Language: UR
اس کتاب میں زمانہ کے حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال و ارشادات بابت روزمرہ فقہی امور کو 380 عناوین کے تحت اصل ماخذ سے تلاش کرکے حوالہ جات شامل کرکے پیش کیا گیا ہے ۔ یہ مجموعہ دراصل 10ستمبر 1935ء کو شائع ہونے والے مجموعہ ’’فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘‘ کی تحقیق و تخریج ہے جسے بطریق احسن مکمل کیا گیا ہے۔
بسم الله العمر الحميد نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مَّا وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ الظلام مَا الكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا لَكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ شِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَماً عَدْلاً.(ارشاد نبوی ) ( القرآن الكريم ) فتاویٰ حضرت مسیح موعود الظلام تصحيح وتخريج حواله جات ظهير احمد خان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمَ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر گزشتہ صدی کے اوائل میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقوال و ارشادات مبارکہ پر مبنی فتاویٰ کے بعض مجموعے شائع ہوئے.ان میں سے ایک مجموعہ " فتاوے حضرت مسیح موعود علیہ السلام " کے عنوان سے 10 رستمبر 1935ء کو شائع ہوا تھا.اس دور میں اس عنوان پر شائع ہونے والا چونکہ یہ آخری مجموعہ تھا، لہذا علمی حلقوں میں بڑی کثرت سے احباب نے اس سے استفادہ کیا اور ایک لمبے عرصہ سے جامعہ احمدیہ کے نصاب میں یہ شامل ہے.اس میں کوئی کلام نہیں کہ جس دور میں یہ مجموعہ شائع ہوا اس دور کے محدود وسائل اور سہولتوں کو سامنے رکھ کر جب ہم اس مجموعہ پر نظر ڈالتے ہیں تو شائع کرنے والے کیلئے شکر و احسان کے جذبات ہمارے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی جزاء عطا فرمائے.آمین خاکسار بھی چونکہ فقہ کا طالبعلم ہے.اس حوالہ سے خاکسار کی دلی تمنا تھی کہ یہ مجموعہ جو کثرت سے علمی حلقوں کے زیر استفادہ ہے اور جماعت احمدیہ کی ویب سائیٹ Al Islam پر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ساتھ موجود ہے، اس مجموعہ میں شامل سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات مبارکہ کے اصل اور درست حوالہ جات اس میں درج کئے جائیں.الحمد للہ کہ اسی کی دی ہوئی توفیق اور محض اس کے فضل و احسان سے اس مجموعہ کی کمپیوٹر پر کمپوزنگ کے ساتھ ساتھ ہر حوالہ کی عبارت کو اصل ماخذ کے ساتھ ٹیلی (Tally) کر کے شامل مجموعہ کیا گیا ہے اور نیچے اصل حوالہ درج کر دیا گیا ہے.خاکسار کے ساتھ اس کام میں برادرم محترم مبشر احمد صاحب ظفر واقف زندگی الشرکة الاسلامیہ لندن نے بڑی محبت کے ساتھ تعاون کیا اور تمام اقتباسات کو اصل ماخذ کے ساتھ ٹیلی (Tally) کروانے کیلئے ایک ایک اقتباس پڑھ کر سنایا.نیز محترم مرزا نصیر احمد صاحب ، محترم سعد محمود باجوہ صاحب اور محترم طاہر محمود
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبشر صاحب اساتذہ جامعہ احمدیہ یو کے نے بڑی محنت سے اس کتاب کی پروف ریڈنگ کر کے خاکسار کی مدد فرمائی_فجزاهم الله خيرا اس مجموعہ میں کل 380 عناوین کے تحت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال وارشادات درج تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے 375 عناوین کے تحت درج اقتباسات کو اصل ماخذ سے ٹیلی (Tally) کر کے درست حوالہ جات کے ساتھ اس مجموعہ میں شامل کر دیا گیا ہے.باقی پانچ عناوین کے تحت درج اقتباسات تا حال اصل ماخذ سے نہیں مل سکے اس لئے ان عناوین کے سابقہ اقتباسات اور حوالہ جات کو من و عن { ان دو بریکٹوں کے اندر } درج کر دیا گیا ہے.تا ان کا باقی اقتباسات سے امتیاز قائم رہے.اصل ماخذ اخبار الحکم اور اخبار بدر وغیرہ میں جہاں بعض جگہوں پر سہو کتابت تھی ، اسے اس مجموعہ میں درست کر دیا گیا ہے.جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے یہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاولی پرمنی مجموعہ ہے لہذا دو عناوین کے تحت جہاں سہواً سیدنا حضرت خلیفہ اسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتاوی درج ہو گئے تھے انہیں اس مجموعہ سے نکال دیا گیا ہے.سابقہ مجموعہ میں بعض جگہوں پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس کے کچھ حصہ کو چھوڑ دیا گیا تھا، اس کمپیوٹرائز مجموعہ میں ان جگہوں پر مکمل اقتباس شامل کر دیا گیا ہے.اسی طرح بعض جگہوں پر مجموعہ میں موجود عناوین سے تعلق رکھنے والے حضور علیہ السلام کے مزید ملنے والے ارشادات کو بھی شامل کر دیا گیا ہے.آخر پر دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیری خدمت کو قبول فرما کر محض اپنے فضل و احسان سے اس عاجز کا بس خاتمہ بالخیر فرما دے.آمین خلافت کا ادنی غلام ظهير احمد خان مربی سلسلہ.شعبہ ریکار ڈ دفتر پی ایس لندن 31.12.13
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ج بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدمت دین کے کئی ایک شعبے اور کئی ایک طریقے ہیں، مومن کا فرض ہے کہ خدمت دین کے ہر موقعہ اور ہر شعبہ میں حصہ لینے کی کوشش کرتا رہے.کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ کو کونسی خدمت پسند آ کر اس کی رضا کے حصول کا موجب ہو.اللہ تعالیٰ جو علیم بذات الصدور ذات ہے وہ خوب جانتا ہے کہ میں ہر حرکت خدمت کی ابتداء اسی نیت سے کرتا ہوں.البتہ الحاقی اور ضمنی رنگ میں فی الدنيا حسنة بھی ضرور مقصود مد نظر رہتا ہے اور میں ہمیشہ اس کا پھل اسی دنیا میں اس رنگ میں بھی حاصل کرتا رہا ہوں کہ باوجود کم مائیگی اور بے بضاعتی اور بالکل بے سروسامانی کے بڑے سے بڑے کام حیر العقول رنگ میں انجام پذیر ہوتے رہے ہیں.جس کو میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان بیکراں یقین کرتا ہوں.منجملہ ان ناچیز خدمات کے ایک یہ خدمت بھی ہے.قریباً آٹھ نو سال کا عرصہ گذرتا ہے کہ میں نے اس مقدس کام فتاویٰ کو شروع کیا تو لاہور میں مولوی محمد فضل خان صاحب چنگوی جو در اصل فتاوی احمدیہ کے پہلے موجد اور مؤلف ہیں ملے.ان سے میں نے ذکر کیا کہ میں نے فتاویٰ کا کام اس طرح شروع کیا ہے کہ ہر ایک فتویٰ کا اصل حوالہ بھی ساتھ ہی درج کر دیا جاوے تا کہ مستند ہو جائیں.اس پر انہوں نے مجھے فرمایا کہ اب میں نھج المصلی فتاویٰ احمد یہ شائع کر رہا ہوں.اس میں میں نے اس امر کا لحاظ رکھ لیا ہے، تو میں نے یہ سن کر اپنی سرگرمیوں کو ملتوی کر دیا.مگر بعد میں جب چنگوی صاحب کی نھج المصلی نکلی تو میرے افسوس کی کوئی حد نہ رہی کہ ایسی مفید کتاب کو انہوں نے اپنے ایک طول طویل عربی مضمون سے غیر معمولی طور پر جیم اور ضخیم کر دیا اور پھر بھی وہ حصہ نامکمل رہا اگر وہ اس عربی حصہ کو شامل نہ بھی کرتے تب بھی میرے منشاء کے مطابق وہ نہ تھی کیونکہ میر انشاء صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ کو الگ طور پر انتخاب کر کے شائع کرنا تھا.مگر چنگوی صاحب کی کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ دیگر بزرگان سلسلہ کے فتاویٰ بھی جمع کئے گئے تھے کیونکہ جو طغری امتیاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کو حاصل ہے وہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و اوروں کے کلام کو میسر نہیں ہو سکتا.حضرت صاحب صرف مفتی کی حیثیت سے نہیں بلکہ حکم و عدل اور مامور کی حیثیت سے مسئلہ کی کنہ اور حقیقت کو معقولی طور پر پوری بیان فرما کر سائل کو اس امر سے بکلی مستغنی فرما دیتے ہیں کہ وہ یہ کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا بلکہ وہ خود معقولی طور پر ہر میدان میں ان مسائل کو نہ صرف بیان ہی کر سکتا ہے بلکہ حضرت صاحب کے طرز بیان سے تمام مسائل کے حل کرنے کیلئے ایسے آسان ترین اصول اور قواعد سائل کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں کہ ان فتاویٰ کو پڑھ کر اور سمجھ کر پھر کسی مسئلہ کیلئے کسی مفتی سے زیادہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.میں علی وجہ البصیرت یہ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت صاحب کے فتاویٰ کے مطالعہ سے شریعت اسلام کا مغز ، حقیقت اور عظمت اس قدر دل میں گڑ جاتی ہے کہ دل سے بے اختیار بانی اسلام علیہ الصلوۃ والسلام پر درود شریف نکلتا ہے کہ اس محسن اعظم کے ذریعہ ایسی پاک تعلیم ہم کو نصیب ہوئی.اگر کوئی شخص ضد اور تعصب سے بالکل آنکھیں نہ بند کرے تو صرف اسی فتاویٰ کے مطالعہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایمان اور عرفان کا مرتبہ دیکھ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری یہ نا چیز محنت نافع الناس ثابت ہوکر میرے لئے موجب رضائے الہی ہو.آمین خاکسار فخر الدین مالتانی 1935-9-6 نوٹ :.جن فتووں کے اصل حوالہ جات میسر نہیں آسکے ان کے آگے پرانے فتاوی احمد یہ مؤلفہ چنگوی صاحب کے صفحات کا حوالہ دینے پر اکتفا کیا گیا ہے.(فخر ملتانی)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فہرست مضامین فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صفحہ نمبر صفحہ نمبر مضمون عقائد، عبادات اور معاملات کے ماخذ اسم اعظم مضمون 1 بچہ کے کان میں اذان دینا 256 نماز میں کسالت 74 تارک نماز تارک ایمان ہے 17 17 18,66 21 125 33 20 19 27-25 22 مسئله تعظیم قبلہ خوش الحانی سے قرآن پڑھنا کتاب اللہ وسنت اور حدیث کے مدارج 115,244 عمد أنماز کا تارک کا فر ہے نماز کیا ہے حدیث کی ضرورت 7 نماز وروزہ کا اثر جسم وروح پر حدیث کی عظمت وجه تعیین اوقات پنجگانہ نماز حدیث کی اہمیت فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان نوافل خلاف قرآن حدیث و غیر احمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھو حدیث کے متعلق مذہب 9 سلسلہ احمدیہ سے ناواقف و منافق و مداہن مقلد و غیر مقلد 10 امام کے پیچھے نماز قرآن میں حقیقی سخ اور حقیقی زیادت جائز نہیں 12 غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے والے مسیح موعود کی بعثت کی غرض 14 احمدی کی امامت حضرت امام ابو حنیفہ کی بابت رائے 15 تعداد رکعات فریضہ پنجگانہ ارکان وضوء وضوء سے ازالہ گناہ 15 سورۃ فاتحہ کی پہلی آیات 16 طریق دعائے نماز کپڑے وغیرہ سے نجاست کو دھونے کا راز 266 نماز انسان کا تعویذ ہے مسواک 16 نماز پڑھتے ہوئے کوئی کام کرنا چوغہ یا کوٹ اتار کر وضوء کرنا 267 حج میں احمدی کی نماز اور کعبہ میں چار مصلے 267 امام کا لمبی سورتیں پڑھنا اذان کے وقت بات کرنا یا پڑھنا پانچو قتی اذان کا فلسفہ 16 امام مقتدیوں کا خیال رکھے 267 امام کے کھڑے ہونے کی جگہ 29 30 30 31 288233 32 31 31 له 55 55 55 67
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والہ ii مضمون غسال کے پیچھے نماز مسجد مسجد کا حصہ مکان میں ملانا کسی مسجد کیلئے چندہ مسجد کی زینت صفحہ نمبر مضمون 32 نماز با جماعت کا تکرار 33 بہترین وظیفہ 34 کیا وظیفہ پڑھیں 34 سورۃ مزمل وغیرہ کا وظیفہ 35 قصر نماز و حد سفر کچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز 92 سفر میں قصر محلہ اہل ہنود میں مسجد کو ترک کرنا یا آباد کرنا 268 حکام کا دورہ سفر نہیں نماز میں اپنی زبان میں دعا کرنا 35 دائمی دورہ کرنے والے کی نماز نماز کے اندر مقامات دعا اور ہر زبان میں دعا 36 رفع یدین صفحہ نمبر 269 47 270 72 47 48 49 49 50 50 دعا میں صیغہ واحد کو جمع کرنا نماز کے بعد دعا بدعت ہے 36 سفری تاجر کی نماز 37 نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق ارشاد بوقت حاجت رسول اللہ کا طریق دعا 38 نمازوں کا جمع کرنا جوتے پہن کر نماز پڑھنا امام کے سلام سے پہلے سلام پھیرنا 38 حضرت مسیح موعود کا نمازیں جمع کرنا 38 امامت مسیح موعود علیہ السلام عبادت اور احکام الہی کی دوشاخیں ہیں 39 اپنی زبان میں نماز نہیں پڑھنی چاہئیے فاتحہ خلف الامام پڑھنا ضروری ہے 39 نماز وتر فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے سے نماز ہوتی ہے وتر پڑھنے کا طریق اور وقت امین امین د 51 51 52 68 58 58 59 59 59 63 64 یا نہیں فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے محال نماز میں طریق حصول حضور وظائف و اوراد و تزکیه نفس دلائل الخیرات اور دیگر وظائف 71 سفر میں وتر 72 نماز کے بعد دعا 40 رکوع و سجود میں قرآنی دعا نہ پڑھنا 42 مخالف کی مسجد میں نماز 44 ایک رکعت میں قرآن شریف ختم کرنا بچوں کو نماز میں سب سے پیچھے کھڑا کرنا 46 تصویر اور نماز نماز با جماعت اور تسویہ صفوف کی اہمیت 46 رکوع میں شامل ہونے والے کی رکعت 66 2 2 2 2 64 64
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ وا مضمون رکوع میں ملنے والے کی رکعت E iii صفحہ نمبر مال مویشی رکھنے والوں کی نماز 268 تصویر بنوانے کی غرض مضمون طریق نماز مطابق عمل درآمد حضرت مسیح موعود تسبیح پھیرنے کے متعلق ارشاد 68 تصویر کشی صفحہ نمبر نماز کے بعد تینتیس بار اللہ اکبر وغیرہ پڑھنا 69 حرمت تصویر بازی نماز میں تعدا در کعت کیوں رکھی قضاء عمری قضاء نماز انسان کو نماز کی حاجت 70 تصاویر کی طرف کثرت توجہ پر نارضامندی 73 تصور شیخ 73 حبس دم 74 ظاہری نماز ، روزہ وقربانی لوگوں کے خود تراشیدہ وظائف و سرود و رقص 74 مردہ کی آواز طریق توجه اختراع کردہ صوفیاء علماء وفقراء کے فرقے 78 غیر احمدی کا جنازہ 78 جنازہ غائب نماز خوف نماز اشراق نماز و طریق تہجد تہجد میں رکعات گیارہ ہیں یا تیرہ قبول ہونے والی دعا کے آثار 268 شہید کا جنازہ 269 نماز جنازہ فرض کفایہ ہے 79 چہلم جائز ہے یا نہیں 80 فاتحه خوانی 80 میت کیلئے فاتحہ خوانی بہترین ذریعہ دعا و معراج مومن 81 طعام پر فاتحہ خوانی و منت ماننا معراج 82,278 مردہ کی اسقاط 85 88 95 95 97 89 92 93 94 97 98 98 108 275 98,272 100 119 97 تلاوت قرآن و نماز میں دعا 2 مردہ کا ختم ، استقاط میت و قرآن کو چکر دینا 199,274 امامت مساجد و ائمہ مساجد زمانه موجوده میت کیلئے قل کا حال وروش 83 میت کے صدقہ کے متعلق اجرت پر امامت شرعاً جائز نہیں 4 دسویں محرم کو خیرات کرنا اجرت پر امام الصلوۃ ٹھہرانا رمضان میں تراویح کیلئے حافظ مقرر کرنا 109 مردوں کو سلام کہنا اور ان کا سننا 109 قبر میں سوال وجواب 99 274 99 100 101
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والہ iv مضمون صفحہ نمبر 101 تذکره مولود نبوی علي الى الالم قرضہ لین دین اور مرض الموت میں مبتلا 275 اسلامی مسائل عقل کے موافق ہیں قبر یکی بنانا محرم کے دنوں میں امامین کے روح کو ثواب قرض کے متعلق دعا طاعون زدہ میت کو غسل طاعون زدہ کا کفن 101 جمعہ کے دن مرنا یا میت کا چہرہ اچھا رہنا مضمون 101 میت کیلئے صدقہ دینا اور قرآن شریف پڑھنا 120 مرنے پر کھانا کھلانا صفحہ نمبر 102 دعا بحرمت مسیح موعود پہنچانا 103 ایک دعا اور اس کا جواز روح کا تعلق قبور سے 103 استغفار بکرا وغیرہ جانور جو غیر اللہ کے تھانوں اور استخاره قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں 106 تعظیم امام حسین و اہانت یزید پلید یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً لِلہ کہنا 107 طریق بیعت زیارت قبور 110 زمانہ کے گدی نشین و پیرزادوں کا حال 275 120 126 126 126 127 127 128 263 128 129 ذلت کا رزق 111 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مردوں سے امداد 111 پہلے مشائخ کی بیعت ٹوٹ جاتی ہے ختم اور ختم کی ریوڑیاں 113 مسیح موعود کو ماننے کی ضرورت 129 280 مرده پر نوحه 114 مسیح موعود کو نہ ماننے والے کا فر ہیں یا نہیں 130 سجدہ لغیر اللہ 114 مسئلہ کفر و اسلام 279 ماتم میں بے جا خرچ سے ممانعت 115 اپنے صدق دعوئی و منصب خداداد کے متعلق مردوں سے طلب حاجت و مشکل کشائی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قسم کھانا درخواست کرنا 130 115 اگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو تعویذ باندھنا، دم کرنا 118 بزرگ مانا جائے اور بیعت نہ کی جائے کلام پڑھ کر پھونکنا 119 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد مجدد مردوں کیلئے دعا کرنا 120 جمعه 131 254 131 مردے کیلئے دعا یا صدقہ 273 کیا جماعت جمعہ دو آدمیوں سے ہو سکتی ہے 132
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والہ مضمون ایک مسجد میں دو جمعے جمعہ کے بعد احتیاطی نماز نماز جمعہ میں عورتیں نماز جمعہ کے ساتھ عصر جمع کرنا V صفحہ نمبر مضمون 132 مکان اور تجارتی مال پر زکوۃ 133 قرض پر زکوة 133 وجه تسمیه رمضان 269 نماز تراویح صفحہ نمبر 141 141 141 142 142 غیر مستطیع کی قربانی قربانی کا بکرا کتنی عمر کا ہو 134 فدیہ توفیق روزہ کا موجب ہے 134 تاثیرات روزہ و حضرت مسیح موعود کا التزام صوم 144 قربانی کا جانور ناقص نہ ہو 134 کیا سفر میں روزہ رکھیں قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا 135 بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے غیروں کے ساتھ مل کر قربانی 135 روزه و خدمت والدین حلت خرگوش 135 والدہ کی اطاعت وجودیوں کا ذبیحہ حلال ہے 135 روزه وصال نبوی عليه الا الله خدمت دین بھی ایک طرح حج ہے 271 روزه محرم بدنی و مالی عبادتیں 123 روزہ جہاں چھ ماہ تک سورج نہیں چڑھتا نماز وحج کی حقیقت 124 سفیدی میں نیت روزه موانع حج 137 روزہ دار کا آئینہ دیکھنا جماعت کو وصیت 137 حالت روزہ میں سر داڑھی کو تیل لگانا ہمسایہ فاقہ ہو تو شرعا حج جائز نہیں 137 آنکھ کے بیمار کا روزہ متوفی کا حج دوسرے آدمی کے ذریعہ 138 غیر مستطیع کا فدیہ بدل حج 271 دائگی مسافر اور مریض فدیہ دے سکتے ہیں زکوۃ کیا ہے 138 روزہ دار کا خوشبو لگانا سید کیلئے زکوۃ 139 روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا معلق مال کی زکوۃ 140 گرمی میں مزدور محنتی کا روزہ زیور کی زکوۃ 140 اعتکاف مکانات و جواہرات کی زکوۃ 141 نکاح 145 146 146 148 150 150 270 150 151 151 151 151 152 152 153 153 153 154
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والہ vi مضمون اغراض و فوائد نکاح تعدد ازدواج تعدد ازدواج اور عورتوں میں عدل عورتوں کے حقوق و معاشرت اپنی بیوی سے حسن معاشرت صفحہ نمبر مضمون 154 برات کے ساتھ باجا 155 شادی میں آتش بازی، تماشا و با جا 171 شادی میں لڑکیوں کا گانا 180 ولیمہ 198 عورتوں کی بدعات و شرک 156 مہر کی مقدار بیوہ عورت کا نکاح 157 مہر کا بخشوانا اپنے شوہر کی نافرمان عورتیں 158 سودی روپیہ سے زیور بنوانا اسلامی پرده 159 فاسقہ کا حق وراثت صفحہ نمبر 168 169 171 165 165 165 166 166 167 179 185 احمدی جماعت کے ناطوں رشتوں کے متعلق 160 خواہش اولا دو ترک اولاد غیر اقوام سے ناطہ پہلی بیوی والے کولر کی نہ دینا 161 عورتوں کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرو 162 اہل ہنود کے اعتراض بابت طلاق کا جواب 186 شادیوں میں بیجا خرچ اور بھا جی تقسیم کرنا 162 حلاله و نیوگ تنبول 162 متعه و نینوگ 189 191 نا بالغ کے نکاح کا فتح ادب رسول 163 خدا اور رسول کی حلال کردہ چیزوں میں سے 164 سب سے بری چیز 163 افریقہ کی بر ہنہ عورتوں سے نکاح 164 طلاق دینے سے قبل اقدامات کی ہدایات 196 سید زادی سے نکاح 199 طلاق نا جائز وعدہ نکاح کو توڑنا 199 شرطی طلاق غیر کفو میں نکاح 199 طلاق ایک جلسہ میں بحالت غصہ ایک ناطہ کے متعلق فتویٰ 168 ہدایت برائے مطلقات وطالق و ترتیب طلاق 181 185 195 195 بیوہ کا نکاح کن صورتوں میں ضروری ہے 200 انقضائے عدت اور طلاق ثلاثہ کے بعد دف کے ساتھ اعلان شادی با جا بجانے کی حلت 201 عورت کو نکاح سے روکنا ، عدت میں عورت کو 279 گھر سے نکالنا و طلاق رجعی کی حد 196
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام vii حیض مضمون صفحہ نمبر مضمون ایلا یعنی اپنی بیوی سے جدا ہونے کی قسم کھانا 195 پیشگی وصولی قیمت اخبار کم لی جائے ظہار یعنی اپنی عورت کو ماں کہ بیٹھنا 197 رشوت صفحہ نمبر 181 رشوت و ہدیہ میں فرق غیر حائضہ عورت کی عدت 194 رشوت ستانی حملدار کی عدت 194 رشوت وغیرہ حرام مال سے جو عمارت ہو گانا 201 حکام اور برادری سے تعلق راگ 201 مخالف رشتہ داروں سے تعلق مزامیر 202 ہڑتال کے متعلق 216 220,276 221 221 212 221 222 223 زندگی کا بیمہ کرنا منع ہے 220 جان کے خوف میں والدین کی فرمانبرداری 223 رهن و بیمه 203 ہندوؤں سے ہمدردی 224 زمین کا رہن 204 طعام اہل کتاب و اہل ہنود پر فیصلہ کن تقریر 224 رہن زیوروز کوۃ زیور 204 مخالفوں کے گھر کی چیزیں کھانا کسی شخص کو تجارتی رو پید دینے پر نفع لینا 205 اہل کتاب کا کھانا وزنوں کے باٹوں میں کمی بیشی 205 ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا غلہ ارزاں خرید کر روک رکھنا 206 چھری کانٹے سے کھانا سود اور ایمان 206 حقہ وغیرہ پر نصیحت فتوی در باب سود بینک 207 تمباکو اسلامی تائید کیلئے اجازت سود مختص المقام و حقه نوشی مختص الزمان ہے 211 تمباکو نوشی برائے علاج بینکوں کا سود بونس وغیرہ کا رو پیداز گورنمنٹ 212 شراب سود کا لین دین 213 شراب نوشی سود کا علاج 217 آبکاری کی تحصیلداری جائز ہے یا ناجائز معاملات تجارت میں سود 219 بھنگ و چرس افیون و عادات بد کا چھوڑنا نوٹوں پر میسن 211 تمام اشیائے منشی سے پر ہیز کی تاکید 226 226 227 227 228 228 229 230 231 277 241 232 235
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام viii مضمون مقویات کا استعمال اور مسیح موعود عیسائیوں سے معانقت اور ان کے ساتھ کھانا 236 فری میسن صفحہ نمبر مضمون صفحہ نمبر 235 قیام فیما اقام الله 253 پانی میں دم کرانا اور تبرک لینا 237 مدارات اور مداہنہ میں فرق بندوق سے مرا ہوا جانور 237 صدقہ اور ہدیہ میں فرق دریائی جانورکون سے حلال ہیں 237 صدقہ جاریہ جو ہر کے پانی کا استعمال 238 جنگ میں قتل کرنا صدقہ کی جنس خرید لینا جائز ہے حرمت خنزیر 239 بد خیالات دل کا مواخذاه 239 خودکشی گناہ ہے 240 محرم میں تابوت نکالنا نشانات کے پورا ہونے پر دعوت 241 طاعونی مقامات میں جانے کی ممانعت 253 253 272 273 254 254 255 255 255 جھنڈ یا بودی کسی کے نام پر رکھنا 242 گاؤں میں شدت طاعون کے وقت حکم ہندوؤں والی دھوتی اور بودی 252 طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکالنا 242 طاعونی مریض کا معالجہ و ہمدردی لڑکی کا نام جنت رکھنا چٹھہ یعنی برائے برآمدگی مراد بیجہ دینا 273 طاعونی مقامات ، مریضوں و شہیدوں کے غیر اللہ کی قسمیں کھانا قادیان میں تجارت کیلئے آنا 243 متعلق حضرت مسیح موعود کا ارشاد 258 259 256 256 245 مصیبت زدہ و ماتم والے کے ساتھ ہمدردی 260 ٹیکہ لگوانا 245 گھوڑی کو گدھے سے ملانا کیمیا 245 مسمریزم کیا ہے درازی عمر کا نسخہ 248 نرخ اشیاء تقدیر معلق اور مبرم 249 کنوئیں کو پاک کرنا مشاعره 250 اختلاف فقهاء سانڈ رکھنا 250 مرشد کو سجدہ کرنا نا جائز ہے الباس 251 گزشتہ روحوں کو ثواب داڑھی یعنی ریش رکھنا 251 پندرھویں شعبان کی بدعات 256 258 259 260 261 261 261 262
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والہ مضمون ناول نویسی و ناول خوانی X صفحہ نمبر 262 مضمون لڑکے کی بسم اللہ صفحہ نمبر 262
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 1 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم (۱) عقائد، عبادات اور معاملات کے ماخذ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام :- " مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کیلئے تین چیزیں ہیں.(۱) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں ، وہ خدا کا کلام ہے.وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے.(۲) دوسری سنت، اور اس جگہ ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں.یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے.جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز ہے.سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی.یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ کا فعل اور قدیم سے عادۃ اللہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کیلئے لاتے ہیں تو اپنے عملی فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں.(۳) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں.پس سنت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تو اتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے اور جس طرح آنحضرت قرآن شریف کی اشاعت کیلئے مامور تھے ایسا ہی سنت کی اقامت کیلئے بھی مامور تھے.پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سنت معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے.یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ اپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا.مثلاً جب نماز
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 2 کیلئے حکم ہوا تو آنحضرت نے خدا تعالیٰ کے اس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلا دیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کیلئے یہ یہ رکعات ہیں.ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا.پس عملی نمونہ جواب تک اُمت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اسی کا نام سنت ہے.لیکن حدیث کو آنحضرت عبید اللہ نے اپنے روبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا.کچھ حدیثیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کی تھیں لیکن پھر تقویٰ کے خیال سے انہوں نے وہ سب حدیثیں جلا دیں کہ یہ میرا سماع بلا واسطہ نہیں ہے.خدا جانے اصل حقیقت کیا ہے.پھر جب وہ دور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گزر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے.تب حدیثیں جمع ہوئیں.اس میں شک نہیں کہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متقی اور پر ہیز گار تھے.انہوں نے جہاں تک ان کی طاقت میں تھا حدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو ان کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی.بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی با ایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو او رکھی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ ان حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی.یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا.لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے.تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بے خبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنت کے ذریعہ سے ان میں پیدا ہو گیا تھا.تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلا دیئے تھے.اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے ان ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 3 تاہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا.گویا اسلام نور علی نور ہو گیا اور حدیثیں قرآن اور سنت کیلئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہو گئے ان میں سے بچے فرقہ کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا.پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اس زمانہ کے اہلحدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں اور نیز اگر ان کے قصے صریح قرآن کے بیانات سے مخالف پڑیں تو ایسا نہ کریں کہ حدیثوں کے قصوں کو قرآن پر ترجیح دی جاوے اور قرآن کو چھوڑ دیا جائے اور نہ حدیثوں کو مولوی عبداللہ چکڑالوی کے عقیدہ کی طرح محض لغو اور باطل ٹھہرایا جائے.بلکہ چاہئے کہ قرآن اور سنت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے اور جو حدیث قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو اس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے.یہی صراط مستقیم ہے.مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں.نہایت بد قسمت اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے." ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 209 تا 212 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) فرمایا کہ:.(۲) کتاب اللہ وسنت اور حدیث کے مدارج " یا درکھنا چاہئے کہ جب کوئی نبی خدا کی طرف سے آتا ہے تو وہ دو ذمہ داریاں لے کر آتا ہے اور ا آج رات مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت اور پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اس پر چڑھانا چاہتی ہے جس کی جڑ نہیں بلکہ چڑھا رکھی ہے وہ بوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے جیسے وہ بوٹی اس درخت پر چڑھتی ہے اس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس لطیف درخت میں ایک کھجو اہٹ اور بدشکلی پیدا ہو رہی ہے اور جن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے ان کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہو چکے ہیں.تب میرا دل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پکھل گیا اور میں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پوچھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیا ہے جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے.تب اس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں اور ان کی کثرت نے اس درخت کو د بالیا ہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان کو امانت کے طور پر پہنچا دے.اول کلام الہی.دوئم کلام الہی کے موافق عمل کر کے دکھا دینا اور یہی دو باتیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل ہیں اور اسی کو کتاب اور سنت کہتے ہیں اور اب ایک تیسری بات ان دو کے ساتھ شامل کر لی گئی ہے وہ حدیث ہے.ہمارا مذ ہب یہ ہے کہ وہ تیسری شے یعنی حدیث جب تک ان دونوں یعنی کتاب اور سنت کے موافق نہ ہوگی ہم نہیں مانیں گے.ان لوگوں نے دھوکا دہی کے طور پر سنت اور حدیث کو مخلوط کر کے ایک بنادیا ہے.حالانکہ وہ دو جدا چیزیں ہیں.سنت اور شے ہے اور حدیث اور چیز.سنت کے معنی طریق اور عمل کے ہیں اور حدیث کا مفہوم صرف بات ہے.یعنی وہ باتیں جو لوگوں نے اپنے الفاظ میں مدتوں بعد جمع کیں.آنحضرت علي السلم جو کچھ اللہ تعالیٰ سے پاتے تھے سنت کے طریق پر اسے بتا دیتے تھے.مثلاً نماز کا حکم ہوا، آپ نے نماز پڑھ کر بتادی.ایسا ہی زکوۃ اور اس کے متعلق جملہ امور حج اور اس کے ارکان روزہ اور اس کے متعلقات غرض تمام امور جو اللہ تعالیٰ سے آپ پاتے ، ان کو کر کے دکھا دیتے.آپ کے اس عمل کا نام ہی سنت ہے جو حدیث سے بالکل الگ ہے اور قرآن شریف کی طرح سلسلہ تعامل میں یہ محفوظ ہے.کیا اگر حدیث نہ ہوتی تو ہمارے مخالف کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان نماز نہ پڑھتے یا روزہ نہ رکھتے باز کوۃ نہ دیتے یا حج نہ کرتے ؟ نہیں نماز و روزہ حج زکوۃ اور دیگر ضروریات دین اسی طرح ہوتیں جیسے اب ہیں.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ حدیث کے زمانہ تک جو دو سو برس تک کا زمانہ ہے مسلمانوں میں ضروریات دین پر عمل نہ ہوتا تھا اور جب تک بخاری اور مسلم مرتب نہ ہو گئیں مسلمان مسلمان نہ تھے.یہ تو قرآن اور آنحضرت عبید اللہ کی توہین ہے کہ آپ نے اس ذمہ واری کو پورا نہ کیا جو لے کر آئے تھے.قرآن میں سب کچھ ہے مگر نبوت کا استدلال لطیف ہوتا ہے.جبرائیل سے جو معصوم [ معلوم] ہو تا آنحضرت علي الله علم پا کر اپنے عمل سے دکھا دیتے.پس اس بات سے کبھی دھوکا نہ کھاؤ کہ حدیث اور سنت کو ایک قرار دو.حدیث وہ اقوال رطب و یابس ہیں جو پیچھے جمع ہوئے.ان میں وہی قابل اعتبار ہیں اور حیح ہیں جو کتاب اور سنت کے مخالف اور منافی نہیں ہیں.اگر کوئی سوال کرے کہ قرآن شریف سے نماز کی رکعتیں دکھاؤ ؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ ہمیں حدیث سے نہیں بلکہ سنت سے معلوم ہوا ہے اور اگر حدیثیں ایسی ہی تھیں جیسے قرآن شریف تو پھر
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 5 کیوں آنحضرت علی اللہ نے اپنی ذمہ واری میں فرق ڈالا.نبی کریم علی اللہ نے دو کام کئے.اول قرآن سنا دیا اور پھر اپنے عمل سے دکھا دیا.چنانچہ اوّل کیلئے خدا تعالیٰ نے فرمایا.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ اور دوسرے عمل کے متعلق یعنی سنت کے متعلق فرمایا دیا اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی اور دونوں کے مجموعہ اور نتیجہ کا نام اسلام ہوا.اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ مسیح علیہ السلام کی وفات کے متعلق سنت دکھاؤ تو اس کا جواب یہی ہے کہ سنت موجود ہے.آنحضرت علی اللہ نے خود مر کر دکھا دیا.ورنہ اگر اوپر آسمان پر چڑھ جانا سنت انبیاء تھا تو آسمان پر اڑ جاتے.مگر جیسے قرآن نے شہادت دی مسیح کی وفات پر اور آپ کی وفات پر اِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ آپ نے مر کر دکھا دیا اور مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کی تصدیق کر دی.یہی وجہ ہے کہ پہلا اجماع آپ کی وفات پر حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کی نسبت ہوا.حضرت ابوبکر کا استدلال کیسا لطیف تھا اور یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے اس کو لطیف استدلال اور نبوت کے انوار کا حصہ دیا جاتا ہے اور وہ ملک مخفی رہتا ہے جب تک کہ وہ وقت نہ آجاوے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کیلئے ہوا.غرض خلاصہ کلام یہ ہے کہ کتاب.سنت اور حدیث کو ہرگز ہرگز ملانا نہیں چاہئے." فرمایا کہ:.الحکم نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 24 / مارچ 1902ء صفحہ 2) " ہمارے نزدیک تین چیزیں ہیں ایک کتاب اللہ دوسرے سنت یعنی رسول اللہ صلی اللہ کا عمل اور تیسرے حدیث.ہمارے مخالفوں نے دھوکا کھایا ہے کہ سنت اور حدیث کو باہم ملایا ہے.ہمارا مذہب حدیث کے متعلق یہی ہے کہ جب تک وہ قرآن اور سنت کے صریح مخالف اور معارض نہ ہو اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے خواہ وہ محدثین کے نزدیک ضعیف سے ضعیف کیوں نہ ہو.جبکہ ہم اپنی زبانوں میں دعائیں کر لیتے ہیں تو کیوں حدیث میں آئی ہوئی دعا ئیں نہ کریں جبکہ وہ قرآن شریف کے مخالف بھی نہیں.قرآن شریف پر حدیث کو قاضی بنانا سخت غلطی ہے اور قرآن شریف کی بے ادبی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک بڑھیا نے حدیث پیش کی تو انہوں نے یہی کہا کہ میں ایک بڑھیا کیلئے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن نہیں چھوڑ سکتا.ایسا ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کسی نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ماتم کرنے سے مردہ کو تکلیف ہوتی ہے تو انہوں نے یہی کہا کہ قرآن میں تو آیا ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اخرى پس قرآن شریف پر حدیث کو قاضی.بنانے میں اہلحدیث نے سخت غلطی کھائی.اصل بات یہ ہے کہ اپنی موٹی عقل کی وجہ سے اگر کوئی چیز قرآن میں نہ ملے تو اس کو سنت میں دیکھو اور پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ جن باتوں میں ان لوگوں نے قرآن کی مخالفت کی ہے خودان میں اختلاف ہے.ان کی افراط تفریط نے ہم کو سیدھی اور اصل راہ دکھا دی جیسے یہودیوں اور عیسائیوں کی افراط اور تفریط نے اسلام بھیج دیا.پس حق بات یہی ہے کہ آنحضرت علی یا اللہ نے اپنی سنت کے ذریعہ تو اتر دکھا دیا اور حدیث ایک تاریخ ہے اس کو عزت دینی چاہئے.سنت کا آئینہ حدیث ہے.یقین پر ظن کبھی قاضی نہیں ہوتا کیونکہ ظن میں احتمال کذب کا ہے.امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک قابل قدر ہے انہوں نے قرآن کو مقدم رکھا ہے." کتاب سنت اور حدیث فرمایا:.الحکم نمبر 40 جلد 6 مؤرخہ 10 رنومبر 1902 ء صفحہ 5) " کتاب اللہ سب سے مقدم ہے جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے.اور سنت کے معنی روش اور راہ کے ہیں یا دوسرے لفظوں میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ کا پاک عمل کہو.جو کچھ آپ کو حکم ہوتا تھا آپ اسے کر کے دکھا دیتے تھے اس کر کے دکھا دینے کا نام سنت ہے.ان لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ سنت اور حدیث کو ایک ہی قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں الگ ہیں.اور اگر حدیث جو آپ کے بعد ڈیڑھ سو دو سو برس کے بعد لکھی گئی نہ بھی ہوتی تب بھی سنت مفقود نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ یہ سلسلہ تو جب سے قرآن نازل ہونا شروع ہوا ساتھ ساتھ چلا آتا ہے.اور حدیث وہ اقوال ہیں جو رسول اللہ علب الا اللہ کے منہ سے نکلے اور پھر آپ کے بعد دوسری صدی میں علیہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 7 لکھے گئے." الحکم نمبر 41 جلد 6 مؤرخہ 17 نومبر 1902 ء صفحہ 2 (۳) حدیث کی ضرورت مولوی چکڑالوی کہتا ہے کہ حدیث کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ حدیث کا پڑھنا ایسا ہے جیسے کہ کتے کو ہڈی کا چسکا ہو سکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ کا درجہ قرآن کے لانے میں اس سے بڑھ کر نہیں جیسا کہ ایک چپڑاسی یا مذکوری کا درجہ پروانہ سر کاری لانے میں ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.ایسا کہنا کفر ہے.رسول اللہ صلی اللہ کی بڑی بے ادبی کرنا ہے.احادیث کو ایسی حقارت سے نہیں دیکھنا چاہئے.کفار تو اپنے بتوں کے جنتر منتر کو یا در کھتے ہیں تو کیا مسلمانوں نے اپنے رسول کی باتوں کو یاد نہ رکھا.قرآن شریف کے پہلے سمجھنے والے رسول اللہ صلی اللہ ہی تھے اور اس پر آپ عمل کرتے تھے اور دوسروں کو عمل کراتے تھے.یہی سنت ہے اور اسی کو تعامل کہتے ہیں اور بعد میں ائمہ نے نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ اس سنت کو الفاظ میں لکھا اور جمع کیا اور اس کے متعلق تحقیقات اور چھان بین کی.پس وہ حدیث ہوئی.دیکھو بخاری اور مسلم کو کیسی محنت کی ہے.آخر انہوں نے اپنے باپ دادوں کے احوال تو نہیں لکھے.بلکہ جہاں تک بس چلا صحت و صفائی کے ساتھ رسول الله عليلى السلم کے اقوال وافعال یعنی سنت کو جمع کیا اور اکثر حدیثوں مثلاً بخاری کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نور ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسول اللہ علیل اللہ کے منہ سے نکلی ہیں.مثلاً اِمَامُكُمْ مِنگم کی حدیث کیسی صاف ظاہر کرتی ہے کہ میسج تم میں سے ہوگا اور یہ عیسائیوں کا رد ہے کیونکہ عیسائی فخر کرتے تھے کہ عیسی پھر آئے گا اور دین عیسوی کو بڑھائے گا.لیکن آنحضرت نے سنایا کہ ہم نے اس کو آسمان پر دیگر فوت شدہ لوگوں میں دیکھا اور پھر فرمایا کہ جو آنے والا مسیح ہے وہ اِمَامُكُمْ مِنكُمْ ہو گا.غرض احادیث کے متعلق ایسا کلمہ نہیں بولنا چاہئے ہاں اس معاملہ میں غلو بھی نہیں کرنا چاہئیے کہ اس کو قرآن اور تعامل سے بڑھ کر سمجھا جائے.بلکہ جو کچھ قرآن اور سنت کے مطابق حدیث میں ہو اس کو ماننا چاہئے کیونکہ جب حدیث کی کتا بیں نہ تھیں تب بھی لوگ نمازیں پڑھتے تھے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 8 اور تمام شعائر اسلام بجالاتے تھے.پس قرآن شریف کے بعد تعامل یعنی سنت ہے اور پھر حدیث ہے جوان کے مطابق ہو.مولوی محمد حسین نے پہلے اپنے رسالہ اشاعت السنتہ میں ایسا ہی ظاہر کیا تھا کہ جولوگ خدا سے وحی اور الہام پاتے ہیں وہ اپنے طور پر براہ راست احادیث کی صحت کر لیتے ہیں.بعض وقت قواعد علم حدیث کی رُو سے ایک حدیث موضوع ہوتی ہے اور ان کے نزدیک صحیح اور ایک حدیث صحیح قرار دی ہوئی ان کے نزدیک موضوع.غرض بات یہ ہے کہ قرآن اور سنت اور حدیث تین مختلف چیزیں ہیں." الحکم نمبر 29 جلد 6 مؤرخہ 17 اگست 1902 ، صفحہ 11) (۴) حدیث کی عظمت حدیث پر میرا مذہب ، اس پر حضرت اقدس نے سلسلہ کلام یوں شروع کیا کہ:."میرا مذ ہب یہ ہے کہ حدیث کی بڑی تعظیم کرنی چاہئے.کیونکہ یہ آنحضرت سے منسوب ہے.جب تک قرآن شریف سے متعارض نہ ہو تو مستحسن یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے.مگر نماز کے بعد دعا کے متعلق حدیث سے التزام ثابت نہیں.ہمارا تو یہ اصول ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے جو قرآن شریف سے مخالف نہ ہو." فرمایا:.احکام نمبر 39 جلد 6 مؤرخہ 31 اکتوبر 1902، صفحه 1) (۵) حدیث کی اہمیت یہ ہم پر افترا کرتے ہیں کہ ہم حدیث کو نہیں مانتے حالانکہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کر لینا چاہئے اگر وہ قرآن کے معارض نہ ہو.مگر وہ باوجود یکہ قرآن پر حدیث کو مقدم کرتے ہیں اور قاضی ٹھہراتے ہیں لیکن پھر بھی اس کی اتنی بڑی عزت نہیں کرتے.چنانچہ حنفی رفع یدین کی حدیثوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ان پر عمل بُرا سمجھتے ہیں اور انہیں بریکار چھوڑتے ہیں.ایسا ہی دوسرے فرقوں کا حال ہے کہ وہ حدیث کی خود بھی عزت نہیں کرتے.پھر احادیث کو وہ خود ظنی سمجھتے ہیں اور ظن وہ ہے جس میں احتمال کذب ہو.پھر فن یقین ( کتاب اللہ ) پر حکم اور قاضی کس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 9 طرح ہو سکتا ہے؟ قرآن شریف مقبول فریقین ہے اور حدیث مقبول فریقین نہیں ہے.ہم یہ بھی پوچھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے جس قدر اہتمام قرآن شریف کے لکھانے کا کیا ہے احادیث کا کہاں کیا ہے؟ اور علاوہ بریں کوئی حدیث ہی ہم کو دکھاؤ جس میں آپ نے پیشگوئی کی ہو کہ میرے بعد فلاں فلاں شخص آئے گا اور وہ احادیث کو جمع کرے گا.حدیث اور ہم ہمارا مذ ہب اور اعتقاد حدیث کے متعلق یہ ہے کہ ہم ہر حدیث کو جو قرآن شریف سے معارض اور سنت کے مخالف نہ ہو مانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پر عمل کریں خواہ وہ محدثین کے نزدیک ضعیف سے ضعیف بھی ہو.اصل میں یہ تین چیزیں ہیں جو میں نے کئی بار بیان کی ہیں." فرمایا:.الحکم نمبر 41 جلد 6 مؤرخہ 17 نومبر 1902ء صفحہ 2,1) (۶) خلاف قرآن حدیث "ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسی ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کے بنائے ہوئے فقہ پر اس کو ترجیح دیں اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں.لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبد اللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں.ہاں جہاں قرآن اور سنت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اس حدیث کو چھوڑ دیں." الحکم نمبر 43 جلد 6 مؤرخہ 30 نومبر 1902 ، صفحہ 9 فرمایا:.(۷) حدیث کے متعلق مذہب "حدیث کے متعلق ہمارا مذ ہب ہے کہ ادنیٰ سے ادنی بھی ہو تو اس پر عمل کر لیا جاوے جب تک کہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 10 وہ مخالف قرآن نہ ہو." پھر سنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ "امام اعظم علیہ الرحمہ نے رفع یدین پر کیوں عمل نہ کیا.کیا اس وقت حدیث کے راوی نہ تھے.راوی تو تھے مگر چونکہ یہ سنت اس وقت ان کو نظر نہ آئی اس لئے انہوں نے عمل نہیں کیا.مولویوں کی بدقسمتی ہے کہ یہود و نصاری محرف و مبدل تو ریت کو لئے پھرتے ہیں اور یہ بجائے قرآن کے حدیثوں کو لئے پھرتے ہیں." اخبار بدر نمبر 3 جلد 1 مؤرخہ 14 نومبر 1902 ، صفحہ 19) حدیث فرمایا:- ایک اور غلطی اکثر مسلمانوں کے درمیان ہے کہ وہ حدیث کو قرآن شریف پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ یہ غلط بات ہے.قرآن شریف ایک یقینی مرتبہ رکھتا ہے اور حدیث کا مرتبہ ظنی ہے.حدیث قاضی نہیں بلکہ قرآن اس پر قاضی ہے.ہاں حدیث قرآن شریف کی تشریح ہے.اس کو اپنے مرتبہ پر رکھنا چاہئے.حدیث کو اس حد تک مانا ضروری ہے کہ قرآن شریف کے مخالف نہ پڑے اور اس کے مطابق ہو.لیکن اگر اس کے مخالف پڑے تو وہ حدیث نہیں بلکہ مردود قول ہے.لیکن قرآن شریف کے سمجھنے کے واسطے حدیث ضروری ہے.قرآن شریف میں جو احکام الہی نازل ہوئے.آنحضرت علی اللہ (نے) ان کو عملی رنگ میں کر کے اور کرا کے دکھا دیا اور ایک نمونہ قائم کر دیا.اگر یہ نمونہ نہ ہوتا تو اسلام سمجھ میں نہ آ سکتا.لیکن اصل قرآن ہے.بعض اہل کشف آنحضرت علی یا اللہ سے براہ راست ایسی صلى حدیثیں سنتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوئیں یا موجودہ احادیث کی تصدیق کر لیتے ہیں." الحکم نمبر 21 جلد 10 مؤرخہ 17 / جون 1906 صفحہ 4 فرمایا:- {(۸) مقلد و غیر مقلد} اس میں کیا شک ہے کہ مدار نجات و رضا مندی حضرت باری عزاسمہ اتباع رسول الله عليل العلم ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ لیکن اس دوسری
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 11 بات میں بھی کچھ شک نہیں کہ آج کل جو دو گروہ اس ملک میں پائے جاتے ہیں.جن میں سے ایک گروہ اہلحدیث یا موحد کہلاتے ہیں اور دوسرے گروہ اکثر حفی یا شافعی وغیرہ ہیں اور دونوں گروہ اپنے تئیں اہل سنت سے موسوم کرتے ہیں ان میں سے ایک گروہ نے تفریط کی راہ لی اور دوسرے گروہ نے افراط کی.اور اصل منشائے نبوی کو یہ دونوں گروہ اس افراط اور تفریط اور غلو کی وجہ سے چھوڑ بیٹھے ہیں.تفریط کا طریق موحدین نے اختیار کیا ہے.اس گروہ نے ہر ایک طبقہ کے مسلمان اور ہر ایک مرتبہ کی عقل کو اس قدر آزادی دے دی ہے جس سے دین کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے اور در حقیقت اسی آزادی سے فرقہ نیچر یہ بھی پیدا ہو گیا ہے جن کے دلوں میں کچھ بھی عظمت سید نا نبی علیہ السلام اور خدا کے پاک کلام کی باقی نہیں رہی.جس حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.اور ایسا ہی حدیث نبوی میں بھی ہے کہ تم دیکھ لیا کرو کہ اپنے دین کو کس سے لیتے ہو.پس یہ کیونکر ہو سکے کہ ہر ایک شخص جس کو ایک کامل حصہ تقویٰ کا بھی حاصل نہیں اور نہ وہ بصیرت اس کو عطا کی گئی ہے جو پاک لوگوں کو دی جاتی ہے.وہ جس طرح چاہے قرآن کے معنی کرے اور جس طرح چاہے حدیث کے معنی کرے بلکہ بلاشبہ وہ ضَلُّوا وَأَضَلُّوا کا مصداق ہوگا.اگر یہی خدا تعالیٰ کا بھی منشا تھا کہ تمام لوگوں کو اس قدر آزادی دی جائے تو پھر انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے کی کچھ بھی ضرورت نہ تھی بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے صرف آسمان سے بغیر توسط کسی انسان کے قرآن شریف نازل ہوسکتا تھا.پس جبکہ یہ سلسلہ ہدایت الہی کا انسانی توسط سے ہی شروع ہوا ہے اور توسط ان لوگوں کا جو خدا سے ہدایت پاتے ہیں.پس اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہی طریق قیامت تک جاری رہے گا.اسی کی طرف اشارہ وہ حدیث کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر مجدد مبعوث ہوگا اور اس کی طرف یہ آیت کریمہ اشارہ کرتی ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اس دین کی محافظت اپنے ذمہ لی ہے.پس جبکہ خدا کے ذمہ اس دین کی محافظت ہے تو اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ محافظت کے بارہ میں جو قدیم قانون خدا کا ہے اسی طریق اور منہاج سے وہ دین اسلام کی محافظت کرے گا.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلاً اور وہ طریق مجددین و مصلحین کا ہے.غرض موحدین نے تو حد سے زیادہ بے قیدی اور آزادی کا راستہ کھول دیا ہے.بغل میں مشکوۃ یا بخاری یا مسلم
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 12 چاہئیے اور عربی خوانی کی استعداد.پھر ایسے اشخاص کو حسب رائے موحدین کسی امام کی ضرورت نہیں.اور فرقہ مقلدین اس قدر تقلید میں غرق ہیں کہ وہ تقلید اب بت پرستی کے رنگ میں ہوگئی ہے.غیر معصوم لوگوں کے اقوال حضرت سید نا رسول اللہ علیم اللہ کے قول کے برابر سمجھے جاتے ہیں.صد ہا بدعات کو دین میں داخل کر لیا ہے.قراءۃ فاتحہ خلف الامام اور آمین بالجہر پر یوں چڑتے ہیں جس طرح ہمارے ملک کے ہندو بانگ نماز پر.خوب جانتے ہیں کہ لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ حديث صحيح ہے اور قرآن کریم فاتحہ سے ہی شروع ہوا ہے.مگر پھر اپنی ضد کو نہیں چھوڑتے.پس اس تنازع میں فیصلہ یہ ہے کہ اہل بصیرت اور معرفت اور تقویٰ اور طہارت کے قول اور فعل کی اس حد تک تقلید ضروری ہے جب تک کہ بہداہت معلوم نہ ہو کہ اس شخص نے عمد یا سہواً قرآن اور احادیث نبویہ کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہر ایک نظر دقائق دنیا تک پہنچ نہیں سکتی لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - مطہر کا دامن پکڑ نا ضروری ہے.مگر ساتھ ہی یہ شرط ہے کہ وہ شخص جس کی ان شرطوں کے ساتھ تقلید کی جاوے معضلات دین جو حالات موجودہ زمانہ کے موافق پیش آویں اس سے حل کر سکیں.اسی کی طرف اشارہ صداقت مَنُ لَم يَعْرِفُ اِمَامَ زَمَانِهِ الخ کرتی ہے.ہاں جس قدر ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم یا ان کے شاگردوں نے دین میں کوشش کی ہے حتی المقدور ان کی کوششوں سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور ان بزرگوں کے اجتہادات کو نیک ظن کے ساتھ دیکھنا چاہئے.ان کا شکر کرنا چاہئے اور تعظیم اور نیکی کے ساتھ ان کو یاد کرنا چاہئے اور ان کی عزت اور قبولیت کو رد نہیں کرنا چاہئے.فرمایا:.{ ( فتاوی احمدیہ صفحہ ۵ ایڈیشن اول ) ( یہ اقتباس تا حال اصل ماخذ سے نہیں مل سکا ) (۹) قرآن میں حقیقی نسخ وحقیقی زیادت جائز نہیں " کیا اس سبحانہ نے قرآن کریم کا نام عام طور پر قول فصل اور فرقان اور میزان اور امام اور نور نہیں رکھا؟ اور کیا اس کو جمیع اختلافات کے دور کرنے کا آلہ نہیں ٹھہرایا ؟ اور کیا یہ نہیں فرمایا کہ اس میں ہر ایک چیز کی تفصیل ہے؟ اور ہر ایک امر کا بیان ہے.اور کیا یہ نہیں لکھا کہ اس کے فیصلہ کے مخالف کوئی حدیث
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 13 ماننے کے لائق نہیں؟ اور اگر یہ سب باتیں سچ ہیں تو کیا مومن کیلئے ضروری نہیں جو ان پر ایمان لاوے اور زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرے؟ اور واقعی طور پر اپنا یہ اعتقادر کھے کہ حقیقت میں قرآن کریم معیار اور حکم اور امام ہے.لیکن محجوب لوگ قرآن کریم کے دقیق اشارات اور اسرار کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے اور اس سے مسائل شرعیہ کا استنباط اور استخراج کرنے پر قادر نہیں اس لئے وہ احادیث صحیحہ نبویہ کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ گویا وہ قرآن کریم پر کچھ زواید بیان کرتی ہیں یا بعض احکام میں ان کی ناسخ ہیں.اور نہ زواید بیان کرتی ہیں بلکہ قرآن شریف کے بعض مجمل اشارات کی شارح ہیں.قرآن کریم آپ فرماتا ہے مَانَفُسَخُ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنَسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (البقره: 107 ) یعنی کوئی آیت ہم منسوخ یا منسی نہیں کرتے جس کے عوض دوسری آیت ویسی ہی یا اس سے بہتر نہیں لاتے.پس اس آیت میں قرآن کریم نے صاف فرما دیا ہے کہ نسخ آیت کا آیت سے ہی ہوتا ہے.اسی وجہ سے وعدہ دیا ہے کہ نسخ کے بعد ضرور آیت منسوخہ کی جگہ آیت نازل ہوتی ہے.ہاں علماء نے مسامحت کی راہ سے بعض احادیث کو بعض آیات کی ناسخ ٹھہرایا ہے جیسا کہ حنفی فقہ کی رو سے مشہور حدیث سے آیت منسوخ ہو سکتی ہے مگر امام شافعی اس بات کا قائل ہے کہ متواتر حدیث سے بھی قرآن کا نسخ جائز نہیں اور بعض محدثین خبر واحد سے بھی نسخ آیت کے قائل ہیں لیکن قائلین نسخ کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر حدیث سے آیت منسوخ ہو جاتی ہے بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ واقعی امر تو یہی ہے کہ قرآن پر نہ زیادت جائز ہے اور نہ نسخ کسی حدیث سے.لیکن ہماری نظر قاصر میں جو استخراج مسائل قرآن سے عاجز ہے.یہ سب باتیں صورت پذیر معلوم ہوتی ہیں اور حق یہی ہے کہ حقیقی نسخ اور حقیقی زیادت قرآن پر جائز نہیں کیونکہ اس سے اس کی تکذیب لازم آتی ہے.نورالانوار جو حنفیوں کے اصول فقہ کی کتاب ہے اس کے صفحہ 91 میں لکھا ہے.رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ الله بَعَثَ مُعَاذاً إِلَى الْيَمَنِ قَالَ لَهُ بِمَا تَقْضِى يَا مُعَاذُ فَقَالَ بِكِتَابِ اللهِ قَالَ فِإِنْ لَّمْ تَجِدْ قَالَ بِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَّمْ تَجِدْ قَالَ اَجْتَهِدُ بِرَأْيِي فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى وَفَّقَ رَسُوْلَهُ بِمَا يَرْضَى به رَسُولُهُ لَا يُقَالُ إِنَّهُ يُنَاقِضُ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالى مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ فَ فِي الْقُرْآنِ فَكَيْفَ يُقَالُ فَإِنْ لَّمْ تَجِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ لَا نَّا نَقُولُ إِنَّ عَدَمَ الْوَجُدَانِ لَا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 14 يَقْضِي عَدَمَ كَوْنِهِ فِى الْقُرْآن وَلِهَذَا قَالَ الله فَإِنْ لَّمْ تَجِدُ وَلَمْ يَقُلُ فَإِن لَّمْ يَكُنْ فِى الْكِتَابِ.اس عبارت مذکورہ بالا میں اس بات کا اقرار ہے کہ ہر ایک امر دین قرآن میں درج ہے.کوئی چیز اس سے باہر نہیں اور اگر تفاسیر کے اقوال جو اس بات کے موید ہیں بیان کئے جائیں تو اس کیلئے ایک دفتر چاہئے لہذا اصل حق الامر یہی ہے کہ جو چیز قرآن سے باہر یا اس کے مخالف ہے وہ مردود ہے اور احادیث صحیحہ قرآن سے باہر نہیں کیونکہ وحی غیر متلو کی مدد سے وہ تمام مسائل قرآن سے مستخرج اور مستنبط کئے گئے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ وہ استخراج اور استنباط بحجز رسول اللہ یا اسی شخص کے جو ظلی طور پر ان کمالات تک پہنچ گیا ہو ہر یک کا کام نہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جن کو ظلی طور پر عنایات الہیہ نے وہ علم بخشا ہو جو اس کے رسول متبوع کو بخشا تھا وہ حقائق و معارف دقیقہ قرآن کریم پر مطلع کیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ کا وعدہ ہے.لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُون (الواقعہ: 80) اور جیسا کہ وعدہ ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً (البقرہ: 270) اس جگہ حکمت سے مراد علم قرآن ہے.سو ایسے لوگ وحی خاص کے ذریعہ سے علم اور بصیرت کی راہ سے مطلع کئے جاتے ہیں اور صحیح اور موضوع میں اس خاص طور کے قاعدہ سے تمیز کر لیتے ہیں.گو عوام اور علمائے ظواہر کو اس کی طرف راہ نہیں لیکن ان کا اعتقاد بھی تو یہی ہونا چاہئے کہ قرآن کریم بے شک احادیث مرویہ کیلئے بھی معیار اور محک ہے." الحق مباحثہ لدھیانہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 90 تا 92 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۱۰) مسیح موعود کی بعثت کی غرض ( از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) افْتَرَقَتِ الْأُمَّةُ وَتَشَاجَرَتِ الْمِلَّةَ فَمِنْهُمْ حَنْبَلِيٌّ وَشَافِعِيٌّ وَ مَالِكِيٌّ وَ حَنَفِيٌّ وَحِزْبُ الْمُتَشَعِيْنَ وَلَا شَكٍّ أَنَّ التَّعْلِيْمَ كَانَ وَاحِدًا وَلَكِنِ اخْتَلَفَتِ الْأَحْزَابُ بَعْدَ ذلِكَ فَتَرَوْنَ كُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحِيْنَ.وَكُلُّ فِرْقَةٍ بَنِى لِمَذْهَبِهِ قَلْعَةً وَلَا يُرِيْدُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْهَا وَلَوْ وَجَدَ أَحْسَنَ مِنْهَا صُوْرَةً وَكَانُوْا لِعِمَاسِ إِخْوَانِهِمْ مُتَحَصِنِيْنَ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 15 فَأَرْسَلَنِيَ اللَّهُ لَا سَتَخْلِصَ الصَّيَاصِي وَاسْتَدْنِيَ الْقَاصِي وَانْذِرَ الْعَاصِي وَيَرْتَفِعَ الْاِخْتِلَافُ وَيَكُوْنُ الْقُرْآنُ مَالِكَ النَّوَاصِي وَقِبْلَةَ الدِّيْنِ.امت کے کئی فرقے بن گئے اور ملت میں اختلاف پیدا ہو گیا پس بعض حنبلی اور شافعی اور مالکی اور حنفی اور بعض اہل تشیع بن گئے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم اسلام ایک ہی تھی لیکن بعد ازاں کئی مختلف گروہ بن گئے اور ہر گروہ اپنے عندیہ پر مسرور ہے ہر فرقہ نے اپنے مسلک کا ایک قلعہ بنا رکھا ہے اور اس سے نکلنا نہیں چاہتے اگر چہ اس سے بہتر صورت ان کومل جائے اور اپنے بھائیوں کی جہالت اور تاریکی کی وجہ سے قلعہ بند ہو گئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ اہل قلعہ کو خلاصی دوں اور دور کو نز دیک کروں اور نافرمانوں کو عذاب الہی کی خبر سناؤں اور اختلاف رفع ہو جائے اور قرآن کریم پیشانیوں کا مالک اور دین اسلام کا قبلہ ہو جائے." ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 560,559 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۱۱) حضرت امام ابو حنیفہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی رائے فرمایا:." امام بزرگ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ..وعلم دین کے ایک دریا تھے..فانی فی سبیل الله.وہ ایک بحر اعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اس کا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابو حنیفہ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں ید طولی تھا.خدا تعالیٰ حضرت مجددالف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے اپنے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنے والے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے." الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 88 و 99 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) (۱۲) ارکان وضو فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 16 " وضوکرنا تو صرف ہاتھ پیر اور منہ دھونا ( ومسح سر.ناقل ) ہے." ( نور القرآن نمبر 2 ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 420 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) (۱۳) وضو سے ازالہ گناہ (از حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) " آپ کا یہ کہنا کہ وضو کرنے سے گناہ کیونکر دور ہو سکتے ہیں.شارع علیہ السلام کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے حکم بھی ضائع نہیں جاتے.اور ان کے بجا مطلب.لانے سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں." ( نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 420 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۱۴) مسواک حضرت صاحب مسواک کو بہت پسند فرماتے ہیں اور علاوہ مسواک کے اور مختلف چیزوں سے دن میں کئی دفعہ دانتوں کو صاف کرتے ہیں اور نبی کریم کی بھی یہی سنت تھی.پس سب کو چاہئے کہ اس طرف بھی توجہ رکھا کریں.اخبار بدر نمبر 9 جلد 6 مؤرخہ 28 فروری 1907 ء صفحه 10) (۱۵) اذان کے وقت بات کرنا اور پڑھنا منع نہیں ہے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قدر تقریر فرمائی تھی کہ عصر کی اذان ہوگئی اور نواب صاحب اور مشیر اعلیٰ صاحب خاموش ہو گئے.حضرت نے فرمایا کہ:." اذان میں باتیں کرنی منع نہیں ہیں.آپ اگر کچھ اور بات پوچھنا چاہتے ہیں تو پوچھ لیں کیونکہ بعض باتیں انسان کے دل میں ہوتی ہیں اور وہ کسی وجہ سے ان کو نہیں پوچھتا اور پھر رفتہ رفتہ وہ بُرا نتیجہ پیدا کرتی ہیں.جو شکوک پیدا ہوں ان کو فوراً باہر نکالنا چاہئے ، یہ بُری غذا کی طرح ہوتی ہیں اگر نہ نکالی جائیں تو سور ہضمی ہو جاتی ہے." الحکم نمبر 12 جلد 8 مؤرخہ 10 / اپریل 1904 صفحہ 3)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 17 ایک شخص اپنا مضمون اشتہار در بارہ طاعون سنار ہا تھا اذان ہونے لگی وہ چپ ہو گیا.فرمایا:.پڑھتے جاؤ اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے." الحکم نمبر 15 جلد 6 مؤرخہ 24 اپریل 1902 صفحہ 8 (۱۶) بچہ کے کان میں اذان دینا سوال:.حکیم محمد عمر صاحب نے فیروز پور سے دریافت کیا کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو مسلمان اس کے کان میں اذان کہتے ہیں، کیا یہ امر شریعت کے مطابق ہے یا صرف ایک رسم ہے؟ جواب:.فرمایا " یہ امر حدیث سے ثابت ہے اور نیز اس وقت کے الفاظ کان میں پڑے ہوئے انسان کے اخلاق اور حالات پر ایک اثر رکھتے ہیں.لہذا یہ رسم اچھی ہے اور جائز ہے." ( اخبار بدر نمبر 13 جلد 6 مؤرخہ 28 / مارچ 1907 ء صفحہ 4 (۱۷) نماز میں کسالت ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور نماز کے متعلق ہمیں کیا حکم ہے؟ اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:."نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت علی اللہ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں.مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے.تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو کہ جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا.وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے یہی کہ اپنے عجز نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گر جانا اس سے اپنی حاجات کا مانگنا.یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اُس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے تو ایسا ہے.اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلانا اور پھر اس سے مانگنا.پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 18 ے ہو انسان ہر وقت محتاج ہے کہ اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتا ر ہے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگار ہو کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جاسکتا ہے.اے خدا ہم کو تو فیق دے کہ ہم تیرے جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر تجھے راضی کر لیں.خدا کی محبت اسی کا خوف اسی کی یاد میں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے.پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے.اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا.وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سور ہنا یہ تو دین ہر گز نہیں.یہ سیرت کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے.چنانچہ قرآن شریف میں ہے فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْ كُمْ وَاشْكُرُ وَلِي وَلَا تَكْفُرُونِ(البقره: 153) یعنی اے میرے بندو تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو.میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نام کفر ہے.پس جو دم غافل وہ دم کا فر والی صاف بات ہے.یہ پانچ وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہوئے ہیں.ورنہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگا رہنا چاہئے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہئے.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت اسی کی یاد میں غرق ہونا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ پر کسی طرح کی امید اور بھروسہ کرنے کا حق رکھ سکتا ہے.اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے.جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اتنا ہی زیادہ تیزی کوشش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہوگا.سوخدا تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بعد اور دوری بھی لمبی.پس جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا." فرمایا:.الحکم نمبر 12 جلد 7 مؤرخہ 31 / مارچ 1903 صفحہ 8,7) (۱۸) جو تارک نماز ہے وہ تارک ایمان ہے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 19 اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اسے دل کی تسکین آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے غافل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.وہ زمانہ جس میں نمازیں سنوار کر پڑھی جاتی تھیں غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا.جب سے اسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں.درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے.ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کوحل اور آسان کر دیا ہوا ہوتا ہے.نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اس کی عرض کو اچھی طرح سنتا ہے.پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا ہے اور گزارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے.نمازی کا یہی حال ہے.خدا کے آگے سر بیجھ درہتا ہے اور خدا کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے پھر آخر کچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے واسطے بولتا اور اس کو جواب دے کر تسلی دیتا ہے.بھلا یہ بحر حقیقی نماز کے ممکن ہے ہر گز نہیں.اور پھر جن کا خدا ہی ایسا نہیں وہ بھی گئے گزرے ہیں ان کا کیا دین اور کیا ایمان ہے وہ کس امید پر اپنی اوقات ضائع کرتے ہیں." الحکم نمبر 12 جلد 7 مؤرخہ 31 / مارچ 1903 صفحہ 8 ) (۱۹) فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان نوافل ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ نماز فجر کی اذان کے بعد دوگانہ فرض سے پہلے اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے تو جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:."نماز فجر کی اذان کے بعد سورج نکلنے تک دو رکعت سنت اور دو رکعت فرض کے سوا اور کوئی نماز البدر نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 7 فروری 1907 ء صفحہ 4
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 20 20 فرمایا:.(۲۰) وجه تعیین اوقات پنجگانہ نماز پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں.وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے.تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کیلئے ان کا وار دہونا ضروری ہے.(1) پہلے جب کہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا.یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوشحالی میں خلل ڈالا.سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا.اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے.(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو.مثلاً جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے.سو یہ حالت تمہاری اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اس پر جم سکتی ہے.اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی.(۳) تیسرا تغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلی امید منقطع ہو جاتی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کیلئے گزر جاتے ہیں.یہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امید میں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتیں ہیں.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہوئی.(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے.مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنا دیا جاتا ہے اور قید کیلئے ایک پولیس مین کے تم حوالے کئے جاتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 21 پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشا مقرر ہے.(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے.مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے.سواس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے.اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کیلئے ہیں.پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہارے اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظل ہیں.نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے.تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضا وقد رکو تمہارے لئے لائے گا.پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے." فرمایا:.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 69, 70 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۱) عمد انماز کا تارک کا فر ہے " تفسیر حسینی میں زیر تغییر آیت وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (الروم : 32) لکھا ہے کہ کتاب تیسیر میں شیخ محمد ابن اسلم طوسی سے نقل کیا ہے کہ ایک حدیث مجھے پہنچی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ فرماتے ہیں کہ " جو کچھ مجھ سے روایت کرو پہلے کتاب اللہ پر عرض کر لو.اگر وہ حدیث کتاب اللہ کے موافق ہو تو وہ حدیث میری طرف سے ہوگی ورنہ نہیں."سو میں نے اس حدیث کو کہ مَنْ تَرَكَ الصَّلوةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ قرآن سے مطابق کرنا چاہا اور تمیں سال اس بارہ میں للاعن جابر ان النبي الله قال بَيْنَ الْكُفْرِ وَ الْإِيْمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ - (سنن ترمذى كتاب الايمان باب ترک الصلاة) ترجمہ : حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم عید یا اللہ نے فرمایا کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا ترک کرنا ہے.(حاشیہ از مرتب) عليه
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 22 22 فکر کرتا رہا مجھے یہ آیت می وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (الروم :32) - " (الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 40 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۲) غیر احمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھو کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپ کے مرید نہیں ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے.حضرت نے فرمایا:." جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کر کے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے رڈ کر دیا ہے اور اس قدر نشانوں کی پروانہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لا پروا پڑے ہیں ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے کہ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتا ہے.اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں.قدیم سے بزرگان دین کا یہی مذہب ہے کہ جو شخص حق کی مخالفت کرتا ہے رفتہ رفتہ اس کا سلب ایمان ہو جاتا ہے.جو پیغمبر خدا علی ملالہ کو نہ مانے وہ کافر ہے مگر جو مہدی اور مسیح کو نہ مانے اس کا بھی سلب ایمان ہو جائے گا انجام ایک ہی ہے.پہلے تخالف ہوتا ہے پھر اجنبیت پھر عداوت پھر غلو اور آخر کا رسلب ہو جاتا ہے." فرمایا:- الحکم نمبر 10 جلد 5 مؤرخہ 17 / مارچ 1901 ، صفحہ 8 یہ معمولی اور چھوٹی سی بات نہ سمجھیں بلکہ یہ ایمان کا معاملہ ہے.جنت اور دوزخ کا سوال ہے.میرا انکار میرا انکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ کا انکار ہے.کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرا لیتا ہے جب کہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجو د وعدہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَوَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا.جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 23 لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح اس محمدی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا.مگر اس نے معاذ اللہ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امت میں نہیں.اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ کو مثیل موسی قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے معاذ اللہ کیونکہ اس سلسلہ کی اتم عليه وسلم مشابہت اور مماثلت کیلئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اس اُمت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا اسی طرح پر جیسے موسوسی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی بلکہ میں دعوی سے کہتا ہوں کہ الْحَمْدُ سے لے کر وَالنَّاسِ تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا.پھر سوچو! کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے.یہ میں از خود نہیں کہتا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کر دی اور خدا کو چھوڑ دیا.اس کی طرف میرے ایک الہام میں بھی اشارہ ہے.انتَ مِنِّی وَاَنَا مِنگ بے شک میری تکذیب سے خدا کی تکذیب لازم آتی ہے اور میرے اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.( سورة النور : 56 ) ترجمہ: اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا.جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنادیا تھا.اور جو دین اس نے ان کیلئے پسند کیا ہے وہ ان کیلئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کیلئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا.وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے.( حاشیہ از مرتب)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 24 اقرار سے خدا تعالیٰ کی تصدیق ہوتی ہے اور اس کی ہستی پر قوی ایمان پیدا ہوتا ہے.اور پھر میری تکذیب میری تکذیب نہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ کی تکذیب ہے.اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کیلئے جرات کرے ذرا اپنے دل میں سوچے اور اس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟ اس طرح پر کہ آپ نے جو وعدہ کیا عليه وسلم تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا وہ معاذ اللہ جھوٹا نکلا.اور پھر آپ نے جو اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ فرمایا تھا.وہ بھی معاذ اللہ غلط ہوا ہے اور آپ نے جو صلیبی فتنہ کے وقت ایک مسیح و مہدی کے آنے کی بشارت دی إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة) ترجمہ: یقینا اللہ تعالیٰ اس امت کیلئے ہر صدی کے سر پر ایسے لوگ مبعوث کرتارہے گا جو اس امت کیلئے اس کے دین کی تجدید کیا کریں گے.قَالَ رَسُولُ اللهِ الله كَيْفَ اَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ - (صحیح بخاری کتاب احاديث الانبياء باب نزول عیسی ابن مریم) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا اس وقت تمہاری کیسی خوش قسمتی ہوگی جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہی ہوگا.قَالَ رَسُولُ اللهِ الله وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُؤْشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيْب وَيَقْتُلَ الخِنزيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالِ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ - (صحيح بخاری کتاب احادیث الانبياء باب نزول عیسی ابن مریم ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل کے طور پر نازل ہوگا.پس وہ صلیب کو توڑ دے گا اور خنزیر کوقتل کرے گا اور جزیہ کو موقوف کرے گا اور مال لوٹائے گا لیکن کوئی اسے قبول نہیں کرے گا.لفظ نزول کے معنوں کی حقیقت جاننے کیلئے قرآن کریم کی درج ذیل آیات ملاحظہ کریں:.ا قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا (سورۃ الاعراف : 27) ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا.۲.وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ (سورة الحديد: (26) اور ہم نے لوہا ا تا را ۳.قَدْ نَزَلَ اللهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُولًا ( سورة الطلاق :12,11) اللہ نے تمہاری طرف ایک رسول کے طور پر عظیم ذکر نازل کیا ہے.۲.وَ انْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجِ (سورة الزمر (7) اور اس نے تمہارے لئے چارپایوں میں سے آٹھ جوڑے بنائے ہیں.مذکورہ بالا آیات میں لفظ نزول وانزال کے معنی صرف آسمان سے اُترنے واُتارنے کے نہیں ہیں بلکہ ظاہر کرنے ، پیدا ہونے اور پیدا کرنے کے بھی ہیں.(حاشیہ از مرتب)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 25 25 تھی وہ بھی معاذ اللہ غلط نکلی کیونکہ فتنہ تو موجود ہو گیا مگر وہ آنے والا امام نہ آیا.اب ان باتوں کو جب کوئی تسلیم کرے گا عملی طور پر کیا وہ آنحضرت علی اللہ کا مکذب ٹھہرے گا یا نہیں ؟ پس پھر میں کھول کر کہتا عليه وسلم ہوں کہ میری تکذیب آسان امر نہیں مجھے کافر کہنے سے پہلے خود کافر بننا ہوگا.مجھے بے دین اور گمراہ کہنے میں دیر ہوگی مگر پہلے اپنی گمراہی اور روسی ہی کو مان لینا پڑے گا.مجھے قرآن اور حدیث کو چھوڑنے والا کہنے کیلئے پہلے خود قرآن اور حدیث کو چھوڑ دینا پڑے گا اور پھر بھی وہی چھوڑے گا.میں قرآن اور حدیث کا مصدق و مصداق ہوں میں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں.میں کافر نہیں بلکہ انَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ کا مصداق صحیح ہوں اور یہ جو کچھ میں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ سچ ہے جس کو خدا پر یقین ہے جو قرآن اور رسول اللہ علیم اللہ کو حق مانتا ہے اس کیلئے یہی حجت کافی ہے کہ میرے منہ سے سن کر خاموش ہو جائے لیکن جو دلیر اور بیباک ہے اس کا کیا علاج! خدا خود اس کو سمجھائے گا." الحکم نمبر 3 جلد 7 مؤرخہ 24 / جنوری 1903 صفحه (2) (۲۳) غیر احمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی سخت تاکید اپنی جماعت کا غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا.فرمایا:.صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو.بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے.دیکھود نیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کیلئے ہے.تم اگر ان میں رلے ملے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا.پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے." الحکم نمبر 29 جلد 5 مؤرخہ 10 راگست 1901 ، صفحہ 3) (۲۴) سید عبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں.وہاں میں ان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟ ہوئی.فرمایا:.26 26 "مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو." عرب صاحب نے عرض کیا کہ وہ لوگ حضور کے حالات سے واقف نہیں ہیں اور ان کو تبلیغ نہیں فرمایا:." ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر یاوہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذب." عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے.فرمایا:." تم خدا کے بنوا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے اللہ تعالیٰ آپ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے." فرمایا:.الحکم نمبر 35 جلد 5 مؤرخہ 24 ستمبر 1901ء صفحہ 6) " کلام الہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے.کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے.تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی ملکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو.اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسروں فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکتی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا.پس تم ایسا ہی کرو.کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو.جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر یک حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازع کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے.مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے.پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 27 27 ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لئے آسمان پر اس کی عزت اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 417، حاشیہ مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۵) جناب خان عجب خان صاحب آف زیدہ کے استفسار پر کہ بعض اوقات ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جو اس سلسلہ سے اجنبی اور ناواقف ہوتے ہیں.ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کریں یا نہیں؟ فرمایا:." اول تو کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں لوگ واقف نہ ہوں اور جہاں ایسی صورت ہو کہ لوگ ہم سے اجنبی اور ناواقف ہوں تو ان کے سامنے اپنے سلسلہ کو پیش کر کے دیکھ لیا.اگر تصدیق کریں تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو ورنہ ہر گز نہیں.اکیلے پڑھ لو.خدا تعالیٰ اس وقت چاہتا ہے کہ ایک جماعت تیار کرے.پھر جان بوجھ کر ان لوگوں میں گھنا جن سے وہ الگ کرنا چاہتا ہے منشاء الہی کی مخالفت ہے." الحکم نمبر 5 جلد 7 مؤرخہ 7 فروری 1903ء صفحہ 13 ) (۲۶) غیر احمدی کے پیچھے نماز ہر گز نہیں ہوتی کسی کے سوال پر فر مایا:."مخالف کے پیچھے نماز بالکل نہیں ہوتی.پر ہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتا ہے.نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے.نماز میں دعا قبول ہوتی ہے.امام بطور وکیل کے ہوتا ہے اس کا اپنا دل سیاہ ہوتو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا." الحکم نمبر 28 جلد 5 مؤرخہ 31 جولائی 1901 ، صفحہ 4) (۲۷) ایسے لوگوں کی نسبت ذکر ہوا جو نہ مکفر ہیں نہ مکذب اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ دریافت
