Language: UR
اس کتاب میں مصنفہ نے بڑی محنت سے عنوان کے اعتبار سے قرآن مجید ، احادیث مبارکہ، کتب و ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے ارشادات سے قیمتی مواد جمع کیا ہے۔ اس کتاب کی ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ مختصر ہے ، ایک ہی نشست میں موضوع کا ہر پہلو نگاہ میں آجاتا ہے۔ فلاحی معاشرہ میں آپس کی سچی محبت، ہمدردی اور خیر خواہی بنیادی صفات ہیں۔ جن کے حصول کے لئے دین فطرت کی تعلیمات میں غیر معمولی رہنمائی موجود ہے۔ جسے اس کتاب میں خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔
غیبت ایک بدترین گناہ
2 نام کتاب غیبت ایک بدترین گناه
3 پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ لجنہ اماءا عد سالہ جشن تشکر کی خوشی میں کم از کم سوکتب شائع کرنے کے منصوبے پر عمل کی توفیق پارہی ہے.زیر نظر کتاب اس سلسلے کی اسی ویں (80) کتاب ہے.غیبت ایک بدترین گناہ کے عنوان کے تحت محترمہ صاحبہ نے بڑی محنت سے قرآن مجید احادیث مبارکہ کتب و ملفوظات حضرت مسیح موعود اور خلفائے کرام کے ارشادات سے قیمتی مواد جمع کیا ہے.اللہ تعالیٰ موصوفہ کو جزائے خیر عطا فرمائے.اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ مختصر ہے ایک نشست میں موضوع کا ہر پہلو نگاہ میں آجاتا ہے.فلاحی معاشرہ میں آپس کی کچی محبت، ہمدردی صلى الله اور خیر خواہی بنیادی صفات ہیں.جس کے حصول کے لئے آنحضرت ﷺ نے نہایت مختصر الفاظ میں بہت وسیع حکمت کی بات بیان فرمائی ہے.المسلم مرآة المسلم ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے.جب انسان آئینہ دیکھتا ہے تو آئینہ اس کی خوبیاں اور خامیاں بتا تا ہے لیکن صرف اس کو جو آئینہ دیکھ رہا ہوتا ہے.کسی دوسرے کو نہیں بتاتا کہ اس میں یہ یہ خرابیاں ہیں اس حدیث پر عمل کر کے ہم بہت سے برے نتائج والے کاموں سے بچ سکتے ہیں.اور حقیقی انسان بن سکتے ہیں.انسان کا مطلب ہے دو محبتیں.ایک خدا تعالیٰ کی اور دوسری خدا تعالیٰ کی مخلوق کی.دونوں محبتوں کے ساتھ انسانیت اُن راہوں پر گامزن ہوگی جو تخلیق کا مقصد ہے.الازھار لذوات الخمار میں حضرت مصلح موعود کا ایک ارشاد درج ہے کہ اپنا
مائد تجویز کرو.میں اپنی عزیز بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ قوم کا مستقبل سنوارنے کے لئے خوبیوں کو اُجاگر کریں اور اپنا مالٹو تجویز کریں کہ ہر خوبی کو اپنانا ہے ہر بدی کو دور کرنا ہے حضرت مصلح موعود کو لجنہ اماءاللہ کے قیام سے بہت تو قعات تھیں آپ کا الہام ہے اگر تم پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کر لو تو....و ترقی حاصل ہو جائے گی پھر آپ نے فرمایا عورت ایک قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشے کے برابر بھی نہیں کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کام آتا ہے لیکن ان عورتوں کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کام نہ آ غیبت سے بچنے کے حکم میں خواتین پر زور ہے اس لئے ہمیں زیادہ قوت سے اپنا دفاع کرنا ہوگا.پس اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے عہد کریں کہ اس موذی گناہ سے بچتی رہیں گی.عیوب پر نظر ڈالنی ہے تو اپنے عیوب پر ڈالیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :- بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے
نام مضمون پیش لفظ مندرجات مندرجات غیبت ایک بدترین گناه".قرآن کریم میں غیبت کی ممانعت - قرآن کریم میں بہتان طرازی کی ممانعت.آپس کی ملاطفت انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار مکارم اخلاق کے بلند ترین درجہ پر فائز کی خوش خلقی.شیطان کا ساتھ بہت بُرا ساتھ نیکی بدی معلوم کرنے کا خود کار نظام - غیبت کی سزا -- احادیث مبارکہ کی روشنی میں غیبت کی ممانعت حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت کا مقصد اچھے اخلاق کی تعمیل.زبان پر قابو - سب سے زیادہ مکروہ فعل غیبت ہے مذہب کی بنیاد دو ستونوں پر ہے ہر انسان معزز ہے.مومن نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت نہ ہو صفحه
گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اسلام میں اپنی پردہ پوشی کی بھی تلقین ہے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے غیبت کی ممانعت.تیرا دل گر شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی بھائی کا عیب دیکھ کر دعا کرو.غیبت سے بچو.عورتوں کو نصیحہ حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کے ارشادات.گناہ کو حقیر اور چھوٹا نہ سمجھیں.بعض گناہ اور گناہوں کو بُلانے والے ہوتے ہیں.غیبت کا سننا حرام ہے.تمسخر بدظنی، تجسس، غیبت غیبت کی تشریح حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو) کے ارشادات خدا کا بندہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام پر چلے.عیب کا عادی عیب کو عیب نہیں سمجھتا غیبت کیا ہے؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات.دوا ہم نعمتیں زندگی اور وقت.
7 جو چیز ہمارے اوقات پر ڈاکہ ڈالتی ہے وہ تجسس کی عادت ہے.زبان اوامر ونواہی افشائے راز کرنے سے دوستوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں.غیبت تعلیم میں مانع.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اے ایمان والو! اندازے لگانے سے اجتناب کرو.غیبت کرنے والے میں تجسس کا مادہ ہوتا ہے.برائی کی نیت غیبت کا لازمی حصہ ہے.غیبت جھوٹی بات کو نہیں کہتے.اس کسوٹی پر اپنی اندرونی حالتوں کا جائزہ لیں.کیا غیبت سے آپ کو مزہ آتا ہے؟.مجلس کی امانت کا حق رکھنا.غیبت، چغل خوری، بدظنی مخش کلامی سے بچنے کی پر زور تلقین کسی کی غیبت نہ کرو اخلاق حسنہ سیکھو.غیبت کرنے والا بھائی کا گوشت کھانے والا اُردو کلاس کی باتیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات.بدظنی سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت پیدا ہوتی ہے.ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے اور استغفار کرو..جو بات اپنے لئے پسند نہ ہو وہ اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کریں.
8 عارضی مزے کے لئے جنت کو ضائع مت کریں ریں.چغلی کی عادت سے اجتناب کیلئے ذیلی تنظیموں کو ٹھوس لائحہ عمل کی تجویز....غیبت کرنے والے کی نیکیاں نامہ اعمال سے نکال دی جائیں گی جس کے پاس چغلی کی جائے اُسے چاہیے کہ وہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے یکطرفہ بات سن کر گہرائی میں جا کر تحقیق ضروری ہے غیبت کی ممانعت اور اصلاح معاشرہ - کسی کے عیب بیان کرنے سے پہلے اپنے عیبوں پر نظر ڈالو حکایات سعدی.غیبت ڈاکہ ڈالنے سے بھی بڑا گناہ ہے.دُکھ دینے والے سے لوگ ہمیشہ نفرت کرتے ہیں اعلیٰ اخلاق کے حصول کی دعا.
غیبت ایک بدترین گناہ قوت گویائی بولنے کی طاقت انسان کے مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے.بولنے میں استعمال ہونے والے اعضاء میں اہم ترین زبان ہے اس لئے صرف زبان کا لفظ قوت گویائی کا مترادف ہو جاتا ہے.ہم ایسے محاورات وکہا تیں سنتے ہیں.☆ قید میں رکھنے کے لئے زبان سے بڑا درندہ کوئی نہیں.ایک چپ سو سکھ ایک لمبی زبان زندگی کو چھوٹا بنادیتی ہے.زبان میں کوئی ہڈی نہیں پھر بھی کچل ڈالتی ہے.زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا زبان کی کاٹ انسانی معاشرہ کی یکجہتی کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے.اس کے گند سے دل آلودہ ہو جاتے ہیں.غیر شفاف دل والے اچھے انسان ہو سکتے ہیں نہ خدا تعالیٰ اُن کے دل میں گھر کرتا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زبان کو ہرایسی غلط بات سے پاک رکھیں جس میں ناپا کی کا شائبہ بھی ہو جب ہی ہمارے دل اللہ تعالیٰ کا عرش بن سکتے ہیں.
10 حضرت مصلح موعود نے کیا خوب تحریر فرمایا ہے :- خدا اپنا عکس بندوں کے ذریعہ دکھاتا ہے مثلاً حضرت محمد مصطفی عمدا کا شیشہ تھے اور اُن سے خدا ظا ہر ہوتا تھا.اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم بھی خدا کی باتوں کو مانو اور اُن پر عمل کرو تو ہم میں سے ہر ایک شخص شیشہ ہے.جس میں خدائے تعالیٰ اپنا چہرہ دیکھنا چاہتا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں شیشہ بناؤں.وہ شیشہ بندے کا دل بنایا.اس پر اپنی شکل ڈالی.تمہاری مثال اُس شیشہ کی مانند ہوگی جس میں منہ اچھی طرح دکھائی نہیں دیتا اور اُس کا مالک اُس کو پھینک دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو دے مارتا ہے اور اس کے مقابلے میں جو بندہ جتنا بھی نیک ہوتا ہے.اتنا ہی اللہ تعالیٰ اُس پر فضل کرتا ہے اور جتنا برا ہوتا ہے خدا بھی اُسے ہلاک کر دیتا ہے.اور جانوروں کی قدر اس آدمی سے زیادہ کرتا ہے.حضرت حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ ایک درخت پر ایک چڑیا کا گھونسلہ تھا اور اس میں چڑیا نے بچے دیئے تھے.جب طوفان آیا اور پانی بہت اونچا چڑھ گیا تو خدا تعالیٰ نے کہا کہ چڑیا کے بچے بہتر ہیں ان لوگوں سے جن پر میر اغضب نازل ہوا.میں اُن لوگوں کو مار دوں گا مگر ان چڑیا کے بچوں کو بچالوں گا.تو انسان کی غرض ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکموں کو بجالا ؤ اور اس کی صفتوں کو ظاہر کرو اور کوئی کمزوری بھی اپنے اندر نہ رکھو.اوڑھنی والیوں کے پھول صفحہ 46-47) تقریر جلسہ سالانہ دسمبر 1921ء) ہمارے گھروں کے سکون لوٹنے والے اکثر جھگڑے لگائی بجھائی اور غیبت کی وجہ سے ہوتے ہیں.مثلاً ایک بہت مہربان نظر آنے والی خاتون آتی ہے بہو سے انتہائی ہمدردی دکھاتے ہوئے اُسے ساس کی بعض باتیں دلخراش انداز میں سناتی ہے.
11 پھر وہی مہربان خاتون اپنی تمام تر محبتوں کے ساتھ ساس کو بہو کے عیوب گنواتی ہے اُس خاتون کے اس فعل سے ایسی آگ لگتی ہے کہ جو کئی گھروں کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے اور تا دیر کئی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے.باقی جھگڑوں کے پیچھے بھی بالعموم ایسی غیبت کرنے والی زبانیں ہوتی ہیں.اس طرح بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی محفل میں کسی غیر موجود شخص کی برائی کرتا ہے گویا اُسے ایک تیر مارتا ہے یہ تیر اس غیر موجود شخص سے کچھ دور جا کر گر جاتا ہے بات ختم ہو جاتی ہے.مگر محفل میں موجود کوئی نا مہربان اس تیر کو اٹھاتا ہے اور جا کر اُس غیر موجود شخص کے دل میں مارتا ہے یعنی جا کر اسے بتاتا ہے کہ فلاں شخص تمہاری برائی کر رہا تھا.اس طرح فتنہ وفساد جنم لیتے ہیں.اس کتاب میں غیبت جیسے مکروہ فعل کو ہر طرح بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ وہ کسی شکل اور بہروپ میں بھی رخنہ انداز نہ ہو اللہ تعالیٰ ہمیں اس بدترین گناہ سے ہمیشہ اپنے فضل واحسان سے بچائے رکھے.آمین
12 قرآن کریم میں غیبت کی ممانعت قرآن کریم مکمل منشور حیات ہے تا ابد صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والی کتاب ہے.قرآن کریم غیبت کو ایک بدترین گناہ قرار دیتا ہے.ارشاد خداوندی ہے :- يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ ط لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَر هَتُمُوهُ ، وَاتَّقُوالله.ط إنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات : 13) ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچتے رہا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ بن جاتے ہیں اور تجسس سے کام نہ لیا کرو.اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کیا کریں.کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا (اگر تمہاری طرف یہ بات منسوب کی جائے تو ) تم اس کو نا پسند کرو گے.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اللہ بہت ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.قرآن کریم میں بہتان طرازی کی ممانعت : قرآن کریم میں بہتان طرازی کی ممانعت کی گئی ہے.
13 ان لا يُشركن بِاللَّهِ شَيْئًا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلُنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانِ يَفْتَرِيْنَهُ (الممتحن : 13) ترجمہ: وہ اللہ کا شریک کسی کو نہیں قرار دیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ ہی زنا کریں گی اور نہ ہی اولاد کو قتل کریں گی اور کوئی جھوٹا بہتان کسی پر باندھیں گی.اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مرض زیادہ عورتوں میں پایا جاتا ہے.اس لئے خواتین کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے.آپس کی ملاطفت انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار آپس کی ملاطفت انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار میں شامل ہے.ارشادِ خداوندی ہے :- مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح : 30) ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے خلاف بڑا جوش رکھتے ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے سے بہت ملاطفت کرنے والے ہیں.مومن کی زبان سے اور اس کے ہاتھ سے کسی کو گزند نہیں پہنچتا مومن ہر ایک کا خیر خواہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں اخلاقی قدریں انسان کو بتائی ہیں وہاں اخلاق کی قسمیں بتا کر نیک اعمال کا نیک بدلہ اور باہمی محبت کا درس بھی دیا.مکارم اخلاق کے بلند ترین درجہ پر فائز کی خوش خلقی : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ
14 فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ( آل عمران : 160) ترجمہ: (اور اے محمدؐ ) تو اس عظیم الشان رحمت کی وجہ سے (ہی ) جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ( تجھے دی گئی) ہے ان کے لئے نرم واقع ہوا ہے اور تو بد اخلاق اور سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے گرد سے تتر بتر ہو جاتے.نرم دلی اور خوش اخلاقی اعلیٰ ترین صفات ہیں جو انسانی معاشرہ کو باہم مربوط کرتی ہیں جبکہ بداخلاقی جس میں غیبت مہلک ترین ہے اس ربط کو نقصان پہنچاتی ہے اسی لئے با ہمی ملاطفت اور نرم دلی سے پیش آنے کی تعلیم دی.شیطان کا ساتھ بہت برا ساتھ : وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَنُ لَهُ قَرِيْنًا فَسَاءَ قَرِينًا (النساء : 39) ترجمہ: اور جس (شخص) کا ساتھی شیطان ہو ( وہ یاد رکھے کہ ) وہ بہت ہی برا ساتھی ہے.شیطان سے دوستی گویا انسانیت سے دشمنی کے مترادف ہے شیطان سے دوستی گویا اخلاق سیئہ کی صفت پیدا کرنے کی موجب بنتی ہے.اس کے نتیجہ میں انسان گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے کئی ایسے گمان دل میں پیدا ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں انتہائی نا پسندیدہ ہیں اور وہ گمان گناہ بن جاتے ہیں.غیبت بھی ایک گمان ہے ایک بدترین گناہ.برائی اگر جڑ پکڑ جائے تو نیکیوں کا درخت بے برگ و بار اور خزاں رسیدہ ہو جائے گا.قرآن کریم نے غیبت کی نفرت کو دلوں میں بٹھانے کے لئے بڑا موثر اسلوب اختیار کیا ہے.اور انسان کی فطرت میں ایک خود کار نظام رکھ دیا ہے.اُس کی فطرت (اگر مسخ نہ ہو گئی ہو ) اُس کی راہنمائی کرتی ہے.
