Language: UR
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ایک کتاب بنام ’’فتح حق‘‘ شائع کی تھی۔ اس کے مصنف الحاج ممتاز احمد فاروقی ستارہ خدمت تھے۔ اس کتاب میں جماعت احمدیہ کے دونوں فریقوں کے درمیان متنازعہ امور پر زیر بحث لائے گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی ذات پر اسلامی اخلاق کو نظر انداز کرکے انتہائی ناپاک حملے بھی کئے گئے۔ اس کےجواب میں تین صد سے زائد صفحات پر مشتمل قاضی محمدنذیر صاحب فاضل کی اکتوبر 1966ء میں تحریرکردہ کتاب مہتمم نشر و اشاعت اصلاح و ارشادصدر انجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے استقلال پریس لاہور سے شائع کی گئی جس میں نہایت متانت اور سنجیدگی سے مذکورہ بالا کتاب کا جواب دیا گیا تھا۔ یوں نہ صرف مذکورہ بالا کتاب کے مندرجات کا کافی و شافی جواب مہیا ہوگیا بلکہ خلافت احمدیہ کے زیر سایہ عالمگیر ترقیات کی حامل جماعت احمدیہ مسلمہ کے مقابل پر لاہوری گروہ کی علمی اور عملی ناکامی کا نقشہ بھی سامنے آگیا ہے۔ اور لاہوری گروہ کی طرف سے اپنی مسلسل ناکامیوں سے مایوس ہوکر جماعت احمدیہ کو عیسائیوں کے اس غالی فرقہ سے تشبیہ دینے کی مذموم حرکت کا بھی جواب آگیا جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی ناجائز محبت میں بڑھتے بڑھتے خدائی کے درجہ تک پہنچادیا تھا۔
غلبه حق
فهرست مضامین
تعارف پیش لفظ اسراول امر ودهم امر سوهم امر چهارم ایک اہم واقعہ امر اشتم لاہوری افریق کی مایوسی سور ۱۵ IA ۲۱
۲۵ ۳۱ ۳۵ ۴۱ J.باب اول نبوت مسیح موعود اور مولوی محمد علی صاحب کے عقیدہ میں تبدیلی فاروقی صاحب کی دو غلط بیانیاں پہلی بات کے خلاف واقعہ ہونے کا ثبوت مولوی محمد علی صاحب کا عدالتی بیان مولوی محمد علی صاحب کے نزند و یک خاتم النبین کے بچے معنی مولف کی دوسری غلط بیانی مولوی محمد علی صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بعض ادور اختلافات ار ولادت مسیح ۲- آیت و آخرین منہم کی تفسیر ۳- آیت دریاکنا مند بین حتی تنبعث رسولا کی تفسیر لاہوری فریق کی خودسری है ۵۰ ۵۵ ۵۵ ۵۶ باب دوم فتح حق کے متن پر تبصرہ آیت خاتم النبین کی تفسیر فاروقی صاحب کے نزدیک " حضرت مسیح موعود علیہ سلام کے نزدیک
09 ۶۵..ام AY ۹۲ ۹۹ ۱۰۴ 119 2 انقطاع نبوت کے متعلق احادیث کا اجمالی حل " پہلی حدیث، سیکون فی امتی مثلاثون مترا با دوسری حدیث لانبی بعدی تیسری حدیث ، ملی وش الانبیاء من نبوی کیش بل بني بيتاً مسیح موعود کی نبوت کے متعلق پہلی حدیث دوسری حدیث علامہ السیوطی علیہ الرحمہ کا قول من قال سبلاب نبوته نقد کفر امام علی القاری علیہ الرحمتہ کا مذہب شیخ یا الدین ان العرب عبدالرحمہ کا اسی موعود کے متعلق بلاشبہ بی ہونے کا اقرار باب سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام پراپنی نبوت کے متعلق تدریجی انکشاف تعریف نبوت میں ترمیم و تبدیلی محض محدث ہونے سے حضرت مسیح موعود کا انکار ظلی نبوت نبوت ہی ہے تعریف نبوت میں ترمیم کا مزید نبوت غیر مسالعین کے عذیہ کی تردید
نبوت کے متعلق تدریجی انکشاف قابل اعتراض نہیں حقیقی اور مجازی کی تعریف وحی نبوت کی اقسام مسئله کفر و ایمیان باب چهارم پیش گوئی اسائمہ احمد فاروقی صاحب کا بہتان اور اس کا جواب فاروقی صاحب کا آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی صفت احمد سے انکار باب پنجم پیش گوئی مصلح موجود سر موعود کے نو سال میں پیدا ہونے کا وعدہ الہی پیش گوئی میں احضار کا طریق فاروقی صاحب کی تخطر ناک تحریف حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے فوٹوں کا عکس مجد د احمدیت ! 119 ۱۳۳ ۱۴۰ ۱۴۹ 106 14 144 14A 14- 106 حضرت خلیفة المسی ان ان کی بیمار پر فاروقی صاحب کا نگران در دی ۱۹۲ فاروقی صاحب کے بہتانات 1
مباہلہ کا ڈھونگ حضرت خلیفة المسیح الثانی کی دعوت مباہلہ فاروقی صاحب کی غلط بیانی اور ایک غلط فیصلہ کی اشاعت حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض کی الزامات سے الہامی برنیت ۲۰۳ ۲۰۴ فاروقی صاحب کے پیش کردہ الہامات و رویاء کی غلط تشریح کی تردید ۲۱۲ ار الفتنة ههنا ولا تكلنى في الذين ظلموا - أخرج منه اليزيديون ۴.زندگی کے نیشن سے دور جا پڑے ایک خواب فاروقی صاحب کا شرارت آمیز نوٹ ایک الہام کی غلط تشریح محمود بہشت میں حضرت محمومن کے متعلق ایک اور رویار ایک اور خراب ٢١٣ ۲۱۸ ۲۲۳ ۳۳ ۲۳۲ " باب ششم خلافت و انجمن ناروقی صاحب کی خلافت کے متعلق غلط بیانی } ۳۳۴ ۲۳۵
۲۲۲۱ ۲۴۵ ۲۴۷ ۲۵۴ ۲۵۰ الوصیت میں خلافت کا ذکرہ فاروقی صاحب پر محبت ملزمہ فاروقی صاحب کی ایک اور غلط بیانی بیعت خلافت اولیٰ کے الفاظ در خواست بخدمت مولوی نورالدین صاحب فاروقی صاحب کی ایک اور غلطی خلافت اولی کے خلاف بعض لوگوں کی ریشہ دوانیاں) ایک اہم واقعہ کا ذکر حضرت خلیفہ البیع الاول کا ایک پر شوکت اعلان ایک اہم واقعہ باب هفتم سر الخلافة کی عبارتوں کا مفہوم حضرت ابو گیر کے پہلے خطبہ کا مفہوم شیخ مصری کا جماعت سے اخراج ہو ا تھا نام نهاد حقیقت پسند پارٹی طریق انتخاب خلافت ۲۹ حضرت خلیفہ المی الثانی پر تبدیلی عقیدہ کے الزمات کی حقیقت ار ۲۰۶ انکوائری کمیشن میں حضرت المسیح الثانی شما بیان ۲۰۵
كَتَبَ اللَّهُ لَا غلبنَ أَنَا وَرُسُلى غلبه حق مصرف قاضی محمد نذیر لائیلیوی سابق پرنسپل جامعہ احمد یه ربوده مهتم نشر واشاعت نظارت اصلاح وارشاد صد النجمین احمد دید ربوده
تارنا احمد به انجمن اشاعت اسلام لاہور نے پچھلے دنوں ایک کتاب بنام فتح حق شائع کی ہے.اس کتاب کے مؤلف حاجی ممتاز احمد فاروقی ہیں.اس میں جماعت احمدیہ کے دونوں فریقوں کے درمیان منارہ امور بھی زیر بحث لائے گئے ہیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی ذات پر اسلامی اخلاق کو نظر انداز کر کے انتہائی نا پاک حملے کئے گئے ہیں.کتاب غلبہ حق میں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ مذکور کتاب کا جواب دیا گیا ہے ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کتاب کے مطالعہ سے احمدیہ جماعت کے دونوں فریقوں کے باہمی اختلافات کی حقیقت اور پس منظر سمجھنے میں بہت مدد ملے گی.مهنتم نشر واشاعت استقلال پولیس کا ہوں.
بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ احمد به انجمن اشاعت اسلام لاہور نے ایک کتاب بنام فتح حق، مؤلفہ الحاج ممتاز احمد صاحب فاروقی ستاره خدمت ہماری جماعت کے خلاف شائع کی ہے.مؤلف نے اپنی کتاب کا نام فتح حق رکھا ہے.حق کو بیشک فتح ہوتی ہے.مگر حضرت خلیفہ ایسی الثانی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں لاہوری فریق کو جو فتوحات حاصل ہوتی رہی ہیں اُن کی حقیقت امور ذیل پر غور سے واضح ہو جاتی ہے.اهر اول : مولوی محمد علی صاحب چاہتے تھے کہ چھ سال تک حضرت مولوی نور الدین یعنی اللہ عنہ کو خلیفہ ماننے کے بعد اب جماعت میں کوئی خلیفہ منتخب نہیں ہونا چاہیئے چنانچہ انھوں نے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات سے پہلے ایک اشتہار مخفی طور پر تیار کر رکھا تھا.اور ڈاک میں روانہ کرنے کے لیے اس کے پیکٹ بھی بنوا رکھے تھے.اس کا عنوان تھا.ایک نہا بہت ضروری اعلان.اس کا مضمون یہ تھا کہ جماعت میں خلافت کے نظام کی ضرورت نہیں، بلکہ انجمن کا انتظام ہی کافی ہے.البتہ غیر احمدیوں سے بیعت لینے کی غرض سے اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وصیت کے احترام میں کوئی شخص بطور امیر مقرر کیا جا سکتا ہے مگر یہ شخص جماعت یا صدر امین کا مطاع نہیں ہوگا، بلکہ اس کی امارت محدود اور مشروط ہو گی وغیرہ.اس میں افسرادر جماعت کو ابھارا گیا تھا کہ وہ کسی واجب الاطاعت خلافت پر رضا مند نہ ہوں.
حضرت خلیفہ اسی الاول رضی اللہ عنہ کی وفات پر یہ اشتہار فوراً تقسیم کردیا گیا حالانکہ خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ نے آئندہ ہونے والے خلیفہ کے متعلق جو وصیت لکھی تھی وہ آپؐ نے اپنی وفات سے پہلے مولوی محمد علی صاحب سے تین مرتبہ مجالس میں بلند آواز پڑھوائی تھی اور مولوی صاحب سے پوچھا تھا کہ اس میں کوئی بات رہ تو نہیں گئی جس پر مولوی صاحب نے تسلیم کیا تھا کہ یہ بالکل درست ہے.مگر افسوس ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے آنکھیں بند کرنے سے پہلے ہی آپ کی اس وصیت کی مخالفت کا فیصلہ کر لیا.جماعت نے مولوی محمد علی صاحب کے اس اشتہار کو ٹھکرا دیا ، اور سوائے چند آدمیوں کے جو مولوی محمد علی صاحب کے ہم خیال تھے ، قادیان میں موجود تمام جماعت نے تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلی.اور آپ کو خلیفہ اسیح الثانی تسلیم کرلیا.یہ حق کی پہلی فتح تھی.مولوی محمد علی قنا احمدیت میں خلافت کو مٹانے میں سخت ناکام رہے.اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب قادیان سے چلے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام گورا ہوا انى معك ومع اهلك کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.حضرت مسیح موعود کے جس اہل بیت کو یہ لوگ ناتواں اور بچہ سمجھتے تھے خدا تعالے نے اُسے اُن کے مقابلہ میں بڑا بنا دیا.ور به امر دوم : لاہوری فریق نے شروع شروع میں اخبار پیام صلح میں لکھا کہ :- ابھی بمشکل قوم کے بیسویں حصہ نے خلیفہ تسلیم کیا ہے.رپیام صلح و مٹی سارہ عدت کالم سے) اور یہاں تک لکھ دیا کہ افسوس مؤیدین خلافت کی تعداد کہنے کو دوہزار بتائی جاتی ہے لیکن دراصل ایسے مریدین کی تعداد جو موجودہ خلافت کے حالات سے باخبر ہوں،
اس قدر کم ہے جن کی تعداد ہم مومین تو ایک طرف رہے.کے ہندسہ تک بھی نہیں پہنچ سکی.اور وہ بھی اپنے ہی گھر کے آدمی بجز دو چار اصحاب کے " ر پیغام صلح ۱۹ را پریل ۱۹۱۷ء) مگر چند دنوں میں ہی جب باہر کی تمام جماعت ہائے احمدیہ نے بھی ہجرت کرلی تو اخبار عصر جدید نے لکھا :- وہ گروہ جو خواجہ کمال الدین صاحب کے ہم خیال ہو کر دوسرے مسلمانوں سے بظاہر مل کر کام کرنا چاہتا ہے اور جس میں بہت سے احمدی لاہور وغیرہ کے شامل ہیں اُن کو صاحبزادہ بشیر محمود کے فریق نے تقریباً ہر جگہ شکست دے دی ہے.الحواله التحق دہلی ۲۲ مئی ۱۹۱۳ء صد کا علم ) اس انقلاب کے بعد خلافت احمدیہ کا انکار کرنے والے یہ کہنے لگ پڑے ، کہ کثرت کوئی چیز نہیں.رپیغام صلح ۲۴ جنوری ۶۹۴۵) حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی موجود ہے کہ میں تیرے خالص اور دلی محبتوں کا گروہ بھی بڑھا ؤنگا......اور ان میں کثرت بخشوں گا.داشتهار ۲۰ فروری ششمله غرض لاہوری فریق نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ احمدیت میں خلافت ثانیہ نہایت مضبوطی سے قائم ہوگئی ہے اور اب اس کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں.اس لیے انھوں نے لاہور میں اپنی ایک مجلس شور می منعقد کی جس میں یہ فیصلہ کیا کہ ایک دند قادیان بھیجا جائے جو میاں محمود احمد صاحب سے یہ کہے کہ ہم لوگ آپ کو جماعت کا امیر ماننے کے لیے تیار ہیں بشر طیکہ آپ دو شرطیں مان لیں.ایک شرط یہ کہ ٹرائے احمدیوں سے بیعت نہ کی جائے.اور دوسری
شرط یہ کہ انجمن کے اختیارات و فیصلہ جات میں آپ کسی قسم کا دخل نہ دیں.ان لوگوں کا یہ نصلہ قابل قبول نہ تھا ، کیونکہ خلیفہ اول رض سے ان لوگوں نے کوئی ایسی شرطیں نہیں منوائی تھیں.بلکہ ان کو ایسی کسی شرط کے بغیر واجب الاطاعت خلیفتہ آیا تسلیم کیا تھا.یہ فیصلہ اس بات کی روشن دلیل تھا کہ شروع شروع میں مسئلہ نبوت مسیح موعود اور منکرین مسیح موعود کے کفر و اسلام کا مسئلہ ان لوگوں کے نزدیک ایسی اہمیت نہیں رکھتا تھا کہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو امیر جماعت تسلیم کرنے میں ان کے لیے روک ہو.ان کی مجلس شور می میں یہ ریزولیوش پاس ہوئے :- را چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کی رو سے ۴۰ ومنوں کے اتفاق رائے سے بیعت لینے والے بزرگوں کا انتخاب ہو سکتا ہے اور ہماری رائے میں یہ ضرور ی ہے کہ بڑی بڑی جماعتوں میں ایسے بزرگ بہجت لینے کے لیے منتخب کیے جائیں تاکہ سلسلہ ترقی کرے اور آسانی سے لوگ اس میں داخل ہو سکیں.ایسے بزرگ احمد کے نام پر یعنی غیر احمدیوں کو احمد می سلسلہ میں داخل کرنے کے لیے لوگوں سے بیعت لیں گے.(۲) صاحبزادہ صاحب کے انتخاب کو اس حد تک ہم جائز سمجھتے ہیں کہ وہ غیر احمدیوں سے احمد کے نام پر معیت ہیں، یعنی سلسلہ احمدیہ میں ان کو داخل کریں لیکن احمدیوں سے دوبارہ بیعت لینے کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے.اس حیثیت میں ہم انہیں امیر تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں.لیکن اس کے لیے بیعت کی ضرورت نہ ہوگی اور نہ ہی امیر
h اس بات کا مجاز ہوگا کہ جو حقوق و اختیارات صدر انجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیئے ہیں اور اس کو اپنا جانشین قرار دیا ہے اس میں کسی قسم کی دست اندازی کرے.ایک وفد مفصلہ ذیل احباب کا صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر مذکورہ بالا ریزولیوشنوں کو پیش کرے اور ان ریزولیوشنوں سے اتفاق کرنے کی درخواست کرے تا کہ مل کر سلسلہ کی خدمت جاری رہ سکے." اس کے بعد تجویز کردہ ممبران کے نام درج ہیں.ملاحظہ ہو پیغام صلح ۲۴ مارچ ۹ائر زیر عنوان روئیداد طلبہ شور کی صبح کالم اول..چونکہ مولوی محمد علی صاحب اور اُن کے ساتھی بلاکسی شرط کے ۲۷ مٹی شاہ کو حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل کی بیعت کر چکے تھے اور انھیں واجب الاطاعت امام مان چکے تھے ، اس لیے کوئی وجہ نہ تھی کہ خلیفہ ثانی اُن کی اِن شرطوں کو قبول فرما لیتے.اس طرف سے مایوس ہو کر انہوں نے مسئلہ نبوت مسیح موعود اور مسلہ کفر و اسلام کے خلاف ایک خاص محاذ قائم کر لیا اور ان دونوں اموز کو خلافت ثانیہ کے انکار کی وجہ قرار دے دیا.امر سوم : جب لاہوری طریق کے لوگ غور کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ جماعت لاہو ترقی نہیں کر رہی تو بعض اُن میں سے یہ جواب دیتے ہیں کہ اس کی درجہ قادیانیوں کا عقیدہ نبوت مسیح موعود و تکفیر مسلمین ہے.چونکہ ان کا یہ خیال غلط ہے اس لیے اُن کی انجمن کے ایک صدر نے اس کی پر زور تغلیظ فرماتے ہوئے کہا :- یہاں لاہور میں کام شروع کئے بیٹے ہمیں ۳۷ سال گذر
چکے ہیں اور ہم اس چار دیواری سے باہر نہیں نکلے.بخشی ہوتی ہیں کہ ہماری ترقی میں کیا روکیں ہیں.بعض کہتے ہیں کہ جماعت قادیان نے دعوائے نبوت کو حضرت امام زمان کی طرف منسوب کر کے اور دوسرے تمام مسلمانوں کو کا فرکہ کر ایک بہت بڑی روک پیدا کر دی ہے لیکن ان اعتقاد کے باوجود ان کی ترقی تو بدستو ر ہو رہی ہے...میرے خیال میں ہماری ترقی کے رکنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مرکز دلکش نہیں......بہت سے نوجوان ہمارے سامنے ہیں جن کے باپ دادا سلسلہ پر عاشق تھے ان نوجوانوں میں وہ روح آج مفقود ہے.تقریر الحاج شیخ میاں محمد صاحب مطبوعہ پیغام صلح در فروری کشته حت کالم علا اب سنئے ! ان لوگوں کا مرکز کیوں دلکش نہیں؟ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کوئی خلیفہ موجود نہیں جس کے ہاتھ پر سب پرانے اور نئے احمدیوں نے بہوت کر لی ہو.اور سب اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوں اور اسے اپنا واجب الاطاعت را ہنما اور مرشد سمجھتے ہوں.لاہوری فریق نے انجمن کے نظام کو نظام خلافت پر فوقیت دی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے امیر کی آواز میں وہ جاذبیت پیدا نہ ہو سکی جو خلیفہ کی آواز میں ہوتی ہے.چنانچہ اسی وجہ سے ان کے نوجوانوں میں احمدیت کی روح مفقود ہو رہی ہے.بلکہ ان کے بڑے بھی انجمن کی بات نہیں مانتے حتی کہ اب ان کو اعتراف کرنا پڑا ہے کہ وہ اپنی تنظیم میں فیل ہو گئے ہیں.چنانچہ ان کی انجین
کی حالیہ رپورٹ میں احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کے جنرل سیکرٹری تحریر کرتے ہیں :- واقعات اور تجربہ نے ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اشاعت اسلام کے میدان میں ہماری ساری کامیابی کا راز ہماری جما عتی ترقی اور وسیع سے وابستہ ہے.ہم نے عام طور پر اپنی مسلمان قوم سے ہو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ ہمارے مشنوں اور ترویج علوم فرقانیہ کے کارناموں کو دیکھ کر ہمارے دینی مقاصد میں لوگ از خود شمولیت اور شرکت اختیار کر لیں گے، وہ تمام حرف غلط کی طرح ثابت ہوئیں" آگے صفحہ پر لکھتے ہیں :.احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کی ۵۲ دیں سالانہ رپورٹ مشر) حضرت مسیح موعود نے جماعت کے استحکام اور احباب سلسلہ کے باہمی تعلقات کو استوار کرنے کے لیے یہ تجویز فرمایا تھا کہ ہماری اولادوں کے رشتے ناطے اپنی جماعت کے اندر ہونے چاہئیں اور انجمن نے حتی الوسع باہمی رشتے ناطوں کے لیے کوشش بھی کی ہے لیکن افسوس ہے کہ اس سلسلہ میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی.عام طور پر لڑکوں کے رشتے باہر کر لیے جاتے ہیں اور جماعت میں لڑکیوں کے رشتے تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے جس سے اجتناب ضروری ہے.امام وقت کے ارشاد کی تعمیل میں ضروی
ہے کہ ہم جماعت میں رشتے ناطے کریں خواہ تمہیں اس میں نقصان یا تکلیف ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے " امر چهارم : غیر از جماعت مسلمانوں پر یہ اثر ہے کہ احمدیوں کا لا ہوری فریقی اپنے عقائد میں سنجیدہ نہیں.چنانچہ پروفیسر الیاس برنی اپنی کتاب قادیانی ند سب کے ایڈیشن ششم کے مقدمہ میں قادیانی جماعت قادیان کے عقائد کے عنوان کے رالف قادیانی جماعت قادیان جو مرزا قادیانی صاحب کے تمام دعووں پر ایمان رکھتی ہے اور جماعت لاہور کی طرح نبوت کے دعووں سے اعراض و انکار نہیں کرتی.اور تذبذب اور تکون نہیں دکھاتی.قادیانی فرقہ بہت زیادہ مقبول ہے جماعت لاہو ر اپنی دو رخی کے طفیل اسلام کے نام پر قادیانیت کی تبلیغ کے واسطے مسلمانوں سے بھی امداد حاصل کر لیتی ہے.چنانچہ مرزا قادیانی صاحب کو مجدد محدث ، مهدی اور مسیح موعود وہ بھی لازمی مانتی ہے اور اُن کو نہ ماننے کی بنا پر وہ بھی مسلمانوں کو فاسق جانتی ہے.اور لطف یہ کہ خود واویلا کرتی رہتی ہے کہ جماعت قادیان نے مسلمانوں کو مرزا صاحب کے انکار کی بنا پر کافر قرار دیکر اسلام میں بڑا فتنہ پھیلا دیا.گویا خود را فضیحت دیگران را نصیحت " (مقدمه مذکور ص) پروفیسر الیاس برنی صاحب نے یہ درست لکھا ہے کہ لاہوری فریق حضرت مرزا صاحب کے منکر مسلمانوں کو فاسق جانتا ہے.بچنا نچہ مولوی محمد علی صاحب اپنی
كتاب النبوۃ فی الاسلام کے صفحہ ۱۸۵ پر صاف کہتے ہیں.مجددوں کا ماننا ضروری ہے، اور ان کے انکار سے انسان فاسق ہو جاتا ہے." پھر اسی صفحہ پر لکھتے ہیں پی مجدد سے انحراف کرنے والا جاہلیت کی موت مرتا ہے " فاروقی صاحب اپنی کتاب کا نام فتح حق رکھ رہے ہیں.اب وہ دیکھ ہیں کہ ان کے فریق کو ہماری جماعت کے مقابلہ میں کیسی فتح ہوئی ہے سوائے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق جو آپ نے مخالفوں کے متعلق فرمایا.گندہ دہنی کو وہ فتح سمجھنے لگیں.رب) مولوی ابو الحسن علی ندوی ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ لکھتے ہیں.قادیانیت کی اس شاخ نے جس کا مرکز قادیان اور اب رکوہ ہے اور جس کی قیادت مرزا غلام احمد صاحب کے فرزند اکبر مرزا بشیر الدین محمود صاحب کرتے ہیں.مرزا غلام احمد صاب کے نبوت کے عقیدہ کو اپنی جماعت کی اساس بنایا ہے.وہ پوری وضاحت اور استقامت کے ساتھ اس عقیدہ پر قائم ہیں.......اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس شاخ نے ایک واضح اور قطعی موقف اختیار کیا ہے اور اپنی اخلاقی جرأت کا ثبوت دیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ مرزا خضا کی صحیح ترجمانی و نمائندگی اور ان کی تعلیمات و تصریحات کی محض صدائے بازگشت ہے.لیکن لاہور شاخ کا موقف بڑا عجیب اور ناقابل فہم ہے.مرزا صاحب کی تصنیفات اور تحریروں کا مطالعہ کرنے والا قطعی اور بدیہی طور پر کھتا ہے کہ وہ صاف صاف نبوت کے مدعی ہیں اور جو
اُس پر ایمان نہ لائے اس کی تکفیر کرتے ہیں " ز قادیانیت من ۲ و ۲۰۱ (ج) یورپ کے مشہور مستشرق H.R.GIBB پروفیسر آکسفورڈ یونیورسٹی کا ۱۹۱۴ میں پہلے خلیفہ کی وفات کے بعد جماعت احمد یہ دو حصوں میں بٹ گئی جماعت کا اصل حقہ یعنی قادیانی شاخ تو بانی سلسلہ کے دعوی نبوت اور ان کے بعد اجرائے خلافت پر قائم رہی.لیکن الگ ہونے والے لاہوری فریق نے ان دونوں کا انکار کر دیا.اور ایک نئے امیر کی قیادت میں نمین اشاعت اسلام کی بنیاد ڈالی.لاہور سی فریق نے بعد میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ مل جانے کی کوشش کی، مگر علما ء اب بھی انہیں شعیہ کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں.(ترجمه از محمد نزم طبع دوم منشا ) (3) اخبار سیاست لکھتا ہے :- " لاہوری احمدیوں کا مسلمانوں کو یہ بتانا کہ وہ انھیں مسلمان سمجھتے ہیں سرتا پا منافقت ہے.جس سے مسلمانوں کو آگاہ ہو جانا چا ہیے " رسیاست ۱۹ فروری شد) (8) اخبار احسان لکھتا ہے :- " مرزائیوں کے لاہوری جماعت کے قریب کاروں کا گردہ مرزا کو نبی سمجھنے اور کہنے میں قادیانیوں سے کم نہیں ہے اور جب وہ مسلمانوں سے یہ کتنے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم قادیان کے مدعی نبوت کو محض محدث اور نبرد بلکہ محض ایک نیک
۱۳ مولوی سمجھتے ہیں تو ان کا مقصد دھوکہ دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا احسان ۲۵ فروری ۳۵) (و) اخبار زمیندار لکھتا ہے :- " لاہوری مرزائی قادیانیوں سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے لیے خطر ناک ہیں " رزمینداری از فروری ۳۵) امر پنجم: مولوی محمد علی صاحب کا اعتراف مولوی محمد علی صاحب فرماتے ہیں :- یہ صحیح ہے کہ ہمارا لٹر پھر مقبول ہوا، مگر وہ پھل کیوں نہ لگا جو لگنا چاہیے.صرف اس لیے کہ وہاں کام کرنے والا کوئی نہیں تھا.ر پیام صلح 19 مئی سنہ) موادی صاحب کا مقصود یہ ہے کہ وہ مبلغین پیدا کرنے میں ناکام رہے جین سے پھل لگ سکتا ہے.امر شمشم : احمدی لاہوری فریق کی نا کامی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ موسی صدا ایرون صاحب نے جو آجکل اُن کے امیر ہیں ۲۱ سال تک مولوی محمد علی صاحب کا ناک میں دم کیسے رکھا تھا.یہاں تک کہ مولوی محمد علی صاحب وصیت کر گئے تھے کہ یہ صاب میرے جنازے کو ہاتھ تک نہ لگائیں.لیکن ستم ظرایفی کی انتہا ہے کہ لاہوری فریق نے مولوی صدرالدین کو سی اپنی جماعت کا امیر بنا لیا.مولوی محمد علی صاحب جن دنوں کراچی میں بیمار تھے وہ اپنے ایک دوست کو کراچی سے لکھتے ہیں :- برادر مکرم ابھی مجھے ایک دوست کی طرف سے ایک نوٹس کی نقل ملی ہے جو سات ممبران جنرال کونسل کی طرف سے باہر
۱۴ کے احباب کو بھیجا گیا ہے کہ ۱۵ جولائی کو احمد یہ بلڈنگس لاہور میں اربجے دن کے ایک مجلس منعقد ہو گا ر نقل مطابق اصل ناقل) اس میں وہ احباب شامل ہوں جن کو یہ نوٹس بھیجا جا رہا ہے.اس کے اصل محرک ڈاکٹر غلام محمد اور مولانا صدر الدین ہیں.جب سے میں گذشتہ بیماری کے حملہ سے اُٹھا ہوں اس وقت سے یہ دونوں بزرگ اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری میرے خلاف پروپاگنڈا میں اپنی پوری قوت خرج کر رہے ہیں اور ہر ایک تنکے کو پہاڑ بنا کر جماعت میں ایک فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے " آگے لکھا ہے :." نہ صرف وہ میری بیماری سے پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں بلکہ ان امور کے متعلق مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر کے میری بیماری کو بڑھا رہے ہیں " لکھتے ہیں : نہ صرف یہ نوٹس جاری کر کے جماعت کے بنیادی نظام پر کلہاڑی چلائی گئی اور امیر جماعت کے خلاف علم تبادت بلند کیا گیا ہے بلکہ ان سخت گرمی کے ایام میں مولانا صدرالدین صاحب نے بعض جماعتوں میں دورہ بھی کیا ہے، تاکہ اُن پر اپنا ذاتی اثر ڈال کر میرے متعلق جھوٹی باتوں کا خوب چرچا کریں.چٹھی مٹ)
اهر هفتم محرم بیگم صاحبہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے ایک خط ہے ۲۹ کو مسلم ٹاؤن پوسٹ آفس اچھرہ سے ہندوستان کے ایک لاہوری احمدی کے نام لکھا.اس میں آپ تحریر فرماتی ہیں :- وو ہمارے محبوب محمد علی کی تمام زندگی ایک روشن ستائر کی طرح تھی......اور جس قدر کام اور تصنیفات وہ کرتے رہے.وہ اس کی گواہ ہیں.اُن کی روز افزوں مقبولیت کی وجہ سے اپنی جماعت میں ہی سو حاسد پیدا ہو گئے اور سالہا سال سے ان کی راہ میں روڑے اسکا تے رہے " آگے صدا پر تحریر فرماتی ہیں:.رخط صت) مولوی محمد علی صاحب نے ترجمہ قرآن کو دائی طور پر شائع کرنے کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کر دیا.مفسدوں نے مخالفت کا طوفان برپا کر دیا اور طرح طرح کے بہود الزام لگائے.یہاں تک بکو اس کی کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کر لیا ہے.پھر آگے حث پر تحریر فرماتی ہیں :- آخران شرارتوں کی وجہ سے مولوی محمد علی صاحب کی صحت بگڑ گئی اور ان تفکرات نے آپ کی جان لے لی.سب ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ اس غم کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کی جان گئی.حت پر تحریر فرماتی ہیں :-
ایک وصیت لکھ کر شیخ میاں محمد صاحب کو بھیجدی که سات آدمی جو اس فتنہ کے بانی ہیں اور جن کے دستخط سے یہ سر کو نکلے تھے اور جن کا سرغنہ مولوی صدر الدین ہے میرے جنازہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھائیں چنانچہ اس پر عمل ہوا صفحہ ، وہ پر تحریر فرماتی ہیں:.اگر چہ مولوی صدر الدین امیر مقرر ہوا ہے.مگر تمام اختیارات الحاج شیخ میاں محمد کے سپرد ہوئے ہیں اور دہ انجمن کے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے ہیں.“ صفحہ پر تحریر فرماتی ہیں : حضرت امیر مرحوم و مغفور نے اپنے آخری چند ایام میں ایک تحریر لکھی ہے میری زندگی کا ایک دردناک وزن یہ تحریر سالانہ جلسہ کے موقعہ پر جنرل کونسل میں پیش ہوگی اور ارادہ ہے کہ اس کو چھو اگر جنرل کونسل کے ممبران کو دی جائے.آپ کو بھی اس کی ایک نقل بھجواؤں گی " محترمہ بیگم صاحبہ کی چٹھی میں بعض اور دردناک واقعات بھی لکھے ہیں.مگر سردت ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کو شروع خلافت میں ہی الماما ان لوگوں کے متعلق بتلا دیا تھا کیمر نیم کہ خدا ان کو پھاڑ دے گا.اب دیکھ لو فتح کس کی ہوئی.خدائے قادر و توانا کی یا اہل پیغام جنگ کی تعلیوں کی : و
16 دیکھیئے دہی ڈاکٹر غلام محمد صاحب جو مولوی صدرالدین صاحب کے ساتھ مل کر مولوی محمد علی صاحب کے خلاف تھے اپنے نئے امیر مولوی صدرالدین کے خلاف بھی ہو گئے.ڈاکٹر غلام محمد صاحب نے احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی پریزیڈنٹ شپ اور مولوی صدرالدین کی امارت کے زمانہ میں ایک سرکلر جاری کیا جس میں لکھا:- در حقیقت جماعت و قوم کی بہبود کے لیے کوئی بھی انتظام کرے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا.جب تک مولوی صاب مکرم د مولوی صدرالدین صاحب ناقل سیاه وسفید کے مالک نہ بنا دیئے جائیں.خود ان کے قول کے مطابق وہ اقتدار کے ٹھو کے ہیں.جب تک وہ اسے حاصل نہ کرلیں گے.جماعت میں فتنہ وفساد ختم نہیں ہو سکتا.مگر جس روز جماعت نے وہ قدم اٹھایا ، تو وہ دن جماعت اور تحریک احمدیت را حمدی لاہور ہی فریق کی تحریک اور ان کی جماعت ناقل) کے خاتمہ کا دن ہوگا.حضرت امیر مولانامحمد علی صاحب روم میخو را در حضرت خواجہ کمال الدین حنان مرحوم مغفور نے مولوی صدرالدین صاحبے متعلق جو کچھ تحریر کیاہے اس کا ایک ایک لفظ اب صحیح اور درست ثابت ہواہے.مولانا مکرم کا ایسے وقت میں مجلس معتمدین کا اجلاس بلانا قوم میں انتشار پھیلانے کے مترادف ہے.اب احباب کو چاہیے کہ مولوی صاحب کو تخریبی کارروائیوں سے پرہیز کرنے کی تلقین فرمائیں.(خاک ار غلام محمد احمد یہ بلڈ نگ لاہور ہوں کا
اب فاروقی صاحب بتائیں کیا فتح اسی کا نام ہے ؟ اگر اس کا نام فتح ہے تو پھر نا کامی اور انتشار کس کو کہتے ہیں؟ دیکھئے آپ کے مولوی محمد یعقوب صاحب ایڈ سیٹلائیٹ (LiHT ) آپ کی تحریک کی حالت یوں بیان فرماتے ہیں:.تحریک ایک لاش بن کر رہ گئی تھی اور چند آدمی اسے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے.پیغام صلح ۲۴ جنوری ۹۵ ) حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد جانشین کے لیے جو دصیت فرمائی تھی، اس کی راہ میں روڑے ارکانے والے تو نا کام ہوئے اور خلافت ثانیہ خدا تعالٰی کے فضل سے قائم ہوگئی اور دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی رہی.ایک اہم واقعہ اد میں ریبوت چی نکلی کہ میران احمدیہ این اشاوات یہ انجمن اسلام لاہور کے بعض ارکان جو انجمن حمایت اسلام کے رکن میں رکنیت سے خارج کر دیئے جائیں.اس سلسلہ میں انجمن حمایت اسلام کے دور کن یعنی مولوی احمد علی صاحب امیر خدام الدین اور میاں عبدالمجید صاحب ہیر مسٹر نے مولوی محمد علی صاحب سے چند سوالات کا جواب طلب کیا جن میں سے ایک سوال یہ تھا : - سوال کی عبارت: کیا آپ کا اعتقاد اُن (مرزا صاحب ناقل) کے متعلق شروع سے لیکر ایک ہی ہے یا کبھی بدلا ہے ایک ہی ہے تو خیر اور اگر بدلا ہے تو اب کیا ہے اور پہلے کیا تھا اور بدلنے کی وجہ کیا ہے؟ اگر مولوی صاحب نے نبوت مسیح موعود کے متعلق اپنے خیالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کی ہوتی تو وہ ایک فقرہ میں یہ جواب دے سکتے تھے کہ میرا اعتقاد شروع سے لیکر آج تک ایک ہی ہے.مگر مولوی صاحب کو یہ دیکھنے کی جرات نہ ہوتی
19 بلکہ انھوں نے جواب میں لکھا رو اگر آپ احمدیہ جماعت لاہور کے متعلق کوئی فتویٰ دنیا چاہتے ہیں تو جماعت کے مطبوعہ عقائد آپ کے سامنے ہیں نہیں سال قبل کی میری ذاتی تحریرات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، ان عقائد کی بناء پر جو چاہیں فتوی دیں.اگر ذاتی طور پر مجھ پر فتوی کا سوال ہے تو الیسا کفر کا فتوی جس کو تیس سال قبل کی تحریروں سے سہارا دینے کی ضرورت ہو شاید ہی مفید ثابت ہو.رپیغام صلح ۳ جنوری ۱۹۳۶ م کالم لا ) اس جواب کے باوجود لاہوری احمدیوں کے وہ اراکین جو انجمن حمایت اسلام کے مبر تھے ختم نبوت کے منکر قرار دے کر انجمن حمایت اسلام کی ممبری سے خارج کر دیئے گئے.پس مسٹر کب کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ لاہوری فریق نے بعد میں اہل سنت و الجماعت کے ساتھ مل جانے کی کوشش کی مگر علما ء اسلام انہیں شہر کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں (محمد ن ازم عند اطبع دوم) ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے بھی مبر تھے اور اسلامیہ کالج ہوسٹل کے مشیر طبی بھی رہے.لیکن اس موقعہ پر جو سلوک نمین حمایت اسلام نے ان سے کیا وہ نہایت عبرت آموز ہے.پیغام صلح انجمن حمایت اسلام کے فتوے کفر نگا نے کا واقعہ یوں لکھتا ہے :- احمدیوں کے خلاف فتویٰ کفر لگا دیا گیا اور اُن کے ساتھ بائیکاٹ کی یہ صورت پیش کی گئی کہ احمدی امین کے علی ترم نہ ہو سکیں نہ وظائف حاصل کر سکیں وغیرہ وغیرہ
مرزا ر یعقوب بیگ ناقل) صاحب انجمن کے جنرل کونسل کے ممبر تھے وہ اس ریزولیوشن کے خلاف تقریر کرنے کے لیے مجلس میں پہنچے اور انہوں نے بتایا کہ انجمن کو کفر بازی سے بالا تر ہونا چاہئیے.اس پر ایک ممبر صاحب جو بہت سی ڈگریوں کے مالک ہیں اور عمر میں شاید حضرت میرزا صاحب سے بہت چھوٹے تھے سخت برہم ہو کر گستاخان لہ میں تکفیر احمدیت پر اصرار کرنے لگے حضرت مرزا صاحب کو اس سے اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ کا رنگ سرخ ہو گیا.وہاں سے اُٹھے اور گھر پہنچے.سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ اس صدمہ سے فالج کا حملہ ہوا اور دس بارہ روز بیمار رہ کر جان بحق تسلی ہوئے.گو یا انجمن حمایت اسلام نے اپنے ایک رفیق اور معزز کارکن کی خدمات کا یہ صلہ دیا کہ اس کی جان ہی کو لیا.انا للہ وانا اليه راجعون" رپیغام صلح ۱۳ نومبر ۹۲۳ مت) کاش ہما رہے کچھڑے ہوئے بھائی اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں اور اسی جماعت سے آئیں جنہیں خدا کا برگزیده مسیح موعود اُن کا بھائی بنا گیا ہے.اے خدا تو انہیں تو فیق عطا فرما.مولوی محمد علی صاحب کے دل پر بھی اس واقعہ کا بہت اثر تھا کہ انجمن حمایت اسلام نے اُن کے فریق پر بھی فتوی کفر لگا دیا ہے حالانکہ انہیں مسلمان کہتے کہتے اُن کی زبان سوکھتی تھی.مولوی صاحب کی ناراضگی کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے خودان لوگوں کو ختم نبوت کا منکر قرار دیدیا.چنانچہ انہوں نے اعلان کیا :-
جو لوگ نیا نہی تو نہیں مانتے لیکن وہ کسی پرانے نبی کا آنا بعد از حضرت ختمی پناہ مانتے ہیں وہ بھی ایسے ہی منکر ختم نبوت ہیں جیسے کہ وہ آپ کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں.ب حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں سوائے ایک ہماری جماعت احمدیہ لاہور کے کوئی جماعت اسلامی ختم بنوت کی قائل نظر نہیں آتی.د پنجاه مصلح اور اکتوبر ۱۹۳۵ شه اس سے پہلے میں مولوی محمدعلی صاحب اپنے اصولی عقیدہ کا بائی نالی اعلان فرما چکے ہے :.ور بیشک ختم نبوت کے منکر کو ئیں بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں یا دبیغام صلح ، ۲ جنوری ۱ اس حوالہ کی موجودگی میں ہمیں صغری کبری بنا کر منی نطقی نتیجہ نکالنے کا حق حاصل ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک تمام کلمہ گود بجز فریق لاہو ر بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.دیکھئے صغری یہ بنے گا تمام کلمہ گو یعنی اسلامی جماعتیں بجز فریق لاہور ختم نبوت کے منکر ہیں اور کبری یہ ہو گا جو ختم نبوت کا منکر ہے وہ بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہے.اس کا ہدیہی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ :- تمام کلمہ گو بجز فریق لاہور ہے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.کیا مشنة فاروقی صاحب اس بدیہی نتیجہ سے اتفاق کرتے ہیں ؟ امر م : مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہمنواؤں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی حقیقی خلافت سے تو انکار کر دیا.مگر مولوی صاحب کی امارت
۲۲ میں تین خلیفے ان کی انجمن نے تجویز کیے.اول مولوی غلام حسن خانصاحب پیشاوری، دوم سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی - سوم نخو اجہ کمال الدین صاحب.ردیکھو پیغام صلح ۲۴ مارچ ء م کالم ) مقدم الذکر دونوں خلیفے تو بعد میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض کی بیعت میں شامل ہو گئے اور خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنا مشن احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے منقطع کر لیا.دیکھو پیغام صلح ۲۷ جنوری ساعت کالم.خواجہ صاحب مرحوم نے آخری عمر میں ایک خواب دیکھا جس میں مذکور ہے کہ :- تخت کے سامنے ملزموں کو کھڑا کرنے کی جگہ تھی.میرے ہمراہ حضرت مولوی (محمد علی - ناقل) صاحب تھے........الیسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم پر کوئی مقدمہ ہے اور اس عدالت عالیہ میں ہم بطور ملزم کھڑے ہیں میں نے سمجھا کہ صاحب عرش نے کوئی حکم دیدیا ہے جسکے سُنانے کے لیے حضرت مرزا صاحب اُٹھے گودہ خود خون کی حالت میں تھے مگر انہوں نے نہایت غضبناک آواز میں حکم سنایا " خواجہ صاحب کے اپنی کتاب مجدد کامل ص۱۲۵ء میں یہ خواب شائع کی، او انجمن اشاعت اسلام لاہور کے طریق کار پر اعتراضات کیے جس کے جواب میں مولوی محمد علی صاحب کو ایک لمبا چوڑا مضمون لکھنا پڑا.دیکھو یغام صلح، بر جنوری سلسلہ ) فاروقی صاحب ! کیا یہ آٹھ باتیں آپ لوگوں کی فتح کی دلیل ہیں ؟ میں اپنے پیش لفظ کو لاہورمی فریق کی مایوسی نیستم لاہور می فریق کی مایوسی کرتا ہوں.پیغام صلح لکھتا ہے :-
۲۳ بعض کوتاہ فہم یہ خیال بھی دل میں لیے ہوئے ہیں، جس کا اظہار وہ وقتاً فوقت کرتے رہتے ہیں.کہ چونکہ یہ صدی اب ختم ہونے والی ہے اس لیے اس صدی کے مجدد کی تحریک بھی اب زندگی کے آخری مرحلوں پر ہے.اب نیا مجدد ہی آکر اس کو دوبارہ زندہ کریگا اس میں زندگی کی روح پیدا کرنا ہمارا کام نہیں ؟ پیغام صلح ۱۵ جنوری شائد بحواله تاریخ احمدیت جلده (۱۳) اپنی اس کتاب کے پیش لفظ کو میں اپنے تین احباب کے دلی شکریہ پر ختم کرتا ہوں جن میں سے ایک میرے عز یز شاگرد مولوی دوست محمد شاہد مصنف تاریخ احمدیت ہیں جنھوں نے بعض ضروری حوالہ جات کی تلاش میں مجھے مدد دی ہے اور مشورہ بھی دیا ہے.اور اسی طرح میرے دوسرے عزیز شاگرد ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب واقف زندگی ہیں جنھیں میں نے اس کتاب کا اکثر حصہ املا کرایا ہے.اور انھوں نے نہایت تن رہی اور خوشدلی سے یہ کام انجام دیا ہے.تیسرے میرے محترم بزرگ حضرت سید حافظ مختار احمد صاحب شا ہما نوری ہیں.جنہوں نے باوجود ضعیف العمری اور ہماری کی حالت میں اس مسودہ کو تمام کمال سُن کر مجھے اپنے قیمتی مشورہ اور اصلاح سے نوازا ہے.جزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا والآخرة.ادنى خادم سلسله قاضی محمد نذیر لائل پوری را کتوبر ۱۹۶۶
۲۵ باب اوّل نبوت مسیح موعود اور مولوی محمدعلی نا کے عقید میں تبدیلی اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد کہ احمدیوں کے لاہوری فریق کو ہماری جماعت کے مقابلہ میں سراسر نا کا می اور ہزیمیت ہوئی ہے اب ہم ممتاز احمد صاحب فاروقی کی کتاب فتح حق " کے نفس مضمون کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.فاروقی صاحب نے اس کتاب کو اردو اور انگریزی میں اس طرح شائع کیا ہے کہ ایک صفر پر انگریزی تحریر ہے اور دوسرے صفحہ پر اردو.اور اس کے پیش لفظ میں وجہ تالیف یہ ظاہر کی ہے کہ : بیرونی ممالک کے مسلمانوں اور احمدی احباب کا تقاضا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے دعاوی اور جماعت احمدیہ میں تفرقہ بازی اور اس کی حقیقت پر انگریزی زبان میں کوئی کتاب ہونی چاہیے تاکہ اُردو نہ جاننے والے لوگ بھی اس سے استفادہ حاصل کر سکیں.تو ان احباب کی خاطر یہ مختصر کتاب لکھی گئی ہے.رپیش لفظ فتح حق حث) فاروقی صاحب نے اپنی اس کتاب میں ایک حد تک اختلافی مسائل پر نوٹ: استفادہ کے ساتھ حاصل کا لفظ درست نہیں.استفادہ کر سکیں چاہیئے.
E بحث کی ہے.مگر یہ امر سخت قابل افسوس ہے کہ انہوں نے اس بحث میں ہمارے پیارے امام سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خلاف نہایت یبانی بے ادبی اور گستاخی سے کام لیا ہے.جس کی کسی متدین اور شریف مسلمان سے توقع نہیں کی جا سکتی.جو گندہ طریق انھوں نے اختیار کیا ہے اس کی نہ دنیا کا کوئی قانون اجازت دیتا ہے نہ شریعت محمدیہ.حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ مذہبی بحثوں میں ذاتی حملوں پر اس لیے اُتر آتے ہیں کہ وہ اپنے دلائل کی کمزوری کو فریق ثانی پر نا جائز حملوں کے پردہ میں چھپا سیکسں.اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اپنے مد مقابل پر گند اُچھالے بغیرہ اپنی بحث کی کمزوری پر پردہ نہیں ڈال سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آریوں اور عیسائیوں نے گند اچھالنے کا جو طریق اختیار کر رکھا تھا افسوس ہے کہ ہمارے مقدس امام حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ممتاز احمد صاحب فاروقی بھی آپ کے خلاف اُنہی کی روش پر چل نکلے ہیں.اور عیسائیوں اور آریوں کی طرح گند سے اور نا پاک اعتراضات کر کے اپنی فتح کا نقارہ بجانا چاہتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذکروا موشکم بالخیر کہ اپنے وفات یافتہ لوگوں کا بھلائی سے ذکر کیا کرو.مگر افسوس ہے کہ مخالفت کے اندھے جوش میں فاروقی صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس زریں ہدایت کو پس پشت ڈالتے ہوئے اُس بزرگ ہستی کے فرزند ارجمند کے خلاف ، اُن کے وفات پا جانے کے بعد، نا پاک نجس اور گندے حملے کیے ہیں میں بزرگ ہستی کو وہ اپنا آقاد مولیٰ اور ساری امت محمدیہ کے لیے مسیح موعود اور مہدی معہود تسلیم کرتے ہیں.
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی حالت بھی سخت قابل افسوس ہے جس کی طرف سے یہ دل آزار اور ہمارے جذبات کو مجروح کرنے والی کتاب شائع ہوئی ہے.فاروقی صاحب کی | فاروقی صاحب نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں دو دو غلط بیانیاں صریح غلط بیانیاں کی ہیں.وہ لکھتے ہیں :- حضرت مرزا صاحب نے بار بار اعلان کیا کہ آپ کا دعوی اسلامی اصطلاح میں نبوت کا نہیں، بلکہ مجد دیر سے اور محدثیت کا ہے جس کے انکار سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو جاتا.شاہ میں آپ کی وفات تک اور پہلے خلیفہ مولوی نورالدین صاحب کے زمانے تک آپ کے مریدین آپ کو صحیح مقام دیتے رہے مگر الہ میں مولانا نور الدین صاحب کی وفات کے بعد جب حضرت مرزا صاحب کے فرزند مرزا محمود احمد نے عنان خلافت سنبھالی تو انہوں نے یہ عقیدہ تراشا کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے اور ان کا منکر کا فر ہے " رپیش لفظ فتح حق صت ) پہلی غلط بیانی : اس بیان میں فاروقی صاحب کی پہلی غلط بیانی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی وفات تک اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خلافت کے زمانہ میں آپ کے مریدین آپ کو نبی نہیں مانتے تھے بلکہ صرف مجددا در محدث ہی مانتے تھے.دوسری غلط بیانی اور دوسری غلط بیانی یہ کی ہے کہ ۱۹۱۴ء میں حضرت مولوی
نورالدین صاحب کی وفات کے بعد حضرت مرزا صاحب کے فرزند مرزا محمود احمد رضا نے عنان خلافت سنبھالی تو انھوں نے یہ عقیدہ تراشا کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے اور ان کا منکر کا فر ہے.جس کتاب کا آغاز ہی غلط بیانی سے ہوا ہے اُس کے متعلق کوئی اچھی توقع نہیں ہو سکتی.کیونکہ جب معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے تو اس کی ساری تعمیر می کجی ہی پائی جائے گی.پہلی بات کے خلاف واقعہ ہونے کا ثبوت ) مؤلف کتاب کی پہلی غلط بیانی کا ثبوت یہ ہے کہ لاہوری فریق کے سر گر وہ اور لیڈر مولوی محمد علی صاحب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں نشانہ میں رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر مقرر ہوئے.تو اس وقت وہ خود بھی حضرت اقدس کو نبی ہی مانتے تھے اور دوسروں میں بھی آپ کی نبوت کی ہی اشاعت کرتے تھے.البتہ حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں جب لاہور سے اخبار پیغام صلح جاری ہوا تو پیغام مسلح سے تعلق رکھنے والوں کے متعلق سواء میں جماعت میں یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ یہ لوگ حضرت اقدس کے درجہ کو گھٹا کر پیش کرنا چاہتے ہیں اور آپ کو نبی اور رسول تسلیم نہیں کرتے.چونکہ ابھی اختلاف نمایاں نہ تھا اور اختلاف رکھنے والوں نے ابھی شدت اختیار نہیں کی تھی اور انھیں یہ بھی ڈر تھا کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول ناراض ہو کر انہیں جماعت سے خارج نہ کر دیں اس لیے انہوں نے فورا پیغام مصلح میں اعلان کیا : - معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں
۲۹ ڈال دیا ہے کہ اخبار پیغا تم مسلح کے ساتھ تعلق رکھنے والے یا ان میں سے کوئی ایک سیدنا وہا دینا حضرت میں توا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مهدی محمود عليه الصلوة والسلام کے مدارج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے.ہم تمام احمد می جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغام صلح کے ساتھ تعلق ہے، خدا تعالے کو جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے حاضر ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت ہیں رقسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے.ہم حضرت میسج موعود اور مهدی معہود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں.اور جو درجہ حضرت مسیح موعود نے اپنا بیان فرمایا ہے اس سے کم پیش کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی نجات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود پر ایمان لائے بغیر نہیں ہو سکتی.اس کے بعد ہم اس کے خلیفہ برحق سیدنا و مرشد نا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ایسیح کو بھی سچا پیشوا سمجھتے ہیں.اس اعلان کے بعد اگر کوئی بدظنی پھیلانے سے باز نہ آئے تو ہم اپنا معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں.د پیغام صلح لاہور ۱۶ اکتوبر سمت )
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ اخبار پیغام مصلح کے متعلقین نے ۱۹۱۳ء میں اعتراف کیا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی اور رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور آپ کے درجہ کو گھٹا کہ پیش کرنا موجب سلب ایمان سمجھتے ہیں.اخبار پیغام مصلح سے تعلق رکھنے والے ہی وہ لوگ ہیں جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے مسند خلافت پر سرفراز ہونے کے بعد خلافت ثانیہ کے انکار کے ساتھ ہی کھل کر حضرت میسج موعود علیہ السلام کی نبوت کا انکار کرنے لگے.مندرجہ بالا اقتباس سے یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی اور رسول مانتی تھی اور اس وقت اسی بارے میں بعض دل میں اختلاف رکھنے والے بھی کھل کر سامنے آنا نہیں چاہتے تھے.ہمارے اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا مسئلہ اور آپ کو نبی قرار دینا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اختراع نہ تھی اور فاروقی صاحب نے یہ غلط بیانی کی ہے کہ آپ نے یہ عقیدہ 9ء میں تراشا.اء میں بھی پیغام صلح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے ثبوت میں ایک نظم شائع ہوئی تھی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں سے کیا ختم رسالت نے کمال اپنا دکھایا امت میں ہے دریائے نبوت کو بہایا اس فیض کے ملنے سے موٹے خیر اہم ہم کیا ہرج ہے امت میں نبی بن کے گرم
مومن کے لیے کوئی بشارت ہے تو اس سے امت میں اگر کوئی کرامت ہے تو اس سے دپیغام صلح - ۱۲ار فروری سه ) نوٹ : ۴۲ ار مارح ۹ہ کو جماعت احمدیہ میں خلافت ثانیہ قائم ہوئی.حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود مولوی محمد علی صاحب کا عدالتی بیان علیہ السلام کے خلاف تشنشانہ میں مولوی کرم دین جہلمی نے انگریزی عدالت میں استغاثہ دائر کر رکھا تھا کہ اُنھوں نے مجھے کذاب کہہ کر ازالہ حیثیت عرفی کا ارتکاب کیا ہے.مولوی کرم دین صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو بطور گواہ استغاثہ عدالت میں پیش کرایا تو مولوی صاحب موصوف نے عدالت میں حاضر ہو کر با قرار صالح یہ بیان دیا : - (1) مکذب مدعی نبوت کذاب ہوتا ہے.مرزا صاحب ملزم مدعی نبوت ہے " (۲) مرزا صاحب دعوی نبوت کا اپنی تصانیف میں کرتے ہیں یہ دعویٰ اس قسم کا ہے کہ میں نبی ہوں لیکن کوئی شریعیت نہیں لایا.ایسے مدعی کا مکذب قرآن شریف کے رو سے کذاب ہوتا ہے." ر مسل مقدمه مولوی کرم دین جهلمی در ق (۳۶۲) عدالت میں اُن کا یہ حلفیہ بیان بڑی اہمیت رکھتا ہے.کیونکہ مولوی صاحب موصوف نے یہ بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے اور آپ کی عدالت میں موجودگی میں دیا ہے کہ چونکہ آپ مدعی نبوت ہیں.اس لیے آپ کو حق پہنچتا ہے کہ مولوی کرم دین کو اس کے تکذیب کرنے کی وجہ سے کذاب قرار دیں اور
۳۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی اس عدالت میں، اپنے آپ کو ظلی نبی فرا دیا تھا.اگر حضرت مسیح موعود کے نزدیک ان کی خلقی نبوت ، نبوت نہ ہوتی تو آپ کا مذہبی فرض تھا کہ اپنے اس مرید کو سمجھاتے کہ تم مجھے مدعی نبوت کیوں قرار دے رہے ہو اور تبرح میں اس سے کہلواتے کہ اسے آپ کو مدعی نبوت قرار دینے میں غلطی لگی ہے.پس عدالت کا یہ ریکارڈ گواہ ہے کہ حضرت اقدس اپنی زندگی کے ایام میں جماعت میں مدعی نبوت سمجھے جاتے تھے اور آپ کو بھی مدعی نبوت ہونے سے انکار نہیں تھا.اسی لیے آپ کے ایک ممتاز مرید نے آپ کو عدالت میں باقرار صالح مدعی نبوت قرار دیا.اسی طرح مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کے زمانہ میں خواجہ غلام الثقلین سے تحریری بحث میں بھی حضرت مرزا صاحب کو مدعی نبوت کی حیثیت میں ہی پیش کیا ہے نہ کہ مدعی محدثیت کی حیثیت میں پہنا نچہ وہ لکھتے ہیں :.نمبرا چار اصول خواجہ غلام الثقلین نے اپنی طبیعت سے ایجاد کیے جن کی رو سے وہ حضرت مرزا صاحب کو پر کھنا چاہتے ہیں.خواجہ غلام الثقلین نے ان اصول کے قائم کرتے ہیں جن کی رُو سے وہ کسی مدعی نبوت کے سچ یا جھوٹ کو پرکھنا چاہتے ہیں.بڑی غلطی کھائی در یویو آف ریلیجنز جلد ۲ صفحه ۳۹۵) ہے " نمبر ۲." مجھے تعجب آتا ہے کہ اعتراض کرتے وقت تو عیسائی اور اس سلسلہ کے مخالف بڑی بڑی باریکیاں نکالتے ہیں، مگر اس موٹی بات کو نہیں سمجھتے کہ ایک مدعی نبوت میں
کسی امتیازی شان کا پایا جانا ضروری ہے ) بولو جلد ۲ صفحه ۴۶۴) نمبر چار باتیں خواجہ غلام الثقلین نے آیت انا لنصر رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا کے ان معنوں کی تردید میں جوئیں نے بیان کی ہیں پیش کی ہیں.نمبر ا شیطان نے خدا کی عزت کی قسم کھائی کہ وہ سب کو گمراہ کرے گا....شیطان اپنے اس خیال میں سچا ہو گیا.نمبرا قوم فرعون ان (بنی اسرائیل ) کے بچوں کو قتل کر دیتی تھی.نمبر ۳ مسیح مصلوب ہوئے.نمبر ۲۴.خلفا اربعہ اور سبطین میں سے منجمد چھ کس کے پانچ نفس دشمنوں کے ہاتھ سے ہلاک ہوئے.بحث تو یہ تھی کہ سینچے اور جھوٹے مدعی نبوت میں اختیاری نشان قرآن کریم نے کیا قرار دیا ہے.اب خواجہ غلام شما خود ہی بتا دیں کہ ان پیش کردہ امور میں سے سوا میسرے کے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے، باقی مدعی نبوت کون کون ہے.کیا شیطان مدعی نبوت ہے کیا بنی اسرائیل کے شیر خوارلڑ کے مدعی نبوت تھے، کیا خلفاء اربعہ اور سبطین مدعی نبوت تھے ؟ اگر نہیں تو ان باتوں کو امر زیر بحث سے کیا تعلق ہے " د ریویو جلدت صفحه ۴۳۲
اس بحث میں مولوی صاحب موصوف نے الہی نصرت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کی صداقت میں پیش کیا تھا.معترض نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ خلفاء ثلاثہ اور سبطین تو شہید ہو گئے.ان کی تو کوئی نصرت نہ ہوئی در مسیح علیہ السلام بھی مصلوب ہوئے اور بنی اسرائیل کے شیر خوار بچے بھی قتل کیے گئے.اس کے جواب میں مولوی محمد علی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ خواجہ صاحب آپ ایک مدعی نبوت کے مقابلہ میں نکلے ہیں.سو ان میں سوائے مسیح علیہ السلام کے بانی مدعی نبوت کون کون ہیں.کیا بنی اسرائیل کے شیر خوار بچے مدعی نبوت ہیں.کیا خلفاء ثلاثہ اور سبطین رامام حسن اور سید این مدعی نبوت ہیں.اگر نہیں تو پھر ان باتوں کو امر زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں.دیکھئے اس بحث میں مولوی صاحب موصوف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محدث کی حیثیت میں پیش نہیں کیا تھا.خلفاء ثلاثہ اور سبطین کی محدثیت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محدث قرار دیا تھا.میں اس بحث میں مولوی محمد علی صاحب نے حضرت اقدس کو محض مجدد اور محض محدث کی حیثیت میں پیش نہیں کیا بلکہ مدعی نبوت کی حیثیت میں پیش کیا ہے اور اس زمرہ میں داخل قرار دیا ہے.جس کے فرد حضرت عیسی علیہ اسلام ہیں اور خلفاء ثلاثہ اور سبطین کو اس زمرہ سے خارج بیان کر کے خوب واضح کر دیا ہے کر یہ مضمون لکھتے وقت مولوی محمد علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تدعي نبوت مانتے تھے.اس زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب آیت قرانیه اهـ الصراط المستقيم صراط الذین انعمت علیم اور آیت من يطع الله والرسول فاولئك مع الذین انعم الله عليهم من النبيين و الصديقين والشهداء والصالحین کی روشنی میں ہی تلقین فرماتے تھے کہ :-
۳۵ ہمیں بھی اس وسیع دُعا کے کرنے کا حکم ہے اور اس کی قبولیت بھی یقینی ہے.مخالف خواہ کوئی ہی معنی کرے مگر ہم تو اس بات پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے.صدیق.شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کر سکتا ہے.مگر چاہیے مانگنے والا تقر بر مولوی به علی صاحب مندرج الحكم دار جولائی شاہ صت مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک " یہ سلسلہ سچے معنوں میں آنحضرت صلی اللہ خاتم النبیین کے سچے معنی علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کوئی بنی خواہ وہ پرانا نبی ہو یا نیا آپ کے بعد ایہ آسکتا جس کو نبوت بد دل آپ کے واضبطہ سے مل سکتی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خداوند تعالیٰ نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کر دینے مگر آپ کے متبعین کامل کے لیے جو آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر آپ کے اخلاق کا ملہ سے ہی یہ گور حاصل کرتے ہیں اُن کے لیے یہ دروازہ بند نہیں ہوا؟" دریویو آف ریلیجیز اردو ماہ مئی شاه منشا ) پس حضرت مسیح عود علیہ السلام اور خلیفہ ایسی الاول کے زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمیشہ نبی ہی کی حیثیت میں پیش کیا ہے.لیکن افسوس ہے کہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رض کی خلافت سے انکار کی اہمیت جتانے کے لیے بعد میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سے کھلم کھلا انکار کر دیا اور اپنے پہلے بیانات کے خلاف یہاں تک لکھ دیا کہ :-
میں مرزا صاحب کو نبی قرار دنیا نہ صرف اسلام کی بیخ کنی سمجھتا ہوں بلکہ میرے نزدیک خود مرزا صاحب پر بھی اس سے بہت بڑی زد پڑتی ہے.اگر تم آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند نہیں مانتے تو میرے نزدیک یہ بڑی خطرناک راہ ہے اور تم خطرناک غلطی کے مرتکب ہوتے ہو؟ اخبار بینی و صلح جلد نمبر ۱۱۹ ۹ در اپریل ۱۹۱۵ شه اگر اس عبارت میں مولوی صاحب کی حضرت مرزا صاحب کو نبی قرار دینے سے مراد تنقل نبی قرار دینا ہو تو ہم اس کے پہلے سے قائل ہیں کیونکہ ہم تو آپ کو خلقی نبی ہی مانتے ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت ص۳۲۲ میں نبوت کی ایک قسم قرار دیا ہے اور ص۳۲۵ میں لکھا ہے کہ : نبوت اور رسالت کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صد یا مرتبہ استعمال کیا ہے مگر اس لفظ سے وہ مکالمات مخاطبات اللہ مراد ہیں جو بکثرت امور غیب پر مشتمل ہیں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہر ایک شخص گفتگو نہیں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے لکل ان يصطلح سو یہ خدا کی اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ، پھر مولوی صاحب موصوف لکھتے ہیں :- ޕ اس امت میں جس قسم کی نبوت ہو سکتی ہے وہ حضرت
علی کو ضرور ملی ہے.(النبوة في الاسلام مثلا ) یہ عقیدہ مولوی محمد علی صاحب نے قادیان سے لاہور آجانے کے بعد اختیار کیا ہے.کیونکہ قادیان میں ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کے زمانہ میں تو انہوں نے خواجہ غلام الثقلین کے مقابلہ میں حضرت اقدس کو مدعی نبوت ہی قرار دیا تھا اور شہید ہونے والے خلفاء ثلاثہ کے مدعی نبوت ہونے سے جن میں حضرت علی بھی داخل ہیں صاف انکار کر دیا تھا.اسی طرح اپنا عقیدہ بدل لینے پر مولوی صاحب موصوف نے آیت اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت عليهم اور آیت الذین انعم الله عليهم من النبيين والصديقين دالشهداء والصالحین کی تفسیر اپنے پہلے بیان کے خلاف لاہور کے زمانہ میں اپنی تفسیر بیان القرآن میں یہ لکھدی ہے :- یہاں بنی کا لفظ آجانے سے بعض لوگوں کو یہ ٹھوکر لگی ہے کہ خود مقام نبوت بھی اس دعا کے ذریعہ مل سکتا ہے اگر اهدنا الصراط المستقیم کو حصول نبوت کی دعا مانا جائے تو ماننا پڑے گا تیرہ سو سال میں کسی مسلمان کی دعا قبول نہ ہوئی.پھر لکھتے ہیں:.ربیان القرآن منا پس مقام نبوت کے لیے دعا کرنا ایک بے معنی فقرہ ہے اور اس شخص کے منہ سے نکل سکتا ہے جو اصول دین
سے نا واقف ہو.“ ربیان القرآن تفسير سورة الفاتحه گویا اب دعا کے ذریعہ مقام نبوت ملنے کو مولوی اصول دین سے نا واقعی صاحب اپنے پہلے بیان کے خلاف غلطی اور ٹھو کر اور اصول دین سے نا واقعی قرار دے رہے ہیں.حالانکہ اس سے پہلے وہ اس دعا کے نتیجہ کے متعلق یہ کہہ چکے تھے کہ اس ردعا.ناقل ) کی قبولیت بھی یقینی ہے اور مخالف خواہ کوئی بھی معنی کرے ہم تو اس بات پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے.صدیق، شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کر سکتا ہے، مگر چاہیئے مانگنے والا ر تقریر مندرجہ الحکم ۸ در جولائی منشائه) افسوس ہے کہ وہ اپنے اس عقیدہ پر قادیان میں تو قائم تھے مگرلاہور کے زمانہ میں قائم نہیں رہے اور ہم لوگ خدا کے فضل سے اس عقیدہ پر اب بھی اسی طرح قائم ہیں جیسے کہ مولوی محمد علی صاحب قادیان کے زمانے میں اس پر قائم تھے.مولوی محمد علی صاحب کا پہلا مذہب کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذہب کے عین مطابق تھا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود آیت اهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں لکھا ہے :- و" پس ضروری ہوا کہ تمھیں یقین اور محبت کے مرتبہ تک پہنچانے کے لیے خدا کے انبیاء وقتاً بعد وقت آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاؤ دلیکچر سیالکوٹ م) اور ایک غلطی کا ازالہ میں حضور تقریر فرماتے ہیں:.
