Language: UR
بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی غلام فاطمہ بیگم صاحبہ میمونہ بیگم صاحبہ لجنہ اماء الله
غلام فاطمہ بیگم صاحبہ میمونه بیگم صاحبہ
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 1 حضرت میمونہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدی علی محمد صاحب حضرت غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کا مٹی پیارے بچو! شہر سیالکوٹ کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں دو دفعہ تشریف لائے.ایک دفعہ دعویٰ سے پہلے جب آپ علیہ السلام نے ایک مکان کرائے پر لیا ، اپنا کام خاموشی سے مکمل کیا اور واپس قادیان تشریف لے گئے.دوسری مرتبہ 1904ء میں آپ ایک نئی شان کے ساتھ شہر سیالکوٹ میں داخل ہوئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس زمانہ کا مسیح و مہدی بنا کر عظیم الشان ترقیات سے نوازا تھا.آپ کی تشریف آوری پر شہر بھر میں خوشیاں منائی جارہی تھیں.دکانوں ، مکانوں ، چھتوں ، اور بازاروں میں ہر طرف انسانوں کا ایک ہجوم تھا.لوگ آپ علیہ السلام کی ایک جھلک دیکھنے کو بیقرار تھے.اس ہجوم میں دو طرح کے لوگ تھے.کچھ وہ بد نصیب جو اس لئے آئے تھے کہ لوگوں کو آپ علیہ السلام سے ملنے اور آپ علیہ السلام کی بات سننے
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 2 سے منع کریں.لیکن زیادہ تر وہ خوش نصیب لوگ تھے جو آپ علیہ السلام کی محبت میں آئے تھے اور آپ علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہتے تھے.اب اتنے سارے لوگوں کی بیعت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں ہوسکتی تھی.اس لئے یہ طریق اختیار کیا گیا کہ بارہ پگڑیاں مختلف سمتوں میں پھیلا دی گئیں.لوگوں نے انہی پگڑیوں کو پکڑ کر بیعت کی.ان بیعت کرنے والوں میں ایک بزرگ مولوی محمد فیض الدین صاحب بھی تھے.آج ہم جن دوصحابیات کے بارے میں آپ کو بتا رہے ہیں وہ دونوں بہنیں مولوی محمد فیض الدین صاحب کی ہی بیٹیاں ہیں.یہ خدا کا فضل ہے کہ وہ نیک فطرت اور سچائی کو قبول کرنے والے لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے.مولوی محمد فیض الدین صاحب بھی ایک نیک فطرت حافظ قرآن تھے.آپ کے والد غلام مرتضی صاحب بہت نمازی اور پر ہیز گار تھے اور اپنی نیکی کی وجہ سے لوگوں میں اللہ لوگ“ کے نام سے مشہور تھے.آپ نے 1904 ء میں بیعت کی.ساتھ ہی آپ کی دونوں صاحبزادیاں محترمہ میمونہ بیگم اور محترمہ غلام فاطمہ بیگم اور آپ کی بیوی مریم بی بی صاحبہ بھی احمدی ہو گئیں اور صحابیات میں شامل ہونے کا شرف پایا.مولوی فیض الدین صاحب کے کوئی بیٹا نہ تھا.دو بیٹیاں میمونہ بیگم