15 نیکی بدی معلوم کرنے کا خود کار نظام: قرآن کریم میں ہے :- بَلِ الْإِنْسَانَ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيْرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَةٌ (القيامة : 16-15) ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس پر بہت بصیرت رکھنے والا ہے اگر چہ وہ بڑے عذر پیش کرے.یعنی اُس کا نفس جانتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں.کیونکہ غیبت کے بارے میں تو صاف واضح کر دیا گیا ہے کہ کہ غیبت ایک ایسی سچی بات یا کمزوری کا نام ہے جو کسی بہن بھائی میں پائی جاتی ہو اسے اس رنگ میں پیش کرنا وہ بھی اس کی عدم موجودگی میں جسے وہ اپنے سامنے سننا پسند نہ کرے اُسے جب معلوم ہو تو اس کی دل آزاری ہوگی.اور اگر کسی بہن بھائی کے پیٹھ پیچھے ایسی باتیں اُس سے منسوب کی جائیں جو اس میں موجود ہی نہیں ہیں تو وہ سراسر بہتان ہے اللہ تعالیٰ نے غیبت اور بہتان کو سخت نا پسند فرمایا ہے.غیبت کی سزا: قرآن کریم اسلامی فلاحی معاشرہ میں رخنہ ڈالنے والوں کے لئے کڑی سزا تجویر کرتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُم عَذَابُ الْحَرِيقِ (البروج : 11)
16 ترجمہ: وہ لوگ جنھوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو فتنہ میں ڈالا پھر (اپنے فعل سے ) تو بہ بھی نہ کی انہیں یقیناً جہنم کا عذاب ملے گا اور اس دنیا میں بھی انہیں ( دل کو ) جلا دینے والا عذاب ملے گا.وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ تُمَزَة (البره : 2) ترجمہ: ہلاکت ہو ہر غیبت کرنے والے سخت عیب جو کے لئے.اللہ تعالیٰ ہم کو اس فعل قبیح سے محفوظ رکھے.آمین
17 احادیث مبارکہ کی روشنی میں غیبت کی ممانعت قرآنِ پاک میں ارشادِ خداوندی ہے :- وَمَا اتْكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ، وَمَا نَهُكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ج ط ترجمہ: رسول جو تمہیں عطا کرے تو اُسے لے لو اور جس سے تمہیں رو کے اُس سے رُک جاؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقینا اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت کا مقصد اچھے اخلاق کی تکمیل الله إِنَّمَا بُعِثْتُ لا تَمَمَ صَالِحِى الْأَخْلَاقِ (الادب المفرد ) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولخدا نے فرمایا.میری بعثت کا مقصد ہی اچھے اخلاق کی تکمیل ہے.آپ قرآنی اخلاق کا مجسم نمونہ ہیں.انسانیت کیلئے ایک مکمل ماڈل ہیں.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ترجمہ: یقیناً اے رسول تو عظیم الشان اخلاق کا حامل ہے.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (القلم:5) :
18 ترجمہ: یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے.(جس کی تمہیں پیروی کرنی چاہئے ) (احزاب:22) حضرت سعد بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں نے عرض کی کہ اے ام المؤمنین مجھے آنحضرت کے اخلاق کے بارے میں کچھ بتائیں اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ ضرور پڑھتا ہوں تو حضرت عائشہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نبی کے اخلاق قرآن کریم کے عین مطابق تھے.(بحوالہ مسلم) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول خدا تمام لوگوں سے زیادہ با اخلاق تھے.ابوداؤد میں ایک حدیث مبارکہ ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا :- ہے.ترازو میں حسن خلق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں.قیامت کے دن جب اعمال وزن کئے جائیں گے تو حُسنِ اخلاق کا وزن سب سے زیادہ ہو گا پس ضرورت ہے مذہب کے اس پہلو یعنی اخلاق پر زیادہ زور دیا الله جائے.آنحضور کی بعثت کے مقصد کی تکمیل ہر مسلمان کا فرض ہے.بہتری کی عليق طرف قدم اُٹھانے کے لئے اسوہ رسول سے رہنمائی حاصل کی جائے.آپ نے بہتر اخلاق کے لئے زبان پر قابو کی تلقین فرمائی ہے.زبان پر قابو : عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ نجات کس بات میں ہے؟ آپ نے فرمایا روک رکھ اپنی زبان اور چاہئے کہ جگہ دے تجھ کو تیرا گھر اور رو اپنے گناہوں پر.(ترندی)
19 اچھے مسلمان کی نشانی یہ ہے کہ اُس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اس حدیث میں بھی زبان کا ذکر ہے یعنی اپنی قوت گویائی سے کسی کو تکلیف نہ دی جائے.عَنْ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَن النَّبيِّ ﷺ قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ عليه وسلم الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ (ترندی) ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں.سب سے زیادہ مکروہ فعل غیبت ہے: " عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللهِ لا مَا الْغِيْبَةُ قَالَ ذِكرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ، قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِيْهِ مَا أَقُولُ، قَالَ إِنْ كَانَ فِيْهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اغْتَبْتَهُ وَإِن لَّمْ يَكُن فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَهَنَّهُ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم سے پوچھا گیا.یا رسول اللہ ! غیبت کسے کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا :- تیرا اپنے بھائی کا ایسے رنگ میں ذکر کرنا جو اُسے برا لگے غیبت کہلاتا ہے اس صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ! اگر اس شخص میں وہ بات پائی جاتی ہو پھر بھی؟ آپ نے فرمایا اگر اس میں وہ بات پائی جاتی ہو تو وہی تو غیبت ہے اور اگر ایسی بات کہتا ہے جو اس میں پائی ہی نہیں جاتی تو وہ بہتان ہے.(ترمذی)
20 بالکل ایسے ہی مزید وضاحت کے ساتھ حدیث ہے.ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول مقبول نے فرمایا کہ لوگو جانتے بھی ہو کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا ” غیبت یہ ہے کہ تو ذکر کرے اپنے بھائی کا اس کی غیر حاضری میں ایسا کہ اگر وہ اسے سنے تو اسے برا لگے کسی نے کہا حضور اگر وہ بات سچی ہو تو کیا تب بھی وہ غیبت ہے؟ آپ نے فرمایا اگر بیچ ہو تو غیبت ہوگی ورنہ جھوٹ ہو تو بہتان ہے.(مسلم) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول مقبول سے عرض کیا کہ صفیہ (آپ کی بی بی) ٹھگنی (پستہ قد ) ہے آپ نے فرمایا عائشہ تو نے ایک ایسی بات کہی کہ اگر وہ ایک بھرے ہوئے دریا میں ڈالی جائے تو سب کو کڑوا کر دے.(ابوداؤد) حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات میں میں کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے سینے اور چہرے کو نوچتے تھے.میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں لوگوں کی بدگوئیاں کرتے تھے یعنی غیبت.(ابوداؤد) ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول مقبول نے فرمایا کہ لوگو میرے سامنے ایک دوسرے کی بدگوئیاں نہ کیا کرو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں گھر سے نکلوں اور تمہاری مجلسوں سے آؤں تو میرا سینہ سب کی طرف سے صاف ہو.(ترمذی) مذہب کی بنیاد دوستونوں پر ہے: ان میں ایک ستون اللہ کے حق کی ادائیگی ہے تو دوسر استون بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی ہے ان میں اسی لئے آنحضور نے فرمایا کہ آپس میں نرمی کرو یہ پیار اور محبت کا موجب ہے.جیسا کہ حضرت عائشہ سے روایت ہے.
21 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ الله قَالَ إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرفق - ( متفق عليه ) ترجمہ: حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نرم ہے اور تمام امور میں نرمی کو پسند کرتا ہے.گفتار اور کردار میں نرمی انسان کو کامیاب کرتی ہے.حتی کہ دشمن سے بھی نرمی کرنا فائدہ مند ہے.نرمی سے گفتگو کرنے سے دشمن دوست بن جاتا ہے آپس میں نرمی کرنا محبت اور پیار کی زیادتی کا موجب ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمانوں کی تعریف یوں فرمائی ہے.رخماءُ بَيْنَهُمُ ان کے باہمی سلوک اور میل جول میں نرمی ، محبت اور شفقت کا نمایاں اظہار ہوتا ہے.پس لوگوں میں ان کی اچھائیاں تلاش کریں اور برائیوں سے در گذر کریں.پیٹھ پیچھے بھی ان کی کسی کمزوری کی تشہیر نہ کریں بلکہ اصلاح کی کوشش کریں اور صحیح طریقے سے غلطیوں کی نشاندہی کریں.حضرت عقبہ بن عامر کے مولیٰ جن کا نام ابو کثیر تھا بیان کرتے ہیں کہ عقبہ نے فرمایا کہ میں نے آنحضرت کو فرماتے سنا جس نے کسی کی کمزوری دیکھی اور پردہ پوشی سے کام لیا یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زندہ در گورلڑکی کو نکالا اور اُسے زندگی بخشی.(مسند احمد بن حنبل صفحہ 147/4) ہر انسان معزز ہے: صلى الله حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے چاہئے کہ نہ اس پر ظلم کرے نہ اُسے رُسوا کرے اور نہ حقیر جانے.پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا.تقویٰ یہاں ہے ( آپ نے تین
22 بار یہ فرمایا).فرمایا آدمی کی یہی بدی بڑی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے.مسلمان پر مسلمان کی ہر ایک چیز حرام ہے.اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت.(مشکوۃ) فطرت انسانی بہت معزز ہے کسی انسان کو حقارت سے نہ دیکھئے.اُسے غلطی پر ذلیل نہ کیجئے ورنہ باہمی محبت میں فرق آئے گا.کمزوریوں کی تشہیر کرنے سے نفرتیں جنم لیتی ہیں.حدیث ہے :- حضرت ابو ہریرۃا بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.(ترمذی).غیبت جیسے بدترین گناہ سے بچنے کے لئے ہر شخص کو غور وفکر کرنی چاہئے وہ کیسی صحبت میں بیٹھتا ہے.چنانچہ آنحضور نے فرمایا: - قَالَ رَسُولَ اللهِ اللهِ الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيْلَهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ - (تردى) ترجمہ: آدمی اپنے ساتھی کے دین پر ہوتا ہے پس ہر ایک شخص کو غور وفکر کرنی چاہئے کہ وہ کس کا ساتھی بنتا ہے.غیر شعوری طور پر انسان پر ساتھی کے خیالات و نظریات اثر انداز ہوتے رہتے ہیں لہذا ئر کے ساتھی سے ہمیشہ احتراز کرنا چاہئے اسی لئے کسی نے کہا ہے :- صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند کیونکہ ہمارے مذہب میں غیبت ایک بدترین گناہ انتہائی قابل نفرت خلق ہے لہذا اور دوسرے مذہبی امور کی طرح اس میں اس بات کا خیال رکھنا
23 چاہئے کہ بدعقائد شخص سے موانست و مجالست نہ ہو ورنہ وہ تو ڈوبا ہے مبادا آپ کو بھی لے ڈو ہے.ایک اور جگہ آنحضور کا ارشاد ہے کہ جب تم کسی کی کمزوری اُچھالنے لگو تو خود سوچ لو اور پر کھ لو اور اچھی طرح جائزہ لے لو کہ یہ کمزوری خود تمہارے اندر بھی تو نہیں پائی جاتی اور اسی طرح اگر تم اپنا محاسبہ کرنے لگو گے تو تمہیں خود اپنے اندر اس قدر کمزوریاں نظر آئیں گی کہ تم جرات نہیں کر سکو گے کہ دوسرے کی کمزوری سے پردہ اُٹھا سکو.( بخاری ومسلم) مومن نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو : باہمی محبت کے بغیر صحیح اتفاق پیدا نہیں ہوسکتا اور محبت ایمان کا لازمی نتیجہ ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضور کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر تو جو کچھ بھی زمین میں ہے ان پر خرچ کر دیتا تو بھی ان کے دلوں کو اس طرح باندھ نہیں سکتا تھا لیکن اللہ نے اُن میں باہمی محبت اور تیرے ساتھ بھی محبت قائم کر دی.(الانفال :64) یعنی اگر تم دولت بھی خرچ کر دیتے تو وہ الفت با ہم نہ پیدا کر سکتے تھے جو ہم نے اسلام کے ذریعہ تمہارے اندر پیدا کر دی ہے.اسلام معاشرے کے ایک ایک فرد کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے جس طرح ہم سگے بھائی سے ہمدردی کرتے ہیں اسی طرح معاشرہ کا ہر فرد ہماری محبت اور ہمدردی کا حقدار ہے.حدیث تو یہی بتلاتی ہے کہ محبت ہی ایمان ہے.فرمایا: - لا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا جب تک باہم محبت نہ کرو گے مومن نہ بن سکو گے.(مسلم) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :-
24 اے مسلمانو ! آپس میں بغض و حسد نہ رکھو اور ایک دوسرے کو پیٹھ پیچھے برا نہ کہا کرو یہ عیوب اخلاص و محبت کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں.حقیقی عبد بنو اور آپس میں بھائی بن کر رہو.( بخاری ) اسلام میں اپنی پردہ پوشی کی بھی تلقین ہے: اسلام محض دوسروں کی پردہ پوشی کی ہی تلقین نہیں فرما تا بلکہ خود اپنے راز فاش کرنے کی بھی ممانعت کرتا ہے.چنانچہ آنحضور ﷺماتے ہیں :- ” میری اُمت میں سے ہر شخص کا گناہ مٹ سکتا ہے یعنی ( تو بہ سے ) مگر جو اپنے گناہوں کا خود اظہار کرتے پھریں ان کا کوئی علاج نہیں پھر فرمایا کہ خود اپنے اظہار کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص رات میں گناہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر پردہ ڈال دیتا ہے مگر صبح کے وقت وہ اپنے دوستوں سے ملتا ہے تو کہتا ہے.اے فلاں! میں نے رات کو یہ کام کیا.رات کو خدا اس کے گناہ پر پردہ ڈال رہا تھا صبح یہ گناہ کو خود ننگا کرتا ہے.( بخاری مسلم) ایک دفعہ رسول کریم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ میں نے زنا کیا ہے حضور نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا.اس نے سمجھا شائد حضور نے میری بات نہیں سنی اُس نے دوسری طرف سے ہو کر پھر عرض کی.آپ نے پھر منہ پھیر لیا.اس نے پھر سامنے آکر یہی عرض کی آپ نے پھر منہ پھیر لیا جب اس نے چوتھی بار یہی اظہار کیا تب آنحضور نے فرمایا کہ میں تو چاہتا تھا کہ یہ اپنے گناہ کی تشہیر نہ کرے جب تک خدا اس کی گرفت کا فیصلہ نہیں کرتا مگر اس نے چار دفعہ اپنے نفس پر خود گواہی دی اس لئے اب میں مجبور ہوں.فرمایا اس نے خود الزام لگایا ہے اس عورت نے نہیں.جس کے متعلق یہ زنا کا دعویٰ کرتا ہے لہذا اس
25 عورت سے پوچھو اگر وہ انکار کرے تو اسے کچھ مت کہو اور صرف اس کے اقرار کے مطابق سزا دو لیکن اگر وہ عورت بھی اقرار کرے تو پھر اُسے بھی سزا دو.( ترمذی ابواب الحدود ) اس حدیث میں خدا کی صفاتِ حسنہ کے مظہر کامل کس قد رفض بصر سے کام لے رہے ہیں کہاں تک ستاری کو آپ کام میں لائے اور بار بار اپنی خاموشی سے اس شخص کو یہ پیغام دیتے رہے کہ جس گناہ پر خدا نے پردہ ڈال دیا ہے اس کا علاج اعلان نہیں بلکہ اخفاء ہے اور تو بہ ہے مگر وہ بد قسمت نہ سمجھ سکا.پردہ دری، بہتان طرازی غیبت سب زہر قاتل ہیں.گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے : یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ ہم اکثر جانتے بوجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور صرف دو الفاظ خیر ہے“ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.حضرت وابصہ بن معبہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے فرمایا کیا تم نیکی کے متعلق پوچھنے آئے ہو.میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ.آپ نے فرمایا اپنے دل سے پوچھ نیکی وہ ہے جس پر تیرا دل اور تیرا جی مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تیرے لئے اضطراب کا جب بنے.(مسند احمد بن حنبل صفحه 227/4-228) آنحضور نے نہایت عارفانہ بات بیان فرمائی اگر اسی نقطہ کو انسان سمجھ جائے تو ناممکن ہے کہ انسان کسی برائی کی طرف مائل ہو کیونکہ ہمیشہ جب کسی برائی کی ابتدا ہوتی ہے اس وقت ضمیر اور وجو د انسانی سخت گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں اور وہی وقت
انسان کے سنبھلنے کا ہوتا ہے.26 ممکن نہیں انسان سے سرزد ہو کوئی جرم احساس اگر ہو کہ خدا دیکھ رہا ہے ور نہ اس حالت کے بعد اگر وہ نہ سنبھلنے پائے تو خطا کاریوں سے اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اچھے برے کا احساس جاتا رہتا ہے یہاں تک کہ جگاتے جگاتے ضمیر بھی تھک کر سو جاتا ہے اور یہ سب آہستہ آہستہ عادت کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر وہ وقت آجاتا ہے کہ گناہ اور ثواب میں کسی فرق کا احساس نہیں رہتا.
