Ghulam_Qadir_Shaheed

Ghulam_Qadir_Shaheed

مرزا غلام قادر احمد

خاندانِ حضرت مسیح موعود کا پہلا شہید
Author: Other Authors

Language: UR

UR
شہدائے احمدیت

یہ کتاب آسمان احمدیت کے روشن ستارے اور خاندان حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے پہلے شہید محترم صاجزادہ مرزا غلام قادراحمد صاحب کی سیرت و سوانح پر مبنی ہے۔ آپ کو 14 اپریل 1999ء کو ربوہ کی سرزمین پر شہید کر دیا گیا تھا۔ آپ کی شہادت اس لحاظ سے بھی عظیم بن گئی کہ حضر ت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت کو الہامات حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا بھی وار ث قرار دیا جس میں یہ تذکرہ ہے کہ ’’غلام قادر آگئے ۔گھر نور اور برکت سے بھرگیا۔ (اللہ نے اسے مرے پاس بھیج دیا )‘‘ نیز فرمایا : <blockquote>’’قیامت تک شہید کے خون کا ہر قطرہ آسمان احمدیت پر ستاروں کی طرح جگمگاتا رہے گا۔ مجھے اس بچے سے بہت محبت تھی۔ میں اس کی خوبیوں پر گہری نظر رکھتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ ۔۔۔۔ اے شہید تو ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہم سب ایک دن آکر تجھ سے ملنے والے ہیں۔ زندہ باد غلام قادر شہید۔ پائندہ باد۔‘‘</blockquote> محنت اور کاوش سے مرتب کی گئی اس کتاب کے کل 18 ابواب ہیں جن میں شہادت کے دلگداز واقعات کے ساتھ ساتھ شہید مرحوم کے خاندانی پس منظر، بچپن ، اعلیٰ تعلیم، کیریئر، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد، خدمات دینیہ کے علاوہ آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر آپ کے رفقائے کار کی تحریرات شامل ہیں۔ اس کتاب میں شعرائے کرام کا پیش کردہ منظوم خراج تحسین، ملکی و غیرملکی پریس میں ہونے والا تذکرہ، اور دیگر بہت سا ضروری مواد شامل کیاگیاہے۔


Book Content

Page 1

1 احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے ) خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا شہید مرزا غلام قادر احمد

Page 2

2 نام کتاب رزا غلام قادر احمد

Page 3

Page 4

3 انتساب حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کے نام حضرت میاں صاحب ناظر خدمت درویشاں تھے اور خاکسار ایک درویش قادیان محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت (اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے) کی بیٹی.آپ ہمارے ساتھ پدرانہ بلکہ مادرانہ شفقت کا سلوک فرماتے.تعلیم و تربیت میں خاص دلچسپی لیتے.پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم آپ کی دعاؤں اور حوصلہ افزائی سے ممکن ہوئی.آپ سے ذاتی تعلق باعث ناز سرمایہ ہے.فالحمد للہ علی ذالک اللہ تعالیٰ میرے محسنوں کو غریق رحمت فرمائے اور ہمیں نسلاً بعد نسل آپ کے اور آپ کے پیاروں کے نقوش قدم پر چل کر خدمت کے مقام محمود عطا فرمائے.آمين اللهم آمین

Page 5

أَعُوذُ بِااللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قال اللہ تعالیٰ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتُ بَلْ أَحْيَاء وَلكِن لا تَشْعُرُونَ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ بَشِّرِ الصَّبِرِينَ : الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ سورة البقره آیات 154 تا 158 ترجمہ صفحہ 35، 36 پر دیکھئے

Page 6

5 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قال الرسول صلى الله عَنْ سَعَيْد ابن زَيْدِ رضى الله تعالى عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ الله علي الله يَقُولُ : مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلَهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ( ترمذی ابواب الديات باب من قتل دون ماله فهو شهید بخاری کتاب المظالم مَنْ قُتِلَ دُون مَالِهِ ) حضرت سعید بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:- ” جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے.جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.جو اپنے اہل وعیال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.66

Page 7

6 گا اور تم کیا کہ میں غاری آخری گھری 1 ما سپر مون حرفی الفارق - وما ادراک الفارق - با دستام شهرامی هنام آگئے.ہر روز اور مرتیک نیا رفته رایتی J ۸۰ د کر سلام سرد روده که دربام تو یا در راه است وو ارد کار سوار 3 رنا برای روز عید روز هم این الی الله حضرت مسیح موعود کی کاپی الہامات کے صفحہ 33 کا عکس غلام قادر آئے گھر ٹور اور برکت سے بھر گیا رَدَّ اللهُ إِلَيَّ“ ( تذکرہ طبع چہارم صفحه 522) Ghulam Qadir came and the house became filled with light and blessing.Allah send him back to me.Al-Hakam Volum 8, No.40 dated 24November 1904, Page6

Page 8

7 حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:- کے ایک دفعہ ہمارے والد صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ آسمان سے تاج اُترا اور اُنہوں نے فرمایا یہ تاج غلام قادر کے سر پر رکھ دو.( آپ کے بڑے بھائی مگر اس کی تعبیر اصل میں ہمارے حق میں تھی.جیسا کہ اکثر دفعہ ہو جاتا ہے کہ ایک عزیز کے لئے خواب دیکھو اور وہ دوسرے لئے پوری ہو جاتی ہے.اور دیکھو کہ غلام قادر تو وہ ہوتا ہے جو قادر کا غلام اپنے آپ کو ثابت بھی کر دے اور انہیں دنوں میں مجھ کو بھی ایسی ہی خوابیں آتی تھیں.پس میں دل میں سمجھتا تھا تعبیر اُلٹی کرتے ہیں اصل میں اس سے میں مُراد ہوں.سید عبدالقادر جیلانی نے بھی لکھا ہے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے کہ اس کا نام عبد القادر رکھا.جاتا ہے جیسا ہے کہ میرا نام بھی خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعے سے د عبد القادر رکھا.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 158، 159)

Page 9

8 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:- ” خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی رُوح رکھتے ہوں اور اُن کی رُوحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں.جیسا کہ میں نے کشفی حالت میں واقعہ شہادت مولوی صاحب موصوف کے قریب دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی.اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو تا وہ بڑھے اور پھولے.سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے اُن کے قائم مقام پیدا کر دے گا.سو میں یقین سے کہتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی.(روحانی خزائن جلد 20، تذکرۃ الشہادتین صفحہ 75 ،76)

Page 10

کتاب ( پہلا ایڈیشن ) موصول ہونے پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا صدر لجنہ کے نام مکتوب وو آپ کے شعبہ اشاعت کی طرف سے شائع ہونے والی نئی تصنیف ” موصول ہوئی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.ماشاء اللہ بڑی اچھی ترتیب دی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کی شہادت پر فکر کا بھی اظہار کیا تھا اور اس امید کا بھی کہ اس معیار قربانی پر شاید کچھ اور لوگ بھی قائم ہو جائیں.اللہ تعالیٰ نے تقریباً 95 سال بعد آپ کی نسل میں سے ہی آپ کے خون میں سے ہی وہ اعلیٰ معیار قربانی کرنے والا پیدا کر دیا.جس نے اپنی جان کو تو قربان کر دیا لیکن جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچا لیا.اے قادر تجھ پر ہزاروں سلام.جماعت میں تیری یہ قربانی ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھی جائے گی.قادر سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی تھا.آپ کی کتاب دیکھ کر تمام پرانی یادیں ذہن میں آنا شروع ہو گئیں.اس کا مسکراتا چہرہ اکثر نظروں کے سامنے آ جاتا ہے.وہ خوبصورت بھی تھا.خوب سیرت بھی تھا.جب حضور رحمہ اللہ نے مجھے ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقرر فرمایا تو میں نے اپنے لئے اس کی نظروں میں اخلاص اور اطاعت کا وہ جذبہ دیکھا جس کو صرف میں ہی محسوس کر سکتا ہوں.یہ صرف اس لئے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت کا اعلیٰ معیار اس وقت قائم ہو سکتا

Page 11

10 ہے جب اس کے بنائے ہوئے امیر کی بھی کامل اطاعت کی جائے.بہر حال آپ کی کتاب دیکھ کر بہت دور چلا گیا ہوں.اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند تر کرتا رہے.اس کے بچوں کی حفاظت کرے.اللہ کرے یہ کتاب نوجوانوں میں جذبہ اخلاص اور قربانی کو بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء دے.آمین.والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد خلیفة اصیح الخامس

Page 12

11 پیش لفظ لجنہ اماء الله صد سالہ جشنِ تشکر پر کتب کی اشاعت کے سلسلے کو بفضل الہی جاری رکھے ہوئے ہے، زیر نظر کتاب اس سلسلے کی چھٹویں (75) کتاب ہے.الحمد للہ علی ذالک اس کتاب میں مکرم صاحبزادہ شہید کا ذکر خیر ہے.جنہیں مورخہ 14 اپریل 1999ء کو شہید کر دیا گیا.خدا کے ہیں خدا کے پاس ہم کو کوٹ جانا ہے یہ دُنیا عارضی ہے مستقل وہ ہی ٹھکانا ہے حضرت خلیفۃ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ”اس کے خون کا ہر قطرہ آسمانِ احمدیت پر روشن ستاروں کی طرح جگمگاتا رہے گا.غلام قادر شہید زندہ باد - پائندہ باد.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام غلام قادر آ گئے گھر نُور اور برکت سے بھر گیا رَدَّ اللهُ إِلَيَّ“ کا مصداق قرار دیا.نیز فرمایا کہ ” آپ کی رگوں سے وہ خون ٹپکا ہے پاکستان کی سرزمین پر جس خون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کا خون شامل ہے.“ حضرت صاحبزادہ مرزا مجید احمد اور صاحبزادی قدسیہ بیگم کی شادی کے موقع پر حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے استخارہ کے بعد جو کشف دیکھا تھا وہ انتہائی شان کا حامل 6

Page 13

12 ہے.جس کی شان اس شہادت میں نظر آئی اور آئندہ اللہ جانے کن کن رنگوں میں نظر آئے گی.اس موقع پر جہاں خوش قسمت والدین، خوش قسمت بیوی بچوں اور سب لواحقین کے لئے دُعائیں نکلتی ہیں.وہاں ایذا دہندگان کے لئے یہ بھی کہتے ہیں.اَللَّهُمَّ مَزَقْهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِقُهُمْ تَسْحِيْقًا

Page 14

13 عرض حال ”جو لوگ بھی اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے.یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین (میں) اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں.یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بہت جاننے والا ہے.“ (النساء : 70-71) خاکسار کے لئے انتہائی عجز سے حمد وشکر کا مقام ہے کہ ایک ایسی ہستی کا جس کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کے مقام پر فائز فرمایا ذکرِ خیر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.انسان صرف فضلِ خداوندی سے ہی کوئی خدمت سرانجام دے سکتا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.موضوع سے انصاف کرنے میں اپنی نااہلی کا اعتراف کرتی ہوں مگر خشتِ اوّل کی خوشی ضرور ہے.جس سے دُعاؤں میں حصہ دار رہوں گی.انشاء اللہ صاحبزادہ کی شہادت سے الہی عنایات کا ایک نیا باب گھل کر سامنے آیا ہے.دست قدرت کس طرح سلسله در سلسله بعض واقعات کی صدیوں پرورش کرتا ہے.حیرت انگیز ہے.مسیح و مہدی دوراں کی قدسی نسل کے لئے کیا کیا مقام مقدر ہیں، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.مقامِ شہادت پر فائز ” غلام قادر کے لئے الہی الہام کا پورا ہونا اور بزرگوں کے رؤیا و کشوف میں اس کی پیش خبریاں ہونا اور پھر خلیفہ وقت کا خراج تحسین ایک عظیم الشان نشان ہے.جس کے ہم سب شاہد ہیں.و,

Page 15

14 پر مرے پیارے یہی کام تیرے ہوتے ہیں ہے یہی فضل تیری شان کے شایاں تیرا وہ سارا وقت جو اس کتاب کی تیاری میں گزرا، صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ اور عزیزہ نصرت سلمہا اللہ تعالیٰ کی شریک سفر رہی.غم میں لتھڑی ہوئی خوشی اور خوشی میں سجے ہوئے غم کے سارے موسم میرے اندر اُتر گئے.قادر کی باتوں میں اتنی لذت ہے کہ بعض جگہ واقعات کا اعادہ بھی لطف دے گا.یہ ہستیاں قابلِ صد تشکر ہیں.جن کی وساطت سے اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کے کئی رُخ سامنے آئے.خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے سلوک کے اظہار میں حجاب ہونے کے باوجود بعض باتیں بیان کر کے ہم سب پر احسان کیا ہے.دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کے زخموں کی مرہم بن جائے اور اجر عظیم سے نوازے.آمین اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کی راہیں عطا فرمائے اور راضیہ مرضیہ گروہ میں شامل فرمائے.آمین

Page 16

15 • باب 1 فهرست مضامين عناوین انتساب.قال اللہ تعالیٰ صفحہ 3...4..5......6...قال الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اقدس مسیح موعود کے ایمان افروز اقتباسات.....7 کتاب ( پہلا ایڈیشن) موصول ہونے پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا صدر لجنہ کراچی کے نام مکتوب.پیش لفظ عرضِ حال.فہرست مضامین شہادت کی دلگداز تفصیل.علم خطبہ جمعہ 16 / اپریل 1999 ء کبھی آج تک ناز اور غم کے جذبات نے میرے دل پر ایسی یلغار نہیں کی جیسے قادر شہید کی شہادت نے کی ہے.صاحبزادہ شہید کی شہادت کا دلگد از تذکرہ 11 13 15 25 35

Page 17

16 باب 2 اے شہید ! تو ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہم سب آ کر ایک دن تجھ سے ملنے والے ہیں.اقتباسات از خطبه جمعه 23 / اپریل 299 کچھ لفظی غلطیوں کی اصلاح 48...1999 حضرت مسیح موعود کے الہام کا اطلاق لازماً مرزا غلام قادر شہید پر ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود کی روح کو ایک پیغام شہید کی دو فضیلتیں کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام.54 55.خاندانی پس منظر دادا - حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد (اللہ تعالی آپ سے راضی ہو).64 دادی - حضرت سرور سلطان بیگم صاحبہ (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نانا.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ).68 نانی - حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ).....69 والد - محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد والدہ محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم رشته از دواج - بزرگان سلسلہ کی دعائیں اور بشارات صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم کے خوابوں کی تعبیر.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے خطوط آپ کی اولاد 74 80 81 84 • • • •

Page 18

17 باب 3 باب 4 کی پیدائش اور پاکیزہ بچپن مثالی طالب علم.ابتدائی تعلیم لیا ایبٹ آباد اسکول میں داخلہ • ہوٹل سے ایک معصوم خط مشتاق کھلاڑی..قادر کی بچپن کی ڈائری کے چند اوراق.85.93 95.103..106.109..110.._ 1974 ء کے مخالفانہ ابتلاء میں معصوم بچوں کا تاثر.............114 اساتذہ کی طرف سے قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف............116 اسکول کے زمانے کے دلچسپ واقعات میٹرک میں شاندار کامیابی ایف ایس سی میں بورڈ میں فرسٹ پوزیشن زمانہ طالب علمی میں جماعت سے وابستگی.117.117 120.حضرت خلیفہ المسح الثالث نے گولڈ میڈل عطا فرمایا...124 • پیشاور بورڈ کی طرف سے گولڈ میڈل یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں تعلیم.جارج میسن یونیورسٹی امریکہ میں تعلیم یونیورسٹی کے ایک کلاس فیلو کے تاثرات 126..126.127..128..

Page 19

131.133..138..141.147.149..151..157.......158..160..162..163..166..168..170.18 دین کو دنیا پر مقدم رکھا.وقف زندگی حضور ایدہ الودود کا قبول وقف کا مکتوب ایده کا تی خلیفة المسیح سے ذاتی تعلق.باب 5 باب 6 خدمات دینیہ محترم چودھری حمید اللہ صاحب کی تحریر.ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز کا قیام محترم ڈاکٹر غلام احمد فرخ صاحب کا جائزہ.ایسوسی ایشن کا پہلا کنونشن اور پہلا تنظیمی انتخار ربوہ میں ایسوسی ایشن کا باقاعدہ قیام حمد شعبه وصیّت.محترم مرزا عبدالصمد احمد صاحب کی تحریر شعبه تجنيد و مال محترم حافظ مظفر احمد صاحب کا خراج تحسین حمد شعبه اشاعت خُدام الاحمدیہ مکرم سید صہیب احمد صاحب کے تاثرات حمد مہتم مقامی.سیلاب کی تباہ کاریوں میں خصوصی خدمات.قادر کی ایک نامکمل تحریر..•

Page 20

19 سیکرٹری وقف کو مکرم چودھری محمد علی صاحب مکرم کرنل (ر) ایاز محمود خان صاحب.171..174..مکرم راجہ فاضل احمد صاحب کا اعتراف خدمت.............174 لینگوئج انسٹی ٹیوٹ کا قیام..مرزا غلام قادر کا ایک تاریخی خطاب.خلافت لائبریری ربوہ میں خدمات مکرم شہزاد عاصم صاحب کی تحریر فضل عمر ہسپتال ربوه..مکرمہ ڈاکٹر نصرت عبدالمالک صاحبہ مکرمہ ڈاکٹر نصرت مجو کہ صا حبہ 175........176..181 182..186.....187..188..189 193..194 199 مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب کا خراج تحسین نظارت تعلیم میں خدمات.مکرم سید طاہر احمد صاحب کا جائزہ • • ایم ٹی اے میں خدمات.قادر کے رفقائے کار کی قیمتی یادیں مکرم ابراہیم ملک صاحب مکرم کلیم احمد قریشی صاحب.مکرم عامر لطیف بٹ صاحب مکرم شہزاد عاصم صاحب.مکرم سعید احمد خان صاحب.

Page 21

199 200 200 200..201 201 203 204..206...207 208 212.213.213..20 مکرم محمد شریف صاحب م منصور احمد جاوید چٹھہ صاحب مکرم را نا محمود احمد طاہر صاحب.مکرم طارق محمود صاحب.مکرم امان الله امجد صاحب.مکرم احسان الہی عابد صاحب.باب 7 می شخصیت کے دل نواز پہلو.والدین کا والہانہ احترام.والدین کی خدمت میں زمینداری کے فرائض اسکول کی معلمہ کا احترام.مزار عین سے حسن سلوک.سادگی اور احساس ذمہ داری.باب 8 جماعت کا پیسہ ذاتی کام پر خرچ نہیں ہونا چاہیئے.چند اہم واقعات حمد والدین کی یادوں کا سرمایہ.225.غلام قادر نے اپنے خون کی حرمت کو پہچانا اور اس کا حق ادا کر دیا..226 بہترین زندگی بہترین موت.میرے بچے زنده باد............231 233.242 تمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کر گیا.یادوں کی اک زنجیر ہے جو ٹوٹتی نہیں.•

Page 22

21 باب 9 محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم کے ساتھ ایک نشست...........256 رہ وفا کے مسافر.269..283 295..اہلی زندگی.قادر کی اولاد قادر کی خوشدامن صاحبزادی امتہ الباسط کے تأثرات.........301 قادر کی بھا بھی محترمہ امتہ الکبیر لینی اہلیہ سید قمر سلیمان احمد کی یادیں..302 محترمہ امۃ الناصر نصرت صاحبہ کے ساتھ ایک نشست..........304 حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالی کی دلداریاں 30 307..328..335..342..346..349 351..........353.• • باب 10 باب 11 حمد نثر نگاروں کے رشحات قلم.محترم عبدالسمیع صاحب نون.محترم فضیل عیاض احمد صاحب.محترم سید محمود احمد شاہ صاحب.• ڈاکٹر مرزا خالد تسلیم احمد صاحب محترمہ حمیدہ شاہدہ صاحبه ربوه....محترم عبدالسمیع خان صاحب - ایڈیٹر الفضل محترم فخر الحق شمس صاحب •

Page 23

356......359..360.365..365..366......367.368..368 369.371...372..375..376..........377..380..381..381..382.22 باب 12 محترم رفیق مبارک میر صاحب ہی شعرائے کرام کا منظوم خراج محبت.• صاحبزادہ مرزا مجید احمد.مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر.مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم.مکرم محمد سلیم صاحب شاہجہانپوری.مکرم نصیر احمد خان صاحب..مکرم عبد المنان ناہید صاحب.مکرم چودھری محمد علی صاحب مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ مکرمہ طیبہ زین صاحبہ مکرم چودھری شبیر احمد صاحب.مکرم عبدالکریم قدسی صاحب.مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب مکرم انور ندیم علوی صاحب مکرم فرید احمد نوید صاحب مکرم طاہر عارف صاحب مکرم اکرم محمود صاحب.• •

Page 24

383...384..385.386..386......387.389....390.391..391.392........393...427..441..23 مکرم مرزا نبیل احمد صاحب مظفر منصور صاحب مکرم انوار احمد صاحب.مکرم شیخ سلیم الدین سیف صاحب.مکرم شین رے خان صاحب.مکرم میاں نسیم احمد صاحب مکرم نذرحسین صاحب.مکرم شہزاد عاصم صاحب.مکرمہ اصغری نور الحق صاحبہ مکرمہ نصرت تنویر صاحبه.• خاکسار امۃ الباری ناصر باب 13 تعزیتی خطوط باب 14 تعزیتی قرار دادیں..باب 15 عمل اخبارات و رسائل کے ادارئے روز نامه الفضل ربوه الفضل انٹر نیشنل لندن

Page 25

24 باب 16 باب 17 باب 18 باب 19 • ملکی اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں.روز نامہ جنگ کا ایک کالم.ڈان میں چھپنے والا محترم کنور اور لیس صاحب کا خط.447..479 483.......ڈان میں چھپنے والا محترم مرزا عمران احسن صاحب کا خط.......484 شہادت کے تین سال بعد نصرت بیگم قادر صاحبہ کا ایک مضمون ایک نظم.حالا کتاب پر روز نامہ الفضل ربوہ کا تبصره.کتاب پر الفضل انٹر نیشنل لندن کا تبصرہ.487..494,495.498 500.

Page 26

25 45 باب 1 1 - شہادت کی دلگداز تفصیل 2 - خطبہ جمعہ 16 اپریل 1999ء کبھی آج تک ناز اور غم کے جذبات نے میرے دل پر ایسی یلغار نہیں کی جیسے قادر شہید کی شہادت نے کی ہے.صاحبزادہ شہید کی شہادت کا دلگداز تذکرہ ی اے شہید ! تو ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہم سب آکر ایک دن تجھ سے ملنے والے ہیں.3 - اقتباسات از خطبه جمعه 23 /اپریل 1999ء ہیے کچھ لفظی غلطیوں کی اصلاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کا اطلاق لازماً مرزا غلام قادر شہید پر ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی روح کو ایک پیغام عليها شہید کی دو فضیلتیں زیر ایں موت است پنہاں صد حیات

Page 27

26 14 اپریل 1999ء صبح قریباً 9بجے صاحبزادہ مرزا مجید احمد کی کوٹھی الفارس، واقع دار لصدر ربوہ میں فون کی گھنٹی بجی دل دہلا دینے والی اجنبی آواز آئی.میں سول ہسپتال چینوٹ سے بول رہا ہوں آپ کا بیٹا شدید زخمی حالت میں ہے.اس نے اپنے ابا کا نام اور فون نمبر بتایا ہے اور کہا ہے کہ ڈاکٹر مبشر کو لے کر جلدی پہنچیں.اُمید اور نا اُمیدی کی جان تو کشمکش میں درد و الحاح سے خدائے حی و قیوم سے صحت و سلامتی کی دعائیں مانگتے ہوئے سول ہسپتال پہنچے تو یہ دردناک حقیقت معلوم ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مایہ ناز فرزند کو شہیدانِ وفا میں شامل کر لیا ہے.راہ مولا میں قُربان ہو چکے تھے.ہر دن خالق کائنات سے اپنی الگ تقدیر لے کر طلوع ہوتا ہے.کس کو خبر تھی کہ 14/ اپریل اپنے ساتھ کیا نوشتہ تقدیر لایا ہے.کون بزمرہ شہداء لکھا جا چکا ہے.کس ماں کا جگر گوشہ خدا کے حضور جان کا نذرانہ پیش کر دے گا.کس کم عمر بچوں کی ماں کے نصیب میں شہید کی بیوہ ہونا لکھا ہے.تحریکِ جدید کے کوارٹر نمبر گیارہ میں معمول کی صبح ہوئی تھی.قادر اُن کی بیگم نصرت اور بچے ناشتے کی میز پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سفر سیالکوٹ کی

Page 28

27 باتیں کر رہے تھے.نصرت نے تین دن پہلے ہی سیالکوٹ میں وہ کمرہ دیکھا تھا جس کو چار سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیام کا شرف حاصل ہوا تھا.اس کمرے سے نصرت کے دل میں محبت و عقیدت کا عجیب احساس پیدا ہوا تھا جب سے واپس آئی تھیں دل و ہیں اٹکا ہوا تھا طبیعت پر بوجھل سی اُداسی تھی.یہی باتیں کرتے ہوئے بچوں کو اسکول کے لئے تیار کیا.قادر بچوں کو اسکول چھوڑنے گئے.تنہائی نے اُداسی کو بے قابو کر دیا.نصرت کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.قادر نے بچوں کو اسکول چھوڑا ، گھر آئے اب اُن کو کام کے لئے رخصت ہونا تھا.نصرت نے بھیگی آنکھوں سے محبوب شوہر کو الوداع کہا.وہ مسکراتا ہوا چہرہ جو ہمیشہ کے لئے کھو گیا.آٹھ بجے قادر اپنی امی سے کہہ رہے تھے.گاڑی لے کر جارہا ہوں کچھ کام ہے.جاؤ بیٹے مگر ابا نے بینک جانا ہے دس بجے تک آجانا.ساڑھے دس ہو جا ئیں گے.قادر نے کہا.امی پر الوداعی نظریں ڈالیں، سلام کیا اور رخصت ہو گئے.قادر کو احمد نگر اپنی زمینوں پر کچھ کام تھا.ربوہ کے مشرق میں چنیوٹ اور دریائے چناب ہے جبکہ مغرب میں احمد نگر ہے.کار میں دس پندرہ منٹ کا راستہ ہے قادر اپنے ابا کی نئی سبز رنگ کی کار نمبر 6021-LOX میں احمد نگر اپنی زمینوں پر پہنچے.وہاں مزارع وغیرہ موجود تھے.تھوڑی دیر میں ایک سفید کار (8795-LXE) میں چار آدمی آئے اور ظاہر کیا کہ ہم باغ کا ٹھیکہ لینے آئے ہیں.قادر نے کہا کہ میں تو اپنا باغ دے چکا ہوں.میرے چچا کا باغ ہے وہ دیکھ لیں.قادر اُن کو باغ دکھانے چل دیئے.ذرا دیر بعد مزارعین نے دیکھا کہ قادر اُن کی کار میں تھے اور کار اُن کا آدمی چلا رہا تھا.قادر کی کار جس

Page 29

28 کو اب ایک ڈاکو چلا رہا تھا آگے تھی اور قادر پچھلی کار میں تھے.کاروں کا رُخ چینوٹ کی طرف تھا وہ اغواء ہو چکے تھے.اُن کے اغواء کنندگان خوفناک ڈاکو تھے.کار میں بہت اسلحہ تھا.سح مجرم جب سفاک بھی ہو تو اُس سے مقابلہ نہیں کیا جاتا.مگر معلوم ہوتا ہے کہ پست ذہنیت والے اغواء کنندگان نے ایسی بڑیں ماری ہوں گی جن سے قادر پر اُن کے منصوبے کی کمینگی کھل گئی.اگر کار چوری کرنا ہوتی یا قادر کو جان سے مارنا ہوتا تو دوسری طرف ویران راستہ تھا وہ آسانی سے سنسان علاقے کی طرف جا کر اپنے یہ مقاصد پورے کر سکتے تھے.مگر اُن کا مقصد شیعہ جلسے میں فتنہ و فساد پیدا کر کے جماعت کو ملوث کرنا تھا.منصوبہ بہت بڑے پیمانے پر بنایا گیا تھا.ربوہ کے جوان کو احمد نگر سے گاڑی میں بٹھا کر سارا ربوہ کا علاقہ گزار کر چنیوٹ کا رُخ کرنا پُر خطر راستہ تھا.قادر کا دماغ کمپیوٹر کے ماہر کا دماغ تھا.لمحوں میں سب اندازہ لگا کر خطرناک سازش کے بد اثرات سے جماعت کو محفوظ رکھنے کے لئے جان کی بازی ہار دی.....قادر نے اپنا لہو ارزاں کر دیا.جان خدا کے سپرد کی اور کوشش کی کہ کسی طرح کار سے نکلا جائے.ڈاکوؤں نے اُن کی میت بھانپ کر تشد د شروع کیا.گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی.خنجر سے مار مار کر لہو لہان کر دیا.چلتی گاڑی میں شدید زد و کوب کیا.بے بس زخمی کی مزاحمت کی کوشش جاری تھی کہ دریائے چناب کے شرقی پل پر ٹریفک بند ہو گئی.شدید کوشش سے جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے وہ کار کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے.کار سے نکل کر اتنی ہمت باقی تھی کہ بھاگ سکیں مگر ظالموں نے فائر کھول دیا آپ سڑک پر گرے.خون تیزی سے بہنے لگا.لوگ جمع ہو گئے.ایک راہ گیر (غیر از جماعت) نے جو موٹر سائیکل پر تھا قادر کو شدید زخمی حالت میں دیکھا تو انجانے میں قادر کی گاڑی کی ڈرائیونگ ا

Page 30

29 سیٹ پر بیٹھے ہوئے ڈاکو سے پکار کر کہا: ”اس شخص کو کسی نے گولی مار دی ہے.آؤ مدد کرو، اس کو اپنی کار میں ڈال کر ہسپتال پہنچا دو.“ وہ بد باطن تیزی سے کار سے اُترا اور اپنے خونخوار ساتھیوں کی کار میں جا بیٹھا.اتنے میں ٹریفک کھل گئی اور وہ کار اسٹارٹ کر کے فرار ہو گئے.پیچھے ایک بس تھی.اس راہگیر نے بس کے ڈرائیور کی مدد سے زخمی قادر کو گاڑی میں ڈالا.خون بہتا جا رہا تھا اور انہوں نے اپنی زخمی جگہ کو زور سے ہاتھ سے دبایا ہوا تھا اور بالکل خاموش تھے.کوئی ہائے وائے نہیں کر رہے تھے.سول ہسپتال چنیوٹ پہنچ کر آپ نے اپنے والد کا فون نمبر اور نام بتایا اور کہا کہ انہیں کہیں کہ جلدی ڈاکٹر مبشر کو لے کر آئیں.چنیوٹ سول ہسپتال پہنچنے تک موت زندگی کی کشمکش جاری تھی.تھوڑی دیر میں آپ کا انتقال ہو گیا.عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھ خون کی اس رہ میں ارزانی تو دیکھ ہے اکیلا کفر سے زور آزما احمدی کی رُوح ایمانی تو دیکھ 9 بجے یہ پیغام گھر پر ملا.قادر کی نازک حالت کا سوچ کر جلدی پہنچنا ضروری تھا مگر کار تو قادر کے پاس تھی.بڑی بہن جہلم سے آئی ہوئی تھیں.اُن کی کار میں قادر کے والدین اور بہنوئی مرزا نصیر احمد صاحب چنیوٹ کی طرف روانہ ہوئے.لگتا تھا چنیوٹ کے فاصلے کبھی نہ سمٹیں گے.بن جل مچھلی کی طرح تڑپتی ماں کے لبوں پر مضطرب دعا ئیں تھیں، سراپا پکار بنی آسمان کو دیکھ رہی تھیں.تقدیر یہی ہے تو یہ تقدیر بدل دے تو مالک تحریر ہے تحریر بدل دے

Page 31

30 خراب خراب خیال آرہے تھے مگر دل کو ڈھارس دینے کے لئے ہوا کے جھونکے کی طرح ایک پرانی یاد آ گئی.قادر کی شادی کے لئے استخارے میں محترم صوفی غلام محمد صاحب نے ایک خواب دیکھا تھا.اُس کی تعبیر بتائی تھی کہ طویل عمر پائے گا.اس مایوسی میں آس کا اک ستارہ جھلملایا.صدیوں کا سفر کاٹ کر ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر مرزا مبشر احمد نے کہا آپ لوگ واپس جائیں ہم بعد میں آتے ہیں.بعض درد ناک حقائق ایسے ہوتے ہیں جنہیں بیان کرنے کے لئے الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی.بھیک مانگنے والے ہاتھ درگاہ الہی میں اُٹھے رہ گئے.خالق تقدیر کا حکم نازل ہو چکا تھا.فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلاء ہو ہو راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو وہ ماں جس نے چند ثانیے پہلے اپنے جواں سال جگر کے ٹکڑے کی درد ناک وفات کی خبر سنی تھی.صبر وشکر کی تصویر بنی راضی بہ رضا خاموش لبوں خشک آنکھوں اور تڑپتے دل کے ساتھ واپس کار میں بیٹھ گئی.صوفی صاحب کے خواب کی تعبیر سچ ہو گئی تھی وہ کس قدر طویل عمر پا گیا.ہمیشہ کے لئے موت کو شکست دے دی.زندہ جاوید ہو گیا.قادر ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے.اغواء اور انتقال کی درد انگیز خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی.اہلِ ربوہ آئے دن جبر و تشدد ظلم و زیادتی اور کرب و بلاء کی خبریں سنتے رہتے ہیں مگر خاندان مسیح موعود سے غیر معمولی محبت و عقیدت اور صاحبزادہ صاحب کی نافع الناس شخصیت کی مقبولیت کی وجہ سے جس نے یہ خبر سنی، دل تھام کر رہ گیا.جس کا بس چلا چنیوٹ کی طرف روانہ ہوگیا.ابدی نیند سوئے ہوئے پُر سکون چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لئے وہ اپنے گرد و پیش سے بے نیاز ہو چکے تھے ہسپتال میں جمع ہونے والے لوگوں میں

Page 32

31 غیر از جماعت بھی تھے.اُن کے غیر معمولی تا بندہ چہرے کو دیکھ کر بے اختیار کہتے: ہائے ظالموں نے اس فرشتے کو کیوں مار دیا.اُن میں سے کچھ لوگ ظالم اغواء کنندگان اور قاتلوں کو گالیاں دے رہے تھے.پولیس کی کاروائی مکمل ہونے پر میت ربوہ لائی گئی.”ہم اپنے غم و حزن اپنے مولا کے حضور ہی بیان کرتے ہیں“ کی تصویر بنے لوگ گروہ در گروہ " الفارس" پہنچنا شروع ہو گئے.بوڑھے باپ کا جواں سال بیٹا شہید ہو چکا تھا.وہ صبر کا پیکر بنے ہوئے لوگوں کو دلاسہ دے رہے تھے کہ جس کے پاس وہ گیا ہے وہ سب سے پیارا ہے.بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر خواتین و احباب جو وہاں پہنچ رہے تھے یا کسی وجہ سے حاضر نہ ہو سکتے تھے سب دعاؤں میں مصروف تھے.ایک جذ بہ ایسا تھا جو سب میں مشترک تھا.کہ جب پیارے آقا کو خبر ملے گی تو اُن کا کیا حال ہو گا؟ جواں سال بیٹا کفن پہنے سو رہا تھا.ہر آنکھ اشکبار تھی.ماں کا دل خدا کے حضور سراپا التجا بنا ہوا تھا.پل پل نئی نئی خبریں آ رہی تھیں.نئے نئے خیال سر اُٹھا رہے تھے.اگر ظالم اُسے اغواء کر کے لے جاتے نہ جانے اُس کے ساتھ کیا سلوک کرتے.اگر گاڑی میں بیوی بچے ہوتے تو کیا ہوتا.یہ بھی شکر کا انوکھا طریق ہے کہ قربان ہونے والا بچہ آنکھوں کے سامنے ہے مگر دل خدا تعالیٰ کی حمد اور صبر و شکر میں ڈوبے ہوئے تھے.وہ شان سے جیا تھا شان سے مرا.ماں کے منہ سے ” جزاک اللہ قادر جزاک اللہ بے ساختہ نکلتا رہا.جنت تو ماؤں کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے یہ کیا فضلِ خداوندی ہے کہ بیٹے کی قربانی سے ماں کو بیٹے کے قدموں سے جنت مل رہی ہے؟ وہی کمرہ

Page 33

32 تھا جہاں قادر سفید اچکن اور سفید پگڑی پہن کر سرخوش و سرشار دولہا بنا تھا، وہی کمرہ ہے جہاں شرمائی، لجائی دلہن لے کر آیا تھا.وہی در و دیوار تھے، وہی سفید لباس مگر زندگی کی رمق باقی نہیں تھی.ماں نے بڑھ کے ماتھا چوم کر بیٹے کو تسلی دی.اپنے نو عمر بچوں کی فکر نہ کرنا ہم اُن کا جی جان سے خیال رکھیں گے.جزاک اللہ میرے بچے جزاک اللہ.تمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کر گیا.میں صبر کر لوں گی جو تمہاری قربانی کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا مگر مامتا کو کیا کروں.ایسے اندوہ کے وقت باپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے مگر جس انداز میں صبر کی توفیق ملی قابل رشک ہے اگر چہ خنجر کے وار جو بیٹے نے سہے تھے، اپنے دل پر محسوس ہو رہے تھے مگر لبوں پر دعا تھی.”اے غلام قادر تجھ پر سلام.تم خدا کے دین پر شار ہوئے.اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے.خدا اسے قبول فرمائے اور اپنا قرب عطا فرمائے.“ 15 اپریل کو خاندان مسیح موعود کے اس پہلے شہید کو سفر آخرت پر روانہ کر دیا گیا.قادر مرحوم کے بھائی مکرم مرزا محمود احمد صاحب ملائشیا سے آگئے.ربوہ کے سارے محلوں سے نماز عصر کے وقت احباب بیت مبارک میں جمع ہوئے.بیت مبارک کا سارا مسقف حصّہ بھر گیا، سارا صحن بھر گیا یہاں تک کہ آخری دیوار تک صفیں چلی گئیں.ٹھیک پانچ بجے صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نے نماز عصر اور اس کے بعد نماز جنازہ پڑھائی.تقریباً پون گھنٹے تک لوگوں نے دو قطاروں میں گزرتے ہوئے شہید مرحوم کا آخری دیدار کیا.روشن

Page 34

33 چہرے پر بھی زخموں کے نشان تھے.جنازے کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دیے گئے تھے.جنازے کے گرد خُدام الاحمدیہ کے رضا کاروں نے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ایک دائرہ بنا رکھا تھا.ذکر الہی کے ساتھ ، دبی وبی سسکیوں کے ساتھ ، سروں پر آفتاب اُٹھائے یہ قافلہ چھ بجے دفتر صدر انجمن احمد یہ میں سے گزرتا ہوا ہسپتال کے سامنے پہنچ کر بسوں کے اڈے کی طرف مڑ گیا.عام قبرستان میں قطعہ شہداء کی چار دیواری میں تدفین عمل میں آئی.( قادر قطعۂ شہداء میں دفن کئے گئے.پھر چھ ماہ کے بعد 23/اکتوبر 1999ء کو صبح نماز فجر کے بعد اُن کے تابوت کو قطعۂ خاص میں منتقل کر دیا گیا.ساڑھے چھ بجے کے قریب صاحبزادہ مرزا مسرور احمد نے دعا کروائی.) گوسو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا.یہ گھر ہی بے بقا ہے جماعت نے صبر کا حیرت انگیز نمونہ دکھایا.سب یاد الہی میں مگن رہے.کہیں سے جزع فزع کی آواز نہیں آئی.کوئی غم و غصے کا اظہار نہیں کیا گیا.ہزاروں کے اجتماع میں ایسی ترتیب و تنظیم جیسے ہر فرد اپنا خود نگران ہو.غم کا بادل ٹوٹ کر بستی پہ برسا تھا ندیم ضبط کا دریا کناروں سے مگر چھلکا نہیں مامورین من اللہ کی تصدیق کرنے والوں پر ارضی خداؤں کا ظلم و استبداد لمبی کہانی ہے.اس صدی کے آغاز میں 4 جولائی 1903ء کو سرزمینِ کابل پر مسیح زماں پر ایمان لانے والے مجاہد سید عبداللطیف شہید کا خون بہا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا تھا: وو یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا ہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی نظیر نہیں ملے گی.ہائے اس نادان

Page 35

34 امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم کو کمال بیدردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.اے کابل کی سر زمین! تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بد قسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی، کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے.( تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 74) اُس سر زمین پر چند احمدی شہید کئے گئے تھے اور اُن کے لواحقین کو دکھ دیے گئے تھے.اور اس سر زمینِ پاکستان پر صرف اس صدی کے آخر تک کتنے معصوم خون بہائے گئے.خدایا تو رحم کر اور اپنے غضب کو دھیما کر ورنہ ظلم عظیم کی اس جگہ کو کون بچائے گا؟ عالمگیر جماعت احمد یہ تک یہ اندوہناک خبر حضرت اقدس خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کے ذریعے پہنچی.حضور کا لہجہ گلو گیر تھا مگر کمال ضبط سے آپ نے قرآن و حدیث سے فلسفہ شہادت پر روشنی ڈالی اور قادر کی شہادت کا ذکر ایسے انداز سے کیا کہ خطبہ سننے کے بعد ہر دل میں خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کا پُر ولولہ جذبہ پیدا ہوا.آپ نے 16 اپریل 1999ء بمطابق 16 رشہادت 1378 ہجری شمسی بیت فضل لندن کے منبر پر طلوع ہو کر حسبِ معمول فنا فی اللہ انداز میں خطبہ ارشاد فرمایا.

Page 36

35 خطبہ جمعہ کبھی آج تک ناز اور غم کے جذبات نے میرے دل پر ایسی بلغار نهیں کی جیسے قادر شھید کی شھادت نے کی ھے صاحبزادہ شهید کی شهادت کا دلگداز تذکره شہید! تو ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہم سب آکر ایک دن تجھ سے ملنے والے ہیں تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے سورہ بقرہ کی آیات 154 تا 158 تلاوت فرمائیں.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ ، وَ لَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتُ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالا نفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ لا الَّذِينَ إِذَا أَصَا بَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا لا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوْتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ قف وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة صبر اور نماز کے ذریعے اللہ تعالی سے مدد مانگا کرو.اِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ اللہ یقیناً صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَمْوَاتُ اور ہرگز اس کو مُردہ نہ کہو جو خدا کی راہ میں مارا جائے یا جو خدا کی راہ میں مارے جائیں

Page 37

36 ان کو مردے نہ کہو بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لَا تَشْعُرُونَ بلکہ وہ تو زندہ ہیں حقیقت یہی ہے کہ وہ زندہ ہیں وَلكِن لا تَشْعُرُونَ مگر تم کوئی شعور نہیں رکھتے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ اور میں تمہاری ضرور آزمائش کروں گا، کچھ خوف کے ساتھ.وَالْجُوعِ اور بھوک کے ساتھ.وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالَا نُفُسِ وَالثَّمَرَاتِ اور مالوں اور جانوں کے ضیاع کے ساتھ.وَالثَّمَرَاتِ اور اسی طرح پھلوں کے نقصان کے ساتھ، وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے.الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ یعنی وہ لوگ جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ کہتے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.اُولِیكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ یہی وہ لوگ ہیں جن پر بہت ہی برکات ہیں اپنے رب کی طرف سے وَ رَحْمَةٌ اور اس کی رحمت بھی ہے.وَاُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں.ر اس آیت کے تعلق میں میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک جامع اور مانع حدیث جو بخاری سے لی گئی ہے پڑھ کر سناتا ہوں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے.جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.( بخاری کتاب المظالم من قتل دون ماله ) اس حدیث میں تمام شہادتیں اکٹھی کر دی گئی ہیں جو حال ہی میں

Page 38

37 ہمارے شہید ہونے والے عزیزم غلام قادر کو سب نصیب ہوئیں کیونکہ ان کے اندر شہادت کی وجوہات میں سب اکٹھی ہو گئی ہیں.اور بھی بہت چیزیں اکٹھی ہوئی ہیں جن کا میں تفصیل سے ذکر کروں گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں بعد پھر زندہ کیے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَا تَا بَلْ أَحْيَاء یعنی تم ان کو مُردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندہ ہیں.“ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 57) یہ خدا کی راہ میں جب زندہ کئے جاتے ہیں تو ان کو پھر دوبارہ اس دنیا میں واپس آنے کی تمنا ہوتی ہے جبکہ اور کسی کو جو خدا کے ہاں قُرب کا مقام پا جائے جنت سے واپس آنے کا خیال تک نہیں آتا.اس کی وجہ کیا ہے کہ ان شہداء کا معاملہ اور ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک حدیث کے حوالے سے یہ ذکر فرماتے ہیں.وہ حدیث ترمذی کتاب الجہاد سے لی گئی ہے، اس کا ایک ٹکڑا میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں." کوئی بندہ بھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور خیر مقدر ہو فوت ہونے کے بعد دوبارہ دنیا میں آنا پسند نہیں کرتا خواہ دنیا و مافیہا بھی اس کے لئے مقدر ہو.“ ساری دنیا کی بادشاہت جو کچھ اس میں ہے اس کے مال و دولت سب کا وعدہ ہو کہ سب تجھے دیئے جائیں گے پھر بھی وہ نہیں آئے گا ” سوائے شہید کے شہید دوبارہ آنا چاہتا ہے.” شہادت کی فضیلت کی وجہ سے یہ ایسا کرتا ہے.یہ حدیث میں جس فضیلت کا ذکر ہے اس سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اور یہی مضمون دوسری احادیث میں مزید وضاحت کے 66

Page 39

38 ساتھ بھی بیان ہوا ہے.ایک لمبی حدیث میں سے ایک ٹکڑا میں نے لیا ہے.جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے والد شہید ہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو زندہ کیا اُس سے آمنے سامنے گفتگو ہوئی اور فرمایا میرے بندے مجھ سے جو مانگنا ہے مانگ میں تجھ کو دوں گا.تو تمہارے والد نے جواباً عرض کیا اے میرے ربّ! میں چاہتا ہوں کے تو زندہ کر کے مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ تیری خاطر دوبارہ قتل کیا جاؤں.اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ میں یہ قانون نافذ کر چکا ہوں کہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں نہیں لوٹاؤں گا.( ترمذی ابواب النفسیر تفسیر سورۃ آل عمران) اسی حدیث کے مختلف ورشن (Version) یعنی مختلف رنگوں میں اسی مضمون پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے روشنی ڈالی ہے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ شہید خدا کے حضور پیش ہوا اور اس نے کہا کہ مجھے سو بار دنیا میں بھیج اور سو بار تیری راہ میں قتل کیا جاؤں اور ہر بار میری یہی خواہش ہو کہ میں ہو دوبارہ دنیا میں چلا جاؤں.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہی جواب دیا کہ یہ نہیں سکتا.ایک حدیث میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بھی ایسی ہی خواہش کا ذکر فرمایا ہے.ان سب امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ شہید کو مُردہ نہیں کہنا، وہ زندہ ہے بلکہ سب زندوں سے زیادہ زندہ ہے جس زندگی سے قوم زندگی پاتی ہے.اس پہلو سے جس شہادت کا میں ذکر کرنے لگا ہوں اس میں بھی یہ خصوصیت تھی کہ اس کی شہادت سے قوم نے واقعہ غیر معمولی طور پر زندگی

Page 40

39 پائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ”شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطورِ نشان کے ہو جاوے.“ (روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 516) پھر فرماتے ہیں ”اے مومنو! ہم تمہیں اس طرح پر آزماتے رہیں گے اور کبھی خوفناک حالت تم پر طاری ہو گی اور کبھی فقر و فاقہ تمہارے شامل حال ہو گا اور کبھی تمہارا مالی نقصان ہوگا اور کبھی جانوں پر آفت آئے گی اور کبھی اپنی محنتوں میں ناکام رہو گے اور حسب المراد نتیجے کوششوں کے نہیں نکلیں گے اور کبھی تمہاری پیاری اولا د مرے گے.پس ان لوگوں کو خوشخبری ہو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کی چیزیں ہیں اور اس کی امانتیں اور اس کی مملوک ہیں.پس حق یہی ہے کہ جس کی امانت ہے اس کی طرف رجوع کرے.یہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو خدا کی راہ کو پا گئے.غرض اسی خُلق کا نام صبر اور رضا برضائے الہی ہے.“ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 115-116) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی تعلق میں ان قربانیوں کے ادوار میں جماعت کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” کوئی یہ نہ کہے کہ میرے پر ہی تکلیف اور ابتلاء کا زمانہ آیا ہے بلکہ ابتداء سے سب نبیوں پر آتا رہا ہے.ایک روایت میں لکھا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیارہ بیٹے فوت ہوئے تھے.آخر بشریت ہوتی ہے، غم کا پیدا ہونا ضروری ہے مگر ہاں صبر کرنے والوں کو پھر بڑے بڑے اجر ملا کرتے ہیں.“ پھر فرماتے ہیں.جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان پڑتا وو

Page 41

40 ھے اور ابتلاء آتا ھے تو وہ رگ اور پٹھے کا لحاظ رکھ کر نهیں آتا.یہ بہت دلچسپ عبارت ہے.لمبی ہے اس میں سے میں نے ایک ٹکڑا لیا ہے.مراد یہ ہے کہ انسان خود خدا کی راہ میں جتنی مرضی محنت کرے اور اپنے بدن کو اس لئے کمائے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرے.جتنی چاہے ریاضت کرے مگر اپنے رگ پٹھے کا بھی خیال رکھتا ہے اور کبھی اس سے غافل نہیں ہوتا مگر جب خدا ابتلاء میں ڈالتا ہے تو ہر گز رگ پٹھے کا خیال نہیں کرتا پھر جس قدر اس کو تکلیف پہنچے، پہنچنے دیتا ہے اور وہ تکلیف اس کی مرضی سے نہیں ہوتی.بے اختیاری کے عالم میں مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں تکلیف اُٹھائے اور صبر دکھائے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق میں یہ عبارت پڑھ رہا ہوں.اس میں رگ پیٹھے کو جو لفظ آیا ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لیجئے.فرماتے ہیں.ابتلاء آتا ہے تو وہ رگ اور پیٹھے کا لحاظ رکھ کر نہیں آتا.خدا کو اس کے آرام اور رگ پٹھے کا خیال مد نظر نہیں ہوتا.انسان جب کوئی مجاہدہ کرتا ہے تو اپنا تصرف رکھتا ہے مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان آتا ہے تو اس میں انسان کے تصرف کا دخل نہیں ہوتا.انسان خدا کے امتحان میں بہت جلد ترقی کر لیتا ہے اور وہ مدارج حاصل کر لیتا ہے جو اپنی محنت اور کوشش سے کبھی حاصل نہیں کر سکتا.“ (الحکم چلد 11 نمبر 34 مورخہ 24 ستمبر 1907 ء صفحہ 5 عمر بھر ریاضتوں میں جو گزر جائے اس کے نتیجے میں اس تیزی کے ساتھ انسانی روح خدا کے حضور صعود نہیں کرتی جتنا خدا کی طرف سے ڈالے ہوئے ابتلاء میں ظہور میں آتا ہے اور یہی صورت ہمارے شہید ا عزیزم غلام قادر کی شہادت پر اطلاق پاتی ہے.اس تمہید کے بعد جو قرآنی آیات اور احادیث اور مسیح موعود علیہ

Page 42

41 السلام کے اقتباسات کی روشنی میں میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے.اب میں عزیزم مرزا غلام قادر کی شہادت کے متعلق کچھ ایسی باتیں کرنا چاہتا ہوں جو اکثر جماعت کو معلوم نہیں ہوں گی.اور کیوں میں اس شہادت کو ایک بہت عظیم اور غیر معمولی شہادت قرار دے رہا ہوں اس کی وجوہات جماعت کو سمجھ نہیں آئیں گی.شاید یہ سمجھتے ہوں کہ میرا رشتہ دار شہید ہوا ہے اس لئے ہم یہ باتیں کر رہے ہیں.جب میں سمجھاؤں گا تو پھر یہ سمجھ آئے گی کہ اس میں رشتے داری یا قرب کا کوئی تعلق نہیں، یہ شہادت واقعہ ایک غیر معمولی شہادت ہے.اس کے کئی پہلو ایسے ہیں جن کو اس وقت اُجاگر کر کے بیان کرنے کی ضرورت ہے اور اس اعلان کے ساتھ جو بھی جمعہ میں شریک احباب و خواتین ہیں میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ نماز جمعہ کے معاً بعد میں ان کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا تو وہ اس میں شریک کر سعادت دارین حاصل کریں.ہو سب سے پہلے قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی براہ راست ذریت کی تیسری نسل سے ہے.غلام قادر شہید حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پوتے اور صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اور قدسیہ بیگم کے چھوٹے صاحبزادے تھے.قدسیہ بیگم نواب عبداللہ خان صاحب...اور حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم کی صاحبزادی ہیں.اس پہلو سے حضرت اقدس علیہ السلام کے بیٹے اور بیٹی دونوں کے خون ان کی رگوں میں اکٹھے ہو گئے.صرف یہی نہیں بلکہ میرے ساتھ بھی ان کا ایک رشتہ بنتا ہے.میرے ساتھ ان کا جو رشتہ ہے وہ یہ ہے کہ میری ہمشیرہ امتہ الباسط اور بہنوئی میر داؤد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسحق کی سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ امتہ صاحبه

Page 43

42 الناصر نصرت ان کی بیگم تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے بزرگوں کے خون کا ایک شہید کی رگوں میں اکھٹا ہونا ایک غیر معمولی واقعہ ہے.جو میرے نزدیک خاص تقدیر الہی کے تابع ہوا تاکہ سب کا حصہ پڑ جائے.حضرت اماں جان...کا بھی حصہ پڑ گیا اس میں اور سب بزرگوں کے جتنے خون ہیں ان کا اجتماع ہوا ہے اور یہ شاید ہی اس خاندان کہ کسی اور لڑکے کے متعلق کہا جا سکتا ہو..جہاں تک شہید کے تعلیمی کوائف کا تعلق ہے وہ ان کی ذہنی اور علمی عظمت کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے.لیکن اصل خراج تحسین تو ان کی وقف کی رُوح ہے جو انہیں پیش کرتی رہے گی اور ہمیشہ ان کو زندہ رکھے گی.ان کی تعلیم پہلے ربوہ اور پھر ایبٹ آباد پبلک اسکول میں ہوئی جہاں سے ایف ایس سی کے امتحان میں یہ تمام پشاور یونیورسٹی میں اوّل قرار پائے.پھر انجینئر نگ یونیورسٹی لاہور سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں بی.ایس.سی کی.پھر امریکہ کی جارج میسن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ایم.ایس کیا اور پاکستان پہنچ کر اپنے وقف کے عہد پر پورا اترتے ہوئے اپنی خدمات سلسلے کے حضور پیش کر دیں.ربوہ میں کمپیوٹر کے شعبے کا آغاز کرنے اور پھر اسے جدید ترین ترقی یافتہ خطوط پر ڈھالنے کی ان کو توفیق ملی.وہاں بہت ہی عظیم کام ہو رہے ہیں.کمپیوٹر میں، پوری ٹیم تیار ہو گئی ہے اور ان کا نظام دنیا کے کسی ملک سے پیچھے نہیں ہے.جدید ترین سہولتیں مہیا کی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل ہمارے بہت سے کام جو زیادہ کاموں کے اجتماع کی وجہ سے یہاں نہیں کیے جا سکتے وہ ہم وہاں ربوہ بھیجتے ہیں اور وہاں کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ ہمارے اس

Page 44

43 کام کو آسان کر دیتا ہے.بہت سی کتابیں چھپ رہی ہیں.بہت سے ایسے کام ہیں وہ وہاں چلے جاتے ہیں وہاں سے ڈسک (Disc) بن کر ہمارے پاس آ جاتی ہے.تو اس کا بھی سہرا غلام قادر مرحوم کے سرپرھے.نہایت محنتی ، خاموش طبع اور دلنواز شخصیت کے مالک تھے.تین خوبیاں یہ ایسی نمایاں تھیں.بے انتہا محنتی ، خاموش طبع ، چپ چاپ اپنے کام میں لگے رہتے تھے اور شخصیت بڑی دلنواز تھی ، دل لبھانے والی تھی جس کو طبیعت کے بے تکلف انکسار نے چار چاند لگا دیئے تھے یعنی انکسار ایسا تھا جو بالکل بے تکلف مزاج کی رگ رگ میں داخل تھا.شہید 21 /جنوری 1962ء کو پیدا ہوے تھے.گویا اس عظیم شہادت کے وقت ان کی عمر 37 سال کے قریب تھی اور اب یہ عمر لا زوال ہو چکی ہے.ان کے پسماندگان میں عزیزہ امتہ الناصر نصرت جو میری بہت ہی پیاری بھانجی ہیں ان کے بطن سے ایک نو (9) سالہ بیٹی عزیزہ سطوت جہاں ہے، ایک سات سالہ بیٹا کرشن احمد ہے نیز اڑھائی سالہ جڑواں بچے عزیزان محمد اور نور الدین شامل ہیں.ایک خصوصیت جو اس شہادت کو اس دور کی سب دوسری شہادتوں سے ممتاز کرتی ہے جس کا میں ابھی ذکر کرنے والا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک بہت ہی ہولناک، ملک گیر فتنہ کے احتمال سے بچا لیا.اس سے پہلے کوئی ایسی شہادت نہیں جس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہو کہ اس شہادت کے نتیجے میں بکثرت معصوموں کے خون بہائے جانے کے احتمال سے خدا تعالیٰ نے بیجا لیا ہو.اور یہ بہت ہی گہری اور بہت ہی کمینی اور ہولناک سازش تھی.جس کے متعلق اب مزید تحقیق جاری ہے.اگر چہ پولیس نے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی تھی مگر ہمارے ماہرین لگے.

Page 45

44 ہوئے ہیں اور پوری تفاصیل معلوم کر کے رہیں گے انشاء اللہ.لیکن جو آب تک معلوم ہو چکا ہے اس پر بناء کرتے ہوئے آپ کو یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ کوائف کیا ہیں.ان کا اغواء لشکر جھنگوی کے چار اشتہاری بد معاشوں نے جن کا سرغنہ لشکر جھنگوی کا ایک نہایت بد نام زمانہ مولوی تھا اور یہ چاروں مفرور مجرم پولیس کو انتہائی خطرناک جرائم کے ارتکاب میں اس درجہ مطلوب تھے کہ ان میں سے ہر ایک کے سر کی قیمت حکومت نے بیس بیس لاکھ مقرر کر رکھی تھی.یعنی بد بخت ملا جو اس کا سر براہ تھا اور باقی پیشہ ور بد معاش جو ان کی ملازمت میں رہتے ہیں.ان سب کے سروں کی بیس (20) بیس (20) لاکھ قیمت مقرر کر رکھی تھی.اس قسم کے منظم جرائم کے ماہرین سے ہم نے مشورہ کیا ہے.ان کی قطعی رائے یہ ہے کہ ان کو شیعوں پر خطرناک حملہ کرنے کے الزام میں ملوث کیا جائے کیونکہ محرم کا زمانہ ہے اس لئے دنیا پر یہ ظاہر کرنا تھا اور سارے ملک میں یہ کہہ کے آگ لگانی تھی کہ بے چارے سپاہ صحابہ پر تو خواہ مخواہ الزام آتے ہیں.اصلی بد معاشی جماعت احمدیہ کر رہی ہے اور مُحَرَّم وغیرہ کے موقع پر جو ملک گیر فسادات ہوتے ہیں ان میں یہ ذمہ دار ہیں.اور اگر یہ پتا چل جائے کہ جماعت احمدیہ ملوث ہے تو پھر وہ ملک گیر فسادات بہت زیادہ ہولناک صورت اختیار کر سکتے تھے.بے شمار احمدی معصوموں کی جانیں ان کے رحم و کرم پر ہوتیں.جو رحم و کرم کا نام تک نہیں جانتے.چنانچہ ماہرین بڑی قطعیت کے ساتھ یہ کہتے ہیں اور ان کے پاس یہ کہنے کی وجوہات موجود ہیں.ان کی کارسمیت ان کی لاش کو، وہ کہتے ہیں کہ جلا دینا مقصود تھا.جس میں دہشت گردی کے جدید ترین ہتھیار مثلاً راکٹ

Page 46

45 لانچرز گرنیڈ اور گرنیڈ لانچر اور بہت سی کلاشنکوفیں بھر دی جانی تھیں.یہ خیال کیوں ان کو آیا اس لئے کہ ایک شخص کے قتل کے لئے اتنا بھاری جدید اسلحہ جو دہشت گردی کے جدید ترین تیار لوگوں کو جو ٹرینڈ آدمی ہیں ان کو دیا جاتا ہے.وہ ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک کار سے ان سارے جدید ترین اسلحات کی بھر مار پکڑی گئی ہے اور ان ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ساری چیزیں ان کی کار میں بھر کر اس کو جلا دینا مقصود تھا لیکن اندر سے وہ چیزیں پکڑی جاتیں اور یہ الزام لگتا کہ سارے پاکستان میں جو خطرناک اسلحہ تقسیم ہو رہا ہے اور بد معاشیاں کی جا رہی ہیں یہ جماعت احمد یہ کروا رہی ہے.اور یہ جو چیزیں پکڑی گئیں.یہ پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ایک طرف تو اس کو اتفاقاً ڈکیتی کا واقعہ بیان کرتی ہے اور دوسری طرف تسلیم کرتی ہے کہ ساری چیزیں ان کے پاس تھیں.عام ڈکیتی میں اتنے خطرناک ہتھیاروں کی ضرورت کیسے ہوسکتی ہے.یہ ویسے ہی ناممکن ہے.اب عزیزم غلام قادر شهید کا جو غیر معمولی کارنامہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کو سمجھ آ گئی کہ یہ ایک خطرناک سازش ہے جس کے بد اثرات جماعت پر مرتب ہو سکتے ہیں.چنانچہ اس نے بالکل پرواہ نہیں کی کہ اس کو کیا تکلیف دی جا رہی ہے.اس کے گلے گھونٹنے کی کوشش کی گئی.اس کو ہر طرح سے اور خنجر مار کے بھی مارنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ بیچ کے باہر نہ نکل سکے.لیکن بڑی سخت جانی کے ساتھ سارے مصائب کو برداشت کرتے ہوئے وہ اُن کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور یہ پسند کیا کہ سڑک پر اس کا خون بہہ جائے تاکہ جماعت احمد یہ اس سازش کے بد اثرات سے محفوظ رہے اور ان کے قبضے میں آکر دہشت گردی کے منصوبے میں اس کو ملوّث نہ کیا جا سکے.یہ جد وجہد تھی قادر کی، جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 47

46 کامیاب رہی.شدید جسمانی اذیت پہنچی ہے مگر بالکل پرواہ نہیں کی.آخر دم تک ان سے لڑتا رہا اور اغواء کا منصوبہ ناکام کر دیا اور سڑک پر باہر نکل کر ان کی گولیوں کا نشانہ بننا قبول کر لیا.اس شہادت کا یہ پہلو ایسا ہے جو میں سمجھتا ھوں کہ قیامت تک شہید کے خون کا ھر قطره آسمانِ احمدیت پر ستاروں کی طرح جگمگاتا رھے گا.مجھے اس بچے سے بہت محبت تھی.میں اس کی خوبیوں پر گہری نظر رکھتا تھا.میں جانتا تھا کہ کیا چیز ہے اس وجہ سے میں بہت ہی پیار کرتا تھا.گویا یہ میری آنکھوں کا بھی تارا تھا.مجھے صرف ایک حسرت ہے کہ کاش کبھی لفظوں میں اس کو بتا دیا ہوتا کہ قادر تم مجھے کتنے پیارے ہو.کبھی آج تک ناز اور غم کے جذبات نے مل کر میرے دل پر ایسی یلغار نہیں کی.ناز بھی ہے اور غم بھی ہے.ان دونوں جذبات نے مل کر کبھی دل پر ایسی یلغار نہیں کی جیسے قادر شہید کی شہادت نے کی ہے.اِنَّمَا أَشْكُوا بَنِي وَحُزَنِی إِلَى الله - خدا کے حضور آنسو بہانا منع نہیں ہے.کوشش یہی ہونی چاہئے کہ دُنیا کے سامنے یہ آنسو نہ ہیں ، صرف اللہ کے حضور ہیں.مگر بے اختیاری میں نکل بھی جاتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کو قبر میں دفناتے ہوئے اگر چہ بے انتہا صبر کا مظاہرہ کیا مگر آنکھوں سے آنسو جاری تھے.ایک بد نصیب نے کہا یا رسول اللہ! آپ کی آنکھ میں آنسو! کیا دیکھ رہا ہوں.آپ نے فرمایا خدا نے مجھے شقی القلب نہیں بنایا.اگر تم بد نصیب ہو تو میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں.میرا دل سخت نہیں ہے.میرے دل کے خون کے قطرے میرے آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں مگر یہ ایک بے اختیاری

Page 48

47 معاملہ ہے، میرے صبر کے باوجود ایسا ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر صبر کرنے والا اور کون ہوسکتا تھا؟ پس میں آخر پر قادر شہید کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں..........ای شهید تو همیشه زندہ رہے گا اور ھم سب ایک دن آ کر تجھ سے ملنے والے ہیں.زندہ باد، غلام قادر شهید، پائنده باد الفضل انٹرنیشنل 4 جون تا 10 رجون 1999ء) (نوٹ: خطبہ جمعہ کے اس متن میں بعض مقامات پر نقطے ڈالے گئے ہیں.23 اپریل 1999ء کے خطبہ جمعہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ضروری وضاحتیں فرمائی ہیں.)

Page 49

48 ارشادات حضرت خلیفۃ ابیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ امریز خطبہ جمعہ 23 /اپریل 1999ء کچھ لفظی غلطیوں کی اصلاح: ایک غلطی ایسی ہوئی ہے جو میرے علم میں ہے کہ غلط ہے اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ غلام قادر شہید کی رگوں میں میرا یا میری ماں کا یا میر داؤد احمد صاحب یا میر محمد الحق صاحب کا خون دوڑ رہا ہے، مجھے علم ہے، اچھی طرح جانتے ہوئے میرے منہ سے بجائے یہ نکلنے کہ کے شہید کے بچوں کی رگوں میں یہ سب خون دوڑ رہا ہے، یہ لفظ نکل گیا کہ شہید کے خون میں دوڑ رہا ہے اور ایک غلطی سے دوسری غلطی پیدا ہونے لگ گئی.پس جو خون آپ کی رگوں سے بہا ہے بلا شبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کا خون ہے.اس میں میرا یا کسی اور کے خون کے شامل ہونے کا سوال ہی نہیں ہے ہاں ان کی اولاد میں خون اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس کی کوئی مثال بھی آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.ان کے بچوں میں جو خون اکٹھے ہوئے ہیں وہ تو لگتا ہے مجمع البحرین ہے.ہر طرف سے آ آ کر خون کی نالیاں مل گئی ہیں.تو اس درستی کو بھی پیش نظر رکھیں اور ان کے متعلق جو فقرہ میرے منہ سے نکلا تھا وہ کسی پہلو سے بھی درست نہیں تھا.وہ کہنا یہ چاہئے تھا کہ آپ کی اولاد میں یہ خون اکٹھے ہو گئے ، منہ سے نکل گیا کہ ان کے خون میں یہ سب خون اکٹھے ہو گئے.دوسرا ایک اور غلطی جو لفظی ہے جو تحریر میں غلط لکھی گئی تھی اور اسی

Page 50

49 طرح میں نے اس کو پڑھ دیا.یا تحریر میں ٹھیک لکھی گئی ہو گی یا میری نظر کا قصور ہو گا ، اللہ بہتر جانتا ہے کیا واقعہ ہوا.ان کے ایک بچے کا نام جو جڑواں بچہ ہے محمد معظم لکھا گیا تھا حالانکہ محمد مفلح نام ہے.ماں باپ نے محمد مصلح نام رکھا تھا اور لکھنے میں کوئی طرز ایسی تھی کہ میں اسے محمد معظم پڑھ گیا.تو یہ معمولی ایک ثانوی سی غلطی ہے مگر اس کی درستی ضروری تھی.ایک لفظ مُحرم کا ہے جو میں غلط استعمال کرتا رہا ہوں سارے عرصہ میں اور اچھا بھلا علم ہے کہ محرم ذوالحج کا مہینہ گزرنے کے بعد شروع ہوتا ہے.ہمیشہ سے علم ہے، ہر بچہ بچہ جانتا ہے لیکن میں حج کے معاً بعد یہ کہنے لگ پڑا کہ مُحَرَّم شروع ہو گیا.اس غلطی کو تو میں یقیناً یہی سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ کے تصرف سے ہوئی تھی کیونکہ جماعت احمدیہ کے لئے یہ مُحَرَّم شروع ہو چکا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو خون بہا ہے شہادت کے طور پر اور آپ کی اولاد کے ذریعے یہ کربلا کی یاد تازہ کرتا ہے.پس اس پہلو سے اس کو تو غلطی سے زیادہ تصرف الہی سمجھتا ہوں.یہ میرا بار بار کہنا کہ مُحرم شروع ہو گیا ہے دعائیں کرو، یہ خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوا ہے.وہ یہی چاہتا تھا کہ جماعت کثرت کے ساتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی آل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی آل پر جو سچی روحانی آل ہیں درود بھیجنا شروع کر دیں کیونکہ مُحرم سے پہلے پہلے ہی یعنی اصل مہینہ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ واقعہ گزر جانا تھا.ایک اور بات میں یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے خطبے سے کئی لوگوں کو یہ غلط تاثر ہوا ہے کہ مجھے جو غلام قادر سے محبت تھی اور ان کی شہادت کا صدمہ ہے اس کی وجہ اپنی بہن امتہ الباسط کا خیال رہا ہے اور اپنی بھانجی نصرت کا.یہ درست نہیں.کئی لوگ تعزیت میں بھی یہ بات کہتے ہیں، ہرگز

Page 51

50 درست نہیں ہے.لوگوں کو تصوّر نهیں که مجهے حضرت مسیح موعود علیه السلام کے خون سے کیسی محبت ھے.ایسا عاشق هوں که شاید کوئی اور اس کی نظیر نه ملتی ھو.اور اس کا ذہن پر اتنا دباؤ تھا کہ دیکھو پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خون شہادت کے طور پر گلیوں میں ظاہر ہوا ہے.عزیزم غلام قادر سے مجھے جو محبت تھی، وہ بہت پہلے سے ہے اور اس کی وجہ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، تفصیلی وجہ کہ کیوں ایسا ہوا، مگر میرے دل میں ڈال دی گئی تھی ، چنانچہ عزیزہ نصرت یعنی جن کو ہم نچھو کہتے ہیں انہوں نے میری بیٹی کو فون پر بتایا کہ جب غلام قادر نے وقف کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے تو اس وقت میں نے ان کے نام ایک خط لکھا تھا اور اتنا غیر معمولی، اس قدر محبت کا اظہار تھا کہ وہ حیران رہ گئے اور اس خط کو غالباً نصرت کی تجویز پر ہی انہوں نے فریم کروا کر اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے.تو میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ جو بھی میرا تعلق تھا وہ اللہ کی طرف سے دل میں ڈالا گیا تھا اور ایسا ہونا چاہیے تھا.(مذکورہ خط کتاب میں صفحہ 136 پر ہے ) حضرت مسیح موعود کے الہام کا اطلاق لازماً شہید کے اوپر ہوتا ہے : کیونکہ اب میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام پڑھ کے سناتا ہوں.جس کا اطلاق لازماً مرزا غلام قادر شہید کے اُوپر ہوتا ہے، اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتا.1904ء میں 25 نومبر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا

Page 52

51 66 66 ”غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا.رَدَّ اللهُ إِلَيَّ “ نیچے ترجمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے میرے پاس پھر بھیج دیا.” رَدَّ اللهُ الی “ کا ترجمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے میرے پاس بھیج دیا.اب غلطی سے اس سے پہلے اس الہام کو حضرت مرزا غلام قادر کے اوپر چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ حضرت مرزا غلام قادر تو اس الہام سے بہت پہلے وفات پاچکے تھے اور ان کے آنے سے مسیح موعود علیہ السلام کا گھر کیسے برکت سے بھر گیا.گھر ٹور اور برکت سے بھر گیا‘ ظاہر ہے کہ یہ ایک پیشگوئی تھی، ایک ایسا غلام قادر آنے والا ہے میری اولاد میں جس کے آنے سے جس گھر میں آئے گا وہ گھر برکت اور ٹور سے بھر جائے گا.اس سلسلے میں مرزا غلام قادر جو بہت پہلے فوت ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی ماموریت کے بعد ہوئے.لیکن مخالفتوں کے دور سے بہت پہلے کے فوت ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح کو پیغام : جماعت کی طرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی روح کو میں کامل یقین سے یہ پیغام دے سکتا ہوں.اے ہمارے آقا! تیرے بعد تیری جماعت انھی رستوں پر چلی ھے اور انشاء الـلـه همیشه چلتی رهے گی جو رستے صاحبزادہ عبد اللطیف شهید نے ھمارے لئے بنائے تھے.گو ان سے نسبت کوئی نهیں مگر غلامانه هم انهی راهوں پر چل رھے ھیں.

Page 53

52 : شہید کی دو فضیلتیں : غلام قادر شهید کے متعلق جو یه دو فضیلتیں ہیں وہ تو کوئی دنیا میں ان سے چهين هى نهيں سکتا.ایک فضیلت یه که آپ کی رگوں سے وہ خون ٹپکا ھے پاکستان کی سر زمین پر - جس خون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امان جان کا خون شامل ہے.اور اس واقعہ نے کربلا کی یاد کو ہمارے لئے تازہ کر دیا اور یہی وجہ تھی کہ میں بار بار کہہ رہا تھا کہ مُحَرَّم شروع ہو گیا دعائیں کرو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی آل پر درود بھیجو.دوسرا اُس وقت مجهے یه الهام یاد نهیں تها که غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا.یہ بعد میں مجھے توجہ دلائی گئی اور میں حیران رہ گیا کہ واقعہ جس کے ساتھ مجھے محبت تھی کیوں نہ ہوتی کہ اللہ کو اس سے محبت تھی اور مسیح موعود علیہ السلام کو یه پیشگوئی کے طور پر بتا دیا گیا تھا کہ تیرے گھر میں تیری اولاد میں ایک ایسا شخص پیدا ھو گا، نوجوان جو اپنے گھر کو جس گھر میں پیدا ھوگا برکت اور نُور سے بھر دے گا.تو اللہ کا احسان ہے ہم اگر چہ بظاہر روتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ساتھ استغفار کی بھی بہت توفیق ملتی ہے کہ رو کس بات پر رہے ہو اتنا بڑا اعزاز ایک انسان بے اختیار ہو جاتا ہے.چنانچہ وہ رات جو مجھ پر گزری وہ ان دو باتوں کی کشمکش میں گزری ہے.تقریباً رات بھر میں سو

Page 54

53 نہیں سکا کہ اچانک غم قبضہ کرتا تھا اور پھر فوراً استغفار کا خیال آ کر استغفار پڑھتے پڑھتے سوتا تھا.اور پھر آنکھ کھلتی تھی غم کی شدت سے اور پھر استغفار شروع ہو جاتا تھا.تو بلا شبہ ساری رات کروٹوں میں کئی ہے انہی دو باتوں میں اور اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ بار بار استغفار کی طرف توجہ دلاتا رہا کیونکہ ایسی شہادت کے اوپر زیادہ غم کرنا خدا کو پسند نہیں اور مجھ سے جو بشری غلطی ہوتی رہی ہے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کی اصلاح بھی فرما دی اور بار بار مجھے استغفار کی طرف توجہ دلائی.الفضل انٹر نیشنل لندن 11 جون 1999ء)

Page 55

54 کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام آں جواں مرد و حبیب کردگار جوہر خود کرد آخر آشکار اُس جواں مرد اور خدا کے پیارے نے آخر کار اپنا جو ہر ظاہر کر دیا نقد جاں از بهر جاناں باخته دل ازیں فانی سرا پرداخته معشوق کے لئے نقد جان لٹا دیا اور اس فانی گھر سے دل کو ہٹا لیا پُر خطر ہست این بیابانِ حیات صد ہزاراں اثر دہائش در جهات یہ زندگی کا میدان نہایت پُر خطر ہے اس میں ہر طرف لاکھوں اثر د ہے موجود ہیں دینگر این شوخی ازاں شیخ عجم ایس بیاباں کرد کے از یک قدم اس شیخ عجم کی یہ شوخی دیکھ کے اُس نے بیاباں کو ایک ہی قدم میں طے کرلیا جاں بصدق آن داستان را داده است تاکنون در سنگها افتاده است اس نے وفا داری کے ساتھ اپنی جان اپنے محبوب کو دے دی اور اب تک وہ پتھروں کے نیچے دبا پڑا ہے این بود رسم و ره صدق وفا این بود مردان حق را انتہاء راه صدق و وفا کا یہی طور و طریق ہے اور یہی مردانِ خدا کا آخری درجہ ہے از پئے آں زندہ از خود فانی اند جاں فشاں بر مسلک ربانی اند اُس زندہ خدا کی خاطر انہوں نے اپنی خودی کو فنا کر دیا اور الہی طریقہ پر جاں نثار کرنے والے بن گئے نیست شو تا بر تو فیضانے رسد جاں پفشاں تا دگر جانے رسد اپنی ہستی کو فنا کر دے تا کہ تجھ پر فیضانِ الہی نازل ہو جان قربان کر تا تجھے دوسری زندگی ملے.(تذکرۃ الشہادتین سے چند اشعار )

Page 56

55 باب 2 خاندانی پس منظر دادا - حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) دادی - حضرت سرور سلطان بیگم صاحبہ (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نانا.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نانی حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) والد محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد والده - محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم رشتہ ازدواج - بزرگانِ سلسلہ کی دعائیں اور بشارات صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم کے خوابوں کی تعبیر م حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے خطوط آپ کی اولاد مجھ ܀ سر سے پا تک ہیں الہی ترے احساں مجھ پر برسا ہے سدا فضل کا باراں تیرا تیرے احسانوں کا کیوں کر ہو بیاں اے پیارے مجھ پہ بے حد ہے کرم اے مرے جاناں تیرا

Page 57

56 اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے ظہور اور اپنے پیارے بندوں کے از دیاد ایمان کے لئے کئی رنگ میں اپنی قدرتوں کی شان دکھاتا ہے.وہ اپنے دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عاجزانہ دعائیں سنتا ہے اور آپ کی ذریت ونسل سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا فرما دیتا ہے پھر جب ان دعاؤں میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں شامل ہو جاتی ہیں تو ایسا وجود نازل فرماتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کی حقانیت کے ثبوت کے لئے غیرت مند صالح اولاد کی طرح خود کو فنا فی اللہ کر دیتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس موعود مسیحا کی آمد کی خبر دی اور شناخت کے نشانات میں فرمایا يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ يَتَزَوَّجُ وَيُولَدْ لَهُ ( مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسی ) یعنی عیسی ابن مریم (مسیح موعود علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائیں گے اور شادی کریں گے اور آپ کے اولاد ہو گی.نزول مسیح یعنی مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے چودہ سو سال پہلے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے یہ پیش خبری غیر معمولی شان کو ظاہر کرتی ہے.اُس مسیحا کی شادی میں الہی تصرفات اور تائید و نصرت ہو گی اور اولا دبھی اُس کے مقاصد عالیہ کو پورا کرنے والی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.

Page 58

57 إِنَّ اللَّهَ لَا يُبَشِّرُ الْأَنْبِيَاء وَالْأَوْلِيَاء بِذُرِّيَّةٍ إِلَّا إِذَا قَدَرَ تَولِيدَ الصَّالِحِين (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 578 حاشیہ) یعنی اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کی ذریت کی بشارت تب ہی دیتا ہے جب وہ صالح ذریت کا پیدا ہونا مقدر فرماتا ہے.اس پاک رشتہ ازدواج کے لئے قادر و مقتدر خدا نے حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو بشارت دی.أشْكُرُ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيجَتِي (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 666) خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرو میری خدیجہ تمہیں ملنے والی ہے.1884ء وہ مبارک سال تھا.جس میں اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی تقدیر بنانے والے جوڑے کی شادی کا شہر دتی میں خود انتظام فرمایا.مبارک نسلوں کی ماں بننے کی بشارتوں کے جلو میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم 17 نومبر کو حرم مسیح موعود علیہ السلام میں داخل ہوئیں.حضرت اقدس نے 20 فروری 1886 کے اشتہار میں تحریر فرمایا :- ” خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمت تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا.تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی.تیری ذریت منقطع نہیں ہو گی اور آخر دنوں تک سرسبز رہے گی خدا

Page 59

58 تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے (ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 648) _" اولا د اور الہی بشارت : اپنے سچے وعدوں کے مطابق قادر و مقتدر خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو پہلے سے بشارتیں عطا فرما کر پاکباز، نافع الناس اولاد عطا فرمائی.ہر بچہ الہی تائیدات کا زندہ نشان ثابت ہوا.-1 -2 دو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد (1889ء تا 1965ء).عظیم الشان پیشگوئی کے مصداق مصلح موعود قرار دیئے گئے.آپ کے ساتھ آنے والی بشارات کی خبر آپ کی پیدائش سے بہت پہلے دی گئی تھی.” وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکتوں سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.“ (ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 647) آپ کو باغ احمد کی آبیاری کی نصف صدی تک توفیق ملی.آپ کے عہد امامت میں جماعت نے قابلِ رشک ترقی کی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (1893ء تا 1963ء).حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے فرزند تھے آپ کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عظیم بشارتیں عطا فرمائیں.آپ کو قمر الانبیاء کا صفاتی نام عطا فرمایا.آپ کو علمی تحقیقات اور تربیتی

Page 60

59 -3 -4 -5 تحریروں کے ذریعے جماعت کی لا ثانی خدمات کا موقع ملا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد (1895ء تا 1961ء).آپ کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی.عَمَّرَهُ اللَّهُ عَلَى خلَافِ التَوَقُعُ ( تذكره صفحہ 720 ).اللہ تعالیٰ خلاف توقع عمر 6 دے گا.ایک رویا میں آپ کو بادشاہ کا لقب بھی عطا ہوا.حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ (1897ء تا 1977ء).آپ کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تُنَشَاءُ فِي الحلية یعنی زیور میں نشو و نما پائے گی.آپ کو نواب مبارکہ بیگم کا نام عطا ہوا اور لفظ ” نواب کا اضافہ بھی ایک پیشگوئی ثابت ہوا.آپ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی زوجیت میں آئیں.اللہ تعالیٰ نے علم کا زیور بھی وافر عطا فرمایا تھا.آپ منفر د شاعرہ تھیں.حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہ (1904ء تا 1987ء).آپ کی پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے دُختِ کرام‘ الہام فرمایا.آپ کریمانہ صفات کا مظہر بنیں.حضرت نواب عبداللہ خان صاحب کی زوجیت میں باعمل زندگی گزاری.حضرت اقدس کے پانچ بچے صغرسنی میں فوت ہوئے.اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں اس مبشر اولاد تک محدود نہیں تھیں بلکہ نسل نسل تقویٰ اور زہد سے معطر مبارک سلسلوں کی بشارات تھیں.تری نسلًا بعيدًا خدا تعالیٰ کے احسان سے دُور کی نسلیں ہوں گی اور اپنی صفات کے لحاظ سے قابل فخر ہوں گی.ان بشارات کو جذب کرنے کے لئے حضرت اقدس نے بڑی عاجزی اور الحاج سے اپنی اولا د اور نسلوں کے لئے دعائیں مانگیں.

Page 61

60 کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہوں ستارے کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان یہ تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبُحْنَ مَنْ يَّرَانِي اے میرے بندہ پرور کر ان کو نیک اختر رتبہ میں ہوں یہ برتر اور بخش تاج و افسر ہے ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہمسر روز کر مبارک سُبْحَنَ مَنْ يَّرَانِي شیطاں سے رکھیو دور اپنے حضور رکھیو جاں پُرز نور رکھیو دل پر سرور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں، رحمت ضرور رکھیو روز کر مبارک سُبُحْنَ مَنْ يُرَانِي میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے واری کر تو مدد ہماری ہم تیرے در پہ آئے لے کر اُمید بھاری یہ روز کر مبارک سُبْحَنَ مَنْ يَّرَانِي اے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے

Page 62

61 یہ فضل کرکہ ہوویں نیکو گہر سارے یہ روز کر مبارک سُبْحَنَ مَنْ يَّرَانِي اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے ثانی دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی یہ روز کر مبارک سُبُحْنَ مَنْ يَّرَانِي اقبال کو بڑھانا اب فضل لے کے آنا ہر رنج سے بچانا دکھ درد سے چھڑانا خود میرے کام کرنا یا رب نہ آزمانا یہ روز کر مبارک سُبْحَنَ مَنْ يَّرَانِي اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں حق پر نثار ہوویں مولی کے یار ہو دیں با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں یہ روز کر مبارک سُبْحَنَ مَنْ يَّرَانِي ( محمود کی آمین - دریمین )

Page 63

62 وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے " مرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے تری درگاہ میں عجز و بکا ہے وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے مری اولاد جو تیری عطا ہے ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے تری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ سب د.ان کو جو مجھ کو دیا ہے عجب محسن ہے بحر الا یادی ـــنَ الَّذِي أَخْـــــى الاعــــادي نجات ان کو عطا کر گندگی برات ان کو عطا کر بندگی رہیں خوشحال اور فرخندگی ނ بچانا اے خدا ! بد زندگی ނ وہ ہوں میری طرح دیں کے مُنادی فَسُبْحْنَ الَّذِي أَخْزَى الأعادي

Page 64

63 عیاں کر ان کی پیشانی اقبال نہ آوے ان کے گھر تک رُعب دجال بچانا ان کو ہر بہر حال نہ ہوں وہ دُکھ میں اور پنجوں میں پامال یہی اُمید ہے دل نے بتا دی فَسُبْحَنَ الَّذِي أَخْزَى الأعادي دعا کرتا ہوں اے میرے یگانہ نہ آوے ان رنجوں کا زمانہ نہ چھوڑیں وہ ترا مرے مولی انہیں آستانه ہر دم بچانا یہی امید ہے اے میرے ہادی فَسُبْحْنَ الَّذِي أَخْرَى الأعــــادي نہ دیکھیں زمانہ بے کسی کا وہ مصیبت کا، آلم کا، بے بسی کا ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا بشارت تو نے پہلے سے سُنا دی فَسُبْحَنَ الَّذِي أَخْرَى الأعـــادي ( مرزا بشیر احمد، مرزا شریف احمد اور مبارکہ بیگم کی آمین ) درشین

Page 65

64 وو حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد (اللہ آپ سے راضی ہو ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.” میرا دوسرا لڑکا جس کا نام بشیر احمد ہے اس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 266 میں کی گئی ہے.پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں: يَأْتِيَ قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَامْرُكَ يَتَأَتَى يَسُرُّ اللهُ وَجْهَكَ وَيُنِيرُ بُرْهَانَكَ سَيُولَدْ لَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنى مِنْكَ الْفَضْل - إِنَّ نُورِى قَرِيبٌ یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا.تیرے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا اور فضل تجھ سے نزدیک کیا جائے گا یعنی وہ خدا کے فضل کا موجب ہو گا اور میرا نور قریب ہے..20 /اپریل 1893ء کو اس پیشگوئی کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا.( تریاق القلوب صفحہ 24 الہی بشارتوں میں آپ کے وجود کے ساتھ قمر ، نور، روشنی، دلیل کی روشنی کی بشارتیں آپ کی گراں بہا علمی وتحقیقی تصانیف کی صورت میں ظاہر ہوئیں.آپ کی تصانیف میں سیرت خاتم النبین ، تبلیغ ہدایت، ہمارا خدا، سیرت المہدی جیسی بلند پایہ کتب شامل ہیں.اس انبیاء کے چاند کی چاندنی اُس مامتا اور شفقت کی صورت میں بھی ظاہر ہے جو جماعت کے درویشوں، غریبوں، بے

Page 66

65 کسوں اور ضرورتمندوں کے لئے آپ کے قلب میں موجزن رہی.آپ حضرت مصلح موعود کے مضبوط دست و بازو کی طرح ممد و معاون رہے.منکسر المزاج، راضی بہ رضا، فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول یہ عظیم الشان وجود جماعت کے لئے رحمت ہی رحمت تھا.حضرت اماں جان آپ کو پیار سے بشری کہہ کر پکارتیں.آپ کا نکاح حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی حضرت مولانا غلام حسین خان صاحب (پشاور) کی دختر نیک اختر محترمہ سرور سلطانہ سے ہوا.مئی 1906ء کو رخصتانہ عمل میں آیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نو (9) بچوں سے نوازا.−1 -2 -3 -4 -5 صاحبزادی امتہ السلام (ولادت 1907ء) اہلیہ صاحبزادہ مرزا رشید احمد ابنِ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب.آپ کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی خوش دامن بننے کا فخر حاصل ہوا.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد (ایم ایم احمد ) (ولادت 1913ء) آپ کی شادی صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود سے ہوئی.صاحبزادہ مرزا حمید احمد (ولادت 1915ء) آپ کی شادی صاحبزادی امتہ العزیز بیگم بنت حضرت مصلح موعود سے ہوئی.صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ (ولادت 1916ء) آپ کی شادی حضرت نواب محمد احمد خان صاحب ابنِ نواب محمد علی صاحب سے ہوئی.صاحبزادہ مرزا منیر حمد صاحب (ولادت 1918ء) آپ کی شادی طاہرہ صدیقہ صاحبہ بنت حضرت نواب عبداللہ خان صاحب سے ہوئی.

Page 67

66 -6 -7 -8 -9 صاحبزادہ بریگیڈیئر ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب (ولادت 1922ء) آپ کی شادی آصفہ مسعوده صاحبہ بنت حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے ہوئی.صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ (ولادت 1926ء) آپ کی شادی محترم ( بریگیڈیئر ) محمد وقیع الزماں صاحب سے ہوئی.صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب (ولادت 1928ء).آپ کی شادی صاحبزادی قدسیہ بیگم بنتِ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے ہوئی.صاحبزادی امتہ اللطیف بیگم (ولادت 1935ء).آپ کی شادی سیّد محمد احمد صاحب (ونگ کمانڈر ) ابنِ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سے ہوئی.ذریت مبشرہ کے متعلق الہی بشارتوں کے ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف خاص طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کے ذکر میں بے حد اہم ہے.حضور نے کشف دیکھا: دو والدہ محمود قرآن شریف آگے رکھے ہوئے پڑھتی ہیں جب یہ آیت پڑھی.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ حَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقاً جب اُولئِكَ پڑھا تو محمود سامنے آ کھڑا ہوا پھر دوبارہ أُولَئِكَ پڑھا تو بشیر آ کھڑا ہوا پھر شریف آ گیا پھر فرمایا کہ جو پہلے ہے وہ پہلے ہے.“ ( تذکره صفحه 795)

Page 68

67 اس میں انعام یافتگان کی ترتیب میں امتی نبوت کے مقام پر حضرت مسیح موعود ہیں صد یقیث کے مقام پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی ہیں.شہادت کے مقام پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ہیں اور صالحیت کا درجہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد کے نصیب میں آیا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی نسل میں شہادت کا مرتبہ مقدر ہونے پر یہ کشف ایک رنگ میں پورا ہو گیا.اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بشارتیں صرف اُن افراد تک محدود نہیں رہتیں جن کے لئے مخصوص طور پر ذکر ہوتا ہے بلکہ نسلاً بعد نسل بفضل خداوندی خیر و برکت کے سلسلے جاری و ساری رہتے ہیں.جذب وقبول کی استطاعت دعاؤں اور عمل صالح سے ملتی ہے.تربیت اولاد، حضرت قمر الانبیاء کا خاص موضوع تھا.آپ نے احمدی والدین کو اپنی اصلاح کرنے اور اولاد کی تربیت کرنے کے گر سکھائے.زیر نظر کتاب میں ہم دیکھیں گے کہ ان نصائح پر عمل کرنے کا کیسا خوشگن ہوتا ہے.ہمارا موضوع حضرت قمر الانبیاء کا ایک زندہ جاوید شہید ہوتا ہے.بزرگوں کی مسلسل دعاؤں کے ثمر نے اس وراثت کا حق ادا کیا اور لاثانی تابناک مشعل روشن کی.

Page 69

68 حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اللہ تعالیٰ آپ سے راضی رہے) حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی پہلی بیگم سے دوسرے صاحبزادے تھے.آپ یکم جنوری 1896ء کو پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب نے آپ کی سلسلے سے محبت اور فطری نیکی دیکھ کر یہ خواہش کی کہ آپ کی شادی حضرت اقدس مسیح موعود کی لختِ جگر دُختِ کرام صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم سے ہو.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے حضرت اماں جان کی رضا سے یہ رشتہ قبول فرمایا.1915ء میں یہ مبارک شادی ہوئی.نکاح کے موقع پر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیلی نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل دونوں بار بار بہ جذبہ اظہار مسرت و احساس فرحت بار بار اس نکاح کے متعلق بہ لپ تبسم مبارک باد دیتے ہیں اور اس قدر خوش ہیں کہ تعجب ہوتا ہے دونوں مبارک ہستیوں نے شاید ہی ایسی مسرت اور خوشی کا کبھی احساس اور اظہار فرمایا ہو.“ آپ محبت، قدر اور عزت کرنے والے شوہر، شفیق باپ، وفا دار دوست اور غریب پرور انسان تھے.درویشانہ شان سے زندگی بسر کی علاوہ دیگر خدمات کے 1947ء سے 1949ء تک صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے ناظر اعلیٰ رہے.18 ستمبر 1961ء کو وفات پائی اور ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں حضرت اماں جان کے مزار اقدس کی چار دیواری میں مدفون ہیں.

Page 70

69 حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم (اللہ آپ سے راضی رہے) وو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے آخری وجود تھیں.آپ 25 /جون 1904 ء کو پیدا ہوئیں.حضرت اقدس نے اپنی تصنیف حقیقت الوحی میں اس صاحبزادی کی پیدائش کو اپنی صداقت کے چالیسویں نشان کے طور پر پیش فرمایا ہے.چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے دُختِ کرام.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس بیٹی کو ” دُختِ کرام کا لقب عطا ہوا.جو بہت وسیع معانی رکھتا ہے اور جس کے اثرات بہت دور تک جائیں گے.”کرام کا مطلب ہے مکرم لوگوں کی بیٹی یعنی مکرم لوگوں کی صفات وراثتاً ان کے اندر موجود ہوں گی اور یہ صفاتِ کریمانہ ان کے ذریعے سے آگے نسلوں تک منتقل ہوں گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک الہام جرى الله فِي حُلل الانبیاء کی تشریح میں فرماتے ہیں: اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی، اُن سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نہبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا

Page 71

70 واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا، ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے، اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 89) دُختِ کرام ہونے کی حیثیت سے ان پیشگوئیوں میں صاحبزادی صاحبہ کی ذات اور آپ کی اولاد در اولاد کے لئے نسلوں تک بشارتیں ہیں.آپ ایک خاموش طبع ، بزرگ خاتون تھیں.دعاؤں کی قبولیت پر بہت یقین تھا.ہمہ وقت ذکر الہی میں ڈوبی رہتیں.طبیعت میں حجاب تھا.اس لئے اپنے خدا کے ساتھ معاملات کو ظاہر کرنا پسند نہ کرتیں.وفات سے کچھ عرصہ پہلے ی بی قدسیہ بیگم کو ایک انتہائی خوشکن بات بتائی جو اُن کے پاس بطور امانت محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ نے بتایا کہ امی نے وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھے بلایا اور اپنا وہ قرآن پاک کھولا جس کی وہ روزانہ تلاوت فرماتی تھیں اور چند آیات دکھائیں اور مجھے بتایا کہ میری پیدائش سے پہلے وہ دُعا کر رہی تھیں تو انہیں آواز آئی جیسے کوئی قرآن پاک پڑھ رہا ہے اور وہ سورۃ مریم کی آیات 32 تا 34 ہیں.جن پر میں نے نشان لگا لیا.وَجَعَلَنِي مُبْرَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصُنِي بِا الصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ مَا دُمْتُ حَياً وَبَرَّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيَّاهِ وَالسَّلْمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أُمُوتُ وَيَوْمَ أبْعَثُ حَيَّاه ترجمہ: اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید کی ہے.اور مجھے اپنی

Page 72

71 والدہ سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا.اور جس دن میں پیدا ہوا تھا اُس دن مجھ پر سلامتی نازل ہوئی تھی اور جب میں مروں گا اور جب مجھے زندہ کر کے اُٹھایا جائے گا (اُس وقت مجھ پر سلامتی نازل کی جائے گی ).امی کی وفات کے بعد وہ مبارک مقدس قرآن مجید اُٹھا لائی خیال تھا کہ اپنے وقف زندگی بیٹے کو تحفہ دوں گی مگر ایسا نہ ہو سکا).امی اس بات کا اکثر اظہار کرتیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے بشارتیں دی تھیں.ایک دن دعا مانگ رہی تھیں تو آواز آئی.حُسنِ یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری امی نے یہ بھی بتایا تھا کہ اُن کی پہلے سے تین بیٹیاں تھیں.اللہ تعالیٰ سے بیٹے کی نعمت کے لئے دعا کرتی تھیں جب میں پیدا ہوئی تو کچھ اُداسی ہوئی.اسی کیفیت میں آواز آئی جیسے اللہ تعالیٰ تسلی دے رہا ہو کہ ” بیٹا نہیں ہوا مگر اس بیٹی کے ذریعے خدا تعالیٰ ایک ہمہ تن موصوف بیٹا دے گا دُعائیں ضائع نہیں ہوئیں.“ حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نے رفاقت کا عرصہ بڑی مفاہمت اور یگانگت سے گزارا.اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت بھی عطا فرمائی.یہ اولا د بھی احمدیت کی صداقت کا نشان ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے نواب صاحب کو نصیحت فرمائی تھی کہ نوابوں اور رئیسوں کی طرف رغبت نہ کرو جو اُن سے تعلقات بڑھائے گا اُس کا بھی وہی حال ہو گا.عجیب شانِ خداوندی ہے کہ آپ کے دو بھائیوں کے رشتے نوابوں میں ہوئے جو لا ولد رہے جبکہ احمد یوں

Page 73

72 میں رشتے کرنے والوں کو اولا د عطا ہوئی.اولاد: محترمه طیبه بیگم صاحبه ولادت 18 جون 1919ء محترم نواب عباس احمد خان صاحب ولادت 02/جون 1920ء محترمہ طاہرہ بیگم صاحبہ ولادت 03/جون 1921ء محترمہ زکیہ بیگم صاحبه ولا دت 23 /نومبر 1923ء محترمه قدسیہ بیگم صاحبه ولادت 20 جون 1927ء محترمہ شاہدہ بیگم صاحبہ ولادت 31 اکتوبر 1931ء محترم نواب شاہد احمد خان صاحب ولادت 19 اکتوبر 1935ء محترمہ فوزیہ بیگم صاحبہ ولادت 22 نومبر 1941ء محترم نواب مصطفی احمد صاحب ولادت 10 جولائی 1943ء اللہ تعالیٰ کے احسانات اور بزرگوں کی دُعاؤں کا اثر بچوں پر بھی نمایاں نظر آتا ہے.گھریلو ماحول میں دُعا رچی بسی ہو تو آستانہ الہی پر جھکاؤ فطرت میں شامل ہو جاتا ہے.قدسیہ بیگم صاحبہ نے گھر کے ماحول اور دعاؤں پر بھروسے کی کیفیت کے بارے میں خاکسار کے ایک استفسار کے جواب میں تحریر کیا.” میرا خیال ہے کہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں بلکہ اس سے بھی کم عمری میں اپنی نیک نسل کے لئے دعائیں مانگتی تھی.یہ غیر معمولی بات تھی.اس عمر کی بچیاں تو آسائشیں اور راحتیں مانگتی ہوں گی مگر مجھے ایک

Page 74

73 بھی دعا یاد نہیں جو میں نے اس تڑپ سے کی ہو جیسا کہ یہ دعا کہ میری نسل سے حضرت مسیح موعود کے وارث پیدا ہوں اور میں خواتین مبارکہ میں شامل ہو جاؤں.مجھے اس وقت خواتین مبارکہ کا مفہوم بھی پتہ نہیں ہو گا مگر حضرت اقدس کے الفاظ پڑھ کر یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی خواتین مبارکہ میں شامل ہوں.یہ دعائیں میں معمولی انداز میں نہیں مانگتی تھی بلکہ میں نے خود کو دعا کے لئے وقف کر دیا تھا.صرف سجدوں میں ہی نہیں مانگتی تھی بلکہ ہر وقت ذکر الہی اور درود شریف وردِ زبان رہتا.ایک دفعہ تو میرا مذاق بھی بن گیا تھا.ملازمہ کو آواز دینا تھی مگر اُس کا نام پکارنے کی بجائے منہ سے نکلا سبحان اللہ.کیونکہ یہ پاک ذکر وردِ زبان تھا.اتنی گریہ و زاری کرتی تھی کہ میری آنکھوں کے نیچے نرم حصے پر آبلے ابل آتے تھے.ایک عجیب کیفیت تھی جو میں بیان نہیں کر سکتی.اسکول جاتے ہوئے راستے سے کانٹے اور شیشے وغیرہ ہٹاتی تھی.رات کو میرے پاس ملازمہ کی بچی سویا کرتی تھی اکثر اُٹھ اُٹھ کر اس پر رضائی ٹھیک کرتی.میں سوچتی اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے شاید کوئی عمل پسند آ جائے.مجھے مکہ ، مدینہ میں بھی تڑپ تڑپ کر خدا تعالیٰ بھیک مانگنا یاد ہے.اللہ تعالیٰ مجھے قبولیت دعا کی بشارتیں بھی عطا فرماتا تھا.ایک دفعہ رتن باغ میں میں تہجد کی نماز پڑھ رہی تھی.میری عمر اُس وقت ہیں سال

Page 75

74 تھی.ابھی میری شادی نہیں ہوئی تھی میں نے نفل پڑھنے کے دوران دیکھا آسمان سے ایک روشن چیز تیزی سے نیچے آئی اور میری گود میں آ کر غائب ہو گئی.مگر سب سے زیادہ رُوحانی سرور مجھے اُس وقت حاصل ہوا جب میری شادی کے لئے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے استخارہ کرنے کے بعد خط لکھا.اُس میں میری ساری دعاؤں کی قبولیت کا ایسا واضح اشارہ تھا گویا اللہ تعالیٰ نے میری طلب کا سب کچھ عطا فرما دیا تھا بلکہ بڑھا کر دیا تھا.محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے اپنے بیٹے صاحبزادہ مرزا مجید احمد کی شادی کے لئے آپ کو منتخب فرمایا.رشتہ ازدواج اور بزرگان سلسلہ کی دُعائیں: آپ کے سب کام دعاؤں اور قبولیت دعا کے نشانوں کی طرح ہوئے رشتہ تجویز ہوا تو حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سے دعا کی استدعاء کی گئی.مولانا موصوف نے استخارہ کر کے جو جواب لکھا.وہ من و عن پیش ہے تاکہ بشارتوں کے سلسلے کی کڑی سے کڑی ملتی ہوئی نظر آئے.یہ ایک ایسا غیر معمولی کشف ہے جو عظیم الشان خوشخبریوں کا ایک سلسلہ اپنے اندر رکھتا ہے.

