Language: UR
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایک نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام سے والہانہ عشق رکھنے والے وجود تھے۔ دینی اور دنیاوی علوم میں بے انتہا ترقی کی منازل طے کرنے والے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیش گوئی کو پورا کرنے والا وجود تھے۔ یقیناً آپ نے عظیم الشان سائنسی اور علمی کارنامے سرانجام دیئے۔ یقینا ًآپ کی سیر ت و سوانح پر مرتب کردہ یہ مختصر کتابچہ احمدی بچوں کے سامنے ایک نمونہ پیش کرکے انہوں علم اور تحقیق کے میدان میں مزید محنت اور جستجو پر آمادہ کرنے والا ہوگا۔ یہ کتابچہ پہلی بار 1983ء میں او رپھر نظر ثانی اور مفید اضافہ جات کے ساتھ مئی 2006ء میں شائع کیا گیا۔ موجودہ ٹائپ شدہ اور دیدہ زیب ایڈیشن قادیان دارالامان سے فضل عمر پرنٹنگ پریس کا شائع کردہ ہے۔
پہلا احمدی مسلمان سائنسدان شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان
پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام
نام کتاب : طباعت اول و دوم : پہلا احمدی مسلمان سائنسدان 1983ء مئی 2006 ء اپریل 2017 طبع اول قادیان: 1000 تعداد: مطبع فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب،انڈیا،143516 Name of the Book: Pehla Ahmadi Musalman Sciencedaan Present edition Qadian: 2017 Quantity: Printed at: Published by: 1000 Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Nazarat Nashr-o-Isha,at Qadian Dist; Gurdaspur, Punjab, India, 143516
عرض ناشر محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایک نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام سے والہانہ عشق و محبت رکھتے تھے.دینی و دنیوی علوم میں بے انتہا ترقی کرنے والے تھے آپکے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی بھی پوری ہوئی.حضرت خلیفہ المسح الرابع " نے ایک موقعہ پر فرمایا ایک عبدالسلام سے تو بات نہیں بنتی جماعت احمدیہ کو ہر علم کے میدان میں سینکڑوں عبدالسلام پیدا کرنے پڑیں گے.(الفضل 22 فروری 1983 ) آپنے عظیم الشان علمی کارنامے سرانجام دیئے نے آپ کی سیرت و سوانح پر ایک مختصر کتابچہ بچوں کے لئے تصنیف کیا ہے.تا کہ احمدی بچے ان کے نمونہ کوسامنے رکھتے ہوئے علم کے ہر میدان میں ترقی کریں.یہ کتا بچہ پہلی بار 1983ء میں اور پھر نظر ثانی اور مفید معلومات کے اضافہ کے ساتھ مئی بع ہوا سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس 2006ء میں ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے اسی کتابچہ کو من وعن پہلی بار قادیان سے شائع کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مفید اور بابرکت بنائے اور اس کی تیاری وطباعت کے سلسلہ میں کام کرنے والے معاونین کو احسن جزاء عطا فرمائے.(ناظر نشر و اشاعت قادیان)
دیباچه سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی ہے کہ ”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.‘ ( تجلیات الہیہ ) اس عظیم پیشگوئی کی صداقت کے ثبوت کے لئے دلائل قاطعه و براہین ساطعه قطار در قطار دست بستہ کھڑے ہیں.دین کا میدان ہو یا دنیا کا جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر میدان میں اپنی فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں اور کوئی نہیں جو جماعت احمدیہ کے علم کلام کے مقابل کھڑا ہو سکے.جماعت کے دینی و مذہبی امور کی سچائی کے نشانات تو اس قدر ظاہر وباہر ہیں کہ ایک دنیا اس کی قائل ہو چکی ہے.یہاں تک کہ اب تو یہ کہا جاتا ہے کہ احمدیوں سے بات نہ کرو کیونکہ ان کے علم کلام کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے.ان علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ہونہار سبوت عطا فرمائے ہیں جنہوں نے اپنے پیارے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے موافق علم و معرفت میں کمال حاصل کیا اور توحید اور ایمان پر قائم رہتے ہوئے دنیا سے اپنی قابلیت کا سکہ منوایا.چنانچہ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب جماعت کے انہی سپوتوں میں سے ایک ہونہار سپوت ہیں جنہوں نے نہ صرف دنیاوی علوم میں ترقیات کی رفعتوں کو چھوا بلکہ نہایت مخلص اور فدائی احمدی ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ سے والہانہ عشق رکھتے ہوئے
اور خدمات سلسلہ کے لئے ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہوئے آپ نے روحانی علوم کے آسمان کی بلندیوں اور پاک فضا میں بھی پرواز کی.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کی وفات پر فرمایا:- اب یہ ہمارا بہت ہی پیارا علموں کا خزانہ دنیاوی علوم میں بھی ، روحانی علوم میں بھی ترقی کرنے والا، ہمارا پیارا ساتھی اور بھائی ہم سے جدا ہوا.اللہ کے حوالے، اللہ کی پیار کی نگاہیں الفضل انٹر نیشنل لندن 10 تا 16 جنوری 1997ء) ان پر پڑیں.66 چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی قیامت تک محیط ہے اس لئے علمی میدان کے اس غلبے کے حصول کے لئے ایک نہیں سینکڑوں عبد السلام مطلوب ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- ایک عبد السلام تو پیدا کیا لیکن ایک عبدالسلام سے تو بات نہیں بنتی جماعت احمدیہ کو ہر علم کے میدان میں سینکڑوں عبد السلام پیدا کرنے پڑیں گئے“ (الفضل22 فروری 1983ء) پس اے نونہالانِ احمدیت! آپ دن رات محنت کریں اور خلافت سے دلی وابستگی کے ذریعے خلیفہ وقت کی دعاؤں سے حصہ پاتے ہوئے علم کے ہر میدان میں آگے بڑھیں.III
پیش لفظ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے.بعض لوگ اپنی بیشتر صلاحیتوں کو ضائع کر دیتے ہیں اور ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاتے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہے.لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی خدا دا دصلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے ان سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں اور دوسروں سے ممتاز ہو جاتے ہیں.ایسے ہی لوگوں میں سے ایک مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ہیں.جنہیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ اپنی ان خداداد ذہنی صلاحیتوں کو خوب خوب کام میں لائے اور ا پنی زندگی میں بڑے بڑے عظیم الشان علمی کارنامے سرانجام دیے اور دوسروں کے لئے ایک مثال قائم کر دی.مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان احمدی بچوں اور بچیوں کی صلاحیتوں کو متحرک کرنے اور ان میں علمی ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی سوانح اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل یہ کتاب شائع کر رہی ہے.پہلی مرتبہ یہ کتاب 1983 ء میں پرمش شائع کی گئی.اب یہ شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان اسے ایک مرتبہ پھر کمپوز کروا کر شائع کرنے کی توفیق پا رہا ہے.ایک لمبا عرصہ گزرجانے کی وجہ سے اس کتاب کی نظر ثانی اور اس میں بعض معلومات کے اضافے کی ضرورت تھی.جس کے لئے ہم کتاب کے IV
مؤلف مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب کے بے حد ممنون ہیں جنہوں نے ہماری درخواست پر اس پر نظر ثانی کی اور مفید معلومات کا اضافہ کیا.علاوہ ازیں مکرم سہیل احمد ثاقب صاحب مکرم میرا نجم پرویز صاحب اور مکرم طارق محمود بلوچ صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تیاری اور پروف ریڈنگ وغیرہ کے مراحل میں خصوصی تعاون کیا.فجزاھم اللہ حسن الجزاء.والسلام
بسم اللہ الرحمن الرحیم حرف آغاز بچو! ہمارا دین علم حاصل کرنے پر بہت زور دیتا ہے.ہر علم کی بنیاد قرآن کریم میں موجود ہے اور کوئی بھی ایسا علم نہیں جس کا اصولی اور بنیادی طور پر قرآن کریم میں ذکر موجود نہ ہو.اسی لئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان مرد اور عورت کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے.اسلام کے شروع زمانہ میں خدا، رسول اور قرآن سے پیار کرنے والے بے شمار لوگ گذرے ہیں جنھوں نے خدا کی صفات کا علم حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے علوم کو سیکھا، ان کو ترقی دی اور ان کے ذریعے خدا کے بندوں کی خدمت کی.سائنسی علوم کی ترقی اسلام کی پہلی صدی میں اس وقت شروع ہوئی جب طارق بن زیاد نے 92ھ مطابق 711ء میں سپین کا ملک فتح کیا، اور پین میں اسلامی حکومت قائم ہوئی.وہ زمانہ مسلمانوں کی حیرت انگیز ترقیات کا زمانہ تھا اس دوران بڑے بڑے لائق مسلمان سائنسدان پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی محنت اور خدا کی مدد سے علوم میں کمال حاصل کیا اور ساری دنیا سے اپنے علم کا سکہ منوایا.ان میں جابر، خوارزمی، رازی، مسعودی، وفا، البیرونی، بوعلی سینا، ابن الہیشم ، این رشد ، طوصی اور ان نفیس وغیرہ کے نام خاص طور پر مشہور ہیں.مسلمانوں نے متواتر کئی سو سال عملی دنیا کے استاد اور لیڈر بن کر خدا کے بندوں کی بے لوث خدمت کی اور اپنے پیچھے کتابوں کی شکل میں علم کے خزانے چھوڑے جن سے ماہرین آج بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں.اس زمانہ میں یورپ کے بڑے بڑے عیسائی سپین کی عرب درس گاہوں سے آکر علوم حاصل کرتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کے ذریعے ہی یورپ میں علم و سائنس کا آغاز ہوا.لیکن جب مسلمانوں پر عارضی کمزوری کا زمانہ آیا اور اُن کے بچوں کے دلوں سے علم کی محبت نکل گئی تو خدا نے علم کی شمع ان سے چھین کر یورپ والوں کے ہاتھوں میں تھمادی.مسلمان اپنے آباؤ اجداد کے علمی ورثے VI
کو نہ سنبھال سکے.اُن کی کتابیں یورپ کے ملکوں میں پہنچ گئیں.ان کے ترجمے کر کے یورپ والوں نے علم و سائنس کو اپنے ملکوں میں بہت ترقی دی.یورپی قو میں مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ کر علم کے میدان میں بہت آگے نکل گئیں.بچو! کئی سو سالوں کی خاموشی کے بعد چودھویں صدی ھجری کے آخر میں ایک احمدی سائنسدان نے علم کے میدان میں دنیا کا سب سے بڑا انعام نوبیل انعام حاصل کر کے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا ہے.انہی دنوں جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ سات سو سال بعد سپین میں پہلی مسجد بنادی ادھر حضرت خلیفہ المسیح الثلث کی طرف سے تعلیمی منصوبہ جاری ہوا.یوں لگتا ہے کہ ان دونوں واقعات کے ساتھ ساتھ رونما ہونے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب پھر مسلم پین کی طرح علمی دور کا آغاز ہوا ہے اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ مومن تعلیم کے میدان میں اپنی عظمت دوبارہ قائم کریں اور یورپ کو علم کے میدان میں شکست دیں اور ایک بار پھر علمی دنیا کے امام بن کر اس کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھیں.بچو! جس طرح اسلام کی پہلی صدی کے آخر میں پین کی فتح اور مسلمانوں کے ذریعے علم کی ترقی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیروں میں سے ہے اسی طرح احمدیت کی پہلی صدی کے آخر میں ایک احمدی سائنسدان کا عالمی سطح پر ابھرنا اور سپین میں مسلمانوں کے زوال کے سات سو سال بعد جماعت احمدیہ کے ذریعے ایک نئی مسجد کا بننا بھی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر ہے.ان واقعات کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے گذشتہ صدی کے عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی زندگی کے مختصر حالات لکھے ہیں تا کہ احمدی بچے ان کے نمونے کو سامنے رکھ کر علم کے میدان میں ساری دنیا سے آگے نکل جائیں اور خدا کی مخلوق کی خدمت کریں.والسلام خاکسار VII
15 /اکتوبر 1979ء کا دن تھا.سویڈن کے شہر سٹاک ہوم سے اعلان ہوا کہ اس سال فزکس کا سب بڑا عالمی انعام دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ پہلے مسلمان سائنسدان کو دیا جاتا ہے.اس صدی کے پہلے مسلمان سائنسدان نے یہ خبر لندن میں سنی.ان کا سر خدا کی حمد میں جھک گیا.اُن کے قدم خدا کے گھر کی طرف بڑھے.وہ سیدھے مسجد فضل لندن پہنچے اور خدا کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدے میں گر گئے.ان کے وجود سے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی تھی جیسا کہ اس واقعہ سے اپنی سال پہلے آپ نے خدا سے خبر پا کر اعلان کیا تھا کہ ” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.“ تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) 1