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 28 کیا گیا.فرمایا:."اگر وہ منافقانہ رنگ میں ایسا نہیں کرتے جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ (با مسلمان الله الله با برہمن رام رام ) تو وہ اشتہار دے دیں کہ ہم نہ مکذب ہیں نہ مکفر ( بلکہ بزرگ نیک ولی اللہ سمجھتے ہیں ) اور مکفرین کو اس لئے کہ وہ ایک مومن کو کافر کہتے ہیں.کافر جانتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو کہ وہ سچ کہتے ہیں ورنہ ہم ان کا کیسے اعتبار کر سکتے ہیں اور کیونکر ان کے پیچھے نماز کا حکم دے سکتے ہیں.گر حفظ مراتب نه کنی زندیقی نرمی کے موقع پر نرمی اور سختی کے موقع پر سختی کرنی چاہئے.فرعون میں ایک قسم کا رشد تھا اور اسی رشد کا نتیجہ تھا کہ اس کے منہ سے وہ کلمہ نکلا جو صد ہاڈوبنے والے کفار کے منہ سے نہ نکلا.یعنی آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِی.اس کے ساتھ نرمی کا حکم ہوا قُوْلَا لَهُ قَوْلًا لَینا.اور دوسری طرف نبی کریم کو فرما ياوَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ.معلوم ہوتا ہے ان لوگوں میں بالکل رشد نہ تھا.پس ایسے معترضین کے ساتھ یا صاف صاف بات کرنی چاہئے تا کہ ان کے دل میں جو گند و خبث پوشیدہ ہے نکل آئے اور ننگ جماعت نہ ہوں." فرمایا:- اخبار بدر نمبر 16 جلد 7 مؤرخہ 23 را پریل 1908 ء صفحہ 4 (۲۸) تعداد رکعات فریضہ پنجگانہ کوئی مسلمان اس بات میں اختلاف نہیں رکھتا کہ فریضہ صبح کی دورکعت اور مغرب کی تین اور ظہر اور عصر اور عشاء کی چار چار اور کسی کو اس بات میں اختلاف نہیں کہ ہر یک نماز میں بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو قیام اور قعود اور سجود اور رکوع ضروری ہیں اور سلام کے ساتھ نماز سے باہر آنا چاہئیے." الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 85 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۹) سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 29 29 "بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم - یہ آیت سورۃ ممدوحہ (سورۃ الفاتحہ.ناقل ) کی آیتوں میں سے پہلی آیت ہے اور قرآن شریف کی دوسری سورتوں پر بھی لکھی گئی ہے." فرمایا:.براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 414 حاشیہ نمبر 11 ، مطبوعہ نومبر 1984 ء ) "سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں اسی واسطے رکھی ہیں کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں.پس ہر ایک آیت گویا ہر ایک دروازہ سے بچاتی ہے." فرمایا:.الحکم نمبر 6 جلد 5 مؤرخہ 17 فروری 1901ء صفحہ 7 ) (۳۰) طریق دعائے نماز "دعا کے بارے میں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں دعا سکھلائی ہے.یعنی اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمُ اس میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں.(۱) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے.(۲) تمام مسلمانوں کو.(۳) تیسرے ان حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں.پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہونگے اور یہی منشاء خدا تعالیٰ کا ہے.کیونکہ اس سے پہلے اسی سورت میں اس نے اپنا نام رَبُّ الْعَالَمِین رکھا ہے.جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.جس میں حیوانات بھی داخل ہیں.پھر اپنا نام رخمن رکھا ہے اور یہ نام نوع انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے.اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مومنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ رحیم کا لفظ مومنوں سے خاص ہے.اور پھر اپنا نام مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْن رکھا ہے.اور یہ نام جماعت موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ یوم الدین وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی.سواسی تفصیل کے لحاظ سے اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ہے.پس اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا میں تمام نوع انسان کی ہمدردی داخل ہے اور اسلام کا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 30 اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہو." فرمایا:.الحکم نمبر 33 جلد 2 مؤرخہ 29 اکتوبر 1898 صفحہ 4) (۳۱) نماز انسان کا تعویذ ہے "نماز انسان کا تعویذ ہے پانچ وقت دعا کا موقعہ ملتا ہے کوئی دعا تو سنی جائے گی.اس لئے نماز کو بہت سنوار کر پڑھنا چاہئے اور مجھے بھی بہت عزیز ہے." الحکم نمبر 6 جلد 5 مؤرخہ 17 فروری 1901 صفحہ 7 ) (۳۲) نماز پڑھتے ہوئے کوئی کام کرنا ایک دوست ڈاکٹر محمد علی خانصاحب نے افریقہ سے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آ جاوے اور دروازہ کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اسے کیا کرنا چاہئے.اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہو کر ہندوستان واپس کیا گیا ہے.جواب:.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا ( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لئے فرمایا) کیونکہ اگر اس کے التوا سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی.احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی.ایسے ہی اگر لڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہوضرر پہنچتا ہوتو لڑکے کو بچانا اور جانور کو ماردینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی.بلکہ بعضوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے." نوٹ:.یادرکھنا چاہئے کہ اشد ضرورتوں کیلئے نازک مواقع پر یہ حکم ہے یہ نہیں کہ ہر ایک قسم کی رفع حاجت کو مقدم رکھ کر نماز کی پرواہ نہ کی جاوے اور اسے باز بیچھ طفلاں بنادیا جاوے.ورنہ نماز میں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 31 34 اشغال کی سخت ممانعت ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک دل اور نیت کو بخوبی جانتا ہے.( اخبار بدر نمبر 45,44 جلد 3 مؤرخہ 24 نومبر و یکم دسمبر 1904 ء صفحہ 4) (۳۳) حج میں احمدی کی نماز وکعبہ میں چار مصلے } حج میں بھی آدمی یہ التزام کر سکتا ہے کہ اپنے جائے قیام پر نماز پڑھ لیوے اور کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھے.بعض ائمہ دین سالہا سال مکہ میں رہے لیکن چونکہ وہاں کے لوگوں کی حالت تقویٰ سے گری ہوئی تھی اس لئے کسی کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہ کیا اور گھر میں پڑھتے رہے.یہ چار مصلے جواب ہیں یہ تو پیچھے بنے.رسول اللہ صلی اللہ کے وقت ہرگز نہ تھے.اس وقت ایک ہی مصلی تھا اور اب بھی جب تک چاروں اٹھ کر ایک ہی مصلی نہ ہوگا تب تک وہاں تو حید اور راستی ہرگز نہ پھیلے گی.فرمایا:- { ( فتاوی احمدیہ صفحہ ۲۱) ( یہ اقتباس تا حال اصل ماخذ سے نہیں مل سکا ) (۳۴) امام کا لمبی سورتیں پڑھنا کسی شخص نے ذکر کیا کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سورتیں پڑھتے ہیں.امام کو چاہئے کہ نماز میں ضعفاء کی رعایت رکھے." ( اخبار بدر نمبر 3 جلد 1 مؤرخہ 20 را پریل 1905 ء صفحہ 2) (۳۵) امام مقتدیوں کا خیال رکھے سوال پیش ہوا کہ ایک پیش امام ماہ رمضان میں مغرب کے وقت لمبی سورتیں شروع کر دیتا ہے.مقتدی تنگ آتے ہیں کیونکہ روزہ کھول کر کھانا کھانے کا وقت ہوتا ہے.دن بھر کی بھوک سے ضعف لاحق حال ہوتا ہے.بعض ضعیف ہوتے ہیں.اسی طرح پیش امام اور مقتدیوں میں اختلاف ہو گیا ہے.حضرت نے فرمایا کہ:.پیش امام کی اس معاملہ میں غلطی ہے اس کو چاہئے کہ مقتدیوں کی حالت کا لحاظ رکھے اور نماز کو ایسی صورت میں بہت لمبا نہ کرے." اخبار بد رنمبر 44 جلد 6 مؤرخہ 31 اکتوبر 1907 ء صفحہ 7)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 32 فرمایا:.(۳۶) امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ذکر ہوا کہ چکڑالوی کا عقیدہ ہے کہ نماز میں امام آگے نہ کھڑا ہو بلکہ صف کے اندر ہو کر کھڑا ہو." امام کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ وہ آگے کھڑا ہو.یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں وہ شخص جو دوسرے کے آگے کھڑا ہو.معلوم ہوتا ہے کہ چکڑالوی زبان عربی سے بالکل جاہل ہے." (اخبار بدر نمبر 13 جلد 8 مؤرخہ 28 / مارچ 1907 ء صفحہ 9) (۳۷) پیل پایوں کے بیچ میں کھڑے ہونے کا ذکر آیا کہ بعض احباب ایسا کرتے ہیں.فرمایا :.اضطراری حالت میں تو سب جائز ہے.ایسی باتوں کا چنداں خیال نہیں کرنا چاہئے.اصل بات تو یہ ہے کہ خدا کی رضا مندی کے موافق خلوص دل کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے.ان باتوں کی طرف کوئی خیال نہیں کرتا." ( اخبار بد نمبر 6 جلد 7 مؤرخہ 13 فروری 1908 صفحہ 10) (۳۸) ایسے احمدی کی امامت جو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھے ایک شخص نے سوال کیا کہ جہلم میں ایک حضور کا مرید ہے.وہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہے اور کبھی کبھی ہمارا امام بنے کا بھی اس کو اتفاق ہوتا ہے.اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:." جب کہ وہ لوگ ہم کو کا فرقرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ان کو کافر کہنے میں ہم غلطی پر ہیں تو ہم خود کا فر ہیں تو اس صورت میں ان کے پیچھے نماز کیونکر جائز ہو سکتی ہے.ایسا ہی جو احمدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، جب تک تو بہ نہ کرے، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو." ( اخبار بدر نمبر 1 جلد 6 مؤرخہ 10 جنوری 1907 ء صفحہ 18 ) (۳۹) غسال کے پیچھے نماز ایک شخص نے حضرت سے سوال کیا کہ غسال کو نماز کے واسطے پیش امام بنا ناجائز ہے.فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 33 " یہ سوال بے معنی ہے.غسال ہونا کوئی گناہ نہیں.امامت کے لائق وہ شخص ہے جو متقی ہو نیک و کار عالم باعمل ہو.اگر ایسا ہے تو غسال ہونا کوئی عیب نہیں جو امامت سے روک سکے." فرمایا:.( اخبار بدر نمبر 21 جلد 6 مؤرخہ 23 رمئی 1907 ء صفحہ 10 ) (۴۰) نماز وروزہ کا اثر روح و جسم پر بعض بے وقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے.اے نادانو خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ خدا تمہاری طرف توجہ کرے.خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں.نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قرب الہی ہے.روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزہ کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوز و گداز پیدا ہوتی ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے.لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے اس میں کوئی شامل نہیں." اخبار بدر نمبر 10 جلد 1 مؤرخہ 8 جون 1905 صفحه (2) (۴۱) ادب مسجد حضرت اقدس کے صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے مسجد میں آگئے اور اپنے ابا جان کے پاس ہو بیٹھے اور اپنے لڑکپن کے باعث کسی بات کے یاد آ جانے پر آپ دبی آواز سے کھل کھلا کر ہنس پڑتے تھے.اس پر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا " مسجد میں ہنسنا نہ چاہئے." جب دیکھا کہ بنی ضبط نہیں ہوتی تو اپنے باپ کی نصیحت پر یوں عمل کیا کہ صاحبزادہ صاحب ای
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وقت اُٹھ کر چلے گئے.34 34 ( اخبار بدر نمبر 8 جلد 3 مؤرخہ 24 فروری 1904 ء صفحہ 3) (۴۲) مسجد کا حصہ مکان میں ملانا ایک شخص نے سوال لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے دادا نے مکان کے ایک حصہ ہی کو مسجد بنایا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی ہے تو کیا اس کو مکان میں ملالیا جاوے؟ فرمایا:." ہاں ملا لیا جاوے." (الحکم نمبر 37 جلد 6 مؤرخہ 17 اکتوبر 1902 ء صفحہ 11) (۴۳) کسی مسجد کیلئے چندہ کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبر کا آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:."ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں مگر جب کہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوں میں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کس طرح سے شامل ہوں.یہاں جو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصیٰ ہے.وہ سب سے مقدم ہے.اب لوگوں کو چاہئے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں.ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے.حضرت امام ابوحنیفہ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں.انہوں نے عذر کیا کہ میں اس میں کچھ دے نہیں سکتا حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے.اس شخص نے کہا ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے صرف تبر کا کچھ دے دیجئے.آخر انہوں نے ایک دوانی کے قریب سکہ دیا.شام کے وقت وہ شخص دوائی لے کر واپس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت یہ تو کھوٹی نکلی ہے.وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا خوب ہوا.دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے." الحکم نمبر 19 جلد 5 مؤرخہ 24 مئی 1901 ، صفحہ 9
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 35 (۴۴) مسجد کی زینت دہلی کی جامع مسجد کو دیکھ کر فرمایا کہ:.مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں.ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں.رسول کریم علی اللہ کی مسجد چھوٹی سی تھی کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا.مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے.آنحضرت علی اللہ کے وقت میں دنیا داروں نے ایک مسجد بنوائی تھی وہ خدا کے حکم سے گرادی گئی.اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا یعنی ضرر رساں.اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی.مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں." ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 1 مؤرخہ 31 اکتوبر 1905 صفحہ 3) (۴۵) نماز میں اپنی زبان میں دعا سوال ہوا کہ آیا نماز میں اپنی زبان میں دعامانگنا جائز ہے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں.چاہئے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے نماز کے اندر دعائیں مانگے کیونکہ اس کا اثر دل پر پڑتا ہے.تاکہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو.کلام الہی کو ضرور عربی میں پڑھو اور اس کے معنی یا درکھو اور دعا بے شک اپنی زبان میں مانگو.جو لوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں کرتے ہیں وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.دعا کا وقت نماز ہے.نماز میں بہت دعائیں مانگو.(۴۶) الحکم نمبر 19 جلد 5 مؤرخہ 24 رمئی 1901 ء صفحہ 9).ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور! امام اگر اپنی زبان میں (مثلاً اُردو میں ) بآواز بلند دعا مانگتا جائے اور پیچھے آمین کرتے جاویں تو کیا یہ جائز ہے.جب کہ حضور کی تعلیم ہے کہ اپنی زبان میں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 36 دعا ئیں نماز میں کر لیا کرو.فرمایا:." دعا کوباً واز بلند پڑھنے کی ضرورت کیا ہے.خدا تعالیٰ نے تو فرمایا ہے.تَضَرُّعاً وَ خُفْيَةً ) دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ" عرض کیا کہ قنوت تو پڑھ لیتے ہیں.فرمایا:.ہاں ادعیہ ماثور جو قرآن و حدیث میں آچکی ہیں وہ بے شک پڑھ لی جاویں.باقی دعائیں جو اپنے ذوق و حال کے مطابق ہیں وہ دل ہی میں پڑھنی چاہئیں." ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 6 مؤرخہ یکم اگست 1907 ، صفحہ 12 ) (۴۷) نماز کے اندر مقامات دعا اور ہر زبان میں دعا یہ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام - فرمایا:."نماز کے اندر ہی اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو.سجدہ میں بیٹھ کر رکوع میں کھڑے ہو کر ہر مقام پر اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعائیں کرو.بے شک پنجابی زبان میں دعائیں کرو.جن لوگوں کی زبان عربی نہیں اور عربی سمجھ نہیں سکتے ان کے واسطے ضروری ہے کہ نماز کے اندر ہی قرآن شریف پڑھے اور مسنون دعائیں عربی میں پڑھنے کے بعد اپنی زبان میں بھی خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگیں اور عربی دعاؤں کا اور قرآن شریف کا بھی ترجمہ سیکھ لینا چاہئے.نماز کو صرف جنتر منتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ اس کے معانی اور حقیقت سے معرفت حاصل کرو.خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے.تو ہم کو معاف کر اور دنیا اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا." اخبار بدر نمبر 30 جلد 2 مؤرخہ 26 جولائی 1906 ، صفحہ 3 (۴۸) دعا میں صیغہ واحد کو جمع کرنا ایک دوست کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں ایک مسجد میں امام ہوں.بعض ا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ الله يَقُولُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجُبُرُنِي وَارْزُقْنِي وَارْفَعْنَى (سنن ابن ماجه كتاب اقامة الصلاة والسنة فيها باب ما يقول بين السجدتين) (حاشیه از مرتب)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 37 دعا ئیں جو صیغہ واحد متکلم میں ہوتی ہوں یعنی انسان کے اپنے واسطے ہی ہوسکتی ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ان کو صیغہ جمع میں پڑھ کر مقتدیوں کو بھی اپنی دعا میں شامل کر لیا کروں.اس میں کیا حکم ہے.فرمایا:." جو دعائیں قرآن شریف میں ہیں ان میں کوئی تغییر جائز نہیں کیونکہ وہ کلام الہی ہے.وہ جس طرح قرآن شریف میں ہے اسی طرح پڑھنا چاہئے.ہاں حدیث میں جو دعائیں آئی ہیں ان کے متعلق اختیار ہے کہ صیغہ واحد کی بجائے صیغہ جمع پڑھ لیا کریں." فرمایا:.اخبار بدر نمبر 14 جلد 6 مؤرخہ 04 اپریل 1907ء صفحہ 6) (۴۹) نماز کے بعد دعا بدعت ہے " آج کل لوگ جلدی جلدی نماز کو ختم کرتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں مانگنے بیٹھتے ہیں یہ بدعت ہے.جس نماز میں تضرع نہیں.خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں.خدا تعالیٰ سے رقت کے ساتھ دعا نہیں وہ نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی نماز ہے.نماز وہ ہے جس میں دعا کا مزا آ جاوے.خدا کے حضور میں ایسی توجہ سے کھڑے ہو جاؤ کہ رقت طاری ہو جائے.جیسے کہ کوئی شخص کسی خوفناک مقدمہ میں گرفتار ہوتا ہے اور اس کے واسطے قید یا پھانسی کا فتولی لگنے والا ہوتا ہے اس کی حالت حاکم کے سامنے کیا ہوتی ہے.ایسے ہی خوف زدہ دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا چاہئے.جس نماز میں دل کہیں ہے اور خیال کسی طرف ہے اور منہ سے کچھ نکلتا ہے وہ ایک لعنت ہے جو آدمی کے منہ پر واپس ماری جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے "وَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ " لعنت ہے ان پر جو اپنی نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں.نماز وہی اصلی ہے جس میں مزا آ جاوے.ایسی ہی نماز کے ذریعہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ نماز ہے جس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.نماز مومن کے واسطے ترقی کا ذریعہ ہے.اِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.دیکھو بخیل سے بھی انسان مانگتارہتا ہے.تو وہ بھی کسی نہ کسی وقت کچھ دے دیتا ہے اور رحم کھا تا ہے.خدا تعالیٰ تو خود حکم دیتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور میں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 38 تمہیں دوں گا." فرمایا:- ( اخبار بدر نمبر 30 جلد 2 مؤرخہ 26 جولائی 1906 صفحہ 3) (۵۰) حاجت کے وقت رسول الله عليه السلام کا طریق دعا "جب کبھی کسی امر کے واسطے دعا کی ضرورت ہوتی تو رسول اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ آپ وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جاتے اور نماز کے اندر دعا کرتے." اخبار بدر نمبر 30 جلد 2 مؤرخہ 26 جولائی 1906 ، صفحہ 3) (۵۱) جوتے پہن کر نماز پڑھنا ذکر تھا کہ امیر کابل اجمیر کی خانقاہ میں بوٹ پہنے ہوئے چلا گیا تھا اور ہر جگہ بوٹ پہنے ہوئے نماز پڑھی.اور اس بات کو خانقاہ کے کارندوں نے برا منایا.حضرت نے فرمایا کہ:." اس معاملہ میں امیر حق پر تھا.جوتی پہنے ہوئے نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے." ( اخبار بد نمبر 15 جلد 6 مؤرخہ 11 اپریل 1907 ء صفحہ 3) (۵۲) نماز میں امام کے سلام سے پہلے سلام پھیرنا نماز مغرب میں آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے پیش امام صاحب کا آواز آخری صفوں تک نہ پہنچ سکنے کے سبب درمیانی صفوں میں سے ایک شخص حسب معمول تکبیر کا بآواز بلند تکرار کرتا جاتا تھا.آخری رکعت میں جب سب التحیات پر بیٹھے تھے اور دعاء التحیات اور درود شریف پڑھ چکے تھے اور قریب تھا.که پیش امام صاحب سلام کہیں.مگر ہنوز انہوں نے سلام نہ کہا تھا کہ درمیانی مکبر کو غلطی لگی اور اس نے سلام کہہ دیا.جس پر آخری صفوں کے نمازیوں نے بھی سلام کہہ دیا اور بعض نے سنتیں بھی شروع کر دیں کہ امام نے سلام کہا اور درمیانی مکبر نے جو اپنی پہلی غلطی پر آگاہ ہو چکا تھا دوبارہ سلام کہا.اس پر ان نمازیوں نے جو پہلے سے سلام کہہ چکے تھے اور نماز سے فارغ ہو چکے تھے مسئلہ دریافت کیا کہ آیا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 39 ہماری نماز ہو گئی یا ہم دوبارہ نماز پڑھیں.صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب نے جو خود بھی پچھلی صفوں میں تھے اور امام سے پہلے سلام کہہ چکے ہوئے تھے فرمایا کہ یہ مسئلہ حضرت مسیح موعود سے دریافت کیا جا چکا ہے اور حضرت نے فرمایا ہے کہ آخری رکعت میں التحیات پڑھنے کے بعد اگر ایسا ہو جائے تو مقتدیوں کی نماز ہو جاتی ہے.دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں.فرمایا:.(اخبار بدر نمبر 18 جلد 6 مورخہ 02 مئی 1907 ، صفحہ 2 (۵۳) عبادت اور احکام الہی کی دو شاخیں ہیں "عبادت اور احکام الہی کی دو شاخیں ہیں.تعظیم لامر اللہ اور ہمدردی مخلوق.میں سوچتا تھا کہ قرآن شریف میں تو کثرت کے ساتھ اور بڑی وضاحت سے ان مراتب کو بیان کیا گیا ہے مگر سورۃ فاتحہ میں ان دونوں شقوں کو کس طرح بیان کیا گیا ہے.میں سوچتا ہی تھا کہ فی الفور میرے دل میں یہ بات آئی کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے.یعنی ساری صفتیں اور تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہیں جو رَبِّ الْعَالَمِین ہے یعنی ہر عالم میں نطفہ میں مضغہ وغیرہ میں سارے عالموں کا رب ہے.پھر رحمن ہے پھر رحیم ہے اور مَالِكِ يَوْمِ الدین ہے.اب اس کے بعد ایاک نَعْبُدُ جو کہتا ہے تو گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت ، رحمانیت، رحمیت، مالکیت یوم الدین کے صفات کا پر تو انسان کو اپنے اندر لینا چاہئے.کیونکہ کمال عابد انسان کا یہی ہے کہ تَخَلَّفُوا بِاَخلاقِ اللہ میں رنگین ہو جاوے.پس اس صورت میں یہ دونوں امر بڑی وضاحت اور صفائی سے بیان ہوئے ہیں." الحکم نمبر 19 جلد 7 مؤرخہ 24 رمئی 1903 ء صفحہ 3) (۵۴) فاتحہ خلف الامام پڑھنا ضروری ہے ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ فاتحہ خلف امام پڑھنا ضروری ہے.فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام "ضروری ہے." 40 40 اخبار بدر نمبر 44 جلد 6 مؤرخہ 31 اکتوبر 1907 صفحه (7) (۵۵) نماز میں طریق حصول حضور سوال : کبھی نماز میں لذت آتی ہے اور کبھی وہ لذت جاتی رہتی ہے.اس کا کیا علاج ہے؟ جواب :." ہمت نہیں ہارنی چاہئے بلکہ اس لذت کے کھوئے جانے کو محسوس کرنے اور پھر اس کو حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہئے.جیسے چور آوے اور وہ مال اُڑا کر لے جاوے تو اس کا افسوس ہوتا ہے اور پھر انسان کوشش کرتا ہے کہ آئندہ کو اس خطرہ سے محفوظ رہے.اس لئے معمول سے زیادہ ہوشیاری اور مستعدی سے کام لیتا ہے.اسی طرح پر جو خبیث نماز کے ذوق اور انس کو لے گیا ہے تو اس سے کس قدر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور کیوں نہ اس پر افسوس کیا جاوے.انسان جب یہ حالت دیکھے کہ اس کا انس و ذوق جاتا رہا ہے تو وہ بے فکر اور بے غم نہ ہو.نماز میں بے ذوقی کا پیدا ہونا ایک سارق کی چوری اور روحانی بیماری ہے.جیسے ایک مریض کے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ فی الفور علاج کی فکر کرتا ہے، اس طرح پر جس کا روحانی مذاق بگڑ جاوے اس کو بہت جلد اصلاح کی فکر کرنی لازم ہے.یا درکھو انسان کے اندر ایک بڑا چشمہ لذت کا ہے جب کوئی گناہ اس سے سرزد ہوتا ہے تو وہ چشمہ لذت مکدر ہو جاتا ہے اور پھر لذت نہیں رہتی.مثلاً جب ناحق گالی دیدیتا ہے یا ادنی ادنی سی بات پر بد مزاج ہوکر بدزبانی کرتا ہے تو پھر ذوق نماز جاتا رہتا ہے.اخلاقی قومی کو لذت میں بہت بڑا دخل ہے.جب انسانی قومی میں فرق آئے گا تو اس کے ساتھ ہی لذت میں بھی فرق آجاوے گا.پس جب کبھی ایسی حالت ہو کہ انس اور ذوق جو نماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے تو چاہئے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہو کر ہمت نہ ہارے بلکہ بڑی مستعدی کے ساتھ اس گم شدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے اور اس کا علاج ہے تو بہ، استغفار ، تضرع.بے ذوقی سے ترک نماز نہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے جیسے ایک نشہ باز کو جب نشہ نہیں آتا تو وہ نشہ کو چھوڑ نہیں دیتا بلکہ جام پر جام پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر اس کو لذت اور سرور آ جاتا ہے.پس جس کو نماز میں بے ذوقی پیدا ہو اس کو کثرت کے ساتھ نماز ھنی چاہئے اور تھکنا مناسب نہیں.آخر اسی بے ذوقی میں ایک ذوق پیدا ہو جاوے گا.دیکھو پانی کیلئے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والہ 41 کس قدرزمین کو کھودنا پڑتا ہے جو لوگ تھک جاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں جو تھکتے نہیں وہ آخر نکال ہی لیتے ہیں.اس لئے اس ذوق کو حاصل کرنے کیلئے استغفار، کثرت نماز و دعا، مستعدی اور صبر کی ضرورت ہے." (۵۶) الحکم نمبر 20 جلد 7 مؤرخہ 31 مئی 1903 ، صفحہ 9) مولوی نظیر حسین سخا دہلوی نے بذریعہ عریضہ حضرت اقدس سے نماز میں حصول حضور کا طریق دریافت کیا.اس پر حضرت اقدس نے مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا:.طریق یہی ہے کہ نماز میں اپنے لئے دعا کرتے رہیں اور سرسری اور بے خیال نماز پر خوش نہ ہوں بلکہ جہاں تک ممکن ہو تو جہ سے نماز ادا کریں اور اگر توجہ پیدا نہ ہو تو پنج وقت ہر یک نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور میں بعد ہر ایک رکعت کے کھڑے ہو کر یہ دعا کریں کہ اے خدائے قادر ذوالجلال میں گنہگار ہوں اور اس قدر گناہ کی زہر نے میرے دل اور رگ و ریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں ہو سکتا.تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تا کہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضور نماز میں میسر آوے اور یہ دعا صرف قیام پر موقوف نہیں بلکہ رکوع میں اور سجود میں اور التحیات کے بعد بھی یہی دعا کریں اور اپنی زبان میں کریں اور اس دعا کے کرنے میں ماندہ نہ ہوں اور تھک نہ جاویں بلکہ پورے صبر اور پوری استقامت سے اس دعا کو پنچ وقت کی نمازوں میں اور نیز تہجد کی نماز میں کرتے رہیں اور بہت بہت خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں کیونکہ گناہ کے باعث دل سخت ہو جاتا ہے.ایسا کرو گے تو ایک وقت یہ مراد حاصل ہو جائے گی.مگر چاہئے کہ اپنی موت یا درکھیں آئندہ زندگی کے دن تھوڑے سمجھیں اور موت قریب سمجھیں.یہی طریق حضور حاصل کرنے کا ہے." ( اخبار بد نمبر 20 و 21 جلد 3 مؤرخہ 24 رمئی و یکم جون 1904 ء صفحہ 9) الحکم نمبر 17 جلد 8 مؤرخہ 24 رمئی 1904ء صفحہ 2)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 42 (۵۷) وظائف و اور ا دو تزکیه نفس ایک استفسار کے جواب میں کہ آج کل کے پیر اور گدی نشین وظائف وغیرہ مختلف قسم کے اور اد بتاتے ہیں.آپ کا کیا ارشاد ہے.فرمایا کہ:."مومن جو بات بچے یقین سے کہے وہ ضرور مؤثر ہوتی ہے کیونکہ مومن کا مطہر قلب اسرار الہی کا خزینہ ہے.جو کچھ اس پاک لوح انسانی پر منقش ہوتا ہے وہ آئینہ خدا نما ہے.مگر انسان جب ضعف بشریت سے سہود گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر ذرا بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا تو دل پر سیاہ زنگ بیٹھ جاتا اور رفتہ رفته قلب انسانی کہ خشیت الہی سے گداز اور شفاف تھا، سخت اور سیاہ ہوتا جاتا ہے.مگر جونہی انسان اپنی مرض قلب کو معلوم کر کے اس کی اصلاح کے در پے ہوتا ہے اور شب و روز نماز میں دعا ئیں استغفار و زاری و قلق جاری رکھتا ہے اور اس کی دعائیں انتہا کو پہنچتی ہیں تو تجلیات الہی اپنے فضل کے پانی سے اس ناپاکی کو دھو ڈالتی ہیں اور انسان بشر طیکہ ثابت قدم رہے ایک قلب لے کر نئی زندگی کا جامہ پہن لیتا ہے گویا کہ اس کا تولد ثانی ہوتا ہے.دوز بر دست لشکر ہیں جن کے درمیان انسان چلتا ہے.ایک لشکر رحمن کا دوسرا شیطان کا.اگر یہ شکر رحمان کی طرف جھک جاوے اور اس سے مددطلب کرے تو اس سے بحکم الہی مدد دی جاتی ہے اور اگر شیطان کی طرف رجوع کیا تو گناہوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.پس انسان کو چاہئے کہ گناہ کی زہریلی ہوا سے بچنے کیلئے رحمن کی حفاظت میں ہو جاوے.وہ چیز جو انسان اور رحمن میں دوری اور تفرقہ ڈالتی ہے وہ فقط گناہ ہی ہے جو اس سے بچ گیا اس نے اللہ تعالیٰ کی گود میں پناہ لی.دراصل گناہ سے بچنے کیلئے دو ہی طریق ہیں.اوّل یہ کہ انسان خود کوشش کرے.دوسرے اللہ تعالیٰ سے جو ز بر دست مالک و قادر ہے استقامت طلب کرے یہاں تک کہ اسے پاک زندگی میسر آوے اور یہی تزکیہ نفس کہلاتا ہے اور بندوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات و اکرامات ہوتے ہیں وہ محض اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہی ہوتے ہیں.پیروں فقیروں صوفیوں گدی نشینوں کے خود تراشیده در و د وظائف طریق و رسومات سب فضول بدعات ہیں جو ہرگز ہرگز ماننے کے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 43 قابل نہیں.اگر یہ لوگ کل معاملات دنیوی و دینی کو ان خود ساختہ بدعات سے بھی درست کر سکتے ہیں تو یہ ذرہ ذرہ سی بات پر کیوں تکرار کرتے لڑتے جھگڑتے حتی کہ سرکاری عدالتوں میں جائز و نا جائز حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں.یہ سب باتیں دراصل وقت کا ضائع کرنا اور خدا داد دماغی استعدادوں کا تباہ کرنا ہے.انسان اس لئے نہیں بنایا گیا کہ لمبی تسبیح لے کر صبح و شام لوازمات و حقوق کو تلف کر کے بے تو جنگی سے سبحان اللہ سبحان اللہ میں لگا رہے.اپنا اوقات گرامی بھی تباہ کرے اور خود اپنی قومی کو تباہ کرے اور اوروں کے تباہ کرنے کیلئے شب و روز کوشاں رہے.اللہ تعالیٰ ایسی معصیت سے بچاوے.الغرض یہ سب باتیں سنت نبوی صلی اللہ کو چھوڑنے سے پیدا ہوئیں.یہ حالت ایسی ہے جیسے پھوڑا کہ اندر سے تو پیپ سے بھرا ہوا ہے اور باہر سے شیشے کی طرح چمکتا ہے.زبان سے تو درود وظائف کرتے ہیں اور اندرونے بدکاری و گناہ سے سیاہ ہوئے ہوئے ہیں.انسان کو چاہئے کہ سب کچھ خدا سے طلب کرے.جب وہ کسی کو کچھ دیدیتا ہے تو اس کی بلندشان کے خلاف ہے کہ واپس لے.تزکیہ وہی ہے جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دنیا میں سکھایا گیا پیدا کیا گیا یہ لوگ اس سے بہت دور ہیں.بعض کہتے ہیں کہ میں سارے دن میں چار دفعہ دم لیتا ہوں.بعض فقط ایک یا دو دفعہ.اس سے لوگ ان کو ولی سمجھ بیٹھتے ہیں اور ایسے واہیات دم کشی کو باعث فخر سمجھتے ہیں.حالانکہ فخر کے قابل یہ بات ہے کہ انسان مرضیات الہی پر چل کر اپنے پیغمبر نبی کریم سے صلح و آشتی پیدا کرے.جس سے کہ وہ انبیاء کا وارث کہلائے.اور صلح و ابدال میں داخل ہو.اسی تو حید کو پکڑے اور اس پر ثابت قدم رہے.اللہ تعالیٰ اپنا غلبہ وعظمت اس کے دل پر بٹھا دے گا.وظیفوں کے ہم قائل نہیں یہ سب منتر جنتر ہیں جو ہمارے ملک کے جوگی ہندو سنیاسی کرتے ہیں جو شیطان کی غلامی میں پڑے ہوئے ہیں البتہ دعا کرنی چاہئے خواہ اپنی ہی زبان میں ہو.بچے اضطراب اور سچی تڑپ سے جناب الہی میں گداز ہوا ہوا ایسا کہ وہ قادر الحی القیوم دیکھ رہا ہے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ پر دلیری نہ کرے گا.جس طرح انسان آگ یا اور ہلاک کرنے والی اشیاء سے ڈرتا ہے ویسے ہی اس کو گناہ کی سوزش سے ڈرنا چاہئے.گنہ گار زندگی انسان کیلئے دنیا میں مجسم
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 44 دوزخ ہے.جس پر غضب الہی کی سموم چلتی اور اس کو ہلاک کر دیتی.جس طرح آگ سے انسان ڈرتا ہے اسی طرح گناہ سے ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی آگ ہے.ہمارا مذہب یہی ہے کہ نماز میں رو رو کر دعائیں مانگو تا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے فضل کی نسیم چلائے.دیکھو شیعہ لوگ کیسے راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں.حسین حسین کرتے مگر احکام الہی کی بے حرمتی کرتے ہیں حالانکہ حسین کو بھی بلکہ تمام رسولوں کو استغفار کی ایسی سخت ضرورت تھی جیسے ہم کو.چنانچہ رسول اللہ علیم اللہ خاتم النبین کا فعل اس پر شاہد ہے.کون ہے جو آپ سے بڑھ کر نمونہ بن سکتا ہے." الحکم نمبر 22 جلد 7 مؤرخہ 17 جون 1903 صفحہ 8 (۵۸) دلائل الخیرات اور دیگر وظائف جناب قاضی آل احمد صاحب رئیس امروہہ نے دریافت کیا کہ دلائل الخیرات جو ایک کتاب وظیفوں کی ہے.اگر اسے پڑھا جائے تو کچھ حرج تو نہیں کیونکہ اس میں آنحضرت علیہ وسلم پر درود شریف ہی ہے اور اس میں آنحضرت ہی کی جابجا تعریف ہے.فرمایا کہ:."انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے.جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے اور ان بد اعمالیوں سے بچے جس کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی.بلا مد دوحی کے ایک بالائی منصو بہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے اور ایسی رائے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو وہ محدثات میں داخل ہوگی.رسم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے.اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے.بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبر میں لگاوے.دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کیلئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے.جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الہی میرے شامل حال ہو.قرآن شریف کی مثال
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 45 ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے پھر آگے چل کر اور قسم کا پھول چنتا ہے پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اُٹھاوے.اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے ورنہ پھر سوال ہو گا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی.خدا کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کہے کہ فلاں راہ سے اگر سورہ یسین پڑھو گے تو برکت ہوگی.ورنہ نہیں.قرآن شریف سے اعراض کی دو صورتیں ہوتی ہیں.ایک صوری اور ایک معنوی.صوری یہ کہ کبھی کلام الہی کو پڑھا ہی نہ جاوے.جیسے اکثر لوگ مسلمان کہلاتے ہیں مگر وہ قرآن شریف کی عبارت تک سے بالکل غافل ہیں.اور ایک معنوی کہ تلاوت تو کرتا ہے مگر اس کے برکات وانوار و رحمت الہی پر ایمان نہیں ہوتا.پس دونوں اعراضوں میں سے کوئی اعراض ہو اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.امام جعفر" کا قول ہے واللہ اعلم کہاں تک صحیح ہے کہ میں اس قدر کلام الہی پڑھتا ہوں کہ ساتھ ہی الہام شروع ہو جاتا ہے مگر بات معقول معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک جنس کی شے دوسری شے کو اپنی طرف کشش کرتی ہے.اب اس زمانہ میں لوگوں نے صد ہا حاشیے چڑھائے ہوئے ہیں.شیعوں نے الگ سنیوں نے الگ.ایک دفعہ ایک شیعہ نے میرے والد صاحب سے کہا کہ میں ایک فقرہ بتلاتا ہوں وہ پڑھ لیا کرو تو پھر طہارت اور وضو وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی.اسلام میں کفر بدعت زندقہ الحاد و غیرہ اسی طرح آئے ہیں کہ ایک شخص واحد کے کلام کو اس قدر عظمت دی گئی جس قدر کلام الہی کو عظمت دی جانی چاہئے تھی.صحابہ کرام اسی لئے احادیث کو قرآن سے کم درجہ پر مانتے تھے.ایک دفعہ حضرت عمر فیصلہ کرنے لگے تو ایک بڑھیا عورت نے کہا کہ حدیث میں یہ آیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں ایک بڑھیا کیلئے کتاب اللہ کو ترک نہیں کر سکتا.اگر ایسی باتوں کو جن کے ساتھ وحی کی کوئی مدد نہیں وہی عظمت دی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسیح کی حیات کی نسبت جو اقوال ہیں ان کو بھی صحیح مان لیا جاوے حالانکہ وہ قرآن شریف کے بالکل مخالف ہیں." الحکم نمبر 4 جلد 8 مؤرخہ 31 جنوری 1904ء صفحہ 3,2)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 46 {(۵۹) لڑکوں کو نماز میں سب سے پیچھے کھڑا کرنے کی وجہ } لڑکوں کونماز میں سب سے پیچھے کھڑے ہونے کا حکم اس وجہ سے ہے کہ ایسا نہ ہوکسی کی ہوا خارج ہونے پر یا کسی اور امر پر ہنس پڑیں تو دوسروں کی نماز بھی خراب ہو.دیکھو کیسی نیکی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی کی ہوا خارج ہو گئی اور بدبو کی وجہ سے اس کا پتہ لگ گیا.اب انہوں نے دیکھا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ شخص شرم سے وضو نہ کرے اور گناہ کا مرتکب ہو جائے.نماز توڑ دی اور کہا کہ آؤ وضو دوبارہ ہم سب کریں کیونکہ وضو تو وہی ہے.دوسری دفعہ وضو کر نے سے نور علی نور ہو جائے گا.اس سے یہ نہیں ثابت ہوا کہ ہمیشہ اس طرح کیا جائے بلکہ یہ ایک موقع تھا جو کس خوش اسلوبی سے پورا کیا گیا.{ ( فتاوی احمد یه صفحه ۴۲ ) ( یہ اقتباس تا حال اصل ماخذ سے نہیں مل سکا )} (۶۰) با جماعت نماز میں زیادہ ثواب کی وجہ و حقیقت جماعت و وجه تسویه صفوف جماعت فرمایا:."نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں.وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے.پھر اسی وحدت کیلئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عید گاہ میں جمع ہوں.اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں.ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے." الحکم نمبر 37 جلد 10 مؤرخہ 24 اکتوبر 1906 صفحه (3)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 47 سوال:.بہترین وظیفہ کیا ہے؟ (۶۱) بہترین وظیفہ جواب:." نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے.استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر ایک قسم کے غم و ہم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں.آنحضرت علی اللہ کواگر ذرہ بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کیلئے کھڑے ہو جاتے اور اس لئے فرمایا ہے الا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ اطمینان سکینت قلب کیلئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.لوگوں نے قسم قسم کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرت علی اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں بنادی ہوئی ہے.مجھ پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں.ان وظائف اور اور اد میں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اور اد میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.میں نے مولوی صاحب سے سنا ہے کہ بعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں.میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے.نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لئے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو.اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہوگا اور سب مشکلات خدا چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نماز یاد الہی کا ذریعہ ہے اس لئے فرمایا ہے اَقِمِ الصَّلواةَ لِذِكْرِى " الحکم نمبر 20 جلد 7 مؤرخہ 31 مئی 1903 ، صفحہ 9) (۶۲) قصر نماز وحد سفر نماز کے قصر کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو شخص یہاں آتے ہیں وہ قصر کریں یا نہ ؟ فرمایا:."جو شخص تین دن کے واسطے یہاں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے.میری دانست میں جس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 48 سفر میں عزم سفر ہو پھر خواہ وہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائز ہے.یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے.ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی پڑے گی." الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ، صفحہ 10 (۶۳) سفر میں قصر سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی تین کوس سفر پر جائے تو کیا نمازوں کو قصر کرے؟ فرمایا:."ہاں ! مگر دیکھو اپنی نیت کو خوب دیکھ لو.ایسی تمام باتوں میں تقویٰ کا بہت خیال رکھنا چاہئے.اگر کوئی شخص ہر روز معمولی کا روبار یا سفر کیلئے جاتا ہے تو وہ سفر نہیں بلکہ سفر وہ ہے جسے انسان خصوصیت سے اختیار کرے اور صرف اس کام کیلئے گھر چھوڑ کر جائے اور عرف میں وہ سفر کہلاتا ہو.دیکھو یوں تو ہم ہر روز سیر کیلئے دو دو میل نکل جاتے ہیں مگر یہ سفر نہیں.ایسے موقعہ پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہئے کہ اگر وہ بغیر کسی خلجان کے فتوی دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرے.اسْتَفْتِ قَلْبَک (اپنے دل سے فتویٰ لو) پر عمل چاہئے.ہزار فتوئی ہو پھر بھی مومن کا نیک نیتی سے قلبی اطمینان عمدہ شے ہے." عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہیں.بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے.بعض کیلئے تین چارکوس بھی سفر ہے.فرمایا:." شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا.صحابہ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے." عرض کیا گیا حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصر فرماتے ہیں.فرمایا:."ہاں! کیونکہ وہ سفر ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا رہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کر کے اسے سفر نہیں کہہ سکتا." (خلاصہ تقریر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے نزدیک تین کوس بھی سفر ہے اور اس میں قصر جائز.لیکن اگر کوئی بطور سیر یا معمولی روز مرہ کے کاروبار کیلئے اتنی دور یا اس سے کچھ زیادہ نکل جائے تو وہ سفر نہیں.بدر ) اخبار بدر نمبر 3 جلد 7 مؤرخہ 23 جنوری 1908ء صفحه (2)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 49 فرمایا:- (۶۴) حکام کا دورہ سفر نہیں " حکام کا دورہ سفر نہیں ہو سکتا.وہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنے باغ کی سیر کرتا ہے.خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کوئی وجود نہیں.اگر دوروں کی وجہ سے انسان قصر کرنے لگے تو پھر یہ دائی قصر ہوگا جس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے.حکام کہاں مسافر کہلا سکتے ہیں.سعدی نے بھی کہا ہے.منعم بکوه و دشت و بیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت خیمه زدوخوابگاه ساخت" الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ء صفحہ 10 ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک اِدھر اُدھر جانا پڑتا ہے.میں کس کو سفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں میں کتابوں کے مسائل نہیں پوچھتا ہوں.حضرت امام صادق کا حکم دریافت کرتا ہوں.حضرت اقدس نے فرمایا:." میرا مذ ہب یہ ہے کہ انسان بہت وقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے.عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اس میں قصر و سفر کے مسائل پر عمل کرے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گھڑی اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتا ہے.شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ویسا ہی اس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے." الحکم نمبر 6 جلد 5 مؤرخہ 17 فروری 1901 ، صفحہ 13 ) (۶۵) دائمی دورہ کرنے والے کی نماز ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو شخص بسبب ملازمت کے ہمیشہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 50 دورہ میں رہتا ہو اس کو نمازوں میں قصر کرنی جائز ہے یا نہیں.فرمایا:."جو شخص رات دن دورہ پر رہتا ہے اور اسی بات کا ملازم ہے وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلا سکتا.اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے." رفع یدین کے متعلق فرمایا کہ:.اخبار بدر نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 07 / فروری 1907 ، صفحہ 4 (۶۶) رفع یدین " اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا خواہ کوئی کرے یا نہ کرے.احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے اور وہابیوں اور سنیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے، کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کر دیا." ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 2 مؤرخہ 3 را پریل 1903ء صفحہ 85) (۶۷) ایک شخص کا سوال پیش ہوا.کہ کیا رفع ید بین ضروری ہے.فرمایا کہ:."ضروری نہیں جو کرے تو جائز ہے." اخبار بد رنمبر 44 جلد 6 مؤرخہ 31 اکتوبر 1907 ء صفحہ 7) (۶۸) سفری تاجر کی نماز ایک صاحب کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں اور میرے بھائی ہمیشہ تجارت عطریات وغیرہ میں سفر کرتے رہتے ہیں.کیا ہم نماز قصر کیا کریں.فرمایا:.سفر تو وہ ہے جو ضرورتا گاہے گاہے ایک شخص کو پیش آوے.نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ آج یہاں کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے.یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی آپ کو مسافروں میں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 51 شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں ہی گزار دے." ( البدر نمبر 13 جلد 8 مؤرخہ 28 / مارچ 1907 ء صفحہ 4 (۶۹) نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق حضرت مسیح موعود کا ارشاد حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے استفسار پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو خط میں لکھا ہے:.اگر چہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا اور دست بستہ کھڑا ہونا قانون فطرت کی رو سے بھی بندگی کیلئے مناسب ہی معلوم ہوتا ہے.لیکن اگر ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے ہیں تو نماز ہو جاتی ہے.مالکی بھی شیعوں کی طرح ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں.مسنون و ہی طریق ہے جو اوپر بیان ہوا.اس قدر اختلاف بیعت کا کچھ ہارج نہیں اگر چہ احادیث صحیحہ میں اس کا نام ونشان بھی نہیں." فرمایا:- ) مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 154 مطبوعہ 22 اپریل 2008 ء ) (۷۰) نمازوں کا جمع کرنا دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں.نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں.بسبب بیماری کے اور تفسیر سورہ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایسا ہو رہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة کی حدیث بھی پوری ہو رہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا.سواب ایسا ہی ہوتا ہے.جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم علیل یا اللہ نے پیار کے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اس کی خاطر ایسا ہوگا.چاہئے کہ ہم رسول کریم علیل اللہ کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پروانہ وسلم
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 52 ہو دیں ورنہ یہ ایک گناہ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت کی پیشگوئیوں کو خفت کی نگاہ سے دیکھیں.خدا تعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کر دیئے کہ اتنے عرصہ سے نمازیں جمع ہو رہی ہیں ورنہ ایک دو دن کیلئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا.ہم رسول کریم عبید اللہ کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں." الحکم نمبر 6 جلد 5 مؤرخہ 17 فروری 1901 ، صفحہ 13 (14) (۷۱) جمع بین الصلوٰ تین کے متعلق حضرت حجتہ اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تقریر جو آپ نے 3 دسمبر 1901ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں فرمائی:."سب صاحبوں کو معلوم ہو کہ ایک مدت سے خدا جانے قریباً چھ ماہ یا کم وبیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے.میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے ایک نو وارد یا نومرید کو ( جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے ) یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہوا یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذر بھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں.مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں اور نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعا اور فطرتا اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے.اگر چہ شیعوں نے اور غیر مقلدوں نے اس پر بڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں وہ صرف نفس کی کا بلی سے کام لیتے ہیں.سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پاکر ان سے کام لیتے ہیں اور مشکل کو موضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں.ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہی رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہئے.اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم.القاء اور
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 53 الله الہام کے بدوں نہیں کرتا.بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں.جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس جمع بین الصلوتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ علیم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة کی بھی ایک عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جواب پوری ہو رہی ہے.میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے.مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علمائے ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہر اویں مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے.جیسے لا مَهْدِى إِلَّا عِیسی والی حدیث ہے.محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھے پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے.اور یہ میرا مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلم مسئلہ ہے کہ اہل کشف و اہل الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے.خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے ہیں.تو جب یہ حالت ہے پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے القاء اور اشارہ سے کرتا ہوں.یہ پیشگوئی جو اس حدیث تُجْمَعُ لَهُ الصَّلوة میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک علامت ہے.یعنی وہ ایسی دینی خدمات اور کاموں میں مصروف ہوگا کہ اس کیلئے نماز جمع کی جاویگی." الحکم نمبر 42 جلد 6 مؤرخہ 24 رنومبر 1902ءصفحہ 2,1) (۷۲) فرمایا:- " اب یہ علامت جب کہ پوری ہوگئی اور ایسے واقعات پیش آگئے پھر اس کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے نہ کہ استہزاء اور انکار کے رنگ میں.دیکھو! انسان کے اپنے اختیار میں اس کی موت فوت نہیں ہے.اب اس نشان کے پورا ہونے پر تو یہ لوگ رکیک اور نا معقول عذر تراشتے ہیں اور اعتراض کے رنگ میں پیش کرتے اور حدیث کی صحت
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 54 اور عدم صحت کے سوال کو لے بیٹھتے ہیں.لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر اس نشان کے پورا ہونے سے پہلے ہماری موت آجاتی تو یہی لوگ اسی حدیث کو جسے اب موضوع ٹھہراتے ہیں آسمان پر چڑھا دیتے اور اس سے زیادہ شور مچاتے جواب مچا رہے ہیں.دشمن اسی ہتھیار کو اپنے لئے تیز کر لیتا لیکن اب جب کہ وہ صداقت کا ایک نشان اور گواہ ٹھہرتا ہے تو اس کو نکما اور لاشے قرار دیا جاتا ہے.پس ایسے لوگوں کیلئے ہم کیا کہہ سکتے ہیں انہوں نے تو صد ہا نشان دیکھے مگر انکار پر انکار کیا اور صادق کو کا ذب ہی ٹھہرایا اور کس نشان کو انہوں نے مانا جو اس کی امید ان سے رکھیں.کیا کسوف خسوف کا کوئی چھوٹا نشان تھا؟ اس کے پورا ہونے سے پہلے تو اس کو نشان قرار دیتے رہے مگر جب پورا ہو گیا تو اس کو بھی مشکوک کرنے کی کوشش کی.بہر حال مخالفوں کی کور چشمی اور تعصب کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ اب رہی اپنی جماعت خدا کا شکر ہے کہ اس کیلئے یہ کوئی ابتلا نہیں ہوسکتا کیونکہ جس نے دمشق کے منارہ پر چڑھنے والے اور فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زرد پوش مسیح کے اترنے کی حقیقت کو خدا کے فضل سے سمجھ لیا ہے اور جس نے خدا کی صفات والے دجال کا انکار کر کے دجال کی حقیقت حال پر اطلاع پالی ہے اور ایسا ہی دابتہ الارض اور دجال کے متعلق ان لوگوں کے خانہ ساز مجموعوں کو چھوڑا ہے اور اس قدر باتوں پر جب وہ مجھ پر نیک ظن کرنے کے باعث الگ ہو گئے ہیں تو یہ امران کی راہ میں روک اور ابتلا کا باعث کیونکر ہو سکتا ہے؟ یہ بھی یاد رکھو کہ اب بات صرف حسن ظن تک نہیں رہی بلکہ خدا تعالیٰ نے ان کو معرفت اور بصیرت کے مقام تک پہنچا دیا ہے اور وہ دیکھ چکے ہیں کہ میں وہی ہوں جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا.ہاں میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کی معرفت بڑھانے کیلئے منہاج نبوت پر اس قدر نشانات ظاہر کئے کہ لاکھوں انسان ان کے گواہ ہیں.دوست دشمن دور ونزدیک ہر مذہب وملت کے لوگ ان کے گواہ ہیں.زمین نے اپنے نشانات الگ ظاہر کئے آسمان نے الگ.وہ علامات جو میرے لئے مقرر تھیں وہ سب پوری ہوگئیں.پھر اس قدرنشانات کے بعد بھی اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ ہلاک ہوتا ہے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک پر خدا نے ایسا فضل کیا ہے کہ ایک بھی تم میں سے ایسا نہیں جس نے اپنی آنکھوں سے کوئی نہ کوئی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 55 نشان نہ دیکھا ہو.کیا کوئی ہے جو کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا؟ ایک بھی نہیں.پھر ایسی بصیرت اور معرفت بخشنے والے نشانوں کے بعد مجھ پر حسن ظن ہی نہیں رہا بلکہ میری سچائی اور خدا کی طرف سے مامور ہو کر آنے پر تم علی وجہ البصیرت گواہ ہو اور تم پر حجت پوری ہو چکی ہے.پھر وہ بڑا ہی بد قسمت اور نادان ہوگا جو اتنے نشانوں کے بعد اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ابتلا میں پڑے جو اس کے ازدیاد ایمان کا موجب اور باعث ہونی چاہئے جو کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ نے فرمایا تھا کہ آنے والے موعود کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ اس کیلئے نماز جمع کی جائے گی.پس تمہیں خدا کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ یہ نشان بھی پورا ہوتا ہوا تم نے دیکھ لیا.لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حدیث موضوع ہے تو میں نے پہلے اس کی بابت ایک جواب تو یہ دیا ہے کہ محدثین نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ اہل کشف اور مامور تنقید احادیث میں ان کے اصولوں کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے تو پھر جب کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس حدیث کی صحت کو ظاہر کر دیا ہے تو اس پر زور دینا تقویٰ کے خلاف ہے.پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ محدثین خود ہی مانتے ہیں کہ حدیث میں سونے کے کنگن پہننے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ کیا بات تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک صحابی کو سونے کے کنگن پہنا دیئے.چنانچہ اس صحابی نے بھی انکار کیا مگر وہ حضرت عمرؓ نے اس کو پہنا کر ہی چھوڑے.کیا وہ اس حرمت سے آگاہ نہ تھے؟ تھے اور ضرور تھے مگر وہ آنحضرت علی اللہ کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہزاروں حدیثوں کو قربان کرنے کو طیار تھے.اب غور کا مقام ہے کہ جب ایک پیشگوئی کے پورا ہونے نے حرمت کا جواز کرا دیا تو بلا مطر و بلا عذر والی بات پر انکار کیوں؟ احادیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ اپنے خواب کو بھی سچا کرنے کی کوشش کر و چہ جائیکہ نبی کریم کی پیشگوئی.جس شخص کو ایسا موقع ملے اور وہ عمل نہ کرے اور اس کو پورا کرنے کیلئے تیار نہ ہو وہ دشمن اسلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ کو معاذ اللہ جھوٹا ٹھہرانا چاہتا ہے اور آپ کے مخالفوں کو اعتراض کا موقع دینا چاہتا ہے.صحابہ خا مذ ہب یہ تھا کہ وہ آنحضرت علی اللہ کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر اپنی معرفت اور ایمان عليه وسلم میں ترقی دیکھتے تھے اور وہ اس قدر عاشق تھے کہ اگر آنحضرت سفر کو جاتے اور پیشگوئی کے طور پر کہہ دیتے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 56 کہ فلاں منزل پر نماز جمع کریں گے اور ان کو موقعہ مل جاتا تو وہ خواہ کچھ ہی ہوتا ضرور جمع کر لیتے.اور خود آنحضرت ہی کی طرف دیکھو کہ آپ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے کس قد رمشتاق تھے.ہم کو کوئی بتائے کہ آپ حدیبیہ کی طرف کیوں گئے؟ کیا کوئی وقت ان کو بتایا گیا تھا اور کسی میعاد سے اطلاع دی گئی تھی ؟ پھر کیا بات تھی؟ یہی وجہ تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو جائے.یہ ایک بار یک سر اور دقیق معرفت کا نکتہ ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا کہ انبیاء اور اہل اللہ کیوں پیشگوئیوں کے پورا کرنے اور ہونے کیلئے ایک غیر معمولی رغبت اور تحریک اپنے دلوں میں رکھتے ہیں.جس قدرا انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں یا اہل اللہ ہوئے ہیں ان کو فطرۃ رغبت دی جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کو پورا کرنے کیلئے ہمہ تن طیار ہوتے ہیں.مسیح علیہ السلام نے اپنی جگہ داؤدی تخت کو بحالی والی پیشگوئی کیلئے کس قدر سعی اور کوشش کی کہ اپنے شاگردوں کو یہاں تک حکم دیا کہ جس کے پاس تلواریں اور ہتھیار نہ ہوں وہ اپنے کپڑے بیچ کر ہتھیار خریدے.اب اگر اس پیشگوئی کو پورا کرنے کی وہ فطری خواہش اور آرزو نہ تھی جو انبیاءعلیہم السلام میں ہوتی ہے تو کوئی ہم کو بتائے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اور ایسا ہی ہمارے نبی کریم علی اللہ میں اگر یہ طبعی جوش نہ تھا تو آپ کیوں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے جب کہ کوئی میعاد اور وقت بتایا نہیں گیا تھا.بات یہی ہے کہ یہ گروہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کی حرمت اور عزت کرتا ہے اور چونکہ ان نشانات کے پورا ہونے پر معرفت اور یقین میں ترقی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا ظہور ہوتا ہے.وہ چاہتے ہیں کہ پورے ہوں.اس لئے آنحضرت علی اللہ جب کوئی نشان پورا ہوتا تو سجدہ کیا کرتے تھے.جب تک دل دھوئے نہ جاویں اور ایمان حجاب اور زنگ کی تہوں سے صاف نہ کیا جاوے سچا اسلام اور کچی تو حید جو مدار نجات ہے حاصل نہیں ہو سکتی.اور دل کے دھونے اور ان حجب ظلمانیہ کے دور کرنے کا آلہ یہی خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں جن سے خود خدا تعالی کی ہستی اور نبوت پر ایمان پیدا ہوتا ہے اور جب تک سچا ایمان نہ ہو جو کچھ کرتا ہے وہ صرف رسوم اور ظاہر داری کے طور پر کرتا ہے." فرمایا:.الحکم نمبر 42 جلد 6 مؤرخہ 24 نومبر 1902ء صفحہ 2
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 57 " پس جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بات تھی تو میرا نور قلب کب اس کے خلاف کرنے کی رائے دے سکتا تھا.اس لئے میں نے چاہا کہ یہ ہونا چاہئے تا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ کی پیشگوئی پوری ہو.ممکن تھا کہ ایسے واقعات پیش نہ آتے لیکن جب ایسے امور پیش آگئے کہ جن میں مصروفیت از بس ضروری تھی اور توجہ ٹھیک طور پر چاہئے تھی تو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آ گیا اور وہ پوری ہوئی اس طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا.والحمد للہ علی ذلک میرا ان نمازوں کو جمع کرنا جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں اللہ تعالیٰ کے اشارہ اور ایماء اور القاء سے تھا.حالانکہ مخالف تو خواہ نخواہ بھی جمع کر لیتے ہیں مسجد میں بھی نہیں جاتے گھروں ہی میں جمع کر لیتے ہیں.مولوی محمدحسین ہی کو قسم دے کر پوچھا جاوے کہ کیا اس نے کبھی کسی حاکم کے پاس جاتے وقت نماز جمع کی ہے یا نہیں؟ پھر خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نشان پر کیوں اعتراض کیا جاوے.اگر تقویٰ اور خدا ترسی ہو تو اعتراض کرنے سے پہلے انسان اپنے گھر میں سوچ لے کہ کیا کہتا ہوں اور اس کا اثر اور نتیجہ کیا ہوگا اور کس پر پڑے گا.میں نے اس اجتہاد میں یہ بھی سوچا کہ ممکن تھا ہم دس دن ہی میں کام کو ختم کر دیتے جو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا موجب اور باعث ہوا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی پسند کیا کہ جب یہ لوگ اپنے نفس کی خاطر دو دو مہینے نکال لیتے ہیں تو پیشگوئی کی تکمیل کیلئے ایسی مدت چاہئے جس کی نظیر نہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اگر چہ وہ مصالح ابھی تک نہیں کھلے مگر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ضرور کھلیں گے.دیکھو ضعف دماغ کی بیماری بدستور لاحق ہے اور بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ موت قریب ہو جاتی ہے.تم میں سے اکثر نے میری ایسی حالت کو معائنہ کیا ہے اور پھر پیشاب کی بیماری عرصہ سے ہے.گویا دوزرد چادر میں مجھے یہ پہنائی گئی ہیں ایک اوپر کے حصہ بدن میں اور ایک نیچے کے حصہ بدن میں.ان بیماریوں کی وجہ سے وقت صافی بہت کم ملتا ہے مگر ان ایام میں خدا تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا کہ صحت بھی اچھی رہی اور کام ہوتا رہا.مجھے تو افسوس اور تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ جمع بین الصلاتین پر روتے ہیں حالانکہ مسیح کی قسمت میں بہت سے اجتماع رکھتے ہیں." الحکم نمبر 43 جلد 6 مؤرخہ 30 نومبر 1902 ، صفحہ 1 )
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 58 فرمایا:- (۷۳) نماز اپنی زبان میں نہ پڑھنی چاہئے "نماز اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہئیے.خدا تعالیٰ نے جس زبان میں قرآن شریف رکھا ہے اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے.ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذکار کے بیان کر سکتے ہیں مگر اصل زبان کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے.عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا پھل پایا.کچھ بھی باقی نہ رہا." الحکم نمبر 20 جلد 6 مؤرخہ 31 مئی 1902 ء صفحہ 8) (۷۴) نماز وتر سوال:.اکیلا وتر پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا:."ہم نے اکیلا وتر پڑھنے کا حکم کہیں نہیں دیکھا.ہاں دو رکعت کے بعد خواہ سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لے خواہ تینوں رکعت ایک ہی نیت سے پڑھ لے." فرمایا کہ:.الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 اپریل 1903 صفحہ 9 اکیلا ایک وتر کہیں سے ثابت نہیں ہوتا.وتر ہمیشہ تین ہی پڑھنے چاہئیں خواہ تینوں اکٹھے ہی پڑھ لیں خواہ دورکعت پڑھ کر سلام پھیر لیں اور پھر ایک رکعت الگ پڑھی جاوے." ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 2 مؤرخہ 3 را پریل 1903 ء صفحہ 85) ایک صاحب نے سوال کیا کہ وتر کس طرح پڑھنے چاہئیں.ایک اکیلا بھی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ:.کیلا وتر تو ہم نے کہیں نہیں دیکھا.وتر تین ہیں.خواہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لو خواہ تینوں ایک ہی سلام سے درمیان میں التحیات بیٹھ کر پڑھ لو.ایک وتر ٹھیک نہیں." الحکم نمبر 13 جلد 7 مؤرخہ 10 را پریل 1903 ء صفحہ 14 ) حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کی اخبار بدر میں درج ذیل الفاظ میں رپورٹ شائع ہوئی ہے.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا:.59 59 کیلا وتر تو ہم نے کہیں نہیں دیکھا.وتر تین ہیں.خواہ دورکعت پڑھ کر سلام پھیر کر تیسری رکعت پڑھ لو خواہ تینوں ایک ہی سلام سے آخر میں التحیات بیٹھ کر پڑھ لو.ایک وتر ٹھیک نہیں." ( اخبار بدر نمبر 13 جلد 2 مؤرخہ 17 را پریل 1903ء صفحہ 98) (۷۵) وتر پڑھنے کا طریق و وقت سوال:.وتر پڑھنے کا کیا طریق ہے؟ جواب:.حدیث شریف کے مطابق وتر اور مغرب کے فرائض میں فرق کرنا ضروری ہے.اس کے واسطے حضرت مسیح موعود کا طریق یہ ہے کہ آپ پہلے دو رکعت پڑھتے ہیں اور سلام پھیرتے ہیں.پھر معاً اُٹھ کر ایک رکعت اور پڑھتے ہیں.سوال:.وتر کس وقت پڑھنے چاہئیں؟ جواب:.وتر پہلی رات کو پڑھ لینا بہتر ہے.پچھلی رات بھی پڑھے جا سکتے ہیں.بہتر یہی ہے کہ پہلی رات پڑھ لئے جاویں.حضرت مسیح موعود کا یہی طریق عمل ہے کہ آپ پہلی رات کو پڑھ لیا کرتے ہیں.اخبار بدر نمبر 2 جلد 2 مؤرخہ 12 جنوری 1906ء صفحہ 6) (۷۶) سفر میں وتر سوال:.سفر میں وتر کے کتنے رکعت پڑھنے چاہئیں؟ جواب:.سفر و حضر میں وتر کے واسطے تین رکعت ضروری ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سفر میں بھی وتر کے تین رکعت بعد نماز عشاء پہلی رات کو ضرور پڑھا کرتے ہیں.اخبار بدر نمبر 2 جلد 2 مؤرخہ 12 / جنوری 1906ء صفحہ 6) (۷۷) نماز کے بعد دعا مولوی سید محمود شاہ صاحب نے جو سہارنپور سے تشریف لائے ہوئے ہیں حضرت اقدس امام
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 60 60 علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور جب آپ نماز مغرب سے فارغ ہو کر شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے یہ عرض کیا کہ میں نے آج تحفہ گولڑویہ اور کشتی نوح کے بعض مقامات پڑھے ہیں.میں ایک امر جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں اگر چہ وہ فروعی ہے لیکن پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز.دعا مانگتے ہیں لیکن یہاں نوافل تو خیر دعا بعد نماز نہیں مانگتے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا:."اصل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیں اور صلوٰۃ بجائے خود دعا ہی ہے.بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندوستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پر محوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے اس لئے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے جس میں کراہت پائی جاتی ہے حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق ، انس اور سرور بڑھتا ہے مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں بلکہ حضور قلب کی کوشش کریں جس سے ان کو سرور اور ذوق حاصل ہو.عام طور پر یہ حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کیلئے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں حالانکہ نماز کا (جو مومن کی معراج ہے ) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لئے ام الادعیہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دعامانگی جاتی ہے.انسان کبھی خدا کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اقام الصلوٰۃ نہ کرے.آقِیمُوا الصَّلوةَ اس لئے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے.مگر جو شخص اقام الصلواۃ کرتے ہیں تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں.نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اسے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی اور وہ فارغ ہی نہیں ہو سکتا ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اسے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا.مومن کو بے شک اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں.مگر نماز کے بعد جو دعاؤں کا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے بعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 61 ہیں کہ آدھ میل کا سفر ایک آدمی کر سکتا ہے.میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کو سنوارو یہ بھی دعا ہے.کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تمہیں تمیں برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں.کوئی اثر روحانیت اور خشوع خضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا اس کا یہی سبب ہے کہ وہ وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے ایسی نمازوں کیلئے ویل آیا ہے.دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کیلئے اسے اس کو پھینک دینا چاہئے؟ ہر گز نہیں اوّل اس جو ہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوں کو بھی سنبھالے اس لئے نماز کو سنوار سنوار کر اور سمجھ مجھے کر پڑھے." سائل:.الحمد شریف بیشک دعا ہے مگر جن کو عربی کا علم نہیں ان کو تو دعامانگنی چاہئے.حضرت اقدس :."ہم نے اپنی جماعت کو کہا ہوا ہے کہ طوطہ کی طرح مت پڑھو.سوائے قرآن شریف کے جو رب جلیل کا کلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے کہ نبی کریم عیب اللہ کا معمول تھیں.نماز با برکت نہ ہوگی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو.اس لئے ہر شخص کو جو عربی زبان نہیں جانتا ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعاؤں کو پیش کرے اور رکوع میں سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے.ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں.اس لئے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نماز کے اندر اپنی زبان میں دعائیں کر لیتے ہیں اور ہم بھی کر لیتے ہیں.اگر چہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں مگر مادری زبان کے ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتا ہے.اس لئے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو بارگاہ رب العزت میں عرض کرنا چاہئے.میں نے بارہا سمجھایا ہے کہ نماز کا تعہد کرو جس سے حضور اور ذوق پیدا ہو.فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں باقی نوافل اور سنن کو جیسا چاہو طول دو اور چاہئے کہ اس میں گریہ و بکا ہوتا کہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے.نماز ایسی شے ہے کہ سیئات کو دور کر دیتی ہے جیسے فرما انَّ الحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَات نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے.حسنات سے مراد نماز ہے مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکار سمجھا جاتا ہے کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 29 62 کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں.یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہیں ہوتا.نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے.دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پاس جاتا ہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے اگر دس ہیں دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہوتو وہ سمجھتا ہے کہ تشخیص یا علاج میں کوئی غلطی ہے.پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور اس کا کوئی اثر محسوس اور مشہور نہیں ہوتا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر قلب ہو جاتی ہے.مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نماز پڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور رو بدنیا اور سفلی زندگی میں نگو نسار ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے؟ اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے.طبیعتیں دو قسم کی ہیں ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں جیسے اگر ہندو کا کسی مسلمان کے ساتھ کپڑا بھی چھو جاوے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتا ہے حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کر گیا زیادہ تر اس زمانہ میں لوگوں کا یہی حال ہو رہا ہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیں اور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں.جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعا نہیں مانگتے.بلکہ نمازوں میں دعائیں کرتے ہیں یہ بدعت نہیں.پیغمبر خدا صلی اللہ کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ نے ادعیہ عربی میں سکھائی تھیں جو ان لوگوں کی اپنی مادری زبان تھی اسی لئے ان کی ترقیات جلدی ہو ئیں.لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلا تو وہ ترقی نہ رہی اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم و عادت کے طور پر رہ گئے ان کے نیچے جو حقیقت اور مغز تھا وہ نکل گیا.اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے یا درکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز.صلوۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں.یہ قرب کی کنجی ہے اسی سے کشوف ہوتے ہیں اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سے سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے اور اس سے پیار کرتا ہے جیسے ہندو گنگا سے پیار کرتے ہیں.ہم دعاؤں سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دعاؤں کی قبولیت پر ایمان ہے جب کہ خدا تعالیٰ نے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ فرمایا ہے ہاں یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نماز کے بعد دعا کرنا فرض نہیں ٹھیرایا اور رسول اللہ صلی اللہ سے بھی التزامی طور پر مسنون نہیں ہے، عليه وسلم.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 63 آپ سے التزام ثابت نہیں ہے اگر التزام ہوتا اور پھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی.تقاضاء وقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعا کر لی.اور ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ آپ کا سارا ہی وقت دعاؤں میں گزرتا تھا لیکن نماز خاص خزینہ دعاؤں کا ہے جو مومن کو دیا گیا ہے اس لئے اس کا فرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کر لے اور طرف توجہ نہ کرے کیونکہ جب نفل سے فرض جاتا رہے تو فرض کو مقدم کرنا چاہئیے.اگر کوئی شخص ذوق اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو پھر خارج نماز میں بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے ہم تقدیم نماز کی چاہتے ہیں اور یہی ہماری غرض ہے مگر لوگ آجکل نماز کی قدر نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بہت بعد ہو گیا.مومن کیلئے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینان قلب پاتا ہے." فرمایا:.( الحکم نمبر 38 جلد 6 مؤرخہ 24 اکتوبر 1902ء صفحه 12,11) دعا کیلئے رقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کو جنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہنچانے.اتباع سنت ضروری.مگر تلاش رفت بھی اتباع سنت ہے.اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو دعا کرو تا کہ دعا میں جوش پیدا ہو.الفاظ پرست مخذول ہوتا ہے حقیقت پرست بننا چاہیئے.مسنون دعاؤں کو بھی برکت کیلئے پڑھنا چاہئے مگر حقیقت کو پاؤ.ہاں جس کو زبان عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے." الحکم نمبر 33 جلد 5 مؤرخہ 10 رستمبر 1901 ، صفحہ 9) (۷۸) رکوع و سجود میں قرآنی دعانہ پڑھو مولوی عبدالقادر صاحب لو دھانوی نے سوال کیا کہ رکوع اور سجود میں قرآنی آیت یا دعا کا پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا:.سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور خدا کا کلام عظمت چاہتا ہے.ماسوائے اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو." عليه وسلم الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ، صفحہ 11