Page 76

75 بسم الله الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم وعلى عبده السيح الموعود از پشاور شهر 14-11-50 سیدی و مولائی حضرت مرزا صاحب زادکم اللہ مجدا و رفعتہ وعزة و برکه و افاز کم فورا بعد فوز و اعطا کم فوق ماتحسبون واید کم آمین ثم آمین اسلام علیکم ورحمۃ اللہ خیریت مطلوب حضرت مرزا صاحب کا ملفوف حاصل ہوا.یاد فرمانے کا بہت بہت شکریہ و جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والعظمی.حضرت صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اور عزیزہ مکرمہ قدسیہ بیگم دونوں کے ناطہ رشتہ کے متعلق حضور کے مکتوب گرامی کے موصول ہونے کے بعد دعا اور استخارہ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور آج 13 اور 14 ماہ نبوت / نومبر کی درمیانی شب کی سحری کے وقت بھی نماز تہجد میں دُعا کی ہے اور پھر صبح کی اذان کے بعد سنتیں ادا کر رہا تھا تو سنتوں کی ادائیگی کی حالت ہی میں حضرت اقدس سیدنا سیح الموعود علیہ السلام بحالت کشف سامنے آ گئے اور ساتھ ہی بجلو ہ انارت اشراقی حالت بھی پیدا ہو گئی اور عجیب منظر دکھایا گیا کہ حضرت مسیح پاک کے وجود اقدس و مبارک کی شکلیں قطار کی صورت میں میرے سامنے سے گزرنے لگیں گویا بجائے ایک وجود حضرت اقدس کے بہت سے وجود نظر آئے.اس کے بعد یہ نظارہ عجیب پیش کیا گیا کہ آپ عزیز مجید احمد سلمہ اللہ کو اپنی بغل میں لے کر کھڑے ہیں اور آپ کے سامنے حضرت مسیح پاک

Page 77

76 علیہ السلام عزیزہ قدسیہ کو اپنی بغل میں لے کر آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں.اور پھر بتایا جاتا ہے کہ عزیزہ قدسیہ کو خواتین مبارکہ میں داخل کر دیا گیا ہے.مبارک ، مبارک.اس کے بعد معاً نظارہ بدل گیا اور دیکھا کہ زرخیز زمین کا ٹکڑا ہے جس میں شاید عزیز مجید احمد ہل جوت کر زمین باہ رہے ہیں.اس پر جب مجھے تعجب ہوا کہ یہ کیا نظارہ ہے جو دکھایا گیا ہے.تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے معا تفہیم کے طور پر بتایا گیا کہ یہ منظر نِسَاءُ كُم حَرْثٌ لَّكُمْ کے معنی میں ہے اور حضرت اقدس کا کئی ہم شکل وجودوں کی صورت میں دکھایا جانا کہ ایک قطار کی قطار آنکھوں کے سامنے گزر رہی ہے اس سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ شاید عزیز مجید احمد سلمه الله تعالیٰ اور عزیزه قدسیه که سلسله نسل سے حضرت مسیح پاک کے بھت سے مظاهر وجود پیدا ھوں یعنی پاک نسلیں ظهور میں آئیں.ایسے جلد کشفی نظارے جواب دعاء استخارہ ہیں یہ محض حضور اقدس کی برکات سے ہیں.والسلام خادم ناچیز غلام رسول را جیکی

Page 78

77 حضرت الدير بمدينة السيح الموعود ليله العالی در سلام در نور کی البیت کیلئے عام طور پراید دعاء کی جاتی ہے لیکن ماہ صیام کے مبارک ایام ہیں تو مخصوص طور پر تری اور افطاری کے رد مبارک موقع و دعاؤں کیسے توقع و امیر قیات ضرور ہی کی جاتی تھے.او در آمدہ ہیں بال الترام دعا کا سیہ کاری می کرخ عزیز مکرم و محرمه مبله قدسیه بند مدتی بعد سلام اور تمام عرض کرنا کہ رعایا کی جاتی ہے اور فکر تھانے کے تصیل سے آپ کیلئے اور آپ کی نسلوں لیکن بہت کچہ بارات کی امیریں رونماء ہوئے رائی ہے دینا ہیں دنیا دار لوگ تو اسباب اور انتقہ پر نظر رکھتے ہوئے دل کیلئے تسکین کی صورت محسوس کرتے ہیں لیکن خدا تھانے کے اتمام دارو مرسلینی کے پاس صرف خالق ایک اسباب کا قولی پا کلام بطور یارت کے ہوتا ہوار خالی الاسباب ایک نئی دنیا اور نیا جہاں اتنے کھیلے پیدا کر کے دیکھا دیتا ہے.آنحضرت مسلم اور حضر ت اور پر ہوتا ہے الموعود علی اعلی درد کی سوانخ اس اس کی تصوتی کتے کافی شہادات کی صورت اپنے اندر رہتی ہیں.حضرت غلام رسول صاحب را نیکی کا طرز تحریر غیر معمولی دُعائیں : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی چشم بصیرت نے خدائی بشارتوں کی روشنی دیکھی.الہی برکتوں کو جذب کرتے رہنے کے لئے غیر معمولی دعاؤں کی طرف توجہ رہی.اس رشتے کے متعلق استخارہ میں مبارک اشارات پا کر اسے خدا تعالیٰ کی رضا سمجھ کر بے فکری، خوشی اور اطمینان کے ساتھ قدم آگے نہیں بڑھا لیا بلکہ ہر قدم پر عاجزانہ دعائیں کرتے اور کرواتے رہے.شادی کی مبارک تقریب سے پہلے الفضل 25 / مارچ 1951ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا

Page 79

78 بشیر احمد کی طرف سے بڑے درد مندانہ انداز میں دُعا کی تحریک کی گئی.آپ نے تحریر فرمایا: ”جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر میرے لڑکے مرزا مجید احمد سلمہ اور عزیزہ قدسیہ بیگم بنت ہمشیرہ امة الحفیظ بیگم صاحبہ کے نکاح کا اعلان فرمایا تھا.اب یکم اپریل 1951 ء کو بروز اتوار رخصانہ کی تقریب قرار پائی ہے.میں جملہ احباب جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس شادی کے بابرکت ہونے کے متعلق درد دل سے دعا فرمائیں.میں سب بھائیوں اور بہنوں کے لئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں بھی اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھتے ہوں گے.عزیز مرزا مجید احمد ایم.اے میرا سب سے چھوٹا لڑکا ہے اور عزیزہ قدسیہ بیگم سلمہ ہماری چھوٹی ہمشیرہ اور اخویم میاں عبداللہ خان صاحب کی لڑکی اور نواب محمد علی خان صاحب کی پوتی ہے.اللہ تعالیٰ اس شادی خانہ آبادی کو فریقین کے لئے ہر جہت سے مبارک اور مثمر بثمرات حسنہ کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بنائے.آمین یا الرحم الراحمین.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ

Page 80

79 23/مارچ1951ء اس اعلان کے بعد 29 / مارچ 1951ء کے الفضل میں آپ کی طرف سے پھر دُعا کے لئے درد و اثر میں ڈوبے ہوئے الفاظ میں درخواست ہوئی.میں جماعت کے تمام بزرگوں اور دوستوں اور عزیزوں اور قادیان کے درویشوں اور سب مخلص بہن بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس شادی کے متعلق دردِ دل سے دعا فرمائیں کہ ہمارا رحیم و کریم آسمانی آقا اسے دین و دنیا اور ظاہر و باطن اور حال و مستقبل کے لحاظ سے بابرکت اور مثمر بثمرات حسنہ بنائے اور اس جوڑے اور ان کی نسل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک دعاؤں کا وارث کرے اور اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور میری ساری اولاد کا حافظ و ناصر ہو اور دین کا خادم بنائے اور ہم سب کا انجام بخیر کرے.آمین یارب العالمین“ خاکسار مرزا بشیر احمد 27/مارچ1951ء ان کی شادی کی تقریب کے بعد دعوت ولیمہ میں جو 3 را پریل 1951ء کو رتن باغ لاہور میں ہوئی حضرت مصلح موعود ربوہ سے بنفس نفیس تشریف لائے اور جماعت کے مقتدر بزرگوں نے شرکت فرمائی اور نوبیاہتا جوڑے کو دلی دعاؤں کے تحفے دیے.

Page 81

80 حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم کے خوابوں کی تعبیر اس شادی کے تعلق سے مبارک اولاد کی خوشخبری کا تسلسل حیرت انگیز طور پر مماثلت رکھتا ہے.حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے 1951ء کے آخر میں عجیب خواب دیکھے جن کی تعبیر وہ سمجھ نہ پائیں.خواب اپنے بھائی کو لکھے.جس کا جواب درج ذیل ہے.ربوه بسم الله الحمن الرحيم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده المسيح الموعود 14-11-29-50 عزیزہ ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم سلمها السلام علیکم ورحمۃ اللہ ابھی ابھی آپ کا خط موصول ہوا.آپ کی دونوں خواہیں بہت مبارک ہیں.جب کسی ایسی عورت کو بچہ ہونے کی خواب آئے جس کے بظاہر بچہ پیدا نہیں ہو سکتا اور بچے کا نام بابرکت ہو اور خواب میں ماحول بھی خوشی کا ہو تو اس سے یا تو خواب دیکھنے والی کی زندگی میں کسی مبارک انقلاب کی خبر ہوتی ہے اور یا ایسی خواب اس کی اولاد میں پوری ہوتی ہے یا یہ بھی مُراد ہو سکتی ہے کہ اسے آگے چل کر کوئی بابرکت بہو نصیب ہو گی یا بابرکت داماد ملے گا.طلعت اور صورت نبی دونوں نام بہت مبارک ہیں بظاہر طلعت زنانہ نام ہے اور صورت نبی مردانہ نام

Page 82

81 ہے پس تعجب کہ آپ کی اولاد میں سے یا اولاد در اولاد میں سے کوئی مبارک لڑکی پیدا ہو اور کوئی ایسا لڑکا بھی پیدا ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا نمونہ ہو پس یہ دونوں خواہیں بہت مبارک ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا نتیجہ بہتر پیدا کرے.جب قدسیہ اور مجید کی شادی ہوئی تھی تو اُس وقت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے یہ خواب دیکھی تھی کہ ان دونوں کے ملنے سے حضرت مسیح موعود کے مثیل پیدا ھوں گے مگر یه خدا هی جانتا هے کہ کب اور کس طرح اور کس صورت میں.والسلام فقط مرزا بشیر احمد صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اور محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ خدا تعالیٰ کے دربار کے فریادی بنے رہتے.بزرگوں سے مل کر دعاؤں کی درخواست کرتے.خطوط لکھ کر بھی مستجاب الدعوات بزرگوں کی دعاؤں میں حصّہ مانگتے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیلی کے ایک مکتوب سے اس گھرانے کی دعاؤں کے لئے حرص کا اندازہ ہوتا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم حامداً ومصلياً ومسلماً مکرم و محترم حضرت صاحبزادہ صاحب زادکم اللہ برکته و نعمةً ورفعةً و عظمةً وحفظكم

Page 83

82 ونصركم بكل نصرة واطال الله عمر کم با الصحته و العافية و المسرة و النضرة و النظاره آمین ثم آمین خیریت مطلوب ثم السلام علیکم ورحمۃ اللہ حضرت اقدس سیدنا مسیح الموعود اور حضور کے اہل بیت کے لئے عام طور پر بھی دعا کی جاتی ہے لیکن ماہ صیام کے مبارک ایام میں مخصوص طور پر سحری اور افطاری کے دو مبارک مواقع تو دعاؤں کے لئے بتوقع و امید قبولیت ضرور ہی کی جاتی ہے.اور آئندہ بھی بالالتزام دعا کا یہ سلسلہ جاری رہے گا.عزیزه مکرمه و محترمہ سیدہ قدسیہ کی خدمت میں بعد سلام اور دعا عرض کرنا کہ دعا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے لئے اور آپ کی نسلوں کے لئے بہت کچھ بشارات کی اُمیدیں رونما ہونے والی ہیں.دنیا میں دنیا دار لوگ تو اسباب موافقہ پر نظر رکھتے ہوئے دل کے لئے تسکین کی صورت محسوس کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے انبیاء اور مرسلین کے پاس صرف خالق الاسباب کا قول یا کلام بطور بشارت کے ہوتا ہے.اور خالق الاسباب ایک نئی دنیا اور نیا جہان ان کے لئے پیدا کر دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت سیدنا ایج

Page 84

83 الموعود کی سوانح اس امر کی تصدیق کے لئے کافی شہادت کی صورت اپنے اندر رکھتی ہے.خاکسار محتاج دعوات خاصہ مبارکہ غلام رسول راجیکی از ربوه دارالہجرت 6-4-37/58 صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب نے میٹرک کے بعد زندگی وقف کر دی تھی.پنجاب یونیورسٹی سے 1949ء میں ہسٹری میں اعزاز سے ایم اے کیا.یو نیورسٹی میں تھرڈ اور گورنمنٹ کالج میں فرسٹ پوزیشن لی.اور تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا.جامعتہ المبشرین سے ”شاہد“ کی ڈگری لی اور حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر 1956ء میں افریقہ چلے گئے.وہاں سات سال قیام رہا.احمد یہ سیکنڈری اسکول میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں.بعد میں واپس آ کر پھر تعلیم الاسلام کالج میں جاب جاری کیا.مگر کالج حکومتی تحویل میں جانے کے بعد استعفیٰ دے دیا.اس کے بعد آپ کو نائب ناظر اعلیٰ مقرر کیا گیا.وہاں ریٹائر منٹ تک آپ فرائض دینیہ ادا کرتے رہے.صاحب طرز نثر نگار ہیں.منفرد موضوعات پر مضامین جماعتی رسائل و اخبارات کی زینت بنتے ہیں.” نکتہ نظر“ کے نام سے مضامین کا مجموعہ منظرِ عام پر آچکا ہے.صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ نے واقف زندگی کی اہلیہ ہونے کے ناتے خدمتِ دین میں زندگی گزاری.ہم بخوبی جانتے ہیں کہ واقف زندگی کا صدق و وفا سے ساتھ دینا بھی مولیٰ کریم کے نزدیک قربانی کے رنگ رکھتا

Page 85

84 ہے.قادیان میں ناصرات الاحمدیہ کا کام کیا اور صد سالہ احمد یہ جو بلی کے موقع پر ہال کی تزئین و آرائش میں اپنی خدا داد نفاست سے کام لے کر قابلِ ستائش کام کیا.بچوں کی تربیت و تعلیم کو ہر کام پر اولیت دی.آپ کی اولاد : -1 -2 -3 -4 -5 محترمہ نصرت جہاں صاحبہ (ولادت 9 اپریل 1952ء).آپ کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کے پوتے محترم مرزا نصیر احمد طارق صاحب ابنِ محترم مرزا منیر احمد سے ہوئی.آپ کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں.محترم مرزا محمود احمد صاحب (ولادت 3 /اکتوبر 1955ء).آپ کی شادی محترمہ امتہ الوکیل صاحبہ بنت محترم مرزا انور احمد سے ہوئی.آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.محترمه در ثمین صاحبه (ولادت 11 نومبر 1960ء).آپ کی شادی محترم سید شعیب احمد ابن محترم میر محمود احمد صاحب سے ہوئی.آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے.محترم (ولادت 21/جنوری 1962ء) لاہور میں پیدا ہوئے.آپ کی شادی محترمہ امۃ الناصر نصرت صاحبہ بنت محترم سید داؤد احمد صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ سے ہوئی.آپ کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں.محترمہ فائزہ صاحبہ (ولادت 20 ستمبر 1965ء) کی شادی محترم سید مد قمر احمد صاحب ابن سید احمد ناصر صاحب سے ہوئی.آپ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں.

Page 86

85 باب 3 کی پیدائش اور پاکیزہ بچپن نور و برکت لئے ایک طفلِ حسیں میاں موجی کے گھر آج پیدا ہوا ہے

Page 87

98 86 محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب اور محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ افریقہ میں تھے.ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کے بعد جب اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ پھر اولاد کی نعمت سے نوازنے والا ہے.تو کچھ گھبراہٹ ہوئی.بچی ابھی تین ماہ کی تھی.ماں کی صحت اچھی نہ تھی.پر دلیس کا معاملہ تھا.نوکر چاکر بھی مرضی کے میسر نہ تھے.سارا کام خود ہی کرنا پڑتا تھا مگر بندے کی گھبراہٹیں اپنی جگہ اور الہی فیصلے اپنی جگہ ہیں.وہ تو اپنی مرضی سے قسمت کے ثمار عطا فرماتا ہے.پھر انہیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی ایک نصیحت یاد رہتی جو وہ اپنے بیٹے کو کرتے ” تم نے برتھ کنٹرول نہیں کرنا ، تمہاری اولاد کے متعلق کثرت سے لوگوں کو بشارتیں ملی ہوئی ہیں.جو انشاء اللہ خدا اپنے وقت پر پوری کرے گا.“ اب یہ خواہش ہوئی کہ مولا کریم بیٹا عطا فرمائے کیونکہ ایک شدید تمنا کے تحت بیٹے کا شوق بھی تھا.یہ انتظار اور دعا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی وجہ سے بھی تذکرے میں پڑھا تھا.غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا رَدَّ اللهُ إِلَيَّ“ ( تذکرہ طبع چہارم صفحہ 522) دُعا کی کہ خدا تعالیٰ ہمیں اب بیٹا دے تو ہم یہ بابرکت نام رکھیں.ہمارا گھر نور اور برکت سے بھر جائے.کبھی اپنی اس خواہش کا کسی کے سامنے ذکر نہ کیا تھا تا کہ کوئی اور یہ نام نہ رکھ لے.اُدھر ربوہ سے محترم نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی شدید علالت کی

Page 88

87 خبریں آ رہی تھیں.جو بالآخر 18 ستمبر 1961ء کو مولائے حقیقی سے جاملے.فوری طور پر پاکستان آنا پڑا.والد محترم کی رحلت کے سانحہ کے بعد محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ کچھ عرصہ اپنی امی کے پاس ماڈل ٹاؤن لاہور پاکستان میں ریں اور یہیں 21 جنوری 1962ء کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات تین بجے سنہری نصیب لے کر آنے والے بچے کو جنم دیا.بچے کے دادا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد قمر الانبیاء نے کان میں آذان دی.غلام قادر احمد نام رکھا.SAMI'S HOSPITAL GULBERG LAHORE BIRTH STATEMENT 1.Father's Name MiRZA MAJID AHMAD 2.Caste Посна 3.Mother's Name & Age QUDSIA, BEGAM 337vs 4.Grand Father's Name M/RZA BASHIR AHMED 5.Father's Occupation LANDLORD 6.Home Address DAR UL SADAR RABWAH Bish JHANG 7, Baby M/F ALE MIRZA GHULAM QADIR 8.Date of Birth 21st JAN 1962 9.No.of Childern 10.Misc 4R Medical Super prod SAMI'S CLINIC, -A, Main Gulberg, Labesse BIRTHCERTIFICATESAMI'SHOSPITAL GULBERG

Page 89

88 لطف کی بات یہ ہوئی کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود کی الہامات کی 66 کا پی دیکھی تو آپ کے دست مبارک سے لکھا ہوا الہام یوں ہے.غلام قادر آگئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا رَدَّ اللهُ إِلَيَّ“ آئے اور آ گئے سے مفہوم میں انتظار کی کیفیت شامل ہو جاتی ہے.جس کا انتظار تھا وہ بیٹا مل گیا تو عاجزانہ دُعاؤں کا رُخ یہ ہو گیا کہ خدایا وہ بیٹا مل گیا جس کا انتظار تھا.اب یہ حضرت اقدس کی دعاؤں کا حقیقی مصداق ہو.قادر کی امی نے بتایا کہ وو یہ ایک خوبصورت شاندار ماتھے والا بچہ تھا.آج نہیں، اُس وقت بھی میں کہتی تھی اس کے ماتھے پر عجیب شان تھی.یہ میرا چوتھا بچہ تھا مگر پیدا ہوتے ہی اور کسی کے ایسی شان نہ تھی.بالوں اور چہرے کے رنگ کا خوبصورت امتزاج، گلابی رنگت، خوبصورت نقش.امی کے ساتھ زیورخ کی بیت کی بنیاد رکھنے گئے.قادر چھ ماہ کا تھا.وہاں لوگ کہتے تھے یہ خلیفہ ثانی سے ملتا ہے، ان کا کیا لگتا ہے؟ مجھے آج تک بچپن کا کوئی واقعہ بھی یاد نہیں کہ کوئی ضد یا بُری حرکت کی ہو.شرمیلی سی مسکراہٹ سے فرمائش کر دیتا.“ قادر تین سال کا تھا جب ایئر پورٹ پر اپنے ابا کولندن جاتے ہوئے دیکھ کر پلک پلک کر رونے لگا.جہاز اُڑا تو ہاتھ اُوپر اُٹھاتے ہوئے کہنے لگا.میں ساتھ جاؤں گا، میں ساتھ جاؤں گا خالہ نے دیکھا تو بے اختیار کہا کہ میں ہوتی تو اتنا خوبصورت بیٹا روتا چھوڑ کر کبھی نہ جاتی.قادر اور اس کی بہن اوپر تلے کے تھے.سال بھر کا فرق تھا.آپس میں پیار بھی بہت تھا اور لڑائی بھی ہوتی تھی.غالباً چار سال کا ہو گا متلاتا بہت تھا.ایک دفعہ بہن نے کوئی چیز دے کر واپس لے لی.بچے کو بہت صدمہ ہوا

Page 90

89 امی کو شکایت لگائی جو جملہ کہا وہ تتلا ہٹ کی وجہ سے سب کو یاد رہا.دامی تیمیں تو تقریبا تمینی ہے امی سیمی تو تقریبا کمینی ہے.بے ساختگی میں ایسی بات کہی جس میں سارا غصہ اور صدمہ شامل تھا.بچے تو آپس میں لڑا ہی کرتے ہیں.کبھی مہربان ہوئے تو سب کچھ دے دیا اور کبھی ناراض ہوئے تو واپس لے لیا.گھر میں پیارے سے اسے سرکا کہا جاتا اور یہ نام اتنا مشہور ہوا کہ اصل نام کوئی کم ہی لیتا.تتلا ہٹ کا ایک اور مزے دار واقعہ ہے.قادر کے ابا افریقہ گئے تو چونکہ بچہ ابا سے بہت مانوس تھا ہر وقت پوچھتا رہتا کہ ابا کب آئیں گے.امی جواب دیتیں کہ ایک سال کے لئے گئے ہیں.یہ ایک شال ننھے سے ذہن پر نقش ہو گیا وہ اپنے ابا کو خط لکھواتا.ایک شال آپ کب آئیں دے.ایک شال میرے لئے بیٹ لانا.ایک شال موٹر سائیکل لانا.006 اسی طرح وہ سب کو بتاتا کہ ابا ایک شال بعد آئیں گے.قادر ضد کرنے اور لڑنے جھگڑنے والا بچہ نہیں تھا.نہ وہ بہن بھائیوں سے حسد جلن رکھتا بلکہ صابر اور شاکر بچہ تھا اور اکثر خاموش رہتا.اس کا بھائی پیدائش کے دوسرے مہینے ہی ایگزیما سے بھر گیا تھا.تین چار ماہ کی عمر میں تو یہ حال ہو گیا تھا کہ صرف ہونٹ اور آنکھیں بچی تھیں باقی جسم، سارا چہرہ اگزیما سے بھر گیا تھا.ایک تو پہلا بیٹا پھر تکلیف دہ بیماری، بہت توجہ لیتا تھا.ایک طرح پہلے بیٹے سے نمایاں سلوک ہوتا تھا مگر قادر نے کبھی محسوس نہیں کیا.خوش باش، ہنس مکھ ، شرمیلا سا بچہ تھا.مسکراہٹ ایسی حسین جو سب کا دل موہ لے.شوخی شرارت بھی کرتا تو ایسی نہیں جس سے ضرر اور

Page 91

90 تکلیف ہو.خوشگوار باتیں کرتا جن سے لطف آئے دلچسپ انداز جو مزے دار لگتا.بزرگوں کے سامنے مودب رہنے اور توجہ سے بات سننے کا انداز بھلا لگتا.قادر کی خاموشی کی عادت ایک لطیفہ بن گئی.چھ سال کا تھا.اسکول سے واپسی پر دیکھا کہ میر داؤد احمد صاحب کے گھر شامیانے لگے ہیں سمجھا کہ یہاں کوئی شادی ہو گی.گھر آیا تو کوئی گھر پر موجود نہ تھا.دراصل شامیانے اس لئے لگے تھے کہ ملک عمر علی صاحب کی وفات ہو گئی تھی اور سب تعزیت کے لئے گئے ہوئے تھے.قادر کو جب کوئی گھر پر نہ ملا تو ”شادی“ والے گھر جانے کے لئے اپنی اچکن اور شلوار پہنی اور وہاں پہنچ گیا.اچکن کافی چمک د مک والی تھی.سب ہی اس بچگانہ دانشمندی پر مسکرا دیئے خاص طور پر اس کے چچا مرزا حمید احمد صاحب جو اسے بہت پیار کرتے تھے.بڑے ہونے تک جب بھی سامنے آتا تو کہتے.قادر اچکن نہیں پہنی؟ اور وہ خاموشی سے مسکرا دیتا.ایک دفعہ محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ نے کوئی واقعہ سُنا جس میں کسی بھائی نے اپنی بہن سے اچھا سلوک نہ کیا تھا.دل میں خوف سا آیا کہ ایسا نہ ہو اُن کے بیٹے بھی بہنوں سے بُرا سلوک کریں.بڑا بیٹا محمود ملک سے باہر تھا.قادر کو اپنے پاس بُلایا اور سمجھایا کہ بچے بہنوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں خاص طور پر چو چو کا نام لیا، جو اُس سے دس گیارہ سال بڑی تھی، کہ بیٹے کچھو چھو کو اپنی بیٹی سمجھنا.آٹھ نو سال کے قادر نے سنجیدگی سے بات سنی ، سمجھی اور سر جھکا کر کہا: ”اچھا“.ساری عمر اس بات کا خیال بھی رکھا اور بہنوں سے ذمہ دارانہ

Page 92

91 سلوک کیا.صاف ستھرا رہنا عادت میں شامل تھا.بی بی امتۃ الجمیل صاحبہ بتاتی ہیں کہ ہمارے گھر کے سامنے بچے کھیلا کرتے تھے.میاں غلام قادر تو ایسا لگتا تھا لانڈری سے نکل کر آیا ہے.قادر کے والد صاحب نے اُس کے بچپن کے متعلق بتایا کہ قادر کی طبیعت میں شرم بہت زیادہ تھی گو کہ مجھ سے زیادہ فری نہ ہوتا تھا مگر مجھ سے بہت محبت کرتا تھا البتہ اپنی والدہ سے زیادہ کھل کر بات کر لیتا.ایک بارمیں اپنی زمینوں پر کھیتوں پر جا رہا تھا کہ دو سانپوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا.میں طبعا سانپوں سے نہیں ڈرتا.اس لئے آرام سے چلتا رہا.قادر نے دیکھا تو مجھے آوازیں دینے لگا کہ آگے نہ جائیں اور پھر خود بھاگ کر میرے آگے آ کر کھڑا ہو گیا کہ ابا آپ اس طرف نہ جائیں.جب پہلی بار قرآن مکمل پڑھا اُن دنوں تحریک جدید کے کواٹرز میں رہتے تھے.تقریب آمین میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت شرکت فرمائی.

Page 93

92

Page 94

93 23 باب 4 ابتدائی تعلیم مثالی طالب علم ثانوی تعلیم پوسٹ گریجوایٹ جہاں تک ان کے علمی کوائف کا تعلق ہے.وہ ان کی ذہنی و علمی عظمت کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے.لیه جمعه فرمودہ حضرت خلیلة أسبع الرابع 16 اپریل 1999 ء)

Page 95

94 4 فضل عمر جونیئر ماڈل اسکول میں داخلہ یکم رمئی 1967ء تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں داخلہ...30 / اپریل 1972ء ایبٹ آباد اسکول میں داخلہ...میٹرک.$ 1974..$1978 $1980 * 1986..........ایف ایس سی انجینئر نگ یونیورسٹی لاہور سے.B.E.جارج میسن یونیورسٹی امریکہ سے MS..........1989ء

Page 96

Date of admission 1.5.67 گورنمنٹ فضل عمر جونیئر ماڈل اسکول ربوہ میں داخلے کا اندراج 199 GOVT.FARL-E-UNER GIRLS HEGH SCHOOL RABWAH ADMISSION AND WITHDRAW REGISTER No.5.student Name of the Date of Father's Name Conte Fathers Residence Date of Remarks birth Occupa withdraw tion.Ghulam Qadir 21.1.62 Mirza Majeed Ahmad Ahmad.Mughal Service Distt Jhang Rabwah 31.3.72 ابتدائی تعلیم قادر کی تعلیم کا آغاز فضل عمر جو نیئر ماڈل اسکول سے ہوا.اس اسکول میں ذریعہ تعلیم انگلش تھا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکز یہ ربوہ کے زیر اہتمام چلنے والا یہ اسکول ربوہ میں بہترین شمار ہوتا تھا.اسکول کے ریکارڈ کے مطابق آپ یکم رمئی 1967ء کو اسکول میں داخل کئے گئے.اس اسکول میں آپ نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی.Ambul Exage Dishad 95

Page 97

96 قادر کے بڑے بھائی محترم مرزا محمود احمد آپ کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں بتاتے ہیں.وو قادر مجھ سے عمر میں آٹھ سال چھوٹا تھا.بچپن میں اسے پیار سے کیکی کہا جاتا تھا.اور یار دوست مذاق سے میر تقی میر کی نسبت سے میر کی کی میں بھی کہہ لیتے تھے.محترمہ مسز عطیہ صاحبہ اور مسٹر صغریٰ صاحبہ، یہ دونوں ٹیچرز اسکول میں ہمیں پڑھاتی تھیں اور تقریباً ہم سبھی بہن بھائیوں کو گھر آ کر بھی پڑھاتی رہی ہیں.قادر کو قرآنِ کریم بھی مسز صغری نے ختم کروایا تھا.اسکول کو ہم یوں تو کنڈر گارڈن کی نسبت کے.جی اسکول کہتے تھے.لیکن اسکول کا اصل نام فضلِ عمر جونئیر ماڈل اسکول تھا.اسکول میں ٹیچر ز عموماً بچوں کے حساب سے تقسیم کی گئی تھیں یعنی بالکل ابتدائی کلاس پریپ وغیرہ کسی ایک ٹیچر کے ذمہ ہوتی تھی جو اس عمر کے بچوں کو سنبھالنا اچھی طرح جانتی تھیں.اس کے بعد اگلی دو کلاسز کسی اور متعلقہ ٹیچر کے ذمہ اور پھر چوتھی پانچویں کلاس قدرے زیادہ تجربہ کار اور اس عمر کے طلباء و طالبات کو کنٹرول کر لینے والی ٹیچر کے ذمہ کر دی جاتی تھیں.بعض اوقات یوں بھی ہوتا تھا کہ نرسری کہ بعد کوئی ایک ٹیچر ہی کلاس کو پانچویں تک پڑھاتیں جیسا کہ نرسری کے بعد قادر احمد بھی مسلسل پانچویں کلاس تک ایک ہی ٹیچر یعنی مسر حبیبہ مجید سے پڑھتے رہے.پانچویں کے بعد لڑ کے کسی اور اسکول میں داخلہ لے لیتے.قادر احمد شروع میں پڑھائی کی نسبت کھیل میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا اور پرائمری تک کرکٹ اس کا پسندیدہ کھیل تھا.“ پرائمری اسکول میں قادر کی ٹیچر محترمہ حبیبہ مجید صاحبہ نے اپنے تأثرات اس طرح بیان کئے ہیں.” مجھے سینکڑوں بچوں کو پڑھانے کا اتفاق ہوا ہے.بچے پھولوں کی

Page 98

97 قادر طرح ہوتے ہیں.ہر پھول کی اپنی خوشبو اور رنگت ہوتی ہے.مرزا غلام قو احمد چمن میں کھلے ہوئے اُس گلاب کی مانند تھا جو ہزار پھولوں میں اپنی منفرد خوشبو اور رنگت کی وجہ سے ممتاز ہوتا ہے.قادر کی معصومیت اور بھولے پین میں ایک نُور کی سی کیفیت تھی جیسے کوئی فرشتہ ہو.قادر میرے پاس فضل عمر اسکول میں پہلی سے پانچویں تک پڑھا ہے.اُن دنوں اسکول میں طریق تھا کہ ایک کلاس ایک اُستانی کو دے دی جاتی اور وہ نہ صرف سارے مضامین پڑھاتیں بلکہ بچے کی ذہنی، جسمانی، علمی اور دینی سب لحاظ سے نشوونما کی ذمہ داری ادا کرتیں.اس طرح بچوں سے بہت قریب ہونے کا موقع ملتا ہے.میرا کئی سالہ تجربہ ہے کہ پڑھنے والے طلباء کی عموماً دو قسمیں ہوتی ہیں.ایک وہ جو بہت محنت کر کے کامیاب ہوتے ہیں اور ایک وہ جو اپنی خداداد ذہنی صلاحیت کی بناء پر زیادہ محنت کئے بغیر ہی کامیاب ہو جاتے ہیں اور قادر اُنہی میں سے تھا یعنی اسے پرائمری میں بہت زیادہ محنت نہ کرنا پڑی تھی.یوں بھی اس عمر میں بچہ شعور کے پختہ نہ ہونے کے باعث فطری طور پر پڑھائی کی نسبت کھیل کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے.اس لئے میرا بھی یہی طریق ہوتا تھا کہ کھیل ہی کھیل میں بچے کو کام کی بات سکھا دیتی تھی.میرا اپنا یہ خیال ہے کہ قدرت نے قادر کو ذہن دیتے وقت کافی فراخدلی کا مظاہرہ کیا تھا.یہی وجہ تھی کہ جو بات یا سبق وہ ایک بارسُن لیتا فوراً حفظ کر لیتا جسے آپ اُس وقت ہی نہیں بلکہ بعد میں بھی سنیں تو وہ حرف بحرف سُنا دے.الحمد للہ کہ اب بھی میں تصور کی آنکھ سے اُس تجھے منے قادر کو دیکھ سکتی ہوں اور یقین سے کہتی ہوں کہ بعض اوقات جب میں نے کوئی سوال کلاس میں پوچھا تو سب سے بلند اور سب سے پہلے ہاتھ کھڑا کرنے والا قادر ہوتا تھا.گو کہ وہ بہت لائق سٹوڈنٹ نہ تھا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ کوئی نالائق

Page 99

98 طالب علم تھا بلکہ آپ اُسے درمیانے درجہ کا طالب علم کہہ سکتے ہیں.شرارت بھی کرتا تھا مگر حد ادب میں رہتے ہوئے دورانِ اسکول ایک بارمیں کسی کام سے ہیڈ مسٹریس کے کمرہ میں گئی اور مجھے وہاں کچھ دیر ہو گئی.جب میں واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ تمام سٹوڈنٹس ایک دوسرے کی قمیصیں پکڑے قطار میں ریل گاڑی کی طرز پر منہ سے آوازیں نکالتے ہوئے کلاس کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں اور سب سے آگے قادر تھا جو اُس وقت لیڈر بنا ہوا تھا.میں نے ہلکا سا ڈانٹا تو اُس نے بڑے ہی ادب سے معذرت کر لی.واقعتاً وہ اُستاد کو عزت سے نہیں بلکہ عقیدت سے دیکھتا تھا جو اُس کی آنکھوں سے جھلک جھلک پڑتی تھی.“ قادر کے ایک قریبی عزیز اور کلاس فیلو مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب بچپن کی حسین یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں.” میں نے اور قادر نے نرسری سے ساتھ پڑھنا شروع کیا.اُن سے متعلق پہلی یاد ذہن میں کون سی ہے، یہ کہنا بہت مشکل ہے البتہ ذہن میں مہم سا خاکہ ہے کہ ایک گورے رنگ کا خوش شکل لڑکا جو تھوڑا سا تتلاتا بھی تھا.وہ قادر تھا.اُن دنوں ان کا گھرانہ انجمن کے گھر میں رہتا تھا.جہاں پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رہتے تھے.ہم لوگ برابر میں اپنے دادا حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے گھر میں رہتے تھے.درمیان میں ایک دیوار تھی کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اُس نے دیوار پر چڑھ کر مجھے آواز دی تو تلا ہٹ کے باعث سلطان اس طرح لگتا کہ شیطان سنائی دیتا اور سب ہم پر ہنسنے لگتے.اُن دنوں قادر کو قادر نہیں کہا جاتا تھا بلکہ پیار سے کی کی، کہا کرتے

Page 100

99 تھے.ایبٹ آباد اسکول میں جانے تک اُن کا یہ نام برقرار رہا.ہم سب فضل عمر جونئیر ماڈل اسکول میں پڑھا کرتے تھے.ویسے پڑھنے کا تو فقط نام ہی تھا صرف اسکول جایا کرتے تھے.نرسری میں مس صفیہ رانجھا ہمیں پڑھایا کرتی تھیں اور پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک سوائے اسلامیات کے سب مضامین مسز حبیبہ مجید پڑھاتی تھیں.اسکول کی ہیڈ مسٹرلیں مسٹر قدیر ارشاد تھیں.ان ہیڈ مسٹریس کا ایک لوہے کا Ruler بہت مشہور تھا جس کے متعلق سب کہا کرتے تھے کہ اس سے شریر طلباء کو سزا دی جاتی ہے.ہم نے تو اس کی زیارت کبھی نہ کی.بہرحال اس افسانوی Ruler کا رُعب پورے اسکول پر تھا.اُس وقت ہمارے خاندان کی پانچ لڑکیاں اور تین لڑ کے اس کلاس میں پڑھ رہے تھے.شام کو ہم کرکٹ کھیلتے تھے.کبھی اسکول کے سامنے کی گراؤنڈ میں اور کبھی کسی اور گراؤنڈ میں.اپنے سے ایک سال چھوٹی کلاس سے کبھی کبھی میچ بھی ہوا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ میچوں کے اس سلسلہ میں ہم پہلا میچ ہار گئے تھے جس کا ہمیں بہت شدید صدمہ ہوا تھا.لیکن بعد میں کچھ میچ جیت کر ہم نے حساب برابر کر دیا تھا.قادر کافی دیچیپسی پیپسی سے کرکٹ کھیلا کرتا تھا اور پرائمری اسکول میں درمیانے درجہ کا طالب علم تھا لیکن کا پیاں بڑے قرینے سے صاف ستھری رکھا کرتا تھا اور ہینڈ رائیٹنگ بھی بہت اچھی تھی.کلاس میں ہمارے دوستوں میں معین محمد شاہد اور ظفر احمد پاشا بھی تھے.اُن دنوں قادر اور معین دونوں ائیر فورس میں جانا چاہتے تھے اور میرا ارادہ ڈاکٹر بننے کا تھا.مجھے یاد ہے کہ جب راشد منہاس شہید کی شہادت ہوئی اور انہیں نشانِ حیدر دیا گیا تو ہم بچوں میں اس واقعہ پر بہت جوش و خروش پایا جاتا تھا.بچوں کا ذہن جس طرح اس واقعہ کو سمجھ سکتا تھا اُس کے مطابق ہم اُن

Page 101

100 دنوں اکثر آپس میں اسی کے متعلق بات کیا کرتے تھے.پھر 1971ء کی جنگ کی ابتداء پر ہمارے گروپ کے لڑکوں میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی تھی.قادر نے اپنے ہاتھ سے ایک چھوٹا سا پوسٹر بنا کر اپنے گھر کے باہر لگایا تھا جس پر سبز رنگ سے Crush India لکھا ہوا تھا.خیر جب نتیجہ اُمیدوں کے برعکس نکلا تو پورا ملک صدمے میں تھا.ہم بچوں کا ذہن اس سانحے کو سمجھنے اور برداشت کرنے سے قاصر تھا.لیکن پھر حالات نے ایک اور رُخ بدلا اور وہ یہ کہ بھٹو صاحب نے وطن واپس آ کر جوشیلی تقریروں کا سلسلہ شروع کیا تو ہم ان دنوں بڑے غور سے انہیں سنتے تھے اور اگلے دن اپنے بچپن کے ذہن کے مطابق ان پر بحث بھی کرتے.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ہم اسکول میں اپنے ذہنی اور علمی معیار کے مطابق کسی تقریر کے متعلق بات کر رہے تھے.ہیڈ مسٹر لیں صاحبہ کو اندر ہماری سیاسی بحث کی آوازیں جا رہی تھیں.وہ باہر نکل کر کہنے لگیں ”آپ کو تقریر خوب یاد ہوئی ہے.“ اسی طرح کچھ تفریح، کچھ پڑھائی میں پرائمری اسکول کے سال گزر گئے اور پتہ بھی نہ لگا.فضل عمر اسکول میں ہماری ایک الوداعی دعوت ہوئی جس میں ایک کھیل بھی تھا.اس میں ہر ایک کے نام ایک پرچی نکلتی تھی جس میں بتائی گئی فرمائش کو پورا کرنا پڑتا تھا اور جس کی آخر تک باری نہیں آتی تھی، اُسے ایک انعام ملتا تھا اور یہ انعام قادر کے نام نکلا تھا.جو کہ ایک ٹینس بال تھا.پانچویں سے نکل کر ہم تعلیم الاسلام ہائی اسکول پہنچے.کیونکہ لڑکوں کے لئے اُس وقت ربوہ میں اس کے علاوہ کوئی اور اچھا معیاری اسکول نہ تھا.یہاں کا ماحول بالکل نیا اور مختلف تھا.ہمارا سیکشن ڈی تھا.غالباً اُنہی دنوں ہمارے کزن سیّد مدقر احمد بھی کراچی سے ربوہ آ گئے

Page 102

101 اور ہمارے کلاس فیلو بن گئے.چھٹی جماعت تو ہم نے ٹاٹوں پہ بیٹھ کے گزاری.ہماری تعلیمی حالت اور اسکول کا معیار دونوں کافی مطابقت رکھتے تھے.یعنی دونوں کی حالت غیر تسلی بخش تھی.انہی دنوں میں قادر کچھ عرصہ کے لئے مدرسۃ الحفظ میں داخل ہو گیا تا کہ قرآن کریم حفظ کر سکے لیکن جلد ہی واپس آ گیا.جہاں تک مجھے یاد ہے اس نے ایک سیپارہ حفظ کیا تھا جو آخری سیپارہ تھا.اُن دنوں نصابی سرگرمیوں سے زیادہ زور غیر نصابی سرگرمیوں پر ہوتا تھا.مجھے خوب یاد ہے جب سالا نہ گھوڑ مروڑ ہوتی تو ہم میں ایک عجیب سا ولولہ پیدا ہو جاتا.اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے درجات بلند کرے کہ جنہوں نے لڑکوں میں مردانہ شوق پیدا کرنے کے لئے بہت سی سہولیات فراہم کر رکھی تھیں.ہم بعض دفعہ شام کو گھوڑ سواری کے لئے قصرِ خلافت چلے جاتے تھے.جہاں نہ صرف یہ کہ حضور بنفس نفیس خود جلوہ افروز ہوتے بلکہ بعض دیگر بزرگان سلسلہ بھی تشریف لاتے تھے.عجب رونق کا سماں ہوتا تھا.قادر بھی وہاں آتے تھے.بچے سواری تو کم ہی کیا کرتے تھے.جھولوں پر جا کر زیادہ کھیلتے تھے.جب گھوڑ دوڑ شروع ہوتی تو ہم دیکھنے جاتے.نیزہ بازی کا مقابلہ بے حد شوق سے دیکھا جاتا تھا اور حضرت صاحب کا گھوڑا اشقر سب سے زیادہ مقبول تھا.گھوڑ دوڑ ختم ہونے پر ہم بچپن کے ذوق اور طاقت کے اعتبار سے نیزہ بازی کا متبادل ڈھونڈ لیتے اور وہ یہ تھا کہ سائیکل پر نیزہ بازی شروع کر دیتے.“ گورنمنٹ تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ کے ریکارڈ کے مطابق قادر نے 30 اپریل 1972ء کو چھٹی کلاس میں داخلہ لیا.13 اپریل 1974ء کو کلاس ہشتم میں اس اسکول کو خیر باد کہا.

Page 103

گورنمنٹ تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ میں داخلے کا اندراج 4 1974 تقل رجسٹر داخل و خارج گورنست تعلیم علم ہائی سکول دوده مردم میں داخل تاریخ اتقوا الله وزمه 4 نجر الله نام طالب علم 5801 30 مرزا غلام قادر راند ریخ پیدائش وندیت الکسیس جنوری باسٹھ فردا مجید احمد مغل داخل میرا Headmester, au Govt; T, I, High Schoo RABWAB 22/9.80 21-1-1962 1972 102

Page 104

103 ایبٹ آباد اسکول میں داخلہ : ایبٹ آباد کا پبلک اسکول ملک کے اعلیٰ ترین اسکولوں میں شمار ہوتا ہے.یہ ایک Residential Institution ہے.قادر کے بڑے بھائی مرزا محمود احمد صاحب اس اسکول میں داخلے کے بارے میں بتاتے ہیں.میں اور مجھ سے بڑی میری بہن نصرت جہاں، اسکول میں کافی لائق ہوا کرتے تھے باقی بہنیں بھی پڑھائی میں اچھی تھیں.لیکن قادر کی شروع میں اس بارے میں دلچسپی ذرا کم ہی ہوتی تھی.قادر جب ایبٹ آباد پبلک اسکول داخل ہونے کے لئے آیا تو میں اس وقت وہاں سے رُخصت ہو رہا تھا یعنی میری ایف ایس سی کے دوسرے سال کے محض چند دن باقی تھے.یوں کہیے کہ میں نے صرف اُس کو Receive ہی کیا تھا.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے پیارے سے بھائی کو اسکول میں گھوم پھر کر تعارف میں نے ہی کروایا تھا.فوج کی طرح اسکول میں یہ طریق رائج تھا کہ صبح تڑکے ہی اُس کمرے کا دروازہ زور سے پیٹا جاتا تھا کہ جہاں کوئی ابھی تک سویا ہوا ہو.چھوٹی چھوٹی عمروں کے بچے جیسے تیسے آنکھیں ملتے اُٹھتے تھے اور پی ٹی ماسٹر باقاعدہ فزیکل ٹرینگ کرواتا تھا.ایسے موقعوں پر Senior prefect بھی نئے آنے والے بچوں پر خواہ مخواہ کا رُعب یوں جھاڑتا کہ جیسے وہ یہاں کا پھنے خاں ہو.یعنی ٹھڈا مار کے لائن میں کھڑے ہوئے کسی بچے کو کہتا کہ تم نے آج ٹوٹ پالش نہیں کئے.یا تم نے آج منہ نہیں دھو یا وغیرہ وغیرہ.اس لحاظ سے میں اپنے بھائی کے لئے فکر مند بھی تھا کہ اتنا چھوٹا سا تو ہے.گھر سے اتنی دور کیسے رہے گا؟ اس نے اس طرح کی سختیاں تو کجا کبھی کوئی سخت ڈانٹ بھی نہ

Page 105

104 سنی تھی.میں نے چونکہ ایبٹ آباد پبلک اسکول میں نویں کلاس میں داخلہ لیا تھا.اس لئے مجھے زیادہ پریشانی نہ اٹھانی پڑی تھی.لیکن قادر ابھی بہت معصوم سا تھا.مگر سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے یہ بات کسی کے علم میں نہ تھی کہ یہی ٹریننگ ایک دن آنے والے وقت میں اس کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو گی.ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے قادر کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں سے بڑا انصاف کیا ہے.کافی تفصیل سے لکھا ہے اور انداز تحریر میں لڑکپن جیسی شوخی نے جان ڈال دی ہے.چھٹی ساتویں میں ہماری تعلیمی حالت اتنی گر چکی تھی کہ ہمیں ربوہ سے باہر کسی اسکول میں داخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا.پہلا انتخاب کیڈٹ کالج حسن ابدال تھا.مدثر کے والد محترم سید احمد ناصر صاحب مدثر، قادر اور مجھے ساتھ لے کر لاہور آ گئے.وہاں سے ہمارے خاندان کے چوتھے لڑکے سیّد ہاشم اکبر بھی شامل ہو گئے.داخلے کا امتحان دے کر سب کا اندازہ تھا کہ %70 نمبر تو کہیں نہیں گئے بلکہ اوپر ہی آئیں گے.بہت خراب طالب علم کی پہلی نشانی یہی ہوتی ہے کہ امتحان دینے کے بعد بھی اُسے احساس نہیں ہوتا کہ اچھی کارکردگی دکھا کر نہیں آیا ہے.ہمارا بھی یہی حال تھا.دعویٰ بہت اونچا تھا مگر نتیجہ آیا تو چاروں ہی ناکام قرار دیے گئے.اگلا انتخاب ایبٹ آباد پبلک اسکول تھا.اس میں داخلے کا امتحان سینٹرل ماڈل اسکول لاہور میں ہوا.اس دفعہ میرے والد صاحب ہمیں لے کر گئے.جب ہم قادر کو لے کر اُس کے گھر سے نکل رہے تھے تو قادر کے والد صاحب میری دادی جان سے کہنے لگے.آپا جان ان کے لئے دُعا کریں کیونکہ پنجاب کے آدھے اسکولوں میں تو یہ کوشش کر چکے ہیں.“

Page 106

105 خیر یہ تو ایک مذاق تھا ورنہ یہ ہماری دوسری کوشش تھی اس دفعہ صرف قادر نے اور میں نے ٹیسٹ دیا تھا اور ہم دونوں کو داخلے کے لئے منتخب کر لیا گیا تھا.حُسنِ اتفاق یہ ہوا کے ہماری کارکردگی سے زیادہ درخواست دہندگان کی قلت کام آ گئی.تعلیم شروع ہوئی تو سب کچھ انگلش میں تھا.خاک بھی پلے نہ پڑتا.پھر مدثر کو بھی داخلہ مل گیا.ہم لیاقت ہاؤس میں تھے.میں اور قادر کمرہ نمبر 10 میں اور مدثر کمرہ نمبر گیارہ میں رہتے تھے.اچھی بات یہ تھی کہ شام کو کھیلنا لازمی تھا.قادر کھیل میں بہت دلچسپی لیتا تھا.“ قادر کے کزن اور اسکول کے ساتھی سید مدثر احمد تحریر کرتے ہیں:.اسکول کا ماحول بہت اچھا تھا.معیار بہت اونچا تھا اور اگر کہا جائے کہ ایسے زبر دست تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے کے باعث قادر ایک ذہین اور محنتی طالب علم کے طور پر اُبھرا.تو شاید بے جا نہ ہو.اسکول کی دو بلڈنگز تھیں.ہاوسز سے مُراد گروپس تھے.کل چھ ہاؤس تھے.جن کے نام مشہور قومی شخصیات کے نام پر رکھے گئے تھے.یعنی لیاقت، اقبال، جناح، سرسید، نشتر اور رحمان جو کہ پرنسپل صاحب کا نام تھا.ہفتہ میں ایک بار دھوبی یونیفارم وغیرہ دھونے کے لئے لے جایا کرتا تھا.باقی کپڑے تمام طلباء خود ہی اتوار یعنی چھٹی والے دن دھویا کرتے تھے.چھٹی کا دن ٹی وی (TV) دیکھ کر یا کوئی میچ دیکھ کر گزارا جاتا اور اپنے سبھی Pending کام بھی اسی دن نپٹانے ہوتے تھے.کھانا میس (Mess) میں ملتا تھا جس کے لئے وقت مخصوص ہوتا.اسی طرح اتوار کے علاوہ دیگر دنوں میں بھی رات نو بجے کمرے کی لائٹیں بند کرنا پڑتی تھیں اور اس وقت کے بعد کوئی ٹی وی (TV) وغیرہ بھی نہ دیکھ سکتا تھا.یہ سب کچھ ڈسپلن کا حصہ تھا کہ جلدی سویا جائے

Page 107

106 تا کہ صبح جلدی اُٹھا جائے.“ ہوٹل سے ایک معصوم خط : ربوہ کا ماحول ماں کی گود کی طرح پُر سکون اور آرام دہ ہوتا ہے.گھر سے کچھ فاصلے پر اسکول، مانوس فضا، دوست ساتھی کلاس فیلو جاننے والے، پڑھانے والے بھی شفیق مہربان پتہ ہی نہیں چلتا اور وقت گزر جاتا ہے.مگر جب دوسرے شہر میں داخل ہوں اور ہاسٹل میں رہنا ہو تو بالکل مختلف تجربہ ہوتا ہے.قادر کے لئے یہ آسانی تھی کہ سگا بھائی اور کزن اُس اسکول میں زیر تعلیم تھے تا ہم ننھے سے ذہن پر کیا گزری اسکول میں داخلے کے چند دن بعد لکھے ہوئے امی کے نام خط سے صاف ظاہر ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم 19-4-74 پیاری امّی میں یہاں بالکل خیریت سے ہوں.اُمید ہے کہ آپ بھی ربوہ میں خیریت سے ہوں گی.میرا یہاں کافی دل لگ گیا ہے.اس لئے کچھ دیر سے خط لکھ رہا ہوں.آج ہماری کلاس لگی تھی لیکن پڑھائی نہیں ہوئی.کیونکہ ابھی کتابیں وغیرہ نہیں لی تھیں.میں نشتر ہاؤس میں نہیں ہوں گا.سلطان بھی نہیں ہو گا.ہم حیات ہاؤس میں ہوئے ہیں.بھائی مودی بھی بالکل ٹھیک ہیں.انہوں نے گنج کروائی ہوئی ہے.تا کہ آرام سے پڑھ سکیں اور وہ 23 یا 24 کو شاید کچھ دنوں کے لئے ربوہ آئیں گے.یہاں کچھ ابھی شرم آ رہی ہے.اس لئے لمبا خط نہیں لکھ رہا.وہ بعد میں ہی لکھوں گا.بھائی مودی نے اسکول کے کچھ اُصول وغیرہ بتا دیے ہیں.اس لئے کچھ آرام ہو گیا ہے.

Page 108

107 میری جو نیلی نیکر میں تھیں وہ ٹھیک نہیں تھیں، نئی بنوانی پڑیں گی.اس چیز کی فکر نہ کریں کہ میں نمازیں وغیرہ نہیں پڑھتا.نماز وغیرہ پڑھتے ہیں.سلطان بھی بالکل ٹھیک ہے.الفضل اور تفخیذ کا انتظام کروا دیں کیونکہ یہاں الفضل نہیں آتا.میں یہاں روتا نہیں.کیونکہ دل بہت لگا ہوا ہے.ابا کو سلام کہیں اور سیمیں ، فائزہ کو بھی سلام کہیں.والسلام قادر احمد میرا پتہ لیاقت ہاؤس، ایبٹ آباد پبلک اسکول، ایبٹ آباد.اس خط کے آخری جملے کو دوبارہ پڑھیں.کوئی بھی صاحب دل اس سادہ دل بچے کی آنکھوں سے بے اختیار بننے والے آنسوؤں کی نمی محسوس کر سکتا ہے.یہ امر بھی قابلِ تحسین ہے کہ بچے کو جماعت سے کس قدر وابستگی تھی.تفخیذ کی حد تک تو کہہ سکتے ہیں کہ بچپن میں کہانیوں سے دلچسپی ہوتی ہے.مگر الفضل کی ضرورت ہونا بڑی بات ہے.ہم میں سے کتنوں کے بچے اس عمر میں الفضل سے اس قدر وابستہ ہیں کہ پہلے خط میں تنفیذ کے ساتھ 'الفضل' کا مطالبہ کر دیں.اسی طرح ایک خط میں لکھا.وو چچا حضور اور بڑی امی کو دُعا کے لئے کہہ دیں کہ یہاں اچھی پوزیشن حاصل کروں اور ہاسٹل میں صحیح طرح رہنے کی توفیق عطا ہو.“ انہیں پورا احساس تھا کہ خاندان اور ماں باپ کے لئے بد نامی کا باعث نہ بنوں اور اس کے لئے دُعا سے کام لیتے تھے جو اس عمر کے بچے کے لئے غیر معمولی بات ہے.ایک خط میں لکھا.

Page 109

108 پیاری اُتی بسم الله الترفين الرحیم عمان بلکل قیرت سے ہوں امید ہے کہ اب میں یہاں پور میں جرت گیا ہے اُسی لیئے ہوں کی میرا یہاں کافی مل سکے کو خط لکھ رہا ہوں..دیر سے آج ہماری کلاس تھی لیکن پڑھائی نہیں ہوئی کیونکہ کیونکہ اچھی کتابی چرہ نہیں لی تھی ہاؤس ہی نہیں ہو گا سلطان بھی نہیں ہوا بلکے یم نباشه ہاؤس اس ہوئے ہیں بہائی موری بھی بالکل ٹھیک ہے اُنہوں نے گنج کروائی ہوئی ہے تا کہ آرام سے ف پڑھ سکی لئیے ابوه اور وہ 23 یا 20 کو کچھ دنوں کے آئیں گے.یہاں کچھ ابھی شرم آرہی ہے اسلئے لمبا خط نہیں بلا رہا ہے وہ سائی بعد میں لکھوں موری نے سکول کے کچھ اصول و تمر کچھ آرام ، ہولی ہے میری جو نیلی 2 ; نگری تہیں وہ ٹھیک نہیں تھی نئی بنوانی پڑیں گی.اس چیز کی فکر نہ کریں کے میں نمازیں وغیرہ نہیں پڑھتے نماز وتر پڑھتے ہیں سلطان بھی بلکل.یہی الفعل محشر کا انتظام کرنا ہیں کیونکہ یہاں المال نہیں آتا.میں یہاں ہوتا نہیں کیونکہ دل بہت تکا ہوا ہے آیا کو سلام کی اُسی بابی بچی تھے فائدہ کو بھی سلام کہیں کو ستان مارو احمد غلام قادر احمد کے ہاتھ کا لکھا ہوا اصل خط

Page 110

109 دو چچا طاہر سے کہہ دیں میں مجلس کا چندہ وغیرہ یہیں پر دے دیتا ہوں.“ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ چا طاہر سے بچے کا رابطہ ہو گا اور قیمتی نصیحتیں ساتھ لے کر گئے ہوں گے.جس کے نتیجے میں بچپن سے شوق سے چندہ دینے کی عادت ہو گئی.الفضل اور تشخیز کا مطالعہ کرنے کے لئے دوسرے احمدی بچے آپ کے کمرے میں آتے رہتے.یہ پرچے جماعتی خبروں کے حصول اور رابطے کا ذریعہ تھے.خُدام اور اطفال کا اجلاس بھی ہوتا.قادر نے ستارہ اطفال کا امتحان بھی دیا تھا.مطاق کھلاڑی: قادر پھر تیلے جسم کے چُست اور متحرک رہنے والے بچے تھے.پرائمری اسکول میں پڑھائی کے ساتھ بلکہ کچھ زیادہ کرکٹ کھیلنے سے دلچسپی تھی.اسکول کے ساتھ ایک قطعہ زمین خالی تھا.یہی گراؤنڈ ہوتا اور خوب کرکٹ ہوتی.اس کھیل میں دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ ہائی اسکول کے ابتدائی زمانے میں با قاعدہ ایک کرکٹ کلب قائم ہو گیا.سیّد جونیئر کرکٹ کلب، اس کلب کی ممبر شپ، فنڈز، آمد و خرچ کا حساب، ضروریات کا جائزہ یہ سب فرائض کپتان کے ذقتے تھے.ایک ایک پائی کا لکھ کر حساب رکھا گیا تھا.قادر کے بچپن کی ڈائری ملی ہے.جس سے پتہ چلتا ہے کہ معصوم قادر نے اس ذمہ داری کو خوب نبھایا.اُس زمانے کے دوستوں کے نام بھی ریکارڈ پر آ گئے.جیب خرچ کے حساب سے والدین کی تربیت کا انداز بھی سامنے آ گیا.جیب خرچ دیا گیا مگر حساب رکھنے کو بھی کہا گیا تا کہ ذمہ داری کا احساس پیدا ہو.بچپن کی ڈائری کے چند اوراق بہت کچھ اپنے اندر رکھتے ہیں.

Page 111

110 قادر صاحب کے بچپن کی ڈائری کے چند اوراق : سامان کرکٹ ہے.یلے پیش و تزیمت 2 3 2 بیماران رکن ہونا چاہیے.یلئے چربی والے.ایک بلا عام بول لئے 3 پیڑ وکی بول کرکٹ کیان فرا فر اعلام کا اله 3 z 4 2 کرکٹ چندہ جنوری کے چنده فرز اغلام قادر چندہ - ظفر احمد چھوری - " " - معین محمد شاہو.مین محمد شاید - " مرزا سلطان احمد احمد در بند مدت 21 ا.انوریفی -- - 10 ہے.کل ٹر ۹ S.j.cricket club جنده رفیق الله موقر أعمال

Page 112

- 2 15 16 8 5 0 50 1 2 58-62 1 - رہے لار کا دوہے بیٹ چربی 111 دیے توں 17 جنوری 11933 J.Cricket club.کل چیزا منه سید مدثر 38-8 1 ° 178 98 - 60 1973 مدیر اکمل 3) رفيق الله 4) ظفر چسودی 15 معين کا انور سیفی د متين ها سلطان و میر احمد طاہر " اکتوبر 1973ء روپے اکتوبر پاکٹ مانی ملی 200 تو بر پوکمانی ملی : 13.1 تفصيل عربی کی کاپچاپی و سکول کے کر گیا 10.00 پیسے روپے 50 1 50 15 ڈور اور کندیاں میں 169 25+2 سیکل ٹھیک کرایا 75 150 250 737 قبل بیانگر کا سکون نے کر گیا 13-00 · 25

Page 113

112 پرائمری تعلیم تک تو قادر کے جو ہر کھل کر سامنے نہیں آئے تھے.مگر ہائی اسکول میں اچھے طالب علم اور ملنسار طبیعت کے علاوہ اچھے کھلاڑی کی حیثیت سے بھی نظروں میں آنے لگے.ایبٹ آباد اسکول میں کھیلیوں کا نظام بھی اچھا تھا.قادر نے کیرم اور ٹینس خوب کھیلی.مگر فٹ بال کے کھلاڑی کی حیثیت سے خوب مانے گئے.شروع میں اسکول کی ٹیم میں شامل رہے پھر کپتان بنا دیئے گئے اور Best football player سرٹیفیکیٹ بھی لیا.اسکول کی طرف سے.N.C.C ( نیشنل کیڈٹ کورس) میں حصہ بھی لیا.قادر اچھے تیراک تھے.سائیکل مہارت سے چلاتے.ایک دفعہ لاہور سے ایبٹ آباد کا سفر سائیکل پر کیا.

Page 114

Abbottabad Public School **************************************** ایبٹ آباد اسکول کا میرٹ سرٹیفیکیٹ *** Abbottabad Certificate of Merit 1980 Ghulam NAME EVENT Best Football player.POSITION_ 1.год.Забрасета VICE PRINCIPAL **************************************** сто Бимір PRINCIPAL 113

Page 115

114 1974ء کے مخالفانہ ابتلاء میں معصوم بچوں کا تاثر: ربوہ کے محفوظ ماحول میں رہتے ہوئے اندازہ نہیں ہوتا کہ ہمارے طالب علموں کو مخالفت کی ناسازگار ہواؤں کا کس طرح سامنا کرنا پڑتا ہے.1974ء کے ابتلاء میں نو عمر طالبعلموں پر گھر سے باہر کیا گزری.قادر تو بتانے کے لئے نہیں رہے البتہ ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنے تاثرات بیان کئے ہیں.ا بھی ٹرم ختم نہیں ہوئی تھی کہ 1974 ء کے فسادات شروع ہو گئے.اخبار تھے کہ احمدیوں کے خلاف بیان بازی سے بھرے ہوئے.جس کو دیکھو زہر اُگل رہا تھا.ہر ایک کو ملک میں یہ فکر کہ میں اس زہر افشانی میں پیچھے نہ رہ جاؤں.ہم تینوں بچے جن کی عمریں اُس وقت گیارہ (11) بارہ (12) سال تھیں وہاں پر اکیلے تھے.ایبٹ آباد میں بھی احمدیوں کی املاک کو آگ لگائی گئی تھی.ہمیں اسکول سے دھواں اُٹھتا دکھائی دے رہا تھا.کچھ لڑکوں کی نظریں بدلیں.لیکن اساتذہ کا برتاؤ ہم سے بہت اچھا تھا.اس لئے ہمیں کسی نا خوشگوار واقعہ کا سامنا نہ کرنا پڑا.ایک دن ہمارا انگلش کا لیکچر ہو رہا تھا.کہ لڑکوں کی جوشیلی آواز میں سنائی دیں.سرکلر ہماری کلاس میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ہنگاموں کی وجہ سے چھٹیاں شروع ہو گئی ہیں.اور اسکول بند کیا جا رہا ہے.بچوں میں عقل ہی کتنی ہوتی ہے.ہم بھی بہت خوش ہوئے.یہاں تک کہ ہاسٹل پہنچ کر میں اور قادر جوش میں گلے ملے.گھر جانے کی خوشی جو تھی.یہ علم نہ تھا کہ اسکول کے محفوظ ماحول سے باہر احمد یوں پر کس کس طرح سے قیامت ڈھائی جا رہی ہے.ہم رات کو کامن روم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ پرنسپل صاحب وہاں آ

Page 116

115 گئے اور ہمارے ہاؤس ماسٹر بشارت احمد صاحب سے یہ بات کرنے لگے کہ ہمیں بحفاظت یہاں سے کس طرح نکالا جائے.فیصلہ ہوا کہ ہمارے ایک اُستاد اشفاق احمد صاحب ہمیں اپنے ساتھ لے جا کر لاہور میں ہمارے رشتہ دار نواب عباس احمد خان صاحب کے گھر پہنچا دیں گے.چنانچہ ہم اُن کے ساتھ روانہ ہوئے اور ویگن میں ایبٹ آباد سے راولپنڈی اور پھر وہاں سے لاہور گئے.اشفاق صاحب بہت نفیس طبیعت کے باذوق انسان تھے.ہمارا خوب دل لگاتے رہے.راستے میں آئس کریم کھانے کے لئے رُکے تو قادر نے اصرار کیا کہ ہل وہ دے گا.مجھے یاد ہے کہ اشفاق صاحب نے آہستہ سے کہا تھا کہ اچھا لڑکا ھے“..اللہ اللہ کر کے لاہور پہنچے.یہاں آ کر کچھ احساس پیدا ہوا کہ حالات کتنے خراب ہیں.جس دن ہم پہنچے اُسی دن وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ٹی وی پر تقریر کی تھی.اور موضوع وہی سو سالہ پرانا مسئلہ.جیسے ملک میں اور کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں.غالباً اگلے روز ہی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب لاہور سے واپس ربوہ جا رہے تھے.ہمیں اُن کے ساتھ بٹھا کر گھر واپس بھجوایا گیا.راستے میں شیخوپورہ میں چوہدری انور حسین صاحب کے گھر ٹھہرے.جب سب کے سامنے کوکا کولا پیش کی گئی تو میاں منصور صاحب نے بوتل پکڑ لی.پھر فرمایا میں تو پیتا نہیں، غلطی سے پکڑ لی ہے.چوہدری انورحسین صاحب نے برجستہ کہا کہ پھر غلطی سے پی بھی لیں.بہر حال آخر کار ربوہ پہنچے، گھر والوں سے ملے.ماحول بدلا ہوا تھا.جگہ جگہ سے کٹ کر احمدی ربوہ آئے ہوئے تھے.پورا ملک فسادات کی لپیٹ میں تھا.پہنچنے کے بعد حضرت خلیفہ اصیح الثالث کی خدمت میں حاضر ہوئے.

Page 117

116 حضور اقدس پرانے قصر خلافت کے ایک لمبے سے بر آمدے میں تشریف فرما تھے.وہی ہشاش بشاش چہرہ ، وہی مسکراہٹ.قطعاً یہ تاثر نہیں ملتا تھا کہ آپ ایک سنگین بحران میں جماعت کی قیادت فرما رہے ہیں اور خود بہت سے بد خواہوں کا ارادہ آپ کی ذات کو بھی نشانہ بنانے کا ہے.میں اور قادر روزانہ ایک لمبے عرصہ تک اُس بر آمدے میں حاضر ہوتے تھے.مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی حضور کو فکر مند دیکھا ہو یا یہ تاثر ہی ملتا ہو کہ آپ بہت مصروف ہیں.آپ خاندان والوں میں اُسی اعتماد اور خوش دلی سے تشریف فرما ہوتے تھے.مجھے یاد ہے جب ہم ایبٹ آباد سے آنے کے بعد آپ کی خدمت میں پیش ہوئے تو آپ نے مسکرا کر فرمایا.تشریف لے آئے آپ !“ پھر میرے والدین کا نام لے کر از راہ مذاق فرمانے لگے کہ بچوں کو پھینک دیا ہے کہ ربوہ میں پڑھائی اچھی نہیں ہوتی.اساتذہ کی طرف سے قائدانہ صلاحتیوں کا اعتراف: قادر صاحب اپنی کلاس میں Senior prefect بھی رہے.Prefect اور Senior prefect جیسا کہ نام سے ظاہر ہے دو علیحدہ علیحدہ عہدے ہیں.Senior prefect اعلیٰ عہدہ شمار ہوتا تھا.یہ عہدہ نہ صرف یہ کہ سب سے اچھے اور ہونہار طالب علم کو ملتا تھا بلکہ یہ عہدہ دیتے وقت دیکھا جاتا تھا کہ کون سا طالب علم تعلیمی لحاظ سے سب سے آگے ہے، کھیلوں میں سب سے اچھا ہے.نیز دوسروں طلباء پر اُس کا اثر کس طرح کا ہے.کیا اُس میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں؟ اور سب سے اہم یہ کہ اساتذہ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ یہ سب باتیں Senior prefect بناتے وقت مد نظر رکھی جاتی تھیں.زمانہ طالب علمی میں اساتذہ کی طرف سے قادر کو

Page 118

117 Senior prefect بنانا بالفاظ دیگر اُس کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف تھا.اسکول کے زمانے کا دلچسپ واقعہ : قادر کی امی جان نے بتایا کہ ایک دفعہ چھٹیوں میں گھر آیا تو مجھے ایک شار پنر (Sharpner) دکھایا کہ میں نے جنرل اسٹور سے کچھ چیزیں لی تھیں.یہ شار پنر میری چیزوں کے ساتھ آ گیا ہے مگر اس کی قیمت بل میں نہیں لگی.اُس وقت کوئی بارہ یا تیرہ سال کا ہو گا اور شار پنر کی قیمت شاید آٹھ آنے ہو.مگر اس کے دل میں اس چھوٹی عمر میں بھی کھٹک تھی.حالانکہ قصور اس کا نہ تھا دکاندار کی غلطی تھی.میں نے کہا کہ سنبھال کر رکھ لو جب جاؤ گے اُسے واپس کر دینا یا قیمت ادا کر دینا.سچائی اور جرات کی مثال: ایک دفعہ کسی ٹیسٹ کے دوران اُستاد کو شک گزرا کہ ایک طالب علم نقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے.اسکول کے قوانین اس معاملہ میں بہت سخت تھے.نقل کی اسکول سے نکال دینے کی حد تک سزا ملتی تھی.اُستاد نے اپنے شک کی دیگر طلباء سے تصدیق کرنا چاہی مگر غالباً اس طالب علم کے کسی بڑی فیملی سے متعلق ہونے کی وجہ سے طلباء نے سچ بتانے سے گریز کیا.قادر کچھ دیر تو خاموش رہے مگر جب کسی نے سچ کہنے کی جرات نہ کی تو دلیری سے اُٹھ کر ٹیچر کو بتایا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے یہ نقل کر رہا تھا.میٹرک میں شاندار کامیابی ایف ایس سی میں بورڈ میں پوزیشن: قادر کا شمار ان بیٹوں میں ہوتا تھا کہ جن پر والدین ہمیشہ ناز کریں

Page 119

118 قادر نے اپریل 1978ء میں ایبٹ آباد پبلک اسکول سے جو بورڈ آف انٹرمیڈیٹ پشاور کے تحت تھا رول نمبر 33540 کے تحت سولہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان سائنس کے مضامین کے ساتھ 850 نمبروں میں سے 711 امتیازی نمبر لے کر A گریڈ کے ساتھ پاس کیا.یہ کوئی اتفاق نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے والدین کی راتوں کی دُعائیں، اساتذہ کی محنت شاقہ اور قادر صاحب کی جہد مسلسل کار فرما تھی اور یہ آگے سے آگے نکلنے کی جستجو ہی تھی کہ ایک بار پھر 1980ء میں اسی اسکول اور اسی بورڈ سے ایف ایس سی کے امتحان میں رول نمبر 8095 کے تحت اٹھارہ سال کی عمر میں Pre-Engineering کے مضامین کے ساتھ 1000 میں سے 751 نمبر لے کر نہ صرف یہ کہ دوبارہ A گریڈ حاصل کیا بلکہ سب پر سبقت لے جاتے ہوئے پشاور بورڈ میں اوّل پوزیشن حاصل کی.یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان تھا والدین کی تربیت اور حوصلہ افزائی تھی.اپنے بہن بھائی سے آگے بڑھنے کی ترغیب تھی.قادر بفضل الہی والدین کی توقعات پر پورے اترے اور سب سے آگے بڑھ گئے.فائنل نتیجہ سننے کا واقعہ بڑا ہی دلچسپ ہے.خاموشی سے ریڈیو پشاور لگا کر نتیجے کے اعلان کا انتظار کرتے.دو پہر کی خبروں میں سُن لیا کہ مرزا غلام قادر نے سارے بورڈ میں ٹاپ کیا ہے.لاہور میں تھے وہاں خالائیں تھیں اور بہت سے ہم عمر بچے بھی مگر طبیعت میں اتنا عجز و انکسار تھا کہ کسی کو بتایا ہی نہیں.شام کی خبروں سے پہلے خالہ کو جا کر آہستہ سے بتایا کہ نتیجہ آ گیا ہے اور ریڈیو میں میرا نام بھی آیا ہے.خالہ نے خبریں سنیں تو خوشی کی انتہا نہ رہی فوراً فون کر کے بہن کو یہ قابلِ صد ستائش خوشخبری سنائی.نوائے وقت راولپنڈی مورخہ 9رستمبر 1980 ء میں قادر کی تصویر کے ساتھ یہ خبر

Page 120

119 شائع ہوئی.وو جنہوں نے ایبٹ آباد پبلک اسکول سے ایف ایس سی پری انجینئر نگ کا امتحان 751 نمبر لے کر امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور پشاور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری بورڈ میں اول رہے.مرزا غلام قادر احمد نے اسی اسکول سے میٹرک بھی نمایاں اعزاز کے ساتھ پاس کیا تھا.وہ مستقبل میں انجینئر نگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں.“ الفضل ربوہ نے ” نمایاں کامیابی کے عنوان سے اس احمدی بچے کی کامیابی کے ذکر ان الفاظ میں کیا.محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عزیز مکرم ابنِ محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب نائب ناظر اعلیٰ نے انٹر میڈیٹ کے امتحان میں پشاور بورڈ میں سائنس گروپ میں اول پوزیشن حاصل کی ہے الحمد للہ.عزیز موصوف نے 751 نمبر حاصل کئے ہیں.عزیز موصوف حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے پوتے ہیں اور نہایت ہونہار اور ذہین طالبعلم ہیں.احباب جماعت دُعا فرمائیں کہ عزیز کی یہ کامیابی دین و دنیا میں کامرانی اور سعادت کا موجب ہو اور احمدیت اور عالم اسلام کے لئے موجب برکات ثابت ہو آمین.

Page 121

120 زمانہ طالب علمی میں جماعت سے وابستگی : ایبٹ آباد قیام کے دوران قادر نے تعلیم کے میدان میں نمایاں ترقیات کے ساتھ ساتھ جماعت سے گہری وابستگی بھی قائم رکھی اور اپنے کردار کے دل موہ لینے والے نقش چھوڑے.ایبٹ آباد اسکول کے اُس وقت کے وائس پرنسپل پروفیسر مرزا عبداللطیف صاحب ( ملٹری کالج جہلم) نے اپنے ایک مضمون میں قادر کا بہت اچھے الفاظ میں ذکر کیا ہے.صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی طالب علمی کا کچھ زمانہ خاکسار کی قیادت میں گزرا.ایک قائد کی حیثیت سے خاکسار کو صاحبزادہ صاحب کے قریب رہنے اور ان کی شخصیت کو بہت قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا.یہاں خاکسار صاحبزادہ صاحب کے اسکول اور تعلیمی ماحول اور مجلس کے ساتھ ان کے روابط کا ذکر کرنا چاہتا ہے.صاحبزادہ صاحب ریلوے پبلک اسکول ایبٹ آباد کے طالب علم تھے.اس زمانے میں جماعت ایبٹ آباد کے امیر مولانا چراغ الدین صاحب مربی سلسلہ تھے جو مشن ہاؤس میں اپنے بیٹے نصیر الدین (سال سوئم گورنمنٹ کالج) کے ساتھ رہتے تھے.خاکسار سب سے پہلے حلقہ پبلک اسکول کا ذکر کرنا چاہتا ہے.صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کلاس ہفتم کے طالب علم تھے.مرزا سلطان احمد صاحب آپ کے کزن تھے.وہ بھی اس زمانہ میں جماعت ہفتم میں زیر تعلیم تھے.غالباً دونوں بھائی ایک ہی ہاؤس اور ایک ہی کلاس میں وقت گزارتے ہوں گے.باوجود عمر میں چھوٹا ہونے کے صاحبزادہ صاحب کو

Page 122

121 دو ان طلباء میں ایک مرکزی مقام حاصل تھا.مرکز سے ان کا رابطہ تھا.روز نامہ الفضل انہی کے پاس آتا تھا.جماعتی احوال اور مرکز کے حالات معلوم کرنے کے لئے یہ اخبار بڑا ذریعہ تھا.سب احمدی طلباء مرزا غلام قادر صاحب کے کمرہ میں آ کر اخبار کا مطالعہ کرتے تھے.اپنے خاندانوں اور وطنوں سے دُور یہ غریب الدیار احمدی طلباء اپنے ماں باپ عزیز و اقرباء کو بے اختیار یاد کرتے تھے.خاکسار پبلک اسکولوں کی تدریس سے تمہیں سال تک منسلک رہا.اور طلباء کی نفسیات کو جیسا آج سمجھتا ہے کم و بیش 1973ء میں بھی اس کا احساس تھا کہ اتوار کا دن یا چھٹی کا دن ان کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہو گا.والدین اپنے بچوں سے ملنے آتے تھے اور بڑے اہتمام سے اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے اور ضروریات کی اشیاء لے آتے تھے.ان کی مشکلات معلوم کر کے اسکول کی انتظامیہ سے انہیں حل کرواتے تھے.اسی لئے خاکسار کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہر اتوار احمدی طلباء کے درمیان گزارا جائے.جن کے والدین جلدی جلدی ملنے نہیں آ سکتے تاکہ انہیں بھی سر پرستی سے محرومی کے احساس سے بچایا جائے.خاکسار کا تاثر یہ ہے کہ طلباء خاکسار کو اپنے درمیان پا کر بے حد خوش ہوتے تھے.کہ ایک ایسا شخص ہے جو آ کر انہیں Company دیتا ہے.ان کی مشکلات کو حل کرنے میں کوشاں رہتا ہے.مرزا غلام قادر صاحب کے ہاؤس ماسٹر بشارت احمد خاکسار کے گہرے دوست تھے.چنانچہ وہ خاکسار کو ان طلباء سے ملانے میں بڑی شفقت اور دریا دلی کا مظاہرہ کرتے تھے اور خاکسار ان طلباء کے مسائل کو انہیں پیش کرتا تھا.تو وہ دل و جان سے انہیں حل کرنے میں مدد کرتے تھے.یوں ہاؤس ماسٹر کا مہربان سایہ انہیں میسر آ جاتا تھا ورنہ عموماً دیکھا گیا ہے.جن طلباء کے

Page 123

122 سر پرست ہاؤس ماسٹر سے رابطہ نہیں کرتے تھے.ہاؤس ماسٹر بھی انہیں نظر انداز کر دیتے تھے.یہ وجہ ہے کہ خاکسار کے دورے پر یہ تمام طلباء نہایت خوشی کا اظہار کرتے تھے.12 مئی 1974ء کو خاکسار نے بذریعہ انتخاب چوہدری راشد اعجاز (انٹر میڈیٹ سال اوّل کو زعیم حلقہ پبلک اسکول مقرر کیا تھا تا کہ وہ طلباء کے مسائل سے خاکسار کو آگاہ رکھیں چنانچہ 7/جون 1974ء کو ان کی ایک عمومی رپورٹ اور پرچہ جات خُدام و اطفال کی ترسیل کی رپورٹ ریکارڈ پر موجود ہے.یکم رمئی 1974ء کی ایک تجنید میں ان کے ناموں کی یہ فہرست دستیاب ہوئی ہے.مظفر حسین (انٹرمیڈیٹ تاریخ پیدائش 58-6-23)، الیاس پراچہ (نهم)، سلطان ولد محبوب الہی ( ہشتم تاریخ پیدائش 58-6-29) انور احمد ولد ڈاکٹر رشید احمد ( نہم تاریخ پیدائش 60-11-26).مندرجہ بالا طلباء ایک ہی کلاس میں تھے.مرزا سلطان احمد ولد مرزا خورشید احمد (ہفتم)، محبوب احمد (ہفتم)، مرزا قادر (ہفتم) مندرجہ بالا طلباء سینئر تھے اور اسکول سے اس سال فارغ ہونے والے تھے.منور احمد (انٹر میڈیٹ)، مرزا محمود احمد (انٹرمیڈیٹ).12 مئی 1974ء کی ایک رپورٹ مظہر ہے کہ مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ خاکسار کی ڈیڑھ گھنٹے کی تربیتی میٹنگ رہی جس میں تین خدام اور چھ اطفال شامل تھے.یہ میٹنگ کا من روم میں ہوئی تھی.اس کے بعد خاکسار اسپورٹس گراؤنڈ اور سوئمنگ پول میں ان کی سرگرمیوں میں شریک رہا.مرزا غلام قادر اسپورٹس میں بھی اچھے تھے.اس چھوٹی عمر میں بھی بہترین تیراک تھے.بشارت احمد صاحب بھی ان کی چُستی اور پھرتی کے مداح تھے.“ (روز نامہ الفضل 15 مئی 1999ء)

Page 124

123 انٹر کی تعلیم مکمل ہونے کی اٹھارہ انیس سال کی عمر میں نوجوانی کی شوخیوں کی بجائے ہر میدان میں اولیت حاصل کرنے والے قادر نے اپنا ایک قابل عزت مقام بنا لیا تھا.جو احمدی طالب علموں کے لئے ایک نشان راہ ہے.یہاں اُن کے وائس پرنسپل کا ایک مکتوب درج کرنا مناسب ہو گا جو اگر چہ شہادت کے بعد کا ہے.مگر اسکول کی زندگی میں نمایاں کارکردگی کو واضح کرتا ہے.( مکرم بشارت صاحب کا تعلق ہماری جماعت سے نہیں ہے.) محترم مرزا مجید احمد صاحب! السلام علیکم ! اُمید ہے کہ آپ اور اہلِ خانہ بخیریت ہوں گے.کل عزیز تسلیم احمد کے فون سے عزیز غلام قادر کے انتقال پر ملال کی جانسوز خبر ملی.ابھی تک اس صدمہ کے اثر میں ہوں.یقین نہیں آتا.غلام قادر احمد کے نام کے ساتھ مرحوم لکھنے کی ہمت نہیں ہوتی.بجا کہ وہ آپ کا نور چشم اور جگر گوشہ تھا.مگر مجھے تو وہ بڑے بھائی محمود احمد سے بھی زیادہ عزیز تھا.جب میں ہاؤس ماسٹر بنا.تو محمود تو کالج میں تھا مگر غلام قادر ساتویں میں میرے پاس آیا اور مجھے اس کی تربیت پر فخر ہے کہ وہ اپنی قابلیت سے کالج کا Senior prefect بنا اور پھر بورڈ میں صوبہ بھر میں اوّل آیا.سات سال تک میرا اُس کا قلبی تعلق رہا.پھر عملی زندگی میں وہ بہت کامیاب تھا.اپنی فیملی کے ساتھ اس نے دو مرتبہ Old Boys Reunion میں شرکت بھی کی.ڈھیروں باتیں ہوئیں.اس نے فخر سے مجھے بتایا کہ وہ جماعت کے لئے کام کر رہا ہے.بلکہ اس نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے.اللہ کے کاموں میں کسے دخل، تقدیر، قسمت، رضائے الہی اور ربّ دو جہاں کو یہی منظور تھا.صبر اور صرف راضی بہ رضا اللہ میاں اُسے جوار رحمت میں جگہ دے اور آپ سب کو صبر جمیل عطا کرے.(آمین)

Page 125

124 مجھے غلام قادر کتنا عزیز تھا.وہ خود بتا سکتا تھا اور جانتا تھا.یا میں اور میرا دل جانتا ہے.مجھے کتنا دُکھ اور رنج ہے.یہ میرا ہی دل جانتا ہے.اس کے انمٹ نقوش میرے دل میں بڑے گہرے ہیں اور جب تک حیات مستعار ہے.میں اس صدمہ کو نہیں بھلا سکوں گا.آپ بھی اُستاد رہے ہیں اور خوب جانتے ہیں بعض شاگرد اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیارے ھوتے ھیں.میں تو اولادِ نرینہ سے بھی محروم ہوں.میرے بیٹے تو میرے یہی شاگرد ہیں اور غلام قادر تو أن معدودے چند شاگردوں میں سے ہے جن پر میری جان بھی قربان ہے.کاش میں فوراً افسوس کے لئے آ سکتا.میری علالت آڑے آ رہی ہے.کوشش کروں گا کہ خود حاضر ہوں.فی الحال یہ عریضہ میری نمائندگی کرے گا.محمود تو آ کر واپس جا چکا ہو گا.اس کے لئے میری دُعائیں.ایک دفعہ امریکہ سے اُس کا کارڈ آیا تھا.آخر میں ایک مرتبہ پھر میری ڈھیروں دُعا ئیں کہ اللہ اُس کی بخشش کرے.(آمین) آپ کے غم میں شریک روحانی باپ بشارت احمد وائس پرنسپل حضرت خلیفہ مسیح الثالث" نے گولڈ میڈل عطا فرمایا: محترم مرزا غلام قادر صاحب وہ خوش نصیب طالب علم ہیں.جنہیں پشاور بورڈ میں ٹاپ کرنے پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے جاری کردہ

Page 126

عظیم تعلیمی منصور 125 کے تحت خود اپنے دست مبارک سے گولڈ میڈل پہنایا.یہ تاریخی تقریب مورخہ 7 نومبر 1980ء کو اجتماع خُدام الاحمدیہ ولجنہ اماء اللہ کے موقع پر منعقد ہوئی.اس کی تفصیل روز نامہ الفضل ربوہ کے مورخہ 12 /نومبر 1980ء کے پرچہ میں اس طرح شائع ہوئی.چار ذہین طلباء و طالبات کو حضور ایدہ اللہ کے ہاتھوں تمغہ جات کی تقسیم ربوه 2 - نبوت / نومبر سیدنا حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس خدام الاحمدیہ کے 36 ویں سالانہ اجتماع کے افتتاحی اجلاس میں تعلیمی منصوبے کے تحت مختلف امتحانوں میں اوّل، دوم، اور سوم آنے والے ذہین طلباء کو تمغے تقسیم کئے.یہ تمغے چھے طلباء اور طالبات کو دیئے جانے تھے جن میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں شامل تھیں.ان میں سے دولڑ کے غیر حاضر تھے جبکہ ایک ذہین طالب علم مکرم مرزا غلام قادر صاحب ابنِ محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب حاضر سے پہلے ان کا نام پکارا گیا.انہوں نے امتحان انٹر میڈیٹ پشاور میں 1000 میں سے 751 نمبر لے کر اوّل پوزیشن حاصل کی ہے.انہوں نے حضور سے مصافحہ فرمایا اور حضور نے طلائی تمغہ اُن کے گلے میں حضور ایدہ اللہ ساتھ ساتھ انعام حاصل کرنے والوں کو بارک اللہ کہتے رہے.حضور ایدہ اللہ نے ازراہ شفقت ان ذہین طلباء و طالبات کو چاندی کے قلم انعام میں دیے.تھے.پہنایا تعلیمی منصوبے کے تحت تمغہ جات دیئے جانے کی یہ دوسری تقریب

Page 127

126 تھی.پہلی تقریب 13 جون 1980ء کو بیت ربوہ میں منعقد ہوئی تھی.الفضل ربوہ 12 /نومبر 1980ء) حضور نے تفسیر صغیر کا ایک نسخہ بھی اپنے دستخط کے ساتھ عطا فرمایا.پشاور بورڈ کی طرف سے گولڈ میڈل:.دوسرا گولڈ میڈل آپ کو صوبہ سرحد کے گورنر کی طرف سے دیا گیا.اس پُر مسرت تقریب کی یاد قادر کے والد صاحب کی زبان سے سنیے.قادر جب ایبٹ آباد پبلک اسکول میں تھا تو گاہے بگا ہے اس کی رپورٹس لیتا رہتا تھا جو بہت اچھی ہوتی تھیں.لیکن یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ پورے بورڈ میں اول آئے گا اور اتنی بڑی پوزیشن پائے گا.میرے خیال میں اُس کے ٹاپ کرنے میں اُس کے اساتذہ کا بہت بڑا دخل ہے.خدا انہیں جزائے خیر دے.جب اس نے ٹاپ کیا تو صوبہ سرحد کے گورنر کی طرف سے والدین کے نام با قاعدہ دعوت نامہ آیا تھا.یہ تقریب پشاور میں منعقد ہوئی تھی جس میں قادر کے ساتھ، میں اور قادر کی امی دونوں گئے تھے.اس میں صوبہ بھر میں نمایاں پوزیشن لینے والے طلباء اور طالبات کو گولڈ میڈلز اور دیگر انعامات دیے گئے تھے.بہت شاندار اور یادگار تقریب تھی.گورنر سرحد کی طرف سے قادر کو گولڈ میڈل پہنایا گیا.“ یو نیورسٹی آف انجینئر نگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں تعلیم : قادر نے 1981ء میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں الیکٹریکل انجینئرنگ کے مضامین کے ساتھ داخلہ لیا اور 1986ء میں اس یونیورسٹی سے 1150 نمبروں سے 934 نمبر لے کر ایک بار پھر سابقہ معیار کو

Page 128

127 برقرار رکھتے ہوئے شاندار طور پر فرسٹ پوزیشن لے کر (B.E) بیچلر آف انجینئرنگ کی ڈگری لی.جارج میسن یونیورسٹی آف امریکہ میں تعلیم : انجینئرنگ میں بیچلر B.E کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے.پہلے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں داخلہ ملا.مگر پھر کوشش کر کے جارج میسن یونیورسٹی میں M.S میں داخلہ لے لیا.یہ یونیورسٹی دنیا میں مانی ہوئی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے.دوسرے آپ کے بھائی ان دنوں واشنگٹن ڈی سی میں رہائش پذیر تھے.ان ہی وجوہات سے آپ نے اس یو نیورسٹی کو ترجیح دی.دورانِ تعلیم جب اپنی بیگم کو امریکہ لائے تو چھ ماہ اپنے بھائی کے ساتھ رہے.مقصد کے حصول میں سنجیدگی آپ کے تعلیمی نتائج سے ظاہر ہے رہن سہن میں سادگی کے متعلق آپ کے بھائی مرزا محمود احمد صاحب اس وضاحت کے بعد کہ یہ تعریف وہ بھائی ہونے کے ناتے نہیں کر رہے بلکہ اپنے طویل مشاہدے کے بعد ایک حقیقت بیان کر رہے ہیں.لکھتے ہیں: بعض لوگوں کو یہ بات عجیب سی بھی لگے لیکن بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ میں نے اور بھی بہت سے لوگوں کو حصول تعلیم کے لئے یہاں آتے دیکھا ہے.مگر یہ بات کسی میں نہیں دیکھی وہ یہ کہ یہاں امریکہ آئے ہوئے اسے ابھی دو یوم ہی گزرے ہوں گے کہ اس نے جاب کی تلاش شروع کر دی اور تیسرے ہی روز میں نے اسے دیکھا کہ مخروطی ٹوپی پہنے ایک برگر شاپ پر Patties یعنی گوشت کے کباب وغیرہ بنا رہا تھا.وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا.جو خود ہاتھ سے کام کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں.میں نے اور کئی لوگ دیکھے ہیں جو یہاں امریکہ آئے تو انہیں اپنی انا کو جھکانے میں کافی مشقت کرنا دو

Page 129

128 پڑی اور وقت بھی کافی صرف ہوا.لیکن قادر نے ایک دن بھی ضائع کئے بغیر فوراً ہی کام کی تلاش شروع کر دی اور اس کے لئے کوئی بہت اچھی جاب پیش نظر نہیں رکھی.بلکہ جیسے ہی کام ملا شروع کر دیا اور کام بھی ایسا جو بظاہر ہمارے مخصوص معاشرتی ماحول میں تربیت پانے والے شخص کے لئے شائد ذرا معیوب بھی ہو.یوں تو امریکہ میں صدر کا بیٹا بھی کام کر کے فخر محسوس کرتا ہے اور وہاں کے ماحول کے لحاظ سے یہ کوئی عجیب بات نہ تھی.بلکہ عام سی بات تھی.لیکن قادر کو دیکھ کے لگتا تھا کہ امریکہ آنے سے پہلے ہی اس نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر اس کے لئے تیار کیا ہوا تھا.دراصل وہ یہ بات جانتا تھا کہ امریکہ جیسے مہنگے ملک میں تعلیم کا حصول کوئی آسان بات نہیں.پھر اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بچپن ہی سے کسی پر بوجھ بنا پسند نہیں کرتا تھا.اسی لئے حضرت المسیح الثانی کے اس خوبصورت شعرے بھولیو مت کہ نزاکت ہے نصیب نسواں مرد وہ ہے جو جفاکش ہو گل اندام نہ کے مصداق اس نے اپنی زندگی کو ڈھال لیا تھا.“ ہو نصرت بتاتی ہیں کہ امریکہ میں سمسٹر کے دوران Weekend پر کام ہوتا.پانچ دن خوب پڑھائی ہوتی تھی.چھٹی کے دن صبح برگر بناتے.شام کو Pizza Delivery کا کام ہوتا جبکہ چھٹیوں میں برابر کام کرتے تاکہ فیس کی رقم جمع کر سکیں اور اس میں کوئی عار محسوس نہ کرتے.یونیورسٹی کے ایک کلاس فیلو کے تاثرات :

Page 130

129 مکرم ڈاکٹر ارشد حسین صاحب لاہور کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.آپ محترم قادر صاحب کے ساتھ جارج میسن یونیورسٹی میں پڑھتے رہے ہیں.آپ کا تعلق لاہوری جماعت سے ہے اور آپ کے والد مکرم محمد حسین صاحب اشاعتِ اسلام لاہور کے سرگرم ممبر رہے ہیں.آپ نے قادر صاحب کے بارے میں ایک مختصر سی تحریر انگلش میں کمپوز کی ہوئی بھیجی ہے.وہ من وعن پیش خدمت ہے."I met Ghulam Qadir in 1986 when I was a student in George Washington University.My roommate.Aftab Ahmed brought him to our apartment and introduced him to me.My first impression about him was: God! How much he looks like Hazrat Mirza Ghulam Ahmed.When we became good acquaintances, I told him, "if you grow beard, you are the exact image of Hazoor Maseeh-e-Maud'.He was a gentleman in his appearance, in his talk and in his discussion.He was a humble soul, and a very soft-spoken person.He and I never took any course together, so we could not become closed friends.However, we used to interact quite frequently, and exchanged pleasantries.Once, he and I spent quite good time in a cafe, sipping hot coffee to keep us warm against the killing cold weather of Washington, D.C.We talked mostly on the issues, which had divided Ahmadiyya community: Khalaafat, and Nabuwwat.Though we could not convince

Page 131

130 each other, but it was such a polite discoures, that I left the cafe with more love and respect for him.I did not see him after I finished my MS and moved to New York in 1988.I returned to Pakistan after completing my P.H.D.Few years back, another Ahmadi friend of mine told me that he was back in Rabwah, where he was supervising the computer centre of the jamaat.I am so misfortune that in spite of my desire to see him.I could not visit Rabwah.Then one day.I got the news from Dr.Aftab Ahmad that the mullahs had murdered him.By that time he was buried in the graveyard of noble souls.May Allah bless his soul and give determination to his grieved family."