۳۹ یه عمر دریا د رکھو کہ اس امت کے لیے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور مشکویاں ہیں، جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.لیکن قرآن شریف بجز بنبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لا يظهر على غيبه احدا الا من ارتضى من رسول سے ظاہر ہے.پر مصفیٰ غیب پانے کے لیے نبی ہونا ضروری ہوا.اور آیت انعمت علیہم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفے غیب سے یہ امت محروم نہیں.اور مصفے اغیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت چاہتا ہے.اور وہ طریق براہ راست بند ہے..اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس مومہیبت کے لیے محض برو ظلیت اور فنا فی الرسول کا دروازہ کھلا ہے کہ د ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ مت ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس بیان کے مطابق انبیاء میں امر مشترک جن کی رو سے ڈ سب نبی کہلاتے رہے صرف اظہار علی الغیب سے بینی خدا کی طرف سے اہم امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع دیا جانا.آپ نے امت کو یہ انعام دیے جانے کے وعدہ کا ذکر فرمایا ہے اور اس کے پانے والے کے لیے نبی ہونا ضروری قرار دیا ہے البتہ یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ مومبت ثبوت اب کسی براہِ راست نہیں مل سکتی ، بلکہ اس مہیبت کے پانے کے لیے صرف بروز ظلمیت اور فنا فی الرسول
۴۰ کا دروازہ کھلا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ حضور کی ظلی نبوت بھی دراصل مومیت الہی ہے نہ کسی امریس مسیح موعود کی نبوت اور پہلے انبیاء کی نبوت میں صرف اس موہت کے ذریعہ حصول میں فرق ہے نہ کہ نفس ہوت ہیں.پس فاروقی صائب کا یہ کہنا باطل ہے کہ جس شخص کا تزکیہ کسی انسان کی پیروی سے ہوا ہے اس میں چونکہ اکتساب کا رنگ آ گیا ہے اس لیے اسے بنی نہیں کہہ سکتے.کہ اس کا نور آفتاب کے نور کی طرح اصلی نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ خود عکس ہوتا ہے جیسے چاند کا نور د فتح حق صت) حضرت اقدس نے مسیح موعود اور نبی اللہ کا بلند مقام بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اور کسی طور پر حاصل کیا ہے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی بذریعہ آپ کے خاتم النبیین ہونے کے مسیح موعود نبی اللہ کے لیے صرف شرط کی حیثیت رکھتی ہے.ورنہ مسیح موعود نبی اللہ کا مقام آپ نے خدا تعالٰی کے فضل سے حاصل کیا ہے.کسی طور پر.چنانچہ حضرت اقدس خود تحریر فرماتے ہیں :- ہ میں نے محض خدا کے فضل سے نہا اپنے کسی مہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نہیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی اور میرے لیے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولی فخر الانبیاء خیر امور کی حضرت مصطفے کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.(حقیقة الوحی ص )
3 اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سرا سر خدا کا فضل ہے یعنی موہت.البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اس مومیت کے لیے شرط تھی.جیسا کہ اس سے پہلے پیش کردہ ایک غلطی کا ازالہ کی عبارت سے ظاہر ہے کہ :- اس موسبت کے لیے بروز خلیت اور فنا فی الرسول کا دروازہ کھلا ہے." پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت کا ملہ سے جو نبوت آپ کو ملی، اسے آپ موہیت ہی قرار دیتے ہیں.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور لینے میں قمر ہی ہیں مگر امت کے لیے آپ شمس بھی.بچنا نچہ آپ پر الہام نازل ہوا یا شمس يا قمر انت منی دانا منك - اے قمر اور اے شمس تیرا یہ مقام میری طرف ہے اور اب میرا ظہور تیرے ذریعہ ہو گا.ہے فاروقی صاحب نے اپنے پیش لفظ میں مولف کی دوسری غلط بیانی دوسری خلاف واقعہ بات یہ لکھی ہے کہ مرزا محمود احمد صاحب نے ۱۹۱۴ء میں یہ عقیدہ تراشا تھا کہ حضرت مسیح موعود بنی ہیں اور ان کا منکر کا فر ہے.مگر خدا تعالے نے اس بیان کے خلاف دافعہ ہونے کا اعتراف خود مولف فتح حق کے قلم سے صداہ پر یوں کرا دیا ہے.کہ وہ لکھتے ہیں:.اپریل ائر میں میاں محمد د احمد صاحب نے رسالہ تشجیہ الا ذہان میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا مسلمان وہ ہے جو مرب ماموروں کو مانے.اس
۴۲ مضمون میں میاں صاحب کا ب لکھتے ہیں.میں نہ صرف اس کو جو آپ اسیح موعود ) کو کافر تو نہیں کہتا مگر آپ کے دعوی کو نہیں مانتا کا فر قرار دیا گیا ہے بلکہ وہ بھی جو آپ کو دل سے سچا قرار دیا ہے اور زبانی بھی آپ کا انکار نہیں کرتا.لیکن ابھی بیعت میں اسے کچھ تو قف ہے کا فر قرار دیا گیا ہے.پس یہ پہلی تبدیلی ہے جو میاں محمود احمد صاحب نے اپنے عقید؟ میں کی.“ اس عبارت سے سات ظاہر ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صابیان نے حضرت مسیح موعود کے انکار کو کفر قرار دینے کا عقیدہ ۱۹۱۴ء میں اپنی طلا کے زمانے میں اختیار نہیں کیا بلکہ 19 میں جبکہ حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ خلیفہ ایسے تھے آپ کا یہی عقیدہ تھا اور آپ کا یہ مضمون حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی اجازت سے ہی رسالہ تشمیذ الاذہان میں شائع ہوا تھا.اگر حضرت خلیفہ المسیح الاول کے نزدیک یہ عقیدہ غلط ہوتا تو آپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو اس کی اشاعت سے روک دیتے.آپ کا اس مضمون کو پڑھ لینے کے بعد اس کی اشاعت کی اجازت دیتا اس عقیدہ کے ساتھ خود آپ کے متفق ہونے پر روشن دلیل ہے.فاروقی صاحب آگے لکھتے ہیں :." مسلمانوں کی تکفیر کے اعلان پیر میان صاحب سے یہ سوال ہوا کہ صرف نبی کا منکر کا فر ہوتا ہے کیا آپ
۴۳ حضرت مسیح موعود کو نبی سمجھتے ہیں.تو اس پر میاں محمود احمد صاحب نے یہ اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعود بنی ہیں.یہ دوسری تبدیلی ہے جو میاں محمود احمد صاب نے اپنے عقیدہ میں کی (صفحه ) فاروقی صاحب کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ 19 میں ہی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت مسیح موعود کو نبی بھی مانتے تھے.پس فاروقی صاحب کی یہ بات کہ آپ نے سلسلہ میں عنان خلافت سنبھالنے پر یہ عقیدسے تراشے غلط ہونے کے علاوہ خود اُن کے اپنے بیان کے بھی خلاف ہے.موادی محمد علی صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بعض اور اختلافات مولوی محمد علی صاحب نے جو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کے پریذیڈنٹ اور لاہوری فریق کے امیر تھے.حضرت اقدس کو اپنی تحریرات میں بار بار نبی قرار دینے کے بعد لاہور میں آکر صرف آپ کی نبوت ہی سے انکار نہیں کیا بلکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اور عقائد سے بھی منحرف ہو گئے.ولادت شیخ را چنانچہ مولوی محمد علی صاحب موصوف پہلے حضرت علی کی ولادت کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے چنانچہ ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کے زمانہ میں وہ پا در می چٹو پار یہ کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :-
۴۴ و" میشیح کی پیدائش ایک ایسے رنگ میں ظاہر موٹی تھی جس میں باپ کا دخل نہ ہوا ، اس لیے اُس کو کلمہ کہا گیا.کیونکہ وہ معمولی طور پر باپ کے نطفہ سے ماں کے شکم 66 میں نہ آیا اور وہ اس معمولی طریق سے حامہ نہ ہوتی بلکہ خدا کے کن" سے حاملہ ہوئی اس لیے اُسے کلہ کیا در یویو جلد نمبر اها) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی عقیدہ تھا.چنانچہ آپ اپنی عربی تصنیف مواتب الرحمن جنت میں لکھتے ہیں کہ : یہ بات ہمارے عقائد میں داخل ہے کہ عیسی اور یحیی دونوں خرق عادت کے طور پر پیدا ہوئے ہیں اور اس ولادت میں کوئی استبعاد عقلی نہیں ہے.خدا نے قرآن مجید میں دونوں کے قصوں کو ایک ہی سورہ میں جمع کر دیا ہے تا کہ پہلا قصّہ دوسرے پر گواہ ہو.پھر اسی جگہ حضرت اقدس یہ بھی تحریر فرماتے ہیں :- اہل بصیرت کے نزدیک دو ہی احتمال ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہا جائے کہ حضرت عیسی خدا تعالیٰ کے کلمہ سے پیدا ہوئے یا نعوذ باللہ یہ تسلیم کیا جائے کہ آپ ولد الحرام تھے.اور یہ بات ہم قرآن اور انجیل کے مطابق لکھتے ہیں.پس تم کامیابی اور صداقت کا راستهمت ترک کرد اسی طرح آپ نے ہر مٹی نشا کو ایک شخص کے سوال پر فرمایا :-
قرآن مجید کے پڑھنے سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح بن باپ ہیں اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ نے کمثل ادم جو فرمایا اس سے بھی ظاہر ہے کہ اس میں ایک ہجویہ قدرت ہے جس کے واسطے آدم کی مثال کا ذکر کرنا پڑا.پھر فرماتے ہیں :- " دید ۱۶ مٹی شاء ص۳) ہمارا ایمان اور اعتقاد یہی ہے کہ مسیح ہے باپ تھے.اور اللہ تعالیٰ کو سب طاقتیں ہیں.نیجیری جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کا باپ تھا وہ بڑی غلطی پر نہیں.ایسے لوگوں کا خدا مردہ خدا ہے اور ایسے لوگوں کی دُعا قبول نہیں ہوتی جو خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بے باپ پیدا نہیں کر سکتا.ہم ایسے آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج الحکم ۲۴ جون ۱۹م) سمجھتے ہیں.مولوی محمد علی صاحب کا نیا عقیده مسیح کا باپ تھا لاہور میں آکر مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدہ ۱ رخود اپنے پہلے عقیدہ کے خلاف یہ نیا عقیدہ اختیار کر لیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے باپ یوسف کے نطفہ سے تھے.چنانچہ آپ نے انگریزی ترجمہ القرآن اور اردو تفسیر بیان القرآن میں اس عقیدہ کا اظہار کیا ہے اور یوسف نجار کو ان کا باپ قرار دیا ہے.پھر آپ اپنی کتاب حقیقت مسیح کے صد پر لکھتے ہیں :-
۳۶ رد اگر معجزانہ پیدائش سے یہ مراد ہے کہ حضرت مسیح بن باپ پیدا ہوئے تو قرآن کریم نے یہ کہیں نہیں لکھا ، اگر کہا جائے کہ اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے تو دعویٰ قرآن کریم سے دلیل دینے کا تھا.مگر یہ صرف قرآن کریم میں یہ ذکر نہیں کہ مسیح بن باپ پیدا ہوئے بلکہ کوئی حدیث بھی ایسی نہیں ملتی یا اسی طرح فاروقی صاحب کے والد بزرگوار اور مولوی محمد علی صاحب کے خسر مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے بھی حضر پیچ کی بن باپ ولادت کے عقیدہ کے خلاف یہ لکھا کہ :." د ہم کسی عورت کی نیکی کے ادعا کے باوجود کبھی نہیں مان سکتے کہ وہ بغیر کسی مرد کے حاملہ ہوگئی ہے.خواہ وہ عورت کتنی ہی پارسا اور صاحب عفت و عصمت ہو اور خواہ وہ بیت المقدس اور کعبہ کے اندر ہی رہتی ہو، وہ لاکھ دفعہ کسے کہ میں بغیر مرد کے حاملہ ہوئی ہوں مگر ہم اسے جھوٹا ہی سمجھیں گے.دنیا کی کوئی عدالت خواہ مسلمان ہو یا عیسائی کبھی اس کے حق میں فیصلہ نہیں دے سکتی.پس ایک حاملہ عورت پر حسن ظن کا تقاضا یہی ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ اس کا شوہر ضرور موجود ہے جس سے وہ حاملہ ہوئی ہے.تو یہ کہتا ہے کہ اس کا کوئی شوہر نہیں تحرف عام میں اس کی عزبات پر حملہ کرنے والا ٹھہرے گا.(ولادت مسیح ص۳۲)
گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے تمام مسلمان جو حضرت مسیح کی بلا باپ ولادت کے قائل میں بقول ڈاکٹر بشارت احمد صاحب حضرت صدیقہ کی عزت پر حملہ کرنے والے ٹھہرتے ہیں.یہی وہ بحریت ہے جس سے حضرت مسیح موعود اپنی جماعت کو بچانا چاہتے تھے.لیکن افسوس کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا انکار کر کے یہ لوگ آپ کے اس مخصوص عقیدہ سے بھی منحرف ہو گئے کہ حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ ہوئی تھی جو قرآن سے ثابت ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے متعلق جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالئے کسی کو بے باپ پیدا نہیں کر سکتا فرماتے ہیں کہ ہم اُن کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں (الحکم ۲۴ جون نشر ) افسوس ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سے آزادی کے ان طلب گاروں پر یہ وعید بھی کارگر نہ ہوئی اور انہوں نے اس مسیح موعود کا یہ فیصلہ جسے رسول کریم نے حکم د عدل قرار دیا تھا رہ کر دیا.فاعتبروا يا اولى الابصار حضرت مسیح موعود کے نزدیک آیت آخرین نیم کی لند حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورہ جمعہ کی آیت و آخرين منهم لما يلحقوا بھم کی تفسیر میں تحریر فرمایا تھا :- رجل فارس اور مسیح موعود ایک ہی شخص کے نام ہیں جیسا کہ قرآن شریف نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِم یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے
ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا اور یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اُس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اس سے تعلیم و تربیت پائیں.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہو گا.اس لیے اس کے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کہلائیں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک بنی کے ظاہر ہونے کے متعلق ایک پیشگوئی ہے ؟ ور نہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول ہے رکھا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے تھے جنھوں نے آنحضرت کو نہیں دیکھا " مہ حقیقۃ الوحی ص ) مولوی محمد علی صاحب کا خلافت حقہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت اس تفسیر سے انحراف سے انکار کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور اہل پنجایم صراط مستقیم سے اتنے دور جا پڑے کہ سلسلہ احمدیہ کی خصوصیات اور تعلیمات کو بالکل چھوڑ بیٹھے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف آیت آخرین منم کی تفسیر میں اور حدیث لناله رجل من فارس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی مندرجہ بالا تفسیر کے خلاف لکھتے ہیں :-
۴۹ لحدیث کا منشا یہ نہیں کہ آخرین منم صرف فارسیوں میں سے ایک یا چند آدمی ہیں بلکہ یہ آخرین کی مدح کے طور پر آیا ہے کہ دوسرے لوگ جنھوں نے مجھ سے براه راست تعلیم نہیں پائی بلکہ وہ مجھ سے بعد میں آئیں گے اور میری تعلیم سے فائدہ اٹھائیں گے ، تو اُن میں سے ایسے کامل الایمان لوگ بھی ہونگے اور یوں آخرین مہم میں کل اقمت صحابہ کے بعد اول سے لیکر آخر تک شامل ہیں.گویا ایک تو نبی کریم کے صحابہ ہیں، جن کی تعریف قرآن شریف میں بار بار آچکی اور ایک آخرین ہیں.ان کی تعریف میں آنحضرت نے یہ لفظ فرمائے کہ ان میں بھی بڑے بڑے کامل الایمان لوگ ہونگے.اور یہ آیت نص صریح اسبات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرا نبی نہیں آسکتا نہ حضرت عیسی آسکتے ہیں.بیان القرآن من ۱۴ تصنیف مولوی محمد علی (هنا) حالانکہ ۱۹ ء میں مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تفسیر سے پورا اتفاق کرتے ہوئے آپ کے ہمنوا ہو کر اس ;- آیت کے متعلق لکھا تھا نیز آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم ہوگی جو ابھی ان صحابہ میں شامل نہیں ہوئی وہ قوم رجماعت سیح موعوم بھی انہی لوگوں کے ہمرنگ اور ان میں بھی اسی طرح
ہی موت ہوگا جو انھیں خدا کی آیات سُنائے گا اور انھیں پاک بنائے گا اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیگا.آیت کریمہ میں جن لوگوں کے درمیان اس فارسی الاصل نبی کی بعثت لکھی ہے انھیں آخرین کہا گیا ہے.یہی وہ لفظ ہے جو جنسہ یا جس کے مترادف الفاظ ان تمام پیش گوئیوں میں لکھے ہوئے ہیں جو مسیح موعود کے نزول کے متعلق ہیں.پھر آگے چل کر یہ لکھا ہے :.نبی آخر زماں کا ایک نام رجل من ابناء فارس بھی ہے.ریویو اف والمنجنيز جلد نمبر ۳ بابت ماہ مارچ ک الله حضرت مسیح موعود سے مولوی صاحب کا ایک اور اختلاف مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ : - بعض نادان کہتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر انسان تو آپ کے نام سے بھی بے خبر ہیں.پھر وہ لوگ زلزلوں اور آتش فشاں پہاڑوں سے کیوں ہلاک ہوئے.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے کثرت گنا ہوں اور بدکاریوں کی وجہ سے اس لائق ہو چکے تھے کہ دنیا میں ان پر عذاب نازل کیا جائے.پس خدا تعالے نے اپنی سنت کے
ان موافق ایک نبی کے مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھنا اور جب وہ نبی مبعوث ہو گیا اور اس قوم کو ہزار ہا اشتہاروں اور رسالوں سے دعوت دی گئی.تب وہ وقت آگیا کہ ان کو ان کے جرائم کی سزادی جادے.اور یہ بات ہر آ غلط ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ میرے نام سے بھی بے خبر ہیں.یہ امر کی منصف مزاج پر پوشیدہ نہیں رہیگا کہ عرصہ قریباً میں برس کا گزر گیا ہے.جبکہ میں نے سولہ ہزار اشتہار دعوت، انگریزی میں چھپوا کر اور اس میں اپنے دعوطی اور دلائل کا ذکر کر کے یورپ اور امریکہ ہیں کا تقسیم کیا تھا اور بعد اس کے مختلف اشتہارات وقت فوقتا تقسیم ہوتے رہے اور پھر کئی برس سے رسالہ انگریزی ریویو آن ریجنز یورپ اور امریکہ میں بھیجا جاتا ہے اور یورپ کے اخباروں میں بارہا میرے دعوئی کا ذکر ہوا ہے.....پس اصل بات یہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ دما کنا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً - خدا تعالى دنیا میں عذاب نازل نہیں کرتا ، جب تک اس سے پہلے رسول نہیں بھیجتا.یہی سنت اللہ ہے اور ظاہر ہے یورپ اور امریکہ میں کوئی رسول پیدا نہیں ہوا.پس ان پر جو عذاب نازل ہوا صرف میرے دعوی کے بعد ہوا نہ رتمه حقیقة الوحی صفحه ۵۲ - ۵۳)
۵۲ اسی طرح حضور فرماتے ہیں :- جو شخص غور اور ایمان داری سے قرآن کریم کو پڑھے گا اس پر ظاہر ہو گا کہ آخری زمانہ کے سخت عذابوں کے وقت جبکہ اکثر حصے زمین کے زیر و زبر کیے جائیں گے اور سخت طاعون پڑے گی اور ہر ایک پہلو سے موت کا بازار گرم ہوگا اس وقت ایک رسول کا آنا ضروری ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ماکت معذبين حتى نبعث رسولاً یعنی هم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب اک عذاب سے پہلے رسول نہ بھیج دیں.پھر جس حالت میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے وقت میں رسول آئے ہیں جیسا کہ زمانہ کے گذشتہ واقعات سے ثابت ہے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس عظیم الشان عذاب کے وقت میں جو آخری زمانہ کا عذاب ہے اور تمام عالم پر محیط ہونے والا ہے جیس کی نسبت تمام نبیوں نے پیش گوئی کی تھی.خدا کی طرف سے رسول ظاہر نہ ہو.اس سے تو صریح تکذیب کلام اللہ کی لازم آتی ہے.پس وہی رسول مسیح موعود ہے " م حقیقة الوحی ص ) پھر یہی آیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الہاما نازل ہوئی ملاحظہ ہو بدر - ۱۷ اکتوبر ۲۰۱۹۰۶ لاہور آکر مولوی محمد علی قادیان سے لاہور آگر مولوی صاحب موصوفت صاحب کی تفسیر آیت دما كنا معذبين حتى نبعث رسولاً
۵۳ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :- جو لوگ ان الفاظ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ دنیا میں کبھی کوئی عذاب نہیں آتا جب تک پہلے کوئی رسول مبعوث نہ کیا ہجائے وہ غلطی کرتے ہیں.پھر اگر رسول کی ضرورت ہے تو عین اس مقام پر جہاں عذاب آئے.مثلا جنگ کا عذاب یورپ میں آئے یا کوئی بھاری زلزلہ املی میں آئے اور اس سے دلیل یہ لی جائے کہ اس وقت کوئی رسول مبعوث ہو گیا ہے تو پھر ایسے رسول کا ہندوستان میں مبعوث ہونا خدائے حکیم کا فضل نہیں ہو سکتا میں میں حکمت کچھ بھی نہیں.وہ رسول یورپ یا اٹلی میں آنا چاہیے تھا.پھر دوسری وقت یہ ہے کہ ہر رسول کے لیے ایک وقت مقرر کرنا پڑے گا کہ اگر اس کے بعد اتنے عرصہ تک عذاب آئے تو یہ اس کی بعثت کی وجہ سے ہو گا اور اگر اس میعاد کے بعد آئے تو نیا رسول چاہیے اور اب جو عذاب آرہے ہیں اگر ان کے لیے کوئی نیا رسول پیدا ہونا ضروری ہو چکا ہے تو اب آئندہ رسول کی کب ضرورت ہوگی.آیا یہ قانون تیرہ سو سال کا بن جائے گا.ایسی باتیں کرنا گویا لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ مذہب علم نہیں بلکہ ایک کھیل ہے.ربیان القرآن صفحه ۱۱۱۷ و ۱۱۱۸) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو آیت دما كنا معذبين حتى نبعث
۵۴ رسولا کو اپنی صداقت کی دلیل ٹھہرا کر اس کے رو سے اپنا رسول ہونا تحریر فرمایا تھا اور یورپ ، امریکہ اور اٹلی وغیرہ میں زلازل وغیرہ عذابوں کے آنے کا باعث اپنا بطور رسول مبعوث ہونا قرار دیا تھا لیکن صد افسوس کہ مولوی محمد علی صاحب لاہور میں آکر اس امر کو مذہب کو کھیل بنانا قرار دیتے ہیں.ڈاکٹر عبدالحکیم خاں نے بھی حضرت مسیح موعود کی تکذیب میں ایسی باتیں لکھی تھیں چنا نچہ ڈاکٹر مذکور نے لکھا تھا کہ :- عمار السا ” اور خدا وند کریم بادلہ ہو گیا ہے کہ تکذیب تو قادیان ، بٹالہ ، امرتسر میں ہو اور وہ تباہ کرتا پھرے کولمبو، اٹلی ، سان فرانسسکو - فارموسا اور دیگر بلاد و دیہات کو جن کو آپ کی خبر تک نہیں.(الذكر الحكيم نمبر۴ ص۳۳ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :."جو شخص مجھے سچے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازع کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے.مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا تم اس میں نخوت ، خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے.پس جانو کہ وہ مجھ سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا.اس لیے آسمان پراس کی عزت نہیں " (اربعین نمبر ۳ حاشیہ ص۳۲)
۵۵ لاہوری فریق کی خود سری | اس ہدایت کے خلاف لاہوری فریق کی خوسری ملاحظہ ہو.پیغام صلح جلد نمبرہ میں لکھا ہے:.اگر امام رسیح موعود.ناقل ) بھی ہم سے وہ بات منوانی چاہے جس کی قرآن وحدیث میں سند نہیں تو ہم اُسے نہیں مانیں گے " حالانکہ اس امام آخر الزماں کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دعدل قرار دیا ہے اور اہل پیغام خود مسیح عود پر حکم بننا چاہتے ہیں.باب دوم فاروقی صاحب کی کتاب فتح حق کے پیش لفظ کی بعض اہم باتوں پر تبصر کرنے کے بعد اب ہم ان کی کتاب کے متن پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں.اپنی کتاب کے صفحہ مت پر فاروقی صاحب نے ست بچن سے یہ عبارت نقل کی ہے:.جو لوگ خدا سے براہِ راست بغیر کسی نبی کی اتباع کے تعلق پیدا کرتے ہیں وہ نبی کہلاتے ہیں اور جو نبیوں کی اتباع کے نتیجہ میں خدا سے تعلق پیدا کرتے ہیں وہ ولی کہلاتے ہیں.“ دست بین ص ۶ و ۶۷ ) اس بارہ میں واضح ہو کہ یہ بات عام انبیاء کے لحاظ سے تو درست ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک خاتم النبیین کی شان کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ کا متبع محض دلی ہی نہیں بنتا بلکہ نبی بھی بن سکتا ہے بشر طیکہ دنیا میں ایک نبی کی ضرورت ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود تخریب فرماتے ہیں :-
۵۶ مجھے خداتعالی نے میری دھی میں بار بار امتی کہ کبھی کارا ہے اور نبی کہہ کر بھی.ان دونو نا موں کو سننے سے میرے دل میں نہایت لذت پیدا ہوتی ہے اور میں شکر کرتا ہوں کہ اس مرکب نام سے تجھے عزت دی گئی اور اس مرکب نام رکھتے ہیں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم تو عیسی بن مریم کو خدا بناتے ہو لیکن ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ کانتی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیبی کہلا سکتا ہے حالانکہ وہ امتی ہے “ ضمیمه بر این احمدیہ حصہ پنجم ) " اس کی امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے حالانکہ وہ امتی ہے" کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس نبی بھی ہیں اور اتنی بھی نہ کہ محض ولی.پس گو دوسرے نبیوں کی اتباع میں صرف دلی ہی پیدا ہو سکتے تھے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک دلی سے بڑھ کر اتنی نہی بھی پیدا ہو سکتا ہے.فاروقی صاحب کی آیت خاتم النبین کی تفہ فاروقی صاحب نے اپنی کتاب کے منہ پر آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں خاتم النبیین کے دو معنی کیسے ہیں.اول آخری نبی جنھیں وہ خاتم النبیین کے حقیقی معنی قرار دیتے ہیں اور دوسرے معنی " نبیوں پر قمر" کیے ہیں اور اُن کی تشریح میں لکھا ہے :-
خاتم النبیین کے لفظ کے دو ہی معلوم ہیں اول یہ کہ آپ آخری نبی ہیں اور دوسرے یہ کہ آپ کی اتباع سے وہ کمالات آئندہ بلا انقطاع ملا کریں گے جو پہلے متفرق نبیوں کی وساطت سے ملتے تھے " حنا حضرت مسیح موعود کی تفسیر اس تفسیر کے بالمقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاتم النبیین کے معنی نبیوں کی مہر کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ :- اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خانم بنا یا یعنی آپ کو افاضیہ کمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین شھر یعنی آپ کی پیروی کمالات بنوت بخشتی ہے در آپ کی وجہ روحانی نبی تراش ہے یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی " (حقیقة الوحی حاشید مه) ست بچن کی عبارت -1 سے آپ معلوم کر چکے ہیں کہ انبیاء کی اتباع سے ولی بنتے ہیں.مگر اس عبارت میں خاتم النبیین کا بلند ترین اور انبیاء میں سے ممتاز ترین مقام بیان کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں کمالات نبوت بھی ملتے ہیں یعنی ولایت اور محدثیت وغیرہ اور آپ کی تو جہ روحانی نبی تراش بھی ہے.یعنی آپ کے فیضان سے آپ کا امتی مقام نبوت ” بھی پاسکتا ہے اور حضرت اقدس نے یہ اعلان بھی فرما دیا ہے کہ نبی تراش" ہونے کی قوت قدسیہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دی گئی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیین کے فیض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی
۵۸ کو دلایت کے مقام سے بڑھ کر نبوت کا مقام بھی حاصل ہو سکتا ہے.اگر اس جگہ نبی تراش سے مراد ولی تراش کی جائے تو خاتم النبیین کی خصوصیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام انبیاء حقیقتاً شریک ہو جاتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی تو نہیں ملی.پس بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کے معنوں میں بھی خاتم النبیین ہیں گو یہ معنی حقیقی معنی نہیں بلکہ حقیقی معنی نبی تراش کو لازم ہیں بس آپ آخری نبی ) کول: آپ آخری نبی اس وصف کے ساتھ ہیں کہ آپ نبی ترانش بھی ہیں جس کے یہ معنی ہوئے کہ آئندہ کوئی شخص آپ کی شریعت کی پیروی کے بغیر مقام نبوت نہیں پا سکتا.لیکن آپ کی شریعیت چونکہ قیامت تک ہینگی ہذا آپ شارع انبیاء میں آخری فرد ہیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان افاضہ بیان کرتے ہوئے حضرت میسج موعود علیہ السلام نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ :- بجز اس دفعاتم النبین - ناقل) کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں، ایک وہی ہے جس کی شہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے ،جس کے لیے امتی ہونا لازمی ہے " اور یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ :- (حقیقة الوحی مث ) اس اُمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی کبریت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.رحقیقة الوحی حاشیہ مث
۵۹ پس امت محمدیہ میں تیرہ سو سال تک امتی نبی یار کی ہوا ہے.یہ کون ہے ؟ حضور فرماتے ہیں:.تریشی پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت اللہ علیہ وسلم کی امت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہونگے اور ایک ایسا ہوگا جو ایک پہلو سے نبی ہے اور ایک پہلو سے امتی اور وہی مسیح موعود کہلا ئیگا.(حقیقۃ الوحی حاشیه صنا) ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سیح موعود علیہ السلام کے درمیان گو ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں لیکن امتی نبی اس وقت تک صرف ایک ہی شخص ہوا ہے جو مسیح موعود علیہ السلام ہیں پس مولوی محمد علی صاحب کا یہ کہنا کہ جو نبوت حضرت مسیح موعود کو حاصل ہے وہ حضرت علی رض کو ضرور ملی، محض حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے انحراف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مذہب یہ ہے کہ : شدت لانے والانہی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعیت کے نبی ہو سکتا ہے.مگر دہی جو پہلے امتی ہوں" تجليات البيه م) القطاع نبوت کے متعلق احادیث کا اجمالی حل فاروقی صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۰ تا ۱۲ میں تین حدیثیں القطاع نبوت کے ثبوت میں پیش کی ہیں.ہم ان سب حدیثوں کو صحیح مانتے ہیں.لیکن ان سب حدیثوں میں صرف بنی کی آمد کا انقطاع مذکور ہے نہ کہ اُمتی نبی کی آمد کا انقطاع.
۶۰ به حدیثیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دعوئی میں روک نہیں ہیں کہ آپ ایک پہلو سے بنی ہیں اور ایک پہلو سے امتی حضرت اقدس کا ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی ہونا یا بالفاظ دیگر فلسلی نبی ہونا تو فاروقی صاحب کو بھی مسلم ہے سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور ہم لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ھتی اور امتی نبی ہی مانتے ہیں مستقل اور تشریعی نبی نہیں مانتے.یہ الگ بحث ہے کہ امتی نبی اور ظلی نبی نبی ہوتا ہے یا نہیں ؟ جب حضرت مسیح موعود علیہ اسلام صرف نبی نہیں تو پھر ان حدیثوں کا ہمارے سامنے پیش کرنا جن میں صرف نبی کا انقطاع ہوا ہے دانشمندی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں :- " مگر اس کا رآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل پیرڈ صرف نبی نہیں کہلا سکتا.کیونکہ نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی اس میں ہنگ ہے ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اُس پر صادق آ سکتے ہیں.کیونکہ اس میں نبوت نامہ کا عملہ محمدیہ کی مہتک نہیں بلکہ اس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظا ہر ہوتی ہے ہے آگے چل کر لکھتے ہیں :.ر الوصیت من...ایسی صورت کی نبوت نبوت محمدیہ سے الگ نہیں بلکہ اگر غور سے دیکھو تو خود وہ نبوت محمدیہ ہی ہے جو ایک پیرایہ جدید میں جلوہ گر ہوئی ہے یہی معنی اس فقر کے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے حق میں فرمایا کہ نبی الله و امامکم منکم یعنی
وہ نبی ہے اور امتی بھی ہے.ورنہ غیر کو اس جگہ قدم رکھنے کی جگہ نہیں.مبارک وہ جو اس نکتہ کو سمجھے تا ہلاک ہونے (الوصيت من او ۱۹ ) سے بچ جائے " نیز تحریر فرماتے ہیں:." مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار بار امتی کر کے بھی پکارا ہے اور نہی کر کے بھی.ان دونو ناموں کے سننے سے میرے دل میں نہایت لذت پیدا ہوتی ہے اور میں شکر کرتا ہوں کہ اس مرکب نام سے مجھے عزت دی گئی اور اس مرکب نام رکھتے ہیں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم تو عیسی بن مریم کو خدا بناتے ہو مگر ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرق ہوں کتنا ہے اور عیسے کہلا سکتا ہے.حالانکہ وہ امتی ہے ر ضمیمه برامین احمدیہ حصہ پنجم منشا ) پس حدیث لانبی بعدی اور اس قسم کی اور احادیث جو انقطاع نبوت پر دال ہیں حضرت اقدس کے نزدیک اتنی نبی کے آنے میں مانع نہیں.کیونکہ اتنی نبی صرف نبی" نہیں کہلاتا.بلکہ امنتی اور نبی کے دو نو لفظ اس پر اجتماعی حالت میں صادق آتے ہیں.اور امتی نبی کے انقطاع کے بارہ میں کوئی حدیث نبوی موجود نہیں.بلکہ بعض ایسی احادیث موجود ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امنی نبی کے امکان پر روشن دلیل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آیت ولكن رسول الله و خاتم النبيين
۶۲ حدیث لا نبی بعدی کے پیش نظر تحریر فرماتے ہیں :- اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتمہ النبین ہیں پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پرانا نہیں آ سکتا.جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں ان کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چاہیں برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے.بے شک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت ولكن رسول الله وخاتم النبيين اور حدیث لانبی بعدی اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے.لیکن ہم اس قسم کے عقاید کے سخت مخالف ہیں.اور ہم اس آیت پر سینچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا ولکن رسول الله وخاتم النبیین اور اس آیت میں ایک پیش گوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالے اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میت گوشیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے ہیں اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی
رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے ہیروت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے.یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پریتی طور پر دہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے.اس لیے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں.کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے.اور نہ اپنے لیے بلکہ اسی کے حلال کے لیے.اس لیے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد ہی کو ملی گو بروزی طور پر مگر یہ کسی اور کو.پس یہ آیت کہ ما كان محمد ابا احد من رجالكم ولكن رسول اللہ وخاتم النبیین اس کے معنی یہ ہیں که لیس محمد ابا احد من رجال الدنيا ولكن هواب لرجال الآخرة لانه خاتم النبيين ولا سبيل إلى فيوض الله من غير توسطه ترجمہ : محمد ر صلی اللہ علیہ وسلم ) دنیا کے آدمیوں میں سے کسی کے باپ نہیں.لیکن آخرت کے آدمیوں کے باپ ہیں.کیونکہ وہ خاتم النبیین ہیں اور اللہ کے فیوض کی طرف ان کے توسط کے بغیر کوئی راہ نہیں.ناقل ).عرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد
ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنا فی الرسول کے مجھے ملا.ہندا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا.لیکن عیسی کے اُترنے سے ضرو فرق آئے گا اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنی لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا پس جہاں یہ معنی صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا.اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفی کی شہر اس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لا يُظهِرُ على غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ا اگر به محضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کے رو سے نہی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات مخاطبات اللہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہونگے بالضرورت اس پر مطابق آیت لَا يُظهِرُ عَلیٰ غیبہ کے مفہوم بنی کا صادق آئے گا " ایک غلطی کا ازالہ صده الالالالالالالات الارشاد باروری
۶۵ انقطاع نبوت سے متعلقہ احادیث کا تفصیلی حل پہلی حدیث پہلی حدیث فاروقی صاحب نے یہ پیش کی ہے :- انه سيكون فى امتى ثلثون كدا با كلهم يزعم انه نبي وانا خاتم النبيين لا نبي بعدی - رفتح حق صنا حدیث ہذا کے حقہ خاتم النبیستین لا نبی بعدی کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر سے اوپر درج کی جا چکی ہے.افسوس ہے کہ کبھی غیر احمدی یہ حدیث حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے خلافہ پیش کیا کرتے تھے.مگر وائے بد قسمتی اب احمدی کہلانے والا لاہوری فریق بھی غیر احمدیوں کی روش پر چل نکلا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اس حدیث کے پیش کرنے والوں کو یہ جواب دیا کرتے تھے کہ کیا تمھاری قسمت میں دجالوں کا آنا ہی لکھا ہے کسی بچے کے آنے کی خبر نہیں.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :- " کہتے ہیں کہ حدیثوں میں ہے کہ اس امت میں تیس دجال آدیں گے تا امت کا اچھی طرح خاتمہ کردیں.کیا خوب عقیدہ ہے.اسے نادانو ! کیا اس امت کی ایسی ہی چھوٹی ہوئی قسمت اور ایسی ہی بدطالع ہے کہ اس کے حصہ میں نہیں دجال ہی رہ گئے.دجال تو نہیں مگر طوفان صلیب کو فرو کرنے کے لیسے ایک بھی مجدد نہ آسکا ز ہے قسمت.خدا نے پہلی امتوں کے لیے تو پے در پے نبی اور رسول بھیجے لیکن جب اس کے امت کی نوبت آئی تو نہیں دجالوں کی خوشخبری سنائی گئی
५५ نوٹ :.اس جگہ مجتہد کے لفظ سے غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہئیے کہ مسیح موتو بی نہیں صرف مجدد ہی ہے.کیونکہ اسی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرما دیا ہے :- ئیں رسول اور نبی ہوں بینی با عتبار طبیت کا ملہ کے وہ آئینہ ہوں جس میں محمد کی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے ( نزول مسیح ) پھر اسی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں :.“ دونوں سلسلوں رسلسله موسوی (محمدی - ناقل) کا تقابل پورا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ موسوی بیچے کے مقابل پیر محمدی مسیح بھی شان نہوتہ کے ساتھ آئے تا اس ہونہ، عالیہ کی کسر شان نہ ہو.اس لیے خدا تعالیٰ نے میرے وجود کو ایک کامل ظلمیت کے ساتھ پیدا کیا ا در طی طور پر نبوت محمد ؟! اس میں رکھ دی تا کہ ایک معنی سے مجھ پر نبی اللہ کا لفظ صادق آدے اور دوسرے معنوں سے ختم نبوت محفوظ رہے " رنز دل ح ص فاروقی صاحب مسیح موعود علیہ السلام کو تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح مسلم کی نواس بن سمتان والی حدیث میں چار دفعہ نبی اللہ قرار ہا ہے.کیا مسیح موعود بھی معاذ اللہ ان دھالوں میں شامل ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں تو ہمارے مقابلہ میں آپ کا اس حدیث کو پیش کرنا دانشمندی نہیں.بے شک حضرت مسیح موعود بموجب حدیث صحیح مسلم نبی ہیں اور بموجب
44 حدیث امامکم منکم کے امتی ہیں.پس مسیح موعود کا بصورت اُمتی نبی کے آنا احادیث نبویہ سے ثابت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بھی خدا تعالے نے آپ کو بار بار نبی اور رسول کہا ہے اور کسی جگہ بھی الہام میں یہ نہیں فرمایا کہ آپ نبی نہیں.بلکہ آپ کو یا ایها النبی کہ کر الہام میں مخاطب بھی کیا گیا ہے اور پھر آپ پر یہ الہام بھی نازل ہوا ہے :- ول العدو است مرسلاً کہ آپ کا دشمن یہ کہے گا آپ مرسل نہیں.فاروقی صاحب ! کیا آپ اور آپ کا گردہ اعدا میں شامل ہونا پسند کریں گئے؟ دوسری حدیث | فاروقی صاحب نے دوسری حدیث یہ پیش کی ہے :- قال رسول الله يعلى انتَ مِنّى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبی بعدی - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو جنگ تبوک پر جاتے ہوئے اور انھیں اپنے پیچھے بطور خلیفہ چھوڑتے ہوئے) فرمایا تو مجھ سے اس مرتبہ پر ہے جو مرتبہ حضرت ہا روٹی کو حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں حاصل تھا.مگر میرے بعد ریعنی میری اس غیر حاضری میں کوئی نبی نہیں.واضح ہے کہ یہ حدیث تو یہ بتانے کے لیے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے غزوہ تبوک پر جانے کے بعد مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مقامی امیر تو ہیں مگر حضور کے مدینہ منورہ سے جنگ پر جانے کی وجہ سے آپ کی غیر موجودگی میں نبی نہیں.چونکہ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے طور پر جانے کے وقت ان کی غیر موجودگی میں اُن کے تخلیقہ ہونے کے علاوہ بنی بھی تھے.اس لیے کسی کو یہ غلطی لگ سکتی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
نے حضرت علی کو حضرت ہارون کے مرتبہ پر قرار دیا ہے تو وہ حضرت ہارون کی طرح نبی بھی ہو گئے.ہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غلط انہی دور کرنے کے لیے فرما دیا الا انه لا نبی بعدی.کہ میرے غزوہ تبوک پر جانے پر مدینہ میں میری غیر موجودگی میں میرے سوا کوئی نبی نہیں.گویا حضرت علی رض اس وقت صرف مقامی امیر ہوں گے نہ کہ بنی بھی.اسی روائت کے مضمون مشتمل ایک روایت مسند احمد بن حنبل میں ہے جس کے الفاظ ہیں :.غير انك لست نبياً ، نخ ترجمہ :.مگراسے علی تو نبی نہیں.پس پہلی روائت میں بھی بھی بنایا گیا ہے کہ اے علی میری غزوہ تبوک پر مدینہ منورہ سے غیر موجودگی میں تم مقام امیر تو ہو گر تم حضرت ہارون کی طرح نبی ہرگز نہیں.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی جو اپنے زمانہ کے مجدد تھے ، اپنی كتاب قرة العتيين في تفضیل الشیخین میں تحریر فرماتے ہیں :.معنی بعدی این جا غیری است چنانچه در آیت فمن يهديه مِنْ بَعْدِ اللهِ گفته اند نه بعد یت زمانی ترجمہ :- تعدی کے معنی اس جگہ غیری (میرے سوا، ہیں جیسا کہ آیت ضمن مهدی من بعد اللہ میں کہتے ہیں نہ کہ بعد یت زمانی.پس حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی تشریح کے مطابق زیر بحث حدیث ہیں لانبی بعدی کے معنی ہیں اس وقت میرے سوا کوئی نبی نہیں نہ کہ میرے بعد کوئی بنی نہیں ہوگا.
۶۹ بعدی کے معنی اس جگہ میرے سوا کے لیے حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے یہ دلیل دی ہے کہ :.زیرا که حضرت ہارون بعد حضرت موسی نماندند تا ایشان را بعدیت ثابت شود کہ حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے وفات پاگئے پس ان کے لیے بعد یت زمانی ثابت نہیں.لہذا حدیث زیر بحث میں بھی لا نبی بعدی میں بعد یت زمانی مراد نہیں.یہ تشریح شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے اُن لوگوں کے رد میں لکھی ہے جو بعد می سے اس حدیث میں بعد یت زمانیہ مراد لے کر حضرت علی رضا کی خلافت بلا فصل پر اس حدیث کو حجبت قرار دیتے ہیں.اس موقعہ پر فاروقی صاحب نے لکھا ہے :- بعض لوگ یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ صاحب شریعت نبی تھے اور حضرت ہارون غیر صاحب شریعت مگر اگر یہ صحیح ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی کو غیر تشریعی نبی سمجھتے تھے تو پھر الفاظ لانبی بعدی کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی.کیونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا رتبہ خود ہی تشریح کر دنیا رفتح حق صلا) ناروقی صاحب کی اگر بعض لوگ سے مراد ہم احمدی جماعت کے افراد میں تو ہم حضرت ہارون علیہ السلام کو بے شک شارع نبی تو نہیں سمجھتے مگر مستقل نبی لے یہ کون کہتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی و غیر تشریعی نبی سمجھتے تھے.فاروقی صاحب یونہی ایک مفروضہ گھڑ رہے ہیں.
ضرور سمجھتے ہیں اور ان کا مستقل نبی ہونا توں ہوری فریق کے احمدیوں کو بھی مسلم ہے بلکہ فاروقی صاحب تو اب انہیں تشریعی نبی قرار دینا چاہتے ہیں.لہذا وہ ذرا سر جھکا کر سوچیں کہ وہ ہمارے خلاف کیا لکھ رہے ہیں ؟ یہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے یہ تو خود ان کے خلاف جاتا ہے.کیونکہ جب وہ حضرت ہارون علیہ السلام کو تشریعی اور مستقل نبی جانتے ہیں اور اس وجہ سے لانبی بعدی کہنے کی ضرورت بھی انہیں مسلم ہے.تو ہم لوگ اسی طرح انھیں مستقل بنی جانے کی وجہ اس جگہ لابی بعدی کہنے کی ضرورت تسلیم کرتے ہیں.تاکہ کوئی شخص حضرت علی رض کو ہارون کے رتبہ پر قرار دیا جانے کی وجہ سے انھیں بقول خالہ وقی صاحب تشریعی نبی اور بقول ہمارے مستقل نبی نہ سمجھ لے.پس اس حدیث کے الفاظ انہ لا نبی بعدی میں تشریعی نبی اور مستقل نبی کے آنے کی نفی ثابت ہوئی.حضرت ہارون علیہ السلام امتی نبی تھے ہی نہیں.کہ حضرت علی رض کے امتی نبی ہونے کا احتمال اور غلط فہمی واقع ہوتی.صرف مستقل نبی کے ہونے کا ہی احتمال پیدا ہو سکتا تھا جیسے دور کر دیا گیا.تیسری حدیث | تیسری حدیث فاروقی صاحب نے یہ پیش کی ہے :.عن ابى هريرة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قالَ إِنْ مَثَلى ومَثَلَ الانبياء مِن قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنى بيتًا فَاحْسَنَهُ وَاَجْمَلَهُ الَّا مَوضَعَ لِنَةٍ مِنْ ذَا دِيَة فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَ يَتَعَجَّبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلاَ وُضِعت هذه اللبنة قال فانا اللبنة وانا خاتم " **
النبين.ترجمہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری مثال اور ان نبیوں کی مثال جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں ایک ایسے شخص کی مثال ہے جس نے ایک گھر بنایا.پس اسے بہت چھا بنایا اور خوبصورت بنایا.مگر اس کے کونہ سے ایک اینٹ کی جگہ خالی رہی.سو لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور اس پر تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی.فرمایا ئیں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیہ بین ہوں.رفتح حق ص ۱۲) واضح ہو کہ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال اپنے سے پہلے گزرے ہوئے نبیوں سے دی ہے.یہ سب ؟ و جو آدم علیہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک گذرے مستقل انبیاء تھے اور یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مستقل انبیاء میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں.پس خاتم النبیین میں انقطاع نبوت کا جو مفہوم ہے وہ اس حدیث سے حسین ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری مستقل بنی ہیں اور کوئی مستقل نبی آپ کے بعد تا قیامت نہیں آسکتا.لیکن ظلی نبی اور امتی نبی کے آئے ہیں یہ حدیث روک نہیں اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو ظلی نبی اور امتی نبی قرار دیا ہے.محمد ثین نے اس حدیث کی تشریح میں محل سے مراد محل شریعت کیا ہے جس کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعیت کے ذریعہ ہوئی ہے.چنانچ
۷۲ امام ابن حجر محدث علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی تشریح میں فتح الباری صحیح بخاری میں لکھا ہے :- المراد هنا النَّظُرُ إِلَى الْأَكْمل بالنسبة إلى الشرايَةِ الْمُحَمَّدَيَّةٍ مَعَ مَا مَضَى مِنْ الشرائع الكاملة.رفتح الباری جلد ٥٦ ) یعنی مراد اس تکمیل عمارت سے یہ ہے کہ شریعت محمدیہ پہلے گزری ہوئی کامل شریعتوں کے مقابلہ میں اکمل سمجھی جائے.علامہ ابن حجر کی اس تشریح کے مطابق اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری اینٹ صرف شریعیت لانے والے نبیوں میں سے شریعت کی تکمیل کرنے کے لحاظ سے آخر ی شارع نبی قرار دینے کے لیے کہا گیا ہے.فاروقی صاحب انقطاع نبوت کے متعلق یہ تین حدیث پیش کرنے کے بعد اپنی کتاب کے صدا و ۱۳ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق ہماری طرف سے پیش کی جانے والی دو حدیثوں کا صرف ترجمہ درج کرتے ہیں اور ہمارے استدلال کو رد کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں.مسیح موعود کی نبوت ( فاروقی صاحب مسیح موعود کی نبوت کے متعلق ہماری کے متعلق پہلی حدیث طرف سے پیش کی جانے والی پہلی حدیث کا ترجمہ یہ لکھتے ہیں :- ہیں:.نبی علاتی بھائی ہوتے ہیں ان کی مائیں مختلف ہوتی ہیں اور ان کا دین ایک ہے اور میں سب سے زیادہ قریب ہوں عیسی بن مریم سے میرے اور اس کے درمیانا
۷۳ کوئی نبی نہیں ہوا اور وہ ضرور نازل ہونے والا ہے.پس جب تم اس کو دیکھو......؟ (فاروقی صاحب نے باقی حصہ کا ترجمہ نہیں کیا.ناقل ) اس کے بعد لکھتے ہیں :.یہاں عیسی بن مریم سے مراد بنی اسرائیلی نبی ہیں.کیونکہ شروع اس حدیث کا یوں ہوتا ہے کہ انبیاء علاقی بھائی ہوتے ہیں اب ظاہر ہے کہ مسیح موعود جو اس امت کا ایک فرد ہے کیونکہ حضرت عیسی تو دفات پاچکے اور مرنے کے بعد پھر کوئی اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا ) وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی نہیں کہلا سکتا بلکہ اس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ عظیم سے فرزند کی ہے.کیونکہ روحانی طور پر سب امت کے لوگ آپ کی فرزندی میں داخل ہیں اور جب وہ ضرور نازل ہونے والا ہے کہا گیا تو وہ کی ضمیر مثیل عیسی بن مریم کی طرف جائے گی ؟" رفتح حق مت الجواب | ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے بیانات کی روشنی میں اس حدیث نبوی کو صرف امت محمد محمد سیح موعود علیہ السلام سے متعلق یقین کرتے ہیں نہ کہ " انه نازل سے پہلے کے حصہ کو مسیح اسرائیلی علیہ السلام سے متعلق.اور انہ نازل" کے الفاظ سے مسیح موعود سے متعلق.لہذا ہمیں انہ نازل میں ان کی ضمیر غائب کو ضمیر مثل قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں.
۷۴ ہمیں اور فاروقی صاحب دونوں کو یہ کم ہے کہ حضرت عیسی ابن مریم اس وفات پا چکے ہیں لہذا اس حدیث میں جس عیسی ابن مریم کے نزول کا ذکر ہے ، ہمارے نزدیک امت محمدیہ کا مسیح موعود ہی ہے اور یہ حدیث انا اولیٰ الناس بعیسی ابن مریمہ سے لیکر آخری الفاظ تک امت محمدیہ کے مسیح موعود سے ہی متعلق ہے.اور اس میں عیسی ابن مریم کے الفاظ بطور استعارہ امت محمدیہ کے مسیح موعود کے لیے استعمال ہوتے ہیں.جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث كيف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم دا ما مگر منكم اور صحیح مسلم کی حدیث کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیلم فامکو منکر میں ابن مریم کے الفاظ ہم دونوں کے نزدیک بطور استعارہ مسیح موعود کے لیے ہی استعمال ہوئے ہیں جس پر قریہ قویہ امامکم منکم اور فاقکم منکھ کے الفاظ ہیں کہ یہ ابن مریم اے امت محمدیہ تم میں تمھارا امام ہوگا نیز جیسا کہ مسند احمد بن فضیل کی حدیث يوشك من عاش منكوان يلقى عيسى ابن مريمر ا ماما مقديًا حكماً وعدلا (جلد ۲ برايت البوبر) الخزر میں عیسی ابن مریم کے الفاظ ہم دونوں کے نزدیک امت محمدیہ کے مسیح موعود سے ہی متعلق ہیں.جس پر قومی قریبہ اما ما مهدیا کے الفاظ ہیں پس جس طرح پہلی دو حدیثوں میں ابن مریم کے الفاظ امت محمدیہ کے مسیح موعود کے لیے استعارہ ہیں اور تعمیری حدیث میں عیسی ابن مریم کے الفاظ بھی امت محمدیہ کے مسیح موعود کے لیے استعارہ ہیں.اس سے فاروقی صاحب کو انکار نہیں ہو سکتا.اسی طرح زیر بحث حدیث انا اولى الناس بعيسى ابن مریم میں عیسی ابن مریم کے الفاظ امت محمدیہ کے مسیح موعود کے لیے استعارہ ہیں جس پر انا اولی الناس اور انہ نازل کے الفاظ قرینہ تو یہ ہیں.
