بھی نظر نہ آئے مجھے سٹیٹ آگسٹین St.Augustine کے الفاظ بہت اچھے لگتے ہیں جو برطانیہ میں عیسائیت لانی کا ذمہ دار ہے جب اس سے پوچھا گیا کہ مذہب میں سب سے اہم چیز کیا ہے تو اس نے کہا : سب سے پہلی چیز عاجزی ہے دوسری اہم چیز عاجزی ہے اور تیسری اہم چیز عاجزی ہے ہمارے پیارے رسول مقبول ﷺ نے طہارت نفس کا موازنہ اس راستہ سے کیا ہے جو بہت تنگ ہے اور جس کے دونوں طرف کانٹے ہیں وہ شخص جو عشق الہی میں مگن ہے اور طہارت قلب کا طالب ہے وہ اپنی رفتار اور اپنے کردار پر کڑی نظر رکھے تاوہ سیدھے راستہ سے کہیں بھٹک نہ جائے خوب جان لو کہ اگر چہ علم کی بھی اہمیت ہے مگر سچا مذہب علم میں دشمن پوشیدہ نہیں بلکہ پاک زندگی میں مخفی ہے عداوت اور تکبر روحانی زندگی کے دو بڑے د ہیں انسان کو ان سے اپنی حفاظت کرنی چاہئے.صاف دل حاصل کرنے کے لئے لازم ہے کہ

Page 61

۵۷ ہم کبھی بھی ایسی بات نہ سوچیں نہ ایسا فعل کریں جو خدائے قدوس کو نا پسندیدہ ہو اس روحانی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ ہم خدا کی نصرت اور حفاظت کے ہر وقت طالب ہوں ☆☆ PAA خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَمَهُ نمونه خطاطی ، رضی کراچی 13 18

Page 62

۵۸ شائستہ اخلاق کے اللہ تبارک و تعالیٰ کی پیاری کتاب قرآن کریم میں سید ولد آدم آنحضور علی کے بارہ میں ارشاد ہوا ہے وَإِنَّكَ لَعَلى خُلق عظیم ( سورۃ ۶۸ آیت (۵) بے شک آپ اخلاق حسنہ کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں.اخلاقی کردار کے قوانین تمام ادیان نے اپنے ماننے والوں کیلئے وضع کئے ہیں انہیں بعض میں اختلاف ہے مگر انکی اکثریت تمام مذاہب میں ایک جیسی ہے مذہب کے ماننے والوں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ اپنے دین کی جملہ خوبیوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہوں اور انہیں ان جملہ خوبیوں کا اظہار سب سے اعلیٰ رنگ میں کرنا چاہئے بلکہ یہ پیرو کار اپنے مذہب کے اخلاق کا اعلیٰ درجہ تک اظہار کریں انکے تن کے اندر ان خوبیوں کے اظہار کے لئے اتنی تڑپ ہو جتنی سمندر میں بے تالی ہوتی ہے قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے فاستبقو الخيرات (سورۃ ۲ آیت ۱۴۹) تم نیکیوں کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو پھر ایک جگہہ ارشاد ہوا ہے إِن اكْرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَنقُكُم - (الحجرات) یقینا اللہ کی نگاہ میں تم میں سے سب سے زیادہ افضل شخص متقی ہی ہے بعض نادان لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے کیلئے بہت تگ و دو کرتے ہیں مگر عقل مند شخص خدا کی رضا کا ہی طلب گار ہوتا ہے اس سلسلہ میں وہ اپنے اندر زہد و تقویٰ پیدا کرتا ہے کیونکہ تقویٰ بھی فی الحقیقت خدا کی صفات اور اسکی رضا مندی کے اظہار کا مناسب ذریعہ ہے.مومن اپنے تن کو تقویٰ کے لباس سے چھپا لیتا ہے کیونکہ تقویٰ کا لباس ہی در حقیقت سب سے اعلیٰ لباس ہے ارشاد ربانی ہے ولباس التقوى ذلك خير ( سورة ۷ آیت ۲۷) تقویٰ کا لباس زینت کے لحاظ سے اعلیٰ لباس ہے |

Page 63

۵۹ اس دنیا کے مختلف ادوار میں جو انبیاء خدا کی طرف سے انسانی رشد و ہدایت کے لئے مبعوث ہوتے رہے ہیں مسلمان کیلئے ان کے بے گناہ ہونے پر یقین رکھنا جیادی عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے مسلمان اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ ان جملہ انبیاء کرام میں سے روحانی مرتبہ کے لحاظ سے سب سے عظیم اور افضل پیغمبر ہمارے پیارے رسول مقبول حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں.آپ کو خدا نے انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے آخری اور ازلی قانون سے نوازا مسلمان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ آخری زمانہ میں خدائے تعالیٰ امام مہدی یا مسیح موعود کا ظہور فرمائیگا اس آنے والے مہدی کی بعثت کا مقصد یہ ہو گا کہ وہ مذہب اسلام میں ہونے والی جملہ غلطیوں.تحریف اور بدعات کو جو وقت گزرنے کے ساتھ اسکی تعلیمات میں داخل ہو گئیں انکو دور کرے گا اور مذہب اسلام کی تعلیمات کی تجدید کریگا وہ تمام انسانیت کو اسلام کی طرف بلائیگا جو کہ چودہ سو سال قبل حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت کا مقصد تھا جماعت احمد یہ عالمگیر کے بانی حضرت میرزا غلام احمد صاحب آف قادیان انڈیا نے ۱۸۸۹ء میں یہ دعویٰ کیا کہ مسیح کی بعثت پر احادیث میں مذکورہ پیش گوئی ان کی بعثت سے پوری ہو گئی ہے اللہ جل شانہ کی محبت اور عشق میں آپ اس قدر سرشار تھے کہ آپ اخلاقی معاملات میں دور بین طریق سے احتیاط فرماتے تھے آپ نے فرمایا مومن کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کردار اور اطوار کو اتنا اعلیٰ بنائے کہ دوسرے لوگ اسکے گرویدہ ہو جائیں ( ملفوظات جلد اول (۲۴۸ خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لا انتا موت سے بڑھ کر اور دکھوں اور مصائب کا مجموعہ قرار دیتی ہے ( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۸۲).تمام گناہوں سے کیا کبائر اور کیا صغائر سب سے چو کیونکہ گناہ ایک زہر ہے جسکے استعمال سے زندہ رہنا محال ہے ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۲۵) سچے دل سے توبہ کرو تہجد میں اٹھو.دعا کرو.دل کو درست کرو

Page 64

۶۰ کمزوریوں کو چھوڑو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل بناؤ..( ملفوظات جلد اول صفحه ۴۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عائلی زندگی گویا جنت کا جیتا جاگتا نمونہ تھی جس میں آپ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کہ تم میں سے سب سے اچھا خاوند وہ ہے جو اپنی اہلیہ سے سب سے اچھا سلوک کرتا ہے پر سختی سے عمل پیرا ہوتے تھے ایک موقعہ پر آپ نے بیان کیا : میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں كه محسوس کرتا تها که وه بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کو ئی دلآزار اور درشت کلمه منه سے نہیں نکالا تھا اسکے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا که یه درشتی کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے ( ملفوظات جلد ۲ صفحه ۲ مطبو عه لندن ) ہم میں سے بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے بہ ظاہر نظر آنے والے گنا ہوں سے اجتناب کر کے بہت اچھا فعل کیا ہے جبکہ ہم اپنے کردار کے بہت عمیق اور چھوٹے نکات نظر انداز کر دیتے ہیں قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے وَتَحْسَبُونَهَا هَبْنَا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيم (سورة ۲۴ آیت (۱۵) اور تم اسکو معمولی بات ( یعنی غیر موجب گناہ ) سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات تھی.انگلش کا یہ مقولہ بھی بہت مشہور ہے کہ وہ شخص جو چھوٹی باتوں کو حقیر جائیگا وہ دھیرے دھیرے تباہ ہو جائیگا بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار حضرت احمد علیہ السلام نے سفر کے دوران اپنے ایک مرید کے یہاں قیام کیا یہ سخت گرمیوں کے دن تھے گھر کی چھت پر آپ کا بستر لگایا گیا چھت پر منڈیر نہ تھی یہ چیز آپ کو بری لگی اور آپ نے حدیث قدسی بیان فرمائی جس میں نبی کریم ﷺ نے منڈیر کے بغیر چھت پر سونے سے منع فرمایا گھر میں کوئی اور موزوں

Page 65

جگہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے فرمایا کہ بستر کمرہ میں لگا دیا جائے جہاں آپ نے سخت گرمی میں بڑی تکلیف کے ساتھ رات بسر کی منڈیر کا چھت پر نہ ہونا کوئی خطرہ کا باعث نہ تھا مگر آپ نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کی نافرمانی کرنا پسند نہ فرمایا شاید کوئی اور شخص اس صورت حال میں فرمان نبوی کو نظر انداز کر دیتا مگر حضرت احمد نے ایسا نہ کیا اعلیٰ اخلاق کے پیدا کرنے میں چھوٹے چھوٹے مسائل و نکات پر مکمل توجہ دینا لازمی ہے محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ گناہ وہ چیز ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے.اس چیز کو ترک کر دو جو تمہارے ذہن میں شک پیدا کرے خداوند قدوس ہمیں نیکی کے راستہ پر ثابت قدمی سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے تا ہم اپنے ہر لفظ اور ہر فعل حتیٰ کہ اپنی سوچ پر بھی ہمیشہ کڑی نگاہ رکھیں پانچ سنہری باتیں ا انسان خود عظیم نہیں ہو تا بلکہ اسکا کردار اسے عظیم بنا دیتا ہے اچھا دوست تلاش کرنے کیلئے پہلے خود اچھے بن جاؤ حمد انسان اپنی زبان کے پردے میں چھپا ہوا ہے جو باتیں تم لوگوں کے سامنے نہیں کر سکتے انکے بعد بھی نہ کہو جب علم میں کمال پیدا ہوتا ہے تو گفتگو کم ہو جاتی ہے

Page 66

۶۲ مهمان نوازی که مہمان نوازی مذہب اسلام میں بنیادی حکم کا درجہ رکھتی ہے یہ ایک ایسی نیک صفت ہے جس کی تمام ادیان میں تعلیم دی گئی ہے اسلام میں بھی اس بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حَبِةٍ مِسْكِينَا وَيَتِيمَا وَ أَسِيرًا إِنَّمَا يُطْعِمَكُم لِوَجهِ الله لا نريد منكم جَزَاً ، وَلا شَكُورًا ( سورة ۷۶۱ آیت ۹ اور (۱۰) اور اس (خدا) کی محبت میں مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھا نا کھلا تے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اے لوگو ہم تم کو صرف اللہ کی رضا کیلئے کھا نا کھلا تے ہیں نہ ہم تم سے کوئی جزا طلب کرتے ہیں نہ تہما را شکر چاہتے ہیں محبوب خدا نبی پاک اللہ سے زیادہ مہمان نواز انسان شاید دنیا میں گزرا ہو آپ جو چیز وصول کرتے اسکو دوسروں میں تقسیم کر دیتے تھے اگر کوئی شخص آپ سے درخواست کرتا تو آپ اسے قبول فرماتے اور غرباء سے تو آپ بہت ہی قریب تھے آپ کی مہمان نوازی کا دروازہ مسلمان اور غیر مسلمان دونوں کے لئے کھلا تھا ایک دفعہ عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا تو آپ حضور نے انکو مسجد میں عبادت کی اجازت مرحمت فرمائی ایک اور موقعہ پر ایک غیر مسلم کو دودھ کی ضرورت تھی تو آپ نے اسے دودھ پیش کیا یہ شخص صرف ایک بحری کے دودھ پر راضی نہ ہوا تو دوسری بحری کا دودھ پیش کیا گیا اسپر بھی وہ مطمئن نہ ہوا تو وہاں موجود سات کی سات بحریوں کا تمام دودھ اسے دے دیا گیا محبوب خدا سرور کائینات ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے بھائی سے مہمان نوازی کا سلوک نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے چہرہ پر مسکراہٹ زیب کر کے تو اس سے ملاقات کر سکتے ہو جب تم گوشت خرید و اور اسے پکانے لگو تو بر تن میں تھوڑا پانی زیادہ ڈال لو تا اس سے شوربے کا کچھ حصہ اپنے ہمسایہ کو بھی دے دو

Page 67

۶۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے مرکز قادیان میں ایک مہمان خانہ قائم فرمایا اور تاکید فرمائی کہ مہمانوں کی خاطر مدارت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے آپ نے اپنی زندگی میں اس مہمان خانہ کی بہ نفس نفیس نگرانی فرمائی اس کے بعد جماعت میں اس کا انتظام و انصرام علی پیمانہ پر کیا جاتا ہے جماعت احمدیہ کے دنیا کے مختلف ممالک میں مراکز کے قیام کے بعد کئی جگہہ ایسے مہمان خانے قائم کئے گئے ہیں جہاں اعلیٰ انتظام کی روایت کو ہر وقت بر قرار رکھا جاتا ہے.بانی سلسلہ احمد یہ دوسروں کا بہت خیال رکھتے تھے اور تمام مہمانوں کی ضروریات پر پوری توجہ دیتے تھے ایک بار آپ کا ایک مر شد دور سے شرف ملاقات کے لئے آیا وہ شام کے وقت قادیان پہنچا اور جلد ہی محو خواب ہو گیا نصف شب کے وقت اس کے کمرہ پر دستک ہوئی.دروازہ کھولنے پر اسکو علم ہوا کہ حضرت احمد علیہ السلام ہا تھ میں دودھ کا گلاس لئے کھڑے تھے وہ شخص وفور جذبات سے اشک بار ہو گیا کہ آپکو دوسروں کا کسقدر خیال تھا ایک اور موقعہ پر دو مسلمان بھارت کے کسی دور دراز علاقہ سے سفر کر کے حضرت احمد علیہ السلام سے ملاقات کیلئے آئے سفر میں انکو کئی روز گزر گئے جب وہ قادیان کے مہمان خانہ میں پہنچے تو وہاں موجود ایک شخص نے تانگہ سے سامان اتارنے میں مدد نہ کی وہ اس شخص کے رویہ سے خفا ہو کر واپس چلے گئے.جب حضرت احمد کو اسکا علم ہوا تو آپ فوراً انکے تعاقب میں روانہ ہو گئے جب آپ نے ان دونوں حضرات کو پالیا تو آپ نے اس افسوس ناک واقعہ پر اظہار افسوس کیا اور قادیان واپس آنیکی درخواست کی جب وہ دونوں قادیان واپس آگئے تو آپ نے تانگہ سے خود سامان اتارا اور انکی تمام ضروریات کا انکے قیام کے دوران خیال رکھا جب وہ جانے لگے تو آپ دو میل پیدل ان کے ساتھ انکو الوداع کہنے گئے ایک بار سرکار کا ایک افسر قادیان آپ سے ملنے آیا اپنے آپکی مہمان نوازی کو جو خراج

Page 68

۶۴ تحسین پیش کیا شاید اس سے بہتر اظہار کوئی اور نہ کر سکے : میں انکے کریمانہ التفات اور مهمان نوازی کا دلی مشکور ہوں میں نے یہ دیکھا کہ انکا التفات کسی خاص طبقہ کیلئے مخصوص نہ تھا یہ التفات خاص و عام سب کیلئے تھا مرزا صاحب کی ذرہ نوازی کا اندازہ اس بات سے کریں کہ میرے قیام کے آخر پر جب میں نے رخصت کی اجازت طلب کی تو آپ نے اس شرط پر اجازت منظور فرمائی کہ جب میں دوبارہ آؤں تو کم از کم چند روز کیلئے قیام ضرور کروں میں جب اس ملاقات سے واپس لوٹا تو مجھ میں وہ احساس ابھی تک برقرار تھا جس احساس نے مجھے وہاں جانے پر مجبور کیا تھا مهمان نوازی کی بھی حدود ہیں جسکا مہمان کو احساس ہونا چاہئے مذہب اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ مہمان کھانے کے معقول وقفہ کے بعد چلا جائے ہاں اگر اس کے اور میزبان کے درمیان یہ بات طے ہو کہ اسنے زیادہ دیر ٹھہرنا ہے اسی طرح مہمان زیادہ دیر کیلئے آئے تو اسکا انتظام تین دن تک بطور مہمان کے تو مناسب ہے مگر اسکے بعد اسکو الوداع کہہ دینا چاہئے تا میزبان کو تکلیف نہ ہو ہاں اگر صاحب خانہ نے اسکا تین دن سے زیادہ ٹھہر نا قبول کیا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں.

Page 69

۶۵ روحانی تشنگی داره ما استبقوا الخیرات.تم نیکیوں کے حصول ميں ايك دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو (البقرة (١٤٩ بہت لوگ ایسے ہیں جو مذ ہبی اجتماعات میں بڑے جوش و خروش سے شرکت کرتے ہیں مگر الوداع ہوتے وقت وہ خالی ہاتھ جاتے ہیں جسطرح وہ آئے تھے ان میں کوئی نئی تبدیلی یا پہلے سے بہتر تبدیلی نظر نہیں آتی وہ خطبہ یا تقریر یا مقرر کے روح پرور الفاظ کی تعریف تو کرتے ہیں مگر انکی تعریف کی حد صرف اتنی ہے جسطرح وہ موسیقی یا نغمہ سن کر اسکی بے حد تعریف کرتے ہیں اسی طرح وہ مقرر کے خطاب سے وقتی طور پر محفوظ ہوتے ہیں جب تقریر ختم ہو جاتی ہے تو اسکا اثر بھی زائل ہو جاتا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مذکورہ فعل میں قصور کرتا ہے ؟ تقریر کرنیوالے کا یا سننے والے کا ؟ اگر تو مقرر کی تقریر کرنیکا انداز مردہ ہے یا وہ ایک ہی آواز اور سر میں زیرو ہم کے بغیر تقریر کرتا ہے تو اسکی تقریر بورنگ ہوتی ہے مگر حقیقت اسکے بر عکس ہے قصور اس میں سننے والے فرد کا ہے جس میں روحانی غذا وصول کر نیکی بھوک یا تفنگی نہیں ہوتی کہاوت ہے کہ ایک عورت بیمار تھی اسکو مشورہ دیا گیا کہ وہ کسی گرم آب و ہواوالے ملک میں منتقل ہو جائے وہاں جا کر اپنے اپنے واقف کاروں کو خطوط لکھے کہ یہاں موسم کتنا اچھا ہے خوبصورت مناظر اور مزیدار پھل دستیاب ہیں اپنے مختلف قسم کے پھلوں کی تفصیل بھی لکھی مگر اسکے ساتھ اپنے یہ بھی لکھا کہ اسکو بھوک بلکل نہیں لگتی بعد میں خبر آئی عورت اتنے صحت بخش پھلوں کے ہونے کے باوجود مرگئی تو اسکے مرنے کی وجہ پھلوں کی عدم موجودگی

Page 70

۶۶ نہ تھی بلکہ بھوک کا فقدان تھا یہی حال ہم میں سے بہت سے لوگوں کا ہے ہم روحانی ہدایت اور روحانی ماحول میں تو اپنے آپ کو پاتے ہیں مگر ہمیں اسکی بھوک بلکل نہیں خدا نے ہمیں آسمانی مائدہ سے مستفید کیا ہے مگر ہم میں سے بہتوں کو بھوک نہیں ہے جن خوش قسمت لوگوں کو روحانی بھوک لگتی ہے وہ خدا سے ملنے والے لذیذ پھلوں سے اپنی بھوک ختم کرتے ہیں ایسے پھل جو ان کو نہ صرف وقتی طور پر بلکہ آنیوالے وقتوں میں بھی انکی پرورش اور دیکھ بھال کرتے ہیں خداوند کریم نے ہمیں روحانی قوانین ہماری ہدایت اور روحانی پرورش کے لئے دئے ہیں مگر ہم میں سے بہتوں کو اس آسمانی غذا کی بھوک ہی نہیں ہے.اف یہ زندگی کا زیاں نہیں تو اور کیا ہے ؟ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے.اِن اکر مَكُم عِنْدَ اللَّهِ أَنقُكُم (سورة الحجرات (۱۴ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پر ہیز گار ہے اور بائیبل میں مذکور ہے مبارک ہیں وہ لوگ جو تقویٰ کے حصول کیلئے بھوک اور تشنگی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ انکو جی بھر کر دیا جائیگا ( متی باب پانچ آیت (۶) وہ شخص جو اپنی روحانی بھوک کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے وہ ہر وقت روحانی غذا کے حاصل کرنے اور اس سے متمتع ہو نیکی پوری پوری سعی کرتا ہے وہ اپنے ذہن کو نیک خیالات سے ہمیشہ بھرے رکھتا ہے اور اپنے کردار کو ہر وقت نکھارنے کی پوری پوری سعی کرتا ہے گویا یہ اسکا فریضہ لول ہے.یہی اسکی زندگی کا مرکزی مقصد ہے اسکی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ بلندی کی طرف پرواز کرتا رہے.وہ اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی پوری سعی کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اسکو پوری توجہ.کوشش.قربانی.اور

Page 71

دعا کی ضرورت ہے اسکی مرغوب دعا یہ ہوتی ہے : خدا میرے دل و دماغ میں ہو اور میری سمجھ میں ہو خدا میری آنکھوں میں ہو اور میری وجہ بصیرت ہو خدا میرے منہ میں ہو اور میری تقریر میں ہو خدا میرے دل میں ہو اور میری سوچ میں ہو خدا میرے آخری وقت پر میرے ساتھ ہو آئیے ہم خدا کے دستر خوان سے جنت کے بے مثل پھلوں سے پوری طرح فائدہ مند ہوں ☆☆☆ پیارے نبی کی پیاری باتیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدلے اگر اسکی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے منع کرے اگر اسکی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے نبی ﷺ کا ایک اور ارشاد یہ ہے کہ : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے جو کہ وہ خود اپنے لئے پسند کرتا ہے

Page 72

تنہائی کی قدر کے کہا جاتا ہے کہ بڑے بڑے کارنامے تنہائی میں جنم لیتے ہیں.یہ بات مسلمہ ہے کہ کئی عظیم انسانوں اور بڑی بڑی مذہبی شخصیتوں کا کردار تنہائی میں بنا.یہ نہیں کہ ایسے لوگوں نے اپنا سارا وقت تنہائی میں ہی گزارا کیونکہ انہوں نے انسانیت کی خاطر اپنی خدمات بھی تو پیش کرنی تھیں آئیے ذرا حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی زندگی پر غور کریں جس کا ریکار ڈبائیبل میں موجود ہے اگر چہ وہ تبلیغ کے کام میں مصروف کار تھے انہوں نے تنہائی کی بھی وقتا فوقتا قدر بیان کی ہے بائیبل میں مذکور ہے : جب اپنے لوگوں کے جم غفیر کو واپس بھجوایا تو وہ پہاڑ پر دعا کرنے چلا گیا اور جب شام کا وقت ہوا تو وہاں اکیلا تھا ( متی بات ۱۴ آیت (۲۳) پھر ایک اور جعمہ آیا ہے : اور صبح کے وقت وہ دن چڑھنے سے پہلے میدار ہو گیادہ یا ہر گیا اور ایک گمنام جعبہ میں جا کر دعا میں مصروف ہو گیا ( مرقس باب ۱.آیت ۳۵) سرور کونین سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بھی تنہائی میں جاکر تضرعانہ دعائیں کیں دیباچہ تفسیر القرآن میں لکھا ہے : رسول کریم ﷺ کی عمر جب تیس سال سے زیادہ ہوئی تو آپ کے ول میں خدا تعالیٰ کی رغبت پہلے سے زیادہ جوش مارنے لگی آخر آپ شہر کے لوگوں کی شرارتوں بدکاریوں اور خرابیوں سے متنفر ہو کر مکہ سے دو تین میل کے فاصله پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک پتھروں سے بنی ہوئی چھوٹی سی غار میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگے.حضرت خدیجہ چند دن کی غذا آپ کے لئے تیار کر دتییں آپ وہ لیکر حرا میں چلے جاتے تھے اور ان دو تین پتھروں کے اندر بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت میں رات اور دن مصروف رہتے تھے (صفحه ۱۳۳) پھر آپ رات کی خموشی میں اٹھ کر گھنٹوں عبادت الہی میں مصروف رہتے یعنی نماز تہجد ادا کرتے جو آدھی رات اور پو پھٹنے کے درمیان ادا کی جاتی ہے بانی سلسلہ احمدیہ حضرت میرزا غلام احمد صاحب بھی تنہائی پسند فرماتے تھے جب تک

Page 73

۶۹ آپ کا تقرر ما مور من اللہ کی حیثیت سے نہ ہوا تب تک آپ خلوت پسند رہے حالات نے آپکو گوشہ خلوت سے باہر لا کھڑا کیا.جب آپ بچے تھے تو آپنے اپنے جذبات کا اظہار والد محترم سے یوں کیا تھا : میری خواہش ہے کہ میں زندگی کے باقی ایام کسی گوشه تنهائی میں گزار سکوں تا میں لوگوں سے اپنی توجہ ہٹا کر ذکر الہی میں اپنا وقت صرف کرسکوں شاید میں کھوئے ہوئے وقت کا ازالہ کر سکوں اور گزشتہ زندگی میں ہونے والی خطا نوں کی تلافی کو سکوں (لائف آف احمد مصنفہ اے.آر.درد ) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے گھر کے اندر دعا کی خاطر ایک خاص کمرہ ہو یا ہوا تھا جس کا نام بیت الدعا تھا آپ یہاں تنہائی میں لمبی پر خلوص دعائیں کیا کرتے تھے ایک موقعہ پر آپ نے چالیس روز تنہائی اور خلوت میں گزارے آپ نے ہدایت کی تھی کہ کوئی مہمان آپ سے ملنے نہ آئے سامنے کے دروازے پر قفل لگا دیا گیا تا آپ محل نہ ہوں خوراک لانے اور برتن اٹھانے کا وقت مقرر تھا یوں آپ نے ایک کمرہ میں اپنا وقت دعا ئیں کرنے مطالعہ کرنے اور مراقبہ کرنے میں گزار ا صرف نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے آپ باہر تشریف لاتے تھے جو آپ ملحقہ مسجد میں ادا کر تے تھے یہ چالیس روز آپنے خدا تعالیٰ سے راز و نیاز کرنے اور حیرت زدہ مذہبی تجربات میں صرف کئے آئیے دیکھیں کہ تنہائی کی قدر کے موضوع پر دوسرے لوگوں نے کیا کہا ہے : خموشی میں خدا کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے یہ ذھن کو عا جز بناتی اور اسے دنیا سے الگ کر دیتی ہے (آرک بشپ فين لن Fenelon ) تنھا ئی اور خموشی میں روح تیز قدموں سے ترقی کرتی اور خفیہ صداقتوں اور خدا کے الہامات سے شناسائی حاصل کرتی ہے (ٹامس کیمپس (Kempis) نیند بھی خلوت کا ایک دور ہے جب انسان دنیوی امور سے کٹ جاتا ہے اور اس کے بعد تازہ دم ہو کر دوبارہ لوٹتا ہے نیند انسان کی صحت اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے بعینیہ روحانی

Page 74

میدان میں بھی تشنہ روحیں تنہائی میں رہ کر تقویت حاصل کرتی اور تازہ دم ہو جاتی ہیں اس کے بعد دعا مراقبہ یا مطالعہ کے ذریعہ اپنی روحانی پرورش کرتی ہیں زندگی میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے جب انسان کسی محبوب دوست کے ساتھ علیحدگی میں وقت گزارنے کا خواہش مند ہوتا ہے جب دو اشخاص کی موجودگی گراں بار گزرتی ہے اور تین افراد کی موجودگی ہجوم لگتی ہے اسی طرح بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کا پیارا ہندہ خدا کے ساتھ خلوت کو پسند کرتا ہے اور یہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ اپنے رب کے ساتھ تنہائی کے لمحات کی قدر کرتا ہے.شاعر نے تنہائی کی قدر کو کیسے خوبصورت انداز میں ان اشعار میں بیان کیا ہے تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں بھیجیں بے مایہ سہی لیکن شاید وہ بلا بھیجی ہیں درودوں کی کچھ میں نے بھی سوغاتیں (جوہر)

Page 75

انکساری که درج ذیل حدیث قدسی کتنی پیاری اور معنی خیز ہے : میرے مولیٰ کریم میں جب تک زندہ رہوں مجھے انکساری پر رکھنا جب میرا آخری وقت آئے تو میں منکسر ہوں اور روز قیامت میر اشمار منکسر لوگوں میں سے ہو (حدیث نبی پاک ﷺ) عاجزی اور فروتنی ایک بنیادی اخلاقی صفت ہے جس پر تمام منتقی اور پر ہیز گار لوگ بڑی حد تک کار فرما ہوتے ہیں.یہ کمزوری کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ روحانی طاقت اور بلوغت کا واضح نشان ہے.قال الله تعالى في كتابه الكريم : ولا تمش فِي الارْضِ مَرَحًا ( سورة ٧ ا نمبر (۳۸) اور زمین پر اکڑ کر مت چل.اسی طرح مسیح ابن مریم علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ جو شخص فروتنی سے زندگی گزارتا ہے اسکا شمار عظیم انسانوں میں ہو گا (لوقا ۱۴.آیت ۱۱) غرور خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب کا موجب ہوتا ہے قرآن کریم میں مختلف سورتوں میں ایسے واقعات کا جگہہ جگہہ ذکر آیا ہے کہ کس طرح انسان اور مختلف قومیں غرور اور تکبر کے باعث مورد عذاب بن کر نیست و نابود ہو گئے ارشاد ہوتا ہے : وَلَقَد أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أَمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْ نَهُم بِا البَا سَاءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَهُم يَتَضَرِعُون ( الا نعام آیت (۴۳) اور ہم تجھے سے پہلی قوموں کی طرف (رسول) صبح چکے ہیں اور (ان رسولوں کے آنے کے بعد ) ہم نے انہیں (یعنی منکرین کو ) اس لئے مالی اور جسمانی تکلیفوں میں گرفتار کیا تھا کہ وہ بجز اختیار کریں.حضرت نوع کی قوم کے لوگ تمسخر اور استہزا اور خدا کے پیغمبر کی انکار کی سزا کے باعث پانی کے سیلاب کے عذاب کا نشانہ بنے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں : وَاَعْرَقْنَا الذِينَ كَذَّبُوا بِا يُتِنَا إِنَّهُم كَانُوا قَومَا عَمِين (الاعراف ۷ آیت (۶۴) اور ہم نے ان لوگوں کو جنہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا تھا غرق کر دیا.وہ ایک اند ھی قوم تھے اسی طرح فرعون کے ماننے والے لوگ بھی حیرہ احمر میں تکبر و گستاخی اور سخت دلی

Page 76

کے باعث پانی میں غرق کر دئے گئے ارشاد باری تعالی ہے : فَأَخَذْنَهُ وَجَنُودَهُ فَنَبَدْ لَهُم فِي اليَمَ فَانظُر كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِین ( سورۃ ۲۸ آیت (۴۱) پس ہم نے ( تکبر کی سزا میں) اسکو بھی اور اس کے لشکروں کو بھی پکڑ لیا اور انکو سمندر میں پھینک دیا پس دیکھو ظالموں کا انجام کیسا ہوا دنیا میں ہم یہ بات مشاہدہ کرتے ہیں کہ مختلف ممالک میں ڈکٹیٹر اور گستاخ حکمران کچھ عرصہ حکومت کرتے تختہ الٹنے پر وہ گمنامی کی زندگی میں روپوش ہو جاتے ہیں آہ کس طرح طاقتور لوگ قہر مذلت میں گرائے جاتے ہیں زندگی میں ہمیں جتنا بڑارتبہ حاصل ہوتا ہے اسی قدر ہمیں زیادہ عاجزی سے پیش آنا چاہئے.سینٹ آگسٹین نے کیا خوب کہا ہے : اگر تم مجھ سے دریافت کرو کہ مذہب میں سب سے پہلی اور بنیادی چیز کونسی ہے تو میرا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلی.دوسری تیسری چیز عا جزی و فروتنی ہے: حضرت میرزا غلام احمد صاحب بانی سلسلہ جماعت احمدیہ.مسیح موعود و مہدی موعود نے فرمایا ہے : I tell you truly that on the Day of Judgement, other than the association of anything with God, no vice shall rank as high as arrogance.This is a vice that humiliates a person in both worlds.( Aeenah Kamalate Islam) Everyone who looks down upon a brother because he esteems himself more learned, wiser or more proficient than him is arrogant in as much as he does not esteem God as the fountainhead of all intelligence and knowledge and deems himself as something has God not got the power to afflict him with lunacy and to bestow upon his brother whom he considers small better intelligence, knowledge and higher proficiency than him.? So also he who, out of a mistaken conception of his wealth, status or dignity, looks down upon his brother, is arrogant because he forgets that his wealth, status and dignity were bestowed upon him by God.