Page 132

131 باب 5 وقف زندگی دین کو دُنیا پر مقدم رکھا رت خلیفة اصبح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کا قبولِ وقف کا مکتوب خلیفہ اسیح سے ذاتی تعلق ہے نبھانا گرچہ عہد بیعت ہی مشکل بہت اس سے بھی مشکل ہے وقف زندگی والا سفر

Page 133

132 سندِ کامیابی سالانہ تربیتی کلاس خدام الاحمدیہ نمبر شمار عمالة وتصل على مول الكريم بسم الله الرحمن الرحيم اسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ وعلى عبدة المسيم الموعود م قومیتوں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی المصلح الموعود سند کامیابی سالانہ تربیتی کلاس حشداهم الاحمدیہ مرکز بید بجری شمسی ۱۹ عیسوی رجسٹریشن نمبر 492 ضلع رابوه مام برزا علوم قادر احمد دین مجلس خدام الاحمدیہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی ستاسیویں سالانہ تربیتی کلاس منعتقده 24 شیری رت تا دیجے کھلے ہش میں شامل ہونے اور کلاس کے اختتام پرسته آن مجید ، حدیث ، فقہ، کلام، رو عیسائیت ، قواعد عربی اور عام دینی معلومات کے امتحان میں کامیاب قرار دیئے گئے.اللہ تعالیٰ یہ کامیابی مبارک کرے اور مزید علی ترقیات کا پیش خیمہ بنائے.آمین.منتظم تعلیم سالانه تربیتی کلاس سند مجلس من اهم الاحمدیه مرکزی

Page 134

133 وقف زندگی: قادر انجینئر نگ یو نیورسٹی کے دوسرے سال میں تھے.جب 24 /ستمبر 1983ء کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے توسط سے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے حضور وقف کر دی.آپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی نسل میں سے دوسری سیڑھی کے پہلے بچے تھے.جس کو یہ سعادت نصیب ہوئی.اس طرح اس گھرانے میں وقف کا سلسلہ جاری رہا.آپ کے والد صاحبزادہ مرزا مجید احمد واقف زندگی ہیں.پھر قادر نے بطیب خاطر حیات عزیز اللہ تعالیٰ کو سونپ دی.یہ آپ کا ذاتی فیصلہ تھا اور اس ذاتی فیصلے میں برس ہا برس کی والدین کی دُعائیں اور تربیت شامل تھی.ایک روحانی سلسبیل جاری تھی.جس کے فیوض آپ کے قلب صافی نے جذب کئے.آپ نے حقیقتا عہد بیعت نبھایا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھا یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان ہیں.آپ کے والد صاحب بیان فرماتے ہیں: وو ” وقف قادر نے اپنی مرضی سے کیا تھا.ہماری طرف سے قطعاً اُسے نہیں کہا گیا تھا.لیکن جب اُس نے وقف کیا تو ہم نے اُس سے کہا تھا تم اس بات کی فکر نہ کرنا کہ کبھی کوئی مالی مسئلہ در پیش ہو گا.بلکہ ہم ہر طرح سے اور مکمل طور پر تعاون کریں گے.میں سمجھتا ہوں کے ایسے معاملات میں اولاد کو فری ہینڈ دے دیا جائے تو وہ اپنے فیصلے احسن رنگ میں کر سکتی ہے.ایسا ہی اظہار والدہ صاحبہ نے بھی کیا کہ اگر چہ اُن کی شدید خواہش

Page 135

134 تھی کہ بچے زندگی وقف کریں.لیکن اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اصرار نہیں کیا.کہ تم لازماً وقف کرو.قادر نے اپنی مرضی سے وقف کیا.آپ فرماتی ہیں: قادر کے وقف سے مجھے وہ خوشی میسر آئی کہ سات بادشاہتیں بھی مل جاتیں تب بھی نہ ملتی.وقف کی صورت میں میری دُعاؤں کا ثمر مجھے مل گیا.“ اپنی اولاد کے وقف کی توفیق پانے کی دُعائیں کتنی مبارک دُعائیں ہیں اور کس قدر پیار سے مولا کریم ان کو شرف قبولیت عطا فرماتا ہے.سب اولاد والوں کے لئے ایک مثال ہے.عام گھریلو ماحول کا ایک عام سا واقعہ ہے.مگر سوچا جائے تو کتنا خاص ہے.بیٹا صبح اُٹھ کر اپنی ماں کو رات کا خواب سُنا تا ہے اور ماں تعبیر بیان کرتی ہیں.دونوں ہی مخصوص روحانی فضا میں پہلے ہوئے ہیں.دونوں کے دلوں کے نہاں خانے میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا سمندر لہریں لے رہا ہے.قادر نے خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود کو دیکھا آپ نے پوچھا! تم کس کے بیٹے ہو؟“ جواب دیا! قدسیہ کا“ ماں نے خواب سن کر کہا: وو قادر تم نے میرا نام اس لئے لیا ہے کیونکہ میں نے تمہارے وقف اور خادمِ دین ہونے کے لئے بے حد دعائیں کی ہیں.“ جس ماں کے دل میں بچے کے وقف زندگی کا ایسا جوش و ولولہ ہو وہ اُس کی تربیت بھی ایسے رنگ میں کرتی ہے کہ اُس کی تمنائیں اُس کے دودھ ، کے ساتھ بچے میں منتقل ہو جائیں.ایک پیج کی طرح پرورش پائیں.وقت پہ

Page 136

135 پھولیں ، پھلیں اور حیات بخش ثمرات حاصل ہوں گھر کے عام ماحول کا ایک اور واقعہ ہے.جس میں نہ کوئی تکلف ہے نہ بناوٹ.ایک عام سی بات تھی.جو اُس وقت آئی گئی ہو گئی مگر اب وہ ایک شہادت بن گئی ہے.ایک دلچسپ خط پڑھئے جو ایک بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کے متعلق لکھا ہے.اُس کی قربانی کے بعد اُمڈ آنے والے پیار کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس کی حیات میں لکھا گیا ہے.اور عمر بھی ایسی جس میں بعض اوقات بڑے بھائی چھوٹے میں اضافی خوبیاں دیکھ کر رشک حتی کہ حسد کرنے لگتے ہیں.قادر کے متعلق جب یہ خط لکھا گیا اُن کی عمر اکیس سال تھی.یہی وہ دن تھے.جب آپ نے زندگی وقف کا خط لکھا تھا.یہ خط قادر کی امی کے نو (9) صفحوں کے خط کے جواب میں لکھا گیا ہے اندازہ کیجئے کہ اُن نوصفحوں میں کیا ہوگا؟ پیاری امی ! ”آپ نے کیلے کی خط میں بڑی تعریف لکھی تھی.میں تو خود کیلے کا بڑا سخت قائل ہوں اور اُس کا Fan ہوں میرے ذاتی خیال میں کیکا بہت عقل مند اور Mature ہے Sober ہے، پڑھائی میں اچھا ہے، دین میں اچھا ہے، شکار میں اچھا ہے، مزاحیہ ہے.غرض بہت ہی Balanced ہے.بلکہ خاندان کے چند بڑے لوگوں میں ابھی سے (میرے نزدیک ) اس کا شمار ہونے لگا ہے.جن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا عزیز احمد صاحب، حضرت مرزا مظفر احمد صاحب، مرزا طاہر احمد صاحب ، حضرت مریم صدیقہ صاحبہ اور

Page 137

136 صاحب شامل ہیں.آپ سمجھ رہی ہوں گی.میں مذاق کر رہا ہوں لیکن کیکے سے مجھے بہت امیدیں ہیں.غرض مختصر یہ کہ کیلے سے میں بے حد Impressed ہوں اگر وہ کوئی دعوی کرے.میں ایک دم ایمان لے آؤں جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اُن کو سچا سمجھنے والے ایک دم ایمان لے آئے تھے.بغیر کسی جھجک کے کیونکہ اُن کا تجربہ یہ ہی کہتا تھا کہ یہ شخص غلط بات کس طرح کر سکتے ہیں.مرزا محمود احمد 25-5-83 قادر نے پیارے حضور کو زندگی وقف کرنے کا جو خط لکھا اُس کا بہت ہی پیارا جواب آیا.15-5-1983 پیارے عزیزم غلام قادر.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته تمہارا خط ملا جس سے سچے اخلاص کی خوشبو آ رہی تھی.بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ حضرت عموں جان کی ساری اولاد کو احمدیت کی صف اوّل میں رکھے.حضرت عموں صاحب کا مجھ سے پیار ایک چچا کی عام حیثیت سے بڑھ کر تھا اور بصورت خاص میرے محسن تھے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور اُن کی ساری دُعائیں اُن کی اولاد کے حق میں پوری ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوں.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور قلب و نظر کی قوتوں

Page 138

137 کو مزید جلا بخشے.اور حقائق اشیاء سے آگاہی عطا فرمائے.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد + 15.5.8362 1982.م اللہ خدا کے عمل اور ریم کے ساتھ امیر السلام علیکم دهته الله و بركاته تمیا را حل چاہت حسین نے کچھ انکار میں کسی خوشبو آرہی تھی.بہت خوشی ہوگئی ، اللہ تعالی حضرت عمری ہے کی ماری اولاد کو احمدیت کی صف اول میں رکھتے.حضرت عموی سے کیا محمد سے پینیا نے ایک اچھا کی عام حیثیت سے بڑھ کر تھا اسر بصورت شامی میرے محسن تھے.اللہ تعالٰی انہیں غریق رحمت فرمائے اسرانگی باری گئی چدنی شیره تامین مالی او لا رکھنے حق میں پھدی لیون بلکہ آئی سے بھی زیادہ الله تعالی تمتمہارے باتھ ہوار قلب و نظر کی قوتونی که زیر جلد بھتے اس معائق اشیاء سے که آقایل علی زنائے.دہم ناکارہ متھرا کا کام قادر کے خط کے جواب میں حضور کا اصل خط

Page 139

138 حضور ایده الودود کا قبول وقف کا خط : 16 اکتوبر 1983ء میرے پیارے قادر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تمہارے وقف کی پیشکش کی اتنی خوشی ہوئی کہ تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے.خوشی کے آنسوؤں سے آنکھیں چھلک گئیں.حضرت عموں صاحب کی نسل میں سے، جنہوں نے مجھے بہت پیار دیا اور جن سے مجھے بہت پیار تھا، تم دوسری سیڑھی کے بچوں میں غالباً پہلے ہو جسے وقف کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ ثم الحمد للہ میں اس دعا کے ساتھ یہ وقف قبول کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور ساری زندگی تمہیں قرب اور پیار سے نوازتا رہے اور دنیا اور آخرت دونوں لحاظ سے چمکتا ہو مقدر عطا فرمائے.تمہیں حوصلہ دے کہ وقف کے تقاضوں کو اُس کی رضا کے مطابق آخر دم تک کامل وفاداری کے ساتھ ادا کرسکو اور کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی دنیا کا خیال تمہارے اور تمہارے وقف کے درمیان حائل نہ ہو سکے.آج آسٹریلیا میں آخری دن ہے کل انشاء اللہ سری لنکا کے لئے روانہ ہوں گے.اللہ کرے بقیہ سفر بھی اس کی رضا کے مطابق طے ہو اور بہترین اور مقبول بارگاہ خدمت کی توفیق عطا ہوتی رہے.انشاء اللہ بہت جلد ربوہ میں ملاقات ہوگی جس

Page 140

139 طرح تم نے آج میرا دل راضی کیا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ اس سے بڑھ کر راضی رکھے.آمین امی ابا کو محبت بھرا پیار.اور بہنوں کو پیار.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد شکار و تیم کے مات و علیکم ورحمته الله اور یہ کیا ہے تھا.یہ وقت کی پیشکش کی اتنی خوشی ابو کو کہ تم 4.وات بہت پیار تھا تمر در مری کیڈ می کے مگر یہ نہیں تا تھر کے پہلے کونے موقف کی توفیق ملی بھی ہے یا کور شد محمد شکر محمد شد میں میری دعاء کرنے میں خود سے وقت قبول کرنا صر معیں گے تو اللہ تقوی کی میں قیدی خرما کے ابو ساری کو شعر کی تمہیں ان غرب اسے پیار سے نقد اوقا تو ہے کی اور مین نیکی ها بود که فهرست شروان نویں کوئی نظر سے چمکتا ہوا م عطاء فرمائے میری مهر ساله در کم و الله که تمت تصویر نے گھر آئی کی بہ قول کے مطابق کر خود میر تک یه می گرم و شیرین کا خیال کیا حضور کا اصل خط صفحہ 1 تر کے امر عباد نے

Page 141

140 وقت کے درمیان حائل نہ ہو سکے.i آج اسٹریلیا میں تمہارا آخری دن ہے.کل انشاءاللہ سری لنکا کے لئیے روانہ ہونگے.اللہ کرے بقیہ سفر بھی ان کی رضا کے مطابق طے ہوا اور بیترین اند مقبول بارگاه خدمت کی توفیق عطار ہوتی ہے انشا والله درست طلوع جلد رہوں میں ملاقات ہوئی جس طرح تم نے آج میرا دل راضی کیا ہے.اللہ تمہیں ہمیشہ اس نے بھی بڑھ کر راضی رکھے آمین.امی ابا کو محبت بھرا سلام.اور بہنوں کو پیا ور سلیم خاکسار لذ اللہ حضور کا اصل خط صفحہ 2

Page 142

141 حضور ایدہ الودو کی دُعاؤں کا انداز غیر معمولی خوشی اور غیر معمولی حمد و شکر کے جذبے سے مغلوبیت کا مظہر ہے.دُنیا اور آخرت دونوں لحاظ سے چمکتے ہوئے مقدر کی دُعا کس شان سے پوری ہوئی اور آخری دم تک کامل وفاداری کی دعا کیسی لگی.یہ خدائی کام میں وہ ایسی دعائیں کردار ہا تھا جو قول کرنی تھیں.خلیفہ ایج سے ذاتی تعلق : معصوم اور پاک دل قادر وقف زندگی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے چلے گئے.اسی پاک محبت نے خلافت سے وابستگی کی اہمیت اجاگر کی.حضور ایدہ الودود سے ایک خاص تعلق خاطر کا زندگی میں برابر عمل دخل رہا.خطوط کا ایک مسلسل رابطہ تھا جس سے روشنی ملتی اور حیات کی راہیں منور رہتیں.حضور پر نور کی دعائیں حاصل کرنا بڑی نعمت ہے تو انہیں جذب کرنے کے لئے خود کو سنوارتے رہنا اس سے بھی بڑی نعمت ہے قادر نے اسی مینارہ نور سے وافر اکتساب کیا اور انوکھی دُعائیں حاصل کیں.حضور کے سفر ہجرت کے بارے میں قادر نے اپنا کوئی خواب آپ کو لکھا ہوگا جس کا جواب آپ نے اپنے دست مبارک سے عنایت فرمایا.4-7-1363/1984 میرے پیارے قادر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته تمہارا نہایت پیارا خط ملا.جزاکم اللہ احسن الجزاء تمہاری رویا تو حیرت انگیز صفائی سے پوری ہوئی.اگر چہ میرے ساتھ بظاہر مردوں میں سے وقیع بھائی اور حمید نصر اللہ خان بھی تھے.لیکن ایک تو وہ ہجرت میں شامل نہیں تھے، عارضی ساتھی تھے.دوسرے فرسٹ

Page 143

142 کلاس میں اُن میں سے کسی کو سیٹ نہیں مل سکی الہذا میں اکیلا ہی تھا.عورتوں میں سے آصفہ میرے ساتھ تھیں لیکن جب حفاظت کا مضمون پیش نظر ہو تو ایسی صورت میں عورت کا ساتھ شمار نہیں کیا جاتا لہذا فی الحقیقت میں اکیلا ہی تھا.اللہ تم سے میرا پیار ہمیشہ بڑھاتا رہے اور اپنی دائی محبت تمہیں نصیب فرمائے اور راضیۂ مرضیہ بندوں میں داخل فرمائے.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد حضور ایدہ الودود کی ساری دُعائیں مقبول ہوئیں قادر نے اپنا عہد قابل رشک انداز میں نبھایا اپنی پوری جان اس وقف میں جھونک دی اپنا دستورِ حیات اس طرح مرتب کیا جس میں اپنی ذات کے لئے کچھ نہیں تھا ہر فعل سے رضائے باری تعالیٰ مقصودِ نظر رکھی.وہ عمر جو جواں سرشاری کی نذر ہو جاتی ہے سجدوں میں آہ و زاری میں گزاری.عبادت کا شغف راہ چلتے نہیں ملتا.دل کے اندر خالق حقیقی کی خالص محبت سے نمو پاتا ہے جن احباب کو اُن کی نماز کا پگھلا ہوا انداز دیکھنے کا موقع ملا وہ گواہ ہیں کہ اُن کا عالم کچھ اور ہی تھا.گھر سے بیت تک کا فاصلہ اُن کے قدموں سے مانوس رہتا.وہ قدم جب بھی اُٹھتے دین کے لئے اُٹھتے شب و روز کاموں کی مصروفیات کا لمحہ لمحہ خدمت دین میں گندھا ہوا ہوتا.آپ کو یہ احساس بھی تھا کہ دینی تعلیم میں کمی ہے.اس کے لئے قرآن پاک، حدیث شریف اور عربی گرامر کی کلاسز لیتے رہے.ایم ٹی اے پر

Page 144

143 حضور ایدہ الودود کے درس القرآن سے بھر پور استفادہ کرتے.آپ کو مالی قربانی کی عادت تھی اپنا چندہ با قاعدگی سے ادا کرتے بلکہ بڑھا کر دیتے ہر تحریک میں شریک ہونا سعادت سمجھتے اگر کوئی زائد آمد ہوتی تو اُس میں سے شرح کے مطابق چندہ ادا کرتے.مالی قربانی کی اہمیت کا اندازہ تو اسی سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ آپ کی تعلیم اور ڈگری اتنی بڑی تھی کہ اُس وقت پاکستان میں ایسے تعلیم یافتہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے اور لاکھوں روپے کما سکتے تھی مگر قادر نے دین کو دنیا پر مقدم رکھا خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی صلاحیتوں کو وقف کر دیا.خط لکھا.خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نثار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب اُسے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے لباس تقویٰ میں ملبوس زیور تعلیم سے بے سنورے قادر نے حضور کو 23 اپریل 1989ء سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته اُمید ہے حضور خیریت سے ہوں گے اللہ تعالیٰ ہر آن حضور کو اپنی حفاظت میں رکھے ہمیشہ اپنے فضل سے نوازتا رہے اور آپ کو اپنے نیک

Page 145

144 منصوبوں میں کامیاب کرے.آمین حضور کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں نے زندگی وقف کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے اجازت لی تھی انشاء اللہ اگست 1989 ء میں میری (M.S (Computer Science مکمل ہو جائے گی اس کے بعد حضور جهان مناسب سمجھیں مجھے کام پر لگا دیں.اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں خدا تعالیٰ مجھے اپنے وقف کو نبھانے کی توفیق دیتا رہے اس سلسلے میں تحریک جدید ربوہ کو بھی خط لکھ دیا ہے.چند دن ہوئے ایک خواب دیکھی جو جماعت سے متعلق لگی ہے اس لئے لکھنا چاہتا ہوں میں نے دیکھا کہ میں سنگلاخ پہاڑ پر جہاں کچھ ہموار جگہ ہے، کھڑا ہوں.یہاں ایک بھینسا ہے اور کچھ ہڑیال کی طرح کے جانور ہیں یہ بھینسا اُنہیں ٹکر مارتا ہے اور اُٹھا کر دور پھینک دیتا ہے پہلے ایک کو پھر دوسرے کو اور تیسرے کو اس زور سے ٹکر مارتا ہے کہ وہ اُڑ کر پرے گہرائی میں جا گرتا ہے اور میں سوچتا ہوں یہ تو ضرور مرگیا ہوگا چنانچہ میں دیکھنے کی غرض سے نیچے اُترتا ہوں تو اس جانور کے قریب ایک چھوٹی سی دیوار پر باز بیٹھا ہوتا ہے جو کبوتر سے بڑا ہے.اُس کی پشت میری طرف ہے اُس کا رنگ سنہری مائل ہے وہ اپنا سر موڑ کر مجھے دیکھ رہا ہے اور اُس کی آنکھوں اور جسم کی حرکات اس طرح ہیں جیسے مجھے اشارہ کر رہا ہو کہ مجھے پکڑ لو چنانچہ میں پیچھے سے جا کر اُسے آرام سے پکڑ لیتا ہوں اس کے بعد اگلے نظارے میں وہ باز حضور کو دے رہا ہوں اور آپ اس قدر خوش ہیں کہ وہ کیفیت بیان سے باہر ہے یوں لگ رہا ہے کہ اس سے زیادہ خوشی کا اظہار تو انسان کے لئے ممکن ہی نہیں آپ کا چہرہ انتہائی روشن ہے.جس کمرے میں ہم ہیں اُس کی دیواریں بھی روشن ہیں اور تمام

Page 146

145 ماحول میں روشنی ہے جس طرح ہر چیز خوشی کا اظہار کر رہی ہے اُس وقت میرے ذہن میں یہ بھی ہے جس طرح یہ بار بار کہا جا رہا ہو کہ دس اور گیارہ کی تاریخیں جماعت کے لئے بہت اہم ہیں.اس کے ساتھ یہ بھی عرض کروں کہ اس وقت صبح سحری کا وقت تھا اور خواب ختم ہوتے ہی نصرت نے روزے کے لئے اُٹھا دیا.رمضان کے ایام میں خصوصیت سے دُعاؤں میں یاد رکھیں.خدا حافظ والسلام مرزا غلام قادر حضور اید ہ الودود کی دُور رس نگاہوں نے اس جوہر کی قدر و قیمت کا خوب اندازہ لگا لیا تھا.آپ کی والدہ صاحبہ کے نام ایک مکتوب میں قادر کی سعادت مندی کے گہرے نقش کا بے ساختہ اظہار دیکھئے.6 اکتوبر 1993ء آپ کا خط ملا اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے اور اپنے فضلوں کا وارث بنائے عزیزم قادر بہت پیارا بچہ ہے جتنی دیر یہاں رہا ہمیشہ اسے دیکھ کر دل سے ماشاء اللہ چشم بدور کی دُعا اُٹھتی رہی اللہ اس کی طرف سے اور باقی سب بچوں کی طرف سے ہمیشہ آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائے.قادر کو ہالینڈ ، جیئم اور جرمنی ساتھ لے جانے کی شدید خواہش تھی اور دل سخت چاہتا تھا کہ ساتھ چلے مگر سنگل انٹری ویزے نے مصیبت ڈالے رکھی اور کام نہ بن سکا.“

Page 147

146 دلی دُعاؤں کا زادِ راہ دے کر حضور ایدہ الودود نے آپ کو خدمت کے مقام محمود حاصل کرنے کے لئے ربوہ متعین فرمایا.قادر نے عصر حاضر کی ایجاد کمپیوٹر کو اعلیٰ فنی مہارت کے ساتھ مسیح زماں اور آپ کی جماعت کی خدمت پر لگا دیا اور ایسی راہیں دکھا دیں جو صدقہ جاریہ کی طرح آپ کے نام اور کام ہمیشہ زندہ رکھیں گی.محترم کنور اور لیس صاحب نے قادر کی شہادت کے بعد ڈان اخبار کو ایک مراسلہ لکھا جو ایک اچھا جائزہ ہے.وو 20 سال قبل قادر نے ایبٹ آباد پبلک اسکول پشاور بورڈ میں ایف ایس سی میں اول پوزیشن حاصل کی.پھر یہ کامیابی اُسے امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں لے گئی جہاں اُس نے کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس (MS) کی ڈگری حاصل کی.شہید قادر بہت سے ڈالر کمانے کے کیریئر کو پس پشت ڈال کر پاکستان واپس چلا آیا.یہاں بھی اُس نے ملٹی نیشنل غیر ملکی بینکوں میں قسمت آزمانے سے انکار کر دیا جو اُسے بڑی خوشی سے خوش آمدید کہنے کو تیار تھے.کیونکہ وہ ذہین بھی تھا اور ڈسپلن کا پابند بھی تھا.وہ نوجوانوں کو تربیت دینے کے لئے ایک چھوٹے سے قصبے میں چلا گیا جو اُس کی جائے شہادت سے زیادہ دور نہیں تھا.وہ اتنا ہی کماتا تھا جو زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے.اس نے سوچا کہ اپنے کم وسائل کے اس قصبے کا قرض ادا کرنا ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا.“ (ترجمہ) (Daily Dawn 21st April, 1999)

Page 148

147 باب 6 خدمات دینیہ ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز کا قیام شعبہ وصیت شعبه تجنید و مال شعبہ اشاعت خُدام الاحمدیہ مہتمم مقامی سیکرٹری وقف کو لینگوئج انسٹی ٹیوٹ کا قیام خلافت لائبریری ربوہ فضل عمر ہسپتال ربوه نظارت تعلیم میں خدمات قادر کے رفقائے کار کی قیمتی یادیں خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بد نام نہ ہو

Page 149

148 حضرت اقدس مسیح موعود کو الہاماً ایک ایسے قادر کے غلام کی بشارت عطا فرمائی گئی تھی جس کی آمد سے گھر نور اور برکت سے بھر جانا تھا.گھر سے مُراد ایک تو اینٹ سیمنٹ سے بنی ہوئی عارضی قیام گاہ ہوتی ہے دوسرے وہ جماعت جس سے قلبی تعلق ہو.کیا یہ الہام پورا ہو کر حضرت اقدس کی صداقت کا نشان ٹھہرا ؟ کیا غلام قادر احمد کے وجود سے واقعتا وابستہ نور اور برکت کو غیر معمولی طور پر محسوس کیا گیا ؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے آپ کی جماعتی خدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ اندازہ ہو کہ نومبر 1989ء سے اپریل 1999ء تک آپ کے نور اور برکت سے کہاں کہاں، کس قدر اور کب تک اثرات کے حامل فوائد حاصل ہوئے اگر چہ سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے.آپ نے ایک حقیقی صالح خادم کی صفات کے ساتھ خدمات کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی تمام صلاحیتیں اس راہ میں جھونک دیں.اسی مضمون کو اگر ہم اسے زاویے سے دیکھیں کہ شرائط بیعت، خُدام الاحمدیہ کا عہد نامہ،حضرت اقدس مسیح موعود اور آپ کے خلفائے کرام کی تمام تر نصائح پر حتی المقدور مثالی عمل کہیں نظر آتا ہے تو اس نوجوان میں جو الہی نور اور برکت سے تائید یافتہ تھا.اللہ تعالیٰ جماعت کو بکثرت خدمات محمود پر فائز ایسے خدام عطا فرماتا چلا جائے.آمین ہماری جماعت کا سب سے بڑا Pride of Performance تمغہ حسن کارکردگی خلیفہ وقت کی خوشنودی ہے.یہ اعزاز قادر کو کئی بار ملا.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے.حضور پر نور نے فرمایا: وو ربوہ میں کمپیوٹر کے شعبے کا آغاز کرنے اور پھر اسے جدید ترین ترقی یافتہ خطوط پر ڈھالنے کی ان

Page 150

149 کو توفیق ملی.وہاں بہت ہی عظیم کام ہو رہے ہیں کمپیوٹر میں پوری ٹیم تیار ہو گئی ہے اور ان کا نظام دُنیا میں کسی ملک سے پیچھے نہیں ہے.جدید ترین سہولتیں مہیا کی گئی ہیں اور اللہ تعالی کے فضل سے ہمارے بہت سے کام جو زیادہ کاموں کے اجتماع کی وجہ سے یہاں نہیں کئے جاسکتے وہ ہم وہاں ربوہ بھیجتے ہیں اور وہاں کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ نے ہمارے اس کام کو آسان کر دیا ہے.بہت سی کتابیں چھپ رہی ہیں.بہت سے ایسے کام ہیں وہ وہاں چلے جاتے ہیں وہاں سے Disc بن کر ہمارے پاس آجاتی ہے تو اس کا بھی سہرا غلام قادر مرحوم کے سر ہے.66 خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 16 اپریل 1999 ء بیت فضل لندن، الفضل انٹر نیشنل 4 جون 1999ء) محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید صدر انجمن احمد یہ تحریر فرماتے ہیں.وو B.E کرنے کے بعد اپنے ذاتی خرچ پر امریکہ سے کمپیوٹر سائنس میں M.S کی ڈگری حاصل کی اور حسب ہدایت مرکز ، ربوہ میں مورخہ 7 نومبر

Page 151

150 1989 ء کو حاضر ہو گئے.پاکستان میں جماعت کے کمپیوٹر سیکشن کے انچارج مقرر ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پاکستان میں جماعت کے اداروں کی کمپیوٹرائزیشن کے لئے انجمنوں کے نمائندے پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی تھی.مکرم مرزا غلام قادر مرحوم اس کمیٹی کے سیکریٹری تھے.دراصل کمپیوٹرائزیشن کے سارے کام کو انہوں نے ہی منظم کیا.یوں کہیں صفر سے کام شروع کیا اس کو کئی سالوں کی محنت سے مکمل اور منظم کیا.اب اس کے نتیجہ میں صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید انجمن احمدیہ کے اپنے اپنے کمپیوٹر سیکشن ہیں اور ان انجمنوں کے ماتحت بھی مزید شعبوں کے اپنے اپنے الگ کمپیوٹر سیکشن ہیں“.صفر سے کام شروع کرنا محض محاورہ نہیں تھا بلکہ حقیقتا صفر سے کام شروع کیا.اہلِ ربوہ میں سے بہت کم احباب ایسے تھے جنہوں نے اُس وقت کمپیوٹر کی شکل دیکھی ہوئی تھی.قادر نے ” سرائے خدمت گیسٹ ہاؤس خدام الاحمدیہ مرکز یہ میں 1990 ء کے اوائل میں با قاعدہ کمپیوٹر پر کام کر کے دکھایا اس Demonstration میں صرف اعلیٰ عہدے داران ہی مدعو تھے اُس وقت کمپیوٹر بہت مہنگے ملتے تھے اور عام استعمال کا رواج نہ ہوا تھا.اسی سال تحریک جدید کے ایک دفتر میں آپ نے باقاعدہ کام کا آغاز کیا بعد ازاں یہ دفتر حفاظت کے خیال سے قصر خلافت میں دفتر پرائیوٹ سیکرٹری سے ملحق عمارت میں منتقل کر دیا گیا جہاں آپ نے کم و بیں دس سال خدمات سر انجام دیں.ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز کا قیام: انچارج کمپیوٹر سیکشن صدر انجمن احمد یہ موجودہ چیئر مین محترم

Page 152

151 ڈاکٹر غلام احمد فَرُّخ صاحب تحریر فرماتے ہیں.کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ احمدی احباب و خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی غرض سے ایک جماعتی تنظیم قائم ہے، جس کا نام ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز Association of) (Ahmadi Computer Professionals ہے.یہ ایسوسی ایشن مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت اور دعاؤں سے قائم فرمائی تھی.ایسوسی ایشن کا مرکزی دفتر ربوہ (پاکستان) میں ہے.اس کے علاوہ جہاں ضرورت ہو وہاں مرکزی مجلس عاملہ کی منظوری سے مقامی مجلس قائم کی جاسکتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک ربوہ، لاہور، واہ کینٹ اسلام آباد، راولپنڈی اور کراچی میں مقامی مجالس قائم ہو چکی ہیں.ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز کا دستور اساسی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے رائج ہے جس کے مطابق ایسوسی ایشن خالصتاً پیشہ ورانہ -1 -2 اور غیر سیاسی تنظیم ہے.جس کے مندرجہ ذیل تین مقاصد ہیں :- احمدیت اور کمپیوٹر سائنس اور انجنیئرنگ کے شعبوں کو ترویج دینا.اس کے ممبران کو جدید علوم اور طریقہ ہائے کار میں مدد دینا اور ان کے اندر خود اعتمادی، ہمت اور بُردباری پیدا کرنا تاکہ وہ اس شعبہ میں امتیازی حیثیت حاصل کر سکیں.-3 اس کے ممبران میں انتہائی انہماک کے ساتھ ایمانداری، سچائی اور محنت کی روح پیدا کرنا اور خدا تعالیٰ سے اپنے ذاتی اور پیشہ وارانہ معاملات میں ہدایت اور رہنمائی حاصل کرنا.“ جون 1982 ء میں حضرت خلیفہ ایچ الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجنیرز (IAAAE)

Page 153

152 کے ربوہ کے ایک اجلاس میں جماعتی ادارہ جات میں کمپیوٹر کے استعمال کی خواہش کا اظہار فرمایا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں یہ تجویز فرمایا کہ پورے ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین سے رابطہ کر کے انہیں ربوہ مدعو کیا جائے.اگست 1993ء میں جب مرزا غلام قادر صاحب تحریک جدید کے نمائندہ کے طور پر جلسہ سالانہ انگلستان تشریف لے گئے تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم قادر صاحب کو یہ ہدایت فرمائی کہ پاکستان میں احمدی کمپیوٹر سائنٹسٹس اور انجینئرز کی ایک ایسوسی ایشن قائم کی جائے.نیز حضور ایدہ اللہ نے مکرم مرزا خورشید احمد صاحب کو بھی ہدایت فرمائی کہ وہ اس سلسلہ میں مکرم ناظر صاحب اعلیٰ سے بات کریں.بعد ازاں محترم قادر صاحب نے واپس پاکستان آکر حضور کی ہدایت کے مطابق اس منصوبے پر کام شروع کر دیا.آپ نے ایسوسی ایشن کے متوقع ممبران کی تلاش کے لئے تگ و دو شروع کر دی اور اس سلسلہ میں روز نامہ الفضل ربوہ کی مورخہ 26 اور 27 اگست 1994ء کی اشاعت میں ایک اعلان شائع کروایا جس میں کمپیوٹر سے متعلقہ احمدی افراد کو رابطہ کرنے کا کہا گیا کہ وہ اپنے کوائف وغیرہ بھیجیں.نیز مورخہ 31 /اگست 1994ء کو آپ نے مختلف جماعتوں کے امراء اضلاع کو اس درخواست کے ساتھ خطوط روانہ کئے کہ الفضل میں شائع شدہ اول الذکر اعلان کو جمعۃ المبارک کے موقع پر بیوت میں پڑھ کر سُنا ئیں.ان اعلانات کے باعث کمپیوٹر سے متعلق طالب علموں اور ماہرین نے آپ سے رابطہ کیا جن کی تعداد 29 تھی.آپ نے 19 جنوری 1995 ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی

Page 154

153 خدمت میں درج ذیل خط ارسال کیا.شدد کبوتر 207 روان کنی میرسند اصل خط بخدمت خلیفة المسیح الرابع صفحه 1 بسم الله اثر من الرحیم محمدة وانتسلى على رسوله الكريم وعلى عبدة في المسيح الموعود 19-1-95 سيدي السلام کے نزدیم و خداوند اتلیه و میر کیا قبائے اگروت 23 میں ہوکر سالانہ ان کے موقع پر حضور نے خاک ارکو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ پاکستان میں احمدی کمپیوٹر سائنٹسٹس اور انجینیز شرنگی ایسوسی ایشن قائم کی جائے.نیز مرزا خورشید احمد مہ جب کو بھی ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اس بارہ میں کے نظریہ میں اعلی سے بات کروں.ہیں ہدایت کی روشنی میں فکری ناظر صاحب اعلی کی اجازت سے روز نامہ الفضل میں مخدرات مواقع پر اعلان شائع کروائے گئے نیز عوض بڑے اضلائے کے امراء کو بھی خطوط لکھے گئے تاکہ مساجد میں اعلان کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ احباب تک یہ اطلاع پہنچے سے کے اس اعلان کے ذریعہ BSc MAST یا کم از کم دو سالہ ڈیلومہ کو رسل کے حال افراد سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنے کوائن بھجوائیں.چنانچہ اندر کے نتیجہ میں کل 29 احباب کے کوائف موصول ہوئے ہیں جسکی تقسیم اس طرح سے ہے.ایم ایس سی في اليس شيء 4 - 3 - 4 ڈیلرمہ ( 2 سال) ڈپلومہ 2 سال سے کی) 5 اب معیار پر اُترنے والے احباب کا پہلا اجلاس بلانے کا ارادہ ھے.ایسو سی ایشن کی تنظیم ساری انٹر نیمی الیسوسی ایشن آن احمدی اور کینیڈاٹ و انجینیٹرز کی طور پر ہی کرنے کا ارادہ ہے.(جاری ہے کم

Page 155

154 اس اجلاس میں مندرجہ ذیل اور طے کرنے کی تجویز ھے.اغراض و مقاصد ر ممبر شریف کی لئے قواعد مندرجہ ذیل عہدوں کا انتخاب President Vice President General Secretary Financial Secretary Auctitor -1 -2 وع حضور اور ان کی خدارت میں درخواست ھے کہ مندرجہ بالا امور کو پایہ تکمیل تک پہچانے کہ لیے مبران کا ہمار اجلاس بلانے کی اجازت مرحمت فرماویں ایسوسی ایشن کی لائے Patron نامر و فرمایش جنگی ونیز نگرانی یہ اجلاس ہو اور آئندہ کے لئے بھی راہنمائی حال رہے.اگر یه جور پسند فرماؤں تو ایسوسی ایشن کا نام ASSOCIATION OF AHMAD COMPUTER SCIENTISTS رکھ دیا جائے E ENGINEERS.ایسوسی ایشن کے بارہ میں جملہ سفارشات حضور کی خدمت میں بغرض منظوری انشا رو اشند بھجوائی جائیں گی.تمام امور کے خوش اسلوبی سے انجام پانے کے لئے درخواست دعا ھے.19.1.95 والسلام اصل محط بخدمت خلیفة المسیح الرابع صفحه 2

Page 156

155 یکم دسمبر 1995ء کو ربوہ میں اس سلسلہ میں پہلی میٹنگ ہوئی.جس میں 9 ممبران نے شرکت کی.اس میں ایسوسی ایشن کا آئین تجویز کیا گیا.66 بعد ازاں محترم مرزا غلام قادر صاحب نے مورخہ 19 / مارچ 1996ء کو حضور ہ اللہ کو ایک اور خط لکھا جس میں ایسوسی ایشن کے آئین کی منظوری کی ایده درخواست کی گئی.آپ نے لکھا: سیدی ! جلسہ سالانہ یو کے (U.K) 1993ء کے موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں احمدی کمپیوٹر سائنٹسٹس کی تنظیم سازی کا کام شروع کیا گیا تھا.اس کی ابتدائی رپورٹ زیر نمبر 207 مورخہ 9/1/1995 حضور کی خدمت میں بھجوائی گئی تھی.اس کے جواب میں مورخہ 28/1/1995 حضور کا ارشاد موصول ہوا تھا.ٹھیک ہے جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ آپ کو خلوص، محنت اور حکمت سے کام بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.“ یکم دسمبر 1995ء کو متوقع ممبران ایسوسی ایشن کی ایک میٹنگ طلب کی گئی جس میں 19 احباب نے شرکت کی.اس اجلاس میں تنظیم کا آئین تجویز کیا گیا.اس کی تیاری میں انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی کیٹیکٹس اینڈ انجینئرز (IAAAE) کے آئین سے شق وار موازنہ بھی کر دیا گیا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں منظوری کی درخواست ہے نیز

Page 157

156 درخواست ہے کہ ایسوسی ایشن کا Patron مقرر فرمائیں.تا کہ جملہ عہد یداروں کے انتخاب کروا کر تنظیم اپنا با قاعدہ کام شروع کر سکے.جملہ شرکاء میٹنگ نے اجلاس کے دوران اپنے ذوق و شوق کا اظہار کیا.کہ وہ اس تنظیم کے ذریعہ اپنی صلاحیتیں اور وقت جماعت کے لئے صرف کرنے کے لئے تیار ہیں.تاحال تنظیم کی رکنیت کے لئے 136 احباب کے کوائف موصول ہوئے ہیں.سب احباب کے لئے دُعا کی درخواست ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام قادر اس خط کے جواب میں محترم منیر احمد جاوید صاحب (پرائیوٹ سیکریٹری) نے مورخہ 6 اپریل 1996 ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے درج ذیل جواب لکھا: فرمایا.آئین منظور ھے اور اس کے Patron آپ خود ھی ھوجائیں.“ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ایسوسی ایشن کی منظوری آنے کے بعد آپ نے مورخہ 26 جون 1996 ء کو ایک بار پھر امراء اضلاع کو خطوط روانہ کئے جن میں کہا گیا کہ کمپیوٹر سائنس یا کمپیوٹر انجینئر نگ میں ڈگری یا ڈپلومہ ہولڈر افراد اپنے کوائف مورخہ 20 جولائی 1996 ء تک آپ کو بھیج دیں تا کہ ابتدائی کوائف ملنے کے بعد تفصیلی کوائف فارم پر کرنے کے لئے رابطہ کرنے والے افراد کو بھجوایا جاسکے.

Page 158

157 ایسوسی ایشن کا پہلا کنونشن اور پہلا تنظیمی انتخاب: آئین کی منظوری اور ممبران کے بنیادی کوائف جمع کرنے کے بعد ایسوسی ایشن کے پہلے انتخاب کا مرحلہ در پیش تھا جس کے لئے آپ نے مورخہ 4 ستمبر 1996 ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں درج ذیل خط لکھا.سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز کا پہلا کنونشن انشاء اللہ 6 ستمبر 1996 ء کو منعقد کیا جارہا ہے.اس موقع پر عہدیداران کے انتخاب بھی کرائے جائیں گے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے اجلاس کی کامیابی کے لئے دُعا کی درخواست ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام قادر 4/9/96 ( پیٹرن ایسوسی ایشن) مورخہ 6 ستمبر 1996ء کو خلافت لائبریری ربوہ میں جنرل باڈی کی پہلی میٹنگ ہوئی جس میں 42 ممبران نے شرکت کی.اسی روز ایسوسی ایشن کا پہلا سالانہ کنونشن منعقد ہوا جس میں ایسوسی ایشن کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران کا انتخاب عمل میں لایا گیا اس انتخاب کے وقت 40 ممبران موجود تھے اکثریتی رائے سے محترم مرزا غلام قادر صاحب کو AACP کا چیئر مین منتخب کر

Page 159

158 لیا گیا.اس لحاظ سے محترم مرزا غلام قادر صاحب اس ایسوسی ایشن کے پہلے پیٹرن تھے اور پہلے منتخب چیئر مین بھی آپ ہی تھے.اس کنونشن کی رپورٹ روز نامہ الفضل کے مورخہ 22 ستمبر 1996ء کے پرچہ میں شائع ہوئی.بعد ازاں آپ نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں انتخابات کے نتائج کی تفصیل بھیجی اور منظوری کی درخواست کی.سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے انتخاب کی منظوری کے لئے لکھے گئے خط کا جواب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے مکرم منیرالدین شمس صاحب نے مورخہ 7 اکتوبر 1996ء کو دیا جس میں آپ نے لکھا کہ حضرت صاحب نے ازاراہِ شفقت سفارشات منظور کرتے ہوئے منظوری مرحمت فرمائی ہے.منظوری آنے کے بعد بطور چیئر مین ایسوسی ایشن آپ نے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی پہلی میٹنگ مورخہ 28 فروری 1997ء بروز جمعۃ المبارک بمقام دارالضیافت ربوہ میں رکھی جس میں ایسوسی ایشن کی ترقی کے لئے غورو خوض کیا گیا.ربوہ میں ایسوسی ایشن کا باقاعدہ قیام : ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز کے ربوہ کے عہدیداران کے انتخابات مورخہ 7 ستمبر 1997ء بمقام ایوانِ محمود ربوہ شام چار بجے محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوئے جس میں مکرم کلیم احمد قریشی صاحب کو ربوہ کا پہلا صدر منتخب کیا گیا نیز بعض اور عہد یدارن کا با قاعدہ انتخاب بھی آپ کی زیر صدارت عمل میں آیا.بعدازاں 19 / اپریل 1998 ء بروز اتوار ربوہ میں ایسوسی ایشن کا دوسرا سالانہ کنونشن اور 14,13 / مارچ 1999ء کو تیسرا سالانہ کنونشن منعقد کیا

Page 160

159 گیا.تیسرے سالانہ کنونشن کے موقع پر ٹیکنیکل پیپرز کے علاوہ سافٹ ویئر / ہارڈ ویئر کی ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا.نیز ایسوسی ایشن کی طرف سے شائع کردہ پہلا میگزین بھی ممبران میں تقسیم کیا گیا.یہ حقیقت ہے کہ محترم قادر صاحب ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اس چراغ کو جلانے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف تھے کہ جس کی کو اب پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں پہنچ چکی ہے.آپ چاہتے تھے کہ جماعت کے نوجوان اس جدید علم کی طرف آئیں اور اس کے لئے واقف یا غیر واقف کوئی بھی شخص آپ سے رابطہ کرتا تو آپ اُسے مکمل گائیڈ لائن مہیا کرتے.اس کی ایک مثال شہر سرگودھا کے رہنے والے مکرم شبیر صاحب ہرل کا یہ خط بھی ہے جو آپ نے اپنے بیٹے کی تعلیم کے سلسلہ میں محترم قادر صاحب سے رہنمائی پانے پر انہیں شکریہ کے طور پر لکھا.آپ نے لکھا.بخدمت مکرم و محترم مرزا غلام قادر صاحب! کچھ عرصہ قبل ماہ جولائی میں آپ کی طرف سے خاکسار کو بچے خط کا جواب مل گیا تھا جو بڑا تفصیلی اور اخلاص سے پُر تھا.جزاکم اللہ ا سرگودھا میں ایک ادارہ I.T.M کے نام سے کھلا ہے..کو وہاں B.C.S میں داخلہ دلوا دیا ہے.یہی بچے کی بھی دلچسپی تھی.وہ (ادارہ والے) پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کے لئے کوشاں ہیں.اور دعوے تو ان کے بہت سے ہیں اللہ تعالیٰ خیر فرمائے.آپ سے درخواست دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ منور احمد کو کامیاب و کامران فرمائے اور خادمِ دین بنائے.کمپیوٹر سائنسز میں تعلیم مکمل کر کے خدمت سلسلہ کرنے والا بنے.آپ نے جس محبت اور خلوص کے ساتھ خاکسار کی رہنمائی فرمائی وہ

Page 161

160 دینی محبت اور تعلق کی اعلیٰ مثال ہے.ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.جزاکم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.آمین والسلام خاکسار محمد شبیر ہرل دار الحمد - 134 عبداللہ کالونی سرگودھا درج بالا خط اس بات کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ محترم قادر صاحب کی شخصیت احباب جماعت کے لئے کمپیوٹر جیسے جدید علم میں ایک مشعل راہ کی حیثیت اختیار کر گئی تھی.آپ کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ آپ کس قدر مصروف شخص تھے.مگر ان سب باتوں کے باوجود ایک انجان شخص کے بیٹے کے لئے ایک تفصیلی خط محض اللہ لکھنا یقیناً آپ ہی کا وصف ہے.شعبہ وصیت : محترم قادر صاحب کے پراجیکٹس میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا پرا جیکٹ وصیت کا تھا.اس بارے میں دفتر وصیت کے نگران اعلیٰ محترم مرزا عبد الصمد احمد صاحب سیکریٹری مجلس کار پرداز صدر انجمن احمدیہ ربوہ بیان فرماتے ہیں :- محترم قادر صاحب نے اس پراجیکٹ پر بہت زیادہ محنت کی.شہادت سے ایک روز قبل بھی آپ کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی کہ موصی کی جائیداد کی تشخیص کس طرح کی جائے.آپ اسے یونیورسل بنانا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ دُنیا میں کہیں بھی بیٹھا ہوا کوئی بھی شخص جو موصی سے متعلقہ ہو اور معلومات حاصل کرنا چاہتا ہو تو وہ گھر بیٹھے یہ معلومات حاصل کر سکے.گو آپ کا

Page 162

161 یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا.لیکن جس قدر بھی آپ نے یہ سافٹ ویئر بنا کر دیا.ہم ابھی تک اُسی پر کام کر رہے ہیں.الحمد للہ آپ نے وصیت سے متعلق تمام فائلوں کا ڈیٹا کمپیوٹر میں انٹر کر دیا تھا سوائے ان کے جو فائلیں اس وقت دستیاب نہ تھیں.البتہ فوت شدگان کی ڈیٹا انٹری کا کام پچاس فیصد ہوا تھا.آپ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ کسی بھی شعبہ کا سافٹ ویئر بنا کر دیتے تو وہاں نئے لوگ رکھنے کے بجائے پہلے سے موجود کارکنان کو خود ٹریننگ دے کر اس قابل بنا دیتے تھے کہ وہ کام سنبھال سکیں.دفتر وصیت کے جن کارکنان کو اُنہوں نے ٹریننگ دی ان میں سوائے مکرم نعمت اللہ صاحب شمس کے کہ جن کی Qualification بی اے ہے.باقی تمام کی تعلیمی قابلیت میٹرک تھی.اور اب بھی سبھی کارکنان ما شاء اللہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں.1993 ء تک آپ اس پراجیکٹ سے متعلق پیپر ورک یا پروگرامنگ کرتے رہے.اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آکر پوچھ لیتے تھے عموماً فائلوں کی Study ہی سے عمیق گہرائی تک پہنچ جاتے تھے.اب ہر موصی کا ریکارڈ فوراً سامنے آجاتا ہے اور فائلیں نہیں کھنگالنی پڑتیں بلکہ اب اگر کوئی فون بیرون از ربوہ سے بھی آئے تو ہم اُسے چند منٹ میں متعلقہ معلومات فراہم کر دیتے ہیں محترم قادر صاحب کی شہادت سے چھ سات ماہ قبل وصیت کا کام دوشعبوں میں منقسم ہو گیا تھا.اب بیرون از پاکستان کے موصیان وکالت مال ثانی تحریک جدید انجمن احمدیہ کے ماتحت ہیں جب کہ پاکستان میں رہنے والے موصیان شعبہ مجلس کار پرداز صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت ہیں دونوں کے پاس اپنے اپنے کمپیوٹرسیکشن ہیں.“

Page 163

162 شعبه تجنید و شعبہ مال میں خدمات: اس شعبہ میں 1991-1990 میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا.محترم حافظ مظفر احمد صاحب ناظر دعوت الی اللہ صدر انجمن احمد یہ بیان فرماتے ہیں:- خاکسار نے 1989ء میں جب بطور صدر خُدام الاحمدیہ پاکستان ذمہ داریاں سنبھالیں تو طبعاً اپنے ساتھ کام کرنے والی مستعد ٹیم کی ضرورت تھی.ایسے مستعد نوجوانوں کی تلاش کے دوران مرزا غلام قادر صاحب سے بھی تعارف ہوا.اُن کی شخصیت میں ایسی جاذبیت محسوس ہوئی کہ پہلے ہی سال انہیں مہتم تجنید کی ذمہ داری دی گئی اور یہ فرض سونپا گیا کہ خُدام الاحمدیہ پاکستان کی تجنید کی پروگرامنگ کر کے اسے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیں تاکہ ہر سال مجالس سے تجنید کی فہرستیں منگوانے کے جھنجٹ سے نجات ملے.یہ کام اُنہوں نے مسلسل محنت اور مستقل مزاجی سے مکمل کیا.اور حسب ارشاد جب اس ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی تو بظاہر یہ محنت اکارت جاتی نظر آتی تھی.مگر قادر تو اطاعت کے پتلے تھے خوشی سے تعمیل کی اور کسی عمل ملال کا مظاہرہ نہ کیا.خُدام الاحمدیہ میں مختلف المزاج رفقاء اور کارکنان کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ تجربہ بھی ہوا کہ بعض طبائع یاد دہانی کے بغیر مفوضہ کام ملی نہیں کر پاتیں جب کہ بعض ایسے مستعد اور فرض شناس کارکن ہوتے ہیں جنہیں دوبارہ کہنے اور یاد دہانی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی.ایسے ہی لوگوں کو قرآنی محاورہ میں ”سلطان نصیر کہہ کے ان کے مہیا ہونے کی دُعا سکھائی گئی ہے.قادر ان معانی میں بلا شبہ سلطان نصیر تھے.ان میں سمعنا واطعنا کا قابلِ قدر

Page 164

163 مادہ تھا اور ایک دفعہ سپرد کر دینے سے تسلی ہوتی تھی کہ بس کام ہو چکا.مهتم تجنید کے بعد 92-1991ء سے 94-1993 ء تک تین سال ان کے پاس مہتم مال کی اہم ذمہ داری رہی جسے انہوں نے نہایت محنت، با قاعدگی اور خوش اسلوبی سے نبھایا.وہ روزانہ با قاعدہ دفتر میں آکر وقت دیا کرتے تھے اور شعبہ مال کے انتظام اور چندہ جات کے نظام کو اُنہوں نے بہترین رنگ میں منظم کیا.قادر صاحب میں مستعدی کے آثار دیکھ کر توجہ ہوئی کہ کمپیوٹر میں اُن کی اعلیٰ تعلیم اور مہارت سے بھی خُدام الاحمدیہ کو استفادہ کرنا چاہیے.شعبه اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ میں خدمات: شعبہ اشاعت خُدام الاحمدیہ کے زیر انتظام شائع ہونے والے رسائل ” خالد “ اور ” تشخید“ کی طباعت اور تقسیم میں ایک بڑی شکایت تاخیر کی ہوا کرتی تھی.اور اُس کی بڑی ذمہ داری کاتبوں پر ڈالی جاتی تھی.محترم قادر صاحب کے مشورہ کے ساتھ یہ طے ہوا کہ خُدام الاحمدیہ کے لئے ایک کمپیوٹر خرید لیا جائے.جس میں رسائل کی کمپوزنگ کا کام بھی کیا جائے گا اور دیگر ضروری دفتری ریکارڈ بھی کمپیوٹر پر رکھے جائیں.یہ اسکیم حضور انور کی خدمت میں منظوری کے لئے پیش کی گئی اور منظوری کے بعد 1990ء کے اوائل میں خُدام الاحمدیہ پاکستان کے دفتر میں کمپیوٹر نے کام شروع کر دیا.اس سے پہلے صرف دفتر وصیت میں کمپیوٹر موجود تھا گویا خُدام الاحمدیہ کو کمپیوٹر پر رسائل کی کمپوزنگ کے سلسلہ میں اولیت دلوانے میں مکرم مرزا غلام قادر صاحب کی مساعی جمیلہ بھی شامل تھیں.کسی بھی کام کے آغاز کے لئے جس صبر آزما محنت کی ضرورت ہوتی ہے مکرم مرزا غلام قادر صاحب نے اس کا خوب حق ادا کیا.شعبہ مال میں وقت دینے کے ساتھ ساتھ شعبہ کمپیوٹر میں بھی مسلسل وقت

Page 165

164 دیتے رہے اور خُدام لاحمدیہ کے عملہ میں سے دو کارکنان مکرم سید صہیب احمد صاحب اور مکرم طارق محمود صاحب کو تربیت دے کر تھوڑے ہی عرصہ میں اس قابل کر دیا کہ رسائل کمپیوٹر پر کمپوز ہو کے شائع ہوسکیں.خُدام الاحمدیہ کے لئے اُن کی یہ ایک گرانقدر خدمت تھی کہ رسائل لیٹ ہو جانے کی دیرینہ شکایت دور ہوئی.آپ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی عاملہ کے ممبر کے حیثیت سے کئی ایک کمیٹیوں کے ممبر بھی رہے جیسا کہ یکم رنومبر 1990ء سے.31 اکتوبر 1994ء تک چار سال آپ اشاعت کمیٹی کے ممبر رہے.قادر بظاہر خاموش طبع تھے مگر ان کی خاموشی کے پردے میں بے پناہ عملی قوت موجود تھی.بظاہر وہ ناتواں کی جان تھی مگر عزم صمیم کا پیکر تھی.خدام الاحمدیہ کے اس دور کے بعد جب ایڈیشنل دعوت الی اللہ کی ذمہ داری خاکسار کے سپرد ہوئی تو مرزا غلام قادر صاحب سے رابطوں کے سلسلے پھر بحال ہوئے.وہ ہمارے اس شعبہ کے تعلق میں ضروری کوائف کا ریکارڈ رکھ کر عند الطلب ہمیں مہیا کرتے تھے.اس میں بھی ہمیشہ ان کی طرف سے تعاون علی البر کے عمدہ نمونے دیکھنے میں آئے.جب بھی ان سے کوائف لینے کی ضرورت پیش آئی انہوں نے خوش دلی سے بروقت ضرورت پوری کی.مشورہ طلب کرنے پر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر دیانت دارانہ رائے دیتے تھے.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزاء عطا فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے.یہ تو خالصتاً دفتری تعلق میں قادر کی چند یادیں تھیں مگر ایک خوش گفتار اور خوش کردار انسان کے ناتے بھی قادر صاحب ایسے نہیں تھے کہ انہیں جلد بھلایا جا سکے.الغرض قادر نا قابل فراموش مقالہ ہے جس انداز میں جواں مردی سے انہوں نے جان دی اس حوالہ سے بھی وہ زندہ ہے اور رہے گا.خُدام الاحمدیہ پاکستان کے پہلے کمپوزر مــکــرم سید صهيب

Page 166

165 احمد صاحب ابن مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے نواسے اور حضرت محمود اللہ شاہ صاحب کے پوتے ہیں) اس شبعے میں آپ کی خدمات کے بارے میں بیان فرماتے ہیں:.کمپیوٹر کے آنے سے قبل ہمارے ہاں رسالوں کی کتابت کا پرانا طریقہ رائج تھا یعنی کا تب سے لکھوایا جاتا تھا.کا تب ایک مسطر پر کتابت کرتے تھے جو انہیں خود تیار کرنا پڑتی تھی.سادہ کاغذ پر مسطر کشید کر کے اُسے چھپوایا جاتا تھا.پھر اس پر ماوا تیار کر کے اس میں پیلا رنگ ڈال کر کاغذ کو رکھا جاتا تھا تاکہ نظر خراب نہ ہو.سیاہی کان پور سے آتی تھی جسے اچھی طرح پکا کر تیار کیا جاتا تھا.جو لفظ ٹوٹ جاتے تھے اُن کو دوبارہ اُلٹا ہی لکھنا پڑتا تھا.اس لحاظ سے بے حد مشکل تھی.گو کہ کتابت کی کاپی پڑھنی آسان تھی اور اس میں اغلاط کم ہوتی تھیں اور پلیٹ بھی جلد لگ جاتی تھی لیکن کتابت میں بہت زیادہ وقت لگتا تھا.1990ء میں محترم حافظ مظفر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ تھے اور مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب مہتم اشاعت تھے جب کہ رسالہ ”خالد کے مدیر مکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب اور رسالہ تفخیذ الاذہان کے مدیر مکرم فضیل عیاض احمد صاحب تھے.دونوں رسالوں کی کتابت عموماً ایک ہی کا تب کیا کرتے تھے اور یوں ایک کاتب کے رحم و کرم پر ہونے کے باعث رسالوں کی اشاعت میں تاخیر کا مسئلہ ہمیشہ قائم رہتا.اس لئے رسالوں کی کتابت بذریعہ کمپیوٹر کرنے کا پروگرام بنایا گیا.اس مقصد کے لئے مکرم مرزا غلام قادر صاحب کے ذریعہ لاہور سے کمپیوٹر کی خریداری کی گئی.چنانچہ دو کمپیوٹر Apple Macintosh خریدے گئے اور ان میں اردو پروگرام نستعلیق نظامی ڈالا گیا.جب یہ کمپیوٹر لائے گئے تو ” سرائے خدمت ( گیسٹ ہاؤس) کے ایک کمرے

Page 167

166 میں رکھے گئے اور اس کا افتتاح حضرت مولوی محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے (رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے فرمایا.کمپیوٹر پر ”بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ لکھ کر افتتاح کیا گیا تھا.رسالہ تشخیز کے لئے عزیزم طارق محمود ناصر صاحب (جو اب امریکہ میں ہیں) اور رسالہ خالد کے لئے خاکسار مقرر ہوا.سب سے پہلے ہمیں رسالہ کا ایک صفحہ لکھنے کے لئے دیا گیا پھر آہستہ آہستہ جب ہم ماہر ہوتے گئے تو پھر ایک رسالہ عزیزم طارق محمود ناصر اور ایک خاکسار لکھتا تھا.رسالے خدا کے فضل سے نسبتاً وقت پر چھپنا شروع ہو گئے.مہتمم مقامی ربوہ محترم راجہ منیر احمد صاحب سابق صدر خُدام الاحمدیہ پاکستان نے صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کو 95-1994ء میں اپنی مرکزی عاملہ میں شامل کیا اور مہتم مقامی ربوہ جیسی اہم ذمہ داری سونپی.محترم قادر صاحب یکم نومبر 1994ء سے 31 /اکتوبر 1995ء تک مہتم مقامی کے عہدہ پر فائز رہے.اور قابلِ رشک خدمات ادا کرنے کا موقع ملا.خدمت دین کی غیر معمولی توفیق اور سلیقہ نصیب ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اس سعادت مند کے کندھے پر ایک شب زندہ دار کی مقبول دعاؤں کا ہاتھ ہے جو فضل الہی کا جاذب بنا دیتا ہے.حضور پر نور کا دعاؤں سے معطر مکتوب ملاحظہ ہو.

Page 168

167 واجعل لي مِن لَّدُنكَ سُلْطَلْنَا نَصِيراً انا فتحنا لك فتحا مبينا الله يدر لبسم الله الرحم الام نَحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ امام جماعت احمدية لندن 17.11.94 اسلام میکی مور ته دا له و برکاته آپ کی رپورٹ باب جاوید اقبال موصول ہوئی.ماشاء اللہ خوش کن رپورٹ ہے.جزاکم ال تعال احسن الجزاء اللہ تعالی آپ کو خوب سے خوب تر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی غیر معمولی نفرت اور بصیرت عطا فرمائے اور سلسلہ کی شان و شوکت کو دوبالا کرنے کی سعادت خطا کرنا ہے.تمام ساتھیوں کو محبت بھر اسلام.والسلام فاکنار مرزی در خليط الح الدراج مهتم مقامی ربود کے نام خلیفہ اصبح الرابع کا محط نام لمسیح

Page 169

168 سیلاب کی تباہ کاریوں میں خصوصی خدمات: اگست 1995 ء دریائے چناب میں غیر معمولی سیلاب نے عذا ناک صورت اختیار کر لی.ربوہ کے گرد و نواح میں بھی سینکڑوں دیہاتوں میں سیلابی ریلے نے تباہی مچادی ربوہ کے محلہ دارالیمن شرقی کے حفاظتی بند کے قریب بیضوی شکل کا کٹاؤ شروع ہوا.جس سے واپڈا کا حفاظتی بند بالکل ڈوب گیا.پانی کا ریلا داریمن کے بند کو چھونے لگا یہ بند 600 فٹ اونچا ہے.اگر خدانخواستہ یہ بند ٹوٹ جاتا تو ربوہ کے نصف محلوں میں سیلابی ریلا آجاتا.صدر صاحب عمومی ربوہ نے فلڈ ریلیف کمیٹی قائم کی جس کے ایک رکن مہتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ مکرم صاحبزادہ تھے.میاں قادر صاحب کے ذمّے لوگوں کو سیلاب کی اطلاع دینا، محفوظ مقامات تک پہنچانا اور بند کو مضبوط بنانا تھا اس کام کے لئے خُدام اور دو سو انصار نے مل کر کام کیا.بند کو اونچا کرنا پانی سے جنگ کے مترادف تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور خُدام کی انتھک محنت سے یہ جنگ خدامِ ربوہ نے جیت لی اور ربوہ محفوظ رہا.الفضل 31 جولائی 1995ء کی اشاعت میں سیلابی پانی سے اس جنگ کا ذکر اس طرح ہے.مہتم مقامی نے خُدام کی ڈیوٹیاں لگا ئیں مجموعی طور پر 400 خُدام اور 200 انصار نے بند کی مضبوطی کے کام میں حصہ لیا.بند کی کمزور جگہوں کو مضبوط کرنے کے علاوہ مزید مٹی ڈال کر اسے تقریباً دو فٹ اونچا کیا گیا.چنانچہ جب پانی کا بڑا ریلا آیا تو پانی بند کی اونچائی تک آجاتا رہا.جوں جوں پانی چڑھتا گیا بند کو ساتھ ساتھ اونچا کرنے کا کام جاری رہا.چنانچہ دریا کی

Page 170

169 طرف بند کو دو اڑ ہائی فٹ اور دوسری طرف تقریباً ایک فٹ اونچا کر دیا گیا ہے.جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے ربوہ کے محلہ جات محفوظ رہے اب پانی اُتر گیا ہے اور بند سے کئی فٹ نیچے چلا گیا خدام نے بڑی محنت اور جوش و خروش سے کام کیا کئی خُدام مسلسل تین دن تک کام کرتے رہے ربوہ کے پانچ احباب نے اپنی ٹرالیاں رضا کارانہ طور پر دیں اور ان کے ذریعے مجموعی طور پر 35,40 ٹرالیاں مٹی ڈالی گئی خُدام خود ان ٹرالیوں کو بھرتے پھر بند پر لا کر ان کو خالی کرتے اور بوریوں میں مٹی ڈال کر بند پر رکھتے جاتے تھے.یہ کام جمعرات سے اتوار تک چار دن مسلسل جاری رہا.“ یہ کارنامہ کئی لحاظ سے اہم ہے جن میں سے ایک رُخ یہ ہے کہ عوام میں گھل مل کر کام کرنے سے بہت سے احباب نے ”میاں صاحب“ کے کردار کی جو خوشبو سونگھی وہ اُن کے لئے ایک قیمتی سرمایہ بن گئی اب اُس مختصر سی رفاقت کی روایتوں اور حکایتوں کو مزے لے لے کر بیان کیا جارہا ہے.مثلاً مکرم راجہ رفیق احمد ابن مکرم راجہ نذیر احمد ظفر لکھتے ہیں: قادر کی مزدوروں جیسی حالت تھی مٹی میں آٹے کپڑے، وقت بے وقت کھانا، رات دن خدام کے ساتھ ڈیوٹی دینا.قادر کو دیکھ کر حضرت اقدس مسیح موعود کا ایک اقتباس یاد آتا ہے.ہم تو اپنے بچوں کے لئے دُعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں، بس اس سے زیادہ نہیں.اور پھر اپنا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں جیسا کسی میں سعادت کا تختم ہوگا وقت پر سرسبز ہو جائے گا.( مفلوظات جلد اول)

Page 171

170 مکرم عامر لطیف بٹ صاحب ابن مکرم محمد لطیف بٹ صاحب لکھتے ہیں: ” خاکسار اس کا چشم دید گواہ ہے کہ بند میں ایک جگہ درخت کٹوا کر ڈالنے کا کام تھا محترم میاں صاحب کے ہاتھوں میں کلہاڑی چلا چلا کر چھالے پڑ گئے تھے آٹھ کو درخت پھنکوانے کے بعد یہ چیک کرنا تھا کہ درخت صحیح جگہ پہنچے یا نہیں آپ نے کم و بیش ہیں فٹ لمبا بانس پانی میں ڈبو کر دیکھ ڈبو کر دیکھا آپ کا ہاتھ بھی ڈوب گیا مگر لگتا تھا پانی میں کچھ پھینکا ہی نہیں پانی بے حد گہرا تھا مگر آپ حوصلہ اور ہمت سے ڈٹے رہے.مکرم لیاقت علی طاہر صاحب ابن محمد بوٹا صاحب ( سابق زعیم خدام الاحمدیہ حلقہ دارالفضل شرقی ) لکھتے ہیں: ایک سفید رنگ کی پرانی کار سڑک کے کنارے کھڑی کر کے بلاتے لیاقت صاحب ! لیاقت صاحب آج اتنے لڑکوں کی ضرورت ہے اور خود بھی آنا ہے.خاکسار کو کار میں بیٹھا کر لے جاتے سیلاب کے دنوں میں آپ نے سرخ ٹی شرٹ اور نیلی جینز پہنی ہوئی تھی جو گرد آلود تھی.قادر کی ایک نامکمل تحریر: قادر کی میز پر اور درازوں میں جو کاغذات موجود ہیں اُن سے بھی کام کی لگن اور طریق کار کا اندازہ ہوتا ہے.مثال کے طور پر یہ تحریر دیکھئے جو کسی تقریر کے نوٹس ہیں.مکرمی زعیم صاحب محلہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے آپ سب کو نیا سال مبارک ہو.خُدام الاحمدیہ کے ضمن میں نیا سال ہم سے خصوصی محنت کا متقاضی ہے

Page 172

171 جیسا کہ آپ کو علم ہے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 دسمبر کو ربوہ میں خطبات سننے کے بڑھتے ہوئے رحجان پر خوشنودی کا اظہار کیا ہے.جہاں یہ انتہائی خوشی کا امر ہے وہاں ہم سب کو اس ذمہ داری کا احساس بھی دلاتا ہے کہ اس معیار کو نہ صرف قائم رکھنا ہے بلکہ اس میں مزید ترقی کرنی ہے اس کے لئے جب کہ ہدایت دی جا چکی ہے کہ خطبہ کے دوران زعیم اور چند ممبران عاملہ محلہ میں اس بات کی نگرانی کریں کہ تمام خدام و اطفال خطبہ سُن رہے ہیں سڑکوں پر کہیں بھی ٹولیوں کی شکل میں خُدام موجود نہ ہوں.نئے سال کے ساتھ ہی جہاں ہم خطبات پر حاضری کو بہتر بنانے کا عزم باندھ رہے ہیں وہاں نماز با جماعت کی طرف بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے.محلہ میں صل علی کے انتظام کی نگرانی کریں.سائقین اور ممبرانِ عاملہ کی خصوصی نگرانی کریں کہ تمام حاضر خُدام نماز با جماعت پر حاضر ہوں.ایسے خدام جو نمایاں طور پر سست ہیں پر خاص طور پر زور دیا جائے.مورخہ 94-12-30 کے خطبہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کی طرف دوبارہ توجہ دلائی ہے یہ شعبہ خصوصی توجہ کا محتاج ہے محلہ میں داعیان کی تعداد کو بڑھائیں اور یہ عزم کریں کہ انشاء اللہ امسال خُدام ہر قسم کی ستی کو ترک کر کے دعوت الی اللہ پر خصوصی توجہ دیں گے..سیکریٹری وقف کو.ربوہ: اس اہم شعبہ کے فرائض کی ادائیگی میں حسن کارکردگی پر جناب محترم چوهدری محمد علی صاحب جیسے صاحب قلم کار کا

Page 173

172 پیرا یہ اظہار ملاحظہ ہو: جہاں تک یادوں کا تعلق ہے.تو خاکسار کی اولین یاد تو اُس وقت کی ہے جب شہید مرحوم کی عمر یہی کوئی دس بارہ سال کے لگ بھگ ہی ہوگی.اپنے ابا محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب سلمہ، کی رخصت کی درخواست لے کے آئے تھے.جو اس وقت تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں پروفیسر اور شعبہ تاریخ کے صدر تھے.یوں لگا جیسے کوئی نورانی وجود خاموشی سے پرنسپل کے کمرے میں اُتر آیا ہو.پورا نقشہ باوجود پیرانہ سالی کے آج بھی ذہن میں اسی طرح موجود ہے.جب عزیز موصوف امریکہ سے کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد واقف زندگی کی حیثیت سے واپس ربوہ تشریف لائے تو وکالت وقف کو کے آغاز کے ساتھ ہی اس عالم گیر تحریک میں شامل واقفین کو اور واقفات کو کے مفصل ریکارڈ ان کی تعلیمی ، تربیتی، جسمانی اور روحانی نگرانی اور پیش رفت اور ریکارڈ کو اپ ڈیٹ رکھنے کے سلسلے میں شہید مرحوم کی رہنمائی اور مدد کی ضرورت پڑی.آپ نے نہایت بشاشت اور نشاط خاطر کے ساتھ قدم قدم پر ہماری رہنمائی فرمائی اور کمپیوٹر کے دروازے وکالت وقف کو کے لئے کھول دیے.اسی طرح حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وقف ٹو کی تحریک کے سلسلے میں سلسلہ وار جو خطبات ارشاد فرمائے ان کے انگریزی ترجمے اور اسی طرح نصاب واقفین کو کے تراجم جو بالترتیب محترم پروفیسر میاں محمد افضل صاحب محترم پروفیسر و قار منظور بسرا صاحب اور محترم کنور اور میں صاحب نے کئے تھے کمپوز کروائے.وکالت وقف کو کے دفتر میں سے کئی افراد کو کمپیوٹر کی ٹریننگ دی.وکالت وقف کو کے اس وسیع اور لمحہ بہ لمحہ پھیلتے ہوئے کام کو منظم خطوط پر ایک

Page 174

173 مناسب اور مفید مقصد طریقے سے ترتیب دینے میں تقریباً روزانہ ہی رہنمائی، مدد اور تعاون سے نوازتے رہے.ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اپنے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ شہید مرحوم نے ہماری کوئی مشکل حل نہ کی ہو.اور دستِ تعاون دراز نہ کیا ہو.سچی بات یه هے که مرحوم ایک مثالی واقف زندگی تھے.دل آویز شخصیت کے مالک تھے نہ کرنا انہیں آتا ہی نہیں تھا.پاکستان سے انجینئرنگ کی ڈگری کے بعد امریکہ سے کمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم کے بعد بحیثیت واقف زندگی واپس تشریف لائے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ کس طرح اپنی محبت، محنت، قابلیت اور اخلاص سے اپنے گردو پیش کو گرویدہ کر لیا.وکالت وقف کو کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ ربوہ کے تقریباً پچاس محلوں میں گھر گھر واقفین موجود تھے کسی ایک شہر میں دنیا بھر میں یہ سب سے زیادہ تعداد ان میں بچوں اور بچیوں اور ان کے والدین کی تربیت اور نگرانی اور تعاون کے لئے بالآخر تان شہید مرحوم ہی پر جا کر ٹوٹی اس کی تفصیل تو بہتر طور پر محترمی و مکرمی صاحبزادہ سید قمر سلیمان احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ہی بیان فرما سکتے ہیں خاکسار صرف اتنا عرض کرتا ہے کہ مرحوم شہید نے وقف کو ربوہ کا چارج سنبھالتے ہی محبت، محنت اور نہایت بالغ نظری سے کام کو نئے خطوط پر اُستوار کیا.زبانیں سکھانے کے لئے لینگو ا یج لیب جاری کی اور یوں لگا جیسے ربوہ کے واقفین کے کام میں جان پڑ گئی ہو.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ان کے بچوں اور غمگین والدین کا حافظ و ناصر ہو جس ظالمانہ طریقے سے اس معصوم کو شہید کیا گیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ورنہ مرحوم کی خوبیوں اور خدمات کو بیان کرنا عاجز کے لئے

Page 175

174 ممکن نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ مرحوم کو اپنے قرب خاص میں جگہ دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے ویسے ہی مثالی واقفین سلسلہ عالیہ احمدیہ کو ارزانی فرماتا رہے.آمین محترم کرنل (ریٹائرڈ) ایاز محمود احمد خان صاحب سابق صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ بیان فرماتے ہیں:.وو ، محترم قادر صاحب کو یہاں لوکل انجمن احمد یہ میں واقفین کو بچوں کی تربیت پر مامور کیا گیا تھا اور آپ ہی کو منتخب کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ میں وہ صلاحیتیں تھیں جو ایک عام شخص میں عموماً موجود نہیں ہوتیں.آپ انتہائی ذہین انسان تھے.تعلیمی یا عملی آپ ہر میدان میں آگے نکلے ہوئے تھے اور یہی بنیادی وجہ تھی کہ ہم چاہتے تھے کہ واقفین کو جو ہماری جماعت کا ایک اہم اور قیمتی اثاثہ ہیں وہ قادر صاحب کی صلاحیتوں سے پورا فائدہ اُٹھا ئیں اور میں نے محترم قادر صاحب سے بھی یہی گزارش کی تھی کہ قادر صاحب ہم چاہتے ہیں کہ ربوہ کا ہر واقف کو آپ ہی کی طرح چمکے.اُسی طرح ریکارڈ قائم کرے جیسے آپ نے کئے ہیں.اور دو سال کے عرصہ میں قادر صاحب نے یقیناً اسی سمت کوشش کی اور خدا کے فضل سے ہمیں بہت اچھا صلہ بھی ملا.“ محترم راجه فاضل احمد صاحب جو آج کل ربوہ کے سیکریٹری وقف کو ہیں اور جنہیں قادر صاحب نے واقفین کو کے لئے قائم کردہ لینگوایج انسٹی ٹیوٹ کے نگرانِ اعلیٰ کے طور پر نامزد فرمایا تھا.تحریر فرماتے ہیں :- محترم مرزا غلام قادر صاحب نے لوکل انجمن احمد یہ ربوہ میں 24 / مارچ 1997ء سے تا شہادت 14 / اپریل 1999ء بطور سیکریٹری وقف کو

Page 176

175 ربوہ خدمات سرانجام دیں.ربوہ میں واقفین کو اور واقفات کی کل تعداد تقریباً 4000 ( چار ہزار) ہے.آپ نے اس عرصہ میں ربوہ کے تمام واقفین کو کے فرداً فرداً کوائف اکٹھے کئے پھر محلہ وار اور تاریخ پیدائش کے مطابق لسٹیں تیار کیں اور انہیں کمپیوٹرائزڈ کیا.یہ کوئی معمولی کام نہ تھا.اس کے علاوہ آپ نے 1987ء سے 1998ء تک ہر سال پیدا ہونے والے واقفین کو اور واقفات کا ریکارڈ مکمل کیا.نیز وفات شدگان اور معذور واقفین ٹو کا بھی علیحدہ ریکارڈ بنایا.1998ء میں آپ واقفین کو کے آل ربوہ علمی اور ورزشی مقابلہ جات کے وقت بنفس نفیس موجود رہے.23/مارچ 1999ء کو بیت مہدی میں جلسہ تقسیم انعامات کا انعقاد ہوا یہ جلسہ مقابلہ جات اور انتظامات کے لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے.“ لینگوایج انسٹی ٹیوٹ کا قیام: محترم قادر صاحب کا ایک بہت بڑا کارنامہ لینگوایج انسٹی ٹیوٹ واقفین کو دارالرحمت وسطی کا قیام ہے.جس کا افتتاح مورخہ 11 مارچ 1998ء کو دارالرحمت کی بیت الذکر میں شام پانچ بجے محترم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ نے فرمایا.تقریب کا احوال مورخہ 17 مارچ 1998ء کو روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوا.اس تقریب میں مرزا قادر صاحب نے لینگو ایج انسٹی ٹیوٹ کے اغراض و مقاصد اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دی گئی ہدایات کی روشنی میں بڑی وضاحت سے بیان کئے.یہاں باقاعدہ کلاسز کا آغاز 22 / مارچ 1998ء کو ہوا.محترم قادر صاحب نے ربوہ کے محلہ جات سے براہ راست رابطہ

Page 177

176 رکھنے کے لئے کام کی سہولت کی غرض سے ربوہ کو سات بلاکس میں تقسیم کیا تھا اور ہر بلاک کا ایک نگران مقرر کیا تھا.اس طرح واقفین سے ڈائریکٹ رابطہ کی سہولت پیدا ہوگئی.مرزا غلام قادر صاحب کا تاریخی خطاب: مورخہ 11 مارچ 1998ء کو دارالرحمت وسطی کی بیت الذکر میں محترم مرزا غلام قادر صاحب نے لینگو ایج انسٹی ٹیوٹ ربوہ کے افتتاح کے موقع پر بطور سیکریٹری وقف کو ربوہ جو تاریخی خطاب فرمایا.اسے خود قادر صاحب ہی کے الفاظ میں من وعن ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 1987ء میں تحریک وقفِ کو کا اعلان فرمایا تھا.اس تحریک کے ذریعہ والدین سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ قبل از پیدائش اپنے ہونے والے بچوں کو وقف کے لئے پیش کریں.ابتدا میں حضور نے اس تحریک کے لئے 5000 بچوں کا ٹارگٹ مقرر فرمایا.آج تقریباً 11 سال کے عرصہ کے بعد اس تحریک میں (16000) سولہ ہزار سے زائد بچوں کے نام پیش ہوچکے ہیں جو کہ دنیا کے 61 ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں.ان تمام ممالک میں سب سے زیادہ تعداد میں واقفین کو کا تعلق پاکستان سے ہے جن کی تعداد تقریباً (12000) بارہ ہزار ہے جب کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ربوہ وہ جماعت ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں واقفین کو مقیم ہیں.جن کی تعداد تقریبا (3500) پینتیس سو کے لگ بھگ ہے.یہ بچے احمدیت کی نئی صدی میں تبلیغ دین کے لئے ہراول دستے کی حیثیت رکھتے ہیں.لازماً ان کا رابطہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اقوام سے ہونا ہے

Page 178

177 جو مختلف زبانیں بولتی اور سمجھتی ہیں.جب کہ اسلام اور احمدیت کے بنیادی مآخذ عربی اور اُردو زبان میں دستیاب ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ جہاں یہ بچے اُردو اور عربی زبان میں مہارت رکھتے ہوں.وہاں غیر قوموں سے رابطہ کے لئے کم از کم ایک زائد زبان میں بھی مہارت رکھیں.اسی غرض سے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچوں کے لئے اُردو اور عربی زبان کو لازمی قرار دیا.اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی زبان کے علاوہ ایک بین الاقوامی زبان سیکھنے کی بھی ہدایت فرمائی.چنانچہ جیسے ہی یہ بچے اسکول میں جانے کی عمر کو پہنچنے لگے ان کے لئے زبانوں کی تدریس کے انتظامات کی منصوبہ بندی بھی شروع ہونے لگی.اگر روایتی طریقہ پر ان ساٹھ سے زائد ممالک میں پھیلے ہوئے مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو صرف ایک اضافی زبان سکھانا ہی مقصود ہوتی تو اس کے لئے لاتعداد ماہرین اور بے شمار وسائل درکار تھے.اسی دوران محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جماعت کو MTA کی صورت میں ایک مرکزی تدریسی نظام مہیا ہو گیا وہاں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ منصوبہ بھی پیش کیا کہ ان بچوں کو بغیر کسی دوسری زبان کی مدد کے فطری طریقہ پر زبان سکھائی جائے.یعنی وہ طریق جس پر بچہ اپنے والدین سے از خود سیکھتا ہے.چنانچہ اس طریق کے تعارف کے طور پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خود MTA کے ذریعہ اُردو زبان سکھانے کے پروگرام شروع کئے.جس کے بعد دیگر اہلِ زبان کے ذریعہ عربی، ڈچ، چائنیز، ٹرکش، سویڈش اور فرینچ زبان سکھانے کے پروگرام بھی ایم ٹی اے پر نشر کئے جانے لگے.اس کام کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوسکتا ہے کہ واقفین کو

Page 179

178 کی تربیت اور زبانوں کی تدریس کے حوالے سے مسلسل پانچ چھ مرتبہ انٹرنیشنل شوری میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی رہنمائی فرمائی اور تفصیلی ہدایات دیں.اس حوالے سے زبانوں کی تدریس کا معاملہ 1997ء کی مجلس شوریٰ پاکستان میں بھی پیش ہوا اور شوریٰ نے یہ تجویز پیش کی کہ جماعت میں اعلیٰ معیار کے لینگو ایج انسٹی ٹیوٹ قائم کئے جائیں.اس پس منظر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں آج کل لوکل انجمن احمدیہ کے ماتحت لینگوایج انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے.انتظامی تعارف اس انسٹی ٹیوٹ کی عمارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے محلہ دار الرحمت وسطی کی بیت النصرت سے ملحقہ گیسٹ ہاؤس کا انتخاب کیا گیا ہے.جو کہ محل وقوع کے لحاظ سے ربوہ کے عین وسط میں واقع ہے.یہ عمارت چار لینگوایج رومز، ایک دفتر اور Visitors Lounge پر مشتمل ہے.ہر لینگوایج روم کو دیدہ زیب فرنیچر اور قالین سے آراستہ کیا گیا ہے.اسی طرح ہر کمرہ میں ایک ٹی وی ، وی سی آر اور وائٹ بورڈ مہیا کیا گیا ہے.ربوہ کے اس مرکزی لینگوایج انسٹی ٹیوٹ میں فی الوقت چار زبانیں سکھانے کا انتظام کیا جا رہا ہے.جن میں عربی، فریج، ڈچ اور چائنیز زبان شامل ہیں.اس انسٹی ٹیوٹ سے ایک وقت میں 80 بچے استفادہ کر سکیں گے.اگر ایک سے زائد شفٹس میں تدریسی عمل ممکن ہوا.تو موجود تعداد سے چار گنا زیادہ بچے استفادہ کر b سکیں گے.انتظامی طور پر ہمارا یہ پروگرام ہے کہ اس انسٹی ٹیوٹ کو محض ایک ٹی وی اور وی سی آر کے طور پر نہ چلایا جائے.بلکہ اسے ایک ادارے کی شکل

Page 180

179 میں قواعد وضوابط کے تحت چلایا جائے.جس میں تدریسی امور کی نگرانی، زبان سیکھنے کے مراحل اور Progress کو بہتر بنانے کا عمل متعلقہ زبان کے ماہر کی نگرانی میں آگے بڑھے.تدریس میں با قاعدگی، نظم و ضبط اور مانیٹرنگ کی غرض سے ہر کلاس کے لئے رجسٹر حاضری جاری کئے گئے ہیں.اس طرح مروّجہ طریق پر انسٹی ٹیوٹ کا ایک داخل / خارج رجسٹر جاری کیا گیا ہے.اور تمام بچوں کے والدین سے داخلہ فارم پر کروایا گیا ہے.مکرم راجہ فاضل احمد صاحب جو کہ ایک تجربہ کار ماہر تعلیم ہیں اور بطور سربراہ بہت سے تعلیمی اداروں میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں.اس ادارہ کے نگران مقرر کئے گئے ہیں.مکرم عامر احمد خان صاحب جو تحریک جدید میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں.بطور نائب ان کی معاونت کریں گے.تدریسی طریقہ کار زبانیں سکھانے کے لئے اہلِ زبان اساتذہ کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے.اس کمی کو پورا کرنے کے لئے تدریس کی غرض سے MTA پر پیش کئے گئے.لینگو ایج پروگرامز سے استفادہ کیا جائے گا.بچے ان پروگرامز کو ایسے اساتذہ کی موجودگی میں دیکھیں گے.جو متعلقہ زبان میں کسی قدر مہات رکھتے ہوں اور پروگرامز کے دوران اور بعد میں بچوں کی رہنمائی کرسکیں.اس طرح Video Program کے دوران سکھائے گئے الفاظ اور Concepts کی وضاحت استاد کے ذریعہ بھی ہوتی رہے گی.بچوں کے لئے ان کی مخصوص زبان سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے یہ انتظام بھی کیا جارہا ہے کہ معمول کی کلاسز کے دوران ایسے تفریحی اور علمی پروگرام بھی رکھے جائیں جن میں استاد کے علاوہ دیگر زبان بولنے والے مرد و خواتین بھی حصہ لیں اور ایک بے تکلف

Page 181

180 ماحول میں بچوں کے ساتھ وقت گزاریں.ان پروگرامز کی تمام تر کاروائی متعلقہ زبان میں ہی ہو.ابتداء میں بچوں کی عمر اور معیار کے مطابق صرف MTA پر پیش ہونے والے لینگو اتیج پروگرامز کے ذریعہ تدریس کا آغاز ہوگا اور رفتہ رفتہ بچوں کی علمی ضرورت کے مطابق دیگر Audio/Video میٹریل، کتب اور دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جائیں گی.انشاء اللہ العزیز یہ طریقہ تدریس کیونکہ پہلی دفعہ جاری کیا جارہا ہے اس لئے معتین طور پر بچوں کی تدریجی پراگریس کے بارہ میں فی الحال رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے.لیکن ہمیں امید ہے کہ تقریباً دو سال کے عرصہ میں یہ بچے معقول حد تک نئی زبان میں اپنا مافی الضمیر بول چال اور کسی حد تک لکھ کر ادا کرسکیں گے.اور ایک ایسی بنیاد پر قائم ہو جائیں گے جہاں سے ان کے لئے متعلقہ زبان میں ترقی کی راہیں مزید آسان ہو جائیں گی.کلاسز کے موجودہ سیشن کے لئے بچوں کے انتخاب کی غرض سے ہر زبان کے لئے محلہ جات سے بچوں کے نام منگوائے گئے.ہر زبان کے لئے مقررہ انٹرویو کمیٹی نے ان بچوں کا جائزہ لیا اور مناسب بچے منتخب کئے.کل 170 بچوں کے نام پیش ہوئے جن میں سے 85 کو منتخب کیا گیا.جن کی تقسیم حسب ذیل ہے.عربی 32، فریچ 16، ڈچ 17، چائنیز 20 ان بچوں کی عمر 6 تا 10 سال ہے.اور ان میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں.کلاسز کا اجراً انشاء اللہ ہفتہ کے روز سے کر دیا جائے گا.ہمیں امید ہے کہ اگر ہم آئندہ چند سال میں مناسب حد تک ان بچوں کو تیار کر سکے تو یہی بچے اُن واقفین کو کو زبا نہیں سکھانے کے لئے کام آسکیں گے جو ابھی

Page 182

181 ماؤں کے گود میں پل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے اور تجربہ کو کامیاب کرنے کے لئے بہترین حکمت عملی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خلافت لائبریری ربوہ مکرم شهزاد عاصم صاحب تحریر فرماتے ہیں:- خلافت لائبریری کے جملہ امور سر انجام دینے کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کمیٹی قائم ہے جس کے صدر محترم مرزا غلام احمد صاحب ناظر دیوان صدر انجمن احمد یہ ہیں.محترم مرزا غلام قادر صاحب گو کہ اس کمیٹی کے باقاعدہ ممبر نہ تھے لیکن کمپیوٹر سے متعلق جب بھی کوئی چیز خریدنا ہوتی تو بطور ایک ماہر کے آپ کی اس سے متعلق رائے ضرور معلوم کی جاتی.کمپیوٹر سیکشن خلافت لائبریری کے کارکن کے طور پر بھی خاکسار کو بارہا آپ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا.اور اس حوالہ سے آپ کی یہ خوبی نمایاں طور پر نکھر کر سامنے آئی کہ آپ رائے دیتے وقت ہمیشہ جماعتی مفاد کو مد نظر رکھتے اور ہرگز ایسی رائے نہ دیتے جس سے کسی بھی طرح جماعتی پیسے کے ضیاع کا احتمال ہو.1997 ء میں آپ کے مشورے سے خلافت لائبریری کے لئے کمپیوٹرز خریدے گئے.کمپیوٹرز کی خریداری کے بعد ان کو مناسب جگہ پر انسٹال کرنے کا کام بھی آپ ہی کی زیر نگرانی انجام پایا.آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز (AACP) خلافت لائبریری کے لئے ایک اچھا سا سافٹ ویئر بنائے.خلافت لائبریری کی وسعت کے لحاظ سے یہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ تھا اور مرزا غلام قادر صاحب نے اس کے لئے تگ و دو بھی بہت کی.

Page 183

182 اس سلسلہ میں ایسوسی ایشن کے عہدیداران کی کئی ایک میٹنگز خلافت لائبریری میں ہوئیں.اس سافٹ ویئر سے متعلق Analysis کا کام کافی حد تک مکمل ہو چکا تھا.لیکن کمپیوٹر کے ان احمدی ماہرین کا تعلق چونکہ زیادہ تر لاہور یا دیگر شہروں سے تھا اور ان کے لئے اپنی بے انتہا مصروفیات کے باعث یہاں ربوہ آکر کام کرنا قدرے مشکل تھا.اس لئے یہ سافٹ ویئر پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا.فضل عمر ہسپتال ربوه: محترمہ ڈاکٹر نصرت جهان صاحبه (جومولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم ناظر اصلاح و ارشاد کی صاحبزادی ہیں) انچارج گائنی وارڈ بیان فرماتی ہیں:.اپنے شعبہ گائنی وارڈ میں جب ہم نے کمپیوٹر لانے کا ذکر محترم مرزا غلام قادر صاحب سے کیا تو نہایت شفقت سے اُنہوں نے نہ صرف پلاننگ کر کے دی بلکہ ساری سیٹنگ اور پروگرامنگ بھی آپ ہی نے کی اور خود ہی تعاون البر فرماتے ہوئے لاہور سے کمپیوٹر بھی خرید کر دیا.مورخہ 23 جولائی 1997ء کو ایڈمنسٹریٹر فضل عمر ہسپتال مکرم ڈاکٹر عبدالخالق صاحب نے دُعا کروائی اور محترم مرزا غلام قادر صاحب نے بسم اللہ لکھ کر اس کمپیوٹر پر کام کی ابتدا کی.یوں تو ہر شعبہ کی اپنی ٹیکنیکل Terms ہوتی ہیں لیکن ہمارے شعبہ کی Terminology دیگر شعبہ جات کی نسبت ذرا مشکل ہوتی ہے.لیکن محترم مرزا غلام قادر صاحب نے تمام کام کو بخوبی سمجھا اور ہمیں ایک بہترین سافٹویئر بنا کر دیا.آپ عموماً دو پہر کو یا شام کو تشریف لایا کرتے تھے.اس سافٹ ویئر میں مریض کا مکمل بائیو ڈیٹا یعنی ہسپتال میں داخلے کی تاریخ سے لے کر تعلیم، عمر، مرض کی سابقہ تفصیل اور مریض کے ہر چیک آپ کی رپورٹ، ایڈریس حتی

Page 184

183 کہ متعلقہ ڈاکٹر کے ریمارکس تک محفوظ کر لئے جاتے ہیں.اب تک کئی سو مریض ہیں جن کا مکمل ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے.اور اگر یہ کہا جائے کہ ایک لحاظ سے اس شعبہ سے متعلق مریضان کی ایک تاریخ ہے جو ساتھ کے ساتھ مرتب ہو رہی ہے تو بے جا نہ ہوگا.بعد ازاں اس ریکارڈ کو گاہے بگا ہے CDs پر محفوظ کر لیا جاتا ہے اس سافٹ ویئر کا ہمیں ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی مریض جب ہمارے پاس آتا ہے اور اگر وہ ہمارے پاس پہلے بھی داخل رہ چکا ہو تو ہم اُس کا سابقہ ریکارڈ دیکھ کر فوراً ہی متعلقہ اہم معلومات حاصل کر لیتے ہیں جس سے علاج کرنے میں تیزی اور سہولت پیدا ہو جاتی ہے.نیز اس سافٹ ویئر سے ماہانہ یا سالانہ رپورٹس پرنٹ کر کے شعبہ کی کارکردگی کو بھی پرکھا جاسکتا ہے.محترمہ ڈاکٹر نصرت مجوکه صاحبہ نے قادر کی خدمات کو بڑے اچھے انداز میں خراج تحسین پیش کیا تحریر کرتی ہیں:- 66 مرزا غلام قادر صاحب سے میرا تعلق دو سال پرانا ہے.میرا رابطہ ان سے محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کی وساطت سے ہوا جس کے لئے میں ان کی شکر گزار ہوں.چونکہ اپنے شعبے کا کمپیوٹر کا کام میرے ذمہ تھا اس لئے مجھے شرف حاصل ہے کہ میں نے ان کے ساتھ بہت سا وقت گزارا اور ان سے بہت کچھ سیکھا.ہمارے شعبے میں جتنا بھی کام اُنہوں نے کیا وہ ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے.کمپیوٹر کے افتتاح کمپیوٹر کے افتتاح سے لے کر اس کی پروگرامنگ، ٹیچنگ اور Running میں ہرلمحہ وہ ہمارے ساتھ ساتھ رہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اُنہوں نے انگلی پکڑ کر سب کچھ سکھایا.وہ جتنے مصروف آدمی تھے اس کا اندازہ تو آپ سب کو ہے اس کے باوجود انہوں نے ہمیں کہہ رکھا تھا کہ آپ کو کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے بتا دیا کریں اور اگر شام کو میری

Page 185

184 ضرورت پیش آئے تو میرے گھر پیغام بھیج دیا کریں.ہم نے انہیں اس قول پر ہمیشہ پورا اترتے دیکھا کمپیوٹر سے لاعلمی کے باعث ہم چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں الجھ کر انہیں اکثر بلا لیتے اور وہ انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی بے پایاں مصروفیات میں سے ضرور ہمیں وقت دیتے حتی کہ رمضان کے مہینے میں بھی انہوں نے اس قول کو نبھایا اور اگر دن کو وقت نہ ملتا تو شام کو افطاری کے بعد تشریف لے آتے اور ہماری اُلجھنیں دُور کرتے.بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے ان کا ذہن اتنا Occupied ہوتا کہ اکثر جب تشریف لاتے تو کمپیوٹر آن کرتے ہی کہتے فلاں چیز تو میں بھول آیا ہوں ابھی لے کر آتا ہوں یہ کہہ کر نہایت تیزی سے فوراً مطلوبہ ڈسک اپنے دفتر سے لے کر واپس آجاتے.کبھی یہ نہیں کہا کہ آج بھول گیا ہوں کل لے کر آؤں گا یا پھر کبھی یہ کام کر دوں گا وغیرہ وغیرہ.کمپیوٹر کی پروگرامنگ نہایت مشکل اور محنت طلب کام ہے اور کمپیوٹر پروفیشنلز بھاری رقوم کے عوض یہ کام سرانجام دیتے ہیں مگر یہ مرزا غلام قادر کی ہی شان ہے کہ انہوں نے نہایت مستعدی سے بہت تھوڑے وقت میں یہ کام محض اللہ کیا.نہایت سنجیدہ ، کم گو، شریف اور غض بصر سے کام لینے والے انسان تھے طبیعت میں بہت رکھ رکھاؤ بھی تھا.کمپیوٹر پروفیشنلز کے سالانہ کنونشن میں آنے کے لئے ضرور دعوت نامہ بھیجتے جس پر نہ جانے کا مجھے آج تک افسوس ہے.خلیفہ وقت سے بے انتہا محبت کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ ہم نے اُن کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا تو اُنہوں نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ حضور پسند نہیں فرماتے اس لئے میں بھی نہیں پیتا اس کی جگہ چائے یا کوئی اور مشروب ہوتا تو کبھی انکار نہ کرتے.

Page 186

185 مجھے دو تین دفعہ ان کے دفتر جانے کا بھی اتفاق ہوا نہایت سادہ ترتیب تھی صرف چند کرسیاں اور ایک بڑی سی میز تھی جو مختلف قسموں کی فائلوں سے بھری رہتی تھی اور میاں صاحب بہت انہماک سے اپنے کام میں مصروف ہوتے.ان کی شخصیت میں سادگی بہت نمایاں تھی.معمولی کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں عار محسوس نہ کرتے تھے.انہوں نے کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اپنے اندر علم کا ایک سمندر چھپائے ہوئے ہیں.ہر شخص سے اس کی سطح پر آکر بات کرتے.آج ان کے نہ ہونے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو چکا ہے جس کو شعبے کا ہر شخص محسوس کر رہا ہے کیونکہ ان کی خدمات اور مہربانیوں کا سلسلہ ہر جگہ پھیلا ہوا تھا جو عظیم قُربانی انہوں نے جماعت کے لئے دی شاید صرف وہی اس کی اہلیت رکھتے تھے.ان کی اس قربانی نے نہ صرف جماعت کو آنے والے فتنوں سے محفوظ رکھا بلکہ ان کو بھی ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید کر دیا.زندہ قومیں اپنے جانثاروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں کیونکہ وہی ان کی زندگی کا باعث ہوتے ہیں جو اپنے لہو کی زکوۃ دے کر اپنی قوم کو بچاتے ہیں اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی روایات کو لے کر آگے بڑھیں اور اپنی عبادتوں میں ان کو اور ان کے اہل وعیال کو یاد رکھیں اور مرزا غلام قادر جیسے دل اور دماغ پیدا کریں جنہوں نے اپنی جان تو لٹا دی لیکن مینارہ عرش کو چھو لیا.اس کو کس روشنی میں دفنائیں اس کو کس خواب کا بدن ہم دیں وہ جو خوشبو میں ڈھل گیا یارو اس کو کس پھول کا کفن ہم دیں

Page 187

186 (روز نامہ الفضل 3 / جولائی 1999ء) محترم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا:- برادرم صاحب کو خاکسار نے فضل عمر ہسپتال کی فارمیسی کے سلسلہ میں ایک پروگرام تیار کرنے کی درخواست کی تا اسٹور میں ادویات کی خرید، نکاس، کارکنان کو ، ادویات کی فری فراہمی و ریکارڈ پر نظر رکھی جا سکے.قادر نے باوجود مصروف ہونے کے اس کام کی حامی بھری اور پھر تقریباً ایک سال ہم دونوں اس کی Development میں مصروف رہے.کام کے دوران کئی مرتبہ مشکلات پیدا ہوئیں.قادر کو جب بھی بلایا وہ فوراً ہی آجاتے.کئی مرتبہ تو رات گیارہ، بارہ بجے بلایا.وہ سوئے ہوئے ہوتے تھے چپلیں پہن کر اسپتال تشریف لے آتے.ایک مرتبہ بھی ان کے چہرے پر ناراضگی کے تأثرات نہیں دیکھے.ہمیشہ مسکراتے ہوئے، مذاق کرتے ہوئے پہنچ جاتے اور معاملہ حل کر دیتے“.تعلیم میں خدمات: محترم سید طاهر احمد صاحب ناظر تعلیم نے بتایا کہ 1996 ء میں نظارت تعلیم نے ان کے ذریعے کمپیوٹر خریدا وہ اس سلسلے میں بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے اور کہتے کہ اسے سیکھو یہ کوئی مشکل نہیں اور نہ انہونی چیز ہے.Practice سے آدمی کو بہت چیزیں آجاتی ہیں.نظارت تعلیم کے انفارمیشن سیل میں بھی انہوں نے ہماری مدد کی بیرونِ ملک تعلیم کے سلسلے میں کسی کو کوئی مشورہ درکار ہوتا تو میں اُسے اُن کے پاس بھیج دیتا تھا اس طرح انفارمیشن سیل میں بھی انہیں خدمات بجالانے کا موقع ملتا رہا.

Page 188

187 جب قادر صاحب مہتم تعلیم تھے اور میں محاسب تھا اور آپ محاسبہ کمیٹی کے صدر تھے میرا یہ تجربہ ہے کہ میں نے زندگی میں اتنا صائب الرئے آدمی نہیں دیکھا Facts and Figures کے ساتھ رائے پیش کرتے تھے اور اسے Reject کرنا مشکل تھا.محاسبہ کمیٹی کی میٹنگ میں Genuine ضرورت کو دیکھتے تھے.محترم قادر صاحب میں ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ عاملہ کی میٹنگ میں خاص طور پر اپنی رائے دے کر خاموش ہوجاتے تھے بے وجہ پیچھا یا اصرار نہیں کرتے تھے اور رائے ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے دیتے تھے.b ایم ٹی اے: MIA کے لئے آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی جو شخص مزاجاً خاموش اور کم آمیز ہو اُس کے لئے کیمرے کے سامنے آکر لیکچرز دینا آسان نہیں ہوتا لیکن قادر کے اندر جماعت کے احباب میں کمپیوٹر کی تعلیم عام کرنے کا جو جذبہ تھا اُس کی تکمیل کے لئے یہ پروگرام دل جمعی اور مہارت ریکارڈ کروائے.Computer for every one ” کمپیوٹر سب کے لئے سنجیدہ سائنسی نوع کا پروگرام پیش کیا.1996ء سے وسط 1997 ء تک آپ نے کل ستائیس پروگرام ریکارڈ کروائے.ނ انتہائی سادہ اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہوئے آپ نے ان پروگرامز میں کمپیوٹر سے متعلقہ بنیادی باتیں سکھائیں.دراصل یہ تمام پروگرام (Disk Operating System (Dos سکھانے کے بارہ میں تھے.کمپیوٹر کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ کمپیوٹر میں Dos کی اہمیت اُسی طرح ہے.جس

Page 189

188 طرح ایک گاڑی کے لئے ڈرائیور اور پیٹرول کی اہمیت مسلمہ ہے.یعنی جس طرح بغیر ڈرائیور اور پٹرول یا ڈیزل کے گاڑی نہیں چلتی اس طرح آپریٹنگ سسٹم کے بغیر کمپیوٹر نہیں چلتا.گو کہ آج کل نت نئے آپریٹنگ سسٹم کمپیوٹر کی دنیا میں متعارف ہو رہے ہیں لیکن جس وقت محترم قادر صاحب نے یہ پروگرام ریکارڈ کروائے اُس وقت تقریباً ہر چھوٹے بڑے کمپیوٹر کالج میں 'ڈاس' ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی تھی.اور اب بھی کئی کالجز میں پڑھائی جاتی ہے.یہ پروگرامز ایم.ٹی.اے پر کئی بار نشر مکرر کے طور پر ٹیلی کاسٹ کئے جاچکے ہیں.جن سے نہ صرف یہ کہ کمپیوٹر کا شوق رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد نے استفادہ کیا بلکہ MIA ربوہ کے کارکنان نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا.شہادت سے کچھ عرصہ قبل محترم قادر صاحب سے کمپیوٹر کے جدید علوم پر بھی پروگرامز ریکارڈ کروانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا جس پر آپ نے آمادگی بھی ظاہر فرما دی تھی لیکن اس کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کی شہادت ہو گئی.قادر کے رفقائے کار کی قیمتی یادیں: مکرم ابراهیم احمد ملک صاحب جنرل سیکریٹری احمدی ایسوسی ایشن آف کمپیوٹر پروفیشنلز تحریر کرتے ہیں:.میاں صاحب باوجود چیئر مین ہونے کے ہمارے ساتھ دوستانہ رنگ میں کام کرتے تھے.AACP کے سالانہ کنونشنز کے موقعہ پر ربوہ کے لوکل سطح کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی ہماری مدد کرتے تھے مثلاً پر ایک دفعہ 13، 14 / مارچ کو ہمارا سالانہ کنونشن ہوا اس کنونشن TechnicalPresentation ہم نے Data Show کے ذریعے دکھائی تھی.

Page 190

189 اس میں ایک بڑی سفید چادر کی ضرورت تھی اس وقت وہاں کوئی چادر میسر نہیں تھی.میاں صاحب مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور اپنے والد صاحب کے گھر چلے گئے اور وہاں سے بڑی سفید چادر تلاش کر لی اور اس طرح ہمارا کام ہو گیا.اس طرح کے بہت سے کام وہ ہمارے لئے کر رہے ہوتے تھے.ایک دفعہ کنونشن کے موقع پر میگزین کی پرنٹنگ کے کام میں تاخیر ہوگئی 13 / مارچ کی شام تک میگزین پرنٹ نہیں ہوا تھا.میاں صاحب نے پریس سے رابطہ کیا اور اصرار کیا کہ راتوں رات یہ میگزین پرنٹ کر دیں تاکہ اس کنونشن میں شامل ہونے والوں کو دیے جاسکیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اگلے روز دو پہر سے پہلے یہ میگزین پرنٹ ہو کر آگئے.وہ اس سلسلے میں ہماری اس حد تک مدد کرتے تھے.کہ ہمیں پتہ نہیں ہوتا تھا اور وہ اس میں شائع ہونے والے اشتہارات کی بھی امور عامہ سے منظوری وغیرہ لے لیتے تھے.AACP کے کنونشن میں وقت کی پابندی کا بڑا خیال رکھتے اور اسی طرح یہ ہدایت بھی کرتے تھے کہ اس پروگرام کی وجہ سے نمازیں ضائع نہ ہوں.میاں صاحب میں عجز و انکسار بہت تھا.تکبر نام کو نہ تھا.مکرم کلیم احمد قریشی صاحب کارکن شعبہ کمپیوٹر تحریک جدید اپنے ” خاموش معلم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُن کے بعض اوصاف کو منظر عام پر لاتے ہیں :- 1992ء میں خاکسار نے وقف کیا سب سے سے پہلے مجھے قادر صاحب کے پاس بھیجا گیا.یہ وہ وقت تھا جب قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے کمپیوٹر یجوکیشن کے بعد بہت سطحی سا علم لے کر حاضر ہوا.جماعتی دفتر میں خدمت کا تجربہ نہ تھا پہلے دن ہی سے محترم قادر صاحب کو خاکسار نے اپنا اُستاد مانا اور اُن کے خاموش عمل سے میری تربیت شروع ہوئی خاکسار نے دفتری طور

Page 191

190 طریقے بھی آپ سے سیکھے اور کمپیوٹر سے متعلقہ علم بھی حقیقت میں قابل عمل حالت میں آپ ہی سے سیکھا.قادر صاحب کا وجود بہت بارعب تھا لیکن یہ رُعب محبت کا رُعب تھا خاص طور پر مجھے اپنی کیفیت معلوم ہے میں قادر صاحب سے اُن کی صلاحیتوں کی وجہ سے مرعوب تھا اور اگر مؤدب تھا تو آپ کی نفیس شخصیت کی وجہ سے.بعض دفعہ انسان مؤدب ہوتا ہے کہ دوسرا کہیں نقصان نہ پہنچائے لیکن قادر صاحب کی عزت اور احترام قدرتی تھی.کبھی بھی خیال نہیں آیا تھا کہ اگر میں مؤدب نہ ہوا اور خوشامد نہ کی تو قادر صاحب سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکوں گا.خوشامد وغیرہ کی بات تو دور کبھی میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی ان کے منہ پر ان کی تعریف کر رہا ہو اور آپ بشاشت سے سُن رہے ہوں ہمیشہ فوراً بات کو کسی اور جانب لے جاتے ہوئے دیکھا.دفتری معاملات میں اُصول و قواعد کو بالاتر رکھتے.اس معاملے میں وہ بڑے سے بڑے افسر اور چھوٹے سے چھوٹے کارکن سب کو برابر رکھتے.ہر دفتری معاملہ میں زبانی بحث و مباحثہ کرنے کی بجائے تحریر دینے کو ترجیح دیتے.کام سیکھنے کے شوق میں خاکسار میاں صاحب کے ذاتی کمپیوٹر پر بیٹھ جاتا جو ابتدا میں تو انہیں پسند نہیں تھا مگر بعد میں میرا جنون سمجھ کر صرف نظر کرتے.اُس زمانے میں پروگرامنگ اتنی سیکریٹ اور پرائیوٹ ہوا کرتی تھی کہ جو جانتا تھا وہ دوسروں کو بے خبر رکھنے کی کوشش کرتا لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں قادر صاحب نے اسٹاف میں سے مجھے نا اہل کو پروگرامنگ سکھانے کے لئے خاموشی سے چن لیا تھا.پھر آہستہ آہستہ مجھے چھوٹے چھوٹے پروگرام کے Modules پروگرامنگ کے لئے دینے شروع کئے جب میں نے کوئی چیز پوچھی تو احساس یہ ہوا کہ شاید وہ منتظر تھے کہ میں اُن سے پوچھوں.اب مجھے احساس

Page 192

191 ہوتا ہے جو کام مجھے پروگرامنگ سے متعلقہ دیتے اُس کا مقصد صرف مجھے سکھانا ہوتا تھا پریٹیکلی (Practically) جو کام میں نے کرنا ہوتا تھا اُس کا فائدہ نہیں ہوتا تھا.دنیا میں اتنا مصروف ترین کمپیوٹر پروفیشنل شائد ہی کوئی ہو.1989ء میں جب قادر صاحب کی تقرری یہاں ہوئی تو آپ نے آتے ہی ایک نئے سسٹم کا مکمل انفراسٹرکچر Develop کیا اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں کمپیوٹر کا Concept ہی نہیں تھا.سب کو اس کی abc سے سکھانا شروع کیا.کیونکہ جہاں بھی کمپیوٹر کا استعمال ہونا ہو پہلے اس سسٹم سے متعلقہ تمام لوگوں کو اس کا ادراک بہم پہنچانا بہت ضروری ہوتا ہے.دفتری طور پر اُس زمانہ میں اور اس زمانہ میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ آج اگر ایک کمپیوٹر پچاس ہزار کا بھی خریدنا ہو تو دفتری پراسیس میں اس کی منظوری وغیرہ کے مراحل کم و بیش ایک ہفتہ میں طے ہو جاتے ہیں.جب کہ اُس زمانے میں کمپیوٹر کا ادراک زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی کمپیوٹر خریدنا ہوتا تو وہ اس قدر مہنگا ہوتا کہ اس کی چھان پھٹک پر پورا سال لگ جاتا اور جب منظوری ہوتی تو کوئی نیا ماڈل آچکا ہوتا.فلاپی ڈسک کا ڈبہ تک خریدنے کے لئے منظوری کے مراحل سے گزرنا پڑتا.جگہ جگہ کمپیوٹر کا علم نہ رکھنے والوں کو اپنی بات تفصیل سے سمجھانا اور پھر بار بار سمجھا کر انہیں قائل کرنا.اس قسم کے حالات وقت کا تقاضا تھے.لیکن یہاں قادر صاحب کو بے اختیار داد دینا پڑتی ہے کہ یہ آپ ہی کا حوصلہ اور صبر تھا کہ امریکہ جیسے تیز تر ماحول میں ٹرینگ مکمل کرنے کے بعد ایک ایسے سسٹم میں اپنے آپ کو مکمل طور پر یوں ایڈجسٹ کر لیا گویا آپ اسی کا حصہ تھے.شروع میں ہارڈ ویئر کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی لاہور سے کروایا جاتا تھا.یہاں تک کہ کمپیوٹر میں Blower ( تیز ہوا سے مٹی اڑانے کے لئے)

Page 193

192 کروانے کے لئے بھی ایکسپرٹ کو بلانا پڑتا اور وہ دوسو روپے فی کمپیوٹر چارج کرتا.جب میں نے اس کام کا بل دیکھا تو قادر صاحب سے کہا اس قسم کا کام تو خود گھر میں اپنے کمپیوٹر پر کرتا رہتا ہوں آئندہ ہم خود کریں گے.آہستہ آہستہ میرے خاموش اُستاد نے خاکسار کو ہارڈ ویئر اور کمپیوٹر کی خریداری سکھانے کا پروگرام بنایا جب بھی کسی دفتری کام سے لا ہور جاتے عموماً خاکسار ساتھ ہوتا.شروع میں جس فرم سے کمپیوٹر کی خرید اور مرمت کا کام کروایا کرتے تھے خود اُن کے دفتر میں بیٹھتے اور مجھے اُن کی ورکشاپ میں بھیجتے اور دفتر میں بھی خاکسار کو اس چیز کی کھلی اجازت تھی کہ تمام کمپیوٹرز کھول کر جس طرح مرضی آپریشنز کرتا رہوں شروع میں مجھے اس چیز کی سمجھ نہیں آئی لیکن آہستہ آہستہ بات مجھ پر کھلی کہ یہ میری تربیت کا سامان کیا جارہا ہے.اس طرح ان ورکشاپوں میں بہت وقت گزارنے سے جلد ہی ہم اس پوزیشن میں آگئے کہ ہارڈ ویئر کے سارے داؤ پیچ اللہ کے فضل سے سمجھ گئے اور آپ کی شہادت تک اللہ کے فضل سے کبھی بھی کمپیوٹر کی مرمت پر کوئی قابل ذکر خرچ نہیں کیا پیچیدہ سے پیچیدہ کام خود کیا.جب آپ مہتمم خُدام لاحمد یہ تھے خاکسار کو آپ کے ساتھ بطور ناظم اُمور طلبا کام کرنے کا موقع ملا.آپ نے ہدایت دی کہ طلبا کو کمپیوٹر ٹرینگ دینے کا اہتمام کیا جائے جو بالکل Free ہو.بے انتہا شفقت تھی خاکسار کے ساتھ جس کا اظہار عملی ہوتا تھا اور نہایت خاموشی سے ہوتا تھا.جب تحریک جدید اور صدر انجمن کے شعبہ جات علیحدہ علیحدہ ہوئے تو بھی آپ نے صرف ایک کارکن کا انتخاب اپنے ساتھ کرنا تھا محض آپ کی شفقت اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ خاکسار کو اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا حالانکہ میں اپنے کولیگز میں سب سے نا اہل، نا تجربہ کار اور

Page 194

193 جوئیر تھا.آہ! ظالموں نے مجھ سے میرا خاموش اُستاد چھین لیا.گو کہ آپ نے بہت بڑا رتبہ حاصل کر لیا لیکن خاموشی سے یہ درس دے گئے کہ جماعت کی خاطر جان، مال، وقت اور عزت کو کس طرح قربان کیا جاتا ہے.عامر لطیف بٹ صاحب جو صاحبزادہ صاحب کی عاملہ میں معتمد مقامی کے عہدے پر فائز تھے، آپ کے کام کرنے کے انداز کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :- خدام سے ذاتی رابطے کے لئے کثرت سے ربوہ کے محلوں کے دورے کرنے کی وجہ سے آپ خدام میں بہت مقبول ہو گئے.کمپیوٹر میں اعلیٰ تعلیم نے آپ کو سلیقے اور سسٹم سے کام کرنے کی عادت ڈالی خود شعبہ جات کی با قاعدہ فائلیں بنوائیں اسی طرح ہر محلہ کی بھی علیحدہ علیحدہ فائل بنوائی جس میں اس محلہ کے خدام کے متعلق امور درج ہوتے تھے.میٹنگ میں شعبوں کے ناظمین کی رائے کو اہمیت دیتے.میٹنگ کے لئے خود ایجنڈا بناتے.وقت کے پابند تھے اگر مقررہ وقت پر حاضری کم ہوتی تو بھی اجلاس شروع کروا دیتے.مرکز سے ملنے والی ہدایت کی پوری پابندی کرتے بلکہ اپنے پروگراموں کو ترک کر کے بھی مرکز کی طرف سے ملنے والے پروگرام کو عملی جامہ پہناتے.ہر فیصلہ انتہائی تدبر اور دانش سے کرتے اور جو فیصلہ کر لیتے پھر اس پر قائم رہتے اور عموماً خدا تعالیٰ بھی آپ کی عجب رنگ سے تائید کرتا.دستور اساسی اور لائحہ عمل جس کام کی اجازت دیتے آپ اس پر بلا روک ٹوک عمل کرتے.اور ناظمین کو بھی یہی ہدایت دیتے کہ کوئی بھی پروگرام بناتے وقت دستور اساسی اور لائحہ عمل کو ضرور مد نظر رکھا کریں.دفتر با قاعدہ آتے تھے اور رات دیر گئے تک دفتری امور نمٹاتے رہتے تھے.اکثر اوقات جب رات کو

Page 195

194 عام خدام دفتر مقامی سے چلے جاتے اور چند ناظمین وغیرہ رہ جاتے تو آپ ان سے دن بھر کے معمولات پر ڈسکشن کرتے اور بڑے ہی دوستانہ ماحول میں ان کے مسائل سنتے اور انہیں مشورہ وغیرہ دیتے.آپ کی قیادت میں تمام ناظمین ایک ٹیم ورک کی صورت میں کام کرتے تھے اور یہ آپ کی بڑی خوبی تھی کہ کم و بیش ہر ناظم یہ سمجھتا تھا کہ مہتم صاحب کا اس کے ساتھ تعلق سب سے گہرا اور محبت والا ہے.یہ آپ کے مخلص ہونے کی بھی واضح دلیل ہے.آپ نے ہر ناظم میں خدمت کی عظمت کی ایک شمع روشن کر دی تھی کہ ہر ناظم آپ کے اشارے کا منتظر رہتا تھا اور آپ کی دی گئی ہر ہدایت پر خوش دلی سے عمل کرتا تھا“.مکرم شهزاد عاصم صاحب ( خلافت لائبریری ربوہ ) تحریر فرماتے ہیں :- محترم شہید صاحب سے میری پہلی ملاقات 1993ء میں اُس وقت ہوئی جب میں سیکنڈ ایئر کے بعد ایک دوست کے کہنے پر کمپیوٹر کی تعلیم کے سلسلہ میں مشورہ کے لئے آپ کے دفتر واقع پرائیوٹ سیکرٹری میں آپ سے ملا.دوسرے سینکڑوں لوگوں کی طرح میں بھی اس کا چشم دید گواہ ہوں کہ آپ اعلیٰ اخلاق سے مزین، منکسر المزاج مگر بارعب شخصیت کے مالک تھے.آپ نے انتہائی احسن طریق پر لاہور کے مختلف کمپیوٹر کالجز کے بارہ میں معلومات فراہم کیں.یہی نہیں بلکہ اپنے ایک کزن محترم مرزا فاتح احمد صاحب جو لاہور میں کینٹ کے علاقہ میں رہائش پذیر تھے کا ایڈریس اور فون نمبر دیتے ہوئے مجھے کہا کہ یہ لاہور کی ایک کمپیوٹر فرم میں جاب کرتے ہیں اور لاہور کے کالجز کو بہتر جانتے ہیں.اس لئے آپ ان سے بھی مشورہ کر لیجئے گا

Page 196

195 میں بے حد حیران ہوا کہ اس قدر اعلیٰ حسب نسب سے تعلق رکھنے والا شخص ایک ناواقف احمدی خادم سے بھی کس درجہ محبت اور اپنائیت سے پیش آرہا ہے.آپ ہی کی طرح محترم مرزا فاتح احمد صاحب نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا، گھر بلایا اور بڑے بھائی کی طرح مفید معلومات فراہم کیں.لاہور سے دو سال کمپیوٹر کا کورس کرنے کے بعد وہیں پر ایک اچھی کمپنی میں ملازمت مل گئی.اس بات کو تقریباً ایک سال ہوا تھا کہ خلافت لائبریری ربوہ کے لئے کمپیوٹر خرید لئے گئے.خاکسار نے اپنی خدمات پیش کیں.انٹرویو کے لئے بھی مجھے آپ ہی کے پاس بھیجا گیا.الحمد للہ کہ آپ نے منظوری مرحمت فرمائی.خلافت لائبریری میں ہونے والی کمپیوٹر ایسوسی ایشن کی کئی ایک میٹنگز میں اور ایسوسی ایشن کے تحت ربوہ میں ہونے والے کئی ایک سیمنارز میں بھی آپ کو قریب سے دیکھنے اور آپ کے زریں خطابات سننے کا موقع ملا.بقول عبید اللہ علیم صاحب یہ سعادت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم سپوت و پہلے شہید کی بابرکت حیات پر طبع ہونے والی کتاب کے سلسلہ میں اس عاجز کو خدمت کا موقع ملے گا.یہ میرے لئے بے حد اعزاز کی بات ہے اور میں اس پر خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر گزار ہوں کہ محض فضل خداوندی کے باعث یہ ممکن ہوا.میں ہر اُس شخص کے پاس پہنچا کہ جس کے متعلق میرے علم میں آیا کہ اس سے محترم مرزا غلام قادر صاحب سے متعلق کوئی مفید بات یا واقعہ معلوم ہوسکتا ہے میں نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ جب معلومات کے حصول کے سلسلہ

Page 197

196 میں، میں بعض لوگوں کے پاس پہنچا تو ان کی آنکھوں میں محترم مرزا غلام قادر صاحب کا نام سنتے ہی نمی جاگ اٹھی.صرف شہر ربوہ یا لاہور ہی کی بات نہیں، کئی شہروں کی خاک چھانی ہے لیکن دلوں میں محبت کی ایسی جوت جگانے والا میں نے اپنی زندگی میں کوئی نہیں دیکھا.میرے خیال میں آپ ظاہری طور پر ہی نہیں، باطنی طور پر بھی بے حد خوبصورت تھے.بے شک بعض محاسن کے بیان کے لئے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے کہ خدا نے زبانیں اسی لئے بنائی ہیں لیکن آپ آفتاب آمد دلیل آفتاب تھے.میں بے حد خوش ہوں کہ میری یہ حقیر سی کاوش کامیاب ہوئی.انتہائی اہم و تاریخی مواد، خطوط اور نادر تصاویر لجنہ اماء اللہ کراچی کو پیش کرنے کی سعادت پا رہا ہوں.الحمد للہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنن الترمذی میں بیان کردہ اس حدیث مبارکہ: مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُر الله کی روشنی میں کہ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا.میں اُن چند دوستوں کے نام بغرض دعا دینا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے دورانِ تحقیق مجھ سے کما حقہ تعاون فرمایا: مکرم اسفند یار منیب صاحب ایڈیٹر رسالہ 'خالد.مکرم سلیم الدین صاحب معتمد مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان.مکرم نصیب احمد بٹ صاحب معاون صدر خُدام الاحمدیہ.مکرم فرید احمد نوید صاحب ایڈیٹر رسالہ تفخیذ الا ذہان.مکرم خواجہ ایاز احمد صاحب سابق نائب مہتم مقامی ربوہ.مکرم سید میر محمود احمد صاحب نائب ناظر تعلیم صدر انجمن احمد یہ.مکرم نعیم اللہ ملی صاحب کا رکن دفتر وصیت صدر انجمن احمد یہ مکرم ناصر محمود صاحب ابن مکرم مرزا محمد اسلم صاحب.مکرم راجہ فاضل احمد صاحب سیکریٹری وقف کو ربوہ اور مکرم نصیر احمد صاحب

Page 198

197 فوجی کارکن خلافت لائبریری ربوہ کہ جن کے خصوصی تعاون کے باعث بعض حوالہ جات ڈھونڈنے میں سہولت رہی.فجزاء هم الله احسن الجزاء نیز میں نے ایک اور زاوئے سے بھی میاں قادر کی شخصیت کے حُسن کا جائزہ لیا.ایک افسر کو اُن کے ماتحت عملہ کس نظر سے دیکھتا ہے اس غرض سے درج ذیل احباب سے انٹرویو کئے.مکرم نعیم اللہ ملی صاحب ابن مکرم حفیظ اللہ خان اشرف صاحب مکرم احسان محمد صاحب ابن مکرم غلام محمد صاحب مکرم نعمت اللہ شمس ابن مکرم امام دین صاحب مکرم محمود احمد صاحب ابن مکرم اسحاق صاحب سب نے میاں صاحب کے حُسنِ سلوک کا اپنے انداز میں تذکرہ کیا.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بظاہر غیر اہم ہیں لیکن اگر بعض افسر“ ان باتوں سے اپنے رویوں پر نظر ثانی کر لیں تو بہت اہم بھی ہیں.میاں قادر کے قد و قامت میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے.خلاصہ پیش خدمت ہے.ابتدائی دنوں میں جب کہ ابھی کوئی باقاعدہ مددگار کارکن نہ ملا تھا تو آپ صبح آتے ہی خود اپنی ٹیبل پر کپڑا وغیرہ لگا لیتے تھے.کمپیوٹر کو ڈسٹ سے بچانے کے لئے ڈھک کر رکھتے تھے.سادگی ایسی تھی کہ اگر پیاس لگتی تو خود ہی گلاس پکڑنا اور کولر وغیرہ سے پانی پینے چلے جانا جو دوسرے کمرے میں پڑا ہوتا تھا.دفتری ٹائم ختم ہونے پر آپ نماز پڑھ کے دوبارہ کام میں جت جاتے تھے.لیکن کبھی آپ نے دیگر کارکنان کو نہ روکا کہ میں یہاں بیٹھا ہوں تو آپ کیوں جا رہے ہو؟ بعض اوقات کام میں اتنے مگن ہوتے کہ وقت کا احساس ہی نہ ہوتا آپ اپنی بچی کو اسکول سے لانے کے لئے جایا کرتے تھے اگر کبھی

Page 199

198 دیر ہو جاتی تو کسی بھی کارکن سے سائیکل مستعار لے کر روانہ ہو جاتے تھے.اگر کبھی کوئی کارکن دفتر دیر سے آتا تو معمولی طور پر اخلاق سے اُس سے پوچھتے اور کبھی بھی کسی کو بے عزت نہیں کرتے تھے.کسی بھی کارکن کو ذاتی کام کے لئے چھٹی چاہئے ہوتی تو آپ کبھی رُکاوٹ نہ ڈالتے آپ نے ایک کاپی بنا کر دی تھی جس پر ہر باہر جانے والا ، جانے اور آنے کا وقت نوٹ کرتا تھا.گو کہ آپ اس کاپی کو با قاعدہ چیک نہیں کرتے تھے.لیکن پھر بھی آپ کو اس بات کا احساس ہو جاتا تھا کہ کون شخص زیادہ باہر جاتا ہے لیکن کبھی آپ نے سرزنش نہ کی.دوسروں کی عزت نفس کا بے حد خیال رکھنے والے تھے بعض اوقات اگر شور ہو رہا ہوتا تو صرف دیکھ کر واپس چلے جاتے گویا ہمیں خود احساس ہو جائے یا پھر ہلکا سا کبھی کہہ دیتے کہ شور ہو رہا ہے اگر محسوس کرتے کہ کوئی دوست یا مہمان وغیرہ آئے ہوئے ہیں اور شور اس وجہ سے ہے تو انکساری کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات ناراض ہوئے بغیر خود اپنا دروازہ بند کر لیتے.بے حد نفاست پسند تھے لیکن اسراف سے بچتے ہوئے سجاوٹ کے پہلو کو مد نظر رکھتے تھے کوئی بھی دفتری چیز خریدنے کے معاملے میں معیار کو پیش نظر رکھتے تھے اور مکمل چھان بین کے بعد اُس شخص یا پارٹی سے خریدتے.جس سے خرابی کی صورت میں واپس یا Repair کروائی جا سکے.دفتری پراپرٹی کی انتہائی دیکھ بھال کرتے تھے.دفتر کی کوئی بھی چیز ذاتی استعمال میں نہ لاتے تھے.بلکہ دفتر کے کاموں کے لئے اپنی ذاتی گاڑی استعمال کر لیا کرتے تھے.اگر کبھی کبھار کوئی ہلکا سا بخار وغیرہ ہوتا تو دفتر چھٹی لینے کے باوجود ذرا سی طبیعت سنبھلنے پر دفتر آ جاتے.سیر و تفریح کے دلدادہ تھے.اس لئے بعض اوقات آٹھ دس روز کی چھٹی لے کر اپنی فیملی یا دوستوں وغیرہ کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لئے چلے جاتے.کارکنان ނ

Page 200

199 سے پوچھتے تھے کتنا کام ہوا ہے تا کہ یہ انداز ہو سکے کہ فلاں کام کتنی دیر میں ختم ہو سکے گا.اگر کسی کارکن کی رپورٹ دیتے تو حق بات کہتے حتی الوسع کوشش کرتے کہ کسی کی سائٹ خراب نہ ہو.دفتر ہی میں کمپیوٹر سے متعلق کتب کی ایک لائبریری بنا رکھی تھی جن سے اکثر Help لیتے رہتے تھے.دیگر کارکنان کو بھی ان کتب سے مستفیض ہونے کی ترغیب دیتے.دفتر اکثر پینٹ شرٹ پہن کر آتے لیکن جمعہ والے دن عموماً شلوار قمیص پہنتے تھے.گو کہ آپ انگلش بے حد روانی سے بول سکتے تھے لیکن کبھی بھی اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی کوشش نہ کی.سچ یہ ہے کہ آپ میں تصنع تھا ہی نہیں.دفتر میں زیادہ تر اردو میں بات کرتے تھے.اگر باہر سے کوئی پنجابی بولنے والا آجاتا خصوصاً کوئی مزارع وغیرہ تو اُس کے ساتھ پنجابی ہی میں بات کرتے.افسرانِ بالا سے انتہائی مؤدبانہ رویہ رکھا ہوا تھا لیکن عموماً اپنے کام سے کام رکھتے یعنی خوشامد پسند نہ تھے.کمپیوٹر میں ماہر اور تعلیم یافتہ ہونے کے باعث بہت سے لوگ آپ سے اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں مشورہ کے لئے آتے.ہزار مصروفیات کے باوجود بھی آپ نے کبھی ناگواری کا اظہار نہ کیا.بعض اوقات لوگ گھنٹہ گھنٹہ بیٹھے رہتے اور معلومات لیتے رہتے، آپ انہیں مکمل گائیڈ کرتے.ہم تمام کارکنان کی یہ متفقہ رائے ہے کہ دس سال کے عرصہ میں انہوں نے کبھی کسی کارکن کو ڈانٹا یا جھڑ کا نہیں جب بھی ان کی یاد آجائے تو بے اختیار دُعائے خیر نکلتی ہے یوں لگتا ہے کوئی بہت قریبی عزیز بچھڑ گیا ہو.مکرم سعید احمد خان صاحب مراقب خُدام الاحمدیہ پاکستان:- خاکسار نے شعبہ مال کے حوالے سے جو بھی سیکھا وہ سب میاں صاحب ہی سے سیکھا نہایت نفیس اور سلسلہ کے فدائی انسان تھے مجھ سے کوئی میرا آئیڈیل پوچھے تو میری زبان سے میاں صاحب کا نام ہی نکلے گا.