60 فاروقی صاحب کا پر شبہ باطل ہے کہ اس حدیث میں مذکور عیسی ابن مریم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا علاتی بھائی قرار دیا ہے اس لیے عیسی بن مریم سے مراد اس جگہ مسیح اسرائیلی ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ بنی قرار دیا ہے.امت محمدیہ کے مسیح موعود کو اس حدیث میں نبی نہیں کہا.یہ شبہ اس لیے باطل ہے کہ انبیاء کو علاقی بھائی قرار دینے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث زیر بحث میں عیسی ابن مریم کو اپنا علاقی بھائی قرار نہیں دیا.بلکہ انا اولى الناس بعیسی ابن مریم کہ کر اسے اپنا روحانی فرزند قرار دیا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- النبى اولى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنفُسِهِمْ وَازْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ - (احزاب )) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مومنین سے اُن سے تعلق رکھنے والے دوسر آدمیوں کے بالمقابل قریب ترین تعلق ہے اور آپ کی بیویاں مومنوں کی بائیں میں پس جس طرح النبی اولی بالمؤمنین سے یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے مومنین کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواج مومنوں کی ڈھانی مائیں.اسی طرح حدیث زیر بحث میں مذکور عیسی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ حکم کا یہ فرمانا انا اولی الناس بعیسی ابن مریم اس بات پر نص قطعی ہے کہ یہ عیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کی وجہ سے آپ کا روحانی فرزند ہے اور ا سے حضرت عیسی علیہ اسلام کے مثیل ہونے کی وجہ سے استعارہ عیسی ابن مریم قرار دیا گیا ہے.لہذا دوسرے تمام انبیاء کا باہمی تعلق تو اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علاتی بھائیوں کا سا قرار دیا ہے اور امت محمدیہ میں زل ہونے والے عیسی بن مریم مسیح موعود کا اپنے ساتھ تعلق فرزندی کا بیان
کیا ہے.ہاں حدیث ہذا کے منطوق سے یہ ظاہر ہے کہ مسیح موعود بنی ہونے کی وجہ سے تمام انبیا سے نجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علاقی بھائی کا سارشتہ رکھتا ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ روحانی فرزند ہے.حدیث ہذا کے الفاظ لم یکن بینی و بینه نبی میں لم يكن بصیغۂ ماضی موعود عیسی کی نبوت کے یقینی تحقیق کے لیے لایا گیا ہے تا یہ ظاہر ہو کہ امت کے مسیح موعود کا بنی ہونا خدا تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے ہی مقدر ہو چکا ہے.اسی لیے صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں حدیث اس مضمون کی وارد ہے اس میں انہ لیس بینی وبینہ نبی کے الفاظ بطور جملہ اسمیہ آئے ہیں کہ میرے اور بیج موعود کے درمیان کوئی بنی نہیں.حضرت مولوی نورالدین خلیفہ مسیح الاول صحیح بخاری کی اسی حدیث کے پیش نظر فرماتے ہیں :- " نافل حضرت صاحب دیعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام : خدا کے مرسل ہیں وہ نبی کا لفظ اپنی نسبت نہ بولتے تو بخاری کی حدیث کو نعوذ باللہ غلط قرار دیتے جس میں آنے والے کا نام نبی اللہ رکھا ہے.پس وہ نبی کا لفظ بولنے پر مجبور ہیں.راخبار بدر جولائی ۱۹۱۳ء ص (۲) مگر فاروقی صاحب اپنے اس مسلم خلیفہ مسیح سے بھی اختلاف کرتے ہیں اور لکھتے ہیں :- بخاری والی حدیث میں لفظ نبی اللہ کا آنے والے سیج کے متعلق استعمال نہیں ہوا." رفتح حق ص ) پھر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی نبوت زیر بحث ہے تحریر فرماتے ہیں :.
جس شخص کو اللہ تعالی بصیرت عطا کرے گا وہ مجھے پہچان لیگا کہ میں مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نام سرور انبیاء نے بنی اللہ رکھا ہے.پھر تحریر فرماتے ہیں:.نزول المسیح من ) احادیث نبویہ میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جو عیسی اور ابن مریم کہلائے گا." (حقیقة الوحی ص ۳۹ ) اور آگئے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں مکالمہ مخاطبہ شمل برامور غیدہ پر کثرت سے طلاع دیئے جانے کی وجہ سے میں نے آپ کے نزدیک ایک شخص نبی کہلانے کا مستحق ہو جاتا ہے اپنے آپ کو نبی کا نام پانے کیلئے ایک مخصوص فرد قرار دینے کے بعد لکھتے ہیں :- اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمه مخاطبہ الہیہ اور امور غصہ سے حصہ پا لیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ایک رخنہ دافع ہو جاتا اس لیے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے اُن بزرگوں کو اس نعمت کے پورے طور پر پانے سے روک دیا تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہو گا وہ پیشگوئی پوری ہو جائے." (حقیقۃ الوحی ص ۳۹
حضور کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ امت محمدیہ میں تیرہ سو سال میں کسی عود تک کوئی نبی نہیں ہوا.اور احادیث نبویہ مسیح موعود کو ہی نبی قرار دیتی ہیں اس سے پہلے کے کسی امتی بزرگ کو نبی قرار نہیں دیتیں.یہ مضمون حدیث نبوی انه لیس بینی وبینہ نبی سے بھی ماخوذ ہے.کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں.اور ان دوسری احادیث نبویہ کے بھی مطابق ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مسیح موعود کو نبی کہا ہے.نہ کسی اور کو.پس زیر بحث حدیث نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب انبیاء کا ایک ہی دین یعنی دین توحید قرار دیکر اس دین کو انکار وحانی باپ قرار دیا ہے اور ان کے زمانوں کو جو الگ الگ میں مجازی مائیں قرار دیکر انہیں باہم علاقی بھائی قرار دیا ہے اور مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روحانی فرزند ظاہر کر کے نبی قرار دیگر انبیاء کے زمرہ میں شمار کیا ہے.اس روحانی فرزند گو انبیاء کے زمرہ کا فرد قرار دینے کی وجہ سے اگر کوئی شخص اس موعود عیسی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی فرزندی کی نسبت کے علاوہ علاقی بھائی کی نیت بھی قرار د سے تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد بعض آنے والے امتی بزرگوں کو اپنا بھائی بھی قرار دیا ہے چنا نچہ عارف ربانی سید عبدالکریم جیلانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب الانسان الکامل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث درج فرماتے ہیں:.وا شوقاه الى اخواني الذين يأتون بعدى یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے ان تمام بھائیوں کا بڑا اشتیاق ہے جو میرے بعد آئیں گے.
69 اس حدیث کی تشریح میں سید موصوت تحریر فرماتے ہیں :- " فهولاء الانبياء الاولياء يُرِيدُ بذالك نبوة القرب والاعلام والحكم الالهى لا نبوة التشريع لان نبوة التشريع القطعت بمحمد صلى الله عليه وسلم.الانسان الكامل جلد ۲.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بھائی جو آپ کے بعد آئیں گے انبیاء اولیاء میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس سے یہ ہے کہ انہیں وہ نبوت حاصل ہو گئی جو درجہ قریب ہے جس میں ان پر ا مور غیبیہ ظاہر کیے جائیں گے اور انھیں خدائی حکمتیں بتائی جائیں گی.پس به بزرگ انبیاء الاولیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی ہے سے آپ کے روحانی فرزند بھی ہیں اور ثبوت القرب پانے کی وجہ سے آپ کے علاماتی بھائی بھی ہیں کیونکہ ان کا دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اصول فروع میں ایک رہتی ہے اور مائیں الگ الگ ہیں یعنی الگ الگ زمانوں میں ظاہر ہونے والے ہیں.میسج موعود کی نبوت سے متعلق دوسری حدیث | فاروقی صاحب لکھتے ہیں:.ایک اور حدیث نواس بن سمعان کی وہ مشہر رحدیث ہے جس میں عیسی ابن مریم نبی اللہ کا ذکر دمشق کے مشرقی منار پر ہے." (فتح حق ص ) (نوٹ : " منارہ پر غلط ترجمہ ہے صحیح ترجمہ یہ ہے کہ "منارۃ البیضاء کے پاس نازل ہوگا " محمد نذیر)
حدیث کا یہ مضمون درج کر کے فاروقی صاحب لکھتے ہیں :.ظاہر ہے اس پیشگوئی کے اندر استعارہ اور مجاز غالب ہے اس حدیث میں ابن مریم کا لفظ رہے ناقل) سوائمہ سلف نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ حضرت عیسی نبی ہونے کی حالت میں دنیا میں آئیں گے بلکہ برعایت ختم نبوت یہی معنی ہیں کہ وہ نبی ہو کر نہیں آئیں گے ر فتح حق صاد ۱۳) فاروقی صاحب کو اپنی کتاب کے صا پر یہ تو مسلم ہے کہ اس حدیث میں امت محمدیہ کے موعود عیسی کا ہی ذکر ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں چار دفعہ نبی اللہ کیا ہے.چونکہ اس سے مسیح موعود کی نبوت صاف ثابت ہو جاتی تھی اس لیے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی خاطر فاروقی صاحب نے ائمہ سلف کی طرف صریح غلط بیانی سے یہ بات منسوب کر دی ہے کہ وہ امت محمدیہ میں آنے والے عیسی کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ نبی ہونے کی حالت میں دنیا میں نہیں آئینگے.حالا نکہ آئمہ سلف نے بنی تسلیم کیا ہے کہ نازل ہونے والی عیلی ضرور بنی اللہ ہوگا اور وہ مسلوب النبوۃ ہو کر نہیں آئے گا.کیونکہ کسی بنی سے نبوت کا سلب کیا جانا آئمہ سلف کو مسلم نہیں.چنانچہ نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالوی اپنی کتاب بیج الکرامہ کے اس میں علمائے سلف کے قول کی بنا پر لکھتے ہیں :.من قال بسلب نبوته فقد كَفَرَ حقا كما ذكره >> السيوطى" کہ جو شخص یہ کہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت نازل ہونے پر سلب ہو جائے گی وہ پکا کا فر ہے جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی نے یہ بات بیان
کی ہے.☑ اسی طرح فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:.لا منافاة بين ان يكون نبيتا ويكون متابعاً لنبينا صلى الله علیہ وسلم في بيان الامر شریعته والْقَانِ طَرِيقَتِهِ وَلَوْ بِالْوَحْي إليه - (مرقاۃ شرح مشكوة جلده (ص) یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کے نبی ہونے اور اُن کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہو کر آپ کی شریعت کے احکام بیان کرنے اور آپ کے طریقوں کو پختہ کرانے میں کوئی منافات نہیں خواہ وہ یہ کام اپنی وحی سے کریں جو ان پرنازل ہور گویا اُن کے نزدیک وہ نبی بھی ہونگے اور امتی بھی اور نبوت اُن سے سلب نہیں ہوگی ) شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن العربی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :- عيسى عليه السلام ينزل فينا حكما من غير تشريع وهو نبي بلا شك " یعنی جیسے علیہ السلام ہم میں بغیر نئی شریعیت کے حکم ہونگے اور وہ بلا شک نبی ہونگے.واضح رہے کہ حضرت محی الدین علیہ الرحمہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بروزی نزول کے ہی قائل ہیں.چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں.رو وجب نزوله في اخر الزمان بتعلقه بیدن آخر، تفسیر شیخ اکبر برها شبیه عرائس البیان) کہ آخری زمانہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول کسی دوسرے بدن کے
تعلق سے ہوگا.Ar پس فاروقی صاحب کا یہ بیان غلط ہے کہ : - ائمہ سلف نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ حضرت علیئے نبوی ہونے کی حالت میں دنیا میں آئیں گے فاروقی صاحب لکھتے ہیں :.ر فتح حق صدا ( ۳ ) در حقیقت مر دوں والی حدیث ختم نبوت پر قطعی دلیل ہے.کیونکہ اگر کچھ نبی بھی آنے والے ہوتے تو مجدوں کا وعدہ نہ دیا جاتا.وعدہ ہمیشہ افضل چیز کا دیا جاتا ہے " اس کے جواب میں واضح ہو کہ مجددیت منافی نبوت نہیں.اسی لیے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں حضرت موسیٰ کے بعد آنے والے انبیاء بنی اسرائیل کو موسوی دین کے مجدد ہی قرار دیا ہے.اور ختم نبوت امتی نبی کے آنے میں مانع نہیں اگر اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام منافی سمجھتے تو کبھی یہ دعوئے نہ کرتے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- ابو بكر افضل هذه الامة الايكون رو رکنوز الحقائق في حديث خير الخلائق من کہ ابو بکر اس امت میں سب سے افضل ہیں بجز اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو.
٨٣ پس الا ان یکون نبی کے الفاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مجد امت کے نبی ہونے کا امکان منافی ختم نبوت قرار نہیں دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب نزول المسیح میں اپنے تئیں مجددبھی قرار دیتے ہیں اور یہ بھی تحریر فرماتے ہیں :.دین مسیح موعود ہوں اور وہی ہوں جس کا نام سر در انبیا نے نبی اللہ رکھا ہے-" (نزول المسیح من ) پیس فاروقی صاحب کا احادیث نبویہ میں مسیح موعود کے لیے نبی اللہ ہونے کے الفاظ سے انکار دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریرات سے انحراف ہے جن میں حضور احادیث نبویہ کی بنا پر مسیح موعود کو نبی کہلانے کا ستحق قرار دیتے میں اور نیر سو سال میں کسی مجدد امت کو نبی کا نام پانے کا استحق قرار نہیں دیتے.جیسا کہ پہلے مذکور ہوا.فاروقی صاحب نے فتح حق ص پر آیت اهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں اس کی قبولیت کا ذکر آیت ومن يطع الله و الرسول فاولئك مع الذين العمر الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين (سورة النساء ) من رج شدہ قرار دے کر لکھا ہے کہ : - رو و یہاں یوں نہیں فرمایا کہ وہ نبی صدیق وغیرہ ہو جاتے ہیں بلکہ فرما یا ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں یعنی ان کے رنگ میں رنگین ہو جاتے ہیں.“ پھر دوسری جگہ فرمایا : - والذین امنوا بالله ورسله اولش هم
۸۴ الصديقين والشهداء عند ربهم لهم اجرهم و نور هم (سورة حديد ) جو لوگ اللہ اور رسولوں پر ایمان لاتے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں اُن کے لیے ان کا اجبر اور نور ہے "" یہ آیت پیش کرنے کے بعد فاروقی صاحب لکھتے ہیں:.و پہلی آیت میں نبی کا ذکر کیا اس لیے انعم کا لفظ تھا، کیونکہ نبوت موسبت ہے دوسری آیت میں نبی کا لفظ نہیں ہے اس لیے صدیقیت اکتساب ہے ر فتح حق ص ) جوا با گذارش ہے کہ جناب مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے قادیان کے زمانہ میں پہلی دو آیتوں کی تفسیر میں بیان فرمایا تھا.ہمیں بھی یہ وسیع دعاء کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی قبولیت بھی یقینی ہے.مخالف خواہ کوئی ہی معنی کرے مگر ہم تو اس بات پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے صدیق شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کر سکتا ہے.مگر چاہیے مانگنے والا " اخبار بدر ۱۲ جولائی منشاء) فارقی صاحب ! افسوس کہ آپ لوگ اس بات پر قائم نہیں رہے کہ خدا نبی پیدا کر سکتا ہے اور اب آپ ان آیات کے وہ معنے لے رہے جو مخالف کیا کرتا ہے اور جن کے جناب مولوی محمد علی صاحب قادیان کے زمانہ میں مخالف تھے.
۸۵ فاروقی صاحب ! آپ نے کہا ہے :- پہلی آیت میں نبی کا ذکر کیا اس لیے انعم کا لفظ تھا.کیونکہ نبوت موسیبت ہے." مگر آپ نے یہ خیال نہیں کیا کہ الحمد اللہ علیہم کے بیان میں اس جگہ صرف نبیوں کا ہی ذکر نہیں.صدیقوں ، شہید دل اور صالحین کا بھی ذکر ہے اور ان سب کے لیے انعم کا لفظ استعمال ہوا ہے.پس در اصل یہ سارے مراتب ہی موسیبت ہوئے.اسی لیے تو اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.ذالك الفضل من الله " کہ یہ سب مراتب اللہ کا فضل ہیں.فاروقی صاحب نے جب ساتھ ہونے کے معنی اس آیت میں یہ کیسے ہیں کہ خدا تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے نبیوں ، صدیقوں شہید دن اور صالحین کے ہمرنگ ہو جاتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں محبت زمانی اور مکانی مراد نہیں.زمانی اور مکانی معیت کے علاوہ ایک معنی مع کے محبت فى المنزلة ہیں.یعنی مرتبہ میں ساتھ ہونا.پس اگر فاروقی صاحب مع کے معنی ہمرنگ ہونا کریں تو اس سے مراد بھی مرتبہ میں ساتھ ہونا ہی لی جا سکتی ہے.یہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے گروہوں میں داخل نہیں ہونگے.بلکہ ان میں صرف ان کا معمولی سارنگ ہی پایا جائے گا.کیونکہ دوسری آیت ان الذين امنو بالله ورسله اولئك هم الصديقون والشهداء کے مطابق صدیق.شہید دوسرے انبیاء پر ایمان لانے والے بھی بن جاتے ہیں تو سید الانبياء فخر المرسلین حضرت محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ثمرہ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ صدیقیوں ، شہیدوں کا معمولی سا رنگ لیں گے
лу اور خود صدیق شہید نہیں بنیں گے.بلکہ سب صدیقوں شہیدوں کے ساتھ ہونے سے مراد یہ ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے نہ صرف یہ کہ صدیق شہید بن سکتے ہیں.بلکہ وہ سب پچھلے صدیقوں شہیدی کے رنگ میں کامل طور پر رنگین ہو کر ان کے کمالات کے جامع ہو سکتے ہیں.چونکہ آیت فادائك مع الذين العم الله عليهم من النبيين و الصديقين والشهداء والصالحین میں چاروں گردہ ایک دوسرے پر عطف کے سلسلہ سے وابستہ ہیں.لہذا معیت کے لحاظ سے سب کا ایک ہی حکم ہوگا یعنی جب صدیقوں شہیدوں.صالحین کی محبت پانے سے مراد کم از کم ان کے گروہ کا فرد بن جاتا ہے.تو النبیین کی محبت سے مراد کم از کم یہ امر ہو گا.کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے آپ کا کوئی امتی انبیاء کے گردہ کا فرد بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اس کا یہ مفہوم ہو گا آپ کا کوئی امتی انبیاء کے گروہ کا فرد ہونے کے ساتھ ان کے رنگ میں کا مل طور پر رنگین ہو کر ان سب کے کمالات نبوت کا جامع بھی ہو سکتا ہے.علامہ راغب نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے الحقه الله بالذين تقدمهم لمن العمر الله عليهم في المنزله والثواب النبي بالنبي والصديق بالصديق والشهيد بالشهيد والصالح بالصالح - اتفية بحر المحيط جلد۳ ما مطبوعہ مصر) ترجمہ.خدا تعالیٰ اور آں حضرت کی اطاعت کرنے والوں کو خدا نے مرتب اور ثواب میں پہلے انعام یافتہ لوگوں سے ملا دیا ہے.اس امت کے بنی کو نبی سے ملا دیا ہے اور صدیق کو صدیق سے ملا دیا ہے اور شہید کو شہید سے ملا دیا ہے اور صالح کو صالح سے ملا دیا ہے.
Ab پس دونوں زیر بحث آیتوں کی تفسیر کا ماحصل یہ ہے کہ عام رسولوں کی اطاعت سے انسان بڑے سے بڑا درجہ صرف صدیقیت کا ہی پا سکتا تھا جو کہ ولایت کا ہی ایک مرتبہ ہے.لیکن چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اس لیے نبی بننے کا شرف صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع اور اتنی ہی کو حاصل ہو سکتا ہے.اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تحریر فرمایا :- ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور علیسی کہلا سکتا ہے حالانکہ وہ امتی ہے.(ضمیمه برا بین احمدیہ حصہ پنجم ص۱) نیز خاتم النبیین کی تشریح میں تحریر فرمایا کہ : آپ کی بیردی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجه روحانی نبی تراش ہے.یہ قوت قدسیہ کسی اور بنی کو نہیں ملی " (حقیقۃ الوحی حاشیه ) اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ :- بجز اس رخاتم النبیین - ناقل) کے کوئی نبی صاحب تم نہیں.ایک دہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لیے امتی ہونالازمی ہے." (حقیقة الوحی مشت) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ جمعہ کی آیت و آخرین منهم لما يلحقوا بهم کی تفسیر میں اپنے حق میں تحریر فرمایا کہ :
یہ آیت آخری زمانہ میں ایک بنی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جائے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہوئے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا." رسمہ حقیقة الوحی ص
باب سوم ضرت مسیح موعود علیه اسلام پراپنی نو سے تعلق تدریجی است حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام تحریرات کو مد نظر رکھنے سے یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ آپ پر اپنی نبوت اور اپنی شان کے متعلق یکدم پورا انکشاف نہیں ہوا بلکہ تدریجاً انکشاف ہوا ہے اشارہ سے پہلے لٹریچر میں آپ خدا تعالے کے اُن الہامات کی جن میں آپ کو نبی اور رسول قرا دیا گیا تھا یہ تشریح فرماتے تھے کہ اس سے مراد محد ثیت - جزوی نبوت اور نبوت ناقصہ ہے.یعنی اس زمانہ میں آپ اپنے آپ کو مروجہ تعریف نبوت کی رو سے جس میں احکام جدیدہ لانا یا کسی نبی کا اتنی نہ ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا ، نبی قرار نہیں دیتے تھے بلکہ اپنے لیے الہامات میں نبی رسول کے الفاظ کی یہ تا دیل فرماتے تھے کہ آپ ایک محقرت ہیں اور خدا تعالے کی طرف سے مامور ہیں اور محدثیت نبوت سے شدید مشابہت رکھتی ہے اس لیے محدث ہونے کی وجہ سے آپ کو نبی کا نام دیا گیا ہے.لیکن نشہ اور اس کے بعد کی تحریرید میں آپ نے اپنی نبوت کی یہ تا دیل خدا تعالے کے صریح الہامات کی روشنی میں ترک فرما دی کہ آپ محض محدث ہیں.اور اپنے تئیں صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ قرار دیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے امنتی.
9.فاروقی صاحب نے حضرت اقدس کے اپنی نبوت کو محدثیت مراد لینے سے متعلق شاہ سے پہلے کی کچھ عبارتیں اپنی کتاب میں پیش کی ہیں.جن میں سے ایک عبارت ازالہ اوہام ص سے یہ نقل کی ہے :- " " ، آنے والے مسیح کو اُمتی کر کے پکارا ہے جیسا کہ حدیث اما حکم منکم سے ظاہر ہے اور حدیث علماء امتی کا نبیاء بنی اسراءیل میں اشارہ میں صبح کے آنے کی خبر دی ہے چنانچہ اس کے مطابق آنے والا سیح محدث ہونے کی وجہ سے مجازاً اپنی بھی ہے ؟" ر فتح حق صداود) اور دوسرا حوالہ ازالہ اوہام مشک سے پیش کیا ہے جو یہ ہے :- اس جگہ بڑے شبہات یہ پیش آتے ہیں کہ جس حالت میں حالت میں مسیح ابن مریم اپنے نزول کے وقت کامل طور پر اُمتی ہوگا.تو پھر با وجود امتی ہونے کے کسی طرح رسول نہیں ہو سکتا اور نیز خاتم النبیین ہونا ہمار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی دوسرے نبی کے آئے سے مانع ہے.ہاں ایسا نبی جو مشکواۃ نبوت محمدیہ سے نور حاصل کرتا ہے اور نبوت تامہ نہیں رکھتا ، جس کو دوسرے لفظوں میں محدث بھی کہتے ہیں وہ اس تحدید سے باہر ہے کیونکہ وہ بباعث اتباع اور فنا فی الرسول ہونے کے جناب خاتم المرسلین کے وجود میں داخل ہے جیسے جزو کل میں ہوتی ہے! رفتم خوشت اوہ)
۹۱ تیسرا حوالہ فتح حق صدا پر مجموعہ اشتہارات حصہ اول حه سے یہ نقل کیا ہے:.تمام مسلمانوں کی خدمت میں یہ گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام و توضیح مرام و ازالہ اوہام میں جس قدرا ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے با یه که محد ثیت نبوت نا قصہ ہے یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے اُن کے لغوی معنوا کے لحاظ سے بیان کیے گئے ہیں ورنہ حا شاد کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہر گز دعوی نہیں بلکہ جیسا کہ میں کتاب ازالہ اوہام کے صص ۱۳ پر لکھ چکا ہوں.میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اس میں تمام بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں پر یہ الفاظ شاق ہیں تو وہ ان الفاظ کو ترمیم شدہ سمجھ لیں.کیونکہ کسی طرح مجھ کو مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق ڈالنا منظور نہیں.جس حالت میں ابتدا سے میری نیت میں جس کو اللہ تعالیٰ جل نشانه خوب جانتا ہے اس لفظ نبی سے مراد نبوت حقیقی نہیں بلکہ صرف محدث مراد ہے جس کے معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معلم مراد لیتے ہیں....الخ
۹۲ بے شک ان عبارتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آغاز دعوئی سے لیکر ایک وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے الہامات میں اپنے متعلق بنی اور رسول کے الفاظ کی یہ تاویل فرماتے رہے کہ آپ ایک محدث ہیں اور جزوی نبوت یا نا قصہ نبوت رکھنے کی وجہ سے مجازی طور پر آپ کو نبی کا نام دیا گیا ہے لیکن حضور کی بعد کی تحریرات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ بعد میں آپ پر ایک ایسا زمانہ آیا جس میں الہامات متواترہ کی روشنی میں آپ نے اپنے آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب پانے والا قرار دیا ہے اور پھر اس زمانہ میں لفظ نبی کی تادیل کبھی محدث یا جزوی یا ناقص نبی نہیں کی.ہاں یہ درست ہے کہ آپ نے اس زمانہ میں بھی نہ اپنے آپ کو جدید شریعیت لانے والا بنی قرار دیا ہے اور نہ مستقل نبی ، بلکہ ہمیشہ ظلی نبی یا ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اتنی ہی قرار دیا ہے.کیونکہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بھی تھے.تعریف نبوت میں ترمیم و تبدیلی حضور کے عقیدہ میں اس تبدیلی یعنی نبی اور رسول کی تاویل محدث یا جزوی بنی یا ناقص نبی کے ترک کرنے کا موجب یہ بات ہے کہ شاہ سے پہلے آپ کے نزدیک نبوت کے متعلق اسلام کی اصطلاح یہ تھی کہ :- }) چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ منی تو نے ہیں کہ وہ کامل شریعیت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت ساقی کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی اُمت نہیں کہلاتے اور براه راست بغیر استفادہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ہشیار رہنا چاہیئے کہ اس جگہ بھی
ریعنی آپ کی نبوت کے بھی.ناقل یہ معنی نہ سمجھے ہیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے 499 ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں او قرآن شریف خاتم الكتب (مکتوب ار ا گست (۱۹۹) اس تعریف نبوت سے ظاہر ہے کہ آپ اس وقت بنی کے لیے یہ شرط ضروری سمجھتے تھے کہ اگر وہ شریعت یا احکام جدیدہ نہ لائے تو کم از کم وہ کسی دوسرے نبی کا اتنی نہیں کہلاتا اور بلا استفادہ کسی نبی کے خدا سے تعلق رکھتا ہے.چونکہ یہ رسمی تعریف نبوت آپ پر صادق نہیں آتی تھی اس لیے آپ اس تعریف کے ماتحت اپنے آپ کو بنی قرار نہیں دیتے تھے اور اپنے الہامات میں نبی اور رسول کی یہ تاویل کر لیتے تھے کہ آپ صرف محدث ہیں یا جزوی نبی.اور گو اس زمانہ میں بعض الہامات آپ کے حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہونے کا اشارہ کر رہے تھے.مگر آپ اپنے آپ کو گورانبی نہ سمجھنے کی وجہ سے اُن الہامات کی بھی یہ تا دیل فرما لیتے تھے کہ آپ کو حضرت عیسی علیہ اسلام پر محض ایک جزوی فضیلت حاصل ہے جو ایک غیر نبی کو بی پر بھی ہو سکتی ہے.لیکن بعد میں خدا تعالیٰ بارش کی طرح دحی سے آپ پر یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ نے صریح طور پر بنی کا خطاب پایا ہے تو آپ اپنے پہلے عقیدہ پر قائم نہ رہے اور اس میں تبدیلی فرمائی.کیونکہ اس زمانہ میں آپ پر صریح لفظوں میں یہ المنام بھی نازل ہو چکا تھا کہ: " مسیح محمدی میسج موسوی سے افضل ہے.رکشتی نوح مطبوع شراء) اس سے آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ آپ اپنی تمام شان میں مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہیں.اس امر کو سمجھنے کے لیے حقیقۃ الوحی 1 تا 100 ملاحظہ کیا جائے پس یہ امر سمجھ لینے کے بعد کہ آپ اپنے الہامات میں صریح طور پر نبی قرار دیئے گئے
۹۴ ہیں.اور مسیح بن مریم سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہیں.آپ نے اپنے متعلق نبی اور رسول کے الفاظ کی وہ تاویلات ترک کر دیں جن کا پہلے ذکر آچکا ہے اور یہ مجھے لیا کہ معروف تعریف نبوت در اصل قابل ترمیم ہے اور ایک اُمتی بھی نبی ہو سکتا ہے گو وہ شریعت جدیدہ نہیں لاتا اور نہ شریعیت سابقہ کے کسی حکم کو منسوخ کرتا ہے.نبی کے لیے کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہونا ضروری شرط نہیں چنانچہ انشاد کے بعد آپ نے نبوت کی جو تعریف کی وہ یہ ہے :- تعریف نبوت میں ترمیم: "1 "میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں میں پر خدا تعالیٰ کا کلام قطعی اور یقینی اور بہ کثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لیے خدا نے میرا نام نبی رکھا." (تجلیات الهیه م) نبی اُسی کو کہتے ہیں" کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ نبی کی یہ تعریف حصر بالفاظ میں کی جا رہی ہے.یعنی اس تعریف کے علاوہ نبی کی کوئی اور جامع مانع تعریف نہیں ہے.اس جامع مانع تعریف کے ماتحت آپ نے اپنے آپ کو نبی قرار دیا ہے کیونکہ یہ تعریف آپ پر صادق آتی تھی اس میں نبی کے لیے کسی نبی کا ضروری قرار نہیں دیا.نیز اسی زمانہ میں تحریر فرماتے ہیں :- جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہوا اور کھلے طور پر امور فیصلہ پر مشتمل ہو تو دہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے
90 جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے “ الوصیت من مطبوعه نظارت مقبره بهشتی (بوه) الو حقیت کی اس تعریف نبوت کے مطابق حضرت اقدس نبیوں کی اس متفق علیہ تعریف کے رو سے اپنے آپ کو نبی قرار دیتے ہیں.پھر اسی زمانہ میں اپنی تقریر حجت الله میں فرماتے ہیں :.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پا کر جو غیب پرمشتمل ہو زبر دست پیش گوئیاں ہوں.مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کی رو سے بنی کہلاتا ہے ؟ ا تقریر حجة اللہ مندرجہ الحکم در مئی (1) اس تعریف سے ظاہر ہے کہ اب آپ اسلامی اصطلاح کے مطابق بھی اپنے آپ کو نبی قرار دیتے ہیں.پھر اس زمانہ میں آپ اپنے مخالفین کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں :- آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں.ہیں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہیٰ نبوت رکھت ہوں.دل ان يصطلح " ستم حقیقة الوحی مث ) اس تعریف کی روشنی میں آپ نے اپنے آپ کو خدا کے حکم اور اصطلاح کے مطابق نبی قرار دیا ہے.پھر اسی زمانہ میں آپ چشمہ معرفت ۳۲۵ تحریر فرماتے ہیں :- نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی ہیں میری نسبت صدہا مرتبہ استعمال کیا ہے.مگر اس میں
لفظ سے مکالمات اور مخاطبات اللہ مراد ہیں ، جو بکثرت امور غیب مشتمل ہیں.اس سے بڑھ کر کچھ نہیں سو ہر ایک شخص اپنی گفت گو میں ایک اصطلاح استعمال کر سکتا ہے.بل ان يصطلِحَ - سوخدا کی با اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا.اور حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۱،۳۹۰ میں آیت لا يظهر على غيبه احداً الا من ارتضیٰ من رسول کی روشنی میں نبی اور رسول کے معنی بیان فرماتے ہو تحریر فرماتے ہیں :- خدا اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہین خشتنا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہو سکتا ہے بجز اس شخص ہوئے کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہوا اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعا نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی.اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے.غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس
نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی " ان سب عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منشاء کے بعد کی تحریرات کے زمانہ میں خدا کے حکم اور اصطلاح میں اور نبیوں کی متفق علیہ تعریف اور اسلامی اصطلاح میں اور قرآن کریم کے بیان کردہ معنوں میں اپنے آپ کو نبی قرار دیتے ہیں اور نبی کے لیے اُمتی نہ ہونے کی شرط کو ضروری قرار نہیں دیتے.بلکہ ان سب عبارتوں میں اس شرط کو حذف کر دیا ہے.اور حقیقۃ الوحی کی اس مندرجہ بالا عبارت میں امت محمدیہ میں پہلے گزرے ہوئے اولیاء اللہ میں سے کسی کو نبی کا نام پانے کا مستحق قرار نہیں دیا.کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرت امور غصہ جو نبوت کے لیے ضروری شرط ہے وہ ان میں پائی نہیں گئی.حالانکہ وہ اولیا واللہ محدثین امت ضرور تھے.مگر آپ اُمت محمدیہ میں سے اس وقت تک اپنے آپ کو ہی ایک فرد مخصوص قرار دیتے ہیں.جیسے نبی کا نام دیا گیا.حقیقۃ الوحی ایک بہت بڑی کتاب ہے.جس میں حضرت اقدس نے اپنی نبوت کو بار با پیش کیا ہے مگر اس میں کسی جگہ بھی آپ نے نبی کی تا دلیل محدث یا جزوی نبی نہیں کی بلکہ اس کے خلاف حقیقۃ الوحی کے مندرجہ بالا اقتباس میں تمام اولیاء امت میں سے نبی کہلانے کا مستحق تیرہ سو سال میں صرف اپنے آپ کو ہی قرار دیا ہے.پس اس عبارت میں حضرت اقدس نے اپنا مقام تمام محدثین امت سے بالاتر قرار دیا ہے.کیونکہ حضور نے اپنے آپ کو تو نبی کہلانے کا استحق قرار دیا
ہے اور پچھلے تمام اولیاء اللہ میں سے کسی کو نبی کہلانے کا سنتی قرار نہیں دیا.حالانکہ ازالہ اوہام وغیرہ کے زمانہ کی تحریروں میں حضور محدث کو من وجہ بی قرار دے چکے تھے اور اس کے لیے مجازی اور جزوی طور پر نبی کا اطلاق جائز قرار دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھی نبی بمعنی محدث قرار دیتے تھے اور براہین احمدیہ جلدم ۴۲۵ پر لکھ چکے تھے :- " امت محمدیہ میں محدثیت کا منصب اس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے جس سے انکار کرنا بڑے غافل اور بے خبر کا کام ہے".پھر ایک وقت ان لوگوں کو چین پر آپ کے متعلق نبی کا لفظ شاق گزرے یہ بھی تلقین فرما چکے تھے کہ وہ نبی کی جگہ محدث کا لفظ سمجھ لیں.لیکن انتقیقة الوحی وہ میں آپ یہ فرماتے ہیں :- غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور میں قدر مجھے سے پہلے اولیا ء ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے اُن کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا.اس عبارت میں اگر نبی کی بجائے محدث کا لفظ رکھا جائے تو یہ ساری عبارت بے معنی ہو جاتی ہے.کیونکہ اس کا مفہوم اس صورت میں یہ بن جاتا ہے کہ تمام امت محمدیہ میں سے اس وقت تک محدث کا نام پانے کے لیے آپ ہی ایک مخصوص فرد ہیں آپ سے پہلے گزرے ہوئے اولیاء اللہ میں سے کوئی شخص محدت کا نام پانے کا مستحق نہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس تحریر کے
۹۹ زمانہ میں حضرت اقدس اپنا مقام نبوت محمد ثین امت سے بالا تر قرار دے رہے ہیں.محض محدث ہونے سے ( اس امر کا نہایت واضح ثبوت کہ آپ نے نشاء حضرت مسیح موعود کا انکار سے اپنے آپ کو بی معنی محدث کہنا فی الواقعہ ترک فرما دیا تھا یہ ہے کہ آپ ایک غلطی کا ازالہ میں جو ان کا رسالہ ہے تحریر فرماتے ہیں :.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اُس کو پکارا جائے اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہار امر غیب ہے.اس تحریر سے ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں حضرت اقدس یہ بیان فرما رہے ہیں کہ آپ کا نام محدث رکھنے سے آپ کا حقیقی مرتبہ اور مقام ظاہر نہیں ہو سکتا بلکہ آپ کو نبی کے نام سے پکارا جانے سے ہی آپ کا حقیقی مقام اور مرتبہ ظاہر ہو سکتا ہے.پس فاروقی صاحب کا یہ خیال بالکل باطل ہے کہ : حضرت مرزا صاحب نے شروع سے آخر تک ایک ہی عقیده یا دعوی رکھا اور بدقسمتی سے عجوبہ پسند مریڈی نے استعاروں کو اصل سمجھ لیا اور جس طرح حضرت عیسی کو اُن کے پیروں نے ایک نبی کے مقام سے اونچا کر کے خدا کا بیٹا اورخرا بنا لیا اسی طرح مسیح محمدی کے بعض مریدوں نے ایک محدث اور محدد
: کو بجائے فطستی یا مجازی نبی سمجھنے کے حقیقی کامل نبی کا درجہ دے دیا." رفتح حق مش ) فاروقی صاحب ! حضرت اقدس کا دعوی تو شروع سے یہی رہا ہے خدا نے آپ کو نبی اور رسول کیا ہے اور اس کی کیفیت کثرت مکالمہ مخاطبه البیہ مشتمل بر امور عینیہ کثیرہ ہے.لہذا آپ کے اس دعویٰ میں تو واقعی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن نہی کی تادیل محدث کرنے میں آپ نے ضرور تبدیلی فرمائی تھی جیسا کہ ایک غلطی کا ازالہ کی مندرجہ بالا تحریر سے صاف ظاہر ہے.پس جب تک آپ تعریف نبوت میں نبی کے لیے کسی دوسرے نبی کا امتی نہ ہونا ضروری سمجھتے رہے ، اس وقت تک اپنے الہامات میں نبی اور رسول کی تعریف محدث کرتے رہے اور جب اس تعریف نبوت میں تبدیلی فرمالی اور یہ سمجھ لیا اتنی بھی نبی ہو سکتا ہے تو آپ نے اپنے متعلق بنی اور رسول کی تاویل محدث کے لفظ سے کرنا ترک فرما دیا.فاروقی صاحب ! ناقص ظلی نبی یا مجازی نبی تو ہر ایک محدت اور محدد ہوتا ہے اگر حضرت اقدس کی طلقی نبوت تمام سابقہ محدثین کے مقابل میں کامل درجہ کی نہ ہوتی تو پھر آپ غلطی کا ازالہ میں محض محدث ہونے سے انکار نہ فرماتے اور نہ حقیقۃ الوحی میں یہ لکھتے کہ تیرہ سو سال میں تمام اولیاء سابقین کے مقابلہ میں نبی کا نام پانے کے لیے آپ ہی مخصوص ہیں کیونکہ ان میں شرط ثبوت نہیں پائی گئی.اور نہ حقیقۃ الوحی ص ۳۹ پر محولہ عبارت سے آگے یہ لکھتے اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ.بھی اس قدر مکالمه مخاطبہ الہیہ اور امور غیبیہ سے
1-1 جستہ پالیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی پیشنگوئی میں ایک رشتہ واقع ہو جاتا.اس لیے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے اُن بزرگوں کو اس نعمت کے پورے طور پر پانے سے روک دیا.تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہو گا وہ پیشگوئی پوری ہو جائے " اس سے ظاہر ہے کہ شاہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام به بیان فرما رہے ہیں کہ آپ نے مکالمہ مخاطبہ تیل بر امور غیبیہ کی نعمت کو پورے طور پر حاصل کیا ہے اور آپ سے پہلے گزرے ہوئے تمام صلح میں کسی ایک نے بھی انصمت کو پورے طور پر حاصل نہیں کیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا من ظلی نبی ہوئے اور محدثین اُمت ناقص ظلی نبی.اسی لیے تو حضور نے تحریر فرما یا : - اس نکتہ کو یاد رکھو کہ ہمیں رسول اور نبی نہیں ہوں لینی باعتبار نئی شریعیت اور نئے دعوئی اور نئے نام کے اور میں نبی اور رسول ہوں باعتبار طلبیت کا ملہ کے وہ آئینہ ہوں جس میں محمد کی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے." نزول مسیح ص پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کامل یعنی حقیقی خلقی نبی مانتے ہیں.بیٹی شریعت لانے والا حقیقی بنی نہیں مانتے اور نہ آپ کو مستقل نبی مانتے ہیں واضح رہے ظلی نبوت ایک قسم کی نبوت ہی ہے.دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس کی لا نحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم) کی کامل پیروی سے ملتی ہے ہو اُس کے چراغ سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی بوت ہے یعنی اس کا ظل " (چشمہ معرفت ص۳۲) پس حضرت اقدس کا مل خلقتی نبی ہیں اور علی نبوت ، نبوت کی ہی ایک قسم ہے ہاں محدثین امت کو بھی ظلی نبوت سے کچھ حصہ ملا ہے مگر کسی محترث امت کو آپ سے پہلے اس سے کامل حصہ نہیں ملا اس لیے اس وقت تک امت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی نبی کا نام پانے کے لیے ایک مخصوص فرد ہیں اور آپ سے پہلے گزرے ہوئے صلحاء میں سے کوئی شخص بھی حقیقی خلقی نبی نہ ہونے کی وجہ سے نبی کا نام پانے کا سختی نہیں.ہاں وہ حجاز اظلی نبی قرار دیئے جا سکتے ہیں نہ حقیقہ کلی نہی.کامل اور حقیقی کا لفظ بھی ایک اضافی اور نسبتی امر ہے.چنانچہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری جن کا مشورہ فاروقی صاحب کی کتاب میں شامل ہے.رسالہ روح اسلام بابت مارچ 1972 میں لکھتے ہیں ہاں :- اب ذیل میں لفظ " صریح طور پر (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صریح طور پر نبی کا خطاب پانے.ناقل ) کی تشریح بھی عرض کر دی جاتی ہے.واضح ہو کہ یہ لفظ اولیاء کرام کے مقابلہ میں ہی استعمال ہوا ہے انہوں نے چونکہ رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا.ناقل کامل عکس نہیں لیا تھا.اس لیے نبوت محمد یہ ان کے وجود میں گو موجود تھی ، مخفی تھی.کامل عکس سے حضور کی مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے آپ کو آنحضر
١٠٣ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل عکس قرار دینے سے مراد ہی یہ سے کہ حقیقت کے لحاظ سے کامل درنہ ہر ولی اور مجدد و محدت اپنے اپنے زمانہ اور اپنے اپنے دائرہ تجدید کی نسبت سے کامل عکس ہی رکھتا ہے جس طرح کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے کامل ہی تھے.لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل وہ ناقص ہی تھے.ٹھیک اسی طرح پہلے تمام اولیاء اپنے اپنے حلقہ کے لیے کامل عکس رکھنے والے ہی تھے.لیکن حضرت مسیح موعود کے مقابلہ میں ان کا حاصل کرده عکس ناقص ہی تھا.حضور کا لیا ہو، عکس انتہائی حد تک پہنچ گیا.جس انتہائی حد تک کسی امتی لیے اپنے نبی متبوع کی نبوت کا عکس لینا ممکن تھا.اِس سے زیادہ کوئی اُمتی لے ہی نہیں سکتا.روح اسلام ص ۳) پیس حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقت کے لحاظ سے کا مل نکلتی نبی ہوئے اور باقی تمام امت محمدیہ کے اولیاء جو آپ سے پہلے گزر چکے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ یکم کا نا قص عکس ہونے کی وجہ ناقص خلقی نبی یا جزو می ظلی نبی یا مجازی ظلی نبی ہوئے.در حقیقت خالی بنی صرف مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت اقدس کا غلطی کا ازالہ میں نبی کی بجائے محدثے قرار دینے سے انکار حضور پر اپنی نبوت کے متعلق نیا انکشاف ہونے کا واضح ثبوت ہے.
۱۰۴ ظلی نبوت توت ہی ہے اسی لیے حضرت اقدس نے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ کے حاشیہ میں تحریر فرما یا : - یہ ضرور یا درکھو کہ اس امت کے لیے وعدہ ہے کہ وہ ہرایک ایسے انعام پائیگی جو پہلے نہیں اور صدیق پا چکے پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیش گوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.اس سے ظاہر ہے کہ اب حضرت اقدس کے نزدیک پہلے انبیاء کی وجہ سے نبی کہلاتے رہے ہیں اور بعض کا شریعت جدیدہ یا احکام لانا نبوت پر ایک زائد امر تھا.آگے تحریر فرماتے ہیں:.لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا درواز بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لا يظهر على غيبه احداً الا من ارتضى من رسول سے ظاہر ہے.پس مصفیٰ غیب پانے کے لیے بنی ہونا ضروری ہوا اور آیت انعمت علیہم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصنفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے.اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہت کے لیے محض برد زاوار ظلیت اور فتا فی الرسول کا دروازہ کھلا ہے " اس عبارت سے مندرجہ ذیل امور روز روشن کی طرح ظاہر ہیں :-
۱۰۵ ا آیت لا يظهر على غيبه الز کے مطابق مصفیٰ غیب پانے کے لیے - نہی ہونا ضروری ہے.آیت العمت علیہم گواہ ہے کہ امت محمدیہ اس مصفی غیب سے محروم نہیں.۳ - مصفیٰ غیب جو آیت لا يظهر على غيبه احدا إلا من ارتضى من رسول کے منطوق کے مطابق ہو.یعنی جس میں کثرت اور صفائی کے ساتھ امور غیبیہ پر اطلاع پائی جائے نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اس کے پانے کے لیے بنی ہونا ضروری ہے.مصفی غیب پانا جس کے لیے نبی ہونا ضروری ہے اور جس کی وجہ سے انبیاء سابقین نبی کہلاتے رہے.اب براہ راست طریق سے معلنا ممکن نہیں گویا اب نبوت براہ راست طریق سے نہیں مل سکتی.۵ - اب اس مو ہیبت نبوت کو پانے کے لیے جو پہلے انبیاء کو براہ راست ملتی رہی صرف بروزا در ظلمیت اور فنانی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.گویادہ موست نبوت جو پہلے انبیاء کو براہ راست ملتی رہی اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلیت بروز اور آپ کے وجود میں کھویا جانے سے وہی موہبیت نبوت آپ کے ایک امتی کو مل سکتی ہے.گویا براہ راست نبی کی نبوت اور امتی کی قطعی نبوت کا ملہ نفس نبوت کے لحاظ سے موہبت نبوت ہی ہے.صرف اس کے حصول کے ذریعہ میں فرق ہے.-4- بروز ظلیت اور فنا فی الرسول امتی کی ترقی کی انتہائی منزل نہیں.بلکہ مقام نبوت کے حصول کے لیے ایک دروازہ یعنی ذریعہ کی حیثیت رکھتا ہے اس دردانے سے خدا جسے چاہے اُسے وہی موہت نبوت عطا کرتا ہے جو پہلے انبیا
1.4 کو براہ راست ملتی رہی.عرض حضرت اقدس کی اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ ایک غلطی کا ازالہ لکھتے وقت حضرت اقدس اسی مو بہت نبوت کے پانے کے لیے جو پہلے انبیاء کو براہ راست ملتی رہی.اب اتنی نہ ہونے کی شرط ضروری نہیں سمجھتے.بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کے لیے ایسی مو بہت نبوت جو انبیاء کو براہ راست ملتی رہی.آیت انعمت علیم کی رو سے اُمت میں موعودہ قرار دیتے ہیں.تعریف نبوت میں ترمیم اس بات کا مزید ثبوت کہ اس زمانہ میں حضرت کا مزید ثبوت اقدس تعریف نبوت میں ترمیم فرما چکے تھے ، یہ بھی ہے کہ 19ء سے پہلے تو حضرت اقدس نبی کے لیے کم از کم ضروری شرط یہ سمجھتے تھے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا امتی نہیں ہوتا مگر انشاء کے آخر میں اور اس کے بعد حضرت اقدس نبی کے لیے اتنی نہ ہونے کی شرط کو ضروری نہیں سمجھتے اور ایک امتی کے حقیقت میں نبی ہو جانے کو قابل اعتراض نہیں جانتے اور اپنے آپ کو در حقیقت نبی سمجھتے تھے.چنانچہ حضرت اقدس ضمیمہ برا امین احمدیہ حصہ پنجم من ۱۳ میں ایک سائل کا پہلے یہ سوال درج کرتے ہیں :- بعض کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ صحیح بخاری اور سلم میں لکھا ہے کہ آنے والا عیسے اسی اُمت میں سے ہو گا لیکن صحیح مسلم میں صریح لفظوں میں اس کا نام نبی اللہ رکھا ہے.پھر کیوں کہ ہم مان لیں کہ وہ اسی امت میں سے ہوگا یا اس سوال سے ظاہر ہے کہ سائل امنی کا نبی ہو سکتا محال سمجھتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک معروف اصطلاح نبوت کے مطابق جو اُمتی ہو وہ نبی نہیں ہوسکتہ
1.6 اسی معروف اصطلاح کی وجہ سے سائل کے دل میں خلجان ہے کہ جب صریح لفظوں میں صحیح مسلم میں مسیح موعود کو نبی اللہ قرار دیا گیا ہے تو پھر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے ہوگا.اس سوال سے ظاہر ہے کہ سائل کے نزدیک جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہو وہ حقیقت نبی نہیں ہو سکتا.حضرت اقدس اس سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام بد قسمتی دھوکہ سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر را مورفیہ ناقل) پانے والا اور شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لیے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعیت کا مشبع نہ ہو پیس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا.بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اسی نی متبوع سے فیض پانے والا ہو (ضمیمه برا بین احمدیہ حصہ پنجم ۱۳۵) ظاہر ہے حضرت اقدس مکتوب ، ار اگست شاء کے وقت تو نبی کے لیے اگر وہ شریعیت کا ملہ یا احکام جدیدہ نہ لائے.کم از کم یہ ضروری شرط سمجھتے تھے کہ وہ کسی نبی کا امتی نہیں کہلاتا.بلکہ سابق نبی سے استفادہ کے بغیر خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے.گویا اس زمانہ میں اس سائل کی طرح آپ بھی بھی سمجھتے تھے کہ نبی اُمتی نہیں ہوتا حضور کا یہ مکتوب نشہ سے پہلے کا ہے.لیکن تبدیلی تعریف نبوت کے بعد ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم کی مندرجہ بالا عبارت میں حضرت اقدس
نبی کے حقیقی معنی صرف یہ تیار ہے ہیں کہ وہ مکالمہ مخاطب اللہ شمل برامور غیبیہ کی نعمت سے مشرف ہوتا ہے.شریعت کا لانا اسکے لیے ضروری نہیں.نہ اس کے لیے دوسرے نبی کا امتی نہ ہونا ضروری ہے بلکہ منی کا حقیقی معنوں میں بنی ہو جانا کوئی قابل اعتراض امر نہیں.چنانچہ صاف فرما دیا ہے کہ :- "پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا.بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اسی نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو." حضور نے سائل کو سمجھایا ہے کہ تم جو اُمتی کا نبی ہونا محال سمجھتے ہو، یہ نبوت کے حقیقی معنوں پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے تم یہ سمجھتے ہو کہ اُمتی نبی نہیں ہو سکتا.حالانکہ نبی کے لیے نہ شریعیت کا لانا ضروری ہے اور نہ ضروری ہے کہ کسی دوستر نبی کا امتی نہ ہو.بلکہ اس کے لیے صرف مکالمه مخاطبه البیه مشتمل بر امور غیبیہ کا پانا ضروری ہے.لہذا میسج موعود صحیح بخاری ومسلم کی حدیثوں کے مطابق اُمتی ہو کہ بھی نبی ہو سکتا ہے.کیونکہ نبوت کے حقیقی معنوں پر اگر غور کیا جائے تو امتی کا نبی ہو جانا قابل اعتراض امر نہیں.واضح ہو حضرت اقدس کا یہ فقرہ کہ اس کے لیے شریعیت کا لانا ضروری نہیں اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اس جگہ نبی کے حقیقی معنوں میں نبی کی تعریف بیان کی گئی ہے.نہ کہ محدث کی تعریف جو ناقص اور جزوی نبی ہوتا ہے.کیونکہ ضروری نہیں کے الفاظ بتاتے ہیں کہ نئی نئی شریعت یا احکام جدیدہ لانے والا بھی ہو سکتا ہے اور بغیر شریعت و احکام جدیدہ کے بھی نبی ہو سکتا ہے مگر محض محدث تو ہوتا ہی وہ شخص ہے جو شریعت جدیدہ یا احکام جدید نہیں لاتا.
1.9 پس یہ فقرہ محدث کے لیے کہا ہی نہیں جا سکتا.بلکہ یہ فقرہ صرف حقیقی معنوں میں نبی کے لیے ہی کہا جا سکتا ہے.اگر آپ نبی بمعنی محدث کی تعریف کر رہے ہوتے تو یہ تحریر فرماتے کہ وہ شریعت نہیں لاتا.یہ نہ فرماتے اُس کے لیے شریعیت کا لانا ضروری نہیں کیونکہ جو حقیقی معنوں میں نبی ہو وہی شریعیت جدیدہ لا سکتا ہے.....اسی طرح اس سے اگلا فقرہ بھی نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو" محض محدث کے لیے نہیں کہا جا سکتا.کیونکہ محض محدث تو ضروری طور پر ایک بنی کے تابع ہوتا ہے.وہ نبی کا غیر تابع ہو ہی نہیں سکتا.مگر یہ فقرہ تتا رہا ہے کہ جس نبی کے حقیقی معنی آپ بیان فرما رہے ہیں وہ ایک نبی کے تابع بھی ہو سکتا ہے اور غیر تابع بھی.لہذا یہ حقیقی نبی کی جامع اور مانع تعریف ہوئی، نہ کہ محدث کی جو بالضرور تابع ہی ہوتا ہے حقیقی نبی کی ہی یہ نشان بھی ہو سکتی ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ ہو.پس اس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی کے تابع کا بھی حقیقی معنوں میں بنی ہونا جائز قرار دیتے ہیں اور ان حقیقی معنون ایک امتی کے نبی میں معنوں کی رُو سے بار جانے کو بھی قابل اعتراض نہیں جانتے بلکہ انہی فرماتے ہیں :- " ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے میں کوئی محذور لازم نہیں آتا " اپنی حقیقی معنوں میں حضرت اقدس نے اس جگہ میسج موعود کو حقیقی معنوں میں نبی قرار دیا ہے.ہاں آپ جدید شریعت لانے والے حقیقی نبی نہیں نہ مستقل نبی ہیں بلکہ اُمتی نبی ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تعریف نبوت ہیں تبدیلی نہ کرلی ہوتی تو پھر تو پہلی معروف تعریف نبوت کے مطابق جو مسائل کو بھی مسلم تھی اُسے چند لفظوں میں یہ جواب دیدیتے کہ صیحیح مسلم میں مسیح موعود کو
11.نبی اللہ محدث کے معنوں میں قرار دیا گیا ہے اور محدث کے لیے اس جگہ نبی کا اطلاق مجازاً کیا گیا ہے.لہذا صحیح بخاری ومسلم میں اُسے اُمتی قرار دینا درست ہے، کیونکہ محض محدت ایک پہلو سے امتی ہوتا ہے اور دوسرے پہلو سے ناقص اور اور جبزدی نبی کبھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقید نبوت حقیقۃ الوحی ص ۱۳ پر حضرت میں تبدیلی سے متعلق واضح اعتراف مسیح موعود علیہ السلام نے سوال ملا کے عنوان کے تحت ایک سائل کا سوال درج فرمایا ہے جو یہ ہے :- تریاق القلوب کے صفحہ 12 میں (جو میری کتاب ہے) لکھا ہے اس جگہ کسی کو دہم نہ گزرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزوی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے.پھر ریویو جلد اول - ص ۲۵ میں مذکور ہے :." خدا نے اس امت میں مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے میسج سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے " پھر ریویو ص ۴۷ میں لکھا ہے.و مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے که اگر مسیح ابن مریم میرے زمانے میں ہوتا تو وہ کام جو ہیں کر سکتا ہوں ہر گز نہ کر سکتا اور جو نشان مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں ہمیں وہ ہر گز دکھلا نہ سکتا " خلاصه اعتراض یہ کہ دو نو عبارتوں میں تناقض ہے ،
18 سائل کا ان دونوں قسم کی عبارتوں میں تناقض قرار دنیا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وہ پہلی عبارت سے یہ سمجھتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب اپنے آپ کو تریاق القلوب میں غیر نبی قرار دیتے ہیں اور پھیلی عبارتوں کو وہ اس سے تناقض رکھنے والی اس لیے قرار دیا ہے کہ اس کے نزدیک (دوسری) یہ عبارت کہ خدا نے اس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے نبی ہونے کو چاہتی ہے کیونکہ ایک نبی ہی یہ بات کہ سکتا ہے.کہ وہ ایک دوسرے نبی سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.اسی طرح ایک نبی ہی دوسرے نبی کے مقابلہ میں یہ کہ سکتا ہے کہ وہ اپنے کاموں اور آسمانی نشانوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہے.ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عقیدہ نبوت میں کوئی تبدیلی نہ کی ہوتی اور ریویو کی تحریر کے وقت بھی اپنے تیئں تریاق القلوب کی تحریر کی طرح نبی معنی متحدت بھی سمجھتے ہوتے جو دراصل نبی نہیں ہوتا تو آپ سائل کو یہ جواب دیگر خاموش کر سکتے تھے کہ میری دونوں تحریر دل میں کوئی تناقض نہیں بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام سے اپنی تمام نشان میں بہت بڑھ کر ہونے کے فقرہ سے بھی میری مراد پہلے فقرہ کی طرح یہی ہے کہ مجھے حضرت عیسی علیہ السلام پرایسی جزوی فضیلت ہی حاصل ہے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے.لہذا سائل کو میری عبارتوں کے سمجھنے میں غلطی لگی ہے.میری ان عبارتوں میں کوئی تناقض موجود نہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسائل کو یہ جواب نہیں دیتے بلکہ اپنی ان عبارتوں میں خود بھی تناقض تسلیم کر لیتے ہیں اور سائل کو یہ جواب دیتے ہیں کہ میرا حضرت مسیح علیہ السلام پر جزوی فضیلت کا عقیدہ اس وقت تک تھا کہ جب تک میں حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی سمجھتا تھا اور نبوت میں اُن سے اپنی
10' کوئی نسبت نہ سمجھتا تھا یعنی انھیں نبی سمجھتا تھا اور اپنے میں جزوی نبی ، لیکن بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہیں رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے امتی (دیکھو حقیقۃ الوحی ص ) گویا پہلے آپ اپنے الہامات میں نبی کا لفظ چونکہ محدث کے مترادن مرا لینے کی وجہ سے اپنے آپ کو غیر نبی سمجھتے تھے اس لیے اگر حضرت عیسی علیہ السلام پر آپ کی فضیلت کا کوئی امرظا ہر ہوتا تھا تو آپ اُسے ایسی جز دی تضیلات قرار دیتے تھے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے لیکن بعد میں خدا کی طرف سے متواتر وحی سے یہ انکشاف ہو جانے پر کہ آپ نے صریح طور پر نبی کا خطاب پایا ہے آپ اس جزوی فضیلت کے عقیدہ پر قائم نہ رہے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہوسکتی ہے اور اپنے تئیں صریح طور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھے لینے پر آپ نے یہ اعلان فرما دیا کہ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہیں.یعنی نفس نبوت میں اُن کے مسادی ہیں اور اپنے کارناموں اور نشانات دکھانے نہیں اُن سے بہت بڑھ کر ہیں.ورنہ ایک شخص جو نبی نہ ہو وہ ہرگز ی نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی تمام شان میں ایک نبی سے بہت بڑھ کر ہے.غیر نبی کا یہ بیان تو سراسر جھوٹ اور مضحکہ خیز بن جاتا ہے کہ وہ اپنی تمام نشان میں یعنی مجموعی شان میں ایک نبی سے بہت بڑھ کر یعنی افضل ہے.ہم اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جواب کی عبادت آپ کے لفظوں میں نقل کر دینا چاہتے ہیں تا ہماری کتاب پڑھنے والوں کو ہمارے اخذ کردہ نتیجہ کی صحت پر پوری بصیرت حاصل ہو جائے اور انھیں ہمارے اس استدلال کے متعلق کوئی شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہ رہے.حضور سائل کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:.