غلام فاطمہ بیگم ، میمونہ بیگم 3 اور فاطمہ بیگم تھیں.چنانچہ آپ نے اپنی دونوں بچیوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ کی.اللہ تعالیٰ نے ذہن بھی اچھا عطا فرمایا تھا.گھر میں ہر وقت پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری رہتا اس لئے بہت جلد ترقی کر گئیں اور کم عمری میں ہی عام دینی علوم اور درسی کتابوں کے علاوہ گھر کے کاموں میں بھی ماہر ہوگئیں.اچھی اچھی باتیں سیکھنے کی وجہ سے دونوں بیٹیاں سب کو اچھی لگتی تھیں.جب ان کے والد ان کو پڑھاتے تو دوسری لڑکیاں بھی سبق میں شامل ہو جاتیں.اس سے اور بھی فائدہ ہوا.سہیلیاں بھی ایسی ملیں جن کو دین کا شوق تھا.اس عمر کی تعلیم سے بہت فائدہ ہوا کیونکہ پھر جب یہ بیٹیاں بڑی ہوئیں تو اپنے اپنے گھروں میں بھی پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا.میمونہ بیگم صاحبہ جو فاطمہ بیگم صاحبہ کی بڑی بہن تھیں بہت خوبصورت آواز میں قرآن مجید پڑھتیں.انہیں تلاوت کرتے کرتے قرآن پاک تقریباً حفظ ہو گیا تھا.آواز بلند تھی جلسہ سالانہ میں تلاوت کی بھی سعادت ملتی.خود غلام فاطمہ صاحبہ بھی بہت خوبصورتی سے قرآن پاک پڑھیں آہستہ آواز میں پڑھنا انہیں نا پسند تھا، بلند آواز سے قرآن شریف پڑھنے کی تلقین کیا کرتی تھیں اور فاصلے سے بھی پڑھنے والے کی غلطی پکڑ لیتی
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 4 تھیں.دراصل غلام فاطمہ کے ننھیال میں بھی قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا مبارک سلسلہ چلتا رہتا.آپ کے خاندان میں بعض خواتین تو حافظہ قرآن بھی تھیں.غلام فاطمہ نے اپنے بچوں کے علاوہ بے شمار بچوں، بچیوں کو قرآن کریم پڑھایا.میمونہ بیگم صاحبہ کے شوہر کو جب کبھی کسی مضمون وغیرہ کے سلسلہ میں کوئی حوالہ دینا ہوتا اور کسی آیت کریمہ کی ضرورت پڑتی تو میمونہ بیگم سے پوچھ لیتے ، آپ فورا بتادیتی کہ یہ آیت فلاں سپارہ میں ہے.مولوی محمد فیض الدین صاحب کا خیال تھا کہ اپنی لڑکیوں کو کسی احمدی خاندان میں بیا ہیں خصوصاً اگر قادیان میں رشتے ہو جا ئیں تو بہت ہی بہتر کیونکہ آپ کو قادیان سے بے حد محبت تھی.اُن کی خواہش تھی کہ سیالکوٹ کی ملی قادیان کی مٹی سے مل جائے.آپ نے ایک دوست کو لکھا کہ دولڑکیوں کے مناسب رشتے تلاش کر کے اطلاع کر دیں.چنانچہ انہوں نے دو نیک لڑکوں کے حالات لکھ کر آپ کو بھجوادئے.مولوی محمد فیض الدین صاحب نے اپنے ایک اور دوست محترم ملک حسن محمد سے درخواست کی کہ خود قادیان جا کر ان رشتوں کی تصدیق
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 5 کریں.چنانچہ ملک حسن محمد نے یہ ذمہ داری قبول کی اور قادیان گئے.وہاں آپ نے جہاں ان دولڑکوں علی محمد اور عبدالرحمن کے حالات دریافت کئے ، وہیں خلیفہ وقت سے بھی دعا کی درخواست کی کیونکہ یہ دونوں لڑ کے بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تھے اور جماعت کے بچوں سے حضرت خلیفہ المسح الاول کا ایک خاص تعلق تھا چنانچہ اسی خط کی پشت پر آپ نے تحریر فرمایا: و متقی معلوم ہوتے ہیں ، خوش شکل ہیں، مجھے عزیز ہیں" نورالدین حضرت صاحب کی تحریر سے مولوی محمد فیض الدین صاحب ان رشتوں پر مطمئن ہو گئے.اب حضرت خلیفہ المسیح الاول کی مہربانی اور شفقت کا نظارہ دیکھئے.انہیں خیال آیا کہ عبدالرحمن تو سکھ فیملی سے احمدی ہوئے ' ہیں اور اکیلے ہیں انہیں بلا کر حوصلہ دیا اور فرمایا: تم یہ مت سمجھو کہ تمہارا باپ نہیں ہے، نور الدین تمہارا باپ ہے!" 1913ء کے جلسہ سالانہ پر مولوی محمد فیض الدین صاحب قادیان تشریف لائے اور آپ کی درخواست پر خود حضرت خلیفۃ ابیح الاول نے بیت النور میں دونوں نکاحوں کا اعلان فرمایا.حق مہر بھی خود ہی مقرر فرمایا.بابرکت احباب کی شمولیت اور دعاؤں کے ساتھ آپ کی دونوں
