Language: UR
گلدسته دس سال سے تیرہ سال تک کی عمر کے بچوں کا نصاب
اپنی اولاد کی ایسے رنگ میں تربیت کرو کہ یہ تین خوبیاں بطور عادت و خصلت کے ان میں راسخ ہو جائیں :.اپنے نبی کی محبت -- نبی کے اہل کی محبت.قرآن کریم کا پڑھنا.کیونکہ قرآن کریم کے حاملین اللہ تعالیٰ کے انبیاء واصفیاء کے ساتھ اُس روز اللہ تعالیٰ کے سانے کے نیچے ہوں گے جس روز اُس کے سایہ کے سوا کہیں بھی سایہ نہ ہو گا.حدیث مبارکہ ر الجامع الصغير للسيوطى جزو اول صفحه ۱۳) انسان کا دل خدا تعالیٰ نے صاف بنایا ہے پھر وہ دنیا میں آکر نیکی کرتا ہے یا بدی کرتا ہے.جب وہ نیکی کرتا ہے تو ایک سفید نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے اور جب کوئی بدی کرتا ہے تو ایک سیاہ نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے.پھر جوں جوں وہ نیکیاں یا بدیاں کرتا چلا جاتا ہے ان سفید یا سیاہ نقطوں کی تعداد بڑھنی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ایک دن اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے یا سارا دل سفید ہو جاتا ہے.اگر انس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے تو وہ بدی سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اگر اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے تو وہ نیکی سے محروم ہو جاتا (حدیث مبارکہ) ہے.
گلدسته دس سال سے تیرہ سال تک کی عمر کے بچوں کا نصاب امتہ الباری ناصر بیشتری داؤد
بِسْمِ اللهِ الرَّجُنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ لجنہ اماء الله نے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر ننھے بچوں کے لئے نصاب تیار کرنے کا پروگرام بنایا تھا.الحمد للہ اس سلسلہ کی تین کتب کو نسپل ، فنچہ اور گل منظر عام پر آچکی ہیں.اب چوتھی کتاب دس سے تیرہ سال کے بچوں کے لئے گلدستہ کے نام سے تیار ہوئی ہے.حقیقت میں یہ کتاب گل ہائے رنگا رنگ کا مجموعہ ہے گلاب کی خوشبو اس میں اس طرح شامل ہے کہ اللہ تعالے کے کلام پاک کا پاره السعر نصف آخر، حضرت میر محمد اسحاق ( اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو) کے ترجمہ کے ساتھ شامل کیا گیا ہے.سیرت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم (سوال و جواب کی صورت میں).سیرت خلفائے راشدین رضی اللہ تعالے عنہم کے علاوہ چند تربیتی مضامین سے مزین ہے.
اس کتاب کی تیاری میں سیکرٹری شعبہ اشاعت محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ اور سیکرٹری اصلاح دار شاد محترمہ بشری داؤد صاحبہ کی بھر پور کوشش شامل حال ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزا ہائے خیر سے نوازے.کان الله معهما - خدا کرے مجاہد مائیں ان کتب سے فائدہ اٹھا کر بچوں کی احسن رنگ میں تربیت کریں.اور حضور انور خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے نعرہ پیچھے احمدی کی ماں زندہ باد کی حقیقی حقدار قرار پائیں.قارئین کرام آپ کے ہاتھوں میں موجود کتاب کی ایک مرتبہ محترمہ بشری داؤد صاحبہ ۲۰ جولائی ۹۹۳ار کو وفات پا گئی ہیں.آپ سے درخواست ہے کہ مرحومہ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.خدا تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے.آمین اللهم آمین.
فہرست مضامین ا توحید (اسمائے الہی) رسالت (یکی زندگی) A Y قرآن مجید پہلا پارہ مکمل ترجمہ مضمون آخری پارے کی آخری دس سورتیں (برائے حفظ) معلومات قرآن پاک دعائیں احادیث (۱۰- احادیث مع ترجمہ) نماز ( یا ترجمه مکمل) دعائے قنوت (برائے حفظ) نماز کے مسائل نماز عید تاریخ اسلام حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ صفحہ نمبر ۱۳ ۲۸ ۳۱ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۸ DA 4.스트
49 AO AL AA 49 9.91 ١٠٠ 116 #19 تاریخ احمدیت قدرت ثانیہ (ایک تعارف) نظام جماعت (ایک تعارف) عهد نامه ناصرات الاحمدیہ و اطفال الاحمدیہ الہامات حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کتب حضرت مسیح موعود کے نام قصیدے کے تین اشعار با ترجمہ (برائے حفظ) اختلافی مسائل آیت خاتم النبیین کا صحیح مفہوم و اجرائے نبوت وفات مسیح نظمیں آداب ہمارا المناس ہم سالگرہ کیسے منائیں A q 1.۱۲ ۱۳ ۱۴
.توحید اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس نے نہیں اور سارے جہان کو پیدا کیا ہے.وہی سب کو پاتا ہے.وہی سب کو زندہ رکھتا ہے.وہی ہم کو موت دے کہ اگلے جہان لے جائے گا.جہاں نیکوں کو جنت میں داخل کرے گا اور بڑوں کو دو رخ میں وہی ہمارا محافظ ہے.اور وہی ہمارا مہربان.سب مخلوقات پر رحم کرتا ہے.ہر ایک چیز سے واقف اور خبردار ہے.ہماری دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہے سب کچھ ہی وہ کرتا ہے بارشیں وہی یہ ساتا ہے.زمین میں اناج اور چارہ وہی پیدا کرتا ہے.درختوں کو وہی پھل لگاتا ہے.جانوروں کو ہمارے لئے دودھ دینے کے لئے اُسی نے پیدا کیا ہے.سورج بھی اُسی کی مخلوق ہے.چاند ستارے، ہوا پانی اور زمین بھی.وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے.ہر آواز کو سنتا ہے.ہر بات کو خواہ وہ کیسی ہی چھپی یا دل کے اندر ہو جاتا ہے.اچھے کاموں سے راضی ہوتا ہے اور بڑے کاموں سے ناراض.دن رات کو بھی اُسی نے بنایا ہے.سردی گرمی اندھیرے اجالے کو بھی اُسی نے پیدا کیا ہے.اُس کا کوئی شریک نہیں وہ ایک ہے.نہ اس کی بیوی ہے.نہ بچہ ، نہ ماں ہے.نہ باپ ہمیشہ سے.ہے اور ہمیشہ رہے گا.کوئی اس کے برابر یا اس جیسا نہیں سب کا سہارا رہی ہے.نہ سوتا ہے.نہ اونگھتا ہے.نہ غافل ہوتا ہے.ن بھولتا ہے.نہ بیمار اور کمزور اور بوڑھا ہوتا ہے.ہر کمزوری عیب اور نقص سے پاک ہے کیسی پر ظلم نہیں کرتا.اپنے نیک بندوں سے کلام کرتا ہے.رحم کرنا اس کی عادت ہے.بیڑا
A محبت کرنے والا ، بیڑا نرم مزاج ، ہدایت دینے والا.سب حاکموں کا حکم ہے وہ دنیا کی ہدایت کے لئے پہلے بھی رسول بھیجتا رہا اور آئندہ بھی بھیجے گا.وہ نبر وقت ہمارے ساتھ ہے.اور اس کی ہر روز ایک نئی شان ہے.کوئی اس سے نہیں کہ سکتا.کہ تو نے ایسا کیوں کیا اور ایسا کیوں نہ کیا.وہ ہر کام تدبیر وحکمت سے کرتا ہے.اور سب پر غالب ہے.ر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو) الغفارُ: بخشنے والا.بیسوں کو چھپانے والا.انسان کو مینی دوسروں کے عیب چھپانے چاہئیں اور اُن کے قصور معاف کرنے چاہئیں.الوهاب بہت دینے والا.بلا معاوضہ دینے والا.خدا تعالیٰ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں اگر ساری دنیا کے ہر انسان کی ساری خواہشیں پوری کر دے تو سبھی اُس کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی سمندر میں سوئی ڈیو کر نکالنے سے پانی میں آتی ہے.اُسی سے طلب کرنا چاہیئے.الرزاق روزی دینے والا مخلوق تک روزی پہنچانے والا.دونوں طرح کی وردی جسمانی بھی.اور روحانی بھی.یہ صفات دائمی ہیں.ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی وہ مخلوقات کو رزق دے کبھی دینے کے قابل نہ رہے یہ جانی رزق دے اور کبھی دینے کے قابل نٹ ہے.العلیم یہ جاننے والا.ظاہری باتوں کو بھی جاننے والا اور دل میں چھپی باتوں کو بھی جانے والا.بندوں کو رب زدني علما دُعا کرنے کو کہا.اور علم حاصل کرنا فرض قرار دیا.دنیا کا ہر علم سائنس میکنا لوجی وغیرہ مل کر بھی چیزوں کی حقیقت معلوم نہیں کر سکے وہ خدا سب جانتا ہے.
البصير دیکھنے والا.اس کی آنکھیں نہیں.نہ وہ کسی مادی واسطے کا محتاج ہے.وہ ہر بات ، ہر کام ہر خیال دیکھ سکتا ہے.ہر وقت نگران ہے.اس لئے کیسی بھی تنہائی ہو خدا کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہیے.پولیس کے گن مین سے بہت زیادہ خدا سے ڈرنا چاہیئے.اس طرح بچوں کو چوری وغیرہ سے ڈرانا چاہیے.اس لئے کہ خدا ہر حالت میں دیکھ رہا ہوتا ہے.الحكم فیصلہ کرنے والا کون سے کام بھلا ہے اور کون سائیرا ہے.اس کا فیصلہ خدا کرتا ہے.اور انصاف کے ساتھ کرتا ہے.ایک ذرہ نیکی یا ایک ذرہ بدی.اس کی نظر سے اوجھل نہیں.انسان بھی جس حد تک اُس کو حاکم بنایا گیا ہے.انصاف سے کام لے جیسے باپ گھر میں.استاد سکول میں ، حاکم ملک میں انصاف کرے.السور قدر کرنے والا تھوڑے عمل پر زیادہ ثواب دینے والا.نیت کی صفائی.اور دل کی پاکی کا لحاظ رکھنے والا انسان بھی خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرے.اور خدا تعالیٰ کی شان میں ناشکری کا کلمہ نہ کہے.الحفيظ حفاظت کرنے والا انگہبانی کرنے والا.ضائع ہوتے اور آفتوں سے بچانے والا، آفات سے بچنے کے لئے ہمیشہ اسی سے مد مانگنی چاہئیے.المجيب قبول کرنے والا.پکارنے والوں کی پکار سننے والا.بے کسوں کی دعا سننے والا.خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے.دُنیا کی آفات سے مقابلہ کرنے کی طاقت ملتی ہے.المتين قوت والا.احکام شریعت پر عمل کرنے والے کو بھی ایک خاص قوت ملتی ہے.اور وہ دنیا کی طاقتوں سے نہیں ڈرتا.دشمن پر غلبہ ملتا ہے.
المحي زندہ کرنے والا مخلوقات کے جسم میں زندگی پیدا کرنے والا دلوں کو نور ایمان سے زندہ کرنے والا.انسان کا فرض ہے کہ اپنے محھی خدا کی طرح ایسے لوگوں میں ایمان پیدا کرنے کی کوشش کرے جو اس سے کم جانتے ہیں.المیت مخلوقات کے اجسام کو مارنے والا.جس طرح زندہ کرنے پر وہ قادر ہے.اس طرح مارنے پر بھی وہی قادر ہے.اس لئے صرف انسی سے ڈرنا چاہیئے.اگر دل میں ایمان کی کمی محسوس ہو تو غلط باتوں کو دبا کر مار کر دوبارہ جینے کی کوشش کرے.الحي زنده زندگی دینے والا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا.سب کے بعد بھی قائم دوزندہ رہنے والا.انسان فانی ہے.مگر ایسے کام کر سکتا ہے کہ اس کی اچھی یا دیں قائم وزندہ رہیں.القيوم قائم رہنے والا ہر اپنی ذات میں قائم رہنے والا.اپنی صفات میں قائم رہنے والا.اس کی صفات ہر زمانے کے لئے ہیں.جیسے وہ پہلے ہوتا تھا اب بھی بولتا ہے.جیسے وہ پہلے سنتا تھا.اب بھی سنتا ہے.اور اپنے پیارے بندوں سے باتیں کرتا ہے.الباسط بندوں کی روزی کھولنے والا.بندوں کے دل کھولنے والا، تاکہ وہ نیک بات نہیں رزق روزی ہر قسم کا سامان خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو کھلا ملتا ہے.وہ چاہتا ہے تو تنگی آتی ہے.دراصل وہ دیکھتا ہے.کہ اس کا بندہ اس کا شکر کرتا ہے یا نہیں.
کلمه توحید لا اله الا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.اس کا کوئی شریک نہیں له المُلكُ ولهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ اُسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تمام تعریف ہے وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے وَهُوَ حَي لا يَمُوْتُ اَبَدًا ط ذُو الْجَلَالِ اور وہی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں ہے وہ بڑی عظمت وَالْإِكْرَامِ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ اور بزرگی والا ہے.ہر قسم کی بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے.اور وہی عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُه ہرشے پر قادر ہے
۱۲ رسالت ماں.پیارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر بات آگے بڑھانے سے پہلے پیدائش سے نبوت ملنے تک کے واقعات مختصر او سرالیتے ہیں بچہ پیارے آقا حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے داداعبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری حضرت ابو طالب نے سنبھال لی.ان کے ساتھ شام کے سفر میں حجرہ را سب والا واقعہ پیش آیا.پندرہ سال کی عمر میں حرب فجار میں شرکت کی کعبہ کی تعمیر کے وقت پتھر اٹھا اُٹھا کر دیتے رہے.بچپن میں بکریاں چرائیں.ماں.بڑے ہو کر کیا پیشہ اختیار کیا ؟ بچہ.اپنے چھا کے ساتھ تجارت کا کام کیا حضرت خدیجہ سے نکاح پچھیں سال کی عمر میں ہوا.حجر اسود رکھنے کا مشہور واقعہ ہوا.ماں.حلف الفضول کے معاہدہ میں شرکت فرمائی.اپنے پروردگار کی یاد میں غار حرا میں وقت گزارنے لگے.بچہ.وہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام دیا کہ آپ پوری دنیا کی ہدایت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں.آپ مجھے وہ الفاظ بتائیں جو نبوت کا پیغام تھے.
ماں.یہ قرآن پاک کی سورہ علق کی ابتدائی آیات ہیں بد الله الرحمنِ الرَّحِيمِ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبّكَ الَّذِي خَلَقَ وَخَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَق اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَعْرَمُ لا الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ لا عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُلُ (ترجمہ) پڑھ (یا پیغام پہنچا) اپنے رب کے نام سے جس نے سب چیزوں کو بنایا.انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.پیغام پہنچا تیرا رب بڑی عزت اور شان والا ہے.جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا.ایسا علم جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا.اس پیغام ہے آپ پر عجیب کیفیت گذری.آپ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ سے فرمایا مجھ پر کمبل اڑھا دو.حضرت خدیجہ نے گھر سیٹ کی وجہ پوچھی تو آپ نے سارا ماجرا سنایا.حضرت خدیج به سمجهدار خاتون تھیں.آپ کو تسلی دی اور کہا آپ اچھے اخلاق کے مالک ہیں.یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہے.میرے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل مذہبی علم رکھتے ہیں.توریت اور زیور کے عالم ہیں.اُن کو جاکہ ساری بات بتاتے ہیں.بچہ.ورترین نوفل کا مذہب کیا تھا ؟ ماں.یہ عیسائی تھے.اور جانتے تھے کہ ایک بہت بڑی شان والا نبی آنے والا ہے.آپ فوراً سمجھ گئے اور پیارے آقا کو بتایا کہ آپ کے پاس وہی فرشتہ آیا ہے جو حضرت موسیٰ پر وحی لایا تھا.آپ کو خدا تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی ہے اور بلیوں کو ان کی قومیں بہت تکلیفیں دیا کرتی ہیں آپ کو بھی آپ کی قوم وطن سے نکال دے گی.
۱۴ بچہ.اس کا مطلب ہے کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی تو سب سے پہلے حضرت خدیجہ نے آپ کو سچا مانا.ماں.جی ہاں اسی لئے جب ہم سب سے پہلے ایمان لانے والوں کا نام لیتے ہیں تو عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ ، مردوں میں سب سے پہلے آپ کے دوست حضرت ابو بکر صدیق پھر آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارث اور بچوں میں آپ کے چا زاد بھائی حضرت علی رضوا آپ پر ایمان لائے.بچہ.ایمان لانے کا طریق کیا تھا ؟ ماں.خدا تعالیٰ کے ایک ہونے پر ایمان لانا یعنی لا اله الا الله اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا سچا نبی ماننا.حضرت جبرائیل علیہ السلام وقفے وقفے سے تشریف لاتے اور آپ کو خدا تعالیٰ کا پیغام دیتے جو آپ ایمان لانے والے دوسروں کو بتاتے رہے.بچہ.صرف ملنے جلنے والوں، دوستوں، رشتہ داروں کو ہی پیغام دیتے ؟ ماں.جی بچے اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا تھا.اس زمانے میں ایمان لانے والوں میں حضرت عثمان بن عفان ، حضرت عبد الرحمن بن عوف حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت طلحہ بن عبدالله بھی شامل تھے.ان اولین ایمان لانے والوں کو خدا تعالیٰ نے ان کی زندگی ہی میں جنت کی خوشخبری دی تھی.بچہ.شروع میں اسلام بہت آہستہ آہستہ پھیلا ہو گا.ماں.آہستہ پھیلا اور غریبوں ، غلاموں ، کمزوروں میں پھیلا.امیہ بن خلف کے
۱۵ رض غلام حضرت سیدنا بلال.رئیس قریش عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرانے والے غریب آدمی عبداللہ حسین مسعود کہ ایک لوہار جناب بین الادت ایمان لائے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت یاسر کے گھر والے بھی مسلمان ہو گئے.کچھ بہادر خواتین اکیلی بھی اسلام لائیں مثلاً حضرت عباس کی بیوی حضرت ام فضل نے حضرت عمر ینہ کی لونڈی حضرت بینہ اور ابو جہل کی لونڈی حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا.بچہ سردار اور بڑے لوگوں نے ان کمزوروں کے مسلمان ہونے پر برا مانا ہوگا.مال - ایک خدا پر ایمان لانابیت پرستوں کے لئے بہت غصہ دلانے کا باعث بنتا اور ان کو ایسی ایسی تکلیفیں دی جائیں جو بیان کرنے سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.تقریباً تین سال تک آنحضور صل اللہ علیہ وسلم چھپ کر تبلیغ کرتے رہے پھر خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو حکم دیا گیا ہے اُسے کھول کھول کرئنا.اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی ڈڑا اور ہوشیار کر بچہ.یہ ہماری کتاب میں لکھا ہے پھر آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور نام لے لے کر سب تبدیلیوں کو بلایا اور فرمایا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے شکر ہے تو کیا تم یقین کر لو گے.سب نے کہا آپ صادق اور امین ہیں ہم ضرور یقین کر لیں گے.پھر آپ نے اسلام کا پیغام دیا اور فرمایا کہ اگر تم ظلم سے باز نہیں آؤ گے اور شرک نہیں چھوڑو گے تو خدا تعالیٰ کا عذاب تمہیں پکڑے گا.مگر کسی نے آپ کی بات کو توجہ سے نہ گنا اور مذاق اُڑاتے ہوئے واپس چلے گئے.ماں.پھر رشتہ داروں کو دعوت پر بلایا اور کھانے کے بعد ایک خدا پر
(4 ایمان لانے کی عوت دی.ابو لہب کے کہنے پر سب نے مذاق اُڑایا اور چلے گئے آپ نے پھر دعوت پر بلایا اور کھانے سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو بتا یا کہ خدا تعالٰی نے مجھے پوری دنیا کی ہدایت کا کام دیا ہے اس میں میری مدد کرو.مگر سب چپ رہے صرف تھے علینہ نے اُٹھ کر کہا کہ میں آپ کا ساتھ دوں گا.باقی مذاق اڑاتے رہے.بچہ.پھر آپ نے کام جاری رکھنے کی کیا ترکیب کی ؟ ماں.آپ نے شہر سے ذرا فاصلے پر کوہ صفا کے قریب ارقم بن ارقم کے گھر کو مرکز بنا لیا جو اسلامی تاریخ میں دار ارقم اور دارالسلام کے نام سے مشہور ہے.وہاں مسلمان تین سال تک عبادت کرتے رہے اور نئے آنے والوں کی تربیت کرتے رہے.اس مرکز میں حضرت عبداللہ بن مكتوم حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت زید بن الخطاب ایمان لائے.بچہ.اور حضرت عمر فاروق بھی ہیں اگر مسلمان ہوئے تھے.جی ! وہ اس مرکز پر اگر ایمان لانے والے آخری شخص تھے.بچه.مسلمانوں کی مخالفت کا کیا حال تھا ؟ ماں.وہ تو اسلام کے پھیلنے کے ساتھ دن بدن بڑھ رہی تھی.کمزوروں کا حال سب سے خراب تھا.ابو جہل نے اپنی لونڈی حضرت زنیرہ کو اتنا مارا کہ آنکھیں ضائع ہو گئیں.حضرت بلال کو ان کا آقا تپتی ریت پر لٹاتا.سینے پر پتھر رکھ دیا.ان کی ٹانگ میں رسی باندھ کر آوارہ لڑکوں کے حوالے کر دیتا.جو انہیں مکہ کی پتھریلی زمین پر گھسیٹتے رہتے اور ان کی کھال اُدھر جاتی ، گوشت اکھڑ جاتا.حضرت خباب کو ظالم اُن کی بھٹی سے انگارے نکال کر اس پر لٹا دیتے اور سینے پر سوار ہو جاتے تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں.
16 جسم کی چربی پگھل کر اگ کو ٹھنڈا کر دیتی.حضرت با مٹر کے خاندان کو ان دکھ دیا کہ ان کے بیٹے حضرت عامرض کے جو اس بگڑ گئے.ان کی بیوی حضرت سمیہ کو ابو جہل نے ان کی ران میں نیزہ مار کر شہید کر دیا.اسی طرح ہر خاندان اپنے رشتہ داروں کو جو مسلمان ہو جاتے تکلیفیں پہنچاتے.کوئی چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دینا.تو کوئی بھوکا پیاسا رکھتا.کوئی زنجیروں سے باندھ کر اتنا ماز نا کہ خون پھوٹ پڑتا.لیکن یہ جرات مند اور خدا سے محبت کرنے والے خوش نصیب لوگ اپنے ایمان پر قائم رہتے.بچہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ظلم ہوتا تھا.ماں.دُکھ تو آپ کو بھی دیتے تھے.گھر میں گندگی پھینک دیتے ، راستے میں کانٹے بچھاتے.سر پر خاک ڈالتے سجدے کی حالت میں کمر پر اُونٹ کی اوجھڑی رکھ دیتے گلے میں پڑ ڈال کر گھونٹتے.پھر مارتے ، دھکے دیتے.مذاق اڑاتے.جب آپ خدا کا پیغام سناتے تو شور مچانے لگتے.پھر حضرت ابو طالب سے شکایت کی.پہلے تو کہا کہ ہم تمھارے بھتیجے سے تنگ آگئے ہیں.یہ ہمارے بنوں کو برا تھیلا کہتا ہے.تم اس کو روک لو.یا پھر ہم خود دیکھ لیں گے.اس طرح وہ آپ کو بنو ہاشم اور بنو مطلب کی حمایت سے الگ کرنا چاہتے تھے.لیکن حضرت ابو طالب نے ان کی بات نہ مانی دن بہ دن اسلام کو پھیلتا دیکھ کر انہوں نے ایک کوشش اور کی.کچھ عرصہ کے بعد حضرت ابو طالب سے کہا کہ محمدؐ سے کہو کہ اگر وہ امیر بننا چاہتا ہے تو ہم دولت جمع کر دیتے ہیں.سرداری چاہتا ہے تو ہم سب اس کو سردار مان لیتے ہیں.اگر خوبصورت عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے تو عرب کی حسین ترین لڑکی لا دیتے ہیں.اور اگر بیمار ہے تو علاج کروا دیتے ہیں.لیکن اس کو روک
IA لو کہ وہ ہمارے بزرگوں کے دین کواور بتوں کو برا کہنے سے باز آجائے.ورنہ اب ہم سب مل کر مقابلہ پر آجائیں گے.حضرت ابو طالب نے یہ ساری بات آنحضور صلی الہ علی کل کو بائی اور کہاکہ میں اسی قوم کا مقابلہ نہیں کرسکتا یہ تم کو لاک کر دیں گے.بچہ.میں بناتا ہوں کہ آپ نے کیا جواب دیا.آپ نے جواب دیا کہ اگر یہ بتاتا نے کیا دیا نے دیا میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسے پر سورج بھی رکھ دیں تو میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا.ابو طالب نے کہا کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں.میں خود دیکھ لوں گا.اور آپ خدا کا پیغام پہنچانے میں مصروف رہے.ماں.پھر کچھ عرصہ بعد وہ ایک اور ترکیب لائے کہ ابوطالب تم اپنا بھتیجا ہمیں دے دو ہم ایک خوبصورت، دلیر، جوان عمارہ بن ولیدم کو دیتے ہیں که ساری زندگی تمھاری خدمت کرے گا.تم اس کو بیٹا بنالو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں دے دو.بچہ.واہ محمد صل اللہ علیہ وسلم نہیں دے دو !ا تاکہ وہ انہیں ماریں پیٹیں اور اُن کے بیٹے کو حضرت ابو طالب کھلائیں پلائیں ، عیش کرائیں.ماں حضرت ابو طالب نے یہی جواب دیا اس پر سارے سردار جن میں ولید بن مغیرہ عاص بن وائل ، عقبہ بن ربیعہ عمر بن ہشام ابو جہل اور ابوسفیاں شامل تھے بھڑک اٹھے کہ تم تو کوئی بات بھی نہیں مانتے.اب ہم خود ہی دیکھ لیں گے.انہوں نے اپنے اپنے قبیلہ کے مسلمانوں پر ظلم کی حد کر دی کہ یہ تنگ آکر محمد صلی الہ یہ ستم کا ساتھ چھوڑ دیں.ادھر حضرت ابو طالب نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو بلا کر سارا ماجرا سنایا.یہ سب آپ کی حفاظت اور مدد پر آمادہ تھے سوائے بدنصیب چھا ابو لہب کے جو ہمیشہ ہی کفار مکہ کا ساتھ دیتا رہا.