27 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے غیبت کی ممانعت تیرا دل گرشر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی: حضرت بانی سلسلہ فرماتے ہیں:- اے میرے پیارے بھائیو! کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے علیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے.اگر تیرا دل شہر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء.ہر ایک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسا پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو ردی پاؤ اس کو کاٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو نا پاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 547 وازالہ اوہام صفحہ 827) جاؤ.
28 بھائی کے عیب دیکھ کر دعا کرو: ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں.لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دُور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دور نہیں ہوسکتا اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعے سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے.ایک صوفی کے دومرید تھے ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا دوسرے نے صوفی سے شکایت کی.اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جا کر اُٹھا نہیں لاتا.وہ اسی وقت گیا اور اُسے اُٹھا کر لے چلا.کہتے تھے ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اُسے اٹھا کر لے جا رہا ہے.صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تو نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی.آنحضرت ﷺ سے غیبت کا حال پو چھا تو فرمایا کہ کسی کی کچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اُسے برا لگے غیبت ہے.اور اگر وہ بات اُس میں نہیں ہے صلى الله اور تو بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ (الحجرات : 13) اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے.اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے.ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بے کار جاتی ہے.اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟ بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے بعض میں کچھ طاقت آگئی ہے پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اُسے خفیہ نصیحت کرے اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے اور اگر دونوں
29 باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء وقدر کا معاملہ سمجھے جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سر دست جوش نہ دکھلایا جاوے.ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے بلکہ لکھا ہے.الْقُطْبُ قَدْ يَزْنِی کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے.بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے.کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے.بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے قرآن کریم کی یہ تعلیم ہر گز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلا ؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے.تَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْ بِالْمَرْحَمَةِ (البلد : 18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے.دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا.عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو.سعدی نے کہا ہے :- خدا داند بپوشد ہمسایہ ندائد وخر و شد یعنی خدا تعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے مگر ہمسایہ کوعلم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے.تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوا بِاخْلَاقِ اللَّهِ بنو
30 ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آ گیا ہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے.شیخ سعدی کے دوشاگرد تھے ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کیا کرتا تھا دوسرا جلا بھنا کرتا تھا.آخر پہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب میں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تو نے غیبت کی.غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم ، دعا، ستاری اور مرحمہ آپس میں نہ ہو.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 60-61) ( البدر جلد 3 نمبر 26 صفحہ 4 مورخہ 8 جولائی 1904ء) ( نیز الحکم جلد 8 نمبر 23-24 صفحہ 9-10 مورخہ 17-24 جولائی 1904ء) غیبت سے بچو: حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں :- دل تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتا ہے اور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے.کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے؟ تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنا کیا فائدہ؟ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص بڑا گنہگار ہوگا.خدا تعالیٰ اُس کو کہے گا کہ میرے قریب ہو جا یہاں تک کہ اس کے اور اور لوگوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے پردہ کر دے گا اور اس سے پوچھے گا کہ تو نے فلاں گناہ کیا فلاں گناہ کیا لیکن چھوٹے چھوٹے گناہ گنائے گا.وہ کہے گا ہاں یہ گناہ مجھ سے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا آج کے دن میں نے تیرے سارے گناہ معاف کئے اور ہر ایک گناہ کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب دیا تب وہ بندہ سوچے گا کہ جب ان چھوٹے چھوٹے
31 گناہوں کا دس دس نیکیوں کا ثواب ملا ہے تو بڑے بڑے گناہوں کا تو بہت ہی ثواب ملے گا یہ سوچ کر وہ بندہ خود ہی اپنے بڑے بڑے گناہ گنائے گا کہ اے خدا میں نے تو یہ گناہ بھی کئے ہیں تب اللہ تعالیٰ اس کی بات سن کر ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو میری مہربانی کی وجہ سے یہ بندہ ایسا دلیر ہو گیا ہے کہ اپنے گناہ خود ہی بتلاتا ہے پھر اُسے حکم دے گا کہ جا بہشت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے تیری طبیعت چاہے داخل ہو جا تو کیا خبر ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس سے کیا سلوک ہے یا اس کے دل میں کیا ہے اس لئے غیبت کرنے سے بکلی پر ہیز کرنا چاہئے.(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 11، بدر جلد 2 نمبر 10 صفحہ 10 مورخہ 19 مارچ 1906ء) عورتوں کو نصیحت : جون 1906ء کو ایک دفعہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اندرونِ خانہ عورتوں کو نصیحت کی :- غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی رہتی ہیں.اور پھر صبح اُٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں لیکن اس سے بچنا چاہئے.عورتوں کی خاص سورت قرآن شریف میں ہے حدیث میں آیا ہے آنحضور نے فرمایا کہ میں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں.عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں.ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحه 29)
32 حضرت خلیفتہ است الاول ان تعالی سے راضی ہو ) کے ارشادات گناہ کو حقیر اور چھوٹا نہ سمجھیں : یا درکھو کبھی کسی گناہ کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھو.چھوٹے سے گناہ سے انسان ایک خطر ناک اور گھیر لینے والے گناہ میں گرفتار ہو جاتا ہے.تمہیں معلوم نہیں یہ پہاڑ چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنتے ہیں یہ عظیم الشان بڑ کا درخت ایک بہت ہی چھوٹے سے بیج سے بنا ہے.بڑے بڑے اجسام ان ہی بار یک ایٹمی ذرات سے بنے ہیں جو نظر بھی نہیں آتے.پھر گناہ کے بیج کو کیوں حقیر سمجھتے ہو؟ یا درکھو چھوٹی چھوٹی بدیاں جمع ہو کر آخر پیں ڈالتی ہیں انسان جب چھوٹا سا گناہ کرتا ہے تو اس کے بعد اور گناہ کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی حد بندی کو تو ڑ کر نکل جاتا ہے.جس کا نام کبیرہ ہوتا ہے اور پھر راستبازوں کے قتل کی جرات کر بیٹھتا ہے.اس طرح پر ادنی سی نیکی اگر کرو تو اس سے ایک نورِ معرفت پیدا ہوتا ہے نیکی اور بدی کی شناخت کا انحصار ہے قرآن شریف کے علم پر اور وہ منحصر ہے تقویٰ اور سعی پر “ 66 خطبات نور جلد نمبر 1 صفحہ 115-116) بعض گناہ اور گناہوں کو ملانے والے ہوتے ہیں: حضرت خلیفہ اسیح الاول فرماتے ہیں :-
33 بعض گناہ ہوتے ہیں کہ وہ اور بہت سے گناہوں کو بلانے والے ہوتے ہیں.اگر ان کو نہ چھوڑا جائے تو ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کے بتوں کو تو توڑا جائے مگر بت پرستی کو اس کے دل سے دُور نہ کرایا جائے.اگر ایک بت کو توڑ دیا تو اس کے عوض سینکڑوں اور تیار ہو سکتے ہیں.غرض جب تک شرارتوں اور گناہوں کی ماں اور جڑ دُور نہ ہو تب تک کسی نیکی کی اُمید نہیں ہو سکتی اور تا وقتیکہ اصلی جڑ اور اصلی محرک بدی کا دور نہ ہو.فروعی بدیاں بکلی دور نہیں ہوسکتیں.جب تک بدیوں کی جڑ نہ کاٹی جاوے.تب تک تو وہ اور بدیوں کو اپنی طرف کھینچیں گی اور دوسری بدیاں اپنا پیوند اس سے رکھیں گی.بہر حال اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے بچنے کا ایک گر بتایا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوَ اجْتَنِبُوا كَثِيراً منَ الظَّنِ - إِنَّ بَعْضَ الظَّن اثم ترجمہ: اے ایماندارو! ظن سے بچنا چاہئے کیونکہ بہت سے گناہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے:- إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَابُ الْحَدِيثِ.ایک شخص کسی کے آگے اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتا ہے اور اپنے مطلب کو پیش کرتا ہے لیکن اس کے گھر کی حالت کو نہیں جانتا اور اس کی طاقت اور دولت سے بے خبر ہوتا ہے اپنی حاجت براری نہ ہوتے دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر شرارت کی ہے اور میری دستگیری سے منہ موڑا.تب محض ظن کی بناء پر اس جگہ جہاں اس کی محبت بڑھنی چاہئے تھی عداوت کا بیج بویا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان گناہوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو عداوت کا پھل ہیں.
34 یا درکھو! بہت سی بدیوں کی اصل سوء ظن ہے.نصیحت کے طور پر کہتا ہوں کہ اکثر سورظنہوں سے بچو.اس سے سخن چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے.اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے.وَلاَ تَجَسَّسُوا تجسس نہ کرو تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے.بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتا ہے اور پھر تجسس سے غیبت پیدا ہوتی ہے.جیسے اللہ کریم نے فرمایا :- وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً ( الحکم 31 اکتوبر 1907 صفحہ 8-9، حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 5-6) پھر ایک جگہ فرمایا تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں.امیر سے غریب تک، شریف سے وضیع تک، اجنبی سے اپنے پرائے ہم قوم تک اور اللہ سے ڈرتے رہوتا کہ تم پر رحم ہو.(الحجرات :11، بدر 31 جنوری 1909 صفحہ 7 - حقائق الفرقان صفحہ 2) یعنی اس آیت کی رُو سے مجھے یقین ہے کہ کم از کم اس آیت کے نزول تک جس قدر صحابہ تھے وہ آپس میں بھائی بھائی تھے.گناہ شروع میں بہت چھوٹا اور آخر میں بہت بڑا ہو جاتا ہے.جیسے بڑکا بیج دیکھنے میں کتنا چھوٹا ہوتا ہے.جب بعض آدمیوں کو آرام ملتا ہے فکر معاش سے گونہ بے فکری حاصل ہوتی ہے.وہ نکھے بیٹھنے لگتے ہیں اب اور کوئی مشغلہ تو ہے نہیں تمسخر کی خو ڈال لیتے ہیں.تمسخر کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی اعضا ء سے.کبھی تحریر سے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمسخر کا نتیجہ برا ہے وحدت باطل ہو جاتی ہے پھر وحدت جس قوم میں نہ ہو وہ بجائے ترقی کے ہلاک ہو جاتی ہے.( حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 3-4)
35 غیبت کا سننا حرام ہے: زبان کا سب سے بھاری فرض ہے.(1) کلمہ توحید پڑھنا، نماز میں الحمد پڑھنا بھی فرض ہے.(2) تو گویا اتنا قرآن پڑھنا بھی فرض ہوا.(3) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی زبان کا ہی رکن ہے اس کے محرمات ہیں غیبت، تحقیر، جھوٹ، افتراء اس زبان کے ذریعہ تمام تلاوت قرآن و تلاوت احادیث کرے اور عام طور پر جو معرفت کے خزانے اللہ و رسول کی کتابوں میں ہیں پوچھ کریا بتا کر ان کی تہہ تک پہنچے.معمولی باتیں کرنا مباح ہیں.پسندیدہ باتیں اپنی باتوں میں استحباب کا رنگ رکھتی ہیں.لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا في أصحب السَّعِير (الملك :11) اگر ہم حق کے شنوا ہوتے تو دوزخ میں کیوں جاتے.اس سے ثابت ہوا کہ حق کا سننا فرض ہے اور غیبت کا سننا حرام ہے.(بدر 30 دسمبر 1909 ء صفحہ 3-4، حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 130) کسی دوسرے کو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ مناسب یہ ہے کہ اگر کسی کواللہ تعالیٰ نے علم ، طاقت اور آبرو دی ہے تو اس کے شکریہ میں جو اس کی نعمت سے متمتع نہیں ہے مدد کرے، نہ یہ کہ تمسخر اُڑائے.یہ منع ہے چنانچہ اس نے فرمایا :- لَا يَسْخَر قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ (بدر 18 فروری 1909 صفحہ 2، حقائق الفرقان صفحہ 4 جلد چہارم)
36 تمسخر بدظنی، تجسس، غیبت: (1 سورة الحجرات آیت 12 کے حوالے سے فرمایا :- مرد مردوں سے ہنسی نہ کریں.ہوسکتا ہے کہ وہی ان سے اچھے ہوں اور عورتیں عورتوں سے.ہو سکتا ہے کہ وہی ان سے اچھی ہوں.اور ایک دوسرے کی نکتہ چینی اور عیب گیری مت کرو.برے برے اور چھیڑ کے ناموں سے مت پکارو.مومن ہونے کے بعد یہ نا پاک نام بہت ہی بری بات ہے.(نورالدین طبع سوم صفحہ 19) اور اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے.جس سے تم ہنسی کرتے ہو اور جسے تم مسخرہ بناتے ہو.شاید تم سے اچھا ہو اور نہ عورتیں نہی کریں عورتوں سے.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس سے ایک عورت تمسخر کرتی ہے دوسری سے اچھی ہو اور اپنوں کو طعن مت دیا کرو اور کسی کی نسبت برا لقب مت بولو.ایسی کرتوتوں سے برے لقب دینے والا اللہ تعالیٰ کے یہاں سے فاسق و بدکار ہونے کا لقب پاتا ہے اور مومن کہلا کر فاسق بننا برا ہے جو لوگ برے کاموں سے باز نہ آئے وہی بد کار ہیں.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ 273) مومن ہونے کے بعد فاسق نام رکھا نا بہت ہی بری بات ہے.یہ تمسخر کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ بدظنی سے.اسی لئے فرماتا ہے اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنَ الظَّنِ بدگمانیوں سے بچو.حدیث میں بھی آیا ہے.اِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ اكذَابُ الْحَدِيثِ - اس بدظنی سے بڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے میں نے ایک کتاب منگوائی.وہ بہت بے نظیر تھی.میں نے مجلس میں اس کی خوب تعریف کی کچھ دنوں بعد وہ کتاب گم ہو گئی.مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا مگر یہ خیال ضرور آیا.کسی
37 نے چرالی.ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اُٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچ کتاب پڑی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی تھی اور وہ پیچھے جا پڑی.اس وقت مجھے دو معرفت کے نکتے کھلے.ایک تو مجھے ملامت ہوئی کہ میں نے دوسرے پر بدگمانی کیوں کی.دوم میں نے صدمہ کیوں اُٹھایا.خدا کی کتاب اس سے بھی زیادہ عزیز اور عمدہ میرے پاس موجود تھی.اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کل آٹھ نہیں ہونگی.ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا ایک عورت اجنبی ہمارے گھر میں تھی.اسے اس کام کا بہت شوق تھا اس نے اس کے دیکھنے میں بہت دلچسپی لی تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہوگئی مجھے اس کے گم ہونے کا کوئی صدمہ تو نہ تھا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی نہ میرے بچوں کے سر پر.مگر میرے عکس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کو پسند آ گئی ہوگی.مدت ہوئی اس عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو جھاڑنے کے لئے کھولا گیا تو اس کی تہہ سے نکل آئی.دیکھو بدظن کیسا خطرناک ہے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو سکھاتا ہے جیسا کہ اس نے محض اپنے فضل سے میری راہنمائی کی اور لوگوں سے بھی ایسے معاملات ہوتے ہونگے.مگر تم نصیحت نہیں پکڑتے.اس بدظنی کی جڑ سے ” کریڈ“ خواہ مخواہ کسی کے حالات کی جستجو اور تاڑ بازی.اسی لئے فرمایا وَلا تَجَسَّسُوا اور پھر جس سے غیبت کا مرض پیدا ہوتا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت کو مار رہے تھے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا زَنَيْتِ سَرَقتِ تو نے زنا کیا تو نے چوری کی.ایک سننے والی پر اس کا اثر ہوا اور اس نے دعا کی کہ الہی میری اولا د ایسی نہ ہو.گود میں لڑکا بول اُٹھا.الہی مجھے ایسا ہی بنائیو کیونکہ اس عورت پر بدظنی کی جارہی ہے.اس واقعہ میں بہت اچھی چیز ہے.اس طرح ایک