Page 201

200 مکرم محمد شریف صاحب محرر مال خدام الاحمدیہ پاکستان:- میاں صاحب کے چہرہ پر ہر وقت مسکراہٹ کے آثار رہتے کام میں اتنے سنجیدہ تھے کہ بعض اوقات سڑک پر سائیکل کھڑا کر کے دفتری کاغذات پر دستخط کر دیتے.وہ اتنے ذہین تھے کہ معاملہ کی تہ تک آسانی سے پہنچ جاتے.جب دفتری کام سے فراغت ہوتی کتابیں پڑھتے.مکرم منصور احمد جاوید چٹهه صاحب مراقب خُدام الاحمدیہ پاکستان:- کام کرنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ایک دفعہ دفتر کے کسی کارکن کی رپورٹ پر لکھا منصور چٹھہ صاحب کی رپورٹ سے استفادہ کریں، یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا.دفتر پرائیوٹ سیکریٹری میں کام کر رہے ہوتے میں ڈاک لے کر جاتا تو اپنے پاس کرسی پر بٹھا لیتے ڈاک ملاحظہ کر کے کھڑے ہو کر رخصت کرتے.مکرم رانا محمود احمد طاهر صاحب سابق زعیم دارلیمن ربوه:- سیلاب کے دنوں میں میں نے دیکھا کہ محنت کے ساتھ بہت دعائیں کرتے روزانہ حضور انور کی خدمت میں دُعا کے لئے Fax کرتے.مکرم طارق محمود صاحب کمپیوٹر سیکشن خدام الاحمدیہ مرکز یہ پاکستان ساکن دارالصدر شمالی حال مقیم امریکہ تحریر کرتے ہیں:.” میری قادر صاحب سے پہلی ملاقات مارچ 1989ء میں کمپیوٹر کے حوالہ سے ہوئی.مجھے وہ پہلی ہی ملاقات میں بہت پیارے لگے.بات کرنے کا طریق نہایت ہی شاندار.نہایت ، دھیمے لہجے میں بات کرتے.ان سے بار بار ملنے کی خواہش دل میں رہتی میرا ان سے اُستاد شاگرد والا رشتہ بنا جو آخر دم

Page 202

201 تک قائم رہا.اس عرصہ میں کبھی ناراضگی یا ڈانٹ ڈپٹ والا معاملہ پیش نہ آیا بلکہ ہماری غلطیوں کی پردہ پوشی کرتے رہے.وہ ایک بہترین انسان کے ساتھ ساتھ بہترین اُستاد بھی تھے.خُدام الاحمدیہ پاکستان میں بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع اکثر ملا کرتا تھا.وہ خود بھی ڈیوٹی پر حاضر رہتے اور کام کے طریق بھی بڑے احسن رنگ میں سمجھاتے.اس تعلق کے دوران میں اکن کوشش کرتا کہ آج ضرور سلام میں پہل کروں گا مگر کبھی کامیاب نہ ہوسکا.وہ ہمیشہ سلام میں پہل کیا کرتے تھے.مکرم امان الله صاحب امجد کارکن وکالت وقف کو ربوہ تحریر فرماتے ہیں:.محترم صاحبزادہ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1990ء میں ہوئی جب آپ مہتم تجنید تھے.اور سالانہ تربیتی کلاس کے موقع پر ناظم رجسٹریشن بھی تھے.اس وقت جب کہ رجسٹریشن میں خاکسار کو آپ کی زیر نگرانی خدمت کا موقع ملا آپ یقیناً ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے اور ہمیشہ کامل ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے.ڈیوٹی کے دوران کسی کارکن کو کوئی مشکل پیش آتی تو فوراً حل کرنے کی کوشش کرتے“.مکرم احسان الهی عابد صاحب ابن مکرم کرم الهی صاحب ساکن داریمن شرقی جنہوں نے کم و بیش دس سال بطور مددگار کارکن شعبہ کمپیوٹر سیکشن تحریک جدید میں محترم قادر صاحب کے ساتھ کام کیا اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:- آپ انتہائی خاموش طبع اور بے حد سادہ انسان تھے میری ڈیوٹی دو جگہ ہوتی تھی یعنی دفتری ٹائم میں سے آدھا ٹائم میں دفتر وکالت مال ثانی میں کام کرتا تھا اور آدھا ٹائم آپ کے دفتر واقع پرائیوٹ سیکر یٹری میں کام کرتا تھا.

Page 203

202 اس آدھے ٹائم میں بھی اگر مجھے کوئی ذاتی ضروری کام پڑ جاتا تو آپ چھٹی دے دیا کرتے تھے.میرا کام چونکہ دو دفاتر میں تقسیم تھا اس لئے اگر میں پہلے دفتر سے کام کے باعث آپ کے پاس لیٹ پہنچتا تو آپ کی انکساری کا یہ عالم تھا کہ خود اپنے ٹیبل، کمپیوٹر اور ریکس کی صفائی کر لیتے تھے حتی کہ بعض اوقات میں جب فرش دھو رہا ہوتا تو کبھی کبھار خود وائپر لگا لیتے.مجھ پر کبھی کوئی مشکل وقت آیا تو آپ نے بھر پور امداد کی جسے میں بعض اوقات یکمشت اور بعض اوقات قسطوں میں واپس کر دیتا.آپ واقعتاً ایک غریب پرور انسان تھے.دوسروں کی نسبت آپ میں درگزر سے کام لینے کی صفت بھی بہت نمایاں تھی یعنی اگر کبھی مجھ سے کام میں سستی ہو جاتی تھی تو حتی الوسع کوشش کرتے تھے کہ کچھ نہ کہا جائے“.

Page 204

203 باب 7 شخصیت کے دلنواز پہلو کر والدین کا والہانہ احترام حمد والدین کی خدمت میں زمینداری کے فرائض اسکول کی معلمہ کا احترام مزارعین سے حسن سلوک ہے سادگی اور احساس ذمہ داری جماعت کا پیسہ ذاتی کام پر خرچ نہیں ہونا چاہئے چند اہم واقعات خورشید مثال شخص کل شام مٹی کے سپرد کر دیا ہے اندر بھی زمیں کے روشنی ہو مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

Page 205

204 قادر کی شخصیت میں اُن کی خاندانی شرافت و نجابت نے بہت دلنواز پہلو جمع کر دیے تھے.غیر معمولی ذہانت، اعلیٰ تعلیم اور مزاج کی خاکساری و عاجزی نے مل کر اس مغل شہزادے کو Nobility کا ایک شاہکار بنا دیا تھا.اُن کا سادہ بے تکلفانہ انداز اُن سے قریب ہونے والوں کو قریب تر لے آتا.ایک دلنشیں مسکراہٹ اُن کے چہرے کے نقوش کا حصہ بن گئی تھی.وہ ان شخصیات میں سے نہیں تھے جو وراثتاً کوئی قابل فخر بات مل جانے پر خود کو خواہ مخواہ ممتاز بنائے پھرتے ہوں بلکہ وہ تو اپنی موجود خوبیوں پر بھی پردہ ڈالے رہتے یہ خدائی کام ہیں کہ کردار کی خوشبو حجاب میں نہیں رہ سکتی.جیسے کسی خوبصورت تصویر پر پڑا ہوا پردہ ہوا کی نرم سی سرسراہٹ سے اُس کی ہلکی سی جھلک دکھا کر پوری تصویر دیکھنے کا اشتیاق پیدا کر دیتا ہے.اسی طرح قادر کے حُسنِ خُلق کی جستہ جستہ یادیں یہ تصور اُبھارتی ہیں کہ اُن کی ذات میں کیسا معمل حسن ہوگا.ان ادھوری یادوں اور بھلیوں سے اُن کی دلنوازیوں کے اندازے لگائے جاتے رہیں گے.والدین کا والہانہ احترام : قادر کو ماں باپ کی خدمت کا بہت سلیقہ تھا.والدین کے لئے قرآنی دعا ہے.رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.اے میرے ربّ میرے ماں باپ پر اُس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں ہم پر رحم کر کے ہمیں پالا تھا.آپ کو خدا تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی تھی کہ والدین کی اُسی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ دیکھ بھال کریں جیسے انہوں نے اپنا آرام تج کر اپنے بچوں کی کی تھی.زمینوں کا کاروبار آپ کے تجربے میں شامل نہیں تھا.مگر والدین کے فکر کم کرنے کے لئے محنت اور عمدگی سے اس کام کو سنبھال لیا.

Page 206

205 کندھے ناتجربہ کار تھے مگر بار اُٹھانے کا جذبہ رکھتے تھے.محنت کے ساتھ دیانت داری شامل ہوگئی تو چند سالوں میں زمینوں کی شکل ہی بدل گئی.حساب کتاب ستھرا رکھتے.والدہ صاحبہ کی آنکھوں میں ایک منظر بسا ہوا ہے وہ بیمار تھیں قادر تیمار داری کے لئے آتے تو ایک نظر دواؤں پر ڈال لیتے جو دوا ختم ہوتی لا کر خاموشی سے رکھ دیتے اظہار تک نہ کرتے کہ میں نے کوئی خدمت کی ہے.شادی کے بعد بھی دن میں دو تین چکر گھر کے ضرور لگا لیتے چھوٹے چھوٹے کام بھی نوٹ کرتے اور فکر سے کروا دیتے مثلاً ربوہ میں بجلی کی آنکھ مچولی سے جو کوفت ہوتی ہے اُس سے بچاؤ کے لئے Inverter لگوا کے دیا.اگر امی ابا شہر سے باہر گئے ہوتے تو رات کو چکر لگا کر دیکھ لیتے کہ چوکیدار آیا ہے یا نہیں.والدین کے چندے کی ادائیگی کرنا اور حساب کتاب رکھنا بھی آپ نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا بہت بشاشت سے چندے کی مد میں رقم نکال کر وقت پر پیش کر دیتے.کالج کے زمانے میں موٹر سائیکل کی فرمائش کی.موٹر سائیکل کی خطرناکی کی وجہ سے ہر ماں کو اس سے خوف رہتا ہے.قادر نے یقین دلایا کہ وہ تیز نہیں چلائیں گے.یہ مہنگی فرمائش پوری کر دی گئی.حساس بیٹے کو خیال رہا کہ والدین پر بوجھ ڈالا ہے.کالج کی تعلیم ختم ہوئی تو خود ہی موٹر سائیکل بیچ کر حاصل شدہ روپے لا کر ماں کے ہاتھ پر رکھ دیے.حالانکہ اُن کو خرچ کا جتایا گیا تھا نہ مطالبہ کیا گیا تھا.زندگی وقف ہونے کی وجہ سے ماں باپ کی نظر میں آپ کی تو قیر کئی گنا بڑھ گئی والد بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے کبھی کبھی پیار سے قادر کو شہزادہ

Page 207

206 کہتے اگر کبھی کسی چیز کے لئے شہزادے کی آنکھ میں پسندیدگی کی چمک دیکھتے تو اُسے بڑے پیار اور اصرار سے دے دیتے.شہادت سے صرف دو دن پہلے کی بات ہے امی سے آکر پوچھا پنکھے تو نہیں لگوانے؟ انہیں اندازہ تھا کہ ہال میں ایک پنکھا پرانا ہے اور ایک نیا لگنے والا ہے.ہاں قادر لواد...امی نے کہا قادر اُسی دن قادر نے پنکھے لگوا دیے جو دو دن کے بعد تعزیت کے لئے آنے والوں کو گرمی میں ہوا دے رہے تھے.مگر پنکھے لگوانے والا ابدی نیند سو رہا تھا.والدین کی خدمت میں زمینداری کے فرائض: محنت، دیانتداری اور مقصد کے حصول کی لگن ایسے اوصاف ہیں جو مشکل سے مشکل کام کو آسان بنا دیتے ہیں.میاں قادر صاحب میں یہ سب موجود تھے.ان پر مستزاد والدین کی خدمت کا جذبہ تھا اپنے ناتواں کندھوں پر زمینداری کا بوجھ بھی اٹھا لیا.ربوہ کے مغرب میں ایک گاؤں احمد نگر ہے.اس میں آپ کے والد صاحب کی زرعی اراضی ہے.یہی پر فضا علاقہ قادر کے فرائض میں ایک اور اضافہ ہو گیا.آپ کے والد محترم فرماتے ہیں:.امریکہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب وہ واپس آیا تو ނ میں نے اُسے زمین کے معاملات سنبھالنے کا کہا اُس نے فرمانبرداری حامی بھر لی.اور حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اجازت مانگی کہ آپ مجھے Free Hand دے دیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کسی معاملہ میں آپ کی اور میری رائے علیحدہ علیحدہ ہو.میں نے کہا ٹھیک ہے تمہیں مکمل Free Hand

Page 208

207 دیتا ہوں تم جو بہتر سمجھو وہ کرو.پھر اُس نے باقاعدہ زمینوں پر کام شروع کر دیا.مجھ سے مشورہ ضرور لے لیتا مگر خدادا انتظامی قابلیت کی وجہ سے بہت جلد وہ زمینداری کے معاملات سمجھ گیا اور خود بھی فیصلے کرنے لگا جو بہت بہتر تھے.آپ کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں:- میں نے ہی قادر کے ابا سے کہا تھا کہ زمینوں کے معاملات قادر کے سپر د کر دینے چاہئیں.یہ درست ہے کہ زمین اس وقت خسارے میں جارہی تھی قادر نے بڑی مہارت سے کام سنبھالا ہم نے اُسے کہہ رکھا تھا کہ خوشی سے جو تمہیں دیں اس کے علاوہ منافع میں دس فیصد تمہارا حصہ ہوگا.مگر ہمیں فکر ہی رہتا کہ اُس نے اپنا حصہ لیا بھی یا نہیں قادر کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ جتلاتا نہ تھا یعنی جب اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور قادر کی مسلسل اور انتھک محنت کے باعث زمین نے خاصا منافع دینا شروع کیا تو اُس نے کبھی اشارہ بھی ذکر نہ کیا کہ یہ سب کچھ میری جہد مسلسل کا ثمر ہے نہ اپنے بھائی کی نسبت کوئی بات کہی.وہ تو وفا کا پتلا تھا شکوے شکایت کرنا جانتا ہی نہ تھا.اسکول کی معلمہ کا احترام : آپ کی پرائمری ٹیچر محترمہ حبیبہ مجید صاحبہ مھتی ہیں:- پرائمری کے بعد میری اس کی ملاقات کم و بیش سترہ اٹھارہ سال بعد ہوئی جب سے اس نے امریکہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وقف کر کے بطور انچارج کمپیوٹر سیکشن صدر انجمن احمدیہ میں خدمات انجام دینا شروع کی تھیں.ایک دن میں سر راہ چلی جا رہی تھی کہ میں نے قادر کو سامنے سے آتے

Page 209

208 ہوئے دیکھا.میں نے سلام کیا اور پوچھا کیا تم قادر ہو.تو وہ وہیں ٹھٹھک کے رُک گیا کہ جیسے زمین نے اُس کے قدم پکڑ لئے ہوں گو کہ میں نے اُس وقت برقع پہن رکھا تھا.لیکن یہ اس کی ذہانت ہی تھی کہ اپنے عرصہ کے بعد بھی اُس نے میری آواز پہچان لی تھی.اُس وقت نہ میں اُستاد تھی اور نہ وہ طالب علمی کا زمانہ، لیکن پھر بھی وہ میرے سامنے یوں مؤدب کھڑا تھا جیسا کسی فوجی کے سامنے اُس کا کوئی بہت اعلیٰ افسر کھڑا ہوتا ہے.آنکھوں میں بے انتہا عقیدت تھی اور عجیب محبت بھرا شاگردانہ انداز تھا کہ خود ہی معذرت کرنے لگا کہ سلام میں پہل اُسے کرنی چاہیے تھی حالانکہ اس میں اُس کی کوئی غلطی نہ تھی.میرے لئے وہ اب بھی اس طرح بچہ تھا بھولا بھالا معصوم قادر.وہ اُن طالب علموں میں سے تھا کہ جسے ہر اچھا اُستاد اپنا شاگرد بنانا چاہے کہ جو نہ صرف اپنا نام روشن کرنے والا ہو بلکہ اُستاد کا نام بھی اُس کے باعث جگمگا اُٹھے.مزارعین سے حسن سلوک : زمینداری میں قادر کی شخصیت کا ایک اور رُخ سامنے آیا.اور یہ رُخ تھا مزارعین پر شفقت و مہربانی کا، انہیں اپنے جیسا انسان سمجھنے کا، اُن سے حُسنِ سلوک کرنے کا، اللہ تعالیٰ کو یہ رُخ بہت محبوب ہے.محترم شہزاد عاصم صاحب زمینوں پر جا کر مزارعین سے ملے اور اُن کی یادوں کو سمیٹ کر لے آئے.رشید احمد صاحب ابن مکرم شیر علی صاحب (ساکن دار النصر شرقی ) نے شہادت تک قادر کے ساتھ کام کیا یہ ٹریکٹر ڈرائیور ہیں بتاتے ہیں کہ شروع میں ہم نے بابو ٹائپ بندے کو دیکھ کر سمجھا کہ یہ کیا سمجھے گا زمینوں کو.......مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ بڑے حساب کتاب والے بندے ہیں.فٹافٹ اندازہ لگا

Page 210

209 لیتے ہیں کہ کتنے ایکڑ زمین میں ہل چلاتے وقت کتنا ڈیزل استعمال ہوا ہے یا کس فصل کو فی ایکڑ کتنا پانی چاہئے.خود بھی بہت اچھا ٹریکٹر چلا لیتے.خسارے میں جا رہی زمین سے منافع آنے لگا.محنت کے عادی تھے گندم یا چاول بوریاں ٹرالی میں لادنی ہوتیں.تو مزدوروں کے ساتھ مل کر کام بھی کر لیتے.چھوٹے سے چھوٹے ملازم سے بھی بڑی شفقت اور محبت سے پیش آتے.اور ہر خوشی غمی کے موقع پر اُن کا پورا خیال رکھتے.اگر کسی کے کام سے خوش ہوتے تو انعام بھی دیتے.مزارعوں کے بچوں کے ساتھ (جو زیادہ تر غیر از جماعت تھے ) بہت اچھا سلوک کرتے انہیں خوبیوں کی وجہ سے مزارعین آپ کے گرویدہ تھے.اسی قسم کے جذبات کا اظہار دیگر محنت کش ملازمین نے بھی کیا.ان میں مکرم امیر علی ملاح ابن اللہ بخش ، مکرم مہر لال ابن غلام محمد اور مکرم کمیر علی جوئیہ ابن نور محمد شامل ہیں.( یہ تینوں غیر از جماعت ہیں) چھوٹے میاں صاحب لین دین کے معاملات میں بڑے کھرے تھے.نوکروں سے مائی باپ جیسا سلوک کرتے تھے خواہ کچھ بھی ہو جائے کسی کے جائز پیسے یا تنخواہ نہیں روکتے تھے.آپ بہت حیادار شخص تھے.ڈیرے پر ہماری بہو بیٹیاں بھی موجود ہوتی ہیں.آپ جب بھی زمینوں پر آتے تو ڈیرے کے اس جانب سے گزرتے جہاں ہماری کوئی عورت موجود نہ ہو اور پھر ڈیرے کے پاس سے گزرتے ہوئے ہمیشہ نظر نیچی رکھتے حالانکہ یہ ڈیرہ بھی آپ کا تھا اور ساری زمین بھی آپ کی تھی.ہم میں سے کوئی کام کرتا ہوا نظر آ جاتا تو سیدھے وہیں آجاتے اور ہم سے بات کرتے.دوسروں کی عزت کا بہت خیال رکھتے تھے.ہم خوشامد نہیں کرتے مگر یہ سچ ہے کہ آپ ہماری عزتوں کے رکھوالے تھے.جب کسی فصل کے بیج ڈالنے کی باری ہوتی تو بڑی احتیاط

Page 211

210 کرواتے.خود سامنے کھڑے ہو جاتے اور ہمیں کہتے کہ ایک سیدھ میں پیج ڈالو.باقاعدہ نگرانی کرتے.غصہ میں کبھی نہ آتے تھے.اگر کبھی کسی سے پانی وغیرہ کا یا کوئی نقصان ہو جاتا تو بھی درگزر کرتے لیکن یہ ضرور دیکھتے کہ نقصان جان بوجھ کر کیا گیا ہے یا بشری کمزوری کے تحت ہوا ہے.اگر کبھی ہم یا ہمارے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوجاتا تو ہر ممکن مدد کرتے اور اسپتال سے بھی مدد دلواتے.خود بھاگ دوڑ کر کے اکثر مفت علاج کروا دیتے.ایک خاص شفقت ان کی یہ تھی کہ مشکل وقت میں کسی کی جو مالی مدد وغیرہ کرتے تو بعد میں بھی اس سے وصول نہ کرتے اور اگر کوئی شخص واپس لوٹانے کا تقاضا کرتا تو اسے کہتے کہ تمہارے بچے بھی میرے بچوں ہی کی طرح ہیں.آپ سب سے ٹھیٹھ پنجابی زبان میں گفتگو کرتے اور کبھی کسی پر اپنی علمیت کا رُعب نہ جھاڑتے.عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر ہر ملازم کو پانچ سو روپیہ دیتے تھے اور کئی دفعہ آپ اکٹھا نیا کپڑا خرید کر لاتے اور ملازمین کو تحفتاً سوٹ وغیرہ بنوانے کے لئے دے دیتے.یہ سب کچھ مقررہ تنخواہ کے علاوہ ہوتا تھا.اگر کسی بیلدار کے ہاں دورانِ سال اناج وغیرہ ختم ہو جاتا تو اسے ضرورت کے مطابق اناج مہیا کرتے اور بعد میں تقاضا بھی نہ کرتے.ہماری کسی بچی یا بچے کی شادی کے موقع پر خوشی سے اضافی امداد بھی کرتے.آپ کا اپنے ملازمین کو سمجھانے کا انداز بھی بڑا دلنشین تھا.ایک بار قادر صاحب نے انہیں 25, 25 روپے جرمانہ کر دیا.واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ نے انہیں کسی کھیت میں پنیری ڈالنے سے متعلق ہدایت دی.کہ زمین مزید ہموار کرنا اور پھر بیج ڈالنا.انہوں نے محنت سے بچنے کے لئے اس ہدایت پر صحیح طور پر عمل نہ کیا اور بیج ڈال دیا.جب آپ کو اس بات کا پتہ لگا تو سرزنش کی اور کہا کہ اس بار تم دونوں کی تنخواہ سے 25 روپے کاٹ لئے جائیں گے

Page 212

211 چونکہ تم نے جانتے بوجھتے ہوئے میری ہدایت کو نظر انداز کیا ہے.دونوں نے بات بنائی کہ اگر ہم زیادہ ہموار نہ بھی کریں گے.تو بھی فصل اس جگہ سے اچھی ہی ہو گی.قادر صاحب نے یہ بہانہ نہ مانا اور تنخواہ کے وقت دونوں کے پچھیں پچیس روپے کاٹ لئے گو کہ اس واقعے کے چند ہی دن بعد آپ نے دونوں کو کسی بہانے سے انعام کے طور پر پچاس پچاس روپے دیے اور انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر میں کسی پھلدار درخت کو بھی کاٹنے کا کہوں تو تم نے اطاعت کرتے ہوئے اُسے کاٹ دینا ہے کیونکہ میں ہر پہلو مدِ نظر رکھ کر ہی تمہیں کوئی بات کہتا ہوں اس واقعہ کا ملازمین پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ آئندہ سے میاں صاحب جو بھی کہیں تو انہیں صرف اس پر عمل کرنا ہے.مزارعین کی تربیت کے ساتھ ساتھ آپ کی شفقتوں اور عنایتوں نے محبت کے دیپ روشن کئے اور وہ کام جو عام طور پر بیگار سمجھ کر کیا جاتا ہے محبت اور ایمانداری سے ہونے لگا.بہت جلد زمین کی فی ایکڑ آمد پہلے کی آمد سے بہت بڑھ گئی.آپ اس میدان میں بھی سب سے آگے بڑھ گئے.مہر لال صاحب کا تبصرہ بہت جامع ہے ”اسان بئوں بندے ڈٹھے ھاں پر ایھوجیا نه ڈٹھا ہم نے بہت لوگ دیکھے ہیں مگر ان جیسا شخص نہیں دیکھا.صرف مہر لال صاحب نے ہی نہیں چشم فلک نے ایسا بندہ کم دیکھا ہوگا جس نے محبت اور اپنائیت سے سب کے دل جیت لئے ہوں.والدین کی دُعائیں لی ہوں اور خدمت میں عظمت کی بے نظیر مثالیں قائم کی ہوں.انہیں زمینوں پر کام کرتے ہوئے آپ سفر آخرت پر روانہ ہوئے.ان خدمت گزاروں نے اپنے محسن کو اجنبیوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے دیکھا تھا اور پھر کبھی نہیں دیکھا.

Page 213

212 دست عزرائیل میں مخفی ہے سب راز حیات موت کے پیالوں میں بٹتی ہے شراب زندگی سادگی اور احساس ذمہ داری: لمصلح مصلح موعود) زندگی وقف کرنے کی وجہ سے فطری سادگی اور قناعت پسندی میں اضافہ ہو گیا تھا.تکلفات اور فضول خرچی سے بچنے لگے تھے زیادہ خواہشات نہیں پالتے تھے اپنی ضروریات کو کنٹرول میں رکھتے آپ کی والدہ صاحبہ کے پاس نئی گاڑی آئی تو پرانی قادر کو دے دی کہ یہ تم اپنے استعمال میں رکھ لو جب گاڑی پرانی ہونے کی وجہ سے بہت تکلیف دینے لگی تو والدہ صاحبہ نے اصرار کیا کہ یہ گاڑی بیچ کرنئی لے لو رقم کم ہے تو وہ ڈال دیں گی مگر قادر پرانی گاڑی سے گزارا کرتے رہے.قادر نے کفایت شعاری عادت بنا لی تھی.جب لندن گئے تو آپ کی امی نے اضافی خرچ کے لئے کچھ پاؤنڈ دیے تھے جوں کے توں لا کر واپس کر دیے کہ ضرورت ہی نہیں پڑی.کھانے پینے میں سادگی کے لئے شہادت سے کچھ دن پہلے کی بات دیکھئے کہ نصرت سیالکوٹ گئی ہوئی تھیں.امی کے گھر سے کھانا کھایا مگر یہ نہیں بتایا کہ نصرت سیالکوٹ گئی ہیں یہیں کھانا کھاؤں گا انہیں ڈر تھا کہ اُن کی خاطر تکلف نہ کیا جائے امی ابا جو پر ہیزی کھاتے تھے وہی کھا لیتے.جماعت کا پیسہ ذاتی کام پر خرچ نہیں ہونا چاہئے: 1993ء کا ایک واقعہ بے حد حسین اور قابلِ تقلید ہے جس سے آپ

Page 214

213 کی شخصیت کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادر کو تحریک جدید کے نمائندے کے طور پر جلسہ سالانہ انگلستان بلایا سفر کے پہلے مرحلے میں ربوہ سے فیصل آباد پہنچنا ہوتا ہے جہاں سے ہوائی جہاز پر سوار ہوتے ہیں.جماعت کے کام سے جانے والوں کو جماعت کی کار استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے.آپ جب ربوہ سے فیصل آباد کے لئے روانہ ہوئے تو کار میں آپ کے والدین اور بیوی بچے بھی فیصل آباد تک گئے جہاں سے اپنے عزیز کو خدا حافظ کہہ کر واپس اُسی کار میں ربوہ واپس جانا تھا.قادر نے اپنے گھر والوں کو سمجھایا کہ آپ چونکہ جماعتی کار پر سفر کر رہے ہیں اس لئے کوئی ذاتی کام نہیں کرنا خواہ وہ کام کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو کہ راستے میں کار کھڑی کر کے پھلوں کے ٹھیلے سے پھل خریدنا.چند اہم واقعات مکان کی چھت گر گئی: مکان کا یہ حال تھا کہ خستگی سے ہر وقت گرنے کا ڈر ہی لگا رہتا ایک دفعہ تو الہی حفاظت کا حیرت انگیز واقعہ بلکہ معجزہ ہوا.نصرت بچوں کے ساتھ ربوہ سے باہر گئی ہوئی تھیں.قادر اپنی امی کے گھر آ کے سو گئے کسی نے فون پر بتایا کہ آپ کے گھر سے دُہواں اُٹھ رہا ہے.جا کر دیکھا تو مکان کی چھت گر چکی تھی.سارا سامان برباد ہو گیا تھا.مگر مکینوں کو مولا کریم نے خاص حفاظت سے بچا لیا تھا.جماعت کے پیسوں کا درد:

Page 215

214 کفایت شعاری کی عادت کی وجہ سے دفتر کی چیزوں کی بھی بہت حفاظت کرتے.محترم صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب ابنِ صاحبزادہ منیر احمد صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ قادر دفتر میں بیٹھے تھے اور مجھے جماعتی کام کے سلسلے میں ایک چٹھی لکھنی تھی چنانچہ میں نے کمپیوٹر کے پرنٹر میں استعمال ہونے والا ایک کاغذ لے لیا قادر نے وہ کاغذ مجھ سے لے لیا اور اُسی قسم کا ایک اور کاغذ اپنی دراز سے نکال کر مجھے دے دیا میرا ذاتی خیال ہے کہ قادر نے اپنی ذاتی اسٹیشنری دفتر میں رکھی ہوئی تھی.اسی قسم کا ایک اور واقعہ محترم نعیم اللہ ملہی صاحب نے بتایا کہ شروع شروع میں جب ہم نے کمپیوٹر پر کام شروع کیا تو ہمیں بار بار پرنٹ لینے کی عادت تھی مگر میاں صاحب اس کو نا پسند کرتے تھے ایک دفعہ میں نے کمپیوٹر پر اپنا ذاتی لیٹر ہیڈ ڈیزائن کر کے اس کا پرنٹ لیا تو میاں صاحب اس پر ناراض ہوئے وہ دفتر کی چیزوں کا بڑا خیال رکھتے بہت سے ذاتی چیزیں خرید کر دفتر لے آتے فضول خرچی بالکل نہیں کرتے تھے بلا ضرورت کوئی چیز نہیں خریدتے تھے اور بہت احتیاط سے رقم خرچ کرتے تھے.ہر وقت خدا کا خوف دامن گیر رہتا.ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں کمپیوٹر کی خریداری میں دس دس جگہ قیمتیں پوچھ کر مناسب داموں پر خریداری کرتے.خُدام الاحمدیہ کے کمپیوٹر سیکشن میں جو ذاتی کام کروانے آتے.اُس پر بھی بہت محنت کرتے.تاکہ خُدام الاحمدیہ کی مالی پوزیشن بہتر ہو اور کام کروانے والوں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو.

Page 216

215 ربوہ سے ابنِ عادل صاحب نے لکھا کہ اُن کی فرم میں حساب کتاب کے لئے کمپیوٹر لگانے کی تجویز ہوئی پروگرامنگ کے ریٹ معلوم کئے میاں صاحب کے دیے ہوئے ریٹ ان سب کے مقابلے میں صرف ہیں فیصد تھے آپ سے پروگرامنگ کروانے کے بعد جب دیگر پروفیشنلز سے رابطہ کیا گیا اور انہیں خرچ کا بتایا تو وہ حیران رہ گئے کہ اتنے کم خرچ پر یہ کام کس طرح ہو گیا.جماعتی نظام کی اطاعت کی اہمیت: راجہ محمد فاضل صاحب ( شعبه مال دفتر خُدام الاحمدیہ پاکستان) قادر کے حُسن کارکردگی کے دو واقعات بتاتے ہیں.اٹک کے دورہ کے دوران ان کو تربیلا ڈیم جانا تھا.کامرہ سے غازی پہنچے تو آگے کوئی سواری نہ ملی.اسپیشل سوزوکی وین کرائے پر لی.سفر خرچ کے بل میں اس کرایہ کی رقم دیکھ کر سمجھایا کہ جماعتی اموال کو اس طرح ضائع نہیں کرتے پچھلی مجلس سے کسی کو ہمراہ لے لیتے تو زائد کرایہ خرچ نہ ہوتا.دوسرا واقعہ بھی جماعت کا پیسے کو احتیاط سے خرچ کرنے کے متعلق ہے.جب میاں صاحب جلسہ سالانہ لندن کے لئے جارہے تھے تو ان کو سرحد کے دورے سے منع کیا تھا مگر میاں صاحب کے جانے کے بعد سرحد کا دورہ منظور کروالیا جب میاں صاحب نے بل دیکھا تو بہت سمجھایا کہ جماعتی نظام کی اطاعت کی بہت اہمیت ہے.اپنا کوٹ اُتار کر دے دیا:

Page 217

216 جلسہ سالانہ 1991ء پر قادیان تشریف لے گئے.ان کو مہمان خانہ مستورات میں ڈیوٹی ملی.ایک رات کو ایک خاتون دیر سے مہمان خانہ میں پہنچیں.جبکہ رجسٹریشن و دیگر انتظامات کروانے والے کارکن واپس جا چکے تھے.اس وجہ سے اس خاتون کو کسی بھی کمرے میں جگہ نہ مل سکی.انہیں باہر برآمدے میں ٹھہر نا پڑا.موسم بے حد سرد تھا ٹھنڈی یخ ہوا چل رہی تھی.میاں صاحب نے فوراً ارد گرد سے بینچ اور فرنیچر وغیرہ اُٹھوا کر اس خاتون کے گرد رکھوا دئے تاکہ ان کو ٹھنڈی ہوا نہ لگے یہی نہیں بعد میں آپ نے اس اجنبی خاتون کے لئے اپنا اوورکوٹ بھی اتار کر دے دیا.تاکہ اوڑھ کر سردی سے محفوظ رہے.آخر کس کے پڑپوتے تھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے اپنا بستر اور رضائی دے کر بغلوں میں ہاتھ ا دیے ساری رات گزار دی تھی.فعال خدمت گزار 1994-95ء میں جب قادر مہتم مقامی ربوہ تھے.دریائے چناب میں شدید سیلاب آیا.سیلاب کے بعد انتظامیہ نے آپریشن کلین اپ کیا بہت سے مکانات مسمار کر دیے.جماعت کے ایک کارکن گلزار صاحب کا مکان بھی زد میں آ گیا.گلزار صاحب مدد کے حصول کے لئے قادر صاحب کے پاس آئے.قادر نے مکرم نعیم اللہ ملہی صاحب کو جو اُس وقت ناظم وقار عمل تھے، گلزار صاحب کی مدد کرنے کی ہدایت فرمائی چنانچہ خدام الاحمدیہ نے دریائے چناب کے اُس پار، جہاں گلزار صاحب کو متبادل زمین دی گئی تھی ، ان کا مکان تعمیر کروایا.ربوہ سے مستری رضا کارانہ طور پر وہاں جاتے رہے.خدام نے

Page 218

217 مزدوروں کی طرح کام کیا.جب مکان تعمیر ہو گیا تو قادر وہاں تشریف لے گئے اور بہت خوشی کا اظہار کیا.کام کرنے کے ذوق و شوق کا عجب عالم تھا.اپنے ہاتھ سے محنت کے کام میں عار نہ سمجھتے.بیت مبارک سے ملحق پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ مجلس خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے کہ اُن میں پودے لگوائیں اور صاف ستھرا رکھیں.محترم صاحبزادہ مسرور احمد صاحب نے دیکھا کہ دو پہر تین بجے کا وقت ہے قادر خود مالیوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور پودے لگا رہے ہیں.آج وہ پودے لگانے والا رخصت ہو چکا ہے مگر پودے اپنے ناظرین کے قلب و نگاہ کو مسرور کر رہے ہیں.موت برحق ہے مگر مرنے کا اک انداز ہے موت جس پر لوگ مر جائیں بڑا اعزاز ہے بچوں پر شفقت بچوں سے شفقت کا ایک عجیب دلفریب واقعہ آپ کی زمینوں کے بیلدار کمیر علی جوئیہ نے سُنایا کہ ” میرے بچے نے ایک دفعہ چھوٹی سائیکل کی فرمائش کی تو آپ نے مذاق سے کہا کہ سامنے والے پلاٹ کی گھاس درست کر دو تو نئی سائیکل لے دوں گا بچہ خوشی سے کھل اُٹھا اور گھاس صاف کرنے لگا آپ کو بچے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ بچے کو بڑی سائیکل دلا دی تا کہ اسکول جانے کے کام بھی آئے.اب نہ صرف بچہ بلکہ ہم بھی سائیکل استعمال کر رہے ہیں اور میاں صاحب کو دُعا دے دیتے ہیں.“

Page 219

218 سانپ کو روکے رکھا: امیر علی ملاح صاحب نے زمینوں پر کام کرتے ہوئے بڑا سانپ دیکھا میاں قادر صاحب کام کا جائزہ لے رہے تھے سانپ دیکھا تو ٹھٹکے دور تک کچی زمین تھی ہاتھ میں کوئی ڈنڈا وغیرہ بھی نہ تھا امیر علی سے کہا میں سانپ کو روکے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تم ڈیرے سے کوئی ڈنڈا وغیرہ لے آؤ.اُس نے سمجھایا کہ سانپ خطرناک ہے اور آپ نے فل بوٹ بھی نہیں پہنے ہوئے ہیں بہتر ہے کہ اسے جانے دیا جائے مگر آپ نے جواب دیا تم دن رات یہاں کام کرتے ہو تمہارے بچے بھی یہاں آتے جاتے ہیں یہ تمہیں تکلیف پہنچا سکتا ہے.ڈیرے سے ڈنڈا لانے میں جس قدر وقت لگا آپ نے سانپ کو روکے رکھا پھر اُسے مار دیا گیا.با اصول انسان: مکرم احسان الہی عابد صاحب مددگار کارکن کمپیوٹر سیکشن تحریک جدید بیان کرتے ہیں:.”ایک دفعہ میاں صاحب کو امرود کے پودوں کی ضرورت تھی جنہیں آپ اپنی زمینوں پر لگانا چاہتے تھے.آپ کے علم میں یہ بات پہلے سے تھی کہ شیخوپورہ کے قریب ہمارے گاؤں کے امرود بہت اچھے ہیں.ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ کل تم اپنے گاؤں سے مجھے امرود کے چند پودے لا کر دو.میری زمینوں پر کام کرنے والا ایک ملازم بھی تمہارے ساتھ جائے گا.اگلے دن آپ آئے تو صبح ہی صبح مجھے اور اس شخص کو بیٹھا کر چینوٹ لے آئے وہاں سے ہمیں ایک ٹیکسی کرائے پر لے کے دی کہ پودے اس میں رکھ کر لائیں.ہم نے

Page 220

219 شیخوپورہ کے پاس واقع اپنے گاؤں سے پودے لئے اور آپ کی زمینوں پر جو احمد نگر میں واقع ہیں وہاں چھوڑ دیے.اگلے دن جب میں دفتر آیا تو آپ نے مجھے انعام سے نوازا.پھر کہنے لگے کہ احسان الہی کل کی چھٹی کی درخواست لکھ دو.میں نے کہا کہ میاں صاحب میں تو آپ کے کام سے گیا تھا کوئی ذاتی کام تو نہیں گیا تھا.کہنے لگے ٹھیک ہے.وہ میرا ذاتی کام تھا جماعتی کام نہیں، اس لئے تم بے شک درخواست میں یہ لکھ دو کہ میرے ذاتی کام گئے تھے لیکن دفتر میں چونکہ تم حاضر نہ تھے.اور جس کام تم گئے ہو وہ کوئی دفتری کام نہیں بلکہ میرا ذاتی کام تھا یہ واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ ذاتی کاموں اور جماعتی کاموں میں فرق کرنا بخوبی جانتے تھے.جس کی چیز ہے اُس کا حق ہے: وو مکرم راجہ رشید احمد صاحب ابن مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب ساکن دار الصدر شمالی بیان کرتے ہیں :- ” میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ مجھے محترم مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ بطور ناظم صحت جسمانی خدمت کا موقع ملا.آپ جب مہتم مقامی ربوہ تھے تو 1995 ء میں شدید سیلاب آیا.ہم نے ربوہ کے ارد گرد کے دیہاتوں میں بسنے والے لوگوں کو بچانے کے لئے گاڑیوں کی چند ٹیوبوں کا انتظام کیا تھا.اس سلسلہ میں ہم دو ٹیوبیں ربوہ کے سوئمنگ پول سے بھی لائے تھے.ایک رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے سوئمنگ پول سے ایک کارکن آیا اور کہا کہ ہمیں ٹیوبوں کی ضرورت ہے براہ کرم ہماری ٹیوبیں واپس کردیں.میاں صاحب اس وقت دفتر مقامی میں ہی بیٹھے تھے.آپ نے

Page 221

220 مجھے بلایا اور پوچھا کہ کیا آپ نے ان سے دو ٹیو میں منگوائی تھیں؟ میں نے جواباً اثبات میں سر ہلایا تو آپ کہنے لگے کہ انہیں ٹیوبیں واپس کر دیں.میں نے کہا کہ میاں صاحب ٹیوبیں تو اور بھی بہت سی ادھر اُدھر سے منگوائی گئی ہیں جو دریا پہ کچھ کسی کشتی میں اور کچھ کسی میں پڑی ہیں.آدھی رات کا وقت ہے مجھے تو یاد بھی نہیں کہ ان کی ٹیوبیں کونسی جگہ پڑی ہوئی ہیں.اس لئے صبح کو ڈھونڈ کر انہیں پہنچا دوں گا.کہنے لگے جن کی چیز ہے انہوں نے مانگی ہے اس لئے اُصولاً ہمیں ضرور لوٹانی چاہیے.آپ ابھی جائیں اور ان کی ٹیوبیں ان کو پہنچا کے آئیں.میں اطاعت کرتے ہوئے دفتر مقامی سے نکل آیا باہر کھڑی اپنی موٹر سائیکل موڑ دی ابھی چوک اقصیٰ کے قریب ہی پہنچا تھا کہ موٹر سائیکل کی لائٹ پڑنے پر سامنے سے ایک شخص آتا دکھائی دیا.وہ قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ دُکاندار بوٹا صاحب ہیں کہ جن کی چوک اقصیٰ ہی میں سائیکل اور موٹر سائیکل کے پنکچر لگانے کی دکان ہے.میں بہت حیران ہوا کہ تقریباً رات ایک بجے یہ شخص کہاں سے فرشتہ بن کر چلا آرہا ہے.روک کر سلام کیا اور پوچھا تو کہنے لگا کہ کوئی عزیز بیمار ہے اس کی طرف جارہا ہوں.بوٹا صاحب سے میری اچھی علیک سلیک تھی اس لئے میں نے کہا کیا اس وقت تمہارے پاس دُکان کی چابیاں ہیں؟ خوبی قسمت سے چابیاں اس کے پاس موجود تھیں.میں نے درخواست کی کہ براہ کرم دُکان سے اسی وقت دو عدد ٹیوبیں ہوا بھر کے دے دو تو تمہاری بے حد مہربانی ہوگی.اس نے میری درخواست پر دُکان کھول کے ٹیوبیں مجھے دے دیں اور میں نے اُسی وقت مطلوبہ جگہ پہنچا دیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ واضح تائید خداوندی ہی تھی کہ جس نے ایسے موقع پر مدد اس رنگ میں کی کہ جس کے دُور دُور تک کوئی آثار نہ تھے اس واقعہ سے میاں قادر صاحب کی اُصول پسندی بھی واضح ہوتی ہے کہ

Page 222

221 آپ وقت اور مقام سے بے نیاز سختی سے ایسے اصولوں پر عمل پیرا تھے.وگرنہ آپ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ کون سا ٹائم ہے ٹیو میں واپس کرنے کا.مگر نہیں آپ کے نزدیک جس کی چیز تھی اُسے پورا حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے مانگ لے یقیناً جو لوگ خدا کے کاموں میں لگے ہوتے ہیں خدا اُن کے کام بھی اسی طرح کیا کرتا ہے.کارکن سے محبت کا غیر معمولی واقعہ: محترم قادر صاحب کی ماتحتی میں کام کرنے والے تمام کارکن اس بات پر متفق تھے کہ انہوں نے دس سال کے عرصہ میں کبھی قادر صاحب کو اس قدر غصہ اور جلال میں نہیں دیکھا جتنا وہ ایک روز ایک کارکن کی ناگہانی بے ہوشی کے وقت غصہ میں آئے.واقعہ کچھ یوں ہے کہ مکرم احسان محمد صاحب کسی بیماری کے باعث ایک بار دفتر میں بے ہوش ہو گئے.کارکنان نے ہوش میں لانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے.انہوں نے میاں صاحب کو بتایا تو میاں صاحب نے فوراً فضلِ عمر اسپتال میں فون کیا کہ فوراً ایمبولینس بھیج دیں اسی دوران آپ انتہائی بے قراری سے اپنے کارکن کے ہاتھ اور سر وغیرہ سہلاتے رہے تا کہ کسی طرح خون کی گردش جاری رہے.عجب بے چینی کا سماں تھا کہ کسی کو پانی لانے کا کہہ رہے ہیں تو کبھی فون کی طرف بھاگ رہے ہیں.ایمبولینس نے آنے میں ذرا دیر لگائی آپ بار بار ایک کرب کی حالت میں اسپتال فون کرتے رہے.حتی کہ اسپتال والوں پر سخت ناراض بھی ہوئے اور دیر سے ایمبولینس لانے پر سرزنش بھی کی.آپ کے اس رویہ میں کوئی تصنع یا بناوٹ نہ تھی بلکہ واقعتا یہ اُس سچی محبت کا اثر تھا جو آپ کو اپنے کارکنان سے تھی.ہاں یہ درست ہے کہ آپ خاموش محبت کرنے والے تھے وہ محبت جو

Page 223

222 زبان سے اظہار کی محتاج نہیں ہوتی.ایمانداری کا ایک واقعہ: مکرم نعیم اللہ صاحب ملہی نے آپ کی ایمانداری کا درج ذیل واقعہ بھی بیان کیا:- ”جب تحریک جدید کے نمائندہ کی حیثیت سے لندن گئے.تو کسی ایک پارٹی سے نو پیاں لے کر آگے دوسری پارٹی کو فروخت کے لئے دینا تھیں.اس سلسلہ میں ایک کارکن مکرم منصور احمد صاحب کی ڈیوٹی لگائی اور ایڈرس وغیرہ سمجھا گئے.کچھ عرصہ بعد جب لندن سے واپس آئے تو ایک دن منصور صاحب کو بلایا اور کچھ رقم دی.منصور صاحب نے حیرانگی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو میاں قادر صاحب نے بتایا کہ آپ کے ذمہ جو کام لگایا تھا کہ فلاں پارٹی کو ٹوپیاں پہنچا دیں تو وہ ٹوپیاں پکنے کے بعد جو منافع ہوا ہے اس میں سے یہ آپ کا حصہ ہے.اس بارہ میں متعلقہ کارکن مکرم منصور احمد صاحب بیان فرماتے ہیں.کہ نہ تو میں نے ان ٹوپیوں کی خریداری میں کوئی ذاتی رقم لگائی تھی اور نہ ہی مجھے کوئی بہت زیادہ محنت کرنا پڑی تھی.لیکن میاں صاحب نے مجھے اس لئے اس منافع میں سے حصہ دے دیا کہ میں وہ ٹو پیاں متعلقہ اشخاص تک محض چھوڑنے گیا تھا.یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی وگرنہ میں نے تو کوئی مطالبہ بھی نہ کیا تھا“.جرات و فرض شناسی : کلیم احمد قریشی صاحب نے بتایا کہ خُدام الاحمدیہ کے دور میں بھی جو

Page 224

223 کام کسی سے کہتے خود بھی اُس پر عمل کرتے ایک رات، دوسرے خدام کی طرح، آپ بھی دفتر مقامی میں پہرہ کی ڈیوٹی پر تھے کسی خادم نے آ کر رپورٹ دی کہ ایک کوارٹر خالی ہے لیکن اندر سے کچھ آوازیں آرہی ہیں شبہ تھا کہ کوئی چور گھس گیا ہو گا اس پر موجود خُدام حالات کا جائزہ لینے کے لئے پہنچے قادر صاحب نے کسی اور کو نہیں کہا خود نہایت جرأت سے دیوار پھاند کر صحن میں کود گئے اور اندر جا کر دیکھا تو کچھ بھی غیر معمولی نہ تھا باہر آکر خُدام کو بتایا کہ میں نے جائزہ لے لیا ہے سب خیریت ہے.حق کے اظہار میں جرات : ایک دفعہ دارالضیافت کے قریب چند نوجوان پجارو میں جا رہے تھے.سامنے سے ایک غریب سا لڑکا سائیکل پر آ رہا تھا اُس کو گاڑی کی سائیڈ مار دی وہ غریب گر گیا.وہ لڑکے گاڑی روک کر اُلٹا اُسی کو برا بھلا کہنے لگے.میاں صاحب بھی اُدھر سے جا رہے تھے.یہ نظارہ دیکھا تو گاڑی روک کر اُترے اور بڑے جلال سے اُن لڑکوں کو ڈانٹا کہ ایک تو تم لوگوں نے خود اُس کو گرایا ہے.اب اُس کو مار رہے ہو اُس کا قصور صرف اس قدر ہے کہ وہ غریب ہے تم پجارو پر ہو وہ سائیکل پر ہے.میں یہ زیادتی نہیں کرنے دوں گا.وہ تین چار لڑکے تھے.مرعوب ہو گئے کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ آگے سے کچھ کہتا.( یہ واقعہ احسان محمد صاحب کارکن دفتر وصیت نے سنایا).

Page 225

224

Page 226

225 باب 8 والدین کی یادوں کا سرمایہ غلام قادر نے اپنے خون کی حرمت کو پہچانا اور اس کا حق ادا کر دیا.بہترین زندگی بہترین موت.میرے بچے زندہ باد.م تمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کر گیا.یادوں کی اک زنجیر ہے جو ٹوٹتی نہیں.محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم کے ساتھ ایک نشست.اس خاندان کا وہ حسین دار با سپوت اس کا وقار و مان بڑھاتا ہوا گیا ماں باپ کا جہان میں وہ نام کر گیا ان کی جبیں پہ چاند سجاتا ہوا گیا

Page 227

226 محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب (والد صاحبزادہ ): {اک نفسِ مطمئن لئے اپنے لہو میں تر.قادر کا وہ غلام تھا قادر کے گھر گیا} غلام قادر نے اپنے خون کی حرمت کو پہچانا اور اس کا حق ادا کر دیا عزیزم غلام قادر کی شہادت پر کئی دوستوں نے بڑے ہی عمدہ اور بعض بڑے نکتہ رس انداز میں اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ہے.مجھ سے بھی کئی احباب نے خواہش کا اظہار کیا کہ میں بھی کچھ لکھوں.لیکن میں کیا لکھوں اور کیا کہوں.گھاؤ بہت گہرا ہے.اور اس کی کسک اور بھی زیادہ گہری.بعض دفعہ تو میں ان خنجروں کے وار جو ان ظالموں نے اس معصوم پر چلائے اپنی پشت پر محسوس کرتا ہوں تو رات کی تنہائیوں میں میرا تکیہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا لیکن پھر انا للہ کی آیت آنکھوں کے سامنے تیرنے لگتی ہے کہ نہ تو اس کا خالق تھا نہ مالک اور نہ ہی رازق.وہ تو ہماری طرف سے تجھے عنایت تھی.ہم نے جب چاہا جیسے چاہا.اسے اپنے پاس واپس بلالیا.لیکن تو یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ موت تو ہر ایک کو آنی ہے.کوئی آج چلا گیا، تو کوئی کل.اس سے تو کسی کو بھی مفر نہیں لیکن دیکھ ہم نے اسے کیسی شان سے اپنے پاس بلایا ہے.صبر کرنا ، تمہارا مقام ہے اور صبر کرنے والوں پر ہی عنایات کے دروازے کھلتے ہیں ٹھیک ہے اولاد کی محبت ہم نے انسان کے خمیر میں رکھی ہے مگر ہم نے تو پہلے سے لوگوں کو بتا دیا ہوا ہے کہ تم اولاد اور اموال کے ضائع ہونے

Page 228

227 سے آزمائے جاؤ گے تا کہ ہم دیکھیں تم میں سے کون امتحانوں میں سے سر خرو ہو کر نکلتا ہے ورنہ زبانی محبت جتانے والے تو ایک اینٹ اُٹھا ئیں تو ہزار نکلتے ہیں.اس میدان میں جب نظر اُٹھا کر دیکھتا ہوں تو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کی 1903ء میں قربانی کے بعد بڑے بڑے عظیم الشان روشن میناروں سے شاہراہ قربانی منور نظر آتی ہے.نوحہ کرنا ہو تو کس کس پر نوحہ کریں.میں کیوں صرف قادر کی قربانی کا ہی تذکرہ کروں دوسرے بھی تو کسی کے باپ، کسی کے بیٹے اور کسی کے بیوی بچے تھے.انہیں بھی ان سے اسی طرح محبت ہوگی جس طرح ہمیں قادر عزیز تھا.میں اگر قادر کی ہی قربانی کے غم کی داستان بیان کروں تو پھر یہ انصاف نہ ہو گا.انسان کس کس کا غم کرے.کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ انسان تو اس دنیا میں آتا ہی مرنے کے لئے ہے.اس سے تو کسی کو فرار نہیں.مومن بھی مرتا ہے اور کافر بھی ، انبیا بھی اپنی قوم کو روتا اور سکتہ کی حالت میں چھوڑ کر رفیق اعلیٰ سے جاملتے ہیں دیکھنا تو یہ ہوتا ہے کہ کسی نے زندگی کیسے گزاری اور موت نے اسے کس طرح آغوش میں لے لیا یا موت نے اسے کس طرح اپنی آغوش میں سمیٹ لیا.قادر کے خون کا رنگ دوسرے جاں نثاروں کے رنگ سے مختلف نہ تھا اگر فرق تھا تو یہ کہ اس کی رگوں میں مسیح موعود علیہ السلام کا لہو دوڑ رہا تھا اس لہو کی اپنی ہی قیمت ہے.حضرت بانی سلسلہ کے صلب سے جہاں اولوالعزم خلفاء پیدا ہوئے.جن میں سے ایک کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” نور آتا ہے نور وہاں ایک ٹھنڈی چھاؤں والا قمر بھی تھا.یہ لوگ اولیاء اللہ ہیں اور اے غلام قادر تو نے راہ حق میں اپنا خون بہا کر ان میں ایک راہِ مولا میں قُربانی دینے والے کا بھی اضافہ کر دیا.جب تک تو زندہ رہا تو نے اس خون کی حرمت کو پہچانا اور اس کی

Page 229

228 حفاظت کی اور آخر میں اسی کی راہ میں اسے بہا کر اس کا حق ادا کر دیا.تجھ پر تیرے پڑدادا اور تیرے دادا خوش ہوئے.تو نے خلیفہ وقت سے تحسین کے کلمے سنے اور اپنے کمزور اور عاصی والدین کے لئے باعث افتخار بنا.تجھ پر ہزاروں سلام ہوں اور اللہ تعالیٰ تجھ پر اپنی نعمتیں نازل فرماتا چلا جائے تیری اولاد سے دین کے سچے خادم اور مخلوق خدا کے حق میں رحمت بننے والے وجود پیدا ہوں.یہ دُعا صرف قادر کے حق میں نہیں بلکہ تمام جاں شارانِ احمدیت کے حق میں ہے جن کے نام حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے دوبارہ روشن فرما دیے ہیں اور احباب جماعت کو یاد دلایا کہ دیکھو تمہاری تاریخ کیسے کیسے لوگوں کے خون سے تحریر شدہ ہے جس پر تم بجا فخر کر سکتے ہو.جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے حضور زندہ ہیں.اسی طرح انہیں اپنے دلوں اور دُعاؤں میں زندہ رکھو کہ قومیں اپنے جاں شاروں سے ہی زندہ رہتی ہیں.میری بیوی نے قادر کی قربانی پر جس طرح صبر اور ضبط کا مظاہرہ کیا.اور قادر کو رخصت کیا وہ ازحد قابل تحسین ہے.آفرین ہے اس ماں پر جس نے اپنے لخت جگر کو آخری بار رُخصت کرتے ہوئے پکار کر کہا ” قادر جزاک اللہ مائیں ماتم کرتی ہیں اور کون سی ایسی ماں ہوگی جس کے صبر کے بندھن ایسے حالات میں ٹوٹ نہ جاتے ہوں لیکن دھن ہے ایسی ماں پر جو اپنے نور نظر کی لغش اُٹھتے وقت اس کا شکریہ ادا کر رہی ہو.اس پر کیا زائد کر سکتا ہوں ماں ماں ہی ہوتی ہے.اس کی محبت کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.میری بیگم کے مضمون کو پڑھ کر دو عورتیں اس شدید گرمی میں چند دن ہوئے ملتان سے سفر کی کوفت برداشت کرتے ہوئے تعزیت کے لئے آئیں.اور کہا کہ وہ خاص طور پر اس ماں کے دیدار کو آئی ہیں.جس نے اس طرح اپنے جگر گوشے کو اس قربانی پر رخصت کیا.کہ کوئی پڑھنے والا اپنے آنسو نہ روک سکا.اور انہیں رشک کی نظر

Page 230

229 سے دیکھتا ہے.جہاں بے شمار دوستوں کی طرف سے تعزیت کے خطوط اور جماعتوں کی طرف سے قرار دیں موصول ہوئیں ان میں سے ایک غیر از جماعت دوست جو قادر کے ایبٹ آباد اسکول میں اس کے ہاؤس ماسٹر تھے ان کے خط سے اور ایک جماعت کی قرار داد جس نے مجھے بہت متاثر کیا کچھ حصے دوستوں کے لئے پیش خدمت ہیں.بشارت صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں :- ” جب میں ہاؤس ماسٹر بنا تو محمود تو کالج میں تھا مگر غلام قادر ساتویں میں میرے پاس آیا اور مجھے اس کی تربیت پر فخر ہے کہ وہ اپنی قابلیت سے کالج کا Senior Prefect بنا اور پھر بورڈ میں صوبہ بھر میں اول آیا.سات سال تک میرا اس کا قلبی تعلق رہا پھر عملی زندگی میں بہت کامیاب رہا.اپنی فیملی کے وو ساتھ دو مرتبہ Old Boys Reunion میں شرکت بھی کی.ڈھیروں باتیں ہوئیں.اس نے فخر سے بتایا کہ وہ جماعت کا کام کر رہا ہے.بلکہ اس نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے.مجھے غلام قادر کتنا عزیز تھا وہ خود بتا سکتا اور جانتا تھا یا میں اور میرا دل ہی جانتا تھا یا ہے.اس کے انمٹ نقوش میرے دل پر بڑے گہرے ہیں اور جب تک حیات مستعار ہے اس صدمہ کو نہیں بھلا سکتا.“ ایک تعزیتی قرار داد میں لکھا ہے ” مرزا غلام قادر پائندہ باد.خدائی بشارتوں کے تحت وہ اپنے وقت پر آیا اور اپنی قلیل عمر میں عظیم کاموں کی بنیاد ڈال کر عظیم الشان سُرخروئی کے ساتھ اپنے آقا کے پاس واپس چلا گیا.اپنے کردار، اپنی شخصیت، اپنی خدمات اور شجاعت کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گیا.که نونهالان جماعت کے لئے تا قیامت مشعلِ راہ ہوں گے.وہ جدید ترین د نیوی علوم کا ماہر، خدا اور اس کے دین کی چوکھٹ پر سب کچھ نثار کر گیا.وہ

Page 231

230 اپنے خون سے دشمنوں کو وہ زک پہنچا گیا کہ چشم دجل حیران ہے اور دعویٰ دارانِ وفا و محبت کی آنکھ جب بھی اس کی قر بانی پر نظر کرے گی خیرہ ہو گی.مبارک وہ آہیں اور وہ آنسو کہ انتہائے صبر و رضا، تشکر و امتنان، محبت اور فطری غم سے جن کی ترکیب ہوئی.وہ خدا کا تھا، عشق اور مہر و وفا ، خدا کی اور اس کے دین کی پکار پر شار.دشمن کی یلغار کے مقابل پر تنہا ایک کوہ گراں.سربلند اور سُر خرو و جاں نثاروں کے گروہ کا ایک سرخیل، جنت نشان، جنت مقام“.اے غلام قادر تجھ پر سلام ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی تیری قر بانی اور تیری خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گی.مؤرخ احمدیت کا قلم تیرے بیان پر ناز کرے گا.خدا تیرے چاہنے والوں کو اپنی کروڑوں رحمتوں اور برکتوں کی بارش سے نہال کر دے اور تیری نسل سے وہ گوہر تابدار پیدا ہوں جو تیری وارثت کا حق ادا کریں اور خدا تعالیٰ احمدیت کو تیری صلب سے نعم البدل عطا فرمائے.(آمین) (روزنامہ الفضل 3 جولائی 1999ء) اس کے لئے بھی دوستو کوئی دعائے صبر جس دل شکستہ شخص کا نور نظر گیا

Page 232

231 محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم ( والدہ صاحبزادہ ): بہترین زندگی - بہترین موت میرے بچے زندہ باد میرا پیارا قادر.میرا فخر دیار بیٹا، میری دُعاؤں کا ثمر، جو کچا توڑا گیا، مگر پکے ہوئے ثمر سے زیادہ شیریں نکلا.میری حالت اس وقت ایسی نہیں کہ میں کچھ زیادہ لکھوں.مگر یہ کہوں گی کہ ایک دیندار ماں جو اپنے بیٹے کے لئے مانگ سکتی ہے اس نے وہ سب کچھ مجھے دیا.وہ ماں باپ کا بہترین خدمت گزار، اطاعت گزار تھا.سب سے بڑی بات جس کی میں نے اس کی پیدائش سے بھی پہلے تمنا کی تھی وہ بہترین خادمِ دین تھا میرے بیٹے کا ایک ایک منٹ دین کی اور ماں باپ کی خدمت میں گزرا اگر کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا.وہ اپنے بچوں کو خاطر خواہ وقت نہ دے سکتا تھا.اس کا طریق اس نے یہ سوچا کہ ایک وقت میں کئی کام ہو جائیں وہ اکثر اپنے بیوی بچوں کو زمین پر بھی اپنے ساتھ لے جاتا تھا.زمین کی نگرانی بھی ہو جاتی اور بچے اپنے باپ کی قربت بھی پا لیتے.خدا نے مجھے صبر دیا ہے.یہ تسلی ہے کہ اس نے بہترین زندگی گزاری اور بہترین موت پائی.لیکن بچوں کو دیکھ کر دل پھٹتا ہے جو معصوم اس کی شہادت اور بہترین موت کا سوچ کر تسلی نہیں پاسکتے.کل اس کے اڑھائی سالہ بیٹے نے شیشے میں قادر کی تصویر کا عکس دیکھا اور خوشی سے چلایا.دادی بابا آ گئے.میری آنکھوں میں دُھند چھا گئی.اسے اُٹھایا پیار کیا.بچے کی خوشی قابل دید تھی.میں نے دل میں کہا بیٹے ! اب خدا تمہارا بابا ہے اور یہ بابا کبھی نہیں مرے گا.

Page 233

232 خدا کا سایہ کبھی ان کے سر سے نہ اُٹھے.خدا ہر آن ہر وقت ان کا نگہبان ہو خدا میرے بیٹے کی خدمتوں کا بہترین صلہ اس کی اولاد کو دے.وہ 37 سال جیا مگر ایک واقعہ یاد نہیں کہ اس نے نافرمانی کی ہو یا کوئی حرکت اس کی ناگوار گزری ہو.وہ خوشیاں دیتا رہا جب تک زندہ رہا.وہ مر کر بھی ہمارا سر بلند کر گیا وہ جیا بھی شان سے وہ مرا بھی شان سے.اور دائمی خوشی دے گیا.میری درخواست ہے کہ اس کی بیوی بچوں کے لئے دُعا کریں کہ وہ خادمِ دین ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث ہوں.کہ یہ ہماری ابتدا ہے یہی ہماری انتہا.میرے بچے زندہ باد - پائندہ باد روزنامه الفضل 5 رمئی 1999ء)

Page 234

233 محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم: تمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کر گیا ہے ایک پرانا مڑا ٹنڈا کاغذ میرے سامنے ہے.جو یاد نہیں مگر بارہ پندرہ سال پرانا ہے.جس پر ایک دُعا لکھی ہے.جسے میں نے شعروں میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی.مگر میں شاعرہ نہیں ہوں.جذبات میں بہہ کر کہنے کی کوشش کی تھی مگر کہہ نہ سکی اس دُعا کے دو اشعار درج ہیں :- اک دوسرے سے بڑھ کر ہوں آب و تاب میں چمکیں یہ آسماں پر جیسے کہ ہوں ستارے نسلوں میں ان کی پیدا اہلِ وقار ہوویں التجا ہے میری کر لے قبول پیارے یہ اشعار شاید وزن اور بحر سے خالی ہوں مگر میرے دل کے جذبات سے پُر ہیں جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ نثر میں کچھ یوں ہے.”اے خدا ! ہمیشہ میری دُعا رہی ہے کہ میری گود کے پالے تجھ پر نثار ہوں.اے خدا ! جب وقت آئے تو فکرِ فردا انہیں سرفروشی سے باز نہ رکھے.میرے ربّ! تیرا اذن نہ ہو تو خواہشیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں تیرے حکم کے بغیر کوئی تہی دامن کا دامن نہیں بھر سکتا.میرے خدا ! میری دُعا سن لے اور میرے بیٹے ایک دوسرے سے بڑھ کر آب و تاب میں ہوں.آسمان پر چاند، ستاروں کی طرح چمکیں.ان کی نسلوں سے فخر دیار اور اہلِ وقار پیدا ہوں.میری تو التجا ہی ہے.قبول کرنے والا تو ہے اے کاتب تقدیر! میرے بچوں

Page 235

234 کے لئے عمر، دولت، ارادت وسعادت لکھ دے.“ قادر کی قربانی سے چند دن پہلے میرے پرانے کاغذات سے یہ دُعا نکلی.خدا جانے کس جذبے سے میں نے کی تھی.جو قبول ہوئی.چندلمحوں کے لئے میرا دل کانپا یا اللہ میں نے تو ان کے لئے جانی قربانی مانگی ہے.سرفروشی مانگی ہے ) اندر سے مامتا بولی یا اللہ چھوٹی عمر میں ان سے یا مجھ سے قربانی نہ لینا.اور میں دُعا مانگنے میں لگی.یا اللہ عمر دراز دینا.مجھے کیا پتہ تھا میری دُعا تو قبول ہو چکی ہے.اور جوانی میں اللہ یہ قر بانی لینا چاہتا ہے.اور خدا کا یہ فیصلہ ہو چکا ہے.کہ جوانی میں میرا بچہ مجھ سے لے لے گا.جتنی بڑی قربانی ہو گی.اتنا ہی بڑا اجر ہو گا.خدا کی رضا پر میرا بچہ آج سے 38 سال پہلے جب ہونے والا ہوا.ہم بہت گھبرائے.اس کی بہن ابھی دو تین ماہ کی تھی.افریقہ میں جہاں کوئی عزیز پاس نہ تھا.( میرے میاں جماعت کی طرف سے افریقہ گئے ہوئے تھے ) ملازم خاطر خواہ ملتے نہیں تھے.سخت پریشان تھے.چونکہ چار پانچ مہینے میں بیمار رہتی تھی.ہماری خواہش تھی کہ اتنی جلدی دوسرا بچہ نہ ہو مگر خدا نے دینا تھا.یہ آیا بھی اچانک تھا.صرف اور صرف خدا کی مرضی پڑ اور گیا بھی اچانک محض خدا کی رضا پر.ہم نے جب بھی خدا کی رضا پر سر جھکا دیا تھا.اور اب بھی اس کی رضا پر راضی ہیں.جب قادر پیدا ہوا.ابا جان کی وفات پر میں لاہور میں تھی.امی نے اسپتال خان صاحب ہمارے ڈرائیور کو جو ہمارے عزیز بھی تھے، بھیجا.کچھ سامان دے کر واپس جا کر انہوں نے امی سے کہا کہ بی بی تو بہت خوش تھیں.

Page 236

235 بے حد کراری آواز میں بول رہی تھیں.کوئی کمزوری نہیں لگتی تھی جس سے لگے کہ تکلیف سے گزر رہی ہیں.غلام قادر آ گیا واقعی میں بے حد خوش تھی.میرا غلام قادر آ گیا تھا.جس کا مجھے انتظار تھا حضرت صاحب کا یہ الہام تذکرے میں پڑھ کر کئی سال سے دل میں چھیا کر رکھا تھا.کسی سے ذکر نہیں کرتی تھی کہ کوئی اور یہ نام نہ رکھ لے.دعائیں کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے غلام قادر دے جو اس الہام کا مصداق ہو.غلام قادر آگئے.گھر نور اور برکت سے بھر گیا) فرمانبرداری اس کی فرمانبرداری کے کئی واقعات ہیں.مگر معصوم سا چہرہ اب بھی میری نظروں کے سامنے ہے.یہ آٹھ نو سال کا تھا.بڑی بہن سے دس گیارہ سال چھوٹا تھا.وہ تقریباً اٹھارہ سال کی تھی.کسی بھائی نے اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا مجھے بے حد تکلیف ہوئی کہ بیٹیوں کے لئے تو بھائی کا گھر ہوتا ہے.محمود میرا بڑا بیٹا باہر تھا.میں نے قادر کو پاس بٹھایا اور کہا قادر میری ایک بات یاد رکھنا.کہ چوچو بھی تمہاری بیٹی ہے.(بڑی بہن ) معصوم سے بچے کا چہرہ آج بھی میری نظروں کے سامنے ہے.سر جھکایا ہوا تھا.کہتا اچھا.اس آٹھ سال کے بچے نے اُلٹ کر نہیں کہا کہ امی وہ تو باجی ہیں.مجھ سے اتنی بڑی ہیں.وہ واقعی اپنی چھوٹی بہن سے بیٹیوں والا سلوک کرتا تھا.خاموش خیال خاموش احساس، وہ بہن اس طرح بلک بلک کر رو رہی تھی جیسے اس کا سب کچھ لٹ گیا ہو.قرآن حفظ کرنے بٹھایا اس نے خاموشی سے قرآن حفظ کرنا شروع

Page 237

236 کر دیا بعض حالات کی وجہ سے چھڑوایا تب بھی احتجاج نہیں کیا کہ پڑھائی بھی ضائع ہوئی اور حفظ نہ کر سکا احتجاج اس کی سرشت میں ہی نہیں تھا.فرمانبرداری ہی فرمانبرداری تھی.یہ شاید اس کا پہلا اور آخری احتجاج تھا جو وہ ان بدروحوں کے ساتھ جانے پر کر رہا تھا.بہادری سے لڑا.زخموں سے چور چورلڑا.خدا کی نصرت اس کے ساتھ تھی ورنہ اسلحہ سے بھری گاڑی چار پہلوان، خنجر ، چھریاں، انہونی بات لگتی ہے.مگر اس نے جماعت کو فتنے سے بچانا تھا.اس شان سے جان دی.تنہا نہتا اُدھر چار ہتھیار سے لیس.جرات مند بیٹا.میں شکر کرتی ہوں اس دن بچے ساتھ نہ تھے.شکر کرتی ہوں وہ ظالم تمام مواقع مہیا ہونے کے باوجود ساتھ نہ لے جاسکے.قربانی تو اس کا مقدر تھی.مگر جو ہوا سامنے ہوا.میں نے اپنے بیٹے کو جزاک اللہ، قادر جزاک اللہ کہہ کر رخصت کیا.تم شان سے جئے اور شان سے جان دی.اسی کمرے سے رخصت ہوا جہاں سے دولہا بن کر نکلا تھا.ارمانوں سے دُلہن لایا تھا.سفید پگڑی ، سفید اچکن میں شہزادہ لگ رہا تھا.آج اسی کمرے میں سفید کپڑوں میں لپٹا چہرے پر مسکراہٹ سجائے ، خاموش لیٹا تھا.میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد کمرے میں جاتی تھی.اسے پیار کرتی.قادر بچے ! بچوں کو یاد نہ کرنا“ میں بچوں کا خیال رکھوں گی.زیادہ دیر ٹھنڈ میں بیٹھنا مشکل تھا.ایک عجیب سا تصرف الہی تھا مجھے اگر کوئی کہے حلفیہ بیان دوں میں بلا تر ژد حلفیہ بیان دوں گی کہ جب میں آتی تھی پیار کرتی تھی وہ ہلکی سی آنکھ کھولتا تھا.میں نے اپنے بھانجے بھائی مبارک کے بیٹے کو جو ڈاکٹر ہے.بُلایا کہ یہ ہر

Page 238

237 دفعہ آنکھ کھولتا ہے اسے سکتہ تو نہیں؟ وہ ڈاکٹر ہے اسے پتہ تھا کہ وہ کتنا زخمی تھا اس نے کہا خالہ سکتہ بالکل نہیں ہے وہم نہ کریں.شاید میرا بچہ آخری بار اپنی ماں کو دیکھنا چاہتا تھا.شاید وہ بھی مجھے جزاک اللہ کہنا چاہتا تھا.خدا نے اسے بتایا ہو گا کہ تمہاری ماں نے تمہارے وقف حتی کہ قربانی کے لئے بھی دُعائیں کی تھیں.وہ آج روضرور رہی ہے.لیکن آنسوؤں کے پیچھے قبولیت دعا کے نشان ہیں.شکر کے جذبے ہیں.میں بے قرار ہوں.اس کے لئے.مگر اس بے قراری میں اک قرار ہے.قادر میرے بچے! تم آئے بھی صرف اور صرف خدا کی مرضی سے تھے اور گئے بھی خدا کی رضا پر ہو.اور ہم اس کی رضا پر راضی ہیں.دیانتداری چھوٹے چھوٹے واقعات ہر وقت میری نظروں کے سامنے گھومتے ہیں اس نے خدمت دین کے ساتھ ماں باپ کی خدمت کا بیڑا اٹھا رکھا تھا.وہ اتنا دیانت دار تھا کہ ہم نے کبھی نہیں پوچھا قادر کتنی آمد ہوئی ہے.کیا حساب ہے بلکہ یہ فکر رہتی کہ جو حصہ اس کا رکھا ہے وہ لیتا بھی ہے یا نہیں.جب جماعت کی طرف سے لندن گیا تو میں اور نصرت چھوڑنے گئے.روانہ ہونے سے پہلے کہنے لگا امی اس گاڑی میں آپ نے کوئی کام نہیں کرنا.یہ انجمن کی گاڑی ہے اور مجھے چھوڑنے آئی ہے.میں نے کہا کام کیا کرنا ہے.اگر راستے میں پھل کی دُکان آئے تو وہ بھی نہ لوں؟ اس کا اصرار تھا.اس گاڑی میں کوئی کام نہ کریں.: اسی طرح ساتویں کلاس ربوہ میں کر کے ایبٹ آباد آ گیا چھوٹی عمر تھی.چھٹیوں میں آیا تو مجھے ایک شار پر دکھایا کہ میں نے جنرل اسٹور ނ

Page 239

238 کچھ چیزیں لی تھیں یہ شار پنر میری چیزوں کے ساتھ آ گیا ہے مگر اس کی قیمت بل میں نہیں لگی.آج سے ہیں بائیس سال پہلے بارہ تیرہ سال کا ہو گا اور شار پنر آٹھ آنے کا ہو گا مگر اس کے دل میں اس چھوٹی عمر میں بھی کھٹک تھی حالانکہ قصور اس کا نہ تھا، دُکاندار کی غلطی تھی میں نے کہا سنبھال کر رکھ لو جب جاؤ گے اسے واپس کر دینا یا قیمت دے دینا.وہ ہمارے گھر خواہ پانچ منٹ کے لئے آئے دو یا تین دفعہ ضرور آتا تھا.میں تو اسے ابھی تک ایک بچے کی طرح پال رہی تھی اس کے وقف کی وجہ سے مجھے اس کا بے حد خیال رہتا تھا.ذرا کمزور نظر آتا.گھر سے پلاؤ بنوا کر بھجواتی.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کمزوری اور دماغی طاقت کے لئے اچھا ہے.بادام روزانہ اسے دیتی تھی.سونف بادام کٹوا کر دیتی.انار بے حد پسند تھے.جب تک سیزن رہتا باقاعدہ انار کے دانے نکال کر اس کے لئے رکھتی.اسے کسی وقت بھی فرصت ملتی وہ آ کر کھا لیتا اسے پتہ تھا کہ انار کے دانے ضرور نکلے پڑے ہوں گے.سفید جوڑا جمعہ کے دن ہمارے ہاں سے نہا کر سفید جوڑا پہن کر جمعہ پر جاتا تھا.اس دن اس کی سسرال میں دعوت ہوئی تھی.اس کے کپڑے ہمارے ہاں دُھلتے تھے.اس کی قربانی کے بعد دھوبی اس کے کپڑے لایا.تو میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے.میرا بیٹا تو سفید کپڑے پہن کر جا چکا تھا.وہ جمعہ سے پہلے ہی جا چکا تھا.میں قادر سے بعض دفعہ کہتی تھی کہ تم آدھے بیا ہے گئے ہو آدھے ابھی میرے پاس ہو.جب کبھی وہ کہتا امی میرے سوئیٹر نہیں مل رہے، آپ نے رکھے ہیں؟ میری جرابیں کہاں ہیں؟

Page 240

239 میری قمیص کہاں ہے؟ بعض دفعہ میں تنگ پڑتی.مگر یہ چیزیں مجھے خوشی دیتی تھیں.یہ احساس رہتا تھا.جیسے وہ شادی کے بعد میرے پاس ہو.حتی المقدور مانگنے سے گریز کرتا تھا.امریکہ پڑھنے گیا تو حسب توفیق اس کو رقم دیتی تھی.کچھ وہ کام کرتا تھا.خواب میں دیکھا قادر اُداس گھر میں داخل ہوا ہے.دل پر اثر تھا.اس کو پیسوں کی ضرورت ہے.رات گزارنی مشکل ہو گئی.دِل سخت بے قرار ہوا.صبح اُٹھتے ہی امریکہ فون کیا.مودی سے بات کی کہ قادر کو جو ضرورت ہو، رقم دے دو.قادر سے بات کی کہ تمہیں اُداس دیکھا ہے.میں سخت پریشان ہوں.کہتا امی آج ہی آپ کو خط لکھا ہے کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے.وہ ہم پر بوجھ نہیں بنا جب چھٹیاں ہوتیں کام کر لیتا تھا.وہ کالج میں تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ منجھلے ماموں جان (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) کا فون آیا ہے اور میرے میاں مرزا مجید احمد صاحب ان کو بتاتے ہیں کہ میرے 270 نمبر آئے ہیں.ماموں جان خوشی سے کہتے ہیں.اوئے ہوئے اور کہتے ہیں اب تم ایک امتحان اور دے لو.پھر تمہیں مجھے بالکل یاد نہیں کہ کیا کہا تھا) وہ مل جائے گی.یعنی کسی بڑی چیز کا کہتے ہیں اور بے حد خوش ہیں.میں نے قادر سے کہا قادر! ابا نے اب کیا امتحان دینا ہے؟ تم امتحان دو گے محنت کرو شاید کوئی بڑی پوزیشن مل جائے.قادر کہتا امی 270 تو میرا کال نمبر ہے.اب سوچتی ہوں منجھلے ماموں جان کی خوشی وقف اور جانی قر بانی پر تھی.انکساری

Page 241

240 قادر نے جب پشاور بورڈ میں ٹاپ کیا تو لاہور میں تھا اس نے ریڈیو پر اپنا نام سُنا کہ مرزا غلام قادر نے ٹاپ کیا ہے سارے بورڈ میں دو پہر کی خبروں میں آیا.اس نے کسی کو نہیں بتایا.اپنی خالہ کے ہم عمر بیٹے ، خالائیں سب وہاں تھیں.شام کی خبروں میں پھر آیا.تب بھی اتنی مسکینی سے خالہ کے پاس گیا کہ میرا نام آ رہا ہے کہ ٹاپ کیا ہے انہوں نے مجھے فون کیا ظاہر ہے میری خوشی کا کیا ٹھکانہ.رحم بھی آئے کہ اتنی بڑی خوشی دل میں چھپائے پھر رہا ہے.مگر یہ اس کی خاموشی کی عادت اور انکساری تھی کہ اتنی بڑی خوشی پر بھی یہ فخر نہیں کر رہا تھا.امی نے مجھے بتایا کہ جب میں پیدا ہونے والی تھی.تو چوتھی بیٹی تھی شدید خواہش بیٹے کی تھی بہت دُعائیں نو مہینے کیں کہ بیٹا پیدا ہو.مگر بیٹی پیدا ہوئی سخت صدمہ تھا.اس صدمے کی کیفیت میں امی نے بتایا کہ مجھے آواز آئی ( مجھے آواز آئی کے الفاظ ہی یاد ہیں).اور خدا نے تسلی دی تھی کہ بیٹا نہیں ہوا مگر اس بیٹی کے ذریعہ خدا ایک ہمہ تن موصوف بیٹا دے گا.دُعائیں ضائع نہیں ہوئیں.اسی طرح امی کو شاید اپنی وفات کا پتہ لگ گیا تھا کہ قریب ہے میں پاس تھی امی نے اپنا قرآن منگوایا مجھے کہا فلاں آیات نکالو وہ سورۃ مریم کی مبارک آیات تھیں.امی نے کہا تمہاری پیدائش سے پہلے مجھے یہ آواز آئی تھی.میں نے اسی قرآن میں ان آیات پر نشان لگا دیے جو میرے پاس محفوظ ہے وہ بھی ایک بشارت تھی.خدا آئندہ بھی میری اولاد در اولاد پوری کرتا رہے آمین.سوچتی ہوں اگر کسی کو نہایت ہمدردی سے کوئی دُعا دوں تو یہ دُعا دوں گی خدا تمہیں میرے جیسے بیٹے دے.ایسے بیٹے تو دُنیا میں ماں کی گود میں آیا خدا کا سب سے خوبصورت تحفہ ہیں.

Page 242

241 جزاک اللہ جزاک اللہ میرے بیٹے جزاک اللہ تمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کر گیا ہے.بیٹے تم نے عین جوانی میں اتنی بڑی قربانی دی تو میں تمہاری روح کو خوش کرنے کے لئے خدا کی رضا کے لئے صبر نہ کروں.میں ساری رات جاگتی ہوں دُنیا کے سامنے خاموش ہوں مگر خدا رات کو میری بے آواز چیخیں سنتا ہے.میرے بچے صبر اپنی جگہ اور مامتا اپنی جگہ.یہ مامتا ہی تو ہے صرف اور صرف جس کی خدا نے اپنی محبت سے مثال دی ہے.خدا حافظ میرے بچے خدا حافظ ! میری درخواست ہے کہ قادر کی بیوی اور بچوں کو اپنی دُعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیں.خدا تعالیٰ نے مجھے بہت سی نعمتیں دی ہیں ایک نعمت واپس لے لی ہے.اسی کی چیز تھی.دُعا کریں خدا مجھ سے اور کوئی نعمت واپس نہ لے آمین.اپنی حفظ وامان میں رکھے.روزنامه الفضل 7 جون 1999ء)

Page 243

242 محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم: یادوں کی اک زنجیر ہے جو ٹوٹتی نہیں قادر نے وقف کر کے مجھے وہ خوشی دی کہ سات بادشاہتیں بھی بیچ ہیں حضور نے فرمایا قادر تمہارا ہی نہیں میرا بھی ہیرا بیٹا تھا قادر میرا بچہ کبھی ایک بچے کی صورت میں میرے سامنے آجاتا ہے، کبھی اپنے تعلیمی دور میں ابھرتی اور بڑھتی ہوئی جوانی میں کبھی فارغ التحصیل اپنے کام میں جتا ہوا اور اس کا ہر روپ خدا کے فضل سے ظاہر و باطن میں ایک حسین روپ ہوتا ہے تعلیمی دور بہترین رہا.صوبہ سرحد سے انٹر کے امتحان میں صوبہ بھر سے اول آنے پر گورنر کی طرف سے میڈل ملا قادر کو اور ہمیں اس تقریب میں بلایا گیا.پھر حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کے ہاتھوں سے جماعت کی طرف سے گولڈ میڈل لیا.کسی وقت اس کی یاد محو نہیں ہوتی.میں رات کو کروٹ کروٹ اس کو یاد کرتی ہوں اور کہتی ہوں قادر تم رات کو تو میرے پاس نہیں ہوتے تھے اب ایسے گئے ہو کہ رات کو بھی میرے پاس ہوتے ہو اور اس وقت مجھے اس کی بیوی کا خیال آتا ہے جس کے پاس اس کے دن رات گزرتے تھے اور میں تڑپ تڑپ کر اس کے لئے دُعا کرتی ہوں اے خدا اس کی بے قراریوں کو قرار دینا.اے خدا ہمیں ایک دوسرے کے لئے تسکین کا باعث بنا کہ ہمارا غم سانجھا ہے ہم ایک دوسرے کو غم کو سمجھنے والے بنیں.میرا غم کوئی نہیں سمجھ سکتا

Page 244

243 کہ کتنا گہرا گھاؤ ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ اس کا غم مجھ سے بھی زیادہ ہے حالانکہ میرے اپنے غم کا کوئی کنارہ نہیں.14 / اپریل ایک قیامت بن کر آئی تھی.صبح آٹھ بجے قادر آیا امی گاڑی لے کر جا رہا ہوں.میں نے کہا.جاؤ بیٹے مگر دس بجے ابا نے بینک جانا ہے.( قادر دوسرے دن لاہور جا رہا تھا کچھ خریدنے کے لئے اسی کے لئے رقم نکلوانی تھی) کہتا دس بجے نہیں ساڑھے دس بجے تک آ جاؤں گا.مگر تقدیر ہنس رہی تھی.کاش مجھے وہم ہی آ جاتا.میں پیار کر کے رخصت کرتی.کو کے چنیوٹ ہسپتال سے فون آگیا کہ آپ کا بیٹا شدید زخمی حالت میں ہے حالت نازک ہے.اس نے اپنے ابا کا نام اور فون نمبر دیا ہے کہ ڈاکٹر مبشر کو لے کر فوراً پہنچیں.کار تو قادر کے پاس تھی بے بسی کی حالت تھی.شکر ہے بڑی بیٹی جہلم سے اتفاقا آئی ہوئی تھی.پتہ نہیں کس طرح کارمنگوائی ایک کار نصرت کو لینے گئی میں اور میرے میاں عزیزم مرزا نصیر احمد (داماد) کے ساتھ چینوٹ روانہ ہوئے.لگتا تھا چینوٹ ہزاروں میل دور ہے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی ایک دُعا ختم نہیں ہوتی تھی کہ دوسری شروع کر دیتی.کبھی مسنون دُعا ئیں، کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعائیں کبھی بڑی امی (نواب مبارکہ بیگم ) کی زبان میں تقدیر یہی ہے تو تقدیر بدل دے تو مالک تحریر ہے ” تحریر بدل دے خدا کو واسطے دیے خدا تو سچے وعدوں والا ہے.اپنے نیک بندے کو تُو نے بشارت دی تھی کہ اس کی عمر لمبی ہو گی.تو اس نیک بندے کی لاج رکھ لے.میں تو گناہ گار ہوں.صوفی غلام محمد صاحب نے اس کی شادی کے

Page 245

244 استخارہ میں ایک خواب دیکھا تھا جس کا مطلب ہے عمر طویل ہوگی ، ہر دل عزیز ہوگا اُونچی شان ہو گی شہرت پائے گا مجھے ان کی خواب یاد آتی تھی.اور تسلی ہوتی تھی.مگر کیا پتہ تھا یہ طویل عمری اس کی قر بانی ہے.اس سے طویل کس کی عمر ہوگی.شہرت بھی پا گیا.ہر دلعزیز بھی تھا.موت بھی شان کی تھی.خوابوں کی تعبیریں خواب پوری ہونے کے بعد پتہ لگتی ہیں.چینوٹ اسپتال پہنچے تو چند منٹ بعد مبشر نے کہا کہ آپ لوگ واپس جائیں ہم بعد میں آتے ہیں.میں سمجھ گئی مگر مبشر کے منہ سے یہ الفاظ سننے کی ہمت نہیں تھی.نہ مبشر کو کہنے کی ہمت تھی کہ قادر کی وفات ہو گئی ہے دو گھنٹے پہلے وہ زندہ سلامت مجھ سے جدا ہوا تھا.وہ تو کل لاہور جا رہا تھا.دل ماننے کو تیار نہیں تھا.مگر حقیقت یہی تھی.میں نے کہا خدایا جب تک اس میں جان تھی، مچھلی کی طرح تڑپی ہوں جتنی بھیک تجھ سے مانگ سکتی تھی، مانگی ہے.اب تیرا حکم نازل ہو چکا ہے اب میں صبر کروں گی.میں روئی نہیں.میں کار میں آکر بیٹھ گئی.مگر میں نے اتنا صبر کیوں کیا تھا؟ خدا نے اتنا صبر کرنے کو تو نہیں کہا.مجھے سخت دُکھ ہے میں مبشر سے کہتی مجھے اس کے پاس لے جاؤ.ابھی وہ میری بات سُن لے گا.کچھ دیر بعد تک کہتے ہیں روح کا تعلق رہتا ہے.وہ چند قدموں کے فاصلے پر لیٹا تھا.یہ کیسا صبر تھا؟ یہ میں نے کیوں کیا تھا؟ بعض دفعہ مبشر پر گلہ ہوتا ہے.وہی مجھے لے جاتا کہ آخری بار اپنے بچے کو دیکھ لیں اس نے دیکھا تھا.میں واویلے نہیں ڈال رہی تھی.میں خشک آنکھوں سے گھر میں داخل ہوئی نوکروں کو منع کیا کوئی آواز نہ نکالے.ہیرا بیٹا

Page 246

245 اپنے عزیز آنے شروع ہوئے حضرت صاحب کا فون آیا.میں نے کہا میرا بیٹا چلا گیا.آپ نے فرمایا وہ تمہارا ہی نہیں میرا بھی بیٹا تھا.آپ کی آواز بھرا رہی تھی آپ نے فرمایا بھائی موجی کا خیال رکھنا، تم برداشت کر لو گی مگر بھائی موجی کا دل کمزور ہے ان کو سنبھالنا.یہ تو مجھے پتہ ہے میرا دل کتنا مضبوط ہے غم اور حقیقتیں ساتھ ساتھ چلتے ہیں.مجھے اس وقت بھی اپنا غم بھولا ہوا تھا بچوں کا خیال آرہا تھا.حقیقتیں سامنے آرہی تھیں.چینوٹ سے واپس آتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا.قادر میرا زندہ بچہ تصور ہو گا.وہ میری اور باپ کی جائیداد کا وارث ہو گا اب بھی اور آئندہ بھی جو کچھ خدا ہمیں دے گا.میں مجھتی ہوں کہ یہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کی آزمائش کے لئے خدا نے رکھا ہے کہ باپ کی زندگی میں بیٹا فوت ہو جائے تو وارث نہیں.خدا بڑا رحیم و کریم ہے وہ یتیموں کو کیسے چھوڑ سکتا ہے.وہ یتیم نفس کبھی مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکتا.یہ صرف پیچھے رہنے والوں کی آزمائش ہے کہ کتنا ظرف رکھتے ہیں.میری تو برداشت سے باہر تھا قادر کے بچے کسی کا منہ دیکھیں.رحم کے منتظر ہوں.میں نے ان کو کہا زندگی کا کچھ پتہ نہیں دوسرے تیسرے دن ہی سب بہن بھائیوں کو یہ فیصلہ سنا دیا میرے بچوں نے انتہائی خوشی سے یہ فیصلہ مانا.ویسے جو دُعائیں دل کی گہرائی سے اس کے بچوں کے لئے نکل رہی ہیں.وہ اس جائیداد سے کہیں زیادہ ہیں.جس کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا.میرا بس نہیں چلتا کہ میں کیا کچھ ان کو دے دوں.میں تو خدا سے کہتی ہوں میں ماں ہوں.ایک بے بس ماں، جس کی پہنچ میں کچھ بھی نہیں ہے.تو ایک طاقتور ماں ہے کامل قدرتوں والی ماں، تیرے گن کہنے کی دیر ہے.میں تو صرف مانگ سکتی ہوں.دینا تیرے اختیار میں ہے میں نے اپنے ظرف کے مطابق مانگا ہے.مگر میرے خدا تو اُن کو اپنے ظرف کے مطابق دینا..

Page 247

246 نیک جذبات بعض فطرتی چیزیں بچپن میں ہی ظاہر ہو جاتی ہیں.قادر اور اس کی بہن اوپر تلے کے تھے.سال بھر کا فرق تھا.پیار بھی ، لڑائی بھی تھی مجھے یاد نہیں غالباً چار سال کا تھا.کیونکہ از حد متلاتا تھا.بہن پانچ سال کی تھی.اس نے کوئی چیز قادر کو دے کر واپس لے لی.قادر میرے پاس آیا.چہرے پر صدمہ اور حیرت بھی تھی.کہتا امی شیمیں تو تقریباً تمینی ہے (امی سیمیں تو تقریباً کمینی ہے) اتنے چھوٹے بچے کو یہ بات نامناسب لگی.جس کا اُسے صدمہ بھی تھا اور حیرت بھی.کہ میری بہن نے یہ کیا کر دیا.ناراض ہوئے تو سب واپس لے لیا کرتے ہی ہیں.میں اب اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو یاد کرتی ہوں غور کرتی ہوں وہ واقعی ایک خدا پرست تھا بچپن سے ھی.اسے کسی بہن بھائی سے مقابلہ نہیں ہوا.کس سے زیادہ محبت کی جاتی ہے.کس کو زیادہ دیا لیا جاتا ہے.میرا بڑا بیٹا پیدائش سے دوسرے مہینے ہی ایگزیما سے بھر گیا.تین چار ماہ کی عمر میں صرف ہونٹ اور آنکھیں بچی تھیں.باقی جسم بھی چہرہ سب ایگزیما سے بھرا تھا.ایک پہلا بیٹا پھر تکلیف دہ بیماری اور بے حد صابر.غرضیکہ کئی وجوہات کی بنا پر وہ ہمیں بہت ہی پیارا ہے اور ہمیشہ نمبر ایک رہا غرضیکہ بڑے بیٹے سے نمایاں سلوک تھا.مگر میں قادر کی زندگی میں بھی غور کرتی تھی کہ اس نے یہ بات کبھی محسوس نہیں کی ، کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ زیادہ عزیز بھی وہی ہے تو فرائض بھی اس کے زیادہ ہیں.بلکہ خود بھی اس سے اس کے بچوں سے پیار کرتا تھا.بہن بھائیوں میں بعض دفعہ بلکہ اکثر مقابلہ ہوجاتا.مگر یہ چیزیں اس میں ذرا نہیں تھی.