14 بچہ.مسلمانوں کے لئے مکہ میں رہنا بہت مشکل ہوگیا ہو گا.مال - صرف فلم ہوتا تو شاید برداشت کرتے رہتے.مگر مسئلہ یہ تھا کہ جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقر کیا تھا وہی مشکل ہو گیا تھا.آخر آپ نے دعا کے بعد فیصلہ کیا کہ جو بھی سفر کی طاقت رکھتا ہے.وہ مکہ چھوڑ کر جشہ کی طرف چلا جائے وہاں کا بادشاہ بڑا انصاف پسند اور رحم دل ہے.اسلام میں جب کسی بستی میں عبادت کی اجازت نہ ہو.خدا کا پیغام پہنچانے میں روک ہو.اور اپنے عقیدے کے اظہار پر پابندی ہو تو اس جگہ کو چھوڑ دینا ہجر کہلاتا ہے.اس لئے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کو ہجرت حبشہ کہتے ہیں.نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینہ میں گیارہ مردوں اور چار عورتوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان میں حضرت عثمان غنی اور ان کی بیوی حضرت رقیہ.حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت زبیر بن العوام اور مصعب بن عمیر وغیرہ شامل تھے.حبشہ براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں جنوب عرب کے بالکل سامنے واقع ہے.دونوں کے درمیان بحیرہ احمر ہے.مسلمان پہلے میدانی سفر کر کے شعیبہ کی بندر گاہ تک گئے.پھر تجارتی جہاز کے ذریعہ سفر کیا.بچہ.کیا مکہ والوں نے انہیں آسانی سے جانے دیا ؟ ماں.نہیں انہوں نے بندر گاہ تک ان کا پیچھا کیا لیکن وہاں پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھا.اس زمانے میں حبشہ ایک طاقتور اور مضبوط حکومت تھی جہاں مسلمانوں کو امن نصیب ہوا.اور بادشاہ نے بھی بہت اچھا سلوک کیا.آہستہ آہستہ چھپ کر تراشی افراد حبشہ چلے گئے.اس دوران مکہ والوں
۲۰ نے ایک پروگرام کے تحت قریش کے معزز سرداروں عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو قیمتی تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا تا کہ بادشاہ سے مل کر انہیں واپس لائیں.ایسا نہ ہو کہ باہر کے علاقوں میں بھی اسلام پھیلنا شروع ہو جائے.بچہ.افوہ اپھر کیا ہوا ؟ ماں.یہ دونوں بادشاہ کے دربار میں گئے اور بتایا کہ ان لوگوں نے اپنے باپ دادا کے مذہب کو چھوڑ کر نیا دین اختیار کر لیا ہے اور یہاں آگئے ہیں.آپ انہیں ہمارے ساتھ بھیجوا دیں.بادشاہ انصاف کرنے والا تھا.اس نے مسلمانوں کو بلا کر ان سے حبشہ آنے کی وجہ پوچھی.حضرت جعفر بن ابی طالب نے سارا ماجرا استایا اور سورہ مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی وہ بہت متاثر ہوا اور قریش کے مخالف لوٹا دیئے.وہ ناکام لوٹنا نہیں چاہتے تھے.انہوں نے پھر بادشاہ سے کہا کہ یہ صرف ہمارے دشمن نہیں آپ کے نبی حضرت عیسی کے بارے میں جو ایمان رکھتے ہیں وہ ان سے معلوم کر لیں.اس وقت عیسائی اپنی تعلیم کے بگڑ جانے کی وجہ سے حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا سمجھنے لگے تھے.حضرت جعفر نے جرات کے ساتھ اسلام کی تعلیم پیش کی کہ وہ حضرت عیسی کو خدا کے بندے اور اس کا پیارا رسول سمجھتے ہیں.بچہ.بادشاہ ناراض تو نہیں ہوا.ماں.اُس نے کہا کہ یہی اُس کا بھی عقیدہ ہے اس پر اس کے دربار کے پادری غصہ میں آگئے.مگر بادشاہ نے کسی کی پرواہ نہ کی اور مسلمانوں کو آرام سے رہنے دیا.
M بچہ.باقی مسلمانوں پر کیا بیت رہی تھی ؟ ماں.سختیاں بڑھتی جارہی تھیں.لیکن خدا تعالیٰ نے بھی اپنی قدرت کے نظارے دکھانے شروع کر دیئے تھے.نبوت کے چھٹے سال آنحضرت صلی اللہ علیہ دستم کے چھا حضرت حمزہ ایمان لائے.اب تو کفار مکہ تڑپ اُٹھے.انہوں نے ایک بار پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دولت، عزت اور سرداری کی پیشکش کی لیکن آپ کا جواب وہی تھا کہ میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا.تھک کر سرداران قریش نے ایک اور پیشکش کی اور کہا کہ یوں کرتے ہیں کہ کبھی تم ہمارے یتوں کو پوچ لو اور کبھی ہم تمہارے خدا کو سجدہ کرلیں گے.آپ نے بڑے پیار سے سمجھایا کہ یہ ممکن نہیں ہے.جب ہمارا دل ہی نہیں مانے گا تو عبادت کیسے ہوگی.اس موقع پر سورۃ الکافرون نازل ہوئی.بچہ.پھر تو وہ ہر طرح مایوس ہو گئے ہوں گے.ماں.مایوسی میں انہوں نے انتہائی سخت فیصلہ کیا اور بنو ہاشم اور بنو مطلب سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہر قسم کا تعلق بین ہوں تجارت بند کرنے کا فیصلہ کیا.نبوت کے ساتویں سال محرم کے مہینے میں سرداران قریش کے دستخطوں سے ایک معاہدہ لکھ کر کعبہ میں لٹکا دیا.جس کی رُو سے دونوں قبائل ایک گھائی شعب ابی طالب میں قید ہو کر گئے وہاں کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہیں آسکتی تھی.صرف حج کے زمانے ره میں مسلمان باہر نکل سکتے تھے.اُن دنوں آپ گھوم پھر کر قبائل میں تبلیغ کرتے تھے تین سال تک یہ ظلم جاری رہا.آخر خدا تعالیٰ نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ دوستم کو بتایا کہ معاہدے میں سوائے اللہ کے لفظ کے باقی ساری تحریر کو دیمک چاٹ چکی ہے.آپ نے حضرت ابو طالب کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ
نے یہ خبر دی ہے حضرت ابو طالب کے کہنے پر دیکھا گیا تو ایسے ہی تھا.معاہدہ ختم ہو چکا تھا.یوں یہ ظلم ختم ہوا.لیکن مسل تکلیفوں کی وجہ سے اسی سال یعنی.انبوی میں آپ کی چاہنے والی بیوی حضرت خدیجہ اور محبت و شفقت کرنے والے سر پرست چھا ابوطالب اللہ کو پیارے ہو گئے اسی وجہ سے یہ عام الحزن لینی غم کا سال کہلاتا ہے.بچہ.اب تو پیارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے ہوں گے کیا باہر آ کر تبلیغ میں اضافہ ہوا ؟ مال.آپ نے مکہ سے باہر کے علاقوں میں تیزی سے تبلیغ شروع کر دی.آپ حضرت زید بن حارث کے ساتھ طائف کی وادی میں گئے.ان کے سرارون سے ملے لیکن یہ بھی یہ نصیب ہی نکلے.انہوں نے تو حد کر دی.پہلے تو آپ کو لبستی سے نکالا پھر آوارہ لڑکے پیچھے لگا دیئے جنہوں نے پتھر بر سایر ساکہ آپ کا مقدس وجود لہو لہان کر دیا.آخر آپ نے طائف سے تین میل دور عتبہ بن ربیعہ کے باغ میں پناہ لی.آپ ایک ندی کے کنارے اپنے خون آلود پاؤں دھو رہے تھے کہ وہیں پر پہاڑوں کا فرشتہ نازل ہوا اور کہا آپ فرمائیں تو ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا کر ساری قوم کو تباہ کر دیں مگر آپ نے منع فرمایا.اور فرمایا کہ میں اسی دادی سے اسلام کے سورج کو طلوع ہوتے دیکھتا ہوں.بچہ.پھر کیا ہوا ؟ ماں.آپ مکہ کے قرب وجوار کے علاقوں میں چلے جاتے اور میلوں وغیرہ میں گھوم پھر کر تبلیغ کرتے.اگر کوئی مسافر یکہ آتا تو انہیں بھی اسلام کا پیغام دیتے.ان ہی دنوں میں قبیلہ دوس کے سردار کو تبلیغ کی اور وہ مسلمان
۲۳ ہو گئے.۱۲ نبوی کو آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی.یہ واقعہ معراج کہا انا ہے، قرآن پاک کی سورۃ نجم میں اس واقعہ کا ذکر ہے.اس موقع پر پانچے نمازیں فرض ہوئیں.ا نیوی کو دوسری مرتبہ بیت المقدس کی سیر کروائی گئی.جہاں آپ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھائی.یہ واقعہ قرآن پاک میں سورہ بنی اسرائیل میں آیا ہے.بچہ.اس طرح اللہ تعالیٰ نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی مرتبہ دنیا کو بتا دیا.مال.سبحان اللہ آپ کھوگئے سیاہ ہوں میں آپ نے ری را دیدیں یا بنی کہلایا کے قبلہ خزرج کے چھ افراد کو اسلام کا پیغام پہنچایا.وہ سب ایمان لے آئے اور واپس جا کر گھر گھر اسلام کی دعوت دینی شروع کی.بچہ مدینہ والوں نے اس دعوت کو قبول کیا ؟ ماں.جی بچے مدینہ وہ شہر ہے جس نے اسلام کے پیغام کو قبول کیا.اگلے سال حج کے موقع پر اوس اور خزرج کے بارہ افراد آئے.انہوں نے بتایا کہ سارے مدینہ میں اسلام کا چرچا ہو رہا ہے.مدینہ سے آنے والوں سے عقبہ کے مقام پر پہاڑی گھائی ہیں : بہت لی.اس لئے بیعت عقبیٰ اولی کہلاتی ہے.مدینہ والوں کی فرمائش پر حضرت مصعب بن عمیرہ کو بطور مبلغ روانہ کیا.ان ہی دنوں جمعہ کی با جماعت نماز شروع ہوئی.ایک تبلیغی مرکز حضرت اسعد بن زراراہ کا گرنا.مدین میں تیزی سے اسلام پھیلا.بعض اور ان پورا پورا قبیلہ ایک دن میں مسلمان ہوا.ان میں سے ایک بنو عبد ا شہل کا قبیلہ بھی تھا.بچہ.آنحضور کی قدر خوش ہوتے ہوں گے.
۲۴ ماں.جی ہاں یہ نبوی حج کے موقع پر ، افراد اسلام قبول کرنے کی نیت سے آئے ، آدھی رات کو وادی عقبہ میں جمع ہوئے.آپ کے ساتھ آپ کے چا حضرت عباس تھے.دوران گفتگو آنحضور صلی الہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کر جانے پر بھی بات ہوئی.حضرت البراء بن معرور معزز بزرگ انصاری تھے بولے کہ ہم رسول اللہ کی زبان سے کچھ سننا چاہتے ہیں.بچہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا فرمایا ؟ ماں.آپ نے پہلے چند آیات کی تلاوت فرمائی پھر مختصراً السلام کا پیغام دیا.پھر فرمایا اگر مجھے مدینہ آنے کی ضرورت پڑی تو اپنے عزیز رشتہ داروں کی طرح مجھ سے سلوک کرنا.اس کا اجر خدا تعالیٰ دے گا.انصاری بزرگ نے آپ کا ہاتھ تھام کہ کہا کہ ہم اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے بپھر ان افراد نے بیعت کی.آپؐ نے مدینہ والوں کی تربیت کے لئے بارہ نقیب مقرر فرمائے جن میں سے ہر ایک اپنے قبیلہ اور قوم پر نگران تھے.یہ بیعت عقبی ثانیہ کہلاتی ہے.اور اس کے بعد مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی.مکہ والے اسلام کو مدینہ میں پھیت دیکھ کر اور زیادہ بھڑکتے اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے تھے.بچہ.پیارے آقا نے کس طرح ہجرت کی.ماں.قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی قدرت کا نظارا تھا.مگر میں ابھی حضرت ابوبکر صدیاں سو حضرت علی اور آپ کے خاندان کے لوگ موجود تھے.قریش مکہ کے زنہیں دارالندوہ میں جمع ہوئے اور آپ کو جان سے مارنے کے پروگرام بنے لگے.بہت سی سنجاویز تھیں مگر آخر میں ابو جہل کی تجویز مانی گئی کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان چنا جائے اور وہ سب رات کے وقت آپ کے گھر میں ایک
۲۵ ساتھ حملہ کر کے آپ کو ختم کر دیں.یوں بنو ہاشم اور بنو مطلب ، سب سے انتقام نہ لے سکیں گے اور قتل کے بدلے خون بہا پر راضی ہو جائیں گے جو ہم ادا کر دیں گے.بچہ.اُف یہ تو بڑی خطرناک سازش تھی.ماں.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ بتا دیا اور حکم دیا کہ رات گھر میں نہ گزاریں ساتھ ہی یثرب کی طرف ہجرت کی بھی اجازت دے دی.آپ نے حضرت ابوبکر صدیق شکو کو بتایا جنہوں نے پہلے ہی دوا ڈیٹناں ہوں کے پتے کھل کر اسی غرض سے پال رکھی تھیں.سارا پروگرام طے ہوگیا کہ دونوں رات کو غار ثور میں پہلے جائیں گے حضرت اسائن کے ذمہ کھانا انا تھا.حضرت عامر بن مغیرہ شام کے وقت بکریوں کا ریور غار کے منہ پر لاتے اور عبدالدین ایوگر سارا دن مکہ میں گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لے کر اطلاع دیتے.آپ نے حضرت علی کو ساری امانتیں سپر د کر کے اپنے بستر پر لٹایا اور اوپر اپنی چادر ڈال دی.جب اندھیرا بڑھا تو دروازے سے سورہ یسین کی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے روانہ ہو گئے.مخالفین سوتے رہ گئے حضرت ابو بکر صدیق بھی اپنے گھر سے نکلے اور دونوں غار ثور میں جا کہ ٹھہرے.خدا کی قدرت کہ صبح جب آپ کے پہلے جانے کی خبر پھیلی تو سب طرف مکہ کے سرداروں نے تلاش کرنے کے نئے کھوجی دوڑائے اور بڑے بڑے انعام مقرر کئے.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ نمار کے منہ پر لکڑی نے بالائن دیا اور کبوتری نے انڈے دے دیئے.اس وجہ سے غار کے منہ یہ پہنچنے والے دشمنوں نے اندر نہ جھانکا.بچہ.غار میں کتنا عرصہ رہے ؟ ماں.تین دن اس کے بعد رات کی تاریکی میں عبد اللہ بن اریقط جس نے راستے
یں راہنمائی کرتی تھی اونٹنیاں لے کر آگیا.عبدالنڈ بن ابوبکر تمام خبریں لائے.حضرت اسما کھانا لے آئیں اور غلام حضرت عامر بن مغیرہ کا بھی خدمت کی غرض سے پہنچ گئے.یوں یہ مقدس قافلہ مشرب کے اصل راستے سے ہٹ کرہ ردانہ ہوا.آپ نے حضرت ابو بکر صدیق کو اونٹنی کی قیمت ادا کی پھر سوار ہوئے.جب آخری نظر لگہ پر ڈالی تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے.وادی کو مخاطب کر کے فرمایا.تو مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز اور پیاری ہے.لین تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے ؟ سفر کے دوران سراقہ بن مالک نلو سرخ اونٹوں کے انعام کی لالچ میں بار بار گرنے کے باوجود آگے بڑھتا رہا.قریب آیا تو اس کے گھوڑے کی ٹانگیں ریت ہیں دھنس گئیں اور وہ منہ کے بل گر گیا اس پر اس کو خوف محسوس ہوا.اُس نے آواز دی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.دکھ نہیں دوں گا.آپ نے اجازت دی وہ آیا اور سارا ماجرا سنا یا بولا محمد کاستارا بلندی پر ہے یہ ضرور بڑے آدمی بنیں گے.مجھے امن کی تحریر دی جائے.حضرت عامر بن مغیرہ نے آپ کے ارشاد پر چھڑے پر لکھ کر دیا.ساتھ ہی آپ نے فرمایا یہ سراقہ اس دن تیرا کیا حال ہوگا ، جب کسری کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے.بچہ.یہ سفر کتنے دن جاری رہا.ماں.آٹھ روز تک بالاخره نبوی ۱۲ ربیع الاول کو پیر کے دن قبا کے مقام پر دوپہر کے وقت پہنچے.یثرب آپ کی ہجرت کے بعد مدینہ الرسول کہلانے لگا.پھر صرف مدینہ مشہور ہو گیا.
۲۷ اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد -1 حضرت خاتم النبیین حمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان تین قسم کے ہیں.عالم ، طالب علم ، جاہل جس بندے کو اللہ ذلیل کرنا چاہے اُسے علم سے محروم کر دیا ہے.بہترین عبادت علم حاصل کرنا ہے.بچپن میں حاصل کیا ہوا علم پتھر کی لکیر ہوتا ہے.جس نے علم حاصل کیا وہ جنت کے باغوں میں پھرے گا.4.ان آدمیوں کو قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی.۱.حاکم عادل ۲ جوان جو عبادت میں بڑھا ہوا ہو.مومن حسین کا نماز میں دل لگا رہے ۴.وہ شخص جس کی دوستی رضائے الہی کے ماتحت ہو چھپا کر خیرات کرنے والا.4.تنہائی میں خدا کو یاد کر کے آنسو بہانے والا.
۲۸ قرآن مجید قرآن خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چین نا تمام ہے ماں.قرآن پاک کی تلاوت سے پہلے أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پڑھنالازمی ہے.قرآن پاک ، پاک ہاتھوں سے پاک جگہ پر رکھ کر اور پاک دل سے پڑھنا چاہیے.چہ.پاک دل سے کیا مطلب ہے ؟ ماں.پاک دل کا مطلب ہے اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کا سچا کلام ہے.قیامت تک کے لئے مکمل ہدایت ہے.اس میں جو احکام ہیں اُن پر عمل کرنے سے اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے انہیں چھوڑنے سے خدا خوش ہوتا ہے اور ثواب ملتا ہے.بچہ.ثواب یا عذاب مرنے کے بعد ملے گا.ماں.ایسا ہے بچے کہ قرآن پاک میں بار بار مثالیں دے دے کر، کہانیاں اور واقعات سنائنا کر انسانوں کے لئے اور قوموں کے لئے بھلائی کے راستے
۲۹ اور برائی کے راستے بیان فرما دیئے ہیں.یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اجر الوہاب اور نعمتیں اس دنیا میں بھی ملیں گی اور آخرت میں بھی.اسی طرح ناراضگی سزا اور عذاب اس دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا.اس لئے ہم پر لازم ہے کہ جہاں نعمتوں کا ذکر پڑھیں ، دعا کریں کہ ہمیں بھی یہ نعمتیں حاصل ہوں اور انعام حاصل کرنے والوں کا طریق اپنائیں.اسی طرح جب سزا پانے والوں کا ذکر ہو تو دعا کریں کہ اللہ نہیں محفوظ رکھے اور وہ باتیں چھوڑتے جائیں.اس طرح سیدھا راستہ خود بخود نظر آتا جائے گا اُس پر چلتے ہوئے ہم اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائیں گے.بچہ.میں اچھی طرح سمجھ گیا.آپ نے ھدی لنمتقین کی تشریح میں بھی یہ سمجھایا تھا.اب میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں آپ بتائیں کہ قرآن پاک میں وہ کون سی سورہ ہے جو کسی پارے میں شامل نہیں ہے.ماں.بڑا مشکل سوال ہے.کل ۱۱۴ سورتیں ہیں ۸۸ مکی ہیں اور ۲۶ مدنی ہیں.یہ تیوں پاروں میں ہیں.آپ سورۃ فاتحہ کے متعلق پوچھ رہے ہیں یہ تیسوں پاروں کی تقسیم شروع ہونے سے پہلے ہے.بچہ.ٹھیک ہے ایک اور سوال بتائیے کہ سب سے بڑی سورۃ کون سی ہے ؟ ماں.رکوع کے لحاظ سے با آیات کے لحاظ سے.بچہ.دونوں بتا دیجئے.ماں.رکوع کے لحاظ سے سورۃ البقرہ اس میں ہم رکوع ہیں اور آیات کے لحاظ سے سورۃ الشعراء اس میں ۲۸۸ آیات ہیں.بچہ.بالکل ٹھیک اب آپ بتائیں قرآن پاک کا وہ کون سا پارہ ہے جس میں سب سے زیادہ یعنی ۳۷ سورتیں ہیں.
۳۰ ماں.یہ تو بڑا آسان سوال پوچھ لیا.آخری پارہ “ ہم نے دس پاروں کے نام یاد کر لئے تھے.اب ہم قرآن پاک کے گیارہ سے ہیں تک پاروں کے نام یاد کریں گے.- يَعْتَذِرُونَ ۱۳ ١٣- وما ابرى ۱۴ ربما ها.سُبْحَنَ الَّذِي -14 وَمَا مِن دابة قال الم اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ - قَدَا فَلَحَ وَقَالَ الَّذِينَ ۲۰ آمنْ خَلَقَ پہلے پاره اکستر کا نصف آخر پیارے بچو آپ کی کتاب "گل" میں پہلا پارہ نا مفت تک مع ترجمہ دیا گیا ہے.امید ہے آپ نے یاد کیا ہو گا اب " میں نصف آخر مع ترجمہ دیا جا رہا ہے.خوب اچھی طرح لفظی ترجمہ یاد کر لیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.
اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بنمِ اللهِ الرَّحْمَن ! البقرة فويل للذين يكتبون الكتب بأيديهم پس برکت ہے واسطے ان لوگوں کے جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہا تھوں.ثمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِندِ اللهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا، پھر یہ (کتاب) اللہ کی طرف سے ہے تاکہ خریدیں بلکہ میں اسکے مولی تھوڑا فَوَيْلٌ لَهُمْ ممَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِّمَّا پس ہلاکت ہے واسطے ان کے لیب اس کے جو لکھا ان کے ہاتھوں کے اور ہلاکت ہے واسطے اس کے طبیب اس کے جو يَكسِبُونَ وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلا أَيَا مَا مَعْدُ وَدَاء کھاتے رہے وہ عد انہوں نے کہا سرگز نہیں چھوٹے گی ہم کو الگ مگر دان گفتی کے قل ا م عِندَ الله عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللهُ عَهْدَةٌ تو کر رہے کیا نیا ہوتا ہے تم نے اللہ کے پاس سے کوئی عید تب تو ہر گز نہیں خلاف کرے گا اللہ اپنے عہد کے ام تَقُولُونَ عَلَى اللهِ مَا لا تَعْلَمُونَ و عَلى مَن كَسَبَ.الا ہر جو نہیں تم جانتے کیوں نہیں چھو ٹیگی تم کو آگ کیز کہ جہا نے کمائی بانی ـة وأحاطَتْ به خَطِيّتُه فأولَيكَ اَصْحَبُ النَّار اور سر لول لوگ آگ والے ہیں گھیر لیا اس کو اس کی خطاؤں نے هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلحت وہ اس میں رہ پڑنے والے نہیں اور جو لوگ ایمان لاتے اور انہوں نے کیس نیکیاں أولئِكَ أَصحُبُ الجِنَّةِ : هُم فِيهَا خَلِدُونَ وَإِذْ ه ارگ حنت والے ہیں اس میں رہ پڑنے رائے ہیں الله حب اخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلا الله و کرند عبادت کند گئے تم سوائے اللہ کے بنی اسرائیل سے پیارم نے کا دنده اور بالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِى القربى وَالْيَتَعَى وَالْمَسْكِينِ ماں باپ سے احسان کردینگے اور رشتہ داروں اور تقیوں اور کہوں اسے بھی) وقولوا لِلنَّاسِ حُسْناةَ أَقِيمُوا الصَّلوة والوا الزكوة لوگوں کو اچھی بات اور قائم کرد توليته الأقليلاً مِّنكُمْ وَانتُمْ مُعْرِضُونَ اور کہو نماز اور دو زكوة اعراض کرنے والے تھے 5
الم ۳۲ البقرة ٣ وَاِذْ اَخَذْنَا مِينَا قَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِمَاء كُمْ وَلا تُخْرِجُونَ ) اور جب یا ہم نے پکا وعدہ تم سے کہ نہ بہاؤ گے خون اپنے اور نہ بیا کو گئے انْفُسَكُمْ مَن دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ.اپنے لوگوں کو گھروں سے اپنے پھر اقرار کیا تم نے اور تم گواہ ہو تَخْرِجُونَ فَرِيقًا ثمَّ انْتُمْ هَؤُلَا تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ پھر تم وہ لوگ ہو کہ قتل کرتے ہو اپنے لوگوں کو اور لیتے ہو ایک فریق کو منكُم مِّن دِيَارِهِمْ، تَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ بالإثم اپنے میں سے گھروں سے ان کے تم ایک دوسرے کی مد کر تے ہو خلاف ان کے ساتھ گناہ والْعُدْوَانِ ، وَإِن يَأتُوكُمْ أسرى تُقَدُّوهُمْ وَهُوَ اور اگر آئیں وہ تمہارے پاس قیدی بن کر ترخد یہ دے کر چھیڑ چھتے ہو ان کو حالانکہ وہ مُحَرَّمُ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ َأفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضٍ الكتب نکالنا ان کا کیا پس ایمان لاتے ہو تم ایک حصہ اور زیادتی کے جلائی ہے تم پر کتاب پر وَتَكْفُرُونَ بِمَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَل ذلكَ اور انکار کرتے ہو ایک حصہ کا پس نہیں بدر بدنی اس کا جس نے.ایسا منكُمْ الاخرى فى الحيوةِ الدُّنْيَا، وَيَوْمَ القِيمة تم میں سے سوائے ذات کے دور کی زندگی میں اور بروز قیامت يُرَدُّونَ إِلَى اَشَدّ العَذَابِ ، وَ مَا اللهُ بِغَافِلِ وہ لوٹائے جاویں گے طرف سخت ترین عذاب کے اور نہیں ہے اللہ ہر گز بے خبر عَمَّا تَعْمَلُونَ أُولِيكَ الذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَوة اس سے جو تم کرتے ہو.ہ لوگ ہیں جنہوں نے.فريدي الدُّنْيَا بِالآخِرَةِ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ اور نہ واری بدلے آخرت کے ہیں نہ انکا کیا جاوے گا ان سے عذاب زندگی وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ ﴾ وَلَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتب مدد دیتے جاویں گے اور یقینا یقینا دی ہم نے موسی کو کتاب وفقيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ: وَأَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ اور پیچھے بھیجا ہم نے بعد اس کے رسولوں کو اور دیئے ہم نے عیسی انی 1°
} الله البقرة مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَ ايَدَنْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ افَكُلِمَا نگیر کیا تم نے ریم کو کھلے کھلے نشانات اور مائیندگی ہم نے اس کی بقیہ روح القدس کے کیا ہیں جب کبھی جَاءكُمْ رَسُولُ بِمَا لا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ انستكبرتم کلا یا تمہارے پاس کوئی رسول وہ جو نہیں چاہتے تھے نفس تمہارے فَفَرِيقًا كَذَبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ.وَقَالُوا پھر ایک گروہ کو جھٹلایا تم نے ایک فریق کو قتل کرتے تھے تم اور کیا استواں نے قلُوبُنَا غُلْتُ بَلْ لَعِنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَليلاً کر دل بہمارے خلافوں میں نہیں انہیں بلکہ محنت کی ان پر اللہ نے نیب ان کے کفر کے پس گم ہیں ما يُؤْمِنُونَ وَلَمَّا جَاء هُم كتب مِنْ عِندِ اللهِ ایمان لاتے ہیں اور ان کے پاس کتاب اور جب آئی پاس سے اللہ کے مُصَدِّقَ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى تصدیق کرنے والی اس کی جو یا کس نے ان کے حالا نکہ وہ پہلے سے فتح مانگتے تھے خلاف الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاء هُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ لات لوگوں کے جنہوں نے کفر کیا موجب آئی اکتاب ان کے پاس جیسے پہچان لیا انہوں نے تو انکار کر دیا اس کا فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَفِرِينَ بِئسَمَا اشترواية کیا ہی بنا ہے دو کہ بیچا انہوں نے عوض میں " ل سنت ہے اللہ کی کا است رول ہوا کہ أنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا يما انْزَلَ اللهُ بَغْيًا أن يُنَزِّل جس کے جانوں اپنی کو دینی یہ کہ کفر کرتے ہیں اس کا جو اتارا اللہ نے سب سرکشی کے اس بات پر کہ آبادی ہے اللهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُ و الله اپنا فضل جس پر چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے پیس لوٹے وہ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبِ وَلِلْكَفِرِينَ عَذَابٌ مُهِينَ.وَ ساتھ مخضب کے ت خوب پر اور کافروں کے لیے عذاب ہے قلیل کر نیوالا اود إذا قِيلَ لَهُمَا مِنُوا بِمَا اَنْزَلَ اللهُ قَالُوا تُؤْمِنُ بِمَا کیا جاتا ہے ان کو مان لاؤ اس پہ جو اگر اللہ نے کتنے ہیں ہم ایمان لاتے نہیں اس پر جو أنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءةَ وَهُوَ الْحَقُ آریا گیا ہم ہے اور وہ کر کرتے ہیں اس کا جو ہوا ہے اس کے حالانکہ وہ حق ہے
البقرة ٢ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أنْبِيَاء الله.تصدیق کرنے والا اس کا جو پاس ہے ان کے توکیدے پھر کیوں قتل کرتے تھے تم اللہ کے بلیوں کو مِن قَبْلُ إِن كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ وَلَقَدْ جَاءَ كُمْ مُوسى پہلے سے اگر ہو تم مومن اور یقینا یقینا لایا تمہارے پاس خوشی بِالْبَيِّنَتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُم کھلے کھنکے نشان پھر (بھی) بنایا تم نے بچھڑے کو پیچھے اس کے (معبود) اور تم ظلِمُونَ وَإِذْ اَخَذْنَا مِينَا قَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُم ظالم تھے.اور جب لیا ہم نے یہ کا وعدہ تم سے اور بلند کیا ہم نے اوپر تمہارے الطُّورَ، خُدُوا مَا أَتيتكم بقوة وَاسْمَعُواء قالوا طور کو اور کیا کیا پکڑو اُسے جو دیا تم نے تم کو ساتھ مظبوطی کے اور b انہوں نے کہا.سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأَشْرِبُوا في قُلُوبِهِمُ العجل بكفرهم سنا ہم نے اور نافرمانی کی ہم نے اور پلایا گیا ان کے دلوں میں بچھڑا لہب ان کے کن کے قُلْ بِئْسَمَا يَا مُرُكُمْ بِهِ إيْمَانُكُمْ إِن كُنتُمْ مُؤْمِينَ ) تو کرے کیا ہی بڑا ہے وہ کہ حکم دیتا ہے تم کو جس کا ہے اگر ہے سوا تمہارا ایمان اگر ہو تم مون اللہ کے پاس خالص طور پر تمہا ہے قل إن كانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً - تمہارے لیے ہی گھر آخرت کا من دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ.اور لوگوں کے تو آرزو کرد موت کی اگر ہو تم وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ، وَاللهُ عَلِيمٌ اور ہر گز نہیں آرزو کریں گے وہ اس کی کبھی بھی بیپ اس کے جو آگے بیجا ان کے ہاتھوگی نے اور اللہ خوب جانتے اگلا بِالظَّلِمِينَ وَلَتَجِدَ نَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ ہے ظالموں کو اور ضرور ہی تو پائے گا ان کو زیادہ حبہ نہیں تمام لوگوں سے على حبوةِ وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا يَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ ان لوگوں سے بھی زیادہ) جنہوں نے شرک کیا چاہتا ایک ان میں سے کہ کاش ایسے عمر دی جائے زندگی ہے.اور الَفَ سَنَةٍ = وَمَا هُوَ بِمُحْرِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ آن ہزار سال حالانکہ نہیں ہے ہرگز بچانے والا اپنے تئیں عذاب سے (اس طرح) کہ نقد مان
۳۵ البقرة وَاللهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ قُلْ مَن كَانَ کرتے ہیں تو کہدے جو شخص ہے بجائے اُسے اور اللہ غرب دیکھنے والا ہے اسے جو وہ د و الجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَه عَلَى قَلبك بإذن الله دشمن جبرائیل کا پس یقینا اس نے اتارا ہے اس (قرآن) کو دل پر تیرے ساتھ اللہ کے حکم کے مُصَدِ قَا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤمِنِينَ ) مصدق بنا کہ اس کتاب کا جو پہلے ہے اس کے اور ہدایت اور بشارت بنا کہ ایمانداروں کے لیے مَنْ كَانَ عَدُقَ اللهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ شخص دشمن ہے اللہ کا اور فرشتوں کا اس کے اور رسولوں کا اس کے اور جبرائیل کا ومِيكَيلَ فَإِنَّ اللهَ عَدُو تِلْكَفِرِينَ وَلَقَدْ اور میکائیل کا تو یقینا اللہ دشمن ہے کافروں کا اور يقينا يقينا أنْزَلْنَا إِلَيْكَ ايْتِ بَيِّنِتِ، وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إلَّا اتاری ہم نے تیری طرف آتیں کھلی کھلی اور نیں انکار کرتے ان کا سوائے الفسِقُونَ اَ وَ كُلَّمَا عَهَدُوا عَهْدًا تَّبَدَهُ فَرِيقَ انسانوں کے کیا یہ درست نہیں کہ جب کبھی عید کیا انہوں نے کوئی عدد پھینک دیا اسنے ایک فریق نے لتهم ، بَل أكثرُهُمْ لا يُؤْمِنُونَ وَلَمَّا جَاء هُم اکثر ان میں - نہیں ایمان لاتے سوول سے اور جب آیا ان کے پاس رسُولُ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقَ لِمَا مَعَهُم نَبِّدُ اللہ کی تصدیق کرنے والا اس کی جو پاس ہے ان کے پھینک دیا طرفین سے فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أوتُوا الكتب تركتبَ اللهِ وَرَاء ایک فریق نے ان لوگوں میں سے جو دیئے گئے کتاب کتاب اللہ کو یہ سمجھے عُهُورِهِمْ كَانَهُمْ لا يَعْلَمُونَ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا اور پیروی کی انہوں نے جن کی پیروی کرتے تھے اپنی بیٹیوں کے گویا کہ وہ نہیں جانتے الشيطين عَلَى مُلْكِ سُلَيْنَ ، وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ سلیمان نے سیلیمان کی حالانکہ نہیں کفر کیا تھا شياطين بر خلاف سلطنت وَلَكِنَّ الشَّيطِينَ كَفَرُوا يُعلم الناس السحر و لیکن شیاطین نے کفر کیا لوگوں کو وہ سکھاتے تھے جادو زور
I الم البقرة ٢ ما اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ، وہ جو اتارا گیا دو فرشتوں پر بائل میں پاروت اور باروت کہ وَمَا يُعَلِّمَن مِن اَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ حالا نکہ انہیں سکھاتے تھے وہ دونوں کسی کو یہاں تک کہ وہ کردیتے تھے کہ محض ہم آزمائش نہیں فَلا تَكْفُرُ، فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ پس نہ کفر کیچو تو میں سیکھتے تھے وہ ان دونوں سے وہ بات کہ جدائی ڈالتے تھے اسکے ذریعہ درمیان الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ، وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا اور بیوی کے اس کی اور نہیں تھے وہ ہرگز نقصان پہنچانے والے اس کے ذریعہ کسی کو بھی سوائے باذن اللهِ ، وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ.اللہ کے حکم کے نقصان دے گی انہیں اور نہ نفع دے گی انہیں وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَالَهُ فِي الآخِرَةِ مِن مرد ادر سیکھتے ہیں یہ لوگ جو اور جان لیا انہوں نے کہ جس نے لیا اُسے نہیں ہے اس کے لیے آخرت میں کوئی b خلاق وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ ، لَوْ كَانُوا اور کیا ہی بڑا ہے وہ کہ بچی دی نہیں انہوں نے عوض میں جس کے اپنی جانیں کاسٹ ہوں وہ يَعْلَمُونَ وَلَوْ الْهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَتُوبَةٌ مِّن جانتے اور اگر اور اختیار کرتے تو عِنْدِ اللهِ خَيْرٌ، لَو كَا لَوْا يَعْلَمُونَهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ اللہ کے پاس سے بہتر ہوتا کاش ہوں وہ اسے لوگو ہو امَنُوا لا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُواء ایمان لائے ہو نہ کہو ندار هنا اور کافروں کے لیے اور کہو انظر نا ر دیکھے ہیں، اور وَلِلْكَفِرِينَ عَذَابُ اليَمُ مَا يَوَدُّ الَّذِينَ عذاب ہے دردناک نہیں چاہتے وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَب وَلا الْمُشْرِكِيْنَ أن يُنَزِّل کر کیا اہل کتاب میں سے اور نہ مشرک کہ آبادی جاوے عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَاللهُ يَخْتَصْ بِرَحْمَتِهِ کم پر کوئی بھلائی تمہارہ سے رب کی طرف سے حالانکہ اللہ خاص کرتا ہے ساتھ اپنی رحمت کے
البقرة.مَن يَشَاءُ، وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ مَا نَتَسَخُ مِنْ مجھے چاہتا ہے اور الله صاحب فضل عظیم ہے جو بھی منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی اية أو نُنْسِهَا نَاتِ بِخَيْرٍ مِّنَها أَو مِثْلِهَا ، اَلَمْ تَعْلَم آیت یا بھلا دیتے ہیں ہم اُسے تو ان کے ہیں ہم متر اس سے یا مانند اس کی کیا نہیں جانا تو نے انَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الله ہر بات پر خوب ت اور ہے کیا نہیں جانا تو نے الله لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ، وَمَا لَكُمْ مِنَ اللہ وہ ہے کہ اسکے پہلے سلطنت ہے آسمانوں زمین کی اور اور نہیں تمہارے لیے دُونِ اللَّهِ مِن وَلي وَلا نَصِيرٍ أم تُرِيدُونَ أَنْ اللہ کے کوئی دوست اور نہ مددگار سوائے کیا چاہتے ہو تم تَسْتَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئيلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ، وَمَن رسول سے پوچھو اپنے جیسا کہ پوچھا گیا موسی (اس سے) پہلے اور جو يُتَبَدَّل الكُفْرَ بِالإيْمَانِ فَقَدْ ضَلِ سَوَاءَ السَّبِييْل) بعوض ایمان کے تو یقینا وہ بھٹک گیا درست راستے سے باد میں لیتا ہے.ودَّ كَثِيرُ من أهل الكتب لو يَرُدُّ وَنَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُم چاہا بہت سوں نے اہل کتاب میں سے کاش پھر کر دیں وہ تم کو بعد تمہارے ایمان لانے کے كفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا کافر بی حد کے جانوں میں ہے ان کی بعد اس کے گر تميّنَ لَهُمُ الْحَقِّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ خوب کھل گیا ان کے لیے تھی پس معاف کرو اور درگذر کرو یہاں تک کہ لاوے اللہ ثلث باشره إن الله على كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَقِيمُوا الصَّلوة : يقينا الله ہر بات پر خوب قادر ہے اور قائم کرو نماند واتوا الزَّكوة ، وَمَا تقدموا لأنفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ اور دو رکران.اور جو آگے بھیجو تم اپنی جانوں کے لیے کوئی نیکی تو پاؤ گے تم اس کو عِندَ اللهِ، إِنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَقَالُوا یقینا اللہ اس کو جو کرتے ہو تم خوب دیکھنے والا ہے اللہ کے پاس اور انہوں نے کہا
البقرة.لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا اَوْ نَصْرُى ہر گز نہیں داخل ہوگا جنت میں گھر جو شخص ہوا یهودی عیسائی تلك أمَانِتُهُمْ، قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ اگر ہو تم آرزوئیں ہیں ان کی تو کہر سے کاؤ دلیل صدقين بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ کیوں نہیں رحبت میں جاویگا جس نے سونپ دی اپنی توجہ اللہ کے لیے اور وہ 료 مُحْسِنٌ فَلَهُ اَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا محسن ہو تو اس کے لیے ہے اجر اس کا اس کے رپ کے پاس اور نہیں خوف ان پر اور نہ هُمْ يَحْزَبُونَ وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرَى عَلَى النصري على ع غمگین ہوں گے اور کہا س وَقَالَتِ النَّصْرُى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَى وَ " کسی بات پر ابھی) اور کیا یہود نے نہیں ہیں عیسائی ویا انہوں نے بنیس یکی ردی کی بات پر رہی هُمْ يَتْلُونَ الكِتبَ ، كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ اسی طرح کیا تھا ان لوگوں نے جو نہیں علم رکھتے تھے وہ پڑھتے ہیں اور مثل قولهم فاللهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ فِيمَا بائینڈ ان کی بات کے سو اللہ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان بروز قیامت اس بات میں کہ كانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ تھے وہ بس میں اختلاف کرتے اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جس نے روکا سجدوں الله أن يُذْكَرَفِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أوليك سے اللہ کی کہ یاد کیا جائے ان میں نام اس کا اور کوشش کی ویران کرنے کی ان کو یہ لوگ وہ ہیں ما كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا الخَائِفِينَهُ لَهُمْ فِي کر انہیں مناسب تھا ان کے لیے کہ داخل ہوئی ان میں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لیے الدُّنْيَا خِزْى وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.دنیا میں ذلت ہے اور ان کے لیے آحسرت ہیں عذاب ہے بڑا وَلِلهِ المَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ، فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَةٌ وَجَهُ اور اللہ کے لیے نہیں مستشرق اور مغریب ہیں بعد پھر منہ کرو تم تو ادھر
۳۹ الم اللہ کی یقیناً الله البقرة.الله إنَّ اللهَ وَاسِعُ عَلِيمُ وَقَالُوا اتَّخَذَ وسعت والا خوب جاننے والا ہے اور کیا انہوں نے بنا لیا ہے اللهُ وَلَدًا، سُبْحَنَهُ ، بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ و پاک ہے وہ انہیں بلکہ اسی کا ہے جو کچھا اللہ نے بیٹا اور آسمانوں الأرْضِ ، كُلِّ لَهُ فَيَتُونَ بَدِيعُ السَّمَوتِ وَ زمین میں ہے b ب اس کے کہیں فرمانبردار آسمانوں موجد ہے اور الْأَرْضِ ، وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن زمین کا اور جب فیصلہ کرتا ہے کسی معاملہ کا تو صرف کہتا ہے اسے کہ ہر چا فَيَكُونُ وَقَالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا ان لوگوں نے جو نہیں علم رکھتے کیوں نہیں کلام کرتاہیم سے اللهُ اوْ تَأْتِيْنَا ايَةُ ، كَذلِكَ قَالَ الّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ سودہ ہو جاتا ہے اور کہا اللہ یا رکیوں نہیں آتا ہوا م سے پاس کوئی نشان اسی طرح کہا تھا الی لوگوں نے جو پہلے تھے ان سے مثل قَوْلِهِمْ ، تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَا الايت مانند ان کی بات کے ان لوگوں کے لیے ہو یقین کرتے ہیں ایک جیسے ہو گئے ہیں ولی ان کے یقینا' کھول کر بیان کیں تم نے آگئیں لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ اِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا یقینا ہم نے بھیجا تجھے ساتھ نتھی کے خوشخبری دینے والا ونَذِيرًا، وَلَا تُسْلُ عَن أَصْحُبِ الْجَحِيمِ وَ لَن دوزخ والوں کے متعلق اور ہر گز نہیں اور ڈرانے والا اور نہیں پیار چھا جاویگا تو تَرْضى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلا النَّصْرِى حَتَّى تَتَّبِعَ راضی ہوں گے مجھ سے بردی اور عیسائی یہاں تک کہ پیروی کرے تو.ملتهُمْ ، قُلْ اِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الهُدى ، وَلَئِن ان کے مذہب کی تو کہد سے یقینا" بدایت اللہ کی ہی اصل ہدایت ہے اور یقینا تبعت أهْوَاءٌ هُمْ بَعْدَ الَّذى جَاءَكَ مِنَ العِلمِ پیروی کی تو نے ان کی خواہشات کی بعد اس کے جو آچکا ہے تیرے پاس مَالَكَ مِنَ اللهِ مِن وَلِي وَلا نَصِيرِ الذِينَ تو نہیں ہوگا تیرے لیے مقابل اللہ کے کوئی دوست اور نہ مددگاره دین وہ لوگ کہ
२ البقرة ٢ آتَيْنَهُمُ الكتب يَتْلُونَهُ حَقَ تِلَاوَتِهِ ، أُولِيكَ لوگ دی ہم نے انہیں کتاب پڑھتے ہیں اُسے کی و اس کے پڑھنے کا يُؤْمِنُونَ بِهِ ، وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولئِكَ هُمُ بیان کیا تھے کہیں اس وجہ اور مجھے کفر کرے گا اس کا تو ایسے لوگ ہی الخسِرُونَ ﴿يبَنِي إِسْرَاءِيلَ اذكرُوا نِعْمَتِي ع نقصان پانے والے ہیں اے بنی اسرائیل یاد کرو نعت میری التي أَنْعَمْ وَانّى فَضَّلَتُكُمْ عَلَى العَلَمينَ ) انعام کی میں نے تم پر اور ہے کہ فضیلت دی تھی میں نے تم کو تمام و نیا پر والقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِى نَفْسَ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا اور ڈرو اس دن سے کہ نہیں کفایت کرے گا کوئی نفس کسی نفس سے کچھ بھی وہ يُقبَلُ مِنْهَا عَدَكَ وَلا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَاهُة تجمول کیا جاوے گا اس سے معاوضہ اور 2 نفع دے گی اُسے سفارش يُنصَرُونَ وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرجِمَ رَبُّهُ بِكَلِمَت فَاتَمهُنَّ مود نے چاہیں گے اور جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے ساتھ چند باتوں کے میں پورا کیا اس نے انہیں قَالَ إلى جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ، قَالَ وَمِن ذُرِّيَّة خلا میں بنانے والا ہوں مجھے لوگوں کا ہے امام اس نے کہا اور میری سلاد میں سے ابھی) قال لايَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ وَإِذْ جَعَلْنَا فرمایا نہیں پینے کا محمد میرا ظالموں کو اور جب بنا یا ہم نے المَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَامْنَاء وَاتَّخِذُوا مِن کبیر کو ناؤ جمع ہونے کی جگہ لوگوں کے لیے اور اسی مقامِ اِبْرَاهِمَ مُصَيَّ ، وَعَهِدْنَا إلى إبرهم و ابوا بچے کو نماز کی جگہ اور تاکید کی ہم نے مقام ابراهیم اور إسمعيل أَن طَهْرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعكوين اسٹیل کو کہ جان رکھو میرے گھر کو واسطے طواف کر نیوالوں اور اسکات کرنے والوں والركم السُّجُودِهِ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِمُ رَبِّ اجْعَل اور رکوع کرنے و قول (اور) سجدہ کرنے والوں کے.اور جب کیا ابراہیم نے نصاب میرے بنا
هذَا بَلَدًا مِنَّا وَارْزُقُ اَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرُ مان لائے اوہ میں سے البقرة ٢ A/ اس کو شہر امن والا اور ترقی دے اس کے باشندوں کو پھلوں میں سے (یعنی اُسے جو آمَنَ مِنْهُم بالله واليوم الاخره قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ اللہ اور روز آخر یہ فرمایا اور جس نے کفر کیا.فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اضْطَرَّةٌ إلى عَذَابِ النَّارِ وَ تو فائدہ پہنچاؤں گا اسے بھی تھوڑا سا پھر مجود کہ دل کا اُسے آگ کے عذاب کی طرف بئْسَ الْمَصِيرُ وَ إِذَيَرْفَعُ اِبْرهِمُ الْقَوَاعِدَ کیا ہی رہا ہے وہ ٹھکانا اور جب ان کی کرتا تھا ابراسیم بنیادیں مِنَ البَيْتِ وَإِسْمعِيلُ، رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ ط اور تھانہ کہے کیا ر اسٹیل اوہ کہتے جاتے تھے ) اے رب ہمارے قبول کر ہم سے یقینا تو انتَ السّاعَلِيمُ : رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ 6.ے رب ہمارے اور بنا ہم کو فرمانبردار خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے لكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أَمَةً مُسْلِمَةٌ لَكَ ، وَ اَرِنا اور دو کھا نہیں دینا اور دنیا) اولاد ہماری سے ایک امت فرمانبردار اپنی مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ عبادت کے راستے ہمارے اور فصل کیساتھ توجہ فراہمی یقینا" تو ہی بہت فضل کیساتھ توجہ فرمانیوالا بہت رحم کر نیوالا ہے.ربَّنَا وَابْعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايَتِكَ اے رب ہما رے اور مبعوث فرما اپنی میں ایک رسول اپنسی میں سے کہ پڑھے ال پر آیات تیری وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ اِنَّكَ اَنْتَ اور سکھائے ان کو کتاب مات اور پاک کر کے ان کو یقینا تو ہی الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَمَن يَرْغَبُ عَنْ مَلَةٍ إبرهم بڑائی والا بہت حکمت والا ہے اور نہیں بے رغبتی کرتا مذہب سے ابراہیم کے إلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ في الدُّنْيَام سوائے اس کے جس نے بیوقوف بنایا اپنے سیکس اور یقینا این برگزیدہ کیا تھا آنے سے دنیا میں وانه فى الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ إذْ قَالَ لَهُ نیکوں میں سے ہو گا جب کہا اُسے آخرت میں ضرور
۴۲ الم البقرة.رَبُّةَ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ العَلَمينَ وَوَلى اُس کے رب نے فرمانبردار ہو جا اس نے کہا فرما نہ دار ہوتا میں تمام دنیا کے رب کا اور تائید کی بها إِبْرهِم بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يبنى إنَّ اللهَ اصْطَفى اس افترا برداری) کی ایٹر ہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے (بھی کہا) اسے میرے بیٹو یقینا اللہ نے چن لیا ہے لكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ انْتُم مُّسْلِمُونَ امْ تمہارے لیے اس دین کو پس پرگز نہ مرتا تم گھر ایسے حال میں کہ تم نڈا نبردار ہو كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ المَوتُ ، إذ قَالَ - تھے تم موجود جب آئی یعقوب کو موت جب کہا اس نے لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِى قَالُوا نَعْبُدُ الهَكَ اپنے بیٹوں کو کسی کی عبادت کرو گے تم انہوں نے کہا ہم عبادت کریں گئے تیرے معبود کی وا أَبَارتَكَ إبْرهِم وَ اِسْمعِيلَ وَإِسْحَقَ الهَا وَاحِدًا اور معبود کی ابراریم اور بعد میرے ؟ اسمیل الد اسحق کے جو کہ معبود ہے ایک ہی ونَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ وَتِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا اور ہم اسی کے فرمانبردار نہیں کیا کرتے جماعت یقینا گزر چکی ہے اس کیلئے ہے جو كسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلا تُسْلُونَ عَمَّا كَانُوا کیا یا تھا.اس نے اور تمہارے لیے جو کہا یا تم نے اور نہ پوچھے جاؤ گے تم اس سے کہ جو تھے وہ يَعْمَلُونَ وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أو نصرى تَهْتَدُوا اور کہا انہوں نے ہو جاؤ ہودی یا عیسائی تو ہدایت پاؤ گے تم قُل بَلْ مِلةَ اِبْراهِمَ حَنِيقَاء وَمَا كَانَ مِنَ تو کہا ہے کہ انہیں بلکہ اختیار کرو) مذہب ابراہیم موحد کا اور نہ الْمُشْرِكِيْنَ قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اُنْزِلَ إِلَيْنَا وَما مشرکوں میں سے تم کو ایمان لائے ہم اللہ پر اور اس پر جو آمارا گیا ہماری طرف اور جھو أنزل إلى إبْراهِم وَاسْمعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ آنا سا گیا طرف ابراهیم اور اسمعیل تھا ده اور استحق اور نیتوب وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أورتى اور ان کی اولاد کی اور جو موسی اور عیسی کو اور جو دیئے گئے
۴۳ البقرة.النبيُّونَ مِن زَيْهِمْ لا نُفَرّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ دیگر) نبی اپنے رب کی طرف سے نہیں ہم فرق کرتے درمیان کسی کے بھی ان میں سے وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ اور ہم اس دنیا کے فرمانبردار نہیں پھر اگر ایمان لادیں وہ مانند اس کے کہ تم ایمان لائے ہو فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ في شقاق به تو یقینا وہ ہدایت پا گئے.اور اگر پھر جاریں وہ تو سوائے اس کے نہیں وہ مخالفت میں ہیں فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ صِبْغَةَ پس کافی ہو گا تجھے ان کے مقابلہ میں اللہ اور وہ خوب سننے والا خوب جانے والا ہے (اختیار کرد) طریق اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً : وَنَحْنُ لَهُ اللہ کا اور کون سے زیادہ اچھا اللہ سے طریق میں اور ہم اس کے عِيدُونَ قُلْ أَنْحَاجُونَنَا فِي اللهِ وَ هُوَ رَبُّنَا وَ بادت گذار ہیں تو کہر سے کیا جھگڑتے ہو تم ہم سے اللہ کے بارے میں اور وہ ہمارا رب ہے اور رَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالَكُمْ، وَنَحْنُ لَهُ اور ہم اسی کے تلا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال میں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال نہیں مُخْلِصُونَ اَمْ تَقُولُونَ اِنَّ إبرهم واسمعيل مخلص ہیں کیا تم کہتے ہو ريقيا ابرا ہیم اور اسمبیل يهودي وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطُ كَانُوا هُودًا اور استحق اور یعقوب اور اس کی اولاد او نصرى قُل وَ انْتُمْ أَعْلَمُ أمر الله ، وَمَنْ أَظْلَمُ من یا بسائی تو کہر سے کیا تم کیا وہ جانتے ہو یا اللہ اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جس نے كَتَم شَهَادَةٌ عِنْدَهُ مِنَ اللهِ وَمَا اللهُ بِغَا فَل عَمَّا چھپائی گواہی ہو؟ اس کے پاس ہے اللہ کی طرف سے اور نہیں اللہ ہرگز غافل اس سے جو تَعْمَلُونَ تلكَ أمّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ کہا یا اس نے تم کرتے ہو " ایک جماعت پر یقینا گزر چکی ہے اس کے لیے ہے جو وَلَكُمْ فَا كَسَبْتُمْ وَلا تُسْلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) اور تمہارے لیے ہے جو کہا یا تم نے اور نہ پوچھے اؤ گے تم اس کی نسبت جو تھے وہ کرتے درد
قرآن مجید آخری پارے کی آخری دس سورتیں حفظ کریں.ا سورة الفيل ٢- سورة القريش.سورة الماعون ۴ سورة الكوثر A -4 +/- سورۃ الکافرون سورة النصر سورة الهرب سورۃ الاخلاص سورة الفلق سورة الناس
۴۵ دُعائیں ا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِين ترجمہ : اسے ہمارے رب ہم پر قوت برداشت نازل کر.اور ہمارے قدم جھائے رکھے اور کافروں کے خلاف ہماری مدد کر.- اسْتَغْفِرُ اللهِ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاتُوبُ إِلَيْهِ ترجمہ ، میں اپنے الہی سے اپنے برگاہ کی بخشش چاہتی ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتی ہوں اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شرورهم ترجمہ : اے اللہ ہم تیری ذات کو ہی دوشمن کے آگے کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ ماسکتے ہیں.رَبِّ الْمُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينِ ترجمہ اسے میرے رب میری مدد کم مصد قوم کے خلاف.