38 اور ذکر ہے.ماں نے دعا کی الہی میرا بچہ ایسا ہی ہو.مگر بچے نے کہا کہ الہی میں نہ بنوں.غرض کسی کو کسی کے حالات کی کیا خبر ہو سکتی ہے ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ممکن ہے ایک شخص ایسا نہ ہو جیسا اسے سمجھا جاتا ہے.لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہو خدا کے نزدیک مقرب ہو.پھر فرمایا :- وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ آیت میں آیا ہے.یہاں عور تیں بیٹھی ہوئی نہیں مگر آدمی کا نفس بھی مونث ہے ہر ایک اس کو مراد رکھ سکتا ہے.دوم اپنے اپنے گھروں میں یہ بات پہنچا دو کہ کوئی عورت دوسری عورت کی تحقیر نہ کرے اور اس سے ٹھٹھا نہ کرے.تم ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نام نہ رکھو.تم کسی کا برا نام رکھو گے تو تمہارا نام اس سے پہلے فاسق ہو چکا.پھر بعض جڑیں ایک ایک میل تک لمبی چلی گئی ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو اور بدی کو اس کی ابتداء میں چھوڑ دو.( حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 2-3-4، بدر 18 فروری 1909ء صفحہ 2) غیبت کی تشریح: پھر آپ غیبت کی ممانعت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبد بنانا چاہا ہے.تمام وہ اعضاء جو شریعت کے مطابق رکھے ہیں.ان کو فرمانبرداری سکھائی ہے.مثلاً اس کے متعلق حکم جاری کیا کہ لغومت بکو.اب ہم کو واجب ہے کہ دیکھیں بولنا مفید ہے یا نہیں.فرمایا بولومگر جھوٹ نہ بولو لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (آل عمران :62) جھوٹ نہ بولیں تو پھر کیا کریں.سچ بولیں مگر پھر یہاں بھی اپنی معبودیت کا رنگ جمایا ہے اور کہا کہ دیکھو کہ بیچ میں سے بھی ایک سی منع ہے وہ کیا؟
39 صحابہ نے پوچھا کہ کسی میں وہ عیب واقعی ہو تو اس کا تذکرہ تو برا نہ ہوگا.نبی کریم نے فرمایا یہی تو غیبت ہے اگر وہ عیب واقعی نہیں تو اس کا نام بہتان ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جابجا اپنی عبودیت سکھائی ہے.پھر سچ ہو غیبت نہ ہو تو اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ مجاز بولومگر ایک دو مجاز بھی اجازت نہیں.مثلاً أَنْبَتَ الربيع الْبَقَلَ (بہار نے سبزی اُگائی ) بول سکتے ہیں مگر مُطِرُنَا بِنَوْءٍ كَذَا بولنا منع ہے.حالانکہ یہ صحیح ہے کہ جب برج آبی میں چاند چلا جاتا ہے تو بارش ہوتی ہے مگر حکم الہی آگیا کہ ایسا کہنا چھوڑ دو تو چھوڑنا پڑا اسی طرح جانوروں کے کھانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ہرنی بھی بے شک بکری ہے اور نیل گائے بھی گائے ہے.حالت احرام میں شکار نہ کر و وجہ سمجھ نہ آئے تو عام مومن یہی سمجھ لیں.اِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے.(ضمیمه اخبارالبدر قادیان 5 /اگست 1909 ، حقائق الفرقان جلد 2 صفحہ 73-74) پھر ایک بار ماہِ رمضان میں درس کے دوران حضرت خلیفتہ اسیح الاول نے فرمایا:- روزے کی حالت میں غیبت کرنے والا گو یا مردہ بھائی کے گوشت کے کباب کھا رہا ہوتا ہے.سورۃ الحجرات آیت 13 کی تشریح فرماتے ہوئے حضرت خلیفہ اسی الاول نے وضاحت فرمائی.تجسس نہ کرو تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے.جب انسان کسی کی نسبت سوء ظن کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب مل جائیں تو پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا ہے اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کا کیا جواب دوں گا اپنی بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتا ہے اور پھر تجس سے غیبت
40 پیدا ہوتی ہے.جیسے فرمایا اللہ کریم نے وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً غرض خوب یاد رکھو سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے اور چونکہ آج کل رمضان ہے (ماہ اکتوبر 1907ء کا یہ واقعہ ہے درس کے دوران ) فرمایا کہ تم لوگوں میں بہتوں کے روزے ہوں گے اس لئے یہ بات میں نے روزہ پر بیان کی ہے کہ ایک شخص روزہ بھی رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے اور تجسس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتا ہے.تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے جیسے فرمایا:- أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً؟ فَكَرِهْتُمُوهُ اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزہ کیا رکھتا ہے وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے.اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بد آدمی ہوتا ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتا ہے مگر یہ کباب ہر ایک آدمی دیکھ نہیں سکتا.ایک صوفی نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی تب اس سے قے کرائی گئی تو اندر سے بوٹیاں نکلیں جن سے بو بھی آتی تھی.یا درکھو! یہ کہانیاں نہیں یہ واقعات ہیں جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے نہیں مرتے.اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور درد دل سے کہتا ہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو جو دوسروں پر نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں اللہ کریم انہیں پسند نہیں کرتا.بدصحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جاؤ.ظن کے قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جاؤ.کیونکہ اس سے تجسس پیدا ہو گا.تجسس سے غیبت تک پہنچ جاؤ گے.یہ ایک بڑی بد اخلاقی ہے اور مردار کھانے کی مانند ہے.(الحام 31 اکتوبر 1907 ، صفحہ 8-9، حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 6-7)
41 حضرت الیت است انشای اللہ تعالی سے راضی ہو ) کے ارشادات خدا تعالیٰ کا بندہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام پر چلے: خدا کا بندہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے احکام پر چلے.خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں سب تعلقات بیچ سمجھو.ہمارے پیشوا خاتم الانبیاء کا اسوہ حسنہ اختیار کرو.ایماندار ہو صلى الله تو رسول کریم کو مقدم سمجھو خدا کے بعد رسول کریم اس سے بڑھ کر کسی کو درجہ نہ دو قرآن کریم پڑھو ترجمہ پڑھو.اس پر عمل کرو.نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج خانہ کعبہ،صدقہ و خیرات ہر ایک مومن مرد اور عورت پر فرض ہیں یہ خدا تعالیٰ کے احکام ہیں ان کے علاوہ بھی احکام ہیں جو بندوں کے بندوں سے متعلق ہیں.ایک دوسرے سے خوش خلقی سے پیش آؤ کسی کی غیبت نہ کرو.چغلی نہ کرو.کسی کے مال میں خیانت نہ کرو.کسی سے بغض اور کینہ نہ رکھو.عورتوں میں چغلی اور غیبت کی مرض بہت پائی جاتی ہے.اگر کسی کے متعلق کوئی بات سن لیں تو جب تک دوسری کے سامنے بیان نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا جو بات سنتی ہیں جھٹ دوسری جگہ بیان کر دیتی ہیں.حالانکہ چاہئے یہ کہ اگر کوئی کسی بہن یا بھائی کا نقص اور عیب بیان کرے تو اُسے منع کر دیا جائے.لیکن ایسا نہیں کیا جا تا تو چغلی کرنا بہت بڑا عیب ہے
42 اور اتنا بڑا عیب ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے بعض لوگ اسی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے.ایک دفعہ رسول کریم علی کہیں جا رہے تھے.کہ راستہ میں دو قبریں آئیں.آپ وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ان قبروں کے مردے ایسے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں پڑے ہوئے ہیں کہ جن سے بآسانی بچ سکتے تھے لیکن بچے نہیں.ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہیں بچاتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا.تو چغلی بہت بڑا عیب ہے.اس میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہئے اگر تمہارے سامنے کوئی کسی کے متعلق برا کلمہ کہے تو اُسے روک دو اور کہہ دو ہمیں نہ سناؤ بلکہ جس کا عیب ہے اُس کو جا کر سناؤ پھر اگر کوئی بات سن لو جس کے متعلق ہو اُس کو جا کر نہ سناؤ تا کہ فسادنہ ہو.اسی طرح کسی کی غیبت بھی نہیں کرنی چاہئے.کیا اپنے نقص کم ہوتے ہیں کہ دوسروں کے نقص بیان کرنے شروع کر دیئے جاتے ہیں.تمہیں چاہئے کہ دوسروں کے عیب نکالنے کی بجائے اپنے عیب نکالو تا کہ تمہیں کچھ فائدہ بھی ہو.دوسروں کے عیب نکالنے سے سوائے گناہ کے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں :- اوڑھنی والیوں کے پھول صفحہ 44) میں تحریک جدید کے تمام کارکنوں اور خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نوجوانوں میں ان باتوں کو پیدا کرنے کی کوششیں کریں.سپرنٹنڈنٹ کو چاہئے کہ وہ بچوں کے کانوں میں یہ باتیں بار بار ڈالیں اور ماں باپ کو چاہئے کہ اپنی اولا د کو ان باتوں پر پختگی کے ساتھ قائم کریں اور کوشش کریں کہ ان میں جھوٹ کی عادت نہ ہو.غیبت کی عادت نہ ہو.چغل خوری کی عادت نہ ہو.ظلم کی عادت نہ ہو.دھوکہ اور فریب کی عادت نہ ہو.غرض جس قد را خلاق ہیں وہ اُن میں پیدا ہو جائیں اور جس
43 قدر بدیاں ہیں وہ ان سے بچ جائیں تا کہ قوم کا ایک مفید جسم بن سکیں.(مشعل راہ جلد چہارم) ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے.تو یہ بہت ضروری چیز ہے.اس کے لئے چنا چاہئے.ہمارے کسی کام کا یہ نتیجہ نہ ہو کہ خدا ناراض ہو جائے یا کسی انسان کو تکلیف پہنچے آج کل عورتوں میں یہ بات زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ دوسری کو تکلیف پہنچا کر خود کچھ حاصل کر لینا اچھا بجھتی ہیں پھر عورتیں ایک دوسرے کو طعنے دیتی ہیں.جنسی کرتی رہتی ہیں.اور عیب نکالتی ہیں اور آخر کار لڑائی شروع ہو جاتی ہے.یہ سب با تیں تقویٰ کے خلاف ہیں اس قسم کے عیب عورتوں میں بہت ہیں.ہر ایک ایسا کام جس سے خدا تعالیٰ ناراض ہو یا اُس کی مخلوق کیلئے دُکھ اور تکلیف کا باعث ہو اُس سے بچنا چاہئے.( الفضل 27 /اکتوبر 1917، اوڑھنی والیوں کے پھول صفحہ 30) عیب کا عادی عیب کو عیب نہیں سمجھتا : جب انسان کو کسی عیب کی عادت ہو جاتی ہے پھر وہ اس عیب کو عیب نہیں سمجھتا اور اگر سمجھتا ہے تو کرتے وقت اُسے محسوس نہیں کرتا ایسے لوگوں کو اگر سمجھایا جائے تو انکار کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو ایسا فعل نہیں کیا مجھے اس کا بہت تجربہ ہے کیونکہ ہر روز لوگوں سے معاملہ کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا کہ بہت لوگ ہیں ہمیشہ عیب چینی کرتے ہیں.مگر وہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں.ہماری عادت نہیں کہ کسی کی عیب چینی کریں.مگر یہ بات یوں ہے اور غالبا اگر وہ دن میں ہزار باتیں بھی دوسروں کی غیبت اور عیب چینی کی کریں تو ہر باروہ ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ ہماری یہ عادت نہیں ہے کہ کسی کی عیب چینی کریں.حالانکہ سو میں سے پچاس باتیں اُن کی عیب چینی کی
44 ہوتی ہیں.مگر وہ عیب چینی کرتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے کہ ہم عیب چینی کر رہے ہیں اگر بچپن سے ہی اُن کی اصلاح کی جاتی اور نگرانی کی جاتی تو ان کی یہ حالت نہ ہوتی اگر کوئی قوم اعلیٰ اخلاق اور پسندیدہ اعمال میں ترقی کر سکتی ہے تو اس کیلئے بہترین ذریعہ یہی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرے مگر اپنی نسل کی اصلاح اور اس کے اخلاق کی خاص نگرانی کرے.اوڑھنی والیوں کے پھول صفحہ 157) غیبت کیا ہے؟ لوگ سچائی کو نہیں جانتے کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے وہ صرف سچ کا لفظ جان لینا کافی سمجھتے ہیں اسی طرح وہ نہیں جانتے محنت کتنی ضروری چیز ہے.بلکہ صرف محنت کے لفظ کو رٹ لینا اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے کافی سمجھتے ہیں.اسی طرح لوگ جھوٹ سے بچنے کے الفاظ تو سنتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے اسی طرح انہوں نے بنی نوع انسان کی محبت اور خیر خواہی کے الفاظ سنے ہوتے ہیں مگر جانتے نہیں.محبت اور خیر خواہی کیا ہوتی ہے.اسی طرح انہوں نے غیبت کا لفظ سنا ہوا ہوتا ہے یہ نہیں کہ ہماری شریعت میں اس کا حل موجود نہیں.حل موجود ہے.قرآن کریم نے ان امور کی وضاحت کر دی ہے احادیث میں رسول کریم ﷺ نے تمام باتوں کو کھول کر بیان کر دیا ہے مگر لوگ ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا غیبت نہیں کرنی چاہئے.اس پر ایک شخص نے کہا.یا رسول اللہ ! اگر میں اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کروں جو اس میں فی الواقعہ موجود ہے تو آیا یہ بھی غیبت ہے.رسول کریم نے فرمایا غیبت اسی کا تو نام ہے کہ تم اپنے بھائی کا اس کی عدم موجودگی میں ایسا عیب بیان کرو جو فی الواقعہ اس میں
45 پایا جاتا ہے اور اگر تم کوئی ایسی بات کہو جو اس میں نہ پائی جاتی ہوتو یہ غیبت نہیں بہتان ہو گا.اب دیکھو رسول کریم ﷺ نے اس مسئلہ کوحل کر دیا اور بتا دیا کہ غیبت اس بات کا نام نہیں کہ تم کسی کا وہ عیب بیان کرو.جو اس میں پایا ہی نہ جاتا ہو.اگر تم ایسا کرو صلى الله گے تو تم مفتری ہو.تم جھوٹے ہو.تم کذاب ہو.مگر تم غیبت کرنے والے نہیں.غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا کوئی سچا عیب اس کی عدم موجودگی میں بیان کرو یہ بھی منع ہے اور اسلام نے اس سے سختی سے روکا ہے مگر باوجود اس کے کہ محمد نے اس بات کو ساڑھے تیرہ سو سال سے حل کر دیا ہے اور قرآن میں اس کا ذکر موجود ہے.اگر اب بھی کوئی غیبت کر رہا ہو اور اسے کہا جائے کہ تم غیبت کر رہے ہو تو وہ جھٹ کہہ دے گا کہ میں غیبت تو نہیں کر رہا.میں تو بالکل سچا واقعہ بیان کر رہا ہوں.حالانکہ ساڑھے تیرہ سو سال گزرے رسول کریم ﷺ یہ فیصلہ سنا چکے اور علی الاعلان اس کا اظہار فرما چکے مگر اب بھی اگر کسی کو روکوتو وہ کہہ دے گا یہ غیبت نہیں یہ تو بالکل سچی بات ہے.حالانکہ کسی کا اس کی عدم موجودگی میں سچا عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے اور اگر وہ جھوٹ ہے تو تم غیبت کرنے والی / والے نہیں.بلکہ مفتری اور کذاب ہو یہ چیزیں ہیں جن کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے مگر بوجہ اس کے کہ بار باران کے الفاظ کانوں میں پڑتے رہتے ہیں لوگ حقیقت معلوم کرنے کی جستجو نہیں کرتے.پس ان باتوں پر بار بار زور دو اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ جب تک یہ جسم مکمل نہیں ہوگا اس وقت تک مذہب کی روح بھی قائم نہیں رہ سکتی.گویا ایمان ایک روح ہے اور اخلاق فاضلہ اس روح کا جسم ہیں.( خطبه جمعه فرموده 28 فروری 1941 مطبوعہ الفضل 14 / مارچ 1941ء) مشعل راه جلد اول مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان صفحہ 270-271)
46 445 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رسالہ نالی کے ارشادات دوا ہم نعمتیں زندگی اور وقت : حضرت خلیفة المسیح الثالث نے فرمایا :- انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو بڑی نعمتیں عطاء کی ہیں ان میں دو اہم نعمتیں زندگی اور وقت کی نعمتیں ہیں.دنیا میں ہزاروں قسم کے ایسے کیڑے ہیں جو چند منٹ کے لئے زندہ ہوتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں اگر انسان کی زندگی بھی چند لمحات چند دقائق ندگھنٹوں پر مشتمل ہوتی تو اسے اعمال صالحہ بجالا کر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے حاصل یا چند کرنے کا وقت کہاں تھا.سورۃ عصر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَالْعَصْرِةٌ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍةٌ الا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُو الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَا صَوْا بِالصَّبْرِةُ یعنی بہت افسوس ہے کہ انسان گھاٹے میں پڑ جاتا ہے حالانکہ ہم نے اس کے لئے نفع اٹھانے کے ہزاروں سامان پیدا کئے تھے.اس کو لمبی عمر عطا کی تھی جس میں وہ ہماری طرف جھک کر اور متوجہ ہو کر اپنی جھولی ہمارے خزانوں سے بھر سکتا تھا
47 لیکن اس نے قدر نہ کی اور اس کو ضائع کر دیا جو ہم نے اسے عطا کیا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ انسان گھاٹے میں نہیں پڑتا جو اپنے وقت کا صحیح استعمال کرتا ہے اور اپنی عمر کی ہر گھڑی میں اعمال صالحہ بجالاتا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالحہ کیا.اور صداقت کے اصول پر قائم رہے.اور صبر سے کام لینے کی وہ ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہے.صبر کے معنی استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ نیکی پر قائم ہو جانا یعنی وہ لوگ خود نیکیوں پر قائم رہے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہے.ایسے بہت سے نواہی میں سے جن کے کرنے سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں روکا ہے اور جو ہمارے اوقات عزیز پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور انہیں ضائع کر دیتے ہیں.فرمایا :- عورتوں کا میدان عمل ان کا گھر ہے جہاں وہ اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں.عبادات بجالاتی ہیں اور اپنے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے محنت کر رہی ہوتی ہیں اور خیال رکھتی ہیں یا کم سے کم انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے خاوند ، باپ، بھائی، بیٹے اور دوسرے عزیز اور رشتہ دار جو اس گھر میں رہتے ہیں گھر سے نکل کر دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں.غرض عورت کا میدان عمل اُس کا گھر ہے اور گھر میں بہت سے وقت ضائع کرنے والے بھی آجاتے ہیں اور وہ شرم کے مارے انہیں کچھ نہیں کہہ سکتی.جو چیز ہمارے اوقات پر ڈاکہ ڈالتی ہے وہ جس کی عادت ہے: بعض مرد اور عورتیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی عیب گیری کے لئے مواد کی تلاش اور اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ دوسرے کا کوئی نقص ان کے علم میں آجائے.ایک عورت دوسری عورت کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے کہ بہن فلاں گل سُنی اے.