Page 248

247 اس کے والد لندن گئے تو تین سال کا تھا.ان سے بے حد مانوس تھا.ایئر پورٹ پر اس طرح بلک بلک کر رو رہا تھا.تتلا تو تھا ہی جہاز اُڑا تو ہاتھ اُوپر اُٹھائے ہوئے تھے میں شاتھ جاؤندا میں شاتھ جاؤندا (میں ساتھ جاؤں گا) کہہ رہا تھا.اور رو رہا تھا.میری بہن ساتھ تھی وہ کہتی اتنا خوبصورت بیٹا چھوڑ کر کبھی نہ جاتی.مگر آج ہم رو ر ہے تھے وہ ہمیں چھوڑ کر جا رہا تھا.ہمارے دل سے بے اختیار آوازیں نکل رہی تھیں.ہم ساتھ جائیں گے.ہم ساتھ جائیں گے.ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے.قادر کا بڑا بیٹا سات سال کا ہے.کہتا ہے دادی یہ کیسے ہوتا ہے کہ جوان شہید ہو جاتے ہیں بڑے نہیں ہوتے.میں کبھی نہیں.میں نے کہا.بچے تمہارا کیا مطلب ہے؟ کہتا جس طرح بابا شہید ہو گئے.آپ نہیں ہوئیں.میں نے کہا بیٹے اگر خدا چوائس دیتا تو میں ایک دفعہ نہیں.بابا کے بدلے سو دفعہ شہید ہو جاتی مگر خدا کی یہ مرضی تھی کہ بابا کو یہ رتبہ دے.قادر کے بعد نماز میں اس دُکھ کی حالت میں الحمد پڑھی تو مجھے لگا کہ آج حقیقتاً مجھے احساس ہوا ہے کہ خدا کس لئے ماں سے زیادہ پیار کرتا ہے.عزیز ترین چیز چھن جانے پر بھی بندہ یہی کہتا ہے الحمد للہ اس وقت یقیناً خدا اپنے بندے پر ماں جیسی پیار بھری نظر ڈالتا ہو گا.خاموش طبیعت قادر کو ہمیشہ سے سب کچھ خاموشی سے کرنے کی عادت تھی اتنی شاندار کامیابیوں پر اس نے کبھی پہلے سے سبز باغ نہیں دکھائے تھے کہ میں اتنے نمبر لے لوں گا اسی طرح مجھے یا کسی کو اپنے وقف کے ارادے کا نہیں

Page 249

248 بتایا جب اس کا پہلا رشتہ اپنی خالہ کی بیٹی سے گیا تو ایک دن آکر میرے ساتھ لیٹ گیا امی میں نے آپ سے ایک بات کرنی ہے کسی سے ذکر نہ کریں میں ڈر گئی خدا جانے کیا بات ہے کہتا لڑکی کو میرے فیوچر کا پتہ ہونا چاہیے میں نے زندگی وقف کرنی ہے.یہ 1983ء کی بات ہے کیونکہ اس کی خاموشی کی عادت تھی مجھے اُمید نہیں تھی کہ یہ وقف کرے گا.میں تو اسی وقت اُٹھی اور سجدے میں گر گئی.قادر تم نے وہ خوشی دی هے که سات بادشاہتیں مل جاتیں تب بھی نہ ملتی.مجھے لگا آج میری دُعاؤں کا ثمر مل گیا ہے.جس کے لئے رشتہ گیا تھا میری چھوٹی بہن کی بیٹی تھی جس کے ابا سات آٹھ سال کی عمر میں فوت ہو گئے تھے میری بہن بھی کم عمر تھی.وہ بچی امی کو بہت عزیز تھی وہ کم عمری میں فوت ہو چکی ہے) کئی چیزوں نے مل کر میرے دل میں خواہش پیدا کی ہوئی تھی کہ اس کا رشتہ قادر سے کروں.عمر کا جوڑا تھا میں امی کو خوشی دینا چاہتی تھی اور اپنی بہن کا بوجھ کم کرنا چاہتی تھی.مگر رشتے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں.اس کا انکار ہو گیا.مجھے سخت صدمہ ہوا کیونکہ دس بارہ سال کی خواہش اور ایک طرح یقینی بات تھی صدمہ قدرتی تھا.قادر نے لاہور سے مجھے خط لکھا اس رشتہ سے انکار پر.مجھے صدمہ میں دیکھ کر.مجھے لگا کسی بزرگ نے میرے سے کسی بڑے نے خط لکھا ہے.( یہ خط.صفحہ 271 پر ہے.) اس خط سے ظاہر ہوا کہ کتنا فرمانبردار اور کتنے ٹھوس خیالات رکھتا تھا.اسی طرح ایک اور خط لکھا بعد میں جب امی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا.کم عمری میں ہی امی کا احترام بڑی امی کی حیثیت سے نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہونے کی حیثیت سے تھا.جب اس کی خالہ کی بیٹی سے

Page 250

249 انکار ہوا تو امی کی قدرتی طور پر خواہش تھی کہ کسی اور بیٹی سے رشتہ ہو جائے کسی وقت قادر سے امی نے ذکر کیا.لاہور جا کر مجھے خط لکھا: لاہور آنے سے پہلے میں بڑی امی سے ملنے گیا تھا کہہ رہی تھیں میری اور بھی بیٹیاں ہیں میں چُپ بیٹھا رہا.ہمیشہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ بڑی امی اپنی خواہش کا اظہار نہ کر دیں.میرے لئے تو ان کی حیثیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی کی ہے ان کی خواہش کو رڈ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے.میں ساری عمر یہ احساس لئے نہیں گزار سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی نے اپنی آخری عمر میں مجھ سے کوئی خواہش کی اور میں اسے پورا نہیں کرسکا.ان سے کہیں میرے لئے دُعا کریں جو میرے لئے بہتر ہے خدا ایسا ہی کر دے یقیناً وہ بہتر جانتا ہے.ہر چیز پر قادر ہے.یہ خط بھی ہیں اکیس سال کی عمر کا ہے کم عمری میں بھی اس کے خیالات ٹھوس حقیقتوں پر مبنی تھے.ایبٹ آباد پبلک اسکول میں جاتے ہی اس کو فکر تھی کہ الفضل اور تشخیز لگوا دیں.1974ء میں بارہ سال کی عمر میں گیا تھا.چھوٹی چھوٹی باتیں اس کی کم عمری کی یاد آتی ہیں تو سوچتی ہوں بڑوں نے سچ ہی کہا تھا کہ ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“ دوسرے خط میں پھر تاکید لکھتا الفضل اور تفخیذ بھجوادیں اور اس چیز کی فکر نہ کریں کہ ہم نماز وغیرہ نہیں پڑھتے ہیں چچا حضور اور بڑی امی کو دُعا کے لئے کہہ دیں یہاں اچھی پوزیشن حاصل کروں اور ہوسٹل میں صحیح طرح رہنے کی توفیق عطا کرے.اسے پورا احساس تھا کہ میں خاندان اور ماں باپ کے لئے کسی

Page 251

250 بدنامی کا باعث نہ بنوں اور اس چیز کے لئے دُعا سے کام لیتا تھا بارہ سال کے بچے کے لئے غیر معمولی بات ہے.ایک خط میں لکھتا ہے چا طاہر (حضرت خلیفہ امسیح الرابع) سے کہہ دیں میں مجلس کا چندہ وغیرہ یہیں پر دے دیتا ہوں.یہ سب فکرمیں اس کو بارہ سال کی عمر میں تھیں.کلمه خیر میں کلمہ خیر کی بے حد قائل ہوں.شائد بچپن میں اماں جان کے سمجھانے کا اثر ہے آپ فرمایا کرتی تھیں کہ بُرا کلمہ زبان سے نہ نکالو بعض دفعہ منہ سے نکالی بات پوری ہو جاتی ہے اگر کوئی بُرا کلمہ مذاق سے بھی منہ سے نکالے مجھے غصہ آجاتا ہے.زندگی میں کئی ذاتی تجربات بھی کہ سنجیدگی سے دُعا نہیں کی مگر منہ سے نکلی بات پوری ہوئی اور یہ بات میں اب سوچتی ہوں کہ قادر نے میری کئی دُعاؤں کو جذب کیا ہے.جیسے سیاہی چوس سیاہی کو جذب کر لیتا ہے دوسرا کاغذ نہیں کرتا.قادر کا بڑا بیٹا پانچ سال کا ہو گیا مگر آگے کوئی بچہ نہیں ہو رہا تھا بڑوں کی خواہش ہوتی ہی ہے کہ نسل بڑھے میں کہتی رہتی، ایک دن ہم سب بیٹھے تھے قادر کہتا امی نچھو کہ بچہ ہونے والا ہے میں بے حد خوش ہوئی اور بے اختیار میرے منہ سے نکلا یا اللہ دو ہو جائیں نصرت کو چونکہ زچگی میں بہت تکلیف ہوتی تھی بیمار رہتی تھی.وہ بولی نہ ممانی مجھے تو ایک کا سوچ کر ڈر لگ رہا ہے بات آئی گئی ہوگئی.تقریباً پندرہ دن بعد قادر کا فون آیا اسی وقت شاید اسپتال دکھا کر آئے تھے خوشی بھی آواز میں اور شرمندگی بھی.کہتا امی ڈاکٹر کو دکھایا ہے دو بچے ہیں مجھے بے حد خوشی ہوئی.دو کی خواہش بھی تھی اور خدا نے منہ سے نکلی بات

Page 252

251 پوری کر دی آج وہ پیارے سے جڑواں بچے بھاگ دوڑے پھرتے ہیں قادر کو بے حد پیارے تھے مگر ان کی خوشیاں دیکھنی نصیب نہیں تھیں.خدا کو پتہ تھا اس نے جلدی جلدی واپس جانا ہے اس لئے آخری بچے دو دیے.اسی طرح ہم انجمن کے مکان میں رہتے تھے کافی عرصہ منجھلے ماموں جان اس مکان میں رہے تھے بہت بابرکت مکان تھا بہت دُعا ئیں ہوتی تھیں میں چلتے پھرتے یہ پڑھتی تھی.مرا بیٹا جوال ہوگا خدا کا اک نشاں ہوگا بڑھے پھولے گا گلشن میں وہ اس کا پاسباں ہوگا کسی خاص بیٹے کے لئے نہیں بس بیٹوں کے لئے دُعا کرتی رہتی تھی مگر یہ دُعا بھی قادر نے جذب کی.سوچتی ہوں وہ جوان ہوا اور خدا کا نشان بھی ہوا ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کے مصداق ٹھہرا ) گلشن میں بڑھا پھولا اور گلشن کی پاسبانی کرتے ہوئے جان دے دی کہ یہی حق پاسبانی کا تھا، زندہ باد میرے بچے زندہ باد کہ تم نے جان دے کر کئی لوگوں کو زندہ کیا ہے.اس کے دُعا جذب کرنے کے کئی واقعات ہیں چند ایک لکھے ہیں: جب ایف ایس سی ٹاپ کیا تو اس سے پہلے میں نے اس کو لکھا قادر میں دُعا کرتی ہوں تم چوچو، مودی ( بہن بھائی) دونوں کو بیٹ (Beat) کرو.( کیونکہ انہوں نے بھی پوزیشنز لی تھیں) اور اُن سے زیادہ پوزیشن لو.وہ دُعا بھی اس نے جذب کی اور بورڈ میں ٹاپ کیا.دونوں بڑے بہن بھائی سے بازی لے گیا.اپنا خط میں نے اس کے ٹاپ کرنے کی خبر کے ساتھ نتھی کیا

Page 253

252 ہوا تھا چند دن ہوئے دیکھا تو سوچا قادر کو دکھاؤں مگر نوبت نہ آئی اور وہ رخصت ہو گیا.وقف کی زنجیر خدا کا فضل ہے ہمارے وقف کی زنجیر ٹوٹی نہیں.خدا کرے تا قیامت نہ ٹوٹے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کے وارث پیدا ہوتے رہیں ماموں جان (حضرت مرزا بشیر احمد کے بچوں میں میرے میاں وقف تھے.آگے ہمارے بچوں میں قادر وقف تھا.خدا کے فضل سے سطوت وقف کو میں ہے.ہمارے بڑے بیٹے کا بیٹا بھی وقف ہے.قادر وقف کی وجہ سے بے حد عزیز تھا.بعض دفعہ میں سوچتی تھی اور ندامت محسوس کرتی تھی کہ مجھے قادر کے وقف پر اتنا فخر کیوں؟ اتنے واقف زندگی خدا کے فضل سے ہیں.دراصل دُعائیں کی تھیں.شدید خواہش تھی.ابھی بیٹے پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ دُعائیں شروع کر دی تھیں.دُعا کی قبولیت کا احساس تھا لگتا تھا.ایک نعمت مجھے مل گئی ہے.مجھے بہت اہمیت تھی.وہ تو میرے گھر کا چودہویں کا چاند تھا.جو چودہ شہادت کو شہید ہو گیا.اپنے وقف کی تکمیل کر گیا جیسے چودہویں کا چاند اپنے عروج پر ہوتا ہے.وہ بھی ہر لحاظ سے اپنے عروج پر تھا نظر دوڑاؤں تو کوئی کمی نہ تھی.خدا پورے عروج پر اپنے پاس بُلا نا چاہتا تھا.سو بُلا لیا.راضی ہیں ہم اسی میں..جب بھی بے قرار ہو کر تنہائی میں آنسو بہنے لگتے ہیں مجھے خود پر اختیار نہیں رہتا بے قراری حد سے گزرنے لگتی ہے لگتا ہے قادر پاس کھڑا اپنی تلی زبان میں کہہ رہا ہے ”امی تو تقریبا تمینی ہے خود دُعائیں کیں پیدا ہونے سے پہلے ہی خدا کو دے دیا خدا سے سرفروشی اور جاں نثاری مانگی اب رو رہی 66

Page 254

253 ہیں.بچے میں ” مینی“ نہیں، قدسیہ تو اسی طرح چٹان کی طرح کھڑی ہے اور شکر کر رہی ہے کہ خدا نے ہمیں یہ سعادت بخشی مگر بچے یہ مامتا بہت بُری بلا ہے یہ مامتا ہے جو آنسو ضبط نہیں کر سکتی.جب میں تمہاری یاد میں روتی ہوں تو سوچتی ہوں میرا بچہ بھی اپنے بچے چھوڑ گیا ہے اور دُعا کرتی ہوں یا اللہ یہ سارے دُکھ مجھے دے دے.میرا بچہ وہاں اپنے بچوں کو یاد کر کے نہ روئے.میں نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا مودی! میں تو دُکھی ہوں.مگر مجھے یہ دُکھ بہت دُکھ دے رہا ہے کہ قادر اپنے بچے یاد کر رہا ہو گا.وہ مجھے تسلی دینے لگا کہ امی خدا ہر چیز پر قادر ہے.آپ کو کیا پتہ خدا نے اسے وہاں بھی یہ بچے دے رکھے ہوں.میں نے سوچا ٹھیک ہے.خدا تو ہر چیز پر قادر ہے.قادر کے وقف کی اتنی خوشی تھی.قادر کے بعد مجھے لگا میری جھولی اس نعمت سے خالی ہوگئی ہے مگر نہیں...مجھے اُمید ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کے وارث پیدا ہوتے رہیں گے.قادر کے لئے تو صرف میری دُعا ئیں تھیں اس کے بچوں کے لئے خلیفہ وقت اور ساری جماعت کی دُعائیں ہیں.میرے بچے کا خون ضائع نہیں جائے گا اس کے خون کا ہر قطرہ ایک نیک نسل چلائے گا.انشاء اللہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنے فضل کی چادر میں لپیٹ لے.ہر آنے والا دن جانے والے دن سے اچھا ہو.قادر کے معصوم بچوں کا حامی و ناصر ہو.میں تو اس دن سے تمام شہدائے احمدیت کے بچوں کے لئے قادر کے بچوں کے ساتھ دعا مانگتی ہوں قادر کی شہادت بھی ایک اعزاز ہے.غم میں لپٹی خوشی ہے.خدا آئندہ خوشیوں میں لپٹی خوشیاں دے.اس کے بچوں کو سکون عطا کرے ہمارا غم یہ بچے بھولنے نہیں دیتے.جڑواں میں سے ایک بچہ تو باپ کو اتنا یاد کرتا ہے کہ ہم خود ضبط نہیں کر سکتے.تصویریں لان میں لے جاتا ہے کہ بابا کو سیر کروا رہا

Page 255

254 ہوں تصویریں لے کے ٹہلتا ہے.ایک دو دن ہوئے درد ناک آوازیں میرے کان میں پڑیں.بابا کو نہ مارو، بابا کو نہ مارو دیکھا تو بڑا بیٹا پٹانے والی بندوق چلا رہا تھا اس کا رُخ اتفاقاً قادر کی تصویر کی طرف چلا گیا اور وہ بچہ تڑپ گیا.میں نے کہا بچے کوئی ظالم تو بابا کو مار چکا ہے مگر اس بچے کو کون سمجھاتا.اس ڈھائی سالہ بچے کی دردناک آواز ظالم کے کانوں میں پڑ جائے تو اس بے ضمیر کی رُوح بھی تڑپ اُٹھے کہ اس نے کیا ظلم کر دیا لیکن یہی آواز میں خدا کی رحمت کو جذب کریں گی.انشاء اللہ میں نے اپنے بیٹے کو جزاک اللہ ، جزاک اللہ کہہ کر رخصت کیا میں نے سوچا مجھے اپنے باپ کو بھی جزاک اللہ کھنا چاھئے جس نے مجھے نیک نسل چلانے کا احساس دلایا.ہر وقت حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کا وارث بننے کی تلقین کی.دُعاؤں کی طرف توجہ دلائی.جب بھی مجھے تہجد پڑھنے کی توفیق ملے.ابا جان (نواب عبداللہ خان صاحب) کی درد ناک آوازیں کانوں میں گونجتی ہیں.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا..آج پچاس سال سے زیادہ گزر چکے ہیں مگر یہ آوازیں روز اول کی طرح کانوں میں آتی ہیں.سردیوں میں تو اپنے کمروں میں ہوتے تھے.مگر گرمیوں میں صحن میں چار پائیاں ہوتی تھیں بڑا سا چوکا صحن میں نمازوں اور کھانے کے لئے بچھا ہوتا تھا جہاں ابا جان نماز تہجد پڑھتے تھے.اور میری آنکھ دُعاؤں کی آوازوں سے کھلتی تھی اور اس خاموشی میں عجیب اثر ان دُعاؤں کا ہوتا تھا.آج ابا جان کی روح بھی خوش ہوگی کہ خدا نے ان کے نواسے کو یہ توفیق عطا کی خدا دعاؤں کو ضائع کرنے والا نہیں.بس ایک وقت مقرر ہے.

Page 256

255 جیسا کہ حضرت صاحب نے اپنی والدہ ممانی جان مریم کا ذکر فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد سے بے حد محبت تھی اور وہ نظارے میں نے خود بھی دیکھے ہوئے ہیں اسی طرح ابا جان کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد سے بے حد محبت تھی.خواہش تھی کہ بیٹیوں کی شادیاں پوتوں سے ہوں تا کہ دُہرا خون اگلی نسل میں شامل ہو.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں پر یقین کامل تھا اور خود بھی بے حد دُعائیں کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کی دعاؤں کا وارث بنائے.آمین (روز نامہ الفضل 20 /اگست 1999ء)

Page 257

256 محترمه قدسیہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ایک نشست : نومبر 2001ء کی خنک شام قادر شہید کی والدہ صاحبہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لئے محترمہ برکت ناصر صاحبہ اور خاکسار امتہ الباری ناصر الفارس میں داخل ہوئیں تو اُلٹے ہاتھ خوبصورت سبزہ زار نظر آیا سامنے داخلی دروازے سے اندر جاتے ہی قادر کی خوبصورت تصویروں نے استقبال کیا ہم دل پر بڑا بوجھ لئے آئی تھیں کہ آپا قدسیہ بیگم صاحبہ سے گفتگو کا آغاز کیسے کریں گی.ہمیں تصویروں میں مگن دیکھ کر وہ بتانے لگیں.اپنی.خود.” میرے گھر میں کئی تصاویر لگی ہیں.اپنے بچوں کی....اپنے بزرگوں کی.مگر ایک تصویر جو ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہتی ہے خواہ اپنے گھر میں ہوں یا ربوہ سے باہر ہوں، وہ قادر کی تصویر ہے جو میرے ذہن پر اُبھرتی ہے.جس دن وہ گھر سے گیا تھا زندہ سلامت دروازے پر کھڑا تھا خدا جانے کیوں اُداس تھا کار کی چابی اُٹھائی اور کہا.امی میں جارہا ہوں.کاش مجھے پتہ ہوتا کہ وہ ہمیشہ کے لئے جا رہا ہے اور اب پھر جب جائے گا تو باپ اور بھائی کے کاندھوں پر جائے گا.میرا بیٹا مجھے آخری بار امی کہہ رہا تھا سینتیس سال میں ہزاروں بار امی کہا ہو گا مگر یہ امی مجھے بھولتی نہیں یہ تصویر نظروں میں اُبھرتی ہے.دن میں کئی بار بعض دفعہ لوگوں کے سامنے بعض دفعہ تنہائی میں، مجھے خشک ہچکیاں آتی ہیں.میری آنکھوں میں آنسو نہیں ہوتے.جس طرح یہ خشک کھانسی دوسری کھانسی سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے.اسی طرح یہ خشک ہچکیاں بہت دُکھ دیتی ہیں.مجھے لگتا ہے کہ وقت پر انسان صبر کر لے.زیادہ ہی صبر کرے

Page 258

257 تو غم کی کیفیت بہت لمبی چلتی ہے.یا بعض غم ہوتے ہی ایسے جان لیوا ہیں کہ اس درد کی ٹیسیں ختم نہیں ہوتیں.اگر کوئی یہ بات مجھے اس درد سے گزرنے سے پہلے بتاتا تو میں یقین نہ کرتی اسی طرح کوئی دوسرا شاید محسوس نہ کر سکے.یقین نہ کرے.اسی کو احساس کی شدت کہتے ہوں گے.جب وہ مجھے شدت سے یاد آتا ہے تو مجھے اپنے پیٹ میں بچے کی حرکت محسوس ہوتی ہے آخر یہاں ہی تو اس کی روح پڑی تھی شاید اس کی روح بھی میرے ساتھ تڑپتی ہو.آپ نے اتنا صبر کیسے کر لیا؟ میرے سوال پر وہ کچھ دیر خاموش رہیں پھر اُسی عالم میں ہولے سے جواب دیا: ” خدا کے نزدیک صبر کا بہت اجر ہے ورنہ بندہ تو مجبور ہے صبر کے مجھے میں قوت ارادی زیادہ نہیں ہے مگر اُس وقت کوئی تائید الہی تھی لئے.خدا کا ہاتھ میرے سر پر تھا کہ جب قادر کا پتہ چلا کہ وہ جا چکا ہے تو میں نے کہا: خدایا میں صبر کروں گی.اور میں نے خدا کے فضل سے صبر کیا.مگر ایک دُکھ بھولتا نہیں کہ وہ ابھی رخصت ہی ہوا تھا.کچھ عرصہ روح کا تعلق جسم سے رہتا ہے اس کا ماتھا گرم ہوگا.کاش میں اُسے جا کر پیار کر لیتی، چند قدم کا فاصلہ تھا.ساتھ کے کمرے میں دروازہ بھی نہیں تھا صرف پردہ پڑا تھا.بس یہ دُکھ بھی بھولتی نہیں.وقت ہاتھ نہیں آتا.بندہ چلا جاتا ہے اور پیچھے صرف اے کاش...رہ جاتا ہے.اپنے بچے سے منہ موڑ کر صبر کر لیا اور اسپتال سے واپس گھر آگئی مُڑ کر نہ دیکھا کہ اب وہ خدا کا ہو چکا ہے اگر اُس وقت اس کے پاس چلی جاتی تو یہ بے صبری نہ ہوتی.شاید اس کا بھی دل چاہ رہا ہو کہ امی میرے پاس ہوں وہ

Page 259

258 سوچتا ہوگا امی اتنی قریب آکر بھی میرے پاس نہیں آئیں بس یہی کاش...رہ گیا ہے یا تنہائی کے آنسو اس وقت مجھے اپنا بہت پرانا خواب یاد آرہا ہے کہ قادیان میں دار الحمد حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی کوٹھی ہے امی میرے پیچھے چھری لے کر بھاگ رہی ہیں جیسے مجھے ذبح کرنا چاہتی ہوں اپنے بچاؤ کے لئے کافی بھاگ کر میں کھڑی ہو جاتی ہوں اور امی کو رحم طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتی ہوں امی! آپ ماں ہیں، آپ کہتی ہیں مجھے پتہ ہے اور میں سر جھکا دیتی ہوں گردن پر ٹھنڈی چیز لگتی ہے چھری ہے یا خون کی دھا.......اور میری " آنکھ کھل جاتی ہے.اُس وقت میری ایسی ہی کیفیت تھی مولا تو ماں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے اگر تیرا یہی فیصلہ ہے تو میں گردن جھکا دیتی ہوں.زندگی کی تڑپ تڑپ کر دُعائیں مانگیں مگر جب خدا کا فیصلہ آ گیا تو بے صبری کا ایک لفظ نہیں کہا“.خاکسار نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولاد کے لئے بہت بشارتیں عطا فرمائی ہوئی ہیں آپ ان کو کس طرح پورا ہوتے دیکھ رہی ہیں؟ ” بہت سی باتیں ہیں کچھ ٹھوس حقائق ہیں، کچھ ذوقی باتیں ہیں.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام پڑھ رہی تھی صفحہ 136 پر تحریر ہے." حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنی مظلومانہ زندگی کی رُو سے حضرت مسیح سے غایت درجہ کی مماثلت ہے اور حضرت مسیح کو جو امام حسین سے تشبیہ دی گئی ہے یہ استعارہ در استعارہ ہے خدا بہتر جانتا ہے.مگر میرا دھیان اس طرف گیا وہاں نواسہ رسول تھا.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پڑپوتا اور پڑ نواسہ تھا.خدا کرے ہماری نسلیں ان بشارتوں کی اہل بنیں.میرے خیال 66

Page 260

259 میں بشارتوں کے پورا ہونے کے بعد کے لئے خود کو عمل اور دُعا سے اس کا اہل بنانا ضروری ہے.یہ تسلی کاہل نہ بنا دے کہ ہمارے لئے بشارتیں ہیں ہمیں نیک عمل کی ضرورت نہیں.جس طرح انذاری خوابیں دُعا اور صدقہ سے ٹل جاتی ہیں اسی طرح بشارتیں بھی بُرے اعمال سے مل سکتی ہیں میرے خیال میں تو خدا تعالیٰ ایک ٹارگٹ دے دیتا ہے کہ کوشش کرو تو یہاں تک پہنچ سکتے ہو.ایک دفعہ امی مجھ سے کہنے لگیں کہ دُختِ کرام میرے لئے جو حضرت صاحب کا الہام ہے.وہ ہے تو ایک ہی.مگر بہت گہرے معنی رکھتا ہے.مجھے اس وقت خیال ہوا کہ امی کو یہ احساس ہوا ہے کہ باقی بچوں کے لئے تو کئی کئی الہام ہیں.مگر میرے لئے صرف ایک ہے.ایک تو ہم میں آپس میں حجاب بھی بہت تھا.دوسرے اس لئے کہ امی کو یہ احساس ہے کہ میرے لئے صرف ایک ہی الہام ہے.میں چپ رہی اور بات آگے نہ بڑھائی امی جان اپنے بچپن کے احساسِ محرومی کی وجہ سے غیر معمولی حساس تھیں اور اتنی ہی غیور بھی تھیں.اس وجہ سے کبھی یہ اظہار نہ ہونے دیتی تھیں کہ مجھے فلاں چیز کی کمی کا احساس ہے.اماں جان حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سب کو منع کر دیا تھا کہ امی کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی بات نہ کرو.ان کا مقصد تھا کہ آپ کا ذکر ان کو تکلیف دے گا امی کو بڑے ہونے تک اس کا احساس رہا جب میری بہن کے میاں چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر وفات پاگئے تو امی ہمیشہ کہتی تھیں کہ اپنے بچوں سے باپ کی باتیں کرو.کیونکہ مجھے آج تک صدمہ ہے کہ اماں جان نے میرے صدمے کے خیال سے سب کو روک دیا تھا کہ میرے سامنے کوئی ذکر نہ کرے.مجھے صدمہ ہوگا.اس لئے میرے ذہن میں باتیں بھی نہ رہیں اور حجاب بھی بیٹھ گیا.اسی لئے ہم قادر کے بچوں سے بھی قادر کی باتیں کرتے ہیں

Page 261

260 تا کہ ان کو باپ کی یاد تازہ رہے اور کوئی حجاب بھی پیدا نہ ہو.قادر کی شہادت پر حضرت صاحب کے منہ سے بے ساختہ دو فقرے نکلے تھے.ایک دن پہلے آپ نے فرمایا کہ: " محرم شروع ہو چکا ہے اہلِ بیت کے لئے دُعا کریں اور کثرت سے درود پڑھیں“.پھر قادر شہید ہو گیا.محرم دو تین دن بعد شروع ہوا.یہ بھی تصرف الہی تھا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بارہ میں اہلِ بیت کے الفاظ استعمال کئے ہیں) دوسرا فقرہ آپ نے یہ فرمایا کہ: قادر میں بھت سے پاکیزہ خون شامل ایسے اور کسی میں نہیں تھے.66 جب کسی برگزیدہ انسان کے منہ سے کوئی فقرہ اتفاقاً بھی نکلتا ہے تو یہ تصرف الہی ہی ہوتا ہے اور حقیقت پر مبنی ہوتا ہے.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب دیکھ رہی تھی اور مجھے امی کا وہ فقرہ یاد آیا کہ ” میرے لئے الہام تو ایک ہے.مگر بہت وسیع معنی رکھتا ہے.اور پھر حضرت صاحب کا یہ فقرہ کہ قادر میں بہت سے پاکیزہ خون تھے.ذہن میں گھومنے لگا.مجھے لگتا ہے دُختِ کرام امی کے الہام سے امی کی اگلی نسل کے لئے بشارت ہے میری ڈائری میں 1987 ء کا ایک خواب لکھا ہوا ہے کہ میں ایک پارٹی میں شریک ہوں اور امتہ العزیز اور لیس مجھے ایک کتاب تحفہ میں دیتی ہیں جس کا نام ” دُختِ کرام ہے میں بے حد خوش ہوتی ہوں اور کہتی ہوں کہ خدا کی قدرت کہ قادر مجھ سے یہ کتاب مانگ رہا تھا اور امتہ العزیز نے مجھے تحفہ میں دے دی.کتاب کے اندر ایک صفحہ پر ”مرزا غلام قادر“ لکھا تھا اور اُس کے نیچے انیس احمد لکھا تھا.امی کی زندگی میں خیال بھی نہ تھا کہ اُن کی وفات

Page 262

261 کے بعد کتاب شائع ہوگی.انیس احمد کا مطلب احمد کا دوست ہے.اس ضمن میں مجھے حافظ مظفر احمد صاحب کا ایک خواب قادر کی شہادت سے ایک ماہ قبل (جو انہوں نے دیکھا تھا) یاد آیا کہ M.T.A کے کسی پروگرام میں حضرت صاحب خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کر رہے ہیں اور خاص طور پر ایک نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یہ میرا بیٹا ہے.اس کا نام خلیل احمد ہے“ خلیل احمد کا بھی مطلب ہے کہ احمد کا دوست.حافظ صاحب نے حضور کو اپنا خواب لکھا اور قادر کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد یہ خط پیش ہوا.اس خط پر حضرت صاحب کا نوٹ بذریعہ فیکس ملا."هوسكتا هے که کل کے خطبہ کے موضوع کی طرف اس میں اشارہ ھو.الله تعالیٰ قادر کو مقام محمود عطا فرمائے جس نے اپنی وفا اور قُربانی کا نیک نمونه دکھا کر جماعت پر ایک عظیم احسان کیا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو بھت سے قادر عطا فرمائے.“ اس خطبہ میں حضور انور نے قادر کا ذکر بہت محبت اور پیار سے کیا ہے.66 قادر سے دُختِ کرام الہام کے تعلق کی طرف حضور کے الفاظ 'مجمع البحرین سے بھی توجہ گئی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- میں کبھی آدم کبھی موسئی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شُمار آپ کی بیٹی ان سب کریمانہ صفات کی وارث ہوئیں.ایسے الفاظ اتفاقی نہیں ہوتے ان کے پیچھے بڑی حقیقتیں ہوتی ہیں

Page 263

262 محترم مولانا راجیکی صاحب کے الفاظ پر غور کریں: دُنیا میں دُنیا دار لوگ تو اسباب اور مواقع پر نظر رکھتے ہوئے دل کی تسکین کی صورت محسوس کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے انبیاء اور مرسلین کے پاس صرف خالق الاسباب کا قول یا کلام بطور بشارت کے ہوتا ہے اور خالق الاسباب ایک نئی دنیا اور جہان اُن کے لئے پیدا کر کے دکھا دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح اس امر کی تصدیق کے لئے کافی شہادت کی صورت اپنے اندر رکھتی ہے." یہ بشارتیں مجھے ہمت دلاتی ہیں.ورنہ میں ہمت والی نہیں ہوں.میری ہمت صرف خدا کے آگے ٹوٹتی ہے ہمیشہ سے عادت ہے خود جھیلنا یا خدا سے Share کرنا.تو ہے سُورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ تو کسی روز مرے گھر میں اُتر شام کے بعد محترم راجیکی صاحب کا ذکر خیر ہوا ہے تو ایک اور واقعہ یاد آ گیا ہے.جو میں عام طور پر حجاب کی وجہ سے کسی کو سُناتی نہیں ہوں.ہوا یوں کہ ایک دفعہ مولانا صاحب کے پاس دُعا کے لئے گئی میرے ساتھ خاندان کی اور خواتین بھی تھیں میری طبیعت ذرا آگے آگے ہونے کی نہیں جب سب مل چکیں تو میں آگے بڑھی اپنا تعارف کروایا اور دُعا کے لئے درخواست کی آپ اتنے تپاک سے ملے اور اتنے احترام کے الفاظ میرے لئے استعمال کئے کہ میں شرمندہ ہوگئی.آپ نے فرمایا کہ: میں آئینہ کمالات اسلام پڑھ رہا تھا.اس میں وو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ” خدا تعالیٰ

Page 264

263 نے مجھے بتایا ہے کہ تیری ایک قدسی نسل چلے گی اور مجھے القا ہوا ہے کہ یہ نسل آپ کی ہے.“ میں نے آ کر منجھلے ماموں جان (حضرت مرزا بشیر احمد ) کو بتایا آپ نے مولوی صاحب سے کتاب کا صفحہ پوچھا مگر ماموں جان کو وہ الفاظ نہیں ملے میرا ذاتی خیال ہے کہ مولانا صاحب کو کشفی طور پر دکھایا گیا ہوگا.مگر بہت مبارک نام ہیں کتاب کے نام سے بھی تعبیر نکلتی ہے.صاحبزادی امتہ الباسط کو بھی یہ واقعہ یاد ہے.باتیں کرتے ہوئے آپ کہیں ڈوب سی گئیں.ہم نے بھی اس کیفیت میں خاموش رہنا مناسب سمجھا پھر آپ خود ہی گویا ہوئیں.وو جانے والا چلا گیا.کیسا زخم لگا گیا یہ کوئی نہیں جانتا مگر یہ سب سوچیں زخموں پر مرہم لگاتی ہیں اور اپنا آپ خوش قسمت لگتا ہے کہ خدا نے وخت کرام کی اولاد میں سے مجھے چنا جیسا کہ قادر کے ابا نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ قادر نے اپنے خون کی حرمت کو پہچانا اور جان دے کر اس کا حق ادا کر دیا.مگر حق کہاں ادا ہوا.اس نے تو ایک اور احسان کر دیا.شہادت کی موت دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کا مصداق ٹھہرایا گیا یہی موت کسی ٹرک کے نیچے آکر بھی ہوسکتی تھی.نہیں ہم کبھی حق ادا نہیں کر سکتے.بعض دفعہ لگتا ہے اسے کھو کر میں نے سب کچھ کھو دیا.اور بعض دفعہ لگتا ہے اسے کھو کر میں نے سب کچھ پالیا ہے.خدا بہتر جانتا ہے.میں نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟ مگر میرے دل کی متضاد کیفیتیں ہیں کبھی کوئی کیفیت حاوی ہو جاتی ہے.اور کبھی کوئی بندہ بشر کمزور ہے.بشری کمزوری کے ساتھ ساتھ ہے.66 میرا اگلا سوال اچانک لبوں تک آ گیا.

Page 265

264 آپ کی زندگی کی بہترین خواہش کیا ہے؟ " ہر شخص کی کوئی بہترین خواہش ، کوئی بہترین مقصدِ حیات ہوتا ہے.میرا مقصد حیات میری بہترین خواہش میرا واقف زندگی بچہ تھا.مامتا اپنی جگہ وہ تو ہر ماں کو ہوتی ہے.مگر وہ ہر روز خوشی دیتا تھا.میرا مان بڑھاتا تھا.میرے خوابوں کی تعبیر تھا...میری قبولیت دعا کا نشان تھا.وجہ تسکین تھا.سوچتی ہوں اس درد کا مداوا کوئی ہے.نہیں کوئی نہیں ہے بجز میر پیارے خدا کے اور کوئی چارہ گر نظر نہیں آتا“.خاکسار کو آپ کا ایک خواب یاد آ رہا تھا جس کا اشارہ ذکرسُن رکھا تھا وضاحت کے لئے پوچھا.آپ نے اکیس اکیس والے خواب کا ذکر کیا تھا اُس کی بھی کچھ تفصیل بتا دیجئے ؟ میں چاہتی تھی وہ زیادہ سے زیادہ بولیں.محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ نے جواب دیا." غالباً 1946ء میں ایک خواب دیکھا تھا کہ بڑی امی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ایک میز کے آگے کرسی لگا کر بیٹھی ہیں سامنے قرآنِ کریم کھلا ہے اور میں پاس کھڑی ہوں میرے کسی خواب کی تعبیر قرآن کریم سے دیکھ رہی ہیں غور کرتے ہوئے دو مرتبہ اکیس اکیس کہا اور بہت گھبرا ئیں اس کے بعد مطمئن ہو گئیں اور بڑی بشاشت سے کہا! بڑی خوش قسمت، بڑی خوش قسمت مجھے لگتا ہے یہ خواب بھی قادر کے لئے تھا ان دنوں میں اپنی اولاد کے لئے بہت دُعائیں کرتی تھی قادر کا غم بھی ہے اور خوش قسمتی بھی.دو اکیس (21) جمع ہو گئے قادر کی پیدائش کی تاریخ اور وقف کے وقت اُس کی عمر.یہ ایک ذوقی استدلال ہے اللہ تعالیٰ ہی علام الغیوب ہے وہی جانتا ہے اُس کے اشاروں میں کیا بھید ہیں.

Page 266

265 خاکسار کو اس تحریر کے دوران تذکرہ میں اکیس اکیس والا ایک الہام نظر آیا.ہوسکتا ہے کوئی تعلق ہو اس لئے لکھ رہی ہوں.تذکرے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نومبر 1905ء کا ایک خواب درج ہے.اُس میں بھی اکیس اکیس، آتا ہے.آپ کو اکیس سال دعوی کے بعد تبلیغ کی عمر ملی.پھر حضرت مصلح موعود کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی قسم کا انکشاف ہوا اس انکشاف کے اکیس سال بعد آپ کی وفات ہوئی 23 اپریل 1944ء کو آپ نے فرمایا! آج میں نے ویسا ہی ایک رؤیا دیکھا ہے.جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا ہے.مگر یہ ساری رؤیا تو نہیں مگر آج رات ایک لمبے عرصے تک یہی رویا ذہن میں آکر بار بار یہ الفاظ جاری ہوتے رہے.اکیس اکیس.الفضل جلد 32 نمبر 99، 29 اپریل 1944ء) 1944ء سے ٹھیک اکیس سال بعد آپ کا وصال ہوا اور لفظاً لفظاً خدا تعالی کی بات پوری ہوئی.( تذکرہ صفحہ نمبر 578 پرانا ایڈیشن) آپا قدسیہ نے ملاقات کے لئے آنے والی خواتین کی بعض ایمان افروز باتیں بتائیں.مکرمہ زبیدہ نیم بیدی صاحبہ نے بتایا کہ انہیں یاد ہے ایک دفعہ ننھے قادر کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کے پاس لائیں آپ نے بچے کو گود میں لے کر فرمایا ماشاء اللہ بہت پیارا بچہ ہے اس کی پیشانی کشادہ اور نورانی ہے.یہ ایک دن بہت بڑا انسان بنے گا.آپ نے بچے کو بہت دعائیں دیں.آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے.محترمہ نسیم لطیف صاحبہ بنت ڈاکٹر عبداللطیف صاحب کو قادر کی شہادت سے پہلے رات کو آواز آئی وہ خدا کے عطر سے ممسوح کیا گیا.

Page 267

266 مکرم سہیل احمد ساحب آف رلیو کے ضلع سیالکوٹ 12 اپریل 1999ء کی رات کو خواب میں ایک بہت بڑا جنازہ دیکھا لوگ بہت دُکھی تھے ایک شخص نے کہا 'ملت کے اس فدائی پر رحمت خدا کرے.محترمہ زاہدہ مبشر صاحبہ (اسلام آباد) نے قادر کی شہادت سے تین ماہ قبل دیکھا ہوا اپنا خواب تحریر کر کے دیا جو درج ذیل ہے.جس سال مرزا غلام قادر صاحب شہید کو شہادت نصیب ہوئی اس سے قبل 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب نماز ، دعا اورنفل کے بعد جب میں سو گئی.میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی جگہ ہے.جہاں بہت تعداد میں احمدی اپنے کاموں میں مصروف ہیں.گویا جماعت کے کچھ کام کر رہے ہیں.یکا یک سب کی نظریں آسمان کی طرف اُٹھتی ہیں اور سب رُک جاتے ہیں.میں بھی آسمان کی طرف دیکھتی ہوں اور کسی موڑ کے قریب ایک گلی میں رُک جاتی ہوں.سب بیک صدا کہتے ہیں.دیکھیں آسمان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے تین صد تیرہ اصحاب کے ساتھ نزول فرما رہے ہیں.ان ارواح مقدسہ میں سے ٹور گزر رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام گہرے کتھئی سے براؤن لمبے گرم کوٹ اور بہت ہی ملائم ترین پنک پگڑی (جس میں کچھ گرے کلر کی باریک دھاریاں ہیں) میں ملبوس ہیں.درمیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہیں.دائیں بائیں اور پیچھے تین سو تیرہ اصحاب کھڑے ہیں.ان کے قدموں کے نیچے گو کچھ نظر نہیں آتا.پر محسوس ہوتا ہے کہ مسطح پر کھڑے ہیں.آرام آرام سے ایک دو منزلہ کوٹھی کے بہت بڑے ٹیرس پر نزول فرما رہے ہیں.جب نزول فرما چکے ہیں سب بہ یک زبان کہتے ہیں.حضور السلام علیکم.حضور دونوں ہاتھ بلند کر کے وعلیکم السلام جواب دیتے ہیں اور تمام اصحاب بھی آپ کی تقلید میں ایسا ہی کرتے ہیں.

Page 268

267 پھر یکا یک دیکھتی ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ہوں.ان کے دائیں جانب قد آدم سے اوپر ایک ہالہ سا گھلتا ہے.آسمان بالکل صاف، نیلا اور دن کا اچھا حصہ ہے.اور یہ ہالہ بار بار کھلتا ہے.پھر اس ہالہ کے اندر ایک خوبصورت نوجوان بادامی اور سنہری رنگ کے مغلیہ لباس اور کلاہ کے پوشاک میں ظاہر ہوتے ہیں.ان کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی پر شوکت تلوار ہوتی ہے.مد مقابل کوئی نظر نہیں آتا.وہ اس سے ضرب لگاتے ہیں.تو کبھی ہلکی کبھی بھاری ضرب کی چوٹ کی آواز آتی ہے گویا کسی دھات کی چیز سے ٹکرا رہی ہو.کبھی مقابلہ میں کسی کو دھکیلتے نظر آتے ہیں.کسی کی ضرب دیکھ کر روکتے نظر آتے ہیں.گویا انہیں تو کوئی نظر آ رہا ہے جو برسر پیکار ہے.میں حضور اقدس کے بازو ( ہاتھ سے اوپر والا حصہ) پر ہاتھ رکھتی ہوں.حضور بھی انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں.حضور اقدس میری طرف متوجہ ہوتے ہیں.عرض کرتی ہوں.حضور ! یہ کون ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پورا بازو بہت فخریہ انداز میں ان نوجوان کی طرف بلند کر کے فرماتے ہیں.دیکھیں! یہ ایک خوبصورت نوجوان، بہادر، دلیر شہزادہ اپنے خاندان کا پہلا شہید ہے اور دیکھیں کسی بہادری اور دلیری سے لڑ رہا ہے؟ اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کر رہا ہے.اُس وقت مجھے علم نہیں تھا کہ اپنے خاندان سے مراد حضور کا ہی خاندان ہو گا.میں سوچتی ہوں کہ یہ شہید ہیں اور ابھی زندہ لڑ بھی رہے ہیں.میں ڈر گئی میں نے خواب کسی کو بھی نہ سُنایا پھر شہادت کی خبر سنی میں بہت روئی جب میرے ابو آئے میں نے اُن کو یہ خواب سنائی اور پھر یہ ہوا کہ ایک بار جب میں امی ابو جان سے ملنے لاہور گئی گھر میں صوفے پر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ نظر سامنے پڑے کمپیوٹر کے ایک رسالے پر پڑی اور میں بیٹھتے بیٹھتے اٹھ گئی.میں نے کہا

Page 269

268 ریحانہ ! ( اپنی بہن ) یہ کون ہیں؟ اور میرے دل میں نقش ہو گیا کہ یہ تو وہی ہیں ریحانہ نے کہا تمہیں پتہ نہیں یہ نچھو بی بی کے شہید شوہر مرزا غلام قادر ہیں.آپا جان باچھی کے داماد ہیں کمپیوٹر کے کام کے سلسلہ میں بہت صلاحیت رکھتے تھے جماعت کے بہت اچھے پروگرام کمپیوٹر کے تعلق میں کر رہے تھے“.اس خواب کا ہم سب کی طبیعت پر بہت اثر ہوا.زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے ایک شہید کو مسلسل دفاع کر کے وار روکتے ہوئے دیکھنا جماعت پر ہونے والے حملوں اور آپ کی تربانی کے ان پر اثرات کی طرف بھی ایک اشارہ ہے.اس لذیذ نشست کے آخری لقمے کے لطف میں بھی سب کو شریک کر لوں خاکسار کو مخاطب کر کے محترمہ نے فرمایا: ایک دفعہ خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے گلے لگایا اور ایک بشارت دی عجیب بات ہے بشارت بتانے والی کا نام امة الباری تھا اور آج امتہ الباری ہی قادر کی سوانح لکھ رہی ہے خواب یہ ہے.” میں نے دیکھا کہ امہ الباری شاہنواز کو بچی کا فراک تحفہ بھیجا ہے اُس کا شکریہ کا خط آیا ہے اور لکھا ہے کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ سے معانقہ فرمایا ہے اور فرمایا ہے العید اقرب.باری کا خط پڑھتے ہوئے میرے سامنے نظارہ آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے بازؤں میں لیا ہوا ، تھا آپ کا ہلکا براؤن کوٹ تھا.“

Page 270

269 باب 9 اہلی زندگی حمد قادر کی اولاد ☆ رہ وفا کے مسافر قادر کی خوشدامن صاحبزادی امتہ الباسط کے تأثرات قادر کی بھا بھی محترمہ امتہ الکبر لبنی اہلیہ سید قمر سلیمان احمد کی یادیں محترمہ امۃ الناصر نصرت صاحبہ کے ساتھ ایک نشست و گزر گئی ہیں قیامتیں نہ کہیں گے اُن کی حکایتیں کوئی کر لے ظلم کی انتہا نہ کریں گے ہم کوئی آہ بھی جو لگے تھے زخم وہ سی لئے جو ملے تھے اشک وہ پی لئے در شکوہ سارے ہی بند ہیں نہ سنو گے دل کی کراہ بھی ثاقب زیروی

Page 271

270 1983ء کی بات ہے.قادر کا پہلا رشتہ خالہ کی بیٹی سے تجویز ہوا.قادر کی اس خالہ زاد کے والد اُسے سات آٹھ سال کا چھوڑ کر فوت ہو گئے تھے.فطری طور پر آپ کی والدہ صاحبہ کو اپنی چھوٹی بہن کی بچی بہت عزیز تھی.دس بارہ سال سے اس بچی کی طرف پیار کی نگاہیں اُٹھ رہی تھیں.یہ بچی ہر لحاظ سے قادر کے لئے مناسب معلوم ہوتی تھی.ایک دن قادر نے بڑی سنجیدگی سے اپنی امی سے کہا.امی مجھے آپ سے ایک بات کرنا ہے مگر وعدہ کریں ابھی کسی سے ذکر نہ کریں گی.اور جو بات قادر نے کی وہ اس سے زیادہ اہم اور خوشکن تھی جہاں تک اُن کا خیال پہنچا تھا.قادر نے بتایا کہ وہ اپنی زندگی راہِ مولا میں وقف کرنا چاہتے ہیں اور ایمان داری کی بات یہ ہے کہ جہاں رشتہ طے ہو رہا ہے اُسے علم ہو کہ اُن کی ہمراہی شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنے کے برابر ہوگی.وقف کے تقاضے اُس پر خوب کھول دیے جائیں.بچے کا زندگی وقف کرنے کا عزم اگر چہ ماں کی شبانہ روز دعاؤں کا جواب تھا مگر ایسا بیٹا جس کے نہاں خانہ دل پر حجاب کی اوٹ رہتی ہو اور کبھی سن گن بھی نہ ہوئی ہو کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں یکدم اپنی زبان سے اظہار کر دے تو خوشی کا عالم ہی دوسرا ہوتا ہے.خلاف توقع اتنی بڑی خوشخبری ملنے سے کائنات دل پر حمد وشکر کے آنسوؤں کی بارش ہونے لگی جسم و جاں سے سجدہ شکر بجالائیں آج قادر نے وہ خوشی دی تھی جو سات بادشاہتوں کے مل جانے سے بڑھ کر تھی.کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں نا چیز ہوں اور رحم فرواں تیرا

Page 272

271 قادر نے نہ صرف انتخاب کے وقت یہ پہلو مد نظر رکھا بلکہ جو حکم ہے کہ قولِ سدید سے کام لیا جائے اس پر بھی پورے اُترے یہ اور بات ہے کہ وہ رشتہ قادر کے مقدر میں نہ تھا کسی وجہ سے طے نہ ہو سکا جس کا اُمی نے بہت اثر لیا.یہ بچی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو چکی ہے اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے) اپنی امی کے دل کا بوجھ کم کرنے کے لئے قادر نے انہیں ایک خط لکھا جس سے اُن کی بالغ نظری کا اندازہ ہوسکتا ہے.پیاری امی.السلام علیکم یہاں سب خیریت ہے.آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آخر آپ کو میری بہتری کی ہی فکر ہے نا.جو کچھ ہونا ہے اس میں بھی تو میری بہتری ہی ہو سکتی ہے.اور پھر جو چیز جتنی بڑی ہو اس کے لئے قر بانی بھی اتنی بڑی ہی دینی پڑتی ہے آپ کو جو قربانی دینی پڑ رہی ہے اس سے لگتا ہے نتیجہ بہتر ہی نکلے گا پھر ہمارے وقف کی خواہش تو آپ کو ہماری پیدائش سے بھی پہلے کی ہے جب کہ رشتہ کی خواہش تو چند سال پرانی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے دیرینہ اور زیادہ اہم خواہش پوری کر دی.تو میرا خیال ہے اس کا بھی حق ہے کہ کم از کم شکرانے کے طور پر دوسری خواہش کو بھول جایا جائے.کیا آپ اس بات پر زیادہ خوش ہوتیں کہ میں وقف نہ کرتا مگر میرا رشتہ ہو جاتا؟ اگر نہیں تو پھر میرے خیال میں پریشان ہونے

Page 273

272 کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ شکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دونوں خواہشوں میں سے زیادہ اہم خواہش پوری کر دی.جہاں پہ بات منوائی جاتی ہے وہاں ماننی بھی تو پڑ جاتی ہے.جہاں تک دوسرے رشتے کا تعلق ہے تو میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا آپ کہیں گی تو اپنے خیالات بدل لوں گا.یہ نہ سمجھیں کہ اگر پہلی دفعہ ایک حد تک میں نے آپ کی خواہش کا احترام کیا تو دوسری دفعہ آپ کو اپنی خواہش کے احترام کے لئے مجبور کروں گا ہمارے میں کوئی برابری کا تعلق تھوڑا ہے.دُعاؤں میں یاد رکھیں وقف کے لئے زیادہ.رشتوں کے لئے کم.حضرت صاحب کو میں نے اپنی پڑھائی کے متعلق مشورہ کے لئے کل ہی خط لکھا ہے.غلام قادر 27 اکتوبر 1983ء خطوط انسانی نفسیات کا بے تکلف اور بے ریا آئینہ ہوتے ہیں.اس خط کو غور سے پڑھنے سے ایک انتہائی فرماں بردار، سعادت مند اور شریف.النفس بیٹے کا پیکر سامنے آتا ہے جو یہ جانتا ہے کہ اللہ رب العزت سے تعلق رکھنے میں ماننا بھی پڑتا ہے.وہ اپنے بندوں کے حق میں بہتر فیصلے کرتا ہے.میں اکیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ کی ہستی سے پیار کا انداز قابلِ ستائش ہے.انہی دنوں قادر اپنی نانی اماں حضرت صاحبزادی نواب امتہ الحفیظ بیگم

Page 274

273 سے ملنے لاہور گئے (جنہیں گھر میں سب بچے، بڑی امی کہتے ہیں) تو آپ نے فرمایا کہ ایک بیٹی کے گھر رشتے سے انکار ہوگیا تو کیا؟ میری اور بھی بیٹیاں ہیں.قادر نے بڑے ادب سے خاموشی سے سب باتیں سنیں اور اپنے تاثرات کا اظہار اپنی امی کے نام خط میں اس طرح کیا.وو لاہور آنے سے پہلے میں بڑی امی سے ملنے گیا تھا کہہ رہی تھیں میری اور بھی بیٹیاں ہیں.میں چپ کر کے بیٹھا رہا.ہمیشہ اس بات سے ڈر تھا کہ بڑی امی اپنی کسی خواہش کا اظہار نہ کر دیں میرے لئے تو ان کی حیثیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی کی ہے.ان کی خواہشوں کو رڈ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے میں ساری عمر یہ احساس لئے نہیں گزار سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی نے اپنی آخری عمر میں مجھ سے کوئی خواہش کی اور میں اسے پورا نہیں کرسکا.ان سے کہیں میرے لئے دُعا کریں جو میرے لئے بہتر ہے خدا ایسا ہی کر دے یقیناً وہ بہتر جانتا ہے ہر چیز پر قادر ہے.اس تسلسل میں آپ کی والدہ صاحبہ کا ایک خواب نئی تعبیر کے ساتھ سامنے آتا ہے محترم قدسیہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ قادر کے پہلے رشتے کے لئے دُعائیں کر رہی تھیں.”میری دیرینہ خواہش تھی اس رشتے کی مگر آثار کچھ اور نظر آرہے تھے میں ازحد تڑپ کر دُعائیں مانگ رہی تھی اکثر خدا تعالیٰ کا مجھ سے یہ سلوک رہا ہے کہ اگر میں بے حد تڑپ سے کوئی دُعا کروں اور وہ قبول نہ ہوئی.

Page 275

274 ہو تو خدا تعالیٰ مجھے کوئی بشارت دے دیتا ہے چونکہ ان دنوں ذہن صرف رشتہ کی طرف تھا کسی اور دُعا کی طرف توجہ بالکل نہ تھی لیکن عجیب خواب دیکھا.میری آنکھ کھلی دھ کھلی یعنی غنودگی میں میری زباں پر یہ الفاظ تھے.گویا دوباره ورود مسعود ہوگا“ یعنی قادر کی ذات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جب میں اس غنودگی سے نکلی تو زور زور سے اَسْتَغْفِرُ اللهِ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ“ پڑھ رہی تھی کہ یہ کیا میری زبان سے نکلا لیکن یہ سب غیر ارادی تھا.میں نے مدت تک خواب کسی کو نہیں بتایا طبیعت میں ایک خوف سا تھا.لیکن مولوی صاحب کے استخارے دوبارہ دیکھے تو خیال آیا لکھ دوں.منجھلے ماموں جان نے بھی تو لکھا ہے کہ خدا بہتر جانتا ہے کہ خوا ہیں کب اور کس صورت میں پوری ہوں گی.“ قادر کے رشتے کی دوسری تجویز اُن کی مرضی اور خواہش پر امۃ الناصر نصرت صاحبہ سے ہوئی جو محترم سید داؤد احمد صاحب ابنِ حضرت میر محمد اسحق صاحب اور صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بنتِ حضرت مصلح موعود کی بیٹی ہیں.اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے بہت دعائیں ہوئیں یہ رشتہ آسمان پر مقدر تھا تواتر سے خدا تعالیٰ کی رضا کے اشارے ملے ابھی نصرت کے گھر رشتے کا پیغام بھی نہیں گیا تھا کہ قادر کی پھوپھی محترمہ امتہ اللطیف صاحبہ کو آواز آئی کہ ” قادر کا رشتہ نصرت سے ہو گا“ دوسری پھوپھی محترمہ امتہ المجید صاحبہ

Page 276

275 نے خواب میں ایک نیلے رنگ کا لفافہ دیکھا جیسے اُن کے ذہن میں ہے کہ اس میں نصرت کے لئے قادر کا پیغام ہے اور اُس لفافے پر دستخطوں کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا ہے خواب ہی میں وہ سوچتی ہیں کاش یہ میرے گھر آتا..نصرت بتاتی ہیں کہ وہ اپنی امی کی نصیحت کے مطابق حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ہدایت پر عمل کرتیں کہ بچوں کو اپنے ٹیک نصیب کے لئے دُعا کرنی چاہے اُن کی دُعا میں یہ جملہ شامل رہتا کہ: وو ” مولا کریم ہم عمروں میں جو تجھے سب سے پیارا ہو اُس سے میرا نصیب باندھنا.“ یہ الہی تصرف تھا کہ جو رشتے نصرت کے لئے آرہے تھے اُن میں سے کسی پر شرح صدر نہیں ہو رہا تھا جب قادر کا رشتہ آیا اور استخارے ہوئے تو اطمینان کی صورت نظر آئی.محترم صوفی غلام محمد صاحب کی خدمت میں دُعا کی خصوصی درخواست کی گئی.صوفی صاحب دُعائے استخارہ کر کے سوئے تو خواب میں قرآن شریف کے آخری پارہ کی پہلی سورۃ پڑھی.دوسرے رکوع کے نصف کے قریب بیدار ہو گئے.اس کی تعبیر بہت اچھی ہے.عظم شانہ و ذکرہ بالجبل یعنی جس نے یہ سورۃ یا اس کا کوئی بھی حصہ پڑھا اس کی شان بہت بلند ہوگی اور اس کا ذکر ملک میں بہت اچھا ہوگا علاوہ ازیں یہ بھی ہے کہ مخلوق کی طرف اس کی محبت ڈالی جائے گی.عمر طویل ہوگی.خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں رشتے کیلئے دعا کی درخواست کی گئی آپ نے دستِ مبارک.سے جواب عنایت فرمایا.

Page 277

276 15 جولائی 1984ء میری پیاری نچھو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته! تمہارا جو رشتہ آیا ہے مجھے پسند ہے اور مجھے یقین تھا کہ کوئی ایسی بات ضرور ہوگی کیونکہ ایک بار اس قدر تڑپ کر اتنی بے بسی سے میں نے تمہارے لئے دُعا کی کہ اس وقت یقین ہو گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ پردہ غیب سے میری خوشی کا سامان پیدا فرمائے گا.الحمد للہ ثم الحمد للہ والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد حضور کی خوشنودی اور رضا مندی مل جانے پر رشتہ طے ہو گیا.نصرت نے شادی سے ایک مہینے پہلے بہت مبارک خواب دیکھا کہ وہ حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ملنے گئی ہیں آپ نے ایک انگوٹھی انہیں تحفے میں دی ہے ان کے ذہن میں ہے کہ وہ انگوٹھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے جس پر تحریر ہے: أشكر نعمتی رایت خدیجتی حضرت بیگم صاحبہ نے فرمایا کہ اس انگوٹھی کو سارے جسم پر ملو چنانچہ نصرت نے اس انگوٹھی کو اپنے جسم پر ملا یہ ایک غیر معمولی خواب تھا نصرت نے حضور کو تحریر کیا تو بڑا پیار جواب ملا: پیاری عزیزہ نچھو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته

Page 278

277 تمہارا خط پڑھ کر از حد خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ نے خود تسلی دی ہے اب تمہاری فکریں دور ہو جانی چاہئیں بہت ہی مبارک خواب ہے تمہارے حق میں.اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے اور اپنے فضلوں سے نوازے اور خوشیاں عطا کرے.آصفہ اور شوکی بہت بہت سلام کہتی ہیں.سب عزیزوں کو میرا سلام کہہ دیں.چیایه که عزیزه تخمیر والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد السلام علی در دو رشته ای را برای دور تمہار افظ پریشد که از حد خوشی ہوئی.او شده ستانی نیز خود شمی دور ہے یا تو بے تیار ہی فکر میں اور ہو باغی یا نفیس بہت ملی مبارک کو اب رام خواب سے تمہار کے ترقی میں.عریشہ نقاشی مبارک فریبکہ نئے اور اپنے فضلویی نواندے اور خوشیاں عطار کردن تصوف پودر خور کی بہت بیت سلام کہتی ہیں.بعدانہ بیوی کو میں کام کو مش خليفات من الرابع نچھو کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا خط

Page 279

278 حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا اپنی اس بھانجی سے غیر معمولی پیار کا اظہار ایک اور دستِ مبارک سے لکھے ہوئے خط سے چھلکتا ہوا نظر آتا ہے.يبل لا من الملك سلمانيا محمده وَتُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ انگر این اخری شریان 7.9.1384 7985 پیاری کہو السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کئی آنے والے آئے اس لئے بھی لیکن جتنی اداسی تم پیچھے چھوڑ کر گئی ہیں کسی اور نے اتنی نہیں تھوڑی تھی.سے جو بے تکلفانہ دل لگتا ہے اس کی ایک انگر بات تم سے حسین طرح لوگ زائر سامان مجھے تیور ہاتے ہیں اسی طرح تم نے اپنا زائد بر چند ہمارے سپرد کر دیا اور تحب ہے کہ پھر بھی تمہارا ہو تجھ ہلکا نہیں ہوا.شکریہ ادا کرتا ہر تمہارا تبصرہ ہنہنانے والد تا درد ناک خط میں یہ شکوفہ کانٹوں میں کھرا سمیرا عید کی تگ و یا تھا.تم اپنی بیٹیوں کا شکریہ بے شک اور نہ کرنا میں تو اپنی بیٹیوں کا مر نہ شکریہ ادا کرتا ہوں بلکہ مے بر کی زیادہ ہی کرتا ہوں.اس لئے شکریہ کا عنور رکھ کر بیٹیوں کی فہرست ہیں.نکلنے کی تمہاری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی اللہ تمہیں دونوں جہان کی حسنات ہے مین شعیب رواز سے امر تمہاری طرف سے مجھے امیر قرة عين اہے.سب تمہیں بہت یاد کرتے ہیں.تم نہیں ہیں یا میں کہتے کے لائق خدا حافظ و الم ناک اور علی " مچھو کے نام حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا خط

Page 280

279 پیاری بچھو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کئی آنے والے آئے اور گئے بھی لیکن جتنی اُداسی تم پیچھے چھوڑ کر گئی ہو کسی اور نے اتنی نہیں چھوڑی تھی.تم سے جو بے تکلفانہ دل لگتا ہے اس کی ایک الگ بات ہے جس طرح لوگ زائد سامان پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اسی طرح تم نے اپنا زائد بوجھ ہمارے سپرد کر دیا اور تعجب ہے کہ پھر بھی تمہارا بوجھ ہلکا نہیں ہوا.شکریہ ادا کرنے پر تمہارا تبصرہ ہنسانے والا تھا.درد ناک خط میں یہ شگوفہ کانٹوں میں گھرا ہوا پھول لگ رہا تھا.تم اپنی بیٹیوں کا شکریہ بے شک ادا نہ کرنا میں تو اپنی بیٹیوں کا ضرور شکریہ ادا کرتا ہوں بلکہ شائد کچھ زیادہ ہی کرتا ہوں اس لئے شکریہ کا عذر رکھ کر بیٹیوں کی فہرست میں سے نکلنے کی تمہاری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی.اللہ تمہیں دونوں جہان کی حسنات سے نوازے اور تمہاری طرف سے مجھے ہمیشہ قرة عين نصیب رہے.سب تمہیں بہت یاد کرتے ہیں تم ہو ہی یاد رکھنے کے لائق.خدا حافظ ! والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد

Page 281

280 اپنی ہمشیرہ محترمہ امتہ الباسط صاحبہ کے مکتوب کا جواب آپ نے دست مبارک سے عطا فرمایا.حضرت 25-1-1313 1584 بیماری یا چھی اسلام علیکم و قصیده اند و برکاستار تمہارا محبت بوا خه مله به جزام را در نچھو کے لئے اگر یہاں سے کچھ نہ تگرا یا تو وریان تحصہ بھیجوا دو لنگا اس کی کاری میں تو میں روحانی طور پر بہت گہری شرکت کرونگا.میری بنایت پیاری پیشی ہے تم سب کو پیار.خلیہ ملنے کی دعائیں حکو کرو خدا ماندا در سر کارگاه از اطار شادی کی تیاریوں میں ماموں کی احساس ذمہ داری اور بھانجی سے غیر معمولی محبت کا اظہار، شادی میں رُوحانی طور پر بہت گہری شرکت سے ہوتا حضور پُر نور نے 1986ء میں اس بابرکت جوڑے کے نکاح کا اعلان بیت فضل لندن میں کیا.

Page 282

281 قادر اور نصرت کی شادی کی تقریب وہ منفرد اور یادگار تقریب تھی جو دو ملکوں میں منائی گئی ایک ربوہ کی مبارک بستی میں، رشتہ داروں عزیزوں کی مسرت بھری شرکت میں اور دوسری سمندر پار ایک غریب الوطن نے اپنے کھانے کی میز پر منائی اور اپنی بھانجی کی خوشیوں میں شرکت کی.روز نامہ الفضل ربوہ نے ” خاندانِ حضرت بانی سلسلہ میں شادی کی 20.1.86 PP 2005 پیاری عزیزه یا چھی روان پیاده شده مورد السلام علی هم وراحته اسطو و نگاشته یکارڈ نجھور کا ویسی که بر پیشانت بھی کھایا.شادی ودارت دن اتفاق کی کا سوا لنا ان تنا بھی کافی اچھا.میں نے کہا چلو آج i چند کے وسیمہ ہیں شامل ہو جاؤں ار بہت مزا آیا یہ سریع تر می شه کیلئے اور تحر کو پتہ ہی نہیں کہ ماموں بھی تمہاری دعوت و میسر ہو گئی کے مل ہیں.me خانی خلف الميع المرابع j

Page 283

282 تین مبارک تقاریب“ کے عنوان کے تحت لکھا:.عزیزم مکرم صاحبزادہ ابن محترم مرزا مجید احمد صاحب ( جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پوتے ہیں) کی شادی عزیزہ مکرمہ صاحبزادی امة الناصر نصرت بنت محترم میر داؤد احمد صاحب مرحوم و صاحبزادی امتہ الباسط ( جو حضرت میر محمد اسحق صاحب کی ہوتی اور حضرت مصلح موعود کی نواسی ہیں) سے قرار پائی.تقریب رخصتانہ محترم میر داؤد احمد صاحب مرحوم کے گھر واقع دارالصدر میں منعقد ہوئی.جہاں پر دُعا محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد نے کرائی.اگلے روز محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد نے اپنی رہائش گاہ ”الفارس“ پر دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا جہاں پر دُعا محترم مولانا محمد حسین صاحب رفیق بانی سلسلہ نے کرائی.ہر دو تقاریب میں افراد خاندان حضرت بانی سلسلہ اور دیگر اہل ربوہ نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی اس جوڑے کا نکاح بھی حضرت امام جماعت احمدیہ نے لندن میں پڑھا تھا.احباب جماعت سے درخواست ہے کہ خاندانِ حضرت بانی سلسلہ میں شادی کی اس پُر مسرت اور مبارک تقاریب کے موقع پر تینوں جوڑوں کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو حضرت بانی سلسلہ کی دُعاؤں کا وارث بنائے.دین و دنیا کی ہر خوشی ان کے نصیب میں ہو اور یہ تعلق احمدیت اور دین حق کے

Page 284

283 لئے بہترین ثمرات لانے کا باعث بنے.آمین اہلی زندگی: شادی کے وقت قادر کی تعلیم کا آخری سمسٹر باقی تھا.تعلیم مکمل کر کے ایم.ایس، کے لئے امریکہ دلہن کو ساتھ لے کر گئے.1989ء میں واپس ربوہ آئے کچھ عرصہ والدین کے ساتھ رہنے کے بعد تحریک جدید کے سادہ سے کوارٹر میں منتقل ہو گئے اور اس آشیانے میں خاندانِ حضرت مسیح موعود کے اس اعلیٰ تعلیم یافتہ وقف زندگی لختِ جگر نے بڑی سادگی اور قناعت سے اپنی مختصر اہلی زندگی گزار دی.اس ہنستے بستے گھرانے کے خد وخال اُن مضامین سے واضح ہوتے ہیں.جو نصرت نے الفضل کے لئے لکھے عنوان ہیں: فاتحانہ مسکراہٹ میرا باوفا شوہر میرا بہترین دوست میرے دل کی ڈھارس میرا غلام قادر اللہ تعالیٰ نے اپنے گلشن کا سب سے خوبصورت پھول چن لیا.

Page 285

284 مجھے الفضل والوں نے قادر کے متعلق کچھ لکھنے کے لئے کہا ہے.اس وقت تو میرے خیالات اس قدر بکھرے ہوئے ہیں کہ بار بار ذہن پر زور دینے کے باوجود بھی صحیح طرح ان کو سمیٹ نہیں سکتی لیکن پھر بھی اپنی سی کوشش کر دیکھتی ہوں.قادر کی طبیعت ایسی تھی کہ اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا بس میں اکثر اسے کہتی تھی کہ قادر تم آدھا فرشتہ ہو اور وہ خاموشی سے مسکراتا رہتا تھا.بعض اوقات تو میں اس کی طرف حیرت سے دیکھتی رہ جاتی تھی کہ طبیعت میں اتنی گہری نیکی؟ ایسی سعید فطرت؟ گھر میں بہت بے تکلفی سے رہتا تھا بچوں سے بے حد پیار لیکن ان کی غلط باتوں پر ناراض بھی ہوتا تھا.ہم سارے اکثر شام کو زمینوں پر جاتے تھے.وہاں بھی اور گھر میں بھی ہم سارے Cricket کھیل رہے ہوتے تھے کبھی پٹھو گرم یا کبھی اور کوئی بیٹھ کر کھیلنے والی Game کبھی رُعب نہیں جھاڑا گھر میں.اور آخری بات مجھے اس کی وہ خدمت کبھی نہیں بھول سکتی جو اس نے Twins کی پیدائش کے بعد جب میں بیمار ہوگئی تھی اُس وقت میری کی ہے.ساری ساری رات اگر میں کہتی تھی کہ قادر مجھے گھبراہٹ ہے تم میرے پاس آ کر بیٹھ جاؤ تو ساری رات میرے پاس بیٹھ کر گزار دیتا تھا.دن رات ایک کر دیے تھے میرے ساتھ اس نے مجھے یاد ہے جس دن میری زیادہ طبیعت خراب ہوئی اس دن میں رو رہی اور ساتھ ساتھ قادر بھی روتا جاتا تھا میرے دل سے مسلسل اور اب تک اس کے لئے دُعائیں نکلتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہر لمحہ اس کے

Page 286

285 درجات بلند سے بلند تر کرے اور ہم سب کی طرف سے وہاں بھی ہمیشہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے آمین.شہادت کے بعد جو دشمن کو مات دینے والی فاتحانہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر تھی وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گی.(الفضل 5 مئی 1999ء) مجھے اذنِ مرگ دے کر وہ افق پہ چاند ڈوبا وہ مرا نصیب لے کر کوئی بجھ گیا ستارا قادر کی جانی قربانی کے بعد کبھی یہ شعر سنتی ہوں تو مجھے اپنے حسب حال لگتا ہے.قادر، میرے گھر کی رونق، جو میرا نصیب لے کر بجھ گیا ہے لیکن اس کا اپنا نصیب آسمانِ احمدیت پر روشن ستارے کی طرح چمک اُٹھا ہے.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ سعادت بخشی.بچپن سے امی سے سنتے تھے کہ بڑی پھوپھی جان (حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ) فرمایا کرتی تھیں کہ لڑکی کو چھوٹی عمر سے اپنے نیک نصیب کے لئے دُعا مانگنی چاہئے اس لئے تم لوگ بھی اپنے لئے دعا مانگا کرو.میں نے اپنے نیک نصیب کے لئے دُعا مانگنے کے ساتھ یہ دُعا بھی شامل کی کہ یا اللہ میرے ہم عمروں میں جو تجھے سب سے پیارا ہو اس سے میرا نصیب باندھنا اور جب قادر کی جانی قربانی کے کچھ دیر بعد حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے روتے ہوئے فون پر مجھے یہ فرمایا کہ ” نچھو اللہ تعالیٰ نے اپنے گلشن کا سب سے خوبصورت پھول چن لیا ہے تو چند دن بعد میری توجہ حضور کی اس بات کے ساتھ اپنی اس دُعا کی طرف گئی اور میں نے سوچا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری دُعا کو قبول فرما لیا.محض اس کی عطا ہے ورنہ ہم کس قابل ہیں.

Page 287

286 سچا انسان سادہ مزاج، بے تکلف، سادگی پسند، سچا اور کھرا انسان تھا.مجھے یاد ہے اس نے ایک دن بیٹھ کر مجھے سمجھایا تھا کہ اپنے گھر کو سادہ رکھنا مجھے زیادہ سجے سجائے گھر پسند نہیں.اس نے کوئی خواہشات نہیں پالی ہوئی تھیں.مجھے ایک دفعہ کہا کہ میری کوئی بڑی خواہش نہیں ہے لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ اگر کبھی میری کوئی چھوٹی سی خواہش بھی ہو تو اللہ تعالیٰ میری وہ خواہش پوری کر دے اور میں تیرہ (13) سال سے گواہ ہوں کہ اللہ نے اپنے فضل سے اس کی معمولی سے معمولی خواہش کو بھی پورا کیا.ہاں مگر مجھے اس کی طبیعت دیکھ کر یقین ہے کہ اس نے دنیا کے لئے تو نہیں مگر آخرت کے لئے ضرور ایک بڑی خواہش کی ہوگی اور وہ اپنی جانی قربانی کی خواہش ہوگی اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے قبول فرمایا.جماعت کی محبت اور غیرت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے بہت محبت رکھتا تھا.اس نے ایک دو دفعہ اس قسم کا ذکر کیا جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ اس نے انجنیئر نگ کی لائن چھوڑ کر Computer میں M.S کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا تھا کہ جماعت کو آئندہ Computer Experts کی ضرورت ہو گی.جماعتی غیرت تھی اگر کبھی کسی نے معمولی سی بات اعتراض کے رنگ میں جماعت پر کی تو فوراً غیرت میں آجاتا تھا اور بڑا Solid جواب دیتا تھا.جماعت کے پیسے کا ضیاع پسند نہیں کرتا تھا.بعض جگہوں پر جہاں اس کی ذاتی رائے میں پیسوں کا ضیاع ہو رہا ہوتا تھا اسے سخت تکلیف پہنچتی تھی.صائب الرائے تھا.کسی قسم کا مشورہ مانگو تو ہر پہلو کو مہِ نظر رکھ کر مشورہ دیتا تھا.ایک

Page 288

287 وقت میں اسے احساس ہوا کہ واقف زندگی ہونے کی حیثیت سے اسے قرآن، حدیث اور عربی گرائمر کا خاص علم نہیں ہے تو اس نے درسِ قرآن کی کلاسز کہیں لگتی تھیں ان میں شمولیت اختیار کر لی اور ساتھ ہی حدیث اور عربی گرائمر کسی سے پڑھنی شروع کر دی لیکن مصروفیت کی بناء پر زیادہ عرصہ جاری نہ رکھ سکا.بعد میں پھر MTA پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ترجمہ القرآن کلاس سے استفادہ کرتا رہا.بہادر انسان تھا.چند سال پہلے بھی اس نے بڑی جرات کا مظاہرہ کیا.غیر از جماعت علماء کی کانفرنس کے موقع پر بہشتی مقبرہ میں ڈیوٹیاں لگیں.قادر وہاں نگران تھا.رات کے وقت چند غیر از جماعت اسلحہ برادرلڑکے بہشتی مقبرہ کی دیوار پھلانگ کر اندر آگئے تو یہ ان کے سامنے ڈٹ گیا اور انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا.شاید اس کی یہی ادا اللہ تعالیٰ کو بھا گئی کہ اس مرتبہ بھی اسی کو چنا.محنتی بے حد محنتی تھا.امریکہ پڑھنے گیا تو کچھ قرضہ جماعت سے لیا اور باقی وہاں انتھک محنت کر کے اپنی فیسیں جمع کیں اور پونے تین سال میں اپنی پڑھائی مکمل کر کے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو اطلاع کر دی.جو کام اس کے سپرد کیا جاتا تھا اسے پورا کرنے کے لئے دن رات کا ہوش بھلا دیتا تھا جب تک اسے احسن طور پر پورا نہ کر لے.اس نے بہت سے کام کئے لیکن سب کے سب خاموشی کے ساتھ کبھی میں نے اسے کام کا شور مچاتے یا مصروفیت کا اظہار یا رونا روتے نہیں دیکھا.ہاں مگر اس کی مصروفیت کے نتائج اپنی بہترین صورت میں نکلتے ضرور دیکھے ہیں.اپنے ابا کی زمینیں سنبھالیں تو ان پر اس قدر محنت کی

Page 289

288 کہ چند سالوں کے اندر ان کی شکل ہی بدل ڈالی جن دنوں مہتم مقامی تھا سیلاب آ گیا تھا تو مجھے یاد ہے رات دو تین بجے گھر واپس آتا تھا جب تک سیلاب کا زور رہا.خدمت والدین والدین اور بھائی بہنوں سے بہت محبت کرتا تھا.اپنے والدین کی بے حد خدمت کی.ان کے حقوق اپنی جگہ ادا کرتا رہا.میرے اور بچوں کے حقوق اپنی جگہ ادا کرتا رہا.ان دونوں کی ایک دوسرے کی وجہ سے کبھی حق تلفی نہیں کی.والدین کی ساری ذمہ داریاں ایسے اُٹھائیں جس طرح والدین اپنے بچوں کی اُٹھاتے ہیں.ان کے آرام کا خیال رکھتا تھا.پچھلی گرمیوں میں ایک دن بہت دیر سے دفتر سے آیا اور بتانے لگا کہ ابا کے گھر Inverter لگوا رہا تھا کیوں کہ آج کل بجلی بہت بند ہو رہی ہے ان کو تکلیف ہوتی ہے.ہر روز دن میں دو تین چکر ضرور ان کے گھر ان سے ملنے کے لئے لگاتا تھا وہ ربوہ سے باہر ہوتے تو ہر رات کو دیکھنے جاتا کہ چوکیدار آ گیا ہے کہ نہیں.انہوں نے بھی اس سے بہت پیار کیا.ماموں ( قادر کے ابا) کی کوئی چیز جو انہوں نے ابھی استعمال بھی نہیں کی ہوتی تھی اگر قادر کو پسند آجاتی تو اسی وقت ان کی کوشش ہوتی تھی کہ اسے دے دیں.اس کی غیر موجودگی میں جب میرے سے اس کے متعلق پوچھتے تھے تو قادر کہنے کے بجائے شہزادہ کہتے تھے ممانی ( قادر کی امی) کو بھی ہمیشہ اس کی صحت کی فکر رہتی تھی.تقریباً ہر روز ہی اسے صحت بنانے والی چیزیں بنا کر دیتی تھیں.خوش نصیب تھا وہ جو زندگی میں اپنے ماں باپ کی نظر میں شہزادہ تھا اور موت بھی جسے شہزادے جیسی نصیب ہوئی اور بڑی نصیبوں والا تھا وہ کہ اپنی ماں کی ” جزاکم اللہ قادر“ کی دُعا لے کر رخصت ہوا.دو

Page 290

289 اللہ تعالیٰ اس کے والدین اور بھائی بہنوں کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے.آمین نرم دل نرم دل کا تھا.کسی کی تکلیف پر فوراً آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے.جب میرے بھائی ( قمر سلیمان احمد ) کو گولی لگی ہے تو اس وقت ہم امریکہ میں تھے.ایک مہینے بعد واپس آئے.کچھ عرصہ بعد میری بھابھی اور بہن آپس میں بھائی کے گولی لگنے کا قصہ دُہرا رہی تھیں قادر ماتھے پر بازو رکھ کر لیٹا ہوا تھا.میری بہن کی نظر پڑی تو آنسوؤں کی لڑیاں اس کی آنکھوں کے کنارے سے بہہ رہی تھیں.مزاح طبیعت میں مزاح بھی بہت تھا.بے ساختہ بات کرتا تھا.اس کے بعض لطیفے تو میں یاد کر کے شاید ساری عمر ہنستی رہوں گی.لطیفے کو Enjoy بھی بہت کرتا تھا.میں جب بھی کوئی اچھا لطیفہ اس کی غیر موجودگی میں سنتی تھی، میری پہلی کوشش ہوتی تھی کہ قادر آئے تو اس کو سناؤں کیونکہ اس قدر دلچسپ طریقے سے ہنستا تھا کہ اس کی ہنسی پر ہی ہنسی آجاتی تھی.اب بھی جب کوئی اچھا لطیفہ سنوں تو بڑا دل چاہتا ہے کہ کہیں سے قادر کو سنا کر اس کے قہقہے سنوں.دوسرے جب کوئی خاص بات ہوتی تھی تو اس کے چہرے پر ایک خاص مسکراہٹ آجاتی تھی جس سے مجھے پتہ چل جاتا کہ اب تھوڑی دیر میں یہ کوئی اہم بات بتائے گا.ایک دفعہ سحری کے وقت اس کے چہرے پر وہی خاص مسکراہٹ تھی، میں نے قادر سے کہا بتاؤ کیا اہم خواب دیکھی ہے رات کو.تو ہنس پڑا کہ تمہیں کس طرح پتہ چلا، میں نے کہا کیونکہ تم رات کو بالکل

Page 291

290 ٹھیک سوئے تھے اب سحری کے وقت وہی خاص مسکراہٹ تمہارے چہرے پر ہے ضرور کوئی خاص خواب ہی دیکھی ہوگی.اور واقعی میرا قیاس درست نکلا کوئی خواب ہی دیکھی تھی جس پر مسکرارہا تھا.بس ایک مذاق جو مجھے اس کا کبھی پسند نہیں آیا وہ یہ کہ کئی دفعہ سانس روک کر لیٹ جاتا تھا اور میرے شور مچانے پر کہ قادر ایسے مذاق نہ کیا کرو بے حد ہنستا تھا.وفات سے ایک ماہ پہلے بھی سانس روک کر لیٹ گیا.میری نظر نہیں پڑی، اچانک زور سے اس کی آواز آنے پر میں نے پوچھا کہ قادر کیا ہوا تھا تو ہنس کر کہنے لگا کہ میں نے سانس روکا ہوا تھا کہ تم سمجھو گی کہ مر گیا ہے تو دیکھوں کہ تمہاری کیا حالت ہوتی ہے.آج اگر وہ یہ حالت دیکھ لے جو اس کے جانے کے بعد میری ہے تو میرے ساتھ وہ بھی تڑپ کر رو دے.میرے شوق پورے کئے شکار اور کھیل کا شوقین تھا اور Tough تھا ایبٹ آباد اسکول میں Football ٹیم کا Captain بھی رہا ایک دفعہ لاہور سے ایبٹ آباد تک کا سفر سائیکل پر کیا.Hiking پر بھی دو تین دفعہ گیا.ہم ناران گئے تو وہاں سے جھیل سیف الملوک تک ہماری بیٹی سطوت کو جو دو سال کی تھی کندھے پر اُٹھا کر پیدل گیا.میرے بھی اس قسم کے شوق پورے کئے.شادی کے بعد ہمارے پاس موٹر سائیکل تھی اور مجھے موٹر سائیکل سیکھنے کا بہت شوق تھا.قادر نے مجھے موٹر سائیکل چلانی سکھائی اور جب میں پریکٹس کرتی تھی تو میرے پیچھے بیٹھ جاتا تھا.ہمیں اپنی بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے گھر میں کم وقت دیتا تھا اس لئے زمینوں یا ربوہ سے باہر جہاں بھی ذاتی کام سے جاتا تھا (جو اسے زمینوں کے سلسلہ میں اکثر جانا پڑتا تھا) تو ہمیں بھی ساتھ لے جاتا تھا.چھٹی والے دن

Page 292

291 کبھی کبھی فیصل آباد اور کبھی سرگودھا کھانا کھلانے لے جاتا تھا موٹر وے کھلی تو کلر کہار لے گیا.ہم دونوں ہی سفر کے شوقین تھے اس لئے گرمی میں چھٹیوں میں سیروں کے علاوہ بھی ہم نے چھوٹے چھوٹے بہت سفر کئے اور یہ سفر اب یادگار بن گئے ہیں.نمایاں تبدیلیاں تین چار مہینوں سے قادر کی طبیعت میں نمایاں تبدیلی تھی.بہت زیادہ نرم مزاج ہو گیا تھا.مجھے ہمیشہ اس سے گھر میں وقت نہ دینے پر اور اسی مصروفیت کی بنا پر گھر کے بعض کام Late کرنے پرشکوہ رہا مگر ان تین چار مہینوں میں اس نے یہ شکوہ بھی دور کر دیا.گھر میں بھی وقت دینے لگا تھا اور گھر کے جو کام رُکے ہوئے تھے وہ بھی کر دیے، آخری دن ناشتے کی میز پر میں نے اسے کچھ کام یاد کروائے تو وہ تمام کام کروا چکا تھا.مجھے یاد ہے ہم پھولوں کی نمائش پر بیٹھے تھے میں نے قادر سے کہا تھوڑا سا وقت آرام کے لئے بھی نکال لو تو پہلی دفعہ قادر کے منہ سے سنا کہ ہاں اب میں فارغ ہوں بس صرف ایک کام رہ گیا ہے وہ کسی سے دعوت کا وعدہ کیا ہوا ہے یہ وعدہ پورا کرلوں تو فارغ ہو جاؤں گا.مجھے اس کے اس طرح بات کرنے پر حیرت بھی ہوئی اور واقعی چند دنوں کے بعد ہی ہر کام سے فارغ ہو کر وہ ہمیشہ کے لئے آرام کی نیند سوگیا.آخری دو دن تو دفتر سے آنے کے بعد اس نے تقریباً سارا وقت ہمارے ساتھ گزارا.یہ بھی اللہ کا احسان ہے کیونکہ وہ تو جانتا تھا کہ اب بس دو دن اس کے ہمارے ساتھ باقی رہ گئے ہیں.11 اپریل کو میں سیالکوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کمرہ جہاں آپ 4 سال تک رہائش پذیر رہے دیکھ کر آئی تھی واپسی پر مجھے اتنی اُداسی تھی کہ میں 2 دن قادر کو یہی کہتی رہی کہ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنا

Page 293

292 دل وہیں چھوڑ آئی ہوں.14 اپریل کی صبح ناشتے پر بھی میں اسے وہاں کی باتیں بتاتی رہی.پھر وہ ناشتہ کر کے تیار ہو کے چلا گیا اور میں اسی اُداسی کی وجہ سے میز پر بیٹھی روتی رہی اور وہاں سے اُٹھ کر آئی تو وہ اپنی کوئی چیز ڈھونڈ رہا تھا اور پھر ہمیشہ کے لئے اس گھر کو خدا حافظ کہہ گیا.اس کا وہی چہرہ میری نظر میں ٹھہر گیا ہے.شاید میری اُداسی مجھے پہلے سے خبر دے رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے.میرا دوست وہ میرا بہترین دوست تھا، میری خوشیوں کو ترجیح دینے والا اور میرے لئے غیرت رکھنے والا ، وہ میرے دل کی ڈھارس تھا، اس کے بغیر میں کتنی اداس ہوں کوئی نہیں جان سکتا سوائے خدا کی ذات کے.اپنے بچوں سے بے حد پیار کرنے والا باپ تھا.بچوں میں اس کی جان تھی.بچے اس کو اس قدر یاد کرتے ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتی.مجھے اپنے دُکھ سے زیادہ بچوں کی اُداسی تکلیف دیتی ہے کیونکہ میں نے خود چھوٹی عمر سے یتیمی کا دُکھ دیکھا ہوا ہے میں جانتی ہوں کہ یہ دُکھ بعض دفعہ کس قدر بے قرار کر دیتا ہے.Twins میں سے ایک بیٹا سارا دن قادر کی تصویر ساتھ لے کر پھرتا ہے.کرشن چند دن ہوئے مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ماما قیامت کب آئے گی.میں نے کہا بیٹے اس کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے.کیوں تم کیوں پوچھ رہے ہو تو روتے ہوئے کہنے لگا ماما دُعا کرو قیامت جلدی آجائے میرا بابا سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ اس عارضی سہارے کے جُدا ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہمارا سہارا بنے گا جو اصل اور دائمی سہارا ہے اور اسی کی ہمیں ضرورت ہے.وہ اپنے اُستاد کے لئے بہترین شاگرد تھا.اس کی وفات پر اس کے

Page 294

293 ایک غیر از جماعت اُستاد بشارت صاحب نے جو اس کے ہاؤس ماسٹر بھی رہے ہیں اور اب ایبٹ آباد پبلک اسکول کے وائس پرنسپل ہیں.ماموں کو تعزیت کے خط میں لکھا.چند حصے لکھتی ہوں.دو غلام قادر ساتویں میں میرے پاس آیا اور مجھے اس کی تربیت پر فخر ہے کہ وہ اپنی قابلیت سے کالج کا Senior Perfect بنا اور پھر بورڈ میں صوبہ بھر میں اول آیا پھر لکھتے ہیں.” مجھے غلام قادر کتنا عزیز تھا وہ خود بتا سکتا تھا اور جانتا تھا اور میرا دل جانتا ہے.مجھے کتنا دکھ اور رنج ہے یہ میرا ہی دل جانتا ہے.اس کے انمٹ نقوش میرے دل میں بڑے گہرے ہیں...غلام قادر تو ان معدودے چند میں سے ہے جن پر میری جان بھی قربان ہے 66 انمول خراج تحسین اور سب سے بڑا خراج تحسین تو اسے خلیفہ وقت نے دیا جس کا کوئی مول نہیں.اس قدر محبت سے اس کے لئے آنسو بہائے.اتنے پیار سے اس کا ذکر کیا اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا اپنے مسیح موعود علیہ السلام پر کیا ہوا الہام " غلام قادر آگئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا اس پر چسپاں کیا.وہ یہ سب سن لیتا تو خوشی سے جھوم اُٹھتا.میری اپنے رب کے حضور التجا ہے کہ اے اللہ ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں سے بنانا تو نے ہم جیسے کمزوروں کو اپنی راہ کے لئے چنا تو بلند شان والا ہے اور ہم انتہائی گناہ گار، ہمیں ثبات قدم عطا فرما.تو خود ہم سب کا محافظ ہو جانا.حضرت صاحب نے فون بند کرتے ہوئے آخر میں ان الفاظ میں مجھے دُعا دی تھی کہ :

Page 295

294 ” میری بچھو بیٹی کا خدا حافظ ہو یا اللہ تو اپنے پیارے خلیفہ کی یہ دُعا میرے حق میں اپنے فضل سے قبول فرما لے تو میری زندگی بن جائے کیونکہ اے خدا جس کا تو نگہبان ہو جائے اسے پھر کسی چیز کی ضرورت نہیں.اے خدا قادر کے آنگن کے یہ چار پھول جن کی ساری ذمہ داری اب مجھ پر آن پڑی ہے اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں میری رہنمائی فرمانا.ان سب کو اس سے بڑھ کر خادمِ دین بنانا اور اسی کی طرح بہادر بھی.آمین مرے مولیٰ کٹھن ہے راستہ اس زندگانی کا مرے ہر ہر قدم پر خود ره آسان پیدا کر تری نصرت سے ساری مشکلیں آسان ہو جائیں ہزاروں رحمتیں ہوں فضل کے سامان پیدا کر جو تیرے عاشق صادق ہوں فخرِ آلِ احمد ہوں الہی نسل سے میری تو وہ انسان پیدا کر (در عدن) (روز نامہ الفضل 10 جولائی 1999ء)

Page 296

295 قادر کی اولاد اللہ تعالیٰ قادر کے بچوں کو اپنی خاص حفاظت میں رکھے یہ معمولی بچے نہیں ہیں حضرت خلیفہ اسیح الربع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے: ان بچوں میں جو خون اکٹھے ہو گئے ہیں وہ تو لگتا ہے مجمع..البحرین ہے“.ددھیال کی طرف سے حضرت مسیح موعود و مہدی دوراں علیہ السلام اور حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم اور ننھیال کی طرف سے حضرت میر محمد الحق صاحب اور حضرت مصلح موعود کا خون ان کی رگوں میں شامل ہے.بچوں کے پڑدادا حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد اور دادا صاحبزادہ مرزا مجید احمد ہیں.جب کہ دادی صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبزادی نواب امتہ الحفیظ بیگم اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کی بیٹی ہیں.بچوں کی نانی صاحبزادی امتہ الباسط حضرت سیّدہ ام طاہر کی بیٹی اور حضور انور کی بہن ہیں.اس طرح حضور اور آپ کے والدین سے خونی رشتے نے بچوں کی رگوں میں اتنے پاکیزہ خون جمع کر دیے ہیں.جس کی کوئی مثال خاندان میں کہیں نہیں دکھائی دیتی.قادر اور نچھو کے آنگن کا پہلا پھول صالحہ سطوت ہیں جو 24 رمئی 1990 پیدا ہوئیں ڈیڑھ سال بعد 6 جنوری 1992ء کو کرشن احمد اور 18 نومبر 1996ء کو دو جڑواں بیٹے محمد صح اور نورالدین پیدا ہوئے.مفل

Page 297

296 ذمہ دار شوہر جب باپ بنا تو مثالی باپ بنا.بچوں کی نگہداشت، پرورش، تعلیم و تربیت میں ہر ممکن خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے مطابق عمل کیا.بچوں کی پیدائش سے پہلے سے نیک اولاد کے لئے دعا کرتے پوری کوشش ہوتی کہ گھر میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو بچوں کے کان میں پڑنا نا مناسب ہو.بچوں کی صحت و خوراک پر خاص دھیان دیتے بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لانے کا کام خود کرتے اسکول کے کام میں دلچسپی لیتے.اور خاص طور پر کھیل میں بچوں کا ساتھ دیتے اس طرح بچوں کو گلی محلے میں جانے کی ضرورت کم پڑی.قادر کے ساتھ بچے اتنے بے تکلف تھے کہ دروازے کی گھنٹی کی آواز سنتے ہی بابا آ گئے بابا آ گئے کے شور سے استقبال ہوتا.اندر آتے ہی قادر سنجیدہ اور بردبار شخصیت کی بجائے بچوں میں بچہ ہو جاتے اور دل کھول کر ہنستے کھیلتے.قادر نے اپنے بچوں کی دو خوشیاں دیکھیں ایک بڑے بیٹے کا عقیقہ دوسری بیٹی سطوت کی آمین.اس کے ساتھ ہی جڑواں بیٹوں کے عقیقے کئے سارے خاندان کو بلایا.بہت اچھے فنکشن ہوئے.خوب رونقیں لگیں لائٹیں لگوائیں.قادر خود تو سادگی پسند تھے یہ سب دادا دادی کی فرمائش پر انہیں کے گھر پر ہوا سارا انتظام قادر نے خود کیا اور بہت خوبصورت کیا چاروں طرف قناتیں لگیں چوکے،صوفے قالین بچھے سطوت دادی کے تیار کردہ حیدر آبادی جوڑے میں منھی سی دلہن بنی ہوئی تھی اور بچے خوشی سے گھوم رہے تھے.قادر نے ان بچوں کا شادی بیاہ تو نہیں دیکھنا تھا کچھ خوشی کے لئے اہتمام ہو گیا.باپ کی شہادت کے وقت سطوت کی عمر آٹھ (8) سال تھی قدرت کے عجیب رنگ ہیں جب اس کی امی کے سر سے باپ کا سایہ اٹھا وہ دس سال

Page 298

297 کی تھیں.باپ سے محرومی کا کوئی بدل نہیں ہوتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو میل و محبت کا ایسا درس دیا ہے کہ گویا ساری جماعت ایک کنبہ ہے اور خلیفہ وقت حقیقی باپ اور ماں سے بڑھ کر پیار کرنے والا، مشکل میں زیادہ قریب آکر سر پر ہاتھ رکھنے والا.بچی سطوت نے اُداس ہو کر حضور کو دعا کے لئے نہ جانے اپنی زبان میں کیا کیا لکھا ہو گا کہ جس کا حضور ایدہ الودود نے اتنا پیارا جواب دیا ہے.لندن 9-7-99 پیاری عزیزہ صالحہ سطوت سلمھا اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته تمہارا خط ملا.مجھے تم سب بہت یاد آتے ہو تمہاری امی کو تو بہت دُعائیں دیتا ہوں.اس نے تمہارے عظیم باپ کی شہادت کے بعد بہت حوصلے اور صبر کا پاکیزہ نمونہ دکھایا ہے.مجھے تم سب پر فخر ہے.تمہارا ابا تو میرے بڑے پیارے تھے اور بڑے قریب تھے.اس کی شہادت کو سلام کہتا ہوں.اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کا خود کفیل بن جائے گا اور علم و معرفت سے نوازے گا.عزت، دولت تمہارا نصیب ہوگی.میری طرف سے اپنی امی کو اور دادی جان، دادا جان اور نانی جان کو بہت بہت محبت بھرا سلام اور اپنے بھائیوں کو بے حد پیار.

Page 299

298 والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة اصیح الرابع مفد قادر کی شہادت کے وقت نورالدین اور محمد مصلح صرف اڑھائی سال کے تھے.انہیں اپنے محبت کرنے والے باپ کا کچھ بھی یاد نہیں.جبکہ سطوت اور کرشن کے دلوں میں اپنے بابا کی یادیں ایک قیمتی سرمائے کی طرح نقش ہیں.اپنے نصیب کی اس دولت کو وہ بہت عزیز رکھتے ہیں اور ذکر کرتے رہتے ہیں.سطوت نے ماچس کی ڈبیوں سے ایک مکان بابا کی مدد سے بنایا تھا.جو ایک نمائش میں رکھنا تھا.باپ بیٹی کی مشترکہ محنت سے بنا ہوا یہ کھلونا مکان جب نمائش میں رکھا گیا تو باپ شہید ہو چکا تھا.بچوں نے ایک گفتگو میں بتایا: بابا ہمیں ہفتے میں دو تین بار زمینوں پر لے جاتے تھے جہاں ہم کھلی فضا میں کھیلتے اور اپنے ٹیوب ویل پر نہاتے کبھی کبھی سوئمنگ پول پر لے جاتے تھے جہاں خود بھی ہمارے ساتھ نہاتے تھے بابا ہی نے ہمیں سوئمنگ سکھائی تھی.ی.جب ہم پاکٹ منی کے طور پر پیسے مانگتے تو آپ دے دیتے جس میں سے ہم کچھ خرچ کر لیتے اور بقیہ بابا نے جو ایک غلّہ لا کر دیا تھا اس میں ڈال دیتے جس میں سے ضرورت کے وقت ہم پیسے نکال لیتے اور کبھی کبھی کہانی بھی سناتے تھے گھر میں ہمارے ساتھ فٹ بال اور کرکٹ کھیلتے آپ ہمیں بہت پیار کرتے.چھٹیوں میں

Page 300

299 اکثر سیر و تفریح کے لئے لے جاتے ہم نے اپنے بابا کے ساتھ کاغان، ناران، سکیسر کی سیر کی تھی.قادر صاحب کی بیگم اور بچوں پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ دُعاؤں کی ایک سلسبیل شروع ہوگئی ہے.جتنے دل دُکھے درد سے دُعا بھی کرتے رہے اور کرتے رہیں گے.جناب محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب امیر جماعت امریکہ نے نچھو کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا: ” تمہارے دو مضمون پہلا مختصر سا نوٹ اور دوسرا مفضل، الفضل میں پڑھا بڑے مؤثر اور تمہاری دلی کیفیت کے آئینہ دار تھے بے اختیار آنسوؤں اور بے شمار دعاؤں کے ساتھ پڑھے اللہ تعالیٰ تمہیں خاص کر....اور باقی سب کو اس دل دہلا دینے والے صدمہ کی برداشت کی طاقت بخشے حضور نے اور پھر جماعت نے بڑے گہرے جذبات کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ سب کی دُعائیں قبول فرمائے.“ خاکسار مظفر احمد دُعاؤں کے سلسلے میں لپٹی ہوئی خوشخبریاں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہیں.ربوہ سے محترم سعید انصاری صاحب نے تحریر کیا: سولہ سترہ اپریل جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب جب یہ عاجز بعد عشاء معمول کی دُعائیں کرتے ہوئے سویا تو نیند کی حالت میں تمام شب قرآنِ کریم کی آیت کا یہ ٹکڑا

Page 301

300 زبان پر جاری رہا جو بیداری تک جاری رہا.آیت کا وہ ٹکڑا یہ تھا.اِنَّ رَادُّوهُ إِلَيْكَ چونکہ محترم مرزا غلام قادر صاحب کی وفات اور شہادت کا اثر دل پر گہرا تھا لہذا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ یہ قرآنی الفاظ اُن کے متعلق ہیں اور چونکہ وہ خاکسار کے ہمسایہ تھے اور اُن کے دونوں بچے سطوت اور کرشن عاجز کی بیٹی سے قرآن کریم پڑھتے تھے لہذا خاکسار کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ کرشن (اللہ تعالیٰ اُسے نظر بد سے بچائے ) ماشاء اللہ اپنے شہید والد کی طرح بہت ذہین اور سمجھدار ہے.یہ بچہ انشاء اللہ تعالیٰ اپنے خاندان کے لئے ایک روشن چراغ ثابت ہوگا.واللہ اعلم بالصواب محمد سعید انصاری حضور پُر نور نے 23 اگست 2000ء کو ایک خاص اُردو کلاس لگائی.از راه شفقت قادر کے بچوں کو بطور خصوصی مہمان بلایا اور سب بچوں سے اُن کا تعارف کروایا.معصوم بچوں کو دیکھنے والوں نے بہت دُعائیں دیں.

Page 302

301 قادر کی خوش دامن صاحبزادی امتہ الباسط کے تاثرات قادر کے والد اور والدہ دونوں رشتے میں میرے کزن ہیں.بچی کا رشتہ کرتے وقت ہمیں اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ ہونے والا داماد وقف زندگی ہے.ہماری تو خود خدا کے فضل سے یہ پانچویں نسل ہے جو واقف زندگی ہے یعنی اب میرا پوتا میر قمر سلیمان کا بیٹا بھی وقف ہے ہم سمجھتے ہیں کہ دُنیا تو سب ہی کماتے ہیں جب کہ دین کمانا ہی تو اصل بات ہے.قادر کو شادی سے پہلے ہم زیادہ نہیں جانتے تھے مگر جب داماد بنا تو ہمارے ساتھ اُس کا رویہ بے تکلفانہ تھا.ہر ماں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی بیٹی اپنے گھر سکھی رہے اس لحاظ سے ہم مکمل طور پر مطمئن تھے کہ اُس نے ہماری بیٹی نصرت کو محبت اور سکون دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی.ہمارا گھر اُس کے دفتر کے پاس ہی تھا اس لئے دفتری اوقات کے دوران بھی چھوٹی موٹی ضرورت پڑتی تو نہیں آجاتا.وہ بہت کم گو تھا تاہم گھر میں اگر بات کرتا تو زیادہ تر مردوں سے، عورتوں سے کم اکثر میرے بیٹے قمر سلیمان اور اس کے درمیان مختلف موضوعات زیر بحث رہتے.ان دونوں کا آپس میں بہت پیار تھا میں اپنی بیٹی نصرت اور قادر کے پاس تین ماہ امریکہ میں بھی رہی ہوں وہاں بھی قادر نے میری چھوٹی چھوٹی بات اور پسند کا خیال رکھا.

Page 303

302 نصرت کی بھا بھی محترمہ امتہ الکبیر لینی اہلیہ محترم سید قمر سلیمان احمد کے تاثرات قادر میرے ماموں کا بیٹا ہے.میں اپنے ماموں ہی کے گھر میں تھی جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے میرا نکاح سید قمر سلیمان صاحب سے پڑھایا.میں نکاح فارم پر دستخط کر کے کمرہ سے باہر نکلی تو سامنے قادر ہبیٹھا تھا میں نے ذرا جذباتی سا ہو کر کہا: قادر میرے لئے دُعا کرنا: سے کہنے لگا: قادر اُس وقت 18 سال کا تھا چھوٹے بھائی کی طرح بڑے ادب میں تو ہمیشہ ہی آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں.ایک واقعہ مجھے بہت یاد رہتا ہے.ساہیوال کے اسیرانِ راہ مولا رہا ہو کر آئے تھے لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی.ہم بھی وہاں موجود تھے میرے دل میں خیال آیا کہ ابا کا بھی دل چاہ رہا ہو گا، مجھے قادر نظر آیا، میں نے اس سے خواہش کا سرسری سا اظہار کیا یہ نہیں کہا تھا کہ قادر تم انہیں لے آؤ.بعد میں میں نے ابا سے افسوس کا اظہار کیا کہ اس تاریخی موقع پر آپ کو نہ لے جاسکے تو اب نے نے بتایا کہ قادر انہیں آکر لے گیا تھا.خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی کہ کس قدر خاموش محبت کا اظہار کرتا تھا.میری نند، نصرت اس سے بیاہی گئی.ہمارا گھر اُس کے دفتر کے پاس تھا اکثر آجاتا.ٹی وی پر عموماً M.TA دیکھتا یہاں بھی گھر کے فرد کی طرح رہتا

Page 304

303 نہ کوئی تکلف نہ تصنع چائے یا شربت کی طلب ہوتی تو ہولے سے اشارہ کر دیتا.خاموش اور گہرا آدمی تھا.طبیعت میں خشکی نہ تھی.گفتگو میں Solid بات کرتا.بے حد نیچرل تھا.اُس نے اپنی مصروفیات کا کبھی ذکر نہ کیا ہم نے کبھی اُس کے منہ سے سسٹم یا حالات کی کوئی شکایت نہ سنی اور نہ ہی اُس نے کبھی یورپ اور یہاں کی سہولتوں کا تقابلی جائزہ لیا.وہ حقیقت میں کا صحیح مصداق تھا.راضی ہیں ہم اُس میں جس میں تری رضا ہو ایک بار میری امی نے کہا کہ گھر کے ساتھ جو پلاٹ ہے وہاں اگر سبزیاں لگ جائیں تو بہت اچھا ہو قادر سے اس خواہش کا اظہار کیا اور وہ اگلے ہی دن خود ٹریکٹر لا کے اور ہل چلا کے زمین تیار کرنے لگا.وہ بے حد مصروف تھا لیکن اس بات کا بے حد خیال رکھتا تھا کہ کسی بڑے نے اگر کوئی بات کہی ہے تو اس پر پہلے عمل کرنا ہے.