احادیث الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ نیکی پر آگاہ کرنے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہوتا ہے ٢ عِدَةُ الْمُؤْمِنِ كَاخْذِ الْكَفْ مومن کا وعدہ ایسا ہی سچا ہے.جیسے کوئی چیز ہاتھ میں دے دی جائے م.لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَمَا وہ شخص ہم مسلمانوں میں سے نہیں جو ہمیں دھوکا دے السَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ لِغَيْره سعادت مند وہ ہے جو غیر کے حال سے نصیحت پکڑے.ه اليد العليا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السفلى اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے لا يَشْكُرُ اللهَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ نہیں شکر کرتا اللہ کا جو نہیں شکر کرنا بندوں گا.
Α ، التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو.إذَا جَاءَكُمْ كَرِيمُ قَوْمٍ فَاكْرِمُوهُ جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت کرو.سَيْدُ القَومِ خَادِ مُهُمْ قوم کا سرداران کا خادم ہوتا ہے.اليَمِينُ الْفَاجِرَةٌ تَدَعُ الدِّيَارَ بَلَاقِعَ جھوٹی قسم گھروں کو ویران کر دیتی ہے.
نماز : نیت باندھنے سے پہلے یہ دعا پڑھو : إني وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوتِ یقیناً میں نے اپنا رُخ اُس کی جانب کیا جس نے آسمانوں وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.اور زمین کو پیدا کیا ہے.اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.شاء سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ پاک ہے تو اسے اللہ اور اپنی تعریف کے ساتھ اور بابرکت ہے اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إلَهَ غَيْرُكَ تیرا نام اور بڑی ہے تیری شان اور نہیں کوئی معبود تیرے ہوا.
۴۹ تعوذ اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالٰی کی مدد کے ساتھ شیطان را ندے ہوئے ہے.تسمیہ بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پڑھتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.سورة فاتحه b اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) الرَّحْمَنِ سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام مخلوق کی پرورش کرنے والا بن مانگے دینے والا الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ اور سختی محنت کو ضائع نہ کرنے والا ہے.مالک ہے جزا سترا کے دن کا.ہم تیری ہی نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.ہم کو چلا
۵۰ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ سیدھے راستہ پر.اُن لوگوں کے رستہ پر أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ لا جن پر تیر افضل ہوا.نہ اُن لوگوں کے رستہ پر جن پر تیرا غضب ہوا وَلَا الضَّالِّينَ & امين اور نہ اُن لوگوں کے رستہ پر جو سچی تعلیم کو بھول گئے رائے خدا ایسا ہی ہو ، سورة اخلاص قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ لَمْيَلِدُ : تو کہ وہ اللہ ایک ہے.اللہ تھانے کے سب محتاج ہیں.وہ کسی کا باپ نہیں وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدُّة اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے.اور کوئی بھی نہیں اس کے کام میں اُس کا شریک.اس کے بعد تکبیر اللہ اکبر کہو اور رکوع میں جاؤ رکوع کی تسبیح کم از کم میں یار پڑھو اور زائد پڑھنے میں طاق ربیعنی تین یا پانچ یا سات بار ) کا خیال رکھو.رکوع کی تسبیح سُبْحَانَ رَبِي الْعَظِيمِ پاک ہے میرا رب جو بڑی عظمت والا ہے.
اه جب انیستان سے لوٹ کر چکو تو سیدھے کھڑے ہو کر ی تجمیع و حمید پڑھو سمنيع سمع اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللہ تعالے نے اُس کی سُنتی جس نے اُس کی تعریف کی.تحمید رَبَّنا لك الحمد اے ہمارے رب ! سب تعریف تیرے ہی لئے ہے.حَمْداً كَثِيرًا طَيِّبًا مُّبَارَكَا فِيهِ بہت زیادہ تعریف جو پاک ہو اور جس میں برکت ہو.اس کے بعد الله اكبر کہہ کر سجدہ میں جاؤ.اور سجادہ کی یہ تسبیح تین بار یا زیادہ طاق مرتبہ پڑھو سُبْحَانَ رَبِّي الأعلى میرا بڑی شان والا رب پاک ہے.
۵۲ دو سجدوں کے درمیان کی دُعا اور اللّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِى وَاهْدِنِي وَ اے اللہ تعالیٰ ! میرے قصور بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور راہنمائی کر عَافِنِي وَارْفَعْنِي وَاجْبُرْنِي وَارْزُقَنى، مجھے تندرستی دے اور مجھے عزت عطا کر اور میری اصلاح کر اور تجھے رزق دے.اس کے بعد دوسرا سجدہ پہلے سجدہ کی طرح کرو.پھر اللهُ أَكْبَرُ کہ کر اسی طرح کھڑے ہو جاؤ جیسے پہلے کھڑے تھے اور پہلی رکعت کی طرح اس دوسری رکعت کو بھی سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سُورۃ یا قرآن کریم کا کچھ حصہ شامل کر کے ادا کرو.اور سجدوں سے فارغ ہو کہ اس طرح بیٹھ جاؤ کہ بایاں پاؤں نیچے بیچھا رہے اور دایاں کھڑا رہے اور ہا تھوں کو اس طرح رانوں پر رکھو کہ انگلیاں سیدھی ہوں، تشہد پڑھتے ہوئے سیدھے ہاتھ کی پہلی انگلی اٹھاؤ پھر درود شریف اور دعائیں پڑھو.
۵۳ تَشَهد التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَاتُ تمام زبانی اور بدنی اور مالی عبادتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ سلامتی ہو آپ پر اے نبی کریم اور اللہ تعالیٰ کی رحمت 6 وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ اور اُس کی برکتیں بھی.سلامتی ہو ہم پر اور اللہ تعالے کے الصّلِحِينَ، أَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ نیک بندوں پر.میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود مگر اللہ تعالے وَاشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد و علم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.
۵۴ درود شریف اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ اسے اللہ ! فضل نازل کو محمد (صلعم) اور محمد (صلعم) کی آل پر ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ جس طرح فضل کیا تو نے ابراہیم پر اور ابراہیم کی پیروی إبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ، اللهُمَّ کرنے والوں پر.ضرور تو ہی حمد والا بڑی شان والا ہے.اسے اللہ تعالٰی ! بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا برکت نازل فرما محمد (صلعم) اور محمد (صلعم) کے فرمانبرداروں پر جس طرح بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ برکت نازل فرمائی تو نے ابراہیم پر اور ابراہیم کے فرمانبرداروں پر إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد ضرور تو حمد والا بڑی شان والا ہے.
۵۵ دعائیں ا رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ اے ہمارے رب! دے ہم کو دُنیا میں ہر قسم کی بھلائی اور آخرت میں بھی حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ b بھلائی دے اور بیچا ہم کو آگ کے عذاب سے.- رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوة وَمِنْ ذُرِّيَّتِي اے میرے رب ! بنا مجھ کو قائم کرنے والا نماز کو اور میری اولاد کو بھی رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ، رَبَّنَا اغْفِرْ لِي اسے ہمارے رب ! قبول فرما میری یہ دعا.اسے ہمارے رب ! بخش دے مجھ کو وَلِوَالِدَى وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُوْمُ الحِسَابُ اور میرے ماں باپ کو اور سب مومنوں کو جس دن حساب قائم ہو.- اللهم إني ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا اسے اللہ تعالٰی ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے
۵۶ وَلا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي اور گناہوں کو کوئی معاف نہیں کر سکتا سوائے تیرے پس تو مجھ کو بخش دے مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ بخش اپنے حضور سے اور مجھ پر رحمت فرما یقینا انْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ تو بخشنے والا مہربان ہے.b ان دعاؤں کے بعد پہلے دائیں اور پھر بائیں طرف منہ کر کے کہو : السَّلَامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللهِ سلامتی ہو تم پر اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں.
۵۷ دُعاء قنوت اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ اسے اللہ تعالیٰ ! ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں اور تیری بخشش چاہتے ہیں.وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنتوكَّلُ عَلَيْكَ وَنُثْنِي ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور بھروسہ رکھتے ہیں تجھ پر اور ہم خوبیاں بیان عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ کرتے ہیں تیری.اور شکر کرتے ہیں تیرا اور نہیں ناشکری کرتے تیری.وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ ، اللهُمَّ اور قطع تعلق کرتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اس کو جو تیری نافرمانی کرتا ہے.اے اللہ! إيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لئے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری نسعى وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى طرف دوڑتے ہیں اور کھڑے ہوتے ہیں اور تم امیدوار میں تیری رحمت کے اور ہم ڈرتے ہیں عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقُ ، تیرے عذاب سے ضرور تیرا عذاب تیرے نافرمانوں کے ساتھ ملانے والا ہے.
۵۸ مسائل نماز مسائل ارکان نماز ا.اگر نمازی کسی وجہ کھڑا نہ ہو سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے.قرأت میں کم از کم ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات ہونی چاہئیں.-۲- قعدہ میں اس قدر بیٹھنا فرض ہے کہ جتنی دیر میں التحیات پڑھ سکیں.مفسدات نماز ا.نماز میں بات چیت کرنا.۲- درد یا مصیبت کی وجہ سے آواز سے رونا.(سوائے بے کسی کے).اپنے امام کے سوا کوئی اور قرآن پڑھنے میں بھولے تو اسے بتانا.اپنے امام کو بتانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی.۴.نماز میں کچھ کھانا پینا مکروہات نماز ا چادر یا رضائی کو سر یا کاندھے پر اس طرح ڈالنا کہ ان کے کنارے ٹکتے رہیں یا کوٹ اور لبادہ وغیرہ کو بغیر استین میں ہاتھ ڈالے ہوئے اوڑھنا.۲ پیشانی سے مٹی پونچھنا.
۵۹ - کپڑے کو مٹی سے بچانے کے لئے سمیٹنا یا اُٹھانا ننگے سر نماز پڑھنا پیشانی کے سامنے سے بلا ضرورت کنگری یا مٹی کو ہٹانا.البتہ اگر سجدہ نہ ہو سکے تو ایک بار ہٹانا درست ہے.4 - انگلیوں کا نماز میں چٹخانا.ے.نماز میں دائیں بائیں طرف یا آسمان کی طرف دیکھنا نماز میں جماہی یا انگڑائی آئے تو حتی الامکان روکنا چاہیے.9.سجدے کے وقت دونوں بازوؤں کو زمین پر بچھا دینا یا پیٹ کو ران سے ملانا.بلا ضرورت، کھانا.٠١٠
4.نماز عید عیدیں دو ہوتی ہیں.ایک عید رمضان کے روزے گزرتے پر یکم شوال کو اور دوسری عید ماہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو ہوتی ہے.عید کی نماز میں نہ اذان ہوتی ہے نہ اقامت.ان دونوں نمازوں کے پڑھنے کا وقت سورج بلند ہونے پر شروع ہوتا ہے.پہلی عید کا نام عید الفطر اور دوسری عید کا نام عید الاضحیہ ہے.ہر دو نمازوں کی قرائت بالجہر ( بلند آواز سے) ہوتی ہے : طریق نماز عید ہر دو عیدوں کی نمازیں ایک ہی طرح پڑھی جاتی ہیں.دو رکعت نماز پڑھ کر جمعہ کے خطبہ کی طرح امام خطبہ پڑھے.خطبہ میں جیسا موقع ہو مسائل بتائے.پہلی رکعت میں نیت باندھ کر دوسری نمازوں کی طرح پہلے ثناء پڑھو.اور اس کے بعد ہاتھ کھول کر سات بار تکبیر اللهُ أَكْبَرُ کہو.دونوں ہاتھ کانوں تک یا کندھوں تک لا لا کر کھلے چھوڑتے جاؤ.
41 ہاتھ باندھنا بھی جائز ہے.سات تکبیروں کے بعد ہاتھ باندھ کر قرآت پڑھو اور دوسری رکعت میں قرأت پڑھنے سے پہلے پانچ تکبیریں کہو.ہر دو رکعت میں علاوہ مقررہ تکبیروں کے بارہ تکبیریں زائد ہیں.عیدگاہ کو ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا مسنون ہے.بارش کے سبب عید گاہ میں اگر عید کی نماز نہ پڑھی جا سکے تو مسجد میں یا دوسرے دن بھی یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے.خطبہ عید نماز کے بعد ہوتا ہے.عید کے دن جب ایک دوسرے سے ملیں تو یہ دعا پڑھیں : تَقَلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكَ عید ہر کے دنوں میں کثرت سے یہ تکبیرات پڑھیں اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ اكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْد
حضرت عثمان غنی نی مکہ کی گلیوں میں کھیل کر ایک ساتھ جوان ہونے والے دوستوں میں حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ حضرت عثمان کا نام بھی آتا ہے.مکہ میں رواج تھا کہ باپ کا نام اپنے نام کے ساتھ شامل کرتے تھے حضرت عثمان کے باپ کا نام عفان تھا اس لئے آپنے عثمان بن عفان کے نام سے مشہور تھے.آپ نے عمر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ برس چھوٹے تھے.آپ بھی قبیلہ قریش سے تھے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اس زمانہ میں تعلیم کا رواج اس طرح نہیں تھا.جیسے آج کل سب بچے سکول جاتے ہیں.بلکہ علماء کے گھروں پر جاکر تعلیم حاصل کی جاتی تھی.حضرت عثمان نے بھی تعلیم حاصل کی.عرب قبیلے زیادہ تر گھوم پھر کر روزی کمانے کے عادی تھے.اس لئے زیادہ توجہ تجارت کی طرف ہوتی تھی.تجارت کا مطلب ہے کہ ایک جگہ جہاں سے سستی چیزیں میں خرید کر دوسری جگہ جا کہ جب دوسرے شہر میں کچھ زیادہ قیمت ملے تو بیچ دیں اور وہاں سے وہ چیزیں جو سستی میں خرید کرلے آئیں اور اپنے شہر میں اُن کی ضرورت ہو اگر بیچ دیں اس طرح بہت فائدہ ہوتا.اکثر لوگ یہی کام کرتے تھے.آج کل جیسی گاڑیاں کاریں تو اس زمانہ میں نہیں تھیں ہوائی جہاز بھی نہیں تھے.اونٹوں پر سامان لاد کر لے جاتے.سارا دن سفر کرتے.پھر کسی جگہ جہاں رات آتی.وہیں پر رات بسر کر لیتے.اُن کے پاس تجھے ہوتے تھے جو بہت جلد ایک چھوٹے سے
۶۳ مکان کی شکل میں لگا لئے جاتے تھے.اونٹ بھی آرام کر لیتے اور اونٹوں پر بیٹھنے والے انسان بھی.اگلے دن صبح صبح ایک آدمی گھنٹی بجاتا جس کا مطلب ہوتا کہ اب آگے جانا ہے.جلدی جلدی تیار ہو جاؤ.حضرت عثمان جن کی باتیں آپ کو بتائی جارہی ہیں لکھنا پڑھنا جانتے تھے.مگر زیادہ توجہ اپنے والد کے ساتھ تجارت کی طرف دیتے تھے.آپ فلہ یعنی گندم وغیرہ کی تجارت کرتے تھے.آپ بہت ایماندار اور محنتی تھے.اللہ پاک محنت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.اس لئے آپ کو بہت فائدہ ملتا.آپ کے پاس بہت دولت مجمع ہوگئی.اور سب لوگ جانتے تھے کہ حضرت عثمان تو بڑے امیر آدمی ہیں.امیر تو تھے.مگر رحم دل بھی تھے.غریبوں کی بہت مدد کرتے تھے.اسلام آنے سے پہلے عرب کے لوگوں میں بعض عادتیں بہت خراب تھیں.جو کھا تے شراب پینے اور جوا کھیلنے میں ضائع کر دیتے.ہوا ایسی کھیل کو کہتے ہیں.جس میں شرط رکھی جائے کہ جیتنے والے کو انعام ملے گا اور ہارنے والے کے پیسے واپس نہیں کئے جائیں گے.ایسی اور بھی کئی خراب عادتیں تھیں مگر حضرت عثمان نہ شراب پیتے تھے اور نہ جوا کھیلتے تھے.نہ ہی وقت خراب کرنے والی دوسری باتیں کرتے تھے.اس طرح آپ کا مال ضائع نہ ہوتا.جب آپ کی عمر ۳۳ سال کی ہوئی.تو ایک دن اُن کے دوست حضرت ابو بکر نے انہیں ایک طرف لے جا کر چپکے چپکے سے ایک بالکل نئی بات بتائی.حضرت ابو کر نے بتایا کہ ہم باتیں کیا کرتے تھے تا کہ پتھر کے بت خدا نہیں ہو سکتے.مگر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ خدا کون ہے.اؤ میں تمہیں تناؤں مجھے میرے دوست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ یہ سب چھوٹے پتھر کے بنے ہوئے ثبت ہمیں کچھ نہیں دے سکتے.خدا ایک ہے جو سب کا خالق اور مالک ہے.اُس نے محمد صلی اللہ علیہ سلم کو پیغام دیا ہے.کہ وہ سب دنیا کو بتا دیں.اور میں نے مان لیا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سچ کہتے ہیں.اُن کے نئے دین کا نام اسلام ہے حضرت
۶۴ عثمان غور سے سنتے رہے پھر بے تابی سے فرمایا مجھے ابھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو میں اُن کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے مسلمان ہو جاؤں حضرت ابو بگر یہ سن کر بہت خوش ہوئے.کیونکہ اس وقت تک ان کے دوستوں میں سے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا تھا.جلدی جلدی چلنے کی تیاری کرنے لگے.مگر کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے پیارے نبی حین کو ملنے کی تیاری ہو رہی تھی.خود تشریف لارہے ہیں.آپ نے حضرت عثمان کو دیکھ کر فرمایا ! عثمان میں تمہارے سامنے جونت کو پیش کرتا ہوں.چاہو تو اسے قبول کر لو.میں خدا کا رسول ہوں.اور اللہ تعالے نے مجھے تم لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے بھیجا ہے.میرا ساتھ دو گے تو اس میں تمہارا فائدہ ہے.اگر انکار کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے...حضرت عثمان فوراً بولے.حضور آپ کی بتائی ہوئی جنت کی مجھے بہت خواہش ہے مجھے اسلام کا کلمہ پڑھائیے اور ارکان اسلام سکھائیے.میں ایمان لاتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں.آپ کے خاندان میں جب سب کو علم ہوا کہ جس شخص کو پورا شہر غلط کہہ رہا ہے حضرت عثمانی نے ان کو مان لیا ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے.ان کے چچا حکم بن ابی عاصل کو پتہ چلا تو بڑے غصے میں آئے.اور اتنے بڑے آدمی کو پکڑ کر ایک درخت کے ساتھ کھڑا کر کے رسیوں سے خوب مضبوطی سے باندھ دیا.اور پھر ڈنڈے سے مارنے لگے.مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے خدا کو نہ مانو.مگر مار پڑنے سے خدا کی محبت اور زیادہ ہوئی گئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا نور.اُن کا پیارا پیارا باتیں کرنے کا انداز.سب کچھ یاد آنے لگا اور اور مارا اور چوٹ کی تکلیف کم ہوتی گئی.درخت سے بندھا مار کھانے والا یہ آدمی قریش خاندان کی بنی امیہ شاخ سے
۶۵ تعلق رکھتا تھا جس میں بعد میں اسلام کو چاہنے والے پیدا ہوئے.اور تقریباً سو سال تک حکمران ہے.صرف مار پیٹ ہی نہیں.کئی طرح سے تنگ کیا جاتا.ابھی زیادہ لوگ اسلام نہیں لائے تھے مسلمان شام کو ملتے.تو ہر ایک ان فلموں کی داستان سناتا جوان پر کئے جاتے تھے.اتنی شدید تکلیف دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر چلے جانا چاہیئے.آپ کو اللہ تعالی کا پیغام یعنی اسلام سکھاتے ہوئے.پانچ سال ہو چکے تھے.مگر اسلام قبول کرنے والے بہت کم تھے اور جو اسلام لائے تھے وہ سخت مشکلات میں تھے.حضرت عثمان جیسے پیارے انسان کو اللہ پاک نے ایک بہت بڑی نعمت دی.اُن کی شادی ایک شہزادی سے ہو گئی.یہ شہزادی ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی حضرت رقیہ تھیں.حضرت عثمان بہت خوش تھے.مگر تکلیف بہت زیادہ ہوگئی.مصائب بڑھ گئے تھے.ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا.آپ نے اپنی انگلی سے مغرب کی طرف اشارہ کیا.اور فرمایا کہ اس طرف ایک ملک ہے جس میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا.تم وہاں چلے جاؤ.اس ملک کا نام حیشہ تھا.ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کو ہجرت کہتے ہیں.حضور کے ساتھیوں کا یہ سفر ہجرت حبشہ کہلایا.کفار کوجب علم ہوا کہ سلمان مکہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں.تو انہوں نے اُن کا پیچھا کیا.مگر پکڑ نہ سکے.چونکہ یہ لوگ کشتیوں میں سوار ہو کہ حبشہ چلے گئے تھے.حضرت عثمان اس ہجرت میں اپنا مکان اپنا رویہ پیسہ اپنے اونٹ بکریاں سب کچھ مکہ میں چھوڑ گئے.اس طرح صرف خدا تعالی کو ایک ماننے کے بعد.اپنے رشتہ داروں اور سامان وغیرہ سب کچھ چھوڑ کہ اپنا ملک چھوڑ کر حبشہ جانا پڑا.آپ کے ساتھ گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں.کچھ عرصہ کے بعد حضرت عثمان مکہ واپس آگئے.مکہ میں پوری طرح حالات ٹھیک