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 64 (۷۹) مخالف کی مسجد میں نماز سوال ہوا کہ مخالف ہم کو مسجد میں نماز پڑھنے نہیں دیتے حالانکہ مسجد میں ہمارا حق ہے.ہم ان سے بذریعہ عدالت فیصلہ کرلیں؟ فرمایا:.ہاں اگر کوئی حق ہے تو بذریعہ عدالت چارہ جوئی کرو.فساد کرنامنع ہے.کوئی دنگہ فساد نہ کرو." الحکم نمبر 19 جلد 7 مؤرخہ 24 اپریل 1903 ء صفحه (11) فرمایا:.(۸۰) ایک رکعت میں قرآن شریف ختم کرنا بعض لوگ جو ایک رکعت میں قرآن شریف ختم کرنا فخر سمجھتے ہیں وہ درحقیقت لاف مارتے ہیں.دنیا کے پیشہ ور لوگ بھی اپنے اپنے پیشہ پر ناز کرتے ہیں.آنحضرت عبید اللہ نے کبھی اس طریق سے قرآن کریم ختم نہیں کیا بلکہ چھوٹی چھوٹی سورتوں پر آپ نے اکتفا کیا." الحکم نمبر 23 جلد 7 مؤرخہ 24 / جون 1903ء صفحہ 14) حضور علیہ السلام کے مذکورہ ارشاد کی اخبار بدر میں ان الفاظ میں رپورٹ شائع ہوئی.ذکر ہوا کہ ایک رکعت میں بعض لوگ قرآن کو ختم کرنا کمالات میں تصور کرتے ہیں.اور ایسے حافظوں اور قاریوں کو اس امر کا بڑا فخر ہوتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:." یہ گناہ ہے اور ان لوگوں کی لاف زنی ہے، جیسے دنیا کے پیشہ والے اپنے پیشہ پر فخر کرتے ہیں ویسے ہی یہ بھی کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے اس طریق کو اختیار نہ کیا حالانکہ اگر آپ چاہتے تو کر سکتے تھے مگر آپ نے چھوٹی چھوٹی سورتوں پر اکتفا کی." ( اخبار بدر نمبر 22 جلد 2 مؤرخہ 19 جون 1903 ء صفحہ 169 ) (۸۱) تصویر اور نماز ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی ؟ جواب میں حضرت اقدس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:.65 " کفار کے تتبع پر تو تصویر ہی جائز نہیں.ہاں نفس تصویر میں حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے.اگر نفس تصویر مفسد نماز ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہوسکتا ؟ اس کا جواب اگر یہ دو کہ روپے پیسے کا رکھنا اضطراری ہے تو میں کہوں گا کہ کیا اگر اضطرار سے پاخانہ آ جاوے تو وہ مفسد نماز نہ ہوگا اور پھر وضو کرنا نہ پڑے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں ؟ اگر یونہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُون لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے اس لئے اس سے بچنا چاہئے.لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعہ سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا.مثلاً ہم نے ایک موقع پر عیسائیوں کے مثلث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جدا جدا تصویر دی ہے.اس سے ہماری یہ غرض تھی کہ تا تثلیث کی تردید کر کے دکھائیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے جوحی و قیوم ، ازلی و ابدی غیر متغیر ہے اور تجسم سے پاک ہے.اس طرح پر اگر خدمت اسلام کیلئے کوئی تصویر ہو تو شرع کلام نہیں کرتی ہے کیونکہ جو امور خادم شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے.کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے پاس کل نبیوں کی تصویریں تھیں.قیصر روم کے پاس جب صحابہ گئے تھے تو انہوں نے آنحضرت عیب اللہ کی تصویر اس کے پاس دیکھی تھی تو یاد رکھنا چاہئے کہ نفس تصویر کی حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے.جو لوگ لغوطور پر تصویر میں رکھتے اور بناتے ہیں وہ حرام ہیں.شریعت ایک پہلو سے حرام کرتی ہے اور ایک جائز طریق پر اسے حلال ٹھہراتی ہے.روزہ ہی کو دیکھو رمضان میں حلال ہے لیکن اگر عید کے دن روزہ رکھے تو حرام ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی حرمت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک بالنفس حرام ہوتی ہے.ایک بالنسبت.جیسے خنزیر بالکل حرام ہے.خواہ وہ جنگل کا ہو یا کہیں کا سفید ہو یا سیاہ چھوٹا ہو یا بڑا.ہر ایک قسم کا حرام ہے.یہ حرام بالنفس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 66 ہے.لیکن حرام بالنسبت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص محنت کر کے کسب حلال سے روپیہ پیدا کرے تو حلال ہے لیکن اگر وہی روپیہ نقب زنی یا قمار بازی سے حاصل کرے تو حرام ہوگا.بخاری کی پہلی ہی حدیث ہے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.ایک خونی ہے اگر اس کی تصویر اس غرض سے لے لیں کہ اس کے ذریعہ اس کو شناخت کر کے گرفتار کیا جاوے تو یہ نہ صرف جائز ہوگی بلکہ اس سے کام لینا فرض ہو جائے گا.اسی طرح اگر ایک شخص اسلام کی تو ہین کرنے والے کی تصویر بھیجتا ہے تو اس کو اگر کہا جاوے کہ حرام کام کیا ہے تو یہ کہنا موذی کا کام ہے.یا درکھو اسلام بت نہیں ہے بلکہ زندہ مذہب ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل نا سمجھ مولویوں نے لوگوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ دیا ہے.آنکھوں میں ہر شے کی تصویر بنتی ہے بعض پتھر ایسے ہیں کہ جانور اڑتے ہیں تو خود بخود ان کی تصویر اتر آتی ہے.اللہ تعالیٰ کا نام مصور ہے - يُصَوِّرُكُمْ فِی الاَرحَامِ.پھر بلا سوچے سمجھے کیوں اعتراض کیا جاتا ہے.اصل بات یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ تصویر کی حرمت غیر حقیقی ہے.کسی محل پر ہوتی ہے اور کسی پر نہیں.غیر حقیقی حرمت میں ہمیشہ نیت کو دیکھنا چاہئے.اگر نیت شرعی ہے تو حرام نہیں ورنہ حرام ہے." الحکم نمبر 8 جلد 6 مؤرخہ 28 فروری 1902ء صفحہ 6) (۸۲) تارک نماز تارک ایمان ہے ایک شخص نے عرض کی کہ میرے لئے دعا کرو کہ نماز کی تو فیق اور استقامت ملے.فرمایا:.حقیقت میں جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے وہ ایمان کو چھوڑتا ہے.اس سے خدا کے ساتھ تعلقات میں فرق آ جاتا ہے.اس طرف سے فرق آیا تو معاً اس طرف سے بھی فرق آ جاتا ہے." الحکم نمبر 14 جلد 7 مؤرخہ 24 اپریل 1903 ، صفحہ 11) (۸۳) رکوع میں شامل ہونے سے رکعت ہوتی ہے یا نہیں اس بات کا ذکر آیا کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آ کر شامل ہو اس کی رکعت ہوتی ہے یا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 67 نہیں؟ حضرت اقدس نے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی.مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اس امر کے متعلق بیان کئے گئے.آخر حضرت نے فیصلہ دیا اور فرمایا:."ہمارا مذ ہب تو یہی ہے کہ لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو ہر حالت میں اس کو چاہئے کہ سورہ فاتحہ پڑھے.مگر امام کو نہ چاہئے کہ جلدی جلدی سورہ فاتحہ پڑھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تا کہ مقتدی سن بھی اور اپنا پڑھ بھی لے یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے.بہر حال مقتدی کو یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے.سورہ فاتحہ کا پڑھناضروری ہے کیونکہ وہ ام الکتاب ہے لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کیلئے کرتا ہے آخر رکوع میں ہی آکر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہوگئی اگر چہ اس نے سورہ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی.کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پالیا اس کی رکعت ہو گئی.مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں ایک جگہ تو حضرت رسول کریم نے فرمایا اور تاکید کی کہ نماز میں سورہ فاتحہ ضرور پڑھیں وہ ام الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے مگر جو شخص با وجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آ کر ملا ہے تو چونکہ دین کی بنا آسانی اور نرمی پر ہے اس واسطے حضرت رسول کریم علیل یا اللہ نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی.وہ سورہ فاتحہ کا منکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے.میرا دل خدا نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے اور میرا جی نہیں چاہتا کہ میں اسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پالیا اور ایک حصہ میں یہ سب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا ہے تو کیا حرج ہے.انسان کو چاہئے کہ رخصت پر عمل کرے.ہاں جو شخص عمد استی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے تو اس کی نماز ہی فاسد ہے." الحکم نمبر 7 جلد 5 مؤرخہ 24 اپریل 1901 ء صفحه (9) (۸۴) سلسلہ احمدیہ سے ناواقف و منافق و مداہن امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ امام نماز حضور کے حالات سے واقف نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پڑھیں؟ فرمایا:.99 68 " پہلے تمہارا فرض ہے کہ اسے واقف کرو پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو اور اگر کوئی خاموش رہے، نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو." الحکم نمبر 16 جلد 6 مؤرخہ 30 اپریل 1902ء صفحہ 7) (۸۵) امامت مسیح موعود علیه السلام امامت نماز کی نسبت ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور کس لئے نماز نہیں پڑھاتے؟ فرمایا کہ:." حدیث میں آیا ہے کہ مسیح جو آنے والا ہے وہ دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے گا." اخبار بدر نمبر 42,41 جلد 2 مؤرخہ 29 /اکتوبر 1903 ء صفحہ 322) (۸۶) تسبیح پھیرنے کے متعلق فتویٰ ایک شخص نے تسبیح کے متعلق پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا:.تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گفتی کو پورا کرنا چاہتا ہے.اب تم خود سمجھے سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے.اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پورا کرنے کی فکر کرنے والا بچی تو بہ کر ہی نہیں سکتا ہے.انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں.انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی.اہل حق تو ہر وقت خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں ان کیلئے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے.کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اللہ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہو گا.وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اور ترقی کرے گا.لیکن اگر محض گنتی مقصود ہوگی تو وہ اسے ایک بریگار سمجھ کر پورا کرنا چاہے گا." الحکم نمبر 19 جلد 8 مؤرخہ 10 / جون 1904 ، صفحہ 3)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 69 69 (۸۷) نماز کے بعد تینتیس بار اللہ اکبر وغیرہ پڑھنا حضرت حجت الله سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بمقام گورداسپورا حاطہ کچہری میں ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر ۳۳ مرتبہ اللہ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا:.آنحضرت علیل اللہ کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انہوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقع کے ہوتی تھی.مثلاً ایک شخص آنحضرت لی اللہ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے.آنحضرت علی اللہ کومعلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزت نہیں کرتا.آپ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزت کر.اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کر دیا جاوے یہی نیکی ہے.ایسا نہیں.اسی طرح پر تسبیح کے متعلق بات ہے.قرآن شریف میں تو آیا ہے وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.اللہ کا بہت ذکر کرو تا کہ تم فلاح پاؤ.اب یہ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرً ا نماز کے بعد ہی ہے.تو ۳۳ مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں آتا.پس یا درکھو کہ ۳۳ مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے.ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذت سے یاد کرتا ہے اسے شمار سے کیا کام وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا.ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی اس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے پھیر رہا ہے.اس عورت نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے.اس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں.عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گن گن کر.در حقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گن گن کر کیا یاد کرنا ہے.اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الہی کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا.آنحضرت علی اللہ نے جو ۳۳ مرتبہ فرمایا ہے وہ آئی اور شخصی بات ہوگی.کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہوگا تو آپ نے اسے فرما دیا کہ ۳۳ مرتبہ کر لیا کر اور یہ جو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں یہ مسئلہ بالکل غلط
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 70 ہے.اگر کوئی شخص آنحضرت عیب اللہ کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے عليه السلام کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے.انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات آپ علی اللہ میرے گھر میں تھے رات کو جو میری آنکھ کھلی تو میں نے آپ کو اپنے بستر پر نہ پایا مجھے خیال گزرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا مگر آپ کو نہ پایا پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں سَجَدَ لَكَ رُوحِی وَ جَنَا نِی اب بتاؤ کہ یہ مقام اور مرتبہ ۳۳ مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتا ہے ہرگز نہیں.جب انسان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتا ہے وہ ذکر الہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولیٰ سے اسے ہوتا ہے وہ کبھی روار کھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے.کسی نے کہا ہے من (دل) کا منکا (دانہ ) صاف کر انسان کو چاہئے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے تب وہ کیفیت پیدا ہوگی اور وہ ان دانہ شماریوں کو بیچے سمجھے گا." الحکم نمبر 21 جلد 8 مؤرخہ 24 جون 1904 ، صفحہ 1 ) (۸۸) نماز میں تعدا در رکعت کیوں رکھی ہے پوچھا گیا کہ نمازوں میں تعداد رکعت کیوں رکھی ہے؟ فرمایا:."اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں جو شخص نماز پڑھے گا وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر ر ہے گا ہی اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے جب وہ پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بس کر جاتا ہے.دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں.جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے.اصل غرض ذکر الہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے اس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 71 طریق پر وہ گناہوں سے بچتا رہے گا.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودالیا اور ستر ہزار کا دیا مگر وہ ایک آن میں بھی خدا تعالیٰ سے جدا نہیں ہوا.پس یا درکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا اسی طرح پر جو لوگ خدا کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا کو فراموش نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کو رونے میں اتنا ثواب نہیں ہے جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے.وہ یہی تسبیحات ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر اپنا سر رکھ یتے ہیں." الحکم نمبر 21 جلد 8 مؤرخہ 24 /جون 1904 ء صفحہ 1) (۸۹) فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے سے نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ ایک شخص نے سوال کیا کہ جو شخص نماز میں الحمد امام کے پیچھے نہ پڑھے اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ:." یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ نماز ہوتی ہے یا نہیں، یہ سوال کرنا اور دریافت کرنا چاہئے کہ نماز میں الحمد امام کے پیچھے پڑھنا چاہئے کہ نہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ ضرور پڑھنی چاہئے.ہونا نہ ہونا تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے.حنفی نہیں پڑھتے اور ہزاروں اولیاء حنفی طریق کے پابند تھے اور خلف امام الحمد نہیں پڑھتے تھے.جب ان کی نماز نہ ہوتی تو وہ اولیاء اللہ کیسے ہو گئے.چونکہ ہمیں امام اعظم سے ایک طرح کی مناسبت ہے اور ہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے، ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی.اس زمانہ میں تمام حدیثیں مدون و مرتب نہیں ہوئی تھیں اور یہ بھید جو کہ اب کھلا ہے نہیں کھلا تھا.اس واسطہ وہ معذور تھے اور اب یہ مسئلہ حل ہو گیا.اب اگر نہیں پڑھے گا تو بے شک اس کی نماز درجہ قبولیت کو نہیں پہنچے گی.ہم یہی بار بار اس سوال کے جواب میں کہیں گے کہ الحمد نماز میں خلف امام پڑھنی چاہئے." تذکرہ المہدی مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی صفحہ 180 جدید ایڈیشن)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 72 (۹۰) فاتحہ خلف الامام پڑھنے کے محال ایک روز میں (حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی.ناقل ) نے دریافت کیا کہ الحمد کس موقعہ پر پڑھنی چاہئے.فرمایا:."جہاں موقعہ پڑھنے کا لگ جاوے." میں نے عرض کیا کہ امام کے سکوت میں؟ فرمایا:." جہاں موقعہ ہو، پڑھنا ضرور چاہئیے." ( تذکرہ المہدی مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمائی صفحہ 180 جدید ایڈیشن) (۹۱) رکوع میں ملنے والے کی رکعت ایک شخص نے سوال کیا کہ اگر جماعت ہو رہی ہے اور مقتدی کو رکوع میں ملنے کا موقعہ ملا.اب اس نے الحمد نہیں پڑھی.وہ رکعت اس کی ہو جاوے گی ؟ مولوی عبد الکریم صاحب بولے کہ وہ رکعت اس کی نہیں ہوگی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ وہ رکعت اس کی ہوگئی.نہیں کیسے ہوگی.بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ اگر اس کو موقعہ ملتا کہ وہ الحمد پڑھ لیتا تو کیا وہ الحمد نہ پڑھتا؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ پڑھتا کیوں نہیں ، اس کا اعتقاد تو یہی ہے کہ الحمد پڑھ لوں.فرمایا نیت کے ساتھ اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ دارو مدار ہے.اس کو اتنی مہلت نہیں ملی ، دل میں تو اس کا اعتقاد ہے.وہ رکعت اس کی ضرور ہوگئی.تذکرہ المہدی مؤلفه حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی صفحہ 180، 181 جدید ایڈیشن) {(۹۲) سورہ مزمل وغیرہ کا وظیفہ } ایک شخص نے جو سورہ مزمل کا وظیفہ کیا کرتا تھا اور اب اس کو آواز میں وغیرہ سنائی دیتی ہیں.اپنی ان مشکلات کو عرض کیا.فرمایا.اب اس شغل کو چھوڑ دو.شریعت نے رہبانیت کو اس لئے منع کیا ہے کہ اس سے دماغ پرا گندہ ہو جاتا ہے.انبیاء علیہم السلام اس سے مستفی ہوتے ہیں.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 73 مامور من اللہ کی صداقت کے دلائل میں سے اس کے قوی بھی ہیں کیونکہ غیر حل پر وہ قوت نہیں دی جاتی اور اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکمت کہتے ہیں وَضْعُ الشَّيْءِ فِي مَحَلِهِ.پس مامور من اللہ کے قویٰ کی بناوٹ ایک نرالی قوت رکھتی ہے.قسم قسم کی تلخیاں اور مصیبتیں ان پر آتی ہیں.مگر خدا کی تسلی کی غذا ان کی زندگی کا موجب ہوتی ہے اور ان کے قومی کو ضعیف نہیں ہونے دیتی.( الحکم ۲۴ / جون ۱۹۰۴ء صفحه ۲ ) ( یہ اقتباس تا حال اصل ماخذ سے نہیں مل سکا )} (۹۳) قضاء عمری قضاء عمری پر سوال ہوا کہ جمعہ الوداع کے دن لوگ تمام نمازیں پڑھتے کہ گزشتہ نمازیں جو ادا نہیں کیں ان کی تلافی ہو جاوے اس کا وجود ہے یا کہ نہیں ؟ فرمایا:.ایک فضول امر ہے مگر ایک دفعہ ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھا کسی شخص نے حضرت علی کو کہا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں اسے منع کیوں نہیں کرتے.فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بنایا جاؤں اَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّی ہاں اگر کسی شخص نے عمدا انماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضاء عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے اور اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو کیوں منع کرتے ہو آخر دعا ہی کرتا ہے.ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آجاؤ." الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ، صفحہ 12 قضاء نماز ایک شخص نے سوال کیا کہ میں چھ ماہ تک تارک صلوۃ تھا.اب میں نے تو بہ کی ہے.کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟ فرمایا :." نماز کی قضا نہیں ہوتی.اب اس کا علاج تو بہ ہی کافی ہے." اخبار بدر نمبر 7، 8، 9 جلد 8 مؤرخہ 24 تا 31 دسمبر 1908ء صفحہ 5)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 74 (۹۴) انسان کو نماز کی حاجت "نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے.جب انسان بندہ ہو کر لا پرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے.ہر ایک اُمت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے.ایمان کی جڑ بھی نماز ہے.بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے.اے نادانو ! خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ خدا تمہاری طرف توجہ کرے.خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں.نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قرب الہی ہے." اخبار بدر نمبر 10 جلد 1 مؤرخہ 08 جون 1905 ، صفحہ 2 (۹۵) مسئله تعظیم قبله سوال ہوا کہ اگر قبلہ شریف کی طرف پاؤں کر کے سویا جاوے تو جائز ہے کہ نہیں ؟ فرمایا کہ:." یہ ناجائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے." سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی.فرمایا : یہ کوئی دلیل نہیں ہے.اگر کوئی شخص اسی بناء پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لئے قرآن شریف پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوا کرے تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا ؟ ہر گز نہیں.(وَمَنْ يُعَظِمُ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ)" اخبار بدر نمبر 28 جلد 3 مؤرخہ 24 جولائی 1904، صفحہ 6 (۹۶) لوگوں کے خود تراشیدہ وظائف وسرود در قص پر فتوے فرمایا:- " اپنی شامت اعمال کو نہیں سوچا.ان اعمال خیر کو جو پیغمبر صلی اللہ سے ملے تھے ترک کر دیا اور ان کے بجائے خود تراشیدہ ورد وظائف داخل کر لئے اور چند کا فیوں کا حفظ کر لینا کافی سمجھا گیا.بلھے شاہ کی کافیوں پر وجد میں آجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کا جہاں وعظ ہورہا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 75 ہو وہاں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیں لیکن جہاں اس قسم کے مجمعے ہوں وہاں ایک گروہ کثیر جمع ہو جاتا ہے.نیکیوں کی طرف سے یہ کم رغبتی اور نفسانی اور شہوانی امور کی طرف توجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ لذت روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھا ہے.دیکھا گیا ہے کہ بعض ان رقص و سرود کی مجلسوں میں دانستہ پگڑیاں اتار لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب کی مجلس میں بیٹھتے ہی وجد ہو جاتا ہے اس قسم کی بدعتیں اور اختراعی مسائل پیدا ہو گئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جنہوں نے نماز سے لذت نہیں اٹھائی اور اس ذوق سے محروم ہیں وہ روح کی تسلی اور اطمینان کی حالت ہی کو نہیں سمجھ سکتے اور نہیں جانتے کہ وہ سرور کیا ہوتا ہے.مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو اس قسم کی بدعتیں مسلمان کہلا کر نکالتے ہیں اگر روح کی خوشی اور لذت کا سامان اسی میں تھا تو چاہئے تھا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ جو عارف ترین اور اکمل ترین انسان دنیا میں تھے وہ بھی اس قسم کی کوئی تعلیم دیتے یا اپنے اعمال سے ہی کچھ کر دکھاتے.میں ان مخالفوں سے جو بڑے بڑے مشائخ اور گدی نشین اور صاحب سلسلہ ہیں پوچھتا ہوں کہ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ تمہارے درد و وظائف اور چلہ کشیاں الٹے سیدھے لٹکنا بھول گئے تھے اگر معرفت اور حقیقت شناسی کا یہی ذریعہ اصل تھے.مجھے بہت ہی تعجب آتا ہے کہ ایک طرف قرآن شریف میں یہ پڑھتے ہیں الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی اور دوسری طرف اپنی ایجادوں اور بدعتوں سے اس تکمیل کو تو ڑ کر ناقص ثابت کرنا چاہتے ہیں.ایک طرف تو یہ ظالم طبع لوگ مجھے پر افترا کرتے ہیں کہ گویا میں ایسی مستقل نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جو صاحب شریعت نبی صلی اللہ کے سوا الگ نبوت ہے مگر دوسری طرف یہ اپنے اعمال کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے کہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ تو خود کر رہے ہیں جب کہ خلاف رسول اور خلاف قرآن ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں.اب اگر کسی کے دل میں انصاف اور خدا کا خوف ہے تو کوئی مجھے بتائے کہ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ کی پاک تعلیم اور عمل پر کچھ اضافہ یا کم کرتے ہیں؟ جب عليه وسلم که اسی قرآن شریف کے بموجب ہم تعلیم دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ ہی کو اپنا امام اور حکم مانتے ہیں.کیا اڑہ کا ذکر میں نے بتایا ہے اور پاس انفاس اور نفی واثبات کے ذکر اور کیا کیا اور کیا کیا میں سکھاتا ہوں.پھر جھوٹی اور مستقل نبوت کا دعویٰ تو یہ لوگ خود کرتے ہیں اور الزام مجھے دیتے ہیں.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 76 یقین یا درکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت عیل اللہ کا نبی نہیں بن سکتا جب تک عليه وسلم آنحضرت علیم اللہ کو خاتم النبیین یقین نہ کر لے.جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ کو خاتم النبین نہیں مانتا کچھ نہیں.سعدی نے کیا اچھا کہا ہے.الله بزهد و ورع کوش و صدق و صفا وليــكــن ميــفــزائــے بـــر مــصــطفےٰ ہمارا مدعا جس کیلئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف رسول اللہ علیم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدال آباد کیلئے خدا نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جو ان لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں.ان ساری گدیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ علیم اللہ کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ ؟ وسلم یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو.بغدادی نماز معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں.کیا قرآن شریف یا نبی کریم علی اللہ کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتہ لگتا ہے اور ایسا ہی یا شیخ عبد القادر جیلانی شَيْئًا لِلہ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے؟ آنحضرت علیم اللہ کے وقت تو شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وجود بھی نہ تھا پھر یہ کس نے بتایا تھا.شرم کرو کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التزام اسی کا نام ہے؟ اب خود ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو مان کر اور ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہو کہ مجھے الزام دو کہ میں نے خاتم النبین کی مہر کو توڑا ہے.اصل اور کچی بات یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میں بدعات کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبین علی اللہ کی کچی نبوت پر ایمان لا کر آپ کی طرز عمل اور نقش قدم کو اپنا امام بنا کر چلتے تو پھر میرے آنے ہی کی کیا الله عليه وسلم ضرورت ہوتی.تمہاری ان بدعتوں اور نئی نبوتوں نے ہی خدا تعالیٰ کی غیرت کو تحریک دی کہ رسول اللہ علم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبوتوں کے بت کو توڑ کر نیست و نابود کرے.پس اسی کام کیلئے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.میں نے سنا ہے کہ غوث علی پانی پتی کے ہاں شاکت مت کا ایک منتر رکھا ہوا ہے جس کا وظیفہ کیا جاتا ہے اور ان گدی نشینوں کو سجدہ کرنا یا ان کے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 77 مکانات کا طواف کرنا یہ تو بالکل معمولی اور عام باتیں ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اس لئے قائم کیا کہ آنحضرت علی السلم کی نبوت اور عزت کو دوبارہ قائم کریں.ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے اگر اس جیسے ہزاروں اور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبت کی خصوصیت کیا رہے.تو پھر اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ کی محبت اور عشق میں فنا ہیں جیسا کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں قبروں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں.مدینہ طیبہ تو جاتے نہیں مگر اجمیر اور دوسری خانقاہوں پر ننگے سر اور ننگے پاؤں جاتے ہیں.پاکپٹن کی کھڑکی میں سے گزر جاناہی نجات کیلئے کافی سمجھتے ہیں.کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے کسی نے کوئی اور صورت اختیار کر رکھی ہے ان لوگوں کے عرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انہوں نے کیا بنا رکھا ہے.اگر خدا تعالیٰ کو اسلام کی غیرت نہ ہوتی اور اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الإِسلام خدا تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا اور اس نے نہ فرمایا ہوتاإِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ تو بے شک آج وہ حالت اسلام کی ہوگئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہوسکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدہ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپ کی نبوت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا وے چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مہدی بنا کر بھیجا.آج دو قسم کے شرک پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے اسلام کو نابود کرنے کی بے حد سعی کی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل نہ ہوتا تو قریب تھا کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پسندیدہ دین کا نام و نشان مٹ جاتا.مگر چونکہ اس نے وعدہ کیا ہوا تھا إِنَّا نَحْنُ نَزَّ لَنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ یہ وعدہ حفاظت چاہتا تھا کہ جب غارتگری کا موقع ہو تو وہ خبر لے.چوکیدار کا کام ہے کہ وہ نقب دینے والوں کو پوچھتے ہیں اور دوسرے جرائم والوں کو دیکھ کر اپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے ہیں اسی طرح پر آج چونکہ فتن جمع ہو گئے تھے اور اسلام کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کرنے کو تیار ہو گئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ منہاج نبوت قائم کرے.یہ مواد اسلام کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے اور آخراب پھوٹ نکلے جیسے ابتدا میں نطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ بن کر نکلتا ہے.اسی طرح پر اسلام کی مخالفت کے بچہ کا خروج ہو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 78 چکا ہے اور اب وہ بالغ ہو کر پورے جوش اور قوت میں ہے.اس لئے اس کو تباہ کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حربہ نازل کیا اور اس مکروہ شرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھا دور کرنے کیلئے اور پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کرنے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور میں بڑے دعوئی اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بے شک یہ خدا کی طرف سے ہے اس نے اپنے ہاتھ سے اس کو قائم کیا ہے." الحکم نمبر 28 جلد 6 مؤرخہ 10 راگست 1902 ء صفحہ 6,5) (۹۷) طریق توجه اختراع کرده صوفیه ایک شخص نے سوال کیا کہ یہ جو صوفیوں نے بنایا ہوا ہے کہ توجہ کے واسطے اس طرح بیٹھنا چاہئے اور پھر اس طرح دل پر چوٹ لگانی چاہئے اور ذکر اژہ اور دیگر اس قسم کی کتا ہیں کیا یہ جائز ہیں ؟ فرمایا:.یہ جائز نہیں ہیں بلکہ سب بدعات ہیں حَسْبُنَا كِتاب اللہ ہمارے واسطے اللہ تعالیٰ کی پاک " وسلم کتاب قرآن شریف کافی ہے.جو باتیں اب ان لوگوں نے نکالی ہیں یہ باتیں آنحضرت علی اللہ اور آپ کے صحابہ میں ہر گز نہ تھیں یہ سب ان لوگوں کا اختراع ہے اور اس سے بچنا چاہئے.ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ صادق کی صحبت میں رہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امور میں مشکلات آسان ہو جاتے ہیں.شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ بڑے خدا رسیدہ اور بڑے قبولیت والے انسان تھے انہوں نے لکھا ہے کہ جس نے خدا کا راہ دیکھنا ہو وہ قرآن شریف کو پڑھے.اب اگر ہم آنحضرت علی یا اللہ کے فرمودہ طریق پر کچھ بڑھائیں اور نئی باتیں ایجاد کریں یا اس کے برخلاف چلیں تو یہ کفر ہو گا." فرمایا:- اخبار بدر نمبر 46 جلد 2 مؤرخہ 15 نومبر 1906 ء صفحہ 5) (۹۸) علماء وفقراء کے فرقے " اس زمانہ میں جیسا کہ علماء کے درمیان بہت سے فرقے بن گئے ہیں ایسا ہی فقراء کے درمیان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 79 بھی بہت سے فرقے بن گئے ہیں اور سب اپنی اپنی باتیں نئے طرز کی نکالتے ہیں.تمام زمانہ کا یہ حال ہو رہا ہے کہ ہر جگہ اصلاح کی ضرورت ہے.اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں وہ مجدد بھیجا ہے جس کا نام مسیح موعود رکھا گیا ہے اور جس کا انتظار مدت سے ہو رہا تھا اور تمام نبیوں نے اس کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں اور اس سے پہلے زمانہ کے بزرگ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اس کے وقت کو پائیں." اخبار بدر نمبر 46 جلد 2 مؤرخہ 15 نومبر 1906 ء صفحہ 5 (۹۹) نماز وطریق تهجد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :." ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کرلیں، جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا.اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ بچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں.جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درددل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں.لیکن اگر اُٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیونکہ نید تو م کو دور کر دیتی ہے لیکن جب کہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی در داور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے." الحکم نمبر 12 جلد 6 مؤرخہ 31 / مارچ1902 ، صفحہ 6) عبدالعزیز صاحب سیالکوٹی نے لائل پور میں یہ مسئلہ بیان کیا کہ آنحضرت علی اللہ تہجد کی نماز اس طرح سے جیسا کہ اب تعامل اہل اسلام ہے بجا نہ لاتے بلکہ آپ صرف اٹھکر قرآن پڑھ لیا کرتے.اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ یہی مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے.شیخ اصغر علی صاحب نے اپنے ایک خط میں جو انہوں نے منشی نبی بخش صاحب کے نام روانہ کیا تھا، اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا کہ آیا یہ مسئلہ اس طرح پر ہے جیسا کہ عبدالعزیز صاحب بیان کر گئے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 80 80 ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بوساطت منشی بنی بخش صاحب اور مولوی نور الدین صاحب یہ امر تحقیق کیلئے پیش کیا گیا.جس پر حضرت امام الزمان نے مفصلہ ذیل فتوی دیا کہ:." میرا یہ ہرگز مذہب نہیں کہ آنحضرت علی اللہ اُٹھکر فقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے اور بس.میں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اور ایسی وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کر سکے تو وہ اُٹھ کر استغفار درود شریف اور الحمد شریف ہی پڑھ لیا کرے.آنحضرت علی اللہ ہمیشہ نوافل ادا کرتے.آپ کثرت سے اارکعت پڑھتے ، ۸ نفل اور تین وتر.آپ کبھی ایک ہی وقت میں ان کو پڑھ لیتے اور کبھی اس طرح سے ادا کرتے کہ دور کعت پڑھ لیتے اور پھر سو جاتے اور پھر اُٹھتے اور دو رکعت پڑھ لیتے اور سو جاتے.غرض سو کر اور اُٹھ کر نوافل اسی طرح ادا کرتے جیسا کہ اب تعامل ہے اور جس کو اب چودھویں صدی گزر رہی ہے." ( اخبار بدر نمبر 43 جلد 2 مؤرخہ 16 نومبر 1903 ء صفحه (335) (۱۰۰) تہجد میں رکعات گیارہ ہیں یا تیرہ تروایح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو ہمیں رکعت پڑھنے کی نسبت کیا ارشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے.فرمایا:.حضرت علیم اللہ کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اور یہی افضل ہے.مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اول حصے میں اسے پڑھا.بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگر آنحضرت علی اللہ کی سنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی." فرمایا:- اخبار بدر نمبر 5 جلد 7 مؤرخہ 06 فروری 1908 صفحہ 7 (۱۰۱) قبول ہونے والی دعا کے آثار "دعا جب قبول ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ اس کیلئے دل میں ایک سچا جوش اور اضطراب پیدا کر
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 81 دیتا ہے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دعا سکھاتا ہے اور الہامی طور پر اس کا پیرا یہ بتادیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمت اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو قبول ہونے والی دعائیں خود الہاما سکھا دیتا ہے.بعض وقت ایسی دعا میں ایسا حصہ بھی ہوتا ہے جس کو دعا کرنے والا نا پسند کرتا ہے مگر وہ قبول ہو جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہے.عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ " الحکم نمبر 12 جلد 6 مؤرخہ 31 / مارچ 1902 صفحہ 7) ایک رئیس کا یہ خیال سن کر کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ دعا سے مشکل حل ہوتی ہے، ان کو بہت ہی کمزور کرنے والا ہے.آپ نے فرمایا کہ:." جو دعا سے منکر ہے وہ خدا سے منکر ہے.صرف ایک دعا ہی ذریعہ خدا شناسی کا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس کی ذات کو طوعاً و کرھا مانا جاوے.اصل میں ہر جگہ دہریت ہے، آجکل کی محفلوں کا یہ حال ہے کہ دعا، تو کل اور انشاء اللہ کہنے پر تمسخر کرتے ہیں، ان باتوں کو بے وقوفی کہا جاتا ہے.ورنہ اگر خدا سے ان کو ذرا بھی اُنس ہوتا تو اس کے نام سے کیوں چڑتے.جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ ہیر پھیر سے کسی نہ کسی طرح سے محبوب کا نام لے ہی لیتا ہے.اگر ان کے نزدیک خدا کوئی شے نہیں ہے تو اب موت کا دروازہ کھلا ہے، اسے ذرا بند کر کے تو دکھا دیں.تعجب ہے کہ ہمیں جس قدر اس کے وجود پر امید میں ہیں اسی قدروہ دوسرا گروہ اس سے نا امید ہے.اصل میں خدا کے فضل کی ضرورت ہے، اگر وہ دل کے قفل نہ کھولے تو اور کون کھول سکتا ہے.اگر وہ چاہے تو ایک کتے کو عقل دے سکتا ہے کہ اس کی باتوں کو سمجھ لیوے اور انسان کو محروم رکھ سکتا ہے." فرمایا:.الحکم نمبر 17 جلد 8 مؤرخہ 24 مئی 1904 ، صفحہ 3) (۱۰۲) بہترین ذریعہ دعا و معراج مومن "نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے.خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 82 ہے.نماز اس لئے نہیں کہ ٹکریں ماری جاویں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگیں مار لیں.بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں یہ کچھ نہیں.نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے.اس کی نماز ہر گز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مد نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا.پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو.کھڑے ہو تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتاوے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کیلئے دعا کرو." الحکم نمبر 20 جلد 6 مؤرخہ 31 مئی 1902 ، صفحہ 6 (۱۰۳) معراج حضرت رسول کریم عبید اللہ کی معراج کی بابت کسی نے سوال کیا.فرمایا:."سب حق ہے.معراج ہوئی تھی مگر یہ فانی بیداری اور فانی اشیاء کے ساتھ نہ تھی بلکہ وہ اور رنگ تھا.جبرائیل بھی تو رسول الله عبل اللہ کے پاس آتا تھا اور نیچے اُترتا تھا.جس رنگ میں اس کا اتر نا تھا اُسی رنگ میں آنحضرت کا چڑھنا ہوا تھا.نہ اترنے والا کسی کو اُتر تا نظر آتا تھا اور نہ چڑھنے والا کوئی چڑھتا ہوا دیکھ سکتا تھا.حدیث شریف میں جو بخاری میں ہی ہے آیا ہے کہ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ یعنی پھر جاگ "" فرمایا:- الحکم نمبر 29 جلد 5 مؤرخہ 10 راگست 1901 ، صفحہ 3 (۱۰۴) تلاوت قرآن و نماز میں دعا قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے بھی نا امید نہ ہو.مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا یہ کافروں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 83 کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں ہمارا خدا عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير خدا ہے.قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھ لو.اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو.نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ علیم اللہ پڑھتے تھے.البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بے شک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی.آج کل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں نماز تو بہت جلد جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کیلئے بیٹھے رہتے ہیں.نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے.ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا حال عرض کرنے کا موقع بھی ہو لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے.اس سے کیا فائدہ.ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے.تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدعا کو ملحوظ رکھو.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دیئے ہیں.سورہ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے." " الحکم نمبر 23 جلد 6 مؤرخہ 24 /جون 1902 ء صفحہ 2) (۱۰۵) امامت مساجد و ائمہ مساجد زمانہ موجودہ کا حال و روش فرمایا:.میں ہمیشہ اپنے سفر کے دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے سے کراہت ہی کرتا ہوں.مگر معاذ اللہ اس کی وجہ کسل یا استخفاف احکام الہی نہیں.بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے ملک کی اکثر مساجد کا حال نہایت ابتر اور قابل افسوس ہو رہا ہے.اگر ان مسجدوں میں جا کر آپ امامت کا ارادہ کیا جائے تو وہ جو امامت کا منصب رکھتے ہیں از بس ناراض اور نیلے پیلے ہو جاتے ہیں.اور اگر ان کا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام = 84 اقتدا کیا جائے تو نماز کے ادا ہو جانے میں مجھے شبہ ہے.کیونکہ علانیہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے امامت کا ایک پیشہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ پانچ وقت جا کر نماز نہیں پڑھتے بلکہ ایک دکان ہے کہ ان وقتوں میں جا کر کھولتے ہیں اور اسی دکان پر ان کا اور ان کے عیال کا گزارہ ہے چنانچہ اس پیشہ کے عزل و نصب کی حالت میں مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے اور مولوی صاحبان امامت کی ڈگری کرانے کیلئے اپیل در اپیل کرتے پھرتے ہیں.پس یہ امامت نہیں یہ حرام خوری کا ایک مکر وہ طریقہ ہے.کیا آپ بھی ایسے نفسانی پیچ میں پھنسے ہوئے نہیں.پھر کیونکر کوئی شخص دیکھ بھال کر اپنا ایمان ضائع کرے.مساجد میں منافقین کا جمع ہونا جو احادیث نبویہ میں آخری زمانہ کے حالات میں بیان کیا گیا ہے.وہ پیشگوئی انہیں ملا صاحبوں سے متعلق ہے جو محراب میں کھڑے ہو کر زبان سے قرآن شریف پڑھتے اور دل میں روٹیاں گنتے ہیں." فرمایا:.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 25, 26 حاشیہ، مطبوعہ نومبر 1984 ء) (۱۰۶) اُجرت پر امامت شرعانا جائز ہے جو طریق آج کل پنجاب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اس پر بھی اعتراض ہے.ملاں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کر کے جماعت کراتے ہیں ایسا امام شرعاً نا جائز ہے.صحابہ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طرح اُجرت پر امامت کرائی ہو.پھر اگر کسی کو مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کورٹ تک مقدمہ چلتا ہے یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک ملا نے نماز جنازہ کی 4 یاسے تکبریں کہیں لوگوں نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ کام روز مرہ کے محاورہ سے یادر ہتا ہے.کبھی سال میں ایک آدمی مرتا ہے تو کیسے یادر ہے.جب مجھے یہ بات بھول جاتی ہے کہ کوئی مرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میت ہوتی ہے.اسی طرح ایک ملا یہاں آکر رہا ہمارے مرزا صاحب نے اسے محلے تقسیم کر دیئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جو محلہ دیا ہے اس کے آدمیوں کے قد چھوٹے ہیں اس لئے ان کے مرنے پر جو کپڑا ملے گا اس سے چادر بھی نہ بنے گی اس وقت لوگوں کی حالت بہت ردی ہے.صوفی لکھتے ہیں کہ مردہ کا مال کھانے سے دل سخت ہو جاتا ہے." اخبار بدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ 27 / مارچ 1903ء صفحه (1)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 85 (۱۰۷) صفۃ الصلواۃ یعنی طریق نماز مطابق عملدرآمد حضرت مسیح موعود حسب تحریر سید محمد سرور شاہ صاحب کہ جب ( حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ) صلوۃ پڑھتے ہیں تو کعبہ کی طرف رخ کر کے اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ انگلیاں دونوں کانوں کے برابر ہو جاتی ہیں اور پھر دونوں کو نیچے لا کر سینہ یعنی دونوں پستانوں کے اوپر یا ان کے متصل نیچے اس طور پر باندھ دیتے ہیں کہ بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں اوپر ہوتا ہے اور عموماً ایسا ہوتا ہے کہ دہنے ہاتھ کی تینوں درمیانی انگلیوں کے سرے بائیں کہنی تک یا اس سے کچھ پیچھے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور انگوٹھے اور کنارے کی انگلی سے پکڑا ہوتا ہے اور اگر اس کے خلاف او پر یا نیچے یا آگے بڑھا کر یا پیچھے ہٹا کر یا ساری انگلیوں سے کوئی پکڑ کر ہاتھ باندھتا ہے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا.ہاتھ باندھ کر سُبحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلهُ غَيْرُكَ يَا اللَّهُمَّ بَا عِدْبَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَايُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالتَّلْجِ وَالْبَرْدِ اس کے بعد اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.آمین.اور اس کے بعد کوئی سورت یا قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھتے ہیں اور فاتحہ میں جو اهدِنَا کی دعا ہے اس کو بہت توجہ سے اور بعض دفعہ بار بار پڑھتے ہیں اور فاتحہ کے اول یا بعد سورۃ کے پہلے یا پیچھے غرض کھڑے ہوتے ہوئے اپنی زبان میں یا عربی زبان میں علاوہ فاتحہ کے اور دعائیں بڑی عاجزی وزاری اور توجہ سے مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں گھٹنوں کو انگلیاں پھیلا کر پکڑتے ہیں اور دونوں بازؤں کو سیدھا رکھتے ہیں اور پیٹھ اور سر کو برابر رکھتے ہیں اور سُبْحَانَ رَبِّيَ العَظِيم يا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی تین یا تین سے زیادہ دفعہ پڑھتے ہیں اور رکوع کی حالت میں اپنی زبان میں یا عربی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 86 زبان میں جو دعا کرنا چاہیں کرتے ہیں اس کے بعد سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھڑے کھڑے رَبَّنَا لَكَ الْحَمد يا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدِ حَمُدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى یا اس کے سوا اور کوئی ماثور کلمات کہتے ہیں اور اس کے بعد جو دعا کرنی چاہتے ہیں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں کرتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے نیچے جاتے ہیں اور پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ اور پھر ناک اور پیشانی یا پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے اور پھر ناک اور پیشانی زمین پر رکھ کر سُبْحَانَ رَبِّي الاغلى يا سُبُحْنَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللهُمَّ اغْفِرْ لِی کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ طاق پڑھتے ہیں اور چونکہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ سجدہ میں دعا بہت قبول ہوتی ہے لہذا سجدہ میں اپنی زبان یا عربی زبان میں بہت دعائیں کرتے ہیں اور سجدہ کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا رکھتے ہیں اور ان کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان سر رکھتے ہیں اور دونوں بازؤوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا کر کے اور دونوں کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر رکھتے ہیں ہاں جب لمبا سجدہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو اپنی دونوں کہنیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر سہارا لے لیتے ہیں.اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے سر اٹھا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں اس طور پر کہ داہنا پاؤں کھڑا رکھتے ہیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے ہیں اور بیٹھ کر اللهُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْفَعُنِي وَاجْبُرْنِي وَارْزُقْنِي يَا اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی تین دفعہ پڑھتے ہیں.اس کے علاوہ اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا چاہتے ہیں مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے پہلے سجدہ کی مانند سجدہ کرتے ہیں اور پہلے سجدہ کی مانند اس میں بھی وہی کچھ پڑھتے ہیں جو کہ پہلے سجدہ میں پڑھا تھا اور دوسرے سجدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور سوائے پہلے تکبیر اور سبحانک اللہ اور اعوذ باللہ کے بعینہ پہلی رکعت کی مانند دوسری رکعت پڑھتے ہیں اور دونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں ہاں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 87 اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کو تو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا لیتے ہیں اور درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے ہیں اور پھر التحیات پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِيْنَ اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ ( اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اٹھا کر اشارہ کرتے ہیں اور پھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی ) وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.پس اگر تین چار رکعتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر باقی رکعتوں کو ویسا ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ دوسری رکعت کو پڑھا تھا اور پھر ان کو ختم کر کے اخیر میں پھر اسی طریق سے یاد ہنے پاؤں کو کھڑا کر کے اور بائیں پاؤں کو داہنے طرف باہر نکال کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہی التحیات پڑھتے ہیں.اور اگر دو ہی رکعت والی نماز ہوئی تو یہی آخری بیٹھنا ہوتا ہے اور آخری بیٹھنے میں التحیات مذکورہ کے بعد پڑھتے ہیں اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ | بَارِک عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اس کے بعد پھر کوئی دعا مقرر نہیں بلکہ جو چاہتے ہیں وہ دعامانگتے ہیں اور ضرور مانگتے ہیں.اس کے بعد دہنے طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں.اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله اور پھر بائیں طرف بھی اسی طرح منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله - پس اللہ اکبر سے نماز شروع ہوتی ہے اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ پر ختم ہو جاتی ہے.یہ وہ نماز ہے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے اہل علم اور مخلص مہاجر اور رات دن ساتھ رہنے والے اصحاب پڑھتے ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام جلد 1 نمبر 5 صفحہ 171 و 176 تا 180 مطبوعہ قادیان جولائی 1906ء)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 88 (۱۰۸) تصویر بنوانے کی غرض اعتراض کیا گیا کہ تصویر پر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تصور شیخ کی غرض سے بنوائی گئی ہے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:." یہ تو دوسرے کی نیت پر حملہ ہے.میں نے بہت مرتبہ بیان کیا ہے کہ تصویر سے ہماری غرض کیا تھی.بات یہ ہے کہ چونکہ ہم کو بلا دیورپ خصوصاً لندن میں تبلیغ کرنی منظور تھی لیکن چونکہ یہ لوگ کسی دعوت یا تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتے جب تک داعی کے حالات سے واقف نہ ہوں اور اس کیلئے ان کے ہاں علم تصویر میں بڑی بھاری ترقی کی گئی ہے.وہ کسی شخص کی تصویر اور اس کے خط و خال کو دیکھ کر رائے قائم کر لیتے ہیں کہ اس میں راستبازی ، قوت قدسی کہاں تک ہے؟ اور ایسا ہی بہت سے امور کے متعلق انہیں اپنی رائے قائم کرنے کا موقع مل جاتا ہے پس اصل غرض اور نیت ہماری اس سے یہ تھی جس کو ان لوگوں نے جو خواہ نخواہ ہر بات میں مخالفت کرنا چاہتے ہیں اس کو بُرے بُرے پیرایوں میں پیش کیا اور دنیا کو بہکایا.میں کہتا ہوں کہ ہماری نیت تو تصویر سے صرف اتنی ہی تھی.اگر یہ نفس تصویر کو ی برا کجھتے ہیں تو پھر کوئی سکہ اپنے پاس نہ رکھیں.بلکہ بہتر ہے کہ آنکھیں بھی نکلوادیں کیونکہ ان میں بھی اشیاء کا ایک انعکاس ہی ہوتا ہے.یہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ افعال کی تہہ میں نیت کا بھی دخل ہوتا ہے الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ پڑھتے ہیں مگر سمجھتے نہیں.بھلا اگر کوئی شخص محض ریا کاری کیلئے نماز پڑھے تو اس کو یہ کوئی مستحسن امر قرار دیں گے؟ سب جانتے ہیں کہ ایسی نماز کا فائدہ کچھ نہیں بلکہ وبال جان ہے تو کیا نماز بُری تھی ؟ نہیں اس کے بد استعمال نے اس کے نتیجہ کو بُرا پیدا کیا.اسی طرح پر تصویر سے ہماری غرض تو اسلام کی دعوت میں مدد لینا تھا.جو اہل یورپ کے مذاق پر ہو سکتی تھی اس کو تصور شیخ بنانا اور کچھ سے کچھ کہنا افتراء ہے.جو مسلمان ہیں ان کو اس پر غصہ نہیں آنا چاہئے تھا جو کچھ خدا اور رسول نے فرمایا ہے وہ حق ہے.اگر مشائخ کا قول خدا اور رسول کے فرمودہ کے موافق نہیں تو کالائے بد برلیش خاوند." الحکم نمبر 39 جلد 5 مؤرخہ 24 اکتوبر 1901 ، صفحہ 2,1)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 89 فرمایا:.(۱۰۹) تصور شیخ " تصور شیخ کی بابت پوچھو تو اس کا کوئی پتہ نہیں.اصل یہ ہے کہ صالحین اور فانین فی اللہ کی محبت ایک عمدہ شے ہے.لیکن حفظ مراتب ضروری ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی پس خدا کو خدا کی جگہ رسول کو رسول کی جگہ سمجھو اور خدا کے کلام کو دستور العمل ٹھہرا لو.اس سے زیادہ چونکہ قرآن شریف میں اور کچھ نہیں کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِین پس صادقوں اور فانی فی اللہ کی صحبت تو ضروری ہے اور یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ تم اسے ہی سب کچھ مجھو اور یا قرآن شریف میں یہ حکم ہے إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْسِبُكُمُ اللهُ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ مجھے خدا سمجھ لو بلکہ یہ فرمایا کہ اگر خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ کی اتباع کرو.اتباع کا حکم تو دیا ہے مگر تصور شیخ کا حکم قرآن شریف میں پایا نہیں جاتا." سوال :.جولوگ تصور شیخ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم شیخ کو خدا انہیں سمجھتے.جواب:."مانا کہ وہ ایسا کہتے ہیں مگر بت پرستی تو شروع ہی تصور سے ہوتی ہے.بت پرست بھی بڑھتے بڑھتے ہی اس درجہ تک پہنچا ہے.پہلے تصور ہی ہو گا پھر یہ سمجھ لیا کہ تصور قائم رکھنے کیلئے بہتر ہے تصویر ہی بنالیں اور پھر اس کو ترقی دیتے دیتے پتھر اور دھاتوں کے بت بنانے شروع کر دیئے اور ان کو تصویر کا قائم مقام بنالیا.آخر یہاں تک ترقی کی کہ ان کی روحانیت کو اور وسیع کر کے ان کو خدا ہی مان لیا.اب نرے پتھر ہی رکھ لیتے ہیں اور اقرار کرتے کہ منتر کے ساتھ ان کو درست کر لیتے ہیں اور پر میشر کا حلول ان پتھروں میں ہو جاتا ہے.اس منتر کا نام انہوں نے اور ہن رکھا ہوا ہے.میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے.میں نے ایک شخص کو دیا کہ اسے پڑھو تو اس نے کہا اس پر اوا ہن لکھا ہوا ہے.مجھے اس سے کراہت آئی میں نے اسے کہا کہ تو مجھے دکھا جب میں نے پھر ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا ا ر دُتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ - اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ جو ہوتا ہے ردائے الہی کے نیچے ہوتا ہے.اسی لئے آدم کیلئے فرمایا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 90 90 نَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِی اسی طرح پر غلطیاں پیدا ہوتی گئیں اصول کو نہ سمجھا کچھ کا کچھ بگاڑ کر بنالیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ شرک اور بت پرستی نے اس کی جگہ لے لی.ہماری تصویر کی اصل غرض وہی تھی جو ہم نے بیان کر دی کہ لنڈن کے لوگوں کو اطلاع ہو اور اس طرح پر ایک اشتہار ہو جاوے." فرمایا:.الحکم نمبر 39 جلد 5 مؤرخہ 24 اکتوبر 1901، صفحہ 2) غرض تصویر شیخ کا مسئلہ ہندوؤں کی ایجاد اور ہندوؤں ہی سے لیا گیا ہے.چنانچہ قلب جاری ہونے کا مسئلہ بھی ہندوؤں ہی سے لیا گیا ہے.قرآن میں اس کا ذکر نہیں اگر خدا تعالیٰ کی اصل غرض انسان کی پیدائش سے یہ ہوتی تو پھر اتنی بڑی تعلیم کی کیا ضرورت تھی صرف اجرائے قلب کا مسئلہ بتا کر اس کے طریقے بتا دیئے جاتے.مجھے ایک شخص نے معتبر روایت کی بنا پر بتایا کہ ہندو کا قلب رام رام پر جاری تھا.ایک مسلمان اس کے پاس آ گیا اس کا قلب بھی رام رام پر جاری ہو گیا.یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے رام خدا کا نام نہیں ہے دیانند نے بھی اس پر گواہی دی ہے کہ یہ خدا کا نام نہیں.قلب جاری ہونے کا دراصل ایک کھیل ہے جو سادہ لوح جہلا کو اپنے دام میں پھنسانے کیلئے کیا جاتا ہے.اگر لوٹا لوٹا کہا جاوے تو اس پر بھی قلب جاری ہو سکتا ہے.اگر اللہ کے ساتھ ہو تو پھر وہی بولتا ہے یہ تعلیم قرآن نے نہیں دی ہے بلکہ اس سے بہتر تعلیم دی ہے.إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ خدا یہ چاہتا ہے کہ سارا وجود ہی قلب ہو جاوے ورنہ اگر وجود سے خدا کا ذکر جاری نہیں ہوتا تو ایسا قلب قلب نہیں بلکہ کلب ہے.خدا یہی چاہتا ہے کہ خدا میں فنا ہو جاؤ اور اس کے حدود شرائع کی عظمت کرو.قرآن فنا نظری کی تعلیم دیتا ہے میں نے آزما کر دیکھا ہے کہ قلب جاری ہونے کی صرف ایک مشق ہے جس کا انحصار اصلاح و تقویٰ پر نہیں ہے.ایک شخص منٹگمری یا ملتان کے ضلع کا مجھے چیف کورٹ میں ملا کرتا تھا.اسے اجرائے قلب کی خوب مشق تھی.پس میرے نزدیک یہ کوئی قابل وقعت بات نہیں اور خدا تعالیٰ نے اس کو کوئی عزت اور وقعت نہیں دی.خدا تعالیٰ کا منشاء اور قرآن شریف کی تعلیم کا مقصد صرف یہ تھا کہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا کپڑا جب تک سارا نہ دھویا جاوے وہ پاک نہیں ہوسکتا اسی طرح پر انسان کے سارے جوارح اس قابل ہیں کہ وہ دھوئے جاویں کسی ایک کے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا.اس کے سوا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 91 یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ خدا کا سنوارا ہوا بگڑتا نہیں مگر انسان کی بناوٹ بگڑ جاتی ہے.ہم گواہی دیتے ہیں اور اپنے تجربہ کی بنا پر گواہی دیتے ہیں کہ جب تک انسان اپنے اندر خدا تعالیٰ کی مرضی اور سنت نبوی کے موافق تبدیلی نہیں کرتا اور پاکیزگی کی راہ اختیار نہیں کرتا تو خواہ اس کے قلب سے ہی آواز آتی ہو وہ زہر جو انسان کی روحانیت کو ہلاک کر دیتی ہے دور نہیں ہوسکتی.روحانیت کے نشو ونما اور زندگی کیلئے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اتباع رسول ہے جو لوگ قلب جاری ہونے کے شعبدے لئے پھرتے ہیں انہوں نے سنت نبوی کی سخت توہین کی ہے.کیا رسول اللہ عالم سے بڑھ کر کوئی انسان دنیا میں گزرا ہے پھر غار میں بیٹھ کر وہ قلب جاری کرنے کی مشق کیا کرتے تھے یا فنا کا طریق آپ نے اختیار کیا ہوا تھا پھر آپ کی ساری زندگی میں کہیں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ آپ نے صحابہ کو یہ تعلیم دی ہو کہ تم قلب جاری کرنے کی مشق کرو اور کوئی ان قلب جاری والوں میں سے پتہ نہیں دیتا اور کبھی نہیں کہتا کہ رسول اللہ عیہ کا بھی قلب جاری تھا.یہ تمام طریق جن کا قرآن شریف میں کوئی ذکر نہیں انسانی اختراع اور خیالات ہیں جن کا نتیجہ کبھی کچھ نہیں ہوا.قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو.اَشَدُّ حُبَّالِلہ کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله پر عمل کرو اور ایسی نا اتم تم پر آ جاوے کہ تَبَتَّلَ إِلَيْهِ تَبتِیلا کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم کر لو.یہ امور ہیں جن کے حصول کی ضرورت ہے.نادان انسان اپنے عقل اور خیال کے پیمانہ سے خدا کونا پنا چاہتا ہے اور اپنی اختراع سے چاہتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا کرے اور یہی ناممکن ہے.پس میری نصیحت یہی ہے کہ ان خیالات سے بالکل الگ رہو اور وہ طریق اختیار کرو جو خدا تعالیٰ کے رسول علیم اللہ نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور اپنے طرز عمل سے ثابت کر دکھایا کہ اس پر چل کر انسان دنیا اور آخرت میں فلاح اور فوز حاصل کر سکتا ہے اور صحابہ کو جس کی تعلیم دی پھر وقتا فوقتا خدا کے برگزیدوں نے سنت جاریہ کی طرح اپنے اعمال سے ثابت کیا اور آج بھی خدا نے اسی کو پسند کیا.اگر خدا تعالیٰ کا اصل منشا یہی ہوتا تو ضرور تھا کہ آج بھی جب اس نے ایک سلسلہ گم شدہ صداقتوں اور حقائق کے زندہ کرنے کیلئے قائم کیا یہی تعلیم دیتا اور میری تعلیم کا منتہا یہی ہوتا مگر تم دیکھتے ہو کہ خدا نے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 66 92 ایسی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ وہ تو قلب سلیم چاہتا ہے وہ محسنوں اور متقیوں کو پیار کرتا ہے اس کا ولی ہوتا ہے.کیا سارے قرآن میں ایک جگہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ ان کو پیار کرتا ہے جن کے قلب جاری ہوں؟ یقیناً سمجھو کہ یہ محض خیالی باتیں اور کھیلیں ہیں جن کا اصلاح نفس اور روحانی امور سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے بلکہ ایسے کھیل خدا سے بعد کا موجب ہو جاتے ہیں اور انسان کے عملی حصہ میں مضر ثابت ہوتے ہیں.اس لئے تقویٰ اختیار کرو.سنت نبوی کی عزت کرو اور اس پر قائم ہو کر دکھاؤ.جو قرآن کریم کی تعلیم کا اصل فخر یہی ہے." سوال:.پھر صوفیوں کو کیا غلطی لگی؟ جواب:." ان کو حوالہ بخدا کرو.معلوم نہیں انہوں نے کیا سمجھا اور کہاں سے سمجھا تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ بعض وقت لوگوں کو دھوکا لگتا ہے کہ وہ ابتدائی حالت کو انتہائی سمجھ لیتے ہیں.کیا معلوم ہے کہ انہوں نے ابتدا میں یہ کہا ہو پھر آخر میں چھوڑ دیا ہو یا کسی اور ہی نے ان کی باتوں میں التباس کر دیا ہو اور اپنے خیالات ملا دیئے ہوں.اسی طرح پر تو توریت و انجیل میں تحریف ہوگئی.گزشتہ مشائخ کا اس میں نام بھی نہیں لینا چاہئے ان کا تو ذکر خیر چاہیئے.انسان کو لازم ہے کہ جس غلطی پر خدا اسے مطلع کر دے خود اس میں نہ پڑے.خدا نے یہی فرمایا ہے کہ شرک نہ کرو اور تمام عقل اور طاقت کے ساتھ خدا کے ہو جاؤ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللَّهُ لَهُ" الحکم نمبر 40 جلد 5 مؤرخہ 31 اکتوبر 1901 ، صفحہ 2,1) سوال: حبس دم کیا ہے؟ (۱۱۰) جبس دم جواب:." ی بھی ہندو جوگیوں کا مسئلہ ہے اسلام میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے." الحکم نمبر 40 جلد 5 مؤرخہ 31 اکتوبر 1901 صفحه (2) (111) کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام " 93 کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز درست نہیں ہے." فرمایا:.الحکم نمبر 19 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ، صفحہ 11) (۱۱۲) ظاہری نماز ، روزہ و قربانی " ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا.جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتی اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے.وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا.اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَنْ يَنَالَ اللهَ لَحُومُهَا وَلَا دِمَاءُ هَا وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے.حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہو سکتی جو اصل مقصد ہے اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جو گی اسی قسم کے ہیں.روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے مثلاً اگر ایک شخص تکلف سے رونا چاہے تو آخر اس کو رونا آہی جائے گا اور ایسا ہی جو تکلف سے ہنسنا چاہے اسے جنسی آ ہی جاتی ہے.اسی طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں مثلاً کھڑا ہونا یا رکوع کرنا اس کے ساتھ ہی روح پر بھی اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم میں نیاز مندی کی حالت دکھاتا ہے اسی قدر روح میں پیدا ہوتی ہے.اگر چہ خدا نرے سجدہ کو قبول نہیں کرتا مگر سجدہ کو روح کے ساتھ ایک تعلق ہے اس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 94 لئے نماز میں آخری مقام سجدہ کا ہے جب انسان نیازمندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے.جانوروں تک میں بھی یہ حالت مشاہدہ کی جاتی ہے کتے بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آ کر اس کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دیتے ہیں اور اپنی محبت کے تعلق کا اظہار سجدہ کی صورت میں کرتے ہیں.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو روح کے ساتھ خاص تعلق ہے.ایسا ہی روح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہو جاتا ہے.جب روح غمناک ہو تو جسم پر بھی اس کے اثر ظاہر ہوتے ہیں اور آنسو اور پژمردگی ظاہر ہوتی ہے اگر روح اور جسم کا باہم تعلق نہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے.دوران خون بھی قلب کا ایک کام ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ قلب آبپاشی جسم کیلئے ایک انجن ہے.اس کے بسط اور قبض سے سب کچھ ہوتا ہے.غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں روح میں جب عاجزی پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں پیدا ہو جاتی ہے اس لئے جب روح میں واقعی عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہئے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کر وا گر چہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہو جاتا ہے اور واقعی روح میں وہ نیاز مندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے." الحکم نمبر 8 جلد 7 مؤرخہ 28 فروری 1903 ، صفحہ 3) (۱۱۳) مردہ کی آواز سوال:.کیا مردہ کی آواز دنیا میں آتی ہے؟ جواب:."خدا تعالیٰ کی آواز تو ہمیشہ آتی ہے مگر مردوں کی نہیں آتی.اگر کہیں کسی مردے کی آواز آتی ہے تو خدا کی معرفت یعنی خدا تعالیٰ کوئی خبر ان کے متعلق دے دیتا ہے اصل یہ ہے کہ کوئی ہو خواہ نبی ہو یا صدیق یہ حال ہے کہ آنرا کہ خبر شد خبرش باز نیامد.اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اور اہل وعیال کے درمیان ایک حجاب رکھ دیتا ہے وہ سب تعلق قطع ہو جاتے ہیں اسی لئے فرمایا ہے فَلَا اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ.الحکم نمبر 29 جلد 6 مؤرخہ 17 اگست 1902 ، صفحہ 9
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 95 (۱۱۴) تصویر کشی منشی نظیر حسین صاحب نے سوال کیا کہ میں فوٹو کے ذریعہ تصویریں اُتارا کرتا تھا اور دل میں ڈرتا تھا کہ کہیں یہ خلاف شرع نہ ہو لیکن جناب کی تصویر کو دیکھ کر یہ وہم جاتا رہا.فرمایا:.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ہم نے اپنی تصویر محض اس لحاظ سے اتروائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویر بھیج دیں کیونکہ ان لوگوں کا عام مذاق اسی قسم کا ہو گیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مدد سے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں.مولوی لوگ جو میری تصویر پر اعتراض کرتے ہیں وہ خود اپنے پاس روپیہ پیسہ کیوں رکھتے ہیں کیا ان پر تصویریں نہیں ہوتی ہیں؟ اسلام ایک ایسا وسیع مذہب ہے جو ہر بات کا مدار تیات پر رکھتا ہے.بدر کی لڑائی میں ایک شخص میدان جنگ میں نکلا جو اترا کر چلتا تھا.آنحضرت صلی اللہ نے فرمایا کہ دیکھو یہ چال بہت بُری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا مگر اس وقت یہ چال خدا کو بہت ہی پسند ہے کیونکہ یہ اس کی راہ میں اپنی جان تک شار کرتا ہے اور اس کی نیت اعلیٰ درجہ کی ہے.غرض اگر نیت کا لحاظ نہ رکھا جاوے تو بہت مشکل پڑتی ہے.اسی طرح پر ایک مرتبہ آنحضرت نے فرمایا کہ جس کا تہ بند نیچے ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جاویں گے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ ان کا نہ بند بھی ویسا تھا.آپ نے فرمایا کہ تو ان میں سے نہیں ہے.غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظ مراتب ضروری شے ہے." منشی نظیر حسین صاحب.میں خود تصویر کشی کرتا ہوں اس کیلئے کیا حکم ہے؟ فرمایا:." اگر کفر اور بت پرستی کو مدد نہیں دیتے ہو تو جائز ہے آج کل نقوش وقیافہ کا علم بہت بڑھا ہوا ہے." ( اخبار بدر نمبر 20, 21 جلد 3 مؤرخہ 24 مئی و یکم جون 1904 صفحہ 10) (۱۱۵) حرمت تصویر بازی ذکر آیا کہ ایک شخص نے حضور کی تصویر ڈاک کے کارڈ پر چھپواتی ہے تا کہ لوگ ان کارڈوں کو خرید
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 96 96 کر خطوط میں استعمال کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:."میرے نزدیک یہ درست نہیں بدعت پھیلانے کا یہ پہلا قدم ہے.ہم نے جو تصویر فوٹو لینے کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ان کیلئے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو.کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسب ضرورت اس کو استعمال کر سکتا ہے.خاص اس یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی.چنانچہ بعض خطوط یورپ ، امریکہ سے آئے جن میں لکھا تھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے.ایسا ہی امراض کی تشخیص کے واسطے بعض وقت تصویر سے بہت مددمل سکتی ہے.شریعت میں ہر ایک امر جو مَا يَنْفَعُ النَّاسَ کے نیچے آئے اس کو دیر پا رکھا جاتا ہے لیکن یہ جو کارڈوں پر تصویریں بنتی ہیں ان کو خریدنا نہیں چاہئے بت پرستی کی جڑ تصویر ہے.جب انسان کسی کا معتقد ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ تعظیم تصویر کی بھی کرتا ہے.ایسی باتوں سے بچنا چاہئے اور ان سے دور رہنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ ہماری جماعت پر سر نکالتے ہی آفت پڑ جائے.میں نے اس ممانعت کو کتاب میں درج کر دیا ہے جو زیر طبع ہے.جو لوگ جماعت کے اندر ایسا کام کرتے ہیں ان پر ہم سخت ناراض ہیں، ان پر خدا ناراض ہے.ہاں اگر کسی طریق سے کسی انسان کی روح کو فائدہ ہو تو وہ طریق مستی ہے." ایک کارڈ تصویر والا دکھایا گیا.دیکھ کرفرمایا:." یہ بالکل ناجائز ہے." ایک شخص نے اس قسم کے کارڈوں کا ایک بنڈل لا کر دکھایا کہ میں نے یہ تاجرانہ طور پر فروخت کے واسطے خرید کئے تھے اب کیا کروں؟ فرمایا:.ان کو جلا دو اور تلف کر دو اس میں اہانت دین اور اہانت شرع ہے.نہ ان کو گھر میں رکھو اس سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ اس سے آخر میں بت پرستی پیدا ہوتی ہے.اس تصویر کی جگہ پر اگر تبلیغ کا کوئی فقرہ ہوتا تو خوب ہوتا." الحکم نمبر 35 جلد 9 مؤرخہ 10 اکتوبر 1905 صفحہ 3)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 40 97 (۱۱۶) تصاویر کی طرف کثرت توجہ پر حضرت مسیح موعود کی نارضامندی مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص کی تحریری درخواست بذریعہ کارڈ کے ان الفاظ میں پیش کی کہ یہ شخص حضور کی تصویر کو خط و کتابت کے کارڈوں پر چھاپنا چاہتے ہیں اور اجازت طلب کرتے ہیں.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ:." میں تو اسے نا پسند کرتا ہوں." یہ الفاظ جا کر میں نے اپنے کانوں سے سنے لیکن حضرت مولوی نورالدین صاحب و حکیم فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس سے پیشتر آپ نے یہ الفاظ فرمائے کہ :.یہ بدعت بڑھتی جاتی ہے.میں اسے نا پسند کرتا ہوں." ( اخبار بدر نمبر 42,41 جلد 3 مؤرخہ یکم و 08 نومبر 1904 ، صفحہ 9) (۱۱۷) غیر احمدی کا جنازہ سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:."اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں بُرا کہتا اور سمجھتا تھا تو اس کا جنازہ نہ پڑھو اور اگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے بشرطیکہ نماز جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہوورنہ کوئی ضرورت نہیں." فرمایا کہ:.(الحکم نمبر 26 جلد 6 مؤرخہ 30 را پریل 1902ء صفحہ 7 ) "اگر متوفی بالجبر مکفر اور مکذب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علام الغیوب خدا کی پاک ذات ہے." اخبار بدر نمبر 14 جلد 2 مؤرخہ 24 اپریل 1903 صفحه 1 (۱۱۸) مردہ کی اسقاط سوال ہوا کہ مُلا لوگ مردہ کے پاس کھڑے ہو کر اسقاط کراتے ہیں کیا اس کا کوئی طریق جائز