Page 305

304 محترمہ امة الناصر نصرت صاحبہ کے ساتھ ایک اس کتاب کی تیاری کے سلسلے میں خاکسار نصرت سے گفتگو کرنے کے لئے تحریک جدید کے کوارٹر نمبر گیارہ میں داخل ہوئی تو ایک محشر خیال ہم رکاب تھا.نصرت اس زندہ تاج محل میں تنہا تھیں قادر کی Study میں ایک میز پر ایک کمپیوٹر سوگوار پڑا تھا.الماری میں ترتیب سے رکھی ہوئی اُس کی کتابیں مانوس لمس کو ترس رہی تھیں.برآمدے میں بڑے فریم میں لگی ہوئی مختلف خوشگوار یادگار لمحوں کی تصاویر خاموش زبان سے ایک محبت کرنے والے جوڑے کی داستانِ حیات سنا رہی تھیں.گھر کی ایک ایک چیز وہیں تھی جہاں قادر کے ہاتھ اُسے رکھ گئے تھے.خواب گاہ کے منظر میں تصاویر کے ساتھ اُن کی خوشبو بھی آنے لگی.زندگی کے ساتھی کے بغیر نصرت کو اس کمرے میں رہنا کیسا لگتا ہوگا.روتے روتے سینے پر سر رکھ کر سوگئی ان کی یاد کون پیا تھا کون پریمی ، بھید نہ پایا ساری رات سرہانے کی کھڑ کی کھولی تو چھوٹا سا صحن خوبصورت باغیچے کا جاندار منظر پیش کر رہا تھا شیڈ والا لیمپ اس کے حسن میں اضافہ کر رہا تھا.یہ نظارہ بہت ہی بھلا لگا چیزیں تو یہاں دنیا میں رہ جاتی ہیں اُن کی خوبی تو یہ تھی کہ وہ اپنی خوشگوار یادیں چھوڑ کر گئے تھے.اپنی ماں کی ہم شکل نچھو کے چہرے پر غم کی

Page 306

305 پر چھائیاں دیکھنا بڑا مشکل کام ہے.کسی کے غم کریدنا اچھا تو نہیں لگتا مگر اپنے پیاروں کو یاد کرنا بہت اچھا لگتا ہے.نچھو نے بچے اپنی امی کے گھر بھیج دیے ہوئے تھے اور چائے بنا کے رکھ لی تھی اس لئے ہم نے جی بھر کے قادر کی باتیں کیں نچھو ذہین اور سمجھدار ہیں کم عمری میں ذمہ داریوں کے احساس نے اُن کی خود اعتمادی میں اضافہ کیا ہے.دل میں اُتر جانے والا گفتگو کا انداز اپنا اسیر بنا لیتا ہے.قادر کے بچے بہت پیار کرنے والی ماں کی آغوش میں پرورش پا رہے ہیں اللہ تعالیٰ خود مربی وکفیل ہو.آمین ماحول کو متوازن رکھنے کے لئے موضوعات میں تنوع سے بہت دلچسپ باتیں بھی معلوم ہوئیں نچھو نے بتایا کہ ہم دونوں جونیئر ماڈل اسکول میں پانچویں تک ساتھ پڑھے تھے.قادر جب بھی زیادہ تر خاموش ہی رہتا (عمر میں بہت کم فرق ہونے کی وجہ سے نچھو اسی طرح کہتی ہیں) مگر ہنستا بہت تھا بہت پیارا ہنستا تھا بعض دفعہ تو اُس کے بننے کے انداز پر ہنسی آجاتی.مجھے سے پیار کی بعض باتیں تو اُس نے خود مجھے بھی نہیں بتائی ہوئی تھیں.ہمارے رشتے کے بعد Slam Book میں زندگی کے ” بہترین لمحات“ کے عنوان کے تحت اس نے لکھا تھا.The happiest moment of my life is my rishta with Nusrat.ہم دونوں ہی اس شادی سے بہت خوش تھے اور ساتھ رہتے ہوئے یہ احساس ہوتا کہ ہر چڑہنے والا دن ہماری چاہتوں میں اضافہ کرتا.وہ ایک متوازن شوہر تھا اُس کی داڑھی تو تھی مگر وہ ملا نہیں تھا.ہم بہت اچھا وقت گزارتے“.

Page 307

306 ہم نے سارے البم دیکھے ایک ایک تصویر کی روداد دوہرائی.” دیکھیں اس میں ہم سیر کر رہے ہیں.یہ فلاں علاقہ ہے اس تصویر میں بچوں کو گود میں اُٹھایا ہوا ہے بڑا اور ہم مچاتے تھے.یہ تصاویر ہم نے آٹو میٹک کیمرے سے لی تھیں.آپ یہ دیکھ تو لیں لیکن کتاب میں نہ لکھ دینا.“ نچھو کے بے ساختہ الفاظ کے ساتھ اُن کی آنکھوں کی خاموش اُداسی دل میں گہرا گھاؤ لگا رہی تھی.مگر ایک سوال جو میں سوچ کر آئی تھی پوچھ ہی لیا.آپ کو کیسے خبر ملی تھی شہادت کی؟ میں کچن میں کھانا بنا رہی تھی جب قادر کی بہن نے بتایا کہ قادر کو گولی لگ گئی ہے اور وہ چینوٹ اسپتال میں ہے جلدی چلو.میں سارا راستہ اُس کی کامل صحت والی زندگی کی دعا مانگتی رہی.مجھے علم نہیں تھا کہ اُسے گولی کہاں لگی ہے.بے اختیار دعا کر رہی تھی کہ خدایا اُسے محتاجی کی زندگی سے بچانا.مچھو نے یادوں کے سارے دریچے کھول دئے عجیب کھوئے کھوئے انداز میں بتایا.قادر کی شہادت سے چند دن پہلے پھولوں کی نمائش ہوئی تھی اُس میں ایک دن میں اور قادر کی بہن فائزہ بیٹھے قادر کا انتظار کر رہے تھے جس نے تھوڑی دیر میں آنا تھا فائزہ نے کہا کہ دیکھو قادر آ گیا ہے.اس کی بات پر میں نے مڑ کر دیکھا تو قادر کے چہرے پر کچھ ایسا تھا جسے میں بیان نہیں کر سکتی لیکن وہ چہرہ ہمیشہ کے لئے میرے ذہن میں نقش ہو گیا.اُس پر کوئی خاص بات تھی کہ میں لمحہ بھر کے لئے چونک گئی تھی حالانکہ رات کا وقت تھا اور وہاں بہت سے لوگ تھے مگر اس ایک لمحے سب چہرے پس منظر میں کھو گئے تھے صرف

Page 308

307 قادر کا چہرہ نمایاں تھا.اسی قسم کا احساس مجھے شہادت سے دو دن پہلے ہوا وہ گھر آیا.اپنی Study میں داخل ہوا.اُس نے میری طرف دیکھا تو اُس کا چہرہ اُسی طرح روشن اور شاندار ہو کر سامنے آیا جیسے چمکتا ہوا چاند ہو.میں اس تجربے کو کوئی نام نہیں دے سکتی مگر مجھے اسی طرح محسوس ہوا تھا.بیوی کی اپنے شوہر کے کردار پر رائے کی کتنی اہمیت ہوتی ہے اس کا اندازہ ہمیں سیدۃ النساء حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اُس بیان سے ہوتا ہے جو آپ نے پہلی وحی کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گھبراہٹ دور کرنے کے لئے دیا تھا.شوہر تو سب کہہ دیں گے: أَنَا خَيْرُ كُمْ لِاهلِى مزا تو یہ ہے کہ بیوی کہے کہ میرے شوہر نے میرے ساتھ بہترین سلوک کیا.نصرت نے آپس کے پیار کی کئی باتیں بتائیں جن سے گھر کی فضا میں محبت کے راج کا علم ہوتا تھا کھانے پہننے کے ذکر میں بتایا: ”کھانے میں اُسے سبزیاں پسند نہ تھیں بلکہ قیمہ، گوشت اور کباب وغیرہ شوق سے کھاتا تھا چاول بھی پسند تھے.کھانا بہت تھوڑا لیتا تھا لیکن وقفے وقفے سے پسند کی کوئی چیز کھاتا رہتا.یعنی ایک ہی وقت میں سیر ہو کر نہ کھاتا تھا لباس صاف ستھرا اور پسند کے مطابق پہنتا تھا.“ گھروں میں آپس کی رفاقت سے جو محبت بھری فضا بنتی ہے اُس کے مظاہر ایسے نہیں ہوتے جنہیں تحریر میں لایا جاسکے.آنکھوں کی چمک، چہرے کی رونق، کسی وعدے کو پورا کرنے کی لذت کبھی انتظار میں یکدم سامنے آکر کوئی تحفہ پیش کر دینا.سب محسوسات کی باتیں ہیں نچھو کو کسی شادی میں ملتان جانا ہے سیٹ نہیں مل رہی.قادر یہ نہیں کہتے کہ سیٹ نہیں ملی اب کیا ہوسکتا ہے بلکہ

Page 309

308 کہتے ہیں کہ میں ٹیکسی کرا دیتا ہوں تم ملتان چلی جاؤ.نچھو کے بھائی کو ڈاکو زخمی کر کے چلے جاتے ہیں تفصیل سنتے ہوئے قادر کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگتے ہیں.کیسی کیسی محبت بھری ادائیں ہیں جن سے دلوں کے نگر آباد رہتے ہیں.قیمتی جذبوں سے سجے گھر میں رہنے والے قادر نے ایک دفعہ نچھو کو سمجھایا کہ ہم گھر کو ساز و سامان سے نہیں سجائیں گے.مجھے سادے گھر پسند ہیں.وہ زندگی وقف تھے.انہیں تو اللہ تعالیٰ کے لئے جینا تھا نہ کہ دنیاوی عیش کے سامانوں کے لئے.نصرت اور بچوں کے لئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ان کو سلسلہ در سلسلہ خوشخبریوں کا حقیقی وارث بنائے.آمین

Page 310

309 باب 10 حضرت خلیل اصبح از ربیع اید و اللہ تعالی خليفة کی دلداریاں تو آج مجھ سے وعدہ ضبط الم نہ لے ان آنسوؤں کا کوئی نہیں اعتبار دیکھ بند شکیب توڑ کر آنسو برس پڑے اپنوں پہ بھی نہیں ہے مجھے اختیار دیکھ

Page 311

310 ابا پاکستان سے فون آیا ہے.قادر کو گولی لگ گئی ہے.ہیں کیا کہہ رہی ہو؟ جی ابا قادر کو گولی لگ گئی ہے.کاش فائزہ کی بات کہنے سننے کی غلطی ہو حضور نے مزید حیرت سے کہا کیا کہہ رہی ہو؟ پھر بیٹی کے چہرے پر سنگین سچائیاں بکھری دیکھ کر حیات و ممات کے مالک کے حضور سرتسلیم خم کر دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون پل پل دلخراش خبریں آ رہی تھیں.دشمنوں نے ایسا تیر مارا تھا کہ رحیم و ودود خدا تعالیٰ کی دستگیری نہ ہوتی تو یہ بن کا بر بھی ہل کے رہ جاتا.قدسیہ بیگم کا فون آتا ہے.حضور میرا ہیرا بیٹا چلا گیا.وہ تمہارا ہی نہیں میرا بھی ہیرا بیٹا تھا بھائی موجی کا خیال رکھنا اُن کا دل کمزور ہے.آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی گلو گیر آواز، اپنا دل پارہ پارہ مگر بھائی موجی کے کمزور دل کا خیال رکھنے والی یہ ہستی اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی کا سایہ بن کر دکھی دلوں کا سہارا بن گئی.حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک شفیق ماں کی طرح بانہیں پھیلا کر غم زدہ خاندان کو اپنی آغوش میں لے لیا باپ کی ٹوٹی کمر کا سہارا بن گئے ماں کی بلکتی گود کو صبر کے اجر کے مژدہ سے بھر دیا.بیوہ کے سر پر رحمت کا سائبان بن گئے.بے باپ کے بچوں کو یتیمی کے احساس سے بچانے کے لئے

Page 312

311 اُن کے سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھا.جانے والے کی حیات ابدی کا شعور راسخ کر کے سب کو تنہائی کی اذیت سے بچا لیا.ہم سب نے دل کی آنکھوں سے آپ کے صدمے کو قدرے چھلکتے ہوئے دیکھا مگر کمال برداشت سے حوصلہ قائم رکھتے اور حوصلہ دیتے ہوئے بھی دیکھا.محبت کرنے والی جماعت کے چھوٹے بڑے سب آنسو بہا رہے تھے مگر اپنے آقا کی طرف دیکھا نہ جاتا تھا مولیٰ کریم نے اسی ” نادار کو ناداروں کا سہارا بنا دیا.غم کی لہریں اپنی جگہ فرائض اپنی جگہ اُسی دن شام کو آپ نے اردو کلاس کی ریکارڈنگ ملتوی نہیں کی بلکہ بے بسی ہائے تماشا کے اسیر بڑے کر بناک لہجے میں اردو کلاس کو ” آج کی خبر سناتے ہیں.شہادت کی خبر : آج سب سے پہلے ایک غم اور خوشی کی خبر ہے خوشی اس لئے کہ شہادت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہو وہ دائی زندگی کی بشارت ہوتی ہے بہت عظیم خبر ہوتی ہے.اور اس میں پچھلوں کے لئے غم بھی ہوتا ہے.آج کی خبر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پڑ پوتا جو ایک بہت ہی اعلیٰ درجے کا واقف زندگی تھا اُن کا نام تھا غلام قادر شہید ہو گیا ہے.دھرا رشتہ : فرمایا اس سے میرا دُہرا رشتہ بنتا تھا.اصل رشتہ تو اس کے پُر خلوص وقف کا تھا.بہت اعلیٰ درجہ کا واقف زندگی تھا اور بہت اچھی تعلیم حاصل کی.لیکن قطعاً دنیا کی پرواہ نہیں کی.اور وقف کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.وہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کا پوتا اور صاحبزادہ مرزا مجید احمد اور قدسیہ بیگم جو ہمارے پھوپھا جان کی بیٹی ہیں ان کا بیٹا ہے.

Page 313

312 حضور نے رقت انگیز کیفیت میں فرمایا اور دوسرا رشتہ یہ ہے کہ ہماری بہن امة الباسط اور میر داؤد احمد صاحب مرحوم کی بیٹی نچھو کا میاں ہے نچھو مجھے بچپن سے ہی بہت پیاری ہے.کیونکہ وہ بھی جب 9 سال کی تھی.تو میر داؤد احمد صاحب فوت ہو گئے.بالکل چھوٹی سی تھی اور مجھ سے بہت پیار کرتی تھی.اس لئے کہ میں بھی اس سے بہت پیار کیا کرتا تھا ہمیشہ.نچھو کے پیٹ سے جو اولاد ہوئی ہے اس کی بڑی بیٹی کی عمر نو سال ہے.اور کیلے کو اللہ تعالیٰ نے واپس بلالیا.پیار سے ہم انہیں کی کا کہا کرتے تھے.اب ساری تحقیق ہو رہی ہے بہت گہری سازش تھی جس کے نتیجے میں ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا.کام نہیں چھوڑنے : جائے گی.فرمایا:-.اس خیال سے آج سب سے پہلے جو نظم آپ کے سامنے پیش کی ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلاء ہو تا کہ سب کو یاد رہے.کہ جو کچھ بھی ہو ہم نے اپنی زندگی کو جس طرح خدا نے فرمایا ہے اسی طرح گزارنا ہے.پہلے بھی میں نے اعلان کیا تھا چاہے کچھ بھی ہو میں نے اپنے کام نہیں چھوڑنے.جو بھی کام میرے سپرد ہیں ایک دن بھی ناغہ نہیں کرنا.آصفہ کی وفات پر بھی یہی میرا حال تھا.بعد میں حضرت مرزا منصور احمد صاحب کی وفات پر بھی، تو یہ زندگی خوشی اور غم کے دھاگوں سے لپٹی ہوئی ہے.ایک دوسرے سے چکر کھا رہے ہیں.مگر یہ ایسا غم کا دھاگہ ہے جس کے اندر ہی

Page 314

313 خوشی ہے کیونکہ شہادت بہت بڑا انعام ہے.حضرت مصلح موعود کی نظم : ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلاء ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو سینہ میں جوش غیرت اور آنکھ میں حیا ہو لب پر ہو ذکر تیرا دل میں تری وفا ہو شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے حاکم تمام دنیا میرا مصطفی محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونہی ہو ہو رُوح میری سجدہ میں اور سامنے خدا ہو حضور کے اشعار: حضور نے فرمایا: کھانے سے پہلے ہمارے کیلے کی شہادت کے اوپر دو شعر ہماری شوکت پڑھیں گی یہ دو شعر اس نظم سے لئے گئے ہیں جو آصفہ کی یاد میں میں نے کہی تھی مگر دو شعر ایسے ہیں جو کیلے پر بھی اطلاق پا رہے ہیں ان کی یاد میں بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے.میں نے اپنی شوکت کو کہا تھا کہ وہ دو شعر ہمیں سنا دیں کلاس کا اب آغاز بھی قادر کے ذکر سے ہوا تھا اور اب بھی اس کے ذکر پر کلاس کا اختتام ہوگا.میرے آنگن سے قضا لے گئی چُن چُن کے جو پھول

Page 315

314 فرمایا:- دو جو خدا کو ہوئے پیارے، میرے پیارے ہیں وہی ترے کام ہیں مولا مجھے دے صبر و ثبات ہے وہی راہ کٹھن بوجھ بھی بھارے ہیں وہی 23 اپریل 1999ء کے خطبہ جمعہ میں اپنی دلی کیفیت کا اظہار یوں اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم اگر چہ بظاہر روتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ساتھ استغفار کی بھی توفیق ملتی ہے کہ رو کس بات پر رہے ہو اتنا بڑا اعزاز ، ایک انسان بے اختیار ہو جاتا ہے چنانچہ وہ رات جو مجھ پر گزری وہ ان باتوں کی کشمکش میں گزری تقریباً رات بھر نہیں سو سکا کہ اچانک غم قبضہ کرتا ہے اور پھر استغفار کا خیال آکر استغفار پڑہتے سوتا تھا اور آنکھ کھلتی تھی غم کی شدت سے اور استغفار شروع ہو جاتا تھا تو بلاشبہ ساری رات کروٹوں میں کئی ہے انہی دو باتوں میں اور اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ بار بار استغفار کی طرف توجہ دلاتا رہا کیونکہ ایسی شہادت کے اوپر زیادہ غم کرنا خدا کو پسند نہیں اور مجھ سے بشری غلطی ہوتی رہی ہے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کی اصلاح بھی فرما دی اور بار بار مجھے استغفار کی طرف توجہ دلائی.(خطبه جمعه فرموده 23 اپریل 1999ء) آنکھ ہے میری کہ اشکوں کی ہے اک راہ گزر دل ہے یا ہے کوئی مہمان سرائے غم و حزن ہے یہ سینہ کہ جواں مرگ اُمنگوں کا مزار اک زیارت گہِ صد قافلہ ہائے غم و حزن خانہ دل میں اتر کر یہ فقیروں کے

Page 316

315 نالۂ شب سے نصیب نصیب اپنا جگا لیتے ہیں دل کو اک شرف عطا کر کے چلے جاتے ہیں اجنبی غم مرے محسن مرا کیا لیتے ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ حضور کا دردمند دل کسی کو دُکھی نہیں دیکھ سکتا.سب کے دُکھ اپنے سینے میں سمیٹ سمیٹ کر حضور کی صحت پر اثر پڑا تھا اُداس، غمگین، رلا دینے والی غزلیں سنتے.اردو کلاس میں قادر کی تصویر کے ساتھ ، عبید اللہ علیم کی غزل کے اشعار سنوائے تو محسوس ہوا یہ اسی موقع کے لئے کہے گئے تھے.کون سی آنکھ تھی جو اشکبار نہ تھی بے حد موثر غزل ہے.زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے تو آسمان سے اُترا خدا ہمارے لئے انہیں غرور کہ رکھتے ہیں طاقت و کثرت ہمیں ناز بہت ہے خدا ہمارے لئے تمہارے نام پر جس آگ پر جلائے گئے وہ آگ پھول ہے وہ کیمیا ہمارے لئے بس ایک لو میں اُسی لو کے گرد گھومتے ہیں جلا رکھا ہے جو اُس نے دیا ہمارے لئے وہ جس پہ رات ستارے لئے اُترتی ہے وہ ایک شخص دعا ہی دعا ہمارے لئے وہ نور نور دمکتا ہوا سا اک چهره وہ آئینوں میں حیا ہی حیا ہمارے لئے درود پڑھتے ہوئے اُس کی دید کو نکلیں

Page 317

316 تو صبح پھول بچھائے صبا ہمارے لئے عجیب کیفیت جذب و حال رکھتی ہے تمہارے شہر کی آب وہوا ہمارے لئے دئے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے زمین ہے نہ زماں، نیند ہے نہ بیداری وہ چھاؤں چھاؤں سا اک سلسلہ ہمارے لئے پیارے آقا کا یہ انداز غم خواری دکھی دلوں کو ڈھارس دیتا ہے.ہر بندے کے آگے تو کوئی دل کھول کر نہیں رکھ دیتا مگر حضور پر نور کے وجود میں ایسی مقناطیسی کشش ہے کہ ہر شخص اپنی جھولی کے غم بڑے مان اور اپنائیت سے آپ کی جھولی میں ڈال دیتا ہے جیسے کوئی اپنی سگی ماں کی گود میں سر رکھ کر کھل کر رولے اور قدرے سکون محسوس کرے جب تک آپ سے دل کی بات کہہ نہ لی جائے چین نہیں پڑتا.جاگتی آنکھوں کے خوابیدہ مناظر ہوں یا نیند کی غفلت میں تعبیر طلب اشارے سب کچھ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے.جوان بیٹے کی شہادت کے بعد ایک باپ نے کس طرح اُس کے چہرے کے تاثرات پڑھے قلبی کیفیت میں ہلکے سے ارتعاش کو الفاظ کا جامہ پہنا کر حضور ایدہ الودود کے سامنے پیش کر دیا.مکتوب کیا ہے دل ناصبور کی بے ساختہ پھڑکتی ہوئی تصویر ہے.وو حضور میں آپ کی خدمت میں ایک عجیب اور بالکل انوکھا بلکہ انہونا سا واقعہ لکھ رہا ہوں کہ عزیزم قادر شہید کا جسدِ خا کی جو کن کن اذیتوں سے گزرا

Page 318

317 ہوگا اس کے چہرے پر ایک سکون تھا اور کسی تکلیف کا اظہار نہ ہوتا تھا.یوں لگتا تھا کہ سویا ہوا ہے.یہ شاید کوئی غیر معمولی بات نہ ہومگر دوسرے روز جب اسے تابوت میں رکھنے سے پہلے میں اس کے آخری دیدار کے لئے گیا تو مجھے دیکھتے ہی احساس ہوا کہ اُس کے چہرے پر نمایاں اور بالکل ظاہر تبدیلی ہوئی ہے اب اس کے لبوں پر مسکراہٹ کے واضح آثار تھے.میں دیکھ کر دھک سے رہ گیا کیونکہ یہ کوئی میری نظر کا دھوکا نہ تھا اور نہ ہی میرا خیال مجھ سے کھیل رہا تھا.کل ہی جب ہم گھر والے اس کے متعلق باتیں کر رہے تھے تو میں نے ذکر کیا کہ کسی نے قادر کے چہرے پر کوئی تبدیلی تو نہیں دیکھی تو میری بیٹی نصرت جہاں (چوچو) نے کہا کہ ابا میں آپ سے پہلے ہی پوچھنے والی تھی کہ آپ نے کوئی خاص بات نوٹ کی تھی تو میں نے پوچھا کہ کون سی بات تو اُس نے کہا که رخصتی سے چند گھنٹے پہلے قادر شہید کے چہرے کے آثار بدل گئے تھے اور اب وہ صرف پُر سکون ہی نظر نہ آتا تھا بلکہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ صاف نظر آ رہی تھی نیز اس کے چہرے اور جسم پر موت کے بعد جو سختی اور تناؤ آجاتا تھا جسے Rigour Mortis کہتے ہیں بالکل نہ تھا.کلوں پر ہاتھ لگاؤ تو جس طرح زندہ انسان کی جلد دباؤ پر دب جاتی ہے وہ دب جاتی اور پھر اصل حالت پر واپس لوٹ آتی اس کے کلے ہونٹ ، گردن بالکل زندہ لوگوں کی طرح نرم رہے.آخری وقت یعنی چھتیں گھنٹوں کے بعد بھی تدفین کے وقت تک، جب وہ گھر سے رخصت ہوا، اسی حالت میں رہے.میں یہ بات حلفاً لکھ رہا ہوں.واللہ اعلم بالصواب قادر شہید کی پیدائش پر ہم نے اس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا‘ کی مناسبت سے اور برکت کے طور پر رکھا تھا.وہ واقعی اپنی شہادت سے ہمارے گھر کو

Page 319

نور اور برکت سے بھر گیا.“ 318 والسلام مرزا مجید احمد حضور ایدہ الودود نے غمزدہ باپ کے قلبی تاثرات پڑھ کر محبت بھرا مکتوب تحریر فرمایا :- 20 اپریل 1999ء آپ نے سو فیصد ٹھیک کہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس عظیم شہید سے خاص حُسنِ سلوک فرما کر ہم سب کو غیر معمولی طمانیت بخشی ہے اللہ تعالیٰ اس کے درجات کو بلند سے بلند فرمائے میری طرف سے قدسیہ.کو بہت بہت سلام نچھو اور اس کے بچوں کو خاص طور پر پیار اور بے حد دُعا حضور کی دعائیں غم میں بڑا سہارا بنتی ہیں.آپ نے صدمات میں مناسب رد عمل کا منشور سکھایا کہ : الہی جماعتوں کو انتہائی غم کی حالت میں اپنی بے قراری اور بے بسی کو کس طرح خدا کے سپرد کرنا ہے.غم انفرادی ہو یا اجتماعی ہر صورت میں وقار اور صبر جمیل کا اعلیٰ نمونہ دکھانا ہے.یہ سب خلافت کے احسانات ہیں.اُس باپ کے سینے کی بھڑکتی آگ پر جب کہ الاؤ اپنی پوری شدت پر تھا، آقا کی دلداری نے ٹھنڈی پھوار کا کام کیا.وہ باپ جس نے دو دن پہلے جوان بیٹے کے تابوت کو لحد میں اُتارا ہو اپنے صبر و ضبط اور حوصلے کس طرح متوازن رکھتا ہے یہ ہم پر خلافت کے خاص احسانات ہیں.جس کی کوئی مثال نہیں ملتی.اتنے گہرے سوگوار موسم میں صاحبزادہ مرزا مجید احمد کا یہ مکتوب ایک منفرد گو گواه

Page 320

319 17 اپریل 1999ء سیدی کل کے حضور کے خطبہ کے بعد نفس نے یوں محسوس کیا کہ ایک ٹھنڈی پھوار سے رُوح اور بدن دھل گیا ہو اور ایک گونا گوں سکون نے اضطراب کی جگہ لے لی ہو.میں حضور کی توجہ حضور کے اس خطبہ سے پہلے خطبہ کی طرف دلوانا چاہتا ہوں جو اس وقت مجھے عجیب معلوم ہوا اور پھر حافظ مظفر احمد صاحب نے بھی یہ بات دُہرائی کہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ محرم شروع ہو چکا ہے اور ان ایام میں خاص طور پر اہلِ بیت کے لئے درود شریف پڑھی جائے اور ابھی محرم کے مہینے کے شروع ہونے میں چند روز باقی تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خود کو، اپنے رویا اور الہاموں کی بناء پر اہلِ بیت میں شامل فرمایا ہے.حضرت عائشہ کا مادر مہربان کی طرح آپ کو ران پر لٹانے والی رویا بہت مشہور ہے اور پھر حضرت سلمان فارسی کو من اهلی فرمانا مشہور حدیث ہے.“ مرزا مجید احمد غمزدہ باپ نے تنہائی میں اپنے مولیٰ کریم سے دعائیں مانگیں یا دل کی سونی نگری دکھا کر اپنے حضور سے دُعاؤں کی التجا کی اپنے شہید بیٹے کی تصویریں نظم و نثر میں اظہارِ درد، اخبارات کے تراشے جمع کئے انہیں خوبصورت البم میں سجایا.اور حضور کی خدمت میں بھیج دیا.

Page 321

320 خوب سجی یادوں کی محفل مہمانوں نے تاپے ہاتھ ہم نے اپنا کوئلہ کوئلہ دل دہکایا ساری رات اللہ تعالیٰ کی حکمت کا کمال ہے کہ اُس نے حضور کی خطبات کے ایک سلسلے کی طرف رہنمائی فرمائی.قدرتی طور پر ساری جماعت کا رُخ قر بانیوں کے اس خوشگوار پہلو کی طرف ہو گیا کہ جان دی.دی ہوئی اُسی کی تھی مگر دعاؤں کی سلسبیل جاری ہوگئی وو 30 اپریل 1999ء کے خطبہ جمعہ میں حضور ایدہ الودود نے فرمایا:- عزیزم غلام قادر کی شہادت کے تعلق میں جو سلسلہ خطبات شروع ہوا ہے ان سب کا عنوان یہی آیت ہے (سورۃ البقرہ آیت (155) کہ خدا کی راہ میں جو لوگ مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم لوگوں کو شعور نہیں ہے“ اس تسلسل میں آج کے خطبے کا آغاز میں اپنی عزیز بھانجی نچھو کے خط کے تذکرے سے کرتا ہوں.انہوں نے جو تفصیلی خط لکھا ہے اس میں لکھتی ہیں کہ مجھے اس خیال سے بے حد خوشی ہوتی ہے کہ غلام قادر کی شہادت کی وجہ سے وہ سلسلہ شروع ہوگیا شہادتوں کے تذکرے کا جس میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت سے شروع ہو کر پھر آخر میں دوسرے شہیدوں کا ذکر خیر جاری ہو گیا.وہ لکھتی ہیں کہ مجھے خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ میرا خاوند آغاز بن گیا ہے اس کا اس کی شہادت کے ذکر سے یہ سارے پیارے پیارے ذکر چل پڑے اور بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس ذکر خیر پر

Page 322

321 اُٹھنے والی دُعاؤں میں اس کو شریک رکھے اور غلام قادر کے درجات بھی اس ذکر خیر کی وجہ سے بڑھاتا رہے.“ 7 مئی 1999ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے ارشاد فرمایا:- وو ” جب شہیدوں کا ذکرِ خیر چلا تو اس وقت اس کثرت سے شہدا کے نام نہیں تھے جو اب اس مضمون کے تتبع سے آہستہ آہستہ نکل آئے ہیں عزیزم غلام قادر سے اُمید ہے اُس کو بھی اس کے ثواب سے محروم نہیں رکھے گا کیونکہ بہت سے ایسے نام ہیں جن کو عام یاد بھلا چکی تھی پس ضروری تھا کہ ان کا ذکر بار بار چلے.اب جو پاکستان میں خصوصیت سے ہمارے اسیرانِ راہ مولا پڑے ہوئے ہیں ان میں سے بھی اکثر کے نام لوگ بھلا چکے ہوں گے لیکن اپنے قفس میں بیٹھے ہوئے ان کا دل تو چاہتا ہوگا کہ قفس اُداس ہے یارو صبا سے سے کچھ تو کہو کہیں تو بہر خدا آج ذکرِ یار چلے تو آج جو میرے یار ہیں وہ ان کے بھی تو یار ہیں.جنہوں نے راہِ احمدیت میں بے شمار قربانیاں پیش کیں تو یہ ذکرِ خیر جو آج میری زبان سے جاری ہو رہا ہے.ہوسکتا ہے آج کے قفس کی فضاؤں کو بھی روشن کر دے اور کچھ دیر تک وہ لوگ جو اس کو سنیں ان یادوں میں محو ہو جائیں جو ان کو بھی بہت پیاری ہیں اور اس سے خود تسلی پائیں کہ بڑی بڑی عظیم قربانیاں دینے والے پہلے گزر چکے ہیں.“ ( خطبه جمعه 7 رمئی 1999 ء الفضل 3 راگست 1999ء) آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صاحبزادی قدسیہ بیگم کے نام خطوط میں آنسوؤں کی نمکینی محسوس

Page 323

322 کرنے کی بات ہے.دل پر ضبط کا کڑا پہرہ بٹھانے والے بھی کبھی بے اختیار درد کو راہ دے دیتے ہیں.ناگہاں اور کسی بات یہ دل ایسا دکھا میں بہت رویا مجھے آپ بہت یاد آئے جمعرات 13 جون 1999ء پیاری ہمشیرہ قدسیہ بیگم سلمها اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته آپ کا اور ہمشیرہ امتہ الباسط سلمہا اللہ تعالیٰ کے خطوط میرے نہایت پیارے غلام قادر شہید کے پسماندگان کے نہایت درد ناک حالات سے متعلق موصول ہوئے.مضمون اتنا جذباتی ہے کہ میرے لئے ناممکن تھا کہ دل پر پورے ضبط کے ساتھ خط کسی کو لکھوا سکوں لہذا لازماً مجھے اپنے ہاتھ ہی سے جواب لکھنے تھے تا کہ آنسوؤں کی فراوانی کبھی لکھنے میں حائل ہو جائے تو تھوڑی دیر کے لئے دل کا غبار نکال کر خط لکھنا از سر کو شروع کر دوں.اگرچہ یہ بھی میرے لئے بہت مشکل اور صبر آزما تھا لیکن بہر حال مجھے یہ کام کرنا تھا.چند روز پہلے ہمشیرہ باسط کو خط لکھ کر کچھ جذبات کا بوجھ ہلکا کیا ہے.آج آپ کیلئے وقت نکالا ہے.آپ کا خط پڑھتے ہوئے بار بار دل میں خیال

Page 324

323 گزرتا رہا کہ آپ نے تو ایسے بیٹے کے قدموں سے جنت لے لی جو پہلے اس نے آپ کے قدموں سے لی تھی.ہر چند مضمون بہت درد ناک ہے مگر اتنا درد ناک خط تو نہ لکھا کریں کہ دم ہی نکال دے.عبید اللہ علیم مرحوم کا یہ مصرع دماغ میں گھوم رہا تھا اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے پہلے بھی میں آپ سب کے لئے بہت درد سے تہجد میں بلا ناغہ دُعا کرتا ہوں مگر آپ دونوں کے خطوط کے بعد آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی نڈر والا معاملہ ہو گیا ہے.جس کے حضور یہ تڑپ ہے وہی اس درد کا درمان کرے گا.میرے لئے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بے حساب بخش دے راضية مرضية قرار دیتے ہوئے اپنے بندوں اور اپنی جنت میں داخل فرمائے.ہمیشہ سے دل کی یہی تڑپ رہی ہے ہمیشہ دل کی یہی تڑپ رہے گی کہ اے کاش میرا انجام اس کی نظر میں نیک ٹھہرے.آمین! والسلام

Page 325

324 22 جولائی 1999ء خاکسار مرزا طاہر احمد پیاری آپا قدسیہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ نے میرے دلی محبوب غلام قادر شہید کی بہت اچھی تصویریں بھیجی ہیں.جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزا معصوم پیارے بچے میرے اپنے بچے ہیں اور ان کو دُعاؤں میں یاد رکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان پر اپنی رحمت کا بے پایاں سایہ رکھے آپ سب مل جل کر ان کی تربیت، پرورش اور تعلیم کی نگرانی کرنے والے باچھی، نصرت، بھائی مجید سب میری دُعاؤں ہوں.میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ عمروں میں برکت دے اور صحت و تندرستی سے رکھے کسی روز اُردو کلاس میں بھی یہ تصاویر دکھائیں گے تاکہ دُعا کی تحریک عالم گیر بن جائے.میری طرف سے نصرت اور بچوں کو بے حد پیار اور دُعا.22 جولائی 1999ء پیاری عزیزہ قدسیہ سلمها اللہ تعالیٰ والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خليفة اصیح الرابع

Page 326

325 النہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کا خط ملا.ہمارا سب کچھ خدا کے سپرد ہے وہی مولا ہے اور نعم النصیر ہے.آپ سب کا نیک نمونہ میرے لئے بھی فخر کا موجب ہے.آپ کی رؤیا اور اس کی جو تعبیر آپ نے کی ہے وہ بھی ٹھیک ہے.اللہ تعالیٰ زندگی با برکت فرمائے.قادر کے بچوں اور نچھو کو بے حد پیار اور ڈھیروں دُعائیں.باچھی اور بچوں کو سلام.خدا آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد حضور پر نور کی نگاہیں نچھو اور بچوں کے مستقبل پر بھی تھیں ایسے میں آپ کو قادر کے والدین کے کچھ فیصلوں پر اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنی طمانیت کا اظہار فرمایا.وو عزیزم محمود کے ذریعہ آپ کا پیغام مل گیا ہے جزاکم اللہ احسن الجزاء عزیزہ اور اس کے بچوں کے لئے آپ سب نے جو متفقہ فیصلے کئے ہیں یہ تو بڑا اچھا ہو گیا ہے الحمد للہ.میں نے اس کا پتہ کرنا ہی تھا کہ آپ لوگوں کا پیغام آ گیا.اللہ آپ سب کو اجر عظیم عطا فرمائے اور اپنے فیصلے پر قائم رکھے.اللہ حافظ و ناصر ہو

Page 327

326 مجھے یقین ہے کہ غلام قادر شہید کی روح اس فیصلہ پر جنت میں آپ پر سلام بھیج رہی ہوگی.“ حضور نے لندن کے جلسہ سالانہ 2000ء میں نچھو اور بچوں کو خاص طور پر مدعو فرمایا ایک خصوصی اُردو کلاس میں بچوں کا تعارف کروایا جو بچوں کے لئے ایک یادگار دن تھا.

Page 328

327 باب 11 ☆ ☆ نثر نگاروں کے رشحات قلم محترم عبدالسمیع صاحب نون محترم فضیل عیاض احمد صاحب محترم سید محمود احمد شاہ صاحب ڈاکٹر مرزا خالد تسلیم احمد صاحب محترمہ حمیدہ شاہدہ صاحبہ ربوہ محترم عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر الفضل محترم فخر الحق شمس صاحب کم محترم رفیق مبارک میر صاحب کیمیائے دولت جاوید ہیں تیرے شہید کم نہیں اکسیر سے ان تیرے پروانوں کی خاک ایک قربانی سے پیدا سینکڑوں عاشق ہوئے کس قدر زرخیز ہے ان پاک دامانوں کی خاک کشتگان خنجر تسلیم ہیں یہ سرفروش درس دیتی ہے وفا کا ایسے انسانوں کی خاک

Page 329

328 محترم عبدالسمیع صاحب نون : مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اُداس ہے آسمان روحانیت کے ”قمر“ کا ایک ٹکڑا گر پڑا دنیا میں دہشت گردی کی اتنی وارد تیں ہوئیں.قتل و غارت گری اور بے گناہ قیمتی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ جاری رہا گویا روز مرہ کا فرض ادا ہو رہا ہے.اس صدی کے پہلے ہی سال 1901ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے ایک شاگرد عبد الرحمن صاحب کو حق قبول کرنے کی پاداش میں گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا.پھر جولائی 1903ء کو حضرت شہزادہ صاحب کو ملک افغانستان میں ہی چرخی پل جیل کابل کے ساتھ والے میدان میں وحشت اور درندگی سے سنگسار کیا گیا اس کی مثال بھی نہیں ملے گی.اور جس کمال بہادری اور کمال استقامت اور کامل صبر کے ساتھ اپنی متاع جان حضرت شہزادہ صاحب نے اپنے خالق و مالک کے سپرد کر دی وہ بھی بے مثال ہے.”اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں تیری پاک روح اپنے خالق و مالک کے قدموں میں قربان ہونے کے لئے بے قرار تھی اس لئے وہ کمال اطمینان کے ساتھ اس قتل گاہ کی طرف بڑھتی گئی.اس کے بعد 31 / اگست 1924ء کو بھی اور 5 فروری 1925ء کو

Page 330

329 بھی کئی جاں نثاروں نے تاریخ افغانستان کے کئی درخشندہ باب اپنے خون سے رقم کئے.اب یہ صدی جو اختتام کو پہنچ رہی ہے اس میں سینکڑوں” شاتان“ ذبح کی گئیں.سیدنا حضرت امام جماعت احمدیہ نے مسلسل خطبات کے ذریعہ ان رُوح پرور یادوں کو ، جو بھولی تو نہیں تھیں، کچھ مدھم ضرور ہوگئی تھیں پھر سے تازہ کر دیا ہے.اب اس گلستانِ عشق و وفا میں پھر بہار آ گئی ہے.سچ ہے اقوام و ملت کی کھیتیاں پانی سے نہیں خون سے سینچی جاتی ہیں.راه خدا میں ان جان پر کھیلنے والوں کی تاریخ پر ہمیں بجا طور پر فخر ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا رہے.وہ ہمیں مسلسل دعوت عمل دے رہے ہیں.اور بزبانِ حال کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر راہ سُرخی ملی گئی یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے آج کی نشست میں علم و ادب کے جس نابغہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ ایک کم سخن وسیع النظر، مومنانه فراست، بلندی کردار اور اخلاق حسنہ کا حامل جوان رعنا تھا.جیسا کہ اوپر اظہار کیا ہے کہ اس صدی کے شروع میں کابل کی پہاڑیوں کی اوٹ میں حق کو قبول کرنے کے جرم میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا تھا.وقتاً فوقتاً اس کا تسلسل جاری رہا.نہ بجھا سکیں انہیں آندھیاں جو چراغ ہم نے جلائے تھے کبھی کو ذرا سی جو کم ہوئی تو لہو سے ہم نے اُبھار دی اللہ کی راہ میں جان فدا کرنے اور خون بہانے کی داستان لرزہ خیز بھی ہے اور ایمان افروز بھی.

Page 331

330 صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی والدہ محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ نے الفضل 7 جون کی اشاعت میں کچھ حالات تحریر فرمائے جو برستی آنکھوں سے ہی پڑھ سکا ہوں لیکن اس کے مطالعہ سے یہ حیرت انگیز اور ایمان افروز حقیقت سامنے آئی کہ سیّدہ ممدوحہ نے اتنی کاری ضرب کے صدمہ جانکاہ کے باوجود کمال صبر اور راضی برضاء الہی رہنے پر پورا عمل کیا.اور اپنے لختِ جگر کی اس جان کی قربانی پر باوجود شدید رنج و الم کے اس لحاظ سے مسرت اور خوشی کا بھی اظہار کیا کہ ان کی گود کا پالا ہوا سپوت وہ پہلا فرزند مسیح موعود علیہ السلام تھا جس نے اپنا جوان خون ملت کے کھیت کی آبیاری کے لئے پیش کر دیا.سیدہ موصوفہ نے ایک جگر پاش کر دینے والا جملہ بھی اپنے مضمون میں شامل کیا.کہ ” میرے بچے صبر اپنی جگہ اور ممتا اپنی جگہ اس میں شک نہیں کہ اس مقدس خاندان کی ممتا بھی بے مثال ہے اور صبر بھی بے نظیر ورنہ ہمارے ملک میں ایسے سانحات ہو جائیں تو سینہ کوبی اور بال نوچنے بلکہ زنجیر زنی تک نوبت آتی ہے.مگر اس مقدس خانوادے کے مقتدا اور پیشوا نے آنسو بہانے کو بھی صرف پیش ربّ ذوالمنن‘ تک ہی محدود کر دیا ہے.اور سیدنا مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کی اصلاح اسی طور پر کی ہے کہ سارا ” بث و حزن الله قدیر و عزیز ہی کے حضور پیش کیا جائے اور کوئی شکوہ کہیں اور نہ ہو.اس جگہ اس صدی کے ابتدائی سالوں میں ہونے والے 14 جولائی 1903ء کے دردناک واقعہ کے متاثرین میں سے حضرت شہزادہ صاحب آف افغانستان کے بیٹے صاحبزادہ سید محمد طیب صا.

Page 332

331 لطیف کے صبر جمیل کا ذکر کرنے سے نہیں رہ سکتا.1903ء کے سنگساری کے واقعہ کے وقت ان کے اس بیٹے کی عمر اندازاً آٹھ ، نو سال تھی ان کے والد کو تو 14 / جولائی 1903ء کو حد درجہ سفا کا نہ طریق پر قتل کر دیا گیا تھا.لیکن خاندان کے بقیہ افراد پر بھی ظلم وستم کی وہ قیامت ڈھائی گئی جس کے سننے سے بھی انسان پر وحشت طاری ہو جاتی ہے اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.خوشبوئے تقسم چھین سکی نہ موت بھی جن کے ہونٹوں سے ان دیوانوں کو تکتی ہیں حیرت سے ستم کی زنجیریں یہ نوٹ صاحبزادہ صاحب کی والدہ ماجدہ کے دردناک مگر نصیحت آموز مضمون سے متاثر ہو کر لکھا ہے.میرا یہ مختصر مضمون اس بلند مرتبت بطل احمدیت کی حسنات گنوانے کی کاوش تو نہیں ہے.لیکن سیّدہ ممدوحہ کے مضمون میں جو یہ بیان آیا کہ امی اس گاڑی میں آپ نے کوئی کام نہیں کرنا.یہ انجمن کی گاڑی ہے اور مجھے چھوڑ نے آئی ہے اس واقعہ سے موصوف کی امانت دیانت سلسلہ احمدیہ کے اموال کی حفاظت کا گہرا احساس اور تقویٰ کی باریک راہوں کے متلاشی ہونے پر جو روشنی پڑتی ہے وہ کسی تبصرے کی محتاج نہیں.میاں غلام قادر احمد صاحب کو اس قدر احساس امانت و دیانت اپنے عالی مرتبت دادا عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان روحانیت کے چاند حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے وراثت میں ملا ہوا تھا جو قادیان ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اس وقت تک داخل نہ ہوئے جب تک کہ ان کے لئے پلیٹ فارم کا ٹکٹ خریدا نہ گیا.

Page 333

332 یہ لوگ روشنی کے مینار تھے اور جتنا بھی گھپ اندھیرا ہو جائے یہ مشعلیں نور بکھیرتی رہیں گی اور دنیا ان کے اخلاق عالیہ اور حسنات سے تا قیامت فیض پاتی رہے گی.عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ ہے حاصلِ اسلام تقویٰ خدا کا عشق مے اور جام تقویٰ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے حضرت سید عبداللطیف صاحب سید گاہ افغانستان کے واقعہ قر بانی پر تحریر فرمایا تھا کہ : ” اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گئے.آندھیاں اور زلازل ہم پر پہلے بھی چل چکے ہیں مگر باوجود اپنی کمزوریوں کے اور باوجود اپنی خطا شعاریوں کے ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ گرتے پڑتے اسی مستقیم راہ کو اختیار کریں گے جسے 1901ء میں میاں عبدالرحمن نے اور 14 جولائی 1903ء کو حضرت شہزادہ عبداللطیف نے اور 31 اگست کو حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب نے اور 5 فروری 1925ء کو قاری نور علی صاحب اور مولوی عبدالحلیم صاحب نے افغانستان میں اور اس کے بعد سینکڑوں احمدیوں نے ملک پاکستان میں بھی اور بیرون پاکستان بھی اختیار کیا اور وہ احیاء میں شمار ہوئے اور اس صدی کے آخر میں میاں غلام قادر اسی گروہ جاں نثاراں میں شامل ہوئے.

Page 334

333 تیرے نصیب میں آئی حیات لافانی مكين خُلدِ بریں تیری رفعتوں کو سلام اے مرزا غلام قادر تو حتی ہے جب احیاء سے تیری ملاقات ہو تو اپنے مقدس جد امجد کی خدمت میں دست بستہ عرض کرنا کہ بڑے ابا آپ کی قائم کردہ جماعت اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے آپ کی انہی دعاؤں کی مستحق ہے جو آپ نے 1903ء میں حضرت شہزادہ صاحب کے لئے کی تھیں اور کہنا کہ جماعت کے روحانی باپ! دیکھ کہ: آج پیراہن ہستی بھی کیا نذر جنوں آخری تھا یہی ہدیہ تیرے سودائی کا ہمارے چاروں خلفائے کرام نے جماعت کی تعلیم و تربیت بھی اس نج پر کی ہے کہ اب وہ خطرات کے بادلوں سے گھبراتے نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دامنِ رحمت سے چمٹ کر آپ ہی کے الفاظ میں التجائیں کرتے رہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسی ڈگر پر چلنے کی توفیق بخشے جس پر ہمارے بزرگ چل کر سرخرو ہوئے اور فوز و فلاح پا گئے.اے اللہ کریم و قدیر میاں غلام قادر کے بزرگ والدین اور صابرہ و شاکر بیگم اور معصوم بچوں کی تولیت اور کفالت اپنے ہی ذمہ لے لے اور اپنی شفقت اور فضلوں کے ہاتھ سے ان مجروح دلوں کے سارے زخم مندمل فرما دے اور میاں مرحوم کی والدہ ماجدہ جو اگر چہ صبر وشکر کی اعلیٰ مثال قائم کر رہی ہیں مگر فطری اور طبعی تقاضے بھی ساتھ ہی ہیں اور ان کے ساتھ ہجر و فراق کے تیر اور اپنے لختِ جگر کی جواناں مرگ کے روح فرسا نظاروں نے انہیں نیند سے محروم کر دیا ہے.

Page 335

334 اے ماں باپ سے بڑھ کر پیار اور شفقت اور محبت کرنے والے آسمانی آقا تو نے نیند کو ” سباتا بنایا ہے انہیں نیند رات بھر نہ آئے تو یہ ان کے بس میں نہیں ہے نہ یہ صبر کرنے کے خلاف ہے عرش سے سکینت اور اطمینان نازل فرما کر ان کے سارے رنج و کلفت دور فرما دے اور میٹھی نیند انہیں دے اور تو چاہے تو اس میں ان کے نور نظر سے بھی اور سیدہ ممدوحہ کے حضرت نانا ابا سے بھی ملاقاتیں کرا دے تا ان کے سارے حزن اور ملال دور ہو جائیں اور ان کی زندگی میں ایسی بہاریں آئیں جس میں سارے غم و اندوہ وہ بھول جائیں.ہمارے آقا ! تری قدرت کے آگے روک کیا ہے (روز نامہ الفضل 6 اگست 1999ء)

Page 336

335 محترم فضیل عیاض احمد صاحب: اک شخص دلر با سا..14 اپریل 1999 ء آج صبح میں نے اسے دیکھا تھا.خاموشی سے سر جھکائے بچوں کو اسکول چھوڑ کر واپس جاتے ہوئے اپنی سوچوں میں گم.قدم قدم نہایت باوقار.ہاتھ میں کوئی چیز تھی پرس یا کوئی اور چیز؟ میں نے اسے مخاطب نہیں کیا نجانے کیوں میرا دل ہی نہیں چاہا کہ میں اسے اس کی سوچوں سے واپس بلاؤں.چند دن پہلے کی بات ہے فون کی گھنٹی بجی.میں نے ریسیور اُٹھایا دوسری طرف وہ فون پر تھا.اس کی یکساں اور نہایت ملائم آواز نے مجھے پوچھا کہ ” وقف نو دا پروگرام اے تلاوت دے مقابلے واسطے کنوں کنوں حج بلاواں“ میں نے کہا کہ مبارک علی کو بلا لیں، حافظ برہان صاحب کو بلا لیں.میرے اور اس کے درمیان یہ ایک بات مستقل تھی کہ وہ ہمیشہ مجھ سے پنجابی میں مخاطب ہوتا اور میں اسے ہمیشہ اردو میں جواب دیتا.مجھے نہیں معلوم کہ میرے اور اس کے درمیان تعلق کی ابتداء کب اور کہاں ہوئی، ہاں ایک بات ہے یوں لگتا تھا کہ جیسے میں اس کو صدیوں سے جانتا ہوں.وہ اپنی محبتوں اور وفا میں یکتا تھا.تعلق رکھتا تو اس تعلق کو نبھانے کا فن جانتا تھا.اس کی مسکراہٹ اس کا بے ساختہ پن، اس کی سادگی ، کسی لطیفے پر یکبارگی اپنے اندر سے پھوٹنے والے قہقہے کو نچھاور کر دینا.اس کی شخصیت کا

Page 337

336 خاصہ تھے.بسا اوقات بچوں کو پیدل ہی اسکول چھوڑ نے آتا تھا کبھی دیر ہو جاتی تو رکشے میں آتا ایک بار میں نے اس سے کہا کہ میاں صاحب کی گاڑی کیوں نہیں لے آتے تو کہنے لگا کہ بچوں کو پتا هونا چاهیے که وه ایک واقف زندگی باپ کے بچے ھیں.کبھی کبھار رات کو میں نے اسے اپنے بچوں کے ساتھ باہر گھومتے بھی دیکھا بچوں سے اس کی بے تکلفی دیکھ کر اس کی اپنے بچوں سے والہانہ محبت کا اندازہ ہوتا تھا.ایم ٹی اے پاکستان میں کمپیوٹر سیکشن کا آغاز ہوا تو ہم کمپیوٹر سے بالکل نابلد تھے ہمیں پل پل اس نے بتایا.اکثر ہم اسے فون کرتے کہ میاں صاحب فلاں مسئلہ ہو گیا ہے اکثر تو ان کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنے سے مسئلہ حل ہو جاتا لیکن اگر ہم مسئلہ حل نہ کر سکتے تو قادر خود آجاتا اور پھر کمپیوٹر اس کے سامنے کھلونا بن جاتا اس کی اُنگلیاں کمپیوٹر کے کی بورڈ (Key Board) پر اس طرح کھیلتیں جس طرح کسی ماہر پیانیسٹ (Pianist) کی اُنگلیاں پیانو کے کی بورڈ پر کھیلتی ہیں اور لمحوں میں وہ کمپیوٹر پھر کام کرنے لگتا.جب ایم ٹی اے کے لئے پروگرام کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو میں تجویز لے کر اس کے پاس گیا تو کہنے لگا کہ فضیل میں نے تو کبھی بھی لیکچر نہیں دیا اور پھر کیمرے کے آگے کافی دقت ہوگی، میرے لئے مشکل ہوگا.میں نے کسی نہ کسی طرح اس کو قائل کر لیا تو پھر اس نے ایم ٹی اے کے لئے ایک ایسی سیریز شروع کی جو ہمیشہ ہی اس کی یادوں کو تازہ رکھے گی.پوری محنت اور پیشہ وارنہ دیانت کے ساتھ اس نے اس کام کو کیا اور ” کمپیوٹر سب کے لئے کا آغاز ہمیشہ کے لئے اس کے نام لگ گیا.

Page 338

337 آخری روز کی بات ہے میری امی جان اسلام آباد سے کچھ دنوں کے لئے ربوہ آئی ہوئی تھیں.میں انہیں چھوڑ نے چنیوٹ اپنے دوست عزیزم کامران زاہد کے ساتھ اس کی گاڑی پر جا رہا تھا، جب ہم چینوٹ کی طرف جاتے ہوئے دریائے چناب کا دوسرا پل کراس کرنے لگے تو پل پر ایک سیاہ جوتا ایک چاقو یا چھری اور ایک کپڑا پڑا تھا کامران بولا کہ دیکھیں کیا پڑا ہے، میں نے کہا جانے دو کوئی واردات وغیرہ ہوئی ہوگی اور کسی نے چیزیں یہاں پھینک دی ہوں گی.اور ہم آگے بڑھ گئے.جب کو ہستان بس اڈے پر پہنچے تو ہمیں اڈے کے مینیجر نے بتایا کہ ربوہ کے کسی گاڑی والے کو گولی لگ گئی ہے.ہم نے پھر بھی سنی ان سنی کر دی بس آگئی اور ہم امی کو بس پر چڑھا کر واپس ربوہ آگئے.میں اپنے دفتر آیا تو دیکھا کہ محترم چٹھہ صاحب دل گرفتہ ہیں.میں نے پوچھا کہ کیا ہوا کہنے لگے کسی نے قادر کو گولی مار دی ہے اور وہ چینوٹ اسپتال میں مجھے یوں لگا کہ جیسے کسی نے میرے دل پر ہے.ہاتھ ڈال دیا ہے.پل بھر میں میری آنکھوں کے آگے وہ تمام لمحے گھوم گئے جو میرے اور اس کے درمیاں ربط باہم کے امین تھے.میرے اندر تمام حو صلے ٹوٹ گئے میں نے اپنی آنکھوں پر بے حد ضبط کیا لیکن دل کا کیا کرتا وہ تو گر یہ گریہ تھا.ہر شخص کے ساتھ قادر کا مختلف تعلق تھا ہم کبھی دوستی کے اس دائرے میں داخل نہیں ہوئے جہاں درمیانی حجاب اُٹھ کر بے تکلفیاں در آتی ہیں.ہم نے شاید کبھی اپنے دکھ اور سکھ Share نہیں کئے لیکن وہ میرے اندر تھا اور رہے گا کیوں؟ اس کا میرے پاس جواب نہیں.مجھے وہ لمحے یاد ہیں جب اس نے کہا تھا ” فضیل صاحب کسی میرا

Page 339

338 تواں دفتر ری ویکھن نہیں آئے میں جہاڈے کو لوں مشورہ لینا سی“ یہ وفات سے ایک دو روز پہلے کی بات ہے.میں ان کے نئے دفتر میں گیا جو تحریک جدید کے کمیٹی روم میں بنایا گیا تھا.میں نے کہا قادر صاحب میں حاضر ہوں کہنے لگے اس کمرے کی ایئر کنڈیشننگ کرنی ہے اور اس میں فالس سیلنگ (False Ceiling) کرنی ہے میں نے کہا کسی انجینئر سے مشورہ کر لیتے ہیں.کہنے لگے کہ آپ نے اپنے اسٹوڈیو میں کیا کیا تھا میں نے کہا کہ تھر موپول سے انسولیشن کی ہے.کہنے لگے کہ وہی یہاں کر لیتے ہیں اس پر میں نے کہا کہ چھت سے دو فٹ نیچے کروائیں تا کہ مناسب ٹھنڈک ہو سکے.لیکن وقت نے اسے مہلت نہ دی کہ وہ یہ کام اپنے ہاتھوں سے کروا سکے.نظام کی بے پناہ اطاعت کا جذبہ ان کے اندر تھا.بسا اوقات ان کا خیال ہوتا کہ فلاں چیز خرید لی جائے جو آج کل سستی ہے مجھے اکثر فون کر دیتے کہ فلاں قسم کا کمپیوٹر آج کل سستا ہوگیا ہے اور فلاں نیا پروگرام Software آ گیا ہے جو ایم ٹی اے کے کام آئے گا.تو میں کہتا کہ ٹھیک ہے دیکھتے ہیں خرید لیتے ہیں.کبھی کبھی شام کو دفتر آتا تو میں پوچھتا کہ ”چائے“ تو چہرے کی مسکراہٹ اس کی آشیر باد دیتی تو میں چائے بنالیتا.کہتے یار تمہارے دفتر کی چائے بڑی مزے کی ہوتی ہے.یہ اس کی شہادت سے ایک دو روز پہلے کی بات ہے شام کو دفتر آیا.میں نے چائے کو پوچھا کہنے لگا کہ ”سکی چاء نہیں پینی (صرف چائے نہیں) میں نے عرض کی کہ میاں صاحب ہم گلاب جامن منگوا لیتے ہیں.میں نے گلاب جامن اور برفی منگوائی خوش ہو کر کھائی خوش قسمتی.سے گلاب جامن بھی تازہ تھے اور برفی بھی اچھی بنی ہوئی تھی.کچھ دیر

Page 340

339 بیٹھا اور پھر وداع ہو گیا.اس دن اس سے ہم نے وعدہ لیا کہ وہ اب پھر ایم ٹی اے کے لئے ایک نئی سیریز شروع کروائے گا.اس نے کہا انشاء اللہ.اس پر میں نے اسے اپنے رشین ٹیچر کی بات دفتر سے باہر نکلتے نکلتے سنائی کہ وہ کہا کرتا تھا کہ پاکستانیوں نے جب کسی کام کو دیر سے کرنا ہو تو کہہ دیتے ہیں انشاء اللہ اس پر اس نے کہا میں بھی پاکستانی ہوں لیکن احمدی.یہ چند لمحے جو ہم نے ایم ٹی اے کے دفتر میں باہم گزارے قادر کے حوالے سے ہمیشہ کے لئے میری زندگی میں زندہ رہیں گے.اور اس کی یادوں کو زندہ رکھیں گے کہ یہ اس کے ہمیشہ کے لئے وداع ہونے سے ایک روز پہلے کی بات ہے کہ اس نے کس بے تکلفی سے اظہار کیا اور خوش ہوا.اس کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ جماعتی پیسے کو اس سلیقے سے استعمال کیا جائے کہ کم از کم روپے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جائے.لاہور کی ان دوکانوں، ڈیلرز کے نام جو اچھی اور سستی چیز دینے میں شہرت رکھتے تھے اس کو خوب معلوم تھے.مجھے ایک دو بار ان کے ساتھ سامان خریدنے کے لئے جانے کا موقعہ ملا تو جہاں وہ سفر کا ایک بہترین ساتھی بنا اس کے ساتھ اس نے ہمیں اچھی سے اچھی چیز خرید کر دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.اس کے وجود میں جو انسان سانس لیتا تھا وہ اخلاص کا پتلا تھا.وہ محبت کا پیکر تھا.مسکراہٹیں اس کے دامن کا سرمایہ تھیں.اس جیسے لوگ بہت کم دنیا میں آتے ہیں.میں نے اس کو متعدد بار بیت المبارک میں اپنے خدا کے حضور دیکھا ہے جس محویت اور توجہ سے وہ نماز ادا کرتا اس پر مجھے بہت رشک آتا.گزشتہ سے پیوستہ رمضان مجھے اعتکاف کی توفیق ملی تو بیت المبارک میں میں نے اسے

Page 341

340 متعدد مرتبہ نماز پر دیکھا وہ کس طرح ہر رکن نماز کو پیار سے ادا کر رہا ہوتا کہ مجھے بھی خیال ہوتا کہ کاش میں بھی اسی طرح نماز ادا کر سکوں.مجھے ربوہ اور بیرون ربوہ کئی طرح کے تعلیمی اداروں میں پڑہنے کا موقع ملا ہے.National Institue of Modern Language (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ماڈرن لینگو سنج) اسلام آباد میں بھی پڑھا ہوں جہاں ہمارے ساتھ اعلیٰ عہدیدارن بھی تھے.سینکڑوں لوگوں سے ملنے کا موقعہ ملتا رہا اور اب بھی ملتا ہے لیکن اخلاق، کردار اور اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت کا حسین اجتماع جو قادر کی ذات میں تھا وہ بھت کم نظر آتا ھے.تعلیم ہمیں کیا سکھاتی ہے یہی ناں کہ ہم دوسرے کی رائے کا احترام کریں.اپنی بات منوانے کی صلاحیت رکھتے ہوں لیکن تحکم اور اپنے اعلیٰ منصب کی بدولت نہیں بلکہ اپنی رائے اور قوتِ اخلاق سے.قادر میں سب سے بڑی خوبی جو مجھے نظر آئی وہ اس کا دوسرے کی رائے کا احترام کرنا اور پھر اگر اس رائے کو صائب پانا تو اس کو قبول کر لینا لیکن اگر اس رائے کو درست نہ سمجھنا تو پھر اپنی رائے کو نہایت قابلیت اور مدلل انداز میں پیش کرنا.اور پھر جب دوسرا فرد اس رائے کو قبول کر لیتا تو اس کے چہرے پر جیسے مسرت کے سوتے پھوٹ پڑتے لیکن ان میں بعض کم ظرف لوگوں کی طرح طنز اور تلخی اور تضحیک کی آمیزش نہ ہوتی بلکہ اس میں شکر گزاری اور امتنان کا پہلو نمایاں ہوتا.جب سے قادر کی شہادت ہوئی ہے میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرا اس کا کیا رشتہ تھا.احمدیت کا رشتہ جو تمام رشتوں اور بھائی چارے پر حاوی ہے.میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا وہ دن لوٹ آئے گا جب اچانک کوئی میرے کندھے

Page 342

341 پر ہاتھ رکھے گا اور نرم سی آواز میں کہے گا کہ فضیل صاحب تسی ایس انجینئراں دی میٹنگ وچ کی کر رہے او یا کبھی ٹیلیفون کی گھنٹی بجے گی اور کوئی ملائم سی آواز آئے گی فضیل صاحب آج پروگرام نہیں ہو سکدا میں زمیناں تے جا رہیاواں یا پھر کبھی کوئی آکر مجھ سے کہے گا کہ ” تہاڈے دفتر دی چاء بڑی مزیدار ہون دی اے پھر میری سوچ پر وہ آوازیں حاوی ہو جاتی ہیں جو میرے اردگرد سے اُبھر رہی ہیں.جا قادر تو نے اپنی منزل کو پالیا لیکن ہمارے لئے ایسا چراغ روشن کر دیا جو ہمیں تا ابد روشنی دیتا رہے گا اور ہم اس روشنی کو تیری یادوں کے چراغ جلا کر بڑھاتے رہیں گے.(ماہنامہ ” خالد ربوہ ستمبر 1999ء)

Page 343

محترم سید محمود احمد صاحب: 342 ہمارے قادر.پیارے قادر دیے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے : پہ ”مرزا غلام قادر چناب کے پل پر شہید ہو گئے“ سنانے والا تو یہ خبر سُنا کے چلا گیا مگر خبر نے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیا.یقین نہیں آرہا تھا دل چاہتا کہ اللہ کرے یہ خبر غلط ہو.بہر حال چندلمحوں میں ایک ”سرو جوان“ ہم سے جدا ہو گیا.بلانے والا تو جب چاہے جسے چاہے اپنے پاس بلا لے.اسی پر اے دل تو جاں فدا کر وفات سے چند دن پہلے قادر اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ نرسری آیا تھا اسے دیکھ کر میں نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا کہ یہ جوڑی مثالی ہے.قادر اور اس کی بیگم کو دیکھ کر دل سے دُعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جوڑی کو سلامت رکھے.نہ جانے کیوں اس جوڑی کو دیکھ کے دل سے سلامتی کی دُعائیں نکل رہی تھیں.قادر تو حقیقی سلامتی پا گیا اور جاتے جاتے جوڑی امر کر گیا.قادر! تو جانے کے بعد بہت یاد آیا ہر لمحہ جو اس کے ساتھ گزرا آج آئینہ بن کے سامنے آرہا ہے وہ دن جب ایبٹ آباد سے چھٹیوں میں ربوہ آتا اور ہمارے ساتھ فٹبال کھیلتا تھا.قادر فٹبال کا بہت اچھا کھلاڑی تھا.ایبٹ آباد

Page 344

343 پبلک اسکول کا کپتان بھی رہ چکا ہے.اس کے کھیل کی خصوصیت پینلٹی کک کی تھی.اتنی شاندار پینلٹی لگاتا تھا کہ ہمیشہ گول کیپیر مات کھا جاتا.قا در کرکٹ کا شوقین بھی تھا جب امریکہ سے واپس آیا تھا ان دنوں ہمارے ربوہ میں رہنے والے رشتہ دار اور لاہور میں رہنے والے رشتہ داروں کے درمیان کرکٹ میچ ہو رہا تھا قادر کو اس کے ایک کزن نے کہا کہ تم لاہور کی طرف سے کھیلو.اس پر قادر نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں ربوہ کی طرف سے کھیلوں گا یہ قادر کی اپنے پیارے شہر ربوہ سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے.کرکٹ کے میدان میں قادر کو داد اس کی بیگم کی طرف سے ہی ملتی تھی.قادر کچھ عرصہ کے لئے ہمارا ہمسایہ بھی رہا ہے.یہ دونوں بہت اچھے ہمسائے تھے جب وہ دونوں تحریک جدید کے کوارٹرز میں جارہے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ جیسے ہمسائے قسمت سے ملتے ہیں اس پر قادر کی دلکش مسکراہٹ نہ تو تائید کر رہی تھی نہ ہی انکار.یہ دسمبر 1991ء کی بات ہے ہم رات پہرے پر تھے ایک بجے ایک صاحب سوٹ کیس اٹھائے آ رہے تھے.قریب سے دیکھا تو قادر تھا جو قادیان کے جلسہ سے واپس آیا تھا میں نے اس کے ہاتھ سے سوٹ کیس لینا چاہا مگر قادر نے انکار کر دیا.اس پر میں نے قادر کو مذاق سے دھمکی دی کہ اگر آپ سامان نہیں اُٹھانے دیں گے تو میں نہیں بتاؤں گا کہ آپ کی بیگم کہاں ہے؟ قادر کی بیگم ہمارے ہاں سو رہی تھیں اور پُرزور تاکید کی تھی کہ قادر آئے گا تو فوراً مجھے جگا دینا.قادر کو گھر چھوڑنے کے بعد جب میں واپس آنے لگا تو قادر نے مجھے رکنے کے لئے کہا تھوڑی ہی دیر میں ہاتھ میں گرم چترالی ٹوپی لے کر

Page 345

344 آیا اور کہنے لگا کہ بہت سخت سردی ہے تم بیمار ہو جاؤ گے یہ ٹوپی پہن لو.قادر نمائندہ تحریک جدید بن کے 1993ء میں جلسہ سالانہ کے موقعہ پر لنڈن گیا مجھے اس سال لندن جانے کا اتفاق ہوا.43 نمبر گیسٹ ہاؤس میں ہم لوگ تقریباً دو ماہ اکٹھے رہے.لنڈن میں ہم بولتے تھے اور قادر ہماری باتیں سن کے صرف ہنستا اور مسکراتا رہتا تھا اور اکثر حیرت سے اچھا “ اور ”نہیں“ کے الفاظ بولا کرتا تھا اور ہنستا اس طرح تھا کہ ساتھ والا شخص دوبارہ ہنسنے پر مجبور ہو جاتا.ایک دن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو ایک ڈبہ چاکلیٹ کا بھجوایا قادر کا حصہ میں نے اسے دیا تو اس نے وہ چاکلیٹ رکھ لیا اور کہنے لگا کہ واپس جا کر نچھو ( قادر کی بیگم ) اور بچوں کے ساتھ کھاؤں گا.چند ماہ قبل نرسری میں پھولوں کی نمائش لگی تھی.قادر اپنی بیگم اور بچوں اور ابا امی کے ساتھ نمائش میں آیا اور رات کا کھانا وہیں کھایا.کھانے کے بعد مسکراتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے اور نچھو نے چائے لینی ہے اور ساتھ ہی ہنستے ہوئے کہا کہ ” پیسے دوں گا“ ان دونوں نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ نرسری میں گزارا.اگلے دن قادر وغیره دوباره نمائش دیکھنے آئے دُور سے قادر کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ قادر کوئی کام کہنے والا ہے.میرے قریب آ کے نہایت عاجزی سے کہنے لگا.” چائے مل سکتی ہے؟ ہم کھانا تو کھا کے آئے ہیں.لیکن کوئی کراری سی چیز کھلاؤ“.نرسری کے کارنر میں دونوں میاں بیوی جب چائے پی کر فارغ ہوئے تو میں برتن اُٹھانے کے لئے گیا.قادر اور نچھو دونوں نے مجھے برتن اٹھانے

Page 346

345 نہیں دیے انجام کار ” بچھو نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ برتن سطوت اور کرشن ( قادر کے بچے) چھوڑ کر آئیں گے.میں نے قادر کو بہت قریب سے دیکھا ہے.اپنی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے قادر میں اتنی عاجزی آگئی تھی کہ مجھے حیرت تھی.قادر نے اپنی زمینوں کے پودے ہمیشہ نرسری سے خریدے.ایک دفعہ ایک شخص نے مشورہ دیا کہ شرقپور سے امرود کے پودے لے آؤ مگر قادر نے صاف انکار کر دیا.دو ماہ قبل قادر نے اپنی زمینوں پر گھاس لگوایا تھا.بہت خوش تھا کہ گھاس بہت خوبصورت لگ رہا ہے.قادر کو بل ادا کرنے کی بہت فکر رہتی تھی ہمیشہ رستے میں آتے جاتے ضرور پوچھتا کہ میرا بقایا تو نہیں ہے؟ چار سال پہلے صدر خُدام الاحمدیہ کا انتخاب تھا.جب ووٹ دینے کی باری آئی تو میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی قادر کا نام نہیں تھا لیکن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت ذہن میں تھی کہ ووٹ دینے سے پہلے دعا کر لیا کرو کہ اللہ تعالیٰ صحیح انتخاب کی توفیق دے.میں نے دعا کی کہ یا اللہ میرا ہاتھ اسی نام پر کھڑا ہو جو اس منصب کا اہل ہے.جن تین ناموں کے لئے میں نے ہاتھ کھڑا کیا اس میں ایک نام قادر کا تھا جو اس کا نام آنے پر خود ہی اُٹھ گیا.(ماہنامہ ” خالد ربوہ ستمبر 1999ء)

Page 347

346 ڈاکٹر مرزا خالد تسلیم صاحب: ہر میدان میں اوّل میرے چھوٹے خالہ زاد بھائی تھے.آنے والے وقتوں میں انشاء اللہ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن چند باتیں ان کے بارے میں جو میں نے اپنی نظر سے دیکھیں بیان کرنا چاہتا ہوں.قادر نے اپنی 37 سالہ مختصر زندگی اتنے بھر پور انداز سے گزاری اور وہ مقام حاصل کیا جو بعض لوگ بہت لمبی عمر میں بڑی مشکل سے پاتے ہیں.ان کا بچپن بہت ہی دلچسپ تھا شوخی اور شرارت ایسی جس سے سب لطف اُٹھا ئیں نہ کہ کوفت ہو عام بچوں کی نسبت زیادہ لمبا عرصہ تک توتلی زبان میں باتیں کرتے تھے.اس عمر میں جو باتیں ایک ذہین بچے میں ہونی چاہیں وہ سب موجود تھیں.ان کے بڑے بھائی مرزا محمود احمد اور بہنیں شروع ہی سے پڑھائی میں بہت اچھے تھے لیکن قادر کی توجہ اس عمر میں پڑھائی کی طرف کچھ زیادہ نہیں تھی میں نے خالہ کو کئی بار قادر سے کہتے سنا کہ قادر تمہاری بھائی اور بہنیں پڑھائی میں اتنے اچھے ہیں لیکن تم اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں کرتے اُس وقت کسے معلوم تھا کہ یہ سب کو پیچھے چھوڑ جائے گا.جیسے جیسے قادر کی عمر بڑھی ان میں ایک نمایاں تبدیلی آنے لگی.ان کی ایک خاص مسکراہٹ تو آخر دم تک رہی لیکن سنجیدگی اور کم گوئی میں اضافہ ہونے لگا پڑھائی کی طرف توجہ بڑھتی گئی اور ایک دن پتہ چلا کہ قادر پورے پشاور میں

Page 348

347 اول آئے ہیں قادر ایبٹ آباد پبلک اسکول میں پڑھتے تھے جہاں پر ان کے بڑے بھائی محمود اور میں نے بھی میٹرک تک پڑھا ہے ایک مرتبہ میں بہت عرصہ کے بعد ایبٹ آباد پبلک اسکول گیا اور اپنے ہاؤس ماسٹر صاحب سے ملا وہ باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھنے لگے کہ تمہارا فلاں کزن کہاں ہوتا ہے اور فلاں کیا کرتا ہے پھر کہنے لگے آپ نہ سب ھی اچھے تھے لیکن قادر کی بات ہی کچھ اور تھی.پشاور بورڈ میں اول آنے کے بعد قادر نے پنجاب یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئر نگ کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کی غرض سے امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور یہ ثابت کرنے کے بعد کہ نہ صرف میں کسی سے کم نہیں بلکہ سب سے آگے ہوں، اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کر دیا.انہوں نے ربوہ آکر مختلف محکموں کو کمپیوٹرائز کیا اور اس طرح جماعت میں اس لحاظ سے پھر امتیاز حاصل کیا کہ جماعت کے مختلف محکموں میں کمپیوٹر کا نظام جاری کرنے والے پہلے شخص بنے اور بہت سے ایسے کام کئے جو ان کی انکساری اور کم گوئی کی وجہ سے ان کے گھر والوں کو بھی قر بانی کے بعد پتہ چلے.ربوہ آنے کے بعد جماعت کے لئے انتھک محنت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی ایسی خدمت کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی.کہاں ایک الیکٹریکل انجینئر اور کہاں زمینداری لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں اپنے والد کی زمینیں اس طرح سنبھالیں جیسے کوئی ماہر زمیندار سنبھالتا ہے اور اپنے والد کو اس طرف سے مکمل اطمینان دیا اور جس وقت یہ اغوا ہوئے اس وقت بھی اپنے والد کی زمینوں پر کام کروا رہے تھے.یعنی اس وقت بھی اپنے والد کی خدمت میں

Page 349

348 مصروف تھے اپنے بیوی اور بچوں کو بھی پورا وقت دیتے.ان کی قربانی کے بعد ان کی بچی کے اسکول میں نمائش تھی اس نمائش میں قادر کی بیٹی سطوت بھی ہاتھ کی بنی ہوئی چند چیزیں لائی جو اس نے قادر کے ساتھ مل کر بنائی تھیں.قادر جب ہم سے جدا ہوا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں پہلی قر بانی تھی.یہ سعادت شاید اوروں کو بھی نصیب ہو لیکن قادر ہمیشہ اول رہے گا.اس نے علم کے میدان میں اول پوزیشن لے کر ہمارے سر فخر سے بلند کئے.اس نے جماعت میں کمپیوٹر کا نظام جاری کر کے ایک امتیازی وو.حیثیت حاصل کی.اس نے اپنے والدین کی ایسی خدمت کی کہ جب اس کا جنازہ اُٹھا ہے تو اس کی والدہ کی بلند آواز میں بار بار یہ دہراتی تھیں.خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں ایسا بیٹا دیا " قادر جزاک اللہ اصل میں یہ ہے پاؤں تلے جنت ہونا کہ کسی بیٹے کی ماں اسے ان جملوں کے ساتھ رخصت کرے اور کتنے ایسے خوش نصیب ہوں گے جن کو خلیفہ وقت ایسا زبردست خراج تحسین پیش کرے اور ان کے ساتھ اتنی محبت کا اظہار کرے جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الربع ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادر کے ساتھ کیا.اس کی بیوی اور بچوں کے جذبات قلم بند کرنا تو ناممکن ہے مگر یہ ایک دم صبر کا نمونہ تھے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا.یہی دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا یہ صبر قبول فرمائے ، ان کی خود حفاظت کرے اور ان بچوں کو اپنے والد محترم کی تمام خوبیوں کا وارث بنائے.آمین روزنامه الفضل 15 مئی 1999ء

Page 350

349 محترمہ حمیدہ شاہدہ صاحبہ ربوہ: ایک اعزاز ایک سبق اے ہمارے مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کے شہزادے تجھ کو بزم ربوہ میں نہ پا کر ہم اُداس تو ہیں مگر تو نے بزمِ احمدیت میں ہزاروں گھرانوں کو نور اور برکت سے بھر دیا جن کا ذکر پیارے آقا کی زبان سے بیان ہو رہا ہے.تو نے ان خوابیدہ دلوں کے تارو ساز چھیڑے ہیں جو اپنی دلی مرادوں کو پاچکے تھے.جیسے جیسے خلیفہ وقت کی زبان مبارک سے ان کی داستان سنتے ہیں دل و دماغ میں آپ کی یادیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور مسلسل آپ کے لئے دعائیں بے اختیار اٹھتی ہیں تو کیسا خوش قسمت وجود تھا.احمدی بچو! نوجوانو، مردو اور عورتو ذرا غور سے سنو.میاں قادر کے خون کا ایک ایک قطرہ ہمیں یہ درس دے گیا ہے.اپنے اوقات ضائع ہونے سے بچاؤ ماں باپ کی خدمت کر کے ان کی دُعائیں لو، زندگی کو غنیمت جانو، جماعت کی خدمت کرو، خلیفہ وقت کے بازو بنو.بیوی بچوں سے حُسنِ سلوک کرو، ان کے دلوں میں بسو.دوستوں سے وفا و محبت کرو، دلیر اور شیر بن کر زندگی گزارو باطل کے آگے کبھی نہ جھکو، جماعت کا ثم مان ہو، خلیفہ وقت کی تم جان ہو، بڑھتے جاؤ کچلو پھولو سب فانی اک وہی ہے باقی.اے میرے پیارے اللہ ! صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کے مجمع البحرین معصوم بچوں کا خود حامی و ناصر ہو ان کی بیگم صاحبہ کو حوصلہ و ہمت عطا

Page 351

350 فرما، والدین کو صبر وسکون و عافیت عطا فرما، تمام خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام کی خود حفاظت فرما ہمارے پیارے امام اور ہماری جماعت کو اس عظیم قربانی کے صدقے ہزاروں لاکھوں خوشیاں دکھا.اور ان کی محبت و شفقت کا سایہ نسلاً بعد نسل ہمارے دلوں کا سہارا رہے.اے اللہ ان کی آنکھیں ہمیشہ ہماری طرف سے ٹھنڈی رکھنا اور وہ جلد ہم سے آن ملیں.آمین ایک قادر ہم سے چھنا ہے مگر سینکڑوں قادر زندہ ہو گئے.میاں غلام قادر زنده باد پائندہ باد (روز نامہ الفضل 17 / جولائی 1999ء)

Page 352

351 مکرم عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ: عملیت پسند آدمی غلام قادر صاحب سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب وہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی مجلس عاملہ میں شامل ہوئے صدر مجلس محترم حافظ مظفر احمد صاحب نے کمپیوٹر اور بعض دوسرے کام ان کے ذمہ لگائے.بعض دوستوں کو شبہ سا تھا کہ ناز و نعم میں پلا ہوا یہ نوجوان جو امریکہ سے پڑھ کر آیا ہے وہاں کی سہولتوں اور نظام کا عادی ہوگا اس ماحول میں کس طرح سیٹ ہو سکے گا مگر جلد ہی سب نے دیکھا کہ یہ نوجوان اپنے کام میں جتا ہوا ہے اور تھوڑے عرصہ میں اس نے کام کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دیا ہے.جو اب کئی گنا وسیع ہو چکا ہے.دلائل مجلس خدام الاحمدیہ کے حوالے سے ہی یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ غلام قادر اپنی رائے بڑی دیانت داری اور جرات سے پیش کرتے.اس کے حق میں دیتے اور پھر جو فیصلہ ہوتا اسے شرح صدر سے قبول کرتے.1993ء میں محترم مرزا غلام قادر تحریک جدید کی طرف سے اور خاکسار مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سے بطور نمائندہ جلسہ سالانہ لندن میں شریک ہوئے.فیصل آباد سے ایک ہی جہاز میں سوار ہوئے.پھر کراچی، تاشقند اور لنڈن پہنچے.خاکسار اور بعض دیگر احمدی مسافروں کا یہ پہلا ہوائی سفر تھا.ہم نے قادر صاحب سے کہا کہ وہ ہمیں یہ تمام مراحل سمجھاتے جائیں چنانچہ وہ ہر جگہ قطار میں کھڑے ہونے سے پہلے متعلقہ امور بڑے دلچسپ انداز میں سمجھا دیتے اور ہمارے لئے سہولت ہو جاتی.

Page 353

352 خُدام الاحمدیہ کے حوالہ سے ہم کئی مواقع پر سب کمیٹیوں میں اکٹھے رہے.کئی دوروں میں شریک سفر رہے اور ان کی یہ خوبی نکھر کر سامنے آئی کہ ان کی سوچ میں کہ ایک عمدگی اور جدت تھی ہر کام میں مشرق کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ مغرب کا سلیقہ اور سائنسی طرزِ فکر اپنانے کی کوشش کرتے اور اکثر کامیاب رہتے.اُن کی شہادت سے تھوڑا عرصہ قبل بہشتی مقبرہ میں ہم ایک جنازہ کے موقع پر اکٹھے تھے.تدفین کے انتظام میں کئی مسائل پر گفتگو کرتے رہے.انہوں نے الفضل کی ظاہری شکل وصورت کو بہتر بنانے کے لئے کئی تجاویز دیں.خاکسار نے ان سے درخواست کی کہ وہ اس موضوع پر نسبتاً زیادہ کام کر کے معین شکل دیں اور انہوں نے اس کا وعدہ بھی کیا.مگر اس کے بعد جلد شہید ہو گئے.مگر ان کی بعض تجاویز ہمارے لئے بہت کار آمد ثابت ہوئیں.کمپیوٹر ایسوسی ایشن تو یقیناً انہی کا لگایا ہوا پودا ہے.غالباً اس تنظیم کی پہلی سالانہ تقریب تھی.خاکسار بھی دیکھنے کے لئے حاضر ہوا.بعض دوستوں نے جذبات میں آکر بہت اچھی مگر فی الحال نا قابل عمل تجاویز دیں.مرزا غلام قادر صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں بڑی حکمت اور نرمی سے سب کو سمجھایا کہ اپنے دائرہ اور وسائل سے بڑھ کر پروگرام بنانے سے یہ دقتیں پیش آسکتی ہیں اور اُس وقت آپ سب دل ہار کر بیٹھ جائیں گے.اسی لئے نرمی اور آہستگی سے صراط مستقیم پر قدم ماریں.ان کا یہ خطاب اتنا مؤثر اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تھا کہ خاکسار نے کئی مجالس میں اس کا ذکر کیا اور ان کو خراج تحسین پیش کیا کہ یہ عملیت پسند آدمی ہیں اور ضرور کامیاب ہوں گے.

Page 354

353 محترم فخر الحق شمس صاحب: اعلیٰ اخلاق سے مزین ایک منفرد شخصیت محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب شہید کی تاریخ ساز شخصیت کے متعدد پہلو ہیں.جن میں سے ایک شان نرالی اور انداز جدا ہے.دنیاوی میدان کو دیکھیں تو اس کو بھی کامیابی و کامرانی سے سر کرتے نظر آتے ہیں اور پھر زندگی وقف کرنے کے تاریخی فیصلے کے بعد دینی اور جماعتی میدانوں میں آپ کی خدمت اظہر من الشمس ہیں.محترم صاحبزادہ صاحب سے خاکسار کا مختلف خدمات کے حوالے سے تعلق رہا ہے.آپ مہتم مقامی ربوہ کے عہدے پر سرفراز ہوئے تو آپ نے خاکسار کو اپنی عاملہ میں ازراہ شفقت بطور ناظم اطفال منتخب فرمایا.اس شعبہ میں بھی آپ کی اعلیٰ خصلتوں سے معمور شخصیت کے نمایاں پہلو مزید نمایاں نظر آتے ہیں.ناظم اطفال کا شعبہ اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پورے ربوہ کے ہزاروں بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر کئی شعبوں میں نظم ونسق چلانے کے لئے کافی محنت کی ضرورت ہوتی ہے.اور ان تمام سلسلوں میں مہتم مقامی سے مسلسل رابطہ رہتا ہے.اس لحاظ سے خاکسار کی تقریباً روزانہ میٹنگ آپ کے دفتر میں ہوا کرتی تھی.مختلف اوقات میں مختلف شعبہ جات کے بارے میں ہدایت، مشورے کام کرنے کے نت نئے انداز اور بعض متفرق امور آپ اس انداز سے سمجھاتے کہ مشکل سے مشکل کام بھی نہایت آسانی اور سہولت سے سر انجام پاتا.بطور مہتمم مقامی آپ کے کام

Page 355

354 کرنے کا انداز بالکل جدا اور آپ کی اپروچ انتہائی معین اور نتیجہ خیز ہوتی تھی.خاکسار کو یہ امور انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جو ایک سعادت سے کم نہیں اسی طرح آپ لوکل انجمنِ احمدیہ ( دفتر صدرعمومی ) میں سیکریٹری وقف کو ربوہ بھی تھے.خدمت دین کے اس میدان میں آپ کی خدمات کے نئے اور مفید انداز اُبھر کر سامنے آئے.اس سلسلہ میں جب کبھی میٹنگ میں ہوتے تو اکثر خاموش رہتے اگر کوئی بات کرتے بھی تو مدلل اور معین کرتے.لیکن ربوہ بھر میں ہونے والی مختلف تقریبات میں آپ کی تقاریر اور نصائح فرمانے کے انداز بہت معروف ہوئے جو بھی بات کی مؤثر ہونے کی وجہ سے فوراً دل میں اُتر گئی.خاکسار محترم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ ان مربیان کی ٹیم میں شامل تھا جو مختلف محلہ جات میں واقفین کو کے اجلاسوں میں ان کی نمائندگی کرتے تھے.ان دنوں 98-1997 خاکسار جامعہ احمدیہ میں بطور اُستاد خدمات انجام دے رہا تھا.ہر سال اگست کے مہینہ میں انگریزی کا سمر کیمپ ہوا کرتا تھا.اس میں آپ ہمیشہ مختلف عناوین کے تحت انگریزی میں لیکچر دیا کرتے تھے.جو کمپیوٹر کے شعبہ سے زیادہ منسلک ہوتے.آپ کی شستہ انگریزی زبان اور بھر پور انداز بیان آج بھی یاد ہے.جب آپ انگریزی بولتے تو اس میں قطعاً شائبہ نہ ہوتا کہ انگریزی آپ کی ثانوی زبان ہے.ایک مرتبہ جامعہ احمدیہ میں تشریف لانے کے لئے آپ کو دعوت نامہ بھیجا گیا اور درخواست کی گئی کہ سمر کیمپ میں بطور ڈنر گیسٹ تشریف لائیں.کچھ مصروفیت کی وجہ سے آپ نے معذرت کی اور خاکسار سے کہا کہ اس دفعہ کی معذرت قبول کریں اور آئندہ چند دنوں میں جب بلائیں گے خاکسار حاضر

Page 356

355 ہو جائے گا.کچھ دنوں بعد واقعی ایک مہمان کے نہ آنے کی وجہ سے خاکسار کو ان کے پاس جانا پڑا اور چند گھنٹے کے نوٹس پر دعوت دی.جس کو انہوں نے نہایت خوشدلی اور بشاشت سے قبول کیا اور فرمانے لگے فخر صاحب! آپ جب بھی کہیں گے خاکسار ضرور حاضر ہو گا.آپ کا یہ انداز آج تک خاکسار کو یاد ہے.اتنی معمور الاوقات زندگی گزارنے والے نہایت شفقت سے درخواست کو قبول کر رہے تھے.اعلیٰ اخلاق سے مزین ایسی شخصیات دھرتی پر کم ہی جنم لیتی ہیں.ہماری

Page 357

356 محترم رفیق مبارک میر صاحب نائب وکیل تعمیل و تحفیف : میاں صاحب سے خاکسار کی پہلی ملاقات غالباً 1990ء میں ہوئی خاکسار نے انہیں انتہائی نرم دل با اصول، صاف گو اور بہترین ایڈمنسٹریٹر پایا.ان کی ایڈمنسٹریشن کی دو خوبیاں نمایاں تھیں ان میں سے ایک یہ کہ بہت جلد ہی معاملہ کی تہہ میں پہنچ جاتے تھے اور جو رائے قائم کرتے تھے وہ حتمی ہوتی تھی اس کے نتیجے میں شخصیت میں ایک رُعب تھا اور ان کے مہتم مقامی کے دور میں خاکسار نے دفتر خُدام الاحمدیہ مقامی میں کسی کو اونچی آواز میں بحث کرتے ہوئے نہیں دیکھا، خصوصاً شعبہ عمومی کے معاملات اور اسپورٹس ٹورنامنٹس کے دوران دوسری بات جو خاکسار نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ اس دور میں ناظمین کے درمیان ٹیم ورک بہت نمایاں طور پر زیادہ تھی.بطور مہتم مقامی اپنی الوداعی تقریر میں انہوں نے اپنے تجربات کا نچوڑ اور ان تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے آنے والوں کو نصائح فرمائیں خاکسار کو بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ میاں صاحب کی پُر مغز تقریر کے بعد مکرم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے جو چند کلمات کہے تو انہوں نے فرمایا کہ میاں صاحب میں دوسری خوبیاں تو پہلے ہی تھیں لیکن ہمیں آج پتہ لگا ہے کہ مہتم مقامی کے عهده نے انھیں بھت اچھا مقرر بنا دیا اپنی شہادت سے ڈیڑھ ماہ قبل AACP کے سالانہ کنونشن Annal Convention کے موقع پر میاں صاحب نے چائے کے انتظامات کے لئے خاکسار کی ڈیوٹی لگائی تھی.لیکن ایسا ہوا کہ چائے سے قبل کا Session مقررہ وقت سے نصف گھنٹہ قبل ختم ہو گیا اور چائے انبھی تیار نہیں ہوئی تھی.اس بناء پر

Page 358

357 مہمانوں کو پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑا.ظاہر ہے اس دوران کچھ تھوڑی سے فکر مندی پیدا ہوئی.گومیاں صاحب نے خاکسار کے ساتھ کسی ناراضگی کا اظہار تو نہیں کیا تھا پھر بھی انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی فکر مندی کے اظہار کی وجہ سے کہیں خاکسار نے محسوس نہ کیا ہو.اگلے ہی دن مجھے پیغام دیا کہ میں نے آپ کے لئے ایک تحفہ رکھا ہوا ہے.چنانچہ دو روز بعد جب خاکسار کی ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے ٹیوٹا موٹرز کی 1999ء کی بڑی خوبصورت ڈائری تحفتاً دی جو خاکسار کے پاس ان کی یادگار آج بھی محفوظ ہے.ایک دفعہ گرمیوں کے دن تھے خاکسار جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر جانے لگا تو میاں صاحب کو کار پارکنگ کے ساتھ درختوں کی چھاؤں میں کھڑے دیکھا.سلام دعا کے بعد فرمانے لگے آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت فرشتہ بنا کر بھیجا ہے خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے تو کہنے لگے گاڑی میں پٹرول ختم ہو گیا ہے لہذا ہم دونوں لاری اڈہ سے موٹر سائیکل پر جا کر پٹرول لائے گاڑی میں ڈالا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن گاڑی اسٹارٹ نہ ہوئی.اس وقت تک کار پارکنگ خالی ہو چکی تھی اور دھوپ بھی بہت تیز تھی میاں صاحب نے سفید لٹھے کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور پسینہ آرہا تھا.میاں صاحب نے گاڑی کا بونٹ کھول کر کار بوریٹر کو کھولا اپنے سفید کپڑوں کی فکر کئے بغیر اپنے منہ سے کاربوریٹر میں سے پٹرول کو Suck کیا تو گاڑی پہلے ہی سلف پر اسٹارٹ ہو گئی.اپنی شہادت سے پانچ یا چھ روز قبل عصر اور مغرب کے درمیان میاں صاحب اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ پیدل گھر جاتے ہوئے دارالضیافت کے سامنے ملے چونکہ میاں صاحب کے جڑواں بیٹے بھی ساتھ تھے اس دن موضوع Twins کی اقسام Feternal Twins, Meternal Twins) اور گفتگو

Page 359

358 عزیزان ( مرزا نورالدین احمد اور مرزا محمد مصطلح احمد ) کی عادات میں فرق رہا.خاکسار پہلے بھی کبھی کبھار میاں صاحب کے بڑے بیٹے عزیزم مرزا کرشن احمد کو موٹر سائیکل پر سیر کروا دیا تھا.اس دن بھی عزیزم کرشن میرے ساتھ سیر کرنے کے لئے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا.اور میاں صاحب دونوں چھوٹے بیٹوں کو لے کر گھر چلے گئے.میاں صاحب کی شہادت کے تیسرے روز جب خاکسار عصر کی نماز بیت مبارک میں ادا کر کے اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھا تو اچانک عزیزم کرشن پیچھے سے آیا اور بڑی ہی بے تکلفی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا.یہ انکل تو مجھے پہلے بھی موٹر سائیکل پر سیر کرواتے ہیں“ اس چھوٹی عمر میں اس معصوم بچے کو یہ احساس نہیں تھا کہ پہلے اور اب کی سیر میں کتنا فرق پڑچکا ہے.لیکن اس معصوم کے اس بے ساختہ جملے نے خاکسار کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا اور وہ ساری یادیں پھر سے تازہ ہوگئیں.خاکسار عزیزم کرشن احمد کو اس کے ننھیال میں اُتار کر روتا ہوا گھر پہنچا.وو میاں صاحب سے خاکسار کی آخری ملاقات ان کی شہادت سے ایک دن قبل ڈیڑھ بجے کے قریب ہوئی.مجھے کچھ گھر یلو فوٹوز Scan کرنے تھے میاں صاحب سے بات کی تو آپ نے کہا Scanner کلیم احمد سے لے چلانے کا طریقہ میں آپ کو سمجھا دوں گا.لیکن چلانے کا طریقہ میاں صاحب بھی نہ سمجھا سکے.خاکسار یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ چند منٹوں کی ملاقات ہماری آخری ملاقات ہو گی.اور وہ ہنستا مسکراتا چہرہ ہمیں ہمیشہ کے لیں.لئے افسردہ چھوڑ کر چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میاں صاحب کی تجہیز و تکفین اور قطعہ شہداء سے احاطہ خاص بہشتی مقبرہ میں منتقلی کے مواقع پر خاکسار کو خاص خدمت کی توفیق ملی.الحمد للہ علی ذالک

Page 360

359 باب 12 شعرائے کرام کا منظوم خراج محبت Some souls Pass through this lifetime Like a Gentle summer rain.They touch our hearts And then return To heaven again وے لوگ تُو نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے پیدا کئے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر میر تقی میر

Page 361

360 آہنی عزم و ارادہ کا دھنی تھا محترم صاحبزادہ صاحب کی تصویر دیکھ کر ان کے والد گرامی محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب نے بعض جذبات کا اظہار کیا جن کو محترم چوہدری محمد علی صاحب نے آخری شکل دی ہے.ڈھل گئی رات کوئی بات کرو تجھ سے ملنے کے لئے آیا ہوں کاسئہ جاں کو لئے اشک بکف دست به دل چند لمحے جو ہیں تنہائی کے ان کو غنیمت جانو دن چڑھے جوق در جوق چلے آئیں گے سوگواروں کے ہجوم بچے اور بوڑھے غریب اور امیر چاہنے والے تیرے تیری اُلفت کے اسیر

Page 362

361 بانٹنے آئیں گے میرے غم کو پونچھنا چاہیں گے چشم تم کو دینے آئیں گے محبت کا صلہ کرنے آئیں گے گلہ کہ تجھے جانے کی اتنی بھی جلدی کیا تھی اور ان سب کے احسان تلے اور بھی جھک جائیں گے ناتواں کاندھے مرے ایسے محسوس کروں گا جیسے میں ہی زخمی نہیں زخمی سب ہیں اور پھر کس کو نہیں ہے معلوم نرم گفتار تھا تو صاحب کردار بھی تھا آہنی عزم و ارادہ کا دھنی تھا کتنا مسکراتا ہوا ہنستا ہوا واپس آیا اتنی فتوحات کے بعد وقف کے عہد نبھانے کے لئے خدمت دین کی.درویشی کی خلعت پہنی بصد بجز و نیاز

Page 363

362 بخدا بیٹے ہی نہیں ہو میرے میرے محبوب بھی ہو نہیں میرے محبوب نہیں میرے محبوب کے محبوب بھی ہو زہے قسمت تیری زہے قسمت میری یہ سعادت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے لیکن اے جانِ پدر یہ حقیقت ہے اگر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ یہ تنہائی کے لمحات بہت لمبے ہیں کٹھن بھی ہیں بہت کیسے گزریں گے مجھے معلوم نہیں لله الحمد کے مالک کی رضا کے آگے سرتسلیم ہے خم وہ اگر خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں اور یہ مرحلہ محرومی کا کسی نہ کسی طرح آخر کار گزر جائے گا لیکن اے جانِ پدر

Page 364

363 اک کٹھن مرحلہ اور بھی ہے یعنی وہ مادر مشفق تیری صبر و تسلیم کی چادر اوڑھے یاد سینے سے لگائے.خاموش دم بخود مُہر بلب بیٹھی ہے اور پھر وہ عفیفہ - میری بیٹی.میری عزت تیری جیون ساتھی لٹ گیا جس کا سہاگ اور وہ ننھے فرشتے چاروں ہو بہو باپ کی تصویر ان کھلے غنچے مرے باغ کے پھول جگر کے ٹکڑے مرے نورِ نظر سطوت اور کرشن مفلح اور نورالدین ان کو کچھ علم نہیں حشر برپا ہوا کیسی قیامت ٹوٹی ان کو سمجھاؤں تو کیسے سمجھاؤں

Page 365

364 نہ مرے پاس کوئی لفظ نہ کوئی لہجہ ان کو کیا علم کہ یہ ایک دو پل کی نہیں بات کہ یہ بات زمانے کی ہے لوٹ کر نہ آنے کی ہے اس لئے جان پدر میری تنہائی غنیمت جانو ڈھل گئی رات کوئی بات کرو کوئی لفظ کوئی لہجہ ہی سوغات کرو پھر کسی یاد کی برسات کرو کشت ویراں ہے مری میرا سینہ ہے اُجاڑ اور یہ فرقت کا پہاڑ خشک - بے آب و گیاہ مسکرا کر انہیں جل تھل کر دو فرط لذت سے مجھے پاگل کر دو الفضل 25 جون 1999ء)

Page 366

365 محترم میر محمود احمد صاحب ناصر کا اپنے جذبات کا بے ساختہ اظہار محترم میر محمود صاحب ناصر پرنسپل جامعہ احمد یہ شاعری نہیں کرتے لیکن محترم صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی قربانی پر اپنے بے ساختہ جذبات کا انہوں نے منظوم اظہار فرمایا.وہ ہمارا بھی تھا اور تمہارا بھی تھا میرے پیارے کی آنکھوں کا تارا بھی تھا سادگی محبت کا دل میں شرارہ بھی تھا بہت عاجزی تھی بہت سادگی صاحبزادی امتہ القدوس بیگم کیا کیا ادا و ناز دکھاتا ہوا گیا کتنے دلوں پر برق گراتا ہوا گیا اس خاندان کا وہ حسیں، دلر با سپوت اس کا وقار و مان بڑھاتا ہوا گیا ماں باپ کا جہان میں وہ نام کر گیا ان کی جبیں پہ چاند سجاتا ہوا گیا گیا کم گو بہت تھا، کچھ بھی زباں سے کہے بغیر وہ داستان عشق سُناتا ہوا مسجود سامنے تھا لہو سے وضو کیا ہر قطرہ اپنے خوں کا بہاتا ہوا گیا وہ دلفریب خوبرو، خوش خو ، حسیں جواں اپنی الگ ہی شان دکھاتا ہوا گیا میں ہوں غلام قادر مطلق اُسی کا ہوں ہر حال میں یہ عہد نبھاتا ہوا گیا وہ اپنی ہم عمر کو بڑی چھوٹی عمر میں ایک معتبر وجود بناتا ہوا

Page 367

366 وو کتنے دلوں کی ساتھ وہ تسکین لے گیا اور ساتھ ہی سکوں بھی دلاتا ہوا گیا اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ٹوٹے دلوں کی آس بندھاتا ہوا گیا گلرنگ پتیاں سی بکھرتی چلی گئیں شہر وفا کی راہ سجاتا ہوا گیا اک یار دلربا کے لبوں یہ ہیں اس کے وصف وہ رشک کے چراغ جلاتا ہوا گیا الفضل انٹر نیشنل 4 جون 10 جون 1999ء) سینتیس برس کا ہے جواں ہے مرا مرزا تم ڈھونڈ کے لے آؤ کہاں ہے مرا مرزا قربانی و ایثار و حلیمی میں ہے بے مثل اسلاف کی عظمت کا نشاں ہے مرا مرزا دلداری و دلسوزی میں ریشم کی طرح نرم خودداری میں اک کوہِ گراں ہے مرا مرزا وہ اس کا دل آویز تکلم وہ تبسم اک ماہر انداز بیاں ہے مرا مرزا نذرانہ جاں عین جوانی میں کیا پیش صد رشک جوانانِ جہاں ہے مرا مرزا

Page 368

367 مُردہ نہ کہو اس کو وہ ہے زندہ جاوید ہے جنت فردوس جہاں ہے مرا مرزا آقا کی نگاہوں میں جو روشن تھا ستارہ اب ان کی بھی نظروں سے نہاں ہے مرا مرزا نام اس کا درخشنده ہے اب لوح جہاں پر اللہ کی رحمت کا نشاں ہے مرا مرزا آقا کی طرح میں بھی ہوں بے چین سلیم آج سلیم شاہجہانپوری ڈھونڈ کے لے آؤ جہاں ہے مرا مرزا (الفضل ورجون 1999ء) کچھ غم نہیں گر لائق تعزیر ہوا ہے دل، جس سے قلعہ عشق کا تسخیر ہوا ہے سینچا ہے شہیدوں نے لہو دے کے چمن کو ہر قصر وفا ایسے ہی تعمیر ہوا ہے سر کر لیا ہر معرکہ ہمت کے دھنی نے جو پست ہے وہ شاکی تقدیر ہوا ہے مٹی میں تڑپتا ہے پڑا سبط پیمبر کس خون سے تر سینہ شمشیر ہوا ہے ہر نقش حسیں اُبھرا ہے اُلفت کے قلم سے کس کس کا لہو شوخی تصویر ہوا ہے بے فائدہ کرتے ہیں نصیر آپ تردد کب یہ دل وحشی تہ زنجیر ہوا ہے پروفیسر نصیر احمد خان صاحب الفضل 17 اگست 1999ء)

Page 369

368 کیا شہادت گاہِ ربوہ بن گئی کوئے جناں کس نے اپنے خون سے لکھ دی وفا کی داستاں بھر گیا ہے رحمت باری سے دامانِ چمن مبتلا ہیں کس کے غم میں سینہ چاکانِ چمن ساز دل چپ ہے کوئی نغمہ اُبھر سکتا نہیں اور راحت کو ہم آہنگ کر سکتا نہیں کوچہ جاناں میں مرجانا بھی ہے تسکینِ جاں یہ شہادت تو خدا کی دین ہے جانِ تپاں ہائے وہ منظر تھا، پارہ پارہ جس سے دل غریب رہ رہا تھا دور افتادہ کوئی ہجراں نصیب شهید غلام قادر احمد زندہ باد زنده و رخشنده و تابنده و پائندہ باد عبدالمنان ناہید مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا کیجئے کچھ علاج کانٹوں کا آبلوں سے بہت پرانا ہے رشته ازدواج کانٹوں کا خون تو خون ہے بہر صورت اشک بھی ہے اناج کانٹوں کا

Page 370

369 عشق کی سلطنت قادر کی ہے عشق کل تھا نہ آج کانٹوں کا اس گل منتخب کے کھلتے ہی بڑھ گیا احتجاج کانٹوں کا سب ادا کر دیا ہے قادر نے جس قدر تھا خراج کانٹوں کا اپنی سچائی کی گواہی دی پہن کر اس نے تاج کانٹوں کا اک طرف پھول کی روایت ہے اک طرف ہے رواج کانٹوں کا اک طرف مملکت ہے پھولوں کی اک طرف سامراج کانٹوں کا درمیاں میں کھڑی ہے خلق خدا ہیں اور احتجاج کانٹوں کا اپنے انجام کی اذیت سے بے خبر ہے سماج کانٹوں کا کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے مرض لاعلاج کانٹوں کا آسماں سے اُتر مرے مالک اب زمیں پر ہے راج کانٹوں کا قتل ناحق سے پھول کے مضطر چوہدری محمد علی ہل گیا تخت و تاج کانٹوں کا (روز نامہ الفضل ربوہ 21 رمئی 1999ء) {1} ظلم کی انتہاء بھی ہے کوئی؟ ظالموں کا خدا بھی ہے کوئی؟ اس مرض سے شفا بھی ہے کوئی دردِ دل کی دوا بھی ہے کوئی؟ خوں خرابے سے بھر گئی دھرتی قاتلوں کی سزا بھی ہے کوئی؟ جوان شہزادہ کونسا وہ جیا بھی ہے کوئی؟ ہائے وہ

Page 371

370 دور تک دیکھو اس شجاعت سے ایسے لڑ کر مرا بھی ہے کوئی؟ زندگی وقف اور شہادت موت اس سے بڑھ کر وفا بھی ہے کوئی؟ آج تک ہے یزیدیت باقی حاصل کربلا بھی ہے کوئی؟ دین اسلام تو ہے امن کا دیں قوم کا پیشوا بھی ہے کوئی؟ جب سے ٹوٹی ہے عدل کی میزان عادل ان میں ہوا بھی ہے کوئی؟ رب کی رحمت سہارا ہے ورنہ باپ ماں کا عصا بھی ہے کوئی؟ وارثان شہید کا حافظ ! میرا مولیٰ مرا خدا حافظ ! (الفضل 15 اپریل 1999ء) {2} لاکھ ہوں تالے لب اظہار پر پھر بھی ہم قادر ہیں ہر ہر گفتار پر گھولتا بھی بولتا بھی ہے یہ خوں اور بکھر جاتا ہے ہر اخبار پر ہم نہیں غازی فقط گفتار کے ہے گواہی خون کی کردار پر اک لپک میں قید سے باہر تھا وہ اک جھپک میں آگیا پیکار پر اک نہتا شیر ربوہ اور وہ چار بھاگ نکلے شیر کی للکار پر خنجروں کے زخم اور گولی کے زخم کھا کے جا بیٹھا وہ اپنی کار موت کا پیچھا کیا چنیوٹ تک لوگ حیراں ہیں تیری یلغار پر

Page 372

371 جب بلاوا آگیا جاں پیش کی جان دی تو نے خدا کے پیار پر ناز ہے ہم کو شہادت پر تیری فخر ہے ہم کو تیرے کردار کی حفاظت قوم کی جاں ہار کر صدقے جاؤں میں ترے ایثار پر پر شر کی باقی قوتوں کے برخلاف تکیہ ہے قہار اور جبار پر ابر رحمت قسمت ابرار میں اور شرارے ہیں سر اشرار پر تھا جنازہ میں ہجوم عاشقاں بے پناہ مخلوق تھی دیدار پر بام ہو اُونچا شہیدوں کا ظفر حمتیں برسیں در و دیوار راجہ نذیر احمد ظفر (الفضل 20 اپریل 1999ء) آسماں پر جب محرم شور تھا.کوئی مکرم ہو گیا بھی کچھ پہلے محرم ہو گیا خون بکھرائے زمیں پر چین سے سوتا رہا چاندنی روتی رہی اور چاند بھی روتا رہا بھا گئی سب عاشقوں کو تیرے مرنے کی ادا چاند کرنیں تجھ کو بانہوں میں جھلائیں گی سدا

Page 373

372 پھول خواہش کے لئے یوں گھر سے نکلا ایک دن پھر نہ آنے کے لئے کیوں گھر سے نکلا ایک دن آنکھ یوں موندی کہ ساری عمر جیسے کٹ گئی پھول برسے اس قدر پھولوں سے جھولی اٹ گئی تجھ کو عظمت کی مبارکباد - هرچه بادا باد - تو سدا زندہ رہا.زندہ رہے گا.زندہ باد - ڈاکٹر فہمیدہ منیر (الفضل یکم رمئی 1999ء) آدیکھ شام کربلا....قادر نے پھر شبیر کی یادوں کو تازہ کر دیا صدق وفا کے باب کو اسوۂ پیغمبر کر دیا آدیکھ شام کربلا باز و قلم ہونے لگے شانوں سے پھر عباس کے پہرہ یزیدوں کا ہے پھر دریا پہ...دن ہیں پیاس کے آدیکھ شام کر بلا..