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 6 بیٹیوں کی تقریب رخصتانہ دو سال بعد 1915ء میں ہوئی.قادیان سے بارات سیالکوٹ گئی.قریباً دس افراد تھے جن میں حضرت میر ناصر نواب صاحب ، حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت میر قاسم علی صاحب جیسے جلیل القدر اصحاب شامل تھے.بارات کے ٹھہرنے کا انتظام حضرت مکرم چوہدری نصر اللہ خان صاحب کے گھر پر کیا گیا.تیسرے دن دونوں دلہنیں سیالکوٹ سے دار الامان قادیان آگئیں.رخصتانہ کے وقت آپ نے اپنی بیٹیوں کو جو نصیحت فرمائی وہ سب بچیوں کے لئے مشعلِ راہ ہیں تو دوسری طرف نیک دل باپ کے جذبات کا اظہار بھی ہے.آپ نے فرمایا:.وو تم جانتی ہو کہ میں نے حتی المقدور تمہاری ہر خواہش ، لباس ، خوراک اور زیورات کے بارے میں ہمیشہ پوری کی.اپنے خاوندوں سے کوئی فرمائش نہ کرنا اس سے تم کو دو فائدے ہوں گے، اول یہ کہ تمہاری خودداری اور وقار تمہارے خاوندوں کے دلوں میں قائم رہے گا اور نا جائز کمائی سے بچے رہیں گے.دوسرے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ المسیح الاوّل،حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے گھروں میں جانے سے تم کو روحانی فیض حاصل ہو سکتے ہیں.“
غلام فاطمہ بیگم ، میمونہ بیگم 7 دونوں بہنیں کچھ دن قادیان رہ کر واپس سیالکوٹ چلی گئیں کیونکہ یہاں ابھی رہائش کا انتظام نہ تھا.ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب تو ابھی میڈیکل میں زیر تعلیم تھے.جبکہ علی محمد صاحب ٹی آئی ہائی سکول قادیان سے میٹرک کرنے کے بعد ہے.اے.وی کی ٹریننگ لیکر یہیں ملازم ہو گئے تھے.چونکہ آپ کو تحصیل علم کا بیحد شوق تھا اور قدرت نے آپ کو ” بی ٹی صاحب کے نام سے روشناس کروانا تھا اس لیے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا اور آپ نے 1915ء میں ایف.اے کا امتحان پاس کر لیا.جولائی 1916ء میں ان کے پہلے بیٹے عبد السلام اختر ایم.اے وقف زندگی جو بعد میں شاعر احمدیت کے نام سے مشہور ہوئے ،سیالکوٹ میں ہی پیدا ہوئے.مولوی محمد فیض الدین صاحب کے گھر میں 14-15 سال سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا، اس لئے اس بچے کی پیدائش پر جوان کا پہلا نواسہ تھا، ان کو بہت خوشی ہوئی بچے کے عقیقے پر تمام جماعت کو دعوت طعام دی اور بہت مسرت کا اظہار کیا.1918 ء میں علی محمد صاحب نے بی.اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر دیا اور ستمبر 1919ء میں آپ لی.ٹی کی ٹریننگ کے لئے لاہور چلے گئے.1920 ء میں خدا کے فضل سے بی.ٹی کا امتحان پاس کر لیا.علی محمد صاحب خود بتایا کرتے تھے کہ بی.ایڈ کی ٹرینگ لینے