48 تینوں پتہ اے کیہ ہو یا اے.بھلا اس بات سے کیا غرض کہ کیا بات تھی یا کیا ہوا اسے دوسروں کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہئے.اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے لا تَجَسَّسُوا کہ جس سے کام نہ لیا کرو.اور دوسروں کے عیوب کی ٹوہ میں نہ رہا کرو.حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اگر ہم فرشتوں کو جو آسمانی مخلوق ہیں زمین کی سطح پر عبادت بجالانے اور نیک عمل کرنے کا حکم ہوتا تو ہم تین نیکیاں ضرور کرتے جو اللہ کی نگاہ میں بہت پسندیدہ ہیں ایک ہم مسلمانوں کو پانی پلاتے.دوسرے ہم عیال دارلوگوں کی مدد کرتے.تیسری بات جو جبرائیل نے کہی اور میرے مضمون کے ساتھ اسی کا تعلق ہے کہ اگر ہم فرشتوں کو زمین پر عبادت اور نیک اعمال بجالانے کی اجازت ہوتی تو ہم مسلمانوں کے گناہوں اور ان کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کرتے.غرض ہمیں یہ حکم ہے کہ اگر ہمیں کسی کے گناہ کا علم بھی ہو جائے تو اُسے چھپائیں.ظاہر نہ کریں نہ یہ کہ دوسروں کے عیوب کی تلاش کرنے میں اپنے اوقات ضائع کریں.نے فرمایا:- اس مسئلہ کے متعلق نبی کریم بڑا سخت ارشاد ہے.آنحضرت ﷺ کہ دیکھو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم مسلمانوں کو تکلیف نہ دوان پر عیب نہ لگاؤ اور نہ ان کی کمزوریوں کے پیچھے لگے رہو.کیونکہ جوشخص بھی تم میں سے مسلمانوں کی کمزوریوں کی تلاش میں لگے گا اور ان عیوب کی ٹوہ میں لگے گا.اللہ تعالیٰ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا اور اس کو شرمندہ اور بد نام کرے گا خواہ اس نے یہ عیب اپنے گھر میں چھپ کر کیا ہو.پس اگر ہم میں سے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ستاری کا پردہ اس کے اوپر پڑار ہے اور اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو خدا تعالیٰ ظاہر نہ
49 ہونے دے اور مغفرت کی چادر کے نیچے اسے ڈھانپ لے تو ہم ایسا کرنے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں.کہ خدا تعالیٰ سے تو یہ کہیں کہ اے خدا! ہماری مغفرت فرما ہمارے عیوب کو چھپا اور انہیں ظاہر نہ کر اور خود سارے محلہ اور شہر میں جا کر دوسروں کے عیوب کی تلاش میں لگے رہیں.خدا تعالیٰ تو اس صورت میں ہمیں یہ کہے گا کہ جو چیز تم اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لئے پسند نہیں کرتے وہ میرے پاس مانگنے کیوں آگئے ہو.بعض لوگ اپنی مجالس میں نیکی کی باتیں کرنے کی بجائے غیبت شروع کر دیتے ہیں.غیبت کے معنی ہیں کہ انسان ایک دوسرے کے عیوب کا اس طرح ذکر کرے کہ اس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو مثلاً اگر کسی شخص میں کوئی کمزوری پائی جاتی ہے اور وہ دوسرا آدمی علیحدگی میں اس سے کہتا ہے بھائی تم میں مجھے فلاں کمزوری نظر آتی ہے اور اگر یہ بات درست ہے تو تم اپنی اصلاح کر لو تو یہ بھی اس کمزوری کا ذکر ہے.لیکن اس میں ایک دینی فائدہ بھی ہے یعنی ایک بھائی کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اس میں اس کی بدنامی بھی نہیں.لیکن اگر کسی شخص کے عیب کا مجالس میں ذکر کر کے اُسے بدنام کیا جائے جس میں کوئی دینی فائدہ نہیں تو اسے غیبت کہتے ہیں اور اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- لا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا (الحجرات:13) یعنی تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کیا کریں.عورتوں کو خصوصا اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں حکم دیا ہے کہ وہ ایسے نا پسندیدہ امور سے پر ہیز کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- فَالصَّالِحَاتُ قَنِتُتُ حَافِظَاتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ (النساء:35) یعنی نیک عورتیں فرمانبردار اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے پوشیدہ امور کی محافظ ہوتی
50 ہیں.حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ کے متعدد معنی ہیں.میں ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.لیکن ان میں سے ایک معنی کی طرف بہنوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہیں کہ حَافِظَاتُ لِلْغَيْبِ میں اللہ تعالیٰ نے مومنات کی ایک خصوصیت نمایاں کر کے بیان فرمائی ہے اور وہ یہ کہ مومنات غیبو بت کی حالت میں یعنی اس حالت میں کہ ان کی دوسری بہنیں کسی مجلس میں موجود نہ ہوں ان کی بعض کمزوریوں، خطاؤں، غفلتوں، کوتاہیوں اور عیوب کی حفاظت کرتی ہیں اور اس بات کا پورا خیال رکھتی ہیں کہ ان کے منہ سے اپنی کسی دوسری بہن کے متعلق کوئی ایسی بات نہ نکل جائے.جو اسے بد نام کرنے والی ہو.بِمَا حَفِظَ اللہ میں یہ فرمایا کہ دعائیں مانگنے اور نیک اعمال بجالانے والی مومنہ عورت کو خدا تعالیٰ کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور دوسرے ان الفاظ میں اس طرف بھی ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر تم حافظات تلغیب ہوگی تو اللہ تعالیٰ تمہاری بھی حفاظت کرے گا اگر تم اپنی دوسری بہنوں کے عیوب کی ستاری کرنے والی ہوگی تو اللہ تعالیٰ تمہارے عیوب کی ستاری کرے گا اگر تم دوسری بہنوں کی عزت کی حفاظت کرنے والی ہو گی تو اللہ تعالیٰ تمہاری عزت کی حفاظت کرے گا.اگر تم دوسری بہنوں کی اچھی باتیں بیان کر کے ایک نیک فضا پیدا کرنے والی ہوگی تو اللہ تعالیٰ تمہاری بہنوں کو القا کرے گا کہ وہ تمہارے متعلق اچھی باتیں کریں ایک نیک فضا اپنے ماحول میں پیدا کریں.(فرموده 20 دسمبر 1965ء بر موقع جلسہ سالانہ ، کتاب المصابیح صفحه 5 تا11) زبان، اوامر و نواہی : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سے اعضاء دیئے ہیں.آنکھ دی ہے جس سے ہم رنگوں اور شکلوں کو دیکھتے ہیں.کان دیئے ہیں جن سے ہم صوتی لہروں کو سنتے ہیں.ناک دی ہے جس سے ہم خوشبو اور بد بو سونگھتے اور حظ اُٹھاتے اور تکلیف محسوس کرتے
51 ہیں.ہاتھ دیئے ہیں جن سے پکڑنے کا کام لیتے ہیں اور زبان دی ہے جس سے ہم چکھتے اور بولتے ہیں وغیرہ وغیرہ.ان سب اعضاء میں زبان کو ایک خاص اور بڑا اہم مقام حاصل ہے اس لئے کہ ہم اس سے صرف چکھتے ہی نہیں بلکہ بولتے اور بیان بھی کرتے ہیں.آنکھیں صوتی لہروں کو سُن نہیں سکتیں.کان خوبرو اور بدر و میں امتیاز نہیں کر سکتے.یہی حال دوسرے اعضاء کا ہے جن کا عمل ایک محدود دائرہ میں بند ہے.زبان کا حال اس سے مختلف ہے ہمارا ہر عضو جو اپنے محسوسات کو ہمارے دماغ تک پہنچاتا ہے اور خود ہمارا دماغ جوان محسوسات کو سمجھتا، ان پر غور و فکر کرتا اور نتائج اخذ کرتا ہے وہ ان نتائج کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے زبان یا بیان کا محتاج ہے اور قوت بیان ہی ہے جو انسان چرند پرند اور دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے.آؤ اب ہم دیکھیں کہ ہمارے ہادی و مطاع محمد رسول اللہ ﷺ نے زبان کی استواری اور صحیح استعمال کے لئے ہمیں کیا ہدایات فرمائی ہیں.ہم پر اس بارہ میں کون سی پابندیاں عائد کی ہیں اور اس کے صحیح استعمال کیلئے کون سے راستے آپ نے ہم پر کھولے ہیں.ہماری زبان پر ہمارے خدا اور ہمارے نبی نے جو پابندیاں عائد کی اُن میں سے 20 نواہی پیش کرتا ہوں.نواہی: (1) جھوٹ مت بولو.(2) جھوٹے وعدے نہ کرو.(3) غیبت کی باتیں نہ کرو.(4) تہمت کے بول نہ بولو.(5) چغلی نہ کھاؤ.(6) دورخی باتیں نہ کرو.(7) خوشامدانہ باتیں نہ کرو.(8) لایعنی باتیں نہ کرو.(9) فضول
52 باتوں سے پر ہیز کرو.(10) گناہ کی باتیں نہ کرو.(11) خود رائی اور خود نمائی کے لئے دوسروں پر نکتہ چینی نہ کرو.(12) جھگڑالو نہ بنو.(13) تصنع اور بناوٹ سے باتیں نہ کرو.(14) فحش کلامی، بدزبانی اور گالی گلوچ سے پر ہیز کرو.(15) کسی پر لعنت مت بھیجو.(16) افشائے راز نہ کرو.(17) تمسخرو استہزا کی باتیں نہ کرو.(18) ہنسی ٹھٹھے کی باتوں ہی میں زندگی گزار دینے کو اپنا مقصد نہ بناؤ.(19) شعر و شاعری بری نہیں بشرطیکہ زبان کی حدود کو نہ پھلانگیں.(20) کسی کے لئے یہ زیب نہیں کہ اپنے علم وفہم سے بالا تر بحثوں میں اُلجھے.اوامر : (1) خدا تعالیٰ کے ذکر سے اپنے اوقات کو معمور رکھو.(2) قرآن پڑھو.(3) پیارے نبی پر ہمیشہ درود بھیجتے رہو.(4) نماز پڑھو.(5) ہمیشہ سچ بولواور سیدھی بات کرو.(6) دعائیں کرو.(7) استغفار کرتے رہو.(8) میٹھے بول بولو.(9) نیکیوں کی تلقین کرتے رہو.(10) بدیوں سے رکنے کی تلقین کرتے رہو.(11) وعدے کرو سچے وعدے کرو.(12) کچی شہادت دو.فرمایا:- غیبت کی باتیں نہ کرو.تمہاری فطرت صحیحہ اسے پسند نہیں کرتی کہ کسی شخص کی پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی باتیں کرو خواہ کچی ہی کیوں نہ ہوں.جنہیں وہ پسند نہیں کرتا.بدیوں سے رُکنے کی تلقین کرتے رہو.غیبت سے ریا سے تنگدلی سے بخل سے فخر و مباہات سے کبر و غرور سے بچنے کی تلقین کرتے رہو.تمہاری زبان گند، عفونت، اور بدی کو دور کرنے والی مٹانے والی ہو.بدی پھیلانے والی نہ ہو.تمہارے منہ سے وہ پھول جھڑیں جن کی مہک سے زمین و آسمان کی فضا معطر ہو جائے.