Page 374

پھر خونِ شہداء سے دھرتی لہو رونے لگی انسانیت اس جبر پر دل سوختہ ہونے لگی جی دار اک جاں وار کے جامِ شہادت پی گیا کس شان سے رخصت ہوا کیسی ادا سے جی گیا باطل کے رستے میں بدن اُس کا اٹل کہسار تھا دشمن سے شیروں کی طرح وہ برسر پیکار تھا اس خون سے تاریخ کا یہ باب لکھا جائے گا ہر جسم میں بولے گا پھر ایسا بھی دور اک آئے گا شمر لعیں لائے تھے پھر تیغیں بجھا کے زہر میں 373 آدیکھ شام کربلا...آدیکھ شام کر بلا..دیکھ شام کربلا...

Page 375

374 معصوم اک گھیرا گیا پھر قاتلوں کے شہر میں حکم رئیس شہر تھا گردن تنے جو کاٹ دو سر جس کا سارے شہر سے اُونچا بنے وہ کاٹ دو تیغ ستم کے سامنے ہم کلمہ پڑہتے آئے ہیں بچے ہمیشہ جھوٹ کی سولی پہ چڑہتے آئے ہیں ہم ظلمتوں میں نور کی آیات پڑہتے آئے ہیں ہر گام منزل کی طرف آدیکھ شام کربلا....آدیکھ شام کربلا......ہم زین بڑہتے آئے ہیں آدیکھ شام کر بلا.آدیکھے..طیبه زین (Steinau) ماہنامہ خدیجہ جرمنی مئی 1999ء)

Page 376

375 مہ شہادت کا چودھواں دن ہر اک بشر کو رلا رہا ہے زمیں بھی ڈوبی ہوئی ہے غم میں فلک بھی آنسو بہا رہا ہے وہ اک حسین و جمیل پیکر مسیح دوراں کا ایک گوہر بطیب خاطر رہِ شہادت پہ چل کے جنت کو جا رہا ہے کوئی تشدد نہ کر سکا تجھے زیر پیارے غلام قادر ترا ہر اک زخم نوک خنجر کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے عدو کے چنگل میں تیری جرات اسی کرامت کی تھی ضرورت تری شجاعت کی داستانیں چناب ہم کو سنا رہا ہے ترا شہیدانِ دور حاضر میں ایک اونچا مقام ٹھہرا ترے لہو کا ہر ایک قطرہ ترے شرف کو بڑھا رہا ہے خدایا کچھ بھی نہ رحم آیا یزیدیت کو حسینیت پر دمِ شہادت جو تو نے جھیلا وہ درد ہم کو رلا رہا ہے بچا لیا تو نے اک جہاں کو دیا جو اپنے لہو کا صدقہ یہ ہے وہ معرفت کا نکتہ جو ایک عارف بتا رہا ہے ہماری رہ میں ہیں کر بلائیں مگر ہے مستور اُن میں جنت قدم مل رہا ہے مژدہ نظام کو جلد آ رہا ہے

Page 377

376 عدو کو ظلم وستم مبارک وہ اپنا انجام دیکھ لے گا دو رواں دواں کارواں ہے اپنا جو اپنی منزل کو پا رہا ہے بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر یہی کلام سیچ دوراں ہماری ہمت بندھا رہا ہے مسیح (الفضل 30 اپریل 1999ء) چوہدری شبیر احمد یونہی تو لوگ گاتے نہیں ہیں کسی کے گن آتے ہیں یا دسب کو ترے ساتھ تیرے پٹن مجھ کو ملی تھی تیری شہادت کی جب خبر دل پر لگی وہ چوٹ ہوئے ہاتھ پاؤں سُن اپنی تمام خوشیاں جماعت پر وار کے اک سلسلہ کا چل دیا خاموش کارکن تو خاندانِ پاک کا اک منفرد جواں سر پر سوار خدمت دینِ متیں کی دُھن قائم ہیں جن سے صحنِ گلستاں کی رونقیں دست قضا! نہ باغ سے تو ایسے پھول چن قائم رہے گا قدسی خدا کا سلسلہ تو وسوسوں کے اور نہ سوچوں کے جال بن عبدالکریم قدسی انصار اللہ جون 1999ء)

Page 378

377 {1} وہ وہ اُس دن کی بات نرالی تھی جب اشک سے رات نہا لی تھی جو چاند سا چہرہ ڈوب گیا وہ ذات نصیبوں والی تھی پر خطر اندھیرے رستوں میں قندیل وفا کی جلا لی تھی جو ٹوٹ گئی پھل والی اک شجر کی تازہ ڈالی تھی آب رواں بھی کیا برسا ہر کھیت میں ہاں ہریالی تھی جب گھر سے چلے تم ہاتھوں میں ہر شخص کی آنکھ میں لالی تھی اس آل میں جان سے جانے کی وہ طرح بھی تم نے ڈالی تھی ہر اہلِ وفا کو ماریں گے اس دور کی ریت نرالی تھی اللہ کے پیاروں کی قربت اس چاند نے ڈوب کے پالی تھی ترے پیار کی خاطر پیارے نے نئی دنیا یسا لی تھی الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۹۹ء) {2} موج صبا کی شوخی رفتار دیکھنا ان موسموں میں دل مرا بیزار دیکھنا ہر شخص یاں ہے در پئے آزار دیکھنا اے چارہ گر یہ آج کے غم خوار دیکھنا

Page 379

378 وہ نور بن کے آگئے ظلمت کدے میں آج اس چودہویں کے چاند کے انوار دیکھنا اس کارواں کے حُسن کا ضامن ہے پیشوا اس قافلے کا خُوبرو سالار دیکھنا تیری مدح میں جھومتے وہ گیت گائے گا لو آج اس کے ساز کے تم تار دیکھنا وہ آپ ہی کی یاد میں تڑپا ہے رات بھر دامن ہے تار تار تو دل زار دیکھنا وہ دُوریاں، یہ فاصلے اتنے سمٹ گئے ہر روز اپنے یار کو سو بار دیکھنا ہے اک کمی جو یار سے ملنے نہ دے ابھی اس راستے کی عارضی دیوار دیکھنا اک روز گیر ہی جائے گی دیوار ظلم و جور پھر واپسی راحت دیدار دیکھنا دل کی متاع تو آگئی پکنے کے واسطے تم آج میرے شہر کا بازار د دیکھنا اس قوم کا مزاج بھی کتنا بگڑ گیا اک حرفِ ناصحانہ یہ آزار دیکھنا اب چار سو یہ خون کی مہندی لگائے گی ہے اب خدا کی رقص میں تلوار دیکھنا الفضل 29 جولائی 1999ء) {3} اس صاحب لولاک کی ہر بات کی قسم وہ نور تھے اُس نور کی برسات کی قسم

Page 380

سید محمود احمد شاہ 379 دریا کا صاف پانی بھی اب خوں سے بھر گیا پر مسیح کے خون کے قطرات کی قسم وہ ساعتیں عذاب تھیں جب چل دئے تھے آپ اب آئیے کہ آپ کو آیات کی قسم اس چشم تر کو حوصلہ، کچھ حوصلہ حضور آقا تجھے ہے سید سادات کی قسم آجائیے کہ اب تو فرشتے بھی گائیں گیت آنے کے دن قریب ہیں اس ذات کی قسم لوٹ آئیں کاش پھر مرے گزرے ہوئے وہ دن دینے لگے ہیں لوگ تو اب رات کی قسم اس رات میں ہمیں بھی عطا ہو مُقامِ قُرب بہتر ہزار ماہ سے ہے اس رات کی قسم ہر احمدی کا ساتھ دے اس ساتھ کی طرح وہ ”نور“ میں جو ساتھ تھا اس ساتھ کی قسم اے ربّ دو جہاں ادھر بھی ہو اک نظر کرب و بلا کے درد کے لمحات کی قسم ماہنامہ خالد ربوہ ستمبر 1999ء)

Page 381

380 جان دی راه وفا میں عہد کو توڑا نہیں پھول تو نے دنیا رکھا نہیں مقدم دین پہ سفاک خنجر آزما ہوتے نہیں قاتل تو نے کیوں سوچا نہیں، سمجھا نہیں قطره قطره خونِ ” قادر“ کہہ رہا ہے ہمنشیں! قتیل راہِ حق ہو کبھی مرتا نہیں وہ یاد پھر آنے لگے ہم کو بہت ” عبداللطیف راه تسلیم و رضا کو آج بھی چھوڑا نہیں مشکلیں آتی رہیں ہر موڑ پر ہر کام پر صاحب ایماں کبھی جھکتا نہیں ڈرتا نہیں اپنے خوں سے تو نے ” قادر“ جو جلایا ہے چرا نفرتوں کی آندھیوں سے وہ دیا بجھتا نہیں کا بادل ٹوٹ کر بستی پہ برسا تھا ندیم ضبط کا دریا کناروں سے مگر چھلکا نہیں انور ندیم علوی (الفضل 6 اگست 1999ء)

Page 382

381 چلا گیا ہے مگر آن بان چھوڑ گیا ہر ایک راہ پہ اپنے نشان چھوڑ گیا وہ میرے شہر کا اک نوجوان شہزادہ محبتوں کی عجب داستان چھوڑ گیا ہے مكين خُلد زمینی مکان چھوڑ گیا سراپا ناز بدن خود جھلس گیا لیکن رو وفا کے لئے سائبان چھوڑ گیا تمام عہد میں یہ بازگشت گونجتی وہ اس طرح سے نبھا کے گیا ہے رسم وفا کہ مدتوں کے لئے ایک مان چھوڑ گیا خدائے قادر و مومن! انہیں اماں دینا جنہیں وہ تیرے لئے بے امان چھوڑ گیا فرید احمد نوید {1} (الفضل 19 جولائی 1999ء) جان پہ جان وارتے جاؤ اچھے انسان وارتے جاؤ ایک اک جان قرض ہے اس پر اپنے خاقان وارتے جاؤ یوں بھی پیاروں سے ہے جدا ہونا یوں ہے آسان، وارتے جاؤ یونہی سامان آشیاں ہوگا اپنے سامان وارتے جاؤ خواہشیں اس کے در پہ سب قرباں اپنے ارمان وارتے جاؤ اُونچا رکھنا لوائے احمد کو اور ہر شان وارتے جاؤ (الفضل 23 اپریل 1999ء)

Page 383

382 {2} گلشن احمد معطر ہو گیا پھول مہکا اور سرور ہو گیا چاند کا ٹکڑا جو اُترا لحد میں کا ہر ذرہ منور ہو گیا آسماں تیری قسم زندہ ہے وہ خون میں اپنے ہی جو تر ہو گیا دیکھ کر اک ابن فارس کا شعور شوق قربانی کا گھر گھر ہو گیا ہر طرف عشاق کے ہیں قافلے چرچا ہر سو بندہ پرور ہو گیا چڑھ گئے نالے بہاؤ تیز ہے اب تو ہر سجدہ ہی محشر ہو گیا رہے چل کے وحشیوں کے درمیاں شہر میں رہنا تو دوبھر ہو گیا یوں جیا ایسے مرا طاہر کہ وہ شہسواروں میں وہ افسر ہو گیا طاہر عارف الفضل 17 مئی 1999ء) وہ مثلِ موج آپ رواں یوں گزر گیا اک عکس پانیوں پر ہمیشہ ٹھہر گیا تھا شام کی منڈیر پہ جلتا ہوا چراغ تاریک راستوں میں برنگ سحر گیا ست صبا پہ پھول کی صورت کھلا ہوا پھر دفعتاً وہ پھول سر رہ بکھر گیا ہ نکلا دیارِ شوق سے اس خامشی کے ساتھ شہر خیال و خواب کو سُنسان کر گیا پھیلی ہوئی ہے دھندسی حدِ نگاہ تک اب وہ سبک خرام نہ جانے کدھر گیا

Page 384

383 اک نفسِ مطمئن لئے ، اپنے لہو میں تر قادر کا وہ غلام تھا قادر کے گھر گیا اس کے لئے بھی دوستو کوئی دعائے صبر شخص کا نور نظر گیا جس دل اکرم محمود شکن (الفضل 19 اپریل 1999ء) {1} کابل کے شہر میں ہے سنا اک شہید تھا اللہ کے ایک بھیجے ہوئے کا مرید تھا آیا ہے چل کے اس کے نقوشِ قدم پہ جو خونِ مسیح وقت کی پہلی رسید تھا پھر کر بلا کی یاؤ سے بس کچھ ہی روز قبل یہ خوں بہانے والا بھی تو اک یزید تھا بتلا دیا خدا نے مسیح الزماں کو یہ ” آیا مرا غلام جو حق کی نوید تھا قادر تو ہیں بہت سے زمانے میں ہر طرف قادر وہی تھا ایک جو ابن مجید تھا پھیلا ہوا تھا ہر طرف جو عطر خون کا عرق گل گلاب کی وہ اک کشید تھا نذرانہ جس نے پیش کیا اپنی جان کا ” قادر کا وہ غلام تھا“ اور زر خرید تھا کیسے بتاؤں مجھ کو خوشی تھی کہ غم نبیل وو وہ روز، روز حشر تھا کہ روز عید تھا {2} لہرا رہا ہے ہر طرف تیرا نشانِ خاص تیرے لہو میں ڈھل گیا ہے آسمانِ خاص

Page 385

384 تو نے دکھائی ہم کو نئی زندگی کی راہ جس کے ہے ہر قدم پہ کھڑا امتحان خاص خوشیاں سمیٹتے ہوئے خوشبو بکھیر تے چھپ کر چلے گئے ہو بصد امتنان خاص پہنچے ہو رب کے پاس بڑے اہتمام سے اللہ کے ہو تا ابد اب مہمانِ خاص دیکھو امامِ وقت کو ہے تم سے کتنا پیار تم کتنے خوش نصیب ہوائے نوجوان خاص فُزْتُ بِرَبِّ كَعْبَہ“ کا نعرہ لگا دیا تم کامیاب ہو تم ہی ہو کامرانِ خاص مولا کی آج تم پر پڑی نظر انتخاب تم ہی چنے گئے ہو بصد عز وشانِ خاص چشم زدن میں طے کیا تو نے وہ مرحلہ جس کی تلاش میں رہے ہیں بندگانِ خاص مولا کرے کہ ہم میں سے ہر اک کو ہو نصیب تیری ادائے منفرد تیری زبان خاص کیجئے دعائے صبر اب ان کے لئے نبیل مرزا نبیل احمد جو رہ گئے ہیں بعد میں پس ماندگانِ خاص ماہنامہ خالد ربوہ ستمبر 1999ء) بچھڑ گئے تم سے یہ لگتا ہے ہم نہیں زندہ ستم یہ کیا کوئی دیکھے تو بس ہمیں زندہ خیالِ یار ہم آغوش دم قدم اپنے عجیب کیفیت جاں، عجب یقیں زندہ نگر کا بوجھ اُٹھائے ترے شہید نگاہ کہیں نگاہ سے اوجھل ہوئے کہیں زندہ عجب نموتھی مرے زخم زخم پھولوں میں جہاں بھی کٹ کے گرے کھل اُٹھے وہیں زندہ ہزار سجدے گزارے تھے آدمی نے مگر گری جو خاک پہ وہ ہوگئی جبیں زندہ

Page 386

385 ترے خیال کے موسم کی دھوپ چھاؤں میں ترے شکستہ نگر کا ہے ہر مکیں زندہ ازل سے دعوی محبت ابد تلک منصور یہاں فنا سے بھی گزرے ہوئے یہیں زندہ مظفر منصور انوار احمد ہفت روزہ لاہور نشان راہ بنا، آسماں کا تارا غلام قادر ہمارا ہوا خدا کو پیارا ہوا وہ اب نہیں ہے یہاں پھر بھی اس کی آنکھوں نے جو خواب دیکھا تھا وہ خواب اب ہمارا ہوا وہ دھوپ تھی کہ مجھے چھاؤں جیسی لگتی تھی وہ چہرہ! جس کے لئے چاند استعارہ ہوا بہار ہو کہ خزاں ساتھ ساتھ رہتا ہے وہ ہالہ نور کا اک دائمی نظارہ ہوا اب اُس کے زخم کا کچھ اندمال کر یا ربّ کہ میرا درد تو شعروں میں آشکارا ہوا (الفضل 15 مئی 1999ء)

Page 387

386 خدا کے فضل و کرم کا وارث بنا ہے پیارا غلام قادر سحر کی جس سے نمو ہوئی ہے وہ ہے ستارہ غلام قادر تری ذہانت، تری فطانت، تری بلاغت، تری شجاعت خدا کے فضلوں.کرامتوں کا بنا نظارہ غلام قادر گھلا ہے باپ ارم کہ آیا ہے آج جنت میں چاند بن کے خلیفہ رابع کا جانِ جاناں حسین و پیارا غلام قادر خدا کی ہیبت عذاب بن کے عدو کی روحوں کو چیر دے گی خدا کی قدرت کا بن گیا ہے عجب شرارہ غلام قادر جگر پہ مگھریاں کی چل رہی ہیں تڑپ رہا ہے یہ سیف منتظر سی کہ چھن گیا ہے ہمارا مونس حسیں سہارا غلام قادر شیخ سلیم الدین سیف الفضل 7 جون 1999ء) وہ مسکراتا حسین چهره فقط تبسم سراپا اُلفت ہمارے دل کو حزیں بنا کر کہاں دلوں سے فرار ہو گا وہ نقش بن کے رہے گا سینوں میں، عزم کا سر بلند راہی یہاں بھی بازی ہے اس نے جیتی، وہاں بھی وہ شہسوار ہو گا

Page 388

387 تیری شہادت شمع فروزاں بنے گی تاریک راستوں میں تو ساری ملت کا مشعل راہ، روشنی کا منار ہو گا غلام قادر! تو جی رہا ہے شراب الفت کی پی رہا ہے فرشتے لیں گے بلائیں تیری خدا کو بھی انتظار ہو گا سلام تیری وفا کو قادر! شہید ہو کے کٹا دیا سر یہ نام روشن رہے جہاں میں، یہ ذکر اب بار بار ہو گا تری وفا سے سبق ملیں گئے کہ دیپ سے دیپ اب جلیں گے سکھا دیا تو نے مر کے جینا جنون یہ اب بار بار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا شین رے خان وہ علم و آگہی میں فقید المثال تھا مرزا غلام قادر بڑا خوش خصال تھا عہد وفا جو باندھا نبھایا وہ عمر بھر صدق و سداد میں وہ عدیم المثال تھا جاں نذر کر کے اُس نے ثبوت وفا دیا وہ منحنی وجود بڑا باکمال تھا مرزا غلام قادر تھا شیدا امام کا طاعت میں منفرد تھا بڑا خوش خصال تھا اُس کا حوالہ باعث اعزاز و افتخار تزئین ملک و قوم تھا حُسنِ جمال تھا

Page 389

388 اُس کا وجود باعث ترویج علم وفن وہ معدنِ علوم تھا شیریں مقال تھا یہ خون رائیگاں تو کبھی بھی نہ جائے گا جس کا مسیح پاک سے اک اتصال تھا یہ کس کا خون ہے جو بہا ہے زمین پر نور نظر مجید کا، قدسیہ کا لال تھا لاریب یہ ہے خون مبشر وجود کا جو سبط میرزا تھا مسیحا کی آل تھا ہائے کلیجہ کیوں نہ پھٹا اُس زمین کا جس پر گرا ہوا یہ مسیحا کا لال تھا راضی رہے خدا کی رضا پر مگر نسیم ہر دل میں ایک درد تھا رُخ پر ملال تھا میاں نسیم احمد طاہر گولڈ اسمتھ ربوہ (20 اپریل 1999ء)

Page 390

389 Long Live Ghulam Qadir Astute, shrewd, sagacious Qadir Was ferociously tossed form Zenith to Nadir Cannon to his left, cannon to his right Volleyed and thundered with all their might Brave he was, and bravely he fought The Killers, the robbers and their squad Fought to the last and did not yield Truly Qadir is a putative "SHAHEED" Qadir, a sisyphean rock in a stormy stream With a fatal blow was turned into smithereens From here to there the journey he covered Within a jiffy, and is highly revered Scholars' like Qadir shall always live To the life itself a light they shall give Braves like him are rarely found.Frighten them not, the ugly hungry hound.I salute Qadir, and so do you Blessings unto him till sky is blue Ghulam Qadir is dead, Long Live Ghulam Qadir In his Heavenly have with his Great Grand Father NAZARHUSSAIN

Page 391

شہزاد عاصم 390 چہرہ وہ کسی ٹور کے ہالوں کی طرح تھا سچ کہتا ہوں قادر تو اُجالوں کی طرح تھا جس عہد کے مہتاب ہیں اب رابع خلیفہ اُس عہد کی تابندہ مثالوں کی طرح تھا دشمن تھے مقابل یہ کہ خونخوار درندے تنہا وہ لڑا شیر، جیالوں کی طرح تھا حیرت سے اُسے موت سدا یاد رکھے گی جھکنے شخص بظاہر جو غزالوں کی طرح تھا سے وہ کچھ اور بھی لگتا تھا ثمر بار کردار میں دیکھو تو ہمالوں کی طرح تھا ܙ܀ اپنوں میں وہ ریم کی طرح نرم شمائل دشمن کے لئے سخت جبالوں کی طرح تھا ہونٹوں پہ تھی مُسکان تو آنکھوں میں حیا گفتار میں وہ شیریں خصالوں کی طرح تھا ہر بات جو اُس کی تھی نگینوں کی طرح تھی جو لفظ تھا گویا وہ حوالوں کی طرح تھا اپریل کی چودہ تھی کہ تاریخ قیامت؟ عاصم وہ عجب دن تھا کہ سالوں کی طرح تھا!

Page 392

391 محرم آیا ہے آؤ خدا کی بات کریں خدا کے بندوں کے صدق وصفا کی بات ے دنوں کے صدق و منا کی کریں یزیدی ظلم کی، جور و جفا کی بات کریں سنو تو معرکہ کربلا کی بات کریں سفر ہے کلمہ توحید کا سدا جاری بیک خیال و زبان لا الہ کی بات کریں دیے وفا کے جلائے ہیں تیری راہوں میں شعاع نور کی شمع ہدی کی بات کریں وہ جس کی شانِ شہادت پہ جان ہے قُرباں غلام ابنِ مسیح الزماں کی بات کریں جو شاخ کاٹی گئی ہے مسیح کے گلشن سے اس کی چھاؤں کی ٹھنڈی ہوا کی بات کریں پکارتی ہے ہمیں آج روح ذبح عظیم اصغری نور الحق چلو حسین کے درس وفا کی بات کریں حصارِ ذات سے باہر نکل گیا ہے کوئی محبتوں کے ہی معنی بدل گیا ہے کوئی ہزار رحمت باری ہزار اُس پہ سلام وفا کے چہرے پہ چاندی سی مل گیا ہے کوئی اُلجھ کے موج حوادث سے دین کی خاطر عدو کے سارے ارادے بدل گیا ہے کوئی حسین پاک کی سیرت سے روشنی لے کر یزید وقت کی نخوت کچل گیا ہے کوئی یہ سچ ہے سونا کٹھالی میں پڑ کے گندن لگا دی جان تو کیسے اُجل گیا ہے کوئی ہے

Page 393

392 نصرت تنویر جہانِ فانی کے ناتوں کو توڑ کر تنویر نئی حیات کے سانچے میں ڈھل گیا ہے کوئی شہید کے لہو کا قطرہ قطرہ ہم پہ قرض ہے دعائیں دیں ہم اُن کو لمحہ لمحہ ہم پہ فرض ہے یہ لوگ ماه و مہر ہیں وفا کے آسمان پر یہ سرفروش مسکرا کے کھیلتے ہیں جان پر کہو نہ ان کو مردہ یہ مردہ نہیں ہیں زندہ ہیں ہمیں سمجھ نہیں مگر یہ زندہ و پائندہ ہیں برائے کو بہار دیں یہ اپنا خون دے گئے امة الباری ناصر خدا کی رہ میں جان دینے کا جنون دے گئے حیات اور ممات کا سب بھید اُس کے ہاتھ ہے جو خدا کے ہوگئے خدا خود اُن کے ساتھ ہے

Page 394

باب 13 393 تعزیتی خطوط جو درد سکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے شاید که یہ آغوش جدائی میں پلا ہے

Page 395

394 سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا ہے.اور دلی جذبات کا الفاظ میں اظہار ممکن ہی نہیں ہے.عجیب بے بسی اور لاچاری میں اعتراف عجز کرنا پڑتا ہے.دل نکال کر کسی کے آگے رکھا جاسکتا ہے نہ بیان پر قدرت ہوتی ہے.روبرو گفتگو ہو تو آنکھیں چھلک کر کچھ کام بنا دیتی ہیں البتہ خطوط میں ٹوٹا پھوٹا اظہار کچھ ترجمان بنتا ر لکھنے والے کے جذبات مکتوب الیہ کے احساس کو چھونے لگتے ہیں.صاحبزادہ کی رحلت تعزیت کے لئے آنے والے بے شمار خطوط میں قدر مشترک سچے جذبات غم ہیں اور آنسوؤں سے بھیگی ہوئی دعائیں.جو حرماں نصیبوں کے زخمی دلوں کا مرہم بنتی ہیں ان خطوط میں کچھ بے ساختہ اظہار دیر تک گھائل دلوں کو سہلاتا رہا.ایسے ہی خطوط میں سے چند بغرض دعا پیش خدمت ہیں.اللہ تعالیٰ ان غمگساروں کے غموں کا خود مداوا بن جائے اور جزائے خیر سے نوازے.آمین

Page 396

395 محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم ایم احمد ) امیر جماعت ہائے احمد یہ امریکہ 15ستمبر 1999ء پیارے مجید و قدسیه! الفضل کے پرچہ میں قادر پر تمہارا مضمون اور اس سے پہلے قدسیہ اور نصرت کے مختصر مضمون ملے.ان ساری دلگداز تحریروں سے بے اختیار آنسو دُعاؤں میں ڈھلتے رہے.اس دل ہلا دینے والے حادثے میں بے شمار احباب شریک غم رہے اللہ تعالیٰ سب کی تفرعات کو قبولیت کا شرف بخشے.قادر کی شہادت گہرے غم کے ساتھ ایک تسکین کا پہلو بھی لئے ہوئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے دین کی ایسی بے مثال قربانی کی توفیق اور ہمت بخشی.مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ قادر سے مجھے بہت کم مواقع ملاقات کے میسر آئے کیوں کہ اس کے بچپن سے لے کر جوانی تک میں ملک سے باہر رہا.تھوڑا بہت جو وقت ملا وہ اس کے واشنگٹن کے قیام کے دوران تھا اس تھوڑے سے عرصے میں وہ اپنی خوبیوں کی وجہ سے بہت پیارا لگنے لگا.قیوم کو بھی بڑا گہرا صدمہ ہوا طبیعت کے لحاظ سے ہمیشہ ایسے مواقع پر وہ خود گفتگو کے لئے ہمت نہیں پاتیں.ان کی بے قراری اور غم میں ڈوبی ہوئی دُعائیں برابر جاری ہیں.ہم سب کی طرف سے سب کو سلام و پیار دُعاؤں کے ساتھ خاکسار مرزا مظفر احمد

Page 397

396 محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر جماعت احمدیہ قادیان 15 اپریل 1999ء عزیزم قادر کی اچانک دردناک وفات جہاں شدید صدمے کا موجب بنی ساتھ ہی اس کی شہادت جو خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام میں اس نوع کی پہلی شہادت ہے وہ مرحوم کے لئے والدین کے لئے عزیزہ نصرت جہاں اور اُن کے بچوں کے لئے موجب افتخار ہے صدمہ تو انتہائی شدید ہے اور اُس کی برداشت کی طاقت اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ممکن ہے ہمیں جو اطلاعات مل رہی ہیں وہ باعث اطمینان ہیں کہ عزیزہ نچھو آپ دونوں اور ہمشیرہ امت الباسط نے بہت صبر کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ دلوں کو ہر قسم کے صدمات کے برداشت کی توفیق دے آپ سب کو صبر جمیل کی مثالی توفیق دے اور عزیزم غلام قادر کے چاروں بچوں کو بہترین رنگ میں پروان چڑھائے وہ اپنے ابا مرحوم کی نیکیوں کو قائم رکھنے والے بنیں اور اللہ تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے ہمیشہ تھامے رہیں کیونکہ یہ بالکل سچ ہے.” خداداری چه غم داری“ مرحوم کو کمپیوٹر لائن میں جماعت کا ریکارڈ محفوظ کرنے کی نمایا خدمت کی توفیق اور سعادت حاصل ہوئی جماعت میں کئی افراد مرد و زن کو شہادت کا جام پینا پڑا ہے.جہاں پر یہ شہادت پسماندگان کے لئے صدمہ کا باعث ہوئی وہاں ان کے لئے باعث افتخار بھی ہوئی ہے درجنوں احمدی شہید ہوئے اب اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو بھی اس شہادت سے نوازا ہے اور آپ کو اس کے لئے چنا ہے.خاکسار مرزا وسیم احمد

Page 398

397 محترمه امة القدوس صاحبه دارایی قادیان صدر لجنہ اماء اللہ بھارت 16 اپریل 1999ء حضور کے خطبے سے پوری تفصیل معلوم ہوئی کہ دشمنوں کے کیا ارادے تھے اللہ تعالیٰ نے کس طرح جماعت کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا تھا اور عزیزم بہادر قادر نے جماعت کے لئے کس طرح قربانی دی.حقیقت ہے جس خدا نے اس بہادر شہید کی قربانی لی ہے اُس کے والدین کو بھی بہت بڑا دل دیا ہوگا.محترمه امة الوكيل صاحبه ( قادر کی بھابھی ) - امریکہ خط لکھنے بیٹھی ہوں تو الفاظ نہیں مل رہے کہ میں کس طرح اپنا صدمہ بتاؤں سب سے پہلے تو اُس کی شہادت کی مبارک دیتی ہوں لیکن غم تو پھر بھی اپنی جگہ ہے.جہاں تک قادر کی ذات کا تعلق ہے اس کا انجام تو قابلِ رشک ہے ہزاروں لوگ اس انجام کی خواہش کرتے ہیں لیکن توفیق خدا صرف اپنے خاص بندوں ہی کو دیتا ہے.قادر کی زندگی بے شک چھوٹی تھی لیکن بڑی با مقصد تھی دین کی خاطر زندگی گزاری.ماں باپ کی خدمت کی.خدا کی خاطر جان دے دی.ہزاروں لوگ ایسے ہوتے ہیں توے سو سال جی کر بھی نیکی نہیں کر سکتے.اس نے امریکہ میں پڑھائی مکمل کی اور سیدھا ربوہ جا کر خدمت میں لگ گیا.محترمه شوکت سفیر صاحبه ) حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ کی صاحبزادی ) - لندن عزیزم بہت ہی نیک اور شریف انسان تھا ایسی نیک اولاد تو حقیقت میں ماں باپ کے لئے فخر کا باعث ہوتی ہے اور اُس کی شہادت سے آپ شہید

Page 399

398 کے باپ ہو گئے.اس وقت تو ہمارے دلوں کا یہ حال لگتا ہے کہ کوئی چٹکیوں سے دل مسل رہا خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو صبر دے.Mona and Karim The Hogue ) حضرت خلیفۃ اسیح الرابع ایدہ اللہ کی صاحبزادی) April 15, 1999 We really do not know what to write and how to express our feelings.It is an almost unbearable loss.You are constantly in our prayers, in our thoughts and in our hearts.I know Hazur is also so upset.He has said how special and brilliant a person bhai Qadir was.He was an honour to you both, and indeed a blessing to the Jama'at.محترم عطا المجیب راشد صاحب و محترمه قانته راشد صاحبه - لندن 16 اپریل 1999ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے قابل فخر چشم و چراغ اور آپ کے خوش قسمت اور سعادت مند قابل فخر بیٹے مکرم مرزا غلام قادر صاحب کی المناک وفات لیکن قابلِ فخر اور قابلِ رشک شہادت کی خبر نے دلوں کو از حد مغموم کیا.وفات کے حوالے سے دلی جذبات تعزیت عرض کرتے ہیں اور خطبہ جمعہ کے حوالے سے مبارکباد عرض کرتے ہیں.ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده محترم نسیم مهدی صاحب - کینیڈا (امیر و مشنری انچارج) عزیزم مکرم مرزا غلام قادر کی شہادت کی خبر ایسے موصول ہوئی جیسے دل

Page 400

399 پر بجلی گرتی ہے.اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.اس ناگہانی اور اچانک شہادت سے جو صدمہ ہوا ہے وہ تو پہاڑ کی طرح بوجھل ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت دے یہ یقیناً ایک بہت بڑا جماعتی صدمہ ہے.محترمه اصغری نور الحق صاحبه - لندن عزیز نہایت خوش قسمت تھا جسے سب کا پیار ملا.خلیفہ وقت کا پیار ملا.خدا تعالیٰ نے تو پیار کا عجب انداز دکھایا کہ سب سے بڑا انعام عزیز پر نچھاور کر دیا.یہ شاخ جو مسیح کے گلشن سے کائی گئی اور نزد سدرۃ المنتہی لگائی گئی ہے نہایت بار آور ہوگی اور اس کی گھنی چھاؤں تلے سب بسیرا کریں گے.محترمه نجمه عطاء الحق صاحبه - کوئٹہ مرزا غلام قادر شہید جماعت اور خاندان کے درخشندہ گوہر تھے.اخبار میں مرحوم کی اتنی خوبیاں اور لیاقت کے بارے میں پڑھ کر بہت افسوس ہوتا ہے.سارے خاندان اور حضور کے غم کا خیال کر کے دُعا ہی کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو صبر دے.اُن کی بیوی بچوں کا ہر آن حافظ و ناصر ہو.اللہ تعالیٰ اس پاکیزہ روح کو اپنے قرب میں جگہ دے.آپ کے درجات ہر لمحہ و ہر آن بلند سے بلند کرتا چلا جائے اور زخمی دلوں کو اپنی جانب سے تسکین دے.آمین محترم میاں محمد ابراهیم صاحب جمونی – ربوه میری طبیعت بہت کمزور ہے.زیادہ چل پھر نہیں سکتا اس لئے اس خط کے ذریعے ہی تعزیت کرنے پر مجبور ہوں آپ کو جس قدر عظیم صدمہ سے دوچار ہونا پڑا اللہ تعالیٰ اُس کو صبر وشکر سے برداشت کرنے کی توفیق دے.آمین محترم کریم احمد نعیم صاحب مع خاندان ایاز احمدی - یو ایس اے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خصوصاً مرحوم کے والدین اور

Page 401

400 بیوی بچوں کے لئے نہایت صبر آزما صدمہ ہے.اللہ تعالی حوصلہ ہمت اور صبر عطا فرمائے.ہم چونکہ ایاز احمدی ڈاکٹر حشمت اللہ خان کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کہ جس نے ہر عُسر و ئیسر میں اپنے امام حضرت محمود کا اس وقت ساتھ دیا جب ہم اور آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور اپنے عہد کو تا عمر بڑی وفاداری سے نبھایا.اس لئے ہمارے جذبات و تعلقات اُسی طرح ہیں گو کہ زمانہ اب بہت بدل گیا ہے.محترم خواجه عبدالمومن صاحب - اوسلو ناروے ظالموں نے کس درد ناک طریق سے تکلیف دے کر ان کو شہید کیا لیکن وہ خدا تعالیٰ کے گھر شہادت کا رتبہ پا کر ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے.اللہ تعالیٰ شہید پر بے شمار برکتیں اور رحمتیں نازل فرمائے.آمین محترم بشری طیبه صاحبه - بحرین اس شہادت سے چند دن پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ سب بہنیں ایک جگہ اکٹھی ہیں اور غمزدہ ہیں ایک بڑا سا ہال ہے آپ کے خاندان کے اور افراد بھی ہیں میں آپ سب کو پریشان دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ کیا بات ہے لیکن کسی سے کچھ پوچھتی نہیں ہوں.خاکسار کا آپ سے بہت محبت کا تعلق ہے.حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے خطوط لکھنے کی خدمت ایک لمبے عرصے تک کی.حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کہا کرتی تھیں میری بشری.حضرت سیدہ بیگم امۃ الحفیظ صاحبہ بھی خاکسار سے بہت محبت کرتی تھیں.میرے شوہر مکرم صدیق یوسف صاحب اور بچے بھی غم کا اظہار کرتے ہیں.مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب میرے شوہر کے پھوپھی زاد ہیں.

Page 402

401 محترم ارشاد احمد خان صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سرحد پشاور خدا تعالیٰ نے آپ کو اس امتحان کے لئے چنا اور ساتھ ہی ایسی نعمت بے بہا کے لئے بھی مگر سر دست بھاری ہے اور امتحان سخت.خدا تعالیٰ نے خاندان مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے کڑے امتحان کے لئے چن کر جماعت کو بہت بڑا درس دیا ہے وہ درس ہم سب کے لئے ہے قربانیوں کا اور اُن سے منہ نہ موڑنے کا.محترم محمد اقبال محمود صاحب - گنری عمرکوٹ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانی کو جماعت کی قربانی سے تشبیہ دی ہے.نیز ان کی قربانی کی مثال شہزادہ عبداللطیف شہید سے دی ہے.یہ درجات اللہ تعالیٰ کسی کسی کو دیتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے.(آمین) محترمه سلیمه میر صاحبه - کراچی شہادت کی خبر سے دل غم سے بھر گیا ہے.حضرت مسیح موعود کی نسل میں سے یہ اولین شہادت ہے جس میں آپ اور آپ کی اولاد شریک ہیں.محترم ضیاء الله ظفر صاحب - مربی سلسلہ، مرید کے، ضلع شیخوپورہ واقعات کی تفصیل سن کر انتہائی دکھ ہوا لیکن ڈھارس بندھی کہ اس وجہ سے کہ مرحوم نے اپنی جان تو جان آفرین کے سپرد کر دی لیکن جماعت کے دشمن کی خوفناک سازش کو ناکام و نامراد کر دیا.محترمه ذکیه محمد نصیب عارف صاحبه - راولپنڈی اکتوبر 1998ء میں جب میں اپنی آپا کے ساتھ آپ سے ملی تھی تو آپ سارا وقت عزیزم قادر ہی کی باتیں کرتی رہیں.ساری باتیں فلم کی طرح

Page 403

402 آنکھوں کے سامنے آنے لگیں.شہادت کی خبر سے دل میں ہو کیں اُٹھ رہی ہیں وہ تا ابد زندہ ہو گیا.محترمه بشری بشیر صاحبه - امریکہ شہید کی عظیم الشان قربانی اور بے مثال جرات تو قابلِ رشک ہے اللہ تعالیٰ نے اسے تو اعلیٰ علیین میں اپنے پاس جگہ دے دی ہوگی.اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.آمین - محترم عبدالسمیع صاحب نون – سرگودها افسوس شہید کی زندگی میں اُن سے ملاقات نہ ہوئی مگر جن دوستوں کو اُن سے تعارف نصیب تھا وہ کہتے ہیں وہ فرشتہ تھا پورا فرشتہ.ثاقب مالیر کوٹلہ والوں کے اشعار اس شہید پر بھی اطلاق پاتے ہیں.ایک ہم میں در یگانہ تھا احمدیت کا اک خزانہ تھا گو بسیرا زمیں میں تھا اس کا آسماں اس کا آشیانہ تھا گیا پہلے اپنے مرنے سے اس کا مسلک جو صوفیانہ تھا محترمه رقیه بشری صاحبه اهلیه کرم الهی ظفر مرحوم غمی اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے دلی تعزیت کا اظہار کرتی ہوں.صاحبزادے کی رحلت پر آپ کو جو صدمہ ہوا اس کے تصور سے دل غمگین : مین ہوتا ہے اللہ تعالیٰ صبر کی توفیق دے محترم محمد جلال صاحب شمس - جرمنی عاجز اور اہلیہ کی طرف سے دلی تعزیت قبول کریں.متعلقین کی خدمت میں ہمارا سلام اور احساسات پہنچا دیں.شہید تو خدا کی رضا کی جنت میں راضیۂ مرضیہ داخل ہوا قاتلین بھی اس دنیا میں رہنے والے نہیں تسود وجوہ کے مطابق بالآخر اُن کو بھی جانا ہے.دونوں کے سفر آخرت میں کتنا فرق ہے.

Page 404

403 محترمه عارفه منظور مرزا صاحبه - کینیڈا غلام قادر صاحب کی دلیرانہ شہادت کی خبر سن کر بہت صدمہ پہنچا مرحوم نے بہت شجاعت اور مردانگی سے مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا.ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو محترم مرزا منظور احمد صاحب کینیڈا ایسے معصوم اور بے گناہ اور نیک اطوار بچے کو قتل کرنا ظلم اور نہایت درجہ کی شقاوت قلبی ہے بے شک ہم نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا مگر یہ جدائی اس قسم کی ہے کہ کسی پہلو سے غم سے آرام نہیں مل رہا اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت اور سایہ عاطفت میں رکھے.آمین اور مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے.اس واقعہ کی وجہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بہت یاد آئے مجھ جیسے کمزور کو بعض اوقات اپنے قلم سے دُعا کے لئے لکھا کرتے تھے حالانکہ جو میں ہوں مجھے پتہ ہے مگر ایسے عظیم شخص کی طرف سے ایسا خط بڑی عزت کا موجب ہوتا تھا اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے.آمین شیخ رحمت اللہ صاحب - کراچی شہادت اپنی ذات میں رنگین وحسین ہوتی ہے اس پر حضرت صاحب کا بیان قادر کی شہادت کو رنگین تر بنا گیا میں خطبہ سنتا جاتا تھا اور غالب کا یہ مصرع ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا دل میں پڑھتا جاتا تھا حضور کے خطبہ نے قادر کی شہادت کو چار چاند لگا دیے

Page 405

404 اللہ تعالیٰ شہید اور خطیب پر اپنی رحمتیں برساتا رہے.آمین قادر کی شہادت کے بعد جو منظر اُبھرا اس سے مجھے حفیظ ہوشیار پوری کا یہ شعر یاد آگیا.حفیظ اس طرح جائیں گے جہاں سے دیارِ عشق میں ماتم رہے گا ہے.حفیظ کے نام قادر سے بدل دیا جائے تو شعر بالکل حسب حال ہوتا محترم محمد احمد جلیل صاحب - یو کے بنگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار سے بہترین اس وقت اظہارِ صد ہزار جذبات نہیں ہوسکتا.پُر خطر ہست این بیابانِ حیات صد ہزاروں اثر دہائش در جهات صد ہزاروں آتشے تا آسماں صد ہزاروں سیل خونخوار دوماں صد ہزاروں فرسنگے تا گوئے یار دشت پر خار و بلائش این شوخی ازاں شیخ عجم ایں بیاباں کر دے از یک قدم نقد جاں از بهر جاناں باخته دل ازیں فانی سرا پرداخته این چنین باید خدا را بنده سر پیئے دلدار خود افگنده جدا ہونے والے اور پسماندگان کے لئے دُعا کرتے ہیں.اے خدا اے چارہ ساز ہر دل اندوہ گیں اے پناہ عاجزاں آمرزگار مذنبیں از کرم آن بنده خود را به بخشش با نواز وایس جدا افتادگان را از ترحم ها به ہیں حضرت عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات پر ان کے حق میں جو دعا

Page 406

405 کی وہی آپ کے پڑپوتے غلام قادر کے لئے دہراتا ہوں.اے خدا بر تربت او بارش رحمت بیار داخلش کن، از کمال فضل، در بیت النعیم نیز مارا، از بلا ہائے زماں محفوظ دار تکیه گاه ما توئی، اے قادر رب رحیم اللّهمّ اغفر لعبدك وارحمه وارفعه في عبادك الشهداء والصالحین.آمین محترم لطف الرحمان محمود صاحب - ٹیکساس (امریکہ) اللہ تعالیٰ خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے اس ہونہار اور سعادت مند نونہال کی جواں سال شہادت قبول فرمائے اور اسے جماعت کی ترقی و استحکام اور فتوحات و برکات کا باعث بنائے شہید نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر جماعت کو ایک بہت بڑے ملک گیر ابتلاء اور فتنے سے بچا لیا.آئندہ آنے والی نسلیں بھی مرحوم کے اس احسان کو یاد رکھیں گی جیسا کہ حضور اقدس نے فرمایا شہید مرحوم کے پاک خون کا ایک ایک قطرہ آسمانِ احمدیت پر ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا.انشاء اللہ مولا کریم شہید مرحوم کو قرآنی وعدے کے مطابق حیات ابدی، مقامات قرب اور جنت الفردوس میں پاکیزہ رزق سے نوازے گا دُعا ہے کہ مولیٰ کریم اُن کی اہلیہ اور معصوم بچوں کا دین و دنیا میں حافظ ہونا صر ہو اور ان سب کو حضرت اماں الزماں کے روحانی وارث بنائے.آمین محترم عبد الحمید صاحب - یو ایس اے مرحوم نے جس ہمت اور بہادری سے شقی القلب دہشت گردوں کے چنگل سے نکل کر اور اُن کے منصوبوں کو ناکام بنایا ہے اور اپنی جان قربان کر

Page 407

406 کے ساری جماعت کے خلاف مذموم منصوبے کو ناکام کیا ہے وہ ہمیشہ تاریخ میں زریں حروف سے لکھا جائے گا.محترم کمال یوسف صاحب - ناروے صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کی شہادت پر ایک نسبت سے اظہارِ تعزیت پیش کرنے کے لئے دوسری نسبت سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں.جس رنگ میں اُن کی جدائی ہوئی وہ قابلِ رشک ہے.جدائی پر افسوس ہے اور یہ دونوں جذباتی کیفیتوں کے دھارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں.محترم سردار عبد القادر صاحب آف چنیوٹ - حال فرینکفرٹ پیارے مرزا غلام قادر خدمت دین میں وقت قُربان کرنے والا احمدیت کی تاریخ میں اپنے خونِ شہادت سے نئے باب رقم کر گیا.احمدیت کی دوسری صدی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا نو نہال شہادت پانے والا وجود بن کر ہمیشہ کے لئے خدا کے حضور چلا گیا.اے مرزا غلام قادر شہید تم پر لاکھوں رحمتیں نازل ہوں.تم زندہ جاوید ہو.محترم قاضی نذر محمد صاحب - چک چٹھہ، حافظ آباد آپ کے مضامین نے دل پر سکتہ کی کیفیت طاری کر دی ممکن نہیں کہ ہم اپنے دل نکال کر آپ کے سامنے رکھیں کہ دیکھ لیں کہ آپ کے اور ہمارے دلوں کی حالت میں کوئی فرق ہے؟ ہم تو اپنی زبانوں سے خاموش ہیں اور ہمارے دل اپنے اللہ تعالیٰ سے اُس کے فضل کی فریاد کرتے ہیں.محترمه مبارکه خاتون صاحبه اهلیه ڈاکٹر رشید احمد صاحب مرحوم - سویڈن عزیزم شہید میرے بیٹے ڈاکٹر انس رشید کے کلاس فیلو تھے اور بعد

Page 408

407 میں عزیز انور رشید کے ساتھ پبلک اسکول میں اکٹھے پڑہتے رہے.وہاں سے ہمیشہ ربوہ کے لئے اکٹھے ہم سفر ہوتے اس وجہ سے ہمارے گھر اکثر یہ نام لیا جاتا.بہت نیک نفس اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے.محترم مبشر احمد عابد صاحب - روس میں اور میری جماعت آپ کے غم میں برابر کی شریک ہیں اللہ تعالیٰ شہید کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اس شہادت کے ثمرات آپ پر اور پوری جماعت پر بارش کی طرح نازل ہوں.آمین محترم محمد زکریا خان صاحب - مالمو ایسے ہونہار فہیم اور خادمِ دین متین کی شہادت جہاں آپ کے لئے اور ہمارے لئے شدید رنج والم کا باعث بنی وہاں جماعت کے لئے بھی نقصان کا موجب ہوئی اور ایسے قابل، تجربہ کار اور نفع رساں وجود سے محروم ہوگئی.شہید مرحوم کی اہلیہ صاحبہ کی خدمت میں بہت سلام اور تعزیت عرض کر دیں.کہ وہ میرے بہت ہی پیارے محسن اور مشفق اُستاد حضرت سید داؤد احمد کی دختر ہیں.سالہا سال بیت گئے مگر شاید ہی کوئی دن ایسا آیا ہو کہ اپنے اس محسن اُستاد کو یاد نہ کیا ہو.محترمه شیبا دبیر صاحبه ( قادر کی چچا زاد بہن ) کھاریاں ہم تو بچپن میں ساتھ کھیلے ہوئے تھے بار بار وہ باتیں جو قادر، سیمیں اور میں کرتے تھے ذہن میں آتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس کو بڑا رتبہ دیا ہے ہمیشہ کے لئے اس کا نام تاریخ کی زینت بن گیا.محترم غالب احمد صاحب راجه - گلبرگ لاہور عزیزم مرحوم سے پچھلی دفعہ جب ربوہ حاضر ہوا تو بالمشافہ ملاقات ہوئی بے حد متاثر ہوا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی اللہ تعالیٰ کی

Page 409

408 حکمتوں کی اتھاہ کو پا لینا ہمارے بس میں ہر گز نہیں اس لئے ہم یہ سب معاملات ایمانیات کے خانے میں دھر لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں.اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں.محترم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب - لندن یہ چھوٹا سا بچہ تھا جب ہم ربوہ میں آکر آپ کے پڑوس میں رہائش پزیر ہوئے پھر یہ ہماری آنکھوں کے سامنے پلا اور بڑا ہوا.خدا تعالیٰ نے اسے دین کی خدمت کے لئے منتخب فرمایا.اس کے بعد اکثر ان سے میرا رابطہ رہتا تھا بہت ہی محبت کرنے والا ذمہ دار، خاموش طبع اور ہمدرد وجود تھا اپنی خوبیوں میں منفر د تھا.Rafiq & Nilofar Tschannen.Bangkok, Thailand May Allah grant him the greatest of rewards of eternal life and may Allah grant strength to all family members left behind.And may Allay find us all ready for the same level of sacrifice at any time.محترمه امة العزیز ادریس صاحبه - امریکہ شہید مرحوم نے اپنی جواں مردی اور بہادری سے کس طرح ان ظالم سفاک لوگوں کا مقابلہ کیا اور اپنے خون سے ایک انتہائی بھیانک سازش سے جماعت کو بچا لیا وہ خدا تعالیٰ کا جانباز سپاہی تھا.اللہ تعالیٰ نے اس کی زندگی کو لازوال بنا دیا.Majid (Mirza Majid Ahmad's Nephew) You were a proud father when Qadir was there, you are the proudest when he is no more.May God be with you always.

Page 410

409 محترمه آصفه اسلم صاحبه - ٹورانو عظیم بیٹے نے عظیم قربانی دی ہے تم عظیم ماں ہو اللہ تعالیٰ پسماندگان کا خود حافظ و ناصر ہو آسمانی سکنیت کا نزول ہوتا رہے عزیزم غلام قادر شہید میرے بیٹے داؤد کو جب وہ امریکہ میں مقیم تھے، جمعہ کی نماز کے بعد اکثر لفٹ دیا کرتا تھا وہ نیکیاں کرنے کی عادت رکھتا تھا اسی لئے اتنی بڑی نیکی کر گیا.محترم مقصود احمد نسیم صاحب.جرمنی عزیزم میرے ہاتھوں میں کھیل کر پہلے تھے.بے حد نیک خصلت اور پیارے وجود تھے جلسہ سالانہ 1993ء میں ملاقات ہوئی تو ربوہ میں دیکھے ہوئے بچے کو گھبرو جوان کے روپ میں پہچان نہ سکا تعارف کے بعد خوب گلے مل کر ملاقات ہوئی دیر تک ہنسی مذاق ہوتا رہا.اس کے بعد مکرم مرزا سفیر احمد طارق سیفی میاں کی رہائشگاہ پر ملاقات ہوتی رہی جس کی یادگار تصویریں دیکھ کر آنسو بھر آتے ہیں.مکرم اے حمید اعجاز صاحب - واقف زندگی در ولیش قادیان ہم سے رخصت ہونے والا وجود اپنے آقا کے حضور جا پہنچا اور ابدی رحمتوں کا وارث بنا مگر ہم بشری تقاضے کے ماتحت غم کے جذبات رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے جملہ پسماندگان کو اپنے فضل سے صبر جمیل عطا فرمادے.آمین محترم بشیر احمد رفیق صاحب - لندن پھول تو کھل کر بہار جاں فزا دکھلا گئے حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے پیارے مرحوم کی شہادت آپ کو مبارک ہو.وہ ایک جست میں

Page 411

410 روحانیت کے اعلیٰ ترین مقامات پر جا پہنچے اور تاریخ احمدیت میں ایک روشن ستارے کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید بن گئے تو میں مرحوم پر فخر کریں گی کہ ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریده عالم دوام ما مجھے اور سلیمہ کو وہ دن یاد آتے ہیں جب افریقہ تشریف لائے تو عزیز شہید مرحوم بہت ہی چھوٹا ننھا بچہ تھا اور ہماری نینو کا ہم عمر تھا دونوں آپس میں لڑتے جھگڑتے تو ہمیں ان کو دیکھ کر مزہ آتا عزیز شہید مرحوم کی معصوم شرارتیں یاد آتی رہیں.اب اس بات پر دل فخر محسوس کرتا ہے کہ ہم نے بھی زندگی کے کسی موڑ پر شہید مرحوم کی خدمت کی سعادت پائی.آپ اور آپ کی محترمہ بیگم صاحبہ اور بچوں کو جو صدمہ پہنچا ہے اس کا صحیح ادراک تو ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ بیٹے کی جواں مرگ شہادت اگر چہ باعث خوشی بھی ہے لیکن غم کا سمندر بھی چھوڑ جاتا ہے.یقین جانیں عزیز پیارے قادر شہید کی موت نے ہمیں غم کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے.ہم ان کو یاد کر کے بارہا روتے بھی رہے اور دل ان کے لئے اور آپ کے لئے دُعاؤں سے معمور رہا.مولیٰ کریم مرحوم کے مقام شہادت کو بلند سے بلند تر فرمائے ان کا روحانی اتصال اپنے عظیم دادا جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کرے اور آپ سب کو اس صدمہ کو برداشت کرنے اور صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.محترم نائک محمد صاحب - آسٹریلیا لاریب کہ وہ مجھے اپنے بیٹوں اور بھائیوں ہی کی طرح بے حد عزیز تھا.وہ میرا ہونہار شاگرد بھی تھا بچپن ہی سے اپنے بزرگ ترین دادا اور

Page 412

411 قابلِ فخر والدین کی تمام صفاتِ حسنہ کا پر تو تھا.یہاں ربوہ سے ہزاروں میل دور بھی اس پیارے وجود کی شہادت سے قبل تین چار مرتبہ یا اللہ خیر، یا اللہ خیر کے الفاظ کے ساتھ خواب کا تسلسل ٹوٹتا رہا گھر میں سب کو دعا کے لئے کہتا رہا کہ کہیں ربوہ سے کوئی المناک خبر نہ آئے مگر شاید ہماری قسمت میں ابھی اور دکھ دیکھنا باقی تھے.اچھا اللہ تعالیٰ ہم تیری رضا کے سامنے سر جھکاتے ہیں.اے خدائے ذوالجلال ہم سب کو سکنیت اور صبر عطا فرما.اے قادر و توانا خدا! اے وعدوں کے سچے خدا! کب تک یہ سب کچھ ہوتا رہے گا شہیدوں کا لہو رنگ لانے میں اور کتنی دیر لگائے گا.فتح و نصرت کی گھڑی کا اور کس قدر انتظار کرنا پڑے گا.ہم کب تک ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہیں گے اپنی قدرت کا جلوہ دکھانے میں دیر نہ لگا اب اور کس چیز کا انتظار ہے.اے میرے پیارے اور ہونہار بیٹے تو کس قدر خوش نصیب ہے کہ اپنی مراد کو پہنچ گیا ہمیشہ کی زندگی میں سرخرو ہوگیا تیرے کتنے ہی ساتھی اس راہ میں تیرے ساتھ کے لئے دل میں تمنا پالے اپنی باری کے منتظر ہیں ا...خدا کی گود تجھے نصیب ہو.دیکھ.اور بچپن کی مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہوئے دیکھ کہ پوری دنیا تیری جدائی پر آنسو بہا رہی ہے.Dr.M.Masud ul Hassan Noori Rawalpindi The tragic demise of Qadir was a bolt from blue.May Allah shower, His choisest blessings on him and may.He give patience to the near and dear ones

Page 413

412 to bear this irreparable loss.محترم پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد پرویز پروازی صاحب سویڈن آپ پر اُس کے بیوی بچوں پر اور دیگر خاندان پر قیامت گزر گئی سوائے ہمدردی کے دولفظوں کے اور کیا کہا جاسکتا ہے.جس کی امانت تھی اس نے شہادت کے رتبہ پر سرفراز کر کے واپس لے لی.محترم لیفٹیننٹ جنرل محمود الحسن صاحب - راولپنڈی عزیزم قادر کی شہادت اس قدر درد ناک واقعہ ہے کہ جس کی وجہ سے جگر پاش پاش ہو گیا ہے.ایسا عظیم، محسن، حلیم الطبع ذہین فدائی احمدی نوجوان اور اُس کے ساتھ ایسا سانحہ بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا ہوں کہ وہ ہم سب کو اس صدمہ کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.قادر کو جنت الفردوس میں ارفع ترین مقام عطا کرے.حقیقت تو یہ ہے کہ میرا قلم میرے جذبات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے.دُعا کے سوا کوئی چارہ نہیں.Anwar Ahmed Kahlon -U.K Since I have been away from Pakistan for nearly a quarter of a century I did not have the pleasure of meeting the young martyr.However everyone who knew him particularly Sa'dia are full of praise for him.It is indeed a pity that in Pakistan neither life, nor property nor honour is safe....محترم سید محمد احمد صاحب ( قادر کے پھوپھا ) لاہور کینٹ آج بھی مجھے بچپن کے دن یاد ہیں جب آپ کے گھر پر برآمدے

Page 414

413 میں ہم دونوں کا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے حساب کا امتحان لیا تھا.آپ پاس ہو گئے تھے مگر آم مجھے انعام دیا تھا.دُعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس صدمے کی برداشت کی طاقت دے.آمین Dr.Maqsood ul Hassan Noori - USA He was a young of very high qualities and talents.His loss is a great loss not only to the community but to your family as well.No words can be adequate for this irreparable loss.محترم خواجه عبد الحثی صاحب - ربوه فکر نہ کر دلِ ناداں کیا بن سکتا ہے غم سے خدا کا مال تھا صادق خدا نے لے لیا ہم ނ ہر نماز اور تہجد میں بلا ناغہ آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں.حضور جماعت کو تو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور خود اس حادثے کو بیان کرتے ہوئے بے اختیار ہو جاتے ہیں.یہ منظر حضرت اُمِ طاہر کی وفات کے بعد جماعت نے دیکھا تھا حضرت مصلح موعود چالیس دن تک بڑے درد سے مقبرے جاتے رہے خاکسار کو بھی چالیس دن جا کر دُعا کی سعادت ملی.چار سال پہلے میرا نوجوان لڑکا عطاء الحفیظ جس کی شادی کو اڑھائی سال ہوئے تھے ویگن کے حادثے کا شکار ہو گیا تھا.ہم نے بہت صبر اور درد سے دُعائیں کیں اللہ تعالیٰ نے رحم کا یہ سلوک فرمایا کہ جب ہم اسے یاد کرتے ہیں وہ خواب میں آجاتا ہے.دل تو کرتا ہے عزیز قادر کی باتیں لکھتا جاؤں لیکن جھجکتا ہوں کہ تعلیم کم ہے.قادیان آیا تو شادی ہو چکی تھی کچھ کاروبار میں لگ گئے کچھ کبڈی میں

Page 415

414 شوقیہ پڑھتا رہا اب بچوں کو تعلیم دلائی ہے.Ferkhanda Akhter Shah-Rabwah Words can not express the terrible shock, sorrow and grief I felt on hearing the saddess news Sahibzada Qadir's passing away.My heart bleeds to think even that such an awful event has taken place...that the life of an innocent decent, virtuous and dignified soul has cut off in its prime.All my prayers are for dearest Nusrat.My heart goes out to her in deep sympathy.I do not possess the courage to see her.She is ever close to my heart and I entreat Almighty to provide succour and balm to her aching heart.....Dr.Ihsan-ul-Haque - Karachi The demise of young Ghulam Qadir untimely and emotionally devastating it would be.But, having the substance in it of martyrdom, glorious and supreme, not only it consoles and pacifie, our hearts it also gives us, ordinary mortals, and vision for the future.He would indeed be one of the choicest of souls in the eyes of God, a shining light, having lit a path to be traced by us.محترم عبد الغفار ڈار صاحب راولپنڈی صاحبہ آپ کو یاد ہوگا کہ میں آپ کے ابا جان اور امی جان کا بیگم صاحه پروردہ ہوں اور آپ کوٹھی دارالسلام قادیان میں، اس عاجز نے بارہا اپنی گود

Page 416

415 میں اُٹھایا ہوا ہے آپ سب بہن بھائیوں کے ساتھ پیار محبت میرا جزو زندگی ہے.صاحبزادہ مرزا غلام قادر آپ کا جگر گوشہ تھا اس رشتے اور ناتے مجھے بہت ہی دکھ ہوا ہے.اس تعلق خاطر کی وجہ سے براہِ راست آپ سے مخاطب ہوں.خداوند کریم کروٹ کروٹ آپ کے فرزند ارجمند کو اعلیٰ علیین کی جنت میں سکون و راحت اور سلامتی صحت عطا کرے جس شان سے آپ نے یہ صدمہ برداشت کیا ہے اسی شان سے آپ سب کو وافر صورت میں خیر و برکت ، صبر و سکون اور رضائے خدا نصیب ہو.آمین یارب العالمین محترم ثاقب زیروی صاحب - لاہور سانحہ کی خبر سنی تو روح تڑپ اٹھی سلسلہ کا ایک اور عظیم فرد چلتا بنا جب بھی کمپیوٹرائزیشن کا ذکر چھڑا مرحوم کے نمایاں کارناموں کا ذکر آیا اور دل کی گہرائیوں سے حضرت قمر الانبیاء کی آل اور اولاد کے لئے دُعا نکلی.لار - لاریب مرحوم کی شہادت تا دیر قلوب کو گرماتی رہے گی.یہ عاجز آپ کے غم میں برابر کا شریک ہے.محترم عبدالمنان ناهید صاحب - راولپنڈی رنج و راحت کے مشترک نغمے ساز احساس پر مچلتے ہیں مسرت کے منتشر لمح کی آغوش ہی میں پلتے ہیں محترم سجاد احمد صاحب - امیر جماعت جاپان اس صدمہ میں ہم سب آپ کے ساتھ اور اپنے پیارے امام کے ساتھ پورے شریک ہیں ایسی کیفیت ہے جیسے وجود کا ایک قیمتی حصہ جدا ہو گیا

Page 417

416 ہے.جاپان میں نماز جمعہ لندن سے آٹھ گھنٹے قبل ہوتی ہے حضور کے صدمہ کے پیش نظر قدرتی طور پر ایسا اثر تھا کہ خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو اس درد ناک شہادت کی اطلاع دیتے ہوئے جذبات پر ضبط نہیں ہو رہا تھا نماز جنازہ غائب نا گویا اور ٹوکیو میں ادا کی گئی خطبہ جمعہ سے تفصیلات کا علم ہوا...میری طرف سے اور جماعت جاپان کی طرف سے دلی تعزیت اور صدمے کا اظہار ہے.محترم ملک منصور احمد عمر صاحب شاهد اُستاد جامعہ احمد یہ ربوہ ان کی شہادت کے تین چار گھنٹہ بعد خاکسار دو پہر کے وقت سویا تو خواب میں وہ تشریف لائے ہیں بے حد ہشاش بشاش خاکسار نے عرض کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ فرمانے لگے میری عمر 38 سال ہے اور ماموں صاحب کی عمر چالیس یا بیالیس سال ہے (اُس وقت میرے ذہن میں شیخ مامون احمد آرکیٹیکٹ لاہور بن عبدالواحد صاحب مرحوم ہیں) پھر خواب ختم ہو گیا.میرا اُن کے ساتھ کئی طور سے تعلق تھا ان کی بیٹی عزیزہ صالحہ سطوت وقف کو انسٹی ٹیوٹ میں مجھ سے جرمن پڑہتی تھی اس طرح میرا رابطہ رہتا.محترم شبیر احمد صاحب - وکالت مال اول تحریک جدید ربوه غموں کا ہمالہ ہے جو دل سے ہٹائے نہیں ہٹتا.ایسا بے نفس اور بے لوث خدمت کا قابل تقلید جذبہ پایا کہ اب اُس کے بغیر رُوحوں کو تسکین کہاں اور جسموں کو قرار کہاں؟ اس کی تلافی قادر مطلق آتا ہی کرسکتا ہے وہ ہمارے

Page 418

417 غموں کو صبر عطا فرمائے اور صبر کی توفیق کو ایسا لمبا کرے کہ اُس کا فضل ہمیشہ آپ کے اور ہمارے ساتھ رہے.آمین یا رب العالمین.اس خلاء کو اپنے فضل بے پایاں سے پُر کرے اور جماعت کو ایسے بے شمار بے نفس قادر عطا فرمائے کہ اصل قادر کی کمی محسوس نہ ہو.محترم محمد عبدالله ریحان صاحب - ربوه غم دوستوں کی فوت کا ان کی جواناں موت کا بنتے ہیں شمع زندگی اور ڈالتے ہیں روشنی میرے دل صد چاک پر میرے دل صد چاک پر محترم مرزا نصیر احمد صاحب - چٹھی مسیح مانچسٹر انگلستان میاں صاحب! مرحوم شہید کی تربیت اور تعلیم میں آپ دونوں نے اپنی کوششوں اور دُعاؤں کے ذریعے بنیادی رول ادا فرمایا ہے اس لحاظ سے آپ بے حد خوش قسمت اور خوش نصیب والدین ہیں جن کے لختِ جگر کو امام وقت نے بے مثال خراج تحسین ادا فرمایا ہے.میاں صاحب ربوہ میں تحریک جدید کے حلقہ میں ہمارے ہمسایہ میں تھے اور روزانہ متعدد بار ملاقات ہوتی تھی اکثر وہ اپنے بڑے بچے کو بھی نماز پر لے آتے تھے فی الواقع ان کی طبیعت اور شخصیت بہت ہی دل ربا تھی جب ان سے ملاقات ہوتی ان کے چہرے کی مسکراہٹ نمایاں ہو جاتی.افسوس ہے کہ اب یہ پیارا چہرہ نظروں سے ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو گیا ہے.محترم عبدالسمیع خان صاحب - لاس اینجلس امریکہ ہمارے بزرگوار والد محترم محمد ظہور خان مرحوم بردار اصغر ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب مرحوم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے

Page 419

418 بہت عقیدت رکھتے تھے اور ہمیشہ محبت اور احترام سے گھر میں ذکر کرتے تھے ہمیں بھی یہی نصیحت کرتے تھے اس لئے ہمیں بھی خاص عقیدت و احترام ہے.ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں.قادر کی وفات کی خبر سنی دل دھک سے رہ گیا رہ رہ کر نصرت اور بچوں کا خیال آرہا ہے.خدا آپ سب کو ہمت دے، صبر دے، آپ تو ماں ہیں اچانک جوان بیٹے کی موت کس طرح ہلا کر رکھ دیتی ہے یہ تو وہی جانتا ہے جس پر بیتی ہے سب سے پہلے تو ماں ٹوٹتی ہے پھر بیوی اور پھر بہنیں.میرا چھوٹا بھائی جو چالیس سال کا تھا کبھی بیمار نہ ہوا تھا کوئی تکلیف نہ تھی اچانک ہارٹ اٹیک ہوا.دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ مولی باقی رہ جانے والوں کو صبر دے.ہم سب اللہ کی رضا پر راضی ہیں مرنا سب نے ہے کسی نے پہلے کسی نے بعد میں.خدا آپ کو ہمت دے، صبر دے، طاقت دے، نصرت اور بچوں کو آپ کی ضرورت ہے.محترم محمد اجمل صاحب - گیمبیا جس شان سے انہوں نے دشمن کا اکیلے مقابلہ کیا یقیناً قابل تعریف ہے یہ صرف ایک بہادر اور جری انسان ہی کرسکتا ہے.دشمن کے بد ارادوں کو خاک میں ملا دیا اپنے مقدس خون کی لاج رکھ لی اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ ترین انعامات میں سے تیسرے نمبر کا ٹائٹل حاصل کر لیا..یہ تو اللہ تعالیٰ کی امانت تھی اُس کی رضا پر راضی ہو جائیں.محترم عبد الباسط صاحب - فلوریڈا اللهُم مَزَقَهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِقُهُمْ تَسْحِيقًا

Page 420

419 محترم مبارک احمد ظفر صاحب - لندن خاکسار کو اُن کے ساتھ خُدام الاحمدیہ مرکز یہ میں دو تین سال کام کرنے کا موقع ملا بڑی میٹھی اور نرم طبیعت کے مالک تھے یہ بڑا ہی تکلیف دہ واقعہ ہوا ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.آمین محترم بشیر الدین محمود صاحب - نچ برگ یہ ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی اللہ تعالیٰ سے التجا ہے کہ ظلم مٹ جائے اور دھرتی قائم رہے.محترم امة الوكيل صاحبه ( قادر کی بھابھی ) - امریکہ بہت پیاری نچھو! تمہارے لئے جو میرے جذبات ہیں اور دُعائیں ہیں، میں بیان نہیں کرسکتی.میں نے ہمیشہ تم دونوں سے بہت پیار کیا ہے اور زیادہ اظہار کرنے سے شرماتی ہوں لیکن اب سوچتی ہوں زندگی بہت تھوڑی ہوتی ہے انسان کو اظہار کر دینا چاہیے.اپنی شادی کے بعد قادر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ پیار کرنے کے قابل تھا.یہ نہیں کہ اُس کے جانے کے بعد لوگ اُس کی تعریف کرتے ہیں اُس کی زندگی میں بھی اُس کی تعریف کرتے تھے اور نہ جانے کیا کیا خوبیاں تھیں جو لوگوں کو پتہ بھی نہیں تھیں لیکن خدا جانتا ہے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں اس مقام اور اس شہادت کے لئے قادر ہی چنا.خدا پر یقین رکھو خدا خود تمہارے اور تمہارے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھے گا فائزہ فون پر بتا رہی تھی کہ حضرت صاحب کس طرح تڑپ تڑپ کر دعائیں کر رہے ہیں.دعائیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں.

Page 421

Mona (The Hogue) 420 ( حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی صاحبزادی) April 22, 1999 Dear Baji Nucho I just want you to know that ever though we are helpless to do any thing to ease your pain but we are always here to you but most importantly God is with you and always will be Inshallah every step of the way.After The Juma Khutba in which Abba explained about Bhai Qadir's Shahadat' I must say that I feel proud to be even related to him, to such a great Shaheed of Ahmadiyyat.It might seem strange for me? family are going through a very painful time that you are also blessed that God so chose you for such an honour.Of course the pain will be there of such a great loss but I feel that Bhai Qadir has truely come to live in his death.He is now and always will be in our hearts and memory.All Ahmadies all over the world would remeber him and his family in their prayers.It is not just for the present.But his name would be like a shining star in the history of Ahmadiyyat and for generations to come May Allah shower all his blessings on you and your, Children and give you strength and peace.

Page 422

421 محترمه طاهره صدیقه ناصر صاحبه - ہارٹلے پول 21 /اپریل 1999ء پیاری ٹچھو! غم کی جس کیفیت سے اس وقت آپ گزر رہی ہیں اس میں تعزیت کے الفاظ تو بے معنی سے ہو جاتے ہیں دلاسوں کی باتیں اوپر سے گذر جاتی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ کیفیت ختم نہیں ہوگی بلکہ ایسے ہی رہے گی اور حقیقت یہ ہے کہ یہ غم بھی اتنا عزیز ہوتا ہے کہ دل چاہتا بھی نہیں کہ اس کو بھولنے دیا جائے لیکن بہر حال وقت کے ساتھ کیفیات، حالات بدلتے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس انتہائی کڑے وقت میں خود آپ کا ساتھی بن جائے آپ کو سنبھالے اور پھر ہمیشہ سنبھالے ہی رکھے آپ کو آپ کے بچوں کو کسی کی محتاجی نہ رہے صرف خدا آپ کا سہارا ہو.محترم مرزا مغفور احمد صاحب (نصرت کے بہنوئی ).امریکہ 2/جون 1999ء پیاری نصرت ! قادر کی شہادت ایسی تکلیف ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا.تمہیں جو دکھ ہے اس کا اندازہ تو کوئی نہیں کر سکتا مگر مجھے بھی کبھی ایسا دکھ نہیں پہنچا جو اس واقعہ سے پہنچا ہے.یہ عظیم صدمہ ہے مگر خوش نصیب تھا قادر جس نے خدا کی راہ میں اپنے وعدے کو ایفا کر دیا اور حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کر دیا.خلیفہ وقت کے دل میں اُس کے لئے رشک کے جذبات بھر دئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑ پوتے نے اپنی جان کی قربانی دے کر ہم جیسے گناہ گاروں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے کہ ہم بھی اس کے نقشِ قدم پر چل سکیں.اس نے تو ایک ہی جست میں محبت ، وفا قربانی کی وہ منزل طے کر لی کہ جہاں لوگ عمر بھر کی ریاضت کے بعد بھی

Page 423

422 نہیں پہنچ پاتے.خدا اُسے اُن لوگوں میں شامل کرے جن سے وہ راضی ہو کر قیامت کے دن کہے گا.فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي فِي جَنَّتِي محترم نصیر احمد قمر صاحب 4 مئی 1999ء محترمہ اہلیہ صاحبہ مکرم صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید صاحب آپ کے گھر کو نور اور برکتوں سے بھرنے والے ہمارے بہت ہی پیارے بھائی مکرم صاحبزادہ شہید نے اپنے اعلیٰ حسب و نسب کے بلند مقام کے شایانِ شان راہِ مولا میں اپنے مقدس خون کا نذرانہ دے کر جہاں اپنے رب کریم کے حضور ایک لازوال زندگی پالی ہے وہاں ساری جماعت کو بھی اپنی شہادت سے ایک زندگی بخشی شہید مرحوم کی یہ عظیم قربانی باعث ناز ہے لیکن طبعا اس مخلص فدائی واقفِ زندگی بھائی کی جدائی کا صدمہ بھی بہت شدید ہے.ناز اور غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ادارہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کی طرف ނ تعزیت پیش ہے.محترم چوهدری عنایت اللہ صاحب - لندن دل و دماغ کی عجیب حالت ہے ہم سب اس عظیم صدمے میں دل و جان سے آپ سب کے ساتھ شریک غم ہیں خداوند کریم شہید کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں میں جگہ عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ اس جماعت میں ایسے جانثار پیدا فرما تا رہے جو دین کی خاطر ہر قُر بانی کے لئے تیار رہیں.(آمین)

Page 424

423 محترمه رفعت صداقت صاحبه – جرمنی مجھے تو آپ کی عظمت پر فخر ہو رہا ہے کتنے عظیم اور بہادر ہیں آپ جو اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی قربانی کے لئے چن لیا ہے.میری دعائیں ہمیشہ کی طرح آپ کے ساتھ ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے پاس سے ٹھنڈک عطا فرمائے.آمین محترم محمد علی صاحب – بيت الظفر ربوه جب سے اس شہادت کی خبر سنی ہے دل و دماغ ماؤف ہو کر رہ گئے ہیں ایک سکتے اور سناٹے کا عالم ہے.دل بے قرار ہے کاش میں نے اس حسین و جمیل اور خوشبو دار پھول کو دیکھا ہی نہ ہوتا.اس کی دل نواز اور خوشبو دار صورت اور سیرت کے مشاہدے سے محرورم رہتا تو محرومی کا یہ احساس تو نہ ہوتا.میں آپ کے غم اور دکھ کا تو اندازہ بھی نہیں کر سکتا لیکن میرا اور میرے جیسے بے شمار چاہنے والوں کا دکھ بھی اگر ویسا نہیں تو اس سے بہت مختلف بھی نہیں.محترمه تحسین عبیدالله علیم صاحبه - کراچی میری پیاری بی بی نصرت! قلم اُٹھاتی ہوں.رکھتی ہوں اُٹھاتی ہوں.اس میں اتنے دن ہو گئے کیا لکھوں، آپ کو کیا لکھوں.میاں صاحب کی شہادت سے محض پندرہ دن پہلے جو آنکھیں میرے دکھ میں اشکبار تھیں اُن کے آنسو کیسے پونچھوں.میری بی بی کی نرم مسکراہٹ سے بھری خوبصورت پیاری آنکھیں.مجھے اطلاع ملی تو میرے سامنے بار بار بھیگی ہوئی آنکھیں آتی تھیں اللہ تعالیٰ آپ کو رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا کا مصداق بنائے.آپ کے لئے دردمند دل کو رحمت باری تعالیٰ اپنے سائے

Page 425

424 میں اور امان میں لے لے.شہادت تو نعمت ہے مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ اُس دن مجھے ایسا لگا جیسے میرے گھر آج ہی یہ واقعہ ہوا ہے.قاصد، ثابت اور خدیجہ پر نظر پڑی تو پچھلے سال میرے اوپر تلے کے بچوں کو دیکھ کر بی بی اپنے جڑواں بچوں کی مشکلات بیان کرتی سامنے آگئیں قاصد احمد کو سارا دن باپ کو یاد کرتے دیکھتی ہوں تو سطوت جہاں، کرشن اور دونوں چھوٹے دھیان میں آتے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو اپنی امان میں رکھے حضرت بی بی امتہ الباسط صاحبہ سے تعزیت کی بھی ہمت نہیں ہو رہی دکھے ہوئے دل سے اجازت چاہتی ہوں.رَبِّ إِنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ Naila (Nusrat neice) - America I don't know how to say what I want to say.and Listening to all of Abba-Hazoor's Khutba makes me realize how good and brave everyone was.I get scared thinking of what I would to (God not willing that ever happen) But Qadir Khalu was so strong and good.Good is one of those words that is over used you never realize the essence of the word.And then when Qadir Khalu passed away I finally realized what good meant.I mean he was good.I am so proud of him! Qadir Khalu never gave those men the triumph of having killed him.He was beyond them, above them, taunting them because they could never kill his spirit.How glorious! محترمه صبیحه صاحبه - لاہور کینٹ

Page 426

425 میری بہت پیاری نچھو! مقام جو سانحہ تم پر گزر گیا اس کا کوئی مدوا نہیں اور نہ ہی قادر کی کمی کبھی پوری ہوگی لیکن پھر بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے سربسجود ہیں.اب وہ تمہارا ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا بھی پیارا بن گیا ہے.اب وہ تمہارے اور خدا تعالیٰ کے درمیان براہ راست تعلق بن گیا ہے.نچھو! تم ایک عظیم ہستی کی بیوی ہونے کے ناطہ خود بھی عظیم ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کے لئے چن رکھا تھا اسی لئے تو تمہیں قادر کے لئے منتخب کیا اب صرف ہماری نہیں بلکہ ساری جماعت اور ساری کائنات کی دُعائیں تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچتی رہیں گی.قادر گیا کہاں ہے بلکہ ساری دُنیا سے تو اب اس کا تعارف ہوا ہے وہ تو رہتی دنیا تک یہیں رہے گا تمہارے پاس تمہارے بچوں کے پاس اور ہم سب کے پاس ایک جگمگاتے ستارے کی مانند ایک بیش قیمت ہیرے کی مانند.کریم الدین احمد - منڈی بہاؤالدین قادر ایک زندہ دل دوست تھا.وقف کے بعد صرف ایک دفعہ Hiking پر گیا.میرا خیال ہے کہ یہ 81-1980ء کی بات ہے.اس میں صمد، وحید، ضرغام اور خاکسار اس کے شریک سفر تھے.ہم لوگوں نے وادئ نیلم، بلتستان اور وادی کاغان کے سنگم کے علاقہ میں کوہ نور دی کی تھی.جب ہم لوگ روانہ ہوئے تو ہمارا ارادہ نیلم اور کاغان کا ایک بہت زیادہ مستعمل اور Beaten trek شاردہ سے نوری ناڑ کے راستہ بورہ وائی (کاغان ) تک جانے کا تھا.جب ہم لوگ مظفر آباد پہنچے تو ہم لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ نیا علاقہ نئے لوگوں کو دیکھا جائے.وہیں لوگوں سے پوچھ کر نیا Route طے کیا اور پھر اس

Page 427

426 پر چل نکلے.یہ اس قدر مشکل اور سخت علاقہ ہے کہ اس کے بعد سے آج تک ہمارے دوستوں میں سے کوئی بھی اس علاقہ اور روٹ کو اختیار نہیں کرسکا.اُس وقت نئی راہ نئی منزل کے انتخاب کے فیصلہ میں جن ساتھیوں نے بنیادی کردار ادا کیا ان میں قادر سر فہرست تھا.دورانِ سفر اس کی دلچسپ چیخم دھاڑ اور جملہ مصروفیات Hiking میں اس کی live اور strong شمولیت کی یاد آج بھی ایک عجب تلاطم اور لطف پیدا کر دیتی ہے.اسی سفر کے دوران ایک متلاطم پہاڑی نالہ کو پار کرنے کی اس نے مجھ سے شرط جیتی.خدا تعالیٰ اُس سے راضی ہو ایک بہت زندہ وجود تھا جو ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو ہر گھڑی و ہر آن آپ کا معین و غمگسار ہو.ہمارے ہاں پنجابی میں کہتے ہیں ” شمالا تی وا وی نہ لگئے.اللہ کرے ہماری یہ دعا آپ اور پیارے بچوں کے حق میں حرف بحرف پوری ہو.آمین

Page 428

باب 14 427 تعزیتی قراردادیں انٹتے ہیں ہم سارے غم ایک دوجے کے ایک کو دُکھ ہو لاکھوں کے دِل دُکھتے ہیں گوشہ اپنا مسکن ہے دنیا کا ہر کہیں بھی ہوں ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں

Page 429

428 محترم صاحب زادہ کی شہادت پر صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے قرارداد تعزیت صدر انجمن احمدیہ کا یہ ہنگامی اجلاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ، شہید مکرم صاحب ابنِ مرزا مجید احمد صاحب کی المناک شہادت پر دلی رنج وغم کا اظہار کرتا ہے.آپ 1962ء میں ربوہ میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم ربوہ اور ایبٹ آباد پبلک اسکول میں حاصل کی.ایف ایس سی کے امتحان میں پشاور بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی اور انجینئر نگ یونیورسٹی لاہور سے بی ای الیکٹریکل انجینئر نگ کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ تشریف لے گئے جہاں جارج بیسن یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنسز کرنے کے بعد اپنے عہد وقف زندگی کو پورا کرنے کے لئے پاکستان تشریف لے آئے اور مرکز سلسلہ ربوہ میں نظام وصیت، دعوت الی اللہ ، خلافت لائبریری، امور عامه، وقف کو وکالت مال اول فضل عمر ہسپتال وغیرہ میں کمپیوٹر کا نظام متعارف کیا اور اس.نظام کے بانی مبانی ٹھہرے.آپ ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز کے بانی چیئر مین اور سر پرست بھی تھے.یہ ایسوسی ایشن جو 1997ء میں قائم ہوئی تھی آپ کی سر پرستی اور زیر انتظام اپنی تین سالانہ کنونشنز بھی منعقد کر چکی ہے.اور بفضلہ تعالیٰ آپ کی قیادت میں مضبوط بنیادوں پر قائم اور جماعتی خدمات بجا

Page 430

429 لا رہی ہے.اس کے ساتھ ساتھ مرزا غلام قادر شہید مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان میں مہتم مقامی، مہتم مال اور مہتم تجنید کے طور پر بھی خدمات بجا لاتے رہے.نیز ربوہ کے سیکریٹری وقف کو کے طور پر آپ نے تقریباً ساڑھے تین ہزار واقفین کو بچوں کو محلوں کی سطح پر منظم کیا.ان کا کمپیوٹر Data تیار کیا اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے خصوصی جد وجہد کی جس کے تحت ربوہ کے تمام محلہ جات کے واقفین کے لئے باقاعدہ کلاسز کا اہتمام کیا.اس کے ساتھ آپ نے واقفین کو بچوں کو غیر ملکی زبانیں سکھانے کے لئے ادارے کا قیام بھی کیا.اس ادارہ میں اللہ کے فضل سے 80 سے زائد واقفین کو 5 غیر ملکی زبانیں سیکھ رہے ہیں.ابھی حال ہی میں آپ کے زیرِ انتظام ربوہ کے لئے واقفین کو کے مقابلے پہلے محلوں کی سطح پر اور پھر ربوہ کی سطح پر منعقد ہوئے تھے.الغرض صاحبزادہ صاحب نہایت محنتی اور خاموش طبع کا رکن تھے اور جو کام ان کے سپرد ہوتا تھا کمال اخلاص اور بے لوث خدمت کے ساتھ بجالاتے تھے.14 اپریل 1999ء کو مرزا غلام قادر مرحوم کو ایک گہری سازش کے تحت چند خطرناک مجرموں نے اغوا کیا.ان کا منصوبہ جماعت احمدیہ کو ملک گیر فسادات میں ملوث کرنا تھا.صاحبزادہ مرزا غلام قادر نے جان کی بازی لگا کر دشمن کا یہ منصوبہ ناکام بنا دیا.وہ آخر دم تک ان خطر ناک مجرموں کے خلاف جدو جہد کرتے رہے.اسی دوران ان پر سخت تشدد ہوا اور آپ کو شدید جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر جان کی قربانی دے کر ہزاروں بلکہ لاکھوں احمدیوں کی زندگیوں کو بچانے کا باعث ہوئے اور اپنے اخلاص اور وفا سے سلسلہ کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے صاحبزادہ صاحب کا

Page 431

430 ذکر 16 اپریل کے خطبہ میں نہایت محبت سے فرمایا اور اپنے دور کے شہداء میں صاحبزادہ غلام قادر صاحب کو نمایاں اور بلند مقام کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ اس کے خون کا ھر قطره آسمان احمدیت پر ستاروں کی طرح جگمگاتا رھے گا.زندہ باد غلام قادر شهید پائندہ باد - صاحبزادہ براه راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تیسری نسل سے تھے.آپ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پوتے اور محترم صاحبزادہ مرزا مجید احمد اور صاحبزادی قدسیہ بیگم کے بیٹے ہیں.صاحبزادی قدسیہ بیگم حضرت نواب عبداللہ خان صاحب اور دختِ کرام حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی بیٹی ہیں.حضور انور نے مرزا غلام قادر صاحب سے اپنے رشتہ کا بھی ذکر فرمایا کہ میری ہمشیرہ امتہ الباسط اور سید میر داؤد احمد صاحب ابنِ حضرت میر اسحاق صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی نصرت جہاں ان کی بیگم ہیں.مرحوم نے اپنی بیگم ایک بیٹی اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں.اس المناک سانحہ اور قومی صدمہ کے موقع پر ہم ممبران صدر انجمن احمد یہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دلی تعزیت پیش کرتے ہیں.اسی طرح صاحبزادی امتہ الناصر نصرت احمد صاحبہ، صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب، صاحبزادی قدسیہ بیگم، صاحبزادی امتہ الباسط بیگم اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت کے تمام افراد سے گہر بے قلبی جذبات غم کا اظہار کرتے ہیں.ہر چند کہ آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمگین ہیں مگر ہم اپنے مولیٰ کی رضا پر راضی ہیں.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کو بلند مقام عطا فرمائے اور ان کے اعزہ و اقارب کو صبر جمیل سے نوازے اور ان کی بیگم اور بچوں کا خود حافظ و ناصر ہوا اور اس جماعتی نقصان کی تلافی کے خود سامان

Page 432

431 فرمائے.آمین ہم ہیں ممبران صدر انجمن احمد یہ پاکستان ظہور احمد باجوہ صدر - صدر انجمن احمد یہ پاکستان صدر انجمن احمدیہ، انجمن تحریک جدید، وقف جدید قادیان 20 اپریل 1999ء اس افسوسناک اطلاع کے ملتے ہی قادیان کے تمام افراد پر سوگواری کا عالم طاری ہے.ہر دل نے درد و کرب محسوس کیا.مرحوم نہایت ہی دلنواز اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے.کم گو منکسر المزاج، نہایت محنت اور جانفشانی سے سلسلہ کی خدمت کرنے والے تھے.جماعت احمد یہ ویسٹن کینیڈا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صاحبزادہ غلام قادر مرحوم کی شہادت کو نہایت عظیم شہادت قرار دیا ہے.اور بیان فرمایا ہے کہ کس طرح اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں شدید اذیت پہنچائے جانے کے باوجود انہوں نے دشمن کے مذموم منصوبہ کو کامیاب نہ ہونے دیا اور اس طرح جماعت کے وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کے امکان کو ناکام بنا..مرحوم کی یہ خدمت صدقہ جاریہ کے طور پر ہمیشہ یاد رہے گی اور اُن کے درجات کی بلندی کے لئے دُعا کی تحریک بنتی رہے گی.انشاء اللہ Ahmadiyya Association Mouritus.We pray that Allah give full support to all those

Page 433

432 who have been grieved from this heavy loss and especially to his father Mirza Majeed Ahmad Sahib.However, we are convinced that being a Shaheed he is not dead.Ahmadiya Jama'at South Africa The Shaheed was attacked by mulla sponsered miscreants who hijacked him to hatch and implement a horrific conspiracy against the Ahmadiuua Jama'at which was apparently smelled by the Shaheed.He was able to thwart their nefarious designs and to protect the Jama'at Large, laid down his life and earned a distinguished reward of a great martydom.مجلس عاملہ جماعت احمدیہ کینیڈا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام میں ان کی شہادت کا اشارہ فرمایا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ حضور انور اور ساری جماعت کی دُعاؤں کو شہید مرحوم کے حق میں قبول فرمائے اور شہداء کے لئے جس حیات ابدی کا اُس نے وعدہ فرمایا ہے وہ حیات ابدی اپنی بے پایاں رحمت اور شفقت کے ساتھ انہیں بھی عطا فرمائے.آمین جماعت احمدیہ جارجیا کیرولائنا (امریکہ ) اے خدا بر تربت أو بارش رحمت ببار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم نیز ما را از بلا ہائے جہاں محفوظ دار تکیہ گا ہے ما توئی اے قادر و ربّ کریم

Page 434

433 Members of the Markham Jam'at Tornot Canada An illustrious scion of the house of lineage of the promised Messiah, Mirza Ghulam Qadir Shaheed was an embodiment of complete dedication to the cause of Ahmadiyyat.His Shahadat is no doubt an irreparable loss to our Dear Hauzur and the immediate members of the distinguished family of the Promissed Messiah, but in no uncertain terms, this singular loss is a great blow to the Ahmadiyya Jama'at as a whole.May Allah through his Infinite Mercy grant Mirza Ghulam Qadir Shaheed, a rightful place in Jannat-ul-Firdous, and make his supreme sacrifice an example for others in the Jama'at to exulate.Ameen! جماعت ہائے احمد یہ برطانیہ صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی اعلیٰ صفات سے متصف فرمایا تھا.آپ ایک خاموش طبع، محنتی اور دل نواز شخصیت کے مالک تھے.اعلیٰ درجہ کی علمی لیاقتوں کے باوجود طبیعت میں حد درجہ انکساری پائی جاتی تھی.ان کی عاجزانہ اور بے ریا طرز زندگی دیکھ کر کوئی خیال بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ شخص کتنا عظیم اور لائق انسان ہے.آپ نے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ میں کمپیوٹر سائنس کی اعلیٰ ترین تعلیم اور تربیت حاصل کی اور پھر اپنے آپ کو جماعتی خدمات کے لئے وقف کر دیا.آپ نے

Page 435

434 وقف زندگی کے مقدس عہد کو بڑی عظمت اور وفا کے ساتھ زندگی کے آخری لمحہ تک پورا کیا.وقف کی سچی روح ہمیشہ آپ کی یاد کو خراج تحسین پیش کرتی رہے گی.قیامت تک شہید مرحوم کے خون کا ہر قطرہ آسمانِ احمدیت پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا.ایں سعادت بزور بازو نیست بخشد خدائے بخشنده اداره ا الفضل انٹرنیشنل آپ کے گھر کو برکتوں اور نور سے بھرنے والے آپ کے ہونہار فرزند ہمارے بہت ہی پیارے بھائی مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے اعلیٰ حسب و نسب کے بلند مقام کے شایانِ شان راہِ مولیٰ میں اپنے مقدس خون کا نذرانہ دے کر جہاں اپنے رب کریم کے حضور ایک لازوال زندگی پائی وہاں ساری جماعت کو بھی اپنی شہادت سے ایک زندگی بخشی شہید مرحوم کی یہ عظیم قربانی باعث ناز بھی ہے لیکن طبعا اس مخلص ، فدائی واقف زندگی بھائی کی جدائی کا صدمہ بھی بہت شدید ہے، ناز اور غم، کے ان ملے جلے جذبات کے ساتھ آپ کی خدمت میں ادارہ الفضل انٹرنیشنل کی طرف سے قرارداد تعزیت پیش ہے.مجلس خُدام الاحمدیہ پاکستان ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں کہ مولا کریم اپنے فضل اور رحم کے ہاتھوں سے شہادت کا یہ نذرانہ قبول فرمائے اور جماعت کے حق میں اور کے خاندان کے حق میں اس کو ہزاروں برکات کا موجب اور مثمر بثمراتِ حسنہ بنائے.

Page 436

435 آپ کے بوڑھے والدین کے صبر و ہمت کو جوان کرے.آپ کی اہلیہ محترمہ کو دور اولین کی صابر و شاکر خواتین مقدسہ کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق دیتا رہے.خدائے رحیم و ودود کی محبت اور پیار ان کے زخموں کا پھاہا بن جائے.مولائے حقیقی کی رحمت و شفقت ان کے چار معصوم بچوں کے لئے باپ کی شفقت سے بڑھ کر ثابت ہو.خدائے قادر اس غلام قادر کی جدائی کے خلاء کو اپنے فضل اور رحم اور برکتوں سے پر فرمائے اور پوری جماعت کو اس کی شہادت کے فیض سے مستفیض فرمائے.آمین.مجلس عاملہ وصدرات حلقہ جات لجنہ اماءاللہ ربوہ مقامی آپ خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے شہید اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی براہِ راست ذریت کی تیسری نسل میں سے ہیں.آپ نے عین عالم شباب میں شہادت کا مقام پایا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: جو خدا کی خاطر مارا جائے اسے مردہ مت کہو وہ زندہ ہے.” مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روشن چراغ ذہین وفطین اور فنانی اللہ واقف زندگی خادم دین محترم صاحبزادہ کی شہادت پر بے حد دکھ ہے.اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اپنے قرب خاص میں جگہ عطا فرمائے.آمین.آپ کی عمر 37 سال تھی لیکن جیسا کہ ہمارے پیارے آقا نے فرمایا: دو اب یہ عمر لا زوال ہوگئی ہے"

Page 437

436 آپ نہایت خوش اخلاق، حسین و جمیل اور دلآویز شخصیت اور سادہ طبیعت کے مالک تھے.انکساری اور بے تکلفی آپ کی گھٹی میں تھی.خاموشی اور بے نفسی کے ساتھ خدمت دین آپ کا شعار تھا آپ ایک مثالی واقف زندگی تھے.مجلس انصار اللہ پاکستان صاحبزادہ صاحب موصوف ان ابنائے فارس میں سے تھے جنہیں اپنی اعلیٰ صلاحیتیں دین حق کے لئے نچھاور کرنے کی توفیق ملی.جماعت کی خدمت کرتے ہوئے نہایت فراست، شجاعت ، اور مومنانہ جرات سے سفاک دشمن کا منصوبہ نا کام کرتے ہوئے راہ مولیٰ میں جان قربان کردی.مجلس خدام الاحمدیہ بھارت مرحوم کی دلنواز شخصیت، اعلیٰ صفات اور علمی لیاقتوں کے ساتھ انکسار اور بے ریا طرز زندگی اور واقف زندگی کے مقدس عہد کو زندگی کے آخری لمحے تک وفا کے ساتھ نبھانا.آپ کی یاد ہمیشہ زندہ رکھیں گے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی خادم کو مرحوم کی طرح جرات و استقامت کے ساتھ خدا کی راہ میں قر بانی کے لئے ہر وقت تیار رہنے کی توفیق دے.آمین مجلس عامله مبلغین کرام، ڈاکٹر صاحبان - سیرالیون سیرالیون میں خانہ جنگی کی وجہ سے ہم سب گنی چلے گئے تھے جہاں MTA اور اخبار وغیرہ کا کوئی انتظام نہ تھا.چار ماہ بعد واپس سیرالیون آگئے ہیں تو اب الفضل اخبار ملا ہے اور تفصیل سے آگاہی ہوئی ہے ہم اس دکھ میں آپکے ساتھ شریک ہیں.