Page 77

He who does not listen courteously to his brother and turns away from him partakes of arrogance.He who mocks and laughs at him who is occupied in prayer partakes of arrogance.He who does not seek to render full obedience to a commissioned one and Messenger of God partakes of arrogance.He who does not pay full attention to the directions of such a one and does not study his writings with care also partakes of arrogance.Try, therefore, that you should not partake of arrogance in any respect so that you may escape ruin and you may attain salvation.Lean towards God and love him to the utmost degree possible and fear Him as much as anyone can be feared in this life.Be pure hearted and pure intentioned, meek and humble and free of all mischief so that you may receive mercy.تمام عال عاجزی کی زندگی ہم سے کیا مطالبہ کرتی ہے ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان غلطیوں کا سزا وار جانو جو ہم سے سرزد ہوئیں.ہمیں یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ تمام برکات کا منبع خداوند کریم کی ذات والا صفات ہے جو ناصر ہے رب العالمین ہے ہمیں تضرعانہ دعاوں کے ساتھ نیکی کے راستہ پر گامزن ہونا چاہئے ذاتی وجاہت کے لئے کچھ نہ کریں بلکہ جو کام کریں خدا کی حمد و ثناء کی خاطر کریں اور خدائے تعالیٰ نے جو برکات اور اپنے فیوض ہم پر نازل کئے ہیں ہم عاجزی سے ان کے لئے شکر گزار ہوں مَا مِن شَے، فِي المِيزَانِ انقَلَ مِن حسن الخلق (حدیث نبوی)

Page 78

۷۴ نصیحت ہے غریبانہ فرانس کے بادشاہ لوئیس نے ۱۲۷۰ء سے لیکر ۱۳۲۶ء تک راج کیا بلا شبہ وہ فرانس کے تخت حکومت پر بیٹھنے والا سب سے نیک فرماں روا تھا اسکی نہایت قابل تقلید صفت انکساری تھی اسکی موجودگی میں اگر کوئی فردمنہ سے غیر مناسب لفظ نکالتا تو وہ اسکو اپنے دربار سے ہمیشہ کے لئے دربدر کر دیتا تھا جب وہ بستر مرگ پر تھا تو اسنے اپنے بڑے بیٹے فلپ کو نیک ہدایات کا تحریری پروانہ دیا جو اسنے خود لکھا تھا.یہ ہدایات استقدر نصیحت آموز اور وجد آفریں ہیں کہ انسان خواہ کسی بھی عقیدہ سے تعلق رکھتا ہو یہ سب کے لئے گراں قدر ہیں ان پند و نصائح میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں : میرے بیٹے خدا سے محبت اپنے ہر فعل میں سب سے بالا رکھ ہجائے کوئی گناہ کرنے کے ہر قسم کی اذیت جھیلنے کے لئے ہر وقت تیار رہ.جب تم کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہو تو خدا کا مشکور ہندہ بن کر اس کو جرأت سے برداشت کر یہ سمجھ کر کہ چونکہ تو نے خدا کی صحیح خدمت نہ کی اس لئے تو اس سے زیادہ مصیبت کا حقدار تھا خوب جان لے کہ آزمائشیں تیرے لئے منافعت کا ذریعہ ہیں.ثروت میں خدا کا شکر عاجزانہ طور پر ادا کر اور ڈر کہ کہیں تیرا غرور خدا کی ان نعمتوں کا غلط استعمال نہ کرے تا وہ ذرائع جن سے تجھے اپنے آپکو بہتر بنانا تھا کہیں وہ خدا کی ناراضگی کا موجب نہ ہو جائیں ا غریب لوگوں سے فیاضی.رحمدلی اور خوش خلقی سے پیش آ.انکی ضروتوں کو پورا کر اور انکی حتی المقدور اعانت کر

Page 79

۷۵ پارسا لوگوں کے ساتھ گفتگو کرنے کو ترجیح دے سوائے نیک اور خوش سخت انسانوں کے کسی کو اپنا قریبی دوست مت بنابد نام لوگوں کو اپنے سے دور رکھ.نیک نقار بر سنتا اور اچھی منفعت بخش باتیں سننا اپنی عادت بنا د نیکی سے پیار اور بدی سے نفرت کر تم جہاں کہیں بھی ہو کسی کو گندی بات اپنی موجودگی میں نہ کہنے دو اور نہ ہی تمہیں کوئی بہکا دے کہ تم فاجرانہ بات کہو خدا کے تمام احسانات پر اسکا اکثر شکر ادا کر انصاف قائم کرنے میں سخت اور صاف دل رہ.غریبوں کی شکایات کو صبر سے سن اور تمام تنازعات میں جہاں تیرے فائدہ کا تعلق ہو اپنے مد مخالف کو اپنے فائدہ پر ترجیح دے تا آنکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے جو چیز تیری نہیں وہ اسکے مالک کو جلد لوٹا دے اگر معاملہ صاف ستھرا ہے تو دیر مت کر اگر معاملہ مشکوک ہے تو قابل اعتبار اشخاص اس کام کی چھان بین پر معمور کر جو اپنی رعایا کے تمام افراد کیلئے امن اور انصاف قائم کر نیکی کو شش کر اچھے منصف اور مجسٹریٹ تلاش کرنے میں پوری احتیاط کر جھوٹی قسمیں کھانے جوا کھیلنے.شراب پینے اور ملحدانہ خیالات کے پر چار میں حتی المقدور پر ہیز کر.حد سے زیادہ اخراجات نہ کر.اور اپنی رعایا پر نا منصفانہ اور بھاری بوجھ نہ ڈال

Page 80

ZY عیب جوئی کے تعمیری تنقید اور بلاوجہ غلطیاں نکالنے میں بڑا فرق ہے لاریب کسی شخص کی بھلائی کی خاطر اسکی کمزوری کی طرف توجہ دلانا اچھا فعل ہے لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ شخص مذکور کو مناسب رنگ میں توجہ دلائی جائے اس مضمون میں ہم ان اصحاب کی نشاندہی کریں گے جو تنقید محض خامی تلاش کرنے کی خاطر کرتے ہیں یہ اصحاب ایسے ہیں جو شیشے کے محلوں پر پتھر نہیں پھینکنے چاہئیں اسکے ساتھ ہی انہیں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے یہ الفاظ ذہن نشین رکھنے چا ہیں : تم اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا کیوں دیکھتے ہو جبکہ خود تمہاری اپنی آنکھ میں شہتر موجود ہے (متی باب ۷ آیت ۳) اسی موضوع پر قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے : يَا نَمَا الذِينَ آمَنُوا لَا يَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُم وَلا نِسَاء مِن نِسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَ لَا تلمزوا أنفسكُم وَلا تَنَابَزُوا بِالا القاب (سورۃ ۴۹ آیت (۱۲)..اے مومنو کوئی قوم کسی قوم سے اسے حقیر سمجھ کر ہنسی مذاق نہ کیا کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہو اور نہ کسی قوم کی عورتیں دوسری ( قوم کی) عورتوں کو حقیر سمجھ کر ان سے ہنسی ٹھٹھا کیا کریں ممکن ہے کہ وہ دوسری قوم یا حالات والی عور تیں) ان سے بہتر ہوں اور نہ تم ایک دوسرے پر طعن کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے یاد کرو گہیں ہانکنا ہم سب کی مشترکہ کمزوری ہے اگر ہم لوگوں کے متعلق فیاضانہ طریق سے گفتگو کر میں تو شاید یہ اتنی مملک چیز نہ ہو لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا ہے ہماری آنکھیں اور ہمارے کان لوگوں میں نقص تلاش کرنے میں تیز ہو تے ہیں.چہ جائیکہ خوبصورتی کے پہلو تلاش کریں پھر ہماری زبان دوسروں کی کمزوریاں گننے میں بہت لطف حاصل کرتی ہے قرآن پاک کی یہ ہے کہ دوسروں کے عیب نکالنا اور بلاوجہ قابل ضرر تنقید کرنا قابل ستائش فعل i

Page 81

66 نہیں ارشاد ربانی ہے : يَا أيهَا الذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِ إِن بَعْضَ الظَّنِ إِنَّمَ وَ لا تَجْسَسُوا وَلَا يَعْتَب بَعضُكُم بَعضا - (الحجرات آیت (۱۳) اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے چیتے رہو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور ججس سے کام نہ لیا کرو اور تم میں سے بعض.بعض کی غیبت نہ کیا کریں کوئی شخص بلا وجہ تنقید اور عیب جوئی کا نشانہ بنا پسند نہیں کرتا ہے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اسکا موازنہ بہتر رنگ میں کیا جائے ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے عیب تلاش کرتے وقت سخاوت اور عفو و در گذر کا مظاہرہ کریں اگر یہ سلوک ہم اپنے لئے مناسب سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں خود بھی دوسروں کے لئے ایسے سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہئے غیر ضروری تنقید اور عیب جوئی کے خلاف ہم یقینا ناراضگی کا اظہار کریں گے کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اپنے عیبوں سے تو آگاہ نہیں ہوتے لیکن کس چابکدستی سے دوسروں کے عیوب واضح طور پر دیکھ لیتے ہیں دوسرے کی آنکھ میں تو ہم تنکا بھی دیکھ لیتے مگر ہمیں خود اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا.دوسروں میں چھوٹی سے چھوٹی کمزوری بھی ہم غور سے تلاش کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ شاید اس سے بھی بڑی کمزوری ہم میں موجود ہو حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ دوسروں میں عیوب تلاش کرتے ہیں در حقیقت خودان میں عیب اور کمزوریاں زیادہ پائی جاتی ہیں اس نکتہ اور دانا کی کی بات کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں دوسروں کے عیبوں پر زبان درازی سے احتراز کرنا چاہئے مناسب تو یہ ہوگا کہ ہم ان کی اچھائیوں اور محاسن کا ذکر کریں اور کوئی عیب ہو تو در گزر کریں محبوب خدا سرور کائینات آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے : کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے.صحابہ نے جوابا عرض کیا اللہ اور اسکار سول ہی بہتر جانتے ہیں.آپ حضور صلعم نے فرمایا.تم اپنے بھائی کے متعلق اسکی غیر حاضری میں کوئی بات کہو جو اسے ناگوار گزرے.کسی نے کہا اگر میرا بھائی واقعی دیسا ہو جیسا کہ میں نے بیان کیا.اس پر آں حضور ﷺ نے فرمایا اگر وہ واقعی ویسا ہو جیسا کہ تم نے کہا تو تم نے نصیبت کی اور اگر وہ ویسا نہ ہو جیسا کہ تم نے بیان کیا تو تم تہمت اور بد گوئی کے سز اور ہو

Page 82

LA خدا چاہتا ہے کہ ہم دوسروں کے عیب تلاش کرنے اور ان کو گفتگو کا موضوع بنانے کی بجائے یہ کو شش کریں کہ ہم گناہ سے بچیں اور اپنی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ کریں ہم اپنی اصلاح اور ترقی میں اس قدر گم ہوں کہ ہمارے پاس غیبت.عیب تلاش کرنے اور دوسروں کو تنقید کا ہدف بنانے کے لئے وقت ہی نہ ہو.اگر ہم اپنے اندر نفس مطمئنہ کی حالت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ترش اور کاٹنے والی تنقید سے اپنے ذہن اور دہن کو پاک وصاف رکھنا вм کشائش رزق کا کار گر نسخه کشائش کی خاطر جو ہو مضطرب گناه ے رہے وہ سدا مجتنب حدي ومن يتق الله يخرج له مخرجا و يرزقه من حيث لا يحتسب از ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صا حب )

Page 83

29 بابرکت زندگی کے بابرکت زندگی کی پہچان یہ ہے کہ یہ خدائی انعامات سے نوازی جاتی ہے ہر شخص زندگی میں خدا کے انعامات سے تھوڑے یا زیادہ رنگ میں نوازا جاتا ہے جس کے لئے انسان کو مشکور ہونا چاہئے لیکن بہت لوگ ان انعامات کی ناقدری کرتے ہوئے شکر گزار نہیں ہوتے صحت اور دولت.رشتہ دار اور دوست جملہ انعامات میں سے چند ایک ہیں جب ہم اپنا موازنہ اپنے سے کم تر لوگوں سے کرتے ہیں تب ہمیں اسکا احساس ہو تا ہے اور ہم ایسے انعامات خداوندی کا شکر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے : آن شكر الله - و مَن يَشْكُر فَا نَمَا يَشكُرْ لِنَفْسِهِ ( سورة ۳۱ آیت (۱۳) الله کا شکر ادا کر.اور جو شخص بھی شکر کرتا ہے اس کے شکر کرنیکا فائدہ اسی کی جان کو پہنچتا ہے پھر ایک جمہ ارشاد ہوتا ہے لا يُفلِحُ الكَافِرُون ( سورة ۲۸ آیت (۸۳) نا شکر انسان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا ہے كَذَلِكَ نَجْزِى كُلِّ كَفُور ( سورة ۳۵ آیت ۷ (۳).ہم نا شکر انسان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں مادی چیزوں کا ہونا اس بات کی علامت نہیں کہ بابرکت زندگی تخلیق میں آوے بچے منعم لوگ وہ ہیں جو برکات اپنے نفس کے اندر پیدا کرتے ہیں وہ خود کو خدا کے حضور موجود تصور کرتے نیز وہ خدا کو اپنے نفس کے اندر موجود پاتے ہیں وہ آسمانی نور سے منور ہوتے اور وہ اس نور کو جہاں بھی وہ جاتے ہیں خوب ہی پھیلاتے ہیں انکے طور واطوار نیک ہوتے اور ان کے قلوب خدا کی محبت اور معرفت سے چمک رہے ہوتے ہیں انکی خوشی کا مدار مادی اشیاء پر نہیں ہو تا بلکہ خدا سے تعلق پر منحصر ہوتا ہے خدا کے وجود کا احساس وہ اپنے اندر یوں محسوس کرتے کہ ان کے جسم کا ہر خلیہ روحانی بعاشت سے زندہ و تابندہ ہو جاتا ہے اسکی زندگی میں تقدس کی

Page 84

۸۰ روح ہر طرف ہر جعبہ نظر آتی ہے : بابرکت زندگی کا نقشہ مندرجہ ذیل انگلش نظم میں کھینچا گیا ہے.WHO ARE THE BLESSED Those who have kept their sympathies awake And scattered joy for more than custom's sake; Steadfast and tender in the hour of need; Gentle in thought, benevolent in deed; Whose looks have power to make dissensions cease; Whose smile is pleasant & whose and words are peace They who have lived as harmless as the above, Teachers of truth and ministers of love, Love for all moral power all mental grace, Love for the humblest of the human race Love for the tranquil joy that virtue brings; Love for the giver of all lovely things Who wait in peace their hour of final rest These are those who are truly blessed.مذہب اسلام ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ تمام انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں وہ ان تعلیمات کا جنگاوہ پر چار کرتے ہیں کامل نمونہ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نبی پاک کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے : طه ( سوره ۲۰ آیت (۲) اے انسان کامل پھر ارشاد ہوتا ہے وَ إِنَّكَ لَعَلَىٰ خَلْقٍ عَظِيمٍ ( سورۃ ۶۸ آیت (۵) آپ یقن عظیم اخلاق کے حامل ہیں.پھر اللہ تبارک تعالٰی فرماتے ہیں لَقَد كَانَ لَكُم فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنةٌ ( سورة ۳۳ آیت (۲۲) اللہ کے رسول میں تمہارے لئے ایک اعلیٰ نمونہ ہے (جس کی تمہیں پیروی کرنی چاہے).نبی پاک ﷺ کی مندرجہ ذیل دعا بھی بہت موثر اور دلسوز ہے اللهم اجْعَل فِي قَلبِى نُورًا فِى بَصَرِى نُورًا فِي سَمَعِ نُورًا وَعَنَ يَمِينِى نُورًا وَ عَن يُسَارِى نُورًا وَفَوقِيَ نُورًا وَ فِي تَحتِى نُورًا وَ إِمَا مِيَ نُورًا وَفِي خلفِى نُورًا وَاجعَل لِى نُورًا - ام المومنین حضرت عائشہ کا آپ حضور ﷺ کے کردار کے بارہ میں جامع بیان ہے کان طلقہ القرآن نبی پاک ﷺ کے عظیم کیریکٹر اور مقنا طیسی شخصیت جس نے لوگوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی پیدا کی اسکا اندازہ درج ذیل تقریر سے لگایا جا سکتا ہے جو جعفر طیار نے حبشہ

Page 85

Al کے بادشاہ کو اسلام کا تعارف کراتے ہوئے کی تھی اے بادشاہ ہماری قوم کی یہ حالت تھی کہ ہم سب جاہل تھے بتوں کی پوجا کرتے.مردار کھاتے برے کاموں کے مرتکب ہوتے رشتے ناطے توڑتے.پڑوس سے برا سلوک کرتے.اور ہم میں سے قوی کمزور کو کھا جاتا تھا یہ ہماری حالت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جانب ہمیں میں سے ایک شخص کو رسول بناکر بھیجا جسکے نسب سچائی امانت اور پاکدامنی کو ہم سب جانتے ہیں اس نے ہمیں اللہ کی جانب دعوت دی کہ ہم اسے یکتا مانیں اور اسکی عبادت کریں ہم اور ہمارے بزرگوں نے اسکو چھوڑ کر پتھروں اور بتوں کی جو پوجا اختیار کی اسکو چھوڑیں اس رسول نے ہمیں سچی بات امانت کی ادائیگی رشته داروں سے تعلقات کے قائم رکھنے پڑوسیوں سے نیک سلوک کرنے.حرام باتوں اور قتل و خونریزی سے باز رہنے کے کا حکم دیا اور ہمیں بری باتوں جھوٹ بولنے یتیم کامال کھانے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع فرمایا اسنے ہمیں حکم دیا کہ خدائے یکتاکی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اسنے ہمیں نماز زکوۃ اور روزوں کا حکم دیا پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اسپر ایمان لائے وہ جو کچھ اللہ تعالی کی جانب سے لا یا ہم نے اسکی پیروی کی پس ہم نے خدائے یکتا کی عبادت میں کسی کو اسکا شریک نہین بنا یا اور ان تمام چیزوں کو حرام جا نا جو ہم پر حرام کی گئیں اور ان چیزوں کو حلال جانا جو ہم پر حلال کی گئیں تو ہماری قوم نے ہم پر ظلم و زیادتی کی اور انہوں نے ہمیں تکلیفیں پہنچائیں اور ہمیں دین کے متعلق مصیبتوں میں مبتلا کیا تا کہ ہمیں اللہ کی عبادت سے پھیر کر بتوں کی پو جا کی جانب لوٹ جائیں اور تا ہم ان تمام بری چیزوں کو حرام سمجھ لیں جنکو ہم حلال سمجھا کرتے تھے جب ان لوگوں نے ہم کو مجہور کیا اور ظلم ڈھائے اور ہمارے لئے زندگی کا میدان تنگ کردیا اور ہمارے دین کے کاموں میں رکا وٹین ڈالنے لگے تو ہم آپ کے ملک کی جانب نکل آئے اور ہم نے آپ کو دوسرے لوگوں پر تر جیح دی اور آپکی ہمسائیگی کی جانب راغب ہوئے اور اے بادشاہ ہمیں امید ہوئی کہ آپ کے پاس ہم پر ظلم نہ ہو گا (اقتباس از سیرت ابن ہشام.ترجمه مولوی قطب الدین.کرا چی صفحه ۵۰۲) ر صغیر ہندوستان کے نامور مسلمان مؤرخ سید امیر علی نے آنحضور ﷺ کے پاک کردار کا خاکہ ان وجد آفریں الفاظ میں کھینچا ہے : ہم نے اس عظیم الشان انسان کو یتیم بچے کی حالت میں دیکھا جو اپنے باپ کی محبت سے محروم رہا جو حین میں والدہ کی محمداشت سے بھی محروم رہا اس کی زندگی کے اولین ایام مصائب اور دکھوں سے بھرے ہوئے تھے معصوم لڑکپن سے آپ صاحب فکر نوجوان نے آپ کی جو انی کی عمر مین کی زندگی کی طرح گناہ سے پاک تھی آپ کی بڑی عمر کا حصہ تو جوانی والے حصہ کی طرح سادہ اور خدا پرست تھا آپ غریبوں اور کمزورں کی مدد کو ہر وقت تیار رہے تھے آپ کا دل خدا کی تمام مخلوق کے لئے ہر وقت نرم اور ہمدردی سے بھرا ہوا تھا آپ اس قدر عاجزی اور

Page 86

۸۲ خلوص سے قدم رنجہ ہوتے کہ راہ جاتا آپ کو مڑ کر دیکھتا اور آپ کی طرف اشارہ کر کے کہتا رہ جاتا ہے الا مین اور صادق.آپ ایک مخلص دوست اور خاوند تھے ایک مفکر جو زندگی دموت کے اسرار نیز انسانیت کے انجام اور انسان کے اعمال کا انجام جانئے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض جاننے میں ڈوبا ہوا تھا.ایسا انسان جس کو ایک قوم کی اصلاح نہیں بلکہ پوری دنیا کی اصلاح کا بیڑا اٹھا نے کے لئے مامور کیا گیا اس بو جھل کام کے لئے اور اسکو سکون و راحت دینے کے لئے صرف پیار بھرا دل ملا تھا.آپ کو دھوکا دیا گیا مگر لڑ کھڑائے نہیں آپ ہارے مگر مایوس نہ ہوئے آپ ایک نا قابل تسخیر روح کے ساتھ اس کام کو سر انجام دینے لگے جو آپ کو تفویض کیا گیا تھا.آپ کے کردار میں خلوص اور شرافت خدا کی رحمیت پر آپ کے یقین کامل کہ وجہ سے بہت سے نیک دل لوگ آپ پر ایمان لے آئے اور جب کڑی آزمائش کا وقت آیا تو ایک چابکدست جہازراں کی طرح آپ اپنے مقام پر جمے رہے تا آں کہ آپ کے تمام ساتھی ساحل پر بفریت پہنچ گئے آپ کی زندگی میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں.پھر ہم آپ (مسلم) کو انسانوں کا حکمراں.انسانی دلوں پر حکومت کرنے والا.اور چیف قانون دان.سپریم مجسٹریٹ کے روپ میں پاتے ہیں مگر آپ میں خود ستائی کی جائے عاجزی اور انکساری نظر آتی ہے آپ (مسلم) کی زندگی کی تاریخ اس لحہ کے بعد اس کا من ویلتھ میں مدغم ہو گئی جس کے آپ محور تھے.آج کے بعد وہ مبلغ جو اپنے ہاتھ سے جوتے گانٹھا کرتا تھا اپنے کپڑے سیا کرتا تھا اور جس نے کئی پھر کھانے کے بغیر گزار دئے وہ اب روئے زمین کے بڑے بڑے طاقت ور حکمرانوں سے زیادہ طاقت در تھا ( سپرٹ آف اسلام ) سرولیم میور انیسویں صدی کا مستشرق اور عیسائی مناد تھا وہ اپنی کتاب لا کف آف محمد میں کہتا ہے : ان (عربوں) کا مذہب بت پرستی سے بھرپور تھا انکا عقیده اومام پرست اور غیر مرئی چیزوں پر تھا ان غیر مرئی چیزوں سے یہ مدد طلب کرتے تھے اور انکی غیر خوشنودی سے اجتناب کرتے بجائے اس کے کہ ایک حاکم خدا پریقین رکھتے.پھر بجا ئے اس کے کہ آنیوالی زندگی اور اچھائی اور نیکی ان کے عمال کا اصل محرک ہوتے یہ.انکو معلوم نہ تھی.ہجرت سے تیرہ سال قبل اس غیر معروف علاقه جان شهر تها مگران تیرہ سالوں میں اس شہر کیا خوشکن تبدیلی آئی صدیوں افراد کے گروہ نے بت پرستى ترك كردى خدا نے واحد کی عبادت کے گرویدہ ہو کر انہوں نے اپنے آپ کو خدا سے نازل ہونے والی کتاب کے آگے خود کو پورے یقین سے سونپ دیا یہ لوگ خدا کے آگے پوری رغبت اور گرم جوشی سے بار بار دعا گو ہونے لگے اس کی رحمت کے طالب ہونے اور نیکی کی راہ پر چلنے کی سعی کرنے لگے اب وہ ایک تہار اور غیور خدا کے سایہ رہنے لگے وہ خدا انکی چھوٹی چھوٹی فکروں کا خیال رکھنے لگا فطرت کے ہر تھنہ میں زندگی کے ہر رشتہ میں

Page 87

۸۳ زندگی کے ہر موڑ پر چا ہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ان کو خدا کا طاقت ورہاتھ نظر آیا جس نئی زندگی میں اب وہ رہنے لگے تھے وہ خدا کی برکات والی زندگی سے بھری زندگی کا نشان تھا جبکہ انکے ساتھی شہریوں کا کفران کے راندہ درگاہ ہونے کی نشانی تھا محمد ان کے لئے اب زندگی کا کارپرداز تھا اب خدا انکی امیدوں کا سر چشمہ اور اس کے آگے انہوں نے خود کو مکمل طور پر دست بردار کردیا تها.آنحضرت مولہ کی حیات طیبہ بہت ہی بابرکت اور اعلیٰ پایہ کی تھی آپ خالق کائینات سے مستقل مکالمہ فرماتے تھے اور آپ کی زندگی میں ہر منٹ اور ہر سیکنڈ خدا کی صفات کا ظہور ہو تا تھا آپ نے مردوں کو زندگی بخشی گناہ گاروں کو ولی اللہ بنایا ایک مشرک اور روبہ تنزل قوم میں آپ نے روحانی انقلاب بر پا کر دیا نہ صرف یہ بلکہ آپنے انکی ذاتی چال چلن میں بھی انقلاب بر پا کر دیا.آپ ﷺ کے آسمانی عطر کی حکمت کس قدر شیریں تھی اسکی ستائش بانی جماعت احمد یہ حضرت میرزا غلام احمد صاحب نے اپنی ایک نظم میں یوں کی ہے : عجب نوریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد ندانم هیچ نفسی در دو عالم که دارد شوکت و شان محمد اگر خواهی نجات از مستی، نفس بیا در ذیل مستان محمد اگر خواهی که حق گوید ثنایت بشو از دل ثنا خوان محمد اگر خواهی دلیلی عاشقش باش محمد هست برهان محمد دلم هر وقت قربان محمد بیاد حسن و احسان محمد که دیدم حسن پنهان محمد که خواندم در دبستان محمد سرے احمد دارم فدائے خاك بسی سهل از دنیا بریدن فدا شد در رهش ذره من دگر استاد را نامی ندانم