غلام فاطمہ بیگم ، میمونہ بیگم 8 کے بعد میں بی ٹی صاحب کے نام سے مشہور ہوا.اکثر لوگ میرے نام سے کم واقف تھے مگرالی.ٹی صاحب کو سب جانتے تھے.اب چونکہ پی ٹی صاحب، تعلیمی لحاظ سے فارغ ہو چکے تھے اور معقول تنخواہ ( آمدنی) پاتے تھے.لہذا آپ اپنے اہل وعیال کو قادیان لے آئے اور مستقل رہائش قادیان ہی کی ہوگئی.غلام فاطمہ بیگم صاحبہ اپنی بڑی بہن کے پاس ملنے آیا کرتی تھیں.دونوں بہنوں میں مثالی محبت تھی.قادیان میں بی ٹی صاحب کی رہائش آپ کی زندگی کا ماحصل تھا یہاں آپ کی تعلیمی صلاحیتیں اُجاگر ہونا شروع ہوئی علم کی بچی لگن اور طلباء کی فلاح و بہبود نے آپ کی زیر نگرانی ہزاروں قابل اور ہونہار شاگرد پیدا کئے.آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں سب سے سینیئر استاد تھے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیشتر صاحبزادگان ، جن میں حضرت خلیفہ المسح الثالث کا اسم گرامی سر فہرست ہے.حضرت مصلح موعود کی دو بیویاں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ اور حضرت مہر آپا صاحبہ کے استاد ہونے کا شرف بھی آپ کو حاصل تھا.بیائی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ 1920ء میں جب میں پرائیویٹ سیکریڑی کے طور پر حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے ساتھ کام کر رہا تھا.ایک دن میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ آج جب حضور مستورات کے
غلام فاطمه بیگم ، میمونه بیگم 9 سالانہ جلسہ میں تقریر کے لئے تشریف لے جائیں تو حضور میری اہلیہ ، میمونہ بیگم کو تلاوت قرآن کا موقع عطا فرما ئیں کیونکہ وہ قرآن بلند اور خوش الحانی سے پڑھتی ہیں.چنانچہ جب حضور مستورات کے جلسے میں تشریف لے گئے تو آپ نے میمونہ بیگم کو تلاوت کے لئے بلایا.انہوں نے سورۃ النساء کی تلاوت کی حضور کو بڑا ہی تعجب ہوا کہ عورتوں کی آواز بھی اتنی بلند ہو سکتی ہے! پھر مجھ سے وجہ دریافت کیا، میں نے عرض کیا کہ چونکہ ان کے والد صاحب ذرا اونچا سنتے تھے اس لئے وہ اپنے تمام شاگردوں سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ بلند آواز سے پڑھیں ، اسی طرح انہوں نے اپنی لڑکیوں سے بھی یہی امید رکھی کہ بلند آواز سے پڑھیں.اس کے بعد تو پھر ایسا ہوا کہ مستورات کے ہر جلسے میں میمونہ بیگم کو تلاوت کے لئے بلاوا آتا اور سالانہ جلسہ کے موقع پر جب مستورات کو خاموش کرانے کی ضرورت پیش آتی تو میمونہ بیگم کو ہی بلایا جاتا کہ تلاوت کریں.1920 ء سے 1932 ء تک یہی حال رہا اور انہیں تلاوت قرآن کا اکثر موقع ملتا رہا.کامٹی میں قیام کے دوران فاطمہ بیگم کو ڈسٹرکٹ بورڈ نے ہندی گرلز سکول کمیٹی کی لیڈر ممبر نامزد کیا.جب فاطمہ بیگم نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی حالت پست ہے تو آپ نے دوسرے مسلمانوں کو ایک