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہے؟ فرمایا:.ان میں سے ایک ہے." 98 اس کا کہیں ثبوت نہیں ہے.ملاؤں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رسمیں پیدا کر لی ہیں یہ بھی الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 /اپریل 1903 ، صفحہ 10 ) (۱۱۹) مرنے کے بعد فاتحہ خوانی سوال پیش ہوا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں.فاتحہ خوانی ایک دعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے.فرمایا کہ:."ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بیہودہ بکو اس کے اور کچھ نہیں ہوتا پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم یا صحابہ کرام و آئمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا.جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی.ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں ناجائز ہے." فرمایا:.اخبار بدر نمبر 19 جلد 6 مؤرخہ 9 رمئی 1907 ء صفحہ 5) (۱۲۰) جنازہ غائب " جو جنازہ میں شامل نہ ہوسکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں.اخبار بدر نمبر 19 جلد 6 مؤرخہ 19 مئی 1907 ، صفحہ 5) (۱۲۱) شہید کا جنازہ ذکر تھا کہ بعض جگہ چھوٹے گاؤں میں ایک ہی احمدی گھر ہے اور مخالف ایسے متعصب ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی مرجائے گا تو ہم جنازہ بھی نہ پڑھیں گے.حضرت نے فرمایا کہ:." ایسے مخالفوں کا جنازہ پڑھا کر احمدی نے کیا لینا ہے جنازہ تو دعا ہے جو شخص خود ہی خدا کے نزدیک مغضوب علیہم میں ہے اس کی دعا کا کیا اثر ہے.احمدی شہید کا جنازہ خود فرشتے پڑھیں گے ایسے لوگوں کی ہرگز پروانہ کرو اور اپنے خدا پر بھروسہ کرو." (اخبار بدر نمبر 20 جلد 6 مؤرخہ 16 مئی 1907 ء صفحہ 3)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 99 (۱۲۲) مردہ کاختم و اسقاط میت و قرآن کو چکر دینا سوال:.مردہ کا ختم وغیرہ جو کرایا جاتا ہے یہ جائز ہے کہ ناجائز ؟ جواب:.اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے صرف دعا اور صدقہ میت کو پہنچتی ہے.مومن کو چاہئے کہ نماز پنجگانہ ادا کرے اور رکوع سجود میں میت کیلئے دعا کرے یہ طریق نہیں ہے کہ الگ کلام پڑھ کر بخشے.اب دیکھ لغت کا کلام منقول چلا آتا ہے.کسی کا حق نہیں ہے کہ اپنی طرف سے معنی گھڑ لے ایسے ہی آنحضرت علی اللہ سے جو امر ثابت ہو اس پر عمل کرنا چاہئے نہ کہ اپنی من گھڑت پر." اخبار بدر نمبر 11 جلد 3 مؤرخہ 16 / مارچ 1904 ، صفحہ 5) (۱۳۳) میت کیلئے قل سوال: میت کے قبل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں ان کا ثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں؟ جواب:." قل خوانی کی کوئی اصل.شریعت میں نہیں ہے.دعا اور استغفار میت کو پہنچتی ہے.ہاں یہ ضرور ہے کہ ملانوں کو اس سے ثواب پہنچ جاتا ہے.سو اگر اسے ہی مردہ تصور کر لیا جاوے ( اور واقعی ملاں لوگ روحانیت سے مردہ ہی ہوتے ہیں ) تو ہم مان لیں گے.ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں.دین تو ہم کو نبی کریم صلی اللہ سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں.صحابہ کرام بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے.صد ہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے.ایک طریق اسقاط کا رکھا ہے کہ قرآن شریف کو چکر دیتے ہیں یہ اصل میں قرآن شریف کی بے ادبی ہے.انسان خدا سے سچا تعلق رکھنے والا نہیں ہو سکتا جب تک سب نظر خدا پر نہ ہو." ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 3 مؤرخہ 16 / مارچ 1904 ء صفحہ 6,5) (۱۲۴) دسویں محرم کو خیرات کرنا سوال پیش ہوا کہ محرم دسویں کو جو شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ اللہ بہ نیت ایصال
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 100 ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:.ایسے کاموں کیلئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم اور بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں پس اس سے پر ہیز کرنا چاہئے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لئے ہم اسے نا جائز قرار دیتے ہیں جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے." ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14 / مارچ 1907 ء صفحہ 5) (۱۲۵) قبر میں سوال وجواب ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ قبر میں سوال و جواب روح سے ہوتا ہے یا جسم میں وہ روح ڈالا جاتا ہے.فرمایا:.اس پر ایمان لانا چاہئے کہ قبر میں انسان سے سوال و جواب ہوتا ہے لیکن اس کی تفصیل اور کیفیت کو خدا پر چھوڑنا چاہئے.یہ معاملہ انسان کا خدا کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے.پھر قبر کا لفظ وسیع ہے، جب انسان مر جاتا ہے تو اس کی حالت بعد الموت میں جہاں خدا اس کو رکھتا ہے وہی قبر ہے خواہ دریا میں غرق ہو جائے.خواہ جل جائے.خواہ زمین پر پڑا رہے.دنیا سے انتقال کے بعد انسان قبر میں ہے اور اس سے مطالبات اور مواخذات جو ہوتے ہیں اس کی تفصیل کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.انسان کو چاہئے کہ اس دن کے واسطے تیاری کرے نہ کہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے پیچھے پڑے." اخبار بدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 صفحہ 8) (۱۲۶) میت کیلئے فاتحہ خوانی سوال:.میت کیلئے فاتحہ خوانی کیلئے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں.جواب:." یہ درست نہیں ہے بدعت ہے آنحضرت علی اللہ سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے." ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 3 مؤرخہ 16 / مارچ 1904 ء صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 101 (۱۲۷) مردوں کو سلام کہنا اور ان کا سنتا سوال:.اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُور جو کہا جاتا ہے کیا مردے سنتے ہیں؟ : " دیکھو وہ سلام کا جواب وعلیکم السلام تو نہیں دیتے.خدا تعالیٰ وہ سلام ( جو ایک دعا جواب:.ہے) ان کو پہنچا دیتا ہے.اب ہم جو آواز سنتے ہیں اس میں ہوا ایک واسطہ ہے لیکن یہ واسطہ مردہ اور تمہارے درمیان نہیں لیکن السلام علیکم میں خدا تعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنا دیتا ہے.اسی طرح درود شریف ہے کہ ملائکہ آنحضرت علی اللہ کو پہنچا دیتے ہیں." عليه وسلم اخبار بدر نمبر 11 جلد 3 مؤرخہ 16 / مارچ 1904 ، صفحہ 5) (۱۲۸) غسل میت طاعون زده سوال ہوا کہ طاعون زدہ کے غسل کے واسطے کیا حکم ہے.فرمایا:." مومن طاعون سے مرتا ہے تو وہ شہید ہے شہید کے واسطے غسل کی ضرورت نہیں." ( اخبار بدرنمبر 14 جلد 6 مؤرخہ 4 اپریل 1907 ، صفحہ 6 (۱۲۹) طاعون زدہ کو کفن سوال ہوا کہ اس کو کفن پہنایا جائے یا نہیں.فرمایا:." شہید کے واسطے کفن کی ضرورت نہیں.وہ انہیں کپڑوں میں دفن کیا جاوے.ہاں اس پر ایک سفید چادر ڈال دی جائے تو ہرج نہیں ہے." ( اخبار بد نمبر 14 جلد 6 مؤرخہ 4 اپریل 1907ء صفحہ 6) (۱۳۰) مرنے پر طعام کھلانا سوال ہوا کہ دیہات میں دستور ہے.شادی غمی کے موقعہ پر ایک قسم کا خرچ کرتے ہیں.مثلاً جب کوئی چوہدری مرجاوے تو تمام مسجدوں و دائروں و دیگر کمینوں کو بحصہ رسدی کچھ دیتے ہیں.اس کی نسبت حضور کا کیا ارشاد ہے.فرمایا کہ:.لعام جو کھلایا جاوے اس کا مردہ کو ثواب پہنچ جاتا ہے.گو ایسا مفید نہیں جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں "طعام
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کر جاتا." 102 عرض کیا گیا.حضور وہ خرچ وغیرہ کمینوں میں بطور حق الخدمت تقسیم ہوتا ہے.فرمایا:."تو پھر کچھ حرج نہیں.یہ ایک علیحدہ بات ہے کسی کی خدمت کا حق تو دے دینا چاہئے." عرض کیا گیا.اس میں فخر وریاء تو ضرور ہوتا ہے یعنی دینے والے کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ مجھے کوئی بڑا آدمی کہے.فرمایا:.به نیت ایصال ثواب تو پہلے ہی وہ خرچ نہیں حق الخدمت ہے.بعض ریاء شرعاً بھی جائز ہیں مثلاً چندہ وغیرہ.نماز باجماعت ادا کرنے کا جو حکم ہے.تو اسی لئے کہ دوسروں کو ترغیب ہو.غرض اظہار و اخفاء کیلئے موقع ہے.اصل بات یہ ہے کہ شریعت سب رسوم کو منع نہیں کرتی.اگر ایسا ہوتا تو پھر ریل پر چڑھنا.تار ڈاک کے ذریعہ خبر منگوانا سب بدعت ہو جاتے." فرمایا:.(اخبار بدر نمبر 3 جلد 6 مؤرخہ 17 /جنوری 1907 ءصفحہ 4) (۱۳۱) قبر یکی بنانا ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میرا بھائی فوت ہو گیا ہے میں اس کی قبر کی بناؤں یا نہ بناؤں؟ اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اور گنبد بنائے جائیں تو یہ حرام ہے لیکن اگر خشک ملا کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ عمل نیت پر موقوف ہے.ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے.مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے بعض جگہ قبر میں سے میت کو کتے اور بجو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں.مردے کیلئے بھی ایک عزت ہوتی ہے.اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمہ سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے.اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے.ورنہ عزت ضروری نہیں تو غسل دینے کفن دینے خوشبو لگانے کی کیا ضرورت ہے مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو.مومن اپنے لئے ذلت نہیں چاہتا.حفاظت ضروری ہے.جہاں تک نیت صحیح ہے خدا تعالی مواخذہ نہیں کرتا.دیکھو مصلحت الہی نے یہی چاہا کہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 103 حضرت رسول کریم علیم اللہ کی قبر کا پختہ گنبد ہو اور کئی بزرگوں کے مقبرے پختہ ہیں مثلاً نظام الدین فرید الدین قطب الدین معین الدین رحمتہ اللہ علیہم یہ سب صلحاء تھے." الحکم نمبر 18 جلد 5 مؤرخہ 17 مئی 1901 ء صفحہ 12 ) (۱۳۲) محرم کے دنوں میں امامین کی روح کو ثواب پہنچانا ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ محرم کے دنوں امامین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:." عام طور پر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کو پہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں.رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا نا جائز ہے." الحکم نمبر 18 جلد 5 مؤرخہ 17 مئی 1901 صفحہ 12 (۱۳۳) روح کا تعلق قبور سے سوال:.روح کا جو تعلق قبور سے بتلایا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے؟ جواب از امام الزمان :.اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ارواح کے تعلق قبور کے متعلق احادیث رسول اللہ علیم اللہ میں آیا ہے وہ بالکل سچ اور درست ہے.ہاں یہ دوسرا امر ہے کہ اس تعلق کی کیفیت اور گنہ کیا ہے؟ جس کے معلوم کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں.البتہ یہ ہمارا فرض ہو سکتا ہے کہ ہم ثابت کر دیں کہ اس قسم کا تعلق قبور کے ساتھ ارواح کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی محال عقلی لازم نہیں آتا اور اس کیلئے ہم اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت میں ایک نظیر پاتے ہیں.در حقیقت یہ امر اسی قسم کا ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض امور کی سچائی اور حقیقت صرف زبان ہی سے معلوم ہوتی ہے اور اس کو ذرا وسیع کر کے ہم یوں کہتے ہیں کہ حقائق الاشیاء کو معلوم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے رکھتے ہیں.بعض خواص آنکھ کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں اور بعض صداقتوں کا پتہ صرف کان لگاتا ہے اور بعض ایسی ہیں کہ حس مشترک سے ان کا سراغ چلتا ہے اور کتنی ہی سچائیاں ہیں کہ وہ مرکز قوی یعنی دل سے معلوم ہوتی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 104 ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے صداقت کے معلوم کرنے کیلئے مختلف طریق اور ذریعے رکھے ہیں.مثلاً مصری کی ایک ڈلی کو اگر کان پر رکھیں تو وہ اس کا مزہ معلوم نہ کر سکیں گے اور نہ اس کے رنگ کو بتلا سکیں گے.ایسا ہی اگر آنکھ کے سامنے کریں گے تو وہ اس کے ذائقہ کے متعلق کچھ نہ کہہ سکے گی.اس سے.صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کیلئے مختلف قومی اور طاقتیں ہیں.اب آنکھ کے متعلق اگر کسی چیز کا ذائقہ معلوم کرنا ہو اور وہ آنکھ کے سامنے پیش ہو تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اس چیز میں کوئی ذائقہ ہی نہیں یا آواز نکلتی ہو اور کان بند کر کے زبان سے وہ کام لینا چاہیں تو کب ممکن ہے.آج کل کے فلسفی مزاج لوگوں کو یہ بڑا دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ اپنے عدم علم کی وجہ سے کسی صداقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں.روز مرہ کے کاموں میں دیکھا جاتا ہے کہ سب کام ایک شخص نہیں کرتا بلکہ جدا گانہ خدمتیں مقرر ہیں.سقہ پانی لاتا ہے.دھوبی کپڑے صاف کرتا ہے.باور چی کھانا پکاتا ہے.غرض کہ تقسیم محنت کا سلسلہ ہم انسان کے خود ساختہ نظام میں بھی پاتے ہیں.پس اس اصل کو یاد رکھو کہ مختلف قوتوں کے مختلف کام ہیں.انسان بڑے قومی لے کر آیا ہے اور طرح طرح کی خدمتیں اس کی تکمیل کیلئے ہر ایک قوت کے سپرد ہیں.نادان فلسفی ہر بات کا فیصلہ اپنی عقل خاص سے چاہتا ہے حالانکہ یہ بات غلط محض ہے.تاریخی امور تو تاریخ ہی سے ثابت ہوں گے اور خواص الاشیاء کا تجربہ بدوں تجربہ صحیحہ کے کیونکر لگ سکے گا.امور قیاسیہ کا پتہ عقل دے گی.اس طرح پر متفرق طور پر الگ الگ ذرائع ہیں.انسان دھو کہ میں مبتلا ہو کر حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے سے تب ہی محروم ہو جاتا ہے جب کہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف امور کی تکمیل کا ذریعہ قرار دے لیتا ہے.میں اس اصول کی صداقت پر زیادہ کہنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ ذرا سے فکر سے یہ بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے اور روز مرہ ہم ان باتوں کی سچائی کو دیکھتے ہیں.پس جب روح جسم سے مفارقت کرتا ہے یا تعلق پکڑتا ہے تو ان باتوں کا فیصلہ معقل سے نہیں ہوسکتا.اگر ایسا ہوتا تو فلسفی اور حکماء ضلالت میں مبتلا نہ ہوتے.اس طرح پر قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے یہ ایک صداقت تو ہے مگر اس کا پتہ دینا اس آنکھ کا کام نہیں یہ کشفی آنکھ کا کام
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 105 ہے کہ وہ دکھلاتی ہے.اگر عقل محض سے اس کا پتہ لگانا چاہو تو کوئی عقل کا پتلا اتنا ہی بتلائے کہ روح کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ ہزار اختلاف اس مسئلہ پر موجود ہیں اور ہزار فلاسفر د ہر یہ مزاج موجود ہیں جو منکر ہیں.اگر نری عقل کا یہ کام تھا تو پھر اختلاف کا کیا کام؟ کیونکہ جب آنکھ کا کام دیکھنا ہے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ زید کی آنکھ تو سفید چیز کو دیکھتی اور بکر کی ویسی ہی آنکھ اس سفید چیز کا ذائقہ بتلائے.میرا مطلب یہ ہے کہ نری عقل روح کا وجود بھی یقینی طور پر نہیں بتلا سکتی.چہ جائیکہ اس کی کیفیت اور تعلقات کا علم پیدا کر سکے.فلاسفر تو روح کو ایک سبز لکڑی کی طرح مانتے ہیں اور روح فی الخارج ان کے نزدیک کوئی چیز نہیں.یہ تفاسیر روح کے وجود اور اس کے تعلق وغیرہ کی چشمہ نبوت سے ملی ہیں اور نرے عقل والے تو دعوی ہی نہیں کر سکتے.اگر کہو کہ بعض فلاسفروں نے کچھ لکھا ہے تو یا درکھو کہ انہوں نے منقولی طور پر چشمہ نبوت سے کچھ لے کر کہا ہے.پس جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ روح کے متعلق علوم چشمہ نبوت سے ملتے ہیں تو یہ امر کہ ارواح کا قبور کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اسی چشم سے دیکھنا چاہئے اور کشفی آنکھ نے بتلایا ہے کہ اس تو دہ خاک سے روح کا ایک تعلق ہوتا ہے اور السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ کہنے سے جواب ملتا ہے.پس جو آدمی ان قومی سے کام لے جن سے کشف قبور ہوسکتا ہے وہ ان تعلقات کو دیکھ سکتا ہے.ہم ایک بات مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ایک نمک کی ڈلی اور ایک مصری کی ڈلی رکھی ہو.اب عقل محض ان پر کیا فتویٰ دے سکے گی.ہاں اگر ان کو چکھیں گے تو دو جدا گانہ مزوں سے معلوم ہو جاوے گا کہ یہ نمک ہے اور وہ مصری ہے.لیکن اگر حس لسان ہی نہیں تو نمکین اور شیرین کا فیصلہ کوئی کیا کرے گا.پس ہمارا کام صرف دلائل سے سمجھا دینا ہے.آفتاب کے چڑھنے میں جیسے ایک اندھے کے انکار سے فرق نہیں آسکتا اور ایک مسلوب القوۃ کے طریق استدلال سے فائدہ نہ اٹھانے سے اس کا ابطال نہیں ہو سکتا.اسی طرح پر اگر کوئی شخص کشفی آنکھ نہیں رکھتا تو وہ اس تعلق ارواح کو کیونکر دیکھ سکتا ہے؟ پس اس کے انکار سے محض اس لئے کہ وہ دیکھ نہیں سکتا اس کا انکار جائز نہیں ہے.ایسی باتوں کا پتہ نری عقل اور قیاس سے کچھ نہیں لگتا.اللہ تعالیٰ نے اس لئے انسان کو مختلف قومی دیئے ہیں.اگر ایک ہی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 106 سب کام دیتا تو پھر اس قدر قوی کے عطا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ بعض کا تعلق آنکھ سے ہے اور بعض کا کان سے، بعض زبان سے متعلق ہیں اور بعض ناک سے.مختلف قسم کی حسیں انسان رکھتا ہے.قبور کے ساتھ تعلق ارواح کے دیکھنے کیلئے کشفی قوت اور جس کی ضرورت ہے.اگر کوئی کہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ غلط کہتا ہے.انبیاء علیہم السلام کی ایک کثیر تعداد کروڑ ہا اولیاء وصلحاء کا سلسلہ دنیا میں گزرا ہے اور مجاہدات کرنے والے بیشمار لوگ ہو گزرے ہیں اور وہ سب اس امر کی زندہ شہادت ہیں.گو اس کی سمت اور تعلقات کی وجہ عقلی طور پر ہم معلوم کر سکیں یا نہ مگر نفس تعلق سے انکار نہیں ہوسکتا.غرض کشفی دلائل ان ساری باتوں کا فیصلہ کئے دیتے ہیں.کان اگر دیکھ نہ سکیں تو ان کا کیا قصور؟ وہ اور قوت کا کام ہے.ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں کہ روح کا تعلق قبر کے ساتھ ضرورت ہوتا ہے.انسان میت سے کلام کر سکتا ہے.روح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے جہاں اس کیلئے ایک مقام ملتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے.ہندوؤں کی کتابوں میں بھی اس کی گواہی موجود ہے.یہ مسئلہ عام طور پر مسلمہ مسئلہ ہے بجز اس فرقہ کے جو فی بقائے روح کرتا ہے اور یہ امر کہ کس جگہ تعلق ہے کشفی قوت خود ہی بتلا دے گی." الحکم نمبر 3 جلد 3 مؤرخہ 23 جنوری 1899 ء صفحہ 3,2) (۱۳۴) بکر اوغیرہ جانور جو غیر اللہ تھانوں اور قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں ایک بھائی نے عرض کی کہ حضور بکر اوغیرہ جانور جو غیر اللہ تھانوں اور قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں.پھر وہ فروخت ہو کر ذبح ہوتے ہیں کیا ان کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:."شریعت کی بنا نرمی پر ہے ختی پر نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ الله سے یہ مراد ہے کہ جو ان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے اس کا کھانا تو جائز نہیں ہے لیکن جو جانور بیع و شرا میں آ جاتے ہیں اس کی حلت ہی سمجھی جاتی ہے.زیادہ تفتیش کی کیا ضرورت ہوتی ہے دیکھو حلوائی وغیرہ بعض اوقات ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی کراہت اور
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 107 نفرت پیدا کرتا ہے لیکن اس کی بنی ہوئی چیزیں آخر کھاتے ہی ہیں.آپ نے دیکھا ہوگا کہ شیر بینیاں تیار کرتے ہیں اور میلی کچیلی دھوتی میں بھی ہاتھ مارتے جاتے ہیں اور جب کھانڈ تیار کرتے ہیں تو اس کو پاؤں سے ملتے ہیں چوہڑے چمار گڑ وغیرہ بناتے ہیں اور بعض اوقات جو ٹھے رس وغیرہ ڈال دیتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے اس طرح پر اگر تشدد ہو تو سب حرام ہو جاویں.اسلام نے مالا يطاق تکلیف نہیں رکھی ہے بلکہ شریعت کی بنانرمی پر ہے." اس کے بعد سائل مذکور نے پھر اسی سوال کی اور باریک جزئیات پر سوال شروع کئے.فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے لَا تَسْتَلُوْاعَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَلَكُمْ تَسُؤْكُمْ بھی فرمایا ہے بہت کھودنا اچھا نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ متقی کو ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ متقیوں کو اللہ تعالیٰ خود پاک چیزیں بہم پہنچاتا ہے اور خبیث چیزیں خبیث لوگوں کیلئے ہیں اگر انسان تقویٰ اختیار کرے اور باطنی طہارت اور پاکیزگی حاصل کرے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پاکیزگی ہے تو وہ ایسی ابتلاؤں سے بچالیا جاوے گا.ایک بزرگ کی کسی بادشاہ نے دعوت کی اور بکری کا گوشت بھی پکایا اور خنزیر کا بھی اور جب کھانا رکھا گیا تو عمد أسور کا گوشت اس بزرگ کے سامنے رکھ دیا اور بکری کا اپنے اور اپنے دوستوں کے آگے.جب کھانا رکھا گیا اور کہا کہ شروع کرو تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ پر بذریعہ کشف اصل حال کھول دیا انہوں نے کہا ٹھہرو یہ تقسیم ٹھیک نہیں اور یہ کہہ کر اپنے آگے کی رکابیاں ان کے آگے اور ان کے آگے کی اپنے آگے رکھتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے کہ الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ الاية غرض جب انسان شرعی امور کو ادا کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور بُری اور مکروہ باتوں سے اس کو بچالیتا ہے إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّی کے یہی معنی ہیں." الحکم نمبر 29 جلد 7 مؤرخہ 10 اگست 1903 ، صفحه 20) (۱۳۵) یا شیخ عبد القادر جیلانی شيئًا لله کہتا سوال ہوا کہ یا شیخ عبدالقادر جیلائی شَيْئًا لِللہ کہنا درست ہے کہ نہیں؟
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 108 ہیں؟ جواب:." ہر گز نہیں." سوال:.قرآن شریف میں جو آیا ہے کہ خدا کی راہ میں جو مارے گئے تم ان کو مردہ نہ کہو وہ زندہ جواب:."اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ وہ تمہاری آواز بھی سنتے ہیں.بٹالہ میں جو لوگ زندہ موجود ہیں کیا تم اگر ان کو یہاں سے بلاؤ تو آواز دیویں گے ہر گز نہیں.اگر مردہ کو آواز دو تو وہ بھی جواب نہ دے گا معلوم ہوا وہ بھی نہیں سنتا.بغداد میں جا کر شیخ عبدالقادر صاحب کے مزار پر آواز دے کر دیکھ لو کیا جواب دیتے ہیں؟ ہاں خدا کو کامل ایمان کے ساتھ بلاؤ تو وہ جواب دے گا.اگر قبروں میں پڑے ہوئے مردے بھی سنتے ہیں تو بلا کر دکھاؤ." سوال:.خدا جو فرماتا ہے کہ وہ زندہ ہیں؟ جواب:."اگر زندہ کہتا ہے تو اپنے نزدیک کہتا ہے نہ کہ ہمارے تمہارے نزدیک.اور زندگی میں یہ کوئی امر لازمی نہیں ہے کہ قوت سماع اور حاضر ناظر ہونا ان کا ثابت ہو ہم زندہ ہیں لیکن لاہور کی آواز نہیں سن سکتے اگر وہ بھی اس طرح حاضر ناصر اور دعا کے سننے والے اور مرادوں کو پورا کرنے والے ہیں تو خدا اور ان میں فرق کیا ہوا.جائے شرم ہے کیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ شیخ عبدالقادر سے کم ہیں جو یہ فضیلت صرف شیخ صاحب کیلئے تجویز کی جاتی ہے یا ابوبکر یا عمر کیوں نہیں کہتے.ایک کی تخصیص تو مشرک بنادیتی ہے.دنیا میں اسلام اس لئے آیا ہے کہ تو حید پھیلا دے.اگر شیخ عبد القادر کو قرب حاصل ہوا تو توحید سے ہوا اگر وہ غیر اللہ کو پکارنے والے ہوتے تو مقام قرب سے گرائے جاتے انہوں نے کامل اطاعت کی تو درجہ پایا." ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 3 مؤرخہ 16 / مارچ 1904 ءصفحہ 5) الحکم نمبر 8 جلد 8 مؤرخہ 10 / مارچ 1904 ء صفحه 12 (۱۳۶) نماز جنازہ فرض کفایہ ہے ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اور اکثر مخالف مکذب مرتے ہیں ان کا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 109 جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟ فرمایا کہ:.یہ فرض کفایہ ہے اگر کنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہو جاتا ہے مگر اب یہاں ایک تو طاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتا ہے دوسرے وہ مخالف ہے خواہ مخواہ تداخل جائز نہیں ہے خدا فرماتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑ دو اگر چاہے گا تو ان کو خود دوست بنا دے گا یعنی مسلمان ہو جاویں گے.خدا نے منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو چلایا ہے مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہوگا بلکہ اپنے حصہ ایمان کا بھی گواؤ گے." (اخبار بدر نمبر 17 جلد 2 مؤرخہ 15 مئی 1903 ء صفحہ 130 ) (۱۳۷) اُجرت پر امام صلوۃ ٹھہرانا ایک مخلص اور معزز خادم نے عرض کی کہ حضور میرے والد صاحب نے ایک مسجد بنائی تھی وہاں جو امام ہے اس کو کچھ معاوضہ وہ دیتے تھے اس غرض سے کہ مسجد آبادر ہے وہ اس سلسلہ میں داخل نہیں.میں نے اس کا معاوضہ بدستور رکھا ہے.اب کیا کیا جاوے؟ فرمایا:.خواہ احمدی ہو یا غیر احمدی جو روپیہ کیلئے نماز پڑھتا ہے اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے.نماز تو خدا کیلئے ہے.اگر وہ چلا جائے گا تو خدا تعالیٰ ایسے آدمی بھیج دے گا جو محض خدا کیلئے نماز پڑھیں اور مسجد کو آباد کریں.ایسا امام جو محض لالچ کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے میرے نزدیک خواہ وہ کوئی ہو احمدی یا غیر احمدی اس کے پیچھے نماز نہیں ہوسکتی.امام اتقی ہونا چاہئے." فرمایا:.الحکم نمبر 39 جلد 9 مؤرخہ 10 نومبر 1905 صفحہ 6) (۱۳۸) رمضان میں تراویح کیلئے حافظ مقرر کرنا بعض لوگ رمضان میں ایک حافظ مقرر کر لیتے ہیں اور اس کی تنخواہ بھی ٹھہرا لیتے ہیں یہ درست نہیں.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی محض نیک نیتی اور خدا ترسی سے اس کی خدمت کر دے تو یہ جائز الحکم نمبر 39 جلد 9 مؤرخہ 10 نومبر 1905 صفحه 6
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 110 (۱۳۹) زیارت قبور صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مردانہ مکان میں تشریف لائے.دہلی کے سیر کا ذکر درمیان میں آیا.فرمایا:.لہو ولہب کے طور پر پھر نا تو درست نہیں البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اللہ کی قبریں ہیں ان پر ہم بھی جائیں گے.عاجز کو ( یعنی مفتی محمد صادق.ناقل ) کو فر مایا کہ ایسے بزرگوں کی فہرست بناؤ تا کہ جانے کے متعلق انتظام کیا جائے." حاضرین نے یہ نام لکھائے :.ا.شاہ ولی اللہ صاحب ۲.خواجہ نظام الدین صاحب ۳.جناب قطب الدین صاحب ۴.خواجہ باقی باللہ صاحب ۵ - خواجہ میر درد صاحب ۶ - جناب نصیر الدین صاحب چراغ دہلی.چنانچہ گاڑیوں کا انتظام کیا گیا اور حضرت بمعہ خدام گاڑیوں میں سوار ہو کر سب سے اول حضرت خواجہ باقی باللہ کے مزار پر پہنچے.راستہ میں حضرت نے زیارت قبور کے متعلق فرمایا:." قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارت قبور کیلئے ایک سنت ہے.یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آ جاتا ہے.انسان اس دنیا میں مسافر ہے.آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جاوے تو کہے اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَإِنَّا إِنْشَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلاحِقُوْنَ " حضرت باقی باللہ کی مزار پر جب ہم پہنچے تو وہاں بہت سی قبریں ایک دوسری کے قریب قریب اور اکثر زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں.میں نے غور سے دیکھا کہ حضرت اقدس نہایت احتیاط سے ان قبروں کے درمیان سے چلتے تھے تا کہ کسی کے اوپر پاؤں نہ پڑے.قبر خواجہ صاحب پر پہنچ کر آپ نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا کی اور دعا کو لمبا کیا.بعد دعا میں نے عرض کی کہ قبر پر کیا دعا کرنی چاہئے تو فرمایا کہ:."صاحب قبر کے واسطے دعائے مغفرت کرنی چاہئے اور اپنے واسطے بھی خدا سے دعا مانگنی چاہئے.انسان ہر وقت خدا کے حضور دعا کرنے کا محتاج ہے." فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 111 خواجہ باقی باللہ صاحب بڑے مشائخ میں سے تھے شیخ احمد سر ہندی کے پیر تھے.مجھے خیال آتا ہے کہ ان بزرگوں کی ایک کرامت تو ہم نے بھی دیکھ لی ہے اور وہ یہ ہے کہ دہلی جیسے شہر کو انہوں نے قائل کیا اور یہ وہ شہر ہے جو ہم کو مردود اور مخذول اور کافر کہتا ہے." خواجہ باقی باللہ کی قبر پر کھڑے ہو کر بعد دعا کے فرمایا کہ:.ان تمام بزرگوں کی جو دہلی میں مدفون ہیں کرامت ظاہر ہے کہ ایسی سخت سرزمین نے ان کو قبول کیا.یہ کرامت اب تک ہم سے ظہور میں نہیں آئی." ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 1 مؤرخہ 31 اکتوبر 1905 ، صفحہ 2,1) (۱۴۰) ذلّت کا رزق قبر پر بہت سے سائل جمع تھے.فرمایا:." یہ سائلین بہت پیچھے پڑتے ہیں.پہلے معلوم نہ تھاور نہ ان کے واسطے کچھ پیسے ساتھ لے آتے.شیخ نظام الدین کی قبر پر سائل اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ آپس میں لڑنے لگ جاتے ہیں.یہی ان کا رزق ہو گیا ہے جو ذلت کا رزق ہے." اخبار بدر نمبر 31 جلد 1 مؤرخہ 31 /اکتوبر 1905 ء صفحہ 2) (۱۴۱) مردوں سے امداد ( تقریر مورخہ 14 مئی 1900ء) جناب سید محمد رضوی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن کے اس سوال کہ کیا مردوں سے استعانت مانگنی چاہیے کے جواب میں فرمایا:." بات یہ ہے کہ مردوں سے مدد مانگنے کے طریق کو ہم نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.یہ ضعیف الایمان لوگوں کا کام ہے کہ مردوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور زندوں سے دور بھاگتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں لوگ ان کی نبوت کا انکار کرتے رہے اور جس روز انتقال کر گئے تو کہا کہ آج نبوت ختم ہوگئی.اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی مردوں کے پاس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 112 جانے کی ہدایت نہیں فرمائی بلکہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ کا حکم دے کر زندوں کی صحبت میں رہنے کا حکم دیا.یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو بار بار یہاں آنے اور رہنے کی تاکید کرتے ہیں اور ہم جو کسی دوست کو یہاں رہنے کے واسطے کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ محض اس کی حالت پر رحم کر کے ہمدردی اور خیر خواہی سے کہتے ہیں..قرآن کریم کے منشاء کے موافق تو زندوں ہی کی صحبت میں رہنا ثابت ہوتا ہے اور استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی پر قرآن کریم نے زور دیا ہے.چنانچہ فرمایا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پہلے صفات الہی رب ، رحمن ، رحیم ، مالک یوم الدین کا اظہار فرمایا پھر سکھایا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور استمد ادبھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ اصل حق استمداد کا اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے کسی انسان، حیوان، چرند، پرند غرضیکہ کسی مخلوق کیلئے نہ آسمان پر نہ زمین پر یہ حق نہیں ہے.غرض ہر صدی کے سر پر مجدد کا آنا صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ مردوں سے استمداد خدا تعالیٰ کی منشاء کے موافق نہیں.اگر مردوں سے مدد کی ضرورت ہوتی تو پھر زندوں کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہزاروں ہزار جو اولیاء اللہ پیدا ہوتے ہیں اس کا کیا مطلب تھا.مجددین کا سلسلہ کیوں جاری کیا جاتا؟ اگر اسلام مردوں کے حوالے کیا جاتا تو یقیناً سمجھو کہ اس کا نام ونشان مٹ گیا ہوتا.یہودیوں کا مذہب مردوں کے حوالے کیا گیا نتیجہ کیا ہوا؟ عیسائیوں نے مردہ پرستی سے بتلاؤ کیا پایا؟ مردوں کو پوجتے پوجتے خود مردہ ہو گئے.نہ مذہب میں زندگی کی روح رہی نہ ماننے والوں میں زندگی کے آثار باقی رہے.اوّل سے لے کر آخر تک مردوں ہی کا مجمع ہو گیا.اسلام ایک زندہ مذہب ہے.اسلام کا خداحی و قیوم خدا ہے پھر وہ مردوں سے پیار کیوں کرنے لگا.وہ جی و قیوم خدا تو بار بار مردوں کو جلاتا ہے يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا تو کیا مردوں کے ساتھ تعلق پیدا کرا کر جلاتا ہے نہیں ہرگز نہیں.اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی حی و قیوم خدا نے إِنَّا لَهُ لَحَافِظُون کہ کر اٹھایا ہوا ہے.پس ہر زمانہ میں یہ دین زندوں سے زندگی پاتا ہے اور مردوں کو جلاتا ہے.یاد رکھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 113 ہیں.اب ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ مردوں سے مدد مانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں کیا بلکہ زندوں ہی کا ذکر فرمایا.خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا جو اسلام کو زندوں کے سپرد کیا.اگر اسلام کو مردوں پر ڈالتا تو نہیں معلوم کیا آفت آتی.مردوں کی قبریں کہاں کم ہیں کیا ملتان میں تھوڑی قبریں ہیں.گر دگر ما گداو گورستاں اس کی نسبت مشہور ہے.میں بھی ایک بار ملتان گیا.جہاں کسی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اُتارنے کو گرد ہو جاتے ہیں.پاکیپٹن میں مردوں کے فیضان سے دیکھ لو کیا ہو رہا ہے.اجمیر میں جا کر دیکھو بدعات اور محدثات کا بازار کیا گرم ہے.غرض مردوں کو دیکھو گے تو اس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ان کے مشاہد میں سوا بدعات اور ارتکاب مناہی کے کچھ نہیں.خدا تعالیٰ نے جو صراط المستقیم مقرر فرمایا ہے وہ زندوں کی راہ ہے مردوں کی راہ نہیں.پس جو چاہتا ہے کہ خدا کو پائے اور حی و قیوم خدا کو ملے تو وہ زندوں کو تلاش کرے کیونکہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے نہ مردہ.جن کا خدا مردہ ہے جن کی کتاب مردہ ہے وہ مردوں سے برکت چاہیں تو کیا تعجب ہے؟ لیکن اگر سچا مسلمان جس کا خدا زندہ خدا جس کا نبی زندہ نبی جس کی کتاب زندہ کتاب ہے اور جس دین میں ہمیشہ زندوں کا سلسلہ جاری ہو اور ہر زمانہ میں ایک زندہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے والا آتا ہو وہ اگر اس زندہ کو چھوڑ کر بوسیدہ ہڈیوں اور قبروں کی تلاش میں سرگردان ہو تو البتہ تعجب اور حیرت کی بات ہے !!! پس تم کو چاہئے کہ تم زندوں کی صحبت تلاش کرو اور بار بار اس کے پاس آکر بیٹھو." الحکم نمبر 26 جلد 6 مؤرخہ 24 جولائی 1902 ء صفحہ 11,10,8,5) (۱۴۲) ختم اور ختم کی ریوڑیاں سوال: ختم کی ریوڑیاں وغیرہ لے کر کھانی چاہئیں کہ نہ؟ جواب:."ختم کا دستور بدعت ہے شرک نہیں ہے اس لئے کھا لینی جائز ہے لیکن ختم دینا دلوانا نا جائز ہے اور اگر کسی پیر کو حاضر ناظر جان کر اس کا کھانا دیا جاتا ہے تو وہ ناجائز." سوال:.یہ جو لکھا ہے کہ مدینہ جا کر شیخ عبد القادر نے يَا حَبِيْبَ اللَّهِ خُذْ بِيَدِي کہا.جواب:.اول تو اس کی سند کیا پھر بعض وقت اہل اللہ کو مکاشفہ ہوتا ہے اس میں خدا تعالیٰ اہل
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 114 قبور سے باتیں کر دیتا ہے مگر یہ خدا کا فضل ہوتا ہے." فرمایا:.اخبار بدر نمبر 11 جلد 3 مؤرخہ 16 / مارچ 1904 ، صفحہ 5) (۱۴۳) مرده پر نوحه.ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیا پا کرنا اور چیخیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات زبان پر لانا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئیں.جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں اختیار کر لیں.کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کیلئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے که صرف إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہیں یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں.اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے وہ شیطان سے ہے.۲.دوم برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیا پا کرنا اور باہم عورتوں کا سر ٹکرا کر چلانا رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے یہ سب نا پاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پر ہیز کرنا چاہئے." ( اخبار بدر نمبر 30 جلد 2 مؤرخہ 26 جولائی 1906 ء صفحہ 12 ) (۱۴۴) سجدہ لغیر اللہ ظہر کے وقت حضور علیہ السلام تشریف لائے تو آپ کے ایک خادم آمده از کشمیر نے سر بسجو د ہو کر خدا تعالیٰ کے کلام اُسجُدُوا لِآدَمَ کو اس کے ظاہری الفاظ پر پورا کرنا چاہا اور نہایت گریہ وزاری سے اظہار محبت کیا مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے اس حرکت سے منع فرمایا اور کہا کہ " یہ مشرکانہ باتیں ہیں ان سے پر ہیز چاہئے." ( اخبار بدر نمبر 6 جلد 4 مؤرخہ 18 فروری 1905 ، صفحہ 3)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 115 (۱۴۵) خوش الحانی سے قرآن پڑھنا سوال:.خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا:." خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا عبادت ہے اور بدعات جو ساتھ ملا لیتے ہیں وہ اس عبادت کو ضائع کر دیتے ہیں.بدعات نکال نکال کر ان لوگوں نے کام خراب کیا ہے." فرمایا:.الحکم نمبر 11 جلد 7 مؤرخہ 24 / مارچ 1903 ء صفحہ 5) (۱۴۶) ماتم میں بیجا خرچ سے ممانعت "سیا پا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں.حرام خور عورتیں شیطان کی بہنیں جو دور دور سے سیا پا کرنے کیلئے آتی ہیں اور مکر و فریب سے منہ کو ڈھانپ کر اور بھینسوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیچنیں مار کر روتی ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتلانے کیلئے صد ہاروپیہ کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے.اس غرض سے کہ لوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھلائی اچھا نام پیدا کیا.سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے تو بہ کر نالازم ہے." اخبار بدر نمبر 30 جلد 2 مؤرخہ 26 جولائی 1906 ، صفحہ 12 (۱۴۷) مردوں سے طلب حاجت و مشکل کشائی کی درخواست فرمایا:."سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جس سے دعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو.اس کو موجودہ سمیع ، بصیر، خبیر، علیم، متصرف، قادر سمجھے اور اس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دعاؤں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے.مگر کیا کروں کس کو سناؤں.اب اسلام میں مشکلات ہی اور آپڑی ہیں کہ جو محبت خدا تعالیٰ سے کرنی چاہئے وہ دوسروں سے کرتے ہیں اور خدا کا رتبہ انسانوں اور مردوں کو دیتے ہیں.حاجت روا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 116 اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تھی مگر اب جس قبر کو دیکھو وہ حاجت روا ٹھہرائی گئی ہے.میں اس حالت کو دیکھتا ہوں تو دل میں درد اٹھتا ہے مگر کیا کہیں کس کو جا کر سنائیں.دیکھو قبر پر اگر ایک شخص ہیں برس بھی بیٹھا ہوا پکارتا رہے تو اس قبر سے کوئی آواز نہیں آئے گی مگر مسلمان ہیں کہ قبروں پر جاتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں.میں کہتا ہوں وہ قبر خواہ کسی کی بھی ہو اس سے کوئی مراد بر نہیں آ سکتی.حاجت روا اور مشکل کشا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کوئی اس صفت کا موصوف نہیں.قبر سے کسی آواز کی امید مت رکھو برخلاف اس کے اگر اللہ تعالیٰ کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ دن میں دس مرتبہ بھی پکارو تو میں یقین رکھتا ہوں اور میرا اپنا تجربہ ہے کہ وہ دس دفعہ ہی آواز سنتا اور دس ہی دفعہ جواب دیتا ہے لیکن یہ شرط ہے کہ پکارے اس طرح پر جو پکارنے کا حق ہے.ہم سب ابرار اخیار امت کی عزت کرتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں لیکن اس کی محبت اور عزت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم ان کو خدا بنا لیں اور وہ صفات جو خدا تعالیٰ میں ہیں ان میں یقین کر لیں.میں بڑے دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ ہماری آواز نہیں سنتے اور اس کا جواب نہیں دیتے.دیکھو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک گھنٹہ میں ۷۲ آدمی آپ کے شہید ہو گئے.اس وقت آپ سخت نرغہ میں تھے.اب طبعاً ہر ایک شخص کا کانشنس گواہی دیتا ہے کہ وہ اس وقت جب کہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوں گے کہ اس مشکل سے نجات مل جاوے لیکن وہ دعا اس وقت منشاء الہی کے خلاف تھی اور قضاء و قدر اس کے مخالف تھے اس لئے وہ اسی جگہ شہید ہو گئے.اگر ان کے قبضہ واختیار میں کوئی بات ہوتی تو انہوں نے کونسا دقیقہ اپنے بچاؤ کیلئے اُٹھا رکھا تھا مگر کچھ بھی کارگر نہ ہوا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قضاء وقدر کا سارا معاملہ اور تصرف تام اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے جو اس قدر ذخیرہ قدرت کا رکھتا ہے اور حی و قیوم ہے.اس کو چھوڑ کر جو مردوں اور عاجز بندوں کی قبروں پر جا کر ان سے مرادیں مانگتا ہے اس سے بڑھ کر بے نصیب کون ہو سکتا ہے؟ انسان کے سینہ میں دو دل نہیں ہوتے ایک ہی دل ہے وہ دو جگہ محبت نہیں کر سکتا.اس لئے اگر کوئی زندوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتا ہے وہ حفظ مراتب نہیں کرتا اور یہ مشہور بات ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 117 خدا تعالیٰ کو خدا تعالی کی جگہ پر رکھو اور انسان کو انسان کا مرتبہ دو اس سے آگے مت بڑھاؤ.مگر میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ حفظ مراتب نہیں کیا جاتا زندہ اور مردہ کی تفریق ہی نہیں رہی بلکہ انسان عاجز اور خدائے قادر میں بھی کوئی فرق اس زمانہ میں نہیں کیا جاتا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے صدیوں سے خدا تعالیٰ کا قدر نہیں پہنچانا گیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت عاجز بندوں اور بے قدر چیزوں کو دی گئی.مجھے تعجب آتا ہے ان لوگوں پر جو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن باوجود مسلمان کہلانے کے خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں.جیسا کہ میں دیکھتا ہوں کہ مسیح بن مریم کو جو ایک عاجز انسان تھا اور اگر قرآن شریف نہ آیا ہوتا اور آنحضرت علی اللہ مبعوث نہ ہوئے ہوتے تو اس کی رسالت بھی ثابت نہ ہوتی بلکہ انجیل سے تو وہ کوئی اعلیٰ اخلاق کا آدمی بھی ثابت نہیں ہوتا لیکن عیسائیوں کے اثر سے متاثر ہو کر مسلمان بھی ان کو خدائی درجہ دینے میں پیچھے نہیں رہے کیونکہ جیسا کہ وہ صاف مانتے ہیں کہ وہ اب تک حی و قیوم ہے اور زمانہ کا کوئی اثر اس پر نہیں ہوا.آسمان پر موجود ہے.مردوں کو زندہ کیا کرتا تھا.جانوروں کو پیدا کرتا تھا.غیب جاننے والا تھا.پھر اس کے خدا بنانے میں اور کیا باقی رہا.افسوس مسلمانوں کی عقل ماری گئی جو ایک خدا کے ماننے والے تھے وہ اب ایک مردہ کو خدا سمجھتے ہیں اور ان خداؤں کا تو شمار نہیں جو مردہ پرستوں اور مزار پرستوں نے بنائے ہوئے ہیں.ایسی حالت اور صورت میں خدا تعالیٰ کی غیرت نے یہ تقاضا کیا ہے کہ ان مصنوعی خداؤں کی خدائی کو خاک میں ملایا جاوے اور زندوں اور مردوں میں ایک امتیاز قائم کر کے دنیا کو حقیقی خدا کے سامنے سجدہ کرایا جاوے.اسی غرض کیلئے اس نے مجھے بھیجا ہے اور اپنے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے.یا درکھوا نبیاء علیہم السلام کو جو شرف اور رتبہ ملا وہ صرف اسی بات سے ملا ہے کہ انہوں نے حقیقی خدا کو پہچانا اور اس کی قدر کی.اسی ایک ذات کے حضور انہوں نے اپنی ساری خواہشوں اور آرزوؤں کو قربان کیا کسی مردہ اور مزار پر بیٹھ کر انہوں نے مرادیں نہیں مانگی ہیں.دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کتنے بڑے عظیم الشان نبی تھے اور خدا تعالیٰ کے حضور ان کا کتنا بڑا درجہ اور رتبہ تھا.اب اگر آنحضرت علی یا اللہ بجائے خدا تعالیٰ کے حضور گر نیکے ابراہیم کی پوجا کرتے تو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 118 کیا ہوتا؟ کیا آپ کو وہ اعلیٰ درجہ کے مراتب مل سکتے جواب ملے ہیں ؟ کبھی نہیں.پھر جبکہ ابراہیم علیہ السلام آپ کے بزرگ بھی تھے اور آپ نے ان کی قبر پر جا کر یا بیٹھ کر ان سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کسی اور قبر پر جا کر آپ نے اپنی کوئی حاجت پیش کی تو یہ کس قدر بے وقوفی اور بے دینی ہے کہ آج مسلمان قبروں پر جا کر ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں.اگر قبروں سے کچھ مل سکتا تو اس کیلئے سب سے پہلے آنحضرت عبید اللہ قبروں سے مانگتے مگر نہیں.مردہ اور زندہ میں جس قدر فرق ہے وہ بالکل ظاہر ہے.بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی مخلوق اور ہستی نہیں ہے جس کی طرف انسان توجہ کرے اور اس سے کچھ مانگے.رسول اللہ صلی اللہ ایک ذات کے عاشق زار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا.آپ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلَى رَبِّهِ یعنی محمد اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے علی اللہ." الحکم نمبر 5 جلد 8 مؤرخہ 10 فروری 1904 ، صفحہ 3,2) (اخبار بدر نمبر 8 جلد 3 مؤرخہ 24 فروری 1904 ء صفحہ 4,3 (۱۳۴۸) تعویذ باندھنا، دم کرنا استفسار : تعویذ کا باندھنایا دم وغیرہ کرانا کیسا ہے؟ بجواب حضرت اقدس نے حضرت مولوی حکیم نورالدین کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ نے احادیث میں اس کے متعلق کچھ پڑھا ہے؟ عرض کیا کہ حضرت خالد بن ولیڈ جب کبھی جنگوں میں جایا کرتے تھے تو آنحضرت علی اللہ کے موئے مبارک پگڑی یا ٹوپی میں رکھ لیا کرتے تھے اور آگے کی طرف لٹکا لیتے اور جب ایک دفعہ آنحضرت نے سرمنڈوایا تو آدھے سر کے کٹے ہوئے بال ایک شخص کو دے دیئے اور آدھے دوسرے حصہ کے باقی اصحاب کو بانٹ دیئے.آنحضرت عیب اللہ بعض اوقات عليه وسلم جبہ شریف دھو کر مریضوں کو بھی پلایا کرتے تھے اور وہ شفایاب ہو جایا کرتے تھے.ایسا ہی ایک دفعہ ایک عورت نے آپ کا پسینہ بھی جمع کیا.یہ سب سن کر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ:.ان تعویذ ودموں کی اصل کچھ نہ کچھ ضرور ہے جو خالی از فائدہ نہیں.میرے الہام میں جو ہے کہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 119 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اس سے بھی تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تو ہوگا جو بادشاہ ایسا کریں گے.اصل بات یہ ہے کہ ان باتوں کی بنا محبت و اخلاص پر ہے." صادقوں کی نکتہ چینی کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ:." بزرگوں کے صغائر پر نظر کرنے سے سلب ایمان کا اندیشہ ہے." الحکم نمبر 26 جلد 7 مؤرخہ 17 / جولائی 1903 ء صفحہ 10) (۱۴۹) کلام پڑھ کر پھونکنا ایک دوست نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جاوے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تا کہ اس کو شفا ہو.حضرت نے فرمایا:." بے شک قرآن شریف میں شفا ہے.روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کے کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلا ہے.قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو.خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو تمہارے واسطے یہی کافی ہے." اخبار نمبر 43 جلد 2 مؤرخہ 25 اکتوبر 1906 ء صفحہ 4) (۱۵۰) طعام پر فاتحہ خوانی و منت ماننا سوال:.روٹیوں پر فاتحہ پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا:." کیا آنحضرت صلی اللہ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا ہے؟" الحکم نمبر 11 جلد 7 مؤرخہ 24 / مارچ 1903 صفحہ 5) ایک بزرگ نے عرض کی کہ حضور میں نے اپنی ملازمت سے پہلے یہ منت مانی تھی کہ جب میں ملازم ہو جاؤں گا تو آدھ آنہ فی روپیہ کے حساب سے نکال کر اس کا کھانا پکوا کر حضرت پیران پیر کا ختم دلاؤں گا.اس کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا کہ:." خیرات تو ہر طرح اور ہر رنگ میں جائز ہے اور جسے چاہے انسان دے مگر اس فاتحہ خوانی سے ہمیں نہیں معلوم کیا فائدہ اور یہ کیوں کیا جاتا ہے.میرے خیال میں یہ جو ہمارے ملک میں رسم جاری
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 120 ہے کہ اس پر کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھا کرتے ہیں یہ طریق تو شرک ہے اور اس کا ثبوت آنحضرت عبید اللہ کے فعل سے نہیں.غربا و مساکین کو بےشک کھانا کھلاؤ." الحکم نمبر 12 جلد 7 مؤرخہ 31 / مارچ 1903 صفحہ 4 (۱۵۱) مردوں کیلئے دعا کرنا سوال:.قبر پر کھڑے ہو کر کیا پڑھنا چاہئے؟ جواب:."میت کے واسطے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گناہوں کو بخشے جو اس نے اس دنیا میں کئے تھے اور ان کے پس ماندگان کے واسطے بھی دعا کرنی چاہئے." سوال:.دعا میں کونسی آیت پڑھنی چاہئے؟ جواب:." یہ تکلفات ہیں تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہو اور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتا ہے میت کے واسطے دعا کرو." اخبار بدر نمبر 3 جلد 2 مؤرخہ 19 جنوری 1906 ء صفحہ 6) (۱۵۲) میت کیلئے صدقہ دینا اور قرآن شریف پڑھنا سوال:.میت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے؟ جواب:."میت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے.اس کی بجائے دعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہئے.میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت.ثابت ہے لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتا ہے." اخبار بد رنمبر 3 جلد 2 مؤرخہ 19 جنوری 1906 صفحہ 6 (۱۵۳) تذکره مولود نبوی علیه السلام سوال:.مولود کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 121 جواب:." محض تذکرہ آنحضرت علی یا اللہ کا عمدہ چیز ہے.اس سے محبت بڑھتی ہے اور آپ کی اتباع کیلئے تحریک ہوتی اور جوش پیدا ہوتا ہے.قرآن شریف میں بھی اسی لئے بعض تذکرے موجود ا ہیں جیسے فرما یاوَ اذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيْمَ لیکن اگر تذکروں کے بیان میں بعض بدعات ملادی جائیں تو وہ حرام ہو جاتے ہیں.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی یہ یا درکھو کہ اصل مقصد اسلام کا تو حید ہے.مولود کی محفلیں کرنے والوں میں آج کل دیکھا جاتا ہے کہ بہت سی بدعات ملالی گئی ہیں.جس نے ایک جائز اور موجب رحمت فعل کو خراب کر دیا ہے.آنحضرت علی یا اللہ کا تذکرہ موجب رحمت ہے.مگر غیر مشروع امور و بدعات منشاء الہی کے خلاف ہیں.ہم خود اس امر کے مجاز نہیں ہیں کہ آپ کسی نئی شریعت کی بنیاد رکھیں اور آج کل یہی ہو رہا ہے کہ ہر شخص اپنے خیالات کے موافق شریعت کو بنانا چاہتا ہے گو یا خود شریعت بناتا ہے.اس مسئلہ میں بھی افراط و تفریط سے کام لیا گیا ہے.بعض لوگ اپنی جہالت سے کہتے ہیں کہ آنحضرت علیم اللہ کا تذکرہ ہی حرام ہے یہ ان کی حماقت ہے.آنحضرت علی اللہ کے تذکرہ کو حرام کہنا بڑی بے باکی ہے جب کہ آنحضرت علیم اللہ کی سچی اتباع خدا تعالیٰ کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور اصل باعث ہے اور اتباع کا جوش تذکرہ سے پیدا ہوتا اور اس کی تحریک ہوتی ہے.جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے اس کا تذکرہ کرتا ہے.عليه وسلم ہاں جو لوگ مولود کرتے وقت کھڑے ہوتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت علی اللہ ہی تشریف لے آئے ہیں یہ ان کی جرات ہے.ایسی مجلسیں جو کی جاتی ہیں ان میں بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کثرت سے ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جو تارک الصلوۃ سود خور اور شرابی ہوتے ہیں.آنحضرت علی اللہ کو ایسی مجلسوں سے کیا تعلق ؟ اور یہ لوگ محض ایک تماشا کے طور پر جمع ہو جاتے ہیں عليه وسلم پس اس قسم کے خیال بے ہودہ ہیں.جو شخص خشک وہابی بنتا ہے اور آنحضرت علی اللہ کی عظمت کو دل عليه وسلم میں جگہ نہیں دیتا ہے وہ بے دین آدمی ہے.انبیاء علیہم السلام کا وجود بھی ایک بارش ہوتی ہے وہ اعلیٰ درجہ کا روشن وجود ہوتا ہے.خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے.دنیا کیلئے اس میں برکات ہوتے ہیں.اپنے جیسا سمجھ لینا ظلم ہے.اولیاء و انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے.حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت علیم اللہ نے فرمایا ہے کہ بہشت میں ایک اعلیٰ مقام ہوگا اور اس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 122 صلى میں میں ہوں گا.ایک صحابی جس کو آپ سے بہت ہی محبت تھی وہ یہ ن کر رو پڑا اور کہا کہ حضور مجھے آپ سے بہت محبت تھی آپ نے فرمایا تو میرے ساتھ ہوگا.مشرک بھی سچی محبت آنحضرت علی یا اللہ سے نہیں رکھ سکتا اور ایسا ہی وہابی بھی نہیں کر سکتا.یہ مسلمانوں کے آریہ ہیں ان میں روحانیت نہیں ہے خدا تعالیٰ اور اس کے سچے رسول سے سچی محبت نہیں ہے.دوسرا گروہ جنہوں نے مشرکانہ طریق اختیار کئے ہیں روحانیت ان میں بھی نہیں قبر پرستی کے سوا اور کچھ نہیں.پس اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت علی اللہ عليه وسلم کا تذکرہ میرے نزدیک جیسا کہ وہابی کہتے ہیں حرام نہیں بلکہ یہ اتباع کی تحریک کیلئے مناسب ہے.جو لوگ مشرکانہ رنگ میں بعض بدعتیں پیدا کرتے ہیں وہ حرام ہیں." الحکم نمبر 11 جلد 7 مؤرخہ 24 / مارچ 1903 ء صفحہ 5 کسی شخص نے حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مجلس مولود کے متعلق بذریعہ عریضہ استفسار کیا تھا.آپ نے اس کے جواب میں جو کرامت نامہ لکھا ہے اس کا درج کرنا خالی از منفعت نہیں ہو گا.اس لئے ہم اسے ذیل میں درج کرتے ہیں.ایڈیٹر "میرا اس میں یہ مذہب ہے کہ مصالح اعلاء کلمہ اسلام و تذکرہ نبوی کی نیت سے کوئی ایسا جلسہ کیا جائے کہ جس میں سوانح مقدسہ نبویہ کا ذکر ہو اور نہایت خوبی اور صحت و بلاغت سے اس تقریر کو سنایا جائے کہ کیونکر آنحضرت علیه تاریکی کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور کس طرح پر بے سامانی کی حالت میں تمام قوموں کے جور و جفا اُٹھا کر بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہو گئے اور کیسی خدا تعالیٰ نے اپنے اس مقبول بندہ کی وقتاً فوقتاً تائیدیں کیں اور آخر کس طور سے اس دین کو مشارق و مغارب میں پھیلا دیا اور اس تقریر میں ہر ایک محل میں کچھ کچھ نظم بھی ہو اور پُر درد اور موثر بیان ہو اور درمیان میں کثرت درود شریف کی سامعین کی طرف سے ہو اور کوئی علت اور بدعت درمیان نہ ہو تو ایسا جلسہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ میری نظر میں موجب ثواب عظیم ہے کیونکہ اس میں یہ نیت کی گئی ہے کہ تا سوانحہ مقدسہ نبی کریم علي الام تازہ طور پر لوگوں کو سنائے جائیں اور مشتاقان رسول علی اللہ کی محبت بڑھا دی جائے اور لوگوں کو عشق رسول کریم صلی اللہ کیلئے حرکت دی جائے اور ناواقفوں پر عظمت اس انسان کامل اور مرد فانی فی اللہ کی کھول دی جائے جس نے دنیا میں تنہا آکر اور تمام دنیا کو شرک اور غفلت میں گرفتار پا کر بڑی مردمی سے اپنی جان کو تھیلی پر رکھ کر ہر ایک قوم میں تو حید کی صدا بلند کی اور ہر ایک کان میں لا الہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 123 إِلَّا الله کی آواز پہنچادی.غرض سوانحہ نبویہ کو خوش آوازی سے لوگوں پر ظاہر کر نا حقیقی مومنوں کا فرض ہے.وہ مومن ہی کا ہے کا ہے جس میں سوانحہ نبویہ کی عزت نہیں.دوسرے لفظوں میں اسی جلسہ اظہار سوانحہ کا نام مجلس مولود ہے.اس جلسہ اظہار سوانحہ میں در حقیقت بڑے فوائد ہیں.ان سوانحہ کے سننے سے محبان رسول کا وقت خوش ہوگا اور ہر ایک مرد طالب جب ان سوانحہ کے ذریعہ سے ہمت اور صدق اور استقامت کے کام سنے گا تو اس کو بھی ہمت اور صدق اور استقامت کی طرف شوق بڑھے گا اور اس کی طلب زیادہ ہوگی اور مسلمان کہلا کر جو کچھ دین کی راہ میں کسل اور ضعف اور بزدلی رکھتا ہے سوانحہ نبویہ علیہ الصلوۃ والسلام سن کر خوش ہوگا اور اپنے اسلام پر افسوس کرے گا اور خدا تعالیٰ سے چاہے گا کہ جس نبی کے اقتدا کا اس کو دعویٰ ہے اس کی سرگرمی اور اس کا عشق اور اس کی ہمدردی اس کو بھی نصیب ہو اور جس طرح ایک شخص جو ایک جنگل میں اکیلا بیٹھا ہو اور درندوں اور دوسری بلاؤں سے ڈر رہا ہو اور نا گاہ اس کو ایک قافلہ نظر آیا جس میں صدہا سپاہی ہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ وہ شخص اس قافلہ کو پاکرکس طرح قوی دل ہو جائے گا.ایسا ہی سوانحہ طیبہ نبویہ ایک لشکر مسلح کی مانند ہیں جن کے سننے سے دل قوی ہو جاتا ہے اور تخویفات شیطانی سے نجات ملتی ہے اور حدیث صحیح میں ہے کہ عِنْدَ ذِكْرِ الصَّالِحِيْنَ تَتَنَزَّلُ الرَّحْمَة یعنی ذکر صالحین کے وقت رحمت الہی نازل ہوتی ہے.پھر نبی کریم صلی اللہ کے ذکر کے وقت کس قدر نازل ہوگی.ہاں اس جلسہ کو بدعات سے محفوظ رکھنا چاہئے تا بجائے ثواب کے گناہ پیدا نہ ہو.صرف سوانحہ نبویہ کا ذکر ہو اور درود شریف اور تسبیح ہو اگر کسی قسم کا شرک یا کسی قسم کی بدعت درمیان ہو تو یہ ہرگز جائز نہیں.لیکن جو میں نے ذکر کیا ہے وہ نہ صرف جائز بلکہ میری سمجھ میں ضروریات سے ہے." فرمایا:.( الحکم نمبر 14 و 15 جلد 8 مؤرخہ 30 را پریل و 10 رمئی 1904 صفحہ 3) (۱۵۴) بدنی و مالی عبادتیں "عبادات دو قسم کی ہوتی ہیں عبادات مالی اور بدنی.مالی عبادتیں تو اس کیلئے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جس کے پاس نہیں وہ معذور ہے.بدنی عبادتیں بھی انسان جوانی ہی میں کر سکتا ہے ورنہ ۶۰
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 124 سال کے بعد طرح طرح کے عوارضات لاحق ہو جاتے ہیں نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر نا بینائی آجاتی ہے.سچ کہا ہے پیری و صد عیب چنین گفته اند.اور جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اس کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صد ہارنج برداشت کرنے پڑتے ہیں.موئے سفیدزا جل آرد پیام اس لئے انسان کو چاہئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجالا وے." فرمایا:- الحکم نمبر 44 جلد 6 مؤرخہ 10 دسمبر 1902 صفحہ 9) (۱۵۵) نماز وحج کی حقیقت عبادت کے دو حصے تھے ایک وہ جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو ڈرنے کا حق ہے خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو پاکیزگی کے چشمہ کی طرف لے جاتا ہے اور اس کی روح گداز ہوکر الوہیت کی طرف بہتی ہے اور عبودیت کا حقیقی رنگ اس میں پیدا ہو جاتا ہے.دوسرا حصہ عبادت کا یہ ہے کہ انسان خدا سے محبت کرے جو محبت کرنے کا حق ہے اسی لئے فرمایا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ اور دنیا کی ساری محبتوں کو فانی اور آنی سمجھ کر حقیقی محبوب اللہ تعالیٰ ہی کو قراردیا جاوے.یہ دو حق ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نسبت انسان سے مانگتا ہے ان دونوں قسم کے حقوق کے ادا کرنے کیلئے یوں تو ہر قسم کی عبادت اپنے اندر ایک رنگ رکھتی ہے مگر اسلام نے دو مخصوص صورتیں عبادت کی اس کیلئے مقرر کی ہوئی ہیں.خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر ان کا جمع ہونا بھی محال نظر آتا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اس سے محبت کیونکر کر سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی اور جس قدر محبت الہی میں وہ ترقی کرے گا اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلا کر یا کیزگی کی طرف لے جائے گا.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 125 پس اسلام نے ان دونوں حقوق کو پورا کرنے کیلئے ایک صورت نماز کی رکھی جس میں خدا کے خوف کا پہلو رکھا ہے اور محبت کی حالت کے اظہار کیلئے حج رکھا ہے.خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں.بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی.عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا.سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی.غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے.سرمنڈوایا جاتا ہے دوڑتے ہیں محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے.پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے.اسلام نے پورے طور پر ان حقوق کی تکمیل کی تعلیم دی ہے.نادان ہے وہ شخص ج وہ جو اپنی نا بینائی سے اعتراض کرتا ہے." ایک شخص کے سوال پر فر مایا کہ:.الحکم نمبر 26 جلد 6 مؤرخہ 24 جولائی 1902 ، صفحہ 3) (۱۵۶) نماز کیا ہے " نماز اصل میں دعا ہے.نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے.اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کیلئے تیار رہے کیونکہ جو شخص دعا ئیں نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے.ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اُٹھاتا ہوں.مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں.میں بہت رحم کرتا ہوں.بیکسوں کی امداد کرتا ہوں لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی ندا کی پروا نہیں کرتا نہ اپنی مشکل کا بیان کر کے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا.یہی حال خدا تعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کیلئے تیار ہے.بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے قبولیت دعا کیلئے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے." ( اخبار بدر نمبر 25 جلد 3 مؤرخہ یکم جون 1904ء صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 126 (۱۵۷) اسلامی مسائل عقل کے موافق ہیں سوال :.اسلام کا کوئی مسئلہ عقل کے خلاف نہیں ہے؟ فرمایا:."ہاں یہ سچ ہے مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے روٹی کے ساتھ سالن بھی ہو.عقلی حواس کے علاوہ اور حواس ہیں جو خدا شناسی کیلئے ہیں اور عقل بھی ان کے ساتھ مل جاتی ہے یہ کوئی تسلی کی راہ نہیں بتا سکتی جب تک کہ وہ دوسرے حواس ساتھ نہ ہوں." سوال:.اگر غیر پوچھیں تو انہیں کیا جواب دیں؟ فرمایا:." ان کو یہی جواب دو جو اس کے اہل ہیں ان کے پاس رہو کیونکہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ان حواس کے ذریعہ ہم ان باتوں کو محسوس کر لیں جن کیلئے دوسرے حواس ہیں.کیا کان آنکھ کا کام دے سکتے ہیں یا زبان کانوں کا کام دے سکتی ہے.پھر کس قدر غلطی ہے کہ اس امر پر زور دیا جاوے.خدا شناسی کیلئے حواس اور ہیں اور ان کے ذریعہ ہی ان امور پر جوان محسوسات سے ماورا ہیں ایمان پیدا ہوتا ہے.عقلمندان چیزوں پر جیسے ملائک ہیں.خدا ہے.روح کا بقا ہے ان پر عقلی دلائل تلاش نہیں کرتا بلکہ اس راہ سے ایمان لاتا ہے جو اس کیلئے مقرر ہے.فلاسفر صرف الکل بازی سے کام لیتے ہیں وہ قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے.ہاں انکار کر دیتے ہیں." الحکم نمبر 46 جلد 6 مؤرخہ 24 دسمبر 1902 ء صفحه 12 (۱۵۸) دعا بحرمت مسیح موعود ایک شخص نے عرض کیا کہ بحرمت مسیح موعود کہ کر دعامانگنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:.احیاء کا تو سل جائز ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کی گئی تھی." الحکم نمبر 42 جلد 6 مؤرخہ 24 نومبر 1902 ء صفحه (5) (۱۵۹) قرض کے متعلق دعا ایک شخص نے اپنے قرض کے متعلق دعا کے واسطے عرض کی.فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 127 "استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے." الحکم نمبر 3 جلد 5 مؤرخہ 24 جنوری 1901 ء صفحہ 11) (۱۶۰) ایک دعا اور اس کا جواز میاں محمد دین احمدی کباب فروش لاہور ( حال ساکن موضع دعورہ دھڑی بٹاں ریاست جموں ) نے ایک عریضہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بھیجا جس میں لکھا تھا " یا حضرت میں نے چند روز سے محض رضائے الہی کیلئے جناب باری تعالیٰ میں یہ دعا شروع کی ہے کہ میری عمر میں سے دس سال حضرت اقدس مسیح موعود کو دیجاوے کیونکہ اسلام کی اشاعت کے واسطے میری زندگی ایسی مفید نہیں.کیا ایسی دعا مانگنا جائز ہے؟" ہے." حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا:." ایسی دعا میں مضائقہ نہیں بلکہ ثواب کا موجب اخبار بد نمبر 23 جلد 6 مؤرخہ 6 جون 1907 ء صفحہ 8) فرمایا:.(۱۶۱) استغفار "استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں.قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے.ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں.خدا تعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہو کر اس سے مدد چاہنا.یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفۃ العین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں،اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے.اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے.تا پاک نشو و نما پا کر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا ہے.کیونکہ غفر جس سے استغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.گویا استغفار سے یہ مطلب
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 128 ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اس کی محبت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے اور بشریت کی جڑھ نگی نہ ہونے دے.بلکہ الوہیت کی چادر میں لے کر اپنی قدوسیت میں سے حصہ دے.یا اگر کوئی جڑھ گناہ کے ظہور سے ننگی ہوگئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے.اور اس کی برہنگی کے بداثر سے بچائے." ( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 347,346 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) (۱۶۲) استخاره وسلم فرمایا کہ:." آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے حالانکہ آنحضرت علیم اللہ پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے.سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا.چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لئے لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں ہو کر کوئی کام شروع کر لیتے ہیں اور پھر نہاں در نہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا ہے نقصان اُٹھاتے ہیں.اصل میں یہ استخارہ ان بد رسومات کی عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتداء سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اسے بھول گئے.حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے.بعض لوگ کوئی کام خود ہی اپنی رائے سے شروع کر بیٹھتے ہیں اور پھر درمیان میں آکر ہم سے صلاح پوچھتے ہیں.ہم کہتے ہیں جس علم و عقل سے پہلے شروع کیا تھا اسی سے نبھا ئیں.اخیر میں مشورہ کی کیا ضرورت." ( اخبار بدر نمبر 24 جلد 6 مؤرخہ 13 جون 1907 ء صفحہ 3) (۱۶۳) طریق بیعت سوال ہوا کیا آپ دوسرے صوفیا اور مشائخ کی طرح عام طور پر بیعت لیتے ہیں یا بیعت لینے کیلئے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے؟ فرمایا:." ہم تو امر الہی سے بیعت کرتے ہیں جیسا کہ ہم اشتہار میں بھی یہ الہام لکھ چکے ہیں کہ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ " (الحکم نمبر 19 جلد 5 مؤرخہ 24 مئی 1901ء صفحہ 8)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 129 فرمایا:.(۱۶۴) زمانہ کے موجودہ گدی نشین و پیرزادوں کا حال اس ملک کے گدی نشین اور پیر زادے دین سے ایسے بے تعلق اور اپنی بدعات میں ایسے دن رات مشغول ہیں کہ ان کو اسلام کی مشکلات اور آفات کی کچھ بھی خبر نہیں.ان کی مجالس میں اگر جاؤ تو بجائے قرآن شریف اور کتب حدیث کے طرح طرح کے تنبورے اور سارنگیاں اور ڈھولکیاں اور قوال غیرہ اسباب بدعات نظر آئیں گے.اور پھر باوجود اس کے مسلمانوں کے پیشوا ہونے کا دعویٰ اور اتباع نبوی کی لاف زنی.اور بعض اُن میں سے عورتوں کا لباس پہنتے ہیں اور ہاتھوں میں مہندی لگاتے ہیں اور چوڑیاں پہنتے ہیں اور قرآن شریف کی نسبت اشعار پڑھنا اپنی مجلسوں میں پسند کرتے ہیں.یہ ایسے پرانے زنگار ہیں جو خیال میں نہیں آسکتا کہ دور ہو سکیں.تا ہم خدائے تعالیٰ اپنی قدرتیں دکھائے گا اور اسلام کا حامی ہوگا." (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 80,79 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) (۱۶۵) حضرت مسیح موعود کی بیعت سے پہلے مشائخ کی بیعت ٹوٹ جاتی ہے سوال:.حضور کی بیعت کرنے کے بعد پہلی بیعت اگر کسی سے کی ہو وہ قائم رہتی ہے یا نہیں؟ حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا:." جب انسان میرے ہاتھ پر بیعت تو بہ کرتا ہے تو پہلی ساری بیعتیں ٹوٹ جاتی ہیں.انسان دو کشتیوں میں کبھی پاؤں نہیں رکھ سکتا.اگر کسی کا مرشداب زندہ بھی ہوتب بھی وہ حقائق اور معارف ظاہر نہ کرے گا جو خدا تعالیٰ یہاں ظاہر کر رہا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے ساری بیعتوں کو توڑ ڈالا ہے.صرف مسیح موعود ہی کی بیعت کو قائم رکھا ہے جو خاتم الخلفاء ہو کر آیا ہے.ہندوستان میں جس قدر گدیاں اور مشائخ اور مرشد ہیں سب سے ہمارا اختلاف ہے.بیعت دینی سلسلوں میں ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ قائم کرتا ہے.ان لوگوں کا ہمارے مسائل میں اختلاف ہے اگر ان میں سے کسی کو شک ہو کہ وہ حق پر ہیں تو ہمارے ساتھ فیصلہ کر لیں قرآن شریف کو حکم ٹھہرائیں.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 130 اصل یہ ہے کہ اس وقت سب گدیاں ایک مردہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور زندگی صرف اسی سلسلہ میں ہے جو خدا نے میرے ہاتھ پر قائم کیا ہے.اب کیسا نادان ہوگا وہ شخص جو زندوں کو چھوڑ کر مردوں میں زندگی طلب کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی چاہا تھا کہ ایک زمانہ فیح اعوج کا ہو اور اس کے بعد ہدایت کا بہت بڑا زمانہ آوے چنانچہ ہدایت کے دو ہی بڑے زمانے ہیں جو دراصل ایک ہی ہیں مگر ان کے درمیان ایک وقفہ ہے اس لئے دو سمجھے جاتے ہیں.ایک وہ زمانہ جو پیغمبر خدا یا اللہ کا زمانہ تھا اور دوسرا سیح موعود کا زمانہ اور مسیح موعود کے زمانہ کو رسول اللہ صلی اللہ ہی کا زمانہ قرار دیا گیا ہے اب رسول الله علم اللہ کے زمانہ میں کسی دوسرے کی بیعت کب جائز ہو سکتی اور قائم رہ سکتی ہے.یہ اس شخص کا زمانہ ہے جس کو رسول اللہ علی یا اللہ نے سلام کہا.اب اس کی بیعت کے سوا سب بیعتیں ٹوٹ گئیں." احکم نمبر 30 جلد 6 مؤرخہ 24 اگست 1902، صفحه 7 (۱۶۶) مسیح موعود کو نہ ماننے والے کا فر ہیں یا نہیں ؟؟ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کو نہ ماننے والے کا فر ہیں یا نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.مولویوں سے جا کر پوچھو کہ ان کے نزدیک جو مسیح اور مہدی آنے والا ہے اس کو جو نہ مانے گا اس کا کیا حال ہے.پس میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جو آنے والا تھا.{ ( بدر۲۴ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۶ ) ( یہ اقتباس تا حال اصل ماخذ سے نہیں مل سکا ) (۱۲۷) اپنے صدق دعوئی و منصب خداداد کے متعلق مسیح موعود علیہ السلام کا قسم کھانا ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں لکھا کیا آپ وہی مسیح موعود ہیں جس کی نسبت رسول خدا علام) نے احادیث میں خبر دی ہے خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر آپ اس کا جواب لکھیں.میں (حضرت مولوی عبد الکریم صاحب.ناقل ) نے معمولاً رسالہ تریاق القلوب سے دو ایک ایسے فقرے جو اس کا کافی جواب ہو سکتے تھے لکھ دیئے.وہ شخص اس پر قانع نہ ہوا اور پھر مجھے مخاطب کر کے لکھا کہ " میں چاہتا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 131 ہوں کہ حضرت مرزا صاحب خود اپنے قلم سے قسمیہ لکھیں کہ آیا وہ وہی مسیح موعود ہیں جس کا ذکر احادیث اور قرآن شریف میں ہے.میں نے شام کی نماز کے بعد دوات قلم اور کاغذ حضرت کے آگے رکھ دیا اور عرض کیا کہ ایک شخص ایسا لکھتا ہے حضرت نے فوراً کاغذ ہاتھ میں لیا اور یہ چند سطریں لکھ دیں:." میں نے پہلے بھی اس اقرار مفصل ذیل کو اپنی کتابوں میں قسم کے ساتھ لوگوں پر ظاہر کیا ہے اور اب بھی اس پر چہ میں اس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ نے ان احادیث صحیحہ میں دی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں.وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا." الراقم مرزا غلام احمد عفا اللہ عنہ واید ۷ار اگست ۹۹ء" الحکم نمبر 32 جلد 3 مؤرخہ 09 ستمبر 1899 ، صفحہ 5,4) (۱۶۸) اگر حضرت اقدس کو بزرگ مانا جائے اور بیعت نہ کی جائے ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر آپ کو ہر طرح سے بزرگ مانا جائے اور آپ کے ساتھ صدق اور اخلاص ہومگر آپ کی بیعت میں انسان شامل نہ ہو وے تو اس میں کیا حرج ہے؟ فرمایا:." بیعت کے معنی ہیں اپنے تئیں بیچ دینا اور یہ ایک کیفیت ہے جس کو قلب محسوس کرتا ہے جب کہ انسان اپنے صدق اور اخلاص میں ترقی کرتا کرتا اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اس میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو وہ بیعت کیلئے خود بخود مجبور ہو جاتا ہے اور جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو جائے تو انسان سمجھ لے کہ ابھی اس کے صدق اور اخلاص میں کمی ہے." ( الحکم نمبر 18 جلد 5 مورخہ 17 مئی 1901 ، صفحہ 12 (13) (۱۶۹) جمعه فرمایا:- روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کر کے اس دن کو تعطیل کا دن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 132 ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کا ہر ایک کام بند کر دو اور مسجدوں میں جمع ہو جاؤ اور نماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جو شخص ایسا نہ کرے گاوہ سخت گنہگار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہو اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدرعید کی نماز کی بھی تاکید نہیں.اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے کہ اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیل مسلمانوں میں چلی آئی ہے." الحکم نمبر 3 جلد 7 مؤرخہ 24 جنوری 1903 ء صفحہ 5) (۱۷۰) کیا جماعت جمعہ دو آدمیوں سے ہو سکتی ہے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟ مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ دو سے جماعت ہو جاتی ہے اس لئے جمعہ بھی ہو جاتا ہے.آپ نے فرمایا:.ہاں پڑھ لیا کریں.فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کر کے تعداد پوری کر سکتا ہے." اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14 / مارچ 1907 ، صفحہ 5) (۱۷۱) ایک مسجد میں دو جمعے سوال پیش ہوا کہ بعض مساجد اس قسم کی ہیں کہ وہاں احمدی اور غیر احمدی کو اپنی جماعت اپنے امام کے ساتھ الگ الگ کرا لینے کا اختیار قانوناً یا باہمی مصالحت سے حاصل ہوتا ہے تو ایسی جگہ جمعہ کے واسطے کیا کیا جاوے کیونکہ ایک مسجد میں دو جمعے جائز نہیں ہو سکتے.فرمایا:." جو لوگ تم کو کافر کہتے ہیں اور تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وہ تو بہر حال تمہاری اذان اور تمہاری نماز جمعہ کو اذان اور نماز سمجھتے ہی نہیں اس واسطے وہ تو پڑھ ہی لیں گے اور چونکہ وہ مومن کو کافر کہہ کر بموجب حدیث خود کافر ہو چکے ہیں اس واسطے تمہارے نزدیک بھی ان کی اذان اور نماز کا عدم وجود برابر ہے.تم اپنی اذان کہو اور اپنے امام کے ساتھ اپنا جمعہ پڑھو." (اخبار بدر نمبر 18 جلد 6 مورخہ 02 مئی 1907 ء صفحہ 2)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 133 (۱۷۲) جمعہ کے بعد احتیاطی نماز ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ جمعہ کے بعد احتیاطی پڑھتے ہیں.اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ:." قرآن شریف کے حکم سے جمعہ کی نماز سب مسلمانوں پر فرض ہے.جب کہ جمعہ کی نماز پڑھ لی تو حکم ہے کہ جاؤ اپنے کاروبار کرو.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت میں جمعہ کی نماز اور خطبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بادشاہ مسلمان نہیں ہے.تعجب ہے کہ خود بڑے امن کے ساتھ خطبہ اور نماز جمعہ پڑھتے بھی ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ نہیں ہو سکتا.پھر کہتے ہیں کہ احتمال ہے کہ جمعہ ہوا یا نہیں اس واسطے ظہر کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور اس کا نام احتیاطی رکھا ہے.ایسے لوگ ایک شک میں گرفتار ہیں.ان کا جمعہ بھی شک میں گیا اور ظہر بھی شک میں گئی نہ یہ حاصل ہوا نہ وہ.اصل بات یہ ہے کہ نماز جمعہ پڑھو اور احتیاطی کی کوئی ضرورت نہیں." اخبار بدر نمبر 23 جلد 6 مؤرخہ 6 جون 1907ء صفحہ 8) پھر اس شخص نے جس کا ذکر یکم اگست کی شام میں آیا ہے سوال کیا کہ حضرت احتیاطی نماز کیلئے کیا حکم ہے؟ فرمایا:.احتیاطی نماز کیا ہوتی ہے جمعہ کے تو دو ہی فرض ہیں احتیاطی فرض کچھ چیز نہیں." فرمایا:.لدھیانہ میں ایک بار میاں شہاب الدین بڑے پکے موحد نے جمعہ کے بعد احتیاطی نماز پڑھی.میں نے ناراض ہو کر کہا کہ یہ تم نے کیا کیا تم تو بڑے پکے موحد تھے اس نے کہا میں نے جمعہ کی احتیاطی نہیں پڑھی بلکہ میں نے مار کھانے کی احتیاطی پڑھی ہے." الحکم نمبر 29 جلد 5 مؤرخہ 10 اگست 1901، صفحه 7) (۱۷۳) نماز جمعہ میں عورتیں سوال پیش ہوا کہ نماز جمعہ کے واسطے اگر کسی جگہ صرف ایک دو مر داحمدی ہوں اور کچھ عورتیں ہوں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 134 تو کیا یہ جائز ہے کہ عورتوں کو جماعت میں شامل کر کے نماز جمعہ ادا کی جائے.حضرت نے فرمایا کہ:." جائز ہے." (اخبار بدر نمبر 36 جلد 6 مؤرخہ 05 ستمبر 1907 ءصفحہ 3) (۱۷۴) غیر مستطیع کی قربانی ایک شخص کی عرضی پیش ہوئی کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی.مگر ان لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کر دیا ہے کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہو جائے گی ؟ فرمایا:.قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہو سکتی.اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکرا قربانی کرو.اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیں تو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں ہے.اخبار بدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 صفحہ 8) (۱۷۵) قربانی کا بکرا کتنی عمر کا ہو سوال پیش ہوا.ایک سال کا بکرا بھی قربانی کیلئے جائز ہے؟ فرمایا:." مولوی صاحب سے پوچھ لو.اہلحدیث و حنفاء کا اس میں اختلاف ہے." مولوی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ دو سال سے کم کا بکرا قربانی کیلئے اہلحدیث کے نزدیک جائز نہیں.(نوٹ از ایڈیٹر صاحب اخبار بدر ) اخبار بدر نمبر 3 جلد 7 مؤرخہ 23 جنوری 1908 ء صفحہ 2) (۱۷۶) قربانی کا جانور ناقص ہے ایک شخص نے حضرت سے دریافت کیا کہ اگر جانور مطابق علامات مذکورہ در حدیث نہ ملے تو کیا ناقص کو ذبح کر سکتے ہیں؟ فرمایا:.مجبوری کے وقت تو جائز ہے مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے انسان تلاش کر سکتا ہے اور دن کافی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 135 ہوتے ہیں خواہ مخواہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز نہیں." (اخبار بدر نمبر 3 جلد 7 مؤرخہ 23 جنوری 1908 ، صفحہ 2 (۱۷۷) گوشت قربانی غیر مسلم کو دینا میاں اسماعیل صاحب ساکن ترگڑی کا ایک تحریری سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا:." صدقہ کے واسطے مسلم یا غیر مسلم کی قید ضروری نہیں.کا فرمحتاج مسکین کو بھی صدقہ دیا جا سکتا ہے.ایسا ہی دعوت کے واسطے بھی جائز ہے کہ تالیف قلوب کے واسطے غیر مسلم کی دعوت کی جاوے." (اخبار بدر نمبر 1 جلد 6 مؤرخہ 10 جنوری 1907 ء صفحہ 18 (۱۷۸) غیروں کے ساتھ مل کر قربانی ایک شخص نے سوال پیش کیا کہ کیا ہم غیر احمدیوں کے ساتھ مل کر یعنی تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئی جانور مثلاً گائے ذبح کریں تو جائز ہے؟ فرمایا:.ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ تم غیروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو اگر تم پر قربانی فرض ہے تو بکرا ذبح کر سکتے ہو اور اگر اتنی بھی توفیق نہیں تو پھر تم پر قربانی فرض ہی نہیں.وہ غیر جو تم کو اپنے سے نکالتے ہیں اور کا فرقرار دیتے ہیں وہ تو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ ان کے ساتھ شامل ہو.خدا پر توکل کرو." اخبار بدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 ء صفحہ 8) (۱۷۹) حلت خرگوش خرگوش کی حلت حرمت پر سوال کیا گیا.فرمایا:.خرگوش ، اس کی حرمت خدا نے بیان نہیں کی اور نہ احادیث میں اس کا ذکر ہے." الحکم نمبر 41 جلد 6 مؤرخہ 17 نومبر 1902 صفحہ 3) (۱۸۰) وجودیوں کا ذبیحہ حلال ہے ایک شخص نے سوال کیا کہ ہمارے شہر میں وجودی فرقہ کے لوگ کثرت سے ہیں اور ذبیحہ وغیرہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 136 ان کے ہاتھ سے ہوتا ہے.کیا اس کا کھانا حلال ہے یا نہیں.فرمایا کہ:.بہت تجس کرنا جائز نہیں ہے.موٹے طور پر جو انسان مشرک یا فاسق ہو اس سے پر ہیز کرو.عام طور پر اس طرح تجسس کرنے سے بہت سی مشکلات در پیش آتی ہیں.جو ذبیح اللہ کا نام لے کر کیا جاوے اور اس میں اسلام کے آداب مد نظر ہوں وہ خواہ کسی کا ہو جائز ہے." اس کے بعد فرمایا کہ:."طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وجودی پیدا کہاں سے ہوئے.قرآن شریف اور اسلام میں تو ان کا پتہ نہیں ملتا.مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو صرف دھوکا لگا ہوا ہے جو راستبازا کا برگزرے ہیں وہ اصل میں فنا نظری کے قائل تھے اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون میں توجہ اللہ کی طرف رکھے اور اس قدر فانی اس میں ہو کہ گویا اور کسی شے کی قدرت اور حرکت بذاتہ اسے نظر نہ آوے ہر ایک شے کو فانی جان لے اور اس قدر تصرف الہی کے اور کچھ نہیں ہو رہا.اسی مسئلہ میں غلطی واقعہ ہو کر آخر فنا وجودی تک نوبت آ گئی اور یہ کہنے لگے کہ سوائے خدا کے اور کوئی شے نہیں ہے اپنے آپ کو بھی خدا ماننے لگے.اس خیال سے یہ مذہب پھیلا ہے کہ فنا نظری کے شوق میں اولیاء اللہ سے کچھ ایسے کلمات نکلے ہیں کہ جن کی الٹی تاویل کر کے یہ وجودی فرقہ بن گیا ہے.فنا نظری تک انسان کا حق ہے کہ محبوب میں اور اپنے آپ میں کوئی جدائی نہ سمجھے اور من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی، تاکس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری کا مصداق ہو.کیونکہ محب اور محبوب کا علاقہ فنا نظری کا تقاضا کرتا ہے اور ہر ایک سالک کی راہ میں ہے کہ محبوب کے وجود کو اپنا وجود جانتا ہے لیکن فتا وجودی ایک من گھڑت بات ہے.جسے ذوق شوق محبت صدق اور وفا اور اعمال صالحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے.فنا نظری کی مثال وہی ہے جو ماں اور بچے کی ہے کہ اگر کوئی بچے کو مکی مارے تو درد ماں کو ہوتا ہے.سخت تعلق جو محبت کا ہے یہ اس سے بھی دردناک ہے اور یہ ایک سچی اور حقیقی محبت ہوتی ہے.لیکن وجودی کا مدعا جھوٹا ہے یہ وہ کرے جو خدا پر محیط ہو.وجودی چونکہ ترک ادب کا طریق اختیار کرتا ہے اس لئے طاعت محبت، عبادت الہی سے محروم رہتا ہے." (احکم نمبر 25, 26 جلد 8 مؤرخہ 31 جولائی و 10 راگست 1904ء صفحہ 11) اخبار بدر نمبر 27 جلد 3 مؤرخہ 16 جولائی 1904 ، صفحہ 4)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 137 فرمایا:.(۱۸۱) موانع حج "حج کا مانع صرف زاد راہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند اللہ حج نہ کرنے کیلئے عذر صحیح ہیں چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے.اور نیز ان میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکہ میں امن کی صورت نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً.....خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہو اس جگہ جانے سے پر ہیز کرو.فتنہ کے دنوں میں آنحضرت علی اللہ نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پر ہیز کرو.مواضع فتن سے اپنے تئیں بچانا سنت انبیاء علیہم السلام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ - حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تہلکہ سے بچنے کیلئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں." فرمایا:- ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 416,415 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۱۸۲) جماعت کو وصیت "ہر ایک جو ز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرد.چاہئے کہ زکوۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوۃ بھیجے اور ہر ایک شخص فضولیوں سے اپنے تئیں بچاوے اور اس راہ میں وہ روپیہ لگا دے اور بہر حال صدق دکھاوے تا فضل اور روح القدس کا انعام پاوے." فرمایا:.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15 و83 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۱۸۳) ہمسایہ فاقہ میں ہو تو شرعاج جائز نہیں "اگر کسی کا ہمسایہ فاقہ میں ہو تو اس کیلئے شرعا حج جائز نہیں مقدم ہمدردی اور اس کی خبر گیری ہے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 138 کیونکہ حج کے اعمال بعد میں آتے ہیں مگر آج کل عبادات کی اصل غرض اور مقصد کو ہرگز مد نظر نہیں رکھا جا تا بلکہ عبادات کو رسوم کے رنگ میں ادا کیا جاتا ہے اور وہ نری رسمیں ہی رہ گئی ہیں.یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں حاجیوں کے متعلق بدظنیاں پیدا ہوئی ہوئی ہیں.کہتے ہیں ایک اندھی عورت بیٹھی تھی کوئی شخص آیا اور اس کی چادر چھین کر لے گیا وہ عورت چلائی کہ بچہ ! حاجیا ! میری چادر دے جا.اس نے اس سے پوچھا کہ مائی تو یہ تو بتا کہ یہ کیونکر تجھے معلوم ہوا کہ میں حاجی ہوں.اس نے کہا تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے کام حاجی ہی کرتے ہیں.پس اگر ایسی ہی حالت ہو تو پھر ایسے حج سے کیا فائدہ؟ حج میں قبولیت ہو کیونکر جب کہ گردن پر بہت سے حقوق العباد ہوتے ہیں ان کو تو ادا کرنا چاہئیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا فلاح نہیں ہوتی جب تک نفس کو پاک نہ کرے اور نفس تب ہی پاک ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے احکام کی عزت اور ادب کرے اور ان راہوں سے بچے جو دوسرے کے آزار اور دکھ کا موجب ہوتی ہیں." الحکم نمبر 33 جلد 9 مورخہ 24 ستمبر 1905 صفحہ 9) (۱۸۴) متوفی کا حج دوسرے آدمی کے ذریعہ سے خوشاب سے ایک مرحوم احمدی کے ورثاء نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ مرحوم کا ارادہ پختہ حج پر جانے کا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی.کیا جائز ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی آدمی خرچ دے کر بھیج دیا جاوے.فرمایا:."جائز ہے اس سے متوفی کو ثواب حج کا حاصل ہو جائے گا." فرمایا:.اخبار بدر نمبر 18 جلد 6 مورخہ 02 مئی 1907 ء صفحہ 2) (۱۸۵) زکوۃ کیا ہے؟ زکوۃ کیا ہے؟ يُؤْخَذُ مِنَ الْامَرَاءِ وَيُرَدُّ إِلَى الْفُقَرَاء امراء سے لے کر فقراء کو دی جاتی ہے.اس میں اعلیٰ درجہ کی ہمدردی سکھائی گئی تھی.اس طرح سے باہم گرم سرد ملنے سے مسلمان سنبھل جاتے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 139 ہیں.امراء پر یہ فرض ہے کہ وہ ادا کریں.اگر نہ بھی فرض ہوتی تو بھی انسانی ہمدردی کا تقاضا تھا کہ غرباء کی مدد کی جاوے.مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمسایہ اگر فاقہ مرتا ہوتو پروا نہیں.اپنے عیش و آرام سے کام ہے.جو بات خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے میں اس کے بیان کرنے سے نہیں رک سکتا.انسان میں ہمدردی اعلیٰ درجہ کا جوہر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ یعنی تم ہرگز ہرگز اس نیکی کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو.یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کا نہیں کہ مثلا کسی ہندو کی گائے بیمار ہو جاوے اور وہ کہے کہ اچھا اس کو منس ( راہ خدا پر دینا ) دیتے ہیں.بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ باسی اور سڑی کیسی روٹیاں جو کسی کام نہیں آسکتی ہیں فقیروں کو دیدیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے خیرات کر دی ہے.ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں اور نہ ایسی خیرات مقبول ہو سکتی ہے وہ تو صاف طور پر کہتا ہے کسن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ حقیقت میں کوئی نیکی نیکی نہیں ہو سکتی جب تک اپنے پیارے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی اشاعت اور اس کی مخلوق کی ہمدردی کیلئے خرچ نہ کرو." اس موقع پر ایک بھائی نے عرض کی کہ حضور بعض فقیر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی باسی روٹی دیدو.پھٹا پرانا کپڑا دید و وہ مانگتے ہی پرانا اور باسی ہیں؟ فرمایا:." کیا تم نئی دیدو گے؟ وہ کیا کریں جانتے ہیں کہ کوئی نئی نہیں دے گا اس لئے وہ ایسا سوال کرتے ہیں.جہاں تک ہو سکے مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کرو." (احکام نمبر 33 جلد 9 مؤرخہ 24 /ستمبر 1905 ء صفحہ 9) (۱۸۶) سید کیلئے زکوة سوال ہوا کہ غریب سید ہو تو کیا وہ زکوۃ لینے کا مستحق ہوتا ہے؟ فرمایا:." اصل میں منع ہے.اگر اضطراری حالت ہو فاقہ پر فاقہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں جائز ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِلَّا مَا اضْطُرِ رُتُمُ إِلَيْهِ (۸/۱ ) حدیث سے فتویٰ تو یہ ہے کہ نہ دینی چاہئے.اگر سید کو اور قسم کا رزق آتا ہو تو اسے زکوۃ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے.ہاں اگر اضطراری حالت ہو تو اور بات ہے." الحکم نمبر 30 جلد 11 مؤرخہ 24 /اگست 1907 ء صفحه (5)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 140 (۱۸۷) معلق مال کی زکوة ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتا ہے اور اگراہی میں پڑا ہوتا ہے اس پر زکوۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا:." جو مال معلق ہے اس پر ز کو نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آجائے لیکن تاجر کو چاہئے کہ حیلہ بہانہ سے زکوۃ کو نہ ٹال دے.آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتا ہے.تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلق پر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوۃ دے کر خدا تعالی کو خوش کرتا رہے.بعض لوگ خدا کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں یہ درست نہیں ہے." (الحکم نمبر 25 جلد 11 مورخہ 17 / جولائی 1907ء صفحہ 12 ) فرمایا: - (۱۸۸) زیور کی زکوۃ بعض عورتیں زکوۃ دینے کے لائق ہیں اور بہت سا زیور ان کے پاس ہے مگر وہ زکوۃ نہیں " ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 2 مؤرخہ 02 اگست 1906ء صفحه 12 بعض دوستوں کے استفسار پر حضرت اقدس نے زیور کی زکوۃ کے متعلق مفصلہ ذیل سطور لکھی ہیں ، جو تمام احباب کی اطلاع کیلئے شائع کی جاتی ہیں تا اس پر سب کا عمل درآمد ہو."جوز یور پہنا جائے اور کبھی کبھی غریب عورتوں کو استعمال کیلئے دیا جائے بعض کا اس کی نسبت یہ فتویٰ ہے کہ اس کی کچھ زکوۃ نہیں اور جو زیور پہنا جائے اور دوسروں کو استعمال کیلئے نہ دیا جائے اس میں زکوۃ دینا بہتر ہے کہ وہ اپنے نفس کیلئے مستعمل ہوتا ہے.اسی پر ہمارے گھر میں عمل کرتے ہیں اور ہر سال کے بعد اپنے موجودہ زیور کی زکوۃ دیتے ہیں اور جوز یوروپیہ کی طرح جمع رکھا جائے اس کی زکوۃ میں کسی کو بھی اختلاف نہیں." الحکم نمبر 40 جلد 9 مؤرخہ 17 نومبر 1905ء صفحہ 11)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 141 (۱۸۹) مکانات و جواہرات پر زکوة خط سے سوال پیش ہوا کہ مکان میں میرا پانچ سو روپیہ کا حصہ ہے اس حصہ میں مجھ پر زکوۃ ہے یا نہیں.حضرت نے فرمایا:." جواہرات و مکانات پر کوئی زکوۃ نہیں ہے." (الحکم نمبر 7 جلد 11 مؤرخہ 24 فروری 1907ء صفحہ 13 ) (۱۹۰) مکان اور تجارتی مال پر زکوة ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ:." مکان خواہ کتنے ہزار روپیہ کا ہو اس پر زکوۃ نہیں اگر کرایہ پر چلتا ہو تو آمد پر زکوۃ ہے ایسا ہی تجارتی مال پر جو مکان میں رکھا ہے زکوۃ نہیں.حضرت عمر چھ ماہ کے بعد حساب کر لیا کرتے تھے اور روپیہ پر زکوۃ لگائی جاتی تھی." (اخبار بدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 ء صفحہ 8) (۱۹۱) قرض پر زکوۃ ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو روپیہ کسی شخص نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہے کیا اس پر اس کو زکوۃ دینی لازم ہے.فرمایا:."نہیں" فرمایا:- (اخبار بدر نمبر 8 جلد 6 مؤرخہ 21 فروری 1907 ء صفحہ 5) (۱۹۲) وجه تسمیه رمضان رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کیلئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے.روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا.اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لئے رمضان کہلایا.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 142 میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے.کیونکہ عرب کیلئے یہ خصوصیت نہیں ہوسکتی.روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے.رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں." "" فرمایا:.الحکم نمبر 27 جلد 5 مؤرخہ 24 جولائی 1901 ، صفحہ 2) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ سے ہی ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.صوفیوں نے اس مہینہ کو تنویر قلب کیلئے عمدہ لکھا ہے.اس میں کثرت سے مکاشفات ہوتے ہیں.نماز تزکیہ نفس کرتی ہے اور روزہ سے تجلی قلب ہوتی ہے.تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جاوے اور تجلی قلب سے مکاشفات ہوتے ہیں جن سے مومن خدا کو دیکھ لیتا ہے انزل فيه القرآن میں یہی اشارہ ہے.بیشک روزہ کا اجر، اجر عظیم ہے مگر امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم کر دیتے ہیں.روزہ کے بارہ میں خدا فرماتا ہے اَنْ تَصُومُوا خَيْر لَكُمْ یعنی اگر تم روزہ رکھ ہی لیا کرو تو تمہارے لئے اس میں بڑی خیر ہے." الحکم نمبر 44 جلد 6 مؤرخہ 10 دسمبر 1902 ، صفحہ 9 (۱۹۳) نماز تراویح اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اُٹھنے اور نماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عموماً محنتی مزدور زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اول شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دیا جاوے تو کیا یہ جائز ہوگا ؟ حضرت نے جواب فرمایا:." کچھ حرج نہیں پڑھ لیں." اخبار بدر نمبر 42 جلد 2 مؤرخہ 18 اکتوبر 1906 ء صفحہ 4) (۱۹۴) فدیہ توفیق روزہ کا موجب ہے فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 143 ایک بار میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس کیلئے مقرر ہے تو معلوم ہوا یہ اس لئے ہے کہ اس سے روزہ کی توفیق ملے.خدا ہی کی ذات ہے جو تو فیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا ہی سے طلب کرنی چاہئے وہ قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی طاقت روزہ عطا کر سکتا ہے.اس لئے مناسب ہے کہ ایسا انسان جو دیکھے کہ روزہ سے محروم رہا جاتا ہوں تو دعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال رہوں یا نہ رہوں یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ.اس لئے اس سے توفیق طلب کرے، مجھے یقین ہے کہ ایسے قلب کو خدا طاقت بخش دے گا.اگر خدا چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں.میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں مجھے محروم نہ رکھ تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا اور اسی حالت میں اگر رمضان میں بیمار ہو جاوے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہو جاتی ہے کیونکہ کام کا مدار نیت پر ہے.مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کر دے.جو شخص کہ روزہ سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا، اس کا دل اس بات کیلئے گریاں ہے تو فرشتے اس کیلئے روزہ رکھیں گے بشر طیکہ وہ بہانہ جو نہ ہو، تو خدا تعالیٰ ہرگز اسے ثواب سے محروم نہ رکھے گا.یہ ایک بار یک امر ہے.اگر کسی شخص پر اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا آدمی جو خدائی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے کب اس ثواب کا مستحق ہوگا.ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور اس کا منتظر ہی تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزہ سے محروم نہیں ہے.اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں، ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں.بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش لیتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے.تکلف کا باب تو بہت وسیع ہے اگر انسان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 144 چاہے تو اس کی رو سے ساری عمر بیٹھ کر ہی نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل نہ رکھے.مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے.خدا جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا اسے اصل ثواب سے بھی زیادہ دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شے ہے.حیلہ جو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شے نہیں." فرمایا:.الحکم نمبر 44 جلد 6 مؤرخہ 10 دسمبر 1902 ، صفحہ 9) (۱۹۵) تاثیرات روز ہ و حضرت مسیح موعود کا التزام صوم ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کیلئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے، اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے.پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگوا تا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو، جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کیلئے تاکید کر دی تھی، دید یتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گزارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کو کسی کو خبر نہ تھی.اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ کو مع حسنین و علی رضی اللہ عنہ وفاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی.غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش و دلستاں طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے.ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 145 اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی.یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے.غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے." فرمایا:.کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 197 تا 199 حاشیہ، مطبوعہ نومبر 1984ء) "جب میں نے چھ ماہ کے روزے رکھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے کشف میں ملا اور انہوں نے کہا کہ تو نے کیوں اپنے نفس کو مشقت میں ڈالا ہوا ہے اس سے باہر نکل.اس طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کر کے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہے مگر جو لوگ تکلف سے اپنے آپ کو مشقت سے محروم رکھتے ہیں خدا ان کو دوسری مشقت میں ڈالتا ہے اور نکالتا نہیں اور دوسرے جو خود مشقت میں پڑتے ہیں ان کو وہ آپ نکالتا ہے.انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے بلکہ ایسا بنے کہ خدا اس کے نفس پر شفقت کرے کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا کی شفقت جنت.ابراہیم علیہ السلام کے قصہ پر غور کرو کہ جو آگ میں خود گرنا چاہتا ہے اسے تو وہ خدا آگ سے بچاتا ہے اور جو خود آگ سے بچنا چاہتے ہیں وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں.یہ اسلم ہے اور یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آوے اس کا انکار نہ کرے.اگر آنحضرت علیل یا اللہ اپنی عظمت کی فکر میں خود لگتے تو وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس کی آیت نازل نہ ہوتی.حفاظت الہی کا یہی سر ہے." الحکم نمبر 44 جلد 6 مؤرخہ 10 دسمبر 1902 ء صفحہ 9) (۱۹۶) کیا سفر میں روزہ رکھیں آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کیلئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 146 " قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا کہ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أيام أخر یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے، اس میں امر ہے.یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے.میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ اخر کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے.سفر میں تکالیف اُٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے، اس کی اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا یہ غلطی ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے." الحکم نمبر 4 جلد 3 مؤرخہ 31 / جنوری 1899 صفحہ 7) (۱۹۷) بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:.جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.مرض سے صحت پائے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے.خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے.کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو.بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے.مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتوی لازم آئے گا." فرمایا:.اخبار بدر نمبر 42 جلد 6 مؤرخہ 17 اکتوبر 1907ء صفحه 7 (۱۹۸) روزه و خدمت والدین " حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں.ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 147 کے گناہ بخشے نہ گئے.والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم وغنم والدین اُٹھاتے ہیں جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اُٹھاتی ہے کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو ماں اس کو چھوڑ نہیں سکتی.ہماری لڑکی کو ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا تھا ہمارے گھر سے اس کی تمام قے وغیرہ اپنے ہاتھ پر لیتی تھیں.ماں سب تکالیف میں بچہ کے شریک ہوتی ہے، یہ طبعی محبت ہے جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کر سکتی." اخبار بدر نمبر 9 جلد 1 مؤرخہ یکم جون 1905 ، صفحہ 2 ایک شخص نے سوال کیا کہ یا حضرت والدین کی خدمت اور ان کی فرمانبرداری اللہ نے انسان پر فرض کی ہے.مگر میرے والدین حضور کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کی وجہ سے مجھ سے سخت بیزار ہیں اور میری شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے چنانچہ جب میں حضور کی بیعت کے واسطے آنے کو تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم سے خط و کتابت بھی نہ کرنا اور اب ہم تمہاری شکل کبھی دیکھنا پسند نہیں کرتے.اب میں اس فرض الہی کی تعمیل سے کس طرح سبکدوش ہوسکتا ہوں.فرمایا کہ:." قرآن شریف جہاں والدین کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کا حکم دیتا ہے وہاں یہ بھی فرماتا ہے کہ رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِى نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُورًا ( بى اسرائیل رکوع ۳) اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے.اگر تم صالح ہو تو وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے واسطے غفور ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بعض ایسے مشکلات آگئے تھے کہ دینی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ان کے والدین سے نزاع ہوگئی تھی.بہر حال تم اپنی طرف سے ان کی خیریت اور خبر گیری کے واسطے ہر وقت تیار رہو جب کوئی موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ دو تمہاری نسیت کا ثواب تم کو مل رہے گا.اگر محض دین کی وجہ سے اللہ کی رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدین سے الگ ہونا پڑا ہے تو یہ ایک مجبوری ہے.اصلاح کو مد نظر رکھو اور نیت کی صحت کا لحاظ رکھو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو.یہ معاملہ کوئی آج نیا نہیں پیش آیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا.بہر حال خدا کا حق مقدم ہے.پس خدا کو مقدم کرو اور اپنی طرف سے والدین کے حقوق ادا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 148 کرنے کی کوشش میں لگے رہو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو اور صحت نیت کا خیال رکھو." الحکم نمبر 16 جلد 12 مؤرخہ 29 فروری 1908 ، صفحہ 4 (۱۹۹) والدہ کی اطاعت ایک دوست نے خط کے ذریعہ اس امر کا استفسار کیا کہ میری والدہ میری بیوی سے ناراض ہے اور مجھے طلاق کے واسطے حکم دیتی ہے.مگر مجھے بیوی سے کوئی رنجش نہیں.میرے لئے کیا حکم ہے.فرمایا:- " والدہ کا حق بہت بڑا ہے اور اس کی اطاعت فرض.مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا اس ناراضگی کی تہ میں کوئی اور بات تو نہیں ہے جو خدا کے حکم کے بموجب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذمہ کرتی ہو.مثلاً اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو تو اس کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی ایسا مشروع امر ممنوع نہیں ہے جب تو وہ خود واجب طلاق ہے.اصل میں بعض عورتیں محض شرارت کی وجہ سے ساس کو دکھ دیتی ہیں.گالیاں دیتی ہیں.ستاتی ہیں.بات بات میں اس کو تنگ کرتی ہیں.والدہ کی ناراضگی بیٹے کی بیوی پر بے وجہ نہیں ہوا کرتی.سب سے زیادہ خواہش مند بیٹے کے گھر کی آبادی کی والدہ ہوتی ہے.اور اس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے.بڑے شوق سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے خدا خدا کر کے بیٹے کی شادی کرتی ہے تو بھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آسکتی ہے کہ وہ بے جاطور سے اپنے بیٹے کی بہو سے لڑے جھگڑے اور خانہ بربادی چاہے.ایسے لڑائی جھگڑوں میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ والدہ ہی حق بجانب ہوتی ہے.ایسے بیٹے کی بھی نادانی اور حماقت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ والدہ تو ناراض ہے مگر میں ناراض نہیں ہوں.جب اس کی والدہ ناراض ہے تو وہ کیوں ایسی بے ادبی کے الفاظ بولتا ہے کہ میں ناراض نہیں ہوں.یہ کوئی سوکنوں کا معاملہ تو ہے نہیں.والدہ اور بیوی کے معاملہ میں اگر کوئی دینی وجہ نہیں تو پھر کیوں یہ ایسی بے ادبی کرتا ہے.اگر کوئی وجہ اور باعث اور ہے تو فوراً اُسے دور کرنا چاہئے.خرچ وغیرہ کے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 149 معاملہ میں اگر والدہ ناراض ہے اور یہ بیوی کے ہاتھ میں خرچ دیتا ہے تو لازم ہے کہ ماں کے ذریعہ سے خرچ کر اوے اور گل انتظام والدہ کے ہاتھ میں دے.والدہ کو بیوی کا محتاج اور دست نگر نہ کرے.بعض عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں.پس سبب کو دور کرنا چاہئے اور جو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹادینا چاہئے اور والدہ کو خوش کرنا چاہئے.دیکھو شیر اور بھیڑئیے اور اور درندے بھی تو بہلانے سے ہل جاتے ہیں اور بے ضرر ہو جاتے ہیں.دشمن سے بھی دوستی ہو جاتی ہے اگر صلح کی جاوے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے." فرمایا:."ایک شخص کی دو بیویاں تھیں.بیویوں میں باہمی نزاع ہو جانے پر ایک بیوی خود بخود بلا اجازت اپنے گھر میکے چلی گئی.وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں طلاق دیدوں.میں نے سوچا کہ یہ معاملات بہت باریک ہوتے ہیں سوکن کو بڑی بڑی تلخیاں اُٹھانی پڑتی ہیں اور بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ بعض عورتیں اپنی مشکلات کی وجہ سے خود کشی کر لیتی ہیں.جس طرح سے دیوانہ آدمی مرفوع القلم ہوتا ہے اسی طرح سے یہ بھی ایسے معاملات کی وجہ سے مرفوع القلم اور واجب الرحم ہوتی ہیں.کیونکہ سوکن کے مشکلات بھی دیوانگی کی حد تک پہنچا دیتے ہیں.اصل بات یہ تھی کہ وہ شخص خود بھی دوسری بیوی کی طرف ذرا زیادہ التفات کرتا تھا اور وہ بیوی بھی اس بیچاری کو کوستی اور تنگ کرتی تھی.آخر مجبور ہو کر اور ان مشکلات کی برداشت نہ کر کے چلی گئی.چنانچہ اس شخص نے خود اقرار کیا کہ واقعی یہی بات تھی اور اپنے ارادہ سے باز آیا.ایسے قصوروں کو تو خود خدا بھی معاف کر دیتا ہے چنانچہ قرآن شریف میں ہے لَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ جوا مرفوق الطاقت اور نا قابل برداشت ہو جاوے،اس سے خدا بھی درگذر کرتا ہے.دیکھو حضرت ہاجرہ کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے، جو کہ مومنین کی دادی تھی.پہلی مرتبہ جب وہ نکالی گئی تو فرشتہ نے اسے آواز دی اور بڑی تسلی دی اور اس سے اچھا سلوک کیا.مگر جب دوسری مرتبہ نکالی گئی تو سوکن نے کہا کہ اس کو ایسی جگہ چھوڑ و جہاں نہ دانہ ہو نہ پانی.اس کی غرض یہی تھی کہ وہ اس طرح سے ہلاک ہوکر نیست و نابود ہو جاوے گی اور حضرت ابراہیم کا ایسا نشاء نہ تھا مگر خدا نے حضرت ابراہیم کو کہا کہ اچھا جس طرح یہ کہتی ہے اسی طرح کیا جاوے اور سارہ کی بات کو مان لے.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 150 اصل میں بات یہ تھی کہ خدا کا منشاء قدرت نمائی کا تھا.توریت میں یہ قصہ مفصل لکھا ہے.بچہ جب بوجہ شدت پیاس رونے لگا تو بیوی ہاجرہ پہاڑ کی طرف پانی کی تلاش میں ادھر اُدھر گھبراہٹ سے دوڑتی بھاگتی پھرتی رہی.مگر جب دیکھا کہ اب یہ مرتا ہے تو بچے کو ایک جگہ ڈال کر پہاڑ کی چوٹی پر دعا کرنے لگ گئی.کیونکہ اس کی موت کو دیکھ نہ سکتی تھی.اسی اثناء میں غیب سے آواز آئی کہ ہاجرہ.ہاجرہ لڑکے کی خبر لے، وہ جیتا ہے.آکر دیکھا تو لڑکا جیتا تھا اور پانی کا چشمہ جاری تھا.اب وہی کنواں ہے جس کا پانی ساری دنیا میں پہنچتا ہے اور بڑی حفاظت اور تعظیم اور شوق سے پیا جاتا ہے." الحکم نمبر 22 جلد 12 مؤرخہ 26 / مارچ 1908 ء صفحہ 4) (۲۰۰) روزه وصال نبوی عليه الا الله ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ آنحضرت علی یا اللہ کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے یا کہ نہیں ؟ فرمایا:."ضروری نہیں ہے." ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14 / مارچ 1907ء صفحہ 5) (۲۰۱) روزه محرم اسی شخص کا سوال پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہے یا کہ نہیں ؟ فرمایا:."ضروری نہیں ہے." (اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14 / مارچ 1907 ، صفحہ 5) (۲۰۲) سفیدی میں نیت روزه ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا اور میرا یقین تھا کہ ہنوز روزہ رکھنے کا وقت ہے اور میں نے کچھ کھا کر روزہ کی نیت کی مگر بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہوگئی تھی.اب میں کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا کہ:.ایسی حالت میں اس کا روزہ ہو گیا ، دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 151 احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں ، صرف غلطی لگ گئی اور چند منٹوں کا فرق پڑ گیا." ( اخبار بدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 ، صفحہ 8 (۲۰۳) روزہ دار کا آئینہ دیکھنا ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:." جائز ہے." ( اخبار بدر نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 07 فروری 1907 صفحہ 4 (۲۰۴) حالت روزہ میں سرو ڈاڑھی کو تیل لگانا اس شخص کا ایک اور سوال پیش ہوا کہ حالت روزہ میں سرکو یا ڈاڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:." جائز ہے." اخبار بدر نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 07 فروری 1907 ء صفحہ 4) (۲۰۵) آنکھ کے بیمار کا روزہ اسی شخص کا ایک اور سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہو تو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:.یہ سوال ہی غلط ہے.بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں." ( اخبار بدر نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 07 فروری 1907 ء صفحه (4) (۲۰۶) غیر مستطیع الصوم کا فدیہ اسی شخص کا یہ سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہئے.اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:."ایک ہی بات ہے.خواہ اپنے شہر میں کسی مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے." ( اخبار بد نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 07 فروری 1907 ء صفحہ 4)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 152 (۲۰۷) دائگی مسافر اور مریض فدیہ دے سکتے ہیں گزشتہ پر چہ اخبار نمبر 42 مؤرخہ 17 اکتوبر 1907ء کے صفحہ 7 کالم اول میں یہ لکھا گیا تھا کہ مریض اور مسافر ایام مرض اور ایام سفر میں روزہ نہ رکھیں بلکہ ان ایام کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد دوسرے دنوں میں بصورت صحت اور قیام ان روزوں کو پورا کریں.اسی عبارت کے اخیر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ "جو مریض اور مسافر صاحب مقدرت ہوں ان کو چاہیے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دیں." اس جگہ مریض اور مسافر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو کبھی امید نہیں کہ پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے.مثلاً ایک نہایت بوڑھا ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جود دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بہ سبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اور سال بھر اسی طرح گزر جائے گا.ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور فدیہ دیں.باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دیکر روزے کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے.چونکہ اخبار بدر کی مذکورہ بالا عبارت صاف نہ تھی اس واسطے یہ مسئلہ دوبارہ حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا.آپ نے فرمایا صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے.ور نہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھول دینا ہے.جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں.اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی." ( اخبار بد رنمبر 43 ، جلد 6 مؤرخہ 24 را کتوبر 1907 ء صفحه (3) (۲۰۸) روزہ دار کا خوشبو لگانا سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبولگا نا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:."جائز ہے." اخبار بدر نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 7 فروری 1907 ، صفحہ 4
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 153 ہے.' "" (۲۰۹) روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے؟ فرمایا:." مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے.رات کو سرمہ لگا سکتا اخبار بدر نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 7 فروری 1907 ء صفحه (4) (۲۱۰) گرمی میں مزدور محنتی کا روزہ سوال:.بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں سے جب کہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پر ہے ، روزہ نہیں رکھا جاتا.ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:.الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.یہ لوگ اپنی حالتوں کو خفی رکھتے ہیں.ہر شخص تقوی وطہارت سے اپنی حالت سوچ لے اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے.پھر جب میسر ہور کھ لے." اور وَ عَلَى الَّذِينَ يَطِيقُونَهُ کی نسبت فرمایا کہ " اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے." ( اخبار بدر نمبر 39 جلد 6 مؤرخہ 26 ستمبر 1907 ء صفحہ 7 ) (۲۱۱) اعتکاف ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں؟ فرمایا:.سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کیلئے اور حوائج ضروری کے واسطے باہر جا سکتا ہے." اخبار بدر نمبر 8 جلد 6 مؤرخہ 21 فروری 1907 ء صفحہ 5)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 154 فرمایا:- (۲۱۲) نکاح " آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام میں محض شہوت رانی کی غرض سے نکاح کیا جاتا ہے.ہمیں قرآن نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ پر ہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو اور اولا دصالح طلب کرنے کیلئے دعا کرو جیسا کہ وہ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينِ (الجزء نمبر ۵ یعنی چاہئے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تائم تقویٰ اور پرہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ.ایسا نہ ہو کہ حیوانات کی طرح محض نطفہ نکالنا ہی تمہارا مطلب ہو اور مُحْصِنِینَ کے لفظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی نہیں کرتا وہ نہ صرف روحانی آفات میں گرتا ہے بلکہ جسمانی آفات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے." ( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 19 ایڈیشن اول) (۲۱۳) اغراض وفوائد نکاح فرمایا:." قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں.ایک عفت اور پرہیز گاری.دوسری حفظ صحت.تیسری اولاد.اور پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ (الجزء نمبر ۱۸ ، سورۃ النور ) یعنی جو لوگ نکاح کی طاقت نہ رکھیں جو پر ہیز گار رہنے کا اصل ذریعہ ہے تو ان کو چاہئے کہ اور تدبیروں سے طلب عفت کریں.چنانچہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں آنحضرت علی اللہ فرماتے ہیں کہ جو نکاح کرنے پر قادر نہ ہو اس کیلئے پر ہیز گار رہنے کیلئے یہ تدبیر ہے کہ وہ روزے رکھا کرے اور حدیث یہ ہے يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجُ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاء (صحیح مسلم و بخاری) یعنی اے جوانوں کے گروہ جو کوئی تم میں سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 155 چاہئے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور شرم کے اعضاء کو زنا وغیرہ سے بچاتا ہے ورنہ روزہ رکھو کہ وہ خصی کر دیتا ہے.اب ان آیات اور حدیث اور بہت سی اور آیات سے ثابت ہے کہ نکاح سے شہوت رانی غرض نہیں بلکہ بد خیالات اور بدنظری اور بدکاری سے اپنے تئیں بچانا اور نیز حفظ صحت بھی غرض ہے اور پھر نکاح سے ایک اور غرض بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم میں یعنی سورۃ الفرقان میں اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا یعنی مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزند نیک بخت ہوں اور ہم انکے پیشرو ہوں." فرمایا:.( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 22, 23 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۱۴) تعدد ازدواج " ہمارے اس زمانہ میں بعض خاص بدعات میں عورتیں بھی مبتلا ہیں.وہ تعدد نکاح کے مسئلہ کو نہایت بُری نظر سے دیکھتی ہیں گویا اس پر ایمان نہیں رکھتیں.ان کو معلوم نہیں کہ خدا کی شریعت ہر ایک قسم کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے.پس اگر اسلام میں تعدد نکاح کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسی صورتیں جو مردوں کیلئے نکاح ثانی کیلئے پیش آجاتی ہیں، اس شریعت میں ان کا کوئی علاج نہ ہوتا.مثلاً اگر عورت دیوانہ ہو جائے یا مجزوم ہو جائے یا ہمیشہ کیلئے کسی ایسی بیماری میں گرفتار ہو جائے جو بریکار کر دیتی ہے یا اور کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ عورت قابل رحم ہو مگر بیکار ہو جاوے اور مرد بھی قابل رحم کہ وہ تجرد پر صبر نہ کر سکے تو ایسی صورت میں مرد کے قومی پر یہ ظلم ہے کہ اس کو نکاح ثانی کی اجازت نہ دی جاوے.در حقیقت خدا کی شریعت نے انہیں امور پر نظر کر کے مردوں کیلئے یہ راہ کھلی رکھی ہے اور مجبوریوں کے وقت عورتوں کیلئے بھی راہ کھلی ہے کہ اگر مرد بیکار ہو جاوے تو حاکم کے ذریعہ سے ضلع کرالیں ، جو طلاق کے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 156 قائمقام ہے.خدا کی شریعت دوا فروش کی دکان کی مانند ہے.پس اگر دوکان ایسی نہیں ہے جس میں سے ہر ایک بیماری کی دوامل سکتی ہے تو وہ دوکان چل نہیں سکتی.پس غور کرو کہ کیا یہ سچ نہیں کہ بعض مشکلات مردوں کیلئے ایسی پیش آجاتی ہیں جن میں وہ نکاح ثانی کیلئے مضطر ہوتے ہیں.وہ شریعت کس کام کی جس میں کل مشکلات کا علاج نہ ہو.دیکھو انجیل میں طلاق کے مسئلہ کی بابت صرف زنا کی شرط تھی اور دوسرے صد با طرح کے اسباب جومرداور عورت میں جانی دشمنی پیدا کر دیتے ہیں ان کا کچھ ذکر نہ تھا.اس لئے عیسائی قوم اس خامی کی برداشت نہ کر سکی اور آخر امریکہ میں ایک طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا.سو اب سوچو کہ اس قانون سے انجیل کدھر گئی اور اے عورتو! فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں." فرمایا:- (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ 81,80 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۱۵) خلع اگر عورت مرد کے تعدد ازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم ضلع کراسکتی ہے.خدا کا یہ فرض تھا کہ مختلف صورتیں جو مسلمانوں میں پیش آنے والی تھیں اپنی شریعت میں ان کا ذکر کر دیتا تا شریعت ناقص نہ رہتی.سو تم اے عورتو! اپنے خاوندوں کے ان ارادوں کے وقت کہ وہ دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ کی شکایت مت کرو بلکہ تم دعا کرو کہ خدا تمہیں مصیبت اور ابتلاء سے محفوظ رکھے.بے شک وہ مرد سخت ظالم اور قابل مواخذہ ہے جو دو جو روئیں کر کے انصاف نہیں کرتا.مگر تم خود خدا کی نافرمانی کر کے مورد قہر الہی مت بنو.ہر ایک اپنے کام سے پوچھا جائے گا.اگر تم خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک کیا جاوے گا.اگر چہ شریعت نے مختلف مصالح کی وجہ سے تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا ہے لیکن قضاء وقدر کا قانون تمہارے لئے کھلا ہے.اگر شریعت کا قانون تمہارے لئے قابل برداشت نہیں تو بذریعہ دعا قضاء و قدر کے قانون سے فائدہ اُٹھاؤ کیونکہ قضاء و قدر کا قانون
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 157 شریعت کے قانون پر بھی غالب آجاتا ہے.تقویٰ اختیار کرو.دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ.قومی فخر مت کرو.کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو.خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جوان کی حیثیت سے باہر ہیں.کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.فرمایا:.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ 81 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کیلئے کوئی دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور اس بندہ خدا کو ناحق ستاتے ہیں.ایسی عورتیں اور ایسے ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں کیونکہ اللہ جلشانہ نے اپنی حکمت کا ملہ سے جس میں صد با مصالح ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں.پھر جو شخص اللہ ، رسول کے حکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں بُرا کہا جائے.ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتی ہیں نہایت مردود اور شیطان کی بہنیں اور بھائی ہیں.کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے رب کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں.اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بدذات بیوی ہو تو اسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کیلئے دوسرا نکاح ضرور کرے." فرمایا:.تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 48 ل ، م.مطبوعہ اپریل 1918 ء ) (۲۱۶) بیوہ عورت کا نکاح اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیسا کوئی بڑا بھارا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہوگئی ہوں حالانکہ اس کیلئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے.عورتوں کیلئے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 158 بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے.ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے.ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں.جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے.جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے اس کو چاہئے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یا در کھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے." تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 48 ک.مطبوعہ اپریل 1918ء) فرمایا:.(۲۱۷) اپنے شوہر کی نافرمان عورتیں یہ بھی عورتوں میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ بُرا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں.ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک لعنتی ہیں.ان کا نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجا نہ لائے اور پس پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہو اور پیغمبر خدا علی اللہ نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار ر ہیں.ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بدزبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے.خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہئے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چراویں اور نامحرم سے اپنے تئیں بچاویں.اور یاد رکھنا چاہئے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں، اور جتنے مرد ہیں ان سے پردہ کرنا ضروری ہے.جو عورتیں نامحرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بدکار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں اور ان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 159 کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بدکار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو." تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 48 ک، ل.مطبوعہ اپریل 1918ء) فرمایا:.(۲۱۸) اسلامی پرده اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کیلئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے، وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے." الحکم نمبر 15 جلد 5 مؤرخہ 24 اپریل 1901 ، صفحہ 3 حضرت اُم المومنین کی طبیعت کسی قدر نا ساز رہا کرتی تھی.آپ نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں تو کچھ حرج تو نہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں.اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ:." دراصل میں تو اس لحاظ سے کہ معصیت نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاً جائز ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں، رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کرتا.حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ باہر کی ہوا کھاؤ.گھر کی چار دیواری کے اندر ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں.علاوہ اس کے آنحضرت علية السلم حضرت عائشہ کو لے جایا کرتے تھے.جنگوں میں حضرت عائشہ ساتھ ہوتی تھیں.پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے.یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلید سے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہا دیا ہے اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے.غرض ہم ان دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں." احکم نمبر 6 جلد 8 مؤرخہ 17 فروری 1904 ء صفحه 5)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 160 فرمایا:.(۲۱۹) احمدی جماعت کے ناطوں ورشتوں کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ " چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب ہزاروں تک اس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کیلئے اور نیز ان کو اہل اقارب کے بداثر اور بدنتائج سے بچانے کیلئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاحوں کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے.یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیر ممکن ہو گئے ہیں.جب تک کہ وہ تو بہ کر کے اسی جماعت میں داخل نہ ہوں.اور اب یہ جماعت کسی بات میں ان کی محتاج نہیں.مال میں ، دولت میں علم میں، فضیلت میں، خاندان میں، پر ہیز گاری میں، خدا ترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جو ہمیں کا فر کہتے اور ہمارا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثناخواں اور تابع ہیں.یادر ہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں جب تک پا کی اور سچائی کیلئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہ نہیں ہوگا تب تک وہ ہم میں سے نہیں.سو تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راستباز کیلئے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے اس لئے میں نے انتظام کیا ہے کہ آئندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لڑکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہو اور نیک چلن اور نیزان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 161 کے اطمینان کے موافق لائق ہو.ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں ان پر لازم ہوگا کہ وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں اور ہر ایک کو تسلی رکھنی چاہئے کہ ہم والدین کے بچے ہمدرد اور غمخوار کی طرح تلاش کریں گے اور حتی الوسع یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی جو تلاش کئے جائیں اہل رشتہ کے ہم قوم ہوں یا اگر یہ نہیں تو ایسی قوم میں سے ہوں جو عرف عام کے لحاظ سے با ہم رشتہ داریاں کر لیتے ہوں.اور سب سے زیادہ یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی نیک چلن اور لائق بھی ہوں اور نیک بختی کے آثار ظاہر ہوں.یہ کتاب پوشیدہ طور پر رکھی جائے گی اور وقتا فوقتا جیسی صورتیں پیش آئیں گی اطلاع دی جائے گی اور کسی لڑکے یا لڑکی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہیں کی جائے گی، جب تک اس کی لیاقت اور نیک چلنی ثابت نہ ہو جائے.اس لئے ہمارے مخلصوں پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کی ایک فہرست اسماء بقید عمرو قومیت بھیج دیں تا وہ کتاب میں درج ہو جائے.مندرجہ ذیل نمونہ کا لحاظ رہے:.نام دختر یا پسر نام والد نام شهر بقید محله وضلع عمر دختر یا پسر." فرمایا:.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 51,50 ،مطبوعہ اپریل 1986ء) (۲۲۰) غیر اقوام سے ناطہ "ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کولٹر کی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے.یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے بالکل برخلاف ہے.بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں.رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو.اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں، صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیز گار ہے." ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 2 مؤرخہ 2 راگست 1906 ء صفحہ 12)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 162 فرمایا:.(۲۲۱) پہلی بیوی والے کوٹڑ کی نہ دینا بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں.پس اگر پہلی بیوی موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے.سویا درکھنا چاہئے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ ان عورتوں کے مددگار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں.سو ان کو بھی خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے." فرمایا:.( اخبار بدر نمبر 31 جلد 2 مؤرخہ 2 راگست 1906 ء صفحه 12 (۲۲۲) شادیوں میں بیجا خرچ اور بھاجی تقسیم کرنا " ہماری قوم میں ایک یہ بھی بد رسم ہے کہ شادیوں میں صد ہاروپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے.سو یاد رکھنا چاہئے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا یہ دونو باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتشبازی جلانا اور رنڈی ، بھڑوؤں، ڈوم دہاڑیوں کو دینا یہ سب حرام مطلق ہے.ناحق روپیہ ضائع جاتا ہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے." اخبار بدر نمبر 31 جلد 2 مؤرخہ 2 راگست 1906 ء صفحه 12 (۲۲۳) تنبول میں نے عرض کیا کہ تنبول کی نسبت حضور کا ارشاد؟ فرمایا:." اس کا جواب بھی وہی ہے.اپنے بھائی کی ایک طرح امداد ہے." عرض کیا گیا ، جو تنبول ڈالتے ہیں وہ تو اس نیت سے ڈالتے ہیں کہ ہمیں پانی کے چھ رو پے ملیں اور پھر ای رو پید کو کنجروں پر خرچ کرتے ہیں.فرمایا:." ہمارا جواب تو اصل رسم کی نسبت ہے کہ نفس رسم پر کوئی اعتراض نہیں.باقی رہی نیت سو آپ ہر
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 163 ایک کی نیت سے کیونکر آگاہ ہو سکتے ہیں.یہ تو کمینہ لوگوں کی باتیں ہیں کہ زیادہ لینے کے ارادے سے دیں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کا حساب کریں.ایسے شریف آدمی بھی ہیں جو محض بہ تعمیل حکم تعاون و تعلقات محبت تنبول ڈالتے ہیں اور بعض تو واپس لینا بھی نہیں چاہتے بلکہ کسی غریب کی امداد کرتے ہیں.غرض سب کا جواب ہے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ " اخبار بدر نمبر 3 جلد 6 مؤرخہ 17 جنوری 1907 صفحہ (4) (۲۲۴) نابالغ کے نکاح کا شیخ سوال پیش ہوا کہ اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کا ولی کر دے اور ہنوز وہ نابالغ ہی ہو اور ایسی ضرورت پیش آوے تو کیا طلاق بھی ولی دے سکتا ہے یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ:."دے سکتا ہے." ( اخبار بدر نمبر 30 جلد 6 مؤرخہ 25 جولائی 1907 ء صفحہ 11) (۲۲۵) خدا اور رسول کی حلال کردہ چیزوں میں سب سے بُری چیز فرمایا:." جائز چیزوں میں سے سب سے زیادہ بُرا خدا اور اس کے رسول نے طلاق کو قرار دیا ہے اور یہ صرف ایسے موقعوں کیلئے رکھی گئی ہے جب کہ اشد ضرورت ہو.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے جو رب ہے کہ سانپوں اور بچھوؤں کیلئے خوراک مہیا کی ہے.ویسا ہی ایسے انسانوں کیلئے جن کی حالتیں بہت گری ہوئی ہیں اور جو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتے.طلاق کا مسئلہ بنا دیا ہے کہ وہ اس طرح ان آفات اور مصیبتوں سے بچ جاویں جو طلاق کے نہ ہونے کی صورت میں پیش آئیں یا بعض اوقات دوسرے لوگوں کو بھی ایسی صورتیں پیش آ جاتی ہیں اور ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ سوائے طلاق کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا.پس اسلام نے جو کہ تمام مسائل پر حاوی ہے یہ مسئلہ طلاق کا بھی دکھلایا ہے اور ساتھ ہی اس کو مکر وہ بھی قرار دیا ہے." (اخبار بدر نمبر 38 جلد 6 مؤرخہ 19 ستمبر 1907 صفحہ 7)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 164 (۲۲۶) ادب رسول ایک شخص کا خط پیش ہوا کہ میں ایک عورت سے نکاح کرنا چاہتا تھا مگر خواب میں حضرت رسول کریم علی اللہ نے مجھے منع کیا ہے.اس کی کیا تعبیر ہے؟ فرمایا کہ:.عليه وسلم ممکن ہے کہ اس کی تعبیر خواہ کچھ اور بھی ہو لیکن طریق ادب یہی ہے کہ آنحضرت عبید اللہ نے خواب میں جو کچھ فرمایا ہے.اس پر عمل کیا جاوے." اخبار بدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 ، صفحہ 8 (۲۲۷) افریقہ کی برہنہ عورتوں سے نکاح افریقہ سے ایک دوست نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ اس جگہ کے اصلی باشندہ مردو زن بالکل ننگے رہتے ہیں اور معمولی خوردونوش کی اشیاء کا لین دین، ان کے ساتھ ہی ہوتا ہے تو کیا ایسے لوگوں سے ملنا جلنا گناہ تو نہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ:." تم نے تو ان کو نہیں کہا کہ ننگے رہو ، وہ خود ہی ایسا کرتے ہیں.اس میں تم کو کیا گناہ.وہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے ملک میں بعض فقیر اور دیوانے ننگے پھرا کرتے ہیں.ہاں ایسے لوگوں کو کپڑے پہننے کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہئیے." ایسے ہی لوگوں کی نسبت یہ بھی سوال کیا گیا کہ چونکہ ملک افریقہ میں غریب لوگ بھی ہیں جو نوکری پر با آسانی سستے مل سکتے ہیں.اگر ایسے لوگوں سے کھانا پکوایا جائے تو یہ کیا جائز ہے.یہ لوگ حلال حرام کی پہچان نہیں رکھتے ؟ فرمایا:.اس ملک کے حالات کے لحاظ سے جائز ہے کہ ان کو نو کر رکھ لیا جائے اور اپنے کھانے وغیرہ کے متعلق ان سے احتیاط کرائی جائے." یہ بھی سوال ہوا کہ کیا ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے؟ فرمایا:." اس ملک میں اور ان علاقوں میں بحالت اضطرار ایسی عورتوں سے نکاح جائز ہے لیکن صورت نکاح میں ان کو کپڑے پہنانے اور اسلامی شعار پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے." اخبار بدر نمبر 39 جلد 6 مؤرخہ 26 ستمبر 1907 ء صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 165 فرمایا:.(۲۲۸) ولیمه " شرع شریف میں تو صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے.یعنی چند دوستوں کو کھاناپکا کر کھلا دیوے." ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 2 مؤرخہ 2 راگست 1906 ء صفحه 12 فرمایا:.(۲۲۹) عورتوں کی بدعات و شرک بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کوتا ہی کرتی ہیں.بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجا لاتی ہیں جیسے چیچک کی پوجا.بعض فرضی دیویوں کی پوجا کرتی ہیں.بعض ایسی نیاز میں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں، کوئی مرد نہ کھاوے یا کوئی حقہ نوش نہ کھاوے.بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں مگر یا درکھنا چاہئے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں." ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 2 مؤرخہ 2 اگست 1906 ء صفحه 12 (۲۳۰) مہر کی تعداد مہر کے متعلق ایک نے پوچھا کہ اس کی تعداد کس قدر ہونی چاہئے؟ فرمایا کہ:." تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے.ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کیلئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے، صرف ڈراوے کیلئے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں.نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کے دینے کی.میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازعہ آپڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اس قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے ، تب تک مقرر شدہ نہ دلایا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 166 جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مدنظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بد نیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون." ( اخبار بد نمبر 16 جلد 2 مؤرخہ 8 رمئی 1903ء صفحہ 123 ) مہر کا بخشوانا سوال:.میری بیوی فوت ہو گئی ہے.میں نے مہر نہ اس کو دیا نہ بخشوایا.اب کیا کروں؟ جواب:." مہر اس کا ترکہ ہے اور آپ کے نام قرض ہے.آپ کو ادا کرنا چاہئے.اور اس کی یہ صورت ہے کہ اس کو شرعی حصص کے مطابق اس کے دوسرے مال کے ساتھ تقسیم کیا جاوے جس میں یک حصہ خاوند کا بھی ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے نام پر صدقہ دیا جاوے." (اخبار بدر نمبر 4 جلد 2 مؤرخہ 26 جنوری 1906 صفحہ 6) سودی روپیہ سے زیور بنوانا سوال:.ایک عورت تنگ کرتی ہے کہ سودی روپیہ لے کر زیور بنادو اور اس کا خاوند غریب ہے؟ جواب:.وہ عورت بڑی نالائق ہے جو خاوند کو زیور کیلئے تنگ کرتی ہے اور کہتی ہے کہ سود لے کر بنادے.پیغمبر خدا علی اللہ کو ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا اور آپ کی ازواج نے آپ سے بعض دنیوی خواہشات کی تکمیل کا اظہار کیا تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کو یہ فقیرانہ زندگی منظور نہیں ہے تو تو ان کو کہہ دے کہ آؤ تم کو الگ کر دوں.انہوں نے فقیرانہ زندگی اختیار کی آخر نتیجہ یہ ہوا کہ وہی بادشاہ ہو گئیں.وہ صرف خدا کی آزمائش تھی." سوال : ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی.جواب:." یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چاہئے.اوّل تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر دینا چاہئے.پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر بخش دیتی ہیں، یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے." سوال :.اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے؟
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 167 جواب: - لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اس کا خیال مہر میں ضرور ہونا چاہئے.خاوند کی حیثیت کو مدنظر رکھنا چاہئے.اگر اس کی حیثیت 10 روپے کی نہ ہوتو وہ ایک لاکھ کا مہر کیسے ادا کرے گا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مہر ہی نہیں یہ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا مِیں داخل ہے." ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 3 مؤرخہ 16 / مارچ 1904 ء صفحہ 6) ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتی تھی تو اپنی نصف نیکیاں مجھے دیدے تو بخش دوں.خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں.اب وہ عورت مر گئی ہے خاوند کیا کرے؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دیدے.اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں سے ہے.شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علی ہذا القیاس خاوند بھی لے سکتا ہے." اخبار بدر نمبر 7 جلد 4 مؤرخہ 5 / مارچ 1905 ء صفحہ 2) (۲۳۱) فاسقہ کو حق وراثت ایک شخص نے بذریعہ خط حضرت سے دریافت کیا کہ ایک شخص مثلاً زید نام لا ولد فوت ہو گیا ہے.زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کی حین حیات میں بیاہی گئی تھی.بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مر گیا.زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے با قاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جو کہ نا جائز ہے.زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہئے؟ حضرت نے فرمایا کہ:." اس کو حصہ شرعی ملنا چاہئے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہو جانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہو سکتا.شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہئے.باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے.اس کا پہلا خاوند بذریعہ گورنمنٹ باضابطہ کا رروائی کر سکتا ہے، اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا." ( اخبار بدر نمبر 39 جلد 6 مؤرخہ 26 ستمبر 1907 صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 168 (۲۳۲) ایک ناطہ کے متعلق فتویٰ مسئلہ:.ایک لڑکی کے دو بھائی تھے اور ایک والدہ.ایک بھائی اور والدہ ایک لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کے نکاح کیلئے راضی تھے.مگر ایک بھائی مخالف تھا وہ اور جگہ رشتہ پسند کرتا تھا اور لڑکی بھی بالغ تھی.اس کی نسبت مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اس لڑکی کا نکاح کہاں کیا جاوے؟ حضرت اقدس نے دریافت کیا کہ:."وہ لڑکی کس بھائی کی رائے سے اتفاق کرتی ہے؟" جواب دیا گیا کہ اپنے اس بھائی کے ساتھ جس کے ساتھ والدہ بھی متفق ہے.فرمایا:." پھر وہاں ہی اس کا رشتہ ہو جہاں لڑکی اور اس کا بھائی دونوں متفق ہیں." پھر نکاحوں پر ذکر چل پڑا کہ آنحضرت صلی اللہ نے اپنی لڑکیوں کے رشتے ابولہب سے کر دئیے تھے حالانکہ وہ مشرک تھا مگر اس وقت تک نکاح کے متعلق وحی کا نزول نہ ہوا تھا.چونکہ پیغمبر خدا صلی اللہ پر تو حید غالب تھی اس لئے دخل نہ دیتے تھے اور قومیت کے لحاظ سے بعض امور کو سرانجام دیتے اس لئے ابولہب کولر کی دے دی تھی.رسول عالم الغیب ہوتا ہے کہ نہیں ؟ اس پر فرمایا کہ:.اگر آنحضرت علی اللہ کوعلم غیب ہوتا تو آپ زینب کا نکاح زید سے نہ کرتے کیونکہ بعد کو جدائی نہ ہوتی اور اسی طرح ابولہب سے بھی رشتہ نہ کرتے." ( اخبار بدر نمبر 25 جلد 2 مؤرخہ 10 جولائی 1903 صفحہ 193 ) (۲۳۳) برات کے ساتھ باجا میاں اللہ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو براتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں.اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں؟.فرمایا:." فقہا نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لئے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے.ہم کو مقصود بالذات لینا چاہئے.اعلان کیلئے یہ کام