Page 88

۸۴ نیک کاموں میں مستقل مزاجی کے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں : للذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةً - وَلَا يَرهَقَ وَجُوبُهُم فَتَرَ وَلَا ذِلَةٌ أُولِثَكَ أَصحَبُ الجَنَّتِهِ هُم فِيهَا خَالِدون ( سورة ۱۰ آیت ۲۷) ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیکو کاری کی بہترین انجام ہو گا اور اس پر مزید ( انعامات بھی).ان کے چہروں پر نہ غبار چھائے گا اور نہ ذلت ( کے آثار ہوں گے ) یہ لوگ جنت کے مکین ہیں (اور) اس میں رہتے چلے جائیں گے مذہب فی الواقعہ نیک طریقہ زندگی کا عملی نام ہے تمام مذاہب نے نیک زندگی اور عادات و اطوار اپنانے پر زور دیا ہے مذہب بغیر نیک اعمال کے مردہ چیز ہے بائیبل میں درج ہے اے خدا مری موت نیکو کاروں کی ہو اور میرا انجام بھی ایسا ہو (نمبرز 23:10) حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو تقویٰ کی زندگی بسر کرنیکی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :بابرکت ہیں وہ لوگ جو تقویٰ اور پارسائی کے حصول کیلئے بھوکے پیاسے کی طرح تڑپتے ہیں.پھر قرآن مجید میں ہر مسلمان کو یہ دعا بار بار پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے اهْدِنَا الصِرَاطَ لِمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الذين أنعَمتَ عَلَيْهِم غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيْهِم وَلَا الضَّالِينه لاریب تقویٰ اور پارسائی کا راستہ ایک آسان راستہ نہیں ہے یہ پھسلنے والا اور بلندی کی طرف چڑھنے والا مشکل راستہ ہے اس پر پھسلنا بہت آسان بات ہے لیکن خوشکن اور روح افزا سفر جو جنت نظیر مقامات کے دلکش مناظر میں سے گزرتا ہے اس جادہ پر ترقی کر ہے یہ نیکے لئے صبر اور ثابت قدمی کا ہونا لازمی امر ہے جس طرح دنیوی امور بھی بغیر کسی کوشش کے ثمر آور نہیں ہوتے اسی طرح یہ مقولہ اخلاقی نمود پر بھی پوری طرح لاگو ہوتا ہے بغیر تکلیف کے سبقت لے جانا لا محال ہے مذہب ایک شرط یہ لگاتا ہے کہ ہم خدا کے راستہ میں سبقت لے جانے کے لئے پورا جتن کریں اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور اسکی نصرت و حفاظت

Page 89

۸۵ کیلئے تضرع سے دعا گو ہوں یادر ہے کہ دعا اور کوشش دونوں درکار ہیں.دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ دعا پر زیادہ زور دیتے اور کوشش کم کرتے اور پھر سوچتے ہیں ہماری دعا کو شرف قبو لیت کیوں حاصل نہیں ہوتا ؟ ہمارا انتہائے مقصود یہ ہونا چاہئے کہ ہم تقویٰ میں ہر روز گا ہے لگا ہے ترقی کریں اس سفر میں کوئی آخری منزل نہیں جہاں سفر ختم ہو جاتا ہو.اپنی روحانی حالت سے مطمئن ہو جانے میں کوئی نیکی نہیں ہے کیونکہ اگر اپنی حالت سے مطمئن ہو گئے تو گویا ہم نے الٹا سفر شروع کر دیا ثابت قدمی ترقی کی پوشیدہ کنجی ہے جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے تو لوگ کہیں کہ وہ ترقی کے راستہ پر گامزن رہ کر موت کی آغوش میں چلا گیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں والله مع الصابرین ٥ سورۃ ۲.آیت ۲۵۰.اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے تقویٰ اور نیکی مستقل کوشش اور توجہ کے بغیر انسان میں پنپ نہیں سکتے ہیں اپنا تجزیہ خود کرنا اپنے آپ کو ڈسپلن کرنا.سلیف کنٹرول.چوکس رہنا.شدت سے چاہنا نیز دعا کرنا بہت لازمی امور ہیں ہم انسان ہیں کوئی فرشتے تو نہیں کہ ھم میں غلطیاں یا نقص موجود نہ ہوں شاید اس نیکی کے کٹھن راستہ پر ہم گھٹنوں کے بل گر پڑیں شاید ہمیں بہت سی شیطانی خواہشات اور ذھنی رجحانات کے خلاف جنگ کرنی پڑے لیکن اگر ہمارا نفس مضبوط ہے تو پھر مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ہے ہماری ہر کوشش ترقی کی جانب ہمیں لیجاتے ہوئے بلآخر جنت کی طرف لے جائیگی اگر ہم اپنے صفحے نظر کو حاصل نہ کر سکیں تو بھی ہم تقویٰ کے نیک راستہ پر لمبا سفر کر چکے ہوں گے اگر بالفرض محال ہم پھسل جائیں تو بھی ہمیں دل نہیں ہارنا چاہئے اللہ کریم فرماتے ہیں فل يُعِبَادِيَ الذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِم لَا تَقْنَطُوا مِن رَحْمَةِ الله إن الله يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الغَفُورُ الرَّحِيم ٥ ) سورۃ ۳۹ آیت نمبر ۵۴) تو انکو ہماری طرف سے کہہ دے اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جان پر (گناہ کر کے ظلم کیا مطر

Page 90

AY ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے وہ بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.اپنی کتاب احمدیت یا حقیقی اسلام میں فرماتے ہیں : Islam rescues man from despair and tells him that he can, in spite of his errors and mistakes, attain to the purity of mind and conduct which is the highest goal of man.It thus encourages him to make constant effort towards virtue and purity and enables him ultimately to arrive at his goal.انسان کو چاہئے کہ وہ مسلسل کوشش کرتا رہے اگر وہ گر پڑے تو اٹھ کر دوبارہ جادہء ترقی پر روانہ ہو جائے ولیم گلیڈ سٹون بر طانیہ کے سابق وزیر اعظم نے کیا خوب کہا ہے کہ کونی شخص اس وقت تک بڑا یا نیک نہیں بنا جب تک کہ اس نے بہت بڑی فاش غلطیاں نہ کیں ہوں.اگر ہم نیک اعمال سر انجام دیتے ہوئے غلطی کر جائیں تو ہمیں خود کو جھنجھوڑ کر دوبارہ مصروف ہو جانا چاہئے اور یہ مصمم ارادہ کرنا چاہئے کہ ہم ایسی غلطی دوبارہ نہ کریں گے دو ہزار سال قبل کے ایک مشہور رو من ادیب نے نیک آدمی کا خاکہ ان الفاظ میں کھینچا The greatest man is he who chooses right with the most invincible resolution; Who resists the sorest temptations from within and without; who bears the heaviest burdens cheerfully, who is calmest in storms, and the most fearless under menaces and frowns; whose reliance on truth, on virtue and on God is the most unfaltering.خوب جان لو کہ صرف زور اور طاقت کے ذریعہ بڑے کام سر انجام نہیں دئے جاتے ہیں پہلوان دیکھو کتنے طاقت ور ہوتے ہیں لیکن استقلال اور ثابت قدمی سے ہی وہ چمپئین بنتے ہیں کامیابی صرف انکے قدم چومتی ہے جو آخر تک ثابت قدم رہتے ہیں.ہمارا نصب العین دم واپسیں تک نیکی اور تقویٰ کا حصول ہو یہ قرآنی نصیحت ہمارے پیش نظر رہے فا استبقو الخیرات مختصر یہ کہ نیک زندگی کے حصول میں ثابت قدمی اور مستقل مزاجی بہت لازمی ہے

Page 91

AL برے دوستوں سے بچو قرآن کریم میں مسلمانوں کو کیا شاندار دعا سکھلائی گئی ہے.اھدنا الصراط المستقیم ہ مذہبی زندگی میں ہر مسلمان کی سب سے بڑی تمنا مذکورہ دعا ہوتی ہے جو ہر مومن دن میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کے دوران بتیس مرتبہ دہراتا ہے.بعض دیندار اور پار سا مسلمان دن میں اس سے بھی زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں اور رات کو بھی مزید نماز میں ادا کر تے یوں اس زبر دست دعا کی تلاوت کی تعداد اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے ہر مسلمان خدا کے حضور اس بات کا طلبگار ہوتا ہے کہ اس کے پاؤں صراط مستقیم پر ہمیشہ گامزن رہیں.اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جس دور سے ہم گزر ہے ہیں یہ گناہ اور شیطانی وساوس سے بھر پور ہے مذہبی اور اخلاقی اقدار کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی خدا کی محبت اور خوف چند محدود دلوں میں پایا جاتا ہے.اور جو لوگ اپنے آپ کو خدائی قوانین سے مبرا سمجھتے ہیں وہ خدا کے وجود پر بھی یقین نہیں رکھتے وہ دنیوی ضروریات اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہر جتن کرتے ہیں وہ صالح زندگی کی اہمیت کو نہ تو جانتے اور نہ اسکی قدر کرتے ہیں زندگی کا اصل مقصد میرے نزدیک خدا کی جستجو میں صحیح راستہ پر گامزن ہوتا ہے اور یہی نصب العین اسلامی تعلیم ہے بلکہ تمام مذاہب حضرت آدم سے لیکر آج تک یہی تعلیم دیتے آئے ہیں.ذرا انجیل مقدس کے مندرجہ ذیل حوالوں پر غور فرمائیں : بابرکت ہیں وہ جو میرے راستہ پر چلتے ہیں (امثال ۳۲:۸) ہر وہ شخص جو خدا سے خوف کھاتا اور اسکے راستہ پر چلتا ہے بابرکت ہے (زبور ) اے موٹی مجھے اپنے راستہ دکھلا (زبور باب ۲۷ آیت ۱)

Page 92

٨٨ تیری حکمرانی قائم ہو (لوقا باب ۱۱ آئے ۲) کچھ ایسے لوگ اور اہل ایمان ضرور ہیں جو خدا کے راستہ میں تگ و دو کو پسند تو کرتے ہیں مگر اپنے لائف اسٹائل کی وجہ سے وہ اسپر عمل نہیں کر پاتے ہیں ان کیلئے اس معاملہ میں ترقی دو بھر ہے چونکہ انکے ذہن میں منفی خیالات نے گھر کر لیا ہے اور وہ عزم بالجزم سے بھی عاری ہیں.لیکن اگر وہ پختہ عزم رکھتے ہوں تو جلد ہی وہ روحانی جادہ پر سفر سرعت سے کر رہے ہوں گے اس ضمن میں تضر عانہ دعائیں اور خدائی رہبری شرط اول ہے دعا فی الحقیقت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے کیونکہ ہر غیر ممکن کام دعا ہی سے ممکن ہو سکتا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِي قَرِيبُه أَجِيبُ دَعوَةَ الدَاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَاليَؤْمِنوا بِي لَعَلَهُم بَر شَدُونَ ) (البقرۃ (۱۸۷) اور اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو جواب دے کہ ) میں (انکے پاس ہی ہوں جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اسکی دعا کو قبول کرتا ہوں سو چاہئے کہ وہ دعا کرنے والے بھی) میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں جو لوگ پختہ ایمان والے ہیں نیز وہ مخلص اور دیندار ہیں بلا شبہ خدا تعالیٰ ان کی دعائیں سنتا اور انکا جواب دیتا ہے ہر مسلمان کے لبوں پر یہ دعا ہونی چاہئے اياك نعبد واياك نستعين ه اهدنا الصراط المستقيم ٥ صراط الذین انعمت عليهم.غير المضغوب عليهم ولا الضالين روحانی مسافر کیلئے ایک چیز جو مشروط ہے وہ یہ ہے کہ اسکی تمام توجہ اس مثالی کیفیت کی طرف مبذول ہو جسکو حاصل کرنے کے لئے وہ تگ و دو کر رہا ہے اسکو اس راستہ میں آنیوالے گڑھوں اور جالوں کا نہیں سوچنا چاہئے جو اسکو اپنے جال میں جکڑ کر اسکی ترقی میں رکاوٹ پیدا کر دیں ذرا اپنے ذھن میں لکڑی کا تختہ تصور میں لائیں اگر یہ تختہ زمین پڑا ہو تو کوئی بھی دماغی صحت والا شخص اس پر چل کر ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلا جائیگا لیکن اگر اسی

Page 93

۸۹ تختہ کو دو لونچی عمارتوں کے درمیان رکھ دیا جائے تو ہر دانا شخص ایک طرف سے دوسری طرف چل کر جانے میں خوف کھا ئیگا کہ وہ کہیں زمین پر گر کر زخمی نہ ہو جائے جتنا کوئی شخص بلندی سے نیچے کی طرف دیکھے گا اتنا ہی اسکا گرنا زیادہ ممکن ہو گا اسکے بر عکس اگر وہ سیدھا دیکھے اور پورے اعتماد کے ساتھ اس تختہ پر چلے تو اس کو عبور کرنا مشکل نہ ہوگا.رسہ پر چلنے والے بھی کبھی نیچے نہیں دیکھتے بعدیہ اگر انسان اپنے گناہوں کی طرف توجہ دیتا ر ہے تو بعید نہیں کہ وہ انہی گناہوں میں مبتلا ہو کر رہ جائے جن سے وہ اجتناب کرنا چاہتا تھا بہتر تو یہ ہے کہ وہ اپنی روحانی مقصد اور مطمح نظر کے لئے اوپر کی طرف دیکھے اس بات کے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ وہ گناہ کے ہونے اور خطرات سے خود کو آگاہ نہ رکھے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر ہی اپنی توجہ مرکوز نہ کر دے کیونکہ یہ عادت اسکو اپنے پنجہ میں جکڑ سکتی ہے جنسی بے راہ روی کا تدارک بھلا کیسے ہو سکتا ہے اگر ہر وقت لوگوں کی توجہ اس طرف ہی مبذول ہوتی رہے جنس کا ان دنوں ٹیلی ویژن.ریڈیو.پر لیس کتابوں میعیز بین سینما گھروں حتی کہ بچوں کی کتابوں میں بھی اس کا بلا خوف ذکر کیا جاتا ہے لوگ کتنے بے شرم ہو کر اس کا روبار میں ملوث ہوتے ہیں حالانکہ یہ خدا کے قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے بجائے اسکے اگر ہم لوگوں کی توجہ پاک وصاف زندگی کے آئیڈیل کی طرف کریں تو اس سے انسانیت کی کتنی بہبودی ہو گی اور کتنوں کا کردار نکھر سکتا ہے ایک زمانہ میں خیال کیا جاتا تھا کہ سر عام بازار میں مجرموں کے سر قلم کرنے سے دیکھنے والے جرم کے ارتکاب سے پر ہیز کریں گے اس کے بر عکس پتہ یہ چلا کہ ایسی سزادینے کے معابعد تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو گیا جس سے نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ ہوس پرستی سے ہوس پرستی جنم لیتی ہے یہی معاملہ جنس کے عام کھلے مناظر دکھلا نیکا ہے بلکہ زبانی اور لغو باتوں

Page 94

۹۰ کا بھی یہی معاملہ ہے جس کا آجکل بہت چرچاہے ان باتوں کا کچھ ما حصل نہیں ماسوائے لا قانونیت کے.ایک اور بہت ضروری چیز جسے روحانی مسافر کو ہمیشہ مستحضر رکھنا چاہئے وہ اچھے نیک دوستوں کی معیت میں وقت گزارنا ہے یہ کس قدر سچی بات ہے کہ انسان کی پہچان اسکے دوستوں سے ہوتی ہے یہ بہت اہم نکتہ ہے جسکو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کونُوا مَعَ الصَّادِقِين (سورۃ ۹ آیت ۱۱۹) صادقوں کی (جماعت) میں شامل ہو جاؤ.کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان لوگوں یا دوستوں کا بائیکاٹ کر میں جکو ہم پسند نہیں کرتے.زندگی میں انسان کو ہر قسم کے شخص سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے ہمیں اپنے قریبی دوستوں کے انتخاب میں بہت محتاط ہونا چاہئے جنکا طریقہ حیات قابل ستائش نہیں ہے رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان کے کردار پر ان دوستوں اور رفقاء کا اثر ضرور ہوتا ہے جنکی معیت میں وہ رہتا ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی معیت میں اپنا وقت گزارے.ہر چہ در کان نمک رفت نمک شد جن لوگوں کے ساتھ ہم رابطہ رکھتے ہیں ان کے قواعد زندگی اگر نیک نہیں تو ان سے پر ہیز مناسب ہے برے شخص سے پر ہیز مناسب ہے کیونکہ وہ دوسروں کیلئے ذلت ورسوائی کا باعث ہے یہ بات سونے کی طرح خالص اور سچی ہے کہ نیک دوستوں کی صحبت میں ہم نیک رہیں گے جبکہ برے دوستوں کی رفاقت بد چلنی کی طرف لے جاتی ہے جبھی تو کہتے ہیں بڑے دوستوں سے بچو کہ وہ تمہارا تعارف من جاتے ہیں مندرجہ ذیل تین امور انسان کی روحانی زندگی کو ترقی کی طرف لے جانے کی طرف بہت محمد ہوں گے اس لئے انکو ہمیشہ متحضر رکھیں ہی دعا ہے اپنی توجہ اعلیٰ آئڈیل پر مرکوز

Page 95

رکھو جو اچھی صحبت میں رہو.۹۱ دست در کار و دل با یار شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ایک بادشاہ اور ایک درویش کا انتقال ہوا کسی نے خواب میں دیکھا کہ بادشاہ جنت میں ٹہل رہا ہے اور درویش دوزخ میں پڑا ہوا ہے کسی بزرگ سے تعبیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ بادشاہ صاحب تخت و تاج تھا مگر درویشی کی تمنا کرتا تھا اور درویشوں کو بڑی حسرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور یہ درویش تھے تو فقیر بے نوا.مگر بادشاہ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس طرح اگر کوئی شخص مسجد میں ہے اور اسکا دل کہتا ہے کہ جلدی نماز ختم ہو اور میں اپنے کام کو جاؤں تو گویا وہ مسجد سے نکل چکا اور کوئی بازار میں ہے اور اسکا دل مسجد و نماز میں لگا ہوا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں ہے یہی معنی انتظار الصلوة بعد الصلوة کے ہیں.....زہد خانقاہ میں بیٹھنے کا نام نہیں ہے علاج؟

Page 96

۹۲ و اسیدها راسته ای که انسانی کی تخلیق کا مقصد خدا کے نزدیک یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اپنی زندگی کو خدائے واحد کے قوانین کے مطابق گزارنے کی پوری سعی کرے اس مقصد کو حاصل کر نیکا ایک کارگر نسخہ صراط مستقیم کی تلاش اور پھر تلاش کے بعد اس راستہ پر پوری دلجمعی کے ساتھ ثابت قدم رہنا ہے.روحانی مسافر کو اپنے اندر خدا تعالیٰ کی بیان کردہ نیک صفات کا پیدا کرنا اور اسکے ساتھ ساتھ التزام کے ساتھ دعا میں مصروف ہونا اور خدا کی نصرت کا طالب ہونا اور گمراہی سے محفوظ رہنا بھی ضروری ہے.اللہ کریم اپنی پیاری کتاب میں فرماتے ہیں : وَمَا خلَقَتُ الجِنِّ وَالإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُون (سورۃ ٥١ آیت (٥٧ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے خدا تعالیٰ کی عبادت صرف نماز تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسکا احاطہ اپنے ذاتی اعمال پر بھی ہونا چاہئے جو خدا کی شان اور بلندی کیلئے سر انجام ہوں یہ عملی عبادت کا جیتا جاگتا نمونہ ہو گا جو ہر سوچ.ہر لفظ.اور ہر عمل پر حاوی ہو.اسلامی عبادت بھی نیک کردار کا عملی ثبوت ہے جس کی تعلیم فرقان عظیم میں دی گئی ہے اور رسول مقبول ﷺ نے اپنی سنت سے اسکی تشریح فرمائی ہے بلا شبہ اس نیک آئیڈیل کا حاصل کرنا کوئی سہل کام نہیں ہے فی الحقیقت یہ نہ ختم ہونے والی جد و جہد ہے جس میں ترقی مرحلہ وار ہوتی ہے.روحانی مسافر اپنی ہر کمزوری اور عیب سے آگاہ رہتا ہے مگر جادہ ء سفر پر وہ اپنی ترقی سے بھی ہر لحظہ آگاہ رہتا ہے نیز دوسرے لوگ بھی اس کی ترقی سے آگاہ رہتے ہیں جو اسکو جانتے اور اسکا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں لوگ اس کے اطوار اور عادات میں خاص تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو

Page 97

۹۳ 4: تقویٰ کے راستہ پر ترقیاں حاصل کرتے اور خدا کے نور کے پر تو میں سفر کرتے ہیں یاد رہے کہ اس ترقی کا دارومدار مستقل مزاجی اور ثابت قدمی میں مضمر ہے کیونکہ اس روحانی کشمکش میں اسکو بہت قسم کی رکاوٹوں سے سامنا کرنا پڑتا ہے کتنی بد قسمتی ہے کہ انسان روحانی تجربہ اور ترغیب کے فقدان کے باعث مایوسی کے گندے پانی میں ڈوبا جارہا ہے ایسی مایوس کن حالتیں روحانی مسافروں کو بھی وقتا فوقتا پیش آتی ہیں ایسے حالات ہر شخص کے لئے باعث آزمائش ہوتے ہیں ان آزمائش کن حالات میں انسان کو خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا چاہئے اور مایوس نہیں ہونا چا ہئے قرآن مجید میں ہمیں یہ دعا سکھلائی گئی ہے..رَبَنَا أَفَرَغَ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسلِمِيْن ٥ (۱۳۷۷) اے ہمارے رب ہم کو صبر عطا فرما اور ہمیں اس حالت میں موت دینا کہ ہم مسلمان ہوں روزانہ نماز کے دوران ہر مسلمان خدا سے ملتجی ہوتا ہے کہ وہ اسے صراط مستقیم پر قائم رکھے.دعا کا جواب اگر اسے جلدی نہ ملے تو اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے یا اسکا مذ ہبی جوش و خروش اگر کم ہو جائے تو بھی گھبر انیکی بات نہیں ہے اسے صبر کا دامن چھوڑنا نہیں چاہئے جلد یا بد پر وہ اپنے ایمان اور عقیدہ میں تواتر کے باعث اسکے پھل ضرور پائیگا جو خدا کے مقرب ہندے ہیں وہ بھی بعض دفعہ نماز میں لطف محسوس نہیں کرتے.اور روحانی تجربات کا لطف بھی قدرے کم ہو جاتا ہے اس خاص موضوع پر حضرت میرزا غلام احمد صاحب مسیح اور مہدی موعود علیہ السلام نے یوں تبصرہ فرمایا ہے : جو لوگ خدا پر ایمان لاکر پوری پوری استقامت اختیار کرتے ہیں ان پر خدا تعالیٰ کے فرشتے اترتے ہیں اور یہ الہام انکو کرتے ہیں کہ تم کچھ خوف اور غم نہ کرو تمہارے لئے وہ بہشت ہے جس کے بارے میں تمہیں وعدہ

Page 98

۹۴ دیا گیا ہے سو اس آیت میں بھی صاف لفظوں میں فرمایا کہ خدا تعالٰی کے نیک بندے غم اور خوف کے وقت خدا سے الہام پاتے ہیں اسلامی اصول کی فلاسفی - صفحه ۱۷۸ یقین محکم رکھنے والا مسلمان ان آزمائشی حالات میں خدا کی پوشیدہ برکات کو تلاش کرتا ہے تا وہ کڑے وقت میں خدا کی نصرت اور تائید الہی کو اچھے رنگ میں استعمال میں لا سکے وہ ان کڑے حالات میں یوں سفر کرتا ہے جیسے تلاطم خیز سمندر میں کوئی بحری جہاز سکون سے سفر کر کے اپنا اچھا اور مفید ہونا ثابت کرتا ہے وہ مایوسی کا شکار نہیں ہو تا بلکہ اپنے مذہب پر ثابت قدم رہتا ہے اور خدا کے الفاظ جو قرآن مجید میں آئے ہیں انکو گنگناتا ہے اور انپر غور کر کے لطف اندوز ہوتا ہے : ان الذينَ قَالُو رَبَّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَنْزَلَ عَلَيْهِم المَلَائِكَةِ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَابْشِرُوا بِالجَنَّتِهِ التِي كُنتُم تُوعَدُونَ.نَحْنُ اَولِيَا وَكمْ فِي الحَيَوةِ الدنيا وفى الآخِرَةِ وَلكمْ فِيهَا ما تشتهى أَنفُسُكُمُ وَ لَكُمْ فِيهَا مَا تَدعونَ.نُزُلاً مِن غَفور رحیم ۵ ) سورۃ ۴۱ آیت ۳۳ (۳۱) وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم رہے انپر فرشتے اتریں گے یہ کہتے ہوئے کہ ڈرو نہیں اور کسی پہلی غلطی کا غم نہ کرو.اور اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.ہم دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی دوست رہیں گے اور اس (جنت) میں جو کچھ تمہارا جی چاہیگا تم کو ملے گا اور جو کچھ تم مانگو گے وہ بھی اس میں ملے گا.یہ مٹنے والے (اور ) بے انتا کر م کرنے والے خدا کی طرف سے مہمانی کے طور پر ہوگا ه انسان کا امتحان مختلف طریقوں سے اسکی اصلاح اور ترقی کے لئے لیا جاتا ہے یہ امتحانات روحانی طاقت کے بڑھانے میں محمد ثابت ہوتے ہیں جو لوگ صراط مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں انکو نا مساعد حالات کا صبر اور استقلال کے ساتھ سامنا کرنا ہو گا یوں وہ ان ناگزیر حالات کو روحانی ہیروں اور بیش قیمت جواہرات میں تبدیل کر لیں گے

Page 99

۹۵ روزہ کا اصل مقصد کے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق مذہب اسلام میں روزہ کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : يَا ايْهَا الذِینَ آمَنوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَيَامَ كَمَا كُتِبَ عَلى الذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون - سورة ۲ آیت (۱۸۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزریوں سے ) جو.ہر مسلمان کا مقصد اول اور دلی تمنا بھی یہی ہونی چاہئے جو اوپر بیان کی گئی ہے اپنے نفس کے ذاتی تجربہ سے ہمیں اپنے عیبوں اور کمزوریوں سے آگاہ رہنا چاہئے بلکہ ان کمز رویوں پر قابو پا کر اس زندگی کے اصل مقصد کو حاصل کرنا چاہئے جو کہ تقویٰ اور روحانی طہارت ہے انسان کو اپنی موجودہ حالت پر مطمئن نہیں ہونا چاہئے تقویٰ کے موضوع پر قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں : ان اكرَمَكُم عِنْدَ الله الفلم (۴۹.آیت (۱۴) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے إِن خَيْرَ الزَادِ التَقَوَىٰ.(۲) آیت (۱۹۸) اور (یاد رکھو کہ) بہترین زاد راہ تقویٰ ہے یہ بات تو ہر شخص پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مسلمان کی زندگی کا اولیس مقصد تقویٰ کے لباس کا حصول ہے اس امر کا ذکر قرآن مجید میں یوں ہوا ہے وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَير ( ) : آیت ۲۷) اور تقویٰ کا لباس (تو) سب سے بہتر لباس ہے رمضان المبارک کا مبارک مہینہ آن پہنچا ہے ہمیں پختہ عزم کے ساتھ اس کے روحانی فوائد سے ہر ممکن طور پر متمتع ہونا چاہئے.کیونکہ اللہ جل شانہ نے اس مہینہ میں ان لوگوں کے

Page 100

۹۶ لئے بے بہا برکات کے نزول کا وعدہ کیا ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس مبارک مہینہ میں صیام کے قیام کا انتظام کرتے ہیں.متقی بننے کیلئے روزہ کا قیام کیوں ضروری ہے؟ چاہئے که انسان شروع مہینہ سے ہی نفس میں تقویٰ کے حصول کیلئے ماہی بے آب کی مانند بے تاب ہو جائے اگر انسان اس امر کو لازمی نہیں جانتا تو پھر بہتری کے لئے تبدیلی پیدا ہونا ممکن نہیں ہے روزہ کا قیام انسان میں خود خود کوئی پر ہیز گاری پیدا نہیں کر سکتا چاہئے کہ انسان روزہ کی اصل وجہ اور غرض سے سر شار ہو.ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص رمضان کے دور ان بھو کا اور پیا سارہتا ہے مگر اخلاقی کمزوریوں کے خلاف اپنے آپ کو محفوظ نہیں کرتا وہ بے سود بھوکا رہتا ہے (بخاری شریف).رمضان کے ایام کے دوران چند ایک ضروری نکات جنکا ملحوظ رکھنا ضروری ہے یہاں بیان کئے جاتے ہیں قرآن مجرد قرآن مجید کی تلاوت اگر چہ مسلمان کو ہر روز کرنی چاہئے مگر ماہ صیام میں ہمیں اسکی تلاوت اور بھی زیادہ ذوق و شوق سے کرنی چاہئے تا ہمارا ذہن روحانی اور پاک صداقتوں سے بھر پور رہے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہو وہاں قرآن پاک کی تفسیر اور ترجمہ باجماعت سنایا جائے اگر کوئی شخص ایسی پاک اور روحانی محفلوں میں شمولیت سے معذور ہو تو اسکو کم از کم گھر میں اس مقدس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے قرآن مجید خدا کا کلام ہے جسمیں متبرک اور نورانی سچائیاں مستمر ہیں نیز یہ تمام روحانی بیماریوں کا بھی کافی و شافی علاج ہے صلوة ایک مخلص و دیندار مسلمان کی حثیت سے انسان کو ہر روز نماز ادا کرنے میں سختی سے پابندی کرنی چاہئے لیکن رمضان المبارک کے مہینہ میں تو انسان کو نماز اور بھی خشوع و خضوع