44 نہ ہوئے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے مسلمانوں کے ساتھ.مدینہ ہجرت کا فیصلہ فرمایا.اس طرح حضرت عثمان.ایک دفعہ پھر اپنا سب کچھ چھوڑ کر مدینہ آگئے.مدینہ میں اتنی تکلیفیں تو نہ تھیں.جتنی مکہ میں تھیں.مگر یہاں بھی بعض قبیلے شرارتیں کرتے رہے.اُن دنوں پانی کنویں سے حاصل ہوتا تھا.سارے مدینے دالوں کے لئے پینے کے پانی کا ایک ہی کنواں تھا.اور یہ کنواں ایک یہودی کا تھا.یہودی کو پتہ تھا کہ سب یہیں سے پانی لیں گے اس لئے دو بہت پیسے لے کر پانی دیتا.امیر لوگوں کو تو کوئی مشکل نہ ہوتی.وہ تو خرید لیتے.مگر غریب لوگ سجائے پینے کا پانی کیسے خرید سکتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں سے بہت محبت کرتے تھے.آپ نے یہ تکلیف دیکھی تو ایک دن فرمایا.اگر کوئی مسلمان اس کنویں کو یہودی سے خرید لے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو اس میں سے پانی لینے دے، تو میں اُس کے لئے جنت کی خوشخبری دیتا ہوں حضرت عثمان یہ سن کر اُٹھے اور کنویں کے مالک یہودی کے پاس گئے.اور بولے تم یہ کنواں کتنے میں فروخت کرو گے.یہودی نے سوچا یہ مسلمان ہجرت کر کے آئے ہیں.پھیلا کنواں کہاں خرید سکتے ہیں.اُس نے بہت زیادہ قیمت نیا دی حضرت عثمان نے وہ قیمت اُسی وقت ادا کر کے اعلان کروا دیا کہ مسلمان اس میں سے بغیر کوئی پیسہ دیئے جتنا چاہیں پانی استعمال کر سکتے ہیں.ایک دفعہ سخت قحط پڑا قحط کا مطلب ہوتا ہے.کھانے پینے کی چیزیں بالکل ختم ہو جانا.آپنے کے گندم سے لدے ہوئے اُونٹ آئے تو اس پر دس گنا منافع مل سکتا تھا.مگر آپ نے سب اتاج خدا کو خوش کرنے کے لئے سفریوں میں بانٹ دیا.ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ حضرت عثمان تجارت کرتے تھے.جب مسلمان ہو گئے تو آپ نے سمجھ لیا کہ میرا سب کچھ اب میرے خدا کا ہے.خدا تعالیٰ کا ہونے سے یہ مطلب ہوتا ہے
46 کہ ایسے کاموں پر خرچ کروں گا جس سے خدا نوش ہو.آپ تجارت میں رقم لگاتے تو سمجھتے خدا کی رقم تجارت میں لگائی ہے.اور جب نفع ہوتا تو سمجھتے خدا کی رقم پر نفع ہوا ہے.وہ سب خدا کے راستے میں ایسے کاموں پر خرچ کر دیتے جس سے خدا خوش ہو.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں کی مسجد جو مسجد نبوی کہلاتی ہے.تنگ لگنے لگی.نمازی زیادہ آتے تھے.جگہ کم ہو گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باتیں کر رہے تھے کہ مسجد کے ساتھ کچھ زمین خالی پڑی ہے.اگر کوئی شخص اس کو خرید کر مسجد کے لئے دیدے تو مسجد بڑی کی جاسکتی ہے.حضرت عثمان نے وہ جگہ خرید کر مسجد کو بڑا کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں دے دی.کھلا خرچ کرنے والے کو غنی کہتے ہیں.اسی لئے آپ کا نام عثمان غنی مشہور ہوا.مدینہ میں رہتے ہوئے دو ہی سال ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو ایک جنگ لڑنا پڑی.ان دنوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت رقیہ جو حضرت عثمان کی بیوی تھیں سخت بیمار تھیں.استحصور نے حضرت عثمان کو اجازت دے دی کہ آپ حضرت رقیہؓ کا خیال رکھیں.اور جنگ پر ہمارے ساتھ نہ جائیں.ابھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے واپس نہیں آئے تھے کہ حضرت رقیہ فوت ہو گئیں.حضرت عثمان بہت غمگین ہو گئے.حضرت رقیہ بہت اچھی تھیں.اچھا ساتھی فوت ہو جائے تو غم تو ہوتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عثمان کا یہ نظم نہ دیکھا گیا.آپ نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم کی شادی حضرت عثمان سے کر دی.اس طرح آپ کا علم کم ہو گیا اور خوشی زیادہ ہوگئی.کیونکہ انہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی مل گئی.اور یہ بڑی عزت کی بات تھی.ہجرت کو چھ سال ہو گئے تھے.ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ وہ مکہ
گئے ہیں.مکہ تو سب کو یاد آتا تھا.چنانچہ آپ اپنے ساتھ تقریباً ایک ہزار صحابیہ کو لے کر مکہ گئے.مگر کافروں نے آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا.آپ لڑنے کے لئے تو گئے نہ تھے.سوچا کہ والوں کو بتاتے ہیں کہ ہم لڑنے کے ارادے سے نہیں آئے.صرف پیارے کعبہ کا طواف کریں گے.آپؐ نے اپنی بات مکہ والوں کو تانے کے لئے حضرت علی کو چنا.حضرت عمر نے کہا آپ کا حکم ماننے کو تیار ہوں.مگر حضرت عثمان زیادہ اچھی طرح بات کر سکتے ہیں.ان کو بھیجا جائے.چنانچہ حضرت عثمان کو بھیجا گیا.حضرت عثمان کے مکہ میں بہت سارے رشتہ دار تھے.کہنے گئے تم چاہو تو طواف کر لو.مگر ہم محمد کو نہیں آنے دیں گے.مگر حضرت عثمان نے جواب دیا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے پیارے آقا کے بغیر طواف کر لیں.مکہ والوں نے غصہ میں آکر آپ کو گرفتار کر لیا.رات ہو گئی حضرت عثمان واپس نہ آئے تو فکر ہوئی.کسی نے مشہور کر دیا کہ انہیں مار دیا گیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سُن کو بہت غمگین ہوئے اور ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر صحابہ سے وعدہ لیا کہ ہم عثمان کا بدلہ ضرور لیں گے.اُسی وقت اللہ تعالٰے نے اپنے فرشتہ کو بھیجا جس نے اگر اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام دیا کہ اللہ ان وعدہ کرنے والوں سے خوش ہوا.کافروں کو پتہ چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدلہ ضرور لیں گے.تو گھبرا کر حضرت عثمان کو چھوڑ دیا.اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرلی.حضرت عثمان حب خدا کو خوش کرنے کے لئے خرچ کرتے.تو بہت زیادہ خرچ کرتے.ایک جنگ ہوئی تھی.جسے غزوہ تبوک کہتے ہیں.اس وقت مسلمانوں کے پاس جنگ کا سامان بہت کم تھا.حضرت عثمان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور تیرہ ہزار سے زیادہ سپاہیوں کا پورا خرچ پیش کیا پھر سوچا یہ بھی کم نہ ہو ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے اور پیش کر دیئے اور ایک ہزار دنیار - دینار اس علاقے
49 کے روپے کو کہتے تھے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے.آپ ساری عمر ہی حضرت عثمان سے خوش رہے.جب حضرت عثمان کی دوسری بیوی حضرت ام کلثوم بھی فوت ہو گئیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہو تیں تو میں ایک ایک کر کے سب کی حضرت عثمان سے شادی کر دیا.وہ زمانہ بڑا پیارا تھا.جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے.سب مسلمان آپ سے بے حد پیار کرتے تھے.مگر آدمی کو ایک نہ ایک دن تو خدا کے پاس جانا ہی ہوتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے.پھر حضرت ابو بکر خلیف ہے.وہ بھی فوت ہو گئے تو حضرت عمر فاروق خلیفہ ہے.اور حضرت عمر کو جب ایک ظالم نے زخمی کر دیا تو آپ نے چھ صحابہ کے نام لئے کہ ان میں سے کوئی خلیفہ چن لیں.ان چھ ناموں میں ایک نام حضرت عثمان غنی کا بھی تھا اور اپنے ہی کو سب نے خلیفہ چن لیا.اس وقت ہجرت کو چو بیس سال ہو چکے تھے.حضرت عثمانی خلیفہ بنے تو بہت دُور دُور کے ملکوں تک کے لوگ مسلمان ہو چکے تھے.حضرت عثمان کے زمانہ میں اور کئی ملکوں سے جنگیں ہوئیں.اور بہت سے ملک فتح ہوئے پہلی دفعہ مسلمانوں نے سمندر کے راستے سفر کر کے ملک فتح کئے.حضرت عثمان نے مسجد نبوی کو بہت بڑا بنوایا.دور دور کے ملکوں کے لئے قرآن سیکھنے کا انتظام کیا.لوگ اپنے اپنے طریقے سے پڑھتے.حضرت عثمان نے سوچا.اس طرح تو ہر ملک کا قرآن علیحدہ ہو جائے گا.آپؐ نے اعلان کر دیا کہ جس کے پاس بھی قرآن کا جو بھی حصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کا لکھا ہوا ہے.انہیں دے دیا جائے.چنانچہ سب نے دیدیا.پھر آپ نے سارا قرآن ایک ہی طرح لکھوایا.اس پر زیر زہر لگوائے
اور آج تک قرآن مجید اُسی طرح پڑھا جاتا ہے.چھ سال تک حضرت عثمان نے نے بڑے امن سے خلافت کی.مگر جو دشمن ہوتے ہیں.وہ امن خراب کرنے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں.ایک یہودی دشمن عبد اللہ بن سبا تھا.بہت چالاک تھا.لوگوں سے کہہ دیا کہ میں سلمان ہو گیا.مگر دل سے دشمن تھا.اُس نے طرح طرح کی غلط باتیں لوگوں میں مشہور کرنی شروع کر دیں.وہ باتیں اس طرح سے کرتا کہ بعض لوگ اُسے سچا سمجھتے یہ سب لوگ اس کے بنائے ہوئے طریقہ پر کام کرنے لگے.مدینہ میں جگہ جگہ بیٹھ جاتے اور حضرت عثمان کے خلاف جھوٹی باتیں کرتے نماز کے وقت مسجد نبوی میں جمع ہو جاتے اور ہر بات کان لگا کر سنتے کہ لوگ خلیفہ کو کیا بتاتے ہیں.حضرت عثمان کو بہتر لگ رہا تھا.مگر آپ اتنے بہادر تھے کہ نماز کے لئے مسجد میں تشریف لاتے رہے.پھر آپ کے ساتھیوں نے آپ کو مسجد میں آنے سے منع کر دیا.کچھ بہادر آپ کی حفاظت کے لئے جمع ہوئے تو آپ نے فرمایا تم لوگ اپنی اپنی حفاظت کرد اور آپ خود قرآن پڑھنے لگے ان دشمنوں نے حضرت ابو بکر کے ایک بیٹے محمد بین ابو بکر کو بھی ساتھ ملا لیا ہوا تھا وہ اندر آیا اور آپ کی داڑھی پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے آنکھ اُٹھا کہ اس کی طرف دیکھا اور فرمایا.میرے بھائی کے بیٹے اگر تیرا باپ زندہ ہوتا تو تجھے ایسا نہ کرنے دیتا.وہ شرمندہ ہو کر واپس چلا گیا اس کے بعد ایک اور شخص آگے بڑھا اور ایک لوہے کا ڈنڈا زور سے سر پہ مارا.قرآن پاک جو آپ پڑھ رہے تھے.اس کو پاؤں سے ٹھوکر ماری.ایک اور دشمن نے تلوار سے حملہ کیا.آپ کا ہاتھ کٹ گیا.آپ کی بودی بچانے آئیں.تو اُن کی انگلیاں کٹ گئیں.پھر ایک شخص نے آپ کا گل گھونٹ کر آپ جیسے بہادر نیک غنی کو جان سے مار دیا.آپ ۸۲ سال کی عمر میں شہید ہوئے.
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دفعہ مکہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ جو نہ اُس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد ہوا.اور واقعہ تھا مکہ کے ہاشمی قریشی خاندان میں ایک بچے کی پیدائش ہو خدا تعالیٰ کے پاک گھر خانہ کعبہ میں پیدا ہوا.اس زمانے میں دن تاریخیں یاد رکھنے کا رواج تو بہت تھا مگر سن کی بجائے وہ کسی بڑے واقعے سے بڑی بڑی باتیں اور کھتے.اس بچے کا نام اس کے والد حضرت ابو طالب نے زید ، والدہ حضر فاطمہ بنت اسد نے حیدر اور پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رکھا.اور پیدائش کے لئے عام الفیل والے واقعہ سے تقریباً تیس سال بعد یاد رکھا گیا.عام الفیل تو آپ کو پتہ ہے.ایر ہ جب ہاتھی لے کر مکہ پر حملہ کرنے آیا تھا ائس سال کو کہتے ہیں.اس طرح جب یہ بچہ ہوا تو ہمارے پیارے آقا کی عمر تیس سال ہوگی کیونکہ ہمارے آقا کی پیدائش عام الفیل والے سال میں ہوئی تھی.ننھے منے علی کی چند بہنیں اور دو بھائی تھے اور اُن دنوں حضرت ابو طالب کے پاس روپے پیسے کی کچھ کمی تھی.ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہو چکی منفی حضرت خدیجہ کو خدا تعالیٰ نے بہت کچھ دے رکھا تھا.آپؐ کا پہلا بیٹا فوت ہو گیا تو آپ اس کو بہت یاد کرتی تھیں.پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے چچا سے کہا کہ اگر آپ علی ہمیں دے دیں تو ہمارے گھر میں کافی رونق ہو جائے گی.دل میں یہ بھی تھا.کہ چچا کا ہاتھ تنگ ہے.جب خود پیارے آقا چھوٹے سے تھے تو چچانے اپنے بچوں نے
۷۲ بڑھ کر پیار سے پالا تھا.اس طرح آپ اپنے چا کے کچھ کام آنا چاہتے تھے.پائے آقا کے گھر میں پیارے سے بچے کے آنے سے رونق ہو گئی.حضرت خدیجہ بھی بہت پیار کرتیں اچھی اچھی باتیں سکھانے ہیں دونوں کو بہت مزا آتا پھر ان کو لکھنا پڑھنا بھی سکھایا.علی بھی پیارے آقا سے بہت پیار کرتے اور اگرچہ اہمی بچے تھے مگر پیارے آقا کی اچھی عادتوں نیکی کی باتوں اور سب کے ساتھ اچھے سلوک کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کرتے آپ کا پیار اس حد تک تھا کہ خود حضرت علی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے یوں رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اونٹنی کے پیچھے رہتا ہے.جب پیارے آقا کو اللہ تعالیٰ نے اب سلام سکھانے کا حکم دیا تو سب سے پہلے آپ کو سچا سمجھنے والے بچے حضرت علی ہی تھے.پورا واقعہ سنو گے تو بڑا لطف آئے گا ہوا یوں کہ اللہ می نے پیارے آقا سے کہا کہ اپنے رشتہ داروں کو بتاؤ کہ اللہ کو نہ ماننے والوں کو سزا ملتی ہے.آقا جی نے اپنے رشتہ داروں کو کھانے کی دعوت دی اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپ نے بڑے پیار سے سب کو خدا کا پیغام سنایا اور یہ بھی بتایا کہ میں تو اب اس کام کو کرتا ہی رہوں گا.آپ میں سے کوئی ہے جو میری اس کام میں مدد کر ہے.یہ سن کر مکہ کے بڑے لوگ تو سوچ میں پڑ گئے مگر ایک طرف سے ایک بچے نے کھڑے ہو کر کہا.میں عمر میں بہت چھوٹا ہوں.میری آنکھیں بیماری کی وجہ سے دکھتی ہیں میری ٹانگیں دبلی پتلی ہیں مگر آپ کا ساتھ دینے کا وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کے کام میں آپ کی مدد کرتا رہوں گا.یہ بچہ حضرت علی تھے اور اس کمزور اور ڈیلی ٹانگوں والے بچے کو خدا تعالیٰ نے بعد میں کتنی طاقت دی یہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گی ہاں تو جب سب کے
سامنے آپ نے خدا کو ایک ماننے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول ماننے کا اعلان کر دیا تو سب نے بڑا تھیلا کہا مگر آپ کے ابو حضرت ابو طالب نے کہا کہ تم ضرور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دو مجھے پتہ ہے کہ وہ بہت اچھی باتیں سکھاتا ہے....آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خدا کا پیغام دینے کے لئے بہت محنت کرتے جہاں کچھ لوگ جمع ہوتے آپ وہاں چلے جاتے اور انہیں دین کی باتیں بناتے حج کے موقعہ پر جمع ہونے والوں کو اسلام کی باتیں بتاتے کچھ لوگ مان لیتے کچھ نہ مانتے مگر اونٹنی کے بچے کی طرح ساتھ ساتھ پھرنے والے بچے حضرت علی نے یہ سب باتیں اتنی دفعہ سن لیں کہ پکی یاد ہو گئیں کچھ لوگ جو دشمن ہو گئے تھے سخت تنگ کرتے ، مذاق کرتے ، گالیاں دیتے آپ پر گندی چترس پھینکتے کبھی پتھر مارتے یہ سب حضرت علیؓ نے دیکھا اور سُنا اور پھر جو لوگ آکر آپ کو اپنی تکلیفیں سناتے وہ سارا حال بھی حضرت علی سننے آپ کا دل کرتا کہ اتنے بہادر اور مضبوط ہو جائیں کہ کوئی کسی مسلمان کو نہ ستا سکے.سب کا مقابلہ کر سکیں ایک دو سال نہیں تیرہ سال تک یہ سب کچھ ہوتا رہا پھر کافروں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا.آقاجی نے کچھ لوگوں کو مدینہ جانے کی اجازت دے دی تھی.خود انتظار کر رہے تھے کہ خدا تعالیٰ کہیں تو جائیں پھر ایک رات اللہ تعالی نے آپ کو مکہ چھوڑ کر مدینہ جانے کا حکم دیا.الہ تعالی توسب کچھ جانتے ہیں نا ! ان کو پتہ تھا کہ آج رات مکہ کے کافروں نے پروگرام بنایا ہوا ہے پیارے آقا کے مکان کے گرد گھیرا ڈال لیں گے اور جب آپ صبح کی نماز پڑھانے کے لئے نکلیں یا اس سے بھی پہلے آپ کو جان سے مار دیں گے.ایک طرف تو دشمنوں
۷۴ کے یہ ارادے تھے اور دوسری طرف آپ کی سچائی اور امانت و دیانت پر اتنا بھروسہ تھا کہ اپنے مال بھی آپ کے پاس رکھواتے ہوئے تھے.اس زمانے میں بینک نہیں ہوتے تھے لوگ جو کچھ کماتے کسی ایسے شخص کے پاس رکھ دیتے جو سنبھال کمہ رکھتا پیار سے آقا کے پاس بھی مکہ والوں کا کافی سامان اور روپیہ تھا.باہر کا فر آپ کے قتل کے طریقے سوچ رہے تھے.اندر پیارے آقا اور حضرت علی باتیں کر رہے تھے.آقا جی نے حضرت علییؓ سے فرمایا.دیکھو ہے تو بہت خطرے کی بات مگر مجبوری یہ ہے کہ میرے پاس بہت سے لوگوں کی امانتیں ہیں اگر ہم دونوں چلے گئے تو مکہ والے کہیں گے کہ ہمارا سامان لے کہ بھاگ گئے اور میں نہیں چاہتا کہ ان کا مال ضائع ہو تم ایسا کرو کہ میرے بستر پر سو جاؤ میری طرح جیسے میں کپڑا اوڑھ کر سوتا ہوں.دشمن جھانک کر دیکھیں گے کہ بستر پر میں ہوں تو مطمئن رہیں گے.کہ ابھی ہم اسے قتل کر دیں گے.اتنے میں حضرت ابو بکر کے ساتھ دور نکل جاؤں گا صبح جب دشمنوں کو علم ہو گا کہ میرے بستر پر تم ہو تو تمہیں کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ انہیں تو مجھ سے دشمنی ہے جب میں ہاتھ سے نکل گیا تو مارنے کا ارادہ ختم کر دیں گے.حضرت علی نے پیارے آقا کی یہ بات مان لی.کتنی بہادری کی بات تھی یہ علم تھا کہ دشمن تلواریں لے کر مارنے کے لئے کھڑے ہیں مگر آقا کی محبت اور نخی کہنا ماننے کی عادت تھی کہ ڈرے بھی نہیں اور ساری رات اس لیستر پر سوئے رہے جس پر روزانہ آقا جی سوتے تھے مگر اس رات کے بعد آقا جی مکہ سے مدینہ چلے گئے.اور وہ بستر خالی ہو گیا بھیج ہوئی تو دشمن قتل کرنے کے لئے اندر گھس آئے.چادر اُٹھا کہ دیکھا تو وہ حضرت علی تھے.بہت غصے میں آئے اور علی کو توب مارا مارتے جاتے اور پوچھتے جاتے کہ بتاؤ محمد کہاں گئے ہیں.مگر آپ نے زبان نہ کھولی.ایک لفظ نہ کہا اور سب کی امانتیں واپس کر کے مدینہ روانہ ہو گئے.مدینہ پہنچے تو
وہاں ایک عجیب منظر دیکھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے خالی ہاتھ آنے والوں کو مدینہ والوں کا بھائی بھائی بنا رہے تھے سب کو بھائی بھائی بنا چکے تو سب نے دیکھا کہ حضرت علی رہ گئے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار سے حضرت علیؓ کی طرف دیکھا اور کہا.علی کو میں اپنا بھائی بناتا ہوں.“ حضرت علی مدینہ آکر بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر ہی رہتے تھے ہجرت کو ڈیڑھ سال ہی ہوا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت پیاری لاڈلی چاند سی بیٹی کی شادی حضرت علیؓ سے کر دی.حضرت فاطمیانہ شہزادی تھیں اور حضرت علی شہزادے لیکن یہ شادی بہت سادگی سے ہوئی.حضرت فاطمہ کو ان کے ابو امی نے ایک بستر ایک چادر دو چکیاں دوسٹی کے گھڑے ایک مشکیزہ اور ایک کڑی کا پیالہ جہیز میں دیا.اور حضرت علی نے اپنا جنگی لباس بیچ کر حضرت فاطر کو مہر دیا.یہ ایک طرح کا تحفہ ہوتا ہے جو دلہن کو دیا جاتا ہے.پھر مدینہ کے ایک انصاری نے آپ کو ایک مکان دے دیا.پھر حضرت علییؓ اپنی دلہن کے ساتھ اس مکان میں رہنے لگے.اس مکان میں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو بہت دعائیں دیتے دونوں آپ کو بہت پیارے تھے.پھر اللہ جی نے ان کو بہت پیارے پیارے بچے تین بیٹے اور دو بیٹیاں دیں.حضرت امام ح حضرت امام حسین حضرت زینب اور حضرت ام کلٹو ایک بیٹا چھوٹا ہی فوت ہوگیا تھا.میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت علی کی طاقت کا حال بتاؤں گی جوں جوں حضرت علی نے بڑے ہوتے گئے آپ کا جسم خوب مضبوط ہوتا گیا.آپ کے بازوں میں بہت طاقت تھی.کشتی میں آپ سے کوئی نہ جیت سکتا گھوڑا دوڑاتے نیزہ بازی ، تیراندازی سب بہادری کے کاموں میں مکہ مدینہ میں آپ کا مقابلہ کوئی
64 نہ کر سکتا تھا.جب مسلمانوں کو جنگیں لڑنی پڑیں تو حضرت علی نے بہت بہادری کے کارنامے دکھائے.غزوہ بدر ، غزوہ احد میں خوب آگے بڑھ بڑھ کر کافروں کو مارا.جنگ خندق میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنی تلوار دی.آپ نے بڑے بڑے دشمنوں کو مار ڈالا اور اسلام کے جھنڈے کی حفاظت کی بہووں کا خیبر پر بڑا مضبوط قلعہ تھا.قلعہ کہتے ہیں بڑی بڑی چھوڑی چوڑی دیواروں والے شہر کو.یہودی مسلمانوں کو تنگ کرتے اور قلعہ میں گھس کر بیٹھ جاتے.رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے ایک دن کہا کہ آج میں ایسے بہادر مسلمان کو جھنڈا دوں کا جو خدا اور اس کے رسول سے پیار کرتا ہے.اگلی صبح یہ جھنڈا حضرت علی کو طلا.حضرت علی نے خدا کی دی ہوئی طاقت سے اسی دن خیبر کو فتح کرلیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنے خوش ہوئے کہ حضرت علی کو اللہ کا شیر کہنے لگے.ہجرت کے آٹھ سال بعد جب مکہ فتح ہوا تو خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے سارے بہت چھڑی مارکمہ گرا دیئے گئے.ایک بت بہت اونچا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو کندھوں پر اٹھایا اور وہ بہت حضرت علی نے گرا دیا.جنگ تبوک کے دوران ایک الیسا واقعہ ہوا جسے ہمیں یاد رکھنا چاہیے.ہوا یوں کہ ایک دفعہ جنگ کے لئے ملک شام جاتا تھا.کچھ دن تو لگ ہی جاتے.آپ نے حضرت علی کو کہا کہ جب میں چلا جاؤں تو تم سردار ہو گے.حضرت علی کا دل تو آقا جی کے ساتھ جانے کو کرتا تھا اُداس ہو گئے.آقاجی نے فرمایا.علی تم غم نہ کرو حضرت موسی سفر پر جاتے ہونے اپنے بھائی ہارون کو اپنی جگہ سردار بنا گئے تھے میں تمہیں سردار عینی امیر نا کہ جارہا ہوں.میر ہے بعد تم سب کام میری طرح کر نا فرقی عرف یہ ہوگا کہ تم میرے بعد نبی نہیں ہو گئے.