الجواب یا در ہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں میں نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں.خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک ھی میں آپ ہی خبر دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.علی اجود نفسى من ضروب الخطاب، یعنی ان کو کہا ہے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لیے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اور میری مراد ان خیالات سے ہر ترا اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے.میرا اس میں دخل نہیں ہے.رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا اور کلام میں یہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا سو اسبات کو توجہ کر کے سمجھے لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمد ہیں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا سیح میں ہی ہوں.اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسے رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی.مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسی آسمانی ہی سے نازل ہونگے اس لیے میں نے خدا کی دھی کو ظا ہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد دہی رکھا جو عام
مسلمانوں کا تھے، اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنیوالا تھی تو ہی ہے اور ساتھ اسکے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین اور آسمان دونوں میری تصدیق کے لیے کھڑے ہو گئے او خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں.ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا...اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھے کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نہی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلات کی نسبت ظاہر ہوتا تو ہیں اُس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالے کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطا یا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے امتی.....خلاصہ یہ کہ میری کام میں کچھ تناقض نہیں.یک تو خدا تعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا جا ہوں.جب تک مجھے اُس سے علم نہ ہوا میں رہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مسجد کو اس کی طرف اور سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.میں انسان ہوں، مجھے عالم الغیب ہو نیکا دعوی نہیں "
اس عبارت سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کا تریاق القلوب کی تحر یر یک جزوی فضیلت رکھنے کا عقیدہ اس وجہ سے تھا کہ آپ حضرت عیسلے سے نبوت میں اپنی کوئی نسبت نہ سمجھتے تھے یعنی انھیں کامل نبی سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو جردی نبی لیکن آپ اس عقیدہ پر قائم نہ رہے اور آپ نے دوسرا عقیدہ حضرت علیے علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہونے کا اس وقت اختیار کیا جبکہ بارش کی طرح وحی الٹی سے آپ پر صریح طور پر نبی کا خطاب پانا منکشف ہو گیا.گویا نبوت کے عقیدہ میں تبدیلی کو ہی آپ نے حضرت مسیح پر فضیلت میں تبدیلی کا باعث قرار دیا ہے اور دونوں عقیدوں میں اسی طرح کا تناقض تقسیم فرمایا ہے.جس قسم کا تناقض آپ نے اس عقیدہ میں قرار دیا ہے جو آپ پہلے یوں رکھتے تھے کہ :.حضرت عیسے آسمان سے نازل ہونگے ؟ حالا نکہ اس وقت بھی خدا نے آپ کا نام عیسے رکھا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی.اس وقت حضرت اقدس نے اس وجی کی یہ تاویل کی تھی کہ آپ مشین مسیح ہیں اور اپنے تئیں مسیح موعود قرار نہیں دیا تھا پھر اس کے بعد بارش کی طرح وحی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا ، تو ہی ہے.تو آپ نے اپنے عقیدہ کے خلاف یہ اعلان کر دیا کہ آپ ہی میسج موعود ہیں.پس جس طرح اس عقیدہ میں تبدیلی ہوئی ہے اسی طرح جزدی فضیلت کے عقیدہ کو ترک کر کے اپنی تمام شان میں حضرت مسیح علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہونے کا عقیدہ آپ نے اس وقت اختیار کیا جبکہ بارش کی طرح دھی اعلی میں صریح طور پر نبی کا خطاب دیا جانا آپ پر ظاہر ہو گیا.
174 لہذا جس طرح در حقیقت مسیح موعود آپ براہین احمدیہ میں درج شده العلامات کے وقت سے ہی ہیں حالانکہ مسیح موعود ہونے کا اعلان آپ نے بارہ سال نید ۱۹ء میں کیا ، اسی طرح گو آپ براہین احمدیہ میں ہی الہامات میں رسول اور نبی قرار دئے گئے تھے مگر آپ اس وحی کی یہ تاویل کرتے رہے کہ آپ ایک محدث میں جس طرح کے براہین احمدیہ کے متعدد العلامات میں آپ کو کیسے قرار دیئے جانے پر آپ نے ان کی تاویل کرلی تھی کہ میں مثیل مسیح ہوں اور اس وقت مسیح موعود کا آسان سے نازل ہونا خیال کرتے تھے.اور اسی رسمی عقیدہ پر قائم رہے تھے کہ حضرت عیسے آسمان سے نازل ہونگے.اسی طرح نبی تو آپ اسی وقت سے تھے جب الہامات الہیہ میں آپ کو نبی اور رسول قرار دیا گیا تھا ، لیکن آپ اس وقت تک اِن الفاظ کی تاویل محدث کرتے رہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کا آپ پر یہ العام صاف لفظوں میں نازل نہ ہوا کہ مسیح محمد می مسیح موسوی سے فضل ہے.نیز بارش کی طرح وحی الہی سے آپ کو اپنی نبوت کے متعلق صراحت نہ ہو گئی صراحت ہو جانے پر آپ نے اپنے لیے نبی اور رسول کے الفاظ کی تا دیل "محدث" ترک فرما دی.اور نشاء کے بعد سے کسی جگہ بھی اپنے لیے نبی اور رسول کے الفاظ کی تا دلیل محدث نہیں کی.اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے.ہما را دعوی ہے کہ غیر مبالعین شاہ کے بعد کی تحریروں میں حضرت اقدس کی طرف سے اپنے لیے نبی اور رسول کی تاویل محض محدث کہیں نہیں دکھا سکتے.غیر مبالعین کہتے ہیں کہ میں تبدیلی عقیدہ کا تردید غیر مانعین کے عذر کی تردید حقیقۃ الوحی میں ذکر ہے وہ صرف فضیلت کے عقیدہ میں ہوئی ہے نبوت کے عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.مگر حضرت اقدس کے جواب سے ظاہر ہے کہ اصل موجب حضرت مسیح علیہ السلام پر فضیلت
114 کے عقیدہ میں تبدیلی کا یہ تھا کہ پہلے آپ اپنے آپ کو حضرت عیسے کے بالمقابل نبی نہیں سمجھتے تھے لیکن بارش کی طرح وحی الہی سے عمر کے تلور پر نبی کا خطاب یافتہ سمجھے لینے پر آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام پر جزوی فضیلت کا عقیدہ ترک کر کے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے اس سے تناقض رکھنے والا یہ عقیدہ اختیار کر لیا کہ آپ اپنی تمام شان میں حضرت مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہیں.پس ثبوت کے عقیدہ میں تبدیلی ہی فضیلت کے عقیدہ میں تبدیلی کا باعث ہوئی ہے.چنانچہ آپ نے آگے چل کر حقیقۃ الوحی میں صاف طور پر لکھ دیا ہے کہ :.عزیز و با جبکہ میں نے یہ ثابت کردیا کہ مسیح ابن میریم فوت ہو گیا ہے اور آنے والا سیح میں ہوں تو اس صورات میں جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھنا ہے اس کو نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہیئے کہ آنے والی سے کچھ چیز ہی نہیں.نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حکم جو کچھ ہے پہلا ہے.(حقیقۃ الوحی مش10) اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے نبی کہلانے کا حضرت عیسی علیہ السلام سے افضل ہونے میں ضرور دخل ہے اور اگر آپ نبی نہ سمجھے جائیں تو پھر پہلا سح آپ سے افضل قرار پاتا ہے.پس اگر آپ محدث یا نا قص بنی قرار دیئے جائیں تو پھر حضرت عیسی علیہ السلام آپ سے افضل قرار پاتے ہیں کیونکہ یہ امر تو عقد تسلیم کرنے کے لیے مجبور ہے کہ ایک شخص جو نبی نہ ہو وہ اپنے آپ کو ایک مسلم نبی کے مقا با میں اپنی تماشان میں افضل قرار دینے کا کوئی حق نہیں رکھتا.غیر نبی ہوتے ہوئے اس کا ایسا
۱۱۸ دعوئی صریح غیر معقول اور مضحکہ خیز قرار پاتا ہے اسی لیے تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ جو شخص پہلے میسج کو افضل سمجھتا ہے اسے قرآن وحدیث سے ثابت کرنا چاہیے کہ آنے والا سیح نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حکم.اس جگہ نبی معنی محدث کسی طرح مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ محدث تو نبی سے ضروری اور یقینی طور پر کم درجہ کا ہوتا ہے پس محض محدث ایک کامل نبی کے مقابلہ میں اس سے اپنی تمام شان یعنی مجموعی شان میں بہت بڑھ کر موسی نہیں سکتا کیونکہ محدث میں تو شان نبوت ناقص طور پر پائی جاتی ہے.ایک محترت تو نبی کے مقابلہ میں ہمیشہ اپنی تمام شان میں کمتر درجہ کا ہو گا.کیونکہ ناقس مشان نبوت کامل شان نبوت کے مقابلہ میں کمتر درجہ رکھنے پر تو دلیل ہو سکتی ہے لیکن ایک کامل شان والے بنی سے اپنی تمام شان میں افضل ہونے پر دلیل نہیں ہو سکتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان نبوت اگر مسیح اسرا علی علیہ السلام کی شان نبوت کے مقابلہ میں کم درجہ کی قرار دی جائے تو پھر مسیح موعود کی یہ پوزیشن کہ آپ اپنی تمام نشان میں حضرت مسیح علیہ السلام سے بہت بڑھ کر میں بالکل مضحکہ خیز بن جاتی ہے.اس صورت میں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ اپنی شان نبوت میں تو حضرت مسیح علیہ السلام سے در اصل کم درجہ پر ہیں اور معاذ اللہ جھوٹے طور پر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ آپ اپنی تمام شان میں حضرت میسج ابن مریم علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نزول اسے صلہ پر تحریر فرماتے ہیں :- پھر دو نو سلسلوں (سلسلہ موسوی و محمدی) کا تقابل پورا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ موسوی سیح کے مقابل پر محمدی میں بھی شان نبوت کے سانحہ آوے تار اس نبوتِ عالیہ کی
119 کسریشان نہ ہویا، اس عبارت کی موجودگی میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان ہوتا حضرت مسیح علیہ السلام سے کم درجہ کی قرار دی جائے تو نہ تو دو نو سلسلوں کا تقابل پورا ہوتا ہے اور نہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بلند کا اظہار ہوتا ہے بلکہ اس میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوتِ عالیہ کی کسر شان ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالیہ کی بلندشان اسی صورت میں قائم رہتی ہے جبکہ موسوتی بسیح کے مقابل پر محمد ی سیح بھی شان نبوت میں کم درجہ کا نہ ہو." نبوت کے متعلق تدریجی انکشاف فاروقی صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح قابل اعتراض نہیں الثانی رضی اللہ عنہ سے محض عناد تعصب اور بغض کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارتوں کو جن میں آپ نے فضیلت برسیح علیہ السلام اور عقیدہ نبوت میں تبدیلی کا صریح اعتراف کیا ہے نظر انداز کر کے ذیل کی دل آزار عبارت تحریر کی ہے کہ :.مرزا محمود احمد خلیفہ قادیان و حال ربوہ نے اپنے غالیانہ خیالات اور عقائد کو تقویت دینے کے لیے ایک بہودہ دلیل پیش کی تھی کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب شاعہ تک اپنے اصلی دعوی یا مقام کو پورے طور پر نہیں سمجھے تھے مگر وائے کے بعد جب سمجھ آئی تو کتاب ایک غلطی کا ازالہ کے ذریعہ اپنے اصلی مقام یا دعوائے نبوت کو واضح کیا.یہ بات حضرت مرزا صاحب کی سخت تحقیر کرتی ہے اور ان کو نعوذ باللہ کم عقل اور دھو کے باز ظا ہر کرتی ہے..، ایا..
یہ دہ تیر ہے جو فاروقی صاحب نے ہماری طرف پھینکا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نادان دوستی کا ثبوت دیا ہے.ورنہ وہ بائیں کہ اگر نبوت میں تبدیلی عقیدہ سے حضرت مسیح موعود کی تحقیر ہوتی ہے اور یہ بات ماننے سے بقول فاروقی صاحب کے آپ نعوذ باللہ کم عقل اور دھو کے باز قرار پاتے ہیں تو پھر اس بات کا اُن کے پاس کیا جواب ہے کہ حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ : - پھر قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر رہا کہ خدا نے بڑی شد و مد سے مجھے براہین احمدیہ میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسی کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے پس جب اسبارہ میں انتہا تک خدا کی وحی پہنچی اور مجھے حکم ہوا فاصدع بما تو مر کہ مجھے جو حکم ہوتا ہے لوگوں کو کھول کر سنا دے اور بہت سے نشان مجھے دیئے گئے اور میرے دل میں روشن یقین کی طرح بٹھا دیا گیا تب کہیں نے یہ پیغام لوگوں کو شنا ( اعجاز احمدی حث) پس جس طرح حضرت اقدس بڑی شد و مد سے مسیح موعود قرار دینے والی وحی الہی نازل ہو چکنے کے باوجود بارہ سال تک اپنا مسیح موعود ہونا نہ سمجھے دیا
۱۲۱ کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کی مصلحت نہیں چاہتی تھی کہ آپ اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان کریں دھوکا بازی اور کم عقلی قرار نہیں پاتی بلکہ حضرت آقادری کی سادگی اور عدم بناوٹ پر گواہ ہے بالکل اسی طرح عقیدہ نبوت میں تبدیلی بھی دھوکہ بازی یا کم عقلی قرار نہیں پا سکتی بلکہ ایک وقت تک نبی کی تا دیل محدث کرنا بھی آپ کی سادگی اور عدم بنادٹ پر ہی دلیل ہے.حضور نے تو صاف فرما دیا ہے کہ :.میں تو خدا کی وحی کی پیروی کرنے والا ہوں جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا نہیں رہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.میں انسان ہوں مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں.بات یہی ہے جو شخص چاہے قبول کرے یا نہ کرے (حقیقة الوحی منشا) حضور کی یہ عبارت فضیلت برسیح علیہ السلام کے عقیدہ میں تبدیلی کے متعلق ہے جس کا موجب بارش کی طرح وحی الٹی میں نبی کا خطاب پانا قرار دیا گیا ہے.ہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بارہ سال تک اپنا مسیح موعود ہونا نہ سمجھنے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے :- " یہ خدا کی حکمت عملی تھی اور میری سچائی پر یہ دلیل تھی اور میری سادگی اور عدم بناوٹ پر ایک نشان تھا یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور انسانی منصوبہ اس کی جڑ ہوتی تو میں براہین احمدیہ کے وقت سے ہی
۱۲۲ یہ دعوے کرتا کہ میں مسیح موعود ہوئی مگر خدا نے میری نظر کو پھیر دیا اور میں براہین احمدیہ کی اس دجی کو سمجھے نہ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بناتی ہے.یہ میری سادگی اور میری سچائی پر ایک عظیم دلیل تھی یہ اعجاز احمدی مٹ) اب اس عبارت میں فاروقی صاحب مسیح موعود کی جگہ نبی کا لفظ رکھ دیں تو انھیں پتہ لگ جائے گا کہ جس طرح بارہ سال تک حضرت اقدس کا اپنے آپ کو مسیح موعود نہ سمجھنا حالانکہ خدا تعالیٰ نے بڑی شد و مد سے آپ کو مسیح موعود قرار دیدیا تھا خدا تعالیٰ کی حکمت عملی اور حضرت مسیح موعود کی سچائی کی دیل ہے اور آپ کی سادگی اور عدم بناوٹ پر ایک نشان، اسی طرح نبی اور رسول کے الہامات سے ایک وقت تک حضور کا اپنے آپ کو نبی نہ سمجھنا بھی خدا تعالیٰ کی حکمت عملی اور آپ کی سچائی کی دلیل ہے نہ کہ بقول فاروقی صاحب نعوذ باتر آپ کی کم عقلی اور دھوکہ بازی کا ثبوت اور آپ کی تحقیر کا باعث ! میں اس عبارت میں مسیح موعود کی بجائے نبی کا لفظ رکھ کر یہ فیصلہ ناظرین پر ہی چھوڑتا ہوں کہ فاروقی صاحب کا یہ ریمارک بے ہودہ ہے یا نہیں ؟ " یہ خدا کی حکمت عملی تھی اور میری سچائی پر دلیل تھی اور میری سادگی اور عدم تبادٹ پر ایک نشان تھا.اگر یہ کاروبار ایک انسان کا ہوتا اور انسانی منصوبہ اس کی جڑ ہوتی تو میں براہین کے وقت سے ہی یہ دیکھو کرتا کہ میں نبی ہوں.مگر خدا نے میری نظر کو پھر دیا اور میں براہین احمدیہ کی اس وحی کو نہ سمجھ سکا تہ
۱۲۳ وہ مجھے نبی بناتی ہے.یہ میری سادگی اور میری سچائی پر ایک عظیم دلیل تھی " یہ بات فاروقی صاحب کو بھی مسلم ہے کہ حضرت اقدس نے مجددیت کا دعوی شعراء میں کیا اور مسیح موعود کا دعوی ۱۸۹۷ء میں ، حالانکہ شراء میں ہی آپ پر انکشاف ہو چکا تھا کہ آپ حضرت عیسی علیہ السلام سے شدید مشابہت رکھتے ہیں.چنانچہ فاروقی صاحب لکھتے ہیں :- (1) سب سے پہلے حضرت ے پہلے حضرت مرزا صاحب نے اپنی معرکتہ الآراء کتاب براہین احمدیہ میں اپنے مجدد ہونے کا دعوے کیا ، لیکن اس دعوی مجددیت کا اعلان خاص طور پر آپ نے شہداء کے شروع میں ایک اشتہار کے ذریعہ کیا ، مگر آپ نے لوگوں سے بیعت نہیں کی ، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہیں مل گئی.آپ نے یکم دسمبر شملہ کو اعلان کیا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے بیعت لینے اور ایک جماعت تیار کرنے کا حکم دیا ہے.رفتح حق صت) (۲) حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے اس اشتہار میں میں میں مجددیت کا دعوی کیا تھا اعلان فرما دیا تھا کہ مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ نہیں اور ایک دوسرے سے بشدت مشابہت و مناسبت ہے فتح حق مث
۱۳۴ پھر آگے چل کر اسی صفحہ پر لکھتے ہیں :- حضرت مرزا صاحب نے ۲۶ مارچ ۱۸۹۷ء کو پہلے ایک اشتہار کے ذریعہ اپنے دعوتی مسیحیت کا اعلان کیا.آپ نے اعلان کیا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی توفوت ہو گیا اور جس ابن مریم کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی وہ اس اُمت سے ہی ایک مجدد کے بارہ میں تھی وہ میں ہوں.فتح حق مشت ؟ ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ فاروقی صاحب مجددیت سے مسیح موعود تک کے دعوے میں حضرت اقدس پر تدریجی انکشاف کے قائل ہیں تو پھر نبوت کے متعلق تدریجی انکشاف کس طرح نعوذ باللہ آپ کی کم علمی اور دھوکہ بازی پر محمول کیا جا سکتا ہے اور آپ کی تحقیر کا موجب ہو سکتا ہے ؟ مامورین کو اپنی شان کے متعلق تدریجی علم دیا جانے سے نہ ان کی تحقیر ہوتی ہے نہ اس سے اُن کا کم علم اور دھوکے باز ہونا لازم آتا ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اپنی شان کے متعلق تاریخی انکشاف ہی ہوا تھا.اور اس میں بھی خدا تعالیٰ کے مد نظر ایک مصلحت کا ر فرما تھی.دیکھئے ! اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع دعوی میں ہی یہ انکشاف نہ فرما دیا تھا کہ آپ خاتم النبیین ہیں بلکہ اس مقام کا انکشاف آپ پر لمبا عرصہ گزرجانے کے بعد آپ کی وفات سے چار پانچ سال ہی پہلے ہوا.لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نبوت کی کامل شان اور ختم نبوت سے متعلق تدریجی انکشاف کسی خاص مصلحت الہی کے ماتحت ہی ہوا.سب سے پہلے آپ کو نبی یا رسول کا نام دیئے بغیر آپ سے تبلیغ
۲۵ کرائی گئی پھر بعد میں نبی اور رسول کا نام بذریعہ جی دیا گیا اور جب ایک طبقہ نے آپؐ کی نبوت اور رسالت کو قبول کر لیا تو اس کے بعد حضور کی وفات سے چار پانچ سال پہلے آپکا حقیقی اور اصل مقام خاتم النبیین جو آپ کے افضل الانبیاء ہونے پر بھی دال ہے آپ پر ظاہر کیا گیا ، ورنہ اس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انکسار طبع اور احتیاط کی خاطر یہی فرماتے ہیں: لا تُخَيرُ دُنِي عَلى موسى (صحیح بخاری جلد ۲ ص۲۰۹ مصری) یعنی تجھے موسیٰ پر فوقیت مت دو.اور اس زمانہ میں جب کبھی آپ کو کسی نے بنی نوع انسان سے افضل کہا تو آپ نے فرمایا: ذاكَ إِبْرَاهِيمُ ( صحیح مسلم) کہ یہ مقام حضرت ابراہیم کا ہے.لیکن آیت خاتم النبیین کے نزول سے جب آپ پر تمام انبیاء کے بالمقابل اپنی تمام نشان میں جامع کمالات انبیاء ہونے کا واضح انکشان ہو گیا تو آپ نے فرما دیا : لو كَانَ مُوسَى حَيّاً لمَا وَسِعَهُ إِلَّا انتباعی (صحیح بخاری ) اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو انھیں میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.نیز فرمایا : فضلَتْ عَلَى الأَنْبِيَاء بیست و صحیح مسلم باب الفضائل) کہ میں چھ باتوں میں تمام انبیاء پر فضیلت دیا گیا ہوں.ان میں سے ایک وجہ فضیلت اس جگہ اپنا خاتم النبیین ہونا بیان فرمائی ہے.حالانکہ باقی پانچ وجوہ فضائل کا جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں آپ کو پہلے علم دیا جا چکا تھا بالخصوص اس بات کا کہ آپ تمام دنیا کی طرف رسول ہیں.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس تدریجی انکشاف کو بھی کوئی صیح الفل آپ کی تحقیر کا موجب قرار دے سکتا ہے اور نعوذ باللہ آپ کو کم علم
اور دھوکے باز ٹھہرا سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ! ایسا دہی کہ سکتا ہے جو خود خائر العقل ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ رسمی عقیدہ پھیلا ہو ا تھا کہ اِس اُمت میں سے سچ مچ کوئی نبی نہیں آسکتا.البتہ علماء ربانی یہ مانتے چلے آئے تھے کہ نبوت ایک حد تک محد ثیت کے پیرا یہ میں امتی کو مل سکتی ہے.اس لیے محدث کا مقام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو سکتا تھا اور چونکہ ہر نبی علی وجہ الکمال محدث ضرور ہوتا ہے.اس لیے خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس سے مامور محدث ہونے کا اعلان کر دیا.یہ اعلان دراصل اس نبوت کے حقیقہ مساوی تھا جس کا انکشاف حضرت اقدس پر بعد میں ہوا کیونکہ بعد میں آپ کے دعوی کی تفصیلی کیفیت میں اس انکشاف سے کوئی فرق نہیں پڑا.بلکہ صرف ایک تا دیل کے اختیار کرنے اور ترک کرنے میں فرق پڑا ہے جس کے نتیجہ میں آپ اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنی تمام شان میں افضل سمجھنے لگ گئے اور اس کا اعلان فرما دیا نہیں یہ خدا کی حکمت عملی اور مصلحت مسلمان قوم کی بہتری کے لیے تھی کہ شروع میں اس نے آپ سے ایسے رنگ میں اعلان کر دیا کہ جس سے اصل حقیقت بھی قائم رہتی تھی اور وہ دعوئی بھی لوگوں کے اپنے مسلمات کی بنا پر قابل قبول تھا.جب ایک جماعت نے اس دعوئی کو قبول کر لیا اور اس پر حضرت اقدس کے کاموں اور آپ کی روحانی صحبت سے آپ کی صداقت پورے طور پر کھل گئی اور علی وجہ البصیرت اُن کے لیے یہ قبول کرنا ممکن ہوگیا کہ ایک قسم کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے فیض سے مل سکتی ہے تو خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس پیرا نکشان فرما دیا کہ آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب
۱۲۷ دیا گیا ہے.اور اس وقت یہ الہام بھی آپ پر نازل ہوگیا کہ میم محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے ؟ جس سے آپ پر اس حقیقت کا انکشاف ہو گیا کہ آپ کی شان نبوت محدث کی شان نبوت سے بلند تر ہے اور جن معنی میں آپ بنی قرار دیئے گئے ہیں اُن معنی میں آپ کے زمانہ تک اُمت میں کوئی مجدد اور محدث علی وجہ الکمال فلمی نبی یا اتنی نبی قرار نہیں دیا گیا.پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شان نبوت کے بارے میں تدریجاً انکشاف ہوا ہے یعنی ایک عرصہ پہلے نبوت اور رسالت کا الہام ہوئے بغیر تبلیغ کا ارتا ہوا اور پھر نبوت اور رسالت کا انکشاف ہوا اور پھر آخر میں ختم نبوت کی نشان کا انکشاف.اسی طرح حضرت اقدس پر پہلے مامور محدث ہونے یعنی بنوت جزویہ کے حامل ہونے کا انکشاف ہوا اور بعد میں آپ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طلبیت میں شان نبوت کے پورے طور پر پائے جانے کا انکشاف ہو گیا تو آپ نے یہ اعلان فرما دیا کہ آپ کو صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا.ہے اور آپ اپنی تمام شان نہیں حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام سے بہت بڑھ کر ہیں.پس مسیح موعود کے لیے نبی کے ساتھ امتی اور علی کا لفظ صرف ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے مقام نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بعد اور آپ کے افاضہ روحانیہ کے واسطہ سے حاصل کیا ہے اور یہ مقام صرف خدا تعالٰی کی ایک موهبت ہے.حقیقی اور مجازی میں بتا چکا ہوں کہ حقیقی کا لفظ ایک اضافی اور کی حقیقت نسبتی امر ہے.ایک چیز اپنی ذات میں ایک حقیقت ہوتی ہے ایک دوسری حقیقت کی نسبت سے وہ حقیقت نہیں رہتی بلکہ
اس کے مقابلے میں مجاز قرار پاتی ہے.حضرت اقدس نے اپنی کتابوں میں حقیقی نبوت کا لفظ بعض جگہ تشریعی اور مستقل بنی کے لیے استعمال فرمایا ہے اور بعض جگہ صرف تشریعی بنی کے لیے.اس لیے ان اصطلاحوں میں ہم حضرت مرزا صاحب کو حقیقی بنی قرار نہیں لیتے ہاں ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقلیت کا ملہ کے لحاظ سے آپ کا مل ظلی نبی ہیں اور کا من ظلی نبی ہونا بھی اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے اور نبوت مطلقہ کی ایک قسم.دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.(1) ” ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے.جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے " دیکر سیالکوٹ مٹ) (۲) وہ کتابیں دتورات - زبور - انجیل - ناقل حقیقی کتابیں نہیں تھیں.بلکہ وہ صرف چند روزہ کا روائی تختی حقیقی کتاب دنیا میں ایک ہی آئی ریعنی قرآن مجید ناقل جو ہمیشہ کے لیے انسانوں کی بھلائی کے لیے " آئی." رفتن الرحمن مک ) فاروقی صاحب بتائیے کیا آدم علیہ السلام اپنی ذات میں حقیقی آدم نہ تھے جن سے نسل انسانی چلی ؟ اور پھر یہ بھی فرمائیے کہ جب تو ریت ، جھیل زبور حقیقی کتابیں نہ تھیں تو کیا ان کے لانے والے نبی اپنی ذات میں بھی حقیقی بنی نہیں تھے ؟ حالا نکہ آدم بھی حقیقی نبی تھے اور انجیل.تورات.
زبور لانے والے نبی بھی حقیقی نبی تھے.ہاں آدم علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حقیقی نبی نہ تھے اور اسی طرح موسی ، داؤد، عیسے اور باقی تمام انبیاء علیهم السلام گیا سب اپنی ذات میں حقیقی نبی تھے ، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حقیقی نہ تھے اور جب حقیقی نہ تھے تو اس نسبت سے مجازی ہوئے.(۳) حقیقی اور کامل مهدی دنیا میں صرف ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جو محض اُتھی تھا یا د اربعین ۲ ص) (۴) و کامل اور حقیقی مہدی دنیا میں صرف ایک ہی آیا جس نے بغیر اپنے رب کے کسی استاد سے ایک حرف نہ (تحفہ گولڑویہ ص ) ( پڑھا.حضرت مسیح موعود بھی اپنی ذات میں تو حقیقی مہدی ہیں لیکن نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کی نسبت سے دوسرے تمام انبیاء کی طرح آپ بھی حقیقی مہدی نہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ذات میں تو حقیقی اور کا مل خلقی نبی ہیں جو نبوت کی ایک قسم ہے.(چشمہ معرفت ص۳۲۲) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آپ کو جو کچھ ملا ہے وہ مجازی اور علی حیثیت ہی رکھنا ہے اسی لیے آپ نے " استفتاء میں فرمایا :- "سميتُ نَبيَّا مِنَ اللهِ عَلَى طَرِيقِ الْمَجَانِ لَا عَلَى وَجْهِ الْحَقِيقَةِ کہ میرا نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجاز کے طریق پر نبی رکھا گیا ہے نہ کہ حقیقت کے طریق پر.یعنی آپ نے مقام نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
طفیل حاصل کیا اور آپ کی بنی یا امتی نبی ہیں نہ کہ تشریعی یا منتقل نہیں.نزول المسیح حدہ پر اسی حقیقت کے پیش نظر آپ نے اپنا نام مستعار طور پر نبی اور رسول لکھا ہے یعنی آپ کی نبوت ورسالت رسول کریم ملی باشد علیہ وسلم کے طفیل ہے نہ کہ براہ راست - انشاء کے بعد حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- اس اُمت میں ہزار ہا اولیاء گزرے اور ایک ہ بھی ہوا جو اتنی بھی ہے اور نبی بھی " (حقیقة الوحی مثل ) پس اولیاء اللہ آپ کے مقابلہ میں حقیقی امتی بنی نہیں ہیں اور مسیح موعود ان سب کے مقابلہ میں حقیقی امتی بنی ہیں یا کا ملا ظلی نبی ہیں.اور یہ ہم بتا چکے ہیں کہ خطی نبوت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبوت ہی کی ایک قسم قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں :- ایک قسم کی نبوت ختم نہیں جو اس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی سے ملتی ہے جو اس کے چراغ سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل.خیمه معرفت ۳۲۵) پس استفتاء میں مجاز کے لفظ سے واقعیت سے انکار کا دھوکا نہیں کھانا چاہیئے.یہ مجاز ایک نسبتی چیز ہی ہے جو مقام امتی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی اور طفیلی طور پر ملتا ہے وہ اپنی ذات میں تو حقیقی ہوتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اس کی حیثیت مجازی یعنی ظلی اور طفیلی ہی ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.
کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت و قرب کا بجز ستی اور کامل متابعت اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہر گز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ بھی ملتا ہے ظلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے." پر (ازاله او نامه صه (۱۳) اس سے ظاہر ہے کہ امت میں جو شخص مومن ہو وہ طلی مومن ہی ہوتا ہے.جو دلی ہو، غوث ہو، قطب ہو یا محدث ہو وہ یہ مقام ملی طور پر ہی حاصل کرنا ہے.پس علی کا لفظ جس طرح اِن مقامات کے ساتھ حقیقت کی نفی نہیں کرتا بلکہ صرف واسطہ کو ظاہر کرتا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے ظلی نبی کی اصطلاح میں طلبی کا لفظ واسطہ کو ظاہر کرنے کے لیے ہے نہ کہ نبوت کی نفی کے لیے کیو نکا ظلی کا لفظ صفت ہے اور نبوت یا نبی اس کا موصوف.اور یہ صفت موصوف کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس کی خصوصیت ظاہر کرتی ہے کہ اس کو یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے.فاروقی صاحب ! اس عبارت کے رو سے تو محدثیت بھی ملی او طفیلی طور پر ہی ملتی ہے اور حضرت اقدس میسج موعود بھی طلقی اور طفیلی طور پر ہی ہیں.لہذا فاروقی صاحب بتائیں کہ آپ حضرت اقدس کو حقیقت میں مسیح موعود بھی مانتے ہیں یا نہیں ؟ سنئے حضور فرماتے ہیں :- ہیں:.جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود اور مہدی معہود نہیں مانتا وہ میری جماعت میں سے نہیں." رکشتی نوح) پھر حضور کتاب مسیح ہندوستان میں کے ملا میں اپنے آپ کو حقیقی
میسج موعود قرار دیتے ہیں لیکن ازالہ اوہام ص پر تحریر فرماتے ہیں :- " یہ عاجز مجازی اور روحانی طور پر دہی مسیح موعود ہے جس کی قرآن اور حدیث میں خبر دی گئی ہے." صاف ظاہر ہے کہ جب حضور کو آپ کی ذات میں دیکھا جائے تو آپ حقیقی اور رافعی مسیح موعود ہیں اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے کی نسبت سے دیکھا جائے تو آپ مجازی مسیح موعود ہیں.یہی حال آپ کی نبوت کا ہے.اپنی ذات میں آپ واقعی نبی ہیں اور نبی کریم صلی اعد علیہ وسلم سے فیض لینے کی نسبت سے آپ کی نبوت مجازی قرار دی جا سکتی ہے.بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ نبوت کے متعلق تدریجی انکشاف بزرگان دین کے نزدیک ہرگنہ قابل اعتراض امر نہیں.چنانچہ حضرت مجد دالف ثانی رحمہ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں نبوت کے حصول کی دور ہیں بیان کرتے ہوئے ایک اہ یہ بیان فرماتے ہیں :.ه راه دیگر آن است که بتوسط حصول این کمالات ولائیت حصول به کمالات نبوت میستر گردد راه دهم شاه راه است وا قرب است به حصول که به کمالات نبوت رسد - الا ماشاء الله این راه رفته است از انبیاء کرام علیہ الصلاة والسلام واصحاب الیشان به تبعیت و وراثت د مکتوبات مجددالف ثانی جلد اول مکتو عین ۲۳۵۳) ترجمہ: دوسری راہ یہ ہے کہ کمالات ولایت حاصل کرنے کے واسطے ہے کمالات نبوت کا حاصل کرنا میستر ہو.یہ دوسری راہ شاہراہ ہے اور کمالات
۱۳۳ نبوت تک پہنچنے میں قریب ترین راہ ہے الا ما شاء اللہ.اس راہ پر بہت سے انبیاء اور اُن کے اصحاب اُن کی پیروی اور وراثت سے چلے ہیں یعنی انحصوں نے ولائت کے کمالات پہلے حاصل کیسے ہیں اور پھر بعد میں ان کمالات کے واسطے کمالات نبوت حاصل کیے ہیں) پس جب نبوت کا تدریجی طور پر حاصل کرنا یعنی پہلے ولی بننا اور پھر نبی بننا قابل اعتراض نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنی نبوت کا تدریجی انکشاف کیونکر قابل اعتراض ہو سکتا ہے.وحی نبوت کی اقسام | فاروقی صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۳ دہم پڑھی کی اقسام درج کرنے کے بعد حضرت اقدس کی کتاب ازالہ اوہام کے مٹھ کی یہ عبارت درج کی ہے :- " ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ صادق الوعد جان ہے جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور حدیثوں میں تصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرئیل بعد وفات رسول اللہ ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر گز نہیں آسکتا " اس کے بعد فاروقی صاحب نے لکھا ہے :.چونکہ قرآن میں وحی اپنے کمال کو پہنچ گئی.دین بھی مکمل ہو گیا شریعت میں کوئی نقص باقی نہ رہا.اور ہدایت کی بھی تکمیل ہو گئی اور یہ سب کچھ ہمیشہ کے لیے ہو گیا اس لیے.
۱۳۴ قرآن کے بعد یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد) کوئی رسول یا نبی نہیں آسکتا " رفتح حق صت اور صفحہ ۲۱ و ۲۲ پر لکھا ہے :- بنی کی دھی سابقہ شریعت یا کتاب میں ترمیم نسخ کرسکتی ہے اتنی کی وحی نہیں کر سکتی.وحی نبوت تکمیل ہدائت کرتی ہے مگر ہدائت چونکہ قرآن کریم میں کامل ہو چکی اس لیے مسیح موعود کی وحی وحی نبوت نہیں ؟ فاروقی صاحب کی ان دونوں عبارتوں سے ظاہر ہے کہ وحی نبوت ان کے نزدیک شریعت جدیدہ پر شمل وحی کو کہتے ہیں کیونکہ ایسی وحی ہی کسی پیلی شرعیت کے حکم کی ترمیم وتنسیخ کر سکتی ہے.ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ایسی دھی قرآن مجید کے بعد ہر گز نازل نہیں ہوسکتی کیونکہ قرآن مجید کے ذریعہ شریعت مکمل ہو چکی ہے.پس قیامت تک وحی نبوت ان معنوں میں کہ وہ شریعیت جدیدہ پر مشتمل ہو ہرگز نازل نہیں ہو سکتی.ازالہ اوہام کی مندرجہ بالا عبارت میں دراصل وحی نبوت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مراد ایسی وحی ہے جو کسی تشریعی یا منتقل رسولی پر نازل ہو اور یہ ہمارا ایمان ہے کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریعی یا مستقل رسول کی حیثیت میں نہیں آسکتا.یہ واضح رہے کہ وحی نبوت کے ایک معنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ایسی دحی کے بھی ہیں جس میں کسی شخص کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی کہا گیا ہو.چنانچہ حضور نے اربعین" میں آیت کریمہ لَو تَقَدَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقاويل لاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِن ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ - (الحاقی) اپنے دعوئی کے ثبوت میں پیش کر کے بتایا ہے کہ اس کے مطابق آپ اپنے
۱۳۵ دعوی میں صادق ہیں کیونکہ آپ اپنے دعوی وحی پرتیس سالہ میںا د جو معیار صداقت ہے پوری کر چکے ہیں.اس پر معترض نے کہا کہ جھوٹا مدعی نبوت بھی اپنے دعوئی کے بعد اتنی عمر پا سکتا ہے.حضرت اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :.اس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتا ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ چھوٹا بنی ہلاک کیا جاتا ہے.اب اس کے مقابل یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے دعوی کیا ، بار دشن دین جالندھری نے دھولی کیا یا کسی اور شخص نے دعوی کیا اور وہ ہلاک نہیں ہوئے یہ ایک دوسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے.بھلا اگر یہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کیے اور تئیس برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعوی ثابت کرنا چاہیئے اور وہ الہام پیش کرنا چاہیے جو انھوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا ، یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ کہیں خدا کا رسول ہوں اصل لفظ ان کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہیں کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت نہیں ہے جس کی نسبت یہ ضروری ہے کہ بعض کلمات پیش کر کے یہ کہا جائے که به خدا کا کلام ہے جو ہمارے پر نازل ہوا ہے"
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی میں آپ کو خدا تعالیٰ نے نبی اور رسول بھی کہا ہے اس لیے ان معنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی بھی وٹی نبوت ہے.ہاں یہ درست ہے کہ آپ مستقل نبی اور رسول نہیں یعنی آپ نے مقام نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر براہ راست حاصل نہیں کیا.بلکہ آپ نے مقام نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور افاضہ روحانیہ کے واسطہ سے حاصل کیا ہے اور اس طرح آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے امتی بھی گویا بالفاظ دیگر طلی بنی ہیں.ما سوا اس کے اتنی پر اگر کیفیت اور کمیت کے رُو سے کامل درجہ کی وحی نازل ہو تو حضرت اقدس کے بیان مندرجہ الوصیت کے مطابق ایسی دھی باتفاق انبیاء نبوت ہی ہوتی ہے.چنانچہ آپ اپنے رسالہ الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں:.جبکہ وہ مکالمہ اور مخاطبہ اپنی کیفیت اور کریت کی رو سے کمال در جز تک پہنچ جائے ،اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دو مرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لیے فرمایا گیا گشتیم خَيْرَ اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اور جن کے لیے یہ دعا سکھائی گئی کہ اِهْدِنَا الصِّراط المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ان کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے ،
اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا ؟ الوصیت ملا مطبوعه نظارت بہشتی مقبره ) اس عبارت میں مکالمہ مخاطبہ الہیہ کاملہ کو ہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم قرار دیا گیا ہے پس مکالمہ مخاطبہ المیہ کا مل ہی جب نبوت ہے ہیں پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.یعنی جس کی وجہ سے تمام انبیاء کرام علیہم السلام بلا استفنے اپنی کہلاتے رہے تو یہ مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا ملہ ایک معنی میں وحی نبوت ہی ہوا چونکہ شریعیت جدیدہ نبی ہی کو ملتی ہے.غیر نبی کو نہیں ملتی.اس لیے جب کسی نبی پر احکام شریعت جدیدہ نازل ہوں.تو یہ احکام شریعت بھی ایک خاص اصطلاح میں دحی نبوت ہی کہلاتے ہیں.مگر نبی کے لیے شریعیت کا لانا ضروری نہیں کیونکہ بعض نبی شریعیت جدیدہ لاتے رہے ہیں اور بعض کی وحی صرفف امور غیبیہ پر ہی مشتمل ہوتی رہی ہے.اور ایسے انبیاء صرف پہلی شریعت کی تجدید اور ترویج اور خدا تعالیٰ کی مہنتی پر اپنے نشانوں سے زندہ ایمان پیدا کرنے کے لیے آتے رہے ہیں.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّا انزلنا التوراة فيها هُدى وَلُورُ يَحْكُم بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُرُ اللَّذِينَ هَادُوا رسورہ مائدہ (ع) کہ ہم نے تورات نازل کی ریعنی موسیٰ کی کتاب شریعت جس میں عدایت اور نور کتھا اور اس کے ذریعہ سے کئی بنی ہو خدا تعالیٰ کے فرمانبردار تھے (یعنی خود بھی تو رات پر عامل تھے ، بیویوں کے لیے فیصلہ دیا کرتے تھے.پس یہ تمام انبیاء غیر تشریعی نبی تھے اور مکالمہ مخاطبہ الیه مشتمل بر امور عنبیہ کی نعمت کامل طور پر پانے کی وجہ سے نبی کہلاتے تھے ان کی وحی نبوت ایسے مکالمہ مخاطبہ اللہ کا منہ پر ہی مشتمل ہوتی تھی.اس قسم کی وحی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کو مل سکتی ہے.اور ایسی وحی کے
پانے کی وجہ سے ہنی مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالی نے اپنی وحی میں نبی اور رسول کہا ہے.چنانچہ حضرت اقدس ایک غلطی کا ازالہ میں تحریر فرماتے ہیں : - یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لیے وعدہ ہے کہ و ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیش گوئیاں میں جن کی رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.لیکن قرآن شریف بجز نبی کہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لا يظهر على غيبه احداً الا من ارتضى من رسول میں مصفی الغیب یا نے کے لیے بنی ہونا ضروری ہوا اور آیت العمت عليهم گواہی دیتی ہے کہ اس مصفے جنوب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے.اور وہ طریق براہ راست بند ہے.اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس مومہدیت کیلئے محض بروز اور ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے ، حضور کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ مصفی ا غیب حسب منطوق آیت لا یظھر على غيبه احداً الا من ارتضیٰ من رسول.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کو حسب وعدہ الہیٰ حاصل ہو سکتا ہے اور ایسا مصفیٰ غیب نبوت ے یعنی جس میں بکثرت مہتم بالشان امور غیبیہ پر اطلاع دی گئی ہو.
۱۳۹ اور رسالت کو چاہتا ہے اور اس کے پانے والے کے لیے نبی ہونا ضروری ہوتا ہے اور اسی مصفیٰ غیب کے حسب منطوق آیت پانے کی وجہ سے تمام انبیاء بنی کہ ملاتے رہے ہیں.البتہ اب اس قسم کا مصفی اغنیب جس کے لیے بنی ہونا ضروری ہے اور جو نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے براہ راست بغیر پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی امتی کو حاصل نہیں ہو سکتا پس اس مصفی غیب کی موصبت کو پانے کے لیے جس کے لیے نبی ہونا ضروری ہے اور جو نبوت او رسالت کو چاہتا ہے صرف بروز ظلیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس امتی کو خدا تعالیٰ آیت لا يظهر على غيبب احداً إلا من ارتضى من رسول کے مطابق مکالمہ مخاطبہ الیہ کالہ سے مشرف کرے یعنی اسے عظیم الشان امور غیبیہ پر بکثرت اطلاع دے اور اس کا نام نبی رکھے تو اس کی وحی ایاک معنی میں وحی نبوت“ ہی ہو گی.ہاں چونکہ امتی کو جب نبی کا نام ہے تو ایسا شخص ظلی بنی با امتی نبی ہوگا نہ کہ مستقل نبی اور اس کی وحی جو مصفی غیب پرشتمل ہو اور جس میں اُسے بنی قرار دیا گیا ہو دحی نبوت طلبہ ہوگی نہ کہ وحی نبوت مستقلہ.وحی نبوت مستقلہ منقطع ہے اور وحی نبوت طلبه منقطع نہیں.مگر وحی نبوت طلبہ اور وحی نبوت مستقلد میں جو تشریعی حی پر مشتمل نہ ہو نفس نبوت میں کوئی فرق نہیں.صرف دونوں کا ذریعہ حصول مختلف ہے.یعنی وحی نبوت مستقلہ سابق مستقل انبیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر براہ راست نا فدل ہوتی رہی ہے اور وحی نبوت ظیہ ظلی نبی پر صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپؐ کے افاضه روحانیہ کے واسطہ سے نازل ہوتی ہے.ہاں اگر مکالمه مخاطبہ الہیہ اپنی کیفیت اور کیت میں کسی امتی کو کمال درجہ حاصل نہ ہو تو یہ مکالمہ مخاطبہ
اللہ محض ولایت ہوگا اور اس کا پانے والا محض دلی ہوگا نہ کہ ایک پہلو سے بنی اور ایک پہلو سے اتنی پیس فاروقی صاحب کا اس بات پر حصر کرنا که وحی نبوت صرف تشریعی وحی کو ہی کہتے ہیں درست نہیں.ہاں آپ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی اس قسم کی وحی نبوت پر مشتمل نہیں جو شریعت جدیدہ کی حامل ہو بلکہ آپ کی وحی صرف وحی بنوت طلبہ پر مشتمل ہے.مسئله کفر و ایمان فاروقی صاحب یہ کہنا بھی کلی طور پر درست نہیں کہ.چونکہ مجد د تجدید دین کے لیے آتا ہے اس لیے اس کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا وفتح حق ص۲) یہ قول ان کا صرف ایسے مجدد کے متعلق تو درست ہے جسے خدا تعالٰی بنی اور رسول نہ کئے.مگر ایسے مجدد کے متعلق درست نہیں جسے خدا تعالیٰ انبی اور رسول بھی قرار دے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے نبی اور رسول بھی قرار دیا ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خطبہ الہامیہ میں بیان فرمایا ہے کہ : نامِن وَلا تَكُن مِنَ الكَافِرِينَ (خطبه الهاميه) کہ اسے مخاطب ایمان لا اور کافروں میں سے نہ ہو.ہاں کفر کی ہمارے نزدیک دو قسمیں ہیں.اور تشریعی نبی اور امتی نبی کے انکار پر اُن کے منکرین کا کفر ہم ایک ہی قسم کا نہیں سمجھتے.بلکہ دو نو قسموں کے نبیوں کے انکار کرنے والوں میں یہ فرق ضرور ملحوظ رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تشریعی بنی ہیں اس لیے اسلام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار سے تو ہمارے نزدیک منکر براہ راست کا فر ہو جاتا ہے اور غیر مسلم
۱۴۱ قرار پاتا ہے.لیکن ایک شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کا دعو بادار ہو اور قرآن شریف کو منجانب اللہ تسلیم کرتا ہو وہ اگر مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرے تو اس کا کفر غیر مسلم کے درجہ کا کفر نہیں ہو گا بلکہ جس طرح سیخ موعود امتنی بنتی ہیں اسی طرح آپ کا ایسا منکر امتی کا فر ہو گا.یعنی امت محمدیہ میں داخل ہونے کی وجہ سے تو وہ مسلمان کہلائے گا لیکن مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے کا فر ہو گا.کیونکہ مسیح موعود کا انکار براہ راست کفر نہیں بلکہ بالواسطہ کفر ہے جس طرح آپ کی نبوت بالواسطہ ہے یہی معصوم اس * نکتہ کا ہے جو مسیح موعود نے بیان فرمایا ہے :- یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعویٰ کا انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیده لائے ہیں لیکن صاحب شریعت کے ماسوا حبس قدر علم اور محدث ہیں گو وہ کیسے ہی جناب الہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ اللہ سے سرفراز ہوں اُن کے انکا رسے کوئی کافر نہیں بن جاتا ہے فاروقی صاحب نے یہ عبارت تریاق القلوب منسا سے اپنی کتاب فتح حق کے ص ۲ پر درج کی ہے.گو تریاق القلوب شاہ سے پہلے کی کتاب ہے مگر اس میں جو کفر بیان کیا گیا ہے اس سے مراد کفر قسم اول ہی ہے جو شارع نبی کے انکار پہ لازم آتا ہے.چنانچہ حقیقۃ الوحی ہیں اس عبارت کی بنا پر آپ پر سوال ہوا :
۱۴۲ حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اور اہل قبلہ کو کافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ ان مومنوں کے جو آپ کی تکفیر کر کے کا فرین جائیں صرف آپ کے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا.لیکن عید الحکیم خاں کو آپ لکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے.اس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے یعنی اب آپ کہتے ہیں کہ میرے انکار سے کا فر ہو جاتا ہے.(حقیقة الوحی ص ) اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سوال کا جواب یہ دیتے کہ مجھے کافر قرار دینے والا تو کافر ہے اور نہ ماننے والا کا فرتیں اور سائل میری عبارتیں نہیں سمجھا تو پھر تو احمدیوں کے لاہوری فریق کا یہ مذہب یقینا درست ہوگا کہ حضرت مسیح موعود کا منکر کا فر نہیں لیکن حضرت اقدس لاہوری احمدیوں کے اس عقیدہ کے بالکل خلاف سائل کو یہ جواب دیتے ہیں کہ : " د عجیب بات ہے کہ آپ کا فر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں.حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے " " (حقیقۃ الوحی ص ) اب فاروقی صاحب بتائیں کہ وہ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھیراتے ہیں یا نہیں ؟ اُن کے لیڈر مولوی محمد علی صاحب نے " رو تکفیر اہل قبلہ میں تو کافر ٹھہرانے والے اور نہ ماننے والوں کو دوم
۱۴۳ کے انسان قرار دیا ہے یعنی لکھا ہے کہ:.ایسا شخص جو آپ کو کا فریا کا ذب یا دقبال کہتا ہے وہ تو ضرور فتو نے حدیث کے ماتحت خود کفر کے نیچے آتا ہے لیکن ایسا کہنے والوں یا سمجھنے والوں کے علاو جو لوگ ایسے ہیں جنھوں نے دعوئی کو قبول نہیں کیا یا ابھی سبعیت نہیں کی وہ محض انکا یہ دعویٰ سے کافر نہیں درد تکفیر اہل قبا ص۳) ہو جاتے.اب دیکھئے مولوی محمد علی صاحب حضرت اقدس کو کا فریا کا ذب یاد قبال کہنے اور سمجھنے والوں کو تو کا فر قرار دیتے ہیں.لیکن آپ کے دعوے کو نہ ماننے والوں کو کافر قرار نہیں دیتے.مگر آپ لوگوں کا یہ عقیدہ درست نہیں ہے کیونکہ حضرت اقدس ایسے ہی عقیدہ پر تعجب کا اظہار فرماتے ہوئے تحریر فرما رہے ہیں کہ : عجیب بات ہے کہ آپ کا فر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں “ (حقیقة الوحی ۱۶۳) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کی جماعت کا یہ عقیدہ کہ یہ دونوں قسم کے شخص ایک ہی قسم میں داخل ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک قابل تعجب نہیں بلکہ آپ کی تحریر کے مطابق ہے.لیکن لاہوری فریق کا عقیدہ حضرت مسیح موعود کے نزدیک صریح طور پر قابل تعجب ہے.حضرت مسیح موعود نے آگے چل کر حقیقۃ الوحی ص پر کافر کا لفظ مومن
1 ۱۴۴ کے مقابل رکھ کر کفر کی دو قسمیں قرار دی ہیں:.ور " (اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا ، (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں ماننا.......اس کو با وجود اتمام حجت کے جھوٹا جانا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے پس اس لیے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے فرمان کا منکر ہے کافر ہے.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دو نو قسم کے کفر ایک قسم میں داخل ہیں.......اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے.تو گو شریعت نے (جس کی بناء ظاہر پر ہے) اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعیت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگروہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لا يكلف الله نفسا إلا وسعها.قابل مواخذہ نہیں ہوگا.ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں
۱۴۵ ہیں کہ ہم اس کی نجات کا حکم دیں ، اُس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں "..(حقیقة الوحی صفت اونها ) پس جب تک لاہوری فریق اس عقیدہ کو تسلیم نہ کرے وہ بچے احمدی کہلانے کا حقدار نہیں.ہمیں انھیں جناب مولوی محمد علی صاحب مرحوم کی ایک چپرانی عبارت سُناتا ہوں.آپ ریویو آن ریجنز میں تحریر فرماتے ہیں:- " ہمارا آخری جواب اس سوال کا کہ آیا ہم ایمان رکھتے ہیں یہ ہے کہ ہم اس وقت ایمان کا دعوی کر سکتے ہیں کہ جبکہ ہم ان آسمانی نشانوں کو دیکھ کر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کی وساطت سے اس زمانہ میں ظاہر فرمائے ہیں خدا تعالی کی ہستی پر کامل یقین رکھتے ہیں.اگر یہ نہیں تو پھر ہمارا ایمان ہمارے منہ کی ایک بات جو مخص لات ہی رات ہے جس کی اصلیت کچھ نہیں " ) ریویو جلد ۳ - علا ص۲۹) آسمانی نشانات ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت ہے جسے مومن بہ قرار دیا گیا ہے.دیعنی اس پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے)
۱۴۶ باب چهارم پیشگوئی اِسْمُهُ أَحمد قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے : وَ إِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّ قَا لِمَا بَيْنَ يدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي إِسْمُهُ أَحْمَدُهُ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحر مين.ترجمہ: اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اس کی تصدیق کرتا ہوا جو میرے سامنے تورات ہے اور ایک رسول کی خوش خبری دنیا ہوا جو میرے بعد آئے گا ، اُس کا نام احمد ہے.سو جب وہ (عیسے) ان کے پاس کھلی دلیلیں لیکر آیا تو انہوں نے کہا یہ کھلا جادو ہے.فاروقی صاحب کا بنتان | فاروقی صاحب نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یہ بہتان باندھا ہے کہ آ "سورۃ الصف کی آیت مذکورہ کی یہ تفسیر بیان کی کہ حضرت عیسی رسول اللہ کی یہ بشارت خاتم النبيين
۱۴ محمد رسول اللہ کے حق میں نہیں.....حالانکہ خود حضرت مرزا صاحب کا یہ عقیدہ نہیں تھا رفتح حق ص۲) ہمارے نزدیک یہ امر فاروقی صاحب کا سرا سر ہنستان ہے.کیونکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر سرفراز ہونے کے بعد سب سے پہلے جو کتاب قول فیصل کے نام سے لکھی اس میں آپ نے ص۲۸۲ پر حضرت میسج موعود علیہ السلام کی دوکتا ہوں ازالہ اوہائم اور اعجاز اسیح سے دو عبارتیں نقل کر کے تحریر فرمایا ہے کہ : - ان حوالوں سے آپ کو یہ تو معلوم ہو گیا ہوگا کہ اس پیشگوئی کا مصداق حضرت رسیح موعود ناقل) نے اپنے آپ کو قرار دیا ہے.اب رہا یہ سوال کہ آپ نے اس آیت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ مرکیوں چسپاں کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حسن قد ریش گوٹیاں آپ کی امت کی ترقی کی نسبت ہیں ان کے پہلے منظر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اگر آپ نے احمد نہ ہوئے تو مسیح موعود.اگر کیونکر احمد ہو سکتا تھا میسج موعود کو تو جو کچھ ملا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے اگر ایک صفت کی نفی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کی جائے تو ساتھ ہی اس کی نفی حضرت مسیح موعود سے ہو جائے گی.کیونکہ جو چیز حشمہ میں نہیں وہ گلاس میں کیسے تم سکتی ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم احمد تھے
۱۴۸ اور اس پیشگوئی کے اول مظہروہ تھے.(قول فیصل ص۲۹) اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام کی احمد رسول سے متعلق پیش گوئی کا مظہر اول یقینی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اور بالضر در آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا صفاتی نام احمد رکھا جانے کی وجہ سے اس پیشگوئی کے مظہر اول ہیں اور سیح موعود کو صفاتی نام احمد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے یعنی صفاتی لحاظ سے آپ طلقی احمد ہیں.لہذا انکوائری کمیشن کے سامنے آپ کا یہ بیان کہ : " ہمارے نزدیک اس کا اطلاق اصلی طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے لیکن طلی طور پر مرزا غلام احمد صاحب پر بھی ہوتا ہے." - قول فیصل کی مندرجہ بالا تحریر کے عین مطابق ہے جو اس مسئلہ کے متعلق غالباً آپ کی سب سے پہلی تحریر ہے.فاروقی صاحب نے اس بیان کے بالمقابل حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتح حق ص۲۹ پر آپ کی تقریر انوار خلافت سے یہ بیان بھی درج کیا ہے :- پس اس آیت ( مبشر ا برسولِ ياتي من بعد اسمه احمد میں ضمنی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی خبر دی گئی ہے اور اس کے اصلی مصداق 66 حضرت مسیح موعود ہیں " ہیں اس آیت میں حسیں رسول احمد نام والے کی خبر دی گئی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہو سکتے"
۱۴۹ اس عبارت کا بظا ہر انکوائری کمیشن کے بیان سے ایک لفظی سا اختلاف نظر آتا ہے لیکن ان دونوں عبارتوں نہیں کوئی حقیقی اختلاف نہیں اور اس عبارت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیشگوئی کا مظہر اوّل ہونے سے ہرگز انکار نہیں کیا گیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احمد نام کا مظہر اول ہونے کی وجہ سے ہی ضمنی طور پر اس پیش گوئی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم کے متعلق بھی خبر تسلیم کی گئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس شکوئی کا صرف غیر ضمنی مصداق ہونے کی نفی کی گئی ہے.کیونکہ یہ پیش گوئی صراحتاً آپ کے نزدیک مسیح موعود سے متعلق ہے اور آپ کی میسج موعود علیہ السلام کے اس کا اصل مصداق ہونے سے مراد انوار خلافت میں یہی ہے کہ اس آیت میں بالتصریح پیشگوئی مسیح موعود سے متعلق ہے.کیونکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب اعجاز مسیح میں تحریر فرمایا ہے : أشار عیسی بِقَوْلِهِ كَذَريعَ أَخْرَجَ شطة إلى قَوْمِ آخَرِينَ مِنْهُمْ و إما مهم الْمَسِيحَ بَلْ ذَكَرَ اسْمُهُ أحْمَدَ بالتصريح الم راعجاز المسیح باب ثالث ص ۲ (۲۴) یعنی عیسی علیہ السلام نے اپنے قول کزریع اخرج شطاء میں آخرین منہم والی قوم دینی جماعت احمدیہ ناقل) اور ان کے امام کی طرف اشارہ کیا ہے.بلکہ اس امام کا نام تصریح کے ساتھ (یعنی کھلے طور پر) احمد بتایا ہے.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس بیان کے مطابق حضرت عیسے علیہ السلام نے آپ کا نام کھلے طور پر اس پیشگوئی میں احمد نبایا ہے ، تو
۱۵۰ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا انوار خلافت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس پیشگوئی کا اصل مصداق بمعنی مصداق صریح قرار دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صفاتی لحاظ سے اس پیشگوئی کا مظہر اول مانتے ہوئے اس پیشگوئی کا مضمتی مصداق قرار دینا درست امر ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں لکھ دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی یہ پیش گوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ سے متعلق ہے جو بروزی طور پر مسیح موعود کے رنگ میں ہوئی.چنانچہ حضور تحفہ گولڑویہ میں تحریر فرماتے ہیں :- بغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت اول کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا منظر تجلی تھا یعنی بعثت اول جلالی نشان ظاہر کرنے کے لیے تھا مگر بعثت دوئم میں کی طرف آیت کریمہ و آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بھر میں اشارہ ہے وہ مظہر محلی اسم احمد ہے جو اسم جمالی ہے جیسا کہ آیت دمکش ابرسُول يَأْتِي من بعدي اسمه احمد اس طرف اشارہ کر رہی ہے.اور اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مد می محمود جس کا نام آسمان پر مجازی طور پر احمد ہے جب مبعوث ہو گا تو اس وقت وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو حقیقی طور پر اس نام کا مصداق ہے اس مجازی احمد کے پیرا یہ میں ہو کر اپنی جمالی تجلی فرمائے گا.....لہذا جیسا کہ مومن گا.کے لیے دوسرے احکام الٹی پر ایمان لانا فرض ہے
۱۵۱ ایسا ہی اسبات پر بھی ایمان فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں.نمبرای بعثت محمد کی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ توریت قرآن شریف میں یہ آیت ہے محمد رسول والذين معه اشداء على الكفار الله رحماء بينهم.(نمبر۲) دوسرا بعثت احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ انجیل قرآن شریف میں یہ آیت ہے دمبشر ابوسول ياتي منم بعدی اسمه احمد.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باعتبا ر اپنی ذات اور اپنے تمام سلسلہ خلفا کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ظاہر اور کھلی کھلی مماثلت ہے اس لیے خدا تعالے نے بلا واسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسی کے رنگ پر مبعوث فرمایا لیکن آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسے ہم سے ایک مخفی اور باریک مماثلت تھی اس لیے خدا تعالیٰ نے ایک بروز کے آئینہ میں رجو میسج موعود ہے.ناقل ) اس پوشیدہ مماثلت کا کامل طور پر رنگ دکھلا دیا (تحفہ گولڑویہ ایڈیشن اول صفحوصت)
۱۵۲ اور اس کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں :.یه با ریک بھید یا درکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بحث دوم جو تجلی اعظم جو اکمل اور اتم ہے وہ صرف اسم احمد کی تجلتی ہے.کیونکہ بحث دوئم آخر ہزار ششم میں ہے اور ہزار ششم کا تعلق ستارہ مشتری کے ساتھ ہے جو کو کب ششم منجمد خش گس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا ہے اور عقل اور دانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے اس لیے اگرچہ یہ بات حق ہے کہ اس بحث دوئم میں اسم محمد کی تجلتی ہے جو جلالی تجلی ہے اور جمالی تجلی کے ساتھ شامل ہے مگر وہ جلالی تحصیلی بھی روحانی طور پر ہو کر جمالی زنگ کے مشابہ ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت جلالی تجلی کی تاثیر تر سیفی نہیں بلکہ قہر استدلالی ہے اور وجہ یہ کہ اس وقت کے مبحوث پر پر کوہ ستارہ مشتری ہے نہ پر توہ مریخ.اس وجہ سے بار بار اس کتاب میں لکھا گیا کہ ہزار ششم صرف اسم احمد کا مظہر اتم ہے جو جمالی تجلی کو چاہتا ہے (تحفہ گولڑویہ ایڈیشن اول) ران عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت اسمہ احمد کا تفصیلی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ سے ہے جو ہزار ششم میں ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے
۱۵۳ مسیح موعود کے رنگ میں ہوئی ہجو آسمان پر مجازی احمد ہو کر آنحضرت مہ کے اسم محمد کا مظہر اتم ہے اور یہ پیش گوئی اس مظہر اتم مسیح موعود کے زمانہ میں اپنے کمائی کو پہنچی ہے اور مسیح موعود کے رنگ میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بحثت ثانیہ میں اسم احمد کی بجلی کے اہم اور اکمل مصداق ہیں اس لیے ضمنا ہی اس پیشگوئی کا تعلق بعث اول سے قرار دینا ضروری ہوا.پس انکوائری کمیشن کے سامنے جو بیان حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دیا وہ آپ کی اس پہلی تحریر کے اس حصہ کے بالکل مطابق ہے جو آپ نے مسند خلافت پر سرفراز ہونے پر زیر بحث مسئلہ پر لکھی تھی.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیشگوئی کا صفت احمد کے لحاظ سے اول مصداق قرار دیا تھا اور سیح موعود علیہ السلام کو طفیلی یعنی طلقی طور پر تعجب ہے کہ فاروقی صاب نے اسمہ احمد کی پیش گوئی کے متعلق اپنی کتاب فتح حق میں جو مضمون لکھا ہے اس میں کسی جگہ یہ اعتراف نہیں کیا کہ حضرت مسیح موعود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ہونے کی وجہ سے اس پیش گوئی کے مصداق ہیں، بلکہ وہ اسمہ احمد کی پیشگوئی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مصداق قرار دینے کی وجہ سے ناراض ہیں.حالانکہ خود حصہ عود علیہ السلام نئے اعجاز اسی میں صاف طور پر بیان فرمایا ہے کہ مُبَشِّر ا بِرَسُولِ يَأْتِي مِن بَعْدِى ھے اسْمُهُ احمد کی پیش گوئی میں حضرت عیسی علیہ السلام نے مسیح موعود کا نام بالتصريح احمد ذکر کیا ہے اور پھر حضرت اقدس نے اخبار الحکم میں بھی لکھنا ہے:." یہ لوگ بار بار پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم میں کہاں نام آیا ہے.ان کو معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نام
۱۵۴ احمد رکھا ہے.احمد نام پر بیعت لیتے ہیں.....کیا یہ نام قرآن شریف میں موجود نہیں؟" (الحکم، ارا کتوبر شار من خود مولوی محمد علی صاحب بھی قادیان کے زمانہ میں جبکہ ریویو آن ریجنز کے ایڈیٹر تھے لکھتے ہیں کہ : - میرزا غلام احمد کون ہیں ؟ اس سوال کا جواب ہم قرآن کریم کے الفاظ میں دیتے ہیں یاتی مِنْ بَعْدِی اسمه أحمد دریویو آن ریجنز اردو جلد عاعه (۲۳) مگر قادیان سے چلے جانے کے بعد مولوی صاحب موصوف نے اپنی تفسیر بیان انقرآن میں لکھ دیا ہے کہ احمد سے مراد صرف حضرت محمد رسول اللہ ہیں.دیکھو یا بالقرآن تفسیر سوره صف بلد سوم.کیا مولوی محمد علی صاحب کا یہ بیان اُن کے پہلے بیان کے خلاف نہیں ؟ دیکھے لیجئے جس طرح ان کا پچھلا بیان اُن کے اپنے پہلے بیان کے خلاف ہے اسی طرح ان کا یہ پچھلا بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیانات کے بھی خلاف ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم و عدل ہیں.فاروقی صاحب اس بات سے فاروقی صاحب کی بلاوجہ بخت کلامی بھی بڑاتے ہیں اور سخت الفاظ کے استعمال سے اُنھیں اجتناب نہیں کہ جماعت ربوہ کے مبلغین AHMAD THE PROPHET یا احمد نبی اللہ کا غلط پروپیگنڈا آج کل بھی کرتے
۱۵۵ ہیں.تو وہ جھوٹ بولتے اور دغا بازی کرتے ہیں " رفتح حق ص۳) حالانکہ خود جناب مولوی محمد علی صاحب اپنی سابقہ تحریرات میں حضرت میسج موعود علیہ السلام کو نبی اور رسول کی حیثیت میں پیش کرتے رہے ہیں جن کا ذکر پہلے آچکا ہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قرانی نام احمد بھی قرار دیا ہے بلکہ انہوں نے تو آپ کو پیغمبر آخر الزمان کے نام سے بھی موسوم کیا ہے.دیکھو ر یو یو جلد 4 صبا اور موعود نبی بھی قرار دیا ہے.دیکھو ر یو یو جلد 4 ص۸۳ اور نبی آخر الزمان بھی قرار دیا ہے چنا نچہ لکھتے ہیں :- پیش گوئی کے بیان میں اوپر ذکر آچکا ہے کہ نبی آخرالزمان AW کا ایک نام رجل من ابناء فارش بھی ہے " ریویو جلد منه پھر مولوی محمد علی صاحب نے خواجہ غلام الثقلین سے بحث میں اور مولوی کرم الدین جہلمی کے مقدمہ میں تو حلف اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مدعی نبوت قرار دیا ہے ان دونوں باتوں کا ذکر پہلے آچکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بھی آپ کا ذکر احمد کے نام سے موجود ہے.چنانچہ آپ کے الہامات ہیں :- (1) " یا احمد جُعِلتَ مُرسَلاً (دیکھو تذکره (۴۹۳) اے احمد ! تو رسول بنایا گیا ہے.(۳) " احمد زمان اس زمانہ کا احمد" (تذکرہ مشت) نیز خدا نے آپ کو مرسل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا دشمن آپ کو مرسل ماننے سے انکار کرے گا.چنانچہ الہام کے الفاظ یہ ہیں :- سَيَقُولُ العدو لَسْتَ مُرسَلاً (تذکره ص۴) (۳)
104 پس فاروقی صاحب ! آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت اور سات سے انکار کر کے حضور کے مخالفوں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش نہ کریں.خدا تعالیٰ آپ کی رہنمائی فرمائے.اللهم آمین ! حضرت اقدس فرماتے ہیں :.ر اسے غافلو ! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہو (تجلیات البر من ) پھر حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :- جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور میں کوئی نئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لیے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں.مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے کیس نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی." اور رسول کر کے پکارا ہے.ایک غلطی کا ازالہ) پس فاروقی صاحب کو ہمارے مبلین سے خفا ہونے کا کوئی حق نہیں.کیونکہ تمام احمدی مبلغین غیر ممالک میں بھی اپنی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی اور رسول پیش کرتے ہیں جن معنوں میں حضرت اقدس نے خود اپنے آپ کو نبی اور رسول قرار دیا ہے.