Page 101

۹۷ کے ساتھ ادا کرنی چاہئے کیونکہ اللہ کریم فرماتے ہیں کہ وہ اس مبارک مہینہ میں دعا کو اور بھی زیاددہ قبولیت سے نوازتے ہیں تہجد کی نماز پر خاص زور دیا گیا ہے رمضان کے ایام میں خدا تعالٰی دعا گو انسان کی مدد کو گویا دوڑا چلا آتا ہے اور اس پر اپنے فضل اور نصرت کی بارش نازل فرماتا ہے اور اسکی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے عادات و اطوار انسان کو اپنے چال چلن کے بارہ میں بہت توجہ دینی چاہئے خاص طور پر بولنے کے طریق سے یعنی انسان کو اپنی زبان کی خاص حفاظت کرنی چاہئے انسان کو لڑائی جھگڑے غیبت طنز تنقید - گستاخی.بد تمیزی اور ناخوش گوار چال چلن سے بھی محفوظ رہنا چاہئے.بہتر تو یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں محبت اور الفت پیدا کرے اور دوسروں کے ساتھ صبر اور نرمی سے پیش آئے چاہے ان کے عادات و اطوار کچھ بھی ہوں یا پر عیب ہوں.انسان عمد کرے کہ یہ چیز اسکی فطرت میں رچ بس جائینگی الخاوة رمضان کے مہینہ میں مسلمان کو دوسروں کے ساتھ کے ساتھ نرم دلی اور سخاوت سے پیش آنا چاہئے رمضان کے روزہ سے انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے کتنے لکھوکھا بھائی لوگ ایسے ہیں جو رزق کی کمی کے باعث فاقہ کشی پر مجبور ہوتے ہیں انسان کو ایسے افراد کی مدد کرنی چاہئے اور انسان کو اپنی خوش قسمتی پر رب کریم کا شکر ادا کرنا چاہئے سخاوت سے میری مراد عملی نرم دلی ہے جو صرف مالی اعانت اور مادی اشیاء تک ہی نہ محدود ہو سخاوت سے مراد یہاں وہ تمام نیک کام ہیں جو مسلمان انسانوں کی بھلائی کیلئے کرتا ہے نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر اچھا کام اور ہر مخلص فعل سخاوت ہے

Page 102

۹۸ اچھی بات.اچھا فعل.کسی کی مدد کرنا.نرم دلی ہمدردی خوش باشی دوستی.یہ صفات سخاوت کا عملی نمونہ نہیں اللہ کریم قرآن مجید میں فرماتے ہیں فاستبقو الخیرات پھر اور جگہہ ارشاد ہوا ہے وَلا تَنوا فِي ابتغاء القَوم سورة (٤ آیت (۱۰۵ اور تم اس قوم (یعنی دشمنوں) کی تلاش میں سستی نہ کرو.سخاوت یقنا سب سے نیک پیشہ ہے یہ فی الحقیقت تقویٰ کا عملی نمونہ ہے كنها ، راب اجتنرنان گناہ خدا تعالٰی کے جملہ احکامات ( اوامر و نواہی) کی نافرمانی کا نام ہے یا جب انسان ایسا براکام کرے جو اسے سیدھے راستے سے ہٹا دے تو وہ گناہ کا مرتکب ہو تا ہے روزہ انسان میں سلیف کنٹرول کو مضبوط کرتا ہے اور انسان اسکا استعمال اس وقت کرتا ہے جب وہ تحریص کا شکار ہوتا ہے دعا کی قبولیت کے علاوہ روزہ انسان کو سلیف ماسٹری کے علاوہ شیطانی خیالات کے خلاف قیمتی ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے اسکے علاوہ روزہ انسان کو یہ سبق بھی دیتا ہے کہ غذا سے اجتناب کے علاوہ گناہ سے بھی اجتناب اتنا ہی لازمی ہے روزہ ایک زبر دست روحانی مشق ہے جس سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے جو کہ روزہ کا منتہائے مقصود ہے

Page 103

۹۹ و عبد الله کی که جو شخص خود کو خدا کا عاجز ہندہ تصور کرتا ہے اس کو دوسرے انسانوں کے ساتھ اپنے کئی قسم کے رشتوں کے بارہ میں بڑے غور سے توجہ دینی چاہئے اس بارہ میں سب سے اہم چیز انسان کے خیالات پر کنٹرول ہے جو کہ انسانی کردار اور رویہ کے لئے بیچ کی حیثیت رکھتا ہے انسانی دماغ فی الحقیقت زرخیز زمین کی مانند ہے اس زمین میں وہی کچھ نکلتا ہے جو اسمیں بویا جاتا ہے انسان اپنے دماغ کے گلشن کا باغبان ہے وہ اپنی مرضی کے مطابق اسمیں بیچ ہو سکتا ہے اس میں وہی پودے ( یعنی اعمال) پیدا ہوں گے جن کے بیچ وہ ہوتا ہے انسان میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ وہ اس دماغ کے گلشن میں سے جڑی بوٹیاں اکھاڑ پھیے جو کہ صرف خدائے تعالیٰ کی تائید سے ممکن ہوتا ہے انسان اپنی روح کا بھی مالک اور قائد ہے بلکہ وہ اپنے سر نوشت.نصیب اور حالات کا بھی مکھیا ہے انگلش کے ذرا درج ذیل مقولوں پر غور فرمائیں : As he thinketh in his heart, so he is جیسے انسان اپنے دل میں سوچتا ویسا ہی وہ ہوتا ہے You can, if you think, you can تم کر سکتے اگر تم سوچو کہ تم کر سکتے ہو خدا کا عاجز ہندہ اسکی تائید و نصرت سے اچھے خیالات کا انتخاب کرتا ہے ان کو وہ ہو تا اور انکی آبیاری کرتا ہے اگر کسی نے اسکو غیر ارادی طور پر دکھ دیا ہے تو وہ اسکو معاف کرنے کیلئے تیار رہتا ہے بلکہ ایسے شخص کے ساتھ وہ ہمدردانہ سلوک کرتا ہے وہ اپنے اندر عداوت کے خیالات کو جنم نہیں لینے دیتا اگر ایسے خیالات پیدا ہوں بھی تو وہ دعا اور مثبت خیالات کے ذریعہ ایسے خیالات کو دبا دیتا ہے اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر ایک شخص کا دوسرے کے ساتھ جھگڑا

Page 104

ہو جائے تو اسکو ایسے شخص کے ساتھ تین روز کے اندر مصالحت کر لینی چاہئے ایسا اقدام دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں بنیادی چیز ثابت ہوتا ہے جس سے شاید تعلقات پہلے سے بھی زیادہ گہرے ہو جائیں اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں : ادْفَعَ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَا ذَالذِي بَينَكَ وَبَيْنَهُ عَدَا وَهُ كَانَهُ وَلِى حَمِيمٍ ( سورة ٢١ آیت (۳۵) اور تو برائی کا جواب نہایت نیک سلوک سے دے اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شخص کہ جس کے اور تیرے در میان عداوت پائی جاتی ہے وہ تیرے حسن سلوک کو دیکھ کر ایک گرم جوش دوست بن جائیگا وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَانٌ ذَلِكَ لِمَن عَزم الأمور ) سورة ۴۲ آیت (۴۴) اور جس نے صبر کیا اور معاف کیا تو (اسکا) یہ (کام) بڑی ہمت والے کاموں میں سے ہے أَلَا تُحِبُونَ أَن يَغْفِرَ اللَّه لَكُم - وَالله غَفُورٌ رَّحِيم ٥ ( سورة ٢٤ آیت (۲۳) کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کر دے اور اللہ بہت معاف کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے خدا کے عاجز ہندے کو چاہئے کہ وہ تمام انسانوں کیلئے اپنے دل میں محبت کو نمود دے اگر چہ اس سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ اسکی محبت والفت کی گہرائی ہر ایک کے لئے ایک جیسی ہو یہ فطری بات ہے کہ بعض اشخاص کے ساتھ اسکو دوسروں سے زیادہ الفت ہو گی مگر انسان کا ماٹو یا دستور العمل وہی ہونا چاہئے جو حضرت میرزا ناصر احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تھا یعنی محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ا خدا کے عاجز ہندے کو اپنے تمام بھائیوں اور بہوں پر نظر التفات رکھنی چاہئے اسکا دل انکی ضروریات دکھ دردیا آفات کو رفع کرنے کیلئے لبریز ہو جانا چاہئے اسکو اپنے سب دوستوں اور دشمنوں کیلئے دعائے خیر مانگنی چاہئے یہی اسلامی روح ہے اگر چہ سزا کو بھی غیر ضروری نہیں اگر : سمجھا جاتا لیکن جب اسکی مناسب ضرورت ہو.خدا کا عاجز بندہ (عبد اللہ ) انسان میں گناہوں سے نفرت کرتا ہے نہ کہ انسان سے نفرت کرتا.حضرت میرزا غلام احمد صاحب بانی سلسلہ |

Page 105

1+1 احمدیہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر انہوں نے اپنے کسی دوست کو گلی میں شراب میں مخمور پایا تو وہ اسکو اٹھا کر اسکے گھر لے جانے میں ذرا تامل محسوس نہیں کریں گے بانی سلسلہ احمدیہ کے بہت سے دریدہ دہن دشمن تھے مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کیلئے آپ نے تین مرتبہ دعا نہ کی ہو خدا کا بندہ اپنے دل میں بہت دکھ محسوس کرتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے تو وہ ایسے بد قسمت شخص کے لئے صمیم قلب سے دعا گو ہوتا ہے وہ اپنے نفس کی خامیوں اور کمزوریوں سے خوب آگاہ رہتا ہے کیونکہ اگر خدا کی تائید و نصرت اسکے ساتھ نہ ہوتی تو شاید وہ بھی ایسے گناہ گار شخص کی طرح گناہ گار ہو تا.پھر اگر ایسے گناہ گار شخص نے اگر خدا کا نور ہدایت پا لیا ہوتا تو شاید وہ خدا کے عاجز ہندے سے نیکی اور زہد میں بہت آگے نکل گیا ہو تا.خدا کا بندہ اگر اپنے آپ کو بڑے روحانی مرتبہ والا انسان سمجھنے لگتا ہے تو پھر وہ حقیقی معنوں میں خدا کا بندہ نہیں ہے کیونکہ خدا کا صحیح عاجز بندہ تو اپنے گناہوں اور کمزوریوں سے خوبی آگاہ ہو تا اور وہ انکساری و فروتنی کا مجسمہ ہوتا ہے اپنی کمزرویوں سے آگاہ ہو کر وہ خدا سے مغفرت اور اسکے رحم اور اسکی نصرت کا طلب گار ہو تا ہے وہ قرآن پاک کی اس نصیحت سے ہمیشہ آگاہ رہتا ہے فَلا تُرَكُوا أَنفُسَكُم هُوَ اعْلَمْ بِمَن اتَّقَى ( سورۃ ۵۳ آیت (۳۳) پس اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو.متقیوں کو اللہ ہی خوب جانتا ہے خدا کا بندہ اپنی کم مائیگی سے آگاہ رہتا ہے اور اسکا سارے کا سارا انحصار خدا کی نصرت اور اسکے فضل پر ہوتا ہے خدا نے اسے جو بھی روحانی ثمرات نوازے ہیں وہ ان کے لئے اسکا ممنون و مشکور ہوتا ہے وہ کسی سے نفرت نہیں کرتا اور دوسروں کیلئے خوش خلقی.خوش گفتاری.ملنساری اور نیک تحمل کا مرقع ہوتا ہے وہ تمام نوع انسانی کے لئے بھلائی کا طالب ہوتا ہے

Page 106

١٠٢ اور اپنے آپکو خدا کا عاجز ترین بندہ سمجھتا ہے نیز وہ روحانی طہارت کا ہر وقت طلب گار ہوتا ہے \3 محمدلول محمد پر بھاری جان فدا ہے كه ون كو ئے صنم کا رہ نما ہے

Page 107

۱۰۳ ادعية المخزن بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمینه الرحمن الرحيم ه مالك يوم الدين.0 اياك نعبد و اياك نستعين.اهدنا الصراط المستقيم ه صراط الذين انعمت عليهم ٥ غير المغضوب عليهم ولا الضالين.(قرآن) أَلَهُمَ طَهِرَ قَلْبِي مِنَ النِفَاقِ وَ عَمَلِي مِنَ الرِّبَا، وَلِسَانِي مِنَ الكَذِبِ وَعَيْنِي مِنَ الخِيَا نَهِ - فَا نَك تَعلَمْ خَائِنَةِ الاَ عَيْنِ وَمَا تُحْفِي الصَّدُور نبی پاک ) اللَّهُم اجعَل فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي سَمَعِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورَا وَفِي لِسَانِي نُورًا وَعَن يَمِينِي نُورًا وَعَن يُسَارِى نُورًا وَمِن فَوقِى نُورًا وَ عَن يُسَارِى نُورًا وَمِن قَو فِي نُورًا وَمِن خَلْفِى نُورًا وَاجعَل فِى نَفْسِي نُورَا وَ عَظِم لِى نُورًا ( نبي پاك ) اے خدا انکو معاف کر کیونکہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ( حضرت عیسی) اے خدا مجھے دعا کی نعمت عطا فرما (حضرت احمد) اے خدا اپنا مرکت والا نام میرے دل پر ثبت کر دے تیر انام میرے دل پر یوں ثبت ہو کہ کوئی آسائش.کوئی تنگی کوئی تکلیف مجھے تیری محبت سے دور نہ کرے تو میرے دفاع کے لئے بلند مینار کے مانند ہو دکھ میں میر امدلوا کرنے والا.تکلیف سے نجات دینے والا.آزمائش میں دل بہلانے والا.زندگی کے خطرات اور تحریص میں ناصر ہو ( Thomas A.Kemps نامی کیمپس) انسانی ہمدردی اور عنایت کا سر چشمہ آپ کے پاک سینوں سے اس طرح پھوٹے کہ تمام دنیا آپ کی بے لوث

Page 108

۱۰۴ خدمت سے فیض یاب ہو ( حضرت میرزا نا صر احمد رحمتہ اللہ علیہ ) اے خدا اپنی بے پایاں محبت کی چادر میں مجھے بھی ڈھانپ لے میرے داغوں کو دھو دے.میری سیاہ کاریوں کی غلاظت کو مکمل طور پر دور کر دے.میرے نفس کو گناہ سے صاف کر کے شفاف مادے (زبور ) اے میرے پیارے خدا تو نے مجھے اتنا کچھ دیا صرف ایک اور چیز عطا کر.شکر سے معمور دل ( جارج ہربرٹ ) رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَاحِمِين (قرآن پاك ) رَبِّ اهَبْ لِي زَرِيَّةً طَيِّبَةً (حضرت ابراهیم ) انِي مَسَّنِيَ الضَّرْ وَ أَنتَ اَرْحَمُ الرّاحمين ) حضرت ایوب - قرآن پاک ) یا خدا میرے بادشاہ مجھے سکھلا.ہر چیز میں مجھے دکھلا جو کام بھی کروں.تیری رضا کی خاطر کروں ( جارج ہر بٹ ) اے رحیم و کریم خدا تمام رحم اور برکت کا سر چشمہ تو ہے تو نے اپنی رحمت کے بھاری ہاتھ سے مجھ پر برکات نازل کیں.تیری شفقت کے شیریں ثمرات مجھ پر ظاہر ہوئے تو شفیق چرواہے کی طرح کھلا تا دوست کی طرح پیار کرتا جیسے ماں بچے کا خیال رکھتی ایسا ہی تو ہمارا اسوچتا اور خیال رکھتا جو تجھ سے پیار کرتے تو ان سے پیار کرتا جس طرح تیرا مہربان ہاتھ میری ڈھال بنا اسی طرح میرے دل کو شکر کے جذبات سے وسیع کر دے تا تیری شفقت بھری محبت کی بارش تیرے خادم پر ہمیشہ برستی رہے تیری مہربانی مجھ پر اس قدر زیادہ ہو کہ میں گناہ سے باز رہوں تیرے احکامات پر بار یہ عمل رہوں.تیرے نام کی برتری بیان کروں یہی میری زندگی کا مقصد ہو اور تیرے پر شوکت نام کو ابد الآباد تک جتار ہوں (جیر می ٹیلر ) خدا میرے دماغ میں ہو میری سمجھ میں ہو

Page 109

۱۰۵ خدا میری آنکھوں اور دیکھنے میں ہو خدا میرے دہن اور میرے بولنے میں ہو خدا میرے قلب اور میری سوچ میں ہو خدا میر ارفیق ہو اور وقت رخصت میرا ہم رکاب ہو ( ساروم پرائمر ) یارب ہمیں اپنا آقا بنے میں مدد فرماتا ہم دوسروں کی خدمت کر سکیں (پیٹرسن) فاطرِ السَّمَوتِ وَالأَرض أَنتَ وَلِي فِي الدُّنيا وَالآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّالِحِين (حضرت یوسف") رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَم تَغفِر لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَا مِنَ الخسرین ( حضرت آدم اور حوا کی دعا ) اے خدا ہمارے دلوں کو نیک خیالات سے بھر دے تا یہ ہماری زندگی جنتی سکون سے بھر جائے ہم روزانہ زندگی میں اپنے کام اس مطمئن روح کی طرح انجام دیں جس نے خدا پیارے خدا کا محبت بھر انورانی چہرہ دیکھ لیا ہو (F.B.Meyer) اے خدا ہمیں نیک اعمال اور مطہر زندگی سے اپنی عبادت کر نیکی توفیق دے (کریسٹانا روزیٹی) الهم الغفِرلِى وَارحَمنِى وَاهْدِنِي وَا عَافِنِی وَارفَعنِي وَاجِبَر نِي وَارزَقَنِي ( دعا ) رَبِّ إِنِى لِمَا أَنزَلْتَ إِلَى مِنْ خَیر فقیر ( حضرت موسیٰ کی دعا) اے رب.میرے نفس میں تری محبت کے سوا کوئی جذبہ نہ ہو ( Archbishop E.Pusey) رَبِّنَا آتِنَا فِي الدُّنيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( قرآنی دعا)

Page 110

اے میرے مالک : میرے ہونٹوں سے گویا ہو میرے دماغ سے سوچ میرا دل لے لے اور اسے نذر آتش کر دے ( F.B.Meyer) اے ہمارے مولی اپنے نور سے ہمارے نفوس کو روشن کر دے تیر افضل ہمارے دلوں میں ایسا سرایت ہو جو ہمارے خیالات اور اعمال کو پاک کر دے ( Meyer) اے خدا اپنی محبت کا شعلہ میرے دل میں پیدا کر.میں تیرا فرماں بردار بندہ ہوں اور تیرے احکامات پر ہمیشہ کار ہی رہوں اے خدا ہم کو اپنے عزیزوں اور احباب سے محبت کرنے والا بنا رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ حَا دِمَكَ رَبِّ فَا حفَظنِى وَانصُرْنِي وَارحَمنِی ( الهام حضرت امام مهدی ) رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعنَا مُنَا دِى أَن يُنَادِى لِلإِيْمَانِ آن آمِنُوا بِرَبِّكُم فَا مَنَا رَبَّنَا مَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِرَ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأَبْرَارِهِ رَبَنَا آتِنَا مَا وَعَدَتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُحْزِنَا يَومَ القِيَامَة إِنَّكَ لا تُخِلف الميعاد.° يَا مُقَلبِ القُلوب ثبت قلبي عَلى دِينِكَ إِنِى أَعُوذُ بِكَ مِن زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَ على الله تَهَوْلِ عَافِيَتِكَ ( رسول اكرم ) •Y

Page 111

1.2 ساعت مرگ که اس چیز کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا کہ جلد یا بد پر موت ہمیں ایک روز اپنی آغوش میں لے لیگی موت سے کسی کو مفر نہیں ہے ہم سے پہلے نسل در نسل انسان اس دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں کوئی شخص اس سے بچ نہیں سکالور نہ ہی مستقبل میں اس سے کوئی بچ سکریگا بائیل میں مذکور ہے : بھلا کوئی ایسا انسان ہے جو زندہ رہے اور موت کو نہ دیکھے (زبور باب ۸۹ - ۴۸ ) قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے كُلِّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ المَوت.(سورۃ ۳ آیت ۱۸۶) ہر ایک جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے.میرا قارئین گلاسته خیالی سے سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ساعت مرگ کے بارہ میں سنجیدگی سے غور کیا ہے ؟ کیا ہم اس خاص گھڑی کیلئے تیار ہیں ؟ یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہے کہ ہم میں سے بہت اس بارہ میں کوئی خاص توجہ نہیں دیتے.یا بہت کم توجہ دیتے ہیں بات یہ ہے کہ ہم دنیوی امور کے گرداب میں اسقدر پھنسے ہوئے ہیں کہ اس اہم بات کیلئے ہمارے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں.قرآن مجید میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت ہے جو دعا.نیک کردار.اور ہر وقت اس حقیقت کی آگہی سے ہوتی ہے کہ یہ زندگی تو اخروی زندگی کی تیاری کا سنہری موقعہ ہے.قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتے ہیں : يقوم إِنَّمَا هُذِهِ لِحَيَوةُ الدُّنْيَا مَتَاعَ وَإِن الْآخِرَةَ هِيَ دَارَ القرار ٥ (سورۃ ۴۰ آیت (۴۰) اے میری قوم یہ ورلی زندگی صرف ایک چند روزہ فائدہ ہے اور اخروی زندگی ہی یقینا پائیدار ٹھکانا ہے پھر سورة الانعام میں ارشاد ہوتا ہے : وَمَا الحيوةَ الدَّنْيَا الأَلَعِب وَلَو وَلَدَارُ الآخِرَةَ خَيرٌ لِلذِينَ يَتَقُون أَفَلَا تَعْقِلُونه (سورۃ ٦ آیت (۳۳) اور ورلی زندگی کھیل اور مشغلہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لئے پیچھے آنے والا گھر یقینا بہتر ہے پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے

Page 112

I+A بلا شبہ لواحقین کیلئے کسی عزیز کا دنیائے فانی سے کوچ کر جانا ایک افسوس ناک واقعہ ہو تا ہے وہ غم کے مارے نڈھال ہوئے جاتے ہیں جن لوگوں نے برے کام یا گناہ کئے ہوتے ہیں انکی روحیں تڑپتی اور سزا پا ر ہی ہوتی ہیں اسکے بر عکس جن لوگوں نے خدا کی عبادت میں وقت صرف کیا ہوتا ہے اور انہوں نے خود کو پاک وصاف رکھا ہوتا ہے اور نیک کام سر انجام دئے ہوتے ہیں ان کیلئے موت نہ ختم ہو نیوالی زندگی کا آغاز ہوتی ہے ایسے نیک لوگوں کے لئے اپنے عزیزوں سے مفارقت میں بھی مسرت کا پہلو پنہاں ہوتا ہے کیونکہ انکو پتہ ہے انکا رب ان سے راضی ہے اور انکو جنت الفردوس میں ابد الآباد تک کے لئے راحت و سکون کا سامان مہیا کر نیکا وعدہ کیا گیا ہے یہ بات ذہن نشین رہے کہ خدا روز قیامت کا مالک ہے وہ مالک روز و جزا معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ذات ہے اگر وہ چاہے تو گناہ گار سے بھی پیار کا سلوک کرے جسکی اصلاح غیر ممکن ہو.بر کیف ایک زاہد اور گوشہ نشین انسان داغوں سے پاک زندگی گزارنا پسند کرتا ہے بے شک اسمیں خامیاں ہوں جس سے وہ خوبی آگاہ ہوتا ہے وہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اسکی روح طہارت کے زیور سے مزین ہو قبل اسکے کہ موت کا فرشتہ اسکو آدبوچے.آئیے اب ذرا یوروپ کے مشہور ادیب اور مؤرخ سر والٹر سکاٹ کے درج ذیل الفاظ پر غور و فکر کریں جو اپنے بستر مرگ پر اپنے فرزند سے کیے : (میرے بیٹے ) میرے پاس صرف ایک منٹ ہے کہ میں تم سے بات کر سکوں لخت جگر ایک اچھے انسان بنا.نیکی اختیار کرنا.مذہب سے لگاؤ رکھنا غر ضیکہ اچھا انسان بنا اس کے علاوہ تمہیں کوئی اور چیز آرام نہیں نہیں دے گی جب تم اس بستر پر لیٹے ہو گے

Page 113

1+9 اگر ہم اپنی زندگی کا ہر دن اس طرح گزاریں گویا کہ یہ ہمارا آخری دن ہے تو پھر ہم خدا کے مقرب بن جائیں گے اور موت سے ذرا بھی خوف زدہ نہ ہوں گے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے : آج کے دن کو یوں سمجھو کہ گویا تمہا ری زندگی ختم ہو چکی تهی یه دن تمہیں خدا کی خاص نوازش سے ملا ہے اس سے زیادہ نقصان دہ بات اور کیا ہوگی کہ انسان اس دن کو بھی گنوا دے حضرت میرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مهدی موعود.بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں خوب جان لو کہ موت تمہارے پاس ہی کھڑی ہے تمہیں و ہم بھی نہیں کہ آخری وقت کب آئیگا.موت کی شیرینی کا بیان ایک مصنف کیمپس Thomas A.Kempis نے یوں کیا ہے : اے موت تم کتنی میٹھی ہو اس روح کے لئے جو صرف خدا کیلئے سانس لیتی اور جب تک وہ اس میں حلول نہ ہو جاتی وہ اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی ہماری زندگی کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ھم خدا کی نوازشات کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوں پھر ہم موت کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہہ سکیں گے جو جنت کی دہلیز ہے

Page 114

ایک محبانہ گفتگو عیسائی : بلاشبہ حضرت محمد (ﷺ) ایک بزرگ انسان تھے مگر آپ وفات پاچکے ہیں جبکہ یسوع مسیح آسمان پر زندہ ہیں مسلمان : یہ بات سچ ہے کہ محمد (ﷺ) وفات یافتہ ہیں آپ کی وفات ۶۳۲ء میں ہوئی اور آپ مدینتہ النبی میں مدفون ہوئے جہاں تک یسوع مسیح کا تعلق ہے وہ بھی دیگر انسانوں کی طرح اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں عیسائی : یسوع مسیح دوسرے انسانوں سے مختلف تھے کیونکہ خدا کا ظہور اس کے جسم کے ذریعہ سے ہوا جو بعد میں آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا مسلمان : یسوع مسیح نے الوہیت کا دعویٰ کبھی نہ کیا تثلیث کا اختراع اولیس چرچ نے کیا میرے نزدیک آپ ایک انسان تھے اور آپ کو نئے عہد نامہ میں اسی مر تبہ سے بھی زیادہ این آدم کہہ کر پکارا گیا ہے آپ کھاتے پیتے.سوتے بلکہ خدا سے دعا بھی کرتے تھے یہ چیزیں آپ کے دعوی کی تردید کرتی ہیں کہ یسوع مسیح خدا تھا عیسائی : ہمارے یسوع مسیح کے دو روپ تھے ایک خدا کا اور دوسرا انسان کا.وہ دراصل خدا کا مجسم نمونہ اور مظہر تھا مسلمان : نئے عہد نامہ میں حضرت مسیح نے کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان کے دو روپ تھے یہ چرچ کا ابطالی عقیدہ ہے آپ کے خیال میں کون سا مسیح صلیب پر مر اوہ جو خدا تھا یا کہ وہ جو انسانی روپ میں تھا ؟ عیسائی : انسانی روپ والا صحیح صلیب پر مرا تھا

Page 115

مسلمان : چرچ کی تعلیم یہ ہے کہ خدا خود انسانی روپ میں اس دنیا میں آیا تا وہ نوع انسان کی مغفرت کے لئے اپنی زندگی قربان کر دے اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ انسانی روپ والا مسیح صلیب پر مرا تھا تو پھر آپ چرچ کی تعلیمات کی تردید اور منافی کر رہے ہیں عیسائی : یسوع مسیح خدا کا بیٹا تھا خدا نے اپنے بیٹے کی قربانی کر دی وہ این اللہ تھا جو مرا تھا مسلمان : ابھی آپ نے دعویٰ کیا کہ یسوع مسیح خدا تھا اب آپ یہ فرمارہے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا تھا آپ کس کی بات کر رہے ہیں ؟ عیسائی : مسیح نے کہا کہ وہ اور باپ دونوں ایک ہیں یہ تثلیث کا اہم بنیادی جزو ہیں جس کا سمجھانا مشکل ہے مسیح نے کہا.میں اور باپ ایک ہیں ( یوحنا ۱۰ آیت ۳۰) مسلمان : میں آپ کو یاد دہانی کروادوں کہ مسیح نے یہ بھی تو کہا تھا کہ باپ میرے سے بڑا ہے ( یوحنا ۱۴ آیت (۳۸) اس سے عیاں ہوتا ہے کہ مسیح نے خود کو کبھی بھی باپ نہ کہا ور نہ اس کے ان الفاظ سے ہم یہ سمجھتے کہ خدا دو ہیں ایک دوسرے سے بڑا ہے عیسائی : اگر مسیح ایک عام انسان ہوتا تو اس نے معجزات کیسے دکھلائے نیز اس کا قبر سے اٹھنا کیسے ممکن ہوا ؟ مسلمان : چہ جائیکہ کہ میں بائیبل کو خدا کا کلام جانوں میں تو اسکو تاریخ کی مستند کتاب بھی نہیں سمجھتا ہوں حقائق اور خیالی باتوں کو آپس میں ملا دیا گیا ہے جہاں تک معجزات کا ظہور ہے بائیل میں ان لوگوں کا ذکر بھی موجود ہے.جنہوں نے مسیح جیسے بڑے معجزات دکھلائے Elisha نے ایک مردہ کو زندگی عطا کی 4:34 Kings (2) پھر موسیٰ نے بھی بہت سے حیرت ناک کارنامے انجام دئے ححہ اس نے سونٹے کو سانپ میں تبدیل کر دیا