66 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے مشورے لیا کرتے تھے.آپ کی فوجوں کا کمانڈر بنایا کرتے تھے.آپنے کو علم سکھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اے علی تم علم کا دروازہ ہو.پھر یہ محبت کرنے والا آقا اللہ جی کے پاس چلا گیا اور حضرت علی جو پانچ چھ سال کی عمر سے ساتھ رہتے تھے تنہا رہ گئے.اُن کے تو ماں باپ سی انحضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے بہت یاد آیا کرتے تھے.آپ کا سلوک.آپ کا پیار اور آپؐ کا تربیت کا انداز سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجاتا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق خلیفہ بنے حضرت علی نے ان کا ہر حکم بڑی فرمانبرداری سے مانا.پھر حضرت عمرا خلیفہ ہوئے تو حضرت علی سے پیار بھرا برتاؤ جاری رہا.مشورہ کرتے اور ساتھ ساتھ رہتے.پھر حضرت عثمان نے تیسرے خلیفہ بنے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سلمان کچھ کچھ باتیں ماننے میں شدت ہو گئے تھے.حضرت عثمان کے زمانے تک دشمنوں نے بہت سی غلط باتیں مسلمانوں میں مشہور کر دی تھیں.ہر طرف جھگڑے ہونے لگے.حضرت عثمان شہید کر دیئے گئے.پھر حضرت علی خلیفہ ہے.سارا وقت جھگڑوں کے فیصلے کرتے رہتے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرتے کہ سلمانوں پر رحم فرما.مگر مسلمان اپنے پیارے آقا کی باتوں کو بھولتے جارہے تھے.آپ بار بار نصیحت فرماتے.پیار سے سمجھاتے آپس میں صلح کراتے مگر کامیابی نہ ہوتی.آخر ایک دن صبح کی نماز آپ مسجد آئے تو دشمن تلوار لے کر آپ کے پیچھے آگیا.آپ سجدہ میں گئے تو تلوار کا وار کیا.آپ شدید زخمی ہو گئے اور اسی رات فوت ہو گئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے تیس سال بعد یہ واقعہ ہوا.بعد حضرت علی شہید ہو گئے مگر آپ کی بہادری کی باتیں یاد کر کے آج میجی حیرانی ہوتی ہے.آپ کا دل چاہ رہا ہوگا کہ اب وہ ساری باتیں آپ کو ستاؤں آپ
LA ایسا کریں کہ اپنے بڑوں سے بالائبریری سے خلفائے راشدین کے متعلق آسان کتابیں لے کر پڑھیں اور دنیا ہی بننے کی کوشش کریں.خلافت راشدہ کی چند اہم تاریخیں :- حضرت ابو بکر صدین کا نام عبد اللہ ابن قحافہ تھا.آپ نے ربیع الاول سال میں خلیفہ بنے ۲۱ جمادی اثانی ام پیر کے دن وفات پائی.عمر ۶۱۳ سال مدت خلافت سال ۳ مہینہ ، ا دن ہے.حضرت عمر فاروق کا نام عمر ابن الخطاب تھا..آپ جمادی الثانی ساہ کو خلیفہ بنے..یکم محرم الحرام ۳ ہفتہ کے دن فوت ہوئے.عمر ۱۳ سال مدت خلافت اسال ۶ ماه حضرت عثمان غنی کا نام عثمان بن عفان تھا.آپ محرم ۲۴ کو خلیفہ بنے ۱۸ ذی الحجے ۳۵ جمعہ کے دن وفات ہوئی.عمر ۸۲ سال.ه مدت خلافت چند دن کم ۱۲ سال حضرت علی ابن ابو طالب.آپ ذی الج ۳۵ کو خلیفہ ہے.۲۱ رمضان المبارک ، انوار کو وفات ہوئی عمر ۶۳ سال مدت خلافت ۲ سال ۹ ماه
29 قدرت ثانیه آپ کو علم ہے کہ خدا تعالے اپنے نبی کب بھیجتا ہے.جب کسی زمانے کے لوگوں میں بہت سی برائیاں آجائیں اسی طرح ہمارے زمانے میں ہوا مسلمان اسلام کو بھول گئے تھے اور بہت سی غلط باتوں کا نام اسلام رکھ لیا تھا اللہ تعالیٰ نے دین حق کی اصل تعلیم سکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود مہدی موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو بھیجا.آپ کے ذمے بہت بڑا کام تھا.بڑی ہمت، بہادری اور محنت سے آپ اپنی ساری زندگی به پاک کام کرتے رہے مگر انسان کو ایک دن خدا کے پاس جانا ہی ہوتا ہے پھر آپ کی وفات کے بعد سارے کام جو آپ شروع کر گئے تھے کون پورے کرتا اس کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک طریقہ بنایا اور اس طریقے کا نام قدرت ثانیہ رکھا.قدرت ثانیہ کا مطلب ہے کہ دوسری قدرت پہلی قدرت تو نبی کا تشریف لاتا ہوتا ہے اور دوسری قدرت اس کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے خلیفہ مقرر کرنا.ساری جماعت کو ایک جگہ اکٹھا رکھنے اور ان کو اچھا بناتے کے کام کرتے اور دوسرے لوگوں کو خدا تعالے کا پیغام دینے کے لئے قدرت ثانیہ بہت بڑی برکت اور رحمت ہے.حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو) کے بعد جو آپ کے خلیفہ منتخب ہوئے اُن کا نام حکیم مولانا نورالدین صاحب اللہ آپ سے راضی ہو) تھا.آپ بھیرہ میں پیدا ہوئے.بچو! ان کو علم حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ سارا وقت کتابیں
A.پڑھنے اور بہت پڑھے لکھے استادوں سے علم حاصل کرنے میں گزارتے جہاں کہیں سے سنتے کہ بہت پڑھا لکھا آدمی موجود ہے.اس سے پڑھنے کے لئے لمبے لیے سفر کرتے بڑی مشکلیں برداشت کرتے بھوکے پیاسے رہتے مگر بڑی بڑی کتابیں پڑھتے ان کتابوں سے اُن کو پتہ لگ گیا تھا کہ قرآن اور حدیثوں میں جو مہدی کی آمد کا لکھا ہے وہ اسی زمانے میں آئے گا آپ نے حج ادا کیا اور مکہ اور مدینہ میں کئی سال رہے.واپس اپنے وطن بھیرہ آئے یہاں سے جموں وکشمیر گئے اور وہاں کے راجہ کے طبیب (ڈاکٹر) مقرر ہوئے.پھر آپ کو قادیان کے مرزا غلام احمد ( آپ پر سلامتی ہو) کی بابت علم ہوا کروہ کہتے ہیں کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میں ہی مہدی سیح ہوں تو فورا مان لیا اور سب سے پہلے جماعت میں شامل ہوئے.حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو) کو آپ سے سید محبت تھی.بھیرہ سے قادیان بلا لیا آئے تو کچھ دنوں کے لئے مگر پھر حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی خواہش کے مطابق سب کچھ بھیرہ میں چھوڑ چھاڑ قادیان میں رہنے لگے.آپ کو طبیب ہونے کی وجہ سے لوگوں کی خدمت کا بہت موقع ملا اتنے نیک تھے کہ سارا وقت نماز قرآن پڑھنے پڑھانے اور حدیث پڑھانے اور لوگوں کو دوائیں دینے میں گزرتا.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے حکم پر شوق سے عمل کرتے اسی لئے وہ ان کو صدیق کہتے.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کے فوت ہو جانے کے بعد پہلے خلیفہ ہتے.آپ کو خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پیار تھا.خدا تعالیٰ بھی آپ سے پیار کرتا آپ کی دعاؤں کو سنتا اور آپ کی ہر ضرورت کو پورا فرماتا ہو اللہ کو خوش کرنے کے لئے ہر وقت اچھے کام کرتا ہے اُسے اللہ تعالیٰ بہت پسند کرتا ہے.آپ چھ سال خلیفہ رہے.اور پھر خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا.
Al حضرت حکیم نورالدین کے بعد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت کے دوسرے خلیفہ ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے بہت دعائیں کیں.آپ کو تو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے.اللہ تعالی نے ان دعاؤں کو سنا اور خوشخبری دی کہ آپ کو بہت حسین پیارا صالح بیٹا دیں گے.اس خوبصورت بچے کے خدا تعالے نے کئی نام رکھے بشیر - محمود ، فضل عمر مصلح موعود اور بھی بہت سے نام تھے.ان ناموں کا مطلب تھا کہ آپ بڑے ہو کر دین کے لیے بہت کام کریں گے.اللہ پاک جس بات کی پہلے خیر دیں اس کو پیش گوئی کہتے ہیں ایک پیارے ذہین سمجھدار جلدی وہ جلدی سب کچھ سیکھنے والے بیٹے کے متعلق جو باتیں اللہ پاک نے تہائی تھیں حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا نے ایک چھوٹی سی سبز رنگ کی کتاب میں لکھ دیں.پھر یہ بچہ محمد احمد اپنی پیاری امی حضرت نصرت جہاں بیگم اور اپنے پیارے ابو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی گودوں میں بیڑی اچھی اچھی باتیں سیکھ کر بیڈا ہوا.شروع میں صحت اتنی اچھی نہ تھی.حضرت حکیم نورالدین (اللہ آپ سے راضی ہو) سے دینی تعلیم پائی.مکہ جا کر حج کیا جب آپ کے ابو فوت ہوئے تو آپ کی عمر کم تھی نگر سمجھدار بہت تھے.آپ نے وعدہ کیا کہ آپ اپنی زندگی حضرت میں ، عو ر آپ پر سلامتی ہو) کے کاموں کو آگے بڑھانے میں گزاریں گے 119 میں آپ جماعت کے دوسرے خلیفہ چنے گئے.پھر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جماعت کی ترقی کے بہت سے کام کئے.بہت سے دفتر قائم کئے ، اسکول کالج بنائے.بہت سی کتابیں لکھیں قرآن مجید کے مطلب لکھے بہت لمبی لمبی تقریریں کیں جب پاکستان بنا تو ہمیں قادیات چھوڑ کر آنا پڑا.خدا تعالیٰ نے پاکستان میں ہمیں رہوہ دے دیا.ربوہ پہلے ایک اُونچے نیچے میدان کی طرح تھا.حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو) نے اسے بہت اچھا
At شهر بنا دیا دنیا کے کئی ملکوں میں احمدیوں کو بھیجا کہ وہاں جا کر بتائیں کہ جس مسیح کو آنا تھا وہ آگیا ہے.دوسرے ملکوں میں ہوت الحمد بنوائیں جیسے ہم اردو بولتے ہیں ویسے دوسرے ملکوں میں دوسری زبانیں بولی جاتی ہیں کئی دوسری زبانوں میں قرآن پاک کے ترجمے کہ وائے.آپ نے بہت محنت سے کام کیا دُنیا میں احمدیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی پھر ایسا ہوا کہ بہت زیادہ محنت کرنے سے آپ کی صحت کمزور ہوگئی پھر ایک دفعہ دشمن نے چاقو سے حملہ کر دیا اس سے بھی کمزوری ہوگئی آخر کار حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو) اور ساری جماعت کا یہ پیارا مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو) اپنے خدا کے پاس چلا گیا.صدی سو سال کو کہتے ہیں اس میں سے ساڑھے اکیا دن سال یعنی آدھی صدی حضرت مصلح موعود خلیفہ رہے اور جماعت کو بہت آگے بڑھایا.خدا آپ کے درجات بلند کرے.آمین.خدا تعالیٰ جن کاموں کو شروع کرتا ہے وہ تو چلتے رہتے ہیں.ہماری جماعت اس دن بہت اداس تھی.مگر خدا تعالیٰ نے ساری جماعت کو ایک تحفہ دے کر خوش کر دیا اور یہ تحفہ تھا ایک مسکرانے والا بچوں کو پیار کرنے والا خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد" (فور اللہ مرقدہ) جو حضرت مسیح موعود کے بعد تیسرے خلیفہ نے آپ حضرت مصلح موعود کے بڑے بیٹے تھے.آپ نے تیرہ سال کی عمر میں سارا قرآن کریم یاد کر لیا تھا جب بڑے ہوئے تو لندن جاکر تعلیم حاصل کر لی.قرآن کریم اور دین کی بے شمار کتابیں پڑھ لیں اور خدا تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ میں ساری زندگی دین کے کام کروں گا.آپ ربوہ میں کالج کے پرنسپل تھے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو پہلے ہی سے بتایا ہوا تھا کہ ایک بیٹے کا بیٹا یعنی پوتا بڑا آدمی بنے گا.اللہ پاک نے اپنے وعدے پوے کئے اور ہماری جماعت کو تیسرے خلیفہ ملے.آپ کو پتہ ہے کہ جب کوئی بچہ پاس ہوتا ہے تو حضور کو خط لکھتا ہے یہ حضرت مرزا ناصر احمد ہی نے تو کہا تھا تا کہ
۸۳ بچے خوب شوق سے پڑھیں اور جب اچھے نمبر لے کر پاس ہوں تو حضور کو خط لکھیں آپ کو طالب علموں سے بڑا پیار تھا.اسی لئے آپ کہتے کہ جو بچہ ذہین ہو اُ سے خوب پڑھاؤ اور ذہین بنانے کے لئے سویا بین کھانے کو کہا.آپ نے دیکھا کہ جماعت کو بنے ہوئے سو سال ہونے والے ہیں تو اس کے لئے خوشی منانے کا پروگرام بنایا جس کو صد سالہ جوبلی پروگرام ، کہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی جماعتوں کا خوشی منانا یہ ہوتا ہے کہ وہ اچھی اچھی باتیں سیکھیں.اچھی باتیں بولیں اچھی باتیں پڑھیں اور اچھی باتیں دوسروں کو سکھائیں.حضرت مرزا ناصر احمد کے بعد خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک اور نعمت دی ہیں ایک اور امام دیا.ہمارے موجودہ پیارے امام حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد یہ بھی حضرت مصلح موعود کے بیٹے ہیں آپ نے ربوہ اور لندن ہیں.سے تعلیم حاصل کی.جب آپ چھوٹے سے تھے گھر میں ہر وقت دینی باتیں سنتے آپ کی والدہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ مرحومہ لینہ کا بہت کام کرتیں.ان کے گھر پر ہی اجلاس ہوتا آپ کو بچپن ہی سے جماعت کی خدمت کا شوق ہو گیا.آپ اپنا سارا وقت لوگوں کے کاموں اور جماعت کی خدمت میں گزارتے.دراصل آپ کو ہومیو پیتھی جو چھوٹی چھوٹی میٹھی دوائی کی گولیاں ہوتی ہیں کا علم آتا ہے.آپ کے پاس مریض آتے تھے آپ ان کا علاج کرتے بغریبوں کی خدمت کر کے خوش ہوتے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی وفات کے بعداللہ تعالیٰ نے آپ کو امام بنایا.آپ نے اپنے امام کو دیکھا ہو گا.چہرے پر خدا کی محبت کا نور ہے اور مسلم تو اتنا ہے کہ بے حساب بچو ! آپ کو علم ہے کہ آج کل ہمارے امام ہم سے بہت دُور لندن میں رہتے ہیں.ہم بھی اداس ہیں اور وہ بھی اداس ہیں ہم کو چاہئے کہ ہم دعا کریں کہ خداتعالی ہمارے پیارے امام کو صحت اور
تندرستی دے اور آپ کے ساتھ ہمیں جماعت کی بہت سی ترقیاں دکھائے.ہمارے حضور جو دین کی باتیں سکھانے کے لئے ہمیں خطبے دیتے ہیں.سوالات کے جوابات دیتے ہیں اور یہ باتیں تم MTA پر حضور کو دیکھتے ہوئے سنتے بھی ہیں.ان کے کیسٹ بھی آتے ہیں تو انہیں غور سے نہیں اور انکی باتوں پر عمل کریں.آپ کے لئے ان کا پیغام آیا ہے کہ آپ نماز قائم کریں ، بالکل جھوٹ نہ بولیں، والدین کی خدمت کر ہیں.جب آپ حضور کے لئے دعا کریں تو یہ کہیں کہ خدایا حضور کے ارادوں میں برکت دے ہمیں ان کی پسند کے کاموں کی توفیق دے.آمین.قدرت ثانیہ کی چند اہم تاریخیں.Po قدرت ثانیہ کی ابتداء - اخبار الفضل" کا اجراء مدت خلافت اولى ۲ خلافت ثانیہ کی ابتداء مٹی >19.A ۱۹ جون ۱۹۱۳ ۵ سال ۹ ماه ۱۸ دن ۱۴ مارچ ۱۹۱۷ جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد ۲۰ ستمبر سشوار مدت خلافت ثانیه خلافت ثالثہ کی ابتداء بیت بشارت اسپین کا سنگ بنیاد ان سال ۲۵۰۰۷ دن نومبر ۹۹۵ ور اکتوبر شار -9 - 1 مدت خلافت ثالثه خلافت رابعہ کی ابتداء اسان ، ماه جون دار ۲۹ اپریل کوار پاکستان سے ہجرت بر متقام لندن ۱۲ عالمی جلسه سالانه دسمبر ۱۹۹۲
۸۵ نظام جماعت جماعت احمدیہ ایک صدر انجمن پر مشتمل ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) کے زمانے میں ہی قائم فرما دی گئی تھی اور نظام خلافت کے تابع به صدر انجمن احمدیہ زیادہ تر ہندوستان اور پاکستان کے مسائل سے نپٹتی اور پاکستان اور ہندوستان میں جماعت احمدیہ پر عائد کی جانے والی ذمہ داریوں کو ادا کرتی ہے.اس کے بہت سے شعبے ہیں.مثلاً شعبہ مال ، شعبہ اصلاح وارشاد شعبه تربیت ، شعبہ تصنیف ، شعبۂ امور عامہ ، شعیہ امور خارجہ.غرضیکہ اور بھی بہت سے شعبے ہیں جن پر یہ انجمن مشتمل ہے اور ان سب کی آگے شاخیں ہر جماعت کے اندر پائی جاتی ہیں.اور جس طرح صدر انجمن احمدیہ کا مرکزی نظام ہے ویسے ہی تمام ہندوستان اور پاکستان کی جماعتوں میں اسی قسم کا نظام چھوٹے بچانے پر منعکس ہوتا ہے.پھر تحریک جدید انجمن احمدیہ ہے جس کا تعلق زیادہ تر پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ دنیا کی باقی جماعتوں سے ہے اور اس کے بھی مختلف شعبے ہیں اور جس طرح صدر انجمن احمدیہ کے شعبے مختلف جماعتوں میں منعکس ہوتے ہیں اسی طرح تحریک جدید کے شعبے آج دنیا کے ۱۲۲ ممالک مختلف شہروں اور دیہات اور علاقوں میں پھیلی ہوئی جماعتوں میں منعکس ہوتے ہیں اور اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی انجمنوں کی شکلیں ہر شہر ہر گاؤں اور ہر علاقے میں ظاہر ہوتی ہیں.پھر آنان وقف جدید ہے جس کا زیادہ تر تعلق دیہاتی جماعتوں سے ہے.اور ان کے
14 فلاحی امور سے تعلق رکھتا ہے.اس سلسلے میں ڈسپنسریاں بھی قائم کی جاتی ہیں.تعلیم کے انتظام کئے جاتے ہیں.چھوٹے پیمانے پر معلمین جو بہت زیادہ علم تو نہیں رکھتے لیکن وقف کا جذبہ رکھتے ہیں.خدمت دین کی روح رکھتے ہیں وہ دیہات میں پھیل جاتے ہیں اور جماعتوں کی اخلاقی حالتوں پر نظر رکھتے ہیں اُن کی روحانی حالتوں پر نظر رکھتے ہیں اُن کے روز مرہ کے شریعیت کی پابندی کے امور پر نظر رکھتے ہیں اور جہاں تک اُن کا بس چلتا ہے وہ اُن کو ہر پہلو سے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.اسی طرح مجلس انصار اللہ ہے جو پالیس سال سے لے کہ آخری عمر تک یعنی آخری سانس تک پھیلے ہوئے زمانے سے تعلق رکھنے والے احمدیوں پرمشتمل ہے اور اس کے پھر بہت سے شعبے ہیں اور اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ ہے جو پندرہ سال سے لے کر چالیس سال تک کے زمانے میں پھیلے ہوئے احمدی نوجوانوں سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے بھی آگے بہت سے شعبے ہیں اور پھر محلیس اطفال الاحمدیہ ہے جو سات سال سے لے کر پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں سے تعلق رکھتی ہے اور اُس کے بھی بہت سے شعبے ہیں اور پھر لجنہ اماءاللہ ہے جو پندرہ سال سے اوپر خواتین سے تعلق رکھتی ہے اور پھر محلیس ناصرات الاحمدیہ ہے جو سات سال سے پندرہ سال تک کی عمر کی بچیوں سے تعلق رکھتی ہے اور یہ سب مختلف شعبوں میں بٹی ہوئی انجمنیں ہیں اور یہ سارا نظام تمام دنیا میں جہاں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے اس کی ہر شاخ میں منعکس ہوتا ہوا دکھائی دے گا.ا خطاب حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۲ اگست (۱۹۸۹) نوٹ :ر اب جماعت 14 ممالک میں موجود ہے.الحمد للہ (۱۹۹۷ء) اور تعداد 10 ملین سے زیادہ ہو چکی ہے.
ناصرات الاحمدیہ کا عہد اشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - مَیں اِقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب، قوم اور وطن کی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہوں گی اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی : اطفال الاحمدیہ کا عہد اَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.میں وعدہ کرتا ہوں کہ دینِ اسلام اور احمدیت ، قوم اور وطن کی خدمت کے لئے ہر دم تیار رہوں گا.ہمیشہ سچ بولوں گا.اور حضرت خلیفہ امیج کے تمام حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا :
AA الهامات حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو) كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَم وَلَعَلَّمَ (تذکره صفحه ۳۵) ترجمه در سر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی ۲.میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا.اور تیرا ذکر بلند کروں گا.اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا.(تذکره صفحه (۱۸۴) ۰۳.۲ عشق الہی وستے منہ پر والیاں ایہہ نشانی ( تذکرہ صفحہ ۴۷۱) امن است در مقام محبت سرائے ما - ( تذکره صفحه ۵۴۲) 5 I love you - I shall give you a large party of Islam (Tazkare Page 103)
٨٩ کتب حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ میں سے دس کے نام ا - حقیقت المهدی -fo تریاق القلوب اعجاز احمدی نزول مسیح ه نسیم دعوت A لکھ لاہور تجليات الهيه حقیقة الوحی و چشمه معرفت 1499 میچ ہندوستان میں ۱۹۰۸ء
9.قصیدہ کے تین اشعار يَا شَمْسَ مُلْكِ الْحُسْنِ وَالْإِحْسَانِ ای آفتاب ملک خشن اور احسان اے ملک حسن و احسان کے آفتاب نَوَرتَ وَجْهَ الْبَرِّ وَالْعُمْرَانِ آپنے روشن کر دیا ساتھ خشکی (جنگل) اور آبادی آپ نے کی اور آبادی کا منہ روشن کر تائینی ہے اور راستے بنگال آباد یوں کہنے کام گاہوں کو اریت وتی قَوْمٌ رَأَوْكَ وَ أُمَّةٌ قَدْ أُخْبِرَتْ قوم آپ کو دیکھا اور جماعت بیشک خبر دی گئی ۴ آپکو ایک قوم نے دیکھا اور ایک جماعت نے یقینا اس چاند ر آپ کے متعلق انوشکن اخبرنی من ذلِكَ الْبَدْرِ الَّذِي أَصْبَانِي سے یہ چاند (چودھویں رات کا) جس نے مجھے اپنا فریفتہ بنایا ہے جس نے مجھے اپنا دیوانہ اور فریفتہ بنالیا ہے! يَبْكُونَ مِنْ ذِكْرِ الْجَمَالِ صَبَابَةً وہ روتے ہیں یاد جمال عشق وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عشق محبت کی وجہ آپ کے حسن خیال کو یاد کر کے روتے ہیں و تَأَلَّماً مِّنْ تَوَعَةِ الْهِجْرَانِ اور دکھ جان جدائی اور حضور کی جدائی سے ( اپنے دلوں میں جلن اور رکھ محسوس کرتے ہیں
۹۱ سے بچہ اپنی جان سب لوگ کہتے ہیں.کہ ہم پیارے آقا آنحضور صلی اللہ علیہ دوستم کو بہت پیار کر تے ہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ سب سے زیادہ مجھے اُن پیار ہے.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ سب لوگ اتنا ہی پیار کرتے ہوں.ماں : خدا کرے کرتے ہوں.آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو آنحضور صلی اللہ علیہ دستم کیوں پیارے لگتے ہیں بچہ جب میں ان کے حالات پڑھتا ہوں.جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تقریریں سنتا ہوں اور آپ واقعات سناتی ہیں.تو مجھے اس طرح لگتا ہے کہ وہ آپ اور ابو جان سے بھی زیادہ ہیں ماں ، مجھے آپ کی یہ بات بہت پسند آئی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر پیار کرنا چاہیئے.کیونکہ وہ للہ تعالیٰ کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھے بچه پر کلمہ میں بھی اللہ تعالے اور محمد رسول اللہ کا نام ساتھہ آیا ہے.اور دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے.میں بھی اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہوں پھر میرے دوست کیوں کہتے ہیں.کہ تم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے تم ان کو خاتم انہیں نہیں مانتے.خاتم النبیین کا مطلب کیا ہے ؟ ماں ، آئینے میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دوں کہ خاتم النبیین کا مطلب کیا ہے ؟ اور
۹۲ یہ کہ آپ کے دوستوں کو یہ غلط فہمی کیوں ہے.کہ ہم آنحضور صلی اللہ یہ وقتم کو خاتم النبین نہیں مانتے تاکہ آپ کا دل مطمئن ہوا اور آپ دوستوں کو بھی اچھی طرح صحیح مطلب سمجھا سکیں.بچہ : قرآن پاک سے بات شرور کیجئے گا مان ، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صفاتی نام تیائے ہیں جن میں سے ایک خاتم النبین بھی ہے.میں آپ کو ایک آیت سناتی ہوں سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ (الاحزاب : ٢١) اس کا ترجمہ ہے کہ محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں.بچہ : یہ تو اس طرح لگتا ہے کہ یہ آیت کوئی خاص بات سمجھانے کے لئے نازل ہوئی ہو.ماں ، بالکل صحیح ! واقعہ یہ ہوا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو اپنا منہ بولا بیٹا تبا لیا تھا اور اُن کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینی سے کر دی تھی.لیکن دونوں کا مزاج نہ ملا.حضرت زید نے ان کو طلاق دے دی.کچھ عرصہ کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب سے شادی کر لی.مخالفین کو ایک موقع ہاتھ آگیا.شور کرنے لگے کہ آپ نے اپنی بہو سے شادی کر لی جو منع ہے.مخالفین کے اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس طرح دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی رو کے f باپ نہیں " یعنی آپ کا کوئی حقیقی بیٹا نہیں.منہ بولا بیٹا جسے متبنی کہتے ہیں.