53 انسانیت کو تم پر فخر ہو اور نبی تم پر ناز ہو.افشائے راز کرنے سے دوستوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں: افشائے راز کرنے سے دوستوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں یہ بھی یا درکھو کہ راز صرف وہی نہیں جسے بیان کرنے والا راز کہے بلکہ ہر وہ بات جو تم سے کہی گئی ہے کسی کا راز ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص تم میں سے کوئی بات کہہ کر چلا جاتا ہے تو اس کی بات تمہارے پاس بطور امانت رہ جاتی ہے پس امانت میں خیانت نہ کرو یہ ایک کمپنی اور تکلیف دہ حرکت اور عادت ہے.الفضل 18-20 / دسمبر 11،1960/جون 2001ء) غیبت تعلیم میں مانع: غیبت کا اثر صرف انسان پر ہی نہیں بلکہ انسان کی جسمانی زندگی پر بھی پڑتا ہے اور اگر یہ عادت طالب علموں میں پیدا ہو جائے تو وہ دو گھنٹے پڑھنے کی بجائے یہ وقت ایک دوسرے کی غیبت کرنے گزار دیتے ہیں اور اس طرح ان کا وقت ضائع ہوتا ہے.تعلیم میں حرج ہوتا ہے دنیاوی زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے.اس لئے اپنی ذات پر ظلم نہ کرو جتنی باتوں سے ہمیں روکا گیا ہے ان کا اثر پڑھائی پر بھی لازماً پڑتا ہے.مثلاً ایک بدظنی ہی کو لے لیجئے اس کا بھی پڑھائی پر برابر اثر پڑتا ہے مثلاً ایک طالب علم اپنے دماغ میں یہ سوچتا ہے کہ یہ بات میرے خلاف فلاں طالب علم نے کہی ہوگی چنانچہ اس کے نتیجے میں اس کا دماغ کھولتا رہتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں بھی اس سے بدلہ لے کر چھوڑوں گا پس اس غصے کی وجہ سے اس کا قیمتی وقت ضائع ہوتا رہتا ہے اس طرح بدظنی کا عام دنیوی زندگی پر بھی بہت بُرا اثر پڑتا ہے.“ ( مشعل راه جلد دوم صفحه 154)
54 حضرت خلیفہ سیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اے ایمان والو! اندازے لگانے سے اجتناب کرو : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- اے ایمان والو! اندازے لگانے سے اجتناب کیا کرو.اور بہت زیادہ عادت جو ہے تخمینوں کی کہ یہ ہوا ہوگا اور یہ ہوا ہوگا.یہ ایک ایسی مہلک عادت ہے کہ ان اندازوں میں سے یقیناً بعض گناہ ہوتے ہیں.پس تم ایک ایسے میدان میں پھرتے ہو جس میں خطر ناک گڑھے ہیں یا جنگل کے درندے ہیں تم سمجھتے ہو کہ تم دیکھ بھال کر قدم اُٹھا رہے ہو مگر جو ایسے خطرے مول لیتا ہے.یقیناً اس کا پاؤں کہیں نہ کہیں رپٹ جاتا ہے غلطی سے کسی گڑھے میں پڑ جاتا ہے یا کسی درندے کے چھپنے کی جگہ کے قریب سے گزرتا ہے اور اسے حملے کی دعوت دیتا ہے تو مراد یہی ہے کہ ہر طن گناہ نہیں ہے.یہ درست ہے بعض ظن جو درست ہوں حقیقت پر مبنی ہوں وہ خدا کے نزدیک گناہ نہیں لیکن ظن کرنے کی عادت خطر ناک ہے اور اس کے نتیجہ میں ہرگز بعید نہیں کہ تم سے بڑے گناہ سرزد ہوں.دوسری بات یہ فرمائی کہ تجسس بھی نہ کیا کرو.ظن کا جو تعلق ہے.وہ تجسس سے بہت گہرا ہے.جب انسان کو یہ شوق ہو کہ کسی کی کوئی کمزوری معلوم کرے تو اس وقت جوطن ہیں وہ زیادہ گناہ کے قریب ہوتے ہیں کیونکہ انسان اپنے بھائی یا بہن
55 میں بدی ڈھونڈ رہا ہوتا ہے.اور تجسس کی عادت اگر ظن کی عادت کے ساتھ مل جائے تو بہت بڑا احتمال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ شخص گنہگار ہوگا.پس اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا اور کوئی تم میں سے کسی دوسرے شخص کی غیو بیت میں غیبت نہ کرے.یعنی اس کی غیوبیت میں اس کی عدم موجودگی میں اس پر تبصرے نہ کیا کرے.نیت کرنے والے میں تجسس کا مادہ ہوتا ہے: تجس کا مطلب ہے کہ اسے شوق ہے کچھ معلوم کرنے کا.اسی لئے بلا وجہ ظن نہیں کر رہا یونہی اتفاقاظن نہیں کر رہا بلکہ اس کا ظن کسی خاص مقصد کی تلاش میں ہے اور ایسے موقع پر وہ نتیجہ نکالنا جو غلط ہے اور محض اپنے تجسس کے شوق میں اس نے نکالا ہے یہ ایک طبعی بات ہے ایسا احتمال بہت بڑھ جاتا ہے تیسری صورت میں اگر تجسس کرتا ہے تو کیوں کرتا ہے.بنیادی طور پر اس کو اپنے بھائی یا بہن سے کوئی دبی ہوئی مخفی نفرت ہوتی ہے.وہ پسند نہیں ہوتا اور غیبت اسی کی کی جاتی ہے جو پسند نہ ہو کبھی آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ ماں باپ بیٹھ کر بچوں کی غیبت کر رہے ہوں یا بچے بیٹھ کر ماں باپ کی غیبت کر رہے ہیں.اگر ایسا ہو تو بنیادی طور پر ان تعلقات کے نظام میں کوئی ایسا رخنہ ہے جسے پاگل پن کہا جاسکتا ہے.مگر غیبت اور کسی شخص سے پرخاش رکھنا کوئی اس کے متعلق حسد کا پیدا ہونا، اس قسم کے محرکات ہیں جو تجسس کی عادت پہلے ڈالتے ہیں اور پھر تجسس، جب ان کے سامنے کوئی تصورات پیش کرتا ہے حقائق نہیں بلکہ وہ ظن جو ان کی عادت میں داخل ہے.تجسس کے نتیجے میں یہ اندازے لگاتا ہے کہ ہم یہاں تک تو پہنچ گئے ہیں اندر کمرے میں جا کر تو نہیں دیکھا مگر صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ ہوا ہوگا اور چونکہ بدنیتی سے ہی اس سفر کا آغاز ہے اس لئے جو بھی ماحصل
56 ہے وہ یقینی ہو یا غیر یقینی ہو وہ اسے آگے مجالس میں بیان کر کے اس کے چسکے لیتے ہیں.یہ پورا نفسیاتی سفر ہے جو غیبت کرنے والا اختیار کرتا ہے جس کو قرآن کریم نے سلسلہ بہ سلسلہ اسی طرح بیان فرمایا ہے.جس طرح انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے لیکن غیبت کی صرف یہ وجہ نہیں ہے.یہ مراد نہیں کہ اس کے سوا اور کوئی غیبت نہیں ہے.غیبت بغیر تجسس کے بھی پیدا ہوتی ہے.غیبت ایک شخص کی بدی کو جو کھل کر سامنے آئی ہے اور تجس کے نتیجہ میں نہیں اس کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اس میں دُور کرنے کی بجائے ان لوگوں کو پہچان کر جو اس کو سن کر اس شخص سے اور دور ہٹ جائیں گے اور اس کی اس شخص سے دشمنی میں اس کے طرفدار ہو جائیں گے.یہ نیت بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ حقائق پر مبنی غیبتیں بھی کی جاتی ہیں اور ہر نیت کا ٹیڑھا ہونا لازم ہے ورنہ گناہ نہیں.برائی کی نیت غیبت کا لازمی حصہ ہے: اس نیت سے خواہ برائی کی تلاش کی جائے یا برائی اتفاقاً نظر آ جائے اور پھر اس نیت سے ان باتوں کو دوسروں کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے.اس پر بیان کرنے والے کو ایک قسم کی فوقیت مل جائے کہ دیکھو میں بلند ہوں اس بات سے اور نیت یہ ہو کہ دیکھو یہ آدمی کیسا ذلیل ہے اور گھٹیا ہے اور اس کے ساتھ اس بات کا خوف بھی دامن گیر ہو کہ یہ بات اس شخص تک نہ پہنچ جائے یہ خوف دامنگیر ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ چھپ کر حملہ کرنا چاہتا ہے.وہ جب موجود نہیں پیچھے سے حملہ کرنا چاہتا ہے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سکے اگر یہ نیت ہو تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی مثال دیتے ہوئے قرآن کریم بیان فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّن
57 اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِ هَتُمُوهُ ، وَاتَّقُوالله.إنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ط ط ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہوظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقینا اللہ تو بہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.(الحجرات:13) کیا ہم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تم تو کراہت کرنے لگے ہو.دیکھو دیکھو تم یہ بات سنتے ہی سخت کراہت محسوس کرتے ہو.اب کیسی کراہت جبکہ عملاً اپنی زندگی میں ہم نے یہی وطیرہ اختیار کر رکھا ہے جب اپنے بھائی اپنی بہن یعنی مومنوں کے تعلقات کی بات ہو رہی ہے سگے بھائی یا بہن کی بات نہیں ان کے خلاف جب تم باتیں کرتے ہو تو مر دے کا گوشت کھانے والی بات ہے لیکن کراہت کے ساتھ نہیں چسکے لے لے کر.مثال تو ایک ہی ہے.ایک جگہ تم چسکے لیتے ایک جگہ تم کراہت محسوس کرتے ہو.یہ تمہاری زندگی کا تضاد ہے جو درست نہیں.حالانکہ دونوں کو ایک ہی پیمانے سے جانچنا چاہئے.اس نصیحت اور مثال کے بعد پھر بھی انسان غیبت کے مزے اُٹھاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ روحانی لحاظ سے بعض باتوں کی کراہت کو جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ مثال سنتا ہے ایمان لے آتا ہے.اللہ نے فرمایا ٹھیک ہی ہوگا لیکن جہاں تک وہ سوچتا ہے میری ذات کا تعلق ہے مجھے تو مزہ آ رہا ہے.مجھے بھائی کے گوشت
58 والی کراہت ذرا اس میں محسوس نہیں ہو رہی.جس کا مطلب ہے اس کا تناظر بدل گیا ہے وہ جس پہلو اور جس زاویے سے چیزوں کو دیکھ رہا ہے وہ خدا کا پہلو نہیں خدا کا زاویہ نہیں ہے.غیبت جھوٹی بات کو نہیں کہتے : دو طرح سے غیبت کا احتمال ہے.ایک بد نیتی کے ساتھ حملہ کرنے کی خاطر جھوٹی بات کرنا.ایک سچی بات کو بدنیتی سے دشمنی کے نتیجہ میں پھیلانا.جو جھوٹی بات ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک ظن ہے.ظن کے پردے میں شک کا فائدہ اپنے لئے اُٹھاتے ہوئے کہ شائد سچ ہو اس لئے میں جھوٹ نہیں بول رہا یہ حصہ ہے جو زیادہ غیبت سے تعلق رکھتا ہے جو واضح جھوٹ بولا جا رہا ہے.اس کو غیبت نہیں کہتے اس کا کچھ اور نام ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں.یہ روایت مسلم کتاب البر میں درج ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا.اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا اپنے بھائی کا اس کے پیچھے اس رنگ میں ذکر کرنا جسے وہ پسند نہیں کرتا.عرض کیا گیا اگر وہ بات جو کہی گئی ہے وہ سچ ہو اور میرے بھائی میں موجود ہو تب بھی یہ غیبت ہوگی.آپ نے فرمایا اگر وہ عیب اس میں پایا جاتا ہے جس کا تو نے اس کی پیٹھ پیچھے ذکر کیا ہے تو یہ غیبت ہے اور اگر وہ بات جو تو نے کہی ہے وہ اس میں پائی نہیں جاتی تو یہ بہتان ہے.جو اس سے بھی بڑا گناہ ہے.بہتان تراشی ایک معصوم پر تو ایسا سخت گناہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کی بہت سخت سزا بیان فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے.تو دونوں صورتوں میں جواز کوئی نہیں رہتا اور سچ ہے تو غیبت ہے اگر جھوٹ
59 ہے تو بہتان.جو اس سے بھی زیادہ بڑا گند ہے.اگر سچ ہے تو غیبت ہے ان معنوں میں کہ بھائی مر چکا ہے اور مرے ہوئے بھائی کو ڈیفنس کا موقع نہیں دیا گیا اس کی عدم موجودگی میں اس پر حملہ کیا گیا.گویا اس کا گوشت کھایا گیا اور اس کے مزے اُڑائے گئے اور بہتان کا مطلب ہے کسی کو قتل کر دینا یعنی روحانی دنیا میں بہتان قتل کے مشابہ ہے تو یہ تو قتل کا گناہ ہے.جو مرے ہوئے کا گوشت کھانے سے زیادہ مکروہ تو نہیں مگر زیادہ بڑا ظلم ضرور ہے اور زیادہ قابل مواخذہ ہے.اس کسوٹی پر اپنی اندرونی حالتوں کا جائزہ لیں : جب تک آپ کا ذوق درست نہیں ہوتا اور خدا کی وہ محبت دل میں پیدا نہیں ہوتی اور وہ نظر آپ کو عطاء نہیں ہوتی.جس نظر سے خدا اپنے بندوں کو دیکھتا ہے اس وقت تک آپ کو پتہ ہی نہیں لگے گا کہ آپ غیبت کرتے ہیں تو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں.اور اس سے کراہت کا نہ ہونا آپ کے بگڑے ذوق کی نشانی ہے.پس اتنی کھلی کھلی ایک نشانی آپ کے ہاتھوں میں تھما دی ہے کہ اس کسوٹی پر اپنی اندرونی حالتوں کا جائزہ لینا ایک فرضی بات نہیں رہی.بلکہ ایک یقینی حقیقت بن چکا ہے.پس جس حد تک ہم اس کسوٹی کے ظاہر کردہ نتیجے کی رو سے نا کام ہورہے ہیں.اس حد تک ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے یہ کسوٹی وہ ہے جو جھوٹ نہیں بولتی.کیا غیبت سے آپ کو مزہ آتا ہے؟ پس اپنے ذوق درست کریں تو پھر آپ کو خدا سے محبت ہو گی اپنے ذوق درست کریں پھر آپ کو رسول اللہ سے محبت ہو گی اپنے ذوق درست کریں تب گناہوں سے دوری ہو سکتی ہے اور نیکیوں سے پیار ہوسکتا ہے.ورنہ نہیں ہوسکتا.پس غیبت کے حوالے سے میں اگلا تقاضا آپ سے یہ کر سکتا ہوں کہ اپنے دل کا یہ جائزہ
60 لیں کہ آپ کو غیبت میں کتنا مزہ آ رہا ہے.اگر ایک دم یہ نہیں چھٹتی منہ سے اور رفتہ رفتہ جائزہ لیں تو آپ کے دل میں اس کا ذوق و شوق کم ہوتا چلا جارہا ہے کہ نہیں ؟ اگر کم ہو رہا ہے تو شکر ہے آپ بیچ رہے ہیں.گویا آپ رو بہ صحت ہورہے ہیں.اگر زور لگا کر نصیحت سن کر آپ کہتے ہیں کہ میں نے غیبت نہیں کرنی اور پھر آپ کرتے ہیں اور مزہ اتنا ہی آتا ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کی اصلاح کوئی نہیں ہوئی.زبر دستی تعلق کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے اور جو طبعی رجحانات ہیں ان کے رستے زبر دستی بند نہیں ہوا کرتے کچھ دیر تک ہوں گے پھر کھل جاتے ہیں اور پھر بڑھ کر بعض دفعہ بدیوں کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے اس لئے غیبت کے معاملے کو اہمیت دیں اور اس کو گہرائی سے دیکھیں جس طرح میں نے آپ کے سامنے اس کو کھول کر بیان کرنے کی کوشش کی ہے.اور یقین کریں کہ اگر ہم غیبت سے مبرا ہو جائیں بحیثیت جماعت تو ہمارا نظام بھی محفوظ ہو جائے گا ہمارے معاشرتی تعلقات بھی محفوظ ہو جائیں گے.ہمارے اندر جتنی رخنہ پیدا کرنے والی باتیں ہیں وہ اگر سب دور نہیں ہوتیں تو ان میں غیر معمولی کمی ضرور پیدا ہو جائے گی اور وہ بدنتائج جو روزانہ شادیوں کی ناکامی کی صورت میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں ان پر بھی غیر معمولی مثبت اثر ظاہر ہوگا.مجلس کی امانت کا حق رکھنا : بعض دفعہ غیبت کی بجائے مجلس کی امانت کا حق نہ رکھا تو بھی غیبت بن جاتی ہے.ہم جب آپس میں ملتے ہیں.ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے ہیں تو بعض دفعہ ایک شخص غیبت کی نیت سے نہیں بلکہ حوالوں کی وجہ سے ایک شخص کا ذکر کر دیتا ہے.جسے سب جانتے ہیں اس کی کوئی چھپی ہوئی بدی بیان نہیں کی جاتی جس کا ان کو علم نہ ہو بلکہ کسی گفتگو کے حوالے سے از خود یہ بات جاری ہو جاتی ہے
61 اگر کوئی شخص اس بات کو اُٹھائے اور باہر بیان کر دے تو یہ امانت میں خیانت ہے.کیونکہ یہ امانتیں ہیں اور ان کی بات بغیر اجازت کے بغیر حق کے باہر کرنا ایک گناہ ہے اور یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے لیکن میں اصول بتا دیتا ہوں کہ کہاں امانت ہے کہاں ایک ایسی نصیحت ہے جس کا بنی نوع انسان کی بہتری سے تعلق ہے.بھلائی سے تعلق ہے.ایسی بات ہے جسے سن کر ایمان تازہ ہوتا ہے تو یہ وہ امانت نہیں ہے جس کو آپ پوچھے بغیر آگے بیان نہیں کر سکتے اس کے متعلق فرمایا کہ جو حاضر شاہد ہے وہ غائب کو یہ باتیں بیان کرے کیونکہ اچھی باتیں ہیں اور ان کے نتیجے میں خیر پھیلتی ہے.مگر اگر اس مجلس میں کسی ایک شخص کا ذکر آیا ہے اور اس کو اگر دوسروں میں بیان کیا جائے تو اس شخص کے خلاف دلوں میں نفرت پھیلے گی تو اس کو دوسروں میں بیان کرنا بھی نا جائز ہے اس تک بات پہنچانا بھی ناجائز.اگر کسی مقصد مجبوری سے بات کرنی ہو تو لازم ہے کہ اس سے اجازت لی جائے جس نے مجلس میں یہ بات بیان کی تھی.اگر ہم پوری طرح اس اصول پر کاربند ہو جائیں تو غیبت کے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں.خطبہ جمعہ 18 نومبر 1994ء، الفضل 13 دسمبر 1994 ،15/ مارچ 2001ء) / غیبت، چغل خوری، بدظنی اور مخش کلامی سے بچنے کی پر زور تلقین : حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے جلسہ سالانہ برطانیہ 31 جولائی 1991ء کے موقع پر خواتین سے خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا :- آنحضرت ﷺ کے ارشادات بہت مختصر مگر بہت گہرے ہوتے ہیں ان میں عرفان کا سمندر موجود ہوتا ہے یہ آنحضرت کی شان ہے.حضرت ابو ہریرہ کی روایت کردہ حدیث بیان فرمائی کہ انسان اگر بے خیالی