Page 116

١١٢ 4:3 Exodus) قرآن پاک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مسیح کی وفات صلیب پر نہ ہوئی اس لئے اسے قبر سے اٹھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا لوگوں نے اسکو غلطی سے مردہ سمجھ لیا جیسا کہ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں جبکہ میڈیسن میں اتنی ترقی ہو چکی ہے مریضوں کو بعض دفعہ غلطی سے مردہ سمجھ کر سر ٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے لیکن بعد میں لوگوں کو حیرت ہوتی ہے جب وہ زندہ ہو جاتے ہیں یسوع مسیح کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہوا حقیقت یہ ہے کہ آپ صلیب سے زندہ اترنے کے بعد سفر کر کے مشرق کے کسی ملک کی طرف چلے گئے تا اسرائیل کے گم شدہ قبائل کو تلاش کر سکیں یہ قبائل انکو ایران افغانستان اور کشمیر میں ملے آپ کا مقبرہ ابھی تک کشمیر میں موجود ہے عیسائی : یہ واقعہ خدا کے کلام کے سراسر خلاف ہے مسلمان : جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا بائیبل ایک مستند رہبر کتاب نہیں ہے اس میں بہت سارے اضافے ہو چکے ہیں اگر چہ یہ خدا کے بارہ میں ایک کتاب کہلا نیکی مستحق ہے مگر اسے خدا کا کلام کہنا بہت دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے عیسائی : بائیبل غلطیوں اور متناقض باتوں سے مبرا ہے جن باتوں کو آپ اضافے خیال کر رہے ہیں وہ بظاہر غلطیاں لگتی ہیں لیکن انکو صحیح رنگ میں بیان کیا جا سکتا ہے مسلمان : اگر یہ بات ہے تو میں آپکو ایک مثال پیش کرتا ہوں کئی سو سال تک بائیبل 2 کو خدا کا کلام کہا جاتا رہا اس کے بعد Revised version شائع ہوا جس میں بہت سی آیات کو خارج کر دیا گیا جیسے 34 35 Mark 16: 9-20, John 12 24 Luke یہ آیات پہلے ایڈیشن میں تو ہیں لیکن بعد والے میں نہیں یہ اصل متن کی بد ترین قسم کی تحریف ہے authorized version [

Page 117

عیسائی : میں اس چیز کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتا کیونکہ Revised Version کے متر همین یونانی بائیبل کے مطابق ترجمہ کرنیکی کوشش کر رہے تھے مسلمان : محترم بات ترجمہ کر نیکی نہیں بلکہ اصل متن میں سے ارادہ بہت سارے پیراگراف نکالنے کی ہے ایسی کتاب میں سے جو خدا کا کلام سمجھی جاتی تھی پھر یونانی بائیبل کی اصل زبان نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسیح کی زبان تھی وہ گفتگو عبرانی میں کرتے تھے پھر مسیح کی اصل زبان میں کوئی ایک بھی مخطوطہ محفوظ نہیں ہے عیسائی : اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نئے عہد نامہ میں اضافے کئے گئے ہیں لیکن پھر بھی اسکی روح تو بر قرار رہتی ہے جیسا کہ انجیل مقدس کے تمام لکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ مسیح کا مقبرہ خالی تھا مسلمان : لاریب انجیل کے لکھنے والے حواریوں نے یسوع مسیح کے صلیب پر چڑھائے جانے.قبر میں جانے.اور اٹھنے کے بارہ میں واقعات کو قلم بند کیا ہے لیکن واقعہ بیان کرنے والے اشخاص کے غیر مسلم اور غیر مصدق ہونے کے باعث حقائق اور بے بنیاد باتوں کو باہم جوڑ دیا گیا ہے بعض کہانیوں اور واقعات کے بیان کرنے میں متضاد باتوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے عیسائی : سڑک پر حادثہ کی رپورٹ لکھتے ہوئے کوئی دور پو رٹر ایک جیسی اخباری رپورٹ نہیں لکھتے ہیں ہر صحافی ہونے والے واقعہ اور منظر کو اپنے اپنے رنگ میں بیان کرتا ہے لیکن وہ تمام اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حادثہ ہوا ہے مسلمان : میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ اخباری رپورٹیں تفصیل میں جا کر الگ ہوتی ہیں لیکن چونکہ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ انجیل کے لکھنے والے خدا کی رہ نمائی میں اسے لکھ

Page 118

۱۱۴ رہے تھے لہذا اس میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے عیسائی : مجھے کسی تضاد کا علم نہیں ہے اور میں یہ جاننا پسند کروں گا مسلمان : ہمیں متی کی انجیل میں یہ بتلایا گیا ہے کہ Mary Magdalone جب مقبرہ پر گئی تو اسکی ملاقات مسیح سے اس وقت ہوئی جب وہ دوسری عورتوں کے ساتھ حواریوں کو بتلانے جارہی تھی کہ مقبرہ خالی ہے اسکے بر عکس گاسپل آف جان میں ہمیں یہ بتلایا گیا ہے کہ میری میگدا لینی کی ملاقات مسیح سے اس وقت ہوئی جب انکے ماننے والے حواری مقبرہ پر ان سے ملاقات کر کے جاچکے تھے ہمیں یہ بتلایا جاتا ہے کہ مریم لوگوں کے جانیئے بعد خالی مقبرہ پر بیٹھی روتی رہی کہ خدا جانے مسیح کو کیا ہوا؟ اگر چہ متی کے مطابق قبل اسکے وہ مریدوں کو بتلاتی کہ مقبرہ خالی ہے وہ مسیح سے مل چکی تھی عیسائی : مجھے اس تضاد کے بارہ میں مزید علم حاصل کرنا ہو گا بہر حال بالفرض مسیح کو مردوں میں سے نہ اٹھایا گیا تو پھر اس بات کا کیا جواب ہوگا کہ عیسائی مسیح کے اٹھائے جانے کے عقیدہ کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنے مسلمان : مسیح کے مریدوں کو یقین تھا کہ اسکی موت صلیب پر ہوئی یہ فرض کر لینا اچنبھے کی بات نہیں کہ انہوں نے فرض کر لیا کہ وہ مردوں میں سے زندہ اٹھایا گیا یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ مسیح کی زندگی میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ Lazarus اور پھر Jairus کی دختر کے بارہ میں لوگوں کا یقین تھا کہ انکو مردوں میں سے زندہ اٹھایا گیا تھا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسیح کے حواریوں نے یہ فرض کر لیا کہ مسیح کاچ جانا اسقدر غیر معمولی تھا کہ اسکا مردوں میں سے زندہ ہو جانا بھی معجزہ سے کم نہ تھا آج بھی عیسائی حضرات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ Jairus کی دختر کو مردوں میں سے زندہ اٹھایا گیا باوجودیکہ مسیح نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ

Page 119

110 لڑکی مردہ نہیں بلکہ سو رہی ہے 19:23 Mathew) جب مسیح نے اس بات کا اظہار کیا تو لوگوں نے اسکا تمسخر اڑایا بعدیہ یہ بھی ممکن ہے کہ حواریوں کو مکمل یقین تھا کہ مسیح کی وفات صلیب پر ہوئی لیکن اسکا مر جانا جیروس کی لڑکی سے مر جانا کوئی مختلف نہ تھا میڈیکل سائنس اور علم یسوع مسیح کے زمانہ سے لیکر اب تک بہت ترقی کر چکا ہے پھر بھی موجودہ زمانے میں بعض ڈاکٹر زندہ مریضوں کو مردہ قرار دے دیتے ہیں مگر مردہ زندہ ہوتا ہے بعض دفعہ نعش اپنے گھر جا کر یا قبرستان کو جاتے ہوئے زندہ ہو جاتی ہے بائیبل سے یہ ظاہر ہے کہ لوگ بعض دفعہ واقعات سے غلط نتائج اخذ کر لیتے ہیں جب King Herod کو صحیح کے بارہ میں بتلایا گیا تو اس نے کہا : It is John whom I beheaded; he is risen from the dead (Mark 6:16) میں نے تو جان کا سر قلم کرنیکا حکم دیا تھا وہ تو مردوں میں سے اٹھایا گیا ہے (مرقس باب ۶ آیت ۱۶) یہ بات ذہن نشین رہے کہ لوگوں نے اپنے عقائد کی بناء پر سخت سے سخت اذیتوں کو بعاشت کے ساتھ برداشت کیا ہے آغاز اسلام کے زمانہ میں بھی مسلمانوں کو انکے دشمنوں نے نا قابل بر داشت لذیتوں کا نشانہ بنایا لیکن وہ اسکے باوجود اپنے عقیدہ سے منکر نہ ہوئے اپنے عقیدہ سے اخلاص اور لگاؤ اسکی صداقت کی دلیل نہیں بلکہ الہام اور آسمانی نشانات سے سچا مذ ہب ظاہر ہوتا ہے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم کبھی پھر بات چیت کریں گے

Page 120

14 غم گساری کے وہ لوگ جو کسی مصیبت یا آفت میں مبتلا ہوں یا جو کسی چیز کے محتاج ہوں انکو ہمدردی یا دلسوزی سے بہت سکون حاصل ہوتا ہے اسکی حیثیت تریاق جیسی ہے جسکا اثر افیون یا سکون مٹنے والی دوا سے بھی زیادہ ہوتا ہے.ہمدردی سے نہ صرف مصیبت زدہ شخص کو اطمینان حاصل ہو تا ہے بلکہ ہمدرد شخص کے اپنے نفس میں بھی مسرت اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے سرور کونین محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مصیبت زدہ شخص سے ہمدردی کرتا ہے اسکوویا ہی اس کا اجر دیا جائیگا ہر کوئی کبھی نہ کبھی کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے مصیبت یا غم کسی ایک شخص کو شاید چھوٹی یا غیر ضروری نظر آئے مگر اسی آفت میں مبتلا انسان کو وہ پہاڑ کی طرح بڑی اور نا قابل تغیر نظر آتی ہے کسی شخص کے غم یا مصیبت کو غیر ضروری جاننا ہمیں زیب نہیں دیتا ہے مصیبت زده شخص سے ہمدردی کرنا بھی نیکی ہے بہتر تو یہ ہے کہ انسان دوسرے سے ہمدردی کرے اور اسے جرات و ہمت دلائے ہمدرد انسان کی ہر کوئی نہ صرف عزت کرتا ہے بلکہ وہ خدا کی رضامندی و خوشنودی بھی اس کے ذریعہ حاصل کرتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب مبین میں فرماتے ہیں : فا استَبقو الخيرات ( سورة ۳ آیت (۱۵) اسی طرح نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر نیک کام اور اچھا عمل صدقہ و خیرات گنا جاتا ہے دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس میں روحانی کمزوریاں یا نقائص نہ ہوں بعض میں یہ کم اور بعض میں زیادہ ہوتی ہیں ہم نیک راستہ پر کسی قدر بھی گامزن ہوں اور اخلاص سے خدا کی خوشنودی حاصل کر کے بھی خواہش مند ہوں پھر بھی ہمیں روحانی شفا کی متواتر ضرورت رہتی

Page 121

112 ہے غیبت کرنا اور دوسروں کے نقائص پر بلاوجہ گفتگو کرنا غلط چیز ہے چاہے ہمیں ان سے کتنی بھی ہمدردی ہو ایک ڈاکٹر کا کام مریضوں کو شفا دینے اور انکے دکھ کم کرنے کے ساتھ ساتھ مریضوں کی مدد کرنا بھی ہے طبیب ان کو مکمل شفا نہیں دے سکتا اسی طرح ہمیں دوسروں کے نقائص کڑی تنقید سے دور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمدردی کے ساتھ انکی رہ نمائی کرنی چاہئے حضرت میرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی موعود نے فرمایا ہے..Avoid malice & deal with human beings with love and sympathy.Be humble in spirit, kind and gentle, forgiving and sympathetic towards all, wishing them well so that you may be accepted.مصیبت اور امتحان چاہے کسی بھی صورت میں آئیں اسکا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اگر چاہے تو انسان اس سے فائدہ اٹھا کر نفع مند ہو جائے.انسان مصیبت میں سے گزرا ہو تو اسکو مصیبت میں سے گزرنے والے کے ساتھ فطری ہمدردی ہوتی ہے نیز ایسے شخص کے ساتھ دلی ہمدردی کرنے کے علاوہ انسان اسے عملی نصیحت بھی کرتا ہے اسلامی طریق صوم سے انسان ایک سبق یہ بھی سیکھتا ہے کہ بھو کے فاقہ زدہ لوگوں نیز بد قسمت لوگوں کی مصیبت اور زبوں حالی کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے روزہ دار شخص کی فاقہ زدہ انسان کے ساتھ ہمدردی خاص ہوتی ہے ہمدردی کی نعمت اور اسکی قدر جاننے میں ہمیں کتنا وقت لگے گا ؟ اسمیں دیر مناسب نہیں.مصیبت زدہ شخص کے ساتھ عملی ہمدردی سے زیادہ شاید ہی کوئی اور چیز شیر میں ہو ☆☆☆☆

Page 122

IIA اور بھائی چارہ کی کا إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِحْوَةً فَا صَلِحُوا بَينَ أَخَوَيْكُم وَاتَّقُو الله لعلكم ترحمون ( سورۃ ۴۹.آیت (۱۱) مومنوں کا رشتہ آپ میں بھائی بھائی کا ہے پس تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان جو آہ میں لڑتے ہوں صلح کرادیا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے مذہب اسلام نے اخوت و بھائی چارہ پر بہت زور دیا ہے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ انسان دوسروں کی طرف مثبت رجحان رکھے انسانی بھائی چارہ اور تعلق کی گہرائی یقینا بدلتی رہتی ہے یہ انسانی فطرت ہے بعض دفعہ انسان کا تعلق اور انس بعض لوگوں کے ساتھ زیادہ اور بعض کے ساتھ کم ہوتا ہے اخوت سے مراد عزت کا ایک خاص معیار اور دوسروں کیلئے بھلائی ہے حضرت میرزا ناصر احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں اس نعرہ کو بہت فروغ دیا کہ ہر احمدی کی محبت سب کے لئے ہے اور نفرت کسی کے لئے نہیں فرقان مجید میں اللہ کریم ارشاد فرماتے ہیں : Love for all, hatred for none يَا أَيْهَا النَّاسُ إِن خَلَقْتُكُم مِن ذكر وأنثى وَجَعَلنَكُم شَعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنْ اكرمَكُمْ عِنْدَ الله انقلم - إن الله عَلِيمٌ خَبِيره ( سورة ۴۹ آیت (۱۴) اے لوگو ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو کئی گروہوں اور قبائل میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پچانو اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے یقینا اللہ بہت علم اور بہت خبر رکھنے والا ہے مذکورہ آیت مبارکہ سے انسانیت کی اخوت اور مساوات کی دلیل ملتی ہے چونکہ ہم سب کا منبع اور ماخذ ایک ہے لہذا ہم سب انسانیت کے ایک وسیع خاندان میں موتیوں کی مالا کی طرح پروئے ہوئے ہیں محبت اور عزت سے سب خاندان آپس میں متحد رہتے ہیں.امن اور

Page 123

119 امان بھی اس سلسلہ میں ایک لازمی جزو ہے کیونکہ جنگ و جدال اور جھگڑوں سے اخوت جلد ہی دلوں سے ختم ہو جاتی ہے بلاشبہ اسی وجہ سے سرور کائینات فخر موجودات آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو جائے تو انکو تین دن میں صلح کر لینی چاہئے آپ حضور ﷺ نے اخوت کی روح کا لب لباب اس نصیحت آمیز خطبہ میں یوں بیان فرمایا : اے لوگو.میری بات کو اچھی طرح سے سن لو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد میں تم لوگوں کے درمیان اس میدان میں کھڑے ہو کر تقریر کروں گا.تمہاری جانوں اور مالوں کو خدا تعالی نے ایک دوسرے کے حملہ سے قیامت تک کے لئے محفوظ قرار دیا ہے.ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے تم سب ایک ہی درجہ کے ہو تم تمام انسان خواہ کسی قوم اور کسی حیثیت کے ہو انسان ہونے کے ناطے سے ایک درجہ رکھتے ہو یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا دیں اور کہا جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپسمیں برا بر ہیں اسی طرح تم نوع انسان برابر برا بر ہو تہیں ایک دوسرے پر فضیلت اور درجہ ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں تم آپس میں بھائیوں کی طرح ہو ( دیبا چه تفسیر القرآن.صفحه ۲۲۸) جنگ کی صورت میں یا جب حالات دیگر وجوہات کی بناء پر جڑے ہوں تو پھر اخوت کا ہاتھ بڑھانا غیر ممکن ہوتا ہے بہر صورت نفرت کو دل میں جگہہ نہیں دینی چاہئے جب ہمارے پیارے نبی دس ہزار قدسیوں کے ساتھ فاتح مکہ بن کر واپس لوٹے تو آپ نے اپنے سخت سے سخت دشمن سے صلہ رحمی کا سلوک کیا مکہ کا شہر آپ کے قدموں تلے تھا آپ چاہتے تو شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے اور آپ حضور اور مومنین پر غیر انسانی سلوک کرنے والے مجرموں کو انکے غیر انسانی جرائم کی سزا دیتے اس کے بر عکس آپ مکہ پر کشت و خون کے بغیر

Page 124

قابض ہو گئے اور آپ نے ایڈاں رساں لوگوں کو معاف کر دیا آپ نے فی الواقعہ عملی رنگ میں اس بات کا مظاہرہ کیا محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ابتدائے آفرینش سے ہی تمام خدائی مذاہب نے یہ تعلیم دی ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرو تین ہزار سال قبل خدائے ذوالجلال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اعلان کرو رو Thou shalt love thy neighbour as thyself.تم اپنے ہمسایہ سے اس طرح محبت کرو جس طرح خود سے یہی منادی نہ صرف حضرت عیسی علیہ السلام نے دی بلکہ انہوں نے اپنے دشمن سے بھی پیار کر نیکی تلقین کی آپ نے فرمایا : 5:44 But I say unto you, love your enemies ( Mathew میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے الفت سے پیش آؤ.نئے عہد نامہ میں ایک اور جگہہ آیا ہے : (4:7 Let us love one another ) 1 John آئیں ہم ایک دوسرے سے محبت والفت سے پیش آئیں کتاب منیر میں بچے مسلمانوں کو دوست اور بھائی کہا گیا ہے نیز یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ امن و آشتی سے رہیں اولئِكَ بَعضُهم أولياء بعض ( ۸ : آیت ۷۳) ان میں سے بعض بعض کے دلی دوست ہیں.پھر سورۃ الحجرات میں ذکر ہوتا ہے.اِنَّمَا الْمُؤْمِنونَ اخوة (۴۹) آیت (۱۱) قیا مومن آپس میں بھائی بھائی کی مانند ) ہیں ایک دوسرے کی عزت کرنا در اصل امن اور آشتی کے قیام کی بنیادی اینٹ ہے فرقان مجید میں اس کیلئے خاص ہدایات ہیں اور کینہ پروری اور غیر مہذب - کج اخلاق رویہ کو سختی سے منع فرمایا ہے : ارشاد ہوتا ہے : يَا أَيّهَا الذِينَ آمَنوا لَا يَسخَر قَومَ مِن قَومٍ عَسَى أَن يَكُو نوا خَيْرًا مِنْهُم وَلاَنِسَاء مِن نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُن خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُم وَلَا تَنَا بَزْوا با الالقاب ہ اے مومنو کوئی قوم کسی قوم سے اسے حقیر سمجھ کر نہی مذاق نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہو اور نه (کسی قوم کی ) عورتیں دوسری ( قوم کی ) عورتوں کو حقیر سمجھ کر ان سے ہنسی ٹھٹھا کیا کریں.ممکن ہے کہ وہ ( دوسری قوم یا حالات والی) عور تیں ان سے بہتر ہوں اور نہ تم ایک دوسرے پر طعن کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں

Page 125

۱۲۱ سے یاد کرو کیونکہ ایمان کے بعد اطاعت سے نکل جانا ایک بہت برے نام کا مستحق بنا دیتا ہے (یعنی فاسق کا) اور جو بھی تو بہ نہ کرے وہ ظالم ہو گا (سورۃ ۴۹ آیت (۱۲) اے ایمان والو گمان کرنے سے چھو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجسس سے کام نہ لیا کرو اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کیا کریں کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کریگا (اگر یہ بات تمہاری طرف منسوب کی جائے تو) تم اسکو نا پسند کرو گے اور اللہ کا تقوی اختیار کرو اللہ بہت ہی توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کر نیوالا ہے (آیت نمبر ۱۳) ہم میں سے کوئی بھی کامل انسان نہیں ہے دوسروں سے سلوک و تعلقات قائم کرتے وقت اس بات کو ہمیشہ ذہن نشین رکھیں اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم ان کے گناہوں یا غلطیوں کا برا نہ منائیں مگر اسکے ساتھ ہم ان سے تحقیر آمیز سلوک بھی نہ کریں کیونکہ یہ اخوت کے درخت کی جڑ پر کاری ضرب لگاتا ہے عاجزی اور کم مائیگی کا احساس ہمارے اندر دوسروں کیلئے ہمدردانہ اور رحمدلانہ سلوک کے جذبات پیدا کرے بجائے اسکے ہم دوسروں کی تحقیر کریں.اگر کوئی توہین کا ہدف ننے کا زیادہ مستحق ہے تو وہ پہلے ہماری اپنی ذات ہے

Page 126

۱۲۲ شکر گزاری کے وَمَن يُشْكُرْ فَا نَمَا يَشْكُرْ لِنَفْسِهِ ( سورۃ ۳۱ آیت (۱۳) اور جو شخص بھی شکر کرتا ہے اس کے شکر کر نیکا فائدہ اسی کی جان کو پہنچتا ہے آئیے ہم خداوند کریم کے بے شمار احسانات اور نعمتوں کا شکر ادا کریں جو اس ذات پاک نے ہم پر اس دنیا میں نازل کئے ہیں شکر کے جذبات کا اظہار حقیقی مسرت کا راز ہے جبکہ ناشکری سے فکر.الم اور یاس کا اظہار ہوتا ہے.شکر گزار انسان خدا کا ہر حالت میں شکر مند ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اسکی نسبت تنگ دستی کی زندگی بسر کر رہے ہیں خدا کی معرفت اور ذاتی تعلق در حقیقت بہت قیمتی نعمت ہے اسکے ماسوا اشیاء کی کوئی اصل اور دائی حقیقت نہیں ہے جس شخص نے خدا کو پہچان لیا ہو اس پر جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ اس پر مطمئن رہتا ہے یہ جان کر کہ اسکو خدا کی آغوش میں حفاظت مل گئی ہے اسکو دنیا کی کوئی طاقت یا چیز سیدھے راستہ سے نہیں ہٹا سکتی وہ رب کریم کا ہر وقت دلی شکر یہ ادا کرتا ہے ان روحانی انعامات کا جو خدا نے اس پر کئے ہیں...ولتكبر و الله عَلَى مَا هَذَا كُم لَعَلَّكُم تشكرونه ( سورة ٢ آیت (١٨٦) اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تاکہ تم اسکے شکر گزار ہو مسلمان کو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ خداوند کریم کی حمد کرے اور اسکا شکریہ ادا کرے کہ خدا نے جملہ احسانات میں سے اسکو روحانی ہدایت کی نعمت سے نوازا یہ چیز مسلمان کیلئے بہت عزیز ہے دنیا کی کسی بھی سہولت سے اگر وہ محروم ہو جائے تو پھر بھی وہ برابر خدا کا

Page 127

۱۲۳ شکر گزار ہوتا ہے میں یہاں اپنی زندگی کا ایک واقعہ جو ۱۹۵۵ء میں ویسٹ انڈیز کے جزیرہ اینٹی گنوا میں ہوا بیان کرتا ہوں میرے حالات نا مساعد تھے ایک دو پھر جب میری مشکل کا میرے ذہن پر بہت اثر چھایا ہوا تھا اچانک خدا سے میرے تعلق کا مجھے احساس ہوا تو میں نے الحمد للہ کا ورد شروع کر دیا جب میں نے بار بار الحمد للہ.الحمد للہ کے الفاظ دہرائے تو میر اذھن ایک تازہ اور پر سکون احساس سے بھر گیا جسنے میرے خوابیدہ ذہن کو اطمینان بخشا میرے وجود میں سکون کی لہر دوڑ گئی مجھے احساس ہوا کہ اس دنیا کی مشکلات اور امتحان دراصل خفیہ رحمت ہیں اور فی الحقیقت خدا سے تعلق اور محبت ہی وہ چیز ہے جو قابل اہمیت ہے يقوم إِنَّمَا هَذِهِ الحَيَوةُ الدُّنيَا مَتَاعَ - وَإِن الآخِرَةَ هِيَ دَارُ القَرار ( ۲۰:۲۰) اے بھا ئیو یہ دنیوی زندگی تو صرف چند روز کا فائدہ ہے دراصل اخروی زندگی ہی یقینا پائیدار ٹھکانا ہے دنیا جسم کو تو تباہ کر سکتی ہے مگر وہ روح کو کبھی بھی تباہ نہیں کر سکتی مصائب اور افتاد ہمیں نفع یا نقصان ہمارے دماغی رجمان کے مطابق ہی پہنچا سکتے ہیں ایک مصنف نپولین ہل نے اپنی کتاب کا میابی کے اصول میں کیا خوب کہا ہے میں ان مصائب کا مسنون احسان ہوں جنکا مجھے سا منا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے نفس اور دوسرے خوا ہوسکتا ہمدردی، ضبط مند کیا ورنه شايده ان سے کبھی بھی متعارف مثبت رجحان سے ہم ہر افتاد میں اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں لہذا ہمیں مصائب اور خوش قسمتی دونوں کا مشکور ہونا چاہئے..آنحضور ﷺ کی حدیث کے مطابق کچے مسلمان کی زندگی ہر وقت نیکی سے معمور ہوتی ہے مومن کے سوا کوئی اسکو نہیں جان سکتا کیونکہ جب وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا تو وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے جسکے عوض وہ خدا کے مزید

Page 128

۱۲۴ انعامات کا مستحق ہوتا ہے اس کے بر عکس اگر وہ آزمائش یا تکلیف میں مبتلا ہو تا تو وہ اسے صبر کے ساتھ جھیلتا ہے اور یوں وہ دوبارہ خدا کے انعامات کا مستحق بن جاتا ہے قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے : وَكَذَلِكَ نَجزَى كُل كَفُور ( سورۃ ۳۵ آیت ۳۷) ہم ہرنا شکرے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں.ایک اور جگہہ ارشاد ہوتا ہے لا يُفْلِحُ الكَافِرُونَ (سورة ۲۸ آیت (۸۳) نا شکرا شخص کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتا ہے انسانی فطرت ہے کہ ہم ان بے شمار نعمتوں اور احسانات کو تو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ہماری زندگی کی زینت ہیں مگر چند افتادوں کے آنے پر رنج والم کا وا ویلا کر تے ہیں لوح محفوظ ہمیں ایسے منفی رجحان سے خوب آگاہ کرتی ہے : وَإِن رَبِّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِن أكثَرَهم لا يشكرون ) سورۃ ۲۷ آیت (۷۴) اور تیرا رب لوگوں پر فضل کرنیوالا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے..آئیے ہم مثبت رجحان کو اپنے اندر پیدا کریں اور زندگی کی نعمتوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں آیئے ہم ایک معصوم بچے کی طرح خدا کے احسانات کے شکر مند ہوں Thank you for the world so sweet Thank you for the food we eat Thank you for the birds that sing Thank you God for every thing ولیم شیکسپیر نے شکر کے جذبات کا اظہار ان قدرے خوبصورت الفاظ میں کیا ہے : اے خدا تو نے مجھے زندگی کی نعمت عطا کی.مجھے ایسا دل عطا کر جو شکر سے لبریز ہو شکر گزاری کو دل کی یاد داشت کہا گیا ہے خدا تعالیٰ نے نہ صرف ایسے لوگوں کے لئے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے بلکہ ان کیلئے اچھے بدلہ کا بھی وعدہ دیا گیا ہے قرآن مجید دلکش الفاظ میں شکر گزاری کا یوں ذکر کرتا ہے : سنجزى الشاكرين (سورۃ ۳ آیت ۱۳۵) خدا شکر گزار بندوں کو