پھر آپ نے فرمایا :- یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.“ تجلیات الهیه ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ نمبر 410) بچو! سب سے بڑا انعام یعنی نوبیل انعام حاصل کرنے والے اس پہلے مسلمان سائنسدان کا نام عبد السلام ہے.وہ جھنگ ( پاکستان ) کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو روپیہ پیسہ کم ہونے کی وجہ سے تو غریب تھا لیکن اس گھرانے کے افراد کے دل ایمان کی دولت سے بھرے ہوئے تھے.جھنگ کے چھوٹے سے مکان میں پلنے والا عبد السلام ایک ایسا لڑکا تھا جس نے بچپن سے کبھی وقت ضائع نہیں کیا تھا.اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا.سلام نے سکول میں عام لڑکوں کی طرح ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کیا اور پرائمری کے امتحان سے اوّل آنا شروع کیا اور ایم.اے تک مسلسل اول آتا رہا اور پرانے سارے ریکارڈ توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کرتا رہا.پھر وظیفہ حاصل کر کے انگلستان جا کر ریاضی اور فزکس میں پی ایچ ڈی کی اور وہاں بھی نئے ریکارڈ قائم کیے.اس احمدی لڑکے کی کامیابیوں نے اپنے زمانے کے قابل ترین لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا.پڑھائی کے زمانے میں ہی انہوں نے ریاضی اور فزکس میں بڑے بڑے انعام حاصل کیے.پی ایچ ڈی کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی وہ دنیا کی ایک بڑی شخصیت بن گئے.انہوں نے ایٹم کے ذرات کی تحقیق میں نمایاں کام کیے اور سائنس کی دنیا میں انقلاب پیدا کیا اور دنیا کے مشہور سائنسدانوں میں آگئے.2
وہ انگلستان میں سائنس کے سب سے بڑے کالج میں پروفیسر رہے اور اٹلی میں فزکس کے ایک عالمی ادارے کو چلا یا جس کو انہوں نے خود ہی شروع کیا وہ دنیا کی بڑی بڑی سائنسی کا نفرنسوں کی صدارت کرتے رہے اور حکومتیں ان سے مشورے لیتی تھیں.دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں انہیں اعزازی ڈگریاں دینے میں فخر محسوس کرتی تھیں.دنیا بھر کی حکومتیں اور بڑے بڑے عالمی ادارے انہیں انعام دیتے رہے اور ان کی خدمات کو مانتے رہے.انھوں نے کئی درجن عالمی اعزازات اور انعامات اور دنیا کے پانچوں براعظموں کی بے شمار یو نیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں حاصل کیں.یہ سب کچھ انہیں علم کی برکت سے حاصل ہوا.کون سوچ سکتا تھا کہ ایک غریب باپ کا بیٹا عبدالسلام ایک دن علم کی روشنی کا مینار بن جائے گا.انہیں غریبوں سے پیار تھا.وہ سائنس کی مدد سے دنیا سے بھوک دور کرنے کے لئے عالمی اداروں کی رہنمائی کرتے رہے اور غریب ملکوں میں علمی ترقی کے لئے کوشش کرتے رہے.وہ اپنے انعاموں کا اکثر حصہ غریب طالب علموں پر خرچ کرتے تھے.اُن کے دل میں اسلام کی خدمت کا بے پناہ جذبہ تھا.وہ سائنس کو اسلام کا گمشدہ مال سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان علمی دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی عزت حاصل کریں اور اپنی قابلیت کا ایک بار پھر سکہ منوائیں.پچھلے آٹھ سو سالوں میں وہ اکیلے مسلم سائنسدان تھے جنہوں نے سائنس کی دنیا میں نام پیدا کیا.انہوں نے خدا کے بندوں کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہوئی تھی.وہ امام وقت حضرت خلیفہ المسیح کے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.انہوں نے ماں باپ کی خدمت میں بھی نام پیدا کیا.وہ اپنے بزرگوں اور استادوں کی 3
بہت عزت کرتے تھے اور اپنے ملک سے بہت پیار کرتے تھے اور پاکستانی ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے.وہ اپنی سائنسی تحقیق کے لئے ہمیشہ قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرتے اور سائنسی اصولوں کی قرآن کریم سے وضاحت کرتے تھے.وہ ہر کام میں آنحضرت سلی یا اینم کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اسلام کا پیغام بھی دنیا بھر میں پہنچاتے رہتے تھے.بچپن سے ہی سادگی ان کی طبیعت میں بھری ہوئی تھی.خدا نے انہیں جتنی عزت دی اتنی ہی ان کے اندر عاجزی اور انکساری پیدا ہوئی.وہ ہمیشہ خوش رہتے ، دنیا کی اچھی چیزوں سے محبت کرتے اور ان کی سائنس پر غور کرتے.وہ ایک ایسے انسان تھے جن کی طبیعت درویشوں کی طرح ، دل شاعروں کی طرح اور دماغ سائنسدانوں کی طرح تھا.آؤ بچو! آپ کو گذشتہ صدی کے اس بڑے اور مسلمان سائنسدان کی کہانی سنائیں.4
خاندانی حالات ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق دریائے چناب کے کنارے واقع جھنگ شہر کے ایک گھرانے سے تھا.ان کے والد کا نام چودھری محمد حسین اور والدہ کا نام ہاجرہ بیگم تھا.ان کے آباؤ اجداد پاک و ہند کے راجپوت خاندان کے شہزادوں میں سے تھے.جولائی 712ء میں محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو کئی بزرگ اسلام کی تبلیغ کے لئے اس ملک میں داخل ہوئے.ان میں ایک بہاؤالدین زکریا بھی تھے جو ملتان کے علاقہ میں آئے.اس وقت یہاں اکثر لوگ ہندو تھے.ڈاکٹر عبد السلام کے جد امجد سعد بڑھن حضرت غوث بہاؤالدین زکریا کی تبلیغ سے مسلمان ہو گئے.انہوں نے اپنی باقی عمر اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دی.ان کی وفات ملتان میں ہوئی اور وہیں حضرت بہاؤالدین زکریا کے پہلو میں دفن ہوئے.یہ وہی بزرگ ہیں جن کے نام پر ملتان میں حضرت بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی بنی.حضرت بہاؤالدین زکریا نے اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے مریدوں کے ذمہ مختلف علاقے کیے.ڈاکٹر عبدالسلام کے بزرگوں کے ذمہ جھنگ کا علاقہ کیا گیا.اس طرح یہ خاندان جھنگ LO 5
آکر آباد ہو گیا اور اسلام کا پر چار کرتا رہا.ان کے بزرگوں کو اس سلسلے کا خلیفہ کہا جاتا تھا.ڈاکٹر صاحب کے والد مرحوم بیان کرتے ہیں:.” میں نے اپنے دادا حضرت میاں قادر بخش مرحوم اور اپنے والد حضرت میاں گل محمد مرحوم کو خلافت پر متمکن دیکھا.میرے والد میاں گل محمد رحمتہ اللہ علیہ قرآن کریم کے بڑے اچھے عالم تھے.والدہ ماجدہ تہجد گزار عورت تھیں.(سرگذشت) غرض مذتوں سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا خاندان دیندار چلا آرہا تھا.سیدنا حضرت مولانا نورالدین احمد صاحب خلیفہ اسیح الاوّل کے زمانہ خلافت میں اس خاندان کو احمدی ہونے کی سعادت ملی.ان کے والد چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم کے احمدی ہونے کا واقعہ یوں ہے کہ جب وہ اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو ایک شخص نے احمدیت کی مخالف میں ایک انجمن بنائی اور انہیں اس میں شامل ہونے کے لیے کہا.انہوں نے کہا کہ اگر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سچے ہوئے تو پھر؟ اس شخص نے کہا یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس پر انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کریں گے.چنانچہ انہوں نے کثرت کے ساتھ سورۃ فاتحہ کی دُعا اهدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ (یعنی اے اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا) کرنی شروع کر دی.ایک رات انہیں حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی خواب میں زیارت ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جن کی آپ کو تلاش ہے.چنانچہ چوہدری محمد حسین صاحب نے قادیان جا کر حضرت خلیفہ المسیح الاول کے مبارک 6
ہاتھ پر بیعت کر لی.اگر چہ اس سے پہلے اُن کے بڑے بھائی چوہدری غلام حسین صاحب اور والدہ احمدی ہو چکے تھے تاہم ان کی بہت مخالفت ہوئی لیکن وہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے جمے رہے.ان کے احمدی ہونے کے اٹھارہ دن بعد حضرت مولا نا نور الدین خلیفۃ المسیح الاول فوت ہو گئے اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی ہوئے.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے والد چوہدری محمد حسین صاحب کی نیکی کا یہ عالم تھا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے انہیں زمانہ طالب علمی میں ہی احمد یہ ہوٹل لاہور کا سپر نٹنڈنٹ مقرر کردیا تھا.اس وقت وہ بی.اے میں پڑھتے تھے.بی.اے کے بعد 1920ء میں وہ گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ میں عارضی استاد لگ گئے اور بعد میں محکمہ تعلیم میں ہیڈ کلرک ہوئے.انہی دنوں ان کی شادی ہوئی.ان کی بیوی کا نام سعیدہ بیگم تھا.30 را پریل 1922 ء کو ان کے ہاں بیٹی ہوئی جس کا نام مسعودہ بیگم رکھا گیا.بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی ان کی بیوی وفات پاگئیں.چوہدری محمد حسین صاحب نے اس کے بعد تین سال بڑی مصیبت میں گزارے چھوٹی سی بچی کو وہ خود پالتے رہے.اس دوران انھوں نے خدا تعالیٰ سے بہت دعائیں کیں.7
عبدالسلام کی پیدائش اور ابتدائی حالات پہلی بیوی کی وفات کے تین سال بعد چوہدری محمد حسین صاحب کا رشتہ حضرت حافظ نبی بخش صاحب پٹواری کی بیٹی محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ سے طے ہوا.اس رشتہ کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اجازت عطا فرمائی اور مسجد مبارک قادیان میں خود یہ نکاح پڑھا اور بہت لمبی دُعا کروائی.12 مئی 1925 ء کو شادی ہوئی اور شادی کے ایک ہفتہ بعد دلہن اپنے والدین کے پاس سنتوکھ داس ضلع ساہیوال چلی گئیں جہاں ان کے والد ملازم تھے.3 رجون 1925ء کو انگلستان کے بادشاہ کا یوم پیدائش تھا.چوہدری محمد حسین صاحب مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد احمد یہ جھنگ گئے.مغرب کی سنتیں ادا کرتے ہوئے قیام کی حالت میں وہ قرآن کریم کی یہ دعا کر رہے تھے :.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.(الفرقان:۷۵) یعنی اے ہمارے رب ! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.اس دوران اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور ایک فرشتہ ظاہر ہوا.اس کے دونوں ہاتھوں میں ایک معصوم بچہ تھا.فرشتے نے وہ بچہ چوہدری محمد حسین صاحب کو پکڑا یا اور کہا کہ اللہ کریم نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا ہے.انہوں نے اس بچے کا نام پوچھا تو آواز آئی: 8
عبد السلام یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے زبر دست بشارت تھی.چوہدری صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا اور ایک خط لکھ کر اپنی بیوی کو اس کشف سے آگاہ کیا.خدائی بشارتوں کے مطابق یہ بچہ 29 جنوری 1926ء جمعہ کے روز سنت کھ داس میں پیدا ہوا.بچے کی پیدائش پر چوہدری محمد حسین صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو نام رکھنے کے لئے خط لکھا تو حضور نے فرمایا: ” جب خدا تعالیٰ نے خود نام رکھ دیا ہے تو ہم کیسے دخل دیں.“ چنانچہ اس بچے کا نام عبد السلام ہی رکھا گیا.(سرگذشت) عبد السلام کے والدین بڑے سمجھدار اور دعائیں کرنے والے تھے.انھوں نے خدائی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہونے والے اس بچے کی اچھی طرح پرورش کی.بچے کی صحت کا خیال رکھا اور اس کے لئے بہت دعائیں کیں.جوں جوں عبدالسلام بڑے ہو رہے تھے باپ کی دعائیں بیٹے کے حق میں پوری ہورہی تھیں اور خدا تعالیٰ ان کے مستقبل کے بارے میں خبریں دے رہا تھا.چوہدری محمد حسین صاحب لکھتے ہیں:.ایک روز عزیز سخت بیمار ہو گیا جان کا بھی خطرہ محسوس ہوا.بہت دعا کی تو خواب میں عزیز ایک اچھے خاصے قد والا جوان دکھایا گیا.“ (سرگزشت) گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے والد صاحب کو ان کی صحت اور لمبی عمر پانے کی خبر دی.9