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 169 کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلمی کا اظہار مقصود ہے.دیکھا گیا ہے کہ بعض چپ چاپ شادیوں میں نقصان پیدا ہوئے ہیں یعنی جب مقدمات ہوئے ہیں تو اس قسم کے سوالات اٹھائے گئے ہیں.غرض ان خرابیوں کے روکنے کیلئے اور شہادت کیلئے اعلان بالدف جائز ہے.اور اس صورت میں باجا بجانا منع نہیں ہے بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں دراصل یہ بھی اس غرض کیلئے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو.مگر اب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں اور پیدا کی گئی ہیں.پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کیلئے ضروری امور ہیں.یادرکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی.کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے.....اور باجا بجانا بھی اسی صورت میں جائز ہے جب کہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جاوے اور نسب محفوظ رہے کیونکہ اگر نسب محفوظ نہ رہے تو زنا کا اندیشہ ہوتا ہے جس پر خدا نے بہت ناراضی ظاہر کی ہے.یہاں تک کہ زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے اعلان کا انتظام ضروری ہے.البتہ ریا کاری فستق، فجور کیلئے یا صلاح و تقوی کے خلاف کوئی منشا ہو تو منع ہے.شریعت کا مدار نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے.لا يُكلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - باجہ کے متعلق حرمت کا کوئی نشان بجز اس کے کہ وہ صلاح و تقویٰ کے خلاف اور ریا کاری اور فسق و فجور کیلئے ہے پایا نہیں جاتا اور پھر اعلان بالدف کو فقہاء نے جائز رکھا ہے اور اصل اشیاء حلت ہے اس لئے شادی میں اعلان کیلئے جائز ہے." فرمایا:- الحکم نمبر 37 جلد 6 مؤرخہ 17 اکتوبر 1902 ء صفحہ 8,7) (۲۳۴) شادی میں آتش بازی و تما شا و با جا آتش بازی اور تما شا و غیرہ یہ بالکل منع ہیں کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں " الحکم نمبر 37 جلد 6 مؤرخہ 17 اکتوبر 1902 ء صفحہ 8)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکر رآتش بازی کے متعلق فرمایا کہ:.170 "اس میں ایک جز وگندھک کا بھی ہوتا ہے اور گندھک وبائی ہوا صاف کرتی ہے.چنانچہ آج کل طاعون کے ایام میں مثلاً انار بہت جلد ہوا کو صاف کرتا ہے.اگر کوئی شخص صحیح نیت اصلاح ہوا کے واسطے ایسی آتش بازی جس سے کوئی خطرہ نقصان کا نہ ہو چلا وے تو ہم اس کو جائز سمجھتے ہیں.مگر یہ شرط اصلاح نیت کے ساتھ ہو کیونکہ تمام نتائج نیت پر مترتب ہوتے ہیں.حدیث میں آیا ہے کہ صحابی نے گھر بنوایا اور آپ کو مجبور کیا کہ آپ اس میں قدم ڈالیں.آپ نے اس مکان کو دیکھا.اس کے ایک طرف کھڑکی تھی.آپ نے دریافت کیا یہ کس لئے بنائی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ٹھنڈی ہوا کے آنے کے واسطے.آپ نے فرمایا کہ اگر تو اذان سننے کے واسطے اس کی نیت رکھتا تو ہوا تو آہی جاتی اور تیری نیت کا ثواب بھی تجھے مل جاتا." فرمایا:- الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ء صفحہ 10 ) "ہمارے دین میں دین کی بنا یسر پر ہے، عسر پر نہیں.اور پھر إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ضروری چیز ہے.باجوں کا وجود آنحضرت علی یا اللہ کے زمانہ میں نہ تھا.اعلاج نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو عليه وسلم جائز ہے بلکہ بعض صورتوں میں ضروری شے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے اور پھر وراثت پر اثر پڑتا ہے.اس لئے اعلان کرنا ضروری ہے.مگر اس میں کوئی ایسا امر نہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو.رنڈی کا تماشا، آتش بازی فسق و فجور اور اسراف ہے.یہ جائز نہیں." باجے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے گھر سے چلتی ہے کیا اسی وقت سے با جابجتا جاوے یا نکاح کے بعد؟ فرمایا:.ایسے سوالات اور جزی در جزی نکالنا بے فائدہ ہے.اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے.اگر اپنی شان و شوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی باجا بجتا جاوے تو کچھ حرج نہیں ہے.اسلامی جنگوں میں بھی تو با جابجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہوتا ہے." الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ء صفحہ 10)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 171 فرمایا:.(۲۳۵) شادی میں لڑکیوں کا گانا سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں وہ کیسا ہے؟ اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے.اگر گیت گندے اور نا پاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے.رسول اللہ صلی اللہ جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے.مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمر نے ان کو منع کیا.اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ کے سامنے پڑھے ہیں تو آپ نے منع نہیں کیا.بلکہ آپ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو آپ نے اس کیلئے رحمتہ اللہ فرمایا.اور جس کو آپ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہو جایا کرتا تھا.غرض اس طرح پر اگر وہ فسق و فجور کے گیت نہ ہوں تو منع نہیں.مگر مردوں کو نہیں چاہئے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں.یہ یاد رکھو کہ جہاں ذرا بھی منہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے.بزهد و ورع کوش وصدق و صــفـــــا ولیکن میفزا ن میفزائی بر م ر مصطفی ی ایسی باتیں ہیں کہ انسان ان میں خود فتویٰ لے سکتا ہے.جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے، مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے، وہ منع ہے.اور پھر جو اسراف کرتا ہے وہ سخت گناہ کرتا ہے.اگر ریا کاری کرتا ہے تو گناہ ہے.غرض کوئی ایسا امر جس میں اسراف، ریاء، فستق، ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو ان سے صاف ہو وہ منع نہیں، گناہ نہیں.کیونکہ اصل اشیا کی حلت ہے." الحکم نمبر 37 جلد 6 مؤرخہ 17 اکتوبر 1902ء صفحہ 8) (۲۳۶) تعدد ازواج اور عورتوں میں عدل حضرت حکیم نورالدین صاحب کے ہاں صاحبزادہ پیدا ہونے کی اطلاع حضرت اقدس کو ہوئی تو آپ نے فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 172 " مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ اس سے پیشتر مولوی صاحب کو اولاد کا بہت صدمہ پہنچا ہوا ہے.میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا نام عبد القیوم رکھا جائے.میرا تو یہی جی چاہتا ہے کہ میری جماعت کے لوگ کثرت ازدواج کریں اور کثرت اولاد سے جماعت کو بڑھا دیں مگر شرط یہ ہے کہ پہلی بیویوں کے ساتھ دوسری بیوی کی نسبت زیادہ اچھا سلوک کریں تا کہ اسے تکلیف نہ ہو.دوسری بیوی پہلی بیوی کو اسی لئے ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ وہ خیال کرتی ہے کہ میری غور و پرداخت اور حقوق میں کمی کی جاویگی مگر میری جماعت کو اس طرح نہ کرنا چاہئے.اگر چہ عورتیں اس بات سے ناراض ہوتی ہیں مگر میں تو یہی تعلیم دوں گا.یہ شرط ساتھ رہے گی کہ پہلی بیوی کی غور و پرداخت اور اس کے حقوق دوسری کی نسبت زیادہ توجہ اور غور سے ادا ہوں اور دوسری سے اسے زیادہ خوش رکھا جاوے.ورنہ ایسا نہ ہو کہ بجائے ثواب کے عذاب ہو.عیسائیوں کو بھی اس امر کی ضرورت پیش آئی ہے." ( اخبار بدر نمبر 26 جلد 3 مؤرخہ 08 جولائی 1904 ، صفحہ 3) ایک احمدی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدد ازواج میں جو عدل کا حکم ہے، کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنی ہیں؟ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ:." محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے.مثلاً پارچہ جات.خرچ خوراک.معاشرت حتی کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے.یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا پسند کرے.خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جوشخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آواری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے.تعدد ازواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کیلئے دوسری شادی کرلے لیکن پہلی بیوی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 173 کے حقوق تلف نہ کرے.تورات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اس نے اس کے ساتھ گزار ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے.پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو از دواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کیلئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے." اس قدر ذکر ہوا تھا کہ ایک صاحب نے اُٹھ کر عرض کی کہ البدر اور الحکم اخباروں میں تعدد ازواج کی نسبت جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذمہ دوسرا نکاح حضور نے فرض کر دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ:."ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثل اولا دصالحہ کے حاصل کرنے اور خویش واقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل دکھا نا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کے حکم سے ہی کر سکتا ہے.اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اسے ضرورت شرعی پیدا ہو جاوے تو اس کی بیوی اس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی.ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کیلئے رو رو کر دعائیں کرتی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 174 بیویوں کی ناراضگی کا بڑا باعث خاوند کی نفسانیت ہوا کرتی ہے اور اگر ان کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ بھی ناراض نہیں ہوتیں.فساد کی بناء تقومی کی خلاف ورزی ہوا کرتی ہے.خدا کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اُٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے.یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے خدا تعالی بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقوی ہو.اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کیلئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں.زنا کا نام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے.دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہے تا کہ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلاً وَلَيَبْكُوا كَثِيرًا یعنی ہنسو تھوڑا اور ردُو بہت کا مصداق بنو.لیکن جس شخص کی دنیا وی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اس کو رقت اور رونا کب نصیب ہوگا.اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشا سے دور جا پڑتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اگر چہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے.خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا کہ وہ اپنے رب کیلئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں.اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے.وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کیلئے شریک پیدا کرتا ہے.آنحضرت عالم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے پھر بھی آپ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے.ایک رات آپ کی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو عائشہ کی آنکھ کھلی دیکھا کہ آپ موجود نہیں اسے شبہ ہوا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں گے اس نے اُٹھ کر ہر ایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے آخر دیکھا کہ آپ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رور ہے ہیں.اب دیکھو کہ آپ زندہ اور چاہتی بیوی کو چھوڑ کر مردوں کی جگہ قبرستان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 175 میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپ کی بیویاں حظ نفس یا اتباع شہوت کی بناء پر ہو سکتی ہیں؟ غرض کہ خوب یا درکھو کہ خدا کا اصل منشا یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقوی کی تکمیل کیلئے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو.آنحضرت علیم اللہ کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ سے ملنے گئے ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی آنحضرت علیل اللہ ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے.جب حضرت عمر اندر آئے تو آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے.حضرت عمر نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یاوہ چٹائی ہے جس پر آپ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے.حضرت عمر ان کو دیکھ کر رو پڑے.آپ نے پوچھا اے عمر تجھ کو کس چیز نے رلایا؟ عمر نے عرض کی کہ کسرئی اور قیصر تو ستم کے اسباب رکھیں اور آپ جو خدا کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں.آنحضرت نے فرمایا اے عمر مجھے دنیا سے کیا غرض میں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہوریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں ستائے اور جو نہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے.جس قدر نبی اور رسول ہوئے ہیں سب نے دوسرے پہلو (آخرت) کو ہی مدنظر رکھا ہوا تھا.پس جاننا چاہے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغز اسلام سے دور رہتا ہے.ہر ایک دن جو چڑھتا ہے اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی بسر نہیں کرتا اور رو تا کم یا بالکل ہی نہیں روتا اور ہنستا زیادہ ہے تو یادر ہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے.استیفائے لذات اگر حلال طور پر ہو تو حرج نہیں.جیسے ایک شخص ٹو پر سوار ہے اور راستہ میں اسے نہاری وغیرہ اس لئے دیتا ہے کہ اس کی طاقت قائم رہے اور وہ منزل مقصود تک اسے پہنچا دے.جہاں خدا تعالیٰ نے سب کے حقوق رکھے ہیں وہاں نفس کا بھی حق رکھا ہے کہ وہ عبادت بجالا سکے.لوگوں کے نزدیک چوری زنا وغیرہ ہی گناہ ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ استیفائے لذات میں مشغول ہونا بھی گناہ ہے.اگر ایک شخص اپنا اکثر حصہ وقت کا تو عیش و آرام میں بسر کرتا ہے اور کسی وقت اُٹھ کر چار ٹکریں بھی مار لیتا ہے ( یعنی نماز پڑھ لیتا ہے ) تو وہ نمرودی زندگی بسر کرتا ہے.آنحضرت علیم اللہ کی ریاضت اور مشقت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرمایا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 176 کہ کیا تو اس محنت میں مرجاوے گا حالانکہ ہم نے تیرے لئے بیویاں بھی حلال کی ہیں.یہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسے ہی فرمایا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کو پڑھنے یا دوسرے کام میں مستغرق دیکھ کر صحت کے قیام کے لحاظ سے اسے کھیلنے کودنے کی اجازت دیتی ہے.خدا تعالیٰ کا یہ خطاب اسی غرض سے ہے کہ آپ تازہ دم ہو کر پھر دین کی خدمت میں مصروف ہوں.اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ آپ شہوات کی طرف جھک جاویں.نادان معترض ایک پہلو کو تو دیکھتے ہیں اور دوسرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں.پادریوں نے اس بات کی طرف کبھی غور نہیں کی کہ آنحضرت علیل اللہ کا حقیقی میلان کس طرف تھا اور رات دن آپ کس فکر میں رہتے تھے.بہت سے ملا اور عام لوگ ان باریکیوں سے ناواقف ہیں اگر ان کو کہا جاوے کہ تم شہوات کے تابع ہو تو جواب دیتے ہیں، کیا ہم حرام کرتے ہیں؟ شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے تو ہم کرتے ہیں.ان کو اس بات کا علم نہیں کہ بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ سے ظاہر ہے کہ انسان صرف عبادت کیلئے پیدا کیا گیا ہے.پس اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے جس قدر سے درکار ہے اگر اس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شے حلال ہی ہو مگر فضول ہونے کی وجہ سے اس کیلئے حرام ہو جاتی ہے.جو انسان رات دن نفسانی لذات میں مصروف ہے وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے لیکن عیش و عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتا.ہمارے کلام کا مقصد یہ ہے کہ دونوں پہلوؤں کا لحاظ رکھا جاوے.یہ نہیں کہ صرف لذات کے پہلو پر زور دیا.جاوے اور تقویٰ کو بالکل ترک کر دیا جاوے.اسلام نے جن کاموں اور باتوں کو مباح کہا ہے اس سے یہ غرض ہرگز نہیں ہے کہ رات دن اس میں مستغرق رہے.صرف یہ ہے کہ بقدر ضرورت وقت پر ان سے فائدہ اُٹھایا جاوے." اس مقام پر پھر وہی صاحب بولے کہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ تعدد ازواج بطور دوا کے ہے نہ بطور غذا کے.حضور نے فرمایا:."ہاں." اس پر انہوں نے عرض کی کہ ان اخبار والوں نے تو لکھا ہے کہ احمدی جماعت کو بڑھانے کیلئے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 177 زیادہ بیویاں کرو.حضور نے فرمایا کہ:."ایک حدیث میں یہ ہے کہ کثرت ازدواج سے اولاد بڑھاؤ تا کہ اُمت زیادہ ہو.اصل بات یہ ہے کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ انسان کے ہر عمل کا مدار اس کی نیت پر ہے.کسی کے دل کو چیر کر ہم دیکھ نہیں سکتے.اگر کسی کی یہ نیت نہیں ہے کہ زیادہ بیویاں کر کے عورتوں کی لذات میں فنا ہو بلکہ یہ ہے کہ اس سے خادم دین پیدا ہوں تو کیا حرج ہے.لیکن یہ امر بھی مشروط بشرائط بالا ہے مثلاً ایک شخص کی چار بیویاں ہوں اور ہر سال ہر ایک سے ایک ایک اولاد ہو تو چار سال میں سولہ بچے ہوں گے.مگر بات یہ ہے کہ لوگ دوسرے پہلو کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ صرف ایک پہلو پر ہی زور دیا جاوے حالانکہ ہمارا یہ منصب ہر گز نہیں ہے.قرآن شریف میں متفرق طور پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے لیکن جہاں کہیں بیویوں کا ذکر ہے وہاں ضرور ہی تقویٰ کا بھی ذکر ہے.ادائیگی حقوق ایک بڑی ضروری شے ہے اس لئے عدل کی تاکید ہے.اگر ایک شخص دیکھتا ہے کہ وہ حقوق کو ادا نہیں کر سکتا یا اس کی رجولیت کے قومی کمزور ہیں یا خطرہ ہو کہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اسے چاہئے کہ دیدہ و دانستہ اپنے آپ کو عذاب میں نہ ڈالے.تقویٰ یعنی شرعی ضرورت جو اپنے محل پر ہوا گر موجود ہو تو پہلی بیوی خود تجویز کرتی ہے کہ خاوند اور نکاح کر لے.آخری نصیحت ہماری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیاشیوں کیلئے سپر نہ بناؤ کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اسے کر لیا کل اور نظر آئی تو اسے کر لیا.یہ تو گویا خدا کی گدی پر عورتوں کو بٹھانا اور اسے بھلا دینا ہوا.دین تو چاہتا ہے کہ کوئی زخم دل پر ایسا ر ہے جس سے ہر وقت خدا تعالیٰ یاد آوے ورنہ سلپ ایمان کا خطرہ ہے.اگر صحابہ کرام عورتیں کرنے والے اور انہیں میں مصروف رہنے والے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے حالانکہ ان کا یہ حال تھا کہ ایک کی انگلی کٹ گئی تو اسے مخاطب ہو کے کہا کہ تو ایک انگلی ہی ہے اگر کٹ گئی تو کیا ہوا.مگر جو شب و روز عیش و عشرت میں مستغفرق ہے وہ کب ایسا دل لا سکتا ہے.آنحضرت نمازوں میں اس قدر روتے اور قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم ہو جاتا.صحابہ نے عرض کی کہ خدا نے آپ کے تمام گناہ بخش دیئے ہیں پھر اس قدر مشقت اور رونے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ ہوں." ( اخبار بدر نمبر 26 جلد 3 مؤرخہ 08 جولائی 1904 ، صفحہ 3,2)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 178 ایک شخص نے یوں اعتراض کیا کہ اسلام میں جو چار بیویاں رکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے اور ساری بداخلاقیوں کا سر چشمہ ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:." چار بیویاں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کہ چار تک رکھ سکتا ہے.اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ چار ہی کو گلے کا ڈھول بنالے.قرآن کا منشا تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لے کر چار تک کی اجازت دے دی ہے.ایسے لوگ جو ایک اعتراض کو اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ خود اسلام کا دعوی بھی کرتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ ان کا ایمان کیسے قائم رہ جاتا ہے.وہ تو اسلام کے معترض ہیں.یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانون بنانے کے وقت کن کن باتوں کا لحاظ ہوتا ہے.بھلا اگر کسی شخص کی ایک بیوی ہے اسے جزام ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اندھی ہوگئی ہے یا اس قابل ہی نہیں کہ اولاد اس سے حاصل ہو سکے وغیرہ وغیرہ عوارض میں مبتلا ہو جاوے تو اس حالت میں اب اس خاوند کو کیا کرنا چاہئے.کیا اسی بیوی پر قناعت کرے.ایسی مشکلات کے وقت وہ کیا تدبیر پیش کرتے ہیں.یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بدمعاشی زناوغیرہ میں مبتلا ہوگئی تو کیا اب اس خاوند کی غیرت تقاضا کرے گی کہ اسی کو اپنی پر عصمت بیوی کا خطاب دے رکھے.خدا جانے یہ اسلام پر اعتراض کرتے وقت اندھے کیوں ہو جاتے ہیں.یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسانی ضروریات کو ہی پورا نہیں کر سکتا.اب ان مذکورہ حالتوں میں عیسویت کیا تدبیر بتاتی ہے.قرآن شریف کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ انسانی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قانون نہ بنا دیا ہو.اب تو انگلستان میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثرت ازدواج اور طلاق شروع ہوتا جاتا ہے.ابھی ایک لارڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسری بیوی کر لی آخر اسے سزا بھی ہوئی مگر وہ امریکہ میں جارہا.غور سے دیکھو کہ انسان کے واسطے ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کرلے.جب ایسی ضرورتیں ہوں اور ان کا علاج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پورا کرنے کو قرآن شریف سی اتم اکمل کتاب بھیجی ہے." الحکم نمبر 8 جلد 7 مؤرخہ 28 فروری 1903 ء صفحه (15)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 179 فرمایا:- (۲۳۷) خواہش اولا دو ترک اولاد "اگر چه اس دار الابتلاء میں خدا تعالیٰ نے اولاد کو بھی فتنہ میں ہی داخل رکھا ہے جیسا کہ اموال کو.لیکن اگر کوئی شخص صحت نیت کی بنا پر محض اس غرض سے اور سراسر اس وجد اور فکر سے طالب اولاد ہو کہ تا اس کے بعد اس کی ذریت میں سے کوئی خادم دین پیدا ہو.جس کے وجود سے اس کے باپ کو بھی دوبارہ ثواب آخرت کا حصہ ملے.تو خاص اس نیت اور اس جوش سے اولاد کا خواہشمند ہونا نہ صرف جائز بلکہ اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ میں سے ہے جیسا کہ اس خواہش کی تحریک اس آیت کریمہ میں بھی پائی جاتی ہے.اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (س) (19) لیکن سچ سچ اور واقعی اور حقیقی طور پر یہی جوش پیدا ہونا اور اس لکہی جوش کی بناپر اولاد کا خواہشمند ہونا ان ابرارو خیار اور اتقیا کا کام ہے جو اپنے اعمال خیر کے آثار باقیہ دنیا میں چھوڑ جانا چاہتے ہیں.لیکن ابنائے روزگار کی رسم اور عادت کے طور پر خواہشمند اولاد ہونا اور یہ خیال رکھنا کہ ہماری موت فوت کے بعد ہماری زخارف دنیا کی ہماری اولا د وارث بنے.اور شرکاء ہماری جائیداد کے قابض نہ ہونے پائیں.بلکہ ہمارے بیٹے ہمارے ترکہ پر قبضہ کریں.اور شریکوں سے لڑتے جھگڑتے رہیں اور ہمارے مرنے کے بعد دنیا میں ہماری یادگار رہ جاوے یہ خیال سراسر شرک اور فساد اور سخت سے بھرا ہوا ہے.اور میں جانتا ہوں کہ جب تک یہ خیال دل میں سے دور نہ ہولے کوئی شخص سچا موحد اور سچا مسلمان نہیں ہو سکتا.ہمیں ہر روز خدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانا چاہئے.اور جن امور کو وہ فتنہ قرار دیوے بغیر تحقیق صحت نیت کے ان کو اپنی درخواست سے اپنے پر نازل نہیں کرانا چاہئے.جو شخص خدا تعالیٰ کیلئے ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کیلئے ہو جاتا ہے.وہ اس کے اندرونی پاک جوشوں اور مظہر جذبات کو خوب جانتا ہے بلکہ در حقیقت پاک دل انسان کے اندرونی جوش اس کی طرف سے ہوتے ہیں اور پھر وہ خود انہی کو پورا بھی کر دیتا ہے.جس وقت وہ دیکھتا ہے کہ ایک للہی حالت کا آدمی اس کے دین کی خدمت کیلئے اپنا کوئی وارث چاہتا ہے تواللہ جلشانہ اس کو ضرور کوئی وارث عنایت کرتا ہے.اس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 180 کی دعائیں پہلے ہی سے قبول شدہ کے حکم میں ہوتی ہیں." فرمایا:.الحکم نمبر 33 جلد 2 مؤرخہ 29 /اکتوبر 1898 ء صفحہ 3) (۲۳۸) عورتوں کے حقوق و معاشرت عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی مختصر الفاظ میں وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ ہر ایک قسم کے حقوق بیان فرما دیئے.یعنی جیسے حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر بھی ہیں.بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں.گالیاں دیتے ، حقارت کی نظر سے دیکھتے اور پردہ کے حکم کو ایسے ناجائز طریق سے کام میں لاتے ہیں کہ گویا وہ زندہ در گور ہوتی ہیں.چاہئے کہ عورتوں سے انسان کا دوستانہ طریق اور تعلق ہو.اصل میں انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر ان سے اس کے تعلقات اچھے نہیں تو پھر خدا سے کس طرح ممکن ہے کہ صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا ہے کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِهِ.اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرنے والا ہی تم میں سے بہترین ہے.الحکم نمبر 18 جلد 7 مؤرخہ 17 مئی 1903ء صفحہ 12 ) فرمایا:.در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اور حدیث میں ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَاهْلِهِ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کیلئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو." ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 75 حاشیہ، مطبوعہ نومبر 1984ء)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 181 فرمایا:- (۲۳۹) حیض فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ (الجزء نمبر ٢ سورة البقره ) یعنی حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کرو اور ان کے نزدیک مت جاؤ یعنی صحبت کے ارادہ سے جب تک کہ وہ پاک ہو لیں.اگر ایسی صفائی سے کنارہ کشی کا بیان وید میں بھی ہو تو کوئی صاحب پیش کریں.لیکن ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خاوند کو بغیر ارادہ صحبت کے اپنی عورت کو ہاتھ لگانا بھی حرام ہے.یہ تو حماقت اور بیوقوفی ہوگی کہ بات کو اس قدر دور کھینچا جائے کہ تمدن کے ضرورات میں بھی حرج واقع ہو اور عورت کو ایام حیض میں ایک ایسی زہر قاتل کی طرح سمجھا جائے جس کے چھونے سے فی الفور موت نتیجہ ہے.اگر بغیر ارادہ صحبت عورت کو چھونا حرام ہوتا تو بیچاری عورتیں بڑی مصیبت میں پڑا جاتیں.بیمار ہوتیں تو کوئی نبض بھی دیکھ نہ سکتا.گرتیں تو کوئی ہاتھ سے اُٹھا نہ سکتا.اگر کسی درد میں ہاتھ پیر دبانے کی محتاج ہوتیں تو کوئی دبا نہ سکتا.اگر مرتیں تو کوئی دفن نہ کر سکتا کیونکہ ایسی پلید ہو گئیں کہ اب ہاتھ لگانا ہی حرام ہے.سو یہ سب نافہموں کی جہالتیں ہیں اور بیچ یہی ہے کہ خاوند کو ایام حیض میں صحبت حرام ہو جاتی ہے لیکن اپنی عورت سے محبت اور آثار محبت حرام نہیں ہوتے." فرمایا:.( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 49 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۴۰) طلاق "مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضرور یہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 182 بخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کراسکتی ہے.اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتابکاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے.لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح کا باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہے.سو یہ قانون فطرتی قانون سے ایسی مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے گویا کہ اس کی عکسی تصویر ہے کیونکہ فطرتی قانون نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ہر یک معاہدہ شرائط قرار دادہ کے فوت ہونے سے قابل فسخ ہو جاتا ہے اور اگر فریق ثانی فسخ سے مانع ہوتو وہ اس فریق پر ظلم کر رہا ہے جو فقدان شرائط کی وجہ سے فسخ عہد کا حق رکھتا ہے.جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بجز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دو انسانوں کا زندگی بسر کرنا ہے اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کی رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہو جاتا ہے اور اسی محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے.لہذا طلاق ایک ایسی پوری پوری جدائی ہے جس سے مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق دہندہ پر کوئی بداثر نہیں پہنچتا.یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کسی کی منکوحہ ہو کر نکاح کے معاہدہ کوکسی اپنی بدچلنی سے توڑ دے تو وہ اس عضو کی طرح ہے جو گندہ ہو گیا اور سڑ گیا یا اس دانت کی طرح ہے جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کو ستاتا اور دکھ دیتا ہے.تو اب حقیقت میں وہ دانت ، دانت نہیں ہے اور نہ وہ متعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اسی میں ہے کہ اس کو اکھیڑ دیا جائے اور کاٹ دیا جائے اور پھینک دیا جائے.یہ سب کا رروائی قانون قدرت کے موافق ہے.عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں جیسے اپنے ہاتھ اور اپنے پیر کا.لیکن تاہم اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کسی ایسی آفت میں مبتلا ہو جائے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی رائے اسی پر اتفاق کرے کہ زندگی اس کی کاٹ دینے میں ہے تو بھلا تم میں سے کون ہے کہ ایک جان کے بچانے کیلئے کاٹ دینے پر راضی نہ ہو.پس ایسا ہی اگر تیری منکوحہ اپنی بد چلنی اور کسی مہا پاپ سے تیرے پر وبال لاوے تو وہ ایسا عضو ہے کہ بگڑ گیا اور سر گیا اور اب وہ تیرا عضو نہیں ہے اس کو جلد کاٹ دے اور گھر سے باہر پھینک دے.ایسا نہ ہو کہ اس کی زہر تیرے سارے بدن میں پہنچ جائے اور تجھے ہلاک کرے.پھر اگر اس کاٹے ہوئے اور زہر یلے جسم کو کوئی پرند یا در ند کھالے تو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 183 تجھے اس سے کیا کام کیونکہ وہ جسم تو اسی وقت سے تیرا جسم نہیں رہا جب کہ تو نے اس کو کاٹ کر پھینک دیا." ( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 37 تا 39 مطبوعہ نومبر 1984ء) ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ جو لوگ ایک ہی دفعہ تین طلاق لکھ دیتے ہیں ان کی وہ طلاق جائز ہوتی ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ:.قرآن شریف کے فرمودہ کی رو سے تین طلاقیں دی گئی ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے درمیان اتنا ہی وقفہ لکھا گیا جو قرآن شریف نے بتایا ہے تو ان تینوں کی عدت کے گذرنے کے بعد اس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا.ہاں اگر کوئی اور شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھر اتفاقاً وہ اس کو طلاق دیدے تو اس خاوند اوّل کو جائز ہے کہ اس بیوی سے نکاح کر لے.مگر اگر دوسرا خاوند، خاوند اول کی خاطر سے یا لحاظ سے اس بیوی کو طلاق دے کہ تا وہ پہلا خاوند اس سے نکاح کر لے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے.لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میں دی گئی ہوں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گذرنے کے بعد بھی اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائز طلاق تھا اور اللہ ورسول کے فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا.دراصل قرآن شریف میں غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ امر نہایت ہی نا گوار ہے کہ پرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑ کر الگ الگ ہو جائیں.یہی وجہ ہے کہ اس نے طلاق کے واسطے بڑے بڑے شرائط لگائے ہیں.وقفہ کے بعد تین طلاق کا دینا اور ان کا ایک ہی جگہ رہنا وغیرہ یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت ان کے دلی رنج دور ہو کر آپس میں صلح ہو جاوے.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور تازے جوش کے وقت میں حکام کے پاس عرضی پرچے لے کر آتے ہیں تو آخر دانا حکام اس وقت ان کو کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا.اصل غرض ان کی صرف یہی ہوتی ہے کہ یہ آپس میں صلح کر لیں گے اور
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 184 ان کے یہ جوش فرو ہونگے تو پھر ان کی مخالفت باقی نہ رہے گی.اسی واسطے وہ اس وقت ان کی وہ درخواست لینا مصلحت کے خلاف جانتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مرد اور عورت کے الگ ہونے کے واسطے ایک کافی موقعہ رکھ دیا ہے.یہ ایک ایسا موقعہ ہے کہ طرفین کو اپنی بھلائی برائی کے سوچنے کا موقع مل سکتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے الطَّلَاقُ مَرَّتن یعنی دو دفعہ کی طلاق ہونے کے بعد یا اسے اچھی طرح سے رکھ لیا جاوے یا احسان سے جدا کر دیا جاوے.اگر اتنے لمبے عرصے میں بھی ان کی آپس میں صلح نہیں ہوتی تو پھر ممکن نہیں کہ وہ اصلاح پذیر ہیں." الحکم نمبر 13 جلد 7 مؤرخہ 10 را پریل 1903 صفحہ 14 سوال:.ایک وقت میں طلاق کامل ہو سکتا ہے یا نہیں اور تین طلاق کے بعد پہلا خاوند نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ جواب:." ایک ہی وقت میں طلاق کامل نہیں ہو سکتی دراصل تین ماہ میں ہونی چاہئے.فقہا نے ایک مرتبہ تین طلاق دیدینے کو جائز رکھا ہے لیکن اس میں یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ عدت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کر سکتی ہے." سوال:.جب تین طلاق ہو جاویں تو کیا پہلا خاوند پھر بھی نکاح کرسکتا ہے؟ جواب:." جب تین طلاق واقع ہو جائیں تو پہلا خاوند اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا جب تک کسی دوسرے سے وہ نکاح نہ کرے اور پھر وہ خاوند اس کو طلاق دیدیوے مگر عمد اس لئے نہ دے کہ پہلا شخص اس سے نکاح کرے.اس کا نام حلالہ ہے اور یہ حرام ہے.ہاں اگر ایسے اسباب پیش آ جاویں کہ وہ دوسرا شخص اس عورت کو طلاق دید یوے تو پھر وہ پہلے شخص سے شادی کر سکتی ہے لیکن اگر ایک ہی مرتبہ تین طلاق دی جاویں اور پھر عدت گزرنے کے بعد وہی خاوند نکاح کرنا چاہے تو وہ نکاح کر سکتا ہے کیونکہ اس کی یہ طلاق شرعی طریق پر نہیں دی گئی جس میں تین ماہ کی عدت مقرر ہے.اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہر ایک اپنے نفع و نقصان کو سمجھ لے.دو طلاقیں دے کر اگر تیسری نہیں دی اور عدت
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 185 گزرگئی ہے تب بھی رجوع ہوسکتا ہے." الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ء صفحہ 9) احمدی جماعت میں سے ایک صاحب نے اپنی عورت کو طلاق دی.عورت کے رشتہ داروں نے حضرت کی خدمت میں شکایت کی کہ بے وجہ اور بے سبب طلاق دی گئی ہے.مرد کے بیانوں سے یہ بات پائی گئی کہ اگر اسے کوئی ہی سزادی جاوے مگر وہ اس عورت کو بسانے پر ہر گز آمادہ نہیں ہے.عورت کے رشتہ داروں نے جو شکایت کی تھی ان کا منشا تھا کہ پھر آبادی ہو.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا " عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہوتا ہے اس پر دوسرے کو کامل اطلاع نہیں ہوتی.بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کوئی مخش عیب عورت میں نہیں ہوتا مگر تا ہم مزاجوں کی ناموافقت ہوتی ہے جو کہ باہمی معاشرت کی مخل ہوتی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے.بعض وقت عورت گوولی ہو اور بڑی عابد اور پر ہیز گار اور پاکدامن ہو اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چونکہ اس کی طرف سے کراہت ہوتی ہے اس لئے وہ طلاق دے سکتا ہے.مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہونا یہ بھی ایک شرعی امر ہے اس لئے ہم اب اس میں دخل نہیں دے سکتے جو ہوا سو ہوا.مہر کا جو جھگڑا ہو وہ آپس میں فیصلہ کر لیا جاوے." فرمایا کہ:.(اخبار بدر نمبر 15 جلد 2 مؤرخہ یکم مئی 1903 ء صفحہ 117) (۲۴۱) شرطی طلاق اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اور وہ بات ہو جائے تو پھر واقعی طلاق ہو جاتی ہے.جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اور پھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہو جاتی ہے." فرمایا:- ( اخبار بدر نمبر 21 جلد 2 مؤرخہ 12 / جون 1903 ء صفحہ 162 ) (۲۴۲) عورتوں کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 186 "بارہا دیکھا گیا اور تجربہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہے تو یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملال کا موجب ہوتا ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا اور اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط جلدی اس کی طرف روانہ نہ ہوگی تو اسے طلاق دیدی جاوے گی.سنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ "جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے."ایسا ہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اول بڑے چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت سے خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاوے.اس پر حضرت اقدس کو بہت سخت ملال ہوا اور فرمایا کہ " مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے." چنانچہ دوسرے دن پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ "وہ صاحب اپنی اس نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں.جو کچھ زوجہ اول کو دیو یں وہی اسے دیو ہیں.ایک شب ادھر رہیں تو ایک شب ادھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اسے زوجہ اول کا دست نگر کر کے نہ رکھا جاوے." ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال ہوئے گذر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصول اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اول کو جو صدمہ ہوا اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو انہوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی.اس پر حضرت اقدس نے ناراضگی ظاہر فرمائی.چنانچہ خاوند نے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کر کے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھر میں آباد ہے." ( اخبار بدر نمبر 23 جلد 2 مؤرخہ 26 جون 1903 ء صفحہ 178 ) (۲۴۳) اعتراض اہل ہنود کا جواب جو طلاق کو نیوگ سے مناسبت دیتے ہیں فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 187 اب جب کہ طلاق کی ایسی صورت ہے کہ اس میں خاوند خاوند نہیں رہتا اور نہ عورت اس کی عورت رہتی ہے اور عورت ایسی جدا ہو جاتی ہے کہ جیسے ایک خراب شدہ عضو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے تو ذرہ سوچنا چاہئے کہ طلاق کو نیوگ سے کیا مناسبت ہے.طلاق تو اس حالت کا نام ہے کہ جب عورت سے بیزار ہوکر بکلی قطع تعلق اس سے کیا جائے.مگر نیوگ میں تو خاوند بدستور خاوند ہی رہتا ہے اور نکاح بھی بدستور نکاح ہی کہلاتا ہے اور جو شخص اس غیر عورت سے ہمبستر ہوتا ہے اس کا نکاح اس عورت سے نہیں ہوتا اور اگر یہ کہو کہ مسلمان بے وجہ بھی عورتوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو تمہیں معلوم ہے کہ ایشر نے مسلمانوں کو لغو کام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے.وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ.اور قرآن میں بے وجہ طلاق دینے والوں کو بہت ہی ڈرایا ہے.ماسوا اس کے تم اس بات کو بھی تو ذرا سوچو کہ مسلمان اپنی حیثیت کے موافق بہت سا مال خرچ کر کے ایک عورت سے شادی کرتے ہیں اور ایک رقم کثیر عورت کے مہر کی ان کے ذمہ ہوتی ہے اور بعضوں کے مہر کئی ہزار اور بعض کے ایک لاکھ یا کئی لاکھ ہوتے ہیں اور یہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور طلاق کے وقت بہر حال اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وصول کرے اور نیز قرآن میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کو طلاق دی جائے تو جس قدر مال عورت کو طلاق سے پہلے دیا گیا ہے وہ عورت کا ہی رہے گا اور اگر عورت صاحب اولاد ہوتو بچوں کے تعہد کی مشکلات اس کے علاوہ ہیں.اسی واسطے کوئی مسلمان جب تک اس کی جان پر ہی عورت کی وجہ سے کوئی وبال نہ پڑے تب تک طلاق کا نام نہیں لیتا.بھلا کون ایسا پاگل ہے کہ بے وجہ اس قدر تباہی کا بوجھ اپنے سر پر ڈال لے.بہر حال جب مرد اور عورت کے تعلقات نکاح با ہم باقی نہ رہے تو پھر نیوگ کو اس سے کیا نسبت.جس میں عین نکاح کی حالت میں ایک شخص کی عورت دوسرے شخص سے ہمبستر ہو سکتی ہے.پھر طلاق مسلمانوں سے کچھ خاص بھی نہیں بلکہ ہر یک قوم میں بشرطیکہ دیوث نہ ہوں ، نکاح کا معاہدہ صرف عورت کی نیک چلنی تک ہی محدود ہوتا ہے اور اگر عورت بد چلن ہو جائے تو ہر ایک قوم کے غیرتمند کو خواہ ہندو ہو خواہ عیسائی ہو بد چلن عورت سے علیحدہ ہونے کی ضرورت پڑتی ہے.مثلاً ایک آریہ کی عورت نے ایک چوہڑے سے ناجائز تعلق پیدا کر لیا ہے، چنانچہ بارہا اس نا پاک کام میں پکڑی بھی گئی.اب آپ ہی فتوی دو کہ اس آریہ کو کیا کرنا چاہئے.کیا نکاح کا معاہدہ ٹوٹ گیا یا اب تک باقی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 188 ہے.کیا یہ اچھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرح اس عورت کو طلاق دیدے یا یہ کہ ایک دیوث بن کر اس آشنا پر راضی رہے.یا مثلاً ایک عورت علاوہ بدکار ہونے کے خاوند کے قتل کرنے کے فکر میں ہے تو کیا یہ جائز ہے کہ اس کا خاوند ایک مدت تک اس کی بدکاری کو دیکھتا رہے اور اس پر خوش رہے اور آخر اس فاسقہ کے ہاتھ سے قتل ہو.غرض یہ مثال نہایت درست ہے کہ گندی عورت گندے عضو کی طرح ہے اور اس کا کاٹ کر پھینکنا اسی قانون کی رو سے ضروری پڑا ہوا ہے جس قانون کی رو سے ایسے ایسے عضو کاٹے جاتے ہیں اور چونکہ ایسی عورتوں کو اپنے پاس سے دفع کرنا واقعی طور پر ایک پسندیدہ بات اور انسانی غیرت کے مطابق ہے.اس لئے کوئی مسلمان اس کا رروائی کو چھپے چھپے ہر گز نہیں کرتا.مگر نیوگ چھپ کر کیا جاتا ہے کیونکہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ بُرا کام ہے." فرمایا:.( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 39 تا 41 مطبوعہ نومبر 1984ء) " پس نیوگ میں اور طلاق میں یہ فرق ہے کہ نیوگ میں تو ایک بے غیرت انسان اپنی پاکدامن اور بے لوث اور منکوحہ عورت کو دوسرے سے ہمبستر کرا کر دیوث کہلاتا ہے اور طلاق کی ضرورت کے وقت ایک باغیرت مرد ایک نا پاک طبع عورت سے قطع تعلق کر کے دیوٹی کے الزام سے اپنے تئیں بری کر لیتا ہے." فرمایا:.( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 30 مطبوعہ نومبر 1984 ء) آریہ لوگ جب اُس اعتراض کے وقت جو نیوگ پر وارد ہوتا ہے بالکل لا جواب اور عاجز ہو جاتے ہیں تو پھر انصاف اور خدا ترسی کی قوت سے کام نہیں لیتے بلکہ اسلام کے مقابل پر نہایت مکروہ اور بیجا افتراؤں پر آ جاتے ہیں.چنانچہ بعض تو مسئلہ طلاق کو ہی پیش کرتے ہیں.حالانکہ خوب جانتے ہیں کہ قدرتی طور پر ایسی آفات ہر یک قوم کیلئے ہمیشہ ممکن الظہو ر ہیں جن سے بچنا بجز طلاق کے متصور نہیں.مثلاً اگر کوئی عورت زانیہ ہو تو کس طرح اس کے خاوند کی غیرت اس کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی کہلا کر پھر دن رات زنا کاری کی حالت میں مشغول رہے.ایسا ہی اگر کسی کی جورو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 189 اس قدر دشمنی میں ترقی کرے کہ اس کی جان کی دشمن ہو جاوے اور اس کے مارنے کی فکر میں لگی رہے تو کیا وہ ایسی عورت سے امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے بلکہ ایک غیرتمند انسان جب اپنی عورت میں اس قدر خرابی بھی دیکھے کہ اجنبی شہوت پرست اس کو پکڑتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں اور اس سے ہم بغل ہوتے ہیں اور وہ خوشی سے یہ سب کام کراتی ہے تو گو تحقیق کے رو سے ابھی زنا تک نوبت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ فاسقہ موقع کے انتظار میں ہو.تا ہم کوئی غیرت مند ایسی ناپاک خیال عورت سے نکاح کا تعلق رکھنا نہیں چاہتا.اگر آریہ کہیں کہ کیا حرج ہے کچھ مضائقہ نہیں تو ہم ان سے بحث کرنا نہیں چاہتے.ہمارے مخاطب صرف وہ شریف ہیں جن کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے غیرت اور حیا کا مادہ رکھا ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ عورت کا جوڑا اپنے خاوند سے پاکدامنی اور فرمانبرداری اور باہم رضامندی پر موقوف ہے اور اگر ان تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی فرق آ جاوے تو پھر یہ جوڑ قائم رہنا محالات میں سے ہو جاتا ہے.انسان کی بیوی اس کے اعضا کی طرح ہیں.پس اگر کوئی عضو سر گل جائے یا ہڈی ایسی ٹوٹ جائے کہ قابل پیوند نہ ہو تو پھر بجز کاٹنے کے اور کیا علاج ہے.اپنے عضو کو اپنے ہاتھ سے کا شنا کوئی نہیں چاہتا کوئی بڑی ہی مصیبت پڑتی ہے تب کا ٹا جاتا ہے.پس جس حکیم مطلق نے انسان کے مصالح لئے نکاح تجویز کیا ہے اور چاہا ہے کہ مرد اور عورت ایک ہو جائیں اسی نے مفاسد ظاہر ہونے کے وقت اجازت دی ہے کہ اگر آرام اس میں متصور ہو کہ کرم خوردہ دانت یا سڑے ہوئے عضو یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح موذی کو علیحدہ کر دیا جائے تو اسی طرح کار بند ہو کر اپنے تئیں فوق الطاقت آفت سے بچالیں کیونکہ جس جوڑ سے وہ فوائد مترتب نہیں ہو سکتے کہ جو اس جوڑ کی علت غائی ہیں بلکہ ان کی ضد پیدا ہوتی ہے تو وہ جوڑ در حقیقت جوڑ نہیں ہے." فرمایا:- ( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 66,65 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۴۴) حلاله و نیوگ بعض آر یہ عذر معقول سے عاجز آ کر یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں حلالہ کی رسم نیوگ سے مشابہ ہے.یعنی جو مسلمان اپنی جورو کو طلاق دے وہ اپنی جورو کو اپنے پر حلال کرنے کیلئے دوسرے سے ایک رات ہمبستر کراتا ہے تب آپ اس کو اپنے نکاح میں لے آتا ہے.سو ہم اس افترا کا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 190 جواب بجز لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین اور کیا دے سکتے ہیں.ناظرین پر واضح رہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں حلالہ کی رسم تھی لیکن اسلام نے اس ناپاک رسم کو قطعاً حرام کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ نے ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو حلالہ کے پابند ہوں.چنانچہ ابن عمر سے مروی ہے کہ حلالہ زنا میں داخل ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والے سنگسار کئے جاویں.اگر کوئی مطلقہ سے نکاح کرے تو نکاح تب درست ہوگا کہ جب واقعی طور پر اس کو اپنی جور و بنالے اور اگر دل میں یہ خیال ہو کہ وہ اس حیلہ کیلئے اس کو جور و بناتا ہے کہ تا اس کی طلاق کے بعد دوسرے پر حلال ہو جائے تو ایسا نکاح ہرگز درست نہیں اور ایسا نکاح کرنے والا اس عورت سے زنا کرتا ہے اور جو ایسے فعل کی ترغیب دے وہ اس سے زنا کرواتا ہے.غرض حلالہ علمائے اسلام کے اتفاق سے حرام ہے اور ائمہ اور علمائے سلف جیسے حضرت قتادہ ، عطا اور امام حسن اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری اور مجاہد اور شعمی اور سعید بن مسیب اور امام مالک ، لیث ، ثوری، امام احمد بن حنبل وغیرہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور سب محققین علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور شریعت اسلام اور نیز لغت عرب میں بھی زوج اس کو کہتے ہیں کہ کسی عورت کو فی الحقیقت اپنی جور و بنانے کیلئے تمام حقوق کو مدنظر رکھ کر اپنے نکاح میں لاوے اور نکاح کا معاہدہ حقیقی اور واقعی ہو نہ کہ کسی دوسرے کیلئے ایک حیلہ ہو اور قرآن شریف میں جو آیا ہے حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہ اس کے یہی معنی ہیں کہ جیسے دنیا میں نیک نیتی کے ساتھ اپنے نفس کی اغراض کیلئے نکاح ہوتے ہیں ایسا ہی جب تک ایک مطلقہ کے ساتھ کسی کا نکاح نہ ہو اور وہ پھر اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے تب تک پہلے طلاق دینے والے سے دوبارہ اس کا نکاح نہیں ہوسکتا.سو آیت کا یہ منشا نہیں ہے کہ جو رو کرنے والا پہلے خاوند کیلئے ایک راہ بناوے اور آپ نکاح کرنے کیلئے سچی نیت نہ رکھتا ہو بلکہ نکاح صرف اس صورت میں ہوگا کہ اپنے پختہ اور مستقل ارادہ سے اپنے صحیح اغراض کو مد نظر رکھ کر نکاح کرے ورنہ اگر کسی حیلہ کی غرض سے نکاح کرے گا تو عند الشرع وہ نکاح ہرگز درست نہیں ہوگا اور زنا کے حکم میں ہوگا.لہذا ایسا شخص جو اسلام پر حلالہ کی تہمت لگانا چاہتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ مذہب نہیں ہے اور قرآن اور صحیح بخاری اور مسلم اور دیگر احادیث صحیحہ کی رو سے حلالہ قطعی حرام ہے اور مرتکب اس کا زانی کی طرح مستوجب سزا ہے." ( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 67,66 مطبوعہ نومبر 1984ء)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 191 فرمایا:- (۲۴۵) متعه و نیوگ بعض آر یہ نیوگ کے مقابل پر اسلام پر یہ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں متعہ یعنی نکاح موقت جائز رکھا گیا ہے جس میں ایک مدت تک نکاح کی میعاد ہوتی ہے اور پھر عورت کو طلاق دی جاتی ہے لیکن ایسے معترضوں کو اس بات سے شرم کرنی چاہئے تھی کہ نیوگ کے مقابل پر متعہ کا ذکر کریں.اول تو متعہ صرف اس نکاح کا نام ہے جو ایک خاص عرصہ تک محدود کر دیا گیا ہو.پھر ماسوا اس کے متعہ اوائل اسلام میں یعنی اس وقت میں جب کہ مسلمان بہت تھوڑے تھے صرف تین دن کیلئے جائز ہوا تھا اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ وہ جواز اس قسم کا تھا جیسا کہ تین دن کے بھوکے کیلئے مردار کھانا نہایت بیقراری کی حالت میں جائز ہو جاتا ہے اور پھر متعہ ایسا حرام ہو گیا جیسے سور کا گوشت اور شراب حرام ہے اور نکاح کے احکام نے متعہ کیلئے قدم رکھنے کی جگہ باقی نہیں رکھی.قرآن شریف میں نکاح کے بیان میں مردوں کے حق عورتوں پر اور عورتوں کے حق مردوں پر قائم کئے گئے ہیں اور متعہ کے مسائل کا کہیں ذکر بھی نہیں.اگر اسلام میں متعہ ہوتا تو قرآن میں نکاح کے مسائل کی طرح متعہ کے مسائل بھی بسط اور تفصیل سے لکھے جاتے لیکن کسی محقق پر پوشیدہ نہیں کہ نہ تو قرآن میں اور نہ احادیث میں متعہ کے مسائل کا نام و نشان ہے لیکن نکاح کے مسائل بسط اور تفصیل سے موجود ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ ہر یک قوم میں جو ایک امر عامہ خلائق کے متعلق جائز یا واجب قرار دیا جاتا ہے تو اس امر کی بسط اور تفصیل سے مسائل بھی بیان کئے جاتے ہیں مثلاً نیوگ جو ہندوؤں میں ایک امر واجب العمل ہے تو ان کی کتابوں میں اس کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے." فرمایا:.( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 68,67 مطبوعہ نومبر 1984ء) لیکن قرآن اور حدیث کے دیکھنے والوں پر ظاہر ہوگا کہ اسلام میں متعہ کے احکام ہرگز مذکور نہیں ، نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں.اب ظاہر ہے کہ اگر متعہ شریعت اسلام کے احکام میں سے یک حکم ہوتا تو اس کے احکام بھی ضرور لکھے جاتے اور وراثت کے قواعد میں اس کا بھی کچھ ذکر ہوتا.پس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 192 اس سے ظاہر ہے کہ متعہ اسلامی مسائل میں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے.اگر بعض احادحدیثوں پر اعتبار کیا جائے تو صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ جب بعض صحابہ اپنے وطنوں اور اپنی جورؤں سے دور تھے تو ایک دفعہ ان کی سخت ضرورت کی وجہ سے تین دن تک متعہ ان کیلئے جائز رکھا گیا تھا اور پھر بعد اس کے ایسا ہی حرام ہو گیا جیسا کہ اسلام میں خنزیر وشراب وغیرہ حرام ہیں اور چونکہ اضطراری حکم جس کی ابدیت شارع کا مقصود نہیں، شریعت میں داخل نہیں ہوتے.اس لئے متعہ کے احکام قرآن اور حدیث میں درج نہیں ہوئے.اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے متعہ عرب میں نہ صرف جائز بلکہ عام رواج رکھتا تھا اور شریعت اسلامی نے آہستہ آہستہ عرب کی رسوم کی تبدیلی کی ہے.سو جس وقت بعض صحابہ متعہ کیلئے بیقرار ہوئے سو اس وقت آنحضرت عبید اللہ نے انتظامی اور اجتہادی طور پر اس رسم کے موافق بعض صحابہ کو اجازت دیدی کیونکہ قرآن میں ابھی اس رسم کے بارے میں کوئی ممانعت نہیں آئی تھی.پھر ساتھ ہی چند روز کے بعد نکاح کی مفصل اور مبسوط ہدایتیں قرآن میں نازل ہوئیں جو متعہ کے مخالف اور متضاد تھیں.اس لئے ان آیات سے متعہ کی قطعی طور پر حرمت ثابت ہوگئی.یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ گومتعہ صرف تین دن تک تھا مگر وحی اور الہام نے اس کے جواز کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ وہ پہلے سے ہی عرب میں عام طور پر رائج تھا اور جب صحابہ کو بے وطنی کی حالت میں اس کی ضرورت پڑی تو آنحضرت نے دیکھا کہ متعہ ایک نکاح موقت ہے کوئی حرامکاری اس میں نہیں، کوئی ایسی بات نہیں کہ جیسی خاوند والی عورت دوسرے سے ہمبستر ہو جاوے بلکہ در حقیقت بیوہ یا با کرہ سے ایک نکاح ہے جو ایک وقت تک مقرر کیا جاتا ہے تو آپ نے اس خیال سے کہ نفس متعہ میں کوئی بات خلاف نکاح نہیں ، اجتہادی طور پر پہلی رسم کے لحاظ سے اجازت دیدی.لیکن خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ جیسا کہ اور صد با عرب کی بیہودہ رسمیں دور کر دی گئیں ایسا ہی متعہ کی رسم کو بھی عرب میں سے اُٹھا دیا جاوے.سو خدا نے قیامت تک متعہ کو حرام کر دیا.ماسوا اس کے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت ہے.نیوگ پر تو ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اس میں خاوند والی عورت باوجود زندہ ہونے خاوند کے دوسرے سے ہمبستر کرائی جاتی ہے لیکن متعہ کی عورت تو کسی دوسرے کے نکاح میں نہیں ہوتی بلکہ ایک باکرہ یا بیوہ ہوتی ہے جس کا ایک مقررہ وقت تک ایک شخص سے نکاح پڑھا جاتا ہے.سو خو د سوچ لو کہ متعہ کو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 193 نیوگ سے کیا نسبت ہے اور نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت.پھر ماسوا اس کے ہم یہ کہتے ہیں کہ در حقیقت یہ اسلام ہی میں خوبی ہے کہ اس میں ایک موقت نکاح بھی حرام کر دیا گیا ہے.ورنہ دوسری قوموں پر نظر ڈال کر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ادنی ادنیٰ ضرورتوں کیلئے زنا کاری کو بھی جائز رکھا ہے.بھلا ایک دانشمند نیوگ کے مسئلہ پر ہی غور کرے کہ صرف اولاد کے لالچ کی وجہ سے اپنی پاکدامن عورت کو نامحرم کے بستر پر لٹا دیا جاتا ہے حالانکہ نہ اس عورت کو طلاق دی گئی نہ خاوند کے تعلقات اس سے ٹوٹے ہیں بلکہ وہ خاوند کی سچی خیر خواہ بن کر اس کیلئے اولاد پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے.ایسا ہی عیسائیوں میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو ایک نوجوان عورت کو دوسرے نو جوان اجنبی مرد سے ہم بغل ہونے سے روکے اور مرد کو اس عورت کا بوسہ لینے سے منع کرے.بلکہ یورپ میں یہ تمام مکروہ باتیں نہایت بے تکلفی سے رائج ہیں اور پردہ پوشی کیلئے ان کاموں کا نام پاک محبت رکھا جاتا ہے.سو یہ ناقص تعلیم کے بدنتائج ہیں.اسلام میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی ایسے سفر میں جاتا جس میں کئی سال کی تو قف ہوتی تو وہ عورت کو ساتھ لے جاتا یا اگر عورت ساتھ جانا نہ چاہتی تو وہ ایک دوسرا نکاح اس ملک میں کر لیتا.لیکن عیسائی مذہب میں چونکہ اشد ضرورتوں کے وقت میں بھی دوسرا نکاح ناجائز ہے اس لئے بڑے بڑے مد بر عیسائی قوم کے جب ان مشکلات میں آ پڑتے ہیں تو نکاح کی طرف ان کو ہرگز توجہ نہیں ہوتی اور بڑے شوق سے حرامکاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں.جن لوگوں نے ایکٹ چھاؤنی ہائے نمبر ۱۳.۱۸۸۹ء پڑھا ہوگا وہ اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ عیسائی مذہب کی پابندی کی وجہ سے ہماری مد بر گورنمنٹ کو بھی یہی مشکلات پیش آگئیں.ناظرین جانتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ کس قدردانا اور دور اندیش اور اپنے تمام کاموں میں با احتیاط ہے اور کیسی کیسی عمدہ تدابیر رفاہ عام کیلئے اس کے ہاتھ سے نکلتی ہیں اور کیسے کیسے حکماء اور فلاسفر یورپ میں اس کے زیر سایہ رہتے ہیں.مگر تا ہم یہ دانا گورنمنٹ مذہبی روکوں کی وجہ سے اس کام میں احسن تدابیر پیدا کرنے سے ناکام رہی ہے.یوں تو اس گورنمنٹ نے اپنی تدبیر اور حکمت اور ایجادات سے یونانیوں کے علوم کو بھی خاک میں ملا دیا.مگر جس انتظام میں مذہب کی روک واقع ہوئی اس کے درست کرنے اور نا قابل اعتراض بنانے میں گورنمنٹ قادر نہ ہو سکی.اس بات کے سمجھنے کیلئے وہی نمونہ ایکٹ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 194 نمبر ۱۳.۱۸۸۹ء کافی ہے کہ جب گوروں کو اس ملک میں نکاح کی ضرورت ہوئی تو مذہبی روکوں کی وجہ سے نکاح کا انتظام نہ ہو سکا اور نہ گورنمنٹ اس فطرتی قانون کو تبدیل کر سکی جو جذبات شہوت کے متعلق ہے.آخر یہ قبول کیا گیا کہ گوروں کا بازاری عورتوں سے ناجائز تعلق ہو.کاش! اگر اس کی جگہ پر متعہ بھی ہوتا تو لاکھوں بندگان خدا زنا سے تو بچ جاتے." فرمایا:.( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 69 تا 71 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) (۲۴۶) غیر حائضہ عورت کی عدت اور جو عورتیں حیض سے نومید ہوگئی ہیں ان کی مہلت طلاق بجائے تین حیض کے تین مہینہ ہیں اور جو خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا خدا اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا.یہ خدا کا حکم ہے جو تمہاری طرف اُتارا گیا اور جو خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا اور حتی الوسع طلاق سے دست بردار رہے گا خدا اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا اور اس کو بہت بڑا اجر دے گا." فرمایا:.( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 53 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۴۷) حمل دار کی عدت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ أُولَاتُ الْأَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ أَنْ يُضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الجزو نمبر (۲۸) یعنی حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع حمل تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں.اس میں یہی حکمت ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ بھی ٹھہر جائے تو اس صورت میں نسب ضائع ہوگی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں." ( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 21 مطبوعہ نومبر 1984 ء )
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 195 (۲۴۸) ایلاء یعنی اپنی بیوی سے جدا ہونے کیلئے قسم کھانا فرمایا:." جولوگ اپنی بیویوں سے جدا ہونے کیلئے قسم کھا لیتے ہیں وہ طلاق دینے میں جلدی نہ کریں بلکہ چار مہینے انتظار کریں.سوا گر وہ اس عرصہ میں اپنے ارادہ سے باز آ جاویں، پس خدا کو غفور درحیم پائیں گے اور اگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کر لیں، سو یا د رکھیں کہ خدا سنے والا اور جاننے والا ہے.یعنی اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بددعا کرے تو خدا اس کی بددعاسن لے گا." ( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 52 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۴۹) طلاق ایک جلسہ میں بحالت غصہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کو خط لکھا اور فتویٰ طلب کیا کہ ایک شخص نے از حد غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو تین دفعہ طلاق دی.دلی منشا نہ تھا.اب ہر دو پریشان اور اپنے تعلقات کو تو ڑ نانہیں چاہتے.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا ہے:."فتویٰ یہ ہے کہ جب کوئی ایک ہی جلسہ میں طلاق دے تو یہ طلاق ناجائز ہے اور قرآن کے برخلاف ہے اس لئے رجوع ہو سکتا ہے.صرف دوبارہ نکاح ہو جانا چاہئے اور اسی طرح ہم ہمیشہ فتویٰ دیتے ہیں اور یہی حق ہے.والسلام" فرمایا:- ( اخبار بدر نمبر 5 جلد 6 مؤرخہ 31 جنوری 1907 ء صفحہ 4) (۲۵۰) ہدایت برائے مطلقات و طالق و ترتیب طلاق اور چاہئے کہ جن عورتوں کو طلاق دی گئی وہ رجوع کی امید کیلئے تین حیض تک انتظار کریں اور ان تین حیض میں جو قریباً تین مہینے ہیں، دو دفعہ طلاق ہوگی.یعنی ہر یک حیض کے بعد خاوند عورت کو طلاق دے اور جب تیسرا مہینہ آوے تو خاوند کو ہوشیار ہو جانا چاہئے کہ اب یا تو تیسری طلاق دے کر احسان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 196 کے ساتھ دائمی جدائی اور قطع تعلق ہے اور یا تیسری طلاق سے رک جائے اور عورت کو حسن معاشرت کے ساتھ اپنے گھر میں آباد کرے اور یہ جائز نہیں ہو گا کہ جو مال طلاق سے پہلے عورت کو دیا تھاوہ واپس لے لے.اور اگر تیسری طلاق جو تیسرے حیض کے بعد ہوتی ہے، دیدے تو اب وہ عورت اس کی عورت نہیں رہی اور جب تک وہ دوسرا خاوند نہ کر لے تب تک نیا نکاح اس سے نہیں ہوسکتا." ( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 53,52 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۵۱) انقضائے عدت وطلاق ثلاثہ دینے کے بعد عورت کو نکاح کرنے سے روکنا واثنائے عدت میں عورت کو گھر سے نہ نکالنا.طلاق رجعی کی حد فرمایا:."جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ مدت مقررہ تک پہنچ جائیں اور عدت کی میعاد گز رجائے تو ان کو نکاح کرنے سے مت روکو.یعنی جب تین حیض کے بعد تین طلاقیں ہو چکیں ، عدت بھی گزر گئی تو اب وہ عورتیں تمہاری عورتیں نہیں.ان کو نکاح کرنے سے مت روکو اور خدا سے ڈرو اور ان کو عدت کے دنوں میں گھروں میں سے مت نکالو، مگر یہ کہ کوئی کھلی کھلی بدکاری ان سے ظاہر ہو.اور جب تین حیض کی مدت گذر جائے تو پھر بعد اس کے احسان کے ساتھ رکھ لو یا احسان کے ساتھ اس کو رخصت کر دو.اگر کوئی تم میں سے خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا اور کسی بے ثبوت شبہ پر بگڑ نہیں جائے گا تو خدا اس کو تمام مشکلات سے رہائی دے گا اور اس کو ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ اسے علم نہیں ہو گا کہ مجھے کہاں سے رزق آتا ہے." ( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 53 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) (۲۵۲) وہ ہدایتیں جن کی پابندی کے بعد پھر ایک شخص طلاق دینے کا مجاز فرمایا:.ہو سکتا ہے وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ وَهُنَّ فِى الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 197 فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا.وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحاً يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا یعنی جن عورتوں کی طرف سے ناموافقت کے آثار ظاہر ہو جائیں.پس تم ان کو نصیحت کرو اور خوابگا ہوں میں ان سے جدار ہو اور مارو ( یعنی جیسی جیسی صورت اور مصلحت پیش آوے پس اگر وہ تمہاری تابعدار ہو جائیں تو تم بھی طلاق وغیرہ کا نام نہ لو اور تکبر نہ کرو کہ کبریائی خدا کیلئے مسلم ہے.یعنی دل میں یہ نہ کہو کہ اس کی مجھے کیا حاجت ہے میں دوسری بیوی کر سکتا ہوں بلکہ تواضع سے پیش آؤ کہ تواضع خدا کو پیاری ہے اور پھر فرماتا ہے کہ اگر میاں بیوی کی مخالفت کا اندیشہ ہو تو ایک منصف خاوند کی طرف سے مقرر کرو اور ایک منصف بیوی کی طرف سے.اگر منصف صلح کرانے کیلئے کوشش کریں گے تو خدا توفیق دیدے گا." فرمایا:.( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 51 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۲۵۳) ظہار یعنی اپنی عورت کو ماں کہنا الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَائِهِمْ مَاهُنَّ أُمَّهَاتِهِمُ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْ نَهُم وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا وَإِنَّ اللهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ.وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِّسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُوْنَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَّتَمَا شَاذِلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ ا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّتَمَاسًا فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِيِّينَ مِسْكِينًا (الجز نمبر ۲۸ سورة المجادلہ ) یعنی جو شخص اپنی عورت کو ماں کہ بیٹھے تو وہ حقیقت میں اس کی ماں نہیں ہو سکتی، ان کی مائیں وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہوئے سو یہ ان کی بات نا معقول اور سراسر جھوٹ ہے اور خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور جو لوگ ماں کہ بیٹھیں اور پھر رجوع کریں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے ایک گردن آزاد کر دیں.یہی خدائے خبیر کی طرف سے نصیحت ہے اور اگر گردن آزاد نہ کر سکیں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے دو مہینہ کے روزے رکھیں اور اگر روزے نہ رکھ سکیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیں." ( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 50 مطبوعہ نومبر 1984ء)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 198 فرمایا: - ہیں.(۲۵۴) اپنی بیوی سے حسن معاشرت "چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول علی اللہ نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قد را اطلاع کروں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسی معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ فرماتے عليه السلام خَيْرُكُمْ خَيْرُكُم بِاَهْلِهِ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے.اور حسن معاشرت کیلئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا.عزیز من انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالہ کر دیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہئے اور ہر ایک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے، مجھے اس پر کونسی زیادتی ہے.خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے ، بیویوں پر رحم کرنا چاہئے اور ان کو دین سکھلانا چاہئے.در حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے.میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صدہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے، شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دیں اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں." الحکم نمبر 13 جلد 9 مؤرخہ 17 اپریل 1905 صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 199 (۲۵۵) سید زادی سے نکاح ایک شخص نے حضرت صاحب کی خدمت میں سوال پیش کیا کہ غیر سید کو سیدانی سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے نکاح کے واسطے جو محرمات بیان کئے ہیں ان میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ مومن کے واسطے سید زادی حرام ہے.علاوہ ازیں نکاح کے واسطے طیبات کو تلاش کرنا چاہئے اور اس لحاظ سے سید زادی کا ہونا بشر طیکہ تقویٰ و طہارت کے لوازمات اس میں ہوں افضل ہے." حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ سید کا لفظ اولاد حسین کے واسطے ہمارے ملک میں ہی خاص ہے، ورنہ عرب میں سب بزرگوں کو سید کہتے ہیں.حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان نسب سید ہی تھے اور حضرت علیؓ کی ایک لڑکی حضرت عمرؓ کے گھر میں تھی اور حضرت رسول کریم عیب اللہ کی ایک لڑکی حضرت عثمان سے بیاہی گئی تھی اور اس کی وفات کے بعد پھر دوسری لڑکی بھی حضرت عثمان سے بیاہی گئی تھی.بس اس عمل سے یہ مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے.جاہلوں کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ اُمتی سیدانی کے ساتھ نکاح نہ کرے حالانکہ اُمتی میں تو ہر ایک مومن شامل ہے خواہ وہ سید ہو یا غیر سید." اخبار بدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 صفحہ 4) (۲۵۶) ناجائز وعدہ نکاح کو توڑنا ایک شخص کی درخواست پیش ہوئی کہ میری ہمشیرہ کی منگنی مدت سے ایک غیر احمدی کے ساتھ ہو چکی ہے.اب اس کو قائم رکھنا چاہئے یا نہیں؟ فرمایا:.ناجائز وعدہ کو توڑنا اور اصلاح کرنا ضروری ہے.آنحضرت علی اللہ نے قسم کھائی تھی کہ شہد نہ کھائیں گے.خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایسی قسم کو توڑ دیا جاوے.علاوہ ازیں منگنی تو ہوتی ہی اسی لئے ہے کہ اس عرصہ میں تمام حسن و فتح معلوم ہو جاویں.منگنی نکاح نہیں ہے کہ اس کا توڑ نا گناہ ہو." اخبار بدر نمبر 26 جلد 6 مؤرخہ 27 جون 1907 صفحہ 7 (۲۵۷) غیر کفو میں نکاح ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی ایک لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 200 چاہتا ہے، حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے.اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ:.اگر حسب مرا درشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنا بہ نسبت غیر کفو کے بہتر ہے.لیکن یہ امرایسا نہیں کہ بطور فرض کے ہو.ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتا ہے.اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہر حال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے جائز نہیں ہے." ( اخبار بدر نمبر 15 جلد 6 مؤرخہ 11 اپریل 1907 صفحہ 3) (۲۵۸) بیوہ کا نکاح کن صورتوں میں ضروری ہے ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے.اس کے نکاح کے وقت عمر ، اولاد، موجودہ اسباب، نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہئے یا کہ نہیں.یعنی کیا بیوہ با وجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جاوے؟ فرمایا:." بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے.چونکہ بعض قو میں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے.نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے.بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں.بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں.مثلاً کسی کو ایسا مرض لا حق حال ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے.ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جاوے.ہاں اس بد رسم کو مٹا دینا چاہئے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبر ارکھا جاتا ہے." ( اخبار بدر نمبر 41 جلد 6 مؤرخہ 10 /اکتوبر 1907 ءصفحہ 11)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 201 فرمایا:.(۲۵۹) دف کے ساتھ اعلان شادی "رف کے ساتھ شادی کا اعلان کرنا بھی اسی لئے ضروری ہے کہ آئندہ اگر جھگڑا ہو تو ایسا اعلان بطور گواہ ہو جاتا ہے ایسا ہی اگر کوئی شخص نسبت اور ناطہ پر شکر وغیرہ اس لئے نقسم کرتا ہے کہ وہ ناطہ پکا ہو جاوے تو گناہ نہیں ہے لیکن اگر یہ خیال نہ ہو بلکہ اس سے مقصد صرف اپنی شہرت اور شیخی ہو تو پھر یہ جائز نہیں ہوتے." فرمایا:.الحکم نمبر 14 جلد 7 مؤرخہ 17 اپریل 1903 ء صفحه 2 (۲۶۰) گانا اس طرح پر سب اعمال کا حال ہے.اگر ان کی اصلیت کا لحاظ اور مغز کا خیال نہ ہو تو وہ ایک رسم اور عادت رہ جاتی ہے.اس طرح روزہ میں خدا کے واسطے نفس کو پاک رکھنا ضروری ہے لیکن اگر حقیقت نہ ہو تو پھر یہ رسم ہی رہ جاتی ہے.یقین یا درکھو کہ جو خدا تعالیٰ کے فضل پر خوش نہیں ہوتا اور اس کا عملی اظہار نہیں کرتے وہ مخلص نہیں ہے.میرے خیال میں اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے فضل پر سال بھر تک گا تا رہے تو وہ سال بھر ماتم کرنے والے سے اچھا ہے.جو ا مور قَالَ اللهُ وَ قَالَ الرَّسُولُ کے خلاف ہوں یا ان میں شرک یار یا ہو اور ان میں اپنی شیخی دکھائی جاوے وہ امور اثم میں داخل ہیں اور منع ہیں." الحکم نمبر 14 جلد 7 مؤرخہ 17 اپریل 1903 ء صفحه (2) (۲۶۱) راگ سوال:.ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں.آیا یہ جائز ہے؟ جواب: فرمایا:." اس طرح بزرگان دین پر بدظنی کرنا اچھا نہیں حسن ظن سے کام لینا چاہئے.حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت علی اللہ نے بھی اشعار سنے تھے.لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 202 عنہ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد کے اندر شعر پڑھتا تھا.حضرت عمرؓ نے اس کو منع کیا.اس نے جواب دیا میں نبی کریم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا.تو کون ہے جو مجھے روک سکے.یہ سن کر حضرت امیر المومنین بالکل خاموش ہو گئے.قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہئے بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور خود اس میں ایک اثر ہے.عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے.وہی تقر یر ژولیدہ زبان سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا.جس شے میں خدا نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے.حضرت داؤد کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داؤ د خدا کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی اس کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے." ( اخبار بد نمبر 36 جلد 1 مؤرخہ 17 نومبر 1905ء صفحہ 6) (۲۶۲) مزامیر سوال:.مزامیر کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ جواب: فرمایا: " بعض نے قرآن شریف کے لفظ لھو الحدیث کو مزامیر سے تعبیر کیا ہے.مگر میرا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو مقام اور حل دیکھنا چاہئے.ایک شخص کو جو اپنے اندر بہت سے علوم رکھتا ہے اور تقویٰ کے علامات اس میں پائے جاتے ہیں اور متقی باخدا ہونے کی ہزار دلیل اس میں موجود ہے.صرف ایک بات جو تمہیں سمجھ میں نہیں آتی اس کی وجہ سے اسے بُرا نہ کہو.اس طرح انسان محروم رہ جاتا ہے.بایزید بسطامی کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ لوگ بہت ان کے گرد ہوئے اور ان کے وقت کو پراگندہ کرتے تھے.رمضان کا مہینہ تھا انہوں نے سب کے سامنے روٹی کھانی شروع کر دی.تب سب لوگ کا فر کہہ کر بھاگ گئے.عوام واقف نہ تھے کہ یہ مسافر ہے اور اس کے واسطے روزہ ضروری نہیں.لوگ نفرت کر کے بھاگے.ان کے واسطے عبادت کیلئے مقام خلوت حاصل ہو گیا." اخبار بدر نمبر 36 جلد 1 مؤرخہ 17 نومبر 1905 ، صفحہ 7)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 203 (۲۶۳) رهن و بیمه سوال :.رہن کے متعلق کیا حکم ہے؟ جواب:." ہمارے نزدیک رہن جب کہ نفع و نقصان کا ذمہ وار ہو جاتا ہے اس سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے." سوال :.بعض لوگ جو عمارتوں کے بیمے کسی بیمہ کی کمپنی سے آتشزدگی وغیرہ کے متعلق کراتے ہیں اس کی بابت حضور کیا فرماتے ہیں؟ حضرت اقدس نے اس سوال کا جواب دیتے وقت ایک اصل بیان کر دی کہ :."سود اور قمار سے الگ کر کے اقرارات کو شریعت نے صحیح سمجھا ہے.پس ان معاملات میں دیکھ لو کہ سود یا قمار کی کوئی جز تو نہیں اگر صرف اقرارات ہوں ان کو شریعت نے جائز رکھا ہے کہ جن میں ذمہ داری ہوتی ہے." چونکہ اس قسم کے سوالوں کے متعلق ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اس لئے حضرت حجتہ اللہ نے فرمایا کہ:."لَا تَسْأَلُوْاعَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ بھی قرآن شریف میں آیا ہے بہت کھوج کھاج مناسب نہیں ہے ایک شخص دعوت کھانے جاوے اور پھر وہاں لمبی تحقیق شروع کر دے کہ فلاں چیز کہاں سے آئی ، اس نے کہاں سے لی.ایسے استفسار منع ہیں." "" انشورنش اور بیمہ پر سوال کیا گیا.فرمایا کہ:.الحکم نمبر 11 جلد 7 مؤرخہ 24 / مارچ 1903 ، صفحہ 6 سود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے.قمار بازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی.دنیا کے کاروبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے.دوسرے ان تمام سوالوں میں اس امر کا خیال بھی رکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف میں حکم ہے کہ بہت کھوج نکال نکال کر مسائل نہ پوچھنے چاہئیں مثلاً اب کوئی دعوت کھانے جاوے تو اب اسی خیال میں لگ جاوے کہ کسی وقت حرام کا پیشہ ان کے گھر آیا ہو گا.پھر اس طرح تو آخر کار دعوتوں کا کھانا ہی بند ہو جاوے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 204 گا.خدا کا نام ستار بھی ہے ورنہ دنیا میں عام طور پر راستباز کم ہوتے ہیں مستور الحال بہت ہوتے ہیں.یہ بھی قرآن میں لکھا ہے وَلَا تَجَسَّسُوا یعنی تجس مت کیا کر دور نہ اس طرح تم مشقت میں پڑو گے." البدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ 27 / مارچ 1903 ءصفحہ 76) (۲۶۴) زمین کا رہن رہن کے متعلق سوال ہوا.آپ نے فرمایا کہ:.موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں.گزشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہوگئی تو حکام زمینداروں سے معاملہ وصول کر لیا کرتے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جاتا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں.پس چونکہ حکام وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اسی طرح یہ رہن بھی جائز رہا کیونکہ کبھی فصل ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی تو دونوں صورتوں میں مرتہن نفع و نقصان کا ذمہ دار ہے.پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے.آجکل گورنمنٹ کے معاملے زمینداروں.ٹھیکہ کی صورت میں ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہوتا ہے تو ایسی صورت عدل میں رہن بے شک جائز ہے.جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑارہن با قبضہ ہو سکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مرتہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا." ނ (الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 صفحه (11) (۲۶۵) رہن زیوروز کوۃ زیور زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا:.زیور ہو کچھ ہو جب کہ انتفاع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں.اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس کی زکوۃ بھی اس کے ذمہ ہے.زیور کی زکوۃ بھی فرض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوۃ ڈیڑھ سوروپیہ دیا ہے.پس اگر زیور استعمال
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 205 کرتا ہے تو اس کی زکوۃ دے.اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی ے." الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 اپریل 1903 صفحہ 11) (۲۶۶) کسی شخص کو جو تجارتی روپیہ دیا جاوے اس کا منافع لینا ظہر کے وقت ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نور الدین صاحب نے ایک مسئلہ حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں.جن کے پاس ہیں بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے.ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کی اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں.اور جو روپیہ آ وے وہ امانت رہے.سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سورو پیدان کو منافع کا دید یا کرے گا.یہ اس غرض سے یہاں فتوی دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو ان کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کر لی جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.چونکہ انہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اس لئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے.دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں.لہذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو ان کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں.سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں ) لیا جاتا ہے.اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروز بر ہو گئے ہیں.کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے." الحکم نمبر 40 جلد 8 مؤرخہ 24 نومبر 1904 ، صفحہ 11 (۲۶۷) وزنوں کے باٹوں میں کمی بیشی ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی بر درس وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیر اسی روپیہ کا دیتے ہیں اور
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 206 لیتے اکاسی روپے کا ہیں کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا:." جن معاملات بیع و شراء میں مقدمات نہ ہوں.فسادنہ ہوں.تراضی فریقین ہو اور سرکار نے بھی جرم نہ رکھا ہو.عرف میں جائز ہو.وہ جائز ہے." (الحکم نمبر 29 جلد 7 مؤرخہ 10 راگست 1903 ء صفحہ 19) (۲۶۸) نملہ ارزاں خرید کر روک رکھنا کسی نے پوچھا کہ بعض آدمی غلہ کی تجارت کرتے ہیں اور خرید کر اسے رکھ چھوڑتے ہیں.جب مہنگا ہو جاوے تو اسے بیچتے ہیں کیا ایسی تجارت جائز ہے؟ فرمایا:." اس کو مکروہ سمجھا گیا ہے.میں اس کو پسند نہیں کرتا.میرے نزدیک شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے.ایک آن کی بدنیتی بھی جائز نہیں اور یہ ایک قسم کی بد نیتی ہے.ہماری غرض یہ ہے کہ بد نیتی دور ہو." احکم نمبر 39 جلد 9 مؤرخہ 10 نومبر 1905 صفحہ 5 (۲۶۹) سود اور ایمان ایک نے سوال کیا کہ ضرورت پر سودی روپیہ لے کر تجارت وغیرہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:."حرام ہے.ہاں اگر کسی دوست اور تعارف کی جگہ سے روپیہ لیا جاوے اور کوئی وعدہ اس کو زیادہ دینے کا نہ ہو.نہ اس کے دل میں زیادہ لینے کا خیال ہو پھر اگر مقروض اصل سے کچھ زیادہ دیدے تو وہ سود نہیں ہوتا بلکہ یہ توهَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَان ہے." اس پر اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہو اور سوائے سود کے کام نہ چل سکے تو پھر ؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:." خدا تعالیٰ نے اس کی حرمت مومنوں کے واسطے مقرر کی ہے اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایمان پر قائم ہو.اللہ تعالیٰ اس کا متولی اور متکفل ہوتا ہے.اسلام میں کروڑہا ایسے آدمی گزرے ہیں جنہوں نے نہ سودالیانہ دیا آخر ان کے حوائج بھی پورے ہوتے رہے کہ نہ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ لو نہ دو، جو ایسا کرتا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 207 ہے وہ گویا خدا کے ساتھ لڑائی کی تیاری کرتا ہے.ایمان ہو تو اس کا صلہ خدا بخشتا ہے.ایمان بڑی بابرکت شے ہے اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.اگر اسے خیال ہو کہ پھر کیا کرے تو کیا خدا کا حکم بھی بیکا ر ہے.اس کی قدرت بہت بڑی ہے.سود تو کوئی شے ہی نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا کہ زمین کا پانی نہ پیا کرو تو وہ ہمیشہ بارش کا پانی آسمان سے دیا کرتا.اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نافرمانی بھی نہ ہو.جب تک ایمان میں میل کچیل ہوتا ہے تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے.کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک خدا نہ چھڑوائے ورنہ انسان تو ہر ایک گناہ پر یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے.اگر چھوڑیں تو گزارہ نہیں چلتا.دکانداروں، عطاروں کو دیکھا جاوے کہ پرانا مال سالہا سال تک بیچتے ہیں، دھوکا دیتے ہیں.ملازم پیشہ لوگ رشوت خوری کرتے ہیں اور سب یہ عذر کرتے ہیں کہ گزارہ نہیں چلتا.ان سب کو اگر اکٹھا کر کے نتیجہ نکالا جاوے تو پھر یہ نکلتا ہے کہ خدا کی کتاب پر عمل ہی نہ کرو کیونکہ گزارہ نہیں چلتا.حالانکہ مومن کیلئے خدا خود سہولت کر دیتا ہے.یہ تمام راستبازوں کا مجرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خود راہ نکال دیتا ہے.لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے.جیسے بھروسہ ان کو حرام کے دروازے پر ہے ویسا خدا پر نہیں.خدا پر ایمان یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہے کہ جیسے اور عجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جاوے." البدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ 27 / مارچ 1903 ء صفحہ 75) (۲۷۰) فتوی در باب سود بینک شیخ نور احمد صاحب نے بینک کے سود کے متعلق تذکرہ کیا کہ بینک والے ضرور سود دیتے ہیں.پھر اسے کیا کیا جاوے؟ اس پر فرمایا:." ہمارا یہی مذہب ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ہمارے دل میں ڈالا ہے کہ ایسا روپیہ اشاعت دین کے کام میں خرچ کیا جاوے.یہ بالکل سچ ہے کہ سود حرام ہے لیکن اپنے نفس کے واسطے.اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں جو چیز جاتی ہے وہ حرام نہیں رہ سکتی ہے کیونکہ حرمت اشیاء کی انسان کیلئے ہے نہ اللہ تعالیٰ کے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 208 واسطے.پس سود اپنے نفس کیلئے، بیوی بچوں، احباب، رشتہ داروں اور ہمسایوں کیلئے بالکل حرام ہے لیکن اگر یہ روپیہ خالصہ اشاعت دین کیلئے خرچ ہو تو حرج نہیں ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسلام بہت کمزور ہو گیا ہے اور پھر اس پر دوسری مصیبت یہ ہے کہ لوگ زکوۃ بھی نہیں دیتے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دو مصیبتیں واقع ہو رہی ہیں اور دو حرمتیں روا رکھی گئی ہیں.اول یہ کہ زکوۃ جس کے دینے کا حکم تھا وہ دیتے نہیں اور سود جس کے لینے سے منع کیا تھا وہ لیتے ہیں.یعنی جو خدا تعالیٰ کا حق تھا وہ تو دیا نہیں اور جو اپنا حق نہ تھا اسے لیا گیا.جب ایسی حالت ہو رہی ہے اور اسلام خطر ناک ضعف میں مبتلا ہے تو میں یہی فتویٰ دیتا ہوں کہ ایسے سودوں کی رقمیں جو بینک سے ملتا ہے یکمشت اشاعت دین میں خرچ کرنی چاہئیں.میں نے جوفتویٰ دیا ہے وہ عام ہے.ورنہ سود کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں.مگر اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جب کہ مالی ترقی کے ذریعے پیدا نہیں ہوئے اور مسلمان توجہ نہیں کرتے ایسا رو پیداسلام کے کام میں لگنا حرام نہیں ہے.قرآن شریف کے مفہوم کے موافق جو حرمت ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کیلئے اگر خرچ ہو تو حرام ہے.یہ بھی یاد رکھو جیسے سود اپنے لئے درست نہیں کسی اور کو اس کا دینا بھی درست نہیں.ہاں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ایسے مال کا دینا درست ہے اور اس کا یہی طریق ہے کہ وہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ ہو.اس کی ایسی مثال ہے جیسے جہاد ہورہا ہو اور گولی بارود کسی فاسق فاجر کے ہاں ہو اس وقت محض اس خیال سے رک جانا کہ یہ گولی بارود مال حرام ہے ٹھیک نہیں بلکہ مناسب یہی ہوگا کہ اس کو خرچ کیا جاوے.اس وقت تلوار کا جہاد تو باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی گورنمنٹ دی ہے جس نے ہر ایک قسم کی مذہبی آزادی عطا کی ہے.اب قلم کا جہاد باقی ہے اس لئے اشاعت دین میں ہم اس کو خرچ کر سکتے ہیں." الحکم نمبر 33 جلد 9 مورخہ 24 ستمبر 1905 ، صفحہ 9 ایک دوست نے عرض کی کہ میرے ایک رشتہ دار کا بہت سا روپیہ بینک میں کئی سالوں کے واسطے جمع تھا جہاں سے ماہواری سود ملتا ہے.اس کے مرنے کے بعد اب اس کے وارث لیتے ہیں.ایسے سود