۱۵۷ فاروقی صاحب کا آنحضرت صلی اللہ فاروقی صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت احمد سے انکار علیہ وسلم کے نام محمد اور احمد کو آپ کی صفت قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.احمد نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور دوسرے نام محمد کی طرح ہی ہے.یہ کوئی آپ کی صفت بیان نہیں کی گئی " رفتح حق ص ۲) فاروقی صاحب خود ہی اس کے خلاف فتح حقی میں یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ : " احمد کے معنی میں بہت حمد کرنے والا یا یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں بہت زیادہ قابل حمد.یہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جمالی نام ہے اور حضرت عیسے علیہ السلام کبھی چونکہ جمالی صفت کے مظہر تھے اس لیے وہ نام ان کی بشارت میں ہونا لازم تھا." ( فتح حق ص۲۲ ۲۳۰) جب فاروقی صاحب کو یہ ستم ہے کہ احمد محضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جمالی نام ہے تو پھر ان کا یہ کہنا اس نام کے متعلق کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی آپ کی صفت بیان نہیں کی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جیسا کہ آپ اُن کی عبارتوں سے معلوم کر چکے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محمد نام کو جلالی اور احمد نام کو جمالی قرار دیا ہے.اس سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ سلیم کے ان دونو ناموں کا صفاتی ہونا ظاہر ہے.ہاں محمد آنحضرت صلی اللہ علیہ دوستم کا علم یعنی ذاتی نام بھی تھا.مگر احمد دوسرے صفاتی ناموں کی طرح آپ کا صرف ایک صفاتی نام ہی تھا اس لیے کلمہ طیبہ میں یا اذان میں اس کی کسی j
۱۵۸ روایت سے بھی داخل ہونا ثابت نہیں اور یہ امر حضرت خلیفہ آسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو مسلم ہے اور اس کے متعلق ہم قول فیصل سے آپ کا بیان بھی درج کر چکے ہیں کہ صفاتی نام احمد کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اول مظہر ہونے کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی احمد رسول کے متعلق پیش گوئی کے اول مصداق ہیں.اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پیشگوئی کے طفیلی یعنی طلقی مصداق ہیں.ہاں احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم یعنی ذاتی نام غلام مکر کا اہم حصہ بھی ہے اور غلام کا لفظ خاندانی نام ہے.اس ایسے آپ کے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ نے اپنے دونوں بیٹوں غلام قادر اور غلام احمد کے نام پر دوستیاں آباد کھیں تو اُن کا نام قادر آباد اور احمد آباد رکھا.پس احمد اس رنگ میں چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذاتی نام بھی ہے اس لیے حضرت خلیفہ آسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذاتی نام احمد کے لحاظ سے بھی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں.یہ وہ امر ہے جس سے فاروقی صاحب کو انکار ہے.مگر خدا تعالیٰ نے حضرت میسج موعود علیہ السلام کو ہی چونکہ احمد نام سے اپنے الہامات میں مخاطب فرمایا ہے اس لیے ذاتی نام احمد کے لحاظ سے فاروقی صاحب کا مسیح موعود علیہ السلام کو اس پیشگوئی کا مصداق نہ سمجھنا ہمارے نزدیک ان کا ایک غلط اقدام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اعجاز مسیح میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے آپ کا نام احمد بالتصریح ذکر کیا ہے ہیں جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دل سے قبول کرتا ہے، اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس بیان کو بھی ضرور تسلیم کرنا چاہیئے.اور جو آپ کے اس بیان کو تسلیم نہیں کرتا اس میں نخوت ، خود پسندی اور
109 خود اختیار می پائی جاتی ہے اور وہ در اصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ، خدا کی طرف سے حکم نہیں مانتا بلکہ خود خدا کے مقررہ کردہ حکم پر حکم بننا چاہتا ہے.اعاذنا الله منه.
14.سخمه پیشگوئی مصلح موعود فاروقی صاحب نے اپنی کتاب کے منہ سے منہ تک یعنی قریباً میں صفحات میں مصلح موعود کی پیش گوئی پر بحث کی ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خلاف سخت گند اچھالا ہے اور اس کے ضمن میں حضرت میسج موعود علیہ السلام کی خلافت کا امر بھی زیر بحث لائے ہیں.ہم خلافت کا مضمون اس پیش گوئی سے الگ اگلے باب میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ.مصلح موعود کی پیشگوئی ایک نشان رحمت ہے جو خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس کی ہوشیارپور میں چالیس دن کی دعاؤں کے بعد آپ کو ان الفاظ میں دینے کا وعدہ فرمایا جو حضور اشتہار ۲۰ فروری ششماہ میں درج فرماتے ہیں :.پہلی پیشگوئی بالهام الله تعالی و اعلام عز و جل خدائے رحیم و بزرگ و برتر نے جو ہر ایک چیز پر قاد ہے رجل شانہ، وعرب اسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سوئیں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعاؤں کو اپنی
رحمت سے بیائیہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو رجو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے ) تیرے لیے مبارک کر دیا ، سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور سنتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے ، اسے منظر مجھے پر سلام، خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پائیں اور وہ جو قبروں میں دبلے پڑے ہیں با ہر آدیں اور نادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ دنیا پر ظاہر ہو اور ناحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور بائل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور نا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تادہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور انھیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لانے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک سولی محمد مصطفے مہ کو انکا را در تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زہ کی غلام (لڑکا ، تجھے ملے گا.نہ وہ لڑ کا نتیرے ہی تختم سے تیری ہی ذریت اور نسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمھا را مہمان آتا ہے
اس کا نام عموئیل اور شیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے وہ اس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہے ، مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا او اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکتوں سے بہتوں کو ہماریوں سے صاف کرے گا وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت اور غیوری نے ایسے اپنے کاری تمجید سے بھیجا ہے وہ سخت زمین وسیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گا ، وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا اس کے معنے سمجھے میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دو شنیہ - فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الاول والاخي مظهر الْحَقِّ وَالعَلَاء عَانَّ اللهَ نَزَل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور سلال الٹی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم س میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا ، وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پینگی
۱۶۳ نب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا وكان أمراً مقضيا " جماعت احمدیہ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی اپنی پوری عظمت اور شان کے ساتھ صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کے وجود میں پوری ہو گئی ہے.چونکہ یہ کوئی آپ کی خلافت کے قیام میں بہت ممد تھی اور احمدیوں کے لاہوری فریق کے لیڈ راؤ اُن کے بعض ہوا خواہ آپ کی خلافت کے منکر تھے اور آپ سے بغض وعداوت کی وجہ سے آپ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے خیلوں اور بہانوں سے اس پیش گوئی کو ٹالنا چاہا.چونکہ اتفاق سے اس پیشگوئی میں ایک ذوا لوجوہ فقرہ یہ بھی موجود ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا اور آپ دیکھ چکے ہیں پیش گوئی کرنے کے وقت حضرت، مسیح موعود علیہ السلام نے لکھ دیا تھا کہ اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے اس لیے " اس مہم اور ذوالوجوہ فقرہ کو لے کر مولوی محمد علی صاحب نے اس کی تشریح کرلی کہ یہ پیسر موعود مسیح موعود کے بعد چوتھی صدی میں ہو گا.چنانچہ انھوں نے اپنے سالہ المصلح الموعود میں لکھا :- جس طرح حضرت صاحب نے تین کو چار کرنے والے ہیں چوتھا مہینہ چوتھا دن چو تھا، گھنٹہ مراد سمجھا ہے چوتھی صدی چوتھا ہی مراد ہو اور اس طرح پر دہ مصلح موعود تین صدیوں کو چار کرنے والا بھی ہو اس پر حضرت میر قاسم علی صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب "خلافت محمود مصلح موعود میں مولوی محمد علی صاحب مہر بہ گرفت کی نفی :-
" کیا اس کا یہ مطلب نہ ہوا کہ تین صدیوں کو چار کرنے والی چوتھی صدی ہوگی نہ کہ مصلح موعود کی ذات ، فرض کرد مصلح موعود چوتھی صدی میں پیدا نہ ہو تو پھر بھی جو تھی صدف تین صدیوں کو چار کرنے والی ہوگی کہ نہیں ؟ کیا پہلی صدی کے گذرنے پر دو سر کی صدر نے آکر پہلی صدت کو دوار تیسری صدی نے آکر گزشتہ صدیوں کو تین نہیں کر دیا.ہر شخص جو تو از دب عقل کا بھی مالک ہو جانتا ہے کہ بیشک پہلی صدی کو دو کرنے والی دوسری صدی اور دوسری صدی کو تین کرنے والی تیسری صدی تھی.اسی طرح تیسری صدی کو چار کرنے والی چوتھی صدی ہو گی.نہ کسی انسان کا وجود اس میں خواہ مصلح موعود پیدا ہو یا نہ ہو وہ ضرور تین صدیوں کو چار کرنے والی کہلائے کی نہ کوئی مصلح موعو (خلافت محمود صنا) تھا.عمر آگے چل کر کہا :- را مصلح موعود کا وجود چوتھی صدی کے آنے میں کوئی روک نہیں ہو سکتا.اگر کہو کہ مصلح موعود عین تفسیری صدی کے آخری دن کے ختم ہونے اور چوتھی صدی کی پہلی رات کے شروع ہوتے ہی پیدا ہو جائے گا اور اس طرح وہ تین صدیوں کو چار کرنے دال ہوگا تو یہ بھی غلط ہے.اول : اس لیے کہ یہ محض دعوی ہی دعوی ہے کہ دائی دن پیدا ہو گا ، جس پر دلیل کوئی نہیں.
140 دوم : بالفرض اگر ایسا ہی ہو تب بھی اس کا وجود نہیں صدیوں کو چار کرنے والا نہ ہوگا.جیسا کہ پہلی صدیوں کو دو اور..تین کرنے والی کوئی انسانی وجود نہ تھا بلکہ زمانہ کی رفتار لیل و نہار نے ہی آکر ایک کو دو اور دو کو تین کر دیا تھا ، ایسا ہی تین کو چار کرنے والے بھی ہیں رات دن ماہ و سال ہیں.“ (خلافت محمود (۲۵) چونکہ فاروقی صاحب پر مولوی محمد علی صاحب کی اس توجیہ کی کمزوری کہ مصلح موعود چوتھی صدی میں آئے گا خوب ظاہر ہو چکی تھی.اس لیے انھوں نے مولوی محمد علی صاحب کی توجیہ کو چھوڑ کر فتح حق کے صفحہ ۳۰ پر لکھ دیا ہے کہ:- ۲۰ فروری شاہ کو آپ نے رحضرت بانی سلسلہ احمدیہ ناقل) ایک اشتہار کے ذریعہ اس پیشگوئی کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی اس کا پُر اسرار لیکن نہایت ضروری نشان یہ بتا یا کہ وہ دلڑکا، تین کو چار کرنے والا ہو گا.اس عظیم الشان موعود لڑکے کے پیدا ہونے کے صحیح وقت کا تو اللہ تعالیٰ ہی کو علم تھا کیونکہ بجز الہام کے کوئی شخص کی صیح نتیجہ پرنہیں پہنچ کے پر نہیں پہنچ سکتا اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ لڑکے سے مراد آپ کی نسل نہی میں لڑکا ہو یا تین کو چار کرنے سے مراد یہی ہو کہ وہ چوتھی نسل میں ہوگا یار کے سے روحانی طور پر کوئی لڑکا مراد ہو مگر حضرت مرزا صاحب کی قدرتی خواہش تھی جیسا کہ اور مامورین من اللہ کی ہوتی ہے کہ اللہ تعالے کے وعدے
۱۶۶ جلد سے جلد سے اپنی پوری شان سے پورے ہوں اس لیے آپ نے اجتہاد سے کام لیا اور متعد دیچوں پر اسے چسپاں کیا جو کہ صحیح نہ نکلا.رفتح حق صن ( نوٹ : اردو کی کتاب فتح حق کے صف پر اس جگہ صحیح کے آگے نہ " کا لفظ موجود نہیں.لیکن انگریزی مضمون میں ترجمہ کرتے ہوئے صداس پر لکھا ہے : PROVED TO BE IN CORRECT یعنی اجتهاد صحیح نہ نکلا.اس لیے ہم نے اوپر اقباس میں اس کے مطابق ” صحیح کے آگے نہ کا لفظ خطوط وحدانی میں بڑھا دیا ہے.پسر موعود کے ۹ سال میں مندرجہ بالا عبارت میں فاروقی صاحت مصلح موعود پیدا ہونے کا وعدہ الہی کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چو تھی کہ ظاہر ہونے کی توجیہ پیش کرتے ہیں.حالانکہ اس موعود لڑکے کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے حضرت اقدس کو یہ وعدہ دیا گیا تھا.کہ ایسا لڑکا نو سال کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا.چنانچہ آپ اشتہار واجب الاظهار مورخہ ۲۲ مارچ شہداء میں رقمطرار ہیں :- ابھی تک جو ۲۲ مارچ شدہ ہے ہمارے گھر میں کوئی لڑکا بجز پہلے دولڑکوں کے جن کی عمر میں بائیس سال سے زیادہ ہے پیدا نہیں ہوا.لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑکا بموجب وعده اللی نو سال کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے ہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.
196 اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعد دے دیا گیا تھا کہ پیسر موعود یعنی مصلح موعود نو سال کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا تو صاف ظاہر ہے کہ اس وعدہ الہی کے مطابق نو سال کے عرصہ میں حضور کے گھر میں پیدا ہونے والے لڑکوں میں سے ہی کوئی لڑکا مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہو سکتا تھا نہ کہ چوتھی صدی یا چوتھی نسل میں.چنانچہ پیشنگوئی کے الفاظ یہ ہیں :- وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت نسل ہو گا یہ الفاظ بھی اس بات پر روشن دلیل ہیں کہ یہ لڑ کا آپ کا حقیقی فرزند ہوگا نہ کسی آئندہ نسل ہیں.ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسمانی فرزندی کا رشتہ رکھنے کے ساتھ اس کی الہامی صفات یہ بھی بنائی گئی ہیں کہ وہ ایک بہت بڑا روحانی انسان بھی ہوگا.پس جب پسر موعود کے لیے نو سال کی مدت میں ہی پیدا ہونا ضروری تھا تو اس کا چوتھی نسل میں انتظار تو سرا سر وعدہ اللہ کے خلاف ہے کیونکہ اس کے لیے پہلی نسل ہی میں پیدا ہونا ضروری تھا.لہذا حضرت اقدس کی اس لڑکے کے جلد پیدا ہونے کی خواہش کسی اجتہاد کی بنا پہ نہ تھی جو غلط بھی ہو سکتا ہو بلکہ وعدہ الہی کے مطابق تھی جو غلط نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : " إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادُ (رعد ) یعنی خدا و عدہ خلافی نہیں کرتا.پس جب نو سال میں پیدا ہونے والے لڑکوں میں سے ہی کوئی لڑکا مصلح موعود ہو سکتا تھا تو اس کے ظہور پر ہی اس پُر اسرار الہامی فقرہ کی حقیقت کہ وہ کس رنگ میں تین کو چار کرنے والا ہوگا" کھل سکتی تھی.
۱۶۸ پیشگوئی میں اخفاء خدا تعالیٰ کا طریق پیشگوئیوں کے متعلق یہ ہے کہ وہ اس کا طریق کے بعض الفاظ میں کچھ اختفاء بھی رکھتا ہے.تا کہ پیشگوئی کے ظہور پر لوگوں کی آزمائش ہو سکے کہ کون تعقل سلیم سے کام لیکر نشان کی شناخت کرتا ہے اور کون اپنی کج فہمی سے شناخت سے محروم رہتا ہے.وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا کے امی فقرہ کے بعد حضرت اقدس نے لکھ دیا تھا کہ اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے لیکن ان الفاظ سے چونکہ بظاہر یہ ضرور معلوم ہوتا تھا.کہ آپ کے ہاں چار لڑکے پیدا ہونگے.گو مصلح موعود جو قف لڑکا ہونے کی صورت میں تین کو چار کرنے والا نہ ہو بلکہ وہ کسی اور رنگ میں اس پر اسرار فقرہ کا مصداق ہو اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعد میں اس پیشگوئی سے یہ اجتہاد ضرور کیا کہ آپ کے ہاں چار لڑکے ہونگے اور آپ نے اپنے ہاں پیدا ہونے والے پہلے تینوں لڑکوں کو بھی ۲۰ فردی تشملہ کی پیشگوئی کا مصداق قرار دیا اور جب چو تھے کے پیدا ہونے کی نوبت آئی تو اس وقت اپنی کتاب انجام آتھم میں تحریر فرمایا :- فتحرك في صلبي رُوحُ التَّرَابِحِ بِمَا لَمِ الكاشفة کہ عالم مکاشفہ میں میری صلب میں جو تھے لڑکے کی روح نے حرکت کی (انجام آتھم ص۱۸۳) ریہ بھی تحریر فرمایا : رَ نِي رَبِّي بِرَابِعٍ وَقَالَ إِنَّهُ يَجْعَلُ الثلاثة اربعة ، کے خدا تعالے نے مجھے چو تھے لڑکے کی بشارت دی اور
149 ز ایا کہ بے شک وہ تین کو چار کر دیگا.رانجام آنهم مش ) فاروقی صاحب ضمیمہ انجام آتھم ص سے اس چو تھے لڑ کے متعلق حضرت اقدس کی پیشگوئی کا یہ اقتباس پیش کرتے ہیں :- پھر ایک اور الہام ہے جو ۲۰ فروری شہداء میں شائع ہوا تھا.اور وہ یہ ہے کہ خدا تین کو چار کریگا اس وقت ان تینوں لڑکوں کا جواب موجود ہیں، نام و نشان نہ تھا اور اس الہام کے معنے یہ تھے کہ تین لڑکے ہونگے پھر ایک اور ہو گا جو تین کو چار کر دیا سو ایک بڑا حصہ اس کا پورا ہو گیا یعنی خدا نے تین لڑ کے مجھے کو اسی نکاح سے عطا کئے جو تینوں موجود ہیں صرف ایک کا انتظار ہے جو تین کو چار کرنے والا ہوگا یا فاروقی صاحب یہ اقتباس درج کر کے لکھتے ہیں:- - اب اس الہامی تعیین کے بعد شاہ میں مبارک اگر چو تھا لڑکا پیدا ہوتا ہے.اس کے پیدا ہونے کے بند حضرت مرزا صاحب اپنی کتاب تریاق القلوب میں نہایت صاف الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں :- رو یہ پیشگوئی تین کو چار کرنے والے کی جو پہلے ۲۰ فروری شہداء کے اشتہار میں شائع ہوئی اور بعد میں تینوں لڑکوں ، محمود ، بشیر اور شریف کے پیدا
ہو جانے کے بعد انجام آتھم اور ضمیمہ میں خدا نے پھر اطلاع دی کہ وہ تین کو چار کرنے والا یعنی مصلح موعود اب آئے گا فاروقی صاحب کی مبارک احمد پسر چہارم کے لیے فاروقی صاحب نے خطر ناک تحریف ضمیمہ انجام آنھم کی عبارت کو تو الہامی تعیین قرار دیدیا ہے اور پھر تریاق القلوب کے حوالہ میں یہ خطرناک تحریف کر دی ہے کہ اس میں تین کو چار کرنے والا کے آگئے ” یعنی مصلح موعود کا لفظ اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے جس سے خطرناک طور پر یہ غلط نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت میسج موعود علیہ السلام نے گویا الہامی تعیین سے مبارک احمد پسر میارم کو مصلح موعود قرار دیدیا تھا.حالانکہ یہ بات ضریح غلط ہے کیونکہ حضرت اقدس نے نہ تو اس عبارت میں اور نہ تریاق القلوب کی کسی اور عبارت میں مبارک احمد کو چوتھا لڑ کا قرار دیتے ہوئے مصلح موعود کہا ہے.ہمارا دعوی ہے کہ فاروقی صاحب تا قیامت تریاق القلوب سے یہ نہیں دکھا سکتے کہ حضور نے مبارک احمد کو مصلح موعود قرار دیا ہے.پس فاروقی صاحب کا مبارک احمد کے لیے مصلح موعود ہونے کی الہامی تعیین قرار دنیا سخت خلاف واقعہ امر ہے.اس طرح وہ غلط بیانی کرسکے اور حق پر پردہ ڈال کر اپنے مضمون کے پڑھنے والوں کو مغالطہ دین چاہتے ہیں.اگر فی الواقعہ الہامی تعیین مبارک احمد کے مصلح موعود ہونے کے متعلق ہو چکی ہوتی تو وہ چھوٹی عمر میں ہی وفات نہ پا جاتا.پھر مبارک احمد تو پیدا بھی 9 سالہ میعاد کے بعد ہوا تھا تو حضرت اقدس اسکو مصلح موعود کیسے قرار دے سکتے تھے جس کا وعدہ الہی کے مطابق نو سال کے اندر
141 دو پیدا ہونا ضروری تھا.اس لیے حقیقت یہ ہے کہ تریاق القلوب میں یہ الہامی تعیین ہرگز موجود نہیں کہ آپ کا چوتھا لڑکا مبارک احمد مصلح موعود ہے بلکہ تریاق القلوب کے ملا پر اس کے برخلاف یہ لکھا ہے :- الهام یہ بتاتا تھا کہ چار لڑکے پیدا ہونگے اور ایک کو اُن میں سے ایک " در خدا میسج صفت الہام نے بیان کیا ہے.سوخدا تعالیٰ کے فضل سے چھا رلڑکے پیدا ہو گئے" پس حضرت اقدس نے تریاق القلوب میں الہام کے رو سے مرد خدا ، میسج صفت یعنی مصلح موعود چار لڑکوں میں سے ایک قرار دیا ہے ، نہ کہ معین طور پر پسر چهارم مبارک احمد کو دو مصلح موعود لکھا ہے.پس مبارک احمد کے مصلح موعود ہونے کی الہامی تعیین حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرگز نہیں کی ہاں چونکہ حضور ۲۰ فروری شاہ کے پر اسرار فقرہ وہ تین کو چار کر لگا سے یہ بھی سمجھتے تھے کہ آپ کے ہاں چار لڑکے پیدا ہونگے اس لیے حضور نے پہلے تین لڑکوں کی طرح اس چو تھے لڑکے کو بھی ۲۰ ر ضروری شملہ کے اس فقرہ کا مصداق قرار دیا اور الہام کی گرد سے صرف اتنی تعیین کی کہ ان چار لڑکوں میں سے ایک مصلح موعود ہے نہ کہ یہ چوتھا لڑکا ہنی مصلح موعود ہے جو پیدا بھی نو سالہ میعاد کے بعد ہوا تھا.پس اس وعدہ اللہ کے مطابق کسی آئندہ نسل میں مصلح موعود کا انتظار جائز نہیں...حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام مبارک احمد کو اس لیے بھی
مصلح موعود قرار نہیں دے سکتے تھے کہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے الہام کی رو سے اس کے جلد فوت ہو جانے کا امکان تھا.چنانچہ تریاق القلوب نشان عالیٰ جس میں اس لڑکے کے پیدا ہونے کی اطلاع دی گئی ہے تحریر فرماتے ہیں:." مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ میں تجھے اور لڑکا دونگا " یہ وہی جو تھا لڑکا ہے جواب پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور اسی کے پیدا ہونے کی ہر قریبا دو برس پہلے دی گئی اور پھر اس وقت دی گئی جب اس کے پیدا ہونے میں دو مہینے رہتے تھے اور پھر جب یہ پیدا ہونے کو تھا تو یہ الہام ہوا : کا کا کا إلى اسْقُطُ مِنَ اللَّهِ وَاصِيبُهُ " یعنی میں خدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں اور خدا ہی کی طرف جاؤ گے.یکس نے اپنے اجتہاد سے یہ تا دیل کی کہ یہ لڑ کا نیک ہوگا اور رو بخدا ہوگا اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہوگی یا یہ کہ وہ جلد فوت ہو جائے گا اس بات کا علم خدا تعالیٰ کو ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات اس کے ارادہ کے موافق ہے " ا تریاق القلوب ایڈیشن او ۲۰ تقطیع کلیاں پس جب مبارک احمد کے متعلق حضرت اقدس کو اس کے بھی عمر پانے و قطعی علم ہی نہ تھا بلکہ آپ کے نزدیک الہام کے رو سے اس کے جلد فوت ہو جانے کا بھی احتمال تھا تو آپ اسے مصلح موعود قرار ہی کسی طرح سے سکتے تھے.
افسوس ہے کہ فاروقی صاحب نے حضرت اقدس کی عبارت میں صریح تعریف کر کے آپ کی طرف یہ منسوب کر دیا ہے کہ آپ نے مبارک احمد کو مصلح موعود لکھا ہے.یہ تحریف اس سے پہلے ان کے والد بزرگوار ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے جو مولوی محمد علی صاحب کے خسر تھے اپنی کتاب مجدد اعظم میں پیشگوئی مصلح موعود پر بحث کرتے ہوئے کی تھی.بہت ممکن ہے کہ فاروقی صاحب نے یہ محترف اقتباس اپنے والد صاحب پر اعتماد کرتے ہوئے اُن کی کتاب مجدد اعظم سے ہی نقل کیا ہو.ورنہ اگر فی الواقعہ الہامی تعیین سے مبارک احمد مصلح موعود قرار پا چکا ہوتا تو پھر تو یہ ماننا پڑے گا کہ معاذ اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی نہ یہ کہ اس بارہ میں آپ کا کوئی اجتہاد غلط نکلا.- فاروقی صاحب کے کلام میں صریح تضاد موجود ہے کہ فتح حق ملت پر وہ حضرت اقدس کے اجتہاد کا غلط نکلنا بیان کرتے ہیں اور آگے چل کر اس کے صریح خلاف الہامی تعیین کے مطابق چو تھے لڑکے مبارک احمد کا مصلح موعود ہونا بیان کرتے ہیں حالانکہ وہ جلد وفات پا کر ثابت کر گیا کہ وہ مصلح موعود نہ تھا.پس فاروقی صاحب کا اسے الہامی تعیین سے مصلح موعود قرار دیا باطل ہوا جب ایک انسان حق کو چھوڑتا ہے تو اسی قسم کی متضاد باتیں ہی کرنے لگ جاتا ہے.واضح ہو کہ مبارک احمد کو چوتھا لڑکا قرار دینے کے متعلق ۲۰ فروری شام سے بھی پہلے ۱۸۸۳ میں ہی ایک الہام ہو چکا تھا ، چنانچہ حضور نزول آسیح امہ 1940 میں لکھتے ہیں :.ہ میں مجھ کو الہام ہوا کہ تین کو چار کرنے والا مبارک
۱۴ اور انجام آتھم کا الہام بھی اسے واقعی نتین کو چار کرنے والا قرار دے رہا تھا اور ۲۰ فروری شہداء کا الہام بھی چار لڑکوں کے پیدا ہونے کی بشارت پر مشتمل تھا.پس مبارک احمد تین کو چار کرنے والا ضرور تھا اس لحاظ سے کہ وہ چوتھا لڑکا تھا مگردہ مصلح موعود ہر گز نہ تھا اور نہ الہامی تعیین کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اجتہاد ہیں.ہاں وہ بھی پہلے تین لڑکوں کی طرح ۲۰ فروری شہداء کی پیشگوئی کا مصداق ضرور تھا.کیونکہ زیر حبت پر اسرار فقرہ سے آپ کے ہاں چار لڑکوں کا پیدا ہونا سمجھا جاتا تھا جن میں سے ایک کو حضرت اقدس نے تریاق القلوب میں الہام کی رو سے مر در سیج صفت قرار دیا ہے.پس مبارک احمد کا تین کو چار کرنا اور رنگ میں تھا اور مصلح موعود کائین کو چار کرنا ایک دوسرے رنگ نہیں تھا.مگر فاروقی صاحب لکھتے ہیں :.و پھر اس کتاب تریاق القلوب منہ پر بھویں نشان میں مبارک احمد کو اس پیش گوئی کا مصداق تصویر فرماتے ہیں مگر مبارک احمد کی وفات شاد میں ہو گئی تو حضرت مرزا صاحب نے اپنے اشتہا ر تبصرہ مورخہ ار نومبر میں فرمایا : جب مبارک احمد فوت ہوا.ساتھ خدا تعالٰی نے الہام کیا انا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيْمٍ يَنْزِل مَنْزِل المبارك یعنی ایک حلیم لڑکے کی ہم سمجھے خوشخبری دیتے ہیں جو بمنزلہ مبارک احمد کے ہو گا اور اس کا شبہ ہوگا "
140 آگے فاروقی صاحب نے فتح حق ص۳۲ پر یہ نوٹ دیا ہے :- حضرت مرزا صاحب کو اجتہادی غلطی الہامات کے سمجھنے میں لگی " واضح رہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مبارک احمد کو مصلح موعود قرار دیا ہوتا تو پھر تو فاروقی صاحب کو حق پہنچتا تھا کہ مبارک احمد کے وفات پا جانے کی وجہ سے اس امر کو حضرت اقدس کی اجتہادی غلطی قرار دیں اور الہام إِنَّا نُبَشِّوكَ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ يَنزِلُ مَنْزِلِ الْمُبَارَكَ سے نتیجہ نکالین که مصلح موعود آئندہ کوئی پانچواں لڑکا ہوگا.لیکن چونکہ حضرت اقدس نے کہیں نہیں لکھا کہ مبارک احمد مصلح موعود ہے.نہ الہامی تعیین سے ایسا لکھا نہ ہی اجتہادا ایسا لکھا - اس لیے إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ کے الہام کو مصلح موعود سے متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا.پس بموجب بیان تریاق القلوب صا مصلح موعود کو اب حضرت اقدس کے باقی تینوں لڑکوں میں سے ہی کسی کو ہونا تھا.فاروقی صاحب کا جوڑ توڑ | فاروقی صاحب نے اپنے والد صاحب کی تقلید میں پہلے تو تریاق القلوب کے اقتباس تعریف کر کے حضرت مسیح موعود کی طرف یہ لکھنا منسوب کر دیا ہے کہ مبارک احمد آپ کا چوتھا لڑکا در مصلح موعود ہے مگر پھر اس کے وفات پا جانے پر مصلح موعود کا ظاہر ہونا فاروقی قضات کسی آئندہ زمانہ پر موقوف قرار دے رہے ہیں.نیز اپنی پہلی توجیہہ کو بھی کہ دہ پہلی نسل یا چوتھی نسل میں ہو گا رفتح حق صفت خود ہی باصل کر رہتے ہیں.کیونکہ وہ مصلح موعود سے متعلق العام كُلَّ الفَتح بَعْدَهُ مَظْهَرَ الحَقِّ والعَلا كَانَ الله نَزَّلَ مِنَ السماء تذکرہ م 49 سے درج کر کے لکھے ود
رہے ہیں.که..مصلح موعود کے نزول کے بعد ہی مستح مبین حاصل ہوگی.اور مرزا صاحب اپنی کتاب تذکرۃ الشتاین میں ذکر کرتے ہیں کہ وہ غلبہ دین کب آنے والا ہے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہ ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نا امیداور بدظن ہو کر اس عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا ، اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریڑھی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم لو یا گیا.اب وہ پڑھنے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُ سے روک ریجوال تذكره طنة سکے " فتح حق ص۳۳ اس عبارت کو درج کرنے کے بعد فاروقی صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے ان حوالہ جات سے ایسا معلوم دنیا ہے کہ مصلح موعود سولہویں صدی ہجری کا مجدد ہوگا اور اس کے ہاتھ سے اسلام کا مکمل تعلیہ ہو جائے گا " رفتح حق ص۳) تعجب ہے کہ خدا کا الہامی وعدہ تو مسیح موعود کے بیان کے مطابق یہ تھا کہ مصلح موعود پیشگوئی کے بعد 9 سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا مگر فاروقی صاحب
166 اپنی کتاب کے منہ پر تو اس کا پہلی نسل یا چوتھی نسل میں پیدا ہونا بتا چکے ہیں اور اب اسی کتاب کے ص۳۳ پر اسے سولہویں صدی ہجری کا مجد و قرار رہے ہیں.حالانکہ ایک انسان کی چوتھی نسل تو سو سال میں پیدا ہو جاتی ہے اور سولہویں صدی ہجری حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دو سو سال گذرنے کے بعد آئے گی.زیر بحث العام الٹی میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ کئی فتح یعنی کامل فتح مصلح موتور کے بعد ہوگی.نہ کہ اس کی زندگی میں، مگر اپنا مطلب سیدھا کرنے کے لیے فاروقی صاحب اس الہام کا مطلب یہ نہا رہے ہیں کہ مصلح موعود سولہویں صدی کا مجدد ہوگا.فاروقی صاحب کی مصلح موعود کے چوتھی نسل میں پیدا ہونے کی تو جہیہ تو ان کی اپنی سولہویں صدی میں ہونے والی تو جہیہ سے باطل ہو گئی.اور سولہویں صدی میں مصلح موعود کے ظہور کی توجیہ الہامی وعدہ الٹی کے رو سے باطل ہے.کیونکہ الہامی وعدہ کے مطابق اُسے پیش گوئی کیسے جانے کے بعد نوسال کے عرصہ میں پیدا ہو جانا چاہیے تھا اور الہامی تعیین مندرجہ تریاق القلوب ص کے مطابق اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں پیدا ہونے والے چار لڑکوں میں سے ایک مرد خدا میسج صفت ہونا چاہیئے.پس فاروقی صاحب کی صفہ ۳۲ پر بیان کردہ یہی توجیہ الہامی تعیین کے مطابق قرار دی جھا سکتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی نسل میں سے کوئی لڑکا ہو اور یہی بات درست ہے اور ان کی باقی تو جہیات یکسر باطل ہیں.مصلح موعود کی تعیین ہذا اب فاروقی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی نسل میں ہی مصلح موعود کو تلاش کرنا چاہیئے اور حضرت
14A خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف انھوں نے آگے چل کر تو زبان طعن دراز کی ہے اور گند اچھالا ہے اس پر استغفار کرنا چاہیئے کیونکہ حضرت اقدس کی اولاد میں سے مصلح موعود کے لیے آپ کا جانشین ہونا ضروری تھا.اور یہ شرف جانشینی آپ کے لڑکوں میں سے صرف حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہی کو حاصل ہوا ہے.فالحمد للہ علی ذلک.پس یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ الہام الہی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا فرزند تو بشارت کے ماتحت ہوا وہی جماعت میں آپ کا جانشین قرار پایا.اور اس نے خلافت میں پچاس سال سے زیادہ عرصہ پایا.بشیر اؤوں کی وفات پر حضرت اقدس نے سبنر اشتہار میں تحریر فرمایا تھا."دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم دسمبر شملہ ہے پیدا نہیں ہو اگر خدا تعالی کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلت ممکن نہیں.نادان (یعنی لیکھرام پشاوری وغیره ناقل) اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاکی بشارتوں پر ٹھٹھا لگاتا ہے کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشید ہے اور انجام کا راس کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے" رسبز اشتهار) اور آگے چل کر اس اشتہار میں بشیر اول کی وفات پر معترضین کی نکتہ چینی کے جواب میں لکھنا ہے کہ :
149 آج تک ہم نے کسی اشتہار میں نہیں لکھا کہ یہ لڑکا عمر پانے والا ہو گا اور نہ یہ کہا کہ یہ صلح موعود ہے.بلکہ ہمارے اشتہار ۲۰ فروری شملہ میں بعض ہمارے سے لڑکوں کی نسبت بہت گوئی موجود تھی کہ وہ کم عمری میں ہی فوت ہونگے پس سوچنا چاہیے کہ اس لڑکے کی وفات سے ایک پیشگوئی ٹوری ہوئی یا جھوٹی نکلی جس قدر لوگوں میں ہم نے اشتہارات شائع کیے اکثر ان کے اس لڑکے کی وفات پر دلالت کرتے تھے.چنانچہ ۲۰ فروری تحدہ کی یہ عبارت کہ خوبصورت پاک لڑ کا تمھارا مہمان آتا ہے " یہ حسمان کا لفظ در حقیقت اس لڑکے کا نام رکھا گیا تھا اور یہ اس کی کم عمری اور جلد فوت ہونے پر دلالت کرتا ہے.کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے، جو چند روزرہ کر چلا جہاد سے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہو جاوے اور جو قائم مقام ہو اور دوسروں کو رخصت کرے اس کا نام مہمان نہیں ہو سکتا.اور اشتہار مذکور کی یہ عبارت کہ وہ جس سے ریعنی گناہ سے بھی پاک ہے یہ بھی اس کی صغر سنی پر دلالت کرتی ہے اور یہ دھوکا کھانا نہیں چاہیے کہ جس پیش گوئی کا ذکر ہوا ہے ، وہ مصلح موعود کے حق میں ہے.کیونکہ بذریعہ الہام صا طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں سپر متوفی کے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق میں جو سچ گوئی
۱۸۰ ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آئنے کے ساتھ آئے گا.پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا.نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر بھی ظاہر کیا گیا ہے.اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التوا میں رہنا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے پیدا ہو کر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت اللہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشر اول جو قوت ہو گیا ہے بشیر ثانی کے لیے بطور ار باص تھا ، اس لیے دونو کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا ہے رسبز اشنان پس مصلح موعود کے متعلق اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا کے الہامی الفاظ نے اس امر کی تعیین کر دی ہے کہ مصلح موعود بشیر اول کے بعد آنے والالڑ کا ہوگا جس کو ساتھ اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ مصلح موعود اور لنشر ثانی کے درمیان کوئی لڑکا یا لڑکی پیدا نہیں ہوگی.اس کی تائید مصلح موعود کے الہامی نام بشیر ثانی " سے بھی ہوتی ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے ہاں مہارت کے ذریعہ ہونے والے لڑکوں میں سے وہ دوسرا لڑکا ہوگا.پس وہ تین کو چار کرنے والا ان معنوں میں تو ہو نہیں سکتا کہ وہ چوتھا لڑکا ہو.کیونکہ وہ بشارت کے ماتحت ہونے والے لڑکوں میں سے دوسرا بشیر قرار دیا گیا ہے اور اس کے فضل عمر نام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح
اس کے خلیفہ ثانی ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے.پس مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق کی تعیین اس کے الہا می نام بشیر ثانی اور فضل عمر سے بھی خوب اچھی طرح ہو جاتی ہے.پس حضرت اقدس کے فرزندار حمت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی تھے جو نو سال کے اندر الہامی و عدہ کے مطابق پیدا ہوئے اور پھر بشارت کے مانخت ہونے والے فرزندوں میں سے الہامی وعدہ کے رو سے دوسرے بشیر بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ ہونے کی وجہ سے فضل عمر بھی.واقعات کے لحاظ سے تین کو چار کرنے والے آپ اس طرح ثابت ہوئے ہیں کہ آپ کے عہد خلافت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے فرزند مرزا سلطان احمد صاحب جو احمدیت میں داخل نہ تھے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی فرزندی میں داخل ہو گئے اس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت میسج موعود علیہ السلام کے تین جسمانی اور روحانی فرزندوں کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے اپنی سبعیت میں لینے سے چار بنا دیا.فالحمد للہ علی ذالک.فاروقی صاحب کی (1) افسوس ہے کہ فاروقی صاحب نے سیاھب غلط بیانیاں تک غلاماً ذكياً اور العام جاء الحقُّ وَزَهَقَ لكَ الباطل کو نقل کرنے کے بعد یہ خلاف واقعہ بات بھی لکھ دی ہے کہ : اور پھر ان الماموں کے درمیان ایک الہامی دعا حضرت مرزا صاحب کی زبان پر جاری کر کے اس امر کی طرف ایک لطیف اشارہ بھی کر دیا کہ موجودہ اولاد طیب "
IAP اور پاک نہیں جیسا کہ الهام ربّ هب لي ذرية طيبة ، یعنی اے میرے رب مجھے پاک اولا عطا فرما کتاب تذکرہ اس سے ظاہر ہے اور اس الہامی دعا کے بعد حضرت مرزا صاحب کے ہاں کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی.(فتح حق صت) یہ صریح غلط بیانی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد سے بغض و عداوت کا مظاہرہ ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو الہام رب هب لى ذرية طيبة سے یہ اشارہ سمجھ ہی نہیں آیا کہ آپ کی موجودہ ادلاد طیب اور پاک نہیں ہے بلکہ آپ تو اپنی کتاب سراج منیر کی پیش گوئی مشرا میں اس کے خلاف یہ تحریر فرماتے ہیں :- یہ پیش گوئی وہ ہے جو براہین احمدیہ کے ۲۳۶۵ میں درج ہے اور وہ یہ ہے يتم نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ يَكُونَ آيَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ یعنی خدا اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کرے گا تا وہ مومنین کے لیے نشان ہوں یعنی دنیا کی زندگی میں جو کچھ تجھے نعمتیں دی جائیں گی وہ سرب بطور نشان ہونگی یعنی قول بھی نشان ہوگا جیسا کہ لوگوں نے جلسہ مذا ہب لا ہو را در عربی کتابوں میں دیکھ لیا اور فعل بھی نشان ہوگا جیسا کہ خدا کے فعل بطور نشان میرے واسطہ سے ظہور میں آرہے ہیں اور اولاد بھی نشان ہوگی جیسا کہ خدا نے نیک اور با برکت اولاد کا وعدہ دیا اور پورا کیا.(سراج منیر)
(ب) اس کے بعد فاروقی صاحب نے العام تولى نسلاً بعيدا د تذكره من) تو دور کی نسل دیکھے گا با درج کر کے لکھا ہے : " یعنی تیری نسل دُور تک جاتی ہے اور یہ مصلح موعود بعد میں آئے گا." و فتح حق ص ) اس کے جواب میں واضح ہو کہ الہام تری نسلاً بعيداً لا تعلق اگر مصلح موعود سے ہوتا تو حضرت اقدس تریاق القلوب میں یہ کبھی نہ لکھتے کہ : الهام یہ بتاتا تھا کہ چار لڑکے پیدا ہونگے اور ایک کو ان میں سے مرد سیج صفت الہام نے بیان کیا.سے خدا تعالیٰ کے فضل سے چار لڑکے پیدا ہو گئے.تریاق القلوب ص ) (ج) فاروقی صاحب نے اپنی کتاب فتح حق کے مٹس پر لکھا ہے :- میاں محمود احمد صاحب کے خلیفہ قادیان بننے کے بعد ہی اُن کے پالتو مولویوں نے یہ لکھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا کہ میاں صاحب ہی حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مصداق ہیں ، بعد میں میاں محمود احمد صاحب بھی اپنے آپ کو مصلح موعود سمجھنے لگے.کیونکہ ان چند سالوں میں اُن کے سلسلہ کو کافی ترقی حاصل ہوئی تھی اور کثرت نفوس، کثرت دولت کے گھمنڈ میں آکر فاتح عالمہ کے خواب دیکھنے لگے تھے مگر اپنے آپ کو مامور من اللہ نہیں کتنے تھے اس لیے کوئی اور ان کو مصلح موعود ماننے کے لیے مکلف نہ تھا گر اللہ تعالیٰ کی ڈھیل دینے سے وہ اور
۱۸۴ گستاخ ہو گئے.بالآخر ۲۸ جنوری ۱۹۳۳ء میں یہ اعلان کر ہی دیا یہ ہمیں اس خیار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افترا کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا کے مجھے اس شہر لاہور ، ٹمپل روڈ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیش گوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی تسلح موٹو ہوں جس کے ذریعہ سے اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی.(دیکھو اخبار الفضل رو مورخہ یکم فروری انه فاروقی صاحب کی شستہ بہانی ملاحظہ ہو کہ وہ حضرت تعلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخ " کا لفظ اور علماء جماعت احمدیہ کی شان میں پالتو کا لفظ بطور تحفیر استعمال کر رہے ہیں.انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث نبوی میں وارد ہے الحسد نار تأصل الحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْخَطَب کر حسد ایک ایسی آگ ہے جو نیکیوں کو اس طرح کی جاتی ہے جس طرح آگ اینڈ مین کو کھا جاتی ہے.افسوس صد افسوس ! فاروقی صاحب تو کہتے ہیں پالتو مولویوں نے یہ لکھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا کہ میاں صاحب ہی حضرت مرزا صاحب کی پیش گوئی مصلح موعود کے مصداق ہیں مگر کیا اُن کو معلوم نہیں کہ سب سے پہلے اس پیشگوئی کا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو مصدق قرار دینے والا کوئی مولوی نہ تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی پر منظور احمد صاحب تھے.پیر
۱۸۵ یہ مصلح موعود کی پیش گوئی سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پڑھ کر اس نتیجہ ہی پہنچے تھے کہ مصلح موعود حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی ہیں.چنانچہ انھوں نے مصلح موعود کی پیشنگوئی پر ایک مضمون ۱۴ نکات پر مشتمل تحریر کر کے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ خلیفہ المسیح الاول کی خدمت میں تم سے کو پیش کیا اور عرض کیا کہ تجھے آج حضرت اقدس کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ چل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب ہیں.اس پر حضرت خلیفہ ایسی ہے نے فرمایا کہ ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کسی خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں.پیر صاب نے یہ الفاظ قلم بند کر کے بغرض تصدیق آپ کی خدمت میں رکھتے تو آپ نے اپنے قلم سے یہ عبارت اس مضمون کے آخر میں لکھی کہ :- ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کسی خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں.یہ لفظ میں نے برادرم منظور احمد سے کیے ہیں " 16 " نور الدین اردسمبر ملاحظہ ہوش عید الا زبان اشاعه و تاریخ احمدیت جلد چہارم ص ۳۶۹ جن میں حضرت نظیفہ اسٹیج کے لکھے ہوئے ان تمام الفاظ کا عکس شائع کیا.گیا ہے.ہیں اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اسیح الاول منفی اللہ عنہ کے نزدیک بھی جنھیں لاہوری فریق بھی خلیفہ المسیح مانتا رہا ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ہی تھے جو بشارت کے
ما سخت ہونے والے فرزندوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے فرزند تھے.موکومی عبد المنان صاحب عمر نے جن کا مشورہ فاروقی صاحب کی کتاب میں شامل ہے حضرت خلیفہ ایسیح الاوّل کے بعض نوٹ رسالہ فرقان ماہ مئی میں جس کے وہ ان دنوں ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے شائع کیے تھے.جن کا مفہوم یہ تھا کہ مصلح موعود کا ظہور ۳۰ سال بعد ہوگا.اور یہ نوٹ آپ نے اس وقت شائع کیسے تھے جبکہ 1950ء میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضہ کو الہامی طور پر یہ علم دیا جا چکا تھا.اَنَا المَسَيحُ الْمَوْعُود مثيلهُ خَلِيفَتَهُ کہ میں مسیح موعود ہوں اور مسیح موعود کا مثل اور خلیفہ ہوں جس سے آپ یہ سمجھے کہ آپ ہی مصلح موعود کی الہامی پیش گوئی کا جس میں اس پسر موعود کو نسیجی نفس قرار دیا گیا ہے اور حسن واحسان میں مسیح موعود کا نظیر مصداق ہیں.۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الاول کی پیشگوئی کے مطابق ٹھیک ۳۰ سال بعد اللہ تعالیٰ نے آپ پر انکشاف کر دیا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں.اس طرح نہ صرف مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی آپ کے حق میں پوری ہوئی بلکہ آپ کے مخلص ترین صحابی اور آپ کے پہلے خلیفہ رضہ کی پیشگوئی بھی مصلح موعود کے حق میں پوری ہوئی.فالحمد للہ علی ذلک اب اگر کوئی بے ہودگی سے یہ کسے که پالتو " مولویوں نے میاں محمود احمد صاحب کے خلیفہ قادیان بننے کے بعد یہ لکھنا اور کہنا شروع کر دیا تھا کہ میاں صاحب ہی مرزا صاحب کی مصلح موعود کی پیشگوئی کے مصداق ہیں تو ا سے یہ جان کر شرم آنی چاہیئے کہ سب سے پہلے اس پیشگوئی کو حضرت مولوی نور الدین خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ اور پر منظور احمد صاحب نے جو دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام
IM کے مخلص صحابی تھے خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے متعلق قرار دیا تھا، ذیل میں ہم حضرت خلیفہ اسے الاول رضوی مصلح موعود کے ۳۰ سال میں ظاہر ہونے کی پیشگوئی کو نقل کر دیتے ہیں.مولوی عبد المنان صاحب عمر نے فرقان بابت مئی 1980ء میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے نوٹوں کا عکس شائع کیا ہے، جس کے الفاظ دو کالموں میں یہ ہیں :- " ہم اور دوسرں کسی مجدد نے تیرہ سو برس سے یہ نہیں کہا کہ میں فرق مجھے وحی ہوئی ہے.ہمارے مرزا صاحب کو وحی الهام دونوں ہوتے تھے پھر نبی کا لفظ اور کسی پر نہیں ہے پھر ایسی کامیابی وجود اتنی مخالفت کے کسی کو نہیں ہوئی.خطر عظیم الشان حضرت موسی سے اللہ نے وعدہ کیا کہ تیری قوم نے مقدس زمین کو فتح کر لینا ہے تم بیشک جاؤ نوٹ نوٹ لیکن قوم نے نافرمانی کی کیا نتیجہ ہوا چالیس برس ڈھیل دی گئی اور ان میں حضرت موسی بھی فوت ہو گئے.مجھے یہ ڈر ہے کہ حضرت صاب سے بھی اللہ تعالیٰ نے وعدے کیسے ہیں تمھارے عملوں نے اسے پیچھے رکھا ہوا ہے.تیس برس کے بعد انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ مجدد یعنی موعود....(قدرت ثانیه) ظاہر ہوگا.انصار کی ذراسی گستاخی سے حضور نبی کریم
ر" نے فرمایا کہ قیا مت تک تم پر سلطنت حرام ہے تم بھی گستاخ ہو رہے ہو " حضرت خلیفہ اسمع الاول کے یہ نوٹ ۱۹۱۳ء کے درس القرآن کے ہیں جنہیں نقل کرنے کے بعد مولوی عبد المنان صاحب عمر مدیر فرقان لکھتے ہیں :- یہ الفاظ صاف اور ان کا مفہوم بالکل واضح ہے.حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے جو وعدے کیے تھے وہ ہم میں سے بعض لوگوں کی غلطی سے معرض التوا میں پڑ گئے اور اب سے تیس سال بعد اللہ تعالیٰ کا ایک موعود بندہ جو قوم کی تجدید کرے گا اور مظہر قدرت ثانیہ ہو گا اور پھر اس کے ہاتھ سے وہ وعدے پورے کیے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح سے کیے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ اس نے ان الفاظ کے کہے جانے کی تاریخ سے تیس سال بعد حضرت خلیفة المسیح الثانی مظہر قدرت ثانیہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پر پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہونے کا انکشاف کر دیا اور آپ نے الہام الہی کی بنا پر اپنے مصلح موعود ہونے کا دعوئی فرما دیا." افسوس کا مقام ہے کہ مصلح موعود کی پیشگوئی کے متعلق مولوی عبد المنان صاحب عمر نے فاروقی صاحب کو یہ مشورہ نہ دیا کہ اس مسئلہ کے خلاف ظلم نہ اُٹھاؤ اور اُنھیں اپنے والد ماجد خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کی پیش گوئی یا
نہ دلائی.مجد واحمدیت | تعجب ہے کہ فاروقی صاحب نے اپنی کتاب فتح حق" کے صلہ پر اپنی کتاب کا انتساب مولوی محمد علی صاحب کے نام پر کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھتے ہیں :- انتساب حضرت مولانا محمد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے نام پر جنہیں اگر مجددِ احمدیت کہا جائے تو بجا ہے" لیکن اس کے خلاف حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ نے مجددا حمایت کے ظہور کو قادرت ثانیہ قرار دیتے ہوئے ۳۰ برس کے بعد ظاہر ہونے کی امید دلائی تھی اور ان کی یہ بات حضرت خلیفہ المسیح الثانی رض کے حق میں لفظ بلفظ پوری ہو گئی ہے.کیونکہ اس نوٹ سے ٹھیک تیس برس بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر آپ کے مصلح موعود ہونے کا انکش ہو گیا.جو در حقیقت مجد واحمدیت کہلانے کے اہل ہیں - وہ تو سو بار ندامت سے جھکا لیں آنکھیں مگر آتا بھی ہو جب اُن کو پشیماں ہونا فاروقی صاحب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے مصلح موعود ہونے کے اعلان میں فرما دیا تھا کہ آپ مامور نہیں فتح حق صت ۳.یہی بات حضرت خلیفہ اسیح الثانی امید اللہ تعالٰی نے 19 میں کسی ہے.چنانچہ ایک دوست نے سوال کیا :- جس شخص کو حضور کے مصلح موعود ہونے کا علم دیا جائے اور اس پر حجت تمام کردی جائے تو پھر بھی
۱۹۰ " وہ حضور کا انکار کرے تو ہم اسے کیا کہیں گے ؟ حضور نے فرمایا : ہم کچھ بھی نہیں کہیں گے جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اسے ہدایت دیگا.دعوت پر اصرار کرکے منوانا غیر مامور کا کام نہیں ہوتا " الفضل ۳ جون (۱۹۶) لہذا فاروقی صاحب کا ہرگز کوئی حق نہیں کہ وہ حضور کو مامورین میں شمار کر کے مامورین سے متعلقہ اس معیار پر آپ کو پرکھنے کی کوشش کریں کہ آپ نے دعوی کے بعد تیس سال کی لمبی عمر پائی ہے یا نہیں ؟ فاروقی صاحب خود حضرت مسیح موعود کی کتاب اربعین ۳۰ سے یہ حوالہ پیش کر چکے ہیں.ہزار ہا نامی علماء اور اولیاء ہمیشہ اس دلیل کو کفار کے سامنے پیش کرتے رہے اور کسی عیسائی یا یہودی کو طاقت نہ ہوئی کہ کسی ایسے شخص کا نشان دے جس نے افترا کے طور پر مور من اللہ کا دعوی کرکے نہیں برس پورے کیے ہوں " ر فتح حق ص ) پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ شاہ میں کیا تھا جس کے بعد حضور سترہ سال زندہ رہے ، مگر آپ کی ماموریت کا زمانہ چونکہ اس سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا.اس لیے ماموریت کے الہام ہونے کے بعد آپ نے ۲۳ سال سے بھی زیادہ عمر پا کر یا مورین سے متعلقہ معیاری عمر اوپری کر لی تھی.گو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رغم کو ماموریت کا دعوی تھا ہی نہیں تاہم یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ آپ کو خلافت پر سرفراز ہونے سے بھی کئی سال
191 پہلے ان الفاظ میں الہام ہو چکا تھا.ان الذينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُ وا إِلَى يَوْمِ القيامة.کہ بے شک جو لوگ تیرا اتباع کریں گے وہ قیامت تک تیرے منکرین پر غالب رہیں گے.الفضل ۲ نومبر ۳۶) ۱۹۳۶ء میں حضور نے مولد بعذاب قسم کے ساتھ یہ الہام پیش کیا تھا.فرماتے ہیں : ” اگر میں اِس الہام کے سنانے میں جھوٹا ہوں تو خدا کی مجھے پر لعنت " پس حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس الہام کے بعد خلافت پر سرفراز ہوئے اور پچاس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک مسند خلافت پر سر فرانہ رہے اور چونکہ مصلح موعود کی پیش گوئی بھی دراصل آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا ایک عظیم الشان سیجی نفس خلیفہ ہی قرار دیتی تھی نہ کہ نبی اور رسول اور مامور من اللہ.اس لیے آپ نے اپنے اس الہام پر جو خلافت میں آپ کی کامیابی کی بشارت اور آپ کے منکرین کے مغلوب رہنے کی خبر دنیا تھا نئیں کسالی کی بجائے 4 سال کے قریب مدت پائی ہے اور اس کے خدا کا الہام ہونے کے متعلق مؤکد بعذاب حلف اُٹھانے کے بعد آپ ۲۸ سال زندہ رہے ہیں.پس مصلح موعود کے متعلق جو آپ پر یہ الہام ہوا "أَنَا المسيح الموعود مثيله وخليفته» به درحقیقت آپ کے الہام ان الذین اتبعوك وَخَلِيفَتُه فوق الذین کفروا کی تشریح ہی ہے جو ایک وقت کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے کی گئی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ الہام جس کی روشنی میں آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تھا اور جس میں حضرت