ان بشارتوں سے ان کے والدین جہاں خوش ہو کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادکرتے وہاں اپنے بیٹے کی صحت اور پرورش پر زیادہ توجہ دیتے.دعائیں کرتے اور حضرت خلیفہ المسیح کو بھی دعاؤں کے لئے لکھتے رہتے.عام طور پر بچے جس عمر میں بولنا شروع کرتے ہیں عبد السلام اس عمر کو پہنچ گئے.لیکن ابھی بولتے نہ تھے.اُن کے والدین نے ایک احمدی بزرگ حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے دعا کروائی اور وہ بولنے لگ گئے.چنانچہ ان کے والد صاحب بیان کرتے ہیں :.ایک مرتبہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی چند روز ہمارے گھر پر جھنگ شہر میں مہمان رہے.عزیز عبدالسلام کی عمر اس وقت چھوٹی تھی اور وہ بولتا نہ تھا جس کا اس کی ماں کو سخت احساس تھا.حضرت مولوی صاحب کے پاس عزیز سلام سلّمہ کو لے جا کر شکایت کی کہ یہ بولتا نہیں ، دعا فرماویں.مولوی صاحب نے بڑی محبت کے لہجے میں عزیز سے خطاب کیا اور کہا ” او گونگو ! کیوں نہیں بولت“ اور فرمانے لگے کہ انشاء اللہ یہ اتنا بولے گا کہ دنیا سے گی.“ ان کے والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں سنائی گئی.“ (سرگذشت) لطف یہ ہے کہ جوان ہو کر عزیز نے ریڈیو پر ایک ایسی تقریر کی کہ ساری دنیا غرض دعاؤں کی برکت سے عبدالسلام نے بولنا شروع کر دیا.10 (سرگذشت)
ابتدائی تعلیم اور شاندار کامیابیاں عبدالسلام نے اپنی تعلیم گھر میں ہی شروع کی.ان کی والدہ نے اللہ کا نام لے کر انہیں الف ب شروع کروائی اور جلد ہی وہ لکھنے پڑھنے کے قابل ہو گئے.بہت چھوٹی عمر میں انہوں نے قرآن کریم پڑھ لیا اور اس کا ترجمہ بھی سیکھا.بچپن میں ان کے والد انہیں آسان اخلاقی کہانیوں کی کتابیں اور رسالے لا کر دیتے جنہیں وہ بڑی دلچسپی سے پڑھتے.ان کے والد انہیں نئی نئی اور دلچسپ کہانیاں سناتے اور پھر ان سے وہی کہانی سنتے.اس طرح ان کا حافظہ بڑھتا گیا اور پڑھائی کا شوق پیدا ہوتا رہا.جب وہ ساڑھے چھ سال کے ہوئے تو ان کے والد انہیں سکول داخل کروانے کے لئے لے گئے.ہیڈ ماسٹر نے بچے کی قابلیت دیکھ کر انہیں سیدھا تیسری جماعت میں داخل کیا.تھوڑی سی محنت کے ساتھ جلد ہی انہوں نے چالیس تک پہاڑے یاد کر لیے اور بہت ساری ضرب الامثال اور لمبے لمبے پیرا گراف زبانی یاد کر لئے.ان کی ذہنی صلاحیتوں کو نشوونما دینے کے لیے ان کے والد انہیں مختلف مشینوں کے انجن ،موٹر کار، سائیکل، دریا کا پل اور دریا کا بند دکھانے کے لئے باہر لے جاتے اور ان کے استادوں سے مل کر بھی ان کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیتے اور انہیں سکول کے رسالہ کے لیے مضمون لکھنے کو کہتے.اس طرح عبد السلام کو بچپن سے ہی علم سے محبت پیدا ہو گئی اور وہ بڑی توجہ اور محنت سے پڑھنے لگ گئے.اُن کی ایک بہن کہتی ہیں:.11
ہیں:.” بھائی جان بچپن سے ہی اپنی تعلیم میں ایسے مصروف رہتے تھے کہ کبھی انہیں بریکار گپ شپ یا کھیل کود میں وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا.“ مطالعہ کہ انہیں اتنی عادت تھی کہ کھانے کے دوران بھی پڑھتے رہتے.ان کی بہن کہتی کھانا کھا رہے ہیں چوکی پر روٹی سالن پڑا ہے اور خود پیڑھی پر بیٹھے کھاتے ہوئے کوئی رسالہ بھی پڑھ رہے ہیں.مرغی پلیٹ میں سے بوٹی نکال کر لے گئی ہے انہیں کچھ علم نہیں.بعد میں علم ہوا کہ بوٹی تو مرغی لے گئی ہے.“ 1934ء میں عبد السلام نے جھنگ سنٹر سے چوتھی کا امتحان دیا اور اوّل پوزیشن حاصل کی.اس وقت عبد السلام کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی.مارچ 1934ء کی ایک نمائش میں انہوں نے ڈپٹی کمشنر جھنگ سے خوشخطی میں اوّل انعام حاصل کیا.اسی طرح مارچ 1937ء کی ایک نمائش میں بھی انہوں نے نقشہ نویسی اور خوشخطی میں پہلا انعام جیتا.(Biographic Sketch of Prof.Abdus Salam By Dr.A Ghani) عبد السلام کی بچپن سے یہ عادت تھی کہ جو سبق اگلے روز سکول میں پڑھنا ہوتا وہ اسے گھر سے پڑھ کر جاتے اور بڑی توجہ اور محنت سے پڑھتے.ان کی محنت کا پھل انہیں شروع ہی سے اول آنے کی شکل میں ملتا رہا.1938ء میں انہوں نے مڈل پاس کیا اور ضلع بھر میں اول آئے اور چھ روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا.اس وقت ان کی عمر صرف بارہ سال کی تھی.انہی دنوں جھنگ میں ایک تقریب میں ڈپٹی کمشنر کی صدارت میں سلام نے ایک مضمون پڑھا.مضمون سُن کر ڈی سی نے ان کے والد کو پیغام بھیجا کہ اس لڑکے کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیں.12
نڈل کے بعد وہ گورنمنٹ انٹر کالج جھنگ میں داخل ہوئے اور سائنس اور ریاضی کے مضمون رکھے.ان کی قابلیت کی وجہ سے انہیں کلاس کی لائبریری کا انچارج بنادیا گیا جہاں انہوں نے بہت سی کتابیں پڑھیں.ان کا مقابلہ کچھ غیر مسلم طالب علموں سے رہتا تھا لیکن سلام نے کبھی انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا.ان کے والدان کی تعلیمی کا رکردگی کا جائزہ لیتے رہتے.1940ء میں سلام نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں نہ صرف اوّل آئے بلکہ ایک نیار یکارڈ قائم کیا.اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس کی تھی.گورنمنٹ کی طرف سے سلام کو ہمیں روپے وظیفہ ملا اور کالج کی طرف سے انہیں خالص سونے کا میڈل دیا گیا.میٹرک کا نتیجہ نکلنے سے پہلے سلام کے والد صاحب کو خواب میں شربت پلا یا گیا جس کی تعبیر سلام کی اعلیٰ کامیابی کی شکل میں ظاہر ہوئی.بچپن میں سلام نہ صرف پڑھائی میں لائق تھے بلکہ اور بھی بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے.چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کے پابند تھے اور وقت بالکل ضائع نہیں کرتے تھے.گالی گلوچ سے پر ہیز کرتے تھے اور اپنے ماں باپ، استادوں اور سب بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے.ان کی ایک بہن محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ ان کے بچپن کے بارے میں بیان کرتی ہیں :.” بھائی جان کو کبھی اونچی آواز میں بات کرتے یا کسی سے گالی گلوچ کرتے نہیں دیکھا.والدین اور بزرگوں کا بے حد احترام کرتے.ابا جان کے ایک لا ولد چچا تھے.بھائی جان نے ان سے بہت دعائیں لیں.بھائی جان کا پسندیدہ کام یہ تھا کہ جمعہ کے دن مسجد احمد یہ میں صفائی کرنی اور ہمیشہ مغرب سے پہلے مسجد جا کر اذان دینی.13
سادگی بچپن سے ہی طبیعت میں بھری ہوئی تھی.پچپن میں گھر کے دھلے ہوئے کپڑے پہنتے.کبھی انہیں اس فیشن میں نہیں دیکھا کہ جب تک اچھے کپڑے نہ ہوں باہر نہیں جانا.جو ملا پہن لیا.خوراک کے معاملے میں والدین کو ہم سب کا بہت خیال رہتا تھا.اناپ شناپ یا ریڑھی چھا بوں وغیرہ سے کبھی کوئی چیز لے کر کھانے کی عادت نہ ڈالی تھی.ابا جان نے بازاری چیزوں سے ہمیں ایسا پر ہیز بتایا ہوا تھا کہ کوئی بھی کبھی باہر سے لا کر کچھ نہ کھاتا تھا اور نمونہ ہمارے بھائی جان تھے.“ خط بنام خاکسار مرقومہ 26 / مارچ1982ء) اس کے علاوہ عبدالسلام میں بچپن سے حسد کی عادت بالکل یہ تھی یہی وجہ ہے کہ ان کا حافظہ بہت اچھا رہا.وہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھتے تھے.ایک مرتبہ بچپن میں انہوں نے اعلیٰ صحت پر ایک جلسہ میں ڈپٹی کمشنر جھنگ سے چاندی کا پیالہ بطور انعام حاصل کیا.(سرگذشت) سلام اپنی چیزوں اور کتابوں کو ہمیشہ احتیاط اور ترتیب سے رکھتے تھے.سکول با قاعدگی سے جاتے تھے کبھی ناغہ نہ کرتے تھے.اگلے ڈیسک پر بیٹھ کر تو جہ سے سبق سنتے اور گھر آکر ضرور دہراتے اور کتابوں کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کرتے.ایف.اے میں بھی سلام نے ریاضی اور سائنس کے مضامین رکھے اور برا بر محنت کرتے رہے.بارھویں میں اپنے کالج کے رسالہ ” چناب کے ایڈیٹر رہے.انہیں مضمون لکھنے کا بہت شوق تھا اور ان کے والد ان کی اس بارہ میں رہنمائی کرتے ، ان کے بعض مضمون جھنگ 66 14
کے علمی حلقہ میں ماہرین کو دکھاتے اور ان سے مشورہ لیتے اور ان کے پرنسپل کو بھی مشورہ دینے کے لئے کہتے.عبد السلام بڑے محنتی اور ذمہ دار طالب علم تھے.ان کی والدہ بیان کرتی ہیں:.سلام جب سائنس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو روز رات کو کہتا کہ امی مجھے پڑھنا ہے.آپ صبح سویرے چار بجے ضرور اُٹھاد میں اور میں چار بجے ساڑھے چار بجے اسے اُٹھانے کے لیے جاتی تو وہ پہلے ہی سے جاگ گیا ہوتا اور اپنی پڑھائی میں مصروف نظر آتا تھا.کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ مجھے سویرے سوتے ہوئے ملا ہو اور مجھے اسے جگانا پڑا ہو.نہ معلوم وہ کب اور کتنے اندھیرے سے اُٹھ بیٹھتا تھا.اسے بچپن ہی سے علم سے محبت تھی اور ہمیشہ پڑھائی میں اول آتا رہا.“ مشرق لاہور 19 اکتوبر 1979ء) 1942ء میں عبدالسلام نے ایف.اے کیا.85 فیصد نمبر لے کر صوبے بھر میں اوّل آئے اور 30 روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا.کالج کی طرف سے انہیں خالص سونے کا میڈل بطور انعام دیا گیا.سلام نے یہ سب کامیابیاں ایک ایسے گھر میں رہ کر حاصل کیں جو کہ بہت چھوٹا تھا.اس میں بجلی بھی نہ تھی ، چھوٹے بہن بھائی بھی کافی تھے ، گھر میں شور بھی ہوتا ہو گا لیکن سلام ان حالات میں نہ صرف خود اعلیٰ کا میابیاں حاصل کرتے رہے بلکہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی تعلیم میں مدد کرتے اور خودرات کی خاموشی میں دِیا جلا کر محنت کرتے.ان کی چھوٹی بہن کا بیان ہے:.15
گھر میں بجلی بی تھی ، شام کو اُن کے گلوب میں مٹی کا تیل بھرنا اور ایک بوتل بھر کر ان کی چار پائی کے نیچے رکھنا میری ڈیوٹی ہوتی تھی.رات کو اکٹر تین بجے پڑھنے کے لیے اُٹھ جاتے تھے.اس وقت انہوں نے دوبارہ تیل بھر کر پڑھائی شروع کرنی اور صبح ہمارے اُٹھنے سے پہلے آرام کے لئے لیٹ جانا.اکثر وہ رات کی خاموشی میں پڑھتے تھے.“ اسی طرح ان کی بہن کہتی ہیں :.خط بنام خاکسار 26 / مارچ 1982ء) ”چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار سے بولنا تعلیم میں ان کی مدد کر نی لیکن اس رنگ میں نہیں کہ انہیں کام کر کے دے دینا.کہنا خود کر کے لے آؤ جو سمجھ نہ آئے میں بتادوں گا.“ خط بنام خاکسار 26 / مارچ1982ء) 1942ء میں ایف اے کرنے کے بعد سلام گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے.اس وقت وہ سولہ سال کے تھے.اُن دنوں اُن کے والد محکمہ تعلیم میں ملتان ہوتے تھے، اس لیے انہیں لا ہور ہوسٹل میں رہنا پڑا جہاں انہیں شطرنج کھیلنے کی عادت پڑ گئی.ان کے دوستوں کو ڈر پیدا ہوا کی کھیل میں وقت ضائع کرنے کی وجہ سے سلام کہیں لڑکوں سے پیچھے نہ رہ جائے اس لیے انہوں نے ان کے والد کو ملتان خط لکھا اور سلام کی شکایت کی.سلام کے والد ناراض ہوئے اور بیٹے کو شطرنج میں وقت ضائع کرنے سے منع کیا.چنانچہ سلام فوراً رُک گئے اور زیادہ محنت سے پڑھنے لگے.وہ اپنے کمرے میں اپنے آپ کو بند کر لیتے اور باہر دروازے پر تالا لگوا دیتے اور چودہ چودہ گھنٹے مسلسل پڑھتے رہتے.کتابیں ترتیب 16
سے رکھتے.ان کی بہن کہتی ہیں کہ جب لاہور چلے گئے تو وہاں سے لکھ دیتے فلاں الماری میں فلاں حصہ میں یہ کتاب رکھی ہے بھجوا دیں.خاکسار کے نام خط مرقومہ مارچ 1982ء) 1944 ء میں سلام نے بی.اے آنرز کیا اور ہر مضمون میں اول آئے اور 90.5 فیصد نمبر لے کر نیار یکارڈ قائم کیا اور سونے اور چاندی کے میڈل حاصل کئے.گورنمنٹ کالج لاہور میں وہ کالج کے رسالے کے چیف ایڈیٹر اور کالج یونین کے صدر رہے.1942ء میں انہوں نے ریاضی پر تحقیقی مقالہ بھی لکھا.1946ء میں سلام نے اسی کالج سے ریاضی میں ایم.اے کیا اور 95.5 فیصد نمبر لے کر یونیورسٹی میں اول آئے.غرض عبد السلام سکول سے ایم.اے تک ہر امتحان میں اول آتے رہے اور اس دوران گل سات میڈل حاصل کیے.سکول اور کالج کی پڑھائی کے دوران وہ با قاعدہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں پڑھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا مطالعہ کرتے.ریاضی کے علاوہ انہیں تاریخ اسلام، فلاسفی ، اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس سے بھی دلچسپی تھی اور کئی کتابیں پڑھ کر انہوں نے ان علوم میں مہارت پیدا کی.17
جماعتی و ظائف و اعزازات عبدالسلام کے والد صاحب کی آمدنی بہت تھوڑی تھی اور گھر کے افرادزیادہ تھے تاہم اللہ تعالی سلام کی پڑھائی کے لیے خود انتظام فرما تا رہا.قابلیت کی بناء پر انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح سے بھی وظیفے حاصل کیے.چنانچہ ان کے والد صاحب بیان کرتے ہیں:.دسمبر 1939ء میں سر چو ہدری ظفر اللہ خاں رضی اللہ تعالی عنہ نے جماعت احمدیہ میں 25 سال خلافتِ ثانیہ کے گذرنے پر جو بلی فنڈ کی تحریک کی اور تین لاکھ روپیہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو پیش کیا.حضور نے جلسہ سالانہ 1939ء میں اعلان فرمایا کہ نوجوانوں کی ہمت بڑھانے کے لیے اعلان کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کا جو طالب علم اپنے سکول میں اول آئے گا اسے اس فنڈ سے 30 روپے ماہوار وظیفہ ایف.اے کے دو سال میں دیا جائے گا.پھر جو ایف.اے میں اول آئے گا اسے 45 روپے ماہوار وظیفہ ) بی.اے کلاسوں میں دیا جائے گا.ازاں بعد جو بی.اے میں اول آئے گا اسے ایم.اے کلاسز میں دو سال 60 روپے ماہوار وظیفہ دیا جائے گا.ایم.اے کرنے کے بعد جولڑ کا مغرب کی کسی یو نیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جائے گا اسے نصف خرچ اس فنڈ سے دیا جائے گا.“ (سرگذشت) اسی شام ملاقات کے دوران سلام کے والد صاحب نے حضور کو بتایا کہ سلام یہ سب وظیفے لے گا.چنانچہ ایسے ہی ہوا.1949 ء میں حضور نے سلام کے خطبہ نکاح کے دوران فرمایا:- 18