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 209 کے متعلق کیا حکم ہے؟ بینک والے وہ رقم ضرور دیتے ہیں اور بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر روپیہ جمع کرنے والا سود سے فائدہ نہ اُٹھائے تو بینک والوں سے ایسا روپیہ مشنری عیسائی اشاعت دین عیسوی کے واسطے لے لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:."ہمارا مذہب یہ ہے کہ سود کا روپیہ بالکل حرام ہے کہ کوئی شخص اسے اپنے نفس پر خرچ کرے اور کسی قسم کے بھی ذاتی مصارف میں خرچ کرے یا اپنے بال بچے کو دے یا کسی فقیر مسکین کو دے.کسی ہمسایہ کو دے یا مسافر کو دے سب حرام ہے.سود کے روپیہ کا لینا اور خرچ کرنا گناہ ہے لیکن ایک بات جس پر خدا تعالیٰ نے ہمارے دل کو قائم کر دیا ہے اور وہ صحیح ہے.یہ ہے کہ یہ ایام اسلام کے واسطے بڑے مالی مشکلات کے ہیں.اول تو مسلمان اکثر غریب ہیں پھر جو امیر ہیں وہ اپنے ذاتی مصارف میں اور مال وعیال کے فکر میں حد سے بڑھ گئے ہیں.سود کا روپیہ لے لیتے ہیں اور زکوۃ نہیں دیتے.دونوں طرف سے گنہ گاری میں پڑے ہوئے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ غریب ہو یا امیر ہو کسی کو بھی دین کا اور اسلام کی اشاعت کا فکر نہیں.جو زکوۃ دیتے ہیں وہ بھی رسمی طور پر دنیوی عزت کے موقع پر اپنا روپیہ خرچ کر ڈالتے ہیں.اپنا جو حق نہ تھاوہ لیتے ہیں اور خدا کا جو حق تھا وہ بھی نہیں دیتے اور اس طرح اپنے اندر دو گناہ ایک ہی وقت میں جمع کرتے ہیں.غرض اس قدر اسلامی مصیبت کے وقت میں اگر اس قسم کا رو پیدا اشاعت اسلام کے واسطے تالیف کتب میں صرف کیا جائے تو یہ جائز ہے.سود کا روپیہ تصرف ذاتی کے واسطے نا جائز ہے.لیکن خدا کے واسطے کوئی شے حرام نہیں.خدا کے کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ حرام نہیں ہے.اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ گولی بارود کا چلانا کیسا ہی ناجائز اور گناہ ہو لیکن جو اسے ایک جانی دشمن پر مقابلہ کے واسطے نہیں چلاتا وہ قریب ہے کہ خود ہلاک ہو جائے.کیا خدا نے نہیں فرمایا کہ تین دن کے بھوکے کے واسطے سوربھی حرام نہیں بلکہ حلال ہے.پس سود کا مال اگر ہم خدا کیلئے لگا ئیں تو پھر کیونکر گناہ ہوسکتا ہے.اس میں مخلوق کا حصہ نہیں لیکن اعلائے کلمہ اسلام میں اور اسلام کی جان بچانے کیلئے اس کا خرچ کرنا ہم اطمینان اور شلج قلب سے کہتے ہیں کہ یہ بھی فَلا اِنم عَلَيْهِ میں داخل ہے.یہ ایک استثناء ہے.اشاعت اسلام کے واسطے ہزاروں حاجتیں ایسی پڑتی ہیں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 210 جن میں مال کی ضرورت ہے.مثلاً آج کل یہ معلوم ہوا ہے کہ جاپانی لوگ اسلام کی طرف توجہ رکھتے ہیں اس واسطے بہت ضروری ہے کہ اسلامی خوبیوں کی ایک جامع کتاب تالیف کی جائے.جس میں سر سے لے کر پاؤں تک اسلام کا پورا نقشہ کھینچا جاوے کہ اسلام کیا ہے.صرف بعض مضامین مثلاً تعدد ازدواج وغیرہ پر چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنا ایسا ہے جیسا کہ کسی کو سارا بدن نہ دکھایا جائے اور صرف ایک انگلی دکھا دی جاوے.یہ مفید نہیں ہوسکتا.پوری طرح دکھانا چاہیئے کہ اسلام میں کیا کیا خوبیاں ہیں اور پھر ساتھ ہی دیگر مذاہب کا حال بھی لکھ دینا چاہئے.وہ لوگ بالکل بے خبر ہیں کہ اسلام کیا شے ہے.تمام اصول و فروع اور اخلاقی حالات کا ذکر کرنا چاہئیے اس کے واسطے ایک مستقل کتاب لو لکھنی چاہئے جس کو پڑھ کر وہ لوگ دوسری کتاب کے محتاج نہ رہیں.آج کل اس کام میں روپیہ صرف کرنے کی اس قدرضرورت ہے کہ ہمارے نزدیک جو آدمی حج کے واسطے روپیہ جمع کرتا ہے اس کو بھی چاہئے کہ اپنا روپیہ اسی کام میں صرف کر دے کیونکہ یہ جہاد کا موقع ہے.اب تلوار کا جہاد باقی نہیں رہا لیکن قلم کا جہاد باقی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس طرح کی طیاری کفار تمہارے مقابلہ میں کرتے ہیں اسی طرح کی طیاری تم بھی ان کے مقابلہ میں کرو.اب قوموں کے درمیان تلوار کا مذہبی جنگ باقی نہیں رہا لیکن قلم کا جنگ ہے.پادری لوگ طرح طرح کے مکر وفریب کے ساتھ اسلام کے برخلاف کتابیں شائع کرتے ہیں اور غلط باتیں افترا پردازی سے لکھتے ہیں.جب تک ان خبیث باتوں سے آنحضرت لیل اللہ کا پاک ہونا ثابت نہ کیا جائے اسلام کی اشاعت کس طرح ہو سکتی ہے.پس ہم اس بات سے شرم نہیں کرتے.کوئی قبول کرے یا نہ کرے.میرا مذہب جس پر خدا نے مجھے قائم کیا ہے اور جو قرآن شریف کا مفہوم ہے وہ یہ ہے کہ اپنے نفس، عیال ، اطفال، دوست عزیز کے واسطے اس سود کو مباح نہیں کر سکتے بلکہ یہ پلید ہے اور اس کا استعمال حرام ہے.لیکن اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جب کہ دین مالی امداد کا سخت محتاج ہے اسلام کی مدد ضرور کرنی چاہئے.جیسا کہ ہم نے مثال کے طور پر بیان کیا ہے کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے اور کسی فصیح بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کرایا جائے اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جاوے.ایسے موقعہ پر سود کا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 211 روپیہ لگانا جائز ہے کیونکہ ہر ایک مال خدا کا ہے اور اس طرح پر وہ خدا کے ہاتھ میں جائے گا.مگر بائیں ہمہ اضطرار کی حالت میں ایسا ہوگا اور بغیر اضطرار یہ بھی جائز نہیں." البدر نمبر 26 جلد 1 مؤرخہ 29 ستمبر 1905 صفحہ 4 (۲۷۱) اسلامی تائید کیلئے اجازت سود مختص المقام ومختص الزمان ہے ایک دوست نے عرض کی کہ اگر اس طرح سے ایک خاص امر کے واسطے سود کے روپے کمانے کی اجازت دی گئی ہو تو لوگوں میں اس کا رواج وسیع ہو کر عام قباحتیں پیدا ہو جا ئیں گی.فرمایا کہ:." بے جاعذر تراشنے کے واسطے تو بڑے حیلے ہیں.بعض شرير لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ کے یہ معنی کر دیتے ہیں کہ نماز نہ پڑھو.ہمارا منشاء صرف یہ ہے کہ اضطراری حالت میں جب خنزیر کھانے کی اجازت نفسانی ضرورتوں کے واسطے جائز ہے تو اسلام کی ہمدردی کے واسطے اگر انسان دین کو ہلاکت سے بچانے کے واسطے سود کے روپیہ کر خرچ کر لے تو کیا قباحت ہے.یہ اجازت مختص المقام اور مختص الزمان ہے.یہ نہیں کہ ہمیشہ کے واسطے اس پر عمل کیا جائے.جب اسلام کی نازک حالت نہ رہے تو پھر اس ضرورت کے واسطے بھی سود لینا ویسا ہی حرام ہے کیونکہ دراصل سود کا عام حکم تو حرمت ہی ہے." البدر نمبر 26 جلد 1 مؤرخہ 29 ستمبر 1905 ء صفحہ 4 (۲۷۲) نوٹوں پر کمیشن حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں ایک صاحب کا سوال پیش ہوا کہ نوٹوں کے بدلے روپیہ لینے یا دینے کے وقت یا پونڈ یا روپیہ تو ڑانے کے وقت دستور ہے کہ کچھ پیسے زائد لئے یا دیئے جاتے ہیں.کیا اس قسم کا کمیشن لینا یا دینا جائز ہے؟ حضرت نے فرمایا:." یہ جائز ہے اور سود میں داخل نہیں.ایک شخص وقت ضرورت ہم کو نوٹ بہم پہنچا دیتا ہے یا نوٹ لے کر روپیہ دید یتا ہے تو اس میں کچھ حرج نہیں کہ وہ کچھ مناسب کمیشن اس پر لے لے.کیونکہ نوٹ یا روپیہ یا ریز گاری کے محفوظ رکھنے اور طیار رکھنے میں وہ خود بھی وقت اور محنت خرچ کرتا ہے." البدر نمبر 39 جلد 6 مؤرخہ 26 ستمبر 1907 ء صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 212 (۲۷۳) بنکوں کا سود بونس وغیرہ کا روپیہ جو گورنمنٹ دیتی ہے ایک صاحب نے سوال کیا کہ ریلوے میں جو لوگ ملازم ہوتے ہیں ان کی تنخواہ میں سے ار (ایک آنہ فی روپیہ کاٹ کر رکھا جاتا ہے.پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ روپیہ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ زائد روپیہ بھی وہ دیتے ہیں.اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ:." شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کیلئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے.یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلا وے گا.لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے.چنانچہ انبیاء ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں.اگر بادشاہ کچھ روپیہ لیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے.وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے.پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگی کے وقت اسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ دید یا ہو.یہ خیال رہنا چاہئے کہ اپنی خواہش نہ ہو.خواہش کے برخلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ سود میں داخل نہیں ہے." ایک صاحب نے بیان کیا کہ سید احمد خاں صاحب نے لکھا ہے کہ اَضْعَافاً مُضَاعَفَةً کی ممانعت ہے.فرمایا کہ:.یہ بات غلط ہے کہ سود در سود کی ممانعت کی گئی ہے اور سود جائز رکھا ہے.شریعت کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے.یہ فقرے اسی قسم کے ہوتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ گناہ در گناہ مت کرتے جاؤ.اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گناہ ضرور کرو.اس قسم کا روپیہ جو کہ گورنمنٹ سے ملتا ہے وہ اسی حالت میں سود ہوگا جب کہ لینے والا اسی خواہش سے روپیہ دیتا ہے کہ مجھ کو سود ملے.ورنہ گورنمنٹ جو اپنی طرف سے احسانا دیوے وہ سود میں داخل نہیں ہے." البدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ 27 / مارچ 1903 ء صفحہ 75) (۲۷۴) رشوت وغیرہ حرام مال سے جو عمارت وغیرہ ہو ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ایک شخص تائب ہو تو اس کے پاس جو اؤل جائدا درشوت وغیرہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 213 سے بنائی ہو اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:." شریعت کا حکم ہے کہ تو بہ کرے تو جس جس کا وہ حق ہے وہ اسے پہنچایا جاوے." البدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ 27 / مارچ 1903 ءصفحہ 76) (۲۷۵) سود کا لین دین سوال:.سودی روپے کے لینے اور دینے کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضرت اقدس :."ہمارے نزدیک سودی روپیہ لینا اور دینا دونوں حرام ہیں.مومن وہ ہوتے ہیں جو اپنے ایمان پر قائم ہوں.اللہ تعالیٰ ان کا خود متولی اور متکفل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.اس قدر مومن دنیا میں گزرے ہیں وہ کبھی ایسی مشکلات میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ يَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ اللہ تعالیٰ ہر ضیق سے ان کو نجات دیتا ہے.ہاں رسول اللہ صلی اللہ کی زندگی میں ایک نمونہ پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ جب کسی سے کچھ روپیہ قرض لیتے تو اس کے ساتھ کچھ اور بھی دیدیتے.اس طریق پر کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَان پر عمل ہو جاوے.اور یہ جوزائد دید یتے وہ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ اصل سے دو چند سہ چند ہوتا.ایسی صورتیں جائز ہیں کہ اگر کسی دوست سے روپیہ لے اور کوئی شرط اس کے ساتھ نہ ہو تو صلہ مواسات کے طور پر کچھ بڑھا کر دیدے.ہے.لیکن جیسے آج کل عام طور پر مروج ہے کہ پہلے سود کا فیصلہ ہو جاتا ہے.یہ جائز نہیں بلکہ حرام ایمان بڑی بابرکت چیز ہے.مومن کو اللہ تعالیٰ ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا.مومن اپنے رب کی نسبت یقین رکھتا ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَدِيرٌ.مومن کو یہ ضرورت نہیں ہوتی.اگر ہوتی ہے تو وہ خود کفیل ہو جاتا ہے.سود تو کوئی چیز نہیں اگر اللہ تعالیٰ مومن کو کہتا کہ تو زمین کا پانی نہ پیا کر تو میں ایمان رکھتا ہوں کہ اس کو آسمان سے پانی ملتا.جس قدر ضعف اور لاچاری ہوتی ہے اسی قدر ایمان کی کمزوری ہوتی ہے.کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک اللہ تعالیٰ توفیق اور قوت نہ دے.جب وہ قوت عطا کرتا ہے تو پھر سہولت کے درواز.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 214 کھول دیتا ہے.اگر عذر نکال نکال کر گناہ کئے جائیں جیسے مثلاً کہتے ہیں کہ سودی روپیہ لئے بغیر گزارہ نہیں تو پھر عذروں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی کتاب کے کسی حکم پر عمل نہ ہو.سب راستبازوں کا تجربہ یہی ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ رحمت کا دروازہ نہ کھولے کچھ بھی نہیں بنتا.افسوس یہ ہے کہ جیسا بھروسہ انسان مخلوق کے دروازوں پر رکھتا ہے اگر اپنے خالق کے دروازہ پر رکھے تو کبھی محتاج نہ ہو.مگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کرتے.عذر رکھ کر معصیت میں مبتلا ہونا یہ سفلی عذر ہے جو شیطان سے آتا ہے.ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرے تو سب کچھ ہوتا ہے.میں نے بعض بیماریوں میں آزمایا ہے اور دیکھا ہے کہ محض دعا سے اس کا فضل ہوا اور مرض جاتا رہا ہے.ابھی دو چار دن ہوئے ہیں کثرت پیشاب اور اسہال کی وجہ سے میں مضمحل ہو گیا تھا.میں نے دعا کی تو الہام ہوا دُعَاءُ كَ مُسْتَجَابٌ.اس کے بعد ہی دیکھا کہ وہ شکایت جاتی رہی.خدا ایک ایسا نسخہ ہے جو سارے نسخوں سے بہتر ہے اور چھپانے کے قابل ہے.مگر پھر دیکھتا ہوں کہ یہ بخل ہے اس لئے ظاہر کرنا پڑتا ہے.اسلام اور غیر اسلام میں یہی فرق ہے کہ وہ اپنی قدرت کے کرشمے دکھاتا ہے.جیسا آنحضرت علی ای السلم کے وقت ہوتا تھا.اب بھی خدا تعالیٰ وہی کرشمے دکھاتا ہے اور تازہ بتازہ کرشمے دکھاتا ہے اور ہم پہچانتے ہیں کہ گویا وہی زمانہ اور وقت ہے اس سے بڑا حوصلہ پیدا ہوتا ہے.وہ اپنے بندوں کو جلتی آگ میں بچا لیتا.ابراہیم علیہ السلام کیلئے کہا يَا نَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا.اور یہاں بھی ڈگلس کے سامنے جو کلارک کا مقدمہ تھا وہ اس آگ سے کم نہ تھا.غرض مومن کو خدا تعالیٰ ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا.جو پڑتا ہے وہ اپنی ہی کمزوری کی وجہ سے پڑتا ہے." سوال:.بابوعطا الہی صاحب سٹیشن ماسٹر نے عرض کی کہ حضور ریلوے کے محکمہ میں ملازموں کی تنخواہ میں سے ماہوار کچھ حصہ وضع ہوتا ہے اور وہ گورنمنٹ کے پاس جمع رہتا ہے پھر اس پر کچھ بونس دیا جاتا ہے.کیا وہ سود میں داخل ہے؟ حضرت اقدس : " بات اصل یہ ہے کہ سود کی تعریف یہ ہے کہ اپنے ذاتی فائدے کیلئے روپہ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 215 قرض دیا جاوے یہ تعریف جہاں صادق آتی ہے وہ سود ہے.لیکن جب کہ محکمہ ریلوے کے ملازم خود وہ روپیہ سود کے لالچ سے نہیں دیتے بلکہ جبر وضع کیا جاتا ہے تو یہ سود کی تعریف میں داخل نہیں ہے.اور خود جو کچھ وہ روپیہ زائد دیدیتے ہیں وہ داخل سود نہیں ہے.غرض یہ خود دیکھ سکتے ہو کہ آیا یہ روپیہ سود لینے کیلئے تم خود دیتے ہو یا وہ خود وضع کرتے ہیں اور بلا طلب اپنے طور پر دیتے ہیں." (الحکم نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 24 / مارچ1903ء صفحہ 6,5) ایک شخص نے ایک لمباخط لکھا کہ سیونگ بنگ کا سود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا ہیں.کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ:." یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کے سارے پہلوؤں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے حرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کئے جاویں ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے.اللہ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کئے ہیں.مسلمان کو چاہئے کہ ان کو اختیار کرے اور اس سے پر ہیز رکھے.ایمان صراط مستقیم سے وابستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے.مثلاً اگر دنیا میں سور کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کیا مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے.ہاں اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کیلئے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے تب ہم فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں.اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے.ہم فی الحال بڑے بڑے عظیم الشان امور دینی کی طرف متوجہ ہیں.ہمیں تو لوگوں کے ایمان کا فکر پڑا ہوا ہے.ایسے ادنیٰ امور کی طرف ہم توجہ نہیں کر سکتے.اگر ہم بڑے عالیشان دینی مہمات کو چھوڑ کر ابھی سے ایسے ادنی کاموں میں لگ جائیں تو ہماری مثال اس بادشاہ کی ہوگی جو ایک مقام پر ایک محل بنانا چاہتا ہے مگر اس جگہ بڑے شیر اور درندے اور سانپ ہیں اور نیز مکھیاں اور چیونٹیاں ہیں.پس اگر وہ پہلے درندوں اور سانپوں کی طرف توجہ نہ کرے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 216 اور ان کو ہلاکت تک نہ پہنچائے اور سب سے پہلے مکھیوں کے فنا کرنے میں مصروف ہو تو اس کا کیا حال ہوگا.اس سائل کو لکھنا چاہئے کہ تم پہلے اپنے ایمان کا فکر کرو اور دو چار ماہ کے واسطے یہاں آ کر ٹھہر و تا کہ تمہارے دل و دماغ میں روشنی پیدا ہو اور ایسے خیالات میں نہ پڑو." الحکم نمبر 17 جلد 6 مؤرخہ 10 مئی 1902ء صفحہ 11) سود کی بابت پوچھا گیا کہ بعض مجبوریات لاحق حال ہو جاتے ہیں.فرمایا کہ:." اس کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے.یہ بہر حال ناجائز ہے.ایک طرح کا سود اسلام میں جائز ہے یہ کہ قرضہ دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے تو مروت کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دید یوے.آنحضرت علی اللہ ایسا ہی کیا کرتے.اگر دس روپیہ قرض لئے تو ادائیگی کے وقت ایک سو تک دید یا کرتے.سود حرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اول ہی کر لی جاویں." البدر نمبر 32 جلد 3 مؤرخہ 24 را گست 1904 ء صفحه 8 (۲۷۶) پیشگی وصولی قیمت اخبار کم کی جاوے اخبار کی قیمت اگر پیشگی وصول کی جاوے تو اخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے جو لوگ پیشگی قیمت نہیں دیتے اور بعد کے وعدے کرتے ہیں ان میں سے بعض تو صرف وعدوں پر ہی ٹال دیتے ہیں اور بعض کی قیمتوں کی وصولی کیلئے بار بار کی خط و کتابت میں اور ان سے قیمتیں لینے کے واسطے یادداشتوں کے رکھنے میں اس قدر وقت ہوتی ہے کہ اس زائد محنت اور نقصان کو کسی حد تک کم کرنے کے واسطے اور نیز اس کا معاوضہ وصول کرنے کے واسطے اخبار بدر کی قیمت مابعد کے نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے.یعنی ما بعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے تین روپے کے چار روپے وصول کئے جائیں گے.اس پر ایک دوست لائل پور نے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ صورت سود کی تو نہیں ہے؟ چونکہ یہ مسئلہ شرعی تھا اس واسطے مندرجہ بالا وجوہات کے ساتھ حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا گیا.اس کا جواب جو حضرت نے لکھا.وہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.السلام علیکم.میرے نزدیک اس سے سود کو کچھ تعلق نہیں ما لک کا اختیار ہے جو چاہے قیمت طلب
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 217 کرے خاص کر بعد کی وصولی میں ہر ج بھی ہوتا ہے.اگر کوئی شخص اخبار لینا چاہتا ہے تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے یہ امر خود اس کے اختیار میں ہے.والسلام.مرزا غلام احمد." البدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 ء صفحہ 4) (۲۷۷) سود کا علاج ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھ پر بڑا قرض ہے.دعا کیجئے.فرمایا:." تو بہ واستغفار کرتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو استغفار کرتا ہے اسے رزق میں کشائش نا ہے." " پھر پوچھا کہ اتنا قرض کس طرح چڑھ گیا ؟ اس نے کہا بہت سا حصہ سورہی ہے.فرمایا:.بس پھر تو یہ شامت اعمال ہے.جو شخص اللہ کے حکم کو توڑتا ہے اسے سزا ملتی ہے.خدا تعالیٰ نے پہلے فرما دیا کہ اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو لڑائی کا اعلان ہے.خدا کی لڑائی یہی ہے کہ ایسے لوگوں پر عذاب بھیجتا ہے.پس یہ مفلسی بطور عذاب اور اپنے کئے کا پھل ہے." اس شخص نے کہا کیا کریں مجبوری سودی قرضہ لیا جاتا ہے.فرمایا:."جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے خدا اس کا کوئی سب پردہ غیب سے بنادیتا ہے.افسوس کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کیلئے خدا تعالیٰ کبھی ایسا موقعہ نہیں بنا تا کہ وہ سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو.یاد رکھو جیسے اور گناہ ہیں مثلاً زنا.چوری.ایسے ہی یہ سود دینا اور لینا ہے.کس قدر نقصان دہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا.معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو.مثلاً نکاح ہے اس میں کوئی خرچ نہیں طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہو گیا.بعد ازاں ولیمہ سنت ہے.سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے.انسان اگر کفایت شعاری سے کام لے تو اس کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا.بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کیلئے خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے.دیکھو! سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں.سو رکا کھانا بحالت اضطرار جائز رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ یعنی جو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 218 شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اللہ غفور رحیم ہے.مگر سود کیلئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کیلئے تو ارشاد ہے يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِيْنَ.فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَ رَسُوْلِهِ - اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اسے حاجت ہی نہیں پڑتی.مسلمان اگر اس ابتلا میں ہیں تو یہ ان کی اپنی ہی بد عملیوں کا نتیجہ ہے.ہندو اگر یہ گناہ کرتے ہیں تو مالدار ہو جاتے ہیں.مسلمان یہ گناہ کرتے ہیں تو تباہ ہو جاتے ہیں خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ کے مصداق.بس کیا ضروری نہیں کہ مسلمان اس سے باز آئیں.انسان کو چاہئے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مدنظر رکھے تا کہ سودی قرضہ اُٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سود اصل سے بڑھ جاتا ہے.ابھی کل ایک شخص کا خط آیا تھا.کہ ہزار روپیہ دے چکا ہوں ابھی پانچ چھ سو باقی ہے.پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دیدیتی ہیں.مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ.جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے.پس وہاں سے ڈگری جاری ہو جاتی ہے.اس سے یہ بہتر تھا کہ مسلمان اتفاق کرتے اور کوئی فنڈ جمع کر کے تجارتی طور سے اسے فروغ دیتے تا کہ کسی بھائی کو سود پر قرضہ لینے کی حاجت نہ ہوتی بلکہ اس مجلس سے ہر صاحب ضرورت اپنی حاجت روائی کر لیتا اور میعاد مقررہ پر واپس دیدیتا." ( احمدی متمول احباب توجہ کریں.) حکیم فضل دین صاحب نے سنایا کہ علامہ نورالدین بھیرہ میں حدیث پڑھا رہے تھے.باب الربو تھا.ایک سود خور ساہوکار آکر پاس بیٹھ گیا.جب سود کی ممانعت سنی تو کہا اچھا مولوی صاحب آپ کو نکاح کی ضرورت ہو تو پھر کیا کریں.انہوں نے کہا بس ایجاب قبول کر لیا جائے.پوچھا.اگر رات کو گھر میں کھانا نہ ہو تو پھر کیا کرو.کہا.لکڑیوں کا گٹھا باہر سے لاؤں روز بیچ کر کھاؤں.اس پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ کہنے لگا آپ کو دس ہزار تک اگر ضرورت ہو تو مجھ سے بلا سود لے لیں.فرمایا:."دیکھو جو حرام پر جلدی نہیں دوڑتا بلکہ اس سے بچتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کیلئے حلال کا ذریعہ نکال دیتا ہے مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا جو سود دینے اور ایسے حرام کاموں سے بچے.خدا تعالیٰ اس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 219 کیلئے کوئی سبیل بنا دے گا.ایک کی نیکی اور نیک خیال کا اثر دوسرے پر بھی پڑتا ہے.کوئی اپنی جگہ پر استقلال رکھے تو سود خوار بھی مفت دینے پر راضی ہو جاتے ہیں." البدر نمبر 5 جلد 7 مؤرخہ 6 فروری 1908 ء صفحہ 6,5) (۲۷۸) معاملات تجارت میں سود ایک صاحب کا خط حضرت کی خدمت میں پہنچا کہ جب بینکوں کے سود کے متعلق حضور نے اجازت دی ہے کہ موجودہ زمانہ اور اسلام کی حالت کو مد نظر رکھ کر اضطرار کا اعتبار کیا جائے.سو اضطرار کا اصول چونکہ وسعت پذیر ہے اس لئے ذاتی، قومی ہلکی ، تجارتی وغیرہ اضطرارات بھی پیدا ہو کر سود کا لین دین جاری ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ فرمایا:.اس طرح سے لوگ حرام خوری کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں.ہم نے یہ نہیں کہا کہ بینک کا سود بہ سبب اضطرار کے کسی انسان کو لینا اور کھانا جائز ہے بلکہ اشاعت اسلام میں اور دینی ضروریات میں اس کا خرچ جائز ہونا بتلایا گیا ہے.وہ بھی اس وقت تک کہ امداد دین کے واسطے رو پیل نہیں سکتا اور دین غریب ہو رہا ہے.کیونکہ کوئی شے خدا کے واسطے تو حرام نہیں.باقی رہی اپنی ذاتی اور ملکی اور قومی اور تجارتی ضروریات.سوان کے واسطے اور ایسی باتوں کے واسطے سود بالکل حرام ہے.وہ جواز جو ہم نے بتلایا ہے وہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً کسی جاندار کو آگ میں جلا نا شرعا منع ہے لیکن ایک مسلمان کے واسطے جائز ہے کہ اس زمانہ میں اگر کہیں جنگ پیش آوے تو توپ بندوقوں کا استعمال کرے کیونکہ دشمن بھی اس کا استعمال کر رہا ہے." البدر نمبر 5 جلد 7 مؤرخہ 6 فروری 1908 ء صفحہ 7) ایک شخص نے کہا کہ تجارت کے متعلق خواہ نخواہ سود دینا پڑتا ہے.فرمایا:." ہم جائز نہیں رکھتے.مومن ایسی مشکلات میں پڑتا ہی نہیں.اللہ تعالیٰ خود اس کا تکفل کرتا ہے.عذرات سے شریعت باطل ہو جاتی ہے.کونسا امر ہے جس کیلئے کوئی عذر آدمی نہیں تراش سکتا ہے.خدا سے ڈرنا چاہئے." الحکم نمبر 39 جلد 9 مؤرخہ 10 رنومبر 1905 صفحہ 5)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 220 (۲۷۹) زندگی کا بیمہ کرانا منع ہے ایک دوست کا خط حضرت کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا تھا.بحضور جناب مسیح موعود و مهدی مسعود علیہ السلام مارچ ۱۹۰۰ء میں میں نے اپنی زندگی کا بیمہ واسطے دو ہزار روپیہ کے کرایا تھا.شرائط یہ تھیں کہ اس تاریخ سے تا مرگ میں ۷۶ روپیہ سالانہ بطور چندہ کے ادا کرتا رہوں گا.تب دو ہزار روپیہ بعد مرگ کے میرے وارثان کو ملے گا اور زندگی میں یہ روپے لینے کا حقدار نہ ہوں گا.اب تک میں نے تقریباً مبلغ چھ سوروپیہ کے بیمہ کرنے والی کمپنی کو دیدیا ہے.اب اگر میں اس بیمہ کو توڑ دوں تو بموجب شرائط اس کمپنی کےصرف تیسرے حصہ کا حقدار ہوں یعنی دوصد روپیہ ملے گا اور باقی چار صد روپیہ ضائع جائے گا.مگر چونکہ میں نے آپ کے ہاتھ پر اس شرط کی بیعت کی ہوئی ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اس واسطے بعد اس مسئلہ کے معلوم ہو جانے کے میں ایسی حرکت کا مرتکب ہونا نہیں چاہتا جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے برخلاف ہو اور آپ حکم اور عدل ہیں.اس واسطے نہایت عجز سے ملتجی ہوں کہ جیسا مناسب حکم ہو صادر فرمایا جاوے تا کہ اس کی تعمیل کی جاوے.اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا " زندگی کا بیمہ جس طرح رائج ہے اور سنا جاتا ہے اس کے جواز کی ہم کوئی صورت بظاہر نہیں دیکھتے کیونکہ یہ ایک قمار بازی ہے.اگر چہ وہ بہت سا روپیہ خرچ کر چکے ہیں لیکن اگر وہ جاری رکھیں گے تو یہ رو پیدان سے اور بھی زیادہ گناہ کرائے گا.ان کو چاہئے کہ آئندہ زندگی گناہ سے بچنے کے واسطے اس کو ترک کر دیویں اور جتنا رو پید اب مل سکتا ہے وہ واپس لے لیں." البدر نمبر 14 جلد 7 مؤرخہ 9 را پریل 1908 ء صفحہ 3) (۲۸۰) رشوت فرمایا:- "رشوت ہرگز نہیں دینی چاہئے یہ سخت گناہ ہے.مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 221 گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کئے جاویں میں اس سے سخت منع کرتا ہوں.لیکن ایسے طور کہ بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے جس سے کسی کے حقوق کے اتلاف مدنظر نہ ہو بلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو تو یہ میرے نزدیک منع نہیں اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا.کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی بلکہ لا تُلْقُوْا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ فِرمایا ہے." فرمایا:.الحکم نمبر 29 جلد 6 مؤرخہ 17 اگست 1902 صفحه 9) (۲۸۱) رشوت و ہدیہ میں فرق "رشوت اور ہدیہ میں ہمیشہ تمیز چاہئے.رشوت وہ مال ہے کہ جب کسی کی حق تلفی کے واسطے دیا الیاں جاوے.ورنہ اگر کسی نے ہمارا ایک کام محنت سے کر دیا ہے اور حق تلفی بھی کسی کی نہیں ہوئی تو اس کو جو دیا جاوے گا وہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے." البدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ 27 / مارچ 1903 ءصفحہ 76) (۲۸۲) رشوت ستانی سوال:.رشوت ستانی سے اگر کسی نے مال جمع کیا ہوا ہو اور پھر وہ اس سے توبہ کرلے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ حضرت اقدس :."ایسا مال جو رشوت ستانی سے لیا گیا ہے جب تو بہ کرے تو اس مال کو ان لوگوں کو جن سے لیا ہے واپس کرے اور اگر پتہ نہ لگے تو پھر اسے صدقہ و خیرات کر دے." الحکم نمبر 11 جلد 7 مؤرخہ 24 مارچ 1903ء صفحہ 6) (۲۸۳) حکام اور برادری سے تعلق سوال کیا کہ حکام اور برادری سے کیا سلوک کرنا چاہئے.فرمایا:." ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو.حکام کی سچی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں.جان اور مال ان کے ذریعہ امن میں ہے اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 222 اور برتاؤ کرنا چاہئے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیں البتہ جو تقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے تا ہم ان سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہئے.ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا وہ آخرت میں کیا اجر لے گا.اس لئے سب کیلئے نیک اندیش ہونا چاہئے.ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہئے.جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہئے.الحکم نمبر 29 جلد 6 مؤرخہ 17 راگست 1902ء صفحہ 9) (۲۸۴) مخالف رشتہ داروں سے تعلق ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط اور اس کا جواب) مجھ کو حضور سے بیعت ہوئے عرصہ تقریباً ڈیڑھ سال کا گزرا ہے.اس عرصہ میں مخالفین نے اکثر تکالیف پہنچائی ہیں اور اب بھی پہنچا رہے ہیں.کاروبار دنیوی میں بھی ہر طرح سے روک ڈال رہے ہیں.غرض کہ ہر طرح سے نقصان پہنچانے میں کوشش بلیغ کرتے ہیں.بلکہ خاص رشتہ دار بھی میرے دشمن ہو گئے ہیں.مجھ کو وہاں پر رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے.کسی صورت سے مجھ کو وہاں پر گزارہ کرنا نظر نہیں آتا.بہر طور وہاں پر مجبور ہو گیا ہوں اور میری طبیعت بھی خود ان لوگوں سے بیزار ہے.میں خودان میں رہنا نہیں چاہتا مگر مجبور پڑا ہوا ہوں.اب میری بابت جیسا کچھ حضور انور مناسب سمجھیں حکم فرماویں.اب مجھ کو کیا کرنا چاہئے.جیسا حکم ہو عمل میں لاؤں.دوسرا میرا بھائی احمد دین ہے اس کی بھی ایسی ہی حالت ہے.وہ بھی وہاں پر رہنا نہیں چاہتا اور تیسرا امام الدین نامی کشمیری ہے.اس کو وہاں پر ہماری جیسی تکلیف تو نہیں ہے.مگر دعا کے واسطے وہ بھی عرض کرتا ہے.کیونکہ مخالف زیادہ ہیں اور ہم صرف تین شخص احمدی ہیں.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.میں نے تمام خط پڑھ لیا ہے.میرے نزدیک مناسب ہے کہ بے صبری نہ کریں بلکہ اپنے صبر اور استقامت اور نرمی اور اخلاق کے ساتھ دشمن کو شرمندہ کریں اور نیک
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 223 سلوک سے پیش آویں اور بہت نرمی کے ساتھ اپنے عقائد کی خوبی اور راستی ان کے ذہن نشین کریں اور اپنا نیک نمونہ ان کو دکھلا دیں.ممکن ہے کہ وہ ایذا دہی کی خصلت سے باز آجاویں.بہر حالت بے صبری نہیں کرنی چاہئے اور کچھ صبر اور استقامت سے کام لینا چاہئے اور اپنے دشمنوں کے حق میں ہدایت کی بھی دعا کرتے رہیں.کیونکہ ہمیں خدا نے آنکھیں عطا کی ہیں اور وہ لوگ اندھے اور دیوانہ ہیں.ممکن ہے کہ آنکھ کھلے تب حقیقت کو پہچان لیں." البدر نمبر 7 جلد 2 مؤرخہ 25 فروری 1906 ء صفحه 9) (۲۸۵) ہڑتال کے متعلق ذکر تھا کہ سیالکوٹ کے تجار نے بہ سبب محصول چنگی میں زیادتی کے دکانیں بند کر دی تھیں اور چند روز کا نقصان اٹھا کر پھر خود بخود کھول دیں.فرمایا:.اس طرح کا طریق گورنمنٹ کی مخالفت میں برتا ان کی بے وقوفی تھی جس سے ان کو خود ہی باز آنا پڑا محصول تو دراصل پبلک پر پڑتا ہے.آسمانی اسباب کے سبب سے بھی جب کبھی قحط پڑ جاتا ہے تو تاجر لوگ نرخ بڑھا دیتے ہیں اس وقت کیوں دوکانیں بند نہیں کر دیتے." البدر نمبر 52 جلد 2 مؤرخہ 27 دسمبر 1906 ، صفحہ 3 و5 ) (۲۸۶) جان کے خوف میں والدین کی فرمانبرداری مدت سے ایک افغان ایک ایسے علاقہ کا رہنے والا جہاں اپنا عقیدہ و ایمان کے اظہار موجب قتل ہو سکتا ہے اس جگہ قادیان میں دیسی تعلیم کے حصول کے واسطے آیا ہوا ہے.حال میں اس کے والدین نے اس کو اپنے وطن میں طلب کیا ہے.اب اس کو ایک مشکل پیش آئی.اگر وطن کو جائے تو خوف ہے کہ مبادا وہاں کے اس بات سے اطلاع پا کر کہ یہ شخص خونی مہدی اور جہاد کا منکر ہے قتل کے در پے ہوں اور اگر نہ جاوے تو والدین کی نافرمانی ہوتی ہے.پس اس نے حضرت سے پوچھا کہ ایسی حالت میں کیا کروں.حضرت نے جواب میں فرمایا:.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.چونکہ در قرآن شریف در آن امور که مخالف شریعت نه باشند حکم
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 224 اطاعت والدین است.لہذا بہتر است که این قدر اطاعت کنند که همراه شان روند و آن جا چو محسوس شود که اندیشه قتل یا حبس است - بلا توقف باز بیانند چرا که خود را در معرض ہلاک انداختن جائز نیست.ہم چنین مخالفت والدین ہم جائز نیست - پس در این صورت ہر دو حکم قرآن شریف بجا آورده می شود." والسلام.مرزا غلام احمد البدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907ء صفحہ 4) (۲۸۷) ہندوؤں سے ہمدردی ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ بہ سبب پرانے تعلقات کے ایک ہندو ہمارے شہر کا ہمارے معاملات شادی اور غمی میں شامل ہوتا ہے اور کوئی مر جائے تو جنازہ میں بھی ساتھ جاتا ہے.کیا ہمارے واسطے بھی جائز ہے کہ ہم اس کے ساتھ ایسی شمولیت دکھائیں.فرمایا کہ:.ہندوؤں کے رسوم اور امور مخالف شریعت اسلام سے علیحدگی اور بیزاری رکھنے کے بعد دنیوی امور میں ہمدردی رکھنا اور ان کی امداد کرنا جائز ہے." البدر نمبر 23 جلد 6 مؤرخہ 6 جون 1907 ء صفحہ 8) (۲۸۸) طعام اہل کتب و اہل ہنود پر فیصلہ کن تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام امریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہورہا تھا.اسی میں یہ بھی ذکر آ گیا کہ دودھ اور شور با وغیرہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا.دودھ تک بھی بذریعہ مشین کے دوہا جاتا ہے.اس پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:.چونکہ نصاری اس وقت ایسی قوم ہوگئی ہے جس نے دین کی حدود، اس کے حلال حرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سور کا گوشت ان میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دئیے جاتے ہیں.اس
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 225 لئے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو ان کے کارخانوں وغیروں کے بنے ہوئے ہوں ان میں سور کی چربی اور سور کے دودھ کی آمیزش ہو.اس لئے ہمارے نزدیک ولایتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شور بے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور نا جائز ہیں.جس حالت میں کہ سور کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیاء خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کر کے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کا نہ ہوتا ہو." اس پر ابوسعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرید لیا.جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سور کی چربی بھی اس کا رخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے.دریافت پر کارخانہ والوں نے بتلایا کہ ہم اسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے.اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا خیال کس قدر تقولی اور باریک بینی پر تھا.لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور دراز امصار و بلا د میں اب تک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے اس لئے ان کو بھی مدنظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا.اور نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاہیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں.اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:." ہمارے نزدیک نصاری کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور از روئے قرآن مجید کے وہ حرام نہ ہو.ورنہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا مگر باہر نصاری کے ہاتھ سے کھا لیا اور نصاری پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے.مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیار کردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے.اسی لئے ہم گھر میں ولایتی بسکٹ استعمال نہیں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 226 کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں.عیسائیوں کی نسبت ہندوؤں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں اور ہر جگہ انہی کی دکانیں ہوتی ہیں اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوں اور سب سے وہاں ہی سے مل جاوے تو پھر البتہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئے.علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے غالبا مراد یہودی ہی ہیں کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہی کو ہے اور صرف تو ریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حلت اور حرمت کے مسئلے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عملدر آما اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے.انجیل کوئی کتاب نہیں ہے." الحکم نمبر 25, 26 جلد 8 مؤرخہ 31 جولائی و 10 را گست 1904 صفحہ 10 ) (۲۸۹) مخالفوں کے گھر کی چیزیں کھانا سوال ہوا کہ کیا مخالفوں کے گھر کی چیز کھالیویں یا نہ ؟ فرمایا:."نصاری کی پاک چیزیں بھی کھائی جاتی ہیں.ہندوؤں کی مٹھائی وغیرہ بھی ہم کھا لیتے ہیں.پھر ان کی چیز کھا لینا کیا منع ہے.ہاں میں تو نماز سے منع کرتا ہوں کہ ان کے پیچھے نہ پڑھو.اس کے سوائے دنیاوی معاملات میں بے شک شریک ہو.احسان کرو.مروت کرو.اور ان کو قرض دو.اور ان سے قرض لواگر ضرورت پڑے.اور صبر سے کام لو شاید کہ اس سے سمجھ بھی جاویں." الحکم نمبر 15 جلد 7 مؤرخہ 24 را پریل 1903 ، صفحہ 11) (۲۹۰) اہل کتاب کا کھانا اہل کتاب کے کھانا کھانے پر بابومحمد الفضل صاحب کے سوال پر جواب دیا کہ:." تمدن کے طور پر ہندوؤں کی چیز بھی کھا لیتے ہیں.اسی طرح عیسائیوں کا کھانا بھی درست ہے مگر بایں ہمہ یہ خیال ضروری ہے کہ برتن پاک ہوں کوئی ناپاک چیز نہ ہو." الحکم نمبر 22 جلد 5 مؤرخہ 17 جون 1901 صفحہ 4
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 227 (۲۹۱) ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا:."شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے.ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا پر زور دیا ہے.آنحضرت علی الله آرمینوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے السلام تھے اور بغیر اس کے گزارا بھی تو نہیں ہوتا ہے." احکم نمبر 19 جلد 8 مؤرخہ 10 / جون 1904 صفحہ 3) (۲۹۲) چھری کانٹے سے کھانا چھری کانٹے سے کھانے کے متعلق فرمایا کہ:." اسلام نے منع تو نہیں فرمایا ہاں تکلف سے ایک بات یا ایک فعل پر زور دینے سے منع کیا ہے.اس خیال سے کہ اس قوم میں مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرت علی اللہ نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھایا اور یہ فعل اس لئے کیا کہ امت کو تکلیف نہ ہو.جائز صورتوں پر کھانا جائز ہے مگر بالکل اس کا پابند ہونا، تکلف کرنا اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو نا جائز سمجھنا منع ہے.کیونکہ آہستہ آہستہ انسان یہاں تک تتبع کرتا ہے کہ ان کی طرح طہارت بھی چھوڑ دیتا ہے.مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ سے یہی مراد ہے کہ التزاما ان باتوں کو نہ کرے.ورنہ بعض وقت جائز صورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے.میں خود بعض وقت میز پر کھانا رکھ لیتا ہوں جب کام کی کثرت ہوتی ہے اور میں لکھتا ہوتا ہوں اور ایسا ہی کبھی چٹائی پر کبھی چار پائی پر بھی کھا تا ہوں.تشبہ کے معنی یہی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لیا جاوے ورنہ ہمارے دین کی سادگی پر غیر اقوام نے بھی رشک کھایا اور انگریزوں نے بھی تعریف کی ہے.اور اکثر اصول ان لوگوں نے عرب سے لے کر اختیار کئے تھے مگر اب رسم پرستی کے طور پر مجبور ہیں کہ ترک نہیں کر سکتے." ه الحکم نمبر 3 جلد 7 مؤرخہ 24 جنوری 1903 صفحہ 13 )
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 228 فرمایا:- (۲۹۳) حقہ وغیرہ پر نصیحت " حدیث میں آیا ہے مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيْهِ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے.اسی طرح پر یہ پان.حقہ.زردہ ( تمباکو ) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں.بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پر ہیز کرے کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان ان کا بفرض محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آ جاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے.مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشی اشیاء نہیں دی جاوے گی یا اگر قید نہ ہو کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائمقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہئے.شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے.یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے.افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے.طبی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قوی لے کر انسان آیا ہے ان کو ضائع کر دیتی ہے." الحکم نمبر 24 جلد 6 مؤرخہ 10 / جولائی 1902 صفحہ 3) (۲۹۴) تمباکو تمبا کو ہم مسکرات میں داخل نہیں کرتے لیکن یہ ایک لغو فعل ہے اور مومن کی شان ہے وَالَّذِینَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُون.اگر کسی کوکوئی طبیب بطور علاج بتائے تو ہم منع نہیں کرتے ورنہ یہ لغو اور اسراف کا فعل ہے اور اگر آنحضرت علی اللہ کے وقت میں ہوتا تو آپ اپنے اور صحابہ کیلئے کبھی پسند نہ عليه فرماتے." الحکم نمبر 11 جلد 7 مؤرخہ 24 / مارچ 1903 ، صفحہ 7) سنن ترمذى كتاب الزهد باب فيمن تكلم بكلمة يضحك بها الناس (حاشیه از ناقل بابت ۲۹۴)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 229 تمباکو کے مضرات کے متعلق ایک انگریزی ٹریکٹ مجلس میں پڑھا جارہا تھا کہ جس میں قریباً کل بیماریوں کا باعث تمباکو کا استعمال قرار دیا گیا تھا اور تمباکو کی مذمت میں بہت مبالغہ کیا ہوا تھا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:." خدا کی بات اور مخلوق کی بات میں کس قدر فرق ہوا کرتا ہے.خدا تعالیٰ اگر کسی شے کے نقصانات بیان کرتا ہے تو ساتھ ہی منافع بھی بیان کرتا ہے کیونکہ کوئی شے ایسی نہیں ہے کہ جس میں کچھ پہلو نفع کا نہ ہو.لیکن مخلوق کی کلام کو دیکھو کہ نقصانات کے بیان کرنے میں کس قدر مبالغہ کیا ہے اور تمبا کو کے نفع کا نام تک بھی نہیں لیا.تمباکو کے بارے میں اگر چہ شریعت نے کچھ نہیں بتلایا لیکن ہم اسے اس لئے مکر وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر پیغمبر خداعلی اللہ کے زمانہ میں یہ ہوتا تو آپ اس کے استعمال کو منع فرماتے." تمباکو کی نسبت فرمایا کہ:.البدر نمبر 27 جلد 2 مؤرخہ 24 جولائی 1903 ، صفحہ 1 ) " یہ شراب کی طرح تو نہیں ہے کہ اس سے انسان کو فسق و فجور کی طرف رغبت ہو گر تا ہم تقویٰ یہی ہے کہ اس سے نفرت اور پر ہیز کرے.منہ میں اس سے بدبو آتی ہے اور یہ منحوس صورت ہے کہ انسان دھواں اندر داخل کرے اور پھر باہر نکالے.اگر آنحضرت کے وقت یہ ہوتا تو آپ اجازت نہ دیتے کہ اسے استعمال کیا جاوے.ایک لغو اور بیہودہ حرکت ہے.ہاں مسکرات میں اسے شامل نہیں کر سکتے.اگر علاج کے طور پر ضرورت ہو تو منع نہیں ہے ورنہ یونہی مال کو بے جا صرف کرنا ہے.عمدہ تندرست وہ آدمی ہے جو کسی شے کے سہارے زندگی بسر نہیں کرتا ہے.انگریز بھی چاہتے ہیں کہ اسے دور کر دیں." فرمایا کہ:.البدر نمبر 11 جلد 2 مؤرخہ 3 را پریل 1903 ، صفحہ 82) (۲۹۵) حقه نوشی " انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادات کو چھوڑ بیٹھے ہیں.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ سے شراب پیتے چلے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 230 آئے ہیں بڑھاپے میں آکر جب کہ عادت کا چھوڑ نا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہو جاتے ہیں.میں حقہ کو منع کہتا اور ناجائز قرار دیتا ہوں.مگر ان صورتوں میں کہ انسان کو کوئی مجبوری ہو.یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو پر ہیز کرنا چاہئے.( البدرنمبر 9 جلد 6 مؤرخہ 28 فروری 1907 ء صفحہ 10 ) مؤرخہ 29 رمئی 1898ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع کیا جس کا ملخص یہ ہے: " میں نے چند ایسے آدمیوں کی شکایت سنی تھی کہ وہ پنچ وقت نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں ٹھٹھے اور ہنسی اور حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا اور بعض کی نسبت شک کیا گیا تھا کہ وہ پر ہیز گاری کے پاک اصول پر قائم نہیں ہیں اس لئے میں نے بلا توقف ان سب کو یہاں سے نکال دیا ہے کہ تا دوسروں کے ٹھوکر کھانے کا موجب نہ ہوں." حقہ نوشی کے متعلق ذکر آیا.فرمایا:.( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 49 مطبوعہ اپریل 1986 ء ) اس کا ترک اچھا ہے ایک بدعت ہے منہ سے بو آتی ہے.ہمارے والد صاحب مرحوم اس کے متعلق ایک شعر اپنا بنایا ہوا پڑھا کرتے تھے جس سے اس کی بُرائی ظاہر ہوتی ہے." الحکم نمبر 33 جلد 5 مؤرخہ 10 ستمبر 1901 صفحہ 9) (۲۹۶) تمباکو نوشی برائے علاج ایک شخص نے سوال کیا کہ سنا گیا ہے کہ آپ نے حقہ نوشی کو حرام فرمایا ہے.فرمایا:."ہم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ تمباکو پینا مانند سور اور شراب کے حرام ہے.ہاں ایک لغو امر ہے اور اس سے مومن کو پر ہیز چاہئے.البتہ جو لوگ کسی بیماری وغیرہ کے سبب مجبور ہوں وہ بطور دوائی یا علاج کے استعمال کریں تو حرج نہیں." البدر نمبر 1 جلد 6 مؤرخہ 10 / جنوری 1907 ء صفحہ 18
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 231 حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.(۲۹۷) شراب یہ بات غلط ہے کہ سچا سکھ یا راحت کفار کو حاصل ہے.ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ یہ لوگ شراب جیسی چیزوں کے کیسے غلام ہیں اور ان کے حوصلے کیسے پست ہیں اگر اطمینان اور سکینت ہو تو پھر خود کشیاں کیوں کرتے ہیں.ایک مومن کبھی خود کشی نہیں کر سکتا.جیسے شراب اور دوسرے نشہ بظا ہر غم غلط کرنے والے مشہور ہیں اسی طرح سب سے بہتر غم غلط کرنے والا اور راحت بخشنے والا سچا ایمان ہے.یہ مومن ہی کیلئے ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ." فرمایا:.الحکم نمبر 29 جلد 6 مؤرخہ 17 راگست 1902ء صفحہ 6) شراب کا ذکر شروع ہو گیا کسی نے کہا کہ اب تو حضور شراب کے بسکٹ بھی ایجاد ہوئے ہیں."شراب تو انسانی شرم حیا.عفت.عصمت کا جانی دشمن ہے.انسانی شرافت کو ایسا کھو دیتی ہے کہ جیسے کتے بلے گدھے ہوتے ہیں.اس کو پی کر بالکل انہی کے مشابہ ہو جاتا ہے.اب اگر بسکٹ کی بلا دنیا میں پھیلی تو ہزاروں نا کردہ گناہ بھی ان میں شامل ہو جایا کریں گے.پہلے تو بعض کو شرم و حیا ہی روک دیتی تھی اب بسکٹ لئے اور جیب میں ڈال لئے.بات یہ ہے کہ دجال نے اپنی کوششوں میں تو کوئی کمی نہیں رکھی کہ دنیا کوفسق و فجور سے بھر دے مگر آگے خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہے کرے.اسلام کی کیسی عظمت معلوم ہوتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلام پر کوئی اعتراض کیا اس سے شراب کی بدبو آئی.اس کو حد مارنے کا حکم دیا گیا کہ شراب پی کر اسلام پر اعتراض کیا.مگر اب تو کچھ حد و حساب نہیں شراب پیتے ہیں زنا کرتے ہیں غرض کوئی بدی نہیں جو نہ کرتے ہوں مگر بایں ہمہ پھر اسلام پر اعتراض کرنے کو طیار ہیں." الحکم نمبر 8 جلد 7 مؤرخہ 28 فروری 1903 ، صفحہ 15)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 232 (۲۹۸) بھنگ، چرس، افیون و عادات بد کا چھوڑ نا و عہد بیعت پر ثابت قدم فرمایا:.رہنا " بہت لوگ بیعت کی حقیقت نہیں سمجھتے.اس لئے یاد رکھو کہ تم نے آج اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنے پچھلے گناہوں کا اقرار کر کے آئندہ کیلئے تو بہ کی ہے کہ کوئی گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ نہیں کریں گے.یہ وہ عہد اور اقرار ہے جو تم نے میرے ہاتھ پر خدا تعالیٰ کے ساتھ کیا ہے.اس لئے تم کو چاہئے کہ اپنے اس اقرار اور عہد کے موافق جہاں تک تمہاری سمجھ اور طاقت ہے گناہوں سے بچتے رہو کیونکہ اس اقرار کی دو تا شیریں ہوتی ہیں یا تو آئندہ زندگی میں یہ فضل کا وارث بنادیتا ہے جب کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق اس پر رحمت نازل کرے گا اور جب اس عہد اور اقرار کو توڑے گا تو پھر عذاب کا مستحق ہوگا کیونکہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو توڑتا ہے تو گویا اللہ تعالیٰ کی توہین کرتا ہے.دنیا میں دیکھ لو کہ جب ایک آدمی کسی سے کوئی اقرار کر کے اسے توڑتا ہے تو وہ جرم عہد شکنی کا مرتکب ہوتا ہے اور سزا پاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے ساتھ جو عہد کر کے توڑتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ٹھہرایا جاتا ہے اور اسے سزا ملتی ہے.پس آج کے جمعہ کے دن کا اقرار کہ ہم گناہوں سے بچتے رہیں گے بڑی بھاری بات ہے کیونکہ یا تو آج سے تمہارے لئے رحمت کی بنیاد پڑتی ہے اور یا عذاب کی.اگر کوئی شخص محض خدا کیلئے ان ساری باتوں کو چھوڑتا ہے جو اس کی عادت میں ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور نارضامندی کا موجب ہیں تو وہ بڑی رحمت کا مستحق ہوتا ہے.عادت کا سنوارنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے جیسے افیونی.شرابی.جھوٹ بولنے والے وغیرہ کو اپنی عادت کا چھوڑنا بہت ہی مشکل معلوم ہوتا ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو یہ ہل کام نہیں ہے.اسی طرح پر جب کوئی آدمی گناہ کرتا رہتا ہے اور ایک حصہ اس کی عمر کا اس گناہ میں گزر جاتا ہے تو جیسے ان نشہ بازوں کو جو افیونی.چرسی.بھنگی وغیرہ ہوتے ہیں اپنی عادت کے خلاف چھوڑ نا مشکل ہو جاتا ہے.گہنگار کو بھی اپنی عادت سے باز آنا بہت ہی مشکل معلوم ہوتا ہے اور بدوں دکھ اُٹھائے وہ اس عادت کو چھوڑ نہیں سکتا لیکن اگر وہ دکھ اُٹھا کر بھی اس بد عادت کو چھوڑنے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیلئے تیار ہو جاوے تو پھر وہ آرام بھی پاتا ہے.233 ماسوا اس کے ایک اور مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ افیونی یا شرابی یا اور کسی قسم کا نشہ کھانے والے کو تو اس کے گھر والے بھی پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ وہ ان نشوں کو چھوڑ دے کیونکہ جس قدر وہ نشے میں غرق رہے گا اسی قدر معاش میں ست اور غافل ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ بیوی بچے والدین سب اس سے ناراض ہونگے اور کوشش کرتے رہیں گے کہ کسی طرح وہ ان نشوں سے باز آوے مگر بعض عادتیں اور گناہ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ گھر والے اور کنبہ والے ان کے حامی ہو جاتے ہیں مثلاً رشوت لینے والا اگر تو بہ کرے اور رشوت سے باز آوے تو بیوی ناراض ہوگی والدین ناراض ہوں گے کیونکہ بظاہر ان کے مفاد اور آمدنی میں فرق آئے گا اور وہ کب گوارا کریں گے کہ ایسا ہو.اس قسم کی صورتوں میں تو وہ اس کے گناہ کی عادتوں کے حامی اور معاون ہوں گے.ایسا ہی ایک زمیندار اپنے کاروبار کو چھوڑ کر جب نماز پڑھنے لگے تو گھر والے کب پسند کریں گے کہ وہ ہل چھوڑ دے اور نماز میں لگا رہے وہ تو اسے ملامت کریں گے یا کب وہ چاہیں گے کہ یہ روزہ رکھ کر سست ہو اور کام نہ کرے.اسی طرح پر چوری یا قمار بازی کی عادت رکھنے والے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے گھر والے ان کی حمایت کرتے ہیں اور پھر ان کو ان عادتوں سے باز آنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایک تو ان کا نفس ہی جو عادت کا خوکر دہ ہوتا ہے.ان بدیوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا پھر گھر والے بھی حامی ہوتے ہیں.اس لئے تو بہ کرنا بہت ہی مشکل ہے لیکن جو بچی تو بہ اختیار کرتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضلوں کا وارث بنتا ہے.آجکل طاعون کے سبب انسانوں کی زندگی بڑی مشکل اور خطرہ میں پڑی ہوئی ہے اب یا انسان اس مشکل کو اختیار کرے جو گناہوں سے تو بہ کرنے میں ہے اور جو خدا کے فضل کا وارث بنا دیتی ہے یا اس مشکل کو اختیار کرے جو آخر تباہ کر دیتی ہے.عقلمند جانتا ہے کہ تو بہ ہی بہتر ہے.یہ مت سمجھو کہ فریب یا دعا سے کوئی رزق کما سکتا ہے.رزق دینے والا اللہ ہی ہے.قرآن شریف میں وعدہ ہے کہ جو شخص تو کل کرے گا اور متقی ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو خو د رزق دے گا جیسے فرمایا مَنْ يُتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ یعنی جو شخص اللہ سے ڈر کر گناہ کو چھوڑ دے گا تو میں ہر ایک تنگی سے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 234 اسے نجات دوں گا اور اس کیلئے رزق کی ایسی راہ پیدا ہوگی اور ایسے طور سے اس کو رزق ملے گا کہ معلوم بھی نہیں ہوگا کہ کہاں سے رزق آتا ہے.ایسا ہی دوسری جگہ فرمایا ہے هُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِيْنَ جیسے ماں شیر خوار بچہ کی پرورش کرتی ہے اس طرح پر اللہ تعالیٰ اس کا تکفل کرتا ہے.پھر ایک جگہ فرمایافی السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ تمہارا رزق اور جو کچھ تم کو وعدہ دیا گیا ہے آسمان میں ہے.پھر اس کو تاکید کے ساتھ ثابت کیا کہ فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقِّ در حقیقت خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور اس سے ڈر کر گناہوں سے بچنا بھی ایک ایسی چیز ہے جو اس کو ساری تنگیوں سے نجات بخشتی ہے.جو خدا تعالیٰ کا بھروسہ چھوڑتا ہے وہ در حقیقت اس کو مانتا ہی نہیں ہے.گنا ہوں سے بچنے کی اصلی جڑ یہی ہے کہ جب گناہ چھوڑتا ہے تو خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر ہی چھوڑتا ہے....جولوگ بیعت کرتے ہیں ان کو مناسب ہے کہ وہ سچی توبہ کریں اس کے بغیر فائدہ نہیں ہے.کیونکہ اگر کوئی بازار سے شربت بنفشہ لے اور دراصل وہ نہ ہو تو اس سے کیا فائدہ ہوگا.اسی طرح پر جو نرے سڑے ہوئے لفظ ہی ہیں وہ زبان تک ہی آتے ہیں اوپر نہیں جاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.اسی صورت میں بیعت کرانے والے کو تو ثواب ہو جاتا ہے مگر کرنے والے کو نہیں ہوتا.یہ بھی یا درکھو کہ بیعت کے معنی بیچ دینے کے ہیں اگر تم میں کوئی اپنا بیل بیچ دے تو وہ پھر اس پر کیا حق رکھ سکتا ہے جس نے لیا ہے وہ اسے جس طرح چاہے کام میں لائے.اسی طرح پر تم نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں بیچ دیا ہے.اب جس کی بیعت کی اس کی مرضی پر چلنا ضروری ہوگا.اگر کچھ اپنی مرضی کے موافق کرو اور کچھ اس کی باتیں مانو تو یہ بیعت کوئی فائدہ نہ دے گی بلکہ نقصان ہو گا.خدا تعالیٰ ملی جلی باتوں کو پسند نہیں کرتا وہ خلوص چاہتا ہے اس لئے اپنی طاقت کے موافق کوشش کرو کہ صالح بن جاؤ.اپنی عورتوں کو بھی نصیحت کرو کہ وہ نمازیں پڑھیں.معمولی ایام کے سوا جب کہ انہیں نماز معاف ہوتی ہے کبھی نماز چھوڑنی نہیں چاہئے.اسی طرح پر اپنے ہمسایوں کو بھی سکھاؤ اور غافل نہ رہو.یہ بھی چاہئے کہ اس بات کو کسی واقف کار سے معلوم کر لو کہ خدا تعالیٰ نے جو اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اس کی کیا غرض ہے؟ لوگوں نے خدا تعالیٰ کے دین کو بدل دیا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کو اصل حالت پر قائم کرے." الحکم نمبر 13 جلد 7 مؤرخہ 10 را پریل 1903 ء صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 235 فرمایا:- (۲۹۹) تمام اشیائے منشی سے پر ہیز کی تاکید ے عقلمند و! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو.ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو.انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون.گانجا.چرس.بھنگ.تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کیلئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے.سو تم اس سے بچو.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں.یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے.شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے مگر اے مسلمانو! تمہارے نبی علیہ السلام تو ہر ایک نشہ سے پاک اور معصوم تھے جیسا کہ وہ فی الحقیقت معصوم ہیں سو تم مسلمان کہلا کر کس کی پیروی کرتے ہو.قرآن انجیل کی طرح شراب کو حلال نہیں ٹھہراتا پھر تم کس دستاویز سے شراب کو حلال ٹھہراتے ہو کیا مرنا نہیں ہے؟" فرمایا:- (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 71,70 مع حاشیہ، مطبوعہ نومبر 1984ء) (۳۰۰) مقویات کا استعمال اور مسیح موعود منشی الہی بخش اور اس کے دوسرے رفیق اعتراض کرتے ہیں کہ میں بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال کرتا ہوں یا اور اس قسم کی دوائیاں کھاتا ہوں.تعجب ہے کہ حلال اور طیب چیزوں کے کھانے پر اعتراض کیا جاتا ہے.اگر وہ غور کر کے دیکھتے اور مولوی عبداللہ غزنوی کی حالت پر نظر رکھتے تو میرا مقابلہ کرتے ہوئے ان کو شرم آ جاتی.مولوی عبداللہ کو بیویوں کا استغراق تھا اس لئے انڈے اور مرغ کثرت سے کھاتے تھے یہاں تک کہ اخیر عمر میں شادی کرنا چاہتے تھے.میری شہادت مل سکتی ہے کہ مجھے کیوڑہ وغیرہ کی ضرورت کب پڑتی ہے.میں کیوڑہ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں جب دماغ میں
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 236 اختلال معلوم ہوتا ہے یا جب دل میں تشیخ ہوتا ہے.خدائے وحدہ لاشریک جانتا ہے کہ بجز اس کے مجھے ضرورت نہیں پڑتی.بیٹھے بیٹھے جب بہت محنت کرتا ہوں تو ایک دفعہ ہی دورہ ہوتا ہے.بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ قریب ہے کہ غش آجاوے اس وقت علاج کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لئے ہر روز باہر سیر کو جاتا ہوں.مگر مولوی عبد اللہ جو کچھ کرتے تھے یعنی مرغ.انگور.انڈے وغیرہ جو استعمال کرتے تھے اس کی وجہ کثرت ازدواج تھی اور کوئی سبب نہ تھا.انبیاء علیہ السلام ان چیزوں کو استعمال کرتے تھے مگر وہ خدا کی راہ میں فدا تھے.آنحضرت ع اللہ جب کبھی گھبراتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر ہاتھ مار کر کہتے اے عائشہ ہم کو راحت پہنچا.آنحضرت کیلئے تو سارا جہان دشمن تھا پھر اگر ان کیلئے کوئی راحت کا سامان نہ ہو تو یہ خدا کی شان کے ہی خلاف ہے.یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے کہ جیسے کافور کے ساتھ دو چار مرچیں رکھی جاتی ہیں کہ اُڑ نہ جاوے." فرمایا:.الحکم نمبر 24 جلد 6 مؤرخہ 10 جولائی 1902 ، صفحہ 3) " جولوگ افیون کھاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں موافق آگئی ہے.وہ موافق نہیں آتی دراصل وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے اور قومی کو نابود کر دیتی ہے." الحکم نمبر 37 جلد 6 مؤرخہ 17 اکتوبر 1902 ء صفحہ 12 ) (۳۰۱) عیسائیوں سے معانقت اور ان کے ساتھ کھانا قبل نماز ظہر حضرت اقدس سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اور معانقہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:." میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں.یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی اللہ علی السلم کو گالیاں دیں اور ہم ان سے معانقہ کریں.قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کی باتوں پر جنسی اُڑائی جاتی ہے اور پھر یہ لوگ خنزیر خور ہیں ان
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 237 کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے.اگر کوئی شخص کسی کی ماں بہن کو گالیاں دے تو کیا وہ روار کھے گا کہ اس کے ساتھ مل کر بیٹھے اور معانقہ کرے.پھر جب یہ بات نہیں تو اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں اور گالیاں دینے والوں سے کیوں اس کو جائز رکھا ہے.الحکم نمبر 29 جلد 6 مؤرخہ 17 اگست 1902 ء صفحہ 10) ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور مخالفوں سے جو ہمیں اور حضور کو سخت گالی گلوچ نکالتے ہیں اور سخت سست کہتے ہیں ان سے السلام علیکم لینا جائز ہے یا نہیں.فرمایا:.مومن بڑا غیرت مند ہوتا ہے.کیا غیرت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ تو گالیاں دیں اور تم ان سے السلام علیکم کرو.ہاں البتہ خرید و فروخت جائز ہے اس میں حرج نہیں کیونکہ قیمت دینی اور مال لینا کسی کا اس میں احسان نہیں." الحکم نمبر 13 جلد 7 مؤرخہ 10 را پریل 1903 ء صفحہ 14 ) (۳۰۲) پانی میں دم کرانا اور تبرک لینا ایک شخص نے دریافت کیا کہ پانی میں دم کرانا اور تبرک لینا جائز ہے؟ فرمایا کہ:."سنت سے ثابت ہے.مگر کسی صالح سے تبرک لینا چاہئے ایسا نہ ہو جیسا کہ مسیلمہ کذاب کا تبرک ہوتا تھا کہ جہاں ہاتھ ڈالتا تھا وہ پانی بھی خشک ہو جاتا تھا." البدر نمبر 8 جلد 6 مؤرخہ 21 فروری 1907 صفحہ 5) (۳۰۳) بندوق سے مرا ہوا جانور ایک شخص نے حضرت سے سوال کیا کہ بندوق کی گولی سے جو حلال جانور ذبح کرنے سے پہلے ہی مرجائے ، اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:." گولی چلانے سے پہلے تکبیر پڑھ لینی چاہئے.پھر اس کا کھانا جائز ہے." البدر نمبر 6 جلد 6 مؤرخہ 7 فروری 1907 ء صفحه 4) (۳۰۴) دریائی جانور کون سے حلال ہیں سوال پیش ہوا کہ دریائی جانور حلال ہے یا نہیں؟ فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 238 " دریائی جانور بے شمار ہیں ان کے واسطے ایک ہی قاعدہ ہے.جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرما دیا ہے کہ جو ان میں سے کھانے میں طیب، پاکیزہ اور مفید ہوں ان کو کھا لو.دوسروں کومت کھاؤ." البدر نمبر 36 جلد 6 مؤرخہ 5 ستمبر 1907 ء صفحہ 3) (۳۰۵) جو ہر کے پانی کا استعمال قادیان کے اردگر دنشیب زمین میں بارش اور سیلاب کا پانی جمع ہو کر ایک جو ہر سا بن جاتا ہے جس کو یہاں ڈھاب کہتے ہیں.جن ایام میں یہ نشیب زمین (ساری یا اس کا کچھ حصہ ) خشک ہوتی ہے تو گاؤں کے لوگ اس کو رفع حاجت کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور اس میں بہت سی نا پا کی جمع ہو جاتی ہے جو سیلاب کے پانی کے ساتھ مل جاتی ہے.آج صبح حضرت اقدس بمعہ خدام جب باہر سیر کے واسطے تشریف لے گئے تو اس ڈھاب کے پاس سے گزرتے ہوئے فرمایا کہ:.ایسا پانی گاؤں کی صحت کے واسطے مضر ہوتا ہے." پھر فرمایا:." اس پانی میں بہت سا گند شامل ہو جاتا ہے اور اس کے استعمال سے کراہت آتی ہے.اگر چہ فقہ کے مطابق اس سے وضو کر لینا جائز ہے کیونکہ فقہاء کے مقرر کردہ وہ دردہ سے زیادہ ہے تاہم اگر کوئی شخص جس نے اس میں گندگی پڑتی دیکھی ہوا اگر اس کے استعمال سے کراہت کرے تو اس کے واسطے مجبوری نہیں کہ خواہ مخواہ اس سے یہ پانی استعمال کرایا جائے.جیسا کہ گوہ کا کھانا حضرت رسول کریم عالم نے جائز رکھا ہے مگر خود کھانا پسند نہیں فرمایا.یہ اسی طرح کی بات ہے جیسا کہ شیخ سعدی نے فرمایا ہے.سعد یا حب وطن گرچه حدیث است درست نتواں مرد به سختی که درین جازادم البدر نمبر 39 جلد 6 مؤرخہ 26 ستمبر 1907 صفحہ 6
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 239 (۳۰۶) صدقہ کی جنس خرید لینا جائز ہے ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں مرغیاں رکھتا ہوں اور ان کا دسواں حصہ خدا کے نام پر دیتا ہوں اور گھر سے روزانہ تھوڑا تھوڑا آٹا صدقہ کے واسطے الگ کیا جاتا ہے.کیا یہ جائز ہے کہ وہ چوزے اور وہ آٹا خود ہی خرید کرلوں اور اس کی قیمت مد متعلقہ میں بھیج دوں.فرمایا:."ایسا کرنا جائز ہے." نوٹ:.لیکن اس میں یہ خیال کر لینا چاہئے کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں.اگر کوئی شخص ایسے اشیاء کو اس واسطے خود ہی خرید کر لے گا کہ چونکہ خرید اور فروخت ہر دو اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں جیسی تھوڑی قیمت سے چاہے خرید لے تو یہ اس کے واسطے گناہ ہوگا.فرمایا:- البدر نمبر 43 جلد 6 مؤرخہ 24 /اکتوبر 1907 ء صفحه (3) (۳۰۷) حرمت خنزیر ایک نکتہ اس جگہ یا درکھنے کے لائق ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے خدا نے ابتدا سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے.کیونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور اَز سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو بہت فاسد اور خراب دیکھتا ہوں.خنز کے معنے بہت فاسد اور از کے معنے دیکھتا ہوں.پس اس جانور کا نام جو ابتدا سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سو ر کہتے ہیں.یہ لفظ بھی سوء اور ان سے مرکب ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو بہت بُرا دیکھتا ہوں.اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ سوء کا لفظ عربی کیونکر ہو سکتا ہے کیونکہ ہم نے اپنی کتاب منن الرحمن میں ثابت کیا ہے کہ تمام زبانوں کی ماں عربی زبان ہے اور عربی کے لفظ ہر ایک زبان میں نہ ایک دو بلکہ ہزاروں ملے ہوئے ہیں.سوسو رعربی لفظ ہے.اسی لئے ہندی میں سور کا ترجمہ بد ہے.پس اس جانور کو بد کہتے ہیں.اس میں کچھ شک نہیں معلوم ہوتا کہ اس زمانہ میں جب کہ تمام دنیا کی زبان عربی تھی.اس ملک میں یہ نام
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 240 اس جانور کا عربی میں مشہور تھا جو خنزیر کے نام کے ہم معنی ہے.پھر اب تک یادگار باقی رہ گیا.ہاں یہ ممکن ہے کہ شاستری میں اس کے قریب قریب یہی لفظ متغیر ہو کر اور کچھ بن گیا ہو.مگر صحیح لفظ یہی ہے کیونکہ اپنی وجہ تسمیہ ساتھ رکھتا ہے جس پر لفظ خنزیر گواہ ناطق ہے اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں یعنی بہت فاسد اس کی تشریح کی حاجت نہیں.اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے.اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہوتا ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بدہی پڑے گا.جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوٹی کو بڑھاتا ہے اور مردار کا کھانا بھی اسی لئے اس شریعت میں منع ہے کہ مردار بھی کھانے والے کو اپنے رنگ میں لاتا ہے اور نیز ظاہری صحت کیلئے بھی مضر ہے.اور جن جانوروں کا خون اندر ہی رہتا ہے جیسے گلا گھونٹا ہو یا لاٹھی سے مارا ہوا یہ تمام جانور در حقیقت مردار کے حکم میں ہی ہیں.کیا مردہ کا خون اندر رہنے سے اپنی حالت پر رہ سکتا ہے؟ نہیں بلکہ وہ بوجہ مرطوب ہونے کے بہت جلد گندہ ہوگا اور اپنی عفونت سے تمام گوشت کو خراب کرے گا اور نیز خون کے کیڑے جو "" حال کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوئے ہیں مرکر ایک زہرناک عفونت بدن میں پھیلا دیں گے.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی جلد نمبر 10 صفحہ 339,338 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) شہد کے تذکرہ پر آپ نے فرمایا کہ:.(۳۰۸) شهد دوسری تمام شیرینیوں کو تو اطباء نے عفونت پیدا کرنے والی لکھا ہے مگر یہ ان میں سے نہیں ہے.آنب وغیرہ اور دیگر پھل اس میں رکھ کر تجربہ کئے گئے ہیں کہ وہ بالکل خراب نہیں ہوتے سالہا سال ویسے ہی پڑے رہتے ہیں." فرمایا کہ:." ایک دفعہ میں نے انڈے پر تجربہ کیا تو تعجب ہوا کہ اس کی زردی تو ویسی ہی رہی مگر سفیدی انجماد
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 241 پا کر مثل پتھر کے سخت ہوگئی.جیسے پتھر نہیں ٹوٹتا وہ بھی نہیں ٹوٹتی تھی.خدا تعالیٰ نے اسے شِفَاء لِلنَّاسِ کہا ہے واقعی عجیب اور مفید شے ہے تو کہا گیا ہے یہی تعریف قرآن شریف کی فرمائی ہے ریاضت کش اور مجاہدہ کرنے والے لوگ اکثر اسے استعمال کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہڈیوں وغیرہ کو محفوظ رکھتا ہے.اس میں ال کو جو ناس کے اوپر لگایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اس کے اپنے یعنی خدا تعالیٰ کے ناس (بندے) ہیں اور اس کے قرب کیلئے مجاہدے اور ریاضتیں کرتے ہیں ان کیلئے شفا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ تو ہمیشہ خواص کو پسند کرتا ہے عوام سے اسے کیا کام." الحکم نمبر 6 جلد 8 مؤرخہ 17 فروری 1904 صفحہ 3) (۳۰۹) آبکاری کی تحصیلداری جائز ہے یا نا جائز ایک دوست جو محکمہ آبکاری میں نائب تحصیلدار ہیں ان کا خط حضرت کی خدمت میں آیا اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس قسم کی نوکری ہمارے واسطے جائز ہے.حضرت نے فرمایا کہ:." اس وقت ہندوستان میں ایسے تمام امور حالت اضطرار میں داخل ہیں.تحصیلدار یا نائب تحصیلدار نہ شراب بناتا ہے.نہ بیچتا ہے.نہ پیتا ہے.صرف اس کی انتظامی نگرانی ہے اور بلحاظ سرکاری ملازمت کے اس کا فرض ہے.ملک کی سلطنت اور حالات موجودہ کے لحاظ سے اضطرار ا یہ امر جائز ہے.ہاں خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ انسان کے واسطے اس سے بھی بہتر سامان پیدا کرے.گورنمنٹ کے ماتحت ایسی ملازمتیں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ایسی باتوں سے تعلق نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے استغفار کرتے رہنا چاہئے." البدرنمبر 39 جلد 6 مؤرخہ 26 ستمبر 1907 ء صفحہ 6) (۳۱۰) نشان کے پورا ہونے پر دعوت خان صاحب عبدالحمید نے کپورتھلہ سے حضرت کی خدمت میں ڈوئی کے شاندار نشان کے پورا ہونے کی خوشی پر دوستوں کو دعوت دینے کی اجازت حاصل کرنے کے واسطے خط لکھا.حضرت اقدس نے اجازت دی اور فرمایا کہ:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 242 " تحدیث بالنعمت کے طور پر ایسی دعوت کا دینا جائز ہے." ( البدر نمبر 13 جلد 8 مؤرخہ 28 / مارچ 1907 ء صفحہ 4 (۳۱۱) جھنڈ یا بودی کسی کے نام پر رکھنا سوال پیش ہوا کہ کسی بزرگ کے نام پر جو چھوٹے بچوں کے سر پر جھنڈ یعنی بودی رکھی جاتی ہے اس کے متعلق کیا حکم ہے.فرمایا:."نا جائز ہے.ایسا نہیں چاہئے." البدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14 / مارچ 1907 ، صفحہ 5 (۳۱۲) لڑکی کا نام جنت رکھنا کسی لڑکی کا نام جنت تھا.کسی شخص نے کہا کہ یہ نام اچھا نہیں کیونکہ بعض وقت انسان آواز مارتا ہے کہ جنت گھر میں ہے اور اگر وہ نہ ہو تو گویا اس سے ظاہر ہے کہ دوزخ ہی ہے یا کسی کا نام برکت ہو اور یہ کہا جائے کہ گھر میں برکت نہیں تو گویا نحوست ہوئی.فرمایا:." یہ بات نہیں ہے.نام کے رکھنے سے کوئی ہرج نہیں ہوتا اور اگر کوئی کہے کہ برکت اندر نہیں ہے تو اس کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ انسان اندر نہیں ہے.نہ یہ کہ برکت نہیں یا اگر کہے کہ جنت نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنت نہیں اور دوزخ ہے بلکہ یہ کہ وہ انسان اندر نہیں جس کا نام جنت ہے." کسی اور نے کہا کہ حدیث میں بھی ممانعت آئی ہے.فرمایا کہ:." میں ایسی حدیثوں کو ٹھیک نہیں جانتا اور ایسی حدیثوں سے اسلام پر اعتراض ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بتائے ہوئے نام عبداللہ.عبدالرحیم.عبدالرحمن جو ہیں ان پر یہی بات لگ سکتی ہے کیونکہ جب ایک انسان کہتا ہے کہ عبدالرحمن اندر نہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا کہ عبدالشیطان اندر ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ شخص کہ جس کا نام نیک فال کے طور پر عبدالرحمن رکھا گیا تھا وہ اندر نہیں اور اسی طرح دوسرے نام یا یہ کہ دین محمد اندر نہیں تو کفر کا ہونا ضروری ہوا.پس یہ ایک غلط خیال ہے یہ نام ایک نیک فال کے طور پر رکھے جاتے ہیں تا وہ شخص بھی اس نام کے مطابق ہو." البدر نمبر 14 جلد 6 مؤرخہ 4 اپریل 1907 ء صفحہ 2)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 243 فرمایا:- (۳۱۳) غیر اللہ کی قسمیں کھانا ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ سورۃ والطارق میں خدا تعالیٰ نے غیر اللہ کی قسم کیوں کھائی حالانکہ آپ ہی فرماتا ہے کہ بجز اس کے کسی دوسرے کی قسم نہ کھائی جائے نہ انسان نہ آسمان کی نہ زمین نہ کسی ستارہ کی نہ کسی اور کی.اور پھر غیر کی قسم کھانے میں خاص ستاروں اور آسمان کی قسم کی خدا تعالیٰ کو اس جگہ کیا ضرورت آپڑی.سو در حقیقت یہ دو اعتراض ہیں جو ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور بوجہ ان کے باہمی تعلقات کے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کے جوابات ایک ہی جگہ بیان کئے جائیں.سواؤل قسم کے بارے میں خوب یادرکھنا چاہئے کہ اللہ جلشانہ کی قسموں کا انسانوں کی قسموں پر قیاس کر لینا قیاس مع الفارق ہے.خدا تعالیٰ نے جو انسان کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قسم کھاتا ہے تو اس کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رویت کا قائم مقام ظہر اوے کہ جو اپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھو تو قسم کا اصل مفہوم شہادت ہی ہے.جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتا ہے تا اس سے وہ فائدہ اٹھا دے جو ایک شاہد رویت کی شہادت سے اُٹھانا چاہئے لیکن یہ تجویز کرنا یا اعتقاد رکھنا کہ بجز خدا تعالیٰ کے اور بھی حاضر ناظر ہے اور تصدیق یا تکذیب یا سزا دہی یا کسی اور امر پر قادر ہے تو صریح کلمہ کفر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں انسان کیلئے یہی تعلیم ہے کہ غیر اللہ کی ہر گز فتم نہ کھاوے.اب ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی قسموں کا انسان کی قسموں کے ساتھ قیاس درست نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کو انسان کی طرح کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آتی کہ جو انسان کو قسم کے وقت پیش آتی ہے بلکہ اس کا قسم کھانا ایک اور رنگ کا ہے جو اس کی شان کے لائق اور اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور غرض اس سے یہ ہے کہ تا صحیفہ قدرت کے بدیہات کو شریعت کے اسرار دقیقہ کے حل کرنے کیلئے بطور شاہد کے پیش کرے اور چونکہ اس مدعا کو قسم سے ایک مناسبت تھی اور وہ یہ کہ جیسا ایک قسم کھانے مثلاً خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ میرے اس واقعہ پر گواہ والا جب م