۹۳ حقیقی بیٹا نہیں ہوتا.عربوں میں اس طرح بیٹا بنا لینے کا رواج تھا.اللہ پاک نے مسئلے کی پوری وضاحت کے لئے اپنی مرضی سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت زینب سے کرائی تاکہ بات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے.بچہ : آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے تو تھے.مال اللہ پاک نے آپ کو چار بیٹے عطا فرمائے تھے.طاہر، قاسم، طبیب اور ابراہیم مگر سب بچپن میں فوت ہو گئے تھے.مخالفین اس پر بھی اعتراض کرتے تھے.اس کا جواب اس آیت میں ہے کہ آپ کے بیٹے بچپن میں فوت ہو گئے تو کیا ہوا.آپ کو روحانی اولاد عطا کی گئی ہے یعنی آپ نبیوں کے باپ ہیں.اور سارے نبی سارے نیک لوگ قطب، ولی ابدال خلفاء اور انبیاء آپ کی روحانی اولاد ہیں.اور یہ ایسی اولاد ہے جو اللہ پاک آپ کو عطا کرتا ہے ہے گا.بچہ اس میں خاتم النبیین کا ذکر تو آیا ہی نہیں." ماں : خاتم کا لفظت پر زبر کے ساتھ ہے.یہ عربی کا لفظ ہے اس کا مطلب عربی دکشتریوں میں شہر اور انگوٹھی لکھا ہے.خاتم اردو یا پنجابی کا لفظ نہیں ہے جس کا ترجمہ ختم کرنے والے ہو.اگر یہ مطلب لیں تو اس طرح تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دوہرا اعتراض ہو جاتا کہ نہ آپ کی جمانی اولاد ہے نہ روحانی ، کیونکہ آپ تو نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں اس کے برعکس شہر ایک اتھارٹی کا سمبل ہے.اعلیٰ افسر کے تصدیق کرنے کا نشان.کوئی خط ہو اگر اس کے نیچے اعلیٰ افسر کی مہر لگی ہو تو وہ اہم ہو جاتا ہے.ورنہ عام کاغذ، پاسپورٹ کے آخر یہ خاتم “ کا لفظ اسی مفہوم میں
۹۴ استعمال کیا گیا ہے.اس طرح خاتم النبیین کا ایک مطلب یہ ہوا کہ آپ ایسی مہر ہیں جو نبیوں کی تصدیق کرتی ہے یعنی آپ کے اتھارٹی سمبل کے بغیر کوئی بنی نہیں.بوسكت.انگوٹھی بھی مہر کے طور پر استعمال ہوتی ہے.اس سے خوبصورتی ہوتی ہے چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو خوبصورتی مل گئی.نبیوں کو زینت مل گئی.انبیاء کو زینت دینے والے یعنی ان کی تصدیق کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.ہم خانم کے معنی لیتے ہیں کہ اُن پر نبوت کے کمالات ختم ہو گئے.نبوت کے ذریعہ جو کچھ کسی کو عطا ہوسکتا ہے وہ سب کچھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کر دیا گیا.شریعت مکمل ہوگئی.اس پر نہ کچھ بڑھ سکتا ہے اور نہ کم ہو سکتا ہے.بچہ بہ اس سے تو سارا مفہوم واضح ہوگیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دوبالا ہوگئی.ہر سارے قرآن پاک میں آنحضور صلی الہ علیہ وسلم کی افضل واکمل شان بیان کرنے کے لئے یہ بہترین آیت ہے.اور ایک دوسری آیت اس بات کو سوج کی طرح روشن کر دیتی ہے.اليَوْمَ اكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَنِى وَرَضِيتُ لَكُم الا سلام دينا (المائده :) دِيْنَا اس کا مطلب اسی طرح ہے کہ آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تمام تر نعمت تمہیں دے دی.اور تمہارے دین اسلام پر میں راضی ہو گیا.
۹۵ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت مکمل ہوگئی.آپ بہترین افضل ترین بنی یعنی خاتم الانبیاء تھے.اور ویسے بھی نفط آخر مقام کے لحاظ سے فضیلت اور کمال کے لئے بھی بولا جاتا ہے.یہ لفظ ہر زبان میں محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسے پنجابی میں کہتے ہیں.اودے تے گل مک گئی.انگلش میں کہتے ہیں.ے پر AE IS THE LAST OF THING اور اردو میں بھی کہتے ہیں کہ اس کی HE بات حرف آخر ہے یعنی اس نے جو بات کی وہ اپنے مطالب اور کمال کے لحاظ سے آخری بھی جائے گی اور اسی بات کو سمجھانے کے لئے رسول کریم صلی الہ علیہ کم نے مسجد نبوی کے متعلق فرمایا تھا کہ میری یہ مسجد آخری مسجد ہے اور میں آخری بنی ہوں یعنی مقام کے لحاظ سے آخری.اسی لئے ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال ہونے والے لفظ خاتم کا مطلب THE BEST کرتے ہیں.کیونکہ یہی ان کی شان کے مطابق ہے اور اسی سے آپ کی فضیلت دوسرے تمام انبیا و پر ظاہر ہوتی ہے.بچہ کا لفظ خاتم ان وصلی الہ علیہ سلم نے بھی استعمال کیا.انہوں نے کن معنوں میں استعمال کیا تھا.ماں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.د میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں تھا.اسی طرح اپنے چھا کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم ہجرت میں خاتم المہاجرین ہو اور میں نبوت میں خاتم النبیین ہوں.
94 اگر لفظ خاتم کا مطلب صرف آخری تھا.تو پھر کسی بنی کے آنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی اور اسی طرح کسی کے ہجرت کرنے کی بھی گنجائش نہیں رہتی.اب جن معنوں میں کسی کی بات کو آخری مسجد نبوی کو آخری لیں گے.اسی طرح مقام نبوت کو آخری لیں گے کیونکہ جہاں ہزاروں مساجد تعمیر ہوئی ہیں وہاں سینکڑوں لوگوں نے ہجرت بھی کی ہے اور سب لوگ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں.بچہ نبی تو ایک لاکھ چوبیس ہزار آئے.اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ اس لفظ کا مطلب آخری ہرگز نہیں.ماں یہی آپ کو سمجھانا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ ایک اور جگہ استعمال فرمایا.حضرت علی کو مخاطب کر کے فرمایا.میں خاتم الانبیا ہوں اور تم خاتم الاولیا ء ہو.لفظ خاتم COMMON FACTER ہے مشترک ہے.اگر اس کا مطلب آخری لیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت علی بھی آخری ولی تھے.اب دنیا میں کوئی ولی نہیں آئے گا.دنیا کسی ولی کا منہ آئندہ نہ دیکھ سکے گی.ایسا نہیں ہوا بے شمار ولی آئے.اس کا مطلب ہے کہ لفظ خاتم کو آنحضور صلی اللہ علیہ دستم نے آخری کے منوں میں استعمال نہیں فرما یا بہترین کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے.بچہ بر خاتم بہترین کے معنوں میں کہیں اور بھی استعمال ہوا ہے ؟ مان در عام استعمال ہوتا ہے.بہترین شاعر کو خاتم الشعراء کہتے ہیں.بہترین طبیب کو خاتم الاطباء کہتے ہیں.ہر جگہ بہترین کے معنوں میں آتا ہے.بچہ بہ میں سمجھ گیا آپ بہترین نبی ہیں نہ کے نبیوں کو ختم کرنے والے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.
94 ماں : ایک بہت آسان سا طریق بتاتی ہوں اگر کسی جگہ کوئی بادشاہوں کا سلسلہ رہا ہو تو کیا آخری بادشاہ کے لئے جس کے بعد کوئی بادشاہ نہ آیا ہو خاتم السلاطین کہیں گے یہ نہیں خاتم السلاطین بادشاہوں کے سلسلے کے بہترین بادشاہ کو کہیں گے.- LAST OF THE KINGS آخری ہونا تو کوئی اعزاز نہیں.میں سمجھ گیا بچه آپ افضل ترین نبی ہیں نہ کہ نبیوں کو ختم کرنے والے کہ آپ کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا.ماں بہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا تھا.کہ میرے بعد کبھی بھی کوئی نبی نہیں آسکتا بلکہ آپ نے اپنے پیارے بیٹے حضرت ابراہیم کی وفات کے بعد فرمایا تھا.اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو ضرور سچاہتی ہوتا.بچہ بہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو فرمایا تھا.لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا.ماں یہ جب ایک ہی پیارے منہ سے نکلنے والے دو جملے آپ کے سامنے ہیں.تو نہیں سوچنا پڑے گا.کہ جب یہ کہا جائے کہ ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور سیچانی ہوتا “ اور ” میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تو اس کا کوئی مطلب ہو گا جس کے مجھنے میں نہیں غلطی لگی ہے.یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رض سمجھ گئیں.فرماتی ہیں.تُوْدُوا إِنَّهُ خَاتَمَ الْأَنْبِياءِ وَلَا تَقُوْلُوْلَا نَبِي بَعْدَهُ (در منثور جلد ۵ ص۲۰۲) یہ تو کہو کہ وہ خاتم الانبیاء ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
٩٨ بعد کوئی نبی نہیں.اب یا تو امت میں سے کوئی ایک عالم تلاش کریں جس کا علم حضرت باشد سے زیادہ ہو یا یہ معنی مان لئے جائیں.اور سوچنا چاہیئے کہ بعد کا مفہوم کیا ہے.اُمت کے علماء نے تیرھویں صدی تک بعد سے مراد میرے خلاف مجھے چھوڑ کر، میری شریعت سے ہٹ کر کئے ہیں.اب یہ بات واضح ہوگئی.کہ کوئی نبی نہیں آئے گا جو میرے خلاف ہو.مجھے چھوڑ کر آئے میری شریعت سے ہٹ کر آئے اور قرآن کریم نے اس بات کی وضاحت کی ہوئی ہے.سورہ جاثیہ کے شروع میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کے (یعنی ان کو چھوڑ یا علاوہ ہٹ کر) وہ کس چیز پر ایمان لائیں گے.جو یہاں قرآن میں بعد کے معنی ہیں وہی حدیث میں ہوں گے اور پھر یہ بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے کی خبر بھی دی زینتیجہ یہ نکلا کہ میرے بعد کوئی شریعی نبی نہیں ہو گا جیسے بیسیوں علماء مانتے ہیں میرے ور بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.اس لئے کہ آپ نے خلافت کی پیش گوئی بھی فرمائی تھی.میرے بعد اس شان کا نبی نہیں ہوگا.میری اتباع کے بغیر نبی نہیں ہوگا اور اس کی تائید قرآن کریم بھی کرتا ہے ) بچہ : اس کا مطلب ہوا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور ماننے والوں میں نبی آسکتا ہے جو اُن کے دین کو پھیلائے.ماں یہ امید ہے اب آپ کے ذہن میں کوئی انھین نہیں رہی ہوگی میں خلاصہ کر کے ایک دفعہ پھر آپ کو سمجھا دیتی ہوں.
49 قرآن پاک میں لفظ خاتم النبیین جہاں استعمال ہوا ہے وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے آیا ہے کہ آپ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں.مگر روحانی اولا د رکھتے ہیں.نبیوں میں سے افضل ترین ہیں.آپ پر مکمل شریعت نازل کی گئی.جتنے بھی کمالات نبوت کے ہو سکتے ہیں آپ میں جمع ہیں آپ کی اطاعت اور غلامی میں آپ کی روحانی اولاد دین کی اصلاح اور خدمت دین کا کام رہنے دنیا تک کرتی رہے گی.ہم ہوئے خیر اتم تجھ سے ہی اسے خیر رسلی تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے پہ : جزاکم اللہ اب میری سمجھ میں پوری بات آگئی.میں اپنے دوستوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کروں گا.آپ بھی دعا کریں کہ وہ بھی اس مسئلہ کو بہتر طور پر جان لیں.ماں بہ ضرور خدا کرے کہ ہر مسلمان اس مسئلہ کو بہتر طور پر سمجھ جائے.آؤ درود شریف پڑھیں.اللهم صل على محمد و آل محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد
100 حضرت علی کی وفات بچہ : آپ ہر مسئلے پر سب سے انوکھی بات بتا دیتی ہیں.جسے اسکول میں بھی کوئی نہیں مانتا.مثلاً میں کہتا ہوں.حضرت عیسی فوت ہو گئے.تو کوئی بھی میری بات نہیں مانتا.نہ عیسائی نہ مسلمان.ایک لڑکا تو یہ بھی کہہ رہا تھا کہ حضرت عیسی کو اللہ پاک نے آسمان پر اٹھا لیا جبکہ تمہارے نبئی زمین میں دفن ہوئے.ماں :.بات شروع کرنے سے پہلے اگر آپ کچھ دلائل یاد کر لیں اور قرآن پاک اور حدیث مبارکہ کے حوالے سے بات کریں تو کم علم لوگوں کے دل سے بنائی ہوئی کہانیاں آپ کو پریشان نہ کریں.بچہ :.تو مجھے سب سے پہلے قرآن پاک سے ایسی دلیل بتائیں جس کے آگے کوئی بات نہ ٹھہرے.ماں یہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی ہماری طرح انسان تھے.کھاتے پیتے تھے.سوتے جاگتے خوش رہتے.غم اٹھاتے.ان پر سب انسانوں کی طرح خدا تعالی کا قانون لاگو ہوتا ہے وہ زندہ بھی رہے اور وفات بھی پائی.اللہ تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام کے ذکر میں فرماتا ہے کہ : - وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدٌ أَمَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنِي كنت انت الرقيب عَلَيْهِم ( المائده : ۱۸۸)
1+1 یعنی جب تک میں ان میں (موجود) رہا میں ان کا نگران رہا.مگر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی ان پر نگران تھا.یہاں پہلے حصے میں ان کی زندگی کے متعلق بتایا اور دوسرے حصے میں ان کی وفات کا ذکر ہے.کیونکہ یہی لفظ اللہ تعالی نے عام بندوں کے لئے قرآن پاک میں استعمال فرمایا یعنی يُتَوَفُونَ مِنْكُمُ (البقرہ: ۲۳۵) تم میں سے وفات پا جاتے ہیں.جہاں عام لوگوں کے متعلق استعمال فرمایا وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی فرمایا نَتَوَفَّيَنَّكَ (یونس : ۴۷) ہم تجھے وفات دیں گے اور ایک اور مقام پر سورہ سجدہ :۱۲ میں موت کے فرشتے کی ڈیوٹی بھی اس لفظ کے استعمال سے تبادی کہ تو فلم کہ وہ تم کو وفات دیتا ہے.صرف یہی نہیں بلکہ اس لفظ کو رسول کریم نے بھی ایک دو جگہ نہیں کئی جگہ استعمال فرمایا ہے.ہم نماز جنازہ پڑھتے ہیں اس میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی مَن تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا.اس وقت میت بھی سامنے پڑی ہوتی ہے اور ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے حیات کے مقابل پر توفی کا لفظ استعمال کرتے ہیں.پھر ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخاری شریف میں اسی آیت کو اپنے متعلق بھی بیان فرمایا کہ میں بھی قیامت کے روز اسی طرح کہوں گا جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا تھا یعنی پوری آیت کہ میں جب تک ان میں موجودر یا ان کا نگران رہا مگر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ہی اُن پر نگران تھا.اب جو معنی اس آیت یا لفظ کے اللہ تعالیٰ نے اور رسول کریم نے بتائے ہیں.ہم تو اسی کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کو وفات یافتہ
١٠٢ مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (سورۃ عنکبوت آیت (۵۸) ہر نفس موت کا ذائقہ چکھے گا.بچہ : ہمارے مخالفین بھی قرآن پاک سے ہی ان کا آسمان پر جانا ثابت کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں قرآن پاک میں لکھا ہے رفع ہو گیا.اُٹھایا.ماں نہ قرآن پاک میں آتا ہے.يُعِينَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ التي (سورة ال عمران آیت (۵۶) اسے عیسی امیں تجھے (طبعی طور پر ) وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور میں عزت بخشوں گا.بچہ.لیکن امی لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کو خدا آسمان پر لے گیا.پھر بعد میں وہ دوبارہ آئیں گے.ساری دنیا کی اصلاح کریں گے پھر وفات ہوگی.ماں ، آپ صرف یہ دیکھیں کہ قرآن پاک کیا کہتا ہے.وہ صاف طور پر کہہ رہا ہے کہ علی کو وفات دی جائے گی.پھر اس کے درجات بلند ہوں گے.اگر آپ رفع سے مراد آسمان پر جانا لے لیں.تو دو مسجدوں کے درمیان جو دعا آپ پڑھتے ہیں.اس میں آتا ہے وارفعنی تو کیا اس کا مطلب آسمان پر اٹھالے ؟ بچہ : نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے عزت عطا کر.ماں : اب آپ کی سمجھ میں بات آئی کہ رفع سے مراد عزت دینا عزت سے انجام بخیر کرتا ہے اور ویسے بھی آیت یا حدیث میں آسمان کا لفظ ہی نہیں ہے کہ کہ آسمان کی طرف اٹھایا.اور یہ عام سی بات ہے جو فوت ہو جاتا ہے وہ اللہ کے پاس چلا جاتا ہے.
١٠٣ در قرآن پاک میں اللہ تعالے یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ میں نے عیسی کو دفات دی اور اس کو عزت سے اپنے پاس بلایا.ماں بہ دراصل یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ میں شخص کو صلیب دی جاتی ہے.وہ لعنتی ہوتا ہے اور انہوں نے حضرت عیسی کو اسی لئے صلیب پر مارنا چاہا.د کہ توریت کے لحاظ سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے ) کہ یہ انسان جو اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے.وہ نبی نہیں بلکہ گناہ گار ہے.اس لئے انہوں نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے اپنا فیصلہ کیا.لیکن خدا تعالیٰ نے بھی ان کے مقابلہ پر تدبیر کی.کہ یہ میرا نیک بندہ ہے.میرا نبی ہے.میں اس کو اس لعنتی موت سے بچاؤں گا.چنانچہ اس نے آپ کو صلیب پر سے زندہ اتارا.پھر آپ کے حواری (ماننے والے آپ کا علاج مرہم سے کرتے رہے.جب آپ ٹھیک ہو گئے تو خدا تعالیٰ کے حکم سے کشمیر کی طرف ہجرت کی کیونکہ آپ نے یہودیوں کو خدا تعالے کا پیغام پہنچانا تھا.اور یہودیوں کے کچھ قبائل ہجرت کر کے افغانستان اہند تشلن پاکستان کشمیر - تبرت ، نیپال وغیرہ کے علاقوں میں آباد ہو گئے تھے.آپ ان کو خدا تعالے کا پیغام اور توریت کی تعلیم پر عمل کر دانے کے لئے ملے گئے.وہاں پر آپ نے کھل کر تبلیغ کی اور ۲۰ سال کی عمر میں وفات پائی.اس علاقہ میں لوگ آپ کو شہزادہ نبی کہتے تھے.آپ کی قبر سرینگر محلہ خانیار میں ہے.یوں خدا تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعہ یہودیوں کی اس کوشش کی ناکامی کا ذکر کیا.بچه در حضرت عیسی کی ہجرت کا ذکر قرآن پاک میں ہے.