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 10 سکول کھولنے پر آمادہ کیا اس طرح آپ نے خدا کے فضل سے کامٹی میں مسلم گرلز سکول کی بنیاد رکھی اور آپ ہی اس کی پہلی صدر منتخب ہوئیں.نیز چھ سال تک میونسپل کمشنر ر ہیں آپ کی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے آپ کو مبارک باد کے ساتھ مندرجہ ذیل اشعار پیش کئے گئے.ے کوئی دولت لٹاتا ہے مگر ممبر نہیں بنتا کسی کو مفت ہاتھ آئے یہ رتبہ جائے حیرت ہے مبارک ہو کہ بیگم احمدی آئیں کمیٹی میں وہ قابل باپ کی بیٹی ، جو وقف ملک و ملت ہے لیا جائے نہ کیوں کر فاطمہ کا نام عزت سے ہزاروں پاک داماں عورتوں میں ایک عورت ہے 1947ء میں حضرت خلیفہ اسح الثانی نے ہندستان بھر کے ہر صوبے کے امیر کو قادیان بلایا.اس میٹنگ میں شمولیت کے لئے ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب بھی لاہور پہنچے.راستے میں انسانوں کے ہاتھوں انسانوں پر ظلم اور درندگی کے دل ہلا دینے والے نظارے دیکھے.ریفیوجی ( پناہ حاصل کرنے والے لوگ) کیمپس میں زخمیوں ، بیماروں کی حالتِ زار دیکھی تو اپنی اہلیہ محترمہ غلام فاطمہ بیگم صاحبہ کو بذریعہ ریڈیو پیغام دیا کہ جانیں اور عزت بچانے کے لئے گھر بار، سامان جانو رسب چھوڑ کر پاکستان پہنچنے کی
غلام فاطمه بیگم ، میمونه بیگم 11 کوشش کرو.خدا تعالیٰ نے آپ کی مدد کی اور آپ کا خاندان بمبئی سے بذریعہ بحری جہاز کراچی پہنچا.اکتوبر 1947 ء میں جب غلام فاطمہ بیگم کا خاندان کراچی پہنچا تو ڈاکٹر صاحب نے گورنمنٹ ملازمت کی جگہ ذاتی پریکٹس کرنا چاہی مگر مشکل یہ تھی کہ اُس کے لئے سرمایہ میسر نہ تھا.چنانچہ اس مشکل وقت میں وہ رقم کام آئی جو غلام فاطمہ بیگم نے روزانہ ملنے والے خرچ میں سے بچا کر جمع کر رکھی تھی.غلام فاطمہ بیگم صاحبہ نے بتایا کہ بچپن میں وہ جلسہ پر قادیان جایا کرتی تھیں تو سیالکوٹ کی جماعت کے ساتھ دار مسیح میں حضرت کہاں جان کے گھر ٹھہرتی تھیں.ایک دن حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے حضرت اماں جان سے کہا کہ آپ نے اتنی ملاز ما ئیں کیوں رکھ چھوڑی ہیں.اس پر آپ (حضرت اماں جان ) نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بزرگ کے گھر بہت ملازم تھے.اُن بزرگ نے سوچا کہ صبح ان میں سے دو تین کو فارغ کر دوں گا.رات خواب میں دیکھا کہ فرشتہ کندھے پر اناج کی بوریاں لاد کے گھر سے باہر لے جارہا ہے بزرگ نے خواب میں ہی اُن سے پوچھا کہ ہمارے گھر سے اناج کیوں لے کر جارہے ہو تو فرشتے نے جواب دیا یہ اُن کا رزق ہے جن کو تم کل نکالنے والے ہو.اس واقعہ میں
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 12 ہمارے لئے یہ نصیحت بھی ہے کہ ہر جان دار کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو کہیں نہ کہیں سے رزق عطا فر ما تا چلا جاتا ہے.آپ بتاتی ہیں کہ ایک دن سونے کے لئے جگہ کم ہو گئی تو حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ میرے ساتھ سو جائیں.میں لیٹ تو گئی مگر ساری رات شکوی سمٹی رہی کہ لاڈلی بی بی کو تکلیف نہ ہو.مخالفت کا ایک عبرت انگیز واقعہ غلام فاطمہ بیگم صاحبہ نے سنایا کہ ہمارے والد صاحب جن کی صرف ہم دو بہنیں اولاد تھیں کے ماموں زاد بھائی مولوی عبدالمجید صاحب سلسلے کے بہت مخالف تھے.اُن کےسات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن پر وہ فخر کرتا تھا اور والد صاحب کا دل دکھاتا تھا.