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 244 ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے بعض کھلے کھلے افعال بعض چھپے ہوئے افعال پر گواہ ہیں.اس لئے اس نے قسم کے رنگ میں اپنے افعال بدیہیہ کو اپنے افعال نظریہ کے ثبوت میں جابجا قرآن کریم میں پیش کیا اور اس کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے غیر اللہ کی قسم کھائی.کیونکہ وہ در حقیقت اپنے افعال کی قسم کھاتا ہے نہ کسی غیر کی اور اس کے افعال اس کے غیر نہیں ہیں مثلاً اس کا آسمان یا ستارہ کی قسم کھانا اس قصد سے نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کی قسم ہے بلکہ اس نیت سے ہے کہ جو کچھ اس کے ہاتھوں کی صنعت اور حکمت آسمان اور ستاروں میں موجود ہے اس کی شہادت بعض اپنے افعال مخفیہ کے سمجھانے کیلئے پیش کرے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 94 تا 97 حاشیہ، مطبوعہ نومبر 1984 ء ) (۳۱۴) قرآن شریف خوش الحانی سے پڑھنا حضرت سیر کے واسطے تشریف لے گئے خدام ساتھ تھے.حافظ محبوب الرحمن صاحب جو کہ اخویم منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ اور بھائی جان منشی ظفر احمد صاحب کے عزیزوں میں سے ہیں ساتھ تھے.حضرت نے حافظ صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ:.یہ قرآن شریف اچھا پڑھتے ہیں اور میں نے اسی واسطے ان کو یہاں رکھ لیا ہے کہ ہر روز ان سے قرآن شریف سنا کریں گے.مجھے بہت شوق ہے کہ کوئی شخص عمدہ صحیح خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنے والا ہو تو اس سے سنا کروں." پھر حافظ صاحب موصوف کو مخاطب کر کےحضرت نے فرمایا کہ:." آج آپ سیر میں کچھ سنائیں." چنانچہ تھوڑی دور جا کر آپ نہایت سادگی کے ساتھ ایک کھیت کے کنارے زمین پر بیٹھ گئے اور تمام خدام بھی زمین پر بیٹھ گئے اور حافظ صاحب نے نہایت خوش الہانی سے سورۂ دہر پڑھی.جس کے بعد آپ سیر کے واسطے آگے تشریف لے گئے." ( اخبار بدر نمبر 17 جلد 6 مؤرخہ 25 را پریل 1907 ء صفحہ 7)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 245 (۳۱۵) قادیان میں تجارت کیلئے آنا ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ میں تجارت کیلئے یہاں آنا چاہتا ہوں.فرمایا:." یہ نیت فاسد ہے اس سے تو بہ کرنی چاہئے.یہاں تو دین کے واسطے آنا چاہئے اور اصلاح عاقبت کے خیال سے یہاں رہنا چاہئے.نیت تو یہی ہو اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئی تجارت وغیرہ یہاں رہنے کی اغراض کو پورا کرنے کیلئے ہو تو حرج نہیں ہے.اصل مقصد دین ہو نہ دنیا.کیا تجارتوں کیلئے شہر موزوں نہیں ؟ یہاں آنے کی اصل غرض کبھی دین کے سوا اور نہ ہو.پھر جو کچھ حاصل ہو جاوے وہ خدا کا فضل سمجھو." الحکم نمبر 25, 26 جلد 8 مؤرخہ 31 جولائی و 10 راگست 1904 صفحہ 13 ) (۳۱۶) ٹیکہ لگوانا کسی نے ٹیکہ لگوانے کی بابت دریافت کیا.فرمایا:." حدیث شریف میں آیا ہے کہ کوئی بیماری نہیں کہ جس کی دوا نہ ہو.ٹیکہ بھی ایک دوا ہے." الحکم نمبر 36 جلد 11 مؤرخہ 10 اکتوبر 1907 ، صفحہ 8) فرمایا کہ:.(۳۱۷) کیمیا " بہت سے لوگ کیمیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور عمر کو ضائع کرتے ہیں.اور بجائے اس کے کہ کچھ حاصل کریں جو کچھ پاس ہوتا ہے اس کو بھی کھو دیتے ہیں.ایک شخص بٹالہ کا رہنے والا تھا جو کہ کسی قدر غربت سے گزارہ کرتا تھا اور اس نے جو مکان رہائش کیلئے بنایا تھا اس کے باہر کی ایک ایک اینٹ تو پکی تھی اور باقی اندر سے کچا تھا.ایک دن اسے ایک فقیر ملا جو بہت وظیفہ پڑھتا رہتا تھا اور ظاہر انہایت نیک معلوم ہوتا تھا بوجہ اس کے ظاہری درود وظائف کے.وہ سادہ لوح آدمی اس کے ساتھ بہت بیٹھتا اور تعلق رکھتا تھا.کچھ مدت کے بعد اس فقیر نے بڑی سنجیدگی سے اس آدمی سے پوچھا کہ تم نے یہ مکان اس طرح پر کیوں بنایا ہے کیوں نہیں سارا پختہ بنا لیتے.اس نے جواب دیا کہ روپیہ نہیں غریب ہوں.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 246 اس پر فقیر نے کہا روپیہ کی کیا بات ہے اور اتنا کہ کر خاموش ہو گیا.اس ذومعنے جواب پر اس شخص کو کچھ خیال پیدا ہوا اور اس نے اس سے پوچھا کیا تم کچھ کیمیاء جانتے ہو.اس نے کہا ہاں استاد صاحب جانتے تھے اور بہت اصرار کے بعد مان لیا کہ مجھ کو بھی آتا ہے پر میں کسی کو بتا تا نہیں.چونکہ تم بہت پیچھے پڑے ہو اس لئے کچھ تم کو بتا دیتا ہوں اور یہ کہہ کر اس کو گھر کا زیور اکٹھا کرنے کی ترغیب دی اور کچھ مدت تک باہر میدان میں جا کر وظیفہ پڑھتا رہا.ایک زیور لے کر ہنڈیا میں رکھنے لگا مگر کسی طرح اس زیور کو تو چرا لیا اور اس کی جگہ اینٹیں اور روڑے بھر دیئے اور خود وظیفہ کے بہانے باہر چلا گیا اور جاتے وقت کہہ گیا کہ اس ہنڈیا کو بہت سے اپلوں میں رکھ کر آگ دومگر دیکھنا کچانہ اتارنا بلکہ جب تک میں نہ آؤں اسے ہاتھ نہ لگانا.اس نے اس کے کہنے کے مطابق اس ہنڈیا کو خوب آگ دی اور..اس قدر دھواں ہوا کہ ہمسایہ اکٹھے ہو گئے اور دروازہ کھلوا کر اندر گئے اور جب اس سے پوچھنے پر معلوم کیا کہ کیمیا بن رہا ہے تو انہیں نے اس شخص کو سمجھایا کہ وہ تجھے لوٹ کر لے گیا اور جب ہنڈیا کھولی تو اس میں سے روڑے نکلے.چنانچہ وہ شخص جب کسی کام کیلئے گورداسپور گیا تو اسے وہاں معلوم ہوا کہ وہی شخص کسی اور کو دھوکا دے گیا ہے اور وہاں آگ جل رہی ہے.پس اس نے ان کو بھی سمجھا دیا کہ وہ مجھ کو بھی لوٹ کر لے گیا ہے اور وہاں بھی ہنڈیا کھولنے پر اینٹ پتھر ہی نکلے.اسی طرح قادیان کے پاس ایک گاؤں ہے وہاں ایک کیمیا گر آیا اور مسجد میں ٹھہرا.مسجد والے سے پوچھا کہ یہ مسجد ٹوٹی پھوٹی ہے اس کو بناتے کیوں نہیں.اس نے کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں یہ مسجد بنی تھی اب ہم غریب ہیں اس قدر وپیہ نہیں.اس نے کہا کہ نہیں روپیہ کا کیا ہے بندوبست ہو جائے گا اور پوچھے جانے پر جواب دیا کہ میں چاندی بنا سکتا ہوں.چنانچہ اس شخص نے پچیس روپے دیئے اور وہ کیمیا گر اس کو لے کر بٹالہ آیا اور وہاں پہنچ کر اس کو صاف کی ہوئی قلعی دیدی.وہ شخص بے چارہ سادہ لوح تھا فرق نہ کر سکا اور اپنے گاؤں میں آ کر سنار کو دکھلائی تو معلوم ہوا کہ بالکل بے قیمت ہے.اسی طرح ایک ڈپٹی صاحب تھے جن کو مدت سے کیمیا کا شوق تھا اور اس میں بہت روپیہ ضائع کر چکے تھے.ایک دن ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا کہ میں کیمیا بنانی جانتا ہوں مگر سامان وغیرہ کیلئے پانچ سو روپیہ درکار ہے وہ ڈپٹی صاحب نے فور آدلوادیا.روپیہ لے کر وہ شخص ایک پاس کی دکان پر بیٹھ گیا اور ڈپٹی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 247 صاحب کو کہلا بھیجا کہ روپیہ تو میں لے چکا اب جو مرضی ہو کرو میں نہیں دیتا.لینا ہے تو عدالت میں نالش کرو.ڈپٹی صاحب اب ایسے بڑھاپے میں نالش کس طرح کرتے اور کرتے..تو اپنی بے عزتی ہوتی چپ ہور ہے.غرض یہ سب بیہودہ ہے.کیمیا کی مرض پہلے زمانہ میں تو عام طور پر تھی اور ہنود اس میں مدت سے پھنسے ہوئے تھے مگر افسوس بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی اب تک اس کے دلدادہ ہیں.اسلام اس کو بالکل ناجائز قرار دیتا ہے اور قرآن شریف سے ثابت ہے کہ رزق کریم متقی کو ضرور ملتا ہے اور وہ رزق جس سے فائدہ پہنچے کریم ہی ہوتا ہے ورنہ بہت سے ایسے مال ہوتے ہیں جو نا جائز طریقوں سے کمائے جاتے ہیں اور ناجائز باتوں میں اور فضول رسومات میں اُٹھ جاتے ہیں حالانکہ محنت اور نیکی سے کمایا ہوا رو پید اپنے اصل موقعہ پر خرچ ہوتا ہے جیسا کہ ان دو بھائیوں کے قصے سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اَبُوْهُمَا صَالِحاً کی وجہ سے دو نبیوں کو اس بات پر مامور کیا کہ اس روپیہ کی حفاظت کیلئے جو کہ نیکی اور تقویٰ سے کمایا ہوا تھا ایک دیوار بنا ئیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فِی السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ.فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقِّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ یعنی ہر ایک انسانوں کو خدا تعالیٰ اپنے پاس سے روزی دیتا ہے.حضرت داؤد کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور بوڑھا ہو گیا ہوں مگر آج تک میں نے کسی صالح کی اولا دکو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا.اسی طرح (توریت) میں ہے کہ نیک بخت انسان کا اثر اس کی سات پشت تک جاتا ہے.پھر قرآن مجید میں بھی ہے کہ كَانَ اَبُوهُمَا صَالِحاً یعنی ان کا باپ صالح تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کا خزانہ محفوظ رکھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے کچھ ایسے نیک نہ تھے.باپ کی نیکی کی وجہ سے بچائے گئے.پس انسان کیلئے متقی اور نیک بننا کیمیا گر سے بہت بہتر ہے.اس کیمیا گری میں تو روپیہ ضائع ہوتا ہے مگر اس کیمیا گری میں دین بھی اور دنیا بھی دونوں سدھر جاتے ہیں.افسوس ہے کہ ان لوگوں پر جو ساری عمر یو نہی فضول ضائع کر دیتے ہیں اور کیمیا کی تلاش میں ہی مر جاتے ہیں.حالانکہ اس کو چہ میں سوائے نقصان مال اور نقصان ایمان اور کچھ نہیں اور ایسا شخص یکے نقصان مایہ و دیگر شمامت ہمسایہ کا مستحق ٹھہرتا ہے.اصل کیمیا تقویٰ ہے جس نے اس کو حاصل کر لیا اس نے سب کچھ حاصل کر لیا اور جس نے اس نسخہ کو نہ آزمایا اس نے اپنی عمر ضائع کی.اگر کیمیا واقعی ہو بھی تو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 248 بھی اس کے پیچھے عمر کھونے والا کبھی متقی اور پر ہیز گار نہیں ہو سکتا.جس کو رات دن دنیا کی محبت لگی رہے گی وہ اپنے پاک اور پیارے خدا کی محبت کو اپنے دل میں کس طرح جگہ دے گا." فرمایا: احکم نمبر 20 جلد 12 مؤرخہ 18 / مارچ 1908 ، صفحہ 8,7) (۳۱۸) درازی عمر کا نسخہ "انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اس کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کرے.یہ یادر کھے کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکا نہیں چلتا.جو اللہ تعالیٰ کو دغا دیتا ہے وہ یادرکھے کہ اپنے نفس کو دعا دیتا ہے وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جاوے گا.پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساتھ اعلائے کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جائے اور خدمت دین میں لگ جاوے اور آج کل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہے کیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ وار نہیں ہے یونہی چلی جاتی ہے.ایک صحابی کا ذکر ہے کہ اس کے ایک تیر لگا اور اس سے خون جاری ہو گیا.اس نے دعا کی کہ اے اللہ عمر کی تو مجھے کوئی غرض نہیں ہے البتہ میں یہود کا انتقام دیکھنا چاہتا تھا جنہوں نے اس قدر اذیتیں اور تکلیفیں دی ہیں.لکھا ہے کہ اسی وقت اس کا خون بند ہو گیا جب تک کہ وہ یہود ہلاک نہ ہوئے اور جب وہ ہلاک ہو گئے تو خون جاری ہو گیا اور اس کا انتقال ہو گیا.حقیقت میں سب امراض اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں کوئی مرض اس کے حکم کے بغیر پیش دستی نہیں کر سکتا.اس لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرے یہی اقبال کی راہ ہے.مگر افسوس ہے جن راہوں سے اقبال آتا ہے ان کو انسان بدظنی کی نظر سے دیکھتا ہے اور نحوست کی راہوں کو پسند کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آخر گر جاتا ہے." الحکم نمبر 6 جلد 8 مؤرخہ 17 فروری 1904 صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 249 (۳۱۹) تقدیر معلق اور مبرم صدقات و خیرات سے بلا کے ٹلنے کا ذکر ہوا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:.ہاں یہ بات ٹھیک ہے اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تقدیر کے دو حصے کیوں ہیں.تو جواب یہ ہے کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض وقت سخت خطرناک صورتیں پیش آتی ہیں اور انسان بالکل مایوس ہو جاتا ہے لیکن دعا وصدقات و خیرات سے آخر کار وہ صورت مل جاتی ہے.پس آخر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اگر معلق تقدیر کوئی شے نہیں ہے اور جو کچھ ہے مبرم ہی ہے تو پھر دفع بلا کیوں ہو جاتا ہے اور دعاو صدقہ و خیرات وغیرہ کوئی شے نہیں ہے.بعض ارادے الہی صرف اس لئے ہوتے ہیں کہ انسان کو ایک حد تک خوف دلایا جاوے اور پھر صدقہ و خیرات جب وہ کرے تو وہ خوف دور کر دیا جاوے.دعا کا اثر مثل نر و مادہ کے ہوتا ہے کہ جب وہ شرط پوری ہو اور وقت مناسب مل جاوے اور کوئی نقص نہ ہو تو ہر ایک امرٹل جاتا ہے اور جب تقدیر مبرم ہو تو پھر ایسے اسباب دعا کی قبولیت کے ہم نہیں پہنچتے.طبیعت تو دعا کو چاہتی ہے مگر توجہ کامل میسر نہیں آتی اور دل میں گداز پیدا نہیں ہوتا.نماز سجدہ وغیرہ جو کچھ کرتا ہے اس میں بدمزگی پاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انجام بخیر نہیں اور تقدیر مبرم ہے." اس مقام پر ایک نے عرض کی کہ جب نواب محمد علی خانصاحب کا صاحبزادہ سخت بیمار ہوا تھا تو جناب کو اس قسم کا الہام ہوا کہ تقدیر مبرم ہے اور موت مقدر ہے لیکن پھر حضور کی شفاعت سے وہ تقدیر مبرم مل گئی.آپ نے فرمایا کہ:."سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ بھی لکھتے ہیں کہ بعض وقت میری دعا سے تقدیر مبر مثل گئی ہے.اس پر شارح شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اعتراض کیا ہے کہ تقدیر مبرم تو ٹل نہیں سکتی پھر اس کے کیا معنی ہوئے.آخر خود ہی جواب دیا ہے کہ تقدیر مبرم کی دو اقسام ہیں ایک مبرم حقیقی اور ایک مبرم غیر حقیقی.جو مبرم حقیقی ہے وہ تو کسی صورت سے ٹل نہیں سکتی ہے جیسے کہ انسان پر موت تو آنی ہے اب اگر کوئی چاہے کہ اس پر موت نہ آوے اور یہ قیامت تک زندہ رہے تو یہ نہیں مل سکتی.دوسری غیر حقیقی وہ ہے جس میں مشکلات اور مصائب انتہائی درجہ تک پہنچ چکے ہوں اور قریب قریب نہ ملنے کے نظر آویں اس کا نام مجازی طور پر مبرم رکھا گیا اور نہ حقیقی مبرم تو ایسی ہے کہ اگر کل انبیاء بھی مل کر دعا کریں کہ وہ ٹل
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 250 جاوے تو وہ ہرگز نہیں ٹل سکتی." ( الحکم نمبر 25, 26 جلد 8 مؤرخہ 31 جولائی و 10 راگست 1904 ، صفحہ 10) (۳۲۰) مشاعره ایک جگہ بعض شاعرانہ مذاق کے دوست ایک با قاعدہ انجمن مشاعرہ قائم کرنا چاہتے تھے.اس کے متعلق حضرت سے دریافت کیا گیا.فرمایا:." تضیع اوقات ہے کہ ایسی انجمنیں قائم کی جائیں اور لوگ شعر بنانے میں مستغرق رہیں.ہاں یہ جائز ہے کہ کوئی شخص ذوق کے وقت کوئی نظم لکھے اور اتفاقی طور پر کسی مجلس میں سنائے یا کسی اخبار میں چھپوائے.ہم نے اپنی کتابوں میں کئی نظمیں لکھی ہیں مگر اتنی عمر ہوئی آج تک کبھی کسی مشاعرہ میں شامل نہیں ہوئے.میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کوئی شاعری میں اپنا نام پیدا کرنا چاہے.ہاں اگر حال کے طور پر نہ صرف قال کے طور پر اور جوش روحانی سے اور نہ خواہش نفسانی سے کبھی کوئی نظم جو مخلوق کیلئے مفید ہو سکتی ہو لکھی جائے تو کچھ مضائقہ نہیں.مگر یہی پیشہ کر لینا ایک منحوس کام ہے." ( اخبار بدر نمبر 26 جلد 6 مؤرخہ 27 جون 1907 ء صفحہ 7) (۳۲۱) سانڈ رکھنا ایک شخص نے سوال کیا کہ خالصة لوجه الله نسل افزائی کی نیست اگر کوئی سانڈ چھوڑے تو کیا یہ جائز ہے.فرمایا:."أَصْلُ الْأَشْيَاءِ إِبَاحَةُ اشیاء کا اصل تو اباحت ہی ہے.جنہیں خدا تعالیٰ نے حرام فرما یاوہ حرام ہیں باقی حلال.بہت سی باتیں نیت پر موقوف ہیں میرے نزدیک تو یہ جائز بلکہ ثواب کا کام ہے." عرض کیا گیا کہ قرآن مجید میں آیا ہے.فرمایا:." میں نے جواب دیتے وقت اسے زیر نظر رکھ لیا ہے.وہ تو دیوتوں کے نام پر دیتے یہاں خاص خدا تعالیٰ کے نام پر ہے نسل افزائی ایک ضروری بات ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں انعام وغیرہ کو اپنی نعمتوں سے فرمایا ہے.سو اس نعمت کا قدر کرنا چاہئے اور قدر میں نسل کا بڑھانا بھی ہے.پس اگر
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 251 ایسا نہ ہو تو پھر چار پائے کمزور ہوں گے اور دنیا کے کام بخوبی نہ چل سکیں گے اس لئے میرے نزدیک تو حرج کی بات نہیں.ہر ایک عمل نیت پر موقوف ہے.ایک ہی کام جب کسی غیر اللہ کے نام پر ہو تو حرام اور اگر اللہ تعالیٰ کیلئے ہو تو حلال ہو جاتا ہے." ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 6 مؤرخہ یکم اگست 1907 ء صفحہ 12 ) (۳۲۲) لباس عرب صاحب نے انگریزی قطع وضع کے متعلق ذکر کیا.آپ نے فرمایا :.انسان کو جیسے باطن میں اسلام دکھانا چاہئے ویسے ہی ظاہر میں بھی.ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہئے جو انگریزی لباس کو یہاں تک اختیار کرتے ہیں کہ عورتوں کو بھی اس لباس اور وضع میں رکھنا پسند کرتے ہیں.جو شخص ایک قوم کے لباس کو پسند کرتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس قوم کو اور پھر دوسرے اوضاع و اطوار حتی کہ مذہب کو بھی پسند کرنے لگتا ہے.اسلام نے سادگی کو پسند فرمایا ہے تکلفات سے منع کیا." الحکم نمبر 3 جلد 7 مؤرخہ 24 جنوری 1903 ء صفحہ 13 ) (۳۲۳) داڑھی یعنی ریش کا رکھنا عرب صاحب نے داڑھی کے متعلق پوچھا.فرمایا:.یہ ہر ایک انسان کے دل کا خیال ہے.بعض داڑھی مونچھ منڈوانے کو خوبصورتی سمجھتے ہیں مگر ہمیں اس میں ایسی سخت کراہت ہے کہ سامنے ہو تو کھانا کھانے کو جی نہیں چاہتا.داڑھی کا جو طریق انبیاء اور راستبازوں نے اختیار کیا ہے وہ بہت پسندیدہ ہے.البتہ اگر بہت لمبی ہو تو ایک مشت رکھ کر کٹوا دینی چاہئے.خدا نے یہ ایک امتیاز عورت اور مرد کے درمیان رکھ دیا ہے." الحکم نمبر 3 جلد 7 مؤرخہ 24 / جنوری 1903 ، صفحہ 13 داڑھی اور مونچھ کے متعلق ذکر آیا کہ نئے نئے فیشن نکلتے ہیں.کوئی داڑھی منڈاتا ہے.کوئی ہر دو داڑھی اور مونچھ منڈاتا ہے.حضرت نے فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 252 " مستحسن یہی بات ہے جو شریعت اسلام نے مقرر کی ہے کہ مونچھیں کٹائی جاویں اور داڑھی بڑھائی جاوے." ( اخبار بدر نمبر 44 جلد 6 مؤرخہ 31 /اکتوبر 1907 ءصفحہ 07) (۳۲۴) ہندوؤں والی دھوتی باندھنی اور بودی رکھنی و لباس نبوی ایک شخص نے پوچھا کہ کیا ہندوؤں والی دھوتی باندھنی جائز ہے یا نہیں ؟ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ:." تشبه بالكفار تو کسی بھی رنگ میں جائز نہیں.اب ہندو ماتھے پر ایک ٹیکا سا لگاتے ہیں کوئی وہ بھی لگالے یا سر پر بال تو ہر ایک کے ہوتے ہیں مگر چند بال بودی کی شکل میں ہندور کھتے ہیں اگر کوئی ویسے ہی رکھ لیوے تو یہ ہرگز جائز نہیں.مسلمانوں کو اپنے ہر ایک چال میں وضع قطع میں غیرت مندانہ چال رکھنی چاہئے.ہمارے آنحضرت نہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سراویل بھی خرید نا آپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا نمی کہتے ہیں ان میں سے جو چاہے پہنے.علاوہ ازیں ٹوپی.کرتہ چادر اور پگڑی بھی آپ کی عادت مبارک تھی جو چاہے پہنے کوئی حرج نہیں.ہاں البتہ اگر کسی کو کوئی نئی ضرورت در پیش آئے تو اسے چاہئے کہ ان میں ایسی چیز کو اختیار کرے جو کفار سے تشبیہ نہ رکھتی ہو اور اسلامی لباس سے نزدیک تر ہو.جب ایک شخص اقرار کرتا ہے کہ میں ایمان لایا تو پھر اس کے بعد وہ ڈرتاکس چیز سے ہے اور وہ کونسی چیز ہے جس کی خواہش اب اس کے دل میں باقی رہ گئی ہے کیا کفار کی رسوم و عادت کی؟ اب اسے ڈر چاہئے تو خدا کا اور اتباع چاہئے تو محمد رسول اللہ کی کسی ادنیٰ سے گناہ کو خفیف نہ جانا چاہئے بلکہ صغیرہ ہی سے کبیرہ بن جاتے ہیں اور صغیرہ ہی کا اصرار کبیرہ ہے.ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسی فطرت ہی نہیں دی کہ ان کے لباس یا پوشش سے فائدہ اُٹھا ئیں.سیالکوٹ سے ایک دو بار انگریزی جوتا آیا ہمیں اس کا پہنا ہی مشکل ہوتا تھا کبھی ادھر کا اُدھر اور کبھی بائیں کا دائیں.آخر تنگ آ کر سیاہی کا نشان لگایا گیا کہ شناخت رہے مگر اس طرح بھی کام نہ چلا آخر میں نے کہا کہ یہ میری فطرت ہی کے خلاف ہے کہ ایسا جوتا پہنوں." الحکم نمبر 14 جلد 7 مؤرخہ 17 اپریل 1903 صفحہ 8)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 253 ہے."" (۳۲۵) قیام فیما اقام الله ایک شخص نے ملازمت چھوڑ کر تجارت کے متعلق مشورہ پوچھا.فرمایا:."نوکری چھوڑنی نہیں چاہئے.قیام فیما اقام اللہ بھی ضروری ہے بلا وجہ ملازمت چھوڑنا اچھا نہیں (احکم نمبر 40 جلد 6 مؤرخہ 10 رنومبر 1902ءصفحہ 11) (۳۲۶) فری میسن امیر کابل کا ذکر تھا کہ اس کے فری میسن ہونے کے سبب اس کی قوم اس پر ناراض ہے.فرمایا:." اس ناراضگی میں وہ حق پر ہیں کیونکہ کوئی موحد اور سچا مسلمان فری میسن میں داخل نہیں ہوسکتا.اس کا اصل شعبہ عیسائیت ہے اور بعض مدارج کے حصول کے واسطے کھلے طور پر بپتسمہ لینا ضروری ہوتا ہے اس لئے اس میں داخل ہونا ایک ارتداد کا حکم رکھتا ہے." فرمایا کہ:.(اخبار بد نمبر 13 جلد 6 مؤرخہ 28 / مارچ 1907 صفحہ 9) (۳۲۷) مدارات اور مداہنہ میں فرق مدارات اسے کہتے ہیں کہ نرمی سے گفتگو کی جاوے تا کہ دوسرے کو ذہن نشین ہو اور حق کو اس طرح اظہار کرنا کہ ایک کلمہ بھی باقی نہ رہے اور سب ادا ہو جاوے اور مداہنہ اسے کہتے ہیں کہ ڈر کر حق کو چھپا لینا.کھالینا.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نرمی سے گفتگو کر کے پھر گرمی پر آ جاتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے.حق کو پورا پورا ادا کرنے کے واسطے ایک ہنر چاہئے.وہ شخص بہت بہادر ہے جو کہ ایسی خوبی سے حق کو بیان کرے کہ بڑے غصہ والے آدمی بھی اسے سن لیو یں.خدا ایسوں پر راضی ہوتا ہے.ہاں یہ ضرور ہے کہ حق گو سے لوگ راضی نہ ہوں اگر چہ وہ نرمی بھی کرے.مگر تا ہم درمیان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اچھا کہنے لگتے ہیں." (اخبار بدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ 27 / مارچ 1903 ء صفحہ (77)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 254 (۳۲۸) جنگ میں قتل کرنا سوال:.جولوگ لڑائیوں میں جاتے ہیں اور وہاں قتل کرتے ہیں کیا وہ قتل ان کا گناہ ہے یا نہیں؟ جواب: " عِلْمُهَا عِنْدَرَتِی.میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا بُرا کیا." الحکم نمبر 40 جلد 9 مورخہ 17 نومبر 1905 صفحہ 10 ) (۳۲۹) بد خیالات دل کا مواخذه سوال : اگر کوئی چوری یا زنا کے ارادے سے جاوے مگر نہ کرے تو کیا گناہ ہو گا ؟ جواب:." جو خیالات وسوسہ کے رنگ میں دل میں گزرتے ہیں اور ان پر کوئی عزم اور ارادہ انسان نہیں کرتا ان پر مواخذہ نہیں ہے لیکن جب کوئی خیال بد دل میں گزرے اور انسان اس پر معصم ارادہ کر لے تو اس پر مواخذہ ہوتا ہے اور وہ گناہ ہے.جیسے ایک اچکا دل میں خیال کرے کہ فلاں بچہ کو قتل کر کے اس کا زیور اتار لوں گا تو گو قانونی جرم نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مجرم ہے اور سزا پائے گا.یادرکھو دل کا ایک فعل ہوتا ہے مگر جب تک اس پر مصم ارادہ اور عزیمت نہ کرے اس کا کوئی اثر " الحکم نمبر 40 جلد 9 مؤرخہ 17 نومبر 1905 ، صفحه 10 (۳۳۰) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد مجدد کی ضرورت ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا آپ کے بعد بھی مجد د آئے گا؟ اس پر فرمایا:."اس میں کیا حرج ہے کہ میرے بعد بھی کوئی مجدد آ جاوے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت ختم ہو چکی تھی اس لئے مسیح علیہ السلام پر آپ کے خلفاء کا خاتمہ ہو گیا.لیکن آنحضرت عیلیا اللہ کا سلسلہ قیامت تک ہے اس لئے اس میں قیامت تک ہی مجدد دین آتے رہیں گے.اگر قیامت نے فنا کرنے سے چھوڑا تو کچھ شک نہیں کہ کوئی اور بھی آجائے گا.ہم ہرگز اس سے انکار نہیں کرتے کہ صالح اور ابرار لوگ آتے رہیں گے اور پھر بغتہ قیامت آجائے گی." الحکم نمبر 40 جلد 9 مؤرخہ 17 نومبر 1905 صفحہ 8)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 255 (۳۳۱) خودکشی گناہ ہے ایک شخص نے اپنی مصائب اور تکالیف کو نا قابل برداشت بیان کرتے ہوئے ایک لمبا خط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھ کر یہ ظاہر کیا کہ میں بہ سبب ان مصائب کے ایسا تنگ ہوں کہ خود کشی کا ارادہ رکھتا ہوں.حضرت نے جواب میں اس کو لکھا کہ :.خود کشی کرنا گناہ ہے اور اس میں انسان کے واسطے کچھ فائدہ اور آرام نہیں ہے کیونکہ مرنے سے انسان کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا بلکہ ایک نئے طرز کی زندگی شروع ہو جاتی ہے.اگر انسان اس دنیا میں تکالیف میں ہے تو خدا تعالیٰ کی نارضامندیوں کو ساتھ لے کر اگر دوسری طرف چلا جائے گا تو وہاں کے مصائب اور تلخیاں اس جگہ کی حرارت سے بھی بڑھ کر ہیں.پس ایسی خود کشی اس کو کیا فائدہ دے گی.انسان کو چاہئے کہ صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا مانگنے میں مصروف رہے اور اپنی حالت کی اصلاح میں کوشش کرے اللہ تعالیٰ جلد رحم کر کے تمام بلاؤں اور آفتوں سے اس کو نجات دے گا.(اخبار بدر نمبر 30 جلد 2 مؤرخہ 26 جولائی 1906 صفحہ 9) (۳۳۲) محرم میں تابوت نکالنا سوال پیش ہوا کہ محرم پر جو لوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا (ہے)؟ فرمایا کہ:." گناہ ہے." اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14 / مارچ 1907 ، صفحہ 5) (۳۳۳) طاعونی مقامات میں جانے سے ممانعت قادیان کے کسی شخص کا ذکر ہوا کہ فلاں جگہ طاعون ہے اور وہ وہاں بار بار جا تا رہا.آخر وہ طاعون میں گرفتار ہو کر مر گیا.حضرت اقدس نے فرمایا:." جب کہ ایک جگہ آگ برستی ہے تو اس جگہ جانے کی کیا ضرورت ہے." الحکم نمبر 9 جلد 11 مؤرخہ 17 / مارچ 1907 ، صفحہ 11)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 256 فرمایا:.(۳۳۴) گھوڑی کو گدھے سے ملانا ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ جب ریل دجال کا گدھا ہے تو ہم لوگ اس پر کیوں سوار ہوں؟ " کفار کی صنعت سے فائدہ اٹھانا منع نہیں ہے.آنحضرت علی یا اللہ نے فرمایا تھا کہ گھوڑی کو گدھے کے ساتھ ملانا دجل ہے.پس ملانے والا دجال ہے لیکن آپ برابر خچر پر سواری کرتے تھے اور ایک کا فربادشاہ نے ایک خچر آپ کو بطور تحفہ کے بھیجی تھی اور آپ اس پر برابر سواری کرتے رہے." (اخبار بدر نمبر 13 جلد 8 مؤرخہ 28 / مارچ 1907 ء صفحہ 4) (۳۳۵) طاعونی مریض کا معالجہ و ہمدردی سوال ہوا کہ طاعون کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے.ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیا حکم ہے.فرمایا:."طبیب اور ڈاکٹر کو چاہیئے کہ علاج معالجہ کرے اور ہمدردی دکھائے لیکن اپنا بچا ؤر کھے.بیمار کے بہت قریب جانا اور مکان کے اندر جانا اس کے واسطے ضروری نہیں ہے.وہ حال معلوم کر کے مشورہ دے.ایسا ہی خدمت کرنے والوں کے واسطے بھی ضروری ہے کہ اپنا بچاؤ بھی رکھیں اور بیمار کی ہمدردی بھی کریں." (اخبار بدر نمبر 14 جلد 6 مؤرخہ 04 را پریل 1907 ء صفحہ 6) (۳۳۶) اسم اعظم ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ قرآن شریف میں اسم اعظم کون سا لفظ ہے.فرمایا:."اسم اعظم اللہ ہے." (اخبار بدرنمبر 14 جلد 6 مؤرخہ 04 اپریل 1907ء صفحہ 6) (۳۳۷) طاعونی مقامات و طاعونی مریضوں و شہیدوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 257 " آج کل طاعون بہت بڑھتا جاتا ہے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے.میں اپنی جماعت کے واسطے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے.مگر قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الہی نازل ہوتا ہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا.دیکھو حضرت نوح" کا طوفان سب پر پڑا اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد عورت اور بچے کو اس سے پورے طور پر خبر نہ تھی کہ نوح کا دعوی اور اس کے دلائل کیا ہیں.جہاد میں جو فتوحات ہوئیں وہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں لیکن ہر ایک میں کفار کے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے.کا فر جہنم کو گیا اور مسلمان شہید کہلایا.ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں.ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعا میں مصروف ہیں کہ وہ ان میں اور غیروں میں تمیز قائم رکھے لیکن جماعت کے آدمیوں کو یا درکھنا چاہئے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ ہماری تعلیم پر عمل نہ کیا جاوے.سب سے اول حقوق اللہ کو ادا کرو.اپنے نفس کو تمام جذبات سے پاک رکھو.اس کے بعد حقوق عباد کو ادا کرو اور اعمال صالحہ کو پورا کرو.خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا کے حضور رو کر دعا نہ کی ہو.اس کے بعد اسباب ظاہری کی رعایت رکھو.جس مکان میں چوہے مرنے شروع ہوں اس کو خالی کر دو.اور جس محلہ میں طاعون ہو اس محلہ سے نکل جاؤ.اور کسی کھلے میدان میں جا کر ڈیرا لگاؤ.جو تم میں سے تقدیر الہی طاعون میں مبتلا ہو جاوےاس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو اور ہر طرح سے اس کی مدد کرو اور اس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھو.لیکن یادر ہے کہ ہمدردی کے یہ معنی نہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جاؤ.بلکہ اس اثر سے بچو.اسے کھلے مکان میں رکھو اور جو خدانخواستہ اس بیماری سے مرجائے وہ شہید ہے.اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے اس کے وہی کپڑے رہنے دو.اور ہو سکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتا ہے اس واسطے سب لوگ اس کے ارد گرد جمع نہ ہوں.حسب ضرورت دو تین آدمی اس کی چار پانی کو اُٹھا ئیں اور باقی سب دور کھڑے ے ہو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 258 کر مثلاً ایک سو گز کے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں.جنازہ ایک دعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو.جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لا د کر لے جاویں اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے.خدا کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے.اس بات کا خوف نہ کرو کہ ایسا کرنے سے لوگ تمہیں بُرا کہیں گے.وہ پہلے کب تمہیں اچھا کہتے ہیں.یہ سب باتیں شریعت کے مطابق ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ آخر کار وہ لوگ جو تم پر ہنسی کریں گے خود بھی ان باتوں میں تمہاری پیروی کریں گے.مکررا یہ بہت تاکید ہے کہ جو مکان تنگ اور تاریک ہواور ہوا اور روشنی خوب طور پر نہ آسکے.اس کو بلا توقف چھوڑ دو کیونکہ خود ایسا مکان ہی خطرناک ہوتا ہے.گوکوئی چوہا بھی اس میں نہ مرا ہو اور حتی المقدور مکانوں کی چھتوں پر رہو.نیچے کے مکان سے پر ہیز کرو اور اپنے کپڑوں کو صفائی سے رکھو.نالیاں صاف کراتے رہو.سب سے مقدم یہ کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اور خدا کے ساتھ پوری صلح کرو."" اخبار بدر نمبر 14 جلد 6 مؤرخہ 04 را پریل 1907 صفحه 6,5) (۳۳۸) مسمریزم کیا ہے ایک شخص نے بذریعہ تحریر حضرت مسیح موعود سے دریافت کیا کہ مسمریزم کیا چیز ہے.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا ہے:." مدت ہوئی کہ میں نے مسمریزم کیلئے توجہ کی تھی کہ کیا چیز ہے.تو خدا کی طرف سے یہ جواب ملا تها هذَا هُوَ التِّرْبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُوْنَ " اخبار بدر نمبر 5 جلد 6 مؤرخہ 31 جنوری 1907 ، صفحہ 4) یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں." فرمایا:.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 259 حاشیہ، مطبوعہ نومبر 1984ء) (۳۳۹) گاؤں میں جب شدت طاعون ہو تو کیا حکم ہے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 259 بموجب حدیث صحیح کے یہ فتویٰ ہے کہ اگر طاعون کی ابتدائی حالت ہو تو اس شہر سے نکل جانا چاہئے.اور اگر طاعون زور پکڑ جائے تو نہیں جانا چاہئے.مگر مضائقہ نہیں کہ اسی گاؤں کی سرزمین میں باہر سکونت اختیار کریں." اخبار بدر نمبر 25 جلد 6 مؤرخہ 20 جون 1907 ء صفحہ 2) (۳۴۰) نرخ اشیاء سوال پیش ہوا کہ بعض تاجر جو گلی کوچوں میں یا بازار میں اشیاء فروخت کرتے ہیں.ایک ہی چیز کی قیمت کسی سے کم لیتے ہیں اور کسی سے زیادہ.کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا:."مالک شے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کی قیمت جو چاہے لگائے اور مانگے.لیکن وقت فروخت تراضی طرفین ہو اور بیچنے والا کسی قسم کا دھوکا نہ کرے مثلاً ایسا نہ ہو کہ چیز کے خواص وہ نہ ہوں جو بیان کئے جاویں یا اور کسی قسم کا دغا خریدار سے کیا جاوے اور جھوٹ بولا جاوے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بچے یا ناواقف کو پائے تو دھوکا دے کر قیمت زیادہ لے لے جس کو اس ملک میں لگا دا لگانا کہتے ہیں.یہ ناجائز ہے." ( اخبار بد نمبر 20 جلد 6 مؤرخہ 16 مئی 1907 ء صفحہ 10 ) (۳۴۱) طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکلنا ایک دوست نے ذکر کیا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے.فرمایا کہ:." گاؤں سے فوراً باہر نکل جاؤ اور کھلی ہوا میں اپنا ڈیرہ لگاؤ.مت خیال کرو کہ طاعون زدہ جگہ سے باہر نکلنا انگریزوں کا خیال ہے اور اس واسطے اس کی طرف توجہ کرنا فرض نہیں.یہ بات نہیں طاعون والی جگہ سے باہر نکلنا یہ فیصلہ شرعی ہے.گندی ہوا سے اپنے آپ کو بچاؤ.جان بوجھ کر ہلاکت میں مت پڑو.اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ بخشوا ؤ کہ وہ قادر خدا ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے.باوجود ان احتیاطوں کے اگر تقدیر آ ہی جاوے تو صبر کرو." اخبار بدر نمبر 20 جلد 6 مؤرخہ 16 مئی 1907 ء صفحہ 6)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 260 (۳۴۲) مصیبت زدہ و ماتم والے کے ساتھ ہمدردی حضرت کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے کہ جب کار قضاء کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کر یں.فرمایا:." نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے راہ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے." ( اخبار بدر نمبر 28 جلد 6 مؤرخہ 11 جولائی 1907 ، صفحہ 3) (۳۴۳) کنوئیں کو پاک کرنا سوال ہوا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہایا بلی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیں میں مر جاویں تو اتنے دلو پانی نکالنے چاہئیں.اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے.پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ، بو، مزہ نہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے.فرمایا:."ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے.یہ جو حساب ہے کہ اتنے دلو نکالو اگر فلاں جانور پڑے اور اتنے اگر فلاں پڑے.یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے." عرض کیا گیا کہ حضور نے فرمایا ہے جہاں سنت صحیحہ سے پستہ نہ ملے وہاں حنفی فقہ پر عمل کر لو.فرمایا:.فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی کب ایسا تعین ہے.ہاں نجات المؤمنین میں لکھا ہے.سو اس میں تو ی بھی لکھا ہے.سر ٹوئے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے.کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جب کہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے.پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو.میں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں آیا ہے وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ - پس جب پانی کی حالت اس قسم کی ہو جائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہیئے.مثلاً پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ (حالانکہ اس پر یہ ملاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے ) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں.جب تک رنگ بو و مزہ نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے." ( اخبار بدر نمبر 31 جلد 6 مؤرخہ یکم اگست 1907 ء صفحہ 12
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 261 فرمایا:- (۳۴۴) اختلاف فقہاء " آج کل علماء کے درمیان باہم مسائل کے معاملہ میں اس قدر اختلاف ہے کہ ہر ایک مسئلہ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس میں اختلاف ہے.جیسا کہ لاہور میں ایک طبیب غلام دستگیر نام تھا وہ کہا کرتا تھا کہ مریضوں اور ان کے لواحقین کی اس ملک میں رسم ہے کہ وہ طبیب سے پوچھا کرتے ہیں کہ یہ دوا گرم ہے یا سرد.تو میں نے اس کے جواب میں ایک بات رکھی ہوئی ہے میں کہہ دیا کرتا ہوں کہ اختلاف ہے.اول تو اس اختلاف کے سبب کئی فرقے ہیں.پھر مثلاً ایک فرقہ حنفیوں کا ہے ان میں سے آپس میں اختلاف ہے.پھر خود امام ابو حنیفہ کے اقوال میں اختلاف ہے." (اخبار بد نمبر 31 جلد 6 مؤرخہ یکم اگست 1907 ، صفحہ 3) (۳۴۵) مرشد کو سجدہ کرنا نا جائز ہے ایک شخص حضرت کی خدمت میں آیا.اس نے سر نیچے جھکا کر آپ کے پاؤں پر رکھنا چاہا.حضرت نے ہاتھ کے ساتھ اس کے سرکو ہٹایا اور فرمایا:." یہ طریق جائز نہیں.السلام علیکم کہنا اور مصافحہ کرنا چاہئے." اخبار بدر نمبر 32 جلد 6 مؤرخہ 8 اگست 1907 صفحه (5) (۳۴۶) گذشتہ روحوں کو ثواب ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی مخلص حضرت سید عبدالقادر کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکا کر کھلاوے تو کیا یہ جائز ہے.حضرت نے فرمایا کہ:.طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے.گزشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے.لیکن ہر ایک امر نیت پر موقوف ہے.اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لئے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام ہے اور شرک میں داخل ہے.پھر تاریخ کے تعین میں بھی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 262 نیت کا دیکھنا ہی ضروری ہے.اگر کوئی شخص ملازم ہے اور اسے مثلاً جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے تو حرج نہیں کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقرر کرے.غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ جس میں شرک پایا جائے.صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلا نا جائز ہے." نہ ہو ( اخبار بدر نمبر 32 جلد 6 مؤرخہ 8 راگست 1907 ء صفحہ 5) (۳۴۷) پندرہویں شعبان کی بدعات نصف شعبان کی نسبت فرمایا کہ:." یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں." (اخبار بدر نمبر 39 جلد 6 مؤرخہ 26 ستمبر 1907 ء صفحه (7) (۳۴۸) ناول نویسی و ناول خوانی حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ناولوں کا لکھنا اور پڑھنا کیسا ہے.فرمایا کہ:." ناولوں کے متعلق وہی حکم ہے جو آنحضرت نبی کریم علیہ اللہ نے اشعار کے متعلق فرمایا ہے حَسَنَهُ حَسَنٌ وَ قَبِيْحُهُ قَبِيحُ اس کا اچھا حصہ اچھا ہے اور فتح فتیح ہے.اعمال نیت پر موقوف ہیں.مثنوی مولوی رومی میں جو قصے لکھے ہیں وہ سب تمثیلیں ہیں اور اصل واقعات نہیں ہیں.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام تمثیلوں سے بہت کام لیتے تھے یہ بھی.ایک قسم کے ناول ہیں.جو ناول نیت صالح سے لکھے جاتے ہیں.زبان عمدہ ہوتی ہے.نتیجہ نصیحت آمیز ہوتا ہے اور بہر حال مفید ہیں ان کے حسب ضرورت و موقعہ لکھنے پڑھنے میں گناہ نہیں." ( اخبار بدر نمبر 36 جلد 6 مؤرخہ 05 ستمبر 1907 صفحہ 3) (۳۴۹) لڑکے کی بسم اللہ ایک شخص نے بذریعہ تحریر عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچے کو بسم اللہ کرائی جاوے تو بچے کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد شتی چاندی یا سونے کی اور قلم دوات چاندی یا سونے کی دی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 263 جاتی ہے.اگرچہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں.حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا:.سختی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں ان سے پر ہیز کرنا چاہئے اور باوجود غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قد را سراف اختیار کرنا سخت گناہ ہے." فرمایا:.( اخبار بدر نمبر 36 جلد 6 مؤرخہ 05 ستمبر 1907 صفحہ 3) (۳۵۰) فتوی در باب تعظیم امام حسین و اہانت یزید پلید واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی باغی تھا اور یزید حق پر تھا.لَعْنَت اللهِ عَلَى الْكَاذِ ِبينَ (ال عمران: (۲۲).مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں.مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے ورد تبرے اور لعن وطعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہا نہ بات کے جواب میں سفیہا نہ بات کہہ دی ہو.جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بدزبانی کے مقابل پر جو آنحضرت عیل اللہ کی شان میں کرتا ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں.بہر حال میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقا در کھتے ہیں کہ یزید ایک نا پاک طبع دنیا کا کیڑہ اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنی اس میں موجود نہ تھے.مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے.قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْ مِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا (الحجرات : ۱۵) مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کیلئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 264 ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.لیکن بدنصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں.دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا.مگر حسین رضی اللہ عنہ ظاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کی نہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں.کون جانتا ہے ان کا قد ر مگر وہی جو ان میں سے ہیں.دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے.جو شخص مجھے بُرا کہتا ہے یا عن طعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لانا سخت معصیت ہے.ایسے موقع پر در گذر کرنا اور نادان دشمن کے حق میں دعا کرنا بہتر ہے.کیونکہ اگر وہ لوگ مجھے جانتے کہ میں کس کی طرف سے ہوں تو ہر گز بُرا نہ کہتے وہ مجھے ایک دجال اور مفتری خیال کرتے ہیں.میں نے جو کچھ اپنی نسبت دعویٰ کیا اور جو کچھ اپنے مرتبہ کی نسبت کہا وہ میں نے نہیں کہا بلکہ خدا نے کہا.پس مجھے کیا ضرورت ہے کہ ان بحثوں کو طول دوں اگر میں در حقیقت مفتری اور دجال ہوں اور اگر در حقیقت میں اپنے ان مراتب کے بیان کرنے میں جو
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 265 میں خدا کی وحی کی طرف ان کو منسوب کرتا ہوں کا ذب اور مفتری ہوں تو میرے ساتھ اس دنیا اور آخرت میں خدا کا وہ معاملہ ہوگا جو کا ذبوں اور مفتریوں سے ہوا کرتا ہے کیونکہ محبوب اور مردود یکساں نہیں ہوا کرتے.سواے عزیز و! صبر کرو کہ آخر وہ امر جو خفی ہے کھل جائے گا.خدا جانتا ہے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور وقت پر آیا ہوں.مگر وہ دل جو سخت ہو گئے اور وہ آنکھیں جو بند ہوگئیں میں ان کا کیا علاج کر سکتا ہوں.خدا میری نسبت اشارہ کر کے فرماتا ہے کہ " دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دیگا." پس جب کہ خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کرے گا تو اس صورت میں کیا ضرورت ہے کہ کوئی شخص میری جماعت میں سے خدا کا کام اپنے گلے ڈال کر میرے مخالفوں پر نا جائز حملے شروع کرے.نرمی کرو اور دعا میں لگے رہو اور کچی تو بہ کو اپنا شفیع ٹھہراؤ اور زمین پر آہستگی سے چلو.خدا کسی قوم کا رشتہ دار نہیں ہے اگر تم نے اس کی جماعت کہلا کر تقویٰ اور طہارت کو اختیار نہ کیا اور تمہارے دلوں میں خوف اور خشیت پیدا نہ ہوا تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہیں مخالفوں سے پہلے ہلاک کرے گا کیونکہ تمہاری آنکھ کھولی گئی اور پھر بھی تم سو گئے.اور یہ مت خیال کرو کہ خدا کو تمہاری کچھ حاجت ہے اگر تم اس کے حکموں پر نہیں چلو گے، اگر تم اس کے حدود کی عزت نہیں کرو گے تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا اور ایک اور قوم تمہارے عوض لائے گا جو اس کے حکموں پر چلے گی.اور میرے آنے کی غرض صرف یہی نہیں کہ میں ظاہر کروں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.یہ تو مسلمانوں کے دلوں پر سے ایک روک کا اُٹھانا اور سچا واقعہ ان پر ظاہر کرنا ہے بلکہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ تا مسلمان خالص تو حید پر قائم ہو جائیں اور ان کو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائے اور ان کی نماز میں اور عبادتیں ذوق اور احسان سے ظاہر ہوں اور ان کے اندر سے ہر ایک قسم کا گند نکل جائے.اور اگر مخالف سمجھتے تو عقائد کے بارے میں مجھ میں اور ان میں کچھ بڑا اختلاف نہ تھا مثلاً وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے.سو میں بھی قائل ہوں کہ جیسا کہ آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ (آل عمران : ۵۶) کا منشا ہے.بے شک حضرت عیسی بعد وفات مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے.صرف فرق یہ ہے کہ وہ جسم عصری نہ تھا بلکہ ایک نورانی جسم تھا جو ان کو اسی طرح خدا کی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 266 طرف سے ملا جیسا آدم اور ابراہیم اور موسیٰ اور داؤد اور یحیٰ اور ہمارے نبی صلی اللہ اور دوسرے انبیاء کو ملا تھا.ایسا ہی ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ضرور دنیا میں دوبارہ آنے والے تھے.جیسا کہ آگئے.صرف فرق یہ ہے کہ جیسا کہ قدیم سے سنت اللہ ہے ان کا آنا صرف بروزی طور پر ہوا جیسا کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں بروزی طور پر آیا تھا.پس سوچنا چاہئے کہ اس قلیل اختلاف کی وجہ سے جو ضرور ہونا چاہئے تھا اس قدر شور مچانا کس قدر تقویٰ سے دور ہے.آخر جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم بن کر آیا، ضرور تھا کہ جیسا کہ لفظ حکم کا مفہوم ہے کچھ غلطیاں اس قوم کی ظاہر کرتا جن کی طرف وہ بھیجا گیا.اور نہ اس کا حکم کہلا نا باطل ہوگا.اب زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.میں اپنے مخالفوں کو صرف یہ کہہ کر کہ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمُ إِنِّى عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (الانعام : ۱۳۶ ).اس اعلان کو ختم کرتا ہوں.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى _ " ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 544 تا 547 مطبوعہ اپریل 1986 ء ) (۳۵۱) نماز کپڑے وغیرہ پر سے ذرہ بھر نجاست کو بھی دھونے کا راز فرمایا:.امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا ہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت ہی تھوڑی سی نجاست جوان کے کپڑے پر تھی دھو رہے تھے.کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لئے تو فتویٰ نہیں دیا.اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ:.آن فتوی است و این تقوی پس انسان کو دقائق تقوی کی رعایت رکھنی چاہئیے سلامتی اسی میں ہے.اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنا دیں گی اور طبیعت میں کسل اور لا پرواہی پیدا ہو کر ہلاک ہو جائے گا.تم اپنے زیر نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کیلئے ودقائق تقومی کی رعایت ضروری ہے." (احکام نمبر 39 جلد 9 مؤرخہ 10 رنومبر 1905ء صفحہ 5)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 267 فرمایا:.(۳۵۲) پانچوقتی اذان واضح ہو کہ قرآن کی تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا جیسا کہ واحد لاشریک ہے ایسا ہی اپنی محبت کے رو سے بھی اس کو واحد لاشریک ٹھہراؤ.جیسا کہ کلمہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ جو ہر وقت مسلمانوں کو ورد زبان رہتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ الہ.ولاہ سے مشتق ہے اور اس کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جائے.یہ کلمہ نہ تو رات نے سکھلایا اور نہ انجیل نے.صرف قرآن نے سکھلایا اور یہ کلمہ اسلام سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ گویا اسلام کا تمغہ ہے.یہی کلمہ پانچ وقت مساجد کے مناروں میں بلند آواز سے کہا جاتا ہے جس سے عیسائی اور ہندوسب چڑتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو محبت کے ساتھ یاد کرنا ان کے نزدیک گناہ ہے.یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ صبح ہوتے ہی اسلامی مؤذن بلند آواز سے کہتا ہے کہ اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا الله یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی ہمارا پیارا اور محبوب اور معبود بجز اللہ کے نہیں.پھر دوپہر کے بعد یہی آواز اسلامی مساجد سے آتی ہے.پھر عصر کو بھی یہی آواز ، پھر مغرب کو بھی یہی آواز اور پھر عشاء کو بھی یہی آواز گونجتی ہوئی آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے.کیا دنیا میں کسی اور مذہب میں بھی یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے؟" ( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 367,366 مطبوعہ نومبر 1984 ء) (۳۵۳) چونہ یا کوٹ اُتار کر وضو کرنا فرمایا:." میں نے ارادہ کیا کہ عصر کی نماز یہیں پڑھ لوں اس لئے میں نے چوغہ اُتار کر وضو کرنا چاہا اور چوغہ وزیر صاحب کے ایک ملازم کو پکڑا دیا اور پھر چونہ پہن کر نماز پڑھ لی." (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 256 مطبوعہ نومبر 1984 ء ) (۳۵۴) تیم فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 268 "وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ اَوْجَاءَ اَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْلَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيْدًا طَيِّبًا (المائده : 7) یعنی اگر تم مریض ہو یا سفر پر یا پاخانہ سے آؤ یا عورتوں سے مباشرت کرو اور پانی نہ ملے تو ان سب صورتوں میں پاک مٹی سے تیم کرو." شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 332,331 مطبوعہ نومبر 1984ء) فرمایا:.(۳۵۵) نماز خوف "اگر تمہیں خوف ہو تو نماز پیروں سے چلتے چلتے یا سوار ہونے کی حالت میں پڑھ لو." (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 336 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۳۵۶) محلہ اہل ہنود میں مسجد کو ترک کرنا یا آباد کرنا چاہئے ایک خط حضرت حکیم الامت کی خدمت میں بدیں مضمون آیا تھا کہ ایک مسجد اہل ہنود کے محلہ میں واقع ہے اور وہ بالکل ویران ہے.ہمارا ارادہ ہے کہ اس مسجد کو فروخت کر کے اس کے روپیہ سے ایک اور مسجد کسی مناسب موقع پر بنادی جاوے.حضرت حکیم الامت نے وہ خط حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ: " ہمارے خیال میں بجائے دوسری جگہ مسجد بنانے کے اسی کو آباد کرنا اور نماز کی پابندی سے اسی مسجد کو رونق دینا باعث ثواب ہے." فرمایا کہ:." آج ہی سیر سے واپس آتے ہوئے ہمارے دل میں بڑی مسجد کو دیکھ کر خیال آیا کہ اگر مسجد کے جانب شمال کی دو تین دکانیں مل جاویں تو وہ خرید کر مسجد کو جانب شمال بھی وسیع کر دیا جاوے اس طرح سے ہماری مسجد عین بازار کے چوک میں آجاوے گی." الحکم نمبر 19 جلد 12 مؤرخہ 14 / مارچ 1908 ، صفحہ 4) (۳۵۷) مال مویشی رکھنے والوں کی نماز ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور نماز کے متعلق ہمیں کیا حکم ہے.فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 269 " نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت علی اللہ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کا روباری آدمی ہیں مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا.وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا.وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سور ہنا یہ تو دین ہرگز نہیں یہ سیرت کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے." فرمایا:.احکم نمبر 12 جلد 7 مؤرخہ 31 / مارچ 1903 ء صفحہ 8,7) (۳۵۸) نماز اشراق پیغمبر خدا علی اللہ سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں.تہجد کے فوت ہونے پر یا سفر سے واپس آ کر پڑھنا ثابت ہے.لیکن تعبد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازہ پر پڑے رہنا عین سنت ہے.وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ." مکتوبات احمد یہ جلد اوّل صفحہ 20 مطبوعہ دسمبر 1908ء) (۳۵۹) حسب ضرورت دوبارہ جماعت نماز سوال پیش ہوا کہ جہاں ایک دفعہ نماز ہو جاوے وہاں اسی نماز کے واسطے دوبارہ جماعت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ فرمایا:." اس میں کچھ حرج نہیں.حسب ضرورت اور جماعت بھی ہو سکتی ہے." ( اخبار بدر نمبر 1 جلد 6 مؤرخہ 10 / جنوری 1907 ء صفحہ 18 ) (۳۶۰) نماز جمعہ کے ساتھ عصر جمع کرنا سوال:.کیا کسی شرعی ضرورت کے واسطے نماز جمعہ کے ساتھ ہی نماز عصر جمع جائز ہے؟
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جواب:." جائز ہے." 270 گذشتہ دسمبر میں جمعہ کے روز کثرت آدمیوں کے سبب اور قبل از نماز ایک عظیم الشان دینی جلسہ میں شمولیت کے سبب کھانا بھی نہ کھا چکے تھے اور نماز جمعہ بھی کسی قدر پچھلے وقت میں ہو سکا اس واسطے حسب الحکم حضرت مسیح موعود جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کی گئی تھی.اخبار بدر نمبر 4 جلد 2 مؤرخہ 26 جنوری 1906 صفحہ 6) (۳۶۱) کیا وظیفہ پڑھیں ایک شخص نے پوچھا کہ میں کیا وظیفہ پڑھا کروں.فرمایا:." استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کی دوہی حالت ہیں یا تو وہ گناہ نہ کرے اور یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بد انجام سے بچالے.سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گذشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہے اور دوسرا یہ کہ خدا سے تو فیق چاہے کہ آئندہ گنا ہوں سے بچالے.مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل چاہے.نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو یہ ضروری ہے." الحکم نمبر 29 جلد 5 مؤرخہ 10 راگست 1901 ، صفحہ 3) (۳۶۲) روزه جہاں چھ ماہ تک سورج نہیں چڑھتا.روزہ کیونکر رکھیں؟ فرمایا:.اگر ہم نے لوگوں کی طاقتوں پر ان کی طاقتوں کو قیاس کرنا ہے تو انسانی قوی کی جڑھ جو حمل کا زمانہ ہے مطابق کر کے دکھلانا چاہئے پس ہمارے حساب کی اگر پابندی لازم ہے تو ان بلاد میں صرف ڈیڑھ دن میں حمل ہونا چاہئے اور اگر ان کے حساب کی تو دو سو چھیاسٹھ برس تک بچہ پیٹ میں رہنا چاہئے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے.حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے لیکن دوسو چھیاسٹھ برس کی حالت میں یہ تو ماننا کچھ بعید از قیاس نہیں کہ وہ چھ ماہ تک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے دن کا یہی مقدار ہے اور اس کے مطابق ان کے قومی بھی ہیں." جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 277 مطبوعہ نومبر 1984ء)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 271 فرمایا:- (۳۶۳) حج " حج میں قبولیت ہو کیونکر؟ جب کہ گردن پر بہت سے حقوق العباد ہوتے ہیں.ان کو تو ادا کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا.فلاح نہیں ہوتی جب تک نفس کو پاک نہ کرے اور نفس تب ہی پاک ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے احکام کی عزت اور آداب کرے اور ان راہوں سے بچے جو دوسرے کے آزار اور دکھ کا موجب ہوتی ہیں." (احکام نمبر 33 جلد 9 مؤرخہ 24 ستمبر 1905 ، صفحہ 9) بدل حج فرمایا کہ:." دعا کا اثر ثابت ہے یا ایک روایت میں ہے کہ اگر میت کی طرف سے حج کیا جاوے تو قبول ہوتا ہے اور روزہ کا ذکر بھی ہے." ایک شخص نے عرض کی کہ حضور یہ جو ہے لیسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى.فرمایا کہ: "اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ بھائی کے حق میں دعانہ قبول ہو تو پھر سورۃ فاتحہ میں اهْدِنَا کے بجائے اهْدِنِي ہوتا." (اخبار بدر نمبر 15 جلد 2 مؤرخہ یکم مئی 1903ء صفحہ 115) (۳۶۴) خدمت دین بھی ایک طرح حج ہے ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے ایک دوست نے لکھا ہے کہ تم تو حج کرنے کو گئے ہوئے ہو مگر ہمیں بھلا دیا ہے.فرمایا:." اصل میں جولوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کی خدمت میں دین سیکھنے کے واسطے جانا بھی ایک طرح کا حج ہی ہے.حج بھی خدا تعالیٰ کے حکم کی پابندی ہے اور ہم بھی تو اس کے دین اور اس کے گھر یعنی خانہ کعبہ کی حفاظت کے واسطے آئے ہیں.آنحضرت علیم اللہ نے جو کشف میں دیکھا تھا کہ دجال اور مسیح موعود ا کٹھے طواف کر رہے ہیں.اصل میں طواف کے معنی ہیں پھر نا تو طواف دو ہی طرح
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 272 کا ہوتا ہے ایک تو رات کو چور پھرتے ہیں یعنی گھروں کے گرد طواف کرتے ہیں اور ایک چوکیدار طواف کرتا ہے مگر ان میں فرق یہ ہے کہ چور تو گھروں کو لوٹنے اور گھروں کو تباہ و برباد کر نے کیلئے اور چوکیداران گھروں کی حفاظت اور بچاؤ اور چوروں کے پکڑنے کے واسطے طواف کرتے ہیں.یہی حال مسیح اور دجال کے طواف کا ہے دجال تو دنیا میں اس واسطے پھرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تا دنیا کو خدا کی طرف سے پھیر دے اور ان کے ایمان کو لوٹ لیا جاوے.مگر مسیح موعود اس کوشش میں ہے کہ تا اسے پکڑے اور مارے اور اس کے ہاتھ سے لوگوں کے دین وایمان کے متاع کو بچاوے.غرض یہ ایک جنگ ہے جو ہمارا دجال سے ہو رہا ہے." فرمایا:.الحکم نمبر 9 جلد 7 مؤرخہ 10 / مارچ 1903 صفحہ 13) (۳۶۵) صدقہ اور ہدیہ میں فرق صدقہ میں رد بلاملحوظ ہوتی ہے اور یہ صدق سے نکلا ہے کیونکہ اس کے عملدرآمد میں انسان اللہ تعالیٰ کو صدق وفا دکھلاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہد یہ ہدایت سے نکلا ہو کہ آپس میں محبت بڑھے." اخبار بدر نمبر 15 جلد 2 مؤرخہ یکم مئی 1903 ء صفحہ 115) (۳۶۶) فاتحہ خوانی ایک صاحب نے عرض کی کہ میرا اللہ تعالیٰ سے معاہدہ تھا کہ جب میں ملازم ہوں گا تو اپنی تنخواہ میں سے آدھ آنہ فی روپیہ نکال کر اللہ کے نام دیا کروں گا اسی لئے جو کچھ اب مجھے ملتا ہے اسی حساب سے نکال کر کھانا وغیرہ پکا کر اس پر ختم اور فاتحہ وغیرہ پڑھوا دی جاتی ہے.حضور کا اس بارے میں کیا حکم ہے.فرمایا کہ:." مساکین وغیرہ کی پرورش کردینی چاہئے یا اور کسی مقام پر.مگر فاتحہ خوانی کرانی یہ تو ایک بدعت ہے اسے نہ کرنی چاہئے." (اخبار بدر نمبر 11 جلد 2 مؤرخہ 3 را پریل 1903 صفحہ 83)
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 273 (۳۶۷) چھ برائے برآمدگی مرادز بیجہ دینا سوال پیش ہوا کہ برائے برآمدگی مراد یا سیرابی ملک یا بطور چٹھ جو لوگ ذبیحہ دیتے ہیں جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ:."جائز نہیں ہے." " ( اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مؤرخہ 14 / مارچ 1907 صفحہ 5) (۳۶۸) صدقہ جاریہ ایک شخص کا خط حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ انسان اپنی زندگی میں کس طرح کا صدقہ جاریہ چھوڑ جائے کہ مرنے کے بعد قیامت تک اس کا ثواب ملتا ر ہے.فرمایا کہ:." قیامت تک کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے.ہاں ہر ایک عمل انسان کا جو اس کے مرنے کے بعد اس کے آثار دنیا میں قائم رہیں وہ اس کے واسطے موجب ثواب ہوتا ہے.مثلاً انسان کا بیٹا ہو اور وہ اسے دین سکھلائے اور دین کا خادم بنائے تو یہ اس کے واسطے صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب اس کو ملتا رہے گا.اعمال نیت پر موقوف ہیں ہر ایک عمل جو نیک نیتی کے ساتھ ایسے طور سے کیا جائے کہ اس کے بعد قائم رہے وہ اس کے واسطے صدقہ جاریہ ہے." فرمایا:.( اخبار بدر نمبر 14 جلد 6 مؤرخہ 4 اپریل 1907 ء صفحہ 7) (۳۶۹) مردے کیلئے دعا یا صدقہ اس ترقی کی ایک یہ بھی صورت ہے کہ جب مثلاً ایک شخص ایمان اور عمل کی ادنیٰ حالت میں فوت ہوتا ہے تو تھوڑی سی سوراخ بہشت کی طرف اس کیلئے نکالی جاتی ہے کیونکہ بہشتی تجلی کی اُسی قدر اس میں استعداد موجود ہوتی ہے.پھر بعد اس کے اگر وہ اولا دصالح چھوڑ کر مرا ہے جو جد و جہد سے اس کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور صدقات و خیرات اس کی مغفرت کی نیت سے مساکین کو دیتے ہیں یا ایسے کسی اہل اللہ سے اس کی محبت تھی جو تضرعات سے جناب الہی سے اس کی بخشش چاہتا ہے یا
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 274 کوئی ایسا خلق اللہ کے فائدہ کا کام وہ دنیا میں کر گیا ہے جس سے بندگان خدا کو کسی قسم کی مدد یا آرام پہنچتا ہے تو اس خیر جاری کی برکت سے وہ کھڑ کی اس کی جو بہشت کی طرف کھولی گئی دن بدن اپنی کشادگی میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اور سَبَقَتْ رَحْمَتِی عَلی غَضَبِی کا منشاء اور بھی اس کو زیادہ کرتا جاتا ہے.یہاں تک وہ کھڑ کی ایک بڑا وسیع دروازہ ہو کر آخر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ شہیدوں اور صدیقوں کی طرح وہ بہشت میں ہی داخل ہو جاتا ہے.اس بات کو سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات شرعاً وانصافاً وعقلاً بیہودہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ باوجود اس کے کہ ایک مرد مسلم فوت شدہ کے بعد ایک قسم کی خیر اس کیلئے جاری رہے اور ثواب اور اعمال صالحہ کی بعض وجوہ اس کیلئے کھلی رہیں مگر پھر بھی وہ کھڑ کی جو بہشت کی طرف اس کیلئے کھولی گئی ہے ہمیشہ اتنی کی اتنی رہے جو پہلے دن کھولی گئی تھی." (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 285 مطبوعہ نومبر 1984ء) (۳۷۰) صدقہ میت کے متعلق ایک شخص نے سوال کیا کہ میت کے ساتھ جو لوگ روٹیاں پکا کر یا اور کوئی شے لے کر با ہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا:.سب باتیں نیت پر موقوف ہیں اگر یہ نیت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتا ہے.ادھر وہ دفن ہو ادھر مساکین کو صدقہ دیدیا جاوے تا کہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیں ہے.کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کیلئے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی ت ہے.' اخبار بدر نمبر 7 جلد 2 مؤرخہ 16 فروری 1906 ء صفحہ 2) (۳۷۱) اسقاط ایک شخص نے سوال کیا کہ کسی شخص کے مرجانے پر جو اسقاط کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے.فرمایا:.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 275 یہ بالکل بدعت ہے اور ہرگز اس کے واسطے کوئی ثبوت سنت اور حدیث سے ظاہر نہیں ہوسکتا." اخبار بدر نمبر 7 جلد 2 مؤرخہ 16 فروری 1906 ء صفحہ 2 (۳۷۲) میت جمعہ کے دن مرنا یا چہرہ اچھا رہنا فرمایا:." جمعہ کے دن مرنا.مرتے وقت ہوش کا قائم رہنا یا چہرہ کا رنگ کا اچھا ہونا ان علامات کو ہم قاعدہ کلیہ کے طور سے ایمان کا نشان نہیں کہہ سکتے.کیونکہ کئی دہریہ بھی اس دن کو مرتے ہیں.ان کا ہوش قائم اور چہرہ سفید رہتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دق و سل کہ ان کے مریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے.بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی ہیں.ہم نے بعض دفعہ دیکھا کہ مریض کو کلمہ پڑھایا گیا اور یسین بھی سنائی.بعد ازاں وہ بچ گیا اور پھر وہی بُرے کام شروع کر دیئے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدق دل سے ایمان نہیں لایا.اگر سچی توبہ کرتا تو کبھی ایسا کام نہ کرتا.اصل میں اس وقت کا کلمہ پڑھنا ایمان لانا نہیں یہ تو خوف کا ایمان ہے جو مقبول نہیں." اخبار بدر نمبر 2 جلد 7 مؤرخہ 16 جنوری 1908 ، صفحہ 3) (۳۷۳) چہلم جائز ہے یا نہیں؟ ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ چہلم کرنا جائز ہے یا نہیں.فرمایا:." یہ رسم سنت سے باہر ہے." (اخبار بدر نمبر 7 جلد 6 مؤرخہ 14 فروری 1907 ء صفحہ 4) (۳۷۴) قرضہ لین دین اور مرض الموت میں مبتلا ایک بیمار شخص کا ذکر ہوا.آپ نے فرمایا کہ:."انسان حالت تندرستی میں صحت کی قدر نہیں کرتا ( کہ ان ایام میں اپنے تعلقات اللہ تعالیٰ سے مضبوط کرے تا کہ ہر طرح وہ اس کا حافظ و ناصر ہو ) اور جب بیمار ہوتا ہے تو پھر دوبارہ صحت اس لئے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 276 طلب کرتا ہے کہ انہی دنیا کے امور میں مبتلا ہو.(اگر اس کا ارادہ خدمت دین ہو تو اس کا صحت کا طلب کرنا گویا منشائے الہی کے مطابق ہوگا )." اسی بیمار کی نسبت ذکر ہوا کہ اس نے کئی سو روپیہ لوگوں سے لینا ہے مگر صرف چند روپوں کے کاغذات ہیں باقی تمام زبانی لین دین ہے اور اس کی دولڑ کیاں ہیں.بعض احباب نے تجویز کیا کہ جو کچھ رقوم لوگوں کے ذمہ ہیں اور وہ تحریر میں نہیں آئیں تو چاہئے کہ اب دو آدمی گواہ مقرر کر کے اس کی زندگی میں وہ رقمیں ان مقروضوں سے منوالی جاویں اور تحریر کرالی جاوے.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ:.اس کی ضرور کوشش کرنی چاہئے.یہ بڑے ثواب کی بات ہے.ممکن ہے کہ اگر وہ مر جاوے تو بے چاری لڑکیوں کو ہی کچھ فائدہ پہنچ جاوے." یہ میں نے اس لئے لکھا ہے کہ اس قسم کی احتیاطوں کو ایسے نازک موقعوں پر مد نظر رکھا جاوے اور سہل انگاری سے ان معاملات کو ترک نہ کیا جاوے.(ایڈیٹر ) ( اخبار بدر نمبر 41 42 43 جلد 3 مؤرخہ یکم و 8 نومبر 1904 ، صفحہ 9) (۳۷۵) رشوت حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب نے عرض کی کہ حضور ایک سوال اکثر آدمی دریافت کرتے ہیں کہ ان کو بعض وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اہلکار وغیرہ کو کچھ نہ دیں ان کا کام نہیں ہوتا اور وہ تباہ کر دیتے ہیں.فرمایا:."میرے نزدیک رشوت کی یہ تعریف ہے کہ کسی کے حقوق کو زائل کرنے کے واسطے یا ناجائز طور پر گورنمنٹ کے حقوق کو دبانے یا لینے کیلئے کوئی مابہ الاحتفاظ کسی کو دیا جائے لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ کسی دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور نہ کسی دوسرے کا کوئی حق ہو صرف اس لحاظ سے کہ اپنے حقوق کی حفاظت میں کچھ دید یا جاوے تو کوئی حرج نہیں اور یہ رشوت نہیں بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم راستہ پر چلے جاویں اور سامنے کوئی کتا آجاوے تو اس کو ایک ٹکڑا روٹی کا ڈال کر اپنے طور پر جاویں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں."
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 277 اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ بعض معاملات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ اصل میں حق پر کون ہے.فرمایا :.ایسی صورتوں میں استفتاء قلب کافی ہے اس میں شریعت کا حصہ رکھا گیا ہے.میں نے جو کچھ کہا ہے اس پر اگر زیادہ غور کی جاوے تو امید ہے قرآن شریف سے بھی کوئی نص مل جاوے." فرمایا:.الحکم نمبر 29 جلد 6 مؤرخہ 17 اگست 1902، صفحه 8) (۳۷۶) شراب نوشی " مثلاً ایک شراب ہی کو دیکھو جو ام الخبائث ہے جس سے طرح طرح کے نفسانی جوش پیدا ہو کر کبھی انسان مرتکب فسق و فجور کا ہوتا ہے اور کبھی خونریزی کا ارتکاب کرتا ہے اور بلاشبہ یہ تمام گناہوں کی ماں ہے مگر نہ صرف یہودیوں کے اعتراضات سے بلکہ انجیل سے بھی ثابت ہے کہ حضرت مسیح تمام عمر اس کے مرتکب رہے اسی وجہ سے عیسائیوں کی عشاء ربانی کی بھی یہ ایک جز ہے اور انجیل میں حضرت مسیح اقرار کرتے ہیں کہ یوحنا شراب نہیں پیتا تھا مگر اپنی نسبت مبالغہ سے کھاؤ پیو کا لفظ استعمال کیا ہے غرض اس میں کسی کو بھی کلام نہیں کہ یسوع مسیح شراب پیا کرتا تھا.چنانچہ پر چہ اخبارا پی فنی ۲۷ را پریل ۱۹۰۱ء میں بھی جو ایک مشہور پادریوں کا پرچہ انگریزی زبان میں کلکتہ سے نکلتا ہے یہ عبارت ہے " مسیح گوشت بھی کھاتا تھا اور شراب بھی پیتا تھا." اور کتاب دانی ایل باب اوّل میں شراب کو نا پاک قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ دانی ایل اس کو نا پاک سمجھتا تھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ شراب ایسی خبیث چیز ہے کہ اس کا پلید ہونا اس بات کا محتاج نہیں کہ توریت یا انجیل یا کسی دوسرے صحیفہ میں اس کو پلید اور ناپاک لکھا ہو.بلکہ اگر فرض کے طور پر کسی کتاب نے شراب کی تعریف کی ہو تو شراب اس سے قابل تعریف نہیں ٹھہرے گی.ہاں اس کتاب پر اعتراض آئے گا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے.جس چیز کے عیب اور مضر تیں تجارب سے کھل گئے ہوں اس میں ہم کسی کتاب کی شہادت کے محتاج نہیں ہیں.ہزاروں قسم کی زہریں اور خبیث چیزیں دنیا میں موجود ہیں جن کی مضرتیں تجربہ نے ہم پر کھول دی ہیں.پس ضرور نہیں کہ ہم ان چیزوں کو خبیث ٹھہرانے کیلئے آسمانی کتابوں کی ورق گردانی کریں.ان سب میں سے
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 278 اول درجہ پر شراب ہے.دنیا میں ہزاروں شہادتیں اس کی مضرت اور خباثت پر موجود ہیں ان سب کا لکھنا موجب تطویل ہے." ریویو آف ریلیچز جلد اوّل نمبر 3 مارچ 1902 صفحہ 111,110 ) فرمایا:.دنیا میں نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کیلئے بڑے بڑے دو گناہ ہیں.ایک شراب نوشی اور ایک بدکاری.اب کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان دو گناہوں میں یورپ کے اکثر مردوں اور عورتوں نے پورا حصہ لیا ہے.بلکہ میں اس بات میں مبالغہ نہیں دیکھتا کہ شراب نوشی میں ایشیا کے تمام ملکوں کی نسبت یورپ بڑھا ہوا ہے اور یورپ کے اکثر شہروں میں شراب فروشی کی اس قدر دکا نیں ملیں گی کہ ہمارے قصبوں کی ہر قسم کی دکانیں ملا کر بھی ان سے کمتر ہوں گی اور تجر بہ شہادت دے رہا ہے کہ تمام گناہوں کی جڑ شراب ہے کیونکہ وہ چند منٹ میں ہی بدمست بنا کر خون کرنے تک دلیر کر دیتی ہے اور دوسری قسم کا فسق و فجور اس کے ضروری لوازم ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں اور اس پر زور دیتا ہوں کہ شراب اور تقویٰ ہرگز جمع نہیں ہو سکتے.اور جو شخص اس کے بدتیجوں سے آگاہ نہیں وہ عقلمند ہی نہیں اور اس میں ایک اور بڑی مصیبت ہے کہ اس کی عادت کو ترک کرناہر ایک کا کام نہیں." فرمایا:.ریویو آف ریلیجنز جلد اوّل نمبر 1 جنوری 1902 ء صفحہ 23) (۳۷۷) معراج احادیث میں مسیح موعود کیلئے نزول من السماء نہیں لکھا نزول کا لفظ ہے اور یہ اظلالی معنی رکھتا ہے نہ کہ حقیقی.نزیل لغت میں مسافر کو کہتے ہیں کیا وہ آسمان سے اترتا ہے.بہر حال قرآن ہر میدان میں فتحیاب ہے.آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا اور آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کہہ کر مسیح موعود کو اپنا بروز بتا دیا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت علی الا اللہ معراج کی رات اسی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں مگر وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن شریف اس کو رڈ کرتا ہے اور حضرت عائشہ " بھی رؤیا کہتی ہیں.حقیقت میں معراج ایک کشف تھا جو بڑا عظیم الشان اور صاف کشف تھا اور اتم اور اکمل تھا.
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 279 کشف میں اس جسم کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ کشف میں جوجسم دیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کا حجاب نہیں ہوتا بلکہ بڑی بڑی طاقتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور آپ کو اسی جسم کے ساتھ جو بڑی طاقتوں والا ہوتا ہے معراج ہوا." پھر آپ نے اس امر کی تائید میں چند آیات سے استدلال کیا کہ جسم آسمان پر نہیں جاتا یہ باتیں قریباً پہلے ہم بارہا درج کر چکے ہیں.بخوف طوالت اعادہ نہیں کرتے.ایڈیٹر ) فرمایا:.(احکام نمبر 40 جلد 6 مؤرخہ 10 نومبر 1902 صفحہ 5) (۳۷۸) با جابجانے کی حلت "اسی طرح میرے نزدیک باجے کی بھی حلت ہے اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں دیکھتے بشر طیکہ نیت میں خلل نہ ہو.نکاحوں میں بعض وقت جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور وراثت کے مقدمات ہو جاتے ہیں جب اعلان ہو گیا ہوا ہوتا ہے تو ایسے مقدمات کا انفصال سہل اور آسان ہو جاتا ہے.اگر نکاح گم صم ہو گیا اور کسی کوخبر بھی نہ ہوئی تو پھر وہ تعلقات بعض اوقات قانو نا نا جائز سمجھے جاکر اولا دمحروم الارث قرار دیدی جاتی ہے.ایسے امور صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہیں کیونکہ ان سے شرع کی قضایا فیصل ہو جاتے ہیں.یہ لڑ کے جو پیدا ہوتے رہتے ہیں بعض وقت ان کے عقیقہ پر ہم نے دودو ہزار آدمی کو دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہماری غرض اس سے یہی تھی کہ تا اس پیشگوئی کا جو ہر ایک کے پیدا ہونے سے پہلے کی گئی تھی بخوبی اعلان ہو جاوے." الحکم نمبر 14 جلد 7 مؤرخہ 17 را پریل 1903ء صفحہ 2) (۳۷۹) مسئلہ کفر و اسلام سوال ہوا کہ ابتداء میں بھی مسلمانوں کے درمیان آپس میں عداوت اور دشمنیاں ہوتی رہی ہیں اور اختلاف رائے بھی ہوتا رہا ہے مگر باوجود اس کے ہم کسی کو کا فرنہیں کہہ سکتے.حضرت اقدس نے فرمایا:.یہ تو شیعوں کا مذہب ہے کہ صحابہ کے درمیان آپس میں ایسی سخت دشمنی تھی یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 280 آپ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِل - برادریوں کے درمیان آپس میں دشمنیاں ہوا کرتی ہیں مگر شادی مرگ کے وقت وہ سب ایک ہو جاتے ہیں.اخیار میں خونی دشمنی کبھی نہیں ہوتی." سوال ہوا کہ جو لوگ آپ کو کافر نہیں کہتے مگر آپ کے مرید بھی نہیں ہیں ان کا کیا حال.حضرت صاحب نے فرمایا:.وہ لوگ راہ و رسم اور تعلقات کس کے ساتھ رکھتے ہیں.آخر ایک گروہ میں ان کو ملنا پڑے گا جس کے ساتھ کوئی اپنا تعلق رکھتا ہے اسی میں سے وہ ہوتا ہے." سوال ہوا کہ جو لوگ آپ کو نہیں مانتے وہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے نیچے ہیں یا کہ نہیں ؟ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ:.انْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں تو میں اپنی جماعت کو بھی شامل نہیں کر سکتا جب تک کہ خدا کسی کو نہ کرے.جو کلمہ گو سچے دل سے قرآن پر عمل کرنے کیلئے طیار ہو بشر طیکہ سمجھایا جاوے وہ اپنا اجر پائے گا.جس قدر کوئی مانے گا اسی قدر ثواب پائے گا.جتنا انکار کرے گا اتنی ہی تکلیف اٹھائے گا.میں قسما کہتا ہوں کہ مجھے لوگوں کے ساتھ کوئی عداوت نہیں جو ہمیں کا فرنہیں کہتے ان کے دلوں کا خدا مالک ہے.مگر حضرت مسیح کا خالق اور جی ماننا بھی تو ایک شرک ہے.اگر وہ کہیں کہ خدا کے اذن سے کرتا تھا تو ہم کہتے ہیں کہ وہ اذن نبی کریم علیہ کو کیوں نہ دیا گیا.جو خدا کے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے خدا اس کے ساتھ جنگ کرتا ہے جس کے ساتھ خدا جنگ کرے اس کا ایمان کہاں رہا." الحکم نمبر 10 جلد 5 مؤرخہ 17 / مارچ 1901 صفحہ 8 (۳۸۰) مسیح موعود کو ماننے کی ضرورت حضرت کی خدمت میں آج پھر ایک سوال پیش ہوا کہ جب ہم لوگ نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اور شریعت کے دیگر امور کی پیروی کرتے ہیں تو صرف آپ کو نہ ماننے کے سبب کیا حرج ہو سکتا ہے.حضرت نے فرمایا:." میں نے اس بات کا جواب کئی بار دیا ہے.ہم قال اللہ اور قال الرسول کو مانتے ہیں.پھر خدا کی
فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 281 وجی کو مانتے ہیں.میرا آنا اللہ اور رسول کے وعدے کے مطابق ہے.جو شخص خدا اور رسول کی ایک بات مانتا ہے اور دوسری نہیں مانتا وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں خدا پر ایمان لاتا ہوں.یہ تو وہ بات ہے جو قرآن شریف میں تذکرہ ہے کہ وہ لوگ بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر ایمان نہیں لاتے اور نہ در اصل ایمان نہیں.ایک خدا اور اس کے رسول کا موعود اپنے وقت پر آیا.صدی کے سر پر آیا.نشانات لایا.عین ضرورت کے وقت آیا.اپنے دعوی کے دلائل صحیح اور قوی رکھتا ہے ایسے شخص کا انکار کیا ایک مومن کا کام ہے.یہود بھی موحد کہلاتے تھے اب تک ان کا دعوی ہے کہ ہم تو حید پر قائم ہیں.نماز پڑھتے روزہ رکھتے مگر آنحضرت علیل یا اللہ کو نہ مانتے اسی سبب کا فر ہو گئے.اللہ تعالیٰ کے ایک حکم وسلم فرمودہ رسول کی ایک بات کا بھی جو شخص انکار کرتا ہے اور اس کے مخالف ضد کرتا ہے وہ کا فر ہوتا ہے.اور یہ بھی ان لوگوں کی غلطی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم نماز روزہ ادا کرتے ہیں اور تمام اعمال حسنہ بجالاتے ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے.یہ نہیں جانتے کہ اعمال حسنہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے." اخبار بدر نمبر 36 جلد 1 مؤرخہ 17 نومبر 1905ء صفحہ 3) الحمد لله على ذالک و تمت بالخیر