Page 438

437 جماعت احمدیہ جہلم مجلس عاملہ جہلم شہر وضلع خدائی بشارتوں کے تحت وہ اپنے وقت پر آیا اور اپنی قلیل عمر میں عظیم کاموں کی بنیاد ڈال کر عظیم شان اور سرخروئی کے ساتھ اپنے آقا کے پاس واپس چلا گیا.اپنے کردار، اپنی شخصیت، اپنی خدمات اور شجاعت کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گیا کہ نونہالان جماعت کے لئے تا قیامت مشعلِ راہ ہوں گے.وہ جدید ترین دنیوی علوم کا ماہر.خدا اور اُس کے دین کی چوکھٹ پر سب کچھ نثار کر گیا وہ اپنے خون سے دشمنوں کو وہ زک پہنچا گیا کہ چشم دجل حیراں ہے اور دعویٰ دارانِ محبت کی آنکھ جب بھی اُس کی شہادت پر نظر کرے گی، خیرہ ہوگی.مبارک وہ وجود کہ جن کے صلب سے یہ گوہر گراں مایہ منسوب تھا.مبارک وہ قوم جس کا یہ سپوت تھا.اور مبارک وہ روحیں جو اس عظمت کو پانے کی کوشش کریں گی.مبارک وہ آہیں اور وہ آنسو کہ انتہائے صبر و رضا.تشکر و امتنان، محبت اور فطری غم سے جن کی ترکیب ہوئی ہے.مبارک وہ سوگواران کہ جوحسن صبر کی عظیم مثالیں قائم کر رہے ہیں اور کیا ہی رزق ہوگا جو اس عظیم شہادت کے جاری فیض سے وہ پائیں گے.وہ خدا ہی کا تھا.عشق اور مہر و وفا کا نشان، خدا کی اور اُس کے دین کی پکار یہ شار، دشمن کی یلغار کے مقابل پہ تنہا اک کوہ گراں، سربلند وسُرخرو شہدا کے گروہ کا ایک سرخیل، جنت نشان جنت مقام اے مرزا غلام قادر شہید تجھ پر سلام.ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی تیری

Page 439

438 قر بانی اور تیری خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گی.مؤرخ احمدیت کا قلم تیرے بیان پہ ناز کرے گا.خدا تیرے چاہنے والوں کو اپنی کروڑوں رحمتوں اور برکتوں کی بارش سے نہال کرے اور تیری نسل سے وہ گوہر تابدار پیدا ہوں کہ تیری وارثت کا حق ادا کریں اور اللہ تعالیٰ احمدیت کو تیرے بہت سے نعم البدل عطا کرے.ممبران مجلس کارکنان، مربیان، معلمین وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان آپ لوکل انجمن احمد یہ ربوہ میں عرصہ دو سال سے بہت ہی محنت اور خوش اسلوبی سے بطور سیکرٹری وقف کو خدمات بجا لا رہے تھے.آپ نے سیکرٹریان وقف کو کو فعال اور مستعد بنانے میں اپنی خداداد استعدادوں سے کام لیا.محلہ جات کی سطح پر واقفین کو کو بڑی عمدگی سے منظم کرتے ہوئے تقریباً ساڑھے تین ہزار واقفین کو کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا تیار کیا.اسی طرح واقفین کو کو غیر ملکی زبانیں سکھانے کے لئے قائم کردہ لینگوئج انسٹیٹیوٹ کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا.صدر محله و اہالیان دار لصدر غربی- ربوه الْقَلْبُ يَحْزَنُ، وَالْعَيْنُ تَدْمَعُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى بِهِ رَبُّنَا وَإِنَّا عَلَى فِرَاقِكَ يَا غُلَامَ قَادِر لَمَحْزُونُون اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْفَعُ دَرَجَاتَهُ وَ اَدْخِلْهُ فِي أَعْلَى عِلَيْيين

Page 440

439 Members of the National Majils Amila of Ahmadiyya Jama at South Africa We, the members of the Ahmadiyya Muslims Jama'at South Africa, are united with our beloved Imam Hadhrat Khaliftul Masih IV aba, the members of the immediate family of Shaheed and the family of the promised Messiah in showing great distress and agony at the grief stricken departure of our beloved brother and for a great loss that the Ahmadiyya Community at large suffered.We forward, the parents of the Shaheed, his wife and young children, his brother and sisters, and the entire family of the promised Messiah a.s.Every-body in the country is shocked after hearing the heart-breaking news and has become personified prayer for Huzur and his entire family.May Allah elevate the departed soul at peace to the spirtual hights, to the eternal Gardens of Bliss and to His ultimate nearness and pleasure.May Allah grant Huzur and his family strength blessing, Sabrun Jameel (comely patience) and His choicest favours.Ameen Sum Ameen جماعت نیو جرسی یو ایس اے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے شہید مرزا غلام قادر صاحب کو اپنی جوارِ رحمت میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے.پھونکوں سے یہ چراغ احمدیت بجھنے کا نہیں بلکہ زیادہ ہی نور پھیلائے

Page 441

440 گا.انشاء اللہ تعالیٰ Ahmadiyya Movement.....Inc.San Jose Chapter The Aamla of San Jose jamaat, on behalf of the members of this Jamaat, take this opportunity to express its deep shock and surprise on the martyrdom of Mirza Ghulam Qadir Sahib in Rabwah.Inna lillahe wa inna ilaihe raaje oon.May Allah grant a high station in the heavens to the departed soul and strength and fortitude loss for them.ان کے علاوہ مندرجہ ذیل قراردادیں موصول ہوئیں.سیکرٹریانِ وقف کو جماعت احمد یہ اضلاع پاکستان اہالیانِ کوارٹرز ، تحریک جدید ربوہ اداره الفضل ربوه انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز ممبرات عاملہ لجنہ اماء اللہ ضلع قصور ممبراتِ جماعت احمدیہ پشاور مقامی وضلع لجنہ اماء اللہ اسلام آباد - لندن -1 -2 -3 -4 -8 -7 ás ú á úr -5 -6

Page 442

باب 15 441 اخبارات و رسائل کے اداریے خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا یہ شہادت ترے دیکھتے دیکھتے ، پھول پھل لائے گی، پھول پھل جائے گی ( کلامِ طاہر )

Page 443

442 روز نامہ الفضل کا اداریہ 19 اپریل 1999ء بمطابق 19 رشہادت 1378ھ زندہ باد - غلام قادر - پائندہ باد 14 اپریل 1999ء کا دن بھی ان تاریخ ساز دنوں میں شامل ہو گیا ہے جو تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن جاتے ہیں.جن کو خدا کے بعض پیاروں کی نسبت سے ایسی عظمتیں نصیب ہوتی ہیں جنہیں زمان و مکان کی گرد دھندلا نہیں سکتی.یہ وہ خوش بخت دن تھا جس نے جماعتِ احمدیہ کے ایک جوان رعنا کو اس شان کے ساتھ خدا کی راہ میں قربان ہوتے ہوئے پایا کہ خدا کے مقدس خلیفہ نے اپنے عالمی خطبہ جمعہ میں تابناک الفاظ، درد بھری زبان اور رقت آمیز لہجے میں ایسا خراج تحسین پیش کیا جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.اس کی شان میں رقم ہونے والا ہر قصیدہ انہیں جملوں سے منور ہو گا.اگر شہیدوں کی موت سے قوم کو زندگی ملتی ہے تو اس شہادت سے رم نے واقعی نئی زندگی پائی ہے.کیونکہ اس نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہزاروں معصوموں کو درندگی اور بہیمیت سے بچا لیا.اس عظیم قربانی کے لئے خدا نے اس مقدس روح کو چنا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی اولاد بھی اور روحانی اولا د بھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں کسی نوجوان کے اندر اتنے پاکیزہ خون اکٹھے نہیں ہوئے.اور اس نے ان کا حق ادا کر دیا.وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پوتا اور نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نواسا تھا وہی جو خلیفہ وقت کا بہت ہی پیارا اور آنکھ کا تارا تھا.جو بہت محنتی ، خاموش طبع

Page 444

443 اور دلنواز شخصیت کا مالک تھا.جو بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کا مرقع تھا، جنہیں اس نے بے دریغ دین کی خدمت کے لئے استعمال کیا، وہ جس نے وقف کے تقاضوں کو خوب نبھایا.وہ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت ا منکسر المزاج تھا جو صاحب ثروت و دولت ہونے کے باوصف درویش صفت تھا.جو کم آمیز تھا.مگر شجاعت اور بہادری کا پتلا تھا.ایک طرف اس نے جماعت کو کمپیوٹر کے نظام میں داخل کیا اور دوسری طرف واقفین کو کو زبانیں سکھانے کے نظام کا سرخیل تھا.ہماری اکیسویں صدی ہی نہیں ہر آنے والی صدی اس سے جگمگاتی رہے گی.وہی ذہین وفطین جس نے تعلیم کے ہر مرحلہ پر غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں.مگر وہ علم کا ہی نہیں کردار کا بھی دھنی تھا.اطاعت گزار، وفا دار اپنے اہل و عیال اور گھر والوں کے لئے فجر سایہ دار.اب خدا کی رحمت نے اسے اپنے سایہ میں لے لیا ہے.وہ دنیا کے دکھوں سے آزاد ہوا اور اپنی قوم کو دکھوں سے آزاد کر دیا.اس کی یادیں ہمیشہ دلوں کو گرماتی رہیں گی.اور احمدی نوجوان اس کے نقشِ قدم پر چل کر جاں نثاریوں کی نئی داستانیں رقم کرتے رہیں گے.وہ جس مقصد کے لئے تخلیق کیا گیا تھا وہ اُس نے پورا کر دکھایا.وہ نفس مطمئنہ خدا کا ہوا، خدا اُس کے بچوں ، بیوی اور دوسرے عزیزوں کا بھی حامی و ناصر ہو اور اس کی برکتیں ہمیں پہنچتی رہیں.(آمین) زنده باد - غلام قادر - پائندہ باد الوداع غلام قادر - خدا حافظ و ناصر

Page 445

444 ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل کا اداریہ 23 /اپریل 1999ء تا 29 /اپریل $1999 زنده باد - غلام قادر شهید - پائندہ باد بانی سلسلہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے پڑ پوتے اور ” قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر صاحب کے پوتے مکرم صاحب ابن مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب کو ایک مذہبی تنظیم کے بدنام دہشت گرد مجرموں نے ربوہ کے قریب دریائے چناب کے پل کے پاس 14 اپریل 1999ء کو دن دہاڑے شہید کر دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - شہید مرحوم کو احمد نگر کے پاس واقعہ ان کی زمینوں سے اغوا کیا گیا.مجرموں کی سازش بہت کمینی ، بہت گہری اور نہایت خطرناک تھی جس کے بداثرات ساری جماعت احمدیہ پاکستان پر پڑسکتے تھے.لیکن جیسا کہ حضرت خليفة اصبح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر سے اس شہادت کے نتیجہ میں جماعت کو بہت ہولناک ملک گیر فتنہ سے بچا لیا.اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کو یہ توفیق بخشی کہ انہوں نے بڑی جرأت اور بہادری سے ان دہشت گرد مجرموں کے ہر قسم کے تشدد کا بڑی سخت جانی سے مقابلہ کرتے ہوئے ان کے منصوبوں کو ناکام کر دیا اور سڑک پر ان کی گولیوں کا نشانہ بننا قبول کر لیا.” زیرا ایں موت است پنہاں صد حیات شہید مرحوم نے اپنے خون ،،

Page 446

445.سے گویا ساری قوم کو زندگی بخش دی.اگر چہ یہ واقعہ بہت ہی دردناک اور دلوں پر ایک لرزہ طاری کر دینے والا ہے لیکن اس پہلو سے بلا شبہ یہ شہادت ایک غیر معمولی عظمت اور امتیاز کی حامل شہادت ہے جیسا کہ حضرت خلیفہ ایح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قیامت کے دن تک شھید کے خون کا قطره آسمان احمدیت پر ستاروں کی طرح جگمگاتا رھے گا“.اے خدا! برتربت او بارشِ رحمت بسیار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم نیز ما را از بلا ہائے زماں محفوظ دار تکیه گاه ما توی، اے قادر و ربّ رحیم ہمیں یقین ہے کہ مسیح پاک اور آپ کے مقدس خاندان کے بزرگوں کے پاک اوصاف کا حامل یہ خون جو بہایا گیا ہے یہ بہت بارور ہو کر جماعت کو بڑھا دے گا غلام قادر احمد شہید نے اپنی جان نچھاور کر کے اپنے رب کے حضور ایک لازوال زندگی پالی ہے لیکن ظالم کی پاداش ابھی باقی ہے.ہمیں امید ہے کہ معصوم، بے گناہ اور مظلم احمدیوں کا صبر ظالموں پر ضرور ٹوٹے گا اور خدائے ذوالجلال ان سے شہید مرحوم کے ایک ایک قطرہ خون کا حساب لے گا.وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُوانْتِقَامٍ - ارشادِ ربانی ہے ”مَنْ يَقْتُلُ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءُ هُ جَهَنَّمُ خَلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ.66 وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا “ (النساء : 94) اور جو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہو گی.وہ اس

Page 447

446 میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو گا.اور اس پر لعنت کرے گا.اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کرے گا.خوں شہیدانِ اُمت کا اے کم نظر، رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا ہر شہادت ترے دیکھتے دیکھتے ، پھول پھل لائے گی، پھول پھل جائے گی ، جہاں تک شہید مرحوم کا تعلق ہے تو ہم اپنے محبوب امام حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک الفاظ میں یہی کہتے ہیں: ” اے شہید تو ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہم سب آکر ایک دن تجھ س ملنے والے زنده باد غلام قادر شهید ! پائندہ باد ہیں.ماہنامہ خالد ربوہ اور ماہنامہ تفخیذ الاذہان نے مئی 1999ء کے شماروں کے اداریوں میں کے تعارف، اوصاف، خدمات اور الشان شہادت کو موضوع بنایا.

Page 448

447 باب 16 ملکی اخبارات میں شائع ہونے والی خبر میں جنگ.لاہور نوائے وقت.لاہور The News The Nation Dawn دن - لاہور اوصاف - اسلام آباد پاکستان - لاہور جسارت - کراچی خبریں.لاہور آواز - لاہور صحافت - لاہور مکاروں پر جرات - لاہور ظالم مت بھولیں بالآخر مظلوم کی باری آئے گی مکز کی ہر بازی اُلٹائی جائے گی پتھر کی لکیر ہے یہ تقدیر - مٹا دیکھو گر ہمت ہے یا ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی مگر انہی پر اُلٹے گا.ہر بات مخالف جائے گی بالآخر میرے مولا کی تقدیر ہی غالب آئے گی جیتیں گے ملائک - خائب و خاسر ہو گا ہر شیطانِ وطن اے دیس سے آنے والے بتا رکس حال میں ہیں یارانِ وطن ( کلامِ طاہر ) ہر -

Page 449

448 15 /اپریل 1999 ء کو ملکی اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں روز نامہ جنگ لاہور (18) 15 اپریل 1999ء ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 2 افراد قتل : پولیس نے چاروں مار دیے چناب نگر کے زمیندار کو ڈاکوؤں نے پیر غمال بنا لیا تھا بھاگنے کی کوشش پر فائرنگ کر دی جس سے ایک مسافر بھی ہلاک ہو گیا پولیس کو تعاقب میں دیکھ کر ڈاکو ایک اسکول میں گھس گئے ایلیٹ فورس کمانڈوز اور بکتر بند گاڑیوں نے اسکول کو گھیرے میں لے کر ڈاکوؤں کو گرفتاری پیش کرنے کو کہا مگر اُنہوں نے فائرنگ کر دی جوابی فائرنگ سے ہلاک بھوانہ (نامہ نگار) چار مسلح ڈاکوؤں نے چناب نگر کے ایک زمیندار سمیت دو افراد کو قتل اور دو کو زخمی کر دیا.بعد ازاں مقامی پولیس کی جوابی فائرنگ سے چاروں ڈاکو مارے گئے.تفصیلات کے مطابق غلام قادر مرزا اپنی زرعی اراضی واقع احمد نگر کار نمبر 6021-LOX میں سوار ہو کر جا رہا تھا کہ اس دوران چار مسلح ڈاکو ایک سفید رنگ کی کار میں نمبر 8795-LXE میں آئے اور اپنی کار اس کی کار کے آگے کھڑی کر کے روک لیا اور ڈرائیور سیٹ سے کھینچ کر چھلی سیٹ پر بٹھا کر یرغمال بنا لیا.ایک ڈاکو اس کی کار چلانے لگا دیگر دو ڈاکو اپنی کار میں ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے.جب ان کی کاریں محصول چنگی چنیوٹ کے قریب پہنچیں تو ٹریفک بلاک تھی.جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غلام قادر نے چیخ و پکار شروع کر دی اور کار سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کی تو

Page 450

449 ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے اسے ڈھیر کر دیا.اس دوران ایک نامعلوم مسافر بھی ہلاک ہو گیا جبکہ ایک بس کا ڈرائیور توفیق احمد ایک مسافر خاتون ٹیچر مسمات نسرین زخمی ہو گئی.ڈاکو جھنگ روڈ پر فرار ہو گئے تو اس کی اطلاع ڈی ایس پی سید جماعت علی شاہ کو ملی جنہوں نے پولیس نفری کے ہمراہ ان کا تعاقب شروع کر دیا.ڈاکوؤں نے پولیس کو دیکھ اپنی کار چک 237 ج کے علاقہ میں چھوڑ دی اور اسکول میں گھس کر طلباء اور اساتذہ کو یرغمال بنا لیا.آخری اطلاع کے مطابق پولیس نے اسکول کو گھیرے میں لے رکھا ہے.اس دوران ایلیٹ فورس کمانڈوز اور بکتر بند گاڑیاں بھی منگوا لی گئیں.اور ڈاکوؤں کو گرفتاری پیش کرنے کے لئے کہا گیا مگر اُنہوں نے فائرنگ شروع کر دی.جس پر پولیس کی جوابی فائرنگ سے چاروں ڈاکو ہلاک ہو گئے.ابھی ان کے نام معلوم نہیں ہو سکے.واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کے اعلیٰ حکام بھی بھوانہ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے.دریائے چناب کے شرقی پل پر ڈاکوؤں نے مزاحمت پر رائس مل شیلر کے مالک کو قتل کر دیا چناب نگر (نامہ نگار) دریائے چناب کے مشرقی پل پر ڈاکوؤں نے ایک رائس شیلر کے مالک کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا اور فرار ہو گئے.تفصیلات کے مطابق میاں غلام قادر فیصل آباد ائیر پورٹ جا رہے تھے جب دریائے چناب کے پل کے مشرقی حصہ پر پہنچے تو نامعلوم ڈاکوؤں نے اپنی کار ان کی گاڑی کے آگے کھڑی کر کے انہیں لوٹنے کی کوشش کی.مزاحمت پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے.انہیں طبی امداد کے لئے چنیوٹ لے جا رہے تھے کہ راستے میں ہی دم توڑ گئے.

Page 451

450 روزنامہ نوائے وقت لاہور (8) 15 رابریل 1999ء دو راہگیروں کو قتل کر کے فرار ھوتے ھوئے اعجاز نجی اور تنویر تنی سمیت 4 دہشت مارے گئے چناب نگر سے ایم ایم احمد کے بھتیجے کو اغواء کر کے چنیوٹ پل پر قتل کیا.شور مچانے پر ایک راہگیر کو مارا پولیس کے تعاقب پر پہلے اسکول پھر مسجد میں پناہ لی امین پور بنگلا کے قریب 5 گھنٹے کے مقابلہ میں چاروں مارے گئے مرنے سے قبل شناختی کاغذات جلا دیئے راکٹ لانچر سمیت اسلحہ کی بھاری تعداد برآمد چنیوٹ (نامہ نگار ) پولیس کو دہشت گردی اور سنگین جرائم میں مطلوب سروں پر لاکھوں روپے کے انعام رکھنے والے اعجاز عرف نجی اور تنویر عرف تنی سمیت 4 دہشت گرد جھنگ روڈ پر پولیس کے ساتھ طویل مقابلے میں مارے گئے.چاروں دہشت گرد راہگیروں کو قتل کر کے فرار ہو گئے تھے.تفصیلات کے مطابق بدھ کی صبح 9 بجے کے قریب 4 مسلح دہشت گرد جو ایک نئی ہنڈا کار میں سوار تھے، دریائے چناب کے دو پلوں کے درمیان اندھا دھند فائرنگ کر کے سابق بیورو کریٹ ایم ایم احمد کے بھتیجے غلام قادر اور ایک ضعیف راہ گیر کو ہلاک کرنے کے بعد امین پور جھنگ کا رُخ کیا.ڈی ایس پی چنیوٹ کو وائرلیس پر فوری اطلاع ملی تو انہوں نے تھانہ صدر کے انچارج چوہدری عبدالحمید ورک، تھانہ سٹی کے انچارج انجم مرزا اور تھانہ لنگرانہ کے انچارج حاجی حضر حیات کو اطلاع کی کہ وہ فوری طور پر ناکہ بندی کر لیں.اتنے مین پولیس کی مسلح پارٹیاں دہشت گردوں کے تعاقب میں روانہ ہو گئیں جس پر دہشت گردوں نے تھانہ لنگر انہ کا رخ کر لیا اور پولیس کو دیکھتے ہی ایک اسکول میں جا گھسے جہاں بچے

Page 452

451 پڑھ رہے تھے.جونہی پولیس پہنچی تو ملزمان نے قریبی مسجد میں پوزیشنیں سنبھال کر اندھا دھند فائرنگ کر دی.پولیس نے مسجد کے چاروں طرف سے انہیں گھیر لیا اور تقریباً 5 گھنٹے تک زبر دست فائرنگ کا مقابلہ ہوا.جس کے نتیجہ میں پولیس نے گھیرا تنگ کر کے چاروں ملزمان کو موقع پر ہی ڈھیر کر دیا.دہشت گردوں نے اپنے تمام شناختی کاغذات پہلے ہی جلا کر راکھ کر دیے.پولیس نے ایک راکٹ لانچر اور دیگر بھاری اسلحہ قبضے میں لے لیا.یہ تمام وقوعہ الیس الیس يي جھنگ اسلم ترین کی موجودگی میں اور ان کی معیت میں ہوا.تاہم ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں سے ایک کا نام اعجاز عرف بجی اور دوسرے کا نام تنویر عرف تنی بتایا گیا ہے جبکہ باقی کی شناخت نہیں ہوسکی.یہ بھی معلوم ہوا کہ حکومت نے ان کے سر کی قیمت دس لاکھ سے ہیں لاکھ روپے لگائی ہوئی تھی.ایس ایس پی، ڈی آئی جی چنیوٹ موقع پر پہنچ گئے.جبکہ راہ گیروں میں سے غلام قادر چناب نگر کا رہنے والا تھا اور ڈاکٹر مبشر کا قریبی رشتہ دار تھا.واضح رہے کہ تنویر عرف تنی اور اعجاز عرف جی کی گرفتاری کے لئے حکومت بار بار اشتہار شائع کرواتی رہی ہے.تنویر تنی کے سر کی قیمت پانچ لاکھ روپے جبکہ اعجاز جی کے سر پر ہیں لاکھ روپے انعام رکھا گیا تھا.چناب نگر نامہ نگار کے مطابق دہشت گردوں نے غلام قادر کو اس وقت اغوا کیا جب وہ احمد نگر میں اپنی اراضی سے لوٹ رہے تھے.چناب کے پل پر انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی.جس پر مارے گئے.فائرنگ سے کانڈیوال کی اسکول ٹیچر نسرین اختر بھی گردن میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گئی.مقتول غلام قادر حال ہی میں امریکہ سے ایم الیس کمپیوٹر سائنس کر کے لوٹے تھے.اور قادیانی جماعت کے شعبہ کمپیوٹر کے انچارج تھے ان کے اغوا اور قتل کی خبر ملنے پر چناب نگر میں کہرام مچ گیا.

Page 453

452 The Nation THURSDAY, APRIL 15, 1999 Ijaz Jaji among five killed CHINIYOT (AAP) Elite Force killed four dacoits including two notorious robbers Ijaz alias Jaji and Tanveer alias Tani during a commando action when the docoits made hostage the school children and teachers at chak no.237/GB here on Wednesday, Jaji and Tani with head money of lacks of rupees were wanted to police in a number of cases of heinous nature.According to the details, four bandits kidnapped one Mirza Ghulam Qadir who was on his car no.LOX-6021.After snatching his car they tried to proceed toward Chiniot.When they reached at the East Bridge of River Chenab, they got held up in traffic mass.Meanwhile, their victum Mirza Ghulam Qadir raised hue and cry for help.On which the dacoits shot and injured him and left him in the car in a critical condition.He was rushed to a nearby Hospital by the people of the area where he expired.The criminals while fleeing from the scene resorted to aerial firing to create panic.In this course some stray bullets hit three passengers namely Sardar Bukhsh, Tauseef Ahmad (Bus Driver) and a school teacher Nasreen travelling in a bus as a result, Sardar Bukhsh Kumar died instantly while the others two received injuries and were shifted to a Chiniot hospital.Meanwhile the dacoits took shelter in a primary school children and teachers.After having an information about incident the police rushed to the scene and encircled the school, ordered the dacoits to surrender.Later, the elite force was called from Lahore to-tackle the situation where after commando action the children were got released and the dacoits were killed whose bodies were shifted to district mortuary.

Page 454

453 DAWN Lahore, Thursday, April 15, 1999 8 outlaws among 10 killed in encounter Dawn Reporter JHANG, April 14: Ten people, including eight 'outlaws', were killed in to encounters near Chiniot and Multan on Wednesday.In Chiniot, the Elite force killed four men who had taken refuge in a Chak 237-GB school after killing their abductee and a passenger of the Chenab Nagar.Reports reaching here said that the bandits, whose identity could not be ascertained till the filling of this report, kidnapped Mirza Ghulam Qadir who was on his way to Ahmad Nagar by his car (LOX-6021).They drove him and his car towards Chiniot but were caught in the traffic muddle on the Chenab Bridge.Mirza Ghulam Qadir, stated to be a relative of Qadiani Chief Mirza Tahir, tried to flee but the kidnappers opened fire and killed him on spot.The bullets also hit a nearby bus and killed a passenger, Sardar Bux, and seriously injured a school teacher, Nasreen Bibi.The outlaws then moved towards Jhang.In the meantime, a police party led by the Chiniot DSP chased them.Another police party led by the Jhang SSP came from the opposite side, Finding themselves besieged, the dacoits left the car and took refuge in girls primary school, holding the staff and the students hostage.By that time a heavy contingent of police cordoned off the entire area and used teargas shells.The bandits abandoned the school and entered an adjacent mosque.All the staff and students reportedly remained unhurt.The arms and ammunition recovered from the car used by the out-laws included a rocket launcher and six shells, 22 hand grenades, six time bombs and a light machine gun.In the second incident, four alleged docoits were killed in 'encount' by the police of Mumtazabad and New Multan near

Page 455

454 Hassan Sawali village when their unknown accomplices re-protectly tried to get them on way to Muzaffargarh early Wednesday...released INTERNATIONAL THE NEWS Thursday, April 15, 1999 8 dacoits among 12 killed in 2 shootouts From Our Correspondent FAISALABAD, Police gunned down four dacoits as they ran after killing four persons and injuring 27 near Chiniot on Wednesday.The dacoits, closely followed by the personnel of Elite Force and police commandos, took school children in village 237/GB to ensure their getaway, but the police and Elite Force men killed them in a well-executed operation.The School children remained safe and unhurt.Earlier, the dacoits intercepted Mirza Ghulam Qadir, nephew of former planning commission deputy chairman M.M.Ahmad, near Chenab Nagar when the latter drove to his agricultural farm in Ahmad Nagar.Two of the armed dacoits jumped into Qadir's car and forcibly put the vehicle onto Jhang Road.The other two followed them in their own car.When they reached a Sharqi Bridge on river Chenab, the car slowed down due to heavy rush on the bridge, Qadir, taking advantage of the situation, started shouting for help.The dacoits reacted by firing indiscriminately.Ghulam Qadir, a schoolteacher Naseem, travelling in a Sillanwali - bound bus, and another were killed while 27 other, including bus driver Tausif Ahmed, were injured.The four dacoits later fled from the scene but the police chased them and put them to death.روز نامہ دن لاہور جمعرات 15 /اپریل 1999ء آئی جی بھی چنیوٹ پہنچ گئے سانحہ شورکوٹ میں گرفتار ملزمان کو لاکر شناخت کرائی گئی، بڑے دہشت گرد ہونے کا شبہ

Page 456

455 چنیوٹ میں مقابله چنیوٹ میں مقابلہ دوشہر یوں کوقتل کرکے اسکول میں پناہ لینے والے 4 ڈاکو مارے گئے شرقی پل کے قریب ڈاکوؤں نے مرزا غلام قادر کو گاڑی سمیت اغوا کر لیا، پل پر ٹریفک بند دیکھ کر مغوی نے شور مچا دیا جس پر ڈاکوؤں نے اسے گولی مار دی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے قریب کھڑی بس کا مسافر بھی ہلاک ہو گیا، ڈرائیور اور خاتون ٹیچر شدید زخمی مرزا غلام قادر قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر احمد کا بھتیجا تھا، ملزم صورتحال سے گھبرا کر جھنگ روڈ کی طرف گئے اور ہائی اسکول میں حس کر اساتذہ اور طلبہ کو یرغمال بنا لیا پولیس نے اسکول کا محاصرہ کر لیا اطلاع ملنے پر ایلیٹ فورس اور بکتر بند گاڑیاں بھی پہنچ گئیں، پولیس نے چند منٹ کے مقابلے میں چاروں ملزموں کو ہلاک کر دیا ڈاکوؤں کی شناخت نہ ہو سکی ربوہ، چنیوٹ (نامہ نگار) دریائے چناب کے شرقی پل پر ڈاکوؤں نے واردات میں ناکامی پر 2 افراد کو قتل کر دیا جبکہ عورت سمیت دو را بگیر شدید زخمی ہو گئے.بعد ازاں پولیس نے سخت مقابلے کے دوران چاروں ملزموں کو ہلاک کر دیا.تفصیلات کے مطابق بدھ کی صبح دریائے چناب کے شرقی پل کے قریب ڈاکوؤں نے مرزا غلام قادر کو روکا اور انہیں گن پوائنٹ پر گاڑی سمیت اغوا کر لیا.پل پر ٹریفک بلاک تھی.جس پر مرزا غلام قادر نے شور مچا دیا.ڈاکوؤں نے گھبرا کر انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا.مقتول جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا طاہر احمد کے بھیجے تھے.ڈاکوؤں کی فائرنگ سے قریب کھڑی بس میں بیٹھا ایک مسافر سردار بخش بھی ہلاک ہو گیا.جبکہ ایک خاتون ٹیچر نسرین اور بس ڈرائیور شدید زخمی ہو گیا.ڈاکو صورتحال سے گھبرا کر جھنگ روڈ کی طرف فرار ہو گئے.اسی اثناء میں پولیس کو اطلاع مل گئی جس نے ڈی ایس پی سید جماعت علی شاہ کی سربراہی میں ان کا تعاقب شروع کر دیا.ڈاکو تھانہ لنگرانہ کے ہائی اسکول میں گھس گئے.جہاں پڑھائی جاری تھی.پولیس نے اسکول کا

Page 457

456 محاصرہ کر لیا اور وائرلیس پر ایلیٹ فورس اور بکتر بند گاڑیاں منگوا لیں.پولیس نے ڈاکوؤں کو گرفتاری دینے کے لئے کہا لیکن انہوں نے ہتھیار نہیں پھینکے.پولیس نے کمانڈو ایکشن کر کے چاروں ملزموں کو ہلاک کر کے اساتذہ اور بچوں کو ان کے قبضہ سے چھڑا لیا.واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ایس ایس پی جھنگ اور ڈی آئی جی فیصل آباد موقع پر پہنچ گئے.رات گئے تک ڈاکوؤں کی شناخت نہیں ہوسکی.دریں اثناء آئی جی پنجاب جہانزیب برکی بھی اطلاع ملتے ہی چنیوٹ پہنچ گئے.انہوں نے ہلاک ہونے والے ڈاکوؤں کی لاشوں کا معائنہ کیا.اس موقع پر شورکوٹ میں پکڑے جانے والے دہشت گردوں کو بھی لایا گیا.جنہوں نے لاشوں کو دیکھا.تاہم آئی جی پنجاب نے مقامی اخباری نمائندوں کو ملزموں کے بارے میں کسی قسم کا جواب نہ دیا.یاد رہے کہ مارے جانے والے ملزموں کی طرف سے اسلحہ کے استعمال اور پولیس کی جوابی کاروائی سے پورا علاقہ لرز اُٹھا تھا.پولیس نے موقع.سے پندرہ ہینڈ گرنیڈ، کلاشنکوف، دو پستول، تین راکٹ لانچر، اور لائٹ مشین گن برآمد کر لی.تاہم مرنے والوں کا تعلق ملک کے چوٹی کے دہشت گردوں میں شمار ہوتا ہے.جن کے سر کی قیمت لاکھوں روپے بیان کی جاتی ہے.چنیوٹ مقابلے میں لشکر جھنگوی کا نجی تارڑ مارا گیا، ذرائع کا دعوئی لاہور (سپیشل رپورٹر) جھنگ میں پولیس مقابلہ کے دوران ہلاک ہونے والوں میں لشکرِ جھنگوی کا سرکردہ رہنما اور ڈیرہ غازیخان جیل توڑ کر فرار ہونے والا اعجاز عرف نجی تارڑ بھی شامل ہے.اعجاز حجی کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر حکومت پنجاب نے ہمیں لاکھ روپے انعام رکھا ہوا تھا.اعجاز جی وہاڑی کا

Page 458

457 کے رہائشی تھا.کچھ عرصہ قبل ڈیرہ غازیخان جیل توڑ کر فرار ہونے والے لشکر جھنگوی چھ ارکان میں اعجاز جی بھی شامل تھا.اعجاز جی پولیس کو مجالس اور امام بارگاہوں پر فائرنگ کے علاوہ قتل، ڈکیتیوں اور دیگر سنگین جرائم سمیت مذہبی دہشت گردی کی درجنوں وارداتوں میں مطلوب تھا.ملزم اعجاز حجی ملتان میں خانہ فرہنگ ایران میں فائرنگ اور ڈپٹی کمشنر خانیوال کیپٹن ریٹائرڈ علی رضا کے قتل میں بھی پولیس کو مطلوب تھا.ملزم اعجاز حجی وہاڑی میں ایس ایچ او خانیوال انسپکٹر ریاض اور اس کے گن مین کانسٹیبل کو قتل کرنے کے بعد بھاگا ہوا تھا.ایس ایچ او خانیوال نے ایک مقدمہ کی تفتیش کے دوران اعجاز جی کے گھر والوں کو شامل تفتیش کیا تھا جس کا بدلہ لینے کے لئے اعجاز جی نے انسپکٹر ریاض کو کانٹیبل سمیت قتل کر ڈالا تھا.پولیس ذرائع کے مطابق ملتان، خانیوال اور جھنگ کے علاوہ ان کے قریبی علاقوں میں ہونے والی تمام مذہبی دہشت گردی کی وارداتوں میں اعجاز حجی شامل تھا.وہ خصوصاً پولیس والوں کو قتل کرنے میں مشہور تھا.روز نامہ اوصاف اسلام آباد (4) 15 /اپریل 1999ء "" چناب نگر افراد کو قتل کر کے بھاگتے ہوئے 4 ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک ڈاکو قتل کر کے چھینی گئی کار میں فرار ہو رہے تھے کہ پولیس نے تعاقب شروع کر دیا ڈاکوؤں نے کوٹھی کے مقام پر اسکول میں پناہ لی، پولیس نے بھاری مقدار میں آنسو گیس پھینکی، پولیس محاصرے کے باعث ڈاکوؤں نے اسکول سے مسجد میں داخل ہو کر فائرنگ شروع کر دی پولیس نے طویل مقابلے کے بعد چاروں ڈاکو ہلاک کر دیے.چنیوٹ، چناب نگر (نمائندہ اوصاف + نمائندہ خصوصی + نامہ نگار ) چنیوٹ پولیس نے دو افراد کو قتل کر کے فرار ہوتے ہوئے کار ڈکیتی میں ملوث چار ڈاکوؤں کو ہلاک کر دیا.تفصیلات کے مطابق چار نوجوان جن کی عمریں 25

Page 459

458 سے 30 سال کے دوران تھیں چناب نگر کے معروف ڈاکٹر مبشر احمد کے چچازاد بھائی مرزا غلام قادر کو کارسمیت اغواء کر کے لے گئے اور دریائے چناب کے پل پر رش کے باعث غلام قادر نے اترنے کی کوشش کی تو ملزمان نے پیچھے سے فائرنگ شروع کر دی.جس پر غلام قادر اور ایک مسافر ہلاک ہو گیا.جبکہ مسماۃ نسرین اسکول ٹیچر کا نڈیوال اور بس ڈرائیور محمد توصیف ولد رمضان قوم آرائیں ساکن چک نمبر 119 جنوبی تھانہ سلانوالی شدید زخمی ہو گئے.ڈاکوؤں نے پولیس کو اپنے تعاقب میں پا کر جھنگ روڈ کی طرف فرار ہونے کی کوشش کی.چنیوٹ پولیس نے ڈی ایس پی جماعت علی شاہ کی نگرانی میں ڈاکوؤں کا پیچھا کیا.جبکہ ڈاکوؤں نے تھانہ لنگرانہ کے قریب کار سے اتر کر کوٹھی کے مقام پر ایک ہائی اسکول میں پناہ لی اور اسکول کے طلباء کو سر غمال بنا کر رہائی کا مطالبہ کیا.اسی اثناء میں جھنگ سے ایس ایس پی اسلم ترین کی قیادت میں پولیس کی مزید نفری پہنچ گئی.جس پر ڈاکوؤں کو وارننگ دیتے ہوئے آنسو گیس استعمال کی گئی اور طلبا اسکول کی دیواریں پھلانگ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے.جبکہ ڈاکوؤں اور پولیس میں ڈھائی گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا.دو طرفہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا.آخر کار ڈاکو قریب کی ایک مسجد میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے لیکن پولیس نے چاروں ڈاکوؤں کو طویل مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا.روز نامہ پاکستان لاہور (6) 15 اپریل 1999ء ریاض بسرا کے ساتھی بھی تھی اور اکرم فوجی چنیوٹ پولیس کے ہاتھوں ہلاک نگر جا رہے تھے کہ کار میں سوار 4 افراد نے زبردستی اغوا کر لیا، تھوڑی دور جا کر مرزا غلام قادر نے شور مچا دیا تو ملزموں نے گولی مار کر سڑک پر پھینک دیا، ملزموں کی اندھا دھند فائرنگ سے ساتھ کھڑی بس میں سوار مسافر سردار ہلاک جبکہ اسکول ٹیچر نسرین شدید زخمی ہو گئی،

Page 460

459 پولیس نے پیچھا کیا تو ملزمان اسکول میں گھس گئے چاروں ملزموں نے بچوں کو یرغمال بنا لیا، پولیس نے محاصرہ کر کے فائرنگ کی جس سے چاروں مارے گئے، واقعہ کی اطلاع ملتے ہی آئی جی پولیس سمیت متعدد آفیسر پہنچ گئے.لاشوں کی شناخت کے لئے شورکوٹ سے گرفتار ہونے والے ملزمان کو لایا گیا جنہوں نے ساتھیوں کو شناخت کر لیا، ملزموں سے 15 بم اور راکٹ لانچر بھی برآمد ہوئے.چناب نگر (نامہ نگار) پولیس نے لشکرِ جھنگوی کے اہم رہنماؤں اور ریاض بسرا کے 4 قریبی ساتھیوں تنویر عرف تنی، جی اور اکرم فوجی وغیرہ کو مقابلے میں ہلاک کر دیا، حکومت نے ان ملزمان کی زندہ یا مردہ گرفتاری کے لئے لاکھوں روپے انعام مقرر کر رکھا تھا.بتایا گیا ہے کہ گزشتہ صبح 9 بجے قادیانی جماعت کے مرزا طاہر احمد اور ایم ایم احمد کے حقیقی بھیجے مرزا غلام قادر اپنی گاڑی میں احمد نگر جا رہے تھے کہ کار میں سوار 4 افراد نے زبردستی اغوا کر لیا.گاڑی دریائے چناب کے پل پر پہنچی تو مرزا غلام قادر نے شور مچا دیا جس پر ملزمان نے انہیں گولی مار کر نیچے پھینک دیا ملزمان کی فائرنگ سے ساتھ کھڑی بس میں سوار ایک مسافر سردار ہلاک جبکہ ایک اسکول ٹیچر نسرین شدید زخمی ہو گئی، واردات کی اطلاع ملنے پر پولیس نے متذکرہ افراد کا پیچھا کیا تو وہ لنگرانہ میں کار چھوڑ کر اسکول کی عمارت میں داخل ہو گئے اور اسلحہ کی نوک پر اسکول کے بچوں کو یرغمال بنا لیا ملزموں نے پولیس پر ہینڈ گرنیڈ پھینکے جس سے بچنے کے لئے پولیس نے بکتر بند گاڑیاں منگوا ئیں اور محاصرہ کر کے فائرنگ کی جس سے چاروں ہلاک ہو گئے، واقعہ کی اطلاع ملتے ہی آئی جی پنجاب جہانزیب بر کی، ڈی آئی جی فیصل آباد، اور ایس ایس پی جھنگ اسلم ترین نے ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کا معائنہ کیا.اس موقع پر شورکوٹ میں پکڑے جانے والے ملزمان کو بھی لایا گیا.جنہوں نے لاشوں کی شناخت کی.پولیس نے موقع سے 15 ہینڈ گرنیڈ ، کلاشنکوف، 2 پسٹل، 3 راکٹ لانچر اور لائٹ مشین گن

Page 461

460 برآمد کر لی.روز نامہ جسارت کراچی 15 راپریل 1999ء چار ڈاکو ہلاک، مزاحمت پر 2 افراد کا قتل اہل خانہ اور محلہ داروں نے ڈکیتی کے دوران ایک ڈا کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا، ایس ایس پی ملتان کے چارج سنبھالنے کے 21 گھنٹے بعد ڈاکوؤں سے مقابلہ، چناب نگر میں کار سوار کا اغوا، ملزمان نے شور مچانے پر گولی مار دی، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے خاتون ٹیچر سمیت 4 افراد زخمی، ایک مجروح اسپتال میں دم توڑ گیا دریائے چناب کے شرقی پل پر دن دہاڑے ڈکیتی کی واردات میں چار مسلح کار سوار ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے دو افراد کو ہلاک اور تین شدید زخمی کر دیا.تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سابق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ایم ایم احمد کے بھتیجے مرزا غلام قادر ولد مرزا مجید احمد کو جو اپنی کار میں ربوہ سے احمد نگر جا رہے تھے.راستہ میں ایک سفید کار میں چار مسلح ڈاکو سوار تھے جن میں سے دو ڈاکو ان کی گاڑی میں بیٹھ گئے اور چنیوٹ کی جانب چلنے کو کہا.جب ان کی گاڑی دریائے چناب کے شرقی پل پر پہنچی تو ٹریفک بلاک ہونے کے باعث انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا.جس پر ڈاکوؤں نے فائر مار کر غلام قادر کو کار ہی میں شدید زخمی کر دیا جو بعد ازاں چنیوٹ اسپتال پہنچ کر ہلاک ہو گیا.دو ڈاکو جو اپنی کار میں سوار تھے باہر نکل کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی.ساتھ کھڑی بس جو میانوالی سے فیصل آباد جا رہی تھی میں سوار سردار بخش کمہار سکنہ کوٹ قاضی، ایک گرلز اسکول ٹیچر نسرین کو فائر لگے جس سے سردار اللہ بخش موقع پر ہی ہلاک ہو گیا اور لیڈی ٹیچر شدید زخمی ہو گئی.جس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے.بس ڈرائیور توصیف احمد بھی گولی لگنے سے زخمی ہو گیا.چاروں مسلح ڈاکو واردات کے بعد اپنی کار میں بیٹھ کر

Page 462

461 جھنگ روڈ پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے.روز نامہ خبریں 15 /اپریل 1999ء مرزا طاہر کے بھتیجے کوقتل کرنے والے 4 ڈاکو مسجد میں ہلاک جھنگ سے تعلق رکھنے والے 4 ڈاکوؤں نے مرزا غلام قادر کو احمد نگر سے اغوا کیا اور اس کی گاڑی میں فرار ہو رہے تھے کہ مغوی نے شور مچا دیا، ڈاکوؤں نے غلام قادر کو قتل کر کے بھاگ کر ایک اسکول میں پناہ لی، پولیس نے تعاقب کیا، ڈاکوؤں نے محاصرہ توڑ کر ایک مسجد میں پناہ لے لی پولیس اور ایلیٹ فورس نے فائرنگ کر کے چاروں کو مسجد میں ہی مار ڈالا، پولیس نام خفیہ رکھ رہی ہے، بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد چنیوٹ، چناب نگر (نمائندہ خبریں) قادیانی جماعت کے سر براہ مرزا طاہر احمد اور پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئر مین ایم ایم احمد کے بھتیجے مرزا غلام قادر کو اغوا کے بعد قتل کرنے والے چاروں ڈاکوؤں کو پولیس نے مسجد میں ہلاک کر دیا.تفصیلات کے مطابق گزشتہ صبح 9 بجے دریائے چناب کے مشرقی پل احمد نگر کے نزدیک ڈاکوؤں نے مرزا غلام قادر کو یرغمال بنا لیا، اور اسی کی کار میں فرار ہونے لگے.پل پر ٹریفک جام تھی جہاں مرزا غلام قادر نے اپنی مدد کے لئے شور مچا دیا.ڈاکو مرزا غلام قادر کو گاڑی میں ہی قتل کر کے امین پور بنگلہ کی طرف بھاگ نکلے.اطلاع ملنے پر پولیس نے ڈاکوؤں کا تعاقب کیا.ڈاکوؤں نے گورنمنٹ ہائی اسکول چک نمبر 237 میں پناہ لے لی.پولیس نے اسکول کا محاصرہ کر لیا.ڈاکو پولیس کا محاصرہ توڑ کر یہاں سے بھی بھاگ نکلے اور گاؤں کی مسجد میں جا گھسے.پولیس اور ایلیٹ فورس نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا اور فائرنگ کر کے چاروں کو مسجد میں ہی بھون ڈالا.واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ضلع و ڈویژن کے اعلیٰ پولیس و انتظامی حکام موقع پر پہنچ گئے.حکام نے مسجد کی تعمیر نو کے لئے - 20000 روپے دینے کا اعلان کیا.چاروں نعشیں جھنگ روانہ کر دی گئی ہیں.پولیس مرنے والوں کے نام بتانے سے گریز کر

Page 463

462 رہی ہے.ملزموں سے بھاری اسلحہ جس میں راکٹ لانچر، اور ہینڈ گرنیڈ شامل ہیں، قبضہ میں لے لیا.بتایا گیا ہے کہ ملزمان اشتہاری تھے اور ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر لاکھوں روپے انعام مقرر کیا گیا تھا.چناب نگر: مقابلہ میں مرنے والوں میں لشکر جھنگوی کا رہنما اعجاز نجی عرف فوجی شامل ہے : پولیس کا دعوی چناب نگر ( جی این این) پولیس نے دعوی کیا ہے کہ مرزا طاہر احمد کے بھتیجے مرزا غلام قادر کو اغواء کے بعد قتل کر کے فرار ہونے والے چار ڈاکو جنہیں بعد میں ہلاک کر دیا گیا تھا میں سے دولشکر جھنگوی سے تعلق رکھتے تھے.ایک اعجاز جی عرف فوجی جبکہ دوسرا طارق ورک تھا.فوجی کے سر پر لاکھوں کا انعام مقرر تھا.روز نامه آواز (4) 15/اپریل 1999ء چنیوٹ میں قادیانی رھنما اغواء کے بعد قتل ڈاکوؤں نے بیچنے کے لئے طلباء کو یر غمال بنا لیا پولیس کا کمانڈو ایکشن، چاروں ہلاک ایک ڈا کو غلام قادر قادیانی کی کار میں سوار ہو گیا راستے میں ٹریفک پھنس گئی تو مغوی نے شور مچا دیا، ملزموں نے فائرنگ کر دی، ایک نامعلوم شخص بھی ہلاک ہو گیا، پولیس نے تعاقب کیا تو ڈاکو اسکول میں گھس گئے، طلباء کو ڈھال بنا لیا، پولیس نے آنسو گیس پھینکی تو باہر نکل آئے ، فائرنگ کر کے چاروں کو ہلاک کر دیا چنیوٹ (نمائندگان) ڈاکوؤں نے ایک کار سوار کو اغواء کر لیا.شور کرنے پر گولی مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا.ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک نامعلوم شخص بھی ہلاک ہو گیا.چنیوٹ پولیس نے چاروں ڈاکوؤں کو ڈھیر کر

Page 464

463 دیا.تفصیلات کے مطابق چار ڈاکوؤں نے چناب نگر سے آنے والے ایک شخص غلام قادر قادیانی کو چناب کے پل پر روکا اور ایک ڈاکو اس کی کار میں بیٹھ گیا.چناب پل پر ٹریفک پھنس جانے پر ڈاکوؤں نے اسے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا.ڈاکوؤں کی فائرنگ سے قریب کھڑی ایک بس کا مسافر ہلاک ہو گیا.نسرین اور بس ڈرائیور شدید زخمی ہو گئے.ڈاکو غلام قادر کی گاڑی چھوڑ کر اپنی گاڑی میں فرار ہو گئے.پولیس نے تعاقب شروع کر دیا.ڈاکو تھا نہ لنگرانہ کی طرف جھنگ روڈ سے مُڑ گئے اور چک 237 ج ب کے گورنمنٹ ہائی اسکول کے قریب مسجد میں داخل ہو گئے اور اسکول کے اساتذہ اور طلباء کو سرینغمال بنا لیا.اور دھمکی دی کہ ان کو ہلاک کر دیں گے.اسی دوران پولیس اور ایلیٹ فورس سمیت پہنچ گئی.انہوں نے مسجد میں آنسو گیس کے شیل پھینکے جس سے چاروں ڈاکو رینگ کر باہر نکلنے لگے تو پولیس نے کمانڈو ایکشن سے انہیں گھیر کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا.نامہ نگار کے مطابق میاں غلام قادر جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد کے رشتہ دار بتائے جاتے ہیں اور ان کا ایک رائس شیلر احمد نگر میں ہے.یہ فیصل آباد ائیر پورٹ جاتے ہوئے جب دریائے چناب کے پل پر پہنچے تو انہیں لوٹنے کے لئے کارسوار ڈاکوؤں نے ان کا رستہ روکا اور انہیں لوٹنے کی کوشش کی.مزاحمت پر فائرنگ سے ہلاک کر دیا.بھوانہ سے نامہ نگار کے مطابق پولیس نے بکتر بند گاڑیاں بھی استعمال کیں.جھنگ سے آواز کے مطابق جوابی فائرنگ کے دوران ڈاکوؤں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے چار طالب علموں کو گلے لگا لیا.جس سے پولیس کو ڈاکوؤں پر فائرنگ کرنا مشکل ہو گیا.تو پھر پولیس نے کمانڈو ایکشن کر کے چاروں طالب علموں کو ڈاکوؤں سے چھڑا لیا.ان کے قبضے سے راکٹ لانچر بھی برآمد ہوا ہے.

Page 465

464 روز نامہ جرأت (6) 15/اپریل 1999ء مرزا طاہر احمد کے بھتیجے مرزا غلام قادر کو اغوا کر کے لے جانے والے ڈاکوؤں نے چناب پل پر فائرنگ کر کے مغوی اور ساتھ کھڑی بس کے مسافر کو ہلاک کر دیا ربوہ اور ملتان میں مقابلے 3 شہری مل 8 ڈاکو ہلاک تین افراد زخمی ہو گئے، پولیس کے تعاقب پر ڈاکوؤں نے لنگر انہ اسکول کے طلباء اور اسٹاف کو یرغمال بنا لیا کمانڈو ایکشن میں چاروں ملزم مارے گئے ڈاکوؤں کے قبضے سے راکٹ لانچر اور دیگر اسلحہ برآمد، ملتان کے محلہ سمن آباد میں ڈکیتی کے دوران شکیل کو قتل اور اس کے بھائی، بیوی اور والدہ کو زخمی کر کے بھاگنے والے ڈاکووں کو گرفتاری کے بعد رہا کر دیا گیا، مرنے والوں کا تعلق وہاڑی ملتان، مظفر گڑھ سے ہے.چناب نگر ربوہ (نمائندہ خصوصی ) دریائے چناب کے مشرقی پل پر دن دیہاڑے ڈکیتی اور اغواء کی واردات میں جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا طاہر احمد کے بھتیجے مرزا غلام قادر کو قتل کر دیا گیا.تفصیل کے مطابق ربوہ ہائی وے روڈ پر مرزا غلام قادر اپنی کار نمبر 6021-LXF پر صبح نو بجے کے قریب جا رہے تھے کہ سامنے سے آنے والی کار نمبر 8795-LHX میں سے دو افراد نے گن پوائنٹ پر مرزا غلام قادر کو اغواء کر کے دونوں گاڑیوں کا رُخ چنیوٹ کی طرف کر لیا.دریائے چناب کے مشرقی پل پر ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے ڈاکوؤں کو کاریں روکنا پڑیں.اسی اثناء میں مرزا غلام قادر نے بچاؤ بچاؤ کا شور مچا دیا.ڈاکوؤں نے غلام قادر پر فائر کھول دیا.جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا.فائرنگ کی زد میں آکر بس میں سوار سردار بخش بھی ہلاک ہو گیا.جس میں سوار ایک لیڈی ٹیچر نسرین سکنہ کوٹ قاضی، بس ڈرائیور توصیف اور مسافر جبار بھی شدید زخمی ہو گئے.اسپتال میں نسرین کی حالت نازک بتائی جاتی ہے.واردات کی اطلاع ملنے پر ڈی ایس پی چنیوٹ سید جماعت علی شاہ نے پولیس پارٹی کے ہمراہ ڈاکوؤں کا پیچھا کیا.جھنگ روڈ تھا نہ لنگرانہ کی حدود میں واقع

Page 466

465 ایک پرائمری اسکول میں گھس کر اسلحہ کی نوک پر بچوں کو یر غمال بنا لیا، پولیس نے اسکول کا محاصرہ کر کے کمانڈو ایکشن کرتے ہوئے چاروں ڈاکوؤں کو ڈھیر کر دیا.آپریشن کی نگرانی ایس ایس پی جھنگ اسلم ترین اور ڈی سی جھنگ شیر افگن نے کی.مرنے والے ڈاکوؤں کی کار سے راکٹ لانچر کے علاوہ بھاری مقدار میں جدید اسلحہ بھی برآمد ہوا.ڈاکوؤں کے نام صیغہ راز میں رکھے جا رہے ہیں.خیال کیا جاتا ہے.کہ مرزا غلام قادر کو تاوان کے لئے اغوا کیا گیا ہے.روز نامہ صحافت لا ہور (6) 15 /اپریل 1999ء مرزا غلام قادر صاحب کے واقعہ شہادت کی تفصیل چنیوٹ (تحصیل رپورٹر ) دریائے چناب پر چار دہشت گردوں نے جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا طاہر احمد اور سابق ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن پاکستان ایم ایم احمد کے بھتیجے مرزا غلام قادر کو اپنے فارم احمد نگر سے اغواء کرنے کے بعد گولی مار کر قتل کر دیا.اس واردات میں ایک بس مسافر سردار بخش بھی ہلاک ہو گیا.چاروں ملزم واردات کے بعد سفید رنگ کی کار میں امین پور بنگلہ کی طرف فرار ہو گئے.تاہم پولیس نے ان کا تعاقب شروع کر دیا.جس پر چاروں ملزم گورنمنٹ ہائی اسکول چک 237 ج ب لنگرانہ میں گھس گئے اور انہوں نے طالب علم بچوں کو یر غمال بنا لیا.بعد ازاں ایس ایس پی جھنگ اسلم ترین کی قیادت میں پولیس پارٹی نے گھیرا تنگ کیا تو وہ بھاگ کر گاؤں کی مسجد میں داخل ہو گئے اور انہوں نے مسجد کو مورچہ بنا کر فائرنگ شروع کر دی.دہشت گردوں نے ہینڈ گرنیڈ بھی پھینکے.پولیس نے ملزموں کے راکٹ لانچروں سے بچنے کے لئے بکتر بند گاڑیاں استعمال کیں اور چاروں دہشت گردوں کو زبردست مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا.اطلاع ملتے ہی آئی جی

Page 467

466 پنجاب جہانزیب برکی، ڈی آئی جی فیصل آباد طارق مسعود کھوسہ اور ایس ایس پي جھنگ اسلم ترین چنیوٹ پہنچ گئے اور سید جماعت علی شاہ ڈی ایس پی چنیوٹ کے دفتر میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ چاروں دہشت گردوں کا تعلق مذہبی جماعت سے ہے.اور ان کی گرفتاری پر حکومت نے لاکھوں روپے انعام مقرر رکھا ہے.شناخت پر معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے تنویر خان عرف تنی، جی، اکرم فوجی وغیرہ شامل ہیں.انہوں نے حکومت کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر رکھا تھا.جنہیں جھنگ اور چنیوٹ پولیس کے جوانوں اور ایلیٹ فورس نے مل کر ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا ہے.انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی ہدایت پر ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے ہم بھر پور کوشش کر رہے ہیں.اور اس سلسلہ میں ہم کوئی اثر قبول نہیں کریں گے.16 اپریل 1999 ء کو مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی سرخیاں: روزنامہ خبریں لاہور : لشکر جھنگوی اہل تشیع اور قادیانیوں کے اغواء برائے تاوان میں ملوت ہے : بر کی یہ اغواء کی تیسری واردات تھی، سپاہ صحابہ کا دہشت گردوں کی ہلاکت پر احتجاج معنی خیز ہے، مرنے والے کے ہاتھ درجنوں افراد کے لہو سے رنگے تھے، محرم میں وسیع پیمانے پر دہشت گردی کا منصوبہ تھا روزنامه پاکستان لاہور : بسرا کے بعد تنی کی پولیس مقابلہ میں ہلاکت کا دعوی بھی جھوٹا نکلا ان میں میرا بیٹا نہیں، چناب نگر میں ہلاک ہونے والوں کی نعشیں دیکھ کر تنویر کے والد کا بیان

Page 468

467 17 / اپریل 1999 ء کو مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی سرخیاں: روزنامه جنگ لاہور : چنیوٹ: پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد طارق ورک کو سپرد خاک کر دیا گیا روزنامہ نوائے وقت لاہور : چناب کے پل پر دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے غلام قادر سپر د خاک مقتول مرزا غلام احمد قادیانی کا پڑپوتا تھا روزنامه دن لاہور : چنیوٹ : پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ممتاز اور بشیر بھٹی نکلے مرنے والے چاروں کی شناخت ہوگئی، پولیس نے اپنا نقصان نہ ہونے پر شکرانے کی دیگ تقسیم کی روزنامه جرات لشکر جھنگوی خون کے دریا بہتے دیکھنا چاہتی ہے جماعت احمدیہ روزنامہ خبریں اعجاز جی ، فوجی اور ٹیپو کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا لشکر جھنگوی میں شامل ہونے سے پہلے کسی مدرسہ میں تعلیم نہ پائی، سروں پر لاکھوں روپے انعام مقرر تھا نجی اسکول ماسٹر کا بیٹا تھا، اس نے مجلس عزا پر فائرنگ کر کے 23 افراد ہلاک

Page 469

468 کر دیے تھے، تارڑ عرف فوجی محلے میں چوکیداروں کا کام کرتا تھا، فوج سے ریٹائرمنٹ لینے کے لئے انگلی کاٹ لی، طارق ورک عرف ٹیپو، اعجاز جی کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان جیل توڑ کر فرار ہوا، ڈی ایس پی کے قتل میں ملوث تھا جہاں زیب برکی کی پریس کانفرنس لشکر جھنگوی.اہل تشیع اور قادیانیوں کے اغواء برائے تاوان میں ملوث ہے : برکی چنیوٹ (نمائندہ خبریں) پنجاب پولیس نے دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے.ان خیالات کا اظہار آئی جی پنجاب جہانزیب برکی نے ایک پریس کانفرنس میں کیا.انہوں نے کہا کہ چنیوٹ میں پولیس مقابلہ میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد ریاض بسرا کے قریبی ساتھی تھے.اعجاز عرف نجی سکنہ وہاڑی، طارق عرف ٹیپو ورک سکنہ ٹو بہ ٹیک سنگھ وغیرہ درجنوں بے گناہ افراد کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے تھے.یہ ڈیرہ غازیخان جیل سے فرار ہوئے تھے.حکومت نے نجی کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے اور ٹیپو کے سر کی قیمت 5 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی.ہلاک ہونے والے دہشت گرد پنجاب میں محرم الحرام کے دوران کسی خوفناک منصوبہ پر عمل کر کے قتل و غارت اور تباہی پھیلانا چاہتے تھے.انہوں نے کہا کہ لشکر جھنگوی نے اہلِ تشیع اور قادیانیوں کے سرکردہ افراد کو اغواء برائے تاوان کا نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے.یہ ان کی تیسری واردات تھی.انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی ہلاکت سے سپاہ صحابہ کا احتجاج معنی خیز ہے.انہوں نے کامیاب آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسروں، اہلکاروں اور ایلیٹ فورس کے جوانوں کو شاباش دیتے ہوئے ان کی ترقیوں اور انعامات

Page 470

469 کی سفارش کی.بھوانہ سے نمائندہ خبریں کے مطابق آئی جی پنجاب جہانزیب برکی نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی اور تخریب کاری پھیلانے کے ماہر سمجھے جانے والے دہشت گردوں کا پولیس نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا.انہوں نے کہا کہ حکومت کی ہدایت پر ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری ختم کرنے کے لئے پولیس نے مؤثر انتظامات کئے ہیں اور اس کام میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی.روز نامہ اوصاف اسلام آباد چنیوٹ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والوں نے ڈیرہ غازی خان جیل توڑی تھی چاروں ملزمان کی شناخت کر لی گئی ان کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا، کئی وارداتوں میں مطلوب تھا ان کے سروں کی قیمت لاکھوں روپے تھی درجنوں افراد کو قتل کر چکے تھے ایس ایس پی جھنگ 18 / اپریل 1999 ء کو مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں DAWN Sunday, April 18, 1999 Chiniot shootout Two of the dead not yet identified By Our Correspondent JHANG, April 17: The identity of two of four alleged terrorist killed in a Wednesday's police encounter in a village of Langrana police station has been established.Jhang SSP, Aslam Tareen said they both belonged to Lashkar-e-Jhangvi and were wanted in several cases of

Page 471

470 kidnapping for ransom, decoity 150 murder cases and others.Ejaz Tarar carried Rs.2 million bead money and Tariq Tippu Rs.500,000.Both were close associates of Riaz Basra and were regarded as operational commander in the terrorism acts, he said at a press briefing on Saturday.The SSP said that all the four terrorist kidnapped Mirza Ghulam Qadir Qadiani from Ahmed Nagar in his car.While crossing the congested Chiniot Bridge on the Chenab, Mirza Ghulam Qadir shouted for help.The kidnappers resorted to firing killing Mr.Mirza and three others who were abroad a bus.The kidnappers abandoned the car and took refuge in a village school where they held all the students and staff as hostages.But the police managed to kill them without hurting any student or school staff, the SSP said, adding that a huge quantity of lethal weapon and a Honda Civic car was seized by the police Our Vehari correspondents add: Three of the four terrorists have so far been identified.They are Ejaz Ahmed Jajji of chak 59 IWB (Vehari), Hafiz Shabbir Ahmed Bhatti of chak 55 IWB (Vehari) and Mumtaz Ahmed Lurka of chak 55 IWB (Vehari).Ejaz was identified by his father, Anwar Tarar, and other relatives after his death in a Faislabad hospital.He was also involved in Dokota, Mailsi, incident (Majlis-e-Aza firing cases).According to police his body will reach Vehari from Faislabad during the next 24 hours.Security arrangements have been made in the districts, especially in his native village Chak 591 WIB, some 10km from here.THE NEWS April 18, 1999 SSP DETAILS Encounter killing of LJ

Page 472

471 Terrorists By Our Correspondent JHANG, Jhang SSP Aslam Tareen Saturday disclosed details of the encounter with Lashkar-e-Jhangvi terrorist two day ago.Talking to newsmen, the SSP who himself led the encounter said four LASHKAR-E-JHANGVI (LJ) terrorist kidnapped Mirza Ghulam Qadir for ransom from Ahmed Nagar on April 14.As the Chenab Bridge was closed due to heavy traffic, kidnapped Mirza tried to run raising hue and cry upon which the kidnappers killed him along with 3 passengers in a passing by bus, he added."Following an information, police chased the terrorists who fled towards Langrana.When they saw police on a road near chak 237/JB.They left their car and ran to a nearby high school children and using them as shield entered a nearby mosque.When the police encircled the area the terrorists started burning some currency notes and papers giving the kidnapped children a chance to escape from the mosque.After making sure that the children were out of the terrorist reach, police threw teargas shells inside the mosque the terrorists also opened fire on police.Police retaliated with firing more shells which caused firing inside the mosque forcing the terrorists to come out ".The SSP narrated."The terrorists left the mosque firing on the police.Police also fired upon the terrorists.This encounter continued for more than four and ended with the killing of the terrorists.The terrorists were identified as Ejaz Jajji; Carrying Rs.2 million as head money and Tariq Virk with Rs.0.5 million head money.Beside Bashir Bhatti and Shabbir Bhutto," concluded the SSP.روز نامہ اوصاف اسلام آباد

Page 473

472 بیٹے کو لشکر جھنگوی نہ چھوڑنے پر عاق کر دیا تھا : حاجی انور اپنے بیٹے کی ہلاکت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، آخری ملاقات چار سال قبل ہوئی تھی، پولیس تنگ کرتی تھی، چنیوٹ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے اعجاز جی کے والد کی صحافیوں سے گفتگو روزنامہ خبریں لاہور جھنگ مقابلہ ہلاک شدگان ریاض بسرا کے آپریشنل کمانڈر تھے: ایس ایس پی ملزموں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار ہو گئی غلام قادر کو تاوان کے لئے اغواء کیا گیا، جوتوں سمیت مسجد میں داخل ہوئے اور اندر سے فائرنگ کر کے مسجد کا تقدس پامال کیا، پولیس کو مجبوراً فائرنگ کرنا پڑی، ملزموں نے اسکول کے طلباء کو یرغمال بنانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد مسجد میں پناہ لے کر مدرسہ کے طلبہ کو یرغمال بنا لیا روز نامہ پاکستان لاہور پولیس کا اعجاز عرف جی کی نعش ورثاء کے حوالے کرنے سے انکار دو روز گزرنے کے باوجود نعش وہاڑی اس کے آبائی گاؤں نہیں پہنچی، والدہ اور بھائیوں کا احتجاج لغش فوری حوالے نہ کی گئی تو جنازہ پڑھائیں گے نہ نعش وصول کریں گے، بھائی کی دہائی DAWN Sunday, April 19,1999 Chiniot encounter victims Buried in Vehari By Our Correspondent VEHARI, April 18: Three of the four alleged terrorists and Lashkar-e-Jhangvi activitis, who were among four killed in an encounter with police near Chiniot on Wednesday, were buried in their native villages near here on Sunday morning.Ejaz Ahmed Tarar, Hafiz Shabbir Bhatti and Mumtaz Ahmed Lurka were buried in villages 59-WB and 55-WB, 10

Page 474

473 km from here.More than 1,000 people attended their funeral prayers mid night security arrangement by police Earlier their bodies were brought here at 5am from the Allied Hospital, Faislabad.Police kept the Vehari district sealed for the last 24 hours, and checked every entry in the district.20 /اپریل 1999ء کو روزنامہ خبریں میں شائع ہونے والی تفصیل ڈکوٹہ دہشت گردی کی واردات میں ملوث 23 افراد کے قاتل کس طرح انجام کو پہنچے؟ چنیوٹ پولیس مقابلے" کی اصل کہانی حقائق پر مبنی المشافات کی تحقیقی رپورٹ چنیوٹ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے دو افراد اعجاز احمد نجی تارڑ اور طارق محمود ورک جن پر پولیس نے اغواء، ڈکیٹی اور قتل جیسی سنگین نوعیت کی وارداتوں کے علاوہ مفروری کے مقدمات درج کر رکھے ہیں.اور جن کے سروں کی قیمت حکومت پنجاب نے 60 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی.پنجاب پولیس کے لئے ان کی گرفتاری چیلنج بن کر رہ گئی تھی.بے شمار مقدمات اور مفروری کے باوجود ان کی دہشت اس قدر تھی کہ بڑے بڑے پولیس افسران ان کا نام سُن کر خوف زدہ ہو جایا کرتے تھے.شاید یہی وجہ تھی کہ دونوں دہشت گردوں نے اپنا مشن جاری رکھا.جس کے باعث ملک فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہو گیا.اور امن کی صورتحال بگڑتی چلی گئی.جو موجودہ حکومت کے لئے بلاشبہ ایک چیلنج تھی.جس پر وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پورے ملک اور بالخصوص کراچی اور پنجاب میں امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنے کے لئے تمام متعلقہ محکموں کو خصوصی ہدایات جاری کیں.جس پر پولیس سمیت دیگر حساس

Page 475

474 ادارے بھی حرکت میں آگئے.اور انہوں نے اپنی اپنی جگہ کام شروع کر دیا اور اس کام کی ابتداء چنیوٹ سے ہوئی.جہاں ایس ایس پی جھنگ محمد اسلم ترین، ڈی ایس پی جماعت علی شاہ اور دیگر پولیس افسران نے عرصہ دراز سے مفرور اعجاز احمد نجی جن کے سروں کی قیمت 50 لاکھ روپے جبکہ طارق محمود ورک جس کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقررتھی، ان دونوں دہشت گردوں کو کئی دنوں کی جدو جہد کے بعد پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا.مقابلے میں ہلاک ہونے والے اعجاز حجی اور طارق ورک کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں.اس کے مطابق دونوں دہشت گردوں کا تعلق کسی امیر گھرانے سے نہیں تھا بلکہ وہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے.اور نہایت ہی کم تعلیم یافتہ تھے.اعجاز احمد نجی تارڑ جس پر پولیس نے قتل، اغواء برائے تاوان ، ڈکیتی جیسے سنگین الزامات میں 15 مقدمات درج کر رکھے تھے.وہ ایک اسکول ماسٹر محمد انور تارڑ کا بیٹا تھا.اور میلسی ڈکوٹہ فائرنگ کیس کا مرکزی کردار بھی تھا.اس واقعہ میں ایک مجلس عزاء پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 23 افراد جاں بحق ہوئے تھے.اعجاز حجی عرف فوجی جس کا تعلق ایک سادہ گھرانے سے تھا.فوج میں بھرتی ہو گیا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اس نے فوج چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا.اس نے با قاعدہ استعفیٰ بھی بھجوایا جو منظور نہ ہو سکا.بالآخر اعجاز جی نے اپنی ایک انگلی کاٹ کر خود کو مس فٹ ظاہر کر کے ریٹائرمنٹ لے لی.پھر اس نے وہاڑی شہر میں بھی برائلر مرغی فروخت کرنے کے لئے اڈہ لگا لیا، مگر یہ کاروبار بھی ٹھیک طریقے سے نہ چل سکا.تو اس نے ایک علاقے میں چوکیداری شروع کر دی.اسی دوران اس کی دوستی گجر برادری کے ایک شخص سے ہو گئی.جو کچھ عرصہ بعد ایک دوسری انتہا پسند مذہبی تنظیم کے ہاتھوں قتل ہے گیا.اعجاز جی کو اس کا شدید رنج تھا.بعد ازاں اس نے اپنے دوست کا بدلہ لینے کے لئے مخالف تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی اور یہیں سے اس نے جرائم کی دنیا میں اپنا قدم رکھا.سب سے بڑی واردات ڈکوٹہ میں 23 افراد کو ہلاک کر کے کی.اعجاز حجی نے اپنے دوست کے مخالفوں کو بھی قتل کر کے بدلہ چکا دیا.اس پر بوریوالا کے مشہور تاجر شیخ ابراہیم کو ہو

Page 476

475 تاوان کے لئے اغواء کرنے کا بھی الزام تھا اور اس طرح چنیوٹ میں بھی مختلف وارداتیں کی گئیں.اعجاز جی تارڑ کو پولیس نے گرفتار کر کے سینٹرل جیل ملتان بھجوا دیا پھر یہاں سے اسے میانوالی جیل اور بعد میں بہاولپور ٹرانسفر کر دیا گیا.بہاولپور جیل سے اسے ڈیرہ غازی خان جیل منتقل کر دیا گیا.یہاں سے اعجاز جی اور طارق ورک اپنے دو ساتھیوں سمیت جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے.پولیس ریکارڈ کے مطابق مفروری کے دوران بھی اعجاز حجی سنگین وارداتوں میں ملوث رہا.چنانچہ پنجاب پولیس نے اعجاز جی تارڑ کی گرفتاری کے لئے اس کے گرد گھیرا کئی ماہ سے تنگ کر رکھا تھا.اعجاز حجی نے اس دوران اپنے ٹیچر باپ، بھائی، والدہ سمیت دیگر اہل خانہ کو نامعلوم مقام پر چھپا کر رکھا تھا.اور پولیس کوشش کے باوجود بھی انہیں تلاش کرنے میں ناکام رہی.ڈیرہ غازی خان جیل سے اس کے ہمراہ فرار ہونے والے طارق محمود ورک ولد محمد اسمعیل جو ٹو بہ ٹیک سنگھ ضلع فیصل آباد کا رہائشی تھا اس پر بھی اغواء برائے تاوان، قتل، اقدام قتل، ناجائز اسلحہ رکھنے کے الزامات تھے.مفروری کے دوران یہ دونوں اکٹھے رہتے تھے.14 / اپریل 1999ء کو سابق ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن ایم ایم احمد کا بھتیجا مرزا غلام قادر جو قادیانی فرقے سے تعلق رکھتا تھا، اپنی کار نمبر 6021-LOX میں جا رہا تھا کہ سفید رنگ کی کار نمبر 8795-LXE میں سوار اعجاز حجی اور طارق محمود وغیرہ نے اسے روکا اور اس کی گاڑی میں بیٹھ کر اسے اغواء کر کے لے جا رہے تھے کہ چنیوٹ محصول چنگی کے قریب پہنچنے پر ٹریفک رش کے باعث بلاک ہو گئی اور غلام قادر مرزا نے شور مچا دیا.وہ کار سے نکل کر بھاگ کھڑا ہوا.جس پر ملزمان نے فائرنگ شروع کر دی.جس پر غلام قادر اور ایک نامعلوم شخص موقع پر ہی ہلاک ہو گیا.جبکہ

Page 477

476 سامنے کھڑی بس کا ڈرائیور توفیق احمد اور مسافر خاتون ٹیچر مسمات نسرین زخمی ہو گئے.اعجاز حجی اور طارق محمود وغیرہ چار افراد واردات کے بعد موقع سے فرار ہو گئے.اس کی اطلاع جب ڈی ایس پی جماعت علی شاہ کو ہوئی تو انہوں نے ملزمان کا تعاقب شروع کر دیا.اور آگے دوسری پولیس کو بھی ناکہ لگانے کی ہدایت کرتے رہے.یوں پولیس نے انہیں چار اطراف سے گھیر لیا.اسی دوران چک نمبر 237 ج ب کے قریب ملزمان کی گاڑی کچی جگہ سے پھسل کر گر گئی.انہوں نے یہاں سے بھاگ کر ایک اسکول میں پناہ لے لی مگر پولیس نے گرینڈ آپریشن کے لئے آس پاس کے علاقوں سے مزید فورس جن میں ایلیٹ فورس بھی شامل ہے، کو بلوایا.پولیس نے اعلان کر دیا کہ ملزمان گرفتاری دے دیں تو یہی ان کے لئے بہتر ہے.مگر ملزمان نے گرفتاری دینے کی بجائے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی.پولیس نے جوابی فائرنگ کی.اعجاز جی جو اپنے ساتھیوں سمیت اسکول میں چھپا تھا.اس نے شاید بچوں کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کے پیش نظر اسکول کے ساتھ واقع مسجد میں پناہ لے لی.پولیس کی بھاری نفری بکتر بند گاڑیوں نے اسکول اور مسجد کو چاروں طرف سے گھیر لیا.اسی اثناء میں ملزمان نے راکٹ لانچر سے بھی پولیس پر فائر شروع کر دیے جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کے شیلوں کی بارش کر دی.پولیس مقابلے کا یہ سلسلہ کافی دیر جاری رہا.اور بالآخر اعجاز احمد حجی اور طارق محمود سمیت چاروں افراد اس مقابلے میں ہلاک ہو گئے.پولیس نے ان کی نعشوں کو قبضے میں لے لیا اور اعجاز جی کی کٹی انگلی دیکھ کر اس کی ہلاکت کی تصدیق کر دی.پولیس کے مطابق ملزمان کے قبضہ سے 1 راکٹ لانچر، 5 گولے، 22 دستی بم، 6 ٹائم بم، 2 ایل ایم جی ، 2 پستول، 1 ماؤزر اور 1 کلاشنکوف برآمد ہوئی.اعجاز حجی اپنے ساتھی طارق محمود ورک سمیت پولیس مقابلے میں مارا

Page 478

477 گیا لیکن کیا؟ ان کے مرنے سے یہ فرقہ وارانہ جنگ ختم ہو گئی، ہر گز نہیں اور اب حکومت اور پولیس کے لئے محرم الحرام کے مہینے میں ہونے والی وارداتوں کو روکنا ایک پیج بنا ہوا بنا ہوا ہے.کیونکہ حساس ادارے نے سنگین حالات کی نشاندہی کر دی ہے.لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ اس تعصب کی آگ کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے کوئی دوسری حکمت عملی اپنائے.وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لئے خصوصی احکامات جاری کئے تھے، اعجاز جی اور طارق محمود ورک کو پہلے ہی شناخت کر لیا گیا تھا : ڈی ایس پی ڈی ایس پی چنیوٹ سید جماعت علی شاہ نے بتایا کہ اعجاز فوجی عرف جی اور طارق محمود ورک کو پہلے ہی شناخت کر لیا گیا تھا.جبکہ باقی دوملزموں کی شناخت ان کے لواحقین نے چنیوٹ تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال پہنچ کر کی.جس کے مطابق ممتاز حسین اور بشیر احمد وہاڑی کے رہنے والے ہیں.وہ ڈیرہ غازی خان جیل توڑ کر فرار ہوئے تھے.اور انہوں نے اپنا الگ سے ایک گینگ بنا کر غلام محمد سواگ ایم پی اے کوٹ کرم شاہ ملتان، کبیر والا ، اور خانیوال کے امام باڑوں میں نمازیوں پر فائرنگ کی تھی.اسکول کے سرغمال بننے والے بچوں نے بتایا کہ چاروں ملزمان مسجد میں مورچہ بند ہو کر تین گھنٹے تک پولیس سے مقابلہ کرتے رہے.اور انہوں نے بچوں میں پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار روپے کے نوٹ بھی تقسیم کئے اور کہا کہ ہمارے بچنے کے لئے دعا کرنا.ایک بچے نے بتایا کہ مسجد سے ایک انگوٹھی ملی ہے جس پر بشیر احمد کندہ تھا.

Page 479

478 WA کے اغوا اور شہادت میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں

Page 480

باب 17 479 روزنامہ جنگ کا ایک کالم ڈان کے ایڈیٹر کے نام کنور اور میں صاحب اور مرزا عمران احسن کے خطوط

Page 481

480 روزنامہ جنگ لاہور میں 1999 ء کو شائع ہونے والا ایک کالم یہ زندگی مسرت جبیں میں کئی دن سے سوچ رہی ہوں کہ جا کر آصف بھوجا کے ماں باپ سے پوچھوں کے وہ کیسے زندہ ہیں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہوا وہ معصوم بچہ جس کی خاطر پتہ نہیں انہوں نے کتنے دکھ جھیلے ہوں گے، کتنی خواہشیں اور اُمیدیں باندھی ہوں گی کہ پورا جوان ہو کر کیا بنے گا کیسی زندگی گزارے گا، انہیں اپنے کاموں سے کیسی کیسی خوشیاں عطا کرے گا.وہ سب دھنگ رنگ سوچیں محض ایک گولی کے ہاتھوں بہنے والے خون میں ملیا میٹ ہو گئیں...اس خون کا بدلہ کس سے لیں؟ کون ان کے دل کی بے قراری کو چین دے؟ کوئی نہیں جانتا.پھر وہ ماں، وہ باپ آخر اس ظالم دنیا میں کیا کر رہے ہیں؟ کبھی سوچتی ہوں، چینوٹ کے مرزا قادر کے جڑواں معصوم بچے جنہوں نے شاید ابھی اپنے باپ کی خوشبو بھی اچھی طرح محسوس نہیں کی تھی ، انہیں آخر اس مکروہ دنیا میں جینے کا کیا حق ہے؟ وہ کس لئے زندہ ہیں؟ کیا صرف اس انتظار میں کہ ان کی ماں بھی دکھ پریشانیاں جھیل کر انہیں بڑا کرے اور وہ بھی اپنے باپ کی طرح اپنی ذہانت کے بل بوتے پر اعلیٰ تعلیم

Page 482

481 حاصل کر کے اپنے ملک، اپنے آبائی علاقے کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایک معمولی حیثیت کی گزر بسر کو ہی اپنا نصب العین بنا لیں تا کہ پھر کچھ لوگ بغیر کسی مقصد کے ایک دن انہیں گولیوں کا نشانہ بنا ڈالیں.......اور سارے قاتل ” پولیس مقابلے میں ٹھکانے لگا دیے جائیں تا کہ کوئی شواہد ، کوئی گواہ نہ رہے.آخر اس طرح کی بے مقصد زندگی گزارنے یا جینے کا انہیں کیا حق ہے؟ ایسے کتنے آصف اور کتنے قادر ہوں گے، جو ایک بے مقصد گولی کی بھینٹ چڑھ گئے جن کی زندگیوں اور موت کو آپ کوئی منطقی رنگ نہیں دے سکتے اور ایسے بھی بہت سے ہیں جنہوں نے اسی بے مقصدیت سے تنگ آکر خود کشی کر لی یا خود کو جلا کر ختم کر ڈالا.یہ سب زندگیاں اور ان سے وابستہ دوسری زندگیاں آخر کس مقصد کے کھاتے میں جائیں گی؟ ایک وقت تھا کہ مجھے زندگی سے مایوس ہونے والوں سے چڑ آتی تھی نااُمیدی کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں تھا.میری کوشش ہوتی تھی کہ میں اپنے فعل سے اپنے رویے سے اپنی باتوں سے کاموں اور اپنی تحریروں سے لوگوں کو زندہ رہنے اُمید اور حوصلے کے ساتھ مشکلوں کو برداشت کرنے کا جذ بہ عطا کروں لیکن اب مجھے لگتا ہے یہ سب فضول ہے یہ پوری انسانی نسل ایک بے مقصد تگ و دو یعنی Exercise in Futility میں مبتلا ہے.زمانے بھر سے پیغمبروں، ولیوں اور اوتاروں نے اپنی سی کوشش کر کے

Page 483

482 دیکھ لی، انسان کو انسان بنانے میں بہت سوں نے اپنی اپنی جانوں کی قر بانی دے ڈالی لیکن حاصل کیا ہوا؟ انسان آج بھی انسان کے خون کا پیاسا ہے، وہ کبھی مذہب کے نام پر کبھی ملک اور رنگ ونسل کے نام پڑا تو کبھی محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر..دوسروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا رہتا وہ کشمیر ہو یا بوسنیا، کوسووو ہو یا روانڈہ زندگیاں ختم کرنے کی ایک ہے.بے مقصد دوڑ جاری ہے، میں تو بیزار آگئی ہوں اس زندگی سے لیکن میرا حال شاید اس فیچر سا ہے جس کا مالک اس بات پر پریشان تھا کہ محض ایک تنکا رکھنے سے آخر وہ خچر گر کر مر کیسے گیا.حالانکہ بوجھ جھیلنے کی وہ اس کی آخری حد تھی یا شاید میں وہ تالاب ہوں جس میں آخری قطرے نے چھلکنے کا سامان کر دیا ہے.اپنے گردو پیش کی چیزیں انسان کو ضرور متاثر کرتی ہیں، دوسروں پر ہونے والی زیادتیوں پر دل اور ذہن کڑہتے بھی ہیں اور کچھ کر نہ سکنے کی بے بس زندگی بیزار کرنے کے لئے بھی کافی ہوتی ہے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے یا کوئی ایک بات ایسی ہو جاتی ہے کہ پھر مکمل طور پر زندگی ایک فضول سی چیز لگنے لگتی ہے، میرے صبر کے تالاب کو چھلکانے میں جس قطرہ نے کام کیا ہے، وہ درحقیقت پانی ہی ہے.

Page 484

483 مختلف اخبارات میں اس سانحے کے متعلق شائع ہونے والے خطوط DAWN Lahore, Wednesday, April 21, 1999 Mirza Qadir's murder The newspapers the other day reported the abduction and murder of Mirza Qadir at Chenab bridge near Chiniot.Qadir thus became another statistics in the lenghthening catalogue of Pakistan's brutal crime.About twenty year ago Qadir a student at Abbottabad Public School topped the list of Peshawar Intermediate Board.That success took him to a major US university where he got a master's degree in computer sciences.Spurning the prospects of a lucrative dollar-earning career Qadir returned to Pakistan.Here too he did not seek his fortune with multinational or foreign banks who would have welcomed him for he was both bright and disciplined.Instead he went to live and train the youths of the small town where he was born 35 years ago, not far from the place where he was murdered.He earned just enough to subsist.He thought he had a debt to pay to the less-endowed folks of his home town.Why was Qadir murdered will never be known for abductors were killed hours later in one of those police encounters of which credibility deceases as their frequency increases? Even the most credulous among us found it difficult to believe the encounter version as it appeared in the press.The

Page 485

484 assassins were besieged in a school building where they held some students as a human shield.Yet in the shootout all the four assassins were killed.No harm came to any student or the police men.In the circumstances of the siege in defies intelligence how the assassins could not be captured alive.It should be no surprise if at some future data it transpires that the men killed (there were three or four of them) were not Qadir's murderers, and strike again.If they were the evidence of their motive and links is destroyed forever.It is time for the government to realise that neither the military trails nor summary executions by the police nor para.military operations would bring crime under control For years we have been sowing the wind.for generations we shall have to reap the whirlwind.The heirs of those who made corruption and greed, religious and lingual strife a part of our life still dominate the national scene in both politics and wealth.the country in course of time, it seems, will come to be ruled by a syndicate of tycoons and terrorists.The brainy and enterprising are going into exile.Those who are willing to toil for the country by remaining here would suffer indignity or like noble Qadir, leave only painful memories behind.That pain would be the sole inheritance of the twins born to him a year ago.KUNWARIDRIS Karachi DAWN Lahore, Wednesday, April 21, 1999 Before it is too late Mirza Ghulam Qadir, a Computer professional belonging to the Ahmadiya community, was murdered near Chiniot recently.He was a highly educated engineer working for his

Page 486

485 community.His assaliants were all killed in an encounter with the police because the latter were informed well in time.The incident is still under investigation but there are indications that there was a plot to frame the Ahmadiya community in sectarian violence.The car used in the murder of Ghulam Qadir, the great grandson of the founder of the Ahmadiya community, carried one rocket launcher, five shells, 22 bombs, six time bombs, two LMGs, two pistols one mouser and an AK-47 assault rifle.This is simply too much rifle.This is simply too much to kill an unarmed person He was forced to stay in the car and they later tried to burn it But he somehow escaped and was subsequently chased and fired upon.A bus driver and a lady were injured and another person was also killed.I hope that the Punjab Chief Minister will intensify his efforts to catch other criminals of the ring responsible for Abdul Qadir's murder, In addition to arresting criminals it is time we agreed upon the need for moderation and peace-ful coexistence for all ethnic and religious segments of society.All major political parties should cooperate to fight the extremist elements.These extremists proclaim to be Muslims while most of them are involved in heinous crimes.They slaughter innocent people in the name of Allah.They are backed by different polictical parties, but never get too many votes in elections.Tolerating them even in the political arena by our moderate leaders is seditious.Something should be done to eliminate religious terrorism before it is too late.ENGR.MIRZA IMRAN AHSAN Iskandarabad, Mianwali.

Page 487

486 May loving memories of one Who meant so much to you Bring peace and comfort to your heart And ease your sorrow, too.......For the memories you cherish, Though they sometimes bring a tear, Will help you feel your dear one's love Is always very near.Even as we mourn this loss We know within our hearts That those we love Are Never really gone, For, even as this earthly life Comes to its season's end, The soul goes forth And lightly journeys on.

Page 488

487 باب 18 قادر کی شہادت کے تین سال بعد محترمہ امۃ الناصر نصرت صاحبہ کی ایک تحریر اب کسے ڈھونڈوں تصور میں بسانے کے لئے چاند کوئی نہ رہا اپنا بنانے کے لئے میرے اس دُنیا میں لاکھوں ہیں مگر کوئی نہیں میرا تنہائیوں میں ساتھ نبھانے کے لئے

Page 489

488 آ میرے بندوں میں داخل ہو جا آمیری جنت میں داخل ہو جا ماما، بابا بہت نمازیں پڑھتے تھے اس لئے اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے.میں بھی بہت نمازیں پڑھوں گا تو اللہ کے پاس چلا جاؤں گا پھر بابا سے ملوں گا.نور الدین کی اس بات پر بے اختیار میں نے اُسے اُٹھا کر سینے سے لگا لیا.خود پر بمشکل قابو پاکر اسے تسلی دی.کتنا شوق تھا اس کی آواز میں کسی تڑپ تھی باپ سے ملنے کی نہ جانے کب سے دل میں حسرت دبائے ہوئے تھا جو آج زبان پر آگئی.تب مجھے سمجھ آئی کہ کیوں یہ نماز پڑہنے امی کے گھر سے بھاگ بھاگ کر بیت جاتا ہے.بچوں کی بھی اپنی الگ ہی کائنات ہوتی ہے جس میں گم یہ کہانیاں بناتے رہتے ہیں.اسے یہی راستہ نظر آیا کہ جتنی نمازیں پڑھوں گا اتنی جلدی قادر سے مل سکوں گا.اسے یاد کرنے کا سب بچوں کا اپنا رنگ ہے.سطوت قادر پر گئی ہے.اپنا دکھ چھپا جانے والی لیکن اس کا یہ چھپایا ہوا دکھ بھی بھی بول پڑتا ہے.کرشن کو علیحدگی میں اور کبھی مجھ سے لپٹ کر روتے دیکھ کر میں بھی اختیار کھو دیتی ہوں.مصلح کی آنکھیں گہری اُداسی لئے قادر کی تصویر پر جم جاتی ہیں تو ایک پل میں اس کے معصوم ذہن کے سارے سوال اور دل کی بے چینی میرے اندر اُتر آتی ہے کہ میں خود اس راہ کی مسافر ہوں.پھر میں اسے اکیلے لے کر

Page 490

489 بیٹھ جاتی ہوں قادر کی کچھ اور باتیں کرنے کے لئے.جانتی ہوں! یہ تشنگی تو ایسی ہے جس کا ساتھ اب عمر بھر کا ہے.یہ تو ایسی بھڑ کی ہے جو ہمیشہ لگی رہے گی.وہ ایسا باپ تھا جو اپنے بچوں کو ایک روشنی دکھا گیا.ہمیشہ سچ پر قائم رہنے والی روشنی میں بچوں کو یہی سمجھاتی ہوں کہ تمہارے باپ نے سچ کی خاطر اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی تم سب بھی ہمیشہ سچائی پر قائم رہنا.اُس کی شہادت کے ساتھ میری زندگی کا ایک موسم ختم ہوا.اس کا عرصہ بہت مختصر مگر بہت شاندار تھا.ہم اپنی ہی چھوٹی سی دنیا میں مگن تھے.ہماری دلچسپیاں ہمارے شوق ایک تھے.اُس کے ساتھ بیتا ہوا وقت یادگار ہے.زندگی میں کوئی ایک شخصیت ایسی ہوتی ہے جس پر آپ کو مان ہوتا ہے.میری زندگی میں یہ شخصیت قادر کی تھی.میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا.کئی مواقع ایسے آئے جب کسی خاص بات پر اسکا رد عمل دیکھ کر موازنہ کرتی تھی کہ اگر یہی بات میرے ساتھ ہوتی تو کیا میرا رد عمل بھی یہی ہوتا جو قادر کا تھا؟ جو اب ہمیشہ نفی کی صورت میں ملا.اتنی گہری نیکی مجھ میں نہیں ہے یہ اسی بندے کا رف ہے.اپنے نفس میں مطمئن وہ بہت پیارا انسان جب گیا تو میرے گھر کی ساری رونق بھی ساتھ لے گیا لیکن اپنے بچوں کی صورت میں کچھ پھول مجھے دے گیا.ہر بچے میں اس کی الگ ادا ہے اور اب ان کی رونق میرے گھر کو روشن کئے رکھتی ہے.قادر کے بعد سے میں سوچتی ہوں کہ ہم کیسے کہہ دیتے ہیں کہ زندگی اور موت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے.مجھے تو لگتا ہے کہ موت سے زیادہ دُور کوئی چیز نہیں.شروع میں جب زخم کچا تھا سب تسلی دیتے تھے.وقت کے ساتھ انشاء اللہ صبر آجائے گا، زخم بھی کچھ بھر جائے گا، سب

Page 491

490 ٹھیک بھی کہتے تھے اور غلط بھی.بظاہر زخم بھر بھی گیا لیکن کبھی لگتا ہے کہ نہیں! گھاؤ تو بہت گہرا ہے یہ راہ تو بہت کٹھن ہے.قدم قدم پر اس کی یاد مجھے تو روکتی ہے ہر لمحہ اس کا خیال میرے ساتھ ہے.عجیب متضاد کیفیات میں یہ وقت گزر رہا ہے.تقریباً تین سال کا عرصہ گزر گیا پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں کیا واقعی قادر چلا گیا؟ لیکن وہ گیا کہاں ہے؟ وہ تو ہمارے پاس ہے.ہمارے گھر میں اس سے متعلق باتیں روزمرہ کے معمول کے مطابق ہوتی ہیں.اس کی Study اب بھی بابا کا کمرہ کہلاتی ہے.کھانے کی میز پر بچے ہر روز اپنی اپنی باری پر بابا کی کرسی پر بیٹھنا نہیں بھولتے.اس کی تصویر میں ہر طرف لگی ہیں.کوئی دن ایسا نہیں جب اس کا ذکر نہ چھڑتا ہو.لوگوں کے درمیان وہ سنجیدہ نظر آنے والا شخص گھر میں بے حد بے تکلف تھا.ہم اس کی مزاح سے بھر پور باتیں یاد کر کے ہنستے ہیں اس کی بے ساختہ نہی آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے.اپنے گھر میں اس پورے عرصہ میں ہمیشہ وہ مجھے اپنے درمیان محسوس ہوتا رہا.شہید کے زندہ ہونے کے ایک معنی شاید یہ بھی ہوں.پھر جب کبھی دوسری کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے اس کا غم میرا درد بن کر حد سے گزرنے لگتا ہے اور آنسوؤں کی ایک نہ ختم ہونے والی جھڑی لگ جاتی ہے تو پھر میں سوچتی ہوں کہ کیا میری توجہ اپنے رب کے اُن احسانات کی طرف گئی ہے جو اس نے قادر کو ہم سے لینے کے بعد ہم پر کئے ہیں؟ قادر کی شہادت کی خبر سننے کے بعد سے لے کر اگلے چند دن تک میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر کا یہ مصرع بار بار آتا رہا.وو حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے“ واقعی وہ کیسا اپنے بندوں پر مہربان ہے اسی نے ہمیں سنبھالا ہے اور ایسے سنبھالا ہے گویا ہم اس کی گود میں ہوں.اُس نے ایسے طور سے ہمارے

Page 492

491 غمزدہ دلوں پر مرہم رکھی ہے جسے بیان نہیں ، صرف محسوس کیا جاسکتا ہے.سوچتی ہوں کیا اس پر کبھی میں نے اتنا شکر ادا کیا ہے جتنا قادر کی جدائی کا غم محسوس کر رہی ہوں؟ ہم سب تو ایک دوسرے کے پاس اس کی امانت ہیں.وہ جب ھی ہے یہ امانت واپس لے لے ہے یہ امانت واپس لے لے.ہمارا حق تو کوئی نہیں وہ مالک ہے اس کی چیز جب قادر کو گولی لگی تو چنیوٹ جاتے ہوئے سارا راستہ میں اس کی زندگی کے ساتھ اس کی کامل صحت والی زندگی کی بھی دُعا مانگ رہی تھی خدایا مجھے معذوری کی حالت میں اس کو نہ دکھانا.پتہ نہیں گولی کہاں لگی ہے؟ کبھی خیال آتا کہ خدانخواستہ اس کی آنکھوں پر نہ لگی ہو.کبھی اس خوف سے دل بھر جاتا کہ ٹانگ پر نہ لگی ہو کہیں ٹانگ نہ کاٹنی پڑے میں اس آزاد دوڑتے بھاگتے خوش باش انسان کو بستر پر پڑا ہوا نہیں دیکھ سکتی.خدایا تو اسے کسی بھی قسم کی معذوری کی زندگی سے بچانا.اُس خدا کا کتنا احسان ہے کہ اُس نے قادر کو محتاجی کی زندگی سے بچایا.اس پر ایسی پیار کی نظر ڈالی کہ اُسے اپنی راہ کے لئے چن لیا.قادر تو اپنی مراد کو پا گیا.اس کی زندگی اور موت حضور کے اس شعر کے مصداق تھی.جیو تو اس طرح جیو، شہید ہو تو اس طرح کہ دین کو تمہارے بعد، عمر جاوداں ملے غم تو اپنی جگہ رہے گا.اس کی یاد مٹنے والی نہیں.وہ ایسا ساتھی نہیں تھا جسے بھلایا جاسکے اور اس کی کمی وقت کے ساتھ بڑہتی ہی جائے گی لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے پیارے رب کے احسانات مجھے اس کا غم حد سے بڑھنے سے پہلے ہی ڈھارس بندھاتے ہیں اے اللہ! تیرے احسانات کے شکر کا حق تو کبھی ادا نہیں ہوسکتا بس تو ہمیں ناشکری سے بچانا.

Page 493

492 حضور ایدہ اللہ تعالیٰ (حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع) نے ہمیں اپنے پاس بلا کر جس محبت و شفقت کا سلوک فرمایا، میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی.بے حد شوق سے جرمنی، ہالینڈ اور اسکاٹ لینڈ کی سیریں کروائیں.جرمنی اور ہالینڈ کے سفر کے لئے اپنی ذاتی کار مرحمت فرمائی.کئی جگہیں دیکھنے خاص طور پر بھجوایا.روزانہ اپنے ساتھ کھانا کھانے کا شرف بخشا.ہر روز کھانا شروع کرنے سے پہلے ہر بچے کو باری باری سینے سے لگا کر پیار کرتے تھے.فکر کرتے تھے کہ بچے ٹھیک سے کھا رہے ہیں یا نہیں.ایک دن پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کا فون آیا کہ حضور بات کریں گے حضور نے پوچھا.چھو! بچے ٹھیک طرح کھانا نہیں کھاتے.بتاؤ بازار کے کھانے میں انہیں کوئی خاص چیز پسند ہو تو وہ منگواتا ہوں.سخت شرمندگی ہوئی لیکن بتانا پڑا.رات کو کھانے پر گئے تو خود ہر بچے کے سامنے کھانے کے ڈبے رکھے (فجزاہم اللہ احسن الجزاء) یہ وہ سعادتیں ہیں جو یہ بچے اپنے ساتھ لے کر لوٹے ہیں واپسی کے لئے ملتے ہوئے حضور سے بہت دُعا کے لئے عرض کی تو بے اختیار روتے ہوئے فرمایا میں تو ہر وقت دن رات تم لوگوں کے لئے دُعائیں کرتا ہوں.کتنی تسلی ہوئی سن کر یہ تو وہ زادِراہ ہے جو ہمیشہ ہماری حفاظت کرے گا.انشاء اللہ.مجھے یقین ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی یہ دُعائیں خدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کا موجب بن رہی ہیں اور ہمیشہ نہیں کی.اللہ تعالیٰ حضور کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے.آمین پھر میں اپنے تمام رشتہ داروں، وہ قادر کے قریبی ہوں یا میرے اور ساری جماعت کے حق میں دُعا گو ہوں.جس طرح سب نے خیال رکھا پیار کا سلوک کیا ہمارے لئے دُعائیں کیں، ہمارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا وہ سب ہمارے محسن ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا عطا فرمائے یہ بھی اسی کی مہربانی ہے کہ

Page 494

493 اس نے سب کے دل ہماری طرف پھیرے ہیں.قادر کو میں قرآن کی وہی دُعا دیتی ہوں جو اس کی شہادت کے بعد میں نے دی تھی : يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِيْهِ وَادْخُلِي جَنَّتِي ترجمہ: اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف لوٹ (اس حال میں کہ تو اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی.پھر ( تیرا رب تجھے کہتا ہے) کہ آ میرے (خاص) بندوں میں داخل ہوجا اور آمیری جنت میں بھی داخل ہو جا.یہ ترے کام ہیں مولا مجھے دے صبر و ثبات ہے وہی راہ ٹھن بوجھ بھی بھارے ہیں وہی

Page 495

494 ترجمه : ا مرنے سے کیا ہوتا ہے میں بس ذرا دوسرے کمرے تک گیا ہوں نہ وہ تم بدلے نہ ہم ہم اب بھی وہی ہیں جو ہم ایک دوسرے کے لئے تھے.مجھے اُسی بچپن کے رکھے ہوئے گھر کے نام سے بلا یا کرو میرے متعلق اُسی آسانی سے باتیں کرو جیسے تم کیا کرتے تھے اپنے لہجے میں کوئی فرق نہ لاؤ اپنے اوپر غم وحزن کو طاری نہ ہونے دو اُسی طرح ہنستے رہو جیسے ہم چھوٹے چھوٹے لطیفوں پر مل کر ہنسا کرتے تھے کھیلو، مسکراؤ مجھے یاد کرو میرے لئے دُعا کرو میرا وہی نام لیلا کرو جس سے گھر والے ہمیشہ مجھے پکارتے تھے پہلے کی سی بے تکلفی سے میرا نام لیا کرو اس پر کوئی غم کے سائے نہ ڈالو فاصلے بڑھ گئے پر قرب تو سارے ہیں وہی بزمِ جہاں اُسی طرح سجی ہوئی ہے اس میں وہی مکمل اور اٹوٹ تسلسل ہے یہ موت کیا ہے.بھلا دیا جانے والا حادثہ میں یادوں سے محو کیوں ہو جاؤں صرف اس لئے کہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہوں میں منتظر ہوں کبھی تو آ کے ملو گے کہیں بہت جلد کہیں..بہت قریب سب خیر ہے

Page 496

495 Death Is Nothing At All I have only slipped away into the next room, I am I, and you are you, what ever we were to each other, that we are still.Call me by the old families name Speak of me in the easy way which you always used, Put no difference into your tone, Wear no forced air of solemnity or sorrow.Laugh as we always laughed At the little jokes that we enjoyed together.Play, smile, think of me, Pray for me, Let my name be ever the household word that it always was.Let it be spoken with out an effort, Without the ghost of a shadow up on it.Life means all that it ever meant.It is the absolute and unbroken continuity.What is this death but a negligible accident? why should I be out of mind because I am out of sight? I am but waiting for you, for an interval, Some where very near, Just round the corner.All is well HENRY SCOTT HOLLAND

Page 497

496

Page 498

باب 19 497 کتاب پر روز نامہ الفضل ربوہ کا تبصرہ کتاب پر روز نامہ الفضل انٹر نیشنل لندن کا تبصرہ

Page 499

498 کتاب پر روز نامہ الفضل ربوہ کا تبصرہ زیر تبصرہ کتاب آسمان احمدیت کے روشن ستارے اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے شہید محترم صاحبزادہ صاحب کی سیرت و سوانح پر مبنی ہے.آپ کو 14 / اپریل 1999ء کو شہید کر دیا گیا.آپ کی شہادت اس لحاظ سے بھی عظیم بن گئی کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے آپ کی شخصیت کو الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی وارث قرار دیا.جس میں یہ تذکرہ ہے کہ غلام قادر آگئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا.(اللہ تعالیٰ نے اسے مرے پاس بھیج دیا آپ کی شہادت پر حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے آپ کے بارہ میں فرمایا :- قیامت تک شہید کے خون کا ہر قطرہ آسمان احمدیت پرستاروں کی طرح جگمگاتا رہے گا.مجھے اس بچے سے بہت محبت تھی.میں اس کی خوبیوں پر گہری نظر رکھتا تھا.میں جانتا تھا کہ یہ کیا چیز ہے اس وجہ سے میں بہت ہی پیار کرتا تھا گویا یہ میری آنکھوں کا بھی تارا تھا.اے شہید تو ہمیشہ زندہ رہے گا اور ہم سب ایک دن آ کر تجھ سے ملنے والے ہیں.زندہ باد، غلام قادر شهید، پائندہ باد الفضل انٹرنیشنل 4 جون 1999ء)

Page 500

499 محنت و کاوش سے مرتب کی گئی اس کتاب کے کل 18 ابواب ہیں جن میں شہادت کے دلگداز واقعات کے ساتھ ساتھ شہید مرحوم کے خاندانی پس منظر، بچپن، اعلیٰ تعلیمی کیریئر ، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد، خدمات دینیہ کے علاوہ آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر آپ کے رفقاء کار کی تحریرات شامل ہیں.شعراء کرام نے جو خراج تحسین آپ کو پیش کیا ہے.اُن کی منظومات کو بھی اس میں شامل اشاعت کیا گیا ہے.جماعتی ، ملکی و غیر ملکی اخبارات و رسائل نے آپ کی شہادت پر جو خبریں اور تبصرے شائع کئے ہیں وہ بھی کتاب کا حصہ ہیں.کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ طبع ہوئی سرورق پر شہید مرحوم کی تصویر جبکہ پس ورق پر مرحوم کے بچوں کا گروپ فوٹو ہے.کتاب میں شہید کی بچپن سے وفات تک کی تصویری جھلکیاں بھی شامل اشاعت ہیں.ہے.کتاب کا پہلا باب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی زبانی واقعات شہادت اور قادر شہید کی عظیم شخصیت پر مشتمل ہے.اور اختتامی باب قادر مرحوم کی اہلیہ محترمہ کے مضمون پر مشتمل ہے جو دل میں ڈوب کر لکھی گئی تحریر ہے.آسمانِ احمدیت کے اس درخشندہ ستارے کی سیرت و سوانح یقیناً ہمارے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہو گی کیونکہ یہ رہ وفا کے مسافر کا روشن تذکرہ ہے.

Page 501

500 کتاب پر الفضل انٹرنیشنل لندن کا تبصرہ انسانی آبادی کی شماریات پر کام کرنے والے ماہرین کی تحقیقات ہیں کہ ایک دن میں لاکھوں افراد پیدا ہوتے ہیں اور لاکھوں افراد رخصت ہو جاتے ہیں.ان لاکھوں میں سے کتنے ہیں جن کا اس دنیا میں آنا یا اس دنیا سے جانا خبر کی حیثیت رکھتا ہو.شاید لاکھوں میں ایک.محاورۃ نہیں، حقیقتا.اس اعتبار سے غلام قادر شہید لاکھوں میں ایک تھے.صاحبزادہ مرزا غلام قادر نے ربوہ سے چنیوٹ جانے والی سڑک پر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی مگر دنیا میں رہنے والے کروڑوں احمدیوں کو اپنے گھر میں ایک خلا محسوس ہوا.صاحبزادہ صاحب کے والدین ہوں یا اُن کے عزیز و اقارب یا ان کو اکثر ملنے والے دوست احباب.ایسے لوگ ہوں جنہوں نے ان کو صرف دیکھا تھا، کبھی ملے نہ تھے.یا وہ جنہوں نے کبھی انہیں دیکھا بھی نہیں تھا.غرض ہر احمدی کو ایسا لگا گویا ان کے گھرانے کا کوئی فردگم ہو گیا ہو.ایسا کیوں تھا؟ بلکہ ایسا کیوں ہے؟ جی ہاں اس لئے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے پہلے شہید تھے.آپ کی رگوں میں مسیح آخر زمان کا خون دوڑتا تھا.لیکن کیا یہی ایک وجہ تھی ؟ نہیں.غلام قادر شہید میں ایسی خصوصیات اور

Page 502

501 صفات تھیں جو ہر اعتبار سے انہیں لاکھوں میں ایک بناتی تھیں.زیر نظر کتاب صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کی شخصیت کے ہر پہلو کا احاطہ کر کے قاری کو بتاتی ہے کہ آپ لاکھوں میں ایک کیوں کر تھے.بچپن ہی سے غیر معمولی ذہانت کا مالک امتحانات میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے والا طالبعلم غیر معمولی طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ ، گھر آئی دنیاوی دولتوں کو رڈ کر دینے والا، بلند حوصلہ واقف زندگی، مثالی بیٹا، مثالی شوہر، مثالی باپ، بہترین دوست، ظاہر و باطن ایک دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت.خوش لباس، خوش اخلاق خوش اطوار، خوش گفتار، بھر پور جوانی میں تقویٰ سے بھر پور، صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کو اس عظیم قربانی کے لئے خدا نے پسند کر لیا.کتاب پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ آپ کو تو ہر کوئی پسند کرتا تھا.اگر آپ نے کبھی غلام قادر شہید کو نہیں دیکھا تھا یا کبھی ان سے نہیں ملے تھے پھر بھی یہ کتاب آپ کے دل میں قادر شہید کے لئے محبت بھر دے گی.آپ سمجھ جائیں گے کہ قادر شہید قابلِ محبت کیوں تھے.وہ صرف اس لئے عظیم نہیں کہ خدا کی راہ میں جان دے دی بلکہ وہ اتنے عظیم تھے کہ انہیں یہ شرف حاصل ہوا.دنیا میں کروڑہا لوگوں کی سوانح لکھی جاتی ہیں.بہت کم ہوتی ہیں جنہیں پڑھ چکنے کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ اس شخصیت کو گویا ذاتی طور پر جانتے ہیں.کامیاب سوانح عمری وہی ہوتی ہے جس کو پڑھتے ہوئے آپ اس کے مرکزی کردار کی نشست و برخاست، عادات و اطوار، چشم تصور سے دیکھنے لگیں، محسوس کرنے لگیں.قادر شہید پر لجنہ اماء اللہ کراچی کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری کو قادر شہید اپنے آس پاس محسوس ہوتے ہیں.کتاب کا آغاز حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے اس خطبہ سے

Page 503

502 ہوتا ہے جس میں حضور رحمہ اللہ نے صاحبزادہ غلام قادر شہید کو خراج تحسین پیش کیا.پھر قادر شہید کا تعارف.اگر چہ خود آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے مگر تعارف کی خوبصورتی یہ ہے کہ پڑھ کر قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ قادر شہید کا سلسلہ نسب، ننھیال، ددھیال ہر دوطرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کس طرح جا ملتا ہے.پھر قاری غلام قادر شہید کی زندگی کا سفر آغاز سے ان کے ساتھ شروع کرتا ہے.بچپن، زمانہ طالب علمی، نمایاں کارنامے، وقف زندگی، خدمت دین کی مختلف حیثیتوں سے توفیق اور پھر کارناموں میں کارنامہ یعنی بصد محبت و بصد رضا اپنی جان خدا کی راہ میں قربان کر دینا.بچہ اپنی ماں کے وجود کا حصہ ہوتا ہے، شوہر اپنی بیوی کا لباس، بیوی شوہر کا لباس، اگر چہ کتاب میں قادر شہید پر لکھے گئے بہت سے مضامین شامل ہیں مگر صاحبزادہ مرزا غلام قادر شہید کی والدہ محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ اور اہلیہ صاحبزادی امۃ الناصر نصرت صاحبہ نے جو کلمات مرحوم کی یاد میں قلمبند کرائے ہیں وہ قاری کے جذبات میں تلاطم برپا کر دیتے ہیں.ایک ایسا شخص جس کا باپ اس سے راضی، ماں راضی ، بیوی عقیدتمندانہ حد تک راضی اور سب سے بڑھ کر خلیفتہ اسیج اس سے راضی ایسے شخص کے متعلق یہ توقع کیوں نہ رکھی جائے کہ اس کا خدا بھی اس سے راضی ہو گا.اللہ تعالیٰ غلام قادر شہید کو غریق رحمت فرمائے.ان کے لواحقین کو صبر جمیل اور اجر عظیم عطا فرمائے.ایسی بلند پایہ شخصیت پر یہ کتاب تحریر اور تالیف کر کے شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ کراچی نے ایک عظیم خدمت سرانجام دی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی اس عظیم خدمت کو قبول فرمائے.

Page 503