ہر باپ اپنے بیٹے کی تعریف کرتا ہے.عزیز ( سلام ) کے والد نے بھی ایسی توقعات کا اظہار کیا تھا.الحمد اللہ عزیز (سلام ) نے ان سب کو پورا کرنے کی عبد السلام کا پاکستان میں شاندار تعلیمی ریکارڈ توفیق پائی." امتحان سن مضامین حاصل کردہ نمبر پوزیشن (سرگذشت) وظائف مدل 1938ء سائنس و عربی %84.5 ضلع جھنگ میں اول 6 روپے ماہوار میٹرک 1940 سائنس و عربی ایف.اے | 1942ء فزکس، ریاضی ، عربی 90% 85% ( گورنمنٹ کا وظیفہ ) پنجاب یونیورسٹی میں 20 روپے ماہوار اول ( نیاریکارڈ قائم کیا) (گورنمنٹ کا وظیفہ) پنجاب یونیورسٹی میں 45 روپے ماہوار اول ( جماعت احمدیہ کا وظیفہ ) 30 روپے ماہوار ( گورنمنٹ کا وظیفہ ) بی اے 1944ء ریاضی اے %90.5 پنجاب یونیورسٹی میں 60 روپے ماہوار اول نیا ریکارڈ.ہر ( جماعت احمدیہ کا وظیفہ ) ایم.اے 1946ء بی کورس انگریزی آنرز مضمون میں اول 60 روپے ماہوار (گورنمنٹ کا وظیفہ ) ریاضی %95.5 پنجاب یونیورسٹی میں 550 روپے ماہوار اول بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے گورنمنٹ کا وظیفہ ) (Biographic Sketch of Prof.Abdus Salam By Dr.A Ghani) 19
اعلیٰ تعلیم اور حیران کن کامیابیاں عبد السلام اب اعلیٰ نمبروں میں ایم.اے کر چکے تھے.ان کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا مقابلے کا امتحان دے کر ڈپٹی کمشنر بنے لیکن ان دنوں دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے مقابلے کا امتحان ملتوی ہو گیا.سلام کے دل میں بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی لیکن والد صاحب کی تھوڑی آمدنی کی وجہ سے بیرون ملک جانا ممکن نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے اس نے اس ناممکن بات کو اس طرح ممکن بنادیا کہ 15 لاکھ روپے کی رقم جو ایک مشہور زمیندار خضر حیات ٹوانہ نے جنگ عظیم میں انگریزوں کی مدد کے لیے اکھٹی کی تھی وہ 1945ء میں جنگ بند ہونے کی وجہ سے بچ گئی اور 1946 ء میں انہوں نے پنجاب کا وزیر اعظم بن کر اس رقم میں سے چھوٹے زمینداروں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفے دینے کا اعلان کر دیا.عبد السلام کو اس فنڈ میں سے 550 روپے ماہوار وظیفہ ملاستمبر 1946ء کو عبد السلام وظیفہ لے کر انگلستان کی کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہو گئے.خدا کی قدرت کہ اس سے اگلے سال ہندوستان تقسیم ہو گیا اور عبدالسلام کے سوا اس فنڈ سے کسی اور کو وظیفہ نہ مل سکا.اکتوبر 1946ء سے عبدالسلام نے کیمبرج میں ریاضی کا تین سالہ بی.اے آنرز کا کورس شروع کر دیا جسے ٹرائی پوز (Tripos) کہتے ہیں.اس کورس کے دوران سلام روزانہ 20
14 سے 16 گھنٹے پڑھتے اور اپنے کورس کی کتابوں کے علاوہ تاریخی اور دینی کتابیں بھی پڑھتے.عبدالسلام نے تین سال کا یہ کورس اول درجہ میں صرف دو سالوں میں کرلیا.جن دنوں عبد السلام یہ کورس کر رہے تھے ان دنوں ہندوستان میں فسادات ہو رہے تھے اور ان کے عزیز واقارب جن علاقوں میں رہتے تھے وہ بھی خطرے سے خالی نہ تھے لیکن انہوں نے بڑی ہمت اور محنت سے اپنی توجہ تعلیم کی طرف رکھی اور 1948ء میں بی.اے آنرز (ریاضی) کی ڈگری حاصل کر لی.عبدالسلام ایک سال کا وظیفہ چھوڑ کر واپس آنا چاہتے تھے لیکن جب انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو مشورہ کیلئے خط لکھا تو حضور نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ بزدلی ہوگی اگر ملا ہوا وظیفہ آپ چھوڑ کر واپس آتے ہیں.اس پر سلام نے ریاضی سے ملتے جلتے مضمون فزکس میں داخلہ لے لیا.خلیفہ وقت کی خواہش کا احترام کرنے کیلئے سلام نے ایسا قدم اُٹھایا جس میں کامیاب ہونا بظا ہر ناممکن تھا کیونکہ ایک تو فزکس کا یہ کورس تین سال کا تھا اور وظیفہ ایک سال کا باقی تھا اور دوسرے فزکس کا مضمون انہوں نے ایف.اے کے بعد پڑھا ہی نہیں تھا لیکن ان کی محنت اور خلیفہ وقت اور ان کے والدین کی دعاؤں نے کچھ ایسا اثر دکھایا کہ انہوں نے یہ کورس اول درجہ میں صرف ایک سال میں پاس کر لیا اور بی.اے آنرز (فزکس) کی ڈگری حاصل کر لی.تین سال بعد 1949ء میں سلام واپس آئے.اس دوران ان کا نکاح اپنے تایا کی بیٹی امتہ الحفیظ بیگم سے ہوا.نکاح حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کوئٹہ میں پڑھا جہاں حضور گرمیوں میں گئے ہوئے تھے.21
کیمبرج سے بی.اے آنرز کرنے کے بعد عبدالسلام پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے جس کے لیے ان کے وظیفہ میں دو سال کی گورنمنٹ نے توسیع کر دی.ان کا وظیفہ ان کی بیوی کا خرچ برداشت کرنے کے لیے کافی نہ تھا اس لیے وہ شادی کے بعد چھ ہفتے پاکستان رو کر ا کیلے واپس انگلستان چلے گئے اور پی انگا.ڈی فوکس کے لیے کیمبرج یو نیورسٹی میں داخل ہو گئے.یہاں سلام نے ایٹمی ذرات پر تحقیق کا آغاز کیا.ان کے ذمہ ایک ایسا کام لگایا گیا جس میں بڑے بڑے سائنسدان ناکام ہو چکے تھے اور جو طالب علم اس پر سلام سے پہلے کام کر رہا تھا وہ اس مسئلہ کے حل کیلئے امریکہ کی اس یونیورسٹی میں جارہا تھا جہاں دنیا کے چوٹی کے سائنسدان تحقیق کر رہے تھے.سلام نے تھوڑے سے وقت میں اس مسئلہ کو حل کر دکھایا جس پر انہیں 1950 ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے سمتھ انعام دیا.سلام کا یہ تحقیقی مقالہ امریکہ کی اسی یونیورسٹی میں ایک مشہور سائنسدان ڈائسن کو پڑتال کے لیے بھجوایا گیا.وہ خود اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے جب سلام کا مقالہ پڑھا تو بہت خوش ہوئے.انہوں نے برمنگھم میں لیکچر دینا تھا.وہاں پہنچ کر انہوں نے سلام کو بھی برمنگھم بلو الیا اور ان سے لیکچر دلوایا.سلام سے زبانی سمجھ کر جب وہ برمنگھم سے واپس گئے تو انہوں نے واپسی پر مشہور عالم سائنسدان را برٹ اوپن ہمیر کے سامنے سلام کی بے حد تعریف کی اور بتایا کہ غیر ترقی یافتہ ملک کا ہونے کے باوجو د سلام غیر معمولی طور پر ذہین ہیں.چنانچہ انہوں نے پی ایچ ڈی کا دوسرا سال گزارنے کے لیے سلام کو پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ بلوالیا جہاں 22
انھیں دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا.اس دوران سلام کو گذشتہ صدی کے سب سے بڑے سائنسدان آئن سٹائن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جو اُن دنوں کشش ثقل اور برقی مقناطیسی طاقتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے.اس طرح انہوں نے ایک سال کے لیے دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کیا.تیسرا سال گزارنے کے لیے وہ کیمبرج آئے مگر اب وظیفہ ختم ہو چکا تھا.چنانچہ انہیں قابلیت کی بناء پر یہ رعایت دی گئی کہ وہ واپس پاکستان جا کر تیسرا سال وہیں ریسرچ کریں اور مقالہ وہیں سے بھیج دیں.یہ رعایت انہیں غیر معمولی قابلیت کی وجہ سے دی گئی.کیمبرج چھوڑنے سے پہلے انہوں نے اپنے نگران پروفیسر کو کہا کہ وہ انہیں ایک سرٹیفکیٹ دے دیں کہ ”میں نے دو سال پی ایچ ڈی کا کام تسلی بخش کیا ہے.ان کے نگران پروفیسر جوان کی قابلیت سے بے حد متاثر ہو چکے تھے کہنے لگے ” میرے خیال میں آپ مجھے ایک سند لکھ دیں کہ آپ نے میرے ساتھ کام کیا ہے“.غرض 1951ء میں سلام واپس پاکستان آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ ریاضی کے سر براہ لگ گئے.ایک سال بعد 1952ء میں انہوں نے تحقیقی مقالہ مکمل کر کے کیمبرج بھیجا اور پی ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کی.23
زندگی کا نازک موڑ انگلستان سے واپسی پر سلام کو امپیریل کالج لندن کے ایک مشہور پروفیسر لیوی نے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو اس کا لج میں ملازم ہو جائیں لیکن سلام کے دل میں خواہش تھی کہ وہ اپنے ملک پاکستان کی خدمت کریں اس لیے انہوں نے اس وقت پروفیسر لیوی کو انکار کر دیا.اس کے باوجود پروفیسر لیوی نے انہیں کہا کہ اگر وہ کبھی انگلستان آنا چاہیں تو وہ امپیریل کالج میں انہیں لیکچرار لگوا دیں گے.پاکستان آکر ڈاکٹر سلام نے کوشش کی کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریسرچ کو ترقی دیں لیکن انتظامیہ نے ان کی مخالفت کی اور انہیں فٹ بال کلب کا صدر بنا دیا.(Biographic Sketch of Prof.Abdus Salam) ان کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ وہ ایک مشہور سائنسدان ڈاکٹر بہلا کی دعوت پر ہمبئی گئے.گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے.انہوں نے وہاں جا کر ایک یورپی سائنسدان ڈاکٹر پالی سے تبادلہ خیال کیا.اس جرم کی سزا میں اُن کی تنخواہ کاٹ لی گئی.تین سال وہ لاہور میں رہے اور اس دوران وہ حالات کا مقابلہ کرتے رہے.ان کا خیال تھا کہ جس طرح کسی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج ضروری ہے اسی طرح ملک کی ترقی کے لیے سائنس پڑھنا ضروری ہے.انہوں نے گورنمنٹ کو مشورہ دیا کہ سائنس کی ایک الگ وزارت قائم کی جائے لیکن اُن کی بات ماننے سے انکار کر دیا گیا.ادھر 1953ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک شروع ہوگئی.ان دنوں ان پر قاتلانہ حملے کی بھی کوشش کی گئی.اس دوران انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے ملا زمت پیش کی گئی اور جنوری 1954ء میں وہ کیمبرج پہنچ گئے جہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا موڑ شروع ہوا.24
شاندار سائنسی کارنامے اور عالمگیر شہرت عبدالسلام اسلامی ملکوں کے پہلے مسلمان اور پاک و ہند کے پہلے سائنسدان ہیں جنہیں سب سے شاندار اور انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار کی نوکری کی پیشکش ہوئی.تاہم ہندوستان کے رادھا کرشنا آکسفورڈ میں فلاسفی کا مضمون پڑھا چکے ہیں لیکن فلاسفی غیر سائنسی مضمون تھا.سائنس کا مضمون سب سے پہلے پڑھانے کا اعزاز صرف ڈاکٹر سلام کو حاصل ہوا.رادھا کرشنا ہندوستان کے دوسرے صدر بنے.کیمبرج میں ڈاکٹر سلام گریجوایٹ اور پی ایچ.ڈی کی کلاسوں کو پڑھانے اور اُن کی نگرانی پر مقرر ہوئے.کیمبرج میں ایک ہی مضمون آدھی آدھی کلاس کو دو پروفیسر پڑھاتے تھے اور طلباء کو یہ سہولت تھی کہ دونوں میں سے جس پروفیسر کی کلاس میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں.ڈاکٹر سلام بجلی اور مقناطیس کا مضمون پڑھاتے تھے.ان کے پڑھانے کا انداز اتنا دلچسپ تھا کہ دو تہائی طلباء ڈاکٹر سلام کی کلاس میں جاتے اور صرف ایک تہائی طلباء دوسرے پر وفیسر کا لیکچر سنتے.کیمبرج میں ڈاکٹر سلام نے تحقیق کا کام جاری رکھا.1954ء میں انہوں نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا 1955 ء میں پانی اور 1966 ء میں چار مقالے لکھے.ان تحقیقی کاموں کی وجہ سے وہ 25
چند سالوں میں ہی مشہور سائنسدان بن گئے اور انہیں دنیا کی بڑی بڑی سائنسی کا نفرنسوں میں شامل کیا جانے لگا.چنانچہ 1955ء میں ڈاکٹر سلام کو اقوام متحدہ نے ایٹم برائے امن کی پہلی کانفرنس کے لیے سیکرٹری بچنا.یہ کانفرنس سوئٹزر لینڈ میں جنیوا کے مقام پر ہوئی جہاں انہیں سائنس کے ذریعے خدمت کا بہت احساس ہوا.1957ء میں ڈاکٹر سلام امپیریل کالج لندن میں پروفیسر بنا دیے گئے.اس وقت ان کی عمر صرف اکتیس سال کی تھی.اس سے پہلے انگریزوں میں اتنا بڑا عہدہ کسی مسلمان کو نہیں ملا تھا.امپیریل کالج میں آنے کے بعد انہوں نے ایٹم کے بنیادی ذرات پر لیکچر دیا جس میں دنیا کے چوٹی کے سائنسدان شریک ہوئے اور ان کی شہرت دنیا میں بڑھنے لگی.ان دنوں پاکستان کے ایک مشہور سیاستدان اور پاکستان کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے مالک میاں افتخار الدین انگلستان گئے.انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ ایک پاکستانی لندن یو نیورسٹی میں سائنس کا چیئر مین ہوسکتا ہے.انہوں نے پاکستان ٹائمز کے پورے صفحے پر ڈاکٹر سلام پر ایک شاندار مضمون دیا جس سے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہونے لگے.ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنے ملک سے باہر ریاضی اور طبیعات میں تحقیقی کام کرنے کا بہت موقع ملا اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کی مدد اور رہنمائی کرتا رہا.انہوں نے ان علوم میں نئی نئی باتیں پیش کیں اور مختلف ملکوں کے بلانے پر وہ ملک ملک جا کر اپنے نظریات کی وضاحت کرتے رہے.انہوں نے سخت محنت کو ہمیشہ اپنی کامیابی کا ذریعہ بنایا.اتنی زیادہ محنت کرنے کے باوجود وہ لوگوں سے خوشی کے ساتھ ملتے.محترم قاضی محمد اسلم صاحب مرحوم جو گورنمنٹ کالج لاہور اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل رہ چکے ہیں، کا بیان ہے کہ سلام 1951ء اور 1953ء کے درمیان اٹھارہ ماہ تک اُن کے پاس لاہور میں رہے.ان کو سخت محنت کی عادت تھی.جب بھی کوئی ان 26