۱۹۲ میسج کے وفات پا جانے اور آپ کے حضرت شیخ کے رنگ میں ہو کر آنے کا ذکر تھا دراصل اس پہلے الہام مندرجہ براہین احمدیہ یا عیسى إني متوفيك د رافعك إلى اور الهام أنتَ اَشَدُّ مُنَا سَبَةٌ بِعِلَى ابْنِ مَرْيَمَ درا وَاشْبَه النَّاسِ بِهِ خُلقاً وخَلقًا وزمَانَا ازالہ اوہام ص۱۲۲ بحوالہ براہین احمدیہ کی تشریح ہی تھا.ان دونوں الہاموں کا ترجمہ یہ ہے کہ (ا) اسے بیسی میں تجھے طبعی وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں.(۲) تیری عیسی ابن مریم سے شدید ترین مشابہت ہے اور تو خلق خلقت اور زمانہ کے لحاظ سے اس سے شدید ترین مشابہت رکھتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری | فاروقی صاحب نے اپنے دل کی پر فاروقی صاحب کا سنگدلانہ رویہ بھڑاس نکالنے کے لیے حضرت خلیفة المسیح الثانی رض کو آپ کی آخری عمر میں مجنون اور مفلوج قرار دیکر معاذاللہ ڈاکٹر ڈوئی سے جو مدعی نبوت تھا تشبیہ دی ہے.جس کے متعلق حضرت مسیح موعود نے تمہ حقیقۃ الوحی میں لکھا تھا."آخر کار اس رڈوئی) پر فالج گرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اُسے اُٹھا کر لے جاتے رہے.پھر بہت سے عموں کے باعث پاگل ہو گیا اور جو اس نبجانہ رہے " تتمہ حقیقة الوحی صدے حضرت اقدس اس عبارت سے پہلے اس کی ناکامیوں اور نامرادیوں کا ذکر تحریر فرماتے ہیں.پس فاروقی صاحب نے نامکمل حوالہ پیش کیا ہے.ڈوٹی حضرت اقدس
۱۹۳ ود کی پیشگوئی کا شکار ہوا تھا.چنانچہ حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں: " اگر میں اس کو مباہلہ کے لیے نہ بلاتا اور اگر میں اُس پر بد دعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیقت کے لیے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا " تم حقیقت الوحی ص پس ڈوٹی کا مفلوج ہونا اس کے لیے پیش گوئی ہونے کی وجہ سے اس کی ذلت کا موجب ہے ورنہ کئی نیک لوگ فالج سے وفات پاتے ہیں.خود لاہوری فریق کے بعض اکابر نے فالج سے وفات پائی ہے جیسے ڈاکٹر مرزا یعقوب سنگ وغیرہ.فاروقی صاحب نے آپ کو معاذاللہ آتھم سے بھی مشابہ قرار دیا ہے حالانکہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا شکار ہوا تھا اور جس کے نتیجہ میں حضرت اقدس نے انجام آتھم کے صحت پر لکھا.اس کے دل کا آرام جاتا رہا اکثر وہ رونا تھا.پس یہ دونوں روٹی اور انتظم حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کا شکار ہوئے تھے اور یہ فاروقی صاحب کو بھی مسلم ہے مگر وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر خدمت اسلام اور خدمت قرآن مجید میں گزاری اور اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسلام کی خدمت میں گذرا اور حسین کے ہاتھ سے دنیا کے تمام کناروں میں اسلام کی آواز پہنچ گئی.سوء قسمتی سے فارقی صاحب ایسے جاں نثار اور خدائی ملت اور بطل اسلام کے آخری دنوں کو نا پاک عیسائی مفتری ڈوئی اور دشمن اسلام علیسائی آٹھم سے تشبیہ دے
۱۹۴ رہے ہیں.افسوس کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا اپنے جوانی اور بڑھاپے کے ایام کو دن رات خدمت اسلام میں وقف کر دنیا اور علیم اسلام کو غیر اسلامی ممالک میں بلند کرنا تعصب اور بعض کی وجہ سے فاروقی صاحب کی نظر میں نہیں جچتا.حالانکہ خدمت اسلام کے لیے آپ کی روح میں ایسی تڑپ موجود بھی کہ جب آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں آپ ایک عرصہ تک صاحب فراش رہے تو ابھی آپ کمزور ہی تھے کہ آپ ترجمہ القرآن کے عظیم الشان کام میں لگ گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے محنت شاقہ سے تفسیر صغیر کے نام سے بامحاورہ اردو زبان میں ترجمہ القرآن کر کے مع تفسیری نوٹوں کے شائع کرا دیا.پھر اس کے بعد ایک عرصہ کے لیے آپ کا صاحب فراش ہو جانا حقیقت آپ کو ایک زندہ شہید اسلام ثابت کرتا ہے.ان ایام میں بھی آپ کی دعائیں در روحانی توجہ جماعت کے ساتھ تھی.حدیث نبوی میں وارد ہے:." عن أبي الدرداء قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلّم وَمَنْ جُمِ وَمَنْ جُرحَ جَرَاجَةٌ في سَبيلِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِخَاتَمِ الشُّهَدَاءِ ومَ الْقِيَامَةِ لَوْنُهَا مِثْلَ كونَ الزَّعْفَرَانِ وَ رِيحُهَا مِثْلَ رِيحٍ الْمَسْكِ يَعْرِفُهُ الأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ يَقُولُونَ فَلَانَ عَلَيْهِ طَابَعُ الشُّهَدَاءِ - رواه احمد ورداة استاده ثقاة - ترغیب ترطيب للمنذری بر حاشیه مشکواة مطبع نظامی کی شام
۱۹۵ ترجمہ : حضرت ابو دردانہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وقتم نے فرمایا جس کو خدا کی راہ میں کوئی زخم پہنچا اس پر شہدا کی مہر لگائی جاتی ہے.قیامت کے دن اس کے لیے ایسا نور ہے جس کا رنگ تو زعفرانی ہو گا اور اس کی خوشبو کستوری جیسی ہو گی.سب پہلے اور کھیلے لوگ اس کو پہچان رکھیں تو شہداء کی گے کہ فلاں ترقی اسلام اور معانقہ کرتی ہوئی ہے.کراہ اس زخمی ہو گر زندہ پس وہ خیر الانام جو شہید تھا فاروقی صاحب نے اسے مجنون اور مفلوج قرار دے کر اور روٹی ور آتھم سے تشبیہ دے کر انتہائی بغض و حسدا در سنگدلی کا مظاہرہ اور بیمار جذبات کو سخت مجروح کیا ہے اور خلاف شرع یہ سب بیہودگی آپ کے اور دفات پا جانے اور واصل باللہ ہو جانے کے بعد کی ہے.ני حضرت خلیفہ ربیع الثانی رض کی آخری عمر میں آپ کی بیماری کے متعلق فاروقی صاحب نے جو ڈاکٹری رپورٹ اخبار الفضل سے نقل کی ہے وہ یہ ہے :- اعصابی بے چینی بصورت نسیان اور جذبات کی شدت یعنی رفت جو مقدس نہیوں یا مقدس مقامات کے ذکر پر عموماً پیدا ہو جاتی ہے کم و بیش جاری ہے چند دن ان علامتوں میں قدرے فرق محسوس ہوتا ہے تو پھر چند دن زیادتی معلوم دیتی ہے اور اس طرح یہ سلسلہ چلا جاتا ہے.لیٹے رہنے کے باعث ٹانگوں میں کبھی وٹ اور اکڑاؤ بھی بدستور ہے کوئی کوشش بھی حضور کو چلانے میں کامیاب ر فتح حق ص ) نہیں ہو رہی.“ اس طبی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو صرف 1 ا
JAY بے چینی کی تکلیف تھی ، فالج اور جنون ہرگز نہ تھا.فالج کے مریض کے اعصا تو ڈھیلے پڑ جاتے ہیں.اسی لیے اس کا دوسرا نام استرخاء بھی ہے لیکن طبی رپورٹ ہو فاروقی صاحب نے نقل کی ہے بتاتی ہے کہ آپ کی ٹانگوں میں زیادہ عرصہ بیٹے رہنے کی وجہ سے کھچاؤ اور اکڑاؤ ہے جو استرخاء اور بے حسی کی ضد ہے.فالج کی خاص علامت اعصاب کا استرخاء اور بے حسی ہوتی ہے جس سے فیمین کی ٹانگیں بے حس و حرکت ہو جاتی ہیں لیکن اکٹڑا ؤ اور کھچاؤ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے اعصاب بالکل صحیح تھے.میڈیکل رپورٹ کی اُردو عبارت کا جو ترجمہ انگریزی میں کیا گیا ہے وہ درست نہیں.اُردور پورٹ میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کا ترجمہ NUMBESS ہو سکے جس کے معنی بے حسی ہوتے ہیں جو فالج کی علامت ہوتی ہے.اسی طرح جنون کا الزام بھی سراسر باطل ہے البتہ لمبا عرصہ بیمار رہنے کی وجہ سے آپ کا صرف جذبات پر کنٹرول ضرور کم ہو گیا تھا.اس لیے مقدس مہنیوں یا مقامات کے ذکر پر آپ پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور یہ لمبی بیماری کی وجہ سے کمزری اور خدمت اسلام کے لیے شدت جذبات کا اثر تھا جو آپ کے دل میں موجزن تھے کسی تکلیف، صدمہ یا بیماری کی حالت میں جذبات میں رقت کا پیدا ہو جانا ایک طبعی امر ہے جس سے انبیاء بھی مستثنے نہیں حضرت یعقوب علیہ السلام کے ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یوسف علیہ السلام کا ذکر ان کے سامنے آیا ، ابيضيت عيناه من الحزن تو آپ کی آنکھیں غم سے ڈبڈبا آئیں اور اپنے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بے ساختہ رو پڑے تھے.پس وفور جذبات سے رو پڑنے کو جنون قرار دنیا محض شفا دت قلبی اور
194 بغض و حسد کا مظاہرہ ہے.اس سے بڑھ کر فاروقی صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زخمی ہونے کے متعلق لکھتے ہیں: یہ بھی خدائی عذاب کا ایک نشان تھا.فتح حق صدا قار : قی صاحب کی یہ بات ان کے انتہائی تعقیب بنبض اور سنگدلی کی علامت ہے.کیونکہ دین کی راہ میں کسی مسلمان کا زخمی ہونا تو ایک قابل عزت قربانی ہے اور الیسا شخص قابل صد احترام ہوتا ہے.کیا فاروقی صاحب کو علم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگوں میں زخمی ہو گئے تھے.کیا فاروقی صاحب ان کے زخموں کو عذاب الہی کا نشان سمجھتے ہیں.ایسا خیال تو سراسر جہالت اور گستاخی ہے.پھر کیا حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی وجہ سنگدلی کے ساتھ کاہل میں سنگسار کیا جانا فاروقی صاحب کے نزدیک اُن پر خدائی عذاب کا نشان تھا.اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر فاروقی صاحب کا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دین کی راہ میں زخمی ہونے کو عذاب الہی کا نشان قرار دینا محض سنگدلی اور بغض و حسد کا مظاہرہ ہے.کیونکہ مومنوں کو دین کی راہ میں جو زخم پہنچتے ہیں اور انھیں خدا کی راہ میں جو مصائب اور صدمات اُٹھانے پڑتے ہیں وہ خدائی عذاب کا نشان نہیں ہوتے بلکہ یہ امور توان کے خدا تعالیٰ کے حضور میں قرب کے بڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں.زخمی ہونے سے تو سيدنا و مولانا افضل الانبياء والمرسلین حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم بھی محفوظ نہیں رہے.چنانچہ جنگ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خداہ امی دابی کی پیشیائی مبارک پر ایسا زخم لگا کہ حضور بهروش ہو گئے اور اس پر دشمن نے مشہور کردیا کہ آپ مارے گئے.پھر حضرت عمر خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ پر سجد میں نماز کے وقت حملہ ہوا اور آپ اس سے شہید ہو گئے.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح
190 الثانی رضی اللہ عنہ پر ھی مسجد می نماز کے بعد حملہ ہوا جس سے آپ زخمی ہو گئے پس حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ایک دشمن کے ہاتھوں معصومانہ طور پر زخمی ہو جانا خدا تعالیٰ کے حضور میں آپ کے تقرب کو بڑھانے کا ذریعہ ہے اور فاروقی صاحب کی طرف سے اسے عذاب الہی کا نشان قرار دنیا اُن کی انتہائی سنگ دلی کا ثبوت ہے جس سے انہوں نے ہماری جماعت کے جذبات کو شدید مجروح کیا ہے.فاروقی صاحب فاروقی صاحب نے نہایت بے باکی اور گستاخی سے فتح حق کے کے بہتانات من وام پر مستری عبد الکریم اور عبد الرحمن مصری کے گندے اور نا پاک الزامات کو بھی دہرایا ہے.ان گندے اور ناپاک الزامات کا حقیقی جواب تو انھیں خدا تعالیٰ ہی دے گا.قرآن مجید نے انہیں جو جواب دینے کا ہمیں حکم دیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایسے الزامات سنے پر مومن مردوں اور عورتوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیں اور الزام لگانے والوں کو کہہ دیں هذا افك مبین کر یہ تو کھلم کھلا جھوٹا الزام ہے.افسوس ہے کہ فاروقی صاحب حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے وفات پا جانے کے بعد آپ پر گندے اور نا پاک الزامات لگا کر اسی طرح بد اخلاقی اور شرارت کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس طرح آریہ اور عیسائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہرات کے خلاف گندے اور ناپاک الزامات لگا کر اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں.مگر کیا عیسائیوں اور آریوں کے ایسے گندے الزامات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کو کوئی نقصان پہنچا سکے ہیں ہرگز نہیں.پس فاروقی صاحب کے الزامات بھی حضرت خلیفة المسیح الثاني المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے بلکہ یہ ان کے اپنے دل کے گندے ہو جانے کا مظاہرہ کر رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے تو پہلے سے رسول کریم صلی الہ
۱۹۹ علیہ وسلم کی طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض کو بھی یہ خبر دے رکھی تھی کہ آپ کے شیمن نا مراد اور ناکام رہیں گے اور غلبہ آپ کو ہی حاصل ہو گا.انشاء اللہ تعالی.افسوس حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر گندے الزام لگانے والے مسلمان ہی تھے جو صحابی بھی سمجھے جاتے تھے چنانچہ ایک ان میں سے مسطح تھا جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پروردہ تھا.خدا تعالیٰ نے حضرت ام المومنین پر بہتان لگایا جانے کا خود قرآن شریعت میں ذکر کیا ہے چنانچہ اللہ تعالی سورہ نور میں فرماتا ہے :- إنَّ الَّذِينَ جَاءُ وَا بِالإِفكِ عُصْبَةٌ مِنكُمْ لا تَحْسَبُوهُ شَرِّ الكُم بَلْ هُوَ خَيْرُ تَكُمْ يكل امرئ مِّنْهُم مَّا التَسَبَ مِنَ الإِثْمِ والذى تولى كبرَهُ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمه لولا سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَ الْمُؤْمِن بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هذا انك تمدن.(نور آیت ۱۲-۱۳) ترجمہ: یقینا وہ لوگ جنہوں نے ایک بہت بڑا اتہام باندھا تھا.وہ تم میں سے ہی ایک گروہ ہے تم اس کو اپنے لیے بُرا ر فعل نہ سمجھو بلکہ یہ تمھارے لیے بہتر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ایک پر حکمت تعلیم تمھیں مل گئی ہے جس پر عمل کر کے تم آئندہ ایسے الزامات لگانے سے بچ سکتے ہو، ہر ایک شخص کو جس نے ان میں سے جتنا گناہ کیا ہے اس کی سزا مل جائے گی اور جو اُن میں سے اس گناہ کے بڑے حصہ کا ذمہ دار تھا اس کے لیے بڑا عذاب ہے.ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جب تم نے اس بہتان کو سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے ه
اپنی رقوم کے آدمیوں کے متعلق اچھا گمان کیا اور کیوں نہ یہ کہ دیا کہ یہ توکلا بہتان ہے." اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.إِذْ تَلْقُونَهُ بِالْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِم مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيْنَا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمُ ، وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قلتُه مَا يَكُونُ لَنَا اَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَاتٌ ستانكَ هذَا بُهْتَانُ عَظِيمه نور آیت ترجمہ اس وجہ سے کہ تم اس بہتان کو ایک دوسرے سے سیکھنے لگے اور اپنے مونہوں سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تمھیں علم نہ تھا اور تم اسے معمولی بات سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات تھی.ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے وہ بہتان سنا تو تم نے کہہ دیا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم اس کے متعلق بات کریں اے خدا تو ہر عیب سے پاک ہے یہ تو ایک بہت بڑا بہتان ہے " اب ہم بھی اس ارشاد ربانی کے ماتحت فاروقی صاحب کے ناپاک الزام کے اعادہ پر الٹی ہدایت کے مطابق انھیں یہ کہتے ہیں.سُبحَانَكَ هذا بُهْتَان عَظِيم.ان آیات کے بعد اللہ تعالیٰ یہ نصیحت فرماتا ہے :- يَعِظُكُمُ اللهُ أَن تَعُودُدُ المِثْلِهِ اَبَدا ان كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ (نور آیت 1 توجہ ، خدا تمہیں ایسی بات کو آئندہ کسی سلمان کی نسبت ) دوبارہ کرنے سے رواتا ہے اگر تم مومن ہو"
افسوس ہے کہ فاروقی صاحب نے ایسے ناپاک الزامات کو دہرا کر اپنے ایمان و تقویٰ کا لباس تار تار کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس سے اگلی آیت میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ الذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَاب اليمن الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنتُم فِي لا تَعْلَمُون (نور آیت ۲۰) ترجمہ.بے شک جو لوگ مومنوں میں بے حیائی کی بات کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بهتان باندھنے والے بھی اور مومنوں میں اس کی اشاعت کرنے والے بھی اس دعبید اللہ کے حقہ دار ہیں اگر وہ اس سے تو یہ نہ کریں تو دنیا اور آخرت میں اس وعید الہی کے مطابق مقدر عذاب سے ضرور حصہ پائیں گے.پس فاروقی صاحب کے لیے مقام خوف ہے.خدا کرے کہ وہ آئند نصیحت پکڑیں اور استغفار کریں اور اس قسم کی بے حیائی کے ارتکاب سے باز آئیں.مباہلہ کا ڈھونگ | فاروقی صاحب نے مستری عبد الکریم کے ذکر میں یہ بھی لکھنا ہے کہ اس نے ناپاک الزام لگا کر خلیفہ صاحب کو مباہلہ کا چیلنج دیا جس کو خلیفہ صا بہانے بنا بنا کر ٹال دیتے تھے حالانکہ حضرت مسیح موعود نے صاف لکھا ہے کہ دو حالتوں میں مباہلہ جائز ہے الف اول کافر کے ساتھ جو یہ دعوئی رکھتا ہو کہ مجھے یقیناً
معلوم ہے کہ اسلام حق پر نہیں......الخ (ب) دوم اس ظالم کے ساتھ جو بے جا تہمت لگا کر اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے " فتح حق ص۲) مباہلہ کی یہ دونوں صورتیں میں مسلم ہیں.مگر ہم دینیری صورت مبا باہ کی تسلیم نہیں کرتے کہ ایک شخص دوسرے کو ذلیل کرنے کے لیے تہمت بھی لگائے اور پھر خود ہی اسے مباہلہ کا چیلنج بھی دیدے.تہمت لگانے پر صرف مظلوم کو باختیار ہے کہ وہ بہتان باندھنے والے کو مباہلہ کی دعوت دے.تہمت لگانے والے کا دوسرے کو مباہلہ کی دعوت دید نیا محض ایک ڈھونگ ہے اور اسلام سے تمسخر کے مترادف ہے اور شریعت اسلامیہ کی صریح ہتک ہے.ایسی صورت میں جس پر تہمت لگائی گئی ہوا سے قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق ہر سے ہی کام لینا چاہیے.کیونکہ خدا نے تو قرآن مجید میں مقدم امر ایذا پر صبر کو ہی قرار دیا ہے گو مسیح موعود علیہ السلام نے اس شخص کو جس پر تہمت لگائی گئی ہو مباہلہ کرنے کی اجازت بھی دی ہے مگر اتہام لگانے والوں سے جو انتہام لگانے کے بعد پھر خود ہی دوسرے فریق کو مباہلہ کی دعوت بھی دے دیں مباہلہ کرنا شریعت اسلامیہ کی رُو سے ہرگز جائز نہیں.لہذا اس موقعہ پر کسی ٹال مٹول کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.یہ کس طرح ممکن تھا کہ جماعت احمدیہ کا امام ایک خلاف شرع امر کا ارتکاب کر کے ایک نا جائز مثال قائم کردیا.اس کا فرض تو اس موقعہ پر یہی تھا کہ قرآنی ارشاد کے مطابق بے جانمتوں پر صبر سے کام کیا اور اتہام لگا کر مین ہلہ کی دعوت دینے والوں کی دعوت کو رد کر دیا.کیونکہ اصل سزا تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ صبر کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا.تعجب ہے کہ فاروقی صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے پر ہمت صبر کو آپ
کی کمزوری پر محمول قرار دے رہے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ مستری کی دعوت مباہلہ عبد الکریم کی دعوت مباہلہ کو تو خلاف شرع ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کر سکتے تھے.مگر حضور نے ان لوگوں پر اتمام حجبت کے لیے انہیں اپنی خلافت کے متعلق دعوت مباہلہ دی تھی.کیونکہ مستری عبد الکریم اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے دعادی میں راستباز سمجھتا تھا.اس موقعہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذیل کے پرزور الفاظ میں دعا فرمائی : ئیں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کے ہاتھ میں جزا اور سزا ہے اور ذلت و عزت ہے کہ میں اس کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں اور جو لوگ میرے مقابل پر کھڑے ہیں اور مجھے سے مباہلہ کا مطالبہ کرتے ہیں وہ اس کی مرضی اور اس کے قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں.اگر میں اس امرمیں دھو کے سے کام لیتا ہوں تو اسے خدا تو اپنے نشان کے ساتھ صداقت کا اظہار فرما.اب جس شخص کو دعوئی ہو کہ وہ اس رنگ میں میرے مقابل پر آنے ہیں حق بجانب ہے.وہ بھی قسم کھالے اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا.مکتوب ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۶ بنام بابو عبد الحميد ما شمال مطبوعہ رسالہ جواب مباهله من ۳۰ جون ص +19+9
۲۰۴ یہ دعوت مباہلہ مستری عبد الکریم کو قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی.فاروقی صاحب کی غلط بیانی اور فاروقی صاحب نے اپنی کتاب کے مسالہ ایک غلط فیصلہ کی اشاعت پر لکھا ہے :- رد خلیفہ صاحب نے شیخ عبدالرحمن مصری صاحب اور اُن کے رفقاء کو تنگ کرنا شروع کر دیا بعض پر تو قاتلانہ حملے بھی ہوئے.اسی سلسلہ میں ایک مقدمہ جو جی ڈی کھوسلہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا اس نے اپنے فیصلہ میں لکھا:.اپنے دلائل کو سنوارنے اور فرقے کو ترقی دینے کے لیے انہوں (مرزائیوں) نے ان ہتھیاروں کا استعمال کیا جن کو عام طور پر ناپسندیدہ کہا جائے گا.یعنی ان اشخاص کے دلوں میں جنہوں نے ان کی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کیا نہ صرف بائیکاٹ اخراج اور بعض اوقات اس سے بھی بدتر مصائب کی دھمکیوں سے دہشت انگیزی پیدا ہوئی." (فتح حق صا) اسبارہ میں عرض ہے کہ یہ بالکل غلط بات ہے کہ شیخ عبد الرحمن صاحب مصری سے کسی متعلقہ امر کے سلسلہ میں کوئی مقدمہ جی ڈی کھوسلہ کی عدالت میں پیش ہوا.یہ مقدمہ جس کے فیصلہ کا فاروقی صاحب حوالہ دے رہے ہیں اس کا آخری فیصلہ تو ہائیکورٹ میں اور نومبر ۱۹۳۵ کو ہوا تھا اور عبد الرحمن صاحب مصری ۱۹۳۶ء میں جماعت سے خارج کیے گئے تھے.یہ مقدمہ در اصل سرکار بنام سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری تھا جو اُن کی ایک اشتعال انگیز تقریر کی بنا پر گورنمنٹ نے ان پر دائر کیا تھا اور جس میں انھیں ما سخت عدالت سے چھے ماہ کی سزا
۲۰۵ ہو گئی تھی.سید عطاء اللہ شاہ صاحب نے اس کی ایل جی ڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کی عدالت میں کی.اس پر مسٹر کھوسلہ نے سید عطاء اللہ شاہ کی مرا میں تخفیف کر دی اور جماعت احمدیہ کے بانی اور موجودہ امام کے خلاف قابل اعتراض فقرات لکھے.قدرنا اس سے جماعت احمدیہ میں غم و شفتہ کی شدید لہر پیدا ہوئی کیونکہ دہ فریق مقدمہ نہ تھے.انداز پیر دفعہ ۵۴۱ - الف ضابطہ فوجداری اس فیصد میں سے بعض قابل اعتراض حصوں کے اخراج کی درخواست ہائی کورٹ میں پیش کی گئی.اس درخواست کی سماعت آنریبل مسٹر جسٹس کولڈ سٹریم نے کی.جماعت احمدیہ کی طرف سے رائٹ آنریبل مرتیج بہادر سپردو پی سی غیرہ نے پیری کی.ہائی کورٹ کے آخر میں میٹس کولڈ سٹریم نے پہلے جی ڈی کھوسلہ سیشن جی کے محولہ بالا فیصلہ کے الفاظ اپنے فیصلہ میں اس طرح نقل کیے :- " اب میں ان الفاظ کو لیتا ہوں کہ اپنے عقائد کو منوانے اور اپنی جماعت کو ترقی دینے کے لیے انھوں نے (احمد کو نے ایسے ہتھیار استعمال کیے جو معمولی حالات میں نہایت ناپسندیدہ سمجھے جائیں گے.جو لوگ ان میں شامل ہونے سے انکار کرتے یہ انہیں نہ صرف بائیکاٹ اور اخراج بلکہ اس سے بھی سخت تر اقدام کی دھمکیاں دیکر ڈراتے بلکہ بسا اوقات ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا کر اپنی تبلیغ کی تائید بھی کرتے.الخ یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد آنریل سیٹس نے تحریر فرمایا کہ : سیشن جج کے یہ الفاظ واقعات کا بالکل صحیح بیان نہیں
ہیں.اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ سوائے ان لوگوں کے جو جماعت کو چھوڑ گئے ہوں یا ان سے لڑ بیٹھے ہوں اور کسی کو اس وجہ سے کہ وہ کیوں قادیانیوں میں شامل نہیں ہوتا ڈرایا دھمکایا گیا ہو اس امر کی کافی شہادت ہے اور خود مرزا صاحب کے بیان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ جو اشخاص جماعت کی نظر میں قابل اعتراض ہو گئے ان سے قطع تعلق کر لیا گیا ، یا تمدنی رنگ میں اُن پر قادیان سے چلے جانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا.اگر چہ اس معاملہ میں یہ نتیجہ نکالنے کے لیے بہت کم وجہ موجود ہے کہ ایسے لوگوں کے متعلق کوئی خلاف قانون دباؤ ڈالا گیا.جہاں تک سخت تر اقدام کو دھمکی کا تعلق ہے عبدالکریم کی گواہی موجود ہے کہ اُسے قتل کرنے کی دھمکی دی گئی.فاضل سیشن جج نے اسے باور کر لیا.ماخوذ از فیصلہ ہائیکورٹ بمقدمه سر کار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری جنت مطبوعہ جماعت احمدیہ مولع فاضل حج ہائیکورٹ پنجاب کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے مسٹر جی اڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کے اس فیصلہ کو جسے فاروقی صاحب نے اپنی کتاب میں ہمیں ظالم ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے درست نہیں سمجھا بلکہ رد کر دیا ہے.افسوس ہائی کورٹ کے فاضل جج کی اس تردید کے باوجود فاروقی صاحب نے اپنی کتاب میں جی ڈی کھوسلہ کے فیصلہ کو درج کر کے پبلک کو مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے اور محض ہماری جماعت اور اس کے امام سے بغض اور
: حسد کا مظاہرہ کیا ہے.واضح رہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض کی شخصیت دور عظیم شخصیت ہے جس کے متعلق خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں پیش گوئی فرمائی تھی يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ " که مسیح موعود نکاح کرے گا اور اس نکاح سے اس کی خاطر اولاد پیدا ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کا ذکر کر کے تحریر فرماتے ہیں :- اردید فى هذا إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ اللَّهَ يُؤْتِيهِ وَلَدًا صَالِحاً يُشَابِهُ آبَاهُ وَلَا يَا بَاهُ وَيَكُونَ مِنْ عِبَادِ اللهِ الْمُكْرَمِينَ " آئینہ کمالات اسلام ملک معاشیہ) ترجمہ :.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی میں یہ اشارہ ہے کہ خدا تعالی مسیح موعود کو ایک صالح لڑ کا دیگا جو اپنے باپ کے مشابہ ہوگا اور اس کا منکر نہیں ہوگا اور خدا کے معزز بندوں میں ہو گا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نشان آسمانی میں نعمت اللہ ولی علیہ الرحمہ کی پیشگوئی کا ذکر اپنے اس لڑکے کے متعلق ان الفاظ میں ذماتے ہیں :- " دُور اُد چون شود تمام بکام پسرش یادگار می بینم و اور اس کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں : - " جب اس کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گذر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یادگار رہ جائے گا یعنی مقدر یوں ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو ایک لڑکا پارسا
دیگا، جو اس کے نمونہ پر ہو گا اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جائے گا اور وہ اس کے بعد اس کا یاد گار ہو جائیگا به در حقیقت عاجز کی اس پیش گوئی کے مطابق ہے جو ایک لڑکے کے بارے میں کی گئی ہے." د نشان آسمانی ها ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری میشرا ولی خدائی وعدوں کے مطابق نیک اور بابرکت تھی جیسا کہ حضور نے تحریر فرمایا تھا: اولاد بھی نشان ہوگی ہمیسا کہ خدا نے نیک اور بابرکت اولاد کا وعدہ دیا اور پورا کیا " (سراج میرم پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :.خدا یا تیرے فضلوں کو کردن یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کو کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھینگے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر تو نے یہ مجھ کو بارہا دی نسبحان الذى اخرى الاعادي اس کلام میں حضرت مسیح موعود کی بشارت کے ماتحت ہونے والی اولاد کو خدائی وعدہ کے مطابق قطعی طور پر بر بادی سے بچائے جانے اور اس کے شہنوں کے رسوائی پانے کا ذکر ہے پس جو بھی مسیح موعود علیہ السلام کی اس مبشر اولاد سے دشمنی رکھے گا وہ آپ کے دشمنوں میں شمار ہو گا اور رسوا ہو گا.خلیفہ المسیح الثانی کی حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر تیری الزامات سے الہامی بریت عبد الکریم اور شیخ عبد الرحمن مصری نے جو سنگین الزامات لگائے ہیں ان کے بارہ میں فاروقی صاحب لکھتے ہیں :-
اگر چہ خلیفہ صاحب کہتے ہیں کہ دعوی کے بعد اعتراضا کی بوچھاڑ ہوتی ہے اور دشمن پیدا ہو جاتے ہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ اعتراضات تو ہوتے ہیں اور مکذبین کی طرف سے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ اپنی تائید اور وحی کے ذریعہ سے اپنے فرستادہ کی بریت فرماتا رہا ہے.(فتح حق طل) فاروقی صاحب کا یہ بیان درست ہے.اسی لیے خدا تعالیٰ نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر سنگین الزامات کی تردیدا اپنی اس پاک وحی میں خود فرما دی ہے جس وحی کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا فاروقی صاحب بھی انکار نہیں کر سکتے اور یہ وہ وحی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آپ کے اہل بیت کی برات اور تطہیر میں چار دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنی الفاظ میں نازل ہوئی.اس وحی کے الفاظ یہ ہیں :..: دو إنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَاهِرَكُمْ تَطْهِيرًا ریعنی خدا نے ارادہ کر لیا ہے کہ تمھارے اہل بیت سے ناپاکی کو دور رکھے اور انھیں خوب پاک قرار دیے) پہلی بار :۲۲ جنوری شده (تذکرہ منشت دوسری بار: ۳ فروری ۴۱۹ میسری بار : ۲ مارچ ۹۶شه " 1920 جو نمی بار: ۱۳ پایچ :۱۳ ۱۹ " ممکن ہے چار دفعہ یہ الہام نازل کرنے میں خدا تعالیٰ کا اس صرف اشارہ ہو
۲۱۰ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت پر چار دفعہ گند اچھالا جانے والا ہے.اس لیے خدا تعالٰی نے چاروں مواقع کے لیے چار بار یہ الہام نازل کر کے آپ کے اہل بیت کی اپنی پاک وحی کے ذریعہ الزامات سے بریت فرما دی.پہلی دفعہ مستری عبد الکریم کے الزام لگانے پر.دوسری دفعہ شیخ عبدالرحمن مصری کے الزام لگانے پر.تیسری دفعہ نام نہا د حقیقت پسند پارٹی کے الزام لگانے پر اور اب چوتھی دفعہ فاروقی صاحب مؤلف کتاب فتح حق کے ان الزامات کو دہرانے پر.اس موقعہ پر اس بات کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ پہلی بار یہ وحی نازل ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشفی حالت میں ہی کسی کو آواز دے کر بلند آواز سے کہتے ہیں " فتح فتح ، پس مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت کے لیے یقینی فتح الله می طور پر مقدر تھی نہ کہ دشمنان اہل بیت مسیح موعود کے لیے.ایک حاسد کے لیے اسی دن یعنی ۱۳ مارچ عشاء کو یہ بھی الہام ہوا :- لاہور میں ایک بے شرم وَيْل دَاكَ وَلا فَلِكَ تذکره حت) یعنی لاہور کے ایک بے شرم کو کہا گیا ہے تیرے لیے بھی دیل ہے اور تیرے بہتان کے لیے بھی دلیل ہے.سمجھنے والے خود سمجھ لیں ہم کسی کی تعین کرنا نہیں چاہتے.اعمل میں جماعت کو ایسا امتحان ضرور پیش آنے والا تھا.اسی لیے خدا تولی نے اسی دن جب کہ اہل بیت کی تطہیر کے لیے آخری الہام ہوا یہ الہام بھی نازل فرما دیا : -
۲۱۱ " ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑے جائیں گے “ تنذكر منه مورخه ۱۳ مارچ شه ) یہ امتحان حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی وفات پر پیش آیا.موجود ٹھیک ۱۳ مارچ سلاد کو اس الہام کے سات سال بعد ہوئی.اس وقت جاتے کے دو فریق ہو گئے.پس چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل بیت کی تطہیر اور اُن سے اپنی معیت کا وعدہ کر رکھا تھا اس لیے جو جماعت اہل بیت مسیح موعود کی حامی ہوئی خدائی فیصلہ کے مطابق وہی حق پر قرار پائی اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی دجی سے فتح کا وعدہ دیا ہے.اُس دن یہ الہام بھی پورا ہوا :- کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کیے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کیے جائیں گے.پس مقام خوف ہے.ز تذکره مش۵۳ کیا یہ قابل شرم حرکت نہیں کہ فاروقی صاحب اب مستری عبدالکریم عبدالرحمن مصری کے سنگین اور ناپاک الزامات کو دہرا کر دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ حضرت اقدس کے الہامات آپ کے اہل بیت کی تطہیر کے متعلق معاذ اللہ غلط ثابت ہوئے ؟ شرم شرم ، شرم - صد افسوس - پوست موعود حضرت مسیح موعود علیہ اسلام پر إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عنكم الرجسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا کے انعام کے علاوہ جس میں اہل بیت کی تطہیر کا ذکر ہے یہ الہام بھی ہوا.إني لأجِدُ رِيحَ يُوْسُفَ لَوْلَا اَنْ تَفَسٍ و تذکره ص ۵۲)
۲۱۲ کہ میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں ، ایسا نہ ہو کہ تم مجھے سٹھیا یا ہوا کہو" اس الہام میں مصلح موعود کا نام یوسف رکھ کر آپ پر سنگین الزامات لگنے اور اُن سے آپ کے پاک ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے اور حضرت مسیح و عود کو اس کی خوشبو آنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مصلح موعود ظاہر ہوگا.اس کے ساتھ ہی حضور کو یہ الہام ہوا انّی مَعَ الرُّوحِ مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِكَ.ر تذکرہ ص۵۲۲ ) کہ میں روح کے ساتھ تمھارے اور تمھارے اہل کے ساتھ ہوں یعنی ان کی روحانی لحاظ سے نصرت کر دلگا.پھر یہ الہام بھی ہوا :- کا کلا إنِّي مَعَكَ وَمَعَ اهْلِكَ هذه تذكره من ر میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اِن اہل کے ساتھ بھی ہوں.اس میں حضرت مسیح موعود کے اس وقت کے موجودہ اہل بہت کو خدا کی تائید اور نصرت دینے کا وعدہ دیا گیا ہے.پھر تصویر پر یہ الہام چار دفعہ ہوا :- انظر الى يُوسُفَ وَإِقْبَالة ز تذکره ص۲۵، ۲۳۶۵، ص۱۸۳۲۵،۲۸۲ که یوسفہ اور اس کے اقبال کو دیکھ ! پس مصلح موعود کا نام یوسف رکھتے ہیں اور پھر اس کو اقبال دیا جانے میں اس کے پاک ہونے اور برحق خلیفہ ہونے کی طرف اشارہ ہے.فاروقی صاحب کے پیش کردہ الہامات فاروقی صاحب نے حضرت مسیح موعود درویا کی غلط تشریح کی تردید علیہ السلام کے بعض العلامات کو جن کا.مصلح موعود کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ان میں بعض اور لوگوں کی قباحت اور شفات
۲۱۳ بیان کی گئی ہے محض بغض و عداوت کی وجہ سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر چسپاں کرنے کی ناکام کوشش کی ہے.چنانچہ وہ حضرت مرزا غلام احمد کی چند مندر پیشگوئیاں اور الہامات" کے عنوان کے تحت لکھتے ہے اب حضرت مرزا صاحب خدا سے مدد کے خواندگار رہتے تھے اور روحانی وارث کے لیے دعائیں مانگتے رہتے تھے رب لا تذر في فردا وانت خير الوارثين راے میرے رب تو مجھے اکیلا مت چھوڑ یو اور تو سب سے بہتر وارث دینے والا ہے) آپ کی ان دعاؤں کے عملہ میں آپ کو آپ کی ذریت میں سے ایک مصلح موعود کے آپ کی جماعت میں پیدا ہونے کی خوش خبری دی و فتح حق ص۳۶) فاروقی صاحب ! سنیئے ، خدا نے تو کہا تھا کہ تیرے مانگنے کے موافق میں نے تیری تضرعات کو شنا اور تیری دعا ڈال کو بیائیہ قبولیت جگہ دی الهام متعلق مصلح موعود مندرجه اشتهار ۲۰ فروری عشاء) اس سے تو ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کوئی نشان اپنے زمانہ کے لیے طلب فرما رہے تھے.لہذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مصلح موعود بقول فاروقی صاحب سولہویں صدی میں آنا چاہیئے.جبکہ میسج موعود کی ہی خواہش تھی اور اسی کے لیے آپ نے تضرع سے دعائیں کیں کہ آپ کو ایک نشان رحمت دیا جائے اور خدا تعالے نے اس پر آپ کے ہاں ایک سچی نفس فرزند ہونے کی بشارت دی.اور پھر 9 سال کے اندر اس کے پیدا ہونے کا وعدہ دیا.(1) آگے فاروقی صاحب لکھتے ہیں :.
۲۱۴ رالف ایک الہام ہوا " النتنة ههنا " یعنی خاص فتنہ یہاں پہلے سے موجود ہے ، تذکرہ مشا پھر مصلح موعود کی آمد اور پھر اس کے غلبے پر الہام ہوا وامتازوا اليوم أيها المجرمون تذكره م ربینی فتنه پردازوں اور مجرموں کا ظاہر ہو جانا ، اور پھر اُن کا یہ کہنا " انا كنا خاطئين تذکرہ صاحب کہ واقعی ہم خطا کا رتھے.اس بات کی طرف صاف دلالت کرتا ہے کہ فتنہ پرداز لڑ کا پہلے پیدا ہو گا ، اور مصلح موعود لبر میں آئیگا.(فتح حق صا) الجواب : یہ نتیجہ جو ان الہامات سے نکالا گیا ہے سراسر جھوٹ اور بے بنیا ہے ان میں سے پہلے الہام میں فاروقی صاحب نے الفتة ههنا كا ترجمہ یہ کیا ہے اس جگہ ایک فتنہ موجود ہے اور مراد اس سے حضرت خلیفہ ایج الثانی کا وجو د لیا ہے.حالانکہ یہ ترجمہ غلط ہے حضرت اقدس اس جگہ پورے الہام کا ترجمہ میں کا فاروقی صاحب نے ایک حصہ پیش کیا ہے ، یوں تحریفہ فرماتے ہیں :.اس جگہ ایک فتنہ ہے سوا ولوالعزم نبیوں کی طرح صبر که وجب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا یہ خدا کی قوت ہے جو اپنے بندے کے لیے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا." یہ الہام ۱۸۸۳ء کا ہے ملاحظہ ہو منا اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود محمد صاحب اس الہام سے چھے سالی بعد پیدا ہوئے.اور یہ الہام بقول خارقی صاب
۲۱۵ اس فتنہ کے متعلق یہ بتاتا ہے کہ یہ خاص فتنہ یہاں پہلے سے موجود ہے نہیں حضرت اقدس کے فرزند صاحب زادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے وجود سے اس فتنہ کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا تھا ، بلکہ اس فتنہ سے مراد وہ فتنہ ہے ، جو غیر احمدی علماء نے فتویٰ تکفیر کی صورت میں حضرت مسیح موعود کے خلاف اس الہام کے نازل ہونے کے بعد کھڑا کیا.فاروقی صاحب نے الفتنة ههنا کا جو ترجمہ کیا ہے کہ فتنہ یہاں پہلے سے موجود ہے.یہ سراسر غلط ہے اور پھر اس کی یہ تشریح کہ فتنہ پرداز لڑکا پہلے پیدا ہو گا دیدہ دانستہ غلط بیانی ہے.پس ان کا ترجمہ بھی غلط ہے اور نسہ بیج بھی غلط.براہین احمدیہ حصہ پنجم ص میں حضرت اقدس نے اس الہام سے پہلے توٹے تکفیر والا العام تحریر فرمایا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :- " إِذ يَمْكُرُبِكَ الَّذِي كَفَرَ أَوْ قِدلي يَا هَامَانُ تَبَّتْ يَدَا الي لَهَبٍ وَتَبَ - ما كانَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ الخَائِفًا وَمَا اصَابَكَ مِنَ اللَّهِ الْفِتْنَةٌ هُهُنَا فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ ترجمہ از مسیح موعود : " اس مکر کرنے والے کو یاد کر جو تجھے کافر ٹھہرائے گا اور تیرے دعوی سے منکر ہوگا.وہ ایک اپنے رفیق سے استفتا پر فتویٰ لے گا تا عوام کو اس سے افروختہ کرے ہلاک ہو گئے دونوں ہا تھ ابی لہب کے جن سے دہ فتویٰ لکھا تھا.......اور وہ بھی ہلاک ہو گیا.....اس کو منا سب نہ تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا.مگر ڈرتے ڈرتے......جو تجھے تکلیف پہنچے گی
وہ خدا کی طرف سے ہے.یعنی خدا اگر نہ چاہتا تو یہ فتنہ پر پا کرنا اس کی مجال نہ تھا اور پھر فرمایا ” اس وقت دنیا میں بڑا شور اٹھی گا اور بڑا فتنہ ہوگا.پس تجھ کو چاہیے کہ صبر کرے جیسا کہ اولوالعزم پیغمبر صبر کرتے رہے" ص" اس ترجمہ سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کے نزدیک اس فتنہ کا تعلق جو الہام میں مذکور ہے اس فتنہ سے تھا جو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طرف سے حضرت اقدس کے خلاف فتوی کفر تیار کرنے پر سارے ملک میں اُٹھا تھا.....چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- اس سے پہلی پیشگوئی اس استفتاء کے بارے میں ہے جو مولوی محمد حسین کے ہاتھ سے اور مولوی نذیرین کے ہاتھ سے فتوی لکھنے سے ظہور میں آیا.جس سے ایک دنیا میں شور اٹھا اور سب نے ہمارا تعلق چھوڑ دیا.اور کافر اور بے ایمان اور دجال کہنا موجب ثواب سمجھا." ملا سے نہیں ہے.اس الہام کا سیاق یہ ہے LGA NGO LOGANG GALANGAN الدَّارِ وا مَتَارُو الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ هذا الَّذِى كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ (تذکره (۲۲) ترجمه از مسیح موعود : میں ہر ایک کو جو اس گھر میں ہے نگاہ رکھوں گا.اے مجر مو آج تم الگ ہو جا دستی آیا اور باطل بھاگ گیا.یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم جلد می کرتے تھے.پہلے الہام میں دار المسیح میں رہنے والوں کے طاعون سے محفوظ
رہنے کا وعدہ ہے اور یہ وعدہ متقیوں اور مجرموں کے درمیان امتیاز اور نشان قرار دیا گیا ہے اور اس نشان کے ذریعہ جن کا فتح پانا اور باطل کا شکست کھانا بیان کیا گیا ہے - هُذَا الَّذِى كُنتُم بِہ تَسْتَعْجِلُونَ سے مراد بھی عذاب الہی ہے جو مخالف طلب کرتے تھے.پس ان الہامات کا مصلح موعود کی ذات سے کوئی تعلق نہیں.تذکرہ ماحول کا الہام إِنَّا كُنَّا خَاطِين ترتیب میں مندرجہ ذیل الہامات کے درمیان واقع ہے :.اجرود رَبِّ أَخَرَ وَقَتَ هَذَا أَخَرَهُ اللَّهُ إِلَى وَاتِ مُسَمًّى تَرَى نَصْرًا عَجِيْبًا يَخِرُّونَ عَلَى الأَذْقَانِ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ يَا نَبَى اللَّهِ كُنتُ لَا أَعْرِفُكَ لا تتريب عَلَيْكَ الْيَوْمَ يَغْفِرُ الله تَتَرِيْبَ لكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ التَّرَاحِمينَ " ترجمه از مسیح موعود علیہ السلام : - " اے خدا بزرگ زلزلہ کے ظہور میں کسی قدر تاخیر کر دے.خدا نموند قیامت کے زلزلہ میں ایک وقت منظر یہ تک تاخیر کر دے گا.تب تو ایک عجیب مدد دیکھنے گا اور تیرے مخالف ٹھوڑیوں کے بل گریں گے یہ کہتے ہوئے اسے خدا ہمیں بخش دے اور ہمارے گناہ معان رہم گناہ گار تھے اور زمین ریعنی اہل زمین ناقل رکھے گی اسے خدا کے نبی میں تجھے شناخت نہ کرتی تھی.اسے خطا کا رو آج تم پر کوئی ملامت نہیں خدا انخیس بخش دیگا وہ ارحم الراحمین ہے ( تذکرہ (۶۵)
۲۱۸ ر اس پیشگوئی کا تعلق پانچویں زلزلہ سے معلوم ہوتا ہے.پس یہ پیشگوئی اپنے وقت پر پوری ہوگی.اور اس دن اہل زمین حضرت اقدس کو اسے نبی اللہ کہ کر کہیں گے کہ وہ آپ کو نہیں پہچانتے تھے شاید اس دن سارے منکرین خلافت ریعنی فاروقی صاحب اور ان کے ہمنوا بھی حضرت مسیح موعود کونبی اللہ مان ہیں.آج کل خليفة أسبح الثاني المصلح الموعودرضی اللہ عنہ کے خلاف یہ منکرین خلافت احمدیہ یہ پر دیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے مرزا صاحب کو نبی بنا دیا.مگر وقت بھی کیسا عجیب ہوگا کہ اس دن ساری دنیا آپ کونبی اللہ تسلیم کرے گی.پس حق کی فتح اس طرح ہوگی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ساری دنیا میں بنی اللہ تسلیم کیے جائیں گے...(۲) فاروقی صاحب آگے لکھتے ہیں :- پھر الہام ہوتا ہے.ولا تعلمني في الذین ظلموا انهم مغرقون راور مجھ سے ان ظالم لوگوں کے بارے میں مت کہ یا خطاب کر کیونکہ وہ غرق ہونے والے ہیں.(تذکره منت) اور جب ہم قرآن شریف میں دیکھتے ہیں تو قریب قریب یہی الفاظ اللہ تعالے نے حضرت نوح کو کسے تھے اور ان کے لڑکے کے متعلق کہا تھا انه عمل غیر صالح.جبکہ اس کے بچانے کے لیے نوح نے التجا کی تھی.گر بالآخر وہ لڑکا ہلاک ہوا.حضرت مرزا صاحب کو المام ہوا تھا انه عبد غير صالح را ور وہ بدکار لڑکا ہے، زندکرہ منت
۲۱۹ الجواب : فاروقی صاحب نے اِنَّهُ عَبْدُ غير صالح کا ترجمہ اس الہام کو اس کے سیاق سے الگ کر کے اور حضرت مسیح موعود کی تشریح کو رد کر کے وہ بد کارلڑ کا ہے“ کر دیا ہے.یہ امر فاروقی صاحب کے خود غلط کار ہونے کا ایک روشن ثبوت ہے کیونکہ پورا العام یوں ہے :- لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَن لَّا يَكُونُوا مُؤْمِنينَ لا تقف مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ وَلَا تُخَاطِبَنِي في الذِينَ ظَلَمُوا اَنَّهُمْ مُخْرَتُونَ يَا إِبْرَاهِيمُ أعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ عَبْدُ غَيْرُ صَالِحٍ إِنَّمَا أنتَ مُذَكَرُ رَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِمُسَيْطِرٍ " " ترجمه از حضرت مسیح موعود علیہ السلام :- کیا تو اسی غم میں اپنے تین ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ.اور ان لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر.وہ غرق کیسے جائیں گے.اے ابراہیم اس سے کنارہ کہ یہ صالح آدمی کا کا نہیں تو صرف نصیحت دہندہ ہے ان پر دار و غر نہیں “ " یہ ترجمہ کرنے کے بعد بطور تشریح حضرت اقدس لکھتے ہیں :- یه چند آیات جو بطور العام الفا ہوئی ہیں بعض خاص لوگوں کے حق میں ہیں.(براہین احمدیہ حصہ چہارم منه ومناه) اور براہین احمدیہ حصہ پنجہ میں اس الہام کی تشریح میں فرماتے ہیں:.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بعض اپنی قوم کے لوگوں سے اور قریب کے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا پڑا
۲۲۰ تھا پس میری نسبت یہ پیش گوئی تھی کہ تمھیں بھی بعض قوم کے قریب لوگوں سے قطع تعلق کرنا پڑے گا.چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا " پس پیش گوئی حضر ت تخلیفہ المسیح الثانی مصلح موعود کے دعوئی بلکہ خلافت سے پہلے ہی پوری ہو چکی تھی.یه برا همین احمدیہ حصته چهارم شاد میں شائع ہوئی ہے جس میں یہ الساعات درج ہیں مگر مصلح موعود کی پیش گوئی ۲۰ فروری شاہ کو کئی گئی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس پیشگوئی کے مطابق بموجب وعدہ الٹی اسہال کے عرصہ میں ۱۲ جنوری شہداء میں پیدا ہوئے گویا اس وقت حضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد ہی سے کوئی وجود میں ہی نہیں آیا تھا.جسے غیر صالح قرار دیا جاتا.اس الهام میں دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نور کہ کر نہیں بلکہ ابراہیم قرار دیکر ایک عید غیر صالح سے اعراض کی ہدایت کی گئی ہے.اور ابراہیم آپ کو اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ آپ کے ہاں حضرت اسماعیل کی طرح ایک عظیم انسان موعود فرزند پیدا ہونے والا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا :- يُخرج هَمُّهُ وَغَتُه دَرْحَةَ اسْمُعِيلَ نَاخْفِهَا حَتَّى يَخْرُجَ (تذكره مه ) ترجمہ : اس کا ریعنی مسیح موعود کا ناقل حتم اور غم اسماعیل کے درخت کو نکالے گا.پس اس کو مخفی رکھ کر یہاں تک کہ وہ نکل آئے " اسماعیل کے معنی ہیں 'خدا نے تیری سُن لی.اس میں اشارہ تھتھا کہ یہ اسماعیل آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہو گا.فاختہا میں ہدایت تھی کہ اس کی تشریح نہ کریں کیونکہ در اصل واقعات اس کی پوری تشریح کرنے والے تھے.چنانچہ
۲۲۱ واقعات نے اس الہام کو حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے متعلق ثابت کر دیا ہے آپ نے حضرت اسماعیل کی طرح اپنی والدہ کے ساتھ ایک وادی غیر ذی زرع میں ہجرت فرمائی اور شہر آباد کیا جس کا نام ربوہ ہے.اس اسماعیل کو درخت اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ اس کی شاخوں تلے لوگ روحانی راحت پانے والے تھے چنانچہ آپ کی شاخیں اب مشرق و مغرب میں پھیل کر دنیا کو روحانی سایہ سے مستفیض کر رہی ہیں جو در اصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فیض ہے.یزیدیوں کا اخراج فاروقی صاحب لکھتے ہیں :- پھر مرزا صاحب کو قادیان کے متعلق الہام ہوا اخرج مِنْهُ اليزيديون تذكره من ا یعنی یزید صفت لوگ اس بستی میں پیدا ہونگے.اب یزیدی کسی خاص قوم با قبیلہ کا نام نہیں بلکہ یزید پلید کی رعایت سے اس کے پیرو کاروں کو یزیدی کہا جاتا ہے.کوئی ایسا خلیفہ ہو گا جو یزید کی طرح خلافت حقہ اسلامیہ کا دعویدار ہوگا.پھر خدا تعالیٰ ایسے سامان کرے گا کہ یہ خلیفہ مع اپنے پیرو کے قادیان سے نکال دیا جائے گا جیسا کہ اخرج کے لفظ سے ظاہر ہے اس کی تخصیص کرنے کے لیے حضرت مرزا صاحب کو بلائے "دمشق" تذكره منشاء کا بھی انعام ہوا تھا.واضح ہو کہ یزید کا پایہ تخت دمشق تھا اسی قسم کی ایک بلا قادیان میں بھی پیدا ہو جائے گی.فتح حق عش ۲ - ۴۷) الہ جواب : حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ درج کر کے ازالہ اوہام
۲۲۲ کے حاشیہ میں لکھا ہے : به قصبہ قادیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مناسبت اور مشابہت رکھتا ہے" (ازالہ اوہام جات ہے پھر یہ الهام درج کرنے کے بعد آگے چل کر لکھتے ہیں :- خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور وہ اس بات کا شاہدال ہے کہ اس نے قادیان کو دمشق سے مشابہت دی ہے اور ان لوگوں کی نسبت یہ فرمایا ہے کہ یہ یزیدی الطبع ہیں یعنی اکثر وہ لوگ جو اس جگہ رہتے ہیں وہ اپنی فطرت میں یزیدی لوگوں کی فطرت سے مشاہر ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ یزیدیوں سے اس زمانے میں قادیان میں رہنے والوں میں سے حیدث فطرت انسان مراد لیے ہیں ہاں اخرج کے ایک لغوی معنے نکلانے گئے کے بھی ہیں اس صورت میں الہام أخرجَ مِنْهُ الہ زیدیوں کے بطور شگوئی یہ معنے بنتے ہیں کہ یہ یزیدی طبع لوگ قادیان سے نکالے جائیں گے.یزیدی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے دشمن تھے اس صورت میں اس پیشگوئی کے مصداق وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کو اہل بہت مسیح موعود سے دشمنی ہو اور اس دشمنی نے انھیں قادیان سے خارج کر دیا ہو.فاروقی صاب خوب جانتے ہیں کہ اہل بہت مسیح موعود کے دشمن کون ہیں." بلائے دمشق" تذکرہ صنے کا الہام اخرج منه الیزیدیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ مشق میں پیش آنے والی کسی مصیبت پر دلالت
۲۲۳ کرتا ہے.چنانچہ ہمارے ایک قابل قدر مبلغ مولانا جلال الدین شمس کو دمشق میں وہاں کے علماء کی سازش کی وجہ سے شدید زخمی کردیا گیا اور معجزانہ طور پر ان کی جان بچی.م، فاروقی صاحب آگے لکھتے ہیں :- ہے؟ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اپنی جماعت کے لیے اور پھر قادیان کے لیے دعا کر رہا تھا کہ یہ الہام ہوا زندگی کے فیشن سے دُور جا پڑے ہیں تذکرہ ماہ نَسَحِقُهُمْ نَسَحیقا یعنی ان کو اس گمراہی کی وجہ سے پیس ڈالا جائے گا.سو جس طرح قادیان سے اس محمودی جماعت کو اکھاڑ پھینکا گیا ہے وہ اب تاریخ رفت حق صدام من کا حصہ ہے." الجواب : ہمارے نزدیک پہلا العام احمدیوں کے لاہوری فریق سے تعلق ہے کیونکہ اسلامی زندگی کا خیشن قیام خلافت سے وابستہ ہے پس جن لوگوں نے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کو چھ سال تک خلیفہ اسے تسلیم کر کے خلافت ثانیہ کا انکار کیا دہی زندگی کے فیشن سے دُور جا پڑے ہیں.سحِقَهُمْ تَسحيقاً " کا الهام فاروقی صاحب نے جماعت احمدیہ کی قادیان سے ہجرت پر چسپاں کیا ہے مگر حضرت مسیح موعود نے اس دعا کا تعلق ان لوگوں سے بنایا ہے جو ماموروں کی راہ میں روک ہوتے ہیں.چنانچہ حضور نے اس کی تشریح میں فرمایا ہے.ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح چلی آتی ہے کہ اس کے موزوں کی راہ میں جو لوگ روگ ہوتے ہیں.ان کو ہٹا دیا کرتا ہے.