Page 129

۱۲۵ اچھا عوض دیتا ہے بعض لوگ ہر چیز اور ہر شخص میں عیب نکالتے ہیں اور پھر شکایات کر کے اپنی زندگی اجیرن کر لیتے ہیں.ایسے لوگوں کی زندگی میں دھوپ بہت کم لکھی گئی ہے ایسے لوگوں کے دوست بہت کم ہوتے ہیں شاید شکایتی شخص کو شکایتی ہی پسند کرتا ہے بر طانیہ کے آرک بشپ ولیم ٹمپل نے کیا خوب کہا ہے شاید ہم میں سے بہت لوگوں کی روحانی زندگی کنگال اور خراب ہے کیونکہ ہم شکر مندی کو کم اہمیت دیتے ہیں Give thanks whatever بائیبل میں آیا ہے ( 5:18 happens ( Thessalonians - یعنی جو کچھ بھی ہو خدا کے شکر گزار ہو قرآن مجید میں بھی آیا ہے.اشكر الله : خدا کا شکر ادا کر شکر گزار انسان همیشه خوش و حرام رہتا ہے.وہ اپنا وقت خدا کی دی ہوئی نعمتوں کے گننے میں گزارتا ہے بجائے مزید مانگنے کے و آخر دعونا عن الحمد لله رب العالمين

Page 130

۱۲۶ قول و قرار يَا أَيُّهَا الذِينَ آمَنُوا اَوقو بالعقود ( سورۃ ۵ آیت (۲) اے ایمان دارد اپنے وعدوں کو پورا کرو معتبر اور باوثوق ہونا انسان کے کردار کی بنیادی اینٹ ہونا چاہئے.انسان چاہے کس قدر خوش خلق ہو اگر وہ اپنے وعدوں پر پورا نہ اتر تا ہو تو وہ دوسروں کی نگاہ میں عزت کھو دیتا ہے کسی سے کئے ہوئے وعدہ کو کبھی بھی مت توڑو چاہے یہ وعدہ کتنے ہی غیر وقعت معاملہ میں کیا گیا ہو بچے سے کیا ہوا وعدہ اگر تو ڑا دیا جائے تو اسکا اثر بچہ پر بہت برا ہوتا ہے بعض دفعہ مائیں بگڑے ہوئے غصیلے بچے کو وقتی طور پر خموش کرانے کے لئے وعدہ کر دیتی ہیں اسکا دماغ وقتی طور پر تو پر سکون ہو جاتا ہے اور اسکی توجہ بچوں کی دلچسپیوں میں بٹ جاتی ہے پھر ماں وعدہ شکنی کرتی ہے یا نا دانستہ طور پر فراموش کر دیتی ہے جب بچہ کو وعدہ یاد آتا ہے تو پھر وہ اپنی والدہ کے ٹوٹے ہوئے وعدے پر سر زنش کرتا ہے اس ضمن میں کسی نے کیا خوب کہا ہے : ٹوٹا ہؤا و عده روح پر بد نما دھبہ ہوتا ہے (ایڈ مینڈ شافٹ بری) جس طرح سپاہی احکامات کی پابندی کرتا ہے نیز ان پر پوری ذمہ داری کے ساتھ کار مند ہوتا ہے اسی طرح کئے ہوئے وعدہ کو پورا کرنا چاہئے اللہ کریم کتاب مکنون میں فرماتے ہیں : إن الله يُحِبُّ المُتَّقِين ) سورة ۹ آيت ( الله ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنا فرض ادا کرتے ہیں.سید المرسلین خاتم النبین آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ وعدہ ایفائی ایمان کا حصہ ہے وعدہ ایک مقدس عہد ہے جس کو اس وقت تک نہیں کرنا چاہئے جب تک انسان اس کے ایفاء کر یکے بارہ میں پورا یقین نہ رکھتا ہو.ٹوٹا ہوا وعدہ نہ صرف دوسرے شخص کو دکھ دیتا ہے اور بے آرام کرتا ہے بلکہ جس نے وعدہ کیا ہو تا اس کی شہرت بھی پاش پاش ہو جاتی ہے

Page 131

۱۲۷ اگر انسان وعدہ کو پورا نہ کر سکتا ہو اور اسکی وجہ غیر معمولی واقعہ یا حالات ہوں تو اس صورت میں دوسرے شخص کو فور او ضاحت کر دینی چاہئے اگر انسان وضاحت کرنی بھول جائے تو فورا معذرت کر دینی چاہئے بجائے اسکے کہ انسان جھوٹے بہانے تراشے کیونکہ ایسے معاملات میں راست گوئی بنیادی چیز ہے.اللہ تبارک و تعالیٰ لوح محفوظ میں ارشاد فرماتے ہیں : وَالصَّادِقِينَ وَالصّادِقات ( سورة ۳۳ آیت ۳۶) راست گو مرد اور راست گو عورتیں غیر قانونی یا معصیت والے وعدہ کو توڑنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ جل جلالہ سے وفا تمام وعدوں سے بالا تر ہے.غلط وعدہ اوّل تو کرنا ہی نہیں چاہئے اور مضبوط کردار والا شخص غلط وعدہ کرتا ہی نہیں ہے ہاں یہ بھی یادر ہے کہ اگر دوسرا شخص وعدہ شکنی کرے تو پھر ہمیں اپنے وعدہ پر قائم رہنا ضروری نہیں ہے لوح محفوظ میں ارشاد ہوا ہے : وَإِمَّا تَخَا فَنَ مِن قَومِ حَيَا نَهُ فَا نَبِدَ إِلَيهِم عَلَى سَوَآءِ إِنَ اللَّهِ لَا يُحِبُّ الخَائِنِين ( سورۃ ۸ آیت (۵۹) اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت ( عہد شکنی کا ندیشہ ہو تو آپ وہ عہد ان کو اسی طرح واپس کر دیں کہ آپ اور وہ اس اطلاع میں برابر ہو جائیں بلا شبہ اللہ تعالٰی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے وعدہ کو پوری سختی سے پورا کرنیکی کوشش کرنی چاہئے بلکہ اس چیز کو اپنا امتیازی نشان سمجھنا چاہئے ایک قابل اعتبار شخص جو اپنے وعدہ کا ایفاء کرتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں جیسے وقت پر ملاقات کے لئے پہنچتا ہے ایسے شخص کی ہمیشہ عزت کی جاتی ہے آیئے ہم قابل اعتبار بن کر اپنی شہرت کو چار چاند لگا ئیں تا لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ ہمارا کیا ہوا و عدہ اتنا ہی پکا ہے جیسے پتھر کی لکیر..

Page 132

۱۲۸ ایک احمدی کا رول ہے احمد کی وہ مسلمان ہے جو یقین رکھتا ہے کہ حضرت میرزا غلام احمد صاحب بانی جماعت احمد یہ مسیح موعود اور مہدی موعود تھے.آپ کے ظہور کی پیش گوئی امام المرسلین خاتم النبین آنحضرت ﷺ اور آپ سے پہلے آنیوالے انبیاء بشمول لئن مریم حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی کی تھی تاہم یہ صرف ایک نظریاتی دعوئی ہے اور بذاتہ صرف ایک لیبل کے سوا کچھ نہیں ہے بانی جماعت احمد یہ حضرت میرزا غلام احمد صاحب بلا شبہ اللہ کے رسول تھے آپ نے تمام نوع انسانی کو اپنے دعوی کی صداقت کو قبول کر نیکی دعوت دی مگر بات اس حد تک نہ رہی بلکہ آپ نے فرمایا کہ اسلام واحد عملی دین ہے جو قرآنی تعلیمات اور حضرت نبی اکرم ﷺ کے احکام کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنیکا مطالبہ کرتا ہے.اس مقصد کے حاصل کر نیکی تمنا اور ارادہ ہر احمدی کو کرنا چاہئے اور اسلام کے اصول اسکی روز مرہ زندگی میں عمل پذیر نظر آنے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے : اسلام کیا ہے ؟ یہ ایسی آگ ہے جو تمام سفلی خواہشوں کو ختم کر دیتی ہے يه جھو ٹے خداؤں کو جلا دینے اور اپنی جان و مال اور عزت کو ختا کی خاطر قربان کرنے کا نام ہے ( اسلامی اصول کی فلاسفی ) ایک احمدی سے خدا اور نبی پاک ﷺ سے محبت اور پر سوز عشق کے اظہار کی توقع یوں کی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھال لے.وہ دنیوی مال و دولت اور آسانیوں کو اسکی روحانی ذمہ داریوں کے آگے دیوار نہ بنے دے.اس کے دماغ پر ہر وقت یہی

Page 133

۱۲۹ خیال چھا یار ہے کہ وہ اپنے کردار کو خدا کی رضا اور خواہش کے مطابق ڈھالے بانی جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود صرف مذہبی مسائل مثلا ختم نبوت کے معنی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات.معراج کی حقیت.موت کے بعد زندگی وغیرہ کی وضاحت کرنے کیلئے ہی مبعوث نہ ہوئے تھے.ان مسائل کی اہمیت اپنی جعمہ لیکن آپ کی آمد کا اصل مقصد اسلام کے اصولوں پر عمل کے ذریعہ عالم انسانیت کی اصلاح تھی ایک احمدی کا طرہ امتیاز اسلام جیسے دین فطرت سے مربوط تعلق ہونا چائیے اور اس تعلق کا یہ حال ہو کہ خدا کے قوانین سے ذراسی بے تعلقی سے اسکو نفرت ہو بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک احمدی کے دل میں ذرہ پھر بھی دنیا کی چاہت یا ملونی ہو گی تو وہ سچا احمدی نہ گنا جائیگا جسکا مطلب یہ ہے کہ دنیوی لالچ یا حرص کی خاطر اسلام کے کسی قانون یا اصول کو نظر انداز نہ کرو.ایک احمدی نہ صرف مذہب کی بنیادی تعلیمات پر غور کرنے بلکہ مذہب کی ضرور توں اور لطیف نقاط کو جاننے کی بھی توقع کی جاتی ہے جو دوسروں کیلئے خواہ اہمیت نہ بھی رکھتے ہوں میرے نزدیک ایک احمدی کے مندرجہ ذیل رول ہیں : ا.مذہب اسلام کا سپاہی ۳.اسلام کا مبلغ ۵.اسلام کا محافظ ۲.اسلام کا سفیر ۴.اسلام کا سچا خادم ۶.اسلام کا سچا نمونہ اسلام کا سپاہی ایک سپاہی کی کئی خصوصیات ہوتی ہیں ان میں سے ایک خصوصیت ملک و قوم کی خدمت کرنا اور مشکل حالات میں قوم کیلئے پورے جذبہ سے لڑنا ہے وہ اپنے ملک اور قومی جھنڈے کیلئے اپنی تمام صلاحتیں استعمال میں لاتا ہے

Page 134

احمدی خدا کا فوجدار سپاہی ہے جو اسلام کے جھنڈے کی حفاظت کیلئے وقف ہو چکا ہے پر امن ذرائع سے اسلام کے دفاع اور تبلیغ کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے.جب اسے اپنے فرض کی طرف بلایا جاتا ہے تو ایک سپاہی کی حیثیت سے وہ گھر میں بیٹھا مسلمان نہیں بلکہ روحانی تلوار ہاتھ میں لئے وہ ہر طرف جاتا ہے وہ سخت گرمی.برفباری.اور یخ بستہ ہو اؤں سے گھبراتا نہیں ہے اس کے پختہ ایمان اور عقیدہ کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اسلام کی محبت میں سر شار ہر قسم کی صعوبتیں سہنے کے لئے تیار رہتا ہے ایک احمدی دنیا کے بڑے بڑے مشاہرین کی زندگیوں سے سبق سیکھتا ہے انکی خوبیوں کو اپنانے کیلئے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے تاوہ اسلام کی خاطر بہتر طریق سے جہاد کر سکے اسلام کا سفیر ایک احمدی پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مهدی موعود کا نمائندہ ہے.جنگی آخری زمانہ میں بعثت کی پیش گوئی سید المرسلین آنحضور ﷺ فرما چکے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پیرو کاروں کو سخت تاکید فرمائی کہ وہ ہر پہلو سے عملی مسلمان بن کر دکھا ئیں.ایک احمدی کو اسلام کا معزیز سفیر بن کر پورے جوش و جذبہ سے اسکی تمام تعلیمات پر عمل پیرا ہو نا چاہئے یہ بات صحیح ہے کہ وہ مذہب جو کرامات نہیں دکھلاتا ہے مردہ مذہب ہے.یہ جانتے ہوئے کہ ایک احمدی پر دنیا کی نظر میں جمی ہوئی ہیں کہ وہ احمدیت کی تعلیمات پر پورے خلوص سے عمل کرتا ہے یا نہیں وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیمات پر محتاط طریق سے عمل پیرا ہوتا ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ خدا کی نظر میں اس پر لگی ہوئی ہیں

Page 135

۱۳۱ دنیوی سفیر جس حکومت کی نمائندگی کرتا ہے وہ اپنی حکومت کا امتیازی نشان ہو تا ہے اسی طرح احمد ی کو احمدیت کا سفیر ہونے کے ناطے سے اسکی تعلیمات کا نشان ہو نا چاہئے اسلام کا مبلغ سید المرسلین خاتم الانبیاء آنحضرت ﷺ خدا کے رسول تھے جکو خدا نے نوع انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے آخری پیغام دیکر بھیجا.یہ ایک احمدی کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم دوسروں تک پہنچائے اور جب بھی موقعہ ملے وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو احمدیت کا پیغام سمجھا نیکی کوشش کرے اور انکو مشورے دے.یہ بات قرآنی تعلیم کے عین مطابق ہے جیسا کہ قرآن کریم میں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نصائح کریں جماعت احمد یہ اسلام کا پیغام ہر شخص تک پہنچانے اور اسکی تشریکی وضاحت کرنے میں مصروف کار ہے نیز یہ اس دن کو قریب لانے کی کوشش کر رہی ہے جب مذہب اسلام دنیا کا غالب مذہب ہو گا ایک احمدی اسلام کا مبلغ ہے وہ ہر زید و بحر کو تبلیغ کرتا ہے اور کامیاب تبلیغ کا ایک گڑ یہ ہے کہ وہ اس بات پر خود عمل کرے جسکی وہ تبلیغ کرتا ہے.یہ بات وہ بخوبی جانتا ہے کیونکہ یہ بات قرآن مجید کا خلاصہ ہے چنانچہ تبلیغ کے میدان میں یہ امر کا میابی کی کنجی ہے اسلام کا خادم ایک احمدی اسلام کا خادم ہے.بچے خادم کی دو خصوصیات ہوتی ہیں ایک تو وہ عزت کرتا ہے دوسرے وہ وفادار ہوتا ہے خدا کی عزت اور اسکی مخلوق کی عزت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے خدا قادر مطلق ہے اور خدا ہی سب سے زیادہ عزت اور محبت کا مستحق ہے خدا کی مخلوق اسکی تخلیق ہے

Page 136

۱۳۲ اسلئے اسے بھی کما حقہ عزت دینی چاہئے خدا کا خادم ہو نیکی حیثیت سے ایک احمدی خدا کا تابعدار ہوتا ہے خدا کے احکامات پر عمل کرنے میں وہ حد سے زیادہ محتاط ہوتا ہے نیز وہ خدا کی ناراضگی مول لینے میں بہت ہی محتاط ہو تا ہے وہ نماز با قاعدگی سے ادا کرتا ہے.اور روزے رکھتا ہے.زکوۃ دیتا ہے وہ دوسری مالی ادائیگیاں کرتا ہے جنکا اسلام نے حکم دیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے تمام خلفاء کی ہدایات کے مطابق چندے فراخدلی سے دیتا ہے وہ جوا کھیلنے.ڈانسنگ.وائن.خنزیر.سود پر رقم دینے.جھوٹ بولنے.غیبت.اور دھو کا قریب سے پر ہیز کرتا ہے وہ تمام دوسری ممنوعہ چیزوں سے بھی احتراز کرتا ہے نیز خدا کی اطاعت ہمیشہ اسکا مطمح نظر ہوتا ہے.اسلام کا محا فظ مذہب اسلام پر اس وقت ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں اس کے دشمن اپنی جہالت کے باعث یا تعصب کی بناء پر اسے بد نام کرنیکی پوری سعی کر رہے ہیں اسلام شاید آج واحد دین ہے جس کو سب سے زیادہ غلط رنگ میں روئے زمیں پر پیش کیا گیا ہے احمدی نہ صرف اپنی اصلاح کیلئے اسلام کے بارہ میں علم اور معلومات حاصل کرتا ہے بلکہ وہ اسکے معترضین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے اپنے آپکو تیار کرتا ہے اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام انسان کا بنایا ہوا مذ ہب ہے جسمیں کوئی روحانیت نہیں ہے اس کے بر عکس احمدی اپنی زندگی میں یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اسلام ایسا زندہ مذہب ہے جو ایک انسان کے کردار کو خوبصورتی سے مزین اور روح کو پاک کرتا ہے ایک احمدی مثالی کردار اپنے اندر پیدا کر نیکی پوری سعی کرتا ہے کیونکہ کسی دوسری چیز سے زیادہ اس کے عمل سے اسلام کی روحانیت زیادہ ثابت ہوتی ہے احمدی اسلام کا دفاع اپنی

Page 137

۱۳۳ اسلامی زندگی کے نمونہ سے کرتا ہے اسلام کا نمونه احمد ہی وہ ہے جسے روحانی صداقتوں سے اللہ نے خوب آگاہ کیا ہے جو دوسروں کیلئے ابھی تک پردہ راز میں ہیں.یہ صداقتیں اسکے دل پر یوں منقش ہیں گویاوہ صرف خدا کی گود میں ہی سکون اور راحت پاتا ہے.انسان ہونیکے ناطے سے وہ اپنے اعزہ اور دوستوں سے محبت ضرور کرتا ہے لیکن ان رشتوں کی کشش کے باوجود خدا تعالیٰ سے اپنی فرمانبرداری کو وہ کبھی بھی فراموش نہیں کرتا ہے جب ایک احمدی صحیح معنوں میں سپاہی.سفیر - مبلغ.خادم.محافظ بن جاتا ہے تب وہ اسلام کا کامل نمونہ بتا ہے جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں : خدا انسان کی آنکه بن جاتا ہے جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور زبان ہو جا تا ہے جس کے ساتھ وہ بولتا ہے اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ حمله کرتا ہے اور کان ہو جاتا ہے.جسکے ساتھ وہ سنتا ہے اور پیر ہو جا تا ہے جس کے ساتھ وہ چلتا ہے ( اسلامی اصول کی فلاسفی ) والسلام على مَن اتَّبَعَ الهُدى

Page 138

ضمیمه

Page 139

۱۳۶ از قلم عبد الرحمن صاحب وبلوى آرچرڈ مسلمان کیسے ہوئے کہ آج سے اٹھاون سال قبل 9 جنوری ۱۹۴۲ء کو نماز جمعہ سے " سے قبل قادیان دار لامان کی مسجد اقصیٰ میں اعلان کیا گیا کہ جو لوگ فوج میں بھرتی ہونے کے خواہش مند ہوں وہ نماز عصر کے بعد ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جائیں میں وقت مقررہ پر وہاں پر پہنچ گیا جہاں اور جوان بھی بھرتی ہونے کیلئے جمع تھے مولوی ظہور الحسن صاحب ہم سب کو لیکر جالندھر پہنچے میں فٹر کے طور پر بھرتی ہونا چاہتا تھا لیکن ریکروٹنگ آفیسر نے مجھے سپاہی کلرک بھرتی کیا اور آئی اے اوسی ٹریننگ سینٹر جبل پور بھیج دیا جہاں سات ہفتے کی فوجی اور دفتری ٹریننگ کے بعد ملیر کینٹ کراچی کی یونٹ آرڈینینس فیلڈ پارک میں تعینات کر دیا گیا فیلڈ پارک کی کمپنی سمندر پار جانے کیلئے تیار تھی اور میں میدان جنگ میں جانے کیلئے مضطرب لیکن وائے حسرت کہ کمپنی تو میدان جنگ کے لئے روانہ ہو گئی لیکن مجھے میری تحریری درخواست کے باوجود ہندوستان میں چھوڑ دیا گیا اور کمپنی کے ایک سیکشن میں مجھے بہ یک وقت حوالدار میجر کوارٹر ماسٹر.اور کلرک کی خدمات انجام دینی پڑیں اور صحیح معنوں میں میری فوجی اور محکمانہ تربیت اس سیکشن میں ہوئی ستمبر ۱۹۴۷ء اس فیلڈ پارک کمپنی کے دو حصے کر دئے گئے جنہیں سے ایک حصہ برما کی ریاست منی پور کے دارلخلافہ امفال جانے کیلئے نامزد ہوا اور ایک ہندوستان میں چھوڑ دیا گیا جو حصہ امفال جانیوالا تھا مجھے اسکا ہیڈ کلرک بنا دیا گیا.ہمارا سیکشن کانوائے کی صورت میں دیما پور کے راستے امفال پہنچا.پندرہ بیس دن کے سفر کے بعد جب ہم امفال پہنچے تو ہمیں ایک گاؤں بری پوک Yeri Pok میں قیام کرنا پڑا جہاں ہم سے پہلے ایک اور ٹینک بریگیڈ مقیم تھا

Page 140

ہمیں بھی ان کے ساتھ شامل کر دیا گیا مگر ہمارا سیکشن جداگانہ طریق پر مصروف عمل رہا.یہاں تک کہ جنرل ہیڈ کوارٹر دہلی نے ہماری کمپنی کو دوسری کمپنی میں مدغم کر دیا جس کمپنی کے ساتھ ہم نے اشتراک کیا اسمیں ایک انگریز لیفٹیننٹ تھے جنکا نام جان برین آرچرڈ تھا یہ پہلے ڈوگرہ رجمنٹ میں تھے اسکے بعد آئی اے اوسی میں متصل ہو گئے تھے.یہ افسر ہر ہفتہ اپنے والد کو انگلینڈ چھ سات صفحہ کا ایک خط لکھا کرتے تھے جسمیں وہ ہندوستان کی تاریخ مرتب کیا کرتے تھے غالبا انکا ارادہ ہندوستان کی تاریخ شائع کرنیکا تھا جب ۱۹۴۴ء میں جاپانیوں نے اتحادیوں پر سخت حملہ کر دیا اور امفال کو گھیرے میں لے لیا ان ایام کی ایک شام کا ذکر ہے کہ میں گارڈ کمانڈر تھا لیفٹینٹ آرچرڈ اپنے بحر سے باہر نکلے میں نے انکو سلوٹ کیا اور ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے آپ ہندوستان کی تاریخ لکھ رہے ہیں لیکن آپ کی تاریخ اس وقت تک نا مکمل رہے گی جب تک کہ آپ ہندوستان کی سر زمین پر ہونے والے اس اہم واقعہ کا ذکر نہ کریں انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ وہ واقعہ کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ مسیح نے عہد نامہ میں جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوا یعنی مسیح نے کہا تھا.اس وقت تک انتظار کرو کہ میں دوبارہ آؤں.لہذا مسیح ہندوستان کی سرزمین کے ایک گاؤں میں آگیا ہے آپ اس واقعہ کو اپنی تاریخ میں ضرور بیان کریں انہوں نے جواب دیا کہ اس وقت تو میں حاضری ( رول کال) پر جا رہا ہوں کیونکہ آج میں آفیسر آف دی ڈے ہوں پھر کسی وقت بات کروں گا.کیونکہ آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی.اسکے بعد وہ شام کی رول کال سے فارغ ہو کر میرے پاس آئے اور انہوں نے بہت سے سوالات کئے انہوں نے احمد یہ لٹریچر پڑہنے میں اپنی دلچپسی بیان کی چونکہ اس وقت فوج میں تبلیغ منع تھی اور آج بھی ہے لہذا میں نے ان سے کہا کہ ہماری جماعت کے مبلغین میں سے

Page 141

۱۳۸ ایک مبلغ ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ہیں آپ ان سے خط و کتابت کریں وہ آپ کو نہ صرف لٹریچر پڑہنے کو دیں گے بلکہ آپ کے شکوک و شبہات بھی دور کریں گے.آرچرڈ صاحب نے کہا کہ اچھا میرا تعارف مفتی صاحب سے کرا دو.میں نے قادیان حضرت مفتی محمد صادق کی خدمت میں تحریر کیا کہ برائے مہربانی آپ لیفٹیننٹ آرچرڈ کو ایک جلد اسلامی اصول کی فلاسفی اور ایک جلد احمدیت یا حقیقی اسلام روانہ کر دیں کتابوں کی قیمت اور ڈاک خرچ میں ادا کر دوں گا.تقریباً ایک ڈیڑھ ہفتہ کے بعد مسٹر آرچرڈ کو مفتی صاحب کی طرف سے خط اور کتابوں کا پارسل موصول ہوا.جس کا انہوں نے مجھ سے تذکرہ کیا اور اسکے بعد انہوں نے کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ شروع کر دیا ایک روز مسٹر آرچر ڈ ا سلا می اصول کی فلاسفی کا مطالعہ میں مصروف تھے میں ادھر سے گزرا انہوں نے مجھ سے باتیں شروع کر دیں اور کہا کہ اسلام کی تعلیم تو اچھی ہے مگر ایک بری بات یہ ہے کہ اسلام عیسائیت پر حملے بہت کرتا ہے جو با میں نے عرض کیا کہ اب آپکا فرض ہے کہ آپ اس بات کی تحقیق کریں کہ اسلام کے یہ حملے صحیح ہیں یا غلط.اتنے میں ایک اور مسلمان لیفٹیننٹ محمد غفار علوی جو بعد میں پاکستان آرمی سے میجر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے ادھر آنکلے.مسٹر آرچرڈ نے ان سے بھی باتیں شروع کر دیں اور ان سے بھی مذکورہ سوال دہر لیا انہوں نے جواب دیا کہ یہ باتیں عبد الرحمن سے ہی پوچھیں یہی آپ کو بتائے گا میں نے کہا کہ اگر کوئی شخص چور ہو تو اسے چور کہنا حملہ کرنا نہیں ہے بلکہ امر واقعہ کا اظہار ہے ہاں کسی ایسے شخص کو چور کہنا جو چور نہ ہو الزام اور حملہ ہے اور ایسا نہیں کرنا چاہئے اب آپ اس کتاب کو اس نظریہ کے تحت مطالعہ کریں کہ کیا اسلام عیسائیت کے بارہ میں جو کہتا ہے وہ حقیقت ہے یا نہیں اگر حقیقت ہے تو اسکو حملہ نہیں کہہ سکتے اور اگر حقیقت نہیں تو واقعی حملہ

Page 142

۱۳۹ ہے اور اسلام کو ایسا نہیں کرنا چاہئے ایک دن لیفٹیننٹ آرچرڈ نے مجھ سے کہا کہ کیا تم مجھے اردو پڑھا دو گے میں نے جواب دیا کہ دفتر کے وقت تو میں کچھ نہیں کر سکتا ہاں اگر آپ صبح پی ٹی ( نزیک رینگ) کے وقت چاہیں تو میں ایسا کر سکتا ہوں چنانچہ میرے سیکشن آفیسر کیپٹن راجندر سنگھ نے مجھے اجازت دیدی اور میں نے مسٹر آرچرڈ کو اردو پڑھانی شروع کر دی ایک روز لیفٹیننٹ صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمہاری جماعت دنیا کے فلاح و بہبود کیلئے بہت کچھ کر رہی ہے مثلا یہی کہ اتنا لٹریچر مفت تقسیم کرتی ہے کیا میں اسکا ممبر بن سکتا ہوں ؟ میں نے کہا شوق ہے.کہنے لگے کہ مگر میں مسلمان نہیں ہوں گا میں نے جو ابا کہا کہ جب آپ اس جماعت میں داخل ہو نگے تو پہلی چیز جس کا آپ کو اقرار کرنا پڑیگا وہ ہے اشہد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمد عبده ورسوله اور جو شخص اس کلمہ کو پڑھ کر اسکا اقرار کریگا وہ مسلمان ہو تا ہے تو کہنے لگے کہ پھر میں اس جماعت میں داخل نہیں ہو تا اگر میں اس جماعت کی کچھ روپیہ سے مدد کرنا چاہوں تو کیا میرا 1 یہ روپیہ قبول کیا جائیگا میں نے کہا یقینا اس پر وہ بولے کہ میں سو روپیہ دینا چاہتا ہوں ایک صبح جب وہ مجھ سے اردو کا سبق لے رہے تھے تو باتوں باتوں میں آواگون کا ذکر چھڑ گیا کہنے لگے میں اس مسئلہ کا قائل ہوں.میں نے ایک مثال پیش کی کہ اگر ایک سپاہی کوئی غلطی کرے اور اسکی پاداش میں اسکو کوئی سزادی جائے لیکن سزا دینے سے قبل اسکو مسمرائز کر دیں (کیونکہ لیفٹینٹ صاحب مسمریزم کے ماہر تھے ) اور اسکی سزا بھگتنے کے بعد اگر آپ مسمریزم کا وہ اثر اسکے دماغ سے دور کر دیں تو کیا اس سپاہی کو سزا دینا کوئی عظمندی کی بات ہے یا اس سزا کا کوئی معقول نتیجہ نکل سکتا ہے کہنے لگے کہ نہیں.میں نے کہا بس یہی حالت آواگون کی ہے اگر کوئی شخص یہ جانتا کہ وہ پچھلے جنم میں کیا تھا اور کس گناہ پائی کے بدلہ میں موجودہ جون

Page 143

۱۴۰ اختیار کی گئی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کا یہ فعل درست تھا لیکن موجودہ صورت میں جبکہ کسی ذی روح کو اپنی گذشتہ جون کی نیکی یا بدی کا کوئی علم نہیں خداوند تعالیٰ کا یہ فعل عبث ٹھہرتا ہے ؟ وہ اسی وقت بول اٹھے بس بس میں سمجھ گیا آواگون کا مسئلہ غلط ہے بر ما میں قیام کے دوران ایک دفعہ ملٹری کا آرڈر آیا کہ انگریز فوجی جو ہندوستان میں چھٹی گزارنا چاہتے ہوں وہ اٹھائیس روز کی چھٹی پر ہندوستان جاسکتے ہیں ایک دن مسٹر آرچرڈ میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں ہندوستان چھٹی پر جا رہا ہوں میں نے دریافت کیا کہ ہندوستان چھٹی کہاں گزاریں گے کہنے لگے کہ میرا ایک ہندو دوست ہے وہ ڈوگرہ رجمنٹ میں ہے اور خورجہ میں رہتا ہے اس کے مکان پر.میں نے کہا یہ تو بہت اچھا موقعہ ہے آپ قادیان بھی دیکھتے آئیں مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا.دوسرے روز صبح جب میں انہیں اردو پڑھانے گیا تو پھر قادیان کا تذکرہ ہوا کہنے لگے کہ خواجہ (دہلی) سے قادیان تک اگر فرسٹ کلاس کا کرایہ دلوا دو تو میں چلا جاؤں گا میں نے عرض کیا کہ آپ ریلوے کا پاس جائے خورجہ کے قادیان تک کا ہوالیں کہنے لگے پاس تو بن چکا ہے میں نے کہا میں اسے منسوخ کروا کر دوسرا ہوا دیتا ہوں.بولے کہ میں کسی کو یہ بتانا نہیں چاہتا کہ میں قادیان جا رہا ہوں میں نے عرض کیا کہ اچھا پھر وہ سو روپیہ جو آپ انجمن احمدیہ کو دے رہے تھے آپ اس سے پاس خرید لیں اس پر ہنستے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسکا مطلب یہ کہ تم روپیہ دینا نہیں چاہتے.پھر انہوں نے دریافت کیا کہ قادیان میں میرے قیام کا کیا بندوبست ہو گا ؟ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ دیسی کھانا اور رہائش پسند کریں تو مفتی محمد صادق صاحب کے مکان پر بندوبست ہو جائیگا اور اگر آپ انگریزی کھانا اور رہا کش پسند کریں تو پھر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ہاں مفتی صاحب آپکا بندوبست کر دیں گے (بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے مہمان خانے کی رہائش کو ترجیح دی اور وہیں قیام کیا ) !