کے کمرے میں گیا اس نے دیکھا کہ سلام کرسی میز پر بیٹھے کام کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ خوش ہوکر ملتے اور اسے پورا وقت دیتے حتی کہ وہ چلا جاتا اور ڈاکٹر سلام پھر اپنے کام میں لگ جاتے اور انہیں کبھی یہ احساس نہ ہوتا کہ اُن کے کام میں حرج واقع ہوا ہے.یہی کیفیت ان کی انگلستان میں رہی.ڈاکٹر عبدالسلام نے بہت شروع میں ایٹم کے بنیادی ذرات پر تحقیق کا کام شروع کیا اور جن نئے نظریات کی نشاندہی کی ، ان پر تحقیق کر کے کئی سائنسدان ایک عرصہ بعد اس نتیجہ پر پہنچے.1956 ء میں ڈاکٹر سلام نے ایٹم کے بنیادی ذرات کے بارہ میں جو نظریہ پیش کیا اس کی دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں نے بہت مخالفت کی اور جب دوسرے سائنسدانوں کے تجربوں سے سلام کا نظریہ درست نکلا تو ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا اور 33 سال کی عمر میں انگلستان کی شاہی سوسائٹی نے انہیں اپنا فیلو بنالیا.یہ اعزاز اس سے پہلے کسی مسلمان کو نہیں مل سکا.جو نئے نظریات ڈاکٹر سلام پیش کر رہے تھے ان کی تصدیق اس طرح سے ہو جاتی کہ امریکہ اور جاپان اور چین وغیرہ کے سائنسدان اپنی تحقیق کے ذریعے اس نتیجہ پر پہنچ جاتے.جلد ہی ڈاکٹر سلام ساری دنیا کے سائنسدانوں میں مشہور ہو چکے تھے.چنانچہ ان کے کاموں کی قدر کرتے ہوئے 1957ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے انہیں ہاپکن انعام اور 1958ء میں آدم انعام دیا.1961ء میں انہیں انگلستان میں سائنس کی سب سے بڑی فزیکل سوسائٹی کی طرف Maxwell Medal اور ایک سوگنی انعام ملا.1959ء میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ پاکستان، پرائڈ آف پر فارمنس اور بیس ہزار روپے کا انعام دیا.1964ء میں سلام کو دنیا 27
کی سائنس کی سب سے پرانی Royal Society نےHugeus Medalدیا.اس موقعہ پر ایک رسالے نے لکھا کہ :- دنیا میں ایسے بہت کم سائنسدان ہیں جنہوں نے مسلسل اور اتنی تیزی سے نئے نظریات پیش کیے ہوں جیسے ڈاکٹر عبدالسلام نے گذشتہ تیرہ سالوں میں کیے ہیں.(Biographic Sketch of Prof.Abdus Salam By Dr.A Ghani) 1969ء میں انہیں امریکہ کی یونیورسٹی آف میامی نے ان کی خدمات پر اوپن ہیمر میڈل دیا.1970ء میں سویڈن ( Royal Academy Of Science Sweden) نے اور 1971ء میں روس (Academy of ScienceUSSR ) اور ا مریکہ (American Academy Of Art and Science) نے ڈاکٹر سلام کو اپنی اپنی سوسائٹی کا رکن بنالیا.ڈاکٹر عبدالسلام ابھی بچہ تھے کہ ان کے والد صاحب کو خواب کے ذریعے ان کے تیزی کے ساتھ ترقی کرنے کے بارہ میں اطلاع دی گئی.ان کے والد فرماتے ہیں:.ایک رؤیا میں ایک نہایت بلند درخت دکھایا گیا جس کی شاخیں فضا میں نہایت ارفع چلی گئی ہیں عزیزم عبد السلام اس درخت پر چڑھ رہا ہے اور بڑی پھرتی سے چڑھتا چلا جارہا ہے.....دیکھ کر میں ڈرا کہ معصوم بچہ ہے گر نہ جائے اور اسے زور سے آواز دینے لگا کہ سلام اب بس کرو اور نیچے اُتر و.بچہ میری طرف دیکھتا ہے اور مسکراتے ہوئے کہتا ہے کہ ابا جان فکر نہ کریں.یہ کہتے ہوئے پھر اوپر ہی اوپر چڑھتا گیا اور اتنی بلندی پر گیا کہ گو یا نظروں سے اوجھل ہو گیا.(سرگزشت) 28
انٹر نیشنل سنٹر آف تھیوریٹیکل فزکس: 1964ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے اٹلی میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے تحت اٹلی کی مدد سے سائنس کا عالمی مرکز قائم کیا.یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس پر انہیں 1968ء میں (Ford Foundation) فورڈ فاؤنڈیشن نے ایٹم برائے امن کا عالمی ایوارڈ اور تیس ہزار ڈالر انعام دیا.نیز 1970 ء سے اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو بھی فریق بن گیا.(Biographic Sketch of Prof.Abdus Salam By Dr.A Ghani) 1968ء میں انہوں نے ساری دنیا کے لیے ایک سائنسی ادارہ International Federation for Institution of advance Studies کے نام سے قائم کرنے کی تجویز پیش کی جس کو بہت اچھا سمجھا گیا اور امریکہ نے انہیں میڈل ( John Torence T,dte Medal from Amerial Institute of Physics) دیا اپنی تحقیق کے نتیجہ میں ڈاکٹر سلام نے چار میں سے دو بنیادی طاقتوں کو یکجا کرنے کا نظریہ (Unified Electroweak Theory) پیش کیا جس پر لندن کے طبیعات کے ادارے نے انہیں 1976ء میں میڈل Gother Medal) دیا اور ہندوستان کلکتہ یو نیورسٹی نے انہیں 1977ء میں میڈل دیا اور 1978 ء میں رائل سوسائٹی نے اعلیٰ ترین شاہی میڈل دیا.(نوٹ اس عالمی سنٹر کا نام ڈاکٹر عبدالسلام کی پہلی برسی کے موقع پر دنیا بھر کے سائنسدانوں نے سلام سنٹر رکھ دیا ہے.) 29
نوبیل انعام کا حصول اب تک ڈاکٹر عبدالسلام کو دنیا کے بہترین انعام مل چکے تھے لیکن سب سے بڑا انعام یعنی ” نوبیل پرائز بھی نہیں ملا تھا.اُن کی خواہش تھی کہ یہ انعام بھی ان کومل جائے کیونکہ اس انعام کا حاصل کرنا اسلام اور پاکستان کے لیے باعث عزت تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ تعالی 1978ء میں کسرِ صلیب کا نفرنس کے لیے یورپ تشریف لے گئے تو ڈاکٹر عبد السلام نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا اور حضرت صاحب کو دعا کے لیے عرض کی.آپ نے دعا کی اور آپ کو خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ سلام نے اب تک جو تحقیق کی ہے اس پر نوبیل انعام مشکل ہے البتہ اگلے سال تک جو کام وہ کریں گے اس پر انہیں نوبیل انعام مل سکے گا.اس امر کا ذکر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے نومبر 1980ء کے آخری ہفتہ میں اسلام آباد اپنے قیام کے دوران ایک روز بعد نماز مغرب وعشاء مجلس عرفان میں فرمایا.چنانچہ اگلے سال 1979ء میں پروفیسر عبدالسلام صاحب کو دوامریکی سائنسدانوں کے ساتھ فزکس کے بہترین کام پر نوبیل انعام مل گیا.( " مشرق“ 19 اکتوبر 1979ء) اور یہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی دعاؤں اور ڈاکٹر سلام کی محنت کا نتیجہ تھا.30
بچو! نوبیل انعام ایک سویڈش سائنسدان مسٹر الفرڈ بن ہارڈ نوبیل کی یاد میں دیا جاتا ہے.نوبیل 21 اکتوبر 1833ء میں سٹاک ہوم کے مقام پر جو کہ سویڈن کا دارالحکومت ہے پیدا ہوا اور 10 دسمبر 1896ء کو اٹلی میں فوت ہوا.نوبیل ایک بہت بڑا کیمیا دان اور انجینئر تھا.اس کی وصیت کے مطابق ایک فاؤنڈیشن ہر سال 5 انعامات دیتی ہے.ان انعامات کی تقسیم کا آغاز دسمبر 1901 ء میں ہوا جو کہ الفرڈ نوبیل کی پانچویں برسی تھی.نوبیل انعام فزکس، فزیالوجی، کیمسٹری یا میڈیسن ،ادب اور امن کے شعبوں اور میدانوں میں نمایاں اور امتیازی کارنامہ سرانجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے.ہر انعام ایک طلائی تمغہ اور سرٹیفکیٹ اور رقم بطور انعام جو کہ تقریباً 80 ہزار پونڈ پر مشتمل ہوتی ہے دی جاتی ہے.نوبیل انعام حاصل کرنے والے امیدواروں کے نام مختلف ایجنسیوں کے سپر د کر دیے جاتے ہیں اور وہ انعام کے صحیح حقدار کا فیصلہ کرتی ہیں.مثلاً فزکس اور کیمسٹری رائل اکیڈمی آف سائنس سٹاک ہوم کے سپر دہوتی ہے.فزیالوجی یا میڈیسن کیرولین میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سٹاک ہوم کے سپر د ہوتی ہے.ادب کا مضمون سویڈش اکیڈمی آف فرانس اور سپین کے سپر داور امن کا انعام ایک کمیٹی کے سپر دہوتا ہے جس کے پانچ نمبر ہوتے ہیں جو کہ نارویجین پارلیمنٹ چلتی ہے.(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا) 15 /اکتوبر 1979ءکو ڈاکٹر عبدالسلام نے نوبیل انعام کا حقدار قرار دیے جانے کی خبر سنی تو وہ مسجد فضل لندن جا کر خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ ریزہ ہو گئے.31
انہوں نے نوبیل انعام 10 دسمبر 1979 ء کو سٹاک ہوم میں شاہ سویڈن کارل گستاف سے حاصل کیا جہاں وہ بادشاہ اور ملکہ کے دس دنوں تک مہمان رہے.نوبیل کی خاص تقریب کے بعد رات کو انہیں سویڈن کے بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ کھانا پیش کیا گیا جس میں چار ہزار مہمان شامل ہوتے ہیں.کھانے کے بعد ہر مضمون میں انعام حاصل کرنے والوں کی طرف سے ایک ایک نمائندہ تین تین منٹ تقریر کرتا ہے.ڈاکٹر سلام نے فزکس میں انعام حاصل کرنے والوں کی نمائندگی میں تین منٹ کی ایک شاندار تقریر کی.ڈاکٹر محمد اکرام الحق سابق چیئر مین شعبہ طبیعات گورنمنٹ کالج لاہور کا بیان ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ساتھ جو نوبیل پرائز لینے والے تھے گلاشواور وائن برگ انہوں نے ڈاکٹر سلام کو کہا کہ آپ معتبر اور فلاسفر آدمی ہیں آپ ہی ہماری نمائندگی کریں گے.( بحوالہ رسالہ خالد ڈاکٹر عبدالسلام نمبر صفحہ 110) تقریر کے آغاز میں قرآن کریم کی سورۃ الملک کی آیات 5،4 کی تلاوت کی.وہ آیات یہ ہیں :- الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفْوُتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرُ وہی ہے جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا.تو رحمن کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا.پس نظر دوڑا کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟ نظر پھر دوسری مرتبہ دوڑا تیری طرف نظر نا کام 32
لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہاری ہوگی.اس ہال میں یہ پہلا موقع تھا کہ قرآن کریم کی تلاوت کی گئی.ڈاکٹر عبد السلام کے نوبیل انعام حاصل کرنے پر پورے عالم اسلام، پاکستان اور تیسری پر عالم دنیا میں خاص طور پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے انہیں مبارکباد کا تار دیا جس میں فرمایا :- سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں.میری طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے پر خلوص دلی مبارکباد قبول کریں.احمدیت اور تمام پاکستانیوں کو آپ پر ہے کہ وہ پہلا مسلمان سائنسدان اور پاکستانی جس کو انعام ملا وہ ایک احمدی ہے.خدا تعالیٰ مستقبل میں آپ کو اپنی تائید و نصرت سے نوازتار ہے.“ 66 ( بحوالہ الفضل 17 /اکتوبر 1979ء) اسلام کے دائمی مرکز مکہ کے ایک اخبار نے لکھا:.ایک مسلمان پاکستانی عالم کا اس انعام کا حصول سارے عالم اسلامی کے لیے شرف وعزت کا موجب اور ان کی محنت کا ثمرہ ہے.“ العالم الاسلامی 19 نومبر 1979ء) صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی مبارکباد کا تارد یا اور کہا کہ آپ نے یقیناً پاکستان کی عظمت اور سرفرازی کونئی تابانی بخشی ہے.اور انہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان امتیاز دیا.( جنگ، کراچی 16 /اکتوبر 1979ء) قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی.اسلام آباد 33
یونیورسٹی کے سر براہ نے کہا : سالہا سال کی تحقیق کے بعد ماہرین طبیعات نے قدرت کی چار بنیادی قوتیں تلاش کرلیں (۱) کشش ثقل (۲) برقی مقناطیسی قوت (۳) کمزور جوہری قوت (۴) طاقتور جوہری قوت.ماہرین طبیعات یہ چاہتے ہیں کہ چار بظاہر مختلف قوتوں کو ایک متحد قوت کا روپ دیا جائے.آئن سٹائن نے بھر پور کوشش کی کہ وہ کشش ثقل کو بجلی کی قوت سے متحدہ کر سکے.عبدالسلام، شیلڈن گلاشو اور سٹیون و ینبرگ تمام لوگوں نے علیحدہ علیحدہ کام کر کے کمزور جوہری قوت اور برقی مقناطیسی قوت کو متحد کر دیا ہے...یہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل نظریہ ہے جو کہ انیسویں صدی میں فیراڈے اور میکسویل کے بجلی اور مقناطیسیت کو ہم آہنگ کرنے کے تاریخی واقعہ کے برابر ہے.“ سپاسنامه از وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد بحوالہ انصاراللہ جنوری فروری1980ء) ڈاکٹر عبدالسلام کی نوبیل انعام ملنے پر دنیا بھر میں عزت افزائی ہوئی.اٹلی کے وزیر اعظم نے 8 نومبر 1979ء کو انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی.15 جنوری سے 29 جنوری تک وہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر لاطینی ممالک کے دورے پر رہے جہاں انہیں کئی یو نیورسٹیوں کی طرف سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں.وینزویلا کے صدر نے اعلیٰ ترین سول اعزاز دیا.مراکش کے شاہ حسن نے اپنی اکیڈمی کا رکن بنایا.شاہ اردن پیرس نے آئن سٹائن گولڈ میڈل دیا اور روم، پیرس ، یوگوسلاویہ، ہندوستان اور کئی اور ملکوں نے انہیں رُکن بنایا.34