خدا کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا اور والد صاحب کی آنکھوں کے سامنے اُس کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں فوت ہو گئے.ہم دونوں بہنوں کو اللہ تعالیٰ نے بہت اولاد سے نوازا.غلام فاطمہ بیگم صاحبہ قولا سدید (سیدھی بات ) پر عمل کرنے کا ایک بہترین نمونہ تھیں.آپ جس بات کو حق سمجھتیں بے دھڑک کہہ دیتیں.جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کو اخلاق کے جس اعلیٰ میعار پر کھڑا ہونا چاہیئے اُس میں کمزوری پر سمجھوتہ نہیں کرتی تھیں.انہوں
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 13 نے بڑوں کا احترام ، حیا کے آداب اور رہن سہن میں وقار کا درس دیا.وہ سب بچیوں کو بلکہ نسبتا بڑی عمر کی خواتین کو بھی نرمی اور صاف گوئی سے کمزوری پر مطلع کرتیں.جب وہ کراچی کی مجلس عاملہ میں تھیں ایک دفعہ صدر لجنہ کراچی کے سامنے کسی خاتون نے شکایت کی کہ اُن کی بہو نماز نہیں پڑھتی.آپ اس قدر حیران ہوئیں کہ احمدی لڑکی اور نماز نہیں پڑھتی ! اور اس بات کو کئی مرتبہ دہرایا.بچیوں کو نماز کی تلقین کرنے کے لئے یہ بات بہت دفعہ دہرایا کرتی تھیں.ان کی بچیوں کو بھی ازبر ہو گیا تھا کہ احمدی لڑکی سے نماز میں نستی کس قدر خلاف توقع بات ہے.بلکہ قابل شرم بات ہے.وہ ہمیشہ دوپٹے کو بڑے سلیقے سے اوڑھتیں دن ہو یا رات سر ڈھکا رہتا.ایک دفعہ ایک عزیزہ غلام فاطمہ بیگم صاحبہ سے ملنے آئیں تو فوراً اپنا اٹیچی کیس کھلوا کر ایک خوبصورت عمدہ سفید دو پٹہ نکال کر دیا کہ اسے اوڑھیں.ایک بچی کو کہا کہ اسے دو پٹہ اوڑھنا سکھاؤ کہ کس طرح سر ڈھکتا ہے ہماری بہو بیٹیاں سر ڈھک کر رہتی ہیں.اسی طرح ایک دفعہ ایک بچی کو بغیر دوپٹے کے دیکھا ، وہ ایران سے آئی تھی ، تو اُسے احساس دلانے کے لئے کہا کیا تم اپنا دوپٹہ شاہ ایران کو دے آئی ہو، یعنی آپ غلطی کی اصلاح سامنے کر دینا زیادہ مناسب خیال کرتی تھیں بجائے اس کہ کسی کی کمزوری
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم کو پیٹھ پیچھے بیان کرنے کے.14 آپ عام گھر یلو زندگی میں چھوٹے سے چھوٹے کام میں ذکر الہی اور رضائے الہی کی صورت نکال لیتیں.کئی مثالیں ہیں جو آج بھی مشعل راہ ہیں مثال کے طور پر نیا پھل آتا تو پہلے صدقہ دیتیں پھر پھل کھاتیں.یقیناً آپ کی شکر گزاری کا یہ انداز اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہوگا.نماز سے پہلے بڑے اہتمام سے وضو کرتیں.ساتھ کلمہ پڑھتی رہتیں آپ کوشش کرتیں کہ ہر وقت باوضور ہیں.جب جوڑوں کے درد کی وجہ سے عملاً معذوری کی سی حالت ہوگئی تھی تب بھی بیٹھ کر اچھی طرح وضو کرتیں.حضرت غلام فاطمہ بیگم صاحبہ کثرت سے ذکر الہی کرتیں ، آپ دھیمی آواز میں وقار سے بات کرتیں اور دوسروں کو بھی تاکید کرتیں کہ اونچی آواز سے نہیں بولنا ، گالی نہیں دینا.آپ کے گھر میں ڈانٹنے کا جو انداز تھا بس اس حد تک تھا کہ جب کبھی آپ سے کوئی غلطی ہو جاتی تو آپ کی بڑی بہن میمونہ بیگم صاحبہ کہیں شاباش فاطمہ شاباش، یہی تنبیہ بہت کافی ہوتی تھی.ایک دفعہ غلام فاطمہ بیگم صاحبہ کا بیٹار فیع احمد نمونیہ و ٹائیفائڈ کی وجہ سے شدید بیمار ہو گیا.اُس وقت علاج کے لئے موجودہ زمانہ جیسی سہولتیں