ماں نہ بالکل ہے ، قرآن پاک وہ واحد کتاب ہے.جو خدا کا کلام ہے.اور ساتھ ہی یہ اس کے نیک بندوں کے بارے میں جو غلط باتیں انسانوں نے مشہور کی تھیں.ان کی وضاحت کرتا ہے.ان کی بہیت کرتا ہے اور صحیح حالات سے انسانوں کو آگاہ کرتا ہے کہ اصل میں کیا ہوا تھا.یہ قرآن کریم کا بہت بڑا احسان ہے.تمام قوموں اور تمام مذاہب پر کہ ان کے انبیاء کی صفائی قرآن پاک نے پیش کی اور ان کے مخالفین کے منہ بند کر دیئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةٌ آيَةً وَا وَيْنَهُما إلى ربوة ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِين (سورۃ المومنون آیت ۵) یعنی ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو نشان بنایا.اور ان دونوں کو ایک بلند زمان پر پناہ دی ہو آرام دہ اور چشموں والی ہے اب کشمیر کے علاقے کو دیکھیں تو وہ بالکل ایسی ہی جگہ ہے جو خدا تعالیٰ بنا رہا ہے.بچه به امی جان به بات تو قرآن پاک سے معلوم ہوگئی کہ حضرت عیسی کی وفات ہو گئی ہے.اور انہوں نے ہجرت کی.کیا احادیث میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے.ماں : آپ کو معراج اور اسراء کا واقعہ تو معلوم ہے.معراج کے موقع پر جب آپ حضرت جبرائیل کے ساتھ آسمانوں کی سیر کے لئے گئے.تو حضرت عیسی اور حضرت بیٹی سے آپ کی ملاقات تیسرے آسمان پر ہوئی.پہلے آسمان پر حضرت آدم سے اس طرح ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم ہے.یہ انبیاء اور ان جیسے درجات رکھنے والے نبی تھے.اور سب کے سب کو آپ نے
۱۰۵ وفات یافتہ قرار دیا ہے.اسی طرح اسراء کے موقع پر جب آپ نے بیت المقدس میں انبیائڈ کو نماز پڑھائی تو ان میں بھی حضرت عیسی موجود تھے اب یہ بات آپ آسانی سے سمجھ سکتے نہیں.کہ اگر حضرت عیسی زندہ ہوتے تو یا تو وہ فوت شدہ افراد سے الگ ہوتے یا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت فرماتے لیکن آپ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی.بچہ پر اور بھی کوئی حدیث ہے.مان ہر ایک حدیث میں آپ فرماتے ہیں بے شک عیسی ابن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے.حضرت عیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اے سال پہلے پیدا ہوئے تھے.اگر ۲۳ سال میں ان کو صلیب دی گئی.اور آپ کے زمانے تک ان کی عمر کئی سو سال ہونی چاہیے تھی.لیکن آپ فرماتے ہیں ۱۲۰ سال زندہ رہے.(کنز العمال) گویا پھر ان کی وفات ہو گئی.یہ ، یہ بات تو ٹھیک ہے.مان یہ ایک واقعہ اور بتا دوں جس سے اچھی طرح وضاحت ہو جائے گی جب پیارے آقا کی وفات ہوئی.اس وقت حضرت عمر فاروق صدمے کی وجہ سے کہہ رہے تھے کہ اگر کسی نے کہا کہ آپ فوت ہو گئے تو میں اُس کی گردن اڑا دوں گا.اور ہاتھ میں ننگی تلوار تھی.حضرت ابو بکر صدیق تشریف لائے اور قرآن پاک کی آیت پڑھی.وَمَا مُحَمَّدُ إِلا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ افَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْةُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (سورة ال عمران آیت (۱۴۵)
بچہ : اس کا مطلب بتائیے.مان باس کا مطلب ہے کہ محمد رسول اللہ) اللہ کے رسول ہیں.اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں (یعنی قوت ہو چکے ہیں جیسے ہم اپنے باپ دادا یا پہلی قوموں کے متعلق کہتے ہیں وہ گذر چکے ہیں یعنی فوت ہو چکے ہیں) تو کیا اگر وہ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے یعنی (اسلام چھوڑ دو گے.اس آیت کا سُنا تھا.کہ حضرت عمر فاروق ض بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے.اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب پیارے آقا ہم میں موجود نہیں.حضرت ابو بکر صدیق نے جب یہ آیت تلاوت کی اُس وقت مدینہ میں تمام بڑے جلیل القدر صحابہ موجود تھے لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضرت عیسی تو زندہ آسمان پر موجود ہیں.ہمارے آقا بھی زندہ رہیں گے.سب کا اس وقت خاموش رہنا ثابت کرتا ہے.کہ قرون اولیٰ کے مسلمان وفات مسیح کے قائل تھے اور یہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا اجماع تھا جو تمام انبیاء کی وفات ثابت کرتا ہے.بچہ : حضرت عیسی کی وفات تو بالکل سمجھ میں آگئی.لیکن یہ بات کہ آپ ہی دوبارہ آئیں گے (کیونکہ عیسی کے لئے لفظ نازل ہونا.نزول کرنا آتا ہے) اس کا کیا مطلب ہے.ماں : مسلمانوں نے اصل میں حضرت عیسی کے ساتھ لفظ نازل ہونا یا نزول کرنا سے غلطی کھائی ہے.اور عیسائی پادریوں نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا.میں آپ کو پہلے لفظ نازل اور نزول سمجھا دوں.پھر بات آگے بڑھے گی.اللہ تعالیٰ نے ہر اس چیز کے بارے میں لفظ نازل یا نزول
1.6 استعمال کیا ہے.جس سے انسانیت کی بقا اور اس کی ترقی وابستہ ہو.ایک جگہ سب اشیاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.د إن من شَيُّ إِلَّا عِندَ نَا خَرَابِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بقدر معلوم (الحجر: ۳۲) اس آیت میں ہر چیز کے آسمان سے نازل ہونے کا ذکر ہے ایک جگہ لباس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انزلنا عليكم لباسا (الاعراف : ٢٤) کہ ہم نے لباس نازل کیا.پھر یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ ينزل لكُم مِّنَ السَّمَاءِ (المومن : ۱۴) یعنی آسمان سے رزق نازل کیا جبکہ رزق زمین میں پیدا ہوتا ہے.اب ہم ساری دھاتوں کو دیکھیں تو صرف لوہے کے بارے میں آتا ہے.وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيْهِ بَأْسُ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ - ہم نے لوہا اتارا جس میں جنگ کا سامان ہے.اور بھی لوگوں کے لئے فائدے ہیں.(سورة الحديد : ۲۶) پھر دودھ کے بارے میں آتا ہے کہ نازل کیا.چو پائے نازل کئے لیکن آپ نے ان سب کو کبھی آسمان سے برستا نہیں دیکھا ہو گا.پھر انبیائی کے بارے میں نزول کا لفظ آتا ہے.آنحضرت صلی الہ علیہ ستم کے بارے میں بھی قرآن پاک فرماتا ہے.قَدْ أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكَرا رَسُولَا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آیت الله العدان ۱۳۶۱) یعنی اللہ نے تمہاری طرف ایک یاد کرانے والا رسول اتارا ہے.جو تم پر
I.A اللہ کی آیات پڑھتا ہے.شریعت کے بارے میں سبھی نازل ہونا آتا ہے.مثلا قرآن پاک کے لئے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ اور ناہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے.اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.ہر ان تمام مثالوں سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ نازل کرنا.نزول کا لفظ سے اترے گی.فائدہ مند چیز کے لئے آتا ہے.اس سے یہ مراد نہیں ہوتی ہے کہ وہ آسمان بچہ : جزاکم اللہ میں نازل اور نزول کو بھی سمجھ گیا.لیکن ابن مریم سے کیا مراد ؟ ہاں :.اگر آپ کسی کو بہت زیادہ سخاوت کرتا دیکھیں تو کہتے ہیں کہ فلاں تو حاتم طائی ہے.یا فلاں تو چاند ہے.خوبصورت کو چاند کہہ دیتے ہیں ، نیک سیرت کو فرشتہ، بہادر کو شیر کہہ دیتے ہیں.ان سے ان کی صفات جیسا ہونا مراد ہوتا ہے.آنے والے کو سیچ کہا گیا.اس سے مراد اس کی سچائی تھی یعنی وہ روحانی بیماریوں سے نجات دیگا.ابن مریم کہا اس سے مراد حضرت عیسی کی طرح جو موسیٰ کے بعد چودہ سو سال بعد آتے تھے اسی طرح حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (آپ پر سلامتی ہو) نے بھی قرآن پاک.اسلام کی تعلیم کو زندہ کرنا تھا.جس طرح حضرت عیسی نے بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کو عیسائیت کی تعلیم کے ذریعہ اتفاق و اتحاد کے ساتھ جمع کر دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہوا نے بھی تمام فرقوں کو احمدیت کے ذریعہ ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دینا تھا.اور سب سے بڑھ کر اس زمانہ میں جو فتنہ دجال کا اور یا جوج ماجوج کا پھیلنا تھا جس کے پھیلانے کا سبب بھی یہ عیسائی اقوام تھیں.اس لئے اس سے نجات دلاتا بھی مسیح ابن مریم کا کام تھا.جو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے
1.9 ذریعہ پورا ہورہا ہے.بچہ : میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً آپ زندہ ہیں.اور ہر مردہ آپ سے زندگی پاتا ہے.بے شمار سلام ہوں آپ پر اور آپ کے اصحاب پر اور آپ کے غلام پر جو انسانوں کو ہدایت دے رہا ہے.اللهم صل على محمد وال محمد وبارك وسلم انك حمید مجید امی جان اب میں وفات سیج، ان کا دوبارہ آنا وغیرہ کے بارے میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں.خدا کرے کہ میں ان تمام باتوں کو اپنے دوستوں کو بھی سمجھا سکوں.ہاں وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہاری زبان میں ایسی تاثیر پیدا کیڑے.اور تمھارے ذہن کو علیم سے بھر دے تم کو قوت عطا کرے کہ تم صحیح طور پر سب کو سمجھا سکو.ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو.کہ اگر اس دنیا میں خدا تعالیٰ کسی کو زندہ رکھتا تو وہ ہما رے پیارے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اگر کسی کو دشمنوں سے معجزانہ رنگ میں بچانا مقصود ہوتا تو یہ حق بھی ہمارے آقا کا ہے.جنہوں نے تمام انبیاء سے زیادہ دکھ اٹھائے.اور اگر خدا تعالے نے کسی کو ساتویں آسمان پر اپنے داہنے ہاتھ بٹھانا ہوتا.تو یہ مقام بھی صرف اور صرف ہمارے آقا کا ہے.کیونکہ وہ اپنے خدا سے سب سے زیادہ پیار کرتے تھے اور خدا بھی ان کے ساتھ عشق رکھتا تھا.کیونکہ آپ کی خاطر اس کائنات کی تخلیق کی گئی ، آپ کے نور نور محمدی سے تمام انبیاء حصہ لے کر دنیا میں پھیلے ہوئے گمراہی کے اندھیروں کو دور کرتے رہے قرآن پاک جیسی مقدس تعلیم کو تمام انسانوں کے مسائل کا نہ صرف حل بتایا بلکہ قیامت تک کے لئے یہ انسانیت کے لئے لائحہ عمل بھی ہے.کیونکہ اس دورے کے
11.میں جہاں تک انسانوں نے ترقی کی ہے.جو حالات پیدا ہونے والے ہیں.ان سب پر صرف اور صرف یہ پاک تعلیم ہی روشنی ڈالتی ہے..اور اب اس زمانے کے لئے جو سب سے بڑا فتنہ دجال اور یا جوج ماجونگ کا ہے.اس کے بارے میں بھی تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کو بتاتے، ڈراتے آئے ہیں کہ اس سے بڑا فتنہ کبھی نہیں پھیلا.اس فتنہ سے دنیائے انسانیت کو سنجات دلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے پیارے آقا سیدنا و إمامنا حضرت خاتم النبيين صلى الله عليه وسلم کے ایک غلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (آپ پر سلامتی ہو) کو چنا جو ابن مریم بھی کہلائے.ان کو مسیح کہا گیا.وہ مہدی بھی ہیں.یعنی ہدایت پا کر ہدایت دینے والے.اس میسح و مہدی کو خدا تعالے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے طفیل قوتیں اور طاقتیں عطا کیں.دعا کا معجزہ دیا.جس کے ذریعہ آپ نے انسانیت کو اس فتنہ سے نجات دلانے کے سامان پیدا کر دیئے.اور جو بھی آپ کے دامن سے وابستہ ہوتا ہے.وہ نہ صرف خدا تعالیٰ بلکہ پیارے آقا محمد مصطفے واحد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عاشق بن کر اُن کے پیار سے حصہ لیتے ہوئے انسانوں کو نجات دلانے کے لئے نکل پڑتا ہے.اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس دنیا میں کون زندہ ہے جس کی زندگی نمونز ہو.جس کی تعلیم زندہ ہو جین کا مذہب تمام مذاہب کی سچائی اور ان کے انبیاء کی صداقت کا گواہ بنا ہو.جسن کے اقوال اور سنت پندرہ سو سال گزرنے کے با وجود دہرائے جاتے ہوں جن کے اصحاب کے واقعات انسان اپنے
川 رشتہ داروں کی طرح یاد کرتا ہو.اور یہ سب کچھ میرے پیارے آقاصلی للہ علیہ وسلم میری روح آپؐ پر فدا ہو.آپ کا سرمایہ ہے.پھر ہم کیسے حضرت عیسی کو زندہ مان لیں.غیرت کی جا ہے عیسی زندہ ہو آسمان پر مدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں : وہ اعلی درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائیک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض دو کسی چیز ارضی و سمادی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسانِ کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیدو مولى سيد الانبيا وستد الاخیار محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.
شان محمد مصطفے صلى اله علیه وسلم ده پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں ہمبراک دوسرے سے بہتر یک از خدائے پر تو خیر الورٹی یہی ہے وہ یارِ لا مکانی وہ دلبر نہانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس اپنا ہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مسلیں ہے.وہ طیب وامیں ہے اس کی شنا ہی ہے اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وہ وہ ہے میں چیز کیا ہوں میں فیصلہ یہی ہے دلبر لیگا نہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب خانہ پیج بے خطا یہی ہے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ مراہیا ہے (درثمین)
قرآن شریف کی خوبیاں نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا یا الہی ! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں لکھیں بے عرفاں کا ہی ایک ہی شیشہ نکلا در ثمین
۱۱۴ جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہیں غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہیں اغیار کا بھی بڑھ اُٹھانا پڑے ہمیں اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے اے خدا جس میں کہ تیرا نام چھپانا پڑے ہیں پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی ہو جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہیں محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمین.(کلام محمود)
110 نونہالان جماعت سے خطاب تو نہالان جماعت مجھے کچھ کہنا.پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو تاکہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو ج گزر جائیں ہم تم پانی بار ستیاں ترک کر د طالب آرام نہ ہو خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو دل میں ہو اور تو آنکھوں سے ڈاں ہوں انسو تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہو رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو کر یہ اللہ کا سایہ رہے نا کام نہ ہو کلام محمود)
ہمارا لباس ماں.جب موسم بدلتا ہے لباس بھی تبدیل ہو جاتے ہیں.سردیوں کے کپڑے محفوظ کر لیتے ہیں اور گرمیوں کے ہلکے کپڑے نکالتے ہیں.اسی طرح جب سردیاں آنے والی ہوتی ہیں تو لحاف تکمیل ، سویٹر نکال کر دھوپ لگواتے ہیں.بچہ ہمیں یہ کام بہت پسند ہے.پرانے کپڑے نئے لگتے ہیں کچھ پرانے کپڑوں کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ ہم کبھی اتنے چھوٹے بھی تھے.ماں.وقت گزرنے کے ساتھ قد بڑھتا ہے تو کپڑے بھی بڑے بنانے پڑتے ہیں پھر اس لئے بھی نئے کپڑے بناتے ہیں کہ بہت چھوٹے بچے تو نیکر بشرٹ یا فراک جانگیہ پہن سکتے ہیں.کبھی فراک میں آستینیں بھی نہیں ہوتیں مگر جب بڑے ہوتے ہیں تو لباس میں تبدیلی آجاتی ہے.بچہ اب مجھے نیکر پہنا بالکل اچھا نہیں لگتا.ماں.یہی تو میں سمجھا رہی ہوں کہ چھوٹے بچے اور بڑے بچے کے لباس میں فرق ہوتا ہے.آپ بتائیں نماز کتنے سال میں ضرور پڑھنا شروع کر دیتے ہیں.بیچے.دس سال کی عمر سے دیسے سات سال سے عادت ڈالنے کے لئے پڑھتے ہیں.ماں.بس یہی عم مناسب لباس کی ہوتی ہے.پوری ٹانگیں ڈھکی ہوں.سر پر دوپٹہ یا وی ہو.بٹن بند ہوں.اسی نہیں کھلی ہوں مطلب یہ کہ باوقار لباس ہو.
116 بچہ جیسے مسجد میں جاتے ہیں.ماں.جی ہاں ! اس کے علاوہ بھی مناسب لباس کا خیال رکھا جاتا ہے.بچہ جیسے سکول جاتے وقت کسی کے گھر جاتے وقت کسی بزرگ سے ملتے وقت، اجلاس میں جاتے وقت.ماں.ہمارے پیارے آقا چاہتے ہیں کہ مسلمان عباس سے بھی مسلمان نظر آئیں.دوسرے مذہب والوں کی طرح کا لباس نہ پہنیں، اور ان کی طرح نظر آنے کی کوشش نہ کریں.بچہ.ہمارے پیارے آقا میں کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھاتے ہیں.ماں.ایک بات ایسی بنا دیتے تھے کہ اُس سے انسان خود باقی سب باتوں کے متعلق فیصلہ کرے.باس کا نام لے لے کر نہیں بتایا کہ یہ پہنو، یہ تہ پہنو بلکہ ایک اصول بتا دیا کہ ایسا لباس پہنو جس سے دیکھنے میں مسلمان نظر آؤ.اسی سے ایک اور بات یاد آ گئی.ہمارے پیارے آقا نے یہ بھی فرمایا کہ جب بیچتے دس سال کے ہو جائیں (تقریباً وہی عمر نماز با قاعدہ پڑھنے کی ہے) تو الگ الگ بستروں میں سویا کریں.بچہ.اس سے اور کن باتوں کا علم ہوا ؟ ماں.اگر سوچیں تو بہت سی باتوں کا علم ہوتا ہے مثلاً تم دیکھو جب بیچتے چھوٹے ہوتے ہیں سب کو پیارے لگتے ہیں ، سب گود میں اُٹھاتے ہیں کندھے پر بٹھا لیتے ہیں مگر اس بات سے اندازہ ہوا کہ اب گود میں بیٹھنے سے زیادہ بہتر ہے کہ الگ الگ بڑوں کی طرح بیٹھیں.کھیل بڑوں گود میں بھی ان باتوں کا خیال رکھیں.لڑکیاں الگ لڑکیوں میں کھیلیں
UA لڑکے الگ لڑکوں میں کھیلیں.جس طرح ہر عمر کا لباس الگ ہوتا ہے اس طرح ہر عمر کے شرم و حیا کے طریقے بھی الگ ہوتے ہیں.بچہ مثلاً ماں.مثلاً نہاتے اور لباس تبدیل کرتے وقت مکمل پڑے کا خیال رکھنا چاہیئے.بچیاں اپنے بزرگوں، ماموں ، خالو ، پھوپھا، چا، تایا جیسے سب بزرگ رشتہ داروں اور طنے والوں کے سامنے تو جائیں مگر وقار کے ساتھ احترام کے پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے نظر نیچی رکھیں.دوپیر یا ہو.بچہ.آواز نبھی نیچی رکھیں.نہیں بچے، میانہ روی سے یعنی زیادہ نیچی نہ اونچی ، بات کرو تو صاف ایک ایک لفظ سمجھ آئے یہ نہیں کہ آدھا فقرہ سمجھ آجائے اور آدھا سننے کے لئے بار بار کیا کہا، کیا کہا کہنا پڑے.احمدی بچتے بہادر ہوتے ہیں.بات صاف بیچی اور اونچی آواز میں کرتے ہیں.منہ بسور کے بات نہیں کرتے.بات میں گستاخی کا رنگ نہ ہو مگر آواز اونچی ہو.جو دیکھے وہ کہے کہ یہ اچھے خاندان اور اچھی جماعت کا بچپ ہے.بچے.ہم ان باتوں کا خیال رکھیں گے.ماں خدا آپ کو عمل کرنے اور ہیں صحیح باتیں سمجھانے کی توفیق دے.ایک حدیث ہمیشہ یا د رکھنا.بے حیائی انسان کو بدنما بناتی ہے جبکہ جیا حسن اور خوب صورتی پیدا کرتی ہے."
119 سالگرہ کیسے منائیں ماں.آج آپ نے مجھ سے سالگرہ کے بارے میں بہت سے سوال کئے تھے اُس وقت میں کچھ مصروف تھی آئیے اب میرے پاس بیٹھے ہیں نہ صرف صبح کئے ہوئے سارے سوالات کا جواب دوں گی بلکہ ابھی اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال آئے تو وہ بھی پوچھ لیں.پہلی بات تو یہ کہ اگر ہمارے پاکس محدود تعداد میں کوئی چیز ہو اور ایک ایک کر کے ختم ہو رہی ہو تو کیا ہم خوش ہوں گے مثلاً لفافے میں سے ٹافیاں یا بٹوے میں سے روپہلے.یہی حساب عمر کے سالوں کا ہے عمر محدود ہے جو سال گزرتا ہے ہماری عمر کا ایک سال کم ہو جاتا ہے اس میں خوشی کی کوئی بھی بات نہیں جو ہم پارٹیاں کریں کیک کھائیں ، تھے وصول کریں.دوسری بات آپ نے یہ پوچھی تھی کہ عیسائی ہندو، پارسی اور اکثر مسلمان ساری دنیا میں سالگرہ مناتے ہیں تو ہم کیوں نہیں مناتے اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث شریف میں لکھا ہے جو شخص جس قوم کے طور طریقے اپنائے گا اُسی میں شامل سمجھا جائے گا.جیسے اگر ایک گروہ میں عیسائیوں کے تین خداؤں کو ماننے والے موجود ہوں..ایک گروہ میں ہندوؤں کے بتوں کو ماننے والے، ایک گردہ ہیں، اللہ تعالٰی کو مانے والے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے موجود ہوں تو آپ یقینا اس گروپ میں حاضر ہونا پسند کریں گے جو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کا گروپ ہو گا.اس گروپ میں شامل
۱۲۰ ہونے کے لئے اُسی طریق پر چلتا ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق ہے.سالگرہ کی رسم منانا الحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا طریق نہیں.آپ کی اور آپ کے بچوں کی سالگرہ کبھی نہیں منائی گئی.خلفائے راشدین اور دوسر صحابہ کر ان کی سالگرہ نہیں منائی گئی پھر سینکڑوں سال تک مسلمانوں میں یہ رسم نہیں آئی.برصغیر میں انگریزوں کے آنے سے یہ رسم آئی اور ان کی نقالی میں جہاں اور بہت سی رسمیں آئیں یہ رسم بھی آگئی، کچھ اس میں ہمیں ہندئوں سے آئیں.آج کل بچے کی پیدائش پر شادی بیاہ کے موقعوں پر اور کسی کی وفات پر جو ریمیں کی جاتی ہیں اکثر بعد میں شامل ہوئی ہیں.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نے اس زمانے کے مہدی کو مان لیا جن کو دین میں سے غلط باتیں ہٹانے کا کام سونپا گیا تھا.اب ہمارے سامنے اُن کا طریق بھی ہے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی سالگرہ کبھی نہیں منائی گئی.آپ کے بچوں کی ہمارے پیارے خلفاء کی سالگرہ بھی نہیں منائی گئی.موجودہ خلیفہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد اور آپ کے بچوں کی بھی نہیں منائی جاتی.اب آپ خود دیکھ لیں کہ یہ رسم کرنی چاہیے یا نہیں.بچه.مگر دوسروں کو سمجھانا بہت مشکل ہے.ماں.کچھ مشکل نہیں آپ یہ بتائیے کہ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں.ہمارا ہر کام خدا تعالیٰ کو نوش کرنے کے لئے ہونا چاہیے.خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے سارے طریق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ جانتے تھے.آپ کے بعد خدا تعالی کو خوش کرنے کا کوئی نیا طریق کوئی نہیں بتا سکتا.اگر کوئی نئی بات داخل کرے گا تو وہ دین میں نئی بات داخل کرے گا.صرف سالگرہ کی رہم ہی نہیں کوئی بھی ایسی رسم جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں
درست نہیں ہوسکتی.پھر اس پرعمل کرتا ہے کار ہے.لوگ سالگرہ اس و نہیں مناتے کہ الہ تعالیٰ خوش ہو گا بلکہ اس لئے کہ دنیا والے کیا کہیں گے یا فلاں فلاں مناتا ہے تو ہم کیوں نہ منائیں.آپ نے سوچا کہ سالگرہ پر خرچ کیا ہوا پیسہ ایک طرح سے ضائع ہی ہوا یہی کسی بہتر مصرف میں لایا جائے ملا دین کی خاطر یا کسی غریب کی مدد کی خاطر بہت ثواب ہوگا سب بچتے تو سالگرہ نہیں منا سکتے.کئی غریب بچے دیکھ دیکھ کر ترستے ہیں جو پہلے ہی غریب سے اُس کا دل دکھانا عقل مندی نہیں ہے.بچہ.اگر امیر ہوں اور روپیہ پیسہ ہو تو الگرہ منا سکتے ہیں ؟ ماں.یہ کیسا سوال ہے جو غریب ہیں اور منا ہی نہیں سکتے وہ نہ منائیں تو کتا ثواب ہو گا اور جو امیر ہیں روپیہ پیسہ رکھتے ہیں مگر اپنے پیارے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و سلم کے طریق پر چلنے کا ثواب حاصل کرنے کے لئے نہ منائیں ہیں تو اصل ثواب ہے.سادگی اپنانے کے بڑے فائدے ہیں.سادہ رہیں گے تو خوش دلی کے ساتھ نیک کاموں میں روپیہ خرچ کر سکیں گے.بچہ ، پھر میں سالگرہ کا دن کیسے مناؤں ؟ مال.وہ دن منائے جاتے ہیں جو دینی یا قومی اہمیت رکھتے ہوں.پیدائش کی تاریخ ہر سال آئے گی جیسے باقی دن ویسے وہ دن.مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ستر در ادا کریں کہ اس نے بخیر و عافیت سال گزارا.اگلے سال پہلے سے بہتر گذارنے کے لئے دعا کریں.بہت صدقہ دیں.کسی غریب کی مدد کرین ، اور دعا کریں کہ زندگی میں ہر آنے والا دن گذرنے والے دن سے زیادہ کامیاب ہو.میں بھی سب احمدی بچوں کے لئے یہی دعا کرتی ہوں
۱۲۲ فضل خدا کا سایہ تم پر ر ہے ہمیشہ ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گئے آمین اُمت محمدیہ میں ہر صدی میں ظاہر ہونے والے مجددین سلسلہ پہلی صدی حضرت عمر بن عبد العزيز دوسری صدی حضرت امام شافعی بعض کے نزدیک حضرت امام احمد بن حنبل تیسری صدی حضرت ابو شرح وابو الحسن اشعری پوتھی صدی حضرت ابو عبید اللہ نیشاپورگی و قاضی ابوبکر باقلاقی پانچویں صدی حضرت امام غزالی چھٹی صدی حضرت سید عبد القادر جیلانی ساتویں صدی حضرت امام این تیمشه و حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری 71.آٹھویں صدی حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی و حضرت صالح بن عمرم تویں صدی حضرت علامہ جلال الدین سیوطی دسویں صدی حضرت امام محمد طاہر گجراتی گیارہویں صدی حضرت مجدد الف ثانی احمد سر مہندی بارہویں صدی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تیرہویں صدی حضرت سید احمد بریلوی ر حجج الکرامه) چودہوی صدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی محمد عظیم امام آرمان سی و مهدی ر آپ پر سلامتی ہو
١٢٣ چند نصائح پڑھتے وقت کتاب کو آنکھوں سے ایک فٹ دور رکھیں.۲- گندی جرابوں سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں.جرا ہیں اور پاؤں صاف رکھئے.- نوکیلی چیز منہ اور کان میں نہ ڈالیں.-4.دائیں ہاتھ سے اپنے آگے سے کھانا کھائیں..کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک نہ ماریں.چھوٹے بڑے سب کو سلام کرنے میں پہل کریں.کنگھی کے بعد بالوں کو کنگھی سے نکال کر کسی کاغذ یا لفافے میں پیٹ کر ڈبے میں ڈالیں.مجلس میں ناک میں انگلی ڈالنا اور ناخن کاٹنا پسندیدہ کام نہیں.و.اپنے جیب خرچ سے تھوڑی تھوڑی بچت کر کے کسی غریب کی مدد کریں.1.اپنے اجلاسوں میں ضرور شریک ہوں.
نام کتاب مرتبه ۱۲۴ گلدسته امتہ الباری ناصر به بیشتری داؤد لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی ایک ہزار ناشر تعداد طبع سوم کنایت خالد محمود اعوان شماره پرنٹر صدیقی انٹر پرائی
ایک اچھا زمیندار سب سے پہلے پیج کی فکر کرتا ہے بیچ کے اچھا ہونے پر فصل کی کامیابی کا دارو مدار ہے......اگر جماعت کی آئندہ ترقی کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہو تو بچپن بلکہ ولادت سے ہی بچوں کی اچھی تربیت کا انتظام ہونا چاہیے.اے وہ لوگو ! جین کے ہاتھوں میں ان کی تربیت کی باگ ڈور دی گئی ہے.اپنی ذمہ داری کو سمجھو اور اس عمر کی قدر وقیمت کو بچانو.کیونکہ آگے چل کہ آج کے بچوں کے سر پہ ہی جماعتوں کے کاموں کا بوجھ پڑنے والا ہے.لہذا اپنے بچوں کو ابھی سے.اور احمدیت کے مضبوط سپاہی والی تربیت دو.جن کے کندھے اتنے فراخ اور مضبوط ہوں کہ ہر بوجھ کو اُٹھانے کی طاقت رکھیں.تربیت میں پانچ باتیں خاص طور پر بڑی اہم اور بڑی دور رس ہیں.1.صداقت اور سچ بولنے کی عادت دیانت داری اور ہر قسم کے دھوکا اور فریب سے اجتناب محنت اور جاں فشانی اور عرق ریزی جماعت کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کا جذبہ د نماز کی پابندی اور دعاؤں کی عادت ، تربیتی مضامین صفحه ۳۰ - ۳۱ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم.اے خدا تعالیٰ آپسے راضی ہو )
FOOTPRINTS One night a man had a dream.He dreamed he was walking along the beach with the LORD.Across the sky flashed scenes from his life.For each scene, he noticed two sets of footprints in the sand: one belonging to him, and the other to the LORD.When the last scene of his life flashed before him, he looked back at the footprints in the sand.He noticed that many times along the path of his life there was only one set of footprints.He also noticed that it happened at the very lowest and saddest times in his life.This really bothered him and be questioned the LORD about it: "LORD, you said that once I decided to follow you, you'd walk with me all the way.But I have noticed that during the most troublesome times in my life there is only one set of footprints.I don't understand why when I needed you most you would leave me.' The LORD replied: "My son, My precious child, I love you and I would never leave you.During your times of trial and suffering, when you see only one set of footprints, it was then that I carried you." Author unknown