نوبیل انعام کی تقریب میں تقریر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی اس شاندار تقریر کا متن دیا جائے جو انہوں نے فزکس میں نوبیل حاصل کرنے والوں کی نمائندگی میں 10 دسمبر 1979 کوکی.انہوں نے اپنی تقریر میں کہا:.” میں اپنے اور اپنے ساتھیوں پروفیسر گلاشو اور وائن برگ کی طرف سے نوبیل فاؤنڈیشن اور رائل اکیڈمی آف سائنسز (Royal Academy of Sciences) کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہماری عزت افزائی کی...طبیعات کی تحقیق تمام انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے.مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب سب نے اس میں مساوی حصہ لیا ہے.اسلام کی مقدس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے.پھر پلٹ کر دیکھو کہ تمہیں کہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کرنا مراد پلٹ آئے گی.فی الحقیقت تمام ماہرین طبیعات کا یہی ایمان ہے جتنی گہرائی تک ہم تلاش کریں اتنی ہی ہماری حیرت بڑھتی جاتی ہے اور اسی تناسب سے ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں.میں یہ بات صرف اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میں آج شام آپ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں 35
بلکہ یہ بات میں خاص طور پر تیسری دنیا کو مخاطب کر کے بھی کہہ رہا ہوں.تیسری دنیا والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سائنسی علم کی جستجو کی بازی ہار چکے ہیں کیونکہ ان کے پاس مواقع اور ذرائع موجود نہیں ہیں ( نوبیل انعام کا اجراء کرنے والے ) الفرڈ نوبیل نے یہ پیمان بندھا تھا کہ رنگ ونسل کا کوئی بھی امتیاز اس کی فیاضی کے حصول کی راہ میں حائل نہیں ہوگا.اس موقع پر میں ان سے مخاطب ہو کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن کو خدا نے یہ عطیہ عطا کیا ہے آئیے ہم سب کو ایک جیسے مواقع فراہم کرنے کے لیے جد و جہد کریں تا کہ وہ طبیعات اور سائنسی تخلیق میں شامل ہو کر ساری انسانیت کے لیے نئے فوائد حاصل کریں.یہ سب کچھ الفرڈ نوبیل کی آروز اور ان خیالات کے مطابق ہوگا جو اس کی زندگی میں نفوذ کر گئے تھے.“ (روز نامہ پاکستان یکم دسمبر 1996ء بحوالہ رساله خالد عبدالسلام نمبر دسمبر 1997 صفحہ 159-158) 36
شاندار کامیابیوں کا راز ڈاکٹر عبدالسلام کی کامیابیوں کا ایک راز ہے جس کا ذکر انہوں نے جلسہ سالانہ 1979ء کے موقعہ پر اپنی مختصر تقریر میں یوں کیا:.آج سے تقریباً پندرہ سال پیشتر حضرت والد صاحب چوہدری محمد حسین مرحوم نے اپنی ڈائری میں مندرجہ ذیل سطور رقم فرمائی تھیں :.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مرحوم نے بندہ کو بمقام لندن ایک خط لکھا جس میں درج تھا کہ میں آپ کے عزیز فرزند کے متعلق دور افق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھتا ہوں.الفاظ پیشگوئی ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں :.” میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کردیں گے سوائے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.“ تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 410-409) میں اس پاک ذات کی حمد و ستائش سے لبریز ہوں کہ اس نے امام وقت کی ، میرے والدین کی اور جماعت کے دوستوں کی مسلسل اور متواتر دعاؤں کو شرف 37
قبولیت سے نوازا اور عالم اسلام اور پاکستان کے لیے خوشی کا سامان پیدا کیا.پاکستان زنده باد....66 (الفضل 31 دسمبر 1979ء) ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی زندگی کو صحیح دینی اصولوں کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو امام وقت ، والدین ، بزرگوں ، استادوں ، غریبوں اور دکھی انسانوں کی دعاؤں کا مستحق بنایا اور خدا تعالیٰ نے ان کے بابرکت وجود کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری فرمائی.انہوں نے دین کو دنیا پر ہمیشہ مقدم رکھا اور سائنسدانوں اور بڑے بڑے لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا.شاہ سویڈن کو نوبیل انعام حاصل کرنے کے دنوں میں قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کا انگریزی ترجمہ پہنچا کر آئے.اسی طرح شاہ حسن کو مراکش میں لٹریچر دے کر آئے.اُن کے بہنوئی عبدالشکور صاحب کا بیان ہے کہ وہ جہاں جاتے اپنی خیریت کا خط پاکستان لکھتے رہتے اور واپسی پر ہمیشہ لکھتے کہ پیغام حق پہنچانے کی بھی توفیق ملی ،الحمد للہ.دراصل ان کی کامیابیوں کا راز یہی ہے کہ وہ دین کی خدمت کرنے والے اور اللہ کے بندوں کے بہت ہمدرد تھے.ماں باپ کی بے انتہا خدمت کی انہیں توفیق ملی اور انہوں نے ماں باپ کی بہت دعائیں لیں.ان کی ایک بہن کہتی ہیں :.وو ابا جان اور محترمہ والدہ صاحبہ سے بہت ادب اور احترام کے ساتھ بات کرتے تھے.یہ عادت ان کی شروع دن سے تھی کہ ہر بات اور ہر کام میں ان کے مشورے پر چلنا...ابا جان کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تھا تو 38
ہمیشہ ابا جان کو اپنے سے پہلے رکھا.لوگ دیکھ کر رشک کرتے تھے...والدہ صاحبہ مرحومہ بتایا کرتی تھیں کہ جب بھائی جان انہیں لندن کے سفر پر لے جاتے اور لے آتے تھے تو راستہ میں ان کے ساتھ ایسا حال ہوتا تھا جیسا کہ ایک ماں اپنے معصوم بچے سے کرتی ہے.ہر لمحہ ان کے آرام کا دھیان.ائیر ہوسٹس بیٹے کے اس سلوک پر اماں جی کو کہا کرتی تھیں آپ نے اپنے بیٹے کو کیسے پالا تھا.اماں جی مسکرا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی تھیں.خط بنام خاکسار 21 مارچ 1982ء) جناب بشیر احمد رفیق صاحب مربی سلسلہ انگلستان لکھتے ہیں:." جب کبھی آپ نے کسی کو مدعو کیا خواہ وہ دنیوی لحاظ سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ان کے والد ضرور اس میں شامل ہوتے.یہاں تک کہ ایک مرتبہ ڈیوک آف ایڈنبرا اور شاہی افراد سے ملاقات تھی تو اپنے والد محترم کو بھی ساتھ لے گئے.(اقتباس از مضمون ”اس صدی کا عظیم مسلمان سائنسدان“ بحوالہ خالد نومبر 1979ء) ڈاکٹر عبدالسلام اپنی تحقیق کی بنیاد ہمیشہ قرآن کریم پر رکھتے تھے اور احادیث نبوی اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مدد لیتے تھے.ہمیشہ دعاؤں سے کام لیتے تھے.بہت بڑھ چڑھ کر مالی قربانی اور غریبوں کی امداد کرتے تھے.اتنی عزت کے باوجود بہت سادہ انسان تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ فرمایا :- ڈاکٹر سلام کی عزت اور مرتبہ کا یہ مقام ہے کہ اگر کوئی کانفرنس ہو رہی ہو اور اس میں روس، امریکہ اور دیگر ممالک کے چوٹی کے سائنسدان شریک ہوں اور یہ بعد 39
میں کانفرنس ہال میں داخل ہوں تو جونہی یہ داخل ہوتے ہیں سارے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ان کی اپنی یہ حالت ہے کہ جسے انگریزی میں Unassuming کہتے ہیں.کسی کی پروا نہیں، کوئی خیال نہیں کہ میں اتنا بڑا انسان ہوں.نہ آرام کا خیال نہ کپڑوں کا خیال.آپ ان سے ملیں تو عام انسانوں جیسا وہ بالکل نہیں جانتے کہ میں اتنا بڑا سائنسدان ہوں اور دوسروں میں اور مجھے میں کوئی فرق ہے.“ خطاب سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکز یہ 20 اکتوبر 1979ء) ڈاکٹر عبدالسلام کی یہ عادت تھی کہ ہر کام میں خلیفہ وقت سے مشورہ لیتے اور مسلسل دعاؤں کے لیے لکھتے رہتے.خلفائے سلسلہ بھی ان سے خصوصی شفقت کا سلوک فرماتے رہے.نوبیل انعام ملنے کے بعد 1979 ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ نے تعلیمی منصوبہ کے سلسلہ میں ذہین بچوں کو ہر سال سوالاکھ روپے کے وظائف کے لیے جو کمیٹی بنائی عزت افزائی کے طور پر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو اس کمیٹی کا صدر بنادیا.( الفضل 3 جنوری 1980ء) میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس اعزاز کو اپنے تمام عالمی اعزازت سے بھی زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے.ڈاکٹر سلام کی کامیابیوں کا ایک راز یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا قول اور سائنس کو خدا تعالیٰ کا فعل سمجھتے تھے اور سائنس پر تحقیق کو عبادت سمجھتے تھے اور ہمیشہ اپنی تقریروں میں قرآن کریم کے ان حکموں کو پیش کرتے تھے جن میں سائنسی علوم حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ صحیح نتائج پر اتنی جلدی پہنچ جاتے رہے جن تک پہنچنے کے لیے باقی سائنسدان کئی کئی سال لیتے تھے.40
پاکستان، اسلامی دنیا اور تیسری دنیا کے لیے خدمات وطن سے بے پناہ محبت : ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ حُبُّ الوطن من الإِيمَانِ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے اس کے مطابق ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنے ملک پاکستان کے ساتھ زبردست محبت اور یہاں سائنس کی ترقی سے جذباتی تعلق تھا.انگلستان میں کئی سالوں سے رہنے کے باوجود بھی انہوں نے وہاں کی قومیت نہیں لی اور ہمیشہ پاکستانی ہونے میں فخر محسوس کیا.یہی وجہ ہے کہ جب شاہ سویڈن سے نوبیل انعام وصول کرنے گئے تو جہاں سب مغربی لباس پہن کر گئے تھے وہ پاکستانی لباس پہن کر گئے.حکومت پاکستان کے سائنسی مشیر اعلیٰ : 1961 ء میں صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خاں کی پیشکش پر ڈاکٹر عبدالسلام 41
صاحب نے بغیر تنخواہ حکومت کا سائنسی مشیر بننا منظور کر لیا اور مندرجہ ذیل اہم خدمات سرانجام دیں: ملک سے غربت ختم کرنے کے لیے سائنس کی ترقی کے لیے کوشش.ایٹمی سائنس کی تجربہ گاہوں کا اسلام آباد میں قیام.پاکستان میں فزکس کا عالمی مرکز بنانے کا منصوبہ جو اٹلی کی امداد سے اٹلی میں بنا.یا سوات سائنس کا نفرنس کا انعقاد.سیم اور تھور ختم کرنے کے لیے ٹیوب ویل لگانے کا مربوط منصوبہ.پاکستان کی سائنسی منصوبہ بندی.1968ء میں جنرل محمد یحیی خاں پاکستان کے صدر بنے اور 1971 ء تک صدر رہے اس عرصہ میں بھی سلام حکومت کے سائنسی مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے.اس عرصہ میں ان کی اہم خدمات مندرجہ ذیل ہیں : سائنسی تحقیق اور ترقیاتی منصوبہ بندی کے لیے حکومت کو اہم مشورے.پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کا قیام.دسمبر 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سنبھالی اور ڈاکٹر سلام بدستورحکومت کے سائنسی مشیر کے طور پر مفت کام کرتے رہے.اس دوران انھوں نے مندرجہ ذیل کام کیے : مسلمان ملکوں میں سائنس کی ترقی کے لیے اسلامک سائنس فاؤنڈیشن بنانے کی تجویز.ہ حکومت میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی الگ وزارت کا قیام.آپ کی مزید چند خدمات یہ ہیں : 1976ء میں نتھیا گلی مری میں عالمی سیمینار کا انعقاد.42
ہا اپنے ذاتی انعامات میں سے پاکستانی طالب علموں کو و خلیفے.عالمی اداروں سے پاکستان کے مختلف کالجوں میں سائنسی آلات کی فراہمی.ید سائنس کی ترقی کے لیے ایک فیصد سالانہ بجٹ خرچ کرنے کا مشورہ.اسلامی دنیا کے لیے خدمات : ڈاکٹر عبد السلام کی سائنسی خدمات کی بدولت سات سوسال بعد ایک مسلمان سائنسدان کا ذکر سائنس کی کتابوں میں آیا اور ڈاکٹر عبد السلام کی تھیوریاں یورپ اور امریکہ کی یو نیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں جو بذات خود اسلامی دنیا کی زبر دست خدمت ہے.بعض اور خدمات یہ ہیں : اسلامی ممالک میں سائنسی علوم کی ترقی کے لیے حکومتوں کو مشورے.ا اسلامک سائنس فاؤنڈیشن کا قیام.اقوام متحدہ کی سائنسی کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے اسلامی ممالک کی خدمات.حمد اسلامی ممالک کے دورے اور مفید مشورے.ی تیل پیدا کرنے والے ممالک کو عالمی سطح پر سائنس کا ایک مرکز بنانے کی تجویز اور اس کام کے لیے اپنا سارا نوبیل انعام دینے کا اعلان.جماعت احمدیہ کا تعلیمی منصوبہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ذریعے اسلام کو سائنس کا گمشدہ ورثہ واپس ملنے کا آغاز ہوا ہے لیکن اسلام کی عظمت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ان جیسے مسلمان سائنسدانوں کا کثرت سے پیدا 43