۲۲۴ یہ خدا تعالے کے بڑے فضل کے دن ہیں ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بڑھتا ہے " (تذکرہ م ) پس اس الہام کا جماعت کی ہجرت سے کوئی تعلق نہیں.بلکہ یہ مسیح موعود کی راہ میں روک ہونے والے منکرین سے متعلق ہے.ماسوا اس کے مومنوں کی جماعت کے لئے ہجرت کوئی عذاب نہیں ہوتا.ہجرت تو انبیاء اور ان کی جماعتوں کو کرنی پڑتی ہے اور مہاجرین کے لیے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ قرآن کریم میں مذکور ہے.وَمَن يُهَاجِرُ فى سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدَ فِي الْأَرْضِ مرا غما كَثِيرًا وَ سَعَة (سورة (نساء) کہ جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے وہ بہت فراخی اور وسعت پائیگا.چنانچہ یہ ہجرت جماعت احمدیہ کے لیے نہایت با برکت ثابت ہوئی ہے اور پاکستان میں ان کا ایک مضبوط مرکز دارالہجرت ربوہ میں قائم ہو گیا ہے.جہانی سے مبعلین تیار کر کے تبلیغ اسلام کے لیے تمام دنیا میں بھیجے جا رہے ہیں اور اس طرح اسلام اکنات عالم میں پھیلایا جا رہا ہے.پھر قادیان میں بھی خدا کے فضل سے ہمارا مرکز قائم ہے جس کے ذریعہ سارے مند دستان میں تبلیغ ہو رہی ہے اور اسی ہجرت سے وہ تین کو پیار کرے گا کی پر اسرا پیش گوئی کا پورا ہونا ایک اور رنگ میں بھی ظاہر ہو گیا ہے.اسلام کا پہلا مرکز تکہ تھا ، دوسرا مدینہ منورہ اور تیسرا قادیان در اب پونت مرکز المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کے ہاتھوں ربوہ میں بنایا گیا.ہے.پس آپ نے تین اسلامی مرکز دل کو چار بنا دیا ہے فالحمد للہ علی ولك - یہ ہجرت ضروری تھی کیونکہ حضرت مسیح موعود کو النام ہوا تھا : - داغ هجرت" "تذکرہ مشاء
۲۲۵ فاروقی صاحب کے والد ماجد ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے کسی قیمت لکھا تھا :- آج میاں محمد د صاحب کی گدی کے زمانہ میں جو کچھ ترتی اس فریق کو ہے.محض اس وجہ سے ہے کہ بنا بنا یا کام بنی بنائی جماعت بنی بنائی قومی جائیدادیں، سکول بورڈنگ روپیہ خزانہ سبھی کچھ مل گیا.راس وقت خزانے میں صرف چند آنے تھے.ناقل ) قادیان کا مرکز اور مسیح موعود کا بیٹا ہونا کام بنا گیا.قادیان کی گدی نہ ہوتی ھیچ موعود کا بیٹا نہ ہوتے اور کہیں باہر جا کر میاں محمود صبا اپنے عقیدہ تکفیر و نبوت کو پھیلا کر دکھاتے اور پھر نئے سرے سے جماعت بنتی اور ترقی ہوتی تو کچھ بات ہوتی.دپیغام صلح ۱۵ار دسمبر ۱۳۳ش) فاروقی صاحب آپ دیکھ لیں کہ ربوہ میں قادیان کی طرح مضبوط مرکز حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی توجہ سے بن گیا ہے یا نہیں.اگر اب بھی آپ لوگوں کو خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کی کامیابی نظر نہ آئے تو ہم بجز اس کے کیا کہہ سکتے ہیں ے گر نه بیند بروز شیره هستم چشمه آفتاب را چه گناه فاروقی صاحب کی یہ بات بالکل در داغ نے فروغ ہے کہ میاں محمود احمد نے وہاں (قادیان ناقل) سے برقع پہن کر عورت کا بھیس بدل کر جان بچائی.رفتم حق مش )
۲۲۶ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبا أن يحدث بكل ما سمع کہ انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے.ایک خواب اس کے بعد فاردتی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خواب بیان کیا ہے جس میں یہ ذکر بھی ہے.اتنے میں میاں محمود احمد کو دیکھنا اس کے ساتھ ایک انگریز ہے وہ ہمارے گھر میں داخل ہو گیا.پہلے اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پانی کے گھڑے رکھے جاتے ہیں پھر اس چو بارہ کی طرف آگے بڑھا جہاں میٹھے کو میں کام کرتا تھا گویا اس کے اندر جا کر تلاشی کرنا چاہتا ونذكره منه فتح حق ما ) ہے.افسوس ہے کہ اس خواب کا اگلا حصہ فاروقی صاحب نے نقل نہیں کیا.اور اس کی تشریح کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی ہے عمد ا چھوڑ دیا ہے خواب کا بعد کا حصہ یوں درج ہے :- ر اس وقت میں نے دیکھا کہ میر ناصر نواب کی شکل پر ایک شخص میرے سامنے کھڑا ہے اس نے بطور را شار مجھے کہا کہ آپ بھی اس چوبارہ میں جائیں انگریز تلاشی کرے گا اور میرے دل میں گذرا کہ اس میں صرف دو کا غذات پڑے ہیں جو نو تالیف کتاب کا مسودہ ہیں وہی دیکھنے لگا اتنے میں آنکھ کھل گئی ہے د تذکره مشه و مشوه
اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یہ نوٹ دیتے ہیں :- اس خواب میں محمود کا دیکھنا اور پھر میر ناصر نواب کا دیکھنا نیک انجام پر دلالت کرتا ہے.کیونکہ محمود کا لفظ خاتمہ محمود کی طرف اشارہ ہے یعنی اس انتہاء کا خاتمہ اچھا ہوگا.اور اپنی نصرت سے ابتلاء سے رہائی دے گا.آخر یہ انبلاء نشان کی صورت میں ہو جائے گا (تذکرہ مش." فاروقی صاحب نے اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور رڈ یا اس طرح درج کیا ہے :- " میں نے خواب میں دیکھا کہ قادیان کی طرف آتا ہوں اور نہایت اندھیرا ہے اور مشکل راہ ہے اور میں رحما بالغيب قدم مارتا جاتا ہوں.ایک غیبی ہاتھ مجھ کو مدد دیتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں نا دیا ن پہنچ گیا.جو مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے وہ مجھے نظر آئی.پھر میں سیدھی گلی میں جو کشمیریوں کی طرف سے آتی ہے چلا اس وقت میں نے اپنے تئیں سخت گھبراہٹ کے عالم میں پایا کہ گویا اس گھبراہٹ سے بے ہوش ہوتا جاتا ہوں.اور اس وقت بار بار ان الفاظ سے دعا کرتا ہوں.رب تجد رب تجل اے میرے رب اب تجلی فرما اے میرے رب اب بجای فرما (یعنی روشنی کر دے) اور ایک دیوانہ کے ہاتھ میں میرا ہاتھ
۲۲۸ ہے.وہ بھی رب تجل کہتا ہے.اور بڑے زور سے میں دعا کرتا ہوں اور اس سے پہلے مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے لیے اپنی بیوی کے لیے اور اپنے لڑ کے محمود کے لیے بہت دعا کی " ر تذکرہ ایڈیشن دوم ۱۳۳۵ ، ص۸۳۲ ) یہ دونوں خواب درج کرنے کے بعد فاروقی صاحب لکھتے ہیں :- اب ظاہر ہے کہ ان منذر الهاموں اور خوابوں کی وجہ سے حضرت مرزا صاحب خدا کے حضور سربسجود چلاتے ہونگے کہ اللہ تعالیٰ ان تلخ تقدیر وں کو ٹال دے اور رو برگشت اس کے بعد فاروقی صاحب حضرت اقدس کی تین دعائیں چنانچہ آپ کی فریاد سنو کہ کر نقل کرتے ہیں :- ۶۵۵ الف - ایلی ایلی نما سبقتى - تذكره منه ب - ربّ اتي مغلوب فانتصر تذکره ۶۵۵ ج.اسے ازلی ابدی خدا بیٹیوں کو پکڑ کے آ.تذکرہ 400 فاروقی صاحب کا اور پھر ان پر فاروقی صاحب یہ شرارت آمیز نوٹ لکھتے شرارت آمیز نوٹ ہیں کہ :- اس گریہ زاری پر اتنا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تسلی دی که اگر چه جماعت احمد یہ حضرت کے بیٹوں کے ہاتھوں خراب ہوگی مگر بالآخر اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کریگا کہ ان کی اصلاح ہو سکے چنانچہ اس پر الہامات
۲۲۹ ہوئے.اِن مَعِى رَبِّي سَيَهْدِينَ - يُصْلِحَ اللهُ جما عَنِي إِنشَاءَ اللهُ تعالى - إِنَّا رَادُّوهَا إِلَيْكَ و اذ كففت عن بنی اسراءیل - یعنی میرے ساتھ میرا رب ہے جو میری ہدایت کرے گا میری جماعت کی انشاء اللہ تعالیٰ اللہ اصلاح کر دیا اور ہم اس جماعت کو تیری طرف لوٹائیں گے جس طرح کہ رفرعون کے شر سے بنی اسرائیل کو بچا لیا.تذکرہ مش قلت ۲۸۳۳ رفتح حق ص نوٹ کی تردید واضح رہے کہ آخری الہامات تین الگ الگ ٹکڑے ہیں.جن کو فاروقی صاحب نے تذکرہ کے مختلف مقامات سے لیکر جوڑا ہے اور ان کا ترجمہ بھی اپنی عادت کے مطابق جوڑ توڑ کر کے غلط کیا ہے.ان الصامت میں ہرگز اس بات کا ذکر نہیں کہ احمدیت حضرت اقدس کے کسی بیٹے کے ہاتھوں خراب ہوگئی جس پر خدا تعالٰی نے ان الہامات کے ذریعہ نسلی دی.پس بیٹے کے ہاتھوں جماعت کا خراب ہونا قرار دنیا فاروقی صاحب کی اپنی قلبی حالت کا آئے ہے.الہام انا را دوها اليك کا تعلق ہرگز جماعت سے نہیں بلکہ یہ الہام محمدی بیگم صاحبہ سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ تذکرہ کے منہ سے ظاہر ہے.تذکرہ صفحہ ۷۶۴ پر صرف یصلح الله جماعتی انشاء اللہ تعالیٰ کا الہام درج ہے اس میں آپ کی جماعت کے بذریعہ مصلح موعود اصلاح پانے کا اشارہ ہے یہ نہیں کہ مصلح موعود کوئی الیسا مامور ہے جو سولھویں صدی کا محمد ہوگا اور ایک نئی جماعت بنائے گا.بلکہ مصلح موعود سے متعلقہ الہامات نہاتے ہیں کہ وہ جلد آئے گا اور اس کے ذریعہ سے آپ کی جماعت ہر طرح سے ترقی
۲۳۰ کریگی جیسا که هم مصلح موعود کی پیش گوئی میں مفصل بیان کر چکے ہیں.فاروقی صاحب کی ایک فاروقی صاحب نے اپنی کتاب کے منہ پر الہام کی غلط تشریح حضرت اقدس کا یہ الہام درج کیا ہے :- ان علما نے میرے گھر کو بدل ڈالا.میری عباد نگاہ میں ان کے چوٹھے ہیں.میری پرستش کی جگہ میں ان کے پیالے اور ٹھوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں.چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کر رہے ہیں.(ازالہ اوہام حاشیه مت راس پیر فاروقی صاحب نے یہ نوٹ دیا ہے :- حضرت مرزا صاحب کی اس تحریر کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حدیث لا نبی بعدی جو مختلف پیرانوں میں تقریباً چالیس مرتبہ حدیث میں آتی ہے اس کے خلاف خلیفہ صاحب اس حدیث کو کترتے ہوئے مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں " رفتح حق من حضرت مسیح موعود کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح میں اپنی تشریح لکھتے ہیں :- فرو ٹھوٹھیاں وہ چھوٹی سی پیالیاں ہیں جن کو مہندوستان میں سکوریاں کہتے ہیں.عبادت گاہ سے مراد اس الہام میں زمانہ حال کے اکثر مولویوں کے دل ہیں.جو دنیا سے بھرنے ہوئے ہیں " (ازالہ اوہام ص ) خدا تعصب کا برا کرے کہ جو الہام حضرت اقدس کے مخالف مولویوں
۲۳۱ کے متعلق تھا ، فاروقی صاحب حسب عادت اُسے اپنی جبلت کے تقاضے سے حضرت میسج موعود علیہ السلام کی تصریحات کو نظر انداز کر کے اُسے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ پر چسپاں کر رہے ہیں.پھر حدیث لانبی بعدی کی موجودگی میں تو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تئیں نبی قرار دیا ہے اور اپنی ظلی نبوت کو اس حدیث کے خلاف قرار نہیں دیا.آپ نے صرف مستقلہ نبوت کو اس حدیث کی رو سے ممتنع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو اشتہار ایک غلطی کا ازالہ جس کے شروع صنفی است میں یہ حدیث زیر بحث ہے.بالآ خر عرض ہے کہ فاروقی صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ پرسنگین الزامات لگا کر آپ کو بجائے مصلح کے معاذ اللہ مفسد قرار دے کر ایک رنگ میں دشمن اسلام لیکھرام کی نمائندگی کی ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف یہ لکھا تھا کہ آپ کے ہاں کوئی مصلح پیدا نہیں ہوگا اور اگر یہ یا بھی ہوا تو وہ مصلح موعود کے صفات کے بر عکس صفات رکھتا ہوگا - إِنَّا لِلَّهِ وَ ادْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - محمود بہشت میں اس باب کو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رویاء پر ختم کرتے ہیں جو اہل صفوت لوگوں کے لیے حضرت محمود اید اللہ الودود کے نیک انجام کی بشارت پر مشتمل ہیں گو اُن میں انذار کا پہلو بھی ہے :- حضور تحریر فرماتے ہیں : آج بوقت قریب دو بجے رات کے میں نے خواب میں دیکھا که میری بیوی آشفتہ حال کسی طرف گئی ہوئی ہے ہیں نے ان کو بلایا اور کہا چلو تمھیں وہ درخت دکھا آؤں پس میں باہر کی طرف لے گیا جب درخت کے قریب پہنچے ،
۲۳۲ جہاں قریب ایک باغ بھی تھا تو میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ محمود کہاں ہے ؟ اس نے کہا بہشت میں.پھر کہا قبر کے بہشت میں (تذکرہ ۸۳۴) اس العام میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نیک انجام کی طرف اشارہ ہے اور چونکہ آپ وفات پا کر ربوہ کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے اس لیے ربوہ کے اس مقبرہ کئے بہشتی مقبرہ ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے " حضرت محمود کے متعلق | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ایک اور رویاء تحریر فرماتے ہیں :- رو میں نے خواب میں دیکھا کہ اول گویا محمود کے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے میں نے بجھا دی ہے.پھر ایک اور شخص کے آگ لگ گئی.اس کو بھی میں نے بجھا دیا ہے پھر میرے کپڑوں کو آگ لگا دی گئی ہے اور میں نے اپنے اوپر پانی ڈال لیا ہے اور آگ بجھ گئی ہے.گویا آگئیں سب کجھ گئی ہیں مگر کچھ سیاہ داغ سا بازو پر نمودار ہے اور خیر ہے وافوض امری الی الله ر تذکره ۲۶ منگا ) اس سے مراد فتنہ کی آگ ہے جو حضرت محمود ابد الله الود و د ا ور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے خلاف بھڑکائی گئی اور خدا تعالیٰ نے اسے اپنے فضل درحمت کے پانی سے سرد کر دیا.ایک اور خواب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :- میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے ابھی وہ پیدا نہیں
۲۳۳ ہوا تھا، جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبردی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا پایا کہ محمود تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر شملہ ہے " تریاق القلوب مثل تذکرہ منگا ) مسجد سے مراد جماعت ہے اور مسجد پر محمود نام لکھا ہوا دیکھایا جانا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود کے جماعت کا امام ہونے کی طرف کشفی انشار ہے "
۲۳۴ باب ششم خلافت اور انجمن فاروقی صاحب نے مصلح موعود کی پیشگوئی کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الوصیت“ کے عنوان کے تخت اپنی کتاب فتح حق ص ۳ پر یہ لکھا ہے :- آپ نے دیعنی حضرت مسیح موعود نے ناقل) ایک صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد ڈالی اور اس انجمن کو خدا کے مقرر کرد خلیفہ ر یعنی خود مرزا صاحب) کی جانشین قرار دیا ، بلکہ ایک موقع پر یہ تحریر لکھ کر دی کہ میری رائے تو یہ ہے کہ جس پر انجمن کا فیصلہ ہو جائے کہ ایسا ہونا چاہیے اور کثرت رائے اس میں ہو جائے تو وہی امر صحیح سمجھنا چاہیئے اور وہی طعی ہونا چاہئیے.لیکن اس قدر میں زیادہ لکھنا پسند کرتا ہوں.کہ بعض دینی امور میں جو ہماری خاص اغراض سے تعلق رکھتے ہیں مجھے کو محض اطلاع دی جائے اور میں یقین رکھتا ہوں که به انجین خلاف منشا میرے ہرگز نہیں کریگی.لیکن صرف اختیا کا لکھا جاتا ہے کہ شاید وہ ایسا امر ہو کہ خدائی الی کا اس میں کوئی خاص ارادہ ہو اور یہ صورت صرف میری
۲۳۵ زندگی تک ہے اور بعد میں ہر ایک امرمیں اس انجمن کا اجتہاد کافی ہوگا یا مرزا غلام احمد علی الله عنه ۲۷ اکتوبر شاه فتح حق ص۳۳ الجواب : بے شک انجمن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جانشینی میں اُس سے متعلقہ بعض ذمہ داریاں اپنی زندگی میں ہی سپرد کر دی تھیں تا کہ تقسیم عمل کی وجہ سے آپ پر کام کا زیادہ بوجھ نہ رہے اور مذکورہ تحریر حضور نے انجمن کے لیے اس لیے لکھ کر دی تھی کہ تا انجمن کے ماتحت کام کرنے والے لوگ انجمن کے احکام کی پابندی کریں اور مہربانی نہ کریں.اورا اپنے بعد آپ نے انجمن کو سپرد کردہ امور سے متعلق ہی انجمن کے اجتہاد کو کافی قرار دیا ہے.اب دیکھنا چاہیے کہ انجمن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر رسالہ الوصیت اور نے نو را کتوبرہ کی اس تحریر پر کس طرح عمل کرتی ہے.فاروقی صاحب کی فاروقی صاحب تو لکھتے ہیں :.خلافت کے متعلق غلط بیانی " واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب کی جملہ تحریرات اور الہامات میں کہیں بھی اپنے بعد خلافت کے قیام کا تذکرہ نہیں " رفتح حق ص۳۳).الجواب: اگر یہ بات فاروقی صاحب کی درست ہوتی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر صدر انجمن احمدیہ اور جماعت احمدیہ کیوں حضرت اقدس کے بعد حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مسیح اور جماعت کا راجب الاطاعت امام تسلیم کرتی ؟
۲۳۶.فاروقی صاحب تو آج یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد صاحب کی جملہ تحریرات اور الہامات میں کہیں بھی اپنے بعد خلافت کے قیام کا تذکرہ نہیں" حالانکہ صد را نمین احمدیہ کے مہروں نے حضرت اقدس کی وفات پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وصیت کے مطابق ساری جماعت کو ایک شخص کے ہاتھ پر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جانشین اور اپنے لیے واجب الاطاعت امام سمجھتے ہوئے بیعت کر لینی چاہیئے.چنانچہ صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں نے یہ جیت حضرت خلیفہ المسیح الاول ض کے ہاتھ پر خود بھی کی اور جماعت سے بھی کرائی اور حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ کو واجب الاطاعت خلیفہ اسے تسلیم کیا بلکہ ان لوگوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ آپ کا حکم ہمارے لیے ایسا ہی ہو گا جیسا خود حضرت مسیح موعود کا حکم - پس صدر انجمن اور ساری جماعت کا ایک خلیفہ کے ہاتھ پر جمع ہو جانا اس بات کا عملی اقرار ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی صبیت یا تحریر کو پس پشت نہیں ڈالا گیا ، بلکہ انھیں ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کے واجب الاطاعت خلیفہ اسے تسلیم کیا گیا ہے.پس جب عمد رانجمن احمدیہ کے ممبروں نے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور ساری جماعت کا آپ کی خلافت پر اجماع ہو گیا اور صدر انجمن احمدیہ نے بھی اپنے اجتہاد سے حضرت خلیفہ اسیح الاول کو واجب الاطاعت مان لیا تو ۷ ۲ اکتوبر کی تحریر پر بھی عمل ہوگیا.کیونکہ صدر انجمن نے اپنے اجتہاد سے حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کو خلیفہ المسیح اور واجب الاعات امام تسلیم کر لیا - حدیث نبوی میں آیا ہے :- لَا تَجْتَمَعُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ کہ میری امت ضلالت پر جمع نہیں ہو سکتی.
۲۳۷ پس جماعت احمدیہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر بیا اجماع خافت پر ہوا ہے اس لیے اسی سنت کے مطابق دوسرے خلیفہ کے تقرر کے وقت یہ سوال اٹھانا ہرگز جائز نہ تھا کہ مسیح موعود کی جانشین صرف صدر انجمن احمدیہ ہے اور وئی شخص واحد اس کے ساتھ بطور خلیفہ جماعت میں برسر اقتدار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خلافت اولی کا قیام نہ صدر انجمن احمدیہ کی جانشینی کے خلاف سمجھا گیا تھا اور نہ ۲۷ اکتوبری شاہ کی تحریر کے خلاف.ٹے پس جب صدر انجمن احمدیہ بلکہ ساری جماعت چھ سال تک حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خلافت پر جمع رہی تو اب جماعت کو مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کا کسی اور راہ پر ڈالنا اور صرف انجمن کو ہی جانشین قرار دینا کسی طرح درست نہ تھا.صدر انجمن احمد یہ تو مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی آپ کی جانشین تھی.پھر خلیفہ اول رض کے زمانہ میں اُن کے واسطہ سے آپ کی جانشین رہی اور اس کے بعد خلافت ثانیہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُن کاموں میں جانشین رہی جو کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجمن کے سپرد کر رکھے تھے.خود صدر انجمن احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اجتہاد کر چکی تھی کہ آپ کے بعد آپ کا خلیفہ واجب الاطاعت ہونا چاہیئے اور ساری جماعت احمدیہ کا بھی حضرت خلیفہ مسیح الاول رض کی خلافت پر اجتماع ہو گیا.بلکہ پرانے احمدیوں کے لیے بھی صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں نے خلیفہ اس کی بیعت ضروری قرار دی.اور صدر انجمن احمدیہ کے ممبر خود بھی حضرت خلیفہ اسح الا دل کی بعیت کر کے آپ کے تابع فرمان ہو گئے.لہذا خلافت ثانیہ کے موقعہ پر پہلی خلافت سے مخلف قسم کی کوئی خلافت یا امارت جماعت میں قائم نہیں ہو سکتی تھی.
۲۳۸ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت میں صاف تحریر فرماتے ہیں :- یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ وہ اس سنت کو ظاہر کرتا رہا کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے كتب الله لا غلِينَ أَنَا وَرُسُلی رخدا نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے نبی غالب رہیں گے.ترجمہ ماخوذ از حاشیہ) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشا ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیا ہے اور جن راستبازیوں کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں.اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیا ہے.لیکن اس کی پورتی تکمیل اُن کے ہاتھوں سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دیگر کہ جو بظاہر ایک کامی کا خون اپنے ساتھے یکھتا ہے مخالفوں کو سہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دیدیا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ جن کے ذراجہ
۲۳۹ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(ا) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے.اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائیگی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بد قسمت مرتد ہوئے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بیوقت موت سمجھی گئی.اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرند ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالے نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دن کسی انجمن کو ناقل) دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے تھام لیا اور
۲۴۰ اس وعدہ کو پورا کر دیا جو فرمایا تھا كَيمَكِّنَنَّ لَهُمْ کردیا جو کی دينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَكَيْد لَنَّهُم مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنا.یعنی خون کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے " (الوصیت مفت) پھر آگے چل کر فرماتے ہیں :- » ھو اے عزیز وا جبکہ قدیم سے سنت اللہ ہی ہے که خدا تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا وہ مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لیے تم میری اس بات سے جوئیں نے تمھارے پاس بیان کی ریعنی اپنی وفات قریب ہونے کے متعلق الہامات - ثاقل غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمھارے لیے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمھارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ وائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی اند که انجمن جو پہلے ہی موجود تھی.ناقل ) جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمھارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمھارے ساتھ رہے گی " الوصیت حث مطبوعہ بہشتی مقبره )
۲۴۱ اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابو بکر رض کی مثال دیگر اور خلافت کے متعلق وعدہ والی آیت کا ذکر فرما کر جماعت کو تسلی دی ہے کہ خداقا لئے جماعت احمد یہ میں اپنی سنت قدیمہ کے مطابق آپ کی وفات کے بعد دوسری قدرت جماعت کے لیے بھیجد لگا.یہ دوسری قدرت جماعت میں قدرت ثانیہ کے نام سے بھی معروف ہے اور یہ خلافت ہی ہو سکتی ہے نہ کہ انجمن ، کیونکہ حضرت اقدس فرماتے ہیں وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی.جب تک میں نہ جاؤں.پس اس دوسری قدرت سے انجمن مراد نہیں ہو سکتی.کیونکہ انجمن تو آپ کی زندگی میں ہی آپ کے ساتھ موجود تھی.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے روح القدس پاکر کھڑا ہونے والا موعود بھی قدرت ثانیہ ہے مگر وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ ہی ہے.پس دوسری قدرت کے پہلے مظہر اول حضرت مولوی نورالدین خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرے منظر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے.فاروقی صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی وفات کے بعد تمام جماعت احمدیہ کا مولانا نورالدین علیہ الرحمہ کو خلیفہ المسیح مان لینا حقیقت میں حضرت صاحب کے حکم سب میرے بعد مل کر کام کرو پر عمل کرنے کے مترادف تھا " فتح من منا فاروقی صاحب پر گو یا حضرت اقدس کے حکم سب میرے بعد مل کر کام کرو حجت نامہ سے فاروقی صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ اس حکم کا
اشارہ خلافت کی طرف ہی تھا تبھی تو اس حکم کے ماتحت حضرت موی نانور الدین صاحب رضی اللہ عنہ وا جب الاطاعت خلیفہ ایسے تسلیم کیے گئے ورنہ مل کر کام تو انجمن بھی کر سکتی تھی.لیکن صدر انجمن احمدیہ اور جماعت احمدیہ نے بقول فاروقی صاحب اس فقرہ سے اجتھادا انجمن کی جانشینی نہیں سمجھی بلکہ خلیفہ کی جانشینی سمجھی ہے.پس یہ لکھ کر فاروقی صاحب نے اپنے خلاف خود صحبت قائم کر دی ہے کہ جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر نظام خلافت جاری ہوا اور یہ کہ خلیفہ مسیح الاول رضا کی خلافت پر حق خلافت تھی اور.رسالہ "الوصیت کے مطابق تھی.اور انجمن نے ان کی خلافت کو قبول کر لیا تھا.اور ایک خلیفہ کا جماعت میں مقرر ہونا منشاء الوصیت کے خلاف نہ تھا.فاروقی صاحب کی | فاروقی صاحب آگے لکھتے ہیں:.ایک غلط بیانی و اسلامی نقطۂ نگاہ سے حضرت مسیح موعود مجد دصدی چہار دہم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے.دیگر منی کی حیثیت میں بموجب الوصیت قدرت اولی ہو کر.ناقل ) اگر چہ مولوی نورالدین صاب خلیفہ ایسی کہلائے اور اکثر احمدیوں نے انہیں بلکہ سارے احمدیوں نے سوائے ایک کے.ناقل ) اُن کی بیعت بھی کی رجن میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب بھی شامل تھے.ناقل ) مگر مجنوں نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کی ہوئی تھی ان کے لیے دوبارہ صحت کرنا ضروری نہ تھا.(فتح حق ص۳۵) یہ آخری فقرہ جس پر ہم نے خط کھینچ دیا ہے صربحاً غلط ہے کیونکہ حضرت
خلیفہ اسح الاول ریعنی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت فیصلہ یہی ہوا تھا کہ نئے اور پرانے سارے احمدی آپ کی بیعت کریں.پس آپ کی بہت سارے احمدیوں کے لیے ضرور می قرار دی گئی تھی.اور اس پر قوم کا اجتماع ہو گیا تھا.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈرسیکرٹری انجمن احمدیہ نے جون نشاء کے اخبارید میں اطلاع از جانب صدرانجمن " کے عنوان کے تحت پہلے حضرت مسیح موعود کی نعش کو لاہور سے قادیان لائے جانے کا ذکر کرنے کے بعد یہ اعلان کرتے ہیں:.حضور عليه الصلواۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھنا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ الوصیت کے مطابق حسب مشور معتمدین صدر انجمن احمد به موجود قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود با جازت حضرت ام المومنين كل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کے جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی معتمدین میں سے ذیل کے اصحاب موجود تھے :- مولانا حضرت سید محمد احسن صاحب ، صاحبزاده بشیر الدین محمود احمد صاحب ، جناب نواب محمد علی خاں صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد علی صاحب ڈاکٹر مرزا لعقوب بیگ صاحب.ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب خلیفہ رشید الدین صاحب و خاکسارد خواجه
۲۴۴ کمال الدین) موت اگر چہ بالکل اچانک تھی.اور اطلاع دینے کا بہت ہی کم وقت ملا تا نیم انبالہ ، جالندھر، کپور نقله امرتسر، لاہور، گوجرانوالہ، وزیر آباد ، جموں ، گجرات ، بباله ، گورداسپور مقامات سے معزز اصحاب آگئے اوراني عليه الصلاة والسلام کا جنازہ ایک کثیر جماعت نے قادیار پر لاہور میں پڑھا.حضرت قبلہ حکیم الامت سلمہ کو مندرجہ بالا جماعتوں کے احباب اور دیگر کھل حاضرین قادیان نے جن کی تعدا د ا د پر دی گئی ہے بالاتفاق خليفة أسح قبول کیا.یہ خط بطور اطلاع کل سلسله ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس ط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خليفة السيح و المہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریر حاضر ہو کر بیعت کریں " خواجہ کمال الدین بلینڈر سیکرٹری انجمن احمدیہ یہی مضمون اخبار الحکم کے غیر معمولی پرچہ مورخہ ۲۰ مٹی شاہ میں شائع ہوا ہے.بہیت کے الفاظ یہ تجویز کیے گئے اور تین دفعہ کلمہ شہادت کے بعد یہ اقرار " آج میں نورالدین کے ہاتھ پر تمام ان شرائط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں جن شرائط سے مسیح موعود اور مہدی محمود بوت لیا کرتے تھے.نیز اقرار کرتا ہوں کہ خصوصیت سے قرآن واحادیث صحیحہ کے پڑھنے ، سننے اور اس
۲۴۵ پر عمل کرنے کی کوشش کرونگا اور اشاعت الاسلام میں جان ومال سے بقدر وسعت و طاقت کمر بستہ رہوں گا.اور انتظام زکواۃ بہت احتیاط سے کرونگا اور باہمی اخوان میں رشتہ محبت کے رکھنے میں اور قائم کرنے میں سعی کرونگا.اُسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِن كُلِّ ذَنْبِ کو أتُوبُ إِلَيْهِ رتين بار) رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَنْتُ بِذْنَبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُونِي فَإِنَّهُ لا يضر الثوبَ إِلا انت - ترجمہ : اے میرے رت میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.اور میں اپنے گنا ہوں کا اقرار کرتا ہوں میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.آمین ! درخواست بخدمت مولوی نورالدین صاحب مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر" لکھتے ہیں:.بوب حضرت بیوی صاحبہ حضرت ام المومنین سے دریافت کیا گیا ، تو انہوں نے بھی ہیں فرمایا کہ مولوی صاحب صوف سے بڑھ کر کون اس قابل ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس کا جانشین ہو.حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی اس پر اتفاق کیا.چنانچہ جب جنازہ باغ میں رکھا ہوا تھا اور سب دوست بھی جمع تھے تو اس وقت احباب کے اتفاق سے عاجز راقم محمد صادق علی اللہ عنہ ایڈیٹر بدر) نے کھڑے ہو کر مفصلہ ذیل تحریر پڑھی جو حضرت
۲۴ مولوی صاحب کی خدمت میں بطور درخواست کے تھی، بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على خاتم النبيين محمد المصطفى وعلى المسيح الموعود خاتم الاولياء أما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رساله الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المهاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں عالم اور انھی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوۂ حسنہ قرار دے چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعرے چه خودش بودے اگر ہر یک زامت نورد ہیں بودے ہمیں بودے اگر ہر یک پُر از نور یقیں بور ہے.سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی عجمات موجود اور آئیندہ نئے ممبر صبحت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا تھا." ر اخبار بدر ۲ جون شامت کا لم ا )
۲۴۷ اس درخواست کے پنجے معتمدین صد را نمین احمدیہ اور کئی دوسرے احباب کے نام درج ہیں جن میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور کے نام بھی شامل ہیں.خواجہ کمال الدین صاحب کے اعلان اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں پیش کی گئی اس درخواست سے ظاہر ہے کہ اس وقت صدر النجمین احمدیہ کے تمام حاضر ممبران نے پرانے احمدیوں کے لیے بھی بعیت اسی طرح ضروری قرار دی میں طرح نئے احمدیوں کے لیے ضروری سمجھی.لہذا فاروقی صاحب کا یہ کہنا کہ جنھوں نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کی ہوئی تھی ان کے لیے دوبارہ بیعت کرنا ضروری نہ تھا سراسر ایک باطل بات ہے.لہذا جب خلافت اولیٰ جماعت احمدیہ میں قائم ہو چکی اور ساری جماعت نے حضرت خلیفہ اسیح الاول ض کی سبعیت کر لی ، تو خلافت ثانیہ کے موقع پر بھی اسی طرح کی خلافت قائم ہونی چاہیے تھی.اور جن لوگوں نے جماعت احمدیہ میں سے خلیفہ المسیح الثانی روز کی سبیعیت نہ کی اور لاہور جا کر ایک نئی انجمن کی بنیاد رکھی اُن کو انکار خلافت اور نئی انجمن بنانے کا کوئی حق نہ تھا اور یہ نئی انجمن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین قرار نہیں دی جاسکتی تھی.کیونکہ حضور کی خود قائم کردہ انجمن سلسلہ کے مرکز قادیان میں موجود تھی.فاروقی صاحب کی ایک اور غلطی | فاروقی صاحب نے الہام برسر سه صد شمار این کار را کو از خود مصلح موعود کے متعلق قرار دے دیا ہے.حالانکہ تذکر طبع دوم ص اور ص۸۳ پر اس الہام کے مصلح موعود سے متعلق ہونے کے بارے میں کوئی نوٹ
۲۴۸ درج نہیں ہے.مصلح موعود کو خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود کے ہاں پیش گوئی شہداء کے بعد بموجب وعدہ الٹی نو سال کے اندر پیدا ہونا چاہیے تھا.سو وہ پیدا ہو گیا.یہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تھے جو حضرت مسیح موعود کے دوسرے خلیفہ اور جانشین قرار پائے.فالحمد للہ على دانك.بے شک قدرت ثانیہ مصلح موعود بھی ہے جس کا صاحب الہام ہونا بھی ضروری تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُسے نہ مامور من اللہ قرار دیا ہے اور نہ مامور من اللہ سمجھا ہے.اگر آپ اُسے مامور من اللہ سمجھتے تو پھر اسے اپنی موجودہ اولاد میں سے ہونے والا مرد خدا میسج صفت قرار نہ دیتے دیکھو تریاق القلوب حث بلکہ یہ فرماتے کہ وہ چوتھی صدی میں آئیگا.کیونکہ تین صدیاں تو میرا زمانه ماموریت ہے.پس الهام بر سر سه صد شمار این کار را سے صرف یہ مراد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ماموریت کا زمانہ تین سو سال ہے نہ کہ مصلح موعود کے ظہور کا وقت جس کے لیے بموجب وعدہ الہی نو سال کے اندر پیدا ہونا ضروری تھا.خلافت اولی کے خلاف بعض لوگوں کی ریشہ دوانیاں قدرت ثانیہ سے مراد حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے نزدیک بھی خلافتِ احمدیہ ہی ہے.چنانچہ آپ کی خلافت کے عہد میں آپ کی خلافت کے خلاف " اظہار الحق نامی دو ٹریکٹ ایک گمنام شخص کی طرف سے لاہور سے شائع ہوئے اور مہندوستان کے مختلف شہروں میں تقسیم کیے گئے.اس کے بعد اخبار پیام صلح لا ہور میں بالومنظورائی اور سید انعام اللہ مینجر پہ جام صلح نے ان ٹریکٹوں کے مضامین سے اپنا اتفاق ظاہر کیا.اور انصار اللہ کے نام ایک کھلی چٹھی شائع کر کے ان کو مورد الزام
۲۴۹ قرار دیا.تو اس پر انصار اللہ کی طرف سے جواب میں خلافت احمدیہ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا گیا.یہ رسالہ ۲۳ نومبر سالانہ کو شائع ہوا.اس کے ضمیمہ میں درج ہے :.وو اگر هم سیدنا و مولانا حضرت خلیفہ امسیح علیهما السلام کی اس مہربانی کا شکریہ بہا ادا کریں ، تو یہ بڑی نا قابل تلافی فرو گذاشت ہو گی ، جو کہ حضور نے رسالہ خلافت احمدیہ کے طول و طویل مسودہ کو اس ضعف پیری اور ازدحام مشاغل کے باوجود ایک ہی مجلس میں سارے کو شرف ملاحظہ عطا فرما کر اور اشاعت کی اجازت اور وعدہ دعا فرما کر اظہار فرمائی ضمیمہ خلافت احمدیہ صت) اخبار پیغام صلح کا اظہار الحق کی تائید میں مضمون شائع کر دنیا ایک ایسان تقول فعل تھا کہ یہ خلیفہ وقت کو پیغام جنگ دینے کے مترادف تھا.اظہارالحق کے ٹریکٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ " الوصیت“ میں قدرت ثانیہ کا جو وعدہ ہے اس سے خلیفہ مراد نہیں ہو سکتا.کیونکہ خلیفہ تو آدمی ہو گا اور حضرت صاحب نے تو لکھا ہے کہ قدرت ثانیہ تو ہمیشہ تمھارے ساتھ رہے گی " اس سوال کے جواب میں رسالہ خلافتِ احمدیہ میں ایک جواب یہ بھی دیا گیا تھا که قدرت ثانیہ کی پیشگوئی سے بھی خلفا کا سلسلہ مراد ہے اور با وجود تمھارے دھوکہ دینے کے تم اس کے اور کوئی معنے انہیں کر سکے.کیونکہ خود حضرت مسیح موعود یہ السلام نے فرما دیا ہے کہ قدرت ثانیہ کے معنی خلیفہ کے ہیں.اس کے ثبوت میں الوصیت کی وہ عبارت پیش کی گئی ہے جس میں دو قدرتوں کے ظاہر ہونے کا ذکر ہے اور جس میں دوسری قدرت کا مظہر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرار دیا گیا ہے.
۲۵۰ پس ہم فاروقی صاحب کو بھی رہی جواب دیتے ہیں جو جواب حضرت خلیفہ اسح الاول نے اظہار الحق ، لکھنے والے کو دلوایا تھا.معترض نے قدرت ثانیہ کے دائمی ہونے کی وجہ سے انکار خلافت کیا تھا.اس کے جواب میں خلافت احمدیہ کے جڑ پر لکھا گیا.ور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے.کے کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قدرت ثانیہ سے مراد جمہوری طاقت نہیں بلکہ بعض افراد کی طاقت ہے اور ان کی نسبت آپ نے خود لکھ دیا ہے کہ وہ خلفاء ہونگے " صلا اظہار الحق کے جواب میں جس میں میں اعتراضات حضرت خلیفہ اسیح الاول کی مخلافت کے خلاف درج تھے.انصار اللہ نے رسالہ " اطرا حقیقت لکھا : یہ وہ ریشہ دوانیاں میں جو حضرت خلیفہ المسیح الاول کے زمانہ میں خلافت کے مخالفین نے شروع کر دی تھیں.اس وقت تو مولوی محمد علی صاحب نے بھی پیغام صلح لاہور کے اس مضمون کو نا پسند کیا تھا اور لکھا تھا کہ اس تحریر میں خلیفہ اسی کی شان میں نہایت نامناسب اور بے ادبی کے الفاظ تھے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ :- ر میں صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے اپنے پانچ سالہ تجربہ کی بنا پر کہ سکتا ہوں کہ جن امور میں آپ ر خلیفہ اسیح ناقل حکم دیتے.تو کوئی انکار کرنے والا نہ تھا.آپ نے ہمیشہ معاملات کو مشورہ احباب کے سپرد کیا "
۲۵۱ پس مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک بھی حضرت خلیفہ مسیح الا دل کی پوزیشن یہ بھی کہ جماعت میں آپ کے حکم کا کوئی انکار نہ کر سکتا تھا ر دیکھیئے ضمیمہ خلافت احمدیہ صلا) - اظہار الحق ٹریکٹ لکھنے والے نے حضرت خلیفہ اسیح الاول سے متعلق لکھا تھا :- جناب مولوی نورالدین صاحب کی میرے دل میں عزت ہے ، مگر افسوس ہے کہ ایسا موتحد شخص اپنے امام کے کھلے کھلے منشاء کے خلاف ایک ہونہار قوم میں پیر پرستی کا بیج بونا چاہتا ہے.ملاحظہ ہو ٹریکٹ : قبض خاص کارنامے" مرتب کرده حضرت مولوی محمد اسمعیل فضا فاضل مرحوم کے جس میں اظہار الحق نامی اشتها و درج ہے جس سے ہم نے یہ فقرات لیے ہیں.یہی اعتراض پیر پرستی کا خلافت ثانیہ کے وقت غیر مبالعین دہراتے رہے ہیں.اظہار الحق ریکٹ ۲ میں یہ معترض لکھتا ہے.رو صدر انجمن کے بزرگ اراکین کی غفلت سے ساری قوم صرف جناب مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر بیت کرنے پر مجبور ہو گئی.اور بانی سلسلہ کی وفات کے ضطراب میں ای میت کو پس پشت ڈال دیا گیا کہ پھر سی گندہ دہن ٹریکٹ نویس جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مولوی نورالدین صاحب کی اس کے دل میں عزت ہے.نہایت گہ تاخا نہ طریق سے لکھتا ہے :- و ایک ایسا شخص جو عالم قرآن وحدیث ہے اور تجربہ کار بھی ہے کس شرعی بناء پہیہ آپے سے باہر ہو گیا.نہ مجرم
۲۵۲ کو جرم کا پتہ.نہ اُس پر فرد جرم لگائی گئی سکھ شاہی حکومت کی طرح ایڈیٹر اور دوسرے متعلقین پیغام صلح کو زبانی اور بذریعہ الفضل، ذلیل و خوار کرنا شروع کر دیا کیا یہی انصاف اسلام سکھاتا ہے.جس پر احمد سی قوم کو چلانا مقصود ہے.پھر یہ لکھتا ہے :- صرف پانچ سال کی پیر پرستی نے ہماری قوم سے اخلاقی جرات چھین لی ہے." ان دونوں ٹریکٹوں کے تمام دسارس کا جواب حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل علیہ الرحمہ نے رسالہ بعض خاص کارنامے میں دیا ہے.مگر افسوس کہ خلافت ثانیہ کے قیام پر مولوی محمد علی صاحب نے بھی گنام ٹریکٹ لکھتے والے کی طرح جماعت احمدیہ پر پرستی کا الزام لگا دیا.فاروقی صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جا سیاں نہ ء کی تقریر میں سے ایک فقرہ لکھا ہے :.رو میاں صاحب نے یہاں تک تعلی سے کام لیا کہ اگر کوئی ان پر سچا اعتراض بھی کرے تو وہ موردِ عذاب ہوگا." ر فتح حق صا) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا منشا تو ایسا کہنے سے یہ تھا کہ انسان اعتراضات کرنے سے بچے.چنانچہ خود مولوی محمد علی صاحب نے ایک لمبے تجربہ کے بعد شراء میں اپنے فریق کو یہ ہدایت دی کہ : - خدا نے......کسی کی غیر حاضر ہی میں اس کے خلاف
۲۵۳ سچی بات کرنے سے بھی روک دیا.مزید فرماتے ہیں :.(پیغام صلح ۲۷ را پریل ۱۹۳۶ء) عیب شماری کی بیماری کو چھوڑ دو.اس سے خدا کی پناہ مانگو اور ان باتوں سے الگ ہو جاؤ جو جماعت کو کمزور کرنے والی ہیں.دنیا میں کوئی کام نہیں.جہاں نقص نہ ہو.اگر اس بات میں لگے رہو گے تو کام کیا کرو گے" نیز آگے چل کر فرماتے ہیں :- اعتراض کرنے کو مقصد قرار دے لو گے تو اصل کام تو گیا.پس نکتہ چینی سے بچو اور قوم کے خلاف ہر بات کو رد کردو پھر پیام صلح اور منکرین خلافت کے اکا بر جو قادیان میں گرمی بن جانے اور پر پرستی کا الزام دیا کرتے تھے لیکن جس امر کو یہ لوگ پیر پرستی قرار دیا کرتے تھے مجھے تجربہ کے بعد اسی کی مولوی محمد علی صاحب بر سر مشیر خطبہ جمعہ میں یون تلقین فرماتے ہیں :- رو نظام کی بنیاد ایک ہی بات پر ہے.کہ اسمعوا واطیعوا سنو اور اطاعت کرد - جب تک به روح نہ پیدا ہو جائے.جب تک تمام افراد جماعت ایک آواز پر حرکت پر نہ آجائیں جب تک تمام اطاعت کی ایک سطح پر نہ آجائیں
۲۵۴ ترقی محال ہے " خطبه مندرجه پیغام صلح ۲۷ فروری ۴۹۳۶) اور خود پیغام صلح لکھتا ہے :- جب تک عنان ایسے امیر کے ہاتھ میں نہ ہو جس کے ہاتھ پر عملی طور پر تن من دھن کی قربانی کی بیعت کی ہو مستقل اور پائندہ ترقی محال ہے.یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ ایک راجب الطاعت امیر کے ہاتھ میں جماعت کی باگ ڈور ہو.تمام افراداس کے اشارہ پر حرکت کریں.سب کی نگاہیں اس کی ہونٹوں کی جنبش ہیر ہوں.جونہی اس کی زبان فیض ترجمان سے کوئی حکم مترشح ہو سب بلا حیل حجت اس پر عمل پیرا ہوں (پیغام صلح ، فروری ۱۹۳۶) جب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جماعت کو ایسی ہدایات دیتے تھے.تو یہ امران لوگوں کے نزدیک پیر پرستی ہوتا تھا.لیکن ۲۳ سال کے تجربہ کے بعد جب یہ امران لوگوں کی سمجھ آگیا.کہ واجب الاطاعت امیر کے بغیر صبح تنظیم قائم نہیں ہو سکتی.تو ان کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو واجب لامات امیر قرار دینے کی کوششیں ہونے لگیں.مگر جماعت کا واجب الاطاعت امیر تو خلیفہ ہی ہو سکتا ہے.اب پچھتائے کا ہوت ، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ایک اہم واقعہ کا ذکر :.ایک اہم واقعہ کا ذکر اس موقعہ پر از بس ضروری ہے.حضرت خلیفہ مسیح الاول رض کے زمانہ میں جب بعض لوگوں کے متعلق جماعت میں یہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں.کہ وہ خلیفہ ایسے طلال کی پوزیشن کو گرانے کی
۲۵۵ میں ہیں.اور انجمن کی جانشینی کو ان کی خلافت پر فوقیت دیتے ہیں.تو حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ نے بعض سوالات لکھ کر حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کئے.اور ان کے سلسلے میں آپ سے مسئلہ خلافت پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی حضرت خلیفہ اسح رضہ نے یہ سوالات باہر کی جماعتوں میں بھیجوا دیئے.جب جماعتوں کی طرف سے ان کے جوابات آگئے.تو حضرت خلیفہ المسیح الاول نے ایک تاریخ مقرر کی جس میں بیرونی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی بلایا.تاکہ ان سے مشورہ لیا جائے.اس موقعہ پر لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ نے اپنے مکان پر ایک جلسہ کیا جس میں جماعت لاہو کو بلا یا گیا.کہ سلسلہ پر ایک نازک وقت ہے کہ اگر دور اندیشی سے کام نہ لیا گیا.تو سلسلہ کی تباہی کا خطرہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے.اگر یہ بات رہی تو جماعت تباہ ہو جائے گی.اور سب لوگوں کے اس امر پر دستخط لیے گئے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمان کے مطابق انجمن ہی آپ کی جانشین ہے.چونکہ لاہور کی جماعت کو یہ نہایا گیا تھا کہ حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھی یہی خیالات ہیں اِس لیے اکثر نے اس پر دستخط کر دیئے.مگر قریشی محمد حسین نے دستخط نہ کیے اور کہا کہ ہم ایسے محضر نامہ پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں.ہم جب ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اور وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیت رکھنے والا ہے تو جو کچھ وہ کینگا ہم دہی کرینگے.تمھارے خیالات کی ہم تصدیق نہیں کریں گے.ان کی وجہ سے ایک دوا در دوست بھی دستخط کرنے سے رک گئے جب سب نمائندے قادیان میں جمع ہو گئے تو حضرت خلیفہ اول رضہ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا :-
۲۵۶ " تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اُس حقه و مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہوا ہوں جو تم لوگوں کا بنایا ہوا ہے بلکہ میں اپنے پیر کی مسجد میں کھڑا ہوا ہوں.دلوگوں نے جب حضرت خلیفہ اول رض کے یہ خیالات سنے تو گو جماعت کے بہت سے لوگ خواجہ صاحب وغیرہ کے ہم خیال ہو کر آئے تھے مگر اُن پر اُن کی غلطی واضح ہو گئی اور انہوں نے رونا شروع کر دیا.اور بعض تو زمین پر تڑپنے لگے.اس وقت مسجد ماتم کدہ معلوم ہوتی تھی.پھر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا )....کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دنیا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے.یہ کام تو ایک ملاں بھی کر سکتا ہے.اس کے لیے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھو کتنا بھی نہیں.بیعت 3 ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی الخراف نہ کیا جائے " آپ کی اس تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کے دل صاف ہو گئے اور ان پر واضح ہو گیا کہ خلیفہ کی اہمیت کیا ہے.تقریر کے بعد آپ نے خواجہ کمال الدین اور مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ وہ دوبارہ بیعت کریں.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میں اُن لوگوں کے طریق کو بھی پسند نہیں کرتا جنہوں نے خلافت کے قیام کی تائید میں جلسہ کیا ہے اور فرمایا جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ الگ
جلسہ کرتے ہم نے اُن کو اس پر مقر نہیں کیا تھا.پھر جبکہ ندا نے مجھے یہ طاقت دی ہے کہ میں اس فتنہ کومٹا سکوں تو انہوں نے یہ کام خود نخود کیوں کیا.چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب سے بھی جو اس جلسہ کے بانی تھے ، آپ نے فرمایا آپ دوبارہ سعت کریں.غرض خواجہ کمال الدین صاحب ، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ يعقوب علی صاحب سے دوبارہ بیعت لی گئی.مجلس کے خاتمہ پر مسجد سے نیچے اُترتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ یہاں میری بہت ہتک ہوئی ہے، ہمیں اب قادیان میں نہیں رہ سکتا.یہ بات معلوم کر کے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم حضرت خلیفہ اسح الاول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ جلدی سے مولوی محمد علی صاحب کو منوا لیں.اس پر حضرت خلیفہ المسیح الاول نے فرمایا ' ڈاکٹر صاحب !میری طرف سے مولوی محمد علی صاحب سے کہہ دیں کہ اگر انہوں نے کل جانا ہے تو آج ہی قادیان سے تشریف لے جائیں خلیفہ رشید الدین صاحب نے جب یہ سنا تو اُن کے ہوش اُڑ گئے.اور کہا کہ میرے نزدیک تو بڑا فتنہ ہوگا.حضرت خلیفہ الاول رضی اللہ عنہ نے فرما یا یہ ڈاکٹر صاحب ! میں نے جو کچھ کہنا تھا کہ دیا.اگر فتنہ ہوگا، تو میرے لیے ہوگا.آپ کیوں گھبراتے ہیں.انہیں کہ دیں کہ وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں تو کل کی بجائے آج ہی چلے جائیں.نوٹ: یہ مضمون خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک بیان فرمودہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ سے مختصر کر کے نقل کیا گیا ہے.اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب پر خواجہ کمال الدین صاحب کا رنگ چڑھ گیا اور اختلافی مسائل متعلق نبوت مسیح موعود اور کفر اسلام پیدا ہوئے.