Page 144

لیفٹینٹ صاحب نے مجھے اپنا پروگرام دے دیا جو میں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی خدمت میں ارسال کر دیا.میں نے مفتی صاحب سے یہ درخواست بھی کی کہ وقت مقررہ پر کسی آدمی کو ریلوے اسٹیشن پر بھیج دیں آرچرڈ صاحب کے پروگرام کے مطابق ان کو صبح کے وقت قادیان پہنچا تھا مگر کسی غلط فہمی کی بناء پر پروگرام کے بر خلاف وہ بارہ گھنٹے قبل شام کی گاڑی سے قادیان پہنچ گئے اور اسٹیشن پر کسی خادم سے انہوں نے مفتی صاحب کے مکان کا پتہ دریافت کیا اس سعادت مند لڑکے نے آرچر ڈ صاحب کو اپنے ہمراہ لیا اور مفتی صاحب کے مکان پر پہنچا دیا.آرچرڈ صاحب صرف ایک دن کیلئے قادیان گئے تھے مگر غالبا انہوں نے ایک ہفتہ قیام کیا اسکے بعد وہ خورجہ گئے اور پھر وہاں سے واپس برما اپنی کمپنی آرڈینینس فیلڈ پارک میں پہنچے اگلی صبح میں انہیں اردو پڑھانے گیا اور انکے سفر کے حالات دریافت کئے اور قادیان کے متعلق بھی.انہوں نے بتایا کہ کسی طرح وہ غلطی سے پروگرام سے بارہ گھنٹے قبل قادیان پہنچ گئے اور ایک اجنبی لڑکے نے مفتی صاحب کے گھر تک انکی رہ نمائی کی یہ پہلا اثر میری طبیعت پر ہؤا کہ ہندوستان میں تو ایسا نہیں ہو تا کہ کسی نوجوان سے راستہ پوچھا جائے تو وہ پوچھنے والے کے ہمراہ جا کر مسافر کو اسکی منزل مقصود تک پہنچا دے دوسری بات یہ بتلائی کہ وہ ایک خیاط کی دوکان ( مرزا مهتاب بیگ مالک احمد یہ درزی خانہ پر گئے اور وہاں جاکر انہوں نے کپڑے کی قیمت دریافت کی جو دوکاندار نے درست بتائی ورنہ عام ہندوستانی دوکانداروں کی ذہنیت یہ ہوتی ہے کہ وہ انگریزوں بالخصوص فوجیوں کو اشیاء کی قیمت بہت زیادہ بتاتے ہیں آرچرڈ صاحب نے دو تمھیوں کا کپڑا لیا اور سینے کیلئے دے دیا پھر درزی نے اپنے وعدہ کے مطابق کپڑا سی کر ٹھیک وقت پر دے دیا.انہوں نے تعریفی الفاظ میں کہا کہ اس چیز نے میری طبیعت پر بہت

Page 145

۱۴۲ اچھا اثر ڈالا کہ یہ لوگ دینوی کاروبار میں بھی کتنی صداقت سے کام لیتے ہیں جو ہندوستان میں کسی اور جگہہ میرے دیکھنے میں نہ آیا میں نے دریافت کیا کہ قادیان میں جن لوگوں سے آپکی ملاقات ہوئی ان میں سے کسی کا ذکر کیجئے کہ کیسے لوگ ہیں ؟ بولے کہ میں تو جس کسی سے ملا ایک کو دوسرے سے زیادہ اعلیٰ و ارفع ہی پایا.میں نے کہا حضرت امیر المومنین سے بھی ملاقات ہوئی انہوں نے جواب دیا کہ انہیں فرصت نہیں تھی اس وجہ سے صرف ایک گھنٹہ ملاقات ہو سکی مسٹر آرچرڈ اپنے ساتھ احمد یہ جماعت کی کچھ کتب اپنے ساتھ قادیان سے لائے تھے جنکا مطالعہ وہ کرتے رہتے تھے وہ مسمریزم کے ماہر تھے.راتوں کو آرمی کے آفیسر خوب شرابیں پیتے اور جوا کھلیتے تھے جسمیں یہ بھی شامل ہوتے تھے ایک دن پردہ پر گفتگو ہوئی کہنے لگے پردہ اسلام میں ایک بیکار سی چیز ہے میں نے بتایا کہ یہ تو اسلام کے خدا کا ہم پر بہت احسان ہے کہ اپنے پر وہ کا حکم دیا ورنہ جس طرح گر جاؤں میں دعا کے وقت جوان لڑکے اور لڑکیاں عشقیہ خطوط ایک دوسرے سے تبدیل کرتے ہیں ہم بھی یہی کرتے.علاوہ از میں یورپ اور امریکہ جہاں پردہ نہیں ہے وہاں عفت اور پاکدامنی کے الفاظ سے بھی کوئی آشنا نہیں ہے وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ فریقین ایک دوسرے سے راضی ہوں اور بس.اسکے علاوہ اسقدر طلاقیں اور ان طلاقوں کا باعث صرف عورت اور مرد کا بے جانہ ملنا ہے.ایک دن مجھ سے کہنے لگے عبد الرحمن مجھے تمہاری زندگی پر رشک آتا ہے کہ نہ تم سگریٹ پیتے ہو نہ شراب نہ جوا کھیلتے ہو نہ تاش سے دل پہلاتے ہو اور آرام سے رات کو سوتے ہو میں تو رات کے دو دو بجے تک جاگتا رہتا ہوں میں نے جواب دیا میری زندگی تو کوئی ایسی قابل تعریف نہیں ایک مسلمان کی زندگی تو بہت ارفع اور اعلیٰ ہونی چاہئے اور ہوتی بھی ہے میں تو ایک ادنی درجہ کا مسلمان ہوں

Page 146

۱۴۳ اس وقت حالات کچھ اس قسم کے وقوع میں آئے کہ جنکی بناء پر لیفٹیننٹ آرچرڈ کو آفسیر ز سیلیکشن بورڈ کلکتہ کے سامنے دوبارہ پیش ہونا پڑا شاید انہوں نے اپنی ڈوگرہ رجمنٹ میں جانا چاہا ہو میں نے اس بارہ میں کبھی ان سے دریافت نہیں کیا اس دوران جب وہ کلکتہ میں تھے انہوں نے وہاں جماعت احمدیہ کے دفتر کا پتہ چلا لیا وہ دفتر میں جاکر کافی دیر تک بیٹھے رہتے اور جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے رہتے.نیز احمدیوں سے بات چیت کر کے سلسلہ کے متعلق تحقیقات کرتے کلکتہ سے واپسی پر وہ ۲۵۵ ٹینک بریگیڈ آرڈینینس میں تبدیل ہو گئے جسکی وجہ سے میرے اور انکے آفیسر اور ماتحتی کے تعلقات منقطع ہو گئے چونکہ ۲۵۵ ٹینک بریگیڈ بھی برما کے محاذ پر مصروف عمل تھا آرچر ڈ صاحب ایک شام میرے دفتر میں آئے میں اور دوسرے کلرک کثرت کار کے باعث ابھی تک دفتر میں کام میں مصروف تھے انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کس وقت کام ختم کرو گے ؟ میں نے کہا کیوں ؟ کہنے لگے مجھے اکیلے میں تم سے گفتگو کرنی ہے میں نے جواب دیا کام بعد میں ختم کر لوں گا پہلے آپ سے بات کر لوں.وہ مجھے دور فاصلے پر لے گئے اور بولے عبد الرحمن مجھ پر یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ احمدیت ہی سچا مذ ہب ہے مگر بڑی مشکلات ہیں اتنی مشکلات کہ تم ہندوستان کے رہنے والے اسکا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے میں نے جواب دیا کہ آپ درست فرماتے ہیں لیکن میں آپ کی مشکلات کا اندازہ خوبی لگا سکتا ہوں اور میرے دل میں ان تکالیف کیلئے درد بھی ہے اور مجھے احساس بھی ہے کہنے لگے میں اپنی قومیت کھو دوں گا علاوہ ازیں انہوں نے مجھے کئی باتیں بتائیں جسکا جواب میں نے انکو یہ دیا کہ آپ ابھی تک عیسائی ہیں اور اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیم پر ذرہ بھر بھی آپ کا عمل ہے تو پھر دیکھئے کہ نئے عہد نامہ میں مسیح نے کیا فرمایا وہ فرماتے ہیں پہلے خدا اور راستبازی کی تلاش کرو اور یہ چیزیں ( مراد دنیا اور اسکی شان و شوکت)

Page 147

۱۴۴ خود خو د مل جائیں گی میں نے عرض کیا کہ آپکو تو خداوند تعالٰی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اسکے فضل سے آپ پر صداقت ظاہر ہو گئی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ دنیا میں وہ لوگ جو صداقت قبول کرتے ہیں انکو بڑی بڑی آزمائشوں سے گذرنا پڑتا ہے انہوں نے بتایا کہ وہ چھپ چھپ کر نماز پڑھتے ہیں اور لوگ انہیں پاگل سمجھنے لگے ہیں تاش بھی کھیلنے چھوڑ دئے ہیں اور شراب بھی پینی چھوڑ دی ہے انکی اس تبدیلی پر میں نے خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کیا.بعد ازاں وہ قادیان گئے غالبا ۲۸ دن تک وہ قادیان میں رہے اور وہیں انہوں نے احمدیت قبول کرلی لیکن مجھے اس وقت اسکا علم نہیں ہو سکا بلکہ کافی عرصہ کے بعد پتہ چلا کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے قبول اسلام کے بعد احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کے بعد وہ جہاں کہیں بھی جاتے پہلے انکا یہ کام ہو تا کہ اس شہر میں جا کر احمد یہ جماعت کا پتہ چلاتے اور وہاں با قاعدہ جمعہ کی نماز با جماعت ادا کرتے دوران سفر یا جہاں کہیں وہ کسی انڈین آفیسر کو دیکھتے اس سے دریافت کرتے کہ آیادہ ہندو ہے یا مسلمان اگر معلوم ہوتا کہ مسلمان ہے تو پھر اس سے دوسراسوال یہ کرتے کہ کیا وہ احمدی ہے یا غیر احمدی.انتہا یہ کہ میں میں جب کہیں کھانا کھانے جاتے وہاں انکا یہی رویہ ہو تا ایک احمد کی ڈاکٹر کیپٹن سے دریافت کیا کہ کیا آپ مسلم ہیں یا غیر مسلم انہوں نے جو لبد یا مسلم.پھر آرچرڈ صاحب نے پوچھا کیا احمدی یا غیر احمدی ؟ کیپٹن صاحب نے انکو بتایا کہ وہ احمد کی ہیں آرچرڈ صاحب نے ان سے مزید کوئی بات نہیں کی عین اس وقت جب نماز کا وقت ہوا تو آرچرڈ کھڑے ہو گئے اور کیپٹن صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ چلو نماز پڑھیں کیپٹن صاحب نے جواب تک آرچرڈ کو انگریز عیسائی سمجھے بیٹھے تھے محو حیرت ہو گئے میں جس بریگیڈ میں تھاوہ برما سے واپس آن کر احمد نگر میں مقیم ہوا جہاں آرچرڈ صاحب

Page 148

۱۴۵ کا خط ملا جسمیں انہوں نے لکھا تھا میں ۲۸ دن کی چھٹی پر قادیان گیا تھا اب واپس واہ کیمپ میں اپنی پرانی کمپنی یعنی ڈوگرہ رجمنٹ میں آگیا ہوں راولپنڈی کی جماعت میں اکثر جاتا رہتا ہوں میں نے انکو جواب میں لکھا کی عنقریب ہی میں چھٹی آنیوالا ہوں اور آپ سے ملاقات کروں گا کیونکہ اس دفعہ میر المرادہ سری نگر جا کر قبر مسیح دیکھنے کا ہے احمد نگر سے میں چھٹی پر قادیان گیا اور وہاں سے واہ کیمپ کیلئے روانہ ہو گیا راولپنڈی کے اسٹیشن پر ڈوگرہ رجمنٹ کا یک سپاہی رحمیٹل پولیس کی ڈیوٹی دے رہا تھا میں نے اس سے دریافت کیا کہ واہ میں تمہاری کمپنی کسی جگہ مقیم ہے اپنے دریافت کیا کہ تم ڈوگرہ رجمنٹ میں کس سے ملو گے ؟ میں نے بتایا کہ لیفٹیننٹ آرچرڈ سے ملنا چاہتا ہوں اس نے کہا کہ وہ تو تمہارا بھائی بند ہے (کیونکہ رجمنٹ میں ہر ایک کو معلوم تھا کہ یہ ایک انگریز مسلمان ہے تو میری داڑھی دیکھ کر اس شخص نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ بھی مسلمان اور وہ بھی مسلمان اس وجہ سے یہ ایک دوسرے کے بھائی بند ہیں) میں واہ اسٹیشن پر اتر کر کیمپ گیا اور چونکہ وہاں ڈوگرہ رجمنٹ کی کئی کمپنیاں پڑی تھیں میں نے ایک حوالدار سے دریافت کیا کہ مجھے فلاں آفیسر سے ملنا ہے تو پہلی بات جو اسنے کی وہ یہ تھی وہ تو مسلمان ہو گیا ہے میں نے کہا الحمد للہ اتفاق سے لیفٹینٹ صاحب کا اردلی سامنے جاتا دکھائی دیا حوالدار صاحب نے اسے آواز دی کہ یہ تمہارے صاحب سے ملنے آئے ہیں انہیں لے جاؤا نکے اردلی نے بھی آرچرڈ صاحب کے مسلمان ہو نیکی باتیں شروع کر دیں میں اسکی باتیں سن رہا تھا اور میر ادل خوشی سے باغ باغ ہو رہا تھا کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے رحم و کرم سے اس روح کو جہنم سے چھالیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اسے شرک سے نجات دی اور وحدانیت کا عاشق بنا دیا میں لیفٹینینٹ صاحب کے کوارٹر پر پہنچا وہ سورہے تھے ایک دم جاگ اٹھے اور کہا السلام علیکم میں نے بڑھ کر

Page 149

۱۴۶ وعلیکم السلام کہہ کر مصافحہ کیا انہوں نے بتایا کہ وہ کل روزے سے تھے (کیونکہ یہ رمضان شریف کا مہینہ تھا) روڈ مارچ کیلئے گئے جب واپس لوٹے تو مختار ہو گیا اور سر درد ا سکے بعد کافی دیر تک احمدیت کے متعلق گفتگو ہوتی رہی میں سبحان اللہ کا ورد کر رہا تھا کہ کس طرح خداوند تعالیٰ نے اس مادیت میں ڈوٹی ہوئی روح کو اسلام میں فنا کر دیا ہے کہ وہ نماز میں باقاعدگی سے ادا کرتا ہے بلا ناغہ تہجد پڑھتا ہے قرن شریف کی تلاوت کرتا ہے نہ صرف یہ کہ اپنی زندگی اسلام تعلیم کے عین مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ تبلیغ اسلام بھی شروع کر دی ہے آرچرڈ صاحب نے اپنے حالات بیان کرنے شروع کر دیئے کہنے لگے یہاں ایک جگالی مسلمان کیپٹن معظم دار نامی ہے وہ میری بہت مخالفت کرتا ہے لیکن جب اسے کوئی مصیبت پڑتی ہے تو دعا کیلئے بھی مجھ ہی سے درخواست کرتا ہے کہنے لگے ایک دن ہم سب میس میں بیٹھے ہو ئے تھے میں ایک سکھ میجر سے گفتگو کر رہا تھا جب میں نے اسے بتایا کہ بابا نانک مسلمان تھے تو وہ اس بات سے ناراض ہو گیا اور مجھ سے جھگڑنے لگا اور بھی کئی واقعات سنائے اور بتایا کہ غیر مسلم تو میری مخالفت کرتے ہی ہیں مگر تعجب ہے کہ دوسرے مسلمان بھی میری مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں اس شام جب میں روانہ ہونے لگا تو وہ مجھے پہچانے آئے سڑک پر ایک تانگے والا گزر رہا تھا تانگے والے نے لیفٹینٹ صاحب کو سلام کیا اور تانگہ ٹھہرالیا انہوں نے مجھے تانگے پر بٹھایا اور خود معذرت کر کے چلے گئے راستہ میں میں نے تانگے والے سے دریافت کیا کہ تم نے اس انگریز کو سلام کر کے اس سے ہاتھ کیوں ملایا.تو اسنے جواب دیا کہ صاحب آپکو کیا پتہ کہ یہ کیسا آدمی ہے ؟ یہاں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو اسکو نہ جانتا ہو یہ صاحب تو تانگے میں بھی بیٹھتا ہے تو ہم لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرتا ہے یہ تو کوئی ولی ہے ولی.واہ کیمپ سے روانہ ہو کر میں واپس راولپنڈی آگیا اور دوسرے دن سری نگر روانہ ہو گیا ¦

Page 150

۱۴۷ سیدنا حضرت خلیفہ البیع الثانی نے آرچرڈ صاحب کو عرفی.اردو اور مزید اسلامی تعلیم حاصل کر چکے واسطے قادیان بلالیا ابھی انکو قادیان آئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ ہندوستان و پاکستان دو علیحدہ علیحدہ ملک قائم ہو گئے قادیان چونکہ ہندوستان کے حصہ میں آیا جہاں سے مسلمانوں کو مجبوراً نکلنا پڑایا ہندو حکومت نے مجبور کر کے مسلمانوں کو نکالا آرچرڈ صاحب اپنی تعلیم ختم کرنے سے پہلے انگلستان روانہ ہو گئے اور لندن میں تبلیغ شروع کر دی بعد ازاں وہ گلاسکو پہنچے اور تبلیغ پر سر گرمی سے عمل پیرا ہوئے.چو نکہ مرکز سے جو امداد انہیں ملتی تھی وہ اتنی کم تھی کہ انگلینڈ جیسے ملک میں اس رقم سے ایک آدمی کا کھانے پینے کا گزارہ ہی مشکل سے ہوتا ہے اس لئے وہ فالتو وقت میں محنت مزدوری کرتے اور اس سے جو پیسہ حاصل ہو تا وہ اشتہارات چھپوانے میں خرچ کرتے اس اثناء میں انکی شادی لندن میں ایک انگریز احمدی خاتون عائشہ ویلیز سے ہو گئی شروع شروع میں تو انکی اہلیہ بھی تبلیغ کا بہت شوق رکھتی تھی مگر بعد میں کسی وجہ کی بناء پر آرچرڈ صاحب نے اسکو طلاق دیدی چنانچہ یہ خاتون اس لڑکی کو بھی اپنے ساتھ لے گئی جو آرچرڈ صاحب سے ہوئی تھی ۱۹۵۸ء میں انکی دوسری شادی خلیفہ علیم الدین صاحب کی صاحبزادی قلعہ بیگم سے ہوئی.جس سے ان کے پانچ بچے ہیں زندگی کا ایک نازک لمحہ غالبا ۱۹۸۰ء کا واقعہ ہے کہ آرچرڈ صاحب ربوہ آئے ہوئے تھے اور خلیفہ علیم الدین صاحب کے مکان محلہ وار لصدر شمالی میں مقیم تھے اور خاکسار کی رہائش بھی اسی محلہ میں تھی عاجز نے ان کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا اثنائے گفتگو خاکسار نے آرچرڈ صاحب سے دریافت کیا کہ قبول احمدیت کے بعد آپ پر کیا کوئی غیر معمولی یعنی انتہائی نازک لمحات بھی پیش آئے تو انہوں نے بتایا کہ انکی زندگی میں تین مرتبہ نہایت نازک مواقع آئے وہ تینوں نازک لمحات

Page 151

۱۴۸ انہوں نے مجھے بتائے مگر اتفاق سے مجھے صرف ایک واقعہ یا درہ گیا جو قارئین گلدسته خیال کی ازدیاد ایمان کے لئے پیش کرتا ہوں جب انہوں نے احمدیت قبول کی تو اسکے معابعد فوج کی ملازمت سے فارغ ہو کر انہوں نے اپنی زندگی تبلیغ اسلام کیلئے وقف کر دی اور ابھی تک کنوارے تھے اور پھر انکی شادی ایک احمدی انگریز مسٹر ویلز جو بینک میں ملازم تھے انکی دختر عائشہ سے ہو گئی آرچر ڈ صاحب نے چونکہ اپنی زندگی وقف کی ہوئی تھی اس وجہ سے انہیں مرکز یعنی قادیان سے گذر لوقات کے لئے وظیفہ ملتا تھا.تقسیم ہند کے بعد جب مرکز ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو آرچرڈ صاحب نے حضرت خلیفتہ السیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ موجودہ حالات میں میں مناسب نہیں سمجھتا کہ مرکز سے اپنے لئے اخراجات لوں اس وجہ سے میں محنت مزدوری کر کے اپنی گزر اوقات کروں گا اور انشاء اللہ تعالٰی تبلیغ جاری رکھوں گا..اسکے بعد یہ اخبارات فروخت کیا کرتے اور استعمال شدہ ڈاک کے ٹکٹ کا کاروبار کرتے تھے (انگلستان میں اسکا کاروبار خوب ہوتا ہے) اور اسی معمولی آمد سے ایک اخبار بغرض تبلیغ سا ئیکلو سٹائل کر کے مفت تقسیم کرتے تھے کہنے لگے کہ ایک دن میری بیوی نے کہا کہ مسٹر آرچرڈ تمہاری موجودہ آمد سے ضروریات زندگی کما حقہ پوری نہیں ہو تیں میری بچی کو صحیح طور پر غذا نہیں ملتی علاوہ ازیں مجھے لباس میں بھی کافی تکلیف رہتی ہے مسٹر آرچرڈ آج آپکو دوباتوں میں سے ایک کا فیصلہ کرنا ہو گا یا مجھے رکھ لو یا وقف کوہ میں ان حالات میں زندگی نہیں بسر کر سکتی.آرچرڈ صاحب کہنے لگے میری زندگی کے یہ نازک لمحات تھے میں سخت پریشانی کے عالم میں تھا میرے لئے یہ بہت زیادہ تکلیف دہ لمحات تھے میں صبح سے تیسرے پہر تک اسی غور و فکر میں غرق رہا اور کہتا تھا کہ الہی کیا کروں نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن آخر کار عصر کی نماز

Page 152

۱۴۹ کے وقت میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں مگر وقف کو نہیں چھوڑ سکتا تو میری بیوی بولی اچھا تو پھر میں جاتی ہوں میں نے کہا بصد شوق وہ بولیں کہ میں اپنی لڑکی کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گی میں نے کہا ہاں لے جا سکتی ہو اب غور فرمائے کہ خداوند تعالیٰ کتنا غیور خدا ہے کہ ایک شخص نے خدا اور اسکے دین کی خاطر اپنی جوان بیوی اور اپنی اکلوتی اولاد کو چھوڑا تو غیور خدا نے جو ذرہ نواز بھی ہے آرچرڈ صاحب کو حضرت خلیفتہ المبح الثالث کے ماموں کی صاحبزادی کا رشتہ دے دیااور ان سے اب ان کے پانچ بچے ہیں الحمد للہ اس ضمن میں ہی مجھے ایک عجیب واقعہ جو میرے ذہن پر ملسط رہتا ہے وہ بھی زیب قرطاس ابیض ہے مینے ایک کتاب میں پڑھا کہ مہاتمہ بدھ اپنے باپ کے اکلوتے بچے تھے اور اپنے باپ کی وسیع سلطنت کے واحد جانشین.دنیا کا بہت گہری نظر سے مطالعہ کرنیکے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ دنیا بہت دکھی ہے چاروں طرف مصائب اور آلام کے پہاڑ ہیں اس لئے کچھ کرنا چاہئے اور ایک شب جب وہ ان خیالات میں غرق تھے تو انہوں نے دنیا چھوڑنیکا فیصلہ کر لیا جب محل سے نکلنے لگے تو خیال آیا کہ بیوی سے آخری ملاقات کرلوں مگر پھر سوچا کہ اسکی محبت بھری آنکھیں میرے پیروں میں زنجیر میں ڈال دیں گی اور میں نہیں جاسکوں گا ایک طرف انکا سال بھر کا بچہ سو رہا تھا خیال آیا کہ اسکو گود میں اٹھا کر پیار کرلوں معا خیال گذرا کہ اگر وہ رو پڑا تو ماں نیند سے بیدار ہو جائیگی پھر خیال آیا کہ ماں باپ سے آخری ملاقات کرلوں مگر اس خیال سے کہ اگر ما تا.پتانے جانے سے منع کیا تو یہ والدین کے فرمان کی حکم عدولی ہو گی جو پاپ ہے ان خیالوں میں گم انہوں نے اس اندھیری رات میں محلات چھوڑ دیے دنیا چھوڑ دی اور پھر ایک درخت کے نیچے بیٹھے اور خدائے واحد کے تصور میں کھو گئے

Page 153

۱۵۰ آرچرڈ صاحب کی قادیان میں آمد ہے تحریک جدید قادیان کی طرف سے مولینا جلاالدین شمس صاحب نے مسٹر بشیر احمد آرچرڈ کی قادیان میں آمد پر جو استقبا ليه خطاب پیش کیا اور جو ریویو آف ريليجنز جون ۱۹۴۷ میں شائع ہوا وہ یہ ہے : تحریک جدید قادیان کی طرف سے آج شام ہمارے نہایت قابل احترام بھائی مسٹر آرچرڈ کو خوش آمدید کہتے ہوئے مجھے بے پناہ مسرت محسوس ہوتی ہے عربی زبان میں کہی بات دو بھائیوں کے درمیان اهلا و سهلا و مرحبا که کر ادا کی جاتی ہے عرفی کے ان تین الفاظ کے ایک معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے گھر ہی تشریف لے آئے ہیں ہمیں امید ہے کہ آپکو یہاں آنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی ہو گی ہم آپکا پر جوش استقبال کرتے ہیں اور آپکو یقین دلاتے ہیں کہ آپکو یہاں ہر چیز وافر میسر ہو گی مسٹر آرچرڈ مزید تعارف کے محتاج نہیں کیونکہ اس سے پہلے وہ یہاں دو مرتبہ آچکے ہیں اس مقدس شہر میں انکے بہت سارے دوست ہیں مسٹر آرچرڈ کا احمدیت کے بارہ میں تعارف ہندوستان میں انکے قیام کے دور ان ہوا جب وہ یہاں ملٹری میں اپنی ڈیوٹی پر متعین تھے اور دو سال قبل وہ قادیان میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے وہ احباب جو مسٹر آرچرڈ سے تعارف رکھتے ہیں خوبی جانتے ہیں کہ آپ تبلیغ کے معاملہ میں بہت سرگرم ہیں اور لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے میں ہر حیلہ کام میں لاتے ہیں آرمی سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپنے دو روز تک برسٹل میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ قیام کیا اور تیسرے روز مسجد فضل لندن تشریف لے آئے مسجد میں قیام کے دوران آپنے مجھ سے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ مبلغ اسلام بنا چاہتے ہیں نیز مسجد میں قیام کرنا چاہتے ہیں چنانچہ میں نے انکو ایک مبلغ اسلام کی ذمہ داریوں اور تبلیغ اسلام کیلئے ضروری تعلیم و کوائف سے آگاہ کیا.بلآخر میں نے انکو اس بات کا یقین دلایا کہ میں انکی درخواست پر پوری ہمدردی سے غور کرونگا اور اسکا جواب تحریر میں دوں گا جب انہوں نے اپنی پیشکش پر مجھے تذبذب میں مبتلا دیکھا تو وہ ذرا ناراض ہو گئے.چند روز کے بعد تاہم انہوں نے اپنی زندگی اسلام کی خدمت میں دوسرے واقعین کی طرح بلا شرط وقف کر دی انکی وقف کی درخواست میں نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی خدمت میں اس رائے کیسا تھ جھوادی کہ وہ یقیناً ایک سود مند مبلغ ثابت ہو نگے میں نے مسٹر آرچرڈ سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ اب قیام کریں اور اسلام کا مطالعہ شروع کر دیں دریں اثناء حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ نے آپ کا وقف منظور فرمالیا اور مسٹر آرچرڈ نے دوسرے مبلغین کے ساتھ ملکر اسلامی تبلیغ وخدمت کا کام شروع کر دیا آپنے اپنی ساری خدمات خلوص دل سے پیش کیں اور یقیناً