ہوتے رہنا ضروری ہے لیکن اس ضرورت کا احساس صرف جماعت احمدیہ کو ہے اور اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ذریعے یہ انقلاب لانا چاہتا ہے.چنانچہ جلسہ سالانہ 1979ء کے موقعہ پر حضرت خلیفہ اصسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے ڈاکٹر سلام کی نوبیل انعام لینے پر تعریف کی اور ان کے نقش قدم پر چل کر احمدی بچوں کو کثرت سے چوٹی کے سائنسدان بننے کی تلقین فرمائی.حضور نے فرمایا کہ قیام احمدیت کی آئندہ صدی میں جو کہ غلبہ اسلام کی صدی ہے جماعت کو ایک ہزار چوٹی کے سائنسدان اور محقق چاہئیں.یہ صدی 1989ء سے شروع ہو چکی ہے اور اس دوران 1979ء سے 1989ء تک دس سالوں میں سو چوٹی کے سائنسدان اور محقق چاہئیں.اس مقصد کے حصول کے لیے حضور نے تعلیمی منصوبہ بندی کا اعلان کیا اور فرمایا :- ”آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت احمد یہ ہر ذہین مگر غریب بچے کو پرائمری سے سنبھالے گی....جماعت کا کوئی ذہین بچہ چاہے وہ ماسکو میں ہو یا نیو یارک میں یا پاکستان کے اندر یا باہر اس کا ذہن ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا.نوع انسانی کے اس ذہن کو سنبھالنا ہے.یہ اسلام نے بتایا ہے اور اسلام کے اس حکم کو قائم کرنا ہے.ہم ہر سال جماعت احمدیہ کی طرف سے سوالا کھ روپے کے وظیفے ذہین طلباء کو دیں گے...یہ انعام نہیں یہ ان طالب علموں کا حق ہے....جماعت احمد یہ اپنی طرف سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی یہ عزت افزائی کرتی ہے کہ ان کو اس کمیٹی کا صدر مقرر کرتی ہے.میری دعا ہے کہ یہ سکیم جماعت اور قوم کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو.“ 44
تیسری دنیا کے لیے خدمات بچو! تیسری دنیا سے مراد غریب اور غیر ترقی یافتہ ممالک ہیں جن کے لیے ڈاکٹر سلام کی بے شمار خدمات میں سے بعض یہ ہیں : تیسری دنیا کے ممالک میں سائنس کی ترقی کی کوشش.اٹلی میں طبیعات کی تعلیم و تربیت کے لیے عالمی مرکز کا قیام.دنیا میں دولت کی غیر مساوی تقسیم روکنے کے لیے سائنسی مجالس میں تیسری دنیا کی نمائندگی.حملہ ایٹم برائے امن کے لیے جد و جہد.ترقی پذیر ممالک کے دورے اور حکومتوں کو اہم مشورے.ڈاکٹر عبدالسلام کی پاکستان ، اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے لیے خدمات کے اعتراف میں ان ممالک کی ایک درجن سے زائد یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دی ہیں اور کئی موقعوں پر اس کا اعتراف کیا ہے.خدمات کا نہایت وسیع دائرہ نوبیل انعام کے حصول کے بعد بھی ڈاکٹر عبدالسلام مسلسل اپنے کاموں میں پورے ولولے اور جوش و خروش کے ساتھ لگے رہے.پاکستان کے ایک نامور سائنسدان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے گرد مختلف دائرے تھے.پہلا دائرہ ان کی فیملی (Family) اور کمیونٹی (Community) کا تھا ( یعنی جماعت احمد یہ عالمگیر ) 45
دوسرا پاکستان کا پھر اسلامی ممالک کا پھر ترقی پذیر ممالک کا اور پھر پوری دنیا کا اس طرح انہوں نے ہر دائرے کے حوالے سے کام کیا اور پاکستان میں یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر سلام مختلف رسالوں، خاص طور پر مہلک ہتھیاروں کے خاتمے کی تحریک چلانے والے رسالے بلیٹن آف اٹامک سائنسز Bulletin of Atomic ) (Sciences جس کے بانیوں میں آئن سٹائن بھی تھا کہ بورڈ آف ایڈیٹرز Board of) (Editors کے بھی ممبر تھے اور ڈاکٹر سلام ہمیشہ ( پر امن ) Peaceful دنیا کے لیے کام کرتے رہے جس میں ہر طرف امن اور خوشحالی ہو.اس دوران بھی اللہ تعالیٰ ان کو بہت نوازتا رہا اور انہوں نے اپنی علمی برتری اور نہایت وسیع اور عظیم الشان خدمات کی بدولت مزید کئی ممالک سے اعزازی ڈگریاں ، ایوارڈز، اعزازت اور مختلف بین الاقوامی سائنسی سوسائیٹیوں کی ممبر شپ حاصل کی اور ساری دنیا سے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا.46
بیماری اور وفات ڈاکٹر عبد السلام کے تحقیقی کیریئر (Career) کا آغاز 50.1949ء میں ہوا تھا اور وہ 1993 ء تک مسلسل تحقیقی کاوشیں کرتے رہے بہت کم لوگ ہیں جن کی تحقیق کا عرصہ اتنا طویل ہو.( خالد ڈاکٹر عبدالسلام نمبر دسمبر 1997 صفحہ نمبر 140) اس بات کا قوی امکان تھا کہ انہیں دوبارہ نوبیل انعام ملے لیکن ان کی صحت بہت خراب ہوگئی اور وہ پارکنسن سے ملتی جلتی ایک خطر ناک بیماری میں مبتلا ہو گئے جس میں پٹھوں کی حرکت متاثر ہوتی ہے.جب تک ہمت رہی وہ ویل چیئر پر بھی اپنی سرگرمیوں میں لگے رہے.سفر بھی کرتے رہے اور مختلف ممالک کے دورے بھی کیسے حتی کہ چلنے پھرنے کے بالکل قابل نہ رہے.نہایت صبر اور حوصلے کے ساتھ انہوں نے بیماری کو برداشت کیا.انہیں یہ دکھ کھا تا رہا کہ پاکستان اور دنیا کے پسماندہ ملکوں سے جہالت اور غربت دور ہو اور دنیا میں امن اور انصاف اور خوشحالی کی فضا قائم ہو جائے.غریب ملک بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کر کے ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بشانہ چلنے کے قابل ہو جائیں اور اپنے وطن پاکستان کی محبت میں تو وہ اکثر آبدیدہ اور بے قابو ہو جاتے تھے.اپنی ساری استعدادیں بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا کر یہ پہلا احمدی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بالآخر 21 نومبر 1996 ء کولندن میں صبح آٹھ بجے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گیا.إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً اکہتر (71) سال تھی.47
وو یہ وہ ہے جو خدا کو مانتا ہے“ 22 نومبر 1996 کو جمعہ تھا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے بارے میں خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:.وو.ڈاکٹر عبدالسلام ) صاحب بھی دعاؤں ہی کا پھل تھے.ان کے والد بزرگوار چوہدری محمد حسین صاحب اور ان کی والدہ ہاجرہ بیگم....دونوں ہی بہت مقدس وجود تھے.انہوں ( والد چوہدری محمد حسین صاحب) نے ڈاکٹر عبدالسلام کی پیدائش سے پہلے رویا میں دیکھا کہ ان کو ایک خوبصورت پاک بیٹا عطا کیا جارہا ہے اور اس کا نام عبد السلام بتایا گیا...ساری زندگی پھر اس نے اس رویا کی سچائی کو ظاہر کیا اور اپنے ماں باپ کے خلوص کی قبولیت کو ظاہر کیا.سائنس کی دنیا میں اتنے بلند مرتبہ تک پہنچنے کے باوجود کامل طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل.بلکہ ایک دفعہ مجھے کہہ رہے تھے کہ جب میں کسی سائنسی اجتماع میں جاتا ہوں تو بعض سرگوشیوں کی آواز آتی.یہ وہ ہے جو خدا کو مانتا ہے“ اور بھی سائنسدان اب ماننے لگے ہیں.پہلے سے بڑھ گئے ہیں لیکن جس شان کے ساتھ آپ نے خدائے واحد یگانہ کے ایمان کا حق ادا کیا ہے اور اس جھنڈے کو بلند کیا ہے 48
ویسا کوئی اور سائنس دان اس جیتی دنیا میں آپ کو دکھائی نہیں دے گا اور پھر خدائے واحد یگانہ کی عظمت کے نتیجے میں جو انکسار پیدا ہوتا ہے وہ پوری طرح آپ کی ذات میں ہمیشہ رہا.نظام جماعت کے سامنے خادمانہ حیثیت کی حفاظت کی ہے...مجھے ان کی انکساری کو دیکھ کر رشک آتا تھا کہ کتنا بڑا عالم ہے سائنس کے مضمون میں...رفعتیں جو انسان کو عطا ہوتی ہیں ان کا انکساری سے گہرا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے درجات بلند فرمائے ان کو بہت بلند مرتبے عطا فرمائے اور ان کی رفعتوں کی جو جان ہے یعنی دعاؤں کا پھل ، وہ جان اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں اور نسلوں میں آگے جاری فرمائے.بہت سے پاک اور نیک انجام ہیں جن کی بنیادیں بعض دفعہ انسان کی پیدائش سے پہلے ڈال دی جاتی ہیں.چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی ان ہی وجودوں میں سے ایک وجود ہیں.ہر میدان میں ایسے ایسے انہوں نے میڈل بچپن سے حاصل کرنے شروع کیے ہیں، ریکارڈ پر ریکارڈ توڑتے چلے گئے اور بعض ایسے ریکارڈ جو پھر اور ہو ہی نہیں سکتے.جب سو فیصدی نمبر لے لو گے تو ریکارڈ کیسے ٹوٹے گا.اور پھر جب پاکستان میں ناقدری کی گئی تو انگلستان کی حکومت کی فراخ دلی ہے یا قدر شناسی کہنا چاہئے.فراخ دلی کا سوال نہیں.انہوں نے بڑی عزت کا سلوک کیا.امپیریل کالج کی پروفیسر شپ کی سیٹ عطا کی اور مسلسل ان کے ساتھ بہت ہی عزت اور احترام کا سلوک جاری رکھا ہے.پھر اٹلی نے آپ کی عزت افزائی کی.انہوں نے جو ایک تحریک کی کہ میرے نزدیک وہاں ٹریسٹ میں ایک سنٹر بننا چاہئے سائنس کے فروغ کا.تو حکومت اٹلی نے بڑا 49
حصہ خرچ کا ادا کیا.پھر دوسرے اداروں نے بھی اس میں حصہ لیا اور خاص طور پر غریب ممالک کے بچوں کو تعلیمی سہولتیں دے کر ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کو نقطہ عروج تک پہنچانا یہ آپ کا مقصد تھا اور اس میں قطعاً مذہبی تعصب کا اشارہ تک بھی نہیں تھا.غیر احمدی ، پاکستانی ، غیر پاکستانی ، پولینڈ کے لڑکے ، عیسائی ، دہر یہ سب پر یہ فیض برابر تھا جو رحمانیت کا فیض ہے اور اللہ کے فضل سے اس کے ساتھ بنی نوع انسان کو بہت بڑا فائدہ پہنچا ہے......اب یہ ہمارا بہت ہی پیارا علموں کا خزانہ، دنیاوی علوم میں بھی ،روحانی علوم میں بھی ترقی کرنے والا، ہمارا پیارا ساتھی اور بھائی ہم سے جدا ہوا،اللہ کے حوالے، اللہ کی پیار کی نگاہیں ان پر پڑیں اور ان کو سنبھال لیں اور اس کے علاوہ ان کی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کریں کہ خدا ان سے ہمیشہ حسن سلوک رکھے شفقت اور رحمت کا سلوک رکھے اور ان کی دعاؤں کو آگے بھی ان کے خون میں ، ان کی نسلوں میں جاری کر دے جو ان کے حق میں قبول ہوئیں.“ الفضل انٹرنیشنل لندن 10 تا 16 جنوری 1997ء) 50
نماز جنازہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین 22 رنومبر 1996ء کونماز جمعہ کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی مسجد فضل لندن کے باہر نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثرت سے احباب شامل ہوئے.جنازہ پڑھانے سے قبل حضور نے اپنے با برکت ہاتھوں سے ان پر کچھ چھڑ کا اور محبت بھری نگاہوں سے دیر تک دیکھتے رہے.اور ان کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور تابوت کو وین (Van) تک کندھا دیا.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی شدید خواہش تھی کہ ان کو ان کے وطن پاکستان میں ان کے والدین کے قدموں میں دفن کیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش کو قبول فرما یا اور حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور منظوری سے ان کا تابوت جہاز پر لندن سے لاہور لایا گیا.وہاں پر بھی ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی.24 نومبر شام سات بجے تابوت ربوہ پہنچایا گیا.ڈاکٹر صاحب کے بیوی بچے لندن سے ساتھ آئے تھے.باقی رشتہ دار بھی اور جماعت احمدیہ کے بہت سارے لوگ بھی اس موقع پر ربوہ پہنچ گئے جہاں حضرت مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور نہایت وقار اور نظم وضبط کے ساتھ ہزاروں لوگوں کے جلوس میں انہیں بہشتی مقبرہ ربوہ پہنچایا گیا جہاں ان کے والدین کی قبروں والے قطعہ ( نمبر 12 ) میں ان کی 51
52 52 تدفین عمل میں آئی.رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے جب قبر تیار ہونے پر مکرم ناظر اعلیٰ وامیر مقامی نے پرسوز اور لمبی دعا کروائی.روز نامہ پاکستان لاہور نے یکم دسمبر 1996ء کی اشاعت میں لکھا:.دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور یونیورسٹیوں نے ان کی وفات پر بڑا سوگ منا یا ہے.66 ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی پہلی برسی ان کے قائم کردہ سنٹر ٹریسٹے (اٹلی) میں منائی گئی جہاں عصر حاضر کے مشہور ترین اور اہم ترین ماہرین طبیعات ( جن میں کئی نوبیل انعام یافتہ بھی تھے ) نے متفقہ طور پر ICTP کا نام تبدیل کر کے عبد السلام سنٹر رکھ دیا.جدید تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک عظیم ادارے کا نام تیسری دنیا کے ایک سائنس دان کے نام پر رکھا گیا ہو.یہ بھی آپ کے اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے.
ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے خاندان کی فہرست والد محترم چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم، والدہ محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ مرحومه ہمشیرگان : محترمہ مسعودہ بیگم صاحبہ ( آپ ڈاکٹر صاحب کی پہلی والدہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ مرحومہ سے پیدا ہوئیں محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ.بھائی : محترم چوہدری محمد عبدالسمیع صاحب محترم چوہدری محمد عبدالحمید صاحب محترم چوہدری محمد عبد الماجد صاحب ،محترم چوہدری محمد عبدالقادر صاحب محترم چوہدری محمد عبد الرشید صاحب، محترم چوہدری محمد عبدالوہاب صاحب.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے اہل وعیال اہلیہ اول محترمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ دختران : محترمہ ڈاکٹر عزیدہ بیگم صاحبہ زوجہ ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب، محترمہ آصفہ بیگم صاحبہ زوجہ شہاب الدین سعدی صاحب محترمہ آنسه بشری صاحبہ زوجہ چوہدری وجیہ باجوہ صاحب.پسر محترم احمد سلام صاحب اہلیہ ثانی: محترمہ لوئس جانسن سلام صاحبه دختر محترمه سعیده باجرہ بیگم صاحبہ، پسر محترم عمر عطاء السلام صاحب 53
حرف آخر پیارے بچو! آپ نے پہلے احمدی مسلمان سائنسدان عبد السلام کی زندگی کے حالات پڑھے.آپ نے دیکھا کس طرح ایک احمدی بچہ علم سے محبت پیدا کر کے اپنی قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچا کر سخت محنت اور دعاؤں کے نتیجہ میں دنیا کا بڑا سائنسدان بن گیا اور ان کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوئی.اگر آپ بھی ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی طرح قرآن ،رسول کریم اور خدا کے پیارے خلفاء کے نقش قدم پر چلیں، اپنا وقت ضائع ہونے سے بچائیں ، بہت محنت کریں حضرت خلیفۃ امسیح کو دعا اور مشورہ کے لیے لکھتے رہیں تو آپ بھی ان خوش نصیب احمدی سائنسدانوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خواہش فرمائی تھی اور جماعت احمدیہ کے لیے تعلیمی منصوبہ بنایا تھا.آج ہمارے پیارے امام سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی احمدی بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائی ہے چنانچہ آپ نے 5 دسمبر 2003ء کے خطبہ جمعہ میں احمدی بچوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:.ہر احمدی بچے کو ایف اے ضرور کرنا چاہئے اور سیکرٹریان تعلیم کو اپنی جماعت کے بچوں کو اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئیے.اگر تو یہ بچے جس طرح میں نے پہلے کہا کسی مالی مشکل 54
کی وجہ سے انہوں نے پڑھائی چھوڑی ہوئی ہے تو جماعت کو بتا ئیں.جماعت انشاء اللہ حتی الوسع ان کا انتظام کرے گی اور پھر یہ بھی ہوتا ہے بعض دفعہ کہ بعض بچوں کو عام روایتی پڑھائی میں دلچسپی نہیں ہوتی.اگر اس میں دلچسپی نہیں ہے تو پھر کسی ہنر کے سیکھنے کی طرف بچوں کو توجہ دلائیں.وقت بہر حال کسی احمدی بچے کا ضائع نہیں ہونا چاہیے.پھر ایسی فہرستیں ہیں جو اُن پڑھے لکھوں کی تیار کی جائیں جو آگے پڑھنا چاہتے ہیں.Higher Studies کرنا چاہتے ہیں لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتے تو جس حد تک ہو گا جماعت ایسے لوگوں کی مدد کرے گی.“ خدا کرے آپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں اور خلفائے احمدیت کی خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں اور علم حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی بے لوث خدمت کی توفیق پائیں اور سائنس کے میدان میں اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کا موجب بنیں.خدا کرے ایسا ہی ہو.55 55
$1958 $1958 $1959 ایوارڈز بین الاقوامی اعزازات کی فہرست 1 - کیمبرج یونیورسٹی سے ہاپکنز انعام 2 کیمبرج یونیورسٹی سے ایڈ مز انعام -3- حکومت پاکستان سے ستارہ پاکستان -4- حکومت پاکستان سے پرائڈ آف پر فارمنس کا اعزاز میں ہزار روپے انعام 1959ء 5- فزکس سوسائٹی لندن سے پہلا میکسویل میڈل $1962 $1964 $1968 $1971 $1976 1977 $1978 $1978 رائل سوسائٹی لندن سے ہیوگز میڈل 7 ایٹم برائے امن فاؤنڈیشن سے ایٹم برائے امن میڈل اور ایوارڈ امریکہ کی یونیورسٹی آف میامی سے جے رابرٹ اوپن ہیمر یادگاری میڈل اور انعام فزکس سوسائٹی لندن سے گو تھرے میڈل اور انعام 10 - کلکتہ یونیورسٹی سے سر دیوا پر شاد گولڈ میڈل -11 - روم (اٹلی) کی قومی اکیڈمی سے میٹیوسی میڈل 12 امریکن انسٹی ٹیوٹ آف فزکس سے جان ٹو رینس ٹیسٹ میڈل 56
13 رائل سوسائٹی لندن سے رائل میڈل 14 - حکومت پاکستان سے نشانِ امتیاز 15 - نوبیل فاؤنڈیشن سے فزکس کا نوبیل انعام 16 - یونیسکو پیرس سے آئن سٹائن گولڈ میڈل 17 - انڈین فزکس ایسوسی ایشن سے شری آر.ڈی.برلا ایوارڈ 18- وینزویلا کی حکومت سے آرڈر آف اینڈرسن یلو 19 - بسیانہ ( یوگوسلاویہ ) سے جوزف سٹیفن میڈل $1978 $1979 $1979 $1979 $1979 $1980 $1980 20 - اکیڈمی آف سائنس چیکوسلواکیہ سے گولڈ میڈل برائے حسن کارگردگی طبیعات 1981ء 21- چارلس یونیورسٹی پراگ سے امن میڈل 22 یوایس ایس آرا کیڈمی آف سائنس سے گولڈ میڈل ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں 1 پنجاب یونیورسٹی لاہور (پاکستان) 2- ایڈنبرا یو نیورسٹی انگلستان 3 ٹریسٹے یو نیورسٹی ٹریسٹے اٹلی 4- قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد (پاکستان) 5- لیما یونیورسٹی -6 یونیورسٹی آف سان مارکوس لیما ( پیرو) $1981 $1982 $1958 $1971 $1979 $1979 $1980 $1980 57
نیشنل یونیورسٹی آف سان انٹونیو آبادسنر کو ( پیرو) 8 کارکاس یونیورسٹی 9- یرموک یونیورسٹی یرموک شام 10 - استنبول یونیورسٹی ترکی 11- چارلس یونیورسٹی 12- سائمن بولیو یونیورسٹی و نیز ویلا 13 - یونیورسٹی آف وروکلاء 14 - یونیورسٹی آف برسٹل برطانیہ - 15- گورونانک یونیورسٹی امرتسر (بھارت) 16 - مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (بھارت) -17.نہرو یونیورسٹی بنارس (بھارت 18- چٹاگانگ یونیورسٹی بنگلہ دیش 19 - میڈ وگوری یونیورسٹی نائیجیریا 20 - فلپائن یونیورسٹی کوٹزوں سٹی 21 - خرطوم یو نیورسٹی سوڈان 22- میڈرڈ یونیورسٹی سبین 23 سٹی یونیورسٹی سین 24 سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک امریکہ 58 $1980 $1980 $1980 $1980 $1980 $1980 $1981 $1981 $1981 $1981 $1981 $1981 $1981 $1982 $1982 $1983 $1983 $1984
$1984 $1985 $1985 $1985 $1986 $1986 $1986 $1986 $1987 $1987 $1987 $1987 1987 $1988 $1959 25- نیروبی یونیورسٹی کینیا 26 - کیو یونیشنل یونیورسٹی ارجنٹائن 27- کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ 28.کیٹرگ یونیورسٹی سویڈن 29- سوفیا کلائی پینٹ اور ڈسکی یونیورسٹی بلغاریہ 30 گلاسکو یونیورسٹی سکاٹ لینڈ 31 یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چین 32 - سٹی یونیورسٹی لندن برطانیہ 33 پنجاپ یو نیورسٹی چنڈی گڑھ (بھارت) 34 میڈیسینا آلٹرنیٹو کولمبو ( سری لنکا) 35.نیشنل یونیورسٹی آف بینن کوٹونو 36 ایکسٹر یونیورسٹی برطانیہ 37- پیکنگ یونیورسٹی چین 38- کینٹ یونیورسٹی بیلجیئم عالمی سوسائٹیوں کی رکنیت 1 - فیلورائل سوسائٹی لندن 2 فیلورائل سویڈش اکیڈیمی آف سائنسز $1970 59
3 غیر ملکی ممبر امریکن اکیڈیمی آف آرٹس اینڈ سائنسز -4 غیر ملکی ممبر روس کی اکیڈیمی آف سائنسز 5- اعزازی فیلوسینٹ جان کالج کیمبرج 6.غیر ملکی ایسوسی ایٹ یو.ایس.اے نیشنل اکیڈمی آف سائنسز 7- غیر ملکی ممبر رومی نیشنل اکیڈمی اٹلی 8 غیر ملکی مہر ٹب رینا اکیڈیمی روم (اٹلی) 9.غیر ملکی ممبر عراقی اکیڈیمی 10 - اعزازی فیلوٹا ٹا انسٹی ٹیوٹ برائے بنیادی تحقیق بمبئی (انڈیا) 11 - اعزازی ممبر کورین فزکس سوسائٹی سدیول ( کوریا) 12 - غیر ملکی ممبر اکیڈمی آف کنگڈم آف مرا کو ( مراکش) 13 غیر ملکی ممبر نیشنل اکیڈمی آف سائنسز روم (اٹلی) $1971 1971 $1971 1979 $1979 $1979 $1979 $1979 $1979 $1980 $1980 14 - ممبر یوروپین اکیڈیمی آف سائنس، آرٹس اینڈ ہیومینی ٹیز پیرس (فرانس) 1980ء 15- ایسوسی ایٹ ممبر جوزف سٹیفن انسٹیٹیوٹ بسیانہ یوگوسلاویہ 16 ممبر انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی نیودہلی 17 ممبر بنگلہ دیش اکیڈمی برائے سائنس ڈھا کہ 18- ممبر سائنس اکیڈ می ویٹی کن سٹی (روم) 19- ممبر سائنس اکیڈمی لزبن پرتگال 20 - بانی ڈاکٹر ورلڈا کیڈمی آف سائنس 21 ممبر یوگوسلاویہ اکیڈمی آف سائنس زغرب $1980 $1980 $1980 $1980 1981 $1983 $1983 60
22- ممبر گھانا اکیڈمی آف سائنس و فنوں -23 ممبر پولش اکیڈمی آف میڈیکل سائنس 24 ممبر پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائنس 25 ممبرانڈیا اکیڈمی آف سائنس بنگلور 26- ممبر ڈسٹفکوش انٹرنیشنل آف سگما چی 27 ممبر برازیلین میتھا میٹیکل سوسائٹی $1984 $1987 $1987 $1988 $1988 $1989 -28 ممبر نیشنل اکیڈمی آف اکرکٹ فرکس اینڈ نیچرل سائنس (ارجنٹائن) 1989ء 29 ممبر ہنگیرین اکیڈمی آف سائنس 30 ممبرا کیڈمی یوروپیا تمت بالخير 61 $1990 $1990