غلام فاطمہ بیگم ، میمونہ بیگم 15 اور دوائیں موجود نہیں تھیں.آپ لوگ رہتے بھی کامٹی میں تھے.خواتین آپ کو تعویز گنڈے کرانے کا مشورہ دیتیں ، چھری چاقو دم کر کے لاتیں کہ بچے کے پاس رکھیں مگر آپ نے اس قسم کا کوئی شرک نہیں کیا.آپ بچے کے لئے دعا کرتیں اور رات کو سیکیے کے نیچے صدقے کے پیسے رکھ دیتیں اور صبح صدقہ دے دیتیں.مولا کریم نے شفا عنایت فرما دی.غلام فاطمہ بیگم صاحبہ اپنی بیٹیوں کو تاکید کرتیں کہ اپنے گھر اور خاص طور پر سسرال کی باتیں باہر کرنا مناسب نہیں.آپ مثال ایسی دیتی تھیں جو وہ کبھی نہ بھولتی تھیں.آپ میں حیا کا بہت مادہ تھا.پہلے جب ٹوپی والا ہر قع ہوتا تھا تو اُسے آپ سلیقے سے اوڑھتی تھیں بعد میں عام نقاب والے برقعے آئے تو وہ پہنے اور زندگی کے آخری لمحات تک پردے کی پابندی کا خیال رکھا.غلام فاطمہ بیگم صاحبہ اور ان کی بہن میمونہ بیگم صاحبہ میں بہت محبت تھی.دونوں بہنیں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں یہی محبت تھی جو اُن کی اولا دوں میں بھی بہت پیار کا سلوک رہا.غلام فاطمہ بیگم صاحبہ کی بڑی بیٹیاں قادیان میں پڑھتی تھیں اس لئے خاندان مسیح موعود علیہ السلام سے نہ صرف قرب میسر تھا بلکہ بہت محبت اور عقیدت بھی تھی.ساتھ ہی یہ اُن کی یہ کوشش بھی ہوتی کہ اپنے بچوں کو
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 16 شعائر اللہ ( اللہ کی نشانیاں) سے ملاتے رہیں.1993 ء میں جب ان کی ایک مینی خلیفہ امسیح الرابع سے ملنے گئی تو حضور نے ارشادفرمایا:.ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنی اولاد میں خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ودیعت کر دی ہے 66 غلام فاطمہ بیگم صاحبہ نے بتایا کہ جب میمونہ بیگم صاحبہ کے ہاں عبدالسلام اختر پیدا ہوئے تو لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے کافی مشکل پیش آئی اُس وقت ہمارے ڈاکٹر عبدالرحمن نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ جتنی بھی بیٹیاں دے گا آپ اُنہیں ڈاکٹر بنا ئیں گے.وہ ایسے مقبول وقت کی دعا تھی کہ صرف ان کی تین بیٹیاں ہی ڈاکٹر نہ بنیں بلکہ دو بہوئیں بھی ڈاکٹر ہیں اور آگے ان کی اولادوں میں بھی میڈیکل کی طرف رجحان ہے.کراچی حلقہ جیکب لائنز کی صدر ر ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو اس طرح نبھایا کہ ان سے بالا عہدہ دار اور اُن کی رفقائے کار اور ان کی تربیت یافتہ آنے والی نسل انہیں عزت واحترام سے یاد کرتی ہے.غریب پروری اس خاندان کا طرۂ امتیاز رہا.آپ بھی بڑی خاموشی خدمت خلق کی عادی تھیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گہری محبت و عقیدت تھی اور