Page 154

۱۵۱ انکو اس معاملہ میں کامیابی سے نوازا گزشتہ دسمبر کے مہینہ میں جب ان سے کہا گیا کہ وہ اعلیٰ دینی تعلیم کیلئے قادیان جائیں تو انہوں نے اس موقعہ کو خلوص دل سے خوش آمدید کہا اور نہایت بعاشت کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے قادیان تشریف لے آئے ایک سچا مو من خدا کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ کر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتا ہے حضرت نبی کریم ہے نے آج سے ۳۶۰ ۱ سال قبل پیش گوئی فرمائی کہ مسیح موعود کے دور میں مغرب میں اسلام کی تبلیغ بہت زور سے ہو گی یہ وہ دور ہو گا جب مغرب مادیت میں بری طرح ڈوب چکا ہو گا اور دنیوی ترقی میں پورے عروج پر ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں پہلی بار مندرجہ ذیل پیش گوئی کے صحیح معنی بیان فرمائے طلوع الشمس من المغرب يعنى سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا ۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی کے دو سال بعد اپنی کتاب ازالہ اوہام میں فرمایا کہ نبی کریم ے کی یہ پیش گوئی کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گا اسکا مطلب یہ ہے کہ مغربی ممالک جو الحاد اور کفر کے تاریک سایہ میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ صداقت کے سورج کی روشنی سے منور کئے جائیں گے اور اسلام کی برکات سے فیض یاب کئے جائیں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپکو لندن میں ایک منبر پر تبلیغ کرتے اور اسلام کے محاسن بیان کرتے ہوئے دیکھتے ہیں.خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سفید رنگ کے پرندے پکڑے جو درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اس خواب کی تعبیر آپنے یہ فرمائی کہ اگر چہ آپ بذات خود لندن نہیں جا سکیں گے مگر آپکی تعلیم کا وہاں بہت چرچا ہو گا اور بہت سے نیک انگریز صداقت کو قبول کر لیں گے یہ خواب یا کشف ان تمام انگریزوں پر سچا ثابت ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے ہیں ہر وہ نیک انگریز جو احمدیت کے دامن میں داخل ہوتا ہے یقیناً وہ ایک سفید پرندہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالٰی نے دکھلائے تھے اس لئے مسٹر آرچرڈ کو جاطور پر خوش ہونا چاہئے اور خدا کا مشکور ہونا چاہئے کہ خدا نے اپنی برکات کا نزول ان پر فرمایا اگر کسی کا نام بادشاہ کو یاد ہو تو اس شخص کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی ہے اور پھر وہ شخص کیوں نہ خوشی سے اچھلے گا جسکا ذکر شہنشاہوں کے شہنشاہ زمین و آسمان کے مالک نے خود کیا ہو وہ لوگ یقیناً بہت خوش نصیب ہیں جو حضرت صحیح موعود علیہ السلام کو دکھلائے گئے اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں کے دل تمام کدورتوں سے صاف کئے جائیں گے اور اسکے انفاس روحانیت میں ایک عظیم مقام رکھتے ہوں گے وہ صداقت کو قبول کر کے مطمئن نہ ہوں گے بلکہ وہ پرندوں کی طرح پرواز کریں گے اور جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے انکا پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچایا تھا ای طرح اس صحیح کے حواری اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچائیں گے یہ بات یہاں غور کے لائق ہے کہ جس طرح عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کو استعارہ پرندے کہا گیا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام نے انکو اپنی صداقت کے ثبوت کے طور

Page 155

۱۵۲ پر پیش کیا تھا جیسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑہتے ہیں کہ وہ حواری جو مادی طور پر دنیوی خواہشات کے غلام تھے وہ روحانی دنیا میں صداقت قبول کر کے پرندوں کی طرح اونچی پرواز کرنے لگے انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور حضرت عیسی نے جو کچھ انکو کہا انہوں نے پرندوں کی طرح اسکے احکام کی تعمیل کی حضرت عیسی نے اپنے حواریوں سے کہا کہ وہ اپنی زندگی کاذرہ بھر بھی نہ سوچیں نہ یہ کہ وہ کیا کھا ئیں گے کیا بھی گے.نہ اپنے جسم کا فکر کریں نہ یہ کہ وہ کیا زیب تن کر یں گے ہوا کے پرندوں کو ذرادیکھو جو نہ لگاتے ہیں نہ کاٹتے ہیں اور نہ ہی کھلیان جمع کرتے ہیں اسکے باوجود کائنات کا پالنے والا انکو رزق مہیا کرتا ہے کیا تم انسان ان پرندوں سے افضل نہیں ؟ بعنیہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نیک انگریزوں کو اپنے پیرو کاروں کی صورت میں دکھلایا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ انگریز بھی اپنی زندگیاں وقف کر کے اسلام کے مبلغ بن جائیں گے تا یہ اسلام کا ازلی پیغام دوسری قوموں تک پہنچا سکیں.مسٹر آرچرڈ جنہوں نے اپنی زندگی اسلام کی خدمت کیلئے وقف کر دی ہے یقینا ان خوش نصیب پرندوں میں سے ہیں جعو خوش ہونا چاہئے اور ہم انکو انکے اس مرتبہ پر مبار کہار دیتے ہیں اور خلوص دل سے خوش آمدید کہتے ہیں.آخر پر میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ سے درخواست کرونگا کہ وہ مسٹر آرچرڈ کے صبر استقلال اور جس نصب العین کیلئے وہ یہاں آئے ہیں اسمیں کامیابی کیلئے دعا فرمائیں آرچرڈ صاحب کا جواب کے میں اپنی تقریر کا آغاز خدواند کریم کے شکر سے کرتا ہوں جس نے مجھے احمد بیت کا سچار استہ دکھلایا اور جس نے مجھے اسلام کی خدمت کی توفیق دی میں تحریک جدید کے ممبران کا شکریہ اد کرتا ہوں جنہوں نے میرے لئے اس دعوت کا اہتمام کیا نیز میں حضرت امیر المؤمنین کا مشکور ہوں جنہوں نے اس دعوت میں منفس نفیس تشریف لا کر ہماری عزت افزائی کی ہے جب میں پہلی بار قادیان آیا تو میں نے صرف دو روز قیام کیا تھا اور اس مختصر عرصہ میں میں نے بہت سے دوستوں سے گفتگو کی تھی جنکے مانوس چہرے آج شام اس دعوت میں میرے ارد گرد مجھے بیٹھے نظر آرہے ہیں جب میں یہاں سے الوداع ہوا تو رخصت ہونے سے قبل میں نے کہا تھا کہ میرے نظریات ابھی بھی وہی ہیں جو یہاں آنے سے قبل تھے جب ٹرین قادیان سے چند میل دور جا چکی تو میں نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا اس بارہ میں بے اختیار سوچنا شروع کیا اور میں نے آپکی ہو ردی- صبر - التفات اور مہربانی کو دل کی گہرائیوں سے سراہنا شروع کیا جب گاڑی امر تسر پہنچی تو میں ابھی تک قادیان میں پیش آنیوالے تجربہ کے خیالات میں ڈوبا ہوا تھا

Page 156

۱۵۳ اس زیارت کے بعد میں نے اپنی ساری زندگی یہ اپنا شعار بنا لیا کہ جب کسی بڑے شہر میں جاتا تو مقامی احباب سے ضرور ملاقات کرتا اور میرے تجربہ میں یہ آیا کہ ہر وہ شہر جس میں میں نے جماعت کے احباب سے ملاقات کی انہوں نے میر ابدی گرمجوشی سے استقبال کیا بلآخر میں نے احمدیت قبول کرلی اسکے بعد میں نے ایک سال لندن جماعت کے ساتھ گزارا اور میں وہاں بھی اس پر اور انہ پیار اور والہانہ شفقت کو اپنے دوسرے مبلغین سے پاتا ہوں جماعت احمدیہ کے مختلف ممبران کے درمیان جو بر اور نہ شفقت کا رشتہ پایا جاتا ہے وہی احمدیت کی صداقت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے اگر احمدیت کچی نہ ہوتی تو اسکے ممبران کے درمیان یہ مضبوط رشتہ موجود نہ ہوتا ایسا مضبوط رشتہ کسی اور مذہب کے پیروکاروں میں نہیں ملتا ہے اس صداقت کو سمجھنے کیلئے کسی شخص کا سکالر ہونا ضروری نہیں ہے جب حضرت عیسی علیہ السلام اپنے پیروکاروں سے اپنی دوسری بعثت کے بارہ میں مخاطب ہوتے تھے تو اسکا وہ ایک صاف اور سادہ نشان بیان کرتے تا اس سے اس بات کا ثبوت مل سکے کہ یہ پیش گوئی کب پوری ہوگی حضرت عیسی علیہ السلام نے جھوٹے دعویداروں کے بارہ میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے پھل سے پہچانے جا ئیں گے.میں ایک بار پھر یہ بات دہراتا ہوں کہ دوسروں کو احمدیت کی صداقت سمجھانے کیلئے ایک شخص کا سکالر ہونا ضروری نہیں ہے ہم اپنی عملی زندگی سے دوسروں کو احمدیت کی طرف کھینچ سکتے ہیں اور یہی وہ آپ لوگوں کا عمل تھا جس نے مجھے احمدیت کی طرف مائل کیا آپ لوگوں نے جو مثالی نمونہ پیش کیا اس نے میرے نفس پر بہت اثر کیا اب میں آپ تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے لئے دعا فرمائیں کہ خدا کی مشیت کے مطابق میں اپنے فرائض کو پوری وفاداری کے ساتھ ادا کر سکوں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا خطاب امام جماعت احمدیہ قادیان حضرت خلیفتہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : چونکہ مسٹر بشیر احمد آرچر ڈار دو زبان سے نابلد ہیں اسلئے میں اپنے خیالات کا اظہار انگریزی میں کرونگا تاوہ جو باتیں میں کہتا چاہتا ہوں انکو پوری طرح سمجھ سکیں ایک زمانہ تھا جب عیسائیت کے پیروکاروں نے عیسائیت کے اصولوں پر پوری طرح عمل کیا اور اسکے ساتھ دنیوی اموال میں بھی انکو بہت وافر حصہ ملا مگر کچھ عرصہ بعد انہوں نے عیسی علیہ السلام کی تعلیم کو فراموش کر دیا اور مادیت کے مکمل طور پر غلام ہو گئے اور دنیوی امور میں انکی توجہ بلکل مرکوز ہو گئی وقتا فوقتا انکے ذہن میں ایک طاقتور خدا کا خیال جنم لیتا مگر اس خیال کا انکی زندگیوں پر پورا اثر نہیں تھا.دوبارہ وہ دنیوی امور میں غرقاب ہو گئے اسکے بعد خدا نے یہ ضروری جانا کہ انکی ہدایت کیلئے ایک نبی مبعوث کرے اسکے بر عکس مسلمان بھی اس چیز کے سزاوار ہوئے وہ اپنے مذہب

Page 157

۱۵۴ سے بیگانہ ہو گئے انکے درمیان فرقے پیدا ہو گئے اور انہوں نے اپنے مذہب کی تعلیمات کو فراموش کر دیا مسلمانوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے کیلئے ایک نبی کی ضرورت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک ایسے ہی نبی اللہ تھے مسٹر آرچرڈ.آپ پہلے آدمی ہیں جس نے برٹش قوم میں سے اس نبی کو تسلیم کیا ہے اور پہلے خوش قسمت انسان ہیں جس نے اپنی زندگی اس نبی کے لائے ہوئے مذہب کی خدمت میں وقف کی ہے ہم خداند کریم سے ملتجی ہیں کہ وہ آپ کو صبر و استقلال سے نوازے اور اسلام کیلئے آپکے جذبہ اور خلوص میں زیادتی پیدا کرے وہ مقصد بہت ہی نیک اور عظیم ہے جس کیلئے آپ کھڑے ہوئے ہیں اس وقت آپ کے ملک کے لوگ آپ کو نہیں جانتے چہ جائیکہ دنیا آپکو جانے کہ آپ کون ہیں مگر وہ وقت نزدیک ہے جب روئے زمین پر خدا کے نام کا بول بالا ہو گا اور دنیا میں یہاں وہاں ہر جمعہ احمدیت کا چہچا ہو گا پھر ایک وقت آئیگا جب آپکے وطن کے لوگ تاریخ کے صفحات میں پڑھیں گے کہ احمدیت کے لوائل زمانہ میں ایک انگریز بھی تھا جس نے احمدیت قبول کی تھی جب وہ جائیں گے کہ ایک شخص بشیر احمد آرچرڈ نامی تھا جس نے احمدیت قبول کی تو وہ پھر مطمئن ہو جائیں گے کہ انگریز قوم نے اپنا حق پورے طور پر ادا کیا.اس وقت آپ ایک نامعلوم انسان ہیں آپکا کر کسی نے نہیں سنا مگر وہ وقت آتا ہے جب قومیں آپکے بارہ میں ذکر کر کے فخر محسوس کریں گی.اور آپکی تعریف کے گن گائیں گی اسلئے جو کچھ آپ کہیں اور جو کچھ آپ کریں اسمیں بہت احتیاط سے کام لیں یہ مت سوچیں کہ آپکی حرکات و افعال ذاتی ہیں نہیں وہ تو پوری انگریز قوم کا پر تو ہیں بعد میں آنوالی نسلیں آپکی حرکات پر نقش ہر ہوں گی اور آپکے معمولی افعال پر وہ ممکن حد تک عمل کریں گی کیا آپ نے دیکھا کہ حضرت عیسی کے حواریوں کو پوری انگریز قوم عزت و تکریم کا مقام دیتی ہے اور اسکے نقش قدم پر چل کر فخر محسوس کرتے ہیں بعینہ رسول کریم ﷺ کے اصحاب کی بھی مسلمان بہت عزت کرتے ہیں اور انکے نقش قدم پر چلنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں اگر آپکی حرکات اور اعمال اسلام کے مطابق ہوئے یعنی وہ نیک اور اعلیٰ و بلند ہوئے تو وہ یقیناً آپکی قوم کے اخلاقی کردار کو بڑھانے میں محمد ہو نگے اور اگر وہ اسلام سے مطابقت نہ رکھتے ہوئے کم تر ہوئے تو آپکی قوم اسکے نتیجے میں خسارے میں ہوگی اسلئے آپ آنیوالی نسلوں کیلئے اچھا نمونہ چھوڑیں ورنہ خدا آپ کی جعبہ ایک اور انسان کو اس مقصد کی تکمیل کیلئے پیدا کر دیگا جب احمدیت پوری دنیا میں پھیل جائیگی اور یقیناً پھیل جائیگی تو دنیا کی کوئی طاقت اسکی ترقی کو نہیں روک سکے گی تو پھر لوگوں کے دلوں میں آپکی عزت ہوگی جتنی کہ لوگ کسی عظیم الشان وزیر اعظم کی کرتے ہیں آخر پر میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ پورے خلوص اور نیکدلی سے کام کریں آنیوالوں کیلئے ایک نمونہ قائم کریں.میں خدا سے اسکے رحم اور آپ پر برکات کیلئے خاص دعا کرتا ہوں.خدا کرے وہ کام جسکا اپنے یہاں آغاز کیا ہے اس کا خاتمه بالخير ہو آمین **

Page 158

۱۵۵ لکھتے رہے جنوں میں ہے بغیر احمد آرچرڈ کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ جماعت احمد یہ عالمگیر کے سب سے پہلے انگریز مبلغ اسلام اور پہلے یورو چین واقف زندگی ہیں.آپکے وقف کا عرصہ ۵۲ سال پر محیط ہے جس میں سے آپ نے ۱۸ سال انگلینڈ میں ۲۰ سال سکاٹ لینڈ میں اور ۱۴ سال ویسٹ انڈیز کے مختلف ممالک ٹرینیڈاڈ.گیانا.اتنی گوا اور گریناڈا میں گزارے.دو سال قبل آپ ریٹائر ہوئے ہیں آرچرڈ صاحب کی پیدائش ۲۶.اپریل ۱۹۲۰ء کو انگلستان کے جنوبی علاقہ کے قصبہ ٹور کی میں ہوئی آپکے والد ڈاکٹر تھے اور والدہ نرس تھیں آپ تین بھائی تھے سب سے بڑا بھائی دوسری عالمگیر جنگ میں بحری جہاز کے ڈونے سے رحلت کر گیا جبکہ اس سے چھوٹا بھائی فادر بال آرچرڈ جو Warley - W.Midland میں رومن کیتھولک پادری تھا وہ اخبار ڈیلی گراف -۱۲.فروری ۲۰۰۰ صفحہ ۱۰ کی رپورٹ کے مطابق اپنے چرچ کے اندر ستمبر ۱۹۹۸ میں قتل کر دیا گیا بوقت وفات اسکی عمر ۸۰ سال تھی.ایک بھائی عیسائیت کا مبلغ اور ایک مبلغ اسلام آرچہ ڈ صاحب کے قبول اسلام کے بعد انکی زندگی میں جو تغییر رونما ہوا اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف مال چنداں خوشی اور قناعت نہیں دے سکتا امن اور سکون خشنا خدا تعالی کے ہاتھ میں ہے اور میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کے آج مجھے وہ ذہنی اطمینان اور سکون قلب میسر ہے جو ایک زمانہ میں میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا.احمدیت کے طفیل ایک اور تغیر جو میری زندگی میں رونما ہوا وہ نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی ہے خدا تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے : ذکر الہی سے قلوب طمانیت حاصل کر سکتے ہیں (۲۹ : ۱۳) میں ابھی اس میدان میں مبتدی ہوں لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور ملفوظات سے بہت کچھ پایا ہے مجھے اس بات پر سخت تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان کہلانے والا ایک شخص جو خود کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہو وہ خدا تعالی کے اس حکم کی نافرمانی کیونکر کر سکتا ہے اور فرض نمازوں کی ادائیگی سے کیسے غافل رہ سکتا ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ جب میں اسلام لانے کے بعد قادیان گیا تھا میں نے مسجد مبارک کے باہر نوٹس بورڈ پر حضرت خلیفہ السیح الثانی کا یہ ارشاد پڑھا کہ جس شخص نے گذشتہ دس برسوں میں ایک نماز بھی عمد ا چھوڑی وہ سچا احمدی نہیں کہلا سکتا ( عظیم زندگی صفحہ ۱۰) آرچہ ڈ صاحب کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستین اس کتاب میں پیش کی گئی ہے آپ نہ صرف ایک کامیاب

Page 159

۱۵۶ مبلغ ایک مشفق باپ دلنشین مقرر بلکہ ایک منجھے ہوئے ادیب اور صاحب قلم بھی ہیں آپ کی تحریر کا انداز اچھوتا ہوتا ہے بلکہ جن مضامین پر آپ خامہ فرسائی فرماتے ہیں وہ بھی منفرد ہوتے ہیں جو بات آپ کہتے وہ ذاتی تجربہ - تحدی اور وثوق سے کہتے ہیں.ایک لمبے عرصہ تک آپکے اعلی پایہ مضامین لندن سے شائع ہو نیوالے رسالہ مسلم ہیرالڈ میں شائع ہوتے رہے پھر ریویو آف ریلیز کے ایڈیٹر بھی رہے کتاب ہذا کے اکثر مضامین آپنے ریویو کیلئے گائیڈ پوسٹس کے عنوان سے لکھے تھے.گائیڈ پوسٹس سے پہلے آپ کے مضامین کا مجموعہ لائف سپریم کے عنوان انگلش میں شائع ہوا تھا جسکا اردو میں ترجمہ عظیم زندگی کے نام سے ۱۹۸۹ء میں خاکسار نے شائع کیا اور اگلے سال اسکادوسرا ایڈیشن بھارت سے منصہ شہود پر آیا عظیم زندگی نے اردو دان طبقہ میں جو مقبولیت حاصل کی اسکی حالت یہ ہے کہ دس سال سے زیادہ عرصہ ہو لیئے باوجود قارئین اس کتاب کا ابھی تک مطالبہ کرتے ہیں عظیم زندگی میں پیش کئے گئے مضامین سے نہ صرف میں نے باکہ میرے بچوں اور سینکڑوں احباب جماعت نے اپنی زندگیاں سنواری ہیں.کئی ایک احباب نے تو یہ کہا کہ یوں لگتا ہے کہ اصل کتاب اردو میں ہے ۱۹۹۳ء کے جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ برطانیہ پر آپ نے جو تقریر کی اسکا عنوان بہت دلچسپ تھا..Divine Communion Through Prayer آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا.ہر مخلص ایمان دار شخص خدا سے مکالمہ و مخاطبہ کا خواہش مند ہوتا ہے وہ خدا پر محض یقین سے مطمئن نہیں ہوتا وہ خدا کو اپنے وجود میں محسوس کرنا چاہتا ہے جسطرح سورج کی تمازت کا لطف دھوپ میں بیٹھ کر آتا ہے اسی طرح مومن خدا کے وجود کو اپنے نفس کے اندر محسوس کرنا چاہتا ہے خدا سے تعلق اور اس سے کلام کرنیکا صرف اور صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ ہے دعا جس طرح ماں کے رحم کے اندریچہ ناف کی نالی سے غذا حاصل کرتا ہے.یعینیہ ایک مومن روحانی غذادعا کے ذریعہ حاصل کرتا ہے کامیاب اور ثمر آور دعا کے آرٹ کو جاننے کیلئے مومن کو پوری طرح متوجہ ہونا چاہئے ایسا مومن جو خدا سے کلام کرنیکا ہر ممکن صورت میں خواہش مند ہوتا ہے (ریویو آف ریلجز.اکتوبر ۱۹۹۳) زمانہ طفولیت سے ہی میں آپ کے نام سے واقف تھا یا کہ ربوہ میں تو ہر چہ.بوڑھا آپ کے نام سے واقف تھا میری آپ سے پہلی ملاقات لندن کے ۱۹۸۵ء کے جلسہ سالانہ پر ہوئی.سر پر جناح کیپ سفید ریش.کوٹ اور ٹائی لگائے آپکی شخصیت نہ صرف پر جاذب بلکہ آپ کی ہلکی نرم زبان میں گفتگو بھی انسان کو قائل کر لیتی ہے ۱۹۹۷ء میں آپ ٹورنٹو.کینڈا تشریف لائے تو میرے غریب خانہ پر بھی آئے اور شام کا کھانا انا وہ سے واپسی پر سکول فرمایا آپنے پاکستانی کھانا بہت شوق سے کھا یا میٹھے میں آپ نے رس ملائی پسند فرمائی.میں نے دیکھا کہ آپ رک رک کر.سوچ کر بڑے متحمل سے گفتگو کرتے تھے.طبیعت میں جنتی سکون.چھوٹے چھوٹے قدم لیکر چلتے.ستر سال کی عمر کے باوجود آپ سیدھے چلتے تھے گویا کمر میں پیرانہ سالی کا کوئی غم نہ تھا.آپ نے مسکرا کر مجھ سے استفسار کیا کہ یہاں کینڈا میں ہر کوئی میری

Page 160

۱۵۷ کتاب عظیم زندگی سے واقف ہے اسکی کیا وجہ ہے جب میں نے جوابا کہا کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں آپکا سب سے بڑا پروموٹر اور سیلز مین جناب عبد الرحمن دہلوی صاحب ہیں تو آپ بہت محظوظ ہوئے.نماز کی ادائیگی کے بعد آپ نے کتاب لائف سپریم پر میرے نام یہ پیغام تحریر فرمایا.May Allah reward you for your services to Islam and the Urdu translation of this book.Bashir Ahmad Orchard 17.9.97 اگلے سال آپ سے ملاقات امریکہ کے پچاسویں جلسہ سالانہ پر واشنگٹن میں جون ۹۸ء میں ہوئی جب میں نے عرض کیا کہ میں کتاب گائیڈ پوسٹس کا ترجمہ کر رہا ہوں تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا.پھر جولائی ۱۹۹۹ میں آپ سے ملاقات بر طانیہ کے جلسہ سالانہ پر ہوئی.جب میں نے آپ کو بتلایا کہ ترجمہ مکمل ہو چکا ہے صرف اصل اردو حوالہ جات کے تلاش کرنے میں مشکل ہے تو آپ نے معذرت پیش کی اور فرمایا کہ یہ مضامین بہت عرصہ قبل لکھے تھے اور مختلف رسالوں سے حوالے لئے تھے اس لئے وہ اس معاملہ میں زیادہ مدد نہیں کر سکتے میں نے اس ماہ جب آپکو خط کے ذریعہ کچھ سوالات پوچھے تو آپ نے جوابا لکھا کہ میں ان کے جوابات دینے کا زیاده خواہش مند نہیں ہوں.اس کتاب میں شامل تصاویر آپنے مرحمت فرمائیں مگر ساتھ یہ بھی لکھا کہ میں تصویر اتر دوانیکا زیادہ متمنی نہیں ہوتا اور نہ ہی میں اسکی زیادہ پرواہ کرتا ہوں آرچرڈ صاحب اس وقت لندن میں مقیم ہیں اور زیادہ وقت اپنی اہلیہ کی تیمار داری میں گزارتے ہیں اللہ کریم انکی اہلیہ صاحبہ کو مکمل شفا عطا فرمائے آمین.اسکے ساتھ ساتھ آپ احمد یہ ٹیلی ویژن پر بھی چوں کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں یہ پروگرام بہت دلچسپ ہوتے ہیں.مطالعہ کتب کے آپ بہت رسیا ہیں مذہب اسلام سے آپکا تعارف اسلامی اصول کی فلاسفی سے ہوا تھا اور اب تک آپ اسکا مطالعہ تقریبا ۵۰ مرتبہ کر چکے ہیں واقعی آپ روشنی کا مینار ہیں مجھے امید ہے کہ قارئین اس کتاب کو مفید پائیں گے اللہ کریم ہم سب کو سیدھے راستہ پر ہمیشہ گامزن رکھے جن دوستوں نے اس کتاب کی اشاعت میں کسی طرح بھی تعاون فرمایا میں انکا نہ دل سے ممنون احسان ہوں بلخصوص اپنی بیٹر ہان کا جب وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی تھیں مگر مجھے کمپیوٹر کے سامنے محو خیال دیکھ کر خموش رہیں تا کہیں میرے خیالات کی ٹرین پڑی سے نہ اتر جائے.آئیے ہم سب اس کتاب میں بیان کردہ مضامین اور پند و نصائح کو مشعل راہ بنا کر اپنی زندگیوں کو دونوں جہانوں کیلئے سنوار ہیں.ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار محمد زکریا وری کی.عفی عنہ کنکش کنیدال فروری ۰۲۰۰۰

Page 161

۱۹۳۷ء میں مصر کے ملک میں لی گئی یاد گار تصویر.آرچرڈ صاحب مرکزی قطار میں دائیں طرف سے پہلے نمبر پر کھڑے ہیں

Page 162

آرچرڈ صاحب سورینام کے وزیر اعظم کو ۱۹۶۲ء میں قرآن پاک کا تحفہ پیش کر رہے ہیں

Page 163

نوجوان سپاہی.۱۹۳۷ء.آرچرڈ صاحب درمیان میں کھڑے ہیں آرچرڈ - آفیسر کیڈٹ ۱۹۴۲ء.تصویر انڈیا میں لی گئی

Page 164

PROOF PRINT 115 BY PA CHRISTIE آرچرڈ صاحب.حضرت خلیفہ اللہ الثالث سے بر طانیہ میں ملاقات کرتے ہوئے.۱۹۶۷ء

Page 165

آرچرڈ صاحب اور عبد الرحمن صاحب دہلوی.ربوہ پاکستان.بتاریخ ۲۰ جنوری ۱۹۷۹ء

Page 166

۱۹۶۷ میں حضرت خلیفۃ السیح الثالث کی بر طا نیہ آمد پر ملاقات کا ایک منظر C&m GLAZIERS & GLA گلاسکو سکاٹ لینڈ کے ایک بازار میں اوپ ائیر پر سچنگ کے موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے ۱۹۶۷ء

Page 167

آرچرڈ صاحب میں دوسری جنگ عظیم کے میڈل پہنے ہوئے.ہاتھ میں لائف سپریم کی کاپی

Page 168

آرچرڈ صاحب دلربا پھولوں سے لدے ہوئے ایک پارک میں کھڑے ہیں.لندن

Page 169

آرچر ڈ صاحب اپنے سب سے چھوٹے بیٹے عزیزم نثار کے ساتھ

Page 170

آرچرڈ صاحب کے دوسری جنگ عظیم کے میڈل

Page 171

جماعت ہائے امریکہ کے ۵۰ ویں جلسہ سالانہ پرواشنگٹن میں لی گئی تصویر.۱۹۹۸ دائیں طرف سے محمد زکر یا ورک بشیر احمد صاحب آچرڈ.اور بٹ صاحب تصویر عبد الحئی صاحب بھارت نے لی

Page 172

Page 173

Name: Guldastae Khayal English Title: Guide Posts, 1998 UK.Author: Bashir Ahmad Orchard, England Translated by Zakaria Virk, Kingston Revised by: Abdur Rahman Sahib Dehlvi.ISBN # : Publisher's Address: 1-895194-02-04 A.R.Dehlvi.101 Picola Court, North York, Ontario, Canada M2H 2N2 Tel: 416-756-4292 : 613-544-2397 Published: March 2000, Toronto, Canada.

Page 173