۲۵۸ شراء اور شام تک صرف خلافت کا جھگڑا تھا.کفر د اسلام اور نبوت کے مسائل باعث اختلاف نہ تھے.اس وقت ان لوگوں کے دلوں میں اس خیال نے زور پکڑا کہ ایک شخص کو خلیفہ مان کر اور اس کی اطاعت کا اقرار کر کے ہم سے غلطی ہوئی ہے.اب کسی طرح یہ غلطی دور کر دینی چاہیئے.نا جماعت دوبارہ اس غلطی کا از تکاب نہ کرے.چنانچہ خلافت ثانیہ کے قیام کے وقت ان لوگوں نے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل رض کی وصیت سے انحراف کر کے خلافت ثانیہ کا انکار کردیا.نیز سلسلہ احمدیہ میں خلافت کے جاری رہنے سے بھی انکار کر دیا.انا للہ وانا اليه راجعون حضرت خلیفہ ماسح الاول کا ایک پر شرکت اعلان اپنے ایام خلافت میں حضرت خلیفہ مسیح الاول رضہ نے یہ پر شوکت اعلان فرما دیا تھا :- " مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں.اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسنی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت نہ کہ کی ردا ء کو مجھ سے چھین لے" ( بدر - ۴ جولائی ۱۹۱۲ شه) اس بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الاول مخلیفہ کے غزل کے قائل نہیں تھے.نیز اعلان فرمایا :- اس نے ریعنی خدا تعالے نے ناخل نہ تم میں سے کسی
۲۵۹ نے مجھے خلافت کا کرتہ پہنا دیا.میں اس کی عزت اور ادب کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں.باوجود اس کے کہ میں تمھارے مال اور تمھاری کسی بات کا بھی روادار نہیں اور میرے دل میں اتنی بھی خواہش نہیں کہ کوئی مجھے سلام کرتا ہے یا نہیں.تمھارا مال جو میرے پاس نذر کے رنگ میں آتا تھا.اس سے پہلے اپریل تک میں اسے مولوی محمد علی کو دیدیا کرتا تھا.مگر کسی نے غلطی میں ڈالا اور اس نے کہا کہ یہ ہمارا روپیہ ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں.تب میں نے محض خدا کی رضاء کے لیے اس روپیہ کا دینا بند کر دیا.کہ میں دیکھوں کہ یہ کیا کر سکتے ہیں.ایسا کہنے والے نے غلطی کی ، نہیں بے ادبی کی.اسے چاہیے کہ وہ تو بہ کرے.اب بھی تو بہ کرے.اب بھی تو بہ کرے.ایسے لوگ اگر تو یہ نہ کریں گے تو اُن کے لیے اچھا نہ ہوگا.( بدر یکم فروری ۱۹۱۷ئه صت ) پھر لاہور میں حضرت خلیفہ الاولی رض نے تقریر فرمائی کہ :- ر خلافت کمیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں.تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.نہ تم کو کسی.نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مرزنگا تو پھر دہی کھڑا ہوگا، جس کو خدا چاہے گا.اور خدا اسے آپ کھڑا کرے گا
٢٦٠ تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کیے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمھارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں.اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے.تو یا درکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تم کو مرند دی کی طرح سزا دیں گے " ( بدر جولائی 2) ایک اور اہم واقعہ حکیم مولوی فضل دین صاحب کی وصیت میں انجمن کو بھیرہ میں ایک حویلی ملی تھی حضرت خلیفہ المسیح الاول منہ کے حضور کھیرہ کے ایک شخص نے ایک خاص وجہ کی بنا پر یہ حویلی اسے رعایت سے دئے جانے کی درخواست کی.حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اسے رعایت سے یہ حویلی دیا جانے کا ستحق سمجھا اور اسے بازاری نرخ سے کم قیمت پر دیا جانے کا ارشاد فرمایا.لیکن مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ہم خیال ممبران انجمن نے اس میں اختلاف کیا.جس پر حضرت خلیفہ ایسے الاول رض نے اعلان فرما یا کہ میں ان لوگوں کو عید الفطر نک موقع دیتا ہوں اگر انھوں نے اپنی اصلاح کرلی تو بہتر ورنہ میں اس عید کے روز انھیں جماعت سے خارج کر دونگا.آخر عید کے موقع پر ان لوگوں نے معافی مانگ لی جس پر حضور نے درگذر فرمایا.اور خطبہ عید الفطر میں اس بات کا اعلان فرمایا اور یہ بھی اس خطبہ میں بیان فرما یا کہ :.حضرت صاحب کی تصنیف میں معرفت کا ایک نکتہ
M41 ہے وہ تمھیں کھول کر سناتا ہوں.جس کو خلیفہ بنانا تھا اس کا معاملہ تو خدا کے سپرد کر دیا اور اُدھر جوده اشخاص ا معتمدین صدر انجمن احمدیہ ناقل ) کو فرمایا کہ تم بیانیت مجموعی خلیفہ مسیح ہو.تمھا را فیصلہ قطعی فیصد ہے اور گورنمنٹ کے نزدیک بھی وہی قطعی ہے پھر ان چودہ کے چودہ کو باندھ کر ایک شخص کے ہاتھہ پر سویت کرا دی کہ اس کو اپنا خلیفہ مانو.اور اس طرح تھیں اکٹھا کر دیا.پھر نہ صرف چودہ کا بلکہ تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہو گیا.اب جو اجماع کے خلاف کرنے والی ہے وہ خدا تعالیٰ کا مخالف ہے...پس تم کان کھول کر سنو.اب اگر اس معاہدہ کے خلاف کرو گے تو نا عُقَبَهُمُ نفاقا في قلوبم کے مصداق ہو گے.میں نے تمہیں یہ کیوں سنایا اس لیے کہ تم میں بعض نا فہم ہیں جو بار بار کمزوریاں دکھاتے ہیں.میں نہیں سمجھتا.کہ وہ مجھے سے بڑھ کر جانتے ہیں " خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس کرتے کو ہرگز نہیں اتار سکتا.اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہو جاؤ تو ہمیں بالکل تمھاری پرواہ نہیں کرتا اور نہ کرونگا.تم معاہد ہ کا حق پورا کرو.پھر دیکھو
۲۶۲ کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو....مجھے ضرورتاً کچھ کہنا پڑا ہے.اس کا میرے ساتھ وعد ہے کہ میں تمھارا ساتھ دونگا.مجھے دوبارہ بیعت لینے کی ضرورت نہیں.تم اپنے پہلے وعدہ پر قائم رہو ، ایسا نہ ہو کہ نفاق میں مبتلا ہو جاؤ......جلد بازی سے کوئی فقرہ منہ سے نکالنا آسان ہے مگر اس کا نکلنا بہت مشکل ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تمہاری نسبت نہیں، بلکہ اگلے خلیفہ کے اختیارات کی نسبت بحث کرتے ہیں.مگر تمھیں کب معلوم کہ وہ ابو بکر اور مرزا صاحب سے بھی بڑھ کر آئے........مجھے ایک دفعہ شیخ صاحب نے کہا تھا کہ میں نے یہاں سکونت اختیار کرلی ہے.میں تمھاری نگرانی کرونگا تو میں نے کہا تھا قسم اللہ دو فرشتے میرے نگہبان پہلے ہی سے مقرر ہیں.ایک تم آگئے.میں آج کے دن ایک کام کرنے والا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے مجھے روک دیا.اور میں اس کی مصلحتوں پر قربان ہوں.......میں ایسے لوگوں کو جماعت سے الگ نہیں کرتا کہ شاید وہ سمجھیں.پھر سمجھے جائیں.پھر سمجھے جائیں.ایسا نہ ہو کہ میں ان کی ٹھوکر کا باعث بنوں.میں اخیر میں پھر کہتا ہوں کہ آپس میں تباغض ونتخاب کا رنگ چھوڑ دو.کوئی امر امن کا یا خون کا پیش آجاد ہے
عوام کو نہ سناؤ.ہاں جب کوئی امرطے ہو جائے ، تو بے شک اشاعت کرو.اب میں تھیں کہتا ہوں کہ یہ باتیں تمہیں ماننی پڑینگی اور آخر کہنا پڑیگا.اتینا طائعین جو کچھ میں کہتا ہوں تمھارے پھیلے کی کہتا ہوں.اللہ تعالے مجھے اور تمھیں ہدایت پر قائم رکھے اور خاتمہ بالخیر کرے آمین (خطبہ عید الفطر مندرجہ اخبار بد ر ۱۲ اکتوبر نشاء) ستر الخلافہ کی عبارت کا مفہوم | فاروقی صاحب لکھتے ہیں :- حضرت مسیح موعود کے نزدیک خلفاء دو قسم کے سوتے ہیں.ایک وہ جو آیت استخلاف کے ماتحت ہوتے ہیں.دوسرے وہ جو آیت استخلاف کے ماتحت نہیں ہوتے.اور کتاب سر الخلافہ میں جن پر حضرت علی رض کی خلافت کا ذکر کیا ہے جس میں امن نہیں تھا.اس لیے حضرت علی رض خلیفہ تو بے شک تھے مگر آیت استخلاف کے ماتحت نہ تھے.چونکہ انتخاب خلیفہ خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا اس لیے اس بنا پر اسے معزول نہ کر سکنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے (فتح حق ص ) واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب سر الخلافہ شیعہ اصحاب کی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے لکھی تھی.اور اس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بلا فصل
ثابت کیا ہے اور دوسرے خلفاء پر اُن کی افضلیت کا ثبوت دیا ہے اس میں یہ ثابت کرنا مقصود نہیں تھا کہ دوسرے خلفاء کی خلافت کلی طور پر آیت استخلاف کے ماتحت نہیں تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سر الخلافہ کے من پر بطور الزام خصم تحریر فرماتے ہیں :- حضرت صدیق رضہ کی شان تمام صحابہ میں سے اعظم وارفع تھی اور بلا ریب وہی تخلیفہ اول ہیں اور انہی کے بارہ میں آیات خلافت نازل ہوئی تھیں.اور اگر تم کسی اور کو اُن کے زمانہ کے بعد اس کا مصداق سمجھتے ہو تو واضح پیشگوئی لاؤ.اگر تم سچے ہو.(ترجمه از عربی عبارت) اگر اس عبارت کے یہ معنی لیے جائیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا ان کے بعد اس موعودہ خلافت کا کوئی مصداق نہیں تو یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری تحریرات کے صریح خلاف ہے.حضور شہادۃ القرآن میں آیت ہذا نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :- به آیت در حقیقت اس دوسری آیت انا نحن نزلت الذكر وانا له لحافظون کے لیے بطور تفسیر کے واقعہ ہے اور اس سوال کا جواب دے رہی ہے کہ حفاظت قرآن کیونکر اور کسی طور سے ہوگی.سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کیں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہوں گا.ر شهادة القرآن ص ۴ پھر آیت استخلاف کے ساتھ آیت ویزال الذين كفر و اتصيبهم بما صنعوا قارعة اور تحل قريباً من دارهم حتى يأتى وعد الله ان الله
۲۶۵ لا یخلف المیعاد اور آیت دما كنا معذبين حتى نبعث رسولا دچ کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :- ان آیات کو اگر کوئی شخص قاتل ، در غیر کی نظر سے دیکھے تو میں کیوں کر کہوں کہ وہ اس بات کو نہ سمجھ جائے ، کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لیے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہ دنیا کیا معنی رکھتا تھا او خلافت را شده صرف نہیں برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لیے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کے لیے ابواب سعادت مفتوح رکھے " ر شهادة القرآن منه) پس شیعوں کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سر الخلافہ میں صرف یہ بتایا ہے کہ اگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی خلیفہ اول اور اس آیت کا اکمل مصداق تسلیم نہ کیا جائے تو حضرت علی کی خلافت ثابت ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس آیت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ خدا خلاقت کے ذریعہ خوف کو امن سے بدل دیگا اور حضرت علی اس امن والے حصہ کے مصداق ثابت نہیں ہوئے.کیونکہ ان کے زمانہ میں بدامنی تو پیدا ہوئی مگر امن قائم نہ ہو سکا.ویسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت علی رضا کی خلافت کو برحق تسلیم کرتے ہیں بلکہ آپ نے اس کتاب میں دعا کی ہے اللهُ وَالِ مَنْ والاهُ وعَادٍ مَنْ عَادَال : رسره الخلافۃ ص۳) یعنی اسے اللہ جو حضرت علی سے محبت رکھتا ہے تو اُس سے
۲۶۶ وَ الْحَقُّ محبت رکھ اور جو حضرت علی رضہ کا دشمن ہے تو اس کا دشمن ہو جا.اور آپنے ستر الخلافہ میں صاف لفظوں میں یہ بھی لکھا ہے :- اَنَّ الْحَقِّ كَانَ مَعَ الْمُرْتَضى وَمَنْ قَاتَلَهُ فِي وَقْتِهِ فَبَغَى وَطَغَى لَكِيَّ خلافته مَا كَانَ مِصْدَاقَ الاَ مَنِ الْمُبَشِّ بهِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ أَدْذِى الْمُرُ تَضَى مِنَ الأقتران الخر رسة الخلافة منت ) اتی ارابه ترجمہ : بچھی بات یہ ہے کہ حق علی المرتضیٰ کے ساتھ تھا اور جس شخص نے آپ کے وقت میں آپ سے جنگ کی ہے اس نے بغاوت اور سرکشی کی ہے.لیکن ان کی خلافت خدا کی طرف سے بشارت دیئے گئے امن کی مصداق نہ تھی.بلکہ مرتضیٰ اپنے ہم عصروں کے ہاتھوں ایذا دیئے گئے.پس ظاہر ہے کہ حضرت اقدس کا اصل مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معا بعد آیت استخلاف کے اکمل مصداق حضرت ابو بکر صدیق رنہ تھے ، اور اول مصداق بھی دہی تھے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں کہ : آیات استخلاف میں خدا تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور عورتوں سے وعدہ کیا ہے کہ ضرور ان میں سے بعض چنین خدا تعالیٰ کے فضل درحم سے خلیفہ بنائے جائیں گے اور خدا ان کے خون کو امن سے بدل دیگا.فَاذَا امْرُ لا نجد مصداقه عَلى وَجْهِ أَنَّمَ وَ اكمل الأخَلَافَةَ الصديق - ( الخلافة مث) یعنی یہ وہ امر ہے جس کا مصداق اتم اور اکمل طور پر ہم حضرت صدیق
کی خلافت کو پاتے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ دوسرے خلفائے راشدین کی خلافت کے آیت استخلاف کے ماتحت ہونے سے انکار نہیں کیا گیا.ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاً بعد اس کا اکمل اور اتم مصداق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرار دیا ہے پس خلفائے راشدین کے عزل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حضرت ابو بکر رض کے افاروقی صاحب نے ذیل کا اقتباس حضرت ابو بکر رض پہلے خطبہ کا مفہوم کے خطبہ سے عزل خلفاء کو جائز ثابت کرنے کے لیے ہوں دیا ہے کہ :.اسے مسلمانو! میں تمھارے جب امت کا ایک فرد ہوں یمیں صرف شریعت کی پیروی کرنے والا ہوں.میں اس میں کوئی نئی چیز داخل نہیں کر سکتا.اگر میں اس شریعت پر سیدھا چلتا رہوں.تو میری اتباع کرنا اور اگر میں اس سے ادھر اُدھر ہو جاؤں تو تم مجھے سیدھا کر دنیا " ر فتح حق ص۴۳ ۴۴۰ واضح ہو کہ اس اقتباس کا پہلا حقہ سراسر انکسار ہی مبنی ہے اور اس سے اگلا حصہ اس ٹھوس حقیقیت پر مشتمل ہے کہ خلیفہ وقت شریعیت میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتا.لہذا آپ کا یہ فقرہ کہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں تو تم بھی اطاعت کرتے رہو.اور اگر میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت نہیں صرف یہ تبانے کے لیے کہ میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں اور انہی کے احکام میں تم پر میری اطاعت واجب ہے.
FYA فاروقی صاحب ! آپ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو خدا کے مامور خلیفہ تھے آپ اس امر سے ہر گز انکار نہیں کر سکتے.مگر آپ کی بیعت کی شرائط پڑھ کر دیکھو تو اس میں اطاعت در معروف کی ہی شرط پاؤ گے.بلکہ قرآن مجید میں ہے کہ خواتین نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو اس میں خدا تعالیٰ نے بھی یہ ہدایت کی تھی کہ وہ یہ اقرار کریں ، لا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوبِ : (سورہ ممتحنہ ع ۲) کہ اسے بنی معروف کاموں میں وہ تیری نافرمانی نہیں کریں گی.تو کیا اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیح موعود یہ ہوئی علیہ السلام کوئی بڑا کام بھی بتا سکتے تھے جس کی وجہ سے یہ شرط لگائی گئی ہیں ایسی عبارتوں سے خلفائے راشدین کے عزل کا استدلال بالکل نا درست ہے.جب رسالہ الوصیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافت کو خدا کی قدرت ثانیہ قرار دیا ہے تو خدا کی قدرت کو کون معزول کر سکتا ہے ؟ شیخ مصری صاحب کا جماعت ہر سچی جماعت میں کچھ منافقین بھی ہوتے سے احراج ہوا تھا ہیں.فاروقی صاحب نے شیخ عبد الرحمن مصری - کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بیعت سے علیحدہ ہوئے (ط) حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جماعت میں ایک عرصہ تک منافقانہ طور پر رہے اور ان کے نفاق کا علم ہونے پر انھیں جماعت سے خارج کر دیا گیا تھا.وہ آپ علیحدہ نہیں ہوئے تھے.نام نهاد حقیقت پسند پارٹی اسی طرح شہداء میں چند منافقین علیحدہ ہو گئے اور از راہ شرارت انہوں نے ایک پارٹی بنام حقیقت پسند بنائی اور منکرین خلافت احمد یہ حسب عادت ایسے منافقین کی حرکات کو ہوا دیتے ہیں چنانچہ فاروقی صاحب نے ان لوگوں کے متعلق لکھا ہے.
" میں تو ان کے بہت سے مریدوں نے تنگ آکر اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا.رفتح حق ط ۲-۴۲) حالا نکہ یہ صرف چند افراد تھے جنھیں فاروقی صاحب نے بہت سے مرید قرار دیکر ایک صریح غلط بیانی کا ارتکاب کیا ہے.منافقین تو آغاز اسلام ہیں بھی موجود تھے اور ان کی مذموم حرکات کا بھی قرآن کریم میں ذکر موجود ہے.کہ ان کا کام الزام تراشی.اور شرارت ہی تھا.ان کے بارہ میں ایک خاص سورۃ "المنافقون" کے نام سے قرآن کریم میں موجود ہے.پس منافقوں کا احمدیہ جماعت میں پایا جاتا اور پھر ان کا الگ کیا جانا یا اُن کا آپ بھی الگ ہو جانا تو جماعت احمدیہ کی سچائی کا ایک ثبوت ہے اور اس بات کی روشن دلیل کہ ہماری تنظیم خدا کے فضل سے ایسی ہے کہ منافق اس میں زیادہ عرصہ پنپ نہیں سکتا.اور زہر دیا بدیر اس کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے.پس منافقین سچی جماعت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے.طریق انتخاب خلافت اسلام میں انتخاب خلیفہ کا جو سادہ اور آسان طریق ہے اس کا ذکر....مقدمه ابن خلدون ص ۱ مطبوعہ مصر میں یوں ہے :- رد جوب طے ہو گیا کہ امام کا مقرر کرنا اجتماعی طور پر واجب ہے تو یہ امر فرض کفایہ قرار پایا.اب ارباب حل و عقد کے ذمہ ہوگا کہ وہ خلیفہ کا تقرر کرے اور باقی جماعت واجب ہوگا کہ سب کے سب خلیفہ کی اطاعت کریں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اطیعوا
۲۷۰ اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منكم اید یر المنار " مصر نے اپنی کتاب الخلافة میں بھی اس امر کی تائید کی ہے اور اس جگہ لکھا ہے کہ علامہ سعید الدین تفتازانی شرح المقاصد میں متکلمین اور فقہاء کے ہم نوا ہو کر لکھتے ہیں کہ ارباب حل و عقد سے مراد علما عاور قوم کے مردار اور بڑے لوگ ہیں (الخلافة صلا) جماعت احمدیہ میں انتخاب خلافت کے طریق میں یہ بیانات بھی مد نظر رکھے گئے ہیں.بے شک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی تقریر خلافت حقہ اسلامیہ میں عیسائیوں میں پوپ کے انتخاب کے سادہ طریق کا بھی ذکر فرمایا ہے.مگر اسی تقریر میں المنار مصر کے ایڈیٹر علامہ رشید رضا کے مندرجہ بالا حوالہ کا ذکر بھی موجود ہے.پوپ کے طریق انتخاب کے ذکر سے فاروقی صاحب یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس سے حضرت مسیح موعود کے اس خواب کی تعبیر ہو گئی جبیں میں لکھا تھا کہ محمود انگریز (دقبال) کو لیکر ہمارے گھر احمدیت میں داخل ہو گیا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام بھی ہے.تردها على النصارى وتذکرہ ملت) اس میں بھی خلیفہ صاحب کے مرا در جماعت کی گمراہی کا ذکر ہے.یہاں تھا بطور تانیث آئی ہے جس سے عورت کی چال والی جماعت مراد ہے جنہوں نے عیسائیوں سے مشابہت اختیار کرلی.رفتح محق مت (۴۵۲) فاروقی صاحب کا یہ بیان سرا سر غلط بیانی پر مبنی ہے.انگریز کے آگے (وقائل) اور ہمارے گھر کے آگے (احمدیت) کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہیں لکھنے اور العام نردها على النصاری میں تھا " کی ضمیر بھی جماعت کی طرف نہیں پھرتی.یہ الہام مکمل صورت میں تذکرہ م۲
پر ان الفاظ میں درج ہے." انَّ النَّصَارَى حَوَلوَ الْأَمْرَ سَنَرُهُ مَا عَلَى النصَارَى لِيُنَنَّ فِي الْحَطَمَةِ و اس کا ترجمہ خود حضرت کے وعود علیہ السلام نے تذکرہ ص ۲۹ پر یہ ہے درج را با انصاری نے حقیقت کو بدل دیا ہے سو ہم ذرت اور شکست کو نصاری پر واپس پھینک دیں گے.اور آنھم نابود کر دینے والی آگ میں ڈالدیا جا دیگا اس ترجمہ سے صاف ظاہر ہے کہ اس الہام کا تعلق مسٹر عبد اللہ آتھم عیسائی سے ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود نے پندرہ ماہ کے اندر ہلاکت کی پیشگوئی فرمائی تھی.مبشر طیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور چونکہ مسٹر آتھم نے رجوع کریں تھا اس لیے وہ پندرہ ماہ کے اندر ہلاک نہ ہوا.مگر اس پر عیسائیوں نے اپنی فتح کا ڈنکا بجایا اور جلوس نکالے اور مسٹر آتھم اس پر خاموش رہا تو اللہ تعالے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما بتایا کہ ہم یہ ذلت نصاری پر لوٹا دیں گے اور آتھم ہلاک ہو گا اور جہنم میں ڈالا جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسٹر آتھم اخفائے حق کی وجہ سے پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جلد ہلاک ہو گیا اور دوزخ کا ایندھن بنا.فاروقی صاحب نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے معانی بگاڑنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے.بچنا نچہ وہ آپ کے مندرجہ بالا الہام کے بالکل غلط معنی کر رہے ہیں.حالانکہ اس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرما چکے ہیں میں میں نصارٹی کی ذلت شکست کا بیان ہے نہ کہ جماعت احمدیہ کی
۲۷۲ گراہی اور ان کے کسی خلیفہ کے مار کا ذکر.چونکہ جماعت کے لیے خلافت کا طریق انتخاب مقرر کر دینے پر جماعت احمدیہ میں آئندہ فتنہ کا دروازہ بند ہو جاتا تھا.اس لیے فاروقی صاحب نے پوپ کے طریق انتخاب کا ذکر تو اعتراض کی خاطر کر دیا ہے مگر فقہائے اسلام کے بیان کرده اسلامی طریق انتخاب کا ذکر چھوڑ دیا ہے اور لکھا ہے :- اس کے مطابق میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیان حکم دیتے ہیں ! آئندہ یہ نہ رکھا جائے کہ ملتان اور کراچی اور حیدرآباد اور کوٹہ اور پ در سب جگہ کے نمائند ہے جو پانچ سو کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں وہ آئیں تو انتخاب ہو بلکہ صرف ناظروں اور وکیلوں اور مقررہ اشخاص دیعنی ملازم عملہ) کے مشورہ کے ساتھ اگر وہ حاضر ہوں خلیفہ کا انتخاب ہو گا جس کے بعد جماعت میں اعلان کر دیا جائے گا کہ جماعت اس شخص کی بعیت کرے گی " رفتن حق مشت) یہ عبارت انہوں نے قوسین کے اندر خلافت حقہ اسلامیہ کی تقریر یت کے حوالہ سے لکھی ہے.مگر ان الفاظ میں فاروقی صاحب نے حسب عادت سراسر تحریف سے کام لیا ہے.ورنہ تقریر کے اصل الفاظ یہ ہیں:.پس اسلامی طریق پر جو کہ میں آگے بیان کرونگا آئندہ خلافت کے لیے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوری انتخاب کرے بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ جب کبھی خلافت کے انتخاب کا وقت آتے
۲۷۳ تو صدر انجین احمدیہ کے ناظر اور ممبر اور تحریک جدید کے وکلا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے زندہ افراد در اب نظر ثانی کرتے وقت یہ بات بھی بعض دوستوں کے مشورہ سے زائد کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ بھی جن کو فوراً بعد تحقیقات صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ صحابیت کے سرٹیفکیٹ دیں اور جامعتہ المبشرین کے پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمد یاور تمام جماعت ہائے پنجاب د سندھ کے امیر اور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں " اسی طرح نظر ثانی کرتے وقت میں یہ امر بھی بڑھانا ہوں کہ ایسے سابق امراء جودو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہے ہوں گو انتخاب کے وقت بوجہ معذوری امیر نہ رہے ہوں وہ بھی اس لسٹ میں شامل کیے جائیں اسی طرح تمام مبلغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کر آئے ہوں اور بعد میں سلسلہ کی طرف سے اُن پر کوئی الزام نہ آیا ہو.ایسے مبغاوں کی لسٹ شائع کرنا مجلس تحریک کا کام ہو گا.اسی طرح ایسے مبلغ جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صوبہ میں ریس التبلیغ کے طور پر کم سے کم ایک سال تک کام کیا ہو.ان کی فرست بنانا صدر انجمن احمدیہ کے ذمہ "}
۲۷۴ ہوگا ، مگر شرط یہ ہوگی کہ اگر وہ موقعہ پر پہنچ جائیں.سیکرٹری شور کی تمام ملک میں اطلاع دے دیں کہ فوراً پہنچ جاؤ اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہوگا اور اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پر اثر اندازہ نہ ہوگی.“ { تقريرية 14-100 لمیٹڈ ربوہ ۱۵-۱۶ شرکت اسلامیکم اب فیصلہ میں قارئین کرام پر چھوڑتا ہوں.وہ حوالہ جات کے پیش کرنے میں فاروقی صاحب کی غیر ذمہ دارانہ حرکت ملاحظہ فرمالیں اور دیکھ لیں انتخاب کا یہ طریق فقہائے اسلام کے بیان کردہ طریق کے مطابق ہے یا نہیں ؟ پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ جماعت پر ٹھونسا نہیں بلکہ 1924ء کی مجلس مشاورت میں حضور نے اسے بطور تجویز مجلس شوری پیش کیا اور اس پر ممبران مجلس شوری کی رائے لی گئی اور باتفاق رائے یہ تجویز بصورت ریزولیوشن پاس ہوئی.(دیکھو رپورٹ مجلس مشاورت (1400021406 اور یہ امر فاروقی صاحب کی دیدہ و دانستہ غلط بیانی ہے کہ :- میاں محمود احمد صاحب نے اپنے بیٹے کو اپنے بعد اپنی گدی پر متمکن کرنے کا ڈھونگ رچایا اورد دستر پیروں کی گدیوں اور اس میں فرق نہ رہا " رفتح حق ۲۵ ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا خلیفہ کے انتخاب کے لیے یہ
۲۷۵ لائحہ عمل بتاتا ہے کہ مجلس شوری کے اس مشورہ کے مطابق فیصلہ کر کے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آئندہ خلافت کے انتخاب کے موقعہ پر فہیم کے فتنہ کا دروازہ بند کر دیا.خواہ اس کے نتیجہ میں آپ کا کوئی بٹیا خلیفہ ہو یا جماعت میں سے کوئی اور موزوں بزرگ.البتہ اگر آپ کا کوئی بیٹیا اہل ہو اور جماعت سے انتخاب کرلے تو پھر بیا ہونے کی وجہ سے اس انتخاب کو کس طرح ناجائز یا کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے ؟ کیونکہ کسی خلیفہ کے بیٹے کا انتخاب سے خلیفہ مقرر کیا جانا شرعاً ممنوع نہیں.افسوس ہے کہ فاروقی صاحب نے رمعاذ اللہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو یزید کی خلافت سے تشبیہ دی ہے.حالانکہ بریلے تو وہ تھا جیسے اس کے باپ نے اپنی زندگی میں ولی عہد مقرر کیا تھا اور اس کے حق میں لوگوں سے اپنی زندگی میں بیعت لی تھی.حضرت خلیفہ آسیح الثانی رضی آ عنہ نے تو یہ طریق اختیار نہیں کیا بلکہ خلیفہ کے انتخاب کا معاملہ آپ نے فقہائے اسلام کے بیان کردہ طریق کے مطابق ارباب حل و عقد کے فیصلہ پر چھوڑا ہے.پس فاروقی صاحب کا آپ کی خلافت کو یزید کی خلافت سے تشبیہ دنیا سرا مرنا خدا ترسی اور ظلم عظیم ہے.اے خدا ! تو ان لوگوں کی آنکھیں کھول - تا یہ اپنے نفع و نقصان کو پہچانا سیکس اور قیامت کی رسوائی سے بچ جائیں.اللهم آمین !
۲۷۶ باب سفـ حضرت خلیفة الشيخ الثانی رضی السد عنه تبدیلی عقیدہ کے الزام کی حقیقت اپنی کتاب کے آخری باب میں فاروقی صاحب نے حضرت خلیفہ ایج الثانی رضی اللہ عنہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ : (الف) ۱۹۱۰ محہ تک میاں محمود احمد صاحب کا یہ اعتقاد تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سلسلہ نبوت بند ہے اور آج تک کوئی نبی نہیں آیا اور نہ آئندہ ہو گا.چنانچہ رسالہ تشجیہ الا ذہان میں (جو قادیان سے شائع ہوتا تھا ) اپریل سناء کے پرچہ میں میاں محمود احمد صاحب لکھتے ہیں کہ : - 191.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سینکڑوں نبی گذرے ہیں جن کو ہم مانتے ہیں.مگر آنحضرت کے دھوئے کے بعد تیرہ سو سال گزر گئے کسی نے آج تک نبوت کا دعوی کر کے کامیابی حاصل نہیں کی "
" عہ تک میاں محمود احمد صاحب کا یہ اعتقاد تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم کی نبوتوں کا خاتمہ کر دیا گیا.آپ کی تابعداری اور مہر سے مثیل انبیا پیدا ہوئے اور قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے.چنانچہ اخبار بدر ۲۲ مارچ ۱۹۱۷ء میں میاں محمود احمد صاب لکھتے ہیں :- اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین کے مرتبہ پر قائم کر کے آپ پر ترسیم کی نبوتوں کا خاتمہ کر دیا.ہے.آپ کے کمالات اس حد تک پہنچے کہ آپ کے بعد کوئی مامور من اللہ نہیں ہو سکتا جب تک آپ کی اس پر اتباعت را تباع.ناقل ) کی مہر نہ ہو ر فتح حق ماه : الجواب : ان دونوں اقتباسات میں سے پہلے اقتباس میں آج تک کوئی نبی نہیں آیا اور نہ آئندہ ہو گا " سے مراد مستقل نبی ہے اور دوسرے اقتباس میں کوئی مامور من اللہ نہیں ہو سکتا جب تک آپ کی اتباعت (اتباع - ناقل) کی مہرنہ ہو" سے مراد امتی اور ظلی نبی ہے.پس ان دونوں اقتباسوں سے جو نتیجہ فاروقی صاحب نے نکالا ہے وہ صری نخود باطل ہے کیونکہ ان حوالہ جات سے بہت پہلے 197 ء میں حضرت صاحبزاد مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے شاہ میں رسالہ تشخیز ارا زبان کے پہلے پرچہ کے انٹروڈکشن میں صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر تے ہوئے دنیا کے لوگوں کو مخاطب کرکے لکھا ہے :-
۲۷۸ کیا یہ تیرا خیال ہے کہ میں کسی بڑ ہی قوم کا ہوں.یا میرے پاس زرد جواہر ہیں.یا میری قوت بازو بہت لوگ ہیں یا میں بہت بڑا رئیس یا بادشاہ ہوں یا بڑا زئی مسلم انسان ہوں ، سجادہ نشین ہوں یا فقیر ہوں اس لیے مجھکو اس رسول کے ماننے کی کوئی حاجت نہیں ؟ نیز مت پر لکھا ہے :- غرضیکہ ہر ایک قوم ایک نبی کی منتظر ہے اور اس کے لینے ہے بھی یہی مقرر کیا جاتا ہے.ہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نشانات اس نبی کی پہچان کے بتائے ہیں اور اس کے پہچاننے کے لیے جو جو آسانیاں ہمارے لیے پیدا کردی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے رسول کا مرتبہ کس قدر بلند اور بالا تھا.پھر مت اور مت پر لکھا ہے کہ :- ر یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس زمانہ یں کسی نبی کی ضرورت ہے یا نہیں.اس زمانہ کو اچھا کہا جائے یا برا جہاں تک دیکھنا جاتا ہے اس زمانہ سے بڑھ کر دنیا میں فسق ونجور کی ترقی نہیں ہوئی.تمام دنیا ایک زبان ہو کر چلا اٹھی ہے کہ گناہوں کی حد ہو گئی ہے.یہی زمانہ ہے کہ دنیا میں ایک مامور کی حد سے زیادہ ضرورت ہے " یہ وہ مضمون ہے جس پر مولوی محمد علی صاحب نے بھی پر زور ریویو لکھنا تھا جس کا ایک اقتباس یہ ہے :-
۲۷۹ اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس کے صاحبزادہ ہیں اور پہلے نمبر میں ۱۴ صفحوں کا ایک انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑھنگی کر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتا ہوں جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے.خلاصہ مضمون یہ ہے کہ جب دنیا میں فساد پیدا ہو جاتا ہے اور لوگ اس کی راہ کو چھوڑ کر معاصی میں بکثرت مبتلا ہو جاتے ہیں، اور مردار دنیا پر گدھوں کی طرح گھیر جاتے ہیں اور آخرت سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں.تو اس وقت میں ہمیشہ سے خدا تعالی کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ انہی لوگوں میں سے ایک نبی کو مامور کرتا ہے کہ وہ دنیا میں سچی تعلیم کھر پھیلائے اور لوگوں کو حقیقی راہ دکھلائے.یہ لوگ ہو معاصی میں ان کے ہوئے ہوتے ہیں وہ دنیا کے نشہ میں مخمور ہونے کی وجہ سے یا تو نبی کی باتوں پر نہیں کرتے ہیں یا اسے دکھ دیتے ہیں اور اس کے ساتھیوں کو ایذائیں پہنچاتے ہیں اور اس سلسلہ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں مگر چونکہ وہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اس لیے انسانی کوششوں سے ہلاک نہیں ہوتا ، بلکہ وہ نبی اس حالت میں اپنے مخالفین کو پیش از وقت اطلاع دے دیتا ہے کہ آخر کار وہی مغلوب ہونے اور ابیض کو ہلاک کر کے خدا دوسروں کو راہ راست پر لے آوینیکا سوالیسا ہی ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ہمیشہ
۲۸۰ سے چلی آئی ہے.ایسا ہی اس وقت میں ہوا.یہ شاندار ریولو جو مولوی محمد علی صاحب نے اس مضمون پر لکھا ، صاف ثابت کرتا ہے کہ تار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی حضرت صاحبزادہ مرزا البشیر الدین محمود احمد صاحب اور جناب مولوی محمد علی صاحب دو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں نہ کہ غیر بی.اور دنیا کے سامنے حضرت اقدس کو نبی کی ہی حیثیت میں پیش کرتے تھے نہ کہ محض ایک ولی کی حیثیت ہیں.اب 19 ہ کی بات سنیئے.دسمبر ۱۹امہ کے جلسہ سالانہ قادیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جو تقریر کی اس کے ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں.رو الف : یہ بھی یاد رکھو کہ مرزا صاحب نبی ہیں اور بحیثیت رسول لله رکے، خاتم النبستن ہونے کے آپ کی اتباع سے آپ کو نبوت کا درجہ ملا ہے.ہم نہیں جانتے کہ اور کتنے لوگ ہیں درجہ پائیں گے ہم انہیں (حضرت مرزا صاحب کو ناقل) کیوں بنی نہ کیں جب خدا نے انہیں نبی کہا ہے.چنانچہ آخر بی عمر کا الہام ہے کہ "یا ایھا النبي الحموا الجائع والمعتور دیکھئے تذکرہ ص ۳ ناقل) ب : وہ جو مسیح موعود کے ایک لفظ کو بھی جھوٹ یا سمجھتا ہے وہ خدا کی درگاہ سے مردود ہے.کیونکہ خدا اپنے کی کو وفات تک غلطی میں نہیں رکھتا ہے ج : "تم اپنے امتیازی نشانوں کو کیوں چھوڑتے ہو تم ایک نہ گرنیڈ نبی کو مانتے ہو اور تمھارے مخالف اس کا انکار کرتے ہیں.
ایک نبی ہم میں بھی خدا کی طرف سے آیا اگر اس کی تباع کریں گے تو دہی پھل پائیں گے جوصحابہ کرام کے لیے منقرر ہو چکے ہیں" ان اقتباسات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور میں بھی جبکہ حضرت مولوی نورالدین صفی اللہ عنہ خلیفہ تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی مانتے تھے.اس کے بعد فاروقی صاحب نے 19 کے مضمون کا ذکر کیا ہے جس کا نے 1971ء مہ عنوان ہے ، مسلمان وہ ہے جو سب مامورین کو مانے اس مضمون میں کفر و اسلام درج ہے.فاروقی صاحب لکھتے ہیں :- "مسلمانوں کی تکفیر کے اعلان پر میاں صاحب سے سوال ہوا کہ صرف نبی کا منکر کا فر ہوتا ہے ، کیا آپ حضرت مسیح موعود کو نبی سمجھتے ہیں.تو اس پر میاں محمود احمد صاب نے اپنے سابقہ مذکورہ بالا مضامین کے برخلاف یہ اعلان کیا کہ حضرت مسیح موعود بنی ہیں.یہ دوسری تبدیلی ہے جو میاں محمود احمد صاحب نے اپنے عقیدہ میں کی دفتح حق صاد) الجواب : فاروقی صاحب نے یہ سوال کیے جانے کے متعلق کوئی حوالہ نہیں دیا سو یہ سوال ان کی اپنی ہی بناوٹ ہے.درنہ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہو تا تھا کیونکہ حضرت صاجزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے تو شائد کے مضمون در 1ء کی تقریر کی طرح خود اس مضمون میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نی ہی کی حیثیت میں ہی پیش کیا تھا.چنانچہ آپ اس مضمون میں لکھتے ہیں :.
۲۰۲ " ہمارا ایمان ہے کہ حضرت صاحب خدا کے مرسل تھے اور مامور من اللہ تھے ، ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء ہمیشہ بھیجتا رہتا ہے اور نہ معلوم اور کتنے انبیاء بھیجے گا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ حضرت بنی کریم محمد رون، رحیم، رسول الله ، خاتم النبین کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آیا اور آپ ہر قسم کی نبوتوں کے خاتم ہیں اور آئندہ جس کو اللہ تعالیٰ تک رسوخ ہوگا وہ آپ ہی کی اطاعت کے دروازے سے گزر کر ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے حل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِد اللہ.اور اسی میں آپ کی عزت ہے کیونکہ گیاوہ شخص معزز کہلا سکتا ہے جس کے ماتحت کوئی بھی انسر نہ ہو، بلکہ معزز و ہی ہوتا ہے جس کے ماتحت بہت سے افسر ہوں، دنیا ہی میں دیکھ لو کہ تم بادشاہ کے لقب کو زیادہ چاہتے ہو یا شہنشاہ کے لقب کو.پس شہنشاہ کا لفظ اس لیے کہ اس میں بادشاہوں پر حکومت کا مفہوم پایا جاتا ہے.بادشاہ پر معزز ہے ادبی نہیں.اس طرح پر ایسی نبوت جس کے ماتحت اور نیو تیں بھی ہوں اس نبوت سے اعلیٰ اور افضل ہے جس کے ما تخت اور نبوت کوئی نہ ہو پس ہم اسی اصل کے ماتحت حضرت مسیح موعود کو موجب احادیث صحیحہ نبی اور نامور
۲۸۳ مانتے ہیں " مجيد الازمان جلد ع ۴ ص ۱۳ یا بہت ماہ اپریل ۶۱۹۱۷ اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ مسلمان وہ ہے جو خدا کے سب ماموری کو مانے والے مضمون میں ہی حضرت سا جزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بموجب احادیث صحیحہ نبی قرار دیا تھا.پس آپ کے عقیدہ میں تبدیلی کا یہ الزام گر حضرت مسیح موعود کو غیر نبی مانتے ہوئے نبی قرار دینے لگے.ہر طرح سے باطل ہے اس کے بعد فاروقی صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی شانہ کی یہ عبارت نقل کی ہے :- رو نبوت کے متعلق میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سب احمد می حضرت مسیح موعود کو ظلی نبی ہی مانتے ہیں لیکن چونکہ حضرت مرزا صاف کے درجہ کو اس قیمت بہت گھٹا کر دکھایا جاتا ہے.اس لیے مصلوت قدرت مجبور کرتی ہے کہ آپ کے ضل درجہ سے جماعت کو آگاہ کیا جائے ورنہ اس طرح لفظ نبی کے استعمال کو میں خود بھی پسند نہیں کرتا اس لیے نہیں کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ کچھ مدت بعد بعض لوگ اس سے نبوت منتقلہ کا مفہوم نکال لیں.مگر یہ صرف چند روزه بات ہے اور بطور علاج.(خط بنام محمد عثمان صاحب لکھنوی)
۲۸۴ اس کے متعلق فاروقی صاحب لکھتے ہیں.کہ یہ صلحت بعد میں حقیقت بن گئی.۱۹۵۳ء میں فرقہ احمدیہ کے خلاف مغربی پاکستان میں اینی میشن شروع ہو ۵۳ اور فسادات ہوئے اور بعد میں مارشل لا بھی لگایا گیا.(فتح حق شاہ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی یہ عبارت اپنے مضمون میں صاف ہے کہ آپ اپنی خلافت کے ایام میں بھی حضرت مسیح موعود کو ظلی نبی ہی مانتے تھے ہاں آپ کا عقیدہ یہ تھا کہ ظلی نبی بھی ایک قسم کا بنی ہی ہوتا ہے.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر تے ہوئے انھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہ دنیا ہی کافی تھا.مگر چونکہ غیر مبائعین اس زمانہ میں حضرت اقدس کے درجہ کو گھٹا کر پیش کرتے تھے اس لیے مصلحت وقت کا تقاضا یہی تھا کہ آپ کی نبوت کی حیثیت بار بار پیش کی جائے تا جماعت آپ کے صحیح مقام سے آگاہ ہو جائے اور لا ہوگی فریق کی پیدا کردہ غلط فہمیوں میں مبتلا نہ ہو.ورنہ مصلحتاً نبی کے لفظ کو کسی اور پیرائے میں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اپنا ایک الهام یوں درج فرماتے ہیں :- دنیا میں ایک نبی آیا مگر دنیا نے اسے قبول نہ کیا." اور اس پر یہ نوٹ دیتے ہیں :- ایک قرأت اس الہام کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا یہی قرأت براہین میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لیے یہ دوسری قرأت درج نہیں کی گئی.تذکرہ من الجواله مكتوب ، راگست ششماهم مندرج الحكم ، ابراگست شد اوصت حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنبیہ اس لفظ کے کثرت استعمال سے
۲۸۵ اس فتنہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ تھا.کہ کچھ ترت بعد بعض لوگ اسی نبوت مستقلہ کا مفہوم نہ نکال لیں.سو اگر پیغام صلح اور اس کے ہمنوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا انکار کر کے آپ کو بار بار غیر نبی قرار دیتے اور نبوت کی بحث کو ۵۰ سال تک جاری نہ رکھتے تو ۵۲ ۱۹۵۳ ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف یر وہ اینی میشن شروع نہ ہوتی اور فسادات ہوتے جن کے بعد لاہور میں مارشل لا لگایا گیا تھا.پس اس ابتداء کے پیدا ہونے کا موجب زیادہ تر لا ہوری فریق کا وہ پرو سیگنڈا ہے جو انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض کے خلاف جاری کر رکھا تھا.کہ یہ حضرت مرزا صاحب کو نبی اور اُن کے منکرین کو مانتے ہیں.یہ منکرین خلافت احمدیہ تواب بھی یہ پروپیگنڈا چھوڑنے کو تیار نہیں چنانچہ اس بارہ میں حال ہی میں ان کے تازہ ٹریکٹ شائع ہو رہے ہیں اور فاروقی صاحب کی کتاب بھی اسی کا ایک شاخسانہ ہے جو منکرین خلافت احمدیہ نے ہماری جماعت کے خلاف کھڑا کر رکھا ہے.فاروقی صاحب کا یہ لکھنا صریح غلط بیانی ہے کہ یہ مصلحت بالآخر حقیقت بن گئی.کیونکہ جماعت احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ کبھی منتقل نبی قرار دیا تھا اور نہ اب قرار دیتی ہے بلکہ ہمیشہ امتی نبی ہی مانا ہے.لیکن اس بات کا کیا علاج ہے کہ مخالف علماء نے اس اصل حقیقت کو دنیا سے چھپا کر ایجی ٹیشن کی تھی.انکوائری کمیشن میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا بیان میں نہیں سمجھ سکا کہ فاروقی صاحب کا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رنو کے
۲۸۶ انکوائری کمیشن کے سامنے دئے گئے بیان کو درج کرنے کا مطلب سوائے اس کے کیا ہے کہ وہ ہمارے خلاف اپنا پرانا پروپیگنڈا جاری رکھیں جس سے اب تک انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا ، بلکہ آپس میں جھگڑ کر فریقین کی بہت سی طاقت زائل ہی ہوئی ہے.حالانکہ یہی طاقت تبلیغ اسلام پر صرف ہونا چاہیے تھی مگر لاہوری فریق اب تک یہ پر دیگنڈا چھوڑنے کو تیار نہیں، اس لیے ہمیں بھی ان کے مقابلہ میں جواب دینا پڑتا ہے.ورنہ حقیقت یہ ہے ۵۰ سالہ بحث میں فریقین کے انتقلانی مسائل پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ پڑھنے والا اس سے آسانی سے صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے.مگر جو لوگ ہماری مخالفت کو ہی اپنی کامیابی کا راز سمجھتے ہوں گو وہ ہر طرح سے ناکام ہی رہے ہوایا وہ بھلا مخالفانہ پر وپا گنڈے سے کیسے باز آ سکتے ہیں.اللہ ہی ہے بتو انھیں ہدایت دے.انکوائری کمیشن کے سامنے بھی حضرت خلیفہ آسیح الثانی نے یہی بیان دیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب بنی ہیں اور آپ کا انکار کفر ہے اور یہ وضاحت بھی فرما دی ہے کہ یہ کفر تعمیر وں کا نہیں جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے انکار سے پیدا ہوتا ہے.چنانچہ عدالت میں آپ پر سوال ہوا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ر حضرت مرزا صاحب کو ناقل نبی کہا ہے ؟ جواب : جی ہاں! سوال : مرزا صاحب نے پہلی مرتبہ کب کہا کہ وہ نبی ہیں ؟ جواب : جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے 19 امر میں نبی ہونے کا دعوی کیا.یہ جواب درج کرکے فاروقی صاحب لکھتے ہیں.
۲۸۷ وا الہ سے شام تک 9 سال کا عرصہ ہوتا ہے جس میں بقول میاں محمود احمد صاحب حضرت مسیح موعود کو اپنی نبوت سمجھ نہیں آئی حالانکہ بقول ان کے اللہ تعالیٰ نے خود ان کو نبی کہا تھا......الخر" الجواب: حضرت خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کا یہی مذہب تھا کہ حضرت میسج موعود علیہ السلام شروع دعوی مسیح موعود سے ہی تو ا ا ء میں ہوا نبی ہیں.گو آپ لفظ نبی کی تاویل محدث یا جزوی نہی کرتے رہے لیکن اپنے دعوے کی جو کیفیت آپ نے شاہ سے پہلے بیان کی چونکہ وہ در اصل نبوت ہی ہے اس لیے اسی زمانہ میںاپنی محدثیت کی شان سمجھا نے حضرت اقدس نے اس کے آخر میں صاف لکھ دیا کہ :.ثبوت کے بجز اس کے اور کچھ معنی نہیں کہ امور متذکرہ بالا اس میں پائے جائیں ".ر توضیح المرام ما پس شام میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اپنے دعوی کی کیفیت کا نام نبوت ہی رکھتے تھے.لیکن اپنے تئیں نبی معنی محدث، اس لیے قرار دیتے تھے کہ نی کے لیے آپ کسی دوسرے نبی کا اتنی نہ ہونا ضرور کی شرط سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو نبی کے ساتھ امتی بھی پاتے تھے.لہذا گو آپ اپنے نبی ہونے کی تادیل فرماتے تھے لیکن سوائے امتی نہ ہونے کی شرط کے نبوت کو اپنے وجود میں تحقق بمانتے تھے.میں اس لحاظ سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضا کا مذہب یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شروع دعوی سے ہی سے بنی تھے" (ملاحظہ ہو حقیقہ النبوت ص ) پھر دعولی کی کیفیت کے پیش نظر ہی حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے صاف
لکھ دیا : " آپ جیسے نبی پہلے تھے ویسے ہی بعد میں رہے " پھر آگے چل کر آپ تحریر فرماتے ہیں.(حقيقة البنوة ص) جس دن سے آپ مسیح موعود ہوئے اسی دن سے آپ بنی تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو نبی قرار دیا تھا." حقيقة النبوة من) پس اپنی اس تحقیق اور عقیدہ کے موافق حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا بیان انکوائری کمیشن کے سامنے بالکل درست تھا کہ : - جہاں تک مجھے یاد ہے انھوں نے ۱۹۹۷ء میں نبی ہونے کا دعوے کیا تھا.“ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :- جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں ستقل طور پر کوئی شرکویت لانے والا نہیں ہوں، اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ ہمیں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لیے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں.مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا.بلکہ انہی معنوی سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو
۲۸۹ اب بھی ہیں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.(ایک غلطی کا ازالہ انشاء) فاروقی صاحب لکھتے ہیں :- ایسا شخص جو خود اپنی نبوت سمجھ نہیں سکتا ، دوسروں کو اپنی بنوت پر ایمان نہ لانے سے کافر کہ سکتا ہے ؟ کیا نبی آن قسم کے ہوا کرتے ہیں جو خود اپنی نبوت نہ سمجھ سکیں (فتح حق ) جوابا عرض ہے کہ ہم تفصیل سے اس کتاب میں ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنی کے لفظ کی تاویل میں ضرور تبدیلی کر لی تھی اور وہ بھی خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح وحی الہی کے ماتحت نہ کہ از خود اور اس وقت جبکہ خدا تعالیٰ کے صریح الہام میں آپ کو یہ بنا دیا گیا کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے کشتی نوح مطبوعہ او) پس احمدیوں کے لاہوری فریق کو یا تو حضرت مرزا صاب کی ماموریت سے سرا سر انکار کر دینا چاہیے اور یا پھر سیدھے طور پر اس تبدیلی کا قائل ہونا چاہئیے جس کا اعتراف حضرت مسیح موعود نے اپنے بیان میں کیا ہے.یہ امر تو کسی غیر جانبدار کی سمجھ میں نہیں آسکتا کہ ایک شخص الہام کی بنا پر اپنے آپکو میسج موسوی سے افضل بھی قرار دے اور یہ کیسے کہ وہ اپنی تمام شان میں حضرت سیخ ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہے اور پھر بھی وہ نبی نہ ہو.پس جب تک آپ نے اپنی نبوت کی تاویل محدثیت کی اس وقت تک آپ نے اپنے منکرین کو بھی کافر نہیں کہا اور جب یہ تاویل آپ نے انکشاف الیہ سے ترک کردی تو حقیقہ الوحی کے صف میں کفر کی دو قسمیں بیان کر کے مسیح موعود کے انکار کو کفر قسم دوم قرار دیا.ہاں آپ نے مسلمانوں میں سے مسیح موعود کا انکار کرنے والوں کو کبھی کا فر قسم اول نہیں کہا جو آپ کے نزدیک اسلام کا انکار اور
۲۹۰ لفيه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے جس سے انسان غیر مسلم کہلاتا ہے.یہی عقیدہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ نے انکواڑ میں کمیشن کے سامنے پیش کیا ہے جبکہ آپ پر یہ سوال ہوا :- سوال از عدالت : کیا ایک سنتے بنی کا انکار کفر نہیں ؟ جواب : ہاں یہ کفر ہے لیکن کفرد و قسم کا ہوتا ہے.ایک وہ جس سے کوئی شخص مات سے خارج ہو جاتا ہے.دوسرا دہ جس سے وہ بات سے خارج نہیں ہوتا.کلم طبیہ کا انکار سنی قسم سے ہے.دوسری قسم کا انکار اس سے کم درجہ کی بد عقیدگیوں سے پیدا ہوتا ہے.فاروقی صاحب نے یہ سوال و جواب اپنی کتاب فتح حق کے مادہ پرج کیا ہے.اب دیکھو کہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کا یہ جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر مندرجہ حقیقت الوحی ملک کے عین مطابق ہے جہاں کفر کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں اور سیح موعود کے انکار کو کفر قسم دوم قرار دیا ہے.عدالت میں سوال ہوا کہ آپ مرزا صاحب کو اُن مامورین میں شمار کرتے ہیں جن کا ماننا مسلمان کہلانے کے لیے ضروری ہے ؟ جواب: میں اس کا جواب دے چکا ہوں کہ کوئی شخص جو مرزا غلام احمد پر ایمان نہیں لانا دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا.اس پر فاروقی صاحب کہتے ہیں : قارئین کرام اس جگہ آئینہ صداقت ط انوار خلافت رصت مندرجہ بالا حوالہ جات سے سوال نمبرے کے جو اسب کا یراز نہ کریں یہ میاں محمود احمد صاحب کی تیسری تبدیلی عقیدہ ہے "
۲۹۱ پہلی اور دوسری تبدیلی عقیدہ کے الزام کا جواب تو ہم دے چکے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رض نے لالہ سے پہلے نہ حضرت مسیح موعود کے انکار کو کفر قرار دینے سے انکار کیا تھا اور نہ نبی قرار دینے سے بلکہ آپ نے شاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی آپ کو نبی لکھا تھا.اب جس امر کو آپ تیسری تبدیلی قرار دیتے ہیں اس کی حقیقت سنئے.یہ تیسری تبدیلی قرار دینے میں ایک مغالطہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آئینہ صدات اور انوار خلافت میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے غیر از جماعت مسلمانوں کو اسلام کی ظاہری چار دیواری سے ہر گرا خارج قرار نہیں دیا تھا.رانوار خلافت میں ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں کے الفاظ سے غیر احمدیوں کے ظاہر میں مسلمان ہونے سے انکار نہیں کیا گیا ویسے تو ایسے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی استعمال فرمائے ہیں دیکھیئے حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں :.یہ ایک شریعیت کا مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے.پھر جبکہ قریباً دو سو مولویوں نے مجھے کا فرٹھرایا اور میرے پر کفر کا فتوی لکھا گیا اور انہی کے فتولی سے یہ بات ثابت ہے مومن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے تو اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں تو ان کو چاہیے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار مہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر
۲۹۲ ہیں.کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کا فربنایا تب میں ان کو مسلمان سمجھ لونگا بشرطیکہ ان میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مکذب نہ ہوں؟ (حقیقۃ الوحی مثلا) دیکھ لیجئے کہ اس کے باوجود کہ حضرت مسیح موعود غیر از جماعت مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے پھر بھی جب آپ لوگ اس کی یہ تا دیل کر لیتے ہیں، اس جگہ رسمی مسلمان ہونے سے انکار نہیں کیا گیا تو یہی مفہوم آپ انوار خلافت کے فقرے کا کیوں نہیں سمجھ لیتے کہ اس میں بھی غیر از جماعت مسلمانوں کے رسمی مسلمان ہونے سے انکار نہیں کیا گیا.اب رہ گیا آئینہ صداقت میں دائرہ اسلام سے خروج کا ذکر، سو ایسے الفاظ اسلام میں دو معنوں میں استعمال ہوتے ہیں.ایک مفہوم ان الفاظ کا یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص غیر مسلم ہے اور دوسرا مفہوم اس کا یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص حقیقت اسلام سے بیگانہ اور ایک شدید بد عقیدگی میں مقبلہ ہے.دیکھئے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.من مَشَى مَعْ ظَالِمٍ لِيُقَويْهِ وَهُوَ لَيْلَمُ أَنَّهُ ظالِمُ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ رمشكاة المصابيح) ترجمہ: جو شخص ظالم کے ساتھ اس کو طاقت دینے کے لیے چل پڑا اور وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو گیا فاروقی صاحب ! جب آپ لوگ بھی اس حدیث کے یہی معنی لیتے ہیں کہ ایسا شخص حقیقت اسلام سے بیگانہ ہو جاتا ہے تو آئینہ صداقت میں مندرج دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے الفاظ کا آپ یہی مفہوم کیوں نہیں لیتے کہ غیر از جماعت مسلمان مسیح موعود کے انکار کی وجہ
۲۹۳ سے حقیقت اسلام سے دور جاپڑتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ازالہ اوہام ایڈیشن خور دحش ۲۹ اور ایڈ یشن کلان ۲۵ اپر تحریر فرماتے ہیں.اب واضح رہے کہ اس زمانہ کے بعض موحدین کا یہ اعتراض کہ پرندوں کی نوع میں سے کچھ تو خدا تعالیٰ کی مخلوق اور کچھ حضرت علی علیہ السلام کی مخلوق ہے سراسر فاسدانہ اور مشرکانہ خیال ہے اور ایسا خیال رکھنے والا بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا جن مسلمانوں کے متعلق اس عبارت میں بلا شبہ دائرہ اسلام سے خارج کے الفاظ آئے ہیں اُن کے معنی بھی فاروقی صاحب کے نزدیک یہی ہونگے کہ یہ لوگ حقیقت اسلام سے بیگانہ ہیں نہ یہ کہ یہ لوگ غیر مسلم ہیں.یہی تشریح حضرت خلیفہ اسیح الثانی من نے آئینہ صداقت کے قول دائرہ اسلام سے خارج کی انکوائری کمیشن کے سامنے کی ہے.چنانچہ آپ سے سوال ہوا : سوال عدالت : کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب آئینہ صداقت کے پہلے باب میں مس پر لکھا تھا یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جہنوں نے مرزا غلام احمد کی بعیت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں." جواب را از حضرت خلیفہ اسیح الثانی " یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ ہمیں ان لوگوں کو جو میرے ذہین میں میں مسلمان سمجھتا ہوں پس جب میں کافر کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیں جن کی میں پہلے وضاحت کر چکا ہوں یعنی وہ ملت سے خارج نہیں.جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار مفردات راغب کے
۲۹۴ صفحہ ۲۴۲ پر کیا گیا ہے جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں.ایک دُون الایمان اور دوسر نے نونی الایمان - دون الایمان میں وہ مسلمان شامل ہیں جن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے.فوق الایمان میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہوئے ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں اس لیے جب میں نے کہا تھا کہ بعض لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہوتے ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو فوق الایمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں مشکواۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص کسی ظالم کی مدد کرتا اور حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہے یہ فاروقی صاحب کیا یہ مجیب بات نہ ہوگی کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان بعض مسلمانوں کو جو حضرت عیسی علیہ السلام کو پرندوں کا خالق مانتے ہیں ایسا ماننے کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں تو یہ الفاظ آپ کو میٹھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ ان کی جھٹ تا دیل کر لیتے ہیں لیکن جب وہی الفاظ انہی معنی میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ استعمال فرماتے ہیں تو یہ الفاظ آپ کو کڑوے معلوم ہوتے ہیں کیا یہ سب بغض و عداوت کا کرشمہ تو نہیں ؟ پھر عجیب بات ہے کہ خاروقی صاحب نے انکوائری کمیشن کے سامنے پیش کردہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی رض کی دائرہ اسلام سے خارج کی یہ نشتر ہے جسے ہم نے اوپرسان کیا ہے اپنی کتاب میں نقل نہیں کی.ع ب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے" آگے فاروقی صاحب انکوائری کمیشن کے دو سوال اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے ان کے جوابات درج کرتے ہیں :.سوال کیا احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان اختلاف بنیادی ہیں ہے
۲۹۵ جواب: اگر بنیادی کا وہی مفہوم ہے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا ہے تب یہ اختلافات بنیادی نہیں ہیں.سوال اگر لفظ بنیادی عام معنوں میں لیا جائے تو پھر ؟ جواب : عام معنوں میں اس کا مطلب اہم ہے.لیکن اس مفہوم کے لحاظ سے بھی اختلاف بنیاد ی نہیں بلکہ فروعی ہیں.اس پر فاروقی صاحب لکھتے ہیں :- مگر میاں محمود احمد صاحب نے ایک دفعہ اس عبارت کے شائع کرنے کی اجازت دی.ردیکھوا اخبار الفضل (۲۱ اگست ۱۹۱۶م) ورنہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ان دعامتہ المسلمین) کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور اس طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے.عجیب بات ہے کہ جو عبارت اس جگہ بصورت اعتراض فاروقی صاحب نے الفضل سے نقل کی ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ انکوائری کمیشن کے سامنے خود اس کی تشریح فرما چکے ہیں عدالت میں ہی عبارت آپ کے سامنے پیش کر کے پوچھا گیا کیا یہ صحیح ہے جس کا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا ؟ اس وقت جب یہ عبارت شائع ہوئی تھی میرا کوئی ڈائری نویس نہیں تھا اس لیے میں یقین سے نہیں کر سکتا کہ میری بات کو صحیح طور پر رپورٹ کیا گیا.ہے یا نہیں تاہم اس کا مجازی رنگ میں مطلب لینا چاہیئے میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم زیادہ خلوص سے عمل کرتے ہیں ؟
۲۹۶ فاروقی صاحب کی اس ساری بحث سے ظاہر ہے کہ انہوں نے خلافت احمدیہ حقہ سے انکار کر کے نبوت مسیح موعود کے متعلق محض تفریط کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور ا کمی عقائد کسی ٹھوس بنیاد پر مبنی نہیں.اُن کا حال اُس فرقہ کے مشابہ ہے جو امت موسویہ کے مسیح موعود حضرت علیم علیہ السلام کو از راہ تفریط نبی نہیں مانتا تھا بلکہ صرف کی جانتا تھا اور موسوی دین کا ایک مجدد وقت سمجھتا تھا یہ فرقہ عتانیہ کہلاتا تھا اور واؤد بن عنان اس کا بانی تھا.اللہ تعالی نے اس وقت تک ہماری جماعت کو غلو کی راہ سے بچایا ہے اور ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے مطابق آپ کو ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی یا ظلی نبی ہی مانتی ہے اور حضور کے اپنے فرمان مندرجہ شمہ معرفت کے مطابق اسے ایک قسم کی نبوت یقین کرتی ہے اور حضور کے ہی فرمان کے مطابق خدا کے حکم اور اصطلاح میں آپ کو نبی یقین کرتی ہے.ہاں غیر احمدیوں کی معروف اصطلاح میں جسے آج کل منکرین خلافت بھی اختیار کیے ہوئے ہیں.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہرگز نبی نہیں قرار دیتے.پس اپنی کتاب فتح حتی " میں فاروقی صاحب کا ہماری جماعت کو عیسائیوں کے غالی فرقہ سے تشبیہ دنیا جنھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا بنا لیا صریح بے انصافی ہے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ظلم ہے.اللہ تعالٰی ہمارے ان بھائیوں کی آنکھیں کھولے تا یہ اپنے نفع و نقصان کو پہچان سیکس اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پر ناپاکی حملے کر کے سلسلہ احمدیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کر کے اپنا نامہ اعمال سیاہ کرنے سے باز رہیں.اللهم آمین! واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين محمد نذیر لائل پوری