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 17 آئندہ نسلوں میں بھی محبت کرنے کا شوق پیدا کیا.اپنے بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتیں اور ایمان افروز واقعات سناتی رہتیں.بیگم خان عبدالقیوم خان کے زیر انتظام مہاجرین کی آباد کاری کی عاملہ کی ممبر تھیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ان کی خدمات کو سراہا تھا.احمدیت کے لئے حد درجہ غیرت رکھتیں.بے حد سادہ اور قناعت پسند تھیں 1/3 حصہ کی موصیبہ تھیں.خدا نے خادم دین اولاد سے نوازا.خدا تعالی کے فضل و احسان سے غلام فاطمہ صاحبہ اور ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کا جماعت کے چندوں کے لئے ہاتھ بہت کھلا تھا.مگر ذکر کرنا پسند نہ فرماتے تھے.وہ اس باپ کی بیٹی تھیں جس نے اپنے جائیداد کے حصے کی مسجد اور ساتھ والی عمارتیں صدر انجمن احمدیہ کو تحفہ کے طور پر دے دی تھیں.ڈاکٹر صاحب کو یقین تھا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے جماعت ہی کی برکت سے ملا ہے اس لئے جماعت کی امانت ہے اس طرح مالی قربانی کی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تحریکات کے علاوہ بھی ان کے پاس کئی احمدی و غیر احمدی خواتین مستقل آتیں اور وہ خاموشی سے اُن کی مدد کرتیں.1971ء میں ڈاکٹر عبدالرحمن کا مٹی صاحب کا انتقال ہو گیا اُس وقت فاطمہ بیگم صاحبہ کی صحت زیادہ خراب نہ تھی پھر ایسی کیفیت ہو گئی کہ
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 18 اپنے ماحول میں دلچسپی نہ لیتی تھیں.خاموش رہتیں جس سے تکلیف بڑھنے لگی Arthritis کی تکلیف بڑھ گئی.گھٹنے میں بہت درد رہتا.1971 ء میں اپنے بیٹے شمیم اور بہوذ کیہ کے ہمراہ عمرہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی.1972ء کے بعد تو وہ بالکل بستر پر لگ گئیں.دونوں گھٹنے بے کار ہو گئے.چلنے پھرنے سے معذور ہو گئیں.اتنی تکلیف میں بھی ہر وقت صبر و شکر کے کلمات ہی بولتیں.شدید درد بھی برداشت کرتیں.وہ یہ پسند نہیں کرتی تھیں کہ اُن کی وجہ سے کسی کو تکلیف ہو.آخری بیماری میں اپنی بیٹی کے پاس مقیم تھیں.کمزوری حد سے زیادہ تھی مگر نظر بالکل ٹھیک تھی ہنتی بھی صحیح تھیں اور حافظہ سلامت بلکہ قابل رشک تھا.وفات سے پہلے غلام فاطمہ بیگم صاحبہ نے خواب دیکھا کہ ان کے شوہر گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر انہیں لینے آئے ہیں مگر انہوں نے جانے سے انکار کر دیا تو والد صاحب نے کہا کہ منگل کے دن لینے آؤں گا.یہ خواب اسی طرح پورا ہوا منگل کے دن 11 اگست 1982 ء کو ان کا انتقال ہوا انا للہ وانا الیہ راجعون.ان کی تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی.دونوں نے اپنا وصیت کا حصہ اپنی صحت مند زندگی میں ادا کر دیا تھا.
غلام فاطمه بیگم ، میمونہ بیگم 19 حوالہ جات جن کتب سے استفادہ کیا گیا -1 -2 -3 -4 -5 تاریخ احمدیت جلد سوئم صفحہ 379-38 تاریخ لجنہ جلد 5-4-3 الحمر اب لجنہ کراچی 1989 ءجشن صد سالہ تشکر حیات فیض از مولا نا عبدالمالک تحریر باجی امتہ القدیر ارشاد صاحبه
غلام فاطمه بیگم، میمونہ بیگم (Ghulam Fatima Begum, Memuna Begum ) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.