62 میں بھی کوئی ایسی بات کرے جو اللہ کو پسند آجائے تو اللہ اس کے درجات بے حد بلند کر دیتا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا بے خیالی کی بات میں بھی نفسیات کا گہرا دخل ہوتا ہے.دل میں اچھی بات ہوگی تو باہر آئے گی دوسری طرف یہ بھی بات ہے کہ بعض اوقات انسان لا پرواہی سے بھی بری بات کر بیٹھتا ہے دل میں ارادہ نہیں ہوتا ایسی باتوں سے بچنا چاہئے.ایک اور حدیث کے حوالے سے حضور نے نجات کے تین ذرائع بیان فرمائے اور فرمایا اپنی زبان کو روک کر رکھو.وہی بات کہو جو واقعی سچی ہو تیرا گھر تیرے لئے کافی ہے.وضاحت کرتے ہوئے فرمایا جن کو گھروں میں سکون ملتا ہے ان کے لئے ان کا گھر ہی کافی ہوتا ہے اس لئے بتایا کہ وہیں پر تمہاری اولاد کے.لئے نجات کے سامان ہوں گے پھر فرمایا کہ اپنی خطاؤں پر آنسو بہاتے رہو.ایک اور حدیث میں ذکر ہے کہ بدترین آدمی وہ ہے جو دو منہ رکھتا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ ایک سے بات کرنے کے لئے ایک منہ ہو اور دوسرے سے بات کرنے کے لئے دوسرا منہ.ایک سے کچھ کہے دوسرے سے کچھ اور.تو وہ بڑا منافق ہو گا.حضرت صاحب نے فرمایا یہ بڑی بیماری ہے اس سے بچنے کے لئے اپنا جائزہ لیتے رہیں.صلى الله حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا تم میں سے بعض بظاہر مومن ہیں مگر ایمان کے اندر راسخ نہیں.ان کو متنبہ کرو کہ کسی کو تکلیف نہ دیں.جو عیب کی جستجو میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیوب دوسروں پر کھول دیتا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا جب دوسروں کے عیوب بیان کرو تو یاد رکھو تمہارے اندر بھی عیب ہیں جو خدا کی ستاری کے پردے میں ہیں وہ عیوب جو پہلے دکھائی نہیں دیتے تھے وہ لوگوں کو دکھائی دینے لگ جائیں گے.حضرت صاحب نے فرمایا.ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا
63 دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آ جاتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی بھول جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی برائی تمہیں اپنے بھائی کی دکھائی دے رہی ہے اس سے زیادہ برائی تمہارے اندر ہے.اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو.کھوج لگاؤ تو ویسی ہی برائی یا اس سے بھی بڑی برائی تمہارے اندر موجود ہوگی.بہادرشاہ ظفر کا یہ شعر پڑھا.نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پہ نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے منظوم کلام سے ایک شعر پڑھا.بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر کسی کی غیبت نہ کر واخلاق حسنہ سیکھو : ہے حضور نے فرمایا غیبت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے بارے میں سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں بیان کرنا کہ اگر اس کی موجودگی میں بیان کرے تو اس کو برا لگے.غیبت کا مطلب جھوٹی بات کو بیان کرنا نہیں بلکہ سچی بات کو بیان کرنا ہے جو بری لگے وہ غیبت ہے.فرمایا کہ اگر ایک شخص میں وہ بات نہیں جو بیان کی گئی ہے تو پھر تو وہ بہتان ہے.غیبت ہے ہی نہیں.جھوٹی بات سے دو گناہ ہوں گے ایک جھوٹ اور ایک غیبت فرمایا:- بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو کہ سب ایک ہی چشمے سے پانی پیتے ہو.بھائیوں کے لفظ میں خواتین بھی شریک ہیں.نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو.خدا کے فضل اسی راہ سے آتے ہیں.آنحضرت کی سچی اور کامل اتباع کریں قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بنالیں اس طریق پر عمل کریں گے تو اگر ساری دنیا بھی مل کر آپ کو ہلاک کرنا چاہے تو نہیں کر سکے
64 گی.اگر خدا ہمارے ساتھ ہے تو کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.حضرت بانی سلسلہ کا ایک فقرہ ہے کہ پلید دل سے پلید باتیں نکلتی ہیں اور پاک دل سے 66 پاک باتیں نکلتی ہیں.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.“ آپ احمدیت کے درخت کے پھل ہیں خدا کرے آپ سے احمدیت اس طرح پہچانی جائے جس طرح درخت پھل سے.اس میں آپ کی سچائی کا گہرا دخل ہے.اگر پھل میٹھا ہوگا تو پتہ لگے گا کہ درخت بھی میٹھا ہے.واقعتا احمدیت کا درخت ہی وہ درخت ہے جس سے میٹھے پھل لگتے ہیں.خدا کرے یہ باتیں آپ کے دل میں اُتر جائیں.یہ آنحضرت کی باتیں ہیں اور حضرت مسیح موعود کی باتیں ہیں جو آنحضرت کے فیض سے نکلتی ہیں.حضور نے قرآنی آیت کے حوالے سے فرمایا :- يَا أَيَّتُهَا انَّفُسُ الْمُطْمَئِنَّه اس میں ذکر ہے کہ اے لوگو! میرے عباد میں داخل ہو جاؤ.حضور نے فرمایا عورتوں کے لئے ایک بات بتاتا ہوں کہ روح کی کوئی جنس نہیں تا ہم اللہ نے روح کا ذکر تانیث کے طور پر کیا ہے.اے نفس مطمئنہ کا ذکرتا نیث کے طور پر عورت کے طور پر بیان کیا گیا ہے.مرد عورت کی تفریق تو دنیا میں ہے آخرت میں کوئی تفریق نہیں جنت کی نعمتیں اور ہیں جو سب کو ہی حاصل ہوں گی.غیبت کرنے والا بھائی کا گوشت کھانے والا : حضور نے ایک اہم نصیحت یہ فرمائی کہ غیبت سے بچو قرآن کریم میں غیبت
65 کرنے والے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے والا قرار دیا گیا ہے.لوگوں کو غیبت کی محفل میں بڑا لطف آتا ہے.وہ جو موجود نہیں وہ مردہ بھائی ہے اور مردہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا.اسی طرح عورتوں میں شیخی بگھارنے کی عادت عموماً زیادہ ہوتی ہے.مردوں میں بھی ہوتی ہے.مگر عورتوں میں مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے.قومیت پر فخر کرنا بھی عورتوں میں زیادہ ہے.یہ کہنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی ہے.ذرا فلانی کو دیکھ کپڑے کیسے پہن رکھے ہیں.آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام دے دینا یہ عورتوں کا ہی کام ہے.آنکھوں ہی سے بتا دینا کہ دیکھنا کپڑوں کے رنگوں کا امتزاج کیسا بھونڈا ہے.یہ عورتوں ہی کی خصوصیت ہے.اللہ ان کو اس خصوصیت سے محروم رکھے.حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود نے ان ساری باتوں کو ملفوظات میں بیان فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ عورتوں میں چند عیوب بہت سخت اور کثرت سے ہیں.شیخی کرنا، قوم پر فخر کرنا، فلاں کمینی ذات کی ہے اور فلاں نیچی، غریب عورت سے نفرت کرنے اور اس کی طرف اشارہ کر کے کہنا کہ اس کے کپڑے کیسے غلیظ ہیں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا یہ قرآن کی تعلیم ہرگز نہیں.فرمایا :- صبر اور رحم سے نصیحت کرو.دوسرے کے عیب دیکھ کر ان کو دور کرنے کے لئے دعائیں کرو.دعا میں بڑی تاثیر ہے.عیب کو بیان تو سومرتبہ کرتے ہیں.لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود نے شیخ سعدی کی ایک حکایت بیان کی کہ خدا تو عیبوں کو جان کر بھی پردہ پوشی کرتا ہے.مگر ہمسایہ جانتا بھی نہیں پھر بھی باہر بیٹھا شور مچارہا ہے.کہ اس گھر میں یہ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں
66 صلى جہاں تکرار ہوتی ہے وہاں پر نیا نکتہ ضرور بیان ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں.اللہ کا کسی سے رشتہ ناتہ نہیں اس کو کوئی پرواہ نہیں کہ تم کس خاندان سے ہو.حضرت رسولِ اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ سے فرما دیا تھا کہ یہ نہ سمجھنا کہ تم نبی کی بیٹی ہونے کی وجہ سے بخشی جاؤ گی.میں بھی خدا کے فضل سے ہی بخشا جاؤں گا.حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا.یا رسول اللہ ! آپ بھی ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں میں بھی.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے فرمایا دعا کے ذریعہ بخشش کی کوشش کرتے رہیں خدا کرے کہ خدا کا فضل بغیر دعا بھی آپ پر نازل ہوتا رہے.( خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ 31 / جولائی 1999ء خواتین سے خطاب) ( منقول ماہنامہ مصباح ربوہ ستمبر 1999 ء صفحہ 6-11) اُردو کلاس کی باتیں: حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے کلاس نمبر 448 ( ریکارڈ شدہ 23 /جنوری 1999ء) میں ذوالفقار علی کی وضاحت میں فرمایا ذوالفقار علی - علی کی تلوار اس دلیل کے لئے بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے جو بہت کاٹنے والی ہو جس کا کوئی جواب نہ ہو.حضرت سعدی کہتے ہیں جس طرح حضرت علی کی تلوار میان میں ہے اسی طرح میری زبان میرے منہ میں بند ہے جب کھولوں گا پھر اس کے جو ہر کھلیں گے.جب تک منہ میں بند بیٹھی ہوئی ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا بند ہے.تلوار بھی جب میان سے نکلے اور چمکے تو اس وقت پتا چلتا ہے کہ یہ کیا بلا ہے کیا چیز ہے.کتنی کاٹنے کی طاقت رکھتی ہے.اے سعدی! میری زبان بھی منہ میں بند پڑی ہے.جب بولوں گا تو لوگوں
67 کو پتہ چلے گا کہ یہ کیا چیز ہے.پھر اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کچھ تو بولو.اگر دروازہ بند ہو تو کسی کو کیا پتہ ہے کہ اندر ہیروں کی دکان ہے یا کوئلوں کی یا گند بلا بھرا پڑا ہے جب منہ کا دروازہ کھلے گا پھر پتہ چلے گا جب تک منہ میں بند رہے.انسان کا کچھ پتہ نہیں چلتا.جب بولے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا تھا.صحبت صالح کے بارے میں سعدی حکایت بیان کرتے ہیں.کہ حمام میں ایک میرے محبوب دوست نے مجھے ایک خوشبودار مٹی دی جس میں سے بہت خوشبو آ رہی تھی.اور میری روح اندر تک تازہ ہوگئی.میں نے اس مٹی سے کہا تیری خوشبو نے مجھے مست کر دیا.ہوش جاتا رہا.یہ تو بتاؤ تم مشک ہو یا عنبر ہو کیا ہو؟ اے مٹی ! تم اتنی خوشبو دار ہو.تمہاری خوشبو آئی کہاں سے ہے؟ مٹی بولی میں تو نا چیز ہوں مگر کچھ عرصہ گلاب کی صحبت میں رہی ہوں.پھولوں کے نیچے رہی ہوں.ان پھولوں کی خوشبو مجھ سے آرہی ہے.کتنی حکمت کی بات ہے.کتنی گہری عقل کی بات ہے.اچھے لوگوں کے ساتھ بیٹھو گے تو اچھے بنو گے.
68 بدظنی پچس اور غیبت کی عادات چھوڑ نے کے بارے میں سیدنا حضرت خلیفہ ایسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر و العزیز کا پُر معارف خطاب يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّن إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِ هَتُمُوهُ وَاتَّقُواللَّهَ.إنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ط ترجمہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہوظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر و یقیناً اللہ تو بہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.(الحجرات : 13) بدھنی سے بجس اور جس سے غیبت کی عادت پیدا ہوتی ہے: اس میں تین باتوں کا ذکر ہے لیکن اصل میں تو پہلی دو باتوں کی مناہی کی گئی
69 ہے.تیسری برائی یعنی غیبت میں ہی دونوں آ جاتی ہیں.کیونکہ ظن ہوتا ہے تو تجسس ہوتا ہے.اس کے بعد غیبت ہوتی ہے تو اس آیت میں یہ فرمایا کہ غیبت جو یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے اب دیکھیں ظالم سے ظالم شخص بھی، سخت دل سے سخت دل شخص بھی کبھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے.اس تصور سے ہی اُبکائی آنے لگتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے.ایک حدیث ہے.قیس روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے چند رفقاء کے ساتھ چلے جارہے تھے آپ کا ایک مردہ خچر کے پاس سے گذر ہوا جس کا پیٹ پھول چکا تھا.مرے ہونے کی وجہ سے پیٹ پھول جاتا ہے.کافی دیر سے پڑا تھا.آپ نے کہا بخدا تم میں سے اگر کوئی یہ مردار پیٹ بھر کر کھالے تو یہ بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کا گوشت کھائے یعنی غیبت کرے یا چغلی کرے.الادب المفرد للبخاری، باب الغیبة وقول اللہ تعالیٰ ولا يغتب بعضكم بعضا) تو بعض طبائع ہوتی ہیں.اس طرح مرے ہوئے جانور کو، جس کا پیٹ پھول چکا ہو، اس میں سے بد بوسخت آ رہی ہو، تعفن پیدا ہورہا ہو، اس کو بعض طبیعتیں دیکھ بھی نہیں سکتیں ، کجا یہ کہ اس کا گوشت کھایا جائے.لیکن ایسی ہی بظاہر حساس طبیعتیں جو مردہ جانور کو تو دیکھ نہیں سکتیں.اس کی بدبو بھی برداشت نہیں کرسکتیں، قریب سے گذر بھی نہیں سکتیں.لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر غیبت اور چغلیاں اس طرح کر رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں تو یہ بڑے خوف کا مقام ہے.ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے اور استغفار کرو: ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے.اب یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے، کہ فرمایا اگر اس قسم کی باتیں پہلے کر بھی چکے ہو تو استغفار کرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اپنے رویے درست کرو، میں یقیناً یقیناً بہت رحم 6
70 کرنے والا ، تو بہ قبول کرنے والا ہوں.مجھ سے بخشش مانگو تو میں رحم کرتے ہوئے تمہاری طرف متوجہ ہوں گا.بعض لوگ غیبت اور چغلی کی گہرائی کا علم نہیں رکھتے.ان کو سمجھ نہیں آتی کہ کیا بات چغلی ہے، غیبت ہے.بعض اوقات سمجھ نہیں رہے ہوتے کہ یہ چغلی ہے کہ نہیں.بعض دفعہ باتوں کو مذاق سمجھا جارہا ہوتا ہے لیکن وہ چغلی اور غیبت کے زمرے میں آتی ہے.اس لئے اس کو میں تھوڑی سی وضاحت سے کھولتا ہوں.علامہ آلوى ولا يغتب بعضكم بعضا کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:- اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے افراد سے ایسی بات نہ کرے جو وہ اپنے بارے میں اپنی غیر موجودگی میں کئے جانے کو نا پسند کرتا ہے...اور جو چیز وہ نا پسند کرے اس سے مراد عمومی طور پر یہ ہوگی کہ وہ باتیں اس کے دین کے بارے میں یا اس کی دنیا کے بارے میں کی جائیں، اس کی دنیاوی حالت کے بارے میں کی جائیں.اس کے مال یعنی امیری غریبی کے بارے میں کی جائیں.یا اس کی شکل وصورت کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے اخلاق کے بارے میں کی جائیں ، یا اس کی اولاد کے بارے میں کی جائیں، یا اس کی بیوی کے بارے میں کی جائیں، یا اس کے غلاموں اور خادموں کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کے لباس کے بارہ میں اور 66 اس کے متعلقات کے بارہ میں ہوں.“ (روح المعانی) جو بات اپنے لئے پسند نہ ہو وہ اپنے بھائی کیلئے بھی پسند نہ کریں: پھر حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا یہ ساری باتیں
71 ایسی ہیں کہ اگر کسی کے پیچھے کی جائیں تو وہ ناپسند کرتا ہے اب دیکھ لیں کہ اکثر ایسی مجلسوں کا محور یہی باتیں ہوتی ہیں.دوسرے کے بارہ میں تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن اپنے بارہ میں کی جائیں تو نا پسند کرتے ہیں اور پھر جب باتیں ہو رہی ہوتی ہیں.تو ایسے بے لاگ تبصرے ہو رہے ہوتے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر ان کے بارہ میں یہ پتہ لگ جائیں کہ فلاں فلاں مجلس میں اُن کے بارہ میں بھی ایسی باتیں ہوئی ہیں تو برا لگتا ہے، برداشت نہیں کر سکتے ، فوراً مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.اس لئے جو باتیں وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، وہ اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کریں.جن باتوں کا ذکر اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے کہ مجلسوں میں ہوں، اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کریں کہ اس کا ذکر بھی اس طرح مجلسوں میں نہ ہو.عارضی مزے کے لئے اپنی جنت کو ضائع مت کریں: فرمایا اب بعض لوگ اس لئے تجسس کر رہے ہوتے ہیں.مثلاً عمومی زندگی میں مزے لیتے ہیں.دفتروں میں کام کرنے والے ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارہ میں ، یا دوسری کام کی جگہ کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے، اپنے ساتھیوں کے بارہ میں کہ اس کی کوئی کمزوری نظر آئے اور اس کمزوری کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں.تا کہ ہم خود افسروں کی نظر میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں.ان کے منظور نظر ہو جائیں.یا بعضوں کو یونہی بلا وجہ عادت ہوتی ہے.کسی سے بلا وجہ کا بیر ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں تو یا درکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہوگا ، ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے.تو کون عقلمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لئے، دنیاوی چیز کے لئے ، ذراسی باتوں کا مزہ لینے کے لئے ،
72 اپنی جنت کو ضائع کرتا پھرے.چغلی سے اجتناب کیلئے ذیلی تنظیموں کوٹھوس لائحہ عمل کی تجویز: حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ملفوظات جلد 8 صفحہ 441 (جدید ایڈیشن) کے حوالے سے کہ غیبت کا مرض عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے فرمایا:- یہ تو اس زمانے کی عورتوں کا حال تھا.حضرت مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو کر بہت بڑی تعداد عورتوں کی اس بیماری سے پاک ہوگئی ہے اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرتی ہیں اور بعض تو دین کی خدمت کے معاملے میں اور اس جذبے میں مردوں سے بھی آگے ہیں.لیکن ابھی بھی بعض دیہاتوں میں بعض شہروں میں بھی جہاں عورتیں نہ دین کی خدمت کر رہی ہیں نہ کوئی اور ان کو کام ہے.اس غیبت کی بیماری میں مبتلا ہیں.اسی طرح مردوں کی بھی شکایات آتی ہیں.مجلسوں میں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے مرد کے بیوی بچے بے چارے کما کر گھر کا خرچ چلا رہے ہوتے ہیں.اور ایسے لوگوں کو شرم بھی نہیں آ رہی ہوتی.بہر حال یہ بیماری چاہے عورتوں میں ہو یا مردوں میں اس سے بچنا چاہئے.نظام جماعت کو بھی چاہئے ، خدام، لجنہ وغیرہ کو اس بارہ میں فعال ہونا چاہئے کیونکہ یہ بیماری دیہاتی ، ان پڑھ اور فارغ عورتوں میں زیادہ ہے اس لئے لجنہ کو خاص طور پر دنیا میں ہر جگہ مؤثر لائحہ عمل اس کے لئے تجویز کرنا چاہئے.پھر ان باتوں کے علاوہ جن کی نشاندہی حضرت مسیح موعود نے فرمائی ہے.یہ بھی بیماری پیدا ہو گئی ہے کہ فارغ وقت میں اسی طرح لوگوں کے گھروں میں بے وقت چلی جاتی ہیں اور اگر کسی غریب نے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم
73 رکھا ہوا ہے اس طرح اندر گھستی ہیں گھروں میں کہ اُن کے کچن تک میں چلی جاتی ہیں.کھانوں کی ٹوہ لگاتی ہیں کہ کیا پکا ہے کیا نہیں پکا اور پھر بجائے ہمدردی کے یا ان کی مدد کرنے کے یا کم از کم اُن کے لئے دعا کرنے کے مجلسوں میں باتیں کی جاتی ہیں کہ پیسے بچاتی ہے.سالن کی جگہ چٹنی بنائی ہوئی ہے.یا پھر اتنا تھوڑ ا سالن تھا، یا فلاں تھا، یہ تھا، وہ تھا، کنجوس ہے.وہ کنجوس ہے یا جو بھی اپنا گھر چلا رہی ہے جس طرح بھی چلا رہی ہے تمہارا کیا کام ہے کہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اس کے عیب تلاش کرو اور پھر جب ایسے سفید پوش لوگوں کے گھروں میں بچیوں کے رشتے آتے ہیں تو پھر ایسی عورتیں Active ہو جاتی ہیں.بڑی فعال ہو جاتی ہیں اور جہاں سے کسی کا رشتہ یا پیغام آیا ہو وہاں پہنچ جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کے گھر میں تو کچھ بھی نہیں ہے وہاں سے تو تمہیں جہیز بھی نہیں مل سکتا.اس لڑکی میں فلاں نقص ہے تو میں تمہیں بتاتی ہوں.فلاں جگہ ایک اچھا رشتہ ہے.یہاں نہ کرو وہاں کرو.گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے، معمولی ہے، پھر بھی فکر کی بات ہے کیونکہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے اور یہ معاشرہ بہر حال اثر انداز ہوتا ہے.اور یہ باتیں بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے.ایک حدیث ہے جو ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی ہے.حضرت عبدالرحمن بن غم اور حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ یاد آ جائے اور اللہ تعالیٰ کے برے بندے غیبت اور چغلیاں کرتے پھرتے ہیں.دوستوں پیاروں کے درمیان تفریق ڈالتے ہیں.نیک پاک لوگوں کو تکلیف ، مشقت ،فساد، ہلاکت اور گناہ میں ڈالنا چاہتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل- مسند الشامین)
74 اللہ تعالیٰ ہر احمدی مرد اور عورت کو اس سے بچائے.پھر حدیث ہے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ” تم میں سے سب سے زیادہ میرے محبوب وہ ہیں جو بہترین اخلاق کے حامل ہوں، نرم خو ہوں ، وہ لوگوں سے انس رکھتے ہوں اور لوگ ان سے مانوس ہوں اور تم میں سب سے زیادہ مبغوض میرے نزدیک چغل خور، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے گناہ لوگوں پر تہمت لگانے والے ہیں.“ غیبت کرنے والے کی نیکیاں نامہ اعمال سے نکال دی جائیں گی : (ترغیب و ترہیب) دیکھیں غیبت کی وجہ سے وہ تمام نیک کام نماز، روزے، صدقے کسی غریب کی خدمت کرنا سب نیکیاں نامہ اعمال سے مٹادی گئیں.صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کی غیبت کرتا تھا.اس بارہ میں جتنی احادیث پڑھیں ،خوف بڑھتا چلا جاتا ہے اس کا ایک ہی علاج ہے کہ آدمی ہر وقت استغفار کرتا رہے.جس کے پاس چغلی کی جائے اُسے چاہئے کہ وہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے: ”امام غزائی کہتے ہیں (اس کا خلاصہ یہ ہے ) کہ جس کے پاس چغلی کی جائے اُسے چاہئے کہ وہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے اور نہ جس کے بارے میں چغلی
75 کی گئی ہے اس سے بدظن ہو.“ (فتح الباری جلد 10 صفحہ 437) یک طرفہ بات سن کر گہرائی میں جا کر تحقیق ضروری ہے: اب یہ بڑے ہی پتے کی بات ہے جو امام غزائی نے بیان فرمائی ہے اور امیران اور عہدیداران کو خاص طور پر ذہن میں رکھنا چاہئے.کبھی بات یک طرفہ سن کر کسی کے خلاف نہیں ہو جانا چاہئے کسی سے بدظن نہیں ہونا چاہئے اور ہمیشہ تحقیق کرنی چاہئے اور صحیح طریقے پر تحقیق کرنی چاہئے.گہرائی میں جا کر تحقیق کرنی چاہئے.پھر کوئی نتیجہ اخذ کیا جائے اور عموماً یہی ہوتا ہے کہ اکثر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو چغلی کرنے والے ہیں ان لوگوں کی اکثر رپورٹیں ایسی ہوتی ہیں کہ سب کچھ غلط تھا، صرف چغلی کی گئی تھی ، غیبت کی گئی تھی اور مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح اس کو نقصان پہنچایا جائے.پھر یہ بھی ہے کہ آئندہ ایسے شخص سے محتاط رہیں.اس کی گواہی قبول نہ کریں.اس کی رپورٹ پر کان نہ دھر ہیں.غیبت کی ممانعت اور اصلاح معاشرہ: پھر تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ 579 میں سے حضرت مصلح موعود کے حوالے سے فرمایا کہ غیبت کی ممانعت کے متعلق جو حکم دیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ بسا اوقات انسان دوسرے کے متعلق ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اس رائے میں حق بجانب بھی سمجھتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک رائے قائم کی ہے.لیکن در حقیقت اس کی یہ رائے صحیح نہیں ہوتی فرمایا کہ ہم نے بیسیوں دفعہ دیکھا ہے کہ ایک شخص کے متعلق ایک رائے قائم کر لی گئی کہ یہ ایسا ہی ہوگا اور یہ بھی یقین کر لیا جاتا ہے
76 کہ میری رائے بھی درست ہے لیکن ہوتی غلط ہے اور اگر ایسی صورت میں اگر کوئی دوسرا شخص سامنے بیٹھا ہوگا.اگر تو دوسرا شخص جس کے بارے میں رائے قائم کی گئی ہے وہ سامنے بیٹھا ہے اور اس سے پوچھا جائے تو لازماً وہ اپنی بریت ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا اور کہے گا کہ تمہیں میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے.میرے اندر یہ نقص نہیں پایا جاتا.تو آپ فرماتے ہیں کہ خواہ کسی کے نزدیک کوئی بات سچی ہو جب وہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں بیان کرتا ہے اور وہ بات ایسی ہے کہ جس سے اس کے بھائی کی عزت کی تنسیخ ہوتی ہے یا اس کے علم کی تنسیخ ہوتی ہے یا اس کے رتبہ کی تنسیخ ہوتی ہے تو قرآن کریم اور احادیث کی رُو سے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے.کیونکہ اس طرح اس نے اپنے بھائی کو اپنی برآت پیش کرنے کے حق سے محروم کر دیا.سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ اگر صحیح درد ہے معاشرے کا معاشرے کی صحیح اصلاح کرنا چاہتے ہیں.صرف مزے لینے کے لئے اور لوگوں کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے باتیں نہیں کہ ان کو لوگوں کی نظروں سے گراؤں.افسروں کی نظروں سے گراؤں اور اپنی پوزیشن بناؤں تو ایسے لوگ بھی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں کہ ” حضرت ابن عباس نے کہا کہ اگر تو اپنے کسی ساتھی کے عیوب بیان کرنا چاہے تو پہلے ایک نظر اپنے عیوب پر ڈال لے.“ (احیاء علوم الدین جلد 3 صفحہ 177) کسی کے عیب بیان کرنے سے پہلے اپنے عیبوں پر نظر ڈالو: ایک شخص تھا، اس نے کسی دوسرے کو گنہ گار دیکھ کر خوب اس کی نکتہ چینی کی اور کہا کہ دوزخ میں جائے گا.قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیوں؟ تجھ کو میرے اختیارات کس نے دیئے ہیں.“ جنت اور دوزخ میں بھیجنا تو میرا کام
77 ہے.دوزخ اور بہشت میں بھیجنے والا تو میں ہی ہوں.تو کون ہے؟ تو جس نے نکتہ چینی کی تھی اور اپنے آپ کو نیک سمجھا تھا اس شخص کو کہا کہ ” جامیں نے تجھے دوزخ میں ڈالا اور یہ گنہگار بندہ جس کا تو گلہ کیا کرتا تھا.کہ یہ ایسا ہے ویسا ہے اور دوزخ میں جائے گا.اس کو میں نے بہشت میں بھیج دیا.جنت میں بھیج دیا تو فرماتے ہیں کہ ہر ایک انسان کو سمجھنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ میں ہی اُلٹا شکار ہو جاؤں.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحه 10-11 مطبوعہ ربوہ) آج بھی لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا گندہ ہے، گنہ گار ہے، جہنمی ہے، پھر بعض اپنی بزرگی جتانے کے لئے اس قسم کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ پہلے تو گرید گرید کر کسی کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ فلاں نیکی تم نے کی ،نماز پڑھی ، یہ کیا، وہ کیا، نمازوں میں دعائیں کرتے ہو، کس طرح کرتے ہو، رقت طاری ہوتی کہ نہیں، رونا آتا ہے کہ نہیں ، حوالہ دیا کہ جس کو رونا نہیں آیا اس کا دل سخت ہو گیا تو یہ چیزیں پوچھتے ہیں.پہلے گرید گرید کر جو بالکل غلط چیز ہے.یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے، انفرادی طور پر کسی سے پوچھنے کا حق نہیں ہے.عموماً ایک نصیحت کی جاتی ہے جلسوں میں ، خطبوں میں، کہ اس طرح نماز پڑھنی چاہئے.اس طرح نماز ادا کرنی چاہئے اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے.تو ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ گرید گرید کر پوچھے اور پھر جب اس کی حالت کا پتہ کر لے تو یہ کہے کہ تم اتنے دن سے نماز میں روئے نہیں تمہیں رقت طاری نہیں ہوئی تم نے اپنے آپ کو ہلاک کرلیا، یا ہلاکت میں ڈال لیا تو ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود کی یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ خدا کے اختیار ان کو نہیں ہیں.ہو سکتا ہے کہ تمہارے رونے کو خدا تعالیٰ رڈ کر دے اور اس کے نہ رونے کو قبول کرلے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے اور غیبت جو ایسی بیماری
78 ہے جو بعض دفعہ غیر محسوس طریق پر اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اس سے سب کو بچائے.بہر حال جس طرح فرمایا ہے کہ استغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اللہ تعالی ہماری بخشش کے سامان پیدا فرمائے اور ہماری توبہ قبول فرمائے.آمین ( خطبہ جمعہ فرمودہ 26 دسمبر 2003 ء بیت الفتوح لندن ) (روزنامه الفضل 13 را پریل 2004ء) پس تعلیم یہی ہے کہ کسی کی خطا دیکھو تو اگر با اختیار ہو تو عفو سے کام لو اور در گذر کرو اور اگر بے اختیار ہو اور کسی کی خامی دیکھو تو پردہ پوشی اورستاری کا شیوہ اختیار کرو.اسی سے معاشرہ جنت نظیر بنتا ہے.اسی سے رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کی بنیاد پڑتی ہے اور یہی وہ راز ہے جسے پالینے کے نتیجے میں بُنْيَانٌ مَرْصُوصَ قیام پذیر ہوتی ہے.میں صرف یہی عرض کرتی ہوں کہ خدارا اپنی سوچوں کو پانی کے قطروں کی طرح صاف شفاف رکھئے.جس طرح قطروں سے دریا بنتا ہے.اسی طرح سوچوں سے ایمان بنتا ہے.خدا سے قربت چاہتے ہو تو اُس کے بندوں کے قریب ہو جاؤ.ہمارے زندہ رہنے کا فائدہ ہی کیا ہے جب ہم ایک دوسرے کے حالات کی تلخی کم نہ کر سکیں.غیبت اور چغل خوری سے معاشرے میں فساد پیدا ہوتا ہے.تخلیق انسانی خالق کی کاریگری ہے.ہر نفس میں اس نے اپنی صفات رکھی ہیں جو ان صفات کو سنوار نے نکھارنے اور نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنی خوشبو اور نیک تاثیر سے ماحول کو خوشگوار اور معطر رکھتے ہیں.
79 حکایات سعدی غیبت ڈاکہ ڈالنے سے بھی بڑا گناہ ہے: ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ ڈاکہ ڈالنا غیبت کرنے کی نسبت کم درجہ کا گناہ ہے.میں ان کی بات سُن رہا تھا.سمجھا کہ مذاق کر رہے ہیں.لیکن جب انہیں اپنے قول میں سنجیدہ پایا تو پوچھا کہ اے صاحب یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ بھلا ڈاکہ زنی غیبت سے کیسے اچھی ہوگی.انہوں نے کہا بھائی تم جانتے ہوڈا کو بہادری سے آگے آتے ہیں اور للکار کر حملہ کرتے ہیں.ان کی روزی گوحرام سہی لیکن اس کے حصول کے لئے ان کے تیور اور زور بازو کا بڑا دخل ہوتا ہے اس کے برعکس پیٹھ پیچھے برائی کرنے والا بزدل ہوتا ہے وہ اپنا نامہ اعمال تو سیاہ کر لیتا ہے لیکن اسے حاصل کچھ نہیں ہوتا.حکایات سعدی روزنامه افضل 13 جون 1998) دُکھ دینے والے سے لوگ ہمیشہ نفرت کرتے ہیں: بچھو سے لوگوں نے پوچھا تو جاڑے میں باہر کیوں نہیں نکلتا تو اس نے جواب دیا کہ گرمیوں میں میری کون سی عزت ہوتی ہے کہ جاڑے ( سردیوں) میں بھی باہر نکلوں.غیبت کرنے والے بھی بچھو سے کم نہیں اپنی زبانوں کے ڈنک مارتے ہیں غیبت کے مرتکب ہمیشہ قابل نفرت ہوتے ہیں.حکایات سعدی روزنامه افضل 25 /اپریل 1998ء)
80 اعلیٰ اخلاق کے حصول کی دُعا اللَّهُمَّ اهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِى لِاحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّى سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ (ترندي) اے اللہ ! احسن اخلاق کی طرف میری راہنمائی کیجئے.آپ کے سوا احسن اخلاق کوئی عطا نہیں کر سکتا.اور برے اخلاق سے مجھے بچا لیجئے کہ آپ کے سوا اُن سے کوئی نہیں بچا سکتا.آمین یا رب العالمین اے اللہ ! معراج انسانیت معلم اخلاق حضرت محمدمصطفی علو اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں لا تعداد برکتیں نازل فرما! يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثِ ثَانِ
تم کچھ کر بھی بد کو بچو بدگمان سے ڈرتے رہو عقاب خدائے جہان سے شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو شاید وہ آزمائش رب غفور پھر تم تو بدگمانی سے اپنی ہوئے ہلاک ہو خو سر پہ اپنے لے لیا خشم خدائے پاک گر ایسے تم لیریوں میں بے حیا ہوئے پھر اتقا کے سوچو تو معنی ہی کیا